FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 قرآن کیسے جمع ہوا؟

 

 

 

                عزیز اللہ بوھیو

 

 

 

 

امام بخاری صاحب نے کتاب فضائل القرآن میں ایک باب باندھا ہے باب جمع القرآن کے نام سے ہے۔ اس باب میں کل دو حدیثیں ہیں ۔ میں پہلے دونوں حدیثو ں کا مختصر خلاصہ عرض کر رہا ہوں بعد میں وہ قرآنی آیات لاؤں گا جن کے خلاف یہ حدیثیں گھڑی گئی ہیں۔

اس باب کا نمبر ہے 891اور حدیثوں کے نمبر ہیں 2095 اور 2096۔

یہ حدیث ابن شہاب زہری نے گھڑی ہیں ،کہ زید بن ثابت نے فرمایا کہ جنگ یمامہ کے موقع پر ابوبکرؓ نے مجھے بلایا اور میں اس کے پاس گیا تو وہاں عمر فاروقؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے تو ابو بکرؓ نے مجھے کہا کہ عمر میرے پاس آیا ہے اور کہتا ہے کہ جنگ میں بڑی خونریزی ہوئی ہے جس میں قاری لوگوں کا بڑا قتل ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ ہر جگہ کی لڑائیوں میں اگر یہی حا لت رہی تو قرآن کا بڑا ذخیرہ جاتا رہے گا۔ اس لئے میں آیا ہوں کہ آپ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیں ۔ تو میں نے عمرؓ کو کہا کہ تم وہ کام کیسے کرو گے جو رسولؐ اللہ نے نہیں کیا۔ تو عمر نے کہا کہ یہ ضروری اور بہتر ہے اور وہ اس کے لئے اصرار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ جس طرح عمرؓ کا اس مسئلہ میں سینہ کھلا ہوا تھا اللہ نے میرا بھی شرح صدر کر دیا ۔زید نے کہا کہ مجھے ابوبکر نے کہا کہ تو نوجوان آدمی ہے اور ہم تجھے کسی تہمت میں بھی ملوث نہیں پاتے اور تم رسول اللہ کے لئے اس کی وحی بھی لکھتے تھے اس لئے قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو ‘‘ سو اللہ کی قسم کہ اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو ادھر سے ادھر منتقل کرنے کے لئے کہتے تو وہ مجھے بھاری نہ لگتا جتنا کہ قرآن کا جمع کرنا بھاری لگتا ہے۔ تو میں نے ان کو کہا کہ تم یہ کام کس طرح کر رہے ہو جو رسولؐ اللہ نے نہیں کیا۔ تو ابوبکر نے کہا کہ اللہ کی قسم ! یہ اچھا کام ہے اور وہ مجھے اس کے لئے با ر بار کہتا رہا یہاں تک کہ میرا بھی شرح صدر ہو گیا۔ پھر میں قرآن کے جمع کرنے کے پیچھے پڑ گیا ۔جو میں نے (عسب) یعنی کھجور کی لکڑیوں اور لخان (لخان کاویسے تو معنی ہے انسانی جسم کا بدبو دار مقام بغل وغیرہ) لیکن یہاں مترجمین نے ہڈیاں اور پتھر معنی لئے ہیں ، اور لوگوں کے سینوں سے اور اس تلاش کے عمل میں سورۃ توبہ کی آخری آیت میں نے ابو خزیمہ انصاری کے ہاں پائی جو کسی اور کے ہاں نہیں مل رہی تھی اور وہ آیت

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (9:128)

(لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے (اور) مہربان ہیں۔

سورۃ برأۃکا آخر۔

چنانچہ یہ میرے جمع کردہ صحیفے ابوبکرؓ کے پاس اس کی زندگی تک رہے اور اس کی وفات کے بعد عمرؓ کے پاس رہے اور عمرؓ کی وفات کے بعد اس کی بیٹی حفصہؓ کے پاس رہے۔

پہلی حدیث پوری ہوئی اور دوسری حدیث بھی ابن شہاب زہری کے فن امامت کا شاہکار ہے۔ اس میں لکھتے ہیں کہ حذیفہ بن الیمانؓ عثمانؓ کے پاس آئے جب وہ عراق اور شام کو اکٹھا کر کے آرمینیا اور آذر بائیجان پر حملہ کر رہے تھے۔ تو ان دنوں شامی اور عراقی لوگ قرأت کے معاملوں میں آپس میں لڑ رہے تھے ۔جس نے محترم حذیفہ کو پریشان کیا ہو ا تھا ۔تو حذیفہؓ نے عثمانؓ سے کہا کہ اے امیر المؤمنین اس امت کا تو خیال کرو! اس سے پہلے یہود اور نصاریٰ اپنی کتاب کے بارے میں اختلاف میں پڑ گئے تھے۔ اب کہیں یہ مسلم امت بھی ان کی طرح اپنی کتاب میں اختلاف میں نہ لگ جائیں ۔ پھر عثمانؓ نے بی بی حفصہؓ کے پاس کسی کو بھیجا کہ وہ صحیفے جو آپ کے پاس ہیں وہ ہمارے ہاں بھیج دیجئے۔ ہم اس سے نقل کر کے پھر آپ کو واپس کر دیں گے تو حفصہؓ نے وہ صحیفے بھیج دیئے عثمانؓ کی طرف اور اس نے حکم دیا زیدؓ بن ثابت اور عبداللہ بن الزبیرؓ اور سعید بن العاصؓ اور عبدالرحمان بن الحارثؓ بن ہشام کو ۔پھر ان سب نے اس کاپی سے نقل کر کے دوسرے نسخے تیار کئے اور عثمانؓ نے ان چار آدمیوں میں سے تین جو قریش تھے انہیں حکم دیا کہ جب تمہارا زید بن ثابتؓ سے کوئی اختلاف ہو جائے تو پھر تم لغت قریش کے مطابق نقل کرو کیونکہ فانما نزل بلسانھم یعنی قرآن نازل ہی ان کی زبان کے مطابق ہوا ہے۔ پھر ان لوگوں نے ایسے ہی کیا۔ پھر جب کئی سارے نسخے تیار ہوئے تو عثمانؓ نے اصل کاپی بی بی حفصہؓ کو بھیج دی اور دیگر نقل کردہ نسخے مملکت کے اطراف و نواحی میں بھیج دیئے اور حکم جاری کیا کہ ان نئے تیار کردہ نسخوں کے علاوہ کسی کے پاس قرآن سے جو کچھ بھی ہو وہ جلا دیئے جائیں ۔ آگے ابن شہاب کا قول مزید ہے کہ اس سے خارجہ بن زید بن ثابت نے کہا کہ اس نے اپنے باپ سے سنا کہ سورۃ احزاب کی ایک آیت مجھ سے گم ہو گئی جو میں رسول اللہ سے سنا کرتا تھا۔ پھر ہم نے اسے تلاش کیا تو اسے خزیمہؓ ابن ثابت انصاری کے پاس پایا اور وہ آیت یہ تھی کہ :

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ  فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (33:23)

مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار اُنہوں نے خدا سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہو گئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں اور اُنہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیں بدلا۔

یعنی اس آیت کو ہم نے پھر مصحف میں شامل کر دیا ۔

محترم عالی مقام!

یہ دوسری حدیث بھی پوری ہوئی۔ اب ان دونوں حدیثوں پر قرآن حکیم کا مؤقف جمع القرآن کے سلسلہ میں ملاحظہ فرمائیں۔ پھر ان دشمنان قرآن اماموں کی ان خرافات پر بھی مزید غور فرمائیں اور آپ پر جو بھی چاہیں رائے قائم کریں ۔

تبصرہ : محترم قارئین  !

آدمیوں کی پہلی ٹیم کا جب جنت ارضی سے ہبوط ہوا اور انہوں نے نعماء جنت کی بے قدری کرتے ہوئے استحصال اور ارتکاز دولت کے لئے محنت کشوں کو ننگا تک کر دیا تو انہیں اللہ کا حکم ہوا کہ :

قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (2:38)

ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔

یعنی اب ہم تمہیں ڈی گریڈ کرتے ہیں اور مقام آدمیت کی علم وحی والی منزل تمہیں تب ملے گی جب تم ہماری طرف سے آئی ہوئی ہدایت کی تابعداری کرو گے۔ تو پھر تمہیں کوئی خوف اور غم نہ ہو گا ۔

اس سلسلہ میں قرآن بتاتا ہے کہ :

وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا  (21:79)

یعنی ہم نے ہر نبی کو کتاب اور اس کتاب کی روشنی میں حکمرانی عطا کی تو انبیاء ؑ کی وحی کی رہنمائی والی اخلاقیات ہوں یا معاشیات ،یہ چیزیں دنیا کی استحصالی مادر پدر آزاد و معاشرت والے مافیا کو نہیں بھائیں ۔

فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ (21:79)

تو ہم نے فیصلہ (کرنے کا طریق) سلیمان کو سمجھا دیا۔ اور ہم نے دونوں کو حکم (یعنی حکمت و نبوت) اور علم بخشا تھا۔ اور ہم نے پہاڑوں کو داؤد کا مسخر کر دیا تھا کہ ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور جانوروں کو بھی (مسخر کر دیا تھا اور ہم ہی ایسا) کرنے والے تھے ۔

انہوں نے ہر دور میں وحی کی تعلیم سے ٹکر لی ۔آج کوئی موازنہ کر کے دیکھے کہ انبیاء بنی اسرائیل کے صحیفے جنہیں عہد نامہ عتیق اور تورات کہا جاتا ہے انجیل تک ان کی ساری تحریف شدہ تعلیمات کا  مجمو عہ ہے ۔اور قرآن جو وحی والی تعلیم کا آخری ایڈیشن ہے جو پہلے جملہ انبیا ء کے صحیفوں کتابوں کا امین ہے ( نچوڑ اور لیٹسٹ ایڈیشن ہے اس کے خلاف جو کسر وی اور قیصر ی شکست خوردہ سرداروں جاگیر داروں کی تنخواہ  دار دانشور مافیا نے امامت کے چوغے میں حدیث رسول کے نام سے جو علم میدان میں لائے ہیں وہ سارے کا سارا بائیبل کی کاپی ہے جس میں جاگیرداری کو از سر نو رسولؐ اللہ کے نام سے زندہ کیا گیا ہے۔ جس علم روایات و احادیث میں سرمایہ داریت، پاپائیت کو قرآنی معاشیات و دیگر علوم کے مقابلہ میں لے آئے ہیں۔ ان حدیث ساز اماموں نے ایک حدیث بنائی ہے کہ ایک دن رسول اللہ کے سامنے عمرؓ فاروق کسی اگلے نبی کا صحیفہ پڑھ رہے تھے تو رسولؓ اللہ اسے دیکھ کر غصے میں لال ہو گئے تو صدیق اکبرؓ نے عمر کو کہنی مارتے ہوئے کہا کہ الاتری وجہ رسول اللہ یعنی تو دیکھ نہیں رہا کہ رسول اللہ تیرے اس کتاب پڑھنے پر کتنے غصہ میں آ گئے ہیں تو فوراً عمرؓ نے رسول اللہ کو دیکھتے ہوئے کہا کہ رضیت باللہ رباوبالاسلام دینا و بمحمد  نبیا یعنی اس نے گویا ایمان کی دعا پڑھ کر اپنے ایمان کی تجدید کی اور رسول کو تسلی دی کہ میں تو ایسے ہی دیکھ رہا تھا ۔تو رسول اللہ نے فرمایا کہ لو کان موسیٰ حیا لما وسعہ الا اتباعی یعنی اے عمر اگر آج میرے دور نبوت میں موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو اسے بھی میری اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔

محترم عالی مقام!

یہ سارا کچھ اس لئے ہے کہ وحی قرآن کی تعلیم ، کے خلاف عہد نامہ عتیق و جدید میں جو کچھ ہے اسے یہ فارس کے امام حدیث رسول کے نام پر میدان میں لائے ہیں۔ اب یہ اس طرح کی حدیثوں سے اگلے تحریف شدہ صحیفوں کے پڑھنے سے اس لئے روک رہے ہیں کہ کہیں قیصریت کے لے پالک سینٹ پالوں سے کسروی فارسی زرتشتی اماموں کا علمی رشتہ لوگوں کو معلوم نہ ہو جائے اور ان کے امامی علم نے جسے آپ علم الروایات کہیں یا علم الحدیث کہیں بقول ان کے یہ سارے کا سارا شرک بالقرآن ہے یہ تو سارے کاساراشرک بالرسالت ہے اس لئے کہ رسالت والا علم تو قرآن ہے اور یہ اہل فارس کی حدیثوں والا علم تو شرک باللہ ہے وہ اس طرح کہ یہ امامی حدیثیں ان کے متبعین کے کہنے کے مطابق قرآن کو بھی منسوخ کرسکتی ہیں ۔تو اللہ کے مقابلہ میں گویا ان کی حدیثیں قرآن ثانی کے درجہ میں ہوئیں بلکہ ان کے لئے تو قرآن سے اعلیٰ ہوئیں کیونکہ ناسخ چیز منسوخ کے مقابلہ میں فوق ہوئی۔ تو ان حدیث پرستوں کے ہاں حدیثیں قرآن کو منسوخ کرسکتی ہیں تو حدیثوں کا مرتبہ ان کے ہاں قرآن سے اعلیٰ ہوا ۔ان قرآن مخالفوں نے وحدہ لا شریک ذات کا وحدہ لاشریک مینو فیسٹو جو وحدہ لا شریک علمی اصل اور ماخذ ہے۔ انہوں نے اللہ کے اس توحید ی نشان کو توڑنے کے لئے اور شرک بالقرآن کے طور پر ان کے اپنے گھڑے ہوئے علم حدیث کو حدیث رسول کے طور پر منوانے کے لئے ان لوگوں نے وحی غیر متلو کے چکر چلائے اور مثلہ معہ کے شرکیہ ڈائیلاگ پھینکے اور انہیں منوانے کے لئے ان لوگوں نے  مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (4:80)

کے غلط معنی مشہور کئے ۔

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (4:80)

جو شخص رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو بےشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور جو نافرمانی کرے گا تو اے پیغمبر تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔

انہوں نے  وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ سے اللہ اور رسول کے درمیان فرق کیا کہ اللہ کی اطاعت کو قرآن کی اطاعت کے معنی میں مشہور کیا اور رسول کی اطاعت کو حدیثوں کی اطاعت کے معنی میں مشہور کیا ۔

ان کے اس شرک کو عام لوگ سمجھ نہیں پائے ۔

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (3:132)

اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے ۔

اس لئے کہ ان لوگوں نے شرک کے معنی صرف قبروں کو پوجنے میں محدود کر دئیے ۔اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کو جدا کرنا یہ سب سے بڑا شرک ہے۔

حقیقت میں رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہی کا نام ہے ۔

یہ کوئی جدا دو چیزیں نہیں ہیں ۔

رسول کی اطاعت کے معنی اس کی رسالت کی اطاعت ہے۔

رسالت کا محسوس مسودہ تو قرآن ہے ۔

رسالت کا معنی تو پیغام ہے اور وہ پیغام اللہ کا قرآن ہے جب پیغام یعنی رسالت کی اطاعت کی جائے گی تو وہ از خود اللہ کی اطاعت ہو جائے گی ۔

محترم قارئین  !

اس مضمون کی پہلی حدیث سے تبصرہ عرض ہے کہ امام زہری صاحب نے لکھا ہے کہ زید بن ثابت کو صدیق اکبر نے جنگ یمامہ کے بعد بلا کر کہا کہ لڑائی میں بہت قاری لوگ قتل ہوگ ئے ہیں ۔جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ اس طرح قرآن کا بڑا ذخیرہ چلا جائے گا ۔زہری کی اس عبارت سازی میں اس کی خیانت یہ ہے کہ اصحاب رسول سارے کے سارے حفاظ قرآن تھے ۔اس زمانہ میں قرأت کے فن کی کوئی ایجاد اور صنعت ہی نہیں تھی یہ۔ نزل القرآن علی سبعۃ احرف یعنی قرآن سات قرأتوں میں نازل کیا گیا ہے۔ یہ تو اہل فارس کی سازش ہے کہ قرأتوں کے بہانے سے ان کو تحریف لفظی کا کہیں بہانہ مل جائے۔ اللہ نے تو نزول قرآن کا ذکر قرآن حکیم میں مختلف وصفوں سے نزول کے صیغے اور لفظ کے ساتھ ڈیڑھ سو بار سے زیادہ تعداد میں ذکر کیا ہے جس میں نور کا وصف ہے، ذکر ہے، آیات بینات ہے، حق ہے، سلطان ہے ، نذیر ہے ، بشیر ہے ،احسن الحدیث ہے، متشابہ ہے ، مثانی ہے، تبیان ہے، جس میں انداز نزول کا ذکر تنزیل کے صیغے سے ہے ۔علی مُکْث کے اسلوب سے ہے۔ اذن اللہ کے تعارف سے ہے ،شفاء کے نام سے ہے ، مصدق ہے، رحمت کے لقب سے ہے، حکمۃ کے نام سے ہے، مبارک ہے ، ہدایت کے طور پر ہے ۔پھر کیا بات ہے کہ اللہ نے نزول کے صیغہ سے ایک سو ساٹھ بار سے زائد قرآن کا تعارف قرآن میں سمجھایا لیکن سبعۃ احرف اور لسان قریش میں نزول کا ذکر نہیں کیا یعنی سات قرأتوں میں نازل کرنے کی بات بتانا اللہ بھول گیا ۔ یہ فارس کی شکست خوردہ امامی مافیا نے آ کر اللہ کی بھول چوک کو درست کر کے دکھایا اور لسان قریش کی پیوند لگا دی ۔اس قرآن دشمن مافیا سے متاثر ذہنوں والے یہ بات ہمیشہ کے لئے پلے باندھ رکھیں کہ جو چیز قرآن میں نہیں ہے وہ اس لئے نہیں ہے کہ اللہ بھول گیا بلکہ اس لئے نہیں ہے کہ اللہ نے وہ چیز ضروری نہیں سمجھی۔ اسے علم ہے کہ اتنے سے اضافے سے یہ لوگ کتنا پھنس جائیں گے ۔ پہلی قوموں نے ایسے بے جا قسم کے سوالات اٹھائے تو وحی کے سرچشمہ سے انہیں جواب میں وہ اضافے دئیے گئے پھر وہ ایسے پھنسے کہ :

ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ (5:102)

پھر تو ان کو لینے کے دینے پڑ گئے اور اپنے مانگے ہوئے اضافوں کا بھی کفر کر بیٹھے ۔

قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ (5:102)

اس طرح کی باتیں تم سے پہلے لوگوں نے بھی پوچھی تھیں (مگر جب بتائی گئیں تو) پھر ان سے منکر ہو گئے ۔

تو یہ امام زہری صاحب کا اپنی حدیث میں قاریوں کے قتل کی بات کرنا یہ امت کو دھوکہ دینا ہے کہ رسولؐ کے ساتھیوں میں کامل قرآن کا کوئی حافظ تھا ہی نہیں صرف قاری تھے اور یہ زہری صاحب کی تکنیک اس لئے ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ جب حفاظ قرآن نہیں ہوں گے تو واقعی پتھروں اور ہڈیوں پر لکھے ہوئے ذخیرہ سے ایک ٹھکری کے ضائع ہونے سے بھی مکمل نہیں ہو سکے گا ۔جس طرح کہ اسی امام مافیا کا گھڑا ہوا پراپیگنڈا بخاری نے بھی اپنی کتاب میں نوٹ کیا ہے کہ رجم کی آیت نازل ہوئی تھی جو آج کل قرآن میں شامل نہیں ہے گم ہو گئی ہے ۔

محترم قارئین!

اس ماجرا کی تفصیل اس کتاب کے حصہ اول میں پیش کی گئی ہے ۔  میں اہل فارس کی اس قرآن دشمن تحریک کے تنظیمی ربط کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراؤں کہ یہ زہری  امام ابو حنیفہ کی پیدائش کے سال 80 ہجری میں بنو امیہ کے خلیفہ عبدالملک کی اولاد کے اتالیق بنے  ہیں اور بنو امیہ کی جڑیں اکھیڑنے میں سارا اسی کا ہاتھ ہے ۔

یہ صاحب 45سال تک کنگ میکر کے طور پر انڈر گراؤنڈ دارالخلافہ میں بیٹھ کر اپنا کام کرتے رہے۔ اس قسم کے لوگوں نے قرآن دشمنی کے لئے جو من گھڑت علم حدیث ایجاد کیا تو دیکھئے اس کے ایک سو سال سے بھی زائد بعد میں آنے والا بخاری اس کے سارے مخطوطات کتابی شکل میں قلمبند کرتا ہے۔ نہ صرف اکیلا بخاری بلکہ آپ امام محمد کی کتاب الاثار میں بھی دیکھیں گے کہ ابو حنیفہ کی قرآن دشمن روائتیں بھی امام زہری سے مروی ہیں۔ جس کا کچھ ذکر اس کتاب کی جلد اول میں ہے کچھ اس حصہ دوم میں لایا جائے گا اور ان امامی تحریک والوں کا طریقہ

من ترا حاجی بگو یم تو مرا قاضی بگو

کی طرح ہے۔

یہ جو اِن کے ناموں کے پیچھے قدس سرہ لکھا جا تا ہے یہ اس زیر زمین قرآن دشمن مافیا کا تعارفی کوڈ ورڈ تھا جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ اپنا بندہ ہے اس کی ممبر شپ کا راز محفوظ ہے۔ ظاہر نہیں ہو پایا آگے حدیث میں یہ کہنا کہ قاریوں کے قتل ہو جانے کی وجہ سے عمرؓ میرے پاس آیا ہے اور مطالبہ کیا کہ ضرورت ہے کہ قرآن کو جمع کیا جائے ورنہ ضائع ہو جائے گا ۔

محترم قارئین!

قرآن کا ضائع ہو جانا قاری لوگوں کے مرنے سے تو نہیں ہو جاتا۔ ہاں البتہ حافظ لوگوں کے قتل کی کوئی بات ہو تو عقل مانتی ہے لیکن یہ مافیا کے لوگ کیسے کہیں کہ اس دور میں حافظ قرآن بھی تھے ۔اس طرح کہنے سے تو ان اماموں کو سانپ ڈستا ہے ۔پھر حدیث میں آگے لکھتے ہیں کہ صدیقؓ اکبر فرماتے ہیں کہ میں نے عمرؓ کے اس مطالبہ پر اسے کہا کہ جو کام رسولؐ  نے اپنی زندگی میں نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں ؟حدیث ساز اماموں کی اس ڈھٹائی پر کیا کہیں اور چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد ۔

محترم قارئین  !

اللہ تعالیٰ اگر اپنی کتاب کی حفاظت کا ذمہ خود اپنے ہاتھ میں نہ لیتے تو ان کی یہ تحریک اتنی خطرناک ہے کہ قرآن کو ایک صدی بھی چلنے نہ دیتی اور شاید توریت اور انجیل سے بھی قرآن کا زیادہ برا حشر کر دیتی اور جب یہ لوگ قرآن کے ٹیکسٹ اور متن کو مٹا نہ سکے تو انہوں نے سارا زور قرآن کی معنوی تحریف پر لگایا۔ اور وہ بھی اتنا طاقتور اور بھر پور انداز سے کہ یہ لوگ مسلم امت کو بلکہ پوری دنیا کو یہ منوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے اپنی زندگی میں قرآن پر عمل نہیں کیا ۔

اس نے قرآن کے حکم  مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى یعنی غلامی پر بندش لگائی جاتی ہے ۔

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (8:67)

پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے ۔

نبی نے قرآن کا حکم نہیں مانا اور لڑائیوں میں لوگوں کو غلام بناتے رہے اور قرآن کے معاشی مساوات کے حکم

وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (53:39)

اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔  اور سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ کے حکم پر بھی رسولؐ اللہ نے عمل نہیں کیا اور لوگوں میں جاگیریں تقسیم کیں ۔

وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (41:10)

اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان معیشت مقرر کیا (سب) چار دن میں۔ (اور تمام) طلبگاروں کے لئے یکساں۔

پڑھ کر دیکھیں بخاری کے باب اقطاع الارض میں جس میں ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ نے فرمایا کہ گھوڑے پر سوار ہو کر جاؤ ۔جہاں تک پہنچ سکو وہاں تک کی ساری زمین تیری ہوئی۔ تفصیل اسی کتاب کے حصہ اول میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ علاوہ ازیں رجم کی حدیث میں بھی قرآن کے ناقص ہونے کاا لزام ہے ۔

محترم قارئین!

اگر کوئی حقائق سے آنکھیں بند کر کے کہے تو وہ کہتا جائے گا اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے جبکہ رسول اللہ نے خود  وحی کے ملنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے ہاتھ سے قرآن کو قلم بند کیا ہے جس کا حوالا دشمنوں کی شہادت سے قرآن نے

وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (29:48)

اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اُسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ایسا ہوتا تو اہلِ باطل ضرور شک کرتے۔

بیان کیا

وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (25:5)

اور کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح و شام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔

دیکھئے کہ رسول اللہ پہلے اکیلے ملی ہوئی وحی کو لکھ کر پھر ساتھیوں کو بٹھا کر قرآن لکھوانے کی کلاس لیتے ہیں ،صبح و شام روزانہ یہ کام کرتے ہیں ۔

پھر بھی یہ روایت ساز امامی مافیا والے لکھتے ہیں کہ ابو بکر نے عمر سے کہا کہ جو کام رسول نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں ان حدیث سازوں کی آنکھوں میں ذرا بھی حیا کا دخل نہیں ۔

یہ دیکھ نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں رسول اللہ کو فرماتے ہیں کہ :

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (75:16)

اور (اے محمدﷺ) وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان نہ چلایا کرو کہ اس کو جلد یاد کر لو۔

اے محمد قرآن کو جمع کرانے کے معاملے میں تجھے زبان ہلانے کی بھی تکلیف کرنی نہیں پڑے گی۔

اگر یہ کام تو کرنا چاہے گا تو یہ تیری جلدی ہوگی ،

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (75:17)

اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے۔

یہ معاملہ یعنی قرآن کو جمع کرنا اور وہ بھی ترتیب سے یہ ہمارا مسئلہ ہے یعنی ترتیب نزولی نہیں ہوگی ہم اسے نئی ترتیب سے جمع کرائیں گے اس لئے عجلت نہ کی جائے اب یہاں ایک خاص بات ہے غور کرنے کی ۔ جس کا تعلق ترتیب قرآن سے ہے وہ یہ کہ رسول اللہ تو وحی کے آتے ہی اسے قلم بند کرتے جاتے تھے تو اس طرح سے وہ ایک کتاب ہی مدون ہو رہی تھی، جمع ہو رہی تھی ،ترتیب پا رہی تھی ،جو ترتیب نزولی تھی تو صرف اس کی حتمی فائنل شکل کا مسئلہ تھا جس کے متعلق اللہ نے رسول سے فرمایا کہ اس کو حتمی اور فائنل شکل میں لانے کے معاملہ میں جلدی نہ کرنا ہم اس کے جمع و ترتیب کے معاملہ میں آپ کو خاص ہدایات دیں گے ۔پھر جب ترتیب کے بارے میں آپ کو خصوصی ہدایت مل جائیں تو  فاتبع قرآنہ یعنی ہماری والی ترتیب کو آپ فالو کریں اس کے مطابق اسے جمع کرانا ہے نہ کہ نزولی ترتیب سے ۔

فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (75:18)

جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم (اس کو سنا کرو اور) پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔

پورے قرآن کے نزول ہونے کے بعد ترتیب اور جمع کی ہدایات ملیں گی۔ مکمل ہونے سے پہلے ترتیب نزولی کو فائنل سمجھنا یہ عجلت ہوگی ۔اس لئے یہ کام ہمارے ذمہ ہے اس حد تک کہ :

ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (75:19)

پھر اس (کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔

قرآن کی تفسیربھی وہ قابل قبول ہوگی جو ہم چاہیں گے یعنی تفسیرالقرآن بالقرآن کے سوا کسی دوسرے کی تفسیر قبول نہیں ہوگی۔ تفسیر وہ ہوگی جو ہم بیان کریں گے اور اس کے لئے بھی گارنٹی ہے کہ :

وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا (25:33)

اور یہ لوگ تمہارے پاس جو (اعتراض کی) بات لاتے ہیں ہم تمہارے پاس اس کا معقول اور خوب مشرح جواب بھیج دیتے ہیں۔

یعنی پوچھنے والے ایسا کوئی سوال بھی پوچھیں گے ہم ان کے ہر سوال کا حق والا، احسن ترین انداز سے تفسیر کیا ہوا جواب دیں گے۔

یعنی کوئی بھی طالع آزماایسا کوئی سوال اور اشکال پیش نہیں کرسکتا جس کی قرآن نے بہتر سے بہتر اور احسن طریقہ سے تفسیر نہ کی ہو۔

قرآن دشمن امامی گروہ نے مشہور کر رکھا ہے کہ قرآن اجمالی کتاب ہے ، قرآن مبہم کتاب ہے ، قرآن ان کی حدیثوں اور فقہوں کے سوا سمجھ میں نہیں آسکتا۔ تو ان سب باتوں کو ان کے منہ پر مارتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے کہ سارے قرآن سے ایک مثال تو ایسی لاؤ جس کی واضح اور کھلی تفسیر ہم نے خود نہ کی ہو ۔

کوئی قرآن سے پوچھ کر تو دیکھے ۔

آگے پھر حدیث میں ہے کہ ابوبکرؓ نے مجھے کہا کہ تو نوجوان آدمی ہے اور ہم تجھے کسی تہمت میں بھی نہیں پاتے۔

محترم قارئین  !

اہل مطالعہ لوگ جانتے ہیں کہ ان تحریک والوں نے زید بن ثابت کو کاتب  الوحی اور عبداللہ بن عباس کو رسول کی دعا کے طفیل عالم قرآن مشہور کیا ہوا ہے جبکہ یہ ساری ان کی فنکاری ہے ۔ یہ حدیث ساز لوگ عامۃ الناس کو بیوقوف بنا رہے ہیں کہ کسی کو قرآن کو جب سمجھا ہے جبکہ اسے رسول اللہ نے دعا دی ہے۔ نہیں تو قرآن ہر ایک کو سمجھ آنے والی چیز نہیں ہے۔

محترم قارئین!

سارے اصحاب رسول اعلیٰ پائے کے عالم قرآن تھے ، حفاظ قرآن تھے، قرآنی نظام کے حساس قسم کے نگران تھے۔ جب ہی تو دشمنوں کو اصحاب رسول سے آج تک بیر ہے چڑ ہے۔ آپ نے حدیث میں دیکھا کہ زہری نے کیسی فنکاری دکھائی ہے کہ وہ زید بن ثابت کو کہہ رہے ہیں کہ جمع قرآن کا کام تم کرو۔

اس لئے بھی کہ تجھ پر کوئی تہمت بھی نہیں ۔

یہ جملہ بڑے پائے کے ذاکر لوگوں کا فن تبرا کا شاہکار ہے اس طریقے سے حدیث ساز نے گویا کہ ابوبکر صدیقؓ جیسے بڑے آدمی سے اصحاب رسول کو گالی دلوا دی کہ ان میں کئی سارے کردار تہمت زدہ ہیں ۔

یہ ہے فن تبرا جو آج کے بھنگ پینے والے بھی نہیں جانتے جتنا یہ امام لوگ جانتے تھے۔

اور زید بن ثابت کے لئے یہ اسماء رجال کے لوگ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ کی زندگی میں یہ بارہ سال کی عمر کا بچہ تھا اور مدینہ کے انصار صحابہ کا لڑکا تھا ۔تو مجھے یہ سوال کرنے کا حق پہنچتا ہے کہ جن مہاجر صحابہ کے لئے قرآن نے خود فرمایا ہے کہ وہ صبح و شام کلاسوں کی شکل میں رسول اللہ سے ان کی تیار کردہ ماسٹر کاپی سے مزید نسخے تیار کرتے تھے حوالہ آپ ابھی پڑھ کر آئے ہیں کہ :

وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (25:5)

اور کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح و شام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔

ان مکی دور کے مہاجرین کا تبین وحی کا نام لیتے ہوئے ا ن کو تکلیف ہوتی ہے کیا خبر کہ ابن عباس اور زید بن ثابت کی یہ پروموشن ان کی جعل سازی کا کرشمہ ہو ان دو بچوں کو قرآن کا عالم مشہور کر کے بقیہ جم غفیر کا تبین وحی صحابہ کو انجان قرار دیا جانا اس طرح کی بات کا کو ئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

کیا آپ نے ابھی اس حدیث کے شروع میں نہیں پڑھا کہ اصحاب رسول میں سب سے بڑے جلیل القدر صدیق اکبرؓ اور عمرؓ فاروق پر ایک تیرا چودہ سالہ لڑکے زید بن حارث کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ تو قرآن کا بڑا عالم ہے جمع قرآن کا کارنامہ تو ہی انجام دے سکتا ہے ۔

اہل مطالعہ کو باقاعدہ علم ہوگا کہ عمرؓ فاروق کو ان حدیث سازوں نے ہر لمحہ قرآن کا مسئلہ سمجھنے اور پوچھنے کے لئے ابن عباس کو بلوا کر سیکھتے ہوئے دکھایا ہے جبکہ عمرؓ فاروق یا صدیق اکبرؓ یا دیگر اصحاب کرام ایک سے ایک سب اعلیٰ درجہ کے عالم القرآن تھے۔

جن کے لئے قرآن نے شہادت دی ہے کہ :

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (2:218)

جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ کرتے رہے وہی خدا کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور خدا بخشنے والا (اور) رحمت کرنے والا ہے۔

أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ

یہ ہر وقت اللہ کی رحمت کی تڑپ میں رہتے ہیں اور رحمت قرآن  کو  بتایا۔

اور فرمایا کہ یہ لوگ  رحما ء بینھم آپس میں بھی رحیم و کریم ہیں اور  تراھم رکعا سجدا تم جب بھی دیکھو گے تو ہر وقت یہ لوگ اللہ کی اطاعت میں سرگرم ہوں گے اور فرمایا کہ ان کا مقصد صرف اللہ کے فضل کی تلاش اور رضائے الٰہی کی جستجو ہوگی ۔

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (48:29)

محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔

اور اصحاب رسول کی یہ ساری خصوصیات قرآن سے منسلک ہیں تو اصحاب رسول ہر گھڑی  يَدْعُونَ رَبَّهُمْ دعوت ربوبیت میں مشغول رہنے والے ہیں ۔

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ (6:52)

اور جو لوگ صبح و شام اپنی پروردگار سے دعا کرتے ہیں (اور) اس کی ذات کے طالب ہیں ان کو (اپنے پاس سے) مت نکالو۔ ان کے حساب (اعمال) کی جوابدہی تم پر کچھ نہیں اور تمہارے حساب کی جوابدہی ان پر کچھ نہیں (پس ایسا نہ کرنا) اگر ان کو نکالو گے تو ظالموں میں ہو جاؤ گے۔

جاننا چاہیے کہ رحمت قرآن کو کہا گیا ہے دعوت ربوبیت عامہ یہ بھی دعوت قرآن ہے جو صحابہ کا ہر وقت کا مشغلہ رہا ہے اور یہ دعوت الی القرآن قرآن سے انجان آدمی نہیں کرسکتا اور زید بن ثابت کی زبانی یہ کہنا کہ یہ لوگ مجھے قرآن کو جمع کرنے کے عوض کسی پہاڑ کو ادھر سے ادھر کرنے کو کہتے تو وہ آسان لگتا ۔

پھر یہ قول تو إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (75:17) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (75:18)  ‘ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (75:19)

کے خلاف ہوا ۔

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (75:16)

اور (اے محمدﷺ) وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان نہ چلایا کرو کہ اس کو جلد یاد کرلو۔

اے محمد قرآن کو جمع کرانے کے معاملے میں تجھے زبان ہلانے کی بھی تکلیف کرنی نہیں پڑے گی۔

اگر یہ کام تو کرنا چاہے گا تو یہ تیری جلدی ہوگی ،

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (75:17)

اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے۔

فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (75:18)

جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم (اس کو سنا کرو اور) پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔

ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (75:19)

پھر اس (کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔

یعنی قرآن تو اللہ نے رسول اللہ کی زندگی میں اسے ہدایات دے کر اس کے ہاتھوں مکمل اور مرتب کرا دیا تھا ۔ اس سے یہ حدیث خلاف قرآن ثابت ہوئی آگے حدیث میں لکھا گیا ہے کہ زید بن ثابت نے منتشر قرآن کو بدبو دار ہڈیوں،لکڑیوں اور لوگوں کے سینوں سے چن چن کر نقل کیا ۔ ٹھیک ہے اگرتسلیم کیا جائے کہ نقل کیا ہے ، پھر کوئی انکشاف کرے بتائے کہ کس چیز پر نقل کیا، ان کا دور تو وہی رسول اللہ والا دور ہے۔رسول اللہ کی وفات کے پورے ایک سال بعد بھی جنگ یمامہ نہیں لڑی گئی صدیق اکبرؓ کے دور میں ہڈیوں اور لکڑیوں سے قرآن نقل کر کے کس چیز پر لکھا گیا؟ کس چیز پر اُتارا گیا ؟ یہ وضاحت حدیثیں بنانے والوں نے کیوں نہیں کی؟ اللہ نے تو رسول اللہ کی لکھی ہوئی۔ماسٹر کاپی کے لئے فرمایا کہ وہ تو ہرن کی کھال پر لکھی گئی تھی اے محمدؐ جنگ یمامہ وا لطور کبھی ہمارا یہ منشور کوہ طور سے موسیٰ کے ہاتھوں آیا کبھی کوہ تین سے یہ پیغام ہم نے نوح کی معرفت بھیجا کبھی کوہ زیتون سے یہ پیغام ہم نے عیسیٰ کی معرفت بھیجا اور اب اے محمد بلد امین سے یہ پیغام رق منشور پر ہرن کی صاف شدہ کھال پر تیری معرفت ہم نے یہ پیغام بھیجا ۔

وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (95:1)

انجیر کی قسم اور زیتون کی۔

وَطُورِ سِينِينَ (95:2)

اور طور سینین کی۔

وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (95:3)

اور اس امن والے شہر کی۔

وَالطُّورِ (52:1)

(کوہ) طور کی قسم۔

وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ (52:2)

اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔

فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ (52:3)

کشادہ اوراق میں۔

یہ سب کتابی انداز میں سطر در سطر ، سطر زیر سطر لکھے ہوئے تھے ۔یہی مطلب ہے و کتاب مسطورکا ۔

موسیٰ کا صحیفہ اگر لکڑیوں کی سکول کے بچوں والی تختیوں ، لوح پر لکھا ہوا اسے ملا تو کیا محمد رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم کے لئے کھجور کی لکڑی کا نام کیوں لکھا گیا جس سے تختی بھی نہ بن سکے ۔ جس پر دو سطریں بھی لکھی نہ جا سکیں ۔ اس طرح ہڈیوں پر بھی کیا لکھا جا سکتا ہے ؟اور یہ امام لوگ امت مسلمہ کو اندھا سمجھ رہے ہیں کہ قرآن کی ماسٹر کاپی کے لئے اتنا اعلیٰ انتظام جو وہ آج کے الیکٹرانک دور میں مہنگی سے مہنگی پرنٹ ، لیدر شیٹ پر ہوتی ہے ۔ میں پریس کے کاموں سے واقف ہوں۔ آج کے دور میں پرنٹ میڈیا کی ترقی کے زمانہ میں کاغذ سے بھی چمڑے کی چھپائی زیادہ ہنر مانگتی ہے۔ اس کا انتظام 15 سو سال پہلے رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم کے ہاتھوں قرآن کے لئے کرایا گیا تو میرا سوال اماموں کے مسند نشین شیخ الحدیثوں سے ہے کہ صدیق اکبرؓ کا دور خلافت وہی رسول اللہ کی رسالت کا ہی دور ہے ۔اس وقت جمع قرآن کے طور پر کھجور کے پھٹوں اور ہڈیوں سے کو ن سی دوسری چیز پر قرآن کے صحیفے نقل ہوئے ؟ تو کیا وہ چیزیں جن پر ابوبکرؓ کے زمانہ میں قرآنی صحف نقل کئے گئے وہ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم کے زمانہ میں وجود میں نہیں آئی تھیں؟ اور وہ علاوہ ازیں سید نا عثمان کا زمانہ خلافت بھی رسول اللہ کا زمانہ کہلائے گا تو دوسری والی حدیث میں جو امام زہری بتاتے ہیں کہ عثمان نے چار رکنی کمیٹی سے لغت قریش کے مطابق قرآن کے نسخے بنوا کر اس کی کا پیاں بڑی تعداد میں مملکت کے شہروں میں بھجوا دیں اور ان سے پہلے لکھا ہوا غیر لغت قریش والے قرآن کی ساری کا پیاں جلانے کا حکم دیا ان کے جواب میں اب یہاں میں صرف آیت مباہلہ کو لانا کافی سمجھتا ہوں۔

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (3:61)

پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا و التجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں۔

محترم قارئین!

اس پہلی حدیث میں آپ نے پڑھا کہ امام زہری صاحب فرماتے ہیں کہ زید بن ثابت نے جمع قرآن کے دوران سورۃ توبہ کی آخری آیت کے بارے میں کہا کہ وہ اسے کسی کے پاس مل نہیں رہی تھی  جو لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ  سے لے کر سورۃ براۃ کے اخیر تک ہے ۔

محترمین !

یہ جملہ بھی امام زہری صاحب کا بڑا زہر آلودہ تیر ہے اگر کوئی سمجھے تو۔اس تیر کا زہر یہ ہے کہ ایک تو

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ

سے لے کر سورۃ براۃ کے اخیر تک دو آیتیں ہیں ایک نہیں۔

تو اس حرفت سے بھی زہری آیات قرآن کی تعداد کے بارے میں امت کے اندر اختلاف ڈالنا چاہتا ہے اور زہر کا دوسرا ایٹم جو بڑا مہلک ہے وہ یہ ہے کہ اس کی بتائی ہوئی آیت کسی بھی دوسرے آدمی کے پاس نہیں ملی ،صرف ایک آدمی ابو خزیمہ انصاری کے ہاں ملی ۔ اس سے زہری صاحب یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ یہ آیت بھی خبر واحد کے حکم میں ہوئی۔ سو اگر قرآن کی آیت خبر واحد کی شکل میں قبول ہے تو حدیث بھی خبر واحد کی قبول کرنی ہوگی ۔ زہری کے جواب میں میں بھی اسے زہر ہی کا تحفہ پیش کروں کہ قرآن اپنی سچائی کے لئے تمہاری وضع کردہ اصطلاحوں کا محتاج نہیں ہے یہ خبر واحد، یہ مشہور اور متواتر آپ کی اصطلاحیں اپنے خانہ فرہنگ میں قابو رکھیں قرآن اپنی دلیل آپ ہے اس کا چیلنج ہے کہ خبر واحد یا حدیث مشہور کی اصطلاحیں یا متواتر حدیث کی اصطلاح یہ تمہاری اپنی فنکاری ہے تمہارے اندر اگر تھوڑی سی بھی علمی ائپروچ ہے تو

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (11:13)

یہ کیا کہتے ہیں کہ اس نے قرآن از خود بنا لیا ہے؟ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاؤ اور خدا کے سوا جس جس کو بلاسکتے ہو، بلا بھی لو۔

یعنی قرآن جیسی دس سورتیں تو بنا کر دکھاؤ ۔

اگر دس نہیں بنا سکتے  تو

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (2:23)

اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔

قرآن کی ایک سورت جیسی سورۃ تو بنا کر دکھاؤ ۔

تم نے جو یہ مشہور حدیث اور متواتر کے چکر چلا رکھے ہیں تو آؤ تم سارے کے سارے جنہیں جم غفیر کے نام سے متواتر کہتے نہیں تھکتے تو متواتر کے سارے افراد آؤ قرآن کا چیلنج ہے کہ :

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (17:88)

کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پر مجتمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہ لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کو مددگار ہوں۔

یعنی جملہ انسان جو میدانوں میں،  بازاروں میں، تمہاری علمی درسگاہوں میں اور خانقاہوں کے اندر چوغوں اور جبوں میں، مراقبوں میں چھپے بیٹھے ہیں سب آئیں میدان میں اور اس قرآن جیسی کوئی کتاب بنا کر دکھائیں چاہے یہ تمہارے سارے تواتر کے افراد ایک دوسرے کو  ڈہارس  بھی کیوں نہیں بندھوائیں۔ تمہاری مجال ہی نہیں کہ اس طرح کی کتاب بنا سکو۔

تم کہتے ہو کہ رسولؐ اللہ کے زمانہ میں کاغذ نہیں تھے ہڈیوں اور لکڑیوں پر قرآن لکھوایا گیا تو سید نا عثمان کا دور خلافت بھی رسول اللہ کا زمانہ ہے۔ اس عرصہ میں چیزوں کی ایجادات کی لسٹ وہی تھی جو رسول اللہ کے زمانہ میں تھی ۔ پھر پاکستان کے صدر ایوب ہندوستان فتح کرنے کے موقع پر 1965ء کی جنگ کے بعد سجدہ سہو کے لئے جب سوویت یونین گیا تھا تو وہاں کے تاشقند شہر والوں نے قرآن حکیم کا نسخہ سید نا عثمان کے دور کا تحفہ میں اسے دیا تھا وہ کاغذ پر لکھا ہوا ہے جو آج بھی موجود ہے تو تمہاری زہری اور بخاری کے زہریلے بخاروں والی حدیثوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔ قرآن کے بتانے کے مطابق قرآن کے نسخے خود رسول اللہ کے زمانہ سے نقل کرانے کا سلسلہ سرکاری اہتمام سے خود رسول اللہ کی نگرانی میں ہوتا رہا ہے۔ اور رسول اللہ خاتم الرسل اور خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ کو ملی ہوئی کتاب بھی خاتم الکتب ہے جو اللہ نے قیامت تک کے لوگوں کے لئے ھدی للناس بنا کر بھیجی ہے ۔جو اللہ کے وعدے اور اعلان  فَاِمَّایَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی کا مصداق ہے ۔

اسے ان فارسی اماموں کے جھوٹ کس طرح جھٹلاسکیں گے کہ قرآن کو ہڈیوں اور لکڑیوں پر منتشر حالت میں چھوڑ کر رسول اللہ نے دنیا سے رحلت فرمائی ۔حتیٰ کہ بقول آپ کے وفات نبی صلے اﷲ علیہ و سلم کے بعد جب یہ کتاب جمع کر نے کی کو شش کی گئی تو اس میں آیت رجم بھی نہیں تھی جو گم کر دی گئی۔ امام بخاری کی اس طرح کی حدیثیں شیخ الحدیث لوگ امت کی اولاد کو پڑھا رہے ہیں اور کتاب بخاری کے ختم پر جشن مسرت کی تقریبات مناتے ہیں۔اور سید نا عمر فاروقؓ کے دور حکومت میں جو لاکھوں نسخے قرآن پاک کے تیار کرا کر اطراف مملکت میں بانٹے گئے ،حدیثوں میں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کے لئے لکھتے ہیں کہ اس کے بارہ سالہ عرصہ خلافت میں وہ ایک ہی نسخہ تھا جو صدیق اکبر نے تیار کرایا تھا اور اسے وہ وفات کے وقت اپنی بیٹی حفصہ کے پاس چھوڑ کر گئے ۔ یہ حدیث ساز امام مافیا دور فاروقی کے تیار کرائے ہوئے نسخوں کا ذکر کیوں کر کریں گے؟ یہ حدیث ساز لوگ تو وہ جو ہزاروں کی تعداد میں نسخے رسول اللہ نے خود لکھوائے تھے۔

وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (25:5)

اور کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح و شام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔

انہوں نے اپنی حدیثوں میں ان قرآنی شہادت والے نسخوں کا بھی ذکر نہیں کیا تو ان سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے ۔

یہاں میں پھر قارئین کی توجہ آیت مباہلہ کی طرف مبذول کراتا ہوں۔

اس کے بعد آگے دوسری حدیث میں امام زہری صاحب لکھتے ہیں کہ عثمان ؓجب آرمینیا اور آذر بائیجان پر حملے کی تیاری کر رہے تھے اور اس کے لئے عراق اور شام کی فوجوں کو اکٹھا کیا تو خلیفہ کے پاس حذیفہ بن الیمان آئے اور ان سے کہا کہ یہ عراقی اور شامی قرآن کی قرأت کے مسئلوں میں آپس میں لڑتے ہیں۔ جس کی مجھے بڑی پریشانی ہے اس لئے اے امیر المؤمنین اس امت کا تو خیال کرو ! اس سے پہلے یہود اور نصاریٰ نے اختلاف کیا اور اپنی کتابوں کو گنوا بیٹھے تو اس امت کی کتاب کا بھی حال ان کی طرح کا نہ ہو جائے ۔اصل بات یہ ہے کہ امام زہری اور اس کی قدس سرہ والی ٹیم قرآن کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی تگ و دود میں لگی ہوئی تھی اس کے لئے انہوں نے نزل القرآن علی سبعۃ احرف کی حدیث بنائی یعنی قرآن سات قرأتوں پر مشتمل نازل ہوا ہے۔ پھر اس حدیث میں زہری دکھاتا ہے کہ شامی اور عراقی لوگ قرأتوں میں لڑے ہیں ۔یہ سب ان اماموں کے قرآن کے خلاف وہ شیطانی حربے ہیں جو مختلف الزاموں پر مشتمل حدیثیں بنا رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی اگر یہ لوگ قرآن کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کامیاب ہو گئے تو ان کی یہ حدیثیں رنگ لائیں گی اور اگر یہ لوگ قرآن کو دنیا سے مٹا بھی نہ سکے تو انجان اور وہمی لوگوں کو تو قرآن کے بارے میں شک و تردد میں ڈالنے کی ان کی کوششیں کام آئیں گی اور نہیں تو قبوں اور جبوں میں شیخ الحدیث لوگ ان کی اس طرح کی حدیثیں پڑھا پڑھا کر امت مسلمہ کی اولاد کو تو قرآن کے بارے میں یہ یقین دلاتے رہیں گے کہ نابالغ بچوں کا نکاح ہو سکتا ہے اور قرآن کی طرف سے جو طلاق کے لئے حکم ہے کہ :

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا (4:35)

اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو وہ اگر صلح کرا دینی چاہیں گے تو خدا ان میں موافقت پیدا کر دے گا کچھ شک نہیں کہ خدا سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے خبردار ہے۔

یعنی طلاق بھی نکاح کی طرح پنچائتی مسئلہ ہے جو گواہوں کے ذریعے طے ہو نا ہے تو طلاق بھی امینوں کی معرفت ہوگی اکیلے مرد بیوی کو لاکھ طلاقیں دے دے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ لیکن یہ حدیث ساز امام اکیلے مرد کو سب اختیار دے کر قرآن کی آیت  (4:35) حدیثوں کے زور سے جھٹلائے بیٹھے ہیں ۔

قرآن میں حکم ہے ا َقِیْمُوْاالصَّلٰوۃَ  یعنی اپنی ریاست اور مملکت کا نظام حکومت ایسا بہتر بناؤ کہ اس میں تم اپنی ڈیوٹیوں کی معیاری کارکردگیوں سے مثالی نظام قائم کرسکو ۔

سو اس  اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ کی کامیابی کا نشان اور علامت یہ ہوگی کہ جب  اٰتُواالزَّکوٰۃَ ہو جائے یعنی رعایا کے ہر فرد کو ضروریات زندگی اور پرورش کی ایک ایک چیز میسر ہو اور مل جائے تو تمہاری  اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ  درست مانی جائے گی۔

اگر کوئی بھی شہر ی بھوکا رہ گیا، یا کوئی بھی رعیت کا فرد ننگا رہ گیا، یا کوئی بھی مریض علاج کے سہولتوں سے محروم رہ گیا، یا کوئی بھی شہری گرمی یا سردی سے گھر کی چھت سے محروم رہ گیا، یا کسی بھی شہری کے بچوں کو تعلیم نہیں مل سکی تو  فَوَیْل’‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ  ان صاحب صلو ٰۃ افسروں کو ڈسمس کر کے بلیک لسٹ کیا جائے جو حقداروں کی ضروریات کا سامان کھا گئے اور   اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ (ڈیو ٹی) میں خیانت کی پاداش میں ایسے افسر کو  ویل کی سزادی جائے۔

مولویوں ، شیخ الحدیثوں نے ویل کے معنی اگلے جہان میں دوزخ کا ایک طبقہ بتایا ہے جبکہ یہ غلط ہے ۔ ویل کی سزا اس موجود جہاں اور دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ اب یہ ویل اس افسر کے لئے کس طرح تجویز کیا جاتا ہے وہ حکومت کی تھنک ٹینک سوچے گی کہ اس افسر کا کسی چوک اور شاہراہ پر منہ کالا کر کے وہاں اسے کھڑے رہنے کی سزا دینی ہے یا اس کے گلے میں کوئی پلے کارڈ لٹکانا ہے کہ اس نے  اَقِیْمُوْاالصَّلٰوۃ یعنی ڈیو ٹی  میں خیانت کی تھی ،یہ خائن ہے یہ چورہے یہ بد دیانت ہے یہ انسان دشمن ہے یہ مملکت کا غدار ہے یہ قرآن کے حکم اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ کا منکر ہے۔

اس نے  اٰتُواالزَّکوٰۃ یعنی حقداروں اور ضرورت مندوں کو سامان زندگی سے محروم کر کے زکوٰۃ کے غلط معنی لئے ہیں تاویل غلط کی ہے اور خلاف قرآن معنی پر عمل کیا کہ سال میں ایک بار ایک سو روپے میں سے صرف ڈھائی روپے کسی غریب کو دے دینے سے  اٰتُوا الزَّکوٰۃ ہو جائے گی۔

تو ایسے افسر کو ایسے قرآنی معنی بگاڑنے والے مولوی اور شیخ الحدیثوں کے لئے  فَوَیْل’‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ کا حکم ہو گا ۔

لیکن کیا کریں کہ کسی بھی حدیث ساز امام نے ایسی حدیث نہیں بنائی کی قرآن حکومت چلانے کا منشور ہے ، رہنما کتاب ہے ۔

قرآن نے تو  وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ (104:1) ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے۔

الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ (104:2) جو مال جمع کرتا اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے۔

یعنی دولت جمع کر کے بنکوں میں بیلنس بڑھانے کے لئے رکھنے پر بھی  ویل کی سزا سنائی ہے لیکن قرآن کو آج کل کون پوچھتا ہے۔

آج کل پوری مسلم امت اہل فارس کی حدیثوں کو اسلا م کا نام دئیے بیٹھی ہے جو حدیثیں اسلام اور قرآن کی دشمن ہیں۔ آج اہل فارس کے اماموں کی زد سے مکہ مدینہ بھی آزاد نہیں ہیں۔ وہاں بھی قرآن کو صرف ایصال ثواب کے لئے پڑھا جاتا ہے اور حکمرانی عالمی سرمایہ دار ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ہے جن کا ورلڈ پر حکم چلتا ہے ۔

آگے اس دوسری حدیث کے آخر میں زہری صاحب لکھتے ہیں کہ اس سے زید بن ثابت کے بیٹے خارجہ نے ذکر کیا اپنے باپ کے حوالہ سے کہ اس سے سورۃ احزاب کی ایک آیت گم ہو گئی جو میں رسول اللہ سے سنا کرتا تھا تو وہ بھی تلاش کے بعد خزیمہ بن ثابت انصاری سے ملی اور وہ آیت یہ تھی کہ :

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (33:23)

پھر اسے ہم نے اس سورۃ میں ملا دیا۔

غور کیا قارئین کرام نے کہ اگلی حدیث میں ایک آیت  ٹو ان ون  والی زید بن ثابت سے گم ہو گئی ۔ وہ ابو خزیمہ کے ہاں سے ملی اور پھر باب کی اس دوسری حدیث میں دوسری آیت کی گم شدگی کی بات کی ہے تو وہ ابو خزیمہ کے بیٹے خزیمہ کے پاس سے ملتی ہے ۔معنی یہ ہوئے کہ اس انصاری باپ بیٹے کے پاس گم شدہ چیزوں کی پاپٹھاری تھی اور دونوں حدیثوں میں جدا جدا آیتوں کی گم شدگی کی بات بھی غور طلب ہے۔ ہر کوئی اس ماجرا پر سوچے اور نتیجہ نکالے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://studyhadithbyquran.blogspot.in/2013/03/blog-post.html#.VWu5OkbfOpo

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید