فہرست مضامین
- لمعاتِ نظر
- محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی
- یادِ شہِ دو عالم سے دل میں ہے چراغاں
- خود کو مصروفِ ثنائے شہِ شاہاں کر لوں
- نعتِ رسولِ پاکؐ ہے یوں تو بہت محال
- یادِ نبیؐ سے میرے تصور میں جزر و مد
- یہ بے ہنر نہیں ہے کارِ ثنا کے لائق
- لکھتا ہوں دوسری میں ثنا اک ثنا کے بعد
- شہنشاہِ دو عالم سے محبت بڑھتی جاتی ہے
- نگاہِ رحمتِ حق میرے دل پہ ہوتی جاتی ہے
- خارج از امکاں ہے تکمیلِ بیانِ مصطفیٰؐ
- کیفِ یادِ حبیب زیادہ ہے
- گرچہ زور اپنا لگائیں سب ثنا خوانِ رسولؐ
- زِ فضلِ خاص خدائے محمدِؐ عربی
- اے اشہبِ قلم یہ ہے نعتِ شہِ شہاں
- رکھتا نہیں ثنائے نبیؐ کی میں دستگاہ
- نبیؐ کی ذات پہ یہ بحث و گفتگو کیا ہے
- مائلِ مدحت ہے آج اپنی طبیعت مرحبا
- یہ دل پر فضلِ ربی کا اثر ہے
- نبیؐ کی نعت لکھیں تھا نہ حوصلہ ہم کو
- نعتِ شہِ دیں کا مجھے یارا تو نہیں ہے
- جب سے کچھ ہوش سنبھالا ہے جبھی سے ہم کو
- کلی چٹکی کھلے گل اور لی سبزہ نے انگڑائی
- موجبِ صد خیر و برکت باعثِ تسکینِ جان
- اک تسلسل ہے کہ ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا کبھی
- دل افروزی کا باعث ہے تقاضائے محبت بھی
- خدمت میں ہے اس کی یہ مرا ہدیۂ اشعار
- کب ہوئے عہدہ بر آ اہلِ قلم اہلِ سخن
- ذرۂ ناچیز کیا یہ وہ شہِ عالم کہاں
- لکھنے بیٹھا ہوں میں توصیفِ رسولِ نامدار
- ہے کسی فردِ بشر کو کب یہ حاصل مقدرت
- جذبۂ عشقِ خیر الوریٰ چاہئے
- میں بساطِ شاعری کا نہیں کوئی فردِ ماہر
- خدا کا بندۂ محبوب ہے ختم الرسل ہے وہ
- نہیں ہے دم خم کسی میں اتنا ثنا نبیؐ کی جو لکھے کامل
- آج پروازِ تخیل سوئے آں دلدار ہے
- روح کی بالیدگی اور دل کی فرحت کے لئے
- قلب یکسو ہے مرا عالمِ تنہائی ہے
- لکھتا ہی رہوں سیدِ کونین کی مدحت
- رہے گا غلغلہ تیرا جہاں میں ہم نہیں ہوں گے
- شمیمِ جاں فزا لائی، پھری گلشن میں اترائی
- فکر دوں پرواز ہے عقلِ بشر محدود ہے
- بیان ہے لبوں پر شہِ انس و جاں کا
- حس شعر کی ہے مجھ کو جوں آٹے میں ہو نمک
- وہ چہرۂ دلکش صلِّ علیٰ وہ سیرتِ اقدس کیا کہنا
- نورِ چشمِ آمنہ عظمت نشاں بنتا گیا
- دل ہم سے مقتضی ہے ثنائے حضورؐ کا
- اوجِ فلک پہ مہرِ درخشاں تمہیں سے ہے
- نظامِ آفرینش کا تو ہی عنوان ہے ساقی
- سلام، تضمین، نظم، قطعات
- سلام
- سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
- سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
- یومِ میلادِ حضرتؐ پہ لاکھوں سلام
- نورِ چشمِ آمنہ اے ماہِ طلعت السلام
- تضمین: صل اللہ و علیہ و سلم
- تضمین: بلغ العلیٰ بکمالہٖ
- تضمین: الصبح بدا من طلعتہٖ
- میرا نبی وہ ہے کہ محمدؐ کہیں جسے
- اے وہ نگار خانۂ ہستی کے نقشِ اولیں
- محمدؐ ابنِ عبد اللہ قریشی
- مرا نبیؐ
- قطعات
- سلام
- حصۂ مناقب
- نذرِ امام حسینؓ
- عقل میں کہاں طاقت علم میں کہاں وسعت
- لے آئی کہاں مجھ کو خیالات کی زنجیر
- کوئی کہاں ہے مثلِ حسینؓ ابنِ بو ترابؓ
- اللہ اللہ کون ہو گا مرتبہ دانِ حسینؓ
- لہو لہو کہ سراپا ہے داستانِ حسینؓ
- حیدرؓ کہ نورِ عین فلک بارگاہ کی
- حق مدح کا ان کی نہ ادا ہو گا بشر سے
- ہیں راہِ منقبت میں ہزاروں ہی پیچ و خم
- جو لکھنا ہے اسے توصیفِ شبّر
- قطعات
لمعاتِ نظر
حصہ چہارم
محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی
یادِ شہِ دو عالم سے دل میں ہے چراغاں
پھر آج مرحبا ہوں اس کے لئے ثنا خواں
وہ خاتمِ نبوت وہ تاجدارِ ذیشاں
وہ قبلۂ دو عالم و کعبۂ دل و جاں
وہ فخرِ مرسلیں ہے وہ نازِ پاک بازاں
وہ نورِ انجمن ہے وہ شمعِ بزمِ خاصاں
دیکھے تو کوئی کیونکر ان کا وہ روئے تاباں
رعب و جمال سے ہے سب کی نگاہ لرزاں
مشکِ ختن ہٹاؤ حاجت نہیں ہے چنداں
دل میں بسی ہوئی ہے خوشبوئے زلفِ پیچاں
صد ہا بتوں کی پوجا کرتا تھا ایک انساں
گمراہیوں میں تھے سب سرگشتہ و پریشاں
تو نے جھکا دیے سر آ کر کے پیشِ یزداں
آمد سے تیری آقا مشکل ہوئی یہ آساں
جب بھی کرو تلاوت حاصل ہو قربِ یزداں
تیری کتابِ اقدس قرآں کے جاؤں قرباں
تیرے ہی دم سے دائم ہے موسمِ بہاراں
تو مانعِ خزاں ہے اے رونقِ گلستاں
دنیا ہے میری روشن از نورِ ماہِ تاباں
پر دل کی انجمن میں تم سے ہی ہے چراغاں
پہنچی نہیں ہے کس جا وہ ذاتِ جلوہ ساماں
عرشِ عظیم پر بھی اس کا عَلم ہے پرّاں
کس درجہ معتبر ہے ان کی متاعِ ایماں
حاصل ہوا ہے جن کو دیدارِ قربِ جاناں
وحدت کی مئے پلائی یہ بھی بڑا ہے احساں
اب وہ پلا دے ساقی جو ہے کشیدِ عرفاں
محبوبِ کبریا ہے سرکارِ دوجہاں وہ
زیرِ قدم ہیں اس کے تاج و سریرِ شاہاں
اے آبروئے آدم اے ہادی مکرم
دل مقتبس ہیں تجھ سے اے مشعلِ فروزاں
جس خاک پر بسا وہ جس سرزمیں میں سویا
مٹی وہاں کی خوش تر از گوہرِ درخشاں
تیرے ہی دم قدم سے ہے سرورِ دو عالم
میرا یہ دل مسلماں میری نظرؔ مسلماں
٭٭٭
خود کو مصروفِ ثنائے شہِ شاہاں کر لوں
دلِ بے نور میں سامانِ چراغاں کر لوں
جاگزیں دل میں جو یادِ شہِ خوباں کر لوں
دل سے صحرا کو بھی صد رشکِ گلستاں کر لوں
کم اسی طرح سے تاریکی ہجراں کر لوں
یادِ سرکارِ جہاں شمعِ شبستاں کر لوں
ہر عمل منسلکِ رشتۂ قرآں کر لوں
پا بہ زنجیر تجھے گردشِ دوراں کر لوں
رہنما آپ کا نقشِ کفِ تاباں کر لوں
زندگی جادۂ پُر پیچ ہے آساں کر لوں
تر ترے عشق میں خس خانۂ مژگاں کر لوں
مغفرت کا سرِ محشر کوئی ساماں کر لوں
فوق تر حسنِ جمالِ شہِ دیں ثابت ہے
کیا تقابل زِ جمالِ مہِ کنعاں کر لوں
ہے یہی ہر غم و حرماں کا علاجِ شافی
حرزِ جاں کاش ترا نسخۂ قرآں کر لوں
رائے گاں ہو نہ عبادت کہیں یوں وقتِ نماز
رخِ دل میں طرفِ کعبۂ ایماں کر لوں
کوئی دیوانہ ہی سمجھے گا مجھے دیوانہ
عشق میں ان کے اگر چاک گریباں کر لوں
یہ سعادت بھی بڑی ہے کرے اللہ نصیب
دل غلامانِ محمدؐ کا میں خواہاں کر لوں
آ گیا مجھ کو نظرؔ گنبدِ خضرا اب تو
مجتمع آ تجھے اے قلبِ پریشاں کر لوں
٭٭٭
نعتِ رسولِ پاکؐ ہے یوں تو بہت محال
جب تک نہ فضلِ خاصِ خدا ہو شریکِ حال
پہنچا وہیں پہ اڑ کہ مرا طائرِ خیال
جلوہ طراز ہے وہ جہاں صاحبِ جمال
ہے صاحبِ کمال بھی وہ ذاتِ خوش خصال
بندہ ہے اور بندۂ محبوبِ ذوالجلال
دونوں ہی رخ سے اپنے ہے بر پایۂ کمال
صورت بھی لاجواب ہے سیرت بھی بے مثال
کس درجہ اس حسین کے دلکش ہیں خدّ و خال
دیکھے نگاہ بھر کے اسے کس میں یہ مجال
چہرہ پہ اس کے دبدبہ و رعبِ لازوال
نظریں ملا سکے کوئی اس سے یہ کیا مجال
سب کچھ دیا ہے رب نے مجھے میرے حسبِ حال
اس سے ہے بس نبیؐ کی شفاعت کا اب سوال
لعل و گہر نہ چاہئے ہاں چاہئے وہ خاک
ہوتی رہی ہے کفشِ نبیؐ سے جو پائمال
میرے لئے حرام ہے گر منہ لگاؤں میں
ساقی جو اپنے ہاتھ سے دے جام وہ حلال
انیس سو بیاسی کا دن نقشِ دل ہوا
میرے لئے زیارتِ حرمیں کا ہے سال
طیبہ کو جا رہا ہوں یہ لیں آخری سلام
احباب واپسی کا اٹھائیں نہ اب سوال
جو مانگنا ہے مانگ درِ مصطفیٰؐ پہ آج
حسرت رہے نہ بعد میں ارماں ہر اک نکال
عشقِ نبیؐ میں آنکھ سے ٹپکیں جو اے نظرؔ
دامن میں جذب کر لے وہ سب قطرۂ زلال
٭٭٭
یادِ نبیؐ سے میرے تصور میں جزر و مد
نغمہ طرازِ نعت ہوں یا رب میں المدد
فرماں روائے کون و مکاں سے ہے مستند
شاہی حضورِ پاکؐ کی ممتد ہے تا ابد
دانشوروں کو بھی نہیں یارائے ردّ و کد
قولِ نبیؐ بحکمِ خدا آخری سند
ق
مدفون جس زمیں میں ہے پاکیزہ وہ جسد
جس جا ہے نور پاشِ پُر انوار وہ لحد
اس شہر کا نصیب مجھے آب و دانہ ہو
اے ذاتِ المجیب وَ اے ذاتِ الصمد
سر تا قدم وہ پیکرِ حسن و جمال ہے
قامت نظر نواز ہے جاذب میانہ قد
آنکھیں خمارِ بادۂ وحدت لئے ہوئے
مژگان مثلِ تیر ہیں دلکش ہیں خال و خد
تمثالِ آئینہ ہے دلِ سید البشر
ہر آئینہ کہ صاف ہے از کینہ و حسد
رفعت نظر کو اور جِلا دل کو کی عطا
تحقیق و اجتہاد کا میداں پئے خرد
قولِ خدا ہے یہ بہ زبانِ شہِ ہدیٰ
دیکھے ہر اک کو چاہئے "ما قدَّمَت لِغَد”
ساتھی وہ غارِ ثور کا ہے افضل البشر
سب پارسا ہیں ویسے تو یارانِ معتمد
نازل خدا کی اس پہ ہوں دس لاکھ رحمتیں
بھیجے درود جو بھی نبیؐ پر ہزار صد
اسوہ اسی کا قابلِ تقلید ہے نظرؔ
معیار ہے وہی پئے اعمالِ نیک و بد
٭٭٭
یہ بے ہنر نہیں ہے کارِ ثنا کے لائق
لکھتا ہے پھر بھی نعتیں دل ہے اسی کا شائق
درِ یتیم وہ ہے سب انبیاء میں فائق
محبوبِؐ کبریا ہے اور مرجعِ خلائق
واضح مرے نبیؐ پر پوشیدہ سب حقائق
آساں تریں ہیں اس کو مشکل تریں دقائق
ان کی شریعت اوفقِ منجملۂ شرائع
ان کا طریقہ اولیٰ من جملۂ طرائق
نکتہ رسی ہے اس کی، اس کی دقیقہ سنجی
آگاہِ ہر حقائق، آگاہِ ہر دقائق
بستر نہ چارپائی آرام کو چٹائی
کس درجہ کم ہیں اس کے اف دنیوی علائق
غلمان و حور و قدسی سب اس کی چاکری میں
اس کے قدم کے نیچے جنت کے سب حدائق
میں جس قدر ہوں نازاں اس بات پر وہ کم ہے
میرا نبیؐ ہے فائق من جملۂ خلائق
اللہ تجھ کو بھیجے تو بندہ پروری ہے
ورنہ نظرؔ کہاں تو اس آستاں کے لائق
٭٭٭
لکھتا ہوں دوسری میں ثنا اک ثنا کے بعد
انجام تا بخیر ہو خوش ابتدا کے بعد
بعثت ہوئی ہے آپ کو سب انبیاء کے بعد
کوئی نبیؐ نہیں ہے شہِ دوسرا کے بعد
ہر اک نبی کا اپنی جگہ مرتبہ ہے ایک
پر سب کا مرتبہ ہے حبیبِ خدا کے بعد
روشن رخِ حیات ہے روشن جہانِ دل
کیا اب کمی ہے نور کی شمعِ ہدیٰ کے بعد
کتنا وسیع ظرف ہے کتنا بڑا ہے دل
دیتا ہے وہ دعا ستمِ ناروا کے بعد
منت گزار کیوں نہ ہوں گم گشتگانِ راہ
پائی رہِ صواب اسی حق نما کے بعد
سینہ میں اس کے مصحفِ قرآں کا نور تھا
نکلا وہ جب کہ خلوتِ غارِ حرا کے بعد
چھوڑو الگ ہٹاؤ مے و ساغر و سبو
ساقی کی خوش اثر نگہِ نیم وا کے بعد
زیرِ قدم ہیں اس کے مکاں لا مکاں سبھی
رہتا ہی کیا ہے عرش کے پردہ سرا کے بعد
سوئیں گے خوب چین سے وہ لوگ حشر تک
آنکھیں جنہوں نے کھول لیں ان کی صدا کے بعد
مل جائے مجھ کو حشر میں دامانِ مصطفیٰؐ
کیا اور مانگنا ہے مجھے اس دعا کے بعد
اس جانِ نا تواں کو میں نذرِ اجل کروں
تدفین اس گلی میں اگر ہو فنا کے بعد
صلو علیہ ربِ و سلم علی النبی
قبلِ دعا بھی پڑھئے اسے اور دعا کے بعد
اوجِ شرف تک آپ کے پہنچے کہاں نظرؔ
رتبہ مرے نبیؐ کا ہے ذاتِ خدا کے بعد
٭٭٭
شہنشاہِ دو عالم سے محبت بڑھتی جاتی ہے
خوشا اس مشتِ خاکِ دل کی قیمت بڑھتی جاتی ہے
مرے دل میں تری یادوں کی نکہت بڑھتی جاتی ہے
کہ آنکھوں میں اب اشکوں کی طراوت بڑھتی جاتی ہے
ترے قرآنِ اقدس کی تلاوت بڑھتی جاتی ہے
بحمد اللہ مرے دل کی سکینت بڑھتی جاتی ہے
خوشی کی بات ہے تعدادِ ملت بڑھتی جاتی ہے
مگر حالاتِ ملت کی نزاکت بڑھتی جاتی ہے
متاعِ دینِ حق سے اس کی غفلت بڑھتی جاتی ہے
تری امت سوئے قعرِ مذلت بڑھتی جاتی ہے
ترے قرآن کو چھوڑا جہالت بڑھتی جاتی ہے
شریعت ہاتھ سے چھوٹی مصیبت بڑھتی جاتی ہے
مٹی جاتی ہے سنت اور بدعت بڑھتی جاتی ہے
تری امت کے مٹنے کی علامت بڑھتی جاتی ہے
دنائَت بڑھتی جاتی ہے شقاوت بڑھتی جاتی ہے
بہر سو قتلِ ناحق کی روایت بڑھتی جاتی ہے
محبت گھٹ رہی ہے اور عداوت بڑھتی جاتی ہے
ہے عنقا صلح جوئی پر خصومت بڑھتی جاتی ہے
جو اہلِ زر ہیں ان کے پاس دولت بڑھتی جاتی ہے
عوام الناس میں نکبت وَ غربت بڑھتی جاتی ہے
امانت گم ہے لوگوں سے خیانت بڑھتی جاتی ہے
نہیں گھٹتی نظر آتی یہ صورت بڑھتی جاتی ہے
بتوں کی اور شیطاں کی اطاعت بڑھتی جاتی ہے
خدا کی بندگی سے اف بغاوت بڑھتی جاتی ہے
نزولِ قہر کی ہر لحظہ ساعت بڑھتی جاتی ہے
مگر تیرے سبب سے اس کی مدت بڑھتی جاتی ہے
خدا ہی ہے نگہباں عزت و ناموسِ عورت کا
کھلے منہ اف سرِ بازار عورت بڑھتی جاتی ہے
مسلماں کی ہوا اکھڑی کہ یکجہتی نہیں باقی
ہیں جتنے غیر مسلم ان کی قوت بڑھتی جاتی ہے
گناہوں میں ملوث ہو کے توبہ بھی نہیں کرتے
معاذ اللہ اس درجہ جسارت بڑھتی جاتی ہے
شریف النفس انساں گوشۂ عزلت میں جا بیٹھے
کہ انسانوں میں توہینِ شرافت بڑھتی جاتی ہے
اسیرِ حرصِ دنیا اور ہیں غرقِ معصیت کاری
سکوں ناپید ہے دل سے ہلاکت بڑھتی جاتی ہے
سوئے الحاد و دہریت رواں ہے قافلہ سارا
شہا اس کی ہدایت کی ضرورت بڑھتی جاتی ہے
کرم فرمائیں اے شاہِ مدینہ پھر اس امت پر
یہ سب کچھ دیکھ کر دل کی اذیت بڑھتی جاتی ہے
نظرؔ خاموش ہو بس ختم بھی کر داستاں اپنی
تری شوخی بہ دربارِ رسالت بڑھتی جاتی ہے
٭٭٭
نگاہِ رحمتِ حق میرے دل پہ ہوتی جاتی ہے
مجھے محویتِ نعتِ پیمبر ہوتی جاتی ہے
بہ مژگاں کثرتِ آبِ مقطر ہوتی جاتی ہے
متاعِ خونِ دل اس پر نچھاور ہوتی جاتی ہے
وہ صورت نقشِ دل اللہ اکبر ہوتی جاتی ہے
فضائے قلب رنگین و معطر ہوتی جاتی ہے
ترے دیدار کی ساعت قریں تر ہوتی جاتی ہے
مری چشمِ تمنا اور مضطر ہوتی جاتی ہے
بیادِ شاہِ خوباں آنکھ اب تر ہوتی جاتی ہے
سکوں آغوش میری جانِ مضطر ہوتی جاتی ہے
تمنا دیدِ طیبہ کی فزوں تر ہوتی جاتی ہے
مضاعف سرخوشی اک دل کے اندر ہوتی جاتی ہے
حدیثِ عشق جیسے جیسے ازبر ہوتی جاتی ہے
یہ جانِ مضمحل پہلے سے بہتر ہوتی جاتی ہے
نہ دیکھوں جب تک ان آنکھوں سے ان کا روضۂ انور
خلش نادیدہ اک دل میں برابر ہوتی جاتی ہے
اٹا جاتا ہے سر گرد و غبارِ راہِ طیبہ سے
مری خوش طالعی رشکِ سکندر ہوتی جاتی ہے
پہنچ کر بارگاہِ قدس میں اتنا تو کہہ دوں گا
شہا امت کی حالت اب زبوں تر ہوتی جاتی ہے
قدم زن پوری امت حیف سوئے قعرِ پستی ہے
کہ اخلاقاً وہ غیروں سے بھی بدتر ہوتی جاتی ہے
کرم فرمائیے اس پر نظر فرمائیے اپنی
دو روزہ زندگی اب اس پہ دوبھر ہوتی جاتی ہے
سوئے ام القریٰ اڑ جاؤں گا گیارہ ستمبر کو
شبِ ہجراں کی یہ منزل بھی اب سر ہوتی جاتی ہے
حرم سے چل دیا اس جلوہ گاہِ ناز کی جانب
ہے خوش طبعِ نظرؔ آپے سے باہر ہوتی جاتی ہے
٭٭٭
خارج از امکاں ہے تکمیلِ بیانِ مصطفیٰؐ
بس ہوں تا مقدور میں بھی نغمہ خوانِ مصطفیٰؐ
کیا بشر سمجھے گا ذاتِ بے کرانِ مصطفیٰؐ
خالقِ کونین بھی ہے قدر دانِ مصطفیٰؐ
آئے دنیا سے سمٹ کر عاشقانِ مصطفیٰؐ
دیدنی ہے ازدحامِ آستانِ مصطفیٰؐ
شانِ آقائی تو دیکھیں سرورِ کونین کی
رہتی دنیا کے ہیں آقا خادمانِ مصطفیٰؐ
بے مثیل و منفرد اپنی صفات و ذات میں
دونوں عالم میں نہیں کوئی بسانِ مصطفیٰؐ
دل پذیر و دل نشیں کیونکر نہ ہو ان کا کلام
وحی رب ہے ماخذِ حرفِ زبانِ مصطفیٰؐ
ہم خدا کو مانتے پہچانتے ہیں اس طرح
جس طرح ہم نے سنا ہے از زبانِ مصطفیٰؐ
حشر تک باقی رہیں گے اس کے قرآن و حدیث
حشر تک چلتی رہے گی داستانِ مصطفیٰؐ
ذاتِ اقدس ترجماں ہے اس کتاب اللہ کی
اور قرآنِ مکرم ترجمانِ مصطفیٰؐ
مصحفِ قرآں بھی ہے آئینۂ سنت بھی ہے
ہیں پئے ہر امتی دو ارمغانِ مصطفیٰؐ
سایۂ قرآں میں ان کے جو گزاریں زندگی
حشر میں مل جائے گی ان کو امانِ مصطفیٰؐ
سارے نبیوں کی امامت کا ہے منصب آپ کا
یہ ہے رفعت یہ ہے عظمت یہ ہے شانِ مصطفیٰؐ
عمر بھر دیکھا کریں گے آئینہ میں اپنے لب
چومنے کو مل گیا گر آستانِ مصطفیٰؐ
میہماں جیسا ہو ویسی چاہئے تکریم بھی
ہے شبِ اسرا میں خالق میزبانِ مصطفیٰؐ
قدر و عزت کی نظرؔ سے دیکھتے ہیں اس کو ہم
جو بھی ہے چشم و چراغِ دودمانِ مصطفیٰؐ
٭٭٭
کیفِ یادِ حبیب زیادہ ہے
نعت لکھنے کا آج ارادہ ہے
قابلِ فخر شاہ زادہ ہے
از براہیمی خانوادہ ہے
نیک خو ہے مزاج سادہ ہے
شان و منصب میں سب سے زیادہ ہے
ہر سخن دلنشیں ہے سادہ ہے
وحی رب سے کہ استفادہ ہے
تنِ اطہر پہ جو لبادہ ہے
کس قدر ستر پوش و سادہ ہے
معتدل اس کی ہے مئے وحدت
کیف اس کا نہ کم نہ زیادہ ہے
ہے وہ محبوبِ حق سبحان اللہ
قربِ حق اس کا سب سے زیادہ ہے
درِ اقدس پہ سر گروہِ مَلَک
مثلِ دربان ایستادہ ہے
جو کہا اس نے اس کو کر گزرا
کس قدر راسخ الارادہ ہے
ہے نشاط آور و سرور آگیں
خمِ وحدت کا اس کا بادہ ہے
زندگی کے ہزار رستے ہیں
جادۂ حق اس کا جادہ ہے
جو بھی چاہے ہو فیضیاب اس سے
اس کا خوانِ کرم کشادہ ہے
سربکف رہنا فی سبیل اللہ
مردِ میداں وہ سب سے زیادہ ہے
علم و حکمت جہاں نظرؔ آئے
آپ کے علم کا افادہ ہے
٭٭٭
گرچہ زور اپنا لگائیں سب ثنا خوانِ رسولؐ
کون لکھ سکتا ہے لیکن نعت شایانِ رسولؐ
مستحقِ خلد بے شک ہیں فدایانِ رسولؐ
مرحبا صد مرحبا انصار و اعوانِ رسولؐ
بخششِ امت کی خاطر سوزِ پنہانِ رسولؐ
بارگاہِ حق میں شب کو چشمِ گریانِ رسولؐ
فوق تر تھا بخت جن کا در محبانِ رسولؐ
اب بھی ہیں پہلو میں وہ دو ہم نشینانِ رسولؐ
شاہ و سلطاں سے ہیں برتر رتبۂ و اعزاز میں
ان کے در کے ہو رہے جو بھی غلامانِ رسولؐ
کون ہے ایسا نہیں جس پر کہ بارانِ کرم
دشمنانِ دیں پہ بھی واللہ ہے احسانِ رسولؐ
حیدرِ کرارؓ و ذی النورینؓ و بو بکرؓ و عمرؓ
منفرد یاروں میں ہیں یہ چار یارانِ رسولؐ
مصطفیٰؐ ہی جانتے ہیں رفعتِ شانِ خدا
اور خدا ہی جانتا ہے باخدا شانِ رسولؐ
اک چٹائی ایک تکیہ اک دیے کی روشنی
کل یہ ساماں زینت آرائے شبستانِ رسولؐ
بارگاہِ رب میں ہے وہ کامیاب و کامران
زندگی جس نے گزاری حسبِ فرمانِ رسولؐ
اپنی امت پر کرم کی یوں تو کوئی حد نہیں
ارمغانِ خاص ہے لیکن یہ قرآنِ رسولؐ
خود ہی بے بہرہ رہے کوئی تو ہے شوریدہ بخت
ورنہ دنیا کے لئے ہے عام فیضانِ رسولؐ
عرصۂ محشر کی گرمی سے انہیں کیوں ہول ہو
سایہ گستر ہو گیا جن پر کہ دامانِ رسولؐ
کیا عجب ہے بخش دے تجھ کو نظرؔ ربِ غفور
جان کر منجملۂ مدحت گزارانِ رسولؐ
٭٭٭
زِ فضلِ خاص خدائے محمدِؐ عربی
ہوں میں بھی مدح سرائے محمدِؐ عربی
رہِ ثواب دکھائے محمدِؐ عربی
خدا کی سمت بلائے محمدِؐ عربی
حدیثِ عشق سکھائے محمدِؐ عربی
غرور و کبر مٹائے محمدِؐ عربی
دلوں کی پیاس بجھائے محمدِؐ عربی
وہ جامِ خاص پلائے محمدِؐ عربی
گرے ہوؤں کو اٹھائے محمدِؐ عربی
گلے سے سب کو لگائے محمدِؐ عربی
نصیب جاگ اٹھا گلستانِ فانی کا
خوشا نصیب کہ آئے محمدِؐ عربی
کوئی کلیم بنا ہے کوئی خلیل اللہ
حبیب بن کہ پہ آئے محمدِؐ عربی
سرور بادۂ وحدت کا بخش کر سب کو
دوئی کا نقش مٹائے محمدِؐ عربی
ہو مثلِ تیر ترازو دلوں میں انساں کے
ہے وحی رب کہ نوائے محمدِؐ عربی
تمام حل ہوں مسائل کریں جو رو بہ عمل
کتابِ عقدہ کشائے محمدِؐ عربی
بہ جلوہ گاہِ خدا مرتفع ہوئے اک شب
شرف یہ خاص برائے محمدِؐ عربی
برائے امتِ عاصی بہ بارگاہِ خدا
ہے مستجاب دعائے محمدِؐ عربی
بروزِ حشر نہیں سایۂ اماں کوئی
جز ایک ظلِّ لوائے محمدِؐ عربی
تری شفاعتِ عظمیٰ کا میں بھی ہوں محتاج
مری مراد بر آئے محمدِؐ عربی
بروزِ حشر جو کام آئے عاصیوں کے نظرؔ
کہاں کوئی ہے سوائے محمدِؐ عربی
٭٭٭
اے اشہبِ قلم یہ ہے نعتِ شہِ شہاں
چھوڑوں گا ایک لمحہ بھی تجھ کو نہ بے عناں
سرتاجِ انبیاء ہے وہ سرخیلِ مرسلاں
محبوبِ رب ہے اور وہ مخدومِ بندگاں
مضمونِ دوجہاں کا ہے وہ حاصلِ بیاں
ہے بزمِ کن فکاں میں وہ مقصودِ کن فکاں
ہے ذات اس کی رونقِ معمورۂ جہاں
اس کے ہی دم قدم سے منور ہے خاکداں
ہے روزِ حشر دور قیامت ابھی کہاں
ہو جائے ختم کیسے ابھی اس کی داستاں
طائف کا سانحہ وہ بدستِ ستم گراں
جب آپ راہِ حق میں ہوئے تھے لہو لہاں
ہے کیا عجب نگاہِ بشر ہو جو خوں چکاں
خوں بار ہے نگاہِ افق دیکھئے جہاں
پائیں مزہ عسل کا جو میرے لب و دہاں
تسکین پائیں ذکرِ دل آرا سے قلب و جاں
اے ہم نشیں مجھے شبِ معراج کی قسم
پردہ سرائے عرش کا بھی وہ ہے رازداں
دفتر بھرے پڑے ہیں یہ مانا ہزارہا
ضبطِ بیاں میں آ نہ سکیں پھر بھی خوبیاں
رشتہ خدا کا بندوں سے ہوتا نہ استوار
ہوتا نہ گر وہ بندہ و خالق کے درمیاں
قرآن کی قسم کہ وہ قرآن ہی تو ہے
سیرت شہِ امم کی میں کیسے کروں بیاں
مل جائے تجھ کو کاش شفاعت حضورؐ کی
کام آئیں اے نظرؔ تیری مدحت طرازیاں
٭٭٭
رکھتا نہیں ثنائے نبیؐ کی میں دستگاہ
لکھتا ہوں نعت پھر بھی کہ دھل جائیں کچھ گناہ
وہ مہرِ نیم روز ہے وہ ماہِ نیم ماہ
تارا ہر اک کی آنکھ کا ہے شاہِ دیں پناہ
زیرِ فلک ہے سب سے بڑی اس کی بارگاہ
لاریب و بے گماں کہ وہی ہے جہاں پناہ
بھاگیں گے اس کی سمت قیامت میں روسیاہ
وہ ایک ہی ہے حشر میں سب کی امید گاہ
دیکھی ہے اس نے بے ہمہ خالق کی جلوہ گاہ
بے اختیار منہ سے نکلتی ہے واہ واہ
اس میں ہیں داغ داغ وہ آئینہ رو خوشا
ماہِ عرب کے سامنے کیا ماہِ نیم ماہ
قلبِ عمرؓ کو جس نے مسلمان کر دیا
کیا سحر آفریں تھی نبیؐ کی وہ اک نگاہ
وہ ہے بڑا شجیع بہ میدانِ کارزار
اعدا کو زیر کرتا ہے بے کثرتِ سپاہ
تا زندگی خدا سے رہا مغفرت طلب
امت کا اپنی سب سے بڑا وہ ہے خیر خواہ
دونوں جہاں کے اس نے خزانے عطا کئے
امت کو اپنی بخش کے مفتاحِ لا الٰہ
طاری ہے میرے قلب پہ کیفیتِ سرور
دیکھا ہے جب سے روزۂ آں شاہِ عزّ و جاہ
بھیجو درود اس پہ ہمہ وقت اے نظرؔ
ہو نیم شب کہ آخرِ شب یا دمِ پگاہ
٭٭٭
نبیؐ کی ذات پہ یہ بحث و گفتگو کیا ہے
یہی سمجھ لے ذرا پہلے تو کہ تو کیا ہے
ہے ان کی یاد سے دل کا وہ عالمِ رنگیں
کہ جس کے سامنے دنیائے رنگ و بو کیا ہے
نبیؐ کا چہرۂ پُر نور ہے خوشا گل گوں
مقابلہ میں یہ مہتابِ زرد رو کیا ہے
ہے کائنات یہ ساری اسی کے صدقہ میں
فقط یہ ایک ہی دنیائے چار سو کیا ہے
شرابِ عشقِ نبیؐ خم کے خم بھی پی جاؤں
مری طرح کے پیاسے کو اک سبو کیا ہے
جو اس پہ جاں کو تصدق کرے ملے جنت
معاملہ ہے کھرا اس میں گومگو کیا ہے
اسی کا نقشِ قدم ڈھونڈتا رہوں ہر دم
درایں حیات مجھے اور جستجو کیا ہے
بخاکِ شہرِ مدینہ ملے مری مٹی
نہ پوچھو ہم نفسو میری آرزو کیا ہے
زلالِ اشکِ محبت سے آنکھ تر تو کریں
درود پڑھنا نبیؐ پر بلا وضو کیا ہے
ثنا نگارِ نبیؐ ہوں تو قدر ہے میری
نہیں تو خاک کے پتلے کی آبرو کیا ہے
علاجِ دل کے لئے اے نظرؔ چلو طیبہ
ادھر اُدھر سے تو بیکار چارہ جو کیا ہے
٭٭٭
مائلِ مدحت ہے آج اپنی طبیعت مرحبا
لکھ رہا ہوں آج میں نعتِ شہِ ہر دو سرا
چاند نکلا جب کہ وہ بر مطلعِ ام القریٰ
اس نے روئے دہر کو یکسر مطلّا کر دیا
اٹھ گیا دستِ خدا جب آپ کا پیشِ خدا
پاؤں میں ان کے گرا پھر آدمی فاروقؓ سا
ہے سمندر حکمتوں کے موتیوں کا مرحبا
اپنی امت کو کتاب اک ایسی اس نے کی عطا
اس نے جب نعرہ لگایا وحدہٗ اللہ ہو
پردۂ افسونِ باطل چاک ہو کر رہ گیا
زیرِ سایہ شاہِ دیں کے جو بھی آیا بت پرست
بن گیا فی الفور مالک غزنوی کردار کا
شامِ غم پھٹکی نہ اس کے پاس پھر اصلاً کبھی
سایہ گستر ہو گئی جس پر کہ وہ زلفِ دوتا
خوبیاں کیا کیا ہیں اس آقائے طیبہ میں خوشا
نرم دل، پاکیزہ خو، شیریں سخن، شیریں ادا
جو کہ تھا بد مستِ صہبا ہو گیا مستِ الست
جبکہ ان کے میکدہ سے ساغرِوحدت پیا
کب گوارا تھی جدائی ان سے دم بھر کے لئے
گرد ان کے جانثاروں کا رہا اک جمگھٹا
رحمۃ اللعٰلمیں فرمائیں گے یا امتی
نفسی نفسی جب کہیں سب انبیاء یومِ جزا
معجزہ شاہِ دو عالم کی قدم بوسی کا دیکھ
تھا جو پتھر دل نظرؔ پہلے جو پارس ہو گیا
٭٭٭
یہ دل پر فضلِ ربی کا اثر ہے
کہ محوِ مدحتِ خیر البشر ہے
کہے صلِّ علیٰ ہر ایک سن کر
محمدؐ نام پیارا کس قدر ہے
وہ فخرِ انبیاء محبوبِ رب وہ
سرِ عرشِ بریں بھی جلوہ گر ہے
رفیع الذکر ہے وہ کملی والا
بہر سو تذکرہ آٹھوں پہر ہے
نہیں کچھ جز مصلیٰ اور بستر
اثاثُ البیت کتنا مختصر ہے
حنین و بدر ہو یا جنگِ خندق
بہ میدانِ وغا سینہ سپر ہے
طفیلِ مخبرِ مصدوق و صادق
ہمیں سب آج ہی کل کی خبر ہے
ہوئی تکمیلِ دیں اس کے ہی ہاتھوں
کہ رب کا آخری پیغامبر ہے
حضوری میں نبیؐ کے ہیں ہمہ دم
فرشتوں کا مدینہ مستقر ہے
بذکرِ مصطفیٰؐ آنسو جو ٹپکا
مرے نزدیک خوش تر از گہر ہے
وہی میری نظرؔ میں میر و سلطاں
جو در کا آپ کے دریوزہ گر ہے
٭٭٭
نبیؐ کی نعت لکھیں تھا نہ حوصلہ ہم کو
پہ فرطِ شوق نے مجبور کر دیا ہم کو
صفِ رسل میں دکھائی دیا بڑا ہم کو
بذاتِ مصطفوی ناز ہے بجا ہم کو
نصیب دامنِ رحمت ہو آپ کا ہم کو
اب اور چاہئے سچ پوچھئے تو کیا ہم کو
نبیؐ ملا تو خدا کا پتہ چلا ہم کو
جب اس کی راہ چلے ہم خدا ملا ہم کو
کسی کو موسیٰؑ و عیسیٰؑ کسی کو نوح ملے
خوشا نصیب ملا شاہِ دو سرا ہم کو
رہِ حیات میں چلنا ہوا ہمیں آساں
گیا وہ دے کے چراغِ نقوشِ پا ہم کو
وہ فرد فرد کا غم اپنے دل میں رکھتا تھا
کوئی نہ اس سا ملا درد آشنا ہم کو
کتابِ حق وہ ملی ہے بدستِ پاکِ نبیؐ
کہ حرف حرف بنا جس کا رہنما ہم کو
عمل پہ ناز کسے ہو سکے پئے بخشش
شفیعِ روزِ جزا کا ہے آسرا ہم کو
بتا گیا ہمیں اعمالِ منکر و معروف
سجھا گیا وہ نظرؔ سب برا بھلا ہم کو
٭٭٭
نعتِ شہِ دیں کا مجھے یارا تو نہیں ہے
چپ بیٹھ رہوں یہ بھی گوارا تو نہیں ہے
صدیوں سے ہزاروں نے لکھا وصفِ نبیؐ پر
یکجا بھی کریں سب کو تو سارا تو نہیں ہے
چمکا رخِ ہستی ہے زِ انوارِ محمدؐ
مہتابِ جہاں تاب ہے تارا تو نہیں ہے
انسان کے دکھ درد کبھی مٹ نہیں سکتے
بِن اس کی اطاعت کئے چارہ تو نہیں ہے
منظورِ نظر رب کا ہے ہر ایک پیمبر
پر اس کی طرح آنکھ کا تارا تو نہیں ہے
ہے قصۂ طائف کی سماعت سے گریزاں
پتھر کی طرح دل یہ ہمارا تو نہیں ہے
خوشنودی محبوبِ خداوندِ دو عالم
جاں دے کے ملے پھر بھی خسارا تو نہیں ہے
دامانِ نبیؐ تھام لیا حشر میں ہم نے
بخشش کا کوئی اور سہارا تو نہیں ہے
سنگِ درِ اقدس سے اٹھاتا ہی نہیں سر
دیکھیں کہ نظرؔ عشق کا مارا تو نہیں ہے
٭٭٭
جب سے کچھ ہوش سنبھالا ہے جبھی سے ہم کو
ہے شغف شکرِ خدا نعتِ نبیؐ سے ہم کو
ہیں نبیؐ جتنے عقیدت ہے سبھی سے ہم کو
حبّ لیکن ہے اسی مطّلبیؐ سے ہم کو
راہ پر لائے ہیں بے راہ روی سے ہم کو
کیسے الفت نہ ہو شاہِ مدنی سے ہم کو
آگہی بخشی ہے ذاتِ ازلی سے ہم کو
اور آگاہ کیا سرِّ خودی سے ہم کو
دیں پسندیدۂ حق مصحفِ قرآنِ حکیم
سب ملا ہے کرمِ مصطفوی سے ہم کو
جب سے واللہ ترے فقر کی شاہی دیکھی
بے نیازی سی ہے اک شانِ کئی سے ہم کو
حوضِ کوثر سے ترے حشر میں ساغر پائیں
ہے توقع یہ تری دریا دلی سے ہم کو
خلدِ ارضی سے چلیں خلدِ بریں میں پہنچیں
موت لے جایے جو طیبہ کی گلی سے ہم کو
ہم بیاں کر نہیں سکتے ہیں جو کرنا چاہیں
فیض پہنچا جو تری جلوہ گری سے ہم کو
ایک اللہ کی چوکھٹ پہ کیا سر بسجود
دی نجات اس نے نظرؔ در بدری سے ہم کو
٭٭٭
کلی چٹکی کھلے گل اور لی سبزہ نے انگڑائی
وہ ذاتِ قدس گلشن میں بہ طرزِ نو بہار آئی
جو ہے بحرِ بسیطِ حکمت و عرفان و دانائی
خوشا قسمت نبیؐ پر میرے وہ ام الکتاب آئی
دلوں کو گرمی ایماں سے اس نے زندگی بخشی
عطا کی روحِ پژمردہ کو اک طُرفہ توانائی
دیا توحید کا نغمہ دیا آئین جینے کا
بیک محور بنی آدم کی آوارہ حیات آئی
مٹے آزارِ قلب و روحِ انساں اس کی حکمت سے
اسی نے جاں بلب انسانیت کی، کی مسیحائی
مٹایا جہل دنیا سے لٹائے علم کے موتی
خرد کو روشنی کی مرحمت، آنکھوں کو بینائی
سنوارا خلقِ انساں کو نکھارا آدمیت کو
بھلے اعمال سکھلائے بری ہر بات بتلائی
سرِ طاعت کیا خم ایک رب کے آستانے پر
درِ طاغوت کی اس نے مٹائی ناصیہ سائی
طلب گارانِ دنیا کو کیا گرویدۂ عقبیٰ
بدل کر دل کیا ہر اک کو عقبیٰ کا تمنائی
انہیں کا اے نظرؔ اب تاجِ زرینِ رسالت ہے
قیامِ حشر تک باقی مرے آقا کی آقائی
٭٭٭
موجبِ صد خیر و برکت باعثِ تسکینِ جان
اللہ اللہ مدحتِ پیغمبرِ آخر زماں
سرورِ دیں مرجعِ عالم امامِ مرسلاں
ہادی انسانیت اس کی نبوت جاوداں
نورِ بزمِ کن فکاں وہ شمعِ بزمِ داستاں
شیرِ میدانِ وغا ہیبت برائے دشمناں
اک نگاہِ لطف اس کی در نگاہِ عاشقاں
بہتر از سیم و زر و مال و متاعِ دوجہاں
حسنِ صورت پر نچھاور جس کے حسنِ یوسفی
اس کی سیرت فوق تر از سیرتِ کرّ و بیاں
بات واضح، قول بر حق، نرم خو، شیریں دہن
رافت و رحمت سراپا خاکسار و مہرباں
مالکِ صبر و توکل عابدِ شب زندہ دار
صاحبِ توقیر، محبوبِ خدا، عظمت نشاں
جاگنا فکروں میں اور پہلو بدلنا رات بھر
اپنی امت کے لئے اللہ رے بے چینیاں
ہے لوائے حمد ان کا روزِ محشر اے نظرؔ
شافعِ روزِ جزا وہ چارۂ بے چارگاں
٭٭٭
اک تسلسل ہے کہ ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا کبھی
تا قیامت ہی چلے محمدتِ مصطفوی
میں ہوں من جملہ گدایانِ درِ پاکِ نبیؐ
میں بھی مجبورِ محبت کہ ثنا یہ لکھی
للہ الحمد ہمارے لئے بھیجا وہ نبیؐ
جس کا ہے تاجِ نبوت وَ رسالت ابدی
پیکرِ حسنِ دو عالم ہے وہ سر تا بہ قدم
جلوۂ رخ پہ کسی کی بھی نظر ٹک نہ سکی
خلقِ اطہر وہ کہ خود خالقِ کل ہے مداح
عینِ قرآں بہ زبانِ حرمِ پاکِ نبیؐ
یہ بتاتی ہے ہمیں آیۂ فرقانِ عزیز
اسوۂ پاک نمونہ پئے نوعِ بشری
شرفِ خاص یہ میرے ہی نبیؐ کو حاصل
عرشِ کے رب سے سرِ عرش ہوئی ہم سخنی
ہے شہنشاہِ ہدیٰ، سرورِ عالم لیکن
نہ کوئی شیش محل ہے نہ کوئی بارہ دری
طعنہ و سبّ و شتم خندہ جبینی سے سہے
راہِ مولا میں یہ دل اور یہ ثابت قدمی
اپنی امت کے لئے وقفِ خدا پیشِ سجود
سوز ہے دل میں، دعا لب پہ ہے آنکھوں میں نمی
آخرت اپنی سنور جائے یہ دنیا بھی بنے
ہوں جو ہم تابعِ فرمانِ رسولِ مدنی
نظرِؔ رحمت یزداں ہے ہماری جانب
نعتِ محبوبِ خداوند کی یہ خوش اثری
٭٭٭
دل افروزی کا باعث ہے تقاضائے محبت بھی
نبیؐ کی محمدت کرنا مزید امرِ سعادت بھی
نبیؐ کی ذات میں رب نے سمو دی شانِ صنعت بھی
مثالی حسنِ صورت نیز ہے بے مثل سیرت بھی
اسی پر منتہی کارِ نبوت بھی رسالت بھی
اسی پر دیں ہوا کامل، ہوئی کامل شریعت بھی
کشش اس طرح رکھتی ہے نبیؐ کی ذات و شخصیت
کہ جیسے جاذبِ دل گل کی رنگت بھی ہو نکہت بھی
اسی نے نکتۂ توحیدِ باری وا کیا ہم پر
اسی نے ہم کو بتلائی بنی آدم کی وحدت بھی
نمایاں شان کا حامل ہے قرآں اس پہ جو اترا
فصاحت ہے بلاغت ہے ترنم بھی ہے حکمت بھی
تمام آیاتِ قرآں معجزہ کی شان رکھتی ہیں
بنا سکتا نہیں اس جیسی کوئی ایک سورت بھی
وہ حقداروں کو محتاجوں کو سب کچھ بانٹ دیتا تھا
کچھ اپنے واسطے رکھتا نہ تھا با وصفِ حاجت بھی
متاعِ عیش و راحت کا کوئی مذکور ہو کیونکر
نہیں رکھتا تھا اپنے گھر میں سامانِ ضرورت بھی
وہ بلوائے گئے پردہ سرائے عرش میں اک شب
یہ محبوبیتِ رب بھی نبیؐ کی شانِ عظمت بھی
رہِ تبلیغِ دیں میں شاہِ دیں پر کیا نہیں گزرا
بہا خوں زخم اٹھائے اور کھایا داغِ ہجرت بھی
فقط تیئیس برسوں میں کیا صدیوں کا کام اس نے
یہ دنیا مانتی بھی ہے مگر ہے محوِ حیرت بھی
اسی ختم الرسل کی نسبتِ عالی کا صدقہ ہے
کہ ہم ہیں امتِ آخر بھی اور ہیں خیرِ امت بھی
نظرؔ اس زندگی ہی تک نہیں اس کی بہی خواہی
سرِ محشر کرے گا وہ ہزاروں کی شفاعت بھی
٭٭٭
خدمت میں ہے اس کی یہ مرا ہدیۂ اشعار
جو والی طیبہ ہے جو نبیوں کا ہے سردار
خورشیدِ جہاں تاب ہوا جب وہ ضیا بار
ہر گوشۂ ظلمت میں ہوئے صبح کے آثار
بر روئے زمیں سب سے بڑی اس کی ہے سرکار
پابوس ہیں دنیا کے شہنشاہ و جہاندار
سر تا بہ قدم طُرفگی حسن کا معیار
ہے از رخِ اخلاق وہ خلّاق کا شہکار
فکر و غمِ امت میں ہے تا صبح وہ بیدار
اللہ سے ہے بخششِ امت کا طلبگار
اصحابِ نبی رہتے ہیں ہشیار و خبردار
ہوں سب ہمہ تن گوش جو ہو جائے وہ گلبار
ہر ایک ادائے شہِ دیں پر ہے نچھاور
یہ عشق کا عالم ہے مہاجر ہوں کہ انصار
کرتے رہے اسلام کی تبلیغ شہِ دیں
سنتے رہے ہر طعنہ و تشنیعِ دل افگار
اپنے ہوں پرائے ہوں کہ خود ذات ہو اپنی
انصاف و مساوات کا ہر لحظہ نگہدار
نادار کا محتاج کا مسکین کا والی
ہر اک کی مدد کے لئے ہر وقت وہ تیار
شمشیر بکف ذکر بہ لب جوش بہ دل وہ
میدانِ وغا میں وہ جری پیشہ ہے سالار
پڑھتے ہیں درود اس پہ مسلمان شب و روز
ہر اوجِ فلک بزمِ مَلَک میں یہی اذکار
خالق کی نگاہوں میں ہے وہ بندۂ محبوب
بندوں کی نگاہوں میں وہ ہے سیدِ ابرار
اک بار تو دیکھا ہے نظرؔ روضۂ اطہر
اللہ دکھائے تو مکر ر کروں دیدار
٭٭٭
کب ہوئے عہدہ بر آ اہلِ قلم اہلِ سخن
ہو سکی ہے کس سے پوری مدحتِ شاہِ زمن
وہ امام الانبیاء محبوبِ ربِ ذو المنن
عرش پر اک شب ہوا خالق سے اپنے ہم سخن
رونق افروزِ گلستاں جب ہوا وہ گلبدن
جہدِ پیہم سے بدل کر رکھ دی تقدیرِ چمن
مرحبا زلفِ سیاہ و تابدار و پُر شکن
اس کی خوشبو خوب تر از مشکِ آہوئے ختن
غیرتِ لعلِ بدخشاں ہیں لبِ لعلیں اگر
دُرِّ دندانِ مبارک خوش تر از دُرِّ عدن
آپ کے عزّ و شرف کا ٹھیک اندازہ نہ ہو
یونہی سا پیمانہ ہے پیمانۂ تخمیں و ظن
دین کی تبلیغ میں اس نے دیا اپنا لہو
دین کی ترویج کی خاطر کیا ترکِ وطن
قوم کے اشرار سب مصروفِ استہزاء رہے
پر جبینِ پاک پر آنے نہ دی اس نے شکن
رحمتِ عالم کی اخلاقِ کریمانہ کی شان
اپنے بد خواہوں سے بھی رکھا ہمیشہ حسنِ ظن
جنگ بھی کرنی پڑی اعدائے دیں سے بارہا
وہ بہ میدانِ وغا ہوتا رہا شمشیر زن
نخلِ دیں ان کی بدولت پھولتا پھلتا گیا
باوجودِ شورش و ہنگامہ و مکر و فتن
کوششِ پیہم سے ان کی وقت وہ بھی آ گیا
نعرۂ توحید سے گونج اٹھے سب کوہ و دمن
محفلِ شاہِ دو عالم بے نظیر و بے عدیل
رونق اس کی انجمن کے نَو ہی کب صد ہا رتن
انقلاباتِ زمانہ محو کر سکتے نہیں
نقشِ دل اس کی سوانح پاک با تاریخ و سن
اکتسابِ نور و فیضاں کام یہ لوگوں کا ہے
وہ تو خورشیدِ ہدیٰ ہے سب پہ یکساں ضو فگن
٭٭٭
ذرۂ ناچیز کیا یہ وہ شہِ عالم کہاں
لکھ سکوں مدحت نبیؐ کی مجھ میں اتنا دم کہاں
سیکڑوں آئے جلیل القدر پیغمبر مگر
کوئی بھی ہم رتبۂ پیغمبرِ خاتم کہاں
ورطۂ حیرت میں ڈالے واقعہ معراج کا
دیکھئے پہنچا ہے وہ فخرِ بنی آدم کہاں
واقفِ اسرارِ پنہاں جس قدر ہے مصطفیٰؐ
رازِ دو عالم کا کوئی اس قدر محرم کہاں
بعدِ اقوالِ پیمبر بعدِ قرآنِ مبیں
دین و دنیا کے حقائق رہ گئے مبہم کہاں
از احادیثِ پیمبر یا زِ قرآنِ حکیم
اور مل سکتی ہیں باتیں آپ کو محکم کہاں
روضۂ اطہر پہ یا پھر گنبدِ خضرا پہ ہے
بارشِ انوارِ یزداں اور یوں پیہم کہاں
ق
باپ، ماں، خواہر، برادر، زوجۂ و بنت و ولد
عرصۂ محشر میں کوئی مونس و ہمدم کہاں
وہ شفیع المذنبیں ہوتا نہ محشر میں اگر
ہم سے بد اعمال جاتے، سوچتے ہیں ہم کہاں
جامِ کوثر بھی ملے پینے کو تو کیفِ مزید
کیفِ چشمِ ساقی کوثر ہی ورنہ کم کہاں
مصطفیٰؐ کے در پہ جا حاضر ہوئے ہم بھی نظرؔ
اور کرتے بھی مداوائے دلِ پُر غم کہاں
٭٭٭
لکھنے بیٹھا ہوں میں توصیفِ رسولِ نامدار
چشمِ رحمت میری جانب اے مرے پروردگار
نادرہ کاری فطرت کا ہے مظہر اس کی ذات
روئے انور دیکھئے یا سیرتِ حق آشکار
باغِ عالم کب سنورتا آپ کے آئے بغیر
آپ ہی کے دم سے ہے اس باغِ عالم کی بہار
قصرِ شاہی ہے نہ حاجب ہے نہ کرّ و فر کوئی
کیا نرالا تاجور ہے کیا انوکھا شہریار
باعثِ تسکینِ روح و قلب ہے ام الکتاب
ذکر اس کا ہے علاجِ زخم ہائے دل فگار
زندگی میں ابنِ آدم پائے لطفِ زندگی
زندگی کر لے جو اس کے دینِ حق پر استوار
نیکیاں مل جائیں دس، ہوں دس خطائیں بھی معاف
ہے درودِ پاک کا صدقہ جو پڑھئے ایک بار
روضۂ اقدس پہ جاتے ہیں سلامی کے لئے
امتی اطرافِ عالم سے قطار اندر قطار
عرصۂ محشر میں آ جائیں کہیں مجھ کو نظرؔ
تھام لوں دامانِ رحمت دوڑ کر دیوانہ وار
٭٭٭
ہے کسی فردِ بشر کو کب یہ حاصل مقدرت
کر سکے ختمِ نبوت کی وہ پوری محمدت
وہ ہے سلطانِ دو عالم وہ ہے عالی مرتبت
ہے حبیب اللہ بھی ظاہر ہے اس کی فوقیت
ہو چکا تھا اشرف المخلوق یہ حیواں صفت
آپ ہی نے کی ہے آ کر اس کی قلبِ ماہیت
مرحمت کی اہلِ عالم کو کتابِ معرفت
ایک اک بتلا دیا کارِ ثواب و معصیت
دن میں پند و موعظت شب کو دعائے مغفرت
اپنے ہر اک امتی پر اس کے احساں ان گنت
از ہمہ پہلو مکمل سیرتِ ختم الرسل
دینِ حق اس کا ہے کامل بے گماں از ہر جہت
فقر کی چادر کو پہنا اپنی مرضی سے مگر
اس کے آگے گرد ہے شاہوں کی شان و تمکنت
خالقِ ارض و سما کا وہ ہے پیارا اس قدر
جس کے دل میں جس قدر اس ذات سے ہے انسیت
ہیں نمونہ دین و ایماں کا قیامِ حشر تک
اس کے وہ ساتھی رہے جو اس کے زیرِ تربیت
آپ ہی اٹھیں گے لوگوں کی شفاعت کے لئے
حشر میں سب انبیاء جب پیش کر دیں معذرت
اے نظرؔ اسرا کی شب نے تو یہ ثابت کر دیا
ہے وہی اک سرفرازِ انتہائے منزلت
٭٭٭
جذبۂ عشقِ خیر الوریٰ چاہئے
دل میں ہے یا نہیں دیکھنا چاہئے
نورِ ذکرِ چراغِ حرا چاہئے
خانۂ دل منور سدا چاہئے
بوئے عنبر نہ مشکِ خطا چاہئے
شہرِ طیبہ کی مجھ کو ہوا چاہئے
جس کو خوشنودی مصطفیٰ چاہئے
دین سے ان کے اس کو وفا چاہئے
تیری الفت ملے تا بہ حدِ جنوں
مجھ کو سارے دکھوں کی دوا چاہئے
حالِ امت ہے نا گفتنی اب تو بس
چشمِ رحمت تِری اور دعا چاہئے
جامِ کوثر کچھ ایسا ضروری نہیں
التفاتِ نظر ساقیا چاہئے
دل کے اندر بسی ہے یہ خواہش نظرؔ
جا کے شہرِ نبی میں بسا چاہئے
٭٭٭
میں بساطِ شاعری کا نہیں کوئی فردِ ماہر
کما حقہٗ نبیؐ کی میں محمدت سے قاصر
سرِ بامِ رنگ و بو ہے وہ خوشا چراغِ آخر
رہے جلوہ پاش جب تک یہ ہے عالمِ عناصر
وہ خدا کا ہے پیمبر وہ ہے پاک نفس و طاہر
وہ ہے بے عدیل عابد وہ ہے بے مثال ذاکر
جو ملی ہے اس کے ہاتھوں وہ کتابِ حق ہے نادر
کہ وہ معدنِ حِکم ہے وہ خزینۂ جواہر
کسی ہرزہ گو نے مجنوں تو کہا کسی نے ساحر
وہ سہارتا ہے سب کچھ ہے اگرچہ بارِ خاطر
نہ متاع و مالِ دنیا نہ ہے کرّ و فرِ شاہی
ہے وہ شاہِ دوجہاں پر ہے وہ صورۃ مسافر
وہ ہے غمگسارِ بے کس وہ ہے سب کے حق میں رحمت
سرِ حشر وہ ہے شافع بحضورِ ربِ قادر
سرِ عرش بھی وہ پہنچا جو ہے جلوہ گاہِ یزداں
بڑی عظمتوں کا مالک وہ حبیبِ ربِ فاطر
ہے خدا کی یہ منادی کہ وہ کل جہاں کا ہادی
اسے مانئے تو مومن جو نہ مانئے تو کافر
یہ نظرؔ سنا ہے ہم نے ہیں اسی کے دم قدم سے
یہ وجودِ بزمِ ہستی یہ حسیں حسیں مناظر
٭٭٭
خدا کا بندۂ محبوب ہے ختم الرسل ہے وہ
وہ مخدومِ دو عالم ہے مسلّم اس کی عظمت ہے
تقابل کیجئے کس سے مقابل ہو نہ جب کوئی
نرالی اس کی صورت ہے انوکھی اس کی سیرت ہے
ہے فطرت نرم خوئی کی ہے عادت صلح جوئی کی
برائے بندگانِ رب وہ ذاتِ پاک رحمت ہے
کھری، دو ٹوک، سادہ آپ کی ہے گفتگو ساری
خطابت میں سلاست ہے بلاغت ہے فصاحت ہے
علو ہمت ہے ہیبت ہے برائے دشمنانِ دیں
مصافِ حق و باطل میں نشانِ فتح و نصرت ہے
وہ مصروفِ جہادِ فی سبیل اللہ ہے دن میں
میانِ شب مصلّیٰ پر وہ مشغولِ عبادت ہے
برت کر اس نے دکھلائے قوانینِ خداوندی
دکھایا دہر کو جو طرزِ اسلامی حکومت ہے
کھلائے تھے جو گل بوٹے چمن زارِ نبوت میں
ابھی تک ان میں ویسی ہی دلآویزی ہے نکہت ہے
نظرؔ میں رب کے وہ بندہ بلا شک ہے پسندیدہ
جو اس کے دین کو اپنا کے پابندِ شریعت ہے
٭٭٭
نہیں ہے دم خم کسی میں اتنا ثنا نبیؐ کی جو لکھے کامل
ہے نعت گوئی میں میری نیت رضائے خالق ہو مجھ کو حاصل
کمال و خوبی ہر ایک لے کے خمیرِ فطرت میں کر کے داخل
خدا نے پیدا کیا وہ ہادی کہ جس پہ کرنا تھا دین کامل
بھٹک چکا تھا جو دینِ حق سے بچھڑ چکا تھا جو اپنے رب سے
شہِ ہدیٰ کے کرم کے صدقے بشر ہوا بازیابِ منزل
ہو مسئلہ پیچدار کوئی، ہو کوئی مشکل، ہو کوئی عقدہ
اس ایک مصحف سے حل ہوں سارے ہوا جو میرے نبیؐ پہ نازل
قلیل مدت میں کر دکھایا جو کام صدیوں نہ ہو سکا تھا
اگرچہ اپنا لہو بہایا اگرچہ گزرے کٹھن مراحل
ہزار سر اب اٹھائے باطل نہ حق کو لیکن مٹا سکے گا
نظرؔ جو کھائی تھی اس کے ہاتھوں وہ مستقل ہے شکستِ باطل
٭٭٭
آج پروازِ تخیل سوئے آں دلدار ہے
بزمِ ہست و بود میں فطرت کا جو شہکار ہے
وہ ہے ختم المرسلیں دنیا کا وہ سردار ہے
زیرِ گردوں اس کی ہی سب سے بڑی سرکار ہے
نرم خو ہے، خوبرو ہے، صاحبِ کردار ہے
مردِ عالی حوصلہ ہے اور بلند افکار ہے
دشمنوں سے راہِ حق میں برسرِ پیکار ہے
رعب ہیبت وہ برائے لشکرِ کفار ہے
روز و شب اللہ کی وحدانیت کا درس و وعظ
سیلِ کفر و شرک کو وہ آہنی دیوار ہے
وہ معلم، وہ مفسر، وہ مقنن، وہ فقیہ
سر پہ اس کی علم و حکمت کی بڑی دستار ہے
اس کے بتلائے ہوئے رستوں پہ چلنا ناگزیر
ورنہ صحنِ گلشنِ دنیا بہت پُر خار ہے
نقشِ پائے مصطفیٰؐ کی پیروی کرتا رہے
جس کسی کو بھی نجاتِ اخروی درکار ہے
جلوہ گاہِ ناز اسی کی ہے جہاں پر اے نظرؔ
روز و شب اللہ اکبر بارشِ انوار ہے
٭٭٭
روح کی بالیدگی اور دل کی فرحت کے لئے
نعت لکھتا ہے یہ احقر اس ضرورت کے لئے
تا قیامت ساری دنیا کی ہدایت کے لئے
آئے سرکارِ دو عالم اس ضرورت کے لئے
چاہئے تھا اک نبیؐ ختمِ نبوت کے لئے
چن کے بھیجا رب نے ان کو اس ضرورت کے لئے
اک نبی آنا تھا نبیوں کی امامت کے لئے
بعثتِ محبوبِ رب ہے اس ضرورت کے لئے
مظہرِ کامل ہو جو گل کاری فطرت کا نقش
کر دیا پیدا محمدؐ اس ضرورت کے لئے
وحی متلو ربِ دو عالم کو کرنی تھی تمام
ان پہ کی تنزیلِ قرآں اس ضرورت کے لئے
تا کریں تبیینِ قرآں باللسان و بالعمل
سیدِ کونینؐ آئے اس ضرورت کے لئے
آخرش کرنی جو تھی اللہ کو تکمیلِ دیں
بعثتِ شاہِ ہدیٰ ہے اس ضرورت کے لئے
رب کو دکھلانی تھی کیا ہے حدِ معراجِ بشر
آپ کو معراج بخشی اس ضرورت کے لئے
جرعہ کش ہو کر کے جس سے رہ نہ جائے تشنگی
ہے خمستانِ محمدؐ اس ضرورت کے لئے
کیا ضرورت تھی کسی کو آستانِ غیر کی
شاہِ بطحاؐ جب ہے کافی ہر ضرورت کے لئے
فی الحقیقت کیا ہے اسلامی حکومت اے نظرؔ
کر کے دکھلا دی حکومت اس ضرورت کے لئے
٭٭٭
قلب یکسو ہے مرا عالمِ تنہائی ہے
نعت لکھنے پہ طبیعت مری آج آئی ہے
تنِ سیمیں پہ فدا حسن ہے رعنائی ہے
جس نے دیکھا نہیں وہ بھی ترا شیدائی ہے
شبِ معراج سے معلوم ہوا ہے ہم کو
خلوتِ عرش میں تیری ہی پذیرائی ہے
تیری صورت تری سیرت تری فطرت یکتا
بارک اللہ تری ذات میں یکتائی ہے
روحِ خوابیدہ، تنِ خستہ، دلِ پژمردہ
دینِ قیم میں ترے سب کی مسیحائی ہے
ہر عمل آپ کا ہے حسنِ عمل سے بھرپور
ہر سخن آپ کا سچائی ہی سچائی ہے
رات کٹتی ہے عبادت میں مناجاتوں میں
دن میں اعدا سے تری معرکہ آرائی ہے
منتہی سلسلۂ کارِ نبوت تجھ پر
تا بہ ہنگامۂ محشر تری آقائی ہے
اے نظرؔ ہے شہِ لولاک وہ کملی والا
دم سے اس کے ہی یہ سب انجمن آرائی ہے
٭٭٭
لکھتا ہی رہوں سیدِ کونین کی مدحت
اللہ کرے مجھ کو یہ توفیق عنایت
مخلوق میں اول ہے مسلّم یہ روایت
بعثت میں وہ آخر ہے یہ اللہ کی حکمت
بعد آپ کے لاریب ہوئی ختم نبوت
پرّاں ہے عَلم آپ کا تا روزِ قیامت
قرآں کا معلم ہے وہ بے داغ ہے سیرت
صدقے ہے صداقت تو نثار اس پہ امانت
اللہ کے بندوں کی چمک اٹھی ہے قسمت
ذاتِ شہِ والا وہ ہے اللہ کی رحمت
لاریب ہے سر تا بہ قدم حسن کی تصویر
حقا کہ ہے بے مثل نگارِ یدِ فطرت
اُمی ہے مگر واقفِ اسرارِ نہاں ہے
ہر فکر میں رفعت ہے تو ہر قول میں حکمت
واللہ یہ سب آپ کی محنت کا ثمر ہے
فائز ہوئی بر اوجِ ثریا بشریت
انساں کو کیا اس نے ہی ہمدوشِ ملائک
انساں کو عطا کیں وہ صفاتِ ملکیت
دشمن سے نہ کی اس نے کبھی تلخ کلامی
اخلاقِ معلّیٰ یہ زہے حسنِ مروت
دامن سے ترے دین کے وابستہ نظرؔ ہے
قائم رکھے اللہ مری تجھ سے یہ نسبت
٭٭٭
رہے گا غلغلہ تیرا جہاں میں ہم نہیں ہوں گے
تو محبوبِ خدا ہے تیرے چرچے کم نہیں ہوں گے
سہارا ایک بس رہ جائے گا شاہِ مدینہ کا
جو ہمدم ہیں دریں عالم در آں عالم نہیں ہوں گے
شفیعِ عاصیاں ہے نورِ چشمِ آمنہ بے شک
مسیحِ دہر نورِ دیدۂ مریم نہیں ہوں گے
نہ جائیں جو مدینہ باوجودِ استطاعت بھی
دل و ایماں کے رشتے ان کے مستحکم نہیں ہوں گے
رہِ توحید دکھلا کر جو بخشی ہے سر افرازی
مسلمانوں کے سر پیشِ بتاں اب خم نہیں ہوں گے
عطا کردہ ہیں جو ان کے اصولِ زندگی وہ سب
نہ اپنائیں گے جب تک ہم مصائب کم نہیں ہوں گے
پلائیں گے نظرؔ کو جامِ کوثر صاحبِ کوثر
ثنا گر سے یقیناً اپنے نا محرم نہیں ہوں گے
٭٭٭
شمیمِ جاں فزا لائی، پھری گلشن میں اترائی
کھلے پڑتے ہیں غنچے بھی مدینہ سے صبا آئی
مرا حسنِ مقدر ہے وہ مولائی وہ آقائی
مری دنیا سنور اٹھی مری عقبیٰ میں بن آئی
خدا نے کب کسے بخشی کسی نے کب بھلا پائی
تری صورت سی رعنائی تری سیرت سی یکتائی
تھا حرص و آز سے بالا خدا کے دیں کا متوالا
منال و مال ٹھکرایا شہنشاہی بھی ٹھکرائی
ازل سے رب نے کر رکھی تھی تیرے واسطے مختص
قیامت تک کی سرداری زمانے بھر کی آقائی
ترے قرآن کی عظمت مسلّم ہے زمانے میں
ترے اقوال ہیں زریں تری با توں میں گہرائی
زمانے کی گواہی ہے فرشتوں کی شہادت ہے
ہوئی وہ پاش پاش آخر جو قوت تم سے ٹکرائی
مصفّا خوشگوار و بارد و شیریں وَ بلّوریں
یہ آبِ چشمۂ زمزم ترا ورثہ ہے آبائی
پہنچتے ہیں قدم بوسی کو سب اقصائے عالم سے
زیارت کا ترے روضہ کی ہر مومن تمنائی
از آلامِ زمانہ بھاگ کر عشاق جا پہنچے
ترے گیسو کی چھاؤں میں بڑی آسودگی پائی
بشر کے واسطے ممکن نہیں اس تک رسا ہونا
تمہارے واسطے اک گام ہے یہ چرخِ مینائی
نظرؔ ایسے ہی بن جاؤ اگر کچھ مرتبہ چاہو
اولو الالباب کے زمرہ میں ہیں سب اس کے شیدائی
٭٭٭
فکر دوں پرواز ہے عقلِ بشر محدود ہے
کیسے تکمیلِ ثنا ہو راستہ مسدود ہے
اس نے سمجھایا ہمیں اللہ بس معبود ہے
خالقِ ہر شے ہے مالک ہے وہی مسجود ہے
لعل و یاقوت و زمرد سیم و زر بے سود ہے
گر وہی حاصل نہ ہو جو گوہرِ مقصود ہے
دیں کا اس کے بول بالا ہو تو ہے جنت نظیر
مثلِ صحرا ورنہ یہ دنیائے ہست و بود ہے
میرے پیغمبر پہ جو اتری ہے وہ ام الکتاب
ناسخِ تورات ہے وہ ناسخِ تلمود ہے
نام ہے غمازِ عظمت رتبہ ظاہر از مقام
وہ محمدؐ ہے مقامِ آخرت محمود ہے
رات دن محنت بھی ہے سب کو دعائیں مستزاد
ہر طرح امت کے حق میں طالبِ بہبود ہے
جو نہ لائے اس پہ ایماں تا دمِ آخر نظرؔ
بارگاہِ ربِ دو عالم میں وہ مردود ہے
٭٭٭
بیان ہے لبوں پر شہِ انس و جاں کا
مرے گرد حلقہ ہے کرّ و بیاں کا
وہ محبوب و ممدوح ربِ جہاں کا
یہ رتبہ خوشا قبلۂ مقبلاں کا
شرف آسماں سے بڑھا خاکداں کا
کہ مسکن ہے یہ عرش کے میہماں کا
ہے پہرہ بہاروں کا در شہرِ خوباں
گزر کیسے ممکن وہاں ہو خزاں کا
سوادِ مدینہ قریب آ گیا ہے
بڑھا شوق دل کا بڑھا کیف جاں کا
سخن کیوں نہ ہر اک ہو پیوستۂ دل
کہ فرمودہ ہے اس لبِ گل فشاں کا
درود اس پہ بھیجیں بہ حکمِ الٰہی
وظیفہ ہے دن رات کرّ و بیاں کا
وہ محشر جہاں نفسی نفسی کا عالم
وہی ایک ماویٰ ہے بے چارگاں کا
اسی سے پلا مجھ کو ساغر پہ ساغر
جو خم ہے مرے ساقی مہرباں کا
بن آئے نظرؔ اپنی جا کر مدینہ
وہیں رشتہ ٹوٹے جو عمرِ رواں کا
٭٭٭
گروہِ انبیاء میں ہے بڑا درجہ محمدؐ کا
امام الانبیاء ہے وہ زہے رتبہ محمدؐ کا
فرازِ عرش تک پہنچا ہے اف جلوہ محمدِ کا
خدا کے بعد ہے سب سے بڑا رتبہ محمدؐ کا
لیا جاتا ہے نامِ پاک ہر لحظہ محمدؐ کا
زمیں سے چرخِ ہفتم تک رواں سکہ محمدؐ کا
مسلمانوں کا قبلہ خانۂ کعبہ محمدؐ کا
مگر کعبہ کا قبلہ ہے حسیں چہرہ محمدؐ کا
نجاتِ اخروی کا ان کی ہے ذمہ محمدؐ کا
جو لیتے نام ہیں صبح و مسا اللہ محمدؐ کا
دلوں کے واسطے وجد آفریں نغمہ محمدؐ کا
برائے پیروی بندوں کو ہے اسوہ محمدؐ کا
سخن ہے دل نشیں اور پر کشش لہجہ محمدؐ کا
زباں شستہ محمدؐ کی بیاں عمدہ محمدؐ کا
اویسِ پارسا عاشق تھا نادیدہ محمدؐ کا
اسی روشن جبیں کو مل گیا خرقہ محمدؐ کا
بقدرِ جہد ہے ہر فردِ امت فیضیاب اس سے
حدیثِ پاک و اَلقرآں کہ ہے ترکہ محمدؐ کا
رجوعِ عام ہے اہلِ جہاں کا جانبِ طیبہ
تمناؤں کا قبلہ سب کی ہے روضہ محمدؐ کا
نگاہِ چشمِ عرفاں پر ہوا ہے آشکارا یہ
اُدھر کعبہ ہے مڑ جائے جدھر چہرہ محمدؐ کا
نصیب اس شخص کو روشن ضمیری ہو گئی واللہ
جسے کچھ مل گیا کھانے کو پس خوردہ محمدؐ کا
نکیرین آ کے پلٹیں گے مری تربت سے یہ کہہ کر
ثنا خواں یہ تو ہے اللہ کا بندہ، محمدؐ کا
وہ نازاں عمر بھر کیوں ہو نہ اپنی خوش نصیبی پر
نظرؔ آ جائے جس کو خواب میں چہرہ محمدؐ کا
٭٭٭
حس شعر کی ہے مجھ کو جوں آٹے میں ہو نمک
ملتی ہے مجھ کو بہرِ ثنا غیب سے کمک
مستجمعِ کمال وہ حدِ کمال تک
تخلیقِ نقش گر ہے وہ "ما شاءَ رکبک”
واللہ اس کے چہرۂ تاباں کی اک جھلک
دنیائے رنگ و بو کی یہ ساری چمک دمک
برقِ نگاہِ چشم سیہ دل کو لے ا چک
مشکِ ختن کی گیسوئے شبگوں میں ہے مہک
سینہ ہے اس کا مخزنِ انوارِ معرفت
اس کا خرامِ ناز سنا ہم نے عرش تک
اس کی پکار صبح و مسا ہے چہار سو
روشن ہے اس کا نام زمانہ میں آج تک
طرار شہ سوار ہے مرکب براق ہے
جس کے قدم قدم کی ہے منزل فلک فلک
احساں ہے بے شمار خدائی پہ آپ کا
بھیجیں درود آپ پہ جن و بشر، مَلک
اس کے کرم کا ذکر نظرؔ ہر زبان پر
گن اس کے گائے جاتے ہیں گردوں سے تا سمک
٭٭٭
وہ چہرۂ دلکش صلِّ علیٰ وہ سیرتِ اقدس کیا کہنا
دیکھے جو کوئی رخ یا سیرت دیکھا ہی کرے بس کیا کہنا
ہر بات جو ان کے منہ کی ہے خود دل میں جگہ کر لیتی ہے
الفاظ مرصع سب کے سب با توں میں گھلا رس کیا کہنا
صحبت میں نبی اکرمؐ کے انسان بنے کندن لاکھوں
کندن پہ ہی کیا موقوف اکثر خود بن گئے پارس کیا کہنا
اللہ کی بخشش کا عالم محبوبِ خدا کی نسبت سے
اک بار درود ان پر جو پڑھے تو اجر ملے دس کیا کہنا
ہر ایک مسافر چل چل کر پہنچے جو سوادِ طیبہ میں
سر مست ہو دل، پُر شوق نگہ، پر جوش ہو نس نس کیا کہنا
کیا بات ہے ارضِ طیبہ کی کس درجہ کشش پنہاں ہے نظرؔ
ہر زائر خواہش رکھتا ہے گھر جائے نہ واپس کیا کہنا
٭٭٭
نورِ چشمِ آمنہ عظمت نشاں بنتا گیا
جانِ عبد اللہ سردارِ جہاں بنتا گیا
حق نما، حق آشنا، حق کی اذاں بنتا گیا
وہ کتابِ آخریں کا ترجماں بنتا گیا
خوش ادا، شیریں سخن، معجز بیاں بنتا گیا
رفتہ رفتہ سب کے دل کی داستاں بنتا گیا
بارگاہِ لم یزل کا راز داں بنتا گیا
مرحبا آگاہ سِرِّ کن فکاں بنتا گیا
رہنمائے ساحلِ امن و اماں بنتا گیا
نا خدائے کشتی عمرِ رواں بنتا گیا
چارہ سازِ درد و غم ہائے نہاں بنتا گیا
وجہ تسکیں وہ پئے آزردگاں بنتا گیا
خرمنِ باطل کو برقِ بے اماں بنتا گیا
کارِ ابلیسِ لعین کارِ زیاں بنتا گیا
نقش پائے مصطفیٰ کی مرحبا گل کاریاں
دامنِ صحرا وہ رشکِ گلستاں بنتا گیا
طالبِ منزل ہر اک ہوتا رہا حلقہ بگوش
"ان کی شخصیت کے گرد اک کارواں بنتا گیا”
صورۃ تنویرِ قرآں سیرۃ قرآنِ کل
عادۃ مثلِ حریر و پرنیاں بنتا گیا
تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرایا کبھی
استقامت کا وہ اک کوہِ گراں بنتا گیا
بخش کر سب کو مئے نابِ خمستانِ ازل
وجہ سیرابی پئے لب تشنگاں بنتا گیا
مرحبا اعجاز نگہ پاکِ ختم المرسلیں
اس نے جس ذرہ کو دیکھا آسماں بنتا گیا
پڑھ نظرؔ صلِ علیٰ اس ہادی اعظم پہ جو
باغِ عالم کی بہارِ جاوداں بنتا گیا
٭٭٭
دل ہم سے مقتضی ہے ثنائے حضورؐ کا
ہم تک رہے ہیں نور چراغِ شعور کا
ذکر آ گیا زباں پہ مری آں حضورؐ کا
عالم عجیب دل میں ہے کیف و سرور کا
میثاق انبیاء سے وہ ربِ غفور کا
چرچا ہوا ازل ہی سے ان کے ظہور کا
صورت ہے ان کی آئینۂ حسنِ لم یزل
سیرت پہ انعکاس ہے قرآں کے نور کا
اتنے گہر لٹائے ہیں دُرِّ یتیم نے
پیمانہ بھر گیا مرے علم و شعور کا
صد حیف ہم پہ آئیں جو اب بھی فریب میں
کھولا ہے اس نے راز متاعِ غرور کا
ان کی کتاب ساری کتابوں سے ہے بلند
انجیل ہی کا ہے نہ وہ پایہ زبور کا
اک کاروانِ شوق ترے آستاں پہ ہے
زائر طرح طرح کا ہے نزدیک و دور کا
دیکھا ہے اس نے جلوۂ حق اپنی آنکھ سے
قصہ ہے مختلف اَرَنی گوئے طور کا
روضہ پہ آنحضورؐ کے جا دیکھ اے نظرؔ
منظر جو دیکھنا ہے تجھے سیلِ نور کا
٭٭٭
اوجِ فلک پہ مہرِ درخشاں تمہیں سے ہے
یہ بزمِ ماہ و انجمِ تاباں تمہیں سے ہے
بطنِ صدف میں گوہرِ رخشاں تمہیں سے ہے
ابرِ کرم ہو قطرۂ نیساں تمہیں سے ہے
فرشِ زمیں پہ خلقتِ انساں تمہیں سے ہے
دو روزہ زندگی کا یہ ساماں تمہیں سے ہے
بوئے گل و نسیم خراماں تمہیں سے ہے
کیفِ بہار و رنگِ گلستاں تمہیں سے ہے
شرعِ متین و مصحفِ قرآں تمہیں سے ہے
کشفِ رموز و حکمتِ پنہاں تمہیں سے ہے
جہلِ خرد کا چاک گریباں تمہیں سے ہے
روشن جہاں میں مشعلِ ایماں تمہیں سے ہے
یادِ خدا کی لذتِ پنہاں تمہیں سے ہے
دنیا میں ترکِ صحبتِ عصیاں تمہیں سے ہے
صد چارۂ جراحتِ انساں تمہیں سے ہے
نوعِ بشر کے درد کا درماں تمہیں سے ہے
ق
صدیقؓ میں حرارتِ ایماں تمہیں سے ہے
قلبِ عمرؓ میں عظمتِ قرآں تمہیں سے ہے
رنگِ حیائے چہرۂ عثماںؓ تمہیں سے ہے
حیدر علیؓ سا شیرِ نیستاں تمہیں سے ہے
صوم و صلوٰۃ و حج و نصابِ زکوٰۃ سب
دنیا میں آخرت کا یہ ساماں تمہیں سے ہے
خلعت عطا ہوئی تمہیں خلقِ عظیم کی
انسانیت کا چشمۂ فیضاں تمہیں سے ہے
ہر ہر قدم پہ نقشِ قدم رہنما مجھے
مشکل قدم قدم کی سب آساں تمہیں سے ہے
پر آں تمہیں سے پرچمِ توحیدِ کبریا
تقسیمِ جامِ بادۂ عرفاں تمہیں سے ہے
لات و منات خاک بسر تم نے کر دیے
سجدہ گزاری درِ یزداں تمہیں سے ہے
کچھ بھی نظرؔ کے پاس نہیں توشۂ عمل
روزِ جزا نجات کا ساماں تمہیں سے ہے
٭٭٭
نظامِ آفرینش کا تو ہی عنوان ہے ساقی
بجسمِ عالمِ امکاں تو مثلِ جان ہے ساقی
ترا میخانۂ وحدت عظیم الشان ہے ساقی
برائے میگساراں دورِ مے ہر آن ہے ساقی
مئے وحدت، مئے کوثر، مئے عرفان ہے ساقی
ترے رندوں کی خاطر اف بڑا سامان ہے ساقی
خدا کے فضل سے تجھ پر مرا ایمان ہے ساقی
نہیں دل ہی سے پیارا تو عزیز از جان ہے ساقی
ہدایت کے لئے سب کی ترا قرآن ہے ساقی
قیامِ حشر تک سرچشمۂ فیضان ہے ساقی
کھرے کھوٹے عمل کا فیصلہ آسان ہے ساقی
تری سنت برائے ہر عمل میزان ہے ساقی
گروہِ عاشقاں میں جن کی اونچی شان ہے ساقی
ابو بکرؓ و عمرؓ حیدرؓ ہے اور عثمانؓ ہے ساقی
شبِ معراج کہتی یہ علی الاعلان ہے ساقی
تو جلوہ گاہِ یزداں میں ہوا مہمان ہے ساقی
تری تعلیم ہی سے آدمی انسان ہے ساقی
گروہِ ابنِ آدم پر ترا احسان ہے ساقی
حسابِ زندگی دینا بروزِ حشر مشکل ہے
ترا دامن پکڑ لینا مجھے آسان ہے ساقی
خدا کو مان کر واحد نہ لائے تجھ پہ جو ایماں
مرے ایمان کی رو سے وہ بے ایمان ہے ساقی
تری سیرت کو یکجا کر کے جب اس پر نظر ڈالی
تو پایا ہم نے وہ تو ہو بہو قرآن ہے ساقی
٭٭٭
سلام، تضمین، نظم، قطعات
سلام
سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
ملا خدا سے ہے مجھے جو بہرۂ سخن وری
تو پیش کر رہا ہوں میں یہ ہدیۂ ثنا گری
تو سرگروہِ انبیاء تو نازشِ پیمبری
رخِ سخن تری طرف کہوں میں ہو کہ با ادب
سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
حبیبِ ربِ دوجہاں نبی آخر الزماں
تمہاری ذاتِ پاک ہے بنائے بزمِ کن فکاں
تمہارے دم قدم سے ہے منور اپنا خاکداں
تمہاری ذات مصطفیٰؐ تمہارا نام منتخب
سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
خلیلِ رب کی تو دعا ہے آمنہ کو تو پسر
ہے اک دُرِ یتیم تو مگر ہے رشکِ نُہ گہر
بشر کی نسل سے ہے تو مگر ہے سید البشر
زہے تو اشرف الحسب خوشا تو عالی النسب
سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
تو سرگروہِ مرسلاں تو تاجدارِ صالحیں
تو سُکرِ قلبِ عارفاں تو نورِ قلبِ مومنیں
چراغِ راہِ سالکاں تو سوزِ قلبِ عاشقیں
ہے تیری یاد دل بہ دل ہے تیرا ذکر لب بہ لب
سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
صراطِ مستقیم کا تو بے مثال رہنما
تو قبلۂ خدا نما تجھی پہ دیں کی انتہاء
پیمبری کا سلسلہ تجھی پہ مختتم ہوا
مزکّی نفوس و جاں معلمِ کتابِ رب
سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
خدا پکارے مرحبا نبینا رسولنا
ہر امتی کی ہے صدا شفیعنا حبیبنا
ہے بزمِ دوجہاں میں تو متاعنا متاعنا
پہنچ رہا ہے دم بدم درودِ بندگانِ رب
سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
خدائے لاشریک کی کہیں پہ بندگی نہ تھی
چہار سو تھی ظلمتیں بگڑ چکی تھی زندگی
تو لے کے آیا روشنی تو زندگی نکھر گئی
سنور گئے ترے ہی دم سے کار ہائے منشعب
سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
تمہارے شہر میں رہا ہوں آٹھ دن میں معتکف
وہاں پہ دل کا رنگ تھا ہزار درجہ مختلف
ثواب کا حریص تھا ہر اک گنہ سے منحرف
زبان و دل کی تھی صدا چلا ہوں میں وہاں سے جب
سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
شفیعِ روزِ حشر ہے خوشا تو اے شہِ امم
بلند بام ہے وہاں بھی تیرے نام کا عَلم
ابھی سے لے رہا ہوں میں بہ ہر قدم ترا قدم
کرم کی اک نظرؔ وہاں مجھے ہے خوفِ ما کَسب
سلام اے شہِ ہدیٰ سلام اے مہِ عرب
٭٭٭
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
سلام اے ابنِ عبداللہ بن عبد المطلب تم پر
سلام اے نورِ چشمِ آمنہ رشکِ مہِ انور
سلام اے افتخارِ نوعِ انساں طاہر و اطہر
سلام اے مصطفیٰؐ صلِّ علیٰ اے سب کے پیغمبر
سلام اے مصدرِ نورِ ہدیٰ اے دین کے سرور
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
سلام اے گلشنِ ہستی میں جس کا ہر طرف شہرہ
سلام اے وادی ام القریٰ کے ناز پروردہ
سلام اے نازشِ ہجرت سلام اے رونقِ طیبہ
سلام اے مرجعِ عالم ہے جس کا اخضریں روضہ
سلام اے بارشِ انوارِ یزداں کا جو ہے محور
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
سلام اے وہ کہ جس سے رونقِ گلزارِ ہستی ہے
سلام اے وہ کہ جس سے مقتبس ہر اوج و پستی ہے
سلام اے وہ کہ جس پر ہر گھڑی رحمت برستی ہے
سلام اے وہ کہ جس سے نشّۂ وحدت پرستی ہے
سلام اے ساقی دوراں سلام اے ساقی کوثر
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
سلام اے وہ کہ ہے لاریب جس کا قلبِ نورانی
سلام اے وہ کہ جو ہے مہبطِ آیاتِ قرآنی
سلام اے وہ قیامت تک ہے باقی جس کی سلطانی
سلام اے وہ کہ پیدا ہی نہیں جس کا کوئی ثانی
سلام اے وہ جو مخلوقِ خدا میں سب سے ہے برتر
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
سلام اے وہ کہ جس سے سلسلہ رشد و ہدایت کا
سلام اے وہ رواں چشمہ ہے جس سے علم و حکمت کا
سلام اے وہ کیا سر جس نے اونچا آدمیت کا
سلام اے وہ کہ جس سے چاک ہے پردہ جہالت کا
سلام اے وہ کہ جس کے دم سے دارِ آخرت بہتر
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
سلام اس پر لباسِ فاخرہ سے جو گریزاں تھا
سلام اس پر لباسِ فقر پر اپنے جو فرحاں تھا
سلام اس پر جو از حد بے نیازِ ساز و ساماں تھا
سلام اس پر کہ جو لذت کشِ صہبائے عرفاں تھا
سلام اس پر کہ تھی نانِ جویں جس کی غذا اکثر
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
سلام اس پر کہ جس کو رتبۂ معراج ہے حاصل
سلام اس پر شریعت جس کی روشن دین ہے کامل
سلام اس پر کہ جو طوفاں زدوں کو راحتِ ساحل
سلام اس پر کہ جس سے لرزہ بر اندام ہے باطل
سلام اس پر کہ جو گم گشتگانِ راہ کو رہبر
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
سلام اس پر کہ جس کا جدِ امجد بانی زمزم
سلام اس پر کہ جس کا نور افشاں عرش پر پرچم
سلام اس پر کہ وابستہ ہے جس سے عظمتِ آدم
سلام اس پر سلام آتے ہیں جس کی ذات پر پیہم
سلام اے خیر کے داعی سلام اے ناہی منکر
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
سلام اے وہ بنے جس کا نہ ذکر افسانۂ ماضی
سلام اے وہ کہ ہے مشہورِ عالم جس کی فیاضی
سلام اے رحم پرور، عدل گستر، حاکم و قاضی
سلام اس پر کہ جس کے فیصلوں پر سب کے دل راضی
سلام اس پر جو بے حد مہرباں ہے اپنی امت پر
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
سلام اے صاحبِ اخلاقِ اعلیٰ صابر و شاکر
سلام اے وہ کہ پیغامِ خدا جس پر ہوا آخر
سلام اے وہ جو ہے محبوبِ ربِ حاضر و ناظر
سلام اس پر کہ جس کی محمدت سے ہے نظرؔ قاصر
سلام اس پر ہے جس کا مدح خواں خود خالقِ اکبر
سلام اے خاصۂ خاصانِ رب اے شافعِ محشر
٭٭٭
یومِ میلادِ حضرتؐ پہ لاکھوں سلام
اس کی ایک ایک ساعت پہ لاکھوں سلام
زلف و رخ قد و قامت پہ لاکھوں سلام
ہاشمی ماہِ طلعت پہ لاکھوں سلام
اس کی قرآنی سیرت پہ لاکھوں سلام
مظہرِ شانِ قدرت پہ لاکھوں سلام
آفتابِ نبوت پہ لاکھوں سلام
ماہِ گردونِ رفعت پہ لاکھوں سلام
پیکرِ استقامت پہ لاکھوں سلام
اس ہمالائے ہمت پہ لاکھوں سلام
ہادمِ شرک و بدعت پہ لاکھوں سلام
دافعِ کفر و ظلمت پہ لاکھوں سلام
نازشِ آدمیت پہ لاکھوں سلام
قلّۂ کوہِ عظمت پہ لاکھوں سلام
بحرِ ذخارِ حکمت پہ لاکھوں سلام
منبعِ ہر ہدایت پہ لاکھوں سلام
واقفِ ہر حقیقت پہ لاکھوں سلام
کاشفِ رازِ فطرت پہ لاکھوں سلام
پیکرِ رحم و شفقت پہ لاکھوں سلام
اس سراپائے رحمت پہ لاکھوں سلام
عرشِ اعظم کی زینت پہ لاکھوں سلام
عالمِ کن کی علّت پہ لاکھوں سلام
اس کی چشمِ عنایت پہ لاکھوں سلام
اس کی خوئے مروت پہ لاکھوں سلام
اس غریقِ عبادت پہ لاکھوں سلام
اس کے اخلاصِ طاعت پہ لاکھوں سلام
جس کو تسلیم کرتے ہی سب کو بنے
اس قیادت سیادت پہ لاکھوں سلام
جس کے حق میں سراجاً منیرا کہا
اس چراغِ نبوت پہ لاکھوں سلام
راہِ روشن صدا جو دکھاتی رہے
بے نظیر اس شریعت پہ لاکھوں سلام
تا قیامِ قیامت جو محفوظ ہے
اس کتابِ پُر عظمت پہ لاکھوں سلام
جس پہ سب اہلِ فن آج تک سر دھنیں
اس فصاحت بلاغت پہ لاکھوں سلام
جو نگاہِ عدو میں بھی ہے معتبر
اس صداقت امانت پہ لاکھوں سلام
صحنِ اقصیٰ میں سب انبیاء مقتدی
اس کی طرفہ امامت پہ لاکھوں سلام
فتحِ مکہ کے دن سب کو جو بخش دے
اس مجسم شرافت پہ لاکھوں سلام
جو حضورِ خدا میں سفارش کرے
اس طرفدارِ امت پہ لاکھوں سلام
آؤ آؤ نظرؔ مل کے سب ہم پڑھیں
ساقی جامِ وحدت پہ لاکھوں سلام
٭٭٭
نورِ چشمِ آمنہ اے ماہِ طلعت السلام
مظہرِ حسن و کمالِ دستِ قدرت السلام
شہریارِ تختِ اقلیمِ نبوت السلام
اے مہِ انور بہ گردونِ رسالت السلام
پاک طینت خوبصورت نیک سیرت السلام
پیکرِ اخلاقِ اعلیٰ بدرِ رحمت السلام
حق نما اے آئنہ دارِ حقیقت السلام
کامل المعیار در فصلِ امانت السلام
صادق الاقوال میزانِ صداقت السلام
اے چراغِ ضو فشاں نورِ ہدایت السلام
ماحی اوہام و کفر و شرک و بدعت السلام
اے مکمل جس پہ ہے دین و شریعت السلام
صاحبِ معراج اے ختمِ نبوت السلام
اے مطاعِ دوجہاں آقائے امت السلام
دافعِ ظلم و فساد و بربریت السلام
مرحبا پیغمبرِ امن و اخوت السلام
اے معلم دینے والے درسِ الفت السلام
اے مربی مانعِ بغض و عداوت السلام
اے سپہ گر مردِ میدانِ شجاعت السلام
اے میانِ شب کہ ہے محوِ عبادت السلام
اے منارِ روشنی گم گشتگانِ راہ کو
اے خدا کی آخری برہان و حجت السلام
گنجِ اسرار و معانی معدنِ علم و حِکم
رہنمائے حق علیٰ وجہِ البصیرت السلام
رونقِ گلزارِ ہستی از قدومِ میمنت
اے بہارِ جاوداں لاریب و حجت السلام
اے کہ جس سے مل گئی سب کو صراطِ مستقیم
ساقی کاس الکرام و جامِ وحدت السلام
اے بہی خواہِ بنی آدم حبیبِ کبریا
اے کہ جس کے دم سے زندہ آدمیت السلام
اے سکونِ قلبِ مضطر گرمی خونِ رواں
کشتِ ایماں کی بہاروں کی ضمانت السلام
اے کہ جس کے واسطے ہے پرچمِ فتح و ظفر
اے جری شیرِ وِغا مردِ فتوت السلام
آخری امید گاہِ عاصیاں یومِ نشور
اے شفیع المذنبیں روزِ قیامت السلام
مل گئی پُر پیچ راہوں میں صراطِ مستقیم
مل گیا میرا خدا تیری بدولت السلام
بخشنے والے جِلا قلب و نظرؔ کو زندہ باد
دینے والے تحفۂ قرآن و سنت السلام
٭٭٭
تضمین: صل اللہ و علیہ و سلم
زخمی دل کا پنبۂ مرہم نامِ پاکِ سرورِ عالم
از اعجازِ نامِ مبارک سلسلۂ غم درہم برہم
ذاتِ محمدؐ ذاتِ مکرم اسمِ محمدؐ اسمِ اعظم
صل اللہ علیہ و سلم صل اللہ علیہ و سلم
رہبر ہے وہ کل عالم کا منصب اس کا ختمِ نبوت
راہنمائے جادہ و منزل اس کا قرآں اس کی سنت
دین و شریعت دونوں کامل اونچا سب سے اس کا پرچم
صل اللہ و علیہ و سلم صل اللہ علیہ و سلم
سبحان اللہ عینِ قرآں سب اس کے اخلاقِ حمیدہ
سب بتلانا نا ممکن ہے پہلو ہیں یہ چیدہ چیدہ
رحم سراپا لہجہ شیریں وعدے پکے باتیں محکم
صل اللہ و علیہ و سلم صل اللہ علیہ و سلم
کسریٰ، دارا یا ہو قیصر رعب ہے اس کا سب پہ طاری
فوج نہ لشکر پھر بھی تنہا مدِّ مقابل پر ہے بھاری
سامنے اس کے سر افگندہ اپنے اپنے وقت کے ضیغم
صل اللہ علیہ و سلم صل اللہ و علیہ و سلم
فکر میں امت کے مستغرق جاگ رہے ہیں سونا کیسا
اول شب میں لیٹے ہوں گے سوئے ہوں گے جیسا تیسا
وقتِ تہجد صرفِ عبادت لب پہ دعائیں آنکھیں پُر نم
صل اللہ علیہ و سلم صل اللہ علیہ و سلم
برپا ہو گاجس دن محشر سارے لرزاں ترساں ہوں گے
دھیان کسی کا کس کو ہو گا ہوش سبھی کے پرّاں ہوں گے
بہرِ شفاعت اٹھیں گے بس رحمتِ عالم سب کے ہمدم
صل اللہ و علیہ و سلم صل اللہ علیہ و سلم
زندہ ہیں تو آئے گا پھر حج کا مہینہ ان شاء اللہ
اے دلِ پُر غم جائیں گے ہم شہرِ مدینہ ان شاء اللہ
پیش، نظرؔ جب روضہ ہو گا خوب پڑھیں گے دل سے یہ ہم
صل اللہ علیہ و سلم صل اللہ علیہ و سلم
٭٭٭
تضمین: بلغ العلیٰ بکمالہٖ
نہ رسوخ و علم نہ آگہی نہ سخن کی تاب و مجال ہی
نہ نگاہ میری ہے دور رس نہ بلند میرا خیال ہی
نہ نصیب صحتِ دل مجھے نہ طبیعت اپنی بحال ہی
میں لکھوں ثنائے شہِ ہدیٰ لگے مجھ کو امرِ محال ہی
بلغ العلیٰ بکمالہٖ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیعُ خصالہٖ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ
ترا نام چیدہ و منتخب ترا ذکر، ذکرِ جمیل ہے
تو دعائے قلبِ خلیل ہے تو حبیبِ ربِ جلیل ہے
تو ہے رہنمائے رہِ ہدیٰ تو سراپا حق کی دلیل ہے
ہے سخن سخن ترا دل نشیں مرے لب پہ صدقِ مقال ہی
بلغ العلیٰ بکمالہٖ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیعُ خصالہٖ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ
تو امیں ہے تو کریم ہے تو رؤف ہے تو رحیم ہے
تو ہے رازدانِ حریمِ رب کہ رسائے عرشِ عظیم ہے
تو ہے سرِّ حق تو ہے رازِ کن تو خدا کے بعد قدیم ہے
تری ذاتِ والا صفات کی نہ برابری نہ مثال ہی
بلغ العلیٰ بکمالہٖ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیعُ خصالہٖ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ
ترے میکدے کی یہ ندرتیں کوئی روک ہے نہ حساب ہے
کوئی جس قدر بھی پئے، پئے کہ یہ عین کارِ ثواب ہے
نہ پئے اگر تو گناہ وہ کہ بڑا ہی جس پہ عذاب ہے
جسے ہو خدا کا ذرا بھی ڈر پئے ایک جامِ سفال ہی
بلغ العلیٰ بکمالہٖ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیعُ خصالہٖ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ
تری بارگاہِ عظیم میں ہمہ وقت جمِ غفیر ہے
وہ ہے تاجور یہ فقیر ہے وہ غریب ہے یہ امیر ہے
اسے ہے مرض جو گناہ کا تو یہ رنج و غم کا اسیر ہے
تو جواب و حسنِ جواب ہے لبِ امتی پہ سوال ہی
بلغ العلیٰ بکمالہٖ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیعُ خصالہٖ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ
وہ کتابِ حق کہ جو تو نے دی اسے پڑھتے ہم ہیں ورق ورق
پہ ہزار حیف عمل کے رخ سے بھلا دیا ہے سبق سبق
مری زندگی کی کتاب میں نہیں کچھ بھی رنگِ کتابِ حق
ہو ترے کرم کی شہا نظرؔ کہ قدم ہیں سوئے زوال ہی
بلغ العلیٰ بکمالہٖ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیعُ خصالہٖ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ
٭٭٭
تضمین: الصبح بدا من طلعتہٖ
کب علم میں اتنی وسعت ہی
کب عقل میں اتنی قوت ہی
کب فکر میں اتنی رفعت ہی
ہے مدحِ نبیؐ پُر دقت ہی
الصبح بدا من طلعتہٖ
و اللیلُ دجیٰ من وفرتہٖ
وہ عفو و کرم وہ رافت ہی
وہ پیکرِ لطف و شفقت ہی
اللہ کی وہ ہے رحمت ہی
کل عالم کو وہ نعمت ہی
الصبح بدا من طلعتہٖ
و اللیلُ دجیٰ من وفرتہٖ
وہ صورتِ انور صلِّ علیٰ
وہ سیرتِ اطہر صلِّ علیٰ
وہ حسن کا پیکر صلِّ علیٰ
ہر شے ہے خدا کی آیت ہی
الصبح بدا من طلعتہٖ
و اللیلُ دجیٰ من وفرتہٖ
نبیوں میں ہے یوں وہ ختمِ رسل
پھولوں میں ہے جیسے عظمتِ گل
محبوبِ خدائے خالقِ کل
وہ عالمِ کن کی علت ہی
الصبح بدا من طلعتہٖ
و اللیلُ دجیٰ من وفرتہٖ
قرآں جو ہوا ان پر نازل
ہے عقدہ کشائے ہر مشکل
پڑھئے تو سرورِ دل حاصل
اور جاں کے لئے تو لذت ہی
الصبح بدا من طلعتہٖ
و اللیلُ دجیٰ من وفرتہٖ
ہے ان کی شریعت گنجینہ
ہے حسنِ عمل کا آئینہ
ہے جملہ ترقی کا زینہ
انساں کی سنوارے قسمت ہی
الصبح بدا من طلعتہٖ
و اللیلُ دجیٰ من وفرتہٖ
وہ شاہِ دو عالم خاک نشیں
وہ جن کی غذا تھی نانِ جویں
اک شب تھے رسائے عرشِ بریں
دنیا ہے یہ محوِ حیرت ہی
الصبح بدا من طلعتہٖ
و اللیلُ دجیٰ من وفرتہٖ
سبحان اللہ یارانِ نبیؐ
صدیقؓ و عمرؓ عثمانؓ ِ غنی
اور شیرِ خدا یعنی کہ علیؓ
ان سب کا ہے مسکن جنت ہی
الصبح بدا من طلعتہٖ
و اللیلُ دجیٰ من وفرتہٖ
میزانِ عمل پیشِ داور
پُر ہول نظرؔ روزِ محشر
اس روز نہیں کوئی یاور
کام آئیں تو بس آنحضرتؐ ہی
الصبح بدا من طلعتہٖ
و اللیلُ دجیٰ من وفرتہٖ
٭٭٭
میرا نبی وہ ہے کہ محمدؐ کہیں جسے
حسن و جمال وہ ہے کہ بس دیکھتا رہے
رعب و جلال وہ ہے کہ دیکھا نہ جا سکے
سیرت وہ مرحبا ہے کہ قرآن ہی لگے
اوصاف اس قدر کہ ہیں دفتر بھرے پڑے
میرا نبی وہ ہے کہ محمدؐ کہیں جسے
شمعِ ہدیٰ ہے چاروں طرف اس کی ہے ضیا
وہ جلوہ گاہِ عرشِ بریں تک بھی ہے رسا
سرتاجِ مرسلیں ہے وہ سرخیلِ انبیا
وہ مقتدا نماز میں سب مقتدی بنے
میرا نبی وہ ہے کہ محمدؐ کہیں جسے
ہے ماہتاب اس کو ستاروں کی کیا کمی
صدیقؓ ہے عمرؓ ہے وہ عثماںؓ ہے یہ علیؓ
لاریب ایک ایک ہے جاں دادۂ نبیؐ
دیکھیں نہ اک نظر تو ہزار آئیں وسوسے
میرا نبی وہ ہے کہ محمدؐ کہیں جسے
مردِ جری ہے اس کی فتوت ہے بے مثال
ٹھہریں نہ اس کے سامنے کفارِ بد مآل
بھاگیں شکست خوردہ وہ از عرصۂ قتال
سب سر کئے ہیں اس نے جو پیش آئے معرکے
میرا نبی وہ ہے کہ محمدؐ کہیں جسے
تبلیغِ دینِ حق میں نہ چھوڑی کوئی کسر
ہونا پڑا ہے خون میں بھی اس کو تر بہ تر
لکھوا گئے کتابِ خدا کی وہ سطر سطر
دنیا و دین دونوں ہی محفوظ کر گئے
میرا نبی وہ ہے کہ محمدؐ کہیں جسے
نازل ہوئی ہے اس پہ جو اللہ کی کتاب
جس رخ سے دیکھئے اسے اس رخ سے لاجواب
حکمت کے موتیوں سے بھری ہے علی الحساب
جو اس میں معتکف رہے موتی وہی چنے
میرا نبی وہ ہے کہ محمدؐ کہیں جسے
چالیسویں برس میں نبوت خدا نے دی
تیئیس ہی برس میں یہ دنیا بدل گئی
واللہ معجزہ یہ کہ دنیا ہے حیرتی
ترسٹھ برس میں راہی ملکِ بقا ہوئے
میرا نبی وہ ہے کہ محمدؐ کہیں جسے
وہ جلوہ گاہِ ناز کہ پہنچیں جہاں سبھی
ہم بھی خوشا نصیب گئے تھے وہاں کبھی
محظوظ اس کی یاد سے دل ہے نظرؔ ابھی
پھر ایک بار جائیں مدینہ خدا کرے
میرا نبی وہ ہے کہ محمدؐ کہیں جسے
٭٭٭
اے وہ نگار خانۂ ہستی کے نقشِ اولیں
اے وہ کہ جس کی گردِ پا غازۂ روئے حورِ عیں
اے وہ کہ جس کا قلب ہے مہبطِ مصحف مبیں
اے وہ کہ جس کی ذات ہے محبوبِ رب العالمیں
اے وہ کہ فرشِ تا بہ عرش پھیلی ہے جس کی روشنی
اے وہ نفس نفس کیا جس نے کہ صرفِ بندگی
اے وہ کہ جس کا ہر قدم بر راہِ حق و راستی
اے وہ کہ چشمۂ ہدیٰ منبعِ علم و آگہی
اے وہ کہ بندۂ خدا جو ہے مطاعِ بندگاں
ہستی پاک جس کی ہے باعثِ خلقِ دوجہاں
اے وہ کہ قدسی الصفت عرشِ بریں کا میہماں
بعدِ خدائے ذو المنن جس کا شرف ہے بے گماں
اے وہ کہ جس کی شکل ہے آئینۂ جمالِ حق
اے وہ کہ جس میں منعکس جلوۂ ہر کمالِ حق
اے وہ کہ جس کی ذات ہے صنعتِ بے مثالِ حق
اے وہ برائے انس و جاں نعمتِ لازوالِ حق
اے وہ کہ راہِ دیں میں ہے جس کا بدن لہو لہو
اے وہ کہ درد مند سب جس کی طرف ہیں چارہ جو
اے وہ کہ جس کی شخصیت جانِ جہانِ آرزو
اے وہ کہ جس کا غلغلہ قریہ بہ قریہ سو بہ سو
اے وہ کہ جس پہ منتہی سلسلۂ پیمبری
اے وہ کہ جس نے ختم کی دنیا سے رسمِ آذری
اے وہ امامِ انبیاء سب پہ ہے جس کو برتری
اے وہ عطا ہوئی جسے دونوں جہاں کی سروری
مُطلبی و ہاشمی دُرِّ یتیمِ آمنہ
جس میں بدرجۂ اتم صبر و توکل و غنا
حکمِ خدائے پاک ہے پڑھتے ہیں سب بریں بنا
صلِّ علیٰ محمدٍؐ صلِّ علیٰ نبینا
مرجعِ خاص و عام ہے جلوہ گہ شہِ امم
پہنچیں وہاں پہ قافلے بعدِ زیارتِ حرم
جنّ و بشر مَلَک سبھی رکھتے ہیں پھونک کر قدم
شہرِ نبی محتشم پاک و لطیف و محترم
یومِ نشور الاماں روزِ حساب الحذر
بھاگ رہے ہوں جس گھڑی ہول سے سب اِدھر اُدھر
بہرِ حساب جب خدا ہو اپنے تختِ عدل پر
تب ہو شفیعِ عاصیاں سوئے نظرؔ بھی اک نظر
٭٭٭
محمدؐ ابنِ عبد اللہ قریشی
محمدؐ نورِ چشمِ آمنہ بی
خدا کا آخری دنیا کا ہادی
کوئی ہمسر نہ اس کا کوئی ثانی
محمدؐ ہی سے ہے فیضانِ ہستی
ہے اس کا مسلکِ حق، حق پرستی
ہے سب نبیوں پہ اس کی بالادستی
خدا کی اس پہ رحمت ہے برستی
محمدؐ مجتبیٰ ہے مصطفیٰ ہے
زمانہ مقتدی وہ مقتدا ہے
وہ ختم المرسلیں وہ پیشوا ہے
خوشا قسمت حبیبِ کبریا ہے
حبیب اللہ ہے وہ کملی والا
زمیں سے عرش تک اس کا اجالا
مصافِ حق میں اس کا بول بالا
محمدؐ عزم و ہمت کا ہمالا
مداوائے غم و اندوہ و حرماں
وہ ہے چارہ گرِ ہر دردِ انساں
محمدؐ واقفِ اسرارِ پنہاں
محمد مہبط و تفسیرِ قرآں
محمدؐ منبعِ علم و حِکم ہے
محمدؐ چشمۂ فیض و کرم ہے
محمدؐ حق کی شمشیرِ دو دم ہے
محمدؐ حسنِ تقدیرِ امم ہے
محمدؐ فائزِ عرشِ معلّیٰ
محمدؐ کا شرف یہ اللہ اللہ
محمدؐ شاہدِ برقِ تجلّیٰ
ارے وہ کیا نہیں ہے ماسوی اللہ
زبانِ خلق پر صلِّ علیٰ ہے
محمدؐ سب کے دل کا مدعا ہے
محمدؐ شافعِ روزِ جزا ہے
محمدؐ جس کا ہے اس کا خدا ہے
عزیزی انتَ لی انتَ الحبیبی
تمہیں سے ربط ہے دل کا قریبی
انا سائل لَکَ انتَ المجیبی
نظرؔ نازاں ہے بر ایں خوش نصیبی
٭٭٭
مرا نبیؐ
وہ آمنہ کے جگر کا ٹکڑا وہ بی حلیمہ کا دست پرور
وہ بندہ پرور غریب پرور تمام اہلِ جہاں کا سرور
وہ افتخارِ ہر ابنِ آدم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس کی صورت پہ حسن قرباں وہ جس کی سیرت ہو عین قرآں
وہ جس کے اوصاف ہیں ستودہ کہ جس کا مداح خود ہے یزداں
درود پہنچے جسے دما دم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس پہ اتمامِ دینِ فطرت وہ جس کی تا حشر ہے شریعت
وہ جس پہ کامل ہوئی نبوت وہ جس پہ نازاں ہے آدمیت
نبی کامل نبی خاتم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ شاہِ شاہاں بہ حالِ مسکیں نہ جس کے سونا نہ جس کے چاندی
وہ جس کی سادہ مزاجیاں یہ نہ در پہ درباں نہ گھر پہ باندی
غذا بھی جس کی ہے سادہ و کم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس کے تن پر ہے ایک کملی وہ جس کا بستر بہ فرشِ خاکی
نہ کوئی عظمت کو جس کی پہنچے بہر دو عالم قسم خدا کی
خدا کی نظروں میں ہے جو اکرم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
زمیں سے تا اوجِ لوح و کرسی وہ جس کی ہر سو مچی ہیں دھومیں
وہ جس کی چوکھٹ پہ دل جھکے ہیں وہ نامِ فرخ کو جس کے چومیں
وہ جس کا اونچا ہے سب سے پرچم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
خدا کے دیں کا ہو بول بالا یہی ہے فکرِ مدام لاحق
وہ مردِ میداں وہ میرِ لشکر بہ جنگِ بدر و حنین و خندق
ہے قابلِ دید جس کا دم خم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ خانۂ خاص کعبۃ اللہ ہے جس کے آباء کی اک نشانی
وہ چاہِ زمزم کہ ہفتِ قلزم سے بھی مضاعف ہے جس میں پانی
ہے جس کی میراث آبِ زمزم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ مانعِ شر فلاحِ امت کا جو کہ ہر دم حریص و طامع
گناہگاروں کا روزِ محشر حضورِ ربِ غفور شافع
جو با لیقیں ہے شفیعِ اعظم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
وہ جس سے دنیا کو ہے عقیدت وہ جس کے روضہ پہ لوگ جائیں
جسے نظرؔ واسطہ بنا کر خدا سے دل کی مراد پائیں
وہ جس کی بستی میں ہے چم و خم – زہے مقدر مرا نبیؐ ہے
٭٭٭
قطعات
میرا یہ عقیدہ ہے بلا شائبۂ شک
محدود نہیں ذکرِ نبی اہلِ زمیں تک
ہے بزمِ ملائک میں سرِ عرش بھی چرچا
فرمودۂ ربی ہے ’’ رفعنا لک ذکرک‘‘
٭
توصیف کریں سب اہلِ سخن اجمالی کملی والے کی
تکمیلِ ثنا ممکن ہی نہیں اس کالی کملی والے کی
نام اونچا کملی والے کا شان عالی کملی والے کی
ہے ذات رسائے عرشِ بریں بس خالی کملی والے کی
٭
کس درجہ بلندی پر قسمت کا ستارا ہے
محبوبِ خدا جو ہے آقا وہ ہمارا ہے
ماں باپ بہن بھائی کچھ کام نہ آئیں گے
لے دے کے وہی اپنا محشر میں سہارا ہے
٭
ہر بحث سے بالاتر ہے ذات محمدؐ کی
محبوبِ خدا وہ ہے کیا بات محمدؐ کی
تا حشر جو انمٹ ہے بخشا وہ ہمیں قرآں
امت کے لئے دیکھیں سوغات محمدؐ کی
٭
تو روبرو رہے کہ نہ تو روبرو رہے
تجھ پر پڑھوں درود تری گفتگو رہے
وہ ربِ ذوالجلال قریبِ گلو رہے
تو اس کا ہے حبیب دل و جاں میں تو رہے
٭
ہوں بند آنکھیں تو دیکھوں خواب میں چہرہ محمدؐ کا
کھلیں آنکھیں تو دیکھوں سامنے روضہ محمدؐ کا
چلوں جس راستے پر میں وہ ہو رستہ محمدؐ کا
بنا اس طرح شیدائی مرے اللہ، محمدؐ کا
٭
خدا کی توصیف کارِ آساں پہ نعت گوئی بہت ادق ہے
جبینِ ر ہوارِ طبعِ شاعر تکانِ تگ سے عرق عرق ہے
بنائے تخلیقِ بزمِ کن ہے کتابِ ہستی کا سرورق ہے
وہ اشرف الانبیاء نظرؔ ہے وہ اجمل الناس ما خلق ہے
٭
اے خدائے خشک و تر اے خالق و مولائے کل
شکر تیرا کر دیا پیدا نبی ختم الرسل
ناخدائی کی اسی نے نوعِ انساں کی نظرؔ
واقفِ گرداب و مدّ و جزر و دانائے سبل
٭
اس کا کلمہ جو پڑھے داخلِ ایماں ہو جائے
اس کا قرآں جو پڑھے صاحبِ عرفاں ہو جائے
اس کی سنت پہ چلے بندۂ یزداں ہو جائے
صاحبِ خلد ہے وہ اس پہ جو قرباں ہو جائے
٭
محبت ان کی دل میرا ثنا ان کی زباں میری
خوشا قسمت جو کٹ جائے یونہی عمرِ رواں میری
خدا کا ہے کرم مجھ پر نظرؔ نازاں ہوں میں جس پر
ہے دل حق آشنا میرا زباں حق ترجماں میری
٭
رب نے اپنے فضل سے پیدا وہ محسن کر دیا
جس نے اس ظلمت کدے میں آتے ہی دن کر دیا
معجزہ شق القمر کا ایک اعجوبہ ہمیں
اس نے اک انگلی سے نا ممکن کو ممکن کر دیا
٭٭٭
حصۂ مناقب
منقبت: خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ
آئینہ دل کا ہے پھر چہرہ نمائے صدیقؓ
پھر عقیدت کو ہوا شوقِ ثنائے صدیقؓ
قابلِ رشک ہے تقدیرِ رسائے صدیقؓ
ہے نبوت کی زباں مدح سرائے صدیقؓ
جو پیمبر کی نوا وہ تھی نوائے صدیقؓ
جو پیمبر کی رضا وہ تھی رضائے صدیقؓ
تھی سکوں بخش پیمبر کو لقائے صدیقؓ
اللہ اللہ وہ کیا ہو گی ادائے صدیقؓ
اپنے کاندھوں پہ محمدؐ کو اٹھائے صدیقؓ
غار لے جا کے بہ آرام لٹائے صدیقؓ
اپنا زانوئے ادب تکیہ بنائے صدیقؓ
کاٹ لے سانپ تو ایڑی نہ ہٹائے صدیقؓ
ثبتِ قرآں جو ہوئی گفتگوئے لا تحزن
ہم سمجھتے ہیں اسے مہرِ بقائے صدیقؓ
وہ مصدق وہ وفا کیش و فدا کارِ رسولؐ
ایسے دنیا میں تو بس ایک ہی آئے صدیقؓ
بخت ایسا کہ نہیں اور کسی کا ویسا
صدق اتنا کہ کہیں اپنے پرائے صدیقؓ
گردِ تشکیک نہیں نورِ یقیں سے بھر پور
روشن آئینہ ہے اک قلبِ صفائے صدیقؓ
کل اثاثہ رہِ مولیٰ میں لٹانے والا
لائقِ دید ہے معیارِ غنائے صدیقؓ
نوعِ انساں میں نہیں اس کا کوئی ہم رتبہ
اس کے رتبہ کو نہ پہنچے خلفائے صدیقؓ
بعدِ مردن بھی دیا ساتھ نبیؐ کا اس نے
وقف پہلوئے نبیؐ ایک برائے صدیقؓ
طبعِ ناسازِ نبیؐ تارکِ سجادۂ پاک
کر سکا کوئی امامت نہ سوائے صدیقؓ
دل نچھاور کئے دیتے ہیں مسلماں اس پر
وہ پیمبر پہ فدا سب ہیں فدائے صدیقؓ
راہرو راہِ وفا کے نہ کبھی بھٹکیں گے
رہنما ہیں جو نقوشِ کفِ پائے صدیقؓ
ان کو حاصل ہوئی خوشنودی شاہِ بطحا
کیوں نہ صدیقؓ سے راضی ہو خدائے صدیقؓ
ہوں نظرؔ منسلکِ سلسلۂ لاثانی
میں غلامِ فقراءُ الفقرائے صدیقؓ
٭٭٭
منقبت: خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ
دلِ بے تاب ہوا چشم زدن میں پُر تاب
آ گیا لب پہ جو ذکرِ عمر ابن الخطابؓ
پایا فاروقؓ کا اس فرد نے حسنِ القاب
مرحبا وہ شہِ کونین کا ساتھی نایاب
آرزو مند ہوا جس کا نبی بے تاب
تھا قریشی وہ یہی تھا وہ یہی دُرِّ ناب
دلِ تاریکِ عمرؓ نورِ نبیؐ سے ضو تاب
جیسے خورشید کی کرنوں سے ہو روشن مہتاب
آہ وہ وقت کہ ایماں سے نہ تھا بہرہ یاب
واہ وہ دور کیا مزرعِ دیں کو شاداب
اس کو کیا کہئے سمجھ میں نہیں آتے القاب
غوث کہئے کہ ولی کہئے کہ قطب الاقطاب
اس کو اللہ نے بخشی تھی جبینِ شب تاب
ضیغمِ وقت وہ تھا عبدِ حفیظ و اوّاب
سب کو سرشار کیا اور ہوا خود سیراب
از خمستانِ حجازی وہ لنڈھائی مئے ناب
خوبیوں ہی کے سبب رتبۂ عالی پایا
نگہِ قدر سے سب دیکھتے اس کو احباب
شیر بیشہ کہ وہ جب داخلِ اسلام ہوا
اس کی آواز سے گونجے در و منبر محراب
وہ بنا امتِ مسلم کا خلیفہ ثانی
بعد صدیقؓ کہ اول تھا بہ بزمِ اصحاب
زیب تن کرتا تھا ملبوس وہ پیوند لگے
در پہ چاؤش نہ درباں نہ ہی شاہی آداب
اس کو مرغوب رہے دورِ شہنشاہی میں
فقر کے سیکھ رکھے تھے جو نبیؐ سے آداب
زندگی اس شہِ دوراں کی تھی درویشانہ
خوفِ خالق سے رہا کرتی تھیں آنکھیں بے خواب
پاؤں میں اس کے گرے تاج و سریرِ کسریٰ
جانتے سب ہیں یہ تاریخ و سِیر کے ارباب
دشمنِ دیں کے لئے برقِ بلا خیز تھا وہ
خرمنِ کفر کے حق میں وہ مثالِ سیلاب
گریۂ و سجدہ گزاری میں گزاریں راتیں
طالبِ عفو و کرم پیشِ خدائے تواب
جوشِ انفاق رہِ حق میں مثالی اس کا
لا کے قدموں میں نبیؐ کے تھا رکھا نصف اسباب
وہ تھا پابندی آئینِ نبیؐ کا خوگر
دوسروں کو بھی سکھائے تھے یہی سب آداب
ساتھ رہتا تھا محمدؐ کے جو سایہ کی طرح
آج وہ روضۂ انور میں ہے آسودۂ خواب
اس کے چہرہ سے ٹپکتا تھا نظرؔ جاہ و جلال
کانپتے رہتے تھے سب وقت کے رستم سہراب
٭٭٭
منقبت: خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنیؓ
اس خدائے واحد کا لاکھ لاکھ احساں ہے
آج میرے ہونٹوں پر ذکرِ پاکِ عثماںؓ ہے
تابناک چہرے پر نور جو نمایاں ہے
رشک مہر و انجم ہے رشکِ ماہِ تاباں ہے
امتِ محمدؐ کا تیسرا نگہباں ہے
نرم خو خلیفہ ہے نیک دل مسلماں ہے
قبلہ گاہِ ایماں ہے شمعِ بزمِ عرفاں ہے
جانشینِ پیغمبرؐ نازش مسلماں ہے
زہد و پارسائی میں بے مثال انساں ہے
جب بھی دیکھئے غلطاں در حروفِ قرآں ہے
وہ غنی و مستغنی بے نیازِ ساماں ہے
مست اپنی گدڑی میں خرقہ پوش انساں ہے
قدر و منزلت میں وہ رشکِ شاہِ شاہاں ہے
پر نہ کوئی ایواں ہے اور نہ کوئی درباں ہے
اس کا خیرِ امت پر بے شمار احساں ہے
مال و زر نچھاور ہے اس کی جاں بھی قرباں ہے
سرکشوں نے گھیرا ہے بند گھر میں عثماںؓ ہے
پڑھ رہا ہے وہ قرآں معرکہ نہ میداں ہے
قتلِ مجرمیں سے وہ جانے کیوں گریزاں ہے
پاک باز وہ راضی با رضائے یزداں ہے
سر قلم کیا جس نے سرگروہِ شیطاں ہے
لعنتِ خدا اس پر وہ کوئی مسلماں ہے
یوں تو ہے خدا شاہد واقعات کا لیکن
اس کے قتلِ ناحق کا خود گواہ قرآں ہے
خوش نہاد و خوش طینت خوش مزاج و خوش باطن
جادۂ ہدایت کا وہ بھی میر و سلطاں ہے
کامل الحیا ہے وہ مرحبا حیا داری
مصطفیٰؐ بھی شرمائے وہ حیائے عثماںؓ ہے
حرف حرف قرآں کا مجتمع کیا اس نے
پڑھ رہے ہیں سب جس کو وہ اسی کا قرآں ہے
سرخرو ہے دنیا میں کامراں ہے عقبیٰ میں
وہ نبیؐ کا ساتھی ہے رکنِ بزمِ خاصاں ہے
مصطفیٰؐ کے ہاتھوں پر ہے جو بیعتِ رضواں
اس کی ذاتِ والا ہی مرحبا سر عنواں ہے
بیٹیاں نبیؐ کی دو اس کے عقد میں آئیں
مفتخر نبیؐ اس پر وہ نبیؐ پہ نازاں ہے
گو نظر نہیں آتا ہاں مگر وہ ہے زندہ
خلد اس کا مسکن ہے وہ خدا کا مہماں ہے
کون اس کو بھولے گا بھول بھی نہیں سکتا
لوحِ دل پہ نام اس کا آج بھی درخشاں ہے
قتل و خوں ہزاروں کا ہو رہا ہے دنیا میں
ہے نظرؔ گماں میرا یہ قصاصِ عثماںؓ ہے
٭٭٭
منقبت: خلیفۂ چہارم حضرت علی مرتضیٰؓ
میری زباں پہ منقبتِ بو ترابؓ ہے
خورسند دل مرا ہے خوشی بے حساب ہے
پایا نبیؐ سے شیرِ خدا کا خطاب ہے
معروف وہ بہ کنیتِ بو ترابؓ ہے
نگہِ رسولِ پاکؐ کا وہ انتخاب ہے
خاوندِ نورِ عینِ رسالت مآب ہے
نورِ نبیؐ پاک سے یوں بہرہ یاب ہے
جیسے ضیائے مہر سے یہ ماہتاب ہے
سر چشمۂ علوم سے وہ فیض یاب ہے
شیخِ حدیث و شارحِ ام الکتاب ہے
عالی مقام وہ ہے وہ عالی جناب ہے
پروردۂ نبیؐ ہے فضیلت مآب ہے
دشمن ملائے آنکھ کہاں اتنی تاب ہے
چہرہ پہ وہ جلال ہے وہ رعب داب ہے
دنیائے چند روزہ میں وہ کامیاب ہے
اور آخرت میں صاحبِ حسن المآب ہے
شہرت رہی ہے اب بھی وہی آب و تاب ہے
دُرجِ صدف میں ایسا وہ اک دُرِّ ناب ہے
خیبر شکن ہے کفر کو وہ سیلِ آب ہے
مرحب تو اس کے سامنے مثلِ حباب ہے
تلوار کا دھنی ہے اسی کی ہے ذو الفقار
بھاری ہے دشمنوں پہ یہ وہ شیرِ غاب ہے
شیرِ خدا ہے اس کی فتوت ہے بے مثال
جس جنگ میں شریک ہوا فتح یاب ہے
زور آوری میں اس کے مقابل نہیں کوئی
رستم ہے زیر پاؤں میں افراسیاب ہے
صفدر ہے، مرتضیٰؓ ہے وہ حیدرؓ ہے وہ علیؓ
وہ بوریہ نشیں شہِ گردوں رکاب ہے
وہ صلح خو ہے یوں تو مگر ہاں دمِ نبرد
دشمن کے سر پہ برقِ بلا ہے عذاب ہے
وہ ہے مزاج دانِ نبیؐ نکتہ رس ہے وہ
وہ بابِ شہرِ علمِ رسالت مآب ہے
طاعت میں اتقا میں وہ مردِ بلند نام
وہ آسمانِ زہد پہ مثل آفتاب ہے
بینا ہے وہ بصیر ہے صاحب نظر ہے وہ
دانا ہے عقل مند ہے حاضر جواب ہے
پُر پیچ مسئلوں کو کیا چٹکیوں میں حل
اہلِ خرد کو جس میں بہت اضطراب ہے
پرتو فگن رہا ہے جو خلقِ نبی پاکؐ
ہر اک صفت میں آپ ہی اپنا جواب ہے
ہجرت کی شب حضورؐ کے بستر پہ مرتضیٰؓ
اف بے نیازِ خطرۂ جاں محوِ خواب ہے
امت پہ اس کی آل کا احساں ہے بے شمار
رطب اللساں کہ جس کا ہر اک شیخ و شاب ہے
گدڑی میں اپنی مست ہے فقر و غنا کا شاہ
شاہانہ کرّ و فر سے شدید اجتناب ہے
وہ سرفرازِ جامِ شہادت بھی ہے خوشا
مردہ ہے کب وہ زندہ زِ روئے کتاب ہے
تو خاکِ کفشِ پائے علیؓ ہے خوشا نظرؔ
کیا کم ہے اس طرح سے بھی گر انتساب ہے
٭٭٭
نذرِ امام حسینؓ
عقل میں کہاں طاقت علم میں کہاں وسعت
کر سکے کوئی کیونکر مدحِ سبطِ آنحضرتؐ
چاک سینۂ خامہ دل پہ حالتِ رقت
لکھ رہا ہوں ایسے میں آنجنابؓ کی بابت
آئینہ ہے ماضی کا سامنے تصور کے
دیکھتا ہوں جو منظر دل کو اس پہ صد حیرت
دشتِ کربلا میں ہے آلِ پاک کا خیمہ
بات کیا ہوئی آخر پیش آئی کیا صورت
پھول کھِل گئے کیسے ریگزار میں ایسے
ہے یہ ایک اعجوبہ از عجائبِ فطرت
دوسری طرف دیکھا دور دور تک دیکھا
لشکرِ یزیدی ہے بد نہاد و بد طینت
عیش کوش فاسق نے جبریہ یہ چاہا تھا
پاسبانِ دیں کر لیں شر کے ہاتھ پر بیعت
کام تھا نہ کرنے کا آپؓ کس طرح کرتے
شیر کے یہ بیٹے ہیں شیر ہی کی سب خصلت
منہ کو آ گیا باطل معرکہ ہے باطل سے
حق یوں ہی ہے صف آراء میں سمجھ گیا علت
فوج ہے نہ لشکر ہے ساز ہے نہ ساماں ہے
بس خدا پہ تکیہ اور جذبۂ حسینیت
تین دن سے پیاسے ہیں اہلِ بیت یہ سارے
وقت یہ بھی آ پہنچا یا نصیب و یا حسرت
معرکہ ہوا برپا معرکہ ہوا آخر
کلمۂ خداوندی آخرش لَقد حَقّت
چاند مع ستاروں کے چھپ گیا نگاہوں سے
کائنات سونی ہے چھا گئی ہے وہ ظلمت
چاند فاطمہؓ کے تھے چار چاند لگنے تھے
رتبۂ شہادت کی کیا بیان ہو عظمت
اک افق سے غائب ہیں دوسرے پہ ہیں روشن
موت ان سے ہے لرزاں کیا خدا کی ہے قدرت
چاہئے تھا خوں طیب آبیاری دیں کو
منتخب کیا ان کو ہے خدا کی کیا حکمت
جان بخش دی اپنی آل بخش دی ساری
عشق بن کے آیا تھا سائلِ درِ دولت
سب درود پڑھتے ہیں آلِ مصطفیٰؐ تم ہو
حیطۂ بیاں میں کب شانِ عظمت و رفعت
پیروی کو دنیا کی ہیں نظرؔ یہ دو چیزیں
اک رسولؐ کی سنت اک حسینؓ کی
٭٭٭
لے آئی کہاں مجھ کو خیالات کی زنجیر
یہ کون سا میدان ہے زیرِ فلکِ پیر
سچ دیکھ رہا ہوں کہ نگاہوں کی ہے تزویر
اف معرکۂ کرب و بلا کی ہے یہ تصویر
افواجِ عدو وہ ہیں اِدھر خیمۂ شبیرؓ
سب آلِ نبیؐ آئے ہیں فطرت ہے عناں گیر
اس سمت سیہ بختی اِدھر خوبی تقدیر
ظلمت کا اُدھر رنگ اِدھر عالمِ تنویر
وہ پہلوئے تخریب اِدھر جذبۂ تعمیر
نکبت ہے اُدھر اور اِدھر جلوۂ توقیر
دشمن ہیں تلے جنگ پہ ان کو ہے تامّل
عجلت میں ہے شر جبکہ اِدھر خیر کو تاخیر
دشمن نے پہل کی وہ چھڑا سلسلۂ جنگ
خنجر وہ چلے اور برسنے وہ لگے تیر
شیدائی اسلام بھی ایک ایک بڑھا ہے
ہیبت کا سماں چھایا ہے از نعرۂ تکبیر
اف خونِ شہیداں کا وہ اک سیلِ رواں ہے
آزردہ و رنجور ہے از حد دلِ شبیرؓ
اب آپ کی باری ہے بڑھے جانبِ اعدا
کوندی ہے کوئی برق جو لہرائی ہے شمشیر
پیاسے تھے بہت نوش کیا جامِ شہادت
تکمیل کو یوں پہنچی ہے اللہ کی تقدیر
سرخیلِ شہیدانِ وفا فخرِ امامت
پائندہ ترے خون سے اسلام کی تعمیر
مجلس میں شہیدوں کی تمہیں صدر نشیں ہو
اورنگِ شہادت پہ نظر آئے تمہیں میر
اللہ کو دینا تھا تمہیں اوجِ شہادت
جس کے لئے سوچی گئی یہ غیب سے تدبیر
خوشنودی خلاقِ دو عالم تمہیں حاصل
عظمت تری باندی ہے تو جنت تری جاگیر
مٹ جائے یہ دنیا بھی تو مٹنے کی نہیں ہے
ہے جزوِ رَفعنا لَکَ ذِکرک تری تشہیر
اس طرح کسے یاد کیا جاتا ہے واللہ
ہر ایک ہے سینہ سے لگائے غمِ شبیرؓ
دیکھا ہے تری یادِ مقدس کا نظارا
اشکوں سے وضو کرتی ہیں آنکھیں پئے تطہیر
بے نام و نشاں ہو گئے دشمن ہی تمہارے
تم اب بھی نگاہوں میں جہاندار و جہانگیر
انساں کے لئے درس ہے عرفانِ خودی کا
قرطاسِ زمانہ پہ ترے خون کی تحریر
درگاہِ خداوند سے طالب ہوں اسی کا
بھر دے مرے دل میں ترے اخلاص کی تاثیر
اسلام میں آمیزشِ باطل ہو نظرؔ جب
لازم ہے تجھے پیروی حضرتِ شبیرؓ
٭٭٭
کوئی کہاں ہے مثلِ حسینؓ ابنِ بو ترابؓ
چشمِ فلک نے ایک ہی دیکھا ہے آفتاب
وہ روئے پاک جیسے کوئی سورۂ کتاب
آنکھوں میں ایسی آب خجل جس سے دُرِّ ناب
صد رشکِ آفتاب ہے صد رشکِ ماہتاب
نظریں نہ ٹھہریں جس پہ سراپا وہ لا جواب
یہ مردِ متقی ہیں یہ ہیں سبطِ آنجنابؐ
پردے میں شب کے دیکھ الیٰ ربہٖ متاب
ان کی دعائیں دیکھ ہیں کس درجہ مستطاب
درگاہِ مستجیب میں فی الفور مستجاب
مردِ جری ہیں شیر ہیں شبیرؓ ہے خطاب
ثانی نہیں ہے کوئی نہ ان کا کوئی جواب
یہ ہیں حریمِ عشق میں واللہ باریاب
کیا مرتبہ ہے خود ہی لگا لیجئے حساب
دینِ محمدی میں کہ در آیا انقلاب
تھے پاسبانِ دیں تو اٹھے بہرِ سدِ باب
گرمی وہ کربلا کی وہ پروردۂ سحاب
لگتا نہیں ہے ہم سے کچھ اندازۂ عِقاب
تھے اِس طرف عُقاب اُدھر لشکرِ غراب
تھا قتل و خوں سے مردِ صفا کو پر اجتناب
شیریں سخن نے صبر و تحمل سے بات کی
دشمن تلے تھے جنگ پہ لیکن بصد عتاب
ہونا تھا اور معرکۂ کربلا ہوا
خونیں ردا کو اوڑھ کے ڈوبا یہ آفتاب
چیخیں اٹھیں قیامت اٹھی آہِ دل اٹھی
اٹھا سناں پہ جبکہ سرِ لاشۂ جناب
ان کے لئے شہادتِ عظمیٰ لکھی گئی
ہم کیا کہیں کہ تھا وہ مشیت کا انتخاب
خوانِ کرم سے جس کے سبھی فیضیاب ہیں
اس پر پڑا یہ وقت کہ نانِ جویں نہ آب
پانی پہنچ سکا نہ جو ان تک تو آج تک
پانی جہاں جہاں ہے وہیں پر ہے آب آب
میں خود نہ کچھ کہوں گا زمانہ سے پوچھئے
نا کامیاب کون، رہا کون کامیاب
جس کو ہو عشقِ دیں اسے جاں بھی نہیں عزیز
دنیا ہو کیا عزیز کہ دنیا تو ہے سراب
فتنے یزیدیت کے جہاں بھی ہوں رونما
لازم ہے ہم پہ پیروی ابنِ بو ترابؓ
زہرہ گداز اپنا بیاں ختم کر نظرؔ
پیدا ہے دل میں سوز جگر میں ہے التہاب
٭٭٭
اللہ اللہ کون ہو گا مرتبہ دانِ حسینؓ
کیا مرا منہ ہے کہ لکھوں مدحت و شانِ حسینؓ
ہے زمانہ اک زمانے سے ثنا خوانِ حسینؓ
مدح کوئی کر سکا لیکن نہ شایانِ حسینؓ
سامنے آنکھوں کے آیا روئے تابانِ حسینؓ
وہ لبِ یاقوت اور وہ دُرِّ دندانِ حسینؓ
ورطۂ حیرت میں دل از دیدِ چشمانِ حسینؓ
تیر ہوں پیوستۂ دل اف وہ مژگانِ حسینؓ
شام ہے جس پر فدا وہ زلفِ پیچانِ حسینؓ
صبحِ روشن ہو تصدق وہ گریبانِ حسینؓ
تربیت پائی ہے واللہ زیرِ دامانِ رسولؐ
اس لئے ہم سب ہیں دامن گیرِ دامانِ حسینؓ
ہے مصافِ کربلا ان کی شہادت گاہِ شوق
نقشِ دل ہے آج تک کارِ نمایانِ حسینؓ
کارواں چھوٹا سا اہلِ کارواں لیکن بڑے
اصغر و اکبر بھی من جملہ فدایانِ حسینؓ
خورد سال عون و محمد شاملِ اہلِ جہاد
دو یہ تھے ننھے سپاہی جاں نثارانِ حسینؓ
ڈھال شمشیریں فرس خیمے پیادے کچھ سوار
کل یہی تھا کربلا میں ساز و سامانِ حسینؓ
سرفروشی سے لڑے کچھ اس طرح یہ سب کے سب
ورطۂ حیرت میں تھے سب بد سگالانِ حسینؓ
الغرض کام آئے سارے در مصافِ کربلا
لٹ گیا اس دشت میں سارا گلستانِ حسینؓ
جاں فروشی سے انہیں کی رنگ ہے اسلام میں
ہے تن آور نخلِ دیں اب تک بہ فیضانِ حسینؓ
ختم کرتا ہے نظرؔ اپنا بیاں اس قول پر
تا قیامت ہے مسلمانوں پہ احسانِ حسینؓ
٭٭٭
لہو لہو کہ سراپا ہے داستانِ حسینؓ
جگر خراش ہے دل پاش ہے بیانِ حسینؓ
ہوا نہ ہو گا زمانے میں پھر بسانِ حسینؓ
نہ داستاں ہے کوئی مثلِ داستانِ حسینؓ
یہ مرتبہ یہ بزرگی یہ اوجِ شانِ حسینؓ
رسولِ پاکؐ ہیں واللہ مدح خوانِ حسینؓ
نمازِ عشق پڑھیں آ کے عاشقانِ حسینؓ
فضا میں گونج رہی ہے ابھی اذانِ حسینؓ
مصافِ حق میں جب اترا تھا قافلہ ان کا
خدائے عرش تھا خود میرِ کاروانِ حسینؓ
تڑپ اٹھی ہے زمانے کی روح بھی جس سے
وہ ایک موج ہے از دردِ بے کرانِ حسینؓ
وہ ریگ زار وہ گرمی وہ العطش کی پکار
پریدہ رنگ وہ گلہائے بوستانِ حسینؓ
اِدھر وہ سبطِ نبیؐ چند شہسواروں میں
اُدھر ہزاروں کے لشکر میں دشمنانِ حسینؓ
خوشا نصیب کہ ہو کر وہ سرخرو نکلے
لیا جو عشقِ محمدؐ نے امتحانِ حسینؓ
بلاکشانِ محبت کو اسوۂ کامل
ہزار فتنۂ دوراں اور ایک جانِ حسینؓ
بصد نیاز جھکائے ہیں سب سرِ تعظیم
کہ دودمانِ نبیؐ ہے یہ دودمانِ حسینؓ
یزید و شمر سے کہہ دو کریں نہ من مانی
ستیزہ کار ہیں دنیا میں پیروانِ حسینؓ
ثبات و صبر رضائے خدا وفا کیشی
نظرؔ یہ چار ہیں اجزائے ارمغانِ حسینؓ
٭٭٭
حیدرؓ کہ نورِ عین فلک بارگاہ کی
کیونکر ثنا ہو جانِ رسالت پناہ کی
توقیر ایسی کب کسی زریں کلاہ کی
جیسی ہے کربلائے معلّیٰ کے شاہ کی
سیرت نہ پوچھ مجھ سے مرے قبلہ گاہ کی
ہے تربیت جنابِ رسالت پناہ کی
صورت جو دیکھئے تو زہے بادشاہ کی
دل دیکھئے تو بو بھی نہیں حبِ جاہ کی
صبر و رضا کا پیکرِ دلکش وہ اس قدر
اہلِ زمیں تو خیر فرشتوں نے واہ کی
دینِ ہدیٰ پہ اپنا بھرا گھر لٹا دیا
ہمت یہ دیکھنا ذرا شاہوں کے شاہ کی
وہ داستاں کہ سنگ کا دل پاش پاش ہو
وہ واقعہ کہ جس نے سنا دل سے آہ کی
اپنی نہ اہلِ بیت کی پرواہ کی ذرا
پرواہ کی تو عشقِ رسالت پناہ کی
وہ خوش نصیب آپ کے ہمراہ ہو گئے
جنت کو دیکھتے تھے جو خدمت میں شاہ کی
جنگاہِ کربلا میں بڑا کام کر گئے
تعداد گرچہ کم تھی حسینی سپاہ کی
دشمن کہ بے سبب ہی نبرد آزما ہوئے
ان ظالموں نے عاقبت اپنی تباہ کی
اعدائے دیں نے کارِ لعیں وہ کیا کہ بس
سیاہی بڑھائی اور بھی بختِ سیاہ کی
رحمت نہ یہ گناہِ کبیرہ کرے معاف
ہوتی ہے انتہا کوئی آخر گناہ کی
خونیں ردا حسینؓ کی فطرت اب اوڑھ کر
چہرہ نما شفق میں ہے شام و پگاہ کی
یہ داستانِ شاہِ شہیدانِ کربلا
تفسیرِ بے نظیر بھی ہے لا الٰہ کی
دل پاش داستانِ الم کی نہیں مثال
تاریخ میں نظرؔ نے جہاں تک نگاہ کی
٭٭٭
حق مدح کا ان کی نہ ادا ہو گا بشر سے
جب تک نہ لکھے کوئی بشر خونِ جگر سے
بنتِ شہِ لولاک کے اس لختِ جگر سے
ہو کیوں نہ محبت مجھے حیدرؓ کے پسر سے
صورت ہے ضیا تاب سوا روئے قمر سے
سیرت کی چمک دیکھ ذرا دل کی نظر سے
وہ عارضِ تاباں کہ سدا نور ہی برسے
وہ زلفِ سیہ رنگ گھٹا بھی جسے ترسے
ہر بندۂ مومن کو عقیدت ترے گھر سے
ایمان کی دولت کہ ملی ہے اسی در سے
گزری تھی کبھی موجۂ خوں آپ کے سر سے
دل آج بھی ہوتا ہے لہو غم کے اثر سے
پوچھو یہ گروہِ مَلَک و جن و بشر سے
محفوظ نہ تھا دامنِ دیں پنجۂ شر سے
دیکھی نہ گئی آپ سے بے چارگی دیں
شمشیر و سناں باندھ کے نکلے وہ کمر سے
اف کود پڑے معرکۂ عشق میں تنہا
پائی تھی وراثت میں شجاعت جو پدر سے
اے کشتۂ تیغ ستمِ عشق مبارک
پائندہ ہے اسلام تیرے خونِ جگر سے
نقشِ کفِ پا کی تیرے اللہ رے عظمت
پیشانی عظمت پہ ہیں تابندہ گہر سے
جانبازی شبیرؓ جدا سب سے جدا ہے
تم دیکھ لو تاریخ میں خود اپنی نظرؔ سے
٭٭٭
ہیں راہِ منقبت میں ہزاروں ہی پیچ و خم
اے راہوارِ طبع سنبھل کر قدم قدم
ہو داستاں حسینؓ کی کس طرح سے رقم
دل بھی لہو لہو ہے قلم کا بھی سر قلم
ملتی نہیں نظیر وہ ٹوٹا ہے کوہِ غم
حیدرؓ کے نورِ عین پہ اللہ رے ستم
وہ فاطمہؓ کے لعل وہ سبطِ شہِ اممؐ
لختِ جگر علی کے وہ اللہ کی قسم
جاہ و جلال مختصراً یوں کہیں گے ہم
درباں ہیں ان کے قیصر و کسریٰ و کَے و جم
صورت میں دلکشی ہے وہ اللہ کی قسم
ڈالے نگاہِ شوق عرب ہو کہ وہ عجم
صورت میں حسن وہ کہ زمانہ کہے حسین
سیرت کے آئینہ میں وہ عکسِ شہِ اممؐ
جنگاہِ کربلا میں ڈٹا مثلِ شیرِ نر
نانا کے دین کا وہ اٹھائے ہوئے عَلم
اترا مصافِ حق میں تہی دست وہ مگر
فوجِ عدو کا رعب سے نکلا ہوا سا دم
بستانِ فاطمہؓ کی بہاروں کا کارواں
اس دشتِ کربلا سے ہوا راہی عدم
ہاں آپ کی شہادتِ عظمیٰ گواہ ہے
ایسا کہاں ہر ایک پہ اللہ کا کرم
اسلام کی بہار میں سب ان سے رنگ و بو
دینِ خدا کا ان سے ہی قائم رہا بھرم
اسوہ پہ آپ ہی کے ٹھہرتی ہے یہ نظرؔ
فتنے یزیدیت کے جہاں دیکھتے ہیں ہم
٭٭٭
جو لکھنا ہے اسے توصیفِ شبّر
پئے تعظیم خامہ ہے نگوں سر
پسر وہ فاطمہؓ کا نیک اختر
حسینؓ ابنِ علیؓ سبطِ پیمبرؐ
حسین ایسے کہ حسن ان پر نچھاور
نگاہِ عشق قرباں ہر ادا پر
گلِ عارض مہکتے دو گلِ تر
لبِ خنداں ہیں یا یاقوتِ احمر
گریباں میں چھپے گر صبحِ انور
پنہ زلفوں میں لے شامِ معطر
درِ دولت کا کیا کہنا وہاں پر
فرشتے بھی کھڑے رہتے تھے اکثر
محمدؐ مصطفیٰ کے وہ تھے دلبر
کہاں سے آئے کوئی ان کا ہمسر
رہے ان کے ہی زیرِ سایہ اکثر
سرایت کر گیا سب خلقِ اطہر
شباب آیا تو نکلے وہ قد آور
جھکے تعظیم کو سر و صنوبر
قدم بوس ان کا تھا بختِ سکندر
عطائے رب زہے اوجِ مقدر
سراپائے وفا وہ صبر پیکر
وہ مردِ متقی دل کا تونگر
شہادت گاہِ الفت کا سپہ گر
شجیع و شیر دل مردِ دلاور
مصافِ حق کا وہ دلدوز منظر
شہیدِ راہِ حق اللہ اکبر
کیا جامِ شہادت نوشِ جاں اف
جو پیاسے تین دن سے تھے برابر
انہیں پانی کی حاجت بھی کہاں تھی
لگا ہونٹوں سے تھا جب جامِ کوثر
سلامِ خادمانہ سب کا پہنچے
محمدؐ اور آلِ مصطفیٰ پر
خلافِ حق جو ان کے منہ کو آئے
وہ ظالم وہ سیہ رو وہ ستم گر
جہنم کا وہ ایندھن تا ابد ہیں
رہی دنیا تو اس میں خوار و ابتر
پڑا گردن میں ان کی طوقِ لعنت
نحوست ہی نحوست ان کے اوپر
ملا جو درس ہے ابنِ علیؓ سے
وہ بابِ عشق میں ہم سب کو رہبر
نہ آئے آنچ دیں پر جان جائے
پئے خوشنودی خلاقِ اکبر
برائے حق ستیزہ کار ہونا
برائے دینِ حق سب کچھ نچھاور
نہ کام آئے منال و مالِ دنیا
خدا اعمال پوچھے روزِ محشر
یہ دنیا کیا فقط ہے دھوپ چھاؤں
تماشہ دیکھنا ہے اس کا دم بھر
پڑھیں جب داستانِ کربلا کو
جو اسوہ ان کا ہے اس پر نظرؔ کر
٭٭٭
قطعات
ادراک تھا امام کو کیا ہے مقامِ عشق
سب کچھ نثار کر دیا اپنا بنامِ عشق
لے جا کے کربلا میں بھرا گھر لٹا دیا
حقا حسینؓ ابنِ علیؓ ہیں امام عشق
٭
لختِ دلِ بتول وہ ابنِ علیؓ حسینؓ
لاریب عاشقانِ خدا کے ولی حسینؓ
ہو کر شہید زندۂ جاوید ہو گئے
لوحِ جہاں پہ نقش بخطِ جلی حسین
٭
خوں فشاں صبح و مسا چشمِ شفق
مشرق و مغرب کا سینہ بھی ہے شق
سوگ میں فطرت بھی ہے تیرے لئے
اے امامِ حق شہیدِ راہِ حق
٭
کربلا میں ریگ زارِ لق و دق
اور تو اس میں شہیدِ راہِ حق
اے امامِ حق نہیں تجھ سا کوئی
دیکھ لے چاہے نظرؔ چودہ طبق
٭
ابھری ہوئی نکھری ہوئی چھائی ہوئی تنویر
اب دل میں سمائی ہوئی قرآن کی تفسیر
اے حسنِ دو عالم سے سجائی ہوئی تصویر
اے خلد نشیں روحِ جناں حضرتِ شبیر
٭
سبطِ رسولِ پاکؐ وہ ابنِ علیؓ حسینؓ
جنگاہِ کربلا میں ہیں دیکھو وہی حسینؓ
جانِ عزیز دے دی، دیا دیں نہ ہاتھ سے
ظلمت کدہ میں سب کے لئے روشنی حسینؓ
٭
سینہ شفق کا چاک جو ہوتا ہے صبح و شام
شبنم بھی گریہ کرتی ہے شب بھر بہ التزام
سوچا کہ کیوں یہ ماتمِ فطرت ہے روز و شب
دل نے کہا نہ سلسلۂ حضرتِ امامؓ
٭
گردابِ غم میں دل کو ڈبو لوں تو کچھ کہوں
پلکوں میں آنسوؤں کو پرو لوں تو کچھ کہوں
ذکرِ حسینؓ آیا ہے اف کربلا کے ساتھ
جی بھر کے پہلے دوستو رو لوں تو کچھ کہوں
٭
راہِ خدا میں دیکھتے آئے ہیں ہم یہ حال
سر دے دیا کسی نے کسی نے دیا ہے مال
لیکن بہت بلند ہے سطحِ حسینیت
تاریخ میں نظرؔ نہیں آتی کوئی مثال
٭
حق ہو ستیزہ کار تو باطل ہو سر نگوں
دم بھر میں تار تار ہو شیرازۂ فسوں
دکھلا دیا حسینؓ نے اپنا بہا کے خوں
کرتے ہیں دیکھ سینۂ باطل کو چاک یوں
٭
کیا کیا نہ روزگار میں آئے ہیں انقلاب
دیکھی ہے واقعات زمانہ کی ہر کتاب
لیکن نظرؔ یہ بات بہ بانگِ دہل کہوں
قصہ نہیں ہے مثلِ حسینؓ ابنِ بو ترابؓ
٭
دولت بھی پاس کوئی نہ مال و منال تھا
عشقِ خدائے لم یزل و ذوالجلال تھا
قربان گاہِ عشق پہ سب کر دیا نثار
سبطِ نبیؐ میں دیکھئے کیسا کمال تھا
٭
میدانِ کربلا میں ضیا بار حق ہوا
باطل کے ساتھ برسرِ پیکار حق ہوا
لبیک کہہ کے آلِ نبیؐ سرخرو ہوئے
ملنے کا ان سے جب کہ طلبگار حق ہوا
٭
گل پوش ہے کہاں کہ ہے پر خار راہِ عشق
میدانِ کربلا ہے کہ قربان گاہِ عشق
ہو کر شہید سارے زمانہ سے پائی داد
لاریب سب حسینؓ سے قائم ہے جاہِ عشق
٭
ماضی سے دیکھتے چلے آئے ہیں تا بہ حال
ایثار ہے حسینؓ کا بے مثل و بے مثال
مردانِ عشق پیشہ کو وہ روشنی ملی
لاریب تا قیامِ قیامت ہے لازوال
٭
بستانِ فاطمہؓ کے یہ خوش رنگ پھول ہیں
میدانِ کربلا میں یہ آلِ رسولؐ ہیں
فتنوں کو دیکھ دینِ خدا میں ملول ہیں
بہرِ جہاد جمع ہیں سب با اصول ہیں
٭
فتنہ ہائے گوناگوں میں گھر گئی جانِ حسینؓ
شاہدِ عینی ہے اس کا ربِ منانِ حسینؓ
دردِ دل اٹھے ہمیشہ خیر مقدم کے لئے
ہم سے ملنے آئے جب شامِ غریبانِ حسینؓ
٭
سکون و صبر و ضبط سب فرار دل سے ہو گئے
قسم ہے اس خدا کی جو سمیع بھی مجیب بھی
ہزار داستاں سنی بگوشِ ہوش اے نظرؔ
مگر ہے قصۂ حسینؓ عجیب بھی غریب بھی
٭
وہ داستانِ غم ہے شہِ دیں پناہ کی
جس نے سنی ہے جب بھی سنی دل سے آہ کی
ابلیسیوں کے کارِ لعیں پر جو کی نظرؔ
ابلیس نے بھی شرم سے نیچی نگاہ کی
٭
قصہ ہے الگ سب سے کہ ہے سب سے جدا تو
سن کر ترے قصے کو ہر اک آنکھ میں آنسو
وہ کام کیا ابنِ علیؓ تو نے کہ اب تک
بستی ہے ہر اک دل میں ترے پیار کی خوشبو
٭
اے ربِ ذو المنن تو بڑا صاحبِ کرم
جو کچھ دیا بہت ہے نہ ہرگز کہیں گے کم
لیکن یہ کیا ہوا مجھے دے کر غمِ حسینؓ
دل ایک ہی دیا پئے اظہارِ سوزِ غم
٭
لیجئے جو نام ان کا فیض بخش و با برکت
دیکھئے جو کام ان کا پُر شکوہ و پُر عظمت
سوچئے مقام ان کا جن کے پاؤں میں جنت
سیکڑوں سلام ان پر اور ہزارہا رحمت
٭
اے عشق کی خوشبو میں بسی حسن کی تصویر
اے میانِ شجاعت کی چمکتی ہوئی شمشیر
سرخیلِ شہیدانِ وفا مردِ حق آگاہ
اے ابنِ علیؓ سبطِ نبیؐ حضرتِ شبیرؓ
٭
منہ میں زباں تو ہے پہ سخن کی نہیں ہے تاب
سینہ میں دل تو ہے پہ زبوں خستہ و خراب
لختِ دلِ بتولؓ کہاں اور میں کہاں
کرتا ہوں مدح اپنی سی تا پاؤں کچھ ثواب
٭٭٭
کمپوزنگ:محمد تابش صدیقی، محمد عتیق قریشی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید