FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

فہرست مضامین

عقیدۂ ختم نبوت ، فتنۂ قادیانیت  اور جماعت اہل حدیث

 

 

                تالیف :  حافظ محمد سَاجِداُسَید ندوی

تقدیم : فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعید احمد مدنی حفظہ اللہ

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تقدیم

 

                از:ڈاکٹر سعید احمد مدنی حفظہ اللہ، امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث، آندھرا پردیش

 

الحمد للّہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا، من یہدہ اللہ فلا مضل لہٗ ومن یضلل فلا ہادی لہٗ واشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، واشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ و بعد:

عقیدۂ ختم نبوت ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر تمام امت مسلمہ کا اتفاق ہے، چنانچہ رسالت محمدی پر کسی بھی شخص کا ایمان اسی وقت مکمل ہوتا ہے جبکہ وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری نبی اور رسول ہونے کا یقین کامل رکھتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا، آپ ہی خاتم الرسل والأنبیاء ہیں، آپ کے بعد نہ کوئی رسول آنے والا ہے اور نہ کوئی نبی، ارشاد باری تعالی ہے :

{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُم وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ }

’’محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور نبیوں (کے سلسلے ) کو ختم کرنے والے ہیں ‘‘( الأحزاب :۴۰ )

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((لو کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب))

’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے ‘‘ (المستدرک للحاکم: ۳/۲۹)

آپ صلی اللہ علیہ و سلم ساری دنیا کے لیے نبی بنا کر مبعوث کئے گئے اور آپ کی رسالت کامل اور اکمل بنا کر رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے محفوظ کر لی گئی، اب آپ کے بعد کسی نبی یا رسول کے آنے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی، کیونکہ عام طور پر نبیوں کی بعثت کے جتنے اسباب ہوا کرتے تھے وہ سارے اسباب آپ کی رسالت کے ذریعہ ختم کر دئے گئے، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشین گوئی کے مطابق نبوت کے جھوٹے دعویدار تو ضرور پیدا ہوں گے جو نبوت کا جھوٹا دعوی کر کے اپنی آخرت کی ہلاکت و بربادی کا سامان کر لیں گے، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے :

((لا تقوم الساعۃ حتی یبعث دجالون کذابون قریبا من ثلاثین کلہم یزعم أنہ رسول اللہ ))

’’قیامت سے پہلے پہلے تقریباً تیس جھوٹے دجال اٹھیں گے اور ان میں سے ہر ایک اللہ کا رسول ہونے کا دعوی کرے گا‘‘ (صحیح البخاری)

جیسا کہ دور نبوت کے آخری دور میں مسیلمہ کذاب، اسود عنسی وغیرہ جیسے نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوے اور بری موت کا شکار ہوے۔

انہیں مدعیان نبوت میں سے مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہے، جس نے تقسیم ہند و پاک سے قبل انگریزی استعمار کی پشت پناہی میں استشراق کی کوکھ سے جنم لیا اور قادیانیت کے نام سے اپنے مذہب کی برگ باری شروع کی، یہاں تک کہ نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں اپنے آپ کو نبی عجمی قرار دیا اور شریعت محمدیہ کے مقابلے میں شریعت مرزائیہ (مذہب قادیانیت) کے نام سے ایک تناور درخت کی شکل میں امت کے سامنے لا کھڑا کر دیا، جس کی بیخ کنی نا ممکن سی ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ اس مذہب کے داعی و مبلغ قریوں اور دیہاتوں میں جاہل مسلمانوں کو ان کے مذہب سے ہٹانے اور اپنے مذہب کا متبع بنانے کی زور و شور سے مسلسل کوشش کر رہے ہیں، جہاں مسجد نہیں وہاں مسجد کے نام سے اپنی عبادت گاہ کی تعمیر کرتے ہیں، اور جہاں مسجدامام سے خالی ہو، وہاں امام مقرر کرتے ہیں، اور امامت و خطابت کے نام سے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہوے لوگوں کو بڑی تیزی سے اپنا گرویدہ بنا رہے ہیں، جس کا مشاہدہ ہندوستان کے ہر صوبے میں کیا جا سکتا ہے، بالخصوص آندھرا پردیش کے ساحلی علاقوں کے دور دراز قریے تو کچھ زیادہ ہی متأثر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں قانونی اعتبار سے ہر شخص کو اٹھارہ (۱۸) سال کی عمر کے بعد مذہبی آزادی حاصل ہے، جو مذہب چاہے اختیار کرے، جس مذہب کی چاہے ترویج کرے، اسی طرح قادیانی حضرات کو بھی اپنا مذہب پھیلانے کا پورا پورا اختیار ہے، مگر افسوس اس بات پر ہے کہ لوگوں کو دھوکہ دے کر دین اسلام کے نام پر اپنے باطل عقیدے کا پرچار کرتے ہیں، حالانکہ قادیانیت اتنا کھوکھلا مذہب ہے کہ اس کے ماننے والے اعتقادی طور پریہ تصور رکھتے ہیں کہ ان کا خدا بھولتا ہے اور غلطی کرتا ہے، سوتا ہے اور ہم بستری کرتا ہے ایسے مذہب کا نبی غلام احمد قادیانی ہے، جس کا شیوہ ہی اللہ پر جھوٹ گھڑ نا ہے، اس کی کتاب ((کتاب مبین )) کے نام سے ایک مستقل کتاب ہے، اس کتاب کا لانے والا فرشتہ نوجوان انگریز کی شکل میں ڈاڑھی مونڈا ہوا ہے، اس کا حرم قادیان ہے، جہاں بہشتی مقبرہ ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ اس مقبرہ میں دفن ہونے والا سیدھے بلا حساب و کتاب جنت میں چلا جائے گا اور وہ جنت بھی یقیناً کو ئی مستقل اور انوکھی جنت ہو گی جہاں پہنچ کر آدمی سیدھے جہنم میں جا گرے گا، مگر اپنے اس باطل عقیدے کو رواج دینے کے لیے نادان اور انجانے مسلمانوں کو دھوکا دینا، اپنے مذہب کو اسلام کا نام دے کر اپنی عبادت گاہوں کو مسجدوں کا نام دے کر مسلمانوں کے دین وا یمان کو خریدنا ایسی مذموم حرکت ہے جسے کوئی معمولی مسلمان بھی برداشت نہیں کر سکتا۔

چنانچہ یہ کتاب ’’ عقیدۂ ختم نبوت، فتنۂ قادیانیت اور جماعت اہل حدیث ‘‘جو آپ کے ہاتھوں میں ہے، اس کے فاضل مؤلف ’’ فضیلۃ الشیخ ساجد اسید ندوی حفظہ اللہ ‘‘ نے بھی اس کی تحریر و ترتیب کا مقصد یہی رکھا کہ قادیانیوں کی پوری حقیقت مسلم عوام و خواص کے سامنے کھول کر رکھ دیں۔ اللہ تعالی جزاء خیر دے موصوف کو آپ نے اپنی کتاب کے ذریعہ ایک طرف قادیانیت کا پول کھولا ہے تو دوسری طرف رد قادیانیت پر اہل حدیث کی امتیازی خصوصیات کا بھی تذکرہ کر دیا ہے۔

ایک زمانہ وہ تھا جب کہ قادیانی داعی پنجاب سے آتے اور جنوبی ہند کے کسی ایسے قریہ کو نشانہ بناتے جہاں جہالت کا دور دورہ ہوتا اور کسی عالم دین کا وہاں تک پہنچنا ناممکن ساہوتا، اور وہ پورے قریہ کو اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کرتے، مگر باذن اللہ کوئی عالم دین وہاں پہنچ جاتا تو عوام اس عالم کے سمجھانے پر حق بات سمجھ جاتی پھر اس قادیانی داعی کو وہاں سے مار بھگایا جاتا تووہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا۔ مگر اب زمانہ بدل گیا ہے ہمارے علاقے کے لڑکے خود قادیان سے تعلیم و تربیت پا کر آ رہے ہیں، اور اپنے علاقے کی کسی مسجدپر اپنا قبضہ جماتے ہیں تو ان کو وہاں سے نکالنا نہایت دشوار ہوتا ہے۔

اس نادان قوم کے پاس قادیانیت کے سچے مذہب ہونے کی دلیل بھی بڑی نرالی ہے۔ وہ یہ کہ قادیانی انہیں مسجدبنا کر دیتے ہیں، اگر کسی مسجد میں امام نہ ہو تو امام مقرر کرتے ہیں اور وہ ان کے بچوں کو اردو پڑھاتا اور لکھاتا ہے۔ مگر درحقیقت اردو کے نام پروہ انہیں قادیانیت کے عقائد خوب سکھاتا ہے، عام لوگ اس کواسلام سمجھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں، اور یقین کر لیتے ہیں کہ انکو مسجد بھی مل رہی ہے اور امام بھی اور کہتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر ہمیں اور کیا چاہئے۔ انہیں حالات کے تناظر میں ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ آخر اس قوم کو سمجھائیں کیسے ؟ختم رسالت کا مسئلہ ان کو بتائیں کیسے ؟ قادیانیت کی ضلالت سے انہیں نکالیں کیسے ؟

افسوس ہماری قوم کب اپنی غفلت کی نیندسے بیدار ہو گی، ان نادانوں تک پہنچ کر انہیں قادیانیت کے چنگل سے کب باہر نکالے گی، اپنے دعوتی کام اور رفاہی کام کا آغاز کب کرے گی ؟ ؟؟یہی سوچ کر ہم نے قادیانیت سے بہت زیادہ متأثر علاقہ ضلع مغربی گوداوری کا دورہ کیا، دوران سفر معلوم ہوا کہ دیو و لاپلی  (Devulapalli) نامی قریہ میں قادیانیت کا ضلعی مرکز ہے، جا کر دیکھا تو تمام شہروں سے الگ، دور دراز علاقے میں ایک چھوٹاساقریہ ہے، جس میں ایک چھوٹی سی مسجدنما عمارت ہے اور اس میں ایک بہت بڑا TVرکھا ہوا ہے اور اس عمارت کے اوپر ایک بہت بڑا ڈش(dish)لگا ہوا ہے، کہا گیا کہ یہی قادیانیت کا مرکز ہے، یہاں لندن سے قادیانیت کے پروگرام براہ راست نشر ہوتے ہیں، اسی مرکز سے پورے علاقے میں قادیانی دعاۃ کی تنخواہیں بٹتی ہیں اور یہیں سے پورے علاقے میں قادیانی جراثیم پھیلائے جاتے ہیں۔

یقیناً اس دعوتی دورہ سے کئی حقائق ہمارے سامنے آشکار ہوئے، ان میں سے ایک یہ بھی کہ صرف اس ایک ضلع گوداوری میں تقریباً(۱۲) بارہ مسجدیں قادیانیوں کی بن چکی ہیں، اور ایک ہزار سے زائد آدمی قادیان کا حج کر چکے ہیں، اور تقریباً ۲۰۰ بچے تعلیم کے لئے قادیان جا چکے ہیں، کوئی ایک سالہ کورس میں ہے تو کوئی دوسالہ، کوئی تین سالہ کورس میں ہے تو کوئی سات سالہ کورس میں پڑھ رہا ہے۔ جب یہ فوج تعلیم کے بعد لوٹ کر اپنے علاقے میں قدم رکھے گی تو پھراس کے بعد کا عالم کیا ہو گا۔ اندیشے تو بہت ہیں مگر حالات کے بدلنے سے ہم مایوس بھی نہیں ہیں، اس لئے کہ مایوسی کفر ہے۔

اس دورہ کے بعد ہم نے رد قادیانیت پر اپنی قوم کو تیار کرنے کا ارادہ کیا، اس کے لئے ائمہ ودعاۃ کا ایک تربیتی کنونشن بلایا، جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو دعوت دی گئی، راقم حروف کی کتاب(( قادیانیت اسلام کا فرقہ نہیں ایک خود ساختہ مذہب ہے )) تقسیم کی گئی، اور فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے رد قادیانیت پر پانچ فولڈرس تلگو زبان میں چھپوا کر تقسیم کئے گئے، الحمد للہ علاقے کے اکثر ائمہ ودعاۃ نے اس کنونشن سے استفادہ کیا، مگر قابل ملاحظہ بات یہ کہ تحفظ ختم نبوت کے دعوے داروں کا وجود مذکورہ کنونشن میں نہ رہا، نہ محاضرین کی حیثیت سے اور نہ ہی حاضرین کی حیثیت سے۔

ہاں جب پانی سرسے اونچا ہوا، قادیان کے سالانہ کانفرنس کے پوشٹرس چھپ کر منظر عام پر آ گئے، اور قادیانی کانفرنس کو اسلامی کانفرنس کا نام دے کر مقامی تلگو اخبارات میں اشتہار بازی کی جانے لگی اس وقت الحمد للہ اپنے اخوان نے بروقت شہر مچھلی پٹنم میں ایک پریس کانفرنس بلایا، تمام اسلامی دھڑوں کو جمع کیا، تو سب سے پہلے پوری تیاری اور پورے مٹیریل کے ساتھ حاضری دینے والے (ا للہ کے فضل سے ) ہم اہل حدیث ہی تھے، جا کر دیکھا گیا تو کسی کے پاس کوئی مواد نہیں ہے، سب کو کھل کر اعتراف کرنا پڑا کہ آج اہل حدیث اور ان کی کتابیں نہ ہوتیں تو ہم پیدل ہو جاتے، بات کچھ نہ بنتی،ا للہ کا شکر ہے ہر نازک موڑ پر اللہ نے جماعت اہل حدیث کو حق کاسپاہی بنایا ہے اور باطل کے لئے تیز تلوار، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سب مل کر اس فتنۂ قادیانیت کا مقابلہ کریں، تاکہ علاقہ سے اس باطل اور ایک مستقل خود ساختہ مذہب کا قلع قمع ہو جائے، کیوں کہ ہمارا مقصد اپنی بڑا ئی بیان کرنا نہیں، بلکہ احقاق حق اور ابطال باطل ہے، اللہ تعالی اخلاص کی دولت سے نوازے، ہما ری ان حقیر سی کوششوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے (آمین)

 

 

 

 

حرف آغاز

 

تقریباً دو سال قبل کی بات ہے کہ شہر حیدرآباد کی بعض مقامی جمعیات کے ذمہ داران کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں نوجوان نسل کی دینی و منہجی تعلیم و تربیت کی غرض سے جہاں ایک طرف ایک ہفتہ واری مدرسہ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور بعد ازاں اس پر عمل بھی ہوا وہیں دفاع مسلک و منہج کی غرض سے متعینہ عناوین پر ماہانہ اجتماعات کے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا گیا اور اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر پہلے اجتماع کے لیے جس عنوان کا انتخاب عمل میں آیا وہ تھا :

’’ عقیدۂ ختم نبوت، فتنۂ قادیانیت اور اس حوالے سے جماعت اہل حدیث کی خدمات ‘‘

اس عنوان کے انتخاب سے مقصود جہاں عامۃ المسلمین کو فتنۂ قادیانیت سے آگاہ کرنا تھا وہیں رد قادیانیت کے باب میں جماعت اہل حدیث کی خدمات کا تعارف اور بعض گوشوں کی جانب سے اس حوالے سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی تھا، اس عنوان پر تیاری کرنے اور روشنی ڈالنے کی ذمہ داری راقم کو دی گئی اور بحمد اللہ پندرہ دن کے وقفوں کے ساتھ شہر کی تین الگ الگ مساجد میں منعقد ہونے والی تین نشستوں میں راقم کو اس عنوان پر حسب استطاعت روشنی ڈالنے کا شرف حاصل ہوا۔

ان نشستوں کے انعقاد کے بعد حلقۂ مراد نگر کے ناظم محترم برادر شفیق الرحمن ارشد صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان میں پیش کئے جانے والے مواد کو کتابی شکل دے دی جائے، لیکن مصروفیات کے ہجوم نے اس کی طرف توجہ کرنے کا موقع نہیں دیا، بعد ازاں جب ’’الادارۃ السلفیہ للبحوث الاسلامیہ ‘‘کا قیام عمل میں آیا تو ایک بار پھر پرانے شہر میں اسی عنوان سے نشست منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا اور راقم کو دوبارہ اس عنوان پر گفتگو کا موقع میسر آیا تو اس خواہش کا بھی اعادہ ہوا یوں اس سلسلے میں کمر ہمت باندھ لینے اور متعلقہ مواد کو کتابی شکل دے دینے کا داعیہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گیا اور بالآخر یہ مواد ترتیب و تہذیب اور خاطر خواہ اضافوں کے ساتھ اب کتابی شکل میں قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔ فالحمد للہ اولا وآخرا۔

کتاب کے پہلے حصے میں زیادہ تر عربی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے، ان میں دکتور احمد بن سعد الغامدی کی تالیف ’’عقیدۃ ختم النبوۃ بالنبوۃ المحمدیۃ‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے، اس کتاب سے دوسرے حصے میں بھی بہت کچھ استفادہ کیا گیا ہے، بقیہ جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے ان میں سے کئی ایک کا ذکر کتاب میں آ گیا ہے۔

کتاب کی تکمیل کے بعد راقم نے صوبائی جمعیت اہل حدیث آندھرا پردیش کے امیر محترم ڈاکٹر سعید احمد مدنی حفظہ اللہ سے نظر ثانی اور مقدمہ لکھنے کی درخواست کی، ڈاکٹر صاحب کو ماشاء اللہ اس موضوع پر علمی اور عملی دونوں اعتبار سے کام کرنے کا شرف حاصل ہے، اسی مناسبت سے راقم نے ان سے گزارش کی کہ مقدمہ میں ان سرگرمیوں کا مختصر ذکر ہو جائے جو آپ کی طرف سے رد قادیانیت کے سلسے میں انجام دی گئی ہیں، تاکہ صوبۂ آندھرا پردیش کے حوالے سے بھی جماعت اہل حدیث کی خدمات کا تعارف کتاب کا حصہ بن جائے اور اس سلسلے میں بعض جماعتوں کی خوش فہمیوں کا محل بھی زمین بوس ہو جائے، میں انتہائی ممنون اور شکرگزار ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود اس درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا اور راقم کی ذرہ نوازی فرمائی، بحمد اللہ ان کا وقیع مقدمہ کتاب کی زینت ہے، ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع پر اپنی کتاب ’’قادیانیت اسلام کا کوئی فرقہ نہیں بلکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ بھی پی ڈی ایف کی شکل میں ارسال فرمائی اور راقم اس سے مستفید ہوا فجزاہ اللہ فی الدارین خیراً واحسن الجزاء اس کتاب میں مرزا کی شخصیت اور دعوۂ نبوت کے اسباب اور پس منظر سے متعلق بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، باذوق قارئین اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

بڑی ناسپاسی ہو گی اگر میں برادرم ارشد صاحب کا شکریہ ادانہ کروں کہ اس کتاب کی تکمیل و اشاعت ان ہی کی مسلسل تحریک کا نتیجہ ہے، رفیق محترم مولانا امتیاز عالم خان محمدی حفظہ اللہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں ان کا تعاون بھی راقم کو حاصل رہا، دعاگو ہوں کہ رب باری تعالی سب کی کوششوں کو شرف قبولیت سے نوازے اور کتاب کو اپنے مقصد میں کامیاب بنائے، آمین

۳/اپریل ۲۰ ۱۴ء                      محمد ساجد اسید ندوی

ناظم ’’الادارۃ السلفیۃ للبحوث الاسلامیہ ‘‘حیدرآباد

امام و خطیب مسجد تقوی، ٹولی چوکی

ناظم ومدرس جامعہ حفصہ رضی اللہ السلفیۃ للبنات، قلعہ گولکنڈہ، حیدرآباد

 

 

 

 

عقیدۂ ختم نبوت

 

عقیدہ کسے کہتے ہیں ؟

عقیدہ کا لفظ ’’ عَقَدَ یَعقِدُ ‘‘سے ہے، جس کے معنی گرہ لگانے اور مضبوطی سے باندھنے کے ہیں، اصطلاحاً عقیدہ سے مراد وہ باتیں ہیں جن پر انسان کا دل تصدیق یا تکذیب کے اعتبار سے گرہ لگا دے یا بالفاظ دیگر جن پر انسان اپنے دل کو مضبوطی سے باندھ دے، یعنی ماننے یا نہیں ماننے کے اعتبار سے انہیں قطعی حیثیت دے دے۔

 

صحیح یا غلط عقیدہ

انسان تصدیق و تکذیب یعنی ماننے یا نہیں ماننے کے اعتبار سے جن باتوں کو یقین کا درجہ دیتا ہے وہ یاتو صحت اور درستگی پر مبنی ہوں گی یا غلطی اور خطا پر، اس طرح انسان کا عقیدہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی۔

 

عقیدہ کی اہمیت اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات

شریعت اسلامیہ جن امور ومسائل کے مجموعہ کا نام ہے بنیادی طور پر انہیں دو قسموں میں بانٹا گیا ہے، ۱۔ اعتقادی امور اور ۲۔ عملی امور ومسائل۔

اہل علم کے یہاں اعتقادی امور کو ’’اصول دین ‘‘ (یعنی دین کی جڑیں اور بنیادیں )کہا جاتا ہے اور عملی امور ومسائل کے لیے ’’ فروع ‘‘کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، فروع فرع کی جمع ہے جس کے معنی شاخ کے ہیں۔

اعتقادی امور کو ’’ اصول دین ‘‘ سے تعبیر کرنے کی وجہ صاف اور ظاہر ہے کہ جو حیثیت درخت کے لیے جڑ کی ہے اور کسی عمارت کے لیے بنیاد کی ہے وہی حیثیت دین میں عقیدہ کی ہے، یہ تو ممکن ہے کہ ’’فروع ‘‘ کے بغیر ’’اصول‘‘ کا وجود کسی نہ کسی صورت میں ہو مگر یہ ممکن نہیں کہ ’’ اصول ‘‘ تو موجود نہ ہوں لیکن ’’فروع ‘‘ کا وجود ہو، جس طرح جڑ کے بغیر کسی درخت کا اور بنیاد کے بغیر کسی عمارت کا تصور نہیں کیا جا سکتا اسی طرح عقیدہ کے بغیر دین کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور جس طرح مضبوط ومستحکم جڑ سے ہی مستحکم اور صحت مند شاخوں کا وجود ممکن ہے اسی طرح صحیح اور مستحکم عقیدہ ہی سے درست اور مبنی بر صحت اعمال کا وجود ممکن ہے، چنانچہ شریعت اسلامیہ میں انسان کے کسی بھی نیک اور صالح عمل کی صحت و قبولیت مکمل طور پر عقیدہ کی صحت اور درستگی پر موقوف ہے، عقیدہ سے متعلق کسی بھی جز میں اگر فساد اور خرابی ہے تو اللہ کے نزدیک انسان کے کسی بڑے سے بڑے اور بہتر سے بہتر عمل کی بھی کوئی قیمت اور وقعت نہیں ہے۔

قرآن مجید میں اس حقیقت کو مختلف اسلوب و انداز میں متعدد مقامات پر اجاگر کیا گیا ہے، عقیدہ کی خرابی کے ساتھ انجام دیئے گئے اعمال خیر کو کہیں ’’ سَرَاب ‘‘ (چمکتی ہوئی ریت)سے تشبیہ دیا گیا ہے جو چٹیل میدان میں ہو اور جسے پیاسا شخص دورسے دیکھ کر پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے قریب پہنچتا ہے تو اسے کچھ نہیں پاتا، (النور: ۳۹)تو کہیں راکھ سے جس پر آندھی والے دن تیز ہوا چلے (اور اسے اڑا لے جائے ) ( ابراہیم : ۱۸ ) اور کہیں اس صاف اور چکنے پتھر سے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار بارش برسے اور اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے۔ (البقرہ:۲۶۴)جبکہ ایک جگہ بالکل واشگاف انداز میں یوں فرمایا گیا ہے :۔

{ وَقَدِمنَآ اِلیٰ مَا عَمِلُوا مِن عَمَلٍ فَجَعَلنٰہُ ھَبَآئً مَّنثُورًا}

’’ انہوں نے جو اعمال کئے ہیں ہم ان کی طرف متوجہ ہو کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیں گے ‘‘              (الفرقان:۲۳)

صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا:۔

(( یَارَسولَ اللّٰہِ ! اِبنُ جُدعَانَ :کَانَ فِی الجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطعِمُ المِسکِینَ، فھََل ذَاکَ نَافِعُہٗ ))

اے اللہ کے رسول!، ابن جدعان زمانۂ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتا تھا، کیا یہ سب اس کے حق میں نفع بخش ثابت ہوں گے ؟

نبی کریمﷺ نے فرمایا:۔

(( لاَیَنفَعُہٗ، اِنَّہٗ لَم یَقُل یَومًا :رَبِّ اغفِر لِی خَطِیئَتِی یَومَ الدِّینِ))

’’نہیں ! یہ سب اس کے کچھ کام نہیں آئیں گے، کیونکہ اس نے کبھی بھی یہ نہیں کہا:اے میرے پروردگار !قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرما دینا‘‘   (صحیح مسلم، کتاب الایمان:۲۱۴)

عبد اللہ بن جدعان مکہ کا نہایت ہی سخی و فیاض آدمی تھا، اس نے ملک شام کی طرف دو ہزار اونٹ بھیجے تھے جن پر، گیہوں، شہد اور گھی لاد کر مکہ لایا گیا، پھر اس نے ایک منادی کرنے والے کو مقرر کر دیا کہ وہ روزانہ رات میں خانۂ کعبہ کے چھت پر چڑھ کر لوگوں کو کھانے کی دعوت عام دے، چنانچہ ہر رات منادی کرنے والا اعلان کرتا :

[[ ھَلُمُّوا اِلیٰ جَفنَۃِ ابنِ جُدعَانَ ]]

’’ابن جدعان کی دیگ کی طرف آؤ‘‘

روایت کے مطابق ابن جدعان کی یہ دیگ اتنی بڑی تھی کہ اس سے اونٹ سوار سواری کی پیٹھ پر ہی کھانا کھا لیتا تھا۔ ( شرح الابی والسنوسی علی صحیح مسلم ۱/۶۲۹، البدایہ ۳/۲۶۶، بحوالہ سنہرے اوراق ۱۳، ۳۲)

ایسی فیاضی اور سخاوت کے باوجود یہ شخص ناکام رہا اسلئے کہ اس کا عقیدہ صحیح نہیں تھا۔

سنن ابوداؤد کی روایت کے مطابق، ابن دیلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :۔

’’میں ابی بن کعب کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا کہ میرے دل میں تقدیر سے متعلق کچھ (شبہ وغیرہ پیدا ہو رہا)ہے، مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جس کی وجہ سے میرے دل سے یہ چیز ختم ہو جائے، انہوں نے فرمایا:

(( لَو اَنفَقتَ مِثلَ اُحُدٍ ذھََبًا مَاقَبِلَہُ اللّٰہُ مِنکَ حَتّیٰ تُؤمِنَ بِالقَدرِ۔ ۔ ۔ ))

اگر تم احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دو اللہ تعالی اسے قبول نہیں کرے گا یہاں تک کہ تم تقدیر پر ایمان لے آؤ اور یہ یقین کر لو کہ جو تمہیں پہنچنے والا ہے وہ تم سے دور نہیں ہو سکتا اور جو تم سے دور ہونے والا ہے وہ تمہیں پہنچ نہیں سکتا، اگر تم اس عقیدہ کے بغیر فوت ہو گئے تو جہنمیوں میں سے ہو گے ‘‘

ابن دیلمی کہتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، ان سبھوں نے مجھ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ‘‘ (ابوداؤد:۴۶۹۹)

معلوم ہوا کہ عقیدہ کی صحت کے بغیر عند اللہ کامیابی و نجات بالکل ناممکن ہے اور جب عقیدہ کی یہ اہمیت تو ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے عقیدہ کی اصلاح ودرستگی کی فکر کرے اور صحیح عقیدہ سیکھنے اور معلوم کرنے کا اہتمام کرے۔

صحیح عقیدہ کہاں سے حاصل کریں گے ؟

صحیح عقیدہ کے حصول کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشیں کر لینا ضروری ہے کہ عقیدہ سے متعلق تمام امور ومسائل بنیادی طور پر توقیفی ہیں یعنی ان کی معرفت رسول اللہﷺ کے بتلانے پر ہی موقوف ہے، اس لئے ان کا سرچشمہ صرف وحی اور خبر الہی ہے اور خبر الہی تمامتر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ میں محصور ہے، اس طرح عقیدہ کی صحت اور فساد کا مدار کلیۃً انہی دونوں پر ہے، صحیح عقیدہ وہی ہے جو ان دونوں سے ماخوذ ہو اور کسی عقیدہ کا ثبوت اگر کتاب وسنت سے نہیں تووہ باطل، لغو، ناقابل التفات اور ہلاکت و بربادی کا باعث ہے۔

اسلامی عقیدہ کے اساسی ارکان

یوں تو اسلامی عقیدہ کی شاخیں اور فروع بہت ساری ہیں لیکن بنیادی طور پر اسلامی عقیدہ کی عمارت چھ ارکان پر قائم ہے جنہیں ’’ارکان ایمان‘‘ کہا جاتا ہے اور جن کا ذکر حدیث جبریل علیہ السلام میں کچھ ان لفظوں میں موجود ہے :

(( اَن تُؤمِنَ بِاللّٰہِ وَملاَئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالیَومِ الاٰخِرِ وَتُؤمِنَ بِالقَدرِ خَیرِہٖ وَشَرِّہٖ ))

’’(ایمان یہ ہے کہ) تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ‘‘       (بخاری:۵۔ ، مسلم:۱)

رسولوں پر ایمان

ان چھ بنیادی ارکان میں چوتھا رکن رسولوں پر ایمان لانا ہے، رسولوں پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر دور اور امت میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی اور انہیں الہ واحد کی عبادت کی دعوت دینے کے لیے اپنے مخصوص بندوں کو بھیجا جو نیکی اور اچھائی کے تمام اوصاف سے متصف تھے، انہوں نے اپنی ذمہ داری کماحقہ نبھائی اور پھر اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اللہ کے یہ بندے رسول اور نبی تھے۔

نبی اور رسول کے معنی

قبل اس کے کہ ہم ایمان بالرسالت کی ضرورت اور اہمیت پر غور کریں، بہتر ہو گا کہ ہم نبی اور رسول کے معنوں پر غور کرتے چلیں۔

نبی ’’ نبأ‘‘ سے ہے جس کے معنی خبر کے ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

{ عَمَّ یَتَسَآءَ لُونَ عَنِ النَّبَاِ العَظِیم }

’’یہ لوگ کس بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں، اس بڑی خبر کے بارے میں ‘‘  (النبا:۱۔ ۲)

نبی ’’ مُخبَر‘‘ ہوتا ہے یعنی اللہ کی طرف سے اسے خبر دی جاتی ہے، جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

{ قَالَت مَن اَنبَاَ کَ ھٰذَا قَالَ نَبَّاَنِیَ العَلِیمُ الخَبِیرُ }

’’ کہنے لگی اس کی خبر آپ(ﷺ ) کو کس نے دی؟کہا سب جاننے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلایا ہے ‘‘ (التحریم:۳)

اور وہ ’’مُخبِر‘‘ بھی ہوتا ہے یعنی اللہ کے اوامر اور اس کی وحی کی خبر لوگوں کو دینے والا ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :۔

{ نَبِّیِ عِبَادِیٓ اَنِّیٓ اَنَا الغَفُورُ الرَّحِیمُ }

’’میرے بندوں کو خبر دے دیجئے کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں ‘‘                         (الحجر:۴۹)

ایک اور جگہ ارشاد ہے :۔

{ وَنَبِّئھُم عَن ضَیفِ اِبرٰھِیم }

’’انہیں ابراہیم کے مہمانوں کی خبر دیجئے ‘‘ (الحجر:۵۱)

یا نبی ’’نَبوَۃ‘‘ سے ہے جس کے معنی بلند حصۂ زمین کے ہیں، اہل عرب لفظ نبی کا استعمال زمین کے ان نشانات کے لیے کرتے ہیں جن سے راستہ معلوم کرنے کا کام لیا جائے، ان دونوں معنوں سے نبی کی مناسبت یوں ہو گی کہ نبی دوسروں کے مقابلہ میں بلند مقام و مرتبہ کا حامل ہوتا ہے اور لوگ اس کے واسطے سے اللہ کی معرفت اور اس کے اوامر و نواہی سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ ( تفصیل کے لیے لسان العرب(ج۱ ص۱۶۲۔ ۱۶۴) وغیرہ کتبِ لغت کا مطالعہ کیجئے )

جبکہ ’’رسول‘‘کا لفظ ارسال سے ہے جس کے معنی بھیجنے کے ہیں، رسول اس شخص کو کہا جاتا ہے جسے کسی مہم پر بھیجا جائے، ملکۂ سبا کا قول ذکر کر تے ہوئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

{ وَ اِنِّی مُرسِلَۃٌ اِلَیھِم بھَِدِیَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌ بِمَ یَرجِعُ المُرسَلُونَ }

’’میں انہیں ایک ہدیہ بھیجنے والی ہوں، پھر دیکھوں گی کہ قاصد کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں ‘‘  (النمل:۳۵)

نبی اور رسول کے درمیان فرق

نبی اور رسول کے معنوں سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ نبی اور رسول دونوں ایک ہی ہیں یا ان کے درمیان باہم کچھ فرق ہے ؟اس سلسلے میں قرآن وسنت کی نصوص کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ نبی اور رسول میں بہرحال کچھ نہ کچھ فرق ہے، سورۂ حج میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

{ وَمَآ اَرسَلنَا مِن قَبلِکَ مِن رَّسُولٍ وَّلَا نَبِیٍّ }

’’ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا۔ ۔ ۔ ‘‘(الحج:۵۲)

رسول کے ساتھ نبی کا الگ سے ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں کے درمیان فرق ہے، اسی طرح اللہ تعالی حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے :۔

{وَاذکُر فِی الکِتٰبِ مُوسٰٓی اِنَّہٗ کَانَ مُخلَصًا وَّکَانَ رَسُولًا نَّبِیًّا }

’’اس قرآن میں موسی کا ذکر کیجئے جو چنا ہوا اور رسول اور نبی تھا ‘‘        (مریم:۵۱)

اس آیت میں بھی رسول کے ساتھ نبی کا ذکر ایک علاحدہ وصف کے طور پر ہے۔

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ میں نے پوچھا:

(( یَارَسُولَ اللّٰہِ کَم وَفَاءَ عِدَّۃِ الاَنبِیَاءِ؟ ))

’’اے اللہ کے رسول !انبیاء کی تعداد کل کتنی ہے ؟‘‘

آپﷺ نے فرمایا:

(( مِائَۃُ اَلفٍ وَّاَربَعَۃٌ وَّعِشرُونَ اَلفًا، اَلرُّسُلُ مِن ذٰلِکَ ثَلَاثُ مِائَۃٍوَخَمسَۃَ عَشَرَ جَمًّا غَفِیرًا ))

’’ ایک لاکھ چوبیس ہزار، ان میں رسولوں کی تعداد تین سو پندرہ ہے ‘‘

(مسندا حمد :۲۱۵۴۶، ۲۱۵۵۲، الصحیحۃ للالبانی:۲۶۶۸)

اس حدیث سے نبی اور رسول کے درمیان فرق کا پایا جانا بالکل واضح ہے، اب دونوں کے درمیان فرق ہے کیا؟ اس بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں، ایک قول کے مطابق نبی وہ ہے جس پر وحی اترے لیکن اسے تبلیغ کا حکم نہ ہو لیکن یہ بات درست نہیں نظر آتی، اس لئے کہ حکم تبلیغ کے بغیر نزول وحی اور نبوت کا کوئی فائدہ نہیں نظر آتا، اس کے علاوہ متعدد آیات اور احادیث سے بھی اس خیال کی تردید ہوتی ہے، جیسے ابھی سورۂ حج کی آیت گزر چکی ہے جس میں رسول کے ساتھ نبی کے لیے بھی ارسال کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ ارسال تبلیغ کا تقاضا کرتا ہے، نیز نبی اکرمﷺ کی ایک قدرے طویل روایت کے الفاظ ہیں :۔

(( عُرِضَت عَلَیَّ الاُمَمُ فَرَأَیتُ النَّبِیَّ وَمَعَہُ الرّھَُیطُ وَالنَّبِیَّ وَمَعَہُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، وَالنَّبِیَّ لَیسَ مَعَہٗ اَحَدٌ ))

’’میرے سامنے مختلف امتوں کے لوگ لائے گئے، بعض نبی ایسے تھے جن کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت تھی، بعض کے ساتھ صرف ایک یا دو ہی آدمی تھے اور کو ئی نبی ایسا بھی تھا جس کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا‘‘  (مسلم، کتاب الایمان:۱۳۸)

اس روایت کے الفاظ سے واضح ہے کہ نبی بھی تبلیغ پر مامور ہوتا ہے، ورنہ اس کے ساتھ اس کے ماننے والوں کے ہونے کا کیا مطلب ؟

اس سلسلے میں مختار اور قابل ترجیح بات وہ ہے جو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’النبوات ‘‘ میں کہی ہے اور وہ یہ کہ نبی وہ ہے جسے اپنے سے پہلے نبی کی شریعت پر عمل پیرگی کی تلقین و تبلیغ پر متعین کیا گیا ہو اور اسے ایسے کافروں کی طرف نہیں بھیجا گیا ہو جو مطلقاً اوامر الہی کے مخالف ہوں جبکہ رسول وہ ہے جسے مستقل وحی اور شریعت سے نواز کر مخالفین رسالت و توحید کی طرف بھیجا جائے، جیسے نوح علیہ السلام ہیں، صحیح روایت سے ثابت ہے کہ وہ روئے زمین پر مبعوث ہونے والے سب سے پہلے رسول ہیں، انبیاء تو ان سے پہلے بھی تھے، جیسے شیث اور ادریس علیہما السلام( النبوات ص ۱۷۲۔ ۱۷۳) اس طرح نبوت عام ہے اور رسالت خاص ہے، ہر رسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔

نبوت تمامتر وہبی چیز ہے کسب سے اس کا کوئی تعلق نہیں

رسالت و نبوت سے متعلق ایک اہم بات یہ بھی جان لینا چاہئے کہ نبوت ورسالت کا منصب ایک خالص وہبی چیز ہے جس میں انسان کے کسب و محنت کو کوئی دخل نہیں، اسے نہ آرزوؤں اور تمناؤں کی بنیاد پر حاصل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ریاضت و محنت اور سعی و اجتہاد کے ذریعہ اس کا حصول ممکن ہے، انسان اپنی محنت و کوشش سے حسب صلاحیت و توفیق بڑا سے بڑ ا دینی اور دنیوی منصب حاصل کر سکتا ہے لیکن نبوت تمامتر عطیۂ ربانی ہے، اس کے لیے اللہ ہی جسے چاہتا ہے منتخب فرماتا ہے، اللہ تعالی حضرت یعقوب علیہ السلام کی بات جو انہوں نے اپنے صاحبزادہ گرامی حضرت یوسف علیہ السلام سے کہی تھی نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے :۔

{وَکَذٰلِکَ یَجتَبِیکَ رَبُّکَ }

’’اور اسی طرح تمہارا رب تجھے چن لے گا‘‘ (یوسف:۶)

اسی طرح اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :۔

{ یٰمُوسٰٓی اِنِّی اصطَفَیتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِی وَبِکَلَامِی}

’’ اے موسی !میں نے پیغمبری اور اپنی ہمکلامی سے لوگوں پر تمہیں امتیاز دیا ‘‘ (الاعراف:۱۴۴)

عہد جاہلیت کے شاعر امیہ بن صلت کے بارے میں آتا ہے کہ اس کی خواہش اور آرزو تھی کہ اسے اس امت کا نبی بنایا جائے، اس نے اپنے اشعار میں اللہ تعالی کے حضور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے، لیکن اس کی یہ آرزو بر نہیں آئی، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

{اَللّٰہُ اَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَہٗ }

’’اس موقع کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے ‘‘           (الانعام:۱۲۴)

اسی طرح اللہ تعالی نے سورۂ زخرف میں فرمایا:

{ وَقَالُوا لَولَا نُزِّلَ ھٰذَا القُراٰنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ القَریَتَینِ عَظِیمٍ اھُم یَقسِمُونَ رَحمَتَ رَبِّک نَحنُ قَسَمنَا بَینھُم مَّعِیشَتھُم فِی الحَیٰوۃِ الدُّنیَا وَرَفَعنَا بَعضھُم فَوقَ بَعضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعضُہُم بَعضًا سُخرِیًّا }

’’اور انہوں نے کہا :یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا، کیا آپ رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں ؟ہم نے زندگانیِ دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (الزخرف:۳۰ ۔ ۳۱)

رسالت و نبوت کے مقاصد اور ضرورت و اہمیت

یہ بالکل واضح حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو اپنی عبادت و بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے :۔

{ وَمَا خَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلَّا لِیَعبُدُونِ}

’’میں نے جنات اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ‘‘  (الذاریات:۵۶)

عبادت کا لفظ انتہائی جامع اور وسیع لفظ ہے اور انسانی زندگی کے تمام امور و معاملات کو شامل ہے، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عبادت کی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

[[ اسم جامع لکل مایحبہ اللہ ویرضاہ من الاعمال والاقوال الظاہرۃ والباطنۃ ]]

’’عبادت ایسا جامع لفظ ہے جو ان تمام ظاہری و باطنی اقوال اور اعمال پر بولا جاتا ہے جنہیں اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور جن سے راضی ہوتا ہے ‘‘       (العبودیۃ ص ۳۸)

اللہ تعالی نے سلسلۂ رسالت و نبوت اس لئے جاری فرمایا کہ انسانوں کو سلیقۂ عبادت و بندگی اور زندگی کے طور و طریق سے آگاہ کیا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے عقل کی شکل میں انسان کو ایک بہت بڑی نعمت سے نوازا ہے، جس کی بنیاد پروہ اچھے اور برے اور صحیح و غلط کے درمیان تمیز کر سکتا ہے، لیکن انسانی عقل کی یہ صلاحیت ایک خاص دائرہ تک محدود ہے جس کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ اجمالی طور پر تمیز کی اس صلاحیت سے بہرہ ور ہے، تفصیلی طور پر اچھے اور برے کی پہچان، رب کی ذات و صفات، اس کی رضا اور اس کے پسندیدہ وناپسندیدہ امور کی معرفت اس کے بس میں نہیں، اسی طرح زندگی گزارنے کے کونسے طریقے اس کے لیے مفید ہیں اور کونسے مضر اس کا قطعی فیصلہ کر پانا بھی اس کے لیے ممکن نہیں، اس کو مثال کے ذریعہ کسی حد تک اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ عقل عدل کی اچھائی اور خوبی کا ادراک و احساس کر سکتی ہے لیکن کسی متعین فعل کے سلسلے میں یہ فیصلہ کہ یہ عدل ہے یا ظلم ؟عقل کے لئے مشکل اور بہت مشکل ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک ہی مسئلہ سے متعلق لوگوں کی رائیں منقسم اور بٹی ہوئی نہ ہوتیں اور اختلافات رو نما نہ ہوتے۔

انسانی زندگی کے نہ جانے کتنے ایسے امور و معاملات ہیں جن میں مصلحت (بھلائی ) کا پہلو بھی ہوتا ہے اور مفسدہ(خرابی)کا بھی، اور انسان کی محدود عقل کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک پہلو کو ترجیحی قرار دے، ایسے میں وحی الہی کی رہنمائی انسان کو کسی ایک پہلو کی ترجیح کا راستہ دکھاتی ہے، اسلئے کہ اس کا سرچشمہ وہ ذات الہی ہے جس کی نگاہِ باریک بیں ہر چیز کو محیط ہے اور کسی چیز کا کوئی بھی پہلو اس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں۔

کسی عالم نے عقل اور وحی کے تعلق کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وحی کا تعلق عقل سے ایسا ہی ہے جیسے سورج اور روشنی کا تعلق آنکھ سے ہے، جس طرح روشنی کے بغیر آنکھ سے کماحقہ انتفاع ممکن نہیں اسی طرح وحی کے نور کے بغیر عقل کا عمل ناقص ہے اور مکمل رہنمائی سے قاصر۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس طرح ایک مریض طب اور طبیب کی ضرورت محسوس کرتا ہے لیکن اسے مرض کی تفصیلات اور ان کے مطابق دواؤں کی تشخیص اور استعمال کے طریقے سے واقفیت نہیں ہوتی اسی طرح عقل زندگی کی ضروریات ومسائل کا اجمالی احساس تو کر سکتی ہے لیکن ان کا تفصیلی حل اس کے پاس نہیں، یہ حل اسے وحی الہی ہی فراہم کر سکتی ہے ( مجموع الفتاوی۱۹/۹۶)

اس طرح انسانی زندگی میں وحی اور رسالت و نبوت کی ضرورت و اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :

بندوں کے لیے رسالت ضروری اور ناگزیر ہے اور رسالت کے ساتھ ان کا احتیاج دیگر تمام چیزوں کے احتیاج سے بڑھ کر ہے، رسالت عالم کی روح، اس کا نور اور اس کی زندگی ہے، اگر روح، حیات اور نور مفقود ہو تو عالم میں کیا خوبی رہ سکتی ہے ؟ جب تک رسالت کا سورج نہ طلوع ہو دنیا تاریک اور ملعون ہے، اسی طرح بندہ کی حالت ہے کہ جب تک اس کے دل میں رسالت کا سورج نہ طلوع ہو جائے وہ تاریکی میں رہے گا اور اس کا شمار مردوں میں ہے، (ارشاد ہے ):{اَوَمَن کَانَ مَیتًا فَاَحیَینٰہُ وَجَعَلنَا لَہٗ نُورًا یَّمشِی بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَن مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیسَ بِخَارِجٍ مِّنھَا}(ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اسے ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھر تا ہے کیا اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا؟)(الانعام:۱۲۲) مؤمن کا وصف بیان کیا گیا کہ وہ جہل کی تاریکی میں پڑا مردہ تھا، اللہ نے رسالت کی روح اور ایمان کے نور سے اسے زندگی بخش دی، اور اسے ایسے نور سے سرفراز فرمایا جس کے ذریعہ وہ لوگوں کے درمیان چل رہا ہے، رہا کافر تو تاریکی میں پڑا مردہ دل ہے ‘‘

مزید تحریر فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالی نے اپنی رسالت کو روح کا نام دیا ہے، روح جب مفقود ہو تو زندگی معدوم ہوتی ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

{وَکَذٰلِکَ اَوحَینَآ اِلَیکَ رُوحًا مِّن اَمرِنَا مَاکُنتَ تَدرِی مَا الکِتٰبُ وَلَا الاِیمَانُ وَلٰکِن جَعَلنٰہُ نُورًا نّھَدِی بِہٖ مَن نَّشَآئُ مِن عِبَادِنَا }

’’اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے آپ اس سے پہلے یہ بھی نہ جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں ‘‘             (الشوری:۵۲)

یہاں اللہ نے دو بنیادوں کا ذکر فرمایا، اور وہ دونوں روح اور نور ہیں، روح زندگی کا نام ہے اور روشنی تو روشنی ہی ہے ‘‘

مزید لکھتے ہیں :

’’اللہ تعالی نے وحی کی مثال جسے وہ دلوں کی زندگی اور نور کے لیے نازل فرماتا ہے، پانی کے ذریعہ بیان فرمائی جسے وہ زمین کی زندگی کے لیے اتارتا ہے اور اس آگ کے ذریعہ بیان فرمائی ہے جس سے روشنی حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

{ اَنزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَت اَودِیَۃٌم بِقَدَرھَِا فَاحتَمَلَ السَّیلُ زَبَدًا رَّابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیہِ فِی النَّارِ ابتِغَآئَ حِلیَۃٍ اَومَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثلُہٗ کَذٰلِکَ یَضرِبُ اللّٰہُ الحَقَّ وَالبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذھَبُ جُفَآئً وَاَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمکُثُ فِی الاَرضِ کَذٰلِکَ یَضرِبُ اللّٰہُ الاَمثَالَ}

’’اس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنی اپنی وسعت کے مطابق نالے بہ نکلے، پھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھے جھاگ کو اٹھا لیا اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں زیور یا سازوسامان کے لیے اسی طرح جھاگ ہیں، اسی طرح اللہ تعالی حق و باطل کی مثال بیان فرماتا ہے، اب جھاگ تو ناکارہ ہو کر چلا جاتا ہے لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے ‘‘

(آیت میں )علم کو اس پانی سے تشبیہ دی جو آسمان سے نازل ہوتا ہے اس لئے کہ دلوں کی زندگی علم ہی سے ہے جس طرح کہ جسموں کی زندگی پانی سے ہے، اور دلوں کو وادیوں سے تشبیہ دی، اس لئے دل ہی علم کا محل ہیں جس طرح کہ وادیاں پانی کا محل ہوتی ہیں، بعض دل وہ ہیں جن میں بہت سارا علم سما سکتا ہے جیساکہ بعض وادیوں میں بہت زیادہ پانی کے لیے جگہ ہوتی ہے اور کچھ دل وہ ہیں جن میں کم ہی علم سماپاتا ہے جس طرح کہ بعض وادیوں میں تھوڑے پانی کے لیے ہی گنجائش ہوتی ہے، اللہ تعالی بتلایا کہ ’’ جھاگ تو ناکارہ ہو کر چلا جاتا ہے لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے ‘‘۔ اسی طرح دلوں پر شہوات اور شبہات کے جھاگ چھا جاتے ہیں، پھر ختم ہو جاتے ہیں اور ان میں ایمان اور قرآن جو صاحب قرآن اور دوسرے لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے جگہ بنا لیتا ہے، اللہ نے فرمایا ’’اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں زیور یا سازوسامان کے لیے اسی طرح جھاگ ہیں ‘‘یہ دوسری یعنی آگ والی مثال ہے، پہلی مثال زندگی کی ہے اور دوسری روشنی کی ‘‘ (فتاوی ابن تیمیہ۱۹/۹۳۔ ۹۶)

اسی طرح علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا ہے کہ انسانوں کو رسالت کی ضرورت دیگر تمام علوم حتی کہ علم طب سے بھی زیادہ ہے، طب کے بغیر زندگی ممکن ہے لیکن رسالت کے بغیر زندگی ممکن نہیں، اسی طرح طب کو تجربات کی بنیاد پر حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن شریعت کا سرچشمہ صرف اور صرف وحی الہی ہے۔       (مفتاح دار السعادۃ ۲/۲)

قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی صراحت کے مطابق اللہ تعالی نے انسانوں سے روز ازل ہی میں اس بات کا اقرار اور اعتراف کروایا تھا کہ وہ صرف اسی کو رب تسلیم کریں گے اور اسی کی پرستش بجالائیں گے، چنانچہ سورۂ اعراف کی آیت ہے :

{ وَاِذ اَخَذَ رَبُّکَ مِنم بَنِیٓ اٰدَمَ مِن ظھُورھِم ذُرِّیَّتھُم وَ اَشھَدھُم عَلٰٓی اَنفُسھِم اَلَستُ بِرَبِّکُم قَالُوا بَلیٰ شھَِدنَا اَن تَقُولُوا یَومَ القِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَن ھٰذَا غٰفِلِینَ اَو تَقُولُوٓا اِنَّمَآ اَشرَکَ اٰبَآؤُنَا مِن قَبلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنم بَعدِہِم اَفَتھُلِکُنَا بِمَا فَعَلَ المُبطِلُونَ    }

’’اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں !ہم سب گواہ بنتے ہیں، تاکہ قیامت کے دن یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد کی نسل سے ہوئے، سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا‘‘  (الاعراف:۱۷۲۔ ۱۷۳)

اس عہد کو ’’عہدِ اَ لَست‘‘ کہا جاتا ہے، حدیث میں مزید یہ وضاحت بھی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:۔

((اِعلَمُوا اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ غَیرِی وَلَارَبَّ غَیرِی فَلَا تُشرِکُوا بِی شَیئًا وَاِنِّی سَاُرسِلُ اِلَیکُم رُسُلِی یُذَکِّرُونَکُم عَہدِی وَمِیثَاقِی وَاُنزِلُ عَلَیکُم کُتُبِی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ))

’’جان لو کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور نہ ہی میرے علاوہ کوئی رب ہے، اس لئے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میں تمہاری طرف اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں میرا یہ عہد اور پیمان یاد دلائیں گے اور اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا‘‘(احمد، مشکاۃ بتحقیق الالبانی :۱۲۲)

اس روایت سے واضح ہے کہ رسولوں کی بعثت عہد الست کی یاد دہانی کا ذریعہ ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ واضح فر مایا ہے کہ اس یاد دہانی کے بغیر وہ بندوں کو مبتلائے عذاب نہیں کرتا، چنانچہ ارشا دہے :۔

{وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتّیٰ نَبعَثَ رَسُولًا}

’’اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے عذاب دیں ‘‘         (الاسراء:۱۵)

دوسری جگہ فرمایا:۔

{وَلَو اَنَّآ اھَلَکنٰھُم بِعَذَابٍ مِّن قَبلِہٖ لَقَالُوا رَبَّنَا لَولَا ٓ اَرسَلتَ اِلَینَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ ایٰٰتِکَ مِن قَبلِ اَن نَّذِلَّ وَنَخزیٰ}        ’’اور اگر ہم اس سے پہلے انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یقیناً یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے رب تو نے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں نہ بھیجا؟کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے، اس سے پہلے کہ ہم ذلیل ورسوا ہوتے‘‘        (طہ:۱۳۴)

ایک اور مقام پر ارشاد ہے :۔

{ رُسُلاً مُّبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعدَ الرُّسُلِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیزًا حَکِیمًا }

’’ہم نے انہیں رسول بنایا، خوشخبری سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالی پر رہ نہ جائے، اللہ تعالی بڑا غالب اور بڑا با حکمت ہے ‘‘  (النساء:۱۶۵)

ان تفصیلات کی روشنی میں واضح ہے کہ نبیوں کی بعثت کا مقصد، انسانوں کو عبادت الہی کی تعلیم و تلقین، انہیں عہد الست کی یاد دہانی اور ان پر حجت کا اتمام ہے۔

عقیدۂ ختم نبوت

لوگوں کی رشد و ہدایت، انہیں عہد الست کی یاد دہانی اور ان پر اتمام حجت کی غرض سے رسولوں اور نبیوں کی بعثت کا جو سلسلہ اللہ تعالی کی طرف سے قائم کیا گیا تھا، نبی آخرالزماں محمد مصطفیﷺ پر اسے ختم کر دیا گیا، آپﷺ اس سلسلے کی آخری کڑی بن کر تشریف لائے اور اب آپ کے بعد رہتی دنیا تک کسی نبی کی بعثت نہیں ہونے والی، نبی اکرمﷺ پر سلسلۂ رسالت کی تکمیل و اختتام کی جو بات ہے اسی کو ماننے اور تسلیم کرنے کا نام عقیدۂ ختم نبوت ہے۔

عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت

ختم نبوت کے عقیدہ کے بغیر کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا، تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ ختم نبوت کا انکار کرنے والا کا فر ہے، ایسا اس لئے کہ ختم نبوت کا عقیدہ قرآن کریم کی واضح آیات، نبی اکرمﷺ کی متواتر احادیث، اجماع صحابہ اور امت کے مسلسل علمی اور عملی تعامل سے ثابت ہے۔

نبی اکرمﷺ پر سلسلہ رسالت کا اختتام کیوں ؟

قبل اس کے کہ ہم ختم نبوت کے اِن دلائل کا مطالعہ کریں مناسب ہو گا کہ ہم اس سوال پر غور کر لیں کہ آخر نبی اکرمﷺ پر سلسلۂ رسالت و نبوت کو مکمل کیوں کر دیا گیا اور آپ کے بعد کسی رسول کی بعثت کی ضرورت کیوں باقی نہیں رہی؟

دراصل ایک نبی کے بعد دوسرے نبی کی بعثت کے بنیادی طور پر تین اسباب ہیں :۔

۱۔ جس نبی اور رسول کو مبعوث کیا جا رہا ہے اس سے پہلے نبی اور رسول کی بعثت کسی خاص بستی اور مخصوص قوم کے لیے ہوتی تھی، اب دوسری بستی اور قوم کی ضرورت کی تکمیل اس دوسرے نبی کو بھیج کر کی جاتی۔

۲۔ پچھلے نبی کی شریعت اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوتی، بعد کے ادوار کی ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل کی صلاحیت اس میں نہیں ہوتی، اللہ تعالی نئے نبی کی بعثت کے ذریعہ اس کا انتظام فرماتا اور ایسی شریعت نازل فرماتا جو موجودہ وقت کے تقاضوں کی تکمیل کی صلاحیت اپنے اندر رکھتی۔

اور ۳۔ گزشتہ نبی کی تعلیمات و ہدایات پردۂ خفا میں چلی جاتیں اور تحریف و تغیر کے نتیجہ میں اس لائق نہیں رہ جاتیں کہ ان پر صحیح عمل کی بنیاد استوار کی جائے، بنا بریں دوسرے نبی کی بعثت کے ذریعہ تعلیمات نبوت پر عمل پیرگی کا ازسرنوانتظام کیا جاتا۔

نبی اکرمﷺ کی بعثت کے بعد یہ تینوں کے تینوں اسباب ختم ہو گئے :۔

۱۔ آپﷺ کی رسالت کسی مخصوص بستی اور قوم کے لیے نہیں ہے بلکہ عالمگیر ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

{وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّاکَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیرًا وَّنَذِیرًا}

’’ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا‘‘(السبا:۲۸)

دوسری جگہ فرمایا:۔

{ قُل یٰٓاَیّہَا النَّاسُ اِنِّی رَسُولُ اللّٰہِ اِلَیکُم جَمِیعَا}

’’آپ کہہ دیجئے میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول (بن کر آیا ) ہوں ‘‘      (الاعراف:۱۵۸)

ایک اور جگہ فرمایا گیا:۔

{تَبٰرَکَ الَّذِی نَزَّلَ الفُرقَانَ عَلیٰ عَبدِہٖ لِیَکُونَ لِلعٰلَمِینَ نَذِیرَا}

’’بہت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا بن جائے ‘‘ (الفرقان:۱)

۲۔ مکانی اعتبار سے عالمگیر ہونے ساتھ آپ کی رسالت زمانی اعتبار سے بھی ہمہ گیر ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

{وَنَزَّلنَا عَلَیکَ الکِتٰبَ تِبیَانًا لِّکُلِّ شَیئٍ وّھُدًی وَّرَحمَۃً وَّبُشریٰ لِلمُسلِمِینَ }

’’اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں ہرچیز کا شافی بیان ہے اور جو ہدایت و رحمت ہے اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لیے ‘‘(النحل :۸۹)

اور ارشاد ہے :

{ اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دِینًا}

’’ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا، اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں اور اسلام کو بحیثیت دین تمہارے لیے پسند فرمایا‘‘     (المائدہ: ۳)

اور ۳۔ جہاں تک آپ کی شریعت کی تحریف و تغیر سے حفاظت کی بات ہے تو اس سلسلے میں اللہ تعالی کے دو ٹوک ارشادات ہیں، فرمایا:۔

{ اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُونَ}

’’بلاشبہ ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ‘‘        (الحجر :۹)

دوسری جگہ فرمایا:۔

{وَاِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیزٌ لَّا یَاتِیہِ البَاطِلُ مِنم بَینِ یَدَیہِ وَلَا مِن خَلفِہٖ تَنزِیلٌ مِّن حَکِیمٍ حَمِیدٍ }

’’یہ با وقعت کتاب ہے جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا، نہ آگے سے نہ پیچھے سے، اس ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے جو با حکمت اور ستودہ صفات ہے ‘‘            (حم السجدہ:۴۱، ۴۲)

اس طرح آپﷺ کے بعد کسی نبی اور رسول کی بعثت کی ضرورت ختم ہو گئی۔

ختم نبوت کے دلائل

ختم نبوت کے اسباب پر غور کر لینے کے بعد آئیے اب اس کے دلائل کی طرف آتے ہیں، سب سے پہلے قرآنی دلائل۔

قرآنی دلائل

۱۔ اس سلسلے میں سب سے واضح دلیل سورۂ احزاب کی یہ آیت کریمہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے :۔

{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُم وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمَا }

علامہ ابن کثیرؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :

[[ فھذہ الآیۃ نص فی انہ لا نبی بعدہ واذاکان لانبی بعدہ فلا رسول (بعدہ)بطریق الاولی والاحری، لان مقام الرسالۃ اخص من مقام النبوۃ فان کل رسول نبی ولاینعکس ]]

’’یہ آیت کریمہ نص ہے اس بارے میں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں، اور جب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو کو ئی رسول بدرجۂ اولی نہیں ہو گا، اس لئے کہ مقام رسالت مقام نبوت سے زیادہ خاص ہے، ہررسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا ‘‘             (ابن کثیر ۳/۴۹۳)

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر تمام قدیم وجدید مفسرین نے بھی اس آیت کریمہ کو ختم نبوت کی دلیل کے طور پر لیا ہے، کسی ایک مفسر سے بھی اس کے خلاف کوئی اور بات منقول نہیں ہے۔

مفسرین کے علاوہ ائمۂ لغت نے بھی لفظ ’’خاتم‘‘ کی وضاحت میں عموماً اس آیت کا بطور حوالہ ذکر کیا ہے اور بتلایا ہے کہ نبیﷺ کو ’’خاتم النبیین ‘‘ اس لئے کہا گیا کہ آپ آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا، بطور مثال یہ دو تین حوالے ملاحظہ فرمائیے :

۱) امام لغت راغب اصفہانی لفظ ’’خاتم‘‘ کی وضاحت کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں :

[[وخاتم النبیین۔ لأنہ ختم النبوۃ۔ ای تممھا بمجیۂ]]

’’اور خاتم النبیین اس لئے کہا گیا کہ آپ نے نبوت کو ختم کر دیا یعنی اپنی آمدکے ذریعہ اس کی تکمیل فرما دی‘‘(مفردات القرآن ص۱۴۲، ۱۴۳)

۲)جوہری لکھتے ہیں :

[[ختمت الشی ء ختما فھو مختوم۔ وختمت القرآن :بلغت آخرہ، واختتمت الشیء:نقیض افتتحتہ وخاتمۃ الشی ء :آخرہ، ومحمدﷺ خاتم الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام]]

’’ختمت الشیء کا مطلب ہے کسی چیز پر مہر لگانا تو وہ شے مختوم ہے، ختمت القرآن، یعنی میں قرآن کے آخر کو پہنچ گیا، اختتمت، یہ افتتحت کی ضد ہے جس کے معنی آغاز کرنے کے ہیں، خاتمۃ الشی ء کا مطلب ہے آخر شے اور محمدﷺ خاتم الانبیاء ؑ ہیں یعنی آخری نبی ہیں ‘‘

(الصحاح للجوہری ج۵ص ۱۹۔ ۸)

۳) ابن منظور کے الفاظ ہیں :

[[الخاتم۔ بفتح التاء۔ والخاتم من اسماء النبیﷺ وفی التنزیل:ماکان۔ ۔ ۔ وخاتم النبیین أی آخرہم]]

’’خاتم تاء پر زبر کے ساتھ، یہ نبی اکرمﷺ کے ناموں میں سے ہے، قرآن مجید میں ہے :محمد تم میں سے کسی مرد کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خاتم النبیین ہیں یعنی آخری نبی ہیں ‘‘ (لسان العرب ج۱۲ص ۱۶۳۔ ۱۶۴)

۲۔ قرآن کریم کی ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں آپ کی رسالت کو قیامت تک کی ساری نسل انسانی کے لیے عام قرار دیا گیا ہے (دیکھئے الاعراف: ۱۵۸، السبا:۲۸، النسائ:۷۹وغیرہ)آپ کی رسالت کی یہ عمومیت ختم نبوت کی دلیل ہے۔

۳۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی حفاظت کی گارنٹی لی ہے (النحل:۹) اور فرما دیا ہے کہ اس میں باطل کی آمیزش ناممکن ہے۔ (حم السجدہ:۴۲)آپ کی شریعت کی حفاظت کی ضمانت اس لئے لی گئی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا۔

۴۔ اللہ تعالی نے آپ کو جو دین و شریعت عطا فرمایا وہ کامل اور مکمل ہے اور رہتی دنیا تک کی ساری ضروریات کو پوری کرنے والی ہے، علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ سورۂ مائدہ کی آیت (۳ ) کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں :۔

[[ ھذہ اکبر نعم اللہ تعالی علی ھذہ الامۃ حیث اکمل تعالی لہم دینہم فلایحتاجون الی دین غیرہ ولا الی نبی غیرنبیہم صلوات اللہ وسلامہ علیہ، ولہذا جعلہ اللہ تعالی خاتم الانبیاء وبعثہ الی الانس والجن۔ ۔ ۔ ]]

’’اس امت پر اللہ تعالی کی یہ بڑی نعمت ہے کہ اس نے اس کے لیے دین کو مکمل کر دیا، اب نہ اسے کسی نئے دین کی ضرورت ہے اور نہ کسی نئے نبی کی، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپﷺ کو خاتم الانبیاء بنا دیا اور آپ کو تمام جن وانس کی طرف مبعوث فرمایا‘‘     (ابن کثیر ۲ /۱۲)

اور چونکہ یہ دین اب قیامت تک کی نسل انسانی کے لیے ہے اس لئے اللہ نے اس میں جمود کے بجائے لچک اور تمام زمانوں کے مسائل کے حل کی صلاحیت رکھی ہے، اسے جامعیت سے نوازا ہے اور آسانی وسہولت کے خاص وصف سے متصف کیا ہے۔

۵۔ اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر رسولوں اور کتابوں پر ایمان کا ذکر کیا ہے، کتابوں پر ایمان کے ذکر میں پچھلی کتابوں اور آپﷺ پر اتاری گئی کتاب پر ایمان کی بات کہی گئی ہے لیکن کسی آئندہ اترنے والی کتاب پر ایمان کی بات نہیں کہی گئی (دیکھئے البقرہ:۴، النساء :۱۳۶)ظاہر ہے کہ اگر نبیﷺ کے بعد کسی اور نبی کی آمد ممکن تھی اور قرآن کریم کے بعد کسی اور کتاب کا نزول ہونا تھا تو اس کا بھی ذکر کر دیا جاتا۔

احادیث نبویہ

قرآنی دلائل پر نظر ڈالنے کے بعد احادیث نبویہ کی طرف آتے ہیں، نبی اکرمﷺ سے ختم نبوت پر دلالت کرنے والی روایتیں نقل کرنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد ۲۷ یا اس سے زائد ہے جبکہ ایسی روایتوں کی مجموعی تعداد تقریباً ۶۵ ہے، جن میں سے بعض دس دس سندوں سے مروی ہیں اور حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔ (دیکھئے امام سیوطی کی کتاب ’’الازہار المتناثرۃ فی الاحادیث المتواترۃ‘‘ص ۳۶)

۱۔ ان روایتوں میں بعض وہ ہیں جن میں آپ نے اپنے لئے صریح طور پر ’’خاتم النبیین ‘‘ اور ’’خاتم الانبیائ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں، جیسے حدیث شفاعت کے الفاظ ہیں :۔

(( اَنتَ رَسُولُ اللّٰہِ وَخَاتِمُ الاَنبِیَائِ وَقَد غَفَرَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَمَاتَاَخَّرَ))

’’ (لوگ کہیں گے )آپ اللہ کے رسول ہیں، خاتم الانبیاء ہیں اور اللہ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہوں کو بخش دیا ہے ‘‘ ( دیکھئے بخاری:۳۵۳۵، ۴۷۱۲، مسلم:۶۱۔ ۱، ترمذی :۲۲۱۹)

۲۔ بہت سی روایتیں وہ ہیں جن میں ’’لانبی بعدی‘‘ یا اس کے مثل الفاظ ارشاد فرمائے ہیں، مثال کے طور پر آپﷺ نے فرمایا:

((اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِانقَطَعَت فَلَا رَسُولَ بَعدِی وَلَا نَبِیَّ فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ لٰکِنِ المُبَشِّرَاتُ قَالُوا یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَمَا المُبَشِّرَاتُ ؟قَالَ رُؤ یَا المُسلِمِ وہیَ جُز ءٌ مِّنَ اَجزَاءِ النُّبُوَّۃِ ))

’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا، میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی، لوگوں پر یہ بات شاق گزری تو فرمایا:ہاں مبشرات ہیں، لوگوں نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول !مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا: مسلمان کا خواب جو نبوت کا ایک جز ہے ‘‘(ترمذی :۲۲۷۲، مزید دیکھئے ترمذی :۳۷۳۔ )

۳۔ اس سلسلے کی بعض روایتیں وہ ہیں جن میں آپﷺ نے مثال کے ذریعہ اپنے خاتم النبیین ہونے کی وضاحت فرمائی ہے، جیسے ارشاد ہے :۔

(( اِنَّ مَثَلِی وَمَثَلَ الاَنبِیَائِ مِن قَبلِی کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنیٰ بَیتًا فَاَحسَنَہٗ وَاَجمَلَہٗ اِلَّا مَوضِعِ لَبِنَۃٍ مِن زَاوِیَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِہٖ وَیَعجَبُونَ لَہٗ وَیَقُولُونَ ہَلَّا وُضِعَت ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ قَالَ فَاَنَا اللَّبِنَۃُ وَاَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّینَ ))

’’میری اور مجھ سے پہلے کے نبیوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے ایک گھر بنایا اور بہتر اور خوبصورت بنایا سوائے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کے۔ لوگ اس گھر کو گھوم پھر کر دیکھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی (کہ اس کی خوبصورتی مکمل ہو جاتی) اب میں ہی وہ اینٹ ہو ں، میں آخری نبی ہوں ‘‘

(بخاری :۳۵۳۵، مسلم :۲۲۸۶)

۴۔ بعض روایتوں میں آپ نے ایسے صاف الفاظ ارشاد فرمائے ہیں جن سے آپﷺ کی رسالت و نبوت کی عمومیت کا اظہار ہوتا ہے، جیسے آپﷺ نے ارشاد فرمایا:۔

((اُعطِیتُ خَمسًا لَم یُعطھُنَّ اَحَدٌ قَبلِی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَکَانَ النَّبِیُّ یُبعَثُ اِلیٰ قَومِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثتُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً ))

’’مجھے پانچ وہ چیزیں دی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے جبکہ میں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ‘‘ (بخاری عن جابر:۳۳۵)

اسی طرح آپﷺ کا فرمان ہے :۔

(( وَاُرسِلتُ اِلَی الخَلقِ کَافَّۃً وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ ))

’’مجھے تمام مخلوقات کی طرف بھیجا گیا ہے اور مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی ہے ‘‘   (مسلم عن ابی ہریرۃ:۵۲۳)

۵۔ نبیﷺ کے ناموں میں سے کئی نام ایسے ہیں جن سے آپ کے خاتم الانبیاء ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے اور وہ نام ہیں، العاقب، الحاشر اور المقفی (بخاری: ۴۸۹۶، مسلم :۶۲۵۱، ابن حبان)عاقب کے لازمی معنی آخر کے ہیں اور حاشر کے معنی ہیں جمع کرنے والا، مطلب وہ شخص جس کے زمانۂ رسالت و نبوت میں لوگوں پر حشر قائم ہو گا(شرح مسلم ج۵ص۱۔ ۵)جبکہ مقفی کے معنی ہیں وہ شخص جو اپنے سے اگلے کے پیچھے پیچھے آئے، ’’قافیۃ الرأس‘‘ سر کے آخری حصے کو کہتے ہیں اور ’’ قافیۃ البیت‘‘ شعر کے آخری حرف کو کہا جاتا ہے۔

۶۔ مزید نبی اکرمﷺ نے بہت سی روایتوں میں اپنی امت کو جھوٹے مدعیان نبوت سے خبردار اور آگاہ فرمایا ہے، یہ آگاہی خصوصی طور پر بھی ہے اور عمومی انداز میں بھی مثال کے طور پر خصوصی انداز کی آگاہی دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:۔

((بَینَا اَنَا نَائِمٌ اُتِیتُ خَزَائِنَ الاَرضِ فَوَضَعَ فِی یَدِی اُ سوَارَینِ مِن ذھََبٍ فَکَبُرَا عَلَیَّ وَاھََمَّانِی فَاُوحِیَ اِلَیَّ اَنِ انفُخھُمَا فَنَفَختھُمَا فَذھََبَا فَاَوَّلتھُمَا الکَذَّابَینِ اللَّذَینِ اَنَا بَینھُمَا صَاحِبَ صَنعَائَ وَصَاحِبَ الیَمَامَۃِ))

’’ میں سورہا تھاکہ مجھے زمین کے خزانے دیئے گئے، میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن رکھدیئے گئے، یہ بات مجھ پر گراں گزری تو مجھ سے کہا گیا کہ آپ انہیں پھونکئے، میں نے پھونکا تووہ چلے گئے، میں نے ان دونوں کنگنوں کی تعبیر ان دو جھوٹوں سے کی جن کے درمیان میں ہو ں، ایک صنعاء کا باسی ہے اور دوسرا یمامہ کا رہنے والا ہے ‘‘ (مسلم :۶۔ ۷۵)

اسی طرح آپﷺ نے فرمایا:۔

(( اِنَّ فِی ثَقِیفَ کَذَّابًا وَمُبِیرًا))

’’بے شک قبیلۂ ثقیف میں ایک بڑا جھوٹا اور ایک ظالم ہو گا‘‘

(مسلم:۶۶۶۔ )

کذاب سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی ہے جس نے نبوت والوہیت وغیرہ کا دعوی کیا تھاجبکہ مبیر(ظالم) سے مراد حجاج بن یوسف ہے جیساکہ اقوال صحابہ سے ثابت ہے۔

جبکہ عام انداز میں خبر دار کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:۔

(( لَاتَقُومُ السَّاعَۃُ حَتّیٰ یُبعَثَ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ قَرِیبٌ مِّن ثَلَاثِینَ کُلُّہُم یَزعُمُ اَنَّہٗ رَسُولُ اللّٰہِ ))

’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تیس کے قریب دجال اور جھوٹے نہ نکلیں، ہرایک دعویدار ہو گا کہ وہ رسول اللہ ہے ‘‘

(بخاری : ۶۵۳۶، مسلم:۷۵۲۶)

اسی طرح آپﷺ نے فرمایا:

((اِنَّ بَینَ یَدَیِ السَّاعَۃِ کَذَّابِینَ فَاحذَرُوہُ))

’’بلاشبہ قیامت سے پیشتر جھوٹے ظاہر ہوں گے ان سے ہوشیار رہنا‘‘

(مسلم:۵۸۱۵)

۷۔ نبی اکرمﷺ سے وہ روایتیں بھی مروی ہیں جن میں آپ نے پیشینگوئی فرمائی ہے کہ آپ کی امت کی ایک جماعت تاقیام قیامت حق پر قائم رہے گی، جیسے ارشاد ہے :

(( لَایَزَالُ نَاسٌ مِّن اُمَّتِی ظَاہِرِینَ حَتّیٰ یَاتِیھُم اَمرُ اللّٰہِ وھُم ظَاہِرُونَ ))

’’میری امت کے کچھ لوگ برابر غالب رہیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے ‘‘ (بخاری :۳۶۴۔ مسلم:۶۔ ۵۔ الفاظ ذرا مختلف ہیں )

دوسری روایت کے الفاظ ہیں :

(( لاَتَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّن اُمَّتِی ظَاہِرِینَ عَلَی الحَقِّ لَایَضُرّھُم مَن خَذَلھُم حَتّیٰ یَاتِیَ اَمرُاللّٰہِ وھُم کَذٰلِکَ ))

’’میری امت کی ایک جماعت برابر غالب اور حق پر قائم رہے گی، ان کا ساتھ چھوڑنے والے ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے وہ اللہ کا امر آنے تک اسی طرح رہیں گے ‘‘      (مسلم عن ثوبان:۵۔ ۵۹)

ایک روایت میں ’’الی یوم القیامۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں (مسلم:۵۔ ۶۵ عن معاویہ) اور بعض روایتوں میں ’’حتی تقوم الساعۃ‘‘(ترمذی:۲۹۹۲) ہے، یعنی اللہ کا امر آنے سے مراد قیامت قائم ہونا ہے۔

اسی طرح آپﷺ نے یہ پیشینگوئی بھی فرمائی ہے کہ :

(( اِنَّ اللّٰہَ یَبعَثُ لھِٰذِہِ الاُمَّۃِ عَلیٰ رَأسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍمَن یُّجَدِّدُ لھََا دِینھََا))

’’بے اللہ تعالی ہر صدی کے آغاز میں اس امت میں ایسے لوگوں کو ظاہر فرمائے گا جو امت کے لیے دین کی تجدید کریں گے ‘‘

(ابوداؤد :۴۲۹۳، حاکم، الصحیحۃ :۲/۱۵۔ ۔ ۱۵۱)

امت میں مجددین کے ظاہر ہونے کاخیال بہت قدیم اور پرانا ہے، جس سے اس کی صحت کی تصدیق ہوتی ہے، امام بزاررحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے عبد اللہ بن عبد الحمیدرحمہ اللہ سے سناکہ میں احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس تھا کہ شافعی رحمہ اللہ کا ذکر شروع ہوا، میں نے دیکھا کہ احمد ان کی بڑائی کے معترف ہیں، انہوں نے کہا:

[[ روی عن النبیﷺ انہ قال:ان اللہ یبعث لھذہ الامۃ علی رأس کل مائۃ من یقرر لھا دینھا، قال: عمر بن عبدالعزیز علی رأس المائۃ الاولی وارجو ان یکون الشافعی علی المائۃ الاخری ]]

’’نبیﷺ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’بے اللہ تعالی ہر صدی کے آغاز میں اس امت میں ایسے لوگوں کو ظاہر فرمائے گا جو امت کے لیے دین کی تجدید کریں گے ‘‘عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امید کہ دوسری صدی کے امام شافعی ہوں گے ‘‘

(اس روایت کو امام سیوطی نے اپنی کتاب ’’التنبئۃ بمن یبعثہ اللہ علی رأس کل مائۃ‘‘میں بیہقی اور ابن عساکر کے حوالہ سے نقل کیا ہے )

امام مناویؒ ظہور مجددین کی بعثت کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

[[ لانہ سبحانہ لما جعل المصطفی خاتمۃ الانبیاء والرسل وکانت حوادث الایام خارجۃ عن التعداد ومعرفۃ احکام الدین لازمۃ الی یوم التناد۔ ولم تف ظواہر النصوص ببیانھا بل لابد من طریق واف بشأ نھا اقتضت حکمۃ الملک العلام ظہور قرم من الاعلام فی غرۃ کل قرن لیقوم باعباء الحوادث اجراء لہذہ الامۃ مع علماۂم مجری بنی اسرائیل مع انبیائھم ]]

’’ اللہ تعالی نے مصطفیﷺ کو خاتم الانبیاء والرسل بنا دیا جبکہ حوادث ایام ناقابل شمار ہیں اور دین کے احکام کی معرفت لازم اور ضروری ہے، محض ظاہری نصوص سے ان کی وضاحت ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک مکمل راستے کی ضرورت ہے، اس لئے اللہ تعالی کی حکمت متقاضی ہوئی کہ ہر صدی کے آغاز میں کسی زبردست شخصیت کا ظہور ہو، اس طرح اس امت میں علماء کو وہ کام دیا گیا جو بنی اسرائیل میں انبیاء علیہم السلام کو دیا جاتا تھا‘‘                (فیض القدیر ج۱ص۱۰ )

اسی سلسلۂ مجددیت کی آخری کڑی بن کر آخری زمانے میں امام مہدی کا ظہور ہو گا، اللہ کے رسولﷺ نے ان کے بارے میں پیشین گوئی کرتے ہوئے فرمایا:

(( یَخرُجُ فِی آخِرِاُمَّتِی اَلمَہدِیُّ ‘یَسقِیہِ اللّٰہُ الغَیثَ وَتُخرِجُ لَہُ الاَرضُ نَبَاتھََاوَیُعطَی المَالَ صِحَاحًا وَتَکثُرُالمَاشِیَۃُ وَتُعَظَّمُ الاُمَّۃُ وَیَعِیشُ سَبعًا اَو ثَمَانِیًا یَعنِی حِجَجًا ))

’’میری امت کے آخر میں مہدی ہوں گے، ان کے زمانے میں بارش اور پیدا وار کی کثرت ہو گی، وہ (لوگوں کو) فراوانی سے مال عنایت کریں گے، مویشیوں کی بھی کثرت ہو گی، امت کو عظمت حاصل ہو گی، وہ سات یا آٹھ سال(دنیامیں ) رہیں گے ‘‘(مستدرک حاکم ج۵ص ۵۵۸، علامہ البانی الصحیحۃ ۲/۳۳۶میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے )

اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور تعامل امت

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ صرف یہ کہ مدعیان نبوت کو بلکہ ان کی تصدیق کرنے والوں کو بھی کافر قرار دیا اور ان کے خلاف جنگ کی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا، دور نبوی کے اخیر اور خلاف راشدہ کے آغاز میں جن لوگوں نے دعویِ نبوت کیا ان کی تعداد چار ہے، ۱۔ اسود عنسی، ۲۔ مسیلمہ کذاب، ۳۔ سجاح اور ۴۔ طلیحہ بن خویلد الاسدی، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سب کو کا فر گردانا اور ان کے قتل کو مباح سمجھا۔

اسود عنسی یمن کے علاقہ کا رہنے والا تھا، اس کا نام عبہلہ بن کعب تھا، اس کو ’’ذوالخمار‘‘ کہا جاتا تھا اس لئے کہ یہ ہمیشہ اپنے چہرے کو ڈھک کر رکھتا، حجۃ الوداع کے بعد اس نے نبوت کا دعوی کیا، (الکامل ج۲ص ۳۳۷)یہ اسلامی تاریخ کا پہلا ارتداد تھا، (ایضاً، الطبری ج۳ ص۱۸۵)اس نے یمن کے علاقے میں بڑا زور اور قوت حاصل کر لی تھی، یمن کے لوگ حتی کہ مسلمانوں نے بھی محض تقیۃ ً اس کی اطاعت کا دم بھر لیا تھا، شعبدہ باز تھا اور شیطان کا تعاون اسے حاصل تھا اسلئے حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی انتہائی خفیہ پلاننگ اور کئی مرتبہ کی کوشش کے بعد ہی اسے قتل کرنے میں کامیابی ہو سکے۔

طلیحہ اسدی نے بھی آخری دور نبوت میں نبوت کا دعوی کیا تھا، حضرت خالد بن ولید کے خلاف لڑائی میں شکست کھا کر شام کی طرف بھاگ گیا تھا، بعد ازاں توبہ کر کے اسلام قبول کر لیا۔         (طبری ۳/۲۶۱وغیرہ)

مسیلمہ کا تعلق قبیلۂ بنو حنیفہ سے تھا، اس نے بھی نبیﷺ کے دور آخر میں نبوت کا دعوی کیا، یہ مستقل نبوت کا دعوے دار نہیں تھا بلکہ اس کا کہنا تھا کہ وہ کار نبوت میں نبی اکرمﷺ کا شریک ہے، اس نے نبی اکرمﷺ کے نام اپنے خط میں اس طرح کے الفاظ لکھے تھے :

((مِن مُّسَیلَمَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ اِلیٰ مُحَمَّدٍ رَّسُولِ اللّٰہِ سَلَامٌ عَلَیکَ اَمَّا بَعدُ فَاِنِّی اُشرِکتُ فِی الاَمرِ مَعَکَ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ))

’’مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کی طرف، آپ سلامتی ہو معلوم ہو کہ مجھے اس کار نبوت ورسالت میں آپ کا شریک بنایا گیا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

اس نے سجاح کے مہر کے طور پر اپنے ماننے والوں سے صبح اور مغرب کی نمازیں ساقط کر دی تھیں، (البدایۃ ۶/۳۲۱) اس نے قانون بنایا تھا کہ اگر کسی کو ایک لڑکا ہو جائے تو پھر اس کی موت تک اپنی بیوی کے پاس نہ جائے، اگر لڑکا مر جائے تو اولاد کے حصول کے لئے جائے اور اس مقصد کے حاصل ہو جانے کے بعد پھر رک جائے۔

(الکامل ۲/۳۵۵۔ طبری۳/۲۷۲)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عکرمہ، حضرت شرحبیل بن حسنہ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کی سرکردگی میں چالیس ہزار کا لشکر اس کے خلاف روانہ کیا، بڑی خونریز جنگ کے بعد بالآخر وحشی بن حربر  ضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارا گیا۔

سجاح کا تعلق بنی تغلب سے تھا اور یہ نصرانیہ تھی، نبیﷺ کی وفات اور قبائل کے ارتداد کے بعد اس نے نبوت کا دعوی کیا، قبیلہ کے لوگوں نے اس کا ساتھ دیا، یہ اپنے پڑوس کے قبیلوں سے لڑتی اور انہیں زیر کرتی ہوئی یمامہ تک پہنچ گئی، مسیلمہ نے ڈر کر صلح کی اور شادی کی پیش کش کی جسے اس نے قبول کر لیا اور دونوں نے شادی کر لی، یہ تین دن تک مسیلمہ کے ساتھ رہی اور پھر اپنی قوم کی طرف لوٹ آئی، اس نے بعد میں توبہ کر لی اور اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئی۔ (الکامل ۲/۳۵۷)

دور صحابہ کے اخیر میں مختار بن ابی عبید نے دعویِ نبوت کیا تو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس سے جنگ کی اور اسے اور اس کے اتباع کو موت کے گھاٹ اتروا دیا۔        (البدایۃ۸/۲۸۹)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ہر دور میں مدعیان نبوت کے ساتھ امت کا معاملہ ایسا ہی رہا، مدعیان نبوت میں جن لوگوں میں بھی انہوں نے سنجیدگی محسوس کی انہیں کیفر کردار کو پہنچا دیا اور جو لوگ غیر سنجیدہ تھے انہیں مذاق و تہکم کا نشانہ بنایا۔

خلیفۂ اموی عبد الملک کے زمانہ میں حارث بن سعید نے دعوۂ نبوت کیا تو عبد الملک نے اسے سولی دے دی، یہ ۷۹ھ کی بات ہے۔ (البدایۃ۹/۲۸۔ ۲۹)

اسی طرح دور اموی میں مغیرہ بن سعید، بیان بن سمعان اور ابو منصور عجلی نے نبوت کا دعوی کیا ان میں سے پہلے دو کو گورنر عراق خالد بن عبد اللہ قسری نے موت کے منھ میں پہنچا دیا، جبکہ تیسرے کو عراق ہی کے گورنر یوسف بن عمر ثقفی نے پھانسی دے دی۔  (الفرقص ۲۳۷، ۲۳۵، الملل والنحل ج۱ص ۱۷۷)

عباسی خلیفہ منصور کے عہد حکومت میں ایک شخص ابوالخطاب اسدی نے نبوت کا دعوی کیا تو گورنر کوفہ عیسی بن موسی نے اسے انجام تک پہنچا دیا۔ (المللج ۱ص ۱۸۰ )

عباسی خلیفہ متوکل کے زمانہ میں ایک شخص ظاہر ہوا جس کا نام ’’محمود بن فرج نیشاپوری ‘‘تھا، اس نے دعوی کیا کہ وہ نبی ہے اور ذوالقرنین ہے، ستائیس آدمیوں نے اس کی پیروی کی، اسے ساتھیوں کے ساتھ متوکل کے پاس لایا گیا، وہ مار کھا کھا کر مر گیا جبکہ اس کے ساتھیوں کو قید کر دیا گیا۔             (الکاملج ۷ص۵۔ )

اسی طرح آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں صوفیاء میں سے ایک شخص نے اندلس کے شہر مالقہ میں سلطان ابن الاحمر کے زمانہ میں نبوت کا دعوی کیاتو سلطان نے اسے قتل کر دیا اور سولی پر چڑھا دیا یہاں تک کہ اس کا گوشت جھڑ گیا۔ (البحر المحیط ج۷ص۲۳۶۱)

آثار صحابہ اور بزرگان سلف کے بعض اقوال

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۂ احزاب کی آیت کی تفسیر میں منقول ہے :

(( اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ لَمَّا حَکَمَ اَن لَّا نَبِیَّ بَعدَہٗ لَم یُعطِہٖ وَلَدًا ذَکَرًا یَصِیرُ رَجُلًا ))

’’چونکہ اللہ تعالی نے فیصلہ فرما لیا تھا کہ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا اس لئے آپ کو ایسا کوئی لڑکا عطا نہیں فرمایا جو رجولیت کی عمر کو پہونچے ‘‘             (تفسیر بغوی ج۶ص۵۶۵)

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے صاحبزادۂ رسول حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

(( مَاتَ صَغِیرًا وَلَو قُضِیَ اَن یَّکُونَ بَعدَ مُحَمَّدٍﷺ نَبِیٌّ عَاشَ ابنُہٗ وَلٰکِن لَّانَبِیَّ بَعدَہٗ ))

’’بچپن میں انتقال کر گئے اگر فیصلۂ الہی یہ ہوتا کہ محمدﷺ کے بعد بھی کوئی نبی ہو تو آپ کا لڑکا زندہ رہتا لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ‘‘                     (بخاری :۶۱۹۴)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی سے ملتا جلتا قول منقول ہے۔ (احمد ۶/ ۷ ۱ ۱)

اور جہاں تک دیگر بزرگان سلف کے اقوال کی بات ہی تو کتب عقیدۂ وتفسیر اور شروحات حدیث میں بکثرت ان کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے، ان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر دور کے علماء اور ائمہ اس مسئلہ میں یک آواز ہیں، اس بارے میں ان کے درمیان کوئی دو رائے نہیں، اختصار کے پیش نظر دو تین اقوال پیش خدمت ہیں :

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے خلیفہ بننے کے بعد لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

[[ اَیّھَُا النَّاسُ !اِنَّہٗ لَاکِتَابَ بَعدَ القُرآنِ وَلَا نَبِیَّ بَعدَ مُحَمَّدٍ عَلَیہِ السَّلَامُ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ]]

’’اے لوگو!قرآن کے بعد نہ کوئی کتاب ہے اور نہ محمدﷺ کے بعد کوئی نبی۔ ۔ ۔ ۔ ۔    (البدایہ ج۹ ص۱۹۹)

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے زمانے میں ایک آدمی نے نبوت کا دعوی کیا اور لوگوں سے مہلت مانگی کہ وہ اپنی نبوت کی نشانیاں پیش کرے گا تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

[[مَن طَلَبَ مِنہُ عَلَامَۃً فَقَد کَفَرَ لِقَولِہٖﷺ لَانَبِیَّ بَعدِی]]

’’جس نے اس سے نشانی طلب کی اس نے کفر کیا اس لئے کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے : میرے بعد کوئی نبی نہیں ‘‘(مناقب الامام ج۱ص ۱۶۱)

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :

[[ کُلُّ مَن اَقَرَّ بِنُبُوَّۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍﷺ اَقَرَّ بِاَنَّہٗ خَاتَمُ الاَنبِیَاءِ وَالرُّسُلِ وَاَقَرَّ بِتَأبِیدِ شَرِیعَتِہٖ وَمَنعھَِا مِن نَسخھَِا ]]

’’جو کوئی بھی ہمارے نبی محمدﷺ کی نبوت کا اقرار کرے وہ اس بات کا بھی اقرار کرے گا کہ آپ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں، آپ کی شریعت ابدی ہے اور منسوخ ہونے سے محفوظ ہے ‘‘(اصول الدین ص۱۶۲)

عقیدۂ ختم نبوت کے ثمرات و مضمرات

ختم نبوت سے متعلق دلائل کے مطالعہ کے بعد، اب آئیے اس عقیدہ کے بعض مضمرات اور مقتضیات پر غور کرتے ہیں۔

ختم نبوت کا عقیدہ دراصل ایک انقلاب آفریں عقیدہ ہے، ہم اس عقیدہ کی معنویت و اہمیت اور اس کے ثمرات و مقتضیات پر غور کرنے کی زحمت کریں تو اعتقادی اور عملی زندگی کی نہ جانے کتنی کوتاہیاں اور خرابیاں ہیں جن کی اصلاح خود بخود ہو جائے گی۔

۱۔ عقیدۂ ختم نبوت کا مطلب ہے کہ وحی کے نزول کاسلسلہ ختم ہو گیا، اس لئے کہ نبوت کا مدار وحی ہے اور وحی عبارت ہے کلام الہی کے سماع اور وصول سے بلاواسطہ ہویا بالواسطہ، بنابریں ختم نبوت کے بعد اگر کوئی کلام الہی کے سننے کا دعوی کرتا ہے تو گو وہ زبانی طور پر اس کا اظہار نہ کرے لیکن وہ اس بات کا مدعی ہے کہ اس پر وحی کی جا رہی ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ بات عقیدۂ ختم نبوت کے یکسر منافی ہے، یہی وجہ ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الفصل ‘‘ میں صوفیاء کے ’’ حضرت خضر ‘‘ سے اخذ واستفادہ کی بات کو عقیدۂ ختم نبوت کے منافی قرار دیا ہے، اب اس پہلو سے عقیدۂ ختم نبوت کی وضاحت کا اہتمام ہو تو افراد امت میں تصوف کی راہ سے پھیلائی گئی بہت سی خرابیوں کا ازالہ از خود ہو جائے گا۔

۲۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں، ان کی یہ معصومیت دراصل وحی الہی کے ذریعہ ان کی نگہبانی کا نتیجہ ہے، ختم نبوت کے ساتھ ہی وحی کا سلسلہ بھی اختتام کو پہنچ گیا، بنابریں وحی الہی کی نگہبانی میسر نہ آنے کی وجہ سے معصومیت بھی ختم نبوت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئی، معصومیت خاصۂ نبوت ہے، کسی غیر نبی کو عملاً و اعتقاداً یہ مقام دینا عقیدۂ ختم نبوت کے قطعاً خلاف ہے، اس سے جہاں شیعوں کے عقیدۂ امامت کی گمراہی طشت از بام ہو جاتی ہے وہیں ان لوگوں کی فکری کج روی اور گمراہی کھل کر سامنے آ جاتی ہے جو مندرجہ ذیل قسم کے دعوے کرتے ہیں :۔

۱۔ مولانا رشید احمد گنگوہی دیوبندی کے متعلق ان کے سوانح نگار مولانا عاشق الہی میرٹھی لکھتے ہیں :

’’ بارہا آپ کو اپنی زبان فیض ترجمان سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے ’سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور یہ قسم (سے ) کہتا ہوں کہ کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانے میں ہدایت و نجات موقوف ہے میری اتباع پر ‘‘                     (تذکرۃ الرشید ۲/۱۷)

۲۔ مولانا اشرف علی تھانوی کا بیان ہے :۔

’’حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے مولوی محمد یحیی صاحب کاندھلوی سے فرمایا کہ فلاں مسئلہ شامی میں دیکھو، مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت وہ مسئلہ شامی میں تو ہے ہی نہیں، فرمایا کیسے ہو سکتا ہے !لاؤ شامی اٹھا لاؤ، شامی لائی گئی حضرت اس وقت آنکھوں سے معذور ہو چکے تھے، شامی کے دو ثلث اوراق دائیں جانب کر کے اور ایک ثلث بائیں جانب کر کے اندر سے ایک کتاب کھولی اور فرمایا کہ بائیں طرف کے صفحے پر نیچے کی طرف دیکھو، دیکھا تو وہ مسئلہ اسی صفحہ پر موجود تھا، سب کو حیرت ہوئی، حضرت نے فرمایا حق تعالی نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری زبان سے غلط نہیں نکلوائے گا‘‘(ارواح ثلاثہ ص۳۱۰ )

۳۔ ایک بریلوی عالم محمد اصغر علوی احمد رضا خان بریلوی کے بارے میں لکھتا ہے :

’’غیر شرعی لفظ زبان مبارک پر نہ آیا اور اللہ تعالی نے ہر لغزش سے آپ کو محفوظ رکھا‘‘  (مقدمہ فتاوی رضویہ ج۲ ص۴)

اسی طرح تقلیدی مذاہب کی طرف سے بعض ائمۂ دین کی تقلید کے مطلقاً وجوب کی جو بات کہی جاتی ہے گزشتہ بات کی روشنی میں وہ بھی سراسر ضلالت و ہلاکت ٹھہرتی ہے۔

۳۔ نبی محترمﷺ کے بعد نبوت کے سلسلے کے خاتمہ کا مطلب یہ ہے کہ قربت الٰہی کے حصول کے لیے روز قیامت تک جن عملوں کی اور ان کو بجا لانے کے جن طریقوں کی ضرورت تھی ان تمام عملوں اور طریقوں کی وضاحت کر دی گئی، جیسا کہ آیات گزر چکی ہیں، مزید ایک جگہ ارشاد ہے :۔

{ مَا فَرَّطنَا فِی الکِتٰبِ مِن شَیئٍ }

’’ ہم نے کتاب میں کسی چیز (کے بیان کرنے ) میں کوتاہی سے کام نہیں لیا‘‘                         (الانعام: ۳۸)

لہٰذا اب جس طرح قیامت تک کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں اسی طرح کسی نئے عمل کی ضرورت ہے اور نہ طریقۂ عمل کی، ختم نبوت دراصل عبارت ہے تکمیل دین اور اتمام شریعت سے اور یہ تکمیل شریعت اور اتمام دین دوسرے لفظوں میں عبارت ہے اس امت کو فکری انتشارو خلفشار اور اعمال و عادات کی بے راہرویوں سے بچانے کے الٰہی اور آسمانی انتظام سے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کا ذکر بطور احسان و امتنان فرمایا ہے :۔

{ اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دِینًا }

’’ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا، اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں اور اسلام کو بحیثیت دین تمہارے لیے پسند فرمایا‘‘     (المائدہ: ۳)

یہ تکمیل شریعت کتنی بڑی نعمت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہیے کہ ایک یہودی عالم نے خلیفہ المسلمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا :

(( یَا اَمِیرَالمُؤمِنِینَ لَو اَنَّ عَلَینَا نَزَلَت ھٰذِہِ الایَٰۃُ ’’اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَ رَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دِینًا‘‘ لَاتَّخَذنَا ذٰلِکَ الیَومَ عِیداً ))

’’اے امیرالمومنین! اگر ہمارے یہاں یہ آیت الیوم اکملت الٓایہ اتری ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن بنا لیتے ‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا :

(( اِنِّی لَاَعلَمُ اَیَّ یَومٍ نَزَلَت ھٰذِہِ الآیۃُ، نَزَلَت یَومَ عَرَفَۃَ فِی یَومِ جُمُعَۃٍ ))

’’میں خوب جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی وہ عرفات کا دن، یوم جمعہ تھا‘‘ (بخاری:۴۵، مسلم:۷۷۱۲)

اب اس بنیاد پر غور کیجئے تو بدعت کی قباحت و خطرناکی کا پورا نقشہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے، بدعت در اصل تکمیل دین و شریعت کی اس عظیم نعمت الٰہی کی تحقیر و ناقدری اور انکار ہے، جب کوئی شخص بدعت ایجاد کرتا ہے اور دین و عبادت کے طور پر لوگوں کے سامنے اسے پیش کرتا ہے، خود بھی اس پر عمل کرتا اور دوسروں کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتا ہے تو درحقیقت وہ زبان قال سے نہ سہی، زبان حال سے ہی سہی، کہہ رہا ہوتا ہے کہ دین ابھی ناقص و غیر مکمل ہے، ابھی اس میں بعض ایسی چیزوں کی ضرورت ہے جن سے انسان کو اللہ کا قرب اور اس کی خوشنودی و رضا حاصل ہو سکتی ہے، اس طرح بدعت اپنے آپ میں عقیدۂ ختم نبوت کی ضد اور اس عقیدہ سے خروج و بغاوت کی مترادف ہے۔

۴۔ عقیدۂ ختم نبوت کے حوالہ سے ایک خاص اور عملی پہلو سے بہت اہم بات یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کی ذات پر سلسلۂ نبوت کی تکمیل جہاں آپ کی ذات والا صفات کے لیے باعث صد عزت و افتخار ہے وہیں یہ امت محمدیہ کی خصوصی عظمت و شرف کا بھی نشان ہے، اور وہ اس طرح کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:۔

(( اِنَّ بَنِی اِسرَائِیلَ کَا نَت تَسُوسھُم اَنبِیَائُ ھُم، کُلَّمَا ذھََبَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ وَاِنَّہٗ لَیسَ کَائِنٌ بَعدِی نَبِیٌّ وَسَیَکُونُ خُلَفَائُ فَیَکثُرُونَ ))

’’بنی اسرائیل پر انبیاء حکومت کرتے تھے، جب ایک نبی رخصت ہوتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا، میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہاں خلفاء کثرت سے ہوں گے ‘‘                   (ابن ماجہ:۲۸۷۱)

اسی طرح آپ کا یہ مشہور و معروف ارشاد ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔

گویا امتِ بنی اسرائیل کے برخلاف اس امت کو یہ شرف اور فضل عطا کیا گیا کہ جو کام انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ لیا جاتا تھا اس کی بجا آوری اب اس امت کے علماء و حکمراں کے ذریعہ انجام پائے گی، اور اس سے بڑھ کر اس امت کی فضیلت کی بات کیا ہو گی کہ حضرت عیسی علیہ السلام جب روئے زمین پر دوبارہ جلوہ افروز ہوں گے، تو اس امت کے ایک فرد کے مقتدی ہوں گے، جیساکہ صحیح مسلم (حدیث:۴۲۱)کی روایت ہے :۔

’’ اس وقت تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا اور ایسا اللہ کی طرف سے اس امت کی تکریم و عزت افزائی کے طور پر ہو گا‘‘

اپنی عزت وبڑائی کے اس احساس کے ساتھ ذرا سوچئے کہ اس شرف و عظمت نے ہمیں افراد انسانی کے تئیں کتنی عظیم المرتبت اور مہتم بالشان ذمہ داری کا سزاوار بنا دیا ہے، ایسی نازک اور مسؤلیت سے بھری ذمہ داری کہ روئے زمین پر اس سے بڑھ کر نزاکت ومسؤلیت والی شاید ہی کوئی ذمہ داری ہو؟ ایسی ذمہ داری جس سے افراد و اقوام کی قسمت وابستہ ہے اور جس کی ادائیگی ہی پر اتمام حجت کی سنت الہی کی تکمیل موقوف ہے، ارشاد باری ہے :۔

{وَکَذٰلِکَجَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُونُوا شھَُدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیکُم شھَِیدًا }

’’ اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہو جائیں‘‘  (البقرہ:۱۴۳)

ذرا سوچئے !اس ذمہ داری کا احساس ہمیں ایک پل کے لیے بھی سکون و اطمینان کا دے سکتا ہے، نہیں اور ہرگز نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس احساس کے لیے اپنے سینے میں کوئی جگہ بھی محفوظ رکھا ہے ؟؟؟؟ ؎

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

ختم نبوت پر حملے

 

جھوٹے مدعیان نبوت اور فتنۂ قادیانیت

گزشتہ سطور و صفحات میں آپ نے عقیدۂ ختم نبوت کے دلائل کا قدرے تفصیل سے مطالعہ کیا، یہ دلائل قرآنی آیات، احادیث و آثار اور امت کے علمی اور عملی تعامل و اتفاق کی شکل میں آپ کے سامنے آئے، جن سے یہ بات اظہر من الشمس ہو کر سامنے آتی ہے کہ نبی اکرمﷺ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں، آپ کے بعد قیامت تک کسی نبی کے آنے کا کوئی سوال نہیں، اس قدر واضح اور کھلی ہوئی حقیقت کے باوجود دور نبوت سے لے کر اب تک مختلف ادوار میں عقیدۂ ختم نبوت لوگوں کے ظلم و ستم کا مسلسل نشانہ بنتا رہا ہے اور وقتا فوقتا ایسے لوگوں کا ظہور ہوتا رہا ہے جنہوں نے قولاً و عملاً اس عقیدہ کی تکذیب کی، دور نبوت سے لے کر اب تک کے مختلف ادوار میں مدعیان نبوت کی ایک طویل اور لمبی فہرست ہے، میں اپنے اصل موضوع (فتنۂ قادیانیت ) کے پیش نظر اس فہرست پر نظر دوڑانے کی ضرورت نہیں محسوس کرتا، اس حوالہ سے جو بات میری نگاہ میں اہم اور ضروری ہے وہ ہے بعض ان اہم اسباب اور مقاصد کا جائزہ لینا جنہوں نے دعوائے نبوت کو جنم دیا، ان شاء اللہ ان پر غور کرنے کے ضمن میں بعض ان بڑے مدعیان نبوت کا ذکر آ جائے گا جنہیں باقاعدہ طور پر عوامی تائید و حمایت حاصل ہوئی اور جن کی وجہ سے مسلم معاشرہ کو مختلف قسم کی آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا نبی اکر مﷺ کی مندرجہ ذیل حدیث میں غالباً ایسے ہی لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے :

((لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتّیٰ تَلحَقَ قَبَائِلُ مِن اُمَّتِی بِالمُشرِکِینَ وَحَتّیٰ یَعبُدُوا الاَوثَانَ وَاِنَّہٗ سَیَکُونُ فِی اُمَّتِی ثَلَاثُونَ کَذَّابُونَ کُلُّہُم یَزعُمُ اَنَّہٗ نَبِیٌّ وَاَنَاخَاتِمُ النَّبِیِّینَ لَانَبِیَّ بَعدِی))          ’’قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں سے نہ جا ملیں اور بتوں کی پوجا نہ کرنے لگیں اور میری امت میں تیس جھوٹے ہوں گے ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ‘‘          (ترمذی:۲۲۷۲)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں جن تیس جھوٹے مدعیان نبوت کا ذکر ہے ان سے مراد وہ مدعیان نبوت ہیں جنہیں شوکت وسطوت حاصل ہو اور جو شبہ میں پڑ کر دعویِ نبوت کریں، ورنہ جنون اور سوداوی کیفیت کے طاری ہونے کی بنا پر دعوی کرنے والے لوگ تو بے شمار ہیں، ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں :

[[ ولیس المراد بالحدیث من ادعی النبوۃ مطلقا فانھم لایحصون کثرۃ لکون غالبھم ینشأ لھم ذلک عن جنون او سوداء وانما المراد من قامت لہ شوکۃ وبدت لہ شبہۃ ]]

ختم نبوت پر حملہ کرنے والوں کی دو قسمیں

دعوۂ نبوت کے مختلف اسباب پر غور کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم جان لیں کہ عقیدۂ ختم نبوت پر حملہ کرنے والوں کی دوقسمیں ہیں :

۱)پہلی قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کے یہاں باقاعدہ طور پراور صراحت کے ساتھ دعوی نبوت نہیں ملتا لیکن وحی کے جاری ہونے اور دبے یا کھلے لفظوں میں سلسلۂ نبوت کے جاری ہونے کی بات موجود ہے۔

۲) جبکہ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کے یہاں مطلق طور پر کھلے لفظوں میں دعویِ نبوت کی بات پائی جاتی ہے۔

پہلی قسم کی مثالیں امت کے دو طبقوں کے یہاں ملتی ہیں :

۱۔ شیعہ امامیہ اور ۲۔ طبقۂ صوفیہ۔

۱۔ شیعہ امامیہ:

فرقۂ امامیہ شیعوں کے بہت سے فرقوں میں سے ایک بڑا فرقہ ہے، اس فرقہ کی بنیاد عقیدۂ امامت و وِصایت پر ہے، عقیدۂ امامت کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ نبیﷺ کے بعد امت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منتقل ہو گئی اور ان کے بعد ان کی اولاد میں نسل درنسل منتقل ہوتی گئی یہاں تک کہ بارہویں امام محمد بن حسن عسکری بچپن ہی میں ایک غار کے اندر چھپ گئے اور خاص وقت میں ان کاظہور ہو گا اور امام مہدی بن کر تشریف لائیں گے۔

امامیہ کے یہاں نزول وحی کی بات صراحت کے ساتھ موجود ہے :

۱) شیعوں کی مشہور کتاب ’’اصول کافی‘‘ میں ایک روایت ان لفظوں میں موجود ہے :

[[۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان اللہ لما قبض نبیہ صلی اللہ علیہ وآلہ دخل علی فاطمۃ علیھا السلام من وفاتہ من الحزن مالایعلمہ الا اللہ عزوجل فارسل اللہ الیھا ملکا یسلی غمھا ویحدثھا فشکت ذلک الی امیر المؤ منین رضی اللہ عنہ فقال: اذا احسست بذلک وسمعت الصوت قولی لی فاعلمتہ بذلک فجعل امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ یکتب کل ماسمع حتی اثبت من ذلک مصحفا۔ اما انہ لیس فیہ شی ء من الحلال والحرام ولکن فیہ علم مایکون ]]

’’اللہ تعالی نے جب نبی اکرمﷺ کو وفات دے دی تو فاطمہ (رضی اللہ عنھا)کو آپ کی وفات سے اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنا غم ہوا ؟ اللہ تعالی نے ان کی طرف ایک فرشتہ کو بھیجا جو انہیں تسلی دے اور ان سے باتیں کرے، فاطمہ رضی اللہ عنھا نے اس کی شکایت امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ سے کی، انہوں نے فرمایا کہ اب جب فرشتے کی آمد کا احساس ہو اور آواز سنو تو مجھے بتاؤ، چنانچہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے ایسا ہی کیا، امیر ا لمؤمنین جو کچھ سنتے گئے لکھتے گئے یہاں تک کہ ایک مصحف تیار ہو گیا، تمہیں معلوم ہو کہ اس میں حلال و حرام سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے اس میں آئندہ سے متعلق باتوں کا علم ہے ‘‘(اصول الکافی:۱/۲۴۔ ، بحار الانوار :۲۶/ ۴۴، بصائر الدرجات ص۴۳)

اس وحی کو ’’ مصحف فاطمہ ‘‘ کہا جاتا ہے، اسی اصول کافی میں جعفر صادق رحمہ اللہ سے اس مصحف کے بارے میں یہ الفاظ منقول ہیں :

[[ وان عندنا لمصحف فاطمۃ علیھا السلام قلت :ومامصحف فاطمۃ علیھا السلام ؟ قال : مصحف فیہ مثل قرآنکم ہذا ثلاث مرات مافیہ من قرآنکم حرف واحد ]]

’’بلاشبہ ہمارے پاس مصحف فاطمہ (رضی اللہ عنھا)ہے، (راوی کہتا ہے ) میں نے کہا مصحف فاطمہ کیا ہے ؟ فرمایا: وہ مصحف جو تمہارے قرآن کی طرح کے تین کے مانند ہے، اس میں تمہارے قرآن کا ایک حرف بھی نہیں ہے ‘‘           (اصول الکافی ۱/۲۳۹)

۲)ایک شیعی روایت کے مطابق شیعوں کے امام سے پوچھا گیا کہ رسول، نبی اور امام میں کیا فرق ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا:۔

’’رسول وہ ہے جس پر جبریل اترتے ہیں، رسول انہیں دیکھتا ہے اور ان کا کلام سنتا ہے، رسول پر وحی اترتی ہے اور خواب بھی نظر آتے ہیں جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب، نبی کبھی کلام سنتا ہے اور کبھی فرشتے کو دیکھتا ہے لیکن کلام نہیں سنتا، جبکہ امام وہ ہے جو کلام تو سنتا ہے لیکن فرشتے کو نہیں دیکھتا‘(اصول الکافی ۱/۱۷۶، ۱۷۷)

گویا امام پر وحی اترتی ہے، بلکہ ایک روایت میں امامت اور نبوت کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے، روایت ملاحظہ فرمائیے، کلینی کی روایت کے مطابق:

’’المفضل نے ابو عبد اللہ (جعفر صادق) سے پوچھا :آپ پر قربان جاؤں !کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر اپنے کسی بندے کی اطاعت فرض کرے اور اس سے آسمان کی خبر روکے رکھے ؟ابو عبداللہ نے کہا :نہیں اللہ کی ذات بڑی کریم و رؤف ہے وہ ایسا نہیں کر سکتا کہ اپنے بندوں پر کسی کی اطاعت فرض کرے اور پھر اس پر صبح و شام آسمان کی خبریں روکے رکھے ‘‘       (اصول الکافی ج۳ ص۲۴۱)

شارح کافی اس پر لکھتا ہے :

’’اللہ لوگوں پر اپنے کسی ایسے بندہ کی اطاعت کیسے فرض کر سکتا ہے جو ان کی ضروریات کا علم نہ رکھتا ہو ؟، اللہ کی ذات بڑی عزت وکرم والی ہے، وہ ایسے شخص سے اپنے آسمان و زمین کا علم روک نہیں سکتا، اس لئے امامیہ کا مذہب ہے کہ امامت کا اہل وہی ہو سکتا ہے جسے نبوت کا مرتبہ حاصل ہو‘‘        (الکافی۳/۲۴۴)

لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف امامت ونبوت کے حوالے سے شیعی کتابوں میں اس طرح کی سخن سازیاں ہیں تو دوسری طرف ’’اصول کافی ‘‘میں جو کہ شیعی مذہب کا اصل الاصول ہے اور جس کو ان کے یہاں اعتبار و قبول کے لحاظ سے وہی مقام حاصل ہے جو اہل سنت کے یہاں صحیح بخاری کا ہے، یہ روایت موجود ہے، جعفر صادقؒ سے منقول ہے، انہوں نے فرمایا:۔

[[ان اللہ عزوجل ختم بنبیکم النبیین فلانبی بعدہ وختم بکتابکم فلا کتاب بعدہ ابدا وانزل فیہ تبیان کل شیء]]

’’بلاشبہ اللہ عز و جل نے تمہارے نبی کے ذریعہ نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا، اب آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہاری کتاب کے ذریعہ سلسلۂ کتاب کی تکمیل فرما دی، اباس کے بعد کوئی کتاب نہیں، اس میں تمام چیزوں کی وضاحت ہے ‘‘(اصول الکافی ج۳ ص۲۵۸، بشرح الشافی)

حقیقی بات یہ ہے کہ جب کسی مذہب کی بنیاد محض خیالی آراء اور تصوراتی افکار پر ہو تو اس میں اس قسم کے تناقض اور ٹکراؤ کا پایا جانا لازمی ہے۔

شیعوں کو ختم نبوت کے باب میں اس انحراف تک پہنچانے والی چیز ان کا امامت کا خیالی اور من گھڑت عقیدہ ہے، دراصل جب انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کی امامت کے عقیدہ کو اپنایا اور اسے فروغ دینا چاہا تو ضروری تھا کہ ان ائمہ میں دوسروں سے کوئی ممتاز خصوصیت پائی جائے، اس کے لیے انہوں نے ان کی معصومیت کا افسانہ تراشا اور اس افسانہ نے انہیں وحی کے جاری رہنے کا عقیدہ نتیجہ کے طور پر دیا، ویسے ائمہ کی معصومیت کا عقیدہ بذات خود ختم نبوت کے عقیدہ کے منافی ہے، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا ہے :۔

[[فمن جعل بعد الرسول معصوما یجب الایمان بکل مایقولہ فقد اعطاہ معنی النبوۃ وان لم یعطہ لفظھا]]

’’جس نے رسولﷺ کے بعد کسی کو ایسا معصوم مانا جس کی تمام باتوں پر ایمان لانا واجب ہو تو اس نے اسے نبوت کا درجہ دے دیا اگرچہ وہ منہ سے اس کا اظہار نہ کرے ‘‘  (منہاج السنۃ ۳/۱۷۴)

اور گاڑی چونکہ پٹری سے ابتدا ہی میں اتر چکی تھی اس لیے معاملہ صرف نبوت میں شرکت تک نہیں رہی بلکہ ائمہ الوہیت میں بھی شریک ٹھہرا لیے گئے۔

۲۔ صوفیاء کا طبقہ

امت کا دوسرا طبقہ جس کے یہاں وحی و نبوت کے جاری ہونے کی بات پائی گئی ہے وہ صوفیہ کا طبقہ ہے، اس سلسلے میں سب سے پہلے اس کے مشہور فرد ابویزید البسطامی کا یہ قول ملاحظہ فرمائیے، وہ علماء شریعت فقہاء و محدثین سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے :

[[اخذتم علمکم میتاعن میت، واخذناعلمناعن الحی الذی لایموت، حدثنی قلبی عن ربی، وانتم تقولون:حدثنی فلان، واین ھو؟قالوا:مات، عن فلان واین ھو؟قالوا:مات ]]

’’تم نے اپنا علم مردوں کے واسطے سے حاصل کیا ہے اور ہم نے اپنا علم اس ذات سے لیا ہے جو حی ہے اور جسے موت نہیں، مجھ سے میرے دل نے میرے رب کے حوالے سے بیان کیا، اور تم کہتے ہو :مجھ سے فلاں نے بیان کیا؟ وہ کہاں ہے ؟ کہتے ہیں :مرگیا، اس نے فلاں کے حوالے سے بیان کیا، وہ فلاں کہاں ہے ؟کہتے ہیں وہ بھی مرگیا‘‘

(الفتوحات المکیۃج -1ص365)

اس طائفہ کے ایک اور نمائندہ جنید بغدادی سے منقول ہے :

[[ ما اخذنا التصوف عن القیل والقال ]]

’’ہم نے تصوف قیل و قال سے حاصل نہیں کیا ہے ‘‘              (طبقات السلمی158)

۲)صوفیوں کے یہاں خضر کی شخصیت اور اس سے استفادہ کا تصور ایک مشہور مسئلہ ہے ’’خضر راہ‘‘ کا مقولہ اسی تصور کی پیداوار ہے، علامہ اقبال کا ایک شعر ہے :

تقلید کی روش سے بہتر ہے خودکشی

رستہ بھی ڈھونڈخضرکاسودابھی چھوڑ دے

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے صوفیوں کے خضر سے استفادہ کو ختم نبوت کے عقیدہ سے خروج شمار کیا ہے۔               (دیکھئے الفصل ۵/۳۸)

۳)اس سے بھی آگے بڑھ کر ختم نبوت کے عقیدہ پر ڈاکہ ڈالنے کی ایک کاروائی یہ عمل میں آئی کہ مشہور صوفی ابن عربی نے جسے اس طبقہ میں ’’شیخ اکبر ‘‘ کے لقب سے جانا جاتا ہے، یہ نظریہ پیش کیا کہ نبوت ایک کسبی چیز ہے جسے محنت و ریاضت کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے اور نبوت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا، اس کے مطابق:

’’نبوت مخلوق کے درمیان قیامت تک جاری رہے گی، اگرچہ شریعت ختم ہو چکی ہے، شریعت تو نبوت کے اجزاء میں سے ایک جز ہے، اس دنیا سے خدا کی اخبار تو منقطع نہیں ہو سکتیں، اگر خدا کے اخبار ہی منقطع ہو جائیں تو انسان کی روحانی غذا ختم ہو جائے اور اس کی بقا اور وجود مشکل ہو جائے ‘‘ (الفتوحات المکیہ۲/۹۔ ، بحوالہ تصوف تاریخ و حقائق از علامہ احسان الہی ظہیر ص۳۰۰ ، ۳۰۱)

ابن عربی اپنی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتا ہے :

’’وہ مقرب بندے جو اپنے زمانے میں گویا انبیاء کی طرح ہیں، نبوت کے زمانے میں انبیاء جس مقام پر فائز تھے اب یہ اس مقام پر فائز ہیں اور یہ نبوت عامہ ہے، وہ نبوت جو حضورﷺ کے وجود کے ساتھ ختم ہو گئی تھی وہ شریعت والی نبوت تھی‘‘(الفتوحات ۲/۳ بحوالۂ سابق ص۳۰۳)

علانیہ ختم نبوت کا انکار کرنے والے، جھوٹے مدعیان نبوت

ختم نبوت کے خلاف ان دو خفیہ بلکہ ظاہری محاذوں سے واقفیت و معرفت اس لئے بھی ضروری تھی کہ دور نبوت اور خلافت راشدہ کے زمانے میں ظاہر ہونے والے مدعیان نبوت کو چھوڑ کر بعد کے جتنے مدعیان نبوت ہیں، ان کے دعوی ٔ نبوت کے اسباب خواہ کچھ بھی رہے ہوں، انہیں پانی انہی دونوں سرچشموں سے ملا اور ان کا سرا کسی نہ کسی طور پر انہی دو گدلے کنووں سے جا کر ملتا ہے۔

دور اموی اور عباسی میں جو قابل ذکر مدعیان نبوت ظاہر ہوئے ان کی تعداد سات ہے، ان میں سے چھ کا تعلق شیعوں سے تھا تو ایک کا تعلق طبقۂ صوفیاء سے تھا، دور اخیر کے مدعیان نبوت میں بابیت اور بہائیت کے بانیان اصلاً شیعی تھے، لیکن تصوف کی طرف ان کا بڑا رجحان تھا بلکہ صوفیت کے میدان میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے، ان کی کتابوں میں بکثرت وہ افکار و خیالات پڑھنے کو ملتے ہیں جو انتہاء پسند اور غالی صوفیوں کے ذہنوں کی پیداوار ہیں، فرقۂ مہدویہ کا بانی محمد جونپوری ایک بزرگ منش صوفی تھا جبکہ قادیانی نبی مرزا غلام احمد نے ابن عربی کی تقسیم نبوت کے فلسفہ سے فائدہ اٹھایا اور اس سے استدلال کیا۔        (الحکم میگزین، قادیان، ۱۔ اپریل ۱۹۳۔ )

اس حقیقت کی مزید وضاحت کے لیے اب آئیے دعوائے نبوت کے اسباب کی طرف آتے ہیں۔

دعواہائے نبوت کے اسباب اور مقاصد

دعواہائے نبوت کے مختلف اور گوناگوں اسباب و محرکات رہے ہیں، ان میں بعض سطحی اور بالکل ناقابل التفات قسم کے اسباب بھی ہیں، جیسے بعض لوگوں کا ذہنی خلل کی بنا پر نبوت کا دعوی کرنا یا کچھ لوگوں کا محض اکتساب رزق اور حصول معاش کی غرض سے لوگوں کو خصوصاً امراء اور حکمراں حضرات کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے دعویِ نبوت کرنا، اس سلسلے کی بعض مثالیں تفنن طبع کے طور پر ملاحظہ فرمائیے :

۱۔ ایک آدمی نے نبوت کا دعوی کیا اور کہنے لگا کہ وہ موسی بن عمران ہے، اس کی خبر بادشاہ کو پہنچی تو اس نے اسے بلوایا اور اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ کہنے لگا میں موسی بن عمران الکلیم ہوں، بادشاہ نے کہا :اور یہ تمہاری لاٹھی ہے جو ازدہا بن جاتی ہے ؟اس نے کہا ہاں، بادشاہ نے کہا پھر اسے نیچے ڈالو اور اس سے کہو کہ ازدہا بن جائے جیساکہ موسی علیہ السلام نے کیا تھا، کہنے لگا، پہلے تم کہو کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں جیساکہ فرعون نے کہا تھا پھر میں موسی کی طرح لاٹھی کو سانپ بناتا ہوں، بادشاہ ہنسنے لگا اور بڑا محظوظ ہوا، پھر دسترخوان بچھا یا گیا تو اس سے کہا گیا:تو نے کچھ کھایا ہے ؟ کہنے لگا : عقل کیا ہی اچھی چیز ہے ! اگر میرے پاس کھانے کو کچھ ہوتا تو پھر یہ جو کچھ تمہارے پاس میں نے کیا کیوں کرتا؟بادشاہ متاثر ہوا اور اسے داد و دہش سے نواز کر رخصت کر دیا۔                                       (نہایۃ الارب ۴/۱۵)

۲۔ خلیفۂ مہدی کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا، مہدی نے اس سے پوچھا تو کن کی طرف بھیجا گیا ہے، وہ کہنے لگا:

’’تم مجھے چھوڑتے ہی نہیں کہ میں ان کے پاس جن کی طرف میری بعثت ہوئی ہے، میں لنچ کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور تم مجھے ڈنر کے ساتھ روک رہے ہو ‘‘مہدی اس کی بات سن کر ہنسنے لگا اور اس کے لیے انعام کا حکم دے کر اسے چھوڑ دیا‘‘          (العقدالفرید۷/۱۳۶)

اس طرح کے مدعیان نبوت کی بڑی طویل فہرست ہے لیکن چونکہ یہ یا تو بالکل مقاصد سے خالی تھے یا سطحی مقاصد کے حامل تھے، اس لئے ناقابل التفات ٹھہرتے ہیں اور ان کا ذکر غالباً مزاحیات و فکاہیات اور لطائف و ظرائف سے متعلق کتابوں ہی میں ملتا ہے، آئیے ہم بعض بڑے اسباب اور قابل ذکر اور اہمیت کے حامل مقاصد پر نظر ڈالتے ہیں۔

۱۔ عصبیتِ قبائلی اور قومی:

نبی اکرمﷺ کی زندگی کے آخری ایام اور خلافت راشدہ کے ابتدائی دنوں میں جو دعوہائے نبوت سامنے آئے ان کے پس پشت دیگر اسباب کے علاوہ قبائلی عصبیت کی زبردست کارفرمائی تھی، ان مدعیان نبوت کو ملی عوامی تائید بھی دراصل اسی قبائلی عصبیت کا نتیجہ تھی۔

زمانۂ نبوی کے اخیر اور خلافت راشدہ کی ابتداء میں دعوائے نبوت کرنے والوں میں ایک نام طلیحہ بن خویلد اسدی کا ہے، اس کا ایک متبع عیینہ بن حصن کہتا ہے :

[[ واللہ لنبی من بنی اسد احب الی من بنی ھاشم وقد مات محمد وھذا طلیحۃ فاتبعوہ ]]

’’اللہ کی قسم ! میرے نزدیک بنو اسد کا نبی بنو ہاشم کے نبی سے زیادہ پسندیدہ ہے، محمد مر چکے ہیں، یہ طلیحہ زندہ ہیں ان کی پیروی کرو‘‘    (البدایۃ ۶/۳۱۸، تاریخ طبری ۳/۲۵۷، ابن اثیر ۲/۳۴۴)

عمیر بن طلحہ نے اپنے والد کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اس نے مسیلمہ سے گفتگو کرنے کے بعد اس سے کہا:

[[ اشہد انک کذاب وان محمد اصادق ولکن کذاب ربیعۃ احب الینا من صادق مضر ]]

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ تو جھوٹا ہے اور محمدﷺ سچا ہے لیکن بنو ربیعہ کا جھوٹا مجھے بنو مضر کے سچے سے زیادہ محبوب ہے ‘‘ (البدایۃ ۶ / ۳۲۷، کامل لابن اثیر ۲/۳۶۲، طبری ۳/۲۸۶)

یہ تو قبائلی عصبیت کی دو مثالیں تھیں، دعوائے نبوت کے پیچھے قومی اور علاقائی عصبیت کی بھی زبردست کارفرمائی رہی ہے، اموی اور عباسی دور خلافت میں جو مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے، ان سب کا ظہور ایران اور عراق کے علاقوں میں ہوا، اس حقیقت کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ بعثت نبوی کے وقت ایران دنیا کے نقشہ پر ایک عظیم طاقت کی حیثیت سے موجود تھا اور اس وقت اسے سپر پاور کی حیثیت حاصل تھی، عراق اسی مملکت کے زیر نگیں تھا، اسلام جب غالب قوت کی حیثیت سے ظاہر ہوا تو دیگر طاقتوں کے ساتھ ایران کی طاقت بھی اس کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور ہو گئی، ایران نے سیاسی اور جسمانی طور پر اسلام کی بالادستی ضرور تسلیم کر لی لیکن اعتقادی اور قلبی بنیادوں پر اسلام سے اس کی حقیقی وابستگی نہیں ہو سکی، یہی وجہ ہے کہ ایران کی سرزمین فتنۂ تشیع سے لے کر تمام چھوٹے بڑے فتنوں، شورشوں اور ہنگاموں کا مرکز بنتی رہی اور ایران و عراق کے علاقوں میں جب بھی کوئی ایسی شخصیت یا فکر ابھری جو اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہونچانے والی ہو تو یہاں کے لوگوں نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور اسے مضبوطی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی، امام ابن حزم نے اپنی کتاب ’’الفصل ج۲ص ۱۱۵‘‘میں اس کی طرف بطور خاص توجہ دلائی ہے۔

دعوائے نبوت کے حوالہ سے قومی اور علاقائی عصبیت کی یہ مصیبت ایران اور اہل ایران کے ذہن و مزاج پراس طرح مسلط رہی ہے کہ ایک نئے عجمی نبی کی بعثت کا تصور گویا ان کے عقائد کا جز بن گیا، ایک بہائی احمد حمدی لکھتا ہے :۔

[[ ان العلم بمجیء رسول جدید من العجم بعد محمدﷺ کان معلوما لدی المحققین من علماء الامۃ وہو من اسرار الشریعۃ ]]

’’محمدﷺ کے بعد ایک نئے عجمی رسول کی آمد کا مسئلہ محققین علماء امت کے نزدیک مشہور و معلوم رہا ہے اور یہ شریعت کے اسرار میں سے ہے ‘‘  (التبیان والبرھان :۱، آل محمد ج۲ ص۱۱۸)

ادعاء نبوت کے حوالہ سے اس عصبیت کا ایک نمونہ ہمیں اس وقت بھی دیکھنے کو ملتا ہے، جب ہندوستان میں قادیانی نبوت کا ظہور ہوتا ہے، علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے لفظوں میں :۔

’’حکیم مشرق، شاعر رسالت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے قادیانیت کے خلاف ایک مدلل اور مفصل مضمون لکھا جس میں ان کی امت اسلامیہ سے علاحدگی کو براہین سے ثابت کیا تو سب سے پہلے جس نے علامہ کی تردید میں قدم اٹھا یا، وہ مشہور ہندو لیڈر (پہلے ہندوستانی وزیر اعظم) پنڈت جواہر لال نہرو تھے، جنہوں نے کئی مضامین قادیانیوں کی تائید و حمایت اور ان کی مدافعت میں لکھے ‘‘                      (مرزائیت اور اسلام ص۱۴)

علامہ اقبال نے جواہر لال کی تردید کرتے ہوئے اور قادیانیت کے لیے ان کی تائید کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے :

’’میں خیال کرتا ہوں کہ قادیانیت کے متعلق میں نے جو بیان دیا تھا جس میں جدید اصول کے مطابق صرف ایک مذہبی عقیدہ کی وضاحت کی گئی تھی، اس سے پنڈت جی ’’جواہر لال نہرو ‘‘اور قادیانی دونوں پریشان ہیں، غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف وجوہ کی بناء پر دونوں اپنے دل میں مسلمانو ں کی مذہبی اور سیاسی وحدت کے امکانات کو بالخصوص ہندوستان میں پسند نہیں کرتے، یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ہندوستانی قوم پرست جن کے سیاسی تصورات نے ان کے درست احساس کو مردہ کر دیا ہے، اس بات کو گوارہ کرنے کے لیے تیار نہیں کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کے دل میں خود اعتمادی اور خود مختاری کا خیال پیدا ہو، ان کا خیال ہے اور میری رائے میں غلط خیال ہے کہ ہندوستا نی قومیت تک پہنچنے کا صرف یہی راستہ ہے کہ ملک کی مختلف تہذیبوں کو قطعی طور پر مٹا دیا جائے۔ ۔ ۔ ‘ ‘

(اسلام اور احمدی ازم، بحوالۂ سابق ص۱۵)

اس کی ایک اور مثال ایک ہندو اسکالر کے مضمون میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، اسکالر کا نام ہے ڈاکٹر شنکرداس، یہ قادیانیت کو بنیاد بنا کر اپنے قوم پرستانہ احساسات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے :۔

’’ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو ایک الگ قوم تصور کئے بیٹھے ہیں اور وہ دن رات عرب کے ہی گیت گاتے ہیں، اگر ان کا بس چلے تو وہ ہندوستان کو بھی عرب کا نام دے دیں گے، اس تاریکی میں اور اس مایوسی کے عالم میں ہندوستانی قوم پرستوں اور محبان وطن کو ایک امید کی شعاع دکھا ئی دیتی ہے اور وہ آشا کی جھلک احمدیوں کی تحریک ہے ‘‘ (آگے لکھتا ہے )۔ ۔ ۔ ۔ کوئی بھی قادیانی چاہے وہ عرب، ترکستان، ایران یا دنیا کے کسی بھی گوشہ میں بیٹھا ہو، وہ روحانی شکتی کے لیے قادیان کی طرف منہ کرتا ہے، قادیان کی سرزمین اس کے لیے پنیہ بھومی (سرزمین نجات) ہے اور اسی میں ہندوستان کی فضیلت کا راز ہے، ہر قادیانی کے دل میں ہندوستان کے لیے پریم ہو گا کیونکہ قادیان ہندوستان میں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خلافت تحریک میں بھی احمدیوں نے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا، کیونکہ وہ خلافت کو بجائے ترکی یا عرب میں قائم کرنے کے قادیان میں قائم کرنا چاہتے ہیں، یہ بات عام مسلمانوں کے لیے جو ہر وقت پان اسلام ازم اور پان عربی سنگھٹن کے خواب دیکھتے ہیں، کتنی ہی مایوس کن ہو مگر ایک قوم پرست کے لیے باعث مسرت ہے ‘‘ (اخبار بندے ماترم ۲۲اپریل ۱۹۳۲ء بحوالۂ سابقص ۱۲۔ ۴۱)

۲۔ مادی لالچ اور ہوس اقتدار :

ادعاء نبوت کے اسباب میں ایک سبب مادی لالچ اور اسی طرح اقتدار کی ہوس بھی ہے، مسیلمہ کذاب نے نبی اکرمﷺ کو جو خط لکھا تھا اس میں یہ بات بھی تحریر تھی :

[[ قد اشرکت فی ھذا الامر معک فان لنا نصف الامر ولقریش نصف الامر ولکن قریشا قوما یعتدون ]]

’’مجھے کار نبوت میں آپ کا شریک اور ساجھی بنایا گیا ہے، آدھی حکومت ہماری ہو گی اور آدھی قریش کی لیکن قریش زیادتی کرنے والے لوگ ہیں ‘‘             (البدایۃ ۵/۵۱)

خط کے یہ الفاظ اس کی ہوس اقتدار کا صاف پتہ دے رہے ہیں، اس کی مادی لالچ کی مثال بھی ملاحظہ کیجئے، اس نے سجاح سے جو مدعیۂ نبوت تھی کہا:

[[ھل لک ان اتزوجک وآکل بقومی و قومک العرب قالت نعم]]

’’کیا تم پسند کرو گی کہ میں تم سے شادی کر لوں اور اپنی اور تمہاری قوم کے ساتھ مل کر پورے عرب کو کھالوں ؟ اس نے کہا :ہاں ‘‘               (البدایۃ ۶/ص۳۲۶)

اسی مادی حرص و طمع کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے، اسود عنسی نے نبی اکرمﷺ کی طرف سے متعین کردہ یمن کے عمال کے نام لکھا تھا :

[[ایھا المتمردون علینا، امسکو اعلینا ما اخذتم من ارضنا ووفروا ماجمعتم فنحن اولی بہ ]]

’’اے ہمارے خلاف سرکشی کرنے والے، ہماری زمین سے جو کچھ تم نے لیا ہے اسے ہمارے لئے روکے رکھو اور جو کچھ تم نے جمع کیا ہے اسے اکٹھا کر دو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں ‘‘(البدایۃ ۶/۳۔ ۷)

۳۔ فکری انحراف اور جہالت و کم علمی:

دعوائے نبوت کے اسباب میں ایک بڑا سبب فکری انحراف ہے، اس سے پہلے یہ بات آپ کے سامنے آ چکی ہے کہ دعوہائے نبوت کو غذا فراہم کرنے والے اصلا امت کے دو طبقے رہے ہیں، شیعہ اور صوفیہ، اور فقط دعوائے نبوت کیا امت میں بیشتر اعتقادی اور فکری بگاڑ کا سرچشمہ یہی دونوں رہے ہیں، علامہ ابن حزم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :

[[ واعلموا ان کل من کفر ھذہ الکفرات الفاحشۃ بمن ینتمی الی الاسلام فانما عنصرہم الشیعۃ والصوفیۃ ]]

’’جان لو کہ اسلام کی طرف نسبت کرنے والوں میں سے جن لوگوں نے بھی اس قسم کے کھلے کفر کا ارتکاب کیا، ان کی اصل شیعیت اور صوفیت ہے ‘‘                      (الفصل۴/۱۸۸)

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں طبقوں کا وجود ہی بنیادی طور پر فکری انحراف اور جہالت و کم علمی پر ہے، شیعوں کے فکری انحراف کا مظہر ان کا غلط تصور امامت ہے، مزید اس تصور امامت نے ایک اور فکری انحراف کو جنم دیا اور وہ خیالی اور محض افسانوی مہدی کے ظہور کا تصور و عقیدہ ہے، جبکہ صوفیت میں یہ فکری انحراف عبادات اور طریقہائے عبادت میں غلو اور اولیاء کے سلسلے میں مبالغہ آمیز تصورات و عقائد کی صورت میں موجود ہے، اس سے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ اموی اور عباسی دور حکومت میں جن سات کے قریب قابل ذکر مدعیان نبوت کا ظہور ہوا ان میں سے چھ کا تعلق شیعیت سے تھا، ان میں سے بیشتر نے پہلے امامت کا دعوی کیا پھر منصب نبوت پرجا براجمان ہوئے جبکہ ایک (علی بن الفضل الحمیری ) نے پہلے مہدویت کا دعوی کیا پھر مدعی نبوت بن بیٹھا۔

ایک مدعی نبوت(حارث بن سعید) جو صوفی تھا اس کی عبادت و ریاضت کے سلسلے میں مجاہدات یا دوسرے لفظوں میں غلو کا یہ عالم تھا کہ بقول علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ :

[[لو لبس جبۃ من ذھب لرأ یت علیہ زہادۃ]]

’’اگر سونے کا جبہ بھی زیب تن کر لیتا تو اس کا زہد جھلکتا‘‘            (تلبیس ابلیس :۴۲۷)

قادیانی نبی مرزا غلام احمد کو بھی صوفیانہ طرز عبادت سے بڑا تعلق تھا، مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’مرزا صاحب نے اپنی جوانی میں مجاہدات اور چلہ کشی بھی کی اور مسلسل روزے بھی رکھے، انہوں نے ایک طویل چلہ کیا جس میں برابر چھ ماہ تک روزے رکھے (سیرۃ المہدی حصۂ اول ص ۷۶)انہوں نے ہوشیار پور میں ایک چلہ کھینچا۔   (ایضاً ص۷۱)   ( قادیانیت، تحلیل و تجزیہ از ندوی ص ۲۳)

اسی طرح مرزا کو دعوئے مسیحیت پر آمادہ کرنے والے اس کے یار غار اور خلیفۂ اول حکیم نورالدین کا بھی میلان اور جھکاؤ تصوف کی طرف تھا، مولانا ندویؒ لکھتے ہیں :

’’حکیم صاحب کی شخصیت اور زندگی کا نفسانی طریقہ پر مطالعہ کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ روشن خیالی اور عقلیت پسندی کے ساتھ ساتھ ان کے اندر خوش اعتقادی اور دینی گرویدگی کا اچھا خاصا مادہ پایا جاتا تھا، وہ عقلیت اور عدم تقلید کے ساتھ ساتھ ’’الہامات‘‘ اور خوابوں سے بڑے متاثر ہوتے تھے ‘‘(حوالۂ سابقص ۳۶)

بابیت اور بہائیت کے بانیوں کو بھی صوفیت سے بڑا لگاؤ تھا چنانچہ ان کی کتابیں منحرف صوفیانہ افکار و خیالات سے بھری پڑی ہیں۔

اور جہاں تک جہالت وکم علمی کی بات ہے تو شیعوں کو تصور امامت و مہدیت نے مستقلاجہل و تاریکی کی دنیا کاباسی بنا دیا، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :۔

[[ فصاحب الزمان الذی یدعون الیہ لاسبیل للناس الی معرفتہ ولامعرفۃ مایأمرہم بہ وینھاہم عنہ ومایخبرھم بہ ]]

’’وہ صاحب زماں (شیعوں کے امام مہدی) جن کی طرف یہ دعوت دیتے ہیں، اس کے بارے میں جاننے کا کو ئی راستہ لوگوں کے پاس نہیں، اسی طرح وہ جن باتوں کا حکم دیتا ہے، جن باتوں سے منع کرتا ہے اور جن باتوں کی خبر دیتا ہے ان کی معرفت کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ‘‘      (منھاج السنۃ ج۱ص۲۔ )

شیعوں کے یہاں غلبۂ جہل و تاریکی کا یہ عالم ہے کہ بقول امام ابن تیمیہؒ :

[[ طائفۃ من شیوخ الرافضۃکابن العود الحلی یقول:اذاختلف الامامیۃ علی قولین احدھما یعرف قائلہ والاخر لایعرف کان القول الذی لایعرف قائلہ ھوا لقول الحق الذی یجب اتباعہ لان المنتظر المعصوم فی تلک الطائفۃ   ]]

’’ شیعوں کے بعض مشائخ جیسے ابن عود حلی کا کہنا ہے کہ اگر امامیہ کے یہاں دو اقوال کے سلسلے میں اختلاف ہو جائے اور ان میں ایک کا قائل معلوم اور دوسرے کا نامعلوم ہو تو وہ قول ہی حق اور واجب الاتباع ہو گا جس کا قائل نامعلوم ہے اس لئے کہ منتظر معصوم اسی گروہ میں ہے ‘‘                      (حوالۂ سابق ج۱ص۲۱)

جس طرح شیعوں کا مصدر علم مجہول اور نامعلوم ہے اسی طرح صوفیوں کا مرکز علم بھی مجہول و نا معلوم ہے، ابو یزید بسطامی کا قول گزر چکا ہے کہ ’’تم نے اپنا علم مردوں کے واسطے سے حاصل کیا ہے اور ہم نے اپنا علم اس ذات سے لیا ہے جو حی ہے اور جسے موت نہیں ‘‘ اسی طرح ان کے یہاں خضر سے استفادہ کا تصور بھی موجود ہے ظاہر سی بات ہے کہ استفادہ کے یہ طریقے شیعوں کے استفادہ کے طریقے سے کچھ بھی مختلف نہیں ہیں۔

صوفیوں کو علم کے حقیقی سرچشموں (کتاب وسنت ) سے دوری نے مختلف قسم کی فکری اور اعتقادی گمراہیوں میں مبتلا کر دیا، امام ابن الجوزیؒ ان کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :

[[ انما لبس الشیطان علیہم لقلۃ علمہم ]]

’’قلت علم کی بنا پر شیطان نے انہیں تلبیسات میں مبتلا کر دیا ‘‘       (تلبیس ابلیس ص۱۸۶)

اسی طرح مزید لکھتے ہیں :

[[ فیہم من کان لقلۃ علمہ یعمل بمایقع الیہ من الاحادیث الموضوعۃ وھو لایدری     ]]

’’ان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے قلت علم کی وجہ سے موضوع روایتوں کو مدار عمل بناتے ہیں اور اس حوالہ سے مکمل بے خبر ہوتے ہیں ‘‘(مصدر سابق)

۴۔ اسلام کی بیخ کنی کی سازش اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کی خواہش۔

دعوائے نبوت کے پس پشت کار فرما مختلف اور گوناگوں اسباب میں ایک بڑا سبب اسلام دشمن طاقتوں کی خفیہ سازش بھی رہی ہے، اس سازش کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے آپسی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا، اسلام کی قوت کو کمزور کرنا اور اس کی اصل پہچان اور شناخت مٹانا ہے۔

مجوس، یہود، اور نصاریٰ تین دشمنوں سے اسلام کا ابتدا ء ہی سے سابقہ رہا ہے، ان تینوں کی طرف سے اس سازش کے نمونے آپ مختلف ادوار میں دیکھ سکتے ہیں۔

سرزمین فارس مجوسیوں کی سرزمین تھی، دور اموی اور عباسی میں ظاہر ہونے والے بیشتر مدعیان نبوت ایران اور عراق کے علاقوں میں ظاہر ہوئے، یہ علاقے ہمیشہ شورشوں کی آماجگاہ رہے ہیں، اس بنا پر یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ ان دعووں کے پیچھے کوئی خفیہ سازش کار فرما ہو جواسلامی حکومت کو مٹانا چاہتی ہو، خصوصاً جبکہ ان مدعیان نبوت کی تعلیمات و افکار میں بت پرستانہ اور جاہلانہ افکار و نظریات کے نقوش و اثرات نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں، جیسے اللہ تعالی سے متعلق عجیب و غریب تصورات اور محرمات (زنا، شراب، ، مردار، خنزیر اور محرم عورتوں سے نکاح ) کی اباحت وغیرہ۔

اور جہاں تک اس سلسلے میں یہودی سازش کی بات ہے تواس کی ایک نظیر ہمیں اموی حکومت کے اواخر میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایک یہودی ابو عیسی بن اسحق اصفہانی دعوئے نبوت کرتا ہے تو یہودی نہ صرف اس کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ اس کے لئے معجزات اور خوارق کی باتیں بھی مشہور کرتے ہیں۔ (الملل والنحل ج۲ ص۲۹۔ )

اس کی ایک مثال خلافت عثمانیہ کے دور میں دیکھ سکتے ہیں جبکہ ایک یہودی ’’شبتی سیبی ‘‘نے ۱۶۶۶ء میں نبوت کا دعوی کیا، اسے سلطان محمد رابع نے قید کر دیا تو اس نے توبہ کر لی اور مسلمان ہونے کا دعوی کیا، ترکوں نے اسے اور اس کے متبعین کو جنہوں نے اس کے ساتھ مسلمان ہونے کا مظاہرہ کیا چھوڑ دیا لیکن یہ محض جھوٹ اور دھوکا تھا، ان کی دعوت و خفیہ سرگرمی جاری رہی یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ میں انہوں نے نمایاں رول ادا کیا۔

دور اخیر میں جب کہ بابی اور بہائی نبوتوں کا ظہور ہوا تو یہود یوں نے ان کا بھر پور تعاون کیا، بہت کم مدت میں تین سو زائد ایرانی یہودیوں نے بابیت میں شمولیت اختیار کی، بعد ازاں باب کے بعد اس کا جانشیں بہاء الدین بنا تو یہودیوں نے باقاعدہ اپنی پرانی کتابوں سے ایسی پیشین گوئیاں نکالنے کی کوشش کی جن میں بہاء الدین کے ظہور کی بات ہو اور آخر میں بہائیوں نے اسرائیلی شہر ’’عکا‘‘ کو اپنا مرکز بنایا۔

بابیت اور بہائیت کا برطانوی اور روسی استعمار سے تعلقات کی بات بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے اور قادیانی نبوت کا سراسر انگریزی نبوت ہونا تو عالم آشکارا ہے جیساکہ آئندہ صفحات میں اس کی وضاحت آ رہی ہے۔

۵۔ مسلم امت کے ساتھ مختلف اوقات میں پیش آنے والے مایوس کن اور پریشان کن حالات۔

امت مسلمہ پر وقتاً فوقتاً ایسے حالات آتے رہے ہیں جنہوں نے انہیں شدید قسم کی نا امیدی اور مایوسی کی کیفیت سے دوچار کیا، ایسے حالات میں طالع آزما قسم کے لوگوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ لوگوں کے دینی تصورات سے غلط فائدہ اٹھا کر ان کی مسیحائی کے نام پر اپنی لیڈری اور پیشوائی کا جھنڈا گاڑیں، مولانا ابوالحسن علی ندویؒ قادیانی نبوت کے ظہور کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں :۔

’’مسلمانوں پر عام طور پر یاس و نا امیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا، ۱۸۵۷ء کی جد و جہد کے انجام اور مختلف دینی اور عسکری تحریکوں کی ناکامی کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقۂ کار سے انقلاب حال اور اصلاح سے لوگ مایوس ہو چلے تھے اور عوام کی بڑی تعداد کسی مرد غیب کے ظہور اور مؤید من اللہ کی آمد کی منتظر تھی، کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ تیرہویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے، مجلسوں میں زمانۂ آخر کے فتنوں اور واقعات کا چرچا تھا، شاہ نعمت اللہ کشمیری کے طرز کی پیش گوئیوں اور الہامات سے سہارا حاصل اور غم غلط کیا جاتا تھا، خواب، فالوں اور غیبی اشاروں میں مقناطیس کی کشش تھی اور وہ ٹوٹے ہوئے دلوں کے لیے مومیائی کا کام دیتے تھے ‘‘ (قادیانیت، تحلیل و تجزیہ ص ۵۱)

انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں ظاہر ہونے والے مدعیان نبوت:

انیسویں صدی عیسوی کا نصف آخر اور بیسویں صدی عیسوی کا نصف اول عالم اسلام کے بیشتر حصوں پر سامراجی طاقتوں کے غلبہ و اقتدار کا زمانہ ہے، اس غلبہ و اقتدار کے نتیجہ میں استعمار کو جا بجا مسلمانوں کی مزاحمت کا سامنا تھا، مسلمانوں کی مزاحمت کو کمزور کرنے اور سامراجیت کو مزید وسعت و ترقی دینے کے لیے سامراج کی طرف سے جو کوششیں بروئے کار لائی گئیں ان میں سے ایک جھوٹے مدعیان نبوت کو کھڑا کرنا بھی تھا، چنانچہ اس مقصد کی خاطر مختلف مدعیان نبوت کا ظہور ہوا، ان میں بانیِ قادیانیت مرزا غلام احمد قادیانی اور بانیِ بہائیت کو نہ صرف یہ کہ مختلف اسباب کی بنا پر شہرت ملی بلکہ ان کے ماننے والوں کا بھی ایک مستقل ٹولہ وجود میں آ گیا اور ان کی تبلیغی سرگرمیاں مسلسل جاری اور ساری ہیں اور امت کی ایک بڑی تعداد کی گمراہی کا سبب بن رہی ہیں۔

قادیانیت اور اس کی سنگینی:

ان دونوں نبوتوں میں سے قادیانی نبوت کا فتنہ زیادہ خطرناک اور سنگین ہے، اس لئے کہ:۔

۱۔ بہائیت کا جو ڈھانچہ ہے وہ ایک مستقل امت اور گروپ کا ہے اور اس کے طور و طریق، انداز زیست اور طرز عبادات وغیرہ ساری کی ساری چیزیں امت مسلمہ سے الگ اور جداگانہ ہیں، جبکہ قادیانیت اپنی تمام حرکات وسکنات میں خود کو امت مسلمہ کے ایک گروپ کی حیثیت سے متعارف کراتی ہے اور چند سطحی شبہات کی بنا پر امت کے افراد کو دام تزویر میں پھانس لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

۲۔ بر صغیر کے پس منظر میں قادیانی فتنہ کی سنگینی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قا دیانیت بر صغیر میں وجود میں آنے والی مصیبت ہے اور برصغیر میں اسی کی تبلیغی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں، ہندوستان کے پسماندہ اور دینی شعور سے محروم قصبات و دیہات کثرت سے اس کے فتنہ کی زد میں ہیں۔

قادیانی نبوت کا آغاز اور پس منظر:

انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ دیگر بہت سے ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی انگریزی سامراج کے تسلط کا تھا انگریزوں نے ہندوستان کا اقتدار اصلامسلمانوں سے حاصل کیا تھا اس لئے فطری طور پر انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کی مزاحمت کا سامنا تھا، انگریزی تھنک ٹینکوں نے اس پر بہت سنجیدگی سے غور کیا کہ کس طرح مسلمانوں کی مزاحمانہ کاروائیوں کو سبوتاژکیا جائے ؟برطانوی ہندوستان کے ایک انگریزی دستاویز(دی ارائیول آف برٹش امپائر ان انڈیا) کے مطابق:

’’۱۸۶۹ء میں انگریزی حکام اور کلیساکے سربراہان پر مشتمل ایک وفد ہندوستان آیا، اس وفد کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا تھا کہ ہندوستان میں انگریزی اقتدار کے استحکام اور سلطنت کے لیے مسلمانوں کی محبت کے حصول کے لیے کن وسائل کو بروئے کار لانا مناسب اور ضروری ہو گا، اس وفد نے برطانوی حکومت کو جو رپورٹ پیش کی اس میں کہا گیا:

’’ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت بغیر غور و فکر کئے اپنے مذہبی لیڈروں کے پیچھے بھاگتی ہے، اگرہم کسی مدعی نبوت کو کھڑا کر دیں تو بآسانی وہ ایک بڑی جماعت کو اپنے گرد جمع کر سکتا ہے، ہاں ایسے شخص کو پیدا کرنا اور اس کا حسب منشاء استعمال ایک دشوار کن کام ہو گا‘‘

اس رپورٹ کے تقریباً دس سال بعد ان کو غلام احمد قادیانی کی شکل میں اپنا مطلوبہ انسان مل گیا۔

قادیانی نبوت سراسر انگریزی نبوت تھی:

قادیانی نبوت تمامتر انگریزی نبوت تھی، اس کی جنم داتا انگریزی حکومت تھی، اسی نے اسے پروان چڑھایا، اسی کی اس کو وحی وصول ہوتی تھی، فرشتۂ وحی انگریز کی شکل میں حاضر خدمت ہوتا تھا اور اسی حکومت کی ملکۂ معظمہ کا ورود مسعود(؟) اور دیدار کشف میں ہوتا تھا۔

۔ اس نبوت کی ساری کاوشوں، محنتوں اور محبتوں کا مرکز بس یہی انگریزی حکومت تھی، اس کی دشمنی اسی کے لیے تھی اور اس کی دوستی بھی اسی کے لیے، اس کا اول بھی یہی حکومت تھی اور آخر بھی یہی، اور اس نبوت پر ایمان لانے والوں کی اکثریت کا تعلق بھی اسی حکومت کے وفاداروں اور نمک خواروں سے تھا، قادیانی نبوت نے اپنی امت کو اگر کوئی چیز تحفہ کے طور پر دی تھی تو وہ انگریزوں کی غلامی و وفاداری اور انگریزوں کے لیے مصیبت بننے والے عمل جہاد کی منسوخی ہے، اس کی تمام تعلیمات کا خلاصہ ان ہی دو باتوں میں پوشیدہ ہے، ان تمام باتوں کی تصدیق کے لیے، قادیانی کتابوں کے یہ اقتباسات ملاحظہ فرمائیے :

۱)غلام احمد قادیانی نے لکھا:

"سب سے زیادہ جو لوگ میری جماعت میں داخل ہوئے وہ انگریزی حکومت کے ممبر اور برطانوی حکومت میں اونچے عہدوں پر کام کرنے والے یا برطانیہ کے امیر لوگ یا برطانیہ کے تاجر یا انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھانے والے یا ایسے عالم فاضل لوگ جو ماضی میں انگریز حکومت کی خدمت کرتے رہے یا تا حال خدمت کر رہے ہیں، میری بات کا مقصد یہ ہے کہ میری جماعت کو بنانے اور اس کو پروان چڑھانے میں حکومت برطانیہ کا کلیدی کردار ہے اور اس کے ان گنت انعامات اور احسانات ہیں، چناں چہ مجھ پر اور ان تمام لوگوں پر جو میری پیروی کرتے ہیں لازم ہے کہ لوگوں پر حکومت برطانیہ کے احسانات واضح کرے اور اسی حکومت کی محبت لوگوں کے دلوں میں راسخ کرے ‘‘  (انگیز گورنر کے نام خط ”تبلیغ رسالت "جلد ۷صفحہ ۱۸ مرتب قاسم قادیانی)

۲ ) ’’میں نے فرشتے کو ایک نوجوان انگریز کے روپ میں پایا جس کی عمر سال سے کچھ اوپر ہو اور وہ کرسی پر بیٹھا تھا، میں نے اس سے کہا:آپ بہت خوبصورت ہو، اس نے کہا ہاں، پھر وہ انگلش میں بولا I love you مجھے تم سے محبت ہے،  I am with youمیں تمہارے ساتھ ہوں   I shall help میں تمہاری مدد کروں گا، پھر کہا  what so ever I can do میں جو چاہوں کر سکتا ہوں، پس میں اس کے بولنے کے انداز اور لہجے سے پہچان گیا کہ وہ انگریز ہے ‘‘ (تذکرہ وحی المقدسص ۳۱، مرزا غلام احمد قادیانی، براہین احمدیہ ص۔ ۸۴، غلام احمد قادیانی)

۳) ’’میں نے کشف کی حالت میں دیکھا کہ ملکہ عالیہ ملکہ معظمہ قیصرۃ الھند(ملکۂ ہند) اللہ ان کو سلامت رکھے، میرے گھر میں آئیں تو میں نے اپنے ایک صحابی کو کہا کہ ملکہ معظمہ نے ہمیں یہ شرف بڑی محبت اور الفت سے بخشا ہے کہ ہمارے گھر دو دن کے لیے سکونت اختیار کی، چنانچہ ہمارے پر لازم ہے کہ ہم بھی ان کا شکریہ ادا کریں ‘‘(مرزا غلام احمد کے مکاشفات، مصنف منظور قادیانی صفحہ ۱۷)

۴) ’’میں اللہ عز و جل کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اپنے سائے یعنی حکومت برطانیہ کے سائے میں پروان چڑھا یا، چنانچہ اس کی حکومت کی رعایا پر لازم ہے کہ حکومت کے احسانات کا شکر بجا لائے اور میں خاص طور پر اس حکومت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ میں اپنے مقاصد میں کسی بھی دور حکومت میں اتنا کامیاب نہ ہو سکتا تھا جتنا میں ملکہ معظمہ (یعنی قیصرۃ الھند)کے دور اقتدار میں ہوا، اللہ کی لعنت ہو جو لوگ فرقہ واریت اور فساد پھیلا رہے ہیں، اللہ کی لعنت ہو ان پر جو امیر کے حکم کے تابعدار نہیں جبکہ اللہ تو کہتا ہے اللہ کی اطاعت کرو، رسول اللہ کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو اور بر صغیر میں اولی الامر سے مراد ملکہ برطانیہ ہے، اس لئے میں اپنے مریدوں اور اپنے ماننے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ انگریز اولی الامر ہیں، چنانچہ دل کی گہرائیوں سے ان کی اطاعت کرو ”

(امام کی ضرورت صفحہ۳۲، تحفہ قیصریہ، صفحہ۷۲)

۵) ’’یہ وہ فرقہ ہے جو فرقۂ احمدیہ کے نام سے مشہور ہے اور پنجاب اور ہندوستان اور دیگر متفرق مقامات میں پھیلا ہوا ہے، یہی وہ فرقہ ہے جو دن رات کوشش کر رہا ہے ہے کہ مسلمانوں کے خیالات میں سے جہاد کی بیہودہ رسم کو اٹھا دے، چنانچہ اب تک ساٹھ کے قریب میں نے ایسی کتابیں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی میں تالیف کر کے شائع کی ہیں جن کا مقصد ہے کہ یہ غلط خیالات مسلمانوں کے دلوں سے محو ہو جائیں، اس قوم میں یہ خرابی اکثر نادان مولویوں نے ڈال رکھی ہے لیکن اگر خدا نے چاہا تو امید رکھتا ہوں کہ عنقریب اس کی اصلاح ہو جائے گی۔

گورنمنٹ کے اعلی حکام کی طرف سے ایسی کاروائیوں کا ہونا ضروری ہے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں منقوش ہو جائے کہ یہ سلطنت اسلام کے لیے درحقیقت چشمۂ فیض ہے ‘‘ (قادیانی رسالہ ریویو آف ریلیجنز جلد ۱۱ شمارہ ۱۹۔ ۲ء اقتباس از معروضہ مرزا غلام احمد قادیانی پیش کردہ بخدمت انگریزی حکومت )

۶) ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارہ میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں کہ اکھٹی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں، میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے، میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیر خواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں، ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں ‘‘

(تریاق القلوب ص ۱۵ از مرزا غلام احمد قادیانی)

۷) ’’اب اس تمام تقریر سے جس کے ساتھ میں نے اپنی سترہ سالہ مسلسل تقریروں سے ثبوت پیش کئے ہیں، صاف ظاہر ہے کہ میں سرکار انگریزی کا بدل و جان خیر خواہ ہوں اور میں ایک شخص امن دوست ہوں اور اطاعت گورنمنٹ اور ہمدردی بندگان خدا کی میرا اصول ہے اور یہ وہی اصول ہے جو میرے مریدوں کی شرائط بیعت میں داخل ہے، چنانچہ پر چہ شرائط بیعت جو ہمیشہ مریدوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اس کی دفعہ چہارم میں ان ہی باتوں کی تصریح ہے ‘‘    (ضمیمہ کتاب البریہ ص ۹ مصنفہ غلام احمد قادیانی)

۸) ’’جو ہدایتیں اس فرقہ کے لیے میں نے مرتب کی ہیں جن کو میں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مرید کودیا ہے کہ ان کو اپنا دستور العمل رکھے، وہ ہدایتیں میرے اس رسالہ میں مندرج ہیں، جو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں چھپ کر عام مریدوں میں شائع ہوا ہے، جس کا نام تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت ہے، جس کی ایک کاپی اسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی تھی، ان ہدایتوں کو پڑھ کر اور ایسا ہی دوسری ہدایتوں کو دیکھ کر جو وقتاً فوقتاً چھپ کر مریدوں میں شائع ہوتی ہیں گورنمنٹ کو معلوم ہو گا کہ امن بخش اصولوں کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے اور کس طرح بار بار ان کو تاکیدیں کی گئی ہیں کہ وہ گورنمنٹ برطانیہ کے سچے خیرخواہ اور مطیع رہیں ‘‘(درخواست بحضور نواب لیفٹینٹ گورنر بہادر دام اقبالہ منجانب خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی مورخہ ۲۴فروری ۱۸۹۸ء مندرجہ تبلیغ رسالتج ۷ص ۱۶، میر قاسم علی قادیانی)

۹) ’’چونکہ قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیر خواہی کے لیے ایسے نا فہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو در پردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دار الحرب قرار دیتے ہیں لہذا یہ نقشہ اسی غرض کے لیے تجویز کیا گیا، تاکہ اس میں ان ناحق شناس لوگوں کے نام محفوظ رہیں جو اس باغیانہ سرشت کے آدمی ہیں، اگرچہ گورنمنٹ کو خوش قسمتی سے برٹش انڈیا میں ایسے لوگ معلوم ہو سکتے ہیں جن کے نہایت مخفی ارادے گورنمنٹ کے برخلاف ہیں، اس لئے ہم نے اپنی محسن گورنمنٹ کی پولٹیکل خیرخواہی کی نیت سے اس مبارک تقریب پر چاہا کہ جہاں تک ممکن ہو ان شریر لوگوں کے نام ضبط کئے جائیں جو اپنے عقیدے سے اپنی مفسدانہ حالتیں ثابت کرتے ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ حکیم مزاج بھی ان نقشوں کو ایک ملکی راز کی طرح اپنے کسی دفتر میں محفوظ رکھے گی، ایسے لوگوں کے نام مع پتہ و نشان یہ ہیں ‘‘(مرزا غلام احمد کا عریضہ بعنوان ’’ قابل توجہ گورنمنٹ‘‘ مندرجہ تبلیغ رسالت ج۵ص ۱۱)

۱۔ ) ’’اب میں اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالی ہماری محسنہ ملکۂ معظمہ قیصرۂ ہند کو عمر دراز دے کر ہر ایک اقبال سے بہرہ ور کرے اور وہ تمام دعائیں جو میں نے اپنے رسالہ ستارۂ قیصرہ اور تحفۂ قیصریہ میں ملکۂ موصوفہ کو دی ہیں، قبول فرما دے اور میں امید رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ محسنہ اس کے جواب سے مشرف فرمادے گی ‘‘(حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست عریضہ خاکسار غلام احمد قادیاں المرقوم ۲۷/ستمبر ۱۸۹۹ء مندرجہ تبلیغ رسالتج ۸از میر قاسم علی قادیانی )

 

مرزا غلام احمد: ولادت اور خاندان

مرزا غلام احمد کی پیدائش بقول خود اس کے ۱۹۳۸ء میں یا۱۸۴۔ ء میں صوبۂ پنجاب کے ضلع گورداس پور کے ایک قصبہ قادیان میں ہوئی، والد کا نام غلام مرتضی تھا، مرزا نے اپنے والد کے حوالہ سے اپنے کو مغل نسل سے بتایا، بعد ازاں یہ اعلان کیا کہ بذریعہ کشف مجھے یہ بتلایا گیا کہ میں اصلا فارسی الاصل ہوں، اس کے علاوہ مرزا نے اپنے چینی الاصل اور کبھی سادات میں سے ہونے کی بات بھی کی۔ یعنی جیساکہ ہم بعد میں بتائیں گے مرزا کی تدریجی نبوت کی طرح اس کا نسب بھی بتدریج مختلف شکلیں اختیار کرتا رہا۔

دراصل نسب نامے کی تبدیلی کے اس کھیل کے پیچھے اس کے دجل کی کارفرمائی تھی، اس نے اگر اپنے کو فارسی کہا تو اس سے اس کا مقصد خود کواس حدیث کا مصداق ثابت کرنا تھا جس میں نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اگر دین ثریا پر بھی ہو تو فارس کا ایک شخص اسے حاصل کر کے رہے گا‘‘(مسلم ) لیکن ظاہر سی بات ہے کہ اس میں جس دین کے حاصل کرنے کی بات ہے وہ دین محمدی ہے نہ کہ وحی الہی۔

شاید اسے اس کا احساس تھا اس لئے اس نے دعوی مہدیت کی بنیاد فراہم کرنے کے لیے خود کو اہل بیت میں سے ثابت کرنے کی کوشش کی، لیکن کیا یہ بات معلوم نہیں کہ مہدی نئے دین و شریعت کے علمبرار نہیں ہوں گے بلکہ وہ متبع سنت اور خلیفۂ رسول ہوں گے۔

اور جہاں تک اس کے چینی الاصل ہونے کی بات ہے تو اس کی بنیاد پر وہ خود کو ابن العربی صوفی کی پیشین گوئی کا مصداق ثابت کرنا چاہتا تھا، ابن عربی کی پیشین گوئی تھی کہ آخری زمانے میں ایک داعی الی اللہ لڑکا پیدا ہو گا جو چینی الاصل ہو گا۔            (حقیقہ الوحی از قادیانی ص ۲۰۰ )

مرزا کا خاندان ابتداء ہی سے انگریزوں کا مخلص اور وفادار تھا، مرزا قادیانی لکھتا ہے :۔

’’میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے، میرا والد میرزا غلام مرتضی گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا، جن کو دربار انگریز میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانۂ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دیئے تھے، ان خدمات کی وجہ سے جو چھٹیات خوشنودیِ حکام میں ان کو ملی تھی، مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں، مگر تین چٹھیاں جو مدت سے چھپ چکی ہیں ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں، پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی میرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا اور جب ’’تمون‘‘ کی گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا‘‘        (کتاب البریۃ ص۳، از مرزا غلام احمد قادیانی)

ایک اور مقام پر لکھتا ہے :

’’اور میرا باپ اسی طرح خدمات میں مشغول رہا یہاں تک کہ پیرانہ سالی تک پہنچ گیا اور سفر آخرت کا وقت آ گیا اور اگر ہم اس کی تمام خدمات لکھنا چاہیں تو اس جگہ سمانہ سکیں اور ہم لکھنے سے عاجز رہ جائیں، پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرا باپ سرکار انگریزی کے مراحم کا ہمیشہ امیدوار رہا اور عند الضرورت خدمتیں بجالاتا رہا، یہاں تک کہ سرکار انگریزی نے اپنی خوشنودی کی چٹھیات سے اس کو معزز کیا اور ہر ایک وقت اپنے عطاؤں کے ساتھ اس کو خاص فرمایا اور اس کی غم خواری فرمائی اور اس کی رعایت رکھی اور اس کو اپنے خیر خواہوں اور مخلصوں میں سے سمجھا، پھر جب میرا باپ وفات پا گیا تب ان خصلتوں میں اس کا قائم مقام میرا بھائی ہو اجس کا نام میرزا غلام قادر تھا اور سرکار انگریزی کی عنایات ایسی ہی اس کے شامل حال ہو گئیں کہ جیسی میرے باپ کے شامل حال تھیں اور میرا بھائی چند سال بعد اپنے والد کے فوت ہو گیا، پھر ان دونوں کی وفات کے بعد میں ان کے نقش قدم پر چلا اور ان کی سیرتوں کی پیروی کی لیکن میں صاحب مال اور صاحب املاک نہیں تھا۔ ۔ ۔ سو میں اس کی مدد کے لیے اپنے قلم اور ہاتھ سے اٹھا اور خدا میری مدد پر تھا اور میں نے اسی زمانہ سے خدا تعالیٰ سے یہ عہد کیا کہ کوئی مبسوط کتاب بغیر اس کے تالیف نہیں کروں گا جو اس میں احسانات قیصرۂ ہند کا ذکر نہ ہو، نیز اس کے ان تمام احسانوں کا ذکر ہو جن کا شکر مسلمانوں پر واجب ہے ‘‘(نور الحق حصہ اول ص ۲۸ از مرزا قادیانی)

اس خاندان کی تاریخ صرف انگریزوں ہی کے حوالہ سے ملت کشی کی نہیں ہے بلکہ ملت کشی کی یہ تاریخ اس سے بھی قبل کی اور پرانی ہے، مرزا کی سیرت میں تحریر ہے کہ ۱۸۴۲ء میں اس کا والد ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کر پشاور روانہ کیا گیا اور ہزارے کے مفسدے (یعنی سید احمد شہید اور مجاہدین کے جہاد) میں اس نے کارہائے نمایاں انجام دیئے، ۱۸۴۸ء میں اس کے ساتھ اس کے بھائی غلام محی الدین (مرزا کا چچا) نے بھی اچھی خدمات انجام دیں، ان لوگوں نے سکھوں کے باغیوں (مجاہدین) سے مقابلہ کیا، ان کو شکست فاش ہوئی۔ (سیرت مسیح موعود از بشیر الدین محمود ص ۳، ۴)

مرزا کی تعلیم اور عملی زندگی

مرزا کی ابتدائی تعلیم بلکہ پوری کی پوری تعلیم اس کے گھر پر ہوئی اور اس تعلیم کی حد، نحو و صرف، منطق اور طب کی بعض کتابوں کے پڑھنے تک محدود تھی، بعد ازاں مرزا نے کچہری میں اپنی منشی کی نوکری کے زمانہ میں (ان کے بیٹے، مرزا بشیر بیگ کے مطابق ۱۸۶۴ء تا ۱۸۶۸ء یعنی چار سال ) انگریزی کی بھی ایک دو کتابیں پڑھی (سیرت المہدی ج۱ص ۱۳۸)

باپ کے کہنے پر نوکری چھوڑی، نوکری کو ناپسند کرنے کی وجہ سے قانون کی کتابوں کا مطالعہ کیا لیکن امتحان میں ناکامی ملی۔ (سیرۃالمہدی ج۱ص۱۳۵)

مرزا نے نوکری چھوڑنے کے بعد باپ کے مجبور کرنے پر زمینداری سے متعلق کیسوں کی پیروی شروع کی، ان ہی دنوں میں مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا، اسی مطالعہ نے آگے بڑھایا، حنفی خاندان میں پیدا ہوا تھا، اسلئے اس مذہب کی خدمت کا کام شروع کیا، مولانا محمد حسین بٹالوی سے مناظرہ کے لیے بٹالہ گیا، (سیرۃ المہدی ج۲ص ۹۱)آگے مزید ترقی کی سوجھی تو عیسائیوں اور آریوں سے مناظروں کا سلسلہ شروع کیا اور ان مناظروں کے واسطے سے نبوت کی منزل کو جا پہنچا۔

مرزا نے علم نجوم کی باقاعدہ تحصیل کی تھی اور اس سلسلے میں کئی اساتذہ سے مستفید ہوا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ ستاروں کی تاثیرات کا عقیدہ رکھتا تھا اور ان کی بنیاد پر دنوں کے سعد ونحس کا قائل تھا، مرزا نے خدائی الہامات کے نام سے جو پیشین گوئیاں کی ہیں ان کی بنیاد دراصل یہی علم نجوم تھا، ایک صاحب سید احمد نے قادیان میں دو تین ہفتے گزار کر مخفی طور پر مرزا کے تعلق سے اس بات کا سراغ لگایا تھا۔ (چودھویں صدی کا مسیحص ۷۷ بحوالہ قادیانیت اپنے آئینے میں ص۲۱ مطبوعہ مکتبۂ قدوسیہ لاہور )

مرزا نے مسمریزم کی بھی مشق کی تھی، سیالکوٹ سے واپسی کے بعد اس نے آٹھ نو ماہ کی گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی، مولانا صفی الرحمن مبارکپوریؒ کے بقول آٹھ نو ماہ کی یہ ریاضت اسی فن مسمریزم کی عملی مشق تھی۔ (قادیانیت اپنے آئینے میں ص۲۲)مرزا اپنے مریدوں کو اسی عمل مسمریزم کے ذریعہ مسحور کیا کرتا تھا۔

مرزا کی معاشی حالت ابتداء کچھ اچھی نہ تھی اور غربت وتنگدستی کی زندگی تھی، مرزا اپنے ابتدائی حالات سے متعلق لکھتا ہے :۔

’’مجھے صرف اپنے دسترخوان اور روٹی کی فکر تھی‘‘(نزول المسیح ص۱۱۸)

ایک اور مقام پر مرزا نے لکھا ہے :

’’مجھے اپنی حالت پر خیال کر کے اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے ‘‘ (حقیقۃ الوحی ص ۲۱۱)

لیکن بعد کی زند گی پوری کی پوری فارغ البالی اور خوشحالی سے عبارت تھی، مرزا کے اشعار ہیں :۔

میں تھا غریب وبیکس و گمنام و بے ہنر

کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر

لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی

میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی

اب دیکھتے ہو کسیے رجوع جہاں ہوا

اک مرجع خاص یہی قادیاں ہوا    (درثمین اردو ص۸۹ مجموعۂ کلام مرزا)

یہ خوشحالی کدھر سے آئی؟ اس کا ایک سبب تو ہم قادیانی نبوت اور اس نبوت کے سرچشمہ کو بھی قرار دے سکتے ہیں، لیکن ذیل کی تحریریں ہمیں دوسرے ذرائع سے بھی آگاہ کریں گی۔

مرزا کے ارشادات میں تحریر ہے :

’’قوم کو چاہئے کہ ہر طرح سے اس سلسلے کی خدمت بجا لائے، مالی طور پر خدمت کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے، دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ چندہ کے بغیر نہیں چلتا، رسول کریمﷺ، حضرت موسی، حضرت عیسی سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے، پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے، اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیں تو بھی بہت کچھ ہو سکتا تھا ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تو اسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘(ارشاد مرزا غلام احمد قادیانی مندرجہ ’’بدر‘‘ ۹/جولائی ۱۹۔ ۳)

مرزا اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے :

’’ایک دفعہ مارچ۱۹۔ ۵ء کے مہینے میں بوقت قلت آمدنی لنگر خانہ کے مصارف میں بہت دقت ہوئی کیونکہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اور اس کے مقابل پر روپیہ کی آمدنی کم، اس لئے دعا کی گئی، ۵ /مارچ کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا میرے سامنے آیا اور اس نے بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا، میں نے اس کا نام پوچھا، اس نے کہا نام کچھ نہیں، میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہو گا، اس نے کہا میرا نام ہے ٹیچی ٹیچی، پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں، یعنی عین ضرورت کے وقت آنے والا، تب میری آنکھ کھل گئی، بعد اس کے خدائے تعالی کی طرف سے کیا ڈاک کے ذریعہ سے اور کیا براہ راست لوگوں کے ہاتھ سے اس قدر مالی فتوحات ہوئیں، جن کا خیال و گمان نہ تھا اور کئی ہزار روپے آ گیا، چنانچہ جو شخص اس کی تصدیق کے لیے صرف ڈاک خانہ کے رجسٹر ۵/مارچ ۱۹۔ ۵ء سے آخر سال تک دیکھے اس کو معلوم ہو گا کہ کس قدر روپیہ آیا تھا‘‘(حقیقۃ الوحی ص۳۳۲)

ایک مرزا ئی مبلغ خواجہ کمال الدین احمد کہتا ہے :

’’پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر انبیاء اور صحابہ والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم اور خشک کھاتے اور خشک پہنتے تھے اور باقی بچا کر اللہ کی راہ میں دیا کرتے تھے، اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے، غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچایا کرتے تھے اور پھر قادیان بھیجتے تھے لیکن جب ہماری بیویاں خود قادیان گئیں، وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آ کر ہمارے سر چڑھ گئیں کہ تم جھوٹے ہو، ہم نے تو قادیان میں جا کر خود انبیاء اور صحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے، اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں، حالانکہ ہمارا روپیہ اپنا کمایا ہوا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لیے قومی روپیہ ہوتا ہے‘‘   (کشف الاختلاف ص ۱۳ از سرور شاہ قادیانی)

محمد علی لاہوری مرزائی نے نقل کیا ہے :

’’حضرت صاحب (مرزا غلام احمد ) نے اپنی وفات سے پہلے، جس دن وفات ہوئی اسی دن بیماری سے کچھ پہلے کہا کہ خواجہ (کمال الدین) صاحب اور مولوی محمد علی صاحب مجھ پر بد ظنی کرتے ہیں کہ میں قوم کا روپیہ کھا جاتا ہوں، ان کو ایسا نہ کرنا چاہئے تھا (واحسرتا) ورنہ انجام اچھا نہ ہو گا۔

چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آج خواجہ صاحب مولوی محمد علی کا ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ مولوی محمد علی نے لکھا ہے، لنگر کا خرچ تو تھوڑا سا ہوتا ہے، باقی ہزاروں روپیہ جو آتا ہے وہ کہا جاتا ہے اور گھروں میں آ کر آپ نے بہت غصہ ظاہر کیا کہ یہ لوگ ہم کو حرام خور سمجھتے ہیں، ان کو روپیہ سے کیا تعلق‘‘(مرزا بشیر احمد کا خط حکیم نور الدین کے نام مندرجہ ’’حقیقت اختلاف ص ۵۔ از محمد علی لاہوری‘‘)

مرزا کی شخصیت وسیرت

مرزا کی شخصیت اور سیرت کا جو نقشہ خود مرزائی اور قادیانی کتابوں کی روشنی میں سامنے آتا ہے وہ یہ کہ مرزاخََلقی(ذہنی وجسمانی) اور خُلقی(سیرت و کردار کے ) اعتبار سے ہرقسم کی بے اعتدالیوں اور کمزوریوں کا مجموعہ تھا۔

مرزا کی پوری زندگی، تلون، بھلکڑ پن، اضطراب اور کم ہمتی و بزدلی سے عبارت تھی، مرزا نے پوری زندگی میں کبھی ایک بات پر قائم رہنا نہیں سیکھا، اس کی زندگی میں اگر ثبات کا کوئی نمونہ ملتا ہے تو اس کا انگریز کی وفاداری پر ثبات ہے، ان واقعات سے مرزا کی عالی دماغی، حافظہ کی بلندی اور دیگر جسمانی حالات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

۱)مرزا کا بیٹا مرزا بشیر احمد لکھتا ہے :

”مجھے ماں نے بتلایا کہ غلام احمد نے انہیں ایک مرتبہ بتلایا تھا کہ مجھے بچپن میں بچوں نے گڑلینے کے لیے بھیجا تو میں کسی سے پوچھے بغیر گڑ اٹھا لایا اور پھر راستے میں جب میں نے اسے کھایا تو مجھے سخت تکلیف ہوئی کہ جو میں شکر سمجھ کے لایا وہ نمک تھا”  (سیرت المہدی جلد ۱ص۲۲۶)

۲)مرزا غلام احمد نے مولوی محمد علی کو چھڑی پکڑائی، اندر جا کر واپس آئے تو مولوی نے آپ کو چھڑی واپس کی، حضرت صاحب نے چھڑی ہاتھ میں لے کر اسے دیکھ کر کہا یہ کس کی چھڑی ہے ؟عرض کیا آپ کی ہے، آپ نے کہا میں تو سمجھا میری نہیں حالانکہ وہ چھڑی مدت سے آپ کے ہاتھ میں رہتی تھی”(سیرت المہدی جلد ۱ص۲۴۵)

۳)ایک مرتبہ غلام احمد نے ملازم کو کہا جوتا ڈھونڈو ایک جوتا کہیں گر گیا ہے ملازم ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا تو کہنے لگے اوہ جوتا مل گیا وہ تو پاؤں میں ہی تھا‘‘     (حیات نبی جلد ۱صفحہ ۱۹۱، از یعقوب قادیانی)

۴)ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت صاحب کو ایک جیبی گھڑی تحفہ دی، حضرت صاحب اس کو رو مال میں باندھ کر رکھتے تھے، زنجیر نہیں لگاتے تھے اور جب وقت دیکھنا ہوتا تھا تو گھڑی نکال کر ایک کے ہندسے یعنی عدد سے گن کر وقت کا پتہ لگاتے تھے اور انگلی رکھ کر ہندسہ گنتے تھے اور منہ سے بھی گنتے جاتے تھے، میاں عبد اللہ صاحب نے بیان کیا کہ آپ کا جیب سے گھڑی نکال کر اس طرح وقت شمار کرنا مجھے بہت ہی پیارا معلوم ہوتا تھا۔ (سیرت المہدی جلد ۱ص۱۶۲)

۵)ایک دفعہ ایک شخص نے بوٹ تحفہ میں پیش کیا، آپ نے اس کی خاطر سے پہن لیا، مگر اس کے دائیں بائیں کی شناخت نہ کر سکتے تھے، دایاں پاؤں بائیں طرف کے بوٹ میں اور بایاں پاؤں دائیں طرف کے بوٹ میں پہن لیتے، آخر اس غلطی سے بچنے کے لیے ایک طرف کے بوٹ پر سیاہی سے نشان لگانا پڑا۔ (منکرین خلافت کا انجام جلال الدین شمس قادیانی ص۹۶)

مرزا بقول خود اس کے ’’ایک دائم المرض آدمی تھا‘‘، اور امراض بھی گو نا گوں تھے، کچھ تفصیل خود مرزا کے الفاظ میں اس طرح ہے :

’’ ہمیشہ درد سر، دوران سر اور کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے، اور دوسری بیماری جو میرے نیچے کے حصۂ بدن میں ہے، وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسا اوقات سوسو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرتِ پیشاب سے جس قدر عوارضِ ضعف وغیرہ ہوتے ہیں، وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں (ضمیمہ اربعین نمبر، ۳، ۴ص ۴ از مرزا قادیانی)

مرزا کا بیٹا بشیر احمد لکھتا ہے :

’’ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا کہ مجھے ہسٹریا ہے، بعض اوقات آپ مراقی بھی فرمایا کرتے تھے، لیکن دراصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں، جو ہسٹریا کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں، مثلاً کام کرتے کرتے یک دم ضعف ہو جانا، چکروں کا آنا، ہاتھ پاؤں کا سرد ہو جانا، گھبراہٹ کا دورہ ہو جانا، ایسا معلوم ہونا کہ ابھی دم نکلتا ہے، یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشان ہونے لگنا وغیرذالک‘‘        (سیرت المہدی جلد ۲ص۵۵)

مرزا حکیم نورالدین کے نام اپنے ایک خط میں لکھتا ہے :

’’جس قدر ضعف دماغ کے عارضہ میں یہ عاجز مبتلا ہے، مجھے یقین نہیں کہ آپ کو ایسا ہی ہو، جب میں نے شادی کی تھی تو مدت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں، آخر میں نے صبر کیا اور اللہ تعالی سے دعا کرتا رہا، سو اللہ جل شانہ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ضعف قلب تو اب بھی اس قدر ہے کہ بیان نہیں کر سکتا‘‘(مکتوب احمدیہ ج ۵ خط ۱۴)

اور جہاں تک مرزا کی خُلقی یعنی اخلاقی حالت کی بات ہے تو اس سلسلے میں اس کا سب سے نمایاں وصف جھوٹ ہے، انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی شخص نے اتنا جھوٹ بولا ہو جتنا مرزا نے الہامات، معجزات اور کشف و کرامات وغیرہ کے الفاظ استعمال کر کے جھوٹ بولا، مولانا ثنا ء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے قادیانیوں کے ایک مجمع میں مرزا کا تعارف ان لفظوں میں کرایا تھا:

مرے معشوق کے دو ہی پتے ہیں    زباں پر گالیاں، مجنوں سی باتیں

مرزا نے پیشین گوئیوں کے عنوان سے جو دروغ گوئیاں کی ہیں ان کے کچھ نمونے ہم آگے ’’مرزا کی پیشین گوئیاں ‘‘ کے عنوان سے پیش کریں گے، یہاں ہم مرزا کی گالیوں اور بد زبانیوں کے بعض نمونوں پر نظر ڈالتے ہیں، مرزا اپنے مخالفین کے لئے جس قسم کی زبان استعمال کرتا تھا اس کا نمونہ شاید بیسواؤں اور طوائفوں کے یہاں ہی دیکھنے کو ملے، دل پر جبر کر کے یہ بعض نمونے گوارہ کر لیجئے :

۱۔ ۱۸۵۷ ء کے مجاہدین آزادی کے بارے میں لکھتا ہے :

’’ان لوگوں نے چوروں، قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ شروع کر دیا ‘‘(ازالۂ اوہامص ۱۲۴، از مرزا قادیانی)

۲۔ اپنے مخالفین پر حملہ کرتے ہوئے کہتا ہے :۔

’’ دنیا میں سب جانداروں سے زیادہ پلید اور کراہت کے لائق خنزیر ہے، مگر خنزیر سے زیادہ پلید وہ لوگ ہیں جو اپنے نفسانی جوش کے لیے حق اور دیانت کی گواہی کو چھپاتے ہیں، اے مردار خور مولویو! اور گندی روحو! تم پر افسوس کہ تم نے میری عداوت کے لیے اسلام کی سچی گواہی کو چھپایا‘‘           ( ضمیمہ انجام آتھم ص ۲۱حاشیہ )

۳) مولانا ثنا ء اللہ امرتسریؒ کو ان القابات سے نوازتا ہے :

’’خبیث، سور، کتا، بد ذات، گوں خور‘‘   (الہامات مرز، از امرتسری ص ۱۲۲ حاشیہ )

۴) مولانا سعد اللہ لدھیانوی کا ذکر اس انداز میں کرتا ہے :۔

’’غول، لئیم، ملعون، نطفۂ سفہاء، خبیث، مفسد، مزور، منحوس اور زانیہ کا بیٹا‘‘    (انجام آتھم ص ۲۸۱، مرزا قادیانی)

۵) مولانا عبد الحق غزنوی اور ان کی جماعت کو اس طرح یاد کرتا ہے :۔

’’ ہمارے دعوے پر آسمان نے گواہی دی مگر اس زمانہ کے ظالم مولوی اس سے بھی منکر ہیں، خاص کر رئیس الدجالین عبد الحق غزنوی اور اس کے تمام گروہ، علیہم نعال لعن اللہ الف الف مرۃ ‘‘ (انجام آتھم ص۵۰، مرزا قادیانی)

۶)مرزا مسلمانوں کو گالیاں دیتے ہوئے لکھتا ہے :

[[ تلک کتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبۃ و المودۃ وینتفع من معارفھا ویقبلنی ویصدق دعوتی الا ذریۃ البغایا الذین ختم اللہ علی قلوبہم فہم لا یقبلون ]]

’’ان کتابوں کو تمام مسلمان محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور میری دعوت کی تصدیق کرتے ہیں سوائے ان رنڈیوں کی اولاد کے جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے، یہ لوگ قبول نہیں کرتے ‘‘ (آئینۂ کمالات ص ۵۴۷، ۵۴۸)

مرزا کے بچپن اور نوجوانی کے واقعات بتلاتے ہیں کہ وہ مزاج کا ضدی اور بگڑا ہوا شخص تھا، ایک دفعہ ماں سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا، ماں نے گڑ دیا، قبول نہ کیا کوئی دوسری چیز دی اسے بھی نہ لیا ماں نے تنگ آ کر کہا کہ جاؤ راکھ سے کھاؤ پھر کیا تھا ؟مرزا نے جھٹ روٹی پر راکھ لی اور کھانے بیٹھ گیا۔     ( سیرۃ المہدی ج ۱ص ۲۲۷، ۲۲۶)

ایک مرتبہ مرزا کے والد نے مرزا کو اپنے وظیفے کی رقم وصول کرنے کے لیے بھیج دیا، مرزا اپنے چچیرے بھائی امام الدین کو ساتھ لے گیا اور رقم وصول کرنے کے بعد دونوں نے خوب موج کئے، اس طرح جب رقم ختم ہو گئی تو امام الدین نے کوئی اور راہ لی اور مرزا باپ کے خوف سے سیالکوٹ بھاگ گیا اور وہاں کچہری میں نوکری کر لی، یہ واقعہ ۱۸۶۴ء کا ہے۔           (سیرۃ المہدی ج ۱ص ۳۴، ۳۵)

سیالکوٹ کچہری کی ملازمت کے دوران مرزا نے خوب خوب رشوت ستانیاں کیں، رشوت کے ذریعے حاصل شدہ یہی ناجائز کمائی تھی جس سے اس نے اپنی دوسری بیوی کے لیے چار ہزار کے زیورات بنوائے تھے۔

(رئیس قادیان ص۲۴ بحوالہ قادیانیت اپنے آئینے میں ص ۱۸)

مرزا شراب کا عادی تھا اور ٹانک کے نام سے اس کا استعمال کرتا تھا، اور اپنے مریدوں میں افیون کے فوائد بیان کرتا تھا، مرزا اپنے ایک مرید محمد حسین کو لکھتا ہے :۔

’’محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہ اللہ تعالی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے، آپ اشیاء خوردنی خود خریدیں اور ایک بوتل ٹانک وائن کی پلومر کی دکان سے خرید دیں مگر ٹانک وائن چاہئے، اس کا لحاظ رہے، باقی خیریت ہے، والسلام

مرزا غلام احمد عفی عنہ

(خطوط امام ص ۵ مجموعہ مکتوبات مرزا بنام محمد حسین قریشی )

ٹانک وائن کے بارے میں پلومر کی دکان سے دریافت کیا گیا کہ یہ کیا ہے تو بتایا گیا کہ یہ ایک قسم کی طاقتور اور نشہ دینے والی شراب ہے جو ولایت سے سربند بوتلوں میں آتی ہے، اس کی قیمت ۸ روپے ہے۔ (سودائے مرزا ص ۳۹از امرتسری)

مرزا بشیر ا لدین لکھتا ہے :۔

’’ افیون دواؤں میں اس کثرت سے استعمال ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے، بعض اطباء کے نزدیک وہ نصف طب ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تریاق الہی دوا خدا تعالی کی ہدایت کے ماتحت بنائی اور اس کا ایک بڑا جز افیون تھا، اور یہ دوا کسی قدر اور افیون کی زیادتی کے بعد حضرت خلیفہ اول (نور الدین) کو حضور چھ ماہ سے زائد تک دیتے رہے اور خود بھی وقتاً فوقتاً مختلف امراض کے دوروں کے وقت استعمال کرتے رہے ‘‘(مضمون از بشیر الدین محمود مندرجہ اخبار الفضل جلد ۱۷ شمارہ ۶، ۱۹ جولائی ۱۹۲۹ء)

مرزا ایک شہوت پرست انسان تھا، المنبر لائل پور (۹/شوال ۱۳۸۷ء )نے با وثوق قادیانی ذرائع کی بنیاد پر لکھا تھا کہ مرزا نامحرم عورتوں سے ٹانگیں دبوایا کرتا تھا اور یہ نامحرم عورتیں بوڑھی بھی ہوا کرتی تھیں اور جوان بھی۔ (قادیانیت اپنے آئینے میں ص ۱۰ ۸)علامہ اقبالؒ کے عربی اور فارسی کے استاد مولوی میر حسن صاحب سیالکوٹی کا بیان ہے کہ مرزا کی تلاوت کا جو قرآن تھا اس میں اس نے خاتمۂ قرآن پر یعنی سورۃ الناس کے اختتام پر قوت باہ کا ایک نسخہ لکھ رکھا تھا۔ (رئیس قادیان ص۲۷بحوالۂ سابق ص۱۸ )

کیا ایسا شخص بھی منصب نبوت کا اہل ہو سکتا ہے ؟

مرزا کی شخصیت وسیرت سے متعلق یہ بعض اشارے اس غرض سے ہیں کہ غور کیا جائے کہ کیا ایسی شخصیت و کردار کا حامل شخص بھی منصبِ نبوت کا حامل ہو سکتا ہے ؟

لیکن اسے کیا کہئے کہ انگریزی وحی کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ یہ شخص اپنے تئیں نبوت کے منصب پر فائز ہوا بلکہ اپنے گرد دیوانوں کی ایک ایسی جماعت بھی فراہم کر لی جو اس کی نبوت پر شاید ویسا ہی ایمان رکھتی تھی جیسامسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں، ایسا کیونکر ممکن ہوا ؟ اسے تاریخ کا انتہائی حیران کن واقعہ قرار دیئے بغیر چارہ نہیں۔

لیکن اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ صفحات میں دعوائے نبوت کے مختلف اسباب کے بیان میں ایک سبب مسلم امت کے ساتھ مختلف اوقات میں پیش آنے والے مایوس کن اور پریشان کن حالات بھی ہیں، مرزا کے دعوائے نبوت کے وقت جو حالات تھے وہ کچھ اسی قسم کے تھے، اور انہی حالات نے نہ صرف مرزا کے دعوائے نبوت کے لیے ماحول فراہم کیا بلکہ اس کی تصدیق کی فضا بھی سازگار کر دی، اس وقت کے حالات کیا تھے ؟

اس وقت کے حالات مختصر طور پر یہ تھے کہ ہندوستان کے مسلمان ایک طرف سیاسی طور پر انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے تو دوسری طرف عیسائی مشنریز اور آریہ سماج وغیرہ مختلف اسلام دشمن تحریکوں کی سرگرمیوں کے نتیجہ میں ان کا دین و ایمان مسلسل چیلنجوں اور خطروں کی زد میں تھا، ایسے وقت میں ایک طرف مسلم معاشرہ میں جہاں ان لوگوں کی بڑی قدر و عظمت ہو سکتی تھی جو انگریزی اقتدار کے خلاف آواز اٹھائیں اور ہندوستان کی آزادی کا نعرہ بلند کریں، وہیں ان لوگوں کی شہرت و مقبولیت کا میدان بھی مکمل طور پر تیار تھا جو دشمن تحریکوں اور تنظیموں کے مقابلہ میں آئیں اور ان سے دوبدو ہونے کی صدا بلند کریں، مرزا نے اپنے آپ کو اس دوسرے میدان کا سپاہی بنا کر پیش کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلم قوم کا ہیرو بن گیا اور تدریجاً ترقی کرتے کرتے نبوت کے مقام پر جا فائز ہوا۔

مرزا مجدد و مصلح کی حیثیت سے

یہ ۱۸۷۸ء کی بات ہے جبکہ مرزا کی شہرت عیسائیت اور ہندو مت کے مقابلہ ایک مناظر اسلام کی ہو چکی تھی، مرزا نے ‘‘براہین احمدیہ ’’کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھنے کا اشتہار شائع کیا، اس نے دعوی کیا کہ اس کتاب میں اسلام کی حقانیت کے تین سو دلائل دیئے جائیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کی اشاعت کے لیے مالی تعاون کی ضرورت ہے، پیشگی قیمت کی صورت میں بھی تعاون کیا جا سکتا ہے۔

۱۸۸۴ء تک اس کتاب کی چار جلدیں شائع ہوئیں، ان جلدوں میں مرزا نے حیات مسیح و نزول مسیح کا اقرار کیا تھا، مرزا نے اس کتاب کی چوتھی جلد میں ایک جگہ آیت ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی الآیۃ‘‘ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :۔

’’یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں پیشگوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ ظہور میں آئے گا اور جب مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لاویں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا‘‘(براہین احمدیہ ج۴ص۴۹۸)

اور عقیدۂ ختم نبوت کی بھی توثیق کی تھی، مرزا س کتاب کے شروع میں لکھتا ہے :۔

’’میں جو مصنف اس کتاب ’’ براہین احمدیہ ‘‘ کا ہوں یہ اشتہار اپنی طرف سے بہ وعدۂ انعام دس ہزار روپیہ بمقابلہ جمیع ارباب مذہب اور ملت کے جو حقانیت قرآن مجید و نبوت محمدی حضرت محمد مصطفیﷺ سے منکر ہیں، اتمام اللحجت شائع کر کے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز و شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب منکرین میں سے مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے ان سب براہین اور دلائل میں جو ہم نے دربارۂ حقیقت فرقان مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیاءﷺ اسی کتاب مقدس سے اخذ کر کے تحریر کی ہیں، اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت کر کے دکھلا دیں یا اگر تعداد میں ان کے برابر پیش کر سکیں تو نصف ان سے ثلث ان سے یا ربع ان سے یا خمس ان سے نکال کر پیش کرے یا اگر یہ کلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہی دلائل کو نمبر وار توڑ دے تو ان سب صورتوں میں بشرطیکہ تین منصف مقبولۂ فریقین بالاتفاق یہ رائے ظاہر کر دیں کہ ایفائے شرط جیساکہ چاہئے تھا ظہور میں آ گیا، میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے و حیلے اپنی جائداد قیمتی دس ہزار پر قبض و دخل دے دوں گا‘‘        (براہین احمدیہ ج ۱ص۱۷۔ ۲۲)

لیکن اس کتاب کے ساتھ ہی مرزا نے اردو اور انگریزی میں ایک اشتہار شائع کیا اور اسے سلاطین، وزراء، پادری حضرات اور پنڈت صاحبان کے پاس بھیجا، اس اشتہار میں اس نے صاف صاف لکھا :

’’یہ عاجز (مؤ لف ’’براہین احمدیہ ‘‘) حضرت قادر مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبیِ  ناصری اسرائیلی (مسیح ) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لیے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بے خبر ہیں، صراط مستقیم دکھاوے۔ ۔ ۔ )

اشتہار کے یہ الفاظ کھلے طور پر ایک خاص مدعیانہ اور ملہمانہ انداز کا پتہ دے رہے ہیں، جو دراصل مرزا کے آئندہ کے عزم کا مظہر ہے، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے لفظوں میں اس کتاب میں ’’مضامین کی بناء زیادہ تر اپنے الہامات اور مکاشفات پر تھی‘‘       (تاریخ مرزا  ص۱۱، از مولانا امرتسری)

اس کتاب میں مرزا نے اس بات کی پر زور وکالت کی ہے کہ الہام کا سلسلہ ختم نہیں ہوا اور نہ ہی اسے ختم ہونا چاہئے، مرزا کے نزدیک الہام ہی کسی دعوے کی صحت کی سب سے مضبوط دلیل ہے، مرزا کے مطابق ’’جو شخص رسول اللہﷺ کا اتباع کامل کرے گا، اس کو علم ظاہر اور باطن سے سرفراز کیا جائے گاجو انبیاء کو اصالتاً عطا ہوا تھا اور اس کو علم یقینی اور علم قطعی حاصل ہو گا، اس کا علم لدنی انبیاء کے علم سے مشابہ ہو گا، یہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں امثل کے لفظ سے اور قرآن مجید میں صدیق کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے، ان کے ظہور کا زمانہ انبیاء کی بعثت کے زمانہ سے مشابہ ہو گا اور انہیں سے اسلام کی حجت قائم ہو گی، اور ان کا الہام یقینی و قطعی الہام ہو گا‘‘ (براہین ج ۳ص ۱ ۳ ۲۔ ۲۴۴ باختصار بحوالہ قادیانیت، تحلیل و تجزیہ ازسید ابو الحسن علی ندوی ص۴۶)

اس طرح ’’ براہین احمدیہ ‘‘ مرزائی اور قادیانی نبوت کی تمہیدی کتاب تھی، یہی وجہ تھی کہ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی بعض علماء نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ شخص مدعی نبوت ہے یا عنقریب ہی اس کا دعوئے نبوت سامنے آنے والا ہے، مولانا امرتسریؒ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’مولانا عبد المنان مرحوم محدث وزیر آبادی سے میں نے خود سنا کہ مجھے شبہ ہوتا ہے کسی دن یہ شخص (مرزا)نبوت کا دعوی کرے گا، ایساہی حضرت مولوی ابو عبداللہ غلام العلی صاحب مرحوم امرتسری سے سننے والوں کا بیان ہے کہ مرحوم بھی مرزا صاحب سے خوفزدہ تھے کسی دن نبوت کا دعوی کریں گے، مرزا صاحب نے براہین احمدیہ میں مولوی صاحب مرحوم کا نام لے کر رد بھی کیا ہے ایسا ہی مولوی غلام دستگیر مرحوم قصوری اور مولوی محمد وغیرہ خاندان علمائے لودھانہ بھی مرزا صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سے بد ظن تھے۔ ۔ ۔ ‘‘(تاریخ مرزا ص۱۱، از مولانا امرتسری)

ان علماء کے خدشات اپنی جگہ پر لیکن ’’ براہین احمدیہ ‘‘نے خاص شہرت و مقبولیت حاصل کی اور دوسرے مذاہب کے خلاف اس کے مدافعانہ نہیں بلکہ اقدامانہ اور حملہ آورانہ انداز نے اسے خاص پذیرائی بخشی اور یہ دراصل اس وقت کے خاص مناظرانہ دینی ماحول اور حالات کا فطری نتیجہ تھا، مولاناسیدابولحسن علی ندویؒ کے الفاظ میں :

’’اس کتاب کے خاص معرفین اور پر جوش تائید کرنے والوں میں مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی کو خاص اہمیت حاصل ہے، انہوں نے اپنے رسالہ ’’ اشاعت السنہ‘‘ میں اس پر ایک طویل تبصرہ یا تقریظ لکھی، جو رسالہ کے چھ نمبروں میں شائع ہوئی ہے، اس میں کتاب کو بڑے شاندار الفاظ میں سراہا گیا ہے، اور اس کو عصر حاضر کا ایک علمی کارنامہ اور تصنیفی شاہکار قرار دیا گیا ہے، اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہی مولانا، مرزا صاحب کے دعاوی اور الہامات سے کھٹک گئے اور بالآخر وہ ان کے بڑے حریف اور مد مقابل بن گئے ‘‘   ( قادیانیت تحلیل وتجزیہ ص ۵۱، ۵۲)

آگے بڑھنے سے پہلے ہمارے لئے یہ معلوم کر لینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ مرزا نے ’’براہین احمدیہ ‘‘ کے پچاس حصے شائع کرنے کا اعلان کیا تھا جن میں جیساکہ اس سے پہلے گزر چکا ہے تین سو دلائل پیش کرنے کا دعوی کیا گیا تھا، لیکن ان دونوں باتوں کا حشر کیا ہوا خود قادیانی اقتباسات میں ملاحظہ فرمایئے :

۱۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا :

’’ پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا، مگر پچاس سے پا نچ پر اکتفا کیا (یہ پانچواں حصہ آغاز تصنیف کے پچیس سال بعد سامنے آیا تھا)اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے، اس لئے پانچ حصوں سے وعدہ پورا ہو گیا‘‘(دیباچہ براہین احمدیہ ج۵ ص۷)

۲۔ مرزا بشیر احمد ’’سیرۃ المہدی‘‘ میں لکھتا ہے :

’’اب جب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی چار جلدیں شائع شدہ ہیں، ان کا مقدمہ اور حواشی وغیرہ سب دوران اشاعت کے زمانہ کے ہیں اور اس میں اصل ابتدائی تصنیف کا حصہ بہت تھوڑا ہے یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تین سو دلائل جو آپ نے لکھے تھے اس میں سے مطبوعہ ’’براہین احمدیہ ‘‘ میں صرف ایک ہی دلیل بیان ہوئی ہے اور وہ بھی نامکمل طور پر‘‘(سیرۃ المہدی ج۱ص۷)

 مرزا مثیل مسیح اور مسیح موعود اور پھر نبی کذاب

مرزا کو ’’ براہین احمدیہ ‘‘ کی بنا پر جو غیر معمولی شہرت ملی اور اس کی بنیاد پر وہ گوشۂ گمنامی سے نکل کر ناموری کی جس بلندی کو پہنچ گیا اس نے اس کے حوصلہ مند طبیعت کو مزید ترقی دی اور بالآخر اس نے ویسا ہی کچھ کیا جس کا بعض علماء نے اس کی طرح سے خدشہ محسوس کیا تھا۔

۱۸۹۱ء میں مرزا نے مسیح موعود اور مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا، اس دعوی کا اظہار اس نے اپنی تین کتابوں ’’فتح اسلام ‘‘ ’’توضیح مرام ‘‘اور ’’ ازالۂ اوہام ‘‘ میں کیا، ان میں سے ازالۂ اوہام میں مرزا نے لکھا:

’’سو یقیناً سمجھو کہ نازل ہونے والا ابن مریم یہی ہے جس نے عیسی ابن مریم کی طرح اپنے زمانے میں کسی ایسے شیخ کو نہیں پایا جو اس کی روحانی پیدائش کا موجب ٹھہرتا، تب خدا تعالی خود اس کا متولی ہوا اور تربیت کی کنار میں لیا اور اس نے اپنے بندہ کا نام ابن مریم رکھا کیونکہ اس نے مخلوق میں اپنی روحانی والدہ کاتو منہ دیکھا جس کے ذریعہ سے اس نے قالب اسلام کا پایا لیکن حقیقت اسلام کی اس کو بغیر انسانوں کے ذریعہ حاصل ہوئی تب وہ وجود روحانی پا کر خداتعالی کی طرف اٹھایا گیا کیونکہ خدا تعالی نے اپنے ماسوا سے اس کو موت دے کر اپنی طرف اٹھا لیا اور پھر ایمان اور عرفان کے ذخیرہ کے ساتھ خلق اللہ کی طرف نازل کیا سو وہ ایمان اور عرفان کا ثریا سے دنیا میں تحفہ لایا اور زمین جو سنسان پڑی تھی اور تاریک تھی اس کے روشن اور آباد کرنے کے فکر میں لگ گیا پس مثالی صورت کے طور پر یہی عیسی بن مریم ہے جو بغیر باپ کے پیدا ہوا، کیا تم ثابت کر سکتے ہو کہ اس کا کوئی والد روحانی ہے کیا تم ثبوت دے سکتے ہو کہ تمہارے سلاسل اربعہ میں سے کسی سلسلے میں یہ داخل ہے ؟پھر اگر ابن مریم نہیں تو کون ہے ‘‘               (ازالۂ اوہام ص۶۵۸ بحوالہ تاریخ مرزا)

مرزا کی اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیثوں میں جس مسیح ابن مریم کی آمد کی پیشین گوئی کی گئی ہے وہ میں ہی ہوں، ابن مریم کہنے سے مقصود یہ ہے کہ جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام باپ کے وسیلہ کے بغیر پیدا ہوئے تھے اسی طرح مسیح موعود کسی شیخ طریقت کی رہنمائی کے بغیر کمال کو پہنچے گا، میں اسی طرح کمال کو پہنچا ہوں میرا کوئی پیر اور شیخ طریقت نہیں، میں صوفیوں کے چار سلسلوں میں سے کسی سلسلے سے منسلک نہیں ہوں۔

مرزا نے کمال عیاری سے مسیح موعود ہونے کا ثبوت تو اس انداز میں پیش کر دیا لیکن محض مشابہت کا یہ عنوان مسیحیت کے دعوے کے لیے کافی نہیں ہو سکتا تھا اس لئے کہ احادیث میں نزول مسیح کے لیے کچھ مزید دوسری علامتیں بھی بتائی گئی ہیں، ذرا دیکھئے کہ مرزا ان کی کیسی مضحکہ خیز تاویلات کرتا ہے۔

حدیث میں ہے کہ عیسی علیہ السلام کا نزول دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی سفید منارے پر ہو گا، مرزا دمشق کی حقیقت واضح کرتے ہوئے لکھتا ہے :

’’پس واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تاویل میں میرے پر من جانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات و خیالات کے پیرو ہیں۔ (حاشیہ ازالۂ اوہام ص ۳۳)

دوسری جگہ اس نے لکھا :

’’تب اس نے مجھ سے کہا کہ یہ لوگ یزید الطبع ہیں اور یہ قصبہ (قادیان)دمشق کے مشابہ ہے، سو خدا تعالی نے ایک بڑے کام کے لیے اس دمشق میں اس عاجز کو اتارا‘‘       (ازالۂ اوہام ص۶۸)

دمشق کی تو یہ تاویل کر لی گئی اب منارۂ شرقی کا جھمیلا تھا، مرزا نے اس کا یہ حل نکالا کہ قادیان کے مشرقی حصہ میں ایک مینار ہی تعمیر کر لیا جائے، اس کے لیے چندہ وغیرہ جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، ۱۹۔ ۳ء میں سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا لیکن افسوس کہ مرزا کی زندگی میں اس کی تکمیل نہیں ہو سکی، اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے مرزا بشیر الدین نے اس کی تکمیل کی، یوں مرزا اپنی کوشش کے باوجود اس علامت کے مصداق نہیں ٹھہر سکا۔

حدیث میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دو زرد چادروں میں تشریف لائیں گے، مرزا نے اس کی مضحکہ خیز تاویل یہ کی کہ دو چادروں سے دو بیماریاں مراد ہیں، آگے مرزا کی عبارت ملاحظہ فرمائیے :

’’سوایک چادر میرے اوپر کے حصے میں ہے کہ ہمیشہ سر درد اور دوران سر اور کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے اور دوسری چادر جو میرے نیچے کے حصۂ بدن میں ہے وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامن گیر ہے اور بسا اوقات سوسو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرتِ پیشاب سے جس قدر عوارضِ ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں ‘‘         (ضمیمۂ اربعین نمبر ۳۔ ۴ص۴)

مولانا ابوالحسن علی ندوی اور بعض دیگر علماء کے مطابق مرزا کا دعوئے مسیحیت اس کے یار غار حکیم نورالدین کے مشورہ پر سامنے آیا جیسا کہ مرزا کے ایک خط سے اس کا پتہ چلتا ہے، اس خط میں اس نے بعض ان خدشات کا اظہار کیا ہے جو دعوئے مسیحیت کی بنا پر سامنے آنے والے تھے۔ (دیکھئے مکتوبات احمدیہ ج۲ص ۸۵)

حکیم نورالدین کے اس مشورہ کی بنیاد کیا تھی ؟ اس کے پیچھے حکومت کا اشارہ تو کارفرما نہیں تھا ؟بہرحال اس مشورہ کا محرک کچھ بھی رہا ہو مولانا ابوا لحسن علی ندویؒ کے الفاظ میں :

’’نزول مسیح کا عقیدہ ایک اسلامی عقیدہ ہے، مسلمان اس عقیدہ سے واقف اور اس کے قائل تھے، احادیث میں اس کی اطلاع دی گئی ہے اور مسلمان حالات کی خرابی اور پیہم حوادث کے اثر سے کسی مرد غیب کے منتظر تھے اور بالخصوص تیرہویں صدی کے خاتمہ پر ظہور مسیح کا چرچا بھی تھا، حکیم صاحب کو اس کا خیال ہو سکتا تھا کہ مرزا صاحب نے اپنی دینی خدمات سے جو مقام حاصل کر لیا ہے، اس کی بنا پر مسلمان ان کے اس دعوئے مسیحیت کو تسلیم کر لیں گے ‘‘ (قادیانیت، تحلیل و تجزیہ ص۵۹، ۶۰ )

ممکن ہے کہ مرزا کو اس سلسلے میں آگے بڑھنے کا حوصلہ حکیم نورالدین کے ذریعہ سے ملا ہو، اصلاً اس کے ذہن میں اس فکر کی آبیاری ایک انگریز کے ذریعے سے ہوئی تھی، مشہور صحافی و ادیب شورش کاشمیری لکھتے ہیں :

’’اس نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ میں پادری مسٹر ٹیلر ایم اے سے رابطہ پیدا کیا، وہ اس کے پاس عموماً آتا اور دونوں اندر خانہ بات چیت کرتے، ٹیلر نے وطن جانے سے پہلے اس سے تخلیہ میں کئی ایک ملاقاتیں کیں، پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے ہاں گیا، اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا، ادھر مرزا صاحب استعفی دے کر قادیان آ گئے، اس کے تھوڑے عرصے بعد مذکورہ فرد ہندوستان پہنچا اور ضروری رپورٹیں مرتب کیں، ان رپورٹوں کے فوراً بعد مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع کر دیا‘‘           (تحریک ختم نبوت ص۲۳)

دعوائے مسیحیت کے ٹھیک دس سال بعد مرزا کی نبوت کا دعوی سامنے آیا، مرزا کی نبوت کا آغاز کس نرالے انداز سے ہوا، مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے :

’’یہ ۱۹۰۰ ء کی بات ہے، مولوی عبد الکریم صاحب نے جو جمعہ کے خطیب تھے، ایک خطبۂ جمعہ پڑھا جس میں مرزا صاحب کے لیے نبی اور رسول کے الفاظ استعمال کئے، اس خطبہ کو سن کر مولوی سید محمد احسن امروہوی نے بہت پیچ و تاب کھائے، جب یہ بات مولوی عبد الکریم صاحب کو معلوم ہوئی تو پھر انہوں نے ایک خطبہ پڑھا اور اس میں مرزا صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر میں غلطی کرتا ہوں تو حضور مجھے بتلائیں میں حضور کو نبی اور رسول مانتا ہوں، جب جمعہ ہو چکا اور مرزا صاحب جانے لگے تو مولوی صاحب نے پیچھے سے مرزا صاحب کا کپڑا پکڑ لیا اور درخواست کی کہ اگر میرے اس اعتقاد میں غلطی ہو تو حضور درست فرمائیں، مرزا صاحب مڑ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا مولوی صاحب ہمارا بھی یہی مذہب ہے اور دعوی ہے جو آپ نے بیان کیا۔ ۔ ۔ ‘‘(قادیانیت، تحلیل و تجزیہ ص۷۶، ماخوذ از تقریر سرور شاہ قادیانی، مندرجہ اخبار الفضل ۴جنوری ۱۹۲۳ء )

مولانا ثنا ء اللہ امرتسریؒ کے مطابق مرزا کے دعوائے نبوت کی بات جب لوگوں میں آئی اور لوگوں نے مرزا کے مریدوں کواپنی تنقیدوں کا نشانہ بنایا اور وہ اپنی پہلے کی اسلامی تعلیم کے اثر سے اس کا انکار کرنے لگے تو مرزا نے ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ کے نام سے ایک اشتہار نکالا، اس اشتہار میں جو قدرے طویل ہے اس نے لکھا :

’’جو فرمایا ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین۔ ۔ ۔ اس آیت میں ایک پیشین گوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یاعیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنا فی الرسول کی پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لیے اس لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے، اس کے یہ معنے ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی گو بروزی طور مگر نہ کسی اور کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں میں کیا ہے کہ میں مستقل طور پر شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ (تاریخ مرزا ص۴۸، ۴۹)

اس عبارت میں مرزا نے جس نبوت کا ادعاء کیا ہے وہ ظلی، بروزی اور غیر تشریعی نبوت ہے، لیکن جب نبوت کایہ دروازہ کھلا تو اس میں ترقی ہی ہوتی گئی، مرزا اپنے تدریجی اصول پر چلتا ہوا مستقل اور صاحب شریعت رسول کے منصب پر بھی فائز ہو گیا، مرزا کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیے :۔

’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھوکہ شریعت کیا چیز ہے ؟جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر و نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہو گیا، پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔ (اربعین ص۷بحوالہ قادیانیت تحلیل و تجزیہ ۸۱)

سچی بات یہ ہے کہ اگر مرزا صاحبِ شریعت نہ بنتا تو پھر اس کی نبوت کے معنی ہی کیا رہ جاتے اور قادیانی تعلیم کا اصل الاصول یعنی منسوخیِ جہاد کس طرح وجود میں آتا؟ منسوخیِ جہاد کی یہ تعلیم ہی تنہا مرزا کے صاحب شریعت ہونے کے ثبوت کے لیے کافی ہے، اب یہ اور بات ہے کہ وہ کس کی شریعت کا پیغمبر تھا؟ابتدا میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس شریعت و نبوت کا منبع وسرچشمہ انگریزی حکومت تھی۔

مرزا کی موت

مرزا کے دعوائے مسیحیت کے ساتھ ہی علماء کی طرف سے اس کی تردید و تکذیب اور تکفیر کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، (تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیں ) آپسی تردید و تکفیر کا یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ فاتح قادیان شیخ الاسلام مولانا ثنا ء اللہ امرتسریؒ کو مخاطب کر کے کی گئی خود اپنی بددعا کے نتیجے میں ۱۹۔ ۷ ء میں مرزا کی ذلت ناک موت ہو گئی، مرزا کی یہ ذلت ناک موت ہی تنہا اس کے کذاب ہونے کے لیے کافی ہے، یہ اور بات ہے کہ قادیانی امت اس سے عبرت حاصل کرنے کے لیے تیار نہ ہو، حقیقی بات یہ ہے کہ جب کوئی قوم اعراض و روگردانی کا راستہ اپناتی ہے اور انکار واستکبار کو اپنا شیوہ بنا لیتی ہے تو عبرت پذیری اور حصول ہدایت کا دروازہ اس پر بند کر دیا جاتا ہے اور روز روشن کی طرح عیاں دلائل و شواہد بھی اس کو راہ ہدایت پر لانے کے لیے کافی نہیں ہوتے، قادیانی امت کے ساتھ ابتداء ہی سے یہ المیہ قائم ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو مرزا کے جھوٹ اور کھلے طور پر کذب پر مبنی اس کی پیشین گوئیاں اس کی نبوت کی تکذیب کا سامان کرنے کے لیے بالکل کافی ہو سکتی تھیں، لیکن افسوس کہ مرزا ئی امت انتہائی فاسد، ناروا، بودی اور بے ہودہ تاویلات کی بنیاد پر اپنے موقف سے ٹس سے مس نہ ہوئی، حالانکہ خود مرزا نے لکھا تھا:

’’بد خیال لوگوں کو واضح رہے کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لیے ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا ‘‘     (آئینۂ کمالات اسلام ص۲۸۸)

مرزا کی دو عظیم جھوٹی پیشین گوئیاں

مرزا کے جھوٹ اور کذب پر مبنی شہادتوں کے انبار اس کی کتابوں میں دیکھے جا سکتے ہیں، برسبیل مثال مرزا کی دو انتہائی فلاپ اور اس کے کذب و افتراء کی واضح اور صریح دلیل بننے والی پیشین گوئیاں ملاحظہ فرمائیے اور عبرت حاصل کرتے چلئے :

۱۔ ڈپٹی آتھم کی موت کی پیشینگوئی:

عبد اللہ آتھم عیسائی پادری تھا، امرتسر میں مرزا قادیانی کا اس سے تحریری مناظرہ ہوا جو پندرہ دنوں تک چلتا رہا اور بالآخر بلانتیجہ اختتام کو پہنچا، مرزا نے ۵/جون ۱۸۹۳ء کو پیشینگوئی کی کہ آتھم اب سے پندرہ مہینے کے اندر اندر موت کے منہ میں پہنچ جائے گا مرزا نے اس پیشگوئی کو اپنے صدق و کذب کی دلیل ٹھہرا یا اور یہاں تک لکھا کہ اگر ایسا نہ ہو تو:

’’مجھ کو ذلیل کیا جاوے، روسیاہ کیا جاوے، میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے مجھ کو پھانسی دیا جاوے، ہر ایک بات کے لیے تیار ہوں ‘‘          (جنگ مقدس ص۱۸۳، ۸۴ا)

آتھم کی موت کی انتہائی تاریخ ۵/ ستمبر ۱۸۹۴ء تھی، یہ آخری دن آن پہنچا، اس دن قادیان میں اس پیشین گوئی کی تکمیل کے لیے کیسی کچھ کوشش کی گئی، ذیل کی تحریر میں ملاحظہ فرمائیے، مرزا محمود احمد لکھتا ہے :

’’آتھم کے متعلق پیشگوئی کے وقت جماعت کی جو حالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں، میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا اور میری عمر کوئی پانچ ساڑھے پانچ سال کی تھی مگر مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے کہ جب آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آیاتو کتنے کرب و اضطراب سے دعائیں کی گئیں، میں نے تو محرم کا ماتم بھی کبھی اتنا سخت نہیں دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک طرف دعا میں مشغول تھے، اور دوسری طرف بعض نوجوان (جن کی اس حرکت پر بعد میں برا بھی منایا گیا)جہاں خلیفۂ اول مطب کیا کرتے تھے اور آج کل مولوی قطب الدین صاحب بیٹھتے ہیں، وہاں اکٹھے ہو گئے اور جس طرح عورتیں بین ڈالتی ہیں، اس طرح انہوں نے بین ڈالنے شروع کر دیئے، ان کی چیخیں سوسو گز تک سنی جاتی تھیں، اور ان میں سے ہرا یک کی زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اللہ !آتھم مر جائے، یا اللہ !آتھم مر جائے، مگر اس کہرام اور آہ و زاری کے نتیجے میں آتھم تو نہ مرا‘‘ (خطبۂ مرزا محمود احمد، الفضل قادیان۲۔ جولائی ۱۹۴۰ ء )

آتھم کی موت اس مدت کے تقریباً دو سال بعد ۲۷/جولائی ۱۸۹۶ء کو ہوئی، یوں مرزا کی ساری کوششوں اور ریاضتوں کے باوجود آتھم کی دوسال کے بعد ہوئی موت نے مرزا کے جھوٹ پر مہر لگانے کا کام کیا، موت کے وقت آتھم کی عمر تقریباً ۷۲ سال تھی، یہ وضاحت اس لئے کر رہا ہوں کہ پیشین گوئی کی مدت میں آتھم کی عمر اتنی تھی کہ اس کا اس مدت میں طبعی موت مر جانا عین ممکن تھا لیکن اللہ کی مشیت سے ایسا نہیں ہوا، شاید اسلئے کہ تاکہ اس کی موت مرزا کے جھوٹ اور افتراء کی ایک دلیل بن جائے۔

۲۔ محمدی بیگم سے نکاح کی پیشین گوئی:

محمدی بیگم سے نکاح کی پیشین گوئی کو مرزا کی پیشین گوئیوں میں غیر معمولی شہرت حاصل ہے، مرزا کی کتابیں اس پیشین گوئی کی تفصیل اور اس کے وقوع کی باتوں سے بھری پڑی ہیں، اس پیشگوئی کے ساتھ مرزا کی کئی پیشگوئیاں وابستہ ہو گئی تھیں اور ساری پیشگوئیوں کا مقصد اس ایک پیشگوئی کو تکمیل آشنا کرنا تھا، لیکن ان میں سے ہر ایک پیشین گوئی مرزا کے منہ پر طمانچہ ثابت ہوئی اور اس کے جھوٹ اور افتراء ات کے ثبوتوں میں اضافہ کا ذریعہ بنی۔

اس اجمال کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ محمدی بیگم مرزا کی چچازاد بہن کی بیٹی تھی، اس کے والد مرزا احمد بیگ کسی ضرورت کی تکمیل کے لیے مرزا کے یہاں گئے، مرزا نے ضرورت کی تکمیل تو نہ کی ہاں ایک پیشگوئی کرتے ہوئے کہہ دیا:

’’خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو الہام ہوا ہے کہ تمہارا یہ کام اس شرط پر ہو سکتا ہے کہ اپنی بڑی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دو‘‘ (آئینۂ کمالات اسلام ص۲۳۔ )

لڑکی نوعمر تھی جبکہ مرزا کی عمر پچاس کے قریب ہو رہی تھی، والد نے انکار کر دیا، لیکن مرزا اپنے الہام پر ایسا جما کہ اس نے اس کی تکمیل کو اپنے صدق و کذب کا معیار قرار دیا اور لکھا:

’’میں اس پیشین گوئی کو اپنے صدق و کذب کے لیے معیار قرار دیتا ہوں اور یہ خدا سے خبر پانے کے بعد کہہ رہا ہوں ‘‘(انجام آتھم ص ۲۲۳)

مرزا نے لڑکی کے والد کو رجھانے اور اس مقصد کی تکمیل پر آمادہ کرنے کے لئے سارے جتن کئے اور ترغیب و ترہیب دونوں سے کام لیا، مرزا نے لڑکی کے والد کے نام اپنے ایک خط میں لکھا تھا:

’’میں آپ سے قسمی وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی زمین اور باغ میں سے آپ کو حصہ دوں گا، آپ کی صاحبزادی کو اپنی زمین اور دوسرے مملوکات کی تہائی کا مالک بنا دوں گا اور میں سچ کہتا ہوں کہ اس میں سے جو کچھ مانگیں گے میں آپ کو دوں گا۔ ۔ ۔ آپ مجھے مشکلات میں اپنا معاون ودستگیر پائیں گے، آپ کے ہر بوجھ کو اٹھاؤں گا‘‘(روحانی خزائن ج۵ص ۵۷۳۔ ۵۷۴ بحوالہ رئیس قادیان ج ۱ص ۱۴۶)

ایک دوسرے خط میں لکھا:

’’لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہو گا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے ڈھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔ ۔ ۔ ‘‘ (سیرۃ المہدی ج ۱ص ۱۹۲)

لیکن ترغیب و ترہیب کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی اور محمدی بیگم کا نکاح مرزا سلطان احمد نامی ایک شخص سے ہو گیا، یہ ۷/اپریل ۱۸۹۲ء کا واقعہ ہے، تاہم مرزا نے اب بھی ہار نہ مانی، اس نے اپنی پیشگوئی کا نہ صرف یہ کہ بارہا یقینی اور قطعی انداز میں اعادہ کیا بلکہ اسے اپنے سچا اور جھوٹا ہونے کا معیار قرار دیا، اس نے لکھا:

’’نفس پیشگوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی ‘‘

آگے اپنا الہام یوں نقل کیا :

’’میں اس عورت کو اس کے نکاح کے بعد واپس لاؤں گا اور تجھے دوں گا اور میری تقدیر کبھی نہیں بدلے گی‘‘(مجموعۂ اشتہارات ج۲ص ۴۳)

مرزا مسلسل محمدی بیگم سے نکاح کی بات کا اعادہ بڑے وثوق و اعتماد سے کرتا رہا، ۱۹۰۱ء میں اس نے ایک عدالتی بیان میں کہا:

’’احمد بیگ کی دختر کی نسبت جو پیش گوئی ہے وہ اشتہار میں درج ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ عورت میرے ساتھ بیاہی نہیں گئی، مگر میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہو گا جیساکہ پیش گوئی میں درج ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عورت اب تک زندہ ہے میرے نکاح میں ضرور آئے گی، امید کیسی ؟یقین کامل ہے، یہ خدا کی باتیں ہیں، ٹلتی نہیں، ہو کر رہیں گی‘‘(الحکم قادیان ۱۔ /اگست ۱۹۔ ۱ص۱۴ بحوالہ قادیانیت اپنے آئینے میں ص ۱۳۳، ۱۳۴)

۱۹۰ ۵ء میں مرزا نے کہا:

’’الہام الہی کے یہ لفظ ہیں فسیکفیکہم اللہ ویردھا الیک یعنی خدا تیرے ان مخالفوں کا مقابلہ کرے گا اور اس (محمدی بیگم )کو تیری طرف لائے گا۔ ۔ ۔ ۔ وعدہ یہ ہے کہ پھر وہ نکاح کے تعلق سے واپس آئے گی، سو ایسا ہی ہو گا ‘‘

(الحکم قادیان ۳۔ /جون ۱۹۔ ۵ص۱۴ بحوالہ سابقص ۱۳۴)

مرزا نے لکھا:

’’اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ ضرور اس پیش گوئی کو پورا کرے گا‘‘    (روحانی خزائن ج ۱۱ص۳۱ حاشیہ)

اور اس نے لکھا :

’’اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہو گی اور میری موت آ جائے گی‘‘(روحانی خزائن ج۱۱ص ۲۹۔ ۳۱حاشیہ)

اب دنیا جانتی ہے کہ مرزا ۱۹۰۸ء میں دنیا سے اس طرح رخصت ہوا کہ محمدی بیگم اس کے کذاب و مفتری ہونے کی دلیل و علامت بنی اپنے شوہر مرزا سلطان بیگ کے ساتھ بہتر ازدواجی زندگی گزار رہی تھی، اس کا شوہر مرزا کی موت کے بعد ۴۱سال تک بقید حیات رہا، ۱۹۴۹ء میں لاہور میں اس کی وفات ہوئی جبکہ خود محمدی بیگم ۹۔ سال سے زائد عمر پا کر ۱۹۶۶ ء میں لاہور ہی میں دنیائے فانی سے رخصت ہوئی۔

مرزا ئی نبوت اور قادیانی امت کے بعض شبہات اور دلائل !!!

ان دو جھوٹی پیشین گوئیوں سے اور ان کے انجام سے مختصرا واقفیت کے بعد آئیے ہم بعض ان شبہات کی طرف آتے ہیں جن کا سہارا قادیانی نبوت کی تائید  واثبات کے لیے لیا جاتا ہے۔

۱۔ ۔ سلسلۂ بعثت کو ختم کرنے کی بات رحمت الہی کے خلاف ہے۔

مرزائی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے مرزائیوں کی طرف سے دلائل کے نام پر جو بعض شبہات پیش کئے جاتے ہیں، ان میں سے ایک شبہ یہ ہے کہ بابِ نبوت کو بند کرنا دراصل رحمت الہی کے دروازہ کو بند کرنا ہے، مولانا عبد الرحمن کیلانیؒ کے الفاظ میں اس شبہہ کے جوابات درج ذیل ہیں :

۱)اللہ تعالی نے فرمایا:ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین اور ساتھ ہی فرمادیا کہ :وکان اللہ بکل شیء علیمایعنی اللہ تعالیاس بات کو بھی خوب جانتا ہے کہ آئندہ تا قیامت کسی نبی کو بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

۲)یہ دلیل جو کچھ بھی ہے بہرحال ایک عقلی دلیل ہے اور نص کے مقابلہ میں قیاس یا عقل کے گھوڑے دوڑانا حرام ہے۔

۳)ان حضرات کا دعوائے ضرورت اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ رسول اللہﷺ نے واشگاف الفاظ میں بتادیا کہ ’’میری امت میں سے ایک فرقہ تا قیامت حق پر قائم رہے گا ‘‘صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ ! وہ کونسا گروہ ہو گا ؟آپﷺ نے فرمایا : جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں ‘‘ (ترمذی کتاب الایمان، باب افتراق الامۃ)

گویا آج صرف دیکھنے کا کام یہ ہے کہ وہ کونسا فرقہ یا گروہ ہے جو صرف کتاب وسنت سے رہنمائی لیتا ہے، اس میں کمی بیشی نہیں کرتا، نہ کتاب وسنت کے مقابلہ میں کسی دوسری شخصیت کا قول یا فتوی قبول کرتا ہے اور نہ ہی دین میں کوئی نئی بات، خواہ عقیدہ سے تعلق رکھتی ہو یا عمل سے، شامل کرتا ہے اور ایسے گروہ کی موجودگی کسی نئے نبی کی آمد کی ضرورت کو ختم کر دیتی ہے اور ایسا فرقہ چونکہ تا قیامت باقی رہے گا لہذا تا قیامت کسی نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی‘‘          (تیسیر القرآن ج ۳ص ۵۹۴۔ ۵۹۵)

۲۔ میں ظلی اور بروزی نبی ہوں، مستقل نبی نہیں :

اس سے پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ ابتداء ً مرزا نے ظلی اور بروزی نبوت کی بات کی تھی لیکن پھر وہ مستقل اور تشریعی نبوت تک پہنچ گیا، تاہم اگر مان لیا جائے جیساکہ بہت سے قادیانی عام لوگوں کو اس حوالہ سے گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مرزا کی نبوت ظلی اور بروزی تھی یعنی رسول اللہﷺ کی اطاعت اور کامل اتباع کے نتیجے میں مرزا کو یہ نبوت حاصل ہوئی تھی تو کیا شرعی طور پر اس کی گنجائش ہے ؟ظاہر سی بات ہے کہ اس نظریہ کے مطابق نبوت ایک کسبی چیز ٹھہرتی ہے اور ہم بدلائل ذکر کر آئے ہیں کہ نبوت کسبی چیز نہیں بلکہ وہبی چیز ہے، اگر اتباع کامل وغیرہ کی بنیاد پر نبوت مل سکتی تھی تو اس کے سب سے زیادہ حقدار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تھے، لیکن نبی اکرمﷺ کا صاف ارشاد ہے کہ ’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے ‘‘مزید یہ کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے ارشاد ’’لانبی بعدی‘‘ میں ظلی اور غیر ظلی وغیرہ نبوت کی کوئی تفریق نہیں کی ہے، آپﷺ نے مطلقا فرمایا ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا۔

مرزائی ظل و بروز کے اسی فلسفہ کی بنیاد پر ’’خاتم النبیین ‘‘ کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کے بعد جو نبوت جاری ہو گی وہ آپ کی مہر سے ہو گی، حافظ صلاح الدین یوسف اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

’’اول تو یہ معنی عربی زبان و لغت کے خلاف ہے، عربی لغت میں ختم یا خاتم کا لفظ آخری عمل کے لیے استعمال ہوتا ہے، ختم الشیء، کا مطلب چیز پر مہر لگا نا نہیں۔ بلکہ شیء کا خاتمہ ہے، دوسری بات یہ ہے کہ نبیﷺ کی مہر کا کیا مطلب ؟ وہ آخر کس طرح لگے گی ؟ اور جس پر لگے گی اس کا پتہ کس طرح چلے گا ؟ جب تک ان دو باتوں کی وضاحت نہیں ہوتی، یہ مفہوم بالکل بے معنی ہے، اس طرح ہر شخص نبوت کا دعوی کر سکتا ہے اور کرے گا، اس دعوی کو جانچنے کے لیے کوئی معیار اور کسوٹی نہیں ہو گی‘‘   (تفسیر احسن البیان تفسیر سورۂ احزاب آیت ۴۔ )

۳۔ اگر نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا تو پھر عیسی علیہ السلام کا نزول کیسے ؟

قادیانی یہ اشکال بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر محمدﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا تو پھر عیسی علیہ السلام کا نزول کیونکر ہو گا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کی نبوت نبی اکرمﷺ کی نبوت سے پہلے کی ہے اور دوبارہ جب آپ کا نزول ہو گا تو آپ بحیثیت نبی نہیں تشریف لائیں گے، بلکہ نبیﷺ کی ایک امت کی حیثیت تشریف لائیں گے چنانچہ حدیث گزر چکی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

’’ اس وقت تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا اور ایسا اللہ کی طرف سے اس امت کی تکریم و عزت افزائی کے طور پر ہو گا‘‘(مسلم:۴۲۱)

قادیانی عقائد و تعلیمات

علامہ احسان الہی ظہیرؒ نے اپنی کتاب ’’مرزائیت اور اسلام ‘‘ میں قادیانی عقائد کا خلاصہ کچھ اس طرح پیش کیا ہے :۔

۱۔ مرزائیوں کا خدا انسانی صفات سے متصف ہے جو روزہ بھی رکھتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے، سوتا بھی ہے اور جاگتا بھی ہے، غلطی بھی کرتا ہے اور نہیں کرتا، لکھتا بھی ہے اور اپنے دستخط بھی کرتا ہے، صحبت(ہمبستری)بھی کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں جنتا بھی ہے (نعوذ باللہ ):

مرزا قادیانی کہتا ہے :

[[قال لی اللہ انی اصلی واصوم واصحو وانام ]]

’’مجھ سے اللہ نے کہا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزے بھی رکھتا ہوں جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘‘ (البشری ج۱۲ص ۹۷)

اسی طرح وہ کہتا ہے :

[[ قال اللہ لی انی مع الرسول اجیب اخطی واصیب انی مع الرسول محیط ]]

’’خدا نے کہا ہے کہ میں رسول کی بات قبول کرتا ہوں، غلطی کرتا ہوں اور صواب کو پہنچتا ہوں، میں رسول کا احاطہ کیے ہوئے ہوں ‘‘       (البشری ج ۲، ص۹۷)

نیز کہتا ہے :

’’ایک دفعہ میں نے کشف کی حالت میں خدا تعالی کے سامنے بہت سے کاغذات رکھے تاکہ وہ ان کی تصدیق کر دے اور ان پر اپنے دستخط ثبت کر دے، مطلب یہ تھا کہ یہ سب باتیں جن کے ہونے کے لیے میں ارادہ کیا ہے ہو جائیں، سو خدا تعالی نے سرخی کی سیاہی سے دستخط کر دیئے اور قلم کی نوک پر جو سرخی زیادہ تھی اس کو جھاڑا اور معا جھاڑنے کے اس سرخی کے قطرے میرے کپڑوں اور عبد اللہ (مرید قادیانی) کے کپڑوں پر پڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب تک بعض کپڑے میاں عبد اللہ کے پاس موجود ہیں جن پر وہ بہت سی سرخی پڑی تھی‘‘

(تریاق القلوب ص ۳۳، حقیقۃ الوحی ص۲۵۵ از مرزا قادیانی)

قاضی یار محمد قادیانی لکھتا ہے :

’’حضرت مسیح موعود(مرزا) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا‘‘  (اسلامی قربانی ص ۴۳ از قاضی یار محمد قادیانی )

خود مرزا کہتا ہے :

’’مریم کی طرح عیسی کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے مجھے مریم سے عیسی بنا دیا گیا، پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا ‘‘ (کشتی نوح ص۴۷ از مرزا قادیانی)

مرزا کے مطابق اللہ نے اسے اس طرح پکارا:

[[اسمع یا ولدی]]       ’’سن اے میرے بیٹے ‘‘  (البشری ج ۱ص ۴۹)

بلکہ مرزا بیٹا سے باپ بھی بن جاتا ہے اور کہتا ہے :

’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں، میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں ‘‘ (آئینۂ کمالات اسلامص ۵۶۴ از قادیانی)

۲۔ انبیاء ورسول قیامت تک دنیا میں آتے رہیں گے :

مرزا کا بیٹا محمود احمد کہتا ہے :

’’ہمارا یہ بھی یقین ہے کہ اس امت کی اصلاح اور درستی کے لیے ہر ضرورت کے موقع پر اللہ اپنے انبیاء بھیجتا رہے گا‘‘

وہ مزید کہتا ہے :

’’انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ خدا کے خزانے ختم ہو گئے، ان کا سمجھنا خدا تعالی کی قدر کو ہی نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے ورنہ ایک نبی تو کیا میں کہتا ہوں ہزار نبی ہوں گے ‘‘    (الفضل قادیان، ۱۲مئی، ۱۹۲۵ء)

۳۔ مرزا غلام احمد قادیانی اللہ کا نبی اور رسول ہے :

مرزا قادیانی لکھتا ہے :۔

’’اور میں اس خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نے مجھے بھیجا ہے اور اس نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اسی نے میری تصدیق کے لیے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں ‘‘      (تتمہ حقیقۃ الوحی ص۲۸ از مرزا قادیانی)

مرزا کا بیٹا بشیر احمد کہتا ہے :

’’غرضیکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ مسیح موعود (غلام قادیان) اللہ تعالی کا ایک رسول اور نبی تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسے خود خدا نے اپنی وحی میں ’’یا ایھا  ا لنبی ‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کیا‘‘

(کلمۃ الفضل مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز قادیان ج ۱۴ص ۱۱۴)

۴۔ نہ صرف یہ بلکہ غلام احمد قادیانی سرور کائنات (فداہ ابی وامی )سمیت تمام انبیاء اور رسولوں سے افضل بھی ہے :

مرزا نے کہا ہے :

[[واتانی مالم یؤت احدا من العالمین]]

’’مجھ کو وہ چیز دی گئی ہے کہ دنیا اور آخرت میں کسی ایک شخص کو بھی نہیں دی گئی‘‘              (ضمیمہ حقیقۃ الوحی ص ۸۴)

۵۔ اس پر وحی نازل ہوتی ہے :

مرزا قادیانی لکھتا ہے :

’’مجھے اپنی وحی پر ویسا ہی ایمان ہے جیساکہ تورات اور انجیل اور قرآن کریم پر ‘‘   (تبلیغ رسالت ج۶ص۶۴ از مرزا قادیانی)

۶۔ وحی لانے والا فرشتہ وہی جبریل امین ہے جو رسول کریمﷺ پر نازل ہوا کرتا تھا۔

مرزا قادیانی کی تحریر ہے :

’’آمد نزد من جبریل علیہ السلام مرا برگزید وگردش داد انگشت خود مراد اشارہ کرد خدا ترا از دشمنان نگہ داشت ‘‘

’’میرے پاس جبریل آیا اور اس نے مجھے چن لیا اور اپنی انگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آ گیا، پس مبارک ہے وہ جو اس کو پاوے اور دیکھے۔ ۔ ۔ ‘‘(مواہب الرحمن ص ۴۳ازمرزا قادیانی)

۷۔ مرزائیوں کا ایک مستقل دین اور ان کی مستقل شریعت ہے جس کا دوسرے ادیان اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں اور مرزائیت ایک مستقل امت ہے مرزا غلام احمد قادیانی کی امت:

مرزا کہتا ہے :

’’جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا ‘‘  (نزول المسیح ص ۴ طبع اول قادیان)

پہلا مرزائی خلیفہ حکیم نور الدین لکھتا ہے :

’’ایمان بالرسل نہ ہو تو کوئی شخص مومن مسلمان نہیں ہو سکتا اور اس ایمان با لرسل میں کوئی تخصیص نہیں، عام ہے خواہ وہ نبی پہلے آئے یا بعد میں آئے، ہندوستان ہو یا کسی اور ملک میں، کسی مامور من اللہ کا انکار کفر ہو جاتا ہے، ہمارے مخالف حضرت مرزا صاحب کی مأ موریت کے منکر ہیں بتاؤ کہ یہ اختلاف فروعی کیونکر ہوا؟‘‘ (مجموعہ فتاوی احمدیہ ص۲۷۵)

خلیفہ دوم مرزا محمود احمد کہتا ہے :

’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں، کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالی کے ایک نبی کے منکر ہیں، یہ دین کا معاملہ ہے اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کر سکے ‘‘  (انوار خلافت ص ۹۔ مطبوعہ امرتسر)

نیز کہتا ہے :

’’جو شخص غیر احمدی کو رشتہ دیتا ہے وہ یقیناً حضرت مسیح موعود کو نہیں سمجھتا ہے اور نہ یہ جانتا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے ؟‘‘      (ملائکۃ اللہ از مرزا بشیر الدین محمود ص ۴۶)

یہی مرزا محمود لکھتا ہے :

’’ اب ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے، اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے، لیکن اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو اس کا جنازہ بھی نہ پڑھا جائے ؟ وہ تو مسیح موعود کا منکر نہیں، میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا ؟۔ ۔           (انوار خلافت ص۹۳)

خود مرزا غلام احمد نے لکھا ہے :

’’تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے، کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے ؟‘‘         (تحفۂ گولڑویہ ص ۲۸ حاشیہ )

۸۔ مرزائیوں کا ایک الگ قرآن ہے جو مرتبہ و مقام میں قرآن حکیم ایسا ہی ہے اور اس کے بیس پارے ہیں اور یہ پارے اسی طرح آیات پر منقسم ہیں، جس طرح قرآن مجید کے پارے اور اس قرآن کا نام ’’کتاب مبین‘‘ ہے :

قاضی محمد یوسف قادیانی لکھتا ہے :

’’ خدا تعالی نے حضرت احمد علیہ السلام (غلام قادیان) کے بہیئت مجموعی الہامات کو ’’الکتاب المبین ‘‘ فرمایا ہے جدا جدا الہامات کو آیات سے موسوم کیا ہے، حضرت مرزا صاحب کو یہ الہام متعدد دفعہ ہوا ہے، پس آپ کی وحی بھی جدا جدا آیت کہلا سکتی ہے۔ ۔ ۔ ‘‘  (النبوۃ فی الاسلام از قاضی محمد یوسف قادیانی )

اس قرآن کی بعض آیات یہ ہیں :

[[ ان اللہ یتزل فی القادیان ]]

’’اللہ قادیان میں اترے گا‘‘(انجام آتھم ص ۵۵ مرزا قادیانی)

اور :

[[یحمدک اللہ فی عرشہ ویمشی الیک]]

’’اور خدا عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے ‘‘       (البشری ص۵۶)

اور :

’’بابو الہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یاکسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے مگر اللہ تعالی اپنے انعامات دکھلائے جو متواتر ہوں گے، تجھ میں حیض نہیں، بلکہ وہ بچہ ہو گیا، ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال اللہ کے ہے ‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی ص ۱۴۳ از مرزا قادیانی)

۹۔ قادیان شان و منزلت میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ایسی ہے بلکہ مکہ و مدینہ سے بھی افضل ہے :

مرزا محمود احمد کہتا ہے :

’’میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے بتا دیا ہے کہ قادیان کی زمین بابرکت ہے، یہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ والی برکات نازل ہوتی ہیں ‘‘ (تقریر مرزا محمود احمد، الفضل ۱۱/ستمبر ۱۹۳۲)

اور کہتا ہے :

’’ یہ مقام قادیان وہ مقام ہے جس کو خدا تعالی نے تمام دنیا کے لیے ناف کے طور پر بنایا ہے اور اس کو تمام جہاں کے لیے ام قرار دیا ہے اور ہر ایک فیض دنیا کو اس مقدس مقام سے حاصل ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ (الفضل ۳/جنوری ۱۹۲۵)

اور دیکھئے :

’’قادیان ام القری ہے جو اس سے منقطع ہو جائے گا اسے کاٹ دیا جائے گا، اس سے ڈرو کہ تمہیں کاٹ دیا جائے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اب مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں کا دودھ خشک ہو چکا ہے، جبکہ قادیان کا دودھ بالکل تازہ ہے ‘‘ (حقیقۃ الرؤ یا  ص۴۵)

۱۔ ۔ اور حج قادیان کے سالانہ جلسہ میں شرکت کا نام ہے :

مرزا محمود کہتا ہے

’’آج جلسہ کا پہلا دن ہے اور ہمارا جلسہ بھی حج کی طرح ہے کیونکہ حج کا مقام ایسے لوگوں کے قبضہ میں ہے جو احمدیوں کو قتل کر دینا بھی جائز سمجھتے ہیں، اس لئے خدا تعالی نے قادیان کو اس کام کے لیے مقرر کیا ہے اور اس لئے جیسا حج میں رفث، فسوق اور جدال منع ہے، ایسا ہی اس جلسہ میں بھی منع ہے ‘‘    (برکات خلافت مجموعہ تقاریر محمود)

قادیانیت امت مسلمہ سے خارج اور ایک کافر امت ہے :

قادیانیوں کے ان عقائد وافکار کو جان لینے کے بعد ایک عام مسلمان بھی اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ قادیانیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں وہ ایک مستقل مذہب اور دین ہے، جس کا بانی مرزا غلام احمد قادیانی ہے، اسی بنا پر پوری امت مسلمہ کا متفقہ موقف ہے کہ قادیانیت ایک کافر امت ہے اور امت مسلمہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، مرزا کی زندگی ہی میں جبکہ اس کا دعوئے نبوت سامنے نہیں آیا تھا مولانا محمد حسین بٹالویؒ کی کوشش کے نتیجہ میں بلا اختلاف مسلک دوسو کے قریب علماء نے اس کے مسیحیت کے دعوے کی بنا پر اس کے خلاف کفر کا فتوی دیا تھا، پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد علماء کی کوششوں کے نتیجے میں ۱۹۷۲ء میں سرکاری طور پر قادیانیت کو ایک غیرمسلم اور کافر اقلیت قرار دیا گیا اور عالم اسلام کے تمام مؤقر علماء اور اداروں نے بھی قادیانیت کو کافر گردانا اور اس کے خلاف کفر کے فتوے صادر کئے۔

 

برصغیر کے نامور مصنف و صحافی آغا شورش کاشمیری نے لکھا ہے :

’’جن علمائے اہل حدیث نے مرزا اور ان کے بعد قادیانی امت کو زیر کیا ان میں مولانا محمد بشیر سہسوانی، قاضی محمد سلیمان منصور پوری اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سر فہرست تھے، لیکن جس شخصیت کو علماء اہل حدیث میں ’’فاتح قادیان ‘‘کا لقب ملا وہ مولانا ثنا ء اللہ امرتسری تھے، انہوں نے مرزا اور اس کی جماعت کو لوہے کے چنے چبوا دیئے، اپنی زندگی ان کے تعاقب میں گزار دی، ان کی بدولت قادیانی جماعت کا پھیلاؤ رک گیا، مرزا نے تنگ آ کر انہیں خط لکھا کہ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا ہوں، اگر میں کذاب اور مفتری ہوں جیساکہ آپ لکھتے ہیں تو آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا ورنہ آپ سنت اللہ کے مطابق مکذبین کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے، خدا آپ کو نابود کر دے گا، خداوند تعالی سے دعا ہے کہ وہ مفسد اور کذاب کو صادق کی زندگی میں اٹھا لے ‘‘

(تحریک ختم نبوت از کاشمیری ص ۴۔ ، ۴۱)

٭٭٭

 

 

 

 

 فتنۂ قادیانیت اور جماعت اہل حدیث

 

مقلدین احناف کا ایک پروپیگنڈہ:

منہج اہل حدیث کو بدنام کرنے کی غرض سے اور عام مسلمانوں کو اتباع کتاب وسنت سے روکنے اور انہیں تقلیدی جکڑ بندیوں میں جکڑے رکھنے کے لیے اہل تقلید خصوصاً دیوبندی مقلدین کی طرف سے جو نت نئے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے اور نئے نئے شگوفے تراشے جاتے ہیں ان میں ان کا ایک شگوفہ یہ بھی ہے کہ ترک تقلید (بالفاظ دیگر اتباع سنت)گمراہی اور ضلالت کا سبب ہے، چنانچہ حلقۂ دیوبند کی موجودہ شخصیات میں سے ایک نامور شخصیت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنی کتاب ’’راہ اعتدال ‘‘میں اس بارے میں یوں خامہ فرسائی فرمائی ہے :

’’ممکن ہے غیر مقلد بھائیوں کو یہ بات گراں گزرے کہ تقلید سے آزادی انسان کو نفس پرستی اور بالآخر دین سے آزادی کی طرف لے جاتی ہے ‘‘

آگے لکھتے ہیں :

’’اور اسی لئے ہندوستان میں گزشتہ ایک صدی میں جتنے لوگوں نے اسلام کے خلاف فتنہ سامانی کی ہے وہ عام طور پر پہلے غیر مقلد ہوئے پھر بد دین، اور غیر مقلدیت نے ان کے حق میں بد دینی کے لیے ایک پل کا کام کیا، چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں :

آگے پہلی مثال کے طور پر لکھتے ہیں :

’’مرزا غلام احمد قادیانی جس نے نبوت کا دعوی کیا ہے، پہلے غیر مقلد ہی بنا، وہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھتا تھا، سینہ پر ہاتھ باندھتا تھا، آٹھ رکعت تراویح کا قائل تھا، جرابوں پر مسح کیا کرتا تھا، سلام پھیر نے کے بعد دعا کو بدعت قراردیتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ(راہ اعتدال ص۵۴۔ ۵۷)

مرزا کے حوالہ سے مولانا موصوف کی اس تحقیق کا جائزہ لینے سے قبل مولانا عبد اللہ بھاولپوری رحمہ اللہ کے الفاظ میں اس حوالے سے ایک اصولی بات ملاحظہ فرمائیے :

’’اگر بفرض محال یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مرتد ہونے سے پہلے یہ لوگ اہل حدیث تھے، تو اس سے اہل حدیث پر کیا حرف آتا ہے ؟آپ لوگ مقلد ہیں جو ایسی بے عقلی کی باتیں کرتے ہیں، اگر تقلید نے آپ کی مت نہ ماردی ہو تو ایسی احمقانہ باتیں کبھی نہ کرتے، آپ بتائیں رسول اللہﷺ پر ایمان لانے والوں میں سے جو مرتد ہوئے ان سے آپﷺ پر یا جماعت صحابہ پر کوئی حرف آیا ؟شیطان کے راندۂ درگاہ ہونے سے جماعت ملائکہ پر کوئی اثر پڑا ؟اگر اسلام سے کوئی منحرف ہو جائے تو اسلام پرکو ئی دھبہ آ سکتا ہے ؟ کسی کے راہ حق سے ہٹ جانے سے راہ حق خراب نہیں ہوتی بلکہ صاف ہو جاتی ہے، جب ایک مسلمان اقالہ بیعت کر کے مدینہ چھوڑ کر جانے لگا تو آپﷺ نے فرمایا تھا کہ مدینہ بھٹی ہے یہ منافق اور گندے کو برداشت نہیں کرتا، جس کے اندر گند ہوتا ہے وہ حق کو چھوڑ جاتا ہے، اس سے حق پر طعن نہیں آتا، دیوبندی حضرات احمد رضا خاں بریلوی کو کیا سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک وہ امام الضالین و المضلین نہ تھے ؟ اسی طرح بریلوی رشید احمد گنگوہی، اشرف علی تھانوی اور دیگر دیوبندی اکابرین کو ان سے کم ’’القابات ‘‘ سے نہیں نوازتے، ان کا ظہور حنفیت میں ہی ہوا اور حنفیت میں ہی پروان چڑھے، حنفیت کو ہی انہوں نے چار چاند لگائے، آپ بتائیں ان کی وجہ سے کیا حنفیت پلید ہو گئی ؟اگر ان کے ظہور سے حنفیت کو کچھ نہیں ہوا تو مرزا یا کسی اور کے خروج سے اہل حدیث کو کیا ہو جائے گا؟‘‘(رسائل بھالپوری ص۱۸۳، معمولی تغیر کے ساتھ)

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مرزا عقائد ومسائل میں کس مذہب کا پیرو کار تھا :

دعوائے مسیحیت و نبوت سے قبل مرزا کے عقائد:

۱۔ مرزا مشکل اور مصیبت کے وقت پڑھا کرتا تھا:

’’اے سید الوری مدد دے وقت نصرت است ‘‘ یعنی آپﷺ کی امت پر مصیبت کی گھڑی ہے، آپ مدد فرمائیے یہ مدد کا وقت ہے۔        (سیرت المہدی ج۳ص ۵۵)

اب ظاہر ہے کہ رسول اللہﷺ یا دوسرے غیر اللہ سے مدد کی طلب یہ اہل حدیث کا طریقہ اور مذہب نہیں بلکہ دیوبندیوں اور بریلویوں کا مسلک اور طریقہ ہے، یہ دیکھئے دیوبندیوں کے اعلی حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نبیﷺ سے عرض گزار ہیں :

سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل    اے میرے مشکل کشا فریاد ہے

(کلیات امدادیہ ص۹۱)

اور دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کہتے ہیں :

دستگیری کیجئے میرے نبی          کشمکش میں تم ہی ہو میرے نبی

بجز تمہارے ہے کہاں میری پناہ            فوج کلفت مجھ پر آ غالب ہوئی

ابن عبد اللہ زمانہ ہے خلاف                اے میرے مولا خبر لیجئے میری

میں ہوں بس اور آپ کا در یا رسول          ابر غم گھیرے نہ پھر مجھ کو کبھی

(نشر الطیب ص۱۵۴)

۲۔ سیرۃ المہدی ج ۱ص۷۱ کے مطابق :

’’مرزا نے ایک بزرگ کی قبر پر دعا مانگی تو صاحب قبر اپنی قبر سے نکل کر دو زانوں ہو کر ان کے سامنے بیٹھ گئے، مرزا نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کر لیتا۔ ۔ ‘‘

قبر اور صاحب قبر کے حوالہ سے یہ رویہ اور طرز عمل ظاہر ہے کہ اہل حدیثوں کا نہیں ہے، یہ حنفیوں (دیوبندیوں اور بریلیوں )کا ہے، ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے، حاجی امدادا للہ مہاجر مکی فرماتے ہیں :

’’ایک صاحب کشف شخص حضرت حافظ صاحب کے مزار پر فاتحہ پڑھنے لگے، بعد فاتحہ کہنے لگے، بھائی !یہ کون بزرگ ہیں ؟بڑے دل لگی باز ہیں جب میں فاتحہ پڑھنے لگا تو مجھ سے فرمانے لگے جاؤ کسی مردہ پر فاتحہ پڑھو یہاں زندوں پر پڑھنے آئے ہو؟۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

(ارواح ثلاثہ ص۱۸۱ حکایت نمبر ۲۔ ۵)

۳۔ مرزا کا بیٹا مرزا بشیر احمد لکھتا ہے :

’’بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ یہ ذکر تھا کہ یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں، غیر مقلد اس کے بہت مخالف ہیں اور کہتے کہ اگر کھانا کھلانا ہو تو کسی اور دن کھلا دیا جائے، اس پر حضرت نے فرمایا کہ چالیسویں دن غرباء میں کھانا تقسیم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ یہ مردے کی روح کے رخصت ہونے کا دن ہے، پس جس طرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مردے کی روح کی رخصت پر بھی غرباء میں کھانا دیا جاتا ہے، تا اسے اس کا ثواب پہنچے، گویا روح کا تعلق اس دنیا سے پورے طور پر چالیس دن میں قطع ہوتا ہے ‘‘ (سیرت المہدی ج۱ ص۱۶۷، ۱۶۸)

یہ تحریر کھلے طور پر مرزا کے عقیدہ کو واضح کر رہی ہے، ساتھ ہی غیر مقلدوں (اہل حدیثوں )سے اس کی اور اس کی ذریت کی نفرت کی چغلی بھی کھا رہی ہے، اختصار کے پیش نظر صرف ان تین مثالوں پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے لیکن اس اختصار کو جامعیت میں تبدیل کرنے کی غرض سے ہندوستانی حنفی مقلدوں کے دونوں بڑے گروہوں کی دو بڑی شخصیات کی یہ دو گواہیاں ملاحظہ فرما لیجئے :

۱۔ بریلوی حضرات کے ایک پیر خواجہ غلام فریدی چشتی حنفی فرماتے ہیں :

’’وہ (مرزا قادیانی)اہل سنت و جماعت کے عقائد و ضروریات دین کا ہر گز منکر نہیں ہے ‘‘       (اشارات فریدی حصہ سوم ص ۶۔ )

۲۔ دیوبندیوں کے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے سامنے کسی شخص نے مرزا کے لیے سخت الفاظ استعمال کئے تو انہوں نے اسے برا محسوس کرتے ہوئے کہا:

’’یہ زیادتی ہے، توحید میں ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘     (سچی باتیں ص ۲۱۳)

یہ دونوں عبارتیں مرزا کے عقیدہ و فکر کو متعین کرنے کے لیے کافی اور وافی ہیں۔

مرزا کا فقہی مسلک

اب جہاں تک مرزا کے فقہی مسلک کی بات ہے تو یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مرزا خاندانی طور پر حنفی المسلک مسلمان تھا، پیر مہر علی شاہ کے سوانح نگار مولانا فیض احمد فیض نے لکھا ہے :

’’جہاں تک معلوم ہو سکا ہے ان کے آباء و اجداد حنفی المسلک مسلمان تھے اور خود مرزا صاحب بھی اپنی اوائل زندگی میں انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے ‘‘ (مہر منیر فصل ۴باب۵ ص۱۶۵)

مذکورہ عبارت کے الفاظ ’’اپنی اوائل زندگی میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ مرزا نے بعد میں اپنا مسلک تبدیل کر لیا اور جیساکہ تقلیدی برادری پروپیگنڈہ کرتی ہے مسلکا اہل حدیث ہو گیا، حقیقی بات یہ ہے کہ مرزا زندگی کے کسی مرحلے میں بھی اہل حدیث نہیں ہوا، آئیے ہم اس کو خود مرزا اور اس کی ذریت کے حوالوں سے ثابت کرتے ہیں۔

مرزا لکھتا ہے :

’’ہمارا مذہب وہابیوں کے برخلاف ہے ہمارے نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک قباحت ہے کیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے، آج کل جو لوگ بگڑے ہوئے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑ دی گئی ہے ‘‘(روحانی خزائن ج ۲ص ۳۳۲۔ ۳۳۳)

تقلید کے حوالے سے یہ وہی سخن طرازی ہے جس کا مظاہرہ اہل تقلید کی طرف سے مسلسل ہو رہا ہے اور جس کی ایک مثال آپ کے سامنے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے حوالہ سے اس سلسلے کی ابتدائی سطروں میں آ چکی ہے۔

ایک موقع پر مرزا نے اپنے ایک حنفی معتقد کی تسلی کرتے ہوئے کہا :

’’میں تو ان چار اماموں کو مسلمانوں کے لیے بطور چار دیواری کے سمجھتا ہوں جس کی وجہ سے وہ منتشر اور پراگندہ ہونے سے بچ گئے ہیں، ہر شخص اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ دینی امور میں اجتہاد کرے، اگر یہ ائمہ نہ ہوتے تو ہر اہل و نا اہل آزادانہ طور پر اپنا طریق اختیار کرتا اور امت محمدیہ میں ایک فتنہ کی عظیم صورت قائم ہو جاتی، ان ائمہ نے مسلمانوں کو پراگندہ ہو جانے سے محفوظ رکھا، ہم ان کی قدر کرتے ہیں، ان کی بزرگی اور احسان کے معترف ہیں، یہ امام مسلمانوں کے لیے بطور چار دیواری کے رہے ہیں ‘‘        (سیرۃ المہدی ج۲ص ۲۹)

مرزا کا بیٹا مرزا بشیر احمد لکھتا ہے :

’’اصولاً آپ ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی ظاہر فرماتے تھے آپ نے اپنے لئے کسی زمانے میں بھی اہل حدیث کا نام پسند نہیں فرمایا‘‘                    (سیرۃ المہدی ج۲ ص۴۹)

مرزا کا ایک معروف و مشہور ساتھی اور لاہوری گروپ کا سردار محمد علی لاہوری لکھتا ہے :

’’حضرت مرزا صاحب ابتدا ء سے لے کر آخر زندگی تک علی الاعلان حنفی المذہب رہے ‘‘         (تحریک احمدیت ص ۱۱)

مرزا کے ابتدائی حالات کے ضمن میں یہ بات گزر چکی ہے کہ مرزا حنفیوں کی طرف سے مناظر بن کر بٹالہ گیا تھا جہاں اسے مولانا محمد حسین بٹالوی کے مقابلہ میں منہ کی کھانی پڑی تھی۔ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۹۱)

مرزا نہ صرف خود حنفیت کا پیروکار تھا بلکہ اپنے معتقدین و مریدین کو بھی حنفیت کے رنگ میں رنگ جانے کی تلقین و تاکید کرتا تھا، مرزا کہتا ہے :

’’ہمارے ہاں جو آتا ہے اسے پہلے حنفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے، میرے خیال میں یہ چاروں مذاہب اللہ تعالی کا فضل ہیں اور اسلام کے واسطے ایک چار دیواری‘‘      (ملفوظات مرزا ج ۲ص۳۳)

مرزا کے ماننے والوں میں ایک شخص عبد اللہ سنوری ہوا کرتا تھا، یہ پہلے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کرتا تھا، یہ شخص بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :

’’ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا میاں عبد اللہ !اب تو اس سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے اور اشارہ رفع الیدین کی طرف تھا، میاں عبد اللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع الیدین کرنا ترک کر دیا بلکہ آمین بالجہر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت (مرزا) صاحب کو کبھی رفع الیدین کرتے یا آمین بالجہر کہتے ہوئے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجہر پڑھتے سنا ہے ‘‘        (سیرۃ المہدی ج۱ ص۱۴۲)

مرزا کے بیٹے مرزا بشیر احمد کے مطابق :

’’ مرزا نے مولوی نورالدین صاحب کو یہ لکھا کہ آپ یہ فرما دیں کہ میں حنفی المذہب ہوں، حالانکہ آپ جانتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب عقیدتاً اہل حدیث تھے، حضرت مولوی صاحب نے اس کے جواب میں حضرت (مرزا) صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ ارسال کیا جس میں لکھا:

بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید

کہ سالک بے خبر نبود زادہ رسم منزلہا

اور اس کے نیچے نورالدین حنفی کے الفاظ لکھ دیئے۔ ۔ ۔ ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جو شعر لکھا تھا کہ اگر چہ میں اپنی رائے میں تو اہل حدیث ہوں لیکن چونکہ میرا پیر طریقت (مرزا) کہتا ہے کہ اپنے آپ کو حنفی کہو اسلئے میں اس کی رائے پر اپنی رائے کو قربان کرتے ہوئے اپنے آپ کو حنفی کہتا ہوں ‘‘ (سیرت المہدی ج ۲ص۴۸)

مرزا اور مرزائیوں کی حنفیت پر دلالت کرنے والی ان شہادتوں کے مطالعے کے بعد آئیے اب مرزا کی عملی زندگی اور مرزائی فقہ کے حوالے سے اس سلسلے کی مزید کچھ شہادتوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

۱)مرزا نماز کی نیت باندھتے وقت اپنے ہاتھوں کے انگوٹھے کو کانوں تک پہنچاتا تھا یعنی یہ دونوں آپس میں چھو جاتے تھے۔     (سیرۃ المہدی ج۳ص ۲۳۱)

۲)ایک شخص میاں حبیب اللہ نے مرزا قادیانی کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنا پاؤں اس کے ساتھ ملانا چاہا تو مرزا نے اپنا پاؤں اپنی طرف سرکا لیا جس پر میاں حبیب اللہ بہت شرمندہ ہوا۔       (سیرۃ المہدی ج۲ ص۲۹)

۳)مرزائی فقہ کی کتاب ’’ فقہ احمدیہ ‘‘ میں نماز میں زبان سے نیت کی تلقین کرتے ہوئے لکھا گیا ہے :

’’ ’’نماز کی نیت سے جب کوئی مسلمان قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو تو سب سے پہلے توجیہ یعنی مندرجہ ذیل آیت (انی وجھت وجھی) پڑھے، اس کے پڑھنے سے ثواب زیادہ ملتا ہے ‘‘(فقہ احمدیہ (عبادات )ص۸۲)

۴)مرزا مس ذکر سے وضو ٹوٹنے کا قائل نہیں تھا۔ (سیرت المہدی ج۲ ص۳۴)

۵)مرزا اہل حدیث والا مصافحہ نہیں کرتا تھا۔ (سیرت المہدی ج۳ ص۲۔ ۴)

۶)فقہ احمدیہ میں نماز وتر کے بارے میں لکھا گیا ہے :

’’وتر طاق کو کہتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد کم از کم تین رکعت نماز پڑھی جائے یہ نماز واجب ہے ‘‘

وتر کی کم از کم تین رکعت ہونے اور اس کے واجب ہونے کی بات ظاہر سی بات ہے کہ فقہ حنفی کی بات ہے نہ کہ فقہ اہل حدیث کی۔

۷) ’’فقہ احمدیہ، مشتمل بر احکام شخصیہ ‘‘میں استدراک کے عنوان سے یہ وضاحت کی گئی ہے :

’’فقہ احمدیہ میں عام مدون فقہ حنفی سے بعض امور میں اختلاف کیا گیا ہے، یہ اختلاف فقہ حنفی کے اصولوں سے باہر نہیں، پس جس طرح حضرت امام ابو حنیفہؒ سے آپ کے بعض شاگردوں مثلاً حضرت امام ابویوسفؒ یا حضرت امام محمدؒ کا اختلاف فقہ حنفی کے دائرے سے ان کو باہر نہیں لے جاتا اسی طرح فقہ احمدیہ کا بعض امور میں اختلاف فقہ حنفی کے مخالف قرار نہیں دیا جا سکتا خصوصاً جبکہ یہ اختلاف انہی اصولوں پر مبنی ہے جنہیں فقہاء حنفی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ فقہ احمدیہ کے وہی ماخذ ہیں جو فقہ حنفی کے ہیں ‘‘

 

مرزائی نبوت کو غذا کس نے فراہم کی؟

اہل حدیث مخالف برادری یہ پروپیگنڈہ کرتی ہے کہ مرزا نے انحراف و گمراہی اور دعوئے مسیحیت و نبوت کا راستہ اہل حدیثیت یا عدم تقلید کی راہ سے پایا حالانکہ اس کو دعوئے نبوت کی غذا فراہم کرنے والے کوئی اور تھے ؟ ذرا ذیل کی دو عبارتیں ملاحظہ فرمائیے اور فیصلہ کیجئے کہ یہ کون لوگ ہیں ؟

۱)ملا علی قاری حنفی ’’خاتم النبیین‘‘ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اذالمعنی لایاتی نبی بعدہ ینسخ ملتہ

’’ خاتم النبیین کا ’’ معنی یہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہ آئے گا جو آپﷺ کے دین کو منسوخ کرے ‘‘ (الموضوعات ص۱۰۰ )

۲۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری طیب صاحب لکھتے ہیں :

’’حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوت بخشی بھی نکلتی ہے جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آ گیا نبی ہو گیا ‘‘        (آفتاب نبوت ص۸۲)

اب مرزا کی مندرجہ ذیل عبارت پڑھئے اور بتلائیے کہ اوپر کی عبارت میں اور اس میں کوئی فرق نظر آ رہا ہے ؟مرزا لکھتا ہے :

’’آنحضرت کو صاحب خاتم بنایا گیا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لیے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے ‘‘                  (حقیقۃ  الوحی ص۹۷)

 

مرزا کا نکاح ثانی اور مخالفین اہل حدیث کا پروپیگنڈہ

مخالفین اہل حدیث مرزا احمد اور قادیانیت کے حوالے سے اہل حدیثوں پر طعن و تشنیع کے لیے جن پروپیگنڈوں کاسہارا لیتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مرزا کا نکاحِ ثانی اہل حدیث عالم دین شیخ الکل میاں سید نذیر حسین دہلویؒ نے پڑھایا تھا، مرزا کے نکاح ثانی کو بنیاد پر اہل حدیثوں کے خلاف مخالفین کا یہ پروپیگنڈہ دراصل ان کے خبث باطنی کی واضح دلیل اور دیدہ ودانستہ جھوٹ بولنے اور افتراء پردازی کرنے کا کھلا ثبوت ہے۔

اس افتراء پردازی کی حقیقت یہ ہے کہ مرزا کا یہ نکاح ثانی ۱۸۸۴ء میں ہوا تھا جیسا کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے بھی اپنی کتاب ’’قادیانیت تحلیل و تجزیہ ص ۲۴، ۲۵۔ ‘‘میں سیرۃ المہدی حصہ دوم ص ۱۵۱ کے حوالہ سے لکھا ہے، جو لوگ مرزا کی حالات زندگی سے معمولی واقفیت بھی رکھتے ہیں وہ بخوبی جان سکتے ہیں کہ اس وقت تک مرزا کے خیالات میں کسی قسم کا کوئی اعتقادی انحراف ظاہر نہیں ہوا تھا، ۱۸۸۶ء میں مرزا کا ایک آریائی سے مناظرہ ہوا تھا جسے ’’سرمۂ چشم آریہ ‘‘ کے نام سے مرزا نے شائع کیا، اس کتاب سے متعلق مولانا علی میاں ندوی تحریر فرماتے ہیں :

’’مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اس معجزہ(معجزۂ شق القمر) بلکہ معجزات انبیاء کی پر زور و مدلل وکالت کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واقعہ یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے رفع و نزول مسیح کے بارے میں اور حضرت عیسی علیہ السلام کے صدیوں تک آسمان میں رہنے پر جو عقلی اشکال پیش کئے ہیں اور بعد میں ان کے اندر جو عقلیت کا رجحان پایا جاتا ہے اس کی تردید میں اس کتاب سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی، اس کتاب میں مصنف کی جو شخصیت نظر آتی ہے، وہ بعد کی کتابوں کی شخصیت سے بہت مختلف ہے ‘‘(قادیانیت تحلیل و تجزیہ ص۵۴)

اس کتاب کا ذکر کرنے کے بعد مرزا کے عقائد کے سلسلے میں پیر مہر علی شاہ کے سوانح نگار مولانا فیض احمد فیض نے لکھا ہے :

’’اس وقت تک مرزا صاحب کے عقائد وہی تھے جو ایک صحیح العقیدہ سنی مسلمان کے ہونے چاہئیں، وہ آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے بھی اسی قدر قائل تھے جیسے دیگر مسلمان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (آگے مزید لکھا ہے )

۔ ۔ ان ایام میں مرزا صاحب حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع آسمانی اور نزول کے عقیدہ پر بھی ایمان رکھتے تھے۔ ۔ ۔ ‘‘(مہر منیر ص۱۶۶)

مرزا کے خیالات میں کھلا انحراف اور اس کا دعوئے مسیحیت کب سامنے آیا؟ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں :

’’مرزا غلام احمد صاحب نے جب ۱۸۹۱ ء میں مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا، پھر ۱۹۔ ۱ ء میں نبوت کا دعوی کیا تو علماء اسلام نے ان کی تردید و مخالفت شروع کی ‘‘       (قادیانیت تحلیل و تجزیہ ص۲۵)

اس تفصیل سے ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ۱۸۸۴ ء میں اگر میاں سید نذیر حسین دہلویؒ نے مرزا کا نکاح پڑھایا تھا تو یہ اس مرزا کا نکاح نہیں تھا جو مدعی مسیحیت اور مدعی نبوت تھا بلکہ اس مرزا کا تھا جو ’’صحیح العقیدہ سنی مسلمان ‘‘تھا، اب غور کیا جا سکتا ہے کہ مخالفین اس سلسلے میں کیسی دیدہ دلیری اور بے شرمی سے کام لے رہے ہیں ؟ اور اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ اہل حدیثوں کے تعلق ان کے مخالفین کا یہ عام رویہ اور ہمیشہ کا شیوہ رہا ہے۔ واللہ المستعان۔

یہاں یہ بات واضح کر دینا بھی مناسب ہو گا کہ مرزا کا یہ نکاحِ ثانی دہلی کے نواب ناصر نامی صاحب کی دختر سے ہوا تھا، یہ نواب ناصر اہل حدیث تھے جیسا کہ مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے :

’’نواب ناصر وہابی مذہب کے تھے اور مرزا صاحب اہل سنت والجماعت تھے، ان کے درمیان اپنے اپنے مذاہب پر مباحثہ ہوتا رہتا تھا‘‘      (سیرۃ المہدی ج۳ ص۱۶۸)

اس لئے یہاں یوں کہنا چاہئے کہ میاں سید نذیر حسینؒ نے ایک اہل حدیث کی بیٹی کا نکاح پڑھا یا تھا اور جس شخص سے پڑھایا تھا وہ اس وقت کے ہندوستان اور اس وقت کی تاریخ میں ایک صحیح العقیدہ سنی مسلمان تھا۔

 مرزا کی تکفیر کا پہلا فتویٰ

۱۸۹۱ء میں مرزا کا دعوائے مسیحیت سامنے آیا تو علماء اسلام کی طرف سے اس کے خلاف کفر کا فتوی صادر کیا گیا، سوال یہ ہے کہ مرزا پر کفر کا یہ فتوی سب سے پہلے کن کی طرف سے لگا یا گیا اور اس سلسلے میں سابقین اولین ہونے کا شرف کن کو حاصل ہے ؟ تو اس کا مختصر اور سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ اس بارے میں سبقت کا شرف جماعت اہل حدیث اور اس کے علماء کو حاصل ہے، مرزا نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے :

’’موحدین اول المکفرین ہیں اور مقلدین ان کے اتباع سے ہیں ‘‘     (نشان آسمانی : ۲۹۸)

مولانا محمد حسین بٹالوی اور مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمہا اللہ

مرزا پر کفر کا فتوی صادر کرنے کا شرف پہلے پہل جماعت اہل حدیث کے جس فرزند جلیل کو حاصل ہوا وہ شیخ الاسلام مولانا محمدحسین بٹالوی ہیں، مولانا بٹالوی شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے مایہ ناز شاگرد تھے اور پنجاب کے ضلع گورداس پور کے قصبہ ’’بٹالہ ‘‘ کے رہنے والے تھے، جماعت اہل حدیث اور اخوان اہل حدیث کے تعلق سے مولانا بٹالوی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، انہوں نے تقلید جامد کے خلاف زبردست لڑائی لڑی اور ’’وہابی ‘‘ کے نام سے اہل حدیثوں پر ہو رہے ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے انگریزوں کے یہاں لقب ’’اہل حدیث ‘‘ کو متعارف کرایا، مرزا غلام احمد قادیانی بھی ان کے ضلع سے تعلق رکھتا تھا، اس مکانی اور جغرافیائی قربت ہی کی بنا پر مرزا نے جب ابتدا میں دفاع اسلام کا محاذ کھولا تو محض دینی غیرت و  جذبے کی بنا پر مولانا بٹالوی نے اس کے کام کو سراہا اور اس کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہے، لیکن جب ۱۸۹۱ء میں مرزا نے مسیحیت کا دعوی کیا تو اس کی مخالفت و تغلیط میں بھی سب سے آگے آ گئے اور اپنی پوری زندگی اس کی مخالفت و تردید اور تکذیب و تکفیر میں گزار دی، اپنے پرچہ ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ کے صفحات اس کی تردید کے لیے خاص کر دیئے، مرزا سے براہ راست مباحثہ کیا اور اسے منہ کی کھانی پر مجبور کیا، اسے مباہلہ کا چیلنج دیا اور اپنی زندگی کے آخری ۲۸، ۲۹ سال اس کی بیخ کنی اور سرکوبی میں گزار دی، ۱۹۲۔ ء میں جب مولانا بٹالوی کا انتقال ہوا تھا قادیانی اخبار الحکم کے ایڈیٹر نے لکھا :

’’مولوی محمد حسین بٹالوی کی موت کی خبر نے فی الحقیقت رنج وافسوس سے پڑھی، ہر چند وہ ہمارے سلسلے کا دشمن اول تھا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک نہایت زبردست عالم اور اپنے عہد کا ذی علم مناظر اور اہل قلم تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلسلہ کے ساتھ ان کی مخالفت کی تاریخ ایک دلچسپ باب اور ۲۸ سال کی ایک طویل داستان ہے ‘‘

(الحکم قادیان ماخوذ از اہل حدیث امرتسر ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ ء)

اسلام اور قادیانیت کے درمیان سب سے پہلا مناظرہ لاہور میں ہوا تھا، اس میں مسلمانوں کی طرف سے مناظر مولانا بٹالوی رحمہ اللہ تھے جبکہ قادیانیوں کی طرف سے حکیم نورا لدین، مولانا بٹالوی نے اس مناظرے میں حکیم نورالدین کو دلائل و براہین کی طاقت سے اس طرح لاجواب کر دیا کہ وہ مناظرہ درمیان ہی میں چھوڑ کر لدھیانہ بھاگ کھڑا ہوا، جہاں ان دنوں مرزا غلام احمد قیام پذیر تھا۔

مولانا بٹالوی نے سب سے پہلے مرزا پر کفر کا فتوی لگا یا یہی وجہ ہے کہ مرزا انہیں اپنی کتابوں میں جا بجا ’’اول المکفرین ‘‘ کے لقب سے نوازتا ہے، مرزا نے لکھا ہے :

’’شیخ محمد حسین صاحب (ایڈیٹر)رسالہ اشاعۃ السنۃ جو بانی تکفیر ہے اور جس کی گردن پر نذیر حسین دہلوی کے بعد تمام مکفروں کے گناہ کا بوجھ ہے اور جس کے آثار بظاہر نہایت ردی اور یاس کی حالت کے ہیں ‘‘ (روحانی خزائن ج ۱۲ (سراج منیر)ص ۸۔ )

مرزا ایک اور جگہ لکھتا ہے :

’’محمد حسین بٹالوی نے مجھے سب سے پہلے کافر قرار دیا، سب سے پہلے استفتاء کا کاغذ ہاتھ میں لے کر ہر ایک طرف یہی بٹالوی صاحب دوڑے چنانچہ سب سے پہلے کافر و مرتد ٹھہرانے میں جہاں نذیر حسین دہلوی نے قلم اٹھائی اور بٹالوی صاحب نے جو اس عاجز کو بلا توقف و تامل کافر ٹھہرایا‘‘ (انجام آتھم ص۲۱۲ آئینۂ کمالات اسلام ص۳۱)

مولانا بٹالوی نے (مولانا محمد اسحق بھٹی کے لفظوں میں ) ’’مرزا پر کفر کا فتوی تحریر کیا اور اسے اپنے استاد عالی قدر حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں پیش کر کے اس پر ان کے دستخظ کرائے، بعد ازاں ہندوستان کے دور دراز مقامات میں رہنے والے دو سو ممتاز علماء کرام سے خود مل کر یا اپنے نمائندے بھیج کر اس فتوے کی عبارت انہیں سنائی، اس پر انہوں نے اپنے تصدیقی دستخط کیے اور مہریں ثبت فرمائیں ‘‘ (اہل حدیث کی اولیات ص ۱۰۱)

مرزا کے خلاف یہ اولین فتوئے تکفیر ہے جو مولانا محمد حسین بٹالوی کی طرف سے تیار کیا گیا اور مولانا سید نذیر حسین دہلوی کے دستخظ و تصدیق کے بعد ملک کے تقریباً دو سو علماء کرام نے اس کی تائید پر دستخظ کئے، مؤرخ تحریک ختم نبوت ڈاکٹر بہاء الدین حفظہ اللہ لکھتے ہیں :

’’اس فتوے سے پہلے دیوبندی بزرگوں کا یہ حال تھا کہ بقول مولانا خلیل احمد سہارنپوری ان کے مشائخ شروع میں مرزا صاحب کے ساتھ ’’ حسن ظن رکھتے اور اس کے بعض ناشائستہ اقوال کو تاویل کر کے محمل حسن پر حمل کرتے رہے ‘‘تھے، (عقائد علماء دیوبند اور حسام الحرمین ص۲۶۸)اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے تھے کہ ’’ حضرت گنگوہی شروع میں نرم تھے، مرزا کی طرف سے تاویلیں کرتے تھے ‘‘اللہ بھلا کرے محمد حسین بٹالوی کا کہ اس نے ان بزرگوں کو سید محمد نذیر حسین کا فتوی دکھا کر مرزا کے کذاب اور دجال ہونے کا قائل کیا اور پھر ان بزرگوں کی فراست کا بھی کیا کہنا کہ جب انہوں نے سند الوقت کا فتوی دیکھ لیا تو اس پر بلا چون و چرا ’’یہ جواب صحیح ہے ‘‘ لکھ دیا‘‘        (تحریک ختم نبوت ج ۱ص۱۴۔ )

مرزا کے خلاف پہلے فتوئے کفر کی یہ واقعی روداد ہے جو مختصراً آپ کے سامنے آئی، لیکن یہ ایک عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ سوائے حنفیت کی تائید و حمایت کے ہر محاذ پر زیادہ سے زیادہ مقتدیوں کا کردار ادا کرنے والے دیوبندی حضرات جہاں ہر معاملہ میں خود کو امامت و پیشوائی اور سبقت و پیش قدمی کے منصب پر فائز کرنے کی بے جا جسارت کرتے رہتے ہیں اور اس سلسلے میں تاریخ سازی کرنے سے بھی جھجھکتے اور شرماتے نہیں وہیں انہوں نے اس سلسلے میں بھی نہ صرف یہ کہ ایک طرف مرزا کے خلاف اولین فتوی کفر صادر کرنے والے علماء اہل حدیث کی کردار کشی کرنے کی اپنی والی پوری کوشش کی ہے بلکہ مرزا کے خلاف پہلے فتوئے کفر کا سہرا بھی اپنے سر ڈالنے کی مذموم سعی کی ہے، آپ اس سلسلے کی پوری تفصیل اور کہانی ڈاکٹر بہاء الدین حفظہ اللہ کی وقیع اور شاندار تالیف ’’تحریک ختم نبوت ‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں، میں مختصرا اس کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

بعض دیوبندیوں کے مطابق مرزا پر سب سے پہلے فتوی کفر ۱۸۸۴ء میں لدھیانہ کے علماء نے لگایا تھا، اور تکفیر کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خود کو مسیح موعود کہتا ہے، اس سے پہلے یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ مرزا کے عقائد میں اس قسم کا انحراف ۱۸۹۱ء میں اور اس کے بعد سامنے آیا، پھر بھلا وجہ تکفیر کے سامنے آئے بغیر ہی بہت پہلے ہی مرزا کی تکفیر کی بات کیونکر قابل فہم ہو سکتی ہے ؟

اس خیالی فتوئے تکفیر کی تردید کی ایک بڑی اور واضح دلیل یہ بھی ہے کہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے اپنے سفر حج میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بیعت کی، پیر صاحب کے حج کا یہ سفر ۱۸۹۔ ء میں پیش آیا تھا، پیر صاحب کا بیان ہے کہ :

’’عرب شریف قیام کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ مجھے اسی جگہ رہائش اختیار کر لینے کا خیال پیدا ہو گیا مگر حاجی صاحب نے ارشاد فرمایا کہ پنجاب میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہو گا جس کا سد باب صرف آپ کی ذات سے متعلق ہے، اگر اس وقت آپ محض اپنے گھر میں خاموش ہی بیٹھے رہے تو بھی علمائے عصر کے عقائد محفوظ رہیں گے اور وہ فتنہ زور نہ پکڑسکے گا ‘‘

پیر صاحب کے سوانح نگار لکھتے ہیں :

’’جیساکہ آپ کی تصنیفات و ملفوظات سے ظاہر ہوتا ہے آپ پر بعد میں انکشاف ہوا کہ اس فتنہ سے مراد قادیانیت تھی ‘‘(مہر منیرص ۱۲۹)

اب ڈاکٹر بہاء الدین حفظہ اللہ کے لفظوں میں ’’ ۱۸۹۰ ء میں ہونے والے اس کشف کو فتنۂ قادیانیت پر چسپاں کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ ۱۸۸۰ ء کے عشرے میں یہ فتنہ ابھی ظاہر نہیں ہوا تھا ‘‘(تحریک ختم نبوت ج ۱ص۱۳۲)

سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ مرزا پر سب سے پہلے کفر کا فتوی علماء اہل حدیث نے لگایا تھا، اور اس کی شکل کیا تھی اس کی تفصیل گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔

مرزا سے ہونے والا اولین مباہلہ(مولانا عبد الحق غزنوی)

علماء اہل حدیث کو نہ صرف اس باب میں سبقت و اولیت حاصل ہے کہ انہوں نے مرزا پر کفر کا اولین فتوی دیا بلکہ انہیں یہ شرف بھی حاصل ہے کہ انہی کے ایک جلیل القدر فرد اور مرد مجاہد مولانا عبد الحق غزنوی نے سب سے پہلے مرزا سے مباہلہ کیا، مولانا عبد الحق غزنوی امرتسر کے غزنوی علماء میں سے تھے، ان کے علاوہ دیگر غزنوی علماء نے بھی مرزا کی بھرپور تردید اور تکذیب کی تھی، ان میں امام اہل حدیث مولانا عبد الجبار غزنوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، مرزا ان لوگوں کا ذکر نہایت برے لفظوں میں کرتے ہوئے لکھتا ہے :

’’عبد الحق و عبد الجبار غزنویان وغیرہ مخالف مولویوں نے بھی وہ نجاست کھائی، اے بد ذات یہودی صفت (عبد الحق ) اے خبیث تو کب تک جئے گا، رئیس الدجالین عبد الحق غزنوی اور اس کا تمام گروہ علیہم نعال من اللہ الف الف مرۃ (ان پر دس لاکھ مرتبہ خدا کی لعنتوں کے جوتے پڑیں )۔ ۔ ۔ )        (روحانی خزائن جلد ۱۱(انجام آتھم )ص۳۲۹)

مرزا کے ساتھ مباہلہ کی بات تو دوسرے علماء کی بھی ہوئی لیکن مرزا سے باقاعدہ مباہلہ کا شرف اگر کسی کو حاصل ہوا تو وہ مولانا عبد الحق غزنوی تھے، اس مباہلہ اور اس سے پہلے فریقین کے درمیان ہونے والی تحریری نوک جھونک جس کے نتیجے میں مرزا اس مباہلہ پر مجبور ہو گیا تھا وغیرہ کی تفصیلات ’’تحریک ختم نبوت ‘‘ کی پہلی جلد میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں، یہاں صرف اس تحریر کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیے جو مولانا عبد الحق غزنوی کی طرف سے مباہلہ کے طریقے سے متعلق لکھی گئی تھی:

’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مقام عید گاہ میں مباہلہ اس طریق پر بدیں الفاظ ہو گا :

میں یعنی عبد الحق تین بار بآواز بلند کہوں گا کہ۔ ۔ ۔ یا اللہ میں مرزا کو ضال، مضل، ملحد، دجال، کذاب، مفتری، محرف کلام اللہ و احادیث رسول اللہ سمجھتا ہوں، اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر وہ لعنت کر جو کسی کا فر پر تو نے آج تک نہ کی ہو، مرزا تین دفعہ بآواز بلند کہے ‘یا اللہ اگر میں ضال، مضل، ملحد، دجال، کذاب، مفتری، محرف کلام اللہ و احادیث رسول اللہ ہوں تو مجھ پر وہ لعنت کر جو کسی کا فر پر تو نے آج تک نہ کی ہو۔

بعدہ رو بقبلہ ہو کر دیر تک ابتہال و عاجزی کریں گے کہ یا اللہ جھوٹے کو رسوا کر اور سب حاضرین مجلس آمین کہیں ‘‘

اس تحریر کے بعد اگلے دن مرزا کی طرف سے ایک اشتہار شائع کیا گیا جس میں اس کے بعد والے دن مسلمانوں کو میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کی دعوت دی گئی تھی، چنانچہ مسلمان اس دن میدان میں آئے فریقین کے مابین مباہلہ ہوا، اس مباہلہ کا ذکر کرتے ہوئے مرزا کا بیٹا مرزا بشیر احمد لکھتا ہے :

’’۱۔ ذی قعدہ ۱۳۱۔ ھ مطابق ۲۷ مئی ۱۸۹۳ء کو مولوی عبد الحق غزنوی کے ساتھ امرتسر کی عیدگاہ کے میدان میں (مرزا غلام احمد نے ) مباہلہ فرمایا‘‘      (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص ۹۲)

مولانا محمد اسحاق بھٹی کے الفاظ میں :

’’اس مباہلے کے نتیجے میں مرزا غلام احمد ۲۶ مئی ۱۹۔ ۸ء کو لاہور میں ہیضے کی بیماری سے مباہلہ کرنے والے مد مقابل (مولانا عبد الحق غزنوی )کی زندگی ہی میں بیت الخلاء میں مرگیا۔ ۔ ۔ اس کے برعکس مولانا عبد الحق غزنوی رحمہ اللہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد پورے نوبرس زندہ رہے، ان کا انتقال ۱۶ مئی ۱۹۱۷ ء کو ہوا۔ ۔ ‘‘ (برصغیر میں اہل حدیث کی اولیات ص ۱۱۲)

فاتح قادیان مولانا ثنا ء اللہ امرتسری

رد قادیانیت کے حوالے سے ان اعزازات کے ساتھ یہ شرف بھی اہل حدیثوں کے حصے میں آیا کہ ان کے ایک عظیم اور مایہ ناز سپوت نے سب سے پہلے مرزا کو خود اس کے مرکز ’’قادیان‘‘ میں جا کر للکارا، اہل حدیثوں کے یہ مایہ ناز سپوت شیر پنجاب اور فاتح قادیان شیخ الاسلام مولانا ثنا ء اللہ امرتسری تھے، اکتوبر۱۹۔ ۲ء کی بات ہے کہ مولانا امرتسری کا ایک قادیانی مناظر مولوی سرور شاہ سے امرتسر کے موضع ’’مد‘‘ میں مناظرہ ہوا اور یہ مولانا کا کسی قادیانی سے پہلا مناظرہ تھا، اس میں آپ نے قادیانیوں کو شکست فاش دی، مرزا کو جب اس شکست کی خبر ملی تو وہ بڑا رنجور ہوا اور فرط غم میں اس نے ایک قصیدہ لکھ ڈالا جس میں اس نے دل کھول کر مولانا امرتسری کو نشانہ شب و ستم بنایا، اس کے بعد اس نے اسے ایک معجزہ قرار دے کراسے ’’قصیدۂ اعجازیہ ‘‘ کے نام سے موسوم کیا اور اس میں مزید کچھ دعوے اور تحدیات لکھ کر اسے اعجاز احمدی کے نام سے شائع کیا، اس کتاب میں مرزا نے شاید جوش غضب میں یہ لکھ دیا کہ:

’’اگر یہ( مولوی ثناء اللہ )سچے ہیں تو قادیان میں آ کر کسی پیشین گوئی کو جھوٹی تو ثابت کریں اور ہر ایک پیشگوئی کے لیے ایک سو روپیہ انعام دیا جائے گا اور آمد و رفت کا کرایہ علیحدہ‘‘

اب کیا تھا ؟مولانا امرتسری ۱۔ /جنوری ۱۹۔ ۳ء کو قادیان پہنچ گئے اور مرزا کو اپنی آمد کی اطلاع بھجوا دی، مرزا کو مولانا کی اس غیر متوقع آمد کی قطعاً امید نہ تھی، اس نے حیرانی و پریشانی کے عالم میں جواب میں لکھا :

’’ آپ چپ چاپ چوروں کی طرح کیوں آ گئے، میری مصروفیات بہت زیادہ ہیں، میں آپ کے لیے وقت نہیں دے سکتا، ہاں اگر تم ایک دو سطر میں اپنا اعتراض لکھ دیا کرو اور مجمع عام میں تقریر کرنے سے باز رہو تو میں اس اعتراض پر تین گھنٹے تک تقریر کروں گا جسے آپ صم بکم بن کر سنیں گے، دوران تقریر یا تقریر کے بعد کچھ بولنے یا کہنے کا قطعاً حق نہ ہو گا، اسی طرح روزانہ صرف ایک ایک اعتراض کا جواب دیا جائے گا اگر یہ منظور ہو تو بہتر ورنہ تشریف لے جاؤ ‘‘

مولانا امرتسریؒ نے جواب میں لکھا :

’’گو آپ کی شرط غیر منصفانہ اور اصول مناظرہ کے قطعاً خلاف ہے مگر محض اس لئے کہ کسی طرح آپ سے گفتگو ہو جائے ایک شرط سے منظور کئے لیتا ہوں، آپ بے شک تین گھنٹے بولیں مگر مجھے ہر گھنٹہ کے بعد صرف پانچ منٹ بولنے کی اجازت دے دیں، میں اس سے زیادہ کوئی درخواست نہیں کرتا ‘‘

مگر مرزا نے لکھا :

’’میں تمہاری یہ شرط منظور نہیں کر سکتا نہ میرے پاس اتنا وقت ہے، نیز خدا نے مجھے مناظرہ سے روک دیا ہے لہذا اب میں تمہیں کوئی جواب نہیں دوں گا ‘‘

یوں یہ مناظرہ تو نہیں ہو سکا لیکن یہاں مولانا کی فتح اور مرزا کی پسپائی کا منظر بالکل واضح اور عیاں تھا اس لئے مسلمانوں نے قادیان سے لوٹنے پر آپ کو ’’فاتح قادیان ‘‘کا لقب دیا، مولانا محمد اسحاق بھٹی کے لفظوں میں :

’’فاتح قادیان کے الفاظ ایک بڑے سے خوبصورت تختے پر خوبصورت انداز میں لکھوا کر ان کی خدمت میں پیش کئے گئے تھے، ان الفاظ کا اسلوب تحریر ایسا تھا کہ دائیں اور بائیں دونوں طرف سے پڑھے جاتے تھے ‘‘  (بزم ارجمنداں ص ۱۶۳)

مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے نہ صرف یہ کہ مرزا کو قادیان میں جا کر للکارا بلکہ اپنی پوری زندگی مرزا کی تردید و تکذیب میں گزار دی اور مرزائیوں سے مسلسل تقریر و تحریر کے ذریعہ برسر پیکار رہے، آپ نے قادیانیوں سے سینکڑوں مناظرے کئے اور انہیں قرار واقعی شکست سے دوچار کیا، قادیانیت کی تردید میں لکھی گئی آپ کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد اتنی ہے کہ مولانا کہ لفظوں میں ’’مجھے خود ان کا شمار یاد نہیں ‘‘ان کتابوں میں سے ۵۶ کتابوں کا مختصر تعارف راقم کے حواشی و اضافہ کے ساتھ شائع شدہ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی کتاب ’’علامہ ثنا ء اللہ امرتسری کون اور کیا تھے ؟‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے، مولانا نے قادیانیت کی تردید کے لیے اپنے ’’ہفت روزہ اہل حدیث ‘‘کو تو وقف کر ہی رکھا تھا مزید ’’مرقع قادیانی ‘‘ کے نام سے خالص قادیانیت کی تردید کے لیے ایک ماہنامہ بھی جاری کیا تھا، حقیقی بات یہ ہے کہ مولانا نے قادیانیت کی تردید جس طرح چو طرفہ انداز میں کی اسے اگر ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور دیگر لوگوں کی خدمات ومساعی کو دوسرے پلڑے میں تو یقینی طور پر مولانا کی خدمات کا پلڑا بھاری ثابت ہو گا، وہ مولانا ہی تھے جن کی مسلسل ضربوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مرزا بالآخر یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ

"میں ان مولوی ثناء اللہ کے ہاتھ بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا مگر اب دیکھتا ہوں کہ اس کی بدزبانی حد سے گزر گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے میرے آقا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ میں اور ثنا ء اللہ میں سچا فیصلہ فرما‘‘

برصغیر کے نامور مصنف و صحافی آغا شورش کاشمیری نے مولانا کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’جن علمائے اہل حدیث نے مرزا اور ان کے بعد قادیانی امت کو زیر کیا ان میں مولانا محمد بشیر سہسوانی، قاضی محمد سلیمان منصور پوری اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سر فہرست تھے، لیکن جس شخصیت کو علماء اہل حدیث میں ’’فاتح قادیان ‘‘کا لقب ملا وہ مولانا ثنا ء اللہ امرتسری تھے، انہوں نے مرزا اور اس کی جماعت کو لوہے کے چنے چبوا دیئے، اپنی زندگی ان کے تعاقب میں گزار دی، ان کی بدولت قادیانی جماعت کا پھیلاؤ رک گیا، مرزا نے تنگ آ کر انہیں خط لکھا کہ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا ہوں، اگر میں کذاب اور مفتری ہوں جیساکہ آپ لکھتے ہیں تو آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا ورنہ آپ سنت اللہ کے مطابق مکذبین کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے، خدا آپ کو نابود کر دے گا، خداوند تعالی سے دعا ہے کہ وہ مفسد اور کذاب کو صادق کی زندگی میں اٹھا لے ‘‘ (تحریک ختم نبوت از کاشمیری ص ۴۔ ، ۴۱)

اسی طرح مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے لکھا ہے :

’’(مرزا نے ) ۱۹۰۱ ء میں نبوت کا دعوی کیا تو علماء اسلام نے ان کی تردید و مخالفت شروع کی تردید و مخالفت کرنے والوں میں مشہور عالم مولانا ثنا ء اللہ امرتسری مدیر ’’اہل حدیث ‘‘ پیش پیش اور نمایاں تھے، مرزا صاحب نے ۱۵ /اپریل ۱۹۰۷ء میں ایک اشتہار شائع کیا جس میں مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا:

’’اگر میں ایسا ہی کذاب و مفتری ہوں جیساکہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا۔ ۔  اور اگر میں کذاب و مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے، پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھوں سے ہے یعنی طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہوئیں، تو میں خدا کی طرف سے نہیں ‘‘(تبلیغ رسالت جلد دہم ص۱۲۰ )اس اشتہار کے ایک سال بعد ۲۵ مئی ۱۹۰۸ ء کو مرزا صاحب بمقام لاہور بعد عشاء اسہال میں مبتلا ہوئے، اسہال کے ساتھ استفراغ بھی تھا، رات ہی کو علاج کی تدبیر کی گئی لیکن ضعف بڑھتا گیا اور حالت دگرگوں ہو گئی، بالآخر ۲۶ /مئی سہ شنبہ کو دن چڑھے آپ نے انتقال کیا ‘‘ (قادیانیت تحلیل و تجزیہ ص ۲۵، ۲۶)

واضح رہے کہ مرزا کے خسر میر ناصر نواب کے بقول مرزا نے مرنے سے پہلے کہا :

’’ مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے ‘‘     (حیات ناصر بحوالۂ سابق)

مولانا امرتسری کا انتقال مرزا کی وفات کے ٹھیک چالیس سال کے بعد ۱۵/مارچ ۱۹۴۸ء میں اسی برس کی عمر میں ہوا۔

مولانا محمد بشیر سہسوانی اور دہلی میں ان کا مرزا سے مناظرہ

مولانا محمد بشیر سہسوانی مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے ایک انتہائی نامور اور باصلاحیت شاگرد تھے، ۱۸۹۴ء کی بات ہے کہ مرزا قادیانی دہلی پہنچا اور وہاں کے علماء بطور خاص مولانا سید نذیر حسین دہلوی کو مناظرہ کا چیلنج دیا، مولانا سہسوانی اس وقت بھوپال میں تھے، انہیں جب اس چیلنج کی اطلاع ملی تو دہلی پہونچے اور مرزا کو مناظرہ کے لیے للکارا، خواہی نہ خواہی مرزا نے ان سے مناظرہ کیا، مناظرہ کا موضوع ’’حیات و ممات مسیح ‘‘ تھا، مناظرہ تحریری طور پر شروع ہوا، مولانا نے جب اپنے دلائل سے مرزا کی تاویلات کا جنازہ نکالنا شروع کیا تو مرزا یہ کہتے ہوئے مجمع مناظرہ سے راہ فرار اختیار کر گیا کہ اس کے خسر تشریف لا رہے ہیں، اسے ان کے استقبال کے لیے دہلی ریلوے اسٹیشن جانا ہے، مولانا سہسوانی نے مرزا کے منہ سے ’’خسر ‘‘ کا لفظ سنا تو بے ساختہ اس آیت کی تلاوت فرمائی :

{خسر الدنیا والاخرہ ذلک ھو الخسران المبین }

’’دنیا اور آخرت دونوں کی بربادی ہوئی یہی کھلا خسارہ اور بربادی ہے ‘‘         (الحج:۱۱)

مولانا سہسوانی نے اس مناظرہ اور مرزا کے راہ فرار اختیار کرنے کی تفصیلات کو بعد ازاں ’’الحق الصریح فی اثبات حیات المسیح ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کروایا۔

مولانا محمد اسماعیل علی گڑھی رحمہ اللہ

علماء اہل حدیث کو جس طرح مرزا کی تکفیر اور اس کے خلاف مناظرہ و مباہلہ کے باب میں اولیت حاصل ہے وہیں انہیں مرزا کی تردید میں باقاعدہ پہلی کتاب لکھنے کا شرف بھی حاصل ہے، یہ شرف انہیں مولانا محمد اسماعیل علی گڑھی کے واسطے سے حاصل ہوا، جنہوں نے سب سے پہلے ۱۸۹۲ء میں ’’اعلاء الحق الصریح بتکذیب مثیل المسیح ‘‘کے نام سے ۴۴ صفحات پر مشتمل کتاب تالیف کی، اس کتاب میں جہاں مرزا کے دعوی مسیحیت کا رد کیا گیا ہے وہیں مرزا کی طرف سے قرآنی آیات میں کی گئی تحریفات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ (تحریک ختم نبوت ج ۱ ص۳۴۲، مولانا سے متعلق مزید معلومات کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے )

مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ

جس طرح ایک اہل حدیث عالم کو مرزا کے دعوی مسیحیت کی تردید میں پہلی کتاب تحریر کرنے کا اعزاز حاصل ہے، اسی طرح ایک دوسرے اہل حدیث عالم کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے مرزا کی کتابوں کی تردید میں اولین مفصل کتاب تحریر کی، یہ اہل حدیث عالم سیرت کی شہر ۂ آفاق کتاب ’’رحمۃ اللعالمین‘‘ کے عظیم المرتبت مصنف قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمہ اللہ تھے، قاضی صاحب نے مرزا کی تین کتابوں (فتح اسلام، توضیح المرام اور ازالۂ اوہام ) کی تردید میں پہلے ’’غایت المرام ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، یہ کتاب ۱۸۹۳ء میں چھپی، اس وقت ان کی عمر پچیس سال سے کم تھی، اس طرح وہ مرزا کے خلاف لکھنے والے سب سے کم عمر مصنف ہیں، قاضی صاحب نے مرزا کی تردید میں ایک دوسری کتاب ’’تائید اسلام ‘‘ کے نام سے لکھی، جو پہلی کتاب کے تقریباً پانچ سال بعد ۱۸۹۸ء میں چھپی۔

 مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ

مرزا کے دعوئے مسیحیت کے بالکل ابتدائی دور میں جن علماء اہل حدیث نے تردیدی کتابیں لکھیں ان میں ایک نمایاں نام مولانا امرتسری کے یار غار اور مرزائیوں کے خلاف شمشیر بے نیام مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا بھی ہے، مولانا محمد اسحاق بھٹی نے قادیانیت کے خلاف ان کی سترہ کتابوں کا ذکر کیا ہے، ان کتابوں میں ’’شہادت القرآن حصہ اول و دوم ‘‘اپنے موضوع کی معرکۃ الآراء، انتہائی جامع اور بے مثال کتاب ہے، اس موضوع پر شاید اس سے جامع کوئی دوسری کتاب نہیں۔

دیگر علماء اہل حدیث

یہ کچھ انتہائی مشہور علماء اہل حدیث ہیں جن کا ذکر کیا گیا، ان کے علاوہ دیگر بہت سے معروف اور غیر معروف علماء اہل حدیث ہیں، جنہوں نے تقریر و تحریر اور مناظرہ و مباحثہ وغیرہ مختلف وسائل و ذرائع سے قادیانیت کی تردید کی اور قادیانیت کے فتنہ کو آگے بڑھنے سے روکا، ان علماء اور ان کی خدمات کے تعارف کا عظیم الشان فریضہ انتہائی جامع انداز میں مؤرخ اہل حدیث ڈاکٹر محمد بہاء الدین حفظہ اللہ کے ذریعہ انجام پا رہا ہے، اس کتاب کی اب تک بیس جلدیں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام شائع ہو چکی ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق اس کی کل جلدوں کی تعداد بتیس کے قریب ہو گی، با ذوق حضرات ان جلدوں سے خوب استفادہ کر سکتے ہیں، اس موضوع پر ایک مختصر کتاب پاکستانی عالم مولانا یوسف رمضان سلفی حفظہ اللہ کی راقم کی نگاہ سے گزری ہے جس کا نام ہے ’’عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ میں علماء اہل حدیث کی مثالی خدمات ‘‘قریب قریب نوے صفحات پر مشتمل یہ کتاب تقریباً تمام قدیم و جدید اہل حدیث مجاہدین ختم نبوت کے تعارف پر مشتمل ہے، اہل ذوق حضرات اس کتاب سے بھی مستفید ہو سکتے ہیں، راقم کے ان سطور کا مقصد ہر گز بھی تفصیلی طور پر قادیانیت کی تردید میں جماعت اہل حدیث کی خدمات کا تعارف نہیں ہے، اس کے پیش نظر اس حوالہ سے پھیلائی جانے والی بعض غلط فہمیوں کا ازالہ ہے۔

مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ اور پاکستان میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی پہلی آواز

علماء اہل حدیث کی ابتدائی کوششوں کے نتیجہ میں قادیانی پوری امت کی نگاہ میں کافر قرار پائے، ہندوستان کی آزادی کے بعد جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو یہ سوال سامنے آیا کہ اس مسلم ملک میں قادیانیوں کی پہچان بحیثیت جماعت کس طور پر ہو ؟ علماء اہل حدیث کو قادیانیت کے حوالے سے جہاں دیگر بہت سی باتوں میں سبقت و تقدم حاصل ہے وہیں اس بارے میں بھی انہیں اولیت نصیب ہوئی، اس طرح کہ اہل حدیث عالم مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ نے قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے اپنی تحریروں کے ذریعے سے یہ آواز اٹھائی کہ قادیانیوں کو اس ملک میں ایک کافر اقلیت قرار دیا جائے، مولانا محمد اسحاق بھٹی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’علماء کرام مرزائیوں کو کافر قرار تو دیتے تھے، لیکن ان کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ پہلی دفعہ مولانا محمد حنیف ندوی نے ’’الاعتصام ‘‘ (ہفت روزہ ) کے صفحات میں کیا، مولانا تحریر فرماتے ہیں :

’’ہماری رائے میں خود قادیا نیوں کو اس بات پر اصرار نہیں کرنا چاہئے کہ وہ مسلمانوں کی ایک شاخ ہیں، ان کے لیے یہی مناسب ہے کہ یہ ایک اقلیتی قوم کی حیثیت سے پاکستان میں رہیں، اقلیت کی یہ رعایت بھی ان کے لیے بس ایک ناگزیر رعایت ہے جو حالات کی مجبوریوں سے دی گئی ہے، ورنہ خالص اسلامی طرز عمل تو وہی ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مرتدین کے مقابلے میں اختیار کیا، یہاں ریاست چوں کہ مشترکہ جد و جہد کے اصول پر منصہ شہود پر آئی ہے، اس لئے قانون مجبور ہے کہ انہیں شہریت کے تمام حقوق بخشے اور ان کی حفاظت کرے ‘‘        (مرزائیت نئے زاویوں سے ص۱۲۷)

۔ ۔ ۔ مولانا ندوی کے اس موضوع سے متعلق مضامین ’’الاعتصام ‘‘ کے اجرا کے ابتدائی دور یعنی ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۱ء تک کے بہت سے شماروں میں چھپے، بعد ازاں ۱۹۵۲ء میں ’’مرزائیت نئے زاویوں سے ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں معرض اشاعت میں آئے ‘‘  (بر صغیر میں اہل حدیث کی اولیات ص۱۱۱۔ ۱۱۲)

مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی یہی آواز تھی جس کی بازگشت ۱۹۵۳ء میں پاکستان میں موجود تمام ملی جماعتوں کے اتحاد سے ’’تحریک تحفظ ختم نبوت ‘‘ کی شکل میں سامنے آئی اور جس کا ناظم اعلی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو بنایا گیا اور اسی صدا کی بازگشت کے طور پر دوسری مرتبہ ۱۹۷۴ ء میں وجود میں آنے والی ’’تحریک تحفظ ختم نبوت ‘‘ کے نتیجے میں پاکستان میں قادیانی ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیئے گئے۔

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید