FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

جل دیوتا

 

( بچوں کے لئے ڈراما )

 

               پنڈت ہری چند اختر

پیشکش: محمد حفیظ الرحمٰن

 

 

               کھیل میں کام کرنے والے

 

جل دیوتا

جل پریاں ( دردانہ، مرجان، مہ پارہ، نسیم )

ماہی گیر

ایک لڑکا

ایک لڑکی

بہت سی جل پریاں

 

 

 

 

( سمندر کی تہہ میں کائی سے بھری ہوئی چٹانیں اور بےشمار سرسبز اور خوش رنگ پودے نظر آتے ہیں۔ ایک غار میں سے جل دیوتا کے محل کو راستہ جاتا ہے۔ اندر سبز روشنی سے سارا محل جگ مگ جگ مگ کر رہا ہے۔ جل دیوتا داخل ہوتا ہے۔ ہریاول کا لباس۔ سفید نورانی داڑھی اور سر پر سنہری تاج ہے۔ ہاتھ میں اُس کا مشہور و معروف تِرشول ہے۔ )

جل دیوتا : (آواز دیتا ہے ) دردانہ او دردانہ !کہاں ہو تم ؟۔ ۔ ۔ دردانہ !۔ ۔ ۔ اِدھر آؤ۔ مرجان !۔ ۔ ۔ اری او مرجان !

( جل پریوں کے قہقہوں کی آواز آتی ہے )​

جل دیوتا : پھر چُھپ گئیں ! اِدھر آؤ فوراً۔ اری او نسیم ! سنتی ہو ؟ دردانہ۔ ۔ ۔ مرجان !

( چٹانوں کے پیچھے اور غار کے اندر سے چھ سات جل پریاں نکل آتی ہیں۔ سب کے بال نہایت خوب صورت، سنہری اور لمبے ہیں۔ جنہیں پھولوں اور سیپ کے ٹکڑوں سے سجا رکھا ہے۔ گلے میں کوڑیوں کی کنٹھیاں ہیں۔ مختلف رنگوں کے خوش نما بھڑکیلے اور چُست کُرتے پہن رکھے ہیں جو اُن کے ٹخنوں تک آتے ہیں۔ اور نیچے آ کر مچھلی کی دُم کی طرح پھیل جاتے ہیں۔ کندھوں سے کائی کے تودے سے پروں کی صورت میں لٹک رہے ہیں۔ )

جل دیوتا : سارا دِن آنکھ مچولی کھیلنے کے سوا کچھ سوجھتا بھی ہے تمہیں ؟ نا بابا ایسی چھوکریا ں تو کہیں نہیں دیکھیں۔ مہ پارہ ! کھڑی کیا دیکھتی ہو۔ فوراً جا کر محل کے باغ کی صفائی جا انتظام کرو۔ کائی سے پٹا پڑا ہے سارا باغ۔ سنا ؟

مہ پارہ : ( جاتے ہوئے ) جی ابا جان جا رہی ہوں۔

جل دیوتا : سمندر کی تہہ میں ڈوبنے والے جہازوں کے روپے پیسے، ہیرے جواہرات اور سونے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ستارہ تم جاؤ۔ صدف کو بھی ساتھ لے جاؤ اور جس قدر خزانہ لا سکو لے آؤ۔ مگر جھٹپٹے سے پہلے پہلے واپس آ جانا۔

( دور سے گانے کی آواز )​

دردانہ : ہیں ! یہ کون گا رہا ہے ؟

( سب سنتے ہیں )

مرجان : اُنہیں موئے ماہی گیروں میں سے کوئی ہو گا۔ شاید وہی نگوڑا ہو جو اگلے ہفتے میری شاگردوں میں سے چھ مچھلیاں پکڑ کر لے گیا تھا۔

جل دیوتا : تم نے اُنہیں یہ نہیں سمجھایا تھا کہ کیچوے کو دیکھ کر دھوکا نہ کھایا کریں ؟

مرجان : میں تو بُہتیرا سر کھپاتی ہوں مگر اُن کی سمجھ میں نہیں آتا۔ بس احمقوں کی طرح میرا منہ تکتی اور زور زور سے سانس لے کر بُلبلے اُٹھاتی رہتی ہیں۔

( باقی جل پریاں قہقہہ لگاتی ہیں )

جل دیوتا : ہم اِن فانی انسانوں کی خاطر اپنی رعیت کو اس طرح مرتے نہیں دیکھ سکتے۔ سنتی ہو مرجان ؟ اگر تم اپنی شاگردوں کو بھلی طرح نہیں پڑھا سکتیں تو مجھے مچھلیوں کا اسکول کسی اور جل پری کے سپرد کرنا پڑے گا۔

مرجان : ( سہمی ہوئی آواز میں ) کہیں اس کلمونہی سوسن کے حوالے نہ کر دینا۔

نسیم : یوں حسد سے جل مرنا اچھی بات نہیں مرجان۔ اُس کی شکل تو دیکھو کتنی پیاری ہے !

مرجان : لیکن اُسے پڑھانا وڑھانا تو خاک نہیں آتا۔

( گانے کی آواز اور بھی نزدیک سنائی دیتی ہے )

دردانہ : اباجان۔ میں کہتی ہوں۔ کیوں نہ اس ماہی گیر کو پھانس کر یہاں لے آئیں۔ اور اُسے مچھلیاں پکڑنے کا مزا چکھائیں۔

جل دیوتا : ( مسکراتے ہوئے ) تمہاری خوشی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن دیکھنا اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔

جل پریاں : ( جاتے ہوئے ) بہت اچھا ابا جان۔

دردانہ : ( دور سے آواز دیتی ہے ) ابا جان ! طوفان برپا کیجئے طوفان۔ بہت جلدی !

(سب جل پریاں چلی جاتی ہیں۔ جل دیوتا ایک چٹان پر بیٹھ کر ترشول گھماتا ہے۔ اندھیرا چھا جاتا ہے۔ آندھی کا شور اور بجلی کی کڑک سنائی دیتی ہے۔ گانے کی آواز بند ہو جاتی ہے اور طوفان کے شور میں جل پریوں کے قہقہے سنائی دیتے ہیں۔ یکایک ایک ماہی گیر بھاگتا ہوا آتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہے۔ روشنی ہو جاتی ہے۔ اور یہ تینوں کھڑے جل دیوتا کا منھ تکتے نظر آتے ہیں۔ )

جل دیوتا : میں ہوں آپ کو خادم جل دیوتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھے÷

( سب جل پریاں آ جاتی ہیں )

ماہی گیر : کیا اپ جل دیوتا ہیں ؟

جل دیوتا : جی ہاں۔

لڑکی : سچ مچ ؟

لڑکا : ٹھیک کہتے ہونا ؟

جل دیوتا : بالکل ٹھیک۔

لڑکی : ہا ہا !

لڑکا : خوب۔ بہت خوب۔ مزا آ گیا۔

ماہی گیر : دیکھا مچھلیاں پکڑنے کا نتیجہ ؟ دم نہ لینے دیتے تھے تم دونوں۔ اب جل پریوں نے پکڑ لیا۔ اور تمہاری مہربانی سے میں بھی سمندر کی تہہ میں پہنچ گیا۔ اللہ جانے اب زمین پر پہنچنا کب نصیب ہو گا ! پھر تمہارے ماں باپ کیا کہیں گے۔ میرے اللہ ! اب اُنہیں کس طرح خبر کروں ؟ کیوں جی یہاں کوئی تار گھر ہے ؟

دردانہ : عقل کے ناخن لو۔ سمند کی تہہ میں تار گھر کہاں !

لڑکا : چھوڑو جی ان باتوں کو۔ بڑے مزے کی سیر ہوئی آج۔

ماہی گیر : سیر ! مزے کی سیر ! تم اسے سیر کہتے ہو ؟ مجھے تو اس میں مزے کی کوئی بات نظر نہیں آتی۔ اور بابا جی۔ خدا کے لئے یہ چمٹا سا پرے پھینک دیجئے۔ مجھے تو اس سے خوف آتا ہے۔

لڑکی : ( اپنے آپ سے ) اگر یہ چمٹا ہے تو اتنا بڑا چمٹا تو اینٹوں کے بھٹوں ہی میں کام آتا ہو گا۔

( ستارہ اور صدف ایک بڑے صندوق کو گھسیٹتی ہوئی داخل ہوتی ہیں )

جل پریاں : ( صندوق کے ارد گرد کھڑی ہو کر ڈھکنا اٹھاتے ہوئے ) اہاہا ! خزانہ ! خزانہ !

( جل پریاں صندوق میں سے طرح طرح کے زیور اور جواہر نکال کر پہنتی جاتی ہیں۔ ماہی گیر اور دونوں بچے گردنیں موڑ کر حیرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ )

لڑکا : خزانہ ! سچ مچ کا خزانہ ! بالکل وہی جیسا میری کتاب کی تصویر میں نظر آتا ہے۔

ماہی گیر : سونا ! کتنا سونا ! لاکھوں کروڑوں سکے ! ( صندوق میں ہاتھ ڈال کر کچھ سکے بکھیر دیتا ہے ) میرے پاس اتنا سونا ہو تو میری اور بوڑھی ماں کی ساری عمر مزے سے کٹ جائے۔ اور پھر بھی کفن دفن کے لئے بہت سا بچ رہے۔

( کچھ سکے اٹھا کر جیب میں ڈالنا چاہتا ہے )

جل دیوتا : شاہی خزانے کو مت چھوؤ۔

ماہی گیر : دیکھئے نا۔ آپ کے پاس اللہ کا دیا اتنا کچھ ہے۔ پھر بھی آپ چند سکے اس غریب اور بڈھے ماہی گیر کو نہیں دے سکتے ؟

جل دیو تا : کہہ جو دیا کہ شاہی خزانے کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ یہ جل دیوتا کا مال ہے۔ ہمیں سمندر میں سے ملا ہے۔

ماہی گیر : مگر پھر بھی میں کہتا ہوں۔ آپ کو مجھے کچھ نہ کچھ دینا ہی چاہئے۔ ہے نا ؟ میری کشتی کو دیکھئے۔ چٹانوں سے ٹکرا کر چور چور ہو چکی ہے۔ ( جل پریاں ہنستی ہیں۔ ) آپ لوگوں نے ایک غریب ماہی گیر کی کشتی توڑ ڈالی۔ یہ بھلا کہاں کا مذاق ہے۔

مرجان : تم نے بھی تو ہماری مچھلیاں پکڑی تھیں کیوں ؟

ماہی گیر : جیتی رہو بیٹی۔ تم سچ کہتی ہو۔ میں نے مچھلیاں پکڑی تھیں۔ میری گزر ان ہی مچھلیوں پر ہے۔

جل دیوتا : اور ہماری گزر اس خزانے پر ہے۔

لڑکی : لیکن آپ کے پاس تو لاکھوں کروڑوں من سونا ہو گا۔

لڑکا : اس قدر سونے سے بھی آپ کا پیٹ نہیں بھرتا۔ آخر آپ کو اتنے سکوں کی کیا ضرورت ہے۔

جل دیوتا : میری بہت سی بیٹیاں ہیں۔ جن کو لکھانا پڑھانا اور سمندر کے قانون سکھانا ہوتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو ان کے لئے اچھی پوشاک بھی ضروری ہے۔

( جل پریاں اب تک صندوق کے جواہرات اور اپنے زیور دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہیں۔ اور بار بار آئنوں میں اپنی صورت دیکھتی ہیں۔ )

جل دیوتا : پھر ہیں اپنے اسکولوں کی مرمت پر بہت سارا روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ سمندری پودوں کی دیکھ بھال پر بھی لاکھوں اٹھ جاتے ہیں۔ موتیوں کا کاروبار بھی روپے پیسے کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اسی طرح اسفنج اور مونگے کے کارخانے بھی ہیں۔ ذرا سوچو تو ان کامو کے لئے روپے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟

لڑکی : میرے اللہ۔ مجھے تو کبھی ان باتوں کا خیال نہیں آتا۔

ماہی گیر : ( رونی صورت بنا کر ) پھر میری کشتی کا کیا ہو گا ؟

دردانہ : اگر تم وعدہ کرو کہ پھر کبھی مچھلیاں نہ پکڑو گے تو ہم تمہاری کشتی کی مرمت کر دیں گے۔

لڑکی : کر لو وعدہ۔ ضرور کر لو۔ ورنہ ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہیں پڑے رہنا ہو گا۔

لڑکا : اور مجھے ابھی چائے بھی نہیں ملی۔

ماہی گیر : لیکن میری گزران کیوں کر ہو گی ؟

لڑکا : ( ذرا دیر سوچ کر ) تم ملائی کی برف بیچ لیا کرنا۔

ماہی گیر : ( کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے ) ہاں، یہ تو ہو سکتا ہے۔

دردانہ : تو پھر وعدہ کرتے ہو نا ؟

ماہی گیر : میں وعدہ کرتا ہوں۔ مگر مہربانی کر کے اپنے تھوڑے سے سنہری بال دے دیجئے۔ تاکہ میں لوگوں کو دکھا کر کہہ سکوں کہ میں نے سچ مچ کی جل پریاں دیکھی ہیں۔

لڑکی : ( چاقو نکال کر ) اور مجھے بھی۔ ضرور ضرور ! نہیں تو اسکول میں کسی کو یقین نہ آئے گا کہ میں نے جل پریاں دیکھی ہیں۔

( کئی جل پریاں اُنہیں اپنے تھوڑے تھوڑے بال کاٹ لینے کی اجازت دے دیتی ہیں )

جل دیوتا : اچھا اب میں جاتا ہوں۔

نسیم : کہاں چلے ابا جان ؟

جل دیوتا : ( ایک بہت بڑی گھڑی نکال کر ) آج ” مرکزی شارک لیگ ” کا جلسہ ہے۔ مجھے اس میں شامل ہونا ہے۔ وہ دیکھو۔ وہیل صاحب مجھے بُلانے آئے ہیں۔ اس ماہی گیر کو لے جا کر آرام سے اس کی کشتی میں پہنچادو۔ کشتی اب بالکل ٹھیک ٹھاک ہو چکی ہے۔ خدا حافظ !

جل پریاں : خدا حافظ ابا جان !

( جل پریاں ماہی گیر اور بچوں کو بازوؤں سے پکڑ کر دروازے کی طرف گھسیٹتی ہیں )

جل پریاں : چلو جلدی چلو۔

لڑکا : کہاں لئے جاتی ہو ہمیں ؟

دردانہ : چلے آؤ۔

مرجان : چلے آؤ۔

سب جل پریاں : ( دور سے ) چلے آؤ۔ چلے آؤ۔ چلے آؤ جی۔

( سب نکل جاتے ہیں۔ دور سے قہقہوں کی آواز آتی ہے۔ جل دیوتا اکیلا ایک چٹان پر کھڑا ہنس رہا ہے۔ اور ہنسنے میں اُس کی داڑھی لہرا رہی ہے۔ ایک منٹ کے بعد ملاح کے گانے کی آواز آتی ہے۔ یہ آواز آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جاتی ہے )

( پردہ گرتا ہے )

٭٭

حوالہ : بچوں کے اخبار ” پھول ” کی چالیس سالہ جلدوں سے انتخاب کتاب ” پھول ”

انتخاب : غلام عباس

٭٭٭

ٹائپنگ:محمد حفیظ الرحمٰن

ماخذ:

اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید