FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

مثنوی کربِ جاں

 

 

 

 

                غضنفر

 

 

 

 

تمنّا میں جینے کی کس نے یہاں

رقم کر دیا خون ’’ سے کربِ جاں‘‘

 

 

 

انتساب

 

مولوی میر حسنؔ

پنڈت دیا شنکر نسیم

اور

استادِ محترم پروفیسر خلیل الرحمن اعظمی کے نام

جنھوں نے پھول بن کو بھی سحرالبیان بنا دیا

 

 

 

 

حمدِ خدا

 

کرے کوئی کیا اس کی حمد و ثنا

نہیں جس کے اوصاف کی انتہا

بناتا ہے اک لفظ سے جو جہاں

فقط ایک ’کن‘ سے زمیں آسماں

نہیں جس کی قدرت سے باہر کوئی

نہیں اس کی طاقت سے باہر کوئی

زمیں کو فلک پر اٹھاتا ہے جو

فلک کو زمیں پر گراتا ہے جو

ہر اک شام کو صبح کرتا ہے جو

اُجالا سیاہی میں بھرتا ہے جو

دکھاتا ہے جو ریت میں آبِ زر

بناتا ہے صحرا کو سونے کا گھر

بناتا ہے زہراب کو جو زلال

سیہ زرد گالوں میں بھرتا گلال

گلِ تر سے کاٹے ہے ہیرے کو جو

بدلتا ہے ترشی میں شیرے کو جو

سموتا ہے جو بیج میں اک شجر

تنا، شاخ، جڑ، پھول، برگ و ثمر

ذراسے مکوڑے میں اعضا تمام

سمٹ جائے نقطے میں جیسے کلام

نہیں پاؤں سے سر تلک کچھ کمی

نہیں تن کے بھیتر بھی کوئی کجی

عجب فن و حرفت، عجب اہتمام

ہنر مندیوں کا عجب التزام

دکھاتا ہے ایسی بھی کاری گری

کہ حیرت زدہ ساری دانشوری

وہ جس سے پلے زندگی آگ میں

کبھی نہ جلے زندگی آگ میں

وہ جس سے کے جل کر کوئی زندگی

نئی شکل میں پھر سے پیدا ہوئی

بجھی راکھ سے آگ روشن ہوئی

کسی خاکِ بے جان میں جاں پڑی

وہ جس سے خلاؤں میں سورج چلے

چلے تو زمانے میں دیپک جلے

وہ جس سے کہ مہہ میں بھی گرہن لگے

وہ جس سے کہ سورج کا دل بھی بجھے

وہ جس سے کہ چاندی بھی دھندلی پڑے

وہ جس سے کہ پیتل بھی سونا لگے

وہ جس سے کہ پتھّر سے پانی بہے

شجر خشک بھیتر بھی سبزہ رہے

وہ جس سے کہ لگ جائے پتھّر پہ جونک

وہی آگ میں دے سمندر کو جھونک

وہ جس سے کہ بن باپ کا بھی پسر

وہ جس سے بنے باکرہ بھی مدر

وہ جس سے کہ اُمّی نے روشن کیا

زمانے میں علم و عمل کا دیا

وہ جس سے کنھیا بچا جال سے

کسی کنس کی تگڑمی چال سے

وہ جس سے کہ راون سے سیتا بچی

وہ جس سے کہ پاپوں کی نگری جلی

وہ جس سے کہ طوفاں میں کشتی چلی

وہ جس سے کہ دنیا بچی نوح کی

وہ جس سے کہ مچھلی نے انسان کو

رکھا اس طرح جیسے مہمان کو

رکھا پیٹ میں زندگی کی طرح

اندھیرے میں بھی روشنی کی طرح

وہ جس سے کہ دشمن کے ہاتھوں پلے

کوئی موت کے گھر میں زندہ رہے

وہ جس سے کہ آتش بنے گلستاں

وہ جس سے کہ کٹ جائے کوہِ گراں

وہ جس سے کہ تلوؤں سے چشمہ رواں

وہ جس سے کہ پتھر بھی بن جائے ماں

وہ جس سے کہ بس ایک ہلکی اذاں

گئی ایک پل میں کہاں سے کہاں

صدا پہ سمٹ آئے عالم تمام

لگے آن میں حشر سا ازدہام

لٹانے کو قلب و جگر ہر بشر

کٹانے کو راہِ عقیدت میں سر

کہاں تک کرے گی زباں یہ، بیاں

کراماتِ باری، جو ہیں بے کراں

______

 

 

 

 مناجاتِ باری تعالیٰ

 

کیا جس نے پہلے قلم کا بیاں

لکھی لوح پر اوّلیں داستاں

رقم جس نے قصّہ زمیں کا کیا

زمان و مکاں کا لکھا تذکرہ

ہوا جس سے آدم کا قصّہ بیاں

زمیں پر سجا ایک رنگیں جہاں

مری بھی یہی اس سے ہے التجا

مجھے بھی قلم کی ہو دولت عطا

ملے مجھ کو بھی کوئی ایسی زباں

بیاں جس سے میرا بھی ہو کربِ جاں

عنایت جو اس کی مجھے مل گئی

تو خامے کی قسمت مری کھل گئی

پہنچ جائے گا آخری گام تک

مری اس کہانی کے انجام تک

نہیں چاہیے مال و دولت مجھے

نہیں چاہیے شان و شوکت مجھے

نہیں چاہیے جاہ و حشمت مجھے

نہیں چاہیے کوئی طاقت مجھے

نہیں آرزو کہ حکومت ملے

کسی بھی طرح کی وزارت ملے

یہ خواہش نہیں کہ زمانہ جھکے

مرے نام کا کوئی ڈنکا بجے

نہیں یہ تمنّا کہ عزّت ملے

نہ ارماں یہ میری کہ شہرت ملے

کسی بھی طرح کا کوئی آسماں

کوئی چاند، سورج، کوئی کہکشاں

کسی بھی طرح کا خزانہ کوئی

نہیں چاہیے رنگ خانہ کوئی

نہ گاڑی، نہ گھوڑا، نہ عیش و طرب

تعیش کی مجھ کو نہیں کچھ طلب

نہیں چاہیے کوئی عشرت کدہ

نہیں چاہیے، کیف، مستی، مزہ

خدائے دو عالم سے بس یہ دعا

قلم میرا مجھ سے نہ ہو وے جدا

ہمیشہ مرا ساتھ دیتا رہے

خبر ساری دنیا کی لیتا رہے

رکے نہ کبھی یہ کسی گام پر

نہ گھبرائے ہرگز کسی نام پر

روانی رہے اس کی گفتار میں

نہ آئے کمی اس کی رفتار میں

سلاست سدا اس کی بڑھتی رہے

کسی چڑھتی ندّی سی چڑھتی رہے

پرندوں سی پرواز اس کو ملے

کوئی بازوئے باز اس کو ملے

نہ آئے کبھی ضعف آواز میں

نہ رخنہ پڑے کوئی پرواز میں

نہ شیطان آئے کوئی راہ میں

نہ دشمن ڈرائے کوئی راہ میں

کوئی آنکھ اس کو دکھائے تو یہ

کوئی خونیں پنجہ بڑھائے تو یہ

اٹھے اس طرح کہ نظر پھوڑ دے

چلے اس طرح دست و پا توڑ دے

بلا خوف لکھّے ہر اک داستاں

بنا مصلحت ہو، حقیقت بیاں

نہ جنبش میں لرزش پڑے اے خدا

نہ رستے میں روڑا اڑے اے خدا

بلاغت کا اس کو ہنر بخش دے

فصاحت کے لعل و گہر بخش دے

نشاطی کا انداز بھی ہو عطا

مقیمی کی آواز بھی ہو عطا

ملے ’’معنوی‘‘ کا سا معنی اسے

کہانی میں مضمر کہانی اسے

سلیقہ ’’سنائی‘‘ کا بھی کچھ ملے

بیاں پھول بن کر یہاں بھی کھلے

اسے بھی عطا ہو ادائے نسیم

گھلے اس کی آواز میں بھی شمیم

سحر ساز ہو جائے اس کی زباں

کہیں لوگ اس کو بھی سحرالبیاں

_____

 

 

 

 

مدحِ رسول

 

سنو کوئی ایسا بھی بندہ ہوا

زمیں کے لیے جو فلک پر گیا

نشہ قربِ وحدت کا جس پر سوار

کہ جس کے سبب چھن گیا تھا قرار

وفورِ محبت میں پربت چڑھا

ببولوں کے کانٹوں سے زخمی ہوا

کبھی جو اندھیری گپھا میں گیا

کبھی دشت و صحرا میں پھرتا رہا

جسے ہر طرح سے ڈرایا گیا

جسے راستوں میں ستایا گیا

کبھی جس کو گھر سے بھگایا گیا

کبھی محفلوں سے اٹھایا گیا

کبھی رہ میں کانٹے بچھائے گئے

کبھی سرپہ پتھّر گرائے گئے

کبھی خوں کے آنسوں رلایا گیا

کبھی خوں جس کا بہایا گیا

کبھی جس نے اپنوں کا طعنہ سُنا

کبھی گالیوں کا نشانہ بنا

قدم جس کے منزل پہ جا کے رُکے

کسی بھی طرح راہ میں نہ تھمے

لہو میں نہا کر بھی بڑھتے رہے

مصیبت میں بھی کام کرتے رہے

مٹا کر جہالت کے جالے سبھی

ہٹا کر توہم کے تالے سبھی

دماغوں کو جس نے مصفّا کیا

نگاہوں کو جس نے منزّہ کیا

جلایا اندھیرے میں جس نے چراغ

دیا آنکھ کو روشنی کا سراغ

دیا جس نے دنیا کو ایسا سفر

نہیں دھوپ جس میں نہ کوئی خطر

محبت کو جس نے سکھایا جنوں

جنوں سے دیا جس نے دل کو سکوں

نہیں مہرباں وہ کوئی دوسرا

نہیں وہ کوئی مصطفیٰ کے سوا

وہی مصطفیٰ جو ہیں شاہِ امم

وہی مصطفیٰ جو مجسّم کرم

وہی مصطفیٰ جن کو امت کا غم

وہی جن کی آنکھیں ہوئیں غم سے نم

وہی مصطفیٰ جو رسولِ خدا

وہی جو جہانوں کے ہیں رہنما

وہی جن کے دم سے سبھی کی برات

سفارش سے جن کی ہماری نجات

_______

 

 

 

روداد قصہ گو کی زندگی کی

 

میں  نو تین ترپن میں پیدا ہوا

غضنفر مرا نام رکھا گیا

مرے گاؤں کا نام چَوراؤں تھا

یہ چوراؤں بھی اک عجب گاؤں تھا

عجب اس کے سر پہ تھا مذہب سوار

کہ بوڑھا تو بوڑھا، جواں دین دار

ہر اک گھر میں ملاّ یا حافظ کوئی

ہر اک در پہ دیں کا محافظ کوئی

مقولہ تھا لوگوں کے زیبِ زباں

کہ حافظ ہیں چوراؤں کی مرغیاں

روایت کے رستے پہ لایا گیا

مجھے مدرسے میں بٹھایا گیا

کلام الٰہی پڑھایا گیا

مجھے نیک بندہ بنایا گیا

عبادت پہ مجھ کو لگایا گیا

نوافل کا گُر بھی بتایا گیا

زمیں کی حقیقت بتائی گئی

زمانے کی صورت دکھائی گئی

جزا کے نظارے سجائے گئے

سزا کے مناظر دکھائے گئے

جہنم سے مجھ کو ڈرایا گیا

تصور میں جنت کو لایا گیا

نگاہوں سے پردے اٹھائے گئے

بہشتی مناظر دکھائے گئے

دکھائے گئے ایسے شاخ و شجر

کہ سائے میں صرصر بھی تھا بے اثر

سیاہی میں لپٹی ہری پتیاں

ہر اک برگ میں مخملی نرمیاں

مگر مدرسے سے میں اکتا گیا

کہ مجھ پر عجب اک سماں چھا گیا

عجب بے دلی دل میں پلنے لگی

گھٹن سے مری سانس جلنے لگی

جھپٹنے لگیں مجھ پہ بے کیفیاں

مجھے خشک کرنے لگیں سختیاں

عجب ایک عالم میں رہنے لگا

عجب طرح کا جبر سہنے لگا

وہاں سے مجھے پھر نکالا گیا

کسی اور مکتب میں ڈالا گیا

جہاں علمِ دنیا سے رشتہ جڑا

جہاں دل پہ دنیا کا جادو چلا

یہ جادو مرے سرپہ ایسا چڑھا

کہ نشّے میں آگے میں بڑھتا گیا

ہر اک راستہ ہاتھ آتا گیا

سفر کا ہر اک موڑ بھاتا گیا

یہ جادو جہاں بھی مجھے لے گیا

وہاں کا خزانہ مجھے دے گیا

یہ جادو مرا ساتھ دیتا گیا

مجھے اپنے ہمراہ لیتا گیا

کبھی گاؤں سے شہر میں لے گیا

نئی زندگانی کا نقشہ دیا

ملا کچھ نئے راستوں کا پتا

نئی منزلوں سے ہوا واسطہ

نیا رنگ آنکھوں میں روشن ہوا

نیا نور ذہن و نظر میں گھلا

ملی جو نئی مجھ کو آب و ہوا

مرا قد و قامت بھی بڑھتا گیا

پَلا گاؤں کا جسم، شہری ہوا

بدن پر نیا رنگ و روغن چڑھا

بلوغت نظر میں بھی آنے لگی

بصارت بصیرت دکھانے لگی

یہ جادو سدا مجھ پہ چلتا گیا

میں اس کے اشارے پہ بڑھتا گیا

کبھی لے کے یہ شہرِ دانش گیا

جہاں پیرِ روشن کا حجرہ ملا

بصیرت سے معمور جس کی فضا

ہر اک سمت ادراک چھٹکا ہوا

علی گڑھ کا وہ بھی زمانہ تھا کیا

مسرت میں ماحول لپٹا ہوا

عجب کیف و مستی، عجب ولولہ

عجب عیش و عشرت کا تھا سلسلہ

مہک علم و دانش کی تھی کو بکو

چہک طائرِ فن کی تھی چارسو

فضائے معطّر میں اک قافلہ

دلوں میں لیے ہمت و حوصلہ

چہکتا ہوا سوئے منزل رواں

بناتا ہوا اپنا نام و نشاں

جواں سال سارے ہی جس میں ادیب

سبھی خوش بیاں، خوبرو خوش نصیب

تعلق ہر اک کا تھا اشراف سے

مزیّن سبھی اعلیٰ اوصاف سے

کوئی فنِّ تقریر میں طاق تھا

کوئی شعر گوئی میں مشّاق تھا

کہانی کا ماہر کوئی نوجواں

مضامین میں تھا کوئی نکتہ داں

کسی کو تھا حاصل غزل میں کمال

کوئی نظم گوئی میں تھا بے مثال

زمانے میں بدلاؤ کے واسطے

سلیقے سے سارے ہی بیدار تھے

سبھی اپنے اپنے تئیں لیس تھے

عزائم میں فرہاد تھے، قیس تھے

کئی ان میں ایسے بھی تھے جینیس

ہر اک علم پر جن کی تھی دسترس

انھیں میں تھا وہ ایک لڑکا عجیب

سبھی میں تھا مقبول، سب کا حبیبؔ

کوئی اس کو جاویدؔ سے جانتا

کوئی صدرِ طلبہ سے پہچانتا

مقرر تھا وہ ایک جادو بیاں

جگاتا تھا سوئے دلوں کا جہاں

دکھاتا تھا ذرّات میں ماہتاب

بناتا تھا ذرّے کو بھی آفتاب

انھیں میں سے تھا ایک شارقؔ ادیب

سبھی سے جدا اور سب کے قریب

کلب تھے کئی جس کے دم سے جواں

کہ تھا محفلوں کا وہ روحِ  رواں

ادب کی مجالس سجاتا تھا وہ

ادیبوں کی جمگھٹ لگاتا تھا وہ

کہانی کے میداں کا تھا شہسوار

مگر شاعری پر بھی تھا اختیار

کوئی ان میں مرزا قمربیگ تھا

حقیقت میں وہ تو شرر بیگ تھا

طبیعت میں اس کی تھی شوخی بھری

زباں اس کی ایسی کہ جیسے چھری

تعارف سبھی پہ تھا اس کا عیاں

وہ آشفتہؔ چنگیزی ابن خزاں

کوئی ان میں اک فرحت احساس تھا

نہایت ذکی اور حسّاس تھا

بظاہر زمانے سے تھا بے نیاز

مگر تھے عیاں اس پہ سارے ہی راز

اکٹھّا تھے اس طرح اس میں علوم

کہ مہتاب کے پاس جیسے نجوم

تھا خورشید بھی ان میں اک دلپسند

سخنور، سخن پرور و ہوش مند

جہانِ کتب جس کا آواس تھا

ہنر کے سمندر کا غوّاص تھا

نظر میں تھی جس کی ادب کی اساس

نکاتِ سخن سے جو تھا روشناس

انھیں میں تھا ایسا بھی اک قاسمی

نفاست سے پُر جس کی تھی زندگی

ذہانت میں جس کا نہیں تھا جواب

لیاقت میں بھی تھا وہ اک آفتاب

ادب سے ادب پیش کرتا تھا جو

روایت کا بھی پاس رکھتا تھا جو

کوئی ان میں شامل تھا مہتاب بھی

چمکتا تھا اس کا حسیں خواب بھی

خموشی سے کرتا تھا جو شاعری

نہیں تھی تمنا اسے نام کی

سخن میں نزاکت دکھاتا تھا جو

زمینیں نئی روز لاتا تھا جو

عجب ایک لڑکا تھا ان میں نظیر

کہ جیسے کوئی نیم پاگل فقیر

کبھی غرق رہتا تھا تخلیق میں

کبھی ڈوب جاتا تھا تحقیق میں

ملا تھا نرالا لقب بوم کا

کہ فن کے لیے رات بھر جاگتا

انھیں میں سے اک اپنا پیغام تھا

ادب واسطے جو کہ بدنام تھا

ہمہ وقت اس کا ادب مشغلہ

ہمیشہ ادب ہی سے تھا واسطہ

اکیلا وہ ناول کا تھا شہسوار

نہیں ایک پل بھی اسے کچھ قرار

کوئی ان میں طارق بھی تھا خوش خصال

نہایت حسیں اور صاحب جمال

محبت میں جس کا نہیں تھا جواب

محبت لٹاتا تھا جو بے حساب

ادیبوں کو اکثر بلاتا تھا جو

محبت کا شربت پلاتا تھا جو

انھیں میں مصاعد بھی اک نوجواں

بہت خوبرو اور جادو بیاں

نہاں جس کے اندر کئی خوبیاں

عیاں جس کے چہرے سے محبوبیاں

سلیقے سے اشعار پڑھتا تھا جو

سماعت کو مسحور کرتا تھا جو

جسے نام دیتے تھے اظہار کا

بڑا سخت بندہ تھا کردار کا

انھیں میں سے تھا نوجواں اک نسیمؔ

ملی تھی جسے حق سے عقل سلیم

دواؤں کے شعبے میں پڑھتا تھا جو

مگر اس سے رغبت نہیں نام کو

انھیں میں سے اظہرؔ بھی تھا اک نفس

نگاہیں تھیں جس کی بہت دور رس

سیاست کے میدان کا مرد تھا

صحافت کی دنیا کا بھی فرد تھا

انھیں میں سے تھا ایک پرویز بھی

بہت ہی ترقی پسند آدمی

سناتا تھا وہ شاعری بے حجاب

ہر اک بات میں اس کی تھا انقلاب

انھیں میں غضنفر بھی اک فرد تھا

جسے مٹتی اقدار کا درد تھا

رُلاتا تھا ملّت کا غم رات دن

نگہ جس کی رہتی تھی نم رات دن

نظر جس کی دنیا کے حالات پر

لہو دل کا جلتا تھا ہر بات پر

مربّی سبھی کے تھے اک شہریار

پلاتے تھے جو معرفت کا سگار

مزاج مبارک میں تھی سادگی

مگر شخصیت میں بڑی دل کشی

بتاتے تھے جو سب کو رازِ نہاں

دکھاتے تھے جو منزلوں کے نشاں

کہانی میں قاضی کی اصلاح تھی

ہر اک بات قاضی کی مفتاح تھی

خیالات جن کے بہت قیمتی

تجربات میں وسعتِ زندگی

تواریخِ عالم سے تھے آشنا

تمدن کی راہوں کا اک رہنما

وحید اخترؔ ایک ایسے استاد تھے

دماغن کے گھر جن سے آباد تھے

نکلتا تھا نکتے سے نکتہ کوئی

اُبھرتا تھا ظلمت سے رستہ کوئی

پڑھاتے تھے جو فلسفے کی کتاب

کہ وا زیست کے جس سے ہوتے تھے باب

عجب ایک استاد تھے سورتیؔ

ارسطو کی جیسے کوئی مورتی

چمک ان کے چہرے پہ تھی علم کی

جبیں پہ ذہانت کی تھی روشنی

تھا افکار کا جن کے آگے ہجوم

جھکاتے تھے سر جن کے آگے علوم

سکھاتے تھے سب کو سبق سرمدی

بناتے تھے بے خوف ان کو وہی

تھا مقصد سبھی کا بدلنا مزاج

زمیں پر بنانا نیا اک سماج

اُگے ایسا سورج نیا عرش پر

ملے ہر بشر کو ضیا فرش پر

رہے بول بالا مساوات کا

نہ ہو ڈر کسی کو کسی بات کا

تو یہ شہرِ دانش کی تھی زندگی

کئی طرح کی جس میں تھی روشنی

جہاں میری آنکھوں میں سورج اُگا

جہاں میرا ادراک روشن ہوا

سخن کی زمیں ایک ایسی ملی

جہاں میری حِسِّ لطافت پلی

نئی حسیت کا اشارہ ملا

نئے طرح کا استعارہ ملا

جہاں ایک ایسا کنارہ ملا

جہاں سے جگت کا نظارہ ملا

مجھے اسمِ اعظم کا تحفہ ملا

مرے سامنے ساتواں در کھلا

نگاہوں میں لعل و گہر بچھ گئے

نئے رنگ کے سیم و زر بچھ گئے

مری رہ میں شمس و قمر بچھ گئے

ثمر دار سارے شجر بچھ گئے

اسی سے سفر ایک پورا ہوا

اسی سے ملی اک نئی یاترا

بڑا سا مجھے ایک عہدہ ملا

ہماچل کے دفتر میں افسر بنا

نئی زندگانی سے واقف ہوا

نئے لفظ و معنی سے واقف ہوا

ہری وادیوں کی ہری تازگی

ہماچل کی سادہ دلی، سادگی

شگفتہ مزاجی، کھُلی زندگی

خلوص و محبت کی برجستگی

سلوک  و مروت کی شائستگی

ہر اک نیک جذبے سے وابستگی

جنونِ سفر خوئے آوارگی

روِش سے نکلتی ہوئی نغمگی

فضاؤں کی پھیلی ہوئی وسعتیں

فلک تک پہنچتی ہوئی رفعتیں

کشادہ زمیں پر بسی بستیاں

دل و ذہن کی سب کھلی کھڑکیاں

زمینی کثافت سے عاری فضا

مہکتی ہوئی جاں فزائی ہوا

معطّر، منور، مدھُر وادیاں

زمینوں پہ جنّت نما گھاٹیاں

دکھاتی ہوئی اپنی محبوبیاں

لٹاتی ہوئی شوخ شادابیاں

صفت اپنی مجھ میں بھی بھرتی گئیں

مری حس کو بے دار کرتی گئیں

ہر اک لمسِ تازہ سے تازہ ہوا

ہماچل مرے رخ کا غازہ ہوا

مرا دل بھی اب کچھ کشادہ ہوا

تکلف ہٹا ذہن سادہ ہوا

تخیّل مرا بے لبادہ ہوا

بلند اس کا ایسا ارادہ ہوا

ہر اک راستہ اس کا جادہ ہوا

وہ جیسے کوئی کوہ زادہ ہوا

بلندی پہ پرواز کرتا ہوا

نگاہوں میں وسعت کو بھرتا ہوا

پہاڑوں سے میداں کی جانب چلا

تمدن کے شہرِ اودھ سے ملا

وہی شہر جس میں تھی شامِ اودھ

وہی جس کا مشہور نامِ اودھ

اودھ کے محلّوں میں داخل ہوا

اماموں کے باڑوں تلک بھی گیا

کئی قیمتی کھنڈروں تک گیا

مقفل دریچوں، دروں تک گیا

عجب کیفیت مجھ پہ طاری رہی

عجب جھرجھری دل میں محسوس کی

کبھی روشنی پاس آتی رہی

کبھی روشنی دور جاتی رہی

کبھی کوئی شے گد گداتی رہی

کبھی کوئی شے دل دکھاتی رہی

کوئی نور جالی سے چھنتا رہا

اندھیرا بھی کوئی نکلتا رہا

کوئی رنگ دیدوں میں آتا رہا

کوئی رنگ دیدوں سے جاتا رہا

کوئی باس سانسوں میں بستی رہی

کوئی گندھ سانسوں کو کستی رہی

کوئی دور سے مشک آتا رہا

کوئی پاس سے مشک جاتا رہا

کبھی کوئی چلمن اُٹھاتا رہا

کبھی کوئی چلمن گراتا رہا

کبھی کوئی منظر ابھرتا رہا

کبھی کوئی منظر بکھرتا رہا

کبھی آن میں اک دھنک تن گئی

کبھی وہ دھنک دھند میں سن گئی

کبھی اک کلی آنکھ میں کھل گئی

کبھی اک کلی خاک میں مل گئی

کبھی ایک ماتھے پہ سورج اُگا

کبھی ایک چہرے کا چندا بجھا

کبھی آنکھ سے کوئی تارا گرا

فلک سے کسی کا ستارا گرا

اِدھر سے اُدھر سے اُبھرتا رہا

اودھ میرے دل سے گزرتا رہا

پرانا اودھ مجھ پہ کھُلتا گیا

مری آنکھ میں رنگ گھلتا گیا

نزاکت، نفاست کے معنی کھُلے

فصاحت، بلاغت کے معنی کھُلے

انیسی سخن مجھ پہ روشن ہوا

سلاست کا فن مجھ پہ روشن ہوا

کلامِ دبیری کا در بھی کھُلا

علائم کی دیوی کا درشن ہوا

سروری عجائب دکھائی دیا

فسوں کا فسانہ سنائی دیا

نول کے نوادر دکھائی دیے

عجب لعل و گوہر دکھائی دیے

سیاہی سے شمس و قمر اُگ گئے

کراماتِ فوق البشر اُگ گئے

ذرا میں لکیریں کرن بن گئیں

ہنر بن گئیں، علم و فن بن گئیں

لکیروں کے نقطے بنے سب نکات

زبر زیر بھی بن گئے تجربات

نکل آیا لفظوں سے حسن و جمال

بیان و معانی کا چمکا کمال

کوئی لفظ لے کر دھنک آ گیا

کوئی لے کے دِھن دِھن دِھنک آ گیا

کوئی لے کے کھن کھن کھنک آ گیا

کوئی لے کے چھن چھن چھنک آ گیا

زبانِ تصدق کا دفتر کھُلا

بدیع و بیاں کا سمندر کھلا

طلسمات لفظوں کے کھلنے لگے

کرشمے زباں سے نکلنے لگے

محاکات میں لفظ ڈھلنے لگے

سحر ساز منظر اُبھرنے لگے

مرصع نگاری دمکنے لگی

مسجع عبارت چمکنے لگی

بدیع و بیاں کے ملے بحر و بر

لطافت کا دریا بھی آیا نظر

رتن کی نظر آئیں سرشاریاں

شرر کے سخن کی بھی چنگاریاں

سعادت کی رنگین گل کاریاں

علی شاہ واجد کی فنکاریاں

مرصع سخن سازیاں بھی ملیں

اشاروں کی غمّازیاں بھی ملیں

زبان و بیاں کی ملیں جرأتیں

بھریں آنکھ میں دل نشیں حیرتیں

نظر کور سے وہ نظارا دکھا

ہوا آنکھ والا بھی حیرت زدہ

عجب بے نگاہی کی تھی روشنی

کہ جس سے عیاں تھی نہاں زندگی

فنونِ لطیفہ کا عاشق بنا

غزل جیسے معشوق سے دل لگا

مہذب نگر سے گزرتا ہوا

شرافت سے دامن کو بھرتا ہوا

اودھ سے علی گڑھ کو ہوتا ہوا

میں دلّی کی جانب روانہ ہوا

مرا جامعہ میں ٹھکانہ ہوا

مقدر یہیں آب و دانہ ہوا

کئی سال تک جامعہ میں رہا

جہاں اور بھی دل کشادہ ہوا

جہاں اور بھی کچھ بصیرت ملی

جہاں زندگی کی حقیقت کھُلی

جہاں پر کھلی زندگی اس طرح

سرکتی ہے سر سے رِدا جس طرح

نِگاہوں سے دلّی گزرنے لگی

نئی سے پرانی ابھرنے لگی

زمانے سبھی پاس آتے گئے

سبھی اپنے درپن سجاتے گئے

ہر اک دور کا عکس آتا گیا

نظارہ سفر کا دکھاتا گیا

سیاست کی بچھتی گئی ہر بساط

کبھی کوئی شہہ تو کبھی کوئی مات

کبھی بادشاہت کے جاہ و جلال

کبھی قصرِ سلطاں کے اندر زوال

ہوا میں کبھی تخت اڑتا ہوا

زمیں پر کبھی تاج گرتا ہوا

کبھی دیدۂ شاہ میں کہکشاں

سلائی کا منظر کبھی خوں چکاں

پرانا سماں پل میں اوجھل ہوا

نئے شہر کا بند منظر کھلا

نئی اور بھی کچھ نرالی لگی

سفیدی کے اندر بھی کالی لگی

کبھی شوخ طرّار سالی لگی

کبھی نیک بیوی مثالی لگی

یہ دلّی نئی، نوٹ جعلی لگی

بھری بند مٹھی بھی خالی لگی

یہاں آدمی آئے ایسے نظر

مشینی خصائص سے پُر جن کے سر

سروں میں دکھائی پڑی لومڑی

دوپٹّا کوئی سبز اوڑھے ہوئی

بندھے پاؤں تھے تیز چلتے ہوئے

جو چلتے ہوئے تھے، رکے سے لگے

کہیں چشمِ انساں میں بیٹھے ہوئے

کئی بھیڑیے بھی دکھائی پڑے

دغا ہاتھ سے ہاتھ کرتا ہوا

سگا غیر سے بھی زیادہ برا

دھرت راشٹر مسند پہ بیٹھے ہوئے

وہیں آنکھ والے تھے اوندھے پڑے

سلگتی ہوئی شہر کی بستیاں

نکلتا ہوا جان و دل سے دھواں

کہیں زندگانی کا طوفان ہے

کسی موت کے ہاتھ میں جان ہے

کہیں پر کوئی اک تنِ ناتواں

لیے عشق کا سرپہ کوہِ گراں

حوادث کی آندھی سے لڑتا ہوا

کسی آس میں ہے جیے جا رہا

کہیں علم و فن کی فسوں سازیاں

کہیں بزمِ مومن میں غمّازیاں

کہیں ذوقِ اعلیٰ کی عمدہ مثال

کہیں جوشِ سودا کے جاہ و جلال

کہیں پر زبانِ ظفر کا کمال

کہیں داغِ دل کا منور جمال

کہیں پر سخن کا عجب طور ہے

زباں اور طرزِ بیاں اور ہے

ہر اک لفظ میں ہے نوائے غضب

بھرا ہے معانی کا جادو عجب

نشاطِ تصور کی گرمی سے پُر

نکلتا ہے صوت و صدا سے جو سُر

دکھاتی ہوئی اپنے ماضی کا حال

لگی چلنے دلّی نئی ایک چال

کوئی اور بھی ساتھ بڑھتا گیا

سماعت سے نیچے اترتا گیا

وہ کہنے کو جھونکا تھا آواز کا

اثر اس میں لیکن تھا زہراب سا

سناں بن کے سینے میں گڑتا گیا

ہر اک گام پر گھاؤ کرتا گیا

صدا کا تھا جھونکا مگر جان کا

خموشی سے جنجال بنتا گیا

صدا شکل و صورت بنانے لگی

عجب خوف و دہشت دکھانے لگی

کبھی سانپ سا سرسرانے لگی

مرے رونگٹوں کو ڈرانے لگی

کبھی اپنے کنڈل میں کسنے لگی

کبھی تن کو رہ رہ کے ڈسنے لگی

کبھی ڈنک مجھ کو لگی مارنے

کوئی نیش دل میں لگی گاڑنے

کبھی ایٹمی بم کا گولا بنی

کبھی کوئی شورِ بگولہ بنی

کبھی غلغلہ بن گئی آب کا

کبھی بن گئی شور سیلاب کا

کبھی شیر کی بن گئی وہ دہاڑ

کبھی وہ بنی ہاتھیوں کی چنگھاڑ

کبھی تو وہ تانڈؤ کا غوغا بنی

کبھی سرخ آندھی کا رولا بنی

کبھی سبزہ زاروں میں جھکّڑ بنی

کبھی خواب گاہوں میں ہلّڑ بنی

کبھی ناگ بابا کی بم بم بنی

کبھی ان کے ڈمرو کی ڈم ڈم بنی

کبھی وہ ندائے ہلاکت بنی

شرر بارِ صورِ قیامت بنی

جدل کی کبھی تو بِگُل بن گئی

بھیانک تباہی کی کل بن گئی

کبھی سانپ، بچھّو، مگر بن گئی

کبھی تیغ، تیر و تبر بن گئی

کبھی کوئی نیزہ کبھی نیشتر

کبھی بن گئی خنجرِ تیز تر

کبھی کوئی شعلہ، شرارہ بنی

کبھی زہر آمیز پارہ بنی

کبھی بجلیوں کی کڑک بن گئی

کبھی آگ کی وہ بھڑک بن گئی

رگوں میں مری زہر گھلنے لگا

کسی آگ سے جسم جلنے لگا

دماغوں میں ہلچل سی مچنے لگی

صدا سے رگِ جاں بھی کٹنے لگی

مری سانس رہ رہ کے بھنچنے لگی

مری روح سینے سے کھنچنے لگی

اسی عالمِ کرب میں یہ لگا

کہ چپکے سے جیسے کسی نے کہا

ابلتا ہے جو جسم میں کربِ جاں

کسی طرح اس کو کروں میں بیاں

رقم اس طرح اک فسانہ ہوا

مرا کرب، کربِ زمانہ ہوا

______

 

 

 

 

مدعا کربِ جاں بیان کرنے کا

 

شروع مثنوی کا ہو پھر سلسلہ

کہانی سنانے کا اک مدعا

نئی تازگی پھر ملے شعر سے

تسلسل کا رشتہ بنے شعر سے

رکا تھا جو آہنگ چلے پھر ذرا

روانی کا دریا بہے پھر ذرا

طبیعت کا ہو جائے پھر امتحاں

دکھائیں ہنر پھر زبان و بیاں

بیاں میں بلاغت کا جوہر کھلے

زباں میں فصاحت کی مصری گھلے

بہے استعارہ بھی ندّی صفت

اشارہ بھی شفّاف پانی صفت

چھپا ہے جو بھیتر، بیاں بول دے

دل و  ذہن کی ہر گرہ کھول دے

خیالات پھر موج مستی کریں

پرندوں کی صورت فلک پر اُڑیں

تخیّل دکھائے ذرا کچھ کمال

کرے پھر سے شعر و سخن میں دھمال

صناعت دکھائیں ذرا صنعتیں

جگت کچھ لگائیں ذرا صنعتیں

لگے پھر سے میلا رعایات کا

دکھے پھر نظارہ محاکات کا

شجر، شاخ، برگ و ثمر ایک ہوں

مژہ، آنکھ، پتلی، نظر ایک ہوں

کھِلے گُل تو خوشبو دکھائی پڑے

بجے ساز تو سُر کا چہرہ دکھے

چلے تیر پھر کوئی ایہام کا

خطا پھر نشانہ ہو افہام کا

گرائیں کسی چاہ میں چاہ کو

ملائیں کسی ماہ میں ماہ کو

بتائیں کہ بالا تھا جو چاند سا

چمکتا دمکتا تھا کندن بنا

کسی دیدۂ دل کا تارا تھا جو

نظر کے لیے اک نظارہ تھا جو

زمانے کی اس کو نظر لگ گئی

چمک چاند تاروں کی غائب ہوئی

چڑھے پھر سے چلّہ تضادات کا

بڑھے تیر دن کی طرف رات کا

سنائی پڑے واہ کے ساتھ آہ

دکھائی پڑیں اک جگہ مہرو ماہ

نظر آئے شعلے سے لپٹا دھواں

گلے مل کے روئیں بہار و خزاں

غلو کی بھی تبلیغ ہو وے ذرا

زمیں اپنی حیرت بھی بو وے ذرا

ستاروں سے سورج کو رستہ ملے

قمر جگنوؤں کی نظر سے چلے

بنے ایسا منظر کہ دل کا دھواں

دکھائی پڑے نور کا گلستاں

ببولوں کی شاخوں پہ لالہ کھلیں

سرابوں میں پانی کے چشمے بہیں

سماں ایسا گرمی کا آئے نظر

جھلس جائے پانی میں بھی جانور

بنیں مچھلیاں آب میں بھی کباب

پھپھولوں میں تبدیل ہوویں حباب

خمیدہ فلک دیدۂ مہر سے

کمر اپنے محبوب کی ڈھونڈنے

جہاں میں سویرے سویرے چلے

نظر تیز اپنی بنائے ہوئے

چلیں کوئی تجنیس کی چال بھی

ذرا پھر سے ڈالیں زباں جال بھی

تلفظ کے پھندے لگائیں ذرا

مطالب کی مچھلی پھنسائیں ذرا

مشابہ تلفظ میں معنی کا فرق

دکھا کر گرائیں دماغوں پہ برق

دکھائیں کہ گُل گَل کے گِل بن گیا

سنائیں کہ سِن خاک میں سَن گیا

دکھائیں کہ ہے بام پر کوئی بام

جسے دیکھنے کو کھڑی اژدہام

عجب رنگ و روغن ہے اس میں بھرا

سراپا کماں کی طرح ہے کسا

تھرکتی ہے پانی کے باہر بھی وہ

دکھاتی ہے پروازِ طائر بھی وہ

پھسلتی ہے دستِ نظر سے بھی وہ

اچھلتی ہے پتلی کے پر سے بھی وہ

دکھائیں ذرا رنگِ تلمیح بھی

پکڑ لائیں مرغانِ تشبیہہ بھی

بدخشاں سے لب کے لیے لائیں لعل

نین واسطے ڈھونڈ لائیں غزال

سکندر ملے تو یہ پوچھیں ذرا

بتاؤ ذرا آب کا ماجرا

نکالیں کسی کوہ سے جوئے شیر

نئی پھر سے قائم کریں اک نظیر

بلائیں کسی ابنِ مریم کو پھر

ضرورت مسیحا کی ہے ہم کو پھر

لف و نشر کو پھر مرتّب کریں

سلیقے سے لفظوں کے موتی جڑیں

دکھائیں کہ فرہاد و مجنوں صفت

نہیں میرؔ صاحب پھرے کوہ و دشت

نہیں عشقِ لیلیٰ میں مجنوں بنا

نہیں دشت و صحرا میں غالب گیا

نہ فرہاد صورت بنا کوہ کن

نہ کاٹا کبھی اس نے کوہ و دمن

یہ بھی ایک مقصد ہے تخلیق کا

کہ پھر در کھلے کوئی تحقیق کا

نظر میں تواریخ لائیں ذرا

زمانے کو پھر سے دکھائیں ذرا

دکھائیں کہ کیسا تھا جغرافیہ

زمیں کس طرح کی تھی کیسی فضا

دکھائیں کہ پانی کا کیا رنگ تھا

ہواؤں کے چلنے کا کیا ڈھنگ تھا

فضاؤں کے اندر تھا کیا کیا گھلا

کہاں، کس کا کیسا تھا، کتنا مزہ

سفیدی سیاہی میں کیسا تھا میل

فلک ساتھ دھرتی کا کیسا تھا کھیل

فلک جھُک کے دھرتی سے ملتا بھی تھا

کہ رہتا تھا ہر وقت اکڑا ہوا

دکھاتا تھا سورج کوئی بھید بھاؤ

لگاتا تھا تفریق کا کوئی گھاؤ

بنا چاندنی کے گزرتا تھا چاند

کہیں روشنی کوئی پڑتی تھی ماند

ستارے اسی طرح چلتے تھے چال

یہ دنیا اسی طرح تھی پائے مال

زمیں یہ کشادہ تھی یا تنگ تھی

کبھی اس کے خاطر کوئی جنگ تھی

کہاں زندگی تھی، کہاں آ گئی

ترقی کے رستے میں کیا پا گئی

ملا راستے میں کہیں کچھ نیا

کہ پہلے کا جو کچھ تھا وہ بھی گیا

_______

 

 

 

 

آغازِ کربِ جاں کے قصّے کا

 

سنو اے زمانے کے دانشورو

سنو ایک کہتا ہوں قصّہ سنو

سنو کہ یہ قصہ ہے کچھ کچھ نیا

بیاں کا بھی انداز بدلا ہوا

یہ قصّہ نہیں ہے خراسان کا

یہ قصّہ نہیں ہے پرستان کا

نہیں کوئی قصہ خیالی ہے یہ

نہیں کوئی قصہ مثالی ہے یہ

نہیں یہ کوئی عشق کی داستاں

نہیں داستانوں سا اس میں سماں

نہیں کوئی اس میں حسیں پھول بن

نہ سرو و سمن ہے نہ ہے نسترن

نہ ہے رات رانی نہ ہے کیتکی

نہ سنبل، نہ سوسن نہ ہے جعفری

نہ رنگت کوئی اس میں گلزار کی

نہیں شان ہے اس میں دربار کی

نہیں رنگ و بو کا مہکتا دیار

نہیں چلتی پھرتی نسیم بہار

نہیں حوض کوئی نہ پانی میں پھول

نہ بے نور آنکھیں، نہ چہرہ ملول

نہ گل کے لیے کوئی بے چین ہے

نہ لب پر کسی کے کوئی بین ہے

نہیں کوئی اس میں ہے بدرِ منیر

نہ ہے شاہ زادہ کوئی بے نظیر

ستارہ نہیں ہے کوئی چاند سا

نہیں ہے کوئی اس میں نجم النسا

نہ چندر بدن ہے، نہ ہے ماہ یار

نہ ملکِ عدم کا کوئی شہریار

نہ اس میں قطب ہے نہ ہے مشتری

نہ فوق البشر ہے نہ جن و پری

نہ سب رس ہے وجہی کا اس میں گھلا

نہ رنگِ سخن کا نیا در کھلا

نہیں عقل کی کوئی تمثیل ہے

نہیں حضرتِ دل کی تاویل ہے

نہیں من لگن نہ کوئی چت لگن

نہیں کوئی اس میں حقیقی سجن

تصوف کا نکتہ بھی کوئی نہیں

نہ ہے فلسفہ اس میں کوئی کہیں

نہ کشف و کرامات کے سلسلے

نہ نامے نہ رشحات ہیں دین کے

نہیں معرفت کی حکایت کوئی

نہیں عارفوں کی کرامت کوئی

نہیں نصرتی کے نظارے یہاں

نہیں عشرتی کے اشارے یہاں

نہ سیف الملوک و بدیع الجمال

نہ یوسف زلیخا کی کوئی مثال

نہ بہرام کا کوئی گل ہے یہاں

نہ بلبل کے سینے کی آہ و فغاں

نہ عاشق، نہ معشوق کا بھاؤ ہے

کدم راؤ ہے نہ پدم راؤ ہے

نہ عارض کا شعلہ نہ دل کا دھواں

نہ خاموش آنکھیں نہ لب بے زباں

نہیں بزمِ عشرت کا سوزو گداز

نہیں عشق کے شور کا سوزو ساز

نہیں گلشنِ عشق مہکا ہوا

نہیں شعلۂ عشق دہکا ہوا

نہیں عشق کا کوئی دریا رواں

نہیں لذتِ عشق کی کشتیاں

نہ لذت نہ رنگت کسی عشق کی

نہ شدت نہ حدت کسی عشق کی

کسی خان کا ہے نہ جوش و خروش

نہیں خامۂ آرزو کا سروش

نہیں راگ مالا کی محفل کوئی

نہیں لیلہ مجنوں کی محمل کوئی

نہیں رزم کا کارنامہ کوئی

نہ شوقی کا ہے فتح نامہ کوئی

نہ طوطی نہ ساقی کے نامے رقم

نہیں میزبانی کے قصے رقم

نہ سیرت پہ نامہ ہے لکھّا کوئی

نہ ہے کفر نامہ کا چرچا کوئی

نہ فائز کی نگہت، نہ جوگن نہ وصف

نہ جانم کے رمزِ کرامات و کشف

نہیں انبیا کے قصص ہیں یہاں

نہیں منطق الطیر کی داستاں

اثر کا نہیں اس میں کوئی اثر

لبوں کے نہیں سرخ لعل و گہر

نہیں شوقؔ کا شوق بھڑکا ہوا

نہیں کوئی منظر ہے،ہیجان کا

نہیں اس میں بحرالمحبت کی لہر

نہیں عشق کے زہر کا کوئی قہر

نہیں حزنِ اختر نہ فریادِ داغ

نہیں برکھا رُت کا بھبھکتا چراغ

نہ عیّار کوئی نہ زنبیل ہے

نہ تمثال کوئی نہ تمثیل ہے

نہیں کاٹھ کا کوئی گھوڑا یہاں

نہیں جن و انساں کا جوڑا یہاں

نہیں شہر بانو کے اس میں سوال

نہیں اس میں حاتم کا کوئی کمال

نہیں میر امن کا باغ و بہار

نہیں اس میں درویش کا حالِ زار

نہ بیتال کوئی نہ پتلی کوئی

نہیں ڈور قصے کی الجھی ہوئی

پری ہے نہ پریوں کی اولاد ہے

نہ ہے کوئی سایہ، نہ ہم زاد ہے

نہیں دیو اس میں نہ جنّات ہیں

نہیں داستاں جیسے حالات ہیں

نہیں کوئی اس میں طلسمی جہاں

نہیں سامری کا کوئی آستاں

نہیں کوئی اس میں اڑن تشتری

نہیں کوئی جادو کی انگشتری

نہ جادو کی ڈبیا نہ کوئی چراغ

نہ جادو کی وادی، نہ جادو کا باغ

نہ ڈبیا میں سورج نہ بوتل میں جن

نہ جادو کی راتیں نہ جادو کے دن

نہ جادو کھٹولا، نہ جادو کا تخت

نہ اُڑتا ہے کوئی ہوا میں درخت

نہ جادو کی ناگن، نہ جادو کی بین

نہیں رقصِ حیرت کا ہے کوئی سین

نہیں ریش میں ہے کوئی ایسا بال

کہ جس کو جلانے سے ہوتا کمال

نہیں کوئی سم سم کی اس میں صدا

نہیں در خزانے کا ہوتا ہے وا

نہ خارِ مغیلاں نہ گل کی لڑی

نہ کوئی پٹاخہ، نہ ہے پھلجھڑی

عجائب کا کوئی فسانہ نہیں

تخیّل کو کوئی بھی خانہ نہیں

یہ قصہ نہیں ہے کسی پیار کا

کسی راجا رانی کے دربار کا

نہیں وصل کا یہ فسانہ کوئی

نہ ہے ہجر کا شاخسانہ کوئی

نہ اقرار کا ہے نہ انکار کا

کسی جیت کا نہ، نہ کسی ہار کا

قرابت کی خوشبو نہ فرقت کا رنگ

نہیں عشق کی اس میں کوئی ترنگ

گندھا ہے تمھاری ہی مٹّی سے یہ

پکا ہے تمھاری ہی بھٹّی سے یہ

سنو کہ تمھاری صدائیں بھی ہیں

سنو کہ تمھاری ادائیں بھی ہیں

سنو کہ تمھاری بھی پرچھائیاں

ملیں گی تمھیں لیتی انگڑائیاں

سنو کہ سنبھل جائے دانشوری

سنو کہ بدل جائے دانشوری

سنو کہ نگاہوں میں آئے سماں

نظر آئے تم کو حقیقی جہاں

تمھارے بھی اندر مچے کھلبلی

بنے دل تمھارا بھی کچھ گوتمی

تمھارا بھی احساس جاگے ذرا

بڑھے دل تمھارا بھی آگے ذرا

کوئی من میں کانٹا تمھارے چبھے

کوئی نوک سینے کے اندر گڑے

کوئی تم میں بھی جاگ جائے کبیر

بنا دے تمھیں بھی جو سچّا فقیر

کوئی جین تم میں بھی جاگے ذرا

اہنسا کا شیطان بھاگے ذرا

کوئی جیو جنتو نہ پامال ہو

کسی کی بھی ہستی نہ بد حال ہو

ذرا دیر کو کوئی گاندھی نما

سما جائے تم میں بھی اک آتما

کہ ہنسا کا ہونے لگے خاتمہ

تشدد کا رکنے لگے سلسلہ

تمھاری نگاہوں سے پردہ ہٹے

تمھیں بھی حقیقت کا چہرہ دکھے

تمھارے بھی سینے میں پیڑا پلے

تمھارے بھی ہونٹوں پہ دوہا سجے

فضا میں اٹھا ہے جنوں جو، تھمے

حقارت، عداوت کی آندھی رکے

محبت کی آئے نظر کوئی راہ

کہیں جھلملائے کوئی خانقاہ

کرن امن کی کوئی پھوٹے کہیں

کسی سے کبھی کوئی روٹھے نہیں

نہیں طرز میں کوئی سحرالبیاں

نہیں اس میں جادو بھری خوبیاں

زباں میں اگرچہ نہیں چاشنی

نہیں ہے بیاں میں کوئی دلکشی

مگر بات میں بات ہے راز کی

تمھارے کسی ایک دمساز کی

سنو کہ کئی راز اس میں نہاں

سنو کہ یہ ہے درد کی داستاں

سنو زندگی کی کہانی ہے یہ

سنو کہ حقیقت بیانی ہے یہ

سنو کہ ہمارا تمھارا بھی عکس

عجب طور سے اس میں کرتا ہے رقص

یہ قصہ فقط ایک تکرار کا

غلط فہمیوں کے بس اظہار کا

بنا باہری لفظ اس کی اساس

اسی سے کشاکش، اسی سے ہراس

اسی سے چبھی کوئی سینے میں پھانس

اسی سے ہوا کوئی چہرہ اداس

مچا شور و شر اس سے احساس میں

اسی سے گھلا زہر انفاس میں

ہر اک شخص کو اس نے بد ظن کیا

پڑوسی کو بھی اس نے دشمن کیا

لگا جسم کو یہ کسی روگ سا

کسی جونک سا خون اس نے پیا

عجب طرح کا روپ دھارن کیا

ہر اک روپ سے اس نے دھو کا دیا

کبھی یہ کہیں کوئی وحشی بنا

کسی تن کو پھاڑا، کسی کو ڈسا

کسی کا بدن چیر کر رکھ دیا

کہیں خون اس نے کسی کا پیا

تو قصہ فقط ہے یہ اک لفظ کا

مگر اس کا مفہوم پھیلا ہوا

جہانِ معانی کا اک سلسلہ

تمھاری نظر کو نظر آئے گا

تو کرتا ہوں قصہ شروع اب سنو

ہر اک لفظ پر کان اپنے دھرو

سنو کہ جو سنگین حالات ہیں

سفر میں ہمارے جو خطرات ہیں

جو بھڑکے ہوئے گرم جذبات ہیں

بجھے زہر میں جو بیانات ہیں

کئی طرح کے جن میں خد شات ہیں

اسی لفظ کے سب کرامات ہیں

سنو کہ تحفظ کی صورت ملے

مناسب کوئی اک مہورت ملے

کہ قصہ نہیں ہے یہ تریاق ہے

سنو غور سے کہ یہ چقماق ہے

_______

 

 

 

 

داستان اساسِ قصہ کی

 

سنا ہے کہ سارا جہاں ایک ہے

زمیں ایک ہے، آسماں ایک ہے

فلک ایک ہے، چاند تارے بھی ایک

مہہ و مہر کے سب نظارے بھی ایک

سبھی کے بدن میں لہو ایک ہے

بشر جو بھی ہے اس کی بوٗ ایک ہے

سبھی انس و جن کا خدا ایک ہے

سبھی کے نفس میں ہوا ایک ہے

تو پھر کوئی کیسے ہوا باہری

کہ پھیلی ہے جس کے لیے کھلبلی

کہ جس کے سبب آشیاں منتشر

مکیں منتشر ہیں، مکاں منتشر

عجب خوف و دہشت، عجب شور و  شر

زمیں ہو رہی جس سے زیر و زبر

مچا جس سے سینوں میں ہے خلفشار

قرابت میں جس سے پڑا انتشار

پڑا اتحادوں پہ نفرت کا وار

ہوئی ہمسری کی قبا تار تار

پڑے خوں کے دامن پہ چھینٹے ہزار

لباسِ مصفّا ہوا داغ دار

یہ نکتہ تو ہے پر یہیں چھوڑ دو

مرے ساتھ تم بھی اب اُن سے ملو

نظر میں ہماری جو ہیں باہری

کہ جیسے کوئی آنکھ میں کرکری

یہ سچ ہے کہ آئے کہیں اور سے

قدم یاں جمائے کئی طور سے

کبھی زندگی کی بقا کے لیے

دل و جان کے ارتقا کے لیے

دوا کے لیے کچھ دعا کے لیے

کسی در سے خاکِ شفا کے لیے

کسی رخ سے تازہ ہوا کے لیے

کسی سمت سے کچھ ضیا کے لیے

مکانات کی پختگی کے لیے

مکینوں کی کچھ بہتری کے لیے

زمینوں کی اپنی نمی کے لیے

بھڑکتی ہوئی تشنگی کے لیے

ریگستاں میں ٹھنڈی ہوا کے لیے

بگولوں سے خالی فضا کے لیے

تحفظ کے دیوار و در کے لیے

کسی چھاؤں والے شجر کے لیے

کسی خطۂ مہرباں کے لیے

کسی نرم دل آسماں کے لیے

کسی گوشۂ عافیت کے لیے

دل و جان کی خیریت کے لیے

عزیزوں کو اپنے رلاتے ہوئے

نگاہوں سے آنسوں چھپاتے ہوئے

جدائی کا سینے میں خنجر لیے

نگاہوں میں نمناک منظر لیے

کسی کا رگوں میں لیے اضطراب

کسی دل کا دل میں لیے پیچ و تاب

سماعت میں چیخوں کا ریلا لیے

جدائی کے زخموں کا میلا لیے

نکل آئے اپنا جہاں چھوڑ کر

زمیں چھوڑ کر آسماں چھوڑ کر

کبھی دینِ حق کو سکھاتے ہوئے

کوئی گیت وحدت کا گاتے ہوئے

فضاؤں کو روشن بناتے  ہوئے

نئی راہ کوئی دکھاتے ہوئے

سبھی فاصلوں کو گھٹاتے ہوئے

نشاں منزلوں کا بتاتے ہوئے

رکاوٹ کے کانٹے ہٹاتے ہوئے

چلے آئے دامن بچاتے ہوئے

کبھی آ گئے تاجری روپ میں

لیے سائباں چھاؤں کا دھوپ میں

نئی طرح کا آب و دانہ لیے

ہنسی کا خوشی کا خزانہ لیے

نئی زیست کے سازو ساماں لیے

نئے باغ کے گل بداماں لیے

اگانے زمیں پر نئے آفتاب

بدن پے چڑھانے نئی آب و تاب

رخوں پر سجانے نئی تازگی

رگوں میں بہانے خوشی کی ندی

بجاتے ہوئے بانسری آ گئے

لٹاتے ہوئے نغمگی آ گئے

کبھی پیار کا درس دیتے ہوئے

سفینہ طریقت کا کھیتے ہوئے

دیا نورِ حق کا جلاتے ہوئے

اندھیرا جہاں سے مٹاتے ہوئے

سیاہی کا سایہ گھٹاتے ہوئے

ضیاؤں کے قد کو بڑھاتے ہوئے

محبت کی مرلی بجاتے ہوئے

مروّت کا نغمہ سناتے ہوئے

اخوت کا پرچم اُٹھائے ہوئے

شرافت سے دامن سجائے ہوئے

کہیں سے یہاں بے خطر آ گئے

لیے معرفت کے گہر آ گئے

وہی معرفت جس سے محبوبیاں

وہی معرفت جس سے محجوبیاں

وہی جس میں مخفی کئی خوبیاں

وہی جس سے کھلتا ہے سرِّ جہاں

وہی جس سے سینے میں شادابیاں

وہی جس سے چہرے پہ مہتابیاں

وہی جس سے بڑھتی ہیں نزدیکیاں

وہی جس سے گھٹتی ہیں دل دوریاں

وہی جس سے مٹتی ہیں بیتابیاں

وہی جس سے رکتی ہیں بے چینیاں

وہی جس سے جھکتے ہیں کرّو بیاں

وہی جس سے فردوس کی چابیاں

وہی جس سے اٹھتی ہے وحدت کی بو

بدلتی ہے انسان کی جس سے خو

وہی جس سے من کو توکل ملے

وہی صبر کا جس سے ساحل ملے

وہی جس سے گنجِ قناعت ملے

وہی جس سے سے کنزِ ولایت ملے

وہی معرفت جس سے وحدانیت

وہی معرفت جس سے انسانیت

وہی جس سے دنیا میں پیرو فقیر

وہی جو بنائے ہے نانک، کبیر

وہی جس سے ہے قدرتِ قادری

وہی سہروردی کی بنیاد بھی

وہی جس سے ہے نقش بندی کا نقش

وہی جس سے قابو میں خواہش کا رخش

وہی معرفت جس سے خواجہ پیا

وہی جس سے ہے مسلکِ چشتیا

وہی معرفت جس سے قوسِ قزح

سبھی رنگ یک رنگ ہوں بے جرح

وہی معرفت جس سے شاہ و گدا

نظر آئیں دونوں بشر ایک سا

وہی جو من و تو کو یکجا کرے

وہی جو کہ رستے کا گڈّھا بھرے

وہی جس سے ڈھیلی ہو ’ہم‘ کی پکڑ

نکل جائے تن من سے ’میں‘ کی اکڑ

وہی جس سے پانی بنے ہر شرر

وہی جس سے بجھ جائے نارِ ضرر

وہی جس سے دھانی بنے زرد رنگ

وہی جس کے دم سے اُتر جائے زنگ

وہی جس سے فولاد بن جائے موم

وہی جس سے جھک جائے سلطانِ روم

وہی جو ہواؤں کا رخ موڑ دے

وہی جو بگولوں کا سر توڑ دے

وہی جس سے بے رنگ لعل و گہر

کوئی جس کی خاطر تجے سیم و زر

محل چھوڑ چھانے ریگستاں کی خاک

لباسِ مرصّع کو کر ڈالے چاک

زمیں پر کرے زندگانی بسر

تصور میں بھی نہ رہے کوئی گھر

بنے جس سے سلطان بھی خاکسار

چنے خار و خس چھوڑ کر لالہ زار

وہی جس سے ہو صاف چہرے کا داغ

بیا بان بھی جس سے بن جائے باغ

وہی جو کرے بھنگ مایا سے موہ

وہی جو چھڑائے ہے کایا سے چھوہ

کبھی لوٗٹنے کی غرض سے چلے

یہ گھر پھونکنے کی غرض سے چلے

یہاں دیر تک گڑ گڑائے بہت

فرس کی طرح ہنہنائے بہت

کئی طرح کے شور و شر بھی کیے

کہیں پر تو زیر و زبر بھی کیے

کئی زور آور دھماکے کیے

زمیں تا فلک کچھ جھناکے کیے

مکانات کچھ منہدم کر دیے

مکینوں کے دل میں فغاں بھر دیے

جلادی کہیں خوف کی آگ بھی

کہیں رکھ دیا نفس کا ناگ بھی

شرارت کی رسّی بُنی اس طرح

کہ کنڈل میں مارِ سیہ جس طرح

مگر آخرش ہار کر چپ رہے

کیے پہ بھی اپنے وہ نادم ہوئے

کبھی وہ وطن چھوڑ کر آ گئے

تعلق ہر اک توڑ کر آ گئے

کوئی آ گیا باپ کو چھوڑ کر

کوئی آ گیا ماں سے منہ موڑ کر

ہوا بال بچوں سے کوئی جدا

کوئی بہن بھائی سے رخصت ہوا

کئی بستیاں پھونک کر آ گئے

کئی کشتیاں پھونک کر آ گئے

ارادے اگرچہ سبھی کے جدا

دلوں میں مگر سب کے اک مدّعا

زمیں ہند کی آشیانہ بنے

سبھی کا یہاں پر ٹھکانہ بنے

رہی جو بھی نیّت مگر یہ ہوا

جو آیا یہاں وہ، یہیں رہ گیا

_________

 

 

 

 

داستان ان کے قیام کے اسباب کی

 

یہاں کی فضا میں وہ گھُلتا گیا

طبیعت سے مٹی میں رلتا گیا

بدن پر نیا رنگ چڑھتا گیا

نئے طور میں روپ ڈھلتا گیا

نیا خول اب تو چڑھا جسم پر

نہیں نقش کہنہ رہا جسم پر

بدلنے لگے اس کے نام و نشاں

نئی آ گئی اس کے منہ میں زباں

زباں میں نئی صوت شامل ہوئی

صداؤں میں بھ پھ بھی داخل ہوئی

نکلنے لگی منہ سے ٹ ڈ بھی

لگے بولنے ہونٹ ڈھ ڈھال بھی

نہ لہجہ رہا فارسی کی طرح

تلفظ ہوا ناگری کی طرح

مفرّس تھی جو اب مہند ہوئی

معرّب پہ ہندی زباں زد ہوئی

کوئی نام باقر سے بٹّو ہوا

کوئی میر مہدی سے مٹھّو ہوا

بدل کر محلہ بھی ٹولا بھی ہوا

نیا نام بستے کا جھولا ہوا

شکرپور گُڑگاؤں سا ہو گیا

غراطہ مؤناتھ بھنجن بنا

جو تہہ بند تھا، دھوتی لنگوٹی ہوا

جو مضغہ تھا کل آج بوٹی ہوا

سماعت بھی اب بے وفا ہو گئی

نئی صوت سے آشنا ہو گئی

بصارت کا کایا پلٹنے لگا

نظر زاویہ بھی الٹنے لگا

تصور میں ایسا تغیّر ہوا

تصور بھی محوِ تحیّر ہوا

الگ ہو گیا فکر کا راستہ

بدلنے لگا سوچ کا دائرہ

دل و  جان سے وہ یہاں کا ہوا

نئے رنگ میں سر سے پا تک رنگا

یہاں ٹھہر جانے کے اسباب تھے

ان اسباب کے بھی کئی باب تھے

یہاں دن کے آنگن میں مہتاب تھے

یہاں رات میں دن کے اسباب تھے

یہاں کی زمیں میں تھیں زر خیزیاں

یہاں کی فضا میں تھیں رنگ ریزیاں

ہوا میں ملی تھیں مدھُر لوریاں

گھلی آب میں تھیں شکر بوریاں

تھپکتی تھی مٹّی انھیں، جیسے ماں

یا معشوق جیسے کوئی مہرباں

زمیں پر سکوں، پُرسکوں آسماں

یہاں سے وہاں تک سبھی شادماں

یہاں ہر طرف تھیں رواں ندّیاں

جلو میں لیے دولتِ بے کراں

غذا روح کی پانیوں میں نہاں

علاجِ تپش بھی میسّر یہاں

رواں تھی یہاں ارتقائے حیات

ٹھٹھکتا تھا رہ رہ کے دستِ ممات

ہواؤں کے اندر سبک ساریاں

فضاؤں میں شامل تھیں سرشاریاں

فلک پر عجب ابرِ باراں کا رقص

خلا میں اُچھلتا تھا رنگوں کا عکس

مہکتا تھا ہر موڑ پر کوئی مشک

شرابور کرتا تھا موسم بھی خشک

نہ جھکڑ، نہ طوفاں، نہ ریگِ رواں

تھا محفوظ ہر شاخ پر آشیاں

نہ گولی نہ گولہ نہ بلّم نہ بم

نہ دستِ جنوں تھا نہ وحشی قدم

نہ سودا نہ وحشت نہ کوئی خلل

نہ سینے میں ہلچل نہ چہرے پہ بل

نہ ضربِ مشیّت نہ فطرت کی مار

نہ قومی کدورت نہ ملّی غبار

نہ آنکھوں میں خوں نہ رگوں میں جنوں

نہ بے چین سینہ نہ دل بے سکوں

نہ طوفاں نہ ہلچل نہ کوئی بھنور

نہیں من کے ساگر میں مدّو جزر

سبب ایک یہ بھی تھا ٹھہراؤ کا

نہ تھا شائبہ کوئی الگاؤ کا

نہیں اس حقیقت کا وہم و گماں

کہ ہو گا کبھی ثبت ایسا نشاں

بناوے گا انجان پل میں انھیں

نئی دے گا پہچان پل میں انھیں

کہ خلجان جس سے پڑے جان میں

وجود ان کا گھر جائے طوفان میں

سمجھنے لگے گا کوئی غیر بھی

کہ ان سے کرے گا کوئی بیر بھی

اسے بھی سبب ایک تم مان لو

بہت ٹھیک سے تم اسے جان لو

کشش لذّتِ جسم کی کم نہ تھی

کشش لذت بزم کی کم نہ تھی

تلذذ کئی طرح کے تھے یہاں

مزے سے بھرا تھا یہاں کا جہاں

نہ بندش، نہ روڑا، نہ پابندیاں

بلا خوف ملتی تھیں من مستیاں

بنا زر لٹائے بدن دستیاب

بنا پر ہلائے ملے ماہتاب

بنا جل میں اترے ملیں مچھلیاں

بنا غوطہ کھائے ملیں سیپییاں

بنا نیند آئے ملیں سبز خواب

کھلیں سبز خوابوں میں بیلے، گلاب

بنا کشتیوں کے کنارہ ملے

بنا دور جائے نظارہ ملے

بنا آب پاشی کے بھی گل کھلے

بنا سوئی دھاگا کے جامہ سلے

ملے شیر تیشہ زنی کے بنا

کٹے سخت پتھّر انی کے بنا

بنا جنگ مالِ غنیمت ملے

بنا زورِ بازو کے دولت ملے

ذرا نرم بولی پہ لب ہوں فدا

اشارے پہ جھک جائے شاخِ حیا

ذرا دیر میں جسمِ آہن گلے

بس اک آن میں سنگِ مرمر گھلے

ذرا میں شرر بار ہوں تن بدن

ذرا میں اُبھر آئے ہونٹوں پہ من

ذرا میں حجابات در کھول دیں

رگوں میں بدن کا نشہ گھول دیں

ذرا میں مسرت کا زینہ ملے

حواسِ بدن کا دفینہ ملے

دفینے  نے ایسا گہر دے دیا

عجب طرح کا مال و زر دیے دیا

رگ و پے میں ایسا فسوں بھر دیا

دل و جاں میں ایسا جنوں بھر دیا

کہ پائے مسافر مقفل ہوئے

سدا کے لیے وہ یہیں رُک گئے

نیا اس طرح ان کو گھر مل گیا

سلگتے سروں کو شجر مل گیا

_______

 

 

داستان ان کے دم سے سماں کے بدلنے کی

 

بدلنے لگا ان کے دم سے سماں

نیا روپ لینے لگا اب جہاں

لگا کوئی خیمہ مساوات کا

ہوا سلسلہ اک ملاقات کا

ادھر کے نواسی بھی جانے لگے

اُدھر داخلہ جا کے پانے لگے

گھٹن کی فضا سے نکلنے لگے

کھلے سائبانوں میں پلنے لگے

گھنی چھاؤں جو ان کو ملنے لگی

کلی جو مسرت کی کھلنے لگی

تو دل بھی گلوں کی طرح کھل گئے

یہ ان میں سدا کے لیے مل گئے

ملن سے ہوا ایک یُگ کا ظہور

دماغوں میں پنپا نیا اک شعور

سمٹنے لگا نسل کا امتیاز

رہا اب نہ بندہ، نہ بندہ نواز

بکھرنے لگا رنگ کا بھی غبار

اترنے لگا برتری کا خمار

فقیری امیری برابر ہوئی

رہائی اسیری برابر ہوئی

اندھیری فضائیں منور ہوئیں

تعفن کی راہیں معطّر ہوئیں

گزرنے لگی اب سکوں سے حیات

نہ شہہ راہ میں تھی، نہ تھی کوئی مات

شکنجوں سے گردن بری ہو گئی

جو ہستی تھی کھوٹی، کھری ہو گئی

رہا اب نہ دل میں کوئی اضطراب

روانہ ہوئے جسم سے پیچ و تاب

ہوا ہو گئی اب گھٹن جسم سے

نکل کر گئی ہر چبھن جسم سے

رگوں میں تراوٹ اترنے لگی

بدن پر سجاوٹ ابھرنے لگی

رمق ریشے ریشے میں بھرنے لگی

مہک گوشے گوشے میں پھرنے لگی

فضا ہر طرف جاں فزائی ہوئی

برائی کے اوپر بھلائی ہوئی

سبھی پیڑ پیلے ہرے ہو گئے

ثمر بھی سبھی رس بھرے ہو گئے

سہانی سی آنگن میں رت آ گئی

اندھیری فضا روشنی پا گئی

پڑا تھا جو مردہ، اُٹھا لہلہا

ہوا زندگی کا نیا سلسلہ

نگاہیں کبھی جو اُٹھاتا نہ تھا

نظر سے نظر جو ملاتا نہ تھا

خموشی سے سہتا تھا جورو جفا

نہ لاتا تھا لب پہ کبھی جو گلہ

نوائے نہاں لب پے لانے لگا

شرر بیز نغمہ سنانے لگا

عجب جان تن من میں پڑنے لگی

نئی کوئی ہستی ابھرنے لگی

______

 

 

 

 

داستان بدلے ہوئے سماں کے ردِّ عمل کی

 

مگر اس کا ایسا اثر بھی ہوا

اٹھا ناگ برسوں کا بیٹھا ہوا

اچانک وہ پھن کو ہلانے لگا

زمانے کو غصّہ دکھانے لگا

بدن دھیرے دھیرے اچھلنے لگا

نگاہوں سے شعلہ نکلنے لگا

لگا کہ اسے بھی کوئی ڈس گیا

شکنجہ اسے بھی کوئی کس گیا

کوئی وسوسہ اس میں داخل ہوا

لہو میں کوئی زہر شامل ہوا

کہ جیسے کسی نے اسے چھوٗ دیا

لگا جیسے پہلو سے من لے لیا

مگر دیکھ خیمے میں اک اژدہام

اکٹھے تھے جس میں سبھی خاص و عام

ادھر کے اُدھر کے سبھی آدمی

جلائے ہوئے تھے کوئی روشنی

چکا چوندھ جس کی بڑی خوب تھی

ہر اک چشم و دل کو جو محبوب تھی

اسے اپنے پھن کو جھکا نا پڑا

جلی آگ کو بھی دبانا پڑا

دبی آگ من کو جلانے لگی

اسے موم صورت گلانے لگی

جھلسنے لگا آگ میں تن بدن

سلگنے لگا سرخ کالے کا پھن

کئی سال تک سر جھکائے رہا

وہ شعلے کو دل میں دبائے رہا

وہ غصّے پہ کینچل چڑھائے رہا

اسے ڈھیلا ڈھالا بنائے رہا

سلگتا رہا، وہ تڑپتا رہا

وہ اپنی ہی کینچل میں گھٹتا رہا

وہ غصّے کے پانی کو پیتا رہا

اذیت کے عالم میں جیتا رہا

اذیت بھی ایسی کہ کیا ہو بیاں

سمجھ لیجیے آگ میں مچھلیاں

چبھاتھا  بدن میں کوئی ایسا تیر

کہ جس نے دیا تھا اسے چیر چیر

مگر ایسے عالم میں بھی دیکھیے

وہ زندہ رہا کس طرح سوچیے

وہ غصّے کو بھی تو جلاتا رہا

اسے آگ پانی پلاتا رہا

مچاتا رہا شور کینچل میں بھی

دکھاتا رہا زور کینچل میں بھی

جگاتا رہا سوئے جذبات کو

نہ بھوٗلا کسی بھی طرح مات کو

اسے جب یہ احساس ہونے لگا

کہ وہ اپنی طاقت کو کھونے لگا

کسی روز دم اب نکل جائے گا

کہ یمراج کا زور چل جائے گا

تو بچّوں کو غصّے کا من سونپ کر

انھیں اپنے دل کی جلن سونپ کر

یہ کہتے ہوئے وہ جدا ہو گیا

کہ میری جگہ خود کو تم دیکھنا

وفادار بچّوں نے وعدہ کیا

سمجھ سوچ کے یہ ارادہ کیا

کہ روشن کریں گے ہم اس آگ کو

جلایا تھا بابا نے جس آگ کو

مشن میں دل و جان سے لگ گئے

کہ سوئے تھے اب نیند سے جگ گئے

_______

 

داستان منتھن اور چنتن منن کی

 

زمانہ نیا اک شروع ہو گیا

کوئی بیج منتھن کا بھی بو گیا

لگے بیٹھنے چنتنوں میں سبھی

ہوئے لین اب آسنوں میں سبھی

کمانیں دماغوں کی تننے لگیں

تدابیر تیروں کی بننے لگیں

کہاں کس طرح پھونک ہے مارنا

کسے کس جگہ پہ ہے پھنکارنا

کہاں تیز رکھنا ہے شعلوں کا دم

کدھر آگ کی آنچ کرنا ہے کم

کہاں لانا ہے سانس میں گرمیاں

دکھانا کہاں ہے ذرا نرمیاں

کہاں سادھ لینا ہے سینے میں دم

گھٹانا بڑھانا کدھر ہے قدم

کہاں کس قدر شورو شر چاہیے

کہاں آشتی کا ہنر چاہیے

کہاں چاہیے راگ، راگِ جنوں

کہاں چاہیے نغمۂ پُر سکوں

کسے اپنے نرغے میں لینا کہاں

کسے چھوڑ دینا ہے یوں ہی یہاں

کسے اپنے کس بل سے ہے توڑنا

کسے صرف پھنکار سے پھوڑنا

بھگانا کسے سر سراہٹ سے ہے

ڈرانا کسے صرف آہٹ سے ہے

کہاں پہ صداؤں سے کرنا ہے وار

کدھر صرف پڑنا ہے صورت کی مار

کدھر شور و شر سے سرا سیمگی

دماغوں میں بونا ہے دیوانگی

منش کی طرح بھی لگے سوچنے

لگے اور بھی دور تک دیکھنے

کسے زہر میٹھا پلانا ہے یاں

کسے درد دے کر جلانا ہے یاں

نگر میں بدلنا ہے کس گاؤں کو

تمازت میں رکھنا ہے کس چھاؤں کو

بچھانا ہے بارود کس گاؤں میں

کسے مارنا ہے گھنی چھاؤں میں

کہاں پہ پلیتہ لگانا ہے اب

دھماکوں سے کس کو اڑانا ہے اب

جھکانا ہے کس آسماں کو یہاں

گرانا ہے کس کس مکاں کو یہاں

چھری کس کی چھاتی میں ہے بھونکنا

کسے آگ میں ہے یہاں جھونکنا

چڑھانا ہے سولی پہ کس کو یہاں

مٹانا ہے دنیا سے کس کا نشاں

کسے قید خانے میں ہے ڈالنا

کسے سخت پتھر میں ہے ڈھالنا

کسے جیتے جی کھیت میں گاڑنا

کسے جانور کی طرح پھاڑنا

پھنسانا ہے شر کے بھنور میں کسے

جلانا ہے اپنے ہی گھر میں کسے

شرر کے بگولے کہاں سے اٹھیں

کہاں سے فسادوں کے گولے چلیں

کہاں فسق و فتنہ کا میلا لگے

بکھیڑا کھڑا ہو، جھمیلا لگے

کدھر خوف و دہشت کی آندھی اٹھے

کدھر آسمانوں سے بجلی گرے

کہاں چھاپہ ماری، کہاں جنگ ہو

کہاں اور کس کی زمیں تنگ ہو

کِدھر اور کس کا سکوٗں بھنگ ہو

کہاں تک کوئی آبرو ننگ ہو

کھدیں راہ میں کس طرف کھائیاں

چلیں کس طرف گرم پروائیاں

بچھیں دام کس کس طرف مات کے

پھریں سرخ مہرے کدھر گھات کے

کدھر ہاتھی گھوڑے چلیں اپنی چال

کدھر جا کے پیدل مچائے دھمال

_______

 

 

 

 

داستان خیمے سے نکلی ہوئی روشنی کی

 

یہ منتھن تو ہوتا رہا پر وہیں

سرکتی رہی پاؤں سے بھی زمیں

کہ خیمے سے نکلی تھی جو روشنی

جواں رفتہ رفتہ وہ ہوتی گئی

چھٹکتی رہی چاندنی کی طرح

سنورتی رہی زندگی کی طرح

دمکنے لگا اس کے دم سے جہاں

چمکنے لگے خوبصورت سماں

محل کوئی ایسا کھڑا ہو گیا

تھا سر پہ کوئی تاج جس کے چڑھا

جڑے تھے جواہر بھی دیوار میں

کھدے تھے عجب نقش مینار میں

عجب مینا کاری تھی ان سے عیاں

بیاں جس سے ہوتی کوئی داستاں

کہ جیسے حقیقت چھپی ہو کوئی

کہ جیسے محبت دبی ہو کوئی

عجب ایک روشن سماں فرش پر

کہ جیسے کوئی کہکشاں فرش پر

عجب چھاؤں محسوس ہوتی تھی واں

کہ ہو چاندنی کا کوئی سائباں

ہر اک رنگ کا رنگ اس میں نہاں

حقیقت کا ہر عکس اس سے عیاں

ہر اک آنکھ کا ماہ و اختر تھا وہ

ہر اک دل کا مرکز تھا، محور تھا وہ

سبھی اس کے سائے میں پاتے سکوں

وہاں شانت ہوتا تھا آ کے جنوں

نگارِ زمانہ بھی تھا وہ محل

نہیں تھا کہیں کوئی اس کا بدل

ندی کے کنارے یگوں سے کھڑا

لگاتا تھا چپ چاپ ایسی صدا

کہ کھنچ کر چلا آتا تھا اک جہاں

جہاں سب کو ملتا تھا امن و اماں

کہیں پر منزّہ مصفّا مکاں

منّور معطر جہاں کا سماں

جہاں کی زمیں آسماں سے بلند

دیوانہ بھی جس جا بڑا ہوش مند

فضا روح پرور زمیں تا فلک

دعاؤں میں شامل جہاں پہ ملک

جہاں ذکر رحمان کا رات دن

جہاں درس ایمان کا رات دن

جہاں کوئی آقا نہ کوئی غلام

جہاں ایک صف میں کھڑے خاص و عام

بھلا کر ہر اک طرح کا بھید بھاؤ

مٹا کر سبھی طرح کا من مٹاؤ

مئے آدمیت لنڈھائے ہوئے

اخوت کا نشّہ چڑھائے ہوئے

دلوں میں محبت بسائے ہوئے

دماغوں کو اعلا بنائے ہوئے

سبھی رنگ و نکہت میں مشغول تھے

کہ اک باغ کے جیسے سب پھول تھے

امیری جہاں پہ جھکاتی تھی سر

فقیری امیری سے تھی بالا تر

عجب فاقہ مستی کا منظر وہاں

بھجن بھوک میں بھی لبوں پہ رواں

جبیں قشقہ والی بھی ہے سر نگوں

شہنشاہِ عالی بھی ہے سر نگوں

کہیں ایک مینار ایسا کھڑا

زمیں کو فلک سے ملاتا ہوا

بتاتا ہوا فرش کا مرتبہ

دکھاتا ہوا عرش سے سلسلہ

کسی ہاتھ کے گیت گاتا ہوا

کسی دل کا قصہ سناتا ہوا

کسی کو یہاں کا بناتا ہوا

اسے اس زمیں سے ملاتا ہوا

کسی دور کو پاس لاتا ہوا

کسی فاصلے کو مٹاتا ہوا

ہزاروں کا جم گھٹ لگاتا ہوا

انھیں ایک گھیرے میں لاتا ہوا

سبھی کو بلندی دکھاتا ہوا

سبھی کو سبق اک پڑھاتا ہوا

کہیں بیچ سے کچھ گھٹاتا ہوا

کہیں بیچ میں کچھ بڑھاتا ہوا

کہیں اک محل سرخ پتھّر کا تھا

کئی کوس تک تھا جو پھیلا ہوا

فصیلوں کا چاروں طرف سلسلہ

کہ ہو ہاتھیوں کا کوئی قافلہ

پہاڑوں سا مضبوط جس کا بدن

بلندی میں جیسے ہو کوئی گگن

عجب فَنِّ حرفت کا اس سے ظہور

ٹپکتا تھا جس سے سلیقہ، شعور

عجب شان و شوکت کا عالم وہاں

عجب جاہ و حشمت کا پرچم وہاں

ہر اک جس کا دیوان میدان سا

نہیں کوئی دیوان، دیوان سا

فلک کی سی دامن میں تھیں وسعتیں

تھیں اوجِ ثرّیا پہ سب قسمتیں

پنپتی تھیں جس میں بہت چاہتیں

اخوت، مروّت کی بھی عادتیں

جہاں رنگ کا رنگ بے رنگ تھا

ملن کا جہاں اور ہی ڈھنگ تھا

جہاں قابلیت کی پہچان تھی

جہاں عقل کی، علم کی شان تھی

جہاں بول بالا تھا انسان کا

جہاں ذکر ہوتا تھا ایمان کا

جہاں ساتھ اکبر کے اک مان تھا

جہاں کوئی جودھا پہ قربان تھا

سبھی کو جہاں مان دیتے تھے لوگ

جہاں آن پہ جان دیتے تھے لوگ

جہاں دشمنوں کی بھی اک شان تھی

جہاں ان کی بھی قدر تھی، آن تھی

جہاں بن رہا تھا نیا اک جہاں

سبھی کے لیے تھا جہاں امنِ جاں

کہیں اس ضیا کا اثر یہ ہوا

کہ جیسے وہاں کوئی جادو چلا

زمیں آسماں سے گلے مل گئی

بندھی زندگی کی کلی کھل گئی

کدورت ہر اک ذہن سے مٹ گئی

نحوست کی کالی گھٹا چھٹ گئی

ہر اک آنکھ کی تیرگی دھل گئی

دلوں میں پڑی ہر گرہ کھل گئی

کھلے زرد رخ پہ حسیں سرخ پھول

رہا کوئی غمگیں نہ کوئی ملول

بیابان بھی گلستاں ہو گئے

فسردہ شجر بھی جواں ہو گئے

بلائیں وہاں سے ہوا ہو گئیں

مصیبت کی گھڑیاں جدا ہو گئیں

عجب اس فسوں کا اثر ہو گیا

ضرر آن میں بے ضرر ہو گیا

نکل آیا آبِ رواں ریت سے

اُگی فصل بنجر بنے کھیت سے

شرر کوئی پانی میں پلنے لگا

کہیں آگ میں پھول کھلنے لگا

تھے بے خانماں ان کا گھر ہو گیا

جو اجڑا تھا خطّہ نگر ہو گیا

نرالی وہاں کی فضا ہو گئی

فضا کی انوکھی ادا ہو گئی

مخالف سروں کے سرے مل گئے

دریدہ سبھی پارچے سل گئے

کسی کو کسی سے نہ شکوہ رہا

نہ پیچھے شکایت نہ منہ پر گلہ

گزرنے لگی زندگی اس طرح

عروسی میں کٹتی ہے شب جس طرح

نہیں من میں کوئی کہیں بھاری بھاؤ

نہیں تن پہ کاری کہیں کوئی گھاؤ

نہیں کوئی سینے کے بھیتر گھٹن

رہی دل میں سوزش نہ کوئی جلن

______

 

 

 

 

داستان ٹھٹھکے ہوئے قدموں کی روانی کی

 

مقدر بھی اب ساتھ ان کے ہوا

نیا سامنے ایک رستہ کھلا

حکومت اچانک انھیں مل گئی

حکومت سے دل کی کلی کھِل گئی

نئے لمس سے ذہن تازہ ہوا

رگوں میں کوئی پھرسے بادہ بھرا

ٹھٹھک جو گئے تھے قدم راہ میں

جھجک جو گئے تھے علم راہ میں

جھجک کو ہٹا کر رواں ہو گئے

کہ جیسے وہ پھر سے جواں ہو گئے

رگوں میں نیا جوش بھرنے لگا

لہو آنکھ میں پھر اترنے لگا

گیا ناگ پھر سے بدن میں سما

لگی ہونے پھر سے قیامت بپا

بپھرتا ہوا، پھنپھناتا ہوا

نگاہوں کا شعلہ دکھاتا ہوا

نئے عزم سے ناگ آگے بڑھا

غضب ناک ہو کر زمیں پہ چلا

کہیں جا کے پھن اس نے پھیلا دیا

کہیں پھونک سے سب کو دہلا دیا

کہیں پر کسی شخص کو ڈس لیا

کسی کو کسی موڑ پر کس لیا

کہیں پھونک سے پھنک گیا آسماں

کہیں پھونک سے جل گیا آشیاں

کہیں پھونک سے کچھ مکاں ہِل گئے

کہیں پھونک سے جسم و جاں ہِل گئے

کہیں کوئی نیزے پہ سر آ گیا

نئی کربلا کا سماں چھا گیا

ہوا چاک کوئی شکم پھونک سے

کسی کا ہوا سر قلم پھونک سے

کہیں پھونک سے پھنک گئیں بستیاں

کہیں اڑ گئیں شہر کی دھجّیاں

کہیں ٹوٹ کر رسّیاں گر گئیں

کہیں پھوٹ کر مٹکیاں گر گئیں

کہیں جل گئیں گڈّیاں پھونک سے

کہیں گل گئیں ہڈّیاں پھونک سے

کہیں پھونک سے آستاں اڑ گئے

کسی شیخ کے گلستاں اڑ گئے

کئی کے تو نام و نشاں اڑ گئے

کئی کے مکان و زماں اڑ گئے

کہیں پھونک سے کوئی دم گھٹ گیا

کسی زندگی کا سرا کٹ گیا

وہیں اک طرف شادیانے بجے

فضا میں خوشی کے پٹاخے چھٹے

مسرت کے گھر گھر میں میلے لگے

مٹھائی وٹھائی کے ٹھیلے لگے

مے و جام کے دور چلنے لگے

بدن مست ہو کر مچلنے لگے

بدن میں ہر اک کے نشہ گھل گیا

عجب طرح کا کچھ مزہ گھل گیا

کوئی شخص آپے سے باہر ہوا

کہ جیسے وہ کوئی جواہر ہوا

کسی کی زباں لڑکھڑانے لگی

عجب تلخ لہجہ دکھانے لگی

بڑے بول کھل کر لگی بولنے

رعونت کی پوتھی لگی کھولنے

کوئی اس طرح بھی بہکنے لگا

خدا جیسے خود کو سمجھنے لگا

_______

 

جس کے دم سے ہستی ہنوز باقی ہے داستان اس وجود کی

 

وہیں پر مگر ایسا طبقہ بھی تھا

جو فطرت میں اپنی تھا بالکل جدا

نہیں کوئی چہرے پہ اس کے خوشی

نہ دل میں تھی اس کے کوئی ہمہمی

الگ تھا فضاؤں کے ہنگام سے

کھڑا لا تعلق مے و جام سے

اداسی میں چہرہ تھا ڈوبا ہوا

کسی فکر میں خود سے الجھا ہوا

نگاہوں میں سائے تھے سمٹے ہوئے

خطرناک شعلوں میں لپٹے ہوئے

عجب خوف و دہشت سمیٹے ہوئے

کئی سانپ بچھّو لپیٹے ہوئے

نہیں چاہتا کہ کوئی دل دکھے

کوئی آنکھ آنسو کا دریا بنے

کسی سر کے اوپر سے سایہ ڈھلے

تمازت کے صحرا میں کوئی جلے

کسی جسم میں کوئی نیزہ چبھے

کسی پیٹھ میں کوئی خنجر گڑے

کسی آنکھ کا کوئی تارا گرے

کسی کا کوئی لال پیلا پڑے

کوئی خوف ذہنوں سے چپکا رہے

منش مرغ کی طرح دبکا رہے

نہیں چاہتا کہ زمیں لال ہو

اہنسا کی دھرتی یہ پامال ہو

تمدن کی دلکش وراثت مٹے

اخوت، مروت، محبت مٹے

کوئی رام راون سے ہارے یہاں

کوئی کنس پاؤں پسارے یہاں

کنھیّا کی مرلی میں بادھا پڑے

مصیبت میں کوئی بھی رادھا پڑے

نہ لکشمن کی ریکھا کو لانگھے کوئی

نہ دیوار مریم کی پھاندے کوئی

نہ جیوتی مہاویر کی ماند ہو

گہن میں کبھی گوتمی چاند ہو

یگانت کی رسی کبھی نہ جلے

قرابت کبھی خاک میں نہ ملے

جلے بھی تو رسّی کی اینٹھن نہ جائے

محبت کا مضبوط بندھن نہ جائے

نہیں چاہتا کوئی ڈرتا رہے

بنا موت آئے بھی مرتا رہے

کسی ذہن میں زہر گھلتا رہے

کسی روح میں زخم پلتا رہے

کوئی روز سولی پہ چڑھتا رہے

ہر اک آن دم اس کا گھٹتا رہے

نہیں چاہتا کوئی بیٹی لٹے

نہیں چاہتا کوئی بیٹا کٹے

کسی کا بھی آغوش اجڑے کبھی

نشیمن کسی کا بھی بکھرے کبھی

پڑوسی کی آنگن سے میت اُٹھے

پڑوسی کا گھر سسکیوں سے بھرے

یہی ہے وہ طبقہ جو ڈرتا نہیں

صداقت کے رستے سے ہٹتا نہیں

یہی ہے کہ جس کی نہیں کوئی ذات

یہی ہے جو کہتا خدا لگتی بات

یہی ہے کہ جس سے ہیں بے باکیاں

یہی ہے کہ جس سے ہیں کچھ نیکیاں

اسی سے ہے باقی تمدن یہاں

اسی سے ہے انسانیت کا نشاں

اسی سے تو ظلمت میں بھی نور ہے

اسی سے سیاہی ابھی دور ہے

یہی ہے جو مذہب کو ہے جانتا

یہی دھرم کو صرف پہچانتا

یہی ہے کہ جس سے ہے ہستی ہنوز

محبت کی آباد بستی ہنوز

اسے اس حقیقت کا احساس تھا

حقائق کا کھاتا بہی پاس تھا

کہ جن کا لقب باہری رکھ دیا

دیا اجنبی جن کو ہم نے بنا

نہیں رنگ باہر کا ان میں ذرا

ذرا بھی نہیں غیریت کی ادا

لہو آبِ گنگ و جمن سے بھرا

ہر اک سانس میں اس زمیں کی ہوا

محبت بھی مٹی سے ہے بے پناہ

یہیں ان کا قبلہ، یہیں قبلہ گاہ

یہیں منزلیں ہیں یہیں ان کی راہ

یہیں ہے فقط ان کی جائے پناہ

اُسے اس حقیقت کا بھی تھا پتا

کہ ان سے ترقی کا ہے سلسلہ

انھیں کی بدولت زمیں زعفران

انھیں سے کوئی خطّہ جنت نشان

انھیں سے مرادوں کے رخ پہ ہے آب

انھیں سے مرادی فضا کی ہے تاب

انھیں سے ہے سورت کی صورت گری

انھیں سے سراپوں میں ہے دل کشی

انھیں سے ہے باقی چکن کاریاں

انھیں سے ہیں ریشم کی زرداریاں

انھیں سے کلائی میں ہیں چوڑیاں

انھیں سے جڑاؤ بنیں جوڑیاں

انھیں کی بدولت مہک چارسو

معطر ہوئی ہے فضا کو بہ کو

انھیں سے سلامت گلابوں کا ست

انھیں سے بچی برگِ نازک کی پت

انھیں سے مزیّن مکانوں کا فرش

بنا فرش بھی چاند تاروں کا عرش

انھیں سے زبانوں کا ہے ذائقہ

انھیں سے غذاؤں میں نشّہ بھرا

انھیں سے ہیں پاپوش بھی شاندار

انھیں سے ہیں پیروں پہ آنکھیں ہزار

انھیں سے لباسوں کی زر دوزیاں

سیاہی میں بھی ہیں سحر خیزیاں

انھیں سے تعیش کا ہے اہتمام

انھیں سے ہے بہتر قیام و طعام

اسے اس حقیقت کا بھی اعتراف

فضا میں جو سنگیت کا ہے گراف

زبانوں پہ جس کی ہے لاف و گزاف

صداؤں سے جس کی ہلے کوہِ کاف

یہ فن بھی انھیں کی ذہانت سے ہے

یہ سر تال ان کی ریاضت سے ہے

انھیں کے تصّور سے نکلا ستار

انھیں سے کسا سازِ بربط کا تار

انھیں سے بجیں گھر میں شہنائیاں

انھیں سے ہوئیں مست انگنائیاں

انھیں سے بجا محفلوں میں سرود

انھیں سے ہوا تنگیوں میں کشود

انھیں سے پڑی ایسی طبلے پہ تھاپ

کہ جس سے بڑھا محفلوں میں ملاپ

نظر میں تھے اس کے نشیب و فراز

نہ مخفی تھا کوئی کہیں اس سے راز

یہ طبقہ تو بس چاہتا تھا یہی

ہمہ وقت بس سوچتا تھا یہی

کہ دوزخ کا کھٹکا دلوں سے مٹے

ہماری زمیں پھر سے جنت بنے

کسی بھی طرح کا نہ شر ہو کوئی

کسی کو کسی کا نہ ڈر ہو کوئی

نہ آفت زمینی نہ عرشی بلا

نہ آندھی نہ جھکّڑ نہ کالی گھٹا

نگہ نیلی پیلی نہ ترچھی ادا

بھوؤں میں نہ  خنجر نہ تیغِ انا

نہ بجلی کا کڑکا نہ بادل کی چیخ

نہ بھٹّی نہ ایندھن نہ شعلہ نہ سیخ

اُڑیں باغ میں جس طرح تتلیاں

چلیں آب میں جس طرح مچھلیاں

ہوا کی طرح دندناتے ہوئے

فضا کی طرح مسکراتے ہوئے

پرندہ صفت چہچہاتے ہوئے

ترانہ کوئی گنگناتے ہوئے

گلوں کی طرح کھلکھلاتے ہوئے

شجر کی طرح لہلہاتے ہوئے

اچھلتی مچلتی ندی کی طرح

کسی موج کی زندگی کی طرح

ابلتا ہے چشمہ رواں جس طرح

اچھلتا ہے آبِ فشاں جس طرح

بشر بھی تو مستی میں جیون جیے

بنا خوف پروان چڑھتا رہے

_______

 

 

داستان ایک طبقہ کے خوف اوراس خوف کے اسباب کی

 

یہ سب اس لیے تھا کہ بیتاب تھے

یقینا کئی اس کے اسباب تھے

سلامت رہا گر یہ خیمہ یہاں

تو شاید اجڑ جائے اک دن مکاں

یہ احساس ان کو ستاتا رہا

بھیانک مناظر دکھاتا رہا

بناتا رہا وسوسوں کا سماں

دکھاتا رہا رات دن خوف جاں

انھیں سو طرح سے ڈراتا رہا

کئی طرح کے خوف لاتا رہا

ہر اک آن چرکے لگاتا رہا

ہر اک موڑ پر ورغلاتا رہا

لگا کہ جو خیمے کی ہے روشنی

اسی کے سبب ان کی ہے تیر گی

اسی کی سیاہی سے رستہ سیاہ

اندھیرے میں ڈوبی ہے جائے پناہ

اسی سے ہے تاریک ان کا جہاں

اسی کے سبب ان کے گھر میں دھواں

اسی سے منڈیروں پہ ان کی ہیں زاغ

نہیں جل رہا ہے جو ان کا چراغ

اسی سے ہوئے ان کے تارے بھی ماند

اسی کی بدولت بجھا ان کا چاند

اسی سے گھٹا چھا گئی آنکھ میں

اسی سے پڑی موتیا آنکھ میں

لگا ان کے حصّے کا زر جائے گا

لگا ہاتھ سے ان کا گھر جائے کا

مسرت بھرا ان کا دن جائے گا

اکارت جوانی کا سن جائے کا

نکل ان کی بوتل سے جن جائے کا

تلذذ ہر اک ان سے چھن جائے گا

جو رکھی نہیں ان کے اوپر نگاہ

تو ہو جائے گی ان کی دنیا تباہ

سبب ایک یہ ان کے آگے رہا

کہ جس نے کبھی ان پے حملہ کیا

اسی حملہ آور کی سنتان یہ

اسی کی شرارت کی پہچان یہ

دلاتے ہیں احساس یہ ہار کا

کسی نوکِ خنجر، کسی دھار کا

پڑی سرکے اوپر کسی مار کا

کسی جانی دشمن کی یلغار کا

سبب ایک یہ بھی نظر میں رہا

کہ آنے سے ان کے بہت کچھ گیا

ہر اک چیز حصے کی آدھی ہوئی

یہ آدھی بھی تقسیم ہوتی گئی

کہیں اپنی دھرتی نہ جائے کھسک

بچا ہے جو حصّہ نہ جائے سرک

یہ شدّت سے ڈر بھی ستاتا رہا

کہ سب کچھ اگر ہم سے جاتا رہا

تو ہم جیتے جی بھی بکھر جائیں گے

بنا موت آئے بھی مر جائیں گے

یہی سوچ پلنے لگی ذہن میں

کوئی آگ جلنے لگی ذہن میں

یہی فکر تن کو جلانے لگی

بدن میں قیامت اٹھانے لگی

جنوں بن کے سر میں سمانے لگی

تماشائے سودا دکھانے لگی

اڑانے لگی عقل کی دھجّیاں

چلانے لگی قہر کی قینچیاں

اسی فکر سے ذہن وحشی بنا

درندے کی صورت جھپٹنے لگا

اسی سے سناں ہاتھ میں آ گیا

اسی سے کمانوں پہ چلّا چڑھا

اسی سے طپنچہ بھی چلنے لگے

کھڑے آدمی دن سے گرنے لگے

اسی سے تو بچے بڑے ہو گئے

بڑوں کی صفوں میں کھڑے ہو گئے

کھلونوں کی صورت بدلنے لگی

زباں گڈّے گڈّی کی چلنے لگی

کھلونے بھی آنکھیں دکھانے لگے

کھلونے بھی دم اب ہلانے لگے

ربڑ کی زباں لپلپانے لگی

لہو رنگ سرخی دکھانے لگی

اترنے لگی آدمیت کی کھال

اترتی ہے جس طرح پیڑوں کی چھال

بدن خوف کا کوئی جھرنا بنا

سراپا تفنگوں سے چھلنی ہوا

کوئی گرز سینے کے اندر گیا

کسی آدمی کا کلیجہ کٹا

_____

 

 

 

داستان اندیشہ ہائے دور دراز کی

 

تو یوں اس کہانی کے کردار تین

انھیں سے جڑا ہے ہر اک اس کاسین

انھیں تین میں ایک ہے باہری

کہانی کی بنیاد جس پر پڑی

کہانی کا کردار ہے دوسرا

کہانی کو جس سے تصادم ملا

تصادم جو بالکل نہیں چاہتا

وہ کردار تینوں میں ہے تیسرا

یہ کردار تینوں عجیب و غریب

کسی کو نہیں چین دل کا نصیب

سبھی اپنی اپنی جگہ بے قرار

سبھی کے دماغوں میں ہے انتشار

سبھی خوفِ فردا سے سہمے ہوئے

کشا کش میں سارے ہی الجھے ہوئے

کہانی یہ اس دیس کی ہے میاں

جہاں بجتی تھیں چین کی بنسیاں

اذاں کی صدا گونجتی بے خطر

نہ ناقوس کو تھا کہیں کوئی ڈر

کسی کام میں کوئی اڑچن نہ تھی

کسی طرح کی کوئی اُلجھن نہ تھی

نہ ہوتا تھا کوئی بھی فتنہ کھڑا

رکاوٹ بنا رسم ہوتی ادا

جہاں اک زمانے میں سب ایک تھے

سبھی سیدھے سادے سبھی نیک تھے

کسی کو کسی سے نہیں کوئی کد

نہیں تھی کسی کی نظر کوئی بد

کسی کو کسی سے نہیں تھا گلہ

نہیں تھا کسی ذہن میں وسوسہ

نہ کھٹکا تھا کوئی کسی طرح کا

نہ خطرہ تھا کوئی کسی طرح کا

سبھی خوف و دہشت سے آزاد تھے

سبھی خوش و خرم تھے دل شاد تھے

نہ جانے یہ کس کی نظر لگ گئی

کہ آنکھوں کے پانی میں ہلچل ہوئی

کہ چشمِ وفا سے مروت ڈھلی

کہ مٹّی میں رشتوں کی عزت ملی

عجب طرح کی ایک آندھی اُٹھی

کہ عقل و خرد کی ردا اُڑگئی

نہ باقی کہیں کوئی جذبہ رہا

نہ دل سے دلوں کا علاقہ رہا

قرابت کا پنچھی اُڑا شاخ سے

محبت کا پتّا گِرا شاخ سے

حقارت کے کوّے لگے بولنے

عداوت کے گِدھ منہ لگے کھولنے

نحوست کی چیلیں جھپٹنے لگیں

دل و ذہن و جاں سے چمٹنے لگیں

نظر بد نے یہ بھی کرشمہ کیا

جو اچھا تھا اس کو بُرا کر دیا

بُرا تھا جو پل میں بھلا ہو گیا

کہ ہر عیب جیسے ہوا ہو گیا

کبھی جس سے دل کا علاقہ نہ تھا

کسی بھی طرح سے جو اپنا نہ تھا

وہ اک آن میں ہمنوا بن گیا

جو بش تھا وہی اب دوا بن گیا

وہیں اجنبی کوئی ایسا کھڑا

جو اپنوں سے بہتر بھی ثابت ہوا

اخوت کے جذبے سے سرشار جو

محبت لٹانے کو تیار جو

ہر اک فعل میں جس کے اخلاص بھی

رویے میں چاہت کا احساس بھی

اسی سے ہے سینے میں بغض و عناد

ذرا بھی نہیں دل میں بست  و کشاد

عجب طرح کی یہ تو ہے نفسیات

نہ منطق نہ کوئی پتے کی ہے بات

پتے کا ہے نکتہ تو اس بات میں

ہے منطق کا رستہ تو اس بات میں

کسی پر کوئی جاں لٹانے لگے

پرائے کو اپنا بنانے لگے

محبت کی مرلی بجانے لگے

مسرت کا نغمہ سنانے لگے

دل و جاں سے رنجش مٹانے لگے

عداوت کو اپنی بھلانے لگے

محبت کا دریا بہانے لگے

اخوت کا چپو چلانے لگے

تو ممکن نہیں کہ کدورت بچے

عداوت کی کوئی بھی صورت بچے

نظر میں ذرا بھی حقارت بچے

کسی بھی طرح کی شرارت بچے

رگوں میں کہیں کوئی نفرت رہے

دماغوں میں نفرت سے دہشت رہے

کہ الفت کدورت کو کرتی ہے صاف

اخوت بھی نفرت کو کرتی ہے صاف

محبت ہٹاتی ہے رستے سے خار

محبت سے بنجر زمیں سبزہ زار

محبت کھلاتی ہے سہرا میں پھول

محبت سے بنتے ہیں بیلا، ببول

محبت سے نفرت کے جھڑتے ہیں خار

عداوت کے چھٹتے ہیں گرد و غبار

محبت سے پتھّر کا سینہ کٹے

محبت سے کوہِ گراں بھی جھکے

محبت کا تیشہ کرشمہ کرے

ندی دودھ کی پتھروں سے بہے

مگر کس طرح دل میں بیٹھے یہ بات

کہ ہوتی ہے الفت سے نفرت کی مات

محبت سے بنتا ہے دشمن بھی میت

محبت سے ملتی ہے دنیا میں جیت

مجھے فکر تینوں ہی کردار کی

کہ تینوں کے دم سے زمیں پیار کی

مگر فکر اس کی زیادہ مجھے

جو لگتا بہت سیدھا سادہ مجھے

نہیں جس کے اندر کوئی چھل کپٹ

نہیں جس کی فطرت میں چھینا جھپٹ

نہیں جس کے اندر طرف داریاں

نہیں قوم و ملت کی بیماریاں

تعصّب کی جس میں نہیں کوئی بو

نہیں فرقہ بندی کی کوئی بھی خو

کسی بھی طرح کا نہیں امتیاز

نظر میں نہ بندہ نہ بندہ نواز

نہ محمود کوئی نہ کوئی ایاز

سبھی ہیں برابر کبوتر کہ باز

مجھے خوف ہے بس اسی بات کا

کہیں کوئی جادو ادھر چل گیا

یہ کردار بھی دام میں آ گیا

کہیں ذہن اس کا بھی گہنا گیا

تو کیسے بہے گی ہوا امن کی

تو کیسے بچے گی فضا امن کی

اندھیروں سے کیسے لڑے گا دیا

اجالوں کے خاطر کرے گا وہ کیا

تو کیسے بچے گی ہماری زمیں

تو کیسے کھلیں گے یہاں گل حسیں

کوئی راہ کیسے چلے گا یہاں

کوئی کیسے جیون جیے گا یہاں

نگاہوں سے پردہ ہٹائے گا کون

دھوئیں سے نظر کو بچائے گا کون

غلط کار لوگوں کو ٹوکے گا کون

بلاؤں کے تیور کو روکے گا کون

رکے گا جنونی کا کیسے جنوں

دل و جاں کو کیسے ملے گا سکوں

کوئی بے سہارا کہاں جائے گا

مصیبت کا مارا کہاں جائے گا

سنائے گا کس کو وہ رودادِ غم

دکھائے گا کس کو وہ درد و الم

سنے گا یہاں کون سوزِ دروں

اداسی میں ڈوبے گا کس دل کا خوں

کرے گا وہ روداد کس سے بیاں

سنائے گا قصہ کسے کربِ جاں

________

 

 

 

داستان صفِ بے زبانی کے کردار کی

 

کوئی اور بھی اس کہانی میں ہے

مگر وہ صفِ بے زبانی میں ہے

جو ملنا ہے اس سے تو مقصد پہ جاؤ

ذرا اپنی گردن کو نیچے جھکاؤ

دکھائی پڑے گا وہ کردار بھی

سمائے گا دل میں وہ فن کار بھی

بُنا جس نے قصہ بڑے چاؤ سے

لیے میل کے تار الگاؤ سے

کہ کمزور دھاگوں سے بانا بنے

محبت کا مضبوط تانا بنے

کوئی ان سے ایسی بھی چادر بنے

کہ چادر میں چہرے کا دھبّہ چھپے

تمازت کی حدّت سے تن من بچے

سکوں مضطرب آتما کو ملے

تمدن کا گھر پھر سے آباد ہو

کسی کی وراثت نہ برباد ہو

بیاں کر دیا اس نے تو کربِ جاں

اب ہے آپ کے سامنے داستاں

کہاں تک دلوں میں سماتی ہے یہ

اثر اپنا کتنا دکھاتی ہے یہ

کسے خون آنسو رلاتی ہے یہ

کسے آگ پانی پلاتی ہے یہ

کہاں نرم جذبہ جگاتی ہے یہ

کدھر موم دل کو بناتی ہے یہ

کدھر دل میں خنجر چبھوتی ہے یہ

لہو میں بدن کو بھگوتی ہے یہ

کہاں جسم میں درد بوتی ہے یہ

کدھر جان میں دکھ سموتی ہے یہ

دکھاتی ہے کس رخ پہ رنج و الم

بناتی ہے کس آنکھ کو چشمِ نم

اُٹھاتی ہے کس کس میں یہ اضطراب

کھلاتی ہے کس کس کو یہ پیچ و تاب

کہاں تک ہلاہل کو کرتی ہے جذب

کہاں تک مٹاتی ہے سینے کا کرب

دماغوں سے کن کے ہٹاتی ہے زہر

کدھر روکتی ہے یہ یلغارِ قہر

کہاں پہ بہاتی ہے آبِ ملال

بناتی ہے زہراب کو کب زلال

کہیں کوئی بنتی بھی ہے اس سے بات

نکلتی بھی ہے کوئی راہِ نجات

جڑی کاش ایسی کہیں سے ملے

مرض جس کے پینے سے جڑ سے مٹے

گیا جس طرح اس زمیں سے پلیگ

پھسلتی ہے جس طرح مُٹھّی سے ریگ

نکل جائے جڑ سے یہ خارِ زیاں

نہ باقی رہے کوئی نام و نشاں

کسی من میں کوئی نہ کھٹکا رہے

نہ کانٹا کہیں کوئی اٹکا رہے

کلی کی طرح مسکرائیں سبھی

گلوں کی طرح کھلکھلائیں سبھی

کبوتر کی صورت پھریں صحن میں

بلا خوف دانہ چگیں صحن میں

منڈیروں پہ اس طرح بیٹھا کریں

کہ جیوں بالکونی میں کافی پیئیں

کوئی پھر سے دھولا پہ جائے ذرا

کہ سنجیونی پھر سے لائے ذرا

یہ پیڑا سدا کے لیے پست ہو

جو ہے مضطرب زندگی، مست ہو

کوئی ٹوٹکا ایسا لگ جائے ہاتھ

کہ کھا جائے جس سے یہ بیماری مات

کسی در سے مل جائے ایسی بھبوٗت

کہ مَلتے ہی بھاگیں بلاؤں کے دوٗت

کوئی پیٖر پیٖری دکھائے کہ پر

وبا کے پرندوں کے جائیں کتر

کلیمی عصا پھر سے آئے کوئی

بلاؤں کے سانپوں کو کھائے کوئی

مسیحا کوئی پھر سے آئے یہاں

مریضوں کی جانوں میں پڑ جائے جاں

کوئی کنٹھ نیلا کرے پھر یہاں

کوئی وِش بدن کا ہرے پھر یہاں

کسی کے لیے کوئی بن ساس لے

محل چھوڑ دے اپنا سنیاس لے

کوئی چکر پھر سے گھمائے ذرا

مہاوت پہ انکش لگائے ذرا

سدرشن مہا کال کو روک دے

اَ سُر کے سروں میں چھرا بھونک دے

رِشی پھر سے کوئی ددھیچی بنے

کہ دانَو کے تانڈَو سے مکتی ملے

اٹھے نوجواں کوئی بے باک پھر

نئی دیونی کی کٹے ناک پھر

یہ دھرتی خبیثوں سے پھر پاک ہو

نہ اب کھیل کوئی خطر ناک ہو

نہ دل کوئی ٹوٹے، نہ تن چاک ہو

کبھی کوئی دیدہ نہ نمناک ہو

کوئی ایسی رحمت خدا بھیج دے

کوئی ایسی ٹھنڈی ہوا بھیج دے

جو شعلہ فشانی کو پانی کرے

سیہ زرد چہروں کو دھانی کرے

سماں ہر طرف ارغوانی کرے

زمینوں کو جنّت نشانی کرے

رگوں میں لہو کی روانی کرے

بڑھاپے کو پھر سے جوانی کرے

جوانی میں بچپن کی خوٗ ڈال دے

گلوں میں کلی کی بھی بوٗ ڈال دے

تراوٹ سے ہر کوئی سر شار ہو

لگے کوئی مفلس بھی زر دار ہو

سبھی کی بھلائی کا ہو کام کاج

حقیقی دکھائی پڑے رام راج

٭٭٭

تشکر: مشرف عالم ذوقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید