FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

مجاہد آزادی مولانا عبد الماجد بدایونی

 

 

                نامعلوم

 

 

 

 

 

 

سیف اللہ المسلول مولانا شاہ فضل رسول بدایونی(م۱۲۸۹ھ)کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں ہے،دین وسنیت کے حوالے سے آپ کی خدمات ہماری تاریخ کا ایک زریں باب ہے،آپ کے دو صاحبزادے تھے ،بڑے صاحبزادے مولانا محی الدین قادری عثمانی(م۱۲۷۰ھ)اور دوسرے صاحبزادے تاج الفحول مولانا عبد القادرمحب رسول قادری بدایونی(م۱۳۱۹ھ)مولانا محی الدین قادری کے صاحبزادے مولانا حکیم مرید جیلانی(م۱۲۹۷ھ)تھے،اور ان کے صاحبزادے مولانا حکیم عبد القیوم شہید قادری بدایونی(م۱۳۱۷ھ) تھے،حکیم عبد القیوم قادری کے دو صاحبزادے تھے ایک مجاہد آزادی مولانا حکیم عبد الماجد قادری بدایونی اور دوسرے صاحبزادے مجاہد ملت مولانا عبد الحامد قادری بدایونی(م۱۳۹۰ھ)صدر جمعیۃ علما ء پاکستان-زیر نظر مضمون میں ہم اول الذکر مولانا حکیم عبد الماجد قادری بدایونی کی شخصیت اور ان کی دینی و ملی خدمات کا جائزہ لیں گے

ولادت، تعلیم، بیعت:- حضرت مولانا ابو المنظور حکیم عبد الماجد قادری بدایونی کی ولادت ۴/شعبان ۱۳۰۴ھ مطابق ۲۸/اپریل ۱۸۸۷ء کو مولوی محلہ بدایوں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حضرت مولانا عبد المجید مقتدری آنولوی اور حضرت مولانا مفتی ابراہیم صاحب قادری بدایونی سے حاصل کی، درس نظامی کی منتہی کتابیں استاذ العلماء حضرت مولانا محب احمد قادری بدایونی سے پڑھیں اور تکمیل حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر قادری بدایونی قدس سرہٗ سے فرمائی- بعض اسباق والد گرامی حضرت مولانا حکیم عبد القیوم شہید اور جد محترم تاج الفحول محب رسول مولانا عبد القادر قادری بدایونی قدس سرہ سے بھی سماعت کئے۔ ۱۳۲۰ھ میں حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر قادری بدایونی نے سند فراغت عطا فرمائی، اس کے بعد دو سال دہلی میں رہ کر حکیم غلام رضا خاں کے پاس طب کی تکمیل کی۔ ۱۳۲۲ھ میں حکیم صاحب نے سند فراغت سے نوازا جس پر مسیح الملک حکیم اجمل خاں نے بھی دستخط کئے

جب حضرت تاج الفحول نے سیدنا شاہ عبد المقتدر قادری بدایونی قدس سرہ کو اجازت و خلافت سے نوازا تو مولانا حکیم عبد القیوم شہید صاحب نے اپنے صاحبزادے مولانا عبد الماجد بدایونی کو سیدنا شاہ عبد المقتدر قادری بدایونی کے دست حق پرست پر بیعت کروا دیا- بعد میں پیر و مرشد نے آپ کو تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے بھی نوازا

مدرسہ شمس العلوم کا احیاء اور جدید کاری:-حضرت مولانا عبد الماجد قادری بدایونی قدس سرہٗ کے والد ماجد نے ۱۳۱۷ھ میں جامع مسجد شمسی بدایوں میں مدرسہ شمسیہ کی بنیاد رکھی- استاذ العلماء علامہ محب احمد قادری علیہ الرحمہ اس کے پہلے صدر مدرس منتخب ہوئے۔ ۱۱/صفر ۱۳۱۷ھ /۲۲/جون ۱۸۹۹ء میں مدرسہ کا تاسیسی جلسہ ہوا جس میں تاج الفحول سیدنا شاہ عبد القادر قادری بدایونی، حافظ بخاری سید شاہ عبد الصمد چشتی، اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی، حضرت مولانا محدث سورتی علیہم الرحمہ نے شرکت فرمائی- ابتداءً چند برسوں تک اس مدرسہ نے نمایاں خدمات انجام دیں بعد میں یہ گردشِ زمانہ کا شکار ہوا۔ مولانا عبد الماجد بدایونی نے میدانِ عمل میں قدم رکھنے کے بعد مدرسہ کی طرف توجہ مبذول کی اور از سر نو اس کی آبیاری فرمائی۔ شہر کے درمیان ایک وسیع زمین حاصل کر کے ۳/ربیع الثانی ۱۳۳۵ھ /۲۸/جنوری ۱۹۱۷ء کو ایک وسیع عمارت کی بنیاد رکھی اور مدرسہ کا نام مدرسہ شمسیہ سے بدل کر دارالعلوم شمس العلوم تجویز کیا- چند سال میں ایک پر شکوہ عمارت کی تعمیر ہو گئی۔ عمارت کی تکمیل کے بعد یہ مدرسہ جامع مسجد شمسی سے منتقل ہو کر جدید عمارت میں قائم ہو گیا- مدرسہ کی عمارت کے قریب ہی شاندار دار الاقامہ تعمیر کیا گیا- ریاست حیدرآباد، رامپور اور بھوپال سے مدرسہ کے لئے امداد جاری ہوئی۔ مدرسہ کی تعلیم کا معیار بلند ہو گیا- درس نظامی کے علاوہ مولوی، عالم، فاضل اور منشی وغیرہ کے امتحانات میں بھی طلبہ شریک ہونے لگے۔ پروفیسر ایوب قادری لکھتے ہیں:

"جلد ہی مدرسہ شمس العلوم نے ملک کی دینی درسگاہوں میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ ملک کے مختلف حصوں اور علاقوں سے طلبہ تحصیل علم کے لئے آنے لگے-لائق اور محنتی علماء بہ حیثیت مدرسین اور اساتذہ مدرسہ سے وابستہ ہو گئے۔ دستار بندی کے موقع پر نہایت شاندار جلسے منعقد ہوتے ان جلسوں میں تمام ہندوستان کے ممتاز اور مشہور علماء شریک ہوتے”-(مجلہ بدایوں، کراچی، مئی ۱۹۹۶ء ص :۴۸)

مدرسہ میں ایک عظیم الشان لائبریری قائم کی گئی جس میں مختلف علوم و فنون کی سیکڑوں کتابیں جمع کی گئیں-یہ لائبریری ہزار شکست و ریخت کے باوجود آج بھی اپنی اہمیت رکھتی ہے- مدرسہ سے ایک ماہنامہ کا اجرا کیا گیا جو ابتداء میں مذاکرہ علمیہ کے نام سے شائع ہوا اور بعد میں "ماہنامہ شمس العلوم” کے نام سے جاری رہا- یہ ماہنامہ حضرت مولانا عبد الماجد بدایونی صاحب کی وفات تک جاری رہا

مذہب و مسلک کی اشاعت کے لئے مدرسہ کے زیر انتظام مطبع قادری کے نام سے ایک پریس لگوائی گئی جس سے اکابرین آستانہ قادریہ اور علماء بدایوں کی تصانیف کے ساتھ ساتھ دیگر علماء اہل سنت کی علمی تحقیقی اور دعوتی و اصلاحی کتب و رسائل شائع کیے گئے

قومی و سیاسی خدمات:-مولانا نے اپنے زمانے کی تمام اہم قومی، ملی اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا اور قائدانہ کردار ادا کیا۔ مجلس خدام کعبہ (۱۹۱۲ء)، خلافت کمیٹی (۱۹۱۹ء)، جمعیۃ العلماء (۱۹۱۹ء)، تحریک ترک موالات (۱۹۲۰ء)، تحریک تبلیغ (۱۹۲۲ء)، تحریک تنظیم (۱۹۲۴ء)، مسلم کانفرنس (۱۹۲۹ء) ہر تحریک میں ایک فعال کا رکن، مشیر خصوصی، مخلص کارگزار اور اس تحریک کے مبلغ و واعظ کے طور پر شریک رہے، مدتوں صوبائی خلافت کمیٹی کے صدر رہے، انڈین نیشنل کانگریس کے رکن رہے۔ (ڈاکٹر شمس بدایونی : مضمون” مولانا عبد الماجد بدایونی” مطبوعہ معارف اعظم گڑھ، اکتوبر ۲۰۰۷ء، ص: ۲۹۳)

سید سلیمان ندوی مولانا کے قائدانہ کردار کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"خدام کعبہ، طرابلس، بلقان، کانپور، خلافت، کانگریس، تبلیغ، مسلم کانفرنس، یہ وہ تمام مجالس ہیں جو ان کے خدمات سے گراں بار ہیں”۔ (معارف اعظم گڑھ، جنوری ۱۹۳۲ء)

مولانا عبد الماجد بدایونی نے خلافت کمیٹی کے اجلاس بمبئی، اجلاس ناگپور اور اجلاس کلکتہ سمیت کئی جلسوں کی صدارت کی۔ مجلس خلافت نے شریف حسین اور ابن سعود کے تنازع کا جائزہ لینے اور ان کے درمیان تصفیہ کا ماحول پیدا کرنے کے لئے ایک وفد حجاز بھیجا جس میں مولانا عبد الماجد بدایونی بھی ایک اہم رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے اور حجاز و مصر کا دورہ فرمایا-(اس وفد خلافت کی نوعیت، کارکردگی اور نتائج کا تذکرہ تفصیل طلب ہے، فی الحال ہم اس کو قلم انداز کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل جاننے کے لئے دیکھئے: ۱- نگارشات محمد علی : مرتبہ رئیس احمد جعفری، ادارۂ اشاعت اردو حیدرآباد دکن ۱۹۴۴ء، ۲- تاریخ نجد و حجاز : مفتی عبد القیوم ہزاروی، ص: ۲۴۷ تا ۲۵۸، رضوی کتاب گھر طبع چہارم ۲۰۰۰ء، ۳- سید سلیمان ندوی حیات اور ادبی کارنامے : ڈاکٹر سید محمد ہاشم، ص: ۱۲۶ – ۱۲۷، علی گڑھ ۱۹۹۵ء)

مولانا ایک ہمہ جہت اور سیماب صفت شخصیت کے مالک قائد و رہنما تھے۔ ہر وقت کسی نہ کسی مسلکی، قومی یا سیاسی کام کی دھن میں رہتے تھے۔ آپ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور اوقات خدمت دین کے لئے وقف کرچکے تھے، سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

"جماعت علماء میں یہی ایک ہستی تھی جس کی زندگی کے ایک لمحہ کو بھی کسی وقت چین نصیب نہ ہوا-ہر وقت اور ہر نفس ان کو کام کی ایک دھن لگی ہوئی تھی جس کے پیچھے ان کا آرام چین، اہل و عیال اور جان و مال ہر چیز قربان تھی- یہ سماں بھی گزرا ہے کہ ان کے گھر میں کفن دفن کا سامان ہو رہا ہے اور وہ مردہ قوم کی مسیحائی کے لئے کانپور و لکھنؤ کی تگ و دو میں مصروف ہیں”- (معارف اعظم گڑھ، جنوری ۱۹۳۲ء)

مولانا عبد الماجد دریابادی مدیر "سچ” اپنے تعزیتی مضمون میں لکھتے ہیں:

"جس تحریک میں شریک ہوئے دل و جان، شغف و انہماک، مستعدی و سرگرمی سے شریک ہوئے ،جس کام کو ہاتھ لگایا اس میں جان ڈال دی، زندگی کے آخری ۱۱-۱۲/سال کا ہر گھنٹہ بلکہ کہنا چاہیے ہر منٹ قومیات کے لئے وقف تھا، سکون و راحت کا کوئی زمانہ نہ تھا۔ مسلسل علالتوں اور پیہم خانگی صدمات کے باوجود کام کے پیچھے دیوانے تھے اور ایک جگہ بیٹھنا تو جانتے ہی نہ تھے۔ تیز بخار چڑھا ہوا ہے اور حجاز کانفرنس کے اہتمام میں مصروف، سینہ میں درد ہو رہا ہے اور امین آباد پارک میں محفل میلاد ڈھائی ڈھائی تین تین گھنٹہ تک بیان ہو رہا ہے۔ شانہ میں ورم، ہاتھ جھولے میں پڑا ہوا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ مجلس تنظیم کی مجلس عاملہ میں شرکت نہ ہو؟ والدہ ماجدہ نزع میں اور مولانا کانپور میں تقریر کر رہے ہیں۔ بیوی کی آخری سانسوں کی اطلاع آ رہی ہے اور آپ ہیں کہ دہلی کی جامع مسجد میں خود رو رو کر دوسروں کو رلا رہے ہیں۔ کل لکھنؤ تھے، آج کلکتہ پہنچ گئے، عید کا چاند لاہور میں دیکھا تھا نماز آ کر میرٹھ میں پڑھی، صبح پٹنہ میں تھے شام کو معلوم ہوا کہ دکن کے راستہ میں ہیں۔ عجیب و غریب مستعدی تھی عجیب تر ہمت مردانگی”-(سچ ۲۵/دسمبر ۱۹۳۱ء)

پروفیسر محمد ایوب قادری لکھتے ہیں:

"مولانا عبد الماجد نہایت ذہین عالم اور بے مثل مقرر تھے، انھوں نے تحریکِ خدام کعبہ، خلافت کمیٹی، مسلم کانفرنس اور جمعیۃ العلماء سب میں حصہ لیا- وہ علی برادران کے دست راست تھے، انھوں نے تمام ملک کو چھان مارا اور ملک کی سیاسی بیداری میں نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر کی سیاست میں ان کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ انھوں نے شدھی اور سنگٹھن کے زمانے میں آگرہ اور بھرت پور کے علاقہ میں ایک جماعت بھیجی، ان کے بعض متوسلین نے آگرہ میں ڈیرے جما دئیے اور ایک رسالہ نکالا”-(مقالہ "عہد برطانیہ میں علماء بدایوں کے سیاسی رجحانات” : ماہنامہ مجلہ بدایوں کراچی، شمارہ جنوری ۱۹۹۴ء)

اسی مقالہ میں آگے لکھتے ہیں:

"مولانا عبد الماجد کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے زمانے میں کام کرنے والوں کی ایک جماعت پیدا کر دی، جس نے ان کے بعد مذہبی اور سیاسی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں”- (مرجع سابق)

محترم ضیاء علی خاں بدایونی نے اپنی کتاب "ہست و بود” میں فرزندان بدایوں کی قومی اور سیاسی جد و جہد کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے-اس کتاب کے چند متعلقہ اقتباسات ہدیۂ قارئین ہیں جن سے مولانا عبد الماجد بدایونی کی قومی اور سیاسی خدمات پر روشنی پڑتی ہے۔

بدایوں میں خلافت کمیٹی کا قیام :- جولائی ۱۹۱۹ء میں مولانا محمد علی جوہر نے خلافت کمیٹی قائم کی جس کا مقصد ترکوں پر کیے گئے انگریزوں کے مظالم اور زیادتیوں کو بے نقاب کرنا تھا- مولانا عبد الماجد بدایونی اس کے سرگرم رکن تھے- ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ملک بھر کے مسلمان جوق در جوق اس میں شامل ہو گئے۔

(ہست و بود، ص: ۱۹۱ مطبوعہ بدایوں بار اول ۱۹۸۷ء)

جمعیۃ علماء ہند:- نومبر ۱۹۱۹ء میں جمعیۃ علماء ہند کا انعقاد عمل میں آیا۔ انجمن خدام کعبہ اور انجمن خدام الحرمین قائم ہوئی، بدایوں کے علما ان میں پیش پیش رہے- مولانا عبد الماجد بدایونی جمعیۃ علماء ہند کے بانیوں میں تھے اور حضرت مولانا شاہ عبد القدیر صاحب بدایونی، خواجہ نظام الدین صاحب بدایونی نیز مولانا قدیر بخش صاحب بدایونی اس کے خصوصی رُکن تھے- (مرجع سابق)

جمعیۃ علماء کانپور:- ادھر جمعیۃ علماء ہند نے کانگریس میں شمولیت کا اعلان کیا اُدھر بعض علماء نے کانگریس سے سیاسی نظریات میں اختلاف کے سبب جمعیۃ سیاسی نظریات میں اختلاف کے سبب جمعیۃ سے علیحدگی اختیار کر کے دوسری جمعیۃ علماء ہند کی تشکیل شروع کر دی۔ مولانا خواجہ نظام الدین صاحب نے تحریر کیا ہے کہ علی برادران، مولانا حسرت موہانی، حضرت اقدس مولانا عبد القدیر بدایونی اور حضرت مولانا عبد الماجد صاحب بدایونی جیسے رہنمایانِ آزادی جمعیۃ سے دور ہو تے گئے اور جمعیۃ علماء ہند کانپور مقابل میں رونما ہوئی۔ حضرت اقدس (مولانا شاہ عبد القدیر صاحب) جو صوبہ جمعیۃ کے صدر تھے حضرت مولانا عبد الماجد بدایونی، حضرت مولانا نثار احمد صاحب کانپوری اور حضرت مولانا شاہ فاخر صاحب کے بعد جمعیۃ کانپور کے صدر تجویز کئے گئے۔ (مرجع سابق، ص: ۱۹۸)

مذہبی مناظروں کا زمانہ:-ہنوز یہ سلسلہ جاری تھا کہ ہندوستان کی سیاست میں اچانک تبدیلی واقع ہوئی، ہندو مسلم اتحاد ختم ہو گیا- اس کا اثر بدایوں ضلع پر بھی پڑا، آریوں اور مسلمانوں نیز عیسائیوں اور مسلمانوں سے مذہبی مناظرے ہونے لگے-ان مناظروں میں بدایوں کے جن علماء نے حصہ لیا ان میں مولانا عبد الماجد صاحب بدایونی، مولانا قطب الدین برہمچاری سہسوانی اور مولوی عبد الحق صاحب بدایونی خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں- اسی دوران شدھی سنگٹھن کا زور ہوا، تبلیغی تحریک نے شدت اختیار کی، چودھری بدن سنگھ اور بابو دھرم پال صاحب نے شدھی سنگٹھن کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا- مولانا عبد الماجد صاحب اور مولوی ادریس خاں صاحب نے تبلیغی ذمہ داریاں سنبھالیں- (مرجع سابق)

بدایوں میں تبلیغی کانفرنس:- مولانا عبد الماجد صاحب نے گاندھی جی سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد۱۹۲۳ء میں بدایوں میں تبلیغی کانفرنس بلائی، جس کا اجلاس چراغ علی شاہ کے تکیے میں منعقد ہوا۔ کلکتہ کے سر عبد الرحیم صاحب نے اس جلسہ کی صدارت فرمائی

(مرجع سابق، ص: ۲۰۰)

مولانا بدایونی جمیعۃ تبلیغ اسلام کے صوبائی صدر تھے،تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں مولانا کی خدمات اس قدر نمایاں اور قابل ذکر ہیں کہ اس کا اعتراف نواب محمد اسماعیل خاں مرحوم صدر پراونشل خلافت کمیٹی نے اپنے خطبۂ صدارت میں کیا ہے ،۷/۸/اپریل ۱۹۲۱ء کو میرٹھ میں نواب محمد اسماعیل خاں مرحوم کی زیر صدارت آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقد ہوئی،اپنے خطبۂ صدارت میں نواب صاحب فرماتے ہیں:

"اس مقام پر یہ ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ تبلیغ کی تمام سعی اور وفود کو کامیاب بنانے کا کلی مرحلہ صرف حضرت صدر شعبۂ تبلیغ،قوم کے محترم رہنما مولانا عبد الماجد صاحب بدایونی کی مسلسل ومستقل کوششوں اور فقط ان کے فیض زبان اور زور بیان کا نتیجہ ہے،جن کے وجود کو قدرت نے ہمارے لئے اس وقت ایک نعمت بنا دیا ہے ”

(خطبۂ صدارت نواب محمد اسماعیل خاں:ص۶،شانتی پریس میرٹھ ۱۹۲۱ء)

مولانا عبد الماجد بدایونی کی قومی اور سیاسی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے معتمد خاص اور تمام تحریکات میں ان کے ہم سفر مولانا عبد الصمد مقتدری بدایونی (نائب ناظم جمعیۃ علماء ہند صوبہ متحدہ) تحریر فرماتے ہیں :

"دُنیا جانتی ہے کہ کلکتہ کے اسپیشل اجلاس کانگریس و خلافت میں تحریک ترک موالات کو کامیاب بنانے کے لئے آپ نے کیا کچھ نہ کیا اور جس وقت ترک موالات کا تصور کرتے ہوئے بھی دل و دماغ لرزتے تھے اس وقت آپ خلافت کانفرنس کے اسٹیج پر بحیثیت صدر ترک موالات کو مذہبی و قومی، ملی و ملکی فرض بتا کر قوم و ملک کو عمل پیرا ہونے کی دعوت دے رہے تھے اور یہ جذبۂ حریت صرف قول تک محدود نہ رہا بلکہ مردانہ وار آپ اس میدان میں اترے اور سرزمین ہند کا چپہ چپہ آپ نے چھان مارا۔ کانگریس سول نافرمانی کی تحقیقاتی کمیشن میں بھی مسیح الملک حکیم اجمل خاں صاحب مرحوم اور پنڈت موتی لال نہرو آنجہانی کے ہمراہ مسلسل شریکِ سفر رہ کر دنیا کو اپنا جذبۂ حریت مسلم کرا دیا

(مقدمہ "پارہائے جگر” ص: ۴-۵، مطبوعہ ادبی پریس لکھنؤ ۱۹۳۱ء)

مشہور کانگریسی لیڈر بابو رگھوویر سہائے لکھتے ہیں:

"مولانا عبد الماجد بدایونی نے خلافت کے سمبندھ (سلسلہ) میں اپنے جوشیلے بھاشڑوں (تقریروں) دوارا (کے ذریعہ) دیش ویاپی کھیاتی (ملک گیر شہرت) حاصل کر لی تھی اور گاندھی جی و علی برادران کے نکٹ سمپرک (قریبی رابطے) میں آ گئے تھے۔ انھیں کے آگرھ (درخواست) پر مہاتما گاندھی جی پہلی بار ۱/مارچ سن ۱۹۲۱ء میں مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، کستوربا گاندھی، سید محمد حسین سیکریٹری پرانتیہ (صوبائی) خلافت کمیٹی یوپی، مولانا سلامت اللہ فرنگی محلی، مولانا نثار احمد کانپوری کے ساتھ پدھارے (آئے)”-

(بدایوں ضلع کے سوتنترتا سنگرام کا اتہاس 1919-1947 (ہندی) ص ۲۴، مطبوعہ ضلع ناگرک پریشد بدایوں ۱۹۷۴ء)

مولانا عبد الماجد بدایونی جس تحریک میں شریک ہوئے قائدانہ حیثیت سے شریک ہوئے۔ بے شمار اجلاسوں اور کانفرنسوں کی صدارت کی۔ مولانا عبد الباری فرنگی محلی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر وغیرہ کی موجودگی میں کسی اجلاس کی صدارت صدر اجلاس کی عظمت و رفعت مقام کی دلیل ہے۔ ایک سرسری تلاش کے بعد مولانا عبد الماجد بدایونی کی صدارت میں منعقد ہونے والے جن اجلاس یا کانفرنسوں کا پتہ لگا ہے وہ حسب ذیل ہیں:

۱-خلافت کانفرنس ناگپور ۱۹۲۰ء

۲-خلافت کانفرنس بمبئی ۱۹۲۱ء

۳-خلافت کانفرنس کلکتہ

۴-بہار ڈویزنل خلافت کانفرنس پٹنہ ۱۳۳۹ھ

۵-خلافت کانفرنس ضلع بیلگام کرناٹک ۱۳۳۹ھ

۶-اجلاس جمعیۃ علماء صوبہ راجستھان ۱۳۴۲ھ

۷-اجلاس خلافت کمیٹی بسلسلۂ افتتاح شعبۂ تبلیغ، میرٹھ ۱۳۳۸ھ

مولانا بدایونی کی عملی اور تحریکی زندگی اور مذہبی و قومی جد و جہد کا اندازہ ان عہدوں اور مناصب سے بھی لگا یا جا سکتا ہے جن کو مولانا نے مختلف اوقات میں زینت بخشی- یہاں ہم ایک سر سری خاکہ ہدیہ قارئین کرتے ہیں جس سے مولانا کی وسیع تر خدمات اور قائدانہ حیثیت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

۱-مہتمم مدرسہ شمس العلوم بدایوں

۲-مدیر اعلیٰ ماہنامہ شمس العلوم بدایوں

۳- ناظم جمعیۃ علماء ہند صوبہ متحدہ

۴-رکن مرکزی مجلسِ خلافت

۵- صدر مجلس خلافت صوبہ متحدہ

۶- صدر خلافت تحقیقاتی کمیشن

۷- رکن وفد خلافت برائے حجاز

۸- رکن مجلس عاملہ مسلم کانفرنس

۹- رکن انجمن خدام کعبہ

۱۰-رکن انڈین نیشنل کانگریس

۱۱-صدر جمعیۃ تبلیغ الاسلام صوبہ آگرہ و اودھ

۱۲-بانی رکن مجلس تنظیم

۱۳-بانی رکن جمعیۃ علما ہند کانپور

۱۴-بانی و مہتمم مطبع قادری بدایوں

۱۵- بانی و سرپرست عثمانی پریس بدایوں

۱۶-بانی دار التصنیف بدایوں

ایک غلط بیانی:- حصول آزادی، استحکام خلافت اسلامیہ، قومی و ملی وقار کی بحالی اور پرچم اسلام کی سربلندی کے لئے مولانا عبد الماجد بدایونی کی مجاہدانہ سرگزشت آپ نے ملاحظہ فرمائی۔ یہاں انگریز مؤرخ پیٹر ہارڈی کی ایک غلط بیانی اور اس پر دیوبندی مکتب فکر سے وابستہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب (مانچسٹر) کی حاشیہ آرائی پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے

ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے اپنی کتاب "مطالعۂ بریلویت” میں پیٹر ہارڈی کی کتاب "دی مسلم آف برٹش انڈیا” کی مندرجہ ذیل عبارت نقل کی ہے:

For their activities the brothers, Abdul Hamid and Abdul Majid were well rewarded by the government. Medals denoting the title of Shams-ul-Ulama dangled from their turbans, while for his anti khilafat work Abdul Majid was one of the most rewarded men in the province. At a provincial durbar in 1922, he received from Harcourt Butler both a robe and a sword of honour.

(The Muslims of British India, P. 272)

ڈاکٹر خالد محمود نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے:

"مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا عبد الماجد بدایونی کو حکومت (برطانیہ) کی طرف سے خاصی امداد ملتی تھی۔ ان کی (نسواری رنگ کی) پگڑیوں میں شمس العلماء کے تمغے لٹکے ہوتے، مولانا عبد الماجد اپنی خلافِ خلافت سرگرمیوں کے باعث اپنے پورے صوبے میں سب سے زیادہ (انگریزوں کے) مراعات یافتہ تھے۔ ۱۹۲۲ء میں ہارکوٹ بٹلر نے آپ کو ایک کھلے دربار میں خلعت فاخرہ دی اور ایک تلوار کا اعزاز بخشا”

(مطالعۂ بریلویت، جلد ۳ ص: ۴۳۷، حافظی بکڈپو دیوبند)

ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے اس کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات پر مولانا عبد الماجد بدایونی اور ان کے جد اعلیٰ سیدنا شاہ فضل رسول بدایونی پر انگریزوں کے وظیفہ خوار اور امداد یافتہ ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ہمارے ناقص مطالعہ کی حد تک سیدنا شاہ فضل رسول بدایونی کے بارے میں یہ شوشہ سب سے پہلے پروفیسر ایوب قادری مرحوم نے چھوڑا تھا،سیدنا شاہ فضل رسول بدایونی سے نظریاتی اور مسلکی اختلاف رکھنے والے مؤرخین و مصنفین جان و دل سے اس شگوفہ پر ایمان لے آئے اور اس کی تشہیر و اشاعت کو اپنا مسلکی فریضہ سمجھ لیا۔ ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے بھی اس افسانہ کو رنگ آمیزی کے ساتھ لکھا ہے- راقم الحروف نے اپنی زیر ترتیب کتاب "مولانا فضل رسول بدایونی پر بعض اہل قلم کے الزامات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ” میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور مستند تاریخی حوالوں اور اصول درایت کی رو سے اس شگوفہ کا تنقیدی جائزہ لیا ہے، وہیں مولانا عبد الماجد بدایونی کے بارے میں پیٹر ہارڈی کی اس غلط بیانی پر بھی تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔ ہم قارئین کو اس کتاب کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں ۔ یہاں اختصار کے ساتھ صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ جد و جہد آزادی کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ ۱۹۱۹ء سے قبل کے حالات دوسرے تھے، اس وقت انگریزی ملازمت، ارباب اقتدار سے تعلقات یا تعلیمی اداروں کے لئے حکومت برطانیہ سے امداد حاصل کرنا کوئی جرم نہیں تھا اور نہ ہی اس وقت ملک میں انگریزوں کے خلاف کوئی مخالف فضا یا تحریک تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس کی اس وقت کی مصالحانہ پالیسی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے- یہ وہ وقت تھا جب مولانا ابو الکلام آزاد جیسے قوم پرست لیڈر نے شاہ برطانیہ کی تاج پوشی کے موقع پر مدحیہ اشعار نظم کئے تھے۔ ۱۹۱۹ء میں تحریک خلافت شروع ہوئی، اس کے بعد ترک موالات کا دور شروع ہوا اور پورے ملک میں حکومت مخالف فضا قائم ہو گئی- آزادی کا جذبہ پیدا ہوا اور کھلم کھلا انگریزی حکومت سے نفرت و بیزاری کا اظہار کیا جانے لگا۔

مولانا عبد الماجد بدایونی کے بارے میں صرف اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ انہیں ۱۹۱۷ء میں ضلع کلکٹر مسٹر انگرام کی کوششوں سے صوبائی گورنر لارڈ مسٹن کی جانب سے مدرسہ شمس العلوم کی تعمیر کے لئے ایک قطعہ آراضی ۹۹ سال کے پٹہ پر الاٹ کیا گیا تھا۔ اس کو انہیں حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا۔

تحریک آزادی کا آغاز ہوتے ہی مولانا عبد الماجد بدایونی جہاد آزادی اور ترک موالات کے ایک قائد کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے جس کا تفصیلی ذکر گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے۔ اس کا خمیازہ مولانا بدایونی اور ان کے ادارے شمس العلوم کو یہ بھگتنا پڑا کہ ان کے مجوزہ "دار الحدیث عثمانیہ” کا منصوبہ صرف کاغذ کی زینت بنا رہ گیا اور ان کا ادارہ بھی حکومت کی ہر قسم کی ہمدردی و تعاون سے محروم ہو گیا۔ ریاست حیدرآباد یا ریاست رامپور سے ضرور مدرسہ کو ماہانہ گرانٹ ملتی رہی مگر ان ریاستوں کی گرانٹ کو "انگریزی امداد” قرار دینا ان ریاستوں کے نظم و نسق اور ان کے نظام حکومت سے ناواقفی کا نتیجہ ہے- اگر کسی کو اس بات پر اصرار ہو کہ چونکہ ریاست حیدرآباد اور ریاست رامپور و بھوپال وغیرہ حکومت برطانیہ کی منظور نظر تھیں لہٰذا ان کی گرانٹ حکومت برطانیہ کی گرانٹ مانی جائیگی اور جس کو بھی ان ریاستوں سے گرانٹ ملتی ہو وہ ملک و قوم کا مخالف اور انگریزوں کا ایجنٹ تھا تو پھر برصغیر کی کوئی معروف شخصیت اور کوئی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں بچے گا جس کو حکومت برطانیہ کا ایجنٹ تسلیم نہ کرنا پڑے

مولانا عبد الماجد بدایونی یا ان کے چھوٹے بھائی مولانا عبد الحامد بدایونی کو شمس العلماء کا خطاب یا تمغۂ خدمت عطا ہونے کی بات بھی بالکل پادر ہوا اور تاریخی حقائق کے برخلاف ہے۔ یہی دونوں برادران نہیں بلکہ خانوادۂ عثمانیہ بدایوں کے کسی فرد کے بارے میں یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ اس کو برطانوی عہد حکومت میں کسی قسم کا کوئی خطاب یا تمغۂ خدمت دیا گیا ہو اس کے برخلاف مجاہد جنگ آزادی ۱۸۵۷ء مولانا فیض احمد بدایونی سے لے کر حضرت عاشق الرسول مولانا عبد القدیر بدایونی تک اس خاندان اور اس کے وابستگان میں سے کم از کم ایک درجن علماء کے نام پیش کئے جا سکتے ہیں جنھوں نے تحریراً ، تقریراً اور عملاً انگریزوں کے خلاف جد و جہد آزادی میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ پیٹر ہارڈی کی اس کتاب کے علاوہ کسی بھی معاصر یا متاخر ماخذ سے مولانا عبد الماجد بدایونی کو "شمس العلماء” کا خطاب ملنے کا ثبوت نہیں دیا جا سکتا۔ خلافت کمیٹی کے شعبۂ تبلیغ کے افتتاح کے وقت مولانا نے بحیثیت صدر جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرماتے ہیں :

"خطاب یافتہ علماء و مشائخ سے پہلے با ادب و الحاح عرض ہے کہ وہ خصوصیت کے ساتھ جلد سے جلد اپنے دامن تقدس کو خطاب کے داغ دھبہ سے پاک کریں”- (فصل الخطاب، ص: ۱۳)

آگے فرماتے ہیں:”تمام شمس العلماء اللہ کی اُس آواز کو سنیں کہ جس نے اسلام کے مقابلہ میں کفر کا ساتھ دیا، اسلامی حقوق کو کافروں کے خوف سے پامال کیا، اس نے خود کو وعید قہر و عذاب میں داخل کیا، خدا کے لئے وہ حضرات جو عالم کہلاتے ہیں اور خطاب یافتہ بھی ہیں، بے کس ملت پر کرم کریں، امت مرحومہ کو طعن و تضحیک سے بچا لیں”

(فصل الخطاب، ص: ۱۴)

یہ بات بعید از قیاس ہے کہ مولانا سارے زمانے کے علماء و مشائخ کو خطابات و اعزازات واپس کرنے کی تبلیغ کریں اور خود اپنی پگڑی میں اعزازی تمغہ لگا کر شمس العلماء کے خطاب کو اپنے گلے کا ہار بنا لیں

مولانا عبد الماجد بدایونی کو تحریک خلافت کا مخالف قرار دینا پیٹر ہارڈی یا ڈاکٹر خالد محمود جیسے "محققین” ہی کا حصہ ہے۔ جس بندۂ خدا کی زندگی کے پانچ قیمتی سال خلافت اسلامیہ کے استحکام اور ملک کے طول و عرض میں اس کی تبلیغ و تشہیر میں صرف ہوئے ہوں اس کو خلافت مخالف سرگرمیوں میں ملوث قرار دینا اتنا ہی بے بنیاد ہے جتنا ڈاکٹر خالد محمود صاحب کے مقتدیٰ و پیشوا مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کو تحریک خلافت و ترک موالات کا حامی و ناصر قرار دینا۔ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ مولانا عبد الماجد بدایونی تحریک خلافت کے آغاز ہی سے اس میں شامل ہو گئے تھے،انہوں نے کم از کم پانچ مرتبہ خلافت کانفرنس کی صدارت کی، صوبائی مجلس خلافت کے صدر رہے، خلافت تحقیقاتی کمیشن کی صدارت کی، وفد خلافت برائے حجاز کے رکن رہے اور آگے مولانا کی تصانیف کے ذیل میں ہم ذکر کریں گے کہ انھوں نے خاص خلافت کے موضوع پر ۵ کتابیں تصنیف فرمائیں- ان تمام زندہ تاریخی حقائق کی نفی کر کے پیٹر ہارڈی جیسے دوسرے درجے کے مؤرخین کی بات پر آنکھیں بند کر کے ایمان لانا ڈاکٹر خالد محمود صاحب ہی کا حوصلہ ہو سکتا ہے

۱۹۲۲ء میں ہارکوٹ بٹلر کے ذریعہ صوبائی دربار میں مولانا کو خلعت فاخرہ اور تلوار کا اعزاز بخشا جانا بھی بالکل بے بنیاد اور مولانا بدایونی جیسے ترک موالات کے سرگرم حامی کے اوپر اتہام ہے- ۱۹۲۰ء میں تحریک ترک موالات کا آغاز ہوا،مولانا عبد الماجد بدایونی روزِ اول سے اس تحریک کے حامی و مبلغ تھے، مولانا اور ان کے ہم خیال علماء نصاریٰ سے ترک موالات کو مذہبی فریضہ سمجھتے تھے- اس سلسلے میں مولانا کے مستقل مضامین اور ان کی کتابوں سے بے شمار اقتباسات پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں انھوں نے انگریزوں سے موالات کو حرام قرار دیا ہے- ۱۹۲۰ء میں” فصل الخطاب” کے نام سے ان کی تقریر شائع ہوئی جس میں ترک موالات اور خطابات و اعزازات کی واپسی پر خالص مذہبی نقطۂ نظر سے بحث کی گئی ہے- مولانا عبد الماجد بدایونی جیسے ذمہ دار عالم سے قول و عمل کے اس تضاد کی توقع کرنا انصاف و دیانت کا خون ہے کہ ۱۹۲۰ء میں وہ فصل الخطاب لکھ کر سارے ہندوستان کو ترک موالات کی دعوت دیں اور ۱۹۲۲ء میں ہارکوٹ بٹلر کے دربار میں حاضر ہو کر خلعت فاخرہ کے ساتھ تلوار کا اعزاز حاصل کریں-

خطابت: – حضرت مولانا عبد الماجد بدایونی ان تمام گوناگوں خوبیوں کے ساتھ ایک ساتھ ایک شعلہ بیان خطیب بھی تھے۔ محفل میلاد ہو یا مجلس محرم، عرس کی محفل ہو یا بزم مناظرہ، سیاسی جلسہ ہو یا قومی کانفرنس ہر جگہ مولانا کی خطابت کی گونج سنائی دیتی تھی۔ شعلہ بیانی اور ولولہ انگیزی آپ پر ختم تھی -مولانا کا یہ ایسا وصف تھا کہ اس کا اعتراف ان کے تمام معاصرین نے بیک زبان کیا ہے، سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

"مرحوم کی قوت خطابت غیر معمولی تھی، ان کی تقریر جذباتِ اسلامی کی ترجمان ہوتی تھی”- (معارف اعظم گڑھ، جنوری ۱۹۳۲ء)

مولانا عبد الماجد دریابادی نے بھی مولانا کی اس خوبی کا اعتراف کیا ہے:

"تقریر اور موثر تقریر ہر موضوع پر کہہ سکتے تھے اور سیاسی اور عام مذہبی عنوانات پر بھی دلوں کو دہلا دیتے اور مجلس کو لٹا دیتے تھے، حبیب رب العالمین (ﷺ) کا ذکر پاک کرنے اٹھتے تو آپ میں نہ رہتے، بلبل کی طرح بولتے اور چہکتے اور شاخ گل کی طرح جھومتے اور لچکتے، خطابت لپٹ لپٹ کر بلائیں لیتی اور خوش بیانیاں مست ہو کر منھ چومتی، ایک ایک فقرہ معلوم ہوتا تھا کہ عشق و محبت کے سانچے میں ڈھلا ہوا اور ایک ایک جملہ نظر آتا تھا کہ سنوار گزار کے عطر میں بسا ہوا نکلتا ہے”

(سچ ۲۵/دسمبر ۱۹۳۱ء)

سید حسن ریاض ایڈیٹر "ہمت” (بلند شہر) مولانا کی خطابت کے سلسلہ میں اپنے عینی مشاہدات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

"میں نے مولانا کی تقریر اتنی مرتبہ سنی ہے کہ مجھے صحیح شمار نہیں، مولانا تقریر کرتے تھے؟ جادو کرتے تھے، ابتداءً آہستہ آہستہ رک رک کر چند شکستہ جملے اس زبان سے ادا ہوتے ،گویا کسی نے سوتے سے اٹھا دیا ہے ابھی خیالات مجتمع بھی نہیں، یہ بھی معلوم نہیں کہ کہنا کیا ہے، نئے آدمیوں کو ذرا مایوسی ہوتی تھی اکثر لوگ بے صبری سے یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ "ذرا زور سے” مگر جو جانتے تھے اس سکون کو ایک طوفان کا پیش خیمہ سمجھتے تھے۔میں نے بڑے جلسوں میں بھی مولانا مرحوم کی تقریریں سنی تھیں مگر کسی کو یہ شکایت کرتے نہیں سنا کہ ہمیں آواز نہیں آئی۔آہ میری آنکھوں نے وہ منظر کتنی بار دیکھا ہے-ابتدائی شکستہ اور بے ربط جملے ختم ہوئے، کسی نے سنے کسی نے نہ سنے، اب مولانا کو ہوش آگیا ذرا وقار کے ساتھ کھڑے ہو کر لوگوں کو عنوان تقریر سے آگاہ کیا، مگر ابھی الفاظ پر ارادہ کا قابو ہے، متعلقہ واقعات بیان ہو رہے ہیں، استدلال کیا جا رہا ہے، آواز بلند ہو چکی ہے ،سب خاموش ہیں اور ہمہ تن گوش کہ یکایک اس بحر خطابت میں جوش آیا، شانوں سے عبا ڈھلکنے لگی، اب ایک جگہ قرار نہیں، سارا اسٹیج پامال ہے، عمامہ کے پیچ کھل کھل کر شانوں پر آ پڑے ہیں وہ دعویٰ پیش ہو رہا ہے جس کو حق سمجھ کر آج منبر پر آئے ہیں، پندرہ پندرہ، بیس بیس منٹ مسلسل ایک روانی اور جوش اور قوت کے ساتھ اس سرچشمۂ بلاغت سے اس طرح ادب ابلتا تھا کہ مجھے اس مرصع، مزین اور پر تکلف آمد پر ہمیشہ حیرت ہوتی”۔

(مولانا عبد الماجد مرحوم کی خطابت : مشمولہ "تواریخ وصل و انتقال” ص: ۳۳-۳۴، مطبوعہ ادبی پریس لکھنؤ ۱۳۵۰ء، ۱۹۳۱ء)

کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں:

"اس جوش و خروش کے بعد پھر مولانا کی تقریر میں سکون پیدا ہوتا اور عموماً ذرا آگے جھک کر یا کسی چیز پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ اطمینان سے جلسہ کو معاملات سمجھاتے۔ مضبوط دلائل پیش کرتے اور اپنے استدلال کی قوت پر اعتماد کر کے پھر لوگوں سے سوال کرتے، میں نے دیکھا ہے کہ ان کے وہ سوالات جو اس لیے ہرگز نہ ہوتے تھے کہ کوئی جواب دے، دلائل سے زیادہ لوگوں کو مطمئن کر دیتے تھے”

(مرجع سابق، ص: ۳۵)

معروف محقق و نقاد آل احمد سرور مولانا کی خطابت کے بارے میں اپنا مشاہدہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

"مولانا عبد الماجد بدایونی صرف مقرر ہی نہیں خطیب بھی تھے،تقریر شروع کرتے تو اتنی آہستہ کہ چند جملے سمجھ میں نہ آتے،پھر رفتہ رفتہ آواز بلند ہوتی جاتی اور آواز کی بلندی کے ساتھ وہ ادھر اُدھر مڑ جاتے یہاں تک کہ وہ گھوم گھوم کر لفظوں کا ایک آبشار گراتے جاتے اور لوگ جا بجا اللہ اکبر کے نعروں سے ان کا ساتھ دیتے رہتے”

(خواب باقی ہیں، ص۲۶،۲۷، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،طبع دوم۲۰۰۰ء)

ضیاء علی خاں اشرفی مولانا کے انداز خطابت کے بارے میں لکھتے ہیں :

"تقریر بے نظیر کرتے تھے، دوران تقریر عمامہ کے بل کھل جاتے تھے اور عباء کے دامن ہوا میں لہرانے لگتے تھے، سامعین پر عجیب و غریب کیفیات طاری ہو جاتی تھیں،کبھی جلسہ کشت زعفران بن جاتا اور کبھی مجلس عزاء، کبھی قہقہے بلند ہوتے اور کبھی آہ و بکا کا شور اُٹھتا تھا”

(مردانِ خدا ، ص: ۳۵۸، شوقین بکڈپو بدایوں ۱۹۹۸ء)

ماہر القادری مدیر "فاران”مولانا عبد الماجد صاحب کی خطابت کے بارے میں رقم طراز ہیں:

"مولانا عبد الماجد بدایونی مرحوم تقریر و خطابت میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا آزاد سبحانی کی صف میں شمار ہوتے تھے ان کے وعظ و تقریر کی سارے زمانے میں دھوم تھی”

(یاد رفتگاں، ج: ۲، ص: ۲۲۔ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ۲۰۰۰ء)

فی الحال مولانا کے جو خطبات دستیاب ہو سکے وہ درج ذیل ہیں:

۱-خطبۂ صدارت: بہار ڈویژنل خلافت کانفرنس پٹنہ ۱۳۳۹ھ، مشمولہ "المکتوب”۔

۲-خطبۂ صدارت :خلافت کانفرنس ضلع بیلگام کرناٹک ۱۳۳۹ھ، مشمولہ "المکتوب”

۳-خطبۂ صدارت : اجلاس جمعیۃ علماء منعقدہ اجمیر ۱۳۴۲ھ، مطبوعہ تبلیغ پریس آگرہ : صفحات ۲۴

۴-تقریر : اجلاس آل انڈیا کانگریس، منعقدہ احمد آباد ۱۹۲۱ء، مشمولہ "اوراق گم گشتہ”، مرتبہ : رئیس احمد جعفری، محمد علی اکیڈمی لاہور

۵-تقریر: بسلسلۂ تبلیغ خلافت و ترک موالات : بمقام کاسگنج ضلع ایٹہ،مطبوعہ بعنوان "ازالۂ شکوک” مرتبہ : محمد عبد الحئی ایڈیٹر اخیار تبلیغ ، تبلیغ پریس آگرہ

۶- خطبۂ صدارت : بموقع افتتاح شعبۂ تبلیغ و بعث وفود، بمقام میرٹھ ۱۳۳۸ھ، مطبوعہ بعنوان "فصل الخطاب” شانتی پریس میرٹھ ۱۹۲۰ء

قلمی خدمات:-مولانا عبد الماجد بدایونی اپنی ان گوناگوں سیاسی، قومی اور تحریکی مصروفیات کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف سے بھی شغف رکھتے تھے۔ مولانا نے مذہبیات ، درسیات اور سیاسیات ہر موضوع پر قلم اُٹھایا اور تصنیفات کا ایک قابل قدر ذخیرہ چھوڑا۔ مولانا کا اسلوب شگفتہ اور مزاج محققانہ ہے، قلم رواں دواں اور شستہ ہے، تحریر پر خطابت کا رنگ غالب ہے۔ مولانا کی زیر ادارت ماہنامہ شمس العلوم نکلتا تھاجس میں بحیثیت مدیر آپ ہر ماہ کچھ نہ کچھ تحریر کیا کرتے تھے، اس کے علاوہ ۲۰ سے زائد کتب و رسائل مولانا کی علمی و قلمی یادگار کے طور پر آج ہمارے سامنے موجود ہیں۔یہاں ہم صرف کتابوں کے نام پر اکتفا کرتے ہیں۔

(۱) خلاصۃ المنطق( ۲) خلاصۃ العقائد( ۳) خلاصۃ الفلسفہ(۴) فلاح دارین(۵) دربارِ علم( ۶) فتویٰ جواز عرس( ۷) القول السدید (۸) عورت اور قرآن( ۹)خلافت نبویہ( ۱۰)الاظہار( ۱۱)فصل الخطاب( ۱۲)قسطنطنیہ(۱۳)المکتوب(۱۴)درس خلافت( ۱۵)تنظیمی مقالات(۱۶)جذبات الصداقت(۱۷)الاستشہاد (۱۸)کشف حقیقت مالابار(۱۹)الخطبۃ الدعائیہ للخلافۃ الاسلامیہ(۲۰)اعلان حق(۲۱)سمرنا کی خونی داستان(۲۲)خلافت الٰہیہ

(ان کتابوں کے تفصیلی تعارف کے لئے دیکھئے:تذکرۂ ماجد:ترتیب :اسیدالحق قادری،مکتبہ جام نور دہلی)

ایک شبہ کا ازالہ:-مولانا عبد الماجد بدایونی کے بارے میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ انھوں نے ایک تقریر میں گاندھی جی کو "مبعوث من اللّٰہ” کہا تھا یا یہ کہا تھا کہ "اللہ نے انہیں مذکِّر بنا کر بھیجا ہے”- اس زمانے میں اس بات کا کافی چرچہ رہا اور آج بھی یہ جملہ مولانا بدایونی کی طرف منسوب کر کے وقتاً فوقتاً لکھ دیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں جب اس کی شہرت ہوئی تو حلقہ ٴ علماء میں ایک بے چینی پھیل گئی۔ بات دارالافتاء تک پہنچی اور مولانا عبد الماجد بدایونی کے خلاف فتوے صادر کیے گئے- لہٰذا ضروری ہے کہ یہاں اس سلسلہ میں وضاحت کر دی جائے تاکہ مولانا بدایونی کے بارے میں کوئی غلط فہمی راہ نہ پا سکے۔

جس زمانے میں یہ افواہ پھیلی تھی اس وقت مولانا عبد الماجد بدایونی نے تقریر و تحریر کے ذریعہ اس کی وضاحت کر دی تھی۔ تقریر میں کہے گئے اپنے اصل جملوں اور ان سے اپنی مراد کو واضح کر دیا تھا جس سے اہل علم و فتویٰ مطمئن ہو گئے تھے

تحریک ترک موالات کے زمانے میں علماء کے درمیان اس کے جواز و عدم جواز کی بحث چھڑ گئی تھی۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا سید سلیمان اشرف صاحب بہاری صدر شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے ایک رسالہ "النور” کے نام سے تحریر فرمایا جس میں آپ نے تحریک ترک موالات کو شرعاً ناجائز قرار دیا، اس کے جواب میں حضرت مولانا حبیب الرحمن قادری مقتدری بدایونی نے ایک رسالہ ” البیان” تصنیف فرمایا جو ۱۳۴۰ھ میں وکٹوریہ پریس بدایوں سے شائع ہوا۔ "البیان” کے زمانۂ تصنیف میں مولانا عبد الماجد بدایونی بمبئی میں مقیم تھے۔ مولانا حبیب الرحمن قادری بدایونی نے مولانا عبد الماجد بدایونی کو ایک خط ارسال کیا اور ان سے متنازع جملے کی وضاحت چاہی، مولانا عبد الماجد بدایونی نے ان کے خط کا جواب دیا۔ "مبعوث من اللّٰہ” کہنے سے اپنی برأت و بیزاری کا اظہار کیا اور اپنی تقریر کے اس حصہ کی وضاحت کی جس سے یہ غلط فہمی پھیل گئی تھی۔ مولانا حبیب الرحمن قادری بدایونی صاحب نے اپنا خط اور مولانا عبد الماجد بدایونی کا جواب من و عن اپنے رسالہ "البیان” کے آخر میں "اعلان ضروری” کی سرخی کے ساتھ شائع کر دئیے

"اعلان ضروری” کے نوٹ میں مولانا حبیب الرحمن صاحب قادری تحریر فرماتے ہیں:

"یہ کتاب مرتب کرنے کے بعد فقیر نے ایک عریضہ حضرت جناب مولانا مولوی عبد الماجد صاحب قادری بدایونی مدظلہم العالی کی خدمت میں حاضر کیا اور اس کی نسبت مشورہ چاہا نیز ایک خاص امر دینی میں استفہام کیا جو ان کی ذات گرامی سے متعلق تھا، حضرت مولانا نے فوراً اس کا جواب مرحمت فرما کر اپنی شان علم و اظہار حق اور کمال شفقت و حسن خلق کا ثبوت دیا۔ فقیر کا عریضہ اور حضرت مولانا کا والا نامہ درج ذیل ہے”- (البیان، ص: ۶۹)

اپنے خط میں ابتدائی تمہید کے بعد مولانا حبیب الرحمن قادری مقتدری تحریر فرماتے ہیں:

"ایک ضرورت کو بذریعۂ تحریر مکمل کر دیجئے وہ یہ ہے کہ آپ نے جمعیۃ علماء ہند دہلی کے اجلاس میں گاندھی کے متعلق مذکّر اور مبعوث من اللہ کہا تھا یا نہیں؟ فحوائے کلام اور اصل الفاظ کیا تھے، جلد تحریر فرما کر بھیج دیجئے”

مولانا عبد الماجد بدایونی اس خط کے جواب میں ابتدائی تمہید کے بعد فرماتے ہیں:

"گاندھی کو میں نے "مذکِّر” کہا تھا اور الفاظ و بیان کی صورت یہ تھی – جمعیۃ علماء ہند دہلی کے اجلاس میں مَیں تقریر کر رہا تھا کہ ایک صاحب نے مجھے ایک پرچہ دیا جس پر لکھا ہوا تھا کہ "آپ لوگ ترک موالات کیوں مانتے ہیں، یہ تو گاندھی کی تحریک ہے”- میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے پہلے تو یہ بتایا کہ ہرگز ترک موالات گاندھی کی تحریک نہیں، نہ گاندھی کی تحریک سمجھ کر اس کو ہم مانتے ہیں۔ اس کے بعد اہل خلافت کی طرف میں نے توجہ کر کے کہا کہ "ان کو غصہ آتا ہے غیرت نہیں آتی کہ ان کے احکام مذہب ان کو ایک غیر مسلم بتاتا ہے۔ اگر گاندھی نے ہمارے احکام مذہب ہم کو یاد دلائے اور وہ ان کا مذکر ہو گیا تو کیا قباحت آ گئی۔ کیا کوئی ہندو نماز کے وقت کہے کہ وقت جا رہا ہے آپ لوگ نماز پڑھیں اور واقعہ ایسا ہی ہو تو کیا حکم نماز اس ہندو کا سمجھا جائے گا”۔ میں نے تصریح سے کہہ دیا تھا کہ "ہمارے مذہب کے ایک فرعیہ کے خلاف بھی اگر گاندھی یا تمام ہندو گاندھی صفت ہو کر ہم سے عمل چاہیں تو ہم سب کو ٹھکرا دیں گے”۔ اس تقریر کے وقت عمائد علماء اہل سنت میں مولانا عبد القدیر صاحب، مولانا عبد الباری صاحب، مولانا ریاست علی خاں صاحب وغیرہ بھی موجود تھے اور خود گاندھی بھی۔اس تقریر پر پہلے……سے اعتراض ہوا ……کبھی تو لفظ”مذکر بنا کر خدا نے بھیجا ہے”بڑھایا گیا اور کبھی لفظ "مبعوث من اللہ”بین الخطین لکھا……اس تقریر کے بعد مجھ سے اور مولوی سلیمان اشرف صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، اور شاید ایک بار جب کہ میں آزاد قومی درسگاہ کے قیام کے لئے علی گڑھ مقیم تھا اس کا تذکرہ موصوف سے ان کے ہی کمرہ میں آیا تھا اور میں نے ان کو تصریح سے اپنی تقریر اور … اعتراض سے آگاہ کر دیا تھا”-(البیان، ص: ۷۱،۷۲)

کاسگنج ضلع ایٹہ میں مولانا عبد الماجد بدایونی نے خلافت و ترک موالات کے سلسلے میں ایک خطاب فرمایا جس میں آپ نے بعض اعتراضات اور الزامات کے جواب دئیے۔ اس تقریر کو جناب محمد عبد الحئی صاحب ایڈیٹر اخبار تبلیغ آگرہ نے تبلیغ پریس آگرہ سے "ازالۂ شکوک” کے عنوان سے شائع کیا۔ اس تقریر میں بھی مولانا بدایونی نے "مبعوث من اللہ” والے اعتراض کی وضاحت کی ہے-ابتدا میں فرماتے ہیں:

"اخبارات میں تقریروں کی نقل اور اقوال کا اقتباس و تذکرہ اور خبروں کا اندراج غیر معمولی طور پر غیر یقینی ثابت ہو رہا ہے،جس کے ہزاروں شواہد و تجریبات موجود ہیں،خود اپنے متعلق آخر میں کچھ عرض کروں گا ”

پھر آگے چل کر لکھتے ہیں:

"میں نے گاندھی جی کو جلسۂ جمعیۃ علماء ہند منعقدہ دہلی ۱۳۳۹ھ جس میں تمام ہند کے علما موجود تھے تحریک ترک موالات کا مذکر (یاد دلانے والا) کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ جس طرح ایک غیر مسلم اذان و وقت نماز یاد دلائے اور ہماری باتوں یا کاروبار کے سلسلہ سے یہ کہہ کر متوجہ کر دے کہ "جاؤ اذان ہو رہی ہے نماز کا وقت ہو گیا”، بلاشبہ اسی طرح گاندھی صاحب نے تحریک ترک موالات یاد دلانے میں مدد کی اور اپنی شرکت کا اس مدد میں کافی حصہ لیا- پس مبصر لوگ میرے طرز خطابت سے واقف ہیں کہ ایسی واضح مثال دے کرسمجھا کر میرا گاندھی جی کو مذکر کہہ دینا خطابت کا ایک جملہ تھا، مگر آہ معترضین نے اس لفظ کے خود ساختہ معنی لکھ لکھ کر حاشیِے چڑھا چڑھا کر کہاں تک اپنے زبان و قلم کو آلودۂ گناہ کیا اور ایک غیر مسلم کو کیا کیا کچھ نہ لکھ دیا، نعوذ باللّٰہ منہ ./……… صاحب نے لکھا "خدا نے ان کو (گاندھی کو) مذکر بنا کر بھیجا ہے” دوسرے .……… نے تحریر کیا "مبعوث من اللّٰہ”- استغفر اللّٰہ و لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ”

(ازالۂ شکوک، ص: ۵،۶ تبلیغ پریس آگرہ)

مولانا عبد الماجد بدایونی کی صفائی اور برأت کے لئے خود ان کی یہ وضاحتیں بہت کافی ہیں،ان کو قبول نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے

وفات:-مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے ایک جلسہ کے سلسلہ میں لکھنؤ تشریف لے گئے تھے، آپ کے ساتھ آپ کے چھوٹے صاحبزادے حضرت مولانا عبد الواحد قادری عثمانی بھی تھے، لکھنؤ میں ایک مرید جناب شیخ محمد نذیر احمد صاحب کے مکان پر قیام تھا وہیں آپ نے شب دو شنبہ ۳/شعبان ۱۳۵۰ھ / ۱۳-۱۴/دسمبر ۱۹۳۱ء کی درمیانی رات میں داعیِ اجل کو لبیک کہا

جنازہ لکھنؤ سے بدایوں لا یا گیا، حضور عاشق الرسول مولانا شاہ عبد القدیر قادری قدس سرہ نے نماز جنازہ پڑھائی، ۱۵/دسمبر ۱۹۳۱ء کو درگاہ قادری کے جنوبی دالان میں اپنے پیر و مرشد کے پائنتی دفن کیے گئے۔

٭٭٭

ماخذ:تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

http://www.slideshare.net/themrtariq/freemom-fighter

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید