مائل بکرم راتیں
اعجاز عبید
(ایک ناولٹ)
مائل بکرم ہیں راتیں
آنکھوں سے کہو اب مانگیں
خوابوں کے سوا جو چاہیں
شہریار
قرۃ العین حیدر کی نذر
’’پی چو۔ ہمارے سارے آیڈئلس!’’ رخشندہ نے آہستہ سے کہا۔ پھر اسے ہی محسوس ہوا کہ اس نے کتنی بیکار بے معنی لغو بات کہی ہے ۔’’
(میرے بھی صنم خانے ۔ ص۔ 202)
ستارے اور دھند
ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا
سنگ ریزہ جہاں پڑا دیکھا
(ناصر کاظمی)
٭
کمرے کی جھلملیوں سے صبح کے نور کی پہلی کرن شرماتی لجاتی اندر داخل ہو ئی۔ سامنے دیوار پر کلاک ایک سے بارہ اور پھر بارہ سے ایک تک مسلسل سفر کر رہا تھا۔ ٹِک ۔ٹِک۔ِٹِک ۔ٹِک
عمران صاحب کی آنکھ کھلتے ہی نظر سامنے رکھی تصویر پر پڑی۔ ابھی جیسے کل کی ہی بات ہے کہ شاہینہ نے کہا تھا کہ اس سال فرحان کو اسکول میں داخل کرنا ہے ۔ اور اب یہ فرحان صدّیقی آ ئی۔اے ۔ایس۔ اضلاع کے دوروں پر گھومتا رہتا ہے ۔ ابھی روحی آئے گی، صبح کی چائے ہمیشہ وہی اپنے ہاتھ سے لا کر دیتی ہے اور کچھ فرحان کی خبر سنائے گی کہ پچھلی رات فرحان نے اس سے فون پر کیا کہا۔ شاید۔ انھوں نے تھکے تھکے سے انداز سے آرام کرسی پر بیٹھتے ہوئے سوچا۔ شاید وقت نہیں بیتتا، ہم بیت جاتے ہیں۔ ٹک۔ ٹک۔ ٹک۔ ٹک۔ کلاک مسلسل چیخ رہا تھا۔
باہر باغ میں اشوک کے درختوں پر لا تعداد پرندے اپنی ایک ساں آواز میں چلاّئے جا رہے تھے ۔ انھوں نے اٹھ کر کھڑکی کھول دی ۔سڑک کے پار سامنے کے بنگلے کے باورچی خانے میں چولھا سلگا دیا گیا تھا اور دھواں اٹھ رہا تھا۔ ماحول میں کتنی شدید یکسانیت ہے ۔ انھوں نے پھر سوچا اور پھر اپنی آرام کرسی پر واپس ہوئے۔ عمران صاحب کو اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ ابھی قہقہوں اور مسکراہٹوں کے غباّرے فضا میں اڑنے لگیں تو۔۔۔۔!
٭
’کشی‘
کہکشاں نے چپ چاپ کروٹ بدلی۔
’اے کشی۔۔۔۔کہکشاں!‘
کہکشاں لحاف سے منہ نکالے بغیر کچھ کہنا ہی چاہ رہی تھی کہ ایک لمبی ’شی۔۔۔۔۔‘ کی آواز آ ئی.۔
انور اپنے بستر سے اٹھ کر کہکشاں کی طرف آیا۔ ۔’کشی۔ وہی اپنی کوئل۔۔۔۔۔۔۔!‘
کہکشاں جھٹ پٹ اپنے بستر سے اچھلی۔ اور ماحول کی یخ زدگی سے بے خبر بغیر گرم کپڑوں کے دونوں پیچھے باغ میں نکل آئے۔
’کل بھی ایسی ہی آواز تھی نا!۔۔۔ کیوں ہے نا کشی؟‘
’ہاں ۔یہ وہی اپنی کوئل کی آواز لگ رہی ہے ‘
کوئل اب بھی اسی طرح پکارے جا رہی تھی۔’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘
’نانی جان کہہ رہی تھیں کہ یہ اللہ میاں کو پکارتی ہے ۔ تو۔۔۔تو۔۔۔ ہیں انّو بھیّا ؟‘ کہکشاں نے ’تو۔۔‘ کویل کی آواز کی نقل کرتے ہوئے کہا۔ انور نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کہ اسے یک لخت یاد آ گیا تھا کہ اسے بھی تو کوئل کی پکار کا جواب دینا ہے ۔
’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘ کوئل چلاّئی۔
’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘ انور کے ساتھ کہکشاں نے بھی جواب دیا۔
’یہی ہماری کوئل ہے جو روز اس پیپل کے پیڑ پر آ کر بولتی ہے ۔ شاید یہاں ہی کہیں رہتی ہو‘ کہکشاں بولی۔ ٹھنڈی ہوا سے اس کی آنکھیں مچمچانے لگیں تھیں۔
’کشی! اس کوئل کا کچھ نام دیا جائے۔ اب یہ ہماری تو ہو ہی گئی ہے ۔ جیسے ہمارا کتّا نہیں ہے سولجر‘
’ہاں ہاں۔ سوچو کوئی اچھا سا نام۔‘
دونوں سوچنے لگے ۔
’کالو‘ کشی نے مشورہ دیا۔ ’کوئل کالی ہوتی ہے نا۔۔!‘
مگر انور کے ذہن میں جمعدارنی کا لڑکا کالو گھوم گیا۔ ’ اونہہ۔ کالو بھی کوئی نام ہے بھلا! اور پھر کالو تو لڑکوں کے نام ہوتے ہیں۔ پھر کیا پتہ یہ کوئل نر ہے یا مادہ‘
کوئل پھر سے پیپل کی شاخ سے اڑ کر پورب کی طرف چلی گئی۔ آموں کے درختوں کی طرف۔
’تو کیا کوئل نر بھی ہو سکتی ہے یا ہو سکتا ہے ‘ ۔کہکشاں گڑبڑا گئی۔ اسے کوئل کے نر ہونے کے امکان پر سخت تعجبّ ہوا تھا۔
’اے انور کہکشاں! وہاں باغ میں پہنچ گئے ہو۔ سوئیٹر کوٹ تو پہن لیتے ! او چچیّ جان! دیکھئے ذرا انّو اور کشی کو۔ باغ میں بغیر گرم کپڑوں کے گھوم رہے ہیں۔ سردی لگ جائے گی۔‘ شکیلہ باجی برامدے سے چلاّ رہی تھیں۔ مگر انّو اور کہکشاں بھاگ کر اپنے کمرے میں پہنچ چکے تھے اور جلدی جلدی سوئیٹر پہن کر خود کو بے حد محفوظ محسوس کر رہے تھے ۔ ویسے ان کو یہ بھی یقین تھا کہ امیّ پر شکیلہ باجی کی بات کا کچھ خاص اثر نہ ہوگا۔ اور اس وقت تو امیّ کسی کام سے غفور کو پکار رہی تھیں جو شاید اب تک بوا کی کوٹھری میں سو رہا تھا۔
٭٭٭
’’بڑے بھیّا!’’
انور نے ناشتے کی میز پر دودھ کا پہلا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
’ہوں۔۔‘ بڑے بھیّا نے آتے ہی اپنی چائے بنائی اور اب چینی گھول رہے تھے ۔
’یہ حلوہ پراٹھا لیجیئے نا! مزے کا ہے !!‘
’ہاں ہاں، تم تو لو۔۔۔۔۔۔‘ وہ بے حد محویت سے چائے میں اس طرح شکر ہلا رہے تھے جیسے دنیا کا اہم ترین کام یہی ہو۔
’’بڑے بھیّا! تھوڑا سا تو لیجئے نا’’ ۔ کہکشاں کو بڑے بھیّا پر بیت ترس آ رہا تھا۔ بے چارے ناشتے میں محض چائے پئے جا رہے تھے ۔ اور اب پھر جو نکلیں گے تو رات تک کھانے کا کچھ ہوش تک نہ ہوگا۔
’’تم دونوں کو آج یکایک مجھ سے اتنی ہمدردی کیوں ہو گئی ہے ۔’’ انھوں نے ہونٹوں پر ایک غمگین سی مسکراہٹ پھیلا دی۔ اور ایک پلیٹ اٹھا کر تھوڑا سا حلوہ نکال کر سامنے رکھ لیا۔
’’بڑے بھیّا! ہماری کوئل کا اچھا سا نام رکھ دیجئے کوئی’’ انور نے شرما کر کہا۔
’’لو بھلا اب کوئلوں کے نام رکھے جانے لگے ’’ بڑے بھیّا ہنس دیئے۔
’کیا ہوا بھئی‘ ۔ امیّ بھی کمرے میں آ کر ناشتے کی میز پر بیٹھ گئیں۔
’ یہ انّو اور کشی اپنی کوئل کا نام رکھنا چاہ رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ کسی کوئل کو اپنا بنا لیا ہے ‘ بڑے بھیّا ایسے شرمندہ تھے جیسے یہ حماقت ان سے ہی سر زد ہو رہی ہو۔ اور امیّ کہہ رہی تھیں۔ ’کوئی کوئل کا بھی نام رکھتا ہے جیسے کوئی پالتو جانور ہو۔ ‘ٹھیک ہے بھائی۔ اس گھر کی توریت ہی نرالی ہے ۔ کہ آنکھ کے اندھے اور نام نین سکھ۔ جسے عقل چھو کر نہ گزرے اس کا نام ایسا جیسے بہت عقل مند ہو۔ کالے کوے ّ کی سی صورت کا نام ایسا جیسے کسی بے حد حسین کا نام ہو ۔۔۔۔۔ تو پھر اس گھر میں بھلا کوئلوں کے نام کیوں نہ رکھے جائیں گے ‘
’امیّ آخر آپ کو عقیل چچا۔۔۔۔۔۔‘ بڑے بھیا نے کہنا چاہا تھا۔
’بس ۔ چپ رہو۔۔۔۔۔ اور شکیلہ تم سے کس نے کہا کہ یہاں چلی آؤ۔ تم کو تو اپنی ماں کو ناشتہ کرانے کا کہا تھا نا!‘
شکیلہ باجی دروازے سے ہی واپس چلی گئیں۔ نہ جانے کیوں وہ ہمیشہ اسی وقت ناشتے کے لئے آتی تھیں جب بڑے بھیّا ناشتہ کر رہے ہوتے ۔ اور بڑے بھیّا کے ناشتے کی نگرانی کرنے کے لئے ہمیشہ امیّ چلی آتیں۔ مگر ان کی اس نگرانی میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔ بڑے بھیّا اٹھ بھی چکے تھے اور جب غفور نے برتن سمیٹے تو ان کی پلیٹ میں اب تک اتنا ہی حلوہ رکھا ہوا تھا۔
انور اور کہکشاں ناشتہ کر کے بڑے بھیّا کے کمرے میں پھر چلے گئے ۔۔۔۔۔
’ بڑے بھیّا! آپ نے بتایا نہیں؟‘
’کیا۔۔۔۔۔؟‘
’وہی ہماری کوئل کا نام!‘
’نام میں کیا رکھا ہے ۔ کچھ بھی رکھ دو۔ اے ۔ بی۔ سی۔ ڈی‘
انّو اور کشی کی آنکھیں مرجھا گئیں۔
’اچھاّ دیکھو۔ کوئل کو ہندی میں کہتے ہیں کو کیلا۔ بس یہی نام رکھ دو۔۔‘
’یہ تو بہت لمبا نام ہے بڑے بھیّا۔‘ مگر انّو کو نام پسند آ گیا تھا۔
’تو پیار سے کو کی کہہ دیا کرو۔۔۔۔‘
’واہ واہ، کوکی کو کی!!!۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘
انو اور کشی خوش خوش بھاگ گئے۔
’اے کشی۔ میری بہن۔ اپنے بڑے بھیّا کو یہ دے آؤ‘ شکیلہ نے کہکشاں کا راستہ روکا۔
گاجر کے حلوے کی پلیٹ تھامتے ہوئے کہکشاں بولی. ’ جیسے آپ کے تو بڑے بھیّا ہوتے ہی نہیں۔۔۔۔ ‘
’اور تمھارے لئے یہ ٹافی۔۔۔۔‘
شکیلہ باجی نے جواب دئے بغیر لال ریپر میں لپٹی ٹافی اس کی آنکھوں کے سامنے کر دی۔ کہکشاں نے روٹھنے کا سا بہانہ کرتے ہوئے مونہہ موڑ لیا۔ لیکن پھر جانے کیا ہوا کہ کچھ لمحے بعد ہی ٹافی کا ذائقہ اس کے مونہہ میں گھل رہا تھا اور شکیلہ باجی کے ہاتھ میں ٹافی کا خالی ریپر چرمرا رہا تھا۔
٭٭٭
’دیکھو انّو بھیا۔۔ یہ کیا؟‘
یہ ٹافی کے کاغذ کی جھلملاتی گڑیا تھی۔
’یہ تو دلہن لگ رہی ہے ۔ جیسے منشی جی کی لڑکی نہیں لگ رہی تھی اپنی شادی کے دن۔۔۔۔‘
پھر یہ گڑیا کمرے کی شمالی دیوار میں لگی الماری میں اوپر کے خانے میں سجا کر رکھ دی گئی۔ اس میں تین خانے تھے ۔ سب سے نیچے والا کہکشاں کا تھا، درمیان والا انور کا جس میں وہ اپنا ذاتی سرمایہ رکھتا تھا۔ اور سب سے اوپر والے خانے میں دونوں کا مشترکہ سامان رہتا تھا۔ یہ گڑیا دونوں کا مشترکہ خزانہ تھی۔
٭٭٭
’کیا کر رہے ہو خاور؟‘
’پہاڑے ‘
’کتنے کا؟‘
’تیرہ کا۔۔۔۔ ‘
’ارے اس میں کیا رکھا ہے ‘ انور نے شیخی بگھارنی شروع کی۔ ’مجھے تو بیس تک پہاڑے یاد ہیں بیس تک۔۔۔۔ اور آدھا، پواّ، پونا، سوایا سب کچھ۔۔۔۔ ‘
آج کل انور اور کہکشاں کی چھٹیاّں تھیں مگر خاور اب تک اسکول میں داخل نہیں کیا گیا تھا۔ اسے ماسٹر صاحب آ کر گھر پر پڑھاتے تھے ۔
’ایسا کرو۔ تم ماسٹر صاحب کو بنئے کا پہاڑہ سنا دو۔‘ انور نے بے حد سنجیدگی سے مشورہ دیا۔ پھر خود ہی رٹے ہوئے سبق کی طرح دہرانا شروع کر دیا۔۔۔۔
’بنیا ایکم بنیا
بنیا دونی دال
بنیا تیا تیل
بنیا چوکے چاول
بنیا پنجے پان
بنیا چھکے ّ چھالیہ
بنیا ستے ّ ستوّ
بنیا اٹھے ّ آٹا
بنیا نواں نون
بنیا دھام دھنیا‘
’مجھے اڑھائی کا پہاڑہ بھی یاد ہو گیا۔ سناؤں؟‘ اور خاور شروع ہو گیا۔’اڑھائی ایکم اڑھائی۔۔ اڑھائی دونی پانچ ۔۔اڑھائی۔۔۔۔۔۔‘
مگر انور بور ہو گیا۔ ’ختم کرو اسے ۔ سنو۔ آج ہم نے کوئل کا نام رکھا ہے ۔۔۔۔کوکی۔۔۔۔‘
’کوکی۔ یہ کیا نام ہے ؟‘
’بڑے بھیّا نے نام تو رکھا تھا کوکیلا۔ جیسے شکیلہ‘
مثال کے لئے شکیلہ باجی کا نام سامنے ہی تھا۔
’مگر ہم پیار سے اسے کوکی کہیں گے ۔۔۔۔۔ ہماری پالتو کوئل ہے نا!‘
’تب تو مزے کی بات ہے ۔ ہماری بلیّ کا نام ہے مکیِّ۔۔۔۔۔مکیّ مکیّ!!۔ چہ چہ چہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘
اور میاؤں میاؤں کرتی صندلی بلیّ خاور کے پیر سے لپٹنے لگی۔
’مگر ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ مکیّ تو کسی چوہیا کا نام ہوتا ہے ‘
خاور کو اپنی بلیّ کے نام پر شک ہوا‘
’تو کیا ہوا۔ امیّ کہتی ہیں نا کہ آنکھ کے اندھے نام نین سکھ‘ انور نے تسلی دی۔
کہکشاں نے موضوع بدلا۔۔۔۔۔’چلو ۔۔۔۔۔باہر چلیں۔ انجیر توڑیں گے ۔۔۔۔۔‘
تینوں پھاٹک سے نکل کر انجیروں کے پیڑوں کی طرف جانے والی باغ کی پگڈنڈی پر چلے جا رہے تھے اور خاور گا رہا تھا۔۔
’چل چل چمن کے باغ میں میوہ کھلاؤں گا۔۔۔۔۔‘
’اور امیّ انور کو آوازیں دے رہی تھیں۔۔۔۔۔’ انّو بیٹا۔ یہ چونیّ لے جاؤ اور بنئے کے پاس سے چرونجی تو لے آؤ۔ یہ غفورا نہ جانے کہاں مر گیا۔۔۔۔۔‘
٭٭٭
ڈگڈگی کی آواز سے انور اور خاور دونوں چونکے ۔ ڈگڈگی مسلسل بج رہی تھی۔ مجمع جمع ہونے لگا تھا۔ یہ ایک بھالو والا تھا اور بھالو کے تماشے کے لئے ان دونوں کا نہ رکنا ایک اہم ترین فریضے سے آنکھیں بند کر لینا تھا۔ بھالو اپنے مالک کے اشارے پر نت نئے کرتب دکھا رہا تھا۔
’اے کالئے۔ یہ سب تماشہ کس واسطے ؟‘
اور بھالو اپنا پیٹ دکھاتے ہوے سب کے سامنے لیٹ گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
پھر بھالو والا سب سے پیسے مانگنے لگا۔انور نے جیب میں چونیّ محسوس کی۔ پھر جلدی سے خاور کو کھینچا۔ اسے چرونجی یاد آ گئی تھی۔
دونوں بنئے لی دوکان کی طرف چلنے لگے ۔ بس یہ آخری گلی ہی تھی دو گھروں کے درمیان اور اس کے بعد موڑ پر ہی بنئے کی دوکان۔ مگر اس چھوٹی ی گلی کی وجہ سے ہی انور اکیلا نہیں آیا تھا۔ اس گلی میں ایک ننھی سی طاق تھی اور اس طاق میں ایک ننھی منی سی قبر۔ اس پر سبز رنگ کیا ہوا تھا اور ایک تازہ گلاب کا پھول رکھا تھا۔ دیوار کے ایک سوراخ میں اگر بتیاں سلگ رہی تھیں۔ یہ سیّد صاحب کا مزار تھا۔
’نہ جانے کون پھول اور اگر بتیاں رکھ جاتا ہے یہاں۔ انور! تم نے کبھی سیّد صاحب کو سلام کیا ہے ؟ ‘
’نہیں تو ڈر لگتا ہے ۔۔‘
’کہتے ہیں کہ قبروں پر سلام کرنا چاہئے۔ اسلاّم و علیکم یا اہلِ قبر!‘
’مگر خاور۔ سمجھ میں نہیں آتا کی سیّد صاحب کی اتنی چھوٹی سی قبر کیوں ہے ؟‘ انور کے ذہن میں عقیل چچا کی لمبی چوڑی قبر کی یاد ابھی تازہ تھی۔
’ابا کہتے تھے کہ یہاں پہلے بڑا مزار تھا اور بڑی قبر تھی۔ مگر جس کی زمین تھی، اس نے وہیں مکان بنایا اور بڑا مزار توڑ کر اس کی جگہ یہ چھوٹی سی طاق بنا دی۔ ۔۔‘
انور کے لئے یہ نئی اطلاّع تھی۔ انور کے دماغ کے خزانے میں نہ جانے کتنے اسرار پنہاں تھے ۔
’اور میرے اباّ تو ہمیشہ اس قبر کو سلام کرتے ہیں۔۔۔‘
اس نے مزید اطلاّع دی۔
انّو کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ ابھی پچھلے دنوں بنئے کی دوکان پر سائیکل کی دوکان والے شبراتی نے بتایا تھا کہ اس نے اس مزار پر سلام کیا تو ایک ’رباب‘ والی آواز نے جواب دیا ’وعلیکم اسلام‘ اور شبراتی ڈر کر بھاگ گیا تھا۔
بنئے کی دوکان سے چرونجی لینے کے بعد موڑ مڑتے ہی پھر سیّد صاحب زیرِ بحث آ گئے تھے ۔اس مزار کو دیکھتے ہی ان کی یہ باتیں لازمی تھیں۔
’مجھ کو تو یہ لگتا ہے کہ سیّد صاحب تھے ہی ذرا سے آدمی ۔۔۔‘ انور نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ اور خاور بھی اس نئی تھیوری پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد بولا۔ ’امیّ کہتی ہیں کہ کبوتر بھی سیّد ہوتے ہیں۔شاید یہ سیّد صاحب بھی کبوتر ہوں۔‘ انور نے سامنے کی مسجد کے میناروں پر اڑتے بیٹھے کبوتروں پر کچھ خوف سے نظر ڈالی۔ اس موضوع نے نیا رخ اختیار کر لیا تھا۔ آخر انور چپ نہ رہ سکا۔’ چپ رہو اب۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے ‘۔ پھر باقی راستہ خاموشی سے ہی طے ہوا تھا۔
٭٭٭
بڑے بھیّا!‘ انور نے بڑے بھیّا کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور کہکشاں نے ان کے ہاتھ سے کتاب چھین لی۔
’کوئی کہانی‘ انّو نے جلدی سے اپنی فرمائش اگل ہی دی۔
بڑے بھیّا نے عینک اتار کر رکھ ہی دی۔ ’کون سی کہانی بھائی!‘
کوئی سی بھی۔ مگر بھوتوں والی نہیں۔۔۔‘ انور ابھی بھی سیّد صاحب کے مزار والی گلی میں گھوم رہا تھا۔
پہلے یہ بتائیے آپ نے کبھی سیّد صاحب کو سلام کیا ہے وہی طاق والے ۔۔۔۔؟‘
’ارے وہ بنئے کی دوکان کے پاس جن کا گلی میں مزار ہے ۔‘ بڑے بھیّا ہنس دئیے ۔ ’کیا آج انھوں نے تمھارے سلام کا بھی جواب دے دیا۔۔۔؟‘
انور ے کچھ جواب نہیں دیا‘
’بھئی یہ بھوت پریت کچھ نہیں ہوتے ۔۔۔۔سب لوگوں نے ایسے ہی جھوٹے قصے ّ بنا لئے ہیں.‘
’سچیّ بڑے بھیّا!‘ کہکشاں بولی۔ .مگر پریاں تو ہوتی ہیں۔ اچھے ّ بچے ّ جب رات کو سوتے ہیں تو پریاں ان کے تکئے کے نیچے ٹافیاں اور چاکلیٹ رکھ جاتی ہیں۔ اور اس دن شکیلہ باجی کہہ رہی تھیں کہ کوئی پھول توڑے تو ایک پری مر جاتی ہے ۔ کہا وہ پھول نہیں ہوتا، پری ہوتی ہے ؟ ہیں بڑے بھیّا؟‘
’تمھاری شکیلہ باجی نے کہا ہے تو پھر ٹھیک ہی کہا ہوگا۔ مگر بھائی انگریزی کہانیوں والی پریاں تو مش رومس میں رہتی ہیں۔ وہی جو ہوتی ہے نا کتے ّ کی چھتری۔۔ اس میں۔ اچھاّ وہ کہانی سنائیں تمھیں جس میں ایک شہزادی کے سر میں کیل ٹھونک کر مینڈکی بنا دیا گیا تھا جادو سے ۔‘
’ہاں ہاں بڑے بھیا!۔ وہی۔ کہکشاں خوش ہو کر پریوں کی بات بھول ہی گئی۔
بڑے بھیّا کی کہانیوں میں سات شہزادے ہوتے تھے یا سات شہزادیاں۔ ساتویں شہزادے کا تیر کسی تالاب میں مینڈکی کے پاس چلا جاتا تھا جس سے اسے شادی کرنی ہوتی تھی۔یہ دوسی بات ہے کہ بعد میں پتہ چلتا تھا کہ وہ بھی شہزادی ہی تھی جسے جادو سے مینڈکی بنا دیا گیا تھا۔ یا پھر کوئی ساتویں شہزادی /شہزادہ اپنی قسمت کا کھانے کی وجہ سے معتوب ہو جاتی تھی/ہو جاتا تھا۔یہ سارے معزول شہزادے اور مظلوم شہزادیاں اپنے اُجاڑ محلوں میں اپنی قسمت کا ماتم کرنے کے لئے رہ جاتے تھے ۔ انھیں ان ماتم گاہوں کے حصار کے باہر کا کچھ پتہ نہ تھا جہاں روشنیاں تھیں، رنگ تھے ، سُر تھے ۔
’تو پھر بادشاہ نے کہا کہ جس شہزادے کا تیر جس طرف جائے گا وہیں اس کی شادی کر دی جائے گی۔ پہلے شہزادے کا تیر شمال کی طرف گیا، اور وہاں ………‘
انور سوچ رہا تھا کہ دنیا بھر کی دادی امّائیں اور نانی امّائیں ایسی ہی کہانیاں سناتی ہیں۔ ہماری نانی دادی نہیں مگر بڑے بھیّا نے ضرور اپنی نانی دادی سے ہی یہ سب کہانیاں سن رکھی ہوں گی۔
’دوسرے شہزادے کا تیر گیا جنوب کی طرف۔ تم جانتی ہو کشی شمال جنوب۔ جسے انگریزی میں نارتھ ساؤتھ کہتے ہیں۔‘ بڑے بھیّا شمال جنوب سمجھانے لگے جیسا کہ ان کی عادت تھی۔ مگر انور کے ذہن میں گرمیوں کی ایک دوپہری چکرّ لگا رہی تھی۔
٭٭٭
چچیّ بی اور امیّ نے آنگن میں کچیّ کچیّ مگر بڑی بڑی امبیوں کا ڈھیر لگا رکھا تھا۔ چچیّ بی مزے سے بڑے سے سروطے سے کھٹا کھٹ ان کے دو دو حصے ّ کئے جا رہی تھیں۔ انور اور کہکشاں ان کی ’بجلیاں‘ نکال رہے تھے اور جمع کرتے جا رہے تھے ۔
’بجلی بجلی میرا بیاہ کدھر؟‘
انور نے امبیا کی بجلی کو پنجے میں پکڑ کر پھسلایا اور بجلی اچک کر آنگن کے پار کھڑکی سے ٹکرائی۔ اور اسی لمحے کھڑکی کھلی۔۔
’انو بھیّا۔ کشی کہاں ہے ؟‘ یہ صبیحہ تھی۔
٭٭٭
سنو خاور۔ رات مجھ کو بڑا ڈر لگا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مجھے سیّد صاحب سلام کا جواب دے رہے ہیں۔وعلیکم اسلّام‘
’وہ ضرور جمعراتی ہوگا۔ ہمیشہ اسلام و علیکم کی جگہ وعلیکم اسلام کہتا ہے بے وقوف۔ ارے وہی جمعراتی جس نے اس دن کوتوالی کے پیچھے سر کٹا دیکھا تھا۔۔۔۔‘
’سر کٹا۔۔۔۔؟‘
’ہاں جناب۔ جمعراتی بتا رہا تھا کہ اس نے کیا دیکھا کہ کوتوالی کے پیچھے جو پیپل کا پیڑ ہے ، اس سے کود کر سر کٹا اترا اور جمعراتی سے پوچھنے لگا ۔۔۔’تو نے دیکھا ہے اس راستے میں کہیں میرا سر تو نہیں پڑا؟‘
’تو کیا وہ آدمی تھا جس کا سر نہیں تھا؟‘
’اور کیا ۔ ایسا ہی ہوگا، گردن تک آدمی، سر کٹا ہوا۔ اور جب وہ وہاں سے ڈر کر بھاگا ہے تو پتنگوں والے چوراہے پر اسے سڑک پر کٹا ہوا سر بھی پڑا ملا۔ اور جناب ! اس نے تو پِچھل پیریاں بھی دیکھی ہیں!!!‘
’یعنی چڑیلیں۔ہیں خاور!!‘
’ ہاں وہ ٹرک چلاتا ہے نا۔ ایک رات وہ کسی سنسان سڑک سے گزر رہا تھا کہ اس نے جنگل میں روشنی دیکھی۔ اسے بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ کوئی گاؤں ہوگا۔ وہاں شاید اسے چائے مَل جائے۔ مگر جب روشنی کے قریب گیا تو وہاں کچھ عورتیں ناچ رہی تھیں، اور ان کے پیر الٹے تھے —- ایڑی سامنے اور پنجے پیچھے ۔‘
’جیسے ہماری اردو کی کتان میں ایک ڈاکٹر صاحب نے گڑیا کے پیر الٹے سی دیئے تھے ‘
’ہاں ہاں ایسی ہی ہوتی ہیں پچھل پیریاں۔ اور انہیں کو چڑیل بھی کہتے ہیں۔خود ہمارے ابّا نے چڑیلوں کے پیروں کی پائل کی آواز سنی ہے ۔‘
’بس کرو خاور۔۔۔۔۔ کیا مار بھوتوں چڑیلوں کی باتیں کئے جا رہے ہو۔ میرا تو ڈر کے مارے دم نکلا جا رہا ہے ۔‘
’کیا ہو گیا انّو بھیّا ۔۔۔۔! صبیحہ جو ابھی آئی تھی، انور کے جملے کا آخری حصہّ سن کر پریشان سی ہو اٹھی۔
’بھوت چڑیلوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔چیاؤں۔۔۔۔۔!‘
اور انور نے صبیحہ کو ڈرانے کی کوشش کی حالاں کہ خود اس کا دل اب تک کانپ رہا تھا۔
٭٭٭
’سات سمندر گوبھی چندر، بول میری مچھلی کتنا پانی۔۔۔۔؟‘
’اتنا پانی۔۔۔‘
صبیحہ اور کہکشاں نے محلے ّ کی کئی بچیوّں کو اکٹھاّ کر رکھا تھا اور کھیل زوروں میں جاری تھا کہ امیّ نے آواز لگائی۔۔۔
’دونوں وقت مِل رہے ہیں۔ اب بند بھی کرو‘ اور مچھلی نہ جانے کتنے پانی میں آ کر رک گئی۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ خاور اور انور دور کھڑے آسمان پر اڑتے بگولوں کی قطار دیکھ رہے تھے ۔
’اللہ دے رسول بخش۔ بگلے بگلے پھول بخش ‘
ان کی آنکھیں بند تھیں اور ہونٹ مستقل گردان کیے جا رہے تھے ۔ پھر انور نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور ’شگون‘ کے لیے پہلے بگلوں کی طرف دیکھا جو مشرق کی طرف جنگلوں میں دھیرے دھیرے گم ہوتے جا رہے تھے اور پھر اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کے سارے ناخنوں میں کچھ تلاش کیا۔
’دیکھو دیکھو ‘ خاور نے بائیں ہاتھ کی بیچ کی انگلی نچائی جس کے ناخن پر خشخاش کے دانے کے برابر داغ پڑ گیا تھا۔ انور کا دل بجھ سا گیا۔ بگلوں نے اسے کوئی پھول نہیں بخشا تھا۔ اس کے ہاتھ کی کسی انگلی کے ناخن میں کوئی داغ نہیں تھا۔وہ دھیرے دھیرے نپے تلے قدموں سے برامدے کی طرف آیا اور وہاں پڑی چار پائی پر بیٹھ کر اپنے ناخن پھر سے غور سے دیکھنے لگا۔
’ہماری بیچ کی انگلی پکڑو۔۔ ‘ خاور نے دائیں ہاتھ کی انگلیاں توڑ مروڑ کر بائیں ہاتھ کے پیالے میں پیش کر دیں۔ انور سوچ میں پڑ گیا۔ بایاں ہاتھ ہوتا تو بگلے کے بخشے پھول سے بیچ کی انگلی پہچان بھی لیتا۔
’شاید یہ ہے ۔ نہیں۔ یہ تو انگوٹھا ہے ۔ یہ چھوٹی انگلی ہے جس میں کل میرے سامنے گلاب کے پھول توڑتے ہوئے تمھارے کانٹا چبھ گیا تھا۔ ہاں۔ یہ رہی۔۔۔‘
اور اب انور مسکرا رہا تھا۔ اس نے صحیح انگلی پکڑی تھی۔ اب اس نے بھی فوراً اپنی بیچ کی انگلی پکڑوانے کے لئے خاور کے سامنے دوسرے ہاتھ میں انگلیاں اس طرح چھپا کر پیش کر دیں کہ ان کے صرف سِرے نظر آ رہے تھے ۔
’یہ ہے ۔۔۔ ہیں۔۔۔۔؟‘
مگر خاور کی آنکھوں کی چمک معدوم ہو چکی تھی۔ یہ انور کی چھوٹی انگلی کے پاس والی انگلی تھی، بیچ کی نہیں۔
٭٭٭
شکیلہ باجی اپنی سہیلیوں کے ساتھ تاش کھیل رہی تھیں۔غلام بادشاہ کا کھیل عروج پر تھا کہ شکیلہ باجی غلام بن گئیں۔
’ہم تو بھئی بادشاہ ہیں‘۔ رعنا آپا نے فخر سے کہا۔
’اور ہم تمھارے وزیر‘ قدسیہ باجی بولیں۔
’ہم تو بھئی سدا کے غلام۔ایکو بار بادشاہ نہیں بنے ۔ بھولے بھٹکے وزیر ضرور بن چکے ہیں۔‘ شکیلہ باجی نے تاش کے پتے ّ سمیٹ دیئے۔ ’اب ختم کریں۔‘
’ہم لوگ کھیلیں؟‘ کہکشاں نے اجازت مانگی۔
’خراب مت کرنا پتے ّ۔۔۔۔‘
شکیلہ باجی اور دوسری لڑکیاں اٹھ کر برامدے میں چلی گئیں۔
’آؤ تاش کے گھر بنائیں۔ ‘ صبیحہ نے تجویز کیا۔
’دیکھو کس کا گھر اونچا بنتا ہے ۔‘ کہکشاں نے بازی لگائی۔ صبیحہ نے جلدی جلدی تاش کے چار پتوّں کو ترچھا کر کے کھڑا کیا اور ان کے اوپر ایک اور پتے کی چھت بنا دی۔ دوسری ’منزل‘ بھی اسی طرح بن گئی۔ اور اب تیسری منزل کے پتے لگا رہی تھی کہکشاں نے ابھی دوسری منزل کے پتے ہی سجائے تھے کہ سارا گھر فرش آ رہا۔ صبیحہ کی بھی تیسری منزل کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ مگر صبیحہ کا تاش کا گھر پہلے ہی گرِ چکا تھا۔’ آہا جی۔۔۔ ہم جیت گئے۔۔ ہمارا گھر دو منزلوں کا!!!‘صبیحہ نے تالی بجائی۔۔۔
’’ہم سے نہیں بنتے ایسے اونچے اونچے گھر۔ ہمارے لیے تو چھوٹا سا گھر ہی کافی ہے ۔‘
اداسی سے کہکشاں نے پتے ّ پھر سمیٹ دیئے اور چپ چاپ بڑے کمرے کی الماری پر رکھ آئی۔ وہاں امیّ ایک ساں خاور کی اماّں سے باتیں کیے جا رہی تھیں۔
’بھئی۔۔ مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتا بھابھی کا رہنا۔ اور پھر اس پر یہ شکیلہ بھی۔ مظہر کے اباّ کو اپنے بھائی کا خاندان بھلے ہی عزیز ہو، مگر میں تو برداشت نہیں کرنے کی!! ‘
’مگر ایمان کی بات ہے کہ شکیلہ لاکھ گنوں کی لڑکی ہے ۔‘
’تو کیا میں اپنے مظہر سے اسے بیاہ دوں؟ نہ نہ!! یہ تو نہیں ہونے کا۔ایک تو عقیل بھائی نے اپنی پسند سے رذیلوں کی لڑکی اٹھائی اور اس کی گود بھری۔ اور جب لڑکی جوان ہونے لگی تو گولی کھا کر خود قبر کی گود میں سو گئے۔ شکیلہ میں بھی اپنے خاندان کی خصلتیں تو آئیں گی ہی۔ ڈوم جو ٹھہریں۔ خود ہی سن لو۔۔۔‘
اور شکیلہ باجی کے کمرے سے مدھمّ سروں میں میٹھی میٹھی آواز آ رہی تھی۔۔۔
اے ری۔۔۔ آلی پیا بنے ۔ سکھی کل نہ پرت موہے گھری پل چھِن دِن‘
٭٭٭
’شکیلہ باجی!! ‘ کہکشاں نے شکیلہ باجی کی آنکھیں پیچھے سے اپنے ہاتھوں سے بند کر لیں۔
’روٹی جل جائے گی بھئی۔ بد تمیزی مت کرو کشی‘
’اچھیّ باجی!! ایک روٹی ہم بھی پکائیں گے ‘
کہکشاں انتظار کرتی رہی۔ اور جب آٹے کی پرات میں آخری دو پیڑے بچے تو شکیلہ باجی نے دونوں پیڑوں سے تھوڑا تھوڑا سا آتا نکالا اور تیسرا چھوٹا پیڑا بنا دیا۔
’یہ تمھارے لئے ‘ اور ایک ایک کر کے باقی دونوں روٹیاں بیلنے لگیں۔ اور پھر بیلن پٹرا کہکشاں کے سامنے تھا۔
’ہاتھ دھو کر آئی ہو نا؟؟ ‘شکیلہ باجی نے اپنے سگھڑاپے کا ثبوت دیا اور کچھ بزرگی بھی جتائی۔
’ہاں باجی۔ ‘کہکشاں نے روٹی گول کرنے کی کوشش کی مگر لنکا کا نقشہ ہی بن سکا۔ پھر بھی کہکشاں اس وقت بہت خوش تھی جب اس کی بیلی ہوئی روٹی توے پر سنک رہی تھی۔ اسے یک لخت محسوس ہوا اب اسے کھانا پکانا آ گیا ہے ۔ چائے بنانی تو اس نے پہلے ہی سیکھ لی تھی کہ پہلے پانی کیتلی میں ابالا جائے اور پھر چائے کی پتیّ اسی میں ڈال کر اتار لو۔ اور پیالی میں دودھ اور چینی ملا کر چائے کا پانی ڈال دو۔ بس چائے تیاّر۔ اب کبھی ضرورت پڑی تو کم از کم خود چائے بنا ک اس کے ساتھ روٹی تو کھائی ہی جا سکے گی۔ بھوکے تو نہیں رہیں گے ۔ اس نے دلِ ہی دلِ میں دعا مانگی کہ کسی دن گھر کے سب بڑے کہیں چلے جائیں تو چائے اور روٹی سے ناشتہ کیا جائے اور انور، خاور اور صبیحہ کی دعوت بھی کی جائے۔
٭٭٭
’امیّ ! بھوک لگ رہی ہے ‘
انّو باورچی خانے میں ہی چلا آیا تھا۔ دروازے پر کھڑی امیّ بوا اور شکیلہ باجی کو ہدایتیں دے رہی تھیں۔ بوا برتن بھی دھوتی جا رہی تھیں۔ تانبے اور چینی کے برتنوں کی کھنک کے ساتھ المونیم کے برتن دھلتے وقت عجیب بے سری سی آواز پیدا کر رہے تھے ۔ بوا برتن دھو کر باورچی خانے میں رکھی میز پر سجائے جا رہی تھیں۔ ان آوازوں میں شکیلہ باجی کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ بھی تھی جنھیں وہ آٹے میں سنے ہاتھوں سے اوپر چڑھا لیتی تھیں مگر آٹا گوندھتے ہوئے چوڑیاں بار بار سامنے کی طرف سرک آتیں ۔
’تم چوڑیاں نہ پہنو تو اب تک دو چار روٹیاں تیار ہو چکی ہوتیں۔۔‘ امیّ باورچی خانے سے باہر چلی گئیں۔
’بس ابھی دو چار روٹیاں پک جائیں گی تو تم کھانا کھانے بیٹھ جانا۔‘ شکیلہ باجی نے انور کو تسلیّ دی اور چوڑیاں اتار کر طاق پر ایک طرف رکھ کر پھر تیزی سے آٹا گوندھنے لگیں۔ انور انھیں دیکھتا رہا۔ آٹا گوندھنے کے بعد اس کی نظریں لکڑی کے پٹرے پر رہیں۔ وہ غور سے دیکھتا رہا کہ کس طرح شکیلہ باجی آٹے کے پیڑے بنا کر خشکی میں دبا کر ہاتھ سے پھیلاتی ہیں اور پھر پٹرے پر رکھ کر بیلن سے گول بیل دیتی ہیں۔ اور پھر ایک ہلکی سی جنبش اور ایک چاند توے کی سیاہ آسمان پر چمک جاتا۔
پھر بوا نے اس کے سامنے کھانا لا کر رکھ دیا۔ ایک چھوٹی تپائی باورچی خانے میں ایسی ضرورت کے لئے رہتی تھی۔
’گوشت میں ابھی پانی نہیں ڈالا ہے ۔ بھنا ہوا ہی کھا لو۔ ‘ شکیلہ باجی نے اس کی پلیٹ میں ایک گرم گرم روٹی رکھ دی اور انور کھانے لگا اور دیکھتا رہا روٹیوں سے زیادہ شکیلہ باجی کے ہاتھوں کو۔ اور کھانا ختم کر کے بھی یہی کھیل دیکھتا رہا۔ آٹے کی پیڑے پرات میں کم ہوتے گئے۔ اور انور کھیل ختم ہونے کے خیال سے افسردہ ہونے لگا۔ پھر اچانک ایک خوش گوار احساس نے اسے ایک اور لمحے کا منتظر کر دیا۔ روٹی پکا کر شکیلہ باجی نے توا چولھے کے کنارے اوندھا دیا تھا۔
’توا ہنس رہا ہے !! توا ہنس رہا ہے !!‘
توے کے اندر والے حصے ّ میں چنگاریوں کے سرخ ستارے جھلملا رہے تھے ۔
’راکھ ڈالو۔ توے کا جلنا اچھاّ نہیں ہوتا۔ ‘ بوا نے مشورہ دے کر خود ہی جلدی سے توے پر راکھ کی مٹھّی بکھیر دی۔
٭٭٭
امیّ اور چچیّ بی دونوں اپنے سامنے کدو کش رکھے گاجریں کدو کش کر رہی تھیں۔
‘آہا۔۔گاجر کا حلوہ !!’ کہکشاں نے سوچا اور اس کے مونہہ میں پانی بھر آیا۔ وہ خاموشی سے امیّ کے پاس بیٹھی یہ تماشہ دیکھتی رہی۔ صبیحہ آنگن میں شکیلہ باجی کا دوپٹہّ سکھانے میں مدد دے رہی تھی جو انھوں نے ابھی شنجرفی رنگ میں رنگا تھا۔ اور امی چچیّ بی سے گاجر چھیلتے چھیلتے باتیں کئے جا رہی تھیں۔
"سبزیوں والا باغ تو بِک چکا۔ اب کیا گاجروں کا حلوہ بنے ۔ ایک زمانہ تھا کہ میں نے انھیں ہاتھوں سے من من بھر گاجروں کا حلوہ بنایا ہے ۔”
"وہ زمانہ تو کب کا لد چکا دلہن۔۔۔” چچیّ بی کی آنکھوں کے سامنے سے ماضی کے سایوں کا جلوس گزرنے لگا۔
"اور اب ظاہر ہے کہ گاجریں خرید کر تھوڑا سا حلوہ بنایا جائے اور اس میں بھی غیر حصہّ بٹا لیں تو کیا ملے گا بچوں کو۔۔؟”
امیّ نے آخری گاجر کدو کش کر کے کدو کش الٹا کر کے جھٹکتے ہوئے کنکھیوں سے چچی بی کی نورانی آنکھوں میں مہیب سایوں کا جلوس گزرتے دیکھا۔ یہ صفا ان پر چوٹ تھی۔
آنگن میں دھوپ تیز ہو گئی تھی، شکیلہ باجی کا دوپٹہّ سوکھ چکا تھا، وہ دھیرے دھیرے قدموں سے برامدے میں چلی آئی تھیں اور امیّ اور چچی بی کی باتوں کو خاموشی سے ایک لمحہ سن کر کچھ سوچتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں ۔ ملحقہ کمرے سے دوسری ہی آوازیں ان کو دعوتِ سامعہ دے رہی تھیں۔
٭٭٭
"اباّ میاں! گیہوں کی کٹائی اب قریب ہے ۔۔۔۔۔۔”
"بھئی۔ مجھ سے مشورہ لینے کی کیا ضرورت۔ میں ٹھہرا مفلوج آدمی۔ تم ہی منشی فضل دین سے کہہ کر آدمیوں کو لگوا لو۔”
"اباّ میاں، میں بھی یہی کہنے جا رہا تھا کہ منشی جی کو بلوا لیتے ہیں۔ آپ خود ہی ان کو حکم دے دیجئے گا، وہ سنبھال لیں گے ۔ اس لئے کہ اب میرا کھیتوں میں جانے کا ارادہ نہیں ہے "
"بھائی، تم نے خود ہی تو کھیتوں میں کام کرنے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ تم کو پڑھ لکھ کر بھی ہل چلانا زیادہ پسند تھا کہ گوروں کی نوکری تم کرنا نہیں چاہتے "
’’اباّ میاں! میں آزادی کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔”
اباّ میاں کے ذہن پر ‘زمیں دار’ اخبار کی کئی سرخیاں دھول اڑاتی تیز رفتار بگھیّوں کی طرح گزر گئیں۔
‘دہشت پسندوں کے گروہ کی گرفتاری’
‘خاکسار تحریک’
‘مسلم لیگ کے جلسے میں کانگریسیوں کی رخنہ اندازی’
‘غسل خانہ خارجِ مسجد ہے ۔ مفتی کان پور کا بیان’
آزاد ہند فوج۔۔۔ دہشت پسند۔۔۔مسلم لیگ۔۔۔ کانگریس۔۔۔عقیل بھائی۔۔۔۔ محمدّ علی۔۔۔۔۔
‘میں شیروانی اور کرتے کے بٹن بھی کھول دیتا ہوں کہ گولی اور میرے سینے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔۔’
اباّ میاں! میں آزادی کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔” ان کے ذہن میں پھر مظہر کی آواز گونجی۔ انور چپ چاپ کھڑا بڑے بھیّا اور اباّ کو دیکھتا رہا۔ اباّ میاں کی ایک بوڑھی سفید لٹ گھنی مونچھوں پر آ گری جسے انھوں نے اپنے رومال والے ہاتھ سے سر کی طرف پھینکتے ہوئے آنکھوں کے گوشے صاف کئے ۔
"تم جو بھی کرو، حق کے لئے کرو۔ تم اپنے عقیل چچا کے بھتیجے ہو. اس صغیر اللہ کی اولاد ہو جسے سن ستاّون میں گوروں کا مقابلہ کرنے پر انعام کے طور پر سرکار سے یہ زمینیں ملی تھیں جن کی پیداوار تم اب تک کھاتے رہے ہو۔ حالانکہ اب ہم کو خود ہی اپنی رعایا۔۔۔۔۔۔۔‘ اباّ میاں رکے ۔ انور دروازے کی اوٹ میں چپ چاپ کھڑا یہ پر اسرار باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ دنیا میں اب بھی کتنی باتیں ایسی ہیں جو نہ سمجھ میں آنے والی ہیں۔ سیّد صاحب، سر کٹے اور پچھل پائیاں تو زندگی کا ضروری جز اور بے حد حقیقی چیزیں تھیں۔ ایک دم سامنے کی باتیں جو آسانی سے سمجھ میں آ جاتی تھیں۔ مگر یہ باتیں!!! دس گیارہ سال کی عمر میں تو اسے یہ سب باتیں سمجھ میں آ جانی چاہئے اور اپنے سے چھوٹے خاور اور صبیحہ کو سمجھا بھی دینا چاہئے تھا۔
٭٭٭
انور ۔کہکشاں اور خاور۔صبیحہ کے گھروں کے آنگنوں میں کھلنے والی مشترکہ کھڑکی دن میں کئی بار کھلتی۔ کبھی ایک طرف سے بند ہوتی تو دوسری طرف سے کھڑکی بجا کر دستک دی جاتی۔ چاروں کے کان اس دستک کی پہچان میں بے حد تیز تھے کی ان کی آمد و رفت کا تو راستہ ہی یہ تھا۔ مختلف چیزوں کا تبادلہ ان کی ماؤں میں ہوتا اور یہ فریضہ بھی ان چاروں میں سے کسی کا ہوتا۔
اس دن بے حد صبح شاید چاروں ابھی سو ہی رہے تھے کہ کھڑکی پر دستک ہوئی تھی۔ آنگن کے پار کوٹھری میں سوئی ہوئی بوا اور غفور کی آنکھ کھل گئی۔ غفور نے کھڑکی کھولی۔ خاور کی امیّ پریشان سی کھڑی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں ٹیلی گرام تھا۔۔۔
’ذرا جلدی سے مظہر میاں سے یہ تار پڑھوا دو۔ سو رہے ہوں تو جگا دو۔۔‘
غفور تار لے کر بڑے بھیّا کے کمرے کی طرف اتنی تیزی سے گیا کہ کئی لوگوں کی آنکھ کھل گئی۔
’ بڑے بھیّا!‘ اس نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ ’ بڑے بھیّا!‘ اس نے دروازہ بجانے کے لئے پھر دروازے پر ہاتھ رکھا تو تھوڑے دھکے ّ سے دروازہ کھل گیا جو اندر سے بند نہیں تھا۔ بڑے بھیّا کمرے میں نہیں تھے ۔ ان کے بستر پر بے شمار سلوٹیں پڑی ہوئی تھیں اور اباّ میاں پکار رہے تھے ۔۔۔
’مظہر کو ابھی مت اٹھاؤ۔ تار مجھے دو میں پڑھ دیتا ہوں۔۔۔‘
غفور نے ٹیلی گرام ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، اباّ میاں نے تار بلند آواز میں پڑھا۔۔۔
’’ JAMAL EXPIRED(.) COME SOON رام پور سے آیا ہے یہ تار۔ بھابھی سے کہو کہ ان کے بھائی جمال کا انتقال ہو گیا ہے ۔ انّ لِلّلہ واِنَّ اِلیہِ راجعون۔ ان کو فوراً بلایا ہے ۔’’
’مگر صاحب بڑے بھیّا؟؟؟‘
انور اور کہکشاں بڑے بھیّا کے کمرے میں جھانک رہے تھے ۔ کل شام کو انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر کل صبح وہ انھیں سلام کرنے آئیں گے تو ان کو انعام دیا جائے گا۔ انور کی فرمائش کلر باکس کی تھی اور کہکشاں کی تصویروں والی کہانی کی کتاب کی۔ مگر بڑے بھیا نہ جانے کہاں غائب تھے ۔ البتہّ ان کے سرہانے کی تپائی پر ایک کلر باکس اور دو کہانی کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ انور نے جلدی سے رنگ کا ڈبہّ اٹھا لیا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کلر باکس پر بنا خرگوش بھاگتے بھاگتے دور سرسوں کے کھیتوں میں نکل گیا ہے اور صبیحہ کی کتابوں کے سر ورق پر بنے پھولوں پر کوئی سچ مچ کی تتلی آ بیٹھی ہے جو لمحے بھر بعد اڑ جائے گی۔
٭٭٭
پھر ان چاروں کی چوکڑی میں ایک پانچواں سوار جنید شامل ہو گیا تھا۔ جنید جسے خاور کی امیّ رام پور سے لے آئی تھیں۔ ان کے مرحوم بھائی کی یاد گار جن کا ٹرک کے حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔ وہ بڑے فخر سے اپنے شہر رام پور کی باتیں بتا رہا تھا۔ ۔۔
’’اور ہمارے اسکول کے سامنے اتنا بڑا میدان تھا۔۔ جی ہاں جناب کہ گلیّ ڈنڈا کھیلنے میں مجال ہے جو گلیّ کبھی ہزار ہو جائے۔ ایک بار میں نے ہی گلیّ ہزار کی تھی۔ پہلے ہی ٹُل میں گلیّ آدھے میدان کو پار کر گئی تھی۔ پھر دوسرے کے بعد تیسرا ٹُل جو میں نے مارا تو گلیّ میدان کے باہر اسپتال کی چھت پر۔۔!!! اس دن کھیل میں اتنا مزا آیا تھا کہ گھر جانا یاد ہی نہیں رہا۔ اس دن ابا جان نے بہت مارا تھا۔۔۔’’
’’اباّ جان تم کو بہت مارتے ہیں کیا۔۔۔؟’’انور نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔۔ بہت مارتے تھے ’’ اس نے ’تھے ‘پر زور دیا۔ ’’اب تو وہ اپنی قبر میں گھسنے والے بجّوؤں کو مارتے ہوں گے ’’۔ وہ استہزا سے ہنسا۔
’’اور امی ۔۔؟’’ انور کو جمال ماموں کی وفات کی بات بھول جانے پر شرمندگی کا احساس ہوا۔
’’اماں کا تو یاد ہی نہیں۔ میں بہت چھوٹا تھا کہ ایک دن وہ اسپتال گئیں تو واپس ہی نہیں آئیں۔ گھر میں خالہ تھیں۔ وہ نہ مارتی تھیں نہ پیار ہی کرتی تھیں’’ انور کو شکیلہ باجی کی بات یاد آئی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایک بار ان کے ابوّ ۔ عقیل چچا۔ اسپتال گئے تو واپس ہی نہیں آئے’’۔
’’یہ لوگ اسپتال کیوں جاتے ہیں جب واپس نہیں آ سکتے ’’۔ خاور نے اپنی رائے ظاہر کی ۔
’’اسپتال تو علاج کے لئے ہوتا ہے بیوقوف۔ مگر کسی کسی کا علاج ٹھیک نہیں ہو پاتا تو وہ بیماری سے مر جاتا ہے ۔ دل دھڑکنا بند ہو جاتا ہے اور سانس رک جاتی ہے ۔ پھر لوگ لے جا کر قبر میں لٹا دیتے ہیں۔’’ جنید نے نہایت عقل مندی اور بزرگی کا ثبوت دیا۔
اب تو شاید جنید بھی میرے ساتھ اسکول میں داخل کیا جائے گا۔ انور نے خوشی سے سوچا۔ مگر جنید نے ہی ایک بار بتایا تھا کہ وہ تو اپنے کسی دوست کے گھر سے لا کر اپنے سے اگلے درجے کی کتابیں بھی پڑھ چکا تھا۔ نئی کلاس شروع ہوتے ہی نئی نئی کتابیں آتی تھیں اور وہ پہلی ہی رات میں سارے سال کا کورس ختم کر دیتا تھا۔ اور اگلے اگلے دنوں میں دوسرے درجوں کی کتابیں مانگ کر لاتا تھا۔ کتنا قابل تھا بھئی یہ جنید!!
’’تم اسکول میں پڑھو گے ۔۔؟’’ انور نے پوچھا۔
’’ہاں۔ امتحان پاس کرنے کے لئے تو اسکول جانا ہی ہوگا۔ اور تمھارے اسکول کی ہی بات ہو رہی ہے ۔ پھوپھا جان بتا رہے تھے ۔ مگر بھائی ۔۔۔۔۔اب تو میں کتابیں لکھوں گا!!’’
’کیا مطلب؟‘خاور کی سمجھ میں بات نہیں آئی۔ ’
’ارے ، یہ جتنی کتابیں ہوتی ہیں نا، رسالوں میں کہانیاں نظمیں ہوتی ہیں، یہ لوگ خود ہی تو لکھتے ہیں ہم تم جیسے ۔ میری دو تین کہانیاں ’پھلواری‘ میں چھپ بھی چکی ہیں۔….‘
’پھلواری۔۔۔؟‘
’ارے وہ بچوںّ کا رسالہ ہوتا ہے نا۔ میں کچھ پرچے لے کر آیا ہوں،۔ دیکھ لینا۔ مزے کی کہانیاں نظمیں ہوتی ہیں اس میں۔ اب تو میں کہانیوں کی کتابیں لکھنے کی سوچ رہا ہوں۔۔‘
خاور اور انور نے جنید کو دفعتاً اپنے سے بے حد بہتر محسوس کیا اور احساسِ کم تری سے محجوب ہو کر جدا پو گئے۔
٭٭٭
انور نے آ کر حسبِ معمول بڑے بھیا کے کمرے میں جھانکا۔ ان کا کمرہ ترتیب سے سجا دیا گیا تھا۔ مینٹل پیس پر ان کی بکھرے بالوں والی تصویر مسکرا رہی تھی۔ بستر قرینے سے لگا ہوا تھا۔ سرہانے کے دریچے سے ہوا کے ساتھ کمرے میں گھس آئے عشق پیچاں کے پتے ّ شکیلہ باجی کے چہرے کو سہلا رہے تھے اور ان کی بے حد چمکیلی آنکھوں کے بھیگے کناروں سے اپنی پیاس بجھا رہے تھے ۔ نہ جانے کب سے شکیلہ باجی وہاں کھڑی تھیں۔اور کب تک کھڑکی کے پاس کھڑی رہیں۔ نہ جانے کب تک وہاں انّو شکیلہ باجی کو گم صم کھڑا دیکھتا رہا اور بڑے بھیّا تصویر میں مسکراتے رہے ۔
٭٭٭
سردی کی مختصر چھٹّیوں کے بعد اسکول پھر کھل گئے تھے اور دھیرے دھیرے گرمیاں بھی آ گئیں۔ اور ایک دن پانچوں سوار چونکے تو ان کو یہ احساس ہوا کہ آج کل ان کو بہت فرصت ہے ۔ امتحان نزدیک سہی، مگر دن بہت بڑا ہے ۔ اسکول بھی صبح سویرے کا ہو گیا تھا اور ١١ بجے چھٹّی ہو جاتی تھی۔ باقی دن بھر خوب لطف اٹھائے جا سکتے ہیں۔ انور، خاور اور جنید طویل ترین راستے سے اسکول سے لوٹا کرتے ۔ راستے میں کتنی دل چسپیاں بھی تو بکھری پڑی تھیں!!۔ پتنگ والے چوراہے پر رنگ برنگی پتنگوں کے علاوہ چورن والے کا خوانچہ بھی ہوتا تھا۔۔ چورن میں تو شاید ان کو اتنا ذائقہ محسوس نہیں تھا مگر چورن والا چورن پر کچھ چیز ڈال کر جب آگ دکھاتا تھا تو اس ننھے سے شعلے کے تماشے میں ان کے چورن کی ساری قیمت وصول ہو جاتی تھی۔ اور اس نیک با سعادت فرض کی ادائیگی میں اکثر جیب کا ایک ایک پیسہ خرچ کر دیتے تھے جو ان کو اسکول کے وقفے میں خرچ کرنے کے لئے دیا جاتا تھا۔
پھر بڑی مسجد کے پاس والا پیپل کا پیڑ تھا۔ جس کی جڑوں کے پاس پتھرّوں میں گیرو لگا ہوا تھا اور آس پاس کے ہندو گھروں کی عورتیں ناریل توڑ کر یا دودھ اور پانی بہا کر اس کی پوجا کرتی تھیں۔ اور جس کے سو شاخہ تنے سے ایسا منظر بنتا تھا جیسے کرشن جی اپنے مخصوص پوز میں ایک ٹانگ دوسری پر رکھے بانسری بجا رہے ہوں اور مسجد کے میناروں پر کبوتر۔ سیّد صاحب!۔ اور تھوڑا آگے بسم اللہ ہوٹل پر بجنے والے ریکارڈ ’’تیری گٹھری میں لاگا چور مسافر جاگ ذرا’’ اور اس کے ساتھ آواز ملا کر وہ گاتے ۔۔۔۔’’مسافر بھاگ ذرا’’ اور خود بھی بھاگتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ۔ گھر آ کر کھانا کھاتے ۔ پھر ساری دوپہر پڑی تھی۔ دوپہر کھانے کے بعد سارے بزرگ آرام کرتے تھے ۔
ایسی ہی ایک گرم دو پہر کو انور نے اپنے کمرے سے نکل کر دوسرے کمروں میں جھانکا۔ چچیّ بی گہری نیند سو رہی تھیں۔ اور شاید ایسے ہی خواب دیکھ رہی تھیں جو وہ ہمیشہ امیّ کو سناتیں اور امی اپنا کام کرتے کرتے بے دھیانی سے ’ہاں۔ ہوں‘ کرتی رہتیں۔
’’..کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کنواں ہے اور اس میں بہت گہرا پانی ہے ۔ میں جھانکتی ہوں تو مجھے کنویں کی گہرائی میں شکیلہ کے ابوّ دکھائی دیتے ہیں جیسے وہ وہاں تیر رہے ہوں۔۔ پھر مجھے پکارتے ہیں کہ مجھے نکالو۔ میں تیزی سے ڈول ڈالتی ہوں اور تھوڑی دیر بعد ڈول نکالتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ اس میں شکیلہ کا نارنجی دوپٹّہ نکلتا ہے جو میں نے اس کے چوتھی کے جوڑے کے ساتھ بنایا ہے ۔ بھیگے ہوئے دوپٹے ّ کو دیکھ کر میں چیخ مارتی ہوں اور میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔’’
انور نے یہ خواب سن کر پچھواڑے کے کنویں میں جھانکا تھا مگر اسے اس کنویں سے اسے کبھی کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی۔ سوائے اس وقت کے جب ایک بلاّ کنویں میں گر کر مر گیا تھا اور اباّ میاں نے منشی چچا اور بڑے بھیّا سے چالیس ڈول پانی گن کر باہر نکلوا کر پھنکوایا تھا کنویں کو پاک کرنے کے لئے۔
امیّ اور چچیّ بی کو سوتا دیکھ کر انور آگے بڑھ گیا۔ اباّ میاں کے کمرے میں جھانکا۔ ان کے سینے پر ’زمیں دار‘ اخبار کھلا پڑا تھا اور ان کے خراّنٹوں اور ہوا کے ساتھ اخبار کے ورق پھڑپھڑانے کی آوازوں سے فضا گونج رہی تھی۔ ان کے سر کی طرف بڑا سا پنکھا ساکت تھا۔ اس کی دوری برامدے میں لیٹے ہوئے غفور تک چلی گئی تھی جو میلی سی بوری کے بستر پر لیٹا ہوا سو گیا تھا۔ انور نے غفور کو دھیرے سے جھنجھوڑا۔۔
’’پنکھا نہیں چل رہا ہے ۔۔۔۔’’ اس نے غفور کو اطلاّع دی۔ غفور نے آنکھیں مل کر کھولیں مگر اس سے پہلے ہی وہ مستعدی سے پنکھا ہلانا شروع کر چکا تھا۔ انور کو اطمینان ہو گیا کہ اب پنکھا بند ہو جانے کی گرمی سے اباّ میاں کی آنکھ کھلنے کا بھی خطرہ نہیں ہے ۔ امیّ کے کمرے کا پنکھا بوا ہلا رہی تھیں۔ دالان میں ہی کہکشاں مل گئی۔ انور نے غفور کے سو جانے کی بات ہنس کر سنا ئی مگر زیرِ لب۔ اور پھر دونوں خاور اور صبیحہ کے آنگن کی کھڑکی پر دستک دے رہے تھے ۔
٭٭٭
پانچوں لوٗ کے باوجود جیسے ٹہلتے ہوئے سرکنڈوں کی جھاڑیوں تک گئے اور کب واپس آ رہے تھے تو ان کے ہاتھوں میں ڈھیروں سر کنڈوں کی گانٹھیں تھیں۔ اور پھر بے حد انہماک سے سر کنڈوں کی مختلف چیزیں بنائی جا رہی تھیں۔
’’دیکھئے جناب۔ ہم نے نہایت شاندار پستول بنایا ہے ۔۔۔’’ جنید نے سر کنڈوں کے پستول کو ہاتھوں میں اٹھایا۔۔۔۔’’ہینڈس اپ۔۔۔۔۔!!!! ’’
یہ یقیناً جنید نے ان انگریزی فلموں سے سیکھا ہوگا جو اس نے اپنے اباّ کے ساتھ دیکھی ہوں گی۔
’’یہ دیکھو، پورا صوفہ سیٹ تیار ہو گیا۔ ایک میز، دو کرسیاں اور ایک لمبا والا صوفہ۔’’ یہ صبیحہ تھی۔
دھوپ میں زردی آتی گئی اور فرنیچر اور گھر ٹوٹتے رہے ، بنتے رہے ۔ اور سورج سرکنڈوں کی جھاڑیوں کے پیچھے چھپنے لگا۔
٭٭٭
وہ اتوار کی چھٹیّ کی صبح تھی جب موسم ہمیشہ خوش گوار لگتا ہے ۔ کہکشاں کو شکیلہ باجی اپنے ساتھ کہیں لے گئی تھیں اور انور اکیلا تھا۔ اس نے پائیں باغ کی طرف قدم بڑھا دئے۔ ہر طرف یکسانیت تھی۔ سارے درخت ویسے ہی سر جھکائے کھڑے تھے ۔ اس وقت ہوا بند تھی۔ اب دن چڑھے گا تو لُو چلنی شروع ہو گی، پھر درختوں کے پتے ّ بین کرتے زمین پر بکھرنے لگیں گے ۔ مگر اس وقت خاموشی اور سکون تھا۔ سارے درخت۔۔ مگر نہیں۔۔ پپیتے کا درخت اپنی جگہ سے غائب تھا۔ اسے یاد آیا۔ کچھ دن پہلے مولوی چچا، اباّ میاں کے دوست لکھنؤ سے آئے تھے ۔ اور اپنے ہاتھوں سے انھوں نے پپیتے کا درخت ہلا ہلا کر اکھاڑ دیا تھا۔ ’’میرے ہوتے ہوئے جمیل میاں، پپیتے کا یہ منحوس درخت میں نہیں رہنے دوں گا۔ ابھی مجھ میں اتنا دم تو ہے ۔’’ انھوں نے اپنی چاند ستاروں والی ہری ٹوپی امرود کے درخت کی نکلی ہوئی ننگی شاخ پر لٹکا دی تھی اور دونوں ہاتھوں سے پپیتے کے تنے کو جھنجھوڑنے لگے تھے ۔
انور اور کہکشاں مولوی چچا کو پپیتے سے کشتی لڑتے دیکھتے کبھی ان کی چاند ستاروں والی عجیب سی ٹوپی پر شاخوں سے چھنتی دھوپ سے مزید نقش و نگار بنتے ہوئے دیکھتے رہے ۔
باغ سے وہ آنگن میں آیا اور خاور کو بلانے کے لئے کھڑکی پر دستک دی۔
’’بھائی جان تو پڑھ رہے ہیں’’ صبیحہ نے اطلاّع دی۔ تو ابھی تک وہ بڈھاّ ماسٹر بیٹھا ہوا ہے ۔۔ انور نے سوچا۔۔ اسکول والے ماسٹر صاحب ہی کافی نہیں ہیں کیا؟؟ ’’تم آ رہی ہو؟’’ انور نے پوچھا مگر جواب دئے بغیر بلکہ سوال مکمل ہونے سے پہلے صبیحہ کھڑکی پھلانگ چکی تھی اور انور کے آنگن میں اتر آئی تھی۔
’’آؤ۔ کاغذ کے ہوائی جہاز بنائیں’’۔ انور اباّ میاں کے کمرے سے پرانے اخبار اٹھا لایا تھا۔
پھر ہوائی جہاز بنتے بگڑتے رہے ۔ کچھ اڑے ، کچھ اڑ نہ پائے۔ اس کے بعد کشتیوں کا نمبر آیا، باغ کی نالی میں ایک کے بعد ایک کشتیاں اترتی رہیں، تیرتی ڈوبتی رہیں۔ ’’چلو کشتیوں کی ریس ہو جائے’’
’’یہ میری کشتی، تصویر کے کاغذ والی’’ صبیحہ نے اپنی ناؤ کی پہچان بتائی۔ ’’اور یہ میری’’۔ انور کی ناؤ کچھ دور تک بہتی چلی گئی مگر صبیحہ کی کشتی تھوڑی دور ہی تیر کر جھکی اور پانی میں ڈوب گئی۔ صبیحہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’ارے روتی ہو’’۔ انور نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ ’’وہ تصویر والی کشتی میری تھی بھائی ۔ تمھاری کشتی ہی جیت گئی ہے ۔ آؤ تم کو اپنی صندوقچی دکھاؤں’’ اور انور صبیحہ کو اپنے کمرے میں لے آیا۔ اور کچھ دیر بعد اس نے فرش پر اپنی ساری کائنات ڈھیر کر دی۔ نیلی پیلی شیشے کی گولیاں، پلاسٹک کے ننھے ننھے جانور، رنگ برنگ کی تتلیوں کے پر، سنہری بٹن، دو چار خوبصورت سے ڈاک کے ٹکٹ۔ کچھ ہوائی جہازوں کی رنگین تصویریں۔ اور ایک ننھی منی سی ڈائری جو اس نے اباّ میاں سے لی تھی۔
’’یہ سب تم لے لو’’۔
’’میں۔۔۔۔۔۔۔؟؟’’ صبیحہ نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔ اس کی آنکھوں کی جھیل خشک ہو چکی تھی۔
’’ہاں ہاں۔ لے لو۔۔۔ سچ مچ!!’’ انور نے اس طرح کہا جیسے وہ صبیحہ سے بہت بڑا اور اس کا بزرگ ہو۔
’’میرے پاس دو ہار ہیں۔ ایک تم کو لا دیتی ہوں۔’’ صبیحہ بھاگتی ہوئی اپنی کھڑکی کی طرف گئی۔ اور پھر واپس آئی تو اس کے ہاتھوں میں ایک زنجیر تھی جو شیشے کی رنگین چوڑیوں کے ٹکڑوں کو چراغ کے شعلے پر موڑ موڑ کر بنائی گئی تھی۔
٭٭٭
پھر آموں کا موسم آیا اور پرانا ہو گیا۔ آم کھا کھا کر انھوں نے گٹھلیاں جمع کیں اور لیموں کے درخت کے نیچے بو دیں۔ کچھ دن بعد ان کے ’پپیئے‘ اُگ آئے۔ بڑی احتیاط سے انھیں توڑا گیا۔ انور، کہکشاں، خاور، صبیحہ اور جنید سب نے اپنے اپنے پپیئے تقسیم اور منتخب کئے، پھر ان کے گھسے کانے کے عمل کے ساتھ ساون کی بوندیں بھی پانچ آوازوں کے ساتھ کورس میں گا رہی تھیں:
آم کا
جام کا
کھڑی ببول کا
میرا پپیاّ بولے
پٹ پوں
پٹ پوں
پٹ پوں
صبیحہ کو یہ ’وظیفہ‘ یاد نہیں تھا۔ اس لئے وہ مایوس نظر آ رہی تھی۔ معلوم نہیں اس جادوئی منتر کے بغیر اس کا پپیاّ بول بھی سکے گا یا نہیں؟ مگر باقی سب زور زور سے چلاّئے جا رہے تھے ۔
’’پٹ پوں
پٹ پوں
پٹ پوں’’
اور صبیحہ پپئے کو مزید گھسنے سے بور ہو کر مونہہ کے پاس لا کر اسے بجانے کی کوشش کی تو اس کی ساری مایوسی دور ہو چکی تھی۔ اور بعد میں جب معلوم ہوا کہ اس کے پپیئے کی آواز ہی سب سے زیادہ ہے تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔
٭٭٭
’’بادل نا مراد آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ کچھ بوندیں گرتی بھی ہیں تو گرمی کم بخت کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔’’ امیّ ہاتھ کی پنکھیا غصے ّ سے پھینکتے ہوئے برامدے سے بڑے کمرے میں چلی آئیں۔چھت پر لٹکے پنکھے کی طرف دیکھا ۔ ’’یہ غفور مرا ہر وقت سوتا رہتا ہے ’’
برامدے میں بیٹھے بادلوں سے بننے والے ہاتھی گھوڑے دیکھتے ہوئے انور اور کہکشاں نے کمرے میں نظر ڈالی۔ امیّ کس سے بات کر رہی ہیں۔۔ دونوں نے ایک ساتھ سوچا اور کمرے میں کسی کو نہ پا کر خوف زدہ ہوئے۔ نہ جانے کمرے میں کون ہے جو ان کو نظر نہیں آ رہا!! دونوں خاموش رہے مگر اس خاموشی میں اس عجیب وقوعے کے بارے میں ہزار گفتگوئیں شامل تھیں۔ کبھی کبھی موسم کے بارے میں اظہار خیال کے لئے کسی مخاطب کی ضرورت پیش نہیں آتی، یہ انھیں پتہ نہیں تھا۔
٭٭٭
پہلی بوند گری ٹپ!!
’’یا اللہ خوب برسے کہ جھڑی لگ جائے’’ ۔ چچیّ بی کو دعائیں مانگنے کی عادت سی تھی۔ ان کے کمرے سے ہر وقت یا اللہ سے شروع ہونے والا کوئی نہ کوئی جملہ سنائی دے جاتا تھا۔ شاید اللہ میاں نے اسی وجہ سے ان کی بات سننا چھوڑ دیا تھا۔
کہکشاں اور صبیحہ آنگن میں نکل آئے اور بارش میں چکرّ لگاتے ہوئے گا رہے تھے ۔ ’’پانی بابا آیا۔ ککڑی بھٹے ّ لایا’’۔
’’اری کم بختو۔ پہلی بارش میں نہیں نہاتے ، بیمار ہو جاؤ گی’’۔
دونوں ڈر کر برامدے میں چلی آئیں اور اب خاور اور جنید بھی وہیں آ گئے تھے اور برامدے کی پر نالیوں میں بار بار اپنے ہاتھ دھو رہے تھے ۔ باہر آنگن میں درختوں کی پتیاّں چمک دار سبز ہو گئی تھیں۔ زمین سے سوندھی مٹیّ کی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ ان تیز بارش کی جگہ ہلکی پھوار نے لے لی تھی۔ باہر محلے ّ کے بچے چیخ رہے تھے
’برسو رام دھڑاکے سے ۔
بڑھیا مر گئی فاقے سے ‘
٭٭٭
ایک برستی شام کو جنید نے اطلاّع دی۔
’’معلوم ہے کہ سانپ کے مونہہ میں ایک چیز ہوتی ہے ۔ بڑی قیمتی۔۔ اسے منکا کہتے ہیں۔ پھر سانپ بارش کی کسی اندھیری رات کوکسی کھڑکی کی طاق میں یا دیوار کے کسی سوراخ میں یا پھر زمین میں ہی اپنے بل میں اسے اگل دیتا ہے ۔ کسی کو یہ منکا مل جاتا ہے تو راتوں رات امیر ہو جاتا ہے ۔ شاید ڈھونڈھیں تو ہم کو بھی یہ منکا مِل جائے۔’’
کچھ دن پہلے ہی غفور کی کوٹھری کے پاس بوا کی پرانی کوٹھری پچھلی برسات میں گر گئی تھی اور اب تک مرمتّ نہ ہونے کی وجہ سے کھنڈر پڑی تھی۔ اسی کوٹھری میں پچھلے دنوں غفور نے سانپ مارا تھا۔ کالا لمبا سا، غفور نے اس کا نام ’ناگ‘ بتایا تھا۔ اور اب اس کوٹھری کا نام سانپ کی کوٹھری پڑ گیا تھا۔
’’سانپ کی کوٹھری میں دیکھیں۔’’ انور نے مشورہ دیا۔ ’’شاید وہیں سانپ نے منکا اگلا ہو۔۔’’
اور اب سب بنا خوف کے اس کھنڈر میں سانپ کے منکے کی تلاش کر رہے تھے ۔ دھوپ ڈھلتی جا رہی تھی اور پھر سورج نے مونہہ چھپا لیا۔اندھیرا بڑھ گیا۔
’’دیکھو دیکھو۔۔۔!!’’ صبیحہ نے آواز لگائی۔ پچھلی کھڑکی کے نیچے فرش کے ایک سوراخ سے ایک گول سی سرخ شے جھانک رہی تھی۔ ’’ہو نہ ہو، یہی منکا ہے ۔ سانپ نے یہیں آ کر اگلا ہوگا‘
پھر دفعتاً سب کو اندھیرے اور سانپ کا ڈر لگا۔ وہ سب تیزی سے باہر آئے، اور پھر صبح اس سرخ شے کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ غفور چلاتا رہا…’’ہم ابہن بڑی ماں سے کہت ہیں کہ بھینّ اور بٹیا لوگ سانپ والی کٹھریا میں گھسے رہے ۔ ڈر ناہیں لگت کیا؟؟’’
انور سوچنے لگا، صبح سب لوگ اس چیز کو دیکھیں گے ، اگر یہ واقعی منکا ہوا تو۔۔۔!! اسے نکال کر اس کا کیا کریں گے ؟؟ شاید اس پر جنید قبضہ جمانا چاہے کہ اس نے ہی منکے کی بات بتائی تھی۔ یا شاید صبیحہ رونے لگے ۔ خیر صبیحہ رونے لگی تو وہ ضرور اس کی اجازت دے دے گا کہ منکا صبیحہ کو دے دیں۔ اسے مل جائے تو کوئی بات نہیں۔ مگر۔۔۔مگر۔۔۔’’سب سے پہلے میں ہی دیکھوں گا منکا کل صبح۔۔۔’’
اپنی اپنی جگہ شاید یہی سب ہی سوچ رہے تھے ۔
٭٭٭
مرغ کی پہلی بانگ کے ساتھ ہی انور اٹھ بیٹھا۔ دبے قدموں سے سانپ کی کوٹھری کی طرف گیا۔ ابھی روشنی نہیں پھیلی تھی۔ انور کھنڈر کے پاس ہی روشنی ہونے کے انتظار میں کھڑا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہمت کر کے اندر گھسا۔ روشنی بڑھتی رہی مگر وہ سرخ سرخ سی پر اسرار شے اب تک اپنی ماہیت کو واضح نہیں کر سکی تھی۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ تبھی خاور اور صبیحہ بھی اس کے پاس چلے آئے، اور پھر کہکشاں بھی، مگر جنید شاید ابھی سو رہا تھا۔
پھر دن پوری طرح نکل آیا۔سانپ والی کوٹھری کی کچی زمین کے سوراخ میں وہ شے واضح ہونے لگی۔ انور نے اس شے کو نکال لیا۔ پھر وہ چپ چاپ جنید کو خبر کرنے چلے گئے۔ بے حد مایوس۔
یہ کسی فراک کا سرخ بٹن تھا۔
٭٭٭٭٭
دھند اور ستارے
اسی کو ڈھونڈیں اسی کو خُدا بنا ڈالیں
سیاہ خانۂ دل میں اگر کرن ہے کوئی
(ظفر اقبال)
ساری رات بارش کی موسیقی کمرے میں بکھرتی رہی تھی۔ اور جب بارش تھم جانے کے بعد بھی پانی کی بوندیں لیموں کے درختوں کی اوپری شاخوں سے ٹپ ٹپ کرتی ہوئی نیچے گر رہی تھیں۔ اور ان سے بھی زمین اپنی پیاس بجھا لیتی تھی۔ نہ جانے کتنی صدیوں سے زمین بارش کے قطروں سے اپنی پیاس بجھاتی آئی ہے ۔ اور یہ پانی کی بوندیں مٹیّ میں سے گزرتی ہوئی چٹاّنوں کے ذراّت کی درمیانی خلاؤں میں جمع ہو کر زیر زمین پانی میں شامل ہو کر اندر ہی اندر بہنے لگیں گی۔۔ایک ایسی حرکت۔۔ایسا عمل جسے ہم اوپری سطح پر رہنے والے محسوس نہیں کر سکتے ۔
انور نے سگریٹ کا باقی حصہّ شہادت کی انگلی اور انگوٹھے میں پھنسا کر اچھال دیا۔ مشرقی دریچے کے باہر باغ میں جمع شدہ سوکھے پتے ّ گڑھوں کے پانی میں تیرنے لگے تھے ۔ اس نے اپنی سوچ کا سلسلہ جاری رکھا۔ خداوندِ عالم کی اس دنیا میں نہ جانے کتنی ہی باتیں ایسی ہیں جنھیں ہم گہرائی میں اترے بغیر بھی محسوس کر لیتے ہیں۔ اس نے اپنے ان احمقانہ خیالات کو سر کے جھٹکے سے جھٹک دیا اور خود بخود مسکرا دیا۔ جیسے یہ خیالات مادّی وجود رکھتے تھے جو سر جھٹکنے سے زمین پر پانی کی بوندوں کی طرح گر جائیں گے اور مطلع صاف ہو جائے گا۔ ۔۔ واہ بھئی انور جمیل ! تم جو اپنے آپ کو بے حد عقل مند گردانتے ہو تو تم نے در اصل سنجیدگی کا ایک بے حد۔۔بے حد۔۔۔۔نہ جانے کیسا غلاف اوڑھ رکھا ہے ورنہ تمھارے ذہن میں کیسی کیسی احمقانہ باتیں آوارہ بلیوّں کی طرح گھومتی رہتی ہیں۔ تمھارے اسٹوڈنٹس کو تو شاید کبھی پتہ بھی نہ چلے کہ
تم ساری رات سگریٹ پھونکتے رہے ہو اور بغیر کسی پریشانی کے جاگتے رہے ہو اور ایسی ایسی باتیں سوچتے رہے ہو جن کا نہ سر ہے نہ پیر۔ اس نے مشرقی دریچہ کھول دیا اور نئی سگریٹ سلگا لی۔ مشرق کی طرف سفیدی نمودار ہو چلی تھی۔ بادل غائب ہو گئے تھے اور دھندلے دھندلے ستارے اپنی آخری جھلک دکھا رہے تھے ۔ اس نے اٹھ کر ٹیبل کیلنڈر میں تاریخ کا اگلا ورق پلٹتے ہوئے سوچا۔ نئی تاریخ آدھی رات سے ہی شروع ہو جاتی ہے مگر شاید ہی کوئی اللہ کا بندہ ایسا ہو جو اپنے روز وار کیلنڈر میں رات ۱۲ بجے ہی تاریخ بدل دیتا ہو۔اور پھر آج کی تاریخ دیکھ کر وہ چونک گیا۔ ۲۱ اگست۔۔۔۲۱ اگست۔۔۔ اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ وہ دن بھی بالکل ایسا ہی تھا۔ ایسی ہی صبح۔رات بھر تیز بارش ہوتی رہی تھی مگر صبح ہوتے ہوتے مطلع صاف ہو گیا تھا اور دن بھر خوب چمکتی ہوئی دھوپ پھیلی تھی۔ اس کی نظروں کے سامنے اس دن کے سارے مناظر قافلے بنائے بھاگتے ہوئے گزر گئے۔ اور وہ جیسے ان کو اپنے سگریٹ کے دھوئیں کے گول چھلوّں میں مد غم ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔
٭٭٭
کئی دن پہلے سے گھر میں عجیب مباحثہ جاری تھا۔ اباّ میاں کہتے رہے تھے ۔۔۔
"میں ٹھہرا مفلوج آدمی۔ اتنی ہمتّ نہیں کر سکتا کہ ایک نئے شہر بلکہ ایک نئے ملک کو اپنا گھر بناؤں۔”
امیّ کو بڑے بھیّا کی کمی شدتّ سے محسوس ہو رہی تھی۔
"اپنا مظہر ہوتا تو سب انتظام کر لیتا۔ اب تمھارے ساتھ ہمیں کون لے جا سکتا ہے پاکستان؟”
"تم میری فکر مت کرو۔ اعظم صاحب کے خاندان کے ساتھ چلی جاؤ۔ وہ بتا رہے تھے کہ جنید کو تو اس کے چچا لے جائیں گے ۔ میاں بیوی اور چھوٹے بچوّں کا قافلہ ہوگا ان کا۔۔ تم ان کے ساتھ چلی جاؤ۔ مجھ کو تو یہیں رہنے دو۔ یہیں کی مٹیّ میری قبر بنے تو میری روح کو سکون ملے گا۔ مگر مجھے بہت بڑی فکر شکیلہ کی ہے ۔ ۔”
"ہاں۔ اب اس کا بار تو اٹھانا ہی ہے ۔ پہلے تو تم کو صرف عقیل بھائی کو مونہہ دکھانا تھا۔ اب تو بھابھی کو بھی دکھانا ہے ۔” ایک رات چچی بی جو رات کو سوئیں تو صبح جاگی ہی نہیں۔ راتوں رات کوئی ان کی آنکھوں کا بچا کھچا نور بھی چرا کر لے گیا تھا۔
"بار کی بات نہیں ہے بھائی۔ جوان لڑکی کے ساتھ سفر کرنا ان حالات میں کتنا خطر ناک ہو سکتا ہے ۔ تم اخباروں میں نہیں دیکھ رہی ہو۔ اس سے تو بہتر یہی ہے کہ ہم ہی ایسے موقعوں پر بندوق لے کر بیٹھے رہیں۔”
"مگر مجھے پاکستان جانے کی اس لئے بھی فکر ہے کہ شاید وہاں مظہر مل جائے ۔۔”
"ہاں۔ مظہر مل جائے تو میں شکیلہ اور مظہر دونوں کے فرض سے ایک ساتھ سبک دوش ہو لوں۔” اباّ میاں نے تکئے کے نیچے سے اپنی گولی نکالی اور سرہانے رکھے گلاس کے پانی کے ساتھ نگل گئے ۔ "اسی لئے تو اپنا علاج بھی کر رہا ہوں۔۔۔”
امیّ کچھ کہتے کہتے چپ رہ گئیں۔ اکثر شروع میں اباّ میاں پاکستان جانے کے ارادے پر شدید اعتراض کرتے تھے ۔ مگر جیسے ہی بڑے بھیّا کا ذکر ہوتا خاموش ہو جاتے ۔ جیسے پاکستان میں ہجرت کے بعد وہ جہاں بھی رہیں گے ، وہیں بڑے بھیّا ایک دن اپنے گھر واپس آ جائیں گے ۔اور شاید اسی وجہ سے جب اعظم چچا نے اپنے ساتھ ان کو بھی لے جانے کے لئے ہر طرح کے تعاون کا وعدہ کیا تو ۲۱ اگست کو اباّ میاں اپنی نئی وھیل چئر کو ڈھکیلتے باہر تک آئے اور اور اعظم چچا کے کاندھوں کا سہارا لیتے ہوئے ٹیکسی میں جا بیٹھے تھے ۔
امیّ بوا سے کہہ رہی تھیں ” اب سب کچھ تمھارے ذمے ًًّ!!” انھوں نے کمرے بند کر دئے تھے جو صندوق چھوڑ دئے تھے ان میں تالے ڈال دئے تھے اور ساری چابیاں بوا کو دیتے ہوئے کہا تھا۔
"شکیلہ کہاں ہے ” امیّ کو خیال آیا۔ وہ اور کہکشاں شکیلہ باجی کو دیکھنے گئے ، وہ باغ میں امرود کے پیڑ کے پاس کھڑی تھیں اور پیڑ پر کچھ نام لکھ رہی تھیں۔ ان دونوں کو بھی کچھ یادگار چھوڑنے کا خیال آیا اور آنگن کے دروازے پر اینٹ کے ٹکڑے سے لکھنے لگے ۔۔
"یہاں انور اور کہکشاں رہتے تھے "
شکیلہ باجی بھی پیچھے سے آئیں اور ایک شعر کا اضافہ کر دیا
"بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
اس کی بلا سے بوم رہے یا ہُما رہے "
اور پھر تینوں ٹیکسی کی طرف چلے گئے ۔ ٹیکسی سٹارٹ ہو گئی۔ انور کے ذہن میں آخری منظر اب تک سمایا ہوا تھا۔ بوا نے اپنی آنکھوں کے کنارے پونچھے اور کنجیوں کا گچھاّ ہاتھ سے وھیل چئر پر بے پروائی سے ڈال دیا اور اس کا رخ برامدے کی طرف موڑ کر اسے گھسیٹنے لگیں۔
سانپ کی کوٹھری میں پوشیدہ خزانوں، پنگوں والے چوراہے کے ہنگاموں، مزار پر جلنے والی اگر بتیوّں، مسجد کے میناروں پر بیٹھے کبوتروں، چورن والے کے شعلوں اور آنگن میں پپیاّ بنانے کے لئے بوئی گئی آم کی گٹھلیوں کو خدا حافظ کہا جا چکا تھا۔ اور آج۔۔ آج ۲۱ اگست ۱۹۶۲ کو ۔۔حالات کتنے تبدیل ہو گئے ہیں۔۔
انور نے ریڈیو کھول دیا۔
"یہ کراچی ہے ۔ مغربی پاکستان میں صبح کے ۔۔۔۔” اس نے پھر ریڈیو بند کر دیا۔ یہ واقعی کراچی تھا۔ اعظم چچا کی کوششوں سے پہلے اس کوٹھی کا الاٹمنٹ ہو گیا تھا جو کس قدر بڑی تھی۔ اور پھر کچھ ہی دنوں کے بعد اباّ میاں بھی عقیل چچا کے پاس چلے گئے تھے تو اس ڈھنڈھار گھر میں ہم چاروں کیسے مسافر سے لگتے تھے ۔ امیّ نے اعظم چچا اور چچیّ کو بھی اسی گھر میں بلوا لیا تھا اور انھوں نے اپنی الاٹ ہوئی کوٹھی کو کرائے پر اٹھا دیا تھا۔ مگر پھر کچھ ہی دنوں بعد اعظم چچا خاور صبیحہ اور چچیّ کو لے کر لاہور چلے گئے تھے جہاں ان کا بزنس کافی پھیل گیا تھا۔ آج سے سترہ اٹھارہ سال پہلے کسے خبر تھی کہ وہ بادلوں سے کھلے آسمان میں نکلنے والی صبح کو ایک اور بڑی سی کوٹھی کے ایک کمرے میں مشرقی دریچے کے پاس کچھ ہی فاصلے پر رکھے اسٹول پر پیر رکھے کھڑا ہوا سگریٹ پی رہا ہوگا۔ یہ کوٹھی بھی خاصی بڑی ہے جو الٰہی بخش کالونی میں امیّ نے کسی طرح بنوا لی تھی۔ اور ایک وہ کوٹھی تھی جس میں ایک پوجا کا کمرہ بھی تھا جس میں چھوٹے سے کرشن جی ٹانگوں پر ٹانگ رکھ کر بانسری بجا رہے تھے اور دیواروں پر رام جی اور سیتا جی کی تصویریں بھی تھیں۔ ایک طرف ہنومان جی پہاڑ لے کر اڑ رہے تھے ۔ اس کمرے کو استعمال کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی اس لئے اسے بند کر دیا گیا تھا۔ اور ایک اور کمرہ بھی تھا جو بند رہتا تھا مگر جس کی چابی شکیلہ باجی نے اپنے پاس رکھ لی تھی۔ اس کمرے میں الماریاں ہی الماریاں تھیں اور ان میں ٹھسا ٹھس بھری کتابیں۔ کلیاتِ غالب اور کلیاتِ مومن سے لے کر اقبال کی ساری کتابیں، چکبست کی رامائن سے منطق الطیر تک، گلستاں بوستاں، مثنوی مولانا روم، زہرِ عشق، ڈپٹی نذیر احمد کے ناول، توبۃ النصوح تو ابھی بھی انور کی میز پر پڑی تھی۔ الف لیلی سے لے کر قصص الانبیاء تک، پھر آئینہ اور نگار کی جلدیں۔ اور ان سب پر نام لکھے تھے ۔ رام لعل منچندا رحمت۔ ایک شاعری کی بیاض تھی۔ وہ کیا شعر تھا، انور نے یاد کیا؎
کیا اپنا سخن ہے یہ، غالب بھی تصدّق ہے
اللہ کی رحمت ہے لاہور کے رحمت پر
اور اسی بیاض میں کسی "بیٹی روپ وتی سلمہا” کے نام ادھورا خط بھی۔۔
"شہر کی حالت۔۔۔۔ ہر وقت لاحول پڑھتا رہتا ہوں۔ خدا مولوی بدر الدین کو دونوں جہاں کی دولت سے نوازے جنھوں نے وعدہ کر رکھا ہے کہ ہمارے یہاں رہنے تک ہمارے جان و مال کی پوری حفاظت کریں گے ۔ اور ہم ہجرت کر جائیں تو جو سامان ہم چھوڑ جائیں گے اس کی حتی الامکان دیکھ بھال کریں گے ۔ مجھے بیٹی صرف اپنے دار المطالعے کی فکر ہے ۔ یہ ساری نایاب اور کمیاب کتابیں، لے جائی بھی نہیں جا سکتیں اور چھوڑنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ کچھ تمھارے دادا کی یادگاریں ہیں۔کچھ تمھارے دادا استاد ۔۔ خدا انھیں غریقِ رحمت کرے ، جنت مکانی پربھو دیال دل سیال کوٹی کی۔ اگر نئی کتابیں خرید بھی لوں تو یہ یادیں کیسے خریدوں گا۔ برخوردار کرم چند کی وجہ سے لاہور سے کراچی تو سب اٹھا لایا تھا۔ ہاں۔ دہلی گیا تو زندہ رہنے پر کبھی ان یادگاروں کو دیکھ تو سکوں گا واپس آ کر۔۔۔”
اور پھر دو سال پہلے امیّ بھی ہم سب کو چھوڑ گئیں۔ اب تو بس ہم تین ہی بچے ہیں۔ شکیلہ باجی گھر کی بزرگ ہیں۔
"بڑی بٹیا ناشتے پر بلا رہی ہیں۔۔” عبدل نے آ کر اطلاع دی۔۔ وہ چونکا۔ تو گویا کہ یہ یوں ہے ۔۔ یہ کراچی ہے ۔
٭٭٭
تو گویا کہ یہ یوں ہے ۔۔ شکیلہ نے چائے کی پیالی میں شکر گھولتے ہوئے اپنے آپ سے بے آواز کہا۔ انور اسے آج کی تاریخ کی یاد دلانے کے بعد غیر متعلق سا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ تو گویا کہ تمھاری عمر سے شکیلہ بیگم مزید ۱۵ سال کم ہو گئے ہیں۔ ۱۵ سال کے عرصے میں کیا کچھ نہیں ہو جاتا، کیا کچھ نہیں ہو سکتا تھا، مگر کیا ہوا ہے ۔ تم ۳۴ سال کی عمر میں بوڑھی نظر آنے لگی ہو۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے ۔ ایک سفید لٹ شکیلہ کی چائے کی پیالی پر آ گری۔ تم اتنے دن تک مظہر کا انتظار کرتی رہیں۔ تم نے کیا کیا خبریں سنیں۔ جب تم کو پتہ چلا کہ مظہر پاکستان میں ہی ہیں لاہور میں، مگر تم ان سے ملنے نہیں گئیں۔ ویسے بھی صحیح پتہ معلوم نہ تھا، تم کہاں بھٹکتی پھرتیں۔ صرف صبیحہ نے لکھا تھا۔۔
"ایک دن ہم لوگ شاہ عالمی میں شاپنگ کر رہے تھے کہ بڑے بھیا نظر آئے ۔ جو کتابوں کا ایک پیکٹ تھامے تیزی سے جا رہے تھے ۔ میں نے ان کو روکا مگر وہ مجھے پہچانے نہیں۔ میں نے خود ہی اپنا تعارف کرایا تھا۔ اور انھوں نے کہا تھا۔”میرے بارے میں کسی کو اطلاع مت دینا صبیحہ۔ میں اب اپنے گھر کے صاف ستھرے ماحول میں رہنے کے قابل نہیں، تم کو پتہ ہے مجھے آزادی کی خواہش کے جرم میں منٹگمری جیل میں رکھا گیا تھا، اور جب مجھے آزاد کیا گیا تو مجھے پتہ چلا کہ میں تو ہندوستان کی آزادی کے لئے لڑ رہا تھا، مگر میں ہندوستان میں نہیں تھا۔ وہ تو سرحد پار مشرق میں رہ گیا تھا اور بھارت ہو گیا تھا۔ مجھے کچھ احساس تو ہوا تھا جب ہمارے ہندو ساتھیوں کو اس جیل سے نکالا جا رہا تھا اور کہیں اور بھیجا جا رہا تھا اور میں آزاد ہو کر اپنے کو ایک اجنبی ملک میں پا رہا تھا۔ آزادی کے بعد بھی جیسے قید میں۔ مجھے اخبار نہیں ملتا تھا۔ جیل میں دن میں دو سگریٹیں ملتی تھیں۔ مجھ سے مجرموں کا سا برتاؤ کیا جا تا تھا، مشقتّ کرائی جاتی تھی۔ اور مجھے لگنے لگا تھا کہ میں چوری کرتے یا قتل کرتے پکڑا گیا ہوں۔ بس شکر ہے خدا کا کہ مجھے جیل میں وہ دن دیکھنا نصیب نہیں ہوا جب یہاں کا آسمان مسلمان آسمان تھا اور ہندوستان کی صبحیں شامیں ہندو صبحیں شامیں۔ اب مجھے مونہہ چھپانے دو۔ انگریزوں سے آزادی کے بعد بھی سرمایہ داروں سے آزادی نہ ہندوستان کو ملی ہے نہ پاکستان کو۔ ابھی میرا کام پورا نہیں ہوا ہے ۔۔۔ اب میری زندگی ایسی ہے صبیحہ بٹیا کہ تم سے کیا کہوں ۔خدا کے لئے مجھ سے ملنے کی کوشش نہ کرنا۔انو اور کشی کو میری دعا اور پیار کہنا۔” اور میرے سامنے سے وہ اچانک کسی گلی میں مڑ کر غائب ہو گئے تھے ۔ ان کا کہیں پتہ نہیں تھا۔”
پھر اسے جنید کی یاد آئی۔ تم تو جنید اپنے پھوپھی زاد بھائی بہنوں خاور اور صبیحہ کا ساتھ چھوڑ کر اپنے سوتیلے عرفان چچا کے ساتھ حیدر آباد دکن چلے گئے تھے نا جہاں تمھارے چچا کہتے تھے کہ سکون ہی سکون ہے ، وہ نہ ہندوستان ہے نا پاکستان۔ صرف حیدر آباد ہے ۔۔مگر کچھ ہی دن بعد وہ سکون بھی درہم برہم ہو گیا تھا۔تم نے کچھ سال بعد پہلی بار خط لکھا تھا تو لکھا تھا چچا تو نہ جانے کہاں غائب تھے اور تمھاری چچی ساری رات بندوق دریچے میں لئے بیٹھی رہتی تھیں۔ پولس ایکشن کے بعد پھر سکون ہو گیا تھا اور اب بنجارہ ہلس میں اپنے مکان کے ۔ اپنی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں اپنے بے حد پاش دوستوں کے ساتھ وھسکی سپ کرتے ہوئے یا سٹیٹ ایکسپریس سگریٹ پیتے ہوئے تم کو شاید یہ بات بھی یاد نہیں آتی ہوگی کہ حیدر آباد سے بہت دور ۔ جب تم اپنی پھوپھی اور پھوپھی زاد بھائی بہن کے ساتھ۔۔ یہاں سے بہت دور۔۔ یو۔پی۔کے ضلعے فیض آباد کے ایک موضع حسن پور میں رہتے تھے اور جہاں رہ کر تم بارہ بنکی، اپنے وطن کے سکول کے میدان یاد کرتے تھے ۔ اور تم میرے چچا زاد بھائی بہنوں کے ساتھ کیسے کیسے کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ انّو، کُشی، اور۔۔۔ اور صبیحہ۔ صبیحہ تو تم کو ضرور یاد ہی ہوگی اور یقیناً تم خود اسے ایک دو بار خط لکھ چکے ہو۔
"کّشی۔۔۔کہکشاں نے ناشتہ کر لیا ہے کیا؟” انور کو بھی کہکشاں کی یاد آئی۔
"آج اسے لڑکیوں کا امتحان لینا تھا، اس لئے وہ بہت سویرے اسکول چلی گئی۔ ناشتہ عبدل نے کروا دیا تھا اسے "
یہ پندرہ سال ۔۔اور اب کہکشاں سینٹ اینس گرلس ہائی اسکول میں ٹیچر تھی۔ یہ پندرہ سال۔۔ اور اب انور قائد اعظم ڈگری کالج میں انگریزی کا لکچرر تھا مگر فلسفے کے طالب علم بھی اس کے پاس فلسفہ سمجھنے آتے تھے ۔ اور تم۔۔۔ تم شکیلہ عقیل۔۔!!!” شکیلہ نے جلدی سے چائے کی پیالی میز پر رکھ دی جیسے وہ پیالی ہی مستقل چیخ رہی ہو۔۔” اور تم۔۔ تم۔۔ شکیلہ عقیل۔۔۔۔۔”
شکیلہ انور اور کہکشاں، جب تک تکون مکمل نہ ہوتی تھی، تینوں تنہائی کے شکار ہوتے تھے ۔ یا کم از کم وہ ایسا محسوس کرتے تھے ۔ اس لمحے کہکشاں کی غیر موجودگی ان کو ماضی کے دھندلے کھنڈروں میں لے گئی تھی۔ اور اب تھوڑی دیر میں کہکشاں آ جائے گی تو یک لخت احساس ہوگا کہ بھئی زندگی تو کافی خوبصورت ہے ۔ کیوں خواہ مخواہ کی بوریت سر پر لاد رکھی ہے ۔ تم بھی کالج چلے جاؤ مسٹر انور جمیل۔ مگر پہلے اپنے نوٹس ریوائز کر لو۔ اِب سین کے ڈراموں کے کردار اور سوفوکلیز۔۔۔۔
شکیلہ بیگم تم اب کیا کرو گی، چلو ریڈیو ہی آن کر دو۔
"ابھی آپ مہدی حسن کی آواز میں ناصر کاظمی کی غزل سن رہے تھے ۔ یہ کراچی ہے ۔۔۔”
واقعی یہ کراچی تھا۔ ہوا تیز ہو گئی تھی۔ یہ کراچی کی نم نمکین ہوا تھی۔
٭٭٭
کہکشاں اسکول سے آتے ہی مربھکّوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑی۔ اس نے انور کا انتظار بھی نہیں کیا۔ بڑی دیر سے وہ اور شکیلہ خاموشی سے کھانا کھاتے رہے ۔ کھانا ختم کر کے کہکشاں اپنے کمرے میں تیزی سے گئی اور اپنی میز پر بیٹھ کر بڑے انہماک سے لکھنے میں مصروف ہو گئی۔
"ہر ایک رہ میں خوشبوؤں کے کارواں ملیں
تو کیوں نہ اپنے زخم اپنے آبلے مہک اٹھیں
کہ اب بھی اپنی منزلیں۔۔۔
کہ اب بھی اپنی منزلوں۔۔۔۔”
اس نے جھنجھلا کر قلم پٹخ دیا اور دریچے میں لٹک کر بوگن ویلیا کے پھول توڑنے کے اہم کام میں مشغول ہو گئی۔ اور پھر یک لخت ہوا کا ایک جھونکا آیا اور اس کی میز کے ایک کونے سے ایک خط کے اوراق پھڑپھڑانے لگے ، پیلا لفافہ جس پر تری مورتی کی تصویر بنی تھی۔ ستیہ میو جیتے ۔۔ سچ کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے ۔۔ اس خط کے کم از کم فی الحال اڑ جانے کی اسے قطعی فکر نہ تھی۔ اسے قریب قریب پورا خط زبانی یاد ہو گیا تھا۔
” ڈیر کّشی۔
تمھارا خط کئی دن پہلے مل چکا تھا۔ امید ہے کہ معاف کر دو گی کہ فوراً جواب نہ دے سکا۔ میں نے دراصل خود کو اور زیادہ مصروف کر لیا ہے ۔ دو دو پرچوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ ہورائزن کے بارے میں تو پہلے لکھا ہی تھا اگر چہ اب تک تمھارے لئے پرچے نہیں بھیج سکا۔ دو چار دن میں ہی اس کے تازہ اور پرانے کچھ شمارے پارسل سے پوسٹ کروں گا۔ اپنی تازہ نظم بھی تم کو بھیجنی ہی ہے ، تم پھر کہو گی کہ میں انگریزی میں نہیں لکھتی۔ ہاں، اردو میں ہی کہ اگلے ماہ سے اردو کا نیا ماہنامہ "افق” شروع کر رہا ہوں۔ خاور کو بھی ساتھ ہی خط لکھ رہا ہوں۔ تم سب کی اکثر یاد آتی رہتی ہے نا۔ وہ لوگ یعنی خاور اور صبیحہ پھوپھی جان اور پھوپھا میاں لاہور چلے گئے ہیں، یہ شاید تم جانتی ہی ہوگی۔
تم سوچ رہی ہوگی کہ میں یک لخت اتنا امیر کیسے ہو گیا کہ دو دو رسالے نکالنے شروع کر دئے ۔ تم تو جانتی ہی ہو کہ اردو ہی یا انگریزی میں بھی ادبی پرچہ نکالنا کار زیاں ہی ہے ۔ اور اب میں دونوں زبانوں میں رسالے چھاپ رہا ہوں۔ بھئی وہ ہمارے عرفان چچا جن کے انتقال کی خبر تمھیں پچھلے دنوں دے چکا ہوں، خاصے مال دار تھے اور انھوں نے مجھے اپنا وارث قرار دیا ہے وصیت میں۔ نتیجے کے طور پر اب میں بنجارہ ہلس کی ایک کوٹھی میں رہ رہا ہوں۔ بنجارہ ہلس، حیدر آباد، جو تمھارے یہاں سے کالے کوسوں دور ہے ، یہی کیا، یہ علاقہ تو حیدر آباد کے ہی یاقوت پورہ اور ملے ّپلیّ سے میلوں دور ہے ۔ اور اس میں رہتا ہوا میں۔۔ مجھے خود تعجبّ ہوتا ہے کبھی کبھی۔۔۔۔”
” کہ اب بھی اپنی منزلیں
شکستہ پا چہار سمت ڈھونڈھتے رہیں۔
ابھی سفر تمام ہی کہاں ہوا
ابھی تو ہم سفر میں ہیں
ابھی تو ہم سفر میں ہیں”
کہکشاں نے پھر لکھنا شروع کیا۔
دوپہر کا سناّٹا اچانک بارش کی بوندوں کی زبان میں بولنے لگا تھا۔
٭٭٭
کچن میں سہ پہر کی چائے بن رہی تھی۔ اور ڈائننگ ٹیبل پر چائے کی پیالیاں سجائے جانے کی آوازوں نے دوپہر کے فسوں کو توڑ دیا تھا۔ اور صبیحہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں اپنے پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی اپنی عادت کے مطابق تکیہ گود میں رکھ کر اس پر فنون کے تازہ شمارے پر کاغذ رکھ کر خط لکھ رہی تھی۔
"اس وقت خاور بھائی کالج سے آنے والے ہوں گے ۔ پھر ہم سب شام کی چائے پئیں گے ۔ اگر تم اس وقت، سہ پہر کی چائے کے وقت ، میرا یہ خط پڑھ رہی ہوگی یا اس کا جواب دے رہی ہو گی تو اس وقت یہی بات شاید انو بھیّا کے بارے میں لکھو گی۔ میں یہ لکھنا چاہ رہی ہوں دراصل کّشی پیاری کہ ہم سب ایک ہی ناؤ میں سوار ہیں۔ میرا یہ میوزک کالج میں آخری سال ہے جیسا کہ تم جانتی ہو۔ اور ہماری پرنسپل نشاط آپا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ، بلکہ وعدہ کیا حکم دیا ہے کہ اگلے سیشن سے کالج کے جونئیر سکشن میں لکچرر کی پوسٹ سنبھال لوں۔ تو گویا کہ ہم سب کا پروفیشن ایک ہی ہے ۔ معلمیّ۔ جسے بے حد نوبل پروفیشن کہا جاتا ہے ۔ ہم شاید ہمیشہ سے ایک ہی ناؤ میں سوار رہے ہیں۔ تم بھی اسکول میں ٹیچر ہو۔ خاور بھائی اور انو بھیا کالجوں میں لکچرر ہیں۔ اور اب میں بھی یہی شغل اپنا لوں گی۔ آئندہ سال سے ، بلکہ یہی کوئی چار ماہ بعد۔ پھر ہم لوگ اپنے اپنے شہروں میں جمعے کی چھٹیاں خوب دھوم دھام سے دل کھول کر منائیں گے ۔ تم کوئی کہانی لکھنی شروع کر دو گی یا شاید کوئی ناول۔ انّو بھیّا کوئی لینڈ سکیپ پینٹ کرنا شروع کر دیں گے ۔ ہاں، ان سے کہنا کہ میں نے ان کے لئے شاکر علی کی ایک بڑی پیاری تصویر حاصل کر لی ہے ، گھوڑے شہر کے دروازے پر، شاکر صاحب حسین کے گھوڑے پاکستان میں بھی دوڑا رہے ہیں، اس پر شاکر علی نے دستخط بھی کر دئے ہیں۔ جلد ہی پارسل کر دوں گی۔ ان گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم شاید کراچی آ جائیں۔ مگر کراچی کی گرمیاں!! اگر تم ہی لاہور آ جاؤ تو کیسا رہے ۔ یا پھر ہم سب ایک ساتھ مری چلیں۔ مگر تم نے تو لاہور بھی اب تک نہیں دیکھا ہے ۔۔۔ لو خاور بھائی آ گئے ہیں اور اپنے دو انٹلکچوال دوستوں کے ساتھ۔ اب یہ لوگ چائے کم پئیں گے اور فلسفہ زیادہ۔ اور میں چائے پیتے ہوئے اور ان کی باتیں سنتے ہوئے سوچتی رہوں گی کہ کیا ان فلسفوں کے بنا ہم جی نہیں سکتے ؟ کیا کسی ازم کے بغیر زندگی نہیں گزاری جا سکتی؟ میرا ازم تو اب صرف ایک ہے ۔ سکون۔۔ ابدی سکون۔ ابھی خاور بھائی سے اگر میں یہ بات کہوں تو وہ اسے بھی کوئی نام دے دیں گے ، شاید سے رے نزم۔ ۔۔
٭٭٭
جنید صاحب ابھی نہیں آئے کیا۔۔۔۔۔؟
یہ ہورائزن کا آفس اور ایڈیٹر جنید احسن کے گھر کا ڈرائنگ روم تھا۔ اور جہاں اس وقت نعیم احمد جنید سے ملنے آیا تھا۔ نعیم اپنے سیاسی اور سماجی مضامین کے لئے بڑا مشہور ہو گیا تھا۔وہ نہرو جی کی پالیسی پر بے لاگ تنقید بھی کر دیتا تھا۔ اسے چرچل سے بھی جیسے چڑ تھی۔ اور روس اور امریکہ کی ایٹمی ہتھیاروں کی کوششوں سے بھی۔ ساری دنیا سے جیسے وہ الگ دور رہ کر دنیا کو دیکھتا تھا، جنید کہتا تھا کہ وہ مغربی اور مشرقی برلن کی درمیانی دیوار پر کھڑا ساری دنیا کا منظر دیکھتا تھا۔ صیہونیت، اسرائیل، ویت نام، کشمیر، گنگا جمنی تہذیب ہندوستان کی، اتر پردیش، دہلی اور حیدر آباد کی، کو مرتے دیکھ رہا تھا اور خود مر رہا تھا۔ وہ سارے رسم و رواج جو ہندوؤں نے مسلمانوں سے لئے اور جو مسلمانوں نے ہندوؤں سے قبول کئے، اور وہ جب ان سب سے گھبرا جاتا تو دیویندر ستیارتھی کے ساتھ ہندوستان بھر کے لوک گیت جمع کرتا رہتا تھا۔ یہ وہی مشہور عام ہستی نعیم احمد تھا جو جنید کا انتظار کر رہا تھا اور صوفے پر بیٹھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔
"سنو! کیا نام ہے تمھارا؟”
"خاسم”
"تم ملازم ہو یہاں۔۔”
"جی ہاؤ”
"قاسم میاں، تم ہم کو سگریٹ لا دو گے ۔۔ چار مینار!!”
اور کچھ دیر بعد وہ اس وقت چونکا جب سشما، عالیہ جنید اور وہ خود مستقل باتیں کئے جا رہے تھے ۔ وقت گزرتا جا رہا تھا۔
"خدا کے لئے تم اپنے ایلیٹ کو طاق پر بٹھا دو۔۔۔۔” نعیم نے سشما سے کہنا چاہا اور وہ جھلاّ کر بات کاٹ کر بولی۔” میں تمھارے چرچل اور کرشنا مینن کی بات نہیں کر رہی۔ یہ انگریزی شاعری کی گفتگو ہے جناب، سمجھے جناب۔۔!” سشما ایّر ٹمِل تھی، مگر اردو ہندی اچھی طرح سمجھ اور بول لیتی تھی اور انگریزی میں شاعری کرتی تھی۔ اور عثمانیہ یونیورسٹی میں انگریزی ہی پڑھاتی بھی تھی۔ اور جس کی نظمیں ہورائزن، مین سٹریم، السٹریٹد ویکلی ہی نہیں، ہارپرس میگزین میں بھی چھپ چکی تھیں۔ اور جس کی نظموں کے بارے میں ہریندر دا یا نہ جانے کسی اور بنگالی انٹلکچوئل نے نہ جانے کیا کہا تھا مگر نعیم احمد کو بھی معلوم تھا کہ تعریف میں ہی کہا تھا۔ ہریندرا ناتھ چٹوپادھیائے ہی نہیں نَسیم ایزیکیل بھی اس کی نظموں کے مجموعے پر مقدمہ لکھ چکے تھے ۔ اس کی رپورٹ وہ نعیم سے پہلی ہی ملاقات میں وہ دے چکی تھی اور بے حد اسناب واقع کے باوجود ان دوستوں کی محفل کا لازمی جزو تھی۔
"ستیش گجرال کا کینوس بہت چھوٹا ہے ۔ ” گفتگو نہ جانے کب شاعری سے مصوری کی طرف مڑ گئی تھی۔ اور اس نے چائے کی پیالی زور سے طشتری میں رکھتے ہوئے یک لخت کہا تھا۔یہ عالیہ علی تھی، کئی اخباروں کی آرٹ رپورٹر اور نقاد بھی۔ جنید نے جواب دیا تھا "تو کیا تمھارا حسین آسمان پر پینٹ کرتا ہے ۔۔؟؟”
جنید، عالیہ، سشما اور نعیم۔ چاروں نہ جانے کتنی دیر تک آرٹ اور ادب اور موسیقی اور مصوری پر باتیں کرتے رہے بلکہ اس سے زیادہ بحثیں کرتے رہے ۔ اور دریچے کے باہر ادب اور آرٹ کی تحریک کے سارے عناصر جمع ہو گئے تھے ۔ سورج ڈوبنے والا تھا، چڑیاں شور مچانے کے بعد اپنے گھونسلوں کی طرف اڑے جا رہی تھیں اور سب محض گفتگو کر رہے تھے ۔ باتیں۔ باتیں اور مزید باتیں۔”یہ باتیں محض برّ صغیر کی جان نسل کا حصہّ ہیں”۔ نعیم نے کہا تھا ۔”مغربی ادیب اور فن کار اس طرح باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے ۔۔” اور جنید نے جواب دیا تھا۔ "بس ایک تم ہی گھڑی گھڑی گھڑی دیکھتے رہتے ہو۔۔” اور سب ہنسنے لگے تھے ۔ شاید بر صغیر کے کئی گوشوں میں اسی لمحۂ موجود میں ایسی ہی گفتگو کئی جگہ جاری ہو گی۔
٭٭٭
"جی نہیں! فلم کا پروگرام قطعی نہیں بنے گا” خاور نے جیسے فیصلہ کیا۔
"اللہ خاور بھائی۔ انّو بھیّا! تم ان کو سمجھاؤ نا!”
"کہکشاں نے انور کی منتّ کی۔ صبیحہ خاموشی سے دریچے کے پاس کھڑی پردے کو کھولتی بند کرتی رہی اور ہاتھ میں پکڑے چائے کے مگ سے چسکیاں لیتی رہی۔ خاور کو راج شاہی یونیورسٹی میں ریڈر کی پوسٹ مل گئی تھی اور صبیحہ نے بھی طے کیا تھا کہ مشرقی پاکستان روانہ ہونے سے پہلے خاور اور صبیحہ کو کراچی ضرور جانا چاہئے ۔ یوں بھی جہاز کے لئے کراچی جانا ہی پڑتا۔ مگر وہ تین دنوں کے لئے کراچی میں رکے ہوئے تھے ۔ کہکشاں فلم کا پروگرام بنانا چاہ رہی تھی۔ مگر خاور کا خیال تھا کہ تین گھنٹے ایک دوسرے سے غیر متعلقّ ہو کر خاموشی سے فلم دیکھنے کی بجائے اپنے گھر میں ہی بیٹھ کر محض باتیں ہی کیوں نہ کی جائیں!
"ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے بے چارہ بقراط” خاور کا یہ نام تازہ بہ تازہ ابھی ابھی انور نے رکھا تھا۔ جب سفر کی تھکان کے بعد خاور اور صبیحہ نہا دھو کر کھانے بیٹھے تھے ۔ اور کھانے کے بعد ڈائننگ ٹیبل کے پاس رکھی ایک اور کرسی پر چڑھ کر اس نے مقررّوں کے انداز میں کیا تھا ۔۔۔”آرام بڑی چیز ہے مونہہ ڈھک کے سوئیے "۔
دوپہر سے اس شام تک جب کہ یہ سب لوگ دنیا جہاں کی بے سر و پا باتیں کر چکے تھے ۔ ماضی اور حال سے لے کر مستقبل کے منصوبوں تک کی باتیں۔ لاہور اور کراچی کے ادبی، مصوّری اور موسیقی کے حلقوں کے مقابلے ، فیض اور فراق سے لے کر میرا جی اور ناصر کاظمی کی شاعری تک، جیمنی رائے سے حنیف رامے اور بڑے غلام علی خاں، ڈاگر برادران اور روی شنکر کی موسیقی تک۔۔ ادھر باتیں جاری تھیں اور ادھر خاور سٹنگ روم کی آرام کرسی پر واقعی آرام سے سو رہا تھا۔ اور ابھی شام کی چائے کے لئے اسے بمشکل جگایا گیا تھا۔ اور اب شاید اسے اس کمی کا احساس ہو رہا تھا کہ کسی سے دل کھول کر باتیں تو وہ کر ہی نہیں سکا تھا اور سب کی ساری باتیں سننے سے محروم رہا تھا۔ بہر حال اس کے مونہہ ڈھک کر سونے کے دقیق فلسفۂ عمل کی بنا پر اس کا فی الفور یہ نام تجویز کیا گیا تھا۔ انور نے ریزولیشن پیش کیا تھا اور تمام حاضرین نے ڈائننگ ٹیبل کے چمچے بجا بجا کر اسے پاس کیا تھا۔
"در اصل کشی! ان پاکستانی فلموں میں ہوتا ہی کیا ہے ۔ زیادہ تر وہی Eternal Triangle۔ ابدی تکون۔ "
"جب کہ ہم سب کو ابدی سکون کی تلاش ہے ۔ یہ ایکو پاکستانی فلم۔۔۔۔۔”
صبیحہ نے بات کاٹ کر اچانک داد دی۔ واہ واہ۔ اس صنعتِ لفظی کا جواب نہیں۔ ابدی تکون اور ابدی سکون۔ انّو بھیّا آپ کو تو شاعر ہونا چاہیے تھا۔ ۔۔۔”
"جی ہاں۔ اگر ایسی ہی بد قسمتی رہی تو ایک دن یہ بندہ شاعر ہو جائے گا اور پھر تم سب روتے پھرو گے کہ ایک نہایت ہی مرنجاں مرنج۔ رنگا رنگ اور ساتھ ساتھ شریف بھی۔آدمی کو کھو بیٹھے ۔بلکہ دنیا میں تو پھر کوئی بھی شریف آدمی باقی ہی نہیں بچے گا۔۔ابھی تو لے دے کر ایک تو ہے ۔ اور اگر خاور صاحب اس اکلوتے شریف آدمی کو ایک سگریٹ عنایت کر دیں تو ابھی ابھی یہ تعداد دوگنی ہو سکتی ہے ۔۔”
"چہ چہ چہ۔۔” صبیحہ نے کہکشاں کو دیکھتے ہوئے افسردگی کا اظہار کیا۔
"عوں ہوں۔۔”انور کھنکار کر رکا۔ اور اپنی اور خاور کی سگریٹ سلگا کر کہا۔
"تو عرض کیا ہے ۔۔۔۔ اف مرے دل کی داستاں چہ چہ۔۔۔ ارے مصرعہ اٹھائیے سامعین۔۔۔”
تعمیل کی گئی "اف مرے دل کی داستاں چہ چہ۔۔۔”
"اور عرض کرتا ہوں کہ پھر وہی نالہ و فغاں چہ چہ۔۔ارے کم از کم چہ چہ تو کرو بھائی!!”
"مکرر مکرر۔۔ ” صبیحہ چلاّنے میں پیش پیش تھی۔
"لو بھئی بقراط۔ ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں۔۔۔۔” انور نے چائے کی پیالی خاور کے ہاتھ میں پکڑائی اور تیزی سے اٹھ گیا۔
"مگر کدھر۔۔؟” خاور نے چائے کی پیالی کے ساتھ خود کو بھی میز پر رکھ دیا۔
"اور وہ غزل۔۔۔؟” صبیحہ نے یاد دلایا۔ مگر انور جو دوسرے کمرے میں غائب ہو گیا تھا ،لمحے بھر بعد ہی ایک لفافہ لے کر برامد ہوا۔ سب اس کی صورت دیکھنے لگے ۔
"مہمان حضرات بلکہ آئی ایم ساری۔ مہمان حضرت و خاتون نیز میزبان خاتون۔۔۔۔”
کہکشاں نے لقمہ دیا "من کہ انور جمیل ولد سید جمیل احمد، سابق زمیندار۔ حسن پور ضلع فیض آباد، یو۔پی۔ حال مقیم و ساکن کراچی، ملک بلکہ مملکتِ خدا داد پاکستان بدرستیِ ہوش و حواس خمسہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر۔۔۔”
"ٹھہرو بھئی کشی۔پہلے میں جناب خاور بقراط کو صدارت کی کرسی پیش کرتا ہوں کہ بغیر صدر کوئی مقرّر تقریر نہیں کر سکتا۔”
"ما بدولت ٹیبلِ صدارت پر پہلے ہی سے جلوہ افروز ہیں۔ میں انور جمیل صاحب سے گزارش کرتا ہوں، بلکہ اجازت دیتا ہوں ان کو کہ اپنی تقریر شروع کریں۔ "
"تو حاضرین۔ مقصد اس فدوی کا یہ ہے بوجوہ و بسلسلۂ آمدِ مہمانان ، خاکسار ہیچ مدان ان تین دنوں کو زیادہ بہتر طریقے سے انجوائے۔۔۔۔۔”
"انگریزی نہیں چلے گی” کہکشاں نے بات کاٹی”
"مداخلت نہ کی جائے” خاور نے صدارت کا فائدہ اٹھایا "مقررّ صاحب انگریزی سے پرہیز کریں”
"تو ان تین دنوں کو زیادہ پر لطف طریقے سے گزارنے کے ساتھ ساتھ کچھ ملک و قوم کی خدمت بھی ہو جاوے تو یہ نکو کار اپنے کو ہارون رشید سوئم گردانے گا کہ مبادا ان صدیوں میں کوئی ہارون رشید دوم گزر چکا ہو۔ سلسلہ یہ ہے کہ حاضرین میں سے ایک یعنی ایک حاضر کو علم ہے کہ پرسوں شب انجمن امداد کی طرف سے مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ایک چیرٹی شو۔ چیرٹی شو کو اردو میں کیا کہیں گے ؟” انور نے خاور کی طرف دیکھا۔
"خیراتی تماشا” خاور نے سگریٹ کا دھواں فخریہ انداز میں مونہہ سے نکالنا چاہا مگر سگریٹ کے آخری دم میں اتنا دھواں تھا ہی نہیں۔
” تو اس کے لئے اپنی خدمات پیش کی جاویں اور ثوابِ دارین حاصل کیا جاوے ۔” پروگرام اس کا یوں ہے ۔۔ اور جنابِ صدر مجھے معاف کریں کہ اتنی اردو مجھے نہیں آتی۔ ایک عدد ڈرامہ پہلے ہی تیار ہے مگر یہ ناکافی ہے ۔ ڈرامہ تو ایک گھنٹے کا بھی نہیں ہے اور سامعین کو کم از کم تین گھنٹے کا پروگرام دینے کی ضرورت ہے ۔خیال ہے کہ موسیقی کا پروگرام بھی رکھا جائے۔خاکسار کو علم ہے کہ ایک حاضرہ صبیحہ صاحبہ موسیقی سے شدید شغف رکھتی ہیں۔ ان سے درخواست ہے کہ وہ کچھ پنجابی لوک گیت جو انھوں نے اپنے قیام لاہور میں سیکھے ہوں، سنائیں، تقریب میں بھی اور اس کی مشق کے طور پر یہاں بھی۔ اس کے علاوہ اگر آپ لوگ ساتھ دے سکیں تو یہ بھی تجویز ہے کہ ان دو دنوں میں ایک اور ڈرامہ یا کھیل کا اضافہ کر دیا جائے۔ انفرا اسٹرکچر۔۔۔۔”
"اٹر سٹر۔۔” کہکشاں نے لقمہ دیا۔
"۔۔۔۔تو ہمارے پاس ہے ہی۔ اس ڈرامے کی تخلیق کا بار میں اپنے کم زور شانوں اور جنابِ صدر کے مضبوط کاندھوں پر رکھنا چاہوں گا۔۔ اب تالیاں بجائی جائیں”
تالیاں بجائی گئیں۔ پھر کہکشاں کھڑی ہوئی۔
"میں یہ مناسب سمجھتی ہوں کہ اب تک جو پروگرام طے ہو چکے ہیں ان کے بارے میں حاضرین کو مطلع کیا جائے۔دو خواتین۔ نجمی جن کا اصل نام نجمہ ظہیر ہے ، اور خوشونت کور دگلّ ۔ اوّل الذکر کراچی ریڈیو اور آخر الذکر لاہور ریڈیو کی آرٹسٹ ہیں۔ نیز ہمارے انسپکٹر آف سکولس کی بیگم صاحبہ تسنیم سلمان بھی ہمارے اس پروگرام میں شامل ہیں۔تسنیم صاحبہ نے ایک تھئیٹر گروپ کے ڈرامے کا انتظام کر لیا ہے ۔ سلمان صاحب کے بھا4ی سہیل بھی غزلیں گائیں گے ۔ مہدی حسن کو بھی بلایا جا رہا ہے مگر ان کی منظوری کی اب تک کوئی اطلّاع نہیں ہے ۔ اطلاع تو فریدہ خانم نے بی نہیں دی ہے مگر وہ شاید ہماری تسنیم سلمان سے اپنی ذاتی دوستی کی بنا پر شرکت کر لیں ۔ ریڈیو پاکستان سے خبریں ختم ہوئیں۔‘
آخری جملہ نیوز اناؤنسر شمیم احمد کے لہجے میں کہا گیا تھا ۔۔۔ ’تو اب یہی طے کیا جائے کہ میں اور خاور اس ڈرامے کے مسودّے کو فائنلائز کر لیں جس کا خاکہ میں بنا ہی چکا ہوں۔ اور صبیحہ صاحبہ کچھ ٹپوّں وغیرہ میں لگ جائیں۔ کشی نے ہارمونیم گھر میں ہی منگا رکھا ہے ۔‘
چنانچہ خاور اور انور سٹڈی روم کی طرف چلے گئے اور ڈرائینگ روم ہی میوزک روم بن گیا۔
’انّو بھیّا۔۔۔۔۔ وہ طبلہ۔۔۔۔ جوڑی تو رکھی ہے مگر حیات بھائی سے آپ نے کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘
’حیات بھائی شاید آٹھ بجے تک آئیں۔ تب تک تم ڈائننگ ٹیبل پر چمچوں سے سنگت کرو‘
شکیلہ باجی اپنے کمرے میں ٹیبل لیمپ جلائے مستقل کوئی کتاب پڑھے جا رہی تھیں۔
٭٭٭
کمیو نٹی ہال ۔۔۔ کراچی اکتوبر 1962
’’ ارے بھئی ہمارا بقراط کہاں ہے ۔۔۔۔’’ انور خاور کو ڈھونڈنے دوڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اس کے ہاتھ میں ڈرامے کا اسکرپٹ تھا جس پر دونوں نے کافی محنت کی تھی ۔۔۔۔۔
’’ خاور بھائی کو ابھی میں نے ریسپشن میں دیکھا ہے ۔۔۔۔’’ صبیحہ تیزی سے بولی اور گرین روم میں بھاگ گئی ۔
’’ ریسپشن میں۔۔۔۔’’ انور نے سوچا ۔۔۔ابھی تو مہمان بھی آنے شروع نہیں ہوئے ۔۔۔۔ لو وہ خود ہی آ رہا ہے ۔
’’ ارے بقراط بھائی۔۔۔’’اس نے آواز لگائی ’’ ذرا چل کے پراپس(PROPS ) تو دیکھ لو ۔۔۔ ڈریس ریہرسل چھوڑ کر تم کہاں چلے گئے تھے ۔بیک گراؤنڈ میوزک کا صبیحہ کو اچھا آئیڈیا آیا ۔۔ مجھ تو وہ بہت پسند آئی ۔۔۔’’
’’ارے وہ تو ٹھیک ہے ۔ مگر ڈایلاگس سب کو یاد بھی ہیں نا ۔۔۔۔’’
’’ یہ میرے ذمّے ۔۔۔ پروڈیوسر ڈائریکٹر انور جمیل ۔۔۔’’ انور نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔ خاور میوزک روم کی طرف چلا گیا ۔۔۔
میں ۔۔۔۔انور جمیل ۔۔۔ ایک ڈرامے کا نصف مصنف اور ہدایت کار اور کردار ۔۔ خود بھی ایک ڈرامے کا کردار بھی ۔۔۔ انور نے سوچا ۔۔۔ ڈرامے کا موضوع اسلامی تاریخ اور حال کے مسلمانوں کی حالت ۔۔ چلتے چلتے ہم کہاں آ گئے ہیں۔ اندر گھٹن سے گھبرا کر وہ باہر نکل آیا ۔۔۔ سڑک پر ایوننگ سوٹ پہنے ہوئے مرد اور قیمتی ’’ انڈین’’ ساریاں پہنے عورتیں جم خانہ کلب جا رہے تھے ۔ وہاں اب وہ شرابیں پئیں گے ۔ مرد ایک دوسرے کی بیویوں کے ساتھ ناچیں گے اور بد تمیزیاں کریں گے اور عورتوں کی غیر موجودگی میں ان کے اسکنڈلز نمک مرچ لگا کر بیان کریں گے اور خود سے کسی کے عشق کے فرضی قصے گھڑیں گے ۔ ان کو یاد بھی نہیں ہوگی کہ مشرقی پاکستان میں سیلاب آیا ہوا ہے اور حکومت کو ان کی مدد کی ضرورت ہے ۔ پھر اسے اچانک اپنی فرض کی یاد آئی اور وہ اپنے ڈائلاگس دل میں دل میں دہراتے ہوئے گرین روم کی طرف بھاگ رہا تھا ۔ میوزک روم سے صبیحہ ۔۔۔سہیل اور نجمہ ظہیر کے گانوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔۔۔ یہ سب ہم سب کہاں جا رہے ہیں ۔ انور نے پھر سوچا۔
’’ شام بخیر حاضرین ۔۔ آج کی اس شام کو ہم ایک تہذیبی شام منانے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔۔۔ سب سے پہلے ۔۔۔۔۔ ’’ ریڈیو پاکستان کے ایک اناونسر ناصر صدیقی کی آواز تھی۔
’’ یہ ناصر صدیقی تو آل حسن کی آواز اور لہجے کی نقل کرتا ہے ۔ ’’ اگلی صف میں سے کسی خاتون نے برابر بیٹھی ہوئی صاحبہ سے کہا ۔ ناصر صدیقی آج کے پروگراموں کے بارے میں اناؤنس کر رہا تھا ۔
اس ڈرامے کے مصنف اور ہدایت کار ہیں پاکستان تھیٹر کے مشہور فن کار جناب جلیل رحمانی ۔’’
’’ہمارے ڈرامے کے ہدایت کار انور جمیل اپنے پہلے ڈرامے میں ہی ان کے مقابلے پر آ جائیں گے ۔’’صبیحہ نے کہکشاں کے کان میں کہا ۔
٭٭٭
سب سے پہلے ڈرامے ’’آزمائش’’ کے اختتام پر تالیاں بنے کے ساتھ پردہ پھر اٹھا۔ صبیحہ کاغذ پر لکھی ہوئی کچھ سطریں جلدی جلدی دہرانے لگی اور ناصر صدیقی اس کے نام کا اعلان کر رہا تھا۔
ستار نواز مستقیم صاحب اور طبلے پر حیات بھائی کے سامنے کے مائیکرو فونس ٹھیک کئے جا رہے تھے ۔ پھر صبیحہ نے پھونک مار کر اپنے مائک کا معائنہ کیا۔
پھر صبیحہ نہایت محویت سے ایک بنگلہ گیت گا رہی تھی ۔۔۔۔ نذرال گیتی ۔۔۔۔
آما دیر پاکبے نا جُل گو
مودیر پاکبے نا جُل
آما دیر جھور بے نا پھُل گو
مو دیر جھور بے نا پھُل
٭٭٭
تھوڑی دیر بعد مائیکرو فون سے آواز بکھر رہی تھی ۔۔۔
"”پیر آکھیا جوگیا جھوٹ بولیں ۔۔۔ کون رٹھڑے یار مناوندا اے
ایسا کوئی نہ دٹھا میں ڈھونڈ تھکی۔ جیڑا گیاں نوں موڑ لیاوندا اے
یہ خوشونت کور کی آواز تھی ۔۔ لاہور اور دوسرے پنجابی علاقوں سے متعلق شائقین کے دل دھڑک رہے تھے ۔
"”اب سہیل احسن غالب کی مشہور غزل پیش کریں گے ۔ مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے ۔
"یار انور کی غزل ہمارے ڈرامے میں بھی بہترین ثابت ہوتی۔ اگلے کسی شو میں خیال رکھنا۔‘
خاور کہہ رہا تھا۔
"ہاں۔۔۔ دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے "
"اور ۔۔۔ پھر وضعِ احتیاط سے گھٹنے لگا ہے دم "
"اور فیض ۔۔۔ سرِ وادیِ سینا
اے دیدۂ بینا
اے دیدۂ بینا ۔۔۔”
"یہ محترمہ تو نور جہاں کی نقل کر رہی ہیں۔ کسی نے رائے ظاہر کی۔ اور نجمہ ظہیر اپنی ہاٹ دار آواز میں گا رہی تھیں۔
” نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
کیوں زیاں کوش بنوں سود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کرو، محوِ غمِ دوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرأت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
٭٭٭
انور اور خاور اب اپنے ڈرامے کی تیاریوں میں لگ گئے تھے ۔
” او سعد ۔ تم کو علم ہوگا کہ دشت و دریا ہر جگہ ہم نے اپنے عربی النسل گھوڑے دوڑا دیئے تھے ۔ ہم جو ہسپانیہ میں مسجدِ قرطبہ سے ہندوستان میں دریائے سندھ تک اور غرناطہ سے حبش تک جا چکے تھے ۔ مگر اب۔۔۔۔۔ اب جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں زندگی ہم پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ ہم جیسے گہرے غار کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ ۔۔۔۔ پہلی آواز۔
"کیا۔ کہا۔ اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ اتنے طویل سفر کے عادی ہمارے قدم اس مسافت کے باعث ہی اب تھک گئے ہیں۔” ۔۔۔ دوسری آواز
"ہاں شاید۔ یا شاید یہ بھی کہ ہمارے کاندھے اتنے شل ہو چکے ہیں کہ ہم اپنی ساری روایات کا بوجھ لے کر بلندیوں پر نہیں چڑھ سکتے ۔ ہمیں اتھاہ پستیوں کی تمنا ہے ۔ عمیق گہرائیاں ہمیں پکارتی ہیں۔ ’’
"تم سب بے حد مایوس ہو ۔۔۔ اور مایوسی کفر ہے ۔” ۔۔۔۔ تیسری آواز
"نہیں۔ ہم اب بھی پُر امّید ہیں”
"مگر یہ امید شاید محض اتنی ہے کہ ہمیں وہ پستیاں مل جائیں گی کہ ہم اپنی روایات کو کاندھوں سے اتار کر کوڑے کے ڈھیر کی طرح پھینک دیں گے ۔”
’’نہیں ۔ محض یہی نہیں۔ ہم سے کوئی روایات کا بوجھ لے لے تو پھر ہم پھر بلندیوں کی طرف سفر کر سکتے ہیں۔ ہم ابھی اتنے نہیں تھکے ہیں کہ پا شکستہ بیٹھ جائیں۔”
"مگر تم کون ہو ۔ اے اجنبی آواز۔۔۔۔”
"میں وہی ہوں جس کا بوجھ تم پر ناگوار محسوس ہو رہا ہے ۔ تم اسے الزام دیتے ہو۔ مگر مجھے نہیں پہچانتے ۔ تعجب ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ تم کو ابو بکر صدیقؓ سے صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی اب تک یاد ہیں۔ تمہارے کانوں میں اب بھی بلال حبشیؓ کی اذانیں گونجتی ہیں۔ تمہاری آنکھوں میں مسجدِ قرطبہ کے میناروں کی روشنی ابھی سلامت ہے ۔”
پس منظر کی موسیقی میں اقبال کی نظم گائی جا رہی تھی۔
"اے حرمِ قرطبہ ۔۔ عشق سے تیرا وجود۔۔۔”
پردے پر روشنیوں کے سائے لہرا رہے تھے ۔ مسجد کے میناروں کے سلہوٹ اور گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں ۔۔۔
٭٭٭
ڈرامے کے بعد تالیاں بہت دیر تک بجتی رہیں۔
"بھئی خاور بھائی۔ ذرا دیکھ کر آئیے تو کوئی صاحبِ باریش بے ہوش تو نہیں ہو گئے "
کہکشاں نے گرین روم کے کونے سے پانی کا گلاس ہاتھ میں لئے ہوے صدا لگائی۔
"لاحول ولا۔ اتنی محنت سے تو ہم لوگوں نے مذہبی فکر کا ڈرامہ لکھا تھا۔ اور حالت یہ ہے کہ کرداروں پر ہی کچھ اثر نہیں ہوا۔ ” انور بھی اس اثنا میں گرین روم میں اپنا چغہ اتار رہا تھا۔
"ویسے سچ پوچھو تو بقراط بھائی۔ ڈرامے کے موضوع سے قطع نظر مجھے تمہاری پوشاک پر بڑی ہنسی آ رہی تھی۔ اور سوچ رہا تھا کہ میں بھی ایسا ہی نظر آ رہا ہوں گا۔ لگ رہا تھا کہ ہم قرونِ وسطیٰ میں ہیں۔ اور ابھی ہم گھر جائیں گے تو مولانا روم ہم کو راستے میں ملیں گے اور اپنی مثنوی فی البدیہہ ہم کو سنا دیں گے ۔ "
"یا اخی۔۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ڈرامے کا پروگرام تو آخر میں تھا۔ مگر یہ فریدہ خانم کہاں رہ گئیں۔ "
اور مائکرو فون پر ناصر صدیقی فریدہ خانم سے ناصر کاظمی کی غزل کی فرمائش کر رہا تھا۔ انور بھاگ کر مُڑا ہی تھا کہ صبیحہ چلائی۔ ’’اپنا عمامہ تو اتار دیجئے ۔ میک اپ تو کافی صاف ہو گیا۔’’ اس نے عمامہ اتار کر چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ مصنوعی داڑھی کے دوچار بال پسینے کے ساتھ چپکے ہوئے تھے ۔ باہر اسٹیج پر فریدہ خانم یکساں گاتے جا رہی تھیں۔
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
٭٭٭
ہورائزن کا پیس ایشو (Peace Issue) بازار میں آ چکا تھا۔ اس کے لیے جنید عالیہ اور سُشما اور ان کے دوستوں نے ان تھک محنتیں کی تھیں۔کتنے مشہور مصنفین سے مضامین لکھوائے گئے تھے ۔ ہندوستان پاکستان کے سیاست دانوں اور عالموں کے علاوہ دنیا کے بھی جانے مانے ۔۔۔۔ جوزف کونراڈ ۔ جی گوارا۔ چرچل ۔ قرۃ العین حیدر کے ساتھ ساتھ کرشنا مینن سے بھی نعیم کے کہنے پر سشما ایّر نے انٹرویو لیا تھا ۔ اور نعیم نے جواہر لال نہرو سے ۔ ویت نام۔ ویت کانگ۔ عرب۔ اسرائیل۔ کشمیر۔ یہ سب کیوں؟ یہ اشو ایک سوال تھا۔ اور جب رسالہ چھپ کر آیا تھا تو اس کا ایک ایک صفحہ چیخ رہا تھا۔ ساری دنیا کو امن کی ضرورت ہے ۔ مگر اچانک ایک رات ریڈیو کی خبروں نے اس آواز پر قابو پا لیا۔ یہ اکتوبر 62 کی ایک رات تھی۔ چین نے ہندوستان پر حملہ کر دیا تھا۔
جنید۔ ہماری سب کوششیں بیکار ہو گئیں۔ نعیم نے "ہندو” میں ہورائزن کے شمارے پر تبصرہ پڑھتے پڑھتے پھینک کر کہا۔ جنید نے تازہ اشو کے آخری پرچے کے پارسل پر پتہ لکھ کر رومال سے ہاتھ صاف کئے اور دھم سے ایزی چیئر میں دھنس گیا۔ اور سگریٹ اس طرح سلگائی جیسے یہ ایک اہم فریضہ ہو۔
"نعیم احمد صاحب۔ ہمارا رسالہ اپنے بہت مختصر سے حلقے کو ہی متاثر کر سکتا ہے ۔ کیا اس رسالہ سے بڑی طاقتیں اپنی پیش قدمیاں روک دیں گی۔ وہ آپ کے جوزف کونراڈ اور اسٹین بک اور ہیمنگ وے اور پاسترناک اور فراق اور مخدوم اور کرشن چندر کی آوازیں سن سکیں گی؟ جنید نے ختم ہوتی ہوئی سگریٹ سے دوسری سگریٹ سلگائی۔
جنگ انسانی تباہی کا دوسرا نام ہے ۔ نعیم نے اپنی بے خواب آنکھوں کو ملتے ہوئے کہا۔
جنگ کی ہم برائی کر سکتے ہیں۔ روک نہیں سکتے اور پھر جب خود ہمارا ملک اس میں کود جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
تو کیا ہم اپنی مرضی سے اس میں شریک ہوئے ہیں۔۔۔؟
نہیں بھئی ۔۔۔ میں حملہ کرنے اور حملے سے متاثر ہونے کی بات نہیں کہہ رہا ہوں۔ میرا اشارہ محض جنگ سے ہے ۔
نعیم نے پھر ریڈیو کھول دیا۔ دشمن کو کمزور نہ سمجھئے ۔ جواہر لال نہرو کہہ رہے تھے ۔ عالیہ دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔
آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟ یونیورسٹی میں ابھی بھی ہنگامی میٹنگ چل رہی ہے ۔ میں وہیں سے آ رہی ہوں۔
آپ نے خبروں نے سنا۔ نیشنل ڈیفنس فنڈ بنایا گیا۔ جنگ کے سلسلے میں ۔ ہم اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں۔
"نہیں عالیہ بیگم۔۔۔” نعیم نے عالیہ کے ننگے کانوں کی طرف دیکھ کر کہا "صرف کانوں کے ٹاپس اور انگوٹھیاں اتار کر دینے سے ہی صحیح طور پر ملک کی مدد نہیں ہوگی۔ ہم کو اب بھی دنیا نہیں تو کم از کم ہندوستان کے اپنے اس خطّے کے جذبات کو ابھارنا ہے ۔ جنگ کی ہولناکیاں۔ اس کے اثرات۔ یہ آپ کے گھر کے محبوب میاں کو معلوم نہیں ہوں گے ۔ موڑ پر اس پان والے کو پتہ نہیں ہوں گے جہاں سے ابھی شربت خرید کر لا رہا ہوں۔۔۔۔ "
ارے تقریر مت کرو بھائی۔۔ یہ کام کا موقع ہے ۔۔۔۔۔”
اپنے اپنے ہتھیار اٹھاؤ اور چلو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب سپاہی ہیں۔”
یہ بھی باتیں ہیں ، نعیم اور عالیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی لوگوں کے جذبات اس جھٹکے سے ہل گئے ہوں گے ۔ ہم کل یا پرسوں ہی ایک کلچرل پروگرام کریں۔ سارے لوکل Talents۔ پھر بھی ٹکٹ فروخت ہو ہی جائیں اور نیشنل ڈیفنس فنڈ میں کافی رقم دی جا سکے گی۔ ۔۔ اب یہ پروگرام سن کر پھر وہی بات کہو نعیم۔۔۔۔ اپنے ہتھیار اٹھاؤ اور چلو۔۔۔ وقت بہت کم ہے ۔ وقت بہت کم ہے ۔ ” جنید نے اپنی تاریخ والی گھڑی میں تاریخ اور وقت دونوں ایک ساتھ دیکھے ۔”
٭٭٭
اور دو دن بعد ہی ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اور سٹیج پر حیدرآباد کا پیارا مخدوم اپنی نظمیں سنا رہا تھا۔
’’درد کی رات ہے
چپ چاپ گزر جانے دو
درد کو مرہم نہ بناؤ
دل کو آواز نہ دو
نورِ سحر کو نہ جگاؤ
زخم سوتے ہیں تو سو رہنے دو
وقت بے درد مسیحا ہے
بیک حکم جگا دینا جِلا دیتا ہے
رات اک سائل بے فیض کی مانند گزرتی ہے
گزر جانے دو
وقت ۔
وقت۔
او مشفق و محسن و قاتل
رات کی نبض پہ نشتر رکھ دے
رات کا خون ہے
بہہ جاتا ہے
بہہ جانے دے
وقت بے درد مسیحا۔۔۔۔۔۔”
اور اس رات کو جنید کے ذہن پر یہ نظم ہتھوڑے برسا رہی تھی۔ وقت ۔ وقت ۔ ۔۔ بھائی آئنسٹائین تم نے کون سا تیر مار دیا اسے چوتھا ڈائمنشن بنا کر اب کوئی ڈائمنشن نہیں بچا ہے مگر ٹھیک ہی تو کہنا تھا بے چارہ۔ اب اس وقت 62ء کی اس خوشگوار رات میں وقت کتنا ظلم کر رہا ہے ۔ یہ لمحۂ موجود۔ اس وقت برِّ اعظم امریکہ کے اکثر لوگ اپنے کاموں کے لیے نکل رہے ہوں گے یا نکل چکے ہوں گے ۔ دوڑ بھاگ میں مصروف ہوں گے ۔ یہ سب کتنا عجیب ہے ۔ محض اس ایک لمحے میں مختلف جغرافیوں میں مختلف اعمال ہو رہے ہوں گے ۔یہیں۔۔۔ حیدرآباد میں ہی کچھ لوگ کسی بار میں جشن منانے چلے گئے ہوں گے ۔ کچھ لوگ دن بھر کی مزدوری کے بعد گہری نیند سو چکے ہوں گے ۔ سرحد پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں نہ جانے اس وقت کیا ہو رہا ہو۔ پاکستان۔۔۔ اسے انور کہکشاں اور خاور صبیحہ یاد آئے ۔ مخدوم بھائی تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔۔۔۔۔ اور عینی آپا۔۔۔۔۔۔ تم بھی درست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت ۔۔۔۔۔۔۔۔ اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے ۔ اسی جگہ جہاں میں بھی آج سے سو ۔ دوسو۔ ہزار سال پہلے نہ جانے کیا ہو رہا ہوگا۔ شنکر آچاریہ اپنے چیلوں کو درس دے رہا ہوگا۔ کہیں آگرہ ۔ بلکہ اکبر آباد میں شاہجہاں تعمیرِ تاج محل کے نقشے دیکھ رہا ہوگا۔ کہیں انگریزوں کے خلاف سازش ہو رہی ہوگی اور کسی مغل شاہ کو شہر بدر کر کے رنگون لے جا رہا ہوگا۔ کسی کو مٹیا برج رخصت کرتے وقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت بے درد مسیحا ہے
بیک حکم جگا دینا۔۔۔۔ جِلا دیتا ہے
جاپانی الارم کلاک نے بارہ کے گھنٹے بجائے ۔ جنید نے ہاتھ بڑھا کر اس آواز کو روک دیا
٭٭٭
چلو بھئی ۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبیحہ نے ٹکٹوں کی رسید بک ایک کونے میں پھینکی اور دھم سے کرسی پر بیٹھ گئی۔
"ہاں سب کچھ ختم ہو گیا۔ ” جیسے روئے زمین پر قیامت آ چکی ہو۔ خاور نے سگریٹ سلگاتے ہوئے سوچا اور وہ محض دونوں ہی جلے بھُنے ، کٹے پھٹے مناظر کے ماتم کے لئے زندہ بچے رہے ۔
کارِ جہاں بے ثبات ۔ کارِ جہاں بے ثبات۔”
کہکشاں گنگناتی ہوئی گرین روم میں چلی آئی۔
"افوہ یہ آپ لوگ اداس کیوں بیٹھے ہیں بھائی۔ گھر ناہیں چلہیں کا۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
مگر کہکشاں کی بات کا کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
کارِ جہاں بے ثبات ۔ کارِ جہاں بے ثبات ۔
کہکشاں کے دل کی دھڑکیں دُہرا رہی تھیں۔
’’انور کہاں ہے ؟” خاور نے نہایت کاہلی سے پوچھا۔
’’ابھی میں نے ان کو باہر ی برامدے میں مہمانوں کو رخصت کرتے دیکھا تھا۔ لیجئے تھنک آف دی ڈیول ۔۔۔ "
"نہیں صبیحہ بیگم ہمارے یہاں شیطان نہیں رحمت کے فرشتے آیا کرتے ہیں۔’’ انور نے آ کر کہا اور ایک کرسی پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بھئی ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا نہایت سخت موڈ ہو رہا ہے کہ جلدی سے لمبی تان کر سو جائیں۔”
"تو مجھے اٹھنا ہی پڑے گا۔ ” خاور نے منہ بسور کر کہا اور خاصی پھرتی سے کھڑا ہو گیا۔ کہکشاں ایک دم ہنس پڑی۔
"افوہ خاور بھائی۔ ۔ آپ تو ایسے تھکے ماندے بیٹھے تھے کہ صبح تک آپ کے ہلنے کی بھی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔”
"ارے میں تو اتنا تھک گیا ہوں کہ ہونٹ ہلا کر یہ کہنے کی طاقت نہیں تھی کہ چلو گھر چلیں”۔
خاور نے جوتے کے فیتے دوبارہ کس کر باندھتے ہوئے کہا۔ پھر دونوں روانہ ہو گئے ۔
"ہمارا پروگرام بڑا کامیاب رہا”۔ صبیحہ رسید بکوں کے نمبر دیکھ کر حساب کر چکی تھی۔
اور میرے پروگرام کا تو صبیحہ بیگم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کو کچھ پتا ہی نہیں ہے ۔انور نے دل میں سوچا۔ ایک پیاری سی کہانیوں اور سُروں سے لبریز لڑکی۔ اس کا ساتھ ہو تو زندگی کیسے سکون سے گزر سکتی ہے ۔ اب میں یہ سب تم کو کیسے سمجھاؤں۔
"صبیحہ تمہارا مستقبل کے بارے میں کیا خیال ہے "
یہ اچانک آپ کو مستقبل کے بارے میں دریافت کرنے کی کیا سوجھی ۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ میں مستقبل کی ہولناکیوں یا تابناکیوں پر یقین نہیں رکھتی۔ ہر لمحۂ موجود۔ صرف یہ لمحہ جب کہ آپ اور میں کراچی کے کمیونیٹی ہال کے اس گرین روم میں بیٹھے ہوئے ہوں اور یہاں کے کارندوں کی کرسیاں ٹھیک کرنے اور لائٹوں کو سرکانے کی آوازیں آ رہی ہیں۔۔۔۔۔”
اور میں سگریٹ پی رہا ہوں ۔۔ اور تم شو کی آمدنی کا حساب لئے بیٹھی ہو۔ تمہارا مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ۔ اور ماضی سے ۔ بجلی بجلی تیرا بیاہ کدھر۔۔۔ مگر انور نے زیرِ لب ہنس کر کہا۔ "صبیحہ بیگم ۔ تم کچھ نہیں سمجھ سکتیں۔
’آؤ چلیں۔۔۔۔۔۔”
’’یہ آپ پر کیسا موڈ سوار ہو گیا ہے ۔ ” صبیحہ نے کچھ پریشانی سے کہا۔ "
"کچھ نہیں صبیحہ۔ دراصل میں عرصے سے سوچ رہا ہوں کہ تمہارا اور میر ا مستقبل اگر ایک ہو جائے ۔ جڑ جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
صبیحہ خاموش ہو گئی۔ تو یہ بات تھی۔ اس نے سوچا جو انو بھیا اچانک میرے مستقبل کی بات لیے بیٹھے تھے ۔ اور آپ کے وہ سارے خیالات کیا ہوئے ۔ کہتے تھے کہ ہمارے پاس بہت سے پروجکٹس ہیں۔ ہمیں لوگوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ ہم مہاجروں نے ۔ ہم ہندوستان کے کسی بھی صوبے سے آنے والے ۔ یوپی والوں، نے انصاروں۔۔ یہاں کے پنجابی اور سندھی باشندوں کی کسی شئے پر قبضہ نہیں کیا ہے ۔ سندھی پنجابی کا جھگڑا ہے ۔ اردو ، سندھی ۔ پنجابی زبانوں کا الگ ہے ۔ شیعہ سنی۔ اسلام میں تو یہ بھی ہے کہ دوسرے مذہب کو برا مت کہو۔ پھر ہندوستان پاکستان کی دوستی برِّ صغیر کے لیے نہایت ضروری ہے ۔۔۔۔ ہمیں۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے کچھ کہا نہیں۔ صرف اپنا ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مگر ہمارے آئڈیلز۔ "
” عینی آپا کا کردار مت بنو۔۔۔۔ چھوڑو یہ۔۔۔۔۔۔۔ ” انور اٹھ کر کھڑا ہو گیا "آؤ چلیں۔”
"ایک بات کہوں انو بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔شاید خاور بھائی بھی اسی لیے کہکشاں کے ساتھ فوراً چلے گئے کہ کچھ خود کچھ بات کر سکیں۔ مجھ سے اب تک کہتے رہے تھے کہ میں بات کروں۔ کل رات ہی میں نے کُشی سے بات کی تھی۔ تو وہ کہتی ہے کہ اس کا تو شادی کا ارادہ ہی نہیں ہے ۔ نہ خاور بھائی سے اور نہ اور کسی سے "
"چھوڑو بھائی ۔۔۔ اور میں نے بھی جو کہا۔ اس لمحے کو ماضی کو ایک اور لمحہ سمجھ کر بھول جاؤ۔
ہر شخص کی زندگی میں کمزوری کے کئی لمحات آتے ہیں۔”
اور انور اس طرح موضوع بدل کر لاہور کے موسم کی باتیں کرنے لگا۔ جیسے ابھی کوئی بات ہی نہ ہوئی۔ بڑی دیر سے لاہور اور کراچی کے موسم ہی زیر بحث رہے ہوں۔
٭٭٭
جنگل میں شام
جنگل میں ہوئی ہے شام آخر
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے
(ناصر کاظمی)
چاٹگام
4/مئی 1970 ء
کُشی ڈیئر……۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ خط تم کو چاٹگام سے لکھ رہی ہوں۔ ہم لوگ چھٹیاں گزارنے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ۔ یہاں چھوٹا سا ڈاک بنگلہ ہے ۔ جس کا ملازم ایک بہاری لڑکا ہے ۔ چوکی دار ۔۔ خانساماں سب کچھ ….اس نے دو پہر کے کھانے کے ساتھ ڈاک لا کر دی تھی۔ تمہارا خط راج شاہی سے ری ڈائرکٹ ہو کر ملا ہے ۔ اور میں تم کو خط لکھ رہی ہوں۔ ویسے تو ہم بہت گھوم پھر رہے ہیں ۔ مگر اس سفر کا بھی ہیڈ کوارٹر چاٹگام ہی ہے ۔ اسی لیے یہاں کا پتہ راج شاہی میں دے کر آئے تھے ۔
چاٹگام ۔ یہ دریائے کرنافلی اور شنکھا کا شہر ہے ۔ ڈاک بنگلے کے مینیجر چودھری صاحب نے بتایا تھا کہ ہوان سانگ نے چاٹگام کو ’پانی کی خیالی سیج پر سویا ہوا حسن ‘ کہا تھا۔ ہم لوگ پرسوں چلے جائیں گے ۔ راج شاہی میں کوئی سمپوزیم ہے ۔ اس میں خاور بھائی کو شرکت کرنی ہے ۔ اب تو تقریباً ہم نے سب کچھ دیکھ ہی لیا ہے ۔ اور اس خط میں کچھ تم کو بھی دکھا دوں گی۔۔ یہ مشرقی پاکستان ۔۔ یہ سونار بانگلا۔۔۔۔۔
یہاں سے پانچ میل دور نصیر آباد کے سر سبز ٹیلے پر شاہ یزید بستامی کا مزار ہے ۔ ہم لوگ کل ہی وہاں گئے تھے اور ان کے مزار پر فاتحہ بھی پڑھی ۔ بھئی کہکشاں ۔۔ پیروں مریدوں سے مجھے بھی کوئی خاص رغبت نہیں۔ مگر پھر بھی مزاروں کے ماحول عجیب طرح سے اپیل کرتے ہیں ۔ افسردگی اور پاکیزگی اور رعب کا عجیب مجموعہ ۔ کل فاتحہ پڑھنے کے بعد اپنے آپ کو بے تحاشہ ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ میں نے خاور بھائی سے یہ بات کہی تو وہ ہنسنے لگے ۔ میں نے ہی کہا ۔۔ بھائی یہ روحانیات ہے ۔ اور آپ کے مادی فلسفے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
اسٹیمر کے ذریعہ چندر گھاٹ بھی گئے ۔ جو دریائے کرنافلی پر ہی واقع ہے ۔ کچھ دور چندرگوٹاہ ہے ۔ جہاں پیپر مِٕل بھی دیکھا ۔۔۔ پھر کاکس بازار ۔۔۔ جو ستّر میل لمبا ساحل ہے ۔ لکڑی کے مکانات ناریل کے درختوں کے جھرمٹ ۔۔ پگوڈا۔۔ مندر ۔۔ پہاڑیوں پر بنے ہوئے استوپ ۔۔ ہم لوگ تو وہاں دس بارہ دن ایک چھوٹے سے لکڑی کے کچے مکان میں رہے تھے ۔ میاں جسیم الدین کے مہمان ۔۔ نہیں بھئی ۔۔ یہ وہ مشہور و معروف جسیم الدین نہیں ہے ۔۔ یہ تو ایک دیہاتی مچھیرے تھے ۔۔ خاور بھائی بھی ان مناظر کو پینٹ کرتے کرتے بوکھلا گئے ۔ جی چاہتا ہے صبیحہ کہ یہاں ہی رہ جائیں اور میں یہاں ہی بنجاروں کی طرح گھوم پھر کر مصوری کرتا رہوں ۔ انہوں نے کہا تھا ۔۔ یہ نظارے واقعی ہیں ہی ایسی قابل کبھی آؤ تو ضرور نظارہ کرنا ۔۔ اور ہاں ۔۔۔ یہاں بالکل عرب جہاز رانوں کے طرز کی قدیم ٹائپ کی کشتیاں ہوتی ہیں ۔ جنہیں شمپان کہتے ہیں ۔ بس یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم قرون وسطیٰ میں سفر کر رہے ہیں ۔۔ تم کو وہ پروگرام تو یاد ہو گا نا ۔۔۔۔…………
’’کھانا ابھی کھایئے گا کہ صاحب کا انتظار کیجیئے گا ۔۔’’ حبیب اللہ پوچھ رہا تھا۔۔۔ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔ ’’ہم کو تو ابھی دے ہی دو۔’’
پھر ایک سطر کا اور اضافہ کر دیا ۔۔۔’’ اب اس خط کو کل صبح مکمل کروں گی ۔۔۔’’
اس نے قلم رکھ دیا اور گنگناتی ہوئی کھانے کے کمرے کی طرف چل دی۔۔
’’تومار ہولو شروع
آمار ہولو شارا
تومار جولے باتی تو مار گھورے شا تھی
امار تورے راتی و امار تورے تارا’’
وہ خود ہی مسکراتی ۔۔۔ وہ ایک ہندوستانی یو پی کی لڑکی ۔۔۔ جو اب پاکستانی تھی۔ اور اب اس مشرقی پاکستا ن میں ۔۔ نذرُل کے دیس میں ربندر سنگیت گا رہی تھی ۔۔
کھانے کی میز پر سامان سج رہا تھا۔ وہ گنگناتی رہی ۔۔ ’’ تومار آچھے ڈانگا ۔ امار آچھے جول’’ باہر رات گہری ہونے لگی تھی ۔۔
٭٭٭
’’………………………….’’
اب اس خط کو مکمل کر رہی ہوں۔ مگر کس طرح کروں۔ حواس باختہ ہو گئے ہیں۔ رات بھر خاور بھائی نہیں آئے ۔ اور صبح کو حبیب اللہ ۔۔۔۔۔ ڈاک بنگلے کے چوکی دار نے ایک پرچہ لا کر دیا۔ رات کو کوئی برآمدے میں پھینک گیا تھا ۔۔۔ خود کیا لکھوں ۔۔ اس پرچے کی نقل کروں جو میرے سامنے ہی رکھا ہے ۔
’’ صبیحہ ۔۔۔۔ میری ساری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ میں نے آوارہ مصوّر کا پیشہ اختیار کر لیا ہے ۔ کس وقت کہاں ملوں گا ۔۔۔ کہہ نہیں سکتا ۔۔ دو چار سال بعد شاید کبھی ملاقات ہو جائے۔۔ شاید نہ ہو۔۔ کہنا ۔۔۔ کوئی شکایت نہیں ۔۔ خدا حافظ ۔۔ تمہارا بھائی خاور ۔۔۔۔۔’’
صبح سے چودھری صاحب کو ساتھ لیے ہر ممکن کوشش کر چکی ہوں ۔ ان دنوں میں بھی خاور بھائی مجھ سے باتیں کرتے کرتے غائب ہو جاتے تھے ۔ جھولے میں مصوّری کا سامان رکھتے ہی تھے ۔ میں سوچتی رہی کہ پینٹنگ کے لیے چلے گئے ہوں گے ۔ مگر انہوں نے مجھ سے کبھی کچھ نہیں کہا ۔ سوائے اس بات کے جو میں نے کل تم کو لکھی تھی ۔ اب کل ہی میں تنہا راج شاہی واپس جا رہی ہوں ۔ وہاں سے پھر اطلاع دوں گی ۔ یعنی کوئی خبر ہوئی تو ۔۔ ادھر کے سیاسی حالات تو تم کو کچھ حد تک معلوم ہوں گے ۔ مکتی واہنی وغیرہ ۔ دل میں پھر عجیب سے ہولناک خیالات نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے ۔ اب اور کچھ نہیں لکھ سکتی ۔ انو بھیا کو سلام کہہ دو ۔۔
تمہاری ہی
صبیحہ
٭٭٭
کراچی ۔
3 / اپریل 72ء
پیاری صبیحہ ۔
معلوم نہیں کہ یہ خط تم کو مل سکے گا یا نہیں ۔ پتہ نہیں تم اب بھی راج شاہی میں ہو یا نہیں۔ حالات تو اس قدر تبدیل ہو گئے ہیں ۔ اور ہونے جا رہے ہیں ۔ تمہارے کئی خطوط مل چکے ہیں اب تک اور میں جواب بھی دے چکی ہوں۔۔ مگر لگتا ہے کہ تم کو میرے خطوط نہیں مل رہے ہیں ۔ اور پھر ادھر پچھلے چھ سات ماہ سے تو تاریخ بلکہ جغرافیہ بدل گیا ہے ۔ پہلے ہم ایک ہی ملک میں تھے ۔۔۔ پھر سب ایک دوسرے ملک میں ساتھ آ گئے تھے ۔ اگرچہ الگ الگ شہروں میں ۔ اور پھر ایک ہی ملک کے دو بازوؤں میں بٹ گئے ۔ اور اب وہ دونوں بازوٗ علیٰحدہ ہو گئے ہیں ۔ اور اب تم بنگلہ دیش کی شہری ہو ۔ مگر اب بھی راج شاہی یا چاٹگام یا وہاں ہی کہیں ہو تو ۔۔۔ کون جانے ۔۔۔ میرا بھی کون جانے کہ میں اگلے پل کہاں ہوں گی ۔۔ خیر ۔۔ یہ فلسفے تو دور رکھو ۔۔ خبریں ۔۔۔۔ خبریں ۔۔ کس بات سے شروع کروں ۔۔۔ اہم ترین خبر سنو ۔۔۔
پچھلے ماہ شکیلہ باجی ہم کو چھوڑ گئیں ۔ معلوم نہیں ۔۔ دل کا دورہ ہی تھا یا کیا بات تھی ۔۔ بہت بد نصیب تھیں بے چاری ۔ بڑے بھیا سے پیار کیا جو ان کو نہ ملے ۔ پھر ان کی شادی کی اطلاع بھی میں نے پچھلے کسی خط میں دی تھی نا ۔۔ عرصے تک تو وہ شادی سے انکار کرتی رہیں۔ 62 ء میں جب ہم ملے تھے نا ۔۔۔ تب تک وہ بڑے بھیا کی منتظر تھیں ۔۔ اور میری شادی کے لیے فکر مند ۔۔ پڑوس میں ایک مہر جہاں آپا رہتی تھیں ۔۔ کسی کالج میں ٹیچر تھیں۔ کوئی چالیس سال عمر ہوگی ۔۔ اور وہ بھی چاہتی تھیں کہ شادی نہ کریں گی ۔ اور شکیلہ باجی نے بھی یہی طے کر رکھا تھا۔ پھر ان کے ہی کالج کے کسی پروفیسر کے بارے میں انہوں نے انو بھیا سے بات کی تھی کہ شکیلہ باجی کے لیے مناسب رشتہ رہے گا۔ شکیلہ باجی بمشکل راضی ہوئی تھیں ۔ 12 دسمبر 71ء کو ۔۔۔۔ جب کہ تمہارا بنگلہ دیش آزاد ہو رہا تھا ۔ شکیلہ باجی پروفیسر قیوم صاحب جو کہ 56 ۔ 57 سالہ بوڑھے بیچلر تھے ۔ ریٹائر منٹ کے قریب ، ان کی دلہن بن گئیں ۔۔ مگر کتے دن ۔۔ 21/ جنوری کو ہی قیوم بھائی بھی دل کے دورے میں چل بسے اور ایک ماہ کی دلہن بیوہ ہو گئیں۔ ۔۔۔ بڑے بھیا کی کچھ خبر نہیں ہے کہ کہاں رہے ہیں ان دنوں ۔۔ اور اب جب کہ 16/ مارچ کو ہی شکیلہ باجی بھی اسی مرض کے پہلے حملے میں ہم سب کو چھوڑ کر گئی ہیں تو جی چاہتا ہے کہ بڑے بھیا سے پوچھوں کہ ان کی اس زندگی اور موت میں ان کا ہاتھ ۔۔۔ ان کو کس حد تک یہ بات قبول ہوئی ہے ۔ بہر حال ۔۔ شکیلہ باجی کی مغفرت کے لیے دعا کرو ۔
میری شادی کا معاملہ بھی بڑا سرگرم رہا ۔۔ پہلے شکیلہ باجی اور پھر انو بھیا بھی نہ جانے کس کس کو میرے لیے مناسب گردانتے رہے ۔ لیکن بھئی ۔۔ میں کہتی ہوں کہ شادی کس لیے ضروری ہے ؟ کیا اس بندھن کے بغیر آزادی سے جیا نہیں جا سکتا ۔ میری شاعری ہے ۔ میری سرگرمیاں ہیں ۔ ان سب پر روک نہیں لگ جائے گی ۔ میں نے بہت سے ایسے رشتے دیکھے ہیں ۔ بلکہ یوں کہوں کہ مرد دیکھے ہیں جو بظاہر اپنی ہر طرح کی سرگرمیوں میں عورتوں کے ساتھ دوش بدوش کام کرتے ہیں اور ان کو خوب بڑھاوا دیتے ہیں ۔ مثالی خاتون قرار دیتے ہیں ۔ اور ان کی غیر موجودگی میں ان کے بارے میں چٹ پٹی باتیں کرتے ہیں ۔ اور پھر شادی کرتے ہیں اور اگر بیوی بھی پڑھی لکھی ہی نہیں ،بلکہ ادیبہ شاعرہ یا مصوّر مل جائے تو چاہتے ہیں کہ وہ اپنا دیوان اور پینٹنگس ۔ اور تان پورہ اور کتابیں ۔۔ جو کچھ بھی ہو ، چولہے میں جھونک کر ان کے لیے روٹیاں بنائے اور مرغ مسلم اور قورمہ اور بریانی ۔۔ شادی کے بعد عورت ان کے لیے صرف جسم اور پیٹ کی ضرورت بن جاتی ہے ۔ میں کسی کی ضرورت نہیں بنوں گی ۔۔ ہمارے انو بھیا اپنے کتنے ہی دوستوں کو میرے سامنے لا کر ملائیں اور امید کریں کہ میں کبھی ہاں کر دوں ۔۔۔ اور صبیحہ ڈیر ۔۔۔ تم بھی یہی فیصلہ کر لو ۔۔ ملاؤ ہاتھ اسی بات پر۔ ۔۔۔
خاور بھائی کی کیا خبر ہے ۔ انور بھیا ٹھیک ہیں ۔ ہاں ۔۔ یہ تو میں نے تم کو لکھا ہی نہیں کہ انو بھیا کو امپریل کا لج لندن سے آفر آئی ہے اور انہوں نے پاسپورٹ وغیرہ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہماری بڑی گرما گرم بحثیں ہوئی ہیں ۔ بڑے نیشنلسٹ بنے پھرتے تھے ۔ ہمارا پاکستان ہمارا پاکستان ۔۔۔ بس جمہوریت مل جائے ۔۔ اور اب جب کہ پاکستان کا وجود دو ٹکڑے ہو گیا ہے اور ملک مصیبت میں ہے ۔ اس کا مستقبل خطرے میں ہے ، آپ اپنا مستقبل بنانے لندن جا رہے ہیں۔ یہ رجعت پسندی نہیں ہے ۔۔ مجھ سے بھی بہت کہہ رہے ہیں ۔۔ میں تنہا کیسے رہوں گی ۔۔ مگر مجھے یقین ہے کہ میں تنہا رہوں گی۔ رہ سکتی ہوں ۔۔ اپنے کالج کی ملازمت کرتی رہوں گی۔ نظموں کی پہلی کتاب کی اشاعت کی تیاریاں بھی چل رہی تھیں۔ ادھر شکیلہ باجی کی شادی اور پھر وفات کی وجہ سے اس طرف لا پروائی ہو گئی ۔ اب تو تین چار مہینوں میں کتاب آ ہی جائے گی۔ ’’جنگل میں شام’’ نام ہے مجموعے کا ۔۔
اب باقی باتیں پھر …………….. خدا حافظ
ہمیشہ تمہاری
کہکشاں
٭٭٭
3/ جون 72ء
ڈئیر کُشی
یہ خط ٹرین سے لکھ رہی ہوں بہت دن سے تمہارا کوئی خط نہیں ملا ۔۔ اور نہ میں ہی لکھ سکی ۔۔۔ راج شاہی اور پھر کلکتہ میں زندگی محض ہل چل کا شکار رہی نا ۔۔۔ شاید تم میرے بارے میں پریشان ہوگی ۔۔ ہاں ۔۔۔ میں زندہ ہوں ۔۔ البتہ کلکتہ میں نند لال دا ۔۔ نند لال بوس سے ملنے گئی تھی تو ان کے حلقے کے کسی مصور نے بتایا تھا کہ خاور بھائی سے اس کی ملاقات جنگ سے پہلے ہوئی تھی ۔ وہ بھی سرحد کے پاس درگا پور میں ۔۔ جہاں وہ سومیشوری ندی کے پاس تنگائن بِل جھیل کے مناظر پینٹ کرتے کرتے آسام کی گارو پہاڑیوں تک چلے گئے تھے ۔ باگھ مارا کے ایک منظر کی پینٹنگ انہوں نے نند لال دا کو بھجوائی تھی ۔۔ اس کے بعد میمن سنگھ سے ہوتے ہوئے وہ راج شاہی واپس آ رہے تھے ۔ اس کے بعد کا کچھ معلوم نہیں ہوا۔ ان سب کو یقین ہے کہ وہ کسی گولی کا شکار ہو گئے ۔۔ مجھے ۔۔۔ کبھی یقین نہیں آتا کہ بنگالیوں کی طرح بنگلہ بولنے والے خاور بھائی کو ۔۔۔ بنگلہ دیش ۔۔ جو کہ مشرقی پاکستان تھا ۔۔۔کی تہذیب اور رہن سہن کو پوری طرح اوڑھے پہنے خاور بھائی کو کوئی کس طرح غیرملکی سمجھ سکتا ہے ۔ لیکن راج شاہی میں ہی کتنے ہی لوگ ان کی طرح کے تھے ۔۔۔ اصل پنجاب یا یو ۔ پی یا کہیں اور کے مگر پوری طرح مقامی رنگ میں رنگ چکے تھے ۔ اور بنگلہ دیش کی آزادی کے ساتھ ان کی روحوں کو بھی آزادی مل چکی تھی۔ ممکن ہے کہ خاور بھائی واقعی شہید ہو چکے ہوں ۔ خدا کرے کہ وہ زندہ ہوں اور خدا انہیں تندرست اور خوش و خرم رکھے اور خدانخواستہ اگر ۔۔۔۔ تو ان کی روح کو سکون بخشے ۔۔
میں ۔۔۔۔ مجھے ایک پیغمبر مل گیا تھا ۔۔ نور الاسلام ملِک نام کا ۔۔۔ جس نے مجھے کسی طرح پناہ دی ۔۔ اور نہ جانے کس کس طرح کہاں کہاں سے ہوتے ہوئے کلکتہ پہنچی ۔۔ مگر اکیلی ہی ۔۔ نور دا راستے میں نہ جانے کہاں غائب ہو گئے تھے ۔ اور اب ۔۔ مجھے دوسرے فرشتوں نے لکھنؤ کے پتے دئے ہیں ۔۔ بھتکھنڈے یونیورسٹی آف میوزک میں قسمت آزمائی کے لیے میں لکھنؤ جا رہی ہوں ۔ شاید یہ خط وہاں سے پوسٹ کروں گی۔ گویا کہ یہ پھر ہندوستان ہے ۔ اور ٹرین اتر پردیش میں داخل ہو چکی ہے ۔ مگر اب یہاں ۔ جنید بھائی ہی ہوں گے ۔ ان کی بھی مدت سے خبر نہیں کہاں ہیں۔ کلکتہ کی نئی انگریزی اور اردو ادبی نسل میں ان سے کوئی واقف نہ تھا ۔ شاید وہ مکمل طور پر خاموش ہو گئے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ان کا کہیں پتہ مل ہی جائے ۔ ملک خدا تنگ نیست ۔ پائے گدا ضرور لنگ ہے ۔ ہاں ۔۔ہمارے گھر ۔۔۔ یعنی نور دا کے محافظ خانے میں گولیاں آتی تھیں ۔۔ اور میرے ایک پیر کو زخمی کر ہی گئی تھیں ۔ شکر کرو کہ پیر کاٹنے کی نوبت نہیں آئی ۔ نور دا کے چھوٹے بھائی سرجن تھے ۔۔ اب تو میرا پیر بھی بالکل ٹھیک ہے ۔ مگر زیادہ زور اس پر نہیں دیا جاتا ۔ اور چلنے میں کچھ لنگڑاہٹ سی ضرور محسوس ہوتی ہے ۔ تم فکر نہ کرو ۔ ایک آدھ ماہ میں یہ بھی دور ہو جائے گی۔
تمہاری امی نے یہ واقعی عقلمندی کی تھی کہ کراچی میں یہ الٰہی بخش کا لونی والا گھر بنا لیا ہے ۔ ہم سب میں سے کسی ایک کا ایک پتا تو مستقل ہے جو کہ تم تک خبریں پہنچ سکیں ۔ باقی تو ہم سب آوارہ مصور ہیں خاور بھائی کی طرح ۔۔ اب ختم کرتی ہوں ۔۔ باقی باتیں پھر ہوں گی ۔ تمہارا مستقبل کا پلان کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ؟ مگر اگلا خط بھی میں ہی لکھوں گی تب تم کو پتہ دے سکوں گی کہ کس پتے پر جواب دو ۔۔۔ خدا حافظ ۔۔۔۔۔
تمہاری اپنی
صبیحہ
٭٭٭
12 / جون 72ء
آج سے میں یہ ڈائری شروع کر رہا ہوں ۔ ڈائری لکھنے کی میری عادت نہیں تھی مگر کشی کا کہنا تھا کہ میں ا سے یہاں کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل لکھتا رہوں ۔ اسی طرح کشی کو خطوط لکھنے کے لیے یہ ڈائری ایک ریفرینس بک کا کام کرسکتی ہے ۔ اور کچھ یہاں کی تنہائی میں میری ساتھی بھی ثابت ہو گی ۔
اب تک یہ ایک خواب سا لگ رہا تھا ۔ مگر اب یقین آ گیا ہے کہ یہ لندن ہے ۔ یہ کنسنگٹن کا علاقہ ہے اور اس میں یہ مسز مارگریٹ ایشر ووڈ کا اپارٹمنٹ جس کے ایک کمرے میں مَیں بھی ہوں ۔۔ اور ایک کالج کا ساتھی ہے ۔ سُبیر چکرورتی ۔۔ جو کہ فزکس میں ریسرچ کر رہا ہے ۔ وہی اس گھر میں لے کر آیا ہے ۔ پہلے ایک ہندوستان کے صاحب اس کے ساتھ رہتے تھے ۔ بہار کے کسی شہر کے کرن شری واستو جو کہ اردو شاعر تھے اور سارا لندن ۔۔۔ مطلب لندن کا ہندوستانی پاکستانی حلقہ ان کو عظیم صاحب کہتا تھا اور مسلمان سمجھتا تھا۔ خود سُبیر بھی شروع میں کچھ دن ان کو مسلمان سمجھتا رہا تھا ۔ بہر حال وہ پڑوس ہی کے گھر میں شفٹ کر گئے ہیں ۔۔۔ ہاں ۔۔ آج کے ہی اخبار میں پاوِل صاحب کے بیانات ہیں کہ کالونی کے سارے لوگوں کو یہاں سے جانے پر مجبور کیا جائے گا ٹھیک ہے صاحب ۔ ہم تو قلندر آدمی ہیں ۔ بہر حال میں خوش ۔
آج پروفیسر واٹ (شرلاک ہومز یاد آ جاتے ہیں ) فیکلٹی کے اکثر ممبروں سے ملانے لے گئے تھے ۔ بلکہ آج اتنے لوگوں سے ملاقات ہوئی کہ ایک ہی دن میں شاید آج تک اتنا تعارف کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ع۔ واحد صاحب سے ملاقات ہوئی ۔۔ میں نے پوچھا کہ آپ بھی پاکستانی ہیں ؟ برا مان گئے ۔۔ کہ بڑے نیشلسٹ قسم کے ہندوستانی مسلمان ہیں ۔ علی گڑھ کے ۔۔ انگریزوں نے تعارف کے ساتھ ہی سوال کیا کہ ہندوستانی ہوں یا پاکستانی ۔۔۔ واقعی یہ عجیب گھپلا ہے ۔۔ کلچر کے حساب سے مجھ میں اور واحد بھائی میں کیا فرق ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ میں ان کے گھر جاؤں گا ، جو یہاں اسی علاقے میں کہیں ہے ، تو وہ اپنے گھر میں میری طرح ہی کرتا پاجامہ پہنے بیٹھے ہوں گے ۔ ۔۔۔۔۔اردو میں باتیں کر رہے ہوں کے ۔ آفاق اور مشرق پڑھ رہے ہوں گے ۔’’ آفاق ’’ ان کے پاس ہی دیکھا تھا کہ ان کی ایک نظم اس میں شائع ہوئی ہے ۔ ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے ۔ اب یہ دیکھو ۔۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم ہوئے پچّیس سال ہو گئے ہیں ۔مگر کیا پاکستانی اردو ادب اور ہندوستانی اردو ادب کو الگ کیا جا سکتا ہے ؟ ہندوستان میں بھی سنا ہے کہ ہمارے ناصر کاظمی ۔ منیر نیازی اور ظفر اقبال وغیرہ کا ہی بول بالا ہے ۔ اور ہمارے نقوش اور فنون میں بیدی اور قاضی عبدالستار اور سریندر پرکاش اور محمد علوی ۔۔ بانی ۔ شہر یار ۔۔ بشیر بدر ۔ خلیل الرحمٰن اعظمی کس شوق سے پڑھ جاتے ہیں۔ واحد بھائی نے ملتے ہی پوچھا کہ میں نقوش اور فنون کے تازہ شمارے لایا ہوں یا نہیں ۔ اس بار لندن میں ان کو ملے نہیں اور جب ملتے ہیں تو وہ اپنے ہندوستانی دوستوں کو بھجوا دیئے ہیں جو بڑی عقیدت سے ان رسالوں کو پڑھتے ہیں ۔ ہاتھوں ہاتھ گھومتے ہیں۔
سبیر آ گیا ہے اور پوچھ رہا ہے کہ بھات بنایا جائے کہ چپاتی ۔۔ ہر ہندوستانی چیز یہاں مل جاتی ہے ساؤ تھال تو جیسے دلی کا ہی ایکسٹنشن ہے یا لاہور ۔۔ ذبیحے کا گوشت سے لے کر سارے مصالحے ۔ پان چھالیہ ۔ اس کی کوئی مشکل نہیں ہے ۔ کلکتہ کا سبیر چکرورتی ہو یا حسن پور اور پھر کراچی کا میں انور جمیل ۔۔ سب کو اپنی پسند کا کھانا یہاں مل سکتا ہے ۔ یہ لندن ہے ۔۔۔۔۔
٭٭٭
22/ جون 72ء
کراچی
پیارے انو بھیا ۔۔۔۔
آپ کے دو خطوط مل چکے ہیں ۔ keep it up, Partner میری تو لندن دیکھنے کی ایسی تمنا بھی نہیں تھی۔ پھر بھی آپ کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے آپ لندن میں ہوتے تو مجھے شاید وہی باتیں لکھتے جو قرۃ العین حیدر کے ناولوں کے لندن میں ملتی ہیں۔۔۔ بی بی سی اور مجلس کے کراؤڈ ۔ انڈیا ہاؤس ۔ آل حسن۔ اور وہ کون صاحب تھے ۔ طغیان بھاگلپوری ۔۔ یہ عظیم صاحب عظیم آبادی ہیں یا وہ بھی بھاگلپوری ہیں ۔۔ سچ بڑا مزا آیا ۔
یہاں بھی کئی انکشافات ہوئے ہیں۔ صبیحہ کے دو خطوط ملے ہیں ۔ وہ ہندوستان آ گئی ہے ۔ تیسری ہجرت ۔۔ بنگلہ دیش سے ۔۔۔ کلکتہ ہوتی ہوئی لکھنؤ پہنچی ۔ مگر وہاں ہتھکنڈے یونیورسٹی آف میوزک ۔۔ ارے وہی عینی آپا والا میرس کالج ۔ لکھنؤ تو ہم لوگوں نے ان کے قلم کی آنکھ ہی سے زیادہ دیکھا ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔ تو اس یونیورسٹی نے ان کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔ وہاں جن سنگھ کی lobby کار فرما ہے جس نے وہ جگہ کسی ایسی ہندو لڑکی کو دے دی ہے جس نے ابھی ابھی گریجویشن کیا ہے ۔ اس لڑکی کا گورنر سے بھی کوئی دور کا رشتہ ہے ۔ اب وہ جامعہ ملیہ جا رہی ہے ۔
پچھلے ہفتے یہاں بڑا زوردار فنکشن رہا ۔ ہندوستان سے کچھ ادیب آئے ہوئے تھے ۔ اسی سلسلے میں ، لاہور سے ندیم قاسمی بھی آ گئے تھے ۔ کشور ناہید سے بھی ملاقات ہوئی ۔۔ ’جنگل میں شام‘ ان کو دی تو معلوم ہوا کہ وہ پہلے ہی کسی کے پاس دیکھ چکی ہیں ۔ شاعری کی تعریف کر رہی تھیں ۔ مگر شکایت بھی کہ تمہاری شاعری کی عورت کہاں ہے ۔ اور مشورہ دے رہی تھیں کہ شادی کر لو ۔ بچّے ہو جائیں گے تو پھر تمہاری شاعری کا رنگ دیکھنا ۔ جی ہاں ۔۔ ایسے میں میں محض ان کو خوش کرنے کے لیے اور شاعری میں گھریلو عورت ۔۔۔ ماں بیوی کا پہلو ابھارنے کے لیے شادی کرنے والی نہیں ۔۔ ہندوستان میں ۔۔۔ علی گڑھ میں زاہدہ زیدی بھی تو ہیں۔ گو کوئی بڑی توپ چیز تو نہیں ہیں ۔۔ ہاں ۔۔۔ شمس الرحمٰن فاروقی جو ہندوستان سے آئے تھے ، ان سے معلوم ہوا کہ جنید بھائی کے پرچے ختم ہو گئے ہیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ دہلی سے ان کا انگریزی پرچہ Horizon ہی نکل سکے تو شاید چل جائے ۔ اردو رسالوں میں بھلا کوئی بزنیس کر سکتا ہے ؟ اپنا سارا سرمایہ ’افق‘ کی نذر کرنے کے بعد ان کو ہوش آیا ہے ۔ البتہ اس عرصے میں ان کا ایک ناول ضرور چھپ گیا ہے ، معلوم نہیں وہ آج کل کہاں ہیں۔۔۔ شاید آپ کو لندن میں بھی اپنے برصغیر کے کسی ادیب شاعر سے ان کے بارے میں کوئی صحیح خبر ملے ۔
اپنے بارے میں کیا لکھوں۔۔ ادھر غزلیں زیادہ کہی جا رہی ہیں ۔ شاید ماحول نظم کے لیے ساز گار نہیں تھے ۔ طفیل چچا بھی بضد ہیں کہ میں غزلیں زیادہ لکھوں اور ’نقوش ‘ میں ہی چھپواؤں ۔ اسی بار کے ’ سیپ ‘ میں بھی دو غزلیں ہی دی ہیں جو چھپ چکی ہیں ۔۔ دو شعر آپ کو بھی سنا دوں ۔
کبھی تو دھوپ کبھی ابر کی رِدا مانگے
یہ کشتِ غم بھی عجب موسم ہو ا مانگے
فقیر جھولی کے موتی لٹانے آیا ہے
امیرِ شہر کو ڈر ہے نہ جانے کیا مانگے
ملازمت جاری ہے ۔۔۔۔چھٹیوں کے بعد پرسوں اسکول پھر کھل رہا ہے ۔ کچھ زیادہ فرصت ملی تو ادبی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ پھر وہی لڑکیاں ہوں گی اور ان سے الجھتی میں۔۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی لطف ہی آتا ہے اس الجھن میں بھی۔۔۔۔۔
اور سب ٹھیک ہے ۔۔سبیر دا کو بھی سلام کہہ دیں
آپ کی بہن
کہکشاں
٭٭٭
یکم جولائی 72ء
پیاری کشی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈائری سے نقل کرنے کی بجائے راست تم سے مخاطب ہوں۔ آج ذہن کی عجیب حالت ہو گئی ہے ۔ سنو ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج دوپہر کو میں ہائیڈ پارک چلا گیا تھا۔ تم نے تو سنا ہی ہوگا کہ ہائڈ پارک میں کیا کیا ہنگامے ہوتے رہتے ہیں۔ ایک طرف ایک صاحب اپنے یہاں کے سرمہ بیچنے والوں کی طرح مجمع لگا کر کچھ فروخت کر رہے تھے ۔ ایک ہندوستانی صاحب پاول کے خلاف تقریر کر رہے تھے ۔ ایک اسٹول پر کھڑے ۔ میں ادھر اُدھر گھومتا لطف اندوز ہوتا جا رہا تھا کہ وِملا مل گئی۔۔۔۔۔ بھئی یہ وملا بھٹناگر بھی مصوّر واقع ہوئی ہیں خیر سے ۔ مگر پتہ چلا کہ وہ کسی سوامی جی کے درشن کے لیے آئی ہیں ۔۔۔۔۔ یہ سوامی جی بھی ہائیڈ پارک میں ہی اپنا دربار لگائے ہوئے تھے ۔ وملا کے ساتھ میں بھی چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکشافات ۔۔۔۔ انکشافات ۔۔۔۔۔۔
میرے سامنے گیروے کپڑے پہنے بڑے بھیا بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔ وملا نے ان کے پیر چھو کر پرنام کیا ۔۔اور میں دھیرے سے بولا ۔۔۔ ’’بڑے بھیا۔۔۔۔۔۔’’
ان کی آنکھوں میں ایک لمحے کو عجیب سی چمک آئی ۔۔۔ یہ مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے صحیح طور سے پہچان نہیں سکے ۔ کبھی شک ہوتا ہے کہ میری آنکھوں نے تو دھوکا نہیں دیا ۔۔۔ انہوں نے ۔۔۔۔ ان سوامی جی نے صرف یہ کہا ۔
’’آنند ۔۔۔۔ آنند ۔۔۔ من کی آنکھیں کھول کر دیکھو ۔۔۔ کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا ۔۔۔ سب ایک جیسے نظر آئیں گے ۔۔۔۔ سب بھگوان کے بندے ہیں ۔۔ ۔۔۔ اوم نمو بھگوتے ……………………. ’’ میں چپ چاپ بھیڑ سے باہر آیا ۔۔ وملا نے بتایا کہ اسے معلوم ہے کہ سوامی جی کہاں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ وہاں جا کر میں ان سے مل سکتا ہوں ۔ چنانچہ شام کو میں اور وملا وہاں گئے تھے ۔ معلوم ہوا ہائیڈ پارک سے ہی کوئی آدمی آ کر ان کا سوٹ کیس لے گیا ہے اور لاج کا کرایہ دے گیا ہے ۔۔۔ وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئے۔ اور اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ وہ بڑے بھیا ہی تھے ۔۔۔۔ قرۃالعین حیدر کے ’’ قلندر’’ ………………
٭٭٭
کالکا میل چھوٹنے میں ابھی دیر تھی ۔۔ صبیحہ نئی دہلی کے پلیٹ فارم نمبر سات پر وقت گزاری کے لیے سامنے وہیلرز کے بک اسٹال پر آ کر کھڑی ہو گئی ۔۔ سامنے کی ہی بوگی میں اس نے اپنا سامان رکھ دیا تھا۔ رسالوں پر نظر دوڑاتی رہی ۔۔ ویکلی ۔۔۔ سنڈے ۔۔ امپرنٹ۔ بیسویں صدی ۔ شمع ۔ اس نے امپرنٹ خرید لیا ۔۔۔ اور ٹرین کے قریب جا کر اپنی بوگی سے لگ کر کھڑی ہو گئی کہ کھڑکی سے اپنا سامان بھی دیکھتی رہے ۔
’’صبیحہ ۔۔۔۔‘ کسی نے آواز دی ۔
وہ چونکی ۔۔۔ ایک لمحے کے لیے وہ پہچان نہ پائی ۔
جنید بھائی ۔۔۔ ؟’’ اس نے پھر بھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔
’’ہاں۔۔ ہم دونوں نے ٹھیک ہی پہچانا ۔۔۔ ’’ جنید نزدیک آ گیا ۔ صبیحہ کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔ ’’ اب سب ٹھیک ہو جائے گا جنید بھیا ۔ آپ جو مل گئے ہیں ۔ میں سمجھ رہی تھا کہ اب دنیا جہان میں اکیلی رہ گئی ہوں ۔ خاور بھائی کا تو آپ کو معلوم ہوگا نا ۔۔۔۔ ’’
’’ اچھا بھئی ۔۔ تفصیلی باتیں تو بعد میں ہوں گی ۔۔ پہلے تم یہ بتاؤ کہ یہاں کیسے ہو ۔۔۔۔ فرصت ہو تو باہر چل کر بات کریں ۔ گولی مارو میرے ٹکٹ کو ۔۔۔ ‘
’’ میں تو اسی کالکا سے علی گڑھ جا رہی ہوں ۔۔۔ ‘
’’ علی گڑھ ۔۔۔۔! یار ملاؤ ہاتھ اسی بات پر ۔۔۔ چلو پھر ٹرین میں ہی بیٹھیں ۔۔ میں بھی تو علی گڑھ میں ہی ہوں ۔۔۔۔’’ رستے میں ہی باتیں ہوں گی ۔۔۔ مگر تم پہلے یہ بتاؤ کہ دہلی کب سے تھیں ۔۔۔؟’’
’’ ہجرت کے بعد ۔۔۔ کیسا لگتا ہے یہ لفظ ۔۔۔۔’’
’’ ارے ۔۔ سب کے الوژنس ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ایسی ماربڈ نہ بنو ۔۔۔ تم تو بڑی سپاہی لڑکی ہو ۔۔ تین تین بار ہجرت کر چکی ہو ۔۔۔ حج کا کیا ثواب ملتا ہوگا اتنا ۔۔۔۔’’
’’آپ تو مذاق کرنے لگے ۔۔۔ دیکھیے ٹرین نے سیٹی دے دی ۔۔۔۔ آئیے اندر بیٹھیں ۔۔۔۔۔’’
جنید نے جلدی سے سگریٹ سلگائی ۔۔۔ اور صبیحہ کے پیچھے ٹرین میں چڑھ گیا۔۔۔ کالکا میل آہستہ آہستہ کھسکتی ہوئی آگے بڑھنے لگی تھی ۔۔۔ نئی دہلی اسٹیشن پیچھے چھوٹ گیا۔
’’ ہاں تو میں آپ کو بتا رہی تھی نا ۔۔۔۔’’ صبیحہ نے باتوں کا سلسلہ ملایا ۔
’’راج شاہی سے کسی طرح زندہ سلامت کلکتہ پہنچی ۔۔۔ بس کچھ ٹانگ مضروب ہوئی ۔۔۔ آپ نے غور کیا میری ہلکی سی لنگڑاہٹ پر ۔۔۔۔’’
’’ جب تم کو چلا کر دیکھیں گے تو دیکھ ہی لیں گے ۔۔۔۔ ’’ جنید نے سگریٹ ٹرین کی کھڑکی سے باہر پھینکی ۔
’’ بہر حال کلکتہ پہنچی راج شاہی سے ۔۔ وہاں سے ایک صاحب نے لکھنو میں بھتکھنڈے یونیورسٹی آف میوزک میں قسمت آزمائی کے لیے مشورہ دیا ۔ وہاں مایوسی ہوئی ۔۔ پوسٹ تھی۔۔ مگر میرے لیے نہیں تھی ۔ یہی حال جامعہ ملیہ میں بھی ہوا ہے ۔ ریفیوجیز سے ہمدردی سب کو ہے ۔ مگر کمپ میں رہو یا پھر کلرکی کرو ۔۔ ۔۔ ٹائپسٹ بنو۔۔ اسٹینو گرافی تم نے کیوں نہیں سیکھی ۔۔ اب میں کسی سے کیا کہوں ۔۔ میں غیر منقسم پاکستان کی وہ سنگیت کار جس نے دو تین نئے راگ تک ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کو دئے ہیں۔ جی ہاں غور فرمائیے ، میں ہندوستانی موسیقی ہی کہہ رہی ہوں، پاکستانی نہیں۔۔جس کی غزلوں میں راگوں کے استعمال پر مہدی حسن۔۔ ہاں۔۔۔ مہدی حسن نے کہا تھا کہ مجھ تمہاری آواز نہیں چاہیے ۔۔۔ مگر تمہارے سُر مجھے دے دو ۔۔۔ جس نے تعلیم بھی حاصل کی تو سنگیت کی ہی ۔۔۔ بہر حال چھوڑئے ۔۔ اب ہوا یہ ہے کہ خوش قسمتی سے جامعہ ملیہ میں جن فرحان صاحب کے پاس مجھے بھجوایا گیا تھا ۔ وہیں ان کے بھائی عرفان ندیم صاحب آ گئے ۔۔ علی گڑھ سے اور انہوں نے بتایا کہ مسلم یونیورسٹی میں جنرل ایجوکیشن میں موسیقی کے استاد کی جگہ خالی ہو گئی ہے ۔ اور جو کہ تقریباً ان کے ہی تحت ہے ۔ وہ کل شام کو ہی واپس چلے گئے ہیں ۔اور آج میں جا کر ان سے ملوں گی ۔ ملازمت کا پکا وعدہ کیا ہے انہوں نے ۔ میں نے اب تک مسلم یونیورسٹی نہیں دیکھی ۔۔ مگر اب ۔۔ ابا میاں کے آلما میٹر میں جا رہی ہوں ۔۔ بس۔۔ اب چائے پی جائے۔۔۔۔’’
جنید نے بوگی میں ہی موجود ایک چائے والے کو آواز دے کر چائے لانے کا کہا ۔۔۔ نئی سگریٹ سلگائی ۔۔۔
’’ میری بھی کہانی سنو گی ۔۔۔ یا چائے پینے کے بعد۔۔۔۔ ’’
’’ کہئے نا ۔۔۔ چائے تو ساتھ ہی پیتے رہیں گے ۔۔۔۔’’
’’ تفصیل تو دھیرے دھیرے معلوم ہوتی ہی رہے گی ۔۔۔۔ مختصراً یہ کہ میں حیدرآباد میں تھا ۔۔۔ یہ تو تم کو معلوم ہی ہے 61ء سے انگریزی کا رسالہ نکالا تھا ہورائزن ۔ پھر 62ء سے اردو ’افق‘ بھی ۔۔۔ اس وقت سرمایہ تھا ۔۔۔اور خواب تھے ۔۔۔۔ ’افق‘ تین سال میں بیس بائیس شمارے نکل کر بند کرنا پڑا ۔ ہمارے یہاں اردو ادب کا رسالہ خریدتا بھی کون ہے ۔ ہورائزن ضرور 69ء تک نکلتا رہا ۔ پھر ۔۔ قصہ ختم پیسہ ہضم ۔۔ سرمایہ بھی کہاں تک چلتا آخر ۔۔۔ کسی طرح ایک ڈیڑھ سال حیدرآباد میں ہی گزارا۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں کوشش کی تو انگریزی ڈپارٹمنٹ میں ٹمپریری لکچرر شپ مل گئی ۔۔۔ پھر 71ء میں علی گڑھ کا اشتہار دیکھ کر درخواست دی تو خوبیِ قسمت سے یہاں ریڈر شپ مل گئی ہے ۔۔۔ بس یہی چل رہا ہے ۔۔۔
’’ علی گڑھ کا ماحول ۔۔۔ مطلب تہذیبی ۔۔۔؟’’
’’ ارے اس کا کیا پوچھتی ہو۔ میں تو تقریباً تائب ہو چکا ہوں ۔۔۔۔ پچھلے سال علی گڑھ سے ’افق‘ پھر نکالا تھا ۔۔۔ کچھ دوستوں کا اچھا حلقہ مل گیا تھا تو ۔ وہ بھی بکھر گیا ۔ اب اس کو دہلی منتقل کر دیا ہے ۔ اور دہلی کا یہ سفر اسی سلسلے میں تھا۔ اب شعیب زیدی ہی جہاں تک ممکن ہوگا ’افق‘ نکالتے رہیں گے ۔ ہورائزن کے لیے پھر حیدرآباد میں کچھ دوستوں کو لکھا ہے ۔ سشما ایّر کا خط آیا ہے کہ وہ بھی اس میں انٹرسٹیڈ ہے غرض سارا نام جھام دوسروں کے سپرد کر دیا ہے ۔ ادبی ماحول کی بھی بات سنو گی ۔۔۔۔’’
چائے آ گئی تھی ۔۔۔۔
’’ ویسے تو تخلیقی طور پر علی گڑھ جو اب سرگرم ہے ۔ خاص کر اردو ادب ۔۔۔ شعبۂ اردو کے لوگوں میں سرور صاحب ہیں ۔۔ خورشید الاسلام بھی آ گئے ہیں ۔ خلیل صاحب ہیں ۔ ایک بڑے حلقے کے گاڈ فادر خلیل الرحمٰن اعظمی کی بات کر رہا ہوں ۔ جذبی ہیں ۔ شہر یار ہیں ۔ بشیر بدر ہیں ۔ افسانے میں قاضی عبدالستار ہیں۔۔۔ بالکل نئی نسل کی بات کروں ۔ افسانے میں محمد اشرف اور شارق ادیب اچھے افسانے لکھ رہے ہیں اور خود کو نو ترقی پسند کہہ رہے ہیں ۔ ان کے گاڈ فادر قاضی ستار ہیں ۔ شاعری میں ۔ فرحت احساس ہیں ۔ آشفتہ چنگیزی ہیں ۔ اور وہ رنگا رنگ صلاح الدین پرویز ۔۔۔ مگر بھائی ۔۔۔ ترقی پسندی ۔۔ جدیدیت ۔۔ نو ترقی پسندی ۔۔ اور بشیر بدر کی تو سچی شاعری ۔۔۔ ان سب جھگڑوں سے اب میں دور بھاگ چکا ہوں ۔۔ یونیورسٹی میں بھی سیاست ہے ۔ پچھلے سال تو میں یونیورسٹی کے قریب ہی سر سید نگر میں کرائے کے مکان میں رہ رہا تھا ۔۔۔۔ مگر اس ہر لمحے کی غیبت ۔ نوچ کھسوٹ ۔۔ اور ٹانگیں کھینچنے سے میں تنگ آ گیا ۔ شہر کا ماحول تو اور بھی مختلف ہے ہی تہذیب اور ادب سے کوسوں دور ۔۔ چنانچہ میں نے پچھلے سال ہی یونیورسٹی سے بھی دور اور شہر سے بھی دور ۔۔۔ بنّا دیوی کے علاقے میں کرائے کا مکان لے لیا تھا۔ ’افق‘ وہاں سے ہی نکال رہا تھا۔ کہ ابھی کچھ دن پہلے علی گڑھ میں پھر فسادات ہوئے ۔ ہندو مسلم ۔۔ جو کہ بنا دیوی تک پہنچ گئے۔ میں تو جان بچا کر دلّی بھاگ نکلا تھا۔ مگر ’افق‘ کا کچھ نہیں بچا ۔ پھر حیدرآباد کے قیام میں اپنے اچھے دنوں ۔ کی یادگار ۔۔۔ میری لائبریری تھی ۔۔ جو ظالموں نے مکمل جلادی ۔۔۔ اور جو کچھ باقی تھا ۔۔ وہ میں دوستوں میں تقسیم کرتا پھر رہا ہوں۔ اور طے کر رکھا ہے کہ اب ۔۔ جیسے دنیا کے اسی نوّے فی صدی لوگ جیتے ہیں، میں بھی زندگی کروں گا۔ کسی طرح یونیورسٹی جانا ۔۔۔ طلبا کو ۔۔ پڑھانا ۔۔ کچھ ٹالنا ۔۔ کچھ وقت گزار کر آ جانا ۔۔ پھر شمشاد مارکیٹ ہے ۔ مکتبہ جامعہ ہے ۔وہاں بزمی بھائی کے ساتھ اکثر ادیب اور شاعر ملتے رہتے ہیں۔ وہیں شامیں گزار دینا ۔ ابھی تم سیدھی گھر ہی چلو گی نا ۔۔۔۔۔ شام کو چلیں گے عرفان صاحب سے ملنے ۔ ان کے گھر ہی ۔۔۔۔ ’’
کالکا میل علی گڑھ کے قریب پینچ کر سست ہو رہی تھی ۔۔۔
٭٭٭
علی گڑھ
یکم اپریل 73ء
ڈیر کہکشاں ۔۔۔۔۔۔۔
آج بہت دن بعد تم سے مخاطب ہوں ۔ علی گڑھ میں ملازمت ملنے کا تو تم کو لکھ چکی تھی۔ اب زندگی میں کافی سکون آ گیا ہے ۔ کینڈی ہال کے لانس میں بیٹھتی ہوں تو لگتا ہے کہ یہی جنت ہے ۔ بہت خوبصورت شام ہے ۔ طلبا کے جمگھٹ ہیں ۔ زیادہ تر لڑکیاں گانا سیکھنے آتی ہیں ۔ اور کلاس کے بعد سبھی باہر لان میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں تو کتنا اچھا لگتا ہے ۔ جنید صاحب بھی اپنے ڈپارٹمنٹ سے سیدھے آ جاتے ہیں ۔ آرٹس فیکلٹی سامنے ہی ہے ۔ ہاں ۔ میں جنید صاحب لکھ رہی ہوں ۔۔۔ کہ بھائی کا رشتہ ختم کرنے کے لیے انہوں نے کہا ہے ۔ اب تم سے کیا شرماؤں ۔۔۔ کل شام انہوں نے پروپوز کر دیا ہے ۔ انو بھیا کو تو میں نے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت ولولے تھے ۔ امنگیں تھیں ۔ مگر اب میں بہت تھک چکی ہوں۔ حالانکہ تم تو ٹیپیکل عورتوں والی باتوں کا تصوّر بھی نہیں کرتی ہو۔ تم تو LIBBER ہو نا ۔۔۔ مگر میرا بھی اب یہی جی چاہتا ہے کہ بس اپنا گھر ہو ۔۔۔ بچے ہوں ۔۔ یہ ہماری قدرِ مشترک ہے جس نے ہم کو واقعی بہت نزدیک لا دیا تھا ۔۔ اب جو انہوں نے پر پوز کیا ہے تو میں تم کو اپریل فول نہیں بنا رہی ہوں۔ شاید دس برس پہلے کا زمانہ ہوتا ۔۔۔ جنید صاحب یہی بات 31/مارچ کو کہتے تو میں یہی جواب دیتی کہ بھائی یکم اپریل تو کل ہے ۔ کیا تاریخ بھول رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟ ۔ معلوم نہیں تم بھی اسی طرح کبھی جھکو گی یا نہیں۔۔ میں بہرحال جھک چکی ہوں ۔ اگلے ہفتے ہماری شادی ہے ۔ بھابھی ۔۔۔ عرفان صاحب کی بیوی بہت خوش ہیں ۔ بڑی امنگوں سے انہوں آج سے ہی شادی کی ’’ تیاریاں ’’ شروع کر دی ہیں ۔ اور میں ۔۔۔ ان کے گھر زہرہ باغ سے کوئی پانچ کلو میٹر دور بنّا دیوی ہی جاؤں گی تو ان کو لگ رہا ہے کہ کالے کوسوں مجھے بیاہ دیا ہے ۔ کرن ۔ ان کی بچی کو یہ افسوس ہے اب آنٹی اس کو سنگیت نہیں سکھا سکیں گی ۔۔ ہاں ۔۔ وہ بھی میری کلاس میں آتی رہی ہے نا ۔۔۔۔ مگر شادی کے بعد میں نے واقعی یہی سوچا ہے کہ یہ ملازمت چھوڑ دوں گی ۔ اور ایک ہندوستانی ۔۔۔۔ پاکستانی ۔۔۔ بنگلہ دیشی بیوی کی طرح ۔ ماں کی طرح ہی زندگی گزاروں گی ۔۔ خدا توفیق دے ۔۔ جب تک تم کو یہ خط ملے گا ۔۔ میں مسز صبیحہ جنید ہو چکی ہوں گی ۔۔ صرف 11 اپریل تک ہی میں صبیحہ اعظم ہوں ۔
مگر تمہاری ہمیشہ کی ۔۔۔ محض
صبیحہ
٭٭٭
16/جنوری 1974ء
آج اتفاق سے فرحان صاحب سے ملاقات ہو گئی ۔۔ حسن پور میں ہمارے گھر کے پاس ہی ان کا گھر تھا جس میں ان کے بوڑھے والد رہتے تھے اور زیادہ تر فرحان صاحب کی بیوی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ جو کہتی تھیں کہ ہم کو روحی آنٹی کہو ۔۔ مگر ہم لوگ ان کے یہاں جاتے ہوئے ڈرتے تھے ۔ دلچسپی بھی کون سی تھی ۔ ان کے یہاں ساتھ کھیلنے والے دوسرے بچے بھی نہیں تھے نا ۔۔۔۔۔ فرحان صاحب ۔۔ ان بوڑھے پروفیسر صاحب عمران صاحب کے صاحبزادے اس وقت بھی کہیں ڈپٹی کلکٹر ہوا کرتے تھے ۔ اب معلوم ہوا ہے کہ سیاست میں کود گئے ہیں۔ اور ان کی حکمراں پارٹی میں بڑی پوچھ ہے ۔ سنا ہے کہ شاید اتر پردیش کے گورنر ہو جائیں ۔ ان فرحان صاحب کے صاحبزادے راحیل یہاں آکسفورڈ میں پڑھ رہے ہیں ۔ اور فرحان صاحب نے بھی سوچا کہ اپنی فیملی کے ساتھ لندن گھوم لیا جائے ۔ چنانچہ وہ لوگ یہاں آئے ہوئے تھے ۔ عظیم صاحب سے کسی طرح ان کی ملاقات ہو گئی تھی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ تمہارے فیض آباد کے ہی ہیں ۔ اور جب انہوں نے پوچھ تاچھ کی اور معلوم ہوا کہ ابّا میاں سے بھی واقف ہیں اور اپنے بارے میں بتایا تو مجھے بچپن کی بات یاد آئی ۔۔۔ عظیم صاحب کا ملانے کا مقصد ایک اور بھی تھا۔ ۔۔۔ یہ عظیم بھائی ۔۔۔ کرن شری واستو بھی بڑی اونچی ہستی ہیں ۔ ساری دنیا کے کام ان سے بن جاتے ہیں ۔ اور ہندوستان کی ہر اہم شخصیت سے ان کا رابطہ نکل آتا ہے ۔ بہر حال بات صرف اتنی تھی کہ ان فرحان صاحب کی ایک صاحبزادی ہیں جن کے رشتے کے لیے وہ فکر مند ہیں ۔ا اور عظیم بھائی یہ ٹِپّس بھِڑا رہے ہیں کہ برخوردار انور جمیل بھی اچھا ’’لڑکا’’ ہے ۔ چنانچہ آج ان محترم سے میری ملاقات بھی ہو گئی ہے ۔ معلوم ہوا کہ محترمہ یوں تو ایم اے کر چکی ہیں ۔ سوشیالوجی میں ۔ مگر ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کبھی تہذیب اور ادب اور فن کے کوئلے سے ہاتھ کالے نہیں کیے ۔ مشغلہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ کشیدہ کاری اور باورچی خانہ ۔ روحی آنٹی بھی اب چچی جان کی طرح نمازی ہو گئی ہیں ۔ بہر حال ۔۔۔ شام کو پھر عظیم بھائی ملے تھے ، بلکہ خود ہی گھر آئے تھے کہ میر ے ’ہاں‘ کہنے کی صورت میں فرحان صاحب نیشنیلٹی وغیرہ کے سارے جھنجھٹ بحسن و خوبی دور کروا دیں گے اور لکھنؤ یونیورسٹی میں پروفیسر شپ بھی ان کے ہی ہاتھ ہیں ہے ۔ یہاں لندن آ کر بھی مجھے مایوسی ہی ہوئی ہے ۔ کچھ عرصے سے سوچ رہا تھا کہ واپس پاکستان چلا جاؤں ۔ مگر اب واقعی اگر واپس ہندوستان ہی چلا جاؤں تو کیسا رہے ۔۔۔ یہ ریحانہ ۔۔ جو کہ ان محترمہ کا نام ہے ۔ جس نے نہ کوئی خواب دیکھے ہیں اور نہ خواب ٹوٹنے کا شکار ہے ۔ یا اگر خواب بھی دیکھا ہو تو محض یہی کہ کسی فارن ریٹرنڈ سے ان کی شادی ہو جائے کہ زندگی مالی آسائشوں کے ساتھ گزرے ۔ اچھی ساریاں ۔ زیورات ۔ میک اپ بھی شاید کرنے لگیں شادی کے بعد ۔ کون جانے ۔۔ غرض ۔۔۔۔ مختصر یہ کہ میں نے ابھی ابھی شام کو سات بج کر بارہ منٹ پر عظیم بھائی سے ’ہاں‘ کہہ دی ہے ۔۔۔تمت بالخیر۔
٭٭٭
شاید کہ بہار آئی
پھر موج ہوا پیچاں اے میر نظر آئی
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی
(میرؔ )
’’ صبّی ! ’’
’’ اوہو ۔۔۔ آج آپ جلدی آ گئے ۔۔۔۔۔’’
’’ ہاں لنچ کے بعد ایک ہی پیریڈ تو تھا ۔۔۔۔۔’’
’’چائے ابھی بناؤں ۔۔۔۔’’
’’ ہاں ہاں ……. بھئی ۔۔۔ بنا لاؤ ۔۔۔ بعد میں پھر ایک دور ہو سکتا ہے ۔۔۔۔’’
’’ اچھا ۔۔ یہ انو بھائی کا خط پڑھیے ۔۔۔ میں تب تک چائے بنا کر لاتی ہوں ’’
جنید نے کوٹ اتار کر ہینگر پر لٹکاتے ہوئے صبیحہ کے ہاتھ سے خط لیا۔ صبیحہ نے کوٹ اندر وارڈ ادب میں لے جا کر لٹکا دیا ۔۔۔ اور خود کچن میں چلی گئی ۔۔۔۔
جنید نے کپڑے بدلنے کے ارادے کو کچھ موقوف کر دیا اور ویسے ہی آرام کرسی پر بیٹھ کر خط کھولا۔
لکھنو ۔۔
13/دسمبر 79ء
مائی ڈیر جنید اور صبیحہ
خدا تم کو خوش و خرم رکھے ۔ اور ہم کو بھی ۔۔۔
یہ خط محض اس اطلاع کے لیے لکھ رہا ہوں کہ کرسمس کی چھٹیوں میں ہم لوگوں نے علی گڑھ آنے کا پلان بنا لیا ہے ۔ آخر عرصہ ہو گیا ہے ہم کو ملے ہوئے ۔ ریحانہ بھی بہت دن سے کہہ رہی تھیں اور بچے ۔۔۔ راحت اور تسکین دونوں ہی ہمیشہ چھٹیوں میں کہیں باہر جانے کا کہتے رہتے ہیں ۔ یہ لوگ تو سمندر دیکھنا چاہ رہے تھے ویسے کہ بمبئی یا کلکتہ چلیں ۔ مگر جب ریحانہ نے علی گڑھ کا کہا تو یہ لوگ بھی خوش ہو گئے ہیں ۔ گڈو اور فردوس کی تصویریں ان لوگوں نے دیکھی ہیں نا ۔۔۔
اب باقی باتیں ملاقات پر ہی ہوں گی ۔۔۔ گڈو اور فردوس کو پیار کرو ۔۔۔
تمہارا ہی
انور
خط رکھ کر جنید نے انگڑائی لی ۔۔ صبیحہ چائے لے آئی تھی ۔۔ دونوں ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھ کر چائے پیتے رہے ۔
’’ گڈو وغیرہ اب تک نہیں آئے گیا ۔۔۔۔۔ ؟’’
’’آپ کو یاد نہیں رہا کیا ۔۔۔۔ ان کے اسکول کا فنکشن ہے نا پرسوں کچھ ڈرامے وغیرہ کی ریہرسل ہے ۔ کل پرنسپل نے پرچہ بھجوایا تھا نا کہ بچوں کو ایک گھنٹہ بعد بھجایا جائے گا ۔۔۔ اور ابھی تو ساڑھے تین ہی بجے ہیں ’’
کچھ دیر تک خاموشی دونوں کے درمیان بولتی رہی۔۔۔
’’ صبی۔۔۔’’
’’ جی ۔۔۔۔’’
’’ یہ بولو کہ تم ۔۔۔ تم نے کوئی قربانی تو نہیں دی نا ۔۔۔۔۔‘
’’ نہیں تو ۔۔۔۔ کیسی قربانی ۔۔۔۔’’
’’ وہ اس لیے کہ میں سوچ رہا ہوں کہ تم اب محض ایک بیوی اور ماں ہو کر رہ گئی ہو ۔۔ تان پورے کو کب سے ہاتھ نہیں لگایا ۔۔۔ ’’
’’لیجیے ۔’’ صبیحہ ہنس دی ۔ ’’ وہ نوجوانی تک کی باتیں تھیں ۔۔۔۔’’
’’ تو ابھی کون سی بوڑھی ہو گئی ہو ۔۔۔۔ آج تمہاری کوئی غزل سننے کو جی چاہ رہا ہے ۔ کتنے دن ہو گئے ہیں ۔۔۔۔’’
’’مذاق مت کیجیے ۔۔۔۔’’
’’ ارے بھئی میں سنجیدہ ہوں ۔۔ سو فی صدی ۔۔۔ اپنے تمام ہوش و حواس میں ۔۔ چلو شاباش ۔۔ اچھی بچی۔’’ صبیحہ ہنستے ہوئے اٹھ گئی ۔۔۔ کونے میں ہی تان پورہ رکھا تھا۔۔۔۔
تان پورے کے تار ٹھیک کرتے ہوئے اس نے پوچھا ۔۔ ’’ کون سی غزل سناؤں ۔۔۔’’
’’ کوئی کلاسیکی ۔۔۔ میر یا غالب کی۔۔۔۔۔’’
تان پورے کے تار ٹیون ہو گئے تھے ۔ اور جے جے سنتی کے سروں میں غزل کمرے میں گونج رہی تھی ۔
’’ پھر موج ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی۔۔۔’’
باہر رکشا کی گھنٹی کی آواز سنائی دی ۔۔۔
’’ لو ۔۔یہ شیطان آ گئے تمہارے ۔۔۔ اب کیا غزل ہوگی ۔۔۔۔‘’ جنید نے بے دلی سے کہا ۔
’’ ممی ۔۔ پا پا ۔۔۔ آج خوب مزا آیا ۔۔۔۔۔’’
گڈو بے حد اکسائٹیڈ تھا ۔۔۔ فردوس رکشا کے دوسرے بچوں کو ہاتھ ہلا کر ٹا ٹا کر رہی تھی ۔ لیڈی فاطمہ اسکول میں پڑھنے والے علاقے کے بارہ پندرہ بچوں سے بھرا رکشا ۔۔ غفار میاں نے پھر گھنٹی بجائی اور موڑ کاٹا ۔۔ اور نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔۔۔ پھر فردوس نے ایک اور بچی کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔ اور گھر کے اندر لے آئی۔۔۔
’’ممی ۔۔۔ یہ کہکشاں ہے ۔۔۔ ہمارے ساتھ ہی پڑھتی ہے ۔ اس کے ڈیڈی کا گھر بھی یہاں پاس میں ہی ہے ۔ ہم اس کے ساتھ کھیلیں ۔۔۔۔ ’’
’’ کپڑے نہیں بدلنے ہیں کیا ۔۔۔ ہاتھ مونہہ دھونے کا بھی ارادہ نہیں لگتا شاید ۔۔۔’’
دس منٹ بعد صبیحہ پھر ڈرائنگ روم میں آئی ۔۔ جنید اسی طرح بیٹھا ہوا تھا۔ صبیحہ نے تان پورہ اٹھا کر پھر اسی کونے میں رکھ دیا اور پاس ہی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔
پیچھے کے برامدے سے گڈو فردوس اور کہکشاں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔۔
’’ یہ دیکھو بھائی ۔۔۔ ہم کو تو یہ سیڑھی مل گئی ۔۔۔ ہم تو سات سے 23 تک چڑ ھ گئے ’’
’’ اونہہ ۔۔۔ دو ہی آئے ۔۔۔۔۔ ’’
’’ یہ چھ ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔ یہ پانچ ۔۔۔ ایک دو تین چار پانچ چھ ۔۔ اور ایک دو تین چار پانچ ۔۔۔ ارے ۔۔۔ پھر یہ سانپ نے نگل لیا ۔۔۔۔۔۔’’
’’سن رہے ہیں نہ جنید صاحب ’’
’’ ہاں صبیحہ ۔۔ دعا کرو کہ یہ لوگ ۔۔۔ یہ لوگ خواب نہ دیکھیں ۔۔۔۔’’
برامدے میں سانپ سیڑھی کا کھیل زوروں سے جاری تھا ۔
٭٭٭
ٹائپنگ: اعجاز عبید، مخدوم محی الدین
کاپی رائٹ سے مکمل آزاد۔ گنو فری اکیومینٹ لائسینس
ای بک: اعجاز عبید