FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

ادبی کتابی سلسلہ

 

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد

(۱۹)

 

 

مرتّب

ارشد خالد

امین خیال

 

 

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

http: //akkas-international.blogspot.dekiri/

اور

http: //issuu.com/akkas

 

 

 

ناشر: مکتبہ عکاس

AKKAS PUBLICATIONS

House No 1164 Street No 2 Block C

National Police Foundation ,Sector O-9

Lohi Bhair, Islamabad, Pakistan

Tel.0300-5114739 0333-5515412

………………………………………………………….

 

E- Mail:

akkasurdu2@gmail.com

 

 

 

 

 اپنی بات

 

عکاس انٹرنیشنل کا ۱۹واں شمارہ پیش خدمت ہے۔ اس ’’کاروبارِ زیاں ‘‘کا یہ مرحلہ سر کرتے ہوئے اب

عکاس کی کتاب اشاعت کے ساتھ ایک انٹرنیٹ میگزین ’’ادبی منظر‘‘ بھی جاری کر چکا ہوں۔ اس کے دو شمارے آن لائن ہو چکے ہیں۔ تیسرے شمارے کا کام جاری ہے۔ انٹرنیٹ سے منسلک شعراء و ادبائے کرام اس لنک پر اس میگزین کو پڑھ سکتے ہیں، حاصل کر سکتے ہیں۔

http: //issuu.com/adabi-manzar

’’عکاس‘‘اور ’’ادبی منظر‘‘میں شائع کیے جانے والی بعض نگارشات کا باہم اشاعت مکرر والا تبادلہ ہوتا رہے گا تاکہ بعض تحریریں اپنی خاص اہمیت کے باعث زیادہ سے زیادہ احباب اور فورمز تک پہنچ سکیں۔

عبداللہ جاوید اور شہناز خانم عابدی کینیڈا کے سینئر اور اہم لکھنے والے ہیں۔ عبداللہ جاوید کی ادبی حیثیت مسلّم ہے۔ لیکن تعلقاتِ عامہ کے اس دور میں اتنے اہم لکھنے والے کو بڑی حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ عکاس ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صرف عبداللہ جاوید ہی کا گوشہ نہیں بلکہ ان کی افسانہ نگار اہلیہ شہناز خانم عابدی کا گوشہ بھی ایک ساتھ پیش کر رہا ہے۔ میاں بیوی کے گوشے ایک ساتھ شائع کرنے سے بالواسطہ طور پر اس امر کی تحسین بھی کی گئی ہے کہ ادب میں میاں، بیوی کا ایک ساتھ تخلیق کار ہونا بجائے خود ادب کے لیے نیک شگون ہے۔

نسیم انجم ایک طویل عرصہ سے لکھ رہی ہیں۔ ادب و صحافت دونوں ان کے میدان ہیں۔ دونوں میں ان کی خدمات  قابلِ ذکر ہیں، لیکن کالم نگار ہوتے ہوئے بھی انہوں نے بڑی حد تک ’’ذاتی شہرت‘‘ اور ’’کمپنی کی مشہوری‘ ‘سے گریز کیا ہے۔ ان کے اسی رویے کی وجہ سے عکاس میں ان کا ایک گوشہ پیش کیا جا رہا ہے۔ امید ہے اس گوشہ کے نتیجہ میں قارئین ان کی تحریروں کا براہ راست مطالعہ کر کے خود ان کے بارے میں بہتر رائے قائم کر سکیں گے۔

ستیہ پال آنند حال ہی میں پاکستان کا دورہ فرما کر گئے ہیں۔ یہاں ان کا اچھا سواگت کیا گیا۔ یہ دورہ ان کی تعلقاتِ عامہ کے شعبہ میں مہارت کا مظہر تھا اور پسِ پشت ان کی سفارش کرنے والوں کی قوت کا اظہار بھی تھا،  اس دورہ میں وہ کراچی تک تو خود اپنی ایک ’’منہ بولی بیٹی‘‘ کے مضمون کے ذریعے اس تاثر کی نفی کراتے رہے کہ وہ غزل دشمن ہیں۔ لیکن لاہور تک پہنچتے پہنچتے نہ صرف خود اپنی ’’منہ بولی بیٹی‘‘سے پڑھوائے گئے مضمون کی عملاً تردید کر دی بلکہ اردو غزل کے خلاف حد سے زیادہ ہرزہ سرائی پر اتر آئے۔ چنانچہ پھر اس ادبی موضوع کے حوالے سے بھی ان کا اچھاسوا۔ گت کیا گیا۔ ’’ستیہ پال آنند کا سواگت‘‘ میں اس کی ایک جھلک پیش کی جا رہی ہے۔

نظم و نثر کے باقی مندرجات معمول کے مطابق ہیں۔ امید ہے عکاس کے قارئین کو یہ شمارہ حسبِ معمول پسند آئے گا۔ آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔

ارشد خالد

 

 

 

 

 سورۃ الحمد کا تفسیری ترجمہ۔۔۔معصومہ شیرازی

 

ابتدا اللہ کے برتر صفاتی نام سے

جس کی رحمت خاص ہے اور مہربانی عام ہے …

قابل صد حمد ہے وہ ذات، جس کی مملکت !

کائناتی وسعتوں کی بیکرانی پر محیط !

وہ خدائے لم یزل جو مہرباں رحمان ہے …

مالک مختار ہے اس یوم کا…

جس کے سبب !

کارزار خیر و شر اعمال کا میزان ہے !

اوڑھ کر پیشانیوں پر تیرے سجدوں کی ردا

ہو گئے ہم غیر کی کاسہ گری سے بے نیاز

روح تک اتر۱ ہوا ہے تیری بخشش کا مزاج…

اے خدا ! اِن پائے استقلال کی خیرات دے

راستہ انعام کی صورت جنھیں سونپا گیا

راستہ ! جس کی دمک خون شہیدان وفا

جس کا غازہ انبیا و اولیا و صالحین

المدد اے مالک تقدیر ہستی المدد

ہم کو ان اندھی رتوں کے ناخداؤں سے بچا

جن کو تو رحمان بھی دیکھے غضب کی آنکھ سے !

٭٭٭

 

 

 

 

نعت رسول مقبولﷺ  ۔۔۔ سید انور جاوید ہاشمی (کراچی)

 

اظہارِ عقیدت میں بہت وقت گزارا

حسّانؓ سے آگے نہ بڑھا شعر ہمارا

 

کونین کی ہر چند کہ دولت ملی انؐ کو

کیا شان تھی فاقوں پہ ہی ہوتا تھا گزارا

 

قدرت کی عطا معجزۂ شقّ قمر ہے

دو نیم ہوا چاند نے پایا جو اشارا

 

فاروقؓ کو ایمان کی دولت ملی انﷺ سے

صدیقؓ نے لا کر رکھّا گھر سارے کا سارا

 

عثمانؓ غنی اور علیؓ شاہ ولایت

یہ ہستیاں تا حشر نہ آئیں گی دو بارا

٭٭٭

 

 

 

نعت ۔۔۔ حکیم شیر محمد خیالؔ (کوٹ سمابہ)

 

طائرِ شوق کو پر دے آقاؐ باغ طیبہ کا ثمر دے آقاؐ

غنچۂ دل ہے گوش بر آواز موسمِ گل کی خبر دے آقاؐ

 

مطلعِ نعتِ محمدؐ لکھوں مہلتِ عمرِ خضر دے آقاؐ

کالی کملیؐ کا دیباچہ لکھوں مجھ کو جبرئیل کے پر دے آقاؐ

 

قاصد صاحب معراج بنوں میرے پندار کو پر دے آقاؐ

روزِ اوّل سے مہر و ماہ کی طرح خانہ بردوش ہوں، گھر دے آقاؐ

 

گنجِ قاروں نہیں مجھے مطلوب تیشۂ علم و ہنر دے آقاؐ

رات آئے نہ ترے رستے میں شام سے پہلے سحر دے آقاؐ

 

سر کے بل چل کے پہنچ جاؤں شہرِ خوباں کا سفر دے آقاؐ

تو جریدۂ دو عالم میں کبھی اپنے ہونے کی خبر دے آقاؐ

٭٭٭

 

 

 

 

ادب، میڈیا اور انٹرنیٹ ۔۔۔ حیدر قریشی (جرمنی)

 

 

ادب کا میڈیا سے شروع ہی سے ایک تعلق قائم رہا ہے اور اس تعلق کے ساتھ میڈیا سے ایک فاصلہ بھی رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں کتاب کی صورت میں ادب کی اشاعت سے لے کر اخبار اور رسالوں میں ادب کی اشاعت تک ایک تعلق چھاپہ خانوں کی ابتدا سے چلا آ رہا ہے۔ اور اخبار کی اہمیت و افادیت کے باوجود ادب نے صحافت سے اپنا الگ تشخص بھی شروع سے قائم رکھا ہے۔ اہلِ صحافت نے ادب کی جداگانہ شناخت کو کبھی اپنی عزت کا مسئلہ نہیں بنایا۔ یوں کئی شاعر اور ادیب کئی اخبارات و رسائل کے مدیران رہ چکے ہیں، اور کئی صرف مکمل صحافی حضرات بھی اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز رہ چکے ہیں۔ اس وقت بھی پرنٹ میڈیا میں یہ ملی جلی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔ شاعر اور ادیب نہ ہوتے ہوئے بھی عام طور پر رسائل و جرائد کے مدیران میں زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب کی سوجھ بوجھ بھی معقول حد تک ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخبارات اور غیر ادبی رسائل میں بھی ادب کو مناسب جگہ ملتی رہتی ہے۔ ہر چند ادب ان کی پہلی یا دوسری ترجیح نہیں ہوتی پھر بھی ادب سے یکسر صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ ادب اور صحافت کی دنیا میں ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ اور کاری گری کی روایات بھی شروع سے ملتی ہیں۔ اس سلسلہ میں ادب میں شبلی نعمانی سے لے کر نیاز فتح پوری تک قمر زمانی بیگم اور ان سے ملتے جلتے فرضی قصوں کے اسکینڈلز بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور اخبار ’’فتنہ‘‘ اور ’’جواب فتنہ‘‘جیسے تماشے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ایک منفی رویہ ہونے کے باوجود ان سب واقعات میں ادب، آداب کی ایک تہذیب بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے۔ پھر ادب اور صحافت میں ایسے واقعات آٹے میں نمک کی مقدار سے بھی کم رہے ہیں۔ ان کے بر عکس ہجو گوئی کی ایک روایت طویل عرصہ سے اردو ادب میں موجود ہے اور صحافت میں بھی شدید اختلاف رائے کی صورت میں اس کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود ادب اور پرنٹ میڈیا کے درمیان ایک فاصلہ اور ایک ہم آہنگی ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور اس خاص نوعیت کے تعلق میں ایک با  وقار طریقِ کار صاف دکھائی دیتا ہے۔

پرنٹ میڈیا کے بعد جب ریڈیو کے ذریعے ہوا کے دوش پر صحافت کے فروغ کی صورت نکلی تو اس میں ادب کا بھی تھوڑا بہت حصہ ہمیشہ شامل رہا ہے۔ ریڈیو سے سرکاری ٹی وی کے دور تک بھی اس روایت کو تھوڑی بہت ہیرا پھیری اور جانبداری کے ساتھ سہی لیکن پھر بھی قائم رکھا گیا۔ سرکاری ٹی وی نے اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر یا پھر متعلقہ ٹی وی حکام کے پسندیدہ ادیبوں کو نمایاں کیا۔ اس دور میں ’’ میڈیاکر‘‘ رائٹرز کی باقاعدہ کھیپ تیار کی گئی۔ معیاری تخلیقی ادب کو عام طور پر نظر انداز کیا گیا۔ میڈیاکر رائٹر بنے بغیر ادب کی خاموشی کے ساتھ خدمت کرنے والوں کو نظر انداز کیا گیا۔ تاہم یہاں ادب کے نام پر جو کچھ پیش کیا گیا اس کی میڈیائی ضرورت کو اہمیت اور اولیت دینے کے باوجود اس میں ادب کا ایک کم از کم معیار بہر حال ملحوظ رکھا گیا۔ اس دورانیہ میں بعض ادیبوں کے مختلف نوعیت کے منفی رخ اور منفی کام بھی سامنے آئے لیکن ان کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر رہی۔

یہاں تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ادب کے حوالے سے جو کچھ پیش کیا جاتا رہا، اس کے دوش بدوش بلکہ اس سب سے ایک قدم بڑھ کر ادبی رسائل بھی اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ بے شک اختلاف رائے رکھنے والے رسائل کے درمیان شدید اختلاف بھی نمایاں ہوا، ادبی مسابقت کی دوڑ میں، ان جرائد میں قارئین کی آراء کے ذریعے مدیر ہی کے موقف کو ابھارنے کی دیدہ دانستہ کاوشیں بھی ہوئیں۔ ادبی فیصلوں میں ڈنڈی مارنے کا رجحان بڑھا، اس کے باوجود ادبی رسائل کا ادب کے فروغ کا مجموعی کردار اتنا موثر تھا کہ ادبی دنیا کی چھوٹی موٹی کوتاہیاں قابلِ معافی بن جاتی تھیں۔

نئے ہزاریے کی پہلی صدی کے آغاز کے ساتھ سیٹلائٹ کے ذریعے ٹی وی چینلز کی بہار اور یلغار آئی تو ساتھ ہی انٹرنیٹ کے ذریعے اشاعت کے وسیع تر مواقع میسر آ گئے۔ سیٹلائٹ نے پرائیویٹ چینلز کی بھرمار کر دی۔ چینل مالکان کے درمیان ریٹنگ کی دوڑ شروع ہو گئی۔ سب سے پہلے خبروں کو پیش کرنے کی ہوڑ میں مصدقہ اور غیر مصدقہ کا فرق ہی نہ رہنے دیا گیا۔ جو آگے نکل جاتا ہے خبر کو سب سے پہلے پیش کرنے پر بار بار فخر کا اظہار کرتا ہے اور جو پیچھے رہ جاتا ہے وہ اپنی ناکامی کو اپنی صحافیانہ اخلاقیات کا نمونہ بنا کر بیان کرنے لگتا ہے۔ جس قوم کو کسی اہلِ نظر کی رہنمائی کی ضرورت تھی اسے خبروں اور ان پر مختلف النوع تبصروں کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے۔

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

زمانے کی رفتار میں تیزی آئی تو میڈیا نے اس رفتار کو تیز تر کر دیا۔ بے شک اتنی با خبری مہیا کر دی گئی ہے کہ انسان بے خبری کو ترس کر رہ گیا ہے۔ اس کے بہت سے سماجی فائدے بھی ہوئے ہیں لیکن اس کے فائدوں کے مقابلہ میں ہونے والے دور رس نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔ اس سے صحافت میں بلیک میلنگ کا ریٹ بھی آسمان تک جا پہنچا ہے۔ میڈیا جس کرپشن اور معاشرتی لوٹ کھسوٹ کا سب سے زیادہ شور مچاتا ہے خود اس کے اپنے کئی مالکان اور کئی میڈیا اسٹارز نہ صرف ہر طرح کی اخلاقی و غیر اخلاقی کرپشن میں ملوث ہیں بلکہ ٹیکس چوری کلچر کو فروغ دے کر خود بھی اسی لوٹ کھسوٹ کا حصہ بنے ہوئے ہیں، جس کے خلاف بظاہر دن رات احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف میڈیا کی آزادی کے علمبردار بننے کا دعویٰ کرتے ہیں دوسری طرف ’’آزادی‘ ‘کی حد اتنی ہے کہ مذہبی دہشت گردوں کے سامنے سراپا احتیاط بنے ہوتے ہیں۔ سلمان تاثیر کو دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا اور میڈیا کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ بول سکتا۔ دہشت گردوں کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے ہر کوئی احتیاط کرتا ہے لیکن ان کی وکالت کرنے والے کسی اگر مگر کے بغیر انہیں ’’ہمارے ‘‘قرار دے کر انہیں بے قصور ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سماجی سطح پر میڈیائی رویے کی ہلکی سی جھلک ہے۔ ٹی وی کے تجزیاتی پروگرام تجزیہ کم اور ذاتی خواہشات کے آئنہ دار زیادہ ہوتے ہیں۔ نقالی کا رجحان میڈیا کے غیر تخلیقی ارکان کی ذہنی صلاحیت کوتو بخوبی اجاگر کرتا ہے لیکن اس رجحان کے باعث بعض تخلیقی اذہان بھی نقلِ محض بن کر رہ گئے ہیں۔ کسی ایک چینل پر کوئی حالاتِ حاضرہ کا پروگرام اپنے کسی خاص انداز کی وجہ سے کامیاب لگنے لگتا ہے تو حقائق تک رسائی حاصل کیے بغیردوسرے چینلز بھی ملتے جلتے انداز کے پروگرام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مارننگ شوز، کرائمزرپورٹس پر مبنی پروگرامز، معاشرتی مسائل، جادو ٹونے اور جنات کے موضوعات سے لے کر کامیڈی شوز تک مسلسل نقالی کا رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔ کامیڈی شوز میں پنجابی اسٹیج شوز کا عامیانہ پن پوری طرح سرایت کر گیا ہے۔ پنجابی اسٹیج شو میں تھوڑی سی اصلاحِ احوال کی ضرورت تھی۔ مثلاً رشتوں کی تذلیل کرنے کی بجائے ان کے احترام کو ملحوظ رکھنا، ہر کسی کا تمسخر اڑانے کی بجائے، اور جسمانی عیوب کی تضحیک کرنے کی بجائے معاشرے کے حقیقی معائب پر طنز کرنا اور مزاح کی صورت میں بھی دوسروں کو نشانہ بنانے کی بجائے خود کو زد پر رکھنا جیسی تبدیلیاں کر لی جائیں تو پنجابی اسٹیج شو آج بھی عالمی معیار کا تھیٹر بن سکتا ہے۔ ٹی وی چینلز نے پنجابی تھیٹر کے فنکاروں کی پوری پوری فوج اپنے شوز میں بھرتی کر لی لیکن اصلاحِ احوال کی طرف کسی اینکر نے بھی توجہ نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج مختلف چینلز کے مزاحیہ شوز عمومی طور پر ویسا منظر پیش کر رہے ہیں جیسا ہندوستان کی بعض مسلمان ریاستوں کے زوال کے وقت ان معاشروں میں وہاں کی تہذیب کے نام پر انتہا درجہ کی پھکڑ بازی رائج ہو چکی تھی۔ خدا نہ کرے کہ یہ سارے ٹی وی شوز پاکستان کے کسی تہذیبی یا جغرافیائی زوال کی علامت بن جائیں۔ اور بعد میں ان ٹی وی شوز کی تہذیب کی بنیاد پر اس قومی زوال کی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ بہتر ہو گا کہ ایسے پروگراموں کے اینکرز نقل در نقل کی لہر میں ہر کسی کی تذلیل کرنے کی بجائے شائستہ مزاح کے لیے محنت کر سکیں۔ کیا دوسروں کی تذلیل و تضحیک کیے بغیرشائستہ مزاح پیدا نہیں کیا جا سکتا؟۔ بہتر ہو گا کہ اپنے تمام تر علم و فضل کے باوجود کامیڈی شوز کے اینکرز حضرات پہلے طنزو مزاح سے متعلق بنیادی لٹریچر کا مطالعہ کر لیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اسی بہانے اپنی بعض شخصی کمزوریوں کا ادراک ہو جائے اور وہ ان پر قابو پا کر اپنے شوز کو بلیک میلنگ اسٹائل کی بجائے سچ مچ کے مزاحیہ پروگرام بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔

سرکاری ٹی وی نے اسٹیبلشمنٹ کی پسند اور اپنے حکام کی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن میڈیاکر دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کو قوم کا ترجمان بنایا تھا، اس بوئی ہوئی فصل کو کاٹنے کا وقت آیا تو آزاد میڈیا نے اس نوعیت کے میڈیاکر دانشوروں کے بھی نمبر دوقسم کے دانشوروں کی کھیپ تیار کر لی۔ اور اب ایسے دانشوروں کی اتنی کھیپ تیار ہو چکی ہیں کہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ پرائیویٹ چینلز پر تلفظ کی فاش نوعیت کی غلطیاں اپنی جگہ، اشعار کو انتہائی برے انداز سے، مسخ کر کے اور مکمل بے وزن کر کے پڑھتے ہوئے بھی یہ نئے میڈیاکر دانشور اتنے پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ بندہ یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ اگر یہ ادب ہے تو پھر واقعی ادب کی موت ہو چکی۔ اتنے چینلز کی بھرمار کے باوجود ایک بھی چینل ایسا نہیں جہاں زیادہ معیاری نہ سہی کم از کم پی ٹی وی کے پرانے معیار کے ادبی پروگرام ہی پیش کیے جا سکیں۔

انٹرنیٹ کی دنیا اتنی وسیع تر اور گلوبل ولیج کی بھرپور ترجمان ہے کہ اس کے مثبت فوائد کو جتنا اپنایا جائے اس میں خیر ہی خیر ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ ہماری اردو دنیا نے اس کے بہت سارے مثبت فوائد سے اچھا استفادہ کیا ہے۔ اردو کی متعدد لائبریریوں کا قیام، ان لائبریریوں میں دینیات سے لے کر ادب اور سائنس تک مختلف موضوعات کی کتب کی آسان فراہمی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ہر چنداس میدان میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے لیکن جتنا کچھ دستیاب ہے وہ بھی اپنی جگہ نعمتِ خداوندی ہے۔ نعمتِ خداوندی کے الفاظ میں نے یونہی نہیں لکھ دئیے۔ والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ ان کے بزرگوں کے زمانے میں بخاری شریف کی زیارت ہو جانا ہی بہت بڑی سعادت اور بہت بڑا کارِ ثواب سمجھا جاتا تھا۔ کہاں سو، سوا سوسال پہلے کا وہ زمانہ اور کہاں آج کی دنیا کہ بخاری شریف سمیت حدیث کی ساری کتب آن لائن دستیاب ہیں اور ان کے اردو ترجمے بھی موجود ہیں۔ قرآن شریف کے مختلف تراجم کی دستیابی کے ساتھ قرات سکھانے کا خودکار نظام تک مہیا کر دیا گیا ہے۔ یہی صورتِ حال دوسرے مذاہب کی کتبِ مقدسہ کے معاملہ میں ہے۔ دینیات سے ہٹ کر دوسرے موضوعات کے حوالے سے کسی نوعیت کی تعلیمی ضرورت یا تحقیقی کام کے لیے مطلوب ہر قسم کا مواد عموماً انٹرنیٹ پر مل جاتا ہے۔ صحت مند تفریح کا سامان بھی موجود ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں معلومات کی اتنے وسیع پیمانے پر فراہمی اتنی آسان اور اتنی ارزاں کبھی نہیں تھی۔ انٹرنیٹ پر کوئی بھی سنجیدہ اور با معنی کام کرنے والوں کے لیے اپنے بلاگس بنانے سے لے کر اپنی ویب سائٹس بنانے تک کی سہولیات موجود ہیں۔ اردو میں لکھنے کی سہولت بھی عام کر دی گئی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز جو ہر جگہ نہیں دیکھے جا سکتے انٹرنیٹ کے ذریعے ان کی دستیابی بھی آسان ہو چکی ہے۔ موبائل فون پر ساری انٹرنیٹ سروسزکا مہیا کر دیا جانا بجائے خود ایک حیران کن کام ہے جو اَب معمولاتِ زندگی میں شمار ہوتا ہے۔

اس قسم کی مزید ہزار ہا خوبیاں ہیں جو انٹرنیٹ کی برکت سے ہر خاص و عام کے لیے دستیاب ہیں۔ لیکن ان سب کے دوش بدوش ایک ایسی خرابی بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے جو کم از کم ہمارے معاشرے اور ہمارے ماحول کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔ سوشل میڈیا کے نام پر فیس بک، ٹویٹر اور  یو ٹیوب سے لے کر مختلف ٹی وی شوز کو پیش کرنے والے انٹرنیٹ ٹی وی نیٹ سروسز تک میں آزادیِ اظہار کے نام پر نجی تاثرات دینے کیجو تماشے لگے ہوئے ہیں، وہ گھٹیا پروپیگنڈہ کے باعث محض دل کی بھڑاس نکالنے کے ٹھکانے بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے ٹھکانے جہاں بعض اوقات بازاری زبان اور گالی گلوچ کی سطح سے بھی زیادہ گھٹیا زبان کو استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔ مذہبی، فرقہ وارانہ، سیاسی، ادبی اور دیگر مختلف سماجی گروہوں کی اختلافی سرگرمیاں اظہارِ رائے کی تمیز اور تہذیب کے ساتھ چلتیں تو معاشرے کے لیے خیر کا موجب بن سکتی تھیں۔ لیکن جہاں مذہب اور فرقوں کے نام پر غلیظ ترین زبان استعمال کی جاتی ہو اور انتہائی ذلیل ترین حرکات کا مظاہرہ کیا جاتا ہو، وہاں زندگی کے باقی شعبوں میں کسی خیر کی صورت دیکھنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اظہارِ رائے کی یہ مادر پدر آزادی سوشل میڈیا کے کسی بھی فورم پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس آزادی کا ایک سخت مگر ایک لحاظ سے دلچسپ اثر اخبار اور ٹی وی پر دیکھنے کو ملا۔ میں نے دیکھا کہ دوسروں پر بہت زیادہ با اصول بنتے ہوئے بے اصولی تنقید کرنے والے ٹی وی اینکرز سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں دئیے جانے والے گالیوں والے ردِ عمل پر مایوس تھے اور بعض ایسے ردِ عمل سے اس حد تک دل برداشتہ تھے کہ یہ کام چھوڑ کر کسی دیہات میں بس جانے کا ذکر بھی کر رہے تھے۔ ادب میں پرانے زمانے میں ایسے قبیلے موجود رہے ہیں جو قلمی غنڈہ گردی کرتے ہوئے خود سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف گم نام مراسلہ بازی کیا کرتے تھے اور اس مراسلہ بازی میں انتہائی لچر اور فحش زبان استعمال کی جاتی تھی۔ اسی طرح کے ایک ادبی قبیلے کے ایک کالم نگار کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے کالم میں اخلاقیات کی دہائی دے رہے تھے۔ مجھے اس قبیلے کی کئی پرانی سرگرمیاں یاد آئیں اور مجھے ایک پل کے لیے یہ سب اچھا لگا کہ مکافاتِ عمل کی ایک صورت دیکھنے کو ملی۔ لیکن یہ سب تو شاید میرے لیے کسی حد تک ذاتی نوعیت کی خوشی ہو سکتی تھی۔ جس سے کچھ دیر کے بعد میں خود بھی شرمندہ ہوا۔ اگر ادبی تہذیب کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ سب شرمناک تھا اور میں بہر حال سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کے باعث گندی زبان کے استعمال کی مذمت کروں گا۔

سوشل میڈیا پر جو چیز بہت زیادہ مقبول ظاہر کی جاتی ہے، بعض استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر عموماً یہ مقبولیت مصنوعی اور خود ساختہ ہوتی ہے۔ مختلف گروہوں نے اپنی انٹرنیٹ ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں جو ایک سے زیادہ اکاؤنٹس بنا کر ’’کمپنی کی مشہوری‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ اس مصنوعی گیم کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے صرف ٹاپ کی دو مثالیں پیش کروں گا۔ پاکستان کی دو شخصیات سوشل میڈیا کی سب سے مقبول شخصیات تھیں۔ پہلے نمبر پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور دوسرے نمبر پرسابق کرکٹر اور آج کے ایک سیاسی لیڈر عمران خان۔ سوشل میڈیا پر اپنی سب سے زیادہ مقبولیت کے دھوکے میں جنرل پرویز مشرف بے تاب ہو کر لندن سے پاکستان پہنچ گئے۔ اور پھر جلد ہی قانونی موشگافیوں کی زد میں آ کر قیدِ تنہائی میں ڈال دئیے گئے۔ عمران خان اپنی انٹرنیٹ مقبولیت کے بل پر ایک بال سے دو مضبوط وکٹوں کو گرانے نکل کھڑے ہوئے اور بڑی مشکل سے اور دوسروں کی مدد لے کر صرف ایک صوبے میں حکومت بنا پائے۔ سوشل میڈیا میں سیاسی اور سماجی سطح پر مقبولیت کا بھرم کھولنے کے لیے اور اصل حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے یہ دو مثالیں کافی ہیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے جرائم کی نت نئی ترکیبوں کے سلسلے بھی سامنے آنے لگ گئے ہیں۔ سماجی سطح پر کتنے ہی گھر ان روابط کے باعث نہ صرف ٹوٹے ہیں بلکہ تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ جنسی بے راہروی اور بلیک میلنگ سے اغوا برائے تاوان تک کتنے ہی جرائم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ادبی لحاظ سے بھی سوشل میڈیا پر کوئی خوش کن صورتِ حال دکھائی نہیں دیتی۔ ایک طرف تو بے وزن شاعروں کی بھرمار ہے اور انہیں داد دینے کا وسیع سلسلہ بھی مربوط طور پر دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف جینوئن ادیبوں کی اپنی اپنی ٹولیاں اور مدح سرائی کے بچکانہ سلسلے ہیں۔ ان فورمز کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ کئی ایسے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں جو یہ تاثر موجود تھا کہ وہ شہرت سے بے نیاز ادبی کام کرنے کی لگن میں مگن رہتے ہیں۔ یہاں ان کی بے نیازیوں کے بھرم کھلے ہیں۔ اور شہرت کے حصول کے لیے ان کی جانب سے ایسی ایسی مضحکہ خیز حرکات دیکھنے میں آئی ہیں کہ اپنے ادیب کہلانے پر بھی شرمندگی سی ہونے لگتی ہے۔ یہاں ادب کے تعلق سے دو نسبتاً معقول واقعات کا ہلکا سا اشارا کرنا چاہوں گا۔

فیس بک پر بعض ادیبوں نے اپنے الگ الگ فورمز بھی بنا رکھے ہیں۔ ایک فورم پر اعلان کیا گیا کہ یہاں ایک شاعر کی نظم پیش کی جایا کرے گی اور اس پر سیر حاصل گفتگو ہوا کرے گی۔ پھر اس ساری گفتگو کو فلاں ادبی رسالہ میں شائع کر دیا جایا کرے گا۔ پہلے ایک دو دوسرے شعراء کی نظمیں پیش ہوئیں، ان پر بات بھی چلی۔ اس کے بعد زیرِ گفتگو رسالہ کے مدیر نے اپنی نظم پیش کی۔ اس میں لوگوں نے زیادہ دلچسپی نہ لی۔ کوئی خاص گفتگو نہ ہو پائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو مکالمہ رسالہ میں شائع کیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا، وہ شائع نہیں کیا جا سکا۔ ایک اور شاعر نے اپنے نام کے بغیر نظم پیش کی تو بعض قارئین نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بعض نے ہلکا سا مذاق اڑایا۔ اس پر شاعر موصوف نے اپنے نام کے ساتھ قارئین کو بتایا کہ آپ جس شاعر کی نظم پر ایسی رائے دے رہے ہیں، اگر آپ کو اس کا نام معلوم ہو جائے تو آپ سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ جائیں گے۔ اس پر قارئین نے تقاضا کیا کہ شاعر کا نام بتائیں، انہوں نے اپنا اسمِ گرامی بتایا کہ یہ میری نظم ہے۔ اور پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کے انکشاف کے بعد بھی قارئین کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا اور پھر فیس بک کے قارئین کے رویے پر خود ان کا اپنا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ مذکورہ دونوں نظم نگار نظم کے اچھے شاعر ہیں۔ لیکن اپنی تمام تر بے نیازی کے باوجود فیس بک پر مقبولیت کے شوق میں انہیں تیسرے درجہ کا ادبی شعور رکھنے والوں کے ہاتھوں تمسخر کا نشانہ بننا پڑا۔

میڈیاکر دانشوروں کی طرح سوشل میڈیا نے بھی اپنی قماش کے شاعروں کی ایک کھیپ پیدا کی ہے۔ ان میں بعض اچھے شعر کہنے والے شاعر بھی موجود ہیں۔ تاہم یہاں ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ جب ان کی کوئی غزل فیس بک پر سجائی جاتی ہے تو سات شعر پڑھے جانے کے ٹائم سے بھی پہلے ہی اس غزل کی تعریف میں سات قارئین(عموماً خواتین )کی جانب سے اسے پسند کرنے کے ریمارکس آ جاتے ہیں۔ اور دم بدم ان کی مقبولیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہاں مجھے ایک پرانے مزاحیہ پروگرام ’’ففٹی ففٹی‘‘ کا ایک لطیفہ یاد آ گیا ہے۔ پروگرام میں ایک میوزیم دکھایا جاتا ہے۔ اس میوزیم میں موجود ایک قلم پر بات ہوتی ہے۔ گائیڈ بتا رہا ہوتا ہے کہ اس تاریخی قلم سے پروگرام ’’ففٹی ففٹی‘‘ کی تعریف میں دس ہزار خطوط لکھے گئے ہیں۔ اور پھر مزید وضاحت کرتا ہے کہ یہ قلم ’’ففٹی ففٹی‘‘ کے پروڈیوسر کا ہے۔ ’’ففٹی ففٹی‘‘ والوں کا لطیفہ سو فی صد حقیقت کی صورت میں فیس بک کے ’’مقبول ترین شاعروں ‘‘میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ادب اور صحافت کے حوالے سے میں شروع میں ہی قمر زمانی بیگم اور اخبار ’’فتنہ‘‘ اور ’’جواب فتنہ‘‘ کا ذکر کر چکا ہوں۔ سوشل میڈیا کے جن معائب کا میں نے ذکر کیا ہے، وہ سب ادب سمیت ہمارے پورے معاشرہ میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہے ہیں۔ تاہم ان سب کی مقدار آٹے میں نمک کی طرح رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر خرابی یہ ہوئی ہے کہ یہ سارے معائب اور ساری خرابیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ نمک میں آٹے والی صورت بن گئی ہے۔ پرانی برائیوں کو بڑے پیمانے پر دہرانے کے ساتھ ہم نے کئی نئی برائیاں بھی ایجاد کر ڈالی ہیں۔ وہ ساری ایجادیں سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی ہمارے پورے معاشرے میں سرایت کرنے لگی ہیں۔

ان ساری برائیوں کا عام طور پر اور ادبی خرابیوں کا خاص طور پر تدارک کرنے کے لیے ایک تجویز میرے ذہن میں آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی فورم کی رکنیت کے لیے اس ملک کے شناختی کارڈ کے مطابق اس کے نمبر کا اندراج لازم کیا جانا چاہیے۔ اور ہر فورم پر ایک شناختی کارڈ پر ایک اکاؤنٹ کھولنے کی پابندی لگ جائے۔ اگر شناختی کارڈ کے نمبر کے بغیر کسی کو بھی اکاؤنٹ کھولنے کا موقعہ نہ ملے، اور پہلے سے موجود اکاؤنٹس کو بھی شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ مشروط کر کے ری فریش کیا جائے تو پہلے مرحلہ میں پچاس فی صد سے زائد اکاؤنٹ غائب ہو جائیں گے۔ غائب ہونے والے اکاؤنٹس کی شرح پچاس فی صد سے زائد ہو سکتی ہے، کم ہر گز نہیں ہو گی۔ اس تجویز کو میں نے سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔ حکومتی سطح پر تیکنیکی ماہرین اسے مزید غور کر کے زیادہ موثر بنا سکتے ہیں۔

ادب ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ ہو، اختلاف رائے کے اظہار کا حق ہر کسی کو ملنا چاہیے۔ اس پر کوئی ناروا پابندی لگے تو اس کی مزاحمت کی جانی چاہیے۔ لیکن چوروں کی طرح چھپ کر وار کرنے والوں اور اختلاف رائے کے نام پر انتہائی شرم ناک قسم کی گالیاں بکنے والوں کو اس سے باز رکھنے کے لیے، ان کی شناخت واضح ہونی چاہیے۔ اگر پاکستان آغاز کرے اور جنوبی ایشیا کے ملکوں کو ساتھ لے کر عالمی سطح پر حکومتوں کو تحریک کی جائے تو شناختی کارڈ نمبر کی بنیاد پر سوشل میڈیا کے فورمز کی رکنیت کو مشروط کر کے سائبر ورلڈ کے ان سارے فورمز کو زیادہ مہذب، بہتر اور موثر بنایا جا سکتا ہے۔ خرابیاں یکسر ختم نہیں ہوں گی لیکن ان میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور انٹرنیٹ کی اس جدید تر دنیا میں ہم سب کو اپنی خامیوں پر قابو پا کر بہتر اور صحت مند کردار ادا کرنے کا موقعہ ملے گا۔ تب ہم سب اس گلوبل ولیج کے اچھے شہری بن سکیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

میرا جی کی نظم ’’اونچا مکان‘‘۔ ایک تجزیہ ۔۔۔ ڈاکٹر حنا آفریں

اسسٹنٹ پروفیسر، اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

 

 

میراجیؔ  کی بیشتر نظموں میں طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ زندگی کے سنگین اور سنجیدہ مسائل کو بھی جنسی جذبات کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی نظموں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے یہ بات کہی بھی ہے کہ ان کے بیان کا بیشتر حوالہ جنسی جذبات اور جنسی معاملات کا ہے۔ بحیثیت شاعر میراجیؔ  کا المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر نقادوں نے نظم کی روح اور بنیادی مسئلے کے بجائے بیان کے حوالوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دی اور عام طور پر یہ فرض کر لیا گیا کہ میراجیؔ کی شاعری میں جنسی جذبہ، جنسی عمل بلکہ جنسی کجروی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جبکہ پوری سچائی یہ نہیں ہے۔ میراجیؔ کا المیہ یہ ہے کہ بیان کے حوالوں کو اصل مسئلہ تصور کر لیا گیا اور اس طرح زندگی کی جن سچائیوں اور پیچیدہ تجربات کو میراجیؔ نے بیان کرنا چاہا وہ پسِ پشت چلے گئے۔ جنسی معاملات میراجیؔ کی شاعری میں بیان کا فقط ایک ذریعہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جذبات و معاملات کو اصل مسئلہ سمجھنے کے بجائے مسائل کے بیان کا فقط ذریعہ سمجھا جائے اور جنسیت کو صرف وسیلۂ ترسیل کے طور پر دیکھا جائے۔

زیر تجزیہ نظم ’اونچا مکان ‘ میں میراجیؔ نے انسانی زندگی کے بنیادی مسئلے کو جنسی بے راہ روی کے رموزو علائم میں بیان کیا ہے۔ اس نظم میں جنس کی فطری خواہش اپنی پوری تندی اور سرکشی کے ساتھ تہذیب و تمدن کے کھوکھلے اقدار سے مخاطب ہے کہ کس طرح تہذیبی اقدار کی پابندیوں نے انسان کے فطری جذبات کا خون کر کے اپنی ایک بلند و بالا لیکن ویران عمارت کھڑی کر رکھی ہے۔ انسانی زندگی کی ویرانی اور تنہائی کی قیمت پر با رونق نظر آنے والی تہذیب کی یہ عمارت در اصل انسانیت کا ایسا بڑا زیاں ہے، جس کی تلافی ممکن نہیں۔

اس نظم میں تعمیر کے لوازمات اور تلازمات کی مدد سے بے روح انسانی زندگی کو اور زندگی کی بے معنویت کو بیان کیا گیا ہے۔ پہلے مصرعے میں نقشِ عجیب، تعمیر، استادہ ہے، آنکھیں اور چہرے ایسے الفاظ ہیں جنھوں نے نظم کے پہلے ہی مصرعے میں مختلف قسم کے تجربات کو ایک دوسرے میں ہم آمیز کر کے صورتِ حال کی پیچیدگی کو بیان کی سطح پر ظاہر کر دیا ہے۔ یہ کوئی ایسا تجربہ نہیں جو ایک ہی نوع کے الفاظ یا ایک ہی قسم کے تجربات کے ذریعہ زبان و بیان کی گرفت میں آ سکے۔ یہاں مختلف حوالوں کو ایک دوسرے تجربات میں ہم آمیز کر کے پیش کیا گیا ہے تاکہ بیان ہونے والا شعری تجربہ اپنی پیچیدگی اور ہمہ گیری کے باوجود کسی قدر قاری کی گرفت میں آ سکے۔ اگرچہ بیان کا بنیادی حوالہ انسان کی جنسی خواہش ہی ہے لیکن اس کے باوجود بیان کے حوالے کو بنیادی مسئلے کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔

نظم اس طرح شروع ہوتی ہے کہ انسان کی جنسی خواہش کو اور اس خواہش کے عملی اظہار کو نظم کے پہلے بند میں مختلف پیکروں کی مدد سے بیان کیا گیا ہے اور یہ ابتدائی بند نظم میں آئندہ بیانات کے لیے ایک مخصوص فضا تعمیر کر دیتا ہے۔ مصرعے ملاحظہ ہوں:

’ بے شمار آنکھوں کو چہرے میں لگائے استادہ ہے تعمیر کا اک نقشِ عجیب،

اے تمدن کے نقیب!

تری صورت ہے مہیب۔ ‘

تعمیر کا ایک عجیب و غریب نقش جسے قدرت نے انسانوں کو ودیعت کیا ہے۔ یہ اپنے چہرے پر بے شمار آنکھوں کے ذریعہ پوری انسانی تہذیب پر ایک خاص زاویے سے نظر ڈالتا ہے۔ اس نظم میں تمدن کے نقیب کو مخاطب کر کے اس کے بہ ظاہر سادہ اور معصوم چہرے سے حجاب اٹھا دیا گیا ہے تاکہ اس کا ہیبت ناک اور سفآکانہ رخ قاری کے سامنے آ سکے کہ اس نے تہذیب و تمدن کے نام پر انسانی فطرت کو کس طرح نظر انداز کیا ہے۔ مصرعے دیکھئے:

’ذہنِ انسانی کا طوفان کھڑا ہے گویا،

ڈھل کے لہروں میں کئی گیت سنائی دیتے ہیں، مگر

ان میں ایک جوش ہے بیداد کا، فریاد کا ایک عکسِ دراز،

اور الفاظ میں افسانے ہیں بے خوابی کے۔ ‘

جنسی جذبے کے اظہار کی اس مخصوص ہئیت کو ایک ایسے طوفان سے تعبیر کیا گیا ہے جسے انسانی ذہن نے پیدا کیا ہے۔ فطری جذبے کے اظہار پر تہذیب کی پابندیوں کے سبب یہ جذبہ مختلف لہروں کی شکل میں ڈھل کر ایک ایسے گیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں ظلم اور فریاد کا جذبہ بھی شامل ہے۔ فریاد کا طویل عکس اور ظلم کا یہ جوش گیتوں کی لہر پر صاف سنائی دیتا ہے۔ اس گیت کے الفاظ بے خوابی اور محرومی کی ایک ایسی حکایت ہے جو انسانی روح کی ویرانی کو بیان کرتا ہے۔ تہذیب کے اس بہ ظاہر روشن لیکن بہ باطن تاریک پہلو سے شعری کردار کا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی افسردہ روح تیرے سینے میں بے تابی کی وجہ سے کروٹیں لیتی ہے یا بے حسی روح کی اس ویرانی کا احساس بھی نہیں ہونے دیتی۔

نظم کے دوسرے بند میں شعری کردار کسی ایسے نسوانی پیکر سے مخاطب ہے جو نا آسودہ جنسی جذبات سے دوچار ہے۔ جنسی تسکین کی خواہش اسے بے چین کرتی ہے جبکہ تہذیب اور سماج کی پابندیاں اس جذبے کی تسکین میں حائل ہیں چنانچہ شعری کردار اپنی چشمِ تخیل سے نسوانی کردار کی باطنی کیفیات کو دیکھ لیتا ہے اور پھر اپنی ذہنی کیفیت سے اسے ہم آہنگ کرتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ جنسی خواہش کی لہریں اس کے دل میں بار بار اٹھتیں اور نا آسودہ ہونے کے سبب گھٹ کر دم توڑ دیتی ہیں۔ یہ خواہش جو اپنی اصل میں ایک خوش رنگ اور پر کیف شراب کی طرح ہے، ایک ایسی تلچھٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے جو بد رنگ ہو گئی ہے اور کسی ٹوٹے ہوئے ساغر میں رکھی ہے۔ دوسرے بند کے پہلے دونوں مصرعے اس نا آسودہ جنسی جذبے کی پوری تصویر پیش کر دیتے ہیں۔ میراجیؔ نے اپنی بیشتر نظموں میں جنسی جذبوں کو موسیقی کے کسی نغمے اور لہروں کے نشیب و فراز کے پیکر میں بیان کیا ہے۔ اس جذبے کا آہنگ اور اس کی سرشاری ایسے گیت کی مانند ہے جو ایک تموج کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ اس سیاق وسباق میں یہ مصرعے خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔

’گھٹ کے لہریں ترے گیتوں کی مٹیں، مجھ کو نظر آنے لگا

ایک تلخابہ کسی بادۂ بد رنگ کا اک ٹوٹے ہوئے ساغرمیں۔ ‘

لہروں کا گھٹنا یعنی ان کا دم توڑنا، لہروں کا گیت کی مانند ہونا اور پھر اسے ایک ایسی بد ذائقہ اور بد رنگ شراب سے تشبیہ دینا جو کسی ٹوٹے ہوئے ساغر میں رکھی ہے، یہ پوری تصویر مزید کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ اس بند کے اگلے مصرعوں میں رات کی تاریکی کا بیان ہے اور پھر اسی پس منظر میں روح کی ویرانی اور تاریکی کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ ویرانی کی اسا تھاہ گہرائی میں دکھ کے ستارے اور سکھ کے شعلے دو ایسی چیزیں ہیں جو اس مہیب تاریکی میں روشنی کے آثار پیدا کرتے ہیں۔ دکھ اور سکھ کی یہی کیفیت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے جو تاریکی اور ویرانی میں زندگی کے آثار پیدا کرتی ہے اور انسانی روح بھی در اصل دکھ اور سکھ کی کیفیت سے روشن اور تابندہ ہے۔ پھر غور کرنے کی یہ بات ہے کہ نظم میں دکھ کے لیے ’رخشاں تھے ستارے دکھ کے ‘ اور اگلے مصرعے میں سکھ کے لیے ’ لپک اٹھتے تھے شعلے سکھ کے ‘ کہا گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ رخشندگی کی کیفیت زیادہ دلکش اور دیرپا ہے اور اس کی روشنی بھی زیادہ پر کشش اور راہ نما ہے جبکہ شعلوں کی لپک وقتی ہے اور انسانی جوہر کو خاکستر کر دیتی ہے۔ دکھ اور سکھ کا یہ تقابل میراجیؔ کے مجموعی شعری رویے سے ہم آہنگ ہے کہ دکھ جو دوری کا نتیجہ ہے، ان کے نزدیک محبت کی بنیادی قدر اور عشق کا حقیقی جوہر ہے جبکہ سکھ اور وصال کی کیفیت عشق کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ دوسرے بند کے آخری دو مصرعوں میں نسوانی کردار کے بے نتیجہ اور لاحاصل جنسی جذبے کو روزن اور تان کے استعاروں میں بیان کیا گیا ہے۔ میراجیؔ نے بیشتر نظموں میں اکثر انفرادی اور شخصی علامتوں کے ذریعہ اپنے شعری تجربے کو بیان کیا ہے اور اسی لیے یہ نظمیں قاری کے لیے مبہم اور پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ مثلاً لہریں، گیت، بادۂ بد رنگ، روزن ایسے الفاظ ہیں جنھیں میراجیؔ نے جنسی خواہش کے سیاق و سباق میں استعمال کر کے ان کے مفاہیم کو کافی دھندلا اور پر اثر بنا دیا ہے اور غالباً نظموں کی پر اسرار فضا اور مفاہیم کا دھندلا اور غیر متعین ہونا میراجیؔ کو مطلوب بھی تھا۔ دوسرے بند کے آخری دونوں مصرعے روزن اور موسیقی کی کسی تان کی لپک کے حوالے سے نسائی پیکر کی ناکام جنسی خواہش کا بیان ہیں اور ان علامتوں کو ماضی میں شعرا ء نے چونکہ ان مفاہیم میں استعمال نہیں کیا ہے، اس لیے قاری کو یہ مصرعے مبہم اور غیر واضح محسوس ہوتے ہیں۔ ان مصرعوں میں بیان کیا گیا ہے کہ موسیقی کی کوئی تان تیرے روزن سے لپکتی ہوئی نکلتی ہے اور اپنی آغوش وا کر دیتی ہے۔ کسی کو خود میں جذب کرنے کے لیے، کسی سے ہم آغوشی کے لیے مضطرب ہوتی ہے لیکن اس کی یہ خواہش تشنۂ تکمیل ہوتی ہے اور نغمے کی یہ تان لامحدود خلاؤں کے دامن میں جذب ہو جاتی ہے۔

’جیسے روزن سے ترے تان لپکتی ہوئی پھیلاتی ہے بازو اپنے

جذب کر لیتا ہے پھر اس کو خلا کا دامن۔ ‘

نظم کا تیسرا بند نسائی کردار کے اس جنسی جذبے کے ردِ عمل کے طور پر نظم کے متکلم کی کیفیت کا بیان ہے۔ متکلم کو اپنی کسی ناکام محبت کی یاد آتی ہے اور وہ ان آنسوؤں کو یاد کرتا ہے جو اس کے لیے باعثِ راحت تھے۔ سکھ کے یہ شعلے اپنی وقتی لذت کے سبب متکلم کی زندگی میں فقط ایک خواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مصرعے دیکھئے:

’لیکن اک خواب تھا، اک خواب کی مانند لپک شعلوں کی تھی،

مری تخیئل کے پر طائر زخمی کے پروں کی مانند

پھڑپھڑاتے ہوئے بے کار لرز اٹھتے تھے۔ ‘

خواب جو ایک فریب ہے، جھوٹ ہے، یادوں کا محض ایک سلسلہ ہے۔ ماضی کے اس تجربے میں شعری کردار فقط تخیل کی مدد سے حقیقتوں کو پانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تخیل کا یہ پرندہ بھی زخمی ہے اور اس کے پر ٹوٹے ہوئے ہیں یعنی یہ تخیل بھی پرواز کی لذتوں سے محروم ہے۔ پر پھڑپھڑاتے ہیں لیکن پرواز کے بجائے خفیف سی لرزش کے بعد بے دم ہو کر گر پڑتے ہیں۔ یہ محبت کی ناکامی تھی جس نے شعری کردار کو غیر فطری عمل پر مجبور کیا چنانچہ تیسرے بند کے آخری پانچ چھ مصرعے کسی مصنوعی اور خود کار جنسی آسودگی کے غیر فطری طریقے کا بیان ہیں۔ اس بے بسی سے رہائی کے لیے وہ جس عمل کا سہارا لیتا ہے وہ آزادی کی روشن اور نشاط بخش فضا کے بجائے روح کیا تھاہ تاریکی میں اسے ڈھکیل دیتی ہے۔ یہاں نظم میں متکلم غیر فطری جنسی عمل کو بیان کرنے کے بجائے در اصل اس کے ذریعہ اس لا حاصلی اور محرومی کو بیان کرتا ہے، جس کا شدید احساس اس عمل سے فراغت کے بعد ہوتا ہے۔ مصرعے ملاحظہ ہوں:

’میرے اعضاء کا تناؤ مجھے جینے ہی نہ دیتا تھا تڑپ کر یکبار،

جستجو مجھ کو رہائی کی ہوا کرتی تھی،

مگر افسوس کہ جب درد دوا بننے لگا، مجھ سے وہ پابندی ہٹی

اپنے اعصاب کو آسودہ بنانے کے لیے

بھول کر تیرگیِ روح کو میں آ پہنچا۔ ‘

اس کے بعد کے بند میں اس نسوانی پیکر کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کو نہایت فنکاری سے بیان کیا ہے۔ ابتداء کے دو تین مصرعے تو اس مضمون سے متعلق ہیں کہ اس نسوانی پیکر کے بارے میں متکلم کیا رائے رکھتا تھا۔ متکلم کی یہ رائے اس نسائی پیکر کے ظاہری رویے کے سبب تھی جبکہ اس لڑکی کی خواہشات اور اس کی ذہنی کشمکش اس کی ظاہری رویے سے یکسر مختلف ہے۔ وہ اپنے جنسی جذبے کی تسکین کے لیے کیا کیا خواہشیں کرتی ہیں ؟ ان جزئیات کا بیان اس تصویر کو الٹ دیتا ہے جو لوگوں سے سن کر نظم کے متکلم نے اس لڑکی کے بارے میں بنا رکھی تھی۔ اس بند کے ابتدائی مصرعوں میں:

’ترے بارے میں سنا رکھی تھیں لوگوں نے مجھے

کچھ حکایات عجیب،

میں یہ سنتا تھا۔ ‘

کے پیرایۂ اظہارسے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ متکلم اس نازنین سے متعلق جو کچھ سن رہا ہے وہ سب سچ ہے ؟ ایسا نہیں ہے۔ متکلم نے اس نسائی کردار سے عجیب و غریب حکایات سن رکھی تھیں۔ مثلاً یہ کہ اس نسوانی کردار کے گراں بار جسم میں ایک بستر بچھا ہوا ہے جس پر کوئی نازنین لیٹی ہے اور بہ ظاہر پھیکی سی تھکن اور تنہائی اس کے اِردگرد ایک بوجھل سی فضا پیدا کر دیتی ہے۔ یہ پورا منظر اس کی ظاہری صورتِ حال سے متعلق ہے لیکن اس نسوانی کردار کی ایک ذہنی زندگی بھی ہے اور یہی ذہنی زندگی اس کے روحانی مسائل کا آئینہ خانہ ہے۔ بہ ظاہر تنہائی میں لیٹی ہوئی یہ لڑکی ذہنی اعتبار سے کس قدر بے چین اور مضطرب ہے اور اس کا یہ اضطراب کس خواہش کا نتیجہ ہے ؟ یہ پوری کیفیت اس بند کے مختلف مصرعوں میں بیان کی گئی ہے۔ یہ لڑکی بے تابی کی حد تک مضطرب ہے اور اس بات کی منتظر ہے کہ دروازے کے پردوں میں کوئی لرزش ہو اور اس کا لباس ڈھلکتے ہوئے اس کے تن سے جدا ہو جائے۔ اسے کوئی ایسی انوکھی صورت بھی نظر آئے جو اس کے لیے اجنبی ہو۔ اپنی مخصوص ذہنی کیفیت میں اس کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں ہے کہ یہ مردانہ وجود اس کے دل کو بھلا لگتا ہے کہ نہیں اور اس کے انداز اس لڑکی کے دل کو لبھاتے بھی ہیں یا نہیں۔ یہ پوری صورتِ حال در اصل بدن کے تقاضے کو تسلیم کرنے اور اسے اہمیت دینے کا فنکارانہ اظہار ہے۔ مصرعے ملاحظہ ہوں:

’کچھ غرض اس کو نہیں ہے اس سے

دل کو بھاتی ہے، نہیں بھاتی ہے

آنے والی کی ادا۔

اس کا ہے ایک ہی مقصود، وہ استادہ کرے

بحرِ اعصاب کی تعمیر کا اک نقشِ عجیب۔ ‘

کسی کردار کا مانوس ہونا، دل کو لبھانا اور اچھا لگنا ایک الگ مسئلہ ہے اور جسم کی ضرورت یکسر الگ بات ہے۔ نظم میں نسوانی کردار کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مرد سے کسی قسم کے روحانی اور باطنی رشتے کے بجائے جسمانی تعلق کی آرزو مند ہے اور اس وقت اس کا مقصود فقط یہ ہے کہ وہ تعمیر کا ایسا نقش کھڑا کر دے کہ جس کی ظاہری صورت ناپسندیدہ اور کراہت انگیز ہو۔ جنسی عمل کے اس بیان کے لیے شاعر نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان سے بھی اس منظر کی پوری تصویر واضح ہو جاتی ہے کیونکہ یہ تعمیر بحرِ اعصاب کے سمندر کی ہے۔ اس کی صورت باعثِ کراہت ہے اور یہ کہ اِستادگی اس کی صفت ہے۔ یہاں پہنچ کر یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ شاعر کس چیز کو تعمیر کا نقشِ عجیب کہتا ہے اور پھر بعد کے مصرعے جنسی عمل کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر دیتے ہیں۔ تعمیر کا یہ عجیب و غریب نقش ذہنِ انسانی میں اٹھنے والے طوفان کا نتیجہ ہے اور جس سے متصادم ہو کر تنہائی اور افسردگی میں پڑی ہوئی وہ نازنین بے ساختہ ایک گرتی ہوئی دیوار میں تبدیل ہو جائے۔ اس کی تھکن کا نغمہ جنسی عمل کی سرشاری کے سبب ریگ سے بنے ہوئے کسی محل کی طرح ٹوٹ کر بکھر جائے اور تنہائی و افسردگی کے بجائے سبک ساری کا ا حساس اس کے وجود پر طاری ہو جائے۔

نظم کے آخری مصرعوں میں ان تمام خیالات کو ایسے قصوں سے تعبیر کیا گیا ہے جو بوئے خراماں بن کر متکلم کے ذہن میں رقص کیا کرتی تھیں۔ یہاں یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اوپر بیان ہونے والا منظر کسی مخصوص عمل کا بیان ہونے کے بجائے فقط شعری کردار کے تخیل کا کرشمہ ہے کہ یہ دونوں نسائی اور مردانہ کردار خود متکلم کی ذہنی تخلیق ہیں۔ آخر کے تین چار مصرعوں میں آنکھوں سے وابستہ مختلف صفات کا ذکر نظم کی ساخت میں آنکھوں کی اہمیت کو بہت نمایاں کر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی جذبات کا جیسا اظہار آنکھوں کے ذریعہ ممکن ہے، دوسرے اعضاء کے ذریعہ ممکن نہیں۔ انسانی خواہشات اور محرومیاں سب کچھ آنکھوں میں سمٹ آتی ہیں چنانچہ نظم کا متکلم نسائی کردار کی بے شمار آنکھوں کو ایک چشمِ درخشاں میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ روشن آنکھوں زبانِ حال سے کیا کہتی ہیں اور کن باتوں کی آرزومند ہیں۔ یہ بات نظم کے سیاق وسباق میں بالکل روشن ہو جاتی ہے۔ پھر نظم کے آخری حصے میں یہ استفہامیہ مصرعہ شعری کردار کی ذہنی کیفیت کو بھی واضح کرتا ہے۔

’کیا اِسی چشمِ درخشاں میں ہے شعلہ سکھ کا؟‘

آنکھوں کی اس چمک میں سکھ کے شعلوں کو دیکھنا اور پھر اس پر سوالیہ نشان قائم کرنا نظم کی کیفیت کو بہت بڑھا دیتا ہے۔ سکھ کے لیے شعلے کی صفت سکھ کی نوعیت کو بھی واضح کرتی ہے کہ یہ راحت وقتی ہے۔ بہت جلدی مٹ جانے والی ہے لیکن جتنی دیر روشن ہے بہت تابناک ہے اور ماسوا کو خاستر کر سکتی ہے۔ نظم کا آخری مصرعہ ’ہاتھ سے اب اس آنکھ کو میں بند کیا چاہتا ہوں۔ ‘

میراجیؔ کے پسندیدہ موضوع اور مخصوص طریقۂ کار پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ان روشن آنکھوں کو جو تشنگی، خواہش اور آسودگی کا استعارہ ہیں۔ خود اپنے ہاتھوں سے بند کر دینا چاہتا ہے۔ آنکھوں کا یہ بند ہونا وقتی راحت اور لمحاتی آسودگی کو نمایاں کرتا ہے۔

اس طرح میراجیؔ کی یہ نظم اپنے رویے، فنی طریقۂ کار اور مسائل کے مخصوص پیش کش کے حوالے سے ان کی نمائندہ نظم کہی جا سکتی ہے کیونکہ انھوں نے جنسی مسائل جنسی جذبات بلکہ جنسی عمل کو اپنے مخصوص استعاراتی پیرایے میں نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے اور نظم کے مطالعے کے بعد بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ میراجیؔ کے نزدیک جنسی جذبہ جس کا تعلق جسم اور بدن سے ہے۔ عشق و محبت کے جذبے سے (جس کا تعلق انسان کے باطن اور اس کی روح سے ہے ) کسی طرح بھی کم لائق توجہ نہیں ہے بلکہ نظم میں اس جذبے کو مرکزی اہمیت دے کر میراجیؔ نے انسانی وجود کے بنیادی مسئلے کی حیثیت سے اسے بیان کیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ان جنسی حوالوں سے میراجیؔ نے انسانی زندگی میں افسردگی، لایعنیت اور باطن کی ویرانی کو نہایت سلیقہ سے پیش کیا ہے۔ یہ در اصل انسانی وجود کا ایکا ہم مسئلہ ہے۔ جس کے بیان کے لیے دیگر حوالوں کے بجائے جنسی حوالوں سے مدد لی گئی ہے، پیرایۂ اظہار کے ابہام نے اس مسئلے کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اقبال۔ فکر و عمل پر ایک نظر  ۔۔۔ ڈاکٹر نذر خلیق (راولپنڈی)

 

 

پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب ’’ اقبال۔ فکرو عمل، پر ایک نظر‘‘ اقبالی تنقید میں ایک اہم کتاب ہے۔ اس کا اولین ایڈیشن جون ۱۹۸۵ء میں ۱۱۰۰ کی تعداد میں شائع ہوا اور ہاتھوں ہاتھ بک گیا اس کتاب میں چھ(۶) مقالے اور دو (۲) ضمیمے شامل ہیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک اردو تنقید و تحقیق میں ایک معتبر حوالہ ہیں۔ فتح محمد ملک اپنی بات استدلال اور بنیادی مآخذ کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس کتاب میں فتح محمد ملک نے اقبال کی تفہیم کے لیے دلائل و استدلال کا سہارا لیا ہے۔ کتاب میں شامل مضمون ’’مجموعہ اضداد یا دانائے راز ‘‘ایک اہم مضمون ہے جس میں پروفیسر فتح محمد ملک نے ان ترقی پسند ناقدین کو جو اب دیا ہے۔ جو اقبال پر ایجڈ پسندی، تنگ نظری اور تعصب کا الزام لگاتے ہیں۔ ان ترقی پسند ناقدین میں مجنوں گورکھ پوری، اختر حسین رائے پوری، علی سردار جعفری، ممتاز حسین وغیرہ شامل ہیں۔

پروفیسر فتح محمد ملک لکھتے ہیں۔

’’یہ اعتراضات اقبال کے فنی اور فکری مسلک سے زیادہ اقبال کے سیاسی مسلک اور عملی سیاسی جد و جہد کے خلاف رد عمل سے پھوٹے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ترقی پسندوں نے جس استدلال کے سہارے اقبال کی آفاقیت کی نفی کی ہے۔ بالکل اسی استدلال کے ساتھ اقبال کی عظمت کا اثبات کرتے ہیں۔ چنانچہ نکولائی آئی کیف نے اقبال کے فلسفہ خودی پر اپنے تازہ مقالہ میں لکھتے ہیں۔

’’ ان ترقی پسندوں اور نام نہاد ترقی پسندوں کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ جو اقبال کے فکرو فن پر صرف اس وجہ سے رجعت پسندی اور قدامت پرستی کا الزام دھرتے ہیں۔ کہ اقبال نے بقول ان کے صرف مسلمانوں سے خطاب کیا ہے۔ اور ان نظریات، استدلال اور مشرقی بے داری کے تصورات قرآن سے پھوٹے ہیں۔ ‘‘

نکولائی آئی کیف کے نزدیک بہ حیثیت فلسفی اقبال کی عظمت کا راز انسان کے ازلی، ابدی مسائل کو تجرید اور ماورائیت کی دھند سے نکال کر اپنے ماحول اور اپنے عہد کے سیاق و سباق میں سمجھنے اور اپنی قومی نشاۃ ثانیہ کے تقاضوں کی روشنی میں بیان کرنے میں مضمر ہے۔ ‘‘ص ۶، ۷

پروفیسر فتح محمد ملک نے بجا کہا ہے کہ ترقی پسند اقبال کے فنی اور فکری پہلو کی طرف توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی حال کے اظہار کے اسلوب پر توجہ دیتے ہیں بلکہ اپنے سیاسی نظریے کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ خود ان کے اس نظریے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ اور بجا کہا ہے کہ اقبال انسان کے ازلی، ابدی اور آفاقی مسائل کو عصر حاضر کے تناظر میں بیان کرتا ہے۔ جو قرآن اور اسلام کے آفاقی بیانات کی روشنی میں کرتے ہیں اقبال کے نزدیک مسلمان ہی انسانی مسلک کا حامل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اسلام خود ایک انسانی آفاقی اور روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کا نہ صرف مذہب ہے بلکہ دین بھی ہے۔

اقبال نے ملائیت، برہمنیت اور ملوکیت کو مسترد کیا ہے۔ کیونکہ یہ شخصیت کے وہ روپ ہیں جو انسانیت میں تفریق پیدا کرتے ہیں حالانکہ ملائیت، برہمنیت اور ملوکیت کی جڑیں برصغیر پاک و ہند میں گہری رہی ہیں۔ اقبال مثالیت سے زیادہ حقیقت پر یقین رکھتا ہے۔ اقبال کا مسلک انسانیت ہے لیکن افسوس کہ ترقی پسند نقادوں نے اقبال کے متعلق غلط فہمیوں کو ہی ابھارا۔ مثلاً ممتاز حسین کے حوالے سے پروفیسر فتح محمد ملک نے ایک اقتباس درج کیا ہے۔

’’کوئی بھی شاعر کسی مذہبی یا سیاسی تحریک کی بنا پر اور بالخصوص ایک ایسی مذہبی تحریک کی بنیاد پر جس کا ماضی بھی رہا ہو اور جس نے سینکڑوں قوموں سے ٹکر لی ہو جس کے دشمن اور رقیب بھی ہوں آفاقی شاعر نہیں ہو سکتا۔ اقبال نے ایک ایسے مرد مومن کے کردار کو جنم دیا ہے۔ جو ایک مخصوص شریعت کا پابند ہے۔ آج دنیا سے مذہبی مشن کا زمانہ اٹھ چکا ہے اور یہ خیال کرنا کہ ہم کسی مذہبی نظام فکر کے ماتحت پوری دنیا کو متحد کر سکتے ہیں۔ ایک فعل عبث۔ ‘‘ص ۶

پروفیسر فتح محمد ملک نے ممتاز حسین کی کتاب نقدِ حیات سے جو اقتباس منتخب کیا ہے اس سے حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نقادوں کا ایک مخصوص طبقہ غور و فکر کرنے کی بجائے محض اقبال شکنی پر کمر بستہ رہا ہے۔ ورنہ اقبال کا مرد مومن ایسا مومن تھا جو بے شک اسلامی شریعت کا پابند تھا مگر اس کے عملی فوائد عالم انسانیت کے لیے تھے اور یہ کہ مذہبی نظام فکر کو رد کر کے کبھی بھی انسانی فوائد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ابتدا سے ہی مختلف اقوام کے درمیان کشمکش بھی ایک حقیقت رہی ہے۔ قوموں سے ٹکر لینا کسی قوم کو محدود نہیں کر سکتا۔ اقبال کے نظریات کو جس انداز سے غلط زاویے سے پیش کیا گیا ہے اس کے لیے پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب اقبال فکرو عمل ایک اہم کتاب ہے اسی کتاب میں دوسرا مقالہ اثبات نبوت اور تصور پاکستان بھی ایک اہم مقالہ ہے۔ جس میں اقبال نے واضح کیا ہے کہ اثبات نبوت سے ہی تصور پاکستان پھوٹا اسی کتاب، اسی کتاب میں تیسرا مقالہ اقبال اور سر زمین پاکستان، چوتھا مقالہ پاکستان اور مشکلات لا الٰہ پانچواں مقالہ اقبال اور ہماری ثقافتی تشکیل نو، چھٹا مقالہ اقبال اور ہماری تشکیل نو اہم ترین اور تفہیم اقبال میں ممد و معاون ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ان مقالات کی روشنی میں پروفیسر فتح محمد ملک نے نہ صرف یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے بلکہ اس کی تخلیق ثقافتی تشکیل نو اور ادبی تشکیل نو کے لیے ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں احمد ندیم قاسمی پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔

’’پروفیسر فتح محمد ملک نے ان مضامین میں عالمگیر انسانیت کے تصور وطنیت اور اسلامیت حقیقی اسلام اور مروجہ تصور اسلام کے تضادات دین محمد اور دین ملوک جمیعت اسلامی سے جمعیت انسانی تک کے سفر اور زمین سے اقبال کی عدم وابستگی کے الزامات کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اور یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اقبال کے نزدیک اسلام میں نہ شہنشاہیت ہے نہ ملوکیت، نہ جاگیرداری ہے اور نہ ہی سرمایہ داری کہ یہ سب نظام اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ ‘‘ص ی

اپنی کتاب کے سلسلے میں پروفیسر فتح محمد ملک ابتدائیہ میں لکھتے ہیں۔

’’ ہم نے علم و عمل کی دنیا میں فکر اقبال سے تخلیقی اکتساب کی بجائے شعوری انحراف کی راہ اپنا رکھی ہے۔۔ ۔۔ یہ مضامین اقبال کی تفہیم کے ساتھ ساتھ ہماری عصری زندگی کی تنقید بھی ہیں۔ ‘‘ص ۱

پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب فکر و عمل پڑھنے اور سمجھنے کے لائق ہے اس کتاب پر تبصرہ کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آج بھی اقبال کی تفہیم کے لیے اس کتاب سے روشنی حاصل کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ولیم کیریؔ (1834-1761)کی ادبی خدمات ۔۔۔ مصنف: ایس۔ ایم۔ سنگھ  (تحریر1941 )

 نظر ثانی: ریورنڈ ڈاکٹر جوزف سی لعل(2013 )

 

 

تعارف

 

ولیم کیریؔ نے سیاست تعلیم۔ ادب، سائنس اور مذہب کی بے شمار خدمات ہندوستان میں انجام دی ہیں۔ ولیم کیریؔ نے اپنی چالیس سالہ خدمت ہند کے دوران میں ان شعبوں میں کیا کیا خدمات انجام دی ہیں۔ اور ان خدمات کے لئے کیا کیا ذرائع اختیار کئے ہیں۔ اگر ایک طرف فورٹ ولیم کا لج میں ہندوستان کے زمانہ مستقبل کے حکمران اس کے زیر تعلیم رہے اور اس کے سکھائے ہوئے اصولوں پر عامل ہوئے اور اس طرح اس کا اثر ان کی وساطت سے ہند وستان کی سیا ست پر پڑا تو دوسری طرف مرتوؔنجے ودیالنکار اور رام رام با سو جیسے عالم پنڈتوں سے اس کے تعلقات تھے جن کے ذریعہ وہ ہندوستانی ادب پر اثر انداز ہوا۔ پھر کلکتہ میں غریب ہند و بچوّں کی مفت تعلیم کے لئے متعدد پرائمری مدارس قائم کر کے کیری نے تعلیم کے جس نظام کی بنیاد ڈالی وہ نظام آج تک اس ملک کے طول و عرض میں رائج ہے۔ کیری نے دختر کشی اور ستی جیسی ظالمانہ اور سفاکانہ رسوم کے خلاف جدّوجہد کر کے ان ننگ انسانیت جرائم کی بیج کنی کی اور اس طرح غیر منقسم ہندوستان پر جو احسان کیا اس کے بارے سے اہل ہند کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ علاوہ بریں ’’ ایگریکلچرل اینڈ ہارٹی یکلچرل سو سائٹی آف انڈیا ‘‘۔ (Agricultural and Horticultural society of India )کی داغ بیل ولیم کیریؔ  نے رکھی۔ اور بنگالی زبان کو ایک ادبی حیثیت بھی اسی نے دی۔ مشرق کی پہلی چھاپنے کی مشین بنگال میں اسی کے ہاتھوں نصب ہوئی۔ ہندوستان کا پہلا رسالہ ’’دیگ درشن‘‘ پہلا بنگالی اخبار ’’ سماچار درپن‘‘ اور پہلا انگریزی رسالہ ’’فرینڈ آف انڈیا‘‘(Friend of India) ‘‘تمام ولیم کیریؔ ہی کی زیرسر پرستی معرض وجود میں آئے۔ ہند وستان کی چالیس سے زیادہ زبانوں کے ٹائپ کیریؔ ہی نے اپنے کارخانہ میں تیار کرائے اور ہندوستان کی پہلی کاغذ بنانے کی مشین بھی اسی نے نصب کی۔ نیز آج اس وسیع برّ اعظم میں صرف سیرامّ پور ہی ایسا تعلیمی ادارہ ہے جس کو ایک با ضابطہ یو نیو رسٹی کی طرح امتحان لے کر ڈگریاں دینے کا اختیار رہے۔ یہ کالج بھی ولیم کیریؔ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے غرضیکہ یہ کہنا قطعی مبالغہ آمیز نہیں ہے۔ کہ ولیم کیریؔ نے تن تنہا ہندوستان کے حق میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ شاہد ہی کسی اور فرد واحد نے انجام دی ہوں۔ ڈاکٹر ولیم کیریؔ کی خد مت کا دائرہ صوبہ بنگال تک ہی محد ور نہ تھا بلکہ آج ان خدمات کا اثر نہ صرف ہندوستان اور ایشیا بلکہ تمام دنیا میں پھیل چکا ہے اور یہ عین واجب اور مناسب ہے کہ ایسے شخص کی روح پر عقیدت کے پھول چڑھائے جائیں اور اس کی زندگی کے مستند حالات جہاں دیگر زبانوں میں قلم بند ہو چکے ہیں زبان اردو میں بھی قلمبند ہوں تاکہ اردو دان حضرات اس عظیم ہستی کی ان خدمات کی اہمیت کو معلوم کریں اور اپنے محسن سے متعارف ہوں۔

احقرالناس۔ ایس۔ ایم سنِگھ نئی دہلی مورخہ ۱۵مئی ۱۹۴۱ء

 

ولیم کیریؔ (1834-1761)کی ادبی خدمات (حصہ اول)

 

انیسویں صدی کے شروع میں کیری نے ڈنما رکؔ (DENMARK)کے علاقہ سیرامپورؔ میں اس لئے سکونت اختیار کی تھی کہ اس کو مملکت برطانیہ میں بحیثیّت مبلغ قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی چنانچہ اس وقت شمالی ہند میں حکومت کرنے والی انگریز اقوم کا وہی ایک واحد فرد نکلا جو ہندوستانؔ زبان سے اس خوبی کے ساتھ واقف تھا کہ معلم کا کام کر سکے۔ کو لبروکؔ(COLEBROOKE) کے علاوہ وہی ایک ایسا عالم تھا جو سنسکرت زبان میں ایسی فصاحت کے ساتھ گفتگو کر سکتا تھا جو اب تک بر ہمنوں تک ہی محدود سمجھی جاتی تھی بنگالیؔ زبان کو تحریر میں لانے کا رواج اسی نے عام کیا تھا۔ سنسکرت پر ابھی تک عوام کی نظر بھی نہ پڑی تھی اور اِس اچھوتی زبان کے جو تھوڑے بہت الفاظ سننے میں آتے تھے ان میں فارسی کی ملاوٹ موجود تھی۔ کیریؔ ہی نے سنسکرتؔ  کی گرامر کو مرتب کر کے ایک ڈکشنری بنانی شروع کی۔ جس طرح پولوسؔ  نے یونانی شعرا کے کلام کے اقتباسات اپنی بشارتی خدمت میں استعمال کئے تھے اسی طرح کیریؔ نے بھی سنسکرتؔ  کی قدیم کہانیوں کو اپنے واعظوں میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ یہ سب کچھ کیریؔ نے اس وجہ سے کیا کہ وہ ایک بلند پایہ عالم تھا جس کو اس زبان پر اس قدر عبور حاصل ہو گیا تھا کہ وہ اس کے خیالات کی صحیح ترجمانی کر سکتے۔ لہٰذا کوئی تعجّب کی بات نہیں ہے جب کے فورٹ ولیمؔ کالج(FORT WILLIAM COLLEGE) کے لئے بنگالیؔ  سنسکرتؔ اور مرہٹیؔ زبانوں کے ایک پروفیسر اور سرکاری قوانین کے مترجم کی ضرورت محسوس ہوئی تو گورنر جنرل لارڈویلزلیؔ(LORD WELLESLEY)کی نظر انتخاب کیری ہی پر پڑی۔

علم لسانیات کے ماہر اس امر سے خوب واقف ہیں۔ کہ 1701 ء میں لینبیز(LEIBNIZ )نے ’’ برلن اکاڈمی آف سائنس ‘‘(BERLIN ACDEMY O SCIENCE)کے ایک جلسہ میں قدیم زبانوں کے مترادف الفاظ کے موازنہ کی ضرورت اور اہمیت پر تقریر کر کے علم اللّسا (PHILOLOGY ) کو ایک باقاعدہ سائنس ثابت کر کے اس علم کے پہلے دور کا آغاز کیا اور جہاں تک شمالی ہندؔ کی زبان کا تعلّق ہے جو اس وقت تک علما تک ہی محدود تھیں کیریؔ نے ان کے ایک نئے دَور کی بنیاد ڈالی۔ کیریؔ نے ان زبانوں سے ان تمام معلومات کو فراہم کیا جو ابھی تک عوام کی نظروں میں نہیں آئی تھیں اور ان زبانوں کی ایسی صرف و نحو کی کتب۔ لغت اور تراجم تیار کر کے چھالے کہ ان کو ہندوستانؔ کے علماء د عوام تک پہنچا دیا۔ لیکن اس میں خوبی یہ ہے کہ کیریؔ نے ایک شاہراہ تیار کرنے والے کی حیثیّت سے کام کو نہایت ہی احسن طریق سے انجام دیا۔ وہ ہمیشہ یہ امید رکھتا تھا کہ اس کے نمونہ پر چل کر خود ہندوستانؔ میں عالم اور مصلح پیدا ہوں گے جو اس کام کو زیادہ خوبی سے تکمیل تک پہنچا دیں گے جو اس نے شروع کیا تھا اور اس کی یہ امید یں جلد ہی پر آئیں کیونکہ اس کی زندگی ہی میں اس سے پہلے کہ فورٹ ولیمؔ کالج قائم ہو، وارن ہسیٹنگز (WARREN HASTINGS) کی فرمائش پر 1776  ء میں ہال ہیڈ(HALNED)نے ہندوؤں کے مذہبی قوانین کی کتاب کو زبان فارسی میں ترجمہ کیا۔ ذارسیؔ اس زمانہ میں سرکاری زبان تھی۔ پھر دوسرا قدم سرولیم جونسؔ(SIR WILLIAM JONES) نے اٹھا یا جبکہ انہوں نے ’’ بنگالؔ ایشیا ٹک سو سائٹی‘‘(BENGAL ASIATIC SOCIETY ) کی بنیاد رکھی۔ وارن ہسیٹنگزؔ کے قوانین کے تراجم کو بہتر صورت میں لانے اور اصل متن سے ان کا موازنہ کرنے کام بھی جونز ہی کے سپرد ہوا۔ یہ پنڈت جگن ناتھؔ کے تیار کردہ ترجمہ پر غور و فکر کر دہے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ اور یہ خدمت کو لبروکؔ  کے سپرد ہوئی جس نے اس کو 1797ء میں مکمّل کر دیا۔ 1785ء میں چارلس دلکنزؔ(CHARLES WILKINS ) نے سب سے پہلے سنسکرتؔسے انگریزی میں ترجمہ کر کے ایک کتاب بنام ’’ بھگوت گیتا یعنی کرشنؔ اور ارجن کا مکالمہ ’’(THE BHAGWAT GEETA OR DIALOGUE OF KRISHNA AND ARJOON)شائع کی۔ لیکن اس ادبی خدمت سے زیادہ اہم ولکنزؔ کی ایک اور ادبی خدمت ہے کیونکہ اسی نے ایشیائی زبانوں کو ٹائپ کے ذریعے چھاپنے کے سلسلہ میں پیش قدمی کی۔

1783 ء میں ہال ہیڈؔ نے ہگلی میں بنگالیؔ  کی پہلی گرامر شائع کی۔ اس کا ٹائپ ولکنزؔ ہی نے تیار کیا تھا۔ لیکن چونکہ اس گرامر میں بہت سی خامیاں پائی گئی تھیں۔ لہٰذا یہ ناکامیاب ثابت ہوئی۔

یہ تمام کوششیں تھیں جو سرکاری افسران اور کمپنی کے ملازمین نے وقتاً فوقتاً علم کو فروغ دینے کی غرض سے کیں۔ لیکن کیریؔ نے اس کام کو ایک نئے طریق سے صحیح بنیاد پر قائم کر کے دوبارہ شروع کیا۔ اس نے اپنی روزمرہ کی گفتگو کے ذریعہ عوام کی اور عالم برہمنوں کی امداد حاصل کرنا شروع کر دی۔ وہ ہر شخص سے ہمدردی سے کلام کرتا تھا اور خواہ بوڑھا ہو خواہ جوان ہر ایک سے سبق حاصل کرنے کو ہر وقت تیار رہتا تھا۔ اس طریقہ پر وہ رفتہ رفتہ ایک اعلیٰ زبان دان بن گیا۔ اب اس کی محنتوں کا صلہ ملنے کا وقت بھی آ گیا تھا اور یہ صلہ اس کو فورٹ ولیمؔ کالج کی ملازمت کی صورت میں مل گیا۔

اس کالج میں اس نے بحیثیّت ایک پر وفیسر جو خدمات انجام دیں ان کا ذکر ہم گذشتہ باب میں کر چکے ہیں ان خدمات کے پیش نظر ارباب اقتدار کو جلد ہی معلوم ہو گیا کہ کیریؔ کی قدر و قیمت کیا ہے چنانچہ اپنے ایک نہایت مشکل اور اہم کام کو بخوبی انجام دینے کیلئے ایشیاٹک سو سائٹیؔ  جیسی علمی انجمن نے کیریؔ ہی کو منتخب کیا لہٰذا ’’ بلیوتھیکا ایشیا ٹیکاؔ(BIBLOTHECA ASIATICA)کے متعلّق کیریؔ  اپنے ایک خط میں یوں رقمطراز ہے۔

24 جولائی 1805 ء گرنٹ کی جو جلد ہمراہ بھیجی جاتی ہے اس سے آپ کو معلوم ہو گا کہ ایشیا ٹک سوسائٹی اور کالج نے سنسکرتؔ  کی کتابوں کے ترجمہ کے واسطے ہم کو ایک سالانہ وظیفہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کالج کی کونسل نے میری تنخواہ میں اضافہ کرنے کی پر زور سفارش کی ہے لیکن ابھی یہ ترقی ہوئی نہیں ہے اور چونکہ لارڈ ویلزلیؔ واپس جا رہے ہیں اور لارڈ کارنواسِ(LORD CORNWALLIS)تشریف لے آئے ہیں اس لئے یہ ترقی شاید نہ بھی ہو۔ اگر ہو جائے تو اس سے اور بھی امداد مل جائے گی۔ سنسکرت کی کتابوں کے ترجمہ کی نسبت یہ بات ہے کہ تقریباً دو سال پیشتر میَں کالج کی کونسل کے سامنے ایک تجویز پیش کی تھی کہ ہم سنسکرتؔ  کی تمام کتابیں ایک معین قیمت پر چھاپ دیں گے اور ایک سو جلدوں سے واسطے ایک خاص رقم معاوضہ بھی دے دیں گے۔ چند اصحاب کی رائے تھی کہ یہ تجویز بہت وسیع ہے لہٰذا اس کو معرض التوا میں ڈال دیا گیا۔ چند ماہ ہوئے ڈاکٹر فرانسس بکاننؔ(DR.FRANCIS BUCHANAN ) اپنے نسخوں کے ترجمہ کے سلسلہ میں لارڈ ویلزلیؔ کی صلاح پر میرے پاس آئے۔ دورانِ گفتگو میَں نے ذکر کیا کہ میَں نے کیا تجاویز پیش کی تھیں۔ انہوں نے ان تجاویز سے کامل اتفاق کیا اور ان کا ذکر سر جان این سٹروتھر(SIR JOHN ANSTRUTHER) سے کیا۔ آپ ایشیا ٹک سوسائٹی کے صدر ہیں۔ ان دنوں سرجان بھی لارڈ ویلزلیؔ کے ساتھ ایک تجویز کے بارے میں خط و کتابت کر رہے تھے۔ اس تجویز کا مقصد تمام قدیم ہندو کتابوں کو محفوظ کرنا تھا۔ سر جانؔ نے اس تجویز کی ایک نقل مجھے بھیجی اور میری تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ اس کام کے لئے چند عملی صورتیں پیش کروں۔ میَں نے عملی تجاویز مرتب کیں اور ان میں تھوڑی بہت ترمیمیں ہونے کے بعد فیصلہ ہوا کہ فورٹ ولیمؔ اور ایشیا ٹک سو سائٹی دونوں مل کر ہمارے ضروری اخراجات کے واسطے مبلغ 300روپے ماہوار ہم کو ادا کریں اور اس کے بدلے جس کتاب کو وہ منظور کریں اس کو ہم ترجمہ کر دیں اور ان ہی کے منظور کردہ ٹائپ اور ان ہی کے منتخب کر دہ کاغذپر مع انگریزی تر جمہ کے چھاپ دیں اور اصل قلمی نسخہ کے مالک ہم رہیں۔ انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ یو رپ کے تمام علمی اداروں کے پاس ہمارے ان ترجموں کی سفا رش کریں گے۔ میَں نے صلاح دی ہے کہ رامائن سے ابتدا کی جائے۔ یہ ہندوؤں کی مقدّس کتابوں میں سب سے اہم ہے اس کے مقابلہ میں ویدؔ اس قدر بے لطف ہیں کہ اگر ان سے ابتدا کی گئی تو عوام کی دلچسپی شروع ہی سے جاتی رہے گی۔ رامائنؔ کے ذریعہ ہندوؤں کے دیوی دیو تاؤں کے متعلّق بہتر یں معلومات ہمیں نہیں مل سکتیں۔ اور پھر اس کتاب کا موضوع بھی اِس قدر دلچسپ ہے کہ طبیعّت خواہ مخواہ چاہتی ہے کہ اس کو شروع سے آخر تک پڑھ کر ہی چھوڑا جائے۔

1807 ء میں رسالہ ’’ ایشیا ٹکؔ  ریسرچز‘‘(ASIATIC RESEARCHES)میں علما سے درخواست کی گئی تھی کہ ایشیائی کتابوں کے ترجمہ یا ان کتابوں کے متعلّق معلومات فراہم کریں۔ چنانچہ کیریؔ کا رامائن کا ترجمہ مع شرح کے سیر امپورؔ پریس سے تین جلدوں میں 1810ء شائع ہو گیا۔ جب تک گو رلیسورؔ( GORRESIO )نے اپنا اطالویؔ زبان کا تر جمہ شائع نہ کیا تب تک کیریؔ اور مارشمینؔ‘‘ کی یہ کتاب ہی اس عظیم ہندو رزمیہ نظم کا یورپؔ میں پہلا اور واحد ترجمہ تھا۔ لیکن اس سے پہلے 1802ء ہی میں کیریؔ اپنے سیرامپورؔ کے پریس سے رامائنؔ اور مہابھارتؔ کے بنگالی ترجمہ بھی شائع کر چکا تھا لیکن رامائن کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا تو یورپؔ کے نہ صرف علما بلکہ شعرا نے بھی اس سے استفادہ کیا۔ اس ترجمہ کی جو جلدیں انگلستان بھیجی گئی تھیں۔ وہ جہاز کے غرقاب ہو جانے کی وجہ سے تلف ہو گئیں لہٰذاجو جلدیں ذاتی طور پر کیری نے بطور تحفہ اپنے دوستوں کودی تھیں وہی اب باقی رہ گئی ہیں۔ ایسی ہی ایک جلد اس وقت برٹش میوزیمؔ (BRITHSH MUSEUM)میں موجود ہے۔ فورٹ ولیمؔ کالج کے واسطے کیریؔ نے مشہور کتاب ’’ہتوپدیش ‘‘کے سنسکرتؔ  ترجمہ کو ترتیب دے کر شائع کروایا۔ یہ دیوناگری حروف میں پہلی سنسکرتؔ کتاب چھاپی گئی تھی اس کے علاوہ کیریؔ نے ’’ دس کمار کرت‘‘ اور پھر تری ہری ‘‘کی ایک کتاب کے خلاصے بھی تیار کئے۔ سیرامپورؔ کے پریس میں کیریؔ نے ہندوستانؔ  کے قدیم ترین لفت دان امرسنگھاؔ سنسکرت ’’ ڈکشنری کو مع انگریزیؔ  معانی و شرح کے چھاپ کر تیار کیا۔ اس زمانہ میں سرکارہند کا یہ دستور تھا کہ فورٹ ولیم کالجؔ  میں جو شخص جس زبان کا پروفیسر ہوتا تھا وہی اس زبان کاسرکاری مترجم بھی مانا جاتا تھا اور سرکاری طور پر کوئی کتاب یا پرچہ شائع نہ ہو سکتا تھا جب تک کہ پروفیسر صاحب اس کے متن کو پڑھ کر منظوری نہ دے دیں۔ اپنی کالج کی خدمات کے اس سلسلہ میں کیریؔ کی وساطت سے جو ادبی جواہر ہندوستانؔ کی تین زبانوں میں شائع ہوئے اس کا نہایت مختصر ذکر ہدیہ ناظرین ہے۔

کیریؔ نے اپنے پنڈتوں کی کل سولہ کتا بیں لکھیں جن میں مشہور عالم تصانیف ’’ ہِتوپدیش ‘‘اور ’’ بھگوت گیتا‘‘ کے اولیّن بنگالیؔ تراجم شامل ہیں ان دونوں کے علاوہ اِن سولہ کتابوں میں دہ تین کتابیں بھی ہیں جو بنگالیؔ ادب کی بنیاد مانی جاتی ہیں یعنی رام رامؔ باسو کی تصنیف ’’راجہ پرتاپ آدتیہ ‘‘۔ راجب لوچنؔ کی کتاب ’’مہا راجہ کر شنا چند راچر تر‘‘ اور پنڈت مرتو نجےؔ  ودّ یا النکار کی ’’ہندوستانؔ کے راجاؤں کی کہانیاں۔ ‘‘

خود کیریؔ نے اس عرصہ میں چھ مختلف زبانوں کی صرف و نحو کی کتب شائع کیں۔ یعنی بنگالیؔ۔ سنسکرتؔ ، مرہٹیؔ۔ پنچانیؔ ، تلو گوؔ  اور کناریؔ۔ پھر مارشمینؔ(MARSHMAN)کے فرزند جان سی مارشمین (JOHN C.MARSHMAN) کی مدد سے اس نے بھوٹیاؔ زبان کی بھی ایک گرامر ترتیب دی۔ تین ڈکشنریاں یعنی بنگالیؔ، مرہٹیؔ اور سنسکرت اس کی اپنی تصانیف تھیں اور بھوٹیاؔ زبان کی فرہنگ تیار کرنے میں بھی اس کا نمایاں حصّہ تھا۔ کیریؔ کی مرہٹیؔ ڈکشنری توقع سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوئی۔ اور اس کی بنگالیؔ  ڈکشنری کی تو کلکتہّ ؔیو نیورسٹی کے ڈاکٹر سو سیل کمار ڈے اور آکسفورڈیونیورسٹی(OXFORD UNIVERSITY ) کے پروفیسر ایچ۔ ایچ۔ ولسنؔ(PROF. H.H WILSON) نے بھی داد دی ہے اس کی بنگالیؔ  روزمّرہ کی تصنیف ’’COLLOQUIES‘‘اور ’’ اتہاس مالا‘‘ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ نہ صرف بنگالی علمی زبان کا ہی ماہر تھا بلکہ روزمرّہ میں بھی ایک کہنہ مشق استاد کی سی مہارت تامہّ رکھتا تھا۔ اور جہاں تک ایشیاٹکؔ  سو سائٹی کا تعلّق ہے کیری 1806 ء میں ااس کا ممبر بنا اور ایک سال کے اندر ہی اندر اس کا سب سے زیادہ محنتی کا رکن بلکہ سو سائٹی کا روح رواں بن گیا۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ دس سال کے عرصہ میں اس سو سائٹی کے باون اجلاس منعقد ہوئے جن سے کیریؔآٹھ سے غیر حاضر تھا۔ ممبری کے دن سے تا دِم مرگ وہ سو سائٹی کی ’’ مجلس مذاکرات علمیہ‘‘(COMITTEE OF PAPERS) کا رکن رہا۔ کیریؔ ہی کی تحریک پر سوسائٹی نے سنسکرت کے بہتر ین ڈراما ’’ شکنتلاؔ‘‘ ’’ہتوپدیش ‘‘اور ’’بھگوت گیتا‘‘ کے انگریزی تراجم کئے۔ سو سائٹی ہی کی وساطت سے کیریؔ نے ہندوؤں کے مشہور فلسفہ ’’ سانکھ ‘‘کا ترجمہ انگریزی میں کیا۔ اور جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ سو سائٹی کے ما تحت اس نے ’’ رامائن‘‘ کا ترجمہ شروع کیا اور اس کی تین جلدیں شائع بھی کیں۔ اس رامائنؔ کے ترجمہ کے ذریعہ وہ مغرب کو ہندوستانؔ کے بہتر ین رزمیہ کلام سے مستفیض کرنا چاہتا تھا لیکن افسوس کہ ایک حادثہ کی وجہ سے یہ ادبی خدمت برسرانجام نہ پہنچ سکی۔

کیریؔ کی ادبی خدمات کا مطالعہ کرتے وقت مندرجہ ذیل خط دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کیونکہ اس خط میں اس نے اپنے کام کرنے کے طریقہ اور اپنے بلند مقاصد کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے مورخہ10۔ دسمبرء کو کیریؔ رائیلینڈؔ(RYLAND)کو خط لکھتا ہے کہ ایک عرصہ سے میَں اس ضرورت کا قائل ہو گیا ہوں کہ مشرق میں بائبل کی شرح و موازنہ کی بحث کا آغاز کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم ایسا انتظام کریں کہ جس زبان میں ہم بائبل کا ترجمہ کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی اس زبان کی گرامر بھی تیار کر کے شائع کر دیا کریں تو اس موازنہ کے کام میں بڑی سہو لت ہو جائے گی۔ اگر ہم نے خود یہ کام نہ کیا تو ہمارے جانشینوں کو دوبارہ وہی محنت کرنی ہو گی جو ہم آج کر رہے ہیں گو یا وہ اسی مقام پر ہوں گے جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔ لیکن اگر ابتدائی کتابیں تیار کر دی جائیں تو بہت ہی آسانی پیدا ہو جائے گی اور محنت بھی بچ جائے گی۔ اس طرح جو کچھ معلوم کرنے کے لئے مجھے برسوں جانفشانی کرنی پڑی ہے وہ دوسرے نہایت آسانی سے سمجھ جائیں گے۔ چونکہ مجھے اتنی زبانیں سیکھنی پڑتی ہیں لہٰذا میَں ہر ایک کی گرامر کا مطالعہ کرتا ہوں۔ پھر اس کو قلمبند کر لیتا ہوں اور اس کی پیچیدگیوں اور خاص خاص باتوں پر غور کرتا ہوں۔ اس طریقہ پر میَں نے اب تک تین گرامریں تیار کر کے شائع کر دی ہیں۔ یعنی سنسکرت بنگالیؔ اور مرہٹیؔ، میرا ارادہ ہے کہ تلنگاؔ، کرناٹکیؔ، اوڑیہؔ، پنچابیؔ ، کشمیریؔ، گجراتیؔ ، نیپالیؔ، اور آسامیؔ  زبانوں کی گرامر یں بھی تیار کر کے شائع کر دوں۔ ان میں سے دو تو فی الحال زیرِ طبع ہیں اور امید ہے کہ آیندہ سال کے آخر تک دو یا تین اور چھپ کر تیار ہو جائیں گی۔ ممکن ہے کہ یہ گرامر کی کتابیں اس تجو یز کے لئے کارآمد نہ ہوں جو میَں نے اوپر بیان کی ہے لیکن یہ اس سوال کا جواب ضرور دے دیں گی جو اکثر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ اتنی زبانوں میں کس طرح ترجمے کر لیتے ہیں ؟ بہت کم انسان ایسے ہوں گے جو یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں جب تک کہ وہ کسی کام کو شروع کر کے  صبر واستقلال سے اس کو پورا نہیں کر لیتے۔ اس وقت میَں بنگالیؔ  کی ایک ڈکشنری چھاپ رہا ہوں جو کافی ضخیم ہو گی۔ دوسو چھپن صفحے تک تو پہنچ چکا ہوں لیکن پہلا ہی حرف اب تک ختم نہیں ہوا مگر یہی ایک ایسا حرف ہے جس سے اتنے الفاظ شروع ہوتے ہیں جتنے کسی اور دو حروف سے ملِا کر بھی شروع نہ ہوتے ہوں گے۔ جو ترجمے ہو چکے ہیں ان کی خامیوں کو دور کرنے کے لئے میَں ارادہ کر رہا ہوں کہ ایک ڈکشنری تیار کی جائے جس میں مشرق کی ان تمام زبانوں کے الفاظ ہوں جو سنسکرتؔ سے نکلی ہیں۔ اس کے لئے میَں نے مواد جمع کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ یہ کام میَں سنسکرت سے شروع کروں گا۔ پھر ان الفاظ کے معنی اور استعمال اسی طرح ظاہر کروں گاجس طرح جونسن (JOHNSON)نے کیا ہے اس کے بعد ان الفاظ کے تراجم ہر اس زبان میں ہوں گے جو سنسکرت سے پیدا ہوئی ہے پھر یونانیؔ  اور عبرانیؔ  کے ہم معنی الفاظ لکھے جائیں گے۔ میرا ارادہ ہے کہ ہر سنسکرتؔ لفظ کی مختصر تاریخ بھی اس میں شامل کر دی جائے تاکہ اس سے پیدا ہونے والے دیگر زبانوں کے الفاظ کے معافی صاف و روشن ہو جائیں۔ یہ کام بہت وسیع ہے اور میَں نہیں کہہ سکتا کہ میَں اس کو ختم کرنے تک زندہ بھی رہوں گا یا نہیں لیکن جو نہی میری بنگالیؔ کی ڈکشنری مکمّل ہو جائے گی میَں اس تمام مواد کو ترتیب دینا شروع کروں گا جو میَں اس کام کے لئے کئی سال سے جمع کر رہا ہوں۔ اگر میَں اس عظیم کام کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا اور تمام تراجم بھی مکمّل ہو گئے جو اس وقت تیارّ ہو رہے ہیں تومیَں یہ کہنے کا مستحق ہو جاؤں گا کہ ’’ اے خداوند اب تو اپنے غلام کو سلامتی سے رخصت کر دے۔ ‘‘افسوس ہے کہ کیریؔ کا اندیشہ صحیح ثابت ہوا اور سنسکرتؔ کی اس مجوزہ ڈکشنری کے لئے جو مواد اس نے جمع کیا تھا وہ 11۔ مارچ 1812ء کی آتشزدگی میں تلف ہو گیا اور اس عظیم تصنیف کی ترتیب کا خیال مجبوراً ترک کرنا پڑا۔ پھر کیریؔ کی ادبی خدمات پر غور کرتے وقت ہم کو اس امر کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ جس زمانہ میں اس نے بنگالؔ میں بود و باش اختیار کی تھی اس وقت بنگالیؔ زبان ایک نئے دَور میں قدم رکھ رہی تھی۔ اسی زمانہ میں 1829 ء سرکاری قانون کے مطابق فارسیؔ  کے بجائے بنگالیؔ  اور دیگر صوبوں کی زبانیں عدالتی زبانیں قرار دے دی گئیں۔ فارسیؔ  کو مسلمان بادشاہوں نے درباری زبان کی حیثیّت دی تھی۔ جب کیریؔ نے کلکتہّؔ اور داناپورؔ میں کام شروع کیا تو 1792-93 ء اس وقت بنگالیؔ میں کوئی کتاب نہیں چھپی تھی اور قلمی نسخے بھی شاذو نادر ہی دیکھنے میں آتے تھے۔ کولبروکؔ صاحب نے بجا فرمایا ہے کہ ’’ اس زمانہ میں بنگالی طرز تحریر در اصل سنسکرتؔ  یا دیونا گری رسم الخط تھا۔ ‘‘ندّیا کے مشہور مصلح چیتنیہؔ نے اپنے نئے دھرم کی کتابوں کی تحریر کا رواج جاری کیا۔ اس سلسلہ میں کرشن داسؔ کی کتاب ’’ چیتنیہ حیرت امرت ‘‘سب سے پہلی کتاب تھی جو 1557ء میں لکھی گئی۔ لیکن بنگالیؔ  ’’ سنسکرتؔ  کی قبر سے پیدا ہوئی تھی۔ ‘‘مگر بر ہمنوں اور مسلمان حاکموں نے اس کے ساتھ نہایت بے رخی کا سلوک رَوا رکھا تھا کیونکہ بقول بر ہمنوں کے یہ ’’ صرف بھوتوں اور عورتوں کی زبان‘‘ تھی۔ کیریؔ کے آنے سے تقریباً نصف صدی پیشتر ’’ ہندوستا نؔ کے آکسفورڈ‘‘یعنی ندّیاؔ میں راجہ کرشنؔ رائے رہتے تھے۔ یہ ہندو مت کے اتنے رائج الاعتقاد پیروکار تھے کہ انہوں نے ایک شودر کو اس لئے پھانسی پر لٹکوا دیا تھا کہ اس نے ایک برہمن لڑکی سے شادی کرنے کی جرات کی تھی۔ انہوں نے اپنے مذہب کی اشاعت کی غرض سے بہت کچھ لکھا اور اپنی رعایا کو وظائف بھی دیئے تاکہ وہ ’’ بنگالی زبان کا مطالعہ مستعدی اور ثابت قدمی سے کریں۔ ‘‘لیکن جب چالیس سال بعد کیریؔ ندّ یا پہنچا تو اس کو معلوم ہوا کہ تین کروڑنفوس کی آبادی میں فقط چالیس کتابیں موجود تھیں جو کہ تمام ہا تھ کی لکھی ہوئی تھیں۔ یہ بھی واقعہ کہ ہگلی کے اس پار ایک پر یس بھی تقریباً سال سے قائم تھا لیکن اس طویل عرصہ میں ہال ہیڈؔ کی گرامر کے علاوہ اور کوئی کتاب اس میں نہ چھپی تھی۔ لہٰذا یہ گرامر ہی سب سے پہلی اور قدیم چھپی ہوئی کتاب دیکھنے میں آ سکتی تھی۔ اس کتاب کے متعلّق ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ غلطیوں کی زیادتی کی وجہ سے یہ قطعی کامیاب ثابت نہ ہوئی تھی،

شمالی ہندوستانؔ کے ایک شخص مسمیّ بابو رامؔ نے کو لبروک کے زیر اثر سنسکرتؔ کی قدیم کتابوں کو چھا پنے کے لئے کلکتہّؔ میں ایک پر یس قائم کیا۔ وہ پہلا بنگالی تھا جس نے اپنی مادری زبان میں اپنی شخصی ذمہ ّ داری پر کتابیں چھاپیں۔ وہ گنگاکشورؔ تھا جس کوکیریؔ اور وارڈؔ نے سیرامپورؔ میں یہ فن سکھا یا تھا۔ اس نے جلد ہی ایک بڑی دولت جمع کر لی اور 1820ء تک تین پر یس اور قائم ہو گئے۔ ان سب چھاپے خانوں سے دس سال کے عرصہ میں کل ستا ئیس مختلف کتا بیں چھپ کر فروخت ہوئیں اور ان تمام کتابوں کی مجموعی تعداد 5 ہزار جلدوں سے زیادہ نہ تھی۔ ان تمام کتابوں کے لئے ٹائپ سیرامپورؔ ہی نے مہیا ّ کیا تھا لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ تمام کتابیں کیریؔ ہی کی محنت کا نتیجہ تھیں۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے 1801 ء میں بنگالی بائبل کاؔ نیا عہد نامہ شائع ہوا۔ اسی سال اس نے گرامر بھی ختم کر کے چھاپی۔ اس کے علاوہ بنگالیؔ روزمرہ کی ایک درسی کتاب (COLLOQUIES) بھی انہی دنوں مکمّل ہو کر عوام کے ہاتھوں میں پہنچی اور 1815 ء سے اس نے اپنی ڈکشنری کے جز بھی شائع کرنے شروع کر دیئے۔ لیکن کیریؔ  کو اس امر کا احساس تھا کہ ہر قوم کے ادب کا نشو و نما اس قوم ہی کے ادیبوں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ اور بدیشی کے ذریعہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا کیریؔ نے ہندوستانیوںؔ  کو جلد از جلد اپنا شریک کار بنانے کی کوشش کی۔ اس کا سب سے پہلا شاگرد پنڈت رام رامؔ باسوتھا۔ سیرامپورؔ کاپہلا ٹریکٹ(TRACT) اور ہندو مذہب کے خلاف سیر امپورؔ کاپہلا پمفلٹ(PAMPHLET) رام رامؔ  باسو کے قلم ہی سے لکھا گیا تھا۔ یہ دونوں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئے اور ان کی اشاعت پرعوام میں بہت بے چینی پھیلی لیکن رام رامؔ باسو جس نے خود اس خوبی سے ہندو مذہب کے خلاف قدم اٹھایا تھا کبھی علانیہ اپنے مسیحی ہونے کا اقرار کرنے کی جرات نہ کر سکا۔ بہر کیف۔ اس کے مذہبی عقا ئد سے قلع نظر ہمیں اس کی ادبی کار گزاری سے جوتمام ترکیریؔکی علمی صجتوں کا نتیجہ تھیں تعلّق ہے۔ رام رامؔ باسو اپنے زمانہ کا ایک نہایت بلند پایہ بنگالیؔ  عالم مانا جاتا تھا۔ اس نے کیریؔ کے کہنے سے چند ایک مذہبی رسالے وغیرہ لکھے اور ان کے علاوہ کیریؔ ہی کی تر غیب پر اس نے اپنی کتاب ’’راجہ پر تابؔآدتیہ جیون چرتر‘‘یعنی راجہ پر تابؔ آدیتہ کی سوانح عمری لکھ کر شائع کی۔ کہ راجہ پرتاب آدیتہ ساگردیپؔ کے آخری حکمران تھے۔ جب کیری فورٹ ولیمؔ کالج میں پروفیسر مقرّر ہوا تو اس کو سب سے بڑی دِقت یہ پیش آئی کہ بنگالی جماعت کے لئے کوئی درسی کتاب ہی موجود نہ تھی۔ لہٰذاکیریؔاور اس کے پنڈت اور حتی کہ اس کے طلبا کو بھی کئی برس تک بنگالیؔ کی درسی کتابیں خود لکھنی پڑیں۔ ان میں روّم کے مشہور شاعر و رچلؔ(VIRGIL) اور انگریزی ڈراما نگار شیکپئیرؔ(SHAKESPEARE)کی کتابوں کے ترجمے شامل تھے۔ بالآخر سکول بک سوسائٹی(SCHOOL BOOK SOCIETY)نے اس کام کو اپنے ذمہّ لے لیا اور رام کمل سینؔ کو ترغیب دی کہ وہ اپنی بنگالی ڈکشنری تیار کریں۔ بابو رام کمل سینؔ ایک پر یس کے مالک تھے اور آخر کا رآپ ’’ بنک آف بنگالؔ‘‘(BANK OF BENGAL)کے خاص عہد یدار مقّرر ہوئے۔ مشہور عالم مصلح کیشب چند رسینؔ انہی کے چشم و چراغ تھے۔ لہٰذایہ کہا جا سکتا ہے کہ کیریؔ ہی کی خدمت کی وجہ سے آج ہندوستانؔ میں بنگالیؔ زبان کی وہی حیثیّت ہے جو یو رپ میں کسی زمانہ میں اطالویؔ زبان کو حاصل تھی اور بنگالیؔ روپ کسی معنی میں بھی اطالوی ادب سے کم نہیں ہے۔

جہاں تک ادب کا تعلّق ہے کیریؔ کے انگریز جا نشین یعنی خود اس کے فر زند فلیکس کیریؔ (FELIX CAREY) نے جو خدمت کی وہ کسی طرح بھی باپ کی خدمت سے کم نہیں۔ فلیکس نے رام کمّل سین کے ساتھ مل کر بنگالیؔ زبان میں علم تشریح البدن(ANATOMY)کی ایک ’’ جامع العلوم ‘‘انسائیکلوپیڈیا )تیار کی۔ جان بنین(JOHN BUNYAN)کی مشہورکتاب ’’ پلگرمز پر وگریس‘‘(PILGRIM’S PROGRESS)کا ترجمہ کیا۔ گولڈسمتھؔ(GOLD SMITH) کی ’’ تاریخ انگلستانؔ ‘‘کو بنگالیؔ زبان میں قلمبند کیا۔ اور ملؔ(MILL ) صاحب کی ’’تاریخ ہند‘‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ کیریؔ کی ادبی خدمات کے موجودہ باب کو ہم متعدّد مشاہیر میں سے دوکی آراء کے ساتھ ختم کرتے ہیں۔ مشہور مصلح کیشتؔ چند رسین کے والد رام کمّل سین کا ذکر ہو چکا ہے آپ ایشیا ٹکؔ سو سائٹی کے سیکرٹری بھی تھے آپ نے فرمایا ہے کہ ’’ بنگالیؔ زبان کو ادبی حیثیّت دینے اور اس کو ترقی کے ابتدائی مدارج میں سے نکال کر عروج دینے کا سہرہ ڈاکٹرکیریؔ اور ان کے ہم خدمتوں کے سر ہے۔ ‘‘اور پھر سموایل پیئرس کیریؔ(SAMUEL PEACE CAREY ) صاحب سے ڈاکٹر رابند راناتھ ٹیگورؔ نے 1921ء میں فرمایا کہ ’’ دیسی زبانوں میں دلچسپی کی موجود ہ تحریک کا بانی کیری ہی تھا۔ ‘‘

٭٭٭

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل