غالب افسانہ
شمس الرحمٰن فاروقی
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
غالب افسانہ
شمس الرحمٰن فاروقی
نوٹ
یہ افسانہ میری برقی کتابوں کی پرانی سائٹ پر پہلے ’بینی مادھو رسوا‘ بطور مصنف کے نام سے شائع ہوا تھا۔
اب جب میں شمس الرحمٰن فاروقی کے افسانوں کی ریختہ / الف یار کی ویب سائٹ سے متون کاپی پیسٹ کر کے ای بکس بنا رہا ہوں ، تو احساس ہوا کہ ’غالب نامہ‘ کی ای بک بن چکی ہے۔ دوبارہ اپنی پرانی فائلوں میں دیکھا تو یہ افسانہ بینی مادھو رسوا کے نام سے ملا۔ جو یہاں اب بھی موجود ہے:
http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/GhalibAfsana.html
کیونکہ یہ مواد اجمل کمال کی زیر ادارت ’آج‘ کی مرحوم ویب سائٹ سے ماخوذ تھا، اس لئے میں نے اجمل کمال کو ۲۱ اپریل ۲۰۲۴ء کو مراسلہ بھیجا:
’’میری ایک پریشانی دور کر دیں۔
’آج‘ کے شمارہ ۲۷ میں ’غالب افسانہ‘ بینی مادھو رسوا کا تصنیف کردہ شائع ہوا تھا جسے آج کی مرحوم ویب سائٹ
http://pakdata.com/aaj/aaj27/ghalib.htm
سے کاپی پیسٹ کر کے میں نے ۲۰۰۸ میں (غالباً) ای بک بنا کر شائع کی تھی۔ آج کل شمس الرحمن فاروقی صاحب کے افسانے جمع کر کے ای بکس بناتے ہوئے معلوم ہوا کہ غالب افسانہ نام کا افسانہ تو فاروقی کا ہے۔ کیا مجھ سے کاپی پیسٹ کرنے میں غلطی ہوئی تھی؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ان پندرہ سالوں میں کسی نے اس غلطی کی نشان دہی ہی نہیں کی!
’’آج‘‘ میں آخری الفاظ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ فاروقی کا ہے
(تحریر کردہ الہٰ آباد، ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۸ء)‘‘
اجمل کمال صاحب نے فوراً ۲۱ اپریل ۲۰۲۴ء کو ہی جواب دیا:
’’اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے یہ پہلا افسانہ لکھا تھا اور اسے ’شب خون‘ میں بینی مادھو رسوا ہی کے نام سے شائع کیا تھا۔ اور مجھے ای میل سے بھیج کر ’آج‘ میں اسی نام سے شائع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ’شب خون‘ میں۔
خطوط کے کالم میں اس کے انتساب پر خاصی بحث بھی چلی تھی، اور فاروقی صاحب نے اعلان کر دیا تھا کہ یہ افسانہ ان کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ بعد میں انھوں نے عمر شیخ مرزا کے نام سے بھی لکھا لیکن کانا پردہ رکھا، یعنی صاف اعلان نہ کیا۔ جب ہم ان کا مجموعہ ’سوار اور دوسرے افسانے‘ شائع کرنے لگے تو فاروقی صاحب ’غالب افسانہ‘ کو اس میں شامل کرنے پر تیار نہ تھے، کیونکہ اس کی تصنیف سے انکار کر چکے تھے۔ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ اسے کتاب میں شامل ہو جانا چاہیے، ورنہ کل کو اگر کسی نے اس کے اصل مصنف ہونے کا دعویٰ کر دیا تو وہ کچھ نہ کر سکیں گے۔ اس طرح یہ مجموعے میں شامل ہوا۔
اس سے پہلے ایک لطیفہ بھی پیش آیا۔ ۱۹۹۹ میں، جب ’غالب افسانہ‘ کو ’آج‘ میں شائع ہوے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا اور ’شب خون‘ میں اس پر گفتگو ابھی جاری تھی، لکھنؤ میں نیر مسعود کے گھر پر فاروقی صاحب سے میری ملاقات ہوئی جس میں عرفان صدیقی بھی موجود تھے۔ نیر صاحب اور عرفان صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ یہ ’آج‘ میں کس طرح شامل ہوا۔ میں نے کہہ دیا کہ میں نے ’شب خون‘ سے لے کر شائع کیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ دونوں حضرات فاروقی صاحب کے قریبی دوست ہیں، اصل معاملہ جانتے ہی ہوں گے۔ لیکن جب نیر صاحب نے نشاندہی کی ’آج‘ والی اشاعت میں اس کے آخر میں ’الہ آباد ۱۹۹۸‘ کے الفاظ قوسین میں درج ہیں، جو ’شب خون‘ کی اشاعت میں موجود نہیں ہیں۔ تب میری سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دوں۔ فاروقی صاحب کی طرف دیکھا، ان کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ مجھے افسانہ بھیجتے وقت وہ ان الفاظ کو حذف کرنا بھول گئے تھے۔ اس کے بعد میرے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔ میں نے کہہ دیا کہ ’’مجھے خواب میں ان الفاظ کا اضافہ کرنے کی ہدایت ملی تھی۔‘‘
میں نے جواباً اپنا عندیہ ظاہر کیا:
چلئے میں آپ کے اس نوٹ کے ساتھ اسے دوبارہ نئی سائٹس پر شائع کر دیتا ہوں، تا کہ ریکارڈ کی درستی ہو جائے‘‘
چنانچہ پیش خدمت ہے یہ نئی ای بک۔
میں نسلاً راجپوت اور مولداً نظام آباد، ضلع اعظم گڈھ، کا ہوں۔ اعظم شاہ نے اعلیٰ حضرت مہابلی خلد آشیانی کے وقتوں میں شہر اعظم گڈھ آباد کیا تو میرے اجداد علاقۂ پنجاب سے اٹھ کر یہاں آ بسے۔ ہم لوگ ہے ہے بنس کے چندر بنسی راجپوت ہیں۔ جنگ و جدل کے علاوہ علم و ہنر بھی ہمارے گھرانے کی پہچان رہا ہے۔ فردوس مکانی صاحب قران ثانی کے عہدِ مبارک میں ہمارے خاندان میں زمین و املاک کے جھگڑے اٹھے تو ہمارے ایک بزرگ نے ناراض ہو کر علیحدگی اختیار کر لی، اور یہ علیحدگی اتنی شدید ہوئی کہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کے اخلاف بھی مسلمان رہے، اور بحمد لله اب بھی کہیں جو احیا ہیں، مذہبِ اسلام کے پیرو ہوں گے۔ میرے جد اعلیٰ اپنے قدیمی مسلک پر رہے، اور میں بھی ایشور کی کرِپا سے اسی پر قائم ہوں۔
اپنے مسلمان بھائیوں سے ہمارا ربط آہستہ آہستہ پھر استوار ہوا تو ملنا جلنا، ریت رسم، یہاں تک کہ ایک آدھ بار تو شادی کے بھی مراسم بن گئے۔ ایسے موقعوں پر تلوار تک چلنے کی نوبت آ گئی، لیکن مرورِ ایّام کے ساتھ سب برابر ہو گیا۔
ہمارے دادا نے اسلحہ سازی کا کام شوقیہ اختیار کیا۔ وہ کہتے تھے کہ انسان کو اپنے اسلحہ کے بارے میں اتنا اور ویسا ہی علم و اعتماد رکھنا چاہیے جیسا اپنی اولاد یا بیوی کے بارے میں ہوتا ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ اپنے اسلحہ خود بنانے سے بہتر کوئی طریقہ اپنے ہتھیار کو جاننے اور سمجھنے کا نہیں ہے۔ اوّل اوّل تو وہ قدیم انداز کے تیغے اور جمدھر اور شیر پنجے ہی بناتے تھے، لیکن ایک عیسائی پادری کے طعنہ دینے پر کہ تم ہندوستانی لوگوں کو ہمارے ہتھیار بنانا مشکل ہے، انھوں نے طرح طرح کی قرابینیں، دگاڑے اور لمچھڑ بھی بنانے شروع کر دیے۔ اور اس فن میں وہ اس قدر کامیاب ہوے کہ کمپنی بہادر کے سپاہی اور اطراف کے ڈکیت، دونوں ہی بڑی قیمتیں دے کر ان کے لمچھڑ مول لے جاتے تھے۔ میرے باپ کا زمانہ آتے آتے ہمارا پیشہ اسلحہ بازی کے بجائے اسلحہ سازی ہو گیا۔
ہمارے قصبے نظام آباد کے بعض تال تلیّوں میں ایک خاص قسم کی سیاہ مٹی نکلتی ہے۔ اس سے برتن بہت اچھے بنتے ہیں، اور دور دور دساور کو جاتے ہیں۔ ایک کمہار کا بیٹا میرا دوست بن گیا تو میں نے بابوجی سے چوری چھپے اس کا فن بھی سیکھ لیا۔ کیا معلوم تھا کہ ایک دن اس ہنر سے مجھے کچھ تمتّع بھی ہو سکے گا۔
ہمارے گھرانے کی دونوں شاخیں اعظم شاہ کی اولادوں اور اس طرح آل تیمور کے فرماں رواؤں کی خدمت کو اپنا دین و ایمان جانتی تھیں۔ بکسر کی جنگ میں بکسریے تو دونوں طرف سے لڑے تھے، کہ کچھ کرائے کے ٹٹوؤں کے طور پر کمپنی بہادر کے جھنڈے تلے تھے، اور کچھ ایسے تھے جو حضور فیض گنجور اعلیٰ حضرت شاہ عالم ثانی شہنشاہ ہند، اور نواب وزیر کی فوجوں میں تھے۔ لیکن ہمارے گھرانے کے جتنے لوگ اس جنگ میں شریک تھے، کیا ہندو کیا مسلمان، سب کے سب اعلیٰ حضرت کے لوائے سطوت و سلطنت کے ہی تلے تھے۔ اس جنگ میں ہمارے دونوں گھرانوں کے اکیس سورماؤں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
بکسر کے بعد بھی ہماری وفاداری اعلیٰ حضرت اور نواب وزیر سے رہی۔ لیکن خود اعلیٰ حضرت جنت ماب شاہ عالم ثانی نے بِہار اور بنگال کی دیوانی کمپنی بہادر کو سونپ دی، اور نواب وزیر اس کے چند برس بعد الله کو پیارے ہوے۔ جنت مآب اپنی تمام خوبیوں اور حکمت عملیوں کے باوجود انگریز کے جال سے نہ نکل سکے۔ مراٹھا سردار مہاداجی نے انھیں الہٰ آباد سے نجات دلائی اور ان کا وکیل مطلق بن کر راج کرتا رہا۔ ذوالفقار الدولہ نجف خاں کی موت کے بعد جنت آرام گاہ ملکی سیاست کے نقشے پر بے اثر ہو گئے۔ مراٹھا کے مرنے کے بعد انگریز کو پھر موقع ملا تو اس نے اعلیٰ حضرت کو اپنی ’حفاظت‘ میں لے لیا۔
لکھ لُٹ نواب وزیر آصف الدولہ مبرور عدن مقام کے زمانۂ سعادت تک تو ہم اودھ کے زیرِ سایہ اور زیرِ نگیں رہے۔ لیکن وزیر علی خاں مغفور کو ہٹا کر مرزا جنگلی مرحوم جنت آرام گاہ کو مسند وزارت دلانے میں خان علامہ اور دوسروں نے جو دکھ اُٹھائے اور اُٹھوائے، ان میں اودھ کے آدھے علاقے کا تحویلِ وزارت سے نکل کر انگریز کے چنگل میں جانا بھی تھا۔ اس طرح ہم لوگ لفظاً و معناً قیدِ فرنگ میں آ گئے۔ دلوں میں دھیمی آگ سلگتی رہی، لیکن ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔
خان علامہ اور میرے دادا میں پرانی ملاقات تھی، اور وجہ ملاقات وہی اسلحہ سازی۔ علامہ موصوف کو میرے دادا کی بنائی ہوئی لمچھڑیں بہت پسند تھیں۔ وہ انھیں منگوا کر اپنے انگریز دوستوں کی نذر کرتے تھے۔ ۱۸۱۰ء میں اپنے دادا اُستاد ملّا سابق بنارسی کے انتقال پر تعزیہ دینے کے لیے بنارس تشریف لے جاتے وقت خان علامہ اپنے بعض اعزا سے ملنے اعظم گڈھ بھی آئے تھے۔ دادا نے انھیں حسبِ ذیل سابق اپنی بنائی ہوئی ایک لمچھڑ اور ایک قرابین پیش کی۔ لیکن اس بار انھوں نے تھوڑی رنجش کا بھی اظہار کیا کہ خان علامہ نے سعادت علی خاں کو نواب وزیر بنوانے میں یہ خیال نہ کیا کہ الہ آباد سے لے کر بریلی تک کتنا بڑا علاقہ انگریز کے ہاتھ میں دلوا دیا۔ خان علامہ نے فرمایا، ’’بھوانی سنگھ، وہ چند ضلعے دے کر میں نے اودھ کو بچا لیا۔ اب کوئی دن جاتا ہے کہ اودھ کیا، سارا ملک ہی کلکتہ کو دہلی مان لے گا۔‘‘
میری پیدائش ۱۸۴۰ء کی ہے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ دستور کے مطابق مجھے آلاتِ حرب و ضرب کے ساتھ قلم کا بھی ہنر سکھایا گیا۔ میں نے گھر پر فارسی، عربی اور تھوڑی بہت ریاضی سیکھی۔ پھر مولانا فاروق چریاکوٹی کے ایک شاگرد کے مدرسے میں باقاعدہ تعلیم کے لیے بٹھا دیا گیا۔ میری پیدائش سے تین سال پہلے ۱۸۳۷ء میں اعظم گڈھ میں کچھ پادریوں نے ایک انگریزی اسکول کھولا تھا، ویزلی اسکول کے نام سے۔ وہ اب بھی قائم ہے۔ میرے والد کے ایک دوست جو کمپنی بہادر کی نوکری کر چکے تھے، مصر ہوے کہ بینی مادھو کو انگریزی پڑھواؤ، کہ اسی میں اب کاروبار ملکی و مالی و فوجی چلے گا۔ ان کی روز روز کی ضد سے تنگ آ کر میرے قبلہ نے میرا نام وہاں لکھا ہی دیا۔ اُس وقت میری عمر کوئی دس برس کی تھی۔
انگریزی مدرسے میں فارسی انگریزی، ریاضی، اور تاریخ وغیرہ کے ساتھ ساتھ کرشٹان مذہب کی باتیں، اور ایک نئی چیز اور پڑھائی جاتی تھی جسے وہ لوگ ’ہندی‘ کہتے تھے۔ یہ تھی تو وہی ہندی جسے ہم گھروں میں بولتے تھے، لیکن اسے سنسکرت حروف میں لکھا جاتا تھا، اور اس میں ہماری ہندی کے میٹھے رواں لفظوں کی جگہ خدا جانے کہاں کہاں کے لفظ بھر دیے گئے تھے۔ مجھے وہ زبان بڑی عجیب سی لگی۔ میں سوچا کرتا تھا کہ بڑا ہو کر ریختہ لکھوں گا، ہندی کا شاعر بنوں گا۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس نئی ’ہندی‘ میں حضرت میر تقی میر اعلی الله مقامہ اور قبلہ ببر علی صاحب انیس کی طرح کا کلام کیوں کر ممکن ہو سکے گا۔ میں نے بعض ماسٹر صاحبان کو یہ بھی کہتے سنا کہ ’ہندی‘ ایک الگ زبان ہے۔ یہ ہندوؤں کی زبان ہے، مسلمانوں کی زبان ’ریختہ‘ یا ’اردو‘ کہلاتی ہے۔
اس اسکول میں کچھ ایسے بھی بچے تھے جن کی وہاں کے اساتذہ میں بڑی آؤ بھگت تھی۔ چہرے بشرے اور چال ڈھال سے تو وہ ہمیں جیسے تھے، اگرچہ ذرا نیچی ذات کے، لیکن ان کے نام عجیب تھے، آدھے ہندوستانی اور آدھے کرشٹانی۔ مثلاً ایک لڑکے کا نام تھا سیموئیل سنگھ۔ ایک اور لڑکا تھا، اس کا نام تھا لارن داس۔ (بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اصل میں یہ لارنس داس تھا۔) ایک اور لڑکا، جو ہم میں سب سے بڑا تھا، جان مسیح الدین کہلاتا تھا۔ وہ ہاتھ پاؤں کا اچھا تھا اور موقع بے موقع ہم لوگوں کو پیٹنے سے گریز نہ کرتا تھا۔ یہ سب لڑکے کوئی چیز بپتسمہ ہوتی تھی، وہ کرا کے کرشٹان ہو چکے تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ بپتسمہ بھی ختنے کی قسم کی کوئی رسم ہوتی ہو گی، لیکن پھر پتا چلا کہ اس میں کسی متبرک پانی کے چھینٹے دیے جاتے ہیں۔
خیر، ان لڑکوں میں ہم لوگوں کے خلاف ایکا بہت تھا، اور وہ کوشش کر کے ہم لوگوں سے مختلف لہجے میں، اور خلافِ محاورہ ہندی بولنے کا خاص التزام رکھتے تھے۔ مجھے تو وہ ایک آنکھ نہ بھائے۔ اس لیے نہیں کہ انھوں نے بپتسمہ کرایا تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ ہم لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھتے تھے۔ اسکول میں ایک دو انگریز بھی تھے، اور میرے لیے انگریزوں کو قریب سے دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ ان کی بولی میری سمجھ میں نہ آتی تھی، لیکن خدا معلوم کیوں مجھے ان سے ڈر لگتا تھا۔ ہم لوگوں سے وہ بہت میٹھے لہجے میں بولتے، لیکن موقع پڑنے پر سخت سزا دینے سے نہ چوکتے تھے۔ وقت کی پابندی وہاں بہت تھی۔ میں ہمیشہ دیر تک سونے والا، اکثر تاخیر سے اسکول پہنچتا اور سزا کا مستوجب ٹھہرتا۔ ایک بار میں کچھ جلدی چھٹی ہو جانے کی خوشی سے مغلوب ہو کر اسکول کے بڑے ہال کمرے سے ذرا شور و غل کرتا ہوا گزرا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ بڑے ماسٹر صاحب سُن رہے ہیں۔ فوراً پکڑوا بلایا گیا اور دس بیت کا مستحق قرار دیا گیا۔ یہ سزا ایک جلّاد صفت ماسٹر امینوئل لال کے ہاتھوں دلوائی گئی۔
میں ویزلی اسکول میں بہت دن رہا نہیں۔ اِدھر میرے فرشتہ صفت والد مرحوم کو برادری والے طعنہ دیتے کہ تم بچے کو بھرشٹ کیے دے رہے ہو، اور اُدھر مجھے اسکول کی ہندی اور جان مسیح الدّین ایسے ثور صفت لڑکوں کا دستِ تطاول بد شوق بنائے دیتے تھے۔ تھوڑی بہت انگریزی میں نے ضرور سیکھ لی، اور چھٹی جماعت میں جوں توں کر کے کامیاب ہونے کے بعد میں نے اسکول چھوڑ دیا۔ اب وہی مدرسہ تھا، اور وہی فارسی، تھوڑی سی عربی اور ریاضی و منطق و ہیئت۔ گھر پر بنوٹ، گتگا، تیغ زنی، بندوق بازی کی مشق ہوتی تھی۔ محلے کے اکھاڑے میں کشتی ہو جاتی تھی۔ میں نظام آباد سے اعظم گڈھ چار کوس پیدل آتا جاتا تھا۔ اس وجہ سے بھی بدن خوب کسرتی ہو گیا تھا۔
لیکن مجھے تو شاعر بننے کی دھُن تھی۔ ایک دن والد مرحوم نے مجھے کچھ شعر گنگناتے دیکھ لیا۔ بڑی ڈانٹ پڑی اور دادا جان سے شکایت بھی ہوئی۔ ایشور اُنھیں دوسرے جنم سے بچائے، مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بولے، ’’تو کیا ہوا؟ شرفا کے کاموں میں ایک کام یہ بھی ہے۔ اسے کچھ نہ کہو۔ ہماری ایک ہی تو اولاد ہے۔‘‘
دو تین سال آرام سے گزرے، کچھ پڑھنے پڑھانے اور شعر کہنے میں، اور کچھ مشق تیر و تفنگ اور جمدھر میں۔ دادا جان بہت بوڑھے ہو چکے تھے اور والد کے یہاں بھی اب کسی دوسری اولاد کی توقع نہ تھی۔ عام راجپوتوں کے علی الرغم ہمارے گھرانے میں تعدّدِ ازواج کا طریقہ بالکل نہ تھا۔ ہاں چوری چھپے، یا علی الاعلان، عشق کرنے کی بات اَور تھی۔ لہٰذا میں تنہا ہی اولاد رہ کر جیا۔ ایک دن دادا جان کو معلوم ہوا کہ خان علامہ کے دادا استاد ملّا سابق بنارسی کے ایک پوتے مولوی خادم حسین ناظم ہمارے قصبے کے پاس ہی تحصیل کے صدر مقام محمد آباد کہنہ میں منصف ہو کر آئے ہیں۔ دادا نے فرمایا کہ استاد کے بغیر شاعر نہیں بنا جاتا۔ چلو تمھیں مولوی صاحب کا شاگرد بنوا دوں۔
ہم اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر اوّل وقت پہنچے، خان علامہ کے حوالے سے اطلاع کرائی۔ مولوی صاحب خود باہر آ کر ہم لوگوں کو اپنے دیوان خانے میں لائے۔ عطر پان سے تواضع کی۔ مولوی صاحب مغل وضع کی چوگوشیہ ٹوپی اور جدید طرز کا لمبا چغہ پہنے ہوے تھے۔ پاؤں میں سلیم شاہی جوتی، گلے میں ململ کا لمبا کُرتا، ہاتھ میں عقیقِ احمر کی تسبیح۔ میں دل میں بہت ڈرا ہوا تھا، لیکن ان کو دیکھ کر ایک طرفہ فرحت کا احساس ہوا۔ گلابی جاڑے تھے، دیوان خانے میں ہلکی ہلکی خوشبو شمامۃ العنبر کی پھیلی ہوئی تھی۔ دادا مرحوم نے عرضِ مدعا کی تو مولوی صاحب نے فرمایا، ’’میاں تخلّص کیا کرتے ہو؟‘‘ میں نے دبی زبان سے عرض کیا، ’’جی تخلّص کا گنہگار ابھی نہیں ہوا۔‘‘ مولوی صاحب ذرا مسکرائے، ایک لمبی سی ہوں کی، پھر ایک لحظہ چپ رہ کر بولے، ’’اچھا تو میاں بینی مادھو، تم ہے ہے بنس کے راجپوت، صاحبِ تیغ و سپر خاندان کے چشم و چراغ، شاعری کر کے اپنے گھرانے کو رسوا کرنے پر اتارو ہو، تو لو، ہم تمھارا تخلّص رسوا تجویز کرتے ہیں۔‘‘
دادا صاحب اور میں نے یک زبان ہو کر کہا، ’’بہت خوب۔‘‘ مولوی صاحب نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی، میرے سر پر ہاتھ پھیرا، اور کہا، ’’اچھا اب اپنا کوئی شعر تو پڑھو۔‘‘ میرا تو دم ہی نکل گیا۔ کنکھیوں سے دادا جان کی طرف دیکھا، لیکن وہ تو بالکل بے تعلّق سے ہو گئے تھے۔ جبراً قہراً یہ مطلع میں نے پھنسی پھنسی آواز میں پڑھا:
ہستی کو حباب سمجھیے گا
ہر سانس کو آب سمجھیے گا
مولوی صاحب نے فرمایا، ’’خوب۔ لیکن سمجھئے بر وزن فاعلن اب اچھا نہیں لگتا۔ اسے جانیے کر دو تو کیسی رہے؟‘‘ ابھی میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ آپ نے ارشاد فرمایا، ’’اور میاں صاحب، سانس کو آب کہنے کی نہ کوئی دلیل ہے، اور نہ بین المصرعتین ربط ہی قائم ہوتا ہے۔ اسے یوں کر دیں، عالم کو آب جانیے گا۔ کہو، کچھ عروض بھی جانتے ہو؟‘‘
میں نے اٹک اٹک کر عرض کی، ’’جی حضور، اور اصلاحی مصرع ثانی میں تسکین اوسط ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے پھر فرمایا، ’’خوب۔‘‘ دادا صاحب گویا اب متوجہ ہوئے۔ ارشاد ہوا، ’’سبحان الله حضرت، کیا اصلاحیں صادر فرمائی ہیں۔‘‘ مولوی صاحب کے اصرار پر میں نے ایک شعر اور پڑھا:
افسوس ساتھ میرے یاروں نے دشمنی کی
اس کی گلی میں رہتا تو چاکری ہی کرتا
مولوی صاحب نے ایک لحظہ سکوت فرمایا، پھر کہا، ’’ہاں شیخ ناسخ کے رنگ کا شعر ہے۔ شیخ مرحوم اکثر اشاروں میں بات کہتے تھے۔ خود فرمایا ہے:
ہے بیت ہی میں معنی بیت خیال بند
نزدیک ہے بہت جسے سمجھے ہیں دور ہے
لیکن تمھارے شعر کی بندش صاف نہیں بیٹھی۔ پہلا مصرع یوں کر دو،
دنیا کی بادشاہی کس کام کی ہے میرے
اب بات ذرا سامنے کی ہو گئی، لیکن صاف ہے۔ دیکھو مبتدی کو صفائی ادا زیادہ ضروری ہے۔‘‘
بات میری سمجھ میں ٹھیک سے نہ آئی تھی، لیکن دادا صاحب مرحوم ’’بہت خوب، بہت مناسب‘‘ کہتے رہے۔ مولوی صاحب نے یہ کہہ کر ہم کو رخصت کیا کہ ’’بھئی ہمیں اتنی فرصت نہیں کہ تم جیسے نوجوان کی آمد شعر پر اصلاح دیتے رہیں۔ کبھی کبھی اِدھر سے گذرنا ہو تو ایک آدھ غزل دکھا دیا کرنا۔‘‘
جب ہم باہر نکلے تو ہمیں دیکھ کر حیرت اور شرمندگی ہوئی کہ دو سیر شیرینی جو ہم بطور نذر لائے تھے، اس کے عوض مولوی صاحب قبلہ نے کوئی مہینے بھر کا سیدھا اور ترکاریاں اور پھل ہمارے لیے بیل گاڑی پر لدوا کر تیار کرا دی تھیں۔ مولوی صاحب اندر جا چکے تھے، شکریے کا بھی موقع نہ تھا، ہم ان کی کرم فرمائیوں اور شاعرانہ قوتوں پر عش عش کرتے گھر واپس ہوے۔
میں مولوی خادم حسین ناظم کا شاگرد کیا بنا کہ اپنے حسابوں فارغ التحصیل ہو گیا۔ مدرسہ جانا چھوڑ کر سارا وقت شعر و شاعری اور تیر و تفنگ میں گزارنے لگا۔ پھر ایک جگہ کچھ معاملاتِ دل بھی نکل آئے۔ کچھ اُدھر کا بھی اشارہ تھا۔ بات بہت آگے نہ بڑھی لیکن دل لگانے اور دل لگی کا تو سامان تھا ہی۔ میں سولہ برس کا خاصا وجیہ جوان نکلا تھا، گھر میں کھانے پینے کی کمی نہ تھی، والدین کا لاڈ پیار الگ، اور کیا چاہیے تھا؟
لیکن وہ ۱۸۵۶ء کا سال مجھ پر کچھ عجیب بھاری گزرا۔ اودھ کی سلطنت کے انتزاع کا ہم لوگوں پر براہ راست اثر یہ پڑا کہ کلکتے کے بڑے لاٹ کے خلاف دلوں میں غم و غصے کی لہر دوڑنے لگی۔ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ اشیا کی قیمتیں آپ سے آپ بڑھنے لگی تھیں۔ ضروری اشیا بھی عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اودھ کی پیداوار اب مشرقی اضلاع میں آنا بند ہو گئی ہے۔ موٹے اور باریک اناج سب ایک بھاؤ ہو کر روپے کے آٹھ نو سیر بکنے لگے۔ لوگوں میں خبر اُڑی کہ کمپنی بہادر نے اودھ اور اطراف کا سارا مال ولایت بھیج دیا۔
بادشاہ جانِ عالم کے کلکتہ پہنچنے کے چند ہفتے بعد لوگوں میں خفیہ باتیں مشہور ہونے لگیں کہ نہ صرف اودھ، بلکہ دلّی کی بھی بادشاہت واپس آنے والی ہے۔ کبھی کبھی کوئی شخص سرگوشی میں ’چپاتی‘ نام کی کسی چیز کا ذکر کرتا جو دراصل خفیہ پیغام رسانی کا ایک طریقہ تھی۔ کبھی کوئی کہتا کہ منڈیاؤں کی چھاؤنی میں جو فوج کمپنی بہادر نے شاہ اودھ کو دبائے رکھنے کے لیے متعین کر رکھی تھی، اب وہ باغی ہونے والی ہے، یا ہو گئی ہے۔ آرکاٹ کے ڈنکا شاہ کا ذکر ۱۸۵۶ء کے اواخر میں زبانوں پر پھیلنے لگا کہ وہ جہاں جاتے ہیں، ان کے آگے آگے ڈنکا بجتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے سردار آ رہے ہیں۔ اپنے مواعظ میں وہ (ان کا اصل نام بعد میں معلوم ہوا کہ مولوی احمد الله ہے) کھلے بندوں ہندو مسلمان دونوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد و جنگ کی ترغیب دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزوں کی حکومت بے دینی اور باطل پر مبنی ہے۔ یہ لوگ ہندو مسلمان دونوں سے ان کا مذہب چھڑا کر انھیں خدا سے دور کر دیں گے۔
یہ سنسنی کی باتیں میرے نوجوان خون میں گرمی اور بہجت کی لہریں دوڑا رہی تھیں، اور میں بھی کچھ الٹے سیدھے خواب دیکھنے لگا تھا کہ میرے دادا جان کا انتقال ۱۸۵۶ء کے بالکل آخر میں اچانک تھوڑی سی علالت کے بعد ہو گیا۔ وہ چھیاسی برس کے تھے، لیکن ان کی صحت ہم نوجوانوں کی سی تھی۔ کسی کو اندیشہ نہ تھا کہ وہ اتنی جلد راہیِ ملکِ عدم ہوں گے۔ بعد کے زمانے میں مجھے اکثر خیال آتا کہ شاید ان کی پاک روح نے محسوس کر لیا تھا کہ ابنائے وطن پر جو ستم انگریز بہادر کی طرف سے ٹوٹیں گے، ان کو دیکھنے کے پہلے ہی آنکھ بند کر لینا بہتر ہے۔
۱۸۵۷ء کو شروع ہوے ایک دو مہینے گزرے تھے کہ چپکے چپکے یہ خبر پھیلی کہ ڈنکا شاہ کو انگریزوں نے فیض آباد میں گرفتار کر لیا ہے۔ ہمارے لوگوں میں عجب بےچینی اور کش مکش سی پھیل گئی۔ میں نے ایک دن اپنے والد کو میری ماں سے کہتے سنا کہ بینی مادھو کو اس کے ماموں کے پاس شاہجہاں پور بھیج دو، یہاں حالات اب دگرگوں ہونے والے ہیں۔
پھر ایک رات یہ خبر جنگل کی آگ کی سی تیزی سے پھیلی کہ میرٹھ میں انگریزوں کے ساتھ کچھ بہت خراب سلوک دیسی سپاہیوں کے ہاتھوں ہوا ہے اور انگریز میرٹھ، بلند شہر وغیرہ چھوڑ چھوڑ کر پنجاب کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ واقعہ کیا ہوا، اس کی تفصیل نہ معلوم ہوئی، بجز اس کے کہ سپاہیوں کو ایسے کارتوس منھ سے کاٹنے کو ملے تھے جن میں سؤر یا گئو کی چربی تھی۔ منگل پانڈے نامی ایک سپاہی نے کارتوسوں کو کاٹنے سے انکار کیا اور اپنے انگریز افسر کو گولی مار دی۔ کہا جا رہا تھا کہ انگریزوں نے یہ خبر دبا رکھی تھی لیکن اب یہ ہر طرف پھیل گئی ہے۔ دیسی سپاہی جگہ جگہ خروج کر رہے ہیں اور اعلیٰ حضرت ظلِ سبحانی ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ ثانی کو شاہِ ہند کا لقب دے کر دوبارہ تخت نشیں کر دیا ہے۔ دوسرے دن اور نزدیک کی خبر یہ آئی کہ دیسی سپاہیوں اور ڈنکا شاہ کے سپاہیوں نے فیض آباد کا جیل خانہ توڑ کر ڈنکا شاہ کو رہا کرا لیا ہے اور وہ اب ایک جمِ غفیر کے ساتھ عازمِ لکھنؤ ہیں۔
اسی رات بہت دیر گئے ایک تنومند بوڑھا منھ پر ڈھاٹا باندھے ہماری گڑھی پر آیا کہ میں بلیا کے بابو کنور سنگھ کا ایلچی ہوں، مجھے ٹھاکر صاحب سے ملنا ہے۔ بابو کنور سنگھ کی عمر اُس وقت اسّی کے قریب تھی، لیکن ان کا دبدبہ دور دور تک تھا۔ وہ انگریزوں سے نفرت کرتے تھے اور اپنے علاقے میں آنے والے انگریزوں کو سرِ بازار گالیاں دلواتے تھے۔ میرے والد نے ایلچی سے کچھ بات کیے بغیر اس کا مدّعا سمجھ لیا۔ مجھے انھوں نے اسی ایلچی کے ایک نائب کی معیت میں راتوں رات شاہجہاں پور روانہ کر دیا۔ میں نے ہزار کہا کہ میں آپ کے ساتھ رہوں گا، لیکن انھوں نے ایک نہ مانی۔ دادا مرحوم کے برخلاف وہ مزاج کے تیز بہت تھے، اور ان کے سامنے کسی کو تابِ مقاومت نہ تھی۔ میں تو ان کا بچہ ہی تھا۔
مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ صبح ہوتے ہوتے میرے والد بھی چند جاں نثاروں کو ساتھ لے کر کنور سنگھ کی طرف نکل گئے۔ ہماری گڑھی پر میری والدہ اور کچھ بوڑھے نوکر رہ گئے۔
***
لڑائی کا وہ سارا زمانہ میں نے شاہجہاں پور کے ایک قصبہ روضہ کے باہر اپنے ماموں کے شکاری بنگلے میں گذارا۔ ماموں کے آدمی ہر وقت مجھ پر کڑی نگاہ رکھتے کہ کہیں گھر سے نہ نکل جاؤں۔ لڑائی کی خبریں کبھی کبھی وہاں تک پہنچ جاتی تھیں۔ ہندوستانی سپاہ کی ہر فتح کے ساتھ میرا دل َبلّیوں اچھلتا اور ہر شکست کے ساتھ اُتنا ہی گہرا ڈوب بھی جاتا۔ ۱۸۵۸ء کا وسط آتے آتے جنگ ختم ہونے لگی تھی اور میرے صبر کا پیمانہ بھی چھلکنے لگا تھا۔ میں نے دل میں ٹھان لی کہ مناسب موقع دیکھ کر بنگلے کی اونچی دیوار پھاند کر نکل جاؤں گا اور برجیس قدر کی سپاہ سے جا ملوں گا۔
میں اپنے لیے سواری کا انتظام کر رہا تھا۔ ارادہ تھا کہ ایک دو راتوں میں وہاں سے نکل لوں گا۔ اچانک مجھے ایک ملازم نے چپکے سے بتایا کہ برجیس قدر، بیگم حضرت محل، مولوی احمد الله شاہ، سب کے سب الگ الگ جنگوں میں ہزیمت اُٹھا کر شمال کی طرف جانے والے ہیں۔ انھوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں، اور نہ اس کی کوئی توقع ان کے ساتھیوں سے ہے۔ شام کو یہ اطلاع میرے جسم کو جھنجھوڑ گئی کہ مولوی صاحب اپنے ساتھیوں کو لے کر ہمارے دور کے عزیز جگن ناتھ سنگھ راجہ پوایاں کے یہاں قیام پذیر ہونے والے ہیں۔ پوایاں ہمارے قصبے کے بہت قریب نہ تھا۔ لیکن ایک رات کے دھاوے میں وہاں پہنچنا ممکن تھا۔
گئی رات مَیں کمند لٹکا کر اور ہاتھ پاؤں تڑانے کا خطرہ مول لے کر بنگلے کی اونچی دیوار سے اترا۔ ایک وفادار ملازم دو عمدہ گھوڑوں کے ساتھ منتظر تھا۔ بے تکان بھاگتے ہوے ہم دن نکلے پوایاں کی سرحد کے پاس پہنچے تو ہر طرف فرنگی جھنڈوں اور فوجوں کا جم غفیر دیکھا۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ وہیں رک کر میں نے سرگوشیوں میں یہ منحوس خبر سنی کہ راجا پوایاں کی غدّاری نے ڈنکا شاہ کی جان لے لی۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ بات بالکل کھل گئی جب میں نے گاؤں کی عورتوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ ڈنکا شاہ کے ماتم میں سینہ زنی کرتی چلی آ رہی ہیں۔ ان کے پیچھے ہی چند عورتیں ہاتھ اٹھا اٹھا کر جگن ناتھ کو برا بھلا کہہ رہی تھیں۔ کمپنی کے سپاہی انھیں دھکیل دھکیل کر گاؤں کے اندر لے جا رہے تھے۔
دنیا میری نظر میں تاریک ہو گئی۔ یہ بات اب بالکل صاف تھی کہ ہندی افواج کو ہر جگہ شکست ہو چکی۔ اب کچھ نہ رہا تھا جس کے لیے جنگ کی جائے۔ ملازم کو تو میں نے وہیں رخصت کیا، اور اس کا بھی گھوڑا ساتھ لے کر میں نے چلتی ہوئی راہیں چھوڑ کر چھپ چھپاتے سنسان راستوں سے اعظم گڈھ کی راہ لی۔
اس سفر کی داستان کبھی اور سناؤں گا۔ کوئی ڈھائی مہینے میں سفر میں رہا، یوں جیسے کوئی مفرور مجرم کوتوال سے چھپتا پھرتا ہے۔ سارا راستہ کمپنی بہادر کے جیالے سپاہیوں کے ظلم اور ان کی بہیمانہ حرکتوں کے علائم سے پٹا پڑا تھا۔ کتوں اور چیل کوّوں نے لاشیں کھانی چھوڑ دی تھیں۔ زغن اور لکڑ بگھے مُردوں کو کھاتے کھاتے بیمار ہو گئے تھے۔ راستے کے دونوں طرف کوسوں تک پھانسیاں ہی پھانسیاں نظر آتی تھیں۔
اثنائے راہ میں یہ دل شکن خبریں بھی سنائی دیں کہ بڑوت باغپت کے شاہ مل جاٹ، اور رایا مہابن کے دیبی سنگھ تو انگریزوں کی فتح دہلی کے بھی پہلے گاجر مولی کی طرح کٹ گئے۔ الہ آباد کے مولوی لیاقت علی کا بھی جھنڈا چند ہفتے اکبری قلعے پر لہرا سکا۔ نیل صاحب نے ان کو عبرت ناک سزا دے کر مارا۔ انگریز ہر طرف سیلاب کی طرح چڑھے ہوے تھے۔
میں شہر پہنچ کر چپ چاپ ایک جگہ ٹھہر گیا کہ کچھ سن گن تو لے لوں۔ میرے جاننے والوں میں کوئی نہ ملا، اور انجان لوگ بات کرتے ڈرتے تھے۔ اتنا سنا کہ نظام آباد کے راجپوت بالکل برباد ہو گئے۔ رات کے اندھیرے میں گھر پہنچا تو اپنی گڑھی کو زمیں بوس پایا۔ ایک بھی متنفّس نہ تھا۔ رات بھر کی پوچھ گچھ سے اتنا پتا لگا کہ والد اور ان کے سارے ساتھی کنور سنگھ کے ساتھ شہید ہوے۔ انگریز فوج نے آ کر ہماری گڑھی مسمار کر دی اور نوکروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میری والدہ نے عزت بچانے کی خاطر گڑھی کے کنویں میں کود کر جان دے دی۔ اب انگریز سپاہی مجھے پوچھتے پھر رہے ہیں۔ میرے مسلمان اعزا جو قتلِ عام میں بچ رہے تھے، وطن چھوڑ کر کہیں اور جا بسے۔ اب کسی کو ان کی خبر نہیں۔
مجھ پر عرصۂ زمین اور عرصۂ حیات دونوں تنگ ہو چکے تھے۔ لیکن میں جاتا بھی تو کہاں؟ شاہجہاں پور کو مراجعت ممکن نہ تھی، اور ویسے میں نے دونوں گھوڑے دورانِ سفر بیچ دیے تھے اور میرے سفر کے آخری دن پاپیادہ گذرے تھے۔ اچانک مجھے اپنے بچپن کے ساتھی اور دوست کمھار کی یاد آئی۔ شاید اس کا گھر تباہی سے بچ گیا ہو۔ اور اس میں تو کوئی شک نہ تھا کہ اگر وہ موجود ہوا تو میرے لیے سر چھپانے کی جگہ تھی۔
اور ہوا ابھی ایسا ہی۔ میرا دوست مجھے دیکھ کر رو دیا۔ کہنے لگا کہ دادا یہ سارا گھر تمھارا ہے۔ جس طرح چاہو رہو۔ بس منھ نہ کھولنا، ورنہ تمھاری بولی سے لوگ تمھیں پہچان جائیں گے۔ میں مشہور کر دوں گا کہ تم میرے چاچا کے لڑکے ہو۔ چاچا کی موت کے بعد بنارس سے آئے ہو۔ دماغ کمزور ہونے کی وجہ سے بول نہیں سکتے۔
میں نے وہ دن وہاں اوپری سکون سے گذارے۔ چاک پر کام کی جو مشق میں نے بچپن میں بہم پہنچائی تھی، میرے بہت کام آئی۔ باہر والوں میں سے کسی کو گمان بھی نہ ہوا کہ میں پیدائشی کمہار نہیں ہوں۔
۱۸۶۰ء کا سال آتے آتے انگریزوں کی آتشِ انتقام کچھ سرد پڑنے لگی تھی۔ بھاگے ہوے لوگ واپس آ رہے تھے۔ لیکن میرا یہاں کون تھا جو واپس آتا؟ مجھے خدائے سخن کا شعر یاد آیا:
ساون ہرے نہ بھادوں ہی سوکھے ہم اہلِ درد
سبزہ ہماری آنکھ کا سیراب تھا سو تھا
کمہار کے بھیس نے شاعری پڑھنا پڑھانا بھی مجھ سے چھڑا دیا تھا۔ لگتا تھا کہ اب زندگی بے منّتِ قرطاس و قلم ہی گزرے گی۔ لیکن ایک دن میرے دوست نے آ کر خبر دی کہ دادا سنا ہے کہ کانپور میں انگریزوں نے توپ بندوق بنانے کا کارخانہ کھولا ہے۔ تم تو یہ کام بخوبی جانتے ہو، اور انگریزی بھی پڑھے ہو۔ اس وقت بھرتی زوروں پر ہے، زیادہ پوچھ گچھ نہ ہو گی۔ تم کمہار کے کام کے لیے نہیں بنائے گئے تھے۔ تمھیں اس طرح من مار کر جیتے دیکھ میرا جی کڑھتا ہے۔ تمھاری زمینیں ابھی انگریز نے ضبط کر رکھی ہیں۔ جب چھوٹیں گی تو تم کو خبر کر دوں گا۔
بات دل کو لگتی تھی۔ تھوڑے ہی دن بعد میں کانپور کے کارخانۂ توپ و تفنگ کی بھرتی کے لیے لین دوڑی لگائے کھڑا تھا۔ بھرتی والے صاحب نے اتنا ضرور پوچھا کہ تم نے لڑائی میں تو کوئی حصہ نہیں لیا؟ میں نے سچ سچ جواب دیا کہ بالکل نہیں۔ میں بھرتی ہو گیا اور تھوڑے ہی دن میں میری کارکردگی کے باعث میری ترقی ہو گئی۔ مجھے کوئی افسر نما چیز بنا دیا گیا اور بتایا گیا کہ آج سے میں ’فورمین‘ ہوں۔ تنخواہ اب معقول ہو گئی تھی۔ میں نے پریڈ کے بازار کے پاس ایک چھوٹا سا گھر ڈھائی روپے مہینے پر لے لیا، ایک ملازم رکھ لیا اور خالی وقت میں مشغلۂ شعر و سخن کرنے لگا۔
اس وقت کانپور میں کوئی نامی استاد نہ تھا۔ میاں رجب علی بیگ بنارس جا چکے تھے۔ لکھنؤ سے آغا حجّو شرف کبھی کبھی آ نکلتے تھے، ورنہ محفلوں میں ہر شخص خود کو استاد ہی تصور کرتا تھا۔ میں نے مولوی ناظم صاحب قبلہ کی نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا تھا کہ مبتدی کے لیے صفائی بیان ضروری ہے نہ کہ ندرتِ مضمون۔ لیکن کیا کرتا، میرا دل خیال بندی کی طرف لپکتا تھا۔ شیخ ناسخ اور مرزا نوشہ کا کلام وردِ زبان رہتا تھا۔ شیخ صاحب تو اس شبستان تیرہ روز کے شب و روز دیکھنے کے پہلے ہی الله کو پیارے ہو چکے تھے۔ اب مرزا نوشہ تھے، اور میری تمنّا کہ ان کی طرح کا شعر کہوں، ان کے پاس اٹھوں بیٹھوں، کچھ سیکھ کر واپس آؤں۔
مئی ۱۸۶۲ء کی بات ہے۔ ایک دن میں توپ خانہ بازار کی کوتوالی کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ نظامی پریس کے مولوی عبدالرحمٰن تیز تیز قدموں سے آتے ہوے نظر پڑے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ ٹھٹھکے، اور بولے، ’’لو بھئی میاں رسوا، تم مرزا نوشہ کا نام بہت جپتے رہتے ہو، تم بھی کیا یاد کرو گے۔ میں نے مرزا کا مکمل کلام ریختہ طبع کیا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انھوں نے ایک پتلی سی کتاب میرے سامنے کر دی۔ میں نے آخری ورق دیکھا تو واقعی مولوی صاحب کی طرف سے اعلان تھا، اور ان کی مُہر تھی، اس امر کے ثبوت میں کہ یہ کتاب انھیں کی چھاپی ہوئی ہے۔ لکھا تھا، ’جناب مجمع لطف بے کراں محمد حسین خاں صاحب دہلوی نے بعد نظر ثانی اور تصحیح جناب مصنف کی ایک نسخہ میرے پاس بھیجا۔ میں نے بافضال ایزدی مطابق اس نسخے کے شہر ذی حجہ ۱۲۷۸ھ مطبع نظامی واقع شہر کانپور میں صحتِ تمام اور درستیِ کمال سے چھاپا‘ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے بکمال اشتیاق وہ نسخہ ان سے وہیں خرید لیا۔ لیکن شروع کا صفحہ دیکھا تو صحتِ تمام کے دعوے کے باوجود غلطی نظر آئی، کہ دوسری ہی غزل پر (جس میں صرف ایک شعر تھا) کوئی نمبر شمار نہ تھا۔ اس طرح غزلوں کی تعداد درست نہ رہ گئی تھی۔ لیکن میں نے مولوی صاحب سے کہا نہیں، کہ بے چارے خفیف ہوں گے۔
***
اس دن سے دیوانِ غالب کا وہ نسخہ میرا شب و روز کا ہمدم و دمساز بن گیا۔ جی چاہتا تھا کہ میں اس نسخے کی اشاعت کو مرزا نوشہ سے اپنی رسم و راہ بنانے کا وسیلہ بنا لوں، لیکن یہ کس طرح ہو، بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ انطباع کے بعد وہ دیوان ہزاروں لوگوں نے دیکھا ہو گا؛ پھر میری کیا تخصیص تھی؟ اور یہ بات، کہ دیوان کانپور میں طبع ہوا، اور فی الوقت مَیں بھی کانپور میں تھا، میرے لیے تو ایک دلکش اتفاق ہو سکتی تھی، لیکن مرزا صاحب کو اس سے کیا؟
اسی ادھیڑ بن میں کوئی ایک مہینہ نکل گیا۔ ایک دن میں نے پریڈ کے میدان کے بازار میں ایک پادری کو دیکھا کہ لوگ اس کے پاس آ آ کر کسی کتاب پر اس سے دستخط لیتے ہیں۔ میں کچھ نہ سمجھا کہ یہ کیا اسرار ہے۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ کتاب کا مصنف وہ پادری ہی ہے۔ لوگ اس کی کتاب خرید کر لاتے ہیں اور اس پر اس کے دستخط لے کر گویا اپنی قدردانی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ میرے دل میں معاً یہ بات گونجی کہ اگر میں بھی مرزا کے دیوان کے کچھ نسخے خرید کر ان سے دستخط کرا لاؤں اور دوستوں کو تحفتاً پیش کروں تو کیسی رہے؟ مرزا سے ملنے کا بہانہ بھی ہاتھ آئے گا، اور دوستوں پر مفت کرم داشتن کا بھی موقع رہے گا۔
پہلا کام تو میں نے یہ کیا کہ چمن گنج میں نظامی پریس جا کر دیوان کی پچیس جلدیں مول لیں۔ قیمت کچھ نہ تھی، صرف آٹھ آنے۔ پھر ہر کتاب کو بڑے اہتمام سے مجلّد کرایا۔ ہر جلد پر چھ آنے کا صرفہ آیا۔ مولوی صاحب نے معمولی مشینی کاغذ پر کتاب چھاپی تھی، لیکن انطباع روشن اور صاف ہونے کی وجہ سے کتاب بھلی معلوم ہوتی تھی۔ اب مجلّد ہو گئی تھی، اس کا حسن مضاعف ہو گیا۔
ایک مہینہ تو اسی حیص بیص میں گزرا کہ کتابیں لے کر جاؤں بھی یا نہ۔ کہیں مرزا صاحب برا نہ مان جائیں۔ بہرحال بعض دوستوں سے رازدارانہ مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ جانا چاہیے، لیکن ذرا موسم بدل جائے، ہوا سرد ہو جائے اور سفر آسان ہو جائے۔
چار مہینے میں نے ان مجلدات کو حرزِ جاں کی طرح سینت کر رکھا۔ نومبر ۱۸۶۲ء کے آخری دن تھے جب میں بسبیلِ ڈاک قنوج، فرخ آباد، بیاور، کول، بلندشہر، شاہ درہ، دلہائی ہوتا ہوا بیس دن کی مسافرت کے درد دکھ جھیلتا، غم و الم اُٹھاتا دلّی پہنچا۔ میں باڑہ ہندو راؤ کی ایک سرائے میں اُترا۔ معلوم ہوا بلّی ماروں کا علاقہ یہاں سے کچھ بہت دور نہیں۔ آہنی سڑک ابھی کانپور کے پاس سے بھی نہ گزری تھی، گو کہ اس کے آنے کے غلغلے تھے۔ میں نے اب تک کبھی ریل کی سواری کی بھی نہ تھی، اور نہ ارادہ تھا، لیکن دہلی کی ریل منزل میری سرائے کے پاس ہی تھی۔ وہاں کی چہل پہل، لوگوں کی دھکا پیل، دھواں دھکڑ، کوہ پیکر، دُخان پھینکتے ہوے آتشیں انجنوں کا آنا جانا (اس لفظ سے میں کانپور میں آشنا ہوا) مجھے یہ سب کچھ عجب وحشت زا سا لگا۔
شام ہو رہی تھی۔ میں نے دو کباب داغ کروائے، ساتھ میں دو پراٹھے منگوائے، لیکن گھبراہٹ اور تکان سفر کے باعث کچھ کھایا نہ گیا۔ جلد ہی لیٹ رہا۔ صبح کو بھٹیارن سے استصواب کیا تو اس نے کہا کہ ’’میاں صاحب، ان نواب اور شاعر لوگوں کا دستور ہے کہ دن چڑھے اُٹھتے ہیں، کچہری دربار جاتے ہیں، بڑے لوگوں سے ملتے ملاتے ہیں۔ شام کو ہوا خوری کو نکلتے ہیں۔ ان سے ملاقات کا سب سے اچھا وقت دن ڈھلے چراغ جلے ہے۔ مرزا نوشہ صاحب کا نام میں نے سنا ہے۔ وہ دلّی کے تو ہیں نہیں، ممکن ہے ان کے طرز و طور اَور رہے ہوں، لیکن اب تو وہ بھی یہیں کے رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ میں نے ایک آدھ بار انھیں رجواڑے کی گلی سے سواری میں گذرتے دیکھا ہے۔ تو میاں صاحب، ابھی شہر کی سیریں کرو۔ شام میں ایک مشالچی ملازم اور گھوڑا سئیس تمھارے ساتھ کر دوں گی۔ آرام سے مل کر چلے آئیو۔‘‘
شام ڈھلنے کے ذرا پہلے میں نے لباس تبدیل کیا، مچھلی کے چھلکوں کی ٹوپی سر پر جمائی، اس پر رنگین پگڑی باندھی، کانوں میں موتی کے بالے ڈالے، ریشمی دھوتی کے نیچے پاؤں میں بانے پہنے، جودھپوری جوتیاں پہنیں۔ پھر ساز سینگڑا لگا کر اپنے دادا مرحوم کی بنائی ہوئی لمچھڑ کاندھے سے لٹکائی۔ میں اپنے قریبی قصبے مبارک پور سے مرزا صاحب و قبلہ کے لیے دو ریشمی لنگیاں اور دو ہی ریشمی پگڑیاں بطورِ خاص بنوا کر لایا تھا۔ میرے وطن نظام آباد کی مٹی کے کچھ برتن مثلاً چلمیں اور فرشیاں بھی تھیں۔ ان کو خوان میں رکھوایا، اسی پر کتابیں رکھ کر سئیس کے حوالے کیں۔ مشالچی کو آگے کیا اور خود گھوڑے پر سوار ہو کر چلا۔
اس وقت شام اچھی طرح پھول چکی تھی۔ اندھیاری کی بنا پر گری پڑی حویلیوں اور لٹے ہوے بازاروں کے منظر پر ایک ذرا پردہ سا آ گیا تھا۔ جامع مسجد پر بے فکروں اور چٹوروں کا مجمع ویسے ہی تھا۔ افسوس کہ میرا سئیس اور مشالچی دونوں ہی میواتی تھے اور دلّی میں نووارد۔ وہ بار بار راہ کھوئی کرتے اور شہر کی تبدیلیوں پر الزام دھرتے۔ میرا سئیس خاص کر بڑا باتونی تھا۔ ’’میاں صاحب، رستہ اب کسے سجھائی دے ہے۔ اور کیسے سجھائی دے۔ مسجد سے راج گھاٹ تک اب لق و دق صحرا ہے، اینٹوں کے ڈھیر ہیں اور ان کے اندر سانپ بچھوؤں کے مسکن۔ مرزا گوہر صاحب عالم کے باغ کی نچلی سمت کئی بانس نشیب تھا۔ اب وہ باغیچے کی چاندنی کے برابر ہو گیا۔ آہنی سڑک کے واسطے کشمیری دروازے سے لے کابلی دروازے تک میدان ہی میدان ہے۔ پرانی گلیاں لوگوں سے اٹی پڑی ہیں، رستے کھو گئے ہیں۔ اگلا جائے تو کہاں جائے۔ پنجابی کٹڑا، دھوبی واڑا، سعادت خاں کا کٹڑا، یہ اور ان کی طرح کے بیسیوں محلّے مٹ گئے۔ گلیوں کی شکلیں بدل گئیں۔ میاں صاحب، اب یہ دلّی دلّی نہیں، ایک کیمپ ہے، بارک ہے، اجاڑ گھروں کا جنگل ہے۔ اعلیٰ حضرت ابو ظفر جہاں پناہ کے زمانے میں یہ سب گلیاں اور بازار روشنی سے جھکاجھک تھے۔ اب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔‘‘ مجھے مرزا صاحب کا قطعہ یاد آیا جو انگریز کے ڈر سے ہنوز منطبع نہ ہوا تھا، لیکن شدہ شدہ لوگوں کی زبانوں پر جاری ہو گیا تھا:
گھر سے بازار کو نکلتے ہوے
زہرہ ہوتا ہے ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
ور دلّی کے بارے میں اپنے وقت کے ابلغ البلغا، اشعر الشعرا، خدائے سخن حضرت میر تقی کے کئی شعروں میں سے یہ شعر ذہن سے پھسل کر بےساختہ زبان پر آ رہا:
اب شہر ہر طرف سے میدان ہو رہا ہے
پھیلا تھا اس طرح کا کاہے کو یاں خرابا
میں نے دل میں کہا، بھگوان کریں کبھی دلّی کے دن بھی پھریں، امی جمی ہو، تخت پر وہی براجے جس کا حق ہے۔
انھیں سب باتوں، راستہ ڈھونڈنے اور ٹھوکریں کھانے میں دو گھنٹے صرف ہو گئے۔ مجھے خفقان ہو رہا تھا کہ مرزا صاحب بسترِ استراحت پر نہ تشریف لے گئے ہوں۔ اگر میری خبر پر انھیں اُٹھنا پڑا تو بڑی شرمندگی کی بات ہو گی۔ ادھر وہ سئیس اور مشالچی اتنے احمق کہ انھیں کالے صاحب کا احاطہ ہی مل کے نہ دیتا تھا۔ مرزا صاحب کی حویلی کا ایک دروازہ عالم خاں کے کٹڑے کی طرف کھلتا تھا اور ایک کالے صاحب کی مسجد کی طرف۔ صدر دروازہ کالے صاحب کی خانقاہ سے ملا ہوا تھا۔ بارے خانقاہ کا پتا ملا تو حویلی بھی نظر آئی۔ ایک دو ملازموں کو باہر استادہ دیکھ کر جان میں جان آئی کہ ابھی لوگ موجود ہیں۔
اطلاع کرائی تو فوراً ہی بلوا لیا گیا۔ دو حضرات پہلے سے موجود تھے۔ مرزا صاحب کا شغل شروع ہو چکا تھا، شاید حضارِ مجلس سے کسی قسم کا پردہ نہ تھا۔ ہائے میں مرزا کی شکل کیا بیان کروں۔ کشیدہ قامت، متوسط بدن لیکن ہاڑ بہت چکلا، شانے اس عمر میں بھی سیدھے اور خم سے آزاد، سنہرا چمپئی رنگ، اس پر سفید داڑھی، سر منڈا ہوا، مسکراتا ہوا روشن چہرہ، آنکھیں بڑی بڑی لیکن تھوڑے سے سرور کی وجہ سے سرخی مائل، آنکھوں میں شوخی اور فراست کی چمک۔ پورا چہرہ مہرہ اور قد و قامت بالکل کسی تاز وارد تورانی کا تھا؛ بس داڑھی ہندی طرز کی نہ ہوتی، اور سر نہ منڈا ہوا ہوتا تو اچھے اچھوں کو یہی دھوکا ہوتا کہ کوئی آغائے تورانی ہے۔ ساری داڑھوں کے گر جانے کے باعث دونوں گال ذرا پچک گئے تھے۔ یہ ایک کمی نہ ہوتی تو اس عمر میں بھی وجاہت و حسانت مردانہ کا بہترین نمونہ قرار پاتے۔ آواز ان کی نہایت صاف اور کھلی ہوئی تھی۔ اکبرآبادی برج کی لچک اور مٹھاس لہجے میں اب بھی تھی، لیکن اس پر دلّی کی کرخت بولی کی گہری تہہ جم چکی تھی۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ لوگ میری پوربی، بھوج پوری کا ہلکا سا رنگ لیتی ہوئی آواز اور زبان کو بھلا کیا خیال کرتے ہوں گے۔
اور کیا خلق عظیم تھا، کیا شفقت تھی۔ انھوں نے لبِ فرش تک آ کر میرا استقبال کیا، اپنے دستِ چپ پر بٹھایا۔ دست راست پر جو صاحب آ کر بیٹھے تھے، ان کا لباس مغل منصب داروں کی طرز کا تھا __ بڑے گھیر کا جامہ، اس کے نیچے قیمتی کپڑے کا زیرجامہ، کمر میں ریشمی دوپٹہ، جس سے خنجر جواہر نگار و آب دار آویزاں، سر پر زربفت کی پنج گوشیہ ٹوپی، جو مغل طرز سے ذرا مختلف تھی، داڑھی موچھیں گھنی۔ موچھیں چڑھی ہوئی، نکے دار، داڑھی بڑی صفائی سے ذرا چوکور سی ترشی ہوئی، داہنے ہاتھ کی کلمے کی انگلی میں ایک بہت بڑی زمرد کی انگوٹھی، غالباً مہر نگیں کے کام آتی ہو گی۔ فاصلے کے باوجود نگینے پر کچھ کندہ کیا ہوا صاف دکھائی دیتا تھا۔ انتہائی خوبصورت اور وجیہ انسان تھے۔ معلوم ہوا نواب ضیاء الدین خاں صاحب نیر درخشاں ہیں۔ میں نے سرو قد کھڑے ہو کر تعظیم دی۔ انھوں نے مسکرا کر سلام لیا اور دعا دی، ’’خوش رہیں، آباد رہیں، دولت و اقبال زیادت باد۔‘‘
جو صاحب مرزا صاحب کے سامنے تشریف فرما تھے ان کی داڑھی موچھیں بہت گھَن کی تھیں، کنگھی کی مشاطگی سے آزاد، بالکل چڑیا کا جھونجھ لگتی تھیں۔ سر پر اونچی دیوار کی مخملی ٹوپی، بدن پر انگریزی وضع کا بھاری لمبا کوٹ، نیچے موٹا اونی کُرتا، اسی کپڑے کا ڈھیلا پاجامہ، متبسّم آنکھیں۔ معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کے خاص شاگرد منشی شِو نرائن آرام ہیں۔ آگرے سے بغرض ملاقات و علاج تشریف لائے ہیں۔ میں نے پھر سرو قد ہو کر تعظیم دی۔ انھوں نے بھی تقریباً انھیں الفاظ میں دعا دی جو نواب ضیاء الدین نے ارشاد فرمائے تھے۔
مرزا صاحب نے فرمایا، ’’میاں، خانۂ بےتکلّف ہے۔ یہ بتاؤ کچھ شغل بھی رکھتے ہو؟‘‘
میں نے دبی زبان سے جواب دیا، ’’حضور راجپوت ہوں، برت بھی دو آتشۂ ناب سے کھولتا ہوں۔‘‘
مرزا صاحب کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ شِو نرائن صاحب آرام نے تحسین کی نگاہ سے مجھے دیکھا۔ نواب صاحب نے ارشاد فرمایا، ’’میاں صاحب زادے، یہ تو تم نے ہمارے قبلہ مرزا صاحب کا شعر پڑھ دیا۔‘‘ میں بات کو بھانپ گیا کہ اشارہ کس طرف ہے اور میں نے فوراً مرزا صاحب کا شعر پڑھا:
خجلت نگر کہ در حسناتم نہ یافتند
جز روزۂ درست بہ صہبا کشودۂ
پھر میں نے ہاتھ جوڑ کی عرض کی، ’’پیر و مرشد کی کرامت ہے کہ ایسا جواب بن پڑا۔ پیر و مرشد لسان الغیب کا درجہ رکھتے ہیں۔‘‘ اس پر سب لوگوں نے کہا، ’’بےشک، بےشک۔‘‘
مرزا صاحب نے کلو داروغہ کو آواز دے کر میرے لیے گلاس اور نقل منگوائی۔ پھر غایت سفر پوچھی۔ میں نے مختصراً عرض کر کے سب سے پہلے تو وہ لنگیاں اور پگڑیاں نذر کیں۔ میری خوش نصیبی تھی کہ پگڑیاں ان کی پسند کے مطابق نکلیں۔ انھوں نے فرمایا، ’’بہت خوب بہت خوب۔ مجھے عمامے میں سرخ رنگ بالکل پسند نہیں۔ اچھا ہوا ان عماموں میں کوئی بھی سرخ دھاگا نہیں ہے۔‘‘ میں نے جھک کر تسلیم کی، پھر چلمیں اور فرشیاں پیش کیں۔ بالکل سیاہ مٹی، اس پر روپہلا کام بنا ہوا۔ یہاں والوں کے لیے نئی چیز تھی، بہت پسند کی گئی۔
نواب صاحب اور منشی صاحب تو رخصت ہوے، میں مرزا صاحب قبلہ کے ساتھ شغل مے و مینا کرتا رہا۔ کوئی انگریزی شراب تھی، بالکل بے رنگ، اور بہت تیز۔ غالباً شامپین رہی ہو گی۔ رات جب بہت بھیگ چلی تو میں نے اجازت چاہی۔ فرمایا، ’’دیر ہوتی ہے، جاؤ بھئی جاؤ۔ میں بھی کچھ فکر و سخن کروں گا۔ ہے ہے، مجھے اپنی جوانی کا شعر یاد آ گیا:
فکر سخن یک انشا زندانی خموشی
دود چراغ گویا زنجیر بے صدا ہے
لیکن اب میں بھی زیادہ جاگتا نہیں۔‘‘
میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کی، ’’حضور، اس کلام میں ایسے ایسے شعر تھے تو اس پر خطِ تنسیخ پھیرنا کیوں گوارا کیا؟‘‘
جیسے ایک دم کو وہ چپ ہو گئے۔ میں ڈرا کہ ناراض نہ ہو گئے ہوں۔ لیکن پھر وہ کچھ دھیمے لہجے میں بولے، ’’میاں، اس بڑھاپے میں اقبال کرتے شرم آتی ہے، لیکن اس کلام کو رد کرنے کا رنج مجھے بھی ہے۔ کہنے کو تو میں کہہ گیا کہ میں لڑکپن میں بےراہ رو تھا، بے مطلب بکتا تھا۔ جب کچھ تمیز آئی، وہ اوراق یک قلم چاک کیے اور چند شعر واسطے نمونے کے دیوان حال میں رہنے دیے۔ لیکن اصل بات سلامت رویِ فکر اور سلاستِ بیان کی نہ تھی۔ میری نوجوانی تھی، میں سمجھتا تھا کہ شعر سننے سنانے سے زیادہ پڑھنے پڑھانے کی شے ہے۔ پھر مرزا عبدالقادر بیدل کا قول دل میں جاگزیں تھا کہ زبان اور معنی میں مغائرت ہے، زبان کو معنی کا تحمل نہیں۔ مرزا بیدل فرماتے ہیں:
اے بسا معنی کہ از نا محرمی ہائے زباں
باہمہ شوخی مقیم پردہ ہائے راز ماند
لیکن میں نے دیکھا کہ ہمارے یہاں شعر سننے کا رواج زیادہ ہے، پڑھنے کا کم۔ اور زبان کو میرے معنی سے یوں ہی پردہ تھا۔ میں بات اشاروں اشاروں میں کہتا تھا کہ اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ ایک دن بس طبیعت جھنجھلا اٹھی۔ میں نے کہا اب ریختہ کہوں گا ہی نہیں، فارسی لکھوں گا۔ بس دوستوں کو خوش کرنے کے لیے اعلان کر دیا کہ اپنا منتخب اور آسان کلام ہی داخلِ دیوان کروں گا۔ حالاں کہ جو کلام چھوڑ دیا تھا، اس میں بھی نام نہاد آسان کلام کی کمی نہ تھی۔ انتخاب کیا کِیا، ایک دوپہر کو ایک دوست کے یہاں بیٹھے بیٹھے کچھ سرخوشی کے عالم میں جہاں چاہا قلم لگا دیا۔ ورنہ جن غزلوں پر یہاں لوگوں نے مجھے استاد مانا، وہ بھی زیادہ اُس زمانے کی کہی ہوئی ہیں جب میری عمر پچیس سے متجاوز نہ تھی۔‘‘
’’اب اس کلام کی بازیافت کی کوئی امید نہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ فرمایا، ’’مجھے اپنا کلام بہت کم یاد رہتا ہے۔ تازہ کلام بھی بھول جاتا ہوں۔ اور ان اشعار سے تو اب قیامت ہی میں ملاقات ہو گی۔‘‘
میں نے از راہِ شوخی میر کا شعر پڑھ دیا:
قیامت کو جرمانۂ شاعری پر
مرے سر سے میرا ہی دیوان مارا
مسکرائے، فرمایا، ’’تو آپ بھی میری طرح مِیری ہیں، اَوروں کی طرح سودائی نہیں۔‘‘ میں نے اس پھڑکتے ہوے فقرے پر سبحان الله کہا اور عرض کیا، ’’اب اجازت مرحمت ہو۔ اور کیا یہ ممکن ہے کہ کہ پیر و مرشد مجھے کسی ایسے وقت طلب فرمائیں جب تخلیہ ہو؟‘‘ اصل میں مجھے کتابوں پر دستخط کی فرمائش کی ہمت نہ پڑ رہی تھی۔ امید تھی کہ رات بھر میں ہمت جٹا لوں گا۔
کچھ دیر سکوت کے بعد فرمایا، ’’اچھا تو میاں تم کل دوپہر کا کھانا یہیں کھاؤ۔ اس کے بعد میں ذرا لیٹ رہتا ہوں، کسی کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تمھارے لیے وہی وقت نکال لوں گا۔‘‘
مجھے کچھ کہنے کی ہمت نہ پڑی، حالاں کہ ان کے آرام میں خلل انداز ہونا سخت شاق تھا۔ آداب کر کے سرائے واپس چلا آیا۔
***
اگلی صبح طبیعت کسل مند تھی، دیر سے اٹھا۔ تیار ہوتے ہوتے بارہ بج گئے۔ میں تنہا ہی سوار ہو کر بلّی ماروں کو چلا۔ راستے میں ہر جگہ گزشتہ جرنیلی نظام کی دردناک نشانیاں اور آہنی سڑک کے واسطے مزید انہدام کی تیاریاں نظر پڑیں۔ میں نگاہ جھکائے چلتا گیا۔ اس بار راستہ نہ بھولا۔ مرزا صاحب کمال شفقت سے میرے منتظر تھے۔ میرے جاتے ہی کھانا لگا۔ مرزا صاحب کے لیے اتنا کم اور سادہ کہ بقدر اشک بلبل، اور میرے لیے وافر اور متنوع۔
کھانے کے بعد پیر و مرشد نے انگنائی میں دھوپ سے ذرا ہٹ کر اپنا پلنگ بچھوایا، میرے لیے ایک چھوٹی سی صندلی بچھائی گئی۔ بھنڈا تازہ کیا گیا۔ مرزا صاحب اپنا پیچوان کبھی کبھی مجھے اولوش فرماتے۔
جب بھنڈے کا لطف لے چکے تو مرزا صاحب نے فرمایا، ’’ہاں صاحب، اب کہو، اب تخلیہ ہے۔‘‘ میں نے کتابوں کی گٹھری کھولی، اور ایک کتاب ان کی طرف بڑھا کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ انھوں نے کتاب کھول کر کہا، ’’یہ تو میرا ہی دیوان ہے۔ میں اسے لے کر کیا کروں گا؟‘‘
میں نے عرض کیا، ’’اس کی حاضری کا مقصد کچھ اَور ہے۔ ملتمس ہوں کہ حضور ان مجلدات کو اپنے دستخط سے مزیّن فرما دیں۔ میں انھیں نذرِ دوستاں کروں گا، اس سے بہتر تحفہ دلّی کا کیا ہو گا۔‘‘
’’مگر بھائی، میں دستخط کیوں کروں؟ یہ کتابیں میری ملکیت تو ہیں نہیں۔‘‘
میں نے عرض کی، ’’صاحبانِ عالیشان کے یہاں یہ طریقہ مصنّف کی قدر شناسی کا رائج ہے کہ کتاب پر مصنف ہی سے دستخط کرا لیتے ہیں اور اسے بڑا قیمتی تحفہ قدردانوں کے لیے جانتے ہیں۔‘‘
مرزا صاحب ہنسے اور ارشاد ہوا، ’’ہم تو یہ جانتے تھے کہ مصنف کی قدردانی ظاہر کرنے کے لیے اسے سات بلکہ چودہ پارچے کا خلعت پہناتے ہیں، اکیس رقوم جواہر کی مالا اور سات عدد کا جیغہ زیبِ سرو گردن کرتے ہیں۔ نصف روپے کی کتاب مول لے کر اس پر مصنف کے دستخط لینا اور کتاب تقسیم کرنا کون سی قدر شناسی ہے۔ خیر لاؤ، تم کہتے ہو تو اپنی مُہر کیے دیتا ہوں۔ حسنِ اتفاق کہ ابھی ۱۲۷۸ھ میں نئی مہر بنوائی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے داروغہ کلّو سے قلم دان مانگا، ہر کتاب پر اپنے دستِ مبارک سے مہر کی۔ چاندی کے نگینے کی چوکور مہر تھی۔ پھر کچھ سوچ کر ایک کتاب پر لکھا:
برخوردار بینی مادھو سنگھ رسوا
اے آمدنت باعث دل شادی ما
اسد الله خان غالب نگاشتہ ۱۶ رجب المرجب ۱۲۷۹ء
کتاب میری طرف بڑھاتے ہوے بولے، ’’اب تو خوش ہو۔‘‘ میں نے سرو قد ہو کر کتاب ان کے ہاتھ سے لی، آنکھوں سے لگائی۔ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اجازت چاہی کہ آرام میں مخل نہ ہوں۔ ارشاد ہوا، ’’کوئی بات نہیں۔ بیٹھو۔ مجھے تمھارا لہجہ اچھا لگتا ہے۔ اور تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ شعر کب سے کہتے ہو۔ صاحبِ دیوان ہو کہ نہیں، اور کس کے شاگرد اس فن میں ہو۔‘‘
میں نے اپنے استاد مولوی خادم حسین ناظم، اور ان کے دادا ملّا سابق بنارسی کا ذکر کیا۔ فرمایا، ’’مولوی ناظم صاحب سے تو شرفِ ملاقات نہیں، لیکن ملّا سابق علیہ الرحمت کے نام سے واقف ہوں۔ ان کی مثنوی تاثیرِ محبت میں نے اپنے بنارس کے قیام میں دیکھی تھی۔ بڑے جیّد آدمی تھے۔‘‘
میں ان کی خدمت میں کچھ گستاخ ہو چلا تھا، شاید اس لیے کہ انھوں نے مجھے کچھ منھ بھی لگا لیا تھا۔ میں نے عرض کیا، ’’پیر و مرشد، جان کی امان پاؤں۔‘‘
ایک بار مجھے انھوں نے غور سے دیکھا، فرمایا، ’’کہو کہو، کیا بات ہے؟‘‘
میں نے جی کڑا کر کے کہا، ’’حضور کی رائے ہندوستانی فارسی گویوں کے بارے اچھی نہیں ہے۔ لیکن آنجناب تو خود بھی ہندوستانی ہیں؟‘‘
ان کا چہرہ تھوڑا سا سرخ سا ہو گیا لیکن نرمی سے فرمایا، ’’فارسی زبان کے رموز و غوامض میری روح میں یوں پیوست ہیں جیسے فولاد میں جوہر، یا رگِ گل میں بادِ سحر گاہی کا نم۔ میں کہاں اور یہ غیاث الدین رامپوری اور دیوالی سنگھ قتیل کہاں۔ ان کے اجداد نے بھی کبھی ایران نہ دیکھا ہو گا۔‘‘
’’لیکن حضور، اَور بھی تو ہندی شعرا ہیں۔ امیر خسرو، ملّا فیضی، ملا غنی کاشمیری، ابوالبرکات منیر، یہ لوگ تو غیاث و قتیل جیسے نہیں۔‘‘
اب ان کے لہجے میں ذرا گرمی آ گئی۔ ’’اہلِ ہند میں سوائے امیر خسرو کے کوئی مسلّم الثبوت نہیں، سمجھے؟ میاں فیضی کی بھی کہیں کہیں ٹھیک نکل جاتی ہے۔ ہاں غنی اور منیر اور خود فیضی اچھے شاعر ہیں، معنی یاب ہیں، لیکن زبان سے ان کو کیا علاقہ؟‘‘
میرے جی میں آئی، پوچھوں کہ زبان اور مضمون تو ایک دوسرے کے تابع ہوتے ہیں، پھر یہ کیوں کر ہوا کہ کوئی معنی یاب ہو لیکن زبان خراب لکھے۔ مگر اتنی بڑی گستاخی کی ہمت نہ تھی۔ میں نے سوچا بیدل کے پردے میں بات کریں۔ کل بیدل کا ذکر آ بھی چکا تھا۔ میں نے کہا، ’’حضور ایک زمانے میں تو میرزا بیدل کے بڑے مداح تھے․․․‘‘
میری بات کاٹ کر بولے، ’’مداح اب بھی ہوں، لیکن ان کی زبان کا نہیں۔ بیدل اور ناصر علی اور غنیمت، ان کی فارسی کیا، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔‘‘ انھوں نے کلیان کو آواز دی کہ بھنڈا دوبارہ تازہ کرو۔ میں نے رکتے رکتے عرض کی، ’’ڈرتا ہوں کہ جس طرح حضور ان شعرا کو ایوان شعر سے خارج فرما رہے ہیں، کہیں آپ کے ساتھ بھی زمانہ وہی سلوک نہ کرے۔‘‘
یا تو لیٹے ہوے تھے، یا مرزا صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے۔ فرمایا، ’’یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ فارسی زبان کی زمام میرے ہاتھ میں ہے، طبع میری سلیم ہے اور ذوق میرا درست۔ اور میرے مضامین تو ایسے ہیں کہ لوگ انھیں رہتی دنیا تک پڑھتے اور سمجھتے پھریں گے۔ ابھی یہ اہلِ ہند کیا جانیں گے اور کیا سمجھیں گے۔‘‘
پھر انھوں نے اپنا شعر پڑھا:
پایۂ من جز بہ چشم من نیاید در نظر
از بلندی اخترم روشن نیاید در نظر
خدا کی قسم وہ وقت اور ماحول، وہ ان کے چہرے پر بادشاہ کا سا جلال، اور مضمون کی وہ ندرت، کلام کا وہ زور، میں پھڑک ہی تو گیا۔ (اس واقعے کے برسوں بعد کسی انگریزی اخبار میں دیکھا کہ بہت سے ستارے ہم سے اتنی دور ہیں کہ ان کی روشنی ہم تک بہت دھندلی، اور بہت دیر میں پہنچتی ہے، در حالےکہ اصل میں وہ بےحد چمک دار ہیں۔ تب مجھے ان کا یہ شعر یاد آیا۔ دل میں سوچا، ہے بھگوان، کیا مرزا صاحب کو علمِ غیب تھا جو ایسے مضمون باندھ لیتے تھے۔) لیکن اُس وقت تو مجھے ان کو چھیڑنا اور ان سے کچھ سیکھنا منظور تھا۔ دل کھول کر اس شعر کی داد دینے کے بعد میں نے کہا، ’’قبلہ و کعبہ، غنی کے تو میرزا صائب بھی قائل تھے۔‘‘
’’اجی صاحب زادے، صائب کیا اور ان کا فیصلہ کیا؟ اہلِ ہند کے درمیان رہتے رہتے ان کی زبان خود غیر معتبر ہو گئی تھی۔ وہ ایرانی نژاد تھے مگر واردِ شاہجہان آباد تھے۔ انتقام کشیدن اور انتقام گرفتن دونوں بول گئے۔ انتقام گرفتن ترجمہ ہے ہندی محاورے انتقام لینا کا۔ فارسی میں غلط، بالکل غلط۔‘‘
’’مگر پیر و مرشد، اگر صائب کی زبان مشکوک ہے تو عرفی کو کیا کہیں گے؟ انھوں نے بھی تو عمر کا بڑا حصہ اکبر آباد میں گزارا؟‘‘
’’ہے ہے! عرفی کا نام تم کیوں بیچ میں لائے۔ وہ ہمارا مطاع ہے، ہم اس کے مطیع ہیں۔ وہ جو بھی کہے سب درست۔‘‘
میں نے مدرسے میں جو تھوڑی سی منطق پڑھی تھی اس کی رو سے قبلہ و کعبہ کی یہ بات مجھے صریحاً غلط معلوم ہوتی تھی۔ لیکن مجھے ان سے مناظرہ تو کرنا نہیں تھا، کچھ حاصل ہی کرنا تھا۔ لہذا میں نے کہا، ’’حضرت، خان آرزو تو فرماتے تھے کہ جس طرح ایرانی صاحبانِ قدرت کو زبان میں تصرف کا حق ہے، اسی طرح ہندوستانی صاحبانِ قدرت کو بھی ہے۔‘‘
’’مگر اہلِ ہند میں صاحبانِ قدرت ہیں کہاں؟ کیا تم قتیل کو صاحبِ قدرت کہو گے جو ہمہ جا، ہمہ عالم کو غلط بتاتا ہے اور ہیچ نہ بود کی جگہ ریختہ کا محاورہ خاک نہ بود لکھتا ہے؟‘‘
’’حضرت، اہلِ ہند میں اَور بھی لوگ ہیں۔ اگر امیر خسرو اعلی الله مقامہٗ مسلم الثبوت ہو سکتے ہیں تو بیدل کیوں نہیں؟ اہلِ ہند پان سو برس سے فارسی لکھ بول رہے ہیں، کیا ان کی فارسی اپنی جگہ مستند نہ مانی جائے؟ آخر سب ایرانی استاد بھی تو شیراز و اصفہان کے نہ تھے۔ کوئی بلخی ہے، کوئی غزنوی، کوئی بخاری کوئی گنجوی۔‘‘
’’دیکھو دنگا کرنے کی بات اَور ہے۔ ورنہ سیدھی اور خدا لگتی یہی ہے کہ اہلِ ہند کو فارسی نہیں آتی۔ میرا معاملہ اور ہے۔ میرا تو ایک ایرانی استاد بھی تھا جس نے مجھے یہ زبان گویا گھول کر پلا ہی دی تھی۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ آنکھ بند کر کے لیٹ گئے۔ شاید تھک گئے ہوں۔ مجھے بھی خیال ہوا کہ شاید میں حد سے آگے نہ بڑھ گیا ہوں۔ میں اجازت کے لیے اٹھنے ہی والا تھا کہ انھوں نے آنکھیں بند کیے کیے فرمایا:
’’اہلِ ہند کی فارسی پر ان کی اپنی زبانوں کا اثر لامحالہ پڑا ہے، خواہ ہندی خواہ بھاکا۔ اس لیے ان کی فارسی میں ایرانیت نہیں۔‘‘
’’لیکن حضرت والا یہ بھی تو خیال فرمائیں کہ جس قوم نے خسرو، فیضی، غنی، بیدل، بہار جیسے لوگ پیدا کیے ہوں، ان کا بھی تو فارسی زبان پر حق ہو گا؟‘‘
’’تم ان باتوں کو نہ سمجھو گے۔ بہار نے خان آرزو کی تحقیق پر سو جگہ اعتراض کیا ہے، اور صحیح کیا ہے۔ لیکن جہاں وہ بھی اپنے قیاس پر جاتا ہے، منھ کی کھاتا ہے۔ اہلِ زبان کے معاملات اہلِ زبان ہی سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
’’گستاخی معاف، پیر و مرشد، میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ بہار اور برہمن اور بیدل وغیرہ جو دن رات فارسی بولتے، لکھتے اور سوچتے تھے، انھیں اہلِ زبان کہنا چاہیے۔ میں اپنی بات پھر دہراؤں گا کہ حضرت والا اگر اہلِ ہند کی فارسی کو برا کہتے رہے تو مبادا لوگ آپ کی فارسی کو غیرمعتبر کہہ دیں۔‘‘
انھوں نے لمبی سانس لی اور بولے، ’’آخر بچے ہو، اور راجپوت بچے ہو۔ تمھاری ضد کا علاج میرے پاس نہیں۔ اب جاؤ، میں کچھ دیر آرام کروں گا۔‘‘
میں سر سے پاؤں تک لرز ہی تو اٹھا کہ میں نے اس فرشتہ خصال بزرگ کو خفا کر دیا۔ میں نے ان کے پاؤں پکڑ لیے اور اپنا سر جھکا کر کہا، ’’یہ نیمچہ حاضر ہے۔ میرے سینے میں اتار دیجیے لیکن لله خفا نہ ہوجیے۔‘‘
مرزا صاحب تھکے ہوے لہجے میں بولے، ’’ہاں مومن خاں کیا اچھا کہہ گیا ہے:
ناتوانی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
میاں صاحب، میں خفا نہیں ہوں۔ اپنی تقدیر پر افسردہ ہوں، کہ اس دیار سے اس ملک سے، فارسی کا صحیح ذوق اٹھتا جاتا ہے۔ ہاں مومن کا ہندی شعر اس وقت خوب یاد آیا۔ یہ شخص اپنی وضع کا اچھا کہنے والا تھا۔ طبیعت اس کی معنی آفریں تھی۔ اچھا میاں تم اب جاؤ۔ فرصت ہو تو کل بھی اسی طرح آ جانا۔‘‘
میں ’’بسر و چشم حاضر ہوں گا‘‘ کہہ کر رخصت ہوا، لیکن راستے بھر خود کو نفرین کرتا رہا کہ میں مرزا صاحب سے بحث میں کیوں اُلجھا۔ اور دوسری طرف یہ سوچ کر بھی میں کچھ کم رنجیدہ نہ تھا کہ جب کوئی زبان اپنے ملک کے باہر پھیلتی ہے اور غیرملک والے اس میں مدتِ مدید تک سلسلۂ شعر و نثر، حرف و حکایت جاری رکھتے ہیں تو غیرملکیوں کی زبان، اور غیرملک سے آئی ہوئی زبان، دونوں میں تغیر لازمی ہے۔ اور کسی ملک میں جب کوئی غیر زبان قائم ہو جاتی ہے تو پھر وہ اس ملک کی بھی ہو جاتی ہے۔ آخر انگریزی بھی تو ہے کہ اس ملک میں تیزی سے مستولی ہوتی جاتی ہے۔ اگر یہی لیل و نہار رہے تو سو دو سو برس میں ہندوستانی لوگ بھی انگریزی میں صاحبِ قدرت ہو جائیں گے۔
اور رہی دوسری بات، کہ بیدل اور غنی وغیرہ کو تسلیم نہ کر کے مرزا صاحب اپنی بھی نا معتبری کی بنیاد قائم کر رہے تھے، تو میں ذرا آگے کی بات یہیں بیان کر دوں کہ ان واقعات کے کئی برس بعد میرے دادا اُستاد مولانا فاروق چریاکوٹی کے براہ راست اور بڑے ہونہار شاگرد مولوی شبلی صاحب ہوے۔ انھوں نے شعر فارسی کی تاریخ پانچ جلدوں میں لکھی۔ یہ جلدیں ۱۹۰۹ء سے لے کر ۱۹۱۸ء تک شائع ہوئیں۔ (آخری جلد ان کی رحلت کے بعد منطبع ہوئی۔) میں نے بڑے شوق سے وہ جلدیں عند الاشاعت منگائیں کہ دیکھوں ان میں ہمارے مرزا صاحب کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ لیکن مجھے بڑی مایوسی ہوئی کہ وہاں مرزا غالب تو کیا، بیدل اور غنی اور سرخوش اور خان آرزو کا بھی ذکر نہیں۔ میں نے یہ بھی سنا کہ شبلی کی نظر میں مرزا غالب وغیرہ مستند نہ تھے۔
***
دوسرے دن مرزا صاحب کے وہاں جانے کے لیے میں فتح پوری کے بازار فواکہ سے گزر رہا تھا کہ دیکھا سارا بازار کابل کے عمدہ انگوروں سے پٹا پڑا ہے۔ میں نے ایک بڑی جھابی انگوروں کی مزدور کے سر پر رکھوا لی۔ مرزا صاحب کی طبیعت اس وقت بحال نظر آئی۔ شاید وہ خفیف سا تکدّر، جو میری بحثا بحثی سے پیدا ہوا تھا، دور ہو چکا تھا۔ انگور دیکھ کر وہ خوش تو بہت ہوے، لیکن ان کا مرغوب میوہ آم اَور ہی بات رکھتا تھا۔ فرمایا، ’’بہت عمدہ پھل لائے۔ بچوں کے کام آئیں گے۔ ایک دو دانے میں بھی کھا لوں گا۔ لیکن کاش کہ ہر موسم آم کا موسم ہوتا۔ میں نے اپنی مثنوی میں کہا ہے:
آم کے آگے پیش جاوے خاک
پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک
اس میں اور شعر بھی مزے کے ہیں۔‘‘ میں ابھی اس شعر کی مناسبتوں اور حسن تعلیل کی داد کے لیے منھ کھولنے ہی والا تھا کہ مرزا صاحب نے فرمایا، ’’اور میں انگور تو دراصل مفتی آزردہ وغیرہ جیسوں کو کھلاتا ہوں۔ کچھ سمجھے کیوں؟‘‘
امتحان ٹیڑھا تھا، لیکن ماں سرسوتی نے لاج رکھ لی۔ میں نے مرزا صاحب کا شعر پڑھا:
زاہد از ما خوشۂ تاکے بہ چشمِ کم مبیں
ہی نمی دانی کہ یک پیمانہ نقصاں کردہ ایم
الله ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، مرزا صاحب مسکرائے۔ فرمایا ’’آدمی خوش ذوق ہو تو تمھارے جیسا ہو۔ شام کو آتے تو تمھیں لکیور پلاتا، کہ اس کا لطف بھی آم ہی کی طرح ہوتا ہے۔ رنگت کی بہت خوب، قوام کی بہت لطیف، طعم کی ایسی میٹھی جیسے قند کا قوام پتلا۔ اور یہ ہندوستانی گڑ چھال کی چھنی ہوئی شراب مجھے بالکل پسند نہیں۔‘‘
اب تک کھانا لگ گیا تھا۔ کھانے کے بعد بیسن سے ہاتھ دھوئے گئے۔ پھر اسی طرح انگنائی میں پلنگ اور صندلی کا اہتمام ہوا، بھنڈے کا دور چلا اور باتیں شروع ہوئیں۔ میں نے عرض کیا:
’’قبلہ و کعبہ نے کل جو حکیم مومن خاں صاحب کے بارے میں فرمایا تھا کہ طبیعت ان کی معنی آفریں تھی، اس پر کچھ اَور ارشاد ہو۔‘‘
ٹھنڈی سانس بھر کر بولے، ’’ہاں صاحب وہ لوگ خوب تھے۔ گورا شاہی کے پہلے کا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا۔ اب نظام الدین ممنون کہاں، ذوق کہاں، مومن کہاں۔ ایک آزردہ اور ایک مَیں، دونوں جینے سے بیزار۔ نہ سخن وری ہے نہ سخن دانی۔ خیر، سنو۔ پرانے بزرگ معنی آفرینی سے مراد لیتے تھے کہ شعر میں کوئی نئی بات ہو، کوئی نیا مضمون ہو، کسی بات کا کوئی نیا پہلو ہو، ورنہ سامنے کی بات تو سب کہہ لیتے ہیں:
دندانِ تو جملہ در دہانند
چشمانِ تو زیرِ ابروانند
کہنے میں کوئی مزہ نہیں۔ یہ کوئی کمال سخن وری نہیں کہ قافیہ سامنے رکھ لیا اور جس قافیے نے جو مضمون سجھایا بے کھٹکے نظم کر دیا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ شاعری قافیہ پیمائی نہیں، معنی آفرینی ہے۔‘‘
ایک لحظہ چپ رہ کر انھوں نے یہ دو شعر بڑے ذوق و جوش سے پڑھے:
عشرت ما معنی نازک بدست آوردن است
عید ما نازک خیالاں را ہلال این است و بس
می نہم در زیر پاے فکر کرسی از سپہر
تا بکف می آورم یک معنی برجستہ را
اور فرمایا، ’’میاں سنتے ہو! پہلا شعر صائب کا ہے، دوسرا کلیم ہمدانی کا۔ یہ خیال نازک کیا ہے؟ ایسا خیال جو لطیف اور باریک ہو، جو بیان میں آسانی سے نہ آئے اور جب بندھ جائے تو شعر کے اپنے لفظوں کے سوا کسی اور عبارت میں بیان ہو تو وہ بات نہ رہ جائے۔ اسی کو ابوطالب کلیم معنیِ برجستہ کہتا ہے، کہ اسے حاصل کرنے کے لیے آسمان کی بلندی پار کرنے جیسی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اور وہ معنی ایسے ہوتے ہیں کہ ہاتھ میں آئے تو آئے، ورنہ چھوٹ گئے تو چھوٹ گئے۔ فقیر تکیہ نشیں غالب کے یہاں ایسے مضامین کی کثرت ہے، کہ جب کوئی مضمون باندھ لیتا ہے تو خود حیرت کرتا ہے کہ کس طرح بندھا ہو گا۔‘‘
میرے منھ سے بےساختہ نکلا:
آب بود معنی روشن غنی
خوب اگر بستہ شود گوہرست
مرزا صاحب ایک لمحے کو ٹھٹکے، پھر فرمایا، ’’ہاں اچھی بات کہی۔ نازک مضمون بہتا ہوا پانی ہے، مٹھی میں نہیں آ سکتا۔ آ جائے تو گوہر ہی کہلائے۔ معنی روشن سے مراد ہے وہ مضمون جو اپنی تازگی کے باعث صدف سے تازہ نکلے ہوے موتی کی طرح چمکتا ہو۔‘‘
’’سبحان الله، کیا تعبیر ارشاد فرمائی!‘‘ میں نے کہا۔
فرمایا، ’’خیال بند شاعر وہ ہوتا ہے جو نادر مضامین کی تلاش میں دور دور نکل جائے۔ سب سے پہلے خیال بند میاں شاہ نصیر تھے۔ لیکن جس شخص نے اس فن کو معراج تک پہنچایا وہ ناسخ تھے، کہ تمام شروعِ سابقہ کے ناسخ ہی ٹھہرے۔ ہم سب نے خیال بندی انھیں سے سیکھی۔ ہاں ان کے کلام میں وہ دردمندی نہیں جو میر کا خاصّہ ہے۔‘‘
’’پھر خیال بند شاعر سہل ممتنع تو نہ کہہ سکے گا شاید؟‘‘ میں نے پوچھا۔
فرمایا، ’’ہاں، مگر بعض لوگ نبھا بھی لیتے ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے اور کامیاب بھی ہوا ہوں۔ لیکن خالص خیال بندی کے ساتھ سہل ممتنع کا جوڑ دراصل ہے نہیں۔ ان دنوں خیال بندی کا چرچا اسی لیے کم ہوتا جاتا ہے۔ تمھارے کانپور کے پڑوس میں لکھنؤ ہے۔ وہاں ہماری طرف اور طرح کا ایک شاعر ہے، اس نے آج کل خیال بندی کا چراغ خوب روشن کر رکھا ہے۔‘‘
’’غالباً آنجناب کی مراد نواب اصغر علی خاں نسیم دہلوی سے ہے،‘‘ میں نے عرض کیا۔
’’ہاں۔ اور آدمی وہ بڑے طنطنے والے ہیں۔ مجھے ایسے لوگ پسند ہیں،‘‘ انھوں نے فرمایا۔ ’’تم نے ان کا شعر سنا ہو گا:
مضمون کے بھی شعر اگر ہوں تو خوب ہیں
کچھ ہو نہیں گئی غزلِ عاشقانہ فرض
میں بھی کہتا ہوں کہ ان ہجر و وصال کے مضامین کے آگے بھی تو کچھ ہو گا۔ اسے کیوں نہ ٹٹولا جائے۔ کیا خوب کہتا ہے:
ہزار رنگ دریں کارخانہ درکار ست
مگیر نکتہ نظیری ہمہ نکو بستند
تو میاں، دنیا تو بہت بڑی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ چشم تنگ کو وا کریں۔‘‘
مجھے قبلہ و کعبہ کا شعر یاد آ گیا:
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
کہ چشم تنگ شاید کثرت نظارہ سے وا ہو
انھوں نے مسکرا کر فرمایا، ’’‘ی اجازت ہو۔ پرسوں صبح کی ڈاک سے میں انشاء الله چلا جاؤں گا۔‘‘
فرمایا، ’’ارے، ابھی آئے ابھی چلے! میاں ذوق کا شعر یاد آ گیا:
لیتے ہی دل جو عاشق دل سوز کا چلے
تم آگ لینے آئے تھے کیا آئے کیا چلے
کیا نوکری کی جلدی ہے؟‘‘
میں نے گزارش کی، ’’جی جلدی تو کوئی خاص نہیں، لیکن․․․‘‘
’’تو کیا گھر پر کوئی منتظر ہے؟‘‘
میرے دل پر چوٹ سی لگی، آنکھ نم ہونے لگی۔ ’’اعلیٰ حضرت، گھر تو ہے ہی نہیں۔ کانپور میں ہوں ضرور لیکن غریب الدّیار ہوں۔‘‘
میری یہ کیفیت دیکھ کر مرزا صاحب نے بڑے نرم لہجے میں تفصیل پوچھی اور باصرار پوچھی۔ میں نے بھی مجبور ہو کر سب بتا دیا۔ وہ بالکل سنّاٹے میں آ گئے۔ کچھ دیر بعد بولے، ’’تو تم بھی نسیم صبح گاہی کی طرح خانماں برباد ہو۔ جب ہی تو میں کہوں کہ یہ دلِ درد آشنا اس بچے کو کہاں ملا۔ خیر جاؤ۔ رکتے تو اچھا تھا، لیکن تمھاری مرضی۔ ہاں کل شام کو ضرور آ جانا۔‘‘
***
میں حسبِ وعدہ رات ڈھلے مرزا صاحب کے دولت کدے پر پہنچا۔ کئی لوگ پہلے سے موجود تھے۔ ایک صاحب، جو مسن اور مشین تھے، مرزا صاحب سے کچھ پوچھ رہے تھے۔ طالب علم تو نہیں، کہیں معلّم لگتے تھے۔ قبلہ و کعبہ نے فرمایا، ’’ذرا وہ شعر پڑھیے، میاں رسوا بھی سن لیں۔‘‘
’’حضرت، خاقانی کا شعر ہے،‘‘ انھوں نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’ملاحظہ ہو:
دست آب و مجاورانش
ارزن دہ برج کو ترانش
اس کے معنی مفتی آزردہ صاحب کچھ بتاتے تھے، لیکن میں ٹھیک سے سمجھا نہیں۔‘‘
ارشاد ہوا، ’’سمجھیں بھی تو آپ کیسے۔ یہ شعر مثنوی تحفۃ العراقین کا ہے۔ اس کے پہلے والے شعر سے اس کا ربط ہے۔ وہ شعر سامنے نہ ہو تو مطلب کیا خاک نکلے۔‘‘ پھر ایک لمحہ تامل کر کے شعر پڑھا:
روح از پئے آبروئے خود را
خلد از پئے رنگ و بوئے خود را
کہیے، اب کچھ سمجھے؟‘‘
’’جی اب کچھ کچھ بات کھل رہی ہے،‘‘ مولوی صاحب بولے۔
’’سنیے‘‘ مرزا صاحب نے فرمایا، ’’یہ اشعار خانۂ کعبہ کی شان میں ہیں۔ استاد فرماتے ہیں، روح اپنی افزائشِ آبرو کے واسطے کعبے کے مجاوروں کو وضو کا پانی دیتی ہے۔ اور خلد، اخذِ رنگ و بو کے لیے برجِ کعبہ کے کبوتروں کو دانہ کھلاتا ہے۔‘‘
مولوی صاحب بولے، ’’ایک قول یہ ہے کہ دست آبدہ لقب ہے اشرف الانبیا علیہ الصلوٰة والسلام کا۔‘‘
مرزا صاحب نے فرمایا ’’دیکھو ان اشعار میں فاعل موجود ہے۔ روح، کہ دست آبدہ ہے، اور خلد، کہ ارزن دہ ہے، یہاں کون سا قرینہ جناب رسالت مآب صلی الله علیہ و سلم کا ہے؟‘‘
’’جی، قرینہ تو کوئی نہیں، لیکن ایک جگہ خاقانی نے جناب رسول الله صلی الله علیہ و سلم کے لیے دست آب دہ کہا ہے۔ لوگ اسی سے استنباط کرتے ہیں۔‘‘
’’جی درست ارشاد فرمایا۔ لیکن وہ پورا فقرہ ہے، دست آبدہِ رسالت، یعنی منصبِ رسالت کو تو ضو کے ذریعے مزید روشن کرنے والا۔ بےشک یہ صفت جناب رسول الله صلی الله علیہ و سلم کی ہو سکتی ہے۔‘‘
مولوی صاحب خاموش ہوے تو میرزا صاحب اوروں کی طرف متوجہ ہوے۔ کئی لوگ جمع تھے۔ معلوم ہوا آج داستان گوئی کی محفل ہے۔ کبھی اردو، کبھی فارسی میں داستانِ امیر حمزہ سنی جاتی ہے۔ مجھے ذرا تعجب ہوا کہ میرزا صاحب کو ان چیزوں سے بھی رغبت ہے۔ خیر، داستان گو صاحب تشریف لائے۔ کھانا ہوا، اس کے بعد داستان گو صاحب ایک مسند کی ٹیک لگا کر بلند جگہ پر بیٹھے۔ انھوں نے اپنے لیے افیون کا گھولوا تیار کیا، ایک دو چسکیاں لیں۔ پھر داستان آغاز ہوئی۔ شاید میرا لحاظ کر کے آج خسرو ہندوستان لندھور بن سعدان کا بیان تھا۔ داستان گو صاحب کیا تھے، گویا ایک کل کی گڑیا تھی کہ لحظہ بہ لحظہ رنگ بدلتی تھی۔ ہر لہجے پر قادر، ہر طرح کے لغات پر ماہر۔ رزم، بزم، طلسم، اور سب سے بڑھ کر عیاری کے وہ وہ مناظر کہ لوگ چونک چونک کر اپنی جیبیں ٹٹولتے کہ کہیں عمرو عیار نے ہماری بھی تو جیبیں نہیں تراش دیں۔
گئی رات تک محفل رہی۔ مرزا صاحب نے تقریباً آبدیدہ ہو کر مجھے رخصت کیا۔ صدر دروازے تک چھوڑنے آئے۔ پھر آنے اور خط لکھنے کی تاکید فرمائی۔ اِدھر وہ اندر تشریف لے گئے، اُدھر کلو داروغہ نے ایک ریشمی تھیلی میرے ہاتھ میں پکڑا دی، کہ نواب صاحب نے زادِ سفر عنایت کیا ہے۔ میں بھونچکا رہ گیا۔ انکار کی تاب تھی اور نہ موقع۔ سرا پر آ کر تھیلی میں دیکھا تو اکیاون روپے مہری تھے۔
***
اس ایک بار کے علاوہ میں کبھی دہلی نہ جا سکا۔ خط لکھتے مجھے شرم آتی تھی، لیکن سال میں ایک دو بار کوئی تحفہ میرزا صاحب کے لیے بھجوا دیا کرتا اور دعا کی درخواست کرتا۔ کبھی ملیح آباد کے آم اور جونپور کی امرتیاں، کبھی اپنے مبارک پور کی لنگیاں اور پگڑیاں۔ کبھی کبھی ایک آدھ غزل ہمت کر کے بھیج دیتا۔ لیکن انھوں نے اصلاحی غزل کبھی واپس نہ کی۔ شاید وہ مجھے شاگرد نہیں بلکہ حاشیہ بردار تصور کرتے تھے۔ کوئی بھی تعلّق ان سے ہوتا، میرے لیے بہت تھا:
فی الجملہ نسبتے بتو کافی بود مرا
بلبل ہمیں کہ قافیۂ گل شود بس است
اگر وہ مجھے اپنا دوست تصور فرماتے تھے تو میرے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ممکن تھا۔
۱۸۶۸ء میں، انگریزوں کی شورشِ رستاخیز کے پورے دس سال بعد، مجھے اپنے کمہار دوست سے خبر ملی کہ میری زمینیں وا گذاشت ہو گئی ہیں اور میرے گھرانے کو معافی مل گئی ہے۔ وہاں میرے گھرانے میں تھا ہی کون جو اس معافی سے منتفع ہوتا۔ جس گڑھی میں میرے اجداد تین سو برس رہے تھے، اسے منہدم دیکھنے کے بعد میرے لیے وہاں کیا رہا تھا۔ میری ماں کے ایک عزیز بنارس میں عسرت کی زندگی گزار رہے تھے۔ میں نے انھیں بلا کر سب جائیداد انھیں بے قیمت ہبہ کر دی۔ کانپور میں مجھے تنہائی کے سوا کوئی تعب نہ تھا۔ شادی میں نے کی نہیں۔ شاعری خوب چل نکلی تھی۔ توپ کے کارخانے میں تنخواہ اچھی تھی، عزت سے بسر ہو جاتی تھی۔
ایک دن فروری ۱۸۸۹ء کی کوئی تاریخ تھی، میں نے ’اودھ اخبار‘ میں پڑھا کہ بلبلِ ہند، نجم الدولہ، دبیر الملک، میرزا اسد الله خاں غالب، مالک حقیقی سے جا ملے۔ میں نے آہ سرد بھری اور چپ ہو گیا۔ دل میں کہا کہ مرزا صاحب فرماتے تھے، قلم روِ نظم و نثر کا انتظام و انصرام مالک کے کرم سے بخوبی ہو چکا۔ اب اگر وہ چاہے گا تو میرا نام تا قیامت رہے گا۔ میرے دل نے کہا، آمین، ثم آمین:
لکھا رہے سو برس تک جو لکھ جائے کوئے
لکھنے ہارا باولا سو گل گل مٹی ہوئے
میرزا صاحب کا نام ان کے بعد اَور بھی چمکا۔ ان کے شاگرد خواجہ حالی نے ’یادگارِ غالب‘ نامی کتاب لکھی، اس کے خوب چرچے رہے۔ شبلی صاحب نے میرزا نوشہ کی فارسی نہ مانی تو کیا، خواجہ حالی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ غیر اہلِ زبان بھی فارسی پر قدرتِ تامہ رکھ سکتا ہے، اور مرزا صاحب کو یہ قدرت حاصل تھی۔ لاہور سے مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ’آبِ حیات‘ چھپوائی تو اس میں مرزا صاحب کی باتیں ایسے مزے مزے کی لکھیں کہ لوگوں میں مرزا صاحب کا نام اپنے دوستوں کے ناموں سا مانوس ہو گیا۔ ابھی کچھ برس پہلے کوئی صاحب ہیں صلاح الدین خدا بخش، انھوں نے مرزا صاحب کا موازنہ جرمن کے کسی بہت بڑے شاعر سے کیا ہے اور لکھا ہے کہ مرزا صاحب کو اس پر تفوق ہے۔
میں نے کہیں سنا کہ بھوپال میں کوئی صاحب ہیں، بجنوری نام کے، انھوں نے مرزا صاحب قبلہ کے بارے میں کچھ لکھا ہے اور ثابت کیا ہے کہ مرزا صاحب کا مرتبہ بڑے سے بڑے یورپین شاعر سے کم نہیں۔ لیکن ان کی یہ تحریر ابھی منظرِ عام پر آئی نہیں۔ سنا جاتا ہے بجنوری صاحب ان دنوں بہت بیمار ہیں۔ الله انھیں شفا دے۔
تھوڑی بہت انگریزی میں نے بھی پڑھی ہے۔ اتنا تو میں ڈنکے کی چوٹ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کسی انگریزی نظم میں وہ شوخی اور روانی نہیں دیکھی جو میرے صاحب و قبلہ کے اکثر اشعار میں ملتی ہے۔ میرے محبان صادق الوداد حضرت نادر علی خاں نادر کاکوروی اور حضرت درگا سہائے سرور جہان آبادی نے انگریزی کے وافر ترجموں سے دامنِ اردو کو مالامال کیا ہے۔ لیکن میں دبی زبان سے یہ کہنے کی جرأت کرتا ہوں کہ ان میں سے کوئی نظم مرزا نوشہ یا میر تقی کے مرتبے کو نہیں پہنچتی۔ دوسری زبان سے ترجمہ کرنے میں کچھ نہ کچھ ضائع ضرور ہوتا ہو گا، یہ بات بھی ہے۔
مرزا صاحب کے مشکل اشعار کے معنی تو لوگ خود ان سے بھی پوچھ لیتے تھے، لیکن ان کے معتدبہ کلام کی شرح درگا پرشاد نادر صاحب دہلوی کے ایک ہونہار شاگرد میاں حلم بریلوی نے لکھی۔ سنا گیا کہ ان کے سارے اردو کلام کی شرح خواجہ بدر الدین راقم نے حیدرآباد میں لکھی تھی، لیکن وہ مرہونِ انطباع نہ ہوئی۔ پھر حیدرآباد ہی سے مولوی سیّد علی حیدر نظم نے اپنی شرح چھپوا کر عام کی۔ مولوی صاحب کی شعر فہمی میں شک کسی کافر کو ہو گا، لیکن ان کی شرح کو غیر جنبہ داری سے پڑھیے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھیں مرزا صاحب مغفور سے کچھ کد ہے۔ ستائش وہ خوب کرتے ہیں، نکتے وہ عمدہ نکالتے ہیں، لیکن یہ بھی لگتا ہے کہ خواہ مخواہ کی عیب چینی بغیر انھیں چین نہیں۔
کچھ دن ہوے ایک علی گڑھ کے بی اے پاس صاحب نے، جو کانپور ہی میں مقیم ہیں، مرزا صاحب کے دیوان کے ساتھ بعض بعض اشعار کی شرح بھی شائع کی ہے۔ حسرت موہانی ان کا نام ہے۔ ان دنوں قومی تحریکات میں حصّہ لینے کے باعث جیل خانے میں ہیں۔ بڑے لائق اور گرما گرم شخص ہیں۔ شرح ان کی نہایت مختصر لیکن بڑی معنی خیز ہے۔ شعر کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ منشی تسلیم کے شاگرد ہیں، اس لحاظ سے نواب نسیم دہلوی ان کے دادا استاد ہیں۔ منشی تسلیم صاحب کا ایک شعر مجھے مزہ دیتا ہے:
میں تو ہوں تسلیم شاگرد نسیم دہلوی
مجھ کو طرز شاعران لکھنؤ سے کیا غرض
ان دنوں لکھنؤ دلّی میں پھر تھوڑی بہت ٹھنی ہوئی ہے۔ درحالیکہ میر انشاء الله خان انشا تو صاف صاف انھیں لکھنؤ والوں کو لائق اعتنا گردانتے تھے جو براہِ راست دلّی سے آئے ہوں، اور لکھنؤ میں جن کے گھر پچاس برس سے زیادہ پرانے نہ ہوں۔ اور یہ انھوں نے اُس وقت کہا جب اودھ پر مرزا جنگلی کا راج تھا۔ وہ جنت آرام گاہ اپنی زبان کو شاید دہلی ہی کی زبان قرار دیتے تھے۔ اتنا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے میرزا صاحب میں ایسا کوئی تعصّب نہ تھا۔ وہ شیخ ناسخ کے بھی قائل تھے اور خواجہ آتش کے بھی۔ ایک بار بےخیالی میں انھوں نے مرزا رجب علی بیگ صاحب سرور کی تصنیف ’فسانۂ عجائب‘ پر بڑے سخت کلمے کہے تھے، لیکن ان میں کوئی تعصّب نہ تھا۔ یہ ضرور ہے کہ مرزا صاحب خود اپنی زبان کے تئیں فرماتے تھے کہ اوروں کی بہ نسبت فصیح تر ہے۔
مرزا صاحب مغفور کے ارتحال کی تاریخیں بہت کہی گئیں۔ مولوی صاحب نے غضب کا مرثیہ کہا۔ میرا جی بہت چاہا کہ میں بھی مرثیہ کہوں، لیکن کبھی ایک دو مصرعے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ خدا معلوم کیوں رقت طاری ہو جاتی، لگتا کہ اپنے باپ دادا کا بھی مرثیہ کہہ رہا ہوں۔
مرزا صاحب کے گزرنے کی خبر کے کئی دن بعد تک میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مرزا صاحب کا پرسہ کسے دوں۔ آخر دادا میاں کی درگاہ پر پانچ سیر شیرینی اور پانچ سیر کی شیرمالیں فاتحہ کرائیں اور تقسیم کر دیں۔ گھر آ کر مرزا صاحب کی یادگار تحریر کو آنکھوں سے لگا کر دو آنسو رو لیا۔
***
آج جب کہ نومبر ۱۹۸۱ء کی آخری تاریخ ہے، میں انگریزی حساب سے اٹھتر برس کا ہو گیا۔ اتنی عمر بہت ہوتی ہے، امید ہے کہ جلد ہی میرا بلاوا آ جائے گا۔ کہنے کی باتیں تو اور بھی تھیں:
گفتی کہ چرا حال دل خویش نہ گوئی
من خود کنم آغاز بہ پایاں کہ رساند
میں نے وہی باتیں لکھی ہیں جن سے پڑھنے والے (اگر ان پراگندہ خیالیوں کا کوئی پڑھنے والا ہوا) کو یہ تو معلوم ہو کہ میں کون تھا اور کن کن لوگوں سے شرفِ ہم کلامی مجھے حاصل رہا تھا۔ گذری باتوں کو پچاس سے زیادہ برس ہونے کو آئے، لیکن لگتا ہے ابھی ابھی انھیں خواب میں دیکھ کر اٹھا ہوں۔ میرے باپ ماں کی من موہنی صورتیں، دادا جان اور مولوی خادم حسین ناظم کے نورانی چہرے، پوایاں راج کی سرحد پر انگریزی فوج کا ہجوم اور ڈنکا شاہ کا ماتم کرتی ہوئی اور پوایاں کے راجا کو کوستی ہوئی عورتیں۔
میرزا صاحب کی با رعب شخصیت، جس میں بلا کا حسن بھی تھا اور شوخی کے ساتھ عجب طرح کا حزن بھی۔ نواب ضیاء الدین خاں اور منشی شِو نرائن آرام۔ میر کاظم علی داستان گو۔ دلّی کے اجڑے پجڑے کوچہ و بازار، جن میں پھر بھی ایک طرح کا غرور اور گردن افرازی کی شان تھی۔
اور میرا مامن، میرا کمہار دوست۔ اور وہ، جسے بھی ۱۸۵۷ء نے کھا لیا، جس پر کبھی میری نگاہ پڑتی تھی:
سب جان و تن ملا تھا نہ تھا کچھ خلل مگر
دونوں کے دل اس آن ترستے تھے بات کو
انگریز اتنی بڑی لڑائی ہارتے ہارتے جیت گیا۔ جرمن کو شکست ہوئی۔ میرزا صاحب فرماتے تھے کہ غوث علی شاہ صاحب کا قول تھا، انگریز کا اقبال بلند ہے، اس لیے اس کی عورتوں پر جن بھوت بھی نہیں آتا۔ اب میں اپنے جیتے جی تو اس اقبال میں گہن لگتے نہ دیکھ سکوں گا۔ الله بس باقی ہوس۔
(تحریر کردہ الہٰ آباد، ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۸ء)
٭٭٭
’آج‘ مدیر اجمل کمال، شمارہ ۲۷ سے ماخوذ
ماخذ:
http://pakdata.com/aaj/aaj27/ghalib.htm
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں