FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

مئے خاور

 

 

                خاور چودھری

 

 

انتساب

 

والد و مرشد و قبلہ

محمد علی

اور

اماں بی مرحومہ

گُلِ زہرا

کے نام

جن کی خاکِ پا میری آنکھ کا سرمہ ہے

 

زیبا خاور

چِتری خاور

اور

صدف

کے نام

جن کے طفیل میں زندہ ہوں

 

 

 

 

کوائف نامہ شاعر

 

قلمی نام:               خاور چودھری

خاندانی نام      :       غلام رسول

والدین:               محمد علی____گُلِ زہرا

پیدائش:               15؍اپریل1972حضرو، ضلع اٹک

تعلیم:          ایم فِل اُردو۔ ایم ایس سی ماس کمیونی کیشن

وسیلۂ معاش:    صحافت۔ درس وتدریس

رابطہ:  [0334 – 1154456]    9سکندرپلازہ، حضرو، ضلع اٹک (43440)

تصانیف:٭            خواب، کرچیاں اور مسافر  [مضامین۔ 2001]

٭             ٹھنڈاسورج             [شاعری۔ 2006]

٭             چراغ بہ کف            [مضامین۔ 2007]

٭             چیخوں میں دبی آوا ز              [افسانے۔ 2008]

٭             دی کولڈ سن       [ٹھنڈاسورج کا انگریزی ترجمہ۔ 2012]

٭             مئے خاور                       [شاعری۔ 2016]

٭             اُردو دوہے کا ارتقائی سفر   [تحقیق۔ 2016 ]

غیر مطبوعہ: ٭       گفتگوئے یار            [مکالمے ]

٭             پریم جل               [دوہے ]

صحافتی خدمات:

٭     چیف ایڈیٹر روزنامہ ـ ’’ تعلّم‘‘، ایڈیٹر روزنامہ ’’شالیمار‘‘ چیف ایڈیٹر ہفت روزہ ’’ حضرو‘‘، چیف ایڈیٹر ہفت روزہ ’’ تیسرارُخ‘‘، مدیرمسؤل[اعلیٰ] ’’سحرتاب‘‘، مدیر اعلیٰ ’’اسوہ ‘‘کالم نگار روزنامہ ’’اسلام‘‘

تدریسی خدمات:

٭     ویلکن گرامرہائی اسکول حضرو۔ گورنمنٹ کالج حضرو۔ راولپنڈی کالج آف کامرس، کامرہ کینٹ۔ اُسوہ کیڈٹ کالج اسلام آباد۔ پنجاب دانش اسکول چشتیاں

٭     اعزاز:  حدیثِ دیگراں ____مرتب: سید نصرت بخاری [2008]

 

 

 

 

 

خاور چودھری کی شاعری

 

 

خاورؔ چودھری ایک بے تاب اور بے قرار روح ہے۔ اس کا تخلیقی وفور اُسے کسی ایک صنف اور کسی ایک منطقے میں ٹھہرنے نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جذب واحساس کے اظہار کے لیے نئے نئے پیمانے برتے ہیں۔ اس نے متعدد شعری اصناف میں کلام کہا ہے۔ یہ شاید کوئی خوبی کی بات نہ ہو کیوں کہ اکثر تخلیق کار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے دوسری شعری اصناف میں آسانی کے ساتھ کلام کہہ لیتے ہیں مگر خاورؔ محض منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے مختلف اصنافِ سخن کی طرف نہیں لپکا بلکہ اپنے اندر کی بے قراری کو زیادہ ہمہ رنگی کے ساتھ پیش کرنے کے لیے اس نے مختلف ہیئتی اور صنفی پیمانے برتے ہیں۔ خاورؔ کا کمال یہ ہے کہ اُس نے ہر صنف سخن کے ساتھ سچا اور سُچا تعلق قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، ایسا تعلق اصنافِ سخن کے مزاج سے پوری وابستگی اور ان کے رنگِ خاص سے کامل آشنائی کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔

خاورؔ کی غزلیں جذبے کی تہ داری سے عبارت ہیں۔ جذبہ ان کے ہاں شعلۂ جوالہ نہیں بلکہ دھیمی مگر مسلسل آنچ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جس طرح گیلی لکڑی اندر ہی اندر جلتی رہتی ہے، اسی طرح خاورؔ کا باطن ان غزلوں میں سُلگتا دکھائی دیتا ہے۔ اس میں شُبہ نہیں کہ خاورؔ نے عشق و محبت کے صدیوں پُرانے موضوعات کو برتا ہے تاہم ان میں خاورؔ نے اپنے مشاہدے اور تجربے کے رنگ شامل کر کے اور اظہار کے نئے قرینوں کو برت کر انھیں نئی صورتوں سے آشنا کیا۔ اس کے دوہے زبان و بیان اور تأثر کے لحاظ سے بھرپور ذائقے کے حامل ہیں۔ ان میں دانش وبینش کا وہ سرمایہ بھی لو دیتا ہے جو انسانوں کی کئی صدیوں کی میراث ہے اور حال کے وہ منظر بھی تاب ناکی کے ساتھ ان میں اُترے ہیں جو شاعر کی آنکھ نے دیکھے ہیں۔ خاورؔ کی واکا نظمیں بھی یادِ یار کی روشنی سے منشعب ہیں اور خاورؔ کے احساس و ادراک کی نازک سطحوں کی گواہی دیتی ہیں۔

 

ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ

علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد

 

 

 

 

 

مئے خاور

 

صبح کی روپہلی کرنوں میں نظر آنے والا شبنمی قطرہ اپنے اندر بوقلموں جہاں رکھتا ہے۔ اودی، ارغوانی، بنفشی، چمپئی، گلابی، خاکی، آسمانی رنگوں کی بلوری جھلمل انسان کی بصیرتوں اور بصارتوں کا کڑا امتحان ہے۔ یہ ثابت وجود جب تک قائم ہے، دیکھنے والی آنکھ بھی مشاہدے میں مگن رہتی ہے، اور جوں ہی یہ ریزہ ریزہ ہوا مشاہداتی آنکھ کی سحرانگیزی بھی فنا ہو جاتی ہے۔ شعر بعینہٖ صبح دَم تابدار ہونے والے اسی قطرے کی مانند ہے۔ دلوں کو گرمی و تسکین، سماعتوں کو نشہ و انبساط اور بصارتوں کو حیرت و تازگی بخشنے والا۔ ماہرینِ اَدب نے ہزار زاویہ سے شعر کی خوبیاں بیان کی ہیں۔ تہ دَر تہ باریکیوں اور لطافتوں کا حامل کلام اُسی وقت شعر ہوتا ہے، جب مخصوص پیمانے، مخصوص ڈھانچے اور مخصوص ہیئت میں جُڑتا ہے۔ یہ التزام نہیں ہو گا، تو شعر کا مقام بھی نہیں حاصل ہو گا۔

زندگی اور تہذیب بھی اسی نقطے سے جڑے ہیں۔ فکر، وجدان، نظم اورسُر ایسی اکائیاں ہیں، جس پرانسانی حسّیات کامدار ہے۔ اگر ان اکائیوں کا باہمی ربط ختم کر دیا جائے تو یقینی طور پر ایک ہیجان کی صورت پیدا ہو گی۔ اقوامِ عالم کا مشاہدہ کر لیجیے، اندازہ ہو جائے گا، کہ جہاں بے جہتی کا اظہار ہوا، وہاں انسان کو سخت امتحانات سے گزرنا پڑا۔ دوسرے لفظوں میں انسان اس کائنات میں ایک مخصوص زاویے کے ساتھ ہی سربلند ہوتا ہے۔ یہ سربلندی فکر، وجدان، انتظام اور ملائمت کے گہرے اتصال اور امتزاج کا ثمر ہے۔

شعر کے ضمن میں، جب میں یہ بات کرتا ہوں، تو میرے سامنے افلاطون کے نظریۂ شعر سے لے کرسیدعابدعلی عابد کے زاویۂ نگاہ تک اکثر مناظر موجود ہیں۔ افلاطون نے کہا تھا:

’’شاعر ایک لطیف الجبلت، پرواز کی طاقت رکھنے والی اور مقدس ہستی ہوتا ہے اور وہ کوئی چیز تخلیق نہیں کر سکتا، جب تک کہ اس پر ایک الہامی قوت کا قبضہ نہ ہو جائے اور اس کے حواس یک سر زائل نہ ہو جائیں۔ ‘‘ شیلے کے مطابق: ’’شاعری فی الحقیقت ایک ملکوتی و جبروتی چیز ہے اور شاعر ایک بالاتر از فہم الہام کے وہ مفسر اور نوعِ انسانی کے وہ معلم ہوتے ہیں، جو غیر مرئی دُنیا کی قوتوں کے ایک کشفی ادراک کو حقیقت و جمال کے احساس سے وابستہ کر کے مذاہب کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ ‘‘ نولس کا ماننا ہے : ’’شاعر محض از خود رفتہ نہیں بلکہ صحیح معنوں میں حواس باختہ ہوتا ہے۔ اس کے عوض میں شاعری کا معجزہ اس کے بطون سے از خود صادر ہوتا ہے۔ وہ لغوی معنوں میں معروض و موضوع، خارج و باطن، انا و ماسوا، بیک وقت سب کچھ ہوتا ہے۔ ‘‘ آڈن کے خیال میں : ’’ شعر گوئی کی تحریک اور الہام کی اصلیت میرے نزدیک صرف یہ ہے کہ تعمیر اور کاریگری کی قدرت میں کسی برق توانائی کی ایک لہر یکایک آ کر شامل ہو جاتی ہے۔ ‘‘ سی ڈی لوئیس کے مطابق: ’’شاعر ایک پیشہ ور کاریگر ہوتا ہے، یعنی فنِ معماری کا ایک ماہر جو مختلف قسموں کے سامان تعمیر پر تجربے کرتا رہتا ہے اور فن تعمیر کے متعلق طرح طرح کے ہندسی مسائل طے کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ جو عمارتیں وہ کھڑی کرتا ہے، ایک دن اتفاق سے ان میں سے کسی ایک عمارت کی ایک کھڑکی سے ایک عجیب و غریب روشنی دکھائی دیتی ہے۔ ہوا کیا ہے ؟ کوئی آسمانی مہمان وہاں آ کر اُترا ہے، یعنی شاعری کی روح… یہ آسمانی مہمان کہاں سے آتے ہیں، شاعر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ‘‘ پال والیری کا کہنا ہے : ’’میرے نزدیک شاعر ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس کے اندر ایک غیر معمولی واقعے کے زیر اثر ایک قسم کی قلب ماہیت کی بدولت شعر گوئی کی پُر اسرار قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ ‘‘ ورڈز ورتھ کے بہ قول: ’’شاعری قوتِ جذبات کا ایک اضطراری سیلان ہے، اُس کا سرچشمہ ماضی کے وہ جذبات ہوتے ہیں جنھیں سکون کے لمحوں میں یاد کیا جائے۔ شاعران جذبات پر غور کرتا ہے تا آں کہ ایک قسم کے رد عمل کے ذریعے وہ خود تو غائب ہو جاتے ہیں لیکن ان سے مماثل نئے جذبات آہستہ آہستہ پیدا ہو کر فی الواقعہ شاعر کے نفس میں وارد ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ گوئٹے کے خیال میں ’’شاعری میں دو قسم کے اناڑی ہوتے ہیں، اوّل وہ جو میکان کی پہلو کے بارے میں تساہل و تغافل کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے روحانیت اور جذبات سرائی کی نمائش کر دی تو بڑا کارِ نمایاں ادا کیا، دوسرا وہ جو محض میکانکی وسائل سے، جس میں وہ ایک کاریگر کی سی چابک دستی حاصل کر سکتا ہے، شاعری کی روح کو شیشے میں اُتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ ‘‘ ٹی گرے کا کہنا ہے : ’’مجھے اصرار ہے کہ شاعری میں مضمون کوئی چیز نہیں، بلکہ اصل چیز وہ لباس ہے، جس میں اسے پیش کیا جائے اور وہ منظر جس میں وہ نمودار ہو۔ ‘‘ ابن خلدون کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے : ’’انشا پردازی کا ہنر نظم میں ہو یا نثر میں، محض الفاظ میں ہے، معانی میں ہرگز نہیں۔ معانی صرف الفاظ کے تابع ہیں اور اصل الفاظ ہیں۔ معانی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں۔ پس ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کی ضرورت نہیں اگر ہے تو صرف اس بات کی کہ ان کے معانی کو الفاظ میں کس طرح ادا کیا جائے۔ ‘‘ جب کہ مولانا شبلی نعمانی کچھ اس طرح اظہار کرتے ہیں : ’’شاعری کا اصل مدار، الفاظ کی معنوی حالت پر ہے۔ یعنی معنی کے لحاظ سے الفاظ کا کیا اثر ہوتا ہے اور اس کے لحاظ سے ان میں کیوں اختلافِ مراتب ہوتا ہے۔ ‘‘ اورسیدعابد علی عابد کے مطابق: ’’الفاظ اور معانی در اصل نفسیاتی طور پر ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں، ایک ہی تصور کے دو پہلو ہیں۔ معانی کو الفاظ سے اس لیے جدا نہیں کیا جا سکتا کہ معانی کا تصور ذہن میں الفاظ کے بغیر ممکن ہی نہیں … حسن لفظ و معنی کے ارتباط و اختلاط اور مطابقتِ تام کے ذریعے وجود میں آتا ہے۔ ‘‘ محمد ہادی حسین کا ماننا ہے : ’’الفاظ کی سماعی لذت کے بغیر شاعری کا وجود ممکن نہیں، تاہم وہ بہترین قسم کی شاعری کے لیے بذاتِ خود کافی نہیں ہوتی۔ شاعری کا اصلی کارنامہ یہ ہے کہ وہ رائج الفاظ کے بیرنگ مطالب میں ان حسی تجربوں کا رنگ بھر دے، جس سے وہ مطالب تجرید کے عمل کے ذریعے اخذ کیے گئے ہیں، یعنی الفاظ کو اپنی اصلی و ابتدائی شکل میں جلوہ گر کرے۔ ‘‘

یہ کچھ مثالیں ہیں، میرے ذہن کے پردے پر کئی دوسری باتیں بھی شعر کے ضمن میں موجود ہیں۔ میں قبول و استرداد کا سزاوار ہوئے بغیر یہ کہتا ہوں، کہ موزونیت بنیادی قرینہ ہے، لیکن ندرتِ خیال اور جذبے کی سچائی اس سے بھی اہم ہے۔ فکر اپنے لیے از خود راستہ بنا لیتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اس تیز ترین دَور میں بعض بنیادی روشیں ہی تبدیل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ آنے والے وقت میں کیا کچھ تغیر آشنا ہو جائے گا۔

اَب رہا یہ سوال، کہ احساسات و جذبات توا پنی ملکیت ہیں، انھیں کیوں عام کیا جائے ؟ وہ باتیں جو لوگ خود سے بھی چھپاتے ہیں، شعری منظر پر کیوں جگمگا جاتی ہیں ؟

آسان جواب یہ ہے، کہ انسان بنیادی طور پر متجسس واقع ہوا ہے، اس کی تحیر آمیزی اسے نئے جہانوں کی کھوج لگانے پراُکساتی ہے۔ نئی دُنیاؤں کی تسخیر کے بعد وہ تمنائی رہتا ہے، کہ اپنی دریافت کو دوسروں تک پہنچائے۔ جب تک وہ اس عمل سے گزر نہیں چکتا، بے قرار رہتا ہے۔

ایسے میں اُسے کسی قرینے اور سلیقے کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے۔ اشاروں، کنایوں، تصویروں، علامتوں، رنگوں اور لفظوں کی زبانی اظہاراستہ بناتا رہا ہے۔ گویا وقت کے ساتھ ساتھ پیمانے بدلتے رہتے ہیں۔ شعر اظہار کاسب سے خوب صورت قرینہ ہے۔

آج شاید ساٹھ ہزار اشعار پر مشتمل مثنوی پڑھنے کاکسی کے پاس وقت نہ ہو، لیکن ماضی میں لکھنے والے بھی موجودتھے۔ مثنوی، قصیدہ، طویل نظم اور غزل سے ہوتے ہوئے ہمارا سفر تِروینی تک پہنچ آیا ہے۔ اس مسافت کے دوران ہم نے بارہا پڑاؤ ڈالا۔ عرب وفارس کے جام چڑھائے تو غرب کی شراب بھی چکھی۔ روس اور چین کے پیمانے لب آشنا کیے تو جاپان کا رَس لوچ بھی ہم سے پرے نہیں رہا۔ یہ تمام سفراجتہادی اور ارادی دائرے میں نہیں تھا، بیش تر مقامات پر خود بہ خود دائرے بدلتے دکھائی دیتے ہیں۔ وابستگانِ علم و ہنر کے انکشافات نے بعض اوقات تو حیران بھی کیا، لیکن یہی سچ ہے۔

ہیئت اور صنف کی یہ ہمہ رنگیاں اور ان میں بڑھتا ہوا اجتہاداسی رویے کا فیضان ہے۔ یہ عمل اپنی اصل میں زندگی کا ثبوت ہے۔ بادی النظر میں یہ لازمۂ حیات ہے۔ اَب رہا یہ سوال، کہ التزام کیوں واجب ہے ؟میرا خیال ہے، جس طرح خشوع و خضوع عبادت کی بنیادی اکائی ہے، اسی طرح شعر کا پیمانہ بھی۔ ہیئت کوئی سی ہو، صنف جو بھی ہو، لازم ہے، کہ اس کے تمام وظائف دیانت داری سے ادا کیے جائیں۔ ایک ایک ادائی کو دل سے نبھایا جائے۔ ’’مئے خاور‘‘ میں اپنے تئیں ان وظائف کو میں نے نبھانے کی پوری کوشش کی ہے۔ غزل، نظم، گیت اور دوہا کے باب میں ان کی مخصوص فضا اور آہنگ کو پانے کے لیے دیانت داری سے جستجو میں رہا ہوں۔ یہ جد و جہد اس لیے نہیں تھی، کہ کبھی اپنے کہے کو کسی کے سامنے اہتمام کے ساتھ پیش کرنے کا موقع بھی آئے گا، بلکہ اپنی تسکین اور طمانیت کی خاطر یہ تمنا رہی، کہ حق ادا کیے بنا بات نہیں بنے گی۔

اگرچہ مجھے مختلف اصناف میں کہنے کا شوق بھی رہا ہے، لیکن انفرادیت کا خیال بھی دامن گیر رہا۔ کم از کم اپنے آس پاس رہنے والوں میں تو اپنی الگ شناخت ہو۔ اسی خیال نے مجھے پہلے ہائیکو اور واکا پھر دوہا کی جانب سفرکرایا۔ میرے آس پاس غزل کا غلغلہ تھا۔ اُس زمانے میں اگرچہ میں نے بھی غزلیں کہیں، لیکن ذہن میں یہ خیال بھی پلتا رہا۔ خصوصاً مقامی دوستوں کی صحبتوں نے بجائے خود محتاط کر دیا تھا۔ اسی سبب سے مشاعروں میں جانا ترک کیا اور رفتہ رفتہ محفلیں بھی چھوٹ گئیں۔

صنف اور ہیئت کے باب میں میرے ساتھ عجیب معاملہ ہے۔ اپنے شروع کے ایام میں ہمہ وقت نعت کہنے کی دھُن میں رہتا تھا۔ پھر صرف غزلیں کہیں۔ جب ہائیکو کی طرف رغبت ہوئی تو صرف ہائیکو کہی۔ اس عرصے میں جو بھی خیال چمکتا از خود ہائیکو میں ڈھل جاتا۔ اسی طرح ماہیا بھی ایک مخصوص دورانیے میں کہا۔ واکا نظمیں بھی اسی طرح کہی گئیں۔ بارہ چودہ سال پہلے جب توجہ دوہا کی جانب ہوئی تو دوہا کہنے کی دھُن ہی سوار رہی۔ لطف کی بات یہ ہے، کہ اس عرصے میں باقاعدگی کے ساتھ کالم نگاری بھی کرتا رہا۔ روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے لیے ہردوسرے دن لکھتا ہوں، اور اب گیارہ سال مسلسل اس کام کو بھی ہو گئے۔ عموماً  کالم لکھتے لکھتے کوئی خیال ذہن میں بیدار ہو جاتا ہے اوریوں کالم ایک طرف رہ جاتا اور دوہا کہنا شروع کر دیتا ہوں۔ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۹ء تک کا عرصہ ہائیکو اور دوہا کہنے کے لیے زرخیز ثابت ہوا۔ ہائیکو کا مجموعہ تو خیر ’’ٹھنڈاسورج‘‘ ۲۰۰۶ میں شائع ہو گیا تھا، دوہوں کی کتاب مرتب ہونے کے باوجود ہنوز نہ شائع ہو سکی۔

’’مئے خاور‘‘ انتخاب نہیں ہے۔ میں اس وقت اپنے ٹھکانے سے سیکڑوں میل دُور بیٹھا ہوں۔ لیپ ٹاپ میں جو چیزیں موجود ہیں، اُنھیں یک جا کر دیا ہے۔ زیادہ تر چیزیں مطبوعہ ہیں۔ غزلیں کم و بیش سبھی زمانۂ طالب علمی یعنی مشق کے دور کی ہیں۔ اُس وقت ایک خیال یہ بھی ذہن میں رہا، کہ اَب دیوان کا رواج نہیں ہے، اس لیے دیوان مرتب کیا جائے۔ لیکن یہ خیال بھی خواب ہوا۔ اب اَلبتہ غزلیں ردیف وار شامل کی گئی ہیں۔

نظمیں کچھ پرانی ہیں اور بعض مخصوص وقت میں لکھی گئی ہیں۔ گیت اور دوہا تو بارہ چودہ سال سے سنگت میں ہیں۔ ۲۰۱۳ء میں ایم فِل اُردو کے لیے، جس عنوان پر کام کیا، وہ صنفِ دوہا کا احاطہ کرتا ہے :

’’ اُردو دوہے کا ارتقائی سفر‘‘

یوں اگر دیکھا جائے تو باقی اصناف کی نسبت مجھے دوہا سے زیادہ شناسائی اور شغف ہے۔ البتہ یہاں وہی دوہے دیے گئے ہیں، جو مطبوعہ ہیں۔ محترم شاکر القادری کی فرمائش پر قصیدہ بردہ شریف کو دوہے کا جامہ پہنانا شروع کیا۔ کچھ ترجمہ شدہ دوہے ’’فروغِ نعت‘‘ میں شائع بھی ہوئے، نعتیہ دوہے بھی وہیں چھپے۔ اب تمنا ہے تمام دوہے کتابی صورت میں آ جائیں۔

’’مئے خاور‘‘ کی اشاعت کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں تھا۔ خیال تھا، کہ پی ایچ ڈی کے بعد یہ مرحلہ تمام ہو۔ لیکن بعض دوستوں کی مسلسل خواہش کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ اس کتاب کے فنی مقام و مرتبے سے مجھے کوئی غرض نہیں۔ اسی لیے میں نے مشمولات کو ویسے ہی رہنے دیا ہے۔ ماہرینِ علم و ہنر توجہ دیں نہ دیں مجھے یہ فکر بھی نہیں۔ کیوں کہ میں اپنی شاعری سے قلبی و روحانی انبساط پہلے ہی کشید کر چکا ہوں۔ مئے خاور سے انگ انگ مسرور ہے۔ البتہ اَب کوئی ایک مصرع بھی کسی دوست کی توجہ حاصل کر گیا تو میں سمجھوں گا میری آسودگی کا مزید سامان ہو گیا ہے۔

مجھے زندگی اور اپنوں نے میری حیثیت سے بڑھ کر مقام دیا ہے۔ احباب کی بے لوث محبت سے میرا دامن بھرا پڑا ہے۔ شہر کے دوستوں اور لوگوں نے جو مان بڑھایا ہے، وہ بھی میرے کام اور مقام سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے میں علیم و خبیر و لطیف کا جتنا بھی شکرگزار رہوں کم ہے۔

قرینۂ شعر تواستاذِ مکرم ڈاکٹر مبارک بقا پوری مرحوم(کراچی) کاہی عطا کردہ ہے۔ ان کے علاوہ میں نے کبھی کسی سے اصلاح نہیں لی۔ البتہ توقیر علی زئی مرحوم، نظر شاہ جہانپوری مرحوم، پروفیسر نواز شاہد، راشد علی زئی، خالد محمود صدیقی، ناصر محمود بھٹی اور فہیم احمد سے صحبت رہی۔ اس لیے یہ ممکن ہے، کہ بلواسطہ میرے حریمِ لفظ پر ان کی روشنی کے چھینٹے بھی ہوں۔ مجھ پر ان سب کی شکر گزاری واجب ہے۔

والدین، بھائیوں اور بہنوں کی محبتوں کا بدل میرے پاس کہاں ؟میرا بال بال ان کا مقروض ہے۔ اللہ تمام کو شاد و آباد رکھے۔ آمین

زیبا!تم حاصلِ حیات ہو، دُکھ سُکھ کی سچی ساتھی۔ اللہ تمھیں شاد و آباد رکھے۔ صدف ! میری جان ہو، میری زندگی ہو۔ تمھارا شکریہ کہ تم نے کئی رتجگے میرے لیے سہے۔ چِتری! تم تسکینِ حیات ہو۔ تمھارا ساتھ میری طاقت ہے۔ تم میرا آیندہ ہو۔ تابندہ رہو۔ آمین

خاور چودھری

 

 

 

 

التجائیہ

 

تُو کہ نورِ ابتدا، تُو کہ نورِ انتہا

میں کہ قیدِ آس ہوں، تیرگی کا رکھ بھرم

 

پھر سے میں نے سوچ کو چاک پر چڑھا دِیا

حرفِ کن کے پاسباں، شاعری کا رکھ بھرم

 

میں حصارِ حرف میں اک سکوتِ بے کراں

راز دارِ خامشی اَن کہی کا رکھ بھرم

 

 

 

[نعتیں ]

 

 

بادل، برکھا، چاندنی، سورج، خوشبو، پھول

دریا، جنگل، رونقیں، پاؤں تُرے میں دھُول

خاور چودھری

 

 

 

 

 

 

 

Oشبِ تاریک گئی، گیسوئے جاناں کی قسم

اُن کے آنے سے ضیا ہے مہِ تاباں کی قسم

 

خاکِ یثرب پہ ترے پاؤں پڑے تو آقا

مہک اُٹھی ہے فضا سنبل و  ریحاں کی قسم

 

اب مرے دشتِ تمنا میں بھی گل کھلنے لگے

جلوۂ حق کی قسم، بارشِ عرفاں کی قسم

 

ہر گھڑی لطف و عنایت  ہے گنہگاروں پر

مائلِ رحم و کرم آپ ہیں، رحماں کی قسم

 

حسنِ یوسفؑ کے بہ ظاہر تو بہت چرچے ہیں

وہ مثال آپ ہیں اپنی شہِ خوباں کی قسم

 

کتنی پاکیزہ ہے خوش بُوئے مدینہ خاورؔ

عطرِ گیسو کی قسم، عارضِ تاباں کی قسم

٭٭٭

 

 

 

مری حیات کبھی با ثمر نہیں ہوتی

مرے حبیب تری یاد گر نہیں ہوتی

 

شعورِ ہست تری ذات کے تصدق ہے

وگرنہ ذات کوئی معتبر نہیں ہوتی

 

چراغِ عقل تری خاکِ پاسے روشن ہو

جبینِ صبح کبھی بے ہنر نہیں ہوتی

 

مرے لبوں پہ ترا نام جب چمکتا ہے

ہزار شکر زباں بے اثر نہیں ہوتی

 

ترے ظہور کی شاہد نسیمِ صبح ازل

بنا ترے یہ فضا معتبر نہیں ہوتی

 

ہر ایک سمت تری رحمتیں اُترتی ہیں

ترے کرم سے پرے رہ گزر نہیں ہوتی

 

عجیب وقت مری دسترس میں آیا ہے

شہا! یہ قوم مری ہم سفر نہیں ہوتی

 

یہ خاک سار تری نسبتوں سے ہے خاور

ولے اُڑان تو بے بال و پر نہیں ہوتی

٭٭٭

 

 

 

[نعتیہ دوہے ]

 

جوت جگائی شاہ نے، سورج تھا یہ ماند

چمکے جس کے کارنے، لوحِ فلک پر چاند

______

یثرب سارا کھولتا، اَگنی جیسی رِیت

میٹھی بانی شاہ کی، سب یُگ پھیلی پِیت

______

توری بستی واشنا، تورے منظر پھول

کجرا موری آنکھ کا، پاؤں تُرے کی دھُول

______

بھور بھئے اندھیر ہے، سورج جیسے کھیل

رہ توری ہے روشنی، باقی سب یُگ میل

______

نیل گگن پر کھیلتا ، چندا شق ہو جائے

چھٹ پن تورا بالما، کیا کیا رنگ جمائے

______

حبشی تورا بولتا، جوت جگے پھر عام

ہونٹ لپیٹے بیٹھتا، سورج ڈھونڈے شام

______

تورے در کی خاک سے بے زر بھی بُوذر

بھکشو توری باٹ کا، بانٹے ہے گھر گھر

______

توری رحمت تاکتی، پورب پچھم دُور

سب یُگ چمکے چاند سا، تورے دَم سے نور

______

بادل، برکھا، چاندنی، سورج، خوشبو، پھول

دریا، جنگل، رونقیں، پاؤں تُرے میں دھُول

______

من بگیا میں جھومتے، توری یاد کے پھول

جب لوہو میں تیرتا، نامِ پاک رسول

______

نیّا موری ڈولتی، تورے کارن پار

تم ہی پالن ہار ہو، تم ہی ہو سرکار

______

لاکھوں دُکھ سنسار میں، بھول گیا جگ پِیت

میٹھی بانی والیا ! لوٹا اپنی رِیت

______

جپتے ربّ کا نام ہیں، سینوں میں ہے آگ

پھر ان کو سمجھا پِیا، ان کے شبد ہیں ناگ

______

پاتھر بانی بولتے، چھاتی پاتھر ہوئے

کیسے تورے سامنے، پاتھر بھید پروئے

______

اجیارے کی آس میں ، روتا ہے سنسار

نیل گگن میں ڈوبتا، سورج آپ اُبھار

______

اس مٹی کی کوکھ سے، پیدا ہو پھر پیار

دوزخ یہ سنسار ہے، شیتل کر دے نار

______

خاور کملا اوگنی، جیون جیسے رات

بیٹھا تورے سامنے، انکھیوں میں برسات

______

کون سنے بن آپ کے ! آپ سنو تم شاہ

خاور تورا مانگتا، اس کو توری چاہ

______

احمد احمد جاپتا، بیٹھا صبح و شام

اے مورے سرکار جی ! تم پر لاکھ سلام

______

پُروا پائے واسنا، چندا پائے نُور

اسود سورج بانٹتا، حبشی تورا طُور

______

ڈاچی توری بیٹھتی، انصاری ہو گنوان

بھکشو توری باٹ کا، ہر جگ کا دھنوان

______

پون جھکورے کھیلتے، تورے در کی اور

چندا رَمتا ڈھونڈتا، پاؤں تُرے میں ٹھور

______

تورے شہر کی دھُول میں، مورے من کا چین

بھور بھئے ہو راتری، میں چوموں نعلین

______

جوت جگائی آپؐ نے، وہ بھی بجھتی جائے

ہردے کالا ناگوا، ہر پل پھن پھیلائے

______

میرے منوا چھیکلا، پُن کی مٹی ڈال

اکھین موری لاکڑی، آج مجھے نا ٹال

______

توری اُمّت ماکھڑی، لوہو نیر بہائے

پُن کی مالا جاپتی، بھیتر پاپ کمائے

______

احمد، حامد، مصطفی، خوشبو جیسے نام

فاتح، حاشر، مرتضیٰ بھر دے میرے جام

______

 

 

 

 

(ترجمۂ اشعار قصیدہ بردہ شریف )

 

انت اَرمبھ ہوں رحمتیں، پیت ہو صبح و شام

اپنے پیتم سائیاں، بھیج درود و سلام

______

یاد تمھیں ذی سلم کے ہمسائے آئے

اُجلی اَکھین میں سکھی، خوں پھیلا جائے

______

پُروا پیاری کاظمہ کی، چلی تورے اور

کالی رتیوں میں اِضم سے پھیلی کیا ٹھور ؟

______

توری اَکھین کیا ہوا ؟ روکے نیر بہائیں

ہردے کیسا روگوا ؟ سانسیں اُکھڑی جائیں

______

پیت لگاوت سوچتا، نہ جانے کوئی حال

اَکھین پھیلا کاجرا، ہردے شعلے لال

______

پیت نہیں وہ کھیل رے، دُنیا سے چھپ جائے

روتی اَکھین، گات گھایل، سب حال سنائے

______

پیت رچی ہے سانس میں، پیتم ہر سُو دیکھ

درد سجا ہے ماکھڑے، توری اک اک ریکھ

______

موری پیت پہ ناموا رکھنے والے سُن!

پیت لگاوت بانورے، جانوں تورے گُن

٭٭٭

 

 

 

نذرانۂ عقیدت  بہ حضور حضرتِ امام حسینؓ

 

 

قولِ کرد گار آپ ہیں

وقت کی پُکار آپ ہیں

 

کربلا کے دشت میں حسین

غیرتِ بہار آپ ہیں

 

زندگی کا نُور ہیں حسین

رونقِ ہزار آپ ہیں

 

عاشقوں کی رفعتیں حسین

عشق کا نکھار آپ ہیں

 

آسماں کی روشنی حسین

صبحِ نوبہار آپ ہیں

 

دو جہاں کے شہ نشیں حسین

دل کے شہریار آپ ہیں

 

حزن آشنا جہاں، حسینؓ!

ہر گھڑی قرار آپ ہیں

٭٭٭

 

 

 

[دوہے ]

 

 

نا رہیو سنسار کی لیلا میں مدہوش

میٹھی بانی بولیو یا رہیو خاموش

خاور چودھری

 

 

آشاؤں کی ہاٹ پر تن بکتا ہے آج

من بھیتر میں ساچ ہو، آوے جگ کو لاج

______

اوگُن دھو دے گات کے ٹوٹا من کا ماد

دونوں پاؤں بیڑیاں سیاں کر آزاد

______

باہر کڑکے دامِنی، بھیتر آگ لگائے

اَگنی جیسی کامنی، شیتل ہوتی جائے

______

رُوپ رسیلا بھور ہے، آنکھ ہوئی سیراب

مُکھڑا تیرا آد سے کرتا ہے بے تاب

______

انتر باہر وارتا، ہر جذبہ لے بھانپ

سارے پوت کپوت دے ماٹی میّا ڈھانپ

______

 

 

 

توری جھولی چھیکلا، پگ پگ تو پھیلائے

لوبھی بھکشو دھیرتا، دھیرج ہی کام آئے

______

سُن ری کوئل باوری، ہردے آج سمائی

میٹھے سُر میں کوک تو، میں روؤں سودائی

______

سُن ری چنچل مادھوی میں خاورؔ سودائی

توری میٹھی واسنا رُوں رُوں آج سمائی

______

باجے سیٹی ریل کی، ہردے منہ کو آئے

آشاؤں کی گور پر خاورؔ نیر بہائے

______

گوری تو لیلاوَتی، میں خاورؔ گم نام

ماٹی موری کھاٹ ہے، محل ترا بسرام

______

اجیارے کی آس میں جیون مورا ماند

دھن والوں کی بھور ہے دھن والوں کا چاند

______

ماریں پاتھر بالکے، کھویا اپنا ہوش

کڑوے شبد ہیں ساچ کے اور نا کوئے دوش

______

جگ جگ اندر جال ہے، سیتلتا بھی آگ

سُر سچا ہے بھیرویں نا ہی دیپک راگ

______

ماٹی موری ذات ہے، میں ماٹی کا پوت

کھتری ہو تو پارسا، پاپی جو ہو چھوت

______

دَرش دکھائے مادھوی، من بھیتر میں اور

اِندر جالک مادھری، کھویا مورا ٹھور

______

 

 

 

نا رہیو سنسار کی لیلا میں مدہوش

میٹھی بانی بولیو یا رہیو خاموش

______

گوری تو لیلاوَتی، میں خاورؔ گم نام

ماٹی موری کھاٹ ہے، محل ترا بسرام

______

حسن کی مالا جاپنا، ہر پل اپنا کام

تورے عشق کا اوگُنی، بھولا اپنا نام

______

رُوپ ترا ہے چاندنی، بال ہیں سونا تار

گوری تیرے کارنے، جاؤں جیون ہار

______

خاورؔ کملا گیگلا جگ سے ہے انجان

دھن والوں کی دھوپ ہے، برکھا اور پومان

______

حسن کی مالا جاپنا، ہر پل اپنا کام

تورے عشق کا اوگُنی، بھولا اپنا نام

______

گوری گائے گیت رے، سجنا من کی آس

کوسوں پھیلی دُوریاں، صدیوں پھیلی پیاس

______

دھرتی موری آگ ہے، میں دھرتی کی آگ

میں بھولا ہوں ماترے، بھولا دیپک راگ

______

کملے خاورؔ دھیان سے چل جیون یوں کاٹ

ماشہ اُوپر نا تلے، سیدھا ہو ہر باٹ

______

جوت بجھی من آنگنا، کاری ہے ہر سوچ

مار نہ جی کو لاٹھیاں، نا اپنا منہ نوچ

______

 

 

 

بات سُریلی بانسری، رُوپ سجیلا چاند

چھیل چھبیلی ناریاں، تورے آگے ماند

٭٭٭

 

 

 

 

[گیت]

 

 

 

تری آواز کی لے پر سبھی کچھ وار ڈالا تھا

تمھیں آواز دیتا ہوں، تمھارے گیت لکھتا ہوں

خاور چودھری

 

 

 

برکھا رُت

 

برکھا رُت آئی

برکھا رُت آئی

پیت کی ڈالی پے بولے کویلیا

جیسے چھنکے میری یہ پایلیا

بادل راجا کے شور میں دب جائے

ہر بات سنائی

برکھا رُت آئی

سکھیاں چھیڑیں تورے نام پہ بالم

ساون چھوٹ رہا ہے , آ جا ظالم

جلمی بارش جوت بجھانے آئے

میں ہوئی سودائی

برکھا رُت آئی

بادل برسیں آگ لگائیں تن میں

تم بن کیا جیون، دھُول اُڑے من میں

کون مرے ہونٹوں کا رنگ چرائے

آ رے ہرجائی

برکھا رُت آئی

٭٭٭

 

 

 

 

اک البیلی نار

 

اک البیلی نار

جب جب پایلیا چھنکائے

مورے منوا پھول کھلائے

بیتی رُت کا جادو ساتھی

آج ہوا ہے چار

اک البیلی نار

نین کٹورے آگ بھرے ہیں

ہردے کو بے تاب کرے ہیں

ماوک ہونٹ ہیں، بات رسیلی

جیسے چندن ہار

اک البیلی نار

مکھ سے چندرما شرمائے

نیل گگن بھی آنکھ چرائے

نرمل، کومل، مصری کی ڈلی

رین سمے جھنکار

اک البیلی نار

٭٭٭

 

 

 

 

نیناں روئیں آج

 

نیناں روئیں آج

بالم اکھین جوت جگا جا

من بگیا کی آگ بجھا جا

پھر ہردے کی راکھ سمیٹیں

پیت کا ڈھوئیں ساج

نیناں روئیں آج

کا ہے تو نے پیت لگائی

موری مجھ سے دیکھ لڑائی

پھولن باس سے کاٹھ لپیٹیں

گیت پروئیں باج

نیناں روئیں آج

بانی بھولی جوگن چھلیا

پنکھ کٹے، روئے کویلیا

پیت نگر سے کیسے پلٹیں

درد کا کھوئیں راج

نیناں روئیں آج

٭٭٭

 

 

 

 

جیون سارا کھیل

 

جیون سارا کھیل

کنگنا پہنا، ٹیک سجایا

کجرا ڈالا، رُوپ سنوارا

درد پُرانا، خوشی نئی ہے

اشک گئے ہیں پھیل

جیون سارا کھیل

دریا دریا گھوم چکی ہوں

صحرا صحرا چوم چکی ہوں

آخر جھولی لیر ہوئی ہے

انت ارمبھ کا میل

جیون سارا کھیل

صبح ہوئی، شام ڈھلی پیتم

مکھ دیکھا، پیت ہوئی کچھ دَم

وقت کی نیّا ڈوب گئی ہے

ہنس کر دُکھ سکھ جھیل

جیون سارا کھیل

٭٭٭

 

 

 

 

خواب کہاں رکھوں

 

خواب کہاں رکھوں

منوا پیت کا خواب اُگا تھا

خونِ جگر سے اُس کو سینچا

اور اشکوں سے سیراب کیا

لیکن دھوپ جلوں

خواب کہاں رکھوں

شام سویرے ساتھ ترا ہو

ہاتھ میں تیرے ہاتھ مرا ہو

کیوں اکھیوں کو بے آب کیا

تیری پیاس مروں

خواب کہاں رکھوں

یاد کی گٹھڑی بار ہوئی ہے

آس کی چُنری تار ہوئی ہے

جیون مورا بے تاب ہوا

من کے ریزے چنوں

خواب کہاں رکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

برکھا رُت آئی

 

برکھا رُت آئی

گھنگھور گھٹا ہر سو لہرائے

بجلی چمکے نیند چرائے

مینہا برسے دیس نہائے

بادل لے انگڑائی

برکھا رُت آئی

چُنری کو چھیڑے مست ہوا

زلفوں کے پیچھے چاند چھپا

میں بھی پہروں بے حال رہا

ناری شرمائی

برکھا رُت آئی

گُل بوٹوں نے رُوپ نکالا

دھرتی کا ہے رنگ نرالا

امبر نے پھر گیت اُچھالا

باجے شہنائی

برکھا رُت آئی

٭٭

 

 

 

 

[نظمیں ]

 

 

 

شبِ ہجراں ستارے انگلیوں میں کاشت کر کے پھر

تمھیں تصویر کرتا ہوں، تمھیں منظوم کرتا ہوں

خاور چودھری

 

 

زمیں زادی

[صدف کے لیے ]

 

صدف خاور! زمین و آسماں پتھر قرینہ ہیں

کئی صدیوں سے انساں تیز آری ہاتھ میں تھامے

مسلسل کاٹتا جاتا ہے پتھریلی چٹانوں کو

مگر دامِ ثریّا کا یہ زندانی نہیں سمجھا

 

نئی زنجیر کے حلقے کہن خوابوں کی قاشوں میں

اُلجھ کر رہ گئے ہیں، بجھ گیا ہے، وقت کا چہرہ

زمانہ نقشِ آیندہ نگاہوں میں سجاتا ہے

نئے منظر کی گمراہی سفر میں ساتھ رکھتا ہے

سرابوں کو سمندر کا سفارت کار کہتا ہے

بجھی رُت کو اُجالوں کا پیمبر مانتا ہے یہ

زمیں زادی! تمھیں ان پتھروں کے درمیاں رہ کر

زمین و آسماں کا گمشدہ حلقہ پکڑنا ہے

نیابت کی کڑی کو نقشِ آیندہ پہ لکھنا ہے

یہ لکھنا ہے زمین و آسماں پتھر سدا سے ہیں

انھیں اپنے ہنر کی اُنگلیوں سے موم کرنا ہے

ابھی تو عمر کا تیشہ جواں اور خوب صورت ہے

توانا ہاتھ فولادی شکنجے توڑ سکتے ہیں

سمندر کی مچلتی موج کا رُخ موڑ سکتے ہیں

ہواؤں کی مخالف سمت میں بھی دوڑ سکتے ہیں

 

زمیں زادی! رہینِ وقت مت رہنا، سدا لڑنا

ہر اک لمحہ تری مٹھی میں گریہ زار ہو جائے

ہر اک گردش ترے فن کی نئی تلوار ہو جائے

ستارے خاک چاٹیں، روشنی پاؤں پکڑ لے پھر

سرودِ رفت کو وردِ زباں کر کے مچلنا تم

شرابِ آزمودہ جام میں بھر کے سنورنا تم

 

صدف خاور! زمیں زادے فلک پر راج کرتے ہیں

وہ اعلیٰ ہیں، جو محنت کو ہی سر کا تاج کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

رُوح کا نغمہ

[زیبا کے لیے ]

 

 

 

اعجازِ مسیحائی، اے عمر ! کہاں دیکھوں

ہر پھول کھلا دل کا، جس سمت جہاں دیکھوں

پُر نُور اُجالوں میں، اِک آگ بھڑکتی ہے

دستورِ ستم کوشی، مغرور، عیاں دیکھوں

 

آداب کے سانچوں میں، جذبات نہیں ڈھلتے

تسکینِ تمنّا میں، حالات نہیں ڈھلتے

مغموم ارادوں کی، گم راہ منازل ہیں

جو رُوح میں چُن جائیں، دن رات نہیں ڈھلتے

 

الفاظ، معانی کی، تجسیم ہوئے کب ہیں !

یہ رنگ حقیقت میں، تفہیم ہوئے کب ہیں !

موسم بھی بدلتے ہیں، خوش بُو بھی مہکتی ہے

احساس محبت کے، تقسیم ہوئے کب ہیں !

 

تیرے جو تصور میں، خوش رَنگ فضا سی ہے

مدہوش گلابوں کی، تفسیر ہوا سی ہے

کیسے میں کہوں تم سے، ان خار سی آنکھوں میں

پتھرائے ہوئے منظر، ہر سمت اُداسی ہے

 

کیا تُم کو بتاؤں میں، کس طور میں جیتا ہوں

زخموں کو میں کھاتا ہوں، لوہو کو میں پیتا ہوں

ہر چاک ہُوا خنداں، نمناک ہوئی خواہش

پیوندِ صبا لے کر، ہر رات کو سِیتا ہوں

 

تم ہفت فلک منظر، تم اوجِ ثریا ہو

تم رُوح کا نغمہ ہو، تم آنکھ کا تارا ہو

ہر ساز ترا زیبا، ہر رُوپ ترا دیوی

تم رُوح کا شعلہ ہو، تم آنکھ کی برکھا ہو

میں خاک نشیں ہوں یا،  میں ریگ بہ صحرا ہوں

لیکن یہ حقیقت ہے، ہر رنگ میں پکا ہوں

یہ دھُوپ تمھاری ہے، وہ چیت تمھارا تھا

پھاگن کی حسیں رُت میں، ساون میں بھی تیرا ہوں

 

جس راہ پہ ڈالا تھا، وہ راہ حقیقت ہے

جس ڈور میں کھینچا تھا، وہ ڈور سلامت ہے

ریشم کی رداؤں میں، پیوند ہوا ہوں میں

جو عہد نہیں باندھا، وہ ایک ملامت ہے

 

تم ہشت جہاں منظر، مقبول ہما تم ہو

تم بات سُریلی ہو، مخمور گھٹا تم ہو

میں وقت کا قیدی ہوں، مجبور سراپا ہوں

گھنگھور اندھیروں میں خورشیدِ وفا تم ہو

٭٭٭

 

 

 

نوحہ

 

بہاریں سرد رُت کا پیرہن پہنے ہوئے لرزاں

گریبانوں میں سائے منھ چھپائے، خوف سے دُبکے

کسی بھٹکی ہوئی معصوم چڑیا کی طرح بے کل

اِدھر جذبات برفیلے پہاڑوں کی طرح ساکت

تمنّا ناچتی تھی، رقص کرتی تھی نے کوئی خواہش

بس اک گم نام سا جیون، بس اک بے نام سی ہستی

بہ ظاہر خوب صورت، مطمئن یہ زندگانی تھی

 

مگن اپنی لگن میں، مست اپنی ذات میں رہتا

کسی کی دھُن نہیں تھی، ہر گھڑی اوقات میں رہتا

حسیں صبحیں، حسیں شامیں، بہاریں، دوست، رشتے دار

سبھی کچھ تھا، نہیں تھا عشق کا سودا مرے سر میں

نہ ٹیسیں، درد کی موجیں، نہ بدنامی کا ڈر تھا

نہ آنکھیں خون روتی تھیں، نہ دل میں آگ جلتی تھی

میں زندہ تھا مگر زندہ نہیں تھا، عمر ایسی تھی

 

تری آواز کے جادو نے زندہ کر دیا تھا پھر

مری آنکھوں میں جیسے نور کوئی بھر دیا تھا پھر

 

یہ جیون نرم و نازک مکڑیوں کے جال کی مانند

کسی دیوار کے کونے میں کیوں کر بیت سکتا تھا!

تری باتیں، ترا لہجہ، تری شوخی، ترا نغمہ

ادائیں، دل رُبائی ، نازکی، رنگین آرائی

 

وہ قسمیں ساتھ دینے کی، وہ دعویٰ جان دینے کا

بہت خوش کُن تماشا تھا مجھے ’’ایمان‘‘ کہنے کا

 

کہاں اپنی لگن میں ! مست اپنی ذات میں کب تھا؟

تری آواز کے جادُو پہ اپنا سب لُٹا بیٹھا

مگر جب ہوش آیا تو تماشا بن چکا تھا خود

وہی ساتھی، وہی اپنے، وہی ہمدم، وہی پیارے

صلیبِ وقت پر تھے سربلندی کے تمنّائی

مری عظمت کا ہر مینار قدموں میں پڑا تھا یُوں

کہ جیسے راکھ ہو کسی مرگھٹ پہ میّت کی

مری آنکھوں میں آنسو تھے، تری آنکھوں میں آنسو تھے

تماشا جو دکھایا تھا، ندامت تھی تمھیں اُس پر

مگر اشکوں اور ندامت سے، حسیں دن کب پلٹتے ہیں !

اُلجھ جائیں اگر دھاگے، وہ کب پھر یوں سلجھتے ہیں ؟

 

چلو چھوڑو! مجھے چھوڑو، مرا کیا ہے، میں جی لوں گا

لہو دل کا چھپا کر خود سے، تنہائی میں پی لوں گا

 

چلو چھوڑو ! تری روشن جبیں پر چاند اُترا ہے

تری آواز آنکھوں کو منّور کر رہی ہے پھر

مگر اب فرق اتنا ہے، نہیں لیکن مری آنکھیں

تری آواز کا جادو چمکتا ہے، دمکتا ہے

مری تاریک آنکھوں کی طرح دل میں اندھیرا ہے

ترا رستہ مگر روشن رہے گا تا ابد پیارے

محبت کی نئی منزل مبارک ہو تمھیں پیارے

محبت تو حقیقت میں وہ طاقت ہے، شجاعت ہے

جو اپنا راستہ خود ہی بناتی ہے، گزرتی ہے

تری پوریں محبت کے ہنر سے خُوب واقف ہیں

ترا لہجہ، ترے نغمات اب بھی تو سلامت ہیں

 

تمھیں کیا غم ! تری آواز کا جادُو جواں تر ہے

ترا طالب، ترے نغموں کا شیدائی جہاں بھر ہے

٭٭٭

 

 

 

نغمۂ گُل

 

فضاؤں میں مدھر سے گیت پھیلے ہیں

کہیں بان کی صدائیں گونجتی ہیں

مچلتے لفظ میٹھے پیرہن میں

برنگِ گُل نگاہیں کھینچتے ہیں

کہیں مانوس آوازیں اُٹھی ہیں

مرے وجدان میں خوش بُو رچی ہے

 

فضاؤں میں مدھر سے گیت پھیلے ہیں

ہوائیں داستانِ خوش نُمائی پھر

کھلی کلیوں، مہکتی شاخساروں

سرکتے شبنمی قطروں سے مل کر

تری پوشاک کی خوش بُو پہن کر

جبینِ صبح پر لکھنے لگی ہیں

 

فضاؤں میں مدھر سے گیت پھیلے ہیں

ترے قدموں کی آہٹ جاگتی ہے

مری دھڑکن سے ہم آہنگ ہو کر

کہ پُر اسرار گہری فروری کی

مچلتی دھُند میں کچھ بولتا ہوں

کہانی موسموں کی_____ہے دلوں کی

 

فضاؤں میں مدھر سے گیت پھیلے ہیں

نگاہوں میں نئے منظر سجے ہیں

تصور قافلہ در قافلہ ہے

مہکتے لفظ سنبل ہو گئے ہیں

کوئی جذبہ نکھرتا جا رہا ہے

گُلوں کا گیت دھڑکن بن گیا ہے

٭٭٭

 

 

ہم نام

 

 

نکھرتا رُوپ جیسے چاند کا ٹکڑا زمیں پر ہو

سنہری بال جیسے مہر کی کرنیں چھلکتی ہوں

کہ ہونٹوں سے گلوں کا رنگ شرمائے، اُلجھ جائے

ستارہ سار آنکھیں منظروں کا حسن جھٹلائیں

چلے تو ہرنیاں بھی شرم سے جھکتی چلی جائیں

کہ جیسے آبشاریں چاندنی میں رقص کرتی ہوں

خیالی حسن جیسے اَپسرا اِک آسمانی ہو

 

انوکھا اور بہت پیارا کھلا سا نام ہے اُس کا

ہزاروں دل اُسی کے نام پر یوں ہی مچلتے ہیں

کہ جیسے مرگ طاری ہو گئی ہو ریگ زاروں میں

وہی لڑکی سراپا گُل، وہی معصوم سی لڑکی

مچلتی ، کودتی، اٹھکھیلیاں کرتی اِدھر آئی

کہ میری دھڑکنوں پر مرگ طاری ہو گئی ویسے

مرے شب روز پوچھے، ہاتھ تھاما، چوم کر چھوڑا

مجھے زندہ کیا، سانسیں عطا کر دیں، ذرا چھو کر

 

میں اپنی ثابت و سالم یہ آنکھیں چھوڑ آیا تھا

نگاہیں کاشت کر دیں پھر اُسی پیکر کے پرتو میں

مگر اَب ساکت و جامد سیہ پتھر کی مانند میں

اُبلتی ریت کا صحرا لپیٹے جل بجھا ہوں پھر

 

یہی میں نے جتایا تھا، انوکھا نام ہے تیرا

اچانک چاند کا ٹکڑا سراپا درد بن بیٹھا

گلوں سے ہونٹ جیسے خون کی ندیاں اُگلتے ہوں

یہی اُس نے بتایا تھا : ’’ انوکھا نام جو ہے یہ

اُسی بھاگوں بھری کا تھا، جسے بابا مرے اکثر

سویرے صبح نہلاتے، کہ جس کی نوکری میں تھے

سنو ! ہم نام ہوں میں چمپئی خوش بخت گھوڑی کی‘‘

٭٭٭

 

 

 

میلادِ خوش بُو

 

 

بہار آئی جبینِ وقت رنگیں تر ہوئی ہے

کھلا سینہ فضاؤں کا، ہوا عنبر ہوئی ہے

درختوں نے گلابی شال اوڑھی آج کے دن

زبانِ برگِ گُل روشن ہوئی ہے __تر ہوئی ہے

کہ نغمہ زَن صبا ہے ___گلستاں عنبر فشاں ہے

وہ آیا ہے، منادی ساتھیو ! گھر گھر ہوئی ہے

 

سرائے جاں مکیں، روشن جبیں، گُل رُخ حسیں ہے

زمین و آسماں میں ایک بھی جس سا نہیں ہے

قدم جس خاک پر رکھ دے، سنور جائے زمیں وہ

چلے تو آسمان گردش بھلا بیٹھے ___یقیں ہے

سنو! خوش بخت ہو تم، حرزِ جاں تیرا مکیں ہے

سنو اے ساکنانِ دو جہاں ! ___کھلتی سحر ہے وہ

مری آنکھیں، مرا سینہ، مرا قلب و جگر ہے وہ

اُسی کے گرد میری ذات کے سارے حوالے

مری تسبیح، دَم، دارُو، وہی منزل، سفر وہ

 

سبھی موسم اُسی کے نام پر جیون گزاریں

فلک روشن، زمیں خنداں، ستارے جستجو میں

مرا دعویٰ، مرا وعدہ، مرا نعرہ، زباں وہ

وہی لفظوں میں، جملوں میں، وہی ہے گفتگو میں

 

اُسی زہرہ جبیں، صندل بدن کا ہے جنم دن

کہ جس کے نام سے جیون معطر ہو گیا ہے

میں خالی ہاتھ ہوں لیکن، محبت کے خزینے

تری سرکار میں پھر پیش کرتا ہوں مری جاں

٭٭٭

 

خواب سی لڑکی[۱]

 

 

میری نس نس میں اُس کی خوش بُو پھلی ہے

میرے دل میں اُس کی سانس دھڑکتی ہے

میری آنکھ بصیرت اُس سے پاتی ہے

اُس کے لفظوں سے ہی بات مری بنتی ہے

 

خواب سی لڑکی، خواب دکھاتی جائے

من بگیا میں پھول کھلاتی جائے

مہک مہک کر مجھ کو بھی مہکاتی جائے

اور آنکھوں میں خواب اُگاتی جائے

 

خواب سی لڑکی

ایک برس پہلے دھیان میں اُتری یوں جیسے

صحراؤں پر بارش برسے

بنجراپے کو شاداب کرے

یا ٹھنڈا چاند نہال کرے

یا مردہ جسم میں جان پڑے

 

میں کملا خاور شیدائی

آنکھیں تھیں جس کی پتھرائی

اُس کو دیکھ کے لی انگڑائی

مشہور ہوا اَب سودائی

 

خواب پروتی اس لڑکی کو

آنکھوں میں بسائے پھرتا ہوں

پیاری میٹھی کجراری کو

جان و جگر میں کہتا ہوں

 

اے میری خوشیوں کے مالک !

اے میرے جذبوں کے خالق

تو سنتا ہے، تُو جانے ہے

عشق مقدر سے ملتا ہے

خواب نگر کو روشن کر دے

مجھ پتھر میں جیون بھر دے

خوش بُو جس کا نام ہے مالک!

اُس کو میرے نام پہ کر دے

 

سال ہوا ہے اس رشتے کو

ایک صدی پر پھیلا دے تو

پیار ہمارا آج اَمر کر

خواب سی لڑکی، خواب نہ ہو پھر

٭٭٭

 

 

 

 

خواب سی لڑکی [۲]

 

 

خواب سی لڑکی، خواب پروتی رہتی ہے

بند آنکھوں میں امیدوں کے دیے جلائے

خواب نگر کے رستے پر چلتی رہتی ہے

 

خواب سی لڑکی، ایک برس پہلے

میرے دھیان میں اُتری یوں جیسے

صدیوں پہلے کی باسی ہو

من مندر کی دیوی جیسی

پھول نگر کی تتلی جیسی

رات سمے کی شبنم جیسی

اُجلی صبح کی کرنوں جیسی

شام ڈھلے کی خوش بُو جیسی

آنکھ میں بیٹھے خوابوں جیسی

ہونٹ پہ پھیلے جذبوں جیسی

خواب سی لڑکی

ایک برس پہلے میرے دھیان میں اُتری

٭٭٭

 

 

 

امتحاں یہ کیسا ہے

 

 

امتحاں یہ کیسا ہے

عشق کے مسافر کا

حسن کے مجاور کا

رنگ کے شناور کا

اور تیرے خاور کا

 

آنکھ کیوں مچلتی ہے

شام کیوں اُترتی ہے

یاد کیوں نکھرتی ہے

سانس کیوں بکھرتی ہے

زہر کیوں اُگلتی ہے

درد کیوں ہے سینے میں

خونِ دل ہے پینے میں

دل نہیں قرینے میں

لطف خاک جینے میں

خون ہے پسینے میں

 

صحنِ گلستاں میں وہ

اِک گلاب جیسا ہے

ساونوں کے موسم میں

وہ شراب جیسا ہے

سردیوں کی نیندوں میں

ایک خواب جیسا ہے

 

خواب خواب ہوتا ہے

وقت کے سمندر میں

اضطراب ہوتا ہے

ہجر چاٹ لیتا ہے

جو شباب ہوتا ہے

جستجو تری کیا ہے

آرزو تری کیا ہے

یہ جدائیاں کیسی !

داغ داغ سینہ ہے

دیکھتے نہیں پیارے

گفتگو تری کیا ہے

 

امتحاں یہ کیسا ہے

٭٭٭

 

 

 

جنم دن

 

نسیمِ صبح عنبر سے لپٹتی جا رہی ہے

گلوں کے رنگ خوش بُو میں سمٹتے جا رہے ہیں

ہوائیں شبنمی پوشاک اوڑھے چار سُو ہیں

ستارے ٹمٹما کر جل بجھے ہیں، ماند رُو ہیں

پہاڑوں پر اُگی خوش بُو، مری جانب رواں ہے

یہی خوش بُو مرے احساس میں گھر کر گئی ہے

 

نسیمِ صبح عنبر سے لپٹتی جا رہی ہے

سمندر مضطرب ہے، خوشبُوؤں سے آنکھ بھر کر

کنارے جھومتی موجیں پہن کر رقص میں ہیں

درختوں پر پرندے سُر بکھیرے گا رہے ہیں

مچلتی شاخساروں پر فروزاں داستانیں

کسی شہلا جبیں کی راہ میں بچھنے لگی ہیں

 

نسیمِ صبح عنبر سے لپٹتی جا رہی ہے

یہ دُنیا رنگ و خوش بُو اوڑھ کر روشن ہوئی ہے

ہر اک ذرّہ مشامِ جاں معطر کر رہا ہے

جبینِ وقت پر ہستی نمو پانے لگی ہے

اُسی فیضان سے دُنیا حسیں تر ہو گئی ہے

زمانہ صبحِ نو کے منظروں میں کھو گیا ہے

 

نسیمِ صبح عنبر سے لپٹتی جا رہی ہے

مرے محبوب ! استقبال تیرا ہو رہا ہے

سبھی کوہسار و دریا، چاند، سورج اور ستارے

ترے میلاد پر خوش ہیں، مچلتے جا رہے ہیں

مری خوش بُو ! تمھیں تیرا جنم دن ہو مبارک

ترا خاور محبت کی وہی سوغات لایا

٭٭٭

 

 

ٹشو پیپر

 

…۱

ریشم سا اُجلا کاغذ

شہد دھُلا، یاقوت رچا

رنگ سنہری سینے پر

جس پر تازہ پھولوں سے

میرا نام لکھا ہے، یوں

جیسے دل سے خوں رِستا ہو

…۲

کاغذ کے ایک سرے پر

سبزقلم کی جھلمل ہے

جھلمل جیسے قوسِ قزح

آنکھیں چندھیا جاتی ہیں

غور کیا تو یہ جانا

نام لکھا ہے رنگوں میں

سُرخ گلابوں کی مانند

کھِلتا نام اُسی کا ہے

جس نے میرا نام لکھا ہے

…۳

میں یاقوتی کاغذ کے

پس منظرسے واقف ہوں

لیکن میرے پاس کوئی

سُرخ گلابی پھول نہیں

جواس کے بدلے میں دُوں

میرے پاس بھی کاغذ ہے

…۴

میرے پاس جو کاغذ ہے

نرم و نازک دُودھ رَچا

جس پر میرا نام نہیں

جس پر تیرا نام نہیں

لیکن اس کے سینے پر

نقش ترے ہونٹوں کا ہے

لمس تری سانسوں کا ہے

رنگ تری آنکھوں کا ہے

…۵

خاور ایک ٹشو پیپر

میری ساری مستی ہے

میری پوری ہستی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

زردموسم کی شام

 

 

پیرہن سُرخ، چاندنی سا بدن

ٹیک روشن جبین پر جھولتا

ہار چھاتی کو چھیڑتا، کھیلتا

آنکھ کجرے میں ڈوبتی، تیرتی

اور کلائی میں نقرئی کنگنا

 

ایک دُلہن ہے منتظر عشق کی

یا کسی غیر کا توانا لہو

اُس کے احساس میں مچلتا ہوا

کھِلکھلاتا ہوا، اُترتا ہوا

لیکن اس پار ایک زخمی جگر

جس میں آثار زندگی کے نہیں

جس کی شریانیں خشک کانٹا ہوئیں

جس کی آہیں خزاں کا مسکن بنیں

تھا گُلابی رُتوں میں اُبھرا کہیں

زرد موسم کی نذر آخر ہوا

 

کیا تمھیں یاد ہے ! وہ معبد جہاں

تیرے دل نے ہمیش سجدے کیے

اب وہ معبد ہوا ہے، آسیب گاہ

روشنی کوئی ہے، نہ عابد کوئی

کوئی اُمّید اور امکاں نہیں

جس کو آباد کرے گا پھر کوئی

 

رات آدھی اِدھر، کُچھ اُس پار ہے

ٹمٹماتے دِیے کی لَو بُجھ چکی

ساز خاموش ہو چکے سانس کے

آنکھ مدفن بنی، جگر آئنہ

زرد موسم کی شام پھر تحفتاً

پھول مسلے ہوئے اُسے دے گئی

٭٭٭

 

 

 

ایک سمے کی بات

 

…۱

 

ذرا ٹھہرو ! جبینِ وقت پر اک حرف باقی ہے

مری چشمِ تمنّا میں ذرا سی برف باقی ہے

ایالی پوٹلی غم کی سرہانے رکھ کے سویا ہے

اُدھر باغات آموں کے پپیہے کی صداؤں سے

برابر گونجتے ہیں، فاختائیں رقص کرتی ہیں

اِدھر جذبے ہوا کی تال پر یُوں گنگناتے ہیں

خنک موسم کی برساتوں میں پتے ہاتھ ملتے ہوں

گلابی تتلیاں پھولی ہوئی سرسوں پہ اُڑتی ہوں

دلِ مُردہ اچانک جگمگاتا ہو، دھڑکتا ہو

 

…۲

 

ابھی ٹھہرو ! اُسی تازہ ہوا کا رقص دیکھیں گے

مَگس کا زمزمہ مضرابِ دل سے ہم قدم کر کے

گلابی تتلیوں کا خوش نما منظر اُتاریں گے

وہ دردِ جام پچھلے موسموں کا آزمائیں گے

مری آنکھیں ابھی تاریک راہوں میں بھٹکتی ہیں

مرے منظر اُداسی کی صدائیں پھانکتے ہیں

تری آواز کا جادو پسِ منظر میں پھیلا ہے

ذرا منظر پسِ منظر سے ہم آہنگ تو ہونے دو

مَگس کی نغمگی کو تتلیوں کا رنگ بھرنے دو

 

… ۳

 

ابھی آموں کے پیڑوں پر پپیہا گنگناتا ہے

ابھی بھیڑوں کی پشتوں پر وہی مقراض پھیلے گی

ہمارے سرد خوں کو گرم اونوں کی ضرورت ہے

سنو خاور ! ابھی ممتاز ہونا ہے قبیلے میں

انھی برفاب جذبوں کو اُمنگوں کی ہوا دیں گے

ذرا ٹھہرو ! جبینِ وقت پر اک حرف باقی ہے

مری چشمِ تمنّا میں ذرا سی برف باقی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وصال

[چتری کے لیے ]

 

 

سُرخ سیبوں کی صبح کا منظر

یُوں مجسم ہوا نگاہوں میں

کھو گئے ذات کے نشاں سارے

ہو گئے پھر یقیں گماں سارے

میں زمانوں کا پاسباں کب تھا

پھر بھی ہستی نکھار رکھتا ہوں

اپنے ہر سو بہار رکھتا ہوں

 

ہاں وہی صبح جب سنوغر نے

سُرخ پھولوں کی شال اوڑھی تھی

چمپئی سیب تیرے ہاتھوں میں

رقص کرتے مچل مچل جاتے

وصل کی ساعتوں پہ خنداں تھے

یا ہمارے ملاپ پر حیراں

 

صبحِ پرواک میں ترا ملنا

آبشاریں ملیں زمینوں سے

خشک وادی کی کھردراہٹ سے

یا چٹانوں کے سرمئی لب سے

 

نرم و نازک لبوں سے ’’شیریں ژن‘‘

یوں کہا، گھُل گیا رَس سماعت میں

ایک لمحہ رہینِ گریہ تھا

اِک توجہ سے سُرخ رُو ٹھہرا

 

سُرخ سیبوں کی صبح کا منظر

زندگی میں بہار لایا ہے

بے کلی میں قرار لایا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

فراریت

[فہیم احمد کے لیے ]

 

فہیم احمد ! تمھارے ناخنوں میں سب ہنر تھے

نئے منظر تمھاری اُنگلیوں میں مضطرب تھے

شناسائی پرانی داستانوں سے تمھیں تھی

حریمِ شوق کی جولانیوں سے واسطہ تھا

تمھارے ثابت و سالم تصور میں سبھی تھا

 

مآلِ کار منظر کیا سجایا سلسلوں نے !

ترے اطراف میں بکھری ہوئی یہ راکھ کیا ہے !

تری شعلہ جبیں کیوں سلوٹوں سے بھر گئی ہے !

چمک آنکھوں کی تیری ماند کیوں رہنے لگی ہے !

تمھاری صندلی ان انگلیوں میں خون کیسا !

تمھارا فن کدہ آسیب گاہِ ظلمتاں ہے

 

فہیم احمد ! نگاہِ گرم تھا تیرا قرینہ

اندھیروں سے تمھاری دشمنی تھی ___دوستی کیوں ؟

فراریت ترے شایانِ شاں کب ہو گئی ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

دُنیا کی انجمن میں مہتاب تم رہو

(طالب علموں کے لیے )

 

 

اے شہرِ دل نواز! بچوں کی آن دیکھ

پھولوں کی نکہتیں بھی، کلیوں کی شان دیکھ

اک بار خوشبوؤں میں، اِن کی پڑاؤ ڈال

کیسے مہک اٹھیں گے، پھر جسم و جان دیکھ

 

قلب و جگر میں نُور پھیلے گا دم بہ دم

بچوں کی رونقوں سے گُل رنگ ہر قدم

مہتاب بھولتا ہے، تاروں کی کہکشاں

خورشید کھیلتا ہے، پیاروں کے ہم قدم

 

سب رہ نوردِ شوق، پیارے ترے گلاب

روشن جبین، آنکھ میں روشنی کے خواب

کوہ و دَمن ہزار آئیں جو راہ میں

ہر پل رہیں بلند مانندِ آفتاب

 

اے راہروانِ شوق! سب کو پُکار کر

کردار کر بلند، جرأت شعار کر

خیبر شکن سے سیکھ، ظلمت کو پھوڑنا

قلب و جگر سے خوف، اپنے اُتار کر

 

کرب و بلا کو سوچ، زینبؓ کو یاد رکھ

آنسو پَرو مدام، یا دل کو شاد رکھ

اک کام کر ضرور، حق سے نہ مڑ کبھی

اطراف میں ہمیش تو حق نہاد رکھ

 

پھر کور چشم قوم کو تاب دار کر

اس کربلا میں خود کو یوں آب دار کر

عبّاسؓ اور حسینؓ کو پھر پکار کر

اس خاکِ خارزار کو عِطر بار کر

 

اس شہرِ دل نواز کے تم امین ہو

آتی رُتوں میں ایک روشن جبین ہو

وہ گُل جسے بسائے ہر ایک آنکھ

مخلوق جستجو کرے، وہ نگین ہو

 

دُنیا کی انجمن میں مہتاب تم رہو

خاور کی آنکھ کا ہر اک خواب تم رہو

پیر و جواں تمھی سے مانگیں حسین پھول

اے کائناتِ قوم! شاداب تم رہو

٭٭٭

 

 

 

پرانی تصویر

 

کہاں ٹوٹا فسوں رشوت ستانی کا

کہاں بدلا ہے منظر اس کہانی کا

مرے شہروں میں کاروبار ہے اس کا

مرے ایوان میں بیوپار ہے اس کا

خدا کی سرزمیں پر قوم بستی ہے

مگر انصاف کو ہر پل ترستی ہے

لٹیروں کی خدائی ہے ، دُہائی ہے

غریبوں کی کمائی ہے، دُہائی ہے

مُسرت قبضۂ زر دار میں آئی

شرافت پنجۂ بازار میں آئی

ارے خاور ! یہ سچ کہنا پڑے گا پھر

سفارش حلقۂ تکرار میں آئی        ٭٭٭

 

کشمکش

 

ڈوبتی شام کے

سرمئی کیف انگیز منظر سے تحلیل کرنیں

اچانک جدا ہو گئیں

کپکپانے لگا شام کا  دل

کہیں شام کو قتل کرنے کی سازش ہوئی

آسماں کی جبیں پھر

اسی شام کے خون سے مثلِ قوس قزح

دھیرے دھیرے چمکنے لگی

پھر لرزتی زباں کا کوئی قہقہہ

ان لبوں سے اچھلنے لگا

کوئی ہنسنے لگا !!!!!

٭٭٭

 

 

یکسانیت

 

 

آج بھی دُور افق میں درخشاں سورج چھپنے لگا

اشک شفق رنگ ہوئے

شمع تخیل جلنے لگی

اور حصارِ غم میں

قلبِ حزیں خاموش کھڑا ہے

آج بھی منظر لاچاری کا پہلے سا ہے

لمحہ لمحہ بیت رہا ہے

ایک کسک زندہ ہے

 

آج بھی تیری محبت کو

آغوشِ وفا میں لے کر

موجۂ گرداب کی صورت

عشق سمندر کی گہرائی سے ____اُلجھ بیٹھا ہوں

سوچ رہا ہوں

ہجر گزیدہ برگِ شجر

ڈار سے بچھڑا طائر

آنکھ پہ روشن موتی

اور فلک سے ٹوٹا تارا

خاک بسر بے سمت و نشاں

تیرے عہد و پیماں

تلخ حقیقت سے انکار کہاں ؟

٭٭٭

 

 

 

 

فیصلہ

[راشد علی زئی کے لیے ]

 

 

آج پھر بنجر آنکھوں میں خوابوں کے موتی اُگے

ایک مانوس اور مہرباں وقت میں

نخلِ انجیر پر پھول اک دیکھ کر

بھاگ جاگے مرے

لفظ خاموش ہیں ___قلب مسرور ہے

لیکن اِس خواہشوں کے سفر میں

کسی رہ گزر پر پلٹ کر جو دیکھا___ مرے دوست!!

حدِ نظر تک کہیں بھی نہیں تھے

 

ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہا ہے

اپنی فطرت سے مجبور ہو کر___صدائیں لگاتا ہوا واپس آتا رہا

آج بھی خواہشوں کے سفر کا مجھے سامنا ہے

اورسچ ہے یہی

خواہشیں تھک گئیں ناچتے ناچتے ___مگر وقت رکتا نہیں ہے

میں خوش بخت ہوں

وقت نے ایک مہلت مجھے اور دی ہے

سو اَب فیصلہ ہے

کہ مانوس اور مہرباں وقت میں

منزلیں سر کروں

٭٭٭

 

 

 

 

[غزلیں ]

 

تمھاری ذات ہی مختار ہے میرے تخیل کی

مری نظمیں، مری غزلیں، مرے دوہے تمھارے ہیں

خاور چودھری

 

 

 

 

ایک موہوم واسطہ تیرا

دل کی منزل یہ راستہ تیرا

 

میری آنکھوں میں تو مجسم ہے

میری سانسوں میں ذائقہ تیرا

 

تاب سننے کی کون رکھتا ہے

میرے ہونٹوں پہ تذکرہ تیرا

 

یوں تو ہر روز یاد کرتا ہوں

بھول جاتا ہوں راستہ تیرا

 

میری تقصیر صرف اتنی ہے

خود کو سمجھا ہوں آئنہ تیرا

 

مستقل ساتھ کون رہتا ہے

ہاں مگر ایک حادثہ تیرا

 

جُز ترے کائنات میں کیا ہے

اور خاورؔ یہ فاصلہ تیرا

٭٭٭

 

 

 

 

حشر کی دھوپ اور پیاسا تھا

آبلہ پا مگر اکیلا تھا

 

ایک سایہ طلب میں رہتا تھا

وحشتوں کا سراب پھیلا تھا

 

آگ چاروں طرف لگی ہے اب

دل میں کوئی خیال چمکا تھا

 

ایک مہلت ذرا مقدر ہو

خود سے مل کر اُداس بیٹھا تھا

 

دھُول راہوں کی ہو گیا شاید

کل تری جستجو میں نکلا تھا

 

اے اجل! کچھ سکون لینے دے

آج تو زندگی کو دیکھا تھا

 

ایک خاور فقط تماشائی ہے

تا فلک زخم زخم پھیلا تھا

٭٭٭

 

 

 

فروری کا حسین لمحہ تھا

خوشبوؤں نے مجھے پُکارا تھا

 

شہد جیسی وہ بات کرتا تھا

اور لہجہ گلاب جیسا تھا

 

قلبِ ویران میں اندھیرا تھا

مثلِ مہتاب وہ چمکتا تھا

 

سُرخ پھولوں کی اوڑھنی اوڑھے

ہر زمانے میں ساتھ چلتا تھا

 

ہاتھ اُس نے چھڑا لیا ہے اب

وہ جو ’’ ایمان ‘‘ مجھ کو کہتا تھا

 

سرمئی پھول دے گیا ہے وہ

چار جانب عجب اندھیرا تھا

 

دل گرفتہ خراب حالوں کا

کون خاور خیال رکھتا تھا

٭٭٭

 

 

 

دسترس میں نہیں وفا کرنا

کیا کسی اور سے گلہ کرنا

 

پھر وہ شدت سے یاد آئے تو

بھول جانے کا فیصلہ کرنا

 

جب مقدر پہ رشک آنے لگے

اک ذرا اور فاصلہ کرنا

 

کوئی اخلاص سے پکارے تو

دیکھنا، سوچنا، وفا کرنا

 

زندگی ! تیری بے ثباتی نے

ہم سے سیکھا ہے حوصلہ کرنا

 

غم میں اپنا مزاج ہے پیارے

ایک پتھر سے تذکرہ کرنا

 

خاورؔ اپنی تلاش مشکل ہے

کیا کسی اور دیکھنا کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

خون پلکوں پہ رواں پہلے تھا

عشق تیرا کہ جواں پہلے تھا

 

غم ترے سے بہاریں ساری

قلب آباد کہاں پہلے تھا

 

پھر وہ سیلابِ بلا خیز ہوا

ایک آنسو جو نہاں پہلے تھا

 

زخم در زخم محبت اپنی

تو مرا ہے یہ گماں پہلے تھا

 

اب کہیں خاک نشیں ٹھہرا ہے

ایک آنسو نگراں پہلے تھا

 

رات آنکھوں میں کٹی جاتی ہے

عمر کا ایک نشاں پہلے تھا

 

کوہکن، قیس، یہ تیرا خاورؔ

مضطرب کون یہاں پہلے تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دشت و دریا چھان کے چپ رہ گیا

موجِ صحرا تان کے چپ رہ گیا

 

تشنگی ایسی غضب کی تھی مگر

بات تیری مان کے چپ رہ گیا

 

جیت سکتا تھا مقدر سے تمھیں

میں بہت کچھ ٹھان کے چپ رہ گیا

 

زندگی تیری طلب کا نام ہے

تم پہ جیون دان کے چپ رہ گیا

 

ورنہ دریا بھی بھسم کر ڈالتا

تم کو اپنا جان کے چپ رہ گیا

 

حرف آتا عشق پر خاور اگر

بس یہیں پر آن کے چپ رہ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

جو غموں کی دھوپ میں ہم سفر نہیں رہا

منزلوں کی چھاؤں میں معتبر نہیں رہا

 

حسن کے دیار کی خاک چھانتے بنی

اس گلی کا قدر داں بے ہنر نہیں رہا

 

شورشوں کی زد پہ ہوں، تہمتوں کے دام میں

اعتبار خود پہ ہے، در بہ در نہیں رہا

 

اختیار سچ کیا، جھوٹ کو برا کہا

دوستی کی قبر پر عمر بھر نہیں رہا

 

آپ اپنی ذات سے سازشیں روا نہیں

اس ہنر میں جو پڑا معتبر نہیں رہا

 

چھوڑ دیجیے کبھی، مجھ کو میرے حال پر

اب جناب آپ سے در گزر نہیں رہا

 

دشمنوں کے ساز پر دوستوں کا رقص ہے

اعتبار کیا مجھے آپ پر نہیں رہا

 

مضطرب ہزار ہوں، دردِ دل کے ہاتھ سے

اس طرح کا درد تو پیش تر نہیں رہا

 

جب مزارِ عشق پر اک دِیا بھڑک اُٹھا

ایک دل نہیں بجھا، شہر بھر نہیں رہا

 

بھولنا بھلا سہی، خاورِؔ فقیر کو

چھوڑ کر مجھے کوئی معتبر نہیں رہا

٭٭٭

 

 

(ناصر کاظمی کی نذر)

 

 

جلتی دھوپ سے ہار گیا تھا

لیکن سایہ بول رہا تھا

 

سانس کے پہلے بندھن سے ہی

میں نے تم کو مان لیا تھا

 

تیرے ہجر میں شام سویرے

جیتے جی میں آپ مرا تھا

 

میٹھے جھرنوں سے یاد آیا

تیرے ہونٹ سے شہد پیا تھا

 

سب دیواریں گریہ کناں ہیں

آخر دل میں کون بسا تھا

 

تو نے اچھّا یاد دلایا

میں تو خود کو بھول گیا تھا

 

اپنی خواہش ہے اپنا روگ

میں بھی اپنی آگ جلا تھا

 

ریت کے ذرّے چنتے رہنا

اک رو گی نے مجھ سے کہا تھا

 

تیرے وصل میں، میں نے پیارے

تنہائی کا زہر پیا تھا

 

تم سے بچھڑ کر احساس ہوا

میں تو رستہ بھول گیا تھا

 

میں نے تیری آنکھوں میں تو

صرف اپنا چہرہ دیکھا تھا

 

تیرا میرا میل نہیں ہے

میں ماٹی اور تو سونا تھا

 

سوکھی گھاس پہ بیٹھ کے اک دن

ایک برس کو میں رویا تھا

 

تیرے لہجے کی شیرینی سے

اکثر میرا دل جلتا تھا

 

توت کی میٹھی چھاؤں میں

تیری سانس کا لمس پیا تھا

 

آئینہ دیکھا یاد آیا

تم نے مجھ سے پیار کیا تھا

 

بانجھ شجر سے آس لگائے

اتنی دیر سے کون کھڑا تھا

تم کو پیارے ہوش نہیں ہے

اُس نے پیار سے جان کہا تھا

 

رات کی گہری تاریکی میں

تیرے حسن کا جام پیا تھا

 

اپنی دھُن میں کون نہیں ہے

خاورؔ نے خود کو پوجا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

آئنہ مثال تھا نہ رہا

وجہِ ماہ و سال تھا نہ رہا

 

آرزوئے دوستی کیسی

اک ذرا ملال تھا نہ رہا

 

دعویِٰ تعلقات کہاں

کچھ ترا خیال تھا نہ رہا

 

کوئی زندگی تلاش کرے

وہ جسے کمال تھا نہ رہا

 

خاورِؔ سبک مزاج کی خیر

ایک حسبِ حال تھا نہ رہا

٭٭٭

 

 

 

ایک تم ہو کہ بدلتے ہو ٹھکانے کیا کیا

ایک ہم ہیں کہ سناتے ہیں فسانے کیا کیا

 

تیرے گیسو، ترے عارض، وہ بدن کی خوش بُو

مجھ سے حالات نے چھینا ہے نہ جانے کیا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی واقف رموزِ عشق سے ہو

کون آخر یہ بھید کھولے گا

 

سب کے ہاتھوں میں آئنہ دے دو

سچ تو مشکل ہے کون بولے گا

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی اپنا نام کہنا، کبھی تیرا نام لکھنا

کہیں کھل کے صاف کہنا، کہیں صبح و شام لکھا

 

کوئی حرفِ معتبر ہو، کوئی نقشِ ضو فگن ہو

جسے قلبِ خاص کہنا، اسے قلب عام لکھنا

 

کوئی چین کی گھڑی ہو، کبھی غم میں جاں پڑی ہو

جسے اپنی جان کہنا، اسے اپنے نام لکھنا

 

گئے وقت کو سلا کر، نئے وقت کو جگا کر

تمھیں اپنی صبح کہنا، تمھیں اپنی شام لکھنا

 

مرے شوقِ عاشقی کو، مرے ذوقِ زندگی کو

کبھی بندِ حسن کہنا، کبھی گروِ جام لکھنا

 

کسی غم کی داستاں کو، کسی جاں کے امتحاں کو

کہیں چینِ دل ہی کہنا، کہیں زلفِ دام لکھنا

 

جو کوئی ترا بدل ہو، کوئی خاورِؔ سجل ہو

کوئی شمع بزمِ جاں ہو، جسے مہِ تمام لکھنا

٭٭٭

 

 

 

مری جستجو ہے قیامِ شب

کہ ریاضتوں سے مقامِ شب

 

مری عمر بھر کی ریاضتیں

ہیں رہینِ صبح کہ دامِ شب!

 

کبھی زخمِ دل کو ہرا کِیا

کبھی خامشی تھی کلامِ شب

 

تجھے رُو بہ رُو جو بٹھا لیا

تو چھلک پڑا مرا جامِ شب

 

ترے رُوپ سے کھلی چاندنی

ترے عارضوں سے نظامِ شب

 

ترے گیسوؤں کی گھٹا اُٹھی

کہ دیارِ غیر میں دامِ شب

 

مرے رتجگوں کا کمال ہے

مری گفتگو میں کلامِ شب

 

مرے دوست خاورِ بے نوا

تری روشنی ہوئی نامِ شب

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خوابوں کے رُو بہ رُو ہوئی تعبیر مضطرب

پاؤں میں میرے آج بھی زنجیر مضطرب

 

تیری سبک مزاجیِ شہرت کی خیر ہو

دو گام ساتھ جو چلا رہ گیر مضطرب

 

یوں پیار سے نہ دیکھیے محفل میں صاحبو!

ہے یارِ طرح دار کی تصویر مضطرب

 

تیری خوشی کی بات تھی، میں ہونٹ سی گیا

ہوتی امیرِ شہر کی تدبیر مضطرب

 

آزاد انتخاب میں اب بھی نہیں کوئی

رانجھے کی چاہتوں میں دیکھی ہیر مضطرب

 

تیرے حضور آج بھی وہ رُو سیاہ ہے

قاتل تری نگاہ سے شمشیر مضطرب

 

دیکھا مدام جیتتے تقدیر کو یہاں

نیزے پہ جھولتی رہی تدبیر مضطرب

 

سونے کو ہاتھ ڈالیے مٹی ہوئی سدا

خاورؔ رہی ہمیش کیوں تقدیر مضطرب

٭٭٭

 

 

 

 

رُوٹھا نہیں تو کیوں ہوا بیزار آفتاب

دیکھا کبھی کسی نے مرا یار آفتاب

 

رہنے لگا ہوں میں بھی تمھارے بنا اُداس

کیا جانیے نصیب ہو غم خوار آفتاب

 

کس شان سے گزرتا ہے دیکھو تو آج شام

محبوب کی گلی سے سرِ دار آفتاب

 

انسان اس جہان کی ظلمت سے بے قرار

لیکن ترے حضور ہے بیدار آفتاب

 

ہر چند عشق میں ہوا میں بھی تباہ خوب

دیکھا شفق کے پار سرِ دار آفتاب

 

اک حشر کی وہ رات تھی ٹھہری تمام عمر

گویا کہیں ہوا تہِ تلوار آفتاب

 

یُوں تیرے پیار نے مجھے خاورؔ کیا خراب

جاڑے کی سرد صبح میں ہو بے کار آفتاب

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بات خوش بُو تری، خیال گلاب

تو سراپا ہوا کمال گلاب

 

تیری سرکار دست بستہ ہوں

اس طرف بھی کبھی اُچھال گلاب

 

ایک صورت پہ مر مٹا ہوں

بولتا، دیکھتا وہ لال گلاب

 

زخم دل پر ہزار آئیں گے

اور کانٹوں سے تو نکال گلاب

 

عشق نیلام روز ہوتا ہے

روز ہوتا ہے پائمال گلاب

 

میں بھی خاورؔ جواب رکھتا ہوں

مجھ سے پوچھے کوئی سوال گلاب

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نیناں کنول ہیں، چہرہ گلاب

لہجہ غزل ہے باتیں شراب

 

قوسِ قُزح کہ گویا بہار

چہرے سے جو اُٹھایا حجاب

 

تعویذِ عشق پہنائے کون

سب اسم ہو گئے بند باب

 

سب اسم ہو گئے پھر فضول

پھر حسن نے کِیا لاجواب

 

ہونٹوں کی لالیاں دِل نواز

چہرہ چہار دَہ ماہتاب

 

وہ مست آنکھ جیسے طلسم

خاورؔ کہ گروِ سندر شباب

٭٭٭

 

 

 

 

 

الجھے ہوئے سوال و جواب

ہیں ساکنانِ دل کا نصاب

 

چھُونا تمھیں ہوا گناہ

پر دیکھنا ہے کارِ ثواب

 

پانی یقین میں رَچ گیا ہے

لیکن نصیب اپنا سراب

 

اظہارِ عشق پھر کر دیا تھا

سانسوں میں گھل گیا آفتاب

 

کیا معجزہ دکھائے گا حسن

اس انتظار میں ہوں جناب

 

سینے کے داغ دھلنے لگے ہیں

ممکن ہوا جفا کا حساب

 

اُن چشم کے گئے بند ٹوٹ

چھلنی ہوا ہے سینۂ آب

 

اُس بزم سے اُٹھایا گیا جو

میں ہوں وہ خاورِ درد یاب

٭‎‎٭٭

 

 

 

 

 

 

آزردگانِ شہر کی بیعت محال اب

میں جھیلتا رہوں یہ اذیّت محال اب

 

ایسا سلوک کر کہ رہوں عمر بھر یہاں

اس شہرِ دِل نواز میں جرأت محال اب

 

یادوں نے تیری آج بھی میلا لگا دِیا

ہے دشت میں بھی گوشۂ عزلت محال اب

 

تہمت کے خوف سے تری فرقت قبول کی

پھر وصل چاہتا ہوں پہ یہ دولت محال اب

 

میں عمر بھر رہا تری چاہت کے دام میں

گو کھو چکا ہوں عمر، شکایت محال اب

 

تم روز گھومتے تھے، خراماں ادھر اُدھر

ہے دشتِ دِل میں تیری مسافت محال اب

 

دہلیزِ حسنِ یار کا خاورؔ طواف کر

آسودگی کے کام میں غفلت محال اب

٭٭٭

 

 

 

اے موجِ درد یار قناعت محال اب

میں مطمئن ہوں موت سے وحشت محال اب

 

میں بھولنے لگا ہوں حنائی وہ ہاتھ بھی

لب ہائے مضطرب کی وہ جرأت محال اب

 

جھکنا پڑا مجھے کہ مقدر میں مات تھی

بے اختیار ہوں کہ بغاوت محال اب

 

بے ساختہ پڑا ترے ہونٹوں کو چومنا

مسرور یوں ہوا ہوں کہ قناعت محال اب

 

میں دھو چکا ہوں تیری محبت کے داغ بھی

مائل ہو عاشقی پہ طبیعت محال اب

 

مشکل تھا بھولنا پہَ بھلانا پڑا مجھے

بے اعتباریوں میں مروت محال اب

 

نو واردانِ عشق کے چرچے ہیں دم بہ دم

مجھ کو تری گلی سے ہو نسبت محال اب

 

کیوں تری کائنات پہ خاورؔ نثار ہو

منسوب تیرے نام پہ حسرت محال اب

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خاورؔ ہوا نڈھال، مشقت محال اب

ہے انتظارِ وصل میں عبادت محال اب

 

احسان کیا جتائیے خود اپنی ذات پر

آوارگی نصیب تھی، فرصت محال اب

 

برسات آنسوؤں کی ترے وصل میں ہوئی

رسوائیوں کے داغ سلامت محال اب

 

مدہوش اُس طرح نہ ہوا دیکھ کر اُسے

آسیبِ حسنِ یار کی حیرت محال اب

 

اے کاش تیرے ہجر کی لذت نصیب ہو

وہ عاشقی و چاہ کی عشرت محال اب

 

رُوٹھا وہ جب کبھی تو مناتا رہا اُسے

تجدیدِ دوستی کی وہ عادت محال اب

٭٭٭

 

 

 

 

اقرار و انکار پہ وحشت کی ضرورت

اے شہرِ وفا جبرِ مشیت کی ضرورت

 

آوارگیِ شوق نے گھر بار بھلایا

انجامِ سفر میں بھی مسافت کی ضرورت

 

گلیوں میں تری آج بھی پھرتا میں ہوں مارا

مجھ کو تری دہلیز سے نسبت کی ضرورت

 

ملنے پہ مجھے آج وہ تیّار ہوا ہے

الطاف و عنایات پہ حیرت کی ضرورت

 

جو عشق نہیں، ہجر نہیں، یاد نہیں ہے

اے زخمِ جگر آج شکایت کی ضرورت

 

مفہوم نہیں جانتا جو آتشِ غم کا

اُس صاحبِ ادراک سے وحشت کی ضرورت

 

مشّاطۂِ ہستی سے کہو آج یہ خاورؔ

تو ہے تو نہیں مجھ کو قیامت کی ضرورت

٭٭٭

 

 

 

 

بہت چاہا رہے تا عمر نسبت

دِلِ مضطر پہ مائل ہے بغاوت

 

جمالِ یار کے صدقے ملی ہے

مجھے اس زندگانی کی حقیقت

 

جہاں روشن مرے آگے، پہ تیری

اندھیروں میں، اجالوں میں ضرورت

 

یہ دیکھو سادگی چارہ گروں کی

ترے بے تاب کو پند و نصیحت

 

زمانوں کی خبر داری کروں گا

ترے کوچے سے مل جائے جو فرصت

 

بہ اندازِ تخاطب مضطرب ہوں

پہ لہجوں میں مچلتی دیکھ لکنت

 

ادھر بھی اک نظر کیجے، ملے جو

جہانِ خود نمائی سے فراغت

 

مرا ہمدم اگر خاورؔ نہیں ہے

جہانِ رنگ و بو کی کیا حقیقت

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہر صبحِ دل نشیں کو آخر سیاہ رات

اے حسنِ دل نواز کس کو یہاں ثبات

 

اب یوں سہی، تمام دنیا تری اسیر

سایہ ترا تمھی سے پائے گا کل نجات

 

تیرے خلوص کی شرابیں ہوں گر نصیب

پھر جانیے نشے میں جھومے یہ کائنات

 

اے یارِ دِل رُبا ! ترے لمس کے طفیل

چوما ہے خار خار، دیکھا ہے پات پات

 

مقدور میں جہان کی رونقیں ہزار

گزرے وصالِ یار میں جو مری حیات

 

اک لمس تھا، جسے بھلانا ہوا محال

خاورؔ خمارِ لمس گویا ہے شش جہات

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نکہتِ یار، داستانِ حیات

ایک اک پل رہا گمانِ حیات

 

دائروں کی لکیر ٹوٹی تو

مجھ پہ روشن ہوا نشانِ حیات

 

اور چھیڑو ربابِ ہستی کو

رقص کرتے رہو پہ تانِ حیات

 

آسمانوں کی بات کرتے ہو

مانگتے ہو زمین سے آنِ حیات

 

عشق کی کج ادائیوں کے طفیل

حسن ٹھہرا کِیا گمانِ حیات

 

ایک ہونے کی بات ساری ہے

ایک ہو کر ملا نشانِ حیات

 

ایک خاورؔ یہ ہجر کیا کم ہے

ظلم ڈھاؤ نہ اور جانِ حیات

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تیرے تیور، ترا جواب بہت

رنگِ افلاک ہے خراب بہت

 

چھیڑ مطرب وہی رباب حیات

شہرِ دِل میں ہے اضطراب بہت

 

کیوں مقدر کو روئیے پیارے

عمر باقی رہے، شراب بہت

 

دیکھنے کا ہنر نصیب نہیں

شہرِ آباد میں گلاب بہت

 

تیرا احسان یاد کرتا ہوں

اور بڑھتا ہے اضطراب بہت

 

سب نصابوں کو چھوڑ دے خاورؔ

تیرے رُخ کی مجھے کتاب بہت

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اُس نے بدل دئیے جو بیانات چاند رات

ہوتی رہیں مجھی سے شکایات چاند رات

 

انوارِ حسنِ یار کی سوغات چاند رات

مجھ پر ترے کرم کی ہے برسات چاند رات

 

وہ راز دارِ عشق، وہ میٹھے دنوں کے لوگ

اُن سے کبھی تو ہو پہَ ملاقات چاند رات

 

میں ڈھونڈتا رہا تری آنکھوں کے آس پاس

اگلی محبتوں کے نشانات چاند رات

 

اُس شہرِ بے مثال کی گلیوں پہ دِل نثار

یہ شہرِ بے ثبات، مری ذات چاند رات

 

جو بھی محبتوں کے گنہگار ہیں وہ لوگ

کیوں بھولتے رہے وہ عنایات چاند رات

 

اُس صبح کون تھا ترے خاورؔ کے ارد گرد

اب مہربان کون ہے اے رات ! چاند رات

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جینا ہے تو جی میں درد سمو لیں، اچھی بات

دل کی بربادی پر پھر چپ ہو لیں، اچھی بات

 

صحرا صحرا گھومے تھے، اب سو لیں، اچھی بات

اپنی آنکھوں میں پھر خواب پرو لیں، اچھی بات

 

ایک طرف ہے ساری دُنیا، ایک طرف تو ہے

اِس دَر کو چھوڑیں، اُس رَہ پر ہو لیں، اچھی بات

 

کس کو اپنا میت کہیں، یاں کون ہوا اپنا

گزری باتیں دہرائیں اور رو لیں، اچھی بات

 

ویسے ممکن کب ہے، تم کہتے تھے مان لیا

درد اُٹھائیں دنیا کے نہ بولیں، اچھی بات

 

تیرے پیار سے آنکھوں میں اک شہر بسایا تھا

اب کہتے ہو سارے منظر دھو لیں، اچھی بات

 

خاورؔ جی کی باتوں میں آئے برباد ہوئے

دل کے چھالے پھوٹ بہے ہیں رو لیں، اچھی بات

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پتھروں پر ہوئی برسات عبث

خونِ دل تیری یہ سوغات عبث

 

آج بھی پھرتا ہوں مارا مارا

کوچۂ حسن میں دن رات عبث

 

سینۂ یار میں دِل پتھر ہے

دِلِ بے تاب تری بات عبث

 

دِل کی باتیں نہ کہی جاتی ہیں

روز ہوتی ہے ملاقات عبث

 

وہ کلیسا ہو کہ مندر، مسجد

تو نہیں ساتھ مناجات عبث

 

اب یہاں کون سنے گا خاورؔ

صحنِ مقتل میں شکایات عبث

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بہ نامِ حسن ہوئی آج روشنی میراث

بہ نامِ عشق ہے تحریر تیرگی میراث

 

قلندرانہ ترے شہر سے گزرتا ہوں

مقامِ شکر ملی ہے سکندری میراث

 

ترے فراق کا وہ بانکپن سلامت ہے

ترے گدا کو ہوئی آج قیصری میراث

 

میں لوحِ دِل پہ ترا نقش کھینچ سکتا ہوں

ترے خطوط کا حافظ، مصوری میراث

 

ابھی زبان پہ خاموشیوں کا ڈیرا ہے

دیارِ عشق میں آخر سخنوری میراث

 

کسے مجال ترے حسن کے مقابل ہو

جمالِ یار کے قیدی کو عاشقی میراث

 

بلند نغمۂ ہستی نہ ہو سکا خاورؔ

ہوئی رباب کی مستی نہ بانسری میراث

٭٭٭

 

 

 

 

سانسوں کی تیز دھار گر ہو بحال آج

اے جانِ اضطراب کل پر نہ ٹال آج

 

اے رشکِ نو بہار تیرا جمال آج

افسوس! چشمِ عشق ہے بے کمال آج

 

اے تیغِ حسنِ یار، یوں ہو نہ دِل کے پار

میں ہوں ترے نثار، رکھنا خیال آج

 

منظر ہیں گرد گرد، آنکھیں ہیں درد درد

اے شہرِ انتظار جینا محال آج

 

مجھ کو نہیں ہے تاب دیکھوں ترا جمال

چہرہ ترا ہوا شعلہ مثال آج

 

دیوانہ وار شہر میں جھومتا ہے کون

پھر ترکِ عاشقی کا دیکھوں کمال آج

 

ہو لاکھ رزقِ خاک خاورؔ مرا وجود

ممکن نہیں مرے ہنر کو زوال آج

٭٭٭

 

 

 

 

تمہی سے قائم و دائم نزاکتوں کی لاج

تمہی ہو رنگِ بہاراں شباہتوں کی لاج

 

چراغِ عمر اُسی شخص نے کِیا روشن

جس ایک ذات نے رکھّی عداوتوں کی لاج

 

وہ تیغِ حسنِ فراواں جگر کے پار ہوئی

مری نگاہ نے رکھّی عنایتوں کی لاج

 

نصیب وَر نہیں مجھ سا جہانِ خوباں میں

مرے وجود سے قائم صداقتوں کی لاج

 

وصال و ہجر کی دنیا عجیب دنیا ہے

مدام دل کو سکھائے قیامتوں کی لاج

 

وہ حسن، شعلۂ بے باک لپک لپک جائے

تباہِ عشق ہمی ہیں حرارتوں کی لاج

 

یقینِ ذات کی توفیق ہی نہیں ہوتی

نہ ہو نگاہ میں خاورؔ عداوتوں کی لاج

٭٭٭

 

 

 

 

وہ سانس کی لے، وہ تان تاراج

محبتوں کا جہان تاراج

 

ترا تصور، گمان تاراج

گئی رُتوں کے نشان تاراج

 

جس ایک ہستی کی آرزو تھی

اُس ایک صورت پہ آن تاراج

 

تری محبت میں جھومتا تھا

ہوا ترے درمیان تاراج

 

وہ روح کا داغ ہو گیا ہے

کیے مرے جسم و جان تاراج

 

حسین خوابوں کی آرزو میں

ہوئے یقین و گمان تاراج

 

جمالِ خاورؔ ترے تصدق

یہ عشق کی آن بان تاراج

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میرے یار ہوئے ہو سچ مچ

پالن ہار ہوئے ہو سچ مچ

 

امرت سار تری باتیں ہیں

امرت سار ہوئے ہو سچ مچ

 

تیرا ملنا درد، دوا ہے

گل اور خار ہوئے ہو سچ مچ

 

یوں لگتا ہے، دل کٹتا ہے

خنجر دھار ہوئے ہو سچ مچ

 

میں تو جیت سمجھ بیٹھا تھا

میری ہار ہوئے ہو سچ مچ

 

آنکھیں پھر آباد ہوئی ہیں

پھر ملہار ہوئے ہو سچ مچ

 

خط اور خال بھلا بیٹھوں گا

تم دشوار ہوئے ہو سچ مچ

 

خاورؔ پھول کہانی کیا ہے

تم انگار ہوئے ہو سچ مچ

٭٭٭

 

 

 

 

خاورؔ خار ہوئے ہو سچ مچ

تار و تار ہوئے ہو سچ مچ

 

اُجلی آنکھیں، اجلا جیون

کیا گل زار ہوئے ہو سچ مچ

 

ساری ٹھنڈک تم سے ہے

جوئے بار ہوئے ہو سچ مچ

 

روپ سروپ خزانہ تم ہو

گل رخسار ہوئے ہو سچ مچ

 

خود سے ملنا آن پڑا ہے

پھر دو چار ہوئے ہو سچ مچ

 

ہر منظر کا پس منظر ہو

عمر کی تار ہوئے ہو سچ مچ

 

خاورؔ نیلی آنکھوں پر تم

خوب نثار ہوئے ہو سچ مچ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پھر تکیۂ جفا کار ہیچ

زندہ رہا سرِ دار ہیچ

 

میں چھانتا پھرا کل جہاں

دل کا نہیں طرف دار ہیچ

 

خنجر اُتار کر میرے دل میں

دیکھی نہ خون کی دھار ہیچ

 

یوں تو ہمیش بہار آئی

نے میں ہوا ثمر بار ہیچ

 

مجھ سے نہ اُٹھ سکا تھا کبھی بھی

سوغاتِ حسن کا بار ہیچ

 

کیا خوب ادائیں ہیں تمھاری

خاورؔ رہا ادا کار ہیچ

٭٭٭

 

 

 

 

رات، دن، شام، دوپہر مداح

قافلے، راستے، سفر مداح

 

زندگی کی کتاب کے اوراق

زاویے، حاشیے، ہنر مداح

 

پھر کسی دل رُبا کے چرچے ہیں

پھر ہوئے دل کے بام و در مداح

 

پھر تری آہٹوں سے دل جاگا

پھر رہا کون عمر بھر مداح

 

پھر ترے آستاں پہ آیا ہوں

پھر ترے رُو بہ رُو ہنر مداح

 

پھر کہیں رات کو حیا آئی

پھر تری زلف کی، سحر مداح

 

پھر کسی شہر بارشیں اُتریں

اور صحرا زباں مگر مداح

 

پھر کوئی جاں بہ لب ہوا خاورؔ

پھر ہوا عشق در بہ در مداح

٭٭٭

 

 

 

 

گیت، لے، سُر، سخن ہوئے مداح

رُوح کے سب رکن ہوئے مداح

 

شہر، گاؤں، وطن ہوئے مداح

دشت، صحرا، چمن ہوئے مداح

 

ہر رگِ جاں میں بولتا تو ہے

دل، جگر، تن بدن ہوئے مداح

 

آپ اپنے جمال کی مدحت

آنکھ، رُخ، لب، ذقن ہوئے مداح

 

لطف کچھ خاص تو رہا ہو گا

ناز بردارِ من ہوئے مداح

 

اُس دل آرام کے بہت قیدی

اک نہیں تو زمن ہوئے مداح

 

پھر کسی کے حضور میں خاورؔ

دیکھ ! کوہ و دمن ہوئے مداح

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ذکر تیرا کسی بھولی سی کہانی کی طرح

یاد تیری ہوئی بچپن کی نشانی کی طرح

 

اب ترا حسن، ترا حسن نہیں لگتا ہے

عشق موجود تو ہے ایک نشانی کی طرح

 

حسن تیرے سے مری آنکھ کی قسمت جاگی

رُوپ تیرا کہ ہوا صبح سہانی کی طرح

 

غیر کے ساتھ تجھے دیکھ لیا تھا شاید

ہے لہو آنکھ میں بہتے ہوئے پانی کی طرح

 

خود ستائی تو مری جان عذابِ جاں ہے

لفظ خاموش ہوئے آج معانی کی طرح

 

پھر مرے زخم تری یاد سے مہکے جائیں

پھر ہوا عشق سبک سار جوانی کی طرح

 

جو بڑی بات یہاں بول گیا ہے پیارے

خاک میں مل گیا ارژنگ و مانی کی طرح

 

کانچ کا شہر، مرا شہر نہیں تھا پہلے

خاکِ ارژنگ ہوا جلوۂ مانی کی طرح

 

دن اُجلتے تھے ہمیشہ مرے، خاورؔ جیسے

شب مہکتی تھی مری رات کی رانی کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

قریۂ جاں ہے ترے در کی طرح

اور یہ آنکھ سمندر کی طرح

 

پھر تری یاد کی خوش بُو پھیلی

دِل کہ آباد ہے مندر کی طرح

 

غم زمانے کے ہوئے پھر آباد

دل ہوا میرا سمندر کی طرح

 

میری پہچان نہیں ہے مشکل

میرا اندر بھی ہے باہر کی طرح

 

میں شہنشاہِ جہانِ دل ہوں

جاں لٹاتا ہوں قلندر کی طرح

 

میں ہوں اقلیمِ سخن کا وارث

مرتبہ میرا ہے اندر کی طرح

 

خال و خط اور نہیں دیکھے ہیں

نازشِ گل ترے پیکر کی طرح

 

دل کا ارژنگ سجا ہے تم سے

آنکھ مانی کہ ہے آزر کی طرح!

 

اب یہ ہونٹوں پہ تبسم کیسا!

دل ہے اُجڑے ہوئے اک گھر کی طرح

 

میں ترے حسن کا پہلا قیدی

آئنہ ہوں، رہا پتھر کی طرح

 

پھر تری زلف ہوئی دل میں پیوست

پھر اُٹھی آنکھ پہ خنجر کی طرح

 

شاعری ہر کہ و مہ نے کی ہے

کب نبھائی ہے پہ خاورؔ کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل کے طاقوں پہ سجائے رہے روشن مصباح

پھر محبت کی لحد پر ہوئے روشن مصباح

 

کس محبت سے جلے جاتے رہے پروانے

کاش گر دیکھتے اور سوچتے روشن مصباح

 

دل کی توقیر ترے غم سے رہی ہے قائم

یاد تیری سے ہوئے آنکھ کے روشن مصباح

 

ہجر کی رات مسلسل وہ سزائیں کاٹی

لاکھ تدبیر ہوئی نے ہوئے روشن مصباح

 

میرے دشمن نے ہمیشہ ہی اندھیرا رکھا

میری راہوں میں ہوا نے کیے روشن مصباح

 

وہ نہیں، عشق نہیں، چین نہیں ہے خاورؔ

چار جانب مگر اب بھی مرے روشن مصباح

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ پلکوں پہ اپنی سجائیں کہاں تک

لہو اپنے دل کا جلائیں کہاں تک

 

کتاب محبت ہے لکھی غموں سے

لہو کا یہ قصہ سنائیں کہاں تک

 

ترا درد رسوائی بننے لگا ہے

’’ ترے غم کی تہمت اُٹھائیں کہاں تک ‘‘

 

چمن دَر چمن ہیں نظارے ہی تیرے

یہ بارِ محبت اُٹھائیں کہاں تک

 

پکڑنا مرا ہاتھ اور چوم لینا

جگاتی ہیں فتنے ادائیں کہاں تک

 

خفا کیوں ہو خاورؔ یہ اپنی ہے قسمت

وہ روٹھا ہے اُس کو منائیں کہاں تک

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ قہر لمحوں میں خواب مشکل

نہ رتجگوں کے عذاب مشکل

 

جو چھپ گئے ہیں نگہ سے منظر

تلاش اُن کی جناب مشکل

 

یہ تیرہ بختی سدا رہی تو

ضیا کرے آفتاب مشکل

 

نہ پانیوں پر لکھا کرو

سدا سے ہے نقشِ آب مشکل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ترے جمال سے جلوے ادھار لیتا ہوں

میں اپنی صبح کو یوں بھی نکھار لیتا ہوں

 

کبھی تمھیں، کبھی دل کو پکار لیتا ہوں

شبِ فراق کو یوں بھی گزار لیتا ہوں

 

غریبِ شہر تھا لیکن نہ اس قدر مفلس

کہ اب تو اشک بھی میں مستعار لیتا ہوں

 

دل ایک آئنہ اس نو بہارِ ناز کا ہے

اسی سے جلوۂ دیدارِ یار لیتا ہوں

 

میں تری یاد کی وارفتگی میں بے خود ہوں

جب ہوش آئے تو تم کو پکار لیتا ہوں

 

میں راہ گزارِ وفا میں بکھر چکا ہوں مگر

ترے خیال سے کچھ اعتبار لیتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

میری پلکوں پر ستارے جگمگائے تو نہیں

ایک مدت سے وہ مجھ کو یاد آئے تو نہیں

 

چاند راتوں میں مرے دل پر اُداسی چھا گئی

رشکِ صد مہتاب تیرے مجھ پہ سائے تو نہیں

 

ہر طرف کیا رنگ و نکہت کی فراوانی ہوئی

جانِ گلشن صبح دم تم مسکرائے تو نہیں

 

جانے ساحل پر مجھے کس نے ڈبویا، تو بتا

میرے رستے میں کہیں گرداب آئے تو نہیں

 

اے مرے پیماں شکن، الزام تیرے سر نہ ہو

تو نے خاورؔ سے کبھی وعدے نبھائے تو نہیں

٭٭٭

 

 

جان دینا تو کوئی بات نہیں

ہم تری یاد سے گزرتے ہیں

 

ذکر تیرے سے سانس جلتی ہے

تم کو دیکھیں الاؤ بجھتے ہیں

 

ساتھ سایہ بھی چھوڑ جاتا ہے

جب جوانی کے کوس ڈھلتے ہیں

 

زندگی کی سیہ ہتھیلی پر

خواہشوں کے چراغ جلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تیرے غم سے نباہ کرتا ہوں

خود کو آخر تباہ کرتا ہوں

 

حسن بن کائنات میں کیا ہے

عشق کو رُو بہ راہ کرتا ہوں

 

کھول رکھنا کوئی دریچہ تم

دیکھنے کا گناہ کرتا ہوں

 

گو زمیں زاد ہوں، زمیں پرست

آسمان سر براہ کرتا ہوں

 

کون رہتا ہے پاک باز ہمیش

کب میں دن بھر گناہ کرتا ہوں

 

ایک حسین و جمیل مورت سے

پیار میں بے پناہ کرتا ہوں

 

تیری دہلیز چوم لیتا ہوں

روز خاورؔ گناہ کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

من میں خواہش ہی کوئی اُتری نہیں

تم کو دیکھا آنکھ پھر جھپکی نہیں

 

فیصلہ حق میں ترے کیسے کروں !

میں نے کوئی بات جب سوچی نہیں

 

کیوں قفس میں قید ہونے تم چلے !

گُل رُخوں سے دوستی اچھی نہیں

 

خواہشوں کی راکھ چننے کیوں لگے !

رُوح زخموں سے ابھی مہکی نہیں

یوں رگِ جاں سے لہو ٹپکا کِیا

ساونوں کی بارشیں دیکھی نہیں !

 

کیا نئی شاموں کا استقبال ہو!

جگنوؤں کی روشنی ویسی نہیں

 

آپ ناحق روٹھ جاتے ہی رہے

ورنہ پیارے ! بات کچھ ایسی نہیں

 

بے سبب خاورؔ حریفِ جاں ہوئے

ہم فقیروں کو عداوت ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بہ فیضِ عمر رفتہ لامکانی دیکھتے جاؤ

کہاں پر ختم ہوتی ہے کہانی دیکھتے جاؤ

 

محبت ایک تہمت کے سوا کیا ہے مگر پھر بھی

بہ فیضِ زندگانی، شادمانی دیکھتے جاؤ

 

زمانے بھی جسے معلوم، لمحے بھی عیاں جس پر

تم اپنے بے زباں کی بے زبانی دیکھتے جاؤ

 

سرِ محفل تری باتیں زباں پر آ گئیں لیکن

سنانی کون سی اور ہیں چھپانی دیکھتے جاؤ

 

مروت کیش ہے وہ، با وفا اس سا نہیں کوئی

فقط تم میرے اشکوں کی روانی دیکھتے جاؤ

 

کوئی حسرت نہیں باقی، نہیں تم سے کوئی شکوہ

پر اتنا ہے زوالِ زندگانی دیکھتے جاؤ

 

تری زنجیر سے آزاد ہونے کے لیے خاورؔ

مجھے ہوتی ہے کیسے کامرانی دیکھتے جاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسی کی آگ میں جلنا پڑا تو

سمندر ہجر کا پینا پڑا تو

 

ابھی آواز میں جادو بہت ہے

جو ہونٹوں کو کبھی سینا پڑا تو

 

یہ کس نے کہہ دیا تم روشنی ہو

اندھیروں میں اگر رہنا پڑا تو

 

جو اندھوں پر حکومت کر رہے ہیں

مقابل دیدۂ بینا پڑا تو

 

ابھی تم ہو اناؤں کے فلک پر

زمینوں پر کبھی جینا پڑا تو

 

چلو اک دوسرے کو بھول جائیں

بجھے دل ساتھ چلنا پڑا تو

 

ارے خاور ! ابھی رو لے خوشی سے

کسی کے ہاتھ سے رونا پڑا تو

٭٭٭

 

باپ کی میراث جیسے تقسیم ہو

بٹ گئی خاورؔ سہاروں میں زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

زلفِ جاناں میں سنور کر دیکھو

قریۂ شب سے گزر کر دیکھو

 

ذکرِ گرادبِ الم کیسے ہو

جاننا چاہو اُتر کر دیکھو

 

نکہت و نور ہے دریا دریا

تم اُتر کر کہ اُبھر کر دیکھو

 

کتنا مشکل ہے بکھرنا پیارے

نکہتِ گل سا بکھر کر دیکھو

 

کتنا پُر کیف ہے یہ عالمِ شب

شب کو پلکوں میں سحر کر دیکھو

 

مثلِ خاورؔ ہی ضیا پاؤ گے

میری پلکوں پہ اُبھر کر دیکھو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شام ڈھلنے کی آرزو کیجے

زندگانی کو رُو بہ رُو کیجے

 

ذکر کرنا ہے چار سو کیجے

اور لازم ہے ہو بہ ہو کیجے

 

شہرتوں کی ہوس میں نکلے تھے

اب تمنا ہے سرُخرو کیجے

 

زورِ بازو پہ جو بھروسہ ہے

کیوں سہاروں کی آرزو کیجے

 

آئنہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

دل کے مجرم کو رُو بہ رُو کیجے

 

کیا لطافت ترے سخن کی کہیں

جیسے شعلوں سے گفتگو کیجے

 

ایک لاحاصلی کا غم ہے مگر

کب تلک مرگِ جستجو کیجے

 

صبحِ نو کی طلب میں نکلیں گے

کچھ ستاروں سے گفتگو کیجے

 

اس کو احساس ہی نہیں خاورؔ

کیا تماشائے رنگ و بو کیجے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

زندگی کا ثبات مانگیں گے

مَہ جمالوں کا ساتھ مانگیں گے

 

اُس گلی کے اصول ہیں معلوم

ہم بھی اپنی حیات مانگیں گے

 

سب اُجالوں کو چھوڑ کر پیارے

تیری زلفوں کی رات مانگیں گے

 

ساری دنیا کو جیت کر آخر

تیرے کوچے میں مات مانگیں گے

 

جب کوئی پیاس بھی نہیں ہو گی

آنسوؤں کا فرات مانگیں گے

 

ایک لمحے میں دم نکلتا ہے

کیا کسی سے حیات مانگیں گے

 

جان و دل پھر نثار کر کے ہم

پھول والوں کا ہات مانگیں گے

 

کہکشاؤں کی بات کیا خاورؔ

ہم تو یہ کائنات مانگیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

طاقِ ابرو پہ اُٹھے زیر و زبر کے چرچے

اور آنکھوں میں رہے تیز بھنور کے چرچے

 

دل نے ٹھانی ہے ترے حسن پہ مر جانے کی

ہم نے غیروں سے سنے رختِ سفر کے چرچے

 

تیری نظروں کے ہوئے تیر جگر میں پیوست

دم بہ دم آج ہوئے تیرے ہنر کے چرچے

 

تیری دہلیز پہ دل وار دیا تھا ہم نے

آج سنتے ہیں پہ غیروں سے اُدھر کے چرچے

 

اب سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں دل اپنا

شہر در شہر رہے میرے ہنر کے چرچے

 

دخترِ رز نہ بنی یار کے آگے تیری

بزمِ رنداں میں رہے خواب نگر کے چرچے

 

ایک خاورؔ کو نہیں عشق سے فرصت لیکن

شہر میں عام ہوئے رنگِ سحر کے چرچے

٭٭٭

 

 

پلِ صراط پہ چلنا ہنر سا لگتا ہے

یہ راستہ بھی تری رہ گزر سا لگتا ہے

 

تیری تو سنگ سی آنکھوں ہیں، بارشیں کیسی!

میں خشک شہر کا باسی ہوں، ڈر سا لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اپنے کل کو سنوارتے رہتے

جیت کر تم کو ہارتے رہتے

 

وجہ کچھ تو ضرور ہوتی ہے

کیسے ممکن تھا ہارتے رہتے

 

ایک لمحے کی بات ساری ہے

کیسے صدیاں گزارتے رہتے

 

جانتے، بوجھتے مگر پھر بھی

تو جو ملتا پکارتے رہتے

 

لاکھ موقعے نصیب ہو جائیں

زندگی تم پہ وارتے رہتے

 

سارے رنگوں میں تو جھلکتا ہے

کس کو خاورؔ پکارتے رہتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میری آنکھوں میں خواب رکھتا ہے

مستقل اک عذاب رکھتا ہے

 

کتنا ہی شاہ خرچ ہے لیکن

چاہتوں میں حساب رکھتا ہے

 

دل بھی روشن خیال ہے کتنا

اپنے ہر سو گلاب رکھتا ہے

 

مجھ پہ مرنے کی بات کرتا ہے

دعوے مثلِ حباب رکھتا ہے

 

جانتا ہے اسیر ہوں اُس کا

پھر بھی نظرِ عقاب رکھتا ہے

 

کوئی تو ہے فقط مرا خاورؔ

آپ اپنا جواب رکھتا ہے

٭٭٭

 

 

 

تیری زلف کے ٹھنڈے سائے

جیسے چمن میں بادل چھائے

 

میرے ہمدم، میرے ساتھی

یاد کے گہرے گہرے سائے

 

بند آنکھوں میں سپنے جاگے

’’ امّیدوں سے دھوکے کھائے ‘‘

 

زلفیں بکھریں اندھیرا چھایا

کیسے کوئی اب گھر جائے

 

تنہا تنہا رو گی خاورؔ

تیری گلی سے ہو کر آئے

٭٭٭

 

جب گھڑی کوئی گراں ہوتی ہے

شاعری وردِ زباں ہوتی ہے

 

تتلیاں آنکھ مچولی کھلیں

یاد تیری نگراں ہوتی ہے

 

دوستی دوست بڑے لوگوں کی

خود کشی سے بھی گراں ہوتی ہے

 

زندگی لاکھ پکارے لیکن

مجھ سے مانوس کہاں ہوتی ہے

 

دل میں رہتے ہو، اسے مت توڑو

پھر یہ تخلیق کہاں ہوتی ہے

٭٭٭

 

عشق میں اک گھڑی پُر خطر آتی ہے

جان اپنی ہی جاں سے گزر آتی ہے

 

لاشِ غم کو حروفِ کفن کب ملا

درد کی بات دل میں اُتر آتی ہے

 

شیشۂ شب میں کیسے دکھاؤں تمھیں

لمحہ در لمحہ کیسے سحر آتی ہے

 

کُو بہ کُو بکھرا ہوں میں ترے واسطے

راہ میں جیسے گردِ سفر آتی ہے

 

آسماں تیرا خاورؔ کہاں کھو گیا

اب ضیا کیوں کہیں اور اُتر آتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

شاخ در شاخ گھر کیے میں نے

دن سہانے کدھر کیے میں نے

 

آخری بات طے نہیں ہوتی

دل میں کتنے ہی دَر کیے میں نے

 

سیپیاں چن کے تیری یادوں کی

شعر اپنے گُہر کیے میں نے

 

ایک ہی بار وہ ملا مجھ سے

رتجگے عمر بھر کیے میں نے

 

یہ بھی الزام ہے کہ زندہ ہوں

ورنہ دن کب بسر کیے میں نے

 

آج خاورؔ بھلا دیا اُس کو

رشتے صرفِ نظر کیے میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بانجھ آنکھوں کے خواب مانگے ہے

کوئی مجھ سے گلاب مانگے ہے

 

سانس لینے پہ بندشیں رکھ کر

زندگی کا حساب مانگے ہے

 

کون چاہے گا رات بھر رونا

کون دن بھر عذاب مانگے ہے

 

اپنی آنکھیں جو پھوڑ آیا تھا

مجھ سے میرے وہ خواب مانگے ہے

 

پتھروں سا نصیب ہے پیارے

دل مگر آب و تاب مانگے ہے

 

عمر پیاسی ہی کٹ گئی خاورؔ

اور دنیا سراب مانگے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نشاطِ وصل میں پتھر سا حال اُس کا ہے

کئی دنوں سے مسلسل خیال اُس کا ہے

 

گئی رتوں میں بھی اکثر عذاب اُس سے تھے

نئے زمانے میں دل کو ملال اُس کا ہے

 

لطیف لمحوں کی تخلیق کب ہوئی مجھ سے

غموں کے لطف میں سارا کمال اُس کا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مدتوں بعد تم کو دیکھا ہے

حادثہ دل پہ یہ بھی گزرا ہے

 

اپنی آواز ہی پلٹ آئی

میں نے جب بھی تمھیں پکارا ہے

 

جانیے بات کیا ہوئی خاورؔ

آج موسم اداس کتنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آج کاشی کے صنم بھی جاگے

ساتھ پھر دیر و حرم بھی جاگے

 

پا بہ جولاں جو چلے تھے اُن کے

خاک پر نقشِ قدم بھی جاگے

 

سچ کی خاطر مٹے اہلِ جنوں

تب یہ قرطاس و قلم بھی جاگے

 

کاسۂ آس اُٹھا رکھا ہے

کاش کوئی تو حَکم بھی جاگے

 

اب مگر تارِ نفس ٹوٹ گیا

جب تلک دم تھا بہم بھی جاگے

 

رُوح کو آگ پلائی خاورؔ

تب ضیاؤں کے عَلم بھی جاگے

٭٭٭

 

 

 

 

تو دشمنِ قرار ہے نہ قاتلِ بہار ہے

نصیب ظلمتوں میں ہے حیات داغ دار ہے

 

لہو لہو جوانیاں، ستم زدہ کہانیاں

یہ زندگی عجیب ہے کہ سانس مستعار ہے

 

ہوئیں تباہ رونقیں جو آدمی کے دم سے تھیں

اب آدمی کے حال پر نگاہ شرمسار ہے

 

امیرِ شہر جو خفا مرے کلام پر ہوا

ستم ظریف گر نہیں تو کیا وفا شعار ہے

 

سوال پیچ تاب میں، جواب پیچ تاب میں

خیالِ حسنِ یار ہے کہ مستیِ خمار ہے

 

یہ ماہ و سال بھی خفا، بہار اور خزاں خفا

صبا، مہک، کلی و گل، اداس برگ و بار ہے

 

خیالِ صبح و شام سے، یہ دل گیا ہے کام سے

تصوّروں کی راہ پر غموں کی اک قطار ہے

 

جو اشک اشک بہہ چکا، یہ خونِ دل جو تھم چکا

تو کہہ دیا سکون سے، تو خاورِ فگار ہے

٭٭٭

 

 

 

جو کھو دِیا اعتمادِ الفت، تو چاہتیں بھی غریب ہوں گی

وصال لمحے اُداس ہوں گے، سیاہ راتیں نصیب ہوں گی

 

تو اس سے پہلے یہ سوچ لینا، میں ساتھ تیرا نہ دے سکوں گا

ہزار قربت تو چاہے گا پر جدائیاں ہی قریب ہوں گی

 

میں تیرگی کا اُجاڑ کھنڈر، تو روشنی کا حسیں محل ہے

یہ مان جاؤ رفاقتیں پھر کہاں سے پیارے نصیب ہوں گی

 

نہ جاں سے سایہ جدا ہوا ہے، نہ پھول خوش بُو خفا رہے ہیں

جو تم کو ہم سے جدا کریں وہ، قیامتیں بھی عجیب ہوں گی

 

لُٹی لُٹی سی بُجھی بجھی سی، یہ سر بریدہ وفا ہے خاورؔ

محبتوں کے سفر میں آخر، مسافتیں ہی طبیب ہوں گی

٭٭٭

 

 

 

 

مرا ہو کر مرا ہوتا نہیں ہے

وہ مجھ سے رابطہ رکھتا نہیں ہے

 

عجب حالات ہیں ان بارشوں میں

کہ آنسو آنکھ میں رکتا نہیں ہے

 

انا کے پیکروں کو ٹوٹنا ہے

مقدر میں لکھا کیا کیا نہیں ہے

 

ردائے امرتِ غم اوڑھنا کیا

بدن کی راکھ کو جڑنا نہیں ہے

 

مری تخلیق تو شہکار ہو گی

مری تقدیر کو بننا نہیں ہے

 

مرے پیچھے اندھیرے کیوں نہ پڑتے

مجھے خاورؔ نظر آتا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اپنی عمر کٹ گئی، تیرے دن گزر گئے

تم بھی پار جا رُکے، ہم یہاں ٹھہر گئے

 

تم کسی کے ہو گئے، خود ہی پہل کر گئے

اپنے اشک پونچھ لو، ہم کہاں سے مر گئے

 

ٹھہرے پانیوں سا ہم، اک جگہ رُکے رہے

جب چلے تو یوں چلے، جان سے گزر گئے

 

دُوریوں کی دھوپ میں پھر سلگ کے رہ گئے

ضبط و احتیاط کے مرحلے گزر گئے

 

چشمِ حس سلگ اُٹھی برہنہ شعور کی

تتلیوں کے جسم سے پیرہن اُتر گئے

 

مستقل اُداسیاں وجد آفریں ہوئیں

سلسلے فراق کے جانیے کدھر گئے

 

بزدلوں کے شہر میں ڈھونڈتا رہا وفا

میری ساری عمر کے، رائے گاں سفر گئے

 

خاورؔ اپنے ہونٹ سی پتھروں کا شہر ہے

وہ مزاج آشنا جانیے کدھر گئے

٭٭٭

 

 

 

 

جس کے تُو قریب ہے

کتنا خوش نصیب ہے

 

آپ وجہ درد ہے

آپ ہی طبیب ہے

 

دل سلگتا رہتا ہے

دھوپ سا نصیب ہے

 

سیکھ ہم سے عاشقی

لطف سے رقیب ہے

 

تو بھی زندگی سے مِل

تیرے تو قریب ہے

 

روز و شب کا سلسلہ

تم سے بھی عجیب ہے

 

کل تھا شہریار جو

آج وہ غریب ہے

 

اشک سے نباہ کیا

اشک تو نقیب ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ترے عشق کو رہنما کر لیا ہے

تری یاد کو آسرا کر لیا ہے

 

تخیل، تکلم، تنفس میں تم ہو

ترے حسن کا کیا نشہ کر لیا ہے

 

ترا چہرہ آخر ہے اُترا ہوا کیوں

کسی ماہ رُخ کو خفا کر لیا ہے

 

بنے زائچے کتنے قرطاسِ دل پر

کسی زہرہ وش کو خدا کر لیا ہے

 

ان آنکھوں کو پیارے اندھیروں کو خاطر

سرِ شام ہم نے دِیا کر لیا ہے

 

تمھیں چاہنے کے صلے میں مری جان

سبھی دوستوں کو خفا کر لیا ہے

 

کہیں دل کو چین اب نہیں آتا خاورؔ

اُسے پا کے غم کو سوا کر لیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہیں ہزار عشق میں محو، کمال تک نہ پہنچے

ہوئے خوش گلو ہزاروں پہ بلالؓ تک نہ پہنچے

 

تری ذات وجۂ عزت، ترا نام ورد اپنا

تری جستجو میں ٹھہرے، ترے حال تک نہ پہنچے

 

تری بزم خوش نما میں، یہ عجیب سلسلہ ہے

وہ جواب دے رہے ہیں، جو سوال تک نہ پہنچے

 

کوئی ہیچ سا وہ نکتہ، کوئی عام سا اشارہ

وہ جو گروِ بال و پر ہیں، مرے بال تک نہ پہنچے

 

جو رہینِ عاشقی تھے، جو دلیلِ صبحِ روشن

تری دید کے وسیلے، خط و خال تک نہ پہنچے

 

مرے شہر کا مقدر، تہِ آب آ گیا ہے

وہ سبیل کر خدایا ! کہ زوال تک نہ پہنچے

 

کوئی لفظ ضو فگن ہو، کوئی بات معتبر ہو

میں یہ کیسے مان جاؤں، وہ کمال تک نہ پہنچے

 

نِگَراں ہوا ستارا، مری چشمِ خواب رُو کا

کہ اُٹھاؤ ہاتھ خاور ! یہ ملال تک نہ پہنچے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مرے چمن سے عجب سی ہوا گزرتی ہے

حَسیں رُتوں میں وہ موجِ بلا گزرتی ہے

 

خیال و فکر میں واضح لکیر آئی ہے

حریمِ لفظ سے نیکی خفا گزرتی ہے

 

زمین سخت، فلک دُور، خواہشیں پتھر

قیامتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے

 

کہ چھُو رہے ہیں، فلک کو ہوس پجاری، اور

نہیں خبر کہ زمینوں پہ کیا گزرتی ہے

 

نئی رُتوں کو چلو پھر سے آزما لو تم

مری فضاؤ ! معطر صبا گزرتی ہے

 

زبان خشک پہ خاور ! یہ آنکھ دریا ہے

مرے خدا ! ترے دَر سے دُعا گزرتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ٹھنڈا سورج پر تاثرات

 

 

شمس الرحمان فاروقی

” Thanks a great deal for sending me "Thanda Suraj”, your excellent collection of poems. I read it from here and there and enjoyed it immensely. I am sure you have a bright future as a poet. I send you my best wishes and prayers.”

 

محسن بھوپالی

’’خاور نے نہ صرف ہیئت کی پابندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے کامیاب ہائیکو لکھے ہیں، بلکہ ہائیکو کے مزاج اور مضامین کو نہایت خوبصورتی سے برتا ہے۔

’’ٹھنڈاسورج‘‘ ہائیکو کا ایک اہم مجموعہ ہے، میں اسے ہائیکو کی سبدِ گل میں ایک تازہ پھول کا اضافہ سمجھتا ہوں، جو اہل نقد و نظر کی توجہّ بھی حاصل کرے گا اور قارئین کی دادوتحسین کا مستحق ہی نہیں حق دار بھی ٹھہرے گا۔ ‘‘

 

ڈاکٹرحسرت کاسگنجوی

’’مجھے جس چیز نے متاثر کیا وہ آپ کا شعری جذبہ ہے۔ آپ کی شاعری عام روایتی شاعری سے قدرے ہٹ کر ہے۔ نئی نئی تراکیب اور ان کی بندش نے ایک نیا احساس پیدا کیا ہے۔ بہت سے الفاظ آپ نے روایتی معنوں کے علاوہ استعمال کر کے کیفیت، جدیدیت اور غنائیت کو جلا بخشی ہے۔ غور و فکر کی دعوت کے علاوہ ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کیا ہے۔ ہمارے اکثر شعرا کرام نے بعض الفاظ اچھوت بنا کر شاعری سے دیس نکالا دے دیا تھا۔ آپ نے نئی نئی بامعنی تراکیب اور ان کے موزوں ترین مفاہیم سے ایک نیا میدان سرکیا ہے۔

عشق اوراس کی وجدانی کیفیت کو جدید اور حقیقی معنوں میں لیا ہے، آپ کا انداز حقائق اورسچائی سے زیادہ نزدیک ہے۔ احساس کی شدت سے آپ نے جو فضا پیدا کی ہے اس کے اثرات دیرپا ہیں، اس میں ایک نیا رنگ اور آہنگ موجود ہے۔

یقیناً آپ الفاظ سے نہیں کھیلے ہیں نہTarot کیا ہے، بلکہ ایک خاص جذبے اور ماحول سے جان ڈالی ہے۔ آپ کے بعض ہائیکو تو بار بار پڑھنے اورسردھننے کے انداز میں ہیں، انھیں عرصے تک بھلایا نہ جا سکے گا۔ ‘‘

 

ڈاکٹرانیس الرحمان

’’ٹھنڈاسورج‘‘ان ہائیکو اور ماہیوں سے مرصع ہے، جن میں صاحب کتاب کے علاقے کی مہک، ثقافت کی جھلک، حسنِ فطرت کی عکاسی، فکر و فن کی دلآویزی اور رومانوی کیفیات، رنج و ملال کے احساسات وانسانی جذبات کے اظہارکاسلیقہ و اث رآفرینی واضح طور پرمحسوس کی جا سکتی ہے۔ ‘‘

 

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

’’آپ نے بہت عمدہ ماہیے کہے ہیں اور ہائیکو بھی۔ ‘‘

 

ڈاکٹرعبدالعزیزساحر

’’آپ کے کلام میں بیسیوں ماہیے اورہائیکوایسے ہیں، جو از دل خیز د در دل ریزد کی عمدہ مثال ہیں۔ آپ کے مجموعۂ کلام نے مجھے خوش وقت کیا۔ ‘‘

 

نصر ملک(کوپن ہیگن، ڈنمارک)

’’ آپ کی ہائیکو پڑھ کر لطف آ گیا۔ بخدا ایک سے بڑھ کر ایک۔ استعاراتی کوزوں میں دانشمندی کے موتی بند۔ ہر ایک کا اپنا رنگ۔ ہائیکو جاپان کے بعدپاکستان میں سب سے زیادہ لکھی جا رہی ہے اور اس کی مقبولیت بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ تین مصرعوں میں مدعا کو باندھ کر پیش کر دینا ایک محنت طلب عمل ہے اور اظہار کا یہ طریق ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ آپ ماشاء اللہ اس فن میں بہت آگے بڑھ رہے ہیں۔ تین مصرعوں میں سوچ کے اتنے گہرے پن کا اظہار فن پر آپ کی گرفت کا نتیجہ ہے۔

میں جاپانی ہائیکو کے انگریزی تراجم پڑھتا رہتا ہوں اس لیے اس فن کی گہرائی اور گیرائی سے اپنی حد تک خوب آگاہ ہوں۔ ‘‘

 

شوکت واسطی

’’ماہیا ہمارے اپنے دیس کی سوغات ہے۔ اس میں اپنائیت کی خوشبوسی ہوتی ہے اور کوئی پاکستانی یاہندوستانی کسی بھی حصۂ پنجاب کا ہے، اس کا جائز وارث ہے۔ لہٰذا وہ اس میں لڑکھڑا نہیں سکتا۔ آپ جیسے ہوشیار اور تجربہ کار ماہیا نگار بالیقین اس صنف کے پاسدارہیں، اسے پروان چڑھا رہے ہیں۔ ‘‘

 

اکبر حمیدی

’’اس مجموعے میں بہت سے ہائیکو اور ماہئے دامنِ فکر کو پھولوں سے بھر دیتے ہیں۔ میں نے انہیں پڑھ کر بہت لطف لیا۔ یہ مجموعہ فکر اور جذبوں سے بھری ہوئی رنگارنگ شاعری پیش کرتا ہے۔ ‘‘

 

امین خیال

’’ٹھنڈاسورج اپنی خوبصورت شاعری کے ’’نِگھ‘‘سے نہال کر گیا۔ آپ نے اچھی ہائیکو اور بہت ہی اچھے ماہیے لکھے ہیں۔ ‘‘

 

پروفیسرہارون الرشید

’’خاور چودھری ایک ذہین لکھاری ہیں، لکھنے کا عمل ان کے خون میں تیرتا ہے۔ وہ لفظ کی اہمیت سے آگاہ ہیں، اور یہی احتیاط ان کے ہائیکوز کا بنیادی وصف ہے۔ ’’ٹھنڈاسورج‘‘ میں انہوں نے جو تجربات کیے ہیں، وہ ان کے گہرے مطالعے، کڑے مشاہدے اوروسیع سوچ کے حامل ہیں، ان کے ہاں جدّت بھی ہے اور فطرت کی سچائی کی کھلی عکاسی بھی۔ ‘‘

 

پروفیسرشوکت محمود شوکت

’’خاور چودھری نے ہائیکو کے مصرعوں کی بنت کچھ اس طرزسے کی ہے کہ ہم فخرسے ان کے اردو ہائیکو کا تقابلہ جاپانی زبان میں کہے گئے ہائیکوسے کر سکتے ہیں۔ یعنی خاور چودھری کے طبع زادہائیکوکسی طور بھی جاپانی زبان میں کہے گئے ہائیکوسے کم نہیں۔ ‘‘

 

اشرف خان اشرف

’’خاور چودھری اپنے فن میں کامل اوراسے سنوارنے کے ہنرسے آشنا ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے ہائیکو توانا اورتاثیرسے بھر پور ہیں، ان کے لہجے میں ندرت بھی ہے اور کہنے کاسلیقہ بھی ہے۔ ان کے یہاں افکارومسائل جمالیاتی قدروں سے ہم آہنگ ہو کر نہایت خوبصورتی کے ساتھ شعری پیکر میں ڈھلتے ہیں۔ خاور تاریخی شعور اور عصری آگہی کے حامل شعراء میں سے ہیں۔ اور ان کے اندر تخلیقی انہماک، فکری ترنگ، جدیدحسیت اور جذبوں کی انوکھی امنگ کی ایک حسین و دلکش دنیا آباد ہے۔ ‘‘

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید