FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

ادبی کتابی سلسلہ

عکاس انٹرنیشنل

 اسلام آباد

(۱۷)

مرتّب
ارشد خالد
امین خیال

سرکولیشن منیجر  :   نوید ارشد

E- Mail
akkasurdu2@gmail.com

 


اپنی بات

            ادبی کتابی سلسلہ عکاس کا شمارہ ۱۷ پیش ہے۔ اپنے ابتدائی حلقۂ احباب کے توسط سے ادب کا جو شوق پیدا ہوا تھا اسے عکاس کی اشاعت کی صورت میں پورا کر لیتا ہوں۔ اب انٹرنیٹ کے ذریعے نسبتاً وسیع حلقۂ احباب میسر آیا ہے تو میرے ذوق و شوق میں بھی کسی حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ اس بار شعری حصہ بھر پور ہو گیا ہے۔

              عکاس کا یہ شمارہ معیاری اور مستند لکھنے والوں کی نگارشات کے ساتھ نئے لکھنے والوں کی تخلیقات سے بھی ہمیشہ کی طرح مزین ہے۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہمیشہ میرے پیش نظر رہی ہے۔ اسی لیے بعض اوقات کمزور تحریروں کے لیے بھی تھوڑی بہت گنجائش نکالنا پڑتی ہے۔ تاہم عکاس نے اپنا جو ایک عمومی معیار بنایا ہے، اسے قائم رکھنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔

           اس شمارہ میں ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کا گوشہ دیا جا رہا ہے۔ بیرون انڈو پاک سے میں نے جب بھی کسی کا گوشہ دیا ہے، ہمیشہ جنوئن لکھنے والوں کو اہمیت دی ہے۔ نہ کبھی باہر کے جعلی لکھنے والوں کو اہمیت دی ہے اور نہ ہی ایسا کیا ہے کہ ایک دو جنوئن بندوں کے ساتھ ایک دو جعلی بندوں کو ٹانک کر بھگتا دیا جائے۔ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل انگلینڈ میں مقیم اردو کی شاعرہ اور ادیبہ ہیں ، کثیرالجہت لکھنے والی ہیں۔ ان کا گوشہ مغربی دنیا کے جنوئن ادیبوں کے اعتراف کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امید ہے احباب کو یہ گوشہ پسند آئے گا۔

عکاس اب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ اس لنک پر بیشتر شمارے اپ لوڈ کر دئیے گئے ہیں۔

 http://akkas-international.blogspot.de/

جن شماروں کی ان پیج فائلز موجود نہیں ہیں ، انہیں اپ لوڈ کرنے کی کوئی صورت بھی سوچ رہے ہیں۔

ارشد خالد

 

عامر سہیل (ایبٹ آباد)

اقبال کا فکری نظام

کیا اقبال ایک نظام سازفلسفی ہے۔ ؟  یعنی کیا اقبال کی نظم و نثر سے فکر و فلسفہ کا کوئی مربوط نظام اخذ کرنا ممکن ہے۔ ؟  یا اس کی فکر اتنی زیادہ منتشر ہے کہ اسے باقاعدہ نظام کی صورت میں مجتمع کرنا محال ہے؟  اقبال محض فلسفی ہے یا متکلّم؟  کیا اقبال نے واقعی جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی ہے؟  فکرِ اقبال کا ماخذ کیا ہے؟  اگر اقبال کا کوئی فکری نظام ہے تو اسے ہم کیا نام دے سکتے ہیں ؟  اس نوع کے تمام سوالات کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ فکری نظام کے تکنیکی اور اصولی نظام کے ساتھ ہے۔ اگر ان کی وضاحت ہو جائے تو بے شمار الجھے سوالوں کو کسی حد تک ضرور سلجھایا جا سکتا ہے۔ اس بحث کا باقاعدہ آغاز کرنے سے قبل فکری نظام کی تعریف اور حدود و کا تعین کر لینا ضروری ہے۔

انگریزی زبان کی ایک خوبصورت اور فلسفیانہ ضرب المثل ہے :

"Every thing is already here, people and the earth.  But it takes a system of  thought to make things work”

اگرچہ دیکھنے میں یہ سادہ سی بات نظر آتی ہے لیکن درحقیقت یہ کائنات کی اتنی پیچیدہ مساوات  (Equation) کہ اسے کسی بھی ریاضیاتی فارمولے کے ذریعے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ خیر یہ تو ہوا جملۂ معترضہ، اب اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

نظام سے مراد  ایسا کل ( Whole) ہے، جس کے تمام باطنی اجزاء باہم مربوط ہو کرکسی ایک متعین وظیفے )  (Functionکو انجام دینے کی صلاحیّت حاصل کر لیں۔ اس میں شامل ہر جز ایک خاص عمل کا پابند ہوتا ہے۔ نظام بہ اعتبارِ نوعیت یا ضرورت سادہ اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ پیچیدہ نظام وہ ہو تا ہے جس میں شریک تمام اجزاء  مزید ضمنی نظام ہائے فکر کی تخلیق کا باعث بن رہے ہوں۔ ہر نظام ایک کل کی تشکیل کرتا ہے،  لیکن لازمی نہیں کہ ہر کل  ( (whole کوئی نظام بھی متشکل کرے۔ کل کی پر اسراریت کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ کل اپنے باطن میں منقسم صورتوں کا ایسا مجموعہ ہو تا ہے جو آگے چل کر اپنی مخصوص ساخت ((structure بناتا ہے،  مگر یہ محض  ہندسی ساخت نہیں ہو تی کیوں کہ اس میں موجود منفرد صفات(properties)  ہی نظام کی شناخت قائم کرتی ہیں۔  ساخت اصلاً تجریدی ہوتی ہے اور درونِ خانہ ایک فعال داخلی  جدلیت ( (Internal Dialectic  رکھتی ہے۔ اگر یہ ساخت نہ ہو تو پھر فکری نظام کے اجزاء  میں رابطے کا کام  مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے۔  نظام کی کیفیت اور کمیت تو معروضی ہوتی ہے لیکن تمام نظام ہائے فکر تعلیل((Causality  اور تعمیم      (    (Generalizationکے پابند تصور کیے جاتے ہیں۔

ہر فکری نظام  یا (Premises)یامقدمات(Propositions)   کے صدق یا کذب کو ثابت کرنے کے لیے کچھ لوازم کو قبل از تجربی قبول کرتا ہے اور علوم و فنون کے تمام شعبوں کو بطورِ آ لات  ((Tools استعمال کرنا جائز سمجھتا  ہے۔ فکری نظام کے عناصرِ ترکیبی میں علمِ منطق،  مذہب،  ذاتی عقائد و نظریات،  مطالعۂ کائنات،  سائنسی و سماجی علوم،  تجربیت،  واقعاتی صداقت،  نتائجیت   (Pragmatism)،  فکری منہاج  اور شخصی زاویۂ نظر کردار ادا کرتے ہیں۔ فکری نظام میں کوئی شے پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتی بلکہ فکر کا ہر جز ارتقائی عمل کا پابند ہوتا ہے۔ آزاد فکر کے تمام پہلو تحلیل و تجربے کے مسلسل عمل سے گذرتے رہتے ہیں ،  البتہ اکثر نظام ہائے فکر، اغراض و مقاصد کے پابند ہوتے ہیں۔ اگر مقاصد کی نوعیت  اور اس کی تمام ترجیحات واضح ہوں تو حاصل شدہ نتائج میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔  ہر نظامِ  فکر اپنے مخصوص دلائل رکھتا ہے اور مسائل کی تعریف، تفہیم، تشریح اور تعبیر اس کے مقاصدِ اولیٰ کے لازمی جز قرار  دیے جا سکتے ہیں۔

دنیا کے ہر بڑے فلسفی کا  اپنا ایک منفرد نظامِ فکر ہوتا ہے اور ہر فلسفی اپنی اپنی افتادِ طبع کے مطابق کوئی منہاج (Method)  استعمال کر سکتا ہے۔ مثلاً کانٹ اور ہیگل نے کلاسیکی منطق کو چھوڑ کر ماورائی منطق  (Transcendental Logic)اور جدلیاتی تصوریت  (Dialectical Idealism) کو اپنایا۔ برگساں اور شیلنگ  (Schelling)  نے منطق سے مایوس ہو کر وجدانی مکتبۂ فکر کی طرف رجوع کیا،  جب کہ سورین کرکیگارڈ  (Soren Kierkegard)،  جی  مارسل  (G. Marcel)  اور  کارل یاسپرز  وجودی فکر  (Existentialism)  کو اہمیت دیتے تھے۔ فلسفیانہ جستجو مختلف النوع سمتوں میں جادہ پیمائی کرتی ہے لیکن یہ سفر’ فکری نظام، کو ہمراہ لیے بغیر منزل آشنا نہیں ہوتا۔ فلسفیانہ نظامِ فکر میں موجود  Entities  کا مجموعہ حقیقی یا مجرد   (Abstract)  ہوتا ہے اور ہر شے  (Entity)  دوسری شے سے مل کر بطورِ کل  (Whole)  کام کرتی ہے۔

فکری نظام کو کمہار کے اس عمل کے ساتھ تشبیہہ دی جا سکتی ہے جہاں وہ گھومتے چاک پر مٹی کو نئی شکل دے رہا ہوتا ہے۔ ہر کمہار اپنی استعداد،  مہارت، اور ضرورت کے مطابق مٹی کو استعمال کرتا ہے۔ فکری نظام بھی ضرورت کے تحت تشکیل پاتا ہے اور فلاسفہ معاصر تہذیبی، ثقافتی، سیاسی، مذہبی اور تاریخی جبر کے زیرِ اثر اپنا اپنا نظام فکر وضع کر کے کائناتی مسائل کا حل تلاشنے کی سعی کرتے ہیں۔ نظام فکر کے تانے بانے جوڑنے میں فلسفی کا اپنا نقطۂ  نظر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ علم فلسفہ میں نفس معاملہ کی تحقیق، تنقید، ترسیل اور نتائج مرتب کرنے کے حوالے سے فلسفی کی شخصیت مقدم ہے۔ یہ میلانِ شخصی بہ نسبت کسی اور شعبۂ علم کے، فلسفہ میں زیادہ اہم ہے۔ کسی بڑے فلسفی کی فکری تعمیر میں شخصی عنصر کوئی بیکار شے نہیں کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھار کوئی اہم علمی مسئلہ ایک مخصوص طبعی رجحان سے ہی پیدا ہوتا ہے۔

فکری نظام ذہنی تحریکات کے تابع ہوتا ہے اور اس میں رد و قبول کا سلسلہ مسلسل فعال رہتا ہے۔ کسی بھی نظام فکر کے حاصلات واضح، شفاف اور عام فہم یا پھر نا ہموار، گنجلک، مبہم، باہم متضاد ومتبائن  اور عسیرا لفہم ہو سکتے ہیں۔ غرض ان نتائجِ فکری کے درمیان توافق و تناقص کے نہایت وسیع امکانات موجود ہوتے ہیں۔ فکری نظام میں تکمل ) (Integration کی نوعیت اتنی پر اسرار اور پیچیدہ ہوتی ہے کہ فلسفی کا تیقن  (Certitude) اور قیاسِ مسلسل  (Sorites)  متنوع اور باہم متخالف عقائد و نظریات کو یکجا کرنے کی خاطر جذبات و ہیجانات کی ایک انوکھی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں اور یہ بنیادی طور پر توفیقیّت  (Syncritism) کا ایسا امتزاجی عمل بن جاتا ہے جس میں تطبیق و توافق اور سماجی علائق تہہ در تہہ ایک نامیاتی کل ( Organic Whole)  تشکیل دینے لگتے ہیں۔

ہر نظامِ فکر کی ما بعد الطبیعیات ہوتی ہے جس میں علمیات ( Epistemology)، فکری جمالیات اور منطقی اصول و ضوابط کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہے۔ فلسفیانہ منہاج پر کام کرنے والا ہر فلسفی اپنے فکری نظام کا اسیر ہوتا ہے خواہ اسے اپنے فکری نظام کا ادراک ہے یا نہیں۔ ڈاکٹر نعیم احمد لکھتے ہیں :

"Every great thinker has a characteristic methodology and certain rules of procedure with the help of which he ultimately prepares the texture of his  thought system”(1)

اسلام کی فکری روایت میں علامہ اقبال نے جو وقیع اضافے کیئے اس کی اہمیت سے ہر صاحب علم واقف ہے۔ اقبال ایک ہمہ جہت مفکر ہیں اور ان کی فکر کا دائرہ  تاریخ، فلسفہ، تصوف، ادبیات، مذاہب عالم اور سائنسی علوم تک  پھیلا ہوا ہے۔ اقبال کے فلسفیانہ افکار و نظریات پر تو کافی کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن اس عظیم فلسفی  کے فکری نظام پر بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ماضی میں چند فاضل اقبال شناسوں نے اس موضوع پر جو گراں قدر نکات سامنے لائے اس کی تحسین ضروری ہے۔ مثلاً  ڈاکٹر محمد رضی الدین صدیقی  اپنے مضمون ’’ اقبال کا نظامِ فکر‘‘ میں کہتے ہیں :۔

        ’’  جب انہوں نے  ’’ اسرار و رموز ‘‘ کی تصنیف شروع کی تو ان کے ذہن میں ایک فکری نظام تشکیل پا چکا تھا جس کو انہوں نے وقتاً فوقتاً دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام تحریروں کے تحقیقی مطالعہ سے اقبال کے نظامِ فکر کی تدریجی کی نشان دہی کی جائے اور اس کو مربوط شکل میں مرتب کیا جائے۔ ‘‘  ۲؎   ڈاکٹر جمیلہ خاتون نے بڑی حد تک اقبال  کے فکری نظام کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کو بھی یہی گلہ تھا کہ اس اہم موضوع پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتی ہیں :

No systematic attempt was till then made to coordinate and analyse his philosophic  system  as  a  whole.  The  studies   were  mostly   confined   to criticism of Iqbal’s poetic work or dealt with isolated facts of his thought. There was  paucity of serious and thought engaging studies on the most fundamental    aspects of Iqbal’s philosophical system.3

  جمیلہ خاتون نے پوری کتاب میں فکری نظام کے صرف صوری  پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے تحقیقی مقدمے کی بنیاد اٹھائی ہے اور اسباب و علل کے زمانی سلسلے کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے، بدیں سبب یہ کتاب اقبال کے فکری نظام کی محض یک رخی تصویر ہی پیش کر سکی ہے  لیکن پھر بھی اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

فکر اقبال کے فلسفیانہ مقدمات پر لکھنے  والوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر وحید عشرت کا ہے۔ ان کے مقالات میں اکثر و بیشتر مسئلہ زیر بحث پر بھی کچھ بلیغ اشارے مل جاتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب  ’’ اقبال فلسفیانہ تناظر میں ‘‘  کے ایک مقالے  ’’ اقبال کا فلسفیانہ نظام ‘‘  میں ساری صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد یہ کڑی شرط عائد کرتے ہیں :

’’  اقبال کے نظریۂ ریاست کو پاکستان کی صورت میں تجرید سے عمل میں لانے کے لئے قائد اعظم جیسی شخصیت  ہی کامیاب بنا سکتی تھی۔ اتنی ہی بڑی شخصیت اقبال کے فلسفے کی نظام بندی کے لئے درکار ہے، تبھی ہم اس عظیم فلسفی کی فکر سے آگاہی حاصل کر سکیں گے‘‘۔ ۴؎

گویا غالب کے الفاظ میں :۔

                     ؎        کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق    ہے مکرر لبِ ساقی پہ صلہ،   میرے بعد

ڈاکٹر وحید عشرت کا مقصد مایوسی پھیلانا ہر گز نہیں  بلکہ اس بیان کے ذریعے ناقدین اور محققین کو راستے کی دشواریوں سے خبردار کرنا ہے۔ نیز انہوں نے اپنے مقالے میں بعض اتنے نادر نکات زیرِ بحث لائے جو اقبال کے فکری نظام پرکلیدی اصول فراہم کرتے ہیں۔ اقتباس توجہ طلب ہے:

        ’’  علامہ اقبال کا تخلیقی فکر ان کی شاعری میں اور ان کا ارتباطی فکر ان کی کی نثر میں زیادہ تر اظہار پاتا ہے۔ تخلیقی فکر میں انہوں نے جو طبع زاد نظریہ پیش کیا ہے وہ ایک لفظ میں ان کا فلسفۂ خودی ہے جس میں ان کے ما بعد ا لطبیعاتی افکار کا پورا نظام مکنون ہے۔ اور ارتباطی فلسفے میں وہ مختلف نظام ہائے فلسفہ کے تجزیہ اور تنقید سے ایک نیا سماجی اور عمرانی نظام مرتب کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جو ایسے عمرانی تصورات پر مبنی ہے جو اس قبل کہیں اور نظر نہیں آتا۔ ‘‘۵؎   ڈاکٹر وحید عشرت کی بصیرت اور فکر و تجسس کا زاویہ راست سمت پر گامزن ہے۔  ان  کے بیان کردہ علمی نکات سے اختلاف کی وجہ نکالنا مشکل ہے بلکہ اقبال کے فکری نظام کا لوازمہ تیار کرنے میں یہی نکات روشنی فراہم کریں گے۔ اقبالیاتی ادب کے وسیع ذخیرۂ نقد و نظر میں ایک چمکتا دمکتا  کوہ نور ہیرا  ’’ حکمتِ اقبال ‘‘  ہے۔ یہ محمد رفیع الدین کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کے تین مختصر اقتباسات درج کرنے ضروری ہیں۔ جو مسئلۂ حاضرہ کی تفہیم و تشریح پر برہانِ قاطع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حسنِ اتفاق دیکھئے کہ محمد رفیع الدین اور ڈاکٹر وحید عشرت اپنی اپنی آزادانہ تحقیقات کے بعد کم و بیش ایک ہی نقطے پر پہنچے۔

محمد رفیع الدین کا کہنا ہے :

        ’’  اقبال کے تصورات علمی اور عقلی اعتبار سے نہایت برجستہ، زوردار، اور نا قابلِ تردید ہیں اور اگرچہ یہ تصورات اس کی نظم و نثر میں جا بجا بکھرے ہوئے پڑے ہیں  تا ہم ان میں ایک علمی و عقلی ربط موجود ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب ایک تصور سے ماخوذ ہیں جسے اقبال خودی کا  تصور کہتا ہے  ‘‘۔ ۶؎

فکر اقبال کی منطقی ترتیب و تنظیم کے حوالے سے یہ اہم نکتہ بیان کرتے ہیں :

        ’’  اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اقبال کے تسورات کی مخفی عقلی ترتیب اور تنظیم کو آشکار کر کے اس کی فکر کو ایک مکمل نظامِ حکمت   philosophical System  کی شکل دی جائے تا کہ وہ نہ صرف پاکستان کے اندر پوری طرح سے قابل فہم بن جائے بلکہ دنیا کے آخری باطل شکن عالمگیر فلسفہ کی حیثیت سے دنیا کے علمی حلقوں میں اپنا مقام حاصل کر سکے۔ ‘‘  ۷؎

اقبال پر کام کرنے والوں کے لئے درج ذیل اقتباس خضرِ راہ کا  کام دے گا:

        ’’ جب تک ہم اقبال کے کسی تصور کی ماہیت کو اس کے پورے نظام فکر کی روشنی میں اور اس کے باقی ماندہ تصورات کی مدد سے معین نہ کریں وہ ہمارا اپنا پسندیدہ تصور تو ہو، اقبال کا نہیں ہو سکتا ‘‘۔ ۸؎

اقبال کے فلسفیانہ افکار و نظریات کی صفات اوّلیہ  Primary Qualities کی صراحت مذکورہ بالا اصولوں کو برتے بغیر نا ممکن ہے۔ محمد رفیعالدین کے بیان کردہ سنہری اصول فکری صداقت کے فہم میں سہولت پیدا کرتے ہیں۔ فلسفۂ اقبال عظیم  خیالات اور طویل سلسلۂ تجربات کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔ یہ عظیم فکر علمی تحریکات کا ایک تاریخی مظہر ہے اور اس افادی فکر کو پارہ پارہ کر کے دیکھنے کا عمل اسے مسخ کر دینے کے برابر ہے۔  اقبال کے نظام فکر کو صحیح تناظر میں نہ سمجھنے کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ بیسیوں انوکھے سوالات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ مثلاً  اقبال فلسفی ہے یا متکلم ؟ کیا اقبال نے جدید علما  الکلام کی بنیاد رکھی تھی؟کیا اقبال مغرب کا خوشہ چین ہے ؟ اقبال وجودی ہے یا شہودی؟ کیا اقبال کے مذہبی خیالات  معتزلہ کے زیرِ اثر تھے ؟ کیا اقبال نے خطبات کے مباحث سے رجوع کر لیا تھا؟ کیا اقبال کے ہاں تضاد ہے ؟اور پھر اقبال پر اشتراکیت کا الزام یا رجعت پسندکہنا اسی کج فکری کے شاخسانے ہیں۔ اسی طرح فکر اقبال کو اصولِ تطبیق یا اصول تفریق کی روشنی میں جانچنا بھی کوئی صحت مند رویہ نہیں ہو سکتا۔  یہاں یہ سوال ضرور اُٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا اقبال کی آفاقی فکر کو سمجھنے کی خاطر ادب اور فلسفہ کی روایتی اصطلاحات کو بروئے کار لانا ناگزیر ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس کا صاف صاف مطلب تو یہ ہوا کہ ہم حکمتِ اقبال کو جان بوجھ کر منطق اور کلام کی دل فریب اصطلاحات کی نذر کر رہے ہیں۔

؎       الفاظ  کے  پیچوں  میں  الجھتے  نہیں  دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے یا گہر سے      ۹؎

         ؎      قلندر جز دو حرف لا الہٰ کچھ بھی نہیں رکھتا

فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجاز ی کا۱۰ ؎

فکرِ اقبال کے سنجیدہ ناقدین میں ایک معتبر نام محمد سہیل عمر کا ہے۔ ان کی تصنیف  ’’ خطباتِ اقبال۔۔۔ نئے تناظر میں ‘‘ ایک طرف تو ڈاکٹر سید ظفرالحسن کے ان سوالوں کو نیا پیرا ڈائم   (Paradigme)  مہیا کرتی ہے جو انہوں نے خطباتِ اقبال میں اٹھائے تھے اور پھر اُن سوالوں کی کلیّتی توضیح   ) Holistic   (Explanation   بھی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔  اپنی وقیع کتاب کے ’’ حرفِ آغاز ‘‘ میں انہوں نے جو فلسفیانہ نکات اٹھائے ان کا براہِ راست تعلق اقبال کے فکری نظام کے ساتھ ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں :

        ’’  شاعری اور خطبات کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ ؟ موارد اختلاف میں شاعری یا تو خطبات کے تابع ہو گی یا تکمیلی حیثیت رکھے گی یا یا متوازی چلے گی یا خطبات کے بعد کی شاعری خطبات کی ناسخ قرار پائے گی۔ یہ وہ سوال ہے جس سے بہت کم تعرض کیا گیا ہے اور اس پیچھے رجالِ اقبالیات کی وہ چنویت کار فرما ہے جس کے تحت شاعری سے شغف اور اشتغال رکھنے والے عموماً خطبات سے اعتنا نہیں کر پاتے اور شاعری سے سروکار نہیں رکھتے۔ ‘‘  ۱۱؎

محمد سہیل عمر نے ’’ حرف آغاز ‘‘ میں چند اور نادر نکات ایسے زیر بحث لائے جو نہ صرف گذشتہ اقتباس کی وضاحت کرتے ہیں بلکہ فکری نظام میں شخصیت کا جو کردار ہو سکتا ہے اس کی صراحت بھی کر دی ہے۔ اقتباس قدرے طویل ہے لیکن اپنی اہمیت کے پیشِ نظر درج کرنا لازمی ہے:۔

        ’’  اگر خطبات اور شاعری میں نقطۂ نظر کا کوئی فرق ہے تو یہ دو لخت شخصیت کا شاخسانہ نہیں ہو سکتا  کیوں کہ اس سے بڑی شاعری تو کجا شاعری ہی پایۂ اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔ تو پھر کیا یہ فرق شخصیت کی دو سطحوں اور وجود کے قطبین کا نمائندہ ہے،  جس میں سے ایک فاعلی اور موثر ہے اور دوسرا انفعالی اور تاثر پذیر۔ ؟  ایک افق ہے، اسیرِ تاریخ ہے، اس سے متاثر ہوتا ہے اور سوال کرتا ہے،  دوسرا عمودی ہے، تاریخ سے وراء دیکھتا ہے، جواب دیتا ہے اور آرزو کے سہارے آدرش تک رسائی چاہتا ہے،  شاعری فاعلی جہت کا ظہور ہے اور خطبات انفعالی سطح کی تجسیم۔ ‘‘  ۱۲؎

   محولہ بالا اقتباس میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو صرف فکری نظام کے تحت ہی دور کیا جا سکتا ہے وگرنہ اس بحث کا رخ بآسانی شخصیت کے نفسیاتی مباحث کی  طرف موڑا جا سکتا ہے، جہاں یہ قضیہ شخصیت کی اخلاقی، عینی، سماجی، عملیاتی، فطری اور وجودی تعریفوں میں دب کر دم توڑ دیتا  اور بنیادی مسئلہ پر ڈالا گیا سوالیہ نشان برقرار رہتا۔ واقعہ یہ ہے کہ شخصیت کے کثیر العباد پہلو، فکری نظام کے سانچے میں ڈھل کر اپنا اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ کسی فکر پر بات کرتے وقت اگر فکری نظام کے بنیادی تصورات کو ساتھ رکھا جائے تو پیش آمدہ تضادات کو رفع کرنا مشکل نہیں رہتا۔ اس ضمن میں ایک قابلِ تقلید مثال ہمیں ڈاکٹر سید عبداﷲ کی تحریروں میں دکھائی دیتی ہے۔ جہاں انہوں نے اقبال کی نظمیہ اور نثریہ تصانیف کا باہمی موازنہ اور تجزیہ کر کے یہ ثابت کیا کے اس نوع کی ہم آہنگی فکری نظام کی بدولت ہی ممکن ہے۔ ڈاکٹر سیّد عبد اﷲ کا یہ بیان ملاحظہ ہو:۔

        ’’ علامہ پر یہ اعتراض غلط ہے کہ ان کا کوئی مربوط نظامِ فکر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ کا ایک مربوط فکری نظام ہے جس کے اجزاء مسلسل ارتقاء پذیر رہے، ان کی فکریات کی انتہا کا ابتداء سے گہرا تعلق ہے۔ جس میں۔۔۔۔۔۔  صرف تین کتابوں ( گلشن راز جدید، جاوید نامی اور خطبات ) میں اس تسلسل کا سراغ لگایا ہے۔ ان میں سے ہر کتاب کو جب دوسری دو کتابوں کے حوالے سے پڑھا تو ان میں ایک واضح اور ناگزیر ربط نظر آیا۔ تب محسوس ہوا کہ علامہ کی حکمت پارہ پارہ اور  ریزہ ریزہ نہیں بلکہ حقائقِ عالی کی ایک منظم صورت ہے جو آغاز ہی سے ان کے مدِ نظر ہے۔ ‘‘ ۳۱؎

ڈاکٹر سیّد عبد اﷲ کے اخذ کردہ نتائج کی ایک جھلک دیکھئے:

        ’’ میں نے گلشن راز کو خطباتِ  اقبال کے حوالے سے پڑھا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ یہ دونوں کتابیں ایک دوسرے کی شرح کا کام دیتی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ گلشن راز کے مطالب خطبات کی توضیحات کے ذریعے خاصے آسان ہو جاتے ہیں۔ ‘‘  ۱۴؎

ہمیں ڈاکٹر سیّد عبداﷲ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ان کی بدولت فکرِ اقبال فکری مغالطوں کا شکار بننے سے محفوظ رہ گئی۔ اگر صحیح تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ  ’ فکری نظام ،  کی تفہیم ہی وہ واحد کلید ہے جو ہر قفل کھول سکتی ہے، حجابات اٹھا سکتی ہے اور من و تو کے جھگڑے ختم کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر سیّد عبدﷲ نے اقبال شناسی کا جو منفرد زاویہ دریافت کیا اسے آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ راستہ دشوار گذار ضرور ہے لیکن اس رستے کی گرد حاصل کرنا بھی ہمت والوں کا کام ہے۔

؎ آوارگی  سپردہ  بما  قہر مان  شوق

ما ہمتے زگردِ  سپاہش  گرفتہ  ایم

اسداﷲ خان غالبؔ

٭٭

   حواشی

1. Naeem  Ahmd ,  Dr ,    Iqbal’s Concept of  death, immortality and After life,    Translation by  Dr, Abdul Khaliq , Iqbal Academy Pakistan ,1st  Edi 2006 P.63

  ۲۔ محمد رضیالدین صدیقی، داکٹر، اقبال شناسی اور فلسفۂ کانگرس جرنل۔ مرتبہ ڈاکٹر عبدا لخالق، بزم اقبال لاہور، طبع اوّل، جنوری ۱۹۹۳،             صفحہ ۲۴۔

3. Jamila Khatoon, Dr , The place of God, Man and  universe in the phelosophic  system of Iqbal , Iqbal Academy Pakistan , 3rd edi 1997, P no. 7.

     ۴۔  وحید عشرت، ڈاکٹر،  اقبال فلسفیانہ تناظر میں ،  ادارۂ مطبوعاتِ سلیمانی، لاہور۔ طبع اوّل مارچ  ۲۰۰۹،  ص۔ ۷۹

    ۵۔  اقبال  فلسفیانہ تناظر میں ،  ص۔  ۶۹

    ۶۔  محمد رفیع الدین،  حکمتِ اقبال، ادارۂ تحقیقاتِ  اسلامی، اسلام آباد،  طبع  ۱۹۹۶،  ص۔ ا،  (دیباچہ)

    ۷۔  حکمتِ اقبال،  ص۔ ا

    ۸۔  حکمتِ اقبال،  ص۔ ۱

    ۹۔  محمد اقبال، کلیّاتِ اقبال  (اردو )،  شیخ غلام علی سنز، لاہور، جنوری  ۱۹۸۹،  ص۔ ۵۰۶

    ۱۰۔  محمد اقبال،  کلیاتِ اقبال  (اردو )  ص۔  ۳۲۴

     ۱۱۔  محمد سہیل عمر،  خطباتِ اقبال نئے تناظر میں ،  اقبال اکادمی پاکستان، طبع  اوّل۔  ۱۹۹۶،  ص۔  ۱۳

    ۱۲۔   محمد سہیل عمر،  خطباتِ اقبال نئے تناظر میں ،  اقبال اکادمی پاکستان، طبع  اوّل۔  ۱۹۹۶،  ص۔ ۱۶

    ۳ا۔  سیّد عبد اﷲ، ڈاکٹر،  متعلقاتِ  خطباتِ اقبال،  اقبال اکادمی پاکستان، طبع اوّل۔ ۱۹۷۷،  ص۔ ظ

    ۱۴۔   متعلقاتِ  خطباتِ اقبال، ص۔ ۲۴۲  (  ڈاکٹر سیّد عبد اﷲ نے اس صفحہ کے حاشیے پر لکھا ہے کہ  ’’  اقبال کی اکثر کتابیں باہم تشریح کا کام دے سکتی ہیں۔ اسراس خودی سے لے کر ارمغانِ حجاز تک تقابلی مطالعے کی گنجائش ہے۔ )

٭٭٭

انور سِن رائے

(بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن)

تنقید کا نیا منظر نامہ: متن، سیاق اور تناظر

اردو تنقید میں بھی عمومی رجحانات وہی ہیں جو کم و بیش ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔ کم ہی ناقدین اُن مسائل پر لکھتے ہیں جنھیں سنجیدہ مسائل کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہو۔ زیادہ تر تنقید، نصابی اور رائج و مقبول کی تفہیمی مددگاری سے آگے نہیں جاتی، اسی میں بڑی بڑی دعویداریاں بھی کی جاتی ہیں جو ہر دس بیس سال بعد نہ صرف غائب ہو جاتی ہے بلکہ اپنے ساتھ دعویداروں اور ان کی شہادت دینے والوں کو بھی لے جاتی ہے۔

ایسی تنقید میں زیادہ توجہ انفرادی نوعیت کے کام کو دی جاتی ہے اور اس میں بھی زیادہ ترجیح شاعروں کو، اس کے بعد افسانہ و ناول نگاروں کو اور پھر تنقید۔ شاعری، فکشن اور تنقید کی تنقید میں بھی رجحانات کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر دیکھنے، سمجھنے، پرکھنے اور شکل دینے کی کوشش کم ہی کی جاتی ہے۔

میں نے اس سال تنقید کی جو کتابیں ابھی تک دیکھی ہیں ان میں مجھے ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کے مضامین کا مجموعہ ’متن، سیاق اور تناظر، اس لیے بھی پسند آیا کے اس میں زیادہ تر مضامین فکری نوعیت کے ہیں ، آپ انھیں تحقیقی نوعیت کے بھی کہہ سکتے ہیں لیکن یہ تحقیق بھی روایتی نوعیت یا ’۔۔۔ کی حیات و کارنامے، وغیرہ ٹائپ کی نہیں جو بالعموم کی جاتی ہے۔ کیونکہ راویتی تحقیق میں بھی زیادہ سہولت اس میں محسوس کی جاتی ہے کہ زمانہ ماضی کا اور بعید ہو۔

حال اور حال کے لوگوں اور کام پر بات کرتے ہوئے بالعموم بنے بنائے اصول اور سانچے کام نہیں آتے، اس لیے سہولت بھی میسر نہیں آتی۔

       عباس نیّر کے ہاں بھی ایسے مضامین ہیں جنھیں انفرادی طور پر شخصیات کے بارے میں قرار دیا جا سکتا ہے جیسے ’نیّر مسعود کے افسانوں پر ایک نوٹ، یا جی ایم جی لی کلیزو کے بارے میں ’تناقصات کے جنگل میں ، یا ’غالب ہمارا لا زمانی معاصر، یا ’صارفی معاشرت کے تناظر میں راشد کی شاعری کی معنویت، یا ’فیض اور مارکسی جمالیات، لیکن ایک تو یہ کہ ایسے مضامین کتاب میں شامل پندرہ مضامین میں نسبتًا کم تعداد میں ہیں پھر ان میں بھی تناظر کی وسعت روایتی نو کی شخصی نہیں ہے بلکہ رجحانی نوع کے وسیع تر جغرافیے میں لے جاتی ہے اور انھیں بھی اسی نوع کے علاقے سے ہم آہنگ کرتی ہے جو ’متن، سیاق اور تناظر،، ’معنی کی کثرت،، معاصر اردو تنقید اور ہم عصر اردو ادب، اور ’جدید اردو نظم کا تانیثی تناظر، کا ہے۔ ان تنقیدی مضامین کی ایک اور بات جو انھیں دوسری معاصر اردو تنقید سے الگ کرتی ہے ان کا ناقابلِ تلخیص ہونا ہے۔ ’معنی کی کثرت، کے عنوان سے مضمون کی ابتدا یوں ہوتی ہے:

      ’معاصر اردو تنقید کے قضیوں میں سے معنی کی کثرت کا قضیہ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قضیے میں اربابِ نقد کے ذہنوں کو جھنجوڑنے اور بعض تنقیدی مسلمات اور کلّیوں پر نظرِ ثانی کرنے کا اچھا خاصا سامان موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے سلسلے میں متنازع اور متضاد آرا نے جنم لیا ہے اور بعض حلقوں میں شدید نوعیت کی پریشانی، بیچینی اور تشویش کے آثار نظر آتے ہیں۔ یوں بھی معاصر اردو تنقید کو اس تشویش کی اشد ضرورت ہے کہ تشویش، تنقیدی ذہن کو اُس غنودگی سے نجات دلاتی ہے جو بعض تنقیدی تصورات کو حتمی اور اٹل تصور کر لینے کے نتیجے میں طاری ہو جاتی ہے اور نقاد کو نئے مبارزت طلب نظریات کے ضمن میں بے نیاز یا بے حس بنا دیتی ہے۔ ہمارے بیشتر معاصر نقاد اس غنودگی کی گرفت میں ہیں۔ یہ صورتِ حال اردو تنقید کے لیے بجائے خود تشویشناک ہے،۔۔۔ یہ ابتدائیہ کیا عندیہ دیتا ہے؟

       اس پورے مضمون کو جو محمد حسن عسکری، چارلس سینڈرس پائیرس، غالب، دریدا اور مجید امجد کی نظم ’بے نشاں ، کی تعبیر سے ہوتا ہوا اس پر اختتام کرتا ہے کہ ’اس طور دیکھیں تو نظم میں استعاراتی متن کا ایک بہاؤ، ایک معنیاتی حرکت کو پیش کرتا ہے۔ یہ بہاؤ متن کے قراتی حربوں کے ذریعے منکشف ہوتا ہے اور اس بہاؤ میں جو معنیاتی سلسلے نمود کرتے ہیں ، وہ اُس تناظر کے مرہونِ منت ہیں جس میں قرات کا عمل انجام دیا جا رہا ہے۔ تناظر کی تبدیلی سے نظم کے معنی بدل جائیں گے،۔

         مجھے اندازہ ہے کہ جو میں دکھانا اور بتانا چاہتا ہوں وہ محض ایک مختصر مثال سے ممکن نہیں ، پورے مضمون کو سامنے رکھیں اور تلخیص کی ہنر مندی و صلاحیت آزمائیں تو مضمون کا وہ وصف و کلیّت کھلے گی جس میں ہر لفظ اپنے ہونے کی اہمیت پر اصرار کرتا ہے اور جس قدر کمی کی جائے گی اسی قدر تناظر سمٹے گا اور معنی بھی۔ یہ اسلوب محض اسی مضمون تک بس نہیں ہے۔ ناصر عباس نیّر اس سے پہلے دن ڈھل چکا تھا، 1993، جدیدیت سے پس جدیدیت تک 200، معمارِ ادب: نظیر صدیقی، مسز نظیر صدیقی 2003، جدید اور مابعد جدید تنقید: مغربی اور اردو تناظر میں 2004، مجید امجد: شخصیت اور فن 2008 اور لسانیات اور تنقید 2009 دے چکے ہیں اس کے علاوہ ان کی ایک کتاب ’مابعد نوآبادیات: اردو کے تناظر میں ، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے شایع ہونے والی ہے۔

علاوہ ازیں انھوں نے جو کتابیں ترتیب دی ہیں ان میں ’ساختیات: ایک تعارف 2004، ’مابعد جدیدیت: نظری مباحث، 2007، 1857 کی جنگ آزادی اور اردو زبان و ادب، بہ اشتراک، کلیہ علوم شرقیہ، پنجاب یونیورسٹی 2007، مابعد جدیدیت: اطلاقی جہات، اور آزاد صدی مقالات، بہ اشتراک تحسین فراقی، 2010، شامل ہیں۔ لیکن میری لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ میں اِن میں سے ایک بھی کتاب نہیں دیکھ سکا۔

       میں ناصر عباس نیّر کی اس کتاب ’متن، سیاق اور تناظر، کو 2012 کی ان کتابوں میں سرفہرست رکھتا ہوں جو میں نے اس سال کے دوران پڑھی ہیں۔ آپ بھی پڑھ کر بہت ممکن ہے کہ میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ اس کتاب میں شامل مضامین کا مطالعہ نہ صرف لکھنے والوں کے لیے لازمی ہے بلکہ پڑھنے والوں کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

٭٭٭

 

لبنیٰ صفدر (پنڈی بھٹیاں )

رومانیت کا شاعر:ایوب خاور

       بعض لوگ شہرت کے محتاج نہیں ہوتے شہرت ان کی محتاج ہوتی ہے، وہ کام نہیں ڈھونڈتے، کام انہیں ڈھونڈ لیا کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنے کام سے عشق کرتے ہیں اور شہرت کے پر پیچ راستوں سے بے نیاز اپنی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں۔

        اسکول کا زمانہ تھا جب گھروں میں صرف پی ٹی وی کا راج تھا، ہمیشہ بہترین ناموں میں ایوب خاور صاحب کا نام سرفہرست ہوتا۔ کوئی بھی کامیاب پلے چل رہا ہوتا تو پورا یقین ہوتا کہ پلے ختم ہونے کے بعد اسکرین پر ایوب خاور کا نام جگ مگائے گا۔ اسکول لائف ٹین ایج کا دور ہوتا ہے جب عمدہ کام اور شہرت یافتہ ناموں کا زیادہ ادراک نہیں ہوتا لیکن نہ جانے اس میں کیا جادو تھا جس نے اس عمر میں بھی عمدہ کام کی پہچان کو آسان تر بنا دیا تھا۔ شعور کی پختگی عطا کی تھی۔

         وقت تھوڑا سا آگے کوسرکا تو دھیان شاعری پڑھنے کی طرف ہوا تو کچھ اچھے اشعار ذہن پہ ثبت ہو کر رہ گئے جو آج تک اتنے ہی تر و تازہ اور خوب صورت لگتے ہیں جتنے اس دور میں لگے تھے مثلاً…

ترے بنا جو عمر بتائی بیت گئی

اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام

ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں

اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں

متاعِ جاں بس اک خوشبو ہے اس کے نام کی خاور

اب اس خوشبو کے پیچھے زندگی بھر بھاگتے رہنا

        اسی طرح ایک نہایت شان دار نظم تھی ’’محبت تم نے کب کی ہے‘‘ جو آج بھی میری پسندیدہ ترین نظموں میں سے ایک ہے۔ شروع میں یہ اشعار کسی میگزین میں دیکھے اور اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ سب اشعار ایوب خاور کے ہیں تو خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی کہ آخر یہ شخص اچھا پروڈیوسر ہے یا بہت اچھا شاعر۔ سچ پوچھیں تو اس کا فیصلہ کرنا نہایت کٹھن ہے۔

      ایوب خاور کی شاعری میں رومانیت بھی ہے اور فن کاری بھی، شعور اور لاشعور کی معجزہ نمائی بھی اور اپنی ذات کے تمام راز جو انہوں نے پوشیدہ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ پوری دیانت داری سے لوگوں کے سامنے رکھ دیئے، جتنا سچ اپنی شاعری میں ایوب خاور نے بولا ہے، اس کا حوصلہ ہر ایک کر بھی نہیں سکتا۔

  ’’اُترن پہنو گے‘‘ جیسی نظم لکھنے کا حوصلہ ہر ایک میں کہاں ہوتا ہے۔

        ایوب خاور اپنے اندر کے ہجر سے مسلسل نبرد آزما نظر آتا ہے۔ اُن کے شعری مجموعے، تمہیں جانے کی جلدی تھی، گل موسم خزاں اور بہت کچھ کھو گیا ہے، ہجر کی اذیت کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ساری شاعری میں سلسلہ نارسائی کا نہ ختم ہونے والا کب واضح ہے۔

زوالِ شب ہے ستاروں کو گرد ہونا ہے

پسِ نگاہ ابھی ایک غم کو رونا ہے

اب اس کے بعد یہی کارِ عمر ہے کہ ہمیں

پلک پلک میں تیری یاد کو پرونا ہے

یہی کہ سلسلہ نارسائی ختم نہ ہو

سو جس کو پانہ سکے ہم، اسی کو کھونا ہے

جو لفظ کھل نہ سکیں آئینے پہ، مٹی ہیں

جو بات دل پہ اثر کرسکے، وہ سونا ہے

تو اس کو توڑنا چاہے تو توڑ سکتا ہے

کہ زندگی ترے ہاتھوں میں اک کھلونا ہے

بس ایک چشم سیہ بخت ہے اور اک تیرا خواب

یہ خواب، خواب نہیں اوڑھنا بچھونا ہے

سفر ہے دشت کا اور سر پہ رختِ تنہائی

یہ بار بھی اسی عمر رواں کو ڈھونا ہے

       اس رومانیت اس ہجر کی کیفیت میں سطحیت نہیں ، گہرائی ہے۔ سر مئی شام میں قطرہ قطرہ پگھلتی تنہائی کا احسا س ہے، ایوب خاور کی شاعری میں ردھم ہے۔ ترنم ہے، ہجر کی کیفیت پڑھنے والے کے اندر یک دَم، اداسی اور کڑواہٹ نہیں بھرتی بلکہ دھیمے دھیمے کرب کا میٹھا سا احساس اپنے اثر میں لے لیتا ہے۔ مشہور انڈین شاعر، افسانہ نگار اور فلم ڈائریکٹر گل زار نے ’’تمہیں جانے کی جلدی تھی‘‘ میں بڑی خوب صورتی سے ایوب خاور کی اس کوالٹی کو تسلیم کیا ہے۔ کہتے ہیں :

’’میں شاعری کچھ ایسے ہی سپ کرتا ہوں دھیرے دھیرے مہکتی ہوئی گرم چائے کی طرح یا برف پر پگھلتی ہوئی وہسکی کی طرح، ہونٹوں کے اوپر سے سرکتی ہوئی، زبان کو چھوتی ہوئی، حلق سے نیچے اُترتی ہے اور پورے سسٹم میں گھلتی چلی جاتی ہے جسم کا درجہ حرارت مدھم مدھم بڑھنے لگتا ہے، میں ایوب خاور کے شعر بھی اسی طرح SIP کرتا ہوں ، پھونک پھونک کر، چسکیاں لے کر حلق سے نیچے اُتارتا ہوں۔ ‘‘

دل کی چوکھٹ سے لگا بیٹھا ہے تنہائی کا چاند

اور اچانک کسی جانب سے اگر تُو نکل آئے

دل  کی رگ رگ نچوڑ لیتا ہے

       عشق میں یہ بڑی مصیبت ہے

شکستہ دل نہ ہوئے ضبط آشنا ترے لوگ

مگر وہ غم جو ہمیں عمر رائیگاں نے دیے

ایوب خاور نے سب سے ہٹ کر اپنی الگ راہ متعین کی ہے اپنا انداز سب سے جدا رکھا ہے۔ جس خوب صورتی سے انہوں نے غزلیں کہیں اتنی ہی خوب صورتی سے نظم میں اپنا آپ منوایا، مجید امجد، ن۔ م راشد اور اختر حسین جعفری کے ساتھ ایوب خاور نے نظم میں ایک الگ معیار قائم کیا، ایوب نظم میں بھی تسلسل توڑے بغیر پوری بات کو بیان کرنے کا فن جانتا ہے کبھی کبھی اچانک وہ قاری کو حیران کر دینے کے ہنر سے بھی واقف ہے جسے ایک نظم ’’تمہیں جانے کی جلدی تھی‘‘ کے آخری چند مصرعے ملاحظہ فرمائیں۔

اور تمہیں معلوم ہے

کپڑوں کی الماری ہمیشہ سے کھلی ہے

سیف کی چابی تو تم نے خود ہی گم کی تھی

سو وہ تب سے کھلا ہے اور اس میں کچھ

تمہاری چوڑیاں ، اک آدھ انگوٹھی اور ان

کے بیچ میں کچھ زرد لمحے اور ان لمحوں کی گرہوں

میں بندھی کچھ لمس کی کرنیں ، نظر کے زاویے

پوروں کی شمعیں اور سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی

سانسیں ملیں گی اور وہ سب کچھ جو میرا اور

تمہارا مشترک سا اک اثاثہ ہے

سمٹ پائے تو لے جانا

مجھے جانے کی جلدی ہے

دعا ہے کہ اس مخلص اور خوب صورت انسان کے فن کی قامت کو اللہ تعالیٰ یونہی قائم رکھے۔ آمین۔

٭٭٭

 

یاسمین طاہر سردار

شعبہ اُردو، جی سی-یونیورسٹی، فیصل آباد

جدید مغربی تنقید میں متن کو پڑھنے کے مختلف رجحانات

        تنقید منطق کی طرح ہر علم و فن کی تشکیل و تعمیر میں شریک ہے بلکہ وجدان اور جمال کے جن گوشوں تک منطق کی رسائی نہیں ہے۔ تنقید وہاں بھی پہنچتی ہے تنقید صرف ادب پیدا کرنے والوں کے احساسات اور تجربات کی توضیح کی پابند نہیں ہوتی بلکہ تنقید کرنے والے کے سماجی ماحول اور ذہنی اُفتاد کی مظہر بھی ہوتی ہے۔

        تخلیق کو کیسا ہونا چاہیے؟ شاعری کے دائرہ کار کیا ہیں معاشرہ ادیب سے کیا مطالبات کرتا ہے؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جنھیں مختلف امور میں مختلف نظریات کے حامیوں نے اُصول و نقد متعارف کرائے ہیں۔ مطالعہ کریں مغرب میں تنقید کے مختلف رجحانات کی روشنی میں متن کو پڑھنے کے مختلف طریقے۔ روسی ہیئت پسندی، نئی تنقید، شکاگو ناقدین، اسلوبیاتی تنقید، ساختیات، پس ساختیات، ردِ تشکیل، جدیدیت، مابعد جدیدیت۔

روسی ہیئت پسندی (Russian Forlism)

        بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں روسی ہیئت پسند ناقدین نے ادب کا مطالعہ ہیئت پر توجہ صرف کرتے ہوئے کیا۔ ہیئت پسند یہ نہیں کہتے کہ ادب کیا ہے؟ بلکہ وہ کہتے ہیں سوال یہ ہے کہ ادب کو کیسا ہونا چاہیے؟

        رومن جیکب سن (Roman Jakobson) جس نے ۱۹۱۵ء میں ماسکو لنگوکوسٹ سرکل کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۱۶ء میں پیٹرو گراڈ میں شعری زبان کے مطالعے کے لیے ایک سوسائٹی قائم ہو گئی تھی جس کے پیش رو روسی ہیئت پسند وکٹر شکلوسکی (Victor Shaklovski) ہے۔ ان دونوں گروہوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ تھا۔ ان کے مطالعہ میں کہیں ترجیحات اور کہیں اشتراک پایا جاتا ہے۔ روسی ہیئت پسندوں کے اغراض و مقاصد کے متعلق ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :

                ’’وہ صرف اِس اَمر کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے کہ ادب پارے کے متن میں مخصوص تعمیراتی اُصول یا بناوٹ کے طریقہ کار کیا کیا ہیں ؟ اور یہ متن کو کیسے ایک مربوط کل کی صورت میں ڈھال دیتے ہیں ؟ اِس تلاش میں وہ پہلے ادب پارے کے نظام تک آئے اور پھر بالآخر ساخت کے تصور تک  آ پہنچے۔ ‘‘ (۱)

ترجیحات و اشتراک

-1     ماسکو لنگوسٹکس سرکل والے شعری زبان اور عام بول چال کے فرق پر زور دیتے ہیں۔

-2     پیروگراڈو اے ادبی مورخ تھے وہ لنگوسٹکس پر ضرورت سے زیادہ انحصار کے بجائے ادبی اظہار کے اپنے اُصول کیا ہیں پر نظر رکھتے ہیں۔

مندرجہ بالا دونوں گروہ ادب کے مطالعے کو معروضی اور کسی حد تک سائنسی بنانے کی کوشش میں مصروف تھے:

*      اچھی تخلیق وہ ہے جو ابہام کی دھند میں ملفوف ہو۔ جس کے تحت شاعر تجربے کی پیچیدگی کا احاطہ کرتا ہے۔

*      ہیئت پسند نقطہ نظر کے تحت تمام زبانوں کو مسخ کیا جا سکتا ہے۔

*      ہیئت پسندوں نے ادبی نظریہ سازی کی اور ادب کا میکانکی نظریہ پیش کیا کہ ادب اسلوبی و سائل اور پیرایوں پر مشتمل ہے۔

*      فن اشیاء میں ہیئت پسند کلاسیکل آدرش کو چیلنج کرتا ہے جس کے تحت فن اپنی تکنیک کو ظاہر نہیں کرتا۔

*       آرٹ حقیقت کی فطری ترجمانی کرتا ہے جبکہ ہیئت پسندوں کے نزدیک اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔

*       فن پارہ ایک نشان ہے جو کہ نشانات سے بنا ہوا ہے اور سٹرکچر میں فن پارے کا مرکزی نقطہ قرار پاتا ہے۔ یہی ٹھوس فن، فن پارے کو جمالیاتی شے بناتی ہے۔

*       شکلووسکی اجنبیانے کے عمل کی توجیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک نئی ہیئت ایک نئے مواد (Content) کی وضاحت کے لیے نہیں آئی بلکہ اُس کا محرک پرانی ہیئت کو بدلنا ہوتا ہے جو اپنی فنی خصوصیات کھو بیٹھتی ہے۔

*       فن پارہ ادبی نشوونما میں ایک ارفع و اعلیٰ سٹرکچر ہے اور جمالیاتی مظہر ہے۔

 

نئی تنقید (New Criticism )

        نئی تنقید کا لفظ (Joe L.E. Spingarn) ۱۹۱۰ء میں کولمبیا یونیورسٹی میں ایک متنازعہ لیکچر کے دوران استعمال کیا تھا جس کا عنوان ہی New Criticism تھا لیکن نئی تنقید کا باقاعدہ تعارف جان کروینسم (John Cromeransom) نے ۱۹۴۱ء میں اپنی کتاب The New Criticism میں کرایا۔

        ولارڈ تھراپ نے بڑے احترام کے ساتھ نئی تنقید کے بانیوں میں آئی اے رچرڈز، ٹی ایس ایلیٹ، ولیم ایمپسن اور اپورونٹر کے نام لیے ہیں اور اُنھیں ’’نو تنقید‘‘ کے چار ستون قرار دیا ہے۔ نئی تنقید کو پروان چڑھانے والوں میں کلینتھ بروکس (Cleanth Brooks) ایلین ٹیٹ (Aleen Tate) رابرٹ پین وارن (Robert Pann Warren) ڈبلیو کے ومساٹ (W.K. Wimsatt) کے نام قابلِ ذکر ہیں لیکن ان سب کے تنقیدی نقطہ نظر میں اختلاف کی وجہ سے نئی تنقید کا کوئی کلیہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر حامد کاشمیری نئی تنقید کی خوبی بیان کرتے ہیں :

                ’’یہ فن کو مرکز توجہ بنانے کی سعی کرتی ہے۔ اِس سے فن کی تفہیم و تحسین کے لیے نئے تناظر فراہم ہوتے ہیں۔ ‘‘ (۲)

نئی تنقید کے نظریات

*       شاعری کو محض شاعری ہی سمجھا جائے اِس سے کسی قسم کے اخلاق کی توقع نہ کی جائے۔

*       تخلیقات کو تجزیاتی اور تقابلی عمل سے گزرنا چاہیے تاکہ ادیب کے پیش کردہ ابہام رمز و ایمائیت، تمثیل، علامت اور تشبیہات و استعارات کی وضاحت ہو سکے۔

ٌ        نئی تنقید نے متن کے گہرے مطالعے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ پلاٹ اور کہانی سے زیادہ اسلوب کو اہمیت دی جاتی ہے۔

*       نئی تنقید نے لفظ اور معنی کی دوئی کا خاتمہ کیا ہے کہ معنی جسم ہے اور لفظ روح لہٰذا دونوں کا مطالعہ الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔

*       نئی تنقید نے ادیب کے سوانحی اور سماجی پس منظر کو کوئی اہمیت نہیں دی کہ تخلیق کے وجود میں آ جانے کے بعد ادیب کا اِس سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ وہ عام طور پر تخلیق کی ظاہری ساخت اور اِس کے اندرونی تسلسل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ کسی صفحے پر لگا ہوا متن اپنی ساخت میں خود اپنے تئیں مطالعے کا ایک موضوع ہے۔

نئی تنقید پر اعتراضات

*       شکاگو مکتبہ فکر نے اعتراض کیا کہ ’نو تنقید، ادبی متن پر زور دیتی ہے۔ متن کا جزوی مطالعہ کرتے ہیں۔ تنقید کا کوئی فلسفہ نہیں پیش کرتے۔

*       نئی تنقید شاعری خصوصاً مختصر غنائیہ نظموں کی تفہیم و تعبیر تک محدود رہی ہے۔ یہ تنقید طویل نظموں اور نثری مطالعے سے قاصر ہے۔

*       نئی تنقید کا مطالعہ متن کی (Close Reading) تک محدود ہے۔ اس کی توجہ صرف لفظی خوبیوں اور الفاظ کے اندرونی تعلق پر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے فن پارے میں کوئی رائے سامنے نہ آسکی اور فن کار کی حیثیت ایک بیگانے کی ہو گئی۔

نارتھ روپ فرائی نے اعتراض کیا ہے:

                ’’نئے ناقدین ابہام، تماثیل اور علامات کی مدد سے حتی المقدور معانی کی کشید پر زور دیتے ہیں … ناقدین کا کام محض ان معانی کو کشید کرنا نہیں جو بوقت تخلیق ادیب کو معلوم ہے بلکہ ناقد تو وہ معنی بھی اخذ کرتا ہے جس سے ادیب بذاتِ خود بھی آگاہ نہ تھا۔ ‘‘ (۳)

رولاں بارتھ نے بھی نئی تنقید کے تصور پر اعتراض کیا ہے :

                ’’نئی تنقید کے تصور میں پایا جانے والا معصوم قاری حقیقتاً وجود ہی نہیں رکھتا، نئی تنقید کے پیش کردہ متن یا مواد کی حقیقت کو ڈھونڈنا بھی کم و بیش بعید از قیاس ہے۔ ‘‘ (۴)

        ۱۹۴۰ء اور ۱۹۵۰ء کے درمیان ’نئی تنقید، کو امریکہ میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ۱۹۶۰ء تک یورپ اور امریکہ میں نئی تنقید کے رجحانات رائج رہے لیکن نئی تنقید پر اعتراضات کے ضمن میں اِس میں تنقید ایک نیا گروپ ’شکاگو ناقدین، کے نام سے سامنے آیا۔

شکاگو ناقدین (Chicago Critics)

        نئی تنقید کے اختتام پر ناقدین کا ایک اور گروپ سامنے آیا۔ اِس گروپ کا تعلق شکاگو سے تھا یہی وجہ ہے تاریخ میں یہ ’شکاگو ناقدین، کے نام سے پہچانی گی۔ ان ناقدین کا مرکزی خیال تورینئم کے خیالات کا ہی حامی تھا لیکن اُنھیں نئی تنقید کے بعض خیالات اور ادبی تشریحات سے اتفاق نہ تھا تو یہ ایک ردِ عمل کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔

        شکاگو ناقدین کو تحریک کی حیثیت تو نہ مل سکی پھر بھی یہ اپنے زمانے میں اہمیت کے حامل ٹھہرے۔ اِس تنقید کا اہم رُکن آر ایس کرین (R.S. Crane) ہے۔ اِس اسکول کے اُصول و نقد کو اُن کے چار ساتھیوں جن میں Eden Domolsom, W.R. Keast, Richard Mekean, Norman Macleans نے استوار کیا۔ آر ایس کرین (R.S. Crane) کی مرتب کردہ کتاب "Critic and Criticism” کرین کے مقدمے کے ساتھ ۱۹۵۲ء میں شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں آر ایس کرین اور متذکرہ بالا چار ناقدین اور اُن کے ساتھ بارڈ ینرگ کے مضامین شامل ہیں۔ اِن مضامین میں تو ناقدین پر سخت حملے کیے گئے ہیں۔ اِس کتاب میں فلسفیانہ وضاحت اور دور رس تنقیدی مباحث بھی ملتے ہیں۔

شکاگو ناقدین کے تنقیدی نظریات

*      شکاگو ناقدین نے ادبی تخلیق کی مجموعیت (Wholeness) اور ساخت کی یکجہتی پر زور دیا، اُن کے نزدیک ادبی تخلیق کا کسی ایک رُخ سے مطالعہ ناقص اور گمراہ کن ہوتا ہے۔

*      شکاگو ناقدین نے متن کو اہمیت دی لیکن نئی تنقید کے باقی تمام نظریات رد کر دیے۔

*      شکاگو ناقدین نے فن پارے کے لفظ بہ لفظ، صفحہ بہ صفحہ مطالعے پر زور دیا ہے۔

*      شکاگو ناقدین نے اپنے تجزیوں میں ہیئت اور ساخت کے علاوہ تخلیق کے دوسرے عناصر کو بھی پیش نظر رکھا اور مجموعی حیثیت سے فن پارے کا تجزیہ پیش کیا۔

*      شکاگو ناقدین تخلیق کی اہمیت و انفرادیت اِس کے تخلیقی وجوہ کو سامنے رکھ کر طے کرتے ہیں۔

اسلوبیاتی تنقید (Stylistic Criticism)

        ارسطوئی دبستان کے ناقدین اسلوب کو بہت سے عناصر سے ملی جلی چیز خیال کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک جتنی طرح کی تحریریں ہوں گی۔ اُتنی ہی طرح کے اسلوب قائم ہوں گے۔

        اسلوب بالعموم کسی مصنف کے استعمال زبان کے ایک پر تاثیر مطالعہ کا نام ہے۔ اسلوبیات کا وجود جدید لسانیات کے ساتھ قائم ہو گیا تھا۔ اسلوبیات کا استعمال ماہر لسانیات (Sanssure) کے شاگرد فرانسیسی ماہر اسلوبیات چارلس بیلے کی دین ہے۔

        Leo Spitzee نے لسانیات اور ادبی تاریخ کے درمیانی خلا کو پر کرنے کے لیے اسلوبیات کا استعمال کیا۔ اِس لیے جدید لسانیات کا ایک سرا تاریخی لسانیات اور دوسرا عملی تنقید سے ملا ہوا ہے۔ گراہم باگ کا کہنا ہے :

                ’’اسلوبیات دراصل زبان کا مطالعہ ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ زبان کا مطالعہ کس طرح کیا جائے۔ لسانیات اب خود ایک آزاد مضمون ہے اور ادبی مطالعہ سے اِس کا تعلق پیدا کرنا آسان نہیں ہے۔ اِس کے بہت سے متعلقات ادب سے غیر متعلق ہیں اور اِس کے بعض طریقہ کار کو ادبی مطالعہ کرنے والوں نے ناپسندیدہ قرار دیا ہے لیکن اِسے قطعاً غیر متعلق بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ زبان کے مطالعے اور ادب کے مطالعے کے اُفق واضح طور پر مشترک نہیں اور اسلوبیات اِس کی سرحد ہے۔ ‘‘ (۵)

اسلوبیاتی تنقید کے نظریات

*      زبان ایک فکر اور سوچ کا لبادہ ہے جس کو اسلوب کی مدد سے تراشا جاتا ہے اور عصرِ حاضر کے مطابق لباس پہنایا جاتا ہے۔

*      تنقید کا مقصد درست قواعد لکھنے پر زور دینا نہیں ، نہ ہی کوئی ضابطہ بندی قائم کرتا ہے بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے جس طرح کہا گیا ہے۔ اس کو سمجھنا ہے۔

*      ایک جملہ مختلف اوّقات میں قاری پر مختلف اثرات مرتب کرتا پے۔ اسلوبیاتی مطالعے کا نقاد اپنے مزاج اور پسند کے مطابق زبان کے استعمال کے بے شمار پہلوؤں میں سے کسی ایک پہلو پر زیادہ زور دے سکتا ہے۔ وہ ایک ہی چیز کے مطالعہ میں مختلف اور متضاد نتائج بھی اخذ کر سکتا ہے۔

*      اسلوبیاتی مطالعے میں زبان کے قواعد Grammatical Pictureاور معنوی ساخت Structure Meaning کی زیادہ اہمیت ہے یعنی عوام قواعد کو شاعر نے کس طرح استعمال کیا یا تبدیل کیا ہے؟ مبتلا اور خبر کا انداز کیا ہے؟ فعل اور اسم کس طرح استعمال ہوتے ہیں ؟ کیونکہ اگر افعال زیادہ ہوں گے تو ترسیل بھی زیادہ ہو گی۔ اگر اسمیت زیادہ ہے تو جوش اور شدت کی بہتمات ہو گی۔ اِس طرح سے شعر کے اندر تشبیہات، استعارات، علامات، اشارے، کنائے حسن تعلیل، لف و نثر اور دوسرے شعری محاسن کا احاطہ کیا جاتا ہے لیکن ان سب کے باوجود شارب ردولوی کہتے ہیں :

                ’’اسلوبیاتی مطالعہ کسی فن پارے کا بہت محدود اور یک رُخا مطالعہ ہے جو تخلیق کے صرف ایک رُخ کو روشن کرتا ہے، وہ مجموعی حیثیت سے فن پارے کی قدروں سے بحث نہیں کرتا، اور ادب اور ادیب کے بجائے صرف متن اور زبان تک محدود رہتا ہے۔ ‘‘ (۶)

ساختیات(Structualism)

        ۱۹۶۰ء کے قریب ساختیات کی ابتداء ہوئی۔ ساختیات باقاعدہ تحریک نہیں بلکہ اِس کی حیثیت ایک طریقہ کار کی ہے۔ ساختیات نے نئے اندازِ فکر کے ساتھ زبان کی ماہئیت، ادیب کی شخصیت اور معنی و حقائق کے جامد خیالات کو رَد کرتے ہوئے معنی خیزسوالات پیدا کیے ہیں۔ صفیہ عباد لکھتی ہیں :

                ’’ساخت کا احساس ارسطو کے زمانے سے ہی کسی نہ کسی طور پر موجود رہا ہے۔ گو ہر زمانے میں اِس سے متعلق تصورات مختلف رہے ہیں۔ پیاجے (Piget )کے نزدیک ریاضی، منطق، طبیعات، حیاتیات اور سماج علوم میں ساخت کا تصور ایک مدت سے رائج ہے۔ ‘‘ (۷)

        مشہور ماہر لسانیات ڈی سوئسر (De Saussure) نقاد رولاں بارتھ (Roland Barthe) اور سوتین تودوروف (Tzuetan Todorov) نے ساختیاتی مطالعہ کو اُصول و قوانین دئیے۔

        ماہر لسانیات لیوی سٹراس (Levil Stranss) نے اشارہ (sign) کے اُصولوں کے تعین اور اِس کے عمل پر روشنی ڈالی۔ ساختیات پر لیوی سٹراس کی مشہور کتاب "Stracturale Anthrologic” ۱۹۵۸ء میں پیرس میں شائع ہوئی۔ ترسیل و ابلاغ کے مراحل میں اشارہ (sign) اہم فریضہ انجام دیتا ہے اور اشارے کے معنی متعین رہتے ہیں مثلاً سرخ رنگ ٹھہرنے کا اشارہ ہے اور سبز رنگ چلنے کا، لیکن لسانیاتی ساخت میں اشارہ کا کام سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنا نہیں ہے۔ یہ ایک یک طرفہ عمل ہے۔ اس لیے وہ ضروری نہیں قرار دیتے کہ سرخ رنگ رُک جانے اور سبز رنگ چلنے کی علامت ہے۔ اِس کے معنی مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔

ساختیات کے اُصول و قوانین

*      ساختیات کسی بھی تہذیبی حقیقت کو signification کے ایک نظام کا نتیجہ سمجھتی ہے۔

*      ساختیات انسانی روایات اور سماج سے اب تک کی وابستگی کے نقطہ نظر کو رَد کرتا ہے۔

*      اَدب حقیقت کا عکس یا ادیب کی شخصیت کا آئینہ دار نہیں ہوتا۔

*      اَدب میں کوئی لفظ یا ہیئت متبادل لفظ یا ہیئت کے انتخاب کے امکانات سے خالی نہیں ہو گا اور اِس طرح کے متبادل لفظ یا ہیئت اِس کے معنی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں یااِس سے بالکل مختلف بھی پیش کر سکتے ہیں۔

*      ہر متن کی حیثیت ایک مخصوص محاورۂ زبان کی ہے جسے اَدب کی شعریات سے تعبیر کیا گیا ہے۔

*      کسی اشارے کے خود کوئی معنی نہیں ہوتے، اِن کے معنی کا تعین اُن کی مجموعی ساخت سے ہوتا ہے۔ جہاں اُن کواستعمال کیا گیا ہے۔

*      لفظ محض نشان ہے خواہ تحریر میں لایا جائے یا بولا جائے۔ نشان سے مراد صرف لفظ ہی نہیں بلکہ کوئی بھی شے یا مظہر ہے جس کی بدولت ثقافت میں ترسیل کا کام لیا جاتا ہے مثلاً تصویر یا شکل وغیرہ خواہ وہ فطری ہو یا مصنوعی جب ترسیل کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ تو وہ نشان ہے۔

*      ساختیات میں متن تشریح و تعبیر کا سرچشمہ نہیں ہوتا، بلکہ قاری اِس کی مناسب تشریح و تعبیر کرتا ہے۔

رولاں بارتھ لکھتے ہیں :

                ’’انسانی ذہن معنوں کی پہچان کا ایک وسیلہ ہے اور وہ خودبخود معنی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ‘‘ (۸)

ساختیاتی تنقید پر اعتراضات

شارب ردولوی نے اپنی کتاب ’آزادی کے بعد دہلی میں اُردو تنقید، پر مندرجہ ذیل اعتراض کیے تھے:

*      ساختیاتی ناقدین اَدب کو حقیقت کا عکس یا ادیب کی شخصیت کا آئینہ دار نہیں سمجھتے۔

*      ساختیاتی تنقید اَدبی تخلیق کو صرف الفاظ کی ترتیب، جملوں کی ساخت یا الفاظ کے پیچ و خم سے نکلنے والے معنی اور مفاہیم تک محدود رکھتا ہے۔

*      ساختیاتی نقاد مختلف چیزوں کی نشاندہی کر کے متضاد معنی اخذ کرتے ہیں اِس طرح اصل موادپس پشت چلا جاتا ہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر کا موقف ہے کہ:

                ’’ساختیاتی تنقید میں زبان کے مطالعہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اسی لیے زبان کے مباحث کے حوالے سے اَدب پاروں کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش میں ساختیات میں مدد لی جا سکتی ہے لیکن یہ کوشش محض تشبیہات و استعارات یا صنائع بدائع کی تفہیم کے لیے نہ ہو گی بلکہ اِن کے ظاہری مفہوم کی سطح سے نیچے اُتر کر جہت در جہت معانی کی جستجو میں اِس سے کام لیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ (۹)

پسِ ساختیات(Post-Structuralism)

        ساتویں دہائی کے آخر میں ساختیات کی جگہ پس ساختیات نے لینا شروع کی۔ پس ساختیات کا اثر پہلے امریکہ میں ہوا اور بعد میں برطانیہ میں۔ امریکہ میں پس ساختیات کو اُن لوگوں نے سراہا جو امریکی نیو کریسٹزم (نئی تنقید) کی معروضیت سے نجات کی راہ چاہتے تھے۔ برطانیہ میں پس ساختیات فکر کو ریڈیکل اور سیاسی قوت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

        ساختیات کی سائنسی معروضی توقعات کو پس ساختیات رَد کرتی ہے۔ انسانی نظام نشانات کے رازوں پر قدرت پانے کا جو عزم ساختیات نے کیا تھا وہ حد درجہ قوت مندانہ تھا لیکن پس ساختیات نے ایسے دعوؤں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ پس ساختیات فکر کو پروان چڑھانے میں پانچ شخصیات قابلِ ذکر ہیں۔ رولاں بارتھ، ژاک دریدا، ژاک لاکاں ، جولیا کرسٹیوا اور مثل فوکو۔ ان ناقدین کی تنقیدات کی روشنی میں جو نظریات سامنے آئے ہیں حسب ذیل ہیں۔

پس ساختیاتی تنقید کے رجحانات

*      پہلے سے طے شدہ معنی خیز ہے کیونکہ اِس سے متن مقید ہو جاتا ہے۔

*      زبان صاف ستھرا شفاف میڈیم نہیں ہے جس کے ذریعے سچائی یا حقیقت کو جوں کاتوں بیان کیا ہے۔

*      ادیب متن اور قاری کا رشتہ لطف و نشاط، لذت اور شہوانی نوعیت رکھتا ہے۔ جسم، جسم سے بات کرتا ہے۔ لذت کا یوں احساس ہوتا ہے کہ وجود کی آخری حد تک کسی شے نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کچھ لے لیا ہے؟ کچھ دے دیا ہے۔

*      ہر فن پارہ اپنے ثقافتی اور ادبی نظام کی پیداوار ہوتا ہے۔ لاکھ انحراف کے باوجود مصنف روایت اور شعریات سے ہٹ کر کچھ نہیں لکھ سکتا۔

*      انسان ایک خود مختار وجدانی حقیقت نہیں بلکہ ایک عمل ہے۔ ہر وقت زیر تشکیل مبنی بر تضاد اور تغیر آشنا ہے۔

*      فوکو کے ہاں ڈسکورس کی بحث زیادہ ملتی ہے۔ ڈسکورس سے اُس کی مراد خیالات، رویے، موقف سبھی کچھ ہے۔ دیوانگی، جرائم یا جنس وغیرہ وہ کہتا ہے طاقت کا ڈسکورس سچ کی خدمت کے نام پر اجنبیت پیدا کرتی ہے لیکن گوپی چند کا اعتراض ہے کہ:

                ’’فوکو اپنے ڈسکورس کی نظریاتی بنیادوں کو واضح نہیں کرتا۔ اور خود فوکو کے ڈسکورس کا حق سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔ ‘‘ (۱۰)

*      سماجی نظام جب زیادہ ضابطہ بند، زیادہ پیچیدہ ہو جائے تو نئی شعری زبان کے ذریعے انقلاب لایا جا سکے گا۔

ردِ تشکیل (De-Construction)

        ردِ تشکیل کا آغاز ۱۹۶۶ء میں جانز  ہاپکنز یونیورسٹی کے اُس مشہور بین الاقوامی سیمینار سے ہوا جو اگرچہ ساختیات کے مباحث کے لیے منعقد کیا گیا تھا لیکن ژاک دریدا کی موجودگی اوراُس کے مقالے سے یہی سیمینار آگے چل کر ردِ تشکیل کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ ردِ تعمیر نقطہ نظر مابعد ساختیاتی رجحان ہے۔ اِس رجحان کے اہم ناقدین کرسٹوفارس، جوناتھن کلر اور مرے کرائیگر وغیرہ ہیں۔ ان سب کا تعلق امریکہ کی یونیورسٹیوں سے تھا۔ فرانس، امریکہ اور برطانیہ کے ادبی حلقوں میں ردِ تشکیل کے حق اور مخالفت میں نظریاتی اور عملی طور پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے لیکن بطور ادبی تنقیدی نظریے کے اِس کو قائم کرنے میں دریدا  اور دی مان اور اِن کے اور جیفری ہارٹ من، جے پلس ملر اور باربراجانسن قابلِ ذکر ہیں۔

ردِ تشکیل کے اُصول و نظریات

*      ردِ تعمیر ناقدین کے نزدیک شاعر کا تاریخی، سماجیاتی، نفسیاتی، اسلوبیاتی، ساختیاتی مطالعہ شاعر یا ادیب کے مطالعے کے مختلف طریقے ہیں۔ یہ کوئی نظریہ نہیں بلکہ قاری کے مختلف ردِ عمل ہیں۔

*      ہر اَدبی متن کے اپنے قبضہ معنی کو رَد کرنے کا مادہ خوداس کے اندر ہوتا ہے۔

*      ردِ تعمیر کلچر، فلسفے اور ادبی معنوں کے روایتی مفروضے کو رَد کرتا ہے۔ وہ علامات پر تمثیل کو فوقیت دیتا ہے۔

*      ردِ تعمیر زبان کے free play پر یقین رکھتا ہے۔ اُن کے نزدیک زبان میں کوئی اشاراتی معنی نہیں ہوتے بلکہ وہ لسانیاتی مترادفات کا آزاد استعمال free play ہے۔

*      ردِ تعمیر روایات کو چیلنج کرتا ہے۔

شارب ردولوی لکھتے ہیں :

                ’’برائی ایک آفاقی حقیقت ہے اور اچھائی اِس آفاقی حقیقت سے گریز۔ جیسے روشنی کو ہم مثبت اور تاریکی کو منفی مانتے ہیں اور عام طور پر کہتے ہیں کہ تاریکی روشنی کے غائب ہو جانے کی وجہ سے ہے لیکن ردِ تعمیر نقطہ نظر کے تحت تاریکی حقیقت اور روشنی اِس حقیقت کا نہ ہوتا ہے۔ ‘‘(۱۱)

        ردِ تشکیل تنقید پر اعتراضات بھی کیے گئے ہیں کہ یہ کسی ماورائی یا مطلق قدر سے وابستہ تھی۔ یہ بے قدر فلسفہ ہے، یہ تنقید اپنی اصلاحات اور تفہیم کے اعتبار سے تکرار کا شکار ہے۔ وغیرہ وغیرہ لیکن ڈاکٹر گوپی نارنگ ردِ تشکیل تنقیدسے جو لذت حاصل کرتے ہیں اُس کا دائرہ کار وسیع ہے لکھتے ہیں :

                ’’ردِ تشکیل معنی کی ایک لذت پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ ہر لذت کی راہ کھلی رکھنا چاہتی ہے۔ حاضر لذت کی بھی، غائب لذت کی بھی اور اُس لذت ک بھی جس پر پہرہ بٹھایا گیا ہے۔ ‘‘(۱۲)

جدیدیت (Modernism)

        مغرب میں جدیدیت کا زمانہ پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک کا ہے جبکہ ہمارے یہاں اِس کا زمانہ ۱۹۶۰ء کے بعد کی دو ڈھائی دہائیوں تک کا ہے۔ ہمارے یہاں جدیدیت ترقی پسندی کے ردِ عمل کے طور پر آئی جبکہ مغرب میں جدیدیت روشن خیالی پروجیکٹ (Enlightenment Project) کا حصہ تھی اور مارکسیت اور ہومنزم سے الگ تھی۔

ڈاکٹر تبسم کاشمیری جدیدیت کی تعریف کرتے ہیں :

                ’’جدیدیت ایک نئے تجرباتی دَور کا نام ہے ہر تجربہ کی حدود اُس کے عہد کے مسائل سے متعین ہوتی ہے۔ ‘‘ (۱۳)

        جدیدیت کی ساری لہریں انسان پرستی کی فضا سے گزرتی ہیں۔ جدیدیت روایت کے باطن میں پیدا ہونے والی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری لکھتے ہیں :

                ’’جدیدیت دراصل ترقی پسند تحریک کی نفی کرتے ہوئے فرد کے داخلی کرب کا اظہار تھا۔ جس میں خارجیت سے داخلیت، افراد سے فرد، شور و غل سے خاموشی، بھیڑ سے تنہائی کی طرف سفر تھا۔ ‘‘ (۱۴)

اَدب اور فنونِ لطیفہ میں جدیدیت اپنا اظہار عقل پرستی کے بیانیہ میں کرتی ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند وضاحت کرتے ہیں کہ:

                ’’جدیدیت نے مذہب کے بجائے عقلیت، برادری کے بجائے انفرادیت، روحانیت کی بجائے مادیت، مابعد الطبیعات کے بجائے سائنس و ترقی کو ترجیح دی ہے۔ ‘‘ (۱۵)

        جدیدیت کو پروان چڑھانے میں ڈارون، نطشے، فرائڈ، مارکس اور آئن سٹائن قابلِ قدر ہیں۔ یہ مفکرین ارفع مقصدِ زندگی کی ہو بہو عکاسی نہیں بلکہ اِس کا مطلب زندگی سے گریز گردانتے ہیں اور حقیقت پسندی کے بت کو توڑتے ہیں۔ تبدیلی کے خواہاں یہ مفکرین پرانے اور سست اور زرعی معاشرے کو مسترد کر کے ایسے معاشرے کو گلے لگاتے ہیں جن میں بیگانگی، اخلاقی گراوٹ اور زمینی انحطاط کے قطرات کلبلا رہے ہیں۔ رشید امجد لکھتے ہیں :

                ’’ساٹھ کی جدیدیت کے آغاز کی بنیادی وجہ لسانی اورفنی امکانات میں توسیع و تبدیلی کے رویے سے وابستہ ہے۔ نئے لکھنے والے محسوس کرتے تھے کہ اب انھیں اظہار کے جدید طریقوں کو اپنانا پڑے گا۔ ‘‘ (۱۶)

جدیدیت کے نظریات

٭     ادب اظہارِ ذات ہے، فنکار کو اظہار کی پوری آزادی ہے۔

٭     جدیدیت نے فن پارے میں نظم و ضبط، درجہ بندی، منصوبہ بندی، خاکہ پسند اور نقشہ جاتی نیز نظام مراتب پر توجہ دلائی ہے۔

٭     جدت پسند معرفت اور حکمت یعنی Logos پر کافی زور دیتے ہیں۔ نیز آراستگی اور تکمیلیت پر بھی اصرار کرتے ہیں۔

٭     ادب میں تخلیق یعنی (creation) سے جدیدیت کا بہت قریبی رشتہ ہے اور وہ تخلیق میں (Totalisation) یعنی کلیت کی حمایت کرتے ہیں۔

٭     جدیدیت علم معنی اور علمِ بیان پر بہت زور دیتی ہے۔

٭     جدیدیت میں صنف اور اُس کی حد بندی پر خاصی نظر ڈالی جاتی ہے اور فن پارے کا مطالعہ ایک مرکز یا محور کے اندر رہ کر کرنے پر اصرار کرتی ہے۔

٭     جدت پسند بیانیہ مہا بیانیہ، توضیح و تشریح، استعارے اور انتخابی عمل یعنی (selection) پر نگاہ ڈالتے ہیں اور فن پارے کی Root Depth میں جانا چاہتے ہیں۔

٭     جدیدیت کا مزاح یزدانی ہے یعنی (Good the Father) جدید سرمایہ داری ہی جدیدیت کا ادارہ ہے۔ جدیدیت کا آغاز اور اِس کا پیغام ٹیکنیکل اقتصادیات اور اُس کے متعلق اداروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جدیدیت کی داخلی حرکیت جدید سیاسی ادارے میں جن میں بیوروکریسی پر مبنی ریاست ہے۔

        سماجی کلچرل، پلورل ازم بھی جدیدیت کا اہم پہلو ہے۔ ٹیکنالوجی، بیوروکریسی اور اکثریت (Pluralism) جدیدیت کی نمایاں اداراتی خصوصیات میں پلورل ازم کا اوّلین سبب شہریت تھا اور دورِ جدید میں کثیر ذرائع ابلاغ اور عوام تعلیم ہیں ضمیر علی بدایونی لکھتے ہیں :

                ’’جدیدیت انسانی پرستی کا طویل بیانیہ ہے جو ختم ہو چکا ہے۔ سارتر کے فلسفے میں اِس کی آخری ہچکیاں سنائی دیں … جدیدیت کے ساتھ انسانی عہد بھی ختم ہو چکا ہے۔ ‘‘ (۱۷)

مابعد جدیدیت (Post-Modernism)

        مابعد جدیدیت کا ایک ہی نظریہ ہے کہ نظریہ دیا ہی نہ جائے تاہم مابعد جدیدیت ایک فکری صورتِ حال ہے جسے لیوتاژ نے "Presentation of Un-Presentable” سے تعبیر کیا ہے یعنی حقیقت کے بعض ایسے اجزاء کی پیش جو بجائے خود پیشکش سے باہر ہوں اور تصور اور شے کا ایک ایسا رشتہ قائم کرنا جو بلندی اور عروج کا حامل ہو۔ مابعد جدیدیت عقلیت کی ایک نئی صورت گری ہے جو موجودہ عہد کا پتہ دیتی ہے۔ ڈاکٹر ناصرعباس نیر رقم طراز ہیں :

                ’’مابعد جدیدیت تخلیق کی آزادی اور تکثیریت کافلسفہ ہے جو مرکزیت یا وحدت یا کلیت پسندی کے مقابلے پر ثقافتی بوقلمونی، مقامیت، تہذیبی حوالے اور معنی دوہرے پن (The Other) کی تعبیر پر اور اُس تعبیر میں قاری کی شرکت پر اصرار کرتا ہے۔ ‘‘(۱۸)

        مابعد جدیدیت ایک فرانسیسی روایت ہے۔ رولاں بارتھ، چارلس جینکسن، لیوتار، دریدا، مثل فوکو، لاکاں ، لوئی آلتھیوسر، فریڈرک جیمسن، اہاب حسن، بوریدا، جولیا کرسٹیوا، ٹیری ایگلٹن، ہیبرماسن نے مابعد جدیدیت میں نئے تفکرات پیش کیے بعض نظریات کی توسیع بھی کی۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :

                ’’مابعد جدیدیت بظاہر کوئی نظریہ نہیں ہے کیونکہ یہ اپنی اساس میں نظریہ مخالف کے برعکس ایک عدم نظریہ ہے … ما بعد جدیدیت میں جدیدیت سے لے کر کلاسیکیت اور ساختیات سے لے کر مارکسزم تک ہر ایک کو ہضم کر کے اپنی شخصی و فکری تعین کا خاتمہ کر دیا ہے… یہ جدیدیت کے تسلسل میں اُس کی فکر، کمیوں اور خامیوں سے پیرا شدہ ایک اُلجھاؤ کی صورت ہے۔ ‘‘ (۱۹)

مابعد جدیدیت کی فکری صورتِ حال

*      مابعد جدیدیت کسی بھی نظریے کو حتمی نہیں مانتی۔ یہ سرے سے نظریہ دینے کے خلاف ہے کیونکہ اِس سے تخلیقیت اور آزادی ختم ہو جاتی ہے۔

*      کسی بھی نظام کی کسوٹی انسانی حقوق اور شخصی آزادی ہیں اگر یہ نہیں توسیاسی آزادی نظر کادھوکا ہے۔

*      مابعد جدیدیت ہر طرح کی کلیت پسندی، فارمولا سازی اور ضابطہ بندی کے خلاف ہے۔ اِس کے مقابلے میں وہ کھلے ڈلے فطری، بے محابہ اور آزادانہ اظہار و عمل پر اصرار کرتی ہے۔

*      مابعد جدیدیت کو مرحلہ جاتی کہا جاتا ہے۔ یہ کارکردگی پر زور دیتے ہیں اور اِس ضمن میں وقوع پذیر عوامل کااحساس لاتے ہیں۔ وہ سماج میں distance کے مقابلے میں participation کو خوبی سمجھتے ہیں۔

*      مابعد جدیدیت اظہار میں آزادی اور لا مرکزیت کے قائل ہیں ، متن اور بین المتونیت کو اہمیت دیتے ہیں ردِ تخلیق اور ردِ تشکیل مابعد جدیدیت کے پسندیدہ عناصر ہیں۔

*      مابعد جدیدیت جملوں کو نحوی ترتیب پر زور دیتے ہیں۔ Paradigm یعنی اسم و فعل کی گردان کے نقشے کھینچنے کے خلاف ہیں۔

*      مابعد جدید مفکرین کامیابی اور ترقی کے لیے desire یعنی خواہش کا ہونا لازمی سمجھتے ہیں mutant یعنی ہر لحظہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔

*مابعد جدید مفکرین کسی عقیدے کے حامی نہیں۔ اِن کا مزاح اہرامنی یعنی The holy Ghost کا ہے۔ دُنیاوی ہے وہ تفریح، تماشا اور کھیل کود کو اہمیت دیتے ہیں۔

*      مابعد جدید کا تعلق Signifire یعنی دال سے ہے اوراس سے مراد ایک صوتی تصویر ہے۔

*      لیوتار نے جدیدیت کے پس بیانیوں (Meta Naratins) کی ردِ تشکیل کی ہے اور کہا ہے کہ جدیدیت نے شعریات کی جگہ لی ہے لیکن جدید ہونے کے لیے لیوتار مابعد جدید ہونے پر زور دیتا ہے۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟ ضمیر علی بدایونی لکھتے ہیں :

                ’’جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا رشتہ ماں بیٹی کا نہیں۔ ساس اور بہو کاہے۔ جس کے بارے میں چینیوں کا یہ قول بے حددلچسپ ہے۔ ’جب میں بہو تھی توساس اچھی نہ ملی اور جب ساس بنی تو بہو اچھی نہ ملی۔ ، یہ صرف بدلتے رشتوں کا منظرنامہ نہیں بلکہ موقف اور نقطہ نظر کی تبدیلی کا احوال ہے۔ ‘‘ (۲۰)

٭٭

حوالہ جات

۱۔       جمیل جالبی، ڈاکٹر، ارسطو سے ایلیٹ تک، کراچی: نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۷۵ء، ص ۴۲

۲۔      حامد کاشمیری، ڈاکٹر، تفہیم و تنقید: تنقیدی مقالات، لاہور: فیمس بکس الوہاب مارکیٹ اُردو بازار، ۱۹۸۹ء، ص۱۲۶

۳۔      شارب ردولوی، آزادی کے بعد دہی میں اُردو تنقید، دہلی: اُردو اکادمی ۱۹۹۱ء، ص۱۰۵

۴۔      ایضاً،  ص ۹۹

۵۔      گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر، ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۴ء، ص۳۷

۶۔      شارب ردولوی، آزادی کے بعد دہی میں اُردو تنقید، دہلی: اُردو اکادمی ۱۹۹۱ء، ص۱۰۰

۷۔      صفیہ عباد، ساختیات ایک تعارف، مشمولہ: تخلیقی ادب، شمارہ نمبر ۲، ڈاکٹر رشیدامجد (مدیر) اسلام آباد: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، ۲۰۰۵ء، ص۱۹۸

۸۔      گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر(مرتب) اُردو ما بعدِ جدیدیت پر مکالمہ (ادب کا بدلتا ہوا منظر نامہ)، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۴ء، ص۱۹۸

۹۔      سلیم اختر، ڈاکٹر، تخلیق، تخلیقی شخصیات اور تنقید، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء، ص۵۶۱

۱۰۔    گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر، ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۴ء، ص۱۱۳

۱۱۔      شارب ردولوی، آزادی کے بعد دہی میں اُردو تنقید، دہلی: اُردو اکادمی ۱۹۹۱ء، ص۱۰۵

۱۲۔     گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر(مرتب) اُردو ما بعدِ جدیدیت پر مکالمہ (ادب کا بدلتا ہوا منظر نامہ)، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۴ء، ص۸۹

۱۳۔     تبسم کاشمیری، ڈاکٹر، جدیدیت کیا ہے؟ مشمولہ: نئے شعری تجربے، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۸ء، ص۱۵۳

۱۴۔     اسلم جمشید پوری، ڈاکٹر، جدیدیت اور اُردو افسانہ، دہلی: ماڈرن پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۱ء، ص۹

۱۵۔     گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر(مرتب) اُردو ما بعدِ جدیدیت پر مکالمہ (ادب کا بدلتا ہوا منظر نامہ)، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۴ء، ص۸۹

۱۶۔     رشید امجد، ڈاکٹر، جدیدیت ایک جائزہ، مشمولہ: نقاط، شمارہ نمبر ۴، لاہور: شرکت پرنٹنگ پریس، نسبت روڈ، ۲۰۰۷ء، ص۱۶

۱۷۔     ضمیر علی بدایونی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت- ایک ادبی و فلسفیانہ مخاطبہ، کراچی: اختر مطبوعات، ۱۹۹۹ء، ص۳۸۲

۱۸۔     ناصر عباس نیر، ڈاکٹر(مرتب) مابعد جدیدیت، اطلاقی جہات، لاہور: مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، ۲۰۰۷ء، ص۱۳

۱۹۔     سلیم اختر، ڈاکٹر، تخلیق، تخلیقی شخصیات اور تنقید، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء، ص۵۱۳

۲۰۔    ضمیر علی بدایونی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت- ایک ادبی و فلسفیانہ مخاطبہ، کراچی: اختر مطبوعات، ۳۸۲            ٭٭٭

 

یاسمین طاہر سردار

شعبہ اُردو، جی سی-یونیورسٹی، فیصل آباد

اُردو تنقید میں تذکروں کی اہمیت

ABSTRACT

        From the day one, the process of criticism is on the go. In Narrations we find its written references. Initially, a lot-of Narrations has been written in Persian whose sole aim was to introduce the creations of anonymous poets and to earn a good fame for them in a formal way.

        "Labab-ul-Albab” written by Muhammad Aufi is considered to be the 1st formal criticism of Persian in Iran. Then, one after the other, a lot of work has been done by the critiques in Persian language. In 1880, "Aab-e-Hayyat” written by Muhammad Hussain Aazad has revolutionized the world with new dimensions in the continuity of criticism. This book has beautifully focused the features of innovation, Creativity, Criticisms, History & Stylistics at the same time. It has been written in a way that has never been discussed earlier by any other author.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        اَدب کے نکھار کی ذمہ داری شعبہ تنقید نے قبول کی ہے تاہم تخلیق کو با اثر بنانے کے لیے تنقید کا عمل صحت مند اور نفیس ہونا ضروری ہے۔

        تنقید ایک فن ہے اِس کا کام فن پارے کی اس طرح کانٹ چھانٹ کرنا ہے کہ وہ مبالغہ آرائی سے مبرا ہو جائے اور فن پارے کے محاسن و مصائب کا صحیح اندازہ لگا کر اپنی کوئی رائے قائم کی جائے تنقید کی اہمیت و افادیت کو ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اِس طرح بیان کیا ہے:

                ’’تنقید بڑی اہمیت رکھتی ہے اِس کے بغیر اَدب کے بہتے ہوئے چشمے میں روانی پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ اِس کے خشک ہو جانے کے امکانات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کے ادب میں ہر دَور اور ہر زمانے میں اِس کا وجود ملتا ہے چاہے اس کی صورت کچھ ہی رہی ہو۔ ‘‘(۱)

        اُردو جب اپنے ابتدائی دَور سے گذر رہی تھی تو اس زبان میں نشر و اشاعت کے ذرائع موجود نہ تھے لیکن اِس تنقیدی روایت نے اُس وقت تقویت پکڑی جب مشاعروں کا باقاعدہ رواج اہل سخن ایک جگہ مل کر بیٹھتے تھے اور اپنا اپنا کلام پیش کرتے تھے سامعین غور سے سنتے اور نتیجہ خیز رائے قائم کرتے تھے۔ اس رائے کا اظہار واہ واہ، سبحان اللہ اور بہت خوب جیسے مخصوص قسم کے الفاظ سے کرتے تھے، یہ الفاظ بناوٹی نہیں تھے بلکہ اس کے پیچھے نتیجہ خیز حقیقت چھپی ہوئی تھی یقیناً شعر پر داد دیتے ہوئے اُن کے ذہن میں شعر اچھا ہونے کا معیار تھا۔ جس نے مزید تقویت پکڑی جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہر شعر پر داد نہیں دی جاتی تھی جو شعر سننے والے کو اچھا لگتا اُسی کو سراہا جاتا ورنہ وہ چپ ہو جایا کرتے تھے اگرچہ یہ معیار ذوقی اور وجدانی تھا لیکن اس سے ہمیں اُن کے تنقیدی شعور اور روایت کا اندازہ ہوتا ہے۔

تذکروں میں تنقید کی روایت

        ’تذکرہ کلاسیکی عہد میں لکھے جانے والی ایسی یادداشت ہے۔ تاریخی بیان اور وہ کتاب ہے جس میں شعرا کا حال لکھا جاتا ہے تذکرہ مذکر ہے، جمع ہے تذکرہ جات۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر لکھتے ہیں :

                ’’اُردو ادب میں تنقیدی شعور بلاشبہ اوّل روز سے موجود تھا مگر اُردو تنقید کا باضابطہ اور باقاعدہ آغاز 19ویں صدی کے آخر میں ہوا۔ اُردو تنقید کی کہانی کا پہلا (episode) تذکرے ہیں۔ جن میں بیشتر فارسی میں ہیں۔ 18 ویں صدی تک تمام تذکرے فارسی میں لکھے گئے تاہم اُنیسویں صدی کے آغاز میں فورٹ ولیم کالج کے اثرات سے اُردو میں بھی لکھے جانے لگے۔ ‘‘ (۲)

        تذکرہ بیاض کی ترقی یافتہ صورت کا نام ہے۔ بیاض میں صرف منتخب اشعار ہوتے تھے جبکہ تذکرہ میں منتخب اشعار کے ساتھ خالق اشعار کے نام اور تخلص کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شعراء کے نام اور تخلص میں ابجدی اور تہجی ترتیب کو ترجیح دی گئی بعد ازاں مختصر حالات زندگی اور کلام پر مختصر تبصرے کا بھی اضافہ ہوا اور یوں تذکرہ بیاض سے مختلف اور مختصر منزلیں طے کرتا ہوا نیم تاریخی، نیم تنقیدی اور نیم سوانحی ماحول میں پرورش پانے لگا۔ وقت اور ماحول کے تقاضوں نے تذکروں پر ادبی تاریخ، تنقید اور سوانح نگاری کے گہرے اثرات مرتب کیے پھر یوں ہوا کہ اِن تین رنگوں کا مجموعہ نہ تو ادبی تاریخ کا نام پا سکا اور نہ ہی تنقید کہلا سکا اور نہ سوانح نگاری کے ضمن میں آسکا تو وہ تذکرے کے فن سے معروف ہو گیا اور شعرا کے مختصر حالاتِ زندگی، کلام پر سرسری تبصرہ اور انتخاب اشعار کو اِس فن کے عناصر ترکیبی میں شمار کیا گیا۔

        تذکرہ نگاری کا بڑا مقصد قدیم شعر و ادب اور شعراء کے حالاتِ زندگی کو یکجا کیا جائے کہ یہ سرمایہ ادب اور نئی نسل کے لیے نمونہ رہے۔ تذکروں کی اہمیت کو جن لوگوں نے محسوس کیا اور جن کی کاوش اور لگن سے اُردو تذکروں پر جو کام ہوا اُن میں حافظ محمود شیرانی، سیّد محمد ایم اے، ابو اللیث صدیقی اور قاضی عبد الودود کے نام آتے ہیں۔ اِن بزرگوں کا کام تقسیم سے پہلے کا ہے تقسیم کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں میں ۱۹۶۴ء تک سالنامہ نگار ’تذکروں کا تذکرہ نمبر، میں قابلِ ذکر کام نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’اُردو شعراء کے تذکرے اور تذکرہ نگاری، کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :

                ’’اُردو میں ادبی تنقید و سوانح اور تاریخ نگاری کے سلسلے کا تحقیقی کام دراصل تذکروں کے سہارے آگے بڑھا ہے۔ اگر یہ تذکرے یکے بعد دیگرے سامنے نہ آ جائیں تو ہم ’اُردو زبان و ادب کے قدیم ورثے، اِس کی نوعیت، اس کے اسالیب اور اسالیب کی ارتقائی کڑیوں سے ناواقف ہوتے۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہ چلتا کہ ہمارے شعر و ادب کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور اِس میں ہمارے اسلاف نے کتنی قسمتی چیزیں یادگار چھوڑیں ہیں۔ ‘‘ (۳)

        فارسی زبان کے دستیاب تذکروں میں محمد عوفی کا ’لباب الالباب، ایران میں فارسی کا پہلا تذکرہ قرار دیا جاتا ہے۔ بارہ ابواب پر مشتمل دو جلدوں میں منقسم یہ تذکرہ 617 اور 618ء کے درمیان تکمیل کو پہنچا۔ ’لباب الالباب، کے بعد ایران اور ہندوستان میں فارسی شاعروں کی بڑی تعداد میں تذکرے لکھے گئے۔

        ۱۷۰۷ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد ایک بڑی سیاسی تبدیلی واقع ہوئی جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔ مغلیہ سلطنت انگریز کے ہاتھوں منتقل ہو گی۔ اِس تبدیلی سے دیگر شعبہ زندگی کی طرح زبان و ادب کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ فارسی جسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا، معزول حکومت کے ساتھ ہی معزول ہو گی اور فارسی کو اُردو کے لیے جگہ خالی کرنا پڑی اور پھر اُردو زبان میں بھی تذکرے لکھے جانے لگے۔

        موجودہ تحقیق کے مطابق اُردو زبان میں لکھا جانے والا پہلا تذکرہ نکات الشعراء ہے جس کی تکمیل ۱۱۶۵ء میں میر تقی میرؔ کے ہاتھوں ہوئی۔

اُردو کے معروف تذکروں کا مختصر تعارف

نکات الشعراء از میر تقی میرؔ

        ’نکات الشعراء، میں ۱۰۳ شعراء کے حالاتِ زندگی اور نمونہ کلام کے ساتھ شاعر کے فنی محاسن اور فکر و فلسفہ پر بھی جامع رائے دی گئی ہے۔ فرمان فتح پوری نے نکات الشعراء کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

                ’’ریختہ کی اقسام، اُس کی خصوصیات، لب و لہجہ اور شعری محاسن وغیرہ کا اجمال اور اہم ذکر اوّل اسی تذکرے میں آیا ہے اور تذکرے کے خاتمے پر میرؔ  نے جو کچھ لکھا ہے وہ اُردو شاعری کی تنقیدی تاریخ میں اہم خیال کیا جاتا ہے۔ ‘‘ (۴)

تذکرہ ریختہ گویاں از سیّد فتح علی حسینی گردیزی

        عربی اور فارسی کے عالم حسینی تصوف اور مذہب کے موضوعات پر بہت علم رکھتے تھے۔ اُردو میں اُن کا نام دو کتابوں ابطال الباطل اور ریختہ گویاں کی وجہ سے معروف ہوا۔

        ریختہ گویاں میں ۹۷ شعراء کے احوال بلحاظِ حروفِ تہجی قلمبند کیے گئے اور اُن تمام شعرا کی حد سے زیادہ تعریف کی گئی ہے جن شعرا کو ’نکات الشعراء، میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

        میرؔ  اور گردیزی دونوں نے تذکرے کے اختتام پر ایک ہی طرح کی عبارتیں لکھی ہیں ممکن ہے کہ ایک نے دوسرے سے فائدہ اُٹھایا ہے۔

مخزن نکات از محمد قیام الدین

        قیام الدین قائم تخلص کرتے تھے۔ فارسی زبان کا یہ تذکرہ ۱۲۸ شعرا کے احوال کے ساتھ تین حصوں یعنی متقدمین، متوسطین اور متاخرینِ شعرا کے عنوانات پر مشتمل ۱۱۶۸ء میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔

تذکرہ شعرائے اُردو از میر حسن دہلوی

        تین طبقوں میں تقسیم اِس تذکرے کا مختصر سا دیباچہ ہے۔ اِس کے بعد بادشاہِ وقت شاہ عالم آفتاب کا ذکر ہے۔ اشعار کا انتخاب بہت خوبصورت ہے۔ شعراء کے حالات ردیف وار درج ہیں۔ میرؔ نے کسی کی تنقیص یا بے جا تعریف سے گریز کرتے ہوئے بے لاگ تنقید کی ہے۔

گلشنِ بے خار از محمد مصطفی خان

        یہ تذکرہ قدیم دکنی شعرا سے لے کر اُنیسویں صدی کے وسط تک تمام شعری تاریخ پر محیط ہے۔ اُردو کے دو سو سالہ سرمایہ کو اختصار کے ساتھ اپنے دامن میں سمیٹتے ہوئے ۱۸۳۴ء میں شعراء کے مختصر حالات اور انتخاب کلام کے ساتھ مکمل ہوا۔

ریاض الصفحا از غلام ہمدانی مصحفی

        تذکرہ نگار نے ۲۹۲۱ء شعرا کا نہ صرف اپنے دَور کے بلکہ اِس سے پہلے کے دَور کے شعر کا بھی ذکر بلحاظِ حروفِ تہجی کیا ہے۔ فارسی بان کا یہ تذکرہ ریختہ گو شعرا کے تذکرے کے ساتھ ۱۲۳۶ء میں مکمل ہوا۔

گلشنِ گفتار از حمید اورنگ آبادی

        30 شعرا پر مشتمل ۱۱۶۵ میں مکمل ہونے والے اس تذکرے کی اہمیت دو خاص سبب سے ہے۔ تذکرے میں بتایا ہے کہ شمالی ہند کی طرح دکن میں بھی تذکرہ نگاری کی رسم بارہویں صدی ہجری کے وسط میں پڑ گئی تھی۔ دوسرے یہ کہ دکنی شعرا کے متعلق ایسی بہت سی معلومات ہیں جن سے شمالی ہند کے تذکرہ نگار پہلے واقف نہ ہے۔ انتخاب کلام میں متفرق اشعار کے بجائے پوری پوری غزلیں دی ہیں۔ یہ تذکرہ ’نصرتی، سے شروع ہوکر ’عزلت، کے ترجمے پر مکمل ہوتا ہے۔

تحفتہ الشعرا از مرزا افضل بیگ قاقشال

        فارسی زبان کا یہ تذکرہ ۶۲ شعرا کے تراجم کے ساتھ ۱۱۶۵ء میں مکمل ہوا۔ اِس میں ریختہ گو اور فارسی گو دونوں شعرا شامل ہیں۔ تذکرے میں شعرا کی ترتیب میں کوئی اُصول نہیں برتا۔ شعرا کی تاریخ پیدائش اور وفات پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ تذکرے کے پہلے شاعر غلام حسین قادری اور آخر میں مرزا جان جاناں مظہر ہیں۔

چمنستان شعرا از لچھمی نرائن شفیق

        عربی، فارسی اور علوم متداولہ میں مہارت رکھنے والے مصنف نے یہ تذکرہ ۱۷۶۱ء میں مکمل کیا۔ فارسی زبان کا یہ تذکرہ ۳۱۳ شعرا کے ذکر کے ساتھ بلحاظِ حروفِ ابجد مرتب ہوا۔ تذکرہ آرزو سراج خاں سے شروع ہو کر غلام سیّد غلام کے ذکر پر ختم ہوتا ہے۔

طبقات الشعرا از قدرت اللہ شوق

        طبقات الشعرا ۱۷۷۵ء میں چار طبقات کی تقسیم کے ساتھ ۳۱۳ شعرا کی تعداد سے مکمل ہوا۔ طبقہ اوّل میں ریختہ گوئی کے موجدین، شعرائے دکن اور اُن کے بعض معاصرین کا ذکر ہے طبقہ دوم میں ایہام گو شعرا کو جگہ دی گئی ہے۔

        طبقہ سوم میں شعرائے متاخرین اور بعض نو مشق شعرا مذکور ہیں۔ طبقہ چہارم میں شعرائے تازہ اور بعض تو شقان شامل ہیں۔ یہ تذکرہ امیر خسرو سے شروع ہو کر قدرت اللہ شوق کے تذکرے پر ختم ہوتا ہے۔

آبِ حیات از محمد حسین آزاد

        ۱۸۸۰ء میں وکٹوریہ پریس لاہور سے شائع ہونے والی یہ کتاب موضوع و مواد کے لحاظ سے دیباچے کے علاوہ پانچ اَدوار میں تقسیم کی گئی ہے۔ ہر دَور اپنے عہد کی زبان بلکہ اُس زمانہ کی شان دکھاتا ہے۔ آبِ حیات میں بیک وقت تحقیق، تنقید، اسلوب اور تاریخ کی ایسی خصوصیات ہیں جو پہلے تذکروں میں نظر نہیں آتیں۔ شعرا کی زندگی اور کلام کے متعلق مفید آراء بھی ملتی ہیں۔ یہ اسلوب آبِ حیات کو قدیم تذکرہ نگاری سے الگ کرتا ہے اور جدید تنقیدی بنیاد ڈالتا ہے۔ جو آگے چل کر حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کی صورت میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔

        اُردو تنقید کے ارتقاء کو سمجھنے کے لیے تذکرہ نگاری کا مطالعہ ناگزیر ہے لیکن تذکرہ نگاری کو تنقید کے دائرے میں رکھا بھی جا سکتا ہے یا نہیں ملاحظہ ہو۔ تذکرہ نگاری پر اُبھرنے والی ضرب کاریاں اور کچھ موافق و مخالف آوازیں۔

کلیم الدین احمد لکھتے ہیں :

                ’’…اکثر شعرا کے کلام پر رائے زنی نہیں کی جاتی… تذکروں میں ہر جگہ الفاظ کا سیلاب رواں ہے۔ یہ الفاظ کوئی خاص نقش دل و دماغ پر ثبت نہیں کرتے… تذکرہ لویس تنقید کی ماہیئت، اُس کے مقصد، اُس کے صحیح پیرایہ سے بھی آشنا نہ تھے۔ اِس لیے ان تذکروں کی اہمیت صرف تاریخی ہے۔ یہ دُنیائے تنقید میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے… عموماً ایسے اشعار چنے جاتے ہیں جو معیار پر پورا اُترتے ہیں … تذکرہ نویسوں میں اتنی بھی ناقدانہ نظر نہ تھی کہ وہ اچھے اور برے اشعار میں تمیز کر سکیں۔ ‘‘ (۵)

رشید حسن خان کی رائے دیکھئے:

                ’’بیشتر مطبوعہ تذکروں کے متن پر پوری طرح اعتماد نہیں کیا جا سکتا … تذکرے بے شمار غیر معتبر واقعات کا ’مال خانہ، بن گئے ہیں۔ صحت متن کے سلسلے میں اِن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا … بیشتر مطبوعہ تذکروں میں اشعار کے متن کا حال سب سے زیادہ مقیم ہے۔ ‘‘ (۶)

ابو الکلام قاسمی مشرقی شعریات اور اُردو تنقید کی روایت میں لکھتے ہیں :

                ’’تذکروں میں اکثر طرفداری سے کام لیا گیا ہے… شعر کے محاسن میں زیادہ تر صنائع لفظی و معنوی کو اہمیت دی گئی ہے… اکثر شعراء کے اسلوب و سلیقہ شعر کے لیے مبہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے شاعری کی حیثیت واضح نہیں ہوتی۔ ‘‘ (۷)

ڈاکٹر فرمان فتح پوری ناقدین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں :

                ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جدید نقادوں نے قدیم تذکروں کا بالااستیاب مطالعہ نہیں کیا … یقینا ایسے تذکرے بھی موجود ہیں۔ جن میں شعرا کے حالات کو احتیاط سے جمع کر کے شعرا کے اَدوار قائم کرنے، ہر دَور کی خصوصیت اُجاگر کرنے، شعرا کی ولدیت اور سکونت کی نشاندہی کرنے اساتذہ و تلامذہ کے نام دینے اور اُن کے سنین وفات و پیدائش کے اندراج کرنے میں خاص اہتمام سے کام لیا گیا ہے … اِس طرح اگر خاص شاعر کے متعلق مختلف تذکروں کے اقتباسات جمع کریں تو ہمیں یقین ہے کہ اُس کی مکمل تصویر سامنے آ جائے گی۔ ‘‘ (۸ )

نور الحسن نقوی ’فن تنقید اُردو تنقید نگاری ،میں کہتے ہیں :

                ’’شعرائے اُردو کے تذکرے ہمارا قدیم اور بیش قیمت ادبی سرمایہ مکمل اور ہماری زبان میں تنقید کی بنیاد انھی کے ذریعے پڑی۔ اِن تذکروں میں تنقید کے جو نمونے ملتے ہیں انھیں باقاعدہ تنقید کہنا تو مشکل ہے البتہ انھیں اُردو تنقید کا پہلا نقش ضرور کہا جا سکتا ہے۔ ‘‘ (۹)

       ہمارے تذکرہ نگاروں کا زمانہ اٹھارہویں صدی کا ہے۔ جب اُردو اَدب جدید تنقیدی نظریات سے ناواقف تھا۔ تنقید تو تنقید اُردو نثر بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان تذکرہ نگاروں کے سامنے کوئی تنقیدی نمونے نہ تھے۔ زبان اور شاعری دونوں اپنے ارتقائی مراحل میں تھے۔ ان حالات میں اُردو اَدب کی پرکھ کا یہی معیار ہونا تھا۔

٭٭

حوالہ جات

۱۔       عبادت بریلوی، ڈاکٹر، اُردو تنقید کا ارتقاء لاہور: انجمن ترقی اُردو پاکستان، ۲۰۰۱ء، ص۸۷

۲۔      ناصر عباس نیر، اُردو تنقید (ابتداء سے اُنیسویں صدی کے آخر تک)، الکلام شمارہ نمبر ۱، فیصل آباد: مثال پبلشرز ۲۰۰۳ء، ادارت خاور جیلانی

۳۔      فرمان فتح پوری ڈاکٹر، اُردو شعراء کے تذکرے اور تذکرہ نگاری، کراچی: انجمن ترقی اُردو پاکستان، ۱۹۹۸ء، ص۱

۴۔      فرمان فتح پوری (مرتب) تذکرہ نمبر، سالنامہ مئی و جون، نگار، کراچی: ۳۲/گارڈن مارکیٹ، ۱۹۶۴ء، ص۶۳

۵۔      کلیم الدین احمد، اُردو تنقید پر ایک نظر، لاہور: عشرت پبلشنگ ہاؤس، س ن، ص۲۶، ۲۰

۶۔      رشید حسن خان، ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۱۹۷۸ء، ص ۳۵

۷۔      ابوالکلام قاسمی، مشرقی شعریات اور اُردو تنقید کی روایت، لاہور: مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، ۲۰۰۰ء، ص۱۷۵

۸۔      فرمان فتح پوری ڈاکٹر، اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری، کراچی: انجمن ترقی اُردو پاکستان، ۱۹۹۸ء، ص۷۷، ۷۸

۹۔      نور الحسن نقوی، فن تنقید اور اُردو تنقید نگاری، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۱۹۹۰ء، ص۹۸

٭٭٭

 

بقاؔ بلوچ

بلوچی زبان میں  کس سطح کا ادب تخلیق ہو رہا ہے

بلوچی زبان و ادب کی تاریخ بظاہر بلوچ قوم کی تشکیل سے شروع ہوتی نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچوں کی قومی تشکیل میں اُن کی زبان اور ادبیات کا بڑا اہم کردار ہے خاص طور پر اس حوالے سے بھی کہ جب زبان کی تحریری شکل اور رسم الخط وغیرہ موجود نہ ہوں اور تاریخ نویسی کا سلسلہ بھی قابلِ اطمینان نہ ہو تو صرف زبان و ادب ہی رہ جاتے ہیں جو معاشرے کی تہذیب و ترجمانی کرتے ہیں۔

The Popular Poetry of Baloches سے لے کر بے شمار دیگر نا معلوم شعرا کے کلام اور سینہ بہ سینہ نقل ہونے والی روایتوں ، داستانوں اور تلمیحات کے ذریعے ہم بلوچ قوم اور اس کی ثقافت کی بنیادوں سے آگاہی حاصل کرتے ہیں اور اس ادب نیز اس میں کار فرما روح کے ذریعے ہم بلوچ معاشرے کی محسوسات اور اپنی معاشرتی قدروں پر بلوچ کے پختہ یقین کا ادراک بھی حاصل کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والا ادب بلوچی زبان کے لسانی سرمائے کو بھی پوری دیانت داری کے ساتھ آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کرتا ہے اس طرح ہمارا لوک ادب ہمیں دورِ جدید کے سفر میں نہ صرف مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ کئی حوالوں سے رہنمائی بھی کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ دنیا کے اکثر معاشروں اور لسانیات و ادبیات کا ارتقائی عمل عام طور پر اسی طرح رونما ہوتا آیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بعض زبانوں اور بعض خطوں میں دوسروں کے مقابلے میں بہتر سطح کا ادب تخلیق ہو رہا ہے۔

میرے خیال میں اس کو سمجھنے کیلئے انسانی ارتقائی تفصیل کے ساتھ ساتھ سر زمینی حقائق، نسلی و نجاتی سلسلوں اور ان سب کے پس منظر میں پرورش پانے والی نفسیات پر نظر ڈالنا ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اس پس منظر کے ساتھ بات کرنے کیلئے جتنے علم اور جس قدر وسیع دانش مندی اور تجربے کی ضرورت ہے ناچیز کی ان تک رسائی نہیں۔ پس اسی نقطے کو مرکز بنا کر میں بلوچی زبان میں عہدِ حاضر میں تخلیق کئے جانے والے ادب کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت کروں گا۔

قیامِ پاکستان سے قبل بلوچی زبان کا ادب سامراجی قوتوں سے نبرد آزما ہونے کی داستانوں کے ساتھ ساتھ آزادی کے متوالوں کی ہمت اور جرأت کو خراجِ تحسین پیش کرتی نظر آتی ہے اور اس دور میں یوسف عزیز مگسی، محمد حسین عنقا، میر گل خان نصیر، عبدالرحمن غور اور ملک محمد پناہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں جبکہ ساتھ ہی عیسائی اداروں کے شدید ردِ عمل میں مکتبہ درخانی کے زیرِ اہتمام بلوچی دینیات پر کتب کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے اور اس سلسلے کی اہم کڑی مولانا حضور بخش جتوئی کا قرآنِ حکیم کا بلوچی ترجمہ ہے۔

قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی جہاں معاشرتی اور طبقاتی ناہمواریوں نے ایک عالمگیر تحریک کی شکل اختیار کی وہاں بلوچی زبان و ادب بھی اس کی گرفت سے محفوظ نہ رہ سکی اور محبِ وطن بلوچ شعرا و ادبا کو پابندِ سلاسل کرنے سے جس استحصال اور ناانصافی نے جنم لیا اس نے زبان و ادب کو تحریر و تخلیق کے ایک نئے دور میں داخل کر دیا۔

بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے انتقال پر ریڈیو پاکستان کراچی کے ماتمی پروگرام میں فیض محمد بلوچ کی آواز میں موتک (مرثیہ) نے بلوچی زبان کی ترویج میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ اس سے ریڈیو پاکستان کراچی سے باقاعدہ بلوچی نشریات کا آغاز ہوا جس میں مولانا خیر محمد ندوی اور سید ظہور شاہ ہاشمی کا کردار خاص اہمیت رکھتا ہے۔

انھی نشریات سے بلوچی زبان میں خبروں اور تقریروں کے ساتھ ڈراموں کو باقاعدہ تحریری شکل ملی۔ بعد ازاں مولانا خیر محمد ندوی نے بلوچ ایجوکیشنل سوسائٹی کراچی کے زیرِ اہتمام ماہنامہ ’’اومان‘‘ کا اجرا کیا گو کہ یہ ماہنامہ سال ڈیڑھ سال سے زیادہ نہ چل سکا مگر نقشِ اوّل کے طور پر اس کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بعد ازاں آزاد جمالدینی نے کراچی ہی سے ماہتاک ’’بلوچی‘‘ کا اجرا کیا۔ اس کے بعد متعدد علمی و ادبی جریدے اور اخبارات جن میں اُلس ، نوکیں دور، بلوچی لبزانک اور بلوچی دنیا وغیرہ شامل ہیں ، شائع ہوتے رہے۔

اس زمانے کی لکھاریوں میں آزاد جمالدینی، سید ظہور شاہ ہاشمی، مراد ساحر، اکبر بارکزئی، قاضی عبدالرحیم صابر، قاسم ہوت، احمد زہیر، مرادوآوارانی، گل خان نصیر، عبداللہ جان جمالدینی، محمد بیگ، رفیق قادری، میر شیر محمد مری، ملک محمدطوقی، اشرف سربازی، نصیر کبدانی، ملک محمد سعید اور بہت سے دوسرے بلوچ دانشوروں کی ایک کھیپ سامنے آئی جنھوں نے بلوچی زبان میں افسانے، شاعری اور تاریخ نویسی کے ساتھ ساتھ ڈراموں اور بلوچی زبان پر تحقیق و تنقید کی مختلف جہتوں اور پہلوؤں پر طبع آزمائی کی۔

ادھر کوئٹہ میں ریڈیو پاکستان نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو بشیر احمد بلوچ ، امان اللہ گچکی ، صورت خان مری، عطاشاد اور غوث بخش صابر نے بلوچی زبان و ادب کے فروغ میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کوئٹہ سنٹر کے قیام اور گزشتہ چند سال سے بولان چینل سے نہ صرف بلوچی زبان وادب کے حوالے سے اہم کام ہو رہا ہے بلکہ براہوی اور پشتو میں بھی خاطر خواہ ادب تخلیق ہو رہا ہے۔

ادبی اداروں کے حوالے سے بلوچی اکیڈمی کراچی، بلوچی اکیڈمی کوئٹہ، سید ہاشمی اکیڈمی، مُلا فاضل اکیڈمی، عزت اکیڈمی، بلوچی ادبی بورڈ، آزاد جمالدینی اکیڈمی، بلوچی ادبی پٹ پولی انجمن اور رابعہ خضداری اکیڈمی قابلِ ذکر ہیں اور اسی سلسلے میں محمد سردار خان گشکوری، حاجی عبدالقیوم بلوچ، طاہر محمد بلوچ ، عزیز بگٹی، پیر محمد زبیرانی ، میر گلزار مری ، مومن بزدار اور غوث بہار کا کردار قابلِ تعریف ہے۔

بلوچی زبان و ادب میں نظم و نثر کے ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی میں بلوچی ثقافت، تاریخ اور قدیم شعری اثاثے کو متعارف کرانے میں کامل القادری ، انور رومان، پروفیسر شرافت عباس اور ڈاکٹر انعام الحق کوثر کے نام نمایاں ہیں۔

جس قدیم شعری روایت کو میرگل خان نصیر ، مراد ساحر، سید ظہور شاہ ہاشمی اور عطا شاد وغیرہ نے سنبھالا دیا اُسے قائم رکھنے میں پروفیسر صبا دشتیاری، اللہ بخش بزدار، ڈاکٹر علی دوست بلوچ، غوثبخش صابر، یاسین بسمل، یوسف گچکی، مندوست بگٹی اورصادق مری  جبکہ نثری حوالے سے غنی پرواز، غوث بہار، عزیز بگٹی ، واحد بزدار، منیربادینی اور ڈاکٹر شاہ محمد مری کے نام اہم ہیں۔

        ان قلمکاروں کی تخلیقی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ بلوچی زبان میں اعلیٰ درجے کا ادب تخلیق کیا جا رہا ہے اور یہاں یہ بات کہنا بھی نامناسب نہیں ہو گا کہ آج کا بلوچ ادیب اور شاعر نہ صرف غیر معمولی طور پر حساس ہے بلکہ بہت زیادہ باخبر اور اپنے فطری ویژن کے مطابق بڑی آسانی کے ساتھ گہری سے گہری بات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے اور پھر معاشرے میں درپیش داخلی اور خارجی مسائل کو دیانت داری سے بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہو گا کہ ایک امین کی طرح امانت سمجھ کر اپنے قاری اور سامع تک پہنچانے کی ذمے داری بڑے دلیرانہ، باشعور اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔

٭٭٭

 

سہیل احمد صدیقی   (کراچی)

نزدیک تو آ گوری

 (اُردو ماہیا میں خوبصورت اضافہ )

        نزدیک تو آ گوری، زیر نظر شعری مجموعے کی ابتدا میں محورؔ نے حمدیہ ماہیا تحریر کیا ہے اور سندھی روایت کے اتباع میں ربِ جلیل کوسائیں کہہ کر مخاطب کیا ہے۔۔ سرائیکی میں بھیا للہ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہو تو بندہ لا علم ہے۔ سیدھے سادے انداز میں عرضِ مدعا کرنے والے قاضی اعجاز محورؔ کی یہ نعتیہ کاوش سچی عقیدت کی غماز ہے:

کیا  شہر مدینہ ہے

جینا تو بس محور

اِس شہر میں جینا ہے

        دین کے بعد ہمارا دوسرا حوالہ وطنِ عزیز ہے۔ محورؔ نے نہایت سادگی سے اس ماہیا میں پنجابی ترکیب کا برجستہ استعمال کیا، کیا خوب پیوند لگایا ہے:

 یہ دیس مرا پیارا

اس کے پرچم پر

روشن ہے چن تارا

        قاضی اعجاز محورؔ نے یہ پیار کی باتیں ہیں کے عنوان سے ماہیوں کی ایسی لڑی تشکیل دی ہے کہ نظمِ مسلسل کا گمان ہوتا ہے۔ میری رائے میں انہیں موضوعاتی مسلسل نظم کا تجربہ کرنا چاہیے۔ پنجاب ہے گھر اپنا کے عنوان سے مختلف شہروں کادلچسپ احوال یقیناً لائقِ تقلید مثال ہے۔ نمونے ملاحظہ فرمائیے:

یہ گوجرانوالہ ہے

ٹوٹی سڑکوں کا

یہ شہر حوالہ ہے

٭

مستی ہے شرابوں کی

پتو کی یارو

بستی ہے گلابوں کی

٭

تھالی بھری بیروں کی

جھنگ تو بستی ہے

مہکے ہوئے شعروں کی

      اَب ایسے میں وہ ٹھیٹھ پنجابی سے بھر پور ماہیا لکھ کر داد تو وصول کرتے ہیں ، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اُردو میں پیوند محض آسان، عام فہم الفاظ کا ہی بھلا لگتا ہے۔۔ معانی درج کرتے تو اچھا تھا:

    شیہ شیکا شتی ہے

     شہر شکر گڑھ تو

      بوبو کی بستی ہے

٭٭

    کوٹھی ہے نہ گاڑی ہے

تیرے عاشق کی

حالت بڑی ماڑی ہے

٭٭

بادل بھی نہیں چھائے

تانگھ تھی جن کی وہ

مہماں بھی نہیں آئے

مکالماتی ماہیے اصل میں ا س کتاب کا کلیدی حصہ ہے جو مرد اور عورت کا مکالماتی ماہیا(مسلسل)ہے، بڑا انوکھا انداز ہے۔

مرد کہتا ہے:

یوں عید منا لینا

پھول ہے دل میرا

جوڑے میں لگا لینا

عورت کا جواب بھی بھر پور ہے:

میں عید مناؤں گی

ہاتھ پہ مہندی کا

اِک چاند بناؤں گی

عورت کہتی ہے:

اک گجرا گیندے کا

میری کلائی میں

کوئی جھونکا باندھے گا

مرد کہتا ہے:

گجرے کی بات ہے کیا

  ہاتھ تو کر آگے

  حاضر ہے یہ دل میرا

عورت کی دعوت بڑی منفرد اور نادر ہے:

اک چمچہ چاندی کا

میں ہوں تری باندی

تو ہو جا باندی کا

عورت اس ماہیا میں پنجاب کی بے باک نمائندہ معلوم ہوتی ہے:

میں تتلی بن جاؤں

تو ہو گلاب مرا

میں تیرے لیے گاؤں

ایک جگہ عورت فرمائش کرتی ہے:

پردیس نہ اب جانا

جاؤ اگر اب تم

اک ٹی وی لے آنا

اس فرمائش کا جواب مرد نے یوں دیا ہے کہ قاری چونکے بغیر نہیں رہتا:

پردیس میں جاؤں گا

تیرے لیے ٹی وی

خود بیوی لاؤں گا

محورؔ نے کچھ تجرباتی ماہیے بھی نذر قارئین کیے ہیں ، مگر تقطیع کرنا ضروری  خیال نہ کیا۔

     قاضی صاحب خوش فکر سخنور ہیں ، ماہیا میں بھی ندرتِ خیال اَور مضمون آفرینی کی جوت جگا کر تقلیدِ محض کا باب بند کر دیا ہے:

دُکھ ایک کنواں سا ہے

        دل کی بستی پر

یادوں کا دھواں سا ہے

٭

یہ رُت نہ اُجڑ جائے

آ ترے آنے سے

 رس آموں میں پڑ جائے

٭

اک پھول گلابی سا

سارے گلشن میں

لگتا ہے شرابی سا

٭

       موخرالذکر تو لا جواب عوامی رنگ لیے ہوئے ہے، ایک نئی ترکیب دیکھیئے:

ہر سمت بہاریں ہیں

میرے آنگن میں

فرقت کی پھواریں ہیں

      یا یہ نئی ترکیب:

مہمان نہیں رُکتے

آنکھ سمندر میں

طوفان نہیں رُکتے

 اَب یہ مہمل انداز بھی ملاحظہ کیجئے:

ٍ

پھر کالی گھٹا چھائی

بوندیں چُگنے کو

بگلوں کی قطار آئی

          محورؔ قدیم اساتذہ کی طرح لمسیات نگاری میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں ، مگر مہذب:

رُوپ اور بھی کچھ دمکے

گوری کے کرتے پر

شیشے کا گلا چمکے

      وہ ایسے مقامات پر دیگر ماہیا نگاروں سے ممتاز نظر آتے ہیں :

دل اپنا یہ ہیرا ہے

دکھ کے سمندر میں

سپنوں کا جزیرہ ہے

٭

سورج سے لڑے بادل

جیسے مکھ پہ ترے

لہرائے ترا آنچل

٭

بیمار کے پاس آؤ

کچھ تو تسلی ہو

یا جان بھی لے جاؤ

محورؔ نے بعض جگہ قدیم اُردو کے متروک الفاظ استعمال کیے ہیں جو پنجابی میں آج بھی مروج ہیں :

مجھ سے مت بات کرو

میں ناہیں مانوں گی

بس پیچھے ہاتھ کرو

٭

چل شہر چلیں گوری

عمر نہ کٹ جائے

کھیتوں میں کہیں توری

٭

لیکھے تقدیروں کے

خالی رہتے ہیں

کشکول فقیروں کے

    دوسری طرف وہ عام فہم، چالو زبان بھی لکھنے پر قادر ہیں :

برسوں کا ہے جگراتا

یادیں ایسی ہیں

دل بھول نہیں پاتا

٭

سرسوں کی کھلی فصلیں

دھوپ کے آنگن میں

مٹیاریں رقص کریں

٭

سونے کا کڑا لے دے

لونگ اِک چاندی کا

ہیرے سے جڑا لے دے

      (یہ لونگ پنجابی لفظ، ناک کا زیور، ہے۔ غالباً نتھ کو یہ نام مسالے میں شامل لونگ سے مماثل شکل کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ )

جہاں وہ یہ کہہ کر قدیم رنگِ سخن کا پتہ دیتا ہے:

ٹھوکر میں زمانہ ہے

دِل کی تجوری میں

یادوں کا خزانہ ہے

وہیں جدید ترین اصطلاحات، قوافی، الفاظ اور تراکیب سے نئی نسل کا جی خوش کرنا بھی جانتا ہے:

مت پوچھ ہے کیا دِل میں

ہر پل چلتی ہیں

بس پیار بھری فلمیں

٭

پیسوں پہ نہ مر ماہیا

پیار کیا ہے تو

مِس کال نہ کر ماہیا

٭

لفظوں کا ہے یہ جادو

فون پہ لکھتا ہے

وہ مجھ کو آئی، ایل، یو

٭

ہے ہاتھ میں مٹرولا(موٹرولا)

یار سے دُوری کا

سب ختم ہوا رولا

٭

دِل دھک سے رہ جائے

فون پہ ساجن کا

پیغام جونہی آئے

محورؔ نے پنجابی سے قلبی تعلق متعدد بار، ماہیا میں ظاہر کیا اَور معنی، وضاحت پیش کرنا چنداں ضروری نہیں سمجھا:

پودوں پہ لگیں کلیاں

مہندی لگا آکر

جلتی ہیں مری تلیاں

٭

سب کیکر پھول گئے

بھولی نہ مُٹیاریں

پردیسی بھول گئے

٭

رُت آئی سردی کی

دِل گرماتی ہے

یاد اِک بیدردی کی

بیدردی اُردو میں تو صفت ہے، موصوف بیدرد!

بکری کے دو لیلے

آج تو چرواہے

باہوں میں مجھے لے لے

٭

دیوار پہ گملا ہے

سر میں کہاں پھوڑوں

ماہی مرا کملا ہے  (پاگل، دیوانہ)

٭

اِک گیلا چو ماہیا

میری طرح تو بھی

کبھی تنہا رو ماہیا

           مجموعی طور پر محورؔ کامیاب ماہیا نگار ہیں۔ روانی میں کہیں کہیں فنّی اسقام نظر انداز کر دیتے ہیں :

اپریل کا مہینہ ہے

میرے جیون کا

پہلا یہ زینہ ہے

        ٭’’اپریل مہینہ ہے‘‘۔ یا۔ ’’ایپرل کا  مہینہ ہے‘‘ درست ہو گا۔

میں بادل بن جاؤں

ساتھ ترے گھوموں

پھر لوٹ کے مت آؤں

                       نزدیک تو آ گوری  میں متعدد مقامات پر شاعر کی سادہ بیانی، پُرکاری، بے ساختہ پن اَور دیہی موضوعات کی برجستہ پیشکش قاری کا دل موہ لیتی ہے۔ مزید مثالوں سے گریز کرتے ہوئے آپ کو کتاب کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔

٭٭٭

 

یونس خان ( سرگودھا)

مستنصر حسین تارڑ کا ناول۔۔خس و خاشاک زمانے

        اگر وقت کی گرد سے بچ کر ایک ناول ابھرے اور کوئی کہے کہ یہ ’موبی ڈِک‘ ہے اور موبی ڈِک اَمر ہو جائے تو کیا یہ ممکن ہے کہ وقت کی گرد سے بچ کر ایک ناول ابھرے اور کوئی کہے کہ یہ ’خس و خاشاک زمانے ،ہے اور وہ اَمر ہو جائے؟

        ہاں ! بالکل یہ ممکن ہے کیونکہ جب تک پاکستان ہے تو تقسیم ہند کا ذکر ہوتا رہے گا۔

        جب تقسیم ہند کا ذکر ہو گا تو پھر’ خس و خاشاک زمانے‘ کے ایک باب کہ جس کو ’ٹکٹ پلیز‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے، کا ذکر کیوں نہیں ہو گا!!

        تقسیم ہند کے وقت ہونے والے مظالم کو اس سے اچھا کس نے پینٹ کیا ہے!

        کیا خس و خاشاک زمانے صرف ٹکٹ پلیز ہے ؟

        تو جواب ہے نہیں۔

        منٹو نے شاید ایسی کہانیاں لکھی ہوں۔

        منٹو سے بہتر کون تھا جو ان اندوہناک واقعات کو تحریر کرتا، پینٹ کرتا۔۔۔

        اب تارڑ نے ان مناظر کو پینٹ کر دیا ہے۔۔۔ محفوظ کر دیا ہے۔۔۔

        اصحابِ کہف کی طرح جب ہماری نسل، نئی نسل اپنے ماضی کو جاننے کے لئے اٹھے گی اور ان واقعات کو پڑھے کی تو انہیں یہاں تھما ہوا وقت ملے گا۔۔۔

        ’خس و خاشاک زمانے‘ میں محض یہ ایک باب یا ایک افسانے ہی جاندار نہیں ہیں بلکہ ایسے بے شمار ابواب ہیں جنہیں سیاق و سباق کے بغیر ایک افسانے کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ باب اتنے جاندار ہیں کہ اگر انھیں ناول سے باہر نکال لیا جائے تو ناول کی بنت میں تو کوئی خاص فرق نہیں آتا ہاں البتہ یہ خود ایک مکمل افسانے کی صورت ڈھل جاتے ہیں۔

        کیا یہ راکھ، بہاؤ، اور قربتِ مرگ میں محبت، کا تتمہ ہے؟

        تو جواب ہے نہیں۔

        یہ ناول ذرا ہٹ کے ہے، لیکن یہ محض ایک فالتو ناول نہیں ہے۔۔۔

        ایک مہنگا ناول خریدنا اور پھر اسے ان ناولوں کے پَس منظر میں پڑھنا دراصل گھاٹے کا سودا ہے۔

           پہلے دس صفحات میں کم از کم ۱۰ کردار متعارف ہوتے ہیں اور اگلے ۱۰ صفحات میں مزید اتنے ہی کردار متعارف ہو جاتے ہیں۔ ہر کردار کی اپنی ایک کہانی ہے۔ ان کرداروں کی بنت سے بے شمار چھوٹی چھوٹی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور اپنی انتہا کو پہنچتی ہیں۔ ان کرداروں میں سب سے بڑا کردار بہرحال بخت جہان کا ہے۔ سرو سانسی کو بھی بڑا مارجن دیا گیا ہے۔ نہ قاری تارڑ کے دیگر ناولوں کے پس منظر سے چھٹکارہ حاصل کرتا ہے اور نہ وہ اس ناول میں جذب ہوکر اسے پڑھتا ہے۔ اس ناول کو پڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ ناول نگار کے سابقہ تمام ناولوں سے جان چھڑا کر ان سے ماورا ہو کر اسے پڑھا جائے، تبھی اس ناول کی تفہیم ممکن ہو گی۔

        میں نے بہت کم کتابوں کو دوبارہ پڑھا ہے۔ لیکن میں نے ’ خس و خاشاک زمانے، کو ایک سال کے اندر اندر دو بار پڑھا ہے۔ چند صفحے پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ قارعی نے جُرعہ جُرعہ ایک بڑا خُم شراب پی لی ہے۔ پھر ہر ہر لفظ اثر کرنے لگتا ہے اور پھر ایسا ہی ایک محلول آنکھوں سے چھلکنا شروع ہو جاتا ہے اور سانس رکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اور پھر یہ حال ہو جاتا ہے کہ بندہ ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتا ہے اور محبت کے سندیسے ہوتے ہیں۔ نہ وہاں بہاؤ ہوتا ہے نہ راکھ اور نہ قربتِ مرگ میں محبت۔ صرف وہاں خس و خاشاک زمانے ہوتا ہے اور تب اس پر ایسا امن اترتا ہے جو صرف خس و خاشاک زمانے پڑھنے والے پر ہی اتر سکتا ہے۔ جب ہم راکھ، بہاؤ اور قربتِ مرگ میں محبت سے علیحدہ ہو کر اسے پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ شاید یہ راکھ اور قربتِ  مرگ میں محبت کا ہی اگلا ورژن ہے۔ اس کے سوتے بھی بہرحال راکھ اور قربتِ مرگ میں محبت سے ہی نکلتے ہیں۔

        آغاز میں اس ناول کو بے تابی سے پڑھتے ہیں تو گویا ایک جنگل کو ایک پہاڑ کو دیکھتے ہوے گزرتے ہیں لیکن اس کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جب اسے دوبارہ پڑھتے ہیں تو پھر جزئیات کی طرف توجہ دیتے ہیں ، دھیان دیتے ہیں اور کھو جاتے ہیں۔ پھر ہر ہر پتہ ہر ہر ڈالی بتاتی ہے کہ میں ہوں۔ ’خس و خاشاک زمانے، پڑھنے کے بعد انسان گویا گنگ ہو جاتا ہے، بوجھل ہو جاتا ہے، بے چین ہو جاتا پے۔ ناول کے آغاز میں آنچ دھیمی ہے اور پھر یہ آنچ آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس ناول میں محبت کے مختلف شیڈز ہیں۔ ہر قاری کی جذباتی وابستگی مختلف واقعات کے ساتھ مختلف ہو سکتی ہے۔ یہ ناول بتاتا ہے کہ تاریخ کے اہم واقعات مثلاً تشکیل پاکستان ہو یاسقوط پاکستان یا پھر نو گیارہ، یہ کسی ایک حساس شخص پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔

        پیدائشی معذور افراد بھی تارڑ کی تحریروں کا حصہ بنتے ہیں جیسے پاسکل یا فاختہ اور اب صاحباں۔ متضاد شخصیات بھی تارڑ کی تحریر کا بنیادی جزو ہوتی ہیں جیسے مشاہد اور مردان، اب بخت جہان اور لہناں سنگھ۔ ہمارے اردگرد بہت سے چھوٹے لوگ ہوتے ہیں کہ جن کی طرف ہم توجہ ہی نہیں دیتے لیکن وہ تارڑ کی تحریر کا حصہ بن جاتے ہیں جیسے برگیتا اور اب سرو سانسی۔

        سفر تارڑ کی تحریر کا ایک بنیادی عنصر ہے جو خس و خاشاک زمانے میں بھی شامل ہے۔ ناول کا آغاز گجرات کے ایک گاؤں دنیاپور  سے ہوتا ہے۔ اس کے کردار لاہور پہنچتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ناول میں نیویارک اور کینڈا کا شہر کیلگری در آتے ہیں۔

        تارڑ کی افسانوی تحریر کے جملہ خصائص جیسے فینٹسی، شعور کی رو، کرداروں کا تاریخی واقعات سے ناطہ، کرداروں کے جبلی تضادات اور تحریر کا کھلا پن اس ناول میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔         ٭٭٭

 

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل:تعارف اور تخلیقی سفر

خاندانی نام:     رضیہ خالدہ سلطانہ

قلمی نام:        رضیہ اسماعیل

پیدائش:                ۹/جون (۱۵/رمضان المبارک)

                بھروکی چیمہ (پاکستان)

برج:           جوزا

اولاد:          دو بیٹیاں

                ثناء عائشہ اسماعیل

                ڈاکٹر وردہ اسماعیل

شریکِ سفر:     محمد اسماعیل اعظم

پہلی شعری کاوش:۱۹۷۱ء سنٹرل گورنمنٹ گرلز کالج اسلام آباد  کے انٹر کالجیٹ مشاعرے میں طرحی مصرع پر غزل لکھی جو بعد میں کالج میگزین میں شائع ہوئی۔

                        ؎ آ گئے پھر میری زنجیر ہلانے والے

پہلی نثری کاوش:۱۹۷۳ء میں گورنمنٹ گرلز کالج گجرات میں افسانہ نویسی کے مقابلے میں انعام حاصل کیا

برطانیہ آمد:    ۳۱/ دسمبر ۱۹۷۳ء

تعلیم و تربیت:   بی اے (آنرز) پنجاب یونیورسٹی لاہور

                ایم اے انگلش کراچی یونیورسٹی

                پبلک ایڈمنسٹریشن  ڈپلومہ

                 آکسفورڈ یونیورسٹی

                مانیٹسوری( Montessori) ٹیچنگ ڈپلومہ لندن

                سوشل ورک ڈپلومہ برمنگھم

                ایم اے سوشل ورک -واروک یونیورسٹی

                ڈاکٹریٹ:لندن یونیورسٹی- موضوعِ مقالہ   ’’خانگی تشدد کے بچوں پر اثرات‘‘

                (ہر امتحان امتیازی نمبروں اور اسکالر شپ کے ساتھ پاس کیا)

پیشہ وارانہ خدمات:برٹش سول سروس

                بی سی سی آئی بنک

                ایوننگ میل نیوز پیپر

                ایجوکیشن ویلفئیر سروس

                سوشل سروسز

                کمیونٹی والنٹری سروس  ایڈوائزر

فلاحی اداروں  سے وابستگی :       پاکستانی خواتین کی ادبی اور ثقافتی تنظیم ’’آگہی‘‘ کی بانی اور تا حیات صدر(تنظیم کی بنیاد ۱۹۹۷ء میں رکھی گئی)

                ریڈیو ایکس ایل  -نیوز ریڈر

                ریڈیوشائین- براڈ کاسٹر

                ویمن ایڈ( Women Aid )

                بلیک ویمن فورم(Black Women Forum)

                سمال ہیتھ کمیونٹی فورم

                اقبال اکیڈمی

                نیشنل اکیڈمی آف برٹش رائٹرز

                سردار میموریل ویلفئیر ٹرسٹ

                برطانیہ میں بہترین کمیونٹی خدمات پر ملینیئم کمشن کی تا حیات فیلو شپ

مشاغل اور      کتب بینی، قلم کی ناز برداریاں ،

دل چسپیاں :    مطالعہ فطرت، خود کلامیاں ، سیر و سیاحت، فلم بینی اور خدمتِ خلق

پسندیدہ عالمی     ہیلن کیلر، ذوالفقار علی بھٹو، میلکم ایکس

شخصیات:               شہزادی ڈایانا، نیلسن منڈیلا، عبدالستار ایدھی اور عمران خان

تخلیقی جہات:    غزل، نظم (پابند، آزاد، نثری)، ماہیے، دوہے، افسانہ، کہانی، مختصر ڈراما، کالم، رپورتاژ، انشا پردازی، طنز و مزاح اور سفر نامہ

شاعری

        گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو(غزلیں ، نظمیں )… ۲۰۰۰ء

        سب آنکھیں میری آنکھیں ہیں (نظمیں )…۲۰۰۱ء

        میں عورت ہوں (نثری نظمیں +انگریزی ترجمہ)…جون ۲۰۰۰ء

        پیپل کی چھاؤں میں ( رنگ رنگ کے ماہیے)…۲۰۰۱ء

        ہوا کے سنگ سنگ (غزلیں ، نظمیں دوہے)…۲۰۱۱ء

        خوشبو، گلاب، کانٹے(پانچوں مجموعوں کی کلیات)… ۲۰۱۲ء

        تتلیاں اُداس ہیں …شاعری/مصوری(زیر طبع)

نثر

        چاند میں چڑیلیں (طنز و مزاح) …۲۰۰۰ء

        کہانی بول پڑتی ہے (پوپ کہانیاں )…۲۰۱۲ء

        کاغذی ہے پیرہن (افسانے، زیر تصنیف)

        ہم روحِ سفر ہیں ( ایک منفرد سفر نامہ، زیرِ تحقیق و ترتیب)

تالیفات

         نذرانۂ عقیدت …مجموعۂ درود شریف…۱۹۹۷ء

         نیشنل ویمن ڈائر یکٹری  … … ۱۹۹۹ء

        (برطانیہ میں قلم کار خواتین کی حوالہ جاتی دستاویز)…بہ اہتمام ’’آگہی‘‘

         رائٹ ٹریک ( Write Track) …۲۰۰۰ء

        (’’آگہی‘‘ کے زیرِ اہتمام برطانیہ میں ینگ ایشین ویمن رائٹرزکی نثری اور شعری  تخلیقات کا خاص نمبر، اردو اور انگریزی میں )

         پوئٹری ٹائم  (Poetry Time)…۲۰۰۰ء

        (’’آگہی‘‘ کے زیرِ اہتمام برطانیہ میں ینگ ایشین رائٹرز کا شاعری کا مقابلہ اور انعامات حاصل کرنے والی تخلیقات کتابی شکل میں شائع کی گئیں )

         قرضِ وفا (شہناز مزمل کی شاعری کا انتخاب)… ۲۰۰۲ء

         ’’آگہی ‘‘ ویب سائٹ کا اجراء ۱۹۹۹ء      www.aaghee.co.uk

رابطہ: ای میل     aaghee@hotmail.com

 

بشریٰ رحمن (لاہور)

عورت، خوشبو اور نماز

رضیہ اسماعیل کی نثری اور شعری تحریریں پڑھ کر ایک واضح تاثر بنتا ہے جسے میں کچھ یوں بیان کروں گی کہ جب لڑکی کی شادی ہو جائے، چاہے وہ کسی فقیر سے ہو، بادشاہ سے ہو، گلی محلے میں ہو یا کسی دور دراز شہر میں یا ملک میں ہو جائے، مگر عورت کے دل سے میکہ کبھی نہیں نکلتا۔ میکہ اس کے اندر یوں بسا رہتا ہے جیسے کعبے کی فضاؤں میں دعائیں رہتی ہیں۔ میکے کا تصور اس کے دل کا طواف کرتا رہتا ہے۔ رضیہ کی شاعری میں دو تصورات بڑے واضح ہیں۔ یعنی ایک میکے کا تصور اور دوسرا پاکستانیت۔ اب جب کہ رضیہ اسماعیل برطانیہ میں رہتی ہیں تو پاکستان ان کا میکہ ہے۔ ان کی پوری شاعری اپنی زمین اور اپنی مٹی سے جڑی ہوئی ہے۔ جب وہ اپنی زمین اور مٹی سے جڑی ہوئی شاعری کرتی ہیں تو پھر انھیں زمین کے ساتھ لگی ہوئی اپنی عورت نظر آتی ہے۔ اور وہ عورت کے جذبات و احساسات کو ایک عورت بن کر بیان کرتی ہیں۔ رضیہ اسماعیل کو عورت ہونا اچھا لگتا ہے۔ انھوں نے اپنی نثر یا شاعری میں کہیں یہ نہیں کہا کہ کاش میں عورت نہ ہوتی۔ عورت ہونا ایک بہت خوب صورت بات ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے آپ کی دنیا میں عورت، خوشبو اور نماز پسند ہے۔ یہ بات اسی ترتیب سے کہی گئی ہے۔ اپنی کم علمی کے باوجود جب میں غور و خوض کرتی ہوں تو مجھے عورت کے سلسلے کی ساری وضاحتیں ، خوشبو اور عبادت سے جڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کیوں کہ عورت جہاں بیٹھتی ہے، اپنے وجود کی، اپنے کردار کی خوشبو لے کر بیٹھتی ہے۔ جس گھر کو آباد کرتی ہے، عبادت کے ساتھ آباد کرتی ہے اور وہ گھر عبادت گاہ بن جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ عورت کا دکھ کیا ہے؟ ’’میں عورت ہوں ‘‘ کے پیش لفظ میں رضیہ لکھتی ہیں :’’عورت کی جسمانی ضرورتیں پوری کر کے ہم سمجھ لیتے ہیں کہ فرض ادا ہو گیا۔ مگر نمازوں میں فر ضوں کے ساتھ سنتیں اور نوافل بھی ہوتے ہیں۔ ‘‘ میں ان کے بہت گہرے فقرے کے جواب میں یہ کہوں گی کہ زیادہ تر لوگ تو فرض نمازیں ہی ادا نہیں کرتے تو سنت اور نوافل کی فکر کون کرے گا؟

ایک مرتبہ ایک غیر ملکی سفر میں کسی کانفرنس کی غرض سے جاتے ہوئے ایک مولانا صاحب سے عورتوں کے حقوق کی بات چل نکلی تو انھوں نے ایک خوب صورت بات کہی کہ آپ پاکستان یا دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پاکستان کے اندر جس عورت کو اس کے شوہر نے کبھی تھپڑ نہیں مارا اس عورت کے سارے حقوق ادا ہو گئے۔ یہ اتنا درد ناک فقرہ تھا کہ جس پر میں نہ ہنس سکتی تھی اور نہ رو سکتی تھی۔ رضیہ نے بھی بہت ہی خوبصورت باتیں اور بہت سے خوب صور ت اشعار لکھے ہیں جن پر نہ ہنس سکتے ہیں اور نہ رو سکتے ہیں۔

میرے خیال میں ہمیں اب اس مقام سے نکل کر اکیسویں صدی کی بات کرنا ہو گی۔ اگر دیکھا جائے تو عام طور پر ہمیں دو قسم کی عورتیں ملیں گی۔ ایک مجبور، محکوم اور پسی ہوئی عورت اور دوسری باغی عورت۔ مگر جس عورت کی بات رضیہ اسماعیل  کر رہی ہیں وہ نہ مجبور ہے نہ مظلوم، نہ محکوم بلکہ وہ اصلی عورت ہے۔ وہ عورت کا اصلی چہرہ ہے جو اگر ماں ہو تو قدموں تلے جنت ہے، بیوی ہو تو شوہر کو سرتاج سمجھتی ہے۔ بہن ہو تو بھائی اس کا غرور ہے اور بیٹے کو دل کا سرور سمجھتی ہے۔ وہ ان چاروں حوالوں کو خوشی کے حوالے کہتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ عورت کے یہ چاروں حوالے اس کے حقوق کی بات کہاں تک کرتے ہیں ؟ عورت کو درد کی دولت ملی ہے اور کچھ وافر ہی ملی ہے۔ اب اگر قدرت نے یہ دولت عورت کو عطا کر ہی دی ہے تو پھر قدرت سے کیا کہنا۔ اس کا انعام سمجھ کر اپنے پاس رکھ لینا چاہیے۔

 رضیہ اسماعیل کی ساری کی ساری شاعری خوب صورت ہے جس میں شدتِ احساس ہے۔ ایک عجیب سا انتظار ہے، ایک گہری اداسی ہے جو زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اس طرح جیسے کوئی چیز دوپٹے کے پلو سے باندھ کر گرہ لگائی جائے تاکہ ہمیشہ یاد دلاتی رہے کہ تمھیں اداس بھی رہنا ہے۔ ان کی پوری شاعری میں کہیں منافرت نہیں ہے، کہیں منافقت نہیں ہے، کہیں نفرت نہیں ہے۔ انھوں نے اس قسم کی باغیانہ شاعری نہیں کی۔ انھوں نے چاند، سورج اور ستارے نہیں مانگے۔ صرف اپنے وجود کی شناخت مانگی ہے۔ اپنا آپ گھر کی دہلیز کے اندر مانگا ہے جو ہر عورت مانگتی آئی ہے، جو اس کا حق ہے اور اس صدی کے مردوں کو وہ شعور ہے کہ اسے اس کا حق دے سکیں۔

دو حصوں میں بٹی ہوئی عورتوں کے قبیلے میں ہم لکھنے لکھانے والی عورتیں اس پس ماندہ عورت کی بات کرتی ہیں۔ اگر ہم اس عورت کی بات نہیں کریں گی تو پھر کون کرے گا؟ایسی عورت کے حق کی بات بھی ہمیں ہی کرنی ہے جسے علی الصبح چوٹی سے پکڑ کر اٹھایا جاتا ہے اور رات کو لات مار کر سلایا جاتا ہے۔ ان کی بات بھی ہمیں دوسروں تک پہنچانی ہے۔ اس مرد کے اندر روشنی بھی ہمیں ہی جگانی ہے۔ جب ہم ایسی چیزیں لکھیں گی اور دوسروں تک پہنچیں گی تو معلوم ہو گا کہ عورت کیا مانگتی ہے۔ اس نے بے مہار آزادی تو نہیں مانگی۔ اگر اس نے محبت کی ہے اور فنا ہونے کی ڈگر پر چلی ہے تو کہہ رہی ہے کہ میں تو خود ہی فنا ہونے کے لئے بنی ہوں۔ تم کیوں فنا کرتے ہو؟ دراصل محبتوں میں بھی کچھ لین دین ہوتا ہے جو عورتوں کے معاملے میں مردوں کی طرف سے کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ’’یہ آگہی میری مجھے بے قرار رکھتی ہے‘‘… رضیہ اسماعیل کے پاس آگہی بھی ہے، خوب صورت تحریر بھی ہے، محبت ہے، شدتِ احساس ہے۔ ان کی شاعری میں جو سادگی، سچائی اور احساسِ آگہی ہے وہ سیدھا دل پر جا لگتا ہے۔ انھوں نے بہت سی خوب صورت نظمیں اور اشعار کہے ہیں۔ مثلاً ان کی ایک نظم تحریر کرتی ہوں :

تحریر

لکھو،  اتنا لکھو

یہ زندگی تحریر بن جائے

کسی کاغذ کے ٹکڑے پر

کوئی بگڑی ہوئی تقدیر بن جائے!

لکھو ایسے کہ حرفوں سے

کسی ماہر مصوّر کی کوئی تصویر بن جائے!

تِرے لفظوں میں وہ تاثیر ہو

جو پاؤں کی زنجیر بن جائے!

انڈیلو دل کا سارا درد

تم کاغذ کے ٹکڑوں پر

کوئی فقرہ قلم سے روٹھ کر کچھ اس طرح نکلے

کسی نادیدہ کل کی قیمتی جاگیر بن جائے!

ایک اور نظم ’’تجھے دنیا میں رہنا ہے‘‘ میں محبت جب شکوہ کرتی ہے کہ میں دنیا میں کیوں آئی تو جواب دیتی ہیں کہ:

کہا میں نے محبت تو بہت نازک

بہت پاکیزہ جذبہ ہے

یہ اتنی تلخیاں لے کر بہت سے دُکھ سمیٹے

کیسے اب خالق سے تو نظریں ملائے گی

تِرا مذہب نہیں نفرت

زمانہ تجھ سے کتنا تلخ ہو جائے

تجھے نفرت کے گھر میں قید کر ڈالے

تمھاری نوچ لے آنکھیں

تمھیں برباد کر ڈالے

تِرے تن پر، تِرے من پر

ہزاروں زخم آ جائیں

تو چاہے کتنی گھائل ہو

تجھے دنیا میں رہنا ہے

سبھی کا درد سہنا ہے

یہی تقدیر ہے تیری

یہی حکمِ الٰہی ہے!

ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ:

کس جبر میں جیتی ہے مِرے دیس کی عورت

تھوڑی سی سہی، دادِ وفا کیوں نہیں دیتے

بس تھوڑی سی دادِ وفا، تھوڑی سی محبت کی طالب ہے۔ کیوں کہ خود عورت کے پاس وفا اور محبت کے ضمن میں دینے کو بہت کچھ ہے۔ وہ سخی ہے، دریا دل ہے مگر تھوڑی سی بات کہیں اٹکی ہوئی ہے۔ عورت کو محبت کرنے کو، سخاوت کرنے کو، اپنی روشنیاں بکھیرے دینے کو، اپنے آپ کو لٹا دینے کو، گھروں کو آباد کر دینے کو، رسوئی میں خوشبو پھیلا دینے کو۔ اس کا کام یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ بس اسی سب کچھ کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ یہ سب اس نے اپنی مرضی، اپنی رضا سے حاصل کیا ہے، تسلیم کیا ہے، مگر ایک بات ضرور ہے کہ سارے ہنستے بستے گھر صرف عورت کے دم ہی سے آباد ہیں۔ جہاں عورت اکڑ گئی، گھر آباد نہیں ہوئے۔ جہاں عورت نے برضا و رغبت سر جھکایا ہے، سر گرایا ہے، انہی گھروں میں سرِ شام خوشبودار دھواں اٹھتا ہے۔ پکوان پکتے ہیں اور سارے مرد دوڑ دوڑ کر گھروں کو واپس جاتے ہیں۔ سارے گھر اگر عورت کی وجہ سے آباد ہیں تو سارے شہر مردوں کی وجہ سے آباد ہیں۔ ان عورتوں نے مردوں کو تسلیم کر کے ثابت و سالم کھڑا کر دیا ہے ستونوں کی طرح۔ یہ عورت صبح دم اپنے گھر کا دروازہ کھول کر کہتی ہی کہ جاؤ اور سارے زمانے سے لڑو۔ میں سارا دن تمھارے بچوں کے ساتھ پگھلوں گی اور جب تم سرِ شام آؤ گے تو موتیوں کے ہار گوندھ کر تمھارا استقبال کروں گی۔ جس گھر میں شام کو شوہر نہیں آتا وہ گھر بڑا اداس ہوتا ہے۔ اس گھر کے در و دیوار روتے ہیں۔ اس گھر کے بچے چیختے ہیں۔ اس گھر کی عورت کے ماتھے پر کئی شکنیں ہوتی ہیں۔ یہ آمد و رفت کا عجیب سلسلہ ہے کہ عورت صبح دونوں ہاتھوں سے جسے دنیا کے حوالے کرتی ہے، شام کو وہ اپنے سلگتے سانسوں کے ساتھ اسے وصول کرنا چاہتی ہے۔ گھر کو سجاتی ہے، سنوارتی ہے، یہ گھر ہی اس کی کائنات ہے۔ اس کا سب کچھ ہے۔ جب گھر کے اندر گھر والا آ جاتا ہے تو یہی گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ مگر بہت سے گھر ایسے بھی ہیں جہاں مرد کہتے ہیں کہ نہ دوں تو تجھے روٹی نہ ملے۔ میں نہ دوں تو تجھے کپڑا نہ ملے اور چاہوں تو چوٹی سے پکڑ کر باہر نکال دوں۔ یہ ڈرامے ہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ یہ سب چھوٹی چھوٹی باتیں ، چھوٹے چھوٹے حادثے، رنجشیں بن جاتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے دوستی جاتی رہتی ہے مگر یہ رنجشیں ، یہ فقرے گھروں کا سکون لے جاتے ہیں۔ ہم ساری عورتیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے روشنی عطا کی ہے اور وارثوں کی تائید ملی ہے، علم و آگہی کی مشعل لے کر نکلی ہیں تا کہ دلوں کو دلوں سے جوڑ دیں۔ گھروں کو گھروں سے جوڑ دیں۔ رنجشیں بھول جائیں اور دکھ نہ دینے کا ارادہ کریں۔ کیوں کہ ایک دل ٹوٹتا ہے تو ایک گھر ٹوٹتا ہے، ایک گھر ٹوٹتا ہے تو ایک خاندان ٹوٹتا ہے۔  ایک خاندان ٹوٹتا ہے تو ایک محلہ ٹوٹتا ہے۔ ایک محلہ ٹوٹتا ہے تو ایک شہر ٹوٹتا ہے۔ اور ٹوٹنے کے یہ سلسلے بہت دور تک نکل جاتے ہیں۔ بات سوچنے کی ہے اور ہم سب کو مل کر سوچنا چاہیے کہ ہم آج تک ایک قوم کیوں نہیں بن سکے۔ میں کہتی ہوں کہ تم عورتوں کو گھروں کے اندر عزتِ نفس دے دو، محبت کی چادر اوڑھا دو، اسے عورت پن دے دو، اس کی عزت کراؤ، قوم ایک قوم بن جائے گی۔ جب عورت کو گھر کے اندر قبول نہیں کیا جاتا، اسے یہ سب کچھ نہیں ملتا تو وہ اپنی شناخت کے لئے گھر سے دور ہو جاتی ہے۔

ایک مرتبہ لاہور میں ٹریفک کے موضوع پر آئی جی پولیس سے بات ہو رہی تھی تو میں نے کہا کہ عورتوں کو عزتِ نفس دے دیں ، ہماری ٹریفک ٹھیک ہو جائے گی۔ وہ حیرانی سے پوچھنے لگے کہ وہ کیسے ہو گا؟ میں نے کہا کہ گھروں میں چار، چھ، آٹھ یا دس بچے ہوتے ہیں۔ ہم بھی بہت بہن بھائی تھے۔ گھر کی ساری ٹریفک کا انتظام ماں کے ہاتھ میں تھا۔ وہ سکھاتی تھی کہ ٹریفک درست کیسے رکھنی ہے، کون کہاں بیٹھے گا، کھانا کس کو پہلے ملے گا، روٹی کون بنائے گا، برتن کون صاف کرے گا، باپ کے آگے کون چیز رکھے گا، سکول جانے سے پہلے کیا ہو گا، سکول سے آ کر کیا ہو گا تو یہ سب ٹریفک گھر میں پہلے ماں سکھاتی تھی۔ اب لوگ ماں کو بھول گئے ہیں ، اسے تلاش نہیں کرتے، ماں کو نہیں ڈھونڈتے، اس کے قدموں تلے جنت بھی نہیں کھوجتے، اس کے پیچھے پیچھے نہیں دوڑتے۔ اب تو صرف رکشے کے پیچھے لکھا ہوا نظر آتا ہے …’’ماں کی دعا، جنت کی ہوا‘‘ اور ماں رکشے کے پیچھے پھرتی رہتی ہے۔ ابھی ہمیں ماؤں کی بہت ضرورت ہے۔ گداز دل، محبت کرنے والی مائیں اور جب یہ سب کچھ نہیں ہو گا تو رضیہ اسماعیل بھی ایسی اداس شاعری نہیں کرے گی۔ مثلاً

سُکھ کا دُکھ

میں دُکھ کے راستے پر

 چلتے چلتے تھک گئی ہوں اب

مِرے پاؤں کے چھالے

ہر گھڑی فریاد کرتے ہیں

کسی دُکھ میں چھپے

چھوٹے سے سُکھ کو یاد کرتے ہیں

مِرے اندر کی وہ سہمی ہوئی عورت

مقید جسم کے تاریک کمرے میں

پھٹی آنکھوں سے ہر لمحہ

کوئی کھڑکی، کوئی دروازہ

کھلنے کی صدا کی منتظر

اب تھک گئی ہے

( لاہور میں بشریٰ رحمن کی صدارت میں رضیہ اسماعیل کی کتابوں کی رسمِ اجرا کی تقریب کا خطبۂ صدارت )

٭٭٭

 

ڈاکٹر شہناز مزمل (لاہور)

چشمِ نم…چشمِ حیراں

رضیہ سے میری ملاقات زیادہ پرانی نہیں مگر یہ آنکھوں کا ہی کمال ہے جس سے ہم نے ایک دوسرے کا پہچانا۔ جانے رضیہ کو میری آنکھوں میں کیا نظر آیا۔ یا مجھے رضیہ کی آنکھیں بولتی اور جاگتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ بہرحال آج ہم دونوں متلاشی آنکھوں کے اس تصادم کے راز سے واقف ہو چکے ہیں۔ شاید کوئی دوسرا نہ جان سکے۔

’’آنکھیں ‘‘ ایک لفظ ہے مگر اس کے اندر معانی کی ایک پوری دنیا آباد ہے۔ رضیہ اسماعیل نے زیرِ نظر مجموعۂ کلام میں مشاہدے کی آنکھ سے حاصل شدہ تمام تر موضوعات کو گرفت میں لا کر اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چشمِ بینا اور چشمِ بصیرت رکھنے والی رضیہ کچھ عرصہ قبل ’’گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو‘‘ کہہ کر شاعری کی وادیِ  پُر خار میں آبلہ پائی کے لئے قدم رکھ چکی ہیں۔ اس وادیِ  پُر خار میں داخل ہونے کے بعد اس نے اپنے جذبات اور محسوسات کو، جو مستعار نہیں لیے جا سکتے بلکہ مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوتے ہیں ، ایک نیا رنگ دیا۔ آہنگ بے شک پرانا ہے۔

رضیہ اسماعیل جو ایک عورت ہے، ایک ماں ہے، سراپا درد ہے۔ ہر درد، ہر کرب اس کو ممتا نے بخشا ہے، جو تخلیق کار ہے اور تخلیق بنا کرب کے ناممکن ہے۔ درد نے اس کو چشمِ نم اور چشمِ حیراں عطا کی ہے۔ نمی کے اس جھلملاتے سمندر میں منظر اور پس منظر کبھی واضح ہو جاتے ہیں ، کبھی دھندلا جاتے ہیں۔ تصویریں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ آہو چشم رضیہ چشمِ حیراں کے سہارے جستجو کے زینے تیزی سے طے کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ تلاش منزل کی ہے یا اس سے بھی آگے کی یا منزل بے معنی ہے؟ جانے کیا ہے، جس نے اسے آمادۂ سفر کر رکھا ہے؟ وہ پا بجولاں دشت نوردی پر نکلی ہے۔ راستے میں بکھرے ہوئے کانٹے، کنکر، کرچیاں اس کو زخمی کر رہے ہیں۔ تاریک راہوں کے اندر کی روشن آنکھ متلاشی رضیہ کے ساتھ قطب ستارے کی طرح ہے۔ اس سفر میں اس کی چشمِ بینا نے کیا کیا نہ دیکھا۔ تلخیاں ، دُکھ کے پھیلے ہوئے ساگر، یہاں تک کہ تلخ حقیقتوں کی کڑواہٹ اس کے اندر تک سرایت کر گئی۔ ظلمتوں نے اس کی باطن کی آنکھ کو روشن کر دیا اور سب کچھ اس کے اندر مٹ آیا۔ باطن روشن ہوا تو آنکھ میں وسعت آ گئی اور آخر رضیہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ

’’سب آنکھیں میری آنکھیں ہیں ‘‘

یہ مصرعہ اس کو دورانِ تلاش چشمِ حیراں نے عطا کیا۔ اس کی روشن آنکھ نے اپنی ہم جنس کے وہ روپ اور انداز دیکھے کہ جذبات میں طوفان آ گیا۔ اس جوار بھاٹے میں رضیہ ڈوبتی رہی، پگھلتی رہی اور آہستہ آہستہ اس نے گرداب میں سنبھلنے کا سلیقہ سیکھ لیا۔ ظاہری ٹھہراؤ نے اس کے اندر تلاطم برپا کر دیا اور یہ تلاطم کبھی الفاظ کا خوب صورت اور کبھی کٹھور جامہ پہن کر صفحۂ قرطاس پر بکھرنے لگا اور بکھرتا ہی چلا گیا۔ اور اب یہ بہاؤ اس قدر تیز ہے کہ اب اس کو روکنا شاید رضیہ کے بس کی بات بھی نہیں۔ غمِ جاناں اور غمِ دوراں جس کا مشاہدہ اس نے پاکستان میں اور پھر برطانیہ میں بھی کیا، اس کو درد آشنا کرتا چلا گیا۔ لا متناہی کرب جو غمِ دوراں غمِ جاناں سے حاصل ہوا، اس نے رضیہ کو بہادر بھی بنا دیا اور زبان بھی عطا کی۔ مگر مایوسی، مظلومیت اور دُکھ کا عنصر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گیا۔ عورت کی بے چارگی کا یہ دُکھ اس کی شاعری میں جا بجا بکھرا نظر آتا ہے۔ ظلم کی چکی میں پسی ہوئی عورت سوچ کے بادبان بھی کھولتے ہوئے ڈرتی ہے۔

سوچ کے بادباں

اس ہوا

اس فضا میں

کھلیں بھی تو کیسے کھلیں

مجھ کو تو ہی بتا

_____

رضیہ کو دنیا عقوبت خانہ نظر آتی ہے تو عقوبت خانے جیسی نظم سامنے آتی ہے۔ رضیہ کی شاعری میں بدلتے موسموں کے رنگ بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن اس میں خزاں اور ساون کی رُت نمایاں ہے۔ بہار رنگ کم کم نظر آتے ہیں۔ مایوسی کا عنصر زیادہ ہے، امید کی کرن دھندلی ہے۔ کرب اور دُکھ کے بادلوں کی دبیز تہہ میں لپٹے لپٹائے موضوعات اس کی شاعری کا حصہ ہیں۔ آنکھ کا استعارہ کئی جگہ استعمال ہوا ہے اور اس کی اکثر نظموں کا عنوان یہی ہے۔ جیسے:

آنکھیں

آنکھ شرمندہ ہے

بدن میں آنکھ

سب آنکھیں میری آنکھیں ہیں

متلاشی آنکھیں

_____

’’بادبان‘‘، ’’آسمان‘‘ اور ’’زنداں ‘‘ کے استعارے اس نے زمانے کے ناروا رویے سے اخذ کیے ہیں …شاعری کا انداز گفتگو کا سا ہے۔ اس میں خود کلامی بھی اور اندازِ تخاطب بھی ہے۔ تمام شاعری عورت کی ذات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ ایسی عورت جو مجبور ہے، مظلوم ہے، محبوس ہے۔ مگر رضیہ جی! میرا پُر خلوص مشورہ ہے کہ اب عورت کو اپنی وہ چنری، جس میں دھوپ باندھ دی گئی ہے، سائباں بنا کر، علَم بنا کر سامنے آنا ہے۔ چودہ سو سال قبل جو آزادی ہمیں ملی تھی، اس حق کو استعمال کرنا ہو گا۔ ہم اپنا استحصال نہیں ہونے دیں گے۔ ہم عقوبت خانوں میں رہنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ ہم تو وہ ہیں جن کے قدموں تلے جنت ہے اور یہ بات ہمیں بانگِ دہل منوانا ہو گی۔ اور آج سب کے سامنے برملا اپنی بات کہنا، رائے دینا، اس چیز کا بیّن ثبوت ہے کہ اب تعمیر کی طرف ہمارے بڑھتے ہوئے قدم روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اور یہاں میں اپنا ایک شعر تمھاری وساطت سے آج کی عورت کی نذر کرتی ہوں۔

ہماری سوچ پر پہرے بٹھاؤ تم تو ہم جانیں

بندھے ہاتھوں سے زندہ لفظ ہم تحریر کرتے ہیں

رضیہ جی اس دفعہ پاکستان میں زندگی کا کچھ سفر تم نے میرے ساتھ طے کیا ہے۔ اب تم ذات کی دہلیز پار کر کے عرفانِ ذات کے عمل سے گزر رہی ہو۔ عرفانِ ذات نے تمھیں ذوقِ آگہی بخشا ہے اور تمھاری باطن کی آنکھیں مزید روشن ہو گئی ہیں۔ یہ روشن آنکھیں روشن ستارے بن کر تمھارے ظلمت کدۂ شب کو درخشندہ کر دیں گے۔ دُکھ سمیٹنے پر سُکھ کے حسین مناظر تمھاری آنکھوں کو مزید جِلا بخشیں گے۔ تم خود جان لو گی کہ دعا محبت ہے اور نفرت بد دعا ہے، محبتوں کی پیامبر بن کر دنیا میں محبتیں تقسیم کرتی رہو، کرتی رہو! صلے کی پروا کیے بغیر۔ پھر میں کہوں گی:

سب آنکھیں تیری آنکھیں ہیں

سب سپنے تیرے سپنے ہیں

جب دُکھ بانٹے گی سب کے تو

سب سُکھ بھی تیرے اپنے ہیں

٭٭٭

 

حیدر قریشی (جرمنی)

رضیہ اسماعیل کی ماہیا نگاری

          اردو میں ماہیا نگاری کی جتنی مخالفت ہو رہی ہے اتنی ہی اسے مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ تھوڑا عرصہ پہلے برمنگھم میں ممتاز ادیب اور صحافی محمود ہاشمی سے ٹیلی فون پر بات ہو رہی تھی۔

ماہیے کا ذکر ہوا تو محمود ہاشمی نے بتایا کہ برمنگھم کی ایک شاعرہ اور مزاح نگار رضیہ اسماعیل بھی ماہیے کہہ رہی ہیں۔ مجھے اس خبر سے خوشی ہوئی، تاہم ہلکا سا وسوسہ بھی رہا کہ یہ بھی کہیں عارضی قسم کی ماہیا نگار خاتون نہ نکلیں۔ جب ان سے رابطہ ہوا تو میرا وسوسہ دور ہو چکا تھا۔ وہ مجھ سے کسی رابطہ کے بغیر محض ادبی تحریک سے اتنے ماہیے کہہ چکی تھیں کہ ان کا مجموعہ تیار ہو چکا تھا۔ جب رابطہ ہوا تو ان کا دوسرا ادبی کام بھی سامنے آیا۔ خواتین کی ادبی و ثقافتی تنظیم ’’آگہی‘‘ کو قائم کرنے کے علاوہ تخلیقی سطح پر ان کے کام کی کئی جہات ہیں۔ غزلوں کا مجموعہ ’’گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو‘‘ طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’’چاند میں چڑیلیں ‘‘اور نثری نظموں (نثرِ لطیف) کا مجموعہ ’’میں عورت ہوں ‘‘(اردو، انگریزی میں ایک ساتھ)شائع ہو چکے ہیں۔ شاعری کے بارے میں تو بات آگے ہوتی رہے گی، ان کی نثر کے حوالے سے محمود ہاشمی کی رائے درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ محمود ہاشمی لکھتے ہیں :

        ’’شاعروں اور مشاعروں کی بالادستی کے اس دور میں ایک شاعر کا نثر اور وہ بھی طنزو مزاح کی طرف متوجہ ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔ رضیہ اسماعیل مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف نہایت سنجیدگی سے معیاری شاعری کی ہے بلکہ نثر لکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ اگر لکھنے کا ڈھنگ آتا ہو، مزاج کی اپج ہو، طبیعت میں روانی ہو تو نثر میں برجستگی اور شگفتگی سے ایسی ایسی جادو بیانی کی جا سکتی ہے کہ اس پر کئی شعر قربان کیے جا سکتے ہیں۔ رضیہ اسماعیل نے نثر لکھ کر اس فصیل کو بہت حد تک توڑ دیا ہے جو آج کے اکثر ادیبوں کے لاشعور میں نثر کی طرف جانے والے راستے میں ایک کوہِ گراں بن کر کھڑی رہتی ہے۔ ‘‘

        اب رضیہ اسماعیل کے ڈھیر سارے ماہیے ایک ساتھ پڑھنے کے بعد میرے سامنے رضیہ اسماعیل کی ایک اور جہت روشن ہے۔ ان کے ماہیے میں ان کے خیالات، احساسات اور تلخ و شیریں تجربات کا بے ساختہ اظہار ہے۔ ایک طرف ان کے ماہیوں میں حمد، نعت، سانحۂ کربلا اور تکریمِ صحابہ سے متعلق ماہیے ملتے ہیں تو دوسری طرف انگلینڈ میں مقیم ہونے کے باعث یہاں کے ثقافتی ٹکراؤ اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کو عمدگی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ پہلے تبرک کے طور پر چند دینی ماہیے دیکھئے:

تو  باغ کا  مالی  ہے

 تیری رحمت کا

جگ سارا سوالی ہے

رب کے احکام ہوئے

آقاؐ آپ کے ہم

بے دام غلام ہوئے

اک شاخ انجیر کی ہے

رشتہ مدینے سے

صورت زنجیر کی ہے

ہمیں تیرےؐ سہارے ہیں

پیاس  بجھا  دینا

کوثر کے کنارے ہیں

دریا میں سفینہ ہے

ماہِ   رمضاں تو

بخشش کا مہینہ ہے

معراج کی رات آئی

جھولیاں بھر لو تم

رب کی سوغات آئی

جب غم کی گھٹا چھائی

پیٹتی سر اپنا

کربل میں قضا آئی

پانی کا سوالی ہے

نانا نبیؐ، جس کا

کوثر کا  والی ہے

اشکوں سے وضو کر کے

ماہیے لکھتی ہوں

میں دل  کو  لہو کر کے

تو  آمنہ  جایا  ہے

بی بی حلیمہ نے

تجھےؐ دودھ پلایا ہے

دو فاطمہ جائے تھے

توؐ نے محبت سے

کاندھوں پہ بٹھائے تھے

بڑے دکھ سکھ ہوتے ہیں

تیرےؐ پہلو میں

تیرے یار بھی سوتے ہیں

          ان ماہیوں میں مذہبی محبت اور عقیدت کا رنگ غالب ہے لیکن مجھے مذہب سے یہ لگاؤ ایک طرح سے ثقافتی رنگ میں بھی محسوس ہوا ہے۔ انگلینڈ میں رہتے ہوئے جب ہمیں اپنا دیسی معاشرہ اور ماحول یاد آتا ہے تو اس کا مذہبی رنگ اس انداز سے اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔ یوں بھی ثقافت کے ارضی رنگوں کے دوش بدوش آسمانی رنگوں کی آمیزش سے ہی کسی تہذیب و ثقافت کی تکمیل ہوتی ہے۔ آسمانی رنگ میں مذہبی عقائد سب سے قوی اور موثر ہوتے ہیں۔

        ثقافتی ٹکراؤ یا ثقافتی بحران کی وہ صورت جو بر صغیر سے تعلق رکھنے والے، یورپ میں مقیم کم و بیش ہر فرد کو درپیش ہے، رضیہ اسماعیل نے اسے اپنے ماہیوں میں اتنی عمدگی سے بیان کیا ہے کہ یہ گویا ہر دل کی آواز بن گئی ہے۔ ایسے ماہیوں کی چند مثالوں سے میری بات بہتر طور پر واضح ہو سکے گی۔

کڑوے ہیں سکھ  ماہیا

کس کو سنائیں اب

انگلینڈ  کے  دکھ  ماہیا

کلچر   کا   رونا   ہے

آ کے ولایت میں

اب کچھ  تو کھونا  ہے

سب زخم چھپاتے ہیں

رہنے کا یورپ میں

ہم  قرض چکاتے ہیں

یو۔ کے  میں بستے ہیں

کیسا مقدر ہے

روتے ہیں ، نہ ہنستے ہیں

انگلینڈ کے میلے ہیں

جھرمٹ لوگوں کے

ہم پھر بھی اکیلے ہیں

ہیریں ہیں نہ رانجھے ہیں

ہم نے ہوٹل میں

برتن  بھی  مانجھے  ہیں

           یورپ میں مقیم بعض دوسرے ماہیا نگاروں نے بھی یہاں درپیش مسائل کو عمدگی سے اپنا موضوع بنایا ہے لیکن ایسا انداز کہ جس سے ہم لوگوں کا ثقافتی بحران اور اس مسئلے کی داخلی کیفیات نمایاں ہو سکیں ، اس کو رضیہ اسماعیل نے ایسی بے ساختگی سے بیان کیا ہے کہ یہ ان کی انفرادیت بن گئی ہے۔ ایسی انفرادیت جس میں پورے اجتماع کی ترجمانی یا عکاسی موجود ہے۔

یورپی زندگی کی بعض نجی اور اجتماعی نوعیت کی ملی جلی چند مثالیں بھی دیکھتے چلیں :

کس دیس میں رہتے ہیں

بچے پیرنٹس کو

یہاں شٹ اپ کہتے ہیں

دادا  ہے   نہ  دادی ہے

پکڑ کے ڈیڈی نے

شادی  کروا  دی  ہے

یہاں  کون  ہمارا ہے

سردی دشمن ہے

ہیٹر  کا   سہارا    ہے

کونجوں کی ڈاریں ہیں

بینیفٹ آفس میں

بڑی لمبی قطاریں ہیں

        مغرب میں رہنے والی ایک پاکستانی عورت کی حیثیت سے ماہیا نگاری کرنے والی رضیہ اسماعیل نے ماہیے کے عمومی موضوعات کو بھی چھوا ہے لیکن ان میں دوسروں میں شامل رہنے کے باوجود ان سے ہٹ کر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور انڈیا میں الگ الگ رائے پائی جاتی ہے اور دونوں طرف سے ماہیا نگاروں نے اپنے اپنے ماہیوں میں اپنے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ رضیہ اسماعیل نے بھی کشمیر کے حوالے سے دو ماہیے کہے ہیں اور ان میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ان کا ایک ماہیا اتنا عمدہ ہے کہ اس کی داد انڈیا کے ادبی ذوق رکھنے والے بھی دیں گے۔

کشمیر کی وادی ہے

جائے کوئی روکے

یہ جبری شادی ہے

 مجھے لگتا ہے کہ یہ ماہیا کہتے وقت بھی رضیہ اسماعیل کے لاشعور میں یورپی کلچر سے ٹکراؤ کا عمل جاری تھا۔ یہاں بعض والدین نے جس طرح بچوں کی شادیاں جبراً کرنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجہ میں جو تلخ مسائل پیدا ہوئے، رضیہ کے ہاں کشمیر کی سیاسی صورتحال پر اپنے پاکستانی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لاشعوری طور پر ان کا اظہار ہوا ہے۔ تاہم یوں بھی نہیں کہ رضیہ صرف یورپ اور مشرق کے ٹکراؤ تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان کے ہاں ماہیے کا وہ رنگ بھی نمایاں ہے جو پنجاب کا رنگ کہلاتا ہے۔ ان کے ایسے ماہیے دیکھیں :

میں لہر چناب کی ہوں

غیرت بھائیوں کی

بیٹی پنجاب  کی ہوں

اک  لڑکی  گاؤں میں

ماہیے لکھتی ہے

پیپل کی چھاؤں میں

اک  نہر  کنارا  ہے

گاؤں کا ہر ذرہ

مجھے جان سے پیارا ہے

بیلوں  کی  جوڑی  ہے

اس نے شرارت سے

میری گاگر  توڑی ہے

فصلوں کی کٹائی ہے

ساگ پراٹھے ہیں

کہیں دودھ ملائی ہے

ہاتھوں کی لکیریں ہیں

جوگیا! دیکھ ذرا

کیسی  تحریریں  ہیں

       عورت کے حقوق کا موضوع رضیہ اسماعیل کا خاص موضوع ہے جو ان کی غزلوں ، نظموں سے لے کر طنزیہ مزاحیہ مضامین تک نمایاں ہے۔ ان کے ماہیوں میں بھی اس موضوع کو آنا تھا، سو آیا:

عورت کو ستاؤگے

جنم جلی ہے جو

کیا اس کو جلاؤ گے

یہ دئیے کی باتی ہے

قدر کرو اس کی

دکھ سکھ کی ساتھی ہے

عورت کو دغا دو گے

بیوی بنا کر تم

چولہے میں جلا دو گے

کمہار  کا  آوا   ہے

پکتا رہتا ہے

مِرے دل کا جو لاوا ہے

شبنم  کا  قطرہ  ہے

تنہا عورت کو

ہر طرف سے خطرہ ہے

       رضیہ اسماعیل نے اپنی ماہیا نگاری سے ماہیے کی تحریک کو تقویت پہنچائی ہے۔ انگلینڈ کے مشاعروں سے لے کر بی بی سی ایشیا کے اردو ادبی پروگراموں تک  اردو ماہیا کو ادبی وقار کے ساتھ متعارف کرایا ہے۔ اب ان کے ماہیوں کا مجموعہ چھپنے جا رہا ہے تو مجھے دلی خوشی ہو رہی ہے۔

ان کے ماہیے ان کے دل کی کہانی ہیں۔ اگرچہ انہوں نے یہ کہا ہے:

یہ دل کی کہانی ہے

کوئی نہیں سنتا

اب خود کو سنانی ہے

              لیکن مجھے یقین ہے کہ اس مجموعہ کی اشاعت کے بعد ماہیے کے قارئین اس کہانی کو دلچسپی سے پڑھیں گے، کیونکہ یہ صرف رضیہ اسماعیل کی اپنی ہی نہیں ، ہر صاحبِ دل کی کہانی ہے۔ ماہیا ’’کتابِ دل ‘‘ہی تو ہے۔ بہر حال رضیہ اسماعیل کے اس مجموعے کا دلی خوشی کے ساتھ خیرمقدم کرتا ہوں !

٭٭٭

 

(ماہیوں کے مجموعہ ’’پیپل کی چھاؤں میں ‘‘کا پیش لفظ)

زاہد مسعود  (لاہور)

عورت کی سَکّھی

رضیہ اسماعیل کو میں اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ رضیہ خالدہ تھی اور وزیرآباد کی گلی چاولیاں میں رہتی تھی۔ اس کو آس پاس کے گھروں میں ایک لائق، محنتی اور ذہین لڑکی خیال کیا جاتا تھا اور کسی کو گمان تک نہ تھا کہ میٹرک کے امتحان میں وظیفہ حاصل کرنے والی یہ ’’پڑھاکو‘‘ لڑکی ایک دن شاعری جیسی ممنوع اور معتوب حرکت کر کے اپنے شان دار تعلیمی کیریئر کو داؤ پر لگا دے گی۔ مجھے یقین ہے کہ گلی چاولیاں کی وہ بڑی بوڑھیاں جو سر پر ڈوپٹہ سرک جانے پر بچیوں کی سخت سرزنش کیا کرتی تھیں ، آج رضیہ کی شاعری سنتیں تو ایک بار اس کو سخت سرزنش کر کے ضرور گلے سے لگا لیتیں۔

عورت کے ساتھ ہمارا معاشرتی رویہ ویسا ہی رہا ہے جیسا کہ کم و بیش ہماری روایتی اُردو غزل میں ملتا ہے۔ یہ ایک طویل بحث ہے جس میں پڑے بغیر صرف اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ ہمارے ہاں زندگی کا تانا بانا مکمل طور پر عورت کے گرد گھومتا ہے۔ مگر عورت کو منہا کر کے، ہم عورت کے حوالے سے ایک زبردست قسم کی منافقانہ روش کو معاشرتی قدروں کا جزو بنا چکے ہیں اور اس پر کاربند رہنے کو مذہبی فریضہ خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ دنیا کے کسی مذہب نے بھی عورت کے اس طرح استحصال کی اجازت نہیں دی۔ مگر یہ ہمارا کمال ہے کہ ہم نے چادر اور چاردیواری کے تصور کو حقوق اور تحفظ کی بجائے غلامی، زیادتی اور محکومی سے منسوب کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں جب عورت اپنے وجود کا یقین کرنے کی کوشش کرتی ہے تو مرد کے لئے اپنے بنائے ہوئے معاشرے میں اتنی ہلچل ضرور پیدا ہوتی ہے جتنی ایک جوہڑ کے اندر پتھر پھینکنے پر۔ تمام جدید شعور اور انسانی حقوق کے ادراک کے باوجود عورت کو انسان تسلیم کرنے کا زمانہ ابھی بہت دُور ہے۔ رضیہ ایک ایسی عورت ہے جس نے عورت کی انسانی حیثیت کو پہچان عطا کرنے کی جد و جہد میں نہایت پُر عزم طریقے سے حصہ لینے کا اعلان کیا ہے اور اس کا ثبوت اس کی شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔ وہ رضیہ خالدہ ہو کہ رضیہ اسماعیل، اسے اپنے ہوتے کا پتا ہے اور یہ وہ سعادت ہے جو ہمارے ہاں کی عورتوں کو شاید ہی اس زندگی میں نصیب ہوتی ہو۔ میں رضیہ کو اس نعمت کے حصول پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اسماعیل کو بھی جو میرا بچپن کا دوست اور بڑھاپے کا ’’متوقع لنگوٹیا‘‘ ہے کہ اس نے رضیہ کی خود شناسی میں اس کی بھرپور معاونت کی۔ میں رضیہ اور اسماعیل ایک ہی بستی کے بچھڑے ہوئے لوگ ہیں اور اسی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جس کا منظر نامہ ہم ان تنگ و تاریک گلیوں میں چھوڑ آئے ہیں جہاں ہماری ادھ کھلی آنکھیں عمروں سے بڑے خواب دیکھا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جب بھی ملتے ہیں ، لمحۂ موجود سے بالکل غافل ہو کر اسی ماضی میں کھو جاتے ہیں جو ہماری بہت سی خاموشیوں کو زبان دیتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے کچھ کہنے کے لئے تمہیدی لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں رضیہ کی شاعری کا وہ قاری ہوں جسے گواہ کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس لئے میں وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ رضیہ نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ سچ کہا ہے اور سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہا۔ رضیہ کی غزلوں اور نظموں میں کیفیات کے فرق کے باوجود نمایاں بات ذات کے کرب کو اردگرد کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے اور اس کا اسلوب اس صلاحیت کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کا وصف رکھتا ہے۔ رضیہ شعری زبان میں تفصیل کے ساتھ بات کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے۔ اس کی کتابوں کے ناموں میں وہ اعتماد ہے جو اس کی شاعری کا اصل مضمون ہے۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ رضیہ نے اپنے تخلیقی تجربے کو نعرہ بازی اور غیر ضروری جدیدیت سے آلودہ نہیں کیا۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاں کی ادبی سیاست اور گروہ بازی سے دور ہی رہی۔ ورنہ یہاں تو خواتین نے اپنی ہم آواز خواتین کو چپ کا روزہ رکھنے کی تلقین کی۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں اسی چپ کو اپنی لیڈری چمکانے کے لئے نہایت بے رحمی سے استعمال کیا۔ میرا یقین ہے کہ شاعری کرتے ہوئے شاعر بھی ایک نوزائیدہ بچے کی طرح معصوم ہوتا ہے۔ باقی تمام معاملات فروعی اور خود ساختہ ہیں جن کا تعلق رنگ، نسل، گروہ کے علاوہ انا اور شہرت کے عوارض سے ہے۔ شاعری سے بہرحال ان کا کوئی تعلق نہیں۔

رضیہ نے اپنی شاعری میں ہجر و وصال جیسے نازک جذبوں کو بھی فطری انداز میں سمودیا ہے۔ اس کا دُکھ اظہار کے کئی پیرائے اختیار کرتا ہے مگر مطمئن نظر نہیں آتا۔ اس کے پاس بات کرنے کے کئی طریقے ہیں مگر یوں لگتا ہے کہ اسے ابھی بہت سی باتیں کرنی ہیں۔ غزل ہو یا نظم، اصل مسئلہ کچھ کہنا ہے اور رضیہ بہت کچھ کہنا چاہتی ہے۔

وہ ایک حوصلہ مند خاتون ہے۔ اس نے زندگی میں بہت سے خواب دیکھے، کئی خیال بکھیرے، بہت کچھ اَن کہا رہنے دیا، بہت سی لائنیں اور مصرعے قلم زد کیے، بہت سے لفظ لکھ کر مٹائے اور بہت سی سرگوشیاں ہونٹوں کی جنبش میں دفن کیں۔ ہم جان سکتے ہیں کہ بحیثیت شاعرہ اسے کتنے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا ہو گا مگر اس کے باوجود اس نے کئی خواہشوں ، حسرتوں ، بے نور صبحوں ، تاریک راتوں ، آہوں اور کرچی کرچی خوابوں کا حساب مانگا ہے۔ یہ درست ہے کہ ابھی اس کے سوالات کا جواب ملنے کا وقت نہیں آیا۔ مگر سوال کرنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے اور رضیہ نے اس وقت کو پہچان لیا ہے۔ اس نے عورت کی تمام حیثیتوں کو معتبر بنایا ہے۔ اس کا احساسِ ذات بھی محض ذاتی نہیں بلکہ اس عورت کا احساسِ ذات ہے جو چادروں اور چار دیواریوں میں تحفظ کے نام پر غلام بنائے جانے کی قطعاً تمنا نہیں رکھتی۔ اس کو ملکی اور غیر ملکی حدوں میں جس طرح انسان کی بجائے ’’مال‘‘ سمجھ کر اِدھر اُدھر کیا جا رہا ہے وہ اسے کسی طرح بھی قبول نہیں۔ آج عورت اگر اپنا اصل حوالہ مانگتی ہے تو حقوق کی جد و جہد میں وہ اکیلی نہیں ، وہ تمام آوازیں اس کے ساتھ ہیں جن کا دُکھ رضیہ کے ان لفظوں میں ڈھل چکا ہے:

اے کاش  سرِ صحرا  اک  پھول کھلا  ہوتا

اس پھول کے پہلو میں اک دیپ جلا ہوتا

رضیہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جس روز پھول کھل گیا، صحرا، صحرا نہیں رہے گا، گلشن بن جائے گا اور اس گلشن میں رضیہ اپنی سَکھیوں سمیت جتنے دیپ چاہے جلا سکے گی۔

 

سلطانہ مہر (برمنگھم)

ایک حوصلہ مند شاعرہ

بچپن میں والدین کی دی ہوئی تعلیم زندگی بھر کے لئے مشعلِ راہ بنی رہتی ہے۔ رضیہ اسماعیل کے والدین نے بھی انھیں بچپن میں حوصلہ مند رہنے اور سچ بولنے کی تعلیم دی تھی۔  رضیہ اسماعیل  نے اس پر ہمیشہ عمل کیا۔ گو بقول  رضیہ، اس خوبی نے انھیں بہت دکھ دیئے مگر انھوں نے ریا کاری اور منافقت سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ جو سچ جانا، ا سے ببانگِ دُہل کہا اور یہی رویہ اس نے اپنی شاعری میں بھی اپنایا۔ مثلاً

جوان چہرے لٹے لٹے سے، نظر کی شمعیں بجھی بجھی سی

نشے سے اجڑی جوانیوں کو میں کیسے عہدِ شباب لکھوں

 رضیہ اسماعیل  کے ذہن پر بچپن کے تاثرات بہت گہرے ہیں۔ گاؤں کی کھلی فضا، لہلہاتے کھیت، بہتی ندیاں ، تاروں بھری راتوں کی مسحور کن فضا میں بالخصوص تہجد کے وقت ان کے والد کے ’’اللہ ہُو‘‘ کے دل کش وِرد نے رضیہ کو بہت متاثر کیا۔ کم سن لڑکی رضیہ کے ذہن میں اس کے اطراف و نواح کے ماحول سے جنم پانے والے سوالات نے اس میں غور و فکر کی عادت ڈال دی۔ لیکن ان کا جواب اسے بہت بعد میں ملا۔

 رضیہ اسماعیل نے صنفِ شاعری میں غزل کے ساتھ نظم(آزاد، پابند اور نثری) کے علاوہ ماہیے اور دوہے بھی لکھے ہیں۔ ’’ گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو‘‘ ان کی پہلی شعری کاوش تھی جس کے بعد ۲۰۰۱ء میں ان کی تین کتابیں نظموں کا مجموعہ ’’سب آنکھیں میری آنکھیں ہیں ‘‘، ماہیوں کا مجموعہ ’’پیپل کی چھاؤں میں ‘‘ اور نثری نظموں کا مجموعہ انگریزی تراجم کے ساتھ’’میں عورت ہوں ‘‘ شائع ہوا۔ رضیہ نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ افسانے لکھے، اردو اور انگریزی میں مختصر دورانیے کے سٹیج ڈرامے لکھے۔ کالم نویسی اور رپورتاژ بھی کی۔ مگر طبیعت کی روانی انشا پردازی اور ہلکے پھلکے طنز و مزاح کی طرف مائل رہی۔ چناں چہ ۲۰۰۰ء میں ’’چاند میں چڑیلیں ‘‘ کے عنوان سے ان کے مضامین کا مجموعہ شائع ہوا۔

نثری نظم کے بارے ان کا کہنا ہے کہ شاعری میں ہر قسم کے تجربے ہونے چاہیے۔ کیوں کہ انسانی طبیعت یکسانیت سے اکتا جاتی ہے۔ نثری نظم کو ابھی تک اُردو ادب میں دل سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ اور اسے اپنی جگہ بنانے میں خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مگر انگریزی اور مغربی ادب میں یہ تجربہ نیا نہیں ہے بلکہ وہاں یہ ایک پختہ صنف کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ بلکہ اس کے بارے میں تو جارج ایلیٹ نے کہا تھا کہ ’’شاعری کی معراج نثری نظم ہے‘‘

رضیہ کے نزدیک کبھی غزل، نظم کے مقابلے میں احساسات کی ترجمانی کر دیتی ہے اور کبھی نظم، غزل کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ یہ سب لکھنے والے کے مزاج کی بات ہے۔ ویسے ذاتی طور پر رضیہ کی طبیعت غزل کی نسبت نظم سے زیادہ قریب ہے۔ کیوں کہ غزل کی ریزہ خیالی کی نسبت ان کی ذہنی ہیئت تسلسل، تنظیم اور مربوط ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لئے رضیہ نے نظمیں زیادہ لکھی ہیں۔

اُردو شاعری میں وہ پروین شاکر کی شاعری کو نسائی شاعری کا سنگِ میل قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے اکثر مرد حضرات سے سنا ہے کہ پروین شاکر کی شاعری نے جینڈر بیرئیرز (Gender Barriers ) یعنی تذکیر و تانیث کی حد بندی توڑ دی ہے۔ میرے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ پروین نے حد بندیاں توڑی نہیں ہیں بلکہ انھیں اور مضبوط کیا ہے۔ اس نے صرف اور صرف ایک عورت بن کر عورت کے داخلی جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ پروین کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ خیال بہت شدت سے دامن گیر رہتا ہے کہ یہ ایک عورت کی شاعری ہے۔ ان کے خیال میں پروین کے بعد بھی بہت سی شاعرات نسائی احیائی ادب لکھ رہی ہیں۔ مگر جس طرح نثر میں عصمت چغتائی نے عورتوں کو بات کہنے کا حوصلہ دیا ہے، اسی طرح پروین نے نسائی جذبات و احساسات کو بیان کرنے کا قرینہ سکھایا ہے۔ رضیہ کے خیال میں وہ لغت جو عورت کے جذبات و احساسات کی ہر رنگ میں ترجمانی کرے، جہاں وہ کبھی عاشق اور کبھی معشوق، کبھی عورت اور کبھی مرد بن کر سوچے، وہ زبان ابھی ہم نے ایجاد نہیں کی۔ جب تک ہم نسائی تصور کو سمجھنے کے لئے اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے جو عورت کے انر ورلڈ ( Inner World) یعنی باطنی نفس کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ ہمیں عورتوں کی تحریروں کو کھلے دل و ذہن سے سننا اور سمجھنا چاہیے۔

ان کے پہلے مجموعۂ کلام ’’گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو‘‘ کا دیباچہ عدیم ہاشمی نے لکھا تھا۔ انھوں نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ :

’’رضیہ ایک اوریجنل (Original)اور جینوئن( Genuine) شاعرہ ہے۔ اور وہ یقینی طور پر غیر ملکی حیثیت اور خاتون شاعرہ ہونے کے Barriers اگر کراس نہیں کر چکی تو انھیں کراس کرنے کی مکمل صلاحیت ضرور رکھتی ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں بیرونِ ملک بسنے والی تمام خواتین کو (سوائے افتخار نسیم کے) رضیہ اسماعیل سے باقاعدہ خائف رہنا چاہیے کہ وہ کسی وقت بھی سب کو پیچھے چھوڑ چھاڑ کے ادب کے کسی بھی قابلِ رشک مقام و مرتبہ پر فائز ہو سکتی ہے۔ ‘‘

(ماخوذ از ’’سخنور پنجم…۲۰۰۴ء…تذکرہ شعراء و شاعرات…از سلطانہ مہر)

٭٭٭

 

حسن رضوی (لاہور)

مشرق کی بیٹی

فن کا دیا چاہے کہیں بھی روشن ہو، اس کے راستے میں سرحدیں حائل نہیں ہوتیں۔ ایک ایسا ہی دیا رضیہ اسماعیل کی صور ت میں  برطانیہ کے شہر برمنگھم میں روشن ہے جس کی لو میں اگر روایتی غزل نظر آتی ہے تو آزاد اور نثری نظموں کی چاشنی بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اُردو ماہیے کی روایت کو بھی بہت خوب صورتی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ جب کہ پنجاب میں ، جو ماہیے کا روایتی گھر ہے، یہ روایت آہستہ آہستہ ختم ہوتی نظر آتی  ہے۔

 رضیہ اسماعیل کی تحریروں میں طنز و مزاح کا چسکا بھی محسوس کیا جا سکتا ہے جو ملک سے باہر رہتے ہوئے اپنے تجربات و مشاہدات کی صورت میں انھوں نے ’’چاند میں چڑیلیں ‘‘ کی صورت میں پیش کیا ہے۔

وطن میں رہتے ہوئے زندگی کو محسوس کرنے اور برتنے کا سلیقہ اور انداز اور ہو سکتا ہے، جب کہ وطن سے دور اجنبی تہذیب میں اپنی روایات اور قدروں کے حوالے سے بات کرنے کا ڈھنگ کچھ اور ہوتا ہے۔ وطن میں گلی، محلے اور اردگرد کی چیزوں کا احساس کچھ اور ہے جب کہ وطن سے دور رہتے ہوئے اگر یہاں کی خوب صورتیاں یاد آتی ہیں تو منفی رویے بھی یادگار ہوتے ہیں۔ یہاں کے گندے جوہڑ، تنگ و تاریک گلیاں اور غلاظتیں بھی مثبت رویوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

 رضیہ اسماعیل کے ماہیے پڑھتے ہوئے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اب تک جتنی بھی پنجابی اور اُردو ماہیوں کی کتابیں شائع ہوئی ہیں ، ان سب میں عموماً ایک ہی رو میں ، ایک ہی طرح کے ماہیے کہے گئے ہیں۔ مگر  رضیہ اسماعیل نے ماہیے کی ایک نئی روایت قائم کرتے ہوئے اپنی کتاب ‘‘پیپل کی چھاؤں میں ‘‘ اپنی انفرادیت قائم کی ہے۔ کتاب میں حمدیہ اور نعتیہ ماہیوں کے ساتھ ساتھ پنجاب رنگ، عورت کہانی، شہیدانِ کربلا، ولایتی ماہیوں اور پھر وطن کے حوالے سے نہایت متحرک قسم کے ماہیے انھوں نے الگ الگ حصوں میں پیش کیے ہیں۔ انھیں پڑھ کر شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وطن سے دُور رہ کر انھوں نے اپنی مٹی سے ناتا نہیں توڑا۔ اپنی روایات سے بندھے رہنے کو ہی اپنی پہچان بنایا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ ایک طویل عرصہ مغرب میں رہنے کے باوجود وہ مشرق کی ہی بیٹی ہیں۔

٭٭٭

 

خواجہ محمد عارف (برمنگھم)

برگِ گل سے نوکِ خار تک

          ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کے مجموعۂ کلام کا نام ’’خوشبو، گلاب، کانٹے‘‘ ہے۔ نام بچے کا رکھنا ہو یا کسی دوسری چیز کا، اس پر اکثر خوب غور و خوض کیا جاتا ہے۔ مصنف بھی عام طور پر اپنے کسی مضمون، کہانی یا نظم کو عنوان دیتے وقت کوشش کرتا ہے کہ عنوان کے مختصر سے الفاظ میں اس کے نفسِ مضمون کا مکمل تعارف ہو جائے اور نہ صرف اس کی معنویت کا دریا کوزے میں بند ہو بلکہ اس کے اسلوبِ تحریر کی جھلک بھی دکھائی دے۔ کتاب کا نام تجویز کرتے وقت کبھی کبھی بہت سے اہلِ علم سے مشوروں کے بعد بھی کسی فیصلے پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کو یہ نام ایک بے ساختہ مصرع کی طرح ذہن میں آیا ہے جو اپنے الفاظ و معانی کے لحاظ سے رواں دواں اور مکمل ہے۔ ’’خوشبو، گلاب، کانٹے‘‘ کے نام سے مجھے اقبال کی زمین میں کہا جانے والا اپنا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔

میرے ندیم و ہم سخن، بُو ہو جہاں وہیں چبھن

شعر  کو  برگِ گل  بنا، شعر کو  نوکِ خار کر!

       ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے حقیقت میں شعر کو برگِ گل اور نوکِ خار دونوں میں حسین اور متوازن امتزاج پیداکیا ہے۔ اس مناسبت سے ’’خوشبو، گلاب، کانٹے‘‘ ایک اسم بہ مسمیٰ کتاب ہے۔ انھوں نے کتاب کا نام رکھتے وقت کیا کیا سوچا ہو گا، اس کی انھوں نے کتاب میں کوئی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی اس طرف کوئی اشارہ کیا ہے کہ اس میں خوشبو اور گلاب کیا کیا ہے اور کانٹے کہاں کہاں ہیں۔ یہ کام انھوں نے بالغ نظر قارئین کے شعور و احساس پر چھوڑ دیا ہے۔ جہاں تک خوشبو کا تعلق ہے، وہ تو خود بخود پھیلنے والی چیز ہے، عطار کو کہنے کی حاجت نہیں ہوتی۔

بند گلیوں میں بھی خاموش رہا عطر فروش

شور  کرتا رہا  بازار  میں شربت والا

       نفسِ مضمون اور اسلوب کے لحاظ سے ایک قادر  الکلام شاعر کے لئے غزل، نظم، دوہے اور ماہیے کسی بھی صنفِ سخن میں پھول کھلانا یا کانٹے اگانا دونوں کام ممکن ہیں۔ اس کا انحصار شاعر کے علمی پس منظر، سماجی حالات اور انفرادی مزاج و طبیعت پر ہے۔ کسی کے دامن میں پھول زیادہ اور کانٹے کم ہوں گے تو کسی کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہو گا۔ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی شاعری کی تمام اصناف میں اکثر تازہ پھولوں کی مہک کا احساس ہوتا ہے لیکن کہیں کہیں انسانی سماج کے غیر معتدل رویوں پر ان کا ردِ عمل تلخی اور اداسی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اظہار کے اس اسلوب کو ہم کانٹے کہہ سکتے ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کے ہاں اداسی، مایوسی کی حدوں میں داخل نہیں ہوتی اور نہ ہی تلخی کا اظہار شائستگی کے بندھن توڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کانٹے بہت زیادہ نوکیلے یا زہریلے نہیں ہیں۔ شاید ذرا سخت ہوں گے لیکن بقولِ میاں محمد بخش

کنڈے  سخت گلاباں والے  دُورُوں ویکھ نہ ڈریئے

چوبھاں جھلیئے، رَت چوایئے، جھول پھلیں تَدھ بھریئے

ان کی شاعری کے معنوی پھولوں سے دامن بھرنے کے لئے کانٹوں کی خراش اور چبھن سہنی ہو گی۔

        اصناف کی تقسیم کے لحاظ سے میں ان کی غزل، پابند اور آزاد نظم کو گلاب سمجھتا ہوں۔ بہت سے مختلف موضوعات میں تقسیم ہونے کے باوجود ان کے ماہیوں کی قدرِ مشترک پنجاب کی مٹی کی خوشبو ہے۔ دوہوں میں جدت کے ساتھ ساتھ ہندی شاعری کی روایت کے مطابق نسوانی جذبات کی عمدہ عکاسی اور ترجمانی ہے۔ رہی نثری نظم، تواسے ان کی اصنافِ سخن کی تقسیم کے لحاظ سے کانٹے کہا جا سکتا ہے۔ آیئے اسے ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں۔

      اُردو کے ادبی حلقوں میں نثری نظم اپنی ہیئت کے اعتبار سے ابھی زیرِ بحث مراحل سے گزر رہی ہے۔ جہاں اہلِ علم کا روایت پسند طبقہ اسے قبول کرنے میں دشواری محسوس کرتا ہے یا سرے سے مسترد کرتا ہے، وہیں ایک گروہ اس کے حق میں بھی دلائل پیش کرتا ہے۔ درمیانی راہ اختیار کرنے والے اسے ایک تجربہ قرار دیتے ہیں اور ’’آزماؤ اور دیکھو ‘‘کے اصول پر کاربند ہیں۔ ان کے بقول اگر اس صنفِ  ادب میں اظہار اور ابلاغ کی توانائی موجود ہوئی تو یہ اپنا آپ منوا لے گی ورنہ اسے صرف نام کی جدت یا ندرت سے کبھی قبولِ عام نہیں ملے گا۔ مجھے یہاں ان مختلف پہلوؤں سے بحث نہیں۔ نثری نظم کے ادبی مقام اور افادیت کا تعین آنے والا وقت کرے گا۔ البتہ آخر الذکر رائے کو ترجیح دیتے ہوئے اتنا کہوں گا کہ۔۔ جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

      ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اس تجرباتی مراحل سے گزرنے والی اور قدرے غیر مقبول صنف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ مصنفہ مزاج کے اعتبار سے زندگی کی مشکلوں سے نبرد آزمائی کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ ہر کام کے منفی اور مثبت پہلوؤں کو خوب سوچ سمجھ کر پرکھتی ہیں اور جب کام کرنے کا تہیہ کر لیں تو اس کے لئے سخت محنت کرتی ہیں۔ پاؤں کو لہو لہان کر کے کانٹوں پر چلنا سیکھتی ہیں اور پھر بڑے اعتماد سے کہتی ہیں کہ

 گلابوں کو  تم اپنے پاس رکھو

مجھے کانٹوں پہ چلنا آ گیا ہے

 انھوں نے نثری نظم کو بھی تن آسانوں کا مشغلہ نہیں سمجھا بلکہ اس اجنبی صنف کو اچھی طرح چھان پھٹک کر اپنایا ہے اور اکثر نظموں میں اپنا ما فی الضمیر بڑی کام یابی سے بیان کیا ہے۔ ان کی سماجی سرگرمیوں اور شاعری کا غالب حصہ عورت کے درد و کرب اور اس کے حقوق و مسائل کے اظہار سے عبارت ہے۔ بقول غالب

فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے

نالہ  پابندِ نَے  نہیں ہے

شاید اس درد و کرب کی شدت نے انھیں مجبور کیا ہے کہ لَے اور نَے کا سہارا لیے بغیر یہ کام سر انجام دیں۔ اس بات کو اقبال نے اپنے انداز میں یوں کہا ہے کہ

گفتار  کے  اسلوب  پہ  قابو نہیں رہتا

جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

       ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے روح میں خیالات کے تلاطم کو عروضی قواعد سے تو آزاد ہی رہنے دیا لیکن الفاظ کے استعمال اور ان میں موجود تہ دار معانی کے ابلاغ پر اپنی گرفت بہت مضبوط رکھی ہے۔ انھیں نہایت توازن اور سلیقے سے برتا ہے۔

       ان کی اکثر نثری نظموں میں معاشرے میں موجود ان عورتوں کے حالات و مسائل اور جذبات و احساسات کی عکاسی کی گئی ہے جو ان کی سماجی زندگی یا پیشہ وارانہ تعلق سے ان کے مشاہدے اور تجربے کا حصہ بنے ہیں۔ انھوں نے اس درد کو اس شدت سے محسوس کیا ہے کہ یہ ان کا غمِ ذات بن گیا اور پھر انھوں نے اس درد کی دولت کو عام آگہی دینے کا فریضہ ایک سماجی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیا۔ اس ذمہ داری کو اس خلوص سے نبھایا کہ اکثر کرداروں کا کرب صیغۂ واحد متکلم میں بیان کر کے اسے تاثیر عطا کی۔

       مجھے ان کے مجموعۂ کلام کو تدوین و ترتیب کے مراحل سے گزرتے وقت بالاستیعاب دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ان کی اکثر نثری نظموں میں جہاں اختصار اور بلاغت موجود ہے وہیں اسلوب میں کانٹوں کی ہلکی سی چبھن بھی ہے جس نے اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ نظمیں پڑھ کر نثری نظم کے بارے میں میرے خیالات و تاثرات میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور روایت پسند گروہ کے خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ’’مدر ٹریسا‘‘، ’’سوتیلی بیٹی‘‘، ’’بونے‘‘، ’’عقل مند ‘‘، ’’اترن‘‘، ’’ تعلیم یافتہ‘‘، ’’بخیل‘‘ اور’’ زیرو بیس ( Zero Base)‘‘جیسی نظموں کی موجودگی اس صنفِ ادب کے پھلنے پھولنے کے واضح امکانات کی نشان دہی کر رہی ہے۔ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے ان نظموں میں عورت کے جذبات یا متضاد رویوں کا ذکر اپنی قوتِ اظہار کے ذریعے بڑے دل نشیں اسلوب میں کیا ہے۔ اختصار کے پیشِ نظر نمونے کے طور پر صرف ایک نظم دیکھئے:

اترن

عورتیں

اترن پہننے سے گھبراتی ہیں

دوسری عورتوں سے ذکر کرتے ہوئے شرماتی ہیں

مگر…

دوسری عورتوں کے شوہر چرا کر

اوڑھ لیتی ہیں !

’’اوڑھ لیتی ‘‘…کا بر محل استعمال کر کے انھوں نے ان دو لفظوں میں بہت سے مفاہیم داخل کر دیئے ہیں۔ قرآن کے الفاظ کے مطابق میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے۔ لباس عیوبِ برہنگی کو چھپانے، موسموں کی شدت سے بچانے اور زیب و زینت کا سامان ہے۔ لباس انسان کو حیوانی زندگی سے ممیز کر کے قابلِ عزت و تکریم بناتا ہے۔ گویا یہ انسانی فضیلت و احترام کا استعارہ ہے۔ یہ شرف صرف اسی صورت میں برقرار رہتا ہے جب اس لباس کو معاشرے میں رائج جائز اخلاقی اور قانونی ذرائع سے حاصل کیا جائے۔ چرا کر یا چھین کر پہننے والے کبھی قابلِ احترام نہیں ہو سکتے۔

      ’’اوڑھ لیتی‘‘ کے استعمال سے ایک فریق کے درد و کرب اوردوسرے فریق کی خود غرضی کا خوب صورت نقشہ کھینچا ہے۔ ان مہذب الفاظ میں انسانی فطرت کے غیر مہذب رویے کی اس انداز سے تصویر پیش کی گئی کہ طنز کی چبھن اپنی پوری شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔

      ان کی ان نظموں میں خیال میں قوت اور سچائی اور اسلوب میں دل کشی و رعنائی بھرپور انداز میں محسوس ہوتی ہے۔ یہی دو چیزیں ابلاغ میں بھی توانائی کا سبب بنتی ہیں۔ اس کی مثالیں ان کی تقریباً تمام نثری نظموں میں دیکھی جا سکتی ہیں جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی نثری نظمیں کشتِ ویراں نہیں بلکہ اپنے جذبے کی سچائی اور الفاظ کے استعمال کے سلیقے نے انھیں دل سے نکل کر دل میں اترنے کا حسن عطا کیا ہے۔ سچی لگن ان نظموں کو نم کر رہی ہے۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!

٭٭٭

 

طلعت سلیم (برمنگھم، برطانیہ)

رضیہ۔ میری سہیلی

رضیہ سے مل کر دل خوش ہوتا ہے۔ سلجھی ہوئی طبیعت، اپنائیت بھرا روّیہ، میٹھی باتیں ، دل نشیں لہجہ، ٹھہرا ٹھہرا سا مزا ج، شائستہ انداز، علمی و ادبی گفتگو ہو تو ڈوب جانے والی کیفیت، خواتین کا تذکرہ ہو تو

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

ان کے دل کی دنیا سارے اسرار و رموز سے آشنا، ان پر گزرنے والی کیفیات سے واقف، بڑے ہی دردمندانہ احساس کے تحت، ان کے لئے کچھ کرنے، کرتے رہنے اور کر جانے کی تمنا میں کیا کیا کچھ سوچتی، کہتی، کرتی، کرواتی، لکھتی، اپنے ’’آگہی‘‘ پروجیکٹ کے لئے لکھواتی، چھپواتی، لائق فائق اور محنتی خاتون ہیں۔ یہ ہیں میری سہیلی (جانے اب لوگ ’’دوست‘‘ کیوں کہنے لگے ہیں ) رضیہ اسماعیل۔

منظّم گھرداری، بچیوں کی پرورش اور محکمۂ تعلیم میں ملازمت کے ساتھ ساتھ انھوں نے پی ایچ ڈی کر کے خود کو ڈاکٹر رضیہ اسماعیل بنا لیا ہے…ہے نا کارنامہ!

بعض لوگ، بلکہ بہت سے لوگ بہت کچھ سوچتے ہیں اور سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ کئی ایک کچھ کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور کرتے ہی رہ جاتے ہیں۔ مگر رضیہ کچھ نہ کچھ کرتی بھی رہتی ہیں۔ سنا ہے صبح منہ اندھیرے لکھنے کی میز پر بیٹھ جاتی ہیں اور شام، کاموں سے فراغت پاتے ہی پھر وہی کچھ۔ جبھی تو ٹیلی فون کریں تو ان کی آواز کی بجائے اکثر اسماعیل صاحب کی آواز آنسرنگ مشین (Answering machine) سے سنائی دیتی ہے۔

رضیہ بڑی دوستانہ طبیعت کی مالک ہیں۔ اپنی اپنائیت سے ملنے والوں کو گرویدہ بنا لیتی ہیں۔ سیدھی سچی بات کرتی ہیں ، خود مخلص ہیں ، دوسرے سے بھی یہی توقع رکھتی ہیں۔ کہیں ادبی مخاصمت، منافقت، گروہ بندی کا مظاہرہ دیکھیں تو اندر ہی اندر کڑھتی ہیں اور ایسی محفل سے کنارہ کشی کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہیں۔

اُردو کے تیسرے بڑے مرکز برطانیہ کی ادبی محفلوں اور مشاعروں میں سفید اور نیم سفید سروں کی قطاریں انھیں بھی اُردو کے مستقبل کی طرف سے متفکر کیے رکھتی ہیں۔ نئے چراغوں کی جستجو میں نوجوانوں کو لکھنے لکھانے کی طرف راغب کرنے کی کوشش میں بہت کچھ کرتی چلی آ رہی ہیں۔ نوجوان بچیوں کے لئے مقامی لائبریریوں میں ادبی ورک شاپس منعقد کرنے کا سلسلہ رضیہ ہی کی ذہنی اپج ہے۔

رضیہ نے باہر تو جو اُجالا پھیلایا سو پھیلایا، ان کے اندر کی دنیا بڑی روشن ہے۔ شعر و شاعری اور مضامین کے مجموعوں کے ساتھ ساتھ، قسم قسم کے درود شریف جمع کر کے بڑی محبت اور محنت کے ساتھ ان کا ترتیب دیا ہوا خوب صورت مجموعہ دیکھ کر سوچتی ہوں کہ دینی و دنیاوی دل چسپیوں کا کیسا حسین امتزاج ہے ان کی طبیعت میں۔

رضیہ اوپر سے بڑی سنجیدہ نظر آتی ہیں ، بیحد متین سی۔ ان کی حسِ مزاح کا اندازہ تو ان کی گفتگو سے ہوتا ہے۔ ہاں ’’چاند میں چڑیلیں ‘‘ کے طنزیہ مضامین سے ان کی طبیعت کی فطری شگفتگی کا اندازہ ہوتا ہے۔

رضیہ میری سہیلی ہیں۔ یہ بات میرے لئے بڑی مسرت کی بات ہے۔ ایک بہت اچھی خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی اچھی ادیبہ، شاعرہ، سماجی کارکن، ماہرِ تعلیم اور کیا کیا کچھ۔ مجھے فخر ہے کہ رضیہ میرے حلقۂ احباب میں شامل ہیں۔

٭٭٭

 

پروین شیر

کاغذ سے اٹھتا شور۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی یوں ہوتا ہے کہ کسی انجانی آواز میں اتنی اپنائیت ہوتی ہے وہ اتنی جانی پہچانی سی لگتی ہے جیسے مدت سے شناسائی ہو۔ اس کے خلوص کی شبنم دل کی پنکھڑیوں کو تر بہ تر کر دیتی ہے۔ کچھ سال پہلے جب میں لندن گئی تھی تو فون پر ایک ایسی ہی پر خلوص آواز نے متاثر کیا تھا۔ یہ آواز تھی رضیہ اسماعیل کی۔ ان کے اخلاق کی انتہا یہ تھی کہ برمنگھم سے لندن وہ اپنی مصروفیت کے با وجود  وقت نکال کر مجھ سے ملنے دنیائے شعر و ادب کے فنکشن میں آ گئیں جہاں میری کتاب کرچیاں کی رونمائی تھی۔ اس پر خلوص اور عمدہ فنکارہ سے میری ملاقات اردو دنیا کے مشہور ادیب و شاعر حیدر قریشی صاحب کے ذریعہ ہوئی تھی جن کی میں بہت ممنون ہوں۔ یہ ملاقات بہت مختصر تھی۔ اس وقت انہوں نے مجھے اپنا خوبصورت  اور خوب سیرت مجموعہ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب آنکھیں میری آنکھیں ہیں۔۔۔۔۔ عطا کیا تھا۔ ان سے میری دوسری ملاقات  ۲۰۰۸میں ہوئی تھی۔ میں ان دنوں لندن میں تھی اور رضیہ نے بے حد خلوص و محبت کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر میرے لیے ایک حسین اور یادگار ادبی شام منائی تھی۔ اس ملاقات نے اس پر خلوص شخصیت کی خوبیوں کی اور بھی  تہیں کھولی تھیں۔ مجھے وہ اس کوزہ گر کی مانند نظر آئیں جو کچی مٹی کی لوئی سے بغیر کسی چاک کے صرف اپنے ہاتھوں سے شاہ کار تخلیق کر دیتا ہے۔ انہونی کو ہونی بنا دیتا ہے۔ رضیہ کی یہ تخلیقات ان کی بیٹیاں ہیں جنھیں ناساز گار ماحول میں رہ کر بھی، وطن سے دور رہ کر بھی انہوں نے اپنی تہذیب و تمدن کا نمونہ بنا دیا ہے۔

اچھا فنکار کوئی ضروری نہیں کہ اچھا انسان بھی ہو۔ رضیہ اسما عیل ایک بہت اچھی تخلیق کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت با اخلاق اور نیک دل خاتون ہیں۔ ان کے دل کا پیمانہ مظلوم عورتوں کے اشکوں سے لبا لب ہے جو  ان کے اشعار سے چھلک رہا ہے۔ تخلیق شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ فن کے  بطن سے زندگی کا سچ نمودار ہوتا ہے جو رضیہ کی شاعری میں جھلک رہا ہے۔ جنسی تعصب کی نا انصافیوں نے انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ عورت ہمیشہ تشدد سے بھر پور نظامات کی شکار ہے۔ مرد اساس معاشرے کی زیادتی کے پتھروں سے زخمی ہے۔ بے بسی اپنا سر طاقت کی سنگلاخ دیواروں پر پٹکتی ہے جو اس کا راستہ روکے کھڑی ہیں لیکن دیوار طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ قائم رہتی ہے سر چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ ان محسوسات کی بھر پور کیفیت رضیہ کے ان اشعار میں موجود ہیں …

ًسوچ کے بادباں کھول دو

سر اٹھا  کے بہت ناز سے جانے والی ہوا نے کہا

سن کے پیغام یہ

سوچ بھی سوچ میں پڑ گئی

میں تو صدیوں سے زندان خانوں میں ہوں

لب سلے ہیں مرے

ہاتھ جکڑے ہوئے

پاؤں میں بیڑیاں

نرم و نازک سراپا ہے اک آبلہ

سلسلہ ظلم کا ہے کہ رکتا نہیں

سوچ کے بادباں

اس ہوا

اس فضا میں

کھلیں بھی تو کیسے کھلیں

مجھ کو تو ہی بتا

عورتوں کے درد کا لہو ان اشعار کی رگوں میں بھی دوڑ رہا ہے…

عورتوں کی قبروں پر ایستادہ

بڑے بڑے کتبوں کو دیکھ کر

سوچتی ہوں

اس قبر پر اتنی عنایت کیوں ؟

کیا یہ کتبے

محبتوں کے مظہر ہیں یا

احساس جرم کے کفارے

جو موت کے بعد ادا کیے جا رہے ہیں ؟

انہوں نے اپنا ایک اور مجموعہ۔۔۔۔۔۔۔ پیپل کی چھاؤں میں۔۔۔۔۔۔۔ مجھے عنایت کیا تھا۔ اس کے مطالعے کے بعد رضیہ کی ایک اور جہت جگمگائی۔ یہ ان کے ماہیوں کا مجموعہ تھا۔ حیرت انگیز خوشی ہوئی کہ ماہیا نگاری میں بھی مکمل مہارت رکھتی ہیں۔ ان کا درد مند دل اور اس کے احساسات محض ذاتی نہیں بلکہ کائیناتی ہیں۔ اس کا ایک اور ثبوت رضیہ کا محبت سے بھر پور وہ خط ہے جو میری والدہ کے انتقال پر انہوں نے مجھے لکھا تھامجھے ایسا لگا تھا کے میرا  درد  ان کا بھی درد بن گیا تھا۔ سچے خلوص اور ہم دردی سے لبریز  اس خط میں انہوں نے چند اشعار ماں کے لیے درج کیے تھے۔ ان کے یہ ماہیے صرف ان کے نہیں ہر دل کی داستان ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس جگ کا نور ہے ماں

رب کے بعد یہاں

دوجے رب کا ظہور ہے ماں

ہر طرف بلائیں تھیں

بچ کر نکل گئے

سب ماں کی دعائیں تھیں

ہائے کتنی گرمی ہے

چھاؤں ممتا کی

پھولوں سی نرمی ہے

میرے خیال میں شاعری کی سب سے بڑی توانائی وہ ہے جو یوں بے چین کر دے کہ یہ تو میرے ہی دل کی آواز ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو میری ہی واردات قلب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو میرے ہی محسوسات اور تجربات ہیں۔۔۔۔۔ یہ تو میرا ہی درد ہے !  رضیہ کی کئی نظموں نے مجھے اسی طرح بے چین کیا ہے۔ خاص طور سے یہ اشعار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                       خوشی

بدصورت پاؤں والا

وہ پرندہ ہے

جو ناچتے ناچتے

اپنے پاؤں دیکھ کر

اداس ہو جاتا ہے

اور ناچنا چھوڑ کر

کونے میں جا بیٹھتا ہے

_________

                         روح

خوابیدہ وجود کو

نہ جانے کہاں

اڑائے اڑائے پھرتی ہے

بدن نیند سے بیدار ہوتا ہے

روح قیدی بن جاتی ہے

رات روح کا رتجگا ہے

دن کی روشنی

روح کا میلہ

اجاڑ دیتی ہے

_________

ہماری سوچوں میں

زندگی اور موت کا فاصلہ ہے

مہد سے لحد تک کی دوریاں ہیں

اندھیرے سے روشنی تک کی

جدائیاں ہیں

بہار کی پہلی کلی چٹکنے سے لے کر

خزاں میں آخری پتہ گرنے تک کا/ماتم ہے

دھرتی کی مٹیالی رنگت اور

آسمان کی نیلاہٹوں کا فرق ہے

آنسوؤں سے ہنسی تک کا سفر ہے

خواب سے تعبیر تک کا خوف ہے

بلندی اور پستی کا خلا ہے

یقین کے جنگل سے بے یقینی تک کے صحرا کی ریت ہے

ہوش و خرد سے

جنون و مستی تک کا بحر بیکراں ہے

شاید

ہمارے ستارے نہیں ملتے

رضیہ کے لیے کائنات ایک حیرت کدہ ہے۔ جب چشم باطن وا ہو جائے تو سچ کے کئی دریچے کھل جاتے ہیں۔ علم کے نور سے روح روشن ہو جاتی ہے۔ تاریکی کی فصیلیں ڈھے جاتی ہیں۔ آگہی کا شور کاغذ سے لپٹ جاتا ہے۔

٭٭٭

 

حیدر قریشی (جرمنی)

پوپ کہانی اور رضیہ اسماعیل کی کہانیاں

            گزشتہ کچھ عرصہ سے پوپ کہانی کا نام سننے میں آ رہا تھا۔ ادھر اُدھر ادبی رسائل میں عام طور پر افسانچہ طرز کی کہانیاں چٹکلے کے انداز میں دکھائی دے رہی تھیں۔ جوگندر پال کے افسانچے پڑھنے کے بعد کسی چٹکلا نما چیز کی طرف دھیان دینے کا موڈ ہی نہ بنا۔ لیکن حال ہی میں مقصود الہٰی شیخ کے ساتھ ایک طویل وقفہ کے بعد رابطہ ہوا تو انہوں نے پوپ کہانی کی جانب توجہ دلائی۔ نہ صرف توجہ دلائی بلکہ اپنی کتاب ’’پوپ کہانیاں ‘‘بھی عنایت کر دی۔ عجیب اتفاق ہے کہ عین انہیں دنوں میں جب ہماری مراسلت جاری تھی مجھے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی حال ہی میں شائع ہوئی شعری کلیات ’’خوشبو، گلاب، کانٹے‘‘ کا تحفہ ملا۔ اس میں رضیہ اسماعیل کی کتابوں کی لسٹ دیکھ رہا تھا تو سال ۲۰۱۲ء میں ان کی کتاب ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘(پوپ کہانیاں )، کا نام دیکھ کر چونک گیا۔ ان سے رابطہ کیا کہ مجھے یہ کتاب درکار ہے۔ پھر ان کے ساتھ اس موضوع پر تھوڑی سی گفتگو بھی ہوئی۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جو سوالات میرے لیے الجھن کا باعث بنے ہوئے ہیں ، وہ کہیں زیادہ رضیہ اسماعیل کے لیے بھی الجھن کا باعث بنے ہیں۔ اور انہوں نے ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے پوپ کہانی کے مرکز امریکہ کے انگریزی پوپ کہانی نگاروں سے بھی رابطے کیے تاکہ اگر یہ کوئی نئی صنف ہے تو اس کے خد و خال دوسروں سے الگ دیکھے جا سکیں۔ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے بتایا کہ ان کی کتاب ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ پبلشر کے پاس ہے اور پروف ریڈنگ کی وجہ سے اشاعت میں دو تین ماہ کی تاخیر ہو رہی ہے۔ میری درخواست پر انہوں نے مجھے اس کتاب کی ان پیج فائل عنایت کر دی۔ یوں مجھے پوپ کہانی کے مسئلہ کو برطانیہ کے دو تخلیق کاروں کے کام کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا تھوڑا سا موقعہ مل گیا۔

          مقصود الہٰی شیخ کے ساتھ میری جو مراسلت ہوئی، اس میں میری طرف سے ایک دو بنیادی سوال اٹھائے گئے تھے۔ مراسلت کے نتیجہ میں بھی اور کتاب ’’پوپ کہانیاں ‘‘کو پڑھنے کے بعد بھی مجھے نہ صرف ان سوالات کے جواب کی ابھی تک تلاش ہے بلکہ ان کے ساتھ مزید چند سوالات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔

۱۔ پوپ کہانی کے بنیادی خد و خال کیا ہیں ؟

۲۔ جس طرح افسانچہ، افسانہ، ناولٹ اور ناول کی پہچان بالکل سامنے کی بات اور قابلِ فہم ہے، اسی طرح پوپ کہانی کو افسانچہ یا افسانہ سے کس طرح الگ پہچانا جا سکتا ہے ؟کسی ما بہ الامتیاز اور کسی تخصیص کے بغیر پوپ کہانی کو افسانچہ یا افسانے سے الگ کر کے کیونکر دیکھا جا سکتا ہے؟

         مقصود الہٰی شیخ کی پوپ کہانیوں میں بعض افسانچوں کی طرح ہیں ، بعض نثری نظم کے انداز میں ، بعض میں خلیل جبران جیسا رنگ در آیا ہے تو بعض ڈرامہ کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔ اس ہئیتی منظر نامہ سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جاتا ہے۔

         چونکہ پوپ کا لفظ پاپولر میوزک والے پوپ سے لیا گیا ہے۔ اس پر ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے تو ایک اور نکتہ اٹھا دیا ہے کہ اگر یہ تعلق کسی موسیقیت کی بنیاد پر ہے تو پھر اردو میں پوپ کہانی کو کلاسیکی موسیقی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول: ’’اگر پوپ کہانی لکھتے وقت اسے کسی نہ کسی راگ یا راگنی کے تابع کر دیا جائے یا اس سے منسلک کر دیا جائے تو شاید ہمیں پوپ کہانی کی ہیئت، تکنیک یا فارمیٹ کو مشرق میں ڈویلپ کرنے میں ، اس کی الگ پہچان بنانے میں کوئی کامیابی ہو سکے۔ ‘‘۔

      لیکن اگر یہ لفظ محض پاپولر کہلانے کی خواہش کا اظہار ہے تو بات بنتی دکھائی نہیں دیتی۔ کیونکہ پریم چند سے لے کر منٹو تک ہمارے ابتدائی اور اہم لکھنے والوں کی کہانیاں تو اردو میں مقبولیت کے سات آسمان چھو چکی ہیں۔ اور آج بھی کہانی پڑھنے والوں میں مقبول ہیں۔ ان سے زیادہ پاپولر کہانیاں کس نے لکھی ہیں !

       پوپ کہانی کے بنیادی خد و خال کو واضح کیے بغیر اور افسانہ و افسانچہ سے اسے الگ دکھائے بغیر اس کی شناخت کا مسئلہ پہلے قدم پر ہی رکا رہے گا۔ جہاں تک دوسرے بیان کردہ اوصاف کا تعلق ہے۔ مثلاً مقصود الہٰی شیخ کے بقول:’’پوپ کہانی، افسانہ، افسانچہ یا پارۂ لطیف سے یکسر جدا ہے۔ کچھ ہے تو اپنے گو ناں گوں موضوعات اچانک آمد پر قلمبند کرنے کا نام ہے۔ جب قلم سے جڑا حساس دل کسی واردات کو تحریک و فیضان ملنے یا انسپائر ہونے پرسینے میں بند رکھنے کی بجائے عام فہم لفظوں میں سپردِ قرطاس کر دے  تو لفظوں کا یہی روپ پوپ کہانی ہے‘‘۔۔۔

        ان اوصاف کی تو تخلیقی ادب کی تمام اصناف میں ایک جیسی اہمیت اور حیثیت ہے۔ اچانک آمد پر کچھ لکھنا یاکسی واردات کو تحریک ملنے پر لکھ دینا صرف فکشن میں نہیں دوسری تمام تخلیقی اصناف میں بھی ہوتا رہتا ہے۔ مقصود الہٰی شیخ نے ’’عام فہم لفظوں ‘‘ میں لکھنے کا ذکر بھی کیا ہے۔ انہوں نے خود زندگی بھر جو لکھا ہے وہ سارا عام فہم ہی ہے۔ سو یہ ساری لفظیات ادب کی جملہ اصناف پر عمومی طور پر لاگو کی جا سکتی ہے۔ مجھے احساس ہے کہ مقصود الہٰی شیخ بعض مخالفین کی مخالفت کے باعث اس موضوع پر لکھتے ہوئے تھوڑا سا غصہ میں آ جاتے ہیں۔ تاہم میں امید کرتا ہوں کہ وہ ایک مضمون ایسا ضرور لکھیں گے جس میں اپنے مخالفین کو یکسر نظر انداز کر کے ان لوگوں کے لیے پوپ کہانی کے خد و خال کو بیان کریں گے جو نیک نیتی کے ساتھ پوپ کہانی کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ پوپ کہانی، افسانہ اور افسانچہ سے کیونکر مختلف اور الگ ہے۔ اور اس کی کون سی خصوصیات ہیں جو ادب کی دوسری اصناف سے مختلف ہیں۔ یہ اعتراض نہیں ، سوالات ہیں اور ان کا مقصد پوپ کہانی کی شناخت کو واضح طور پر سمجھنا ہے۔ کیونکہ عام فہم لفظوں میں لکھی جانے والی صنف کی شناخت بھی عام فہم /قابلِ فہم ہونی چاہیے۔

          ڈاکٹر رضیہ اسماعیل برطانیہ کے لکھنے والوں میں اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔ شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کا نتیجہ تو ان کے پانچ شعری مجموعوں کی کلیات کی صورت میں سامنے آ چکا، جس کا ذکر شروع میں کر چکا ہوں۔ نثر میں ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’’چاند میں چڑیلیں ‘‘سال ۲۰۰۰ء میں چھپ گیا تھا۔ ان کے لکھے ہوئے متفرق تاثراتی مضامین ادھر اُدھر مطبوعہ صورت میں موجود ہیں۔ اور اب پوپ کہانی کی جستجو میں انہوں نے اپنے افسانوں کا مجموعہ ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ تیار کر لیا ہے۔ اپنے تحریر کردہ پیش لفظ ’’پوپ میوزک سے پوپ کہانی تک‘‘ میں انہوں نے پوپ کہانی کے مسئلہ پر کسی جذباتیت کے بغیر اس کے خد و خال کو سمجھنے کی کاوش کی ہے۔ امریکہ میں پوپ کہانی کو کیسے سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے؟اس کا بیان بھی اس پیش لفظ میں مل جاتا ہے۔ ’’پوپ کہانی کیوں ؟‘‘اور ’’پوپ کہانی کیا ہے؟‘‘ کے ذیلی عناوین کے تحت انہوں نے مغربی تناظر میں پوپ کہانی کا مسئلہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ پوپ کہانی کیوں ؟ میں تو جدید تر میڈیائی چیلنجز کے سامنے افسانے کی بے بضاعتی کا ذکر ہے۔ لوگ ناول پڑھ لیتے ہیں لیکن افسانہ کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ (میڈیائی یلغار ہی صرف مسئلہ ہے تو پھر ناول کیوں پڑھا جا رہا ہے؟)، شاعری تو بہت پہلے سے نظر انداز کی جا چکی ہے، وغیرہ۔ جدید تر میڈیائی یلغار بلاشبہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس کے سامنے صرف افسانہ نہیں ، پورا ادب ہی نظر انداز ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس چیلنج سے عہدہ براء ہونے کے لیے ’’پوپ کہانی ‘‘نام رکھ لینے سے لوگ اس طرف راغب نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے ادب کی مجموعی اور عالمی صورت حال کے پس منظر میں ہی سب کو اپنے اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ موضوع بجائے خود ایک الگ مکالمہ اور الگ بحث کا تقاضا کرتا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے عام کہانی کا نام پوپ کہانی رکھ دینامناسب نہیں۔ رضیہ اسماعیل نے مشرقی موسیقی کے سامنے پوپ کہانی کو ’’لولی پوپ‘‘ قرار دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جدید تر میڈیائی چیلنجز کے سامنے پوپ کہانی کو پیش کرنا بھی ’’لولی پاپ‘‘ دینے کے مترادف ہے۔

       ’’پوپ کہانی کیا ہے؟‘‘ کے تحت مغربی دنیا کے پوپ کہانی والے اسے جن اوصاف کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، وہ سب عمومی اوصاف ہیں ، جنہیں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ادب کی جملہ اصناف میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ ادب کو درپیش نئے چیلنجز کے سامنے بعض لکھنے والے سراسیمگی کی کیفیت میں ہیں۔ ایک پاپ اسٹار کی مقبولیت کے سامنے اپنی انتہائی عدم مقبولیت سے دل برداشتہ ہو کر بعض ادیبوں نے جیسے پوپ کہانی کی راہ اپنا لی ہے۔ صرف کہانی کیوں ؟آپ ادب کی ساری اصناف کو بھی پوپ کے سابقہ کے ساتھ جوڑ لیجیے۔ لیکن اس سے مقبولیت تو ملنے سے رہی۔ ادب کے دیار میں قبولیت اور مقبولیت دونوں کی اپنی اپنی جگہ ہے۔ کسی ادیب کو اچھا لکھنے کی توفیق مل جانا، قبولیت کے زمرہ میں آتا ہے اور ایک اچھے ادیب کے لیے توفیق مل جانا ہی بڑی بات ہے۔ مقبولیت ایک دوسرا موضوع ہے۔ سر، دست اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ قناعت پسند ادیب قبولیت پر ہی خوش رہتے ہیں۔ آگے جو ملے، نہ ملے، توفیق دینے والے کی مرضی۔

              ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے امریکہ کے پوپ کہانی لکھنے والے ایک مصنف کنگ وینکلس سے رابطہ کیا اور ان کی دو منتخب پوپ کہانیوں کو اپنے مجموعہ میں شامل کرنے کی اجازت حاصل کر لی۔ ’’مشین‘‘ اور’’سرخ دروازہ‘‘ کے نام سے ترجمہ کی گئی ان دونوں کہانیوں کا ترجمہ اسماعیل اعظم نے بہت عمدگی سے کیا ہے۔ ان دونوں کہانیوں کو پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ یہ دونوں کہانیاں نیم علامتی پیرائے میں لکھی ہوئی ہیں۔ اور وہ جو پوپ کہانی کا مطالبہ تھا کہ کہانی عام فہم لفظوں میں ہو، وہ یہاں پوری طرح ادا نہیں ہوتا۔ کہانی ’’مشین‘‘سے مجھے ایسالگا کہ کنگ وینکلس نئے لکھنے والے ہیں۔ ان میں صلاحیت ہے لیکن ابھی تک ادب کی بڑی سطح پر ان کا اعتراف نہیں کیا گیا، یا مناسب پذیرائی نہیں کی گئی۔ چنانچہ وہ بڑے لکھنے والوں اور اہم نقادوں کو کہانی میں تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ’’سُرخ دروازہ‘‘ مختلف رنگوں کی علامات کے سہارے کہانی کو دلچسپ اختتام تک پہنچاتا ہے۔ دونوں کہانیوں سے ایسا تاثر بھی ملتا ہے کہ امریکہ میں آزادیِ اظہار کے باوجود بہت کچھ کہنے میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ کنگ وینکلس نے علامات کا سہارا لے کر اپنے مخصوص نیم علامتی پیرائے میں اپنے دل کی بات کہہ دینے کی کوشش کی ہے۔ ’’مشین ‘‘میں  تو نیم علامتی پیرایہ نیم سے کچھ زیادہ کھلتا دکھائی دیا تو انہیں آخر میں یہ اضافی نوٹ دینا پڑ گیا:’’ اس کہانی میں جس سوسائٹی کی منظر کشی کی گئی ہے۔ امریکی معاشرے سے اس کی کوئی مماثلت نہیں ہے‘‘۔

      کنگ وینکلس کی دو کہانیوں کے بعد ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اپنی بارہ کہانیاں شامل کی ہیں۔ ان کی پہلی کہانی ’’تھرڈ ورلڈ گرل‘‘ کے اختتام تک پہنچا تو ایسا لگا کہ سچ مچ کوئی گونگی کہانی بول پڑی ہے۔ ’’ائر فریشنر‘‘ صرف برطانیہ ہی کی نہیں اب تو یورپ بھر کے پاکستانیوں کی مجموعی فضا کی ترجمانی کر رہا ہے۔ اور’’ آنر کلنگ‘‘ پڑھتے ہوئے ایسے لگا کہ کہانی صرف بول نہیں پڑتی بلکہ بعض اوقات چلّاتی بھی ہے۔ قبل از اسلام کے مکہ میں زندہ گاڑ دی جانے والی بیٹیوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں بھی جیسے اکیسویں صدی کی انوکھی آنر کلنگ میں شامل ہو گئی ہیں۔ تب اس ظلم کو غیرت کے جاہلانہ تصور پر تحفظ حاصل تھا اور اب اسے خود مذہب کے نام پر تحفظ حاصل ہے۔ ’’تھرڈ ڈائمنشن‘‘ برطانیہ میں اسائلم لینے کی سہولتوں سے سچ جھوٹ بولنے کی کسی حد تک چلے جانے والوں کی دلچسپ کہانی ہے۔ باقی ساری کہانیاں بھی اپنی اپنی جگہ دلچسپ ہیں۔ ’’ریڈیو کی موت‘‘ کہانی کو میں نے یہ سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تھا کہ سیٹلائٹ اور ٹیلی ویژن چینلز کی نت نئی کرشمہ سازیوں کے سامنے ریڈیو کے دَم توڑنے کی کہانی ہو گی۔ لیکن یہ تو ایک بھلی مانس سی کہانی نکلی۔ لیکن اپنی بھل منسئی کے باوجود کہانی اچھی ہے۔ ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ میں شامل ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی بارہ کہانیاں ان کے اندر کی افسانہ نگار کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ کہانیاں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی مختلف النوع کہانیاں ہیں۔ خامیاں اور خوبیاں ، دوسروں کی ہوں یا اپنوں کی، ان سب کو ایک توازن کے ساتھ نشان زد کیا گیا ہے۔ کہیں کہیں تبلیغی رنگ غالب ہونے لگتا ہے لیکن صرف ایک دو کہانیوں میں ایسا ہوتا ہے۔ بیشتر کہانیوں کا اختتام جیسے ہلکا سا ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے، لیکن یہ عمل کسی نوعیت کا ابہام پیدا نہیں کرتا، بلکہ قاری خود کہانی میں شریک ہو کراسے مکمل کر لیتا ہے، کیونکہ اختتامی ادھوراپن ایک واضح اشارا چھوڑ جاتا ہے۔ اس سے کہانی کا سادہ بیانیہ ایک رنگ میں علامتی سابن جاتا ہے۔

          مجموعی طور پر ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی یہ کہانیاں اردو افسانے کے سفرکا تسلسل ہیں۔ افسانہ غیر مقبول ہے یا سارا ادب ہی غیر مقبول ہوتا جا رہا ہے؟وہ مقبولیت کے کسی پھیر میں نہیں پڑیں۔ ان کے لیے اتنا ہی بہت ہے کہ انہیں یہ کہانیاں تخلیق کرنے کی توفیق مل گئی۔ قبولیت نصیب ہو گئی۔ توفیق ملنے کی اس قبولیت پر میری طرف سے دلی مبارک باد!            (ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کے مجموعہ کہانی بول پڑتی ہے میں شامل۔ مطبوعہ ۲۰۱۲ء)

٭٭٭

 

 کہانی  بول پڑتی ہے (پوپ کہانیاں )

 مصنفہ: ڈاکٹر رضیہ اسماعیل

ناشر۔  بک ہوم مزنگ روڈ لاہور۔۔ صفحات  ۱۳۶۔۔ قیمت  ۷ پونڈ۔ ۱۲ ڈالر۔  ۳۰۰ پاکستانی روپے۔

تبصرہ:   زاہد مسعود  (لاہور)

       برطانیہ ( برمنگھم) میں مقیم معروف شاعرہ اور ادیبہ ڈاکٹر رضیہ اسمعیل کے شعری کلیات’’ خوشبو، گلاب کانٹے‘‘ کے بعد اب ان کی دوسری نثری کاوش پوپ کہانیوں کا مجموعہ  اشاعت کے مراحل طے کر کے منظر عام پر آ چکا ہے۔ اس سے قبل  ۲۰۰۰؁ ان کا طنز و مزاح پر مبنی انشائیوں کا مجموعہ ’’ چاند میں چڑیلیں ‘‘ شائع ہو کر مقبولیت کی سندحاصل کر چکا ہے۔

          ادھر کچھ عرصہ سے اردو ادب کے ایوانوں میں  بالخصوص برطانیہ میں پوپ کہانیوں کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ مگر  تاحال پوپ کہانی کے خدوخال اور اس کی  ہیئت پوری طرح واضع ہو کر سامنے نہیں آ سکی ہے۔ مصنفہ نے  پوپ کہانی پر تحقیق کر کے مختلف حوالوں سے یہ بات ثابت کی ہے کہ پوپ کہانی کوئی نئی نثری صنف نہیں ہے  بلکہ امریکی ادب میں پوپ کہانی بڑی واضع خدوخال اور ہیئت کے ساتھ عرصہ دراز سے لکھی جا رہی ہے اور اسے امریکی ادب میں نہایت پختہ  نثری صنف کی حیثیت حاصل ہے۔

       مصنفہ نے امریکی پوپ رائٹرز سے رابطہ کرنے کے بعد ان کی چند پوپ کہانیوں کے اردو تراجم بھی کتا ب میں شامل کئے ہیں تاکہ قارئین کو امریکی ادب میں لکھی جانے والی پوپ کہانی کی موجودہ صورتِ حال سے آگاہی حاصل ہو سکے اور جس سے اردو پوپ کہانی لکھنے والے استفادہ کر سکتے ہیں۔

      پوپ کہانی کو خالص مشرقی قالب میں ڈھالنے کے لئے مصنفہ نے کئی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن پر مزید غور و خوض کی ضرورت ہے۔ دیدہ زیب سر ورق کہانی کی ارتقائی منازل کی نشاندہی بڑی خوبصورتی سے کر رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ امریکی پوپ کہانی کاروں کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق بارہ پوپ کہانیاں خود بھی لکھی ہیں جنہیں وہ تجرباتی کہانیوں کا نام دیتی ہیں۔ مزید برآں کہ’’ تجربہ میں بہتری اور نکھار کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ ‘‘ یہ پُر اثر کہانیاں برطانیہ میں ایشیائی ممالک سے آ کر آباد ہونی والی خواتین کے شب و روز کی کشمکش بہت خوبصورتی سے بیان کر کے برطانیہ میں ثقافتی ٹکراؤ کی  نشاندہی کر رہی ہیں۔ کتاب میں ممتاز ادیب، محقق، نقاد اور دانشور ڈاکٹر خواجہ ذکریا اور جرمنی میں مقیم نامور شاعر ادیب اور دانشور حیدر قریشی کے تبصرے اور آرا شامل ہیں۔

       برطانیہ میں پوپ کہانی پر شروع ہونے والی ابتدائی بحث کو مصنفہ نے آگے بڑھا کر اردو ادب میں بنیادی نوعیت کا کام کرتے ہوئے  ایک علمی اور ادبی بحث کا آغاز کیا ہے جس پر وہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔

٭٭٭

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل (برمنگھم)

آنر کلنگ

 (Honour Killing)

مولوی امیر الدین کا پارہ ہمیشہ کی طرح آج بھی ساتویں آسمان پر تھا۔ گرجتے برستے مولوی کا ہوائی فائر کرنے میں تو کوئی ثانی ہی نہیں تھا۔ حالانکہ سیّدانی بھی بڑی دل گردے والی عورت تھی۔ زبان کی کافی تیز۔ کرنے پر آتی تو ذرا لحاظ نہ کرتی مگر جب مولوی امیر الدین فائر کھولتے تو سیّدانی سیز فائر کر دیتی۔ زندگی کی گاڑی بس یونہی چھک چھک کرتی ہوتی چلی جا رہی تھی۔ کسی اسٹیشن پر ذرا زیادہ دیر رک جاتی اور جب تک سبز جھنڈی ہلتی نظر نہ آتی زمین و آسمان سانس روکے رکھتے۔

مگر آج تو حد ہی ہو گئی تھی مولوی امیر الدین کو رہ رہ کر غصے کے دورے پڑ رہے تھے۔ سب بچے اپنے اپنے کمروں میں دبکے بیٹھے تھے بس تیروں کی بوچھاڑ سہنے کے لیے سیّدانی میدان میں ڈٹی ہوئی تھی بات کچھ بھی نہ تھی بڑی بیٹی شرمین نے کالج میں داخلے کی ضد کر ڈالی تھی مولوی امیر الدین کو یوں لگا جیسے اس نے باپ دادا کی عزت پر کالک پوت دی ہو۔ بیٹی بھی دھن کی پکی تھی۔ ایک ہی رٹ تھی کہ ’’آخر وہ کب تک گھر میں بیکار بیٹھی رہے گی۔ نہ آگے پڑھنے کی آزادی۔۔۔ نہ ہی کوئی ملازمت کرنے کا ماحول۔۔۔ ایسے میں کوئی کرے تو کیا کرے؟ انگلینڈ میں رہتے ہوئے بھی اس قدر دقیانوسی ماحول۔۔۔ ؟‘‘ شرمین اکثر بڑبڑاتی۔۔۔۔ ! مولوی امیر الدین بیوی اور بیٹیوں کو تو تہہ خانے میں چھپا کر رکھتا مگر محلے بھر کی نئی نئی جوان ہوتی ہوئی شوخ و شنگ لڑکیوں کو کن اکھیوں سے دیکھنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا تھا۔ مولوی کے اسی دوغلے پن سے اس کی بیٹی شرمین کو چڑ تھی کہ ’’خود میاں فضیحت اور دوسروں کو نصیحت۔۔۔۔ !‘‘ مولوی کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ شرمین اور ریان جڑواں بہن بھائی تھے اس کے بعد نرمہ اور کامران۔۔۔۔ بچے ماں باپ کے درمیان ہونے والی سرحدی جھڑپوں میں ملوث نہ ہوتے وگرنہ ماں کی طرفداری کرنے کی پاداش میں ان کی شامت آ جاتی۔

سیدانی محلے بھر کی بچیوں کو قرآن پاک پڑھا کر ثوابِ دارین حاصل کرتیں۔ بسم اللہ۔ آمین۔۔۔ عقیقے۔۔۔ میلاد۔۔۔ گیارہویں۔۔۔ نذر نیاز۔۔۔۔ نذرانے بس ایک شور سا مچا رہتا۔ چند ایک عورتیں ہمیشہ سیّدانی کے پاس دعا کروانے کی غرض سے موجود رہتیں۔ ہر جمعرات کو خاص دعا کا اہتمام کیا جاتا۔ درودسلام کی محفل منعقد ہوتی۔ جو مولوی امیر الدین کے گھر لوٹ آنے سے پہلے ہی ختم کر دی جاتی۔

اگر کبھی عورتوں کو اٹھنے میں دیر ہو جاتی اور مولوی امیر الدین گھر لوٹ آتا تو اس کے قدموں کی چاپ سن کر سبھی عورتیں دوپٹے، چادریں دوبارہ سے درست کرنے لگ جاتیں۔ سیّدانی ہاتھ کے اشارے سے انہیں خاموش رہنے کو کہتی کہ ’’مولوی امیر الدین راہداری سے گزر جائیں تو وہ پھر نکلیں۔ ‘‘ گویا ایک ہنستا بستا گھر نہ ہوا بیگار کیمپ ہو گیا۔ جہاں ہر وقت کسی انہونی کا دھڑکا لگا رہتا۔

مولوی کی بڑی بیٹی شرمین زندگی سے بھرپور لڑکی تھی۔ جی بھر کر جینا چاہتی تھی۔ ہنسنا۔ کھیلنا۔ کودنا چاہتی تھی مگر گھر کا ماحول یوں تھا جیسے شہر خموشاں۔ ایسے میں تنہائی سے گھبرا کر وہ کسی نہ کسی سہیلی کو گھر پر بلاتی کیونکہ اسے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

چھوٹی بیٹی فرمین اللہ میاں کی گائے تھی۔ سکول ختم کرتے ہی گھر کی زیادہ تر ذمہ داری اس کے کندھوں پہ ڈال دی گئی تھی۔ کیونکہ اس کے اندر ایک فطری رکھ رکھاؤ اور سلیقہ تھا جو کہ شرمین میں قدرے کم تھا۔ اس کی نٹ کھٹ طبیعت اسے کبھی سنجیدہ ہونے کا موقعہ ہی نہ دیتی۔ جبکہ فرمین بہت کم ہنستی اور بولتی۔۔۔ اس نے کبھی شکایت کا موقعہ ہی نہیں دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں شرمین ہمیشہ مولوی کے لیے دردِ سر بنی رہتی۔ شکل و صورت اور رنگ روپ میں فرمین سے کافی دبتی تھی اس لیے اور کئی حیلوں بہانوں سے نمایاں ہونے کی کوشش میں لگی رہتی۔ کبھی بھڑکیلا لباس تو کبھی تیز میک اپ بات بے بات قہقہے لگانا۔ جن کی آواز سے مولوی کو سخت چڑ تھی۔ مولوی کا بس نہیں چلتا تھا کہ بے فکری سے قہقہے لگاتی ہوئی شرمین کا گلا دبوچ لے کیونکہ مولوی کے خیال میں ’’عورتوں کو زیادہ وقت گھرداری، عبادت، توبہ استغفار اور گریہ زاری میں گزارنا چاہیے کیونکہ اپنے ناشکرے پن کی وجہ سے جہنم میں زیادہ عورتیں ہی ہوں گی اور انہیں اس دنیا میں ہی اپنی بخشش کا سامان کرنا چاہیے۔ ‘‘

مولوی امیر الدین کو فکر تھی کہ کسی طرح شرمین کے ہاتھ پیلے کر دے۔ کئی جاننے والوں سے رشتے کے بارے میں کہہ رکھا تھا مگر جب بھی کوئی رشتہ آتا شرمین کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچا کر لوگوں کو گھر سے بھگا دیتی اور سیّدانی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اس کی نادانیوں پر پردہ ڈال دیتی۔ دراصل شرمین کو شادی کے نام سے ہی نفرت تھی۔ ابا اور اماں کے بے جوڑ رشتے کی نوعیت دیکھ کر تو وہ شادی کے نام سے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتی تھی کیونکہ وہ ابا جیسے کسی اور شخص کے پلے پڑ کر گھٹ گھٹ کر مرنا نہیں چاہتی تھی۔

اس قدر بے رنگ زندگی سے شرمین سمجھوتہ نہیں کر پا رہی تھی۔ ایک دن بڑے بھائی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اس نے رنگین ٹی وی اور وی سی آر کرایے پر لے لیا۔ مولوی امیر الدین جیسے ہی گھر میں داخل ہوا۔ غیر مانوس سی آواز سن کر اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ لونگ روم میں ٹی وی اور وی سی آر دیکھ کر تو وہ جیسے پاگل ہی ہو اٹھا۔ پہلے تو بیوی کی خوب خبر لی۔ کہ وہ جہنمی عورت تھی جو اولاد کو غلط راہ پر لگا رہی تھی۔ سیدانی کے ترکی بہ ترکی جواب کے نتیجے میں آج پہلی بار مولوی امیر الدین کا ہاتھ اس پر اٹھ گیا تھا۔

’’ہائے پاجی۔ مردود۔ ظالم۔ ارے لوگو دیکھو۔ بڑھاپے میں زندگی بھر کے صبر کا کیا صلہ مل رہا ہے۔ ارے میں تو سہاگن سے رانڈ بھلی۔ یہ خصم نہیں۔ سینے کا زخم ہے۔ ہائے کدھر جاؤں میرے مولا۔ ایسے دوزخی سے کب رہائی ملے گی۔ ‘‘ آج سیدانی کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا تھا۔۔ ’’ٹھہر جا حرامزادی۔ حرافہ۔ ابھی مزہ چکھاتا ہوں تجھے۔۔۔ ‘‘ ایک اور زناٹے دار تھپڑ سیدانی کا دوسرا گال بھی گلال کر گیا۔ سیدانی نے سینہ پیٹ پیٹ کر لال کر لیا۔ مولوی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بیٹے کو پیٹنا شروع کر دیا۔ شرمین بھاگ کر بیڈ روم میں جا چھپی۔ بڑا سا لوہے کا راڈ اٹھا کر مولوی نے پوری قوت سے ٹی وی اور وی سی آر توڑنے شروع کر دئیے۔ جیسے اس کے اندر الہ دین کے چراغ کا جن گھس گیا ہو۔ ٹی وی اور وی سی آر پر زور آزمائی سے تھک جاتا تو بیٹے کو پیٹنا شروع کر دیتا۔ بیٹا بھی ایسا بسم اللہ کا تخم کہ اُف تک نہیں کی۔ وگرنہ کڑیل جوان تھا۔ باپ کا ہاتھ تو روک ہی سکتا تھا۔ مگر مولوی امیرالدین نے گھر میں اپنی کچھ ایسی دہشت پھیلا رکھی تھی کہ کوئی اس کے مقابل نہ آتا۔ سیدانی اپنے گال سہلاتی ہوئی جھر جھر روئے جا رہی تھی۔ آج تو اس نے مولوی امیر الدین کو بے نقط سنا ڈالیں گویا اگلے پچھلے سب حساب برابر کر ڈالے۔ ’’بے غیرت، رانڈ۔ تیری کبھی بخشش نہ ہو گی۔ تو دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں پھینکی جائے گی۔۔۔ ناشکری۔۔ بے حیا۔ ‘‘ مولوی بکتا جھکتا گھر سے باہر چلا گیا۔

گھر میں درجہ حرارت ابھی کم نہیں ہوا تھا۔ دوسرے دن پھر ہنگامہ ہو گیا۔ مولوی کا خیال تھا کہ شرمین اور ریان دونوں کی اب شادی کر دینی چاہیے۔ ریان کے لیے تو اس نے رشتے کے بھائی کی بیٹی سے۔ بغیر کسی سے مشورہ کیے۔۔۔ پاکستان میں بات طے کر لی تھی، آج سیدانی نے اسے فون پر بات کرتے سنا تو گھر پھر سے پانی پت کا میدان بن گیا۔ سیدانی کا موقف تھا کہ ’’بچے جب پاکستان میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتے تو تم کیوں بضد ہو ؟‘‘ ’’دیکھتا ہوں کس میں میرے فیصلے کے خلاف جانے کی مجال ہے۔ یہ سب تیری ہی شہہ کا نتیجہ ہے۔ تو ہی ایک دوزخن ہے اس گھر میں۔ اور سب کو اپنے ساتھ جہنم میں لے کر جائے گی۔ ‘‘مولوی امیر الدین پھر شعلہ بیانی پر اتر آیا تھا۔ اس سے پہلے کہ سیدانی کوئی جواب دیتی۔ دروازے پر کسی نے کال بیل بجا دی۔ اور سیز فائر ہو گیا۔ اب ہر دوسرے تیسرے روز شادی کے مسئلے کو لے کر جھگڑا کھڑا ہو جاتا۔ پھر یوں ہوا کہ مطلع بالکل صاف ہو گیا۔ شادی کے ذکر سے جیسے مولوی کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ گھر بھر پر سکون سا ہو گیا تھا۔ اس کایا پلٹ پر سب حیران سے تھے۔ مولوی اور سیدانی میں بات چیت ابھی تک بند تھی۔

چند ہفتوں کے بعد مولوی امیر  الدین نے ایک دن اچانک اعلان کر دیا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے پاکستان جا رہا تھا۔۔۔ سب نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔۔ تقریباً دو ماہ پاکستان میں رہ کر مولوی امیر الدین واپس انگلینڈ آیا توا س کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے تھے۔ خوشی چہرے سے پھوٹی پڑتی۔ بات بات پہ باچھیں کھل جا رہی تھیں۔ سیدانی اور بچوں نے اسے اس سے پہلے کبھی اتنا نرم خو، ہنس مکھ اور مرنجاں مرنج نہیں دیکھا تھا۔ انہیں اندازہ ہی نہ ہوا کہ اس پرسکون تالاب کی تہہ میں کیسے کیسے طوفان چھپے بیٹھے تھے۔ مگر پوچھنے کی جرات کس میں تھی؟

چند روز بعد مولوی امیر الدین نے بیوی بچوں کو لونگ روم میں بلاکر ایک لرزہ خیز انکشاف کر دیا۔ ’’ہم عزت دار خاندانی لوگ ہیں۔ باپ دادا کی قائم کی ہوئی روایات پر مرنے والے۔ زبان کا پاس رکھنے والے۔ غیرت مند لوگ اپنی منگ کبھی نہیں چھوڑتے۔ اس لیے خاندانی عزت اور ناموس کو بچانے کی خاطر میں نے ریان کی منگیتر سے پاکستان میں شادی کر لی ہے۔ ‘‘

بچوں کے چہرے شرم سے زمین میں گڑ گئے۔۔۔۔ سیدانی کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی اور اس نے آہ و بکا شروع کر دی۔ ’’ہائے ہائے اٹھارہ سال کی معصوم بچی تیری ان بیٹیوں سے چھوٹی۔ یہ کیا ظلم کیا تو نے۔ ہائے ہائے وہ اپنا سر پیٹتی جا رہی تھی۔ کیسے لوگوں سے نظر ملاؤں گی۔ ان بیٹیوں کی ڈولیاں اس گھر سے کیسے اٹھیں گی۔ اے میرے مولا۔ مجھے اٹھا لے۔ اب کچھ اور دیکھنے کی حسرت نہیں ہے۔۔۔ ‘‘وہ انتہائی درد ناک انداز میں بین کر رہی تھی۔ مگر مولوی امیر الدین سنی ان سنی کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

شرمین کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ باہر سڑک پر جا کر چیخ چیخ کر لوگوں کو بتائے کہ غیرت کے نام پر صرف جسموں کا قتل ہی آنر کلنگ نہیں بلکہ معصوم لڑکیوں کے ارمانوں۔ ان کے جذبوں ، ان کی آرزوؤں ان کی امنگوں اور خوابوں کا قتل بھی آنر کلنگ ہی ہے۔۔۔ !

مگر ایسے قتل کی سزا۔۔۔۔۔ ؟

٭٭٭

 

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل (برمنگھم)

ائیر فریشنر

(Air Freshner)

زوبی کو انگلینڈ آتے ہی جن چند چیزوں سے عشق ہوا تھا ان میں فش اینڈ چپس، باؤنٹی چاکلیٹ، سالٹ اینڈوینگرکریسپ، ڈائی جیسٹو بسکٹ، بگ بین اور ائیر فریشنز تھے۔ رنگ برنگی ائیر فریشنز کو جمع کرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ ہوا ذرا کثیف ہوئی۔ کوئی ناپسندیدہ ناخوشگوار بو ناک کی مہمان بننا چاہتی تو زوبی جھٹ ائیر فریشنز نکال کر لے آتی۔ سب ہی زوبی کے اس کریز سے واقف تھے اور اسے دیوانوں کی طرح ائیر فریشنز چھڑکتے دیکھ کر صرف زیرِ لب مسکرا کر رہ جاتے تھے۔

پاکستان سے گریجویشن کر کے جب وہ انگلینڈ آئی تو اسے سخت مایوسی ہوئی کیونکہ جس ولایت کے دیومالائی قصے کہانیاں وہ بچپن سے سنتی آئی تھی یہاں تو ویسا کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ دودھ اور شہد کی نہریں تھیں۔ نہ درختوں پر پتوں کی جگہ پاؤنڈز۔۔۔ نہ ہی سڑکیں اتنی صاف شفاف تھیں کہ آئینہ دیکھنے کی نوبت نہ آئے۔ بلکہ جس زمانے میں زوبی انگلینڈ آئی اس وقت تو یہاں بجلی کا بحران چل رہا تھا۔ سڑکوں پر روشنیاں کم کم ہی تھیں۔ اور جو نظر آتیں وہ بھی زرد زرد سی۔ جیسے باقی ماندہ روشنیوں سے بچھڑ کر اداس ہو گئی ہوں۔ بے سورج موسم۔ گہرے گہرے بادل دیکھ کر تو وہ گھبرا سی گئی۔ یا خدایا۔۔۔۔ یہ کیسا ملک ہے۔ نہ دن کی خبر نہ رات کا پتہ، بے رنگ سی گوری چمڑیاں۔ جن کی خوبصورتی کے قصے عظیم ماموں سناتے نہ تھکتے تھے جیسے پرستان کی پریاں راستہ بھول کر انگلینڈ میں آ اتری ہوں۔ انگلینڈ کا یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر تو زوبی اداس سی ہو گئی جتنے جوش و خروش سے دوستوں کو الوداع کہتے ہوئے جہاز کی سیڑھیاں چڑھی تھی لگتا انگلینڈ میں آ کر پاتال میں جا گری ہو۔۔۔ یعنی مکمل کلچر شاک۔

انگریزی زبان و ادب سے اسے ہمیشہ سے ہی دل چسپی رہی تھی۔ انگریزی کے ہر امتحان میں امتیازی پوزیشن حاصل کرتی۔ لگتا تھا انگلینڈ میں تو انگریزی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہو گا۔ گھر کی مرغی جب چاہے حلال کر ڈالیں۔ مگر یہاں آ کر پتہ چلا کہ پاکستان میں کلاس روم میں پڑھائی جانے والی انگریزی۔ کتابوں میں چاہے ویسی ہی ہو۔ لکھنے لکھانے میں بھی ویسی ہی ہو۔ مگر لب و لہجہ الگ ہے اور اسے سمجھنے کے لیے اس کلچر میں رہنا پڑے گا۔ مقامی لوگوں سے گھلنا ملنا اور بات چیت کرنا ہو گی کیونکہ زبان ایک زندہ چیز ہے۔ یعنی Language is a living thing۔

جب کبھی اس نے کارنر شاپ کی انگریز عورت سے بات کرنے کی کوشش کی۔ اس کا لب و لہجہ زوبی کے سر کے اوپر سے گزر جاتا اور وہ مروت میں مسکراتی ہوئی دکان سے باہر آ جاتی۔ چھوٹے بھائی جو انگلینڈ کافی عرصہ پہلے آگئے تھے یہاں کے سکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہے تھے۔ ان سے انگریزی لب و لہجہ سمجھنے کی کوشش کرتی تو وہ اس کا مذاق اڑاتے۔ درمیان والا بھائی تو اس کی ٹانگ ضرور کھینچتا۔ غصے میں وہ اسے شٹ اپ کہہ کر بیڈ روم میں جا گھستی۔ ایک دن بڑے بھیا نے اسے سنجیدگی سے مشورہ دیا کہ ’’یوں گھر میں پڑے رہنے اور جلنے کڑھنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ بہتر ہے کہ باہر نکلو اور مقامی ایڈلٹ ایجوکیشن سنٹر  میں پارٹ ٹائم انگریزی بول چال کی کلاسز جوائن کر لو پڑھی لکھی ہو دنوں میں ہی رواں ہو جاؤ گی تو پھر نوکری ڈھونڈنے میں بھی مشکل نہ رہے گی کام مل گیا تو یہاں دل بھی لگ جائے گا۔ ویسے کوشش کرو کہ زیادہ سے زیادہ باہر جا کر مقامی لوگوں سے انگریزی میں بات چیت کرو۔ کچھ تو پلے پڑے گا۔ ‘‘ بھیا کا مشورہ اسے اچھا لگا اب روزانہ دو گھنٹے وہ لینگوئج ٹرپ پر نکل جاتی۔ اور چند ہفتوں میں ہی اسے محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ اسے مقامی ایکسنٹ کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہو گیا ہے۔

ایونگ کلاسز میں ایک ہی ٹرم کے بعد وہ کافی حد تک انگریزی کے مقامی لب و لہجہ کو سمجھنے لگ گئی تھی۔ اگلی ٹرم کے لیے اس نے کالج میں ایڈمیشن لے لیا۔ وہاں پر انگلش لیکچرار کی ساری بات اس کو سمجھ آ رہی تھی۔ وہ شش و پنج میں تھی کہ آخر باہر سڑکوں بازاروں ، دکانوں میں گھومنے پھرنے اور عام لوگوں کی انگریزی سمجھنے میں اسے کیوں دشواری ہو رہی تھی تو بھیا نے بتایا کہ ’’جن لوگوں سے تم انگریزی سیکھنے کی کوشش کر رہی تھیں وہ تو بیچارے ہمارے ہاں کے نیم خواندہ لوگوں جیسے ہی ہیں وہ کونسا کوینز انگلش  بولیں گے کہ تمہاری سمجھ میں سو فیصد بات آ جائے۔ تم پڑھی لکھی ہو تو پڑھے لکھے لوگوں کی انگریزی تمہیں سمجھ آ جائے گی کیونکہ اکیڈیمیا کی انگریزی پر مقامی لب و لہجہ کا رنگ نہیں چڑھا ہوتا۔ ’’بھیا کی بات سن کر میری جان میں جان آئی وگرنہ تو لگ رہا تھا سب پڑھا لکھا اکارت گیا۔ سوچ رہی تھی میں نالائق ہوں یا مجھے پڑھانے والے۔ مگر دونوں ہی باتیں غلط تھیں۔ کالج میں دو ہی ٹرم گزار کر زوبی کو انگریزی بولنے اور سمجھنے پر کافی عبور ہو گیا تھا۔

ایک دن بھیا نے مشورہ دیا کہ ’’تم جاب سینٹر میں جا کر اپنا نام رجسٹر کروا لو تاکہ کوئی مناسب جاب کی تلاش کی جا سکے۔ ‘‘ بھیا کے ساتھ بڑے فخر سے جا کر زوبی جاب سینٹر میں رجسٹر ہو گئی۔ ہر ہفتے وہاں جا کر حاضری لگانا پڑتی اور اس اقرار نامے پر دستخط کرنا پڑتے کہ ’’میں ملازمت کرنا چاہتی ہوں۔ بالکل تندرست ہوں۔ اور پوری دیانتداری سے ملازمت تلاش کر رہی ہوں۔ ‘‘ اس کے بدلے میں بیس پونڈ کا چیک ہر ہفتے بذریعہ ڈاک موصول ہو جاتا۔

روز روز جاب سینٹر کے چکر لگاتے لگاتے زوبی کچھ بور سی ہو گئی۔ ایک دن سینٹر والوں نے اسے پیکنگ کی جاب کے لیے ایک ویئر ہاؤس میں بھیجا۔ بلکہ وہ جگہ کافی دور تھی۔ راستہ پوچھتی پوچھتی وہ آخر وہاں پہنچ ہی گئی۔ وئیر ہاؤس میں کچھ نوجوان انگریز لڑکے لڑکیاں پیکنگ کے کام میں مصروف تھے اسے کن اکھیوں سے دیکھ کرکھِی کھِی کرنے لگ گئے۔ ان کے رویے سے اسے بڑی کوفت ہوئی۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ان سے منیجر کے بارے میں پوچھا کہ وہ انٹرویو کے لیے آئی ہے۔ اسے لگا جیسے جواب میں ایک انگریز لڑکے نے اسے ’’پاکی ‘‘ کہا ہو۔ جسے سن کر اسے بہت غصہ آیا۔ اس نے ان سے منہ ماری شروع کر دی۔ اتنے میں وئیر ہاؤس کا منیجر آن پہنچا۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے ایک لڑکے سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو لڑکے کی بجائے زوبی نے غصے سے جواب دیا کہ ’’میں پیکنگ کی جاب کے لیے جاب سینٹر کی طرف سے انٹرویو کے لیے آئی ہوں مگر انہوں نے مجھے پاکی کہا ہے۔ ‘‘ انگریز لڑکے نے کہا کہ ’’نہیں انہوں نے پیکر کہا تھا۔ ‘‘بس اس بات پر تکرار ہو گئی۔ وئیر ہاؤس منیجر واضح طور پر اپنے ملازمین کا دفاع کر رہا تھا۔ اس کا موقف تھا کہ زوبی کو ان کی بات سمجھنے میں غلطی لگی تھی۔ انہوں نے پاکی نہیں بلکہ پیکر کہا تھا۔ زوبی کو پتہ تھا کہ لڑکے سراسر جھوٹ بول رہے تھے اور دونوں لفظ خلط ملط کر کے فائدہ اٹھانا چاہ رہے تھے۔ زوبی گٹ لوسٹ کہہ کر جاب پر لعنت بھیجتی ہوئی وہاں سے آگئی۔ اور ساتھ ہی پکا ارادہ کر لیا کہ اب وہ اس قسم کی جگہوں پر نوکری کے لیے نہیں جائے گی بلکہ بہتر قسم کے پڑھے لکھے لوگوں کے ماحول میں جاب کرے گی۔ ’’ایسی جگہیں تو بالکل بھی اس کے کام کرنے کے لائق نہ تھیں۔ فضول سا ماحول، فقرے بازی، جسم کو چیرتی نگاہیں ، گندی ذہنیت۔۔۔ ‘‘ وہ بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل آئی۔

زوبی اگلے ہفتے پھر جاب سینٹر جا دھمکی اور اب کی بار جاب سینٹر کی ایڈوائز سے شکایت بھی کی کہ اسے اس قسم کی جگہوں پر انٹرویو کے لیے مت بھیجا جائے۔ جہاں لوگوں کے رویے اس قدر غلط ہوں۔ اس کی بات سن کر جاب سینٹر ایڈوائزر اسے کچھ بے یقینی کی سی کیفیت سے گھورنے لگی۔۔۔۔ !انگریز عورت نے اس کی بات کا تو کوئی جواب نہیں دیا مگر اسے ایک مشہور ڈیپارٹمنٹل سٹور میں سیلز گرل کی نوکری کے لیے انٹرویو لیٹر بنا کر دے دیا۔ دوسرے روز وہ انٹرویو کے لیے گئی تو چند اور انگریز لڑکے لڑکیاں انٹرویو کے لیے لابی میں منتظر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ان پر اچٹتی سی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گئی۔ ابھی وہ ادھر ادھر کا جائزہ لے رہی تھی کہ اس کا نام پکارا گیا۔ ’’شاید وہ انٹرویو کے لیے پہلی امیدوار تھی‘‘ اسنے سوچا جیسے ہی وہ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی انٹرویو لینے والی انگریز عورت نے کمرے میں ائیر فریشنر سپرے کرنا شروع کر دیا۔ زوبی سراسیمگی کی حالت میں کرسی کے سرے پر ہی ٹک گئی۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ جیسے وہاں سے ابھی اٹھ کر بھاگ جائے گی۔ دماغ جیٹ کی رفتار سے بھاگ رہا تھا۔۔۔ وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر ائیر فریشنر تو بوجھل گندی، کثیف ہوا کو صاف کرنے کے لیے سپرے کیا جاتا ہے۔ اس انگریز عورت نے ائیر فریشنر کیوں سپرے کیا؟ کیا میرے کمرے میں آنے سے۔۔۔۔ ؟ اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکی۔۔۔۔ اس کا ذہن ماؤف ہو رہا تھا۔

چند رسمی سی باتیں پوچھنے کے بعد انگریز عورت نے اسے پچیس پونڈ ہفتہ پر ملازمت کی پیش کش کر دی مگر زوبی اس کی ائیر فریشنر والی حرکت سے سخت غصے میں تھی کیونکہ "It was Shear insult” سراسر بے عزتی۔۔۔ مکمل توہین!  ایسی اہانت۔۔۔ !

زوبی نے سختی سے ملازمت کی پیشکش ٹھکراتے ہوئے کہا۔ ’’ بیس پونڈ تو مجھے جاب سینٹر والے بغیر کام کے ہر ہفتے گھر بھیج دیتے ہیں۔ کیا میں صرف پانچ پونڈ کے لیے تمہارے یہاں کام کروں گی؟‘‘

انگریز عورت زوبی کے دلیرانہ جواب پر حیران سی رہ گئی۔ زوبی اسے اسی حالت میں چھوڑ کر دھڑام سے دروازہ بند کر کے کمرے سے باہر آ گئی۔ اسے یوں لگا جیسے جاب اس کے منہ پر مار کر اس نے تمام نسل پرستوں سے اپنی توہین کا بدلہ لے لیا ہو۔

گھر آنے کے بعد زوبی نے سارے ائیرفریشنرز ڈسٹ بن۔۔۔۔۔ !     ٭٭٭

 

غزلیں

رضیہ اسماعیل

غموں پہ ہاتھ ملنا آ گیا ہے

کھلونوں سے بہلنا آ گیا ہے

بہت پتھر کیا تھا خود کو میں نے

تو بچھڑا تو پگھلنا آ گیا ہے

محبت ہے کہ تو نفرت ہے، جو ہے

تِرے سانچے میں ڈھلنا آ گیا ہے

یہ کیسی درد کی سوغات دی ہے

بنا شعلوں کے جلنا آ گیا ہے

تجھے یہ سُن کے دُکھ ہو یا خوشی ہو

مجھے گر کر سنبھلنا آ گیا ہے

گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو

مجھے کانٹوں پہ چلنا آ گیا ہے

٭٭٭

لفظوں کی جھنکار کو مرنے مت دینا

اندر کے فن کار کو مرنے مت دینا

کوثر اور تسنیم سے دھو لو ہونٹوں کو

ناطق ہو، گفتار کو مرنے مت دینا

پتی پتی چُن کر پھول بنا لینا

خوشبو کے سنسار کو مرنے مت دینا

منزل دُور بہت اور پاؤں زخمی ہیں

چلتے رہو، رفتار کو مرنے مت دینا

 سجدوں اور دعاؤں کی سوغاتوں سے

تم اپنے بیمار کو مرنے مت دینا

مرنا پڑے سو بار اگر تو مر جاؤ

پر اپنے کردار کو مرنے مت دینا

٭٭٭

 

اک لفظ بھی نظر نہیں آتا کتاب میں

یہ کیا لکھا ہوا ہے محبت کے باب میں

دنیا کی فکر میں بھلا دیوانی کیا کروں

آتی نہیں یہ چیز تو میرے حساب میں

اب چاندنی سے کوئی گلہ ہی نہیں رہا

چہرہ نظر جو آیا تِرا ماہتاب میں

خط کے جواب نے مجھے حیران کر دیا

اب سوچتی ہوں کیا لکھوں تجھ کو جواب میں

تتلی کو دیکھ اس کو پکڑنے کی جستجو

ہوتا سبھی کے ساتھ ہے دَورِ شباب میں

احوال دل کا دل کے سوا کون جانتا

گزری جو ہم پہ وہ نہ لکھی تھی نصاب میں

توڑا تھا پھول شاخ سے تیرے خیال میں

محفوظ اس کو کر لیا دل کی کتاب میں

٭٭٭

 

انوکھا کام کرنا چاہتی ہوں

زمانے کو بدلنا چاہتی ہوں

گھٹائیں جھوم کر اٹھی ہیں مجھ میں

میں بارش ہوں ، برسنا چاہتی ہوں

ستم کو، جور کو، سب نفرتوں کو

محبت سے نمٹنا چاہتی ہوں

ہوا جو نذرِ طوفاں آشیانہ

میں اس میں پھر سے بسنا چاہتی ہوں

خطا کس سے بھلا ہوتی نہیں ہے

گری ہوں تو سنبھلنا چاہتی ہوں

٭٭٭

رفاقتوں کے زمانے ہنساتے رہتے ہیں

جدائیوں کے زمانے رُلاتے رہتے ہیں

تمھاری آنکھ میں تِل دیکھ کر نہ جانے کیوں

عجیب وہم سے مجھ کو ڈراتے رہتے ہیں

تلاشِ خواب میں راتوں سے دوستی کر لی

اندھیرے رات کے پھر بھی ڈراتے رہتے ہیں

ہمیں کچھ ایسی ضرورت نہیں ہے اشکوں کی

تمھاری یاد میں ساون مناتے رہتے ہیں

کسی کے ہاتھ کے لمس اب بھی چپکے چپکے سے

رفاقتوں کی کہانی سناتے رہتے ہیں

وہ شام ہے کہ سحر، فرق ہی نہیں پڑتا

تمھاری یاد کی شمعیں جلاتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

یوں دُوریوں کی آگ میں اب نہ جلا مجھے

معلوم بھی تو ہو کوئی اپنی خطا مجھے

باتیں ہزار آ کے لبوں پر ٹھہر گئیں

کہتی میں کیا کہ اس نے بھی کچھ نہ کہا مجھے

وہ گم تھا اپنی ذات کے صحرا میں اس طرح

کچھ دیر کو بھٹک گئی میں بھی، لگا مجھے

وہ چاند تھا گھٹاؤں میں چھپتا چلا گیا

میں چاندنی تھی، ہونا تھا آخر جدا مجھے

موقع ملے ملے، نہ ملے سوچنا ہے کیا

میں تو نمازِ عشق ہوں ، کر لو ادا مجھے

٭٭٭

چپ کا دریا ہے اور بہتا نہیں

سب سمجھتے ہیں ، کوئی کہتا نہیں

پتھروں کے نگر میں آ نکلی

کوئی انساں یہاں پہ رہتا نہیں

اپنے حصے کے دُکھ اٹھانے ہیں

کوئی پیڑیں پرائی سہتا نہیں

خواب بارش میں دھُل گئے سارے

کوئی کاغذ کے گھر میں رہتا نہیں

دل کی سنسان سی حویلی کو

اب حویلی بھی کوئی کہتا نہیں

غم کی شدّت سے منجمد ہے دل

اب تو خوں بھی رگوں میں بہتا نہیں

٭٭٭

 

خواب آنکھوں میں کچھ پرانے دو

مجھ کو گزرے ہوئے زمانے دو

اشک آنکھوں میں اب نہیں آتے

مجھ کو رونے کے کچھ بہانے دو

وہ تماشا بنا گیا مجھ کو

غم کا بازار اب لگانے دو

تیرے انساں نے کر دیا مایوس

مجھ کو اک بُت نیا بنانے دو

اب تو جینا بھی موت لگتا ہے

مجھ کو اپنی چتا سجانے دو

٭٭٭

سب کو رزقِ زمین ہونا ہے

منتظر خاک کا بچھونا ہے

جو بھی کرتے ہیں اس جہاں میں ہم

اس کا آخر حساب ہونا ہے

موت ہے زندگی ہمیشہ کی

کیسے آنسو، یہ کیسا رونا ہے

مفت میں دل فگار کرتے ہو

دل کو آخر تباہ ہونا ہے

جم گئے آنکھ میں کہیں آنسو

برف پگھلی تو سب ڈبونا ہے

پاؤں منزل سے آگے جا نکلے

راستوں کا یہی تو رونا ہے

٭٭٭

 

سمندر آگ بن جائیں تو اشکوں سے بجھا ڈالوں

ہوائیں برق بن جائیں تو آہوں سے جلا ڈالوں

مِرا چہرہ، مِرے بازو مجھے اپنے نہیں لگتے

اگر تیری اجازت ہو، نیا اک بُت بنا ڈالوں

محبت زخم ہے تو ڈھونڈ کر لاؤ کوئی مرہم

وگرنہ درد کے رستے کو پھولوں سے سجا ڈالوں

وفائیں ہاتھ ملتی ہیں ، جفائیں مسکراتی ہیں

نہ کیوں میں سلسلے ایسے زمانے سے مٹا ڈالوں

کٹی شاخوں پہ بھی اب تک پرندے روز آتے ہیں

کہیں ایسا نہ ہو میں اِن پرندوں کو اُڑا ڈالوں

٭٭٭

 

ہمیں آغاز کرنا ہے کسی انجام سے پہلے

سحر کو شام کرنا ہے کسی الزام سے پہلے

ہمارے عہد کے انسان تو خوابوں میں رہتے ہیں

انھیں بیدار کرنا ہے کسی کُہرام سے پہلے

ہمارے نام کی تختی نہ ڈھونڈو تم مکانوں پر

جہاں میں لوگ گزرے ہیں بہت گمنام سے پہلے

مکاں پکے ہوں یا کچے، ہمیں اس سے غرض کیا ہے

ہمیں تو کوچ کرنا ہے یہاں بسرام سے پہلے

زباں کے زہر کا تریاق دنیا میں نہیں ملتا

تعلق توڑ لینا تم کسی دُشنام سے پہلے

کہو، غم کے سفینے کس طرف بہتے ہوئے دیکھے

کہا، دل کے سمندر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھے

٭٭٭

 

کہو، غمگین چہرے پر تمھیں کیسی لگی آنکھیں

کہا، ویراں سرائے میں دیئے جلتے ہوئے دیکھے

کہو، انسان کے غم میں کبھی غمگیں ہوئے تم بھی

کہا، آنسو فلک کی آنکھ سے گرتے ہوئے دیکھے

کہو، جب بھی پکارا ہے تِرے بندوں نے مشکل میں

کہا، دریا محبت کے سبھی بہتے ہوئے دیکھے

کہو، انسان کی قسمت میں مرنا کس لئے لکھا

کہا، پاؤں ہواؤں کے کبھی رکتے ہوئے دیکھے

٭٭٭

 

ماہیے

رضیہ اسماعیل

دارا ہے، سکندر ہے

ڈوب گئی میں تو

یہ عشق سمندر ہے

٭

مٹّی کا کھلونا ہے

رکھ لے کھٹالی میں

چن دل میرا سونا ہے

٭

 

سب دکھ سکھ بانٹے ہیں

چُن دو ذرا ساجن

رستے میں کانٹے ہیں

٭

تیری آنکھ کا تِل ماہیا

بڑا ہرجائی ہے

کبھی آن کے مِل ماہیا

٭

خوشبو ہے گلابوں کی

رستے میں حائل ہے

دیوار حجابوں کی

٭

 

پیڑوں کی قطاریں ہیں

پت جھڑ گزر گیا

جوبن پہ بہاریں ہیں

٭

پنگھٹ پہ گوری ہے

نٹ کھٹ ماہیے نے

میری بانہہ مروڑی ہے

٭

تِرے پیار کی برکھا ہے

بھیگ گئی ساجن

تو ایسے برسا ہے

٭

 

دیوار کا سایہ ہے

دیکھ کے شرمائی

میرا ماہیا آیا ہے

٭

مجرم ہے، کٹہرا ہے

پیار تو کر بیٹھے

سارے جگ کا پہرا ہے

٭

بارود کا گولہ ہے

اپنی محبت پر

جگ آگ بگولہ ہے

٭

 

دریا میں کشتی ہے

اجڑ نہ جائے کہیں

یہ دل کی بستی ہے

٭

روتے، کبھی ہنستے ہیں

دل میں یادوں کے

جگنو سے چمکتے ہیں

٭٭٭

 

نثری نظمیں

رضیہ اسماعیل

عقوبت خانے

زندگی کے عقوبت خانے میں

صرف جسم ہی قید نہیں ہوتے

ضمیر دربان بن جاتے ہیں

سوچوں کے چہرے پر سیاہی مل دی جاتی ہے

خیالوں کے پاکیزہ بدن کو

ناپاک ہاتھ چھوتے ہیں

اندھیرا روشنی کی آبروریزی کرتا ہے

رات، دن کی داشتہ بنتی ہے

خواب اندھے ہو جاتے ہیں

خوشبو بیوہ ہو جاتی ہے

عورتیں مرد بن جاتی ہیں …!

٭٭٭

 

پورا خواب

موجۂ گل نے نوید دی…

خوابوں کی تکمیل کا موسم آ گیا

میرے خواب…

عورت کے خواب…

ماں کے خواب…

سب آپس میں مدغم

لمحہ لمحہ…

آنکھوں سے ٹپک ٹپک کر

نہ جانے کب…

میری بیٹیوں کی آنکھوں میں منتقل ہو گئے

قندیلوں سی روشن آنکھیں …

جذبوں کی چمک…

پر تقدیس اور پر عزم چہرے

آنکھوں میں گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند

کومل کومل کھلتے ہوئے خواب

اور…

کہیں دُور سے آتی ہوئی صدا…

’’ بیٹے اگر باپ کے نسب کے وارث ہیں

تو بیٹیاں …

ماؤں کے خوابوں کی امین ہو تی ہیں ‘‘…!

٭٭٭

 

اترن

عورتیں

اترن پہننے سے گھبراتی ہیں

دوسری عورتوں سے ذکر کرتے ہوئے شرماتی ہیں

مگر…

دوسری عورتوں کے شوہر چرا کر

اوڑھ لیتی ہیں !

٭٭٭

 

 دردِ زِہ

اے دردِ زِہ!

تیری کوئی جنس کیوں نہیں ہے!

تو بیٹی کی پیدائش پر…

کوئی رعایت کیوں نہیں کرتا…!

٭٭٭

 

دوہے

رضیہ اسماعیل

میں سلفے کی لاٹ ہوں سجناں ، تو گھبرو پنجابی

سیدھے راہ پہ آ جا ورنہ ہو گی بڑی خرابی

٭

کھِلے شگوفے پیڑوں پر، رُت پیا مِلن کی آئی

من ہی من میں دیکھ کے اس کو گوری ہے شرمائی

٭

روٹھ گئی نینوں سے نِندیا، رینا بیتی جائے

جس رینا میں آئے پیتم، وہ رینا نہ آئے

٭

کاجل، ٹیکا،  مہندی،  پائل سب ہی شور مچائیں

یاد کریں بچھڑے پیتم کو، ہر دم اُسے بلائیں

٭

سو گئے تارے، نیند کے مارے اور جاگے اِک بِرہن

لوٹ کے جانے کب آؤ گے، چوکھٹ پر ہیں نینن

٭

کانٹے تیری راہ کے گوری پلکوں سے میں چُن لوں

نکل سکے نہ جیون بھر تُو، جال میں ایسا بُن دوں

٭

نیناں بھرسیں ساون بھادوں ، کجلا بکھرا جائے

راہ تکوں بیٹھی ساجن کی، کب ساجن گھر آئے

٭

 

کاجل، مسّی، بِندیا، پائل پیار کے سب پہناوے

آ جائے گا ساجن تیرا، کیوں کجلا بکھراوے

٭

کتنے ساون بیتے مجھ کو، پیتم نظر نہ آئے

کومل ڈوری پریم کی سجناں ، ٹوٹ کہیں نہ جائے

٭

پریم کی ڈوری کچی ناہیں ، پل بھر میں جو ٹوٹے

جنم جنم کا ناتا ہے یہ، ساتھ کہاں یہ چھوٹے

٭

ہمرے من کی چاہ کرے وہ، مفت نہیں دل دینا

سچا سودا پریم کا سجنا، دل دینا اور لینا

٭

 

جھوٹ موٹ کا پیار جتائے، میں طوطا تو مینا

ایسی بانوری نہیں میں جاؤ، کھوؤں جو دل کا چینا

٭

پریم کا سندر گہنا پہنا، چلی پیا کے گاؤں

بیتے گا اب جیون سُکھ سے، اپنے پریم کی چھاؤں

٭

پریت کے نام لگا بیٹھی ہوں جیون، جاگ، سویرا

پیار میں ایسی سُدھ بُدھ کھوئی، کیا تیرا کیا میرا

٭

پریم کی ڈوری بیری سجناں ، راہ میں کاہے توڑی

پریم سندیسہ لے کے آ جا، راہ تکے ہے گوری

٭

 

چھوڑ گیا جو راہ میں پگلی، اس سے کیسی آشا

شام ہوئی گھر لوٹ کے آ جا، کاہے بنی تماشا

٭

بیر بہوٹی بن کر بیٹھی، کب ساجن گھر آئے

پاگل منوا پہلو میں رہ رہ کر شور مچائے

٭٭٭

 

رضیہ اسماعیل کی نظمیں

راز و نیاز

فلک تیرا،  زمیں تیری

تِرے لوح و قلم، شمس و قمر اور آب و گِل تیرے

تِرے مجبور بندے ہیں

بدن کی قید میں محصور بندے ہیں

فریضہ سونپ کر ہم کو نیابت کا، امامت کا

بٹھا کر مسندِ شاہی پہ

پائے تخت تو نے توڑ ڈالے ہیں

یہ کیسا تخت ہے، یہ تاج کیسا ہے!

نہ جاری کر سکیں فرمان کوئی ہم

ہمارا بخت کیسا ہے

کیے امر و نہی کے فیصلے روزِ ازل سے جب

تو پھر تقدیر اور تدبیر کیوں دست و گریباں ہیں

کبھی اترو فلک کی چوٹیوں سے

دیکھنے بندوں کے روز و شب

کہ ہم پر کیا گزرتی ہے

زمیں کتنی پریشاں ہے

تِرے بندوں نے اس کو

نفرتوں کی آگ میں کیسے جلا ڈالا

اسی دوزخ میں ہم ہر آن جلتے ہیں

سنا ہے!

تو نے بھی انساں کے ایندھن سے

کوئی دوزخ بنایا ہے

ذرا اس آگ سے کہہ دو

بھڑکنا چھوڑ کر آنکھوں کو کھولے …غور سے دیکھے

ہمارے دل میں بھی اک آگ جلتی ہے

دُکھوں کی آگ جو دن رات جلتی ہے

اے میرے منصفِ اعلیٰ!

تِرے مظلوم اور محکوم بندے

 کس طرح آتش کے پھر صدمے اٹھائیں گے

ستم جو ہو چکے ہم پر انھیں کیسے بھلائیں گے

کہو!نارِ جہنم سے

بھڑکنا چھوڑ کر گلزار ہو جائے

ہماری مونس و غم خوار ہو جائے…!

٭٭٭

 

ماں

کہا ہر دم زمیں کی گود کیوں بے چین رہتی ہے

جواب آیا کہ ماں اولاد کے دُکھ دل پہ سہتی ہے

کہا ممتا کے دم سے ہی زمانے میں اُجالا ہے

جواب آیا کہ یہ ہستی ہمارے دل میں رہتی ہے

کہا سوتے محبت کے کبھی سوکھے نہیں دیکھے

جواب آیا یہ وہ ندّی ہے جو ہر وقت بہتی ہے

کہا جب ماں بچھڑ جائے تو کس دنیا میں جاتی ہے

جواب آیا کبھی کرنوں ، کبھی تاروں میں رہتی ہے

کہا جذبات کی لہروں کو دل میں کس طرح دیکھوں

جواب آیا کہ ممتا ہر سمندر میں جو رہتی ہے

٭٭٭

 

سب مٹی میں   مِل جاتے ہیں

ہم خاکی صورت لوگ جہاں میں

 کیا کیا ڈھونگ رچاتے ہیں

سب ڈھونگ یہیں رہ جاتے ہیں

ہم مٹی میں مل جاتے ہیں

یہ مٹی اوّل آخر ہے

 یہ مٹی ظاہر باطن ہے

اس مٹی میں ہم تیرتے ہیں

اس مٹی میں بہہ جاتے ہیں

اس مٹی سے تم پیار کرو!

جاں سو سو بار نثار کرو!

کبھی مٹی سے بھی پوچھو تم

جب چکی پاٹ پسی تھی یہ

جب آوے پار اتاری گئی

بے چین سلگتی روحوں سے

 جب اس کی گود سنواری گئی

نخوت سے روندی جائے جب

کیا اس کے دل پر بیتتی ہے

یہ منہ سے چاہے کچھ نہ کہے

پر ایک حقیقت جانتی ہے

جسے ساری دنیا مانتی ہے

ہم خاکی صورت لوگوں کو

آغوش میں اک دن لے لے گی

پھر راز و نیاز کرے گی یہ

بے نور ہوئی ان آنکھوں میں

تب سو سو اشک بھرے گی یہ

جب یہ ہی اندر باہر ہے

جب یہ ہی آگے پیچھے ہے

یہی اوپر ہے، یہی نیچے ہے

کس بات پہ تم اتراتے ہو!

مٹی ہو تو مٹی بن کے رہو

اے خاکی صورت لوگو  تم…   !

٭٭٭

 

تحریر

لکھو،  اتنا لکھو

یہ زندگی تحریر بن جائے

کسی کاغذ کے ٹکڑے پر

کوئی بگڑی ہوئی تقدیر بن جائے!

لکھو ایسے کہ حرفوں سے

کسی ماہر مصوّر کی کوئی تصویر بن جائے!

تِرے لفظوں میں وہ تاثیر ہو

جو پاؤں کی زنجیر بن جائے!

انڈیلو دل کا سارا درد

تم کاغذ کے ٹکڑوں پر

کوئی فقرہ قلم سے روٹھ کر کچھ اس طرح نکلے

کسی نادیدہ کل کی قیمتی جاگیر بن جائے!

اسی تحریر کے ناتے ہمارے ملنے کی

شاید کوئی تدبیر بن جائے!

کہا تھا تم نے یہ مجھ سے…!!

میں جب سے لکھ رہی ہوں

میں ہر اک حرف پر یہ سوچ کر نقطے لگاتی ہوں

کہ ان میں نقش ابھرے گا…تمھارا نقش!

جسے لفظوں کے پیچ و خم میں ہی میں قید کر لوں گی

مگر لفظوں کو سو سو بار لکھنے پر

کئی نقطے لگانے اور مٹانے پر

کوئی بھی عکس تو کاغذ کی بانہوں میں نہیں آتا

کہاں ہو تم…کتابِ زندگی کے

کون سے پنے میں رہتے ہو!

ہمیں لفظوں کے گھر میں چھوڑ کر

 تم نے کہاں پر گھر بنایا ہے!

کہاں دل کو لگایا ہے!

ہمیں کیسے بھلایا ہے!

نہیں آنا، نہیں ملنا

کوئی تحریر ہی بھیجو

کہ اک تحریر کا تحریر سے رشتہ تو ہوتا ہے…!

٭٭٭

 

منظروں کی تلاش

چلو ان منظروں کو ڈھونڈتے ہیں

کھو گئے ہیں جو!

گلابوں سے لدی شاخوں

اور ان کے خارزاروں میں

کھِلا روشن گلاب اِک تھا

کہ جس کو توڑنے کی چاہ میں

ہاتھوں پہ میرے زخم آئے تھے

تِرے ہاتھوں نے چھو کر

پیار کے مرہم لگائے تھے

درختوں کی زمیں کو چومتی شاخیں

پھلوں کے بوجھ سے دم توڑتی شاخیں

پرندے جن پہ آ کر

پیار کے نغمے سُناتے تھے

انہی پیڑوں کی چھاؤں میں

 ہزاروں رنگ سپنوں کے

کنول نینوں سے ہو کر

پھیل جاتے تھے فضاؤں میں

نشہ ایسا نگاہوں میں

 کہ طائر بھول کر سب بولیاں اپنی

ہمارے پیار کے منظر میں جیسے کھو سے جاتے تھے

تو بچھڑا ہے … تو تیرے بعد سب منظر پرائے ہیں

اداسی ہی اداسی ہے

گلوں کے رنگ پھیکے ہیں

پرندے ڈھونڈتے ہیں پیار کا پھر سے وہی منظر

مگر ہم کو نہ پاکر…

اوڑھ لیتے ہیں ردائے غم

وہی غم جو اترتا ہے

 دلوں میں منظروں کے روٹھ جانے پر

وہ میرا غم…وہ تیرا غم…

ہمارا غم…جسے کوئی نہیں محسوس کر سکتا…!

٭٭٭

 

مصوّر

تمھارا رات بھر…

 یوں کروٹیں لینا، بتاؤ کس لئے ہے!

کبھی آنکھیں ، کبھی تکیہ

کبھی بانہوں کا ہالہ سا بنا کر

آنکھ سے اوجھل

گئے وقتوں کے سپنوں سے گلے ملنا

کہو!

یادوں کے بستر پر کہاں تک کروٹیں لو گے!

مِرا ماضی بھی تم اور حال بھی تم ہو

تو پھر یہ کیسے اندیشوں نے دل میں سر اٹھایا ہے!

یہ سوچوں کا گھنا جنگل

تمھیں ماضی کی قیدِ با مشقت سے

کرے گا کس طرح آزاد

جب تک تم

گئے وقتوں کے پیڑوں کے تنوں سے

 سر ٹکائے موند کر آنکھیں یونہی بیٹھے رہو گے

بھلا کس شخص کا ماضی نہیں ہوتا!

اسی ماضی سے ہی ہم حال کی تعمیر کرتے ہیں

کسی آنکھوں سے اوجھل

کل کے ہر لمحے میں

اک ماہر مصوّر کی طرح سے رنگ بھرتے ہیں

اگرچہ شوق میں جینے کے سو سو بار مرتے ہیں

مگر!

ہاتھوں سے ہم اپنے برش گرنے نہیں دیتے

کسے معلوم…

کس سوئے ہوئے بے رنگ لمحے میں

نہ جانے کس طرح کے رنگ بھر جائیں

انہی رنگوں سے منزل کا

کوئی دھندلا نشاں ہی ہاتھ آ جائے…!

٭٭٭

 

آغازِ نو

چلو آغاز کرتے ہیں

کسی انجام سے پہلے

سفر کو ختم کرتے ہیں

اترتی شام سے پہلے

کسی انجام کی وحشت کا سارا خوف

دریا بُرد کر ڈالیں

ازل سے ٹھوکریں کھاتے ہوئے

تنہا مسافر کے لئے تاریک رستے میں

کوئی شمع جلا ڈالیں

چلو مٹی کے پیالوں سے چھلکتی

مضطرب، بے چین روحوں کو

محبت، پیار اور امید کا نغمہ سنا ڈالیں

ہمیں انسان کی کھوئی ہوئی عظمت کے

 جتنے بھی حوالے ہیں

سبھی کو ڈھونڈنا ہو گا

ہمیں انسان کے قدموں سے باندھے سب بھنور

اک ایک کر کے کھولنے ہوں گے

ہمیں میزان کے پلڑوں میں

سچ اور جھوٹ کے سارے حوالے تولنے ہوں گے

کسی انجام سے پہلے اگر آغاز ہو جائے

تو پھر انجام کی وحشت کا سارا خوف

اپنے آپ مر جائے…!

٭٭٭

 

بدلتے موسم

کبھی میرا بسیرا تھا

تِرے دل کے نہاں خانوں میں

آنکھیں موند کر میں

صحنِ دل میں رقص کرتی تھی

کبھی اٹھلاتی پھرتی ناز سے

موسم بدلتے دیکھتی تھی

آتے جاتے سارے موسم بے اثر تھے

اس لئے کہ صحنِ دل کا اپنا موسم تھا

میں دل کی آنکھ سے

ہر لمحہ تجھ کو دیکھتی رہتی

کہ تم ہی مرکز و محور بنے میرے

مِرے خوابوں ، گلابوں

رتجگوں ، قوسِ قزح

مانوس، نامانوس جذبوں کے

مگر جب لے کے انگڑائی اٹھی میں بسترِ دل سے

اندھیرا چار سُو تھا، گھور اندھیرا

لگا یوں روح جیسے

کر چکی پرواز جسمِ ناتواں سے

مِرے خوابوں ، گلابوں

رتجگوں ، قوسِ قزح کے

رنگ سارے کھو چکے تھے

مِرے اُس چاہنے والے کے

سب جذبے پرانے ہو چکے تھے

مگر یہ زندگی میری، مگر یہ دل تو میرا ہے

نئے جذبوں نئے رنگوں سے

اس کو پھر سجانا ہے

مجھے اُس نے بھلایا ہے

مجھے اُس کو بھلانا ہے

مکمل بھول جانا ہے

اگر موسم بدلتے ہیں

تو دل بھی ایک موسم ہے

اسے بھی لہلانا ہے

اسے بھی مسکرانا ہے…!

٭٭

 

ہمیں اب تیز چلنا ہے

ہمیں اب تیز چلنا ہے

بہت ہی تیز چلنا ہے

ہمیں قندیل کی لو تیز کرنی ہے

اسی قندیل کی لو سے ہمیں

دل کے کسی تاریک گوشے میں چھپی

 نیکی کی اک ننھی کرن کو ڈھونڈنا ہو گا

اسے رستہ دکھانا ہے

جو صدیوں کے سفر میں بھول کر رستہ

کہیں سہمی، کہیں سمٹی

سجا کر خواب آنکھوں میں

ہمارے راستے میں آنکھ بن کر دیکھتی ہو گی

قدم آگے بڑھاؤ تم

کہ اب پیچھے پلٹ کر دیکھنے کے

سارے لمحے کھو چکے ہیں

سبھی امکان اب گم ہو چکے ہیں

ہمارے خواب اب تحلیل ہو کر

وقت کی سولی پہ چڑھنے کے قریں ہیں

ہمیں نیکی کی اس ننھی کرن سے ہی

زمانے بھر کی تاریکی میں

 اب سورج اگانے ہیں

ہمیں بیتی ہوئی صدیوں کے

سب احساں چکانے ہیں

ہمیں مرتے ہوئے انسان کو

 پھر سے بچانا ہے

اسے ارفع…

اسے اعلیٰ…

اسے اشرف…بنانا ہے!

٭٭٭

میں تم سے محبت کرتا ہوں

وہ دن ہے ابھی تک یاد مجھے

سو پیار بسا کر آنکھوں میں

جب تم نے کہا تھا ہولے سے

’’میں تم سے محبت کرتا ہوں ‘‘

اِک وہ بھی دن پھر آیا تھا

جب سیج پہ میں دلھن بن کر

نظروں کو جھکائے بیٹھی تھی

مِرا ہاتھ پکڑ کر ہولے سے

یہ تم نے کہا تھا پھر مجھ سے

’’میں تم سے محبت کرتا ہوں ‘‘

پھر آنگن پھولوں سے مہکا

خوشبوئیں بکھریں چاروں طرف

اک بار محبت سے تم نے

پھر مجھ سے کہا اے جانِ جہاں

’’میں تم سے محبت کرتا ہوں ‘‘

پھر سارا منظر بدل گیا

دل دور ہوئے، رنجور ہوئے

آئینے محبت کے سارے

جتنے تھے چکنا چُور ہوئے

آواز مجھے اب آتی ہے

میں تم سے نفرت کرتا ہوں …!

٭٭٭

 

سوچ سمندر

(میرا جی کے لیے ایک نظم)

ہمیں لفظوں کے جنگل سے

بہت آگے نکلنا ہے

ہمیں الفاظ کے ان دائروں کی سمت جانا ہے

جہاں پاؤں میں گھنگرو باندھ کر

مدہوش جذبے رقص کرتے ہیں

ہماری سوچ کے رستے میں جتنے بھی سمندر ہیں

ہمیں سب پار کر کے

ان جزیروں پر اترنا ہے

جہاں مدت سے تنہائی کی دلہن

مانگ میں افشاں سجائے منتظر ہے

وصل کے انمول لمحوں کی

ہمارے راستے میں ، آئنوں کے شہر آئیں گے

ہمیں رستے میں حائل سب فصیلوں کو

کسی جذبے کی ٹھوکر سے گرانا ہے

ہمارے پاؤں سے لپٹے ہوئے جتنے سمندر ہیں

ہمیں کڑوے کسیلے پانیوں کو

 اسمِ اعظم پڑھ کے زم زم میں بدلنا ہے

بدن کی چاندنی

 صحرا کی تپتی ریت میں کندن بنانی ہے

کہیں سے ڈھونڈ کر ہم کو

کٹھالی عشق کی لانی ہے جس میں

مرغِ بسمل کی طرح سے رقص کرنا ہے

ہمیں جانا ہے نگری پیار کی

اور گھر کا رستہ بھول جانا ہے

ہمیں صحرا کی تپتی ریت میں رستے بنانے ہیں

انہیں حدت بھرے رستوں پہ چل کے

سوچ کے آئینہ خانوں میں اترنا ہے

جہاں الفاظ کی دیوی۔۔۔۔

قلم کا دیوتا۔۔۔۔۔

کاغذ کے رتھ پر بیٹھ کر

اہلِ قلم کی سوچ کو

اپنی سلامی پیش کرتے ہیں !

٭٭٭

 

وزیر آغا

بے صدا دَم بخود فضا سے ڈر

خشک پتا ہے تُو ہوا سے ڈر

کورے کاغذ کی سادگی پہ نہ جا

گُنگ لفظوں کی اس ردا سے ڈر

آسماں سے نہ اس قدر گھبرا

تو زمیں کی جزا سزا سے ڈر

جانے کس کھونٹ تجھ کو لے جائیں

شاہ زادے نقوشِ پا سے ڈر

ترکِ دستِ طلب پہ اِترا

اپنے دل میں چھپے گدا سے ڈر

اُس کے ہاتھوں سے بچ سکا ہے کون

خود کو جھوٹے نہ دے دلاسے، ڈر

ڈر صداؤں سے مت، کہا تھا تجھے

اب تُو اپنی صدائے پا سے ڈر

عرش تک بھی اُڑان ہے اپنی

ہم پرندوں کی بد دعا سے ڈر

آرزو اک نئے جنم کی نہ کر

اتنی لمبی، کڑی سزا سے ڈر

٭٭٭

 

وزیر آغا

بتا اے شہر!

بتا اے شہر

تیری نیم روشن، تنگ

بل کھاتی ہوئی گلیوں میں

یہ کیسا تعفن بھر گیا ہے

مکانوں کی بجھی آنکھوں میں

کالا موتیا اترا ہوا ہے

کوئی چھت پر نہیں جاتا

فلک سے رابطہ ٹوٹا ہوا ہے

ڈری سہمی ہوئی مخلوق

دیواروں کے اندر چھپ گئی ہے

کوئی آواز تک آتی نہیں ہے

وہ سناٹا جسے تو نے کبھی گلیوں میں

آنے کی اجازت تک نہیں دی تھی

مکانوں کی بجھی آنکھوں کے رستے

چہکتے بولتے کمروں کے اندر آ گیا ہے

بتا اے شہر، تیرے تن بدن کو

یہ کیا بیٹھے بٹھائے ہو گیا ہے!!

٭٭٭

 

ظفر اقبال

ویراں تھی رات چاند کا پتھر سیاہ تھا

یا پردۂ نگاہ سراسر سیاہ تھا

ٹوٹے ہوئے مکاں کی ادا دیکھتا کوئی

سرسبز تھی منڈیر کبوتر سیاہ تھا

میں ڈوبتا جزیرہ تھا موجوں کی مار پر

چاروں طرف ہوا کاسمندر سیاہ تھا

نشہ چڑھا تو روشنیاں سی دکھائی دیں

حیران ہوں کہ موت اساغر سیاہ تھا

وہ خواب تھا کہ واہمہ بس اتنا یاد ہے

باہر سفید و سرخ تھا اندر سیاہ تھا

چمکا کہیں نہ ریت کا ذرہ بھی رات بھر

صحرائے انتظار برابر سیاہ تھا

اس طرح بادلوں کی چھتیں چھائی تھیں ظفر

سہمی ہوئی زمین کا منظر سیاہ تھا

٭٭٭

 

ظفر اقبال

جسم کے ریگزار میں شام و سحر صدا کروں

منزلِ جاں تو دور ہے طے یہی فاصلا کروں

یہ جو رواں ہیں چار سو  اتنے دھوئیں کے آدمی

کس لیے چوبِ خشک کو آگ سے آشنا کروں

قید کرے تو آپ ہے قید سہے تو آپ ہے

میں کسے روکتا پھروں اور کسے رہا کروں

رات رکی ہے آن کر زرد سفید گھاس پر

لاکھ سخن ہے درمیاں کس سے کسے جدا کروں

شاخ ہلی تو ڈر گیا دھوپ کھلی تو مر گیا

کاش کبھی تو جیتے جی صبح کا سامنا کروں         ٭٭٭

 

ظفر اقبال

جس کا فضا آفتاب جس کا ہوا آفتاب

آج اسی دشت میں سرد ہوا آفتاب

اس کاسفر ہو رہے راہ گزر ہو رہے

تیرگیِ دل کجا اور کجا آفتاب

آنکھ میں ہے ابر سا ابر میں ہے آنکھ سی

یعنی کھلا آفتاب یعنی چھپا آفتاب

دھوپ کا چکر بھی وہ راہ کا پتھر بھی وہ

سارے سفر میں مرے ساتھ رہا آفتاب

موجِ مراد اس سے ہے سارا فساد اس سے ہے

دکھ کی دوا آفتاب سکھ کی سزا آفتاب

رات کے جنگل میں تھا اتنا اندھیرا ظفر

پاؤں اچھالا جو تھا مجھ کو لگا آفتاب

(یہ غزلیں ’’گلافتاب ‘‘  مطبوعہ ۱۹۶۶سے لی گئیں ہیں )

٭٭٭

 

ایوب خاور

ابھی مجھ کو بہت سے کام کرنا ہیں

کسی نے میری پلکیں نوچ کر رسّی بنائی

اور پھر اُس رسّی میں میرے

خواب باندھے اور پھر میرے

ہی سینے کی اندھیری کوٹھڑی

                میں قید کر ڈالے

اندھیرے میں سجھائی کچھ نہیں دیتا

بس اک لَو ہے لہو کی بوند کے مانند

جس کی ٹمٹماہٹ میں یہ سارے خواب

سایوں کی طرح سینے کے محرابوں سے

لپٹے منتظر ہیں جیسے کوئی آ کے ان

کے ہاتھ پاؤں کھول کر آزاد کر دے گا

مگر مجھ کو بہت سے کام ہیں

خود اپنی بے پلکوں کی آنکھیں دیکھنے کی

بھی مجھے فرصت نہیں ملتی

مرے چاروں طرف دنیا ہے

دنیا کے ہزاروں کام ہیں اور میں اکیلا ہوں

اک ایسا حیرتی ہوں جس کی مٹھی سے

گزرتی ساعتیں بھی

ریت کے ذرّوں کی صورت دانہ دانہ

کر کے نکلی جا رہی ہیں ہاتھ خالی ہو رہا ہے

 اور ابھی مجھ کو بہت سے کام کرنا ہیں ابھی

 اس شام کے ریوڑ کو صبح زرد کی کھیتی تک

اک بوڑھے گڈریے کی طرح سے ہانک کر لانا ہے

 یہ بھی دیکھنا ہے میرے ریوڑ سے کوئی ننھا ستارہ ٹوٹ کر آفاق تک پھیلے ہوئے اندھے سفر کی دھول میں غائب نہ ہو جائے

ابھی مجھ کو بہت سے کام کرنا ہیں

کسی کے پاؤں کو مٹی کے جوتوں سے چھڑانا ہے

 کسی کے حلق میں بوئی گئی پچھلی رتوں کی پیاس فصلیں کاٹنی ہیں

اور کسی خاکستری تن پر کوئی پیراہن گل کھینچنا ہے

اے اسیرانِ قفس! مجھ کو بہت سے کام کرنا ہیں

٭٭٭

 

خاور اعجاز (اسلام آباد)

تجھے کیا ہماری ضرورت نہیں

کہانی!

کہاں سے کہاں تُو مجھے لے کے پھِرتی رہی

باغِ جنّت کی رُخصت سے آغاز ہوتی ہے

پانی پہ بہتی ہُوئی ایک کشتی کے ہمراہ چلتی ہے

بازارِ مصر اور سِینا کے صحرا سے ہوتی ہُوئی

شہرِ مکہ میں کچھ دِن ٹھہرتی ہے

اور پھِر مدینہ کی سمت آ نِکلتی ہے

تیرے مآخذ

پُرانے صحیفوں کے دریاؤں سے پھُوٹتے ہیں

ہزاروں برس کا سفر کر کے آئی ہے تُو

بھید تخلیق کے اپنے الفاظ میں باندھ لائی ہے تُو

کس طرح زِندگی کو بسر کرنا ہے

یہ بتایا مجھے

ضابطے اور قانون اخلاق و برتاؤ کے

سب سِکھائے مجھے

خانۂ دِل بھی کافی تھا

لیکن کہا

اپنے رَب کی عبادات کے واسطے گھر بنا

مَیں نے تعمیل کی

گھر کی بنیاد رکھی

ہر اِک اینٹ کے درمیاں میں تِری یاد رکھی

مگر اے کہانی!

مِرا ذکر ہی

داستانِ محبت میں معدوم ہونے لگا ہے

یہ معلوم ہونے لگا ہے

خود اپنے ہی گھر میں ٹھہرنے کی صورت نہیں اَب

تجھے کیا ہماری ضرورت نہیں اَب

٭٭٭

 

اکبر حمیدی

توقعات زیادہ نہیں رکھا کرتے

دکھوں کے واسطے رستا نہیں رکھا کرتے

خود اپنے ذہن میں سب رونقیں اُٹھا رکھیں

کہ اپنے آپ کو تنہا نہیں رکھا کرتے

سوائے اس کے کوئی دوسرا نہیں ہے یہاں

کبھی گماں بھی کسی کا نہیں رکھا کرتے

جو تم پہ بند ہوں دروازے بادہ خانے کے

خیال و ساغر و مینا نہیں رکھا کرتے

پڑے جو رَن کسی بزدل کو ساتھ مت لینا

کہ راہِ سبل میں تنکا نہیں رکھا کرتے

چھپا کے رکھا ہے اکبرؔ نے اس کے ہجر کا دکھ

کچھ اس طرح سے کہ گویا نہیں رکھا کرتے

٭٭٭

 

اکبر حمیدی

کچھ اس طرح سے مشقت ہے میرے جینے میں

کوئی نہ فرق رہا خون اور پسینے میں

کچھ اس قرینے سے خود کو سنوارتے ہیں وہ

نظر نہ آئے قرینہ کبھی قرینے میں

شبِ وصال کے منظر نظر میں بھر آئے

چمک دمک نظر آتی ہے جب نگینے میں

کبھی کبھی کی ملاقات یونہی ہوتی ہیں

نہ امتیاز رہا سال اور مہینے میں

کچھ ایسا عدم تحفظ کا خوف ہے اکبرؔ

تمام دریا سمٹ آیا ہے سفینے میں

٭٭٭

 

احمد حسین مجاہد (ایبٹ آباد)

گزر رہی ہے جو مجھ پر بتا کے لے آئے

کوئی نہیں ہے جواُس کو منا کے لے آئے

گزارنی تھی کڑی شب سَو اُس گلی سے ہَم

چراغِ  نقشِ  کفِ  پا اُٹھا کے لے آئے

مگر وُہ ہَم تھے کہ لائے تھے اُس الاؤ سے آگ

وہاں سے راکھ تَواَب کوئی جا کے لے آئے

 وُہ اپنی کار گزاری کی داد چاہتے ہیں

جو عاجزی میں قرینے رَیا کے لے آئے

 بَس اِک دیے کے سوا گھر میں کچھ نہ تھا احمد

 اُسے بھی سامنے ہَم خود ہَوا کے لے آئے

٭٭٭

 

احمد حسین مجاہد

کس کے مخبر ہیں عناصر، پَسِ  افلاک ہے کون

بھید یہ کھول دے، ایسا مرا ادراک ہے کون

خون کی اُگتے ہوئے سبزے سے آتی ہے مہک

یوں زرِ زخم لٹاتا یہ تہہِ  خاک ہے کون

کسمپرسی کو مری دیتا ہے جو فقر کا نام

میرا غم خوار نہیں ہے تَو یہ سفاک ہے کون

ایک پیوند لگی گدڑی ہے کچھ غزلیں ہیں

ایسا ترکہ ہَو تَو پھر وارثِ  املاک ہے کون

٭٭٭

 

 غالب عرفان ( کراچی)

نہ چہرے سے نہ ملبوس بدن سے

مجھے پر کھو  مرے دیوانے پن سے

پڑھو عمرِ گذشتہ کی کہانی

جبیں پر نقش  تحیرِ کہن سے

سنہری شام اورساحل کی کشتی

نہ ڈوبے گی ہواؤں کے چلن سے

ہجومِ بزم آرائی سے بہتر

غلط لوگوں کا اٹھنا انجمن سے

رہا میں سربکف تو پائی میں نے

حیاتِ جاوداں دار و رسن سے

مجھے اب چاہئے آہنگِ عرفاںؔ

ہے میرا رابطہ شہرِ سخن سے

٭٭٭

 

غالب عرفان

ہم پڑھ سکے نہ پھر سے تصور میں لا سکے

آنکھیں وہ تھیں کہ جن میں سمندر سما سکے

منظر جو اس سے ملنے کا ہے نقش ذہن میں

کاغذ پہ لا سکے نہ ہی دل سے بھلا سکے

رمزِ حیات ہم پہ ہو کس طرح منکشف

آئینے سے نہ عکس کا دامن چھڑا سکے

تاریخ کی وہ  دربدری کا سفر جو ہم

تحت الشعور سے بھی نہ اب تک مٹا سکے

نسل گذشتہ چھوڑ گئی جو ادھورا کام

وہ بار زیست ہم بھی نہ اب تک اُٹھا سکے

جس فرق ہست و بود پہ قائم ہے زندگی

عرفانؔ اس کا کوئی بھلا کیسے پا سکے

٭٭٭

 

 سعید شباب (خانپور)

کھلے ہیں مجھ پہ جو میں ہی وہ راز جانتا ہوں

ترے بدن کے نشیب و فراز جانتا ہوں

جدا ہوئے بھی زمانے گزر گئے کتنے

کہ گیت بھول گیا پہ ساز جانتا ہوں

عطائیں یوں تو بنا مانگے ہی رہیں اس کی

مگر سلیقۂ عرضِ نیاز جانتا ہوں

ہوئی ہے جب سے حقیقت جہان کی ظاہر

حقیقتوں کو بھی گویا مجاز جانتا ہوں

شبابؔ  اس سے کہاں مٹ سکے گی پیاس تری

کہ دل کی حرص محبت کی آز جانتا ہوں

٭٭٭

 

سعید شباب

کس طرح لَوٹ کے آخر وہ ترے پاس آئے

تیرے جوگی کے نصیبے میں تو سنیاس آئے

دولتِ دنیا میں خوش ہو تو خدا خوش رکھے

اپنے حصے میں تو دکھ اور دلِ حساس آئے

جیسے جنگل کی مہکتی ہوئی ہو شام کوئی

سانولی لڑکی کی سانسوں سے عجب باس آئے

کسی بھی طور سلامت تو رہے سانس کی ڈور

وہ نہیں آتے تو ملنے کی کوئی آس آئے

یونہی بے جا نہ سعیدؔ اس کو چڑھاؤ سر پر

اتنی عزت دو اسے جتنی اسے راس آئے

٭٭٭

 

کے اشرف   ( کیلیفورنیا)

دستِ خواہش خود بخود شل ہو گیا ہے

اس طرح یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے

ایک دکھ تھا روح کی گہرائیوں میں

پھیل کر آنکھوں میں کاجل ہو گیا ہے

میرے مرنے کی خبر سن کر وہ بولے

تھا ادھورا اب مکمل ہو گیا ہے

پہلے بھی دیوانگی کچھ کم نہیں تھی

اب تو وہ بالکل پاگل ہو گیا ہے

کہہ رہی ہیں شہر بھر کی وحشتیں

 شہر بھی اب ایک جنگل ہو گیا ہے

٭٭٭

 

قاضی اعجاز محورؔ  ( گوجرانوالا)

خفا کیوں ہو

   اپنی آنکھوں میں سمندر بھر کے

آج کیا مجھ کو ڈبو دو گی تم

آج آنکھوں سے کرو گی ہر بات

آج کیا مجھ سے نہ بولو گی تم/راستہ روکے کھڑی ہو کیسے

ساتھ کیا میرے نہ ہو لو گی تم

آج میں ، میں نہیں ، تم، تم نہیں کیا

بھید یہ کیا ہے، نہ کھولو گی تم

 آؤ اَب ہم یونہی پتھرا جائیں

 وقت کی نبض یونہی چلتی رہے

 ہم یہ لمحہ یہیں ٹھہرا جائیں

 ساتھ اِتنا بھی نہ کیا دو گی تم

٭٭٭

 

 افضل گوہر  (سرگودھا)

کچھ دیر تو معلوم کے منظر میں پڑی رہ

اے خواہشِ دل خواب کے بستر میں پڑی رہ

تُو ہم کو میسر ہے تو اے چھاؤں ذرا سی

یک ذرۂ زر بن کے ہی چادر میں پڑی رہ

دنیا تجھے پرواز مرے پر سے ملی ہے

آگے نہ نکل میرے برابر میں پڑی رہ

سب کچھ در و دیوار کے اندر نہیں ملتا

بیزاریِ دل ایسے نہ اب گھر میں پڑی رہ

کچھ روز سے میں اپنے کناروں میں نہیں ہوں

تُو لہر ہے تو اپنے سمندر میں پڑی رہ

٭٭٭

 

طاہر حنفی ( اسلام آباد)

معجزہ یہ ہے کہ منزل کے نشاں تک پہنچے

برف کے لوگ بھی سورج کے جہاں تک پہنچے

کتنے مٹی کے بدن تیز ہوا  کے طفیل

کاغذی ناؤ میں پانی کے مکاں تک پہنچے

میں کہ ظلمت میں مقفل ہوں کبھی میرے خدا

صبح کی پہلی کرن میرے مکاں تک پہنچے

ہم وہ ناداں ہیں کہ پتھر کے کھلونے لینے

گھر سے نکلے بھی تو شیشے کی دکاں تک پہنچے

بارشِ اشک تھمی آنکھ دھنک رنگ ہوئی

ڈوب کے دکھ کے سمندر میں کہاں تک پہنچے

موج در موج گرہ باندھنے طاہر حنفیؔ

ہاتھ میں اشک لئے آبِ رواں تک پہنچے

٭٭٭

 

مسعود چودھری ( لاہور)

تیرگی میں روشنی تقسیم کرنا ہے مجھے

غم کی بستی میں خوشی تقسیم کرنا ہے مجھے

ایک مدت سے خزاؤں نے جنہیں مرجھا دیا

ان گلوں کو تازگی تقسیم کرنا ہے مجھے

رہبروں کے بھیس میں اب تک تو راہزن ہی ملے

اب حقیقی رہبری تقسیم کرنا ہے مجھے

راگ دیپک ختم ہو جس سے جواں ملہار ہو

طربیہ وہ نغمگی تقسیم کرنا ہے مجھے

 دفن اب مسعودؔ کر کے جہل اور دیوانگی

ذہنوں میں فرزانگی تقسیم کرنا ہے مجھے

٭٭٭

 

زاہد شمسی (لاہور)

ایک اُجڑی ہوئی جنت دیکھی

میں نے دنیا کی یہ حالت دیکھی

رات بھر آنکھ نے دیکھا ہے اسے

رات بھر میں نے قیامت دیکھی

ہر طرف لوگ بہت تھے لیکن

ہر طرف پیار کی قلت دیکھی

رات بھر جاگی ہوئی آنکھوں نے

آج پھر صبحِ ملامت دیکھی

میں نے ہر شخص کو چاہا زاہدؔ

میں نے ہر شخص میں نفرت دیکھی

٭٭٭

 

رائے عابد علی ( شیخو پورہ)

سارا الزام ہی مت شہر کے سر رہنے دے

واپس آنا ہے تو پھر گاؤں میں گھر رہنے دے

آنکھ کا سارا سمندر میرا دشمن ٹھہرا

مجھے ساحل نہ تلاطم نہ بھنور رہنے دے

میری تخلیق کو پہچان عطا کر مولا

یا مجھے تشنہ تکمیلِ ہنر رہنے دے

یہ نہ ہو پھر کبھی دربار میں جانا پڑ جائے

ابھی دستار میں سرخاب کا پر رہنے دے

اتنے آنسو نہ بہا ہجر میں اس کے عابدؔ

ڈوب جائے گا سمندر کا سفر رہنے دے

٭٭٭

 

فریاد آزر ( انڈیا)

وہ سبز ہاتھوں میں لے کر کتاب اترے گا

اب اِس زمیں پہ حسیں انقلاب اترے گا

وہ بے دریغ کئے جا رہا تھا قتل مرا

میں منتظر تھا کہ اُس پر عذاب اترے گا

ہم اس بھرم میں سیاہ و سفید سے بھی گئے

کہ سونی آنکھوں میں رنگین خواب  اترے گا

نہ ٹوٹ جائے کہیں خوبصورتی کا بھرم

سنا ہے چہرے سے اس کے نقاب اترے گا

بلا سے نقرئی کالج میں داخلہ نہ ملے

نہ بچیوں کے سروں سے حجاب اترے گا

بہا رہا ہے زمیں پر وہ خون بے پایاں

تو کیا فلک سے بھی کوئی جواب اترے گا؟

٭٭٭

 

ارشد نعیمؔ ( شیخو پورہ)

رات بہت ہوا چلی

رات بہت ہوا چلی

پتے لرز لرز گئے

شاخیں چٹک چٹک گئیں

میں بھی تھا شاخِ زرد پر

میں بھی لرز لرز گیا

اک خیالِ بے نمو

دل کے کسی مقام سے

تجھ کو پکارتا رہا

یادوں کے اس غبار کو

اشکوں میں ڈھلتا رہا

رات بہت ہی سرد تھی

دل بھی مضطرب تھا

رات بہت ہوا چلی

٭٭٭

 

نہ جانے کیسی رات ہے  !

گِرہ میں جتنے خواب تھے

سب ایک ایک کر کے خرچ ہو گئے

قلم میں جتنے حرف تھے /وہ معتبر نہیں رہے

نظر نظر نہیں رہی

بصارتیں نہ جانے کس غبار میں اُلجھ گئیں

وہ آنکھ بھی نہیں رہی

کہ جس میں تیرے رنگ تھے

وہ خواب بھی نہیں رہے

٭٭٭

 

نجمہ شاہین کھوسہ (ڈی جی خان)

رت جگے، آنسو، دعائے بے اثر ہے اور میں

عشق لا حاصل ہے، اک اندھا سفر ہے اور میں

چھوڑ کر آئی ہوں ہر منزل کو میں جانے کہاں

یہ دل سودائی اب تک بے خبر ہے اور میں

اب تلک رستے وہی اور عکس آنکھوں میں وہی

اور خود کوڈھونڈتی میرے نظر ہے اور میں

گم شدہ منظر میں اب تک ہے بھٹکتی زندگی

اجنبی رستوں کا اِک لمبا سفر ہے اور میں

آس اب بجھنے لگی ہے وہ لوٹ کر آئے نہیں

جھیل پر اب بھی وہ اِک تنہا شجر ہے اور میں

کیا کیوں شاہین جس پر تھا بہت ہی اعتبار

وہ زمانے کیلئے اب معتبر ہے اور میں

٭٭٭

 

نجمہ شاہین کھوسہ

اجنبی شہر کی اجنبی شام میں

زندگی ڈھل گئی ملگجی شام میں

شام آنکھوں میں اتری اسی شام کو

زندگی سے گئی زندگی شام میں

درد کی لہر میں زندگی بہہ گئی

عمر یوں کٹ گئی ہجر کی شام میں

عشق پر آفریں جو سلامت رہا

اس بکھرتی ہوئی سرمئی شام میں

میری پلکوں کی چلمن پر جو خواب تھے

وہ تو سب جل گئے اُس بجھی شام میں

ہر طرف اشک اور سسکیاں ہجر کی

درد ہی درد ہے ہر گھڑی شام میں

آخری بار آیا تھا ملنے کوئی

ہجر مجھ کو ملا وصل کی شام میں

رات شاہینؔ آنکھوں میں کٹنے لگی

اس طرح گم ہوئی روشنی شام میں

٭٭٭

 

نجمہ شاہین کھوسہ

 آندھیوں میں اُڑا رہی ہے وفا

دشت کیسے دکھا رہی ہے وفا

چلتے چلتے میں تھک گئی ہوں مگر

اک نئی رہ دکھا رہی ہے وفا

پھر کوئی زخم بھرنے والا ہے

پھر مجھے یاد آ رہی ہے وفا

ایک منظر مٹا دیا میں نے

ایک منظر بنا رہی ہے وفا

جس کا انجام ہی نہیں کوئی

داستاں وہ سنا رہی ہے وفا

میری آنکھوں میں خواب رکھا تھا

اُس کو آنسو بنا رہی ہے وفا

٭٭٭

 

بقا بلوچ (کوئٹہ۔ بلوچستان)

اب نہیں درد چھپانے کا قرینہ مجھ میں

کیا کروں بس گیا اک شخص انوکھا مجھ میں

اُس کی آنکھیں مجھے محصور کئے رکھتی ہیں

وہ جو اک شخص ہے مُدت سے صف آرا مجھ میں

اپنی مٹی سے رہی ایسی رفاقت مجھ کو

پھیلتا جاتا ہے اک ریت کا صحرا مجھ میں

میرے چہرے پہ اگر کرب کے آثار نہیں

یہ نہ سمجھو کہ نہیں کوئی تمنا مجھ میں

میں کنارے پہ کھڑا ہوں تو کوئی بات نہیں

بہتا رہتا ہے تری یاد کا دریا مجھ میں

ڈُوبنا چاہتا ہوں مَدھ بھری آنکھوں میں تری

لڑ کھڑانے کا نہیں حوصلہ اتنا مجھ میں

جب سے اک شخص نے دیکھا ہے محبت سے بقاؔ

پھیلتا جاتا ہے ہر روز اُجالا مجھ میں

٭٭٭

 

اکرام الحق سرشار  ( چیچا وطنی)

اک ذرا چھاؤں سرِ راہگذر آنے تک

دھوپ رستے میں چلیں  کوئی شجر آنے تک

وہ پرندہ جو مخالف تھا ہوا کے رخ کا

موت کی زد میں رہا ہے وہی گھر آنے تک

صبح تک تو میرے جینے کی ضمانت کیا ہے؟

زندگی چاہئے پیغامِ سحر آنے تک

یہ شفق رنگ اجالے یہ گلابی ماحول

سارے منظر ہیں زمانے میں نظر آنے تک

یونہی سیلاب اگر آتا رہا دریا میں

ہم نہیں ہوں گے تیرے لوٹ کے گھر آنے تک

برف باری ہے کبھی، حبس و تپش ہے سرشارؔ

خیر ہو شاخ گلستاں کی ثمر آنے تک

٭٭٭

 

ڈاکٹرفخرعباس (لاہور)

گھر سے تمہاری دی ہوئی چیزیں نکال دیں

جیسے خود اپنے جسم سے سانسیں نکال دیں

حیرت ہے اس نے قید بھی خود ہی کیا مجھے

پھر خود مرے فرار کی راہیں نکال دیں

دیکھا بس اک دفعہ اسے میں نے قریب سے

پھر اہلِ شہر نے مری آنکھیں نکال دیں

کچھ اس نے بھی سہیلیوں کے منہ سے سن لیا

کچھ میرے دوستوں نے بھی باتیں نکال دیں

اک پل میں ختم ہو گئی عمرِ طویل بھی

جب زندگی سے ہجر کی راتیں نکال دیں

میں اک مقام ضبط سے آگے نہ جا سکا

اک شب غمِ فراق نے چیخیں نکال دیں

جانے وہ کس کے واسطے لکھی گئیں اے دوست

میں نے مسوّدے سے جو نظمیں نکال دیں

٭٭٭

 

عارف حسین عارفؔ ( فیصل آباد)

ہوا تھی تیز تو رستے میں ڈر زیادہ تھا

رکا نہیں میں اگرچہ سفر زیادہ تھا

بشر کی ذات میں ایسے بھی کم ہے امن و سکوں

بشر کے لفظ میں ویسے بھی شر زیادہ تھا

مجھے خلوص کی شدّت نے مار ڈالا ہے

مرے وجود میں اس کا اثر زیادہ تھا

لگاتا کیا وہ مری حیثیت کا اندازہ

کہ اس کے ظرف سے میرا ہنر زیادہ تھا

میں اپنی ذات سے بد ظن نہ تھا سبب یہ ہے

مجھے یقین تری ذات پر زیادہ تھا

سبھی خلوص کے پتھر مجھے لگے عارفؔ

مرے درختِ ہنر پر ثمر زیادہ تھا

٭٭٭

 

عارف حسین عارفؔ

سانس رکتی ہے تو اس دل کا پتا چلتا ہے

جیسے رک رک کے کوئی آبلہ پا چلتا ہے

پاؤں پڑتا ہے ترے دھیان میں جس رستے پر

مجھ کو اک اور ہی دنیا کا پتا چلتا ہے

میں کنارہ ہوں سو خاموش کھڑا رہتا ہوں

اور تُو پانی ہے کہ پانی تو سدا چلتا ہے

کس خرابے میں اٹھا لائی ہے وحشت مجھ کو

ریت اڑتی ہے نہ صحرا کا پتا چلتا ہے

اپنے کردار کے سایے میں تلاشو خود کو

آئینہ دیکھ کے کب اپنا پتا چلتا ہے

چلے جاتے ہیں کئی کام کے انسان مگر

کام دنیا کا مری جان سدا چلتا ہے

جانے کیوں چہرہ اتر جاتا ہے عارفؔ ان کا

جب بھی محفل میں کہیں ذکرِ وفا چلتا ہے

٭٭٭

 

ضمیر طالب

اسی لیے مجھے زنجیر کرنا مشکل ہے

کہ مجھ کو خاک پہ تحریر کرنا مشکل ہے

بٹا ہُوا ہوں نجانے میں کتنے جسموں میں

تُو مان لے مجھے تسخیر کرنا مشکل ہے

کُچھ ایسے رنگ بھی ہیں جو کہیں نہیں ملتے

مری حیات کو تصویر کرنا مشکل ہے

کیا گیا ہے مجھے قید اک  ستارے میں

مری رہائی کی تدبیر کرنا مشکل ہے

اس ایک رات کے اندر ہزار راتیں ہیں

اس ایک رات میں تنویر کرنا مشکل ہے

ضمیرؔ زُلف نے لکھے ہیں لفظ چہرے پر

اوراس صحیفے کی تفسیر کرنا مشکل ہے

٭٭٭

 

جوزف سی لعل معمور ( لاہور)

تیری آنکھوں میں کچھ سوال سے ہیں

میرے دل  میں بھی کچھ ملال سے ہیں

مجھ کو اب تک نہیں تھا یہ معلوم

آپ بھی صاحبِ کمال سے ہیں

جب سے آیا ہوں آپ سے مل کر

میرے چوگرد کوتوال سے ہیں

عشق تو کربلا کی منزل ہے

عشق کی راہ میں زوال سے ہیں

پھول، خوشبو، مٹھاس اور تتلی

ہر طرف آپ کے کمال سے ہیں

زندگی تھم گئی  ہے کچھ معمورؔ

زندگی میں بڑے جنجال سے ہیں

٭٭٭

 

یشب تمنا  ( لندن)

تعلق اُس سے اگرچہ مرا خراب رہا

قسم سفر کی وہی ایک ہم رکاب رہا

سمجھ سکا نہ اسے میں ، قصور میرا ہے

کہ میرے سامنے وہ تو کھلی کتاب رہا

میں ایک حرف بھی لیکن نہ پڑھ سکا اُس کو

نہ جانے کون تھا جو شاملِ نصاب رہا

میں معرفت کے ہوں اب اُس مقام پر کہ جہاں

کیا گناہ بھی تو خدشۂ ثواب رہا

حقیقتوں سے مفر چاہی تھی یشبؔ میں نے

پر اصل اصل رہا اور خواب خواب رہا

٭٭٭

 

اشرف نقوی ( شیخو پورہ)

بنا رہا ہے ستارے سے جو غبار مجھے

اُس آسماں سے زمیں پر ابھی اُتار مجھے

میں اپنے آپ سے باہر پڑا رہوں کب تک

جو ہو سکے تو مِری خاک سے گزار مجھے

اگر جہاں میں کہیں بھی نہیں جگہ میری

تو کائنات سے باہر ہی کر شمار مجھے

تمام دن مجھے دریا نے ساتھ ساتھ رکھا

ہوئی جو شام، بھنور میں گیا اتار مجھے

مِری رِہائی کا پروانہ روکے جاری کر

کہ چشمِ تر میں کسی پل نہیں قرار مجھے

سفر ازل سے ہے سیارگاں کے ساتھ مِرا

سو کیسے چھوڑے گا اشرف مِرا مدار مجھے

٭٭٭

 

بشیر بیتاب  ( صادق آباد)

گئی رتوں کا اداس چہر۰ نکھر گیا ہے

وضاحتوں کا حسین موسم گزر گیا ہے

وہ میری رگ رگ کی چاہتوں میں سما گیا ہے

وہ میر ے خوں کی حرارتوں میں اتر گیا ہے

یہیں کہیں تھا قریب تر تھا وہ جزو جاں تھا

اجاڑ راتوں میں چھوڑ کر وہ کدھر گیا ہے

فضائے جاں پر عجیب مستی سی چھا رہی ہے

یہ کون دل سے صبا کی صورت گزر گیا ہے

خطائیں میری، قصور میرے، تھا میں ہی قاصر

کہ میرے ذمہ وہ سارے الزام دھر گیا تھا

٭٭٭

 

ہدایت کاشف ( رحیم یار خان)

اگر نیلے سمندر میں وہ پھر سے بجھ گیا سورج

تو کل کو صبحِ دم ہم بھی جلا لیں گے نیا سورج

ستارے ٹانک لے گی شام خود ہی اپنے آنچل پر

مگر تُو آسماں پہلے یہ چہرے سے ہٹا سورج

سفر تھا خواب کا اور سامنے تھا دھوپ کا صحرا

اچانک کھل گئی جب آنکھ تو پھر گر پڑا سورج

سحر کو نیند سے جاگا تو بوجھل چاند جیسا تھا

سنور کے شام کو گھر سے جو نکلا تو لگا سورج

پہاڑی سلسلہ کاٹا ہے نا کہ رات آنکھوں میں

ابھی آرام سے سویا ہوں ، مجھ کو مت جگا سورج

٭٭٭

 

نذیر قمر  ( سپین)

آگہی کے عذاب میں گم ہے

یہ جو کافر شباب میں گم ہے

ساری دنیا  پہ ڈال کر پردہ

وہ حساب کتاب میں گم ہے

ایک مدت سے میرا دل جاناں

خامشی کے سیراب میں گم ہے

کوئی کانٹے سجائے پہلو میں

کوئی حسنِ گلاب میں گم ہے

ہم سے عقدہ نہ کھل سکا اب تک

زیست ایسے حجاب میں گم ہے

ہم بھی محصور ہیں زمانے میں

حال، حالِ خراب میں گم ہے

کیا پڑھے گا کتابِ دل، وہ قمر

بے وفائی کے باب میں گم ہے

٭٭٭

 

صفدر حسین برقؔ ( وہاڑی)

من کے مندر میں آس بیٹھی ہے

کھو کے ہوش و حواس بیٹھی ہے

دل کی مانوں کہ عقل کی مانوں

عقل موقع شناس بیٹھی ہے

بچ کے رہنا کہ سوچ کی ناگن

کھا کے ذہنوں کا ماس بیٹھی ہے

نکل جائے نہ کچھ کمینوں پر

جتنی جی میں بھڑاس بیٹھی ہے

٭٭٭

 

عکاشہ سحرؔ ( ملتان)

وہ میرے راستے سے ہٹ گیا تھا

سفر آسانیوں سے کٹ گیا تھا

میں ٹوٹی تو مرا عکسِ تحیّر

بہت سے آئینوں میں بٹ گیا تھا

خدائے حسن میں حیرت زدہ ہوں

تمہارا عشق کیسے گھٹ گیا تھا

اسے سورج سلامی دے رہا تھا

دیا جو آندھیوں میں ڈٹ گیا تھا

سحر ہونے تک روئی عکاشہؔ

غبار اندر کا سارا چھٹ گیا تھا

٭٭٭

 

عکاشہ سحرؔ

دیوار پر لگی ہوئی تصویر اور میں

برسوں سے ساتھ ساتھ زنجیر اور میں

اتنی مشابہت نہیں ہوتی مگر یہاں

بالکل ہیں ایک سے مری تحریر اور میں

ایک سا نصیب اور ایک سے حالات و واقعات

اے شہرِ عشق دیکھ  تری ہیر اور میں

مجھ کو خدایا عشق کی توفیق ہی نہ دے

سہہ پاؤں گی نہ اب کوئی تعزیر اور میں

دیکھا ہے میں نے دشت میں روتا ہوا کوئی

ماتم کناں ہیں خواب کی تعبیر اور میں

٭٭٭

 

صائمہ مظفر گوندل  ( چکوال)

پہنچی گزند مجھ کو نہ سونامیوں کے بیچ

ڈوبی تو آخِرش میں کھڑے پانیوں کے بیچ

مانا خِرد کو زیب نہیں ہے یہ عشق وشق

لیکن ہے ایک لطف بھی نادانیوں کے بیچ

آبادیوں میں جا بسوں یہ سوچتی ہوں میں

اِک دل ہے جو مُصِر ہے کہ ویرانیوں کے بیچ

اس کے سوا ہر ایک شے مجھ کو ہے دستیاب

یعنی ہے اک کمی بھی فراوانیوں کے بیچ

یاد اس کی جب بھی آئی پریشان کر گئی

مجھ کو عزیز زیست پریشانیوں کے بیچ

٭٭٭

 

یاسمین دعا  ( کراچی)

دار پر یوں لٹک رہی ہوں میں

اپنے اندر بھٹک رہی ہوں میں

لوگ پھولوں کی قدر کرتے ہیں

سو کلی سی چٹک رہی ہوں میں

میرا دامن بھرا ہے خوشیوں سے

پھر بھی دامن جھٹک رہی ہوں میں

عشق میں راستہ نہیں ملتا

جانے کب سے بھٹک رہی ہوں میں

دل کی  خوشیوں میں غم بھی سہتی ہوں

اے دعاؔ یوں مٹک رہی ہوں میں

٭٭٭

 

راغب تحسینؔ ( کوئٹہ)

تلاش کون کرے گا مجھے گماں سے پرے

میں چھپ گیا ہوں کہیں اپنے جسم و جاں سے پرے

بس ایک دھوپ کی شدت کے یاد کچھ بھی نہیں

تمام عمر گزاری ہے سائباں سے پرے

ذرا سی بات پہ ہم سے خدا گریزاں ہے

ذرا سی دیر کو سوچا تھا آسماں سے پرے

یہ التجا ہے کہ اُس غیر کے اشارے پر

کیا نہ جائے ہمیں بزمِ دوستاں سے پرے

یہ اور بات مہینوں نظر نہیں آتا

وہ رہ رہا ہے اگرچہ مِرے مکاں سے پرے

میں ان کے پاس جو بیٹھا تو ہنس کے یوں بولے

ضرور بیٹھئے لیکن ذرا یہاں سے پرے

٭٭٭

 

حسین امجد ( واہ کینٹ)

زندگی کیسے عجب موڑ پہ لے آئی ہے

میرے اطراف میں پھیلی ہوئی تنہائی ہے

موسم ہجر مرے ساتھ سفر کرتا ہے

خواہشِ وصل بھی اب باعث رسوائی ہے

حادثہ تجھ سے بچھڑنے کا بھلا دوں کیسے؟

اب بھی احساس میں وہ گونجتی شہنائی ہے

اپنی روداد، شب و روز سناؤں کس کو

کون اپنا ہے بھر شہر تماشائی ہے

میں زمیں کو ہی سزاوار نہیں کہہ سکتا

میری آواز فلک سے بھی تو ٹکرائی ہے

مجھ کو ہر حکم بہر طور بجا لانا ہے

لوگ کہتے رہیں رسوائی ہے رسوائی ہے

٭٭٭

 

وفاؔ نقوی  ( انڈیا)

برسات کی بھیگی ہوئی یادوں سے لپٹ کر

سو جائیں گے ہم آج بھی بستر میں سمٹ کر

افسوس نہ کھُل پائی مری  وُسعتِ ادراک

دیکھا نہ گیا مُجھ کو تری ذات سے ہٹ کر

اک شور اُٹھا رکّھا ہے ہر سمت سے اس نے

آئیں گے ترے پاس زمانے سے نمٹ کر

حسرت ہی رہی اُس کا بدن چھونے کی مُجھ کو

آیا نہ کبھی چاند مرے سامنے گھٹ کر

دُنیا کی نگاہوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا

آئی تھی کوئی شاخ ابھی پیڑ سے کٹ کر

تصویر کبھی ایک سی دیکھی نہیں اس کی

جیتے ہیں بہت لوگ ہر اک سانس میں بٹ کر

اک بار کبھی عشق کی منزل میں قدم رکھ

کیا فائدہ بے لُطف مضامین کو  رٹ کر

٭٭٭

 

نوید سروش ( میر پو خاص۔ سندھ)

ختم ہے اب سفر خبر کر دو

تھم چکی چشمِ تر خبر کر دو

مت پھرو جستجو میں سائے کی

کٹ چکے شہر میں شجر خبر کر دو

تم زباں سے جو کہہ نہیں سکتے

لکھ کر دیوار پر خبر کر دو

زخم خوردہ ہوئے حسیں چہرے

ہم بھی ہیں در بدر خبر کر دو

شب کا مہمان تو چلا بھی گیا

رات کر کے بسر خبر کر دو

پھر مسافر بھٹک نہ جائے کہیں

آ گیا اپنا گھر خبر کر دو

تھا جو ذرہ کبھی نویدسروشؔ

بن گیا ہے قمر خبر کر دو

٭٭٭

 

اظہر زیدی ( لیہ)

یہ عمر میں نے بسر کی مگر سزا کی طرح

تمہارے بعد میں زندہ رہا خطا کی طرح

میں بت کدہ سے جو نکلا تو شہر سارے میں

ہر ایک شخص ملا ہے مجھے خدا کی طرح

تمہارے شہر کے ہر موڑ پر ٹھہرنا پڑا

ہر ایک گام لگا مجھ کو آشنا کی طرح

گیا ہوں کوچۂ جاناں میں شب کا پردہ لئے

نشاں ملے مجھے یادوں کے نقشِ پا کی طرح

مجھے یہ عالم ہجراں میں چھیڑنے آئے

یہ تلخ جھونکے ہوا کے بے وفا کی طرح

یوں تپتی دھوپ میں طے مرحلے کئے اظہرؔ

کسی کی یاد رہی ہم سفر ردا کی طرح

٭٭٭

 

منصف ہاشمی ( فیصل آباد)

نثری نظم

اداسی۔۔۔۔۔ !

چاندنی  زینہ بہ زینہ صحن میں اتری

 خوشبو کی سنتے ہوئے۔۔۔ درد کے سراغ میں ،

سوکھے پتوں سے گلے مل کر سرگوشیاں کر نے لگی

ابھی شام کا المیہ کسی فیصلے کے انتظار میں تھا

دل معتبر آئینے میں تقسیم شدہ عکس کی تفہیم میں گم تھا

آنسوؤں کو منزل نظر آنے لگی تھی

درد کی پہچان میں پہلی ملاقات سے آخری آہٹ،

ان دیکھی بارشوں میں کچی قبر کی طرح گھلنے لگی تھی

دیواروں پہ پرچھائیوں کا موسم اترنے لگا تھا

  زردیوں کا معنوی حسن نکھرنے لگا تھا

٭٭٭

 

سہیل رضا ڈوڈھی (سیالکوٹ)

دو نثری نظمیں

(۱)

سوچتا رہتا ہوں۔۔۔ کیا کہوں  اُسے

جس نے میری زندگی کو

تپتا  صحرا  بنا  دیا

(۲)

بات صرف اُن دو  لمحوں کی ہے

جن لمحوں نے بدل ڈالی زندگی میری

ایک وہ لمحہ جب وہ مرے قریب آیا

اور ایک وہ لمحہ جب وہ بچھڑ گیا مجھ سے

٭٭٭

 

خالد جاویدؔ ( رحیم یار خاں )

اندھی رُت سے کالی چادر آخر اک دن اترے گی

پاک وطن کے مزدوروں کی پیشانی پھر چمکے گی

میرے گھر کو لوٹنے والے آخر اک دن بھاگیں گے

رنگ برنگے پھولوں پہ پھر بلبل اک دن چہکے گی

پھول خوشی کے کھل جائیں گے موسم بدلا بدلا ہے

امیدوں اور ارمانوں کی ڈالی ڈالی مہکے گی

یہ خو ف و ہراس کے بادل چھٹ جائیں گے آخر کو

رات کے چہرے پر صبح کی لالی جس دم پھوٹے گی

٭٭٭

 

اقبال ناظر ( جہلم)

شناخت

 ہجوم بے کراں ہے اور گلی میں شور برپا ہے

شہر میں شور برپا ہے

ہر  اک چہرے پہ چہرا ہے

 زمانہ سیم و زر کی تھاپ پر

ایسے تھرکتا ہے۔۔۔ کہ

جیسے کوئی رقاصہ انعام اور داد کی خاطر

مچلتی اور تھرکتی ہے مسلسل رقص کرتی ہے

ہجومِ بے کراں میں  چار سو  چہرے پہ چہرا ہے

دکھائی کچھ نہیں دیتا، سجھائی کچھ نہیں دیتا

٭٭٭

 

یونس خیال  ( گجرات)

دل میں پھر اک حشر بپا ہے

ضبط کا بندھن ٹوٹ رہا ہے

میرے گھر میں آگ لگی ہے

بستی میں کیوں شور مچا ہے

خود کو پتھر کہنے والا

کتنی جلدی ٹوٹ گیا ہے

گلدانوں میں پھول سجے ہیں

پھولوں میں بارود بھرا ہے

گرتے پتے چیخ رہے ہیں

کتنی ظالم تیز ہوا ہے

میرے گھر کی دیواروں نے

میرا رستہ روک لیا ہے

٭٭٭

 

شکوراحسن (گوجرخان)

تو بھی کرتا تھا آبرو پہلے

ایسا ہی تھا میں ہو بہو پہلے

بعد میں کوئی نقش بنتا ہے

رنگ بھرتی ہے آرزو پہلے

راہ تبدیل کر بھی سکتا ہوں

بہہ لے آنکھوں سے آبجو پہلے

تجھ سے بھی ہم کلام ہوتا ہوں

خود سے کرنی ہے گفتگو پہلے

رہ گیا اب تو میں ہی میں احسن ی

تھا ہر اک سمت تو ہی تو پہلے

٭٭٭

 

محمد علی سوز  ( کراچی)

گھپ اندھیرا جنگل تھا

رستہ  سارا  دلدل  تھا

اُس کی چا ہت کر بیٹھا

دل بھی کتنا  پا گل  تھا

بھیگ چکی تھیں سا نسیں بھی

جسم ہمارا  جل  تھل  تھا

اُسکی عزت سب نے کی

جس کے  سر پر آنچل تھا

موسم  کتنا  دلکش  تھا

سا تھ ہمارے بادل  تھا

دل تھا اُس کا پتھر سا

لہجہ  لیکن  کو مل تھا

سوزؔ کسی کے سا تھ ہے وہ

سا تھ میں تیرے جو کل تھا

٭٭٭

 

اشرف فائق ( وہاڑی)

کہاں وہ رابطے ہیں درمیاں اب

کہ حائل درمیاں عمرِ رواں اب

کبھی غم کو مٹانے کے جتن تھے

وہ ساری کوششیں رائیگاں اب

ذہن میں خشک سالی کے بسیرے

برستی یاد کا موسم کہاں اب

میری تنہائی میرے ساتھ رہنا

کہ درد ہونے چلا ہے بیکراں اب

تھک گیا ہے فائق سفرِ دوراں سے

کہیں تو ہو راہ میں سائباں اب

٭٭٭

 

سید علی سلمان

وُہ بھی اقرار کر نہیں سکتے

ہم بھی تکرار کر نہیں سکتے

تجھ سے کرتے ہیں عشق ہم لیکن

تجھ سے اظہار کر نہیں سکتے

ایسا دریا ہے بیچ میں کوئی

ہم جسے پار کر نہیں سکتے

ہم انہیں مانگتے ہیں یوں اُن سے

وُہ بھی انکار کر نہیں سکتے

رات دن دیکھتے ہیں ہم اُس کو

اُس کا دیدار کر نہیں سکتے

٭٭٭

 

ذیشان حیدرؔ

جب  اتنا  شوق  تھا  گَردِ  سفر اُڑانے  کا

تو   حوصلہ بھی کرو   ساتھ    اب    نبھانے   کا

مرے   خروج  سے پہلے    بتا    دو    لشکر  کو

مرا   ارادہ   ہے  اب کشتیاں جلانے  کا

بگولے  رقص کناں  ہیں  فضائے  دہشت   ہے

نہیں  ہے   وقت   ہواؤں  کا  رخ   بتانے   کا

گھروں  کو  چھوڑ   کے  صحراؤں  کو  نکل  جاؤ

یہ    شہر    یار   نہیں   معجزہ    دکھانے   کا

نہیں  ہے  لشکر  و  تیر  و   تبر   کی  چاہ   مجھے

یہ   معرکہ  ہے  نقابِ  عدو   اُٹھانے    کا

مجھے متاعِ    جہاں   سے   نہیں   غرض  کوئی

میں  اپنا  سر  کسی  قیمت   نہیں   جھکانے  کا

جو اپنی  بھیک  فقیروں   میں   بانٹ  دے جا  کر

گدا  ہے   اتنا   سخی  کس   کے  آستانے  کا

میں  اپنے  دل  کے حرم  کا  چراغ   ہوں   حیدرؔ

ہوا  کو  کس  نے   بتایا   مرے  ٹھکانے   کا

٭٭٭

 

میرا جی

ارتقاء

قدم قدم پر جنازے رکھے ہوئے ہیں ، ان کو اُٹھاؤ جاؤ!

یہ دیکھتے کیا ہو؟کام میرا نہیں ، تمہارا یہ کام ہے

 آج اور کل کا

تم آج میں محو ہو کے شاید یہ سوچتے ہو

نہ بیتا کل اور نہ آنے والا تمہارا کل ہے

مگر یونہی سوچ میں جو ڈوبے تو کچھ نہ ہو گا

جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اُٹھاؤ، جاؤ!

چلو! جنازوں کو اب اٹھاؤ۔۔۔

یہ بہتے آنسو بہیں گے کب تک؟

اُٹھو اور اب ان کو پونچھ ڈالو

یہ راستہ کب ہے؟اک لحد ہے

لحد کے اندر تو اک جنازہ ہی بار پائے گا یہ بھی سوچو

تو کیا مشیت کے فیصلے سے ہٹے ہٹے رینگتے رہو گے؟

جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اُٹھاؤ، جاؤ!

لحد ہے ایسے کہ جیسے بھوکے کا لالچی منہ کھلا ہوا ہو

مگر کوئی تازہ۔۔ اور تازہ نہ ہو میسر تو باسی لقمہ بھی اسکے

اندر نہ جانے پائے

کھلا دہن یوں کھلا رہے جیسے اک خلا ہو

اٹھاؤ، جلدی اٹھاؤ، آنکھوں کے سامنے کچھ جنازے

رکھے ہوئے ہیں ، ان کو اُٹھاؤ، جاؤ،

لحد میں ان کو ابد کی اک گہری نیند میں غرق کر کے آؤ

اگر یہ مُردے لحد کے اندر گئے تو شاید

تمہاری مُردہ حیات بھی آج جاگ اُٹھے

(تین رنگ)

٭٭٭

 

میرا جی

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو

پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت

مِری ہستی ہے اک ذرہ

کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ

ستاروں کا علمبردار کر دے گی، مسرت میری ہستی کو

اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی

تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ ڈرتا ہوں

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو

بھلا کر تلخیاں ساری

بنا دے دیوتاؤں سا

تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا

زمانہ اپنی ہستی کا

(۱۹۳۶ء)

٭٭٭

میرا جی

جُزو اور کُل

سمجھ لو کہ جو شے نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں

کہیں بھی نہیں ہے

سمجھ لو کہ جو شے دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے، وہ یہیں ہے

یہیں ہے؟مگر اب کہاں ہے؟

مگر اب کہاں ہے

یہ کیا بات ہے، ایسے جیسے ابھی وہ یہیں تھی

مگر اب کہاں ہے؟

کوئی یاد ہے یا کوئی دھیان ہے یا کوئی خواب ہے؟

نہ وہ یاد ہے اور نہ وہ دھیان ہے اور نہ وہ خواب ہے،

مگر پھر بھی کچھ ہے

مگر پھر بھی کچھ ہے

وہ اک لہر ہے،۔۔۔ ہاں فقط لہر ہے

وہ اک لہر ہے ایسی جیسی کسی لہر میں بھی کوئی بات ہی تو

نہیں ہے

اسی بات کو رو رہا ہوں

اسی بات کو رو رہا ہے زمانہ

زمانہ اگر رو رہا ہے تو روئے

مگر میں ازل سے تبسم، ہنسی قہقہوں ہی میں پلتا رہا ہوں

ازل سے مرا کام ہنسنا ہنسانا رہا ہے

تو کیا جب زمانہ ہنسا تھا تو اس کو ہنسایا تھا میں نے؟

(یہ تم کہہ رہے ہو جو روتے رہے ہو؟

اگر تم یہ کہتے ہو میں مانتا ہوں )

مگر جب زمانے کو رونا رُلانا ملا ہے تو روتا رہے گا زمانہ

فقط میں ہنسوں گا

یہ ممکن نہیں ہے

زمانہ اگر روئے، روؤں گا میں بھی

زمانہ ہنسے گا تو میں بھی ہنسوں گا

مگر یہ زمانے کا ہنسنا، یہ رونا، وہ شے ہے نظر آئے اور

یہ کہے میں کہاں ہوں کہیں بھی نہیں ہوں

زمانے کا ہنسنا، زمانے کا رونا وہ شے ہے

دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے۔۔۔۔۔

 اور یہیں ہے

میں ہنستا چلا جاؤں گا اور روتا چلا جاؤں گا اور پھر بھی

زمانہ کہے گا تو روتا رہا ہے، تو ہنستا رہا ہے

مگر میں یہ کہتا ہوں تم سے کہ میں ہی وہ شے ہوں

جو اب بھی نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں تو پھر بھی

دکھائی نہ دے اور کہے میں کہیں بھی نہیں ہوں

میں روتا رہا تھا میں ہنستا گیا ہوں

مگر تم تو ہنستے گئے تھے۔۔ بس اب تم ہی روؤ گے اور

 صرف اک میں ہوں جو اب بھی ہنستا رہوں گا

(میرا جی کے مجموعہ ’’تین رنگ‘‘سے)

٭٭٭

 

میرا جی

ترقی

بھید لکھا تھا یہ پتھر پہ پیا داسی نے

اسی چوکھٹ پہ نصیبا جاگا

جس پہ بڑھتے ہوئے پاؤں جھجکے

اور جنگل میں گئے

قصرِ عشرت میں وہ اک ذرہ تھا

قصرِ عشرت میں ازل سے اب تک

جو بھی رہتا رہا اک راگ نیا گاتا رہا

اور جنگل میں وہی راگ۔۔۔ پرانا نغمہ

گونجتا تھا کہ ہر اک بستی سے

آخری عیش کو دوری ہی بھلی ہوتی ہے

اس نے جنگل میں یہ جا کر جانا

بستیاں اور بھی ویران ہوئی جاتی ہیں

وہ چمک، منزلِ مقصود، چراغ

دائیں بائیں کی ہواؤں سے ہر اک پل، ہر آن

نور کھونے کو ہے، لو! نور مٹا، نور مٹا

اس کی لو کانپتی جاتی ہے ذرا تھمتی نہیں

ابھی بڑھنے کو ہے، بڑھنے کو ہے، بڑھ جائے گا

یہ چراغِ انساں

یہی اک دھیان اسے آگے لیے جاتا ہے

اور وہ بڑھتا گیا

پیڑ کی چھاؤں تلے سوچ میں ایسا ڈوبا

بن گیا فکرِ ازل، فکر، ابد

اور جنگل سے نکل آیا تو اس نے دیکھا

بستیوں میں بھی اسی چاہ کے انداز نرالے، پھیلے

اور پھر وہ بھی تھا بھائی، میں بھی

دیوتا اس کو بنایا کس نے؟

کہہ تو دو قصرِ مسرت میں جو اک ذرہ تھا

اس کو اک عالمِ ادراک بتایا کس نے؟

اسی انساں نے جو ہر بستی کو

آج ویرانہ بنانے پہ تلا بیٹھا ہے

اور اک ذرے کے بل پر افسوس

بھید کیوں لکھا نہیں تھا یہ پیا داسی نے

راستے اور بھی ہیں ، اور بھی ہیں ، اور بھی ہیں

اسی اک ذرے کی چوکھٹ پہ نصیبے کو بھی نیند آہی گئی

(تین رنگ)

٭٭٭

 

حیدر قریشی

روشنی کا استعارہ کر لیا

دل نے ہر آنسو ستارا کر لیا

بے وفا دنیا سے کچھ تو نبھ گئی

ساتھ کیا تھا بس گزارا کر لیا

گلستاں اُس نے کیا تھا آگ کو

ہم نے شبنم کو شرارہ کر لیا

کم نہیں ہم بھی ثمود و عاد سے

کیوں لحاظ آخر ہمارا کر لیا

تیری وحدت سے سمجھ پائے تجھے

اور کثرت میں نظارہ کر لیا

کون ہے پھر اب مِرے دُکھ کا سبب

خواہشوں سے تو کنارا کر لیا

آج حیدرؔ موڈ ہی کچھ اور تھا

سو غزل میں استخارہ کر لیا

٭٭٭

 

حیدر قریشی

عروج کیا ہے، زوال کیا ہے

خوشی ہے کیا اور ملال کیا ہے

یہ گردشِ ماہ و سال کیا ہے

زمانے! تیری یہ چال کیا ہے

بھلے ہو وقتی  اُبال چاہت

مگر یہ وقتی اُبال کیا ہے

ہوس تو بے شک ہوس ہی ٹھہری

پہ جستجوئے وصال کیا ہے

ہے دل کوئی بے کنار صحرا

کہ آرزوؤں کا جال، کیا ہے

حقیقتیں تو فریب نکلیں

جہانِ خواب و خیال کیا ہے

سوال جو اتنے کر رہے ہو

تمہارا اصلی سوال کیا ہے

ہر ایک رنجش بھلا چکے ہو

تو دل کے شیشے میں بال کیا ہے

خدا ہے مشکل کُشا تو حیدرؔ

کوئی بھی کارِ محال کیا ہے

٭٭٭

 

حیدر قریشی

جو بَس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے

تری چاہت میں مَر جانا ضروری ہو گیا ہے

ہمیں تو اب کسی اگلی محبت کے سفر پر

نہیں جانا تھا، پر جانا ضروری ہو گیا ہے

ستارا جب مِرا گردش سے باہر آ رہا ہے

تو پھر دل کا ٹھہر جانا ضروری ہو گیا ہے

درختوں پر پرندے لَوٹ آنا چاہتے ہیں

خزاں رُت کا گزر جانا ضروری ہو گیا ہے

اندھیرا اِس قدر گہرا گیا ہے دل کے اندر

کوئی سورج اُبھر جانا ضروری ہو گیا ہے

بہت مشکل ہوا اندر کے ریزوں کو چھپانا

سو اب اپنا بکھر جانا ضروری ہو گیا ہے

تجھے میں اپنے ہر دُکھ سے بچانا چاہتا ہوں

ترے دل سے اُتر جانا ضروری ہو گیا ہے

نئے زخموں کا حق بنتا ہے اب اِس دل پہ حیدرؔ

پُرانے زخم بھر جانا ضروری ہو گیا ہے

٭٭٭

 

حیدر قریشی

وصل کی شب تھی اور اُجالے کر رکھے تھے

جسم و جاں سب اُس کے حوالے کر رکھے تھے

جیسے یہ پہلا اور آخری میل ہوا ہو

حال تو دونوں نے بے حالے کر رکھے تھے

کھوج رہے تھے رُوح کو جسموں کے رستے سے

طور طریقے پاگلوں والے کر رکھے تھے

ہم سے نادانوں نے عشق کی برکت ہی سے

کیسے کیسے کام نرالے کر رکھے تھے

وہ بھی تھا کچھ ہلکے ہلکے سے میک اپ میں

بال اپنے ہم نے بھی کالے کر رکھے تھے

اپنے  آپ ہی آیا تھا پھر مرہم بن کر

جس نے ہمارے دل میں چھالے کر رکھے تھے

حیدرؔ اپنی تاثیریں لے آئے آخر

ہجر میں ہم نے جتنے نالے کر رکھے تھے

٭٭٭

 

حیدر قریشی

موسم کی بے مہر  فضا میں گرتے ہیں

سوکھے پتے سرد ہوا میں گرتے ہیں

رہتی ہے پرواز کی خوش فہمی اُن کو

جو اپنے اندر کے خلا میں گرتے ہیں

گرتے ہیں تو گرتے ہی جاتے ہیں پھر

اہلِ ستم جب مکر و ریا میں گرتے ہیں

گیت سناتے ہیں جھرنے کے گرنے کا

حرف جو خاموشی کی صدا میں گرتے ہیں

تم نے وہ منظر ہی کب دیکھے ہیں ، جب

درد سمندر، دل دریا میں گرتے ہیں

یا آنکھوں میں خاک برستی تھی حیدرؔ

یا اب پیہم اَشک دُعا میں گرتے ہیں

٭٭٭

 

حیدر قریشی

وہ جو ابھی تک خاک میں رُلنے والے ہیں

سُچے موتیوں میں اب تلنے والے ہیں

اپنی ذات کے دروازے تک آ پہنچے

بھید ہمارے ہم پر کھلنے والے ہیں

دودھ بدن ہے وہ تو مصری کوزہ ہم

سو اب اُس کے عشق میں گھلنے والے ہیں

واقفیت ہے اِن سے اپنی برسوں کی

دُکھ تو ہمارے ملنے جلنے والے ہیں

آنکھیں اس کی بھی ہیں اب برسات بھری

حیدرؔ مَیل دِلوں کے دھُلنے والے ہیں

٭٭٭

 

حیدر قریشی

جیسی  بھی ہے اس دنیا سے کٹ کر نہیں رہنا

جب  پیار  بڑھانا  ہے  تو ڈٹ کر نہیں رہنا

دُوری  بھی  مٹانی  ہے  محبت کے سفر میں

اک  حد  کو بھی رکھنا ہے، لپٹ کر نہیں رہنا

اپنوں کو  تو  کچھ اور بھی  نزدیک کریں گے

سوچا ہے کہ غیروں سے بھی ہٹ کر نہیں رہنا

لازم  ہے سنا  جائے کھلے ذہن  سے سب کو

اپنے  ہی  خیالات میں  اَٹ کر  نہیں رہنا

جتنا  ہوں  حقیقت  میں ، وہی دِکھنا ہے مجھ کو

اوروں کے لیے بڑھ کے  یا گھٹ کر نہیں رہنا

کچھ  اپنے  دل و ذہن کو  نزدیک  کیا ہے

اندر بھی زیادہ  ہمیں  بٹ  کر  نہیں  رہنا

رہنا  ہے  بہر حال  یہیں  پر  ہمیں   حیدرؔ

دنیا  سے  مگر  اتنا  چمٹ  کر  نہیں   رہنا

٭٭٭

 

حیدر قریشی

بخشی تھی ہجر  نے  جو  تب و تاب  لے  گیا

اس جسم  کو  تو   وصل کا  سیلاب  لے  گیا

خوابوں سے بڑھ کے پیار کی تعبیریں بخش کے

جاتے ہوئے  وہ  میرے سبھی  خواب  لے گیا

دامن  کو  میرے  بھر گیا  چَین و قرار  سے

بدلے  میں  وہ   مِرا  دلِ  بے تاب  لے گیا

کر دی  ہیں  ماند  رونقیں  دریائے جان  کی

رقصاں تھے  اس میں  جتنے بھی گرداب لے گیا

تاکہ  کسی  سفر  پہ  نکل  ہی  نہ  پاؤں اب

 ہمراہ   اپنے   وہ    مِرا   اسباب  لے  گیا

پہلے  تو  اس  نے  کی  تھیں  عنایات بے شمار

پھر  جو  بھی  میرے پاس تھا  نایاب،  لے گیا

سیراب  کر  کے،  پیاس  کی لذّت کو چھین کر

صحرا  کے  ضابطے،  ادب  آداب  لے  گیا

جگنو،  ستارے،  اشک،  محبت  کے  ہم  سفر

میرے   تمام   ہجر  کے   احباب  لے  گیا

اک  روشنی  سے  بھر  گیا  حیدرؔ  مِرا   وجود

بے شک  وہ  میرے  سورج  و مہتاب لے گیا

٭٭٭

 

حیدر قریشی

اس دربار میں لازم تھا اپنے سر کو  خم  کرتے

ورنہ  کم از کم  اپنی  آواز  ہی  مدھم کرتے

اس کی انا تسکین  نہیں  پاتی خالی لفظوں سے

شاید کچھ ہو جاتا اثر،  تم  گریۂ پیہم  کرتے

سیکھ لیا ہے آخر ہم نے عشق میں خوش خوش رہنا

درد کو اپنی دوا بناتے، زخم  کو  مرہم  کرتے

کام ہمارے حصے کے سب کر گیا  قیس دوانہ

کونسا ایسا کام تھا باقی  جس کو  اب ہم کرتے

ہر جانے وا لے  کو دیکھ کے رکھ لیا  دل  پر  پتھر

کس کس کو روتے آخر، کس کس کا ماتم کرتے

دل تو ہمارا  جیسے   پتھر سے   بھی  سخت  ہوا  تھا

پتھر پانی ہو گیا، سوکھی آنکھوں  کو  نم  کرتے

بن جاتا تریاق  اسی  کا  زہر  اگر  تم  حیدرؔ

کوئی آیت پیار کی پڑھتے اور اس پر دَم کرتے

٭٭٭

 

حیدر قریشی

پہنچائی گرچہ آپ نے ہر ممکنہ گزند

اک سرنگوں کو کر دیا مولا نے سر بلند

جو جتنا رب کے شکر سے لبریز ہو گیا

اللہ نے کر دیا اسے کچھ اور ارجمند

اِتنے ہی ہم مزاج تھے، اِتنے ہی مختلف

جو مجھ کو ناپسند تھا، اُس کو رہا پسند

اُس کے خیال میں اُڑی مچھلی ہوا میں ، تو

ہم نے لگائی ایڑ، سمندر میں تھا سمند

مسجد میں ہم گئے تو وہ جائیں گے چرچ میں

ہم قادیاںؔ  گئے تو وہ جائیں گے دیو بندؔ

اک بائبلؔ کہے تو کہے ویدؔ دوسرا

قرآنؔ ایک لائے تو لے آئے ایک ژندؔ

قسمت میں تھا یہی کہ پلٹ کر نہ جا سکیں

ہم بام تک پہنچ گئے، ٹوٹی نہیں کمند

پھر بھی نباہ ہو گیا، جیسے بھی ہو گیا

ہم مستِ حالِ فقر تو وہ سخت خود پسند

دونوں گناہگار ہی کچھ لاڈلے سے تھے

دونوں نے مل کے کھولا تھا بابِ قبول بند

اک دوسرے کو زخم بھی دیتے ہیں پیار سے

اک دوسرے کے واسطے دونوں ہیں دردمند

٭٭٭

 

حیدر قریشی

کون انگڑائی سی لیتا ہے  نفس  کے  اندر

لذتِ وصل  مہکتی  ہے  ہوس کے  اندر

پھر سے در پیش ہوا لگتا ہے  باہر  کا  سفر

لہر سی اُٹھنے لگی  ہے کوئی  نَس  کے  اندر

رَس  بنایا  گیا   اس  زندگی کو پہلے،  پھر

موت کا  زہر  ملایا  گیا  رَس کے  اندر

پھول نے صرف بکھیری ہے مہک بھینی سی

اصل خوشبو تو  وگرنہ  ہے  سِرَس کے اندر

قافلے والے بہت خوش تھے دَمِ رخصت تو

سسکیاں کس کی  تھیں آوازِ جرس کے اندر

کُن کا اک لفظ  اسیروں پہ کہیں سے اترا

آسماں  ہو  گئے  تخلیق  قفس کے اندر

حیدرؔ اک اور ہی دنیا ہے  یہ انٹرنیٹ کی

کیا سے کیا ہو گیا ہوں سات برس کے اندر

٭٭٭

 

حیدر قریشی

یہ واقعہ ہوا اپنے وقوع سے پہلے

کہ اختتامِ سفر تھا، شروع سے پہلے

نہیں تھی لذتِ سجدہ، رکوع میں لیکن

اک اور کیف تھا، کیفِ خشوع سے پہلے

نصوص کو بھی کبھی دیکھ لیں گے فرصت میں

ابھی نمٹ تو لیں ’’مومن‘‘ فروع سے پہلے

معافی مانگنا پھر بعد میں خلوص کے ساتھ

گناہ کرنا خشوع و خضوع سے پہلے

اُسی کے پاس تو جانا ہے لوٹ کر آخر

سو خوب گھومئے، پھرئیے، رجوع سے پہلے

سپاہِ شب نے تو اندھیر کر دیا تھا بہت

سو آ گیا ہوں میں وقتِ طلوع سے پہلے

یہ عید آئی ہے کس قتل گاہ میں حیدرؔ

سلام پھیر لیا ہے رکوع سے پہلے

٭٭٭

 

اظہر ادیب

اپنا جیسا بھی حال رکھا ہے

تیرے غم کو نہال رکھا ہے

شاعری کیا ہے ہم نے جینے کا

ایک رستہ نکال رکھا ہے

ہم نے گھر کی سلامتی کے لیے

خُود کو گھر سے نکال رکھا ہے

میرے اندر جو سر پھرا ہے اُسے

میں نے زنداں میں ڈال رکھا ہے

ایک چہرہ ہے ہم نے جس کے لیے

آئینوں کا خیال رکھاّ ہے

اِس برس کا بھی نام ہم نے تو

تیری یادوں کا سال رکھا ہے

گِرتے گِرتے بھی ہم نے ہاتھوں پر

آسماں کو سنبھال رکھا ہے

کیا خبر شیشہ گر نے کیوں اظہرؔ

میرے شیشے میں بال رکھا ہے

٭٭٭

 

اظہر ادیب

چیختی لُو کو صبا، دھُوپ کو سایا لکھیں

حُکمِ حاکم ہے کہ ماحول کو اچھا لکھیں

جب بدن جلنے لگے اوڑھ لیں اُس زلف کی یاد

جب لہو جمنے لگے اُس کا سراپا لکھیں

نامہ بر خط تو سبھی اُس کے لیے ہوتے ہیں

چاہے ہم نام لفافوں پہ کِسی کا لکھیں

اے خدا ! لکھنا دیا ہے تو یہ توفیق بھی دے

سنگ کو سنگ، ستارے کو ستارہ لکھیں

قافلے سبزرُتوں کے اُتر آئیں اظہرؔ

دستِ صحرا پہ اگر اپنا ارادہ لکھیں

٭٭٭

 

اظہر ادیب

طلوعِ صبح تلک یار بیلیوں میں رہا

میں شہرِ یاد کی روشن حویلیوں میں رہا

پھِسل گئے مِری مُٹھی سے آسرے سارے

بس ایک لفظ دُعا کی ہتھیلیوں میں رہا

وہ منکشف نہ ہوا مجھ پہ، ساتھ رہ کے بھی

سدا مزاج کی اُلجھی پہیلیوں میں رہا

بدل گیا ہے ستاروں کو دیکھ کر وہ بھی

لکیر بن کے جو میری ہتھیلیوں میں رہا

چھوا جو اُس نے تو میرا بدن مہک اُٹھاّ

وُہ ساری عمر تھا اظہرؔ چنبیلیوں میں رہا

٭٭٭

 

اظہر ادیب

گھنیری چھاؤں کے سپنے بہت دکھائے گئے

سوال یہ ہے کہ کتنے شجر اُگائے گئے

مِلی ہے اور ہی تعبیر آ کے منزل پر

وہ اور خواب تھے رستے میں جو دکھائے گئے

مرے لہُو سے مجھے منہدم کرایا گیا

دیارِ غیر سے لشکر کہاں بُلائے گئے

دیئے بنا کے جلائی تھیں اُنگلیاں ہم نے

اندھیری شب کی عدالت میں ہم بھی لائے گئے

فلک پہ اُڑتے ہُوؤں کو قفس میں ڈالا گیا

زمیں پہ رینگنے والوں کو پرَ لگائے گئے

ہمارے نام کی تختی بھی اُن پہ لگ نہ سکی

لہو میں گوندھ کے مِّٹی جو گھر بنائے گئے

مِلے تھے پہلے سے لکھے ہوئے عدالت کو

وہ فیصلے جو، ہمیں بعد میں سُنائے گئے

تمام سعد ستارے بگڑ گئے اظہرؔ

سُلگتی ریت پہ جب زائچے بنائے گئے

٭٭٭

 

اظہر ادیب

اپنے اور اُس کے ستاروں کو ملاِ کر دیکھتے

مشتری کو ہم اسد کے گھر میں لا کر دیکھتے

دسترس حاصل اگر ہوتی لکیروں پر ہمیں

ہم ترا چہرہ ہتھیلی پر بنا کر دیکھتے

روشنی تحریر کرنا کس قدر کس قدر دشوار ہے

پڑھنے والے اُنگلیاں اپنی جلا کر دیکھتے

کیا نظر آتا تمہیں میَں اِس قدر نزدیک سے

معترف ہوتے اگر تم دُور جا کر دیکھتے

لازمی ٹھہرا ہے اب تو سانس لینے کی طرح

وَرنہ اظہرؔ اپنے دُشمن کو بھلا کر دیکھتے

٭٭٭

 

اظہر ادیب

جواب دے نہ سکا میرے چار لفظوں کا

وہ اپنے زعم میں تھا شہر یار لفظوں کا

سماعتوں کے دریچوں پہ برف اُتری ہے

زباں کی شاخ پہ موسم اُتار لفظوں کا

اُسی کے نام کی تختی کو دھُوپ چاٹ گئی

بُلند جس نے کیا تھا وقار لفظوں کا

بدلتے رہتے ہیں مفہوم موسموں کی طرح

کرے بھی کیسے کوئی اعتبار لفظوں کا

جو زلزلوں میں بھی جَم کر کھڑا رہا اظہرؔ

گِرا گیا ہے اُسے ایک وَار لفظوں کا

٭٭٭

 

اظہر ادیب

نہیں کہ ذکرِ مہ و مہر ہی ضروری ہے

پسِ حروف سہی روشنی ضروری ہے

کہیں سے لاؤ کسی زلفِ عنبریں کی ہوا

یہ اب جو  حبس  ہے  اس  میں کمی  ضروری ہے

اَب اُسکے قد کے برابر اُسے بھی لایا جائے

یہ بات کتنی ہی مشکل سہی ضروری ہے

عذاب یہ ہے کہ تکمیلِ داستاں کے لئے

جو حرف بس میں نہیں ہے وہی ضروری ہے

یہ آگ خیمئہ جاں تک پہنچ نہ جائے کہیں

سُلگتی آنکھ میں تھوڑی نمی ضروری ہے

وہ آنکھ کہتی ہے اس زندگی کے منظر میں

سمندروں پہ جھکی شام بھی ضروری ہے

ذرا سیِ مٹّی کسی شے میں باندھ لے اظہرؔ

سفر میں گھر کی نشانی بڑی ضروری ہے

٭٭٭

 

اظہر ادیب

خوش ہو نہ تُو کہ ختم ہوا دھُوپ کا سفر

دَر کھٹکھٹا رہا ہے نیا دھُوپ کا سفر

پہنا کے موم جِسم مجھے بے نیاز نے

میری ہتھیلیوں پہ لِکھا دھُوپ کا سفر

کالے سمندروں سے گزر کر بھی کیا ملا

تپتی زمین، گرم ہوا، دھُوپ کا سفر

پو چھا شجر نے، کیا ہے نئے موسموں کے پاس

جاتی ہوئی ہوا نے کہا دھُوپ کا سفر

چھتری تو قرض خواہ کو اظہرؔ چلی گئی

اور میرے وارثوں کو ملا دھُوپ کا سفر

٭٭٭

 

اظہر ادیب

ں

یہ کیسا شہر ہے جس میں مکّمل گھر نہیں مِلتا

کِسی کو چھت نہیں ملتی کِسی کو در نہیں مِلتا

اُٹھا رکھے ہیں اپنے نا مکمّل جسم لوگوں نے

کِسی کے پاؤں غائب ہیں کسی کا سر نہیں مِلتا

گھری رہتی ہیں جانے کس بلا کے خوف میں گلیاں

یہاں روشن دنوں میں بھی کوئی باہر نہیں مِلتا

بھری بستی کے چوراہے پہ لا وارث پڑا ہوں میں

مری پہچان کیسے ہو کہ میرا سر نہیں مِلتا

اُلجھ جاتی ہیں ہاتھوں کی لکیروں سے تمنّائیں

جو ملنا چاہیئے اظہرؔ ہمیں ، اکثر نہیں مِلتا

٭٭٭

 

اظہر ادیب

جلتے ہوئے پانی کی روانی نہیں رکھی

آنکھوں میں کبھی دل کی کہانی نہیں رکھی

ہر روز نئے زخم سجا لیتے ہیں دِل میں

اِس گھر میں کبھی چیز پُرانی نہیں رکھی

کر نا تھا سفر دھُوپ نگر کا تو بچا کر

کیوں تم نے کوئی شام سُہانی نہیں رکھی

میں نے بھی جلا ڈالی ہیں یادوں کی بیاضیں

اُس نے بھی مری کوئی نشانی نہیں رکھی

ہر اینٹ کے صَدقے میں لہُو اپنا دیا ہے

اس شہر کی بنیاد زبانی نہیں رکھی

کر دار ہوں وہ جس کی ہتھیلی پہ فلک نے

آوارگی رکھی ہے کہانی نہیں رکھی

اظہرؔ نے تو اس شہر کے پیڑوں سے بھی اب تک

سائے کی توقع مِرے جانی نہیں رکھی

٭٭٭

 

اظہر ادیب

ہر راستے پہ اپنی اَنا کی فصیل تھی

اِک مختصر سفر کی کہانی طویل تھی

اُبھرا میں ڈُوب کر تو مُعّطر تھا سارا جسم

جیسے وہ آنکھ بھی کوئی خوشبو کی جھیل تھی

منکر تھے رنگ و بُو کے ہمیں ، ورنہ اَبکی بار

ہر دَستِ شاخ میں نئی رُت کی دلیل تھی

کتنے شگاف ڈالتے میرے نحیف ہاتھ

دُکھ کی ہر اک فصیل کے آگے فصیل تھی

کچھ مختصر تھے زندگی کے ماہ و سال بھی

کچھ ساعتِ فراق بھی اظہرؔ  طویلِ تھی

٭٭٭

 

اظہر ادیب

پہلے سفر نصیب کو صحرا دیا گیا

پھر دوپہر کے وقت کو رکوا دیا گیا

خوش رنگ موسموں کی کہانی گھڑی گئی

مصنوعی خوشبوؤں کا حوالہ دیا گیا

پہرے بٹھا دئیے گئے کلیوں پہ جبر کے

بادِ صبا کو دیس نکالا دیا گیا

ویران کر کے چاندنی کی کھیتیاں سبھی

اہلِ ہُنر کو ایک دریچہ دیا گیا

٭٭٭

 

ترنم ریاض کی نظمیں

      سری نگر، کشمیر سے تعلق رکھنے والی اور دہلی میں قیام پذیر ترنم ریاض اردو شعرو ادب میں اپنا نام اور مقام بنا چکی ہیں۔ افسانہ نگار، ناول نگار، شاعرہ، کالم نگار، ترجمہ نگار اور نقاد ہر حیثیت میں انہوں نے اردو ادب میں اپنے حصے کا کام کیا ہے اور اپنی بساط کے مطابق ان سے انصاف کیا ہے۔۔۔ ادب کی متعدد اصناف میں ان کی دلچسپی ان کے باطن کی تخلیقی بے چینی کا پتہ دیتی ہے۔

      ’’شام کی نظمیں ‘‘کے موضوع پر ان کی پندرہ نظمیں ہمیں موصول ہوئی ہیں۔ ایک ہی موضوع کو اپنی ذات کے حوالے سے اتنے پہلوؤں سے دیکھنا، بجائے خود ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ ہر نظم میں شام کی کیفیات کا کوئی نہ کوئی زاویہ نمایاں ہے۔ یہ تنوع، رنگا رنگی نظم کے قاری کے لیے دلچسپی کا موجب ہو گی۔

        ارشد خالد

٭٭٭

 

 شام کی نظمیں

ُ

۱۔ پردیس کا شہر

یہ سرمئی بادلوں کے سائے،

 یہ شام کی تازہ تازہ سی رت

یہ گاڑیوں کی کئی قطاریں

یہ باغ میں سیر کرتے جوڑے

یہ بچوں کے قہقہے سریلے

وہ دور سے کوکتی کویلیا

یہ عکس پانی میں بجلیوں کا

چہار جانب ہے شادمانی

 مگر میں ہوں بے قرار مضطر

نہیں ہے اس شہر میں مرا گھر

٭٭٭

 

۲۔ عیاشی

محبوب کی مانند اٹھلائے

معشوق کی صورت شرمائے

ہریالی کا آنچل اوڑھے

ہر شاخ ہوا میں رقصاں ہے

میں پیار بھری نظروں سے انھیں

مسکاتی دیکھے جاتی ہوں

شاموں میں پیڑوں کو تکنا

 ہے میری نظر کی عیاشی

٭٭٭

 

۳۔ پتوں کے سائے

شام کے ڈھلتے، اترنے کے لئے کوشاں

ہوا کرتی ہے جب جب مخملیں شب

باغ کے اطراف پھیلے سب گھروں کی بتیاں

جلتی ہیں اک کے بعد اک اک

ایسے میں پتوں کے سائے کھڑکیوں کے لمبے شیشوں پر

سمیٹے اپنا سارا حسن مجھ کو دیکھ کر گویا

 خوشی سے مسکراتے ہیں ، جہانِ دل سجاتے ہیں

٭٭٭

 

۴۔ شفق گوں سبزہ

بڑی تکلیف تھی تحریر کو منزل پہ لانے میں

تناؤ کا عجب اک جال سا پھیلا تھا چہرے پر

کھنچے تھے ابروؤں میں سیدھے خط

 پیشانی پر آڑی لکیریں تھیں

خمیدہ ہوتے گاہے لب

کبھی مژگاں الجھ پڑتی تھیں با ہم!

گرا کر پردۂ چشم اپنی آنکھوں پر

 غر ق ہو جاتی سوچوں میں

 کہ افسانے میں دیوانے کا کیا انجام لکھوں ؟

اور اسی میں دوپہر ڈھل گئی

 نظر کھڑکی جانب جب اٹھی تو

  دیکھا شام آتی ہے عظمت سے

شجر، پتے عجب سے نور میں روشن ہیں

شامل ہیں بہت سے رنگ جس میں

قرمزی کرنوں نے

سبزے کو شفق گوں سا منعکس کر کے

ملکوتی فضا میں ڈھال کر

میری نگاہوں تک بڑی عجلت سے لایا ہے

میں اس کو دیکھنے میں گر نہ کچھ پل خود کو گم کرتی

تو ماتھے کے شکن چہرے پہ چھایا یہ تناؤ

 بے سکوں آنکھیں

سبھی مل کر میرے دل کو بجھا دیتے

٭٭٭

 

۵۔ میڈیٹیشن

(Meditation)

کچھ نہ سوچوں

میں کچھ نہیں سوچوں

یوں ہی کھڑکی سے شام کو دیکھوں

پر سکوں آسماں خموش درخت

سرمئی روشنی، ہوا، یہ سکوں

اپنی نس نس میں منتقل کر لوں

دل کی دھڑکن کو روک دوں کچھ پل

ایک دفعہ پلک نہیں جھپکوں

یوں ہی بیٹھی رہوں جو بے جنبش،

روح پھر رب سے بات کرتی ہے

کتنے ہی کام ساتھ کرتی ہے

٭٭٭

 

۶۔ شام کا سحر

ابھی پرچھائیاں اونچے درختوں کی،

جدا لگتی ہیں رنگِ آسماں سے،

ذرا پہلے گیا ہے اِک پرندہ باغ کی جانب

اُدھر سے آنے والے ایک طیّارے کی رنگیں بتیاں ،

 روشن نہیں اتنی

وہ نکلی ہیں سبھی چمگادڑیں اپنے ٹھکانوں سے

بڑا مبہم سا آیا ہے نظر،  زہرا فلک کے بیچ،

ٹی کوزی کے نیچے  ہے گرم اب بھی بچا پانی

کسی نے مجھ کو اندر سے نہیں آواز بھی دی

میں

ذرا برآمدے میں اور رہ لوں

فسوں میں شام کے، پُرواسی بہہ لوں

٭٭٭

 

۷۔  شرمیلی خاموشی

 شام کی شرمیلی چپ کو

روح میں محسوس کرتے

کام میں مصروف ہیں  ہم دوپہر سے

دل کی آنکھیں دیکھتی ہیں گہری گہری سبز شاخوں کو

جو بیٹھی ہیں خموشی سے

کئے خم گردنیں اپنی

کسی دلہن کی صورت

سر پہ اوڑھے آسماں کی سرمئی چنری

ستارے جس میں ٹانکے جا رہے ہیں

ہم اپنے اس تصور پر خود ہی مسکا رہے  ہیں

 ٭٭٭

 

۸۔ برسات کی خشک شام

سنہرے سبز پتے،

سرمئی نیلا سا، نارنجی  بہ مائل سرخ  رنگ آسماں

خوشبو ہو امیں بھیگی سوندھی سی

ابھی سورج ڈھلا ہی ہے

خنک کمرے کی ساری کھڑکیوں کو بند کر کے

جھانکنا شیشوں کے اندر سے

خوش آگیں مشغلہ ہے

٭٭٭

 

۹۔ شام کی بارش

کون سے کوہ کی آڑ  میں  لی خورشید نے جا کر آج پناہ

چو طرفہ یلغار سی کی ہے ابر نے بھی تا حدِ نظر

دھیمے چلتے کالے بادل، اڑتی سی اجلی بدلی

رقصاں رقصاں جھلک دکھا کر رہ جاتی ہے برق کبھی

پتوں کے جھرمٹ میں سائے کجلائے شرمائے سے

پھول حلیمی سے سرخم اور کلیاں کچھ شرمائی سیں

دانستہ بارش میں اڑتے پھرتے آوارہ طائر

یہاں وہاں بیٹھے کتنے بھیگیں چپ چاپ سے خوش ہو کر

بجلی کی مانوس کڑک، شہ زور گرج یہ بادل کی

اب کے ہم نے کتنی دھوپیں اس موسم کی راہ تکی

٭٭٭

 

۱۰۔ کوئی بات کرو

منہ بسورے یہ شام کھڑکی پر

آن بیٹھی ہے دو پہر ہی سے

دل کہ جیسے خزاں زدہ پتہ

ٹوٹنے کو ہے،

 کوئی بات کرو!

 ٭٭٭

 

۱۱۔ چپکے چپکے رویا جائے

شام بجھی سی، پنچھی چپ،

سینے کے اندر سنّاٹا

اور روح میں نغمے غم آگیں

دل کے/p سب زخموں کو اشکوں سے دھویا جائے

کچھ لمحوں کو چپکے چپکے رویا جائے

٭٭٭

 

۱۲۔ شامِ  تنہا

شامِ  تنہا یونہی چپ چاپ اندھیرے لے کر

گھر کے اندر ہی چلی آئی ہے

بتیاں گُل کئے ہم بیٹھے رہے

شام کو اور کچھ اداس کریں

رنج اور غم کو پاس پاس کریں

 ٭٭٭

 

۱۲۔ آبائی گھر

ماتمی شام اتر آئی ہے پھر بام تلک

گھر کی تنہائی کو بہلائے کوئی کیسے بھلا

اپنے خوابوں کے تعاقب میں گئے اس کے مکیں

منتظر ہیں یہ نگاہیں کہ ہیں بجھتے سے دئے

راہ تکنے کے لئے کوئی بچے گا کب تک

پھر یہ دیواریں بھی ڈھے جائیں گی۔

٭٭٭

 

۱۳۔ ضروری بات

نیلی نیلی شام کی خاموشیوں کے بیچ

کیا سرگوشیاں سی کرتے ہیں شاخوں سے یہ پتے

جھکا ہے گُل کلی کے رخ پہ ساری خوشبوئیں لے کر

بکھیرے زلف، سورج کی طرف چل دی ہے اک بدلی

ہوا  اٹھکیلیاں کرتی ہے رُک رُک کر درختوں سے

زمیں کو آسماں نے لے لیا اپنی پناہوں میں

تم آ جاتے اگر گھر آج جلدی،

مجھ کو بھی تم سے ضروری بات کرنا تھی!

٭٭٭

 

۱۴۔  منتظر ہے شام

دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر

 شکستہ پَرسی نا اُمید،  اشک آنکھوں میں بھر کر

 اس طرح ساکت نہ بیٹھو اک جگہ پر

 کانچ کو پتھر کی سنگت میں ہی رہنا ہو

تو اک رستہ یہ ہے

وہ فاصلوں کو درمیاں رکھے

سنو!

 یہ زیست ایسی شے نہیں مل پائے گی پھر

دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر

چلو ہلکے سے رنگوں کی لپیٹو اوڑھنی

برآمدے میں اس سے کھیلیں گی ہوائیں کا سنی،

 پھر جامنی سی روشنی اوڑھائے گی اک مخملیں چادر

مقیش اس میں ستارے ٹانکنے اتریں گے،

 دیکھو!

 زندگی کا اور اک دن ہے گزرنے کو، اٹھو تو

 دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر

٭٭٭

 

۱۵۔  ہزار شعر

 شام تجھ پر ہزار شعر کہوں

 دل کو پھر بھی قرار آتا نہیں

 یہ ترا حسن یہ حلیمی تری

 تیری  خاموشیاں  یہ معنی خیز

دن سمیٹے تو اپنے آنچل میں

کیسے پل پل بکھیر دیتی ہے رنگ

اور اندھیرے میں ڈوب جانے کو

 تیرا کچھ ہی گھڑی کا نرم وجود

خوشبوئیں گھولتا  فضاؤں میں

دوش پر یوں اڑے ہواؤں کے

جیسے تجھ کو سوائے الفت کے

اور کچھ بھی نہیں سجھا ئی دے

کس قدر پرسکون لگتے ہیں

آ کے تیری پناہ میں یہ شجر

سر بلند ی یہ کوہساروں کی

 ہوئی واضح شفق میں تیرے سبب

ہو گئے نغمہ ریزسب طائر

جانے کب میں بھی گنگنانے لگی

٭٭٭

 

افضال نوید

کیا جانے کِس طرف ہے مِرا سَر لگا ہُوا

کرتا نہیں اثر کوئی پتھّر لگا ہُوا

ہر بار کی بِکھرتی ہُوئی شکل یاد ہے

بھُولا نہیں ہُوں ایک بھی چکّر لگا ہُوا

تھوڑا نِکل کے رہتا ہے حدِّ  مقام سے

کارِ جہاں میں میرا سمندر لگا ہُوا

یکبارگی میں تیری گلی کا نہ رُخ کرے

سَر کارِ سَرگرانی میں یکسَر لگا ہُوا

گیندے کے پھُول اُٹھائے تو نیچے مِلا سحَر

چہرے پہ تیرے دیدۂ  اختر لگا ہُوا

جنموں میں شورِ پایۂ تکمیل ہے کہ ہے

محور کے پیچھے اور ہی محور لگا ہُوا

اپنے سمندروں میں ڈبو رکھتا ہے مُجھے

تیرے گلے کے ہار میں گوہر لگا ہُوا

ندّی کو دیکھ کر مُجھے چُپ سی لگی رہی

اپنے خیال میں تھا سُخنور لگا ہُوا

سانسوں میں کونپلوں کی مہک چھوڑ جاتا ہے

ساغر کنارِ لب سے گھڑی بھر لگا ہُوا

مَن میں لگائے رکھتا ہے راگوں کی پھُلجھڑی

خارِ گُلُو سے سُر کوئی سُندر لگا ہُوا

دیوانگی کی راہ پہ جانے سے ٹُوٹے گا

جو قُفلِ پائداری ہے اندر لگا ہُوا

آتی ہے جانے کون سی دیوار راہ میں

دیکھو کہاں ٹھہرتا ہُوں ٹھوکر لگا ہُوا

چلتا ہُوں بادِ گرم سا جب بھی دِکھائی دے

اپنے مقام پر کوئی جَم کر لگا ہُوا

سو جاتا ہُوں تو لگتا ہے شب بھر مُجھے نوید

کُچھ کام پر ہُوں اپنے سے باہر لگا ہُوا

٭٭٭

 

افضال نوید

ہو گئی دیر کہ پامال کوئی پھِرتا ہے

دشت میں کھولے ہُوئے بال کوئی پھِرتا ہے

کہکشائیں اُسے چنگاریوں میں رکھتی ہیں

ریگِ  سیّارگاں کھنگال کوئی پھِرتا ہے

چاندنی سطحِ سمندر پہ بِچھی تھی اِک دِن

اوڑھ شانوں پہ وہی شال کوئی پھِرتا ہے

ہوش ارواحِ  دو عالم کے اُڑا کر ہر سُو

لے کے خُوشبُوئے خد و خال کوئی پھِرتا ہے

ٹُوٹتی ہے کہیں پائل تو سنبھلتا نہیں کُچھ

تھام کر مہندی بھرا تھال کوئی پھِرتا ہے

کون بِچھڑا تھا کہاں یاد نہیں ہے اُس کو

وقت کی بارشوں کو ٹال کوئی پھِرتا ہے

جائے تعمیر اُٹھا دیں نہ سمندر جب تک

پاؤں سے باندھ کے بھونچال کوئی پھِرتا ہے

جیسے پھُلواری یہیں سے اُبھر آئے گی کوئی

عِشق میں زِندگی کو گال کوئی پھِرتا ہے

اب کہیں اور سے سیراب نہیں ہو سکتا

ایک در کا ہُوا کنگال کوئی پھِرتا ہے

جبر آلُودگی میں اور نہ گُنجائش تھی

پھاڑ کر نامۂ اعمال کوئی پھِرتا ہے

اور دُنیاؤں کی آواز ابھی آئی نہیں

شہرِ موجُود میں تا حال کوئی پھِرتا ہے

بوجھ کِس حسرتِ تعمیرِ گُذشتہ کا نوید

اپنی آوارگی پر ڈال کوئی پھِرتا ہے

٭٭٭

 

افضال نوید

یہ ایک بے گھری کی جو اندر دراڑ ہے

کیا رخنۂ سکُوت ہے کِس در کی آڑ ہے

درگور زِندہ بیٹھے ہیں ہستی کے سامنے

کھائی ہُوئی ازل کی ہماری پچھاڑ ہے

پیچھے وہی مَلی دَلی ہے رُوح وقت کی

آگے وہی وجُود کا گہرا اُکھاڑ ہے

قطع و بُرید رہتی ہے دِن کے گُذرنے تک

اُلجھی ہُوئی وجُود سے کانٹوں کی باڑ ہے

ہو سُرخرُو نِکلنا ہے ہے وقت کا الاؤ

دِن رات جِس میں جلنا ہے جنموں کی بھاڑ ہے

باہر ہے کھائی تن کے مُدوّر خلاؤں کی

اندر اندھیری قبروں سے بھی گہری گاڑ ہے

لے جاتا ہے شبیہ تو لمحہ اُتار کر

مِحوِ فسادِ دِہر تُجھے کِس کی آڑ ہے

لگتا ہے آنے والا نہیں وقفۂ نِگاہ

لگتا ہے اِک پہاڑ کے پیچھے پہاڑ ہے

سو جاتا ہُوں تو ہوتا ہے طاری وجُود پر

اندھا کُنواں ہے کِس کا یہ کِس کا اُجاڑ ہے

پِنجرے میں قید کر دِیا ہے ہم نے شیر کو

جنگل میں خالی پھیلی ہُوئی اُس کی دھاڑ ہے

شاید عِلاج کے لِیے عِفریت پیدا ہو

پیدا نِظامِ دہر سے جِتنا بِگاڑ ہے

اِنکار کر دیا تو یہ کیسی دلیری ہے

اب ناکوں ناک آئی تیری چھیڑ چھاڑ ہے

کُچھ اور تو ہمارا یہاں سِلسلہ نہیں

رکھتے ہیں رہنِ شاعری ہم جو جُگاڑ ہے

شاید ہو پیش خیمہ کِسی صُلح کا نوید

اطراف میں جو پھیلی ہُوئی مار دھاڑ ہے

٭٭٭

 

افضال نوید

ہو کر تیری غفلت سے نگُوں چھوڑ دِیا ہے

اب مَیں نے سمندر پہ جنُوں چھوڑ دِیا ہے

تُو نے بھی تو حد توڑ کے رکھ دی میرے دِل کی

مَیں نے بھی تُجھے کِس سے کہُوں چھوڑ دِیا ہے

کِس نوع کا پھل چاہِیے مَٹّی سے کِسی کو

پانی کی جگہ کِس نے یہ خُوں چھوڑ دِیا ہے

مُدّت سے مُلاقات کی اِک پیاسی گلی میں

جاں سے گُذر آنے کا فسُوں چھوڑ دِیا ہے

آواز پلٹ آتی ہے اپنی ہی طرف کو

کِس کِس پہ مَیں آوازے کسُوں چھوڑ دِیا ہے

ہٹتا چلا جاتا ہے بہاؤ سے جو دریا

یکسُوئی کی جا جوشِ جنُوں چھوڑ دِیا ہے

پتھریلی زمینوں پہ نہ اب کھینچ کہ تُجھ کو

اے عِشق تِرے پاؤں پڑُوں چھوڑ دِیا ہے

تلخی ہے مآخذ سو نشہ کھینچ کے مَیں نے

تِتلی کو کِسی باغ میں جُوں چھوڑ دِیا ہے

اب ایک درِ خواب کھُلا رہتا ہے اندر

باہر کی حقیقت کو برُوں چھوڑ دِیا ہے

جو دھُوپ تھی مَٹّی نے میری جذب وہ کر لی

جو رنگ تھا سُورج میں فزُوں چھوڑ دِیا ہے

آنکھوں میں کھِلا پھُول درختوں سے گُذرنا

پُوچھُوں گا کِسی روز کہ کیُوں چھوڑ دِیا ہے

سُنتا ہُوں اُسے ایک گھڑی چین نہیں ہے

مَیں نے بھی اِسی دھُن میں سکُوں چھوڑ دِیا ہے

زور آوروں نے دستِ تلَف رکنے کو بالا

دُنیا کو دھُواں پھینک زبُوں چھوڑ دِیا ہے

جاتا ہُوں نوید اپنی خبَر لینے کبھی مَیں

اِک میکدے میں شہرِ درُوں چھوڑ دِیا ہے

٭٭٭

 

افضال نوید

آتشِ سبز لگی سَر کو تو چِنگاری ہُوئی

مُجھ میں کھوئے ہُوئے جنگل کی نمُوداری ہُوئی

آبسیں خانۂ خالی میں ہزاروں رُوحیں

آئینہ داریِ  اصنام سے سرشاری ہُوئی

نیند میں رفتہ کی کلیوں سے تھا باتیں کرتا

دھُوپ کا شیشہ چُبھا مُنہ پہ تو بیداری ہُوئی

رات بھر زینوں پہ ہوتا رہا ایمن کا الاپ

صُبح بارہ دری سے نِکلی تو درباری ہُوئی

دُور اُفتادہ شُعاعوں کا تھا روزن مُجھ میں

ایک سے ایک مِرے رتجگوں پر طاری ہُوئی

آدھے پیکر سے تِرے پُورا لِپٹنے لگا مَیں

ایک پلُّو سے مِرے گرد تِری ساری ہُوئی

جانے کیا تھا نہ ہوا میں جو تِرے بعد مُجھے

سانس لینے کو ہر اِک موڑ پہ دُشواری ہُوئی

گھُوم پھِر کر مُجھے آ جاتی ہے لینے پھِر سے

جُوئے پیچیدہ جو رُکنے سے مرے جاری ہُوئی

ایک دروازہ کھُلا ساتھ کے جنگل میں کہیں

ایک بے انت پہ وا ہونے کی تیّاری ہُوئی

کائناتوں سے اُتر اور پرندے آئے

اور ہی صُورتِ اشجار مری باری ہُوئی

سارے اپنے تھے مگر دُوسرا سمجھا اُن کو

جِس سے پیدا دِلِ شفّاف میں عیّاری ہُوئی

کھینچ کر دُوسرے دھاروں میں مِلایا خُود کو

ایک دھارے میں بہے جانے سے لاچاری ہُوئی

واہمہ سیرِسمٰوات میں تلخی لایا

قدغنِ دہر کے لگ جانے سے مَے کھاری ہُوئی

خُود تو سہہ لیتا ہُوں جو دِل پہ گُذرتی ہے مرے

اور کو دیکھ کے گھائل مِری خُود داری ہُوئی

بارے اسباب کوئی اپنا نِکل آیا نوید

بارہا اجنبی دُنیاؤں کی تیّاری ہُوئی

٭٭٭

 

افضال نوید

چار سُو سمت ہُوئی بیچ میں دروازہ ہُوا

آنکھ آواز میں ڈھلنے سے جنُوں تازہ ہُوا

خاربست ایک مِرے سینے سے جُڑ کر آیا

سَر تِرے دشتِ بلا خیز کا خمیازہ ہُوا

چکنا چُور اپنے صنم خانے میں پایا خُود کو

کانچ آنکھوں سے جو نِکلا تو یہ شیرازہ ہُوا

اپنے پیکر میں پلٹ جانا نہیں تھا مُمکِن

اپنی مُشکِل کا مُجھے بعد میں اندازہ ہُوا

دیکھ کر اُس کو کِسی اور نِگہ داری میں

دِل مِری سانس میں اٹکا ہُوا آوازہ ہُوا

دیکھتے رہنے میں اِک چھیڑ لگی رہتی ہے

تارِ مِژگاں سے اُلجھنے کو تِرا غازہ ہُوا

سنسناتا ہُوا دِن مِہر سے اُترا تو نوید

میری آنکھوں سے اُترنے پہ مگر تازہ ہُوا

٭٭٭

 

افضال نوید

مَیں نہ جاؤں بھی تو اعلانِ عدَم رہتا ہے

تیرے کُوچے میں مِرا نقشِ قدم رہتا ہے

یُوں بدلتا ہے مری ریت پہ کروٹ پانی

ایک خم جاتا ہے اور دُوسرا خَم رہتا ہے

ذرّے میں ایسے اُترتی ہے نِگاہِ باریک

ذرّہ رہتا ہے نہ ذرّے کا بھرَم رہتا ہے

نشّۂ خاک اُترتا ہی نہیں آنکھوں کا

ٹُوٹتے پتّوں میں خمیازۂ نَم رہتا ہے

ایک مکتُوب کہ منّت کشِ تحریر نہیں

نقشِ پائے رہِ غُربت پہ رقَم رہتا ہے

بارِ سَر کرتا ہُوں اِظہار سے جِس دم خالی

لوحِ عالم کا کوئی دیر بھرَم رہتا ہے

اور کیا رہ گیا سر میں کہ قسَم دُوں اس کی

دھیان تیرا ہی تِرے سَر کی قَسَم رہتا ہے

ایسے اُڑتی ہے مِری راکھ کِسی مرگھٹ پر

شُعلۂ روزِ قیامت بھی بھسَم رہتا ہے

میری مٹّی کو اُڑاتی ہے ہوا دیر تلک

تُم چلے جاتے ہو اور شورِ عدَم رہتا ہے

ریل جاتی ہے مِرے سینے سے ہو کر تُم تک

اِس طرح دُوری میں آرام بہَم رہتا ہے

جاتا ہے حسرتِ تعمیر لِیے ساتھ مگر

ایک اُجڑی ہُوئی دہلیز پہ تھَم رہتا ہے

پھِر کوئی پیاس کِسی دھُوپ کی کرتی ہے رواں

بادِ یخ چلتی ہے ہو جِس جگہ جَم رہتا ہے

شور اُٹھّے نہ کِسی اور طرف سے کوئی

اِس لِیے ربطِ کلیسا و حرَم رہتا ہے

آ کے ہر بار پلٹ جاتا ہُوں خالی ہی نوید

یہ سمجھ کر کہ ابھی ایک جنَم رہتا ہے

٭٭٭

 

حفیظ طاہر (لاہور)

حاصل ضرب

تجھ سے دور رہوں تو تیرے خواب سہانے دیکھوں

چاند کے آگے پیچھے ہالے بنتا جاؤں

وہ جو میری ہر لمحے کی ہم بستر ہے

اس کے ہونٹوں کی گرمی سے تیرا لمس نچوڑوں

کچھ نہ پاؤں

تو جو ملے تو سارے ہالے

سارے خواب سہانے

مجھ سے بچھڑیں

تو بچھڑے تو خوابوں ، ہالوں میں کھو جاؤں

یوں لگتا ہے جیسے دل نے

تیرے پیار کو پالا پوسا

تیرے پیکر کے خاکے میں

اپنی مرضی کے رنگ بھر کے

اپنی جاں کے شیشے میں لگوایا ہے

اپنی سوچوں کے پیکر کو

تیرے پیکر میں ضم کر کے

حاصل ضرب نکالا ہے

تیرے قد کو تیرے قد سے بڑھا دیا ہے

٭٭٭

 

حفیظ طاہر

انکار

ہر ایک پل کا حساب لے لے

مگر وہ میرے حسین لمحے

حساب ان کا کبھی نہ دوں گا

جو میں نے اس نے

جو اس نے میں نے

تھے یوں گزارے کہ تیسرا درمیاں نہیں تھا

کہ ایسے لمحوں میں تو بھی میرا خدا نہیں تھا

جب ہم نے اپنے لہو کو اپنا خدا بنایا

جب ہم نے اپنے بدن کو اپنا گواہ بنایا

وہ میرے اپنے حسین لمحے

حساب ان کا کبھی نہ دوں گا

٭٭٭

 

حفیظ طاہر

لوَ

شربت رنگے چپ نینوں میں

سبز دنوں کے انت سمے کی شامیں ہیں

سانول ناری کی بادامی زلفوں کے ہر بے سدھ بل میں

شبھ پھولوں میں چلنے والی شوخ ہوا کی خوش روحیں ہیں

ا’ن ہونٹوں پہ

دیہاتوں میں دور سے دکھتی بند پھاٹک کے لال دئیے کی لو سی ہے

اب چھدوائے ناک پہ قطرے

لہو کی موجوں نے بھیجے ہیں

سینے کی گولائیوں کے اندر سے آنچ جو آتی ہے

اس میں اک انجانا دکھ ہے

بادامی رنگت کے کرتے کی چستی کے اندر سے

نا ف کی مہتابی کے روشن سے ذرے

آنکھ کی پتلی تک آتے ہیں

ا’س کے میرے دل کا بندھن

جسموں کے تھک جانے والے سفر کے بعد بھی

زندہ ہے

٭٭٭

 

حفیظ طاہر

چاندنی، خوشبو اور لہو

چاندنی کے گداز در پر

شگفتہ پھولوں کی آرزوؤں نے دستکیں دیں

ہوا کے پاؤں میں تازہ پتوں کی پائلوں کی جھنک جھنک ہے

خوشبوؤں نے آئینہ ہو کر ہوا کے پاگل سفر کو دیکھا

کہ جس کے شانوں پہ شبھ ہوائیں

نظر کی تتلی کو راہ دکھائیں

کسی کے ہونٹوں پہ سرسراتے

دھنک کے ایثر سے ذائقے ہیں

مگر میں اپنے لہو کے بے حد لذیذ لمحوں میں گھر گیا ہوں

مہیب صدیوں میں کھو گیا ہوں

٭٭٭

 

کبیر اطہر ( صادق آباد)

پلک سے روح تلک سوگوار بیٹھا  ہوں

میں صبر و شکر کی خلعت اُتار بیٹھا ہوں

اور اب تو خاک سے باہر ہیں کونپلیں میری

جو وقت مجھ پہ کڑا تھا گزار بیٹھا ہوں

وہ طاقِ دل سے ہو یا طاقِ زندگانی سے

میں ہر چراغ پہ پروانہ وار بیٹھا ہوں

نجانے کس لیے میں نے سنبھال رکھا تھا

وہ حوصلہ جو مصیبت میں ہار بیٹھا ہوں

مجھے اندھیروں نے محصور کر لیا ہے کبیرؔ

یہ کس چراغ کو میں پھونک مار بیٹھا ہوں

٭٭٭

 

کبیر اطہر

روز و شب یوں نہ اذیت میں گزارے ہوتے

چین آ جاتا اگر کھیل کے ہارے ہوتے

خود سے فرصت ہی میسر نہیں آئی ورنہ

ہم کسی اور کے ہوتے تو تمہارے ہوتے

تجھ کو بھی غم نے اگر ٹھیک سے برتا ہوتا

تیرے چہرے پہ خد و خال ہمارے ہوتے

کھل گئی ہم پہ محبت کی حقیقت ورنہ

یہ جو اب فائدے لگتے ہیں خسارے ہوتے

ایک بھی موج اگر میری حمایت کرتی

میں نے اُس پار کئی لوگ اتارے ہوتے

لگ گئی اور کہیں عمر کی پونجی ورنہ

زندگی ہم تری دہلیز پہ ہارے ہوتے

خرچ ہو جاتے اسی ایک محبت میں کبیرؔ

دل اگر اور بھی سینے میں ہمارے ہوتے

یہ جو بیکار نظر آتے ہیں ہم لوگ کبیرؔ

کوئی آنکھوں سے لگاتا تو ستارے ہوتے

٭٭٭

 

کبیر اطہر

رات بھی رکتی نہیں دن بھی گزر جاتا ہے

یہ شب و روز کا سیلاب کدھر جاتا ہے

کر کے آمادہ کوئی شخص سفر پر مجھ کو

اپنا رستہ مری دہلیز پہ دھر جاتا ہے

ہاتھ پر ہاتھ دھرے اِس لئے بیٹھا ہوا ہوں

دل اگر ٹھان لے مرنے کی تو مر جاتا ہوں

صبح ہوتے ہی اُچک لیتے ہیں الفاظ مجھے

میرا ہر دن کسی مصرع میں گزر جاتا ہے

چاند بھی ساتھ نبھانے میں ہے سائے کی طرح

یہ بھی ہر شخص کو خود چھوڑنے گھر جاتا ہے

دل میں رکھتا ہوں تو ارمان نمو پاتے ہیں

لب پہ لاتا ہوں میں جذبے، تو اثر جاتا ہے

میں بھٹکنے سے فقط اِس لیے ڈرتا ہوں کبیرؔ

میں جدھر جاتا ہوں ہر شخص اُدھر جاتا ہے

٭٭٭

 

کبیر اطہر

روکنا ممکن نہ تھا زاد سفر دینے کے بعد

آنکھ ویراں ہو گئی خوابوں کو پر دینے کے بعد

میری آنکھیں اس لئے آنسو اگلتی ہی نہیں

سیپیاں ساحل پہ رُلتی ہیں گہر دینے کے بعد

ہو گئے سب رنگ اُس کے بے کشش میرے لئے

بجھ گیا منظر مجھے تابِ نظر دینے کے بعد

اپنے خال و خد سے خاصا مطمئن لگتا ہے وہ

آئنے کو آنکھ سے محروم کر دینے کے بعد

دِن ڈھلے دیوارِ جاں میں کھینچ لیتا ہے کوئی

صورتِ سایہ مجھے اذنِ سفر دینے کے بعد

زندگی نے مجھ سے پھر امید باندھی ہے کبیرؔ

کار دل کا حوصلہ بارِ دگر دینے کے بعد

٭٭٭

 

ارشد خالد کی نظمیں

دو نظمیں

 (۱)

صحرا کی پیاس سی

مرے دل میں اتار کر

 چلتا ہے ساتھ ساتھ وہ

 دریا لئے ہوئے

٭٭

 

 (۲)

اکتا کے پانیوں کی مسافت سے

 ہم نے جب

صحرا نورد ہونے کا سوچا ہی تھا ابھی

دریا اترنے لگ گئے

صحرا کی آنکھ سے

٭٭٭

 

ہم جہاں اترے۔۔۔

ارشد خالد

ہم جہاں اترے

وہاں پر دور تک پھیلے اداسی کے مناظر ہی

ہمارے منتظر تھے

درختوں کی مغموم شاخوں سے لپٹی

پرندوں کی ساری تھکن بھی وہاں سو رہی تھی

شام کی منتظر آنکھیں جیسے

کڑی دھوپ سہتے ہوئے

پتھر اسی گئی تھیں

بے بسی اپنی عریانی اوڑھے ہوئے رو رہی تھی

کوئی ملبوس زادہ کسی کوکھ میں

 خواہشیں بو چکا تھا

 اداسی کے ٹھہرے ہوئے یہ مناظر،

یہ شاخوں سے لپٹی  ہوئی سی تھکن،

اور موسم کی شدت سے

بے نور آنکھوں سے نکلے ہوئے

 خشک آنسو۔۔۔ یہ سب

اب تو ہم میں اُٹھانے کی ہمت نہیں تھی

سو ہم کل جہاں اترے تھے

 وہاں سے تو کل ہی

 پلٹ آئے تھے

٭٭٭

 

قاتل لمحے

ارشد خالد

 لمحوں کی تم بات نہ کرنا

لمحے قاتل بن جاتے ہیں

دھوپ اور چھاؤں کے سارے منظر

دکھ اور سکھ کی ساری گھڑیاں

 لمحوں کی محتاج رہی ہیں

اونچے نیچے رستوں پر بھی

چلتے چلتے ساتھ ہمارے

پل میں ساتھی کھو جاتے ہیں

جھاگ اُڑاتی لہریں  اور پھر

صحرا، اڑتے ریت بگولے

منظر دھندلا کر جاتے ہیں

لمحوں کی تم بات نہ کرنا

لمحے قاتل بن جاتے ہیں            ٭٭٭

 

ایک نظم

(اسلم کولسری کے نام)

 ارشد خالد

روشنی تصور کی

سردڈھلتی راتوں میں

دل کے شیلف میں رکھی

پیار کی کتابوں پر

کچھ کتابی چہروں پر

اس طرح اترتی ہے

لفظ جاگ اُٹھتے ہیں

پہلے گنگناتے، پھر

 شورسا مچاتے ہیں

خوب ہنستے گاتے ہیں

اور ہنسنے گانے میں اشک بہہ نکلتے ہیں

 شعر ہونے لگتے ہیں        ٭٭

 

بوجھل آنکھیں

ارشد خالدؔ

ٹی وی چینل پر چلتے

یہ دنیا بھر کے نظارے

کسی بھی ہلکی سی آہٹ سے

ان آنکھوں میں کھو جاتے ہیں

اور یہ میری بوجھل آنکھیں

 اور بھی بوجھل ہو جاتی ہیں

 رنگوں کے سارے لہریے

روشنیوں کی ساری لہریں

آنکھوں میں یوں کھو جاتی ہیں

ڈوبتے دل اور خالی ذہن میں

 سوچیں گم سُم ہو جاتی ہیں

 بوجھل آنکھیں سو جاتی ہیں

٭٭٭

 

دیوانگی کا سفر

ارشد خالدؔ

دیوانگی کی حد سے جب آگے نکل گئے

جنگل، پہاڑ، دشت و سمندرتھے ہم رکاب

سورج بھی، چاند تارے بھی

سب ساتھ ساتھ تھے

دیکھا پلٹ کے جب تو اندھیرا بھی ساتھ تھا

٭٭٭

 

فحاشی؟

ارشد خالدؔ

’’خزاں آ رہی ہے‘‘

یہ سنتے ہی بد مست ہو کر

ہوا چل پڑی

اورسرسبز پودے، ہرے پیڑ

سب دیکھتے دیکھتے ننگے ہوتے گئے

٭٭٭

 

افضل چوہان کی نذر

ارشد خالدؔ

تیرے گھر کے رستے سے

دور کیسے ہو جاؤں

تیرا گھر تو پڑتا ہے

میرے گھر کے رستے میں

٭٭٭

 

تمنا

ارشد خالد

تمنا خواب کی وادی میں

 جب بیدار ہو کر

نیم وا آنکھوں سے دیکھے گی

جواں انگڑائیوں کے سارے موسم بھی

بدن آنگن میں اتریں گے

٭٭٭

 

خواب اور کتابیں

ارشد خالد

رکھ دیئے تھے

رات میں نے

 خواب سارے شلف میں

کروٹیں لیتا رہا بسترپہ

میں بھی رات بھر

رات بھر سوئی نہیں

 شلف میں رکھی

کتابیں بھی مری

٭٭٭

 

خواب تھے کچھ۔۔۔

ارشد خالدؔ

خواب تھے کچھ

جن کو کل تک

 آنکھوں میں اپنی

ہم رکھ نہ پائے تھے

آنکھیں بن کے

اتر آئے ہیں

وہ سارے خواب

 شہر کی گلیوں میں آج!

٭٭٭

 

لمحۂ آزار

ارشد خالدؔ

جانے کس لمحۂ آزار کی

 آمد ہے یہاں ؟

رات ہی رات میں

کتنے ہی پرندوں نے

مِرے شہر سے

 ہجرت کر لی

پھر بھی گھر بھر میں اک امید کی لو روشن ہے

اور آنگن کی ہر اک شاخ سے

لپٹی ہوئی بے نام اداسی نے

یہ پوچھا ہم سے

 موسمِ گل نے بھلا واقعی اب

 آنے کی حامی بھر لی!

٭٭٭

 

میری آنکھیں

ارشد خالدؔ

میری آنکھیں

فقط آنکھیں نہیں ہیں

یہ دروازے ہیں

 تہہ خانۂ دل کے

جہاں پر میں نے اپنی عمر بھر کے

محبت کے فسانے، اور

یادوں کے خزانے

 زندگی بھر کے زمانے، قید رکھے ہیں۔

٭٭٭

 

شہر تمنا

ارشد خالدؔ

شہرِ تمنا

اب تو ساری

 راہیں بھی مسدود ہوئی ہیں

دکھ کی ساری فصلیں

اب تو

اُگ آئی ہیں چہروں پر

٭٭٭

 

شاخِ ادراک پر

ارشد خالدؔ

شاخِ ادراک پر پھول کھلنے لگے

آبِ احساس میں لفظ دھُلنے لگے

 سوچ وادی میں الفاظ و جذبات

اک ساتھ کچھ ایسے چلنے لگے

سوچ وادی بھی الفاظ و جذبات کے ساتھ ہی

جیسے چلنے لگی

اک نئی نظم میں

خود بخود جیسے ڈھلنے لگی

٭٭٭

 

تبدیلی

ارشد خالد

کیوں پریشان ہوتے ہو بابا؟

وقت اب ایسے ہی گزرنا ہے

 اب وفا کے صلے نہیں ملتے!

٭٭٭

 

تمہیں بھلا دوں۔۔۔۔

ارشد خالدؔ

تمہیں بھلا دوں

یہ میں نے سوچا

تمہاری یادیں ، تمہاری باتیں

 تمہارے ہمراہ گذرے لمحے

ہر ایک کو جب بھلا چکا تو

 یہ میں نے دیکھا

تمہیں بھلانے کے ساتھ ہی جیسے

خود کو بھی میں بھلا چکا تھا

٭٭٭

 

الجھن

ارشد خالدؔ

مجھے معجزوں پہ یقیں نہیں

میں حقیقتوں پہ بھی معترض

جو میں دیکھتا ہوں ، وہ ہے نہیں

جو نظر ہی آتا نہیں کہیں

ہوں اسی کی کھوج میں آج تک

٭٭٭

 

واہمہ

ارشد خالدؔ

اک عکسِ بے مثال سا بن کر ملا تھا وہ

چاہت بھری نگاہ سے تکتے ہوئے مجھے

وہ دیر تک سناتا رہا اپنے دل کا حال

اس حال سے چھلکتے تھے منظر بہار کے

وارفتگی سناتی تھی احوال پیار کے،

میرے گلے میں ڈال کے بانہوں کے ہار کو

کہنے لگا کہ پھول سے خوشبو جدا نہیں !

میں آج تک ہوں اُس کے کہے پر اَڑا ہوا

٭٭٭

 

چلو ہم ساتھ چلتے ہیں

ارشد خالدؔ

مجھے جینا نہیں آتا

تمہیں مرنے کی جلدی ہے

چلو ہم ساتھ چلتے ہیں

٭٭٭

تشکر: ارشد خالد جنہوں نے فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید