FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

عظیم بیگ چغتائی

حصہ چہارم

 

 

جمع و ترتیب: محمد امین، اعجاز عبید
پیشکش: اردو محفل
http://urduweb.org/mehfil

کیا کبھی تم پر بھی کوئی عاشق ہوا ہے ؟

ایک تو وہ لوگ ہیں جن کو خوبصورت ترین یعنی خدا نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے جیسے رسالوں کا ایڈیٹر۔ یا شیطان کے کان بہرے ، خود ہماری گھر والی اور دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو شاید خدائے تعالی نے فرشتوں سے ٹھیکے پر بنوایا ہے اور ان ٹھیکیداروں نے ہم کو اس تیزی سے بنا بنا کر پھینکا ہے کہ کہیں کسی افسانہ کے پتلے پر کسی سیٹھ صاحب کا پتلا گرا تو کسی وکیل پر گاما کا پتلا گرا تو افسانہ نگار صاحب کی ناک کہیں پہنچی، ہونٹ کہیں پہنچے اور جب روح پھونکی گئی تو اچھے خاصے "حلوقہ” بن گئے پھر اس پر طرہ یہ کہ بہ ایں شکل و صورت خدائے تعالیٰ نے ان کے مختصر سینے کو محبت کے نور سے کوہ سینا بنا دیا۔ اب جو جوانی پر پہنچے ہیں تو دل کا تو یہ حال کہ پر ایک کو دینے کو تیار ہیں، مصیبت یہ کہ حلیہ شریف کو دیکھتے ہوئے کوئی کانی کھتری بھی محبت کی روداد نہیں۔ نتیجہ یہ کہ کوئی لڑکی ان پر عاشق ہوتی تو ہم پر، مجبور ہو کر دغا فریب سے گھر والی کو ڈھونڈتے ہیں اور پھر دن رات اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ کہیں گھر والی کے دل سے بھی نہ اتر جائیں۔

(۱)

ایک روز کا ذکر ہے کہ میں ایک مقدمے کی بحث تیار کر رہا تھا کہ اتنے میں گھر والی دوڑی ہوئی آئی۔ بدحواسی کا عالم اور مجھ سے گھبرا کر کہا کہ جمیا فجو خاں سپاہی کے ساتھ بھاگ گئی۔ اب میں کیا عرض کروں کہ اس خبر کو سنتے ہی مجھ پر کیا گزری، کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا مجو خاں کو خوش قسمت خیال کروں یا محترمہ جمیا کے انتخاب کی داد دوں۔ پہلے یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یہ بتلا دوں کہ یہ جمیا کون تھی۔
گندمی رنگت، کتابی چہرہ۔ کھڑی ناک اور پتلے ہونٹوں والی ایک پندرہ برس کی لڑکی تھی۔ میں اکثر دیکھتا تھا کہ سامنے سڑک پر بل کھاتی، گھومتی، نہایت چلبلے پن سے گنگناتی جا رہی ہے۔ برخلاف اس کے فجو خاں ایک ۴۵ برس کے بھوت۔ اس سے زیادہ ان کے سپاہیانہ حسن کی نہ تو میں تعریف کر سکتا ہوں اور نہ کرنا چاہتا ہوں۔ معاً مجھے خیال ہوا کہ دیکھو تو اس جمیا کو کہ پڑوس میں اول تو ہم خود رہتے ہیں۔ گو خوبصورت تو نہیں ہیں مگر بھوت بھی نہیں ہیں۔ علاوہ ہ،ارے عبدالعزیز رہتے ہیں اور ایک سے ایک خوبصورت جوان رہتا ہے مگر اس کمبخت چھوکری نے ہم لوگوں میں کسی کو پوچھا تک نہیں۔ اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اگر وہ کہتی تو میں اس کے ساتھ بھاگ جاتا یا کسی طرح بھی اس کو اپنے اوپر عاشق ہونے کی اجازت دے دیتا۔ مطلب میرا دراصل یہ ہے کہ اسے کم سے کم ایسا نہ کرنا چاہیے تھا اور گو ہم راضی نہ ہوتے پھر بھی یہ کیسے ممکن ہے۔ سو پکڑے گئے اور مجھے وکیل کیا۔ اب اس مقدمے کی بحث تیار ہو رہی تھی۔ ہمارے ملزم کی طرف سے عذر یہ تھا کہ صاحب لڑکی تو ہم نے ضرور بھگائی۔ مگر واقعہ یوں ہے کہ خود لڑکی اپنی راضی خوشی سے ملزم پر عاشق ہو کر اور زور دے کر اس کے ساتھ چل دی۔ ملزم نے اپنی داستان عشق اپنے اقبالی بیان میں بڑی دلچسپی سے بیان کی تھی، کس طرح لڑکی اسے ملی کس طرح لیلی کی طرح وہ ان حضرت پو عاشق ہو گئی اور پھر کس طرح "کچھ ایسا دونوں طرف عشق کا اثر پھیلا۔”۔۔۔ کہ میرے موکل صاحب اپنی محبوبہ کو لے کر فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔
میں صحیح طرح عرض کرتا ہوں کہ میرے موکل صاحب نے جب گھر پر قصہ بیان کیا اور سچ سچ حال بتایا تو میں نے اول تو ان کی صورت دیکھی بہت غور سے ، یہ دیکھنے کو کہ یا اللہ میں زیادہ خوبصورت ہوں یا یہ؟ کالا ہونا اول تو کوئی جرم نہیں اور پھر یہ واقعہ ہے کہ خوبصورتی اور بدصورتی سے اسے گو تعلق قطعی نہیں ہے لیکن جب دوسرے اعضا یعنی آنکھ۔ ناک۔ ہونٹ وغیرہ بغاوت پر آمادہ ہوں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاہی سونے پر سہاگے کا کام دیتی ہے۔ چنانچہ میں نے غور سے اپنے موکل کے چہرے کو دیکھا اور کچھ مشکوک نگاہوں سے دیکھ کر ان سے کہا کہ دیکھو بھئی وکیل سے تو سچ سچ دل جا حال بیان کرتے ہیں تم سچ سچ بات بتاؤ۔ یہ سن کر موکل صاحب نے مجھے اچھی طرح سمجھا کر کہا کہ جو واقعہ بیان کیا ہے اس میں قطعی شک کی گنجائش نہیں اور یہ کہہ کر اور بھی تفصیل کے ساتھ مفرورہ کے معاشقے کی داستان سنائی۔ قصے پر میں نے یقین کر لیا۔ مفرورہ سے جرح کی تو اس سے بھی یہی اندازہ لگا کہ ضرور بالضرور لڑکی ملزم پر عاشق ہوئی۔ واقعات مقدمے سے بھی اس کی تائید ہوئی اور وہ بھی اس طرح کہ مقدمے میں کامیابی کی قطعی امید ہو گئی اور بحث اب تیار ہو رہی تھی۔ یہ تو سب کچھ ہو گیا۔ لیکن جس روز سے یہ مقدمہ آیا میں ملزم کا فوٹو پیش کر کے ثابت کر دیتا ہوں کہ حضرت میں اپنے موکل سے ہزار درجہ خوبصورت ہوں، وہ ادھیڑ ہے اور میں نو عمر ہوں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ بدقسمتی کچھ اس طرح شامل حال رہی ہے اور رہے کہ کہ دنیا زمانے پر، کونے کھتروں پر، نکٹے کانوں پر تو ایک پری نژاد اور حور شمائل لڑکی عاشق ہو جائے اور نہ ہو تو ہم پر۔ جب کبھی بھی اس بات پر غور کیا افسوس ہی کرنا پڑا بجائے اس کے کہ کوئی خدا کی بندی عاشق واشق ہوتی، اپنی زندگی کا تجربہ بدقسمتی سے یہ رہا ہے کہ خوبصورت اور بدصورت لڑکیوں کے تلخ اور کتے چھنے جملے ہی سننے میں آئے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جی تو ہمیشہ یہی چاہا کیا کہ آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر ایک پانچ۔۔۔۔ روزانہ ماریں جائیں” آپ کسی سے پوچھئے کہ کیوں بھئی کبھی تم پر کوئی عاشق ہوا ہے ؟ تو جواب میں آپ ایک دلچسپ داسان سنیں گے۔ ہم نے بھی دیکھا دیکھی اسی قسم کے بالکل جھوٹے قصے گھڑ گھڑ کر دل سے اپنے یار دوستوں کو سنائے ہیں۔ وہ بات اور تھی۔ لیکن اب یہاں اس مضمون میں مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے کہیں کوئی "اور” اس قصے کو سچ نہ مان لے تو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ لہذا سچ سچ کہوں گا۔ یہ بھی سن لیجیئے کہ کس طرح اس سچ بولنے کی ضرورت پڑ گئی۔

(۲)

جمیا کے قصہ پر جب رد و قدح ہو چکی تو کام کے بارے میں خانم نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو۔ میں نے اس کے جواب میں ہنس کر کہا کہ۔ "ذرا اسے سنو” اور یہ کہہ کر ملزم کی طرف سے جو بیان تحریری میں داخل کیے تھے وہ پڑھ کر خانم کو سنانا شروع کیے۔ یہ بیان سات صفحوں پر تھے اور شاید ایک افسانہ نویس وکیل کے قلم کے ہونے کی وجہ سے اس میں اور بھی دلچسپی آ گئی ہو گی۔ خانم نے جو بیان غور سے سنے تو کہنے لگی کہ یہ کسی رسالے کے لیے مضمون لکھا ہے یا سچ مچ مقدمے کے بیان ہیں۔
قصہ مختصر یہ بیان خانم نے بڑے غور اور شاید "عبرت” سے سنے ، میں ان بیانات کو سنا کر خانم کو غور سے دیکھنے لگا۔ وہ بھی مجھے غور سے دیکھنے لگی۔ میں اپنے دل میں کیا سوچ رہا ہوں گا؟ بخدا اندازہ لگائیے اور میں نے دل میں یہ سوچا کہ یہ کیا سوچ رہی ہو گی۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ ان بیانات پر مفرورہ اور ملزم کی صورت شکل پر خانم نے بحث شروع کر دی۔ یہ بحث ختم ہو گئی تو میں نے کامیابی کے ساتھ خانم کو احتیاطَ یہ بھی سمجھا دیا کہ مردوں کے لیے سچ مچ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ ان پر عاشق ہونے کی تیاری کرنے سے پلے خوبصورت لڑکیاں یہ دیکھیں کہ مرد خوبصورت ہے یا بد صورت۔ کانا ہے یا کھترا۔ بس انہیں تو تہیہ کر کے عاشق ہو جانا چاہیے۔
خانم نے یہ قصہ سن کر اپنی آنکھوں میں ایک ایسی دلچسپی کی چمک پیدا کر کے مجھ سے ہنس کر کہا کہ ایک بات تم سے قسم دے کر پوچھیں گے سچ سچ بتاؤ گے یا نہیں؟
میں نے کہا "وہ کیا؟”
وہ بولی۔ "پہلے وعدہ کرو۔ قسم کھاؤ۔”
میں نے فورا خدا کی ایک موٹی سی قسم کھائی تو وہ بولی کہ "یوں نہیں۔ ہماری قسم کھا کر وعدہ کرو۔”
مجبوراً یہ قسم بھی کھائی۔ ویسے نہ بھی کھاتے مگر اس وقت سوال معلوم کرنے کی کرید پر گئی۔ جب قسم کھا لی تو اس نے ذیل کا "ہنگامہ پرور” سولا کر دیا:
"سچ سچ بتانا۔ کبھی تم پر بھی کوئی لڑکی عاشق ہوئی ہے یا نہیں”؟
مندرجہ بالا سوال نے مجھ کو کس شش و پنج میں ڈال دیا ہو گا! اس کا اندازہ لگائیے۔ اپنی رفقں زندگی کی قسم کھا کر جھوٹ بولنا ناممکن، اگر سچ سچ کہتا ہوں تو معاملہ بگڑ جاتا ہے۔ کیونکہ صحیح اور امر واقعی جو پوچھیے تو وہ ہمیشہ اسی تمنا میں رہے کہ کوئی ہم پر عاشق تو ہو۔ مگر یہ تمنا کبھی پوری نہ ہوئی اور قسمت میں خوبصورت اور "بے صورت” لڑکیوں کے اپنے مردانہ حسن کے بارے میں تلخ ریمارک اور تکلیف پہنچانے والے جملے ہی اس تمنائے عشق کی مکمل اور مفصل روئداد ہو کر رہ گئے جو اب بھی کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ مگر نہیں۔ میں نے شاید یہاں غلطی کی۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے اوپر بھی تین لڑکیاں عاشق ہوئی ہیں۔ ایک تو خود سر پکڑ کر قسمت کو رو رہی ہے یعنی صاحبہ سوال۔ تو اس کا ذکر ہی جانے دیجیئے کہ وہ عاشق نہ ہو تو کرے بھی کیا۔ وہ مضمون ہے کہ کھاؤ تو بھرتہ اور نہیں کھاؤ تو بینگن کا بھرتہ۔ پچاس دفعہ غرض پڑے تو عاشق ہو ورنہ جانے دو۔ اس جھگڑے ہی کو چھوڑو۔ لہذا اس کو چھوڑیے۔
دوسری جو عاشق ہوئی تھی اس کے بارے میں عرض ہے کہ اس کی یاد میرے دل سے کبھی نہیں مٹ سکتی۔ اس کی دلچسپ یاد اب بھی دل میں تازہ ہے اور رہے گی، تاوقتیکہ شریر بچے مچلنا اور ضد کرنا بالکل نہ چھوڑ دیں کیونکہ صحیح عرض ہے کہ کچھ کچھ اسی کا حلیہ اور نقشہ بیان کر شریر بچوں کو ڈرایا جاتا ہے جب کہیں جا کے شریر قابو میں آتے ہیں!
اب رہ گئی تیسری نیک بخت جو میرے اوپر عاشق ہوئی تو بد قسمتی سے اس کا قصہ لائق نہیں کہ کسی اور کو یا بیوی کو سچ سچ سنایا جائے۔
چنانچہ مندرجہ بالا امور کو مد نظر رکھتے ہوئے میں خانم کے سوال سے کچھ چکر سا گیا۔ کیا جواب دوں؟ یہ فر دامن گیر ہوئی، سچ کہنا نہیں چاہتا تھا اور جھوٹ ناممکن تھا۔ لہذا میں نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے وقت گزاری کے لیے بجائے جوب دینے کے یہی سوال الاچ خانم سے کر دیا کہ پہلے تم بتاؤ کہ تم پر بھی کوئی عاشق ہوا ہے یا نہیں۔
یہ سوال سن کر خانم کو ہنسی اور غصہ بیک وقت آیا۔ اس نے برا ماننے کی کوشش کی۔ مگر میں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ کہہ کت تمہیں ضرور بتانا پڑے گا ورنہ میں بھی نہ بتاؤں گا۔ جب میں نے زور دیا تو اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ خدا نہ کرے میرے اوپر کوئی عاشق کیوں ہوتا۔
مگر حضرت میں جرح شروع کر دی اور ایک درجن سوال نہ کیے ہوں گے کہ خانم کو کہنا پڑا کہ میری شادی سے پہلے تین جگہ سے پیغام اور آئے تھے۔ ان میں سے دو کا تو خیر کچھ نہیں کیونکہ ان کو انکار کر دیا تو وہ مان گئے لیکن ایک ان میں روپے پیسے والے بڈھے صاحب تھے جنہوں نے زیادہ کوشش کی۔ لیکن ان کو نہایت سختی سے انکار کیا گیا اور ان کی ہزاروں کی جائداد کے لالچ کو ہمارے خسر صاحب نے بڑی سختی سے ٹھکرا دیا۔ چنانچہ قصہ سن کر میں نے بڈھے ہی کو پکڑا اور جناب واقعہ بھی یہی ہے کہ اکثر بڈھوں کا قاعدہ ہے کہ ادھر پڑوس میں لڑکی پیدا ہوئی نہیں کہ انہوں نے چھٹی میں اس کی شرکت کر کے اس کو دیکھا اور عاشق ہو گئے۔ پھر ٹھیک چودہ برس بعد آپ دیکھ لیجیے گا کہ بڑے میں دھر دھر کے شادی کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب اس بڈھے والا قصہ ختم ہو گیا تو مجبوراً مجھے اپنا قصہ بے کم و کاست سنانا پڑا۔ آپ بھی سن لیجیئے۔

(۳)

عرض ہے کہ بعض اوقات لوگوں کو گھر سے بھاگ جانا پڑتا ہے۔ تعلیم والیم سب کو خیر آباد کہہ کر یہ خاکسار بمبئی میں اسی ضروری کام کے لیے گیا ہوا تھا۔ گھر سے بھاگنے والے بمبئی کو نہ معلوم کیا سمجھتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر پتا چلتا ہے کہ گھر سے بھاگنا سراسر حماقت ہے ، چنانچہ یہ اسی زمانے کا ذکر ہے کہ اس خاکسار کو بھی پتہ چل رہا تھا۔ یعنی ہوٹل کی نوکری سے کان پکڑ کر جو نکالے گئے تھے اس کو پندرہ دن کے قریب گزرنے آئے تھے اور روپیہ جو کچھ بھی تھا وہ ختم ہونے والا ہی تھا۔ شام کو روزانہ کا میں نے یہ دستور بنا لیا تھا کہ چوپاٹی چلے گئے اور وہاں سے مالا بار ہل پہنچ گئے جس کو ہینگنگ گارڈن یعنی باغ معلق کہہ سکتے ہیں۔ آئیے میں پہلے اس باغ کی آپ کو سیر کراؤں۔
یہ باغ ایک مصنوعی ور کچھ غیر مصنوعی پہاڑی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑی کیا ہے کہ سر سبزی اور شادابی کا گہوارہ ہے۔ اس کے دامن میں خوبصورت باغیچہ لگا ہوا ہے۔ اور یہ باغیچہ بہاری کی ڈھلوان سطح پر برابر چوٹی تک اس خوبصورتی سے چلا گیا ہے کہ انسانی کاری گری کی داد نہیں دی جا سکتی۔ جس طرح نینی تال، شملہ اور دوسرے ہل استیشنوں پر چکر دار سڑکیں بنی ہوئی ہیں جن پر ہو کر اوپر پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ کچھ اس نمونے کی پتلی پتلی سڑکیں یا روشیں پہاڑ کے اردگرد کمر پیٹی کی طرح کسی ہوئی ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ بینچیں رکھی ہوئی ہیں۔ پھولوں کی بھرمار ہے اور ان پر فضا پتلی پتلی سبزہ اور پھولوں سے لدی پھندی سڑکوں پر ہوتے ہوئے آپ چوٹی پر پہاڑ کی پہنچ جائیے ہر سڑک نیچے سڑک سے اونچی ہوتی گئی ہے۔ جگہ جگہ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں تاکہ اوپر والی سڑک پر آسانی سے پہنچ جائیں، شام کے وقت چوپاٹی سے کھڑے ہو کر مالا بار ہل کی طرف نظر ڈالئے نیچے سے لے کر چوٹی تک خوشنما پھولوں اور جھاڑیوں میں رنگین اور چمکیلے لباس والی عورتوں اور مردوں کی آمدورفت پہ معلوم ہوتی ہے کہ گویا رنگا رنگ کے پھول کھلے ہیں یا متحرک پتلیاں سبزے پر ناچ رہی ہیں۔ سامنے سمندر لہریں مار رہا ہے ، خوشگوار ہوا چل رہ ہے اور دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ مالا بار ہل پر ابدی نیکی اور خوشی کا دیوتا رہتا ہے جو اپنے پجاری کو مقناطیسی قوت کے ساتھ اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔
میں نے بھی چوپاٹی پہنچ کر یہی محسوس کیا اور مالا بار ہل پہنچا۔ ہر قدم پر بہار تھی اور ایک دلچسپ میلہ تھا کہ نازک اندامان بمبئی، خوش خرامان بمبئی، حسینان بمبئی کے ساتھ ساتھ، پہلو بہ پہلو۔ اس دلچسپ پہاڑی پر خوش فعلیوں، شرارتوں اور زندگی کی دلچسپیوں کا خاموش مطالعہ کرتے ہوئے ہم بھی چڑھے چلے جا رہے تھے۔ ہر قوم کی اور ہر عمر کی عورتیں اور مرد، ایک سے ایک خوبصورت ایک سے ایک شوخ اور ایک سے ایک پریزاد اور معصوم اس تفریح کے وقت پہاڑی پر چلی جا رہی تھی اور ہم بھی تھے پانچوں سواروں میں۔ خاموش طبعیت اندر ہی اندر سے باوجود اس تمام تفریح کے کچھ مردہ سی تھی۔ کوئی جان پہچا نہیں، کوئی یار دوست بات کرنے والا نہیں۔
قصہ مختصر خاموشی کے ساتھ میں پہاڑ پر پہنچا، پہار کی چوٹی ویسی نہیں ہے جیسی ہمالیہ کی چوٹی پر پہنچئے تو ایک لو و دق ہلکے سبزے کا میدان ہے، ایک باغ لگا ہے۔ پھول کھلے ہوئے ہیں۔ روشوں پر لوگ ٹہل رہے ہیں، سبزے پر خوش فعلیاں ہو رہی ہیں۔ جگہ جگہ یوروپین۔ پارسی۔ مرہٹہ۔ گجراتی وغیرہ وغیرہ اقوام کی لڑکیاں اور عورتیں کچھ کھیل رہی تھیں، کچھ بچوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں، یہاں سرکار کی طرف سے جھولے پڑے ہوئے ہیں، جگہ جگہ دو دو چار چار کی ٹولیاں سبزے پر خوش فعلیوں میں مشغول تھیں۔ ہمارے جیسے شاید دو ایک احمق اور بھی تھے جو علیحدہ ایک بنچ یا سبزے پر بیٹھے ہوئے خوبصورت لڑکیوں کو بڑے غور سے دیکھے چلے جا رہے تھے۔ ادھر قریب سے کوئی خوبصورت لڑکی گزری نہیں کہ انہوں نے کوشش کی کہ کسی طرح جاذب نظر بن جائیں۔

(۴)

ادھر ادھر پھر کر میں اب تنہائی کے مقام پر پہنچا اور ایک بنچ پر سر جھکا کہ اس طرح غافل ہو کر بیٹھ گیا کہ تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند جو کیں تو یہ بھی خیال نہ رہا کہ کہاں ہوں، میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ آہٹ ہوئی، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو پارسی لڑکیاں آپس میں باتیں کرتی ہوئی میری طرف چلی آ رہی تھیں۔ میری بنچ کے قریب آ کر ایک نے مجھ سے کہا۔۔۔۔۔ "اگر کوئی مضائقہ نہ ہو تو کیا ہم بھی اس بنچ پر بیٹھ سکتے ہیں۔”
مین چونک سا پڑا اور میں نے کہا "ضرور۔ ضرور۔ بڑے شوق سے بلکہ میں خود ہی اٹھ جاتا ہوں اور آپ ضرور بیٹھئے۔”
یہ کہتا ہوا میں اٹھا۔ میرا اٹھنا تھا کہ "نہیں نہیں” کہتی ہوئی بڑے اخلاق سے مجھے روکنے کو بڑھی اور بولی۔ "آپ بیٹھئے ہم خود چلے جائیں گے۔” فورا ہی دوسری بولی "ہم نے آپ کو تکلیف دی آپ بیٹھئے۔” اس پر میں نے اور بے بسی اصرار کیا۔ نتیجہ یہ کہ وہ مضمون ہو گیا کہ "واللہ آپ واللہ آپ” نتیجہ یہ کہ ان میں سے جو ذرا بڑی عمر والی یعنی اٹھارہ انیس برس کی تھی اس نے بڑے اخلاق سے میرا ہاتھ پکر لیا اور بولی "اچھا نہ آپ جائیے نہ ہم جائیں، آپ بھی بیٹھئے اور ہم بھی بیٹھتے ہیں۔”
میں نے اس پسندیدہ تجویز پر دل میں خوش ہوتے ہوئے کہا "مگر شاید آپ دونوں کے تخلیئے میں مخل ہوں گا۔”
اس پر چھوٹی عمر والی بولی۔ "ہر گز نہیں بلکہ آپ کی موجودگی ہمارے لیے باعث دلچسپی ہو گی۔ کیا آپ ہماری بات چیت ناپسند کریں گے۔”
میں نے کہا "ہر گز نہیں۔”
قصہ مختصر وہ بھی بیٹھ گئیں اور میں بھی بیٹھ گیا اور اس کے بعد ہی انہوں نے بڑے اخلاق اور بڑے تپاک سے مجھ سے تعارف حاصل کیا۔ مجھے یاد نہیں میں نے ان سے کیا جھوٹ سچ ملایا، جس کا لب لباب یہ تھا کہ محض بمبئی میں سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا ہوں، اس کے بعد انہوں نے اپنا تعارف خود مجھ سے کرایا اور مجھے معلوم ہوا کہ بڑی عمر والی بیوہ ہے اور چھوٹی لڑکی اس کی دوست جو کنواری ہے ، بڑی نے اپنا نام مسز بلحی بتایا اور چھوٹی کا نام مس رستم جی تھا۔ دونوں بہت خوش اخلاق، کوش پوشاک اور خوبصورت تھیں۔ مگر بلحی کو دیکھ کر اتنا ضرور کہنا پڑتا تھا کہ حضرت ڈارون کا مسئلہ ارتقا تو ضرور صحیح ہے مگر ایک بات ہے۔ وہ یہ کہ اگر حضرت انسان بندر کی اولاد کہے جا سکتے ہیں تو کچھ لوگ گھوڑے کی اولاد بھی ثابت کئیے جا سکتے ہیں۔ بہت دیر تک یہ صحبت قائم رہی آخرش میں خود ہی ان دونوں سے رخصت ہو کر دوسری طرف چلا گیا۔

(۵)

شام ہو رہی تھی اور لوگ پہار سے اتر رہے تھے۔میری طبعیت حسب معمول کند تھی چنانچہ بھیڑ بھڑکے کو چھوڑ کر میں قصداً اس طرف چلا جدھر سے کوئی بھی نہیں اتر رہا تھا اور روشوں کی تین منزلیں اتر کر میں چوتھی پر پہنچا اور پھولوں اور جھاڑیوں کے گنجان راستے طے کرتا ہوا بالکل ہی تنہائی کے راستہ پر پہنچا اور وہاں سے میں پانچویں روش پر اترا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مسز بلحی ایک گملے کے پاس ایک پیر جھکائے اور دوسرا پیر ایک جھاڑی میں پھنسائے اس طرح کھڑی ہے کہ منڈیر پر ہاتھ سے پکڑے اور چہرے سے تکلیف ظاہر ہو رہی ہے۔ میں ایک دم سے اسے دیکھ کر جھجک گیا اور وہ بولی کہ خدا کے واسطے میری مدد کیجیئے ، میں فوراً اس کے پاس پہنچا تو اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور مجھے اس وقت یہ دیکھ کر برا تعجب ہوا کہ نہ تو اس کا کسی چیز میں کپڑا اٹکا ہے اور نہ پیر اٹکا ہے لیکن فوراً ہی اس نے لنگڑاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور گویا درد سے بیتاب ہو کر کہنے لگی "میرا پیر ٹوٹ گیا۔” میں نے استفسار کرتے ہوئے تسلی دینی چاہی تو اس نے بالکل ہی بے تکلف اور آزادی سے اپنا داہنا ہاتھ میرے گلے میں اچھی طرح حمائل کر کے اور مجھ پر لد کر اپنا پورا بوجھ ڈالتے ہوئے کہا کہ "براہ کرم جس طرح بن پڑے مجھے نیچے تک پہنچا دیجیئے۔”
آپ خود خیال فرمائیں کہ میں کد طرح انکار کرتا جبکہ یہ کہنے کے ساتھ ہی اس نے اسی شان سے کہ مجھ سے چمٹی ہوئی اور گلے میں ہاتھ حمائل ہے لنگڑا کر میرے ساتھ چلنا شروع کر دیا اور چار چھ قدم چلنے کے بعد ہی یہ معلوم ہوا کہ یہ نسوانی بوجھ اس طرح گھسیٹنا میرے بس کا روگ نہیں لیکن اس عجیب و غریب تجربہ میں آ سے کیا عرض کروں کہ میرے دل میں کیسے لڈو پھوٹ رہے تھے۔
قصہ طویل ہے۔ مختصر اس کو یوں سمجھئے کہ تھوڑی ہی دیر بعد ہم دونوں ایک بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میری معلومات میں ایک نیا اضافہ ہو چکا تھا یعنی یہ کہ مسز بلحی مجھ پر بری طرح عاشق ہو چکی تھیں۔ نہ صرف انہوں نے مجھ کو مطلع کر دیا تھا بلکہ مجھے خود پتہ چل گیا تھا کہ غریب میرے عشق میں بری طرح عاشق ہو چکی تھیں۔ اب اس کا علاج صرف یہی ہے کہ اس کی خواہش کے مطابق اس کے گھر چلوں یعنی اس کے مرحوم شوہر کے گھر جس کی اب وہ سولہ آنے خود مالک و مختار ہے اور اب اس مال و دولت میں اپنا شریک بنانا چاہتی ہے۔
اب ایسے موقع پر یہ سوال نہیں ہے کہ آپ ہوتے تو کیا کرتے یا کوئی اور ہوتا تو کیا کرتا بلکہ یہاں تعلق اس سے ہے کہ میں نے کیا کیا۔ میں نے یہ کیا کہ اسے ساتھ لے کر نیچے اترا، چوپاٹی پر عجیب بہار تھی۔ ہمیں اس کیا مطلب تھا ہم نے جلدی سے ایک موٹر کرائے پر لیا اور اس کے گھر کی طرف چلے ، ایک عالیشان بلڈنگ کے پاس اس نے موٹر رکوایا۔ ہم دونوں اترے اور اس کے پیر کا درد قریب قریب غائب تھا۔ تیسری منزل پر پہنچے۔ مگر اس نے ایک کمرے کے دروازے کا تالا ہاتھ میں لے کر کہا "اب کیا کروں نوکر تالا دے کر چل دیا۔”
چار و ناچار ہم سونوں کو لوٹنا پڑا کیونکہ اس نے بتلایا کہ نوکر دو گھنٹے بعد آئے گا۔ میں نے پوچھا کہ اب آپ کہاں چلیں گی۔ تو اس نے کہا کچھ چائے اور آئس کریم کھا کر سینما چلئے۔”
مجھے بھلا کیا انکار ہو سکتا تھا نیچے آ کر میں نے پھر موٹر کرائے پر لیا اور سیدھے ان کی فرمائش کے مطابق اس کی ایک ملنے والی کے یہاں چلے ، وہاں سے تین لڑکیاں اور ہمارے ساتھ ہو لیں اور سب مل کر ہوٹل میں پہنچے ، کچھ کھا پی کر سینما گئے جہاں فرسٹ کلاس کے میں نے سب کے لیے ٹکٹ کریدے اور سینما دیکھنے کے بعد صبح کا وعدہ کر کے ہم سب رخصت ہوئے۔
اب میں جائے قیام پر پہنچ کر اپنی جیب کا جائزہ لیتا ہوں تو پیر تلے سے زمین نکل گئی۔ مطلب یہ بمشکل دو ڈھائی روپے ہوں گئے۔

(۶)

دوسرے دن پہلا کام یہ کیا گیا کہ ساٹھ روپے کے قمیص کے بٹن پینتیس روپے میں رکھ دئے یہ کیوں؟ محض اس لیے کہ عشق سے سابقہ ذرا اچھی طرح نباہنا چاہیے۔ بدقسمتی سے یا خوش قسمتی سے یہ سمجھے ہوئے تھے کہ بمبئی کے سیٹھ کی بیوی سے شادی کریں گے اور سیٹھ کی دولت پر قبضہ جمائیں گے۔ چنانچہ ۳۵ روپے جیب میں ڈال کر چلنے کی تیاری کی۔ آئینے میں دیکھ دیکھ کروہ سنگھار کیے کہ آپ سے ہم کیا بتائیں۔ بڑی دیر تک آئینے میں اپنی صورت دیکھتے رہے ، ادھر سے دیکھا ادھر سے دیکھا اور ہر طرح اپنے آپ کو قبول صورت اور صاحب جمال پایا۔ دل نے فوراً کہا کہ بھیا مرزا دراصل تو بہت خوبصورت ہے اور یہ جو شوخ اور خوبصورت چھوکریاں جن کے دماغ مغربی تعلیم نے خراب کر دئے ہیں تجھ کو چمرخ، پھٹیچر پنکی، تنکا افیونی اور سنیکیا پہلوان وغیرہ وغیرہ کہتی رہتی ہیں تو اصل میں جھک مارتی ہیں۔ اب تو تمہارے اوپر عاشق ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اگر تم کچھ دنوں اور بمبئی رہ گئے تو تعجب نہیں کہ حسینان بمبئی تمہیں تبرک کر کے بانٹ لیں۔ ہم نے کہا کہ "اے بھیا دل! اللہ تمہارا بھلا کرے۔ ہم تو کچھ کہتے سنتے نہیں ہیں، مگر ہاں اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں کہ بمبئی میں پرکھ والیاں ہیں ورنہ اپنی طرف کا حال یہ ہے کہ اچھوتوں کو چھوڑ کر ہمیشہ عاشق ہونے والیاں امیروں ہی کو ڈھونڈتی ہیں۔”
مسز بلحی کے گھر پر جو میں پہنچا تو اس کو سڑک کے کنارے اپنا منتظر پایا، میں اترنے لگا تو وہ مسکراتی ہوئی خود موٹر پر چڑھ آئی اور شوفر سے کہا کہ رانی باغ چلو۔ شوفر نے موٹر کو پوری تیزی کے ساتھ چھوڑ دیا اور ہم دونوں باتوں میں مشغول ہو گئے۔ وہ وہ تجویزیں کیں اور وہ وہ خوشگوار خواب میں نے دیکھے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ مسز بلحی کے عشق و حقیقی کی قدم قدم پر تصدیق ہوتی تھی۔
رانی باغ گئے اور سیر کی وہاں سے واپس ہوئے اور وہ اپنی ملنے والیوں کئ یہاں لے گئی اور شام تک وہی پروگرام رہا جو گذشتہ دن رہا تھا اور پروگرام میں بائیس روپے خرچ ہو گئے اور اب مجھے فکر ہوئی کہ روپے کا کچھ انتابم کرنا چاہیے۔ بمبئی میں میرے یار غار اور ہمدرد صرف ایک تھے۔ بڑے یار باش، ضرورت سے زیادہ زندہ دل اور بڑے سچے ہمدرد۔ یہ حضرت اودھ کے رہنے والے ایک نوجوان سید تھے اور ریلوے میں نوکر تھے۔ چنانچہ میں اسٹیشن پر پہنچا تو ان کو ریسٹ روم میں یار دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں پاہا۔ فوراً ان کو ساتھ لے کر پشت والے کمرے میں تنہائی میں لے جا کر اپنی رام کہانی شروع کی۔ بہت تھوڑی سی سنا پایا تھا کہ وہ ہنس کر بولے کہ۔”پھر آگے وہ لنگڑاتے ہوئے بھی تمہیں ملی یا نہیں اور اس کو تم نے چلنے میں مدد دی یا نہیں۔”
ظاہر ہے کہ مجھے کتنا تعجب ہوا ہو گا کہ میں نے ان سے کہا بھی نہیں اور انہیں معلوم ہو گیا۔ چنانچہ میں یہ سمجھا کہ شاید انہوں نے مجھے اس کے ساتھ دیکھ لیا ہے ، چنانچہ ہنس کر میں نے کہا "تم کو کیسے معلوم ہوا۔”
اس کے جواب میں انہوں نے ایک ذبردست قہقہہ لگایا اور ہنسی سے بیتاب ہو کر کرسی سے باوجود میرے پکڑنے اور روکنے کے اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑے کمرے میں جہاں لوگ بیٹھے تھے پہنچ کر چلا کر کہا۔ "ارے میاں فاروق کچھ نئی سنو۔”
فاروق ہنس کر بولے۔ "کیوں بھئی کیا معاملہ ہے۔”
انہوں نے میری پیٹھ پر زور سے ہاتھ مار کر قہقہہ لگا کر کہا۔”ان پر بھیا مالا بار ہل والی نے الو کی لکڑی پھیر دی۔”
ان کا یہ کہنا تھا کہ کمرے کا کمرہ مارے ہنسی کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ بھروں کیطرح سب مجھے چمٹ پڑے ، کوئی پوچھتا تھا کتنے روپے کھو بیٹھے ، کوئی کہتا تھا ان کا وہ حال ہوا کہ مفلسی میں آٹا گیلا۔ کوئی کہنے لگا کہ میرے یار تم نے اپنی صورت تو دیکھی ہوتی آئینہ میں کہ کوئی اس پر عاشق ہو ہی نہیں سکتا۔ کوئی اور بولا کہ ان کے کان میں شیطان یہ کہہ گیا ہے کہ بھیا تجھ سے زیادہ حسین کوئی نہیں وغیرہ وغیرہ، پھر ساتھ ہی حاضرین میں سے جو خود میری طرح تختہ مشق بن چکے تھے وہ بھی طرح طرح کی مسخری کی باتیں کرنے لگے۔ نتیجہ یہ کہ جب اطمینان سے بیٹھ کر مجھ سے احوال مفصل پوچھا گیا تو میں نے مجبوراً اپنی مصیبت گھٹانے کے لیے نقصان کی میزان صرف سات روپے بتلائی اور اس کے بعد معلوم یہ ہو کہ اس چالاک عورت کا پیشہ یہی ہے کہ کسی احمق پر روز عاشق ہونا اور اپنا الو سیدھا کرنا۔
یہ وہ داستان ہے کہ ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر بھی عمر میں ایک لڑکی عاشق ہوئی، اب یہ اور بات کہ خود ہم نے ہی سلسہ عشق کو توڑ دیا اور پھر جتنے دن بمبئی میں رہے کبھی اس طرف کا رخ نہ کیا۔ اب دیکھیں اور کوئی بھی ہے جو اس مضمون کے عنوان نما سوال کا جواب دے۔
٭٭٭
چند بیل

ایک بیل کو میں نے دیکھا کہ خاموش بیٹھا جگالی کر رہا ہے ، آنکھیں نیم باز ہیں اور ایک کتا بڑی مشقت، تن دہی اور انہماک کے ساتھ اس کے منہ کے سامنے کھڑا بھونک رہا ہے۔ بڑھ بڑھ کر بھونکتا ہے اور پیچھے ہٹتا ہے۔ آخر جب کتا بہت قریب پہنچ گیا تو بیل نے زور سے "سوال” کر کے یوں سر ہلا دیا جیسے ہم آپ نفی کے طور پر سر ہلاتے ہیں۔ کتا پچھاڑ کھا کر بھاگا اور بدحواسی میں ایک آدمی سے جس کے سر پر ایک توکرا تھا لڑ گیا اور ٹوکرا گر گیا۔ بیل خاموش بیٹھا جگالی کرتا رہا۔
ایک بیل کو میں نے دیکھا کہ اس کے پیچھے ایک چھوٹا کتا اور دو عدد پاؤ ڈیڑھ پاؤ وزن کے پلے دوڑ رہے ہیں۔ بیل نے بدحواس ہو کر ہاکی فیلڈ کا رخ کیا۔ ایک خوانچہ لوٹ دیا ایک بنچ مع لڑکوں کے پھاند گیا، میدان میں جب لڑکے دوڑے تو گول میں گھس پڑا، اس طرح کہ جالی توڑ کر پار نکل گیا۔ سوچتا ہو گا کہ آج بال بال بچے ، کیونکہ کتے اس سے الگ ہو گئے۔ ایک بیل کو میں نے دیکھا کہ ادھر سے آ رہا ہے۔ ادھر سے میں جا رہا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ریب سے گزرے۔ سردی کے دن تھے وہ ٹاٹ کا اوور کوٹ پہنے ہوئے تھا اور میں اون کا اوور کوٹ پہنے تھا۔
ایک بیل نے (جس کا لقب سانڈ تھا) ایک چھوٹی سی بیل گاڑی پر حملہ کیا۔ جس میں میں بیٹھا تھا۔ دو بیل گاڑی کے اور تیسرا یہ سانڈ۔ ان تینوں کی کوشش کہیے یا بدعنوانی، نتیجہ یہ نکلا کہ گاڑی کا ایک پہیہ بڑے مزے سے ایک فٹ اونچی چبوتری پر چڑھ گیا، گاڑی ٹوٹ گئی۔ نیچے ہم لوگوں کے بھوسا رکھا تھا، چوٹ کم لگی مگر گت خوب بنی۔ سانڈ ادائے عرض کے بعد بھاگ گیا۔
ایک مرتبہ میں بیل گاڑی پر بڑی دور جا رہا تھا۔ ایک بیل موٹا تھا اور ایک دبلا۔ جو موٹا تھا وہ سست چلتا تھا اور مار کو بھی کسی مار میں نہ لاتا تھا۔ میں نے تنگ آ کر گاڑی والے سے کہا کہ اس کو خوب مارو۔ وہ بولا کہ اسے زیادہ مارا تو یہ فوراً نان کو آپریشن کر دے گا اور چلتے چلتے بیٹھ جائے گا، پھر چاہے کاٹ ڈالو مگر یہ نہ اٹھے گا۔ مجھے یہ بات ناممکن معلوم ہوئی اور اس کو پٹوایا نتیجہ یہ کہ وہ بیٹھ گیا اور بری طرح مارا اور کھرا کرنے کی کوشش کی تو وہ لیٹ گیا۔ اب قیاس میں آنا ناممکن ہے کہ کس کس طرح اس کو مارا مگر نہ اٹھنا تھا نہ اٹھا، آنکھوں پر مارا، سینگوں پر مارا، منہ توڑ دیا، مگر ہو لیٹا رہا۔ جب میں ہار گیا تو کنارے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر دم لینے لگا کیونکہ مارتے مارتے تھک گیا تھا۔ سگرٹ سلگایا۔ گاڑی والے نے اپنی چلم سلگائی۔ نہ معلوم مجھے کیا سوجھی کہ گاڑی والے کئ چلم لے کر بیل کی دم کے نیچے چلتی ہوئی مہر کی طرح لگا دی۔ میں آپ سے کیا عرض کروں کہ کیسے وہ تڑپ کر اٹھا ہے کہ بیان سے باہر پھر لطف یہ کہ سولہ میل تک اس کو ہر طرح مارا مگر کبھی نہ بیٹھا۔ چند مہینے بعد گاڑی والا پھر ملا اور کہنے لگا کہ بس ایک دفعہ اور لیٹ گیا تھا مگر وہ ترکیب جو کی تو پھر کبھی بھول کر بھی اس نے ایسی غلطی نہیں کی۔
ایک بیل کی طبعیت خراب ہو گئی یعنی ہماری اور آپ کی طرح زبان میں چھالے پڑ گئے۔ ایک دیہاتی سول سرجن آئے جو ذات کے چمار تھے جو ذات کے چمار تھے۔ انہوں نے معائنہ کیا۔ تیل اور نمک طلب فرمایا۔ دونوں کو ملا کر ایک برتن میں رکھا بیل کو پیر باندھ کر گرایا اور پھر زبان اس کی باہر نکال کر ایک کھرپے سے زبان کے چھالے بری طرح چھیلے۔ اس کے بعد نمک اور تیل اچھی طرح زبان پر ملا اور اس کے بڑی صفائی سے اپنا جوتا اتار کر زمین پر اس کا تلا رگڑ کر زور زور سے بیل کی زبان پر رگڑا۔ پھر چھوڑ دیا۔ بیل صاحب کھڑے کر دیے گئے ناک میں زبان بار بار دال رہے تھے۔ آپریشن نہایت ہی کامیاب رہا۔ بیل صاحب تیسرے ہی روز صحت یاب ہو گئے۔
ایک بیل صاحب کو میں نے دیکھا جن کی قیمت معلوم ہوا پانچ سو اسی روپے ہے۔ وہ اس طرح پر کہ اسی روپیہ کے تو وہ خود تھے اور پانچ سو روپیہ کا نوٹ کھا گئے تھے اور کھا کر فوراً بھاگ گئے اور دن بھر نہ ملے۔ غالباً قتل کر دیے جاتے۔
ایک مرتبہ ہم لوگ شکار کو گئے۔ مستقر سے شکار گاہ تک بیل گاڑی سے پہنچے۔ ایک مناسب مقام پر گاڑی چھوڑ دی اور شکار میں مشغول ہو گئے۔ ہم سب لوگوں کا اور بیلوں کا ناشتہ گاڑی میں رکھا تھا۔ ایک بیل صاحب اپنا ناشتہ کھاتے کھاتے ہم لوگوں کے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ سالن کی قسم سے جتنی چیزیں تھیں وہ زیادہ تر پھینک دیں۔ پراٹھے کل کے کل کھا لیے اور دسترخوان کھا رہے تھے کہ ہم لوگ بھوک پر دھار رکھے ہوئے کھانے کے لیے پہنچے جو ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیل صاحب دسترخوان کھانے میں مشغول ہیں درحالیکہ ہم گیارہ بھوکے یہ سوچنے لگے کہ دسترکوان پراٹھوں سے پہلے کھایا جاتا ہے یا پراٹھوں کے بعد۔ معلوم یہ ہوا کہ پراٹھوں کے بعد کھایا جاتا ہے۔ بھوک کے مارے مرمر گئے۔ ورنہ جس نے ہمارا ناشتہ کھا لیا ہم اس کا ناشتہ کھا جاتے۔ کچھ بھی ہو۔ یہ پتہ چل گیا کہ شکار اس کو کہتے ہیں۔
ایک بیل صاحب کے بے تکلف احباب میں سے ایک کتے صاحب خوش ہو جاتے اور دو پیر سے کھڑے ہو کر ان سے گلے ملتے۔ جھوٹ موٹ اس کے پیروں میں کاٹ کاٹ کر بھاگتے اور یہ تمام باتیں بیل صاحب خندہ پیشانی سے گوارا فرماتے بلکہ جواباً کتے صاحب کو محبت کی نظر سے دیکھتے۔ صبح معمول تھا کہ بیل صاحب تشریف فرما ہیں اور ان کے بے تکلف دوست ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر ان سے کھیل رہے ہیں۔ دوپہر کو کتے صاحب اپنے دوست کے بالکل ہی پاس آرام فرماتے تھے۔
آگرے میں ایک سانڈ صاحب ہیں۔ ان کا دستور ہے کہ کسی مٹھائی کٹھائی کی دکان پر کھڑے ہو کر کھانا شروع کر دیا۔ اب لوگ مار رہے ہیں تو وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ محبت ہے۔ یعنی لوگ مار مار کر کھلا رہے ہیں۔ لہذا جہاں تک مار یا زور کی وجہ سے ہٹنے یا ہٹانے کا تعلق ہے وہاں تک ہٹنے سے کیا مطلب۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے سامنے ہی سے چیز اٹھا لی جائے۔ چنانچہ جب میزبان کی اس طرح سے نیت معلوم کر لی تو پھر ٹھہرنا بیکار خیال فرماتے ہیں۔
ایک بیل کے مالک ہیں کہ جنہوں نے ایک اعلی درجے کا عملی و ادبی رسالہ جاری کر رکھا ہے اور لطف یہ کہ جنوری میں سالگرہ نمبر کا اہتمام فرماتے ہیں۔ آپ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ دسمبر کے پرچے میں ایک عجیب و غریب عنوان تجویز فرما کر میرا نام چھاپ دیا کہ ہمارے "مشہور مزاحیہ نگار” اس پر مضمون لکھیں گے۔ اب آپ ہی کہیے کہ کیا میں اس عجیب و غریب مطالبے سے عہدہ برا ہو سکا ہوں۔
٭٭٭

غلیل

(۱)

گرمی کا موسم تھا۔ دوپہر کا وقت۔ گلی بھی سنسان تھی۔ خس کی ٹٹی سبب خنکی تھی اور بجلی کا پنکھا ایک رفتار سے چل رہا تھا۔ تمام دروازے بند تھے۔
چارپائی کے برابر فرش پر میرے میزبان کا لڑکا کھیلتے کھیلتے سو گیا تھا۔ پاس ہی اس کی ربڑ کی غلیل اور غلوں کی تھیلی رکھی تھی۔
میں نے غلیل کی طرف دیکھا۔ "اس سے چڑیا مر سکتی ہو گی۔” میں نے دل میں کہا۔ اس کو اٹھا کر دیکھا۔ "ایک غلہ لے کر نشانہ باندھ کر دیکھا کہ اتنے میں سڑک پر سے آواز آئی:
"گزر گیا ہے زمانہ گلے لگائے ہوئے ”
خس کی ٹٹی کے بازو میں سے میں نے جھانک کر دیکھا۔ ایک جوان آدمی ایک رومال میں کچھ لٹکائے چلا جا رہا تھا گاتا ہوا۔ جی میں آیا اسے غلہ مار کر دیکھیں، قریب تو تھا ہی۔ سیدھ باندھ کر میں نے ربڑ کو خوب کھینچ کر غلہ مارا، غلہ پشت میں لگا اور گاتے گاتے وہ ایک دم سے رک گیا۔”زمانہ۔۔۔۔۔۔۔ مڑ کر اس نے اوپر دیکھا۔ ایک نظر پھر فوراً زمین پر غلے کی طرف۔ غلہ اٹھایا۔ غور سے غلے کو دیکھا اور ہاتھ میں غلہ لیے اب دیکھتے ہیں اوپر چاروں طرف، کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ غلہ کدھر سے آیا۔ میری طرف سے کہ سامنے والے مکان کی چھت پر یا اس کے برابر والی چھت سے۔ غلہ ہاتھ میں لے کر دیکھ بھال کر چل دیا۔ گانا بند۔

(۲)

منٹ بھر نہ گزرا تھا کہ ایک کتے صاحب نظر پڑے۔ جاتے جاتے رک کر بجلی کے کھمبے کو حوائج ضروریہ کے مسائل کے انعقاد کے لیے منتخب فرمایا اور مراحل طے کر رہے تھے کہ میں نے غلہ مارا۔ "پیں۔۔۔۔۔” کر کے مسئلہ مذکور کو التوا میں ڈال کر پہلے غلہ سونگھا کہ میں نے ایک اور غلہ مارا۔ یہ پیر کے قریب ہی پرا۔ ایک دم سے اچھل کر بھاگ گئے۔

(۳)

ایک گدھے صاحب آئے۔ یہ مٹھائی کا خالی دونہ نالی کے پاس نوش کرنے لگے کہ میں نے کس کر غلہ مارا۔ جس جگہ غلہ لگا تھا اس جگہ کی کھال کو قدرے جنبش سی دی اور بس۔ میں نے دوسرا غلہ مارا۔ اب جنبش بھی نہ دی میں نے فضول سمجھا۔ چلے گئے۔

(۴)

دیر تک کوئی نظر نہ آیا تو میں پڑ رہا۔ پھر کوئی پندرہ منٹ بعد جو جھانکتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے والہ نالی کے قریب نم زمین پر ایک کتے صاحب محو خواب ہیں۔ نالی کے اوپر چھوٹی سی پلیا تھی جس پر دو سیڑھیاں مکان میں جانے کے لیے تھیں اور اس کے قریب ہی کتے صاحب سوتے تھے میں نے نشانہ تاک کر ایک غلہ رسید کیا تو ان کے کان کے پاس زمین میں لگا، ہڑبڑا کر یہ اٹھ بیٹھے۔ معاملہ سمجھنے سے قاصر رہے۔ اچھی طرح سونگھا، دیکھا بھالا کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ بیٹھ رہے کہ میں نے دوسرا غلہ مارا جو پیٹ میں لگا "میں” کر کے غلہ سونگھ کر لگے ادھر ادھر دیکھنے۔ چاروں طرف دیکھا۔ مگر پتہ نہ چلا۔ پھر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد میں نے پھر غلہ مارا۔ تو اب کے انتقاماً بھونکے۔ مگر کس پر۔ غالباً خود جناب کو پتہ نہ تھا۔ اس کے بعد پھر گلی کی طرف شبہ کیا۔ پھر اس کے بعد خود پلیا کے اندر دشمن کا شبہ کیا اور اس کے بعد جو غلہ پڑا ہے تو یہ طے کر کے ہو نہ ہو دشمن پلیا کے نیچے ہے ، لہذا قریب ہی کھرے ہو کر انہماک اور جوش کے ساتھ آگے بڑھ بڑھ کر ایسے بھونکنا شروع کیا معلوم ہو کہ پلیا اڑا دیں گے اور یہ حملے شباب پر پہنچے ہیں کہ میں نے آخری غلہ جو مارا ہے تو حملے کی کاروائی ملتوی کر کے جو بھاگے ہیں تو لوٹ کر نہ دیکھا۔

(۵)

ایک عورت گھونگھٹ میں منہ چھپائے جاتی تھی۔ پشت پر میں نے غلہ مارا۔ رک کر مڑی۔ بجائے اوپر کی پشت کی طرف سڑک پر مڑ کر دیکھا۔ غلہ اٹھا کر دیکھا۔ گھونگھٹ سے نشانہ سا لگایا ادھر ادھر۔ سمجھ میں نہ آیا کدھر سے غلہ آیا۔ ذرا دیر ٹھہر کر چلی جو سہی تو ایک اور۔ ایک دم مری۔ دوسرے مکان کی بند کھڑکیوں کی سمت دیکھ کر بولی "مجھے جو ابکی چھیڑا۔۔۔ ” بڑبڑاتی چلی گئی۔

(۶)

اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عدد "علمائے کرام” چلا آ رہا ہے۔، کندھے پر رومال ڈالے نیچا سا کرتہ۔ میں نے غلہ جو مارا تو جسم کے بجائے کرتے کے دامن میں لگا۔ رک گئے۔ مڑ کر دیکھنے کی ضرورت پڑی۔ غلہ اٹھایا۔ ہاتھ میں غلہ لے کر فرماتے ہیں ادھر ادھر دیکھ کر۔ "کون ملعون ہے ؟” اس تحقیقات ملعونیت کے سلسلہ میں جو مرے تو میں نے ایک غلہ پشت پر عرض دیا۔ بڑی پھرتی سے گھوم کر تڑپ کی کہا۔ "خبیث!” پہلے والا غلہ ناپسند کر کے پھینک کر دوسرا غلہ اٹھایا کہ میں نے تیسرا رسید کیا۔ جوتے کے پاس زمین پر یہ غلہ لگا۔ تڑپ کر منہ سے نکلا "مردود” اور غلہ پھینک کر لاحول پڑھتے روانہ مگر اس طرح کہ سمجھ میں نہ آیا کہ چلے گئے یا بھاگ گئے۔

(۷)

ایک لونڈا کوئی بارہ چودہ سال کا جا رہا تھا۔ غلہ جو مارا تو خالی گیا زمین پر پرا۔ فوراً غلہ اٹھا کر تڑپ کر بھاگا۔ ہاتھ کی چونچ بنا کر ہاتھ ہلاتا ہوا واہ بیٹا۔۔۔
ایک صاحب آئے گاتے ہوئے "۔۔۔۔۔ سکھی رے نا مانے رے جیا مورا رے ” میں نے ان کے بھی پشت پر ایک غلہ عرض کیا۔ ایک دم سے گانا بند کر کے بولے "کون ہے ؟” غلہ اٹھا کر دیکھا "کون بدمعاش ہے ” یہ کہہ کر سامنے والے مکان کے کوٹھے کی طرف شبہ کر کے کہا "میں نے دیکھ لیا ہے۔” ہاتھ اٹھا کر بولے۔ ہوش ٹھکانے کر دوں گا۔”
"۔۔۔۔گا۔۔۔۔” کر کے اچھل پڑے کیونکہ میں نئ پشت پر ایک اور غلہ عرض کیا۔ نیچے دیکھا۔ پہلا غلہ ناپسند کر کے پھینک کر دوسرا اٹھایا۔ گالیاں دے کر لگے بلبلانے۔ مگر یہ نہ سمجھ سکے کہ مارتا کون ہے اس لیے میری خس کی ٹٹی سے ملا ہوا چھجا پڑوسی کا تھا۔ اس کا دروازہ تو بند مگر کئی کھڑکیاں قریب ہی کھلی ہوئی۔ ہماری بھی کئی کھڑکیاں کھلی ہوئی۔ گالیاں تو دے رہے ہیں مگر یہ پتہ نہیں کہ کس کھڑکی کو، میں نے ایک اور غلہ مارا، وہ زمین پر پرا۔ پھر کیا تھا۔ گالیاں دے کر فرماتے ہیں "تیری ایسی کی تیسی مجھے کوئی وہ سمجھا ہے ؟۔۔۔ ” یہ کہہ کر اینٹ اٹھا کر دیوار پر مارتے ہیں اور اب میں نے چلائے دو۔۔ تین۔۔ چار۔۔۔ پہلا خالی۔۔ دوسرا خالی۔ تیسرا لگا۔ چوتھا خالی۔۔ پانچواں جو لگا تو ہاتھ ڈھیلا پھینک کے جو بھاگے ہیں تو مڑ کر نہ دیکھا۔

(۹)

ایک خوانچے والے صاحب نکلے صدا لگاتے۔ دال سیو وغیرہ وغیرہ میں نے خوانچہ پر غلے لگانے شروع کیے۔۔ ایک۔۔ دو۔۔ تین۔۔ چار۔۔ ایک بجائے خوانچے کے خود ان کو لگ گیا۔ "ارے کون ہے۔۔ یہ کون” کھڑے خوانچے لئے بغل میں مونڈھا، گھوم رہے ہیں۔ لگا جو غلہ تو خفا ہو کر اس زور سے بھاگے ہیں کہ میں تعجب کرتا رہ گیا کہ خوانچہ لے کر بھی آدمی اتنا تیز بھاگ سکتا ہے۔

(۱۰)

اس کے بعد پندرہ منٹ کوئی آیا ہی نہیں کہ ایک صاحب گردن جھکائے مسکین صورت بنائے چلے جا رہے تھے۔ میں نے کس کر ایک غلہ جو پشت پر دیا ہے تو بدن میں چستی آ گئی۔ غلہ اٹھا کر حسرت سے مسکین صورت بنا کر چاروں طرف دیکھا کر بولے :
"بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔”
سامنے والے مکان کے مکیں نہ معلوم کیا پکارے۔ جواب میں ان حضرت نے کہا: "صاحب یہ بھی کوئی بات ہے کہ راستہ چلتے غریبوں کو ستانا۔”
انہوں نے کچھ نہ سنا۔ دروازہ کھول کر بولے : "کیا کہتے ہو؟”
وہ بولے۔ "کہتے کیا ہیں۔ یہ دیکھیئے۔ ” غلہ ہتھیلی پر رکھ کر دکھایا۔
اب میں بھی غلیل سے پورے فوائد اٹھانے کے لیے تیار ہو گیا تھا، میں نے سر نکال کر کہا۔ قبل اس کے کہ وہ حضرت کچھ جواب دیں۔ "صاحب ایسا نہیں چاہیے۔ بچارے سیدھے آدمی ہیں۔۔۔ دیکھ بھال کے چلانا چاہیے اور جو آنکھ میں لگ جاتی تب۔۔۔ ”
راہ گیر صاحب بولے۔۔ "دیکھ لیجیئے آپ میں کیا تو کیا کہوں۔”
سامنے والے حضرت بولے۔”کنے مارا یہ غلہ۔”
میں نے چلا کر کہا "خوب۔”
راہ گیر صاحب بولے۔ "دیکھ لو صاحب، ایک تو غلہ مار دیا پھر۔۔۔ ” میں نے کہا "اب جانے دیجیئے۔ لگ گیا دھوکے سے۔۔۔ ” پھر سامنے والے حضرت کی طرف متوجہ ہو کر "صاحب کوئی بات بھی ہو۔ لگ ہی جاتی ہے۔ وہ بچارے کب شکایت کرتے ہیں۔ ذرا دیکھ کر چلایا کیجیئے۔”
راہ گیر۔۔ "میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔۔”
سامنے والے حضرت تڑپ کر بولے۔۔ "واہ صاحب واہ۔۔ میں جانتا نہیں۔ غلیل چیز کیا ہوتی ہے ، آپ غضب کرتے ہیں۔ قسم لے لیجیے مجھ سے۔۔۔ ”
میں نے کہا "بچارے کچھ کہتے بھی ہوں۔۔ آپ قسمیں ناحق کھاتے ہیں۔۔”
مگر توبہ کیجیے یہ حضرت قسموں سے باز نہ آئے۔۔ نتیجہ ظاہر۔۔ جس کے لگی اس نے خود کہہ دیا کہ غلہ کدھر سے آیا” مجبوراً کہتا گیا۔۔ "بڑے افسوس کی بات ہے جو میں کچھ بھی نہیں کہتا۔ ایک
تو غلہ مارا پھر جھوٹ بولتے ہیں۔”
ادھر پڑوسی صاحب نے قسموں کا تانتا باندھ دیا۔ میں نے بہت سمجھایا کہ قسمیں کھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے بس احتیاط کافی ہے آئندہ کے لیے ،حتی کہ ان حضرت کو میرے چہرے کی طرف گور سے دیکھنا پڑا کہ گویا مجھے پاگل تصور کرتے ہیں۔

(۱۱)

شام کو ٹہلنے چلا گیا۔ بعد مغرب واپس جو آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صاحبزادے پٹ رہے ہیں، میں نے سفارش کی اور بچایا۔ معلوم ہو کہ آج صاحبزادے صاحب نے یہ شرارت کی ہے کہ غلیل سے راہ گیروں کی خبر لے ڈالی۔
میں نے کہا کہ بچہ ہے ، کیا مضائقہ ہے ، آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔ پھر بچے کو بھی سمجھا دیا۔ میاں صاحبزادے غلیل کا شوق ہی ٹھیک نہیں ہے ، اب تو شرارت نہیں کرو گے۔ اس نے سر ہلا کر وعدہ کیا۔ میں نے کہا مانگو معافی، تو بیچارے نے معافی مانگ لی، اس کے بعد دیر تک بچے کو سمجھاتا رہا کہ لڑکوں کو چاہیے غلیل دیکھ بھال کر چلایا کریں۔۔
٭٭٭

فقیر

(۱)

ایک روز کا ذکر ہے کہ میں غسل خانے سے نہا کر برآمدہ میں جو نکلا تو کسی فقیر بے سڑک پر کھڑکی کی چلمن میں شاید پرچھائیں یا جنبش دیکھ کر صدا دی۔ "مائی تیرے بیٹا ہوئے۔۔۔ ” نہ تو یہاں کوئی مائی تھی اور نہ کسی کو یہ گھبراہٹ تھی کہ ایک عدد لڑکا خواہ مخواہ تولد ہوتا پھرے۔ دراصل یہ فقیر ان میں سے تھا جو مانگنا بھی نہیں جانتے۔ ذرا اس احمق سے کوئی پوچھتا کہ بیوقوف یہ کونسی عقلمندی ہے کہ کسی سوراخ میں سے بھی کوئی ہلتی چیز دیکھ پائی اور بیٹا بیٹی تقسیم کرنا شروع کر دے۔ پھر مجھے فقیروں سے بھی بغض ہے کیونکہ جب کبھی کوئی فقیر ملتا ہے اور میں اسے دیکھتا ہوں تو اسے ایسا پاتا ہوں کہ مجھ سے دو کو کافی ہو۔ چنانچہ میں نے کھڑی کی سلاخوں میں سے چق اٹھا کر اس نیت سے دیکھا کہ اس سے کیوں نہ پوچھا جائے کہ نوکری کرے گا۔

لیکن جب میں نے دیکھا تو ایک قابل رحم ہستی کو پایا۔ ایک فاقہ زدہ ضعیف العمر چیتھڑے لگائے بے کسی اور بے بسی کی زندہ تصویر تھا۔ سچ ہے ان لوگوں کو مانگنا بھی نہیں آتا۔ نہ تو یہ عمدہ گیت جانتے ہیں، نہ کوئی لے جانتے ہیں، نہ صدا جانتے ہیں۔ بس آئے اور دانت نکال دیے یہ دکھانے کو کہ دیکھو ہم بھی اس دنیا میں رہتے ہیں اور یوں رہتے ہیں۔
مجھے اس کی حالت زار دیکھ کر بڑا رحم آیا اور میں نے اس سے کہا کہ گھوم کر صدر دروازے پر آ جائے۔
صبح کا وقت تھا۔ میں تو چائے پینے لگا اور گھر والی سے کہا کہ ایک اپنے سے زیادہ قابل رحم فقیر آیا ہے ، اسے دو چار پیسے دے دو، صبح کا وقت ہے ، دو توس اور ایک پیالی چائے دے دو۔
جتنی مشٹنڈے فقیروں سے مجھے نفرت ہے اس سے دوگنی نفرت میری بیوی کو ہے اور اسی مناسبت سے ان فقیروں یعنی محتاجوں سے الفت ہے جو واقعی رحم و کرم کے مستحق ہیں۔
خانم نے فقیر کا نام سن کر جلدی جلدی دو گرما گرم توسوں کو انگیٹھی پر سینک کر خوب مکھن
لگایا اور ایک پیالی میں خوب سارا دودھ ڈال کر چائے بنا دی اور مزید برآں کچھ مٹھائی بھی رکھ دی اور سینی میں چار پیسے رکھ دیے اور لڑکے سے کہا کہ فقیر کو صدر دروازے سے اندر یعنی برآمدے میں بٹھلا کر کھلا دے۔

(۲)

اب قسمت تو ہماری ملاحظہ ہو کہ وہ غریب محتاج جسے میں نے بلایا صدر دروازے کی پشت پر تھا۔ گھوم کر آ جانا اس کے لیے مشکل ہوا یا آتے میں کسی دوسرے سے مانگنے لگا یا پھر اپنی راہ کھوٹی نہ کرنا چاہتا ہو گا۔ قصہ مختصر وہ تو آیا نہیں اور اس کے بدلے پھاٹک میں ایک اور فقیر صاحب داخل ہوئے اور اپنی صدا لگانے بھی نہ پائے تھے کہ کتے نے ان کا استقبال کیا، ان کے پاس ایک موٹا سا ڈنڈا تھا، اس کے دو چار ہاتھ نہ گھمانے پائے تھے کہ لڑکا ناشتہ لے کر پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک فقیر صاحب گلے میں مالا ڈال۔ موٹا سا فقیرانہ ڈنڈا اور لباس۔ گلے میں جھولی، تمدک باندھے موجود ہیں۔ اس نے کتے کو ڈانٹا اور کہا سائیں جی برآمدے میں آ جاؤ۔ سائیں جی نے غنیمت سمجھا اور ناشتہ شروع کر دیا اور ادھر میں نے خانم سے کہا کہ پرانا سوئیٹر اور ایک قمیض فقیر کو اور بھیج دو۔ سردی کا وقت ہے اور غریب مر رہا ہو گا جاڑے میں۔ خانم نے جلدی سے ایک قمیض اور سوئیٹر پرانا لیا اور لڑکے کو دیا۔ میں نے لڑکے سے پوچھا کہ فقیر کیا کہتا ہے ؟ لڑکے نے کہا خوب دعائیں دے رہا ہے اور کھا رہا ہے۔ لڑکا قمیض اور سوئیٹر لے کر پہنچا اور وہ بھی صاحب کی نذر کیا۔ اتنے میں میں چائے پی کر باہر پہنچا تاکہ فقیر کو گرم کپڑے پہنتے ہوئے دیکھنے سے جو خوشی حاصل ہو سکتی ہے اس سے لطف اٹھاؤں۔

(۳)

میں باہر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ہٹا کٹا انتہا سے زیادہ مضبوط مضبوط فقیر ڈکاریں لے رہا ہے اور سوئیٹر اور قمیض ہزاروں دعاؤں کے ساتھلپیٹ کر جھولی میں رکھ رہا ہے۔ دراصل یہ مشٹنڈا صرف ایک سینہ کھلی فقیروں والی صدری پہنے ہوئے تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ صبح کی سرد ہوا سے لطف اٹھا رہا ہے۔ سینہ بالشت بھر اونچا، داڑھی منڈی ہوئی، بلے چڑھے ہوئے۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت لگے مجھے دعائیں دینے۔
اب میں آپ سے کیا عرض کروں۔ سارا کھایا پیا خون ہو گیا۔ جان سلھ کر رہ گئی۔ جی میں تو یہی آیا کہ اس کمبخت کا منہ نوچ لوں۔ لگے حضرت دعائیں سے کر رخصت ہونے۔ دعاؤں میں مبالغہ اور غلو سے میری اور بھی جان جلی۔ اتنے میں خانم نے بھی جھانک کر دیکھا وہاں بھی یہی حال ہوا۔ اب بتائیے کیا کیا جا سکتا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ میں حضرت کو اس طرح ستم توڑ کر چلا جانے دوں۔ میں اسی شش و پنج میں تھا کہ میرے ایک دوست آ گئے۔ میں نے دو لفظوں میں فقیر کی ستم آرائی بیان کی اور پھر فقیر سے کہا:
"تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔ ”
سادہ لوح تو دیکھے کہ یہ حضرت اس ریمارک کو سن کر اپنے تہمد کی طرف متوجہ ہو کر محض میری جان حزیں پر گرم گستری کے خیال سے ذرا نیچا کر لیتے ہیں۔
"کمبخت” میں نے اور جل کر کہا "اتنے موٹے تگڑے ہو کر بھیک مانگتے ہو۔ بڑے شرم کی بات ہے۔”
اس کے جواب میں، فقیر صاحب نے اپنے پیدائشی حقوق کا اعادہ کرتے ہوئے ان سے دست برداری سے موبیری ظاہر کی اب میں یہ سوچنے لگا کہ اس بدتمیز سے کم از کم سوئیٹر اور قمیض ہی چینگ لی جائے ، میرے دوست نے کہا کہ یہ مناسب نہیں مگر وہ حضرت وہ کو کسی نے کہا ہے "درد اس سے پوچھیئے جس کے جگر میں ٹیس ہو۔”
میں نے کہا کہ خواہ ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے میں اس موذی کو یہ چیزیں ہر گز ہر گز نہ لے جانے دوں گا۔ میں نے ادھر فقیر صاحب کو لیا آڑے ہاتھوں۔ میں نے کہا:
"تم نوکری کیوں نہیں کرتے۔”
وہ کچھ جل کر بولا: "آپ ہی رکھ لیجیے۔”
میں نے فوراً رضامندی ظاہر کی اور دس روپے ماہوار اور کھانا تجویز کیا۔ فقیر صاحب اس کے جواب میں بولے :
"اور گھر والوں کو زہر دے دوں۔”
میں نے کہا۔ "کیوں؟”
وہ بولا۔ "آپ دس روپیہ دیتے ہیں۔ ڈھائی آنہ روز کا تو گائے رزقہ کھاتی ہے اور ایک بیوی اور تین بچے۔ پانچ روپے میں گذر کیسے ہو۔”
گائے بھی ہے۔ تمہارے پاس؟ میں نے متعجب ہو کر کہا۔
وہ بولا۔ "دو روپیہ مہینہ چرانے والا لیتا ہے ، گائے نہ ہو تو صاحب کام کیسے چلے۔”
"کام کیسے چلے !” میں نے تعجب سے کہا۔ "ہمارا کام کیسے چلتا ہے۔”
وہ بولا: "صاحب آپ بڑے آدمی ہیں۔ ہم بھلا کہاں سے پیسہ لائیں جو روز تین سیر دودھ خریدیں۔”
"تین سیر!” میں نے متعجب ہو کر کہا۔ "تین سیر! بھئی تین سیر کا خرچ کیسا۔”
معلوم ہوا تو خیر سے خود حضرت دو سیر دودھ یومیہ نوش کرتے ہیں۔ میں پھر تنخواہ کے سوال پر آیا تو عسرت کی شکایت کرتے ہوئے تیس روپیہ ماہوار گھر کا خرچ بتایا اور قائل ہو کر کہا کہ اگر کم و بیش کسی روزگار میں اتنی کمائی ہو جائے کہ تنگ ترشی سے بھی گھر کا خرچ چل جائے تو فقیری چھوڑنے کو ابھی تیار ہوں۔
اب میں اپنے دوست کی طرف دیکھتا ہوں اور وہ میری طرف، پھر معلوم ہوا کہ حضرت دوپہر میں قیلولہ کے سخت عادی ہیں اور کسی صورت میں بھی دوپہر میں تو کام کر ہی نہیں سکتے۔ ویسے ہر طرح کوئی پیشہ، دھندا، نوکری، غرض جو بھی بتاؤ اس کے لیے حاضر ہیں اب آپ ہی بتائیے میں اس موذی کو کیا جواب دیتا۔ میرا وہ حال کہ مرے پہ سو درے ، اتنے میں ملازم آیا، باوجود سخت تلاش کے وہ محتاج نہ ملا۔ اگر میرے دوست نہ ہوتے تو غالباً میں اس موذی سے ضرور کپڑے چھین لیتا۔ مگر میں نے اور ترکیب سوچی۔

(۳)

میں نے قطعی طور پر فقیر صاحب سے کہا کہ میں تمہیں اس حرام خوری کی سزا دیے بغیر ہر گز ہرگز نہ جانے دوں گا۔ پچاس دفعہ کان پکڑ کر اٹھو بیٹھو اور خبردار جو پھر کبھی اس طرف کا رخ بھی کیا۔
فقیر نے غصے کے شعلے میری آنکھوں میں دیکھے ، ممکن ہے یہی سوچا ہو کہ سوئیٹر اور قمیض دونوں بالکل ثابت ہیں، سودا پھر بھی برا نہیں، نہایت ہی خاموشی اور سادگی سے اپ نے ڈنڈا اور پیالہ اپنا ایک طرف رکھا۔ جھولی اور مالا اتار کر رکھا اور تہمد اونچی کر کے کسنے لگے کہ میں نے ڈانٹا۔ "بدتمیز۔۔۔ ” اس کے جواب میں نہایت اطمان ن سے فرماتے ہیں۔”نیچے جانگیا پہنے ہوں۔” اور عذر کیا کہ اٹھنے بیٹھنے میں تہمد مخل ہو گی۔
لیکن میں چونکہ سزا دینا چاہتا تھا لہذا میں نے اس کی بھی اجازت دے دی۔ اب یہ حضرت ایک ہونکارے کے ساتھ بڑے زور سے ہونہہ کر کے بغیر کان پکڑے ہوئے پہلوانوں کی طرح ایک سپاٹے کے ساتھ پاؤں سرکا کر بیٹھک لگا گئے۔”
"بدتمیز بیہودہ۔۔” میں نے جل کر کہا۔ "یاد رکھو تمہیں پولیس میں دے دوں گا کان پکڑ کر سیدھی طرح اٹھو بیٹھو۔”
دو دفعہ ان کو میں نے کان پکڑوا کر اٹھنا بیٹھنا بتایا اور یہ حضرت سزا بھگتنے میں مشغول ہو گئے۔ یہ حضرت میری پشت کی طرف تھے اور ہم دونوں دوست فقیروں کو برا بھلا کہنے میں مشغول ہوئے۔

(۵)

ایک دم سے مجھے خیال آیا کہ "کان پکڑی” غالباً پچاس دفعہ ہو چکی۔ مڑ کر میں نے دیکھا تو سرعت کے ساتھ جاری تھی۔ میں نے پوچھا تو وہ بولا کہ ایک سو دس دفعہ کر لی۔ میں نے کہا۔ "بس بس۔ اب اجؤ۔ میں نے پچاس دفعہ کو کہا تھا۔ زیادہ کیوں کی”
وہ بولا۔ "صاحب پانچ سو بیٹھکیں روز لگاتا ہوں، میں نے سوچا کہ اب بار بار کون کرتا پھرے لاؤ یہیں پوری کر لوں۔”
"ارے !” میں نے اس کمبخت کو اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ” کیا تو پہلوانی کرتا ہے ؟” واللہ میں نے اب اس کو غور سے دیکھا۔ کان تاٹے ہوئے۔ سینہ اور شانہ اور پتیں! خوب کسرتی بدن!
جواب دیتے ہیں ” ویسے نہیں کہتا۔ شہر کے جس پٹھے سے جی چاہے لڑا لیجیے۔”
میں نے کہا کمبخت جی میں تو یہی آتا ہے کہ تیرا اور اپنا سر ملا کر لڑا لوں نکل یہاں سے ابھی۔۔ ابھی۔۔ نکل۔۔ نکالو اسے۔۔”
جلد جلدی اس نے اپنی جھولی وغیرہ اٹھائی اور سینکڑوں دعائیں دیتا ہوا چلا گیا اور کمبخت مجھے انتہا سے زیادہ پست اور شکست خوردہ حالت میں چھوڑ گیا۔
٭٭٭

"قرض مقراض محبت است؟”

(۱)

ایک روز کا ذکر ہے کہ میں چھاؤنی سے اپنے گھر کی طرف چلی آ رہی تھی کہ میں نے دیکھا ایک بڑے میاں کرسی پر ایک بڑی بھاری یعنی کوئی ڈیڑھ گز کی مصنوعی قینچی لیئے دونوں ہاتھوں سے ہنس ہنس کر اور اچھل اچھل کر قینچی کے دونوں پھل چلا چلا کر چلّا رہے ہیں۔ قرض مقراض محبت است۔ ان کے ارد گرد مجمع والے ہنس رہے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چلائے :
"مس صاحبہ ذرا ادھر تشریف لایئے گا۔”
میں نے ان کے دلچسپ اور تمسخر آمیز چہرہ کو دیکھا۔ کس طرح بڑے میاں شگفتہ ہو رہے تھے ، مجھے ان کی صورت دیکھ کر بڑی ہنسی آئی کیونکہ وہ باتیں کرنے میں بھی قینچی کے بڑی بڑی مصنوعی پھلوں کو حرکت دے رہے تھے۔ میں ان کے پاس مسکراتی ہوئی پہنچی اور میں نے کہا "فرمائےہ۔ ارشاد”
"کیا میں آپ کا نام معلوم کر سکتا ہوں؟” بری میاں نے بیحد شگفتہ اور مجسم لطیفہ بن کر پوچھا۔
میں نے نام بتایا اور کہا۔ "میرا نام مس ای جانسن ہے۔”
"شکریہ شکریہ” بڑی میاں نے قینچی کے پھلوں کو ہلاتے ہوئے کہا۔ "غالباً مس صاحبہ آپ کسی اسکول میں۔۔۔”
"جی نہیں” میں نے کہا۔ "میں لیڈی ڈاکٹر ہوں، فرمائیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔”
"اوہو ہو” بڑے میاں اپنے چہرے پہ ایک زلزلہ پیدا کر کے بولے۔ "او ہو۔ بس کچھ نہ پوچھئے بیماروں کا حال۔ ایک سے ایک بے ایمان بھرا پڑا ہے۔ فیس کو کہتے ہیں کہ کل دیے جائیں گے۔ دوا کے دام کہتے ہیں کہ مہینے پر دیں گے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کے پاس کوئی خزانہ تو ہے نہیں۔ کوئی لاٹری تو نکل نہیں آئی ہے۔ آخر دنیا کے کام چلانا ہیں مگر لوگ ہیں کہ نہیں مانتے۔ مروت اور کام بگاڑ دیتی ہے۔ غریب اپنی غربت کا بہانہ کرتے ہیں اور امیر اپنی فرصت کا نتیجہ یہ کہ دواؤں کے دام آج آتے ہیں نہ کل۔”
اتنا کہہ کر بڑے میاں میری طرف مخاطب ہو کر بولے۔ "کیوں مس صاحبہ میں غلط تو نہیں کہا۔”
مجھے ہنسی آئی کیونکہ اس سے زیادہ صحت اور صفائی کے ساتھ شاید میرے حالات کوئی آئینہ نہ کر سکتا ہو گا، چنانچہ میں نے کہا۔ "بڑے میاں آپ کا فرمانا بالکل درست ہے۔ مگر آخر اس کا علاج۔”
"اوہو” بڑے میاں نے کہا۔ "بس علاج ہی کے تو دام مانگتا ہوں۔ اس کا میرے پاس شرطیہ علاج ہے۔ مگر ساڑھے سات روپے خرچ کرنا پڑیں گے اور وہ بھی ابھی، اور علاج لے لیجیے۔”
یہ کہہ کر ایک خوبصورت بکس کی طرف انہوں نے ہاتھ بڑھایا۔ جو برابر ایک اونچی سی میز پر رکھا تھا اور بولے۔ "پھر لطف یہ کی اگر پسند آئے تو لے لیجئے ورنہ کوئی زبردستی نہیں۔”
یہ کہہ کر بڑے میاں نے صندوق کھولا اور اس میں ایک چوکھٹا نکالا جس میں منہ دیکھنے کے آئینہ میں بڑی صفائی سے یہ عبارت تحریر تھی۔ "قرض مقراض محبت است” میں چوکھٹے کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ بڑے میاں بولے کہ "بس اس کو آپ لے جائیے اور کمرے میں لگا دیجئے۔ کم از کم تھوڑی بہت تو ضرور اس سے بچت ہو گی۔”

میں نے اس تجویز کو پسند کیا اور جیب سے دس کا نوٹ نکال کر دیا۔ وہ بولے کہ میرے پاس بقیہ دام نہیں۔ برابر ایک ہندوستانی جنٹلمین کھڑے تھے ، ان سے دام پوچھے تو انہوں نے اپنا بٹوا دیکھا اور کہا میرے پاس بھی نوٹ ہے پانچ روپے کا۔
بڑے میاں تو مسخرہ پن کر ہی رہے تھے۔ انہوں نے کہا نوٹ مجھے دیجئے۔ انہوں نے نوٹ بڑے میاں کو دیدیا اور بڑے میاں نے اس کے جواب میں ایک اور ویسا ہی چوکھٹا نکال کر انکو دے دیا اور پانچ کا نوٹ مجھے دیکر بولے۔ "آپ کو بجائے ساڑھے سات کے پانچ روپیہ میں ملے گا۔” پھر جنٹلمین کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ "آپ کو بھی ڈھائی روپے کا فائدہ رہا۔ میرے پاس صرف دس پہنچے۔ اور مفت میں پانچ کا نقصان مجھے رہا۔”
لوگ یہ لطیفہ سن کر ہنس دیئے۔ تو بڑے میاں بولے۔ "اجی حضرات آپ ہنستے کیا ہیں۔ یہ دونوں ایسے تو نہیں جو میرا ڈھائی روپیہ مار لیں۔”
"مگر مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔” ان ہندوستانی جنٹلمنل نے کہا۔
"ارے ” بڑے میاں نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ "مسٹر آپ بھی عجیب آدمی ہیں! اجی حضرت آپ ضرورت کو دیکھتے ہیں کہ نفع ہو؟ اور پھر آپ نہ لیں گے تو ادھر آپ کا ڈھائی روپیہ کا نقصان ہو گا اور مس صاحبہ کو الگ ڈھائی روپیہ دینا پڑے گا۔ کیونکہ ایک کے دام ساڑھے سات روپیہ ہیں اور دو کی قیمت صرف دس۔”
لوگ بڑے میاں کے اس لطیفہ پر ہنسنے لگے۔ دو چار آدمیوں نے اور خریداری کی۔ اور میں وہاں سے چلتی بنی۔ اس فریم کو میں نے اپنے کمرہ میں لگا دیا۔ جہاں مریض بیٹھے تھے۔ تاکہ ہر کس و ناکس کی اس پر نظر پڑتی رہے۔ بات یہ ہے کہ میرے بڑے اخراجات تھے۔ نیا نیا کام تھا اور آمدنی اور خرچ کا یہ حال تھا کہ مشکل سے کھینچ تان کر گزر ہوتی تھی۔ بلکہ بسا اوقات نادہند مریضوں کی وجہ سے خود قرض دار ہو جانا پڑتا تھا۔

(۲)

ڈاکٹر بیاس شہر کے مشہور سرجن تھے اور پھر میرے تو سب ہی ڈاکٹروں سے ملاقات تھی۔ ان کے ہاں کوئی خاص تقریب تھی جس کے سلسلے میں انہوں نے دوست احباب کے علاوہ ہم پیشہ جماعت کو بھی خاص طور پر مدعو کیا تھا اور مجھ سے خاص طور پر تاکید کر دی تھی۔
میں جو پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ سب ہی ڈاکٹر تو موجود ہیں۔ اس وقت ایک عجیب و غریب درد سر کے مریض کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ یہ شہر کے ایک نہایت ہی متمول نوجوان کا تذکرہ تھا، جن کو یہ درد سر کی عجیب و غریب بیماری تھی۔ پہلے ان کے سر میں کالج میں درد ہوا پھر کام چھوڑ کر بیٹھ رہنے سے بھی درد مںص کمی نہ ہوئی۔ اگر کلاس میں جائیں تو درد سر بڑھ جائے اور کھیلنے جائیں تو اور بڑھ جائے۔ مطلب یہ کہ یہ درد سر بھی نرالا تھا۔ کام کرو تو بڑھ جائے۔ آرام کرو تو بڑھ جائے۔ یہاں ان مریض کی دراصل بڑی تعریف ہو رہی تھی کیونکہ وہ قریب قریب سب کا علاج کرا چکے تھے اور ہر ایک کو بھرپور روپیہ کھلا چکے تھے۔ سب کا خیال تھا کہ نہایت ہی خلیق اور نہایت ہی تہذیب یافتہ اور نہایت ہی فراخدلی سے ڈاکٹروں کو اندھا دھند فیس دینے والا مریض ہے۔ جو مانگو وہ دیتا ہے۔ بلکہ زائد دیتا ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ ایسے مریض مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ درد سر کی اصلی وجہ وہم اور بیکاری اور ورزش نہ کرنا اور دن بھر پڑا رہنا تھا۔ کوئی ان کا دوست نہ تھا۔ کوئی قریبی عزیز یا رشتہ دار، مرد یا عورت کوئی نہ تھا۔ غرض ان عجیب و غریب مریض کا ذکر سب ہی نے اپنے اپنے تجربے کے موافق کیا اور سب نے تسلیم کیا کہ انکا درد سر لاعلاج ہے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں ڈریسنگ روم میں تھی کہ کمرے کے باہر سے نوکر نے گھنٹی بجائی، یعنی اطلاع کی کہ کوئی مریض آیا ہے۔ میں نے گھنٹی کی رسید دی یعنی یہ کہ ڈرائنگ روم میں اترواؤ۔ ڈرائنگ روم میں پردے کا پورا انتظام تھا اور ڈولی یا گاڑی پر جو مریضہ آتی اس کو میں اترواتی تھی۔ دوا خانہ باہر تھا۔ برآمدے میں۔
میں کپڑے وغیرہ پہن کر ڈرائنگ روم میں آئی تو دیکھا کہ ایک شخص اوور کوٹ پہنے گلو بند میں سر اور منہ لپیٹے اس طرف منہ کئے میری بڑی رنگین تصویر کو دیکھ رہا ہے۔ میں سمجھی کہ مریضہ کے کوئی رشتہ دار ہیں، فرش کمرے کا چونکہ ملائم تھا اس وجہ سے میرے آنے کی آہٹ تک ان کو معلوم نہ ہوئی۔ جب میں نے دانستہ طور پر کرسی کھینچی تو یہ میری طرف مڑے۔ انگریزی میں تبادلہ سلام کے بعد میں نے ان سے بیٹھنے کو کہا اور خود بھی بیٹھ گئی۔ اس وقت ان کا منہ اوورکوٹ کے کالر اور گلوبند میں اس طرح چھپا ہوا تھا کہ سوائے ناک کے مشکل سے کوئی خاص حصہ چہرے کا نمایاں تھا۔ یہ بیٹھ گئے ، میں منتظر تھی کہ کچھ کہیں، لیکن وہ چپ میز کرید رہے تھے۔ مجھے سخت غصہ آیا اور میں نے کہا :
"فرمایئے کیا کام ہے۔”
وہ : "آپ ڈاکٹر جانسن کی صاحبزادی ہیں؟”
میں : "جی ہاں۔ فرمائیے۔”
وہ : "میں ان سے ملنا چاہتا تھا۔”
اب میں سمجھی کہ یہ دیوانہ ہے۔ میں نے غور سے آنکھوں کو دیکھا۔ مجھے کچھ ہنسی سی آئی اور شرارت سوجھی۔ میں نے بھی نہایت سنجیدگی سے کونے والی میز پر جو چھوٹی سے الماری رکھی تھی اور جس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا "زہر” اس کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ "میرے والد صاحب سے اگر ملاقات کرنا بے حد ضروری ہو تو اس میں سے آپ کو ایک خوراک لینا پڑے گی۔”
"معاف کیجئے گا۔” انہوں نے کہا۔ "میں ڈاکٹر صاحب سے ملنا چاہتا تھا۔”
"کون ڈاکٹر صاحب۔” میں نے پوچھا۔
انگلی سے انہوں نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔ اور بولے "جلدی میں میں نے سائن بورڈ غور سے نہیں پڑھا، جن کا یہ مطب ہے انہی سے ملنا چاہتا ہوں۔”
"مگر یہ مطب تو میرا ہے۔ میں لیڈی ڈاکٹر مس جانسن ہوں۔ آپ کسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی مریضہ ہے تو میں خدمت کے لئے حاضر ہوں۔”
"میں خود مریض ہوں۔”
"معاف کیجئے گا” میں نے کہا۔ "میں وسمجھی کہ کوئی عورت ہے۔ میں صرف عورتوں کا علاج کرتی ہوں۔” وہ بولے۔ "اوہو۔ معاف کیجئے گا۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی۔
چہرہ پر سے اب انہوں نے گلو بند ہٹا دیا تھا۔ اچھی خاصی داڑھی تھی۔ ویسے نوعمر معلوم ہوتے تھے۔ چہرے کا رنگ صاف مگر کچھ زردی مائل سا تھا۔
میں نے کہا "کوئی حرج نہیں، جلدی میں شاید آپ نے سائن بورڈ نہیں پڑھا۔”
"جی ہاں” انہوں نے کہا۔ "یہی غلطی ہوئی جلدی میں دیکھا نہیں میں نے۔۔۔ آپ عورتوں کا علاج کرتی ہیں۔۔۔ لیکن کیا آپ اپنے کمپونڈر سے نہ کہہ دیں گی کہ مجھے وہ اس وقت دوا کی ایک خوراک بنا دے۔۔۔”
میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا "معاف کیجئے میں صرف عورتوں کا علاج کرتی ہوں۔”
وہ بولے "مگر اس میں شاید کچھ نقصان نہ ہو گا کہ ایک خوراک آپ دوا کی دلوا دیں۔ مجھے بے حد اور سخت ضرورت ہے۔ میری بڑی بری حالت ہے۔”
میں نے کہا "آپ کو کیا دوا چاہیے۔ جو لینا ہو وہ باہر دوا خانے سے لے لیجئے۔ اس میں دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔”
وہ بولے۔ "میں دوا کا نام کیا جانوں۔ آپ کہہ دیجئے کہ کوئی ایسی دوا دے دے جس سے درد سر میں خاص فائدہ ہو۔ میں درد سر کا پرانا مریض ہوں اور آج غیر معمولی طور پر صبح تڑکے مجھے اپنے ایک دوست کو پہنچانے اسٹیشن جانا پڑا۔ تانگے میں درد سر بڑھ جانے کا اندیشہ تھا، لہذا پیدل چلا آ رہا ہوں اور دیکھتا آ رہا تھا کہ کسی ڈاکٹر کا سائن بورڈ نظر پڑ جائے تو دوا لوں۔”
میں نے اشارے سے کہا بیٹھئے۔ کیونکہ میں جان گئی کہ یہ کون حضرت ہیں۔ وہ بیٹھ گئے تو میں نے کہا کہ "جناب کا نام مسٹر محسن تو نہیں ہے۔”
"جی ہاں” انہوں نے تڑپ کر کہا۔ "آپ کو کیسے معلوم ہوا؟”
میں نے اختصار سے ان کو بتایا کہ کس طرح ڈاکٹر بیاس اور دوسرے ڈاکٹر آپ کے درد سر کا ذکر کر رہے تھے۔ اور پھر آپ نے اچھی طرح سمجھایا ہے کہ آپ کا مرض پرانا ہے اور بغیر آپ کا معائنہ کئے ہوئے کوئی دوا دینا اصول کے خلاف ہے۔”
وہ بھولے پن سے بولے۔ "تو آپ میرا معائنہ کر لیں۔”
میں نے کہا "عرض کیا نا کہ میں صرف عورتوں کا علاج کرتی ہوں۔”
"تو پھر مجھے دوا تو آپ کو دینا ہو گی۔”
"میں بغیر دیکھے بھالے دوا نہیں دے سکتی۔”
وہ بولے "تو آپ میرا معائنہ کر سکتی ہیں، میں آپ کو ڈبل فیس دوں گا۔”
"ڈبل فیس۔” میں نے اپنے دل میں کہا بتیس روپے ، پھر میں نے کہا کہ اگر یہ شخص مجھے بتیس روپیہ دے تو کیا ہرج ہے ، مجھے معلوم ہی ہے کہ بڑا خلیق اور ملنسار آدمی ہے چنانچہ میں نے کہا "بتیس روپیہ ہوں گے۔”
"بہت بہتر۔” انہوں نے کہا۔ "آپ معائنہ کیجئے۔”
میں نے مردوں کا کبھی معائنہ نہ کیا تھا۔ مگر پیٹ بری بلا ہے۔ میں نے آلہ نکال کر سینہ دیکھا۔ پھر پشت پر سے بجا کر دیکھا۔ جگر دیکھا، دل دیکھا۔ غرض اچھی طرح معائنہ کر کے میں نے رائے قائم کی اور نسخہ تجویز کیا۔ دوا کھانے کی دن میں تین مرتبہ، علی الصبح بعد ناشتہ دوپہر کو اور شام کو کھانے کے بعد۔ اور تیل گردن اور سر کی مالش کے لئے تجویز کیا۔ اس کے بعد ان کو مالش کا طریقہ سمجھایا۔ کسی طرح مالش کی جائے۔ دوران خون کا اصول سرسری طور پر بتا کر میں نے مالش کا قاعدہ سمجھایا۔ اس پر وہ گھبرا کر بولے مالش کا طریقہ میری سمجھ میں بالکل نہ آیا۔ میں نے پھر واضح کیا تو پھر ان کی سمجھ میں نہ آیا تو میں نے کہا کہ آج مںر کہئے تو خود مالش کر کے بتا دوں تو عملی طور پر یہ طریقہ آپ کی سمجھ میں خود آ جائے گا۔ مگر اس کی آپ کو علیحدہ فیس دینا پڑے گی۔ وہ راضی ہو گئے اور میں نے کرسی پر ان کو قاعدہ سے بٹھایا اور گرم اسپنچ لے کر سینک اور مالش اچھی طرح سے کی۔ کرسی پر ان کو تکلیف ہو رہی تھی اور میں نے یونہی کہا کہ یہ کرسی اس کام کی نہیں ہے۔ میں نے ڈھائی سو روپے کی خاص کرسی اسی مالش اور سر اور منہ کے معالجہ کے لئے منگائی ہے۔ میں مالش کرتی جاتی تھی اور اس وہمی مریض کو کرسی کی بناوٹ بتاتی جاتی تھی۔ میں نے کہا کہ کرسی آئی اسٹیشن پر پڑی ہے اور آج وی پی اس کا میں چھڑا لوں گی۔ یہ میں نے اس خیال سے اور بھی کہا کہ کہیں نقد ادائی میں فیس وغیرہ کی دیر نہ ہو۔
مالش کے بعد ہی میں نے گرم چائے کا ایک پیالہ اور انڈے تجویز کئے تھے۔ چنانچہ اس کا بھی مجھے اپنے مریض کیلئے انتظام کرنا پڑا۔ میں نے مالش کے بعد اچھی طرح گرم پانی سے دھو کر گلو بند لپیٹ دیا اور گرما گرم چائے اور انڈے کھلا کر اپنا بل پیش کر دیا۔ بتیس روپے فیس معائنہ، دس روپیہ فیس مالش، سات روپے کی دوائیں۔ یہ بل بنا کر ان کو دیا، جیب میں ان کی کل بیس روپے نکلے۔ باقی کے انتیس انہوں نے کہا کہ میں گھر جا کر بھیج دوں گا۔ میں نے کچھ خاموش ہو کر اس خوبصورت چوکھٹے کی طرف دیکھا جس پہ لکھا تھا۔ "قرض مقراض محبت ہے۔” انہوں نے بھی دیکھا اس طرف اور مطلب سمجھ گئے۔ بولے "ایک میرے پاس بھی ہے بالکل ایسا۔۔۔ مگر آپ کو میں نے دیکھا ہے شاید۔۔۔”
ایک دم میں نے بھی پہچان لیا ان کو۔ "اوہو” میں نے کہا۔ "میں نے اور آپ نے سائن بورڈ ساتھ ہی لئے تھے۔ آپ نے صورت بدل رکھی ہے بالکل۔ آپ کے اس وقت داڑھی نہ تھی۔ اس کے بعد پھر چوکھٹے کے خریدنے کا واقعہ بیان کر کے ہم دونوں نے تصدیق کی۔ چلتے وقت بڑی اخلاق سے رخصت ہوئے اور گئے ہوئے گھنٹہ بھی نہ ہوا ہو گا کہ آدمی بل کے بقیہ روپے لیکر آ گیا۔
دوسرے روز ان کا ایک خط آیا اور اس میں لکھا تھا کہ آپ نے جو مالش کی تھی اس سے میری آنکھیں کھل گئی تھیں اور یہاں کوئی ملازم اس طرح مالش نہیں کر سکتا۔ لہذا اگر آپ روزانہ مالش کر دیا کریں تو میں آ جایا کروں۔ میں آپ کی فیس دوں گا۔ میں نے جواب میں لکھا کہ میں آپ سے بجائے دس کے ساتھ روپے روزانہ فیس کے لوں گی اور مجھے مالش کرنا مقصد ہے۔ فسب میں نے اس وجہ سے کم کر دی کہ میں نے سوچا کہ مسکین اور بھولے بھالے مریض کو زیادہ لوٹنا ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ اگلے روز سے انہوں نے آنا شروع کر دیا۔ پچاس روپے پیشگی بابت فیس کے دے دیئے۔
چوتھے روز بولے وہ کرسی جو منگائی تھی وہ نہیں آئی۔ بات دراصل یہ تھی کہ میں نے دواؤں کا پارسل منگا لیا تھا۔ مجبوراً اس کا وی پی نہ چھڑا سکی۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ روپے کی وجہ سے پارسل نہ چھڑا سکی۔ "واہ” انہوں نے کہا۔ "آپ روپیہ ہم سے لے لیتیں۔ آپ تار دے دیجئے میں روپیہ آپ کو دے دوں گا۔ وہ فیس میں مجرا ہوتا رہے گا۔ مجھ اس پر آرام ملے گا۔”
بات چونکہ ٹھیک تھی لہذا میں نے منظور کر لیا اور تار دے دیا۔ تیسرے روز کرسی آ گئی اور دام مسٹر محسن نے دے دیئے۔ اب وہ اس کرسی سے بے حد خوش تھے۔ بات بھی دراصل ٹھیک تھی، آرام سے کرسی میں جیسے وہ لیٹ جاتے ، میں بڑی اچھی طرح مالش کرتی۔
ایک روز جو وقت پر آئے تو میں نئی دواؤں کا بل لئے بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر بولے۔ "اوہو! یہ تم قرض منگاتی ہو اور اس پر اتنا سود کارخانہ والا چارج کرتا ہے۔ قریب دو سو کے۔”
میں نے کہا۔ "مجبوری ہے۔ کیونکہ دوا خانہ دراصل چل ہی اسی طرح رہا ہے۔ پھر مریض لوگ دواؤں کی قیمت مہینوں ادا نہیں کرتے۔”
وہ بولے۔ "تم ہم سے لے دام پھر فیس میں اپنی کاٹتی رہنا۔”
"بائیس سو روپے فیس کے ” میں نے ہنس کر کہا "مسٹر محسن آپ کا شکریہ، میں قرض کسی کا بھی نہیں کرنا چاہتی۔ آپ جانتے ہیں قرض مقراض محبت است۔”
وہ ہنس کر بولے۔ "میرے پاس بھی تو یہی سائن بورڈ ہے۔ میں جانتا ہوں جب ہی تو ڈاکٹر کی دوائیں اتنی مہنگی ہوتی ہیں کہ سینکڑوں روپیہ آپ سود میں دے دیتی ہیں۔ اگر سود نہ دینا پڑے تو لازمی دواؤں کی قیمت بھی گھٹے اور ہمیں یعنی مریض لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ دوائیں سستی ملیں۔”
"بات تو ٹھیک ہے۔” میں نے کہا۔ "مگر مجبوری ہے۔ کام ایسے چلتا ہے۔”
وہ بولے۔ "آپ بے تکلف مجھ سے لے لیں۔ میں تو عرصے تک علاج کراؤں گا۔”
میں نے شکریے کے ساتھ انکار کر دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔
اسی ہفتہ میں ایک روز ڈاک جو کھولی تو دوا فروشوں کی بائیس سو روپیہ کی میرے نام کی رسید موجود، خط شکریہ کا علاوہ کہ ہم نے دام بھر پائے۔ میں سخت تعجب میں کہ الٰہی یہ کیا ماجرا ہے ، مگر جان گئی کہ ہو نہ ہو مسٹر محسن معلوم ہوتا ہے پتہ یاد کر کے لئے گئے اور روپے بھیج دیئے۔ دوسرے روز مسٹر محسن جو آئے تو میں ان سے شکایت کی کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ کرنے کو وہ کر ہی چکے تھے۔ سوائے اس کے کہ میں شکریہ ادا کرتی اور کیا کر سکتی تھی۔ جب وہ مالش کرا کے چلے گئے تو میں نے ایک رسید بائس سو روپے کی ٹکٹ لگا کر مسٹر محسن کے پاس بھیج دی۔ نوکر جواب میں خط لایا۔ کھول کر جو دیکھا تو اسی رسید کے پرزے پرزے ملے اور کچھ نہیں۔ دوسرے روز جو مسٹر محسن سے کہا کہ یہ کیا معاملہ تو کچھ بگڑ کر بولے کہ "میں مہاجن مارواڑی اور نہ میرے باپ مہاجن تھے جو میں رسیدیں لکھواتا پھروں۔ فیس میں کاٹتی جاؤ۔ باقی بچیں وہ ادا کر دینا۔”
مجبوراً مجھے یہ بھی منظور کرنا پڑا۔

(۴)

میرے علاج سے مسٹر محسن کو بڑا فائدہ تھا کیونکہ میں نے تاکید کر دی تھی کہ روزانہ میرے یہاں پیدل آئیں۔ روزانہ کی مقررہ چہل قدمی نے ان کی صحت پر خاص اثر کیا۔ مسٹر محسن نہایت ہی خلیق اور دلچسپ آدمی تھے اور صبح تو کم دیر بیٹھتے مگر شام کو اکثر ٹہلنے جاتے تو کبھی کبھار میرے یہاں بھی ہو جاتے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ وہ بے تکلف ڈرائنگ روم میں چلے آئے۔ میں نقشہ پھیلائے بیٹھی تھی۔ جیسے ہی میں نے انہںم دیکھا تو نقشہ کو چھپانے کی کوشش کی۔ مگر انہوں نے اصرار کیا تو میں نے دکھایا۔ یہ نقشہ جانسن ہسپتال کا تھا۔ میری بیوقوفی تو دیکھئے کہ کلکتے کی ایک مشہور انجینئروں کی فرم سے ساٹھ روپیہ دے کر یہ نقشہ تیار کرایا تھا۔ تجویز یہ تھی کہ ایک ہسپتال بنے گا۔ بڑا سا اس کا احاطہ ہو گا۔ اندر دو بنگلے ہو گے ، ٹینس کورٹ ہو گا۔ یہ میرا ہو گا۔ اس کا نام جانسن زنانہ ہسپتال ہو گا۔ مریضوں کے رہنے کے لئے کوارٹر ہوں گے۔ غرض فرسٹ کلاس ہسپتال ہو گا۔ اس کا تخمینہ میں نے لگایا تو معلوم ہوا چالیس ہزار میں تیار ہو گا۔ زمین میں نے چکر والی سڑک پر عرصے سے منتخب کر رکھی تھی کہ یہ حصہ خریدوں گی۔ محسن صاحب نے جب یہ سب سنا تو بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ روپیہ ندارد اور یہ سب کچھ سامان پیشتر سے کر لیا۔ میں نے جواب دیا کہ اسی وجہ سے تو آپ کو دکھانا نہیں چاہتی تھی۔
میرے ہسپتال میں جو بنگلے تھے ان کا ڈیزائن بہت پسند کیا اور مجھ سے کہا کہ دو روز کے لئے نقشہ مجھے دے دو تو میں ڈیزائن کی نقل کروا لوں۔ میں نے نقشہ دے دیا اور دو روز بعد مجھے وہ واپس دے گئے۔
علاج کو کئی مہینے ہو گئے تھے اور اب درد سر کا تذکرہ تک نہ ہوتا تھا۔ مگر مالش روز ہوتی تھی۔ نہ وہ اس میں کچھ حیل و حجت کرتے اور نہ میں۔
مجھے اس دوران میں کچھ خاص آلات اور اوزار ڈاکٹری خریدنا تھے اور میں فہرست لیے دیکھ رہی تھی۔ میں نے جگہ جگہ نشانات لگا رکھے تھے مگر روپے پےس کی وجہ سے منگا نہ سکتی تھی۔ ایک روز میں پھر اس فہرست کو دیکھ رہی تھی کہ مسٹر محسن آ گئے وہ بھی فہرست دیکھنے لگے۔۔ میں ان کو مختلف اوزاروں کا اصول اور استعمال بتا رہی تھی۔ تذکرہ جو آیا تو مجھے بتانا پڑا کہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے منگا نہیں سکتی۔ کہنے لگے "ہم سے قرض نہ لے لو۔ فیس میں کاٹتی رہنا۔”
میں نے غور سے دیکھا۔ مجھے ایک دم سے ہنسی آئی اور میں نے کہا۔ "مسٹر محسن آپ کی فیس نہ ہوئی ایک مصیبت ہو گئی۔ آپ کی ویسے ہی کیا کم عنایات ہیں۔ شکریہ صد شکریہ۔ مجھے قرضے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ معلوم کیسے کیسے تو میں آپ کا قرضہ ادا کر رہی ہوں۔”
پھر ادھر ادھر کی باتیں کر کے چلے گئے۔
مگرجناب کوئی پندرہ روز بعد محسن صاحب کا آدمی میری غیر موجودگی میں ایک پارسل میرے یہاں لایا اور بڑھئی سے کھلوا کر تمام اوزاروں کے بکس نکلوا کر سجانا شروع کر دیے ، میں جو آئی تو دنگ رہ گئی۔ واقعہ جو معلوم ہوا تو میں سناٹے میں آ گئی۔ ایک خط لکھا جس کا لہجہ شاید سخت تھا۔ میں نے اس میں لکھا کہ یہ میں ہر گز گوارا نہیں کرسکتی۔ چنانچہ میں نے سب واپس کروا دیے۔ دوسرے روز آئے تو ایک ڈبہ بغل میں دابے لائے۔ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کی اور کہا کہ اچھا یہ ڈبہ قرض لے کو۔ میں راضی ہو گئی۔ اس طرح آہستہ آہستہ پورے ساڑھے تنی ہزار کے اوزار ایک ایک ڈبہ کر کے مہینہ بھر میں ہی ان حضرت نے مجھے قرض دے دیئے۔
اس واقعہ کے کوئی پانچ مہینے بعد کا ذکر ہے۔ اس دوران مسٹر محسن برابر زیر علاج تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ بیماری کا نہ وہ ذکر کرتے اور نہ میں۔ نہ وہ کہتے کہ میں اب اچھا ہو گیا اور نہ میں کہتی کہ تم اچھے ہو گئے ہو۔ اب علاج مت کرو۔ کھانے کی دوائیں البتہ وہ چھوڑ چکے تھے۔ بس ان کا تو علاج یہ تھا کہ وہ آئے۔ اپنی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ گئے اور میں آئی اور میں نے ان کے سر کی مالش کر دی۔ پھر بجائے صبح کے میں نے وقت بھی بدل دیا تھا۔ یعنی شام کا وقت رکھا تھا۔ اس کے بعد پھر اکثر ٹہلنے جاتے تھے۔ میں کہتی تھی کہ کس کدھر ملنسار اور سیدھا سادا شخص ہے۔ کوئی عیب نہیں اس میں سوائے اس کے بس داڑھی بڑھائے چلا جا رہا ہے۔ مالش میں مجھ کو یہ داڑھی سخت تکلیف دیتی تھی اور ایک آدھ دفعہ میں نے ایک آدھ ریمارک اس کے متعلق محتاط پیرائے میں کیا بھی تھا۔ مگر انہیں شاید داڑھی ضرورت سے زیادہ پسند تھی۔ اور یہ ان کا مشغلہ تھا کہ بیٹھے اس کو کریدتے رہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کوئی پانچ چھ مہینہ بعد کا ذکر ہے کہ میں عجیب مخمصے میں پھنس گئی۔ جس مکان میں کرایہ پر رہتی تھی وہ فروخت ہو رہا تھا۔ ساڑھے سات ہزار روپیہ مانگتا تھا۔ میں چالیس روپیہ ماہوار کرایہ دیتی تھی اور ساڑھے سات ہزار میں کوڑیوں کے مول جا رہا تھا۔ مجھے امید تھی کہ سات ہزار میں قطعی اور فوراً مل جائے گا۔ میں دیر تک سوچتی رہی۔ نہ معلوم کدھر خیال گیا۔ اٹھی اور محسن صاحب کے حساب کا رجسٹر اٹھا لائی۔ میری آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ یا اللہ میں اس سیدھے سادے شخص کا قرضہ کیسے ادا کروں گی۔ میں یہ سوچ رہی تھی۔ قریب دو سو روپیہ ماہوار سے زائد کے میں یہ سلسلہ مالش اس شخص سے ٹھگ رہی تھی۔ مگر وہاں تو ہزاروں کی رقم تھی۔ وجہ یہ کہ میرے اخراجات بڑھ گئے تھے۔ میں اسی فکر میں تھی کہ اسکیم تیار کروں کہ دوا خانہ کی کل آمدنی قرضہ کی ادائی میں چلی جائے۔ چنانچہ میں نے اطمینان سے بیٹھ کر اسکیم تیار کر لی۔ مجھے اسکیم بنانے سے خوشی حاصل ہوئی، اطمینان سا ہو گیا۔
اس کے بعد پھر میں مکان کے مسئلے پر غور کرنے لگی۔ مجھے خیال آیا کہ ایسا اچھا سودا ہو رہا ہے۔ مسٹر محسن سے کہوں کہ وہ لے لیں۔ ان کا ہی فائدہ ہو جائے گا، چنانچہ شام کو محسن صاحب آئے تو میں نے تذکرہ کیا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا۔ کہنے لگے کہ "تم کیوں نہیں خریدتیں۔”
میں کہہ چکی تھی اور میں نے پھر کہا۔ میرے پاس روپیہ ہوتا تو تم سے کیوں کہتی۔
وہ بولے۔ روپیہ ہم سے لے لو قرض۔
میں نے ہنس کر کہا۔ شکریہ۔ آپ کے مذاق میں سلیم کا شکریہ۔
مذاق نہیں۔ وہ سنجیدگی سے داڑھی کرتے ہوئے بولے۔ فیس میں کٹتا رہے گا۔
مجھے ہنسی آ گئی۔ اور میں نے کہا۔ فیس نہ ہوئی ایک مصیبت ہو گئی۔ دنیا کے قرضے ہیں کہ اس میں وضع ہو رہے ہیں۔
وہ بولے برسات آ رہی ہے۔ مجھے بخار وخار بھی تو آخر آئے گا ہی۔ اس کی بھی تو فیس ہو گی۔
مجھے اور ہنسی آئی اور میں نے کہا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے درر سر کی اصلی وجہ شاید کچھ اور ہی ہے اور اس کا علاج بھی شاید دوسرا ہے۔
داڑھی کریدتے ہوئے بولے۔ تو وہ علاج کب کرو گی۔
میں نے کہا آپ فضول باتیں کرتے ہیں۔ موقع نکل گا اور ایسا مکان نہیں ملے گا۔
وہ بولے۔ تمہاری صلاح ہے تو لے لوں گا۔ تم بات پختہ کر لو۔ بلکہ پھر خرید ہی لو۔ صبح میں بیعانے کی رجسٹری کرالوں۔ اپنے مختار عام سے کہہ دوں گا۔”

(۵)

مکان کا سودا سات ہزار پر میں نے بڑی دقت سے کرا دیا۔ روپیہ بھی ادا ہو گیا۔ مگر پانچویں روز رجسٹری شدہ دستاویز اور اس کا انگریزی ترجمہ جو میرے پاس پہنچا تو میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے۔ کیونکہ آپ یقین کریں کہ یہ تو سب میرے نام تھا۔ گویا میں نے خرید کیا ہے۔ اب میں کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ کہیں یہ حضرت میرے اوپر عاشق تو نہیں ہو گئے۔ کہیں مجھ سے یہ شادی وغیرہ کے متمنی تو نہیں۔ معاً مجھے خیال گزرا کہ ہو نہ ہو ایسا ہی ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو بڑی مصیبت کا سامنا ہو گا۔ محسن ایک بہترین دوست ہے لیکن اس سے زائد کے مستحق اور نہ موزوں، کم از کم میرے لیے۔ اس معاملے پر سوچتی رہی۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں یہ خیالات دور ہو گئے کیونکہ اگر ان کا ایسا خیال ہوتا تو ناممکن تھا کہ ان کی حرکات و سکنات و عادات سے معلوم نہ ہو جاتا۔ کب کا علم ہو جاتا۔ کتنی بے تکلفی ہے۔ اگر یہ خا لات ہوتے تو ان کا چھپانا امر محال تھا۔ وجہ یہ کہ نہ تو ان کا کوئی دوست ہے اور نہ ساتھی۔ لہذا جو دم بھی میری معیت میں گزرتا ہے۔ وہ ان کو غنیمت معلوم ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب اپنا اطمینان کر چکی تو میں نے کس کر ایک خط مسٹر محسن کو لکھا اور صاف صاف لکھا کہ اس دستاویز کی تنسیخ کراؤ۔ انہوں نے زبانی جواب بجھوا دیا کہ شام کو ملوں گا تب بات چیت ہو گی۔
شام کو وہ آئے تو بخدا میں پھٹ پڑی۔ جو منہ میں آیا وہ سنا ڈالا۔ مگر وہ بیٹھے داڑھی کریدا کئے۔ جواب دیا تو نہایت مختصر۔ یعنی یہ کہا ” تمہی نے تو کہا۔”
بگڑ کر میں نے کہا۔ ” تو میں نے یہ کہا تھا کہ میرے نام سے خرید لینا۔”
” تو پھر میں نے تو یہی بہتر سمجھا۔”
"آخر کیوں بہتر سمجھا۔” میں نے برا مانتے ہوئے کہا۔ "مسٹر محسن اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ تمام تعلقات منقطع کرنے پر تیار ہیں۔”
"یا الٰہی۔” انہوں نے بھی تیز ہو کر کہا۔” آخر مصیبت کیا ہے۔ کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ تم میرا روپیہ مار لوگی۔ کیا تمہارا ارادہ ہے کہ کسی آئندہ وقت میں کہہ دو گی کہ یہ مکان محسن کا نہیں میرا ہے۔ ہرگز نہیں۔ تو پھر کیا مصیبت ہے۔ تمہیں مکان پسند تھا۔ لہذا موجود ہے۔ جب جی چاہے روپیہ ادا کر دینا۔ کاغذات میں تمہارے حوالے کر دوں گا۔ ادھر لاؤ کاغذ۔ ورنہ یہ لو کاغذ اور قلم اور لکھو جو میں لکھواؤں۔”
میں نے کاغذ قلم لیا اور پوچھا۔ ” کیا لکھوں۔”
وہ بولے۔ ” لکھو، یہ مکان جو میرے نام رجسٹری ہوا ہے اور جو فلاں فلاں شخص سے یہ قیمت سات ہزار خریدا گیا ہے۔ یہ مکان دراصل میں نے نہیں خریدا ہے۔ بلکہ مسٹر محسن نے خریدا ہے اور اپنے روپے سے خریدا ہے اور مکان انہیں کا ہے۔ میرا نام رجسٹری میں محض اس وجہ سے ڈال دیا گیا ہے کہ مکان مجھے پسند ہے اور اگر کبھی میرے پاس روپیہ ہوا تو میں اسی قیمت پر مسٹر محسن سے خرید لوں گی۔”
یہ عبارت لکھ کر انہوں نے کہا دستخط کرو۔ پھر خود ہی تصدیق کر دی اور کاغذ تہہ کر کے جیب میں رکھ لیا اور مجھ سے کہنے لگے کہ ” بس اب تو ٹھیک ہے۔”
میں نے کہا۔ ” ہاں یہ ٹھیک ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر پھر بھی۔۔۔ ”
بات کاٹ کر وہ بولے۔” اب پھر بھی وغیرہ کو جانے دو۔ معاملہ صاف ہو گیا۔ کاغذ خواہ اپنے پاس رکھو یا مجھے دے دو۔ بلکہ اپنے ہی پاس رہنے دو۔ میرے پاس تمہاری یہ تحریر آ گئی۔”
میں اب راضی ہو گئی اور وہ سمجھانے لگے کہ تم یورپین ہو اور تعلیم یافتہ ہو کر اس قسم کی باتیں کرتی ہو۔ جب تمہارا ارادہ تھا اور مکان موقع سے مل رہا تھا تو میرے نام سے خریداری کرانا فضول تھا۔ مکان میرا ہے اور کرایہ تم مجھے ماہ بہ ماہ دیتی رہنا۔ پھر کہنے لگے کہ مکان چونکہ میرا ہے لہذا میں کیوں نہ اس میں ترمیم کراؤں۔ بلکہ تمہاری سہولت کے موافق کروا دوں۔ میں نے کہا یہ تو بہت بہتر ہے۔ مکان والا مرمت نہیں کراتا تھا۔ بڑا پریشان کرتا تھا۔ فرش جگہ جگہ سے خراب ہے۔
چنانچہ دوسرے ہی روز مکان کی مرمت اور ترمیم کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ اب انہوں نے کیا کیا کہ اپنے مکان کی آرائش کا سامان تمام خریدنا شروع کیا۔ خوبصورت اور قیمتی شیشے لگائے گئے۔ غسل خانہ اور دوسرے مقامات پر چینی کے فرش کا انتظام کیا۔ بڑے بڑے چینی کے حوض غسل خانہ میں مع آبگرے کے فٹ کئے جانے لگے۔ میں کیسے بولتی، پرائے مکان کے معاملے میں۔ پھر بڑی بڑی قیمتی تصویریں لگائی گئیں اور دس روپیہ کرایہ زائد کرنے پر یہ طے ہوا کہ سامان فرش فروش میں اپنا سب نیلام کر دوں۔ مع پرانے فرنیچر کے اور اسٹول سے لے کر مسہری تک دکاندار کی ہو جائے۔ سودا اچھا تھا میں نے منظور کر لا۔ کہ اس طرح سامان نیلام کر دینے سے یک مشت رقم بھی کچھ مسٹر محسن کے قرضے کی طرف پہنچ جائے گی۔ سارے مکان کے لیے بالکل نیا اور بہترین فرنیچر منگا کر لگایا گیا۔ ہر قسم کی میزیں الماریاں آئینے وغیرہ سب آ گئے۔ جب سب درست ہو گیا تو ایک روز مسٹر محسن آئے اور بولے کہ دس روپیہ کرایہ اور بڑھنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ یہ میری حیثیت سے باہر ہو جائے گا۔ آپ سے کس نے کہا تھا کہ یہ سب ترمیمیں کیجئے۔ چنانچہ مسٹر محسن بھی مذاق ہی کر رہے تھے۔ لیکن مکان میرا دیکھنے سا تعلق رکھتا تھا۔
اب یہاں میں یہ بھی ذکر کر دینا چاہتی ہوں کہ عوام نہ معلوم میرے اور محسن کے بارے میں کیا کیا خرافات بکتے تھے۔ مگر میں نے کبھی اس طرف توجہ تک نہ کی۔ نہ ضرورت تھی کیونکہ اس قسم کے خرافات کی طرف توجہ کرنا بالکل فضول تھا۔

(۶)

ایک روز کا ذکر ہے کہ میں ایک مریضہ کو دیکھنے چکر والی سڑک کی طرف گئی۔ انہوں نے بلایا تھا۔ انہیں کا موٹر تھا۔ موٹر تیزی سے جا رہا تھا۔ راستے میں وہ زمین پڑتی تھی جو میں نے جانسن ہسپتال کے لیے سوچ رکھی تھی۔ قدرتی امر ہے کہ اس زمین پر ضرور نظر پڑ جاتی تھی۔ شام کے کوئی چار بجے کا وقت تھا۔ میرا آنا اس طرف ایک مدت سے نہیں ہوا تھا۔ میں سناٹے میں آ گئی، کیا دیکھتا ہوں کہ سینکڑوں مزدور لگے ہیں اور ایک عالی شان عمارت نہیں بلکہ عمارتوں کا سلسلہ موجود ہے۔ مجھے اس قدر صدمہ ہوا کہ جیسے کسی نے سچ مچ میری اپنی زمین چھین لی ہو اور میرے ساتھ جو آدمی تھا اس سے پوچھا کہ یہ مکانات کون بنوا رہا ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ شاید سرکاری ہسپتال بن رہا ہے۔ میں عمارتوں کو اچھی طرح سے دیکھ بھی نہ سکی۔
مکان پر آئی تو مجھے اتنا صدمہ تھا کہ مضمحل ہو گئی۔ ٹھنڈی سانس میں نے بھری کہ افسوس یہ سب روپے کے کھیل ہیں۔ میں نے ایسی جگہ منتخب کی تھی کہ ہسپتال کے لیے بہترین جگہ تھی۔ مگر یہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ہسپتال کیسا بن رہا ہے۔ سننے میں بھی نہ آیا۔
میں اسی فکر میں مستغرق بیٹھی تھی کہ مسٹر محسن آ گئے۔ میں مالش کے لیے اٹھی تو میرے رنجیدہ چہرے کو دیکھ کر انہوں نے وجہ پوچھی۔ میں نے اول چاہا کہ ٹال دوں مگر پھر میں نے بتا دیا۔ وہ کہنے لگے کہ تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ترکیب میں بتا سکتا ہوں۔ کرو نہ کرو تمہیں اختیار ہے۔ میں نے کہا وہ کیا۔ تو بولے مجھ سے قرض لے کر سب عمارتیں وغیرہ خرید لو۔ فیس میں منہا کرتی رہنا۔”
مجھے ایک دم ہنسی آئی او رمیں نے کہا۔” بہت بہتر ہے۔ آپ گورنمنٹ کو لکھ کر مجھے دلا دیجئے۔ میں فیس میں آپ کا قرضہ ادا کر دوں گی۔”
وہ بولے۔ ” تو کیا واقعی دلا دوں؟”
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ” اور کیا؟ لکھو بس آج ہی جا کر۔”
"پھر تم اگر راضی نہ ہوئیں تب؟”
میں نے کہا۔” مجھ سے تحریر لے لو۔۔۔ ”
"تحریر اور قسم دونوں۔۔۔۔ لکھو ایک تحریر اور قسم کھاؤ تو میں کل ہی تمہیں دلا دوں۔” ہنس کر بولے۔” لو قلم دوات۔”
میں نے اس دلچسپ مذاق کو نبھایا اور وہ بولتے گئے اور میں لکھتی گئی۔ میں نے بائبل کی قسم اور اپنی عزت و حرمت کی قسم کھا کر لکھا کہ مسٹر محسن مجھے یہ ہسپتال اگر قرض میں دلا دیں تو میں بخوشی لے لوں گی اور قرضہ فیس میں منہا ہوتا رہے گا۔”
یہ لکھ کر میں نے مسٹر محسن کو دیا اور ان کی داڑھی دار بشاش صورت دیکھ کر جو مجھے ہنسی آئی ہے تو میں بے دم ہو گئی۔” معاف کرنا مسٹر محسن۔” میں نے کہا۔ ” مجھے آج آپ کے اس "قرض اور فیس” اور ” قرض اور فیس سے ادائیگی” کے لطیفے پر اتنی ہنسی آ رہی ہے کہ بیان نہیں کر سکتی۔ بہتر ہے آپ مجھے کوئی پورا کا پورا ملک دلا دیں اور اس کی قیمت فیس میں کٹتی رہے گی۔ اب میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ انکار نہ کروں گی۔”
"انکار کیسے کر سکتی ہو۔” وہ بولے۔” میرے پاس تحریر ہے۔”
میں جلدی سے مالش کی بیگار ٹالنے لگی اور میں نے کہا کہ چلو آج ٹہلنے اسی طرف ہو آئیں۔ دیکھیں کہ کیسا ہسپتال بن رہا ہے۔ محسن صاحب نے پہلے تو ٹالا مگر جب میں نے اصرار کیا تو راضی ہو گئے۔

(۷)

ہم دونوں وہاں پہنچے۔ ایک ہی نظر میں مجھے کچھ شبہ سا ہوا۔ ایں! دونوں بنگلے۔ اب میں جس عمارت اور جس کمرے کو دیکھتی ہوں بالکل میرا نقشہ تھا۔ میں نے کہا مسٹر محسن یہ کیا معاملہ ہے۔ مغرب کا وقت تھا اور کوئی نہ تھا۔ سب راج مزدور جا چکے تھے۔ ہسپتال کے کمرے جو دیکھے تو میں ہکا بکا کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
مسٹر محسن نے کہا۔” کیوں؟ اس قدر کیوں گھبرا رہی ہو؟” میں نے کہا۔” یہ کیا معاملہ ہے کہ آپریشن تھیٹر، گیلریاں، ڈسپنسنگ روم وغیرہ وغیرہ سب میرے نقشے کے مطابق ہیں۔”
وہ بولے۔” تو آخر تعجب کونسا ہے۔ کوئی اپنا نقشہ کمپنی سے آپ نے رجسٹر تو کرا نہیں لیا تھا۔ ہسپتالوں کے نقشے ایک سے ہوتے ہیں۔ جس فرم سے آپ نے اپنا نقشہ منگا یا ہو گا۔ اسی فرم سے اس ہسپتال کا نقشہ بھی آیا ہو گا۔ یہ تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔”
میں نے کہا۔” مگر میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔ میں تو صدمے سے نڈھال ہوئی جا رہی ہوں کہ ہائے میری تمناؤں کا یوں خون ہو رہا ہے۔ میرے۔۔۔ ”
بات کاٹ کر مسٹر محسن بولے۔” عجیب شخص ہو تم۔ آخر خرید تو رہی ہو نا تم قرض۔ تم کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ ہو بہو نقشہ مل گیا۔ اور اس سے زیادہ کیا چاہتی ہو؟”
میں نے غور سے مسٹر محسن کی طرف دیکھا۔ سنجیدگی کے ساتھ مذاق کرنا شاید اس داڑھی دار شخص کا حصہ تھا۔ میں نے تیز ہو کر کہا۔” بھلے مانس۔ میرا خواب خیال ہو کر رہ گیا اور تمہیں اپنی سوجھی ہے۔ بڑے دھنا سیٹھ بنتے ہو، لاؤ دلاؤ قرض اس ہسپتال کو۔ میں تو صدمے میں مری جا رہی ہوں۔”
تیز ہو کر وہ بولے۔” تو لے بھی لو تم۔ بس لے لو۔ اپنا سمجھو۔ قرض رہا۔ کل میں تمہیں دلا دوں گا۔”
"فضول وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ۔” میں نے کہا۔” مجھے صدمہ ہو رہا ہے اور میں اب اس جگہ ایک منٹ نہیں ٹھہر سکتی۔”
یہ کہہ کر میں چلی اور مسٹر محسن میرے ساتھ ہنستے ہوئے آئے۔ انہوں نے بہت روکا کہ اچھی طرح دیکھ تو لو۔ مگر میں نے سڑک پر آ کر دم لیا۔
ہم دونوں ساتھ ساتھ آئے۔ مکان پر آ کر میں نے چائے تیار کرائی۔ مسٹر محسن تھوڑی دیر باتیں کر کے چلے گئے۔ لیکن مجھے رات بھر اس کا صدمہ رہا۔
دوسرے دن مسٹر محسن آئے اور مجھ سے کہا کہ گھبراؤ مت ہسپتال جلد تمہیں قرض میں مل جائے گا۔ میں نے کہا کہ اب یہ مذاق ختم کرو۔ چنانچہ یہ مذاق ختم ہوا اور میں نے اس ہسپتال کا ذکر تو بڑی بات ہے ، خیال تک چھوڑ دیا۔ کسی سے دریافت تک نہ کیا۔ بات آئی گئی ہو گئی اور کچھ عرصہ بعد اس کا خیال بھی جاتا رہا۔
اس بات کو کافی عرصہ گزر چکا تھا مگر مسٹر محسن ہنوز زیر علاج تھے۔ ان کا روز ایک ہی معمول تھا۔ ایک روز شام کو ایک موٹر آ کر رکا اور اس میں سے وہ اترے۔ مجھ سے خوش ہو کر بولے۔ "دیکھو موٹر لیا ہے۔” میں موٹر دیکھنے آئی۔ بالکل نیا موٹر تھا۔ کس قدر خوبصورت تھا۔ کہنے لگے۔ ساڑھے تین ہزار میں آج ہی لیا ہے۔ میں نے اس کی بہت تعریف کی تو مسکرا کر بولے کہ ” لے لو اسے تم۔۔۔ قرض۔۔۔ فیس میں چکا دینا اسے بھی۔”
میں نے بھی ہنس کر کہا ” ضرور” پھر میں نے کہا کہ ” جب تک اس پر سیر نہ کی جائے کیا پتہ چلے۔” وہ بولے۔” اسی وجہ سے تو میں لایا ہوں۔ آؤ چلو نا گھوم آئیں۔” میں نے کہا۔” بہت ٹھیک۔” جلدی سے گئی اور دم بھر میں آ گئی۔ ہم دونوں موٹر میں آ کر بیٹھ گئے اور ڈرائیور نے بغیر پوچھے کہ کہا ں جانا ہے ، موٹر کو زور سے چھوڑ دیا۔
موٹر پوری رفتار سے چکر والی سڑک پر جا رہا تھا۔ ہسپتال پر آیا۔ میں نے اپنے خواب کو مکمل صورت میں دیکھا۔ مسٹر محسن نے ڈرائیور کو اشارہ کیا اور وہ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ مسٹر محسن نے کہا۔” ایک دفعہ تو اس کو اور دیکھ لو۔” میں اتری اور میں نے اب اس کو غور سے دیکھا۔ کمرے کمرے کا معائنہ کیا۔ صفائی ہو کر قلعی ہو چکی تھی اور ہسپتال بالکل تیار تھا۔ میں نے محسن صاحب سے کہا کہ ” یہ کیا معاملہ ہے۔ اب تک اس ہسپتال کا کہیں ذکر تک سننے میں نہیں آیا۔” محسن صاحب نے کچھ اور ہی بات کہی وہ یہ کہ انہوں نے گفت و شنید کر کے سب معاملہ طے کر لیا ہے۔ اتنے میں ایک چوکیدار برابر سے آیا اور اس نے جھک کر مودبانہ سلام کیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ” تم کس کے نوکر ہو؟”
اس کے جواب میں چوکیدار نے کہا۔” حضور آپ ہی کا ملازم ہوں۔”
اس چوکیدار کی تمیز کو پسند کرتے ہوئے میں نے کہا۔” مگر تم کس کے نوکر ہو۔ یہ ہسپتال کس کا ہے۔”
چوکیدار نے اسی مودبانہ لہجہ میں کہا۔” حضور میں آپ کا ہی نمک خوار ہوں اور یہ سب آپ کا ہی ہے۔”
"بدتمیز” میں نے ایک دم سے بگڑ کر کہا۔” گستاخ تم مذاق کرتے ہو۔ ہم پوچھتے ہیں تم کس کے نوکر ہو؟”
گھبرا کر چوکیدار نے ہاتھ جوڑ کر مسٹر محسن کی طرف اشارہ کر کے کہا۔” حضور مالک آپ کے ساتھ ہی ہیں۔ ہسپتال بھی انہی کا ہے اور میں بھی انہی کا اور میں تو حضور آپ سب کا نمک خوار ٹھہرا۔”
میں نے مسٹر محسن کی طرف دیکھا اور اس نے سامنے والے درخت کی طرف۔ ایک دم سے جیسے واقعات بجلی بن کر میرے سامنے کوند گئے۔ مںر سناٹے میں آ گئی۔ اس قدر گھبرائی کہ بیان سے باہر۔ کس مشکل سے میں نے اپنے شبے کی تصدیق مسٹر محسن سے کی۔
نظریں نیچی کر کے میں نے مسٹر محسن سے کہا۔” آپ نے مجھ سے دو دن کے لیے نقشہ لیا تھا۔۔۔ یہ آپ نے بنوایا ہے ؟”
” آپ قرض لے لیجئے گا۔” مسٹر محسن نے اپنی داڑھی کریدتے ہوئے کہا۔ ” فیس میں ادا ہوتا رہے گا۔”
"مسٹر محسن” میں نے تیز ہو کر کہا۔” اس سے آپ کا کیا مطلب ہے۔۔۔ کیا آپ نے مجھے ذلیل کرنے کا ارادہ کیا ہے ؟۔۔۔ آپ نے آخر یہ کیوں بنوایا؟۔۔۔ کتنا روپیہ اس میں لگا ہے ؟”
"بیالیس ہزار۔” مسٹر محسن بولے۔
"بیالیس ہزار!” میں نے چوٹ کھا کر کہا۔” پھر اب۔۔۔ میں تو ہرگز اس کو نہ لوں گی۔”
"میں خود ڈاکٹری پڑھنے جانے والا ہوں۔” مسٹر محسن نے کہا۔” اور پھر آپ لے لیجئے نا اس کو قرض۔۔۔ آپ تو وعدہ کر چکی ہیں۔۔۔ وہ قسمیہ تحریر۔”
میں یہ سن کر بے قابو ہو گئی۔ سیدھی دوڑتی ہوئی موٹر پر پینچ ۔ مسٹر محسن بھی آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا اور رومال مٹھی میں لے کر یکسوئی سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔ موٹر روانہ ہو گئی۔
"قرض لے لیجئے اور آپ سب فیس میں ادا کرتی رہیے گا۔” مسٹر محسن نے کہا۔ مگر میں خاموشی رہی۔ بالکل خاموش۔ مکان کے سامنے موٹر رکا اور میں بغیر اس کا انتظار کیے کہ مسٹر محسن اتر کر موٹر کا دروازہ کھولیں۔ تیزی سے خود اتر کر ڈرائنگ روم میں سیدھی چلی گئی۔ خدا کی پناہ! مجھے کس قدر زبردست صدمہ پہنچا تھا۔ میں صوفے پر کونے میں منہ دے کر بیٹھ گئی۔ میں نے بہت ضبط کیا تھا۔ مگر بکامر تھا۔ رومال سے منہ چھپا کر میں صدمے سے نڈھال ہو گئی۔
میں نے کچھ آہٹ سنی۔ دیکھا تو مسٹر محسن داخل ہوئے۔ سامنے آ کر بیٹھ گئے۔ مجھے وہ غور سے دیکھتے رہے۔ میں نے ہمت کر کے اور کچھ غصے سے مسٹر محسن کی طرف دیکھ کر کہا۔
"آپ نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی۔ آپ نے ہسپتال کیوں بنوایا؟”
وہ بولے۔” میری دانست میں ہر شخص کو اختیار حاصل ہے کہ اپنی زمین پر جی چاہے اس کا ہسپتال بنوائے اور جی چاہے پاگل خانہ بنوائے۔ لیکن میں نے اس خیال سے بنوایا کہ آپ کو قرض دے دوں گا۔ اب تک قرض آپ کو دیتا چلا آیا ہوں کہ مجھ سے آپ سے دشمنی پیدا ہو جائے۔ "قرض مقراض محبت است۔” چنانچہ یہی توقع لگی ہوئی ہے کہ یہ قینچی جلدی چلے۔ اب میں جاتا ہوں، کل کاغذات یعنی دستاویزات بھیج دوں گا اور آپ بیالیس ہزار روپیہ کی رسید لکھ دیجئے گا کہ میں نے مسٹر محسن سے یہ روپیہ قرض لیا ہے اور فیس میں ادا کر دوں گی۔ اب میں جاتا ہوں۔۔۔۔ مگر ہاں کبھی آپ نے یہ بھی غور کیا کہ وہ بڈھا جھوٹا نکل گیا۔ بے ایمان۔”
"کون بڈھا؟” میں نے پوچھا۔
"وہی ” انہوں نے اس خوبصورت چوکھٹے کی طرف اشارہ کیا جس پر لکھا تھا کہ ” قرض مقراض محبت است” پھر بولے۔” اس نے ٹھگ ہم دونوں کو۔۔۔ اچھا میں جاتا ہوں۔۔۔ خدا حافظ۔”
یہ کہہ کر مسٹر محسن جیسے غائب ہو گئے۔ میں عجیب پس و پیش میں پڑ گئی۔ یا اللہ ا ب میں کیا کروں۔ میں بڑی دیر تک سوچتی رہی۔ ایک دم سے مجھے خیال آیا۔ کرسی دیوار کے نزدیک کر کے میں نے اس خوبصورت چوکھٹے کو اتارا۔ اس کو میز پر رکھ کر ایک بڑی سی ہتھوڑی لائی اور یہ کہہ کر زور سے اس پر ہتھوڑی ماری کہ ” غلط بالکل غلط” بلکہ ” قرض بنیاد محبت است۔”
ادھر ہتھوڑی لگنے کے ساتھ زور سے میں نے بلند آواز سے یہ کہا اور ادھر ایک دم سے کمرے میں مسٹر محسن داخل ہوئے اور انہوں نے کہا۔” بالکل سچ کہتی ہو!”
آئینہ کھیل کھیل پڑا تھا۔ ہتھوڑی میرے ہاتھ میں تھی اور سامنے مسٹر محسن کھڑے تھے۔ میں جیسے عرق عرق ہو گئی، اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچی۔
اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ اس سوال کا جتنا پوچھنا فضول ہے اس سے زیادہ بتانا۔ سوائے اس کے کہ ” قرض بنیادِ محبت است۔”
٭٭٭

فرزندِ سرحد

افغانستان اور ہندوستان کی سرحد جہاں ملتی ہے وہاں دونوں ملکوں کے بیچ میں آزاد علاقہ ہے کہ جس کو علاقہ غیر کہتے ہیں۔اس علاقے پر نہ تو انگریزوں کی حکومت ہے اور نہ افغانوں کی بلکہ یہ علاقہ صحیح معنوں میں آزاد ہے۔اس علاقے کا ہر شخص اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے اور اپنے فعل کا خود ذمہ دار اور مختار ہے۔ اس علاقے میں اسی کی چلتی ہے جس کے بازوؤں میں زور ہے اور "جس کی لاٹھی اس کی بھینس” والی کہاوت یہیں صادق آتی ہے۔ اگر تم کمزور ہو اور تمہیں کسی نے مارا تو کوئی پولیس کا تھانہ نہیں جہاں رپٹ لکھائی جائے۔ اگر بس چلے تو تم اپنے دشمن کو مار ڈالو اس کے دوست اور عزیز اگر اتنے ہیں کہ تم سے بدلے کی ہمت رکھتے ہیں تو تمہاری خیر نہیں ورنہ کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔
اسی آزاد علاقے کا ذکر ہے کہ اس میں گل محمد خان نامی ایک نوجوان رہتا تھا اور اس کے پڑوس میں ایک مرغی کے چوزے پر لڑائی ہو گئی۔سوال یہ تھا کہ گل محمد کو کیا اختیار حاصل تھا کہ اس نے پڑوسی کے چوزے کی دم اکھاڑ لی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ گل محمد ادھر سے اپنا خنجر لے کر دوڑا اور ادھر سے پڑوسی رائفل لے کر دوڑا، گو کہ گولی گل محمد خان کی ران میں لگی مگر اس نے اپنا خنجر اپنے دشمن کے سینے میں قبضے تک اتار دیا۔ گل محمد بالکل اکیلا تھا یعنی اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یا عزیز نہ تھا یہ محض اپنی قوت بازو پر نازاں تھا حالانکہ کم عمر تھا مگر چھ فٹ کا قد تھا اور دیو کی سی طاقت رکھتا تھا۔ چونکہ پڑوسی کے عزیز و اقارب بہت سے تھے ، وہ سب کے سب اس کے گھر پر چڑھ آئے۔ رات کو اندھیرے میں نہ معلوم کس طرح یہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں سے زخمی ران پر پٹی باندھ کر بھاگا۔ ایک عرصے تک چھپا چھپا رہا، یہاں تک کہ پشاور کے مشن ہسپتال تک پہنچا، وہاں اس کا زخم اچھا ہو گیا۔اس کے بعد وہ اپنے علاقے میں واپس نہ ہو سکا مبادا اس کے دشمن اس کو مار ڈالیں۔ کچھ دن پشاور میں ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا لیکن آخر کار لاہور کے ایک بڑے انگریزی ہوٹل میں ایک جان پہچان کے ذریعے سے اس کا ٹھکانا ہو گیا کہ مسافر جو آتے ان کا اسباب اٹھا کر ہوٹل سے گاڑی پر لے جاتا یا گاڑی سے ہوٹل کے میں لے جاتا اور اسی پر گزر اوقات کرتا۔
بہرام جی بمبئی کے ایک لکھ پتی سیٹھ تھے اور علاوہ اور کاروبار کے لکڑی کی بھی تجارت کرتے تھے۔ جمرود کے علاقے سے لکڑی خریدتے تھے۔ اسی سلسلے میں پشاور سے لاہور آئے تھے اور اسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ گل محمد خان کی وہ مزدوری ادا کر رہے تھے ، دو چار آدمی اور بھی کھڑے تھے کہ دیکھتے دیکھتے ایک دم سے ایک خونی بیل نے احاطے میں گھس کر ان لوگوں کی طرف حملہ کیا۔ اور تو سب بھاگ گئے مگر بہرام جی اور اس کی بڑی لڑکی لڑکھڑا کر گر پڑی، شاید ایک ہی ٹکر میں وہ بیل ان کا خاتمہ کر دیتا مگر گل محمد خان نے دوڑ کر سیٹھ اور ان کی لڑکی کو اس طرح بچایا اور ہمت کر کے بیل کے اس زور سے سیدھے ہاتھ سے مکا مارا کہ شاید بیل کی آنکھ پھوڑ ڈالی اور وہ بری طرح بھاگا۔ بہرام جی جب کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھے اور اپنی لڑکی کو صحیح و سالم پایا تو ذرا ہوش بجا ہوئے۔ لڑکی سہمی ہوئی کھڑی تھی، چہرہ زرد تھا۔ اس نے اپنے باپ کے کندھے کو پکڑ کر سہارا لیا۔ گل محمد خان اس طرح کھڑا تھا جیسے کچھ ہو ا ہی نہیں۔ وہ اپنی مزدوری مانگ رہا تھا۔ اس نے کہا:” چار آنے دے دیجئے۔”
بہرام جی کی لڑکی نے باپ سے کہا کہ ” اس نے میری جان بچائی ہے۔ اس کو کچھ انعام دینا چاہیے۔”
سیٹھ نے بھی کہا:” ہاں دینا چاہیے ” اور پانچ روپے کا ایک نوٹ یہ کہہ کر حوالے کیا کہ ” لو یہ تمہارا انعام ہے۔”
گل محمد خان نے منہ بگاڑ کر کہا:” ہم نے تمہیں انعام کے لیے نہیں بچایا تھا، ہم انعام نہیں لیں گے۔ ہماری مزدوری لاؤ۔”
سیٹھ بہرام جی نے شاید یہ خیال کر کے کہ پانچ روپے بہت کم ہیں، نوٹ واپس لے کر دس روپے کا نوٹ دیا۔ گل محمد خان نے نوٹ کو غصہ سے زمین پر پھینک دیا اور تھوک کر نہایت ہی غصہ سے کہا:” ہم انعام نہیں لیتے ، ہم نے انعام کے لالچ سے نہیں بچایا، ایک مرتبہ کہہ چکے ہماری مزدوری لاؤ۔”
سیٹھ نے تعجب سے لڑکی کی طرف دیکھا اور لڑکی نے سیٹھ کی طرف۔ نوٹ اٹھا لیا اور گل محمد خان کو پیسے دے کر رخصت کیا۔ باپ اور بیٹی دونوں کمرے پر آئے وہاں سیٹھانی سے سارا قصہ بیان کیا۔ گل محمد خان کی طبیعت پر سب کو تعجب تھا۔ وہ غریب معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاس ٹھکس سے کپڑے بھی نہیں تھے ، مگر پھر بھی اس نے انعام نہ لیا۔
بمبئی میں سیٹھ لوگ عموماً پشاوریوں اور سرحدیوں کو دربان کے طور پر ملازم رکھتے تھے۔ علاوہ وفادار ہونے کے ان کی سخت مزاجی اور کرختگی ان کو اس کام کے لیے اور بھی موزوں بنا دیتی تھی۔ بہرام جی کا عرصے سے خیال تھا کہ اپنے دفتر کے لیے کوئی پٹھان تلاش کرے ، یہاں گل محمد خان موجود تھا۔ اس سے بہتر دوسرا شخص ملنا نا ممکن تھا۔گل محمد سے جب اس معاملے پر بلا کر گفتگو کی تو وہ راضی ہو گیا، طے یہ ہوا کہ دفتر ہی پر دن رات رہنا ہو گا، روپہ روز تنخواہ مقرر ہوئی اور ایک آنہ روز چائے حقہ وغیرہ کے لیے۔ خان بھائی راضی ہو گئے۔
بمبئی پہنچ کر گل محمد خان کے ٹھاٹھ بدل گئے۔ کوئی ڈیڑھ انچ موٹے چمڑے کی ایک چپل پہنے اور ایک ثابت مگر میلی شلوار اور ایک سیاہ رنگ کی واسکٹ پہنے اور سر پر ساڑھے تین گز کا چو خانے کا صافہ پشاوری کلاہ کے اوپر باندھے ، ایک مونڈھے پر بیٹھے بیڑی پیتے رہتے تھے۔ مونڈھا سیٹھ بہرام جی کے صدر دفتر کے آگے پڑا رہتا تھا۔ گل محمد خان کی طبیعت ہی میں سختی اور تلخ مزاجی موجود تھی، اگر بیڑی بجھ جاتی یا دیا سلائی نہ جلتی تو خان کو جلال آ جاتا۔ایک روز یہ بیٹھے ہوئے دیا سلائی جلا رہے تھے کہ کسی نے آ کر ان سے پوچھا کہ کیا بجا ہو گا۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اس زور سے اس کے گال پر تھپڑ مارا کہ اس کا منہ پھر گیا۔اسی طرح ایک آدمی نے ان سے دیا سلائی مانگی، اسے بھی سزا دی۔ ہر وقت یہ معلوم ہوتا تھا کہ خان صاحب کی منہ میں کونین گھلی ہوئی ہے۔ تھوڑے ہی دنوں میں آس پاس کے لوگ جان گئے کہ یہ آدمی نہیں بلکہ جن ہے۔بہرام جی اپنے دربان کے خونخواری سے مطمئن تھے کیونکہ ان کو واقعی ایسا ہی شخص چاہیے تھا جو ایسی ہی سختی کرتا رہے کہ کسی چور بدمعاش کی دفتر کی طرف رخ کرنے کی ہمت ہی نہ پڑے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ خان صاب بیٹھے ہوئے تھے کہ سیٹھ نے ان کو آواز دی۔ سیٹھ نے ان کو طلب کر کے کہا:” ہم نے تم کو کیا اس لیے رکھا ہے کہ جس کا جی چاہے دفتر میں گھس آئے اور ہمیں تنگ کرے۔”
واقعہ یہ ہے کہ ایک نوجوان متلاشی روزگار سیٹھ جی کے دفتر میں موقع پا کر گھس آیا۔ گل محمد خان پانی پینے میں لگا تھا اس نے دیکھا نہیں۔سیٹھ جی نے بہت کچھ کہا کہ ہمارے دفتر میں کوئی جگہ نہیں مگر غرض باؤلی ہوتی ہے وہ اس وقت تک نہ گیا جب تک سیٹھ کا اس نے کافی وقت نہ خراب کر لیا۔
گل محمد خان نے اس کو دفتر میں جاتے تو نہیں دیکھا تھا مگر نکلتے دیکھا تھا وہ خونی باز کی طرح دفتر سے نکل کر جھپٹا اور اگلے موڑ پرٖغریب امیدوار کی گردن دابی۔ مارے غصے کے گل محمد کا چہرہ آگ ہو رہا تھا۔ وہ گھسیٹ کر سیٹھ کے سامنے اس کو لے آیا اور مارنا شروع کاس۔ ہائیں ہائیں کر کے سیٹھ نے اس کو چھڑایا اور بڑی مشکل سے قصہ رفع دفع ہوا۔ اب گل خان کا قاعدہ ہو گیا کہ دفتر کے دروازہ پر ایسا پہرہ رکھتا تھا کہ مجال نہ تھی کوئی گھس تو جائے۔ سیٹھ جی اس بات سے بہت خوش تھے مگر اتفاق کی بات ایک روز خود ان کا بھتیجا دفتر میں بغیر خان کی اجازت کے داخل ہونے لگا، خان نے تیزی سے اٹھ کر اس کو روکا تو اس نے سختی سے ڈپٹا، نتیجہ یہ ہوا کہ چشم رون میں اس کو خان نے دے مارا اور گلا گھونٹنا شروع کیا اور بہت ممکن تھا کہ وہ مر جاتا اگر بہرام جی نے اس کو نہ چھڑا لیا ہوتا۔ ایک تو یہ واقعہ ہوا دوسرے ایک اور انگریز کا واقعہ ہوا جس کو دفتر میں گھسنے کی پاداش میں خواہ مخواہ گل محمد خان نے گھسیٹا۔ مجبوراً سیٹھ کو ضرورت پڑی کہ اپنے دربان کو نرمی کی صلاح دے۔ دراصل بہرام جی بہت ہوشیار آدمی تھا اور وہ گل محمد خاں کو کسی اور ہی کام کے لیے لایا تھا۔
جس وقت ۲۰ء والی گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون شباب پر آئی تو مثل اور مقامات کے بمبئی میں بھی ہنگامے ہوئے۔ شراب کی دکانوں پر پکٹنگ ہوا جو آج کا کے پکٹنگ سے بالکل مختلف تھا۔ اس زمانے میں شرابی بدمعاش اور لفنگے شراب کی دکان پر شراب کے لیے پہنچنے اور بہت جلد ہنگامہ کر کے دکان میں گھسے پڑتے ، ریزگاری اور نقد لوٹ لیتے اور شراب کی بوتلیں کھول کر خود پیتے ، توڑتے ، پولیس کیا کر سکتی تھی۔ بہرام جی کی بھی شہر میں بڑی شراب کی دکان تھی۔ اس کو بند کرنے سے ہزاروں کا نقصان ہوتا تھا، لہٰذا بہرام جی نے گل محمد کان کو صدر دفتر سے شراب کی دکان پر منتقل کر دیا۔ تنخواہ ایک روپیہ روزانہ کے بجائے دو روپے روزانہ کر دی۔ شراب کی دکانوں کے خلاف شور و غل بہت بڑھا اور سب دکانیں بند ہو گئیں یا لوٹ لی گئیں۔ اس وقت بہرام جی کی دکان کھلی ہوئی تھی، لوگوں کو خبر لگی اور شرابی اور لفنگے شراب لوٹنے کی فکر میں لڑائی اور فساد کرنے کی نیت سے دکان پر حملہ آور ہوئے۔ گل محمد خان نے اول تو دکان بند نہ کرنے دی، حالانکہ منیجر کا دم نکلا جا رہا تھا کہ کہیں ہنگامہ میں علاوہ دکان لٹ جانے کے میری جان بھی نہ جاتی رہے اور پھر حملہ آوروں کا ایسی سختی سے تن تنہا مقابلہ کیا کہ دو کو مہلک طور پر خنجر سے زخمی کیا اور تین چار کو ویسے مارا۔ پولیس کی امداد آ گئی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اس کے بعد پھر کسی کی ہمت نہ پڑی جو بہرام جی کی دکان سے تعرض کرتا۔ دو ایک مرتبہ اور مجمع ہوا مگر گل محمد خاں کے تیور دیکھ کر ایک ایک کر کے سب چل دیے کیونکہ دکان مذکور سے سیٹھ کو بے حساب آمدنی تھی اس نے گل محمد خاں کے دو روپے یومیہ کے بجائے تین روپے یومیہ کر دئیے کیونکہ گل محمد خاں شراب کی دکان پر پہرہ دینا برا خیال کرتا تھا اور بڑی مشکل سے سیٹھ نے یہ کہہ کر اس کو راضی کیا تھا کہ تم دکان پر پہرہ تھوڑے ہی دیتے ہو بلکہ ہمارے روپے پر پہرہ دیتے ہو جو وہاں موجود ہے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ گل محمد خان شام کے وقت جب کہ صدر دفتر سیٹھ کا بند ہو چکا تھا شراب کی دکان سے کسی کام کے لیے روانہ ہوا اور راستہ کاٹ کر صدر دفتر پر اس نیت سے پہنچا (ص۔۴۰۷) کہ سیٹھ سے کچھ بات چیت کرے۔ وہاں دفتر بند تھا لیکن دفتر کے دروازے کی چوکھٹ کے پاس اس کو ایک بڑا سا بنڈل پڑا ملا۔ اس بنڈل کو اس نے دیکھا تو سو سو روپے کے نہ معلوم کتنے نوٹ تھے۔ اس نے خیال کیا کہ سیٹھ کے ہوں گے اور سوچ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ کیا کروں، دفتر کی ایک کھڑکی کے اوپر چھٹی سی بیضاوی شکل کی ایک اور کھڑکی بطور روشن دان کے تھی۔ اس میں اس نے کھڑکی کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر وہ نوٹوں کا پلندہ رکھ دیا اور پھر بجائے سیٹھ کے یا اور کسی کو اطلاع کرنے کے وہ اپنے فرائض منصبی سے فارغ ہو کر سونے چلا گیا۔
واقعہ دراصل یوں تھا کہ دفتر بند کر کے سیٹھ جلدی میں نوٹوں کی گڈی یہاں بھول گیا تھا۔ نوٹ اسی ہزار کے تھے اور وہ گھر لے جا رہا تھا، جب گھر پہنچا تو نوٹ یاد آئے ، فوراً موٹر دوڑا کر دفتر واپس آیا اور نہ پایا کیونکہ تھوڑی ہی دیر پہلے گل محمد خاں نوٹوں کو روشندان میں رکھ گیا تھا۔ پولیس میں رپٹ درج کرائی اور بہت کچھ دوڑ دھوپ کی مگر گل محمد خاں کی طرف خیال بھی نہ گیا اور نہ جانا چاہیئے تھا کیونکہ اس کا ہاں پہنچنا ہی بعید از قیاس تھا۔ گل محمد خاں بھول گیا لیکن دوسرے روز جب شراب کی دکان کے منیجر نے تذکرے کے طور پر گل محمد خاں سے کہا تو گل محمد خاں کو یا آیا۔ گل محمد خاں نے نہایت ہی سادگی سے کہا کہ ٹیلی فون سے سیٹھ سے کہہ دو کہ نوٹ فلاں فلاں جگہ رکھے ہیں۔ منیجر ہکا بکا رہ گیا ور گل محمد خاں کو حیرت سے دیکھنے لگا مگر گل محمد خاں نے نہایت ہی لا پرواہی سے پھر کہا کہ نوٹ میں سے فلاں فلاں جگہ پر رکھ دئیے ہیں۔ منیجر بوکھلایا ہوا ٹیلی فون پر گیا اور سیٹھ کو راز سے آگاہ کیا اور واقعہ بتایا۔ سیٹھ نے نوٹ گنے اور پورے پائے۔ ظاہر ہے کہ سیٹھ کا مارے تعجب کے کیا حال ہوا ہو گا۔ فوراً موٹر میں بیٹھ کر شراب کی دکان پر پہنچا، گل محمد خاں مزے میں بیٹھے بیڑی پی رہے تھے ، جیسے کوئی غیر معمولی بات ہی نہیں ہوئی ہے۔ سیٹھ نے پہنچ کر مفصل کیفیت دریافت کی اور سب سے زیادہ گل محمد خاں کی اس لا پرواہی پر تعجب کیا کہ روشندان میں رکھتے وقت یہ نہ سوچا کہ سڑک پر سے کوئی دیکھ لے گا کہ کوئی چیز رکھی جا رہی ہے۔ سیٹح نے خوش ہو کر ایک سو روپے کا نوٹ گل محمد خاں کو دیا۔ گل محمد خاں کا مارے غصے کے برا حال ہو گیا اور اس کے منہ سے تھوک اڑنے لگا۔ اس نے برہم ہو کر نوٹ پھینک دیا اور ڈپٹ کر اپنے آقا سے کہا: "سیٹھ کیا ہم چور ہیں، ہم چور نہیں ہیں۔” سیٹھ کو اپنے ایماندار ملازم کو لاہور والی بات یاد آ گئی۔
گل محمد خاں کی اب حالت اور تھی، کلابتوں کے کام کا جاتا اور واسکٹ سے کم نہ پہنتا تھا۔ کپڑے بھی صاف تھے ، منہ پر عمدہ قسم کا تیل ملا رہتا تھا اور نوخیز ڈاڑھی اور سر کے پٹھے بھی مرغن رکھتا تھا۔ روزانہ تین روپے نقد صبح دکان سے اس کو مل جاتے تھے اور شام تک وہ خرچ کر کے برابر کر دیتا تھا۔ اسے دنا و مافیہا کی کوئی فکر نہ تھی۔
رفتہ رفتہ وہ زمانہ آیا کہ مہاتما گاندھی کی تحریک نان کو آپریشن کو شکست ہوئی اور ساتھ ہی گل محمد خاں کی شراب کی دکان کی تعیناتی سیٹھ کو تین روپے یومیہ پر فضول معلوم دی۔ مگر جب گل محمد خاں نے یہ سنا کہ سیٹھ اس کے ساتھ یہ ظلم کرنا چاہتا ہے کہ پھر اس کو ایک روپیہ یومیہ دے تو وہ سیٹھ پر برس پڑا۔ اس نے اپنی تمام خدمات یاد دلائیں۔ لیکن تجارت پیشہ تو تجارت پیشہ ہوتا ہے وہ ایسی باتیں تو فروعی خیال کرتا ہے ، وہ راضی ہونا تھا نہ ہوا۔ گل محمد خاں بھی جان پر کھیل گیا اور اس نے صاف صاف سیٹھ سے کہہ دیا کہ اگر تم مجھے تین روپے یومیہ نہ دو گے تو میں تم کو قتل کر دوں گا۔ اس خوشگوار وعدے کو سنتے ہی سیٹھ کا کلیجہ منہ کو آ گیا، وہ قطعی جانتے تھے کہ گل محمد خاں جو کہتا ہے وہ کر گزرے گا خواہ بعد میں اس کو پھانسی ہی کیوں نہ ہو جائے ، مجبوراً سیٹح خاموش ہو گیا لیکن چونکہ آدمی ہوشیار تھا گل محمد خاں سے اب اس نے دوسرا ہی کام لینا شروع کیا۔ تاکید کر کے اس کو کپڑے صاف پہنائے ، بیس روپے کی ترقی کی اور ایک دو سو روپے ماہوار کا کلرک علیحدہ کر دیا۔ گل محمد خاں کے سپرد اب یہ کام تھا کہ ہزاروں روپے کا سیٹھ کی طرف سے لینا دینا تھا، لکڑی کی تجارت کے سلسلے میں لاکھوں لٹھے خریدے اور بیچے جاتے تھے ، ان کی خرید و فروخت کے موقع پر دوسرے کلرکوں کی نگرانی رکھے کہ کہیں گنتی سے زیادہ خریدار کی گاڑیوں پر نہ لدوا دیں۔ اس سلسلے میں گل محمد خاں نے نہ معلوم کتنے کلرکوں اور قلیوں اور بے ایمان خریداروں کو پکڑا ہی نہیں بلکہ بہت مارا بھی اور بہت جلد سیٹھ کو معلوم ہو گیا کہ گل محمد خاں اب تین سو ماہوار کے ملازم سے بھی زیادہ کام کر رہا ہے۔ لاکھوں روپے بغیر رسید کے یوں ہی گل محمد خاں کے بھروسے پر سیٹھ پٹک دیتا مگر کمی نہ ہوتی، جہاں ایمانداری کا کم ہوتا وہاں یا تو سٹھغ خود جاتا یا گل محمد خاں کو بھیجتا۔ گل محمد خاں کو بھی یہ نیا کام پسند آیا اور رفتہ رفتہ وہ معاملے کی گفت و شنید کے سلسلے میں سیٹھ کی طرف سے فریق ثانی سے گفتگو کی نگرانی کرتا اور بعض اوقات بطور ایجنٹ کے مقرر ہوتا اور باوجود جاہل ہونے کے معاملے کو خوب سمجھتا یہ ناممکن تھا کہ وہ موجود ہو اور سیٹھ کا کوئی نمک حرام ملازم گفت و شنید کے سلسلے میں فریق ثانی سے کسی طرح بھی کوئی ساز باز کر سکے۔ وہ دراصل معاملے کو خوب سمجھ کر جاتا تھا اور محنت سے کام کرتا تھا۔ دو سال کے عرصے میں سیٹح نے اس کی تنخواہ ڈیڑھ سو کر دی اور قریب قریب تمام ذمہ داری کے کام اس کے سپرد کر دئیے۔
اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں گل محمد خاں کو ایک بڑے انگریزی کارخانے میں جانا پڑا۔ گل محمد خاں کو بھلا اس کی کب پروا تھی کہ دفتر میں آہستہ بولنا چاہیے یا کہ منیجر ابھی نہیں مل سکتا۔ اس نے جاتے ہی زور سے کہا: "منیجر کہاں ہے ؟”
ایک چپراسی فوراً دانتوں سے زبان دبا کر بولا: "آہستہ بولئے منیجر صاحب اس وقت غصے (ص۔۴۰۹) میں ہیں۔”
"ہم بھی غصے میں ہیں۔” ہنس کر گل محمد خاں نے کہا۔ "وہ کہاں ہیں؟”
چپراسی نے گھبرا کر خاموش کیا اور کہا "ابھی اطلاع کرتا ہوں۔” گل محمد خاں نے سنا کہ منیجر اپنے دفتر میں کسی پر خفا ہو رہا ہے۔ چپراسی تھوڑی دیر میں واپس آیا اور اس نے کہا: "منیجر صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں ہے گھنٹہ بھر بعد آنا۔”
گل محمد خاں کی عادت تھی کہ اس قسم کا بہانا کبھی نہ سنتا تھا۔ ایک دم سے وہ سیدھا منیجر کے دفتر میں چق اٹھا کر گھس گیا اور ذرا ترش رو ہو کر اس سے کہا کہ "ہمیں تو ضروری کام ہے اور تم کہتے ہو ہمیں فرصت نہیں، آخر کیا کام کر رہے ہو؟”
منیجر چھ فٹ کے دیو ہیکل خان کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ خان نے کرسی بلا تکلف گھسیٹ کر منیجر سے کہا: "تم اس پر کیوں خفا ہو رہے ہو۔” سامنے کونے میں ایک یورپین لڑکی گھڑی تھی۔
شاید منیجر صاحب کو افغانوں سے بات چیت کرنے کا یہ پہلا ہی موقع تھا وہ بے حد خفا ہو اردو میں ڈانٹ کر بولے : "تم کون ہو۔۔۔۔۔؟”
گل محمد خاں تڑپ کر کسی سے اٹھا اور اپنا کارڈ جس پر انگریزی میں اس کا نام و پتہ وغیرہ سب لکھا ہوا تھا اور جو صاحب کے سامنے ہی چپراسی رکھ گیا تھا اور جس وہ دیکھ چکے تھے ، اپنے ہاتھ میں لے کر کہا: "کیا تم اندھے ہو اور اسے اب تک نہیں دیکھا۔”
جیسے کوئی بڑا شخص بچے کی طرف دیکھ کر باؤ کر دیتا ہے اور وہ سناٹے میں آ جاتا ہے اور سہم جاتا ہے وہی حال منیجر صاحب کا ہوا کیونکہ گل محمد خاں کی آنکھوں سے چنگاڑیاں اڑ رہی تھیں۔
منیجر نے لڑکی کو اشارہ کیا اور وہ دفتر کے باہر چلی گئیں۔ مجبوراً گل محمد خاں سے معاملے کی بات چیت منیجر کو کرنی پڑ گئی اور وہ جان گیا کہ گل محمد خاں کیسا آدمی ہے۔ اس معاملے کے سلسلے میں کچھ بہرام جی کے پرانے خطوط نکلوا کر دیکھنا بھالنا تھے ، پھر جواب دینا تھا، لہٰذا گل محمد خاں سے کہہ دیا کہ محافظ ریکارڈ سے کاغذات نکلوائے جائیں گے۔ محافظ ریکارڈ وہی لڑکی تھی۔ گل محمد خان باہر آ کر بیٹھ گئے اور حسب عادت بلند آواز میں کلرک سے گفتگو کر کے ہنسنے لگے۔ سب خوش تھے کہ آج موذی منیجر کو ایک ڈانٹنے والا ملا ہے۔
تھوڑی دیر بعد خان کو معلوم ہوا کہ کاغذ کا کام اس یورپین لڑکی کے سپرد ہے جس کو منیجر ڈانٹ رہا تھا تو وہ حضرت سیدھے ریکارڈ روم میں گھس گئے ، حالانکہ اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ اندر جانے کہ سخت ممانعت ہے۔ جو پڑھا لکھا ہی نہ ہو اس کو ان فضول تختیوں کی عبارت سے کیا بحث۔ وہاں اس سے تقاضہ کیا وہ جلدی سے کاغذ وغیرہ نکال لائی۔ خان کا کام (ص۔۴۱۰) بن گیا اور چلے گئے مگر سلسلہ چونکہ جاری تھا اس لیے دوسرے چوتھے روز خان کو آنا پڑتا تھا۔ کلرکوں سے ملاقات ہو گئی تھی اور لوگ ان کو اپنی دانست میں بے وقوف بنا بنا کر خوب مذاق کرتے۔ علاوہ دوسرے مذاقوں کے ایک مذاق لوگوں نے حسب عادت وہاں یہ پیدا کر دیا کہ "تمہارے اوپر مس جانسن یعنی وہ یورپین لڑکی عاشق ہو گئی ہے۔” گل محمد خاں اس کوچے سے نابلد تھے ، وہ کچھ نہ جانتے تھے مگر وہ یقین نہ کرتے تھے ، تو لوگوں نے کہا اگر یقین نہ آئے تو خود اس سے دریافت کر لو۔ گل محمد خان کو جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ واقعی دریافت حال کے لیے مس جانسن کے پاس جانا چاہتے ہیں تو بہت روکا مگر وہ نہ مانے اور انہوں نے جا کر اس سے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ لوگ ایسا کہتے ہیں۔ اس کو کچھ برا معلوم دیا اور وہ خان کو منیجر کے پاس لے گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کلرک بلا کر ڈانٹے گئے مگر مس جانسن کو اب پتہ چلا کہ خان بائی بھی عجیب دلچسپ آدمی ہیں۔
اس واقعہ کے بعد پھر خان کو کلرکوں نے الو بنایا اور کہا کہ وہ تم پر بے طرح عاشق ہے کیونکہ جب تم آتے ہو اور اس کو دیکھتے ہو تو وہ فوراً ہنستی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ یہ جب اس کو دور ہی سے سلام کرتے تھے تو وہ ان کو دیکھ کر ضرور ہنستی تھی۔ رفتہ رفتہ خان کو سکھا پڑھا کر ان لوگوں نے راضی کر لیا کہ تم اسے شادی کا پیغام دو، خان نے پوچھا کہ پیغام کس کو دوں تو کسی نے طنزاً کہہ دیا منیجر کو دو۔ چنانچہ گل محمد خان نے ایک روز منیجر صاحب سے زبانی اس طرح پیغام دے دیا گویا وہ اپنے آپ کو ان کی لڑکی کے لیے پیش کر رہے ہیں، وہ گل خاں کی اس حرکت پر ششدر رہ گئے۔ خفا ہوتے تو غالباً شامت آ جاتی مجبوراً انہوں نے روکھے منہ سے کہا کہ اس معاملے میں بہتر ہے تم براہ راست مس جانسن سے ملو۔ اب تو اجازت مل گئی۔ کلرکوں سے خوش ہو کر کہا کہ منیجر نے ایسا کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر کیا ہے بس مس جانسن سے مل لو، یہاں یا اعراض تھا فوراً پہنچے اور مس جانسن سے سلام علیک کے بعد کہا: "ہم تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔”
مس نانسن نے حیران ہو کر خان کی شکل کی طرف دیکھا۔ بائیں طرف نظر ڈالی تو کیا دیکھتی ہے کہ سب کلرک اس تماشا کو دیکھ کر مسکرا رہے ہیں، اس کو بھی ہنسی سی آئی اور کچھ کہنے بھی نہ پائی تھی خان نے کہا کہ میں نے منیجر سے بھی اجازت لے لی۔ یہ سن کر اس سے نہ رہا گیا اور وہ ہنس پڑی، اوروں کا بھی ہنسی کے مارے برا حال تھا۔ مس جانسن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس حماقت کا کیا جواب دے ، پھر بھی اس نے مسکرا کر کہا: "خان تم ہم سے شادی کرے گا۔”
خان نے کہا: "ہاں۔”
مس جانسن نے مسکراتے ہوئے کہا: "ہم عیسائی ہیں اور تم مسلمان ہو۔”
خان صاحب بولے : "کوئی مضائقہ نہیں ہم تمہیں مسلمان کر لیں گے۔”
وہ ہنس کر بولی: "میں مسلمان نہیں ہوں گی۔”
"اونہہ” خان صاحب بولے۔ "ہم تمہیں کر لیں گے کوئی بات نہیں۔”
"مگر تم انگریزی نہیں جانتے۔” اس نے کہا۔
"ہم سھک لیں گے۔”
"تمہاری داڑھی اور مونچھیں بڑی ڈراؤنی ہیں۔ اس نے ہنس کر کہا۔ مجھے ان سے ڈر لگتا ہے اور پھر مجھے یہ تمہارے پٹے نا پسند ہیں۔”
خان بولے : "ہم یہ سب کٹوا ڈالیں گے۔”
ہنس کر بولی: "تم پھر پہلے کٹوا آؤ تب بات کرنا۔”
"بہت اچھا۔” کہہ کر خاں صاحب چلے گئے ، وہ سمجھے کہ بال کٹوانے کے بعد مجھ سے شادی کر لے گی اور وہ سمجھتی تھی کہ یہ محض ایک دلچسپ مذاق ہے۔ اسے کیا معلوم تھا کہ میں آگ سے کھیل رہی ہوں۔
دوسرے ہی دن خاں صاحب ڈاڑھی صاف اور مونچھیں کتروا کر اور پٹوں کے انگریزی بال کروا کر آ موجود ہوئے اور مس جانسن سے کہا "اب بولو کیا کہتی ہو۔” اس نے اب محسوس کیا کہ مذاق نے دوسرا پہلو اختیار کیا ہے چنانچہ اس نے سنجیدگی سے کہا کہ میرے لیے کوٹھی مع فرنیچر اور موٹر و اسباب لازمی ہے۔ خان نے کل جواب دینے کا وعدہ کیا۔ سیٹھ سے جا کر سب قصہ سنایا اور کہا مجھے کوٹھی اور فرنیچر چاہیے ، سیٹھ خوب ہنسا اور ان کو اس مذاق سے آگاہ کیا مگر جب یہ نہ مانے تو کہہ دیا کہ فلاں کوٹھی خالی اور فلاں موٹر موجود ہے تم شادی کر لو۔ گل محمد خاں پھر مس جانسن کے پاس پہنچے ، جب سے داڑھی منڈائی تھی تب سے یہ اور بھی تختہ مشق بنائے جا رہے تھے۔ اس نے وعدہ کیا کہ اب میں تم سے ضروری شادی کر لوں گی، تم تیاری کرو اور روپیہ جمع کرو۔ جب تاریخ مقرر کرنے لگے تو اس نے تین مہینے کی شرط لگا دی۔ خاں صاحب راضی ہو گئے۔
خاں صاحب دراصل بہت با ضابطہ تختہ مشق بنائے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی وہ اپنے عجیب و غریب جذبات کا جو حال ہی میں رونما ہونے لگے تھے لوگوں سے تذکرہ کرتے تھے۔ وہ کبھی کبھی مس جانسن کے دفتر میں محض جانسن کو دیکھنے یا اس سے گفتگو کرنے آیا جایا کرتے تھے۔ مس جانسن کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا کر رہی تھی۔ اس کے لیے یہ ایک دلچسپ مشغلہ تھا، وہ دراصل کسی اور کے دام الفت میں گرفتار تھی، یہ تو محض ایک تفریح تھی۔
ص۔۴۱۲
ایک روز کا ذکر ہے کہ خاں صاحب دفتر میں آئے ہوئے تھے۔ اب یہ وہ گل خان نہ تھے جو کسی وقت لاہور میں قلی گیری کرتا تھا بلکہ اب وہ گل خان تھے جن کی کلائی پر ایک گھڑی لگی رہتی تھی اور صاف ستھرے کپڑے پہنے رہتے تھے۔ ہنسی مذاق دفتر میں پہنچنے ہی ہونے لگتا۔ مس جانسن نے گھڑی بند ہو جانے کی وجہ سے چپراسی سے وقت دریافت کیا۔ گل محمد خان نے کہا کہ تم کیسی واہیات گھڑیاں رکھتی ہو۔ اس نے ہنسی میں کہہ دیا: "اب تم مجھ سے شادی کرنے والے ہو رہے ہو تم کوئی عمدہ سی لا دو گے تو میسر ہو گی ورنہ مجھ غریب کو کہاں میسر۔”
گل محمد خاں چوتھے روز مس جانسن کے گھر میں پہلی مرتبہ پہنچے وہ موجود تھی اور یہ اندر گھر میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مس جانسن نہایت ہی بے تکلفی سے ایک نوجوان انگریز سے بیٹھی باتیں کر رہی ہے۔ وہ ان کو دیکھ کر ہنس کر اٹھ کھڑی ہوئی اور آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا۔ خان اس نوجوان انگریز کی طرف خونی آنکھوں سے گھور رہے تھے۔ اس نے خان صاحب کا تعارف اس نوجوان سے کرایا اور وہ بھی اردو میں یہ کہتے ہوئے "یہ مسٹر رابرٹ میرے دوست ہیں” اور خان کی طرف اشارہ کر کے مسکراتے ہوئے رابرٹ سے کہا: "مسٹر کان ہیں۔۔۔۔ وہی جن سے میری شادی ہو رہی ہے۔” یہ کہہ کر اس نے رابرٹ کی طرف دیکھا وہ جانتا تھا کہ محض مذاق ہے لیکن اس کا چہرہ اور آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اپنی معشوقہ کا یہ مذاق کچھ اس نے اتنا پسند نہ کیا جتنی کہ اسے امید تھی۔ وہ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ ادھر خان صاحب کے نتھنوں سے بہت پیشتر گرم ہوا نکل رہی تھی اور چہرے پر غصہ تحریر تھا، دونوں کان گئے کہ ہم آپس میں دشمن ہیں۔ ایک حقارت کی نظر ڈالتے ہوئے خان بیٹھ گیا۔ مس جانسن نے محسوس کیا کہ میرا مذاق رابرٹ کو ناپسند آیا، کچھ خفیف سی ہوئی، تینوں بیٹھ گئے اور لمحہ بھر کی خاموشی رہی، شاید ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ دوسرا بات کرے تو بہتر ہے۔ مس جانسن نے ایک محبت آمیز جھڑکی انگریزی میں رابرٹ کو دی اور کہا: "یہ بھی کوئی بات ہے۔”
گل محمد خان نے مس جانسن سے پوچھا: "تم اس شخص سے انگریزی میں کیا کہہ رہی ہو؟”
اس کے جواب میں وہ ہنسنے لگی اور اس نے کہا: "آپ کی تعریف کر رہی ہوںَ” یہ کہہ کر وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں خان کی تعریف کرنے لگی۔
گل خاں نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا "یہ کون شخص ہے۔”
"یہ مسٹر رابرٹ میرے دوست ہیں۔ ابھی تو بتایا۔”
"یہ تم سے ملنے کیوں آتے ہیں۔” ذرا سخت لہجے میں خان نے کہا۔
اس نے ہنس کر کہا: "اس لیے کہ اگر تم مجھ سے شادی نہ کرو تو میں ان سے کر لوں۔”
"مگر میں ان کو قتل کر دوں گا۔” گل محمد خان نے خون فشاں آنکھیں پھاڑ کو کہا۔
مس جانسن نے ہنس کر رابرٹ کی طرف دیکھا، اس کا حال ہی اور تھا۔ مس جانسن کو خواہ مخواہ کا غصہ رابرٹ کا برا معلوم ہوا، وہ خان کا پورا مذاق اڑا کر اپنے عاشق کو خان کا تماشا دکھانا چاہتی تھی۔ اس نے پھر انگریزی میں جھڑکا، خان نے برا مان کر کہا، اس شخص سے تم کیوں ملتی ہو، انگریزی میں بات مت کرو۔”
رابرٹ کی شامت آ گئی اس نے اپنے رقیب کو کھڑے ہو کر انگریزی میں ڈپٹا، شاید اس کو اپنی قوت یا افغانی قوت کا غلط اندازہ ہوا تھا۔ چشم زدن میں خان کی مٹھی شاید پچھتر ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے مسٹر رابرٹ کی ناک پر نازل ہوئی، یہ انہیں دراز کر دینے کے لیے کافی تھی۔ مس نانسن کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ خان نے مس جانسن کو رابرٹ کی طرف بڑھنے سے روک کر کہا یہ گھڑی تمہاری لیے لایا ہوں، اس شیطان کو چھوڑا اور اسے دیکھو۔
"مسٹر خان” اس نے روتے ہوئے کہا: "نہیں اچھا ٹھہریں میں ڈاکٹر تو بلا دوں۔” مشکل سے گل خاں راضی ہوا۔
مس نانسن ظاہری طور پر گھڑی لے کر خوش خوش باتیں ہی کر رہی تھی کہ ایک دم سے دس کانسٹیبلوں نے گل خاں کو چھاپ لیا، ایک جھٹکے میں آدھے اس نے ایک طرف گرائے کہ اتنے ہی اور اس پر نازل ہو گئے اور چشم زدن میں گل خاں گرفتار ہو گیا۔
مس جانسن نے ڈاکٹر کو نہیں بلکہ پولیس کو بلایا تھا۔
مقدمے میں گل خاں کو سزا نہیں ہوئی۔ اول تو اس کے چال چلن کی شہادت یعنی اسی ہزار کے نوٹ نہ چرانا وغیرہ ہی کیا کم واقعات تھے پھر ایک نہیں بلکہ دس کلرک اور دوسرے آدمی اس بات کے گواہ تھے کہ مس جانسن نے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ مس جانسن نے اقبال کیا کہ وہ محض مذاق تھا، غرض رابرٹ کو مارنا اس سے زیادہ وقت نہ رکھتا تھا کہ رقیبوں میں حجت ہو گئی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا اور گل خاں چھوٹ گیا۔
مگر اب اس کی حالت دوسری تھی۔ اس کو سرحدی خان اس کی رگوں میں مارے غصے کے گھولتے سیسے کی طرح دوڑ رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اس کے منہ سے کف آنے لگتا تھا اور سارا چہرہ سرخ ہو جایا کرتا تھا، دراصل اس کو چین ہی نہ پڑ سکتا تھا تاوقتیکہ وہ رابرٹ کو قتل نہ کر لے۔ مگر مس جانسن سے بھی وہ ملنا چاہتا تھا مگر ان دونوں کی تو پولیس نگرانی کرتی تھی۔ دفتر میں پولیس نگران تھی کہ مس جانسن سے وہ بات نہ کر سکے۔ وہ ظاہراً چپ تھا کہ گویا وہ بھول گیا ہے۔ اصل میں وہ دشمن سے بے خبری میں بدلہ لینا چاہتا تھا۔
دو مہینے کا طویل عرصہ گزر چکا تھا مگر گل محمد خاں کے سینے میں وہی جوش انتقام موجزن تھا۔ رات کے دس گیارہ بجے ہوں گے اور وہ سیٹھ کے ساتھ موٹر میں جا رہا تھا کہ آگ آگ کا شور (ص۔۴۱۴) بلند ہوا۔ پندرہ بیس منٹ کی دوڑنے موٹر کو ایک سر بفلک عمارت کے سامنے لا کھڑا کیا۔ حالانکہ آگ اوپر کے حصے میں نہیں لگی مگر بہت دیر سے لگی ہوئی تھی اور بچنے والے بچ کر نکل چکے تھے۔ صرف ایک لڑکی اوپر کی منزل سے ایک کھڑکی میں کھڑی سفید رومال ہلا رہی تھی یہ مس جانسن تھی۔ گل محمد خاں نے فوراً پہچان لیا اور معلوم ہو گیا کہ تمام کوششیں اس کو بچانے کی رائگاں جا چکی ہیں اور خود وہ بہت کوشش کر چکی ہے لیکن اب وہ ہر چار طرف سے شعلوں سے محصور ہے۔ مجمع کی حالت بیان سے باہر تھی کیونکہ وہ سب جانتے تھے کہ وہ اوپر کھڑی اپنے عاشق کو رومال دکھا رہی تھی۔ رابرٹ کو گل محمد خاں نے دیکھا کہ آدمی اسے پکڑے ہیں اور وہ چھڑا رہا ہے اور کہتا ہے کہ میں آگ میں گھس جاؤں گا۔ گل محمد خاں نے آ کر رابرٹ کو چھڑا دیا اور کہا جاؤ، وہ دیوانہ وار دوڑا لیکن دروازے پر پہنچتے ہی عشق رخصت ہو گیا اور وہ دیوانہ بن کر دوسری طرف دوڑنے لگا۔ گل خاں نے دوڑ کر پھر صحیح راستہ پر کر دیا اور رابرٹ سے کہا کہ جائیے کوشش کیجئے مگر توبہ کیجئے وہ کہاں جاتا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ رابرٹ نہیں جاتا تو اس نے اوپر دیکھا، مس جانسن یہ کاروائی دیکھ رہی تھی۔ اس نے خان کو دیکھ کر رومال ہلایا، کیا یہ واقعہ نہیں تھا کہ ایک بے کس لڑکی ایک پٹھان سے امداد کی طالب تھی۔ مجمع نے حیرت اور استعجاب سے دیکھا کہ گل محمد خاں عمارت کے دروازے میں داخل ہو گیا، تھوڑی دیر دکھائی دیا پھر دھوئیں میں غائب ہو گیا۔ دس منٹ بعد وہ صحیح و سالم پہلی منزل پر تھا۔ سانس لینے چھجے پر آیا۔ پبلک نے خوشی کا نعرہ مارا، وہ سانس لے کر پھر غائب ہو گیا اور اب کی مرتبہ لوگوں پر مایوسی طاری تھی لیکن وہ پھر نکلا، آگ بجھانے والا انجن اب اس کو بچانے کے لیے اسی منزل پر پانی پھینک رہا تھا، دوسری طرف سے مشتعل حصہ عمارت گر رہا تھا وہ پھر غائب ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد لوگوں نے دیکھا کہ اس کا صافہ جل رہا ہے اور وہ کوٹ پھینک چکا ہے۔ آگ بجھانے کا انجن موقعے پر کام کر رہا تھا وہ غائب ہو گیا اور پھر مجمع نے دیکھا کہ نہ معلوم کہاں سے وہ کپڑے لایا ہے اور انجن کے فوارے کے پانی میں بھگو رہا ہے۔ چشم زدن میں اس نے اپنے کو ان میں لپیٹ لیا اور پھر غائب ہو گیا۔ اس کو گئے ہوئے دیر ہو گئی تھی اور ایک تڑاقا ہوا، ایک طرف سے اوپر کی منزل کا ایک حصہ آن پڑا۔ مس جانسن نے منہ سے ایک چیخ نکلی وہ آنکھیں بند کئے دعا مانگ رہی تھی۔ شعلے اس کے چاروں طرف آتے معلوم ہوتے تھے۔ لوگوں نے آخری منظر کو نا قابل دید سمجھ کر منہ پھیر لیے ، صرف چند نے دیکھا کہ ایک بجلی سی چمکی اور مس جانسن غائب تھی۔ گل محمد کاں چیل کی طرف جھپٹ کر مس جانسن کو لے گیا اور غلغہ بلند ہوا اور جو لوگ منہ موڑے ہوئے تھے اور ایک لڑکی کی موت کا سین نہ دیکھنا چاہتے تھے افسوس کرنے لگے۔ آدھ گھنٹے کے قریب گزرنے آیا اور وہ غائب تھا۔ یکایک لوگوں نے اسے دیکھا کہ سب سے پہلی منزل کے ایک کمرے کی کھڑکی سے اس نے جھانکا، ایک نعرہ خوشی بلند ہوا مگر لوگ رنجیدہ ہو گئے کیونکہ وہ تنہا تھا اورشعلے اس کے پیچھے زبانیں بار بار دکھا رہے تھے۔ وہ انتہائی کوشش کر چکا اپنی جان پر کھیل گیا۔ اب مجبوری پر وہ کیا کرے۔ وہ تیزی سے اپنے اترنے کے لیے رسی باندھ رہا تھا، نیچے کی منزل کے شعلے باہر سے انجن سر کر ہی چکا تھا اور دراصل ساری آگ کا زور پست پر ہی تھا۔ لوگ نیچے آ گئے لیکن وہ رسی نیچے لٹکانے کے بعد واپس بھاگا، زندہ ہے زندہ ہے ، کا شور بلند ہوا مگر وہ تو شعلوں میں گھسا تھا، اب واپسی نا ممکن ہے ، انجن تیزی سے اس کمرے کے چھجے پر پانی پھینک رہا تھا۔ شعلوں کو چیر کر ایک بنڈل سا نکلا، یہ گل محمد خاں تھا۔ چشم زدن میں گل محمد خان نے بنڈل کو رسی سے باندھ کر نیچے اتار دیا۔ لوگوں نے سنبھالا بھی نہ تھا کہ وہ خود بھی اتر آیا۔ گل خاں کو بچانے کے لیے پولیس دوڑ پڑی اور حلقے میں لے لیا، جگہ جگہ سے وہ جل رہا تھا۔ گل محمد خاں مجمع میں ایسا غائب ہوا کہ پتہ نہ چلا۔
دوسرے روز پریس کے نمائندوں نے جب سیٹھ سے درخواست کی کہ ہم خان سے ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اجازت دے دی۔ تین چار سے تو نہ معلوم کس طرح خان بھگتا مگر آخر کار انہیں پتہ چلا کہ انعام لینے کو خان سے کہنا اور گالی دینا برابر ہے۔ واللہ اعلم انہوں نے کیا رائے قائم کی ہو گی۔
مس جانسن پندرہ بیس روز بعد درست ہو کر اس قابل ہوئی کہ گل محمد خاں کی مزاج پرسی کرنے ان کے گھر پر جائے۔ ناظرین خود اندازہ لگائیں کہ مس جانسن کا کیا حال ہوا ہو گا جب گل خان نے اس سے ملنے سے انکار کر دیا۔ اس کا چہرہ فق ہو گیا، بہت اصرار کے بعد وجہ خان نے خود بتائی وہ یہ تھی کہ تم جاؤ میں تم سے نہیں ملتا جب تک میرے پاس پانچ سو روپے ماہوار مستقل آمدنی اور ایک بنگلہ نہ ہو جائے گا میں تم سے نہیں مل سکتا۔ خان کو مس جانسن سے نہ ملنا تھا نہ ملے اور وہ لوٹ گئی۔
کئی خط مس جانسن کے خان کے پاس آئے۔ خان پڑھنا لکھنا تو جانتا نہیں تھا مگر یہ معلوم کر کے کہ کس کے ہیں، اس نے بغیر کھولے پھاڑ ڈالے۔
کچھ عرصے بعد خان کے نام ایک تار آیا، خان کو شبہ بھی نہ تھا کہ کس کا ہے ، عمر میں پہلا تار ان کے نام آیا وہ اس قدر مختصر تھا گویا کہ پڑھنے والے نے برجستہ کہہ دیا ہو "میں تم سے بغیر کسی شرط کے اب شادی کی خواہاں ہوں۔” یہ تار مس جانسن کا تھا۔
اس کے بعد بھی خطوط کا سلسلہ جاری ہی رہا مگر خان نے توجہ نہ کی یہ وہ پیشتر ہی معلوم کر چکا کہ مسٹر رابرٹ بمبئی میں نہیں ہیں، کیونکہ وہ ان کے قتل کی فکر میں اب بھی تھا۔
خان کا حال ادھر عجیب تھا، وہ دن رات پانچ سو روپے ماہوار یا اس سے زائد مستقل آمدنی پیدا کرنے کی فکر میں حیران تھا۔ اسی دوران میں ایک عجیب معاملہ پیش آیا وہ یہ کہ پشاوری سیٹھ جس کے ساجھے میں بہرام جی کا کاروبار تھا مر گای، لہٰذا لٹھے کی تجارت مجبوراً بہرام جی کو ختم کرنا پڑی۔ دونوں کا تجارت میں آدھا روپیہ لگا تھا لیکن گل خاں کو حیرت ہوئی جب
اسے معلوم ہوا کہ دراصل معاملہ کچھ اور بھی تھا…..جمرود کے علاقے میں سینکڑوں میل کے جنگل کھڑے ہیں۔ وہاں کے لوگ جنگل کے پاس لاتعداد عمارتی اور ہر قسم کی لکڑی کٹوا کٹوا کر انبار لگاتے ہیں اور باہری سوداگر خرید لے جاتے ہیں اور فروخت ہونے پر نفع رکھ لیتے اور قیمت ادا کر دیتے ہیں۔
گل خاں نے دوڑ کر سارا معاملہ بہرام جی کو کہہ سنایا اور کہا میں بھی ایسا ہی کرسکتا ہوں تم
لکڑی کی تجارت بند نہ کرو۔
گل خاں جمرود گیا اور مل جل کر کامیاب ہو گیا۔ پہلے انہوں نے تھوڑی لکڑی دی لیکن جب ان کو یقین ہو گیا کہ گل خاں کا اعتبار وہی پارسی سیٹھ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ کرتا ہے تو انہوں نے گل خاں سے بالکل ان ہی شرائط پر تجارت شروع کر دی۔ چونکہ سیٹھ بہرام جی کو گل محمد خاں سے ایمانداری میں ذرہ بھر شک نہ تھا اس لیے یہ تجارت اس سے بھی بہتر ثابت ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں میں گل کا اپنا روپیہ اس کے ہاتھوں میں تیزی سے دوڑنے لگا اور وہ ہزاروں روپے کمانے لگا۔
تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور خان کی تجارت اور دفتر اب سب بہرام جی سے علیحدہ ہے۔ صرف سائن بورڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خان کا دفتر ہے ورنہ خان کی صورت کبھی دیکھنے میں نہیں آتی اس کو نہیں معلوم کہ دفتر میں کیا ہورہا ہے۔ تمام کام وہی مس جانس کیا کرتی ہے جو کارخانہ کی مالک ہے اور خان کو ذرہ بھی خبر نہیں کہ تجارت کس حال میں ہے پہلی منزل میں دفتر ہے اور دوسری منزل میں خان دن بھر یا تو بجلی کے پنکھے کے نیچے آنکھیں نیچے کیے ہوئے شلوار پھیلایا کرتے ہیں یا اپنے بچے سے کھیلتے رہتے ہیں یا باپ بیٹے ایک دوسرے کو اپنی اپنی مادری زبان سکھایا کرتے ہیں۔ کھانے کے وقت کھالیا ،سونے کے وقت سو رہے ، تیسرے پہر کو بچے کو موٹر پر ہوا کھلا لائے ، وہ غصہ واللہ اعلم کہاں گیا۔
نوکروں سے تنگ ہوتے ہیں تو بیوی سے شکایت کرتے ہیں۔ شروع شروع میں ایک آدھ نوکر کی البتہ پسلی توڑ دی، تب سے یہ اختیار بھی ان سے چھن گیا۔ اطمینان قلب اور عشرت نے بدن کو بھاری کر دیا ہے ، گو اب بھی بعض اوقات کسی بات پر سرحدی خون جوش مارتا ہے اور آنکھیں شعلہ سی ہو جاتی ہیں مگر بیوی کی ایک سخت آواز یا ایک نظر سب جلال رخصت کر دیتی ہے۔ ایک کوہ آتش فشاں ہے جس کی کنجی ایک عورت کے ہاتھ میں ہے۔ وہ سرد نہیں ہوا بلکہ خاموش ہے ورنہ وہ قوت ، وہی جوش ، وہی ہمت، وہی طاقت ، وہی کریکٹر کی مضبوطی اور وہی قوت ارادی اب بھی سرحد میں موجود ہے۔ جس نے محض زور بازوسے دنیا اور روپے کو اپنا غلام بنا لیا۔ افغانی سرشت کیا نہیں کرسکتی کاش کہ وہ اپنی قوت کا احساس کرین اور اسے مناسب اور جائز طریقے سے استعمال کریں اور انشاءاللہ کریں گے۔
٭٭٭

لیفٹیننٹ
یہ جب کا ذکر ہے کہ میں بہت چھوٹا سا تھا۔ ہمارے پڑوس میں ایک شیخ جی رہتے تھے۔ اکثر دوپہر کو نیم تلے چارپائی پر بیٹھ کر وہ حقہ پیتے اور دو چار آدمیوں سے باتیں بھی کرتے۔ میں بھی کھیلتا ہوا پہنچتا۔ وہاں میں نے عمر میں پہلی دفعہ لیفٹیننٹ کا ذکر سنا۔ ان کا داماد کسی لیفٹیننٹ کے یہاں نوکر تھا۔ کس مزے سے وہ اوروں سے کہتے تھے ، اپنی عینک کے اوپر سے دیکھ کر ، حقہ دوسرے صاحب کی طرف اخلاقا موڑتے ہوئے "گورون کا سب میں بھاری افسر ہوتا ہے …یوں کانپتی ہے پلٹن ! ” ہاتھ کو ہلا کر کپکپی کا منظر پیش کرتے۔ "بڑی کانپتی ہے گورا پلٹن !!” اور اس لیفٹیننٹ کا حلیہ بھی سن لیجئے "اجی لال بھُچ!…. وہ گٹّرا میر جوتا کہ مارے ٹھوکر تو نوکر کی پنڈلی ٹوٹ جائے۔ بھلا ہماری آپ کی مجال ہے جو اس کی نوکری جھیل جائیں "گٹ پٹ ! بولتا ہے صاحب کیا سمجھے کوئی۔ یہ تو انہی لوگوں کا (مراد اپنے داماد) دل گروہ ہے جو اس سے نہتے ہیں۔
اور کیا صاحب نے جو کرنل جرنیل کو عہدے میں اونچا بتایا تو سر ہلا کر قدرے خفا ہو کر بولے ….. "بڑے جھک مارے ہیں کندیل اور جنڈیل سب !….. کوئی مذاق ہے ….” ظاہر ہے کہ لیفٹیننٹ کی عظمت کیسی کچھ نہ میرے دل میں بیٹھی ہو گی۔ خیال ہی سے حواس باختہ ہوتے تھے کہ خدا نے ایک لیفٹیننٹ سے سابقہ ڈالا۔
قبل اس کے کہ میں کچھ عرض کروں ، لیفٹیننٹوں کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل بیویوں کی طرح لیفٹیننٹ بھی دوقسم کے ہوتے ہیں "متحارب” اور” غیر متحارب۔” ایک عرصے تک عمری اور ناتجربہ کاری کے سبب یا یوں کہئے کہ اپنے مشاہد ے کی کمی کے سبب میں اس مغالطے میں رہا کہ لیفٹیننٹ صرف "متحارب” ہوتے ہین اور بیویاں صرف” غیر متحارب” لیکن اول الذکر کے بارے میں جنگ عظیم کے بعد اور موخرالذکر کے بارے میں ایک خاص واقعہ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ لیفٹیننٹ اور بیویاں دونوں کے دونوں متحارب اور غیر متحارب ہوتے ہیں۔ لیکن سردست چونکہ مجھے بیویوں کے بارے میں کچھ عرض نہیں کرنا ہے لہذا اپنا قصہ سنا تا ہوں۔
والد صاحب مرحوم نئے نئے ملازم ہوئے تھے کہ دوسرے شہر کا تبادلہ ہوا۔ سب کو تو گھر چھوڑا اور صرف مجھ کو لے کر نئی جگہ پہنچے کہ مکان ٹھیک ٹھاک ہو جائے تو سب کو بلائیں۔ ڈاک بنگلے میں قیام ہوا، وہاں کئی آدمی ملنے آئے اور بہت باتیں ہوئیں۔ باتیں مکانوں کی تھیں۔ معلوم ہو کہ ایک بنگلہ تو بہت اچھا ہے لیکن اس کے پڑوس کے بنگلے میں ایک پاجی لیفٹیننٹ ایسا رہتا ہے کہ کسی کو بنگلے میں ٹکنے نہیں دیتا۔ جو بھی آتا ہے وہ بنگلہ چھوڑ کر بھاگتا ہے۔ جو صاحب بنگلہ چھوڑ بھاگے تھے انہوں نے والد صاحب کو اس لیفٹیننٹ کے مظالم کے واقعات سنائے۔ نوکروں کو مارتا ہے ، غل نہیں مچانے دیتا ہے ، جانور نہیں پالنے دیتا۔ بنگلہ بڑے سستے کرایہ پر مل جائے گا۔ والد صاحب فورابنگلہ لینے کو آمادہ ہو گئے اور ان کو خطرے سے زیادہ آگاہ کیا تو وہ بولے …. "جانتے ہیں آپ ان گوروں کو ٹھیک کرنے کی ترکیب ؟ ….بس ٹھونک چلئے ان کو تو۔ میرے ساتھ ذرا بھی چیں چپڑ کی تو اٹھا کے دے ماروں گا۔”
اور انہوں نے والد صاحب کے چوڑے چکلے سینے اور زبردست بازوؤں کی طرف رشک سے دیکھا اور پھر کچھ نہ کہہ سکے اور سکتے کے عالم میں کہ الٰہی یہ ابا میاں کو کیا ہو گاچ۔

(۲)

بنگلہ نہایت خوبصورت اور آرام دہ تھا۔ دوسرے ہی دن اس بدمعاش لیفٹیننٹ کا مالی آیا اور معلوم ہوا کہ اس نے یہ کہا کہ لیفٹیننٹ صاحب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس بنگلے کا بھی تم کام کر کے دس روپے ماہوار تنخواہ لو ۔ مالی صاحب کے سامنے پیش ہوا۔ مجھے یاد نہیں ٹھیک کیا باتیں ہوئیں۔ مگر شاید کچھ گستاخی کا پہلو نکلتا ہو گا جو والد صاحب نے حکم دیا کہ اس کی مونیں اکھاڑ لو۔ مگر لیفٹیننٹ کے ڈر کے مارے کسی نوکر کی ہمت نہ پڑی۔ اس کو ڈانٹ کر نکلا دیا۔ ہفتہ بھرکے اندر ہی اندر جھگڑے کی باتیں اس نے شروع کر دیں۔ ایک دن دوپہر کو نوکروں کو بلا کر کہا کہ غل نہ مچانا۔ والد صاحب جو آئے تو بے حد ملازموں پر خفا ہوئے کہ تم لوگ گئے ہی کیوں پھر ایک روز کہلا کر بھیجا کہ بنگلے میں جھاڑو آہستہ دلواؤ دھول آتی ہے۔ کنوئیں کی گراری پانی بھرنے میں زور سے بولتی تھی۔ اس پر کہلوا کر بھیجا کہ اس کو ٹھیک کراؤ۔ چونکہ ملازم ہی کہنے آتے تھے لہٰذا ان کی زبانی ہی دندان شکن جواب دے دئے گئے۔ ایک دن سنا کہ اس نے اپنے گھوڑے کو گولی مار دی ، پھر یہ سنا کہ کسی کا گدھا بنگلے میں آیا تو گولی مار دی۔ شام کو اور صبح کو برابر بندوقیں چلتیں۔ مجال کیا جو کوے یا طوطے بنگلے پر سے گزریں اور وہ نہ مارے ، پرندے زخمی ہو کر بنگلے ہی میں گرتے اور اسی سلسلے میں نوکروں پر اپنے گرجتا اور ان کو مارتا۔
یہ باتیں جاری ہی تھیں کہ ہماری بکری نے اس کے بنگلے میں تاخت بول دی۔ واللہ اعلم سچ کہ جھوٹ ہمارے نوکروں کا کہنا کہ غلط بات تھی۔ ان کے مالی نے غلط الزام لگایا۔ خود اس کا کتا حوائج ضرور یہ کے مسائل طے کرنے تار میں سے ہو کر ہمارے بنگلے میں آتا اور بکری پر دوڑتا تھا۔ کچھ ہو لیفٹیننٹ نے والد کو سخت خط لکھا کہ تمہاری بکری ہمارے تار کے پاس آ کر چلاتی ہے ہم اس کو گولی مار دیں گے۔ والد صاحب نے جواب میں لکھا کہ ہم تمہارے کتے کو گولی ماردیں گے۔ اس نے لکھا کہ کتا جو مر گیا تو میں تم سے "ڈوئل "لڑوں گا۔ والد صاحب نے لکھا کہ اگر یہی ارادہ ہے تو بکری اور کتے کی کیوں جان جائے "ڈوئل ” پیشتر ہی رہے۔ اسی رات کا ذکر ہے کہ نوکر آیا اور اس نے والد صاحب کو کہوایا کہ کمرے کی روشنی گل کرو صاحب باہر سوتا ہے اس کی آنکھوں میں لگتی ہے۔ ورنہ صاحب کہتا ہے ” ہم گولی مار دے گا "۔ دراصل وہ نشے میں دھت ہو رہا تھا۔ والد صاحب نے اس کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔ نوکر گیا ہی تھا کہ کھڑکی میں جہاں سے روشنی چمک رہی تھی گولی آ کر لگی ، شیشے کے پرخچے اڑ گئے اور اس کا آدمی دوڑ کر آیا کہ صاحب کہتا ہے ہم تو گولی مار دے گا ورنہ روشنی بند کرو۔ والد صاحب کو مارے غصے کے برا حال ہو گیا۔ لپک کے گئے اور اپنا اکسپرس رائفل نکال لائے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ سامنے ہی اس کے نشست والے کمرے کا دروازہ تھا کہ جس کے شیشوں میں سے روشنی چمک رہی تھی ، باندھ کر سیدھ ماری جو گولی تو دروازہ توڑتی اند کمرے میں اس کے سنگاردان کے آئینے کا پرخچہ اڑاتی دیوار میں پیوست ہو گئی ۔ ایک ہلڑ مچ گیا ، ادھر سے وہ گرجتا ہوا اٹھا اور ادھر سے والد صاحب بھی ویسے ہی لپکے ، وہ احاطہ میں گھس آیا مگر خالی ہاتھ تھا والد صاحب بھی یوں ہی بنیان پہنے ہوئے ملازم روشنی لئے ہوئے ساتھ تھے۔ دونوں میں کچھ بات چیت ہوئی۔ غالباً اس نے والد صاحب کو اچھی طرح دیکھ لیا کہ کس قدر طاقتور شخص ہیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے لپکے تھے کہ "اس گورے کو اٹھا کر دے ماروں گا شامت آئی ہے اس کی۔ ” دونوں نے ہنس کر مصافحہ کیا، وہ اپنی طرف چلا گیا اور والد صاحب ہنستے اپنی طرف چلے آئے۔ والد صاحبہ کی حالت مارے خوف کے غیر ہو چکی تھی اور غشی کے قریب تیںن جب والد صاحب آئے اور خوب ہنسے۔ اس واقعے کے بعد نوکروں نے الٹی چکی چلا دی۔ ظاہر ہے کہ سیر کو سوا سیر مل گیا تھا اور پھر تو جب تک رہے ہم وہ کچھ بھی نہ بولا بلکہ شب برات کو اس کو حلوا گیا تو خود حلوے کا ٹکڑا ہاتھ میں کھاتا چلا آیا اور اندر سے والد صاحب سے منگا کر اور کھایا۔ عید کو سویاں کھلائیں۔ والد صاحب کا جلدی یہاں سے تبادلہ ہو گیا۔
اتفاق کی بات کہ برسوں گزر گئے۔ والد صاحب تبادلہ ہو ہو کر جگہ بہ جگہ ہوتے ہوئے نہ معلوم کہاں سے کہاں پہنچے کہ یہی لیفٹیننٹ پھر ملا۔
ہمارے بنگلے کے قریب ہی ایک انگریز کا موٹر بگڑ گیا۔ توپ کی سی آواز ہوئی۔ ٹائر یا ٹیوب پھٹ گیا۔ شہر سے دور ہمارا بنگلہ تھا۔ نوکروں نے جو دیکھا تو اس کو پہچان لیا۔ یہ تو وہی لیفٹیننٹ تھا۔ دن کے دو بجے ہوں گے۔ ولی محمد خانساما فورا کرسی سر پر رکھ کر دوڑا اور اس کی خاطر کی۔ اسے فورا حکم دیا گیا کہ کھانا لاؤ اور ولی محمد نے جھٹ سے آلو ابالے اور دو چوزے ذبح کر کے جھلس جھلسا کر تیار کئے ، چار انڈوں کا پڈنگ تیار کر کے پہنچے۔ کھانا وہاں اس نے خوب ڈٹ کر کھایا، ولی محمد کو ٹھوکر یں بھی ماریں (لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ولی محمد نے محض فخریہ ایسا کہا، کوئی ٹھوکر نہیں ماری) اور انعام کے دس روپے ان کو دے گیا۔ والد صاحب کو سلام کہتا گیا۔
میں اسکول میں پڑھتا تھا۔ طرح طرح سے اس قصے کو فخریہ گاتا پھرا یہاں تک کہ ماسڑ صاحب کے کان تک اس کی بھنک پہنچی اور انہوں نے بھی اس قصے کو حیرت سے سنا۔ درجنوں دوسرے لڑکوں نے سنا۔ دراصل واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے کیا کم تھا کہ شہر کے اس قدر قریب سے ایک لیفٹیننٹ کا گزر ہوا۔ یہ باتیں آ پ کو عجیب سی معلوم دیں گی۔ اس لئے کہ اب تو لیفٹیننٹوں کی بھرمار ہے۔ بہر حال یہ ایک "متحارب ” لیفٹیننٹ تھا اور ان واقعات پر غور کرنے سے آپ کو پتہ چلے گا کہ لیفٹیننٹی کا کیا صحیح معیار ہے۔ یہ پہلا لیفٹیننٹ تھا جس سے مجھے سابقہ پڑا۔ سابقہ بھی کیا۔ لیکن لیفٹیننٹی کے بارے میں صحیح معیار قائم کرنے کے قابل ہو گیا تھا کہ مجھے اور ایک لیفٹیننٹ ملے …..وقت گزر چکا تھا۔ میں بچہ نہ تھا بالکل کالج کا طالب علم تھا۔ معلوم ہوا گورنمنٹ نے طے کر دیا ہے کہ اب ہندوستانی بھی لیفٹیننٹ ہوا کریں گے۔ ان میں سے پہلا لیفٹیننٹ میں نے ایک عرس پر دیکھا۔ یہ اودھ کے ایک رئیس زادے تھے۔ میں نے معلوم کیا دیکھنے کو تیار تھا کہ چلے آرہے ہیں ایک نوجوان سر پر دوپلی ٹوپی ، جامدانی کا انگر کھا، چوڑی دار پاجامہ اور اس خوبرو اور واقعی سجیلے تھے۔ مگر میں جو کچھ بھی لیفٹیننٹی کا نمونہ دیکھ چکا تھا اس کو دیکھتے ہوئے تو محض "چھمی جان "تھے اور پھر تباہی پہ تباہی بڑے خوش اخلاق نرم دل ملنسار تھے اور قوالی کے بے حد شوقین۔ بھلا یہ بھی کوئی لیفٹیننٹ میں لیفٹیننٹ ہوئے۔ بجائے اس کے کہ میں لیفٹیننٹی کے معیار پر رائے زنی کروں قارئین سے صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ لیفٹیننٹ اگر کسی بے خطا راہ گیر کے چوتڑوں پر خواہ مخواہ بگڑ کر لات مارے تو اس کا پینٹ کا نازک سا پمپ شو کہاں جائے۔
اودھ کے ایک قصبے کے اسٹیشن پر کیا دیکھا ہوں کہ ویٹنگ روپ کے سامنے کرسی پر ایک اس قدر زیادہ موٹے مگر نرم اور ملائم روئی کا گالا جیسے ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں۔ بے حد ڈھیلا پتلون ، جھابڑ جھلا ، پیٹی توند پر اس زور سے کسی کہ جیسے دھنکی ہوئی روئی کہ گٹھڑی گو زور سے کس دو۔
ریل آئی ، ڈاک گاڑی! سکنڈ گلاس پلیٹ فارم سے باہر دور جا کر کھڑا ہوا۔ یہ حضرت دوڑتے یا دوڑنے اور لڑھکنے کے درمیان والی کاروائی کرتے چلے ہیں کہ دھڑ سے سیٹی دیتا ہے انجن۔ حواس زائل۔ جوں توں کر کے پہنچے۔ ڈبہ پلٹ فارم سے باہر۔ دونوں ہاتھ اونچے دو طرفہ ہینڈل کی سلاخوں کو پکڑ کر تختے پر پیر رکھ کر اوپر چڑھنے کو جو زور لگا یا تو پتلون ویسے ڈھیلی تھی۔ پیٹی معہ پتلون زمین پر ! جھک کر پتلون سنبھالتے ہیں اور گاڑی یہ جا وہ جا! لوٹے چلے آرہے ہیں ! ہر شخص ان کو دیکھ رہا ہے اور منہ موڑ کر مسکرا رہا ہے۔ ہو لڈال پر نظر پڑتی ہے۔ لکھا ہے "لیفٹیننٹ بنرجی ” اور کھڑا دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا ! لیفٹیننٹ غیر متحارب بھی ہوتے ہیں۔یہ ڈاکٹر تھے مگر لیفٹیننٹ ! موٹاپے کے خلاف مقامی اسکول میں لکچر دینے آئے تھے۔ سوچتے ہوں گے کہ ایک لکچر مسافروں کو بھی سہی۔
اور لیفٹیننٹ اگر کسی کے لات مار دے۔ نہیں ! اگر لات مارنے کی کوشش کرے تب کیا ہو! آپ خود قریب ہوں تو شاید پرے ہٹ کر خود لیفٹیننٹ کی لات کی زد میں آجائیں اس لئے کہ محفوظ ترین مقام وہی ہوسکتا ہے ورنہ دوسرے صورت میں لات کی زد سے زیادہ خطرہ خود لیفٹیننٹ کی زدہو ! اس لئے کہ لات مارنے کی صورت میں قطعی لیفٹیننٹ کابیلنس آؤٹ ہو جائے گا اور وہ نہ معلوم کدھر اور کس زور سے گرے۔ نرم سہی مگر وزنی۔
آپ سوچیں گے کہ لیفٹیننٹ ہے تو یہ کیا ضروری ہے کہ لات مارے ہی مارے ! اور میں کہتا ہوں کہ حضرت کیوں نہ مارے ! اور دراصل میں اس مضمون کے ذریعے ان خیالات و رجحانات کی اشاعت چاہتا ہوں جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ لیفٹیننٹی سے کسی قسم کا خیالی یا عملی تعلق رہ چکا ہو۔ ممکن ہے کہ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر آپ خود لیفٹیننٹ بننا چاہتے ہیں تو اس مسئلے پر غور کرنے میں آپ کو کچھ مدد مل سکے۔
جس زمانے کا میں ذکر کرتا ہوں لیفٹیننٹی کا شوق پھیل رہا تھا ، رئیسوں اور ڈاکٹروں میں غیر متحارب لیفٹیننٹ نظر آناشروع ہو گئے تھے اور ترقی پسند اور روشن خیالی حضرات میں سے اکثر کے پیش نظریہ سوال تھا کہ نام کے ساتھ عمدہ سا تخلص معہ یائے نسبتی زیادہ موزوں رہے گا یا لفظ لیفٹیننٹ۔ لیکن باوجود اس کے عوام اور جہلا کے لئے لیفٹیننٹ معہ اپنی لات کے اب بھی وہی ایک غیر ملکی چیز تھا۔ نہیں بلکہ بے جا نہ ہو گا اگر میں یہ کہوں کہ اب بھی ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کا خیالی صحیح ہو۔ لیکن میں اپنے خیال کی تائید میں نسبتا ایک تازہ قصہ پیش کروں گا جس کے پڑھنے سے نہ صرف میرے خیال کی تائید بلکہ لیفٹیننٹی نے جو بھی قابل فخر صورت ہماری خطاب یافتہ دنیا میں پیدا کر لی ہے اس پر کافی روشنی پڑے گی۔

لیفٹیننٹی کا پہلا دن

زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ حسن اتفاق سے ایک ڈاکٹر صاحب کے پڑوس میں رہتا ہوا، کوئی پچاس برس کی عمر۔ گھٹا ہوا دوہرا بدن ، اچھا گورا کھلتا ہوا رنگ ، شیروانی پر ترکی ٹوپی اور بڑی بڑی موری کا گھسٹتا ہوا پائجامہ ایک عجیب انداز سے زمین کی طرف دیکھتے چلے۔ کھچڑی ڈاڑھی تھی تو فرنچ کٹ مگر لاپروائی کے سبب ٹیگور کٹ ہونے سے جیرا روکی جاتی۔ بڑے کامیاب اور ہوشیار ڈاکٹر تھے اور خوب چلتی تھی۔ دن رات فرصت نہ ملتی۔
ایک دم سے جو خدمت خلق کا جذبہ زور پہ آیا تو سیروں سوڈا بائی کا رپ خرید کر کئی حصے کئے ، کسی حصے میں نمک ملایا تو کسی میں پھٹکری اور کسی میں قدرے کوئی کڑواہٹ اور دواؤں والے مختلف رنگ دے کر اور مختلف خوشبو دے دے کر ہزاروں پڑیاں ماشہ ڈیڑھ ماشہ کی بنوالیں اور اسی طرح بوتلوں میں معلولی پانی بھر کر رنگ و خوشبو دے کر کسی کو پھٹکری سے نواز تو کسی میں نمک، کسی کو ذرا کڑوا کر دیا تو کسی کو کھٹا۔ پڑیون کے نام رکھ دیئے پاؤڈر نمبر ۱ و۲ وغیرہ اور اسی طرح پانی کے نام رکھ دیئے۔ مکسچر نمبر ۱و۲وغیرہ اور ایک بڑا بھاری سائن بورڈ لگا دیا کہ غرباء کو دوا مفت ملتی ہے۔ کلکٹر ضلع نے آ کر اس فری ڈسپنسری کا افتتاح کر دیا اور اب ہوا جو ہے مریضوں کا زور تو الامان۔ سینکڑوں مریضوں کو یہی پڑیاں تقسیم ہوئیں۔ ہزاروں مریضوں کو فائدہ پہنچا۔ کسی کو ضرورت دیکھی تو بازار سے کوئی پیٹنٹ دوا علاوہ ان پڑیوں کے بھی تجویز کر دی۔ ایک ریل پیل ہو گئی مفت دوا لینے والوں کا رجسٹر دیکھو تو دنگ رہ جاؤ کہ اتنے مریضوں کو مفت دوا کیسے دیتے ہیں۔ غرض کارخانہ زوروں میں چل رہا تھا کہ عجیب معاملہ پیش آیا۔
ڈاکٹر صاحب کے ایک ملازم صاحب تھے جن کا نام احمد تھا ، یہ پہلوان بھی تھے اور نہ معلوم کس کے بہانے سے ایک مقامی دنگل میں شرکت کی جس میں پچھڑ گئے ، کچھ اکھڑ مزاج ویسے تھے اور پہلوانی کے سبب یوں بھی دوست احباب کے تختہ مشق رہتے تھے کہ پچھڑ نے سے اور بھی لوگ چھیڑنے لگے۔
صبح کا وقت تھا ، ڈاکٹر صاحب مریض دیکھنے گئے تھے اور احمد پہلوان دھوپ میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے کہ سائیکل پہ تار والا آیا۔ ان کو دیکھتے ہی مسکرایا اور سلام نہ دعا ہنس کر کہتا ہے "کہو پہلوان کیا حال چال ہیں۔ مٹھائی کھلواؤ۔ ”
اور پہلوان کو ہر مذاق کرنے والے اور ہر مذاقیہ پر شبہ کہ یہ مذاق اشارتاً پچھڑنے سے متعلق ہو گا لہٰذا برا مانتے۔
پاس ہی جمن ملازم لڑکا کھڑا تھا اس سے اندر اطلاع کرائی کہ تار آیا ہے اور تار والے کو سنجیدگی سے مطلع کیا کہ مذاق ناپسند ہے۔ ڈاکٹر صاحب شہر گئے ہیں تار ہمیں دے دو، اس نے تار دینے سے انکار کیا، انہوں نے پھر جو تار کو پوچھا تو ہنس کرتار والا بولا کہ "تمہارے ڈاکٹر صاحب لیفٹیننٹ ہو گئے ….مٹھائی کھلاؤ۔ ”
بد قسمتی دیکھئے کہ جس دنگل میں یہ پچھڑے تھے اس میں کوئی لیفٹیننٹ بھی آیا تھا۔ یہ بگڑگئے کہ اتنے میں اندر ایک قیامت سی بپا ہو گئی۔ بیگم صاحبہ کو جو تار کی اطلاع ملی تو وہ مارے خوشی کے چیخ پڑیں۔ اس لئے کہ ان کے چھچو بھیا کہ لڑکا ہونے کو تھا جس کی اطلاع کا بذریعہ تار انتظار تھا۔ لڑکے نے جو کہا کہ تار والا مٹھائی مانگتا ہے تو یہ سمجھیں کہ آ گئی خبر اور حلق پھاڑ کے چیخیں۔ ” اے خلو آپا ……”
خلو آپا اس سرے پر باورچی خانے میں بیٹھی آلو چھیل رہی تھیں۔ یہ دوڑیں اور پھر حلق پھاڑ کر ” اے خلو آپا …..چھچو بھیا کے لڑکا ہو اہے ….”
"اے میری قسم …….”خوش ہو کر خلو آپا ڈوپٹہ چھوڑ چھاڑ کر اٹھیں۔
"اے اللہ کی قسم …….تار ہی جو آ گیا ……ارے او جمن …….جمن کے بچے ….”
"اے بہن مبارک …….ارے جمن ……ارے مری پڑی جائے تجھ پہ……..”
اور دونوں دروازے کی طر ف دوڑیں۔
"میں نہ کہتی تھی کہ شرط باندھ لو…..لڑکا ہی ہو گا …. اور لڑکا نہیں ہوتا تو تار کیوں دیتے …..اے وہ مٹھائی مانگ رہا ہے …..”
"کون ”
"اے وہی تار والا ….. اتنے میں بوا رحیما دوڑی آئیں اور چلائیں۔
"اے لو مبارک ……مبارک بھائی کا گھر پھلے پھولے …..”
اے بوا تار تو لاؤ …… وہ تو مر کے رہ گیا جن کا بچہ ……”
دروازے کے تو پاس ہی تھیں۔ بوا رحیمن لپک کے باہر گئیں کہ احمد کی آواز آئی۔ "تیری بدمعاش کی ایسی تیسی ….. ہڈی پسلی ایک کر دوں گا ٹھہر تو جا میں تجھ ہی کو لیفٹیننٹ بنائے دیتا ہوں۔ ”
جمن آیا کہ وہ تار نہیں دیتا۔ جمن کو پرل دوڑایا کہ تار والے کو روکے مگر توبہ کیجئے۔ پہلوان صاحب جو لپکے ہیں تو وہ سائیکل پر قہقہہ لگاتا ہوا ہوا گیا۔
احمد پہلوان بڑبڑاتے برا بھلا کہتے آئے۔ یہ سمجھیں کہ تار نہ دیا اس لئے احمد خفا ہیں اور احمد نے بھی یہی بتایا کہ مٹھائی مانگتا تھا۔ اب یہ ان کی غلطی ہو گئی کہ یہ نہ سوچے کہ چھچو بھیا کے لڑکا ہوا ہے۔ خوش ہو کر احمد بھی بولے مجھے کیا خبر تھی۔ رحیماً بوا میری طرف سے بھی بیگم صاحبہ کو مبارک باد دے دو۔ و تو مذاق کرنے لگا تو مجھے غصہ آ گیا۔ مجھے کیا خبر تھی، میں تو روک لیتا اور خود انعام دلاتا۔ خیر مبارک ہو۔
مارے خوشی کے ڈاکٹرنی دیوانی ہو گئیں، تو چل میں چل، عرصے سے پروگرام زیر تجویز تھے۔ روانگی کا انتظام درپیش ہو گی اور خلو آپا خوش ہو کر بار بار کہتیں۔
میں نہ کہتی تھی کہ بہن لڑکا ہو گا۔
اے انعام بھی تو لینا ہے اسے۔ خلو آپا بولیں۔
انعام مردہ مجھ سے لیتا۔ مگر ہاں اسے کیا معلوم۔ میں تو خوش کر دیتی اسے۔
غرض اندر غدر مچ رہا تھا۔ ڈاکٹرنی کے اکلوتے بھائی تھے۔ پہلی بیوی مع بچوں کے ختم ہو چکی تھی کہ دوسری شادی اور لڑکے کی نوبت آئی۔ یہ طے تھا کہ لڑکا ہو گا اور ڈاکٹرنی مارے خوشی کے دیوانی ہو رہی تھیں۔ خلو آپا بیوہ سہیلی تھیں جو مدت سے ساتھ رہتی تھیں۔ اور اب طرح طرح کی تجویزیں ہو رہی تھیں۔ کہ فوراً روانگی کی تیاری کر دی جائے۔
باہر زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ڈپٹی صاحب کا نوکر چھدا نے بھی آتے ہی ہنس کر پہلوان سے علیک سلیک کی۔
ڈاکٹر صاحب کو پوچھا اور ایک ہی سانس میں ہنس کر کہا کہو پہلوان بھائی اب تو ٹھاٹھ ہیں اب بھلا کیوں بولو گے۔
پہلوان نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نہیں ہیں۔ لیکن یہ معلوم کر کے پہلوان کا غصہ تیز ہو گیا جب اس نے ہنستے ہوئے کہا تمہارے ڈاکٹر صاحب لیفٹیننٹ ہو گئے۔
لیفٹیننٹ کو گالی دے کر پہلوان نے کہا۔ لیفٹیننٹ کی ایسی کی تیسی یاد رکھنا بچہ ہڈی پسلی توڑ دوں گا۔
چھدا نے دب کر کہا۔ بھائی خفا کیوں ہوتے ہو ہمیں تو ڈپٹی صاحب نے بھیجا۔
کاہے کے لیے ؟
کہ ڈاکٹر صاحب کو ہماری طرف سے مبارک باد دے آؤ۔
کیسی۔۔۔ کیسی کیسی مبارک باد۔ کوئی شادی ہوئی ہے کوئی لڑکا ہوا ہے۔
وہ لیفٹیننٹ ہو گئے۔
پھر انھوں۔ پہلوان نے رضائی علیحدہ کرتے ہوئے کہا۔ ابھی وہ تار والا آیا۔ یہ تم لوگوں نے مجھے چھیڑنے کی صلاح کی۔ ہڈی پسلی ایک کر دوں گا۔ کسی بھول میں نہ رہنا۔ آیا وہاں کا لیفٹیننٹ کا بچہ۔
چھدا گھبرا کر بولا۔ یار تم خواہ مخواہ خفا ہوتے ہو اچھا اندر کہلا دو۔
کیا کہلا دوں۔
کہ ڈپٹی صاحب نے مبارک باد دی ہے کہ ڈاکٹر صاحب لیفٹیننٹ ہو گئے۔
تیری ایسی تیسی۔ تو ٹھہر جا۔ کہ کہہ کر پہلوان جھپٹا ہے تو ایک جوتا اتار کر پھینک مارا اور سینکڑوں گالیاں دیں۔ مگر وہ بھاگ گیا۔ یہ غصے میں جلے بھنے آ کر پھر اپنی جگہ بیٹھ گئے۔
لیکن بہت زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ کیا دیکھتے ہیں کہ کوتوال صاحب کا نوکر فتو چلا آرہا ہے۔ یہ ان کا پرانا چھیڑنے والا تھا، سب سے زیادہ ناقابل معافی جرم اس نے یہ کیا کہ پہلوان کو استاد بنایا مگر مٹھائی نہ کھلائی اور کسرت کرنے لگا۔ لنگوٹ چرا لے گیا اور پچھڑنے کے بعد تو بے حد تنگ کرتا تھا۔ اس سے پہلوان ویسے بھی بہت ہی جلتے تھے۔
کہو بھئی پہلوان۔ اس نے آتے ہی کہا۔ اس کو کیا معلوم کہ ابھی ابھی پارہ ایک سو دس تک پہنچ چکا ہے۔ پہلوان کچھ نہ بولے۔ ڈاکٹر صاحب کو پوچھا تو انتہائی کج خلقی سے کہہ دیا کہ مریض دیکھنے گئے ہیں۔ کیسے آئے ؟ اتنا ضرور پہلوان نے پوچھ لیا۔
بھئی مبارک باد دینے آئے ہیں۔ اور پہلوان نے ایسے دیکھا کہ ایسے چھپٹوں کہ نکل نہ جائے۔ ،لہذا بن کر پوچھا۔ کیسی مبارک باد۔
تمہارے ڈاکٹر صاحب لیفٹیننٹ ہو گئے۔
اچھا۔ پہلوان نے غصے کو چھپاتے اور رضائی کو علیحدہ رکھتے ہوئے حقہ سرکایا اور کہا لیفٹیننٹ ہو گئے ہیں؟ اور تمہارے کوتوال صاحب نہیں ہوئے۔
قبل اس کے کہ وہ ہوشیار ہو پہلوان نے جھپٹ کر اس کو لیا۔ ڈاکٹر صاحب تو بعد میں ہوں گے پہلے تجھے لیفٹیننٹ بنادوں۔
وہ ارے ارے کہتا رہا اور پہلوان نے اٹھا کر دے مارا یہ لے۔ یہ لے۔
دے گھونسا۔ دے گھونسا اور وہ دوہائی دیتا ہوا چھڑا کر نکلنا چاہتا ہے کہ پہلوان نے پھر اٹھا کر پٹخنی دی اور خوب پیٹ کر کہا۔ جاؤ بھیا ہو گئے لیفٹیننٹ۔ صلاح کر رکھی ہے۔ صبح سے حیران کر رکھا ہے۔
اس کو بولنے نہ دیا اور پھر جو غصہ آیا تو دوبارہ مارنے دوڑے وہ گالیاں دیتا اور کوتوال صاحب سے شکایت کرنے کو کہتا چلا گیا۔
کوتوال صاحب کے نوکر کو گئے دیر ہو چکی تھی اور پہلوان وغیرہ کا غصہ ٹھنڈا ہو چکا تھا کہ خود ڈاکٹر صاحب آ گئے ، مکان کے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے انہوں نے احمد کو پکارا اور آقا اور ملازم میں کچھ اس قسم کی باتیں ہوئیں۔
ڈاکٹر۔ احمد
احمد۔ جی حضور (دوڑتا آتا ہے ) تار مل گیا حضور۔
ڈاکٹر۔ (کرسی پر بیٹھتے ہوئے ) تار تو مل گیا مگر تم یہ بتاؤ کہ تم نے کوتوال صاحب اور ڈپٹی صاحب کے نوکروں کو کیوں مارا، تمہارے اوپر اب مقدمہ چلے گا۔
احمد۔ (گھبرا کر) مقدمہ۔
ڈاکٹر۔ ہاں سزا ہو گی۔
احمد۔ اور میری کچھ سنوائی نہ ہو گی۔ میرے ساتھ بھی انصاف ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر۔ (بگڑ کر) تم نے کیوں مارا۔
احمد۔ سرکار۔ میری سنیں تو کہوں۔ ناسور ڈال دیئے ہیں ان دونوں نے۔ یہ کوتوال صاحب کا نوکر فتو اور ڈپٹی صاحب کا نوکر چھدا۔
ڈاکٹر۔ کیا ہوا۔
احمد۔ ہوا یہ کہ سرکار یہ ہمیشہ مجھے چھیڑتے ہیں۔
ڈاکٹر۔ چھیڑتے ہیں۔
احمد۔ جی سرکار۔
ڈاکٹر۔ (بگڑ کر) کیا چھیڑتے ہیں۔
احمد۔ مجھے پہلوان پہلوان کہہ کر چھیڑتے ہیں اور۔
ڈاکٹر۔ تم ہو جو پہلوان۔
احمد۔ یہ تو سرکار ہم اس لیے ہیں کہ ہمارا مذاق نہ اڑائیں چھیڑیں ہنسیں اور ہمارا لنگوٹ چرا لیں۔
ڈاکٹر۔ بس یہی بات ہے ، اسی لیے مارا۔
احمد۔ نہیں سرکار آپ سنئیے تو۔ مجھے چھیڑتے ہیں اور حضور آپ کے ہم نمک خوار ہیں۔ آپ کو برا بھلا کہتے ہیں۔
ڈاکٹر۔ ہمیں کہتے ہیں، ہمیں۔
احمد۔ جی سرکار۔ کمپونڈر صاحب کھانا کھانے گئے ہیں۔ آئیں تو پوچھ لیا جائے۔
ڈاکٹر۔ کیا کہتے ہیں۔
احمد۔ ابھی پرسوں کی بات ہے۔ یہ فتو حضور کو برا بھلا کہنے لاگ۔
ڈاکٹر۔ (بگڑ کر) کیا کہنے لگا۔
احمد۔ یہ کہنے لگا کہ ہمارے کوتوال صاحب تمہارے ڈاکٹر صاحب کو منٹوں میں ہتھکڑیاں پہنا سکتے ہیں۔ پھر سرکار میں نے بھی کہہ دیا۔
ڈاکٹر۔ کیا کہہ دیا۔
احمد۔ میں نے کہہ دیا کہ کوتوال صاحب تمہارے کوئی چیز نہیں، ہمارے ڈاکٹر صاحب چاہیں تو کوتوال صاحب اور ساری کوتوالی ایک ہی خوراک میں چت کر دیں۔
ڈاکٹر۔ چپ بدتمیز۔ بڑے بیہودہ ہو تم۔
احمد۔ حضور میں جھوٹ کہتا ہوں تو جو چور کا۔
ڈاکٹر۔ چپ ہو آج کیا ہوا۔ تم نے مارا کیسے۔
احمد۔ آج سنئے سرکار۔ ان دونوں نے ، فتو اور چھدا نے ، مجھے چھیڑنے کی صلاھ کر لی ہے۔ اور آج نہوں نے ڈاکیے کو بھی ملا لیا ہے۔ اسے تار والے کو۔
ڈاکٹر۔ تار والا۔
احمد۔ ہاں سرکار یہ تار والا۔ بڑا بدمعاش ہے سرکار میں تو اس کا سر پھاڑ دیتا، نکل گیا سرکار۔ ہم نے تو کھری کھوٹی سن لیں مگر آپ کو۔
ڈاکٹر۔ تم بکوان کئے جاتے ہیں۔ یہ بتاؤ تم نے فتو اور چھدا کو کیوں مارا۔ زمانے بھر کی کہانی ہم نہیں سنتے۔
احمد۔ فتو آیا تو پہلے اس نے مجھے چھیڑا مگر لگا آپ کو کہنے تو میں نے اسے مارا۔
ڈاکٹر۔ کیا کہا۔
احمد۔ سرکار آپ کی ہنسی اڑانے لگا۔
ڈاکٹر۔ (چلا کر) ہنسی اڑانے لگا۔
احمد۔ آپ کو لیفٹیننٹ کہنے لگا۔ سرکار ہنسی مذاق برابر والوں میں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر۔ تو کیا ہوا لیفٹننٹ ہی تو کہا۔
احمد۔ کچھ ہوا ہی نہیں۔ صاحب اتنی بڑی بات کہہ کر ہنسی اڑاتا ہے۔ آپ کی ہنسی اڑائے اور۔
ڈاکٹر۔ لیفٹیننٹ کہنے میں ہنسی کیا اڑائی۔
احمد۔ ایلو سرکار۔ آپ کو لیفٹیننٹ بنا دیا۔
ڈاکٹر۔ تو پھر لیفٹیننٹ کیا برا ہوتا ہے۔
احمد۔ (حیرت سے ) سرکار کسی بھلے آدمی کو لیفٹیننٹ کہہ دیا۔ کچھ ہوا ہی نہیں۔ سور اور کتے کا گوشت کھاتے ہیں لیفٹیننٹ۔
ڈاکٹر۔ اچھا اب مت بیہودہ بکواس کرو۔ تم اس کو بے خطا مارا ہے سزا ملے۔
احمد۔ میں نے سرکار بے خطا نہیں مارا۔ اس نے آپ کو لیفٹیننٹ کہا۔
ڈاکٹر۔ بدتمیز۔ جانتا بھی ہے لیفٹیننٹ کیا ہوتا ہے ؟
احمد۔ جانتے کیوں نہیں ہیں۔
ڈاکٹر۔ کون ہوتا ہے۔
احمد۔ گورا پلٹن کا افسر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر۔ سنو! بے وقوف۔ ہم لیفٹیننٹ سچ مچ ہو گئے۔
احمد۔ ہیں!!
ڈاکٹر۔ ہیں کیا؟
احمد۔ آپ؟
ڈاکٹر۔ ہاں ہم۔
احمد۔ لیفٹیننٹ۔
ڈاکٹر۔ ہاں ہم، ہم لیفٹیننٹ ہو گئے ہیں۔
احمد۔ تو سرکار پھر اب۔
ڈاکٹر۔ اب کیا۔
احمد۔ چھاؤنی میں چل کر رہنا ہو گا۔ اور سرکار گوروں سے تو میری ایک منٹ نہیں بنے گی۔
ڈاکٹر۔ چھاؤنی میں کیوں رہنا ہو گا۔ یہیں رہیں گے۔
احمد۔ ایک قوات پریٹ۔ سرکار اب قوات پریٹ، آپ سے کیسے نکلے گی۔ اور پھر۔
ڈاکٹر۔ قواعد پریڈ کچھ نہیں کرنا ہو گی۔ ہمیں تو قواعد پریڈ سے مطلب نہیں ہو گا۔
احمد۔ سرکار یہ کیسے ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر۔ ارے بے وقوف ہم آنریری لیفٹیننٹ ہیں۔
احمد۔ اچھا تو سرکار یوں کئے جیسے اپنے چھٹن لال جی۔ یہ خوب رہا، بڑا حیران کر رکھا تھا یکے والوں نے بھی سرکار۔ یہ دینا فضلو۔ ایکو ایک پر جرمانہ کیجئے گا۔
ڈاکٹر۔ کیا بکتا ہے بیوقوف۔ چھٹن لال جی تو آنریری مجسٹریٹ ہیں۔ ہم لیفٹیننٹ ہیں۔ خر تم کو اس سے بحث نہیں آج سے کوئی پوچھنے تو لیفٹیننٹ صاحب کہا کرنا۔
احمد۔ اور ڈاکٹر صاحب نہیں۔
ڈاکٹر۔ (کچھ سوچ کر) ہوں! ڈاکٹر صاحب۔ ہاں ڈاکٹر صاحب بھی مگر نہیں کوئی تم سے ہمیں پوچھے تو یہی کہو کہ لیفٹیننٹ صاحب باہر گئے ہیں۔ ہاں مگر تم نے جو کوتوال صاحب کے نوکر کو مارا ہے تو اس سے جا کر معافی مانگو اور راضی کرو ورنہ مقدمہ چل جائے گا۔
احمد۔ سرکار ہمیں تھوڑی معلوم تھا۔ ہم تو یہی سمجھے کہ چھیڑ رہے ہیں پھر ان کو بھی تو منع کر دیجئے کہ چھیڑا نہ کریں۔
ڈاکٹر۔ تم ابھی جا کر راضی کرو، نہیں تو مقدمہ چل جائے گا۔
احمد۔ جیسی مرضی سرکار کی۔
ڈاکٹر صاحب احمد کو سمجھا بجھا کر گھر میں داخل ہوئے۔ یہاں رنگ ہی اور تھا۔ بیوی اندر کمرے میں، جانے کے لیے کپڑے وغیرہ درست کر رہی تھیں۔ ار خلو آپا باورچی خانے میں مشغول تھیں۔ ڈاکٹر صاحب سیدھے برآمدے سے ہو کر کمرے میں پہنچے اور مارے خوشی کے بیوی سے کہا۔
لو بھئی مٹھائی کھلواؤ۔
بیوی جو بے حد مشغول تھیں چونک پڑی۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں تار تھا۔ چہرے پر لیفٹیننٹی کی مسکراہٹ۔ مٹھائی کھلواؤ۔ کہنا تھا کہ بیگم پر گویا بجلی گری اور مارے خوشی کے ان کی سانس نہ سمائی اور ایک دم خوشی کے ایک بے پناہ عالم میں منہ سے نکلا۔
ہی۔ ہیں۔ چھج۔ چھج۔ چھج۔ جو۔ جو۔ جو۔ چھج۔ لڑلڑ۔ اسے خلو آپا۔ خلو آپا ری۔
اور دیوانہ وار کمرے سے نکل کر برآمدے میں اور ادھر ڈاکٹر صاحب نے برہم ہو کر کہا۔
چھج چھج لگا رکھی ہے۔
اے خلو آپا تار آ گیا۔ اور یہ کہہ کر پھر ڈاکٹر صاحب کی طرف لوٹیں۔ اے تمہیں ہماری قسم۔ کب ہوا لڑکا۔ تم تار تو پڑھو۔
ہیں! ہیں! یہ تم کو کیا ہوا ہے۔ خیر تو ہے۔ کیا بکتی ہو۔
چھجو بھیا کے لڑکا ہوا ہے۔
کیسا لڑکا۔ کیا بکتی ہو۔
اوں۔ ہوں، تم مذاق کرتے ہو۔ یہ تار جو ہے۔
اتنے میں خلو آپا بھی تیزی سے کہتی ہوئی پہنچیں۔ اے میں نہ کہتی تھی۔ اے میں نہ کہتی۔ لڑکا ہوئے پر لڑکا۔
کیا لڑکا۔ کیا کہہ رہی ہو۔ یہ تار تو اور ہے۔
دیکھو خلو آپا۔ دق کر رہے ہیں، مذاق کر رہے ہیں، ابھی بھی مٹھائی مانگ رہے تھے۔
خلو آپا بولیں۔ اے لو مٹھائی کیوں نہ لیں گے۔ قاعدے سے تو کمر پٹکا اور صافہ معہ چوبے بہنوئی کا حق ہوتا ہے۔ میں چوبا دوں گی۔ تم مجھ سے لو چوبا۔
یہ کیا واہیات ہے۔ کیسا لڑکا۔ کیا بکتی ہو؟
جلد ہی غلط فہمی دور ہوئی۔ قطی چھجو بھیا کا تار نہیں۔ یہ تار تو شملے سے آیا ہے میں لیفٹیننٹ ہو گیا ہوں۔
ہیں! آنکھیں دونوں کی پھٹی کی پھٹٰ رہ گئیں۔ لیفٹیننٹ!۔ خلو آپا نے کہا۔
لیفٹیننٹ!۔ کون ہو گیا؟
میں ہو گیا ہوں۔
لیفٹیننٹ۔ بیگم صاحبہ نے کہا۔ اس سے کیا مطلب؟ جنے کیا کہہ رہے ہو؟
کہہ یہ رہا ہوں کہ گورنمنٹ کی طرف سے میں لیفٹیننٹ ہو گیا ہوں آخر اس میں شک کیوں ہے۔
دونوں چپ ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں۔
آخر چپ کیوں ہو۔ کیا بات ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ میں لیفٹیننٹ ہو گیا ہوں۔
اے لو بی خیر! تم نہںت کب تھے ؟ ہم نے سداں لیفٹیننٹ ہی دیکھا تمہیں۔
کیا۔ کیا مبری۔
مطلب یہ کہ تم جو سنا رہے ہو لیفٹیننٹ، لیفٹیننٹ تو بھیا بتاؤ کہ لیفٹیننٹ تم تھے کب نہیں تھے۔ اب تو سمجھے ؟
میں تو نہیں تھا۔
نہیں ہو گے۔ بھیا معاف کرنا۔ اتنا میں بھی کہوں گی کہ یہ تو جب کہتے تم اچھے بھی لگتے ، جو کبھی ہماری بہن نے تم سے چوں بھی کی ہو۔ کسی کام میں نا کی ہو۔ اے بھیا کبھی لوٹ کے بات کہی ہو۔ اے بھیا کبھی لڑی ہو کہ زبان کی ہو کہ خدمت میں کسر۔
ارے ! ارے ! تو میں کب کہتا ہوں۔
تو پھر اس غریب دکھیار پر تو لیفٹیننٹی بگھارتے کچھ اچھے نہیں لگتے ، توبہ ہے۔
آفت میں جان ہے ارے صاحب، سرکاری عہدہ ہوتا ہے اور یہ عہدہ مجھے سرکار سے ملا ہے ، یہ تار اسی کاتو ہے۔
اور وہ ہمارے چھجو بچارے کا جھوٹ ہی نکلا لڑکا وڑکا کچھ نہیں۔
کیسا لڑکا۔ کس نے کہہ دیا۔ یہ تار لو نہ مانو پڑھوالو کسی اور سے۔
اس تار میں کیا لکھا ہے ؟
یہ لکھا ہے کہ تم لیفٹیننٹ ہو گئے ہو۔
پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔
ارے چل خلو بندی تجھے کیا؟ وہ مثل تیری کام نہ دھام ہی میں موسل۔ وہ ٹھہرے میاں اور وہ ان کی بیوی، لیفٹیننٹ چھوڑ کچھ اور بنیں۔ تو بندی کون؟ اور تجھ مردی کو کیا۔ تو چل اپنی ہنڈیا دیکھ۔ بندی تو یہ چلی، بھیا یہ تمہاری بیوی ہیں بگھارو خوب لیفٹیننٹی۔ ارے ہاں نہیں تو۔
ارے ! ارے سنو تو۔ ارے سنو تو خلو آپا۔ تمہیں ہماری قسم۔
کیا خانخائیں (خوامخواہ) کی باتیں کرتے ہو۔
ارے پھر وہی۔ آخر یقین کیوں نہیں کرتیں۔
کیا یقین کروں۔
کہ میں لیفٹیننٹ ہو گیا۔
دیکھو بھیا۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ نری جاہل کبڈ ہوں تو بے شک ہوں۔ پر لیفٹیننٹی، کپتانی کو میں بھی جانتی ہوں۔ دنیا میں نے بھی دیکھی ہے۔
کیا جانتی ہو؟
لیفٹیننٹ کیا ہوتا ہے۔ جانتی ہو؟
ہاں جانتی ہوں۔
جانتی ہوں۔ کہہ دیا لے کے خاک۔ اچھا بتاؤ تم کیا جانو بھلا۔
میں کیا جانوں۔ ایلو۔ میں نہیں جانوں گی۔ لیفٹیننٹی کے بارے میں تو کون جانے گا۔
لگا رکھی ہے۔ لیفٹیننٹ، لیفٹیننٹ۔ یہ مونچھ ڈاڑھی تو مونڈو پہلے۔
مونچھیں ڈاڑھی؟
یہ مونچھیں ڈاڑھی لیفٹیننٹ کے کب ہوتی ہیں۔ منڈاؤ نا۔
کیوں منڈواؤں۔
اس سے کیا ہوتا ہے۔
اے لو، لیفٹیننٹ مونچھ ڈاڑھی کا حکم کب ہے۔ تین خون اس کو معاف ہوتے ہیں اور گوروں کا گڈہ کپتان ہوتا ہے۔ میں سب جانتی ہوں۔
کیا بکتی ہو۔ تین خون معاف۔ بالکل غلظ۔ جانے کس نے تم سے اڑادی ہے۔
خون بھی کسی کو معاف ہوسکتے ہیں۔ ناممکن۔
ایلو لیفٹیننٹ بننے چلے ہیں ابھی اتنا بھی نہیں جانتے۔
معاف ہوتے ہ یں ابھی کل کی سی بات ہے دینا کا سسرا۔
اے وہی دینا۔
اے وہ کلو کا داماد نا۔
اے ہاں وہی کلو نگوڑا۔ لیفٹیننٹ کے ہاں قلیوں میں تو کام کرتا ہی تھا، جو مار ڈالا۔
لیفٹیننٹ نے۔
کیسے مارا۔
ماری جو لات کلیجہ پھٹ گیا۔ مرگیا نگوڑا پھڑ کے۔ پھر راج کتوالی سب ہی تو کی پر وہاں تو یہ کہہ دیا گیا کہ لیفٹیننٹ کو تین خون معاف ہیں۔
اس کی تلی پھٹ گئی ہو گی۔ تو اس میں خون کی سزا تھوڑی ملتی ہے۔
تو پھر کیا ہے۔ تم بھی لیفٹیننٹ ہو گئے۔ پھاڑ دینا کسی کی تلی کلیجی تم بھی بابا، تمہیں بھی کوئی کچھ نہیں کہے گا اور تمہاری کیا ہے ، تمہیں چودہ خون معاف ہیں یوں ہی رات دن سوئیاں گھونپ گھونپ کے مارتے ہو۔ اے ڈاکٹر ہونا۔ اب لیفٹیننٹ ہو گئے۔ بھیا مبارک ہو۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ خوشی کا یہ مقام تھا کہ میں لیفٹیننٹ ہوا اور گھر میں یہ سلو ہو رہا ہے۔ ابھی کوئی اور ہوتا تو گھر میں سب خوش ہوتے۔
سنو بھیا خوشی اس کو ہوتی ہے جس کے جی کو چین آتا ہے۔ کلیجہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ سکھ ہوتا ہے۔ اس گھر سے تو خوشی اڑ گئی۔
زبردستی۔
زبردستی کیا۔ دیکھ لو ہماری بہن کو آج پندراں سال ہو گئے شادی کو، گود خالی، جس گھر میں اولاد نہیں خوشی کیسی۔
توبہ، کیسی واہیات باتیں کر رہی ہو۔
اچھا پھر کیا مطلب ہے۔ خلو بندی کیا کرے۔ ناچے ؟ کہ تھرکے ؟ کہ گودے ؟ آخر کیا کرے ؟ جو کہو وہ یہ بندی کرنے کو تیار ہے۔ اور کرو نا خوشیاں کسی نے منع ہے وہ مثل ہے۔ بول بندہ کس کا؟ کہ تیرا۔ لو ہم خوش ہمارا خدا خوش۔
جھک مارا میں نے جو گھر میں آ کر کہا۔ خیر۔
اتنے میں احمد دروازے پر پکارتا ہے کہ ڈاک لے جاؤ۔ جمن دوڑا گیا اور کچھ خط لایا۔ خلو آپا چلی گئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ڈال لی، کئی رسالے ، کئی دواؤں کے اشتہار تھے ، ایک خط بھی تھا۔
ڈاکٹرنی بولیں۔ اے کوئی خط بھی ہے۔
ہے تو۔ یہ خط۔
ڈاکٹر صاحب نے پڑھا اور ذرا جھجک کو بولے۔ لو مبارک ہو، لڑکا لڑکا چیخ رہی تھیں۔ چھجو بھیا کے ہاں چودہ تاریخ کو دو لڑکیاں ہوئی ہیں۔
جڑواں؟
ہاں۔ ماں اور بچیاں دونوں خیریت سے ہیں۔ ڈاکٹرنی کچھ مردہ آواز سے۔ دو لڑکیاں۔ دو۔ اے خلو آپا۔ ڈاکٹر بھی زور سے پکارے ، اے خلو آپا۔ خلو آپا۔
جھاڑو پھر جائے خلو آپا کی صورت پہ۔ کیا ہے ؟ باورچی خانے سے خلو آپا جھانکیں۔
چھجو بھیا کا خط آیا ہے ، دو لڑکیاں ہوئی ہیں۔
ایں۔۔۔۔
جڑواں لڑکیاں ہوئی ہیں۔
خلو آپا دوڑی آئیں، بر آمدے کے پاس رکتی ہیں۔ جیسے انجن جا رہا ہو زور سے شنٹنگ کو اور ایک دم سے لال جھنڈیٰ دکھادو۔ بولیں۔
لڑکیاں!۔ دو!۔ کب؟
چودہ تاریخ کی رات کو۔ ماں اور بچیاں دونوں بخیریت ہیں؟
خلو آپا چپ۔
اے تم چپ کیوں ہو گئیں۔ ڈاکٹر بولے۔
جھاڑو پھر جائے لڑکیوں کی صورت پہ۔ اڑ جائیں یہ لڑکیاں۔ لڑکیاں! لڑکیاں! جدھر دیکھ تغت جوت رکھی ہے اے وہ خدا خدا کر کے فضلو کے یہاں دن گئے کیا ہوا؟ لڑکی۔ وہ امین الدین کے ایلو لڑخی۔ وہ میتا کے یہاں لڑکی۔ بوا خیرہ جولاہے کے یہاں لڑکی۔ لڑکیاں نہ ہو گئیں آفت ہو گئیں۔ الٰہی توبہ۔ بیچارہ چھجو۔
بھئی واہ۔ لڑکیاں اتنی بری ہو گئیں۔
"ایلو۔ بھلا لڑکیاں بری ہونے لگیں۔۔۔۔۔ جھاڑو دیں، اپنے چولہا جھونکیں ، دن رات تقدیر کو روئیں اور لڑکے خدا رکھے تمہاری طرح بنے پھریں لیفٹینٹ۔۔”
"ارے مجھے تو چھجو بیچارے پہ آتا ہے۔۔۔ چچ چچ۔۔”
"ارے تو کیا ہوا۔”
"کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔۔ لو۔۔۔۔ وہ جو کسی نے کہا ہے۔۔ بھالے پہ بھالے گھاؤ پہ گھاؤ۔۔ چھجو بندے۔۔۔ شابش ہے تیری جنتی کو، صد رحمت تو نے گھاؤ پہ گھاؤ کھائے پر اف جو کی ہو۔”
"گھاؤ! ارے گھاؤ نہیں تو کیا۔۔ لڑکا ہوا۔۔۔۔ ایک ہوا چاند سا وہ مر گیا۔۔۔۔ دوسرا ہوا۔۔ یہ شیر کا سا بچہ ایلو وہ بھی مر گیا، تیسری وہ آئیں لڑکی تو خود بھی مریں اور ماں کو بھی مارا اور شابش ہے چھجو کو دلہن کی کیسی پہاڑ سی لاش آ گئی۔۔۔۔۔ لو صاحب گھر کا صفایا ہی ہو گیا۔۔۔۔۔”
"پھر انہوں نے برسوں سے شادی کیوں نہیں کی”
"اور تم نے کی تو کون سے حدق مارے۔۔۔ اولاد تقدیر میں ہوتی ہے رو شادی بھی ہوتی ہے۔۔۔ اب یہ آئیں۔۔۔ نیہ دلہن۔۔۔ مرنے والی کی جوتی برابر نہیں اور دماغ لے لو آسمان پر۔۔۔۔ نگوڑی! تیری کہیں کی۔۔۔ کیر صاحب ہم سمجھتے ہیں کہ چلو جیسی بھی بری بھلی ہیں ٹھیک ہیں کہ آج سن لو ایک چھوڑ دو۔۔۔۔ ارے وای رے مالک میں تو تیری خدائی کا قائل ہوں۔۔۔ اور پھر بھیا میںکون، یہ کھری ہیں ناخوش ہوں۔ اللہ نے ایک دم سے دو بھتیجیوں کی پھوپھی بنا دیا۔۔۔ میں اپنے دیکھوں ہنڈیا چولہا۔۔۔۔ خاک پڑ جائے آلو لایا ہے کہ پتھر۔۔۔۔ گلتے ہی نہیں۔۔۔ ”
اتنا کہا کہ سامنے باورچی خانے سے رحیماً بوا زور سے چیخیں۔ جمن تڑپ کے بھاگا اور بوا رحاًڑ اس کے پیچھے۔ اور دیا انہوں نے چمٹا گھما کے اور وہ ایک جالی میں الجھ کر گرا اور بھاگا اور رحیماً بوا چیخیں۔
"تھیر تو جا مردے۔۔۔۔ تجھے قربان کروں۔۔ ہیضہ سمیٹے۔ اسے۔۔۔۔ سیکھتی ہو بیگم صاحبہ، اجرے نے چمٹا گرم کر کے میرے پیر میں لگا دیا۔۔۔۔۔۔ اسے تو کوئی کہنے والا ہی نہیں ہے۔۔۔ موا بنا پھرتا ہے لیفٹیننٹ۔۔۔۔۔”
"دیکھو یہ کیا واہیات ہے ?” ڈاکٹر نے کہا۔۔ "منع کر دو ان کو لیفٹیننٹ کیوں کہتی ہیں۔”
"ہم سے کام نہیں ہوتا۔۔۔ دیکھتی ہو بیوی۔۔۔ پہلے تو لکڑیاں گھسیٹ گھسیٹ کے چولہا ٹھنڈا کیے دیتا تھا پھر میرا پیر جلا دیا۔”
"بلاؤ جمن کو”
وہ خود ہی آیا دروازے کے پاس اور رک گیا اور رحیماً بوا جھپٹیں۔
"ٹھہر تو جا مونڈی کاٹے۔۔”
"خلو آپا نے آواز سی جمن۔۔۔۔۔۔۔ جمن۔۔۔۔”
"وہ تو لیفٹیننٹ بنے پھرتے ہیں۔۔۔۔ کرتے پھرو شرارتیں بچہ۔۔۔ ”
"پھر وہی” ڈاکٹر نے بگڑ کر کہا۔۔ منع کرو ان کو۔”
خلو آپا نے رحیماً بوا سے کہا "اے بوا اسے لیفٹیننٹ مت کہا کرو۔”
"لیفٹیننٹ نہ کہوں?”
"ہاں۔۔۔ ”
اور وہ میرا پیر جلا دے۔۔۔ لیفٹیننٹ تو ہے ہی وہ۔۔۔۔”
خلو آپا۔۔۔ اے بوا ہمارے بھائی اب لیفٹیننٹ ہو گئے ہیں۔۔۔ "کون?۔۔”
ڈاکٹر صاحب خود برآمدے سے اتر کر نرمی سے بولے۔ ” اے بوا بات یہ ہے کہ میں لیفٹیننٹ ہو گیا ہوں۔۔۔۔۔”
"تم۔۔۔ ”
"ہاں۔۔۔ سرکار سے عہدہ ملا ہے۔۔ اب اس چھوکرے تو مت کہو۔۔۔ ”
(منہ پھاڑ کر) "ہیں!۔۔۔۔اسے کچھ نہ کہو۔۔۔۔ اور یہ مردی کا جایا میرا چمٹے سے پیر داغ دے۔”
"لیفٹیننٹ مت کہو اسے۔۔۔ اے تم سمجھیں نیںا بوا۔۔۔ ”
” میں سب سمجھ گئی۔۔ لیفٹیننٹ نہیں تو اے موئے کو چہیتا اور پیارا کہوں گی۔۔”
(بات کاٹ کر ) "فضول بکتی ہو سنو تو۔۔۔۔۔” "اے کیا سنوں?”
"میں خود لیفٹیننٹ ہو گیا اور تم اس چھوکرے کو لیفٹیننٹ کہو۔۔۔ یہ مناسب نہیں ہے۔” یہ مناسب ہے کہ وہ بالشتیا میرا پیر داگ دے۔۔۔۔۔ اور میں کچھ نہ کہوں۔۔۔۔”
"ارے یہ میرا مطلب کب ہے ، میرا مطلب یہ ہے کہ میں جو لیفٹیننٹ ہو گیا ہوں، سرکار کی طرف سے میں لیفٹیننٹ ہو گیا ہوں۔”
"تو مجھ نگوڑی سے کیا کہتے ہو۔ ایک تم کیا، یہاں جسے دیکھو وہی لیفٹیننٹ بنا پھرتا ہے۔ احمد کو دیکھ لو، مجال کیا جو سوکھی لکڑیاں آئیں، گیلی لکڑی پھونکتے پھونکتے اندھی ہوئی جاتی ہوں، نہیں مانتا۔۔۔۔۔ اے لو وہ بہشتی ہے۔ کیسا کیسا چیخی ہوں پر چولہے کے سامنے تالاب کر جاتا ہے ، ایک نہیں سنتا۔۔۔ اور تو اور وہ موئی بھنگن کو دیکھ لو آج تین دن سے چیخ رہی ہوں، شلجم کے چھلکے ہیں کہ پرے سڑ رہے ہین پر مجال کیا جو سنے۔۔۔۔۔ تو میاں میرے بھنگن کیا۔۔۔ بہشتی کیا۔۔۔ احمد کیا۔۔۔۔ اور جمن کیا میرے لیے سب ہی لیفٹیننٹ ہیں۔۔۔۔ اب تم ہی آئے مجھ ہی کو ڈانٹنے۔۔۔۔ الٹا طور کوتوال کو ڈانٹے۔۔۔۔ اسے سنپولئے کو تو کچھ کہا نہیں کہ میرا پیر داغ گیا۔ الٹے مجھی کو آ گئے۔۔۔۔ تو میاں تم تو گھر کے مالک ٹھہرے۔۔۔ ”
” کیا بکواس لگا رکھی ہے۔۔۔ ”
"میاں بکواس نہیں۔۔۔ ”
"گھر کا تو یہ ہڈرا اور وہ موا سنپولیا پیر داغ کے دھو دھو کرتا کرتا پھرے۔ تم ڈانٹنے مارنے سے تو رہے ، آئی وہاں سے کہنے کہ میں لیفٹیننٹ ہوں۔۔۔ ”
"لاحول ولا قوۃ۔ ارے ان کو وکئی سمجھاؤ۔۔۔ ”
"نہیں نہیں۔ سن لو آج۔۔۔ تو پھر میرا کہنا ہے کہ اسے مارنے کلے بجائے جو تم کہو میں بھی لیفٹیننٹ تو پھر یہاں یہ لوگ مجھے کاہے کو جینے دیں گے "، مارنے سے رہے ، الٹی اس کی یوں طرفداری کی جائے۔۔۔۔ نا بابا آج چالیس برس ہونے آئے کہ اسی گھر میں ہوں پر یہ رنگ تو کبھی نہ دیکھا۔۔۔۔۔
"ان کو سمجھاؤ خلو آپا۔۔۔۔”
"سمجھاؤ کیا۔۔ ٹانگ بربر چھوکرے نے میرا جینا سولی کر دیا ہے اور تم کرو اس کی طرف داری۔۔۔۔ اچھا بابا۔۔۔ جو جی میں آئے کرو۔۔۔۔۔۔۔ مجھے موت بھی نہیں آتی اجڑی کو (چیخ کر) لے تو گھر میں گھس۔۔۔ تو کیا اب تو گھر کا لیفٹیننٹ ہو گیا۔۔۔ خاک پڑے ایسے جینے پر۔۔۔۔۔” (بڑبڑاتی باورچی کانے میں چلی گئیں)
ڈاکٹر نے کہا۔ ” یہ تو بڑی واہیات بات ہے ، خلو آپا ان کو سمجھاؤ، خود سوچو کہ بھنگی بہشتی کو لیفٹیننٹ کہنا کہاں تک درست ہے۔۔”
"اے ٹھیک تو کہتی ہے بے چاری۔۔۔ اب سمجھے گی قبر میں، تمہیں تو آج فرصت ہے ، نگوڑے مریض بھی مر گئے سارے ، کھانے کو کیسا بے وقت ہوا جاتا ہے۔۔۔۔۔”
"بھیا تم جانو تمہارا کام مجھے بخشو۔۔۔۔”
یہ کہہ کر خلو آپا چل دین باورچی خانے کی طرف اور ڈاکٹر صاحب مع بیگم صاحبہ کے رہ گئے ، دونوں کمرے میں جا کر اطمینان سے بیٹھے۔ ڈاکٹر صاحب نے شکایت کے لہجے میں کہا۔
"بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم بالکل خوش نہیں ہوئیں۔”
"تم چاہو تو لڑکیوں پر تو میں خوش ہونے سے رہی، دو چھوڑ چار ہوں میری بلا سے ”
"ارے لڑکیوں پر نہیں، کیا آدمی ہو” (جھنجلا کر) ” پھر۔۔۔۔”
"میرے لیفٹیننٹ ہونے پر۔”
"لیفٹیننٹ ہونے پر۔”
” اور کیا۔ یہ کوئی معمولی بات ہے۔۔۔ بھلا ہر کوئی لیفٹیننٹ ہو سکتا ہے۔ تم کو تو بے حد
خوش ہونا چاہیے تھا۔ جب تم ہی خوش نہ ہو گی تو خود سوچو میری خوشی کیا رہ گئی۔۔”
"میں تو یہ جانتی ہوں کہ جس میں تم خوش اسی میں میں خوش۔۔”
"پھر کیوں خوش نہیں ہوئیں۔۔”
"ایلو ہوئی۔۔”
"ہوئی۔۔۔۔”
"ہاں پھر اور کیا۔۔ جو تم کہو وہ میں کروں۔۔۔ ”
"معاف کیجئے میں ایسی فرمائشی خوشی سے باز آیا، آپ کچھ نہ کریں۔” "ایلو۔ ایلو۔ تم تو خفا ہو گئے۔”
"میں کیوں خفا ہوتا۔ ہاں رنج مجھے ضرور ہے کہ تم کو خوشی نہیں ہوئی۔”
"اے مجھے ڈالو تم چولہے میں۔۔۔ ”
اتنے میں خلو آپا کمرے میں آتے ہوئے بولیں۔
"ایلو کھانا کھا لو تم۔۔۔۔ طاہری گرم گرم۔۔۔۔ میں نے کہا ٹھنڈی ہو جائے گئی۔۔” اور ساتھ ہی پیچھے بوا رحیماً آتی ہیں بڑبڑاتی۔ کھانے کاخوان لئے "۔۔۔ خاک پڑ جائے۔۔۔۔۔دنیا کو موت آ رہی ہے پر نہیں تو کسے۔۔۔۔۔ رحیماً کو۔۔۔۔۔”
رحیماً نے خوان تحت پر رکھا اور ڈاکٹر صاحب نے کہا۔
"بوا تم خفا نہ ہو۔۔۔ خلو آپا۔۔۔ ذرا چمن کی خوب ہی خبر لینا۔۔”
"دیکھو۔۔۔۔ وہ چار جوت کی مار دی ہو کہ یاد ہی کرے بچا۔”
"اور ہاں۔۔۔۔ بوا۔۔۔۔ سنو تو۔۔۔۔ میں نے جو تم سے کہا کہ اسے لیفٹیننٹ نہ کہنا تو اس لیے کہ جب میں لیفٹیننٹ ہو گیا تو چھوکرے کو لیفٹیننٹ کہنا تو خود تمہیں برا لگے گا۔”
رحیماً بوا تحت پر چمچے پٹخ کر بولیں۔۔۔ "اے میاں خدا تمہیں سلامت رکے۔ یہاں تو یہی جھر جھر ہے۔۔۔ لگی وہئی نگوڑی دم کے ساتھ۔۔۔ اور اس رحیماً بندی کو چین ہے نہ موت۔۔۔ دن ہے تو۔۔۔۔رات ہے تو۔۔۔۔ جھر جھر۔۔۔ جھر جھر۔۔۔۔ آج تم لیفٹیننٹ ہوئے کل میں لیفٹیننٹ۔۔۔ کہہ تو چکی میاں۔۔۔۔ گھر کا گھر لیفٹیننٹ، سب ہی لیفٹیننٹ۔۔۔ اللہ کی شان یہ ٹانگ برابر چھوکرا میرے سر پر چڑھ کے موتے اور جو زبان کھولوں تو افٹنٹی۔۔۔ لیفٹیننٹی بیچ میں! اور دیکھ لو مزے سے اسے کے اپنے ڈنڈا ایسا پڑا ہے کہ گھوم رہا ہے۔۔۔۔ اور کرتا پھر رہا ہے۔۔۔۔ دھو !دھو!دھو!دھو!۔۔۔۔۔ اور یہاں وہ مثل کہ میری بلا کو سب لیفٹیننٹ۔۔۔ ”
اور یہ کہتی رحیماً "اباؤٹ ٹرن” ہوا ہو گئیں۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔
"اے خلو آپا تم نے بھی نہ سمجھایا۔۔۔ ”
"میرے دماغ میں خود بھس بھرا ہوا ہے۔” خلو آپا نے کہا،
"تم کھاؤ طاہری ٹھنڈی ہوتی ہے۔”
اور "باہمیں عورتاں یاید ساخت” کہتے ہوتے ڈاکٹر صاحب کھانا کھانے بیٹھے۔ خلو آپا بیٹھ گئیں۔ مزیدار کھانا۔۔۔ تھوڑی دیر کو لیفٹیننٹی بھو گئے ، خلو آپا بولیں۔
"بھیا طاہری کیسی ہے۔۔”
"خوب ہی تو ہے گرا گرم۔۔”
گرما گرم کہا تھا کہ طوفان آ گیا۔ آئیں ادھر سے چیختی رحیماً بوا اور دوسری طرف باہر سے احمد کی آواز آئی۔
"اندھیر ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔ میری کوئی شنوائی نہیں۔۔” کمرے میں رحیماً بوا نے داخل ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔”میں سر پٹ کے نکل جاؤں گی گھر سے۔”
"خیر تو ہے ؟” خلو بی نے کہا۔
"کیا ہوا؟” ڈاکٹر صاحب بولے۔
اتنے میں کھڑکی کی طرف سے احمد بولا۔
"ہزار صلواتیں سنائی ہیں اور کہتی ہین کہ اب جو آپ کو لیفٹیننٹ کہا تو منہ توڑ دوں گی۔ منہ توڑ دوں گی۔۔۔۔”
"کوئی بات بھی ہو، منہ تور دیں گی۔۔۔۔”
رحیماً بوا بیچ میں بولیں۔
"لو اور سنو۔۔۔ سوپ تو سوپ چھلنی بھی بولے جس میں بہتر چھید۔۔۔ موا غلمٹا صاحب منع کر لو اس کو۔۔۔۔ ”
"کیا واہیات ہے۔۔۔۔۔”
"مجھے یہ ڈھینگرے کا ڈھینگر بھی لگا چھیڑنے۔۔۔ ”
"ارے کیوں چھیڑتے ہو۔۔۔۔ احمد۔۔۔۔۔”
"سرکار میں نے تو کچھ نہیں چھیڑا، ہم تو بس اتنے کے گنگا۔ر ہںم کہ ان سے یہ پوچھا کہ رحیماً بوا لیفٹیننٹ صاحب کیا کر رہے ہیں، تو صاحب انہوں نے کہا کہ تیری میت کو پیٹ رہے ہیں اور اب کہتی ہیں کہ جو لیفٹیننٹ کہا تو جوتی سے منہ توڑ دوں گی۔۔”
"توڑ نہیں دوں گی۔۔۔ تو اور گھی شکر سے بھروں گی۔۔۔ سن لو میاں کان کھول کر میں تمہاری سن لوں گی۔۔۔۔ پر اس غلمٹے کو ماروں گی جوتی۔”
"رحیماً بوا یہ تم کو کیا ہو گیا۔۔۔ ایک تو خود نہیں سمجھتیں اور دوسروں سے لڑتی ہو۔۔۔۔
۴۳۹
بھئی ان کو سمجھاؤ۔۔۔ ”
"مجھی کو سمجھا ڈالنا۔۔۔۔ ارے پیاروں پیٹی۔۔۔ تجھے موت بھی نہیں آتی۔۔۔ رحیماً اجڑی۔۔۔۔”
اور بوا بھناتی چلی گئیں کہتی۔۔۔۔
"خاک پڑے ایسے جینے پر۔۔۔ ”
ڈاکٹر صاحب نے احمد سے کہا
"تم بکنے دو اسے۔۔۔ ”
احمد چلا گیا اور خلو بی نے کہا۔
"بھیا ایک بات کہوں۔۔”
"ہاں کہو۔”
"آئے ہوش جا رہے ہیں اس تمہاری لیفٹیننٹی سے تو۔۔۔ الہی لیفٹیننٹی نہ ہوئی موئی وہ ہو گئی۔۔۔۔”
"کیوں?”
"اے وہی مثل ہوئی تمہاری کہ کوئی تھے فتو۔۔۔ ایک دن بیوی کی چھاتی پر چڑھ کر بولے کہ کہو ہمیں فتح ڈریم خاں۔۔”
ڈاکٹر نے قہقہہ لگایا اور ہنس کر پوچھا۔
"پھر؟” کیا کہا بیوی نے ”
” اسے بیوی بے چاری کیا کہتی۔۔۔۔۔ بول بندا کس کا کہ تیرا۔۔۔۔ بیوی کا کیا ہے۔ پر دروازہ کسی نے فورا ہی آوز دی کہ "فتو” تو میں یہ بتاؤ کہ اور لوگ تم کو کیا کہیں گے۔”
"اور لوگ بھی لیفٹیننٹ کہیں گے۔۔۔ ”
"اچھا مان کیا میں نے۔۔۔ پر کچھ تنخا و نخا۔۔۔ ”
"تنخواہ تو کچھ بھی نہیں۔۔۔ ”
"اے وئی” جیسے چونک کر بولیں "اسے کچھ بھی نہیں اور اس پر یہ ہلرا۔”
"دیکھتی بھی ہو عزت کتنی ہے۔۔ عہدہ کتنا برا ہے۔۔۔۔” "عزت کو کوئی چاٹے ، پیسہ کوڑی مت دے پر نام دروغہ دھر لے۔۔۔۔ وہ تمہاری مثل ہوئی۔”
"آپا تم اجنتی نہیں ہو برا بھاری عہدہ ہوتا ہے۔”
"اے خالی نخولی!”
"یہی کیا کم ہے۔”
"ہو گا بھیا۔”
"واہ بھیا واہ۔۔۔ پوچھو کوئی تنخواہ۔۔۔ کہ نہیں۔۔۔۔ پوچھو کہ کوئی جو جاگیر۔۔۔ کہ نہیں۔۔۔۔ تو بھیا ہم عورتیں ہیں کوئی تنخواہ لاتے۔۔۔ کہ جاگیر ملتی۔۔۔ کہ گھر میں کوئی سوغات آتی اور پھر ہمیں خوشی نہ ہوتی تو بات۔۔۔ اور یوں شکایت کرنے کو تو کر لو۔۔۔ ”
"ایلو خوب یاد آیا۔۔۔۔ لو آج آتی ہے سوغات ابھی! دو سو روپیہ!”
ڈاکٹر۔ "نقد لو۔۔۔۔۔ مگر شرط یہ ہے تمہیں بھی ہمیں لیفٹیننٹ کہنا پڑے گا۔”
ڈاکٹرنی۔ "آں۔۔ ہاں میں تو ضرور کہوں گی۔۔۔ ” ذرا ہنس کر بولیں۔
خلو۔۔۔ "ہم کہں گے۔۔۔۔ ہم کہیں گے لیفٹیننٹ ایک چھوڑ دو دفعہ مگر ہماری یہی شرط ہے۔ یہ دو سو روپے آئیں گے تو حساب مت پوچھنا۔”
ڈاکٹر۔”منظور۔۔۔ قطعی منظور”
"تو بس ہمیں بھی منظور۔۔۔ تم ایک دفعہ نہیں سو دفعہ لیفٹیننٹ۔”
"اے کہاں سے آئیں گے۔۔” ڈاکٹرنی بولیں۔
"آج شام کو راگھو جی کی انگلی کا آپریشن انہیں کے گھر پر ہو گا۔۔۔ ” اے موئی اتنی سے انگلیا کے کوئی دو سو روپیہ دے دے گا۔ خلو آپا بولیں۔ "رئیس آدمی ہیں۔ ایک دو سو کیا نہ معلوم کتنا روپیہ خرچ ہو گا۔ صدر ہسپتال سے تمام بڑے آپریشن کا سامان اور کمپاؤنڈر اور بے ہوشی کا سامان اور میزیں آئیں گی۔ تم جانو رئیسوں کے ٹھاٹ ہیں جو۔”
"بے ہوش کرو گے۔” ڈاکٹرنی نے کہا۔
"نہیں جی کوکین لگا کے سن کر دوں گا۔ بات کا بتنگڑا نہ بنائیں تو یہ رئیس لوگ ہمارا علاج کاہے کو کریں۔ اپنے کمپاؤنڈر کو فیس علیحدہ ملے گی۔”
"تو پھر تم کب جاؤ گے۔”
"میں عین موقعے پر جاؤں گا وہاں سارا سامان تیار ہو جائے گا تو آدمی مجھے لینے آئے گا پہلے سے پہنچنے میں ڈاکٹر کی شان ہو جاتی ہے۔”
"روپے آج ہی مل جائیں گے۔”
"کہہ تو دیا نقد۔۔۔ نقد۔”
"لو بھیا لیفٹیننٹی مبارک ہو۔۔۔ مبارک اسے کہتے ہیں۔۔۔ کھا چکے کھانا۔۔ لاؤ کھانا بڑھاؤں، اسے بڑھیا کو تپ چڑھا ہے جیسے۔”
کھانے کے بعد ڈاکٹر صاحب پڑ رہے۔ بیگم اپنی طرف چلی گئیں۔ مگر ڈاکٹر کو چین کہاں۔
ایک مریض کے یہاں گئے جو باوجود کوشش کے غریب مر گیا۔ پرانا ملنے والا تھا۔ آ کر پڑ رہے اور اسی انتظار میں شام ہو گئی کہ راگھو جی کے یہاں سے آپریشن لے لئے کوئی بلانے اب تک نہ آیا۔ اسی سوچ میں تھے کہ اٹھ کر صحن میں آئے بیوی پلنگ پر بیٹھی تھیں اور خلو آپا باورچی خانے میں تھیں، آتے ہی بیوی کو مریض کی موت اطلاع دی۔
"رحمت خاں مر گئے بے چارے۔۔۔ ”
"اے ہے !۔۔۔ کب؟”
"وہیں تو گیا دوپہر کو۔۔۔۔۔ تین انجکشن دئیے مگر بے کار۔۔”
"اے ہے۔۔۔ دور سے چیخیں، دوڑتی آئیں۔۔ چچ چچ۔۔۔ کب۔۔۔ کیا ہوا تھا۔۔۔ ”
ہاتھ اٹھا کے ڈاکٹر صاحب کی طرف بتایا "کھڑے ہیں نا پوچھ لو۔۔۔ کہو لاکھ دفعہ کہا کہ تم رہنے دو۔۔۔ اس بے چارے کو رہنے دو۔۔۔ اس بے چارے کو رہنے دو۔۔۔ سوئی مت گھونپنا۔۔ گرم دوائیں مت دینا۔۔۔ پردو تو نہیں۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ میں نے جو کہا تھا۔۔۔ میری ضد۔۔۔ ”
"باؤلی ہو تم تو۔۔۔ ”
"اے مجھے بھی تو بتاؤ۔۔۔ کیا ہوا ایکا ایکی کیا ہو گیا نگوڑے کو۔۔”
"ہوتا کیا۔۔۔۔دل میں درد اٹھا تھا جب تک پہنچوں خاتمہ۔۔۔ ”
"اور کوئی دوا نہ دی”
"دی کیوں نہیں۔۔”
"کیا دیا ہو گا”
"انجکشن دیا۔۔۔ ”
"اے ہے ” چونک کر خلو اوچھل سی پڑیں اور ڈاکٹرنی کے منہ سے نکلا "سوئی گھونپ دی۔۔۔۔”
خلو بولیں۔۔۔ "دل میں۔۔”
"دل میں کیوں بھونکتا۔۔۔ خدا کی پناہ تم لوگوں سے۔۔”
"اے دل ہی میں تو درد اٹھا تھا۔۔۔ پھر کہیں اور دے دی۔”
"ہاتھ میں دی۔۔۔۔”
ڈاکٹرنی بولیں۔۔”اے ایلو۔۔ کہو آپا کیسی رہی۔۔۔ بے مروت مرا نگوڑا، نجو کے لڑنے کی سی ہوئی۔۔ نجو کے لڑکے کی سی۔۔۔ ”
"اے بھول گئے اتی جلدی، پیٹھ میں نگوڑے کے درد اٹھا اور تم نے دو سوئیاں ران میں گھونپ دیں۔ پیٹھ کا درد جیوں کا تیوں اور ران کا درد گھاٹے میں۔”
"اور میں ہاں ہاں کرتی رہ گئیں” خلو آپا بولیں۔
"تم کیا جانو۔۔ لاحول ولا قوۃ”
"ہم کیا جانیں؟ اے بھیا دل میں نگوڑے کے درد اٹھا اور ہاتھ میں سوئی دے دی وہ مضمون ہوا ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔۔۔۔اے پھر کسی راہ چلتے کو پکڑ کر گود دیا ہوتا۔ اے واہ رے علاج۔۔۔۔”
ڈاکٹر۔ "تم جانتی نہیں ہو۔ ہاتھ میں انجکشن کیا، کہیں دو وہ خون میں مل کر فوراً پہنچ جاتا ہے۔”
"اے بہت پہنچا۔”
:رگوں میں ہو کر پہنچ جاتا ہے ”
"اے بھیا ہم بے چارے کیا جانیں پر رگیں ہمارے بھی ہیں، سارے بدن میں پھیلی ہیں، تم نے سوئی سے دوا دی نہ معلوم کدھر پہنچی۔۔۔۔ کیا خبر پاؤں میں پہنچی۔۔۔۔۔”
ڈاکٹرنی۔۔ "اور دل نگوڑا دکھتا بے دوائی کے رہ گیا۔ مر گیا اکھیا تڑپ کے درد دل میں اور دوا پہنچی پاؤں میں۔”
ڈاکٹر۔ "پاؤں سے پھر وہی دل کی طرف آ جاتی ہے۔”
خلو۔۔۔ ” لو اور سنو یہ تو وہی ہوا کلو بھیا میرٹھ گئے باپڑ سے الٹے لوٹ پڑے۔۔ خون بھی موا دیوانہ ہے۔ اسے پیر کا خون پلٹ کے کلیجہ میں آ گیا۔۔۔ ”
ڈاکٹرنی۔ "اے ہو گا مطلب یہ کہ بن موت گیا دکھیا۔”
خلو۔ بن موت، بن موت گیا۔۔ صاحب میرے بن موت!
ڈاکٹرنی۔ "کہو اس موقعہ پر نخلخہ سنگھا کے اور دو گھونٹ عرق بید مشک کے دیتے۔”
خلو۔۔”اے ہے نگوڑا جی جاتا۔”
ڈاکٹرنی۔ "یہ تیسرا مریض ہے۔۔۔۔ تیسرا ہے آپا جو اسی طرح گیا، کیسا کیسا کہا کہ نخلخہ اور بید مشک رکھو۔ اللہ بخشے حکیم چچا رکھتے ہی جو تھے۔۔۔ ”
ڈاکٹر۔ "واہ رہے حکیم چچا تمہارے۔”
ڈاکٹرنی۔ "اے وہ نخلخہ میں نے حکیم چچا کی بیاض سے بنوا کر رکھایا اور بید مشک ی شیشی بھی تو نکال کر پھکوا دی ہینڈ بیگ سے۔۔۔ کہو پڑی رہتی۔۔۔۔”
خلو۔ "تو آج کام آتی۔۔”
ڈاکٹرنی۔ "اور پھر کیسے کیسے کہا کہ اس دکھیا کو تو رہنے دو اس سے چار پیسے کی مستقل آمدنی ہے۔”
ڈاکٹر۔ "کیا رہنے دو۔”
ڈاکٹرنی۔ "اے صاحب گرم دوائیں دیں بد پرہیزی کرائی۔”
ڈاکٹر۔ "تم کیا جانو دوائیں۔۔۔۔ کچھ بد پرہیزی نہیں کراِئی۔۔۔۔”
خلو۔۔۔ "انڈا آگ۔”
ڈاکٹر۔ کیا جہالت ہے۔”
ڈاکٹرنی۔ ” چوزے کی یخنی دی کہو ہاں۔”
خلو۔ "یخنی آگ۔”
ڈاکٹرنی۔ "اے بہن شرابیں دیں۔۔ دواؤں میں نگوڑے کو شراب۔”
خلو۔ "شراب آگ۔”
ڈاکٹرنی۔ "اے بہن ٹانک دئیے اسے ” اسے گرم گرم ٹانک۔۔۔ ”
خلو۔۔”ٹانک آگ۔۔۔۔۔آگ۔۔” ڈاکٹر۔ "کیا بکتی ہو۔۔”
ڈاکٹرنی۔ "غرض کیا کہوں نگوڑے کو جھلس کے رکھ دیا۔ وہ تو کہو اس طرف گرمیوں میں میں نے بچا لیا تھا۔۔ ترکیبوں سے۔۔”
ڈاکٹر۔ "آپ نے ؟۔۔۔۔ آپ نے بچا لیا تھا۔۔ کیا کہنے ہیں ضرور۔۔؟
ڈاکٹرنی۔۔۔ ” اور خلو آپا تم تو میرٹح تھیں وہ چھوکرا آتا دوا لینے اور دوا لے کے سیدھا اندر ہی آتا، تو بہن میری اس میں ست گلو۔۔۔۔اسے بہن میری اس میں بن سلوچن۔۔۔ اے بہن جائفل۔۔۔ ملا دیتی تب چھاتی کی گرمی دور کی۔۔”
ڈاکٹر۔ "ہائیں یہ کیا؟ یہ کیا غضب، تم نے یہ غضب کیا۔۔”
ڈاکٹرنی۔ "لو اور سنو غضب وہ تھا کہ سوئیاں گھونپ گھانپ خاتمہ۔۔۔ اور پھر لاکھ دفعہ کہا کہ ایسے مریض کو تو رہنے دو۔۔”
ڈاکٹر۔۔ "یہ کیا غضب ڈھایا تھا۔۔”
ڈاکٹرنی۔۔ تم تھوڑی دیکھتے ہو کچھ۔۔ اے بہن یہ نہیں دیکھتے کہ تیوہار پہ تو اور آئے گئے پہ تو۔۔۔۔یہ تو جب دیکھو بہن تحفے تحائف اور سال میں خدا جھوٹ نہ بلائے ڈیڑھ دو سو روپیہ فیس کے اسی رحمت خاں سے آتے۔۔ تو ایسے مریض کو سوئیاں نہ گھونپتے اچھا تھا۔۔”
ڈاکٹر۔۔”اس قسم کی حرکت میری ساتھ کی گئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے اور مجھے ہر گز پسند نہیں۔۔”
ڈاکٹرنی۔۔”اور مجھے یہ پسند ہیں۔۔”
٭٭٭
ٹائپنگ: مقدس حیات، شمشاد احمد خان، ذیشان حیدر، ذو القرنین ، وجیہہ، محمد امین، فہیم اسلم اور دوسرے اراکینِ اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید