FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

ادبی کتابی سلسلہ

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد

( ۲۰) محرم نمبر

حصہ دوم

 

مرتبین

ارشد خالد

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل

 

 

 

ایک کہانی عشق کی

 

               انجلاء ہمیش

( کراچی)

 

 

 

میں تیرے بہترّ ساتھیوں میں نہیں تھا

مجھے تو عشق نے منتخب کیا تھا

ایک وحشت ناک بھیڑ تھی میرے ارد گرد

مگر میں اس بھیڑ میں ہوتے ہوئے بھی

کسی وحشت کا حصہ نہ تھا

میں تو تنہا تھا

اہلِ حَکم کے نزدیک تُو ایک باغی تھا

اور وہ تمام ہجوم جو فقط ہجوم تھا

بے چہرہ بے کردار بے ذہن فقط ہجوم

جو اپنی غلط ضرورتوں کی خاطر

وہی کہتے جو اہل حکم کہتے

وہی سنتے جو انہیں سنایا جاتا

وہی دیکھتے جوانہیں دکھایا جاتا

سواے حسینؑ ابنِ علیؑ !

تم باغی ٹھہرے

میں،اس ہجوم کا حصہ نہیں تھا

مگر تم تک آنے کے لئے

مجھے اس ہجوم سے گزرنا تھا

تمہارے سچ کو جاننے کے لئے

میں نے کتنے ہی جھوٹ سنے

میں باطل کے راستوں کو عبور کر کے

حق تک پہنچا کہ

میں تیر ے بہتّرساتھیوں میں نہیں تھا

مگر مشیت کو منظور تھا کہ حسینؑ حُر سے ملے

کہ تاریخ کو باور ہو

اہلِ عشق کے فیصلے

خدا کے فیصلے ہوتے ہیں

جس نے زمانے کی قسم کھا کر

خسارے کا مفہوم سمجھایا

اور میں نے

ہجومِ غلط کے درمیاں

اس مفہوم کو پا لیا

میں تیرے بہتّر ساتھیوں میں نہیں تھا

حسین میں تیرا حُر تھا

٭٭٭

 

 

العطش العطش

 

               انجلاء ہمیش

( کراچی)

 

 

مذہبِ عشق میں دونوں پیاسے تھے

اے خدائے بزرگ و برتر!

تیری کیا حکمت تھی

کہ حاجرہ کا لعل سیراب ہوا

اور حسینؑ کا لعل پیاسا رہ گیا

فلسفہ و منطق تیری محبت پہ سوال اٹھاتے ہیں معبود

تُو،

جس نے صحرا سے پانی جاری کیا

پھر فرات اس قدر بے بس کیسے ہوا

تو دونوں داستانوں کا خالق

کس کے حوصلے کو داد دی جائے

وہ ننھے پاؤں جو صحرا کو مجبور کر دیں۔ ۔ ۔ ۔

پانی جاری ہوا

تو آباد ہوئی سرزمینِ عرب

اور گواہ بنی تیری واحد نیت کی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

محبت کا یہ سفر ناتمام رہتا

اگر العطش العطش کی صدا نہ بلند ہوتی

حسین کا لعل

چھ ماہ کے ننھے علی اصغر نے

پیاسا رہ کر

کرب و بلا میں کوثر کا مفہوم سمجھادیا

’’بے شک ہم نے آپ نے کو خیر و فضیلت میں بے انتہا خیر و برکت بخشی ہے ‘‘

‘‘بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل و بے نام و بے نشاں رہے گا‘‘

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

               اعجاز روشنؔ

( جہلم)

 

اِس اُمتِ رسولُ کے غم خوار ہیں حسینؑ

دُنیا کے بے کسوں کے مددگار ہیں حسینؑ

 

یادِ حسینؑ اَصل میں ہے زیست کا گداز

جو حسنُ دے نماز کو وہ پیار ہیں حسینؑ

 

صبر و رضا کے نام پر سہتا ہے ظلم جو

اُس مصلحت شکار سے بیزار ہیں حسینؑ

 

دوڑے جو روح عصر میں پھر بن کے زندگی

اس روشنی ٔ حق کے طلبگار ہیں حسینؑ

 

روشنؔ اذان عشق پر مامور تھے نبیﷺ

لیکن نماز عشق کا اظہار ہیں حسین

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

 

ڈاکٹر فخر عباس

( لاہور)

 

فضائے دہر نے اوڑھی ردا محرم کی

غمِ حسینؑ سے ہے ابتدا محرم کی

 

وفورِ شوق سے نکلے ہیں ماتمی گھر سے

گلی گلی میں ہے گونجی صدا محرم کی

 

فراتِ عشق پہ بازو تڑپ اُٹھے کس کے

سنی جو پیاس میں ڈوبی ندا محرم کی

 

بصد نیاز جو آتے ہیں اشک آنکھوں میں

یہ کیفیت بھی ہے کتنی جدا محرم کی

 

بہت سے آئے ہیں موسم مگر اے دل والو

چلی ہے دل پہ حکومت سدا محرم کی

 

دعا تو یہ کہ ہو سانحہ نہ اب کوئی

کرے ہمیشہ حفاظت خدا محرم کی

٭٭٭

 

 

 

سلام بحضور امام حسینؑ

 

 

               عارف فرہادؔ

( راولپنڈی)

 

 

ہم تیرے ہجر کے روگی ہیں سو آہیں بھرتے رہتے ہیں

اے سبطِ نبی ہر لحظہ تری ہی باتیں کرتے رہتے ہیں

 

جو کرب و بلا میں تشنہ لب جاں وار گئے ہم اُن کے لئے

اِن آنکھوں کے مشکیزوں میں کچھ پانی بھرتے رہتے ہیں

 

وہ بادشہِ دو عالم ہے محبوبِ خدا کا شہزادہ

جس کے لئے اپنی آنکھوں میں خورشید اُبھرتے رہتے ہیں

 

جو تیری یاد کے آنسو ہیں، جو پھول ہیں تیری اُلفت کے

ہر شب وہ نکھرتے رہتے ہیں، ہر روز سنورتے رہتے ہیں

 

فرہادؔ حسین کے ماتم کا اعجاز ہے جو ہم زندہ ہیں

ورنہ تو کتنے لوگ یہاں جیتے جی مرتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

کربل کتھا

 

 

               امین بابر

( رحیم یار خان)

 

ماہیے

 

اشکوں کی روانی ہے

سوزبھری یارو

کربل کی کہانی ہے

٭

 

سر تن سے کٹاتے ہیں

دین کو نانا کے

حسنینؑ بچاتے ہیں

٭

 

کیا رتبہ پایا ہے

چڑھ کے نیزے پہ

قرآن سنایا ہے

٭

 

کچھ خیمے جلتے ہیں

راکھ سے اپنی جو

تاریخ بدلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

دعا

 

               عرفان ساحل

( گوجرانوالا)

 

مالک ! کچھ اس طرح سے مقدر سنوار دے

مدحت کا نُور میرے قلم میں اُتار دے

سُوکھی پڑی ہوئی ہے تخیل کی سرزمیں

عشقِ رسولِ پاکؐ کی اس کو پھوار دے

جس سے ترے علیؑ کے فضائل رقم کروں

لفظوں پہ اس طرح کا مجھے اختیار دے

 

بنتِ رسولؐ، مادرِ حسنینؑ کے طفیل

میرے تصورات کا گلشن نکھار دے

تیرے حسینؑ نے جو بسائی ہے کربلا

اذنِ سفر وہاں کا مجھے ایک بار دے

بے چین ہو گیا ہوں میں مشہد کے واسطے

دل کو سکون بخش، نظر کو قرار دے

 

اس راہ میں ملا جو انیسؔ و دبیرؔ کو

رزقِ سخن مجھے بھی وہ پروردِگار دے

آلِ نبیؐ کی مدح سرائی کی نوکری

میرے لیے نجات کی ضامن قرار دے

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

               عرفان ساحل

( گوجرانوالا)

 

 

وِلا کا رزق میسر ہوا، سلام کہا

یہ فخر میرا مقدر ہوا، سلام کہا

 

غزل کی شوخ حدوں سے نکلنا مشکل تھا

جو فیضِ آلِ پیمبرؐ ہوا، سلام کہا

 

رسولؐ زادی نے مجھ پر یہ کی مہربانی

غمِ حسینؑ کا خوگر ہوا، سلام کہا

 

لگی جو پیاس تو یاد آئے سارے تشنہ دہن

اُداس دل بھی سراسر ہوا، سلام کہا

 

جو میرے ذہن میں دھُندلا سا اک تصور تھا

وہ اشک ڈھلنے سے منظر ہوا، سلام کہا

 

نظر میں شامِ غریباں کے نقش جب اُبھرے

میں حزن و یاس کا پیکر ہوا، سلام کہا

 

بہت ضروری تھا سامانِ آخرت کے لیے

درِ عباؑ کا گداگر ہوا، سلام کہا

 

درُود پڑھ کے اُٹھایا قلم کو جب ساحلؔ

تو لفظ لفظ معطر ہوا، سلام کہا

٭٭٭

 

 

سکینہؑ بنت الحسینؑ

 

 

               مرتضیٰ قمر

کھرڑیانوالہ(فیصل آباد)

 

قیدِ تنہائی سے کس کا یہ بین ہے

جانِ عباسؑ ہے بنت الحسینؑ ہے

جس کے منہ پر طمانچے لگائے گئے

خون کانوں سے ناحق بہائے گئے

سامنے جس کے خیمے جلائے گئے

بھائی بیمار پر ظلم ڈھائے گئے

 

غم کے شعلوں سے جس کو گزارا گیا

جبر اتنا ہوا نہ سہارا گیا

جس کا اکبرؑ جواں بھائی مارا گیا

جس کا اصغرؑ قبر میں اتارا گیا

 

جس کے بابا کو نیزے چڑھایا گیا

جس کو بے جرم قیدی بنایا گیا

بے پلانے اونٹوں پر بٹھایا گیا

جس کو بازارِ کوفہ میں لایا گیا

 

فاطمی ہار کا ایک موتی ہے یہ

یاد کر کر کے بابا کو روتی ہے یہ

اپنا دامن دریدہ بھگوتی ہے یہ

خاکِ زندان پہ اب کے سوتی ہے یہ

 

یہ سکینہؑ ہے جو اتنی بے چین ہے

جانِ عباسؑ ہے بنت الحسینؑ ہے

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

               مرتضیٰ قمر

کھرڑیانوالہ(فیصل آباد)

 

صحرا کو گلستان بنایا حسینؑ نے

عظمت کا اک چراغ جلایا حسینؑ نے

 

کس عزم سے چلا ہے یہ عمرانی قافلہ

کس طَور فرض اپنا نبھایا حسینؑ نے

 

اللہ کے خلیلؑ بھی حیران رہ گئے

منظر وہ کربلا میں دکھایا حسینؑ نے

پیوستہ اس کے ساتھ تھی اسلام کی بقا

سر اپنا اس لئے نہ جھکایا حسینؑ نے

 

کربل میں موت اب تک شرمسار ہے قمرؔ

مرنے کا کیا سلیقہ سکھایا حسینؑ نے

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

کرب و بلا میں جذبۂ ایمان دیکھئے

نوکِ سناں پہ قاریِ قرآن دیکھئے

تنہا اٹھا رہا ہے لاشے میدان سے

پُر عزم پھر بھی صبر کا سلطان دیکھئے

 

شیرِ خدا کا شیر ہے جرأت کا بادشاہ

چپ چاپ ہو رہا ہے قربان دیکھئے

 

غربت کی شام میں ہیں خیمے جلے ہوئے

برپا ہے کیسے جبر کا طوفان دیکھئے

 

کُل انبیاؑء بھی جس کے ہیں ممنون ہو گئے

ابنِ علیؑ کا مرتبہ و شان دیکھئے

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

               اختر حمید گل

( اسلام آباد)

 

 

دین کی بقاء بنا واقعہ حسین کا

دین پہ ہی مٹ گیا قافلہ حسینؑ کا

 

کفر کو مٹا دیا دے کے جاں حسینؑ نے

تھا ازل سے حق پہ ہی راستہ حسینؑ کا

 

اک حسینؑ کے لئے آئے تھے کئی ہزار

کفر پہ تھا اس قدر دبدبہ حسینؑ کا

 

لڑکھڑائے نہ قدم گھر ہی سب لٹا دیا

تھا عظیم تو بہت حوصلہ حسینؑ کا

 

مٹ گیا جہان سے نام تک یزید کا

ہر زبان پہ ہے سدا تذکرہ حسینؑ کا

 

مل گئی نجات ہی ہر کٹھن گھڑی سے پھر

رب کو جب کبھی دیا واسطہ حسینؑ کا

 

سر کٹا نماز میں بندگی بھی خوب کی

نوک سناں بھی خوب تھا معجزہ حسینؑ کا

 

روز حشر گلؔ کی بس اک یہی دعا خدا

باعث نجات ہو یہ مرثیہ حسینؑ کا

٭٭٭

 

 

اک نور کا پیکر

 

               ارشد خالد

( اسلام آباد)

 

میرے دل کے اندر ہی اندر

اک گنبد والا معبد ہے

اس گنبد والے معبد میں

اک چہرہ اقدس رہتا ہے

اک نور کا پیکر رہتا ہے

جسے دیکھوں بھی تو عبادت ہے

جسے سوچوں بھی تو عبادت ہے

٭٭٭

 

 

 

افسوس صد افسوس

 

گھونٹ بھر پانی کی ضرورت تھی

اُس کی ننھی سی جان کو لیکن

تم نے اے کوفیو! شقی قلبو!

چھ مہینے کے ننھے اصغرؑ کی

آہنی تیر سے تواضع کی

بے رحم کوفیو!شقی قلبو!

ایسی سفاکیت پہ سفاکو!

تم پہ بس بار بار لعنت ہو

یعنی کہ بے شمار لعنت ہو

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

عارف امام

( امریکہ)

 

نگاہوں میں وہی منظر پلٹ کر آنے والا ہے

بہتّر کے لئے لاکھوں کا لشکر آنے والا ہے

وہ تقدیریں بدلنے والا اب تک رستے میں ہے

کہ رستے میں ابھی حُر کا مقدر آنے والا ہے

 

ابھی یہ قافلہ مقتل میں تھوڑی دیر ٹھہرے گا

پھر اس کے بعد اک میدانِ محشر آنے والا ہے

 

اے دینِ حق تری تشنہ لبی ہے آخری دم پر

گلوئے خشک کے نزدیک خنجر آنے والا ہے

سکینہؑ سے کوئی کہہ دے درِ خیمہ سے ہٹ جائیں

کہ دریا اٹھ کے خیمے کے برابر آنے والا ہے

 

ابھی اے کلمہ گویو اپنے نیزے اور چمکاؤ

ابھی میداں میں ہم شکل پیمبر آنے والا ہے

 

ضرورت ہے صفِ اعدا تجھے ترتیبِ تازہ کی

کہ اکبرؑ جا چکا ہے اور اصغرؑ آنے والا ہے

 

ابھی یہ شغل وحشت خیزیِ آتش رہے جاری

ابھی بیمار اک خیمے سے باہر آنے والا ہے

یہ بحرِ اشک چھلکا ہے ترائی کی تمنا میں

یہاں دریا کے قدموں میں سمندر آنے والا ہے

 

میں نقشِ ماتمِ کہنہ پہ ضربِ نو لگاتا ہوں

کہ اس پر زخم اک پہلے سے بہتر آنے والا ہے

 

بچھائی جانے والی ہے سرِ محشر نئی چوکی

جہاں مجلس ہے جس میں سبطِ جعفر آنے والا ہے

٭٭٭

 

 

 

               عارف امام

 

محیطِ گردشِ کون و مکاں عزا خانہ

زمین فرشِ عزا، آسماں عزا خانہ

 

بوقتِ نزع تسلی کناں عزا خانہ

بروز حشر مرا سائباں عزا خانہ

 

یہاں سجا کے اٹھایا گیا نشانِ ازل

نبود و بود کے ہے درمیاں عزا خانہ

 

یہ سجدہ گاہِ تعشق، یہ ہے مصلیِ دل

کہاں شیوخ و شریعت، کہاں عزا خانہ

 

سرِ افق جو پھریرا ہے سات رنگوں کا

سجا رہے ہیں امامِ زماں عزا خانہ

 

جہاں نبیؐ سے محبت نہیں وہاں کیا ہے ؟

جہاں بنیؐ سے محبت وہاں عزا خانہ

 

تری نظر پہ جو کھلتے نہیں رموزِ وجود

تری نظر سے ہے اب تک نہاں عزا خانہ

 

نگارِ دنیا نہیں تجھ سے گفتگو ممکن

پڑے گا تیرے مِرے درمیاں عزا خانہ

 

یہاں یقیں ہی یقیں ہے یہاں نہیں کوئی شک

ورائے سرحدِ وہم و گماں عزا خانہ

 

لو میرے سینے کی توسیع ہونے والی ہے

بنایا جانے لگا ہے یہاں عزا خانہ

 

ہر ایک قامتِ معنی پہ سایہ زن ہے عَلَم

ہر ایک موجِ سخن میں رواں عزا خانہ

 

یہ لوگ نام و نشاں میرا پوچھتے کیوں ہیں

فقیر نام ہے میرا نشاں عزا خانہ

٭٭٭

 

 

 

               عارف امام

 

لکھنا آئے نہ فنِ نوحہ نگاری آئے

مجرئی اک ہنرِ گریہ زاری آئے

بیٹھ جاتا ہوں سرِ راہ بچھائے ہوئے دل

دیکھئے کب مرے مولاؑ کی سواری آئے

 

شل سہی بازو، پہ ماتم ہو تو کچھ ایسا ہو

ایک ہی ضرب لگے زخم بھی کاری آئے

 

حر ہوں، نادم ہوں کہ تاخیر سے آیا لیکن

سب سے پہلے مرے آقاؑ مری باری آئے

 

اِس طرف شیرِ نیستانِ علیؑ تنہا ہے

فوج ادھر آئے تو پھر ساری کی ساری آئے

مسلم و جون و حبیب ابنِ مظاہر کو سلام

کون عیسیٰ کو میسر یہ حواری آئے

 

اب نہ دریا نہ علمدار نہ سقائے حرم

اب نہ کوزہ لئے باہر مری پیاری آئے

 

جب کہیں لاش کے اعضا ہی نظر آتے نہیں

ایسے عالم میں کسے زخم شماری آئے

 

تیری غربت کے نثار اے مرے بیمار امامؑ

کیسے گردن میں کئی طوق یہ بھاری آئے

 

رات ہے، ہول ہے، سناٹا ہے اور شعلے ہیں

میرے سینے پہ مری راج دلاری آئے

میں کہیں دور ہٹاتا ہوا مجمع کو چلوں

حشر کے روز جو بی بی کی عماری آئے

٭٭٭

 

 

 

               عارف امام

 

 

اُجالا بڑھ رہا ہے اور اندھیرا چھٹ رہا ہے

میں ماتم کر رہا ہوں میرا سینہ پھٹ رہا ہے

 

عجب وحشت میں زنجیریں گھما کر مارتا ہوں

نشان ہیں پشت پر لیکن کلیجہ کٹ رہا ہے

میں اپنی قبر میں نوحہ سنا کر سو چکا ہوں

فرشتے آ چکے ہیں اور تبرک بٹ رہا ہے

 

یہاں نیزے ہیں اور نیزوں کے اوپر روشنی ہے

یہاں خورشید بھی شرما کے پیچھے ہٹ رہا ہے

 

کسی مقتل کی مٹی سے شعاعیں پھوٹتی ہیں

چمکتا ہے وہی چہرہ جو اس سے اٹ رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

               عارف امام

 

 

یہ کربلا ہے یہاں ہے حصارِ تشنہ لبی

یہاں پہ آب و ہوا ہے شکارِ تشنہ لبی

 

یہاں کی خاک سے صیقل ہوئی طلائے فلک

یہاں کی خاک ہوئی زرنگارِ تشنہ لبی

 

ُٓٹھایا چلو میں پانی اُٹھا کے پھینک دیا

کہ اب فرات پہ ہے اختیارِ تشنہ لبی

 

کسے مجال ترائی کو چھین لے ہم سے ٭

کسے مجال کہ ہو ذمہ دارِ تشنہ لبی

 

یہ زخمِ چشم ہرا ہے شمیمِ گریہ سے

یہاں پہ ٹھہری ہوئی ہے بہارِ تشنہ لبی

 

ذرا سی دیر کھلا تھا تبسمِ اصغرؑ

لبوں پہ پھیل گیا اختیارِ تشنہ لبی

 

لہو سے ہو چکے سیراب، لوگ جا بھی چکے

پیالہ کرتا رہا انتظارِ تشنہ لبی

 

یہ آسماں پہ جو بادل دکھائی دیتا ہے

خرام کرنے لگا ہے غبارِ تشنہ لبی

 

ہٹا رہا ہے پڑاؤ کنارِ دریا سے

بڑھا رہا ہے کوئی اعتبارِ تشنہ لبی

 

عجیب خشکیِ لب ہے عجیب رنگ عطش

کہ سلسبیل کرے انتظارِ تشنہ لبی

 

دہانِ اکبرؑ خوش رو، لبانِ مسلم و جون

کہاں کہاں نظر آیا وقارِ تشنہ لبی

 

فرات! وہ تری صورت نظر نہیں آتی

یہ آئینہ بھی ہوا داغ دارِ تشنہ لبی

٭٭

٭اس خیال کو میں نے نصیر ترابی کے ایک شعر سے بطور تبرک لیا ہے

کون پانی کو روکنے والا پیاس کا جبر اختیاری ہے

٭٭٭

 

 

 

               عارف امام

 

 

ہے شہادت کہ ہلاکت کہ اجل بولتی ہے

مرضیِ رب سرِ میدانِ جدل بولتی ہے

یہ زباں حق کی زباں ہے دم گفتار تو ہو

پھر ہو دربار، کہ مقتل، کہ محل بولتی ہے

ایک وعدہ ہے فقط وعدۂ طفلیِ حسینؑ

جس کو قاموسِ تغیئر بھی اٹل بولتی ہے

 

فجر کا وقت ہے عاشور ہے سناٹا ہے

کس خموشی سے یہاں صبح ازل بولتی ہے

 

جنگجو کہہ کے بلاتا ہے مرا آج مجھے

خود کو خوشبوئے شہادت مرا کل بولتی ہے

رن میں ہے صاحبِ اسرارِ بلاغت کا پسر

وہ رجز پڑھتا ہے شمشیرِ اجل بولتی ہے

 

آسماں لال نظر آتا ہے جو شام کے وقت

آنکھ اسے خون کی سرخی کا بدل بولتی ہے

 

بال بکھرائے ہیں ترتیب و تبدّل کی خطیب

اور سرِ خانۂ تخریب و خلل بولتی ہے

 

میں نے بس شعر کہے، شعر سنے، شعر لکھے

داورِ حشر، مری فردِ عمل بولتی ہے

 

اے غزل گو کبھی سن مرثیۂمیر انیسؔ

ایک مصرعے میں یہاں پوری غزل بولتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

               عارف امام

 

 

تلوار لئے درہم و دینار کے بازو

کرتے ہیں قلم روز قلم کار کے بازو

 

آ جائیے مولاؑ، میں یہاں کب سے کھڑا ہوں

پھیلائے ہوئے حسرتِ دیدار کے بازو

 

ہمت ہے کسی کی مجھے رستے سے ہٹائے

میں تھام کے چلتا ہوں عزادار کے بازو

 

ہاتھوں میں کہاں دم تھا کہ میں تیغ چلاتا

قدرت نے عطا کر دئیے اشعار کے بازو

 

مجلس میں نہ چھلکیں تو کس کام کی آنکھیں

ماتم کو نہ اُ ٹھیں تو ہیں بے کار کے بازو

 

فتوے کی چھری اس نے چھپائی ہے بغل میں

میں کاٹ نہ دوں مفتیِ مکار کے بازو

 

کعبے نے سجا رکھی ہے اس وقت کی تصویر

پھیلے تھے یہاں پر کبھی دیوار کے بازو

 

تا خیر نہ کی، تیغ دو،دم بھیج دی اس دم

جس دم نظر آئے اسی معیار کے بازو

 

صورت علی اکبرؑ کی محمدؐ کی ہے صورت

بازو بھی وہی احمد مختارؐ کے بازو

 

اب حشر تک مَشک و عَلَم ساتھ رہیں گے

تسمے سے حمائل ہیں علم دارؑ کے بازو

 

مشکیزہ سے پانی ہوا جس آن علیحدہ

شانوں سے علیحدہ تھے وفادارؑ کے بازو

 

کمسن تھے مگر خوب لڑے عونؑ و محمدؑ

خنجر نے اڑائے یہاں تلوار کے بازو

 

ناوک نظر آیا تو گلا آگے بڑھایا

اصگر نے بچائے شہۂ ابرارؑ کے بازو

 

ہے آیتِ سجدہ کہ ہے شمشیر امامت

سجدے میں پڑے ہیں صفِ اغیار کے بازو

 

مانا کہ رسن بستہ رۂ بازوئے زینبؑ

آزار رہے قامت اِظہار کے بازو

 

پہنائی گئی پیروں میں سجادؑ کے بیڑی

باندھے گئے زنجیر سے بیمار کے بازو

 

ان ہاتھوں سے ہی اِس نے کیا ہے وہاں ماتم

حسرت سے تکے جاتا ہے زوّار کے بازو

 

آ جائیں علیؑ، میں انہیں آرام سے دیکھوں

کھل جائیں مری تربت ِہموار کے بازو

٭٭٭

 

 

سلام

 

               عارف خواجہ

( چنیوٹ)

 

 

آغوشِ محمدؐ میں پلے زہراؑ کے دلبند

شبّیرؑ ہیں شبّرؑ ہیں یہ حیدرؑ کے ہیں فرزند

 

کیا شانِ یصلّون ہے کیسا ہے گھرانہ

مصروفِ سلامی ہوا از خود خداوند

 

دی جن کی عطاؤں نے غلاموں کو نیابت

دیکھے سرِ بازار وہ زنجیروں میں پابند

 

تھمتا ہی نہیں چشمۂ اعجازِ کریمی

زنجیریں چٹخ جاتی ہیں کھل جاتے ہیں در بند

 

آتے ہی چلا منزلِ مطلوب کی جانب

رفتار میں کردار میں حر نکلا خرد مند

٭٭٭

 

 

 

 

               عارف خواجہ

 

رونے کو بس ہے کافی یہ عالمِ فقیری

عابد تری ضعیفی، زینب تری اسیری

 

تیروں میں ہنس کے جانا اور موت کو بتانا

یہ سنّتِ پیمبر یہ اُسوۂ شبیری

 

تیری رضا میں یارب دونوں نے ہے قبولی

بھائی نے نوکِ نیزہ ہمشیر نے اسیری

 

کربل کے سہ پہر نے، دو پل میں کھول ڈالی

خود غرضی کلمہ گو کی، عالم کی بے ضمیری

 

داڑھی سے جھاڑو دے کے سلماں نے دی گواہی

عالَم کی بادشاہی اس در کی ہے فقیری

 

آلِ نبیؐ کے خوں کے سودے میں جو تھے شامل

اب بھی اسی سپہ پر چھائی ہے بے ضمیری

 

نسبت ہے تیرے درسے، نسبت کی برکتوں سے

کوئی بن گیا ترابی کوئی بن گیا غدیری

 

عارفؔ پکارتے ہیں مشکل کی ہر گھڑی میں

لجپال ہے گھرانہ کرتا ہے دستگیری

٭٭٭

 

 

 

 

               عارف خواجہ

 

عجب اَسرار ہے ! اَسرار کو، اَسرار میں رکھا گیا ہے

مرے شبیرؑ کا اِثبات بھی، انکار میں رکھا گیا ہے

 

کئی گھنٹے برہنہ پا انہیں بازار میں رکھا گیا ہے

کہ نوری پیکروں کو درد میں آزار میں رکھا گیا ہے

 

رسن میں باندھ کے لائے گئے قیدی اور ان کے سامنے

سرِ شبیرؑ کو اک طشت میں دربار میں رکھا گیا ہے

 

کسی نے شہد سے میٹھی قضا پائی کسی نے قند جیسی

عجب جذبہ شہادت کا ترے انصار میں رکھا گیا ہے

 

ہے نور و نار میں بالشت بھر کا فاصلہ، حر نے یہ پایا

حسینیؑ قافلے کو چشمۂ انوار میں رکھا گیا ہے

 

عجب عہدِ کثافت ہے عجب ہے میزبانی کا طریقہ

لطیف اجسام کو نیزے میں اور تلوار میں رکھا گیا ہے

 

نزول ہوتا نہیں اس کا کبھی مردہ دلوں پہ، کور چشمو!

غمِ آلِ محمدؐ دیدۂ بیدار میں رکھا گیا ہے

 

کنیزِ فاطمہ زہراؑ سی ماؤں کی عطاؤں کا ہے صدقہ

کہ ذکرِ پاک گھر کے ہر در و دیوار میں رکھا گیا ہے

ہوئے جاتے ہیں ان کے نور سے دونوں جہان و عرش روشن

چراغانِ امامت کو درِ اطہار میں رکھا گیا ہے

زبانیں، گردنیں، بازو کٹیں، یہ بڑھتا رہتا ہے ہمہ دم

عجب چسکا ولائے حیدرِ کرارؑ میں رکھا گیا ہے

٭٭٭

 

 

عمل کو خون میں، نطفہ میں اور کردار میں رکھا گیا ہے

کہ جیسے کرگسوں کا رزق بس مردار میں رکھا گیا ہے

 

ابو جاہل ہوں بدّو ہوں یا درپردہ ہوں کچھ، وحشی معّلم

ستم اور خوں اُنہی کے طور میں اطوار میں رکھا گیا ہے

طلبگارِ شہادت، تپتی ریت سے گئے بر حوضِ کوثر

مگر وحشت کے پالوں کو ابھی تک غار میں رکھا گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

               عارف خواجہ

 

رونے کی صدا آئی محمدؐ کے حرم سے

آؤ ذرا ہو آئیں درِ شہرِ اُمم سے

 

وہ لوگ عجب اُن کے مصائب بھی عجب ہیں

سَیل اشکوں کا تھمتا ہی نہیں چشم و قلم سے

آلام میں، جینے کا سکھایا ہے قرینہ

محروم تھے دل ورنہ تو سربستہ الم سے

 

تخلیق میں ارفع ہیں وہ اعلیٰ ہیں حسب میں

ہم پایہ و ہم رتبہ نہیں کوئی، حشم سے

اِک عشق کا سایہ ہے کہ جو، تا بہ فلک ہے

اِک نور کا ہالا ہے جو لپٹا ہے عَلَم سے

 

یہ آتش و آہن تو ہے کربل کا تسلسل

ہے دست و گریبان ابھی سوچ وہ ہم سے

وہ وجہِ خلائق ہیں وہی کاملِ ایماں

اِس بزم میں رونق ہے فقط اُن ہی کے دَم سے

خوش بخت مری چشم کہ کوثر ہے میّسر

بدبخت کہ محروم ہے شبّیر کے غم سے

٭٭٭

 

 

 

عارف خواجہ

 

اِتنا نہ آسمان و زمیں پر لکھا گیا

جتنا حُسینؑ تیری ’نہیںِ پر لکھا گیا

 

لکھنا جہاں تھا گویا وہیں پر لکھا گیا

نصرت کا باب تیری جبیں پر لکھا گیا

 

لوح و قلم پہ عرشِ بریں پر لکھا گیا

وہ فیصلہ جو پیاسی زمیں پر لکھا گیا

 

مشک و عَلَم پہ گھوڑے کی زیں پر لکھا گیا

اہلِ وفا یسار و یمیں پر لکھا گیا

 

حرفِ قیام و عظمتِ دیں پر لکھا گیا

ضبط و کمالِ صبر و یقیں پر لکھا گیا

 

اِتنا نہ آسمان و زمیں پر لکھا گیا

جتنا حُسینؑ تیری ’نہیںِ پر لکھا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

               عارف خواجہ

 

 

رکوع، سجدہ قیام اور تشنہ کام حسینؑ

ہوا، نہ ہو گا کسی سے یہ اہتمام حسینؑ

 

ملے ہیں خاک میں جو ظلم کی علامت تھے

ہے زندہ آج بھی مظلومیت کا نام حسینؑ

 

لگا کے سینے سے حرؑ کو جو تو نے بخشا تھا

عطا ہو ہم کو بھی ایسا ہی ایک جام حسینؑ

ترے اشارے کے ہیں منتظر صفوں میں کھڑے

یہ تیرے بندے، ترے ادنیٰ سے غلام حسینؑ

 

خیامِ حق میں جو مدھم چراغ جلتے تھے

انہی کی روشنی پھیلی ہر ایک گام حسینؑ

 

وہیں سے سلسلہ جوڑا جنابِ زینبؑ نے

جہاں پہ ختم ہوا تھا ترا کلام حسینؑ

 

تری جناب میں مقبول گر ہو حرفِ سلام

تو سر اٹھا کے چلے گا ترا غلام، حسینؑ

٭٭٭

 

 

 

               عارف خواجہ

 

 

بڑے ہی ذی وقار ہیں اُس آلؑ کے غلام تک

کہ جِس کے واسطے بنا درود اور سلام تک

 

سبھی بڑے حَسِین ہیں سبھی بڑے متین ہیں

رسولِ آخرالزماں ﷺ سے آخری امامؑ تک

 

وفا کی سربلندیوں کا ایک ہی ہے سلسلہ

سجودِ ابراہیمؑ سے حسینؑ کے قیام تک

 

علیؑ کو اور بتولؑ کو نواسۂِ رسولؐ کو

فلک پہ داد دے رہا ہے خالقِ اَنام تک

 

بتولؑ کی سخاوتوں کا دیکھتے ہیں یہ اثر

بہشت بانٹتے ملے حسینؑ کے غلام تک

 

نرغۂ ستم گراں میں تشنہ لب حسینؑ نے

مٹایا اپنے خون سے یزیدیت کا نام تک

٭٭٭

 

 

 

شہادت افتخارِ ما

 

               عارف خواجہ

 

 

ذرا حیرانیوں کی حد سے آگے بڑھ کے دیکھو تو،

زمانہ کچھ نہیں بدلا

وہی صف بندیاں جو پہلے تھیں وہ اب بھی جاری ہیں

وہی شِکنیں ہیں ماتھے پر وہی خونخواری آنکھوں میں

وہی مکّہ کی گلیاں ہیں

جہاں قتلِ پیمبرﷺ کی، ہے سرگوشی فضاؤں میں

وہی ہجرت،

وہی ہجرت کے سارے دکھ، نگاہوں میں

لہو بہتا ہوا دیکھا گیا اطہر مدینے میں

وہی بُلوائی پھر اترے وطن کے ہر مدینے میں

ملوکیت اُسی جانب

کہ جس جانب ہَوَس کے سارے رستے ہیں

کَمِیں زادے

اُنہی گلیوں انہی رستوں پہ اب بھی ویسے بستے ہیں

ذرا حیرانیوں کی حدسے آگے بڑھ کے دیکھو تو !

کھلے گا رازِ سربستہ

وہی گمراہ ٹولہ ہے،

جو خاص و عام گلیوں میں

لہو میں تر قباؤں کی

بڑی تشہیر کرتا ہے

اور اپنے ’’ ظلم کو اصلاح سے تعبیر کرتا ہے ‘‘

ذرا حیرانیوں کی حد سے آگے بڑھ کے دیکھو تو

وہی مقتل وہی قاتل وہی منظر وہی ناظر

وہی مسجد وہی ملّا وہی قاری وہی حافظ

وہی مسجد

جہاں پر سازشوں کے جال بُنتے ہیں

وہی مفتی،

فتاویٰ جن کے، مظلوموں کو تہہِ تیغ کرتے ہیں

وہی ملّا وہی قاری

جو خود کش حملے کر کے کم سِنوں معصوم بچوں کو

ابد کی تیرہ وادی میں ازل سے پھینکتے آئے

ذرا حیرانیوں کی حد سے آگے بڑھ کے دیکھو تو

کہو گے ہر قدم سچ ہے

شِقاوت،

سنگ دلی اِن کی وراثت ہے

ملوکیت کے پَروَردہ

اُسی تاریخِ کربل کو

مری دھرتی کی گلیوں میں

ہیں صبح و شام دہراتے

مگر وارث پیمبرﷺ کے،

پریشاں ہیں نہ حیراں ہیں

شہادت اِن کا ورثہ تھا

شہادت اِن کا ورثہ ہے

٭٭٭

 

 

 

’’ہیں اشارے سمجھنے والوں کو‘‘

 

               عارف خواجہ

 

ظلم جب حد سے گزرتا ہے

اور مظلوم آہیں بھرتا ہے

اور انصاف و عدل کی خاطر

غول درغول تب پرندوں کو

چونچ میں

کنکری کے ’بم، دے کر

’’سب‘‘ کا حاکم ؛

زمیں پہ بھیجتا ہے

وارثانِ ستم بھی اپنے طور

کچھ طریقِ ستم بدلتے ہیں

وقت کے ساتھ ساتھ دیکھا ہے

اپنے ہتھیار بھی بدلتے ہیں

ایک تدبیر یہ بھی کرتے ہیں

ایک تدبیر’ وہ،بھی کرتا ہے

غول در غول، جو، پرندوں کو

ظلم کی سر زمیں پہ بھیجتا ہے

بانیانِ ستم کے، دائیں سےِ

وارثانِ ستم کے، بائیں سےِ

ان کے سر سے اور ان کے ، پاؤں سے

غرضیکہ چار سو فضاؤں سے

ان پہ نازل عذاب کرتا ہے

وہ مدبّر ہے وہ مصّور ہے

اس کی تدبیروں پر قربان،

اس کی تحریروں پر قربان،

سب خطاب ہیں

ایمان والوں کو

ہیں اشارے سمجھنے والوں کو،

٭٭٭

 

 

 

قطعات، سلام

 

               عارف خواجہ

 

 

وہ شاہزادۂ زہراؑ حیا کا پیکر ہے

حسینیت کا پیمبر وفا کا پیکر ہے

علی جو دستِ خدا تو سن لو دیوانو

کہ ہو بہو وہ رسولِ خدا کا پیکر ہے

٭

 

جو جانِ فاطمہ زہرا، علی کا جایا ہے

ہم اہلِ غم کے سروں پر اسی کا سایہ ہے

کبھی جو دل میں ہوئی محفلِ سلام بپا

تو اہلِ بیت کا ہر فرد یاد آیا ہے

٭

 

یہ کربلا کی زمیں پر پیام لکھتے ہیں

اسے بہشت میں عالی مقام لکھتے ہیں

کہ جس نے حلقۂ ماتم میں یا حسینؑ کہا

ہم اس کا اپنے شہیدوں میں نام لکھتے ہیں

٭

 

زمانے بھر سے جدا ہے ادائے شبیری

کہ آ رہی ہے ابھی تک صدائے شبیری

مہک رہا ہے زمانہ اسی کی خوشبو سے

لہو کے پھول لیے ہے قبائے شبیری

٭

 

نہیں ہے نام و نشاں بھی کہیں زمانے میں

یزیدیت کو جہاں سے مٹا دیا ایسا

وہ روشنی ہے کہ سورج کو شرم آتی ہے

چراغ ابنِ علی نے جلا دیا ایسا

٭

 

کسی کے خون میں اتنا اثر نہیں دیکھا

بجز حسینؑ کوئی نامور نہیں دیکھا

جو نوکِ نیزہ پہ سج کر بھی سر بلند رہا

جہان بھر میں کوئی ایسا سر نہیں دیکھا

٭

 

علم، وفا کے ہمیشہ جو تھام رکھتے ہیں

بہت عزیز انہیں خاص و عام رکھتے ہیں

یہ لوگ رکھتے ہیں تجھ سے عقیدتیں کتنی

کہ تیرے نام پہ بچوں کے نام رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

ماہیے : شہیدانِ کربلا کی یاد میں

 

               ڈاکٹر رضیہ اسماعیل

( یو۔ کے )

 

 

پانی کی جھیلیں ہیں

قطرہ نہ ان کو ملا

اب لگتی سبیلیں ہیں

٭

 

کہیں خیمے جلتے ہیں

قتل کریں خود ہی

پھر ہاتھ بھی ملتے ہیں

٭

 

یوں تیر جو کستے ہو

کون نشانہ ہے

تم کس پہ برستے ہو

٭

 

بڑی سخت چٹانیں تھیں

پیاس سے بچوں کی

جب لب پہ جانیں تھیں

٭

 

بہتا ہے فرات کہیں

پیاسے ہی مار دئیے

نہیں اس کی نجات کہیں

٭

 

اک شور قیامت ہے

مٹی کربل کی

آنسو ہے، ندامت ہے

٭

 

کوئی بھوکا پیا سا تھا

نیزے پہ سر جس کا

وہ تیراؐ نواسا تھا

٭

 

یہ درد ہمارے ہیں

پانی کے قطرے کو

ترسے ترے پیارے ہیں

٭

 

وہ سب کو پکار آئی

پانی کے بدلے میں

تیروں کی بو چھاڑ آئی

٭

 

پانی کا سوالی تھا

نانا نبیؐ جس کا

کو ثر کا والی تھا

٭

 

باطل سے نہ ڈرتا تھا

سر تھا نیزے پر

قرآن وہ پڑھتا تھا

٭

 

وہ جیت کے ہار گئے

تیر چلائے جو

انھیں خود ہی ما ر گئے

٭

 

جب غم کی گھٹا چھائی

پیٹتی سر اپنا

کربل کی قضا آئی٭

٭

 

یہ کیسی شقاوت ہے

فوج یزیدی پر

لعنت ہے، ملامت ہے

٭

 

کربل میں چلی آندھی

چادریں سر سے اُڑیں

بربادی ہے بر با دی !

٭

 

باطل سے لڑائی تھی

سانچ کو آنچ نہیں

فتح حق نے پائی تھی

٭

 

گھر اتنا بھی دور نہ تھا

حق کے پرچم کا

جھکنا منظور نہ تھا

٭

 

ہوا خون امیدوں کا

سہر ا لکھتی ہوں

کربل کے شہیدوں کا

٭

 

وہ فاطمہؑ کا جایا

خاک پہ سجدہ کیا

جب وقت نماز آیا

٭

 

دیا خون کا نذرانہ

نانا کی امت کی

غلطی کا تھا ہرجانہ

٭

 

سب فرق مٹا ڈالا

دین تھا نانا کا

گھر بار لٹا ڈالا

٭

 

ہمیں قرض چکانا ہے

پانی کے بدلے میں

اب خون بہانا ہے

٭

 

عمروں کا رونا ہے

اپنے اشکوں سے

ہمیں داغ یہ دھونا ہے

٭

 

قرآن کے سپارے ہیں

اپنے گناہوں کے

دینے کفارے ہیں

٭

 

اب اپنے پرائے تھے

کوفے والوں نے

کیا زخم لگائے تھے

 

٭

کسی ہاتھ کی ریکھا ہے

نانا نے خود آ کر

تیرا حال بھی دیکھا ہے

٭

 

اک ہیرا کھویا تھا

تیری شہادت پر

دشمن بھی رویا تھا

٭

 

اب کس لئے روتے ہیں

خاک پہ کربل کی

شہزادے سوتے ہیں

٭

 

بہے خون دریدوں سے

شان ہے جنت کی

کربل کے شہیدوں سے

٭

 

کیکر پہ پھول ہوا

خون شہیدوں کا

عرشوں پہ قبول ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

نو تصنیف مرثیہ

 

               شوکت تھانوی

 

 

کہتے تھے خود رسولؐ کہ بیٹھا ہوں قبلہ رو

مجھ سا میرے حسینؑ کو پاؤ گے ہو بہو

عادات میں کہیں سے نہیں فرق مو بمو

دیکھو مرے حسین میں مری ہر ایک خو

 

میں خود کو دیکھتا ہوں تو ہوں سر بسر حسینؑ

آئینہ درمیاں ہے اِدھر میں اُدھر حسینؑ

بچپن کی جیسے میری ہی تصویر ہیں حسینؑ

یہ واقعہ ہے میری ہی تنویر ہیں حسینؑ

 

میرے ہر ایک خواب کی تعبیر ہیں حسینؑ

قرآن میرے لب پہ ہے تفسیر ہیں حسینؑ

پیغامبر ہوں میں میرا پیغام ہے حسینؑ

انساں کی شکل میں میرا اسلام ہے حسینؑ

٭

 

وہ سوچتے تھے آج جو ہوتے یہاں رسولؐ

کیا ان مطالبات کو کر لیتے وہ قبول؟

واقف ہے خود یزید ہمارا ہے کیا اصول

پھر بحث اس نے چھیڑ دی ہے ہم سے کیا فضول

 

کیا واقعہ نہیں ہیں ٹھکانے اب اُس کے ہوش

سمجھا تھا اس نے ہم کو بھی شاید خدا فروش

 

میں بیچ دوں رسولؐ کی غیرت، نہیں نہیں

قرآں کی اور ختم ہو عظمت، نہیں نہیں

ہو داغدار کعبہ کی حرمت، نہیں نہیں

میں اور کروں یزید کی بیعت نہیں نہیں

 

سن لے بگوشِ ہوش سے انکار ہے مجھے

اور ایک بار ہی نہیں سو بار ہے مجھے

٭٭٭

 

 

 

پیغامِ حق

 

               عاشور کاظمی

مرثیہ

 

حق کا پیغام زمانے کو سُنایا تُو نے

اَوج پر خاک نشینوں کو بٹھایا تُو نے

کام دشوار جو تھا کر کے دِکھایا تُو نے

دے کے سر حق و صداقت کو بچایا تُو نے

کشت اِسلام کو سر سبز بنایا تُو نے

 

مَرحبا حق کے پرستار ترا کیا کہنا

نوعِ انسانی کے سَردار ترا کیا کہنا

فکرِ کے قافلہ سَالار تیرا کیا کہنا

اے صداقت کے علَم دار تیرا کیا کہنا

ظرفِ انسانی کا معیار دِکھایا تُو نے

ایک وہ وقت کہ انسان ہوا تھا گمراہ

بھُولے بھٹکوں کیلئے بن گیا تُو مشعل راہ

اے کہ مرعوب تجھے کر نہ سکی حشمت و جاہ

تو کہ خاطر مین نہ لایا کبھی دشمن کی سپاہ

اپنے وعدے کو بصد عزم نبھایا تُو نے

منزل صبر کے سَالار حسینؑ ابن علیؑ

اے رہِ حق کے علم دار حسینؑ ابن علیؑ

واقف و محرمِ اسرار حسینؑ ابن علیؑ

میرے آقا میرے سردار حسینؑ ابن علیؑ

خوابِ غفلت سے زمانے کو جگایا تُو نے

 

تو نے ہر اک نئی فت پہ کیا شکر خدا

حلق معصوم میں جس وقت لگا تیر قضا

تو نے گردن کو جھکا کر کہا اِناللہ

صبر کا سکہ زمانے پہ بٹھایا تُو نے

لہلہاتا ہوا ملت کا علَم آج بھی ہے

رہبر زیست تیرا نقش قدم آج بھی ہے

یہ بجا ظلم تو مائل بہ ستم آج بھی ہے

آدمیت پہ مگر تیرا کرم آج بھی ہے

ڈوبتی کشتیِ اُمت کو بچایا تُو نے

٭٭٭

 

 

 

مرثیہ

 

 

               وفا حجازی

( کبیروالا)

 

اربابِ زندگی کا ترانہ نہ پوچھئے

گزرا جو کربلا میں زمانہ نہ پوچھئے

وہ دور صبح، دورِ شبانہ نہ پوچھئے

کیسے لٹا نبی کا گھرانہ نہ پوچھئے

لمحوں کو راستوں میں سہارے نہیں ملے

اس رات آسماں کو ستارے نہیں ملے

٭

 

پوری فضا میں گرد ہے دھندلی ہوا کے ساتھ

وہ عابد ِ علیل ہے زنجیر پا کے ساتھ

دامن بندھے ہوئے تو ہیں صبر و رضا کے ساتھ

دنیا یہ تو نے کیاِ کیا آ ل ِ عبا کے ساتھ

بکھرے وہ گام گام شہیدوں کے جسم ہیں

اے دشت، احترام شہیدوں کے جسم ہیں

٭

 

دشت و جبل کی خشک ہوائیں بھی رو پڑیں

ْاس کہنہ آسماں کی فضائیں بھی رو پڑیں

منظر میں لوریوں کی صدائیں بھی رو پڑیں

یاں تک کہ عرشیوں کی دعائیں بھی رو پڑیں

فردا کے اور حال کے آثار ر و پڑے

بابل کے شہر، مصر کے بازار رو پڑے

٭

 

اس داستانِ خوں کا ورق پھیلنے لگا

ہر ایک سمت رنگِ شفق پھیلنے لگا

سطح زمیں سے تا بہ افق پھیلنے لگا

خاصانِ حق کے نور سے حق پھیلنے لگا

زخموں کی فصل اور دلآویز ہو گئی

جب سے کھلے یہ پھول مہک تیز ہو گئی

٭

 

ظلمت بسی ہوئی ہے اجالوں میں دیکھنا

کپڑے پھٹے ہیں گرد ہے بالوں میں دیکھنا

کانٹوں کی نوک پاؤں کے چھالوں میں دیکھنا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زنجیر کی زمیں پہ لکیروں کو دیکھ کر

افلاک رو پڑے تھا اسیروں کو دیکھ کر

٭

 

کوئی نہیں ہے راہ میں جائے پناہ تک

اس کربلا کی صبح سے شامِ سیاہ تک

طوفانِ گرد بار ہے حدِ نگاہ تک

جیسے افق سے روٹھ گئے مہر و ماہ تک

منزل نہیں، چراغ نہیں،راستہ نہیں

یہ کون ہے، وہ کون ہے کچھ بھی پتہ نہیں

٭

 

آنکھیں اُٹھا کے دیکھ رہے ہیں جو چار سو

طفلانِ شیر خوار جوانی کی آبرو

تاریخ کا وقار یہ معصوم جنگجو

ہے جسم زخم زخم تو دامن لہو لہو

بجھتے ہوئے چراغ جلے شام کے لئے

یہ زاویے ہیں گردشِ آلام کے لئے

٭

 

نہ کاروں کی شکل ہے نہ کارواں کی بات

جس سمت جا رہے ہیں بگولے ہیں ساتھ ساتھ

بے تابیوں کے دن ہیں تو یہ بادلوں کی رات

ہے کتنی دل خراش سفر کی یہ واردات

ماہتاب کے فلک سے سفینے گذر گئے

ویران راستوں میں مہینے گذر گئے

٭

 

آئی کہیں جو رات تو سارے ٹھہر گئے

درد و غمِ حیات کے مارے ٹھہر گئے

مٹی میں رنگ و نور کے دھارے ٹھہر گئے

ٹوٹے ہوئے دلوں کے سہارے ٹھہر گئے

کچھ اس طرح سے روئی ہیں مائیں تمام رات

گونجی ہے لوریوں کی صدائیں تمام رات

٭

 

اصغرؑ کو اب دیکھئے بہلا رہی ہے وہ

بالوں کو نرم ہاتھ سے سلجھا رہی ہے وہ

جوڑا بھی ریشمی کوئی پہنا رہی ہے وہ

ہونٹوں سے میٹھی لوریاں برسا رہی ہے وہ

گھر کا سماں نظر میں سکینہؑ لئے ہوئے

صحرا میں جا رہی ہے مدینہ لئے ہوئے

٭

 

چلنے لگی ہے گردشِ ایام کی ہوا

کوفہ ہے اس کے درو بام کی ہوا

کچھ ایسی گرد گرد ہے اسلام کی ہوا

چادر سروں سے لے اُڑی ہو شام کی ہوا

نوحہ کناں وہ ہو گئے دھارے فرات کے

چھپ چھپ کے رو رہے ہیں کنارے فرات کے

٭

 

مولا یہ کیسا سماں ہے آواز تک نہیں

پوری فضا میں ہمدم و ہمراز تک نہیں

یہ حال ہے کہ حال کا غماز تک نہیں

اب اپنا کوئی مونس و دمساز تک نہیں

دیکھو یہ کس مقام پہ لمحے ٹھہر گئے

ہر سمت سے حیات کے پرچم اتر گئے

٭

 

ساحل بھی ہے خموش سمندر اداس ہے

مہر و مہ و نجوم کا لشکر اداس ہے

اصغرؑ ملول ہے علی اکبرؑ اداس ہے

مولا یہ کیوں حیات کا منظر اداس ہے

الفاظ جیسے ترسیں معانی کے واسطے

ہر لب پہ ارتعاش ہے پانی کے واسطے

٭

 

وہ چل رہا ہے ریت کا طوفان دیکھنا

وہ کھو دئے ہیں وقت نے اوسان دیکھنا

یہ نہر یہ خیام یہ میدان دیکھنا

تیروں کی زد میں آتے ہیں مہمان دیکھنا

وہ عابدؑ علیل ہے زنجیرِ پا کے ساتھ

دنیا یہ تو نے کیا کیا آلِ عبا کے ساتھ

٭

 

آنے لگی ہے خیمۂ شبیرؑ سے صدا

تشنہ لبی سے خشک ہے اصغرؑ کا اب گلا

معصوم و بے زبان کا دل ڈوبنے لگا

بابا تمہیں خدا ؤ محمدؐ کا واسطہ

اک بوند اس کے واسطے پانی کی لائیے

لوگوں کو اس غریب کی حالت دکھائیے

٭

 

جو شے بھی جس جگہ تھی پڑی کانپنے لگی

پلکوں پہ آنسوؤں کی لڑی کانپنے لگی

لمحے وہ ساعتیں وہ گھڑی کانپنے لگی

محور پہ کائنات کھڑی کانپنے لگی

اس بے نوا کو مولا نے جھک کر اُٹھا لیا

یہ موتیوں کا ہار گلے سے لگا لیا

٭

 

جیسے لب حیات پہ حرفِ سوال ہے

حورانِ خلد کا کوئی نازک خیال ہے

جیسے افق پہ صبح کی کرنوں کا جال ہے

اُبھری ہوئی جبیں پہ ستاروں کی شال ہے

نظروں میں رنگ و نور کے دھارے لئے ہوئے

آیاتِ زندگی کے اشارے لئے ہوئے

٭

 

دیکھو حسینؑ گود میں اصغرؑ کو لائے ہیں

تاریخ کربلا کے مقدر کو لائے ہیں

ننھی سی اک شببیہ پیمبر کو لائے ہیں

اس پوری کائنات کے محور کو لائے ہیں

کلیوں کو جس کا آج بھی ثانی ہیں ملا

دو دن گزر گئے ہیں پانی نہیں ملا

٭

 

معصومیت کی فوج کا سالار دیکھنا

دشمن کے تیر و نیزہ و تلوار دیکھنا

اصغرؑ کا آج جذبۂِ ایثار دیکھنا

معصوم کی لڑائی کا معیار دیکھنا

نکلا تو ایسے جوش کا اظہار کر گیا

اپنی حدودِ عمر کو بھی پار کر گیا

٭

 

کیوں گلستاں کی رنگت و نکہت خموش ہے

ریشم سا جسم چاند سی صورت خموش ہے

ہے دھڑکنوں کو جس کی ضرورت خموش ہے

کیوں میرِ کاروانِ شہادت خموش ہے

حورو ملک حیات کے در کھولنے لگے

یہ چپ ہوا تو کون و مکاں بولنے لگے

٭

 

چپ چاپ سی وہ گود میں تصویر دیکھنا

کیا لکھ رہا ہے کاتبِ تقدیر دیکھنا

لمحوں پہ ایک خون کی تحریر دیکھنا

وہ آ رہا ہے دور سے اک تیر دیکھنا

اس دم کسی کو کچھ بھی سجھائی نہ دے سکا

بچہ تھا شیر خوار دہائی نہ دے سکا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دوسرے مذاہب کے شعراء کی عقیدتیں

 

 

               سردار سندر سنگھ پکھوال

 

کر دو بیڑا پار علیؑ جی

 

بیڑی ہے منجدھار علیؑ جی!

نیّا کر دو پار علیؑ جی!

میں ہوں پاپی اور گنہگار

تم ہو بخشن ہار علیؑ جی!

مجھ پاپی کے گرو تمہی ہو

میری سنو پکار علیؑ جی!

تم بن کس نے اجگر مارا

تم حیدر کرار علیؑ جی!

نرگ سورگ ہیں ہاتھ تمہارے

دو جگ کے سردار علیؑ جی!

بھیا ہو تم پاک نبیؐ کے

اس کے راج کمار علیؑ جی!

نبیؐ نے تم کو بیٹی بخشی

ایشور کے تلوار علیؑ جی!

ہاتھ پکڑ لو مجھ پاپی کا

کر دو بیڑا پار علیؑ جی!

٭٭٭

 

 

 

               پنڈت اچاریہ پر مود کرشنم

 

علیؑ اتنے ہمارے ہیں

 

میرے سینے کی دھڑکن ہے

میری آنکھوں کے تارے ہیں

سہارا بے سہاروں کا

نبی ؐکے وہ دُلارے ہیں

سمجھ کر تم فقط اپنا

انہیں تقسیم مت کرنا

علیؑ جتنے تمہارے ہیں

علیؑ اتنے ہمارے ہیں

٭٭٭

 

 

 

               پروین کمار اشک

 

قطعات

 

 

رہِ حق کے ہم مسافر یوں نہ دھوپ میں جھلستے

جو حسینؑ جیسا برگد کوئی سایہ دار ہوتا !

ترے بعد ترے زخمی اب تک تڑپ رہے ہیں

’’کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا‘‘

٭

 

جو زخم دیا تو نے دکھایا نہیں جاتا

جو حال ہمارا ہے سنایا نہیں جاتا

ہم دل پہ اُٹھا لیتے ہیں غم دونوں جہاں کے

اک شاہا ترا غم کہ اُٹھایا نہیں جاتا

٭٭

 

سلام

 

کیا خواب دیکھتا ہے دیوانہ حسینؑ کا

چادر حسینؑ کی ہے، سرہانہ حسینؑ کا

 

پھولوں کو موت آ گئی اس حادثہ کے بعد

خوشبو سا اُڑنا مُڑ کے نہ آنا حسینؑ کا

 

کیا دور ہے یزید بھی مانگے ہے یہ دعا

لوٹا دے اے خدا وہ زمانہ حسینؑ کا

 

جھانکو کسی غریب کے اشکوں میں غور سے

اس کے سوا کہاں ہے ٹھکانہ حسینؑ کا

 

باطل کا سینہ چیر کے رکھ دے ہے اس کا تیر

چوکا کبھی نہیں ہے نشانہ حسینؑ کا

 

زخموں سے جس کو عشق ہے اور آنسوؤں سے پیار

اس کو ملے گا اشکؔ خزانہ حسینؑ کا

٭٭

 

سلام

 

وہ شخص ترے در سے جسے پیار نہیں ہے

ہاں ! اس سے بڑا کوئی گنہگار نہیں ہے

 

تُو میری طرف ہے تو مجھے غم نہیں اس کا

یہ دنیا اگر مری طرفدار نہیں ہے

 

سیدھی چلی جاتی ہے حسینؑ آپ کے در تک

حق راہ میں سچ مچ کوئی دیوار نہیں ہے

 

وہ سر ترے قدموں کو کبھی چھو نہیں سکتا

جس سر پہ ترے عشق کی دستار نہیں ہے

اب لوگ زمینوں میں محبت نہیں بوتے

اس جنس کا کہتے ہیں خریدار نہیں ہے

اِس شہر کو بھی صاحبِ کردار بنا دے

اس شہر کی مخلوق کا کردار نہیں ہے

جو ڈوبے وہی پائے ترا وصل کنارہ

ورنہ ترے ساگر کا کوئی پار نہیں ہے

سر کاٹ تو سکتا ہے یزیدوں کے ترا اشکؔ

پر ہاتھ میں اُس کے تری تلوار نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

               پرتپال سنگھ بیتابؔ

 

یادِ شہیدانِ کربلا

 

حق ہی خدائے پاک ہے پروردگار ہے

باطل ہر ایک دور میں رسُوا و خوار ہے

 

بادِ صبا بھی خاطر ہر گل پر بار ہے

کیا بات ہے کہ آج چمن سوگوار ہے

 

گل چین کی دست بُرد کا شاید ہے یہ اثر

دامن ہر ایک پھول کا جو تار تار ہے

 

شاید یہی ہے یادِ ستم ہائے کربلا

شہر نفس میں عالم گردو غبار ہے

 

مر مٹنا جانتے ہیں جو اپنے اصولوں پر

ذلت کی زیست ان کے لئے ناگوار ہے

 

تازہ ہے پھر سے یادِ شہیدانِ کربلا

آنکھیں چھلک رہی ہیں تو دل سوگوار ہے

 

میدان کربلا کے شہیدوں کی یادگار

اک انقلاب وقت کی آئینہ دار ہے

 

بیتابؔ کیوں نثار نہ ہو نام پاک پر

محبوب کردگار شہہ نامدارؑ ہے

٭٭٭

 

 

 

               ڈاکٹر امر جیت ساگرؔ

 

خطبۂ زینبؑ

 

جس غم سے بقا پائیں خوشیوں سے وہ بہتر ہے

خوشیاں ہیں مئے دنیا، یہ غم مئے کوثر ہے

 

دنیا تو ہے دو دن کی عقبیٰ کی ذرا سوچو

اشکوں کے سمندر میں سرمایۂ محشر ہے

 

اُترے گی جو سر سے چھا جائے گی دنیا پر

اسلام کی کشتی کا لنگر یہی چادر ہے

 

یہ کس کی صدا گونجی دربار لرز اُٹھا

یہ خطبۂ زینب ہے یا خطبۂ حیدرؑ ہے ؟

 

اسلام بچانا ہی مقصد ہے جہاں سب کا

شبیرؑ کا لشکر بھی اللہ کا لشکر ہے

 

پاکیزہ محبت ہے یوں اس کی امنگوں میں

دنیا کی کثافت سے یہ دُور سمندر ہے

 

حق بات سے مر مٹنا سیکھا ہے شہہ دیںؑ سے

انسان کے کام آنا اب فطرتِ ساگر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

               سردار پنچھی

 

زینبؑ

 

 

ایسے ہوئیں مخاطب زینبؑ عوام سے

شروعاتِ انقلاب ہوئی ملکِ شام سے

 

ایسے ملی حمایت ہر خاص عام سے

دیں کا خزانہ بھر گیا اِک اِک سلام سے

 

خطبے کے لفظ لفظ سے پرچم ہوا بلند

اسلام سرخرو ہوا زینبؑ کے کام سے

 

’’انصاف کی امید ہی رکھنا فضول ہے

انصاف ملتا ہی نہیں ہے بد نظام سے

انسانیت کا وصف بھی رہتا ہے دور دور

ہوتی ہے بود و باش جب رزقِ حرام سے

ہر مسئلے کا حل ہے رواداری اور خلوص

مٹتی نہیں دشمنی کبھی انتقام سے ‘

بولا یہ چاندنی رخِ زینبؑ کا نور ہے

پوچھا تھا میں نے اتنا ہی ماہِ تمام سے

 

یہ بھی خدا کی بندگی کا ایک روپ ہے

زینبؑ کا نام لیجئے بس احترام سے

اس قدر دل نشیں تھیں سکینہؑ کی سسکیاں

اُٹھنے لگے تھے شعلے یزیدی نظام سے

میں خوش ہوا اے زینبؑ! محفل میں سامعین

سنتے ہیں تیری منقبت تیرے غلام سے

 

صدیوں کی بھوک پنچھی ؔ کی پل بھر میں مٹ گئی

اک دانہ مل گیا ہے جو زینبؑ کے بام سے

٭٭٭

 

 

 

 

               سردار پنچھی

 

قطعات

 

ایک بار پھر سے صاحبِ ایمان ہو گئے

افسانۂ حیات کا عنوان ہو گئے

کچھ لوگ کلمہ پڑھ کے بھی کافر رہے اور ہم

حیدر کا نام لے کے مسلمان ہو گئے

٭٭

 

اشکوں سے وضو

 

ہم تو زینب کی زباں میں گفتگو کرتے رہے

اپنے دل کا درد سب کے روبرو کرتے رہے

نوحہ خوانی ہے عقیدت اور عبادت ہی کا روپ

اس لئے ہم اپنے اشکوں سے وضو کرتے رہے

٭٭

 

کاتبِ تقدیر کا لکھا

 

محو خیال و فکر میں تدبیر کیا لکھے

پھر سے حسین خواب کی تعبیر کیا لکھے

مالک نے جس قلم سے لکھا تھا نصیبِ حُر

اب اُس قلم سے کاتب تقدیر کیا لکھے

٭٭٭

 

 

 

               برج ناتھ مخمورؔ لکھنوی

 

عقیدتیں

 

 

دھرم اور ذات کی بندش سے تو مجبور ہیں

پھر بھی اے سبطِ نبیؐ تجھ سے نہیں دور ہیں

وہ ترا غم ہو کہ ہو تری محبت ہم

تیرے بخشے ہوئے ہر جام سے مخمورؔ ہیں

٭

 

غمِ حسین میں آنسو چھپا نہیں سکتے

عقیدتوں کے دیئے ہم بجھا نہیں سکتے

ہزار آندھیاں آتی رہیں تو کیا مخمورؔ

یہ وہ چراغ ہیں جھلملا نہیں سکتے

٭

 

رات دن دل کے داغ جلتے ہیں

آنسوؤں کے ایاغ جلتے ہیں

میرے دل کے امام باڑے میں

کربلا کے چراغ جلتے ہیں

٭

 

خیر سے پہنچے جو منزل تک تو راہیں کھو گئیں

ایک حسرت جاگی باقی حسرتیں سب سو گئیں

اس قدر آنسو بہائے ہیں غمِ شبیرؑ میں

ہم تو ہندو ہی رہے آنکھیں حسینی ہو گئیں

٭

 

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ دولت ہے بڑی چیز

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں طاقت ہے بڑی چیز

شبیرؑ ترے فیضِ شہادت نے بتایا

دنیا پہ نہیں دل پہ حکومت ہے بڑی چیز

٭

 

ہم اپنا نام اور اپنی حقیقت کو بتا دیں گے

جو پردہ ظاہری دنیا سمجھتی ہے اُٹھا دیں گے

ہمیں جنت میں جانے سے اگر رضوان روکے گا

تو سینے پر نشانِ ماتم شبیرؑ دکھا دیں گے

٭

 

مٹ نہیں سکتا کبھی مخمورؔ غم عباسؑ کا

نقشِ سجدہ بن چکا ہے ہر قدم عباسؑ کا

گر جہاں والوں میں دیکھیں گے عقیدت کی کمی

ہو کے ہندو ہم اٹھائیں گے علم عباسؑ کا

٭

 

آنکھیں کہتی ہیں کہ تیرے نور کو دکھا کریں

ہونٹ کہتے ہیں کہ تیرے نقشِ پا چوما کریں

من کے مندر میں بٹھا کر تجھ کو اے سبطِ نبیؐ

دل یہ کہتا ہے کہ تیری عمر بھر پوجا کریں

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

کیوں بھلا وہ دیکھتا مڑ کر کبھی سوئے فرات

جس کے چلو میں سمٹ کر خود سمندر آئے ہیں

بحر و بر اور سارا عالم جس کو کہتا ہے حسینؑ

ہاں وہی میرے تصور میں بھی اکثر آئے ہیں

 

اب حسینؑ ابنِ علیؑ سے کوئی بھی دوری نہیں

دھرم کی ہم ساری دیواریں گرا کر آئے ہیں

 

راہ چلتے بھی سنا مخمورؔ گر نامِ حسینؑ

اشک آنکھوں میں ہماری خود بخود بھر آئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

نمایاں جس جگہ نورِ خدا ہے

وہی تو سر زمینِ کربلا ہے

 

کماں میں تیر،اصغرؑ کا گلا ہے

نہ جانے کیا مشیّت کی رضا ہے

 

فروزاں اس جگہ شمعِ وفا ہے

جہاں عباسؑ تیرا نقشِ پا ہے

 

یہاں انوار ایماں کا ہے سایا

یہی تو قتل گاہِ کربلا ہے

 

اہے پیاسا جو ہو کوثر کا مالک

یہی مخمورؔ خالق کی رضا ہے

٭٭٭

 

 

 

کوئی زمین نہیں ایسی باخدا تنہا

مقابلے میں ہے جنت کے کربلا تنہا

 

علم سنبھالے کہ مشکیزہ میں بھرے پانی

بتاؤ کیا کرے عباسؑ با وفا تنہا

 

زمین کانپ رہی ہے فلک بھی لرزاں ہے

عدو کی فوج ہے اور سبطِ مصطفیٰؐ تنہا

 

تڑپ کے لاشۂ قاسمؑ سے کہتی ہے بیوہ

کٹے گا زیست کا اب کیسے راستا تنہا

 

ہلا دیا ہے زمانے کو تم نے اے اصغرؑ

کیا ہے تیر سے ایسا مقابلہ تنہا

 

اسیر ہو کر کریں پردا کس طرح زینبؑ

وہ چھن گئی کہ جو باقی تھی اک ردا تنہا

 

حسینؑ آئے تھے کرب و بلا میں کیوں مخمورؔ

یہ راز جانتا ہے صرف کبریا تنہا

٭٭٭

 

 

 

 

ظلم کا زہر تو ڈستا رہا ناگن کی طرح

پھر بھی کردار تھا شبیرؑ کا چندن کی طرح

 

جب گھٹا چھاتی ہے شبیرؑ کے غم کی دل پر

اشک آنکھوں سے برس پڑتے ہیں ساون کی طرح

 

ان کو ہی جلوۂ شبیرؑ نظر آتا ہے

دل کو جو اپنے بنا لیتے ہیں درپن کی طرح

 

بھیک لینے کے لئے تجھ سے وفا کی عباسؑ

زندگی دوار پہ آئی ہے بھیکارن کی طرح

 

یہ الگ بات مرا دھرم ہے ہندو لیکن

دل میں شبیرؑ بسے رہتے ہیں دھڑکن کی طرح

 

جس نے کاٹا ہے گلا سبطِ نبیؐ کا مخمورؔ

اس کو جھونکے گا خدا آگ میں ایندھن کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

پوچھتے ہو کربلا میں جا کر کیا دیکھیں گے ہم

نورِ ایماں، نورِ حق،نورِ خدا دیکھیں گے ہم

 

مقتلِ کرب و بلا پر جب نظر ڈالیں گے ہم

جا بجا قرآن کو بکھرا ہوا دیکھیں گے ہم

 

ظلم کی تاریکیوں میں روشنی کے واسطے

ہر طرف جلتی ہوئی شمعِ وفا دیکھیں گے ہم

 

جس پہ چل کر حُر نے پائی ہے حیاتِ جاوداں

کربلا میں ڈھونڈ کر وہ راستہ دیکھیں گے ہم

 

کہہ رہی ہے ہر اُبھرتی موجِ دریائے فرات

حضرتِ عباسؑ کا نقش وفا دیکھیں گے ہم

 

ہے ابھی مخمورؔ ڈھارس کربلا کے ذکر سے

وہ بھی دن آئے گا جس دن کربلا دیکھیں گے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

کیا نظر آئے گا اس کو حق کا جلوہ اے حسینؑ

جس کے دل پر پڑ چکا باطل کا پردا اے حسینؑ

 

کیا سمجھ سکتی ہے دنیا تیرا رتبہ اے حسینؑ

تو علیؑ و مصطفیٰ کی ہے تمنا اے حسینؑ

 

وہ کسی بھی شہر میں ہو یا کسی بھی ملک میں

ہر زباں پر رہتا ہے تیرا ہی چرچا اے حسینؑ

 

قصرِ باطل کا نشاں تک اب کہیں ملتا نہیں

تیرے در پر آج بھی جھکتی ہے دنیا اے حسینؑ

 

بچہ بچہ کربلا والوں کا پیاسا رہ گیا

کہہ رہی آج بھی ہر موجِ دریا اے حسینؑ

 

کیا گزرتی ہو گی دل پر مادرِ بے شیر کے

دیکھ کر اجڑے ہوئے خیمے میں جھولا اے حسینؑ

 

ہم تو ہندو ہیں مگر پھر بھی سمجھتے ہیں یہی

باعث رحمت ہے تیرے در کا سجدہ اے حسینؑ

 

طالبِ دیدار ہیں آنکھیں ترے مخمورؔ کی

اس کو بھی دکھلا دے اک دن اپنا روضہ اے حسینؑ

٭٭٭

 

 

 

 

غمِ حسینؑ سے دل کو لگاؤ ایسا تھا

جو بھر سکا نہ دوا سے یہ گھاؤ ایسا تھا

 

بجھائی اپنے ہی دشمن کی پیاس رستے میں

حسینؑ ابنِ علیؑ کا سبھاؤ ایسا تھا

 

اکیلے چھائے تھے دشمن کی فوج پر عباسؑ

رگوں میں خونِ علیؑ کا بہاؤ ایسا تھا

 

فرات چھوڑ کے بھاگیں یزید کی فوجیں

علیؑ کے شیر کا ان پر دباؤ ایسا تھا

 

سمجھ سکے نہ یزیدی کبھی حقیقت کو

مجاز کی طرف ان کا جھکاؤ ایسا تھا

 

کٹا کے سر کو بچایا حسینؑ نے اسلام

نبیؐ کے دین سے ان کو لگاؤ ایسا تھا

 

گرے پلک سے تو دامن پہ بن گئے موتی

ہمارے اشکوں میں غم کا رچاؤ ایسا تھا

 

پھرا کے خشک لبوں پر زباں علی اصغرؑ

شہید ہو گئے ناوک کا گھاؤ ایسا تھا

 

شہید ہوتے تھے سرور تڑپتی تھی زینبؑ

لہو کا بہن بھائی میں لگاؤ ایسا تھا

 

ہمارا دھرم تو ہندو ہے ہم حسینی ہیں

ہمارا حق کی طرف چناؤ ایسا تھا

 

تصورات میں جلتے رہے لہو کے چراغ

ہمارے ذہنِ رسا کا لگاؤ ایسا تھا

 

ہر ایک شعلے پہ لکھا ہوا تھا نامِ حسینؑ

ہماری جلتی چتا کا الاؤ ایسا تھا

 

نظر تک آ گیا مخمورؔ جلوۂ شبیرؑ

بلند فکر و نظر کا رچاؤ ایسا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

               ڈاکٹر ستنام سنگھ خمارؔ

 

عقیدتیں

 

وقار و عزم پہ جانیں نثار کرتے ہیں

حسینؑ والے سلیقے سے وار کرتے ہیں

 

نہ گذرے رات ہماری نہ دن ڈھلے مولاؑ

سلگتے اشک بہت بے قرار کرتے ہیں

 

کریں جو غور تو خود ہی سمجھ میں آ جائے

درِ حسینؑ سے کیوں لوگ پیار کرتے ہیں

یہ شہر عشق ہے اس کی گلی گلی آنسو

سب اس میں موتیوں کا کاروبار کرتے ہیں

کچھ ایسے پھول بھی کھلتے ہیں صحنِ گلشن میں

نگاہِ غیر کو جو شرمسار کرتے ہیں

جو کام اُن کے جوانوں سے بھی نہ ہو پائے

وہ مسکرا کے یہاں شیر خوار کرتے ہیں

 

بچا لیں آبرو اپنی ستم شعاروں سے

حسینؑ اب بھی ہمیں ہوشیار کرتے ہیں

 

جو موڑ لیتے ہیں منہ کو پہنچ کے دریا پر

وہ اپنی پیاس کا اونچا وقار کرتے ہیں

 

وہ تشنہ کام نہیں تھے خود ایک دریا تھے

ہم ان کو تشنہ لبوں میں شمار کرتے ہیں

خمارؔ اپنے مسائل کا حل ہے کرب و بلا

غمِ حسینؑ پہ ہم انحصار کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

لکھا ہے کاٹ کاٹ کے تحریر دیکھئے

کاغذ پہ لاشعور کی تصویر دیکھئے

 

روشن جبیں کے لمس کی تاثیر دیکھئے

صحرا کی خاک بن گئی اکسیر دیکھئے

 

قربانی،حسینؑ کے قدموں میں آ گِرا

تاجِ غرورِ حاکمِ بے پیر دیکھئے

 

خیمے جلے تو بن گیا قصرِ حسینیتؑ

تشنہ لبوں کا جذبۂ تعمیر دیکھئے

سارے جہاں کی نعمتیں رکھی تھیں اک طرف

اور اک طرف مقصدِ شبیرؑ دیکھئے

گِر کر درِ حسینؑ پہ حُر کے شعور نے

جنت کی ساری لوٹ لی جاگیر دیکھئے

 

مظلومیت کی قید میں ظالم ہے آج تک

چاروں طرف ہے صورت بے شیر دیکھئے

 

کس اہتمام سے علی اکبرؑ نے دی اذان

باقی ہے اب بھی نعرۂ تکبیر دیکھئے

 

بعد حسینؑ حضرتِ زینبؑ نے اوڑھ کر

کیسے بچائی چادرِ تطہیر دیکھئے

 

کرب و بلا کے دشت سے کوفہ و شام تک

قدموں کو چومتی گئی زنجیر دیکھئے

 

چشمِ شعورِ دوستی کے ہوتے ہوئے خمارؔ

دیکھا نہ اُن کو شومئی تقدیر دیکھئے

٭٭٭

 

 

 

 

فکر حسینیؑ

 

کاسہ ظالم لہو سے بھر چلے

تم نہیں سمجھو گے ہم کیا کر چلے

کربلا کی آنکھ میں اہلِ وفا

کیسے کیسے چھوڑ کے منظر چلے

 

تشنگی کی راہ میں اہلِ نظر

ہر فریبِ موج سے بچ کر چلے

تیر جب چھوٹے حسینی فکر سے

چھوڑ کر میدان کو اہلِ شر چلے

 

روئیں کیا حکمت سے آنکھیں ایک بار

آج تک دنیا کے چشمِ تر چلے

 

تیز تھا اتنا حسینی کاروان

دشمنوں کے تیر تک اصغرؑ چلے

 

وقتِ رخصت آنسوؤں کے قافلے

رکھ کے پتھر اپنی چھاتی پر چلے

 

آنکھ وہ تیرے غم سے نم ہوئی

ہر خوشی کو مار کے ٹھوکر چلے

 

جانبِ مقتل چلے سر فروش

سب سے آگے ثانیِ حیدر چلے

ظالموں پر بعد جنگِ کربلا

ہر طرف سے بغض کے پتھر چلے

ہم ہیں اُن عزت مآبوں کے خمارؔ

جو زمانے میں اُٹھا کے سر چلے

٭٭٭

 

 

 

بیمار مسیحا نے ذہنوں کو شفا دی ہے

کس پیار سے نفرت کی دیوار گرا دی ہے

 

مظلوم کے چھالوں نے ٹپکا کے لہو اپنا

تصویر شکیبائی رنگین بنا دی ہے

 

سجادؑ کے ہونٹوں پہ آزاد تبسم ہے

حالات نے پاؤں میں زنجیر سجا دی ہے

 

اک پیکرِ ہمت نے باندھے ہوئے ہاتھوں سے

ہر قصرِ یزیدی کی بنیاد ہلا دی ہے

 

جینے کی ضرورت ہے تو اس پہ چلو یارو

بیمار کے قدموں نے جو راہ دکھا دی ہے

 

اشعار کے عارض پر افکار کے آنسو ہیں

یادوں نے ترے غم کی بزم سجا دی ہے

 

اِک ٹوٹے ہوئے دل کے جذبات کی آندھی نے

بجھتے ہوئے شعلوں کو دامن کی ہوا دی ہے

 

ہر جرم خمارؔ اس کا بخشا مرے مولا نے

ظالم کو گناہوں کی کس طور سزا دی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پیاس کا پودا لگایا حکمتِ شبیرؑ نے

اپنی آنکھوں سے دیا پانی اُسے ہمشیر نے

 

سیّدہؑ کی گود میں جب مسکرایا آفتاب

اک نیا پیکر دیا اسلام کو تنویر نے

 

لے کر آیا تھا بڑا لشکر تکبر شمر کا

کر دیا گھائل حسینیؑ فکر کی شمشیر نے

کربلا میں سب نے دِکھلایا ہنر اپنا مگر

جنگ جیتی مسکرا کر فطرتِ بے شیر نے

ظلمتِ شب کی اُداسی میں درِ شبیرؑ کا

راستہ حُر کو دکھایا مشعلِ تقدیر نے

 

لفظ کے اعجاز سے تھے آشنا اہلِ زبان

کام جملوں سے لیا تلوار کا تقریر نے

 

موت کو بھی مسکرا کر اپنی باہوں میں لیا

صبر و شکر و عزم کی منہ بولتی تصویر نے

 

غم کی آتش میں سلگتی زندگی کو اے خمارؔ

عشق کا نغمہ دیا بیمار کی زنجیر نے

٭٭٭

 

 

 

 

تپتے میدان میں جب آگ کے لشکر آئے

اُن سے ملنے کے لئے پھول بہتّر آئے

جس کی دہلیز سے خالی نہ گئے دشمن بھی

کوئی دنیا میں سخی ایسا تو بن کر آئے

 

ایسے پیاسے کو ذرا سوچ کر کہئے پیاسا

جس کے قدموں میں اشارے سے سمندر آئے

اُن کو جھلسا نہ سکی گرم ہوا صحرا کی

اوڑھ کر تن پر جو تطہیر کی چادر آئے

 

جانے کس خوف سے گھبرائی ہوئی سہمی سی

بار بار اک نظر خیمے سے باہر آئے

 

ظلمتیں اپنی حدوں سے جو گزر جاتی ہیں

یہ ضروری ہے کہ کوئی نور کا پیکر آئے

 

دل کے دامن ہے تہی اُس میں اجالا بھر دے

ہم بڑی دور سے سرکار کے در پر آئے

 

اے خمارؔ اُن کو مظالم سے ہوا کیا حاصل

ہاتھ خالی ہی گئے جتنے سکندر آئے

٭٭٭

 

 

 

لکھا ہے آسماں پر فسانہ حسینؑ کا

سب کا حسینؑ، سارا زمانہ حسینؑ کا

 

کوئی امامؑ، کوئی پیمبرؐ، کوئی ولی

کتنا ہے سر بلند گھرانہ حسینؑ کا

 

ہو گی کوئی تو بات صدیوں کے بعد بھی

جس دل کو دیکھئے ہے دیوانہ حسینؑ کا

 

میں حُر ہوں چاہئے مجھے تھوری سی خاکِ پا

کوئی مجھے بتا دے ٹھکانہ حسینؑ کا

 

آنکھیں ہوں اشکبار تو لعل و گہر ملیں

ان میں چھپا ہے کوئی خزانہ حسینؑ کا

 

گل کے گداز پر پڑے یا نوکِ خار پر

ایک اک قدم ہے کیا سہانا حسینؑ کا

 

غم کا سفر ہے نور کے اُگنے سے شام تک

ہم سے بیاں نہ ہو گا فسانہ حسینؑ کا

 

مقصود تھا جگانا حقیقت کو خواب سے

دشوار کس قدر تھا نشانہ حسینؑ کا

 

آزادیِ خیال کی تحریک ہی تو ہے

عاشور کو چراغ بجھانا حسینؑ کا

 

مظلومیت کے وار سے ظالم نہ بچ سکا

آخر ہدف پہ بیٹھا نشانہ حسینؑ کا

 

اب بھی زبانیں خشک ہیں پہرے فرات پر

دہرا رہا ہے خود کو زمانہ حسینؑ کا

 

کب سے چکا رہا ہوں قصیدوں میں اے خمارؔ

مجھ پر ہے کوئی قرض پرانا حسینؑ کا

٭٭٭

 

 

 

 

نظر نظر سے عیاں لطفِ عام ہے تیرا

چھلک رہا ہے جو ہاتھوں میں جام ہے تیرا

 

دلوں کے شہر ہوں یا بستیاں نگاہوں کی

ہر اک جگہ پہ مکمل نظام ہے تیرا

 

نہ کوئی پیاسا رہا تیرے ابرِ رحمت سے

جو بوند بوند پہ لکھا ہے نام ہے تیرا

 

ہر ایک جنبشِ خامہ پہ برکتیں تیری

میں لکھ رہا ہوں جو مولا پیام ہے تیرا

 

تیرے قریب پہنچنا کسی کے بس کا نہیں

شعور و فکر سے اونچا مقام ہے تیرا

 

حسینی نور کو اے آفتاب سجدہ کر

تجھے یہ کرتا ہے روشن امام ہے تیرا

 

بس ایک رات میں پا جائے منزلِ مقصود

حسینؑ قافلہ کیا تیز گام ہے تیرا

 

یہ اور بات ہے تو نے نہ منہ لگایا اُسے

ندی کا پانی تو اب تک غلام ہے تیرا

 

خمارؔ شانِ کریمی کی تجھ پہ بخشش ہے

عقیدتوں سے مرصع کلام ہے تیرا

٭٭٭

 

 

 

 

کمالِ فن کے منظر دکھا دئے تو نے

جو تھے دماغ وہ سب دل بنا دئے تو نے

حسین رتوں کے محافظ حسین ابنِ علیؑ

گلوں کے نور پہ پہرے بٹھا دئے تو نے

 

لبوں کے شعلے تبسم میں ڈھل گئے آ خر

حقیقتوں کے فسانے بنا دئے تو نے

یزیدیت کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینکا

بِنائے ظلم کے پتھر ہلا دئے تو نے

 

نظر نظر کو دئے آسمان محبت کے

پلک پلک پہ ستارے سجا دئے تو نے

 

نہ حو صلے کی مثالیں نہ فیصلے کا جواب

سیاہ شر سے بہتّر لڑا دئے تو نے

جب آیا تُو تو چکا چوند ہو گئی آنکھیں

جدا ہوا تُو زمانے رلا دئے تو نے

 

ترس رہے ہیں جبیں میں عقیدتوں کے سجود

سلگتی مٹی کو وہ نقشِ پا دئے تو نے

 

حسینؑ حکمتِ تشنہ لبی کے شعلوں سے

بپھرے پانی کے دریا جلا دئے تا نے

 

سبیلیں خون کی سجائیں ستم گروں نے

سخاوتوں کے خزانے لٹا دئے تو نے

نوازشوں کے کرم کئے خلوص و رحمت کے

دلِ خمار پہ ساغر لنڈھا دئے تو نے

٭٭٭

 

 

 

عظمت پہ تیری اس کو بھی انکار نہیں ہے

وہ شخص جو بظاہر طرفدار نہیں ہے

 

کردار حسینی کی مہک اُٹھتی ہے جس سے

آں دشتِ مغیلاں ہے چمن زار نہیں ہے

شبیر کے محلوں میں وفاؤں کی چھتیں ہیں

اس گھر میں کہیں بیچ کی دیوار نہیں ہے

 

اب تک نہ کوئی ایک بھی ایسا نظر آیا!

خوشبوئے حسینیؑ کا جو بیمار نہیں ہے

 

اے موج رواں پیاس کی بستی سے گذر جا

کوئی بھی یہاں تیرا خریدار نہیں ہے

 

فردا کے لئے عزم حسینیؑ کی صدا ہے

للکار ہے زنجیر کی جھنکار نہیں ہے

 

مولا نے کہا سب سے چلے جائیے لیکن!

جینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے

 

کتنے ہی نکلے ہیں تیری فکر کے گوشے

تو ایک قبیلے ہی کا سردار نہیں ہے

خود سے بھی ظفر یاب ہوا شر سے بھی جیتا

حُر جیسا کوئی صاحبِ کردار نہیں ہے

روتا ہے خمارؔ اِس کے لئے سارا زمانہ

پلکوں پہ مگر رونقِ اظہار نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

               ڈاکٹر ستنام سنگھ خمارؔ

 

اعلانِ سحر

 

 

وہی تو با شعور و باخبر ہے

حسینیؑ راہ پر جس کی نظر ہے

 

نئی منزل سے آغازِ سفر ہے

اذاں اکبرؑ کی اعلانِ سحر ہے

 

کہیں آنسو، کہیں پاؤں میں چھالے

بڑی روشن سلگتی رہگزر ہے

 

کھنچا جاتا ہے سوئے کربلا دل

تصور میں ترا جادو اثر ہے

 

منافق بھی ہوئے اندر سے قائل

تری آواز کتنی معتبر ہے

کسے ہمت کہ شہزادے کو چھو وے

مہ خورشید کا لختِ جگر ہے

 

بہت بیتاب ہے منزل جنوں کی

اُٹھو اب ساتھیو وقتِ سحر ہے

 

وفاؤں کے مزاجوں سے معطر

علیؑ کا گھر تو خوشبوؤں کا گھر ہے
خمارؔ اک عشق ہے آلِ نبیؐ سے

ہے ان کا آستاں اور میرا گھر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

٭

کوئی ہو سامنے تو یا علیؑ کہئے

نظر سے دور ہو یا علیؑ کہئے

سمندر کے مسافر اگر یہ خواہش ہے

کہ موج موج ہو ساحل تو یا علیؑ کہئے

٭

 

اشکوں کے چراغوں سے غم خانے سجائے ہیں

زخموں کے تبسم سے جذبات جگائے ہیں

زینبؑ ہی نے دانش کی باریک نگاہوں سے

تظہیر کی چادر میں پیوند لگائے ہیں

٭

 

اندھیری رات کی مشعل حسینؑ ہے

ہسنی لبی کے مسئلہ کا حل حسینؑ ہے

ہوئی ہے اُس کے پیار کی بارش سدا خمارؔ

ہم کربلا کی ریت ہیں بادل حسینؑ ہے

٭

 

وہ پیاس جس کے پاؤں میں نہرِ فرات ہے

پانی سے منہ کو موڑے کوئی تو بات ہے

اُن منزلوں کا راستہ پوچھو حسینؑ سے

جینا جہاں پر موت ہے مرنا حیات ہے

٭٭٭

 

پنجاب رنگ

 

 

               گوشہ امین خیال

 

 

امین خیال صاحب کی وفات پر محرم نمبر کی نسبت سے یہ مختصر سا پنجاب رنگ دیا گیا ہے۔ ادارہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کی خواہش ہے کہ ہم امین خیال صاحب کا ایک بھر پور گوشہ یا امین خیال نمبر پیش کر سکیں،جس میں ان کی تمام علمی و ادبی خدمات کا احاطہ کیا جا سکے۔ تاہم اس کا انحصار ان کے عزیزو احباب کے قلمی تعاون پر ہے۔ امید ہے کہ ہم اس ارادہ میں کامیاب ہو سکیں گے۔

ارشد خالد۔ مدیر عکاس انٹرنیشنل

 

 

 

کلم کلا

٭

سب دا راکھا اللہ

اوہو کلم کلا

ہور نیں کوڑ پسارے

پھڑ اوسے دا پلا

٭٭٭

 

 

 

حمد

 

٭

نور توں تنویر توں انوار توں

بھیت توں اک راز توں اسرار توں

عدل توں انصاف توں دربار توں

سرور و سردار توں سرکار توں

ابد تیکر مومناں دا یار توں

ازلاں توں وی پہلے دا اقرار توں

نبیاں ولیاں سبھناں دا مختار توں

عاصیاں نوں حشر وچ درکار توں

حشر دے میدان دا سردار توں

آر توں اِس پار توں اُس پار توں

لوح توں محفوظ توں تحریر توں

لیکھ توں تقسیم توں تقدیر توں

میرا موجوؑ میرا سرنانواں توں

میرا گھر تے میریاں تھانواں وی توں

اوکھے بھارے ویلے میرے نال توں

میریاں سوچاں تے میرا خیالؔ توں

٭٭٭

 

 

 

 

نعت

 

 

سدے گھلاں ہتھ ہوا دے

سوہنیا میری آس پچا دے

سد کے روضے پاک تے آقا

میریاں لیکھاں نوں چمکا دے

آپ نوں چھڈ کے کدھرے ویکھاں

اینی گل کوئی سمجھا دے

جے مل جاوے در سوہنے دا

چھڈاں سبھے ہور تگا دے

سُن جالی دیا پہرے دارا

لاہن دے ریجھاں نام خدا دے

نعت پڑھاں تے لوکی آکھن

یار اکواری ہور سنا دے

مولا! دے سرکارؐ دی الفت

سبھے غیر خیال بھلا دے

٭٭٭

 

 

نعت

 

 

مست الستی حال جے ہووے کنج نہ لکھیے نعتاں

دسدا روز جمال جے ہووے کنج نہ لکھیے نعتاں

کالی کملی ساوے جبے اس نوری مکھڑے تے

کعبے ورگا خال جے ہووے کنج نہ لکھیے نعتاں

رنگ خشبو دے ڈغیاں اتے گاون سلم بہاراں

پیندی حسن دھمال جے ہووے کنج نہ لکھیے نعتاں

کنڈیاں دے سنگ کھیہ کے لنگھیے پھلاں دے سنگ گیہہ کے

مہر شفاعت نال جے ہووے کنج نہ لکھیے نعتاں

روپ سہپنوں خلق اخلاقوں ملنوں ورتوں ودھ کے

چن ای بدر کمال جے ہووے کنج نہ لکھیے نعتاں

مطلع لے وچ گاوے مقطع سُر وچ تان لگا وے

مصرعہ تال رتال جے ہووے کنج نہ لکھیے نعتاں

جیویں عرشوں تخت سلیماں لہہ کے راتیں آوے

آؤندا انج خیالؔ جے ہووے کنج نہ لکھیے نعتاں

٭٭٭

 

 

 

 

نعت

 

سورج چن ستارے سارے

اوہناں ؐ سے قدماں توں وارے

صدقے اوہناں توں جنھاں وی

صورت سوہنی بول وی پیارے

پاک منور ناں اوہناں ؐ دا

دکھ درداں دا دوزخ ٹھارے

امتاں دے وگھاں دا چھیڑو

وحدت بیلے منگو چارے

جہڑے اوہدے در دے منگتے

کیہڑا اوہناں نوں درکارے

صل اللہ دا ورد جے کریئے

سدا ای ہوندے رہن نظارے

مٹھے بولوں چاہ دلاں دے

شیریں کیتے کوڑے کھارے

اوہناں ؐ دے جو عشق اچ زندہ

کون کوئی اوہناں نوں مارے

یاد اوہناں وچ ادھی راتیں

ڈھل آون اکھیاں چوں تارے

 

روشن تیہہ اسمان نیں جیویں

اوہدے پاک کتاب دے تارے

راتیں جوگ اکھیاں دی جوئی

مڑ ایہ پیچے درد کیارے

جہڑا آپ دا امتی اوہنوں

کِسراں ساڑیں گی توں نارے

دس خیالؔ غریب نمانا

کیہ اوہناں ؐ دے قرض اتارے

٭٭٭

 

 

 

 

نعت

 

مڑ سوہنے دیاں یاداں میتھوں نعت لکھاون آئیاں

مڑ میرے ساوے لیکھاں دی جوت جگاون آئیاں

اجڑی پجڑی دل نگری سی لیندی لاواں پھیرے

پاک درود دیاں گھکاراں جھوک وساون آئیاں

جس دے عشقوں دل میرے نے سکھ دہ پونجی پائی

اوہدیں لاٹاں وگڑے دل دے تھیر مٹاون آئیاں

مڑ متراں دے رس پنے نوں چٹ گئیاں پھکیائیاں

مڑ سوہنے دیاں سچ محبتاں آس بندھاون آئیاں

ریجھاں آساں سدھراں خواہشاں اوہدے جشن مناون

تاہنگاں مدنی ماہی دے نت سوہلے گاون آئیاں

ٹونے ہاریں سوچاں دل نوں وہم دے کانبو لائے

اوہدے رحم کرم دیاں پریاں سکھ ورتاون آئیاں

آئیاں یاد خیالؔ اوہناں دیاں نگھیاں مٹھیاں گلاں

آئتاں اتے حدیثاں دل نوں راہے پاون آئیاں

٭٭٭

 

 

 

 

نعت

 

چارے کوٹاں فکراں ملیاں تیری مہر اڈیکاں

جیون دیوے دی بتی نوں چنا کد تک سیکاں

میرے پاک وطن تے ویری ہلے کر کر اوندے

گھیر لیا ہر پاسوں آقا ایہنوں کئی شریکاں

اوہ سن جو کر مردے سن تیرے ناں دی خاطر

اساں تے تیرے ناں نوں سوہنیا لا دتیاں نیں لیکاں

دوروں آئے حاجیاں دی نیں خدمت سیوا کر دے

کیڈی مہماں لائی تیرے شہر دیاں وسنیکاں

میرے آل دوالے تیری سیرت دا اے گھیرا

میں مرکز سنگ جڑیا کیوں نہ خوش ہو واں تے گھیکاں

سچیا تے سچیارا دیویں پک نوں نویں حیاتی

کنا کو چڑ شکاں دی میں لاش نوں پیا دھریکاں

عشق خیالؔ نے ادھی راتیں باہوں پکڑ جگایا

ونڈی دا ای جام طہوری پھڑ کے لا جا ڈیکاں

٭٭٭

 

 

 

ورفعنا لک ذکرک

 

ازلاں توں لے ابداں توڑی

صحراواں دے جنے ذرے

ذریاں دے وی اگوں بخرے

گلزاراں دے جنے پتے

پیتاں دیاں جنیاں ناڑاں

جنیاں شاخاں جنیاں بیخاں

جنگلاتاں، ہریاؤلاں دیاں جنیاں تیڑھاں

 

دریاواں دے جنے قطرے

برستاں دیاں جنیاں کنیاں

پھوہر پھہاراں

افلاکاں دے جنے تارے

کائناتاں وچ جنیاں شیواں

ارضاتاں دا نک سک سارا

کوہساراں دے گیٹے پتھر

حرفاں لفظاں دے سب زیور

سبھے علم کتاباں

انساناں دیاں جنیاں جیبھاں

ہور چرند پرند جنوراں

تے مخلوق دے لو آن جنے

جیکر ہون درود صلاتاں

صفت ثناواں

فروی

شان اوہدیؐ تو ں

سبھے تھلے

٭٭٭

 

 

 

 

محمدؐ

 

 

جنڈری وچ منجدھار محمدؐ

لاؤ بیڑے پار، محمدؐ

نور و نور انوار محمدؐ

نبیاں دے سردار محمدؐ

رب نے آپ دا جگ وچ کیتا

اُچا ذکر اذکار محمدؐ

صورت سیرت دا کی دساں

دوہاں دے شاہکار محمدؐ

آپ او غائب دے وی شاہد

رب دا او دلدار محمدؐ

ہر امتی دے رستے وچوں

ہتھیں چگے خار محمدؐ

حق دی خاطر حق دی راہ تے

کدے نہ منی ہار محمدؐ

جگ دے تپدے اس تھل اندر

ابداں تک گلزار محمدؐ

سچ توں ودھ خیال اوہ سچے

ہین امانت دار محمدؐ

٭٭٭

 

 

 

 

مدنی ماہیا

 

 

٭

جگ دھم مچائی اے

عبدالمطلب دی

رب ویل ودھائی اے

٭

 

زم زم دا بک پیتا

اپنی ثنا واستے

رب پیدا اے جگ کیتا

٭

 

نہیں ثانی جہان اندر

نِت پیاں صفتاں کرے

رب پاک قرآن اندر

٭

 

ہڑھ چڑھ کے لہہ گئے نے

آئے جد پاک نبیؐ

بُت سارے ڈھہہ گئے نے

٭

 

 

او فرش تے آیا اے

احمدؐ عرشاں تے

جس نام دھرایا اے

٭

 

ایہہ پہلی ساکھی اے

رب نے کُن کہہ کے

اوہدی نعت چا آکھی اے

٭

 

ول سوہنیاں لگدے نیں

ایتاں قران دیاں

چن وانگوں جگدیاں نیں

٭

 

دو کتراں ٹین دیاں

جگ وچ دھماں نیں

صادق تے امین دیاں

٭

 

کوئی تذکرے چن دے نے

سچ امانت نوں

دشمن وی من دے نیں

٭

 

ہے قول اک دانے دا

چٹھی قران دے اے

دستور زمانے دا

٭

 

پیا من دا زمانہ اے

غارِ ھرا دا

اک نور خزانا اے

٭

 

لکھ غیر کرن ٹوکاں

دنیا دے پِڑ اندر

ترے نام دے ویل ہوکاں

٭

 

تھا ں تھاں موجود اللہ

پاک محمدؐ تے

پڑھدا درود اللہ

٭

 

جے مندری نگ لئی اے

ذات اُس آقا دی

چانن دو جگ لئی اے

٭

 

بل بل پئی ہوندی اے

جگ وچ نانگ اوہدی

پل پل پئی ہوندی اے

٭

 

گل مکدی اے پھیرے تے

ملدے نے سکھ سارے

سرکار دے ڈیرے تے

٭

 

کوئی واری نور دء اے

جہدے وچ وسنے آں

اوہ دنیا حضور دی اے

٭

 

بڑا کرم کمایا اے

ربا تیتھوں جاں صدقے

مینوں امتی بنایا اے

٭٭٭

تشکر؟ میر ارشد خالد جنھوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی شکیل: اعجاز عبید