FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری: ایک جائزہ

 

 

اسیم کاویانی

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

 

اپنے عہد کے مشہور مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ نے اردو ادب کو سب سے پہلا خاکہ ’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی‘ دیا تھا۔ اس کے بعد اپنے عہد کے مقبول انشا پرداز اور مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے اپنے لکھے خاکوں (مشمولہ: ’گنج ہائے گراں مایہ‘ اور ’ہم نفسانِ رفتہ‘ وغیرہ) کے ذریعے اس صنف کو آسمان پر پہنچا دیا، لیکن اس سلسلے میں دوسرے مزاح نگار عموماً کامیاب ثابت نہیں ہوئے۔ مثلاً: شوکت تھانوی(شیش محل)، غلام احمد فرقت کاکوری ، کنہیا لال کپور ، اور فکر تونسوی(خد و خال) وغیرہ نے مزاح نگاری کے علاوہ خاکہ نگاری کو بھی اپنایا لیکن کوئی کار ہائے نمایاں انجام نہ دے سکے۔ ہمارے عہد میں مزاح نگاروں کے یہاں عمدہ خاکہ نگاری کی گنی چنی مثالیں تو ملتی ہیں، جیسے باقر مہدی پر یوسف ناظم اور شجاع خاور پر نصرت ظہیر کا لکھا خاکہ، لیکن اس باب میں جو سب سے نمایاں نام نظر آتے ہیں، وہ ہیں: مجتبیٰ حسین اور مشفق خواجہ۔ مشفق خواجہ نے 1968میں ہفت روزہ ’تکبیر‘ لاہور سے اپنی کالم نگاری شروع کی تھی، جس کی مقبولیت محتاجِ تعارف نہیں۔ ان کے کالموں میں ایک محدود تعداد عمدہ خاکوں یا خاکہ نما مضامین کی نکل آئے گی۔ ادھر مجتبیٰ حسین نے اگست 1962 میں حیدرآباد کے روز نامہ ’سیاست‘ کے مستقل کالم ’شیشہ و تیشہ‘ سے اپنی مزاح نگاری کا آغاز کیا تھا۔ انھوں نے اپنے مقبولِ عام کالم میں اور اس کے علاوہ بھی مجموعی طور پر جتنی بڑی تعداد میں خاکے لکھے اور کسی نے نہیں لکھے۔ حسن مثنی نے اپنی کتاب ’مجتبیٰ حسین اور فنِ مزاح نگاری‘ میں لکھا ہے کہ ’مجتبیٰ حسین نے دو سو سے زیادہ خاکے لکھے۔ ‘(ص: مجتبیٰ حسین اور فنِ مزاح نگاری‘، از: حسن مثنیٰ) در اصل اس تعداد میں ان کے لکھے ہوئے خاکے، خاکہ نما، وفاتیے اور ادبی کتابوں کی رسم اجرا کی تقریب سے کتاب و صاحب کتابِ پر لکھی ہوئی تحریریں، سب ہی شامل ہیں۔

مثل مشہور ہے کہ چار اندھوں میں سے ہر ایک نے پہلی بار ایک ہاتھی کو اس کے الگ الگ حصوں یعنی کان، دُم، سونڈ اور پانو کو چھو کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے ! اور انھوں نے اسے بالترتیب: سُوپ، رسّی، اجگر اور کھمبے کی طرح پایا۔ لیکن مجتبیٰ حسین نے چاہے کالم نگاری کی ہو یا خاکہ نگاری، انشائیے لکھے ہوں یا سفر نامے یا رپور تاژ، ان کی ہر نوع کی تحریر میں ایک شے قدرِ مشترک کی حیثیت سے شامل ہے اور وہ ہے ظرافت۔ کوئی قاری ان کا کوئی فکاہیہ مضمون پڑھ رہا ہو یا کسی شخصیت کا وفاتیہ، مصنف کی شگفتہ نگاری اسے متبسم یا خندہ زن کیے بنا نہیں رہتی۔ یہی وہ مقام ہے، جہاں موضوع اور اصناف کی حد بندی منہ دیکھتی رہ جاتی ہے اور اسلوبِ تحریر، صنفِ تحریر پر حاوی ہوتا نظر آتا ہے۔

مجتبیٰ حسین کی تصنیفات مطبوعِ خلائق ہیں، اس لیے وہ برِصغیر کے مختلف مطابع سے بار بار شائع ہوتی رہی ہیں۔ فی زمانہ کئی برسوں سے ان کی تصانیف نئی ترتیب اور عمدہ گٹ اپ کے ساتھ دہلی کے ایک مطبع( ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس) سے شائع ہو کر آ رہی ہیں۔ جہاں تک ان کے خاکوں کا تعلق ہے تو ان کے اکتالیس منتخب خاکوں کو حسن چشتی نے 2002 میں نفاست کے ساتھ اور غالباً مصنف کی حک و اصلاح کے بعد ’ مجتبیٰ حسین کی منتخب تحریریں ‘(جلد دوم) میں اکٹھا کر دیا تھا۔ اس کے بعد سید امتیاز الدین نے بھی اسی اہتمام سے مصنف کے خاکوں کے دو مجموعے ’آپ کی تعریف‘ اور  ’مہرباں کیسے کیسے ‘ بالترتیب 2005 اور2009 میں شائع کیے تھے، جن میں مجموعی طور پر کل نوّے خاکے شامل تھے۔ علاوہ ازیں مصنف کی دیگر تحریروں کے مجموعوں (مثلاً: ’ میرا کالم‘ اور’ مجتبیٰ حسین کے منتخب کالم‘) میں بھی ان کی کچھ خاکے کے قبیل کی نگارشات مل جاتی ہیں۔ ان میں چند ہنگامی نوعیت کی یا مکرر آئی ہوئی تحریروں کو چھوڑ کر مجتبیٰ پر لکھے ہوئے تقریباً ڈیڑھ سو مضامین کا سرمایہ راقمِ تحریر نے اپنے اس جائزے میں پیشِ نظر رکھا ہے۔ مجتبیٰ حسین کے فن پر بات کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ خاکہ نگاری کی صنف پر ایک نظر کر لیں۔

یوں صنفِ خاکہ اردو ادب میں ایک نئی صنف ہے جو ہمارے یہاں بیسویں صدی میں مغرب سے آئی ہے۔ راقمِ تحریر نے اپنے ایک سابقہ مضمون میں صنف خاکہ کی تعریف میں لکھا تھا:

’’ ایک اچھے خاکے کی تعریف میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ خاکہ نگاری کے دو لوازم طے کر سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ موضوعِ خاکہ کچھ ایسی خصوصیت یا کمال یا اہمیت کا حامل ہو اور اپنے کردار کی مقبولیت یا نا مقبولیت کی بنا پر ایسا غیر عمومی شخص ہو کہ جس کا مطالعہ قاری کے لیے دل چسپی کا باعث بنے۔ دوسرے یہ کہ خاکہ نگار اس شخص یا کردار سے نہ صرف جذباتی و ذہنی سطح پر ایک خاص ربط رکھتا ہو، بلکہ وہ اس کی خارجی ہی نہیں داخلی شخصیت سے بھی کماحقہ واقف ہو۔ اگر موضوع خاکہ کوئی فنکار ہے تو وہ اس کی شخصیت کے ساتھ فکرو فن کے نقوش بھی مجموعی طور پر اس خوبی کے ساتھ ابھار دے کہ قاری قطرے میں دجلہ دیکھ لے۔ ان دو لوازم کے بعد کسی خاکے کی کامیابی یا ناکامی کے دوسرے پیمانے اپنے موضوع سے مصنف کے برتاؤ اور اُسلوب پر منحصر ہوں گے۔ ‘‘

(’جاوید صدیقی کی خاکہ نگاری‘، مطبوعہ ماہنامہ ‘سب رس‘ حیدرآباد، جولائی 2016)

لیکن ایک مزاح نگار کی خاکہ نگاری میں اس بات کا پورا پورا امکان ہے کہ وہ موضوعِ خاکہ سے کچھ زیادہ قربت اور بے تکلفی کی فضا پیدا کر لے۔ وہ اس شخصیت میں سے شخص کو ڈھونڈ نکالے اور اسے اس کے فطری خد و خال میں پیش کرے۔ اس کی خوبیوں کے پہلو بہ پہلو اس کردار کی نا ہمواریوں کو بھی دل چسپ پیرائے میں آشکار کرے۔ مزاح نگار کو اپنے طرزِ بیان میں ایک حد تک طنز، شوخی اور مبالغے سے کام لینے کی بھی آزادی حاصل ہے۔ اب آئیے مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کا جائزہ لیں۔

مجتبیٰ حسین نے ایک جگہ لکھا ہے:

’’ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے ریسیور اُٹھایا، آواز آئی: ’میں وحید بول رہا ہوں۔ ‘ ذہن میں کئی وحیدوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ بچپن سے لے کر اب تک کم از کم دو درجن وحید میرے دوست رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔ ‘‘(ص: 282، ’ مہرباں کیسے کیسے ‘)

یہ واقعہ ہے کہ اپنی زندگی کے تقریباً آٹھ دہائیوں کے عرصۂ حیات میں وہ اپنی زندہ دلی اور خوش مذاقی کے اوصاف کی بنا پر اپنے بزرگوں، دوستوں، اور ساتھیوں غرضیکہ ہر عمر اور رشتے کے لوگوں میں مقبول رہے اور بلا شبہ انھیں حیدرآباد میں گلبرگہ کالج، عثمانیہ یونی ورسٹی، اورینٹ ہوٹل، اخبار ’سیاست‘ اور محکمۂ اطلاعات کی ملازمت سے لے کر دہلی میں آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت، پریس کلب کے کافی ہاؤس سے لے کر آئی کے گجرال کے توسط سے وزارتِ تعلیم میں تقرری تک سیکڑوں ہی شخصیات کی ہم رہی اور ہم دمی حاصل رہی۔ ایسے میں وہ اگر کسی نام پر ٹھٹک کر غور کرنے لگیں کہ ’کون وحید!‘ تو تعجب کی بات نہیں۔

یہ خاکے یا خاکہ نما تحریریں کسی ادیب و شاعر کے جشن یا اعزاز، کسی ادبی مہمان کی پذیرائی یا کسی کو ملے انعام کی تہنیت یا کسی کتاب کی رسمِ اجرا یا کسی غیر ملک میں ہوئی ملاقات یا کسی کے وفاتیے کے وسیلے سے سپردِ قلم کی گئی ہیں۔ ان نگارشات میں مصنف کے اساتذہ، اقربا، رفقا، ہند و پاک کے ادبا و شعرا آرٹسٹ، موسیقار، ڈاکٹر، حکیم، سیاست داں، سفیر، کلکٹر، اڈیٹر اور صحافی حتیٰ کہ اخبار ’سیاست‘ کا کارندہ اور آر کے لکشمن کا عام آدمی بھی شامل ہے۔ غرض کہ یہ خاکے کیا ہیں زندگی کے مختلف شعبہ ہائے حیات کی رنگا رنگ شخصیات کا نگار خانہ ہیں۔

جیسا کہ اوپر دی گئی تفصیل سے ظاہر ہے، یہ شخصی مضامین مختلف تقریبات کی نوعیت سے عموماً ہفتہ واری کالم کے لیے لکھے گئے تھے۔ ان میں کئی مضامین چاہے خاکے کی تعریف پر پورے نہ اتریں، لیکن بہرطور یہ سارے شخصی مضامین ہیں اور یہ افرادِ خاکہ سے کہیں بڑھ کر مصنف کے بے مثال شگفتہ اسلوب کی بنا پر ہمارے ادب کا اہم حصہ ہیں۔

مجتبیٰ حسین ایک بار رشید احمد صدیقی کے گھر کے سامنے سے گزر رہے تھے تو اُن کی نظر اُن کے مکان کے اُن پودوں پر ٹک گئی جو کہ رشید احمد صدیقی کے شوق باغبانی نے لگائے تھے۔ مجتبیٰ حسین نے تصور کیا جیسے وہ بھی اُن کے باغ میں لگا ہوا ایک پودا ہیں اور اس احساس کی لطافت نے انھیں سرشار کر دیا تھا۔ (ص: 33، ’آپ کی خاطر‘) سچ پوچھیے تو وہ رشید احمد صدیقی کی روایات کی توسیع ہیں۔ کیا بہ لحاظ موضوع، کیا بہ لحاظِ اسلوب۔ لیکن اب وہ کسی باغ کا پودا نہیں ہیں بلکہ ایک ایسا تناور درخت ہیں، جس کے گھنے سائے میں رہروانِ ادب کے لیے نہ صرف بڑی فرحت و راحت ہے بلکہ تمتع اندوز ہونے کا وافر سامان بھی ہے۔

رشید احمد صدیقی کے مضامین میں جا بجا علی گڑھ کے لیے جو تڑپ اور محبت ملتی ہے، اس سے کچھ کم لیکن اکثر جگہ ہم دیکھتے ہیں کہ مجتبیٰ حسین کے یہاں حیدرآباد کی محبت اُمڈی پڑتی ہے۔ راقمِ تحریر کے پیشِ نظر ڈیڑھ سو خاکوں میں تقریباً ساٹھ شخصیات حیدرآباد کی ہیں یا پھر اُن کا حیدرآباد سے گہرا تعلق رہا ہے اور ان کے تذکروں میں خاص طور پر مصنف کے وارفتگی شوق کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

مصنف نے ان خاکوں میں شخصیات کی حیثیت، مرتبے اور مزاج کے لحاظ سے حسبِ ضرورت اپنا اسلوب بھی بدلا ہے۔ مثلاً اندر کمار گجرال، خواجہ حمید الدین شاہد اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے خاکوں میں ایک طرح کی منت پذیری کا احساس ملتا ہے، وہیں محبوب حسین جگر، عابد علی خاں اور ابراہیم جلیس سے مصنف کی قربت و قرابت اور احترام و ادب نے اسے اپنے فطری اسلوب کی بے تکلفی پر قدغن لگانے پر مجبور کیا ہے۔ بہر کیف مصنف نے ان شخصیات کے حیات و فن کا بھر پور تعارف پیش کیا ہے۔ ان خاکوں کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اُن میں سے کسی نے مصنف کو اپنے ذہن و فکر کی راہیں متعین کرنے میں مدد کی تھی تو کوئی اس کی زندگی کی دشواریوں کو دور کرنے میں کارساز ثابت ہوا تھا۔ روڈا مستری، زینت ساجدہ اور حسن الدین احمد کے خاکوں میں مصنف نے اس عہد کی کچھ دلچسپ وارداتوں اور واقعات کے جلو میں اس عہد کی تہذیب کے مختلف رنگ بھی روشن کر دیے ہیں۔

جہاں مصنف نے حیدرآباد کے اپنے کالج کے دوستوں اور رفیقوں کا ذکر کیا ہے، اس کا قلم دھنک رنگ ہو گیا ہے۔ گو کہ اُن میں سے بہت سے اشخاص ہمارے لیے آج اہمیت نہیں رکھتے لیکن مصنف کے تعلقِ خاطر نے ان میں سے کئی کی کردار سازی یوں کی ہے کہ ع پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں کر دیا!

مصنف کے اس عہد کے ساتھیوں میں رشید قریشی، حسن عسکری، نقی تنویر، سلیمان اریب، سلیمان خطیب، مخدوم محی الدین، شاذ تمکنت، وقار لطیف، وحید اختر اور ابراہیم شفیق وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ یہ تمام خاکے ان کی نوجوانی اور بے فکری کے دور کے مشغلوں، ان کی ادبی سرگرمیوں اور شرارتوں کا مرقع بنے ہوئے ہیں۔ ان خاکوں کے مطالعے سے یہ مشترک بات بھی نکل کر سامنے آتی ہے کہ اس دور کا حیدرآباد کا ’اورینٹ ہوٹل‘ ان سب لوگوں کی ملاقاتوں اور ادبی سرگرمیوں کا اڈّا بنا ہوا تھا اور یہ سب لوگ وہاں ہر شام کو ملا کرتے تھے۔ بقول مجتبیٰ حسین’ ’اورینٹ ہوٹل‘ ایک ایسا گھاٹ تھا، جس پر ادیب، شاعر، مصور سیاست داں اور فلسفی سب ایک ساتھ چائے پیا کرتے تھے۔ ‘

(ص: 128، مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں ‘ جلد دوم)

اگر ہم ان رفیقان اورینٹ کو کچھ دیر کے لیے خاکوں کی حدود سے آزاد کر کے اورینٹ ہوٹل میں اِکٹھا کریں تو بڑا دل چسپ منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ یہ کردار فطری خد و خال اور زندگی سے بھرپور پیکر میں ڈھل جاتے ہیں۔

مجتبیٰ حسین اور نقی تنویر دونوں مل کر ایسے افسانہ نگاروں اور شاعروں کو نشانہ بنایا کرتے تھے جنھیں اپنی تخلیقات سنانے کا خبط رہا کرتا تھا۔ وہ دونوں اپنی سماعت فرمائی کے عوض خوب کھا پی کر اُن کی جیبیں ہلکی کیا کرتے تھے۔ اکرام جاوید اور عوض سعید اُن کے خاص شکار ہوا کرتے تھے۔

مجتبیٰ حسین اور وقار لطیف کی بیس اکیس برس کی عمر کا یہ وہ زمانہ تھا جسے لوگ جوانی کی راتیں مرادوں کے دن سے کہا کرتے ہیں۔ وقار کی جذباتیت اور رومانیت کے ساتھ اُس کی خود بینی و خود آرائی کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ اورینٹ کے ٹائلیٹ میں جا کر جتنی بار وہ اپنی شکل دیکھتا تھا، شاید ہی اور کوئی دیکھتا ہو۔ وہ مغربی موسیقی کا دیوانہ تھا۔ مصنف نے اُس کے گھر میں سنی بیتھون، موتزارٹ، باخ، واگنسر، چیکووسکی کی سمفینوں کو اپنی زندگی کی بہترین ساعتوں اور سماعتوں میں شمار کیا ہے۔

مخدوم محی الدین اور سلیمان اریب بھی مصنف کے اہم ساتھیوں میں سے تھے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ اُنھوں نے اریب پر کچھ لطیفے بنائے تھے جو انھیں اس قدر پسند آئے کہ وہ اُن سے بار بار اُن لطیفوں کو سن سن کر قہقہے لگایا کرتے تھے۔ یہاں تک تو غنیمت تھا لیکن وہ تو اورینٹ میں آنے والے ہر مہمانی یا ادیب کو بُلا کر مجتبیٰ حسین کو اکبر اعظم کی طرح حک دینے لگے تھے کہ مجتبیٰ مہمان کو وہی لطیفے سُنا کر خندہ بار کریں اور مصنف کو ملّا دو پیازی کی طرح اُن کی فرمایش پوری کرنا پڑتی تھی۔

مخدوم کی ایک دل چسپ عادت یہ تھی کہ اُن سے جب بھی کوئی نئی غزل سرزد ہوتی تھی، وہ اُسے سنانے کے لیے اورینٹ کا رُخ کرتے تھے اور اگر وہاں کوئی نہ ملتا تو دفتر ’صبا‘ پہنچتے اور وہاں بھی بات نہ بنتی تو چائنیز بار چلے جاتے تھے۔

حسن عسکری علم کا ایسا پیکر تھے جنھوں نے مصنف پر علم و فلسفے کا در کھول دیا تھا۔ مجتبیٰ حسین نے اُن کے زیرِ اثر نیتشے کا اتنی سنجیدگی سے مطالعہ کیا تھا کہ اُنھیں دنیا بے ثبات و نا پائیدار لگنے لگی تھی اور اُنھوں نے موت کے موضوع پر افسانے لکھنے شروع کر دیتے تھے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ وہ پیریڈ عارضی ثابت ہوا، ورنہ اردو کے ظرافتی ادب کا کیا ہوتا!

وحید اختر کے خاکے میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جامعہ عثمانیہ میں وہ مصنف سے تین سال سینئر تھے۔ چونکہ وہاں آرٹس کالج کی بزم اردو کے الیکشن میں اُنھیں تین سال جونیئر مجتبیٰ حسین نے شکست دی تھی، اس لیے وحید اختر کے دل میں اُن کے لیے کدورت بیٹھ گئی تھی۔ اورینٹ میں مجتبیٰ حسین کی میز سے اٹھنے والے قہقہے بھی اُن کے کانوں میں زہر گھولا کرتے تھے۔ مجتبیٰ نے لکھا ہے کہ وحید اختر کے دل کی کدورت کو صاف ہونے میں بیس برس لگے تھے۔ لیکن مصنف نے اپنے خاکے میں اُنھیں جس طرح یاد کیا ہے وہ مصنف کی بے تعصبی کا مظہر ہے۔

(درج بالا تفصیلات متذکرہ افراد کے خاکوں ہی سے ماخوذ ہیں۔ )

اِن مضامین میں ہندی اور انگریزی کے چند ادیب و صحافی بھی موضوعِ قلم بنے ہیں، یعنی شیام لال ادیب (سابق اڈیٹر ’ٹائمز آف انڈیا‘)، خشونت سنگھ، بھیشم ساہنی، کنہیا لال نندن اور ہری شنکر پرسائی۔ یہ سارے ہی مضامین اہم اور دل چسپ ہیں۔ خشونت سنگھ کے خاکے کو تو دل چسپ ہیں۔ خشونت سنگ کے خاکے کو تو دل چسپ ہونا ہی تھا پر شیام لال ادیب کا تذکرہ دل چسپ تر ہے۔ گو کہ مصنف نے اُن کے کردار کے چند پہلوؤں ہی سے متعارف کرایا ہے لیکن اُن کے پڑوسیوں، میرا مطلب ہے کہ دہلی میں اُن کی رہایش گاہ گُل مہر پارک کے دو تین کلو میٹر میں آباد تقریباً درجن بھر نامی گرامی ادیبوں اور دانشوروں کی رہائشی جھلکیاں اپنے جس پُر لطف اور ظریفانہ میں صفحۂ قرطاس پر اتار کر رکھ دی ہیں، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

اِن خاکوں میں ہر فرد و بشر اپنے فطری خصائص و خصائل کے ساتھ آیا ہے۔ شان الحق حقی کا بھلکڑ پن ہو یا خورشید الاسلام کا قصباتی مزاج۔ باقر مہدی کی زود رنجی ہو یا راجندر سنگھ بیدی کی رقیق القلبی، کمار پاشی کی آوارگی ہو یا شاذ تمکنت کی نمود پسندی، فکر تونسوی کا طبعی گنوارپن ہو یا اعجاز صدیقی کا مزاحیہ مزاج، خاکہ نگار کہیں بھی پردہ پوشی نہیں کی ہے۔ عزیز قیسی کی پٹھانیت، محمد علوی کے گجراتی لہجے اور یوسف ناظم کی نحیف الصواتی کو عین اُن کی فطرت کے مطابق ظاہر کیا گیا ہے۔ جہاں سلیمان خطیب کے پیٹ کے ہلکے ہونے کا برملا اظہار کر دیا گیا ہے، وہیں فیض احمد فیض کی بھدّی طرزِ ادائیگی پر سچائی کے ساتھ اعتراض کیا گیا ہے کہ ’’اچھے شعر کو بُرے ڈھنگ سے پڑھنے کی ادا بھی اردو میں فیض ہی نے شروع کی۔ (ص: 33، ’مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں، جلد دوم)

عمدہ خاکے کی خوبی یہ بھی ہے کہ صاحبِ خاکہ کے ساتھ خاکہ نگار کا کردار بھی کھلتا جائے۔ مجتبیٰ کے خاکوں میں وہ عموماً شامل ہیں اور عموماً اپنے کردار کو خاکساری سے پیش کیا ہے لیکن اُن کی ظرافت نے اُنھیں چمکا دیا ہے۔ کمال الدین احمد نے سیاست کا میدان چُنا اور پھر سفیر بن کر سعودی عرب چلے گئے تھے۔ وہ زبان و ادب کا اعلا ذوق رکھتے تھے۔ مصنف نے لکھا ہے: ’’اچھا ہی ہوا وہ سیاست میں الجھے رہے اور ادب میں داخل نہیں ہوئے، ورنہ ہم جیسوں کو کون پوچھتا۔ ‘‘ (ص: 285، ’’آپ کی تعریف‘‘)

مصنف نے مشفق خواجہ کا اُن کے سلسلے میں مشہور قول بھی بے تکلفی سے نقل کیا ہے: ’’مجتبیٰ حسین کی شہرت کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجتا ہے اور جہاں نہیں بجتا وہاں یہ خود جا کر بجا آتے ہیں۔ ‘‘ (ص: 68، ’’آپ کی تعریف‘‘)

خاکہ نگار کو اچھی طرح احساس ہے کہ کسی انسان کی شخصیت کو سیاہ و سفید خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا اور وہ عموماً اِن دونوں خانوں کے درمیان یا آس پاس پایا جاتا ہے۔ اُنھوں نے کسی بھی شخصیت کے خد و خال و خصائص کو اُجاگر کرنے میں بہت کم مبالغے سے کام لیا ہے اور جو کجی یا کمزوری نظر آئی ہے یا طنزو تعریض کا پہلو ملا ہے اسے عام طور پر اس لطف اور شائستگی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اُن کے ہدفِ قلم بھی دل ہی دل میں کہہ اُٹھے ہوں گے ع گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا۔ ایسی ہی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

lباقر مہدی کے ہر کس و ناکس سے خوامخواہ ناراض ہو جانے کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے اپنے استثنا کی یوں تاویل کی ہے: ’یہ سچ ہے کہ باقر مہدی کبھی ہم سے ناراض نہیں ہوئے، لیکن اس بات کو ہم کوئی اعزاز نہیں بلکہ اپنی بے بضاعتی اور نا اہلی پر محمول کرتے ہیں۔ ‘ (ص: 42، ’مہرباں کیسے کیسے ‘)

٭رشید حسن خاں دہلی میں سینتیس برس گزار کر کے بعد اپنے وطن شاہ جہاں پور لوٹ گئے تھے۔ اُن کی گوشہ نشینی، سخت معیاری، مصلحت ناپسندی کی صفات کو ملحوظ رکھیں تو مجتبیٰ حسین کے اس ریمارک کی معنویت واضح ہو گی: ’رشید حسن خاں کے دہلی سے چلے جانے پر لوگ اب دُکھی ہیں، لیکن جب وہ یہاں تھے تب بھی دُکھی ہی تھے۔ ‘ (ص: 238، ’مہرباں کیسے کیسے ‘)

٭سلام مچھلی کی غائب حواسی کی مثال یوں پیش کی ہے کہ انھوں نے ’ایک بار اپنی محبوبہ کے نام خط لکھا اور اُسے اپنی بیوی کے پاس بھیج دیا اور بیوی کے نام جو خط لکھا وہ محبوبہ کو بھیج دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اُن کی بیوی کو سلام صاحب کا ایک پیار بھرا خط ملا۔ (ص: 54، ’آپ کی تعریف‘)

٭طیب انصاری ایک زمانے میں ’ط۔ انصاری‘ کے نام سے اردو رسالوں میں مضامین لکھا کرتے تھے اور مجتبیٰ مصنف کے نام میں کتابت کی غلطی محمول کرتے ہوئے انھیں ظ انصاری کے مضامین سمجھ کر پڑھا کرتے تھے۔ اُنھوں نے اُن مضامین کے معیار سے چڑ کر ظ انصاری کو ایک شکایتی خط بھی لکھ بھیجا تھا۔ ایک دن کسی نے اُنھیں اورینٹ ہوٹل میں طیب انصاری سے روبرو کراتے ہوئے جب یہ بتایا کہ وہ رسائل میں ط انصاری کے نام سے مضامین لکھ رہے ہیں تو مجتبیٰ حسین نے اپنا رد عمل یوں ظاہر کیا ہے: ’اب آپ سے چھپاؤں مجھے اس وقت ط انصاری سے مل کر ظ انصاری سے کتنی خوشی ہوئی تھی۔ (ص: 167، ’مہرباں کیسے کیسے ‘)

٭’یوسف ناظم تہتر برس کے ہو جانے کے باوجود بزرگی کی تہمت اپنے سر لینے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ اب بھی نہ صرف نوجوانوں کی سی زندگی جیتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو حرکتیں بھی نوجوانوں کی سی کرتے ہیں۔ ‘ (ص: 168، ’میرا کالم‘)

٭مشتاق احمد یوسفی کے سلسلے میں رقم طراز ہیں: ’گوشہ نشینی کا یہ عالم ہے کہ رسالوں میں اپنی تصویر تک نہیں چھپواتے کہ کہیں کسی نامحرم کی نظر اُن پر نہ پڑ جائے۔ ‘ (ص: 229، ’مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں، جلد دوم)

٭ مشفق خواجہ کے کالموں کے پھڑکتے ہوئے فقروں کے سب ہی قتیل ہیں۔ ان پر مجتبیٰ حسین کا یہ تبصرہ بھی اپنی مثال آپ ہے: ’اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ دوست بھلے ہی ضائع ہو جائیں، وہ اپنے فقرے کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔ ‘ (ص: 260، ’مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں، جلد دوم)

٭ قتیل شفائی پاکستان سے اکثر ہندستان آیا کرتے تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ پاکستان سے زیادہ ہندستان میں رہنے لگے تھے۔ مجتبیٰ حسین نے لکھا ہے: ’قتیل شفائی پاکستان اور ہندستان کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس پُل پر زیادہ تر وہی آتے جاتے رہتے ہیں۔ ‘ (ص: 44، ’آپ کی تعریف‘)

٭ بانی اپنی بیماری کے بعد اسپتال سے چھوٹ کر آئے تو مجتبیٰ نے لکھا ہے: ’بانی، ان دنوں چھوٹی بحر کا مصرعہ بن گئے تھے۔ ہاتھ میں ایک چھڑی بھی آ گئی تھی جو اس مصرعے کو وزن سے گرنے نہیں دیتی تھی۔ (ص: 93، ’آپ کی تعریف‘)

٭ جگن ناتھ آزاد نے اپنی تحقیق سے علامہ اقبال کی تاریخ پیدایش 9؍نومبر 1877ء ثابت کی تھی جب کہ وہ 22؍فروری 1873ء مانی جاتی رہی ہے۔ آزاد کی اس تحقیق کو مجتبا نے ’علامہ اقبال کا عرصۂ حیات تنگ کرنے ‘ کے پُر لطف فقرے سے بیان کیا ہے۔ (ص: 22، ’آپ کی تعریف‘)

٭ سلیمان خطیب اپنی سادہ مزاجی کی بنا پر جس طرح پریشانیاں مول لیتے رہے، اس پر لکھا ہے: ’ وہ ہمیشہ بیل گنوا کر رسّی لاتے رہے۔ ‘ (ص: 151، آپ کی تعریف)

٭ انجم عثمانی کے بارے میں لکھا ہے: ’معلوم نہیں دیو بند کے بند ماحول سے وہ دہلی میں کب آئے۔ ‘ (ص: 273، ’آپ کی تعریف‘)

٭ رفعت سروش کے کردار کے ایک رُخ کو اپنے لفظوں کے حُسن سے یوں روشن کیا ہے: ’۔۔ ۔ مجاز، ساحر لدھیانوی اور نجانے کن کن شاعروں کے وہ ہم مشرب تو ضرور رہے، لیکن ہم مشروب کبھی نہ بن سکے۔ ‘ (ص: 246، ’آپ کی تعریف‘)

٭ فیض کی شاعری میں آئے چند استعارات کے حسن اور اردو شاعری میں ان کے چلن پر لکھا ہے: ’یہ سب فیض کا ہی فیض بلکہ فیض جاریہ ہے۔ ‘ (ص: 33، مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں، جلد دوم)

٭ باقر مہدی کے مزاج کو کتنے اختصار سے ایک فقرے میں سمیٹ لیا ہے: ’وہ جذبات سے کہیں زیادہ وفورِ جذبات کے آدمی ہیں۔ (ص: 40، ’مہرباں کیسے کیسے ‘)

٭ کنہیا لال کپور کی ’لاہور ردایت’ کو ’راوی‘ کی نسبت سے کیسے لطیف بیان سے پیش کیا ہے: ’دروغ بر گردنِ راوی، لاہور سے محبت کا یہ عالم ہے کہ رات کو کبھی لاہور کی طرف پیر کر کے نہیں سوتے۔ ‘ (ص: 51، مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں، جلد دوم)

گوپی چند نارنگ کی خوبیِ تقریر کی یوں داد دی ہے کہ ’میں اُن کی تقریر کا قاتل بھی ہوں اور قتیل بھی۔ جب بولنے کھڑے ہوتے ہیں تو لگتا ہے پوری اردو تہذیب بول رہی ہے۔ ‘ (ص: 183، ’آپ کی تعریف)

اخترالواسع کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’دنیا میں شاید ہی کوئی ملک بچا ہو گا جہاں اسلام گیا ہو اور یہ نہ گئے ہوں، غرض کہ اسلامک اسٹیڈیز کی یہ ایک انتہا ہے۔ ‘‘ (ص: 222، ’مہرباں کیسے کیسے ‘)

اِن خاکوں کے مطالعے میں کہیں کہیں ایسے مقام بھی آئے جہاں (عوض سعید کے لفظوں میں) ایسا لگا کہ مجتبیٰ حسین نے ’ٹو مچ ‘ (too much)کر دیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

٭ حسن الدین احمد کی کتاب ’ اردو میں الفاظ شماری‘ کے لیے یہ کہنا کہ ’کتاب کیا تھی، اچھا خاصا چبوترا تھی۔ ‘ (ص: 204، ’مہرباں کیسے کیسے ‘) میں مزاح کا غلو تضحیک کو پہنچ گیا ہے۔

٭ ’حسرت موہانی جیل میں چکی پر آٹا پسینے کے ساتھ ساتھ شعر کہتے جاتے تھے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاعری کے مقابلے آٹا اچھا پیستے تھے۔ ‘ (ص: 295، ’مہرباں کیسے کیسے ‘ ) حسرت کی شاعری کے سلسلے میں اس ریمارک کو غیر مستحسن ہی کہا جائے گا، چاہے تفننِ طبع کے طور پر کہا گیا ہو۔

٭ پروفیسر سراج الدین اپنی گفتگو میں کبھی ایک زبان میں دوسری زبان کے لفظوں کی آمیزش نہیں کرتے تھے۔ اُن کی اس خوبی کو بیان کرتے ہوئے مجتبیٰ حسین شائستگی قائم نہ رکھ سکے: ’وہ انگریزی زبان کے ذریعے کسی دوسری زبان کی آبرو ریزی کے مرتکب ہونے کے قائل نہ تھے۔ ‘ (ص: 73، مہرباں کیسے کیسے ‘)

٭ میں جب شاذ سے ملنے جاتا ہوں تو عوض سعید سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ ایک آدمی شاہ علی بنڈے جانے کا قصد کرے تو راستے میں چار مینار تو پڑے گا ہی۔ ‘ (ص: 44، ’’مہرباں کیسے کیسے ‘‘)

٭ شریف الحسن نقوی کے ایک وصف کو یوں ظاہر کیا ہے: ’’ہمیشہ اپنے آپ کو جلسے سے یوں الگ تھلگ اور دور دور رکھیں گے جیسے کہ ہندستان کے نقشے کے اوپر سری لنکا واقع ہے۔ ‘‘ (ص: 231، ’’مہرباں کیسے کیسے ‘‘)

٭ ساحر ہوشیار پوری مصنف سے عمر میں بڑے تھے، اسے مصنف نے ایک نرالے طرز سے یوں بیان کیا ہے: ’ساحر ہوشیار پوری نے دو عظیم جنگیں دیکھی ہیں جب کہ میرے حصّے میں صرف ایک ہی جنگ عظیم آئی ہے اور وہ بھی دوسری۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عمر اور تجربے میں وہ مجھ سے ایک جنگ عظیم آگے ہیں۔ (ص: 112، ’’مہرباں کیسے کیسے ‘‘)

٭ دفر ماہ نامہ ’آج کل‘ میں ایک زمانے میں جس کرسی پر جوش ملیح آبادی بیٹھا کرتے تھے، اس پر منحنی سے راج نرائن راز کو بیٹھا دیکھ کر مجتبیٰ نے لکھا تھا: ’’یوں لگتا تھا وہ کرسی پر نہیں بلکہ چار پائی پر بیٹھے ہوں۔ ‘‘ (ص: 136، ’’آپ کی تعریف‘‘)

کئی خاکے ع ’اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا ‘ کی مثال بن گئے ہیں۔ مثلاً: ’ایم ایف حسین ‘ کے خاکے میں چند لطیفہ ساز سوال و جواب کو کسی بھی طرح خاکہ نہیں کہا جا سکتا۔ مشتاق احمد یوسفی کے خاکے سے یہی پتا چلتا ہے کہ لندن میں مشتاق احمد یوسفی نے مصنف کی ضیافت تو کی، لیکن انھیں چائے اور آئس کریم ہی پیش کرتے رہ گئے، کھُل کر نہیں ملے۔ اسی طرح مسیح انجم، سیدہ شان معراج، عزیز آرٹسٹ سعید بن نقش، شاہد علی خان، مصطفی بیگ، نارنگ ساقی، انجم عثمانی، اور کمال الدین احمد پر لکھے ہوئے خاکے کافی کمزور ہیں۔ ان میں سے کسی کی شخصیت کا بھر پور نقش نہیں ابھرتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ نقش ہی نقاش کو مہمیز نہیں کر پاتا۔ زبیر رضوی پر لکھے خاکے کا بیشتر(80%) حصہ ان کی دو نظموں یعنی ’یہ ہے میرا ہندستان‘ اور ’علی بن متقی رویا‘ کی شہرت اور مقبولیت کے لطائف و ظرائف پر مشتمل ہے۔۔ شمس الرحمان فاروقی پر لکھی دو تحریروں میں مجموعی طور پر ان کی شخصیت کے خد و خال اتنے نہیں ابھرتے جتنا کہ ان کو ملے سرسوتی سمان اور ادبی انعامات کی روایت پر تبصرہ آرائی میں زور صرف کیا گیا ہے۔ جہاں سردار جعفری پر لکھا ہوا وفاتیہ ان کی سرسری تصویر پیش کر کے رہ گیا ہے، وہیں فیض احمد فیض کے خاکے میں بھی ان کی شخصیت معدوم ہے، البتہ مصنف نے اپنے زمانۂ مہ و سالِ آشنائی کی یادوں اور اردو زبان کو ملی فیض کی تابندہ روایات کو تازہ کرنے پر اکتفا کیا ہے۔

ایک بار زینت ساجدہ نے مجتبیٰ حسین سے کہا تھا کہ’ وہ زیب داستان میں ’ زیب‘ کو اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ ’داستان‘ چھوٹی رہ جاتی ہے۔ ‘ مصنف نے ’یوسف امتیاز‘ اور… جیسے خاکوں میں ان کے اسلاف کے کارناموں اس دور کے واقعات کو اس طرح ابھارا ہے کہ اصل کردار اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے کتابوں کی رسمِ اجرا کے جلسوں میں مجتبیٰ حسین کی موجودگی اتنی ہی ضروری ہو گئی تھی، جتنی کہ کسی شادی کی محفل میں پنڈت یا مولوی کی۔ میرے پیش نظر ڈیڑھ سو خاکوں میں تقریباً پچیس فی صدی خاکے یا خاکے نما مضامین کتابوں کے رسمِ اجرا کی تقریب ہی سے لکھے گئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں کتابوں کا ذکر ع ’تری ہی بات کی اور تیری بات کی بھی نہیں ‘ کے مصداق ہے۔ مجتبیٰ حسین قاری کو کتاب تو کیا کبھی کبھی اطرافِ کتاب تک بھی نہیں پہنچنے دیتے۔ نصرت کی کتاب ’بقلم خود‘ کا اجرا کرتے ہوئے انھوں نے اس کتاب سے زیادہ، حسنِ طباعتِ کتاب کا ذکر یوں کیا تھا کہ لگا

ع ’کام سُرمے کا تھا، شہرہ ہے نگاہ یار کا‘۔

فیاض احمد فیضی پر لکھے خاکے میں تین چوتھائی حصہ ان کے مجموعۂ مضامین ’قند و زقند‘ اور مصنف کے نام کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنے میں صرف ہوا ہے۔ بلراج ورما کے خاکے میں یہ ندرت ہے کہ اس میں بلراج ورما کا ذکر کم اور ان کے جریدے ’تناظر‘ کی تیاری اور طباعت کی تفصیل پھیلی ہوئی ہے، ستم ظریفی یہ کہ قاری اس جریدے میں جھانک بھی نہیں پاتا۔ در اصل کتاب کے تعارف کا معاملہ محض تقریبِ بہرِ ملاقات کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجتبیٰ حسین نے صاحبِ کتاب کو (تختۂ) مشقِ قلم بنانا پسند کیا ہے۔

 

مجتبیٰ حسین نے کہیں لکھا ہے کہ ایک دور میں تاریخ کو جب تک ناول میں نہیں بدلا جاتا تھا تب تک اُس کا عوام تک پہنچنا دشوار ہوتا تھا، یہی وجہ تھی کہ اس دور کی تاریخ میں انارکلی کو جو کلیدی اہمیت حاصل ہے وہ بے چارے جہاں گیر اور اکبر کے حصّے میں نہ آ سکی۔ ادب جب تاریخ پر حاوی ہو جاتا ہے تو اکبر و جہانگیر تو پس منظر میں چلے جاتے ہیں، البتہ آغا حشر کشمیری اور امتیاز علی تاج نمایاں ہو جاتے ہیں۔ (ص: 224، خاکہ، محمد علوی‘، مشمولہ ’آپ کی تعریف‘ از: مجتبیٰ حسین، مطبوعہ 2014ء) شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریر میں حسبِ ضرورت تاریخی اشاروں سے سجی تلمیحات کو استعمال کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مثلاً ان کے خاکوں ہی میں ابو الحسن تانا شاہ، ہمایوں کا مقبرہ، گول کنڈا اور طغیانی موسیٰ (ندی) اور حسن گنگو بہمنی سے متعلق تلمیحات کئی جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔

حیدر آباد سے متعلق اُن کی ایک پسندیدہ تلمیح عبدالرزاق لاری سے متعلق ہے جو اِن خاکوں ہی میں کئی بار نظر سے گزری، مثلاً جب ایک دفعہ کہیں صاحبِ خانہ کے گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے وہاں ایک بُڑھیا نے مجتبیٰ پر مکان کا دروازہ بند کر دیا تھا تو اسے انھوں نے یوں لکھا ہے کہ بُڑھیا ’دروازے کے ایک پٹ کو بھیڑ کر اور دوسرے کو آدھا کھینچ کر دروازے میں یوں کھڑی ہو گئی جیسے گول کنڈا کے قلعے پر اورنگ زیب کے حملے کے وقت عبدالرزاق لاری قلعے کے دروازے پر کھڑا ہو گیا تھا۔ ‘ (ص: 208، خاکہ ’حسن الدین احمد‘ مشمولہ ’مہرباں کیسے کیسے ‘ مرتبۂ سید امتیاز الدین، مطبوعہ 2009ء، مزید مثال: ص: 158، خاکہ ’عزیز قیسی‘ مشمولہ ’مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں ‘ (جلد دوم)، مرتبہ حسن چشتی مطبوعہ: 2004ء) اور قارئین جانتے ہی ہیں کہ تلنگانہ کی تاریخ میں عبدالرزاق لاری کی وفاداری سنہرے لفظوں میں درج ہے۔ لیکن اسی جنگ میں اورنگ زیب نے اپنے ایک وفادار کو جو صلہ دیا تھا، اُس کا بیان دل چسپی سے خالی نہ ہو گا۔ ہوا یوں کہ جب اورنگ زیب کی فوجیں گول کنڈے کا محاصرہ کیے ہوئے تھیں تو قلعے کے چند شیعہ بزرگوں نے اورنگ زیب کے میر آتش (توپ خانے کے مہتمم) کو جو کہ ایک غالی شیعہ تھا، ورغلانے کی کوشش کی تھی۔ اُنھوں نے اس سے درخواست کی تھی کہ ہندستان کی اس واحد شیعہ حکومت کی بقا کے لیے وہ اتنی بے دردی سے گولہ باری نہ کرے بلکہ اِدھر اُدھر اس طرح گولے داغے کہ قلعے کی عمارتوں کو نقصان نہ پہنچے۔ ‘ میر آتش نے اُنھیں جواب دیا کہ’ میں شیعہ ہونے کے علاوہ بادشاہ کا نمک خوار بھی ہوں۔ تانا شاہ کا کیا ذکر، امام حسین کا لشکر بھی مقابل ہو تو اپنے فرض سے کوتاہی نہ کروں۔ ‘ یہ دو ٹوک جواب سُن کر وہ لوگ تو اپنا سا منہ لے چلے گئے، لیکن اس ملاقات کی اطلاع عالم گیر کو اپنے مخبروں سے مل گئی۔ اُس نے میر آتش کو بُلا کر اُس کی زبانی ساری تفصیل سنی اور اُسے وہیں برخاست کر دیا۔ میر آتش بڑا حیران ہوا۔ اُس نے اپنا قصور جاننا چاہا تو اورنگ زیب نے جواب دیا: ’’تمھاری وفاداری اپنی جگہ لیکن امام حسین کی بے احترامی کا قصور ناقابلِ عفو ہے۔ ‘ غالب نے غالباً ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا ع یہ جانتا اگر تو لُٹا تا نہ گھر کو میں۔

ایک افغانی تلمیح ’بچۂ سقہ‘ کی بھی اُن کے چند خاکوں میں آئی ہے، مثلاً: ’۔۔ ۔ وہیں یہ بھی پتا چلا کہ سلیمان خطیب ہی گلبرگہ کے بچۂ سقہ ہیں۔ سلیمان خطیب زندگی بھر (جامِ سخن سے ) گلبرگہ کے لوگوں کی پیاس بجھاتے رہے۔ ‘ (ص: 146، خاکہ ’سلیمان خطیب، مشمولہ ’آپ کی تعریف‘ از: مجتبیٰ حسین، مطبوعہ 2014ء) یہاں پر میں سلیمان خطیب کی روح سے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ بچۂ سقّہ ایک سقّے کی اولاد ضرور تھا، لیکن وہ کسی کی پیاس کیا بجھاتا، اُس کا تو نام سن کر ہی لوگوں کا خون خشک ہو جاتا تھا۔ افغانستان کی تاریخ میں وہ ایک ڈاکو بادشاہ (Bandit King) کی حیثیت سے مشہور ہے۔ اُس نے شاہ افغانستان امان اللہ خان کو بے دخل کر کے کابل اور اس کے کچھ ملحقہ علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اُس کا جنوری تا اکتوبر 1929ء کا دس ماہ کا بدامنی اور خون خرابے سے بھرا ہوا دورِ حکومت یکم نومبر کو اُس کے قتل کیے جانے پر ختم ہوا تھا۔ کابل پر قبضے سے پہلے کا وقفۂ انتظاریہ بھی اس نے سقّہ گری کی بجائے کوہستان اور شاہراہِ ریشم پر گزرنے والے کاروانوں کو لوٹنے میں گزارا تھا۔

 

مجتبیٰ حسین کی ہزار خوبیوں کی حامل شستہ زبان اور شگفتگیِ تحریر کا سحر ایسا ہے کہ بہت کم مقام ایسے نظر آئے کہ جہاں ذہن ٹھٹکا ہے یا کوئی لفظ کھٹکا ہے۔ راقمِ تحریر یہاں پر اپنے ایسے ہی چند شبہات کا اظہار کرنا چاہتا ہے حالانکہ عین ممکن ہے کہ راقم کی ہیچ مدانی ہی کی قلعی کھُل کر رہ جائے، پھر یوں بھی راقم ٹھہرا آہنگر زادہ، آدابِ زبان دانی سے واقف نہ سلیقۂ تخاطب سے۔ یہاں پر اُسے اپنی حالت مجتبیٰ حسین کے سقّہ زادہ (بچۂ سقّہ) سے مختلف نہیں لگتی۔ بچۂ سقّہ کو کابل کے تخت پر متمکن ہونے کے بعد دوسرے صوبوں کے حکم رانوں اور قبائل کے سرداروں سے مُراسلت کی ضرورت آ پڑی تو اُسے اپنے جہل اور القاب و آدابِ شاہی سے ناواقفیت کے سبب بڑی دشواری پیش آئی۔ اس کا علاج اس نے یہ ڈھونڈا کہ ایک (حکم ران قبیلے ) یوسف زئی کی ایک خواندہ دوشیزہ کا اغوا کر کے اُسے اپنی ملکہ بنا لیا اور یوں اپنی مشکل حل کر لی۔ چونکہ راقمِ تحریر کے لیے ایسی کسی مہم کا سر کرنا ذرا مشکل نظر آتا ہے اس لیے اپنی کج مج زبان ہی میں یہ شبہات پیش کر رہا ہے۔

٭ مجتبیٰ حسین دنیا بھر کے ملکوں کی سیر کر چکے ہیں اور وہاں کے مشہور شہروں کو اپنی نشانی کے طور  پر کچھ سکّے وہاں کی ندیوں کی نذر کر آئے ہیں۔ کلکتے کی ہگلی میں پچاس پیسے کا سکّہ اُچھالنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’۔۔ ۔ میں نے تو لندن کی ٹیمز، پیرس سین، نیویارک کی ہڈسن، ماس کو کی مسکاوا اور لینن گراڈ کی نیواندی میں بھی اپنا سرمایہ اسی طرح مشغول کر رکھا ہے۔ ‘ (ص: 245، خاکہ ’فس اعجاز‘ مشمولہ ’مہرباں کیسے کیسے ‘ مرتبہ: سید امتیاز الدین، مطبوعہ 2009ء ) یہاں ’مشغول‘ کا استعمال کھٹک رہا ہے۔ ’غرقاب‘ اگرچہ سامنے کا لفظ تھا، لیکن میرا دل کہتا ہے کہ یہاں اُن کے قلم سے ’ڈبو رکھا ہے ‘ نکلتا تو کتنا اچھا ہوتا!

٭ قاضی سلیم کے تذکرے میں ایک جگہ درج ہے: ’اُنھیں جس اسپتال میں شریک کرایا گیا۔ ‘ (ص: 115، ’آپ کی تعریف‘، از: مجتبیٰ حسین، مطبوعہ: 2014ء) چونکہ ’شریک‘ ساجھی ہونے کے معنی ظاہر کرتا ہے، اس لیے کسی جلسے، تقریب، دعوت، بزم یا محفل میں شریک ہونا تو جچتا ہے، اسپتال میں نہیں۔ فوج میں بھرتی ہوا ؍ کیا جا سکتا ہے اور اسکول یا کالج میں طلبا کے داخلے ؍ داخل کیے جانے کا عمل بھی عام ہے۔ میرا خیال ہے اور کوئی مناسب لفظ نہ ہونے کی صورت میں مریض کو اسپتال میں ’داخل کرنا‘ گوارا کیا جا سکتا ہے۔ یوں بھی دیکھا جائے تو اسکول اور اسپتال، دونوں ہی ذہن و جسم کے اصلاح خانے ہیں۔

٭ اُن کے ایک خاکے میں ایک ہی صفحے پر دو جگہ ’روزن دان‘ نظر سے گزرا تو ذہن کھٹکا، مثلاً: ’۔۔ ۔ کھڑکیاں، روزن دان اور دروازے بنائے۔ ‘ (ص: 317، خاکہ، ’عزیز سے عقیل تک‘، مشمولہ’ مہرباں کیسے کیسے ‘) متداول لغت کی کتابوں میں یہ لفظ کہیں نہیں ملا۔ لگتا ہے کہ ’روشن دان‘ کے قیاس پر روا روی میں قلم سے ’روزن دان‘ نکل گیا ہو گا۔ مفرد لفظ ’روزن‘ بجائے خود ’سوراخ‘ اور ’جھروکے ‘ کے معنی کا متحمل ہے اور ’دان‘ کے لاحقے کا محتاج نہیں۔

٭ پروفیسر شمیم علیم کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’علیم کی سلیقہ مندی، سگھڑپن اور رکھ رکھاؤ کو دیکھ کر یہ تمنا بھی دل میں پیدا ہوتی ہے کہ اے کاش علیم لڑکی ہوتے اور ہماری شادی اُن سے ہوتی۔ (کیا کریں ہر جگہ معاملہ مقدرات کا پیدا ہو جاتا ہے ) (ص: 259، مشمولہ ’مہرباں کیسے کیسے ‘، اسی صفحے پر ایک اور مثال موجود ہے، ’۔۔ ۔ قدرت مقدرات کے معاملے کس طرح طے کرتی ہے۔ ‘) معلوم ہوتا ہے کہ ’مقدرات‘ میں ٹائپنگ کی غلطی ہے۔ معاملہ ’مقدر کا رہا ہو گا یا پھر کیا پتا ’مقدرت‘ کا رہا ہو!

٭ حکیم یوسف حسین خاں کے خاکے میں لکھا ہے کہ: ’اُن کے مطب کے اتنے چکر کاٹ چکا ہوں کہ لوگ اب خواہ مخواہ ہی مجھے دائم المریض سمجھنے لگے ہیں۔ ‘ (ص: 176، مشمولہ ’مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں ‘ جلد دوم، مطبوعہ: 2004ء) ’دائم المریض‘ کے معنی ہوں گے ’ہمیشہ رکھنے والا مریض‘، بقول مؤلف ’قاموس الاغلاط‘ یہ کسی دوا خانے کی صفت ہو سکتی ہے، مریض کی نہیں۔ جو شخص ہمیشہ بیمار رہتا ہو، اُسے ’دائم  المرض ‘ کہیں گے۔

٭ سلیمان خطیب کے خاکے میں ایک مقام پر لکھا ہے: ’ایک دن ہماری جماعت کے طلبا سے کہا گیا کہ اُنھیں پینے کے پانی کی سربراہی کے نظام سے واقف کرانے کے لیے فلٹر بیڈ لے جایا جائے گا۔ ‘ اسی طرح آر کے لکشمن کے خاکے میں بھی درج ہے: ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بجلی بار بار کیوں فیل ہو جاتی ہے۔ پانی کی سربراہی کیوں بند ہو جاتی ہے۔ ‘ (ص: 146، 289، مشمولہ ’آپ کی تعریف‘ مطبوعہ: 2014ء)

میرا خیال ہے کہ ’سربراہی‘ کی جگہ ’فراہمی‘ کا لفظ موزوں ہوتا۔ ’سربراہی‘ کا لفظ سرداری اور حاکمیت کے معنوں میں تو مستعمل ہے، انتظام و انصرام کے معنوں میں نامانوس لگتا ہے۔

٭ کشمیری لال نے ہندستان کے نمائندہ مزاح نگاروں کو ایک محفل میں اِکٹھا کیا تھا، اس پر لکھا ہے: ’مینڈکوں کو ایک پنسیری میں پکڑنا بہت دشوار ہوتا ہے مگر کشمیری لال ذاکر نے یہ کام کر کے دکھا دیا تھا۔ ‘ (ص: 196، مشمولہ ’مہرباں کیسے کیسے ‘) ’پنسیری کا یہ استعمال یوں محلِّ نظر ہے کہ ’پنسیری‘ پانچ سیر کے بانٹ کے لیے مستعمل رہا ہے اور یہی معنی ڈنکن فاربس کی ڈکشنری اور دیگر لغات میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

٭ ظفر پیامی کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’حیرت ہوتی ہے کہ زندگی کی پچپن خزائیں دیکھنے کے باوجود اُنھوں نے کس طرح اپنے بچپن کی مخصوص مسکراہٹ کو اب تک اپنے ہونٹوں پر سجا رکھا ہے۔ ‘ (ص: 87، مشمولہ ’آپ کی تعریف‘) اس عبارت میں زبان کا تو نہیں بیان کا اہمال کھٹک رہا ہے۔ ’پچپن‘ اور ’بچپن‘ کے صوتی لطف سے انکار نہیں، لیکن ہر خزاں کے ساتھ بہار بھی تو وابستہ ہے اور اُن کے خاکے سے بھی نہیں جھلکتا کہ موصوف کی زندگی کے موسموں میں بہار کا کہیں گزر نہیں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اُن کی زندگی کافی پُر بہار گزری تھی۔

٭ مجتبیٰ صاحب نے ایک خاکے میں لکھا ہے: ’ہمارے ایک پنجابی دوست تھے، وائی پی چڈھا۔۔ ۔۔ ایک دن ہمارے پاس یہ فریاد لے کر آئے کہ اُن کا ایک بے حد اہم کام دفتر میں اٹکا ہوا ہے، جس کی عاجلانہ یکسوئی کے لیے وہ منت مانگنے کے ارادے سے خواجہ اجمیری کے آستانے پر حاضری دینا چاہتے ہیں۔ ‘ (ص: 223، مشمولہ ’مہرباں کیسے کیسے ‘) دیکھا جا سکتا ہے کہ یہاں پر ’یکسوئی‘ کی جگہ ’وا گزاری‘ یا ’حصولی‘ جیسے کسی لفظ کی ضرورت ہے۔

٭ ’وتیرہ‘ (ص: 51، کتاب’ میرا کالم‘، از: مجتبیٰ حسین، مطبوعہ: 2011ء) کے اِملے میں ’ط‘ کی بجائے ’ت‘ سے دیکھ کر خوشی ہوئی ہوئی، لیکن ’ٹھیکہ‘، ’سمجھوتہ‘، ’تماشہ‘ اور ’دھوکہ‘ جیسے لفظوں کے اخیر میں الف کی بجائے غیر صوتی ہائے ہوّز کو دیکھ کر اور ’پروا‘ کی بجائے ہر جگہ ’پرواہ‘ دیکھ کر جو ناخوشی ہوئی اسے بیان کروں ع یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت کہاں مجھے ! اگرچہ مجتبیٰ حسین کی زندگی کا بڑا زمانہ حیدرآباد اور دہلی جیسے دو شہروں میں منقسم ہے، لیکن اُنھیں اِملے کے باب میں آٹھ دہائی قبل کے حیدرآباد میں اصلاحِ املا کے پیش رو عبدالستار صدیقی کی سفارشات گوارا ہیں نہ ہی دہلی میں تقریباً چار دہائی گزار چکے رشید حسن خاں کی نظم اِملا کی کوششیں۔ مجتبیٰ حسین نے ایک بار اپنے روایتی ملے کے دفاع میں رشید حسن خاں کے کسی اعتراض کو رد کر دیا تھا تو راقم کس گنتی میں ہے ! اُنھوں نے تو رشید مرحوم کے وداعی جلسے میں جو کہ ’انجمن ترقی اردو‘ کے ’اردو گھر‘ میں منعقد ہوا تھا، کچھ احباب کو سرگوشی میں احتیاطاً یہ تاکید بھی کر دی تھی کہ ’وہ اُنھیں صرف اس جلسے میں وداع کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ دوسرے دن اسٹیشن پر جا کر بھی اُنھیں وداع کر آئیں۔ نادر شاہ بھی جب دہلی سے ایران واپس جا رہا تھا تو بادشاہِ وقت محمد شاہ اُنھیں وداع کرنے کے لیے شہر کی فصیل سے باہر تک گیا تھا کہ موصوف کہیں واپس نہ آ جائیں۔ ‘ (ص: 213، خاکہ ’رشید حسن خاں ‘، مشمولہ ’آپ کی تعریف‘، مطبوعہ: 2014ء)

٭ اُن کی تحریروں میں ہر جگہ ’ممنون و مشکور‘ بجائے ممنون و متشکر، ’ناراضگی بجائے ناراضی، ’سینکڑوں ‘ بجائے ’سیکڑوں ‘، اچنبھا اور سنبھلنا‘ دیکھ کر بھی جی جلا ہے، لیکن چونکہ ہمارے بزرگ مجتبیٰ حسین نے اِس امر میں خود اپنے بزرگوں مثلاً مولانا محمد حسین آزاد اور علامہ شبلی کی پیروی کو مقدم رکھا ہے، اس لیے اپنے جی کی جی میں رکھنے میں عافیت ہے۔

کہیں مجتبیٰ حسین کو یہ گِلہ نہ ہو کہ

ع ستم ہے لفظ پرسوں میں گھر گیا ہوں میں !

راقم اِس فہرست کو یہیں سمیٹنا چاہتا ہے، پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ اُن کے ہزاروں صفحات کے لٹریچر میں چند تسامحات مل بھی جائیں تو وہ کوئی اہمیت نہیں رکتے۔ پھر بھی جی چاہتا ہے کہ ہمارے بزرگ ادیب قلم اُٹھا کر ہم خوردوں کے ایسے شبہات کو دور کر دیں تو کتنا اچھا ہو!

مجتبیٰ حسین نے کہیں لکھا ہے کہ:

’’دنیا میں اب کوئی بات ایسی نہیں رہ گئی ہے جو کروڑوں برس پرانی دنیا میں پہلے نہ کہی گئی ہو۔۔ ۔ لہذا اب بات کی اہمیت نہیں رہ گئی ہے، البتہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کس ڈھنگ سے اپنی بات کہہ رہے ہیں۔ ادب اب صرف ایک طرزِ ادا کا نام رہ گیا ہے۔ ‘‘

واقعہ یہ ہے کہ مجتبیٰ حسین نے پچھلی نصف صدی میں اپنے ادبی کالم، خاکوں، رپورتاژ، سفرناموں اور دیگر مضامین کے ذریعے اردو ادب کو بہت وقیع اور متمول بنایا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اُنھوں نے اپنے اسلوب کی تیزی و تازگی اور شگفتگی و شائستگی کبھی ہاتھ سے نہیں جنے دیا اور اُسے سلاستِ زبان، روانیِ بیان، بے تکلفی کی فضا اور مزاح کے عنصر سے بھی ہمیشہ معمور رکھا۔ اتنے طویل قلمی سفر میں طرزِ ادا کو ایسی تو نگری اور توانائی کی مثال کم ہی کہیں ملے گی۔

٭٭٭

ماخذ: آن لائن جریدہ ’سمت‘، شمارہ ۳۶

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک ی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں