FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

عام آدمی کے خواب

               (افسانے)

               رشید امجد

جلدسوم

 

احوال واقعی

مکمل اصل کتاب میں سے دو طویل کہانیاں ’سمندر قطرہ سمندر‘ اور ’الف کی موت کی کہانی‘ اور ایک اور مختصر مجموعہ ’مرشد‘ کو نکال دینے کے بعد جو کتاب اور اس کی کہانیاں باقی بچی ہیں، ان کو چار جلدوں میں شایع کیا جا رہا ہے۔ یہ اس برقی کتاب کی تیسری جلد ہے۔

ا۔ ع۔

 

            یہ کہانیاں ایک عام آدمی کے وہ خواب ہیں جو اُس نے زندگی بھر دیکھے، لیکن تمام تر جدوجہد اور خواہشوں کے باوجود تعبیر نہ پا سکے کیونکہ وہ ایک عام آدمی تھا، ایک عام آدمی کے گھر پیدا ہوا، جیا اور ایک عام آدمی کی حیثیت سے مر گیا، لیکن اُس نے خواب دیکھے اور خواب وراثت میں منتقل ہو جاتے ہیں ، وراثت میں منتقل کرنے کے لیے اُس کے پاس اور کچھ تھا بھی نہیں ، سو اُس نے اپنے خواب اپنے بیٹے کو جو اُسی کی طرح عام آدمی تھا، منتقل کر دئیے، اس امید کے ساتھ کہ جدوجہد ایک نسل سے دوسری، تیسری اور کئی نسلوں تک جاری رہتی ہے، یہ ایک امید ہے کہ شاید کسی دن ان خوابوں کو تعبیر مل جائے۔۔۔  یہ کہانیاں اسی خواہش کی مختلف تصویریں ہیں۔

            رشید امجد

 

منجمد اندھیرے میں روشنی کی ایک دراڑ

ریستوران کی سب سے اوپری منزل میں وہ چار تھے۔

کونے والی میز پر بیٹھا ہوا بوڑھا، اپنی پلکوں پر عمر کا سفید بت سجائے، برسوں کے گھسے ہوئے منکوں سے خبروں کا ورد کر رہا تھا۔ درمیان والی میز پر بیٹھی لڑکی، لذت کی تازہ اور میٹھی رَس بھری کھجوریں کھاتے ہوئے شوق کی گٹھلیاں ایک ایک کر کے اس کے وجود کے خالی ڈرم میں پھینک رہی تھی اور وہ خود جو اپنی خواہشوں کے تنور میں لگتی روغنی روٹیوں کی مہک تو محسوس کر سکتا تھا لیکن انہیں اتار نہیں سکتا تھا کہ اس کے ہاتھ جلتے تھے۔

ریستوران کی اس سب سے اوپری منزل میں وہ چار تھے۔

ایک وہ بوڑھا، جو عمر کے سوکھے ہونٹوں سے وقت کا سفید کف سیرپ چُسک کر رہا تھا۔ دوسری وہ لڑکی جو وقت کے ٹینس کورٹ میں عمر کے چھکّے سے نکلی ہوئی گیند کی طرح لذتوں کے ڈھلوان پر لڑکھڑاتی چلی جا رہی تھی اور وہ تیسرا وہ خود، جس کی آنکھوں کے چھجے سے لٹکی انتظار اور شوق کی بیلیں لٹکے لٹکے مرجھا بھی گئی تھیں۔۔۔  یہ ہوئے تین تو چوتھا کون تھا؟

چوتھا تھا تو ضرور، لیکن کس میز پر؟

اس کی آنکھیں میزوں کے شفاف اور ڈھلوان چہروں پر پھسلنے لگیں۔ شاید چوتھا آدمی میز کے نیچے گھس گیا تھا۔

تو یہ لڑکی۔۔۔  اس کمرے میں دوسری تھی، شاید جرمن تھی، یا سوئس یا پھر؟ کہیں کی بھی ہو، عورت کی کوئی جغرافیائی پہچان نہیں۔ بستر میں ساری عورتیں ایک سی ہوتی ہیں۔

لیکن اس کے پاس کیا تھا؟ اس شہر میں تو وہ پردیسی تھا، ایک ٹورسٹ، جو دنیا کو فاصلوں کی گرد سے نکالنے نکلا تھا۔ سفر کی لذتیں چکھنے کے لیے اس کے پاؤں مدتوں سے بے چین تھے اور اب کہیں جا کر اس کی یہ خواہش حقیقت کے رنگین لباس میں اس کے سامنے آئی تھی۔ا سے اپنے شہر سے نکلے کتنے دن ہوئے ہیں ؟ اس نے انگلیوں کے پوروں پر وقت کے تھان کو لپیٹنے کی کوشش کی۔ جتنے دن بھی ہوئے ہوں ، اس وقت تو وہ اس ریستوران کے سب سے اوپری منزل میں ان تینوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔

’’لیکن چوتھا کدھر گیا؟‘‘۔۔۔  اس نے میزوں کے چمکتے ہونٹوں سے سوال کیا۔ پھر دوبارہ سب کو گنا۔۔۔  ایک وہ بوڑھا، جو سر پر عمر کی سفید کلغی سجائے اخباروں کی تہوں میں گزرے ہوئے سال ڈھونڈ رہا تھا۔ دوسری وہ لڑکی، جس کی آنکھوں میں پھدکتی شوق کی چڑیاں بار بار۔۔۔  اس کے جسم کی ٹہنیوں پر منڈلا رہی تھیں اور تیسرا وہ خود۔۔۔  کیا چوتھا ابھی تک میز کے نیچے ہی تھا؟ کیا اس کے پاس بل دینے کے لیے کچھ نہیں ؟

اس نے کندھے جھٹک کر ان پر بیٹھی ہوئی فکر کی چڑیوں کو اڑایا اور شیشے کی دیوار سے لٹک کر نیچے سڑک پر دوڑتی گاڑیوں کو دیکھنے لگا۔

لڑکی نے مینو ایک طرف کر دیا اور جھک کر اس کو دیکھنے لگی۔ لڑکی کی آنکھوں میں شناسائی کا چرخہ چل رہا تھا۔ اس کے گھوں گھوں سن کر وہ پرانے سوئیٹر کی طرح ادھڑنے لگا اور دھاگا دھاگا ہو کر اس کے دل کے تکلے پر لپٹنے لگا۔

بوڑھا ان دونوں سے بے نیاز اخبار کے کالموں میں تیر رہا تھا، لیکن چوتھا۔۔۔  ؟

لڑکی ذرا سا ترچھا ہو گئی۔ پھر اس کی آنکھوں نے کھلکھلا کر انگڑائی لی اور اس کی خواہشوں کے کھنگروں کی تال پر ٹھمک ٹھمک ناچنے لگی۔

ہنسی اس کے اندر ہی اندر پھیلی اور سمٹی۔ اس کی آنکھوں میں اگی ہوئی زبانیں شیشے کی دیوار سے پھسلتیں نیچے سڑک پر اتریں اور شوکیسوں میں سجی چیزوں اور بھاگتی کاروں کو بو سے دینے لگیں ، اسے نیچے جا کر بہت سی چیزیں خریدنا تھیں۔ لوگ باہر جاتے ہیں تو بہت کچھ لاتے ہیں ، وہ بھی واپسی پر بہت سی چیزیں ان شوکیسوں کی گود میں سے نکال لے جائے گا۔

لڑکی مینو سے کھیل رہی تھی، شاید بیرے کا انتظار ہو۔ لیکن بیرا اتنی دیر سے نچلی منزل میں کیا کر رہا تھا؟ کہیں اسے معلوم تو نہیں ہو گیا کہ چوتھا میز کے نیچے چھپا ہوا ہے؟ شاید وہ کسی اور کو بلا لائے۔

اس نے رک رک کر ساری کرسیوں کو گنتی کی تسبیح میں پرو دیا۔

چوتھا اس خوبی سے چھپا تھا کہ کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کوئی بھی اسے ڈھونڈ نہیں سکے گا۔

اس کے ذہن میں اطمینان نے کنڈل مارا اور وہ گنگنانے لگا۔ لڑکی کن آنکھوں کی چلمن سے اسے دیکھ رہی تھی وہ اچھل کر اس کی پلکوں کی ٹیرس سے لٹک گیا۔ پھر دھیرے سے اس کی آنکھوں کے برآمدے میں اترا اور ان میں جلتی خوشبوؤں کو اپنے بدن میں لپیٹ کر غڑم سے اس کے اندر کود گیا۔

یہ اجنبی لڑکی۔۔۔  اور یہ اجنبی شہر

اس اجنبی شہر کی تازہ ہوا، اس کے زنگ آلود پھیپھڑوں میں سانسوں کے پیانو پر زندگی کے نئے سروں کی دستک دے رہی تھی۔

یہ اجنبی شہر

جب تم پر پھیلی ہوئی زندگی کی شفیق بانہیں سمٹ جائیں تو ہجرت کرو

لیکن ہجرت کے لیے تو پاسپورٹ چاہئے، فارن کرنسی چاہئے، کرایہ چاہئے۔

اور۔۔۔  اور خدا جانے کیا کیا چاہئے۔

سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز نے اسے خیالات کے مچان سے نیچے گرا دیا۔

شاید بیرا کسی کو لے کر آ رہا تھا؟

تو چوتھا۔۔۔

اس نے جلدی جلدی سر گھما کر چاروں کونوں کی خبر لی، چوتھا بڑی خوبی سے کسی میز کے نیچے چھپا ہوا تھا۔

شاید وہ اسے نہ پکڑ سکیں۔۔۔  یقیناً نہیں پکڑ سکیں گے

کھٹک۔۔۔

بل میز کی گود میں سے پھسلتا ہوا اس کی آنکھوں کی چار دیواری میں آ گرا۔ اس کے لرزتے ہاتھوں نے جیب کی اندھیری گہرائیوں میں چھپے ہوئے سکّوں کو آواز دی اور انہیں گنتی کی شباہت میں ڈھال کر بل کے کھلے منہ میں ڈال دیا۔

لڑکی آنکھوں کی پلیٹ میں لذت کے رَس گلے سجائے اسے دیکھ رہی تھی۔ شاید وہ پہلی لڑکی تھی جس نے اسے اپنی آنکھوں کے پنگھوڑے میں بٹھا کر یوں لوریاں دی تھیں۔ تو کیا وہ اسے چھوڑ کر چلا جائے!

اس نے کئی سفر ناموں میں اس مرحلہ کو بار بار پڑھا تھا۔ جب کہانی سنانے والا اپنے آپ کو جبر کی ہتھیلیوں میں مسلتے ہوئے اس لڑکی کو الوداع کہتا ہے جو اسے ایسی ہی میٹھی نظروں سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔

تو اس کا مطلب ہے کہ اب الوداع کی گھڑی آن پہنچی۔

وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔۔۔  ’’اچھا تو اے اجنبی لڑکی الوداع!‘‘

لڑکی نے اسے اپنی آنکھوں کے سایوں میں سمیٹا اور بولی۔۔۔  ’’کچھ دیر تو اور رکو۔‘‘

’’نہیں۔۔۔  مجھے جانا ہے۔‘‘

اس نے مڑنے سے پہلے سارے کمرے کو اپنی آنکھوں کے آنگن میں سمیٹا۔ عمر کے طوطے کو پچکارتا بوڑھا، عمر کی رنگین تتلی کے پیچھے بھاگتی لڑکی اور الوداع کی اَنی پر کھڑا وہ خود۔۔۔  اسے چوتھے کا خیال آیا۔

اس نے کمرے کی ایک ایک شے کو ٹٹولا۔۔۔  تو وہ ابھی تک میز کے نیچے چھپا بیٹھا تھا،

’’اچھا تو الوداع‘‘۔۔۔  وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔

سیڑھیاں اترتے ہی اسے بیرے کی آواز سنائی دی۔۔۔  ’’پتہ نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں۔۔۔  ہونہہ۔‘‘

اچھا تو چوتھا۔۔۔  آخر بیرے نے میز کے نیچے تلاش کر ہی لیا۔

سیٹرھیوں کے آخری زینے نے اسے سڑک کی جھولی میں دھکیل دیا۔

’’ارے تمہاری تو آج درخواست آئی تھی کہ بیمار ہو۔‘‘

اس نے مڑ کر دیکھا، اس کے دفتر کا ایک ساتھی اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑ رہا تھا۔

’’درخواست!‘‘۔۔۔  اس کے ہونٹوں کے کونوں پر بڑبڑاہٹ کی کونپلیں پھوٹیں ، پھر کچھ سوچتے ہوئے، جیسے اچانک کوئی چیز اس کی یاد کی جھولی میں آن گری ہو، بولا۔۔۔  ’’اچھا اچھا، سمجھ گیا۔ تم چوتھے آدمی کی بات کر رہے ہو، وہ اوپر ہے اور بیرے نے اسے پکڑ لیا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

شام، پھول اور لہو

وہ ان میں سے ایک تھی، جنہیں مجھے قتل کرنا تھا،

وہ کل شام میرے بدن کی دیوار سے لٹک کر چیخنے لگا۔۔۔  ’’خدا کے لیے اسے قتل کر دو۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’لیکن مجھے تو قتل کرنا آتا ہی نہیں۔‘‘

اس نے دراڑوں میں انگلیاں پھنسا دیں۔۔۔  ’’بس کسی طرح اسے قتل کر دو، ورنہ میں مر جاؤں گا۔‘‘

میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔  ’’بات کیا ہے؟‘‘

کہنے لگا۔۔۔  ’’میں جب صبح اٹھتا ہوں تو میرے منہ پر بالوں کی بجائے لڑکیاں اگتی ہیں۔‘‘

میں نے سر ہلایا۔۔۔  ’’تو اس میں خوفزدہ ہونے کی کیا بات ہے۔ کوئی اچھا سا بلیڈ استعمال کرو۔‘‘

اس نے شانے اچکائے۔۔۔  ’’وہ تو کرتا ہی ہوں۔ لیکن اب تو میری ہتھیلیوں اور انگلیوں کے پوروں پر بھی اُگ آئی ہیں۔‘‘

اس نے ہتھیلی پھیلا دی، میں نے دیکھا، چہرے اس کی ہتھیلی کی ریکھاؤں سے اگتے ہیں اور کھلکھلا کر بھاگ جاتے ہیں۔

’’دیکھا۔۔۔  دیکھا تم نے۔۔۔ ‘‘اس نے میرے بازو سے لٹکے لٹکے اچھل کر  پاس سے گزرتی ہوئی خوشبو کو چاٹتے ہوئے کہا۔

میں نے باقی خوشبو کو اپنی انگلی پر لپیٹتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’لیکن میں کر ہی کیا سکتا ہوں ، میں تو خود اناڑی ہوں ، ایک بار قتل کرتے ہوئے خود قتل ہوتے ہوتے بچا تھا۔‘‘

اس نے میرے بازو کو دباتے ہوئے تیز سسکی بھری۔۔۔  ’’کچھ تو کرو۔‘‘

میں نے بے بسی سے سر ہلایا۔ مجھے اپنی عادت معلوم ہے کہ اسے بچاتا بچاتا میں خود مارا جاؤں گا۔ دلدلیں مجھے آوازیں دیتی ہیں اور جب تک ان میں پوری طرح دھنس نہیں جاتا، مجھے اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

میں اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا لیکن وہ سوال بن کر میرے ساتھ لٹک رہا تھا۔

آخر تنگ آ کر میں نے کہا، ’’تو چلو۔‘‘

اس کے چہرے سے چمٹی ہوئی اداسی دھل گئی۔ ہم دونوں ہجوم کے دریا میں اتر پڑے اور سڑک کی کشتی کو پاؤں سے کھیتے ایک چوک سے دوسرے چوک کو عبور کرتے رہے۔ لیکن جب بڑا چوک آیا تو دفعتاً مجھے احساس ہوا کہ وہ میرے ساتھ نہیں ہے، بلکہ میرے ہاتھ میں اس کی انگلی ہے۔ میں نے مڑ کر دیکھا وہ سرخ بتی سے چمٹا پچھلے چوک کے گرداب میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔

شام کو جب وہ آیا توا س کا چہرہ گرد بنا ہوا تھا۔

میں نے پوچھا۔۔۔  ’’کیا ہوا ہے؟‘‘

اس نے کندھے جھٹکے اور دانت نکوس کر صوفے پر گر پڑا۔

میں نے کہا۔۔۔  ’’چلو ٹیکسلا چلیں۔۔۔  سنا ہے وہاں آج کل ٹوٹے چل رہے ہیں۔‘‘

وہ اچھل کر میرے سینے سے لگ گیا اور  دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

حیرت میری آنکھوں کے پیالوں میں گھلنے لگی، ’’کیا ہوا۔۔۔  کیا ہوا؟‘‘

کہنے لگا۔۔۔  ’’میں وہاں گیا تھا، باہر بورڈ لگا ہے۔ نئی انتظامیہ، صاف ستھرے ماحول میں مع خاندان تشریف لائیں۔‘‘

’’پھر۔‘‘

’’پھر‘‘۔۔۔  اس نے آنسو پونچھے۔۔۔ ’’میں نے آہٹوں کو سونگھا اور جب انہیں پکڑنے کی کوشش کی تو وہ دیوار کی اوٹ میں چھپ گئیں ، اب تم ہی بتاؤ میں کیا کروں ، اب تو یہ کھنڈر بھی ہمارے نہیں رہے۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’کتابوں میں یوں لکھا ہے کہ وہ گھات لگا کر پتھروں کی اوٹ میں بیٹھ گئے اور شمال سے اٹھتی ہوئی گرد کو دیکھنے لگے۔ جب گرد کا گنبد قریب آیا تو رنگوں کے چشمے صاف نظر آنے لگے۔ وہ نعرہ مار کر اپنی جگہ سے نکلے اور ان پر ٹوٹ پڑے، پھر انہوں نے ایک ایک رنگ کو اپنی پلکوں سے چنا اور اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے جنگل میں اتر گئے۔‘‘

وہ دوبارہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

میں نے پوچھا۔۔۔  ’’اب کیا ہوا ؟‘‘

اس نے اپنے سینہ پر دو ہتڑ مارا۔۔۔  ’’کل میں سارا دن اپنی کھڑکی سے لٹک کر پڑوس کے صحن سے رنگ چننے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن رنگ میری پلکوں سے چھوتے ہی اپنی خوشبو چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘

پھر اس نے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔۔۔  ’’اسے قتل کر دو، ورنہ میرے سارے جسم پر چہرے اُگ آئیں گے۔‘‘

رات چنگھاڑتی ہوئی ہم پر ٹوٹ پڑی تھی۔

باہر سردی ننگی دیواروں سے لپٹ رہی تھی اور ساتھ والے کمرے میں وہ اسے قتل کر رہا تھا۔ اس کی چیخیں درمیان والے دروازے کی دہلیز سے نکل کر سارے فرش پر رینگ رہی تھیں۔ ہوا اس کے لہو کے رنگ کو ہاتھوں میں اٹھائے میرے چاروں طرف ناچ رہی تھیں۔ میں نے فرش پر رینگتی چیخوں کو دونوں ہاتھوں کے کٹورے میں بھرا اور پھر ایک ہی لمحہ میں انہیں اپنے منہ میں انڈیل لیا۔ چیخیں کرچ کرچ ہو کر میرے پیٹ کے اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ پھر میں نے ہوا کے ہاتھوں سے اس کے لہو کے رنگ کو اپنے منہ پر ملا اور ایک نعرہ مار کر ساتھ والے کمرے میں جا گھسا۔ لاش پلنگ کے بیچوں بیچ پڑی تھی اور خون چادر پر اپنی تصویر بنا رہا تھا۔ میرا نعرہ سن کر لاش میں ایک لمحہ کے لیے حرکت ہوئی اور پھر وہ اسی طرح خون کے تھال پر تیرنے لگی۔

صبح جب سورج کی کرنوں نے دیواروں پر چپکی ہوئی سردی کو کھرچ کھرچ کر اتارنا شروع کیا تو لاش اپنے آپ کو سمیٹ کر باہر کی طرف دوڑی۔ ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگے لیکن تیز روشنی نے اسے اپنے پیٹ میں نگل لیا۔ ہم بس دیکھتے ہی رہ گئے۔

کچھ دیر بعد وہ بولا۔۔۔  ’’چلو عجائب گھر چلیں۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’فائدہ‘‘

کہنے لگا۔۔۔  ’’شاید وہاں ہمیں آنکھیں مل جائیں۔‘‘

میں شانے اچکا کر اس کے ساتھ ہو لیا۔

عجائب گھر میں ہم دونوں کے سوا کوئی بھی نہیں تھا۔

سارے مجسمے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ہم نے بتی جلائی اور حیرت کی سسکی ایک ساتھ ہم دونوں کے لبوں سے لٹکنے لگی۔ سارے مجسموں کی آنکھیں نکلی ہوئی تھیں اور ناکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا

سارے مجسمے رو رہے تھے۔

کچھ دیر بعد جب ہم کیفے کی طرف جا رہے تھے تو اس نے میرے کندھے پر سر رکھتے ہوئے پوچھا، ’’آج روشنیاں کہاں چلی گئی ہیں ؟‘‘

میں نے شیشوں میں سے باہر جھانکا۔ چاروں طرف اندھیرے کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا اور ہماری گاڑی اندھیرے کی قبر میں اترتی جا رہی تھی۔

لمحے بوجھل پتھر بن کر ہماری گردنوں سے لٹک رہے تھے۔

اس نے میرے کندھوں کو جھنجوڑا۔۔۔  ’’ہم کب پہنچیں گے؟‘‘

میں نے اس کی آنکھوں میں ناچتے خوف کو سونگھا۔۔۔  ’’شاید کبھی نہیں۔‘‘

اس نے تلملا کر میری طرف دیکھا۔

’’ہاں شاید کبھی نہیں۔‘‘۔۔۔  میری آواز میرے ہونٹوں کی بجائے دور کہیں سے آ رہی تھی۔

ستارے شہر کے اندھیرے میں گم ہو گئے ہیں اور ہم جس لائن پر جا رہے ہیں اس پر کوئی سٹیشن ہی نہیں۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا لیکن چپ رہے کہ ہمارے نا کردہ جرم کی تحریر ہمارے چہروں کی تختی پر نیون سائن کی طرح جل بجھ رہی تھی۔

٭٭٭

 

یاہو کی نئی تعبیر

اندھیرا آنکھیں ملتا ہوا رات کے بستر سے کہنیوں کے بل اٹھ رہا ہے۔ اور کجلایا سویرا سمٹی سمٹائی دلہن کی طرح ملگجا گھونگھٹ نکالے دبے پاؤں سیڑھیاں اتر رہا ہے۔

پچھلی رات،

پچھلی ساری رات میں آنکھوں کی جھولی میں انتظار کے پھول لیے نیند کی نیلی چڑیا کی راہ تکتا رہا ہوں ، لیکن نیند کا جہاز میری پلکوں کی بندرگاہ میں لنگر انداز نہیں ہوا۔

ساری رات،

پچھلی ساری رات۔۔۔  میں اپنی خواہشوں کے پنجرے سے اڑے ہوئے پرندوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا ہوں ، لیکن سارے پرندے دھند میں لپٹی ہوئی زمین سے دور دور نکل گئے ہیں۔

کئی دنوں سے زمین کے چہرے میں چھپکلی اگ آئی ہے اور اس کی چھاتیوں میں سرسراتے دودھ میں خواہشوں کے گندے انڈوں کی لیس دار جاگ گھل گئی ہے۔ ایک زنگ آلود کالی روشنی میرے جسم کی کڑھائی میں وہ تبرک تل رہی ہے جس کا بپتسمہ صدیوں پہلے میرے جسم نے مجھے دیا تھا۔

میں کھڑکی کھول دیتا ہوں۔

صبح نے اپنا ملگجا گھونگھٹ اتار دیا ہے اور اب دیواروں سے اتر کر گلیوں اور بازاروں میں دوڑ رہی ہے۔ میں اپنے بدن کی ریلنگ سے لٹکے سارے پردے ہٹا دیتا ہوں اور کیلنڈر کے چکنے صفحوں پر چڑھ کر دنوں ، مہینوں اور سالوں کے صفحے الٹنے لگتا ہوں۔ دھندلا غبار میرے چاروں طرف پھیل جاتا ہے اور کیلنڈر کے خوشبودار صفحوں سے تاریخیں اڑ اڑ کر دور نیلاہٹوں کی جانب جانے لگتی ہیں ، میں ان کے ساتھ ساتھ دن، مہینوں اور سالوں کی گھنیری وادیوں میں سے گزرتا دور۔۔۔  بہت دور نکل آتا ہوں۔

یادیں اپنے پاؤں میں گھنگھرو باندھتی ہیں اور میرے وجود کے اجڑے کھنڈر میں چھن چھنا چھن ناچنے لگتی ہیں۔

’’یاہو‘‘۔۔۔  اس نے نعرہ مار کر سامنے پڑے ہوئے شخص پر جست لگائی اور اسے پنجوں میں دبوچ کر اس کے نرخرے میں دانت گاڑ دئیے۔ تڑپنے والے نے خر خر کرتے ہوئے نرم زمین کو مٹھیوں کی ڈھلوانوں پر روکنے کی کوشش کی لیکن زندگی نے اپنے پاؤں سمیٹ لیے اور گرم نمکین خون کا ذائقہ اس کے دشمن کے لبوں پر دستکیں دینے لگا۔

وہ کچھ دیر اس کے نرخرے کے پیالے سے ہونٹوں کے خشک کھیت کو سیراب کرتا رہا۔ پھر اس نے اس کے جسم کو نوچنا شروع کر دیا اور نرم نرم تازہ گرم گوشت اتار کر کھانے لگا۔

’’یا ہو‘‘۔۔۔  سب ہنس رہے تھے اور آنکھوں میں للچاہٹ کی شمعیں جلائے، گوشت سے اٹھتی بُو کو اپنے نتھنوں میں باندھ رہے تھے۔

اس کا اشارہ پاتے ہی وہ سب زمین پر پڑے ہوئے جسم پر ٹوٹ پڑے اور دیکھتے دیکھتے سارا جسم ہاتھوں کی کنڈیوں میں لٹکنے لگا۔ اس نے منہ سے لگے ہوئے خون کو کہنی سے صاف کیا اور لوگوں کو ایک طرف کرتا اس بڑی چٹان کی طرف بڑھا، جس کے ساتھ لگی وہ ہانپ رہی تھی۔

سارا جھگڑا اس کی وجہ سے ہوا تھا۔ بات اتنی سی تھی کہ اس کے جسم کے گداز ابھاروں نے اسے اشارہ کیا تھا۔ چنانچہ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چٹان کی دوسری طرف اترنے لگا تھا کہ اس شخص نے آ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مگر اب وہ شخص کہاں تھا؟

اس نے مڑ کر دیکھا، زمین پر تو چند دھبّے ہی تھے۔ وہ شخص تو بوٹی بوٹی ہو کر مختلف ہاتھوں میں پہنچ چکا تھا۔

’’یا ہو‘‘۔۔۔  اس نے نعرہ لگایا اور سہمی ہوئی عورت کا ہاتھ پکڑ کر چٹان کی طرف چلا گیا۔

’’یا ہو۔۔۔  یا ہو‘‘

میں اپنے جسم کے لمبے لمبے سیاہ بالوں پر ہاتھ پھیرتا ہوں اور منہ سے نکلنے والی یا ہو کے پیچھے دوڑنے لگتا ہوں۔ فاصلوں کی گود میں بیٹھے ہوئے دیوتا مجھے پکارتے ہیں ، میں ان کے قریب چلا جاتا ہوں۔ سالوں کی تیز درانتیاں میرے جسم پر اُگے ہوئے لمبے بالوں کی کالی فصلیں کاٹ رہی ہیں۔

مجھے نیند آ رہی ہے، میں اونگھ رہا ہوں ،

سالوں کے جسموں سے رستی دھند مجھے لوریاں دینے لگتی ہے۔

پونتو خوس، تلوار میان میں ڈال کر باہر جانے لگا تو سارے غلاموں نے اسے دعاؤں کے ہاروں سے لاد دیا۔ ارنیا قریب ہی تھا۔ وہ ہوا میں دشمن کی بو سونگھتا پیدل ہی وہاں تک آیا۔ ارتیوس پہلے ہی آ چکا تھا اور اب ارنیا کی پیاسی مٹی پر کھڑا اس کی راہ تک رہا تھا۔ وہ بڑے وقار کے ساتھ اس کے سامنے آیا۔ دونوں نے اپنی اپنی تلواروں کو دن کی سفید روشنی کی سلامی دی اور چند قدم ہٹ کر ایک دوسرے کی طرف دوڑے۔

پونتوخوس نے وار کرنے سے پہلے اپنے منہ میں دیوتاؤں کے مقدس نام کا شہد گھولا اور کہنے لگا، ’’اے اپالو! اگر تو میری مدد کرے تو میں تیرے مندر میں ایک موٹی تازہ جوان گائے کی قربانی دوں اور ایک دوسری گائے کی چربی سے تیرے مندر کی آگ تیز کر دوں۔‘‘

اپالو اس کی تلوار کی نوک پر آ بیٹھا، ارتیوس اب صرف اپنا دفاع کر رہا تھا اور پونتوخوس کی تلوار کی نوک پر بیٹھا ہوا اپالوارتیوس کے نرخرے کا بوسہ لینے کے لیے بے تاب ہوا جا رہا تھا۔

ایک لمحے کے لیے جب ارتیوس کے پاؤں لڑکھڑائے تو تلوار کی نوک پر بیٹھا ہوا اپالو اسی کے نرخرے میں اتر گیا۔

گرم نمکین خون ارنیا کے پیاسے ہونٹوں کو گلابی بناتا چاروں طرف پھیل گیا۔

سب نے تالیاں بجا کر پونتو خوس کی بہادری کا گیت گایا۔ اس نے لمحہ بھر کے لیے زمین پر پڑے ہوئے ارتیوس کو دیکھا اور بازار کی طرف چل پڑا۔

وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست تھے لیکن پچھلے چند دنوں سے ارتیوس کی نیک نامی اور شہرت کے پرندے سارے شہر پر منڈلانے لگے تھے اور یہ بات اسے کسی قیمت پر قبول نہ تھی۔ اس نے بہت دنوں سے یہ سوچ رکھا تھا کہ اس ارنیا میں وہ ارتیوس کی زندگی کا قالین لپیٹ دے گا۔

اور اب وہ تلوار پر چمکتے ہوئے لہو کے قطروں کو اچھالتا، ڈیانا کے بڑے معبد کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔

یور کلیا ڈیانا کے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی۔ دونوں نے مسکراہٹوں کے طشت میں اپنی خواہشوں کے دئیے جلا کر ایک دوسرے کو پیش کئے۔

پونتوخوس نے جیب سے سکہ نکال کر مندر کی صنددقچی میں ڈالا اور یورکلیا کا ہاتھ پکڑ کر اسے پچھلے حصے میں لے گیا۔

میں اپنے جسم پر نظر ڈالتا ہوں۔ میرے جسم کے کھیت میں اگی ہوئی بالوں کی فصل کٹ چکی ہے۔ دور سے آتی روشنیاں میرے جسم پر استری کر رہی ہیں اور میرے بدن پر پڑی ہوئی سلوٹیں ایک ایک کر کے نکل رہی ہیں۔

نیند میری آنکھوں کے کٹوروں میں غنودگی گھول رہی ہے۔ میں لڑکھڑا کر سالوں کے پنگھوڑے میں گر پڑتا ہوں۔

ندی کا پانی گنگناتے ہوئے خاموشی سے چلا جا رہا تھا۔ بشن داس بھورے رنگ کی ایک چٹان سے ٹیک لگائے وینا بجا رہا تھا کہ امبا دبے پاؤں اس کے قریب آئی اور اپنی سریلی آواز کو وینا پر لپیٹتے ہوئے بولی۔۔۔

’’ہے رام۔۔۔  ! تم ابھی تک یہیں ہو؟‘‘

بشن نے وینا ایک طرف رکھ دی اور بولا۔۔۔  ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘

کیسری رنگ کی ساڑھی اور جوڑ ے میں گیندے کا پھول سجائے وہ اسے بڑی پیاری لگ رہی تھی، امبا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔  ’’شاکیہ منی کو دیکھنے نہیں جاؤ گے؟‘‘

بشن نے سر ہلایا اور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

بڑ کے درخت سے پھوٹتا سورج آسمان کی وسعتوں میں چمک رہا تھا۔

وہ آلتی پالتی مارے بڑ کے نیچے بیٹھا تھا اور اپنی آواز کی طشتری میں سکون اور اطمینان کے ذائقے سجا کر سب کے کانوں میں ابدیت کا شہد ٹپکا رہا تھا۔

’’دھرم کرو۔۔۔  دھرم کرو‘‘

اس کی آواز بشن کے کانوں میں بیٹھے پرکھوں کی روایتوں کے جالے توڑنے لگی۔ اس نے کَن آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔  ہاں ، اس نے اپنے شریر کو ریاضت کی آگ میں جلا کر اپنی آتما کو کندن بنا لیا تھا اور اب سراپا مسکراہٹ بنا بیٹھا تھا۔

اس کی آواز اس کے کانوں میں رَس گھول رہی تھی۔۔۔  ’’کسی کو دکھ نہ دو۔ سب روحیں ایک سی ہیں۔‘‘

ذات پات کے سارے رشتے تڑخ رہے تھے۔ ریزہ ریزہ ہو رہے تھے۔

وہ امبا کو وہیں چھوڑ کر چپ چاپ باہر نکل آیا۔

شام کو جب وہ امبا سے ملنے ندی کنارے جا رہا تھا تو دفعتاً کسی کا پاؤں اس کی گیروی دھوتی پر اپنا نشان ڈال گیا۔ اس نے مڑ کر غصے سے دیکھا۔ ارونی سہما ہوا ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

’’تم۔۔۔ ‘‘ اس کے اندر کا برہمن جست لگا کر باہر آگیا۔

’’تم نے مجھے بھرشٹ کر دیا۔‘‘

ارونی نے اپنی آنکھوں میں بے یقینی کے تھان کو لپیٹتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور بڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔

’’لیکن مہاراج، وہ تو کہتا ہے کہ اب کوئی شودر نہیں ، کوئی برہمن نہیں اور تم نے بھی تو اس کے سامنے اس کا اقرار کیا تھا۔‘‘

بشن پرے ہٹتے ہوئے بڑبڑایا۔۔۔  ’’دفع ہو جاؤ۔۔۔  کتے!‘‘

کچھ دیر بعد جب وہ ندی کنارے پہنچا تو امبا گھاس پر لیٹی ندی کی لہریں گن رہی تھی۔ اس نے پھول توڑا اور اس کے جوڑے میں سجانے لگا۔ امبا کے ہونٹوں پر مٹھاس کی بانسری بجنے لگی۔

 بشن نے اسے اسی مسکراہٹ کی چادر میں لپیٹ لیا۔

بڑ کے نیچے آواز کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔

’’دھرم کرو، دھرم کرو۔۔۔  سنکھ بجاؤ، سنکھ بجاؤ۔‘‘

میرے جسم پر پھیلے ہوئے سیاہ دھبّے پوتر لفظوں کے لیپ میں چھپ رہے ہیں۔ میں اونگھتے اونگھتے مسکراتا ہوں۔۔۔  زمانے کے پنگھوڑے میں لیٹے لیٹے سالوں اور صدیوں کی چوسنی چوستے چوستے کئی خواب میری پلکوں کی چلمن پر دستک دیتے ہیں۔

دریا کی پھیلی بانہوں کو دیکھ کر قافلہ رک گیا۔

شمعون نے راحیل کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔  ’’اب کیا ہو گا؟‘‘

راحیل نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دریا کی طرف دیکھنے لگی۔

دریا درمیان سے پھٹ چکا تھا۔

اور سارے دوڑتے ہوئے اسے پار کر رہے تھے۔ راحیل نے شمعون کا ہاتھ پکڑا اور دریا کی گود میں اتر پڑی۔ شمعون نے دوسرے کنارے کی طرف جاتے ہوئے بڑی عقیدت اور احترام سے اسے دیکھا جو سب سے آگے عصا ہاتھ میں لیے چلا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔۔۔

’’اب سب ایک دوسرے کی بانہیں ہیں۔‘‘

دوسرے کنارے پر پہنچ کر سب نئی وادیوں میں اتر گئے۔ یونتن پیچھے رہ گیا تھا، اس نے اسے آواز دی، جب یونتن رک گیا تو وہ بڑے سکون سے اس کے قریب آیا اور پھر اچانک اس نے یونتن کو نیچے گرا لیا۔ یونتن کے ساتھ اس کا خاندانی جھگڑا برسوں سے آج کے دن کا انتظار کرتا چلا آ رہا تھا اور آج اس نے یونتن کے گرم ابلتے نمکین خون کی سرخی کو دن کی روشنی دکھا کر اس کا فیصلہ کر دیا اور عصا ہاتھ میں لیے وہ کہہ رہا تھا۔

’’اب سارے ایک دوسرے کی بانہیں ہیں۔‘‘

میں لڑ کھڑا کر اگلے خواب کی طلسمی وادی میں جا گرتا ہوں۔

لمبے چوغے والے نے کتاب بند کر دی اور بولا۔۔۔  ’’تو یوں ہے کہ جو دوسروں کی غلطی معاف کر دے وہ مقدس باپ کی نظروں میں اتر گیا اور یوں سمجھو کہ اسے سب کچھ مل گیا۔‘‘

اس نے اپنے دل کی گہرائیوں میں ملائم سکون محسوس کیا اور  بڑی عقیدت سے الٹے پاؤں باہر آ گیا۔ جب وہ گھر پہنچا تو رُتھ سو چکی تھی اور اس کا غلام پروینس حسبِ معمول جاگ رہا تھا۔ جونہی وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا، پروینس نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔  ’’مالک! امی جیرس آج پھر مالکن کے پیچھے پیچھے باغ میں گیا تھا۔‘‘

یہ بات سنتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہوا اور دوڑتا ہوا اسلحہ خانہ میں آیا۔ تلوار نکال کر اس نے اس کی دھار کو جانچا اور اسی رفتار سے خواب گاہ میں آیا۔ رُتھ مسکراہٹوں کی بگھی میں بیٹھی رنگین خوابوں کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔

’’کتیا‘‘ وہ لفظوں کو دانتوں کے آرے میں کترتے ہوئے بڑبڑایا اور تلوار لہراتا امی جیرس کے گھر کی طرف دوڑ پڑا۔

میں چونک کر اسے دوڑتے ہوئے دیکھتا ہوں لیکن وہ فاصلوں کی دھند میں گم ہو جاتا ہے۔ دن، صدیاں ایک دوسرے کی بانہیں پکڑے میرے ساتھ لکن میٹی کھیل رہے ہیں۔

وہ دوسرے کمرے سے تلوار لے آئی اور اویس کو دیتے ہوئے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

اویس نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں سمیٹ لیا اور بولا۔۔۔

’’پگلی، ہم صبح ہونے سے پہلے لوٹ آئیں گے اور پھر۔۔۔ ‘‘

اس نے اس کے ہونٹوں کی گلابی قبر پر مخملی خواہشوں کے پھول چڑھائے۔

عائشہ نے اس کا بازو پکڑ لیا، ’’نہ جاؤ۔‘‘

اویس نے جھٹک کر اسے پرے کیا اور بولا۔۔۔  ’’تم چاہتی ہو سارا قبیلہ مجھے بزدل کہے۔‘‘

عائشہ نے پھر اس کا بازو تھام لیا۔۔۔  ’’لیکن شب خون مارنے کی کوئی وجہ بھی تو ہو۔‘‘

اویس نے غصے سے اسے گھورا، ’’یہ کیا کم وجہ ہے کہ وہ ہمارے کنوؤں کے پانیوں میں حصہ مانگتے ہیں۔‘‘ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی کہ اذان کی آواز ہوا کے کندھوں پر سوار ہو کر فضا میں دوڑنے لگی۔

اویس نے نرمی سے ہاتھ چھڑا لیا اور عائشہ کو ایک طرف کرتے ہوئے بولا۔۔۔  ’’خدا حافظ، ہم فجر کی نماز واپس آ کر پڑھیں گے، انشا اللہ۔‘‘

تلواروں سے ٹپکتا گرم گرم لہو میری پلکوں پر گرتا ہے۔ میں جلدی سے آنکھیں کھولتا ہوں۔ سبز مخملی روشنی دھندلائی ہوئی ہے اور میری خواہش کا اندھا رتھ ساری زمین کو روندے چلا جا رہا ہے۔

لی یونگ چی نے سرخ کتاب بند کر کے گھٹنوں پر رکھ لی اور دور پھیلے فاصلوں کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔ اس کتاب کے لفظوں کی کوکھ سے پھوٹنے والی روشنی نے تو اسے مانجھ دیا ہے۔

اس کا انگ انگ لشکنے لگا ہے۔

اس نے فاصلوں کی دھند میں سے چانگ پو کے قدموں کی آہٹ کو سننا چاہا، جو صبح سے شہر گئی ہوئی تھی اور اپنے ساتھ خبروں کی تازہ فصل لانے کا وعدہ کر گئی تھی۔ آج ان کی چھٹی کا وقت تھا اور چانگ پوکمیون کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ صبح سویرے شہر چل گئی تھی۔

اس نے کتاب کھولی۔

اس کتاب نے اس کی زندگی کے سارے رخ ہی بدل دیئے تھے۔ وہ ساتھیوں کے ساتھ کو رس لگاتا، قدم بہ قدم، شانہ بہ شانہ آگے بڑھا چلا جا رہا تھا۔

ایک سکون، ایک اطمینان۔

وہ دیوار سے ٹیک لگا کر اونگھنے لگا۔

شام کو چانگ پو اور دوسرے ساتھی واپس آئے تو ان کندھوں سے زرد کیڑے چمٹے ہوئے تھے۔

کچھ لوگ خیمے کو ٹڈیوں کی طرح کاٹ رہے ہیں ، ہمیں ان کا محاسبہ کرنا ہے۔

اس کے ہاتھوں کی گرفت بندوق پر مضبوط ہو گئی۔

زرد بخار کے جراثیم چاروں طرف پھیل گئے۔ سب ایک دوسرے کو شبہ کی کلہاڑیوں اور شک کی درانتیوں سے کاٹ رہے تھے۔

خون۔۔۔  گرم، ابلتا، نمکین خون،

میں اپنے ہونٹ چوستا ہوں۔

حیرت کے اہرام میں لپٹی میری آنکھیں سارے جسم کا طواف کرتی ہیں۔

میرے جسم پر ملائم شفاف چکناہٹ گنگنا رہی ہے۔

میں اپنی آنکھوں کو منہ کے راستے اندر اتار دیتا ہوں۔

اندر بڑی بڑی خوفناک چہروں والی سیاہ نوکیلی چٹانیں سر اٹھائے گا رہی ہیں۔

میری آنکھیں زخمی ہو جاتی ہیں۔

ان پر سیاہی جمنے لگتی ہے۔

باہر سے میں کتنا ملائم اور شفاف ہوں۔

لیکن اندر سے۔۔۔  ؟

’’یاہو۔۔۔ ‘‘میرے منہ سے نکلے ہوئے خوب صورت، ملائم اور لذیذ لفظ سامنے والے کے نرخرے میں گڑ جاتے ہیں۔ میں ہونٹوں کی طشتری میں گرم، ابلتے، نمکین لہو کا ذائقہ چکھتا ہوں۔

’’یاہو۔۔۔  یا ہو۔‘‘

میرے اندر اُگے ہوئے لمبے سیاہ بالوں کے جنگلوں میں کوئی سرسراتا ہے اور چپکے چپکے ہنستا ہے۔

٭٭٭

 

تشبیہوں سے باہر ایک پھڑپھڑاہٹ

جب ریل کار سٹیشن کی گود سے پھسل کر اندھے فاصلوں کی پھیلی بانہوں میں داخل ہوئی تو اس کے پہئے لانبی لانبی بھو کی زبانیں نکالے پٹڑی کے شفاف جسم کو چاٹ رہے تھے۔ لیکن جب انہوں نے شہر کا آخری پل عبور کیا تو اسے محسوس ہوا کہ ریل کے پہئے دھیرے دھیرے پٹڑی سے علیحدہ ہو رہے ہیں اور ڈبہ ہوا میں تیر رہا ہے۔ اس نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر پہیوں کی طرف دیکھا۔۔۔  پٹڑی دور نیچے تیر رہی تھی۔ اس نے گھبرا  کر سر اندر کر لیا اور دائیں ہاتھ والے سے کہا۔۔۔  ’’ہم تو ہوا میں سفر کر رہے ہیں۔‘‘ دائیں ہاتھ والے نے اخبار سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے دوبارہ اخبار پڑھنے لگا۔ وہ دو ایک لمحے اس انتظار میں رہا کہ وہ جواب دے گا، لیکن جب اس نے اخبار سے سر نہ اٹھایا تو اس نے بائیں ہاتھ والے سے کہا۔۔۔  ’’بھائی زمین سے ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔‘‘

بائیں ہاتھ والے نے کتاب سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔۔۔  ’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘

اس نے گھبرا  کر کھڑکی سے سر باہر نکلا اور جھک کر نیچے دیکھنے لگا، ریل کار ہوا میں اڑ رہی تھی۔

’’اب کیا ہو گا؟‘‘۔۔۔  اس نے سوچا۔۔۔  ’’میں گھر کیسے پہنچوں گا؟‘‘

’’گھر۔۔۔  کون سے گھر؟‘‘ سامنے بیٹھے ہوئے ایک شخص نے تمسخر سے کہا۔

’’میرے اپنے گھر۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔ لیکن پھر فوراً ہی اسے خیال آیا کہ کیا اس کا کوئی اپنا گھر ہے؟

گھر۔۔۔  گھر۔۔۔  ریل کار کی آواز اس کے کانوں میں سیٹیاں بجانے لگی تو دائیں طرف والا اور بائیں طرف والا، دونوں ہی میری بات سننے کے لیے تیار نہیں اور یہ سامنے والا پوچھتا ہے کہ میرا گھر کون سا ہے؟

تو۔۔۔  تو پھر

اس نے بے بسی سے چاروں طر ف دیکھا۔

وہ بھی تو سامنے والی نشست پر ہی بیٹھی ہوئی تھی اور بڑی دیر سے اس کی آنکھوں میں توجہ کے سائبان تنے ہوئے تھے۔

تو یہ میری بات سمجھ رہی ہے۔

وہ اچک کر کھڑکی میں جھانکنے لگا اور جب اپنی سیٹ کی طرف مڑا تو اس نے سرگوشی میں اس سے کہا۔۔۔  ’’ہم ہوا میں سفر کر رہے ہیں۔‘‘

اس نے اپنی تائید مسکراہٹ کی مخملی پٹی میں لپیٹ کر اس کی طر ف پھینکی۔ وہ مطمئن ہو کر اپنی جگہ بیٹھ گیا اور تجسّس کے ننھے منے ہاتھوں سے اس کے سراپا کو ٹٹولنے لگا۔

جنگل کے ہرن سینگ میں سینگ پھنسائے اس کے سینے پر کلیلیں کر رہے تھے اور وہ بار بار پلکوں کی بالکونی سے جھانک جھانک کر اس پر شناسائی کے مسکراتے کنکر پھینک رہی تھی۔

اس نے سوچا، فرض کرو میں اس کا نام ’’ی‘‘ رکھ لیتا ہوں۔

تو ’’ی‘‘ مسکراہٹوں کے چپوؤں سے اس کے دل کی کشتی کو کھیتے ہوئے گہرے پانیوں میں لیے جا رہی ہے۔

دفعتاً اسے خیال آیا۔ اس کا نام ’’ی‘‘ ہی کیوں ؟ آخر اس سے پہلے بھی تو بے شمار حرف ہیں ، ان میں سے کوئی کیوں نہیں ؟

تو پھر کیا۔۔۔  کیوں نہ ’’الف‘‘ سے شروع کروں ؟

تو اس نے ’’الف‘‘ سے شروع کیا۔

لیکن ’’الف‘‘ تو مدت ہوئی بوڑھا ہو چکا ہے۔

’’ب‘‘ ویسے ہی بیمار ہے اور بستر پر لیٹا ہوا ہے۔

’’ج‘‘ کا آدھا حصہ ٹوٹا ہوا ہے۔

اس نے ایک ایک حرف کو اس کے گنگناتے بدن پر چسپاں کرنے کی کوشش کی، مگر سارے حروف بیمار اور کھوکھلے تھے۔

اب کیا کروں ؟

ہمارے تو حروفِ تہجی ہی بیمار ہیں۔

تو پھر ’’ی‘‘ ہی ٹھیک ہے۔

ہاں تو یہ ’’ی‘‘ اس کے ساتھ ہی سٹیشن سے سوار ہوئی تھی۔ کچھ دیر نشستوں کی Adjustment، آس پاس کے چہروں کی گنتی اور پھر دھیرے دھیرے دوسرے چہرے اس کی دلچسپی کی تسبیح سے ایک ایک کر کے کھسکتے چلے گئے اور لڑی میں بس ’’ی‘‘ کا ایک چہرہ رہ گیا، جسے اپنی آنکھوں کی پوروں سے اس نے اتنا چکنا کر لیا ہے کہ اب اس کی پلکیں اٹھتے ہی وہ پھسل کر اس کے دل کے آنگن میں آ گرتا ہے۔

تو یہ ’’ی‘‘ ہے،

اور میں۔۔۔  میں کون ہوں ؟

اسے خیال آیا، اسے اپنے لیے بھی کوئی حرف منتخب کر لینا چاہئے۔

لیکن ’’الف‘‘ سے ’’ی‘‘ تک سارے حروف تو بخار میں مبتلا ہیں۔

تو پھر۔۔۔  وہ میں ہی رہے،

تو میں فی الحال میں ہی ہوں ،

ہاں تو اس میں کو کہا جاتا ہے؟

انہیں تو کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ اتنے برسوں میں ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں جان سکا تھا کہ برانچ لائن کون سی ہے اور مین لائن کون سی، ویسے کرنے کو مسلسل سفر کر رہے تھے۔

’’لیکن کیا ہم واقعی سفر کر رہے ہیں یا اتنے برسوں سے پلیٹ فارم پر ہی کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘

اس نے دائیں ہاتھ والے سے پوچھا۔ دائیں ہاتھ والے نے اخبار سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر جھک کر اس کے کان میں بولا، ’’میاں تم پلیٹ فارم کی بات کرتے ہو، مجھے تو لگتا ہے جیسے ہم ابھی تک اپنی ماں کے پیٹ ہی سے باہر نہیں نکلے۔‘‘

تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے،

اور مڑ کر ’’ی‘‘ کو دیکھنے لگا۔

’’ی‘‘ بہت خوبصورت تو نہیں تھی، لیکن اس کے گنگناتے بدن کے کچے آنسوؤں میں جوانی کے بہت سے لکّے کبوتر غٹرغوں غٹر غوں کر رہے تھے۔

’’تو کیا ہم سب جنم لے چکے ہیں ؟‘‘اس نے بائیں ہاتھ والے سے پوچھا،

بائیں ہاتھ والے نے کتاب سے سر اٹھایا، اس کی طرف دیکھا اور بولا۔۔۔  ’’یار تم سوال بہت کرتے ہو، ہاں تو کیا کہہ رہے تھے تم؟‘‘

اس نے کہا۔۔۔  ’’بھائی میں کہہ رہا تھا کہ کیا ہم سفر کر رہے ہیں ، لیکن ٹھہرو پہلے میں تمہارا نام رکھ لوں۔‘‘

بائیں ہاتھ والا اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگا، پھر بولا۔۔۔  ’’یہی تو المیہ ہے کہ میرا کوئی نام نہیں۔ ہم دوسروں کے ناموں کو اپنا سمجھتے ہیں ، لیکن حقیقت میں ہمارا کوئی نام نہیں۔ جب تک ہم ایک نا م کے حروف تلاش نہیں کرتے اسی پلیٹ فارم پر ہی بیٹھے رہیں گے۔‘‘

’’تو کیا ہم پلیٹ فارم پر ہی ہیں ؟‘‘ اس نے گھبرا کر سوال کیا اور اُچک کر کھڑکی میں جھانکنے لگا۔

’’میاں ہم تو پچھلے کئی سو سالوں سے اسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ بائیں ہاتھ والے نے آنسو پونچھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔

وہ دھڑام سے اپنی سیٹ پر گر گیا۔

تو میں کیا کروں ؟

کیا میرے مقدر میں یہی لکھا ہے کہ میں بھی اپنے سے پہلوں کی طرح اسی پلیٹ فارم پر مر جاؤں ؟

اس نے رحم طلب نظروں سے ’’ی‘‘ کی طرف دیکھا اور سرگوشی میں بولا، ’’اے اچھی لڑکی! کیا تو میری کوئی مدد کر سکتی ہے؟‘‘

’’ی‘‘ نے مسکرا  کر اس کی طرف دیکھا اور اسی سرگوشی میں پوچھا، ’’کیسے؟‘‘

’’اس طرح کہ میرے پیدا ہونے میں میری مدد کرو۔‘‘

’’ی‘‘ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

پھر وہ کھڑکی میں سے باہر دیکھنے لگا۔

دور دور تک پھیلے کھیتوں میں کام کرتے کسان سیدھے ہو رہے تھے اور اپنی درانتیاں اوپر اٹھا رہے تھے۔

یہ سب کمزور ہیں ، انہیں دودھ کی ضرورت ہے۔

لیکن کون سے دودھ کی۔۔۔ ؟

تو دراصل یہ گاڑی چل نہیں رہی بلکہ ایک ہی جگہ کھڑی ہے۔

تو پھر کیا کروں۔

اس نے دائیں بائیں بیٹھے دونوں شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور بولا۔۔۔  ’’آؤ نیچے اتر کر دیکھیں گاڑی چل کیوں نہیں رہی؟‘‘

دونوں نے بیک وقت حیرت اور استعجاب سے اس کی طرف دیکھا اور پھر غصہ سے بولے۔۔۔  ’’یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔‘‘

’’تو پھر کس کا ہے؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔

یہ ان دونوں کا مسئلہ نہیں۔

یہ ’’ی‘‘ کا بھی مسئلہ نہیں۔

تو پھر یہ مسئلہ کس کا ہے؟‘‘

’’ی‘‘ نے اب اخبار پڑھنا شروع کر دیا تھا اور اس دوران وقفوں وقفوں سے پلکوں کا گھونگھٹ اٹھا کر اس کی طرف دیکھ لیتی تھی۔

وہ بھول گیا تھا کہ گاڑی چل نہیں رہی،

اس کے دل کے گملے میں اب ننھے منے پودے سر اٹھانے لگے تھے اور ’’ی‘‘ کے بدن سے نکلتی خوشبوؤں کی ننھی منی کنکریاں اس کے نتھنوں کے صحن میں آ کر گر رہی تھی۔

تو اصل میں ہم سفر نہیں کر رہے۔

ایک لمحے کے لیے اسے پھر خیال آیا۔

لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کے آس پاس سارے مطمئن بیٹھے ہیں تو اس نے سر جھٹک کر اس خیال کو پرے پھینک دیا اور ٹانگیں پھیلا کر سیٹ میں گھس گیا۔

باہر اب تاریکی کی پھوار پڑ نے لگی تھی۔

’’ی‘‘ نے جھک کر سیٹ کے نیچے سے اپنے ٹوکری نکالی اور اس میں سے لفافہ نکال کر اسے کھولنے لگی۔ لفافہ کھولتے ہوئے وہ مسلسل کَن انکھیوں سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر لفافہ میں سے اس نے کیک کا ٹکڑا نکالا اور اسے ہاتھ میں لے کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔

اسے ایک دم ڈھیر ساری بھوک کا احساس ہوا۔

’’میں تو صدیوں سے بھوکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا۔۔۔  تو ’’ی‘‘ یہ ٹکڑا مجھے دے گی۔

وہ سراپا انتظار اور سوال بن کر ’’ی‘‘ کے سامنے پھیل گیا۔

’’ی‘‘ ایک یاد و لمحے تذبذب کی پینگ جھولتی رہی پھر اس نے اطمینان کا لمبا سانس لے کر کیک کے ٹکڑے کو منہ میں رکھ لیا اور لفافے میں سے ٹکڑے نکال کر کھانے لگی۔

تو اصل میں ’’ی‘‘ بھی اندر سے ایک کھوکھلا حرف ہے۔

ہم کریں بھی کیا

ہمارے تو سارے حروفِ تہجی ہی اندر سے کھوکھلے اور بیمار ہیں۔

’’تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔‘‘۔۔۔  اس نے چیخ کر کہا۔

سارے اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔

’’کیا بات ہے؟‘‘۔۔۔  دائیں ہاتھ والے نے برہمی سے پوچھا۔

ہمیں جو کچھ ورثہ میں دیا گیا ہے وہ سب کا سب کھوکھلا اور بیمار ہے اور یہ سارے حروف تہجی متعدی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

’’ی‘‘ نے کیک کھا کر لفافے سے انگلیاں صاف کیں اور لفافے کو کھڑکی میں سے باہر پھینک دیا۔

اس نے دیکھا، کھیتوں میں کام کرتے کسان درانتیاں لیے ایک جگہ اکٹھے ہو رہے تھے۔

’’ی  نے مجھے کیک کا ٹکڑا کیوں نہیں دیا؟‘‘

اس کے اندر دکھ اور غم کی ایسی موسلا دھار بارش ہوئی کہ جل تھل ہو گیا۔

تھوڑی دیر بعد جب وہ اپنا اٹیچی لے کر نیچے اترا تو پلیٹ فارم پر اس کا دوست اس کا انتظار کر رہا تھا لیکن وہ اس کی طرف دیکھے بغیر آگے بڑھ گیا۔

اس کے دوست نے لپک کر اسے کندھے سے پکڑ لیا اور بولا۔۔۔  ’’عجیب آدمی ہو، میں تمہیں لینے آیا ہوں اور تم مجھے دیکھ کر بھی دوسری طرف چلے جا رہے ہو۔‘‘

اس نے جھٹکے سے کندھا چھڑا لیا اور بولا۔۔۔  ’’میں نے سفر ہی نہیں کیا، تم مجھے کیوں لینے آئے ہو؟‘‘

پھر یہ دیکھ کر کہ اس کا دوست حیرت سے اسے تکے جا رہا ہے، وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا۔۔۔  ’’ہم سب تو اسی پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں۔ ہم اس کے ایک دروازے سے باہر جاتے ہیں اور دوسرے سے پھر اندر آ جاتے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سفر کر رہے ہیں۔‘‘

پھر کچھ دیر بعد بولا۔۔۔  ’’دراصل ہمارے حروف تہجی ہی بیمار ہیں۔ جب تک ہم نئے حروف تہجی نہیں بنائیں گے اسی ناسفری کے آشوب میں گھلتے رہیں گے۔‘‘

دور کھیتوں میں جمع ہوتے کسانوں کی آوازیں اب اس کے جسم کے دروازوں پر دستکیں دے رہی ہیں۔

اس نے اپنا اٹیچی گھما کر لائنوں پر پھینک دیا اور بولا، ’’لعنت ہے مجھ پر۔ میں اتنا عرصہ ایک بے معنی اور بے مقصد بوجھ اٹھائے پھرتا رہا ہوں۔‘‘

’’ی‘‘ نے اب خوشبو کا نقاب اتار پھینکا تھا۔۔۔  ہاتھوں میں کیک کا ٹکڑا لیے رَس بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

لیکن وہ اس کی طرف دیکھے بغیر چپ چاپ باہر نکل آیا۔

٭٭٭

 

تیز دھوپ میں مسلسل رقص

اوپر تیز بخار میں جلتا اور سورج

نیچے بھول بھلیاں ، راستہ بھٹکی سانسوں کے آبشار

لذت سے ہمکنار، لذت سے محروم فاصلے

پھیلے ہوئے سمٹے ہوئے فاصلے

جستجو کے پھڑپھڑاتے ہوئے پروں پر چمٹے ہوئے ہاتھ، خواہشوں کے گیلے پیڑ پر اُگے ہوئے ہاتھ، خالی اور بھرے ہوئے ہاتھوں کے درمیان تیزی سے گھومتی ہوئی رسی پر اچھل اچھل کر کبھی دائیں اور کبھی بائیں جانے کی کوشش میں الجھا ہوا وہ سر گھما کر چاروں طرف دیکھتا ہے۔

تیز دھوپ سے بچنے کی صورت

آنکھوں پر گہرے رنگ کا چشمہ

وہ صفحہ الٹ کر لفظوں کو چوسنے لگتا ہے۔

اندھیرے کی بانسری پر جھومتا ہوا سورج جب رینگ رینگ کر مشرقی منڈیر سے سر نکالتا ہے تو میونسپلٹی کی لاری اس کے مٹیالے منہ پر چھینٹیں مار مار کر اسے جگاتی ہے۔ وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھتی ہے۔ اس کی پسلیوں میں سے پھوٹتی گلیوں کی نیم تاریکیوں سے لوگ ایک ایک کر کے باہر نکلتے ہیں اور اس کی چھاتیوں کو گدگداتے بڑے چوک میں گم ہو جاتے ہیں۔ اس کے دائیں طرف ایک لمبی خاموش دیوار ہے جو اس کی انگلیوں کی پوروں تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ دیوار مدتوں سے یوں ہی سکتے کے عالم میں ہے۔ بائیں طرف ایک دو۔۔۔  تین چار نیم تاریک گلیاں ہیں۔ جو سارا دن ابکائیاں لے کر لوگوں کو اس کی جھولی میں اگلتی رہتی ہیں۔ سر کی طرف بتی والا بڑا چوک ہے جس کے جبڑے صبح ہوتے ہی پھیل جاتے ہیں اور وہ نتھنے پھلا پھلا کر سارا دن بڑی چھوٹی گاڑیوں ، ٹانگے، سائیکل اور پیدل چلنے والے لوگوں کو اس کے منہ پر تھوکتا رہتا ہے۔ پاؤں کی طرف دو ڈھائی فرلانگ کے فاصلے پر ایک موڑ ہے جہاں پہنچتے پہنچتے اس کی شکل دھندلی دھندلی ہو جاتی ہے۔

ٹریفک کی زنجیر سارا دن اس کے سینے پر کروٹیں لیتی رہتی ہے اور وہ اس کے نیچے دبی، کبھی لمبے لمبے سانس لے کر اور کبھی رینگ رینگ کر اس بوجھ کو دائیں بائیں کرتی رہتی ہے۔ شام کی پھوار پڑتے ہی جب ٹریفک کی بھاری زنجیر ٹوٹتی ہے، وہ منہ میں تھکن کی چوسنی لیے اپنے دونوں کناروں میں سمٹ کر اونگھنے لگتی ہے۔ صبح سویرے جب سورج رات کے بند دروازوں پر دستک دے رہا ہوتا ہے، میونسپلٹی کی لاری بڑے چوک کے حاملہ پیٹ سے سر نکالتی ہے اور اس کے مٹیالے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی، موڑ کی اندھی گلیوں میں گم ہو جاتی ہے۔

معمول کے ٹھکے ٹھکائے یک رنگ چوکھٹے میں پھنسا ہوا  دن

طلوع اور غروب کے یکساں سانچے، وہ گہرے رنگ کا چشمہ لگا کر اگلا صفحہ پلٹتا ہے۔

تیز بخار میں ہذیانی رقص کرتا سورج، اس کے عین سر پر آ کھڑا ہوتا ہے۔

وہ جلدی سے صفحہ الٹتا ہے۔

لیکن اسی صبح جب پانی کے چھینٹوں کے انتظار میں کسمساتے اسے بہت دیر ہو گئی تو۔۔۔  اس نے اپنے کناروں سے سر نکال کر بڑے چوک کی طرف دیکھا۔ میونسپلٹی کی لاری بستی والے گھیرے سے لگی سہمی سہمی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ پتھروں کا اونچا ڈھیر دونوں ہاتھ پھیلائے اسے روکے ہوئے تھا۔

وہ سر گھما کر دیکھتی ہے، پتھروں کے یہ پھوڑے اس کے سارے جسم پر پھیلے ہوئے ہیں اور درد اُس کی پور پور میں رینگ رہا ہے۔

یہ رات، اذیت کی رات۔

وہ آہ بھر کر انگڑائی لیتی ہے اور اس کی نظریں اس پر پڑتی ہیں ، وہ اپنے ڈگمگاتے قدموں پر جسم کا سارا بوجھ ڈالے اس کے کنارے کنارے چلا آ رہا ہے۔ وہ اَدھ کھلی نیم خواب آنکھوں سے اسے دیکھتی ہے اور اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے اس کے پاس بیٹھ جائے۔ وہ اچک کر اس کے پاؤں پکڑنا چاہتی ہے لیکن وہ اس سے پہلے ہی پتھروں کے ایک ڈھیر کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ پتھروں کے نیچے ہی نیچے سرک سرک کر اس کے قریب آتی ہے اور ڈھیر کی درزوں میں سے سر نکال کر اس کے ساتھ آ لگتی ہے۔

’’تو یہ شخص وہی ہے۔‘‘

وہ دھیرے سے اس کے پاؤں میں چٹکی لیتی ہے۔ لیکن وہ اسی طرح گم سم دور خلا میں کسی نامعلوم شے کو گھورتا رہتا ہے۔

’’تو یہ شخص وہی ہے۔‘‘

یہ شخص ہر صبح سات بجے گلی نمبر ۴ سے نکل کر بڑے چوک میں جاتا ہے۔ چار بجے انیس نمبر بس اسے دوبارہ چوک کی جھولی میں اگل جاتی ہے اور وہ اسی طرح خاموشی سے گلی نمبر ۴ میں لوٹ جاتا ہے۔ شام کو وہ ایک عورت اور بچے کے ساتھ باہر آتا ہے۔ عورت کھنکھناتا جسم، متجسّس آنکھیں ، خواہشوں کے لیسلے پیڑ پر اگے کانٹوں میں پھنسے زخمی ہاتھ۔

بچہ معصومی کی رنگین پینگ پر ہلا رے کھاتا، دھنک رنگوں کو پکڑنے کی کوشش میں مگن!

واپسی پر گلی میں داخل ہونے کی ترتیب۔۔۔  سب سے پہلے خواہشوں کے ہاتھوں رہن رکھی آنکھوں والی عورت، پھر جمائیاں لیتا بچہ اور آخر میں وہ جوہے اور نہیں بھی۔

وہ پتھروں کی درزوں میں سے سر نکال کر اسے غور سے دیکھتی رہتی ہے؟ یہ شخص پچھلے کئی سالوں سے اسی طرح زندگی کی وقت کی چرخی پر لپیٹ رہا ہے۔ صبح شام، صبح شام، پھر وہی رات اور اس کے بعد وہی صبح شام، صبح و شام۔ عورت اس سے قدرے مختلف ہے۔ اس کی آنکھوں کے طاقچے میں ہر روز نئی نئی شمعیں جھلملاتی ہیں۔ وہ کئی بار عورت کے پاؤں کے نیچے سرکتی گلی نمبر چار کے نیم تاریک دہانے تک آئی ہے۔ اس کا کئی بار جی بھی چاہا ہے کہ عورت کے ساتھ اندر جائے، لیکن دونوں کناروں کے اندر بندھے اس کے پاؤں راستہ روک لیتے ہیں۔ عورت جب بھی گلی سے نکلتی ہے وہ چوکنی ہو جاتی ہے اور دوڑ کر اس کے قریب آ جاتی ہے۔ جب عورت پہلی بار دن کے وقت اکیلی باہر آئی تھی تو وہ اس کے ساتھ ساتھ سبزی والے کی دکان تک گئی تھی۔ کچھ دنوں تک عورت کا یہ سفر گلی سے سبزی والے اور سبزی والے سے گلی تک محدود رہا پھر وہ دکان نمبر سا ت تک آنے لگی۔ یہ ایک چھوٹا سا جنرل سٹور ہے۔ شروع شروع میں عور ت جنرل سٹور کے شوکیس کے پاس کھڑے ہو کر سودا خریدتی ہے پھر رفتہ رفتہ وہ آگے اور آگے، سٹور کے پچھلے حصہ میں جانے لگتی ہے۔

یہ شخص تو چار بجے واپس آتا ہے جب عورت سٹور کے پچھلے حصہ کی سیر کر کے اور اپنی ٹوکری بھر کر گلی میں واپس جا چکی ہوتی ہے۔ وہ جلدی سے گلی میں داخل ہوتی ہے۔ شام کو وہی ترتیب، پہلے عورت پھر بچہ اور آخر میں وہ کنارے کنارے بڑے چوک تک۔ واپسی اسی طرح، پہلے عورت پھر بچہ اور آخر میں وہ اور اب یہ وہ پتھروں کے اس ڈھیر سے ٹیک لگائے کسی نامعلوم خوف کے پنجوں میں پھڑ پھڑا رہا ہے۔

وہ اچھل کر اس کے چہرے پر لکھے لفظ پڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ سارے لفظ بے ترتیب، بے ڈھنگے، لائنیں ٹیڑھی اور مٹی مٹی۔ اس کی آنکھوں میں کل رات کا منظر منجمد ہو جاتا ہے۔

ایک کار گلی نمبر چار کے قریب آ رکتی ہے۔ گلی سے پہلے عورت اور اس کے پیچھے بچے کو گود میں لیے وہ باہر آتا ہے۔ عورت جلدی سے کار میں بیٹھ جاتی ہے۔۔۔  وہ بچے کو گود میں لیے گم سم اسے دیکھتا رہتا ہے۔ کار تیزی سے مڑتی ہے۔ بچہ لپک کر عورت کو پکارتا ہے لیکن کار بڑے چوک کی گود میں گم ہو جاتی ہے۔ وہ جلدی سے گلی میں کود جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک ٹرک نمودار ہوتا ہے اور پتھروں کا ایک ڈھیر اس کے سینے پر پھینک کر چوک کی طرف بھاگ نکلتا ہے۔ پھر رات گئے تک پتھروں کے ڈھیر اس کے سارے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔

وہ صفحہ پلٹنے سے پہلے گہرے رنگ کا چشمہ اتار دیتا ہے اور سر اٹھا کر تیز بخار میں جلتے، ہذیان بکتے سورج کو دیکھتا ہے، سورج اپنی ہتھیلیوں پر الاؤ جلائے پورے آسمان پر ناچ رہا ہے۔

تھتھیا تھیا تھیا۔۔۔  تھتھیاتھیا تھیا

گلی نمبر تین کی مسجد میں نماز ختم ہو گئی ہے اور اِکا دُکا نمازی گلی سے نکل رہے ہیں۔ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھتا ہے اور پتھروں کے ڈھیر کے پاس کھڑا بے چینی سے بڑے چوک کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔

وہ پتھروں کے ڈھیروں کے نیچے سرکتی سرکتی بڑے چوک کے قریب آتی ہے۔ کار چوک کے دوسرے سرے سے نکلتی ہے۔ پتھروں کے ڈھیر دیکھ کر چوک ہی میں رک جاتی ہے۔ عور ت باہر نکلتی ہے اور آہستہ آہستہ اس کے قریب آتی ہے۔ دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور کچھ کہے بغیر آہستہ آہستہ گلی نمبر چار کی تاریکی میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔

کچھ دیر بعد ایک خوفناک چہرے والا انجن بڑے چوک کی طرف سے آتا ہے۔ اس کے پیچھے بیلچوں اور گینتیوں کی قطار ہے۔ انجن پھک پھک کرتا اس کے سینے پر آ چڑھتا ہے۔ بیلچے اور گینیتاں بھوکے گدھوں کی طرح اس کی لاش پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔

وہ پھر گہرے رنگ کی عینک اپنے منہ پر چڑھا لیتا ہے۔ ہاتھوں میں حدّت اور چبھن کے برچھے لیے ہذیانی سورج اس کے عین سر پر ناچ رہا ہے۔ رفتار، بوجھ اور دکھ کا رقصِ مسلسل۔

وہ سر گھما گھما کر ایک ایک کو دیکھتا ہے۔ پھر کتاب کو زور سے دیوار پر دے مارتا ہے۔ کتاب کے مضمون پر ٹنگے حرف ٹوٹ ٹو ٹ کر تڑخ تڑخ کر نیچے گرتے ہیں۔

سوکھے ہوئے لفظ۔۔۔  تڑخے ہوئے لفظ

چوسے ہوئے لفظ۔۔۔  پھوکے لفظ

تیز دھوپ سے بچنے کی صورت

آنکھوں پر گہرے رنگ کا چشمہ

لیکن بدن پر رینگتی دھوپ، جسم تو اسی طرح جل رہا ہے!

٭٭٭

 

جاگتی آنکھوں کا خواب

اسے معلوم نہیں تھا کہ اس میز پر پڑے ہوئے اسے ایک لمحہ گزرا ہے، ایک سال یا ایک صدی۔ وہ تو بس لیٹا ہوا چھت کو اپنی آنکھوں میں پرو رہا تھا اور تنہائی کا ہانپتا کتا زبان باہر لٹکائے اس کے سارے جسم کو چاٹ رہا تھا۔ سورج نیچے اتر کر اس کے سر پر آ بیٹھا تھا اور اس نے اپنی ٹانگیں اس کے سینے پر پھیلا دی تھیں ، اس لیے اسے احساس نہیں تھا کہ وہ جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے۔ کیونکہ یہ ساری چیزیں یا تو سو رہی تھیں یا اسی کی طرح وقت کی ٹوٹی ہوئی رسیوں سے لٹک رہی تھیں۔

ایک لمحہ۔۔۔  ایک سال۔۔۔  یا ایک صدی، جانے کب سے وہ اسی طرح تنہائی کی کھڈی پر سانسوں کی اُون سے اپنی زندگی کا قالین بُن رہا تھا۔ اب یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ قالین تھا کہ دری، کیونکہ وہ جب بھی اس پر ہاتھ پھیرتا، کھردرا پن اس کی پوروں پر رینگنے لگتا اور وہ جھنجھلا کر دوبارہ میز پر آ گرتا۔ اسے آپریشن کے لیے اس کمرے میں لایا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس کا ایک گردہ خراب ہو گیا ہے۔ اس کے بدن کے کھلیان میں گندے خو ن کی قلم لگ گئی ہے۔ ہاں اسے یاد آیا، اسے گردے کے آپریشن کے لیے یہاں لایا گیا تھا، لیکن کب۔۔۔  ایک لمحہ، ایک سال، یا ایک صدی پہلے، جانے کب اسے یہاں لایا گیا تھا۔ شاید وہ پیدا ہی اسی میز پر ہوا ہو۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر میز کو چھونا چاہا لیکن اس کے بازو میں درد کی گیند لڑھکنے لگی۔ اسے یاد آیا کہ ڈاکٹر نے اس کے بازو میں انجکشن لگایا تھا۔ دوا سوئی کی گود میں سے پھسل کر اس کے سارے جسم میں پھدکنے لگی تھی۔۔۔  پھر۔۔۔  پھر اس نے اپنی نظروں کی کمند کو سر پر لٹکتی ہوئی روشنی کی فصیل سے پرے پھینکا۔ اس کی بیوی دیوار سے لٹکی ہوئی تھی۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر اس نے کلکاری ماری اور اُڑ کر اس کے سر پر لٹکتی روشنی کے تھال پر آ بیٹھی اور اس کے ساتھ یوں ہلنے لگی جیسے جھولا جھول رہی ہو۔

اس نے اپنی نظروں کو سمیٹا اور کہنے لگا۔۔۔  ’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ بچوں کا کیا حال ہے؟ وہ کس کے پاس ہیں ؟‘‘

بیوی نے جھولتے جھولتے اپنی قمیض کا دامن اوپر اٹھایا، دودھ کی ایک دھار اس کے پیاسے منہ پر ماری۔ نمکین دودھ اس کے چہرے کے کٹورے سے پھسلتا ہوا قطرہ قطرہ اس کے ہونٹوں کی ٹرے میں اکٹھا ہونے لگا۔

ماں۔۔۔  اس کے ہونٹوں کے باجے پر گنگناہٹ ہوئی، لیکن دوسرے ہی لمحے اسے خیال آیا کہ وہ تو اس کی بیوی ہے۔ اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔۔۔  اس کی بیوی کا جسم پگھل رہا تھا اور بوند بوند اس کے سینے پر گر رہا تھا۔ اس نے اچھل کر پرے ہٹنا چاہا لیکن اس کے جسم کی گاڑی کے سارے پہیے پنکچر ہو گئے تھے۔

اس کی بیوی کا جسم قطرہ قطرہ اس کے سینے پر جمع ہو رہا تھا اور ٹھنڈک دھیرے دھیرے اس کے نیچے سرک رہی تھی۔ اسے یاد آیا، ڈاکٹر نے انجکشن لگانے کے بعد اس کے گردے کا آپریشن شروع کیا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھنا چاہا لیکن اس کے سینے پر اس کی بیوی کے جسم کا ڈھیر لگا ہوا تھا، اس کا اٹھا ہوا سر پھر میز پر آ گرا۔

’’ڈاکٹر‘‘۔۔۔  اس کی آواز کا پرندہ پھڑپھڑا کر اڑا لیکن کمرے کی دیوار سے ٹکرا کر فرش پر آ گرا۔

’’ڈاکٹر‘‘۔۔۔  اس نے سرگوشی کی۔

ڈاکٹر کہاں ہے؟ اس نے سوچا۔

’’ڈاکٹر‘‘۔۔۔  اس کے ہونٹوں کے پنجرے سے آواز کے سارے پرندے پھڑپھڑا کر اڑے لیکن کمرے کا چکر لگا کر واپس آ گئے۔

ڈاکٹر کمرے میں موجود نہیں تھا۔

سرمئی ابابیلیں اس کے چاروں طرف منڈلا رہی تھیں اور تاریکی کی کنکریاں ایک ایک کر کے اس کے چاروں طرف پھینک رہی تھیں۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نظروں کی کدالوں سے تاریکی کی ان چٹانوں کو چیرنے کی کوشش کی لیکن اس کی آنکھوں کے پیاسے کاسوں میں روشنی کی ایک بوند بھی نہ گری۔

پہچان کی ساری رسیاں ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی تھیں اور چیزیں اور منظر اس کی آنکھوں کے کیمرے میں جل بجھ رہے تھے۔۔۔  جل بجھ رہے تھے اور وہ خود تنہائی کی زنجیر سے بندھا اس میز پر گھپ اندھیرے میں بھیگ رہا تھا۔

ایک لمحہ۔۔۔  ایک سال یا ایک صدی، جانے کب سے وہ اس میز پر پڑا وقت کی طنابوں کو انتظار کی کند چھری سے کاٹ رہا تھا۔ کوئی چپچپی سی چیز اس کی پیٹھ کے نیچے سرک رہی تھی۔ شاید ڈاکٹر اس کا آپریشن ادھورا چھوڑ گیا ہو، کیا معلوم اس کا گردہ باہر پڑا ہویا شاید ڈاکٹر اسے نکال کر ساتھ لے گیا ہو، کیا معلوم۔۔۔  کیا معلوم،

اس کے سوالوں کی ٹوکری میں سارے انڈے کچے تھے۔ وہ انہیں آنچ دے دے کر تھک گیا تھا لیکن جوابوں کے بچے نہیں نکل رہے تھے۔

سارے سوال منجمد ہو گئے تھے۔

تو ڈاکٹر چلا گیا ہے۔۔۔  اس نے اپنے آپ سے کہا۔

بے بسی کی ڈائن تنہائی کا چغہ پہنے کمرے کی دیواروں سے نکلی اور دھیرے دھیرے چلتی اس کے قریب آئی تو وہ سحر زدہ سا ان پتلیوں میں تیرنے لگا۔ وہ آہستہ سے جھکی اور پھر اس نے اپنے لمبے دانت اس کی گردن میں گاڑ دئیے۔۔۔  اور اداسی، مایوسی، تنہائی کا زہر قطرہ قطرہ اس کے بدن کے مشکیزہ میں ٹپکنے لگا۔

تو ڈاکٹر چلا گیا ہے۔

اس کے بدن کی کھلیان میں بے بسی، اداسی، تنہائی کی کونپلیں ، لہلہاتی فصلیں بن گئی تھیں اور مایوسی کی چڑیاں ان میں پھدکتی پھر رہی تھیں۔

وہ کٹے ہوئے درخت کی طرح میز پر پڑا ان بے شمار کیڑوں کو دیکھ رہا تھا جو اس کے وجود  پر رینگ رہے تھے اور اس کے بدن کی نرم سندھوری مٹی میں اپنا گھر بنا رہے تھے۔

اس کا وجود اس فراموش کردہ دیوار کی طرح تھا جس میں مختلف کیڑوں اور پرندوں نے اپنے آلنے بنا لیے ہوں اور اب ہر کوئی اپنے گھر کو وسیع اور بڑا کرنے کے لیے اسے اندر ہی اندر کھودتا چلا جا رہا ہو۔

وہ کھوکھلا تنا تھا جس پر بے بسی اور مایوسی کی موٹی چھال تنی ہوئی تھی۔

اس کی آنکھیں بند دروازے کی چوکھٹ سے لٹکی ہوئی تھیں اور  وقت کی مکڑی دروازوں کے پٹوں پر انتظار کے جالے بن رہی تھیں۔

ایک لمحہ۔۔۔  ایک سال۔۔۔  یا ایک صدی، وقت کی گھڑی کا ڈائل بجھا ہوا تھا اور سوئیاں ٹوٹ کر نیچے گر پڑی تھیں۔ اس لیے اسے معلوم نہیں ، ایک لمحہ، ایک سال یا ایک صدی۔۔۔  دروازہ آہستہ سے کھلا۔ اس کی پتھرائی آنکھوں میں پہچان کا شعلہ چمکا۔

ایک شخص سفید لباس میں اندر آیا۔ اس نے اپنی نظروں کی کمند پھینک کر اسے جکڑ لینے کی کوشش کی۔ اس شخص کے سر کے بال سفیدی چاٹ رہے تھے اور ہاتھ جھریوں کے دستانوں میں لپٹے ہوئے تھے۔ وقت کی مکڑی نے اس کے چہرے پر عمر کا جالا بُن دیا تھا۔ وہ چپ چاپ  اس کے قریب کھڑا رہا۔ پھر کہنے لگا۔۔۔  ’’مجھے معاف کر دینا، میں بھول گیا تھا۔ آج میں ریٹائر ہو رہا ہوں۔ جانے سے پہلے میں اپنا دراز صاف کر رہا تھا کہ تمہارے کاغذات نکل آئے اور مجھے یاد آیا کہ تم تو آپریشن تھیٹر میں ہی پڑے ہو۔۔۔  مجھے معاف کر دو۔‘‘

وہ ندامت کے چند آنسو اس کے کانوں کے پیاسے کٹوروں میں ٹپکا کر باہر چلا گیا۔

دروازہ ایک بار پھر بند ہو گیا۔

ایک لمحہ۔۔۔  ایک سال۔۔۔  ایک صدی، وقت کبھی بھی اس کا دوست نہیں بنا تھا۔ اس نے ہمیشہ موقع کی مچان سے اس پر چھپ کر وار کیا تھا اور اس بار پھر اس نے اپنی تیز چھری سے اس کے خیمے کو کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ دن اور لمحے تو اس سے چھین لیے گئے تھے اس لیے اسے معلوم نہیں تھا کہ ایک لمحہ، ایک سال یا ایک صدی بیت گئی ہے۔

وہ اسی طرح اپنی نظروں کے برمے سے بند دروازے کو چھیدنے میں لگا رہا۔۔۔  دروازہ پھر کھلا، ایک نوجوان شخص سفید لباس پہنے اندر آیا۔ چند لمحے اسے دیکھتا رہا، پھر کہنے لگا۔۔۔  ’’میں نیا ڈاکٹر ہوں ، پرانے ڈاکٹر نے تمہارے کاغذات ابھی ابھی مجھے دئیے ہیں۔‘‘ پھر اس کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے بولا۔۔۔  ’’مجھے افسوس ہے، تمہیں اتنی تکلیف اٹھانا پڑی، میں ابھی آ رہا ہوں۔‘‘

دروازہ دوبارہ بند ہو گیا۔

تنہائی، اکیلے پن اور اداسی نے پھر اسے اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیا، بے بسی اور مایوسی کی چڑیاں اس کے بدن کی آنتوں میں چوں چوں کرتی پھدکنے لگیں۔

ایک لمحہ۔۔۔  ایک سال۔۔۔  یا ایک صدی۔

بند دروازے کی طر ف دیکھتے ہوئے وہ سوچنے لگا، خدا جانے یہ ڈاکٹر بھی آئے گا یا پہلے کی طرح اسے آنے والے کے حوالے کر جائے گا۔

کون جانے۔۔۔  کون جانے

کمرے میں اڑتی آوازوں کی گرد دھیرے دھیرے نیچے بیٹھنے لگی اور خاموشی کی دیمک اندر ہی اندر اسے چاٹنے لگی۔

دفعتاً اس گھپ خاموشی سے خیال کے سانپ نے پھن اٹھایا اور اس کے سارے وجود کو چاٹنے لگا۔

سب لوگ اسے بھول گئے ہیں۔

اس کی بیوی اس کے محبت کے خیمے سے باہر نکل گئی ہے۔ اس کے بچے اس کے پروں سے پھسل گئے ہیں۔ وہ سب زندگی کی رنگا رنگیوں میں اپنے اپنے خیمے گاڑ رہے ہیں۔

سب اسے بھول گئے ہیں۔

اور اس کی آنکھوں میں منجمد چشمے پھوٹ بہے۔

٭٭٭

 

گمشدہ آواز کی دستک

وہ اس گھنے شہر میں ، جس کی جوان چھاتیوں پر رات سانس لیتی، اندھیرا کروٹیں بدلتا ہے، زمین کا ایک ٹکڑا خریدنا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے یہ زمین مکان بنانے کے لیے چاہئے۔ لیکن یہ بات کسی کو بھی معلوم نہ تھی کہ زمین کا یہ ٹکڑا وہ اپنی قبر کے لیے خرید رہا ہے۔ اس بات کا اقرار کرنے کے لیے وہ خود بھی تیار نہ تھا کہ موت اس کے جسم کی ٹوٹی شاخوں پر ابھی پوری طرح نہیں بیٹھی تھی لیکن اس نے کئی دوسرے جسموں کے کھنڈروں میں اسے منڈلاتے دیکھا تھا۔ ویسے بھی قبر کے بارے میں اس کا اپنا ایک تصور تھا۔ لوگ مکان کا ڈیزائن بڑی محبت اور پیسے خرچ کر کے بنواتے ہیں لیکن قبر کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہ معاملہ ہر شخص دوسروں پر چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن اس کا رویہ اس بارے میں مختلف تھا۔ وہ بچپن ہی سے اپنی قبر، اس کا ڈیزائن اور دوسری باتوں کے بارے میں اس طرح سنجیدگی سے سوچتا جیسے یہ اس کی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہو۔ قبر سے اس کی دلچسپی اس وقت سے شروع ہوئی تھی جب وہ اپنے باپ کے جنازے کے ساتھ قبرستان گیا تھا یا شاید اس سے بھی پہلے ہو۔ لیکن اس کی یادداشت کی البم کی پہلی تصویر اپنے باپ کے جنازے ہی کی تھی۔

قبرستان پہنچ کر لوگوں نے نماز پڑھی تھی۔ پھر اس کے باپ کو قبر میں اتارا گیا تھا۔ جب سلیں رکھنے کی باری آئی تو اچانک کسی کو اس کا خیال آ گیا اور اس نے پکار کر اس سے کہا کہ آؤ آخری بار باپ کا چہرہ دیکھ لو۔ وہ لوگوں کے پیچھے دبکا کھڑا تھا، اس کا نام سنتے ہی سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ ایک بزرگ اسے بڑی شفقت سے پکڑ کر قبر کے قریب لے آیا۔ اس نے جھانک کر دیکھا، باپ کا چہرہ تو اسے نظر نہ آیا لیکن یہ احساس ضرور ہوا کہ قبر کچھ چھوٹی ہے اور اس کے باپ کا جسم اس میں پھنسا پھنسا سا ہے۔ پھر ساری رات اسے یہی احساس ہوتا رہا کہ اس کا باپ قبر کے چوکھٹے میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے پیر اور سر دونوں طرف کی دیواروں میں دھنسے ہوئے ہیں اور وہ دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر اسے بلا رہا ہے۔ قبر کے چھوٹے ہونے اور باپ کے دھنسے رہنے کی یہ تصویر اس کے قد کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ گہری اور واضح ہوتی چلی گئی۔ اس دوران اس کی ماں نے ان کے پڑوسی سے شادی کر لی اور وہ ہائی سکول میں پہنچ گیا۔ اس کا نیا باپ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا۔ لیکن وہ اس کی نفرت کی آگ پر پانی نہ ڈال سکا۔ وہ جب بھی اپنے نئے باپ کو دیکھتا، اسے قبر میں پھنسے ہوئے باپ کے پاؤں یاد آ جاتے۔ اس کی آنکھوں کے صفحوں پر وہ راتیں رینگنے لگتیں ، جب اس کا باپ رات کو کراہ کر پانی مانگا کرتا تھا۔ اس کی آنکھ کھلتی تو ماں موجود نہ ہوتی۔ وہ اٹھ کر باپ کو پانی پلاتا۔ پھر صحن میں آتا۔ لیکن سیڑھیوں میں پھیلی ہوئی آوازوں کے  بھنور اسے واپس کمرے میں دھکیل دیتے۔ ایسی ہی ایک رات کو اس کے باپ نے پانی مانگا اور پھر ہمیشہ کے لیے چپ ہو گیا۔ اس کی ماں کہتی تھی کہ اس کا باپ اسی رات مرا ہے۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ وہ اس سے کئی راتیں پہلے ہی مر گیا تھا، وہ تو اس کی لاش کو پانی پلایا کرتا تھا۔

اور اب کئی سال دیمک لگ لگ کر عمر کی ردّی کی ٹوکری میں گر گئے تھے لیکن اسے اب بھی سوتے ہوئے اپنے باپ کے پاؤں یاد آتے۔ پھر محسوس ہوتا کہ اسے بھی قبر میں اتار دیا گیا ہے۔ قبر چھوٹی ہے لیکن دفن کرنے والے اسے زبردستی ٹھونک ٹھانک کر اس میں فٹ کر گئے ہیں اور سلیں لگا کر بھاگ گئے ہیں۔ گھپ اندھیرے میں اسے اپنے پاؤں دیوار میں پھنسے ہوئے محسوس ہوتے۔ وہ ہل ہل کر انہیں سیدھا کرنے کی کوشش کرتا لیکن پاؤں اور پھنستے چلے جاتے۔ پھر جب اس کی بیوی اس کی بڑبڑاہٹ سن کر بتی جلاتی تو اسے معلوم ہوتا کہ اس کے پاؤں تو کمبل میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ چونک کر بیوی کو دیکھتا اور پھر اس سے پوچھتا۔۔۔

’’ہمارے دائیں طرف کون رہتا ہے؟‘‘

وہ کہتی ’’۔۔۔  آپا صدیقہ‘‘

وہ کہتا۔۔۔  ’’نہیں ،اس کے خاوند کا نام بتاؤ؟‘‘

وہ کہتی۔۔۔  ’’حاجی عبد الغفور‘‘

وہ پوچھتا۔۔۔  ’’اور بائیں طرف‘‘

وہ کہتی۔۔۔  ’’اچھن خان‘‘

اور پھر پوچھتا۔۔۔  ’’اور پچھلی طرف‘‘

وہ کہتی۔۔۔  ’’عبد المجید‘‘

’’اور سامنے‘‘

’’عبد المنان‘‘

’’اور اوپر‘‘

وہ جھنجلا کر کہتی۔۔۔  ’’خدا‘‘

لیکن وہ اس کی جھنجلاہٹ کو محسوس کئے بغیر اسی سنجیدگی سے پوچھتا،’’اور نیچے‘‘

ایک دو منٹ تک اس کی بیوی کو کچھ نہ سوجھتا پھر وہ غصے سے کہتی۔۔۔  ’’قبرستان۔‘‘

قبرستان کا لفظ سنتے ہی اس کے ذہن میں پہلے قبر اور پھر اپنے باپ کے پھنسے ہوئے پاؤں ابھرتے۔ اسے لگتا جیسے قبر کی دیواریں اسے چاروں طرف سے دبا رہی ہیں۔ وہ سکڑتا چلا جاتا، یہاں تک کہ قبر ہی قبر باقی رہ جاتی۔ وہ سوچتا، وہ ہے ہی نہیں اور ساری رات وہ اسی ہے اور نہیں کی کشمکش میں الجھا کبھی کئی سال پیچھے چلا جاتا اور کبھی کئی سال آگے نکل جاتا۔ اسے اپنی ماں یاد آتی اور اس کے ساتھ ہی میٹھے دودھ کی ایک پھوار اس کے پیاسے ہونٹوں کے بنجر کھیتوں کو سیراب کر جاتی۔ پھر سیڑھیوں پر پھیلے ہوئے بھنور اس کے کانوں میں بھوند بھوند سرگوشیاں ٹپکاتے اور قبر کی دیوار میں پھنسے ہوئے باپ کے پاؤں اس کے جسم میں داخل ہو جاتے۔ وہ آنکھیں بند کئے چپکے سے اٹھتا اور دوڑ کر بیوی سے لپٹ جاتا۔ ساری رات ’’ہے اور نہیں ‘‘ کی اسی کشمکش میں وہ کبھی دھندلاتے نقطے بنتا، کبھی گہرا ہوتے ہوتے سارے بستر پر پھیل جاتا اور ایک رات کے بعد دوسری رات اسی طرح جسم کی چادر پر گدگدیاں کرتے ہوئے گزرتی چلی جاتی۔

کئی بار اس نے سوچا، ساری خرابی اس بستر کی ہے جس میں داخل ہوتے ہی اسے قبر یاد آ جاتی۔ پھر کئی بار اس نے سوچا، ساری خرابی اس کی بیوی کی ہے جو سرِ شام ہی منہ لپیٹ کر سو جاتی ہے۔ کئی بار اس نے یہ سوچا کہ ساری خرابی اس کے بیٹے کی ہے جو کتابوں کے صحن سے باہر ہی نہیں نکلتا۔ یا پھر ساری خرابی اس مکان کی ہے جس کی دائیں طرف حاجی عبد الغفور، بائیں طرف اچھن خان، پچھلی طرف عبد المجید، سامنے عبد المنان رہتے ہیں اور اوپر۔۔۔  اوپر نہ جانے کیا تھا لیکن نیچے قبرستان ضرور تھا اور سارا مسئلہ قبر کے خیال سے گڑبڑاتا تھا۔ اس لیے وہ زمین کا ایسا ٹکڑا خریدنا چاہتا تھا جس میں وہ اپنی مرضی سے مکان بنوائے اور اس کے نیچے اپنی مرضی کی قبر۔

لیکن زمین خریدنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ بس میں تو شاید کچھ بھی نہیں تھا۔ ساری زندگی دوسروں نے ہی اس پر حکومت کی تھی۔ پہلے وہ ماں سے ڈرتا تھا اب بیوی سے اور مرنے کے بعد فرشتوں کا خوف تھا جو قبر میں اس کا حساب لینے آئیں گے۔ خوف، خوف۔۔۔  خوف۔ اس نے زندگی کی ٹرے سے بس ایک ہی چیز چنی تھی، باقی ساری چیزیں تو اسے سیکنڈ ہینڈ ہی ملی تھیں۔ شوکیسوں میں لگی ہوئی چیزوں کو تو وہ للچا للچا کر دیکھ ہی سکتا تھا اور پھر جب یہی چیزیں پرانی ہو کر شوکیسوں سے نکل کر ہر مال دو دو روپے والی ریڑھی پر آتیں تو اس کے نام کی چٹ بھی نکل آتی۔ اس کے گھر کی ہر شے، جس میں اس کی بیوی بھی شامل تھی، سیکنڈ ہینڈ اور ہر مال دو دو روپے والی ریڑھی سے خریدی ہوئی تھیں۔

کبھی کبھی اسے خیال آتا، وہ اپنا باپ ہے اور اس کی بیوی اس کی ماں ہے۔ اس کی ماں ایک بڑے گھرانے کی بیٹی تھی۔ اس کی شادی اس غلط فہمی میں ہو گئی کہ اس کے باپ کے ظاہری رکھ رکھاؤ کے پیچھے ایک بڑی جائیداد ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ لیکن اس کے باپ کے گھر میں قدم رکھتے ہی اسے معلوم ہو گیا کہ وہ تو سفید پوش ہے اور یہ بات وہ ساری زندگی نہ بھولی۔ وہ جب بھی لفظوں کو چوس چوس کر ان کا پھوگ اس کے باپ کے ننگے منہ پر مارتی تو اس کا باپ سہم جاتا اور قطرہ قطرہ زمین پر ٹپکنے لگتا۔ زمین پر گرتے ہی اسے معلوم ہو جاتا کہ یہ اس کا باپ نہیں بلکہ وہ خود ہے۔ پھر اس کی بیوی سارے کمرے میں ناچتی اور پہلوانوں کی طرح دونوں رانوں پر ہاتھ مار مار کر اسے مقابلے کی دعوت دیتی۔ وہ اٹھنے کی کوشش کرتا تو معلوم ہوتا کہ اس کے دونوں پاؤں تو قبر کی دیوار میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پھر قبر سکڑنے لگتی۔ اس کے جسم کی ہڈیاں دیواروں کے بوجھ سے کڑکڑا کر ٹوٹنے لگتیں اور ایک اداس لَے اس کے ہونٹوں کی بانسری پر ابلنے لگتی۔۔۔  پھر سل رکھنے کی آواز، دوسری سل، تیسری سل اور پھر مٹی کا ایک ڈھیر۔

صبح جب وہ بستر سے اٹھتا تو سارا جسم مٹی میں لتھڑا ہوا ہوتا، پاؤں دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر زخمی اور زمین کا ٹکڑا لینے کی خواہش کبوتر کی طرح اس کے دل میں پھڑپھڑانے لگتی۔

اور آنے والی رات بیوی سے وہی مکالمہ

ہماری دائیں طرف کون رہتا ہے؟

بائیں طرف کون ؟

اور اسی مکالمے کے دوران، جس کے لفظ ہمیشہ ایک ہی ہوتے، اس کا بیٹا سکول سے کالج میں پہنچ گیا۔ ڈرائنگ روم میں پرانی کرسیوں کی جگہ نئے ڈیزائن کے صوفے نے لے لی۔ دری کی جگہ قالین بچھ گیا۔ لیکن زمین خریدنے کی خواہش اسی طرح پھیلتی رہی۔ وہ ہر ایک ملنے والے سے کہتا، مجھے کوئی سستی سی زمین لے دو، میں مکان بنانا چاہتا ہوں۔ لیکن زمین کے ٹکڑے آسمان کے ٹکڑوں جتنے مہنگے تھے۔ ان کی قیمت سن کر اس کا دل نارسائی کی مٹھیوں میں سکڑنے لگتا اور ایک بھیگی تمنا ہونٹوں کی وادیوں میں ٹمٹمانے لگتی۔ زمین خریدنے کی خواہش دیمک بن کر اس کے جسم کو اندر ہی اندر کھوکھلا کئے جا رہی تھی۔ کئی بار اس نے کوشش بھی کی کہ خواہش کے اس پرندے کو پکڑ کر اس کے پَر نوچ ڈالے لیکن وہ جب بھی اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھتا، پرندہ ایک ڈالی سے اُڑ کر دوسری ڈالی پر جا بیٹھتا۔ دو ایک بار اس نے جھپٹا مار کر اسے دبوچنے کی کوشش بھی کی تھی۔ لیکن دو ایک پروں کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہ آتا۔

پرندہ اسی طرح پھدکتا رہا اور اس کی زندگی کی میز سے کئی اور سفید کاغذ لفظوں کے حمل سے کالے ہو کر وقت کی ویسٹ پیپر باسکٹ میں جا گرے۔ ایک صبح سے دوسری صبح تک وہی تکرار۔۔۔  وہی خواہش اور ہر رات سونے سے پہلے وہی مکالمہ،

ہماری دائیں طرف کون رہتا ہے؟

بائیں طرف

پچھلی طرف

سامنے

اوپر

اور نیچے

قبرستان کے ساتھ ہی قبر کا تنگ دہانہ اور دیواروں میں پھنسے ہوئے پاؤں

اور دن کے رسے پر ایک صبح سے دوسری صبح کو گود میں چھلانگ لگاتے ہوئے کئی باتیں اِدھر اُدھر ہو گئیں۔

ایک ایسی ہی صبح جب وہ ابھی جسم سے اندھیرے کی گرد جھاڑ کر ناشتہ کی میز پر آیا ہی تھا کہ اس کا ایک دوست آ گیا اور آتے ہی بولا۔

’’لو بھئی خوش ہو جاؤ، ایک بہت سستی زمین مل گئی ہے۔‘‘

اس نے کہا۔۔۔  ’’تو لے لو۔‘‘

دوست نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’میں تمہارے لیے کہہ رہا ہوں۔‘‘

’’لیکن میں زمین لے کر کیا کروں گا؟‘‘۔۔۔  اس نے توس پر مکھن لگاتے ہوئے کہا۔

دوست حیرت کی پھلجھڑیوں کی چنگاریوں سے خود کو بچاتے ہوئے ایک دو لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔۔۔  ’’خود ہی تو کہتے تھے کہ مکان بناؤں گا۔ یہ مکان تو کرائے کا ہے نا۔۔۔ ‘‘

 وہ کچھ دیر چپ رہا پھر آہستگی سے کہنے لگا۔۔۔  ’’دراصل میں نے اسی مکان کے نیچے قبر بنا لی ہے، خوب لمبی چوڑی ہے۔ اتنی کہ اس میں آسانی سے اٹھا بیٹھا اور چلا پھرا جا سکتا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

شناسائی، دیوار اور تابوت

جب ڈاکٹر اس کی آنکھوں کی مومی گلیوں میں منظروں کے لُک چھپ جانے کا تماشا کر چکا تو اس نے اسے یہ خبر سنائی کہ اس کی آنکھوں کی آرٹ گیلری میں زندگی کی رنگا رنگ تصویریں ابھی دھندلائی نہیں۔

ڈاکٹر کی بات سن کر وہ پنجوں کے بل کرسی کی گود میں سے نکلا اور کمرے کی دیوار پر چڑھنے لگا۔ پھر چھت سے لٹک کر اس نے کلکاری ماری اور کہنے لگا۔۔۔  ’’تو پھر میر ی بیوی میری بات کی تصدیق کیوں نہیں کرتی؟‘‘

’’کس بات کی تصدیق؟‘‘ ڈاکٹر اس کی آوا ز کے گیند کو دبوچتے ہوئے بولا۔

’’یہی کہ ہمارے گھر کی دیواروں پر بے رخی کی کونپلیں اگ آئی ہیں اور چھت سے اجنبیت کے ذرّے جھڑتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر کی آنکھوں میں حیرت کی شمعیں پھڑپھڑائیں۔۔۔  ’’میں سمجھا نہیں۔‘‘

اس نے کمرے کی چھت پر ایک چکر لگایا اور بولا۔۔۔  ’’آپ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ۔۔۔ ‘‘

پھر دفعتاً اس نے چونک کر اپنے آپ کو آوا ز دی اور دوڑ کر ہونٹوں کے ہارمونیم پر آئے ہوئے باقی کے جملے کی گردن مروڑ دی۔ جملہ ٹوٹ کر فرش پر گر گیا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھایا اور ٹوٹے ہوئے جملے کو ڈاکٹر کی جیب میں ٹھونس کر اسے حیرت کی گلیوں میں اکیلا چھوڑ کر باہر نکل آیا۔

بڑی سڑک پر زندگی بدستور گھسٹ رہی تھی۔ اس کے تلوؤں نے سڑکوں کی مانوسیت کو بوسہ دیا اور اس کے پاؤں خود بخود دفتر کی طرف چل پڑے۔ آج کل اسے بار بار احساس ہو رہا تھا کہ وہ ایک مشین کی طرح ہے جس کا کنٹرول سوئچ صبح نو بجے سے شام چار بجے تک دفتر کی عمارت میں ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ دفتر کا موڑ مڑنے لگا تو خیال کی ریت اس کے ذہن کی خالی تھالی میں سر سرائی۔ کیوں نہ میں بیوی کو بتاتا چلوں کہ میری آنکھوں کے ڈربوں میں ابھی بے بسی کے کبوتر نہیں پھڑپھڑائے اور آج تو اس کی رسی بھی اتنی لمبی تھی کہ ڈاکٹر سے ہوتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لیے کہیں بھی جا سکتا تھا۔

گھر کی طرف جاتے ہوئے اسے پھر ٹیڑھی دیواروں اور لمحہ بہ لمحہ سرکتی چھت کا خیال آیا۔ وہ جب گھر آتا تو اس کی بیوی کی گرم گداز بانہیں اس کے جسم پر بسی ہوئی دفتری بوریت کی تہوں کو کھرچ کھرچ کر اتار دیتیں اور اس کی بیوی کے بدن میں دہکتی ہوئی بھٹی، اس کے ذہن کے تالاب پر منڈلاتی خیالوں کی مکڑیوں کو پل بھر میں پگھلا دیتی، وہ اچھل کر بچوں کی طرح تالیاں بجاتے ہوئے ناچتا۔۔۔  اور ناچتے ناچتے نیند کی دلدلوں میں ڈوب جاتا۔

صبح کرنوں کی کرین اسے نیند کی گہری دلدلوں سے باہر نکالتی۔۔۔  جب وہ باہر جانے کی تیاری کر رہا ہوتا تو اس کی بیوی اپنی توجہ کا سائبان  اس پر یوں تان دیتی کہ گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک اسے دیکھتی ہی رہ جاتی۔

اس کی بچی توتلی زبان میں اسے بار بار یاد دلاتی کہ واپسی پر اسے کیا کیا لانا ہے اور پھر جب نو کا ہندسہ سوئیوں کو اپنی گو دمیں سمیٹ لیتا تو وہ ہڑ بڑا کر سائبان میں نکل آتا، لیکن اس کی بیوی اسے پھر اندر گھسیٹ لیتی اور کہتی۔۔۔  ’’گھڑی تو دس منٹ آگے ہے۔ دس منٹ تو رک جائیے۔‘‘

اور وہ یہ جانتے بھی کہ گھڑی کی سوئیاں صحیح وقت کی گواہیاں دے رہی ہے، دس منٹوں کے لیے بیوی کے آنچل میں لپٹا رہتا۔ اس کی بیوی اور بچی اسے دروازے تک چھوڑنے آتیں اور جب تک وہ گلی سے باہر نہ نکل جاتا، ہاتھ ہلاتی رہتیں۔ اور یہ وہ زمانہ تھا جب اس کے گھر کی دیواروں سے خوشبو کے رنگ برسا کرتے تھے، لیکن ایک رات لیٹے لیٹے اس کی نظر دیواروں پر پڑی تو وہ چونک اٹھا۔ دیواریں ٹیڑھے پن کی بے رنگیوں میں ڈوب رہی تھیں اور چھت ان کے ہاتھوں سے سرک رہی تھی۔ اس نے گھبرا کر بیوی کی طرف دیکھا جو منہ دوسری طرف کئے سور ہی تھی۔

اسی رات تنہائی نے اس پر پہلا فائر کیا۔

ایک لمحے کے لیے اسے وہ راتیں یاد آئیں جب بستر پر لیٹتے ہی اس کی بیوی اپنے بدن کی چادر پھیلا دیتی تھی، لیکن اب اس کی بیوی لیٹتے ہی سو جاتی تھی۔

اس نے جھک کر بیوی کے چہرے کو کریدنا چاہا لیکن اس کے سپاٹ چہرے پر کوئی موڑ نہیں تھا۔ ہاں اب بہت دنوں سے اس کی بیوی کے چہرے پر کوئی موڑ نہیں۔ لیکن شروع شروع میں ان دونوں کے چہرے پر اتنے موڑ اور سلوٹیں تھیں کہ وہ پہروں ایک دوسرے کے چہروں کی انجان نیم تاریک گلیوں میں کھوئے رہتے تھے، لیکن اب اس کی بیوی کا چہرہ ایک ایسے میدان کی طرح ہے جس کا ایک ہی چکر کاٹ کر وہ اُکتا جاتا ہے۔ اور اس کا جسم۔۔۔  اس کی طنابیں اب ڈھیلی پڑ گئیں ہیں اور جسم کا خیمہ ڈولنے لگا ہے۔

اس کی گھر کی دیواروں کے گھونسلوں میں اجنبیت کے کبوتر غٹر غوں ، غٹر غوں کر رہے ہیں۔ گھر کی طرف جاتے ہوئے اسے پھر ٹیڑھی دیواروں اور لمحہ بہ لمحہ سرکتی چھت کا خیال آیا۔ اسے یاد آیا کہ جس رات اس نے پہلی بار دیواروں پر اجنبیت کے جلتے بجھتے نیون سائن کی تحریر پڑھی تھی، اس نے بیوی کو جھنجوڑ کر نیند کی گود میں سے باہر کھینچا تھا۔

وہ ہڑ بڑا کر اٹھی۔۔۔  ’’کیا ہوا؟‘‘

’’دیکھو۔۔۔  دیکھو۔‘‘ اس نے دیواروں اور چھتوں کی طرف اشارہ کیا، ’’ہمارے گھر کی دیواریں اپنے سائے سمیٹ رہی ہیں۔‘‘

بیوی کے چہرے پر بے یقینی کے آنچل نے ایک لمحہ کے لیے سایہ کیا، پھر وہ اسے بچے کی طرح تھپکی دیتے ہوئے بولی۔۔۔  ’’سو جاؤ۔ شاباش۔۔۔  سو جاؤ۔‘‘

کچھ دیر بعد وہ تو سو گئی مگر وہ ساری را ت اجنبیت کے پنگوڑے میں ہچکولے کھاتا رہا کہ کسی بھی لمحے چھت دیواروں کی بانہوں سے پھسل کر اس کی جھولی میں آن گرے گی۔ صبح اس نے پھر دیواروں کی چھت پر پھوٹتی ہوئی ٹیڑھے پن کی کونپلوں کا ذکر چھیڑا، لیکن اس کی بیوی نے بات کو سمیٹ کر صحن کی نالی میں پھینک دیا اور بولی۔۔۔  ’’دفتر سے دیر ہو رہی ہے۔‘‘

اس نے گھڑی کی طرف دیکھا، نو بجنے میں ابھی دس منٹ تھے۔

’’ابھی تو دس منٹ ہیں۔‘‘ اس نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا۔

’’گھڑی پیچھے ہے۔‘‘بیوی نے گھڑی کی ٹک ٹک کو پہیے لگا دئیے اور اسے دروازے سے باہر دھکیل دیا۔

اور اب اس کی بیوی نو بجنے سے پہلے ہی اسے دفتر سے دیر ہو جانے کا احساس دلانے لگتی ہے اور اگر وہ دیواروں اور چھت کا ذکر کرتا ہے تو اَن سنی کرتے ہوئے بے شمار مسئلوں میں سے کسی کا ذکر چھیڑ دیتی ہے۔

ایک دن جب اس نے اصرار سے بیوی کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کے گھر کی دیواریں روز بروز اپنی جڑیں چھوڑتی جا رہی ہیں ، تو اس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس جائے۔ یوں بھی پچھلے کئی دنوں سے رات کو دیر تک جاگنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں دئیے جلنے لگے تھے۔ اس لیے جب بیوی نے اسے یہ مشورہ دیا تو اگلے ہی دن وہ آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس چلا آیا۔ لیکن اب گھر کی طرف جاتے ہوئے اسے اچانک خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کی بیوی کی آنکھوں میں دھندلاہٹیں گنگنا رہی ہوں اور دیواریں اور چھت سچ مچ سرک رہے ہوں۔ یہ خیال آتے ہی اس کی مٹھیاں جوش کی پھسلن سے کھل گئیں۔۔۔  یقیناً یہی بات ہے۔ اس لیے اس کی بیوی کو دیواروں کا ٹیڑھا پن نظر نہیں آتا اور اسی لیے صبح نو بجے سے پہلے ہی نو کا اعلان کر کے اسے دفتر کی پیاسی، بھوکی بانہوں میں دھکیل دیتی ہے۔ اور شاید اسی لیے اس کے جسم کی چادر میں سے خوشبو کی گرم بھاپ نہیں اٹھتی، اسی لیے وہ بستر پر گرتے ہی سو جاتی ہے، اتنی جلدی کہ پہلے کی طرح اس کے سونے کا بھی انتظار نہیں کرتی۔

ہاں یقیناً اس کی بیوی کی آنکھوں میں دھندلاہٹ گنگنا رہی ہے۔

گھر کی دہلیز کو چھوتے ہی اس نے چیخ کر بیوی کو پکارا۔۔۔  ’’لو بھئی، میں تو دھندلاہٹ کے سیلاب سے نکل آیا ہوں ، اب تم۔۔۔ ‘‘

لیکن اس کا جملہ ٹوٹ کر گہری اجنبیت کی گود میں گر پڑا جس نے سارے گھر کو اپنی بکل میں دبا رکھا تھا۔ تنہائی نے مورچہ لگا کر اس پر چاروں طر ف سے فائرنگ شروع کر دی تھی۔ اسے وہ دن یاد آئے جب وہ گھر لوٹتا تو اس کی بیوی ڈیوڑھی میں اس کی منتظر ہوتی۔ کئی بار اس نے حیرت سے پوچھا بھی تھا۔۔۔  ’’تمہیں کیسے معلوم ہوتا ہے کہ میں آ رہا ہوں ؟‘‘

اس کی بیوی جواب دیتی۔۔۔  ’’جب تم گلی میں داخل ہوتے ہو تو مجھے تمہاری خوشبو آ جاتی ہے۔‘‘

اور اب وہ اکیلا ڈیوڑھی کے تابوت میں کھڑا اجنبیت کی اس دھند کو چیرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ دفعتاً ایک سریلی آواز صحن کی دیواروں سے رسنے لگی۔ وہ لپک کر صحن میں گیا اور ٹھٹک کر رہ گیا۔

صحن کی دیوار پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے چاروں ہاتھوں میں مختلف ساز تھے۔ وہ ان سب کو بیک وقت بجا رہا تھا اور اس کی بیوی سارے صحن میں ناچتی پھر رہی تھی۔ اس نے اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے سارے جسم پر آنکھیں ہی آنکھیں۔۔۔  ہونٹ ہی ہونٹ۔۔۔  اور ہاتھ ہی ہاتھ تھے۔

وہ تو آواز تھا۔۔۔  سراپا آواز۔

تنہائی، دکھ، شرم اور شکست کے کئی ملے جلے احساسوں کی چیونٹیوں نے اس کے تلوؤں میں کاٹنا شروع کر دیا۔ اسے لگا کہ جیسے وہ لڑکھڑا کر دیوار سے جا لگا ہے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اچھل کر پرے ہٹ گیا اور خاموشی سے باہر نکل آیا۔

دفتر جانے کی بجائے وہ سارا دن شہر کی سڑکوں پر لوگوں کے چہرے گنتا رہا۔ شام کو جب وہ معمول کے مطابق گھر آیا تو بیوی نے کھانا اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے کَن انکھیوں سے دیکھا، بیوی کے چہرے پر کوئی غیر معمولی تاثر نہیں تھا۔ اس نے خاموشی سے لقمہ توڑا اور ایک لمحے کے لیے اسے وہ دن یاد آئے جب اس کی بیوی اس کے انتظار میں کھانا نہیں کھاتی تھی۔

کھانے کے بعد وہ خاموشی سے کمرے میں چلا گیا۔ اس کی بیٹی اسکول کا کام کر رہی تھی۔ وہ دیر تک اخبار کی سرخیاں کھرچتا رہا۔ اس دوران اس نے بار بار صحن کی دیوار کی طرف دیکھا، وہ خالی تھی۔ پھر اس نے گھرکی ایک ایک دیوار ٹٹولی، بے رخی کی کونپلیں اب لہلہا کر درخت بن گئی تھیں اور اجنبیت کی سفیدی موسلا دھار بارش کی طرح چھت سے گر رہی تھی۔

وہ بے دم ہو کر کرسی کی قبر میں گر پڑا۔

رات کو وہ جب سونے لگے تو بیوی نے پوچھا۔۔۔  ’’ڈاکٹر نے کیا کہا؟‘‘

’’ملا نہیں۔‘‘ اس نے آنکھیں کھولے بغیر کہا اور پہلو بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن نیند نہیں آئی۔ وہ ساری رات آنکھوں کے سامنے پھڑپھڑاتی ہوئی نیند کی لاش کو آنکھوں کے تابوت میں دفن کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن آوا ز کی رسی سے لٹکتی ہوئی نیند کھلکھلا کر بھاگ جاتی۔۔۔  پھر اس نے صحن کی دیوار پر بیٹھے ہوئے شخص کو پکڑنے کی کوشش کی۔ لیکن جونہی اس کی بانہیں اس کے قریب پہنچتیں ، وہ کبھی پھیل کر کبھی سمٹ کر۔۔۔  کبھی سمٹ کر کبھی پھیل کر۔۔۔  اس کی بانہوں کی پرکار سے باہر نکل جاتا۔

صبح جب اس کے جسم کا ڈبہ دفتر جانے والی لائن پر پھسلنے لگا تو بیوی نے اسے یاد دلایا کہ اسے ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہے، وہ جواب دئیے بغیر گلی میں آیا لیکن جب دفتر کامو مڑنے لگا تو خود بخود اس کے پاؤں گھر کی طرف اٹھ گئے۔

دہلیز پر کھڑے ہو کر اس نے اندر کی ایک ایک شے کو سونگھا، اس کا گھر اسی طرح اجنبیت کی بکل میں سر رکھے سو رہا تھا۔ وہ دبے پاؤں ڈیوڑھی میں آیا۔ آواز صحن کی دیواروں سے رِس رہی تھی۔

اس نے اندر جھانکا۔۔۔  وہ شخص صحن کی دیوار پر بیٹھا اپنے چاروں ہاتھوں سے مختلف ساز بجا رہا تھا اور اس کی بیوی سارے صحن میں ناچتی پھر رہی تھی۔

اس نے پھر دیوار پر بیٹھے ہوئے شخص کا چہر ہ دیکھنے کی کوشش کی، لیکن اس کا کوئی چہر ہ نہیں تھا۔ اس کے جسم پر ہونٹوں کی جھاڑیوں ، کانوں کے کاسوں ، آنکھوں کی کھڑکیوں اور ہاتھوں کے جنگل کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔

ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ دوڑتا ہوا جائے اور دیوار سے گھسیٹ کر اس کا گلہ گھونٹ دے۔۔۔  لیکن دوسرے ہی لمحے اس کے اٹھے ہوئے قدم ہوا ہی میں منجمد ہو گئے، اگر کسی نے دیکھ لیا۔۔۔  وہ لوگوں کی آنکھوں کی عدالت میں تنہا کھڑا تھا۔

اس نے کوٹھے کی طرف دیکھا جس کی منڈیروں سے سناٹا جھانک رہا تھا۔ لیکن کیا معلوم عین اس وقت کوئی آ جائے۔۔۔  تو پھر، تو پھر وہ دبے پاؤں کوٹھے پر آیا۔

منڈیروں پر اٹھکیلیاں کرتی سورج کی کرنیں اسے دیکھ کر سایوں کے آنچل میں سمٹ گئیں۔ اس میں نے آہستہ سے سر نکال کر پڑوس والے صحن میں جھانکا اور اس کے ہونٹوں کے تابوت میں چیخ کی ممی پھڑپھڑا کر رہ گئی۔

ساتھ والے صحن کی دیوار پر بھی وہ موجود تھا اور پڑوس والے کی بیوی اس کی لَے پر ناچ رہی تھی۔

وہ دوڑ کر دوسری طرف گیا۔۔۔  تیسری طرف پھر چوتھی طرف۔۔۔  اس کے سارے جسم پر آنکھیں اور کان اگ آئے۔

آواز کے رنگ اِس سرے سے اُس سرے تک سارے صحنوں کی دیواروں پر آنکھ مچولی کھیل رہے تھے اور صحن صحن سبھی اپنے کانوں کے کاسے پھیلائے آواز کے شہد کو بوند بوند سمیٹ رہی تھیں۔

اس کے ڈگمگاتے قدم سنبھل گئے۔

تو میں اکیلا نہیں۔

اس نے سر ہلایا اور چپ چاپ باہر آگیا۔

شام کو جب وہ گھر آیا تو کھانا کھاتے ہوئے اس نے بیوی سے کہا۔۔۔  ’’ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میر ی آنکھوں میں دھندلاہٹوں نے خیمے گاڑ لیے ہیں۔‘‘

بیوی نے تشویش سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’تو آپ عینک لگوانے میں دیر نہ کرو۔‘‘

دوسرے دن جب وہ زیرو کی عینک لگا کر گھر آیا تو بیوی کے چہرے پر اطمینان کنڈل مارے بیٹھا تھا۔ کہنے لگی، ’’اب تو تمہیں ٹھیک نظر آتا ہے نا؟‘‘

’’ہاں ‘‘۔۔۔  اس نے ٹیڑھی دیواروں اور سرکتی ہوئی چھت پر اگی ہوئی بے رخی اور اجنبیت کی لہلہاتی فصلوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔  ’’اب سب کچھ ٹھیک ہے۔‘‘

اور اس نے سر ہلایا۔۔۔  ’’ٹھیک ہے، شاید ٹھیک ہی ہے۔‘‘

٭٭٭

 

ڈوبتی پہچان

سورج جب قبرستان کے گھنے درختوں سے الجھتا رینگ رینگ کر اپنے بل میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا، مستری نے قبر کام کام مکمل کر لیا۔

پچھلے کئی مہینوں سے اس کی یہ خواہش تھی کہ ماں کی قبر پکی کرائے لیکن خالی جیبیں اس خیال کو تھپتھپا کر آنے والے دن کی جھولی میں ڈال دیتیں۔ وہ اندر اندر ہی سلگ سلگ کر خیالوں ہی خیالوں میں کبھی اینٹیں کبھی سیمنٹ کبھی ریت خریدتا، نام کی خوبصورت سی سل بنواتا اور سونے سے پہلے اس خیال کو پوری توجہ سے آنے والے دن کی جیب میں ڈال دیتا۔ بہت دن ہوئے اس کے ڈرائنگ روم میں ایک تصویر تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ اس کی ماں کی تصویر ہے، لیکن کچھ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی خیالی تصویر ہے۔۔۔  تصویر میں ایک عورت غم میں گندھی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے خالی منظر کو گھور رہی تھی۔ خالی یوں کہ منظر میں جو وادی تھی، وہ اپنے دریاؤں کے باوجود دست بدعا تھی۔ وہ اس تصویر کے بارے میں جاننے کا شوق تو رکھتا تھا اور یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس تصویر کی وادی اتنے سارے دریاؤں کے باوجود کسی بنجر دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ دریاؤں کا پانی سوکھ کیوں گیا ہے اور زمین کے ہاتھ خالی کیوں ہوئے جا رہے ہیں ؟ لیکن اس کے لیے اس نے کبھی لمبی چوڑی چھان بین نہیں کی۔ ایک دو بار ماں سے پوچھا مگر وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکی، بلکہ الٹا اس سے پوچھ بیٹھی کہ وہ تصویر کے بارے میں اتنا متجسّس کیوں ہے۔

جب کبھی وہ ڈرائنگ روم میں اکیلا ہوتا، تصویر اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی۔ وہ اس کے خطوط میں شناسائی کی روشنی تلاش کرتا۔ بہت پہلے جب وہ چھوٹا تھا، اس نے اپنے باپ سے بھی یہی سوال کیا تھا۔ باپ نے جواب دینے کی بجائے الٹا اسے تیز نظروں سے گھورا اور کہا۔۔۔  ’’تم اپنی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہے۔‘‘

جس دن اس کا باپ فوت ہوا، تصویر بلک بلک کر روئی۔ لیکن اس وقت اسے اپنا ہوش نہیں تھا۔ وہ خود چھلک چھلک کر رو رہا تھا۔ بعد میں دوسرے تیسرے دن جب لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے تو اس نے ماں کو بتایا کہ تصویر بھی روئی تھی۔۔۔  ماں ہنس پڑی۔۔۔  ’’پگلے، کہیں تصویریں بھی روتی ہیں۔‘‘ ماں کی ہنسی گہرے غم میں گندھی ہوئی تھی۔ اسے یقین نہیں آیا۔ وہ کچھ کہے بغیر ڈرائنگ روم میں چلا آیا اور تصویر کے سامنے کھڑا ہو کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ آنکھیں صاف دھلی ہوئی تھیں۔ اسے شبہ سا ہوا کہ ان میں نمی تیر رہی ہے اور منظر اپنی وادی سمیت بھوک کی دھند میں لپٹا اپنی پہچان کھو رہا ہے۔ وہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا اور غور سے تصویر کو دیکھنے لگا۔ ایک عورت ہونٹوں پر غم میں گندھی مسکراہٹ سجائے سامنے کے منظر کو دیکھ رہی تھی۔ وادی جس کی راہیں خشک ہوئی جا رہی تھیں اور ہونٹوں پر نفرتوں کی پپڑیاں جم رہی تھیں۔ وہ اونگھ گیا۔

اس کی ماں مر رہی تھی اور تصویر بلک بلک کر رو رہی تھی۔ وہ ہڑ بڑا کر جا گ اٹھا۔ جس دن برسات کی پہلی جھڑی لگی، وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا۔ بار بار خیال آتا کہ پانی قبر میں گھس گیا ہے اور ماں سردی سے ٹھٹھرتی دیوار سے لگی اسے آوازیں دے رہی ہے۔ صبح ہوتے ہی وہ بارش میں بھیگتا قبرستان آیا۔ قبر ٹھیک ٹھاک تھی۔ لیکن اسے شبہ رہا کہ پانی کہیں نہ کہیں سے رِس رِس کر اندر جار ہا ہے۔ وہ گورکن کی کوٹھڑی میں پہنچا۔ وہ چائے پی رہا تھا۔ اس کی بات سن کر اس نے مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور بولا۔۔۔  ’’فکر نہ کرو، پانی اندر نہیں جا سکتا۔‘‘

’’پھر بھی کسی اور طرف سے۔۔۔  میرا مطلب ہے نیچے ہی نیچے کہیں سے۔‘‘ گورکن دو تین لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر کہنے لگا۔۔۔  ’’اچھا، بارش بند ہو جائے تو میں تھوڑی سی مٹی اور ڈال دوں گا۔ ‘‘

وہ اطمینان سے سر ہلاتا واپس آگیا۔ اگلے دن بارش پھر ہوئی اور زور و شور سے ہوئی۔ وہ بھیگتا بھیگتا صبح سویرے قبرستان آیا۔ بہت سی قبریں بیٹھ گئی تھیں مگر اس کی ماں کی قبر اسی طرح تھی۔ پھر بھی اسے شبہ ہوا کہ وہ بیٹھ رہی ہے۔ گورکن اس کی بات سن کر بولا۔۔۔  ’’تو پھر پکی کرالو۔‘‘ ’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ واپس آتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا۔ لیکن قبر پکی کرانے کے لیے اس کے پاس پیسے جمع نہ ہو سکے۔ بارشیں روز ہوتیں۔ وہ قبرستان جاتا، ہر روز کچھ اور قبریں بیٹھ جاتیں۔ اس کی ماں کی قبر بھی خاصی نیچی ہو گئی تھی۔ تاہم ابھی اس کی شکل و صورت قائم تھی۔ ساری رات اسے یہی احساس رہتا کہ پانی بوند بوند اندر جا رہا ہے اور اس کی ماں سردی سے ٹھٹھری دیوار سے لگی اسے آوازیں دے رہی ہے۔ تصویر نے بھی چپ سادھ رکھی تھی۔ غم میں گندھی مسکراہٹ پتھر ہو گئی تھی۔ شاید اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا ہے، لیکن پیچھے تو گہرا اندھیرا ہے اور آگے دھند ہی دھند۔۔۔  دھند۔ اس دھند میں سنبھل سنبھل کر قدم قدم چلتا، وہ گھوم پھر کر اس غم آلود مسکراہٹ کی چار دیواری میں لوٹ آتا۔ کبھی تو یہ مسکراہٹ غم کی قید سے آزاد ہو گی۔ وہ سوچتا اور ہر صبح تصویر کی دہلیز پر آ کھڑا ہوتا۔ لیکن مسکراہٹ اسی طرح غم آلود، سامنے کا منظر اداس، وادی کے بلکتے بھوکے چہرے، ویران مسکراہٹ غم آلود، منظر کا چہرہ اداس، ضرورتیں نوکیلے ناخنوں سے اس کے جس کو مسلسل ادھیڑ رہی تھیں۔ تھکی انگلیوں سے جینے کی موہوم امیدوں کو ٹٹولتا وہ بے دم ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اگر تصویر بیچ ڈالے تو ڈھیر سارے روپے مل سکتے ہیں۔ ایک دوست نے ایک بار کہا تھا۔۔۔  ’’اس تصویر کو کوئی غیر ملکی مہنگے داموں خرید لے گا۔‘‘

تصویر بیچنے کا خیال شاید اسی دن پیدا ہو گیا تھا۔ یہ اور بات کہ اس وقت اسے یہ بات اتنی بری لگی کہ وہ اس دوست سے سچ مچ لڑ پڑا۔ مسکراہٹ غم آلود، سامنے کا منظر دھندلا، ضرورتوں کے ہاتھ لمبے اور لمبے ہوتے چلے گئے۔ اس نے ایک دن چپکے سے تصویر بیچ ڈالی۔

ڈھیر سارے پیسے ملے تو خالی ہاتھ سمٹ گئے اور آسائشیں خود بخود اس کی دسترس میں چلی آئیں۔ دن کی سختی میں نرمی آ گئی۔۔۔  لیکن رات کو تصویر کی خالی جگہ دیکھ کر اس کی ماں آ کھڑی ہوتی اور غم آلود مسکراہٹ کے ساتھ بڑی حسرت سے اسے دیکھتی رہتی۔ اس نے سوچا کہ اس کی وجہ جگہ کا خالی ہونا ہے۔ سو اس نے وہاں کیلنڈر لگا دیا۔ کیلنڈر لگنے سے دن اور مہینے اس کی مٹھی میں آ گئے۔ ماں اب خواب میں آنے لگی۔ وہی غم آلود مسکراہٹ اور حسرت بھری نظریں۔ اس نے سوچا شاید ماں قبر میں خوش نہیں۔ قبر پکی کروانے کا خیال پھسل کر اس کے پورے وجود پر چھا گیا۔ قبر پکی کرنے کا کام اگلے دن شروع ہو گیا۔ دو مستریوں نے شام تک کام کر لیا۔ نام کی سل بھی لگ گئی۔ اس رات وہ عجیب طرح کی نیند سویا۔ خواب میں اس نے دیکھا، وہ بہت بڑے کمرے میں دوڑ رہا ہے۔ دھند گہری ہو گئی ہے اور دیواریں ، فرش، چھت سب اس دھند میں گم ہوئے جار ہے ہیں۔ صبح سویرے اس نے اگر بتیوں کا پیکٹ لیا اور قبرستان کی طرف چل پڑا۔ قبر پر اگر بتیاں لگا کر جب اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اچانک ایک شبہ نے سر سرا کر اس کے ہاتھوں کو ڈس لیا۔ اسے احساس ہوا کہ یہ تو اس کی ماں کی قبر نہیں ہے۔ اس کی ماں کی قبر تو ساتھ والی ہے جو اسی طرح کچی ہے۔ یہ غلطی کس سے ہوئی۔ اس سے یا مستریوں سے۔ یقیناً یہ مستریوں کی غلطی ہے۔ وہ انہیں قبر دکھا کر چلا گیا تھا، انہوں نے غلطی سے ساتھ والی قبر پکی کر دی۔۔۔  اب کیا ہو۔۔۔  کیا ہو؟

سارا دن ماں بوند بوند اس کی آنکھوں کے کٹوروں میں اترتی رہی۔ دوسرے دن مستری ساتھ والی قبر پکی کر رہے تھے۔ شام کو اس نے غور سے قبر کا جائزہ لیا۔۔۔  ہاں یہ اس کی ماں ہی کی قبر ہے۔ اگلی صبح اگر بتیاں جلا کر وہ دعا مانگ کر واپس مڑنے لگا۔ تو شک رینگ رینگ کر پھر اس کے ذہن میں اتر آیا۔ یہ قبر بھی اس کی ماں کی نہیں۔ اس نے غور سے دونوں پکی قبروں کو دیکھا۔ دونوں میں سے کوئی بھی اس کی ماں کی قبر نہیں ہے۔ وہ تو ان سے اگلی قبر ہے۔ شک اور یقین کی اس دھند میں تیسری، چوتھی اور پھر پانچویں اور چھٹی قبر بھی پکی ہو گئی۔ لیکن اسے شبہ ہی رہا کہ ان میں کوئی بھی قبر اس کی ماں کی نہیں۔

اب ہر رات وہ خواب دیکھتا کہ قبر کی چھت بیٹھ رہی ہے۔ پانی بوند بوند رِس رہا ہے اور ماں سردی سے ٹھٹھر رہی ہے۔ تصویر کے منظر میں اداس میلے کبوتر اُڑ رہے ہیں۔ ان کی اُڑان میں شکست اور تھکاوٹ ہے۔ چہرے بلک رہے ہیں اور خوف جسموں پر دستک دے رہا ہے۔ جسم بھُر رہے ہیں۔ ریزہ ریزہ۔۔۔  ریزہ ریزہ

اس نے وہ ساری قطار پکی کروا دی۔ لیکن اب اسے یہ شبہ ہوا کہ اس کی ماں کی قبر اس قطار میں ہے ہی نہیں ، وہ تو اگلی قطار میں ہے۔ اب دوسری قطاروں کی قبروں کے پکے ہونے کا کام شروع ہوا۔ ہر روز ایک قبر پکی ہوتی۔ اگلی صبح اگر بتیاں جلا کر دعا مانگتے اسے خیال آتا کہ یہ اس کی ماں کی قبر نہیں ہے۔ وہ اس سے اگلی قبر پکی کروانے کا کام شروع کراتا، مطمئن ہو کر گھر جاتا۔ خواب میں تصویر کی غم آلود مسکراہٹ والی عورت اداس سوچ میں ، رہن رکھا منظر اپنی پرتیں کھولتا۔ اس کے ہونٹ ہلتے مگر آواز سنائی نہ دیتی۔ بھوک سے بلکتی وادی میں ٹھٹھرتے چہرے، اداس غم آلود مسکراہٹ، بوند بوند رستا پانی۔۔۔  سوالیہ نشان۔۔۔  سوالیہ نشان۔۔۔

ادھورے الجھے ہوئے نشان، دوسری کے تیسری اور چوتھی قطار کی قبریں پکی ہوتیں گئیں۔ لیکن اس کی ماں کی قبر اسی طرح کچی رہی۔ رات کو خواب میں تصویر کی غم آلود مسکراہٹ، قبر کی بیٹھی چھت، بوند بوند رستا پانی اور سردی سے ٹھٹھرتی ماں ، دھندلاتے دھندلاتے اداس خالی منظر میں گم ہو جاتے۔ جس دن قبرستان کی آخری قبر بھی پکی ہو گئی، اس نے اطمینان کا گہرا سانس لیا اور ساری پکی قبروں کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’ان میں سے کوئی ایک قبر میری ماں کی بھی ہے۔ مجھے معلوم نہیں ، مگر وہ پکی تو ہو گئی ہے نا۔۔۔ ‘‘

اگلی صبح سورج ابھی مشرق کی چلمن سے جھانکنے کی تیاریاں ہی کر رہا تھا کہ اس نے بیوی اور  بچوں کو جگایا اور کہا کہ وہ سب اس کے ساتھ ماں کی قبر پر فاتحہ پڑھنے چلیں۔ قبرستان پہنچ کر اس نے بیوی بچوں سے کہا کہ وہ سب قبروں پر پھول اور اگر بتیاں لگا دیں۔ اس کی بیوی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تو وہ بولا۔۔۔  ’’بھئی یہ سب میری ماں کے پڑوسی ہیں۔۔۔ ‘‘ اور دل ہی دل میں اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’سچی بات ہے مجھے معلوم ہی نہیں کہ ان میں میری ماں کی قبر ہے کونسی۔۔۔ ‘‘

قبروں پر اگر بتیاں لگیں تو سارا قبرستان خوشبو سے مہک اٹھا۔ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ دعا مانگ کر سب نے ہاتھ نیچے کر لیے لیکن اس کے ہاتھ خلا میں ہی پتھر ہو گئے۔ اسے یاد آیا، یہ تو وہ قبرستان ہی نہیں جس میں اس نے اپنی ماں کو دفن کیا تھا۔ تو اس کی قبر ابھی تک کچی ہے۔۔۔  تصویر میں ایک عورت غم میں گندھی مسکراہٹ کے ساتھ خالی منظر کو دیکھ رہی ہے۔۔۔  قبر کی چھت دھیرے دھیرے بیٹھ رہی ہے۔ پانی بوند بوند رِس رہا ہے اور ماں دیوار سے لگی ٹھٹھر رہی ہے۔ جھکے ڈھلکے شانوں کے ساتھ سب سے پیچھے آئے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’میں دوسرے قبرستان کی ایک ایک قبر پکی کر وا دوں گا۔‘‘

اسے خیال آیا اس شہر میں تو کئی قبرستان ہیں ، ’’کوئی بات نہیں ‘‘۔۔۔  وہ بڑبڑایا۔۔۔

’’میں اس شہر کے سارے قبرستانوں کی ایک ایک قبر پکی کرا دوں گا۔‘‘

اطمینان کے پرندے نے ایک لمحہ کے لیے رنگ برنگے پر پھڑپھڑائے اور دوسرے لمحے خالی منظر گم ہو گیا۔۔۔

اسے خیال آیا۔۔۔

’’کیا معلوم یہ وہ شہر ہی نہ ہو جہاں اس کی ماں دفن ہے۔‘‘

٭٭٭

 

گملے میں اُگا ہوا شہر

            جنازے کا جلوس جب بڑی سڑک سے قبرستان والی بغلی سڑک پر مڑا تو کراہوں کے تیز نوکیلے ناخنوں نے فضا کے پرسکون چہرے کو نوچ نوچ کر لہو لہان کر دیا۔

            اس نے گہرا سانس لے کر سینے پر بیٹھے ہوئے بوجھ کو ایک طرف کھسکانے کی کوشش کی اور اسی لمحہ معاً اسے احساس ہوا کہ جنازہ موجود نہیں ہے۔ اس نے ایڑیوں کے بل  اُچک کر چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ آگے پیچھے، دائیں بائیں ، جنازہ کہیں نہیں تھا۔

            ’’جنازہ کدھر گیا؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا اور سر گھما کر ساتھ والے کی طرف دیکھا۔ اس کے دائیں بائیں کئی لوگ سر جھکائے، گہرے سانس لیتے سینوں پر رکھے بوجھوں کو اِدھر اُدھر کھسکانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس نے ایڑیوں کے بل اُچک کر پھر ایک نگاہ دوڑائی لیکن جنازہ نظر نہ آیا۔

            ’’بھائی صاحب۔۔۔ ‘‘ اس نے ساتھ والے کی طرف دیکھا۔۔۔  ساتھ والے نے سر اٹھا کر اسے گھورا اور منہ نیچے کر لیا۔

            ’’بھائی صاب۔۔۔ ‘‘ ساتھ والے نے اسے پھر گھورا۔

            ’’۔۔۔  جنازہ گم ہو گیا ہے۔۔۔ ‘‘ اس نے اٹکتے اٹکتے کہا۔

            ’’کیا۔۔۔  ؟ کیا گم ہو گیا ہے؟‘‘ ساتھ والے نے پہلے اس کی طرف دیکھا پھر سامنے دیکھا اور اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا: ’’ارے، جنازہ کہاں گیا۔۔۔ ؟‘‘

            آس پاس کے لوگوں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا اور پھر سامنے دیکھا۔۔۔  ’’ارے۔۔۔ ‘‘

            ’’جنازہ کدھر گیا۔۔۔ ؟‘‘

            ’’جنازہ کدھر گیا۔۔۔ ؟‘‘

            افراتفری ایک ہی لمحہ میں جست لگا کر ان کے درمیان آن کھڑی ہوئی اور بال کھول کر دھمال ڈالنے لگی۔

            آدھا جلوس بڑی سڑک پر اور آدھا بغلی سڑک پر۔ حیرانی کے فوکس میں قید چہرے، دائرے میں چکر لگاتے سوال۔

            اس نے ذہن پر زور دے کر گزرتے لمحوں کی دوڑ پکڑنے کی کوشش کی۔۔۔  بڑے میدان میں مرنے والے کو سولی سے اتار کر جنازے کی ڈولی میں ڈالا گیا تھا۔ اس نے اچھل اچھل کر اردگرد کھڑے لوگوں کے سروں سے اوپر اٹھ کر خود اسے دیکھا تھا۔ انسانوں کے چاروں طرف پھیلے ہوئے سمندر میں ان گنت کندھوں سے ہوتا ہوا جنازہ بڑی سڑک پر جسے مرکزی شاہراہ نمبر ایک کہتے تھے لایا گیا تھا۔

            اس نے آگے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔  لوگ گروہوں اور ٹولیوں میں بٹ گئے تھے اور ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے: ’’جنازہ کہاں گیا؟‘‘

            اس نے نئے سرے سے  لمحوں کو جوڑنا شروع کیا۔۔۔  لوگوں کو اس کی موت کی اطلاع صبح سویرے ہی مل گئی تھی۔ سرگوشیاں رقص کرتی سارے شہر میں پھیل گئی تھیں۔ دکانیں کھلی ہی نہیں تھیں یا صبح ہی بند ہو گئی تھیں اور سڑکیں سنسان۔ لوگ بڑے میدان میں جمع ہو گئے تھے۔۔۔  جب جنازہ اٹھایا گیا تو آہیں موسلا دھار بارش کی طرح سارے شہر پر برس پڑیں۔

            دوسرے بازار تک تو اسے یاد تھا، شاید اس کے بعد بھی اس کی نظر جنازے پر پڑی ہو لیکن وہ ٹھیک سے یاد نہیں کر پا رہا تھا کہ آخری بار اس نے جنازہ کب اور کہاں دیکھا تھا۔

            لوگوں کی ٹولیاں اور گروہ شہر کی گلیوں میں اور سڑکوں پر جنازہ تلاش کر رہے تھے۔

            وہ پچھلی شاہراہ کی طرف چل پڑا۔۔۔  چوک چورا ہے، گلیاں ، نکڑیں ، ٹولیاں ، گروہ۔ بس جنازے کی گمشدگی کی باتیں۔۔۔  ہر کوئی اپنی اپنی کہہ رہا تھا۔

            ’’شاہراہ نمبر ایک کا موڑ کاٹتے تو میں نے خود دیکھا تھا۔۔۔

            ’’میں نے شاہراہ نمبر تین کے درمیانی چوک میں دیکھا تھا۔۔۔ ‘‘

            ’’میں نے بغلی سڑک کے موڑ سے سو گز ادھر دیکھا تھا۔۔۔ ‘‘

            لیکن یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ جنازہ گم کہاں ہوا ہے؟

            کیا معلوم، جنازہ اٹھایا ہی نہ گیا ہو اور لاش ابھی تک سولی پر ہی لٹک رہی ہو۔ اس کے دھیان  میں آیا۔

            کیا معلوم، یہ سب وہم ہو۔ سارا راستہ وہ سوتا آیا ہو اور اب جاگا ہو۔

            یا پھر وہ اب جاگ رہا ہو اور جنازہ واقعی گم ہو گیا ہو۔

            وہ بڑے میدان کی طرف بڑھنے لگا۔

            اندھیرا شہر کو نرغے میں لے رہا تھا اور رات کوئی دم میں شہر پر ٹوٹ پڑنے والی تھی۔۔۔  اور لوگ بھاگ رہے تھے، دوڑ رہے تھے۔

            ’’کچھ پتہ چلا‘‘؟ کسی نے کسی سے پوچھا،  اسے کچھ پتہ نہ چلا۔

            ’’نہیں۔۔۔ ‘‘ کسی نے کسی کو کہا، وہ کچھ جان نہ سکا

            ’’بڑے میدان میں تو اندھیرا بھرا ہوا ہے۔۔۔ ‘‘ اس نے سنا اور اس کے قدم رک گئے۔

            دفعتاً بھاگتے دوڑتے لوگوں میں سے ایک، کوئی اس کی طرف مڑا: تم کون ہو؟‘‘

            ’’میں۔۔۔  میں ہوں !‘‘ پھر اس نے چپکے سے اپنے آپ سے پوچھا: میں کون ہوں ؟۔ مگر اسے کوئی جواب نہ ملا۔

            ’’میں۔۔۔  ‘‘ اس نے پھر کچھ کہنا چاہا۔ ذہن پر زور دیا مگر کچھ یاد نہ آیا۔ دھندلائیوں میں ہاتھ پیر مارتے ہوئے بس اتنا یاد آیا کہ لوگ ایک تابوت اٹھائے جا رہے تھے، اس تابوت میں۔۔۔

            اس تابوت میں شاید وہ تھا۔ یا پھر شاید وہ نہیں تھا۔

            اب بھی شک کے کلہاڑے سے ہاتھوں میں لیے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے: ’’تم کون ہو؟‘‘

            ’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ ‘‘ دوسرا جواب دینے کے لیے ذہن پر زور ڈالتا ہے مگر اسے کچھ یاد نہیں آتا۔ دھندلائیوں میں ہاتھ پیر مارتے ہوئے بس اتنا یاد آتا ہے کہ لوگ ایک تابوت اٹھائے جا رہے تھے، اس تابوت میں اس تابوت میں شاید وہ تھا، یا پھر شاید وہ نہیں تھا۔

            ۲

            جوں ہی قبر کھودنے کا کام مکمل ہوا۔ ان کے چہروں پر جگمگا ہٹیں کروٹیں لینے لگیں۔

            وہ پچھلے کئی مہینوں سے یہ قبر کھود رہے تھے۔۔۔  کبھی نیچے سے دلدل نکل آتی اور کبھی آسمان پانی بن جاتا۔ قبر کھودنے کے دوران انھیں معلوم ہوا، اندر ہی اندر شہر کی زمین دلدل اور آسمان پانی ہو چکا ہے۔ مگر انھیں ہر صورت میں قبر کھودنا تھی اور اب کہ قبر کھد چکی تھی۔ وہ مٹی کے ڈھیر کے پاس بیٹھے سستا رہے تھے۔۔۔  سلیں ترتیب سے ایک طرف پڑی تھیں۔ گارا بنانے کے لیے پانی سے لبالب بھری بالٹی بھی پاس ہی رکھی تھی۔ بس ایک جنازے کا انتظار تھا۔

            لمحوں کے سلسلے سرکتے رہے، کھسکتے رہے اور آخر قبر کھودنے والوں کی آنکھیں قبرستان کی طرف بڑھتا ہوا راستہ دیکھ دیکھ پتھرا گئیں۔۔۔  ڈوبتا سورج اور خالی قبر۔

            پھر پراسرار سناٹے کے تنے ہوئے خیمے سے دفعتاً ایک آواز گونجی۔۔۔  جنازہ گم ہو گیا ہے۔

            سورج ڈوب گیا۔ سروں پر منڈلاتی رات نیچے اترنے لگی۔

            قبر کھودنے والوں میں سے ایک نے دوسرے کی طرف دیکھا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا:’’۔۔۔  لیکن اب ہم دفن کسے کریں گے؟‘‘

            ’’دفن۔۔۔ ؟‘‘ دوسرا چونکا۔

            ’’ہاں قبر کھد جائے تو پھر لاش مانگتی ہے۔۔۔ !‘‘

            سب نے ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے دیکھا۔۔۔  نیچے اترتی رات روشنی کو دبوچ رہی تھی اور خالی قبر اپنی جسامت سے کہیں بڑی دکھائی دے رہی تھی۔

            ’’۔۔۔ لیکن لاش کس کی؟‘‘ ایک بڑبڑایا۔

            ’’کوئی بھی لاش۔۔۔  کھدی ہوئی قبر تو بس مردہ مانگتی ہے۔۔۔ ‘‘

            ’’ایک لاش۔۔۔ ‘‘

            ’’کوئی بھی لاش۔۔۔ ‘‘

            سرگوشیوں کے کندھوں سے سوال پھسلا۔ قبرستان سے نکلا اور رینگتا رینگتا سارے شہر میں پھیل گیا۔۔۔  چوک،  چوراہے، بازار، گلیاں ، نکڑیں ، ٹولیاں ، گروہ۔ چپ چاپ ایک دوسرے کو تکتی ہوئی آنکھیں۔۔۔  رات نیچے اتر آئی تھی اور بال کھولے شہر میں پھر رہی تھی۔

            ایک ایک کر کے ہر شخص سہمے ہوئے گھروں میں کھو گیا۔ جہاں بچے اور عورتیں پہلے ہی رو رو چپ ہو چکی تھیں۔

            وہ شاید گھر میں تھا، یا پھر شاید گھر میں نہیں تھا۔

            ’’۔۔۔  اتنی دیر؟‘‘شاید اس کی بیوی نے کہا، یا پھر شاید اس کی بیوی نے نہیں کہا۔

            ’’کھدی ہوئی قبر تو بس لاش مانگتی ہے۔۔۔  لاش نہ ملے تو شہر تباہ ہو جاتا ہے۔۔۔ !‘‘ دونوں میں سے شاید کسی نے کسی سے کہا، یا پھر شاید دونوں میں سے کسی نے کسی سے نہیں کہا۔

            ’’کیا۔۔۔ ؟ ‘‘ شاید دونوں نے بیک وقت کہا، یا پھر شاید دونوں نے بیک وقت نہیں کہا۔

            ’’کچھ نہیں۔۔۔  ‘‘ دونوں نے شاید بیک وقت جواب دیا۔ یا پھر شاید دونوں نے بیک وقت جواب نہیں دیا۔

            دونوں شاید ایک ساتھ ایک بستر پر تھے یا پھر شاید دونوں ایک ساتھ ایک بستر پر نہیں تھے۔۔۔  نیند شاید ان کی آنکھوں میں بھری ہوئی تھی، یا پھر شاید نیند ان کی آنکھوں میں بھری ہوئی نہیں تھی۔

            باہر رات شاید اپنے بال باندھ رہی تھی، یا پھر شاید باندھ نہیں رہی تھی۔۔۔  سورج ایک آنکھ کھولے شہر کو دیکھ رہا تھا، یا پھر شاید شہر کو نہیں دیکھ رہا تھا۔

            شاید اندھیرے میں شاید روشنی میں۔۔۔  یا پھر شاید نہ اندھیرے میں ، نہ روشنی میں ، کھدی ہوئی قبر اپنی جسامت سے بہت بڑی ہو گئی تھی اور لاش مانگ رہی تھی۔

            شاید دن گزر گیا۔ یا پھر شاید نہیں گزرا۔

            شاید رات پھر آ گئی، یا پھر شاید نہیں آئی۔

            شک ان کے بدنوں کے ادھڑے بوسیدہ دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ خالی منظر ان کی بوڑھی نظروں کو نوچ رہا ہے۔ بھوک ان کی انتڑیوں کو بل دے رہی ہے۔۔۔  اور ایسے میں وہ سب،  سب کے سب، ان میں سے ہر کوئی، وحشت زدہ آنکھیں پھاڑے کسی دوسری آنکھ کے جھپکنے کا منتظر ہے کہ کھدی ہوئی قبر تو بس لاش مانگتی ہے۔۔۔

٭٭٭

 

سناٹا بولتا ہے

            معلوم نہیں یہ رات کا پہلا پہر ہے، درمیانہ یا پچھلا،

            یا شاید دن ہے جس نے رات کے ہاتھ پر بیعت کر لیا ہے،

            یا پھر شاید رات ہی ہے،

            کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی، خوفناک جبڑوں والا اندھیرا تھوتھنی اٹھا اٹھا کر بھونک رہا ہے،

            ’’وہ سہم کر میرے ساتھ لگ جاتا اور سرگوشی کرتا ہے۔۔۔  ماچس جلاؤں ؟‘‘

            ’’نہیں ،  تیلیاں اس طرح ختم ہوتی رہیں تو۔۔۔ ‘‘

            ’’تو؟‘‘ اس کی آواز میں خوف سرسراتا ہے۔

            ’’۔۔۔  میں نہیں جانتا‘‘۔

            شاید ایک دو یا اس سے بھی زیادہ دن،  مہینے یا سال،  یقین سے چھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم کب سے گٹر کی دیواروں کو ٹٹول ٹٹول کر باہر جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں ، اتنا سا خیال آتا ہے کہ ہم گفتگو کرتے چلے جا رہے تھے۔۔۔  مین ہول کھلا ہو گا، وہ گرا، اسے نکالنے کی کوشش میں مَیں ، یا شاید میں گرا ہوں گا اور مجھے نکالنے کی کوشش میں وہ، پورے یقین کے ساتھ کوئی بھی بات نہیں کی جا سکتی،

            رینگتے پانی کی سرسراہٹ، اندھیرا بار بار اپنے جبڑے کچکچاتا ہے اور لمبی کالی زبان نکال کر ہمارے منہ چاٹتا ہے، ہماری گالوں پر لیس دار رات کی چپچپاہٹ، وہ تیلی جلاتا ہے بیمار نحیف شعلہ سر اٹھا کر دو تین اکھڑے اکھڑے سانس لیتا ہے۔۔۔  گھپ اندھیرا،

            زیادہ گہرے اور منظم اندھیرے میں تھوڑی سی غیر منظم روشنی اندھیرے کو اور دبیز کر دیتی ہے۔ اوپر سڑک پر بھاری تیز رفتار گاڑی گزرتی ہے،

            میں کہتا ہوں۔۔۔  ’’اس کا مطلب ہے ہم ابھی بڑی سڑک کے نیچے ہی ہیں ‘‘۔

            وہ ہنستا ہے۔۔۔  ’’اس صورت حال میں بڑی سڑک کے نیچے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘

            ’’شاید کچھ نہیں ، لیکن یہ احساس بھی غنیمت ہے‘‘

            ’’اگر ہم اسی سیدھ میں چلتے جائیں تو شاید کوئی کھلا ہوا مین ہول نظر آ جائے‘‘

            ’’اس سیدھ میں تو شاید ہی ملے‘‘ وہ بڑبڑاتا ہے۔۔۔  ’’بہرحال چلے چلو‘‘

            ہم ابھی دو چار قدم ہی چلتے ہیں کہ کوئی چیز میرے پاؤں سے لپٹ جاتی ہے، میں جھک کر چھوتا ہوں۔۔۔  ننھا منا سا ایک ہاتھ،

            ’’ماچس جلاؤ۔۔۔  جلدی ‘‘ میں چیختا ہوں ،

            لرزتی روشنی میں ایک نوزائدہ بچہ میرے پہلو سے گزرتا آگے نکل جاتا ہے،

            وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’یہ تو میرا بچہ ہے۔۔۔  مگر یہ تو ابھی ماں کے پیٹ میں تھا‘‘۔

            میں اسے تسلی دیتا ہوں۔۔۔  ’’شاید اس دوران اس کی ماں نے اسے جن دیا ہو‘‘

            ’’اور پھر کسی نالی میں پھینک دیا ہو‘‘ وہ بڑبڑاتا ہے۔۔۔  یا پھر یہ کہ اس کی ماں نے اسے کسی نالی ہی کے کنارے جنا ہو اور بہتا ہوا یہاں آگیا ہو‘’

            ایک لمحہ کے سکوت کے بعد وہ دفعتاً چیختا ہے۔۔۔  میرے بیٹے۔۔۔  میرے بچے‘‘

            جواباً رینگتے پانی کی سرسراہٹ اور لیس دار اندھیرے کی چپچپاہٹ،

            ’’میرا بچہ۔۔۔  میرا بیٹا‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے:

            ’’صبر کرو۔۔۔  صبر‘‘ میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوں۔۔۔  سارے بچے اب اسی طرح بہتے ہوئے یہیں آئیں گے کہ اب ساری مائیں اپنے بچوں کو یوں ہی نالیوں میں بہائیں گی‘‘۔

            ’’نالیوں میں کیوں ؟‘‘ وہ چپ ہو کر سوال کرتا ہے۔

            ’’دریا تو سارے خشک ہو گئے ہیں اور شہر میں قتل طفلاں کی منادی بھی ہو چکی ہے،  مائیں بے چاری کیا کریں۔۔۔  چلو آگے چلیں ، کسی کھلے مین ہول کی تلاش میں ‘‘۔

            وہ ایک ٹھنڈی سانس بھرتا ہے۔۔۔  ’’میری عمر اب چالیس سال ہونے والی ہے، اس سیلن زدگی، رینگتے پانی کی سرسراہٹ اور اس لیس دار اندھیرے کے جبڑوں میں پستے پستے چالیس سال ہو چکے ہیں ، معلوم نہیں میری زندگی کے اور کتنے سال باقی ہیں ، ان باقی سالوں میں کھلا میں ہول ملے گا بھی کہ نہیں ‘‘۔

            ’’کیا معلوم۔۔۔ ؟‘‘ میری آواز دم توڑ رہی ہے،۔۔۔ ‘‘ شاید ہمارے بچوں کو مل جائے، شاید وہ بھی ہماری ہی طرح ساری زندگی کھلے مین ہول کے خواب دیکھتے دیکھتے اسی گٹر میں بھٹکتے اندھیرے کے لیس دار جبڑوں میں پستے گزار دیں ‘‘۔

            ’’چلو آگے چلیں ‘‘ وہ میرا ہاتھ دباتا ہے۔

            گہری گپ خاموشی،  جس میں رینگتے پانی کی سرسراہٹ اور اندھیرے کے خراٹے گونج رہے ہیں۔

            ہمارے سروں پر آوازوں کے بادل تیرتے ہیں۔

            ایک آواز۔۔۔ ’’ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں ؟‘‘

            دوسری آواز۔۔۔  ’’وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے‘‘۔

            تالیاں ، نعرے،  تحسین کا شور،

            وہ کہتا ہے۔ ’’بادشاہ نے بادشاہ کے ساتھ جو سلوک کرنا تھا کر دیا، مگر ہم کہاں ہیں ؟ ‘‘

            ’’ہم۔۔۔ میں اس کاشانہ تھپتھپاتا ہوں۔۔۔ ’’بادشاہوں کے کھیل میں ہم کوئی چیز نہیں ہوتے، بس ہم تو کھلے مین ہول کے خواب ہی دیکھتے ہیں ‘‘۔

            وہ پوچھتا ہے۔۔۔ ’’ہم میں سے پہلے کون گٹر میں گرا تھا‘‘۔

            ’’تم۔۔۔ ‘‘ میں اندھیرے میں اسے گھورتا ہوں۔

            ’’نہیں تم۔۔۔ ‘‘ وہ دو قدم پرے ہو جاتا ہے۔

            ’’نہیں تم۔۔۔ ‘‘

            ’’تم۔۔۔ ‘‘ وہ مجھ پر جست لگاتا ہے، ہم ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جاتے ہیں ، اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں ،  جب تھک جاتے ہیں تو آمنے سامنے کی دیواروں سے ٹیک لگا کر ہانپنے لگتے ہیں۔

            بہت دیر کی چپ کے بعد وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔۔۔  ’’آگے چلیں ‘‘

            ’’چلو۔۔۔ ‘‘

            چلتے چلتے ہم ایک کھلی سی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ سخت سے ٹکڑے ہمارے پاؤں سے ٹکراتے ہیں۔

            وہ ماچس جلاتا ہے۔

            چاروں طرف ہڈیاں اور انسانی پنجر پڑے ہوئے ہیں۔ وہ ایک ہڈی اٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔ ’’یہ تو میرے باپ کی ہڈی لگتی ہے، اس کے جبڑے کی ساخت ایسی ہی تھی‘‘۔

            میں انسانی پنجروں کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔

            وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’لو جی میں سمجھتا تھا میرا باپ مجھ سے اچھا تھا، اب معلوم ہوا کہ وہ بھی میری طرح ساری عمر کھلے مین ہول کے خواب دیکھتا رہا‘‘۔

            دفعتہً اس کی آواز لرزنے لگتی ہے۔۔۔ ’’ہم بھی۔۔۔  ہم بھی۔۔۔ ‘‘

            میں جھک کر دیکھتا ہوں ، سب کے منہ پر پلاسٹر ٹیپ لگے ہوئے ہیں ، کیڑے ان کا گوشت کھا گئے ہیں ، مگر ٹیپ اسی طرح ہیں ،

            ’’مگر ہم تو صرف اظہار کے حوالے سے ہی ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور ان کے منہ تو بند ہیں۔۔۔  بند کر دیئے گئے ہیں ‘‘

            پانی کی سرسراہٹ، بل کھاتی سیلن

            ایک گوشت خور کیڑا اس کی ٹانگ پر چڑھ جاتا ہے، وہ چیخ مارتا ہے اور ٹانگ جھٹک کر آگے چل پڑتا ہے۔۔۔

            ابھی دو چار ہی قدم اٹھتے ہیں کہ بہت سی ملی جلی آوازیں اندھیرے میں سے نکل کر ہمارے پاؤں پکڑ لیتی ہیں۔

            وہ جلدی سے تیلی جلاتا ہے۔

            ننگ دھڑنگ بچے، پانی میں شپ شپ کرتے دوڑے چلے آ رہے ہیں۔

            ’’یہ کون ہیں ؟‘‘ وہ میرے ساتھ لگ جاتا ہے۔

            ایک بچہ جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا ہے آگے بڑھ کر پوچھتا ہے۔۔۔  تم کون ہو؟‘‘

            ’’ہم۔۔۔  ہم گٹر میں گر پڑے تھے‘‘۔

            ’’اور یہ کہ تمہارا پاؤں پھسل گیا تھا۔ وہ کھڑکھڑاتا ہے۔۔۔  سب یہی کہتے ہیں ‘‘۔

            ’’مگر تم کون ہو؟‘‘

            ’’ہم۔۔۔  ہم ربڑ کے غباروں میں پیدا ہوئے ہیں ، اس گٹر کے اندر‘‘

            ’’ربڑ کے غبارے‘‘

            ’’ہاں وہ غبارے جو لوگ استعمال کر کے گٹر میں پھینک دیتے ہیں ‘‘

            وہ شور مچاتے ہمارے دائیں بائیں سے گزرتے ادھر ادھر نکل جاتے ہیں ، وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’مجھے یاد آیا، ایک رات میری ماں نے بھی ایک غبارہ نالی میں پھینکا تھا اور اس میں میں تھا پر معلوم نہیں وہ شخص جو راتوں رات ہی چپکے سے چلا گیا تھا میرا باپ تھا کہ نہیں ‘’۔

            ’’اور شاید میں بھی اسی غبارے میں تھا اور وہ شخص،  وہ ضرور ہمارا باپ تھا اور وہ ہماری ماں تھی۔۔۔  انھوں نے تو ہمیں بہت روکا تھا۔ مگر ہم خود ہی اس گٹر میں آ گئے۔ میں یا شاید ہمیں ورغلایا گیا تھا۔۔۔  سنہرے خواب دکھا کر،  مگر یہاں آ کر معلوم ہوا یہ تو گٹر ہے۔۔۔  گٹر‘‘

            اوپر اب آوازوں کی دستک میں بھاری پن اور تواتر پیدا ہو رہا ہے،

            ’’شاید اوپر صبح ہو چکی ہے‘‘ میں بڑبڑاتا ہوں۔

            ’’مگر ہمیں کیا؟‘‘ اس کی آواز بیٹھی ہوئی ہے

            ’’سورج کی شکل کیسی ہو گی؟‘‘ میں اس سے پوچھتا ہوں۔۔۔  ’’اس کی کرنوں میں گرمی تو ہوتی ہو گی نا‘‘

            ’’اب تو یاد بھی نہیں۔۔۔  اور میرے منہ پر تو ٹیپ لگا ہوا ہے، اور ایسی باتیں کرنا منع بھی ہے، میں تمہیں کیسے بتاؤں ، کیا بتاؤں ؟‘‘

            ہم اس وقت کسی بڑی سڑک کے نیچے ہیں ، ہارنوں کی پوں پوں ، بریکوں کی رگڑ اور قدموں کی آوازیں۔۔۔

            وہ تیلی جلاتے ہوئے اعلان کرتا ہے۔۔۔ ’’ صرف دو تیلیاں باقی ہیں ‘‘

            لرزتی روشنی میں ایک عجیب سی سرسراہٹ محسوس ہوتی ہے

            ’’وہ حسرت سے اوپر دیکھتا ہے۔۔۔  کہیں بھی کوئی راستہ نہیں ‘‘

            ’’نقشوں میں ضرور ہو گا‘‘۔ میں سوچتا ہوں۔۔۔  ’’مگر نقشے تو صرف دیواروں پر لگانے کے لیے ہوتے ہیں ‘‘۔

            ’’یہ ہوا میں تازگی کیسی ہے؟‘‘ وہ چونکتا ہے۔

            ’’کیا معلوم یہ تازگی ہے بھی کہ ہم ہی اس سیلن زدگی کے عادی ہو گئے ہیں ؟‘‘

            ’’نیم روشنی، نیم تازگی۔۔۔  ہم بھی تو نیم زندہ ہی ہیں ‘‘

            اوپر اب دوپہر گزر رہی ہو گی۔

            اب سہ پہر۔۔۔  اب سانولی نمکین شام،

            لوگ دفتروں ، دکانوں سے گھر آ رہے ہوں گے، دروازوں پر منتظر بیویاں مسکراہٹوں کے بوسے لیے ان کی راہ تک رہی ہوں گی۔۔۔  ابو ابو کرتے ننھے بچے اپنی توتلی زبانوں کے ساتھ انھیں پکار رہے ہوں گے،

            تیلی جلاتے ہوئے وہ اعلان کرتا ہے۔۔۔ ’’بس ایک ہی تیلی باقی ہے‘‘۔

            ’’اسے مت جلانا۔۔۔  مت جلانا‘’ میں چیختا ہوں۔

            ’’کیوں ؟‘‘

            ’’بس اسے جلانا مت‘‘

            ’’کیوں نہ جلاؤں ؟‘‘ وہ ضد کرتا ہے۔۔۔  ’’وجہ بتاؤ‘‘

            ’’آخری لمحے میں ، جب ہم ایک دوسرے کی آخری تصدیق کریں گے تو اس وقت۔۔۔  اس وقت‘‘

            اوپر نعروں کا شور۔۔۔  میری آواز ڈوب جاتی ہے

            مقرر کی چیختی آواز، مگر لفظ فضا ہی میں رہ جاتے ہیں ،

            وہ افسوس سے سر ہلاتا ہے۔۔۔  ’’کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا‘‘۔

            ’’معلوم نہیں لفظوں ہی میں سے معنی نکل گئے ہیں ، یا آوازیں کھوکھلی ہو گئی ہیں ، خدا جانے کہاں کیا گڑبڑ ہے‘‘۔

             شور۔۔۔ چیختی آوازیں ،

            پھر تڑتڑ۔۔۔ گولیوں کی تڑتڑ

            سناٹا بولتا ہے،

            وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’ ہم شہر میں ہیں اور گٹر نیچے ہے‘‘

            میں کہا ہوں۔۔۔ ’’ہم گٹر میں ہیں اور شہر اوپر ہے‘‘

            اب معلوم نہیں ، یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ہم گٹر میں ہیں یا شہر میں ، شہر میں ہیں یا گٹر میں ،

            وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’لو یہ جھگڑا چھوڑو، میں آخری تیلی جلانے جا رہا ہوں ‘‘۔

            وہ تیلی کو ماچس پر رگڑتا ہے،

            ایک دوسرے کو دیکھنے، شناخت کرنے اور ایک دوسرے کی گواہی دینے کا یہ آخری موقعہ، مجسم آنکھ بنے، آمنے سامنے۔۔۔  ٹک ٹک،  ٹک ٹک

            تیلی ماچس سے رگڑ کھاتی ہے،

            ہمارا سارا وجود آنکھ میں ڈھل جاتا ہے

            وہ تیلی کو ماچس سے رگڑتا ہے۔۔۔  رگڑتا چلا جاتا ہے

            تیلی بغیر جلے، ٹوٹ کر نیچے پانی میں جا گرتی ہے

            سرسراتے اندھیرے اور رینگتے پانی میں ، آنکھیں پھاڑے ہم ایک دوسرے کو دیکھنے، شناخت کرنے اور ایک دوسرے کی گواہی دینے کے انتظار میں پتھر ہوتے جاتے ہیں۔

٭٭٭

 

پت جھڑ میں خود کلامی

            قبرستان کی آمنے سامنے کی دیواروں پر بیٹھے ہوئے وہ اور میں ،

            درمیان میں چپ قبرستان،

            یہ پت جھڑ کا موسم ہے،

            پیاسے درختوں کے بنجر ہاتھوں سے وقفہ وقفہ سے پھسلتے پتے ویران قبروں پر خاموشی سے گرتے ہیں ، ہوا رکی ہوئی ہے اور فضا میں کبھی کبھی کسی اداس پرندے کی آواز لمحہ بھر کے لیے نشان بتاتی ہے ہے پھر ڈوب جاتی ہے۔

            تھکاوٹ سے چور راستے قبروں کے درمیان چپ چاپ لیٹے ہوئے ہیں۔

            وہ ایک لمبی تیز سسکاری جیسی آواز نکالتا ہے۔

            ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں چیخ کر پوچھتا ہوں۔

            ’’کچھ نہیں ، میں صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ میں موجود تو ہوں نا‘‘

            گہری چپ

            مجھے اس پر رشک آتا ہے کہ وہ موجود ہے اور خود پر شبہ ہوتا ہے کہ میں موجود نہیں۔

            میرے منہ سے بے ساختہ لمبی اُو نکلتی ہے۔

            ’’میں بھی موجود ہوں ‘‘ میں چیخ کر اسے بتاتا ہوں۔

            سانولی نمکین شام آہستہ آہستہ ہمارے درمیان رات کا جالا بُن رہی ہے۔

            میں دیوار سے کھسک کر آہستہ سے نیچے اترتا ہے۔

            میں سامنے والی قبر کا کنبہ اٹھا کر آواز دیتا ہو۔۔۔  کوئی ہے؟‘’

            میری آواز قبرستان کے دوسرے سرے سے واپس آتی ہے۔

            وہ پکارتا ہے۔۔۔  ’’کوئی ہے؟‘‘

            میں اگلی قبر کا کتبہ اٹھاتا ہوں

            قطار در قطار ویران قبریں۔۔۔  خالی کھوکھلی آوازیں

            میں قبرستان کی دوسری طرف نکل آتا ہوں اور آہستہ سے دیوار پر جا بیٹھتا ہوں۔

            وہ بھی دیوار پر چڑھ جاتا ہے۔

            قبرستان کے آمنے سامنے کی دیواروں پر بیٹھے میں اور وہ،

            درمیان میں قبرستان،

            یہ پت جھڑ کا موسم ہے

            درختوں سے جھڑتے پتے اداس قبروں اور چپ راستوں پر لڑکھڑا رہے ہیں۔

            شام کی جھولی میں سمٹا اندھیرا دبے پاؤں باہر نکل کر چپکے چپکے چاروں طرف پھیل رہا ہے۔

            قبرستان کی آمنے سامنے کی دیواروں پر بیٹھے ہم دونوں دھندلا رہے ہیں ، مجھے وہ اب شام کے اندھیرے میں تحلیل ہوتا سایہ لگ رہا ہے،

            میں آواز دیتا ہوں۔۔۔  ’’سامنے دیوار پر کون ہے؟‘‘

            ’’میں ‘‘اس کی آواز گونجتی ہے۔

            پھر وہ آواز دیتا ہے۔۔۔  ’’سامنے دیوار پر کون ہے؟‘‘

            ’’میں ‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔

            ہم دونوں ایک دوسرے کا اقرار کر کے پھر کھسک کر دیوار سے نیچے اترتے ہیں اور دبے پاؤں ایک ایک قبر کا کتبہ اٹھا کر اندر جھانکتے ہیں۔

            سنسان خالی قبریں بھاں بھاں کر رہی ہیں۔

            ہم چکر کاٹ کر دیوار کے پاس لوٹ آتے ہیں اور اچک کر بیٹھ جاتے ہیں۔

            تاریخ میں لکھا ہے۔

            انھوں نے خوابوں ، چاہتوں اور جذبوں میں گوندھ گوندھ کر یہ شہر بنایا اور گیت گاتے ہوئے اس میں داخل ہوئے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے کہ ان کی قربانیاں رنگ لائیں ، پھر بعد چند دنوں کے وسوسوں نے انھیں آن گھیرا، کسی نے ان کے دل میں یہ شک ڈال دیا کہ دشمن ان کے شہر کو لوٹنا چاہتے ہیں ، انھوں نے شہر کی حفاظت کے لیے سپاہی رکھے اور اپنی روٹی میں سے حصہ کاٹ کر انھیں دینے لگے۔

            گہرا اندھیرا چاروں طرف پھیل گیا ہے۔

            قبرستان کے آمنے سامنے والی دیواروں پر بیٹھے ہم دونوں ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے۔

            ’’میں ہوں ‘‘ وہ ایک لمبی چیخ مارتا ہے۔

            ’’میں بھی ہوں ‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔

            ہم گھپ اندھیرے میں آوازوں سے اپنے ہونے کی تجدید کرتے ہیں ، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھتے ہیں ، تاریکی میں گم سم کھڑے درختوں کے پتے جھڑتے ہیں۔

            ایک ایک کر کے،

            ایک ایک کر کے،

            میں دھیرے سے نیچے اترتا ہوں اور قبروں کے درمیان پھیلے ہوئے چپ راستوں پر چلنے لگتا ہوں۔

            ’’ابو آئے‘‘ میری بیوی پکارتی ہے۔

            ’’اکا۔۔۔  اکا‘‘ میری بیٹی واکر گھسیٹی دروازے کی طرف لپکتی ہے۔

            تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے۔

            کہ سپاہی ان کے حصے کی روٹی کھا کھا کر خوب موٹے تازے ہو گئے اور ان کی تعداد شہر والوں سے زیادہ ہو گئی۔ وہ دشمن کا انتظار کرنے لگے لیکن جب بہت عرصہ تک کسی طرف سے دشمن دکھائی نہ دیا تو انھوں نے خیالی دشمن کی باتیں شروع کر دیں۔ مگر پھر بھی کام نہ بنا تو انھوں نے شہر والوں کو دشمن سمجھ لیا اور کہنے لگے کہ ہم شہر والوں سے شہر کی حفاظت کریں گے۔

            گاڑھا اندھیرا اور گاڑھا۔۔۔  اور گاڑھا ہو گیا ہے۔

            درخت قبریں ، راستے گم ہو گئے ہیں ،

            جس دیوار پر میں بیٹھا ہوا ہوں وہ بھی کھو گئی ہے، مجھے اپنا آپ بھی نظر نہیں آ رہا میں صرف سوچ سکتا ہوں۔

            میں چیخنا چاہتا ہوں ، مگر میری آواز اندھیرا ہے۔

            میں بولنا چاہتا ہوں ، مکر میرے لفظ اندھیرا ہیں۔

            میں سوچتا ہوں۔۔۔  میں ہوں

            اس سے آگے اندھیرا گاڑھا اندھیرا۔

            میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سامنے والی دیوار پر بیٹھے ہوئے اس کو دیکھنا چاہتا ہوں ، مگر چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا،

            اندھیرا ہی اندھیرا

            لفظ گم۔۔۔  آواز گم۔۔۔ وجود گم،

            اور تاریخ میں آگے چل کر یہ بھی لکھا ہے۔

            ان کے سپاہی دشمن کو فتح کرنے کی تو سکت نہیں رکھتے تھے اس لیے اپنی بہادری کا بھرم رکھنے کے لیے خود ہی بار بار اپنے شہر کو فتح کرنے لگے اور شہر والے دشمن قرار پائے اور ان سے شہر کی حفاظت سپاہیوں کا مقدس فرض، سپاہیوں ی تعداد رفتہ رفتہ بڑھنے لگی، پھر دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ شہر والے ایک ایک کر کے ختم ہو گئے اور صرف سپاہی ہی سپاہی رہ گئے، گلیان اور مکان سونے ہو گئے اور رفتہ رفتہ بھُربھُر کرتی قبریں بن گئے۔

            گہرے اندھیرے میں قبرستان کی آمنے سامنے کی دیواروں پر بیٹھے میں اور وہ جانے کب سے یوں ہی بیٹھے ہیں۔

            گھپ اندھیرے میں اُلو کی آواز اُبھرتی ہے۔

            کچھ دیر کے لیے وقفہ ہوتا ہے۔

            پھر اُلو کی تیز آواز مسلسل ہو جاتی ہے۔

            درخت، قبریں اور راستے اس کی تیز آواز کے پروں میں پھڑپھڑا کر چپ ہو جاتے ہیں۔

            گہرا گھور اندھیرا،

            میری بیوی مجھے شانے سے پکڑ کر ہلاتی ہے۔۔۔  ’’اب سو بھی جائیں رات بہت ہو گئی ہے‘‘۔

            میں خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھتا ہوں۔

            ’’آپ کیا سوچتے رہتے ہیں آج کل‘‘ وہ پریشانی سے پوچھتی ہے۔

            میں جواب نہیں دیتا اور مڑ کر سوئی ہوئی بیٹی کو دیکھتا ہوں ، جو اندھیرے سے ہے خیر چوسنی منہ میں لیے مستقبل کے دھندلے زینے چڑھ رہی ہے اور نہیں جانتی کہ اس کے مستقبل کے سنہری خوابوں کے گرد خونخوار چہروں والے کتے غرا رہے ہیں۔

            رات کے سناٹے میں اُلو کی تیز آواز گونجتی ہے۔

            اندھیرے میں مسلسل گونجنے لگتی ہے۔

            یہ پت جھڑ کا موسم ہے۔

            گھپ اندھیرا، درخت اداس،

            سنسان راستوں پر پتے ایک ایک کر کے جھڑتے ہیں ،

            اور اُلو کی آواز مسلسل تیز۔۔۔  اور تیز۔۔۔  اور تیز!

٭٭٭

 

میلہ جو تالاب میں ڈوب گیا

            دن کے وقت سمندر میرے گھر سے تیرہ سو چھبیس کلو میٹر دور ہوتا ہے، لیکن جونہی رات گھنی سیاہ پلکیں اٹھا کر شہر کے چوک میں اترتی ہے، سمندر رینگتا رینگتا میرے کمرے کی دیوار سے آ لگتا ہے اور نرم لچکیلی انگلیوں سے بند کھڑکی پر دستکیں دیتا اور میرا نام لے لے کر پکارتا ہے۔

            میں سر اٹھا کر ساتھ والے پلنگ پر سوتی بیوی اور بیٹی کو دیکھتا ہوں اور آہستہ سے کھڑکی کھول کر ہاتھ سمندر کے ہاتھ میں دے دیتا ہوں اور اس سے کہتا ہوں۔۔۔  ’’اے سمندر تیرے کئی روپ ہیں ، انجانے دیسوں ،  روشنیوں کے،  تاریکی کے ان گنت راستے تیرے وجود سے طلوع اور غروب ہوتے ہیں ، مجھے بشارت دے کہ میں مرنے سے پہلے مرنے کا تجربہ کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔

            سمندر ہنستا ہے، کھکھلا کر ہنستا ہے۔۔۔  ’’مرنے سے پہلے مرنے کا تجربہ؟‘‘ میرے کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھا ہوا سمندر، کھڑکی میں سے سر نکالے میں ، شاید حقیقت کہیں اور ہے، ہم محض ایک تصویر، ایک عکس ہیں ، یا پھر ہم حقیقت ہیں اور عکس کہیں اور دہرایا جا رہا ہے۔

            بڑبڑانے کی آواز سنائی دیتی ہے، میں سر موڑ کر دیکھتا ہوں ، میری دو سال کی بیٹی نیند میں بڑبڑا رہی ہے۔

            مجھے آوازیں بہت سنائی دیتی ہیں۔ مگر جسم دکھائی نہیں دیتے۔ وقت ایک پر کٹے کبوتر کی طرح میرے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اسے ہُش ہُش کر کے اڑانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہ اڑنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ میں ہُش ہُش کرتا رہتا ہوں۔ میری بیوی مجھے بڑی احتیاط سے تہ کر کے کتابوں کی الماری میں رکھ دیتی ہے لیکن میں اس کی نظر بچا کر چپکے سے باہر نکل آتا ہوں اور بڑے چوک کی طرف چل پڑتا ہوں لیکن میں بڑے چوک سے آگے نہیں جا سکتا کہ میرے پاس جو اجازت نامہ ہے اس کی حد یہیں پر ختم ہو جاتی ہے۔

            اس شہر میں پھول اگانے کی بھی اجازت نہیں کہ کلی کا کھلنا بھی فحاشی کے زمرے میں آتا ہے۔

            سارے کام اجازت ناموں سے ہوتے ہیں۔ مرنے کے لیے بھی اجازت لینا پڑتی ہے، اسی لیے میں مرنے سے پہلے مرنے کا ایک تجربہ کرنا چاہتا ہوں ،

            میں نے کھڑکی پوری طرح کھول دی ہے اور سمندر کے کندھے پر پاؤں رکھ کر آہستہ سے نیچے اتر آیا ہوں۔ سمندر کے پھیلے جسم کے ساتھ کروٹ لے کر لیٹا ہوا ساحل سستا رہا ہے اور کن انکھیوں سے پر شور مہیب لہروں کو دیکھ رہا ہے اوپر سیاہ آسمان، چمکتے تارے اور چائے کی پرچ جتنا بے جان چاند، پیچھے تاریکی میں ڈوبا ہوا شہر اور سامنے انگڑائیاں لیتا سمندر

            ایک آواز سنائی دیتی ہے۔

            ’’کون؟‘‘

            ’’ایک آواز۔۔۔  بغیر وجود کے ایک آواز‘‘

            ’’کون؟‘‘

            ’’ایک آواز۔۔۔  ایک آواز‘‘

            آواز ایک چھناکے کے ساتھ ساحل پر گرتی ہے اور جسم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

            ’’کون؟‘‘

            ’’ایک وجود۔۔۔  بغیر آواز کے ایک وجود‘‘

            ’’کون؟‘‘

            ’’ایک وجود۔۔۔ ایک وجود‘‘

            وجود دوڑ کر سمندر کے سینہ پر چھلانگ لگاتا ہے اور پھر آواز بن جاتا ہے۔

            آواز سے وجود اور وجود سے پھر آواز بن جانے کا کھیل،

            کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر پاؤں پھیلا کر لیٹا ہوا سمندر اور کھڑکی میں آدھا لٹکتا ہوا میں۔۔۔  میں جو مرنے سے پہلے مرنے کا ایک تجربہ کرنا چاہتا ہوں ، مگر میری بیوی مجھے احتیاط سے تہ کر کے کتابوں کی الماری میں رکھ دیتی ہے۔ شیشوں کی الماری میں سماعت سے محروم میں صرف دیکھ سکتا ہوں ، بول نہیں سکتا، میں جلدی جلدی دو تین کتابوں کے پشتے ادھیڑتا ہوں ، اور کپڑے کی دھجیوں میں اپنے کان اور آواز کو لپیٹ کر پوری طاقت سے چوک کی طرف اچھال دیتا ہوں۔ شیشے چھنا سے سے ٹوٹتے ہیں اور میرے کان اور آواز چوک میں عین اس چبوترے پر جا گرتی ہے جس پر چڑھا شخص مجمع کی طرف منہ کر کے چیخ رہا ہے۔۔۔  ’’میں خود کشی کر رہا ہوں ‘‘

            جن میں سے سسکاریاں ابھرتی ہیں ،

            وہ شخص چبوترے کے درمیان لگے بجلی کے پول پر چڑھنے لگتا ہے۔ چکنے پول پر اس کے ہاتھ بار بار پھسلتے ہیں اور وہ چند فٹ اوپر جا کر پھر نیچے آ جاتا ہے۔ شمع کی نظریں اس پر جمی ہوئی ہیں۔ جونہی اس کے ہاتھ پھسلتے ہیں۔ مجمع اطمینان کا سانس لیتا ہے لیکن جب وہ پھر چند فٹ اور کھسکتا ہے تو مجمع کی سانسیں رک جاتی ہیں۔ وہ اوپر چڑھنے کی کوشش میں کئی قدم پھسلتا اور پھر دھڑام سے نیچے چبوترے پر، میرے کانوں کے قریب آ گرتا ہے۔ کپڑے جھاڑ کر اٹھتا ہے اور مجمع کی طرف منہ کر کے کہتا ہے۔۔۔  ’’میں خود کشی کر رہا ہوں ‘‘

            مجمع کے منہ سے سسکاریاں نکلتی ہیں۔

            لوگ دوڑ کر ساحل پر آتے ہیں اور سمندر میں کود جاتے ہیں۔ لہروں پر تیرتی آوازیں ساحل پر گر کر تپتی ریت میں وجود آشنا ہوتی ہیں اور چبوترے کے گرد پھر اتنا ہی مجمع جمع ہو جاتا ہے۔

            چبوترے پر کھڑا شخص،  لوگوں کی طرف منہ کر کے اپنے لفظ دہراتا ہے۔۔۔ ’’میں خود کشی کر رہا ہوں ‘‘۔

            اور کھمبے پر چڑھنے، پھسلنے اور گرنے کا وہی عمل۔۔۔ ،

            اس شہر کے لوگوں کو تاریخ بنانے کا بڑا چسکہ ہے مگر ان کا جغرافیہ روز بروز سمٹتا چلا جا رہا ہے۔۔۔  لیکن انھیں پرواہ نہیں۔ جغرافیہ رہے نہ رہے تاریخ ضرور بننی چاہیے۔ رات سے آدھی سے زیادہ بیت چکی ہے۔

            سمندر کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ رقص کر رہی ہے۔ میں ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا اس دیوار تک آ جاتا ہوں جو سمندر کو شہر سے جدا کرتی ہے۔ میں سمندر کی طرف سے دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر میرے ہاتھ کائی زدہ چکناہٹ پر سے پھسل جاتے ہیں اور میں دھم سے سمندر کے قدموں میں آن گرتا ہوں ، پھر اٹھ کر شہر کی طرف چل پڑتا ہون جو تالاب میں بنا ہوا ہے۔

            تالاب کے کنارے مزار کے گرد لگا ہوا میلا نشے میں جھوم رہا ہے، رنگ برنگی روشنیاں ، بھری ہوئی دکانیں ، سجے ہوئے پنڈال اور قہقہے لگاتے لوگ، میلا موج میں آ کر ایک بھرپور انگڑائی لیتا ہے اور اس کا پاؤں پھسل کر تالاب کے بھر بھرے کناروں پر آ پڑتا ہے تالاب بہت پرانا ہے اور اس کے کنارے  اتنے بھربھرے ہو گئے ہیں کہ وہ میلے کے پھسلتے پاؤں کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتے اور بیٹھ جاتے ہیں ، میلا اپنے آپ کو سنبھالنے اور پھیلے ہاتھوں سے آس پاس کی اونچائیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے، مگر تالاب کے پرانے اور بھربھرے کنارے اسے سنبھلنے نہیں دیتے اور میلا اپنی رنگ برنگی روشنیوں ،  بھری دکانوں ، سجے پنڈالوں اور قہقہے لگاتے لوگوں سمیت پلک جھپکنے میں تالاب میں جا گرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈوب جاتا ہے، پھر کچھ عرصہ بعد تالاب سے یہ شہر اگتا ہے، اور میں نہیں جانتا کہ کب یہ شہر بھی پھسل کر کسی تالاب میں جا گرے گا، اسی لیے تو میں مرنے سے پہلے مرنے کا تجربہ کر لینا چاہتا ہوں۔

            رات کے سیاہ بالوں میں اب چاندی پھولنے لگی ہے۔ میں اپنی کھڑکی میں واپس آ جاتا ہوں۔نیچے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سمندر گہرے گہرے سانس لے رہا ہے۔ میں کھڑکی میں سیدھا ہو کر کھڑا ہو جاتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ایک ہی لمبی چھلانگ لگا کر سمندر کے سینہ پر جا پڑوں ، ابھی اپنے بازو کھولتا ہی نہیں کہ پیچھے سے میری بیٹی کی آواز آتی ہے۔۔۔  ’’ابو کا کر رہے ایں ؟‘‘

میں مڑ کر دیکھتا ہوں۔ میری بیٹی ادھ کھلی آنکھوں میں نیند لیتے بازو پھیلائے مجھے بلا رہی ہے۔ میں دھم سے بستر پر گر پڑتا ہوں۔ میں مرنے سے پہلے مرنے کا تجربہ نہیں کر سکتا اور اب تھوری دیر بعد رات کے سارے سر میں سفیدہ کھل جائے گا اور رات کے جوان مہکتے چہرے پر بڑھاپے کی جھریاں پڑ جائیں گی، سفید رتھ پر سوار دن دوڑتا ہوا آئے گا اور سمندر جو اس وقت میرے کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر ٹانگیں پھیلا کر سستا رہا ہے، پھر کھسک کھسک کر میرے گھر سے تیرہ سو چھبیس کلو میٹر دور چلا جائے گا اور میں اس میلے میں جو اپنی رنگ برنگی روشنیوں ، دکانوں ، سجے پنڈالوں اور قہقہے لگاتے لوگوں سمیت پھسل کر تالاب میں ڈوب گیا ہے۔ پھر اکیلا رہ جاؤں گا۔

٭٭٭

 

کوڑا گھر میں تازہ ہوا کی خواہش

            شام رات کے پیانو پر اندھیرے کا گیت بجا رہی ہے۔

            سائن بورڈوں کی گود میں سوئی ہوئی روشنیاں آنکھیں ملتے ہوئے جاگ رہی ہیں۔

            فٹ پاتھ پر قدم قدم چلتے ہوئے میں اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ وہ جو اگلے سٹاپ پر میری منتظر ہے۔

            سیاہ برقعہ میں اس کا گدرایا بدن مجھے دور ہی سے اشارے کرتا اور سیٹیاں مارتا ہے۔

            ’’ہے‘‘۔

            ’’ہے‘‘۔

            ہم چپ چاپ ایک بغلی سڑک پر مڑ جاتے ہیں۔

            فٹ پاتھ کے ساتھ درختوں کی لمبی قطار گہری سوچ میں گم،  سانس روکے سوکھے پتے۔ پاؤں کے نیچے چُر مر چُر مر کی بے صدا آوازیں اور ٹریفک کا شور، باغ کے ایک نسبتاً ویران حصہ میں خالی بنچ پر بیٹھ کر کتابیں اور رجسٹر بے دلی سے ایک طرف پھینکتا ہوں۔ وہ برقعہ کے اگلے دو بٹن کھول کر لمبا سانس لیتی ہے۔

            گری ہوئی کتاب میں سے لفظ رینگ رینگ کر باہر نکلتے لگتے ہیں۔

            لفظ۔۔۔  جو اس شہر کی الماریوں میں ، کتابوں کے پنجروں میں بند قید تنہائی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

            لفظ جب باسی ہو جائیں تو بُو دینے لگتے ہیں۔

            تعفن سے لبریز گندی بُو

            میں جلدی سے کتاب بند کر دیتا ہوں۔

            لفظ اپنے قید خانے میں سمٹ جاتے ہیں۔

            وہ کہتی ہے۔۔۔ ’’کوئی بات کرو؟‘‘

            ’’کیا‘’

            ’’کچھ بھی‘‘

            ’’اچھا یہ بتاؤ یہ سڑک کہاں سے آتی ہے؟‘‘

            ’’معلوم نہیں ‘‘۔

            ’’یہ سڑک کہاں جاتی ہے؟‘‘

            ’’معلوم نہیں ‘‘

            ’’اچھا تو جو تمہیں معلوم ہے وہ بتاؤ‘‘۔

            ’’مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ، میری تو یادداشت ہی کمزور ہے۔ میں ایک لمحہ پہلے کی بات بھی بھول جاتا ہوں۔ مجھے تو اس گزرتے لمحے کی بھی خبر نہیں ‘’۔

            پت جھڑ کی سوکھی بانہوں میں جکڑا باغ، پتھر کی ٹھنڈی سِل، اور ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوئے ہم دونوں ،

            میں حاضری کا رجسٹر اٹھاتا ہوں۔

            ’’یس سر‘‘

            ’’یس سر‘’

            تو دراصل ہم یس سر کی مجسم صورتیں ہیں۔

            ہر روز ایک بینڈ ماسٹر ہمیں نئی دھُن پر ناچنا سکھاتا ہے،  دھن تو وہی پرانی ہے، صرف ساز ہی نیا ہوتا ہے۔

            بینڈ ماسٹر ہمیں پرانی دھن کے نئے انداز پر ٹرینڈ کرتا ہے اور جب خود ہی تھک جاتا ہے تو ساز کسی دوسرے کے حوالے کر کے چلا جاتا ہے۔

            نیا بینڈ ماسٹر آتا ہے

            ’’یس سر‘‘

            ’’یس سر‘‘

            ’’کوئی بات کرو نا‘‘۔

            میں اس کی کھڑکی کے نیچے کھڑا ہو کر سیٹی بجاتا ہوں ،

            وہ نیم پٹ کھول کر سرگوشی کرتی ہے۔۔۔ ’’کوئی دیکھ نہ لے‘‘۔

            ’’ہاں کوئی دیکھ نہ لے‘’۔

            دیکھ لیے جانے کا خوف آسیب بن کر پورے شہر پر منڈلا رہا ہے۔

            کوئی دیکھ نہ لے۔

            بند کمروں میں بھی دیکھ لیے جانے کا تشنج۔

            ’’کچھ تو کہو‘‘

            دور کہیں سے گانے کی آواز ابھرتی مدھم ہوتی پت جھڑ میں ڈوب جاتی ہے۔

            زندگی تو ایک گیت ہے اور ہم اس گیت کے بے وزن مصرعے ہیں۔

            ’’اچھا تو پھر تم نے کیا سوچا ہے؟‘‘

            ’’کس بارے ، وہ چونکتی ہے۔

            ’’میرے ساتھ بھاگ جانے کے بارے میں ‘‘

            وہ ہنس پڑتی ہے،

            ’’اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ میں تمہیں اغوا کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔

            وہ چپ ہو جاتی ہے۔

            گہری چپ

            کائی کا خاموش سمندر چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔

            میں سائلنسر اتری موٹر سائیکل پر پھٹ پھٹ کرتا آتا ہوں۔

            آواز سن کر وہ کھڑکی میں طلوع ہوتی ہے۔

            ’’چلو بھاگ چلیں ‘‘۔

            وہ سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر ہائے کہتی ہے اور کھڑکی میں ڈوب جاتی ہے۔

            گہرا ہوتا اندھیرا میرے پاؤں میں گدگُدی کرتا ہے۔

            ’’تو سارا مسئلہ دانتوں کا ہے‘‘۔

            وہ سر جھکائے ناخن سے ناخن کریدتی ہے۔

            میرے سر پر رکھا ٹوکرا ایک دم وزنی ہو جاتا ہے۔

            سب نے وزنی ٹوکرے اٹھا رکھے ہیں۔

            کسی کو نہیں معلوم ان میں کیا ہے۔

            کچھ بھی نہیں۔

            اندر سے تو یہ کب کے خالی ہو چکے ہیں ، ہم تو صرف ان کی بوسیدگی کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔

            ’’میں نے اس برقعہ کے نیچے جدید فیشن کا لباس پہنا ہوا ہے‘‘۔

            ’’مجھے معلوم ہے‘‘۔

            یہ بات سارے شہر کو معلوم ہے لیکن پھر بھی سارے شہر سے برقعہ اوڑھا ہوا ہے۔

            اپنے آپ سے بھی چھپنے کا شوق یا بیماری

            میں کتاب اٹھا لیتا ہوں ، چند سطریں پڑھ کر بند کر دیتا ہوں۔

            لکھے ہوئے سارے لفظ زنجیریں ہیں۔

            اور جو لفظ لکھے نہیں گئے، انھیں لکھنے کی جرأت نہیں۔

            ہر شخص نے کپڑوں کے نیچے زرہ بکتر پہنی ہوئی ہے۔

            وہ آہستہ سے میرے پھیلے ہوئے ہاتھ کو دباتی ہے اور اٹھ کر روشنی کے ساتھ ساتھ چلنے لگتی ہے۔

            باغ کے وسط میں فوارے کے حوض کے پاس رک کر جھک کر ہم پانی میں عکس دیکھتے ہیں۔

            ہمارے چہروں پر دھندلاہٹوں کے نیلگوں جزیرے ہیں۔

            ہوا اپنی سرمئی انگلیوں سے ہمیں گدگداتی ہے لیکن ہمیں ہنسی نہیں آتی۔ شہر میں ہنسنے پر پابندی ہے۔

            ہم ہنسے بغیر پوری سنجیدگی سے اپنے اپنے عکس کی مضحکہ خیزی کا تماشا کرتے رہتے ہیں۔

            ہمیں اس مضحکہ خیزی کا احساس بھی ہے۔

            لیکن ہنسنے پر پابندی ہے۔

            جانے میرے جی میں کیا آتا ہے۔ میں ہاتھ ڈال کر ٹھہرے ہوئے پانی کو ہلا دیتا ہوں۔ میرا اور اس کا عکس پھیل کر بکھر کر پانی ہو جاتا ہے۔

            بس اتنی سی بات ہے۔

            ہم جو صرف ہلتے عکس ہیں۔

            وہ قریب سے گزرتے چنا جور گرم والے سے دو پڑیاں لیتی ہے۔

            دانہ دانہ چگتے ہوئے ہم ٹکٹکی باندھے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں۔

            دفعتہً  وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے۔

            میں بھی ہنس پڑتا ہوں۔

            ہنستے ہنستے ہم ایک دوسرے پر گر پڑتے ہیں۔

            ہماری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں۔

            ’’تو پھر‘‘

            ’’تو پھر اب چلیں شازیہ گھبرا رہی ہو گی‘‘۔

            ابو۔۔۔  ابو کرتی شازیہ ننھے ننھے ہاتھوں سے میرے بند پپوٹوں پر دستک دیتی ہے۔

            ’’چلو‘’

            تیز تیز قد اٹھاتے بس سٹاپ کی طرف جاتے ہوئے میں مڑ کر پت جھڑ میں لپٹے درختوں پر ایک نظر ڈالتا ہوں ، اور پھر اس کی طرف دیکھتا ہوں۔

            میں اس عورت کو۔۔۔  جو میری بیوی ہے اغوا کرنا چاہتا ہوں۔

            لیکن۔۔۔ ؟

٭٭٭

 

ریزہ ریزہ شہادت

            جس وقت وہ پہنچا گھوڑا پسلیوں کے بل فٹ پاتھ پر گر چکا تھا اور دو وردیوں والے تتلی پکڑتے باغ میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ وہاں پہنچنے والا چوتھا شخص تھا۔ پہلے تینوں گھوڑے کے ارد گرد کھڑے حیرت و تجسس اور دکھ کے ملے جلے جذبوں سے اسے دیکھے جا رہے تھے۔ گھوڑے میں ابھی جان تھی اور وہ اپنی درد بھری آنکھوں سے باری باری تینوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بار بار ایک پاؤں اٹھانے کی کوشش کرتا پھر تیزی سے نیچے گرا لیتا۔ باغ میں جو دو آدمی تتلی پکڑنے گئے تھے۔ انھوں نے جال نکالا اور اس کے سرے، ڈوریاں ٹھیک کرنے لگے۔

            اس نے باری باری تینوں کو دیکھا لیکن و ہ سر جھکائے گھوڑے کی جانکنی کا تماشا کر رہے تھے ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے سوال کیا۔

            سامنے والے نے جواب دینے کی بجائے کندھے جھٹکے اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔ باقی تین بھی شانے اچکا کر رہ گئے۔ فٹ پاتھ کی دہلیز کے ساتھ رگڑ کا لمبا نشان پھیل کر سڑک تک آ گیا تھا اور گھوڑے کی پسلیوں سے بہتا خون اس میں رنگ بھر رہا تھا۔ گھوڑے نے ٹانگیں ہلا کر اٹھنے کی کوشش کی مگر بے دم ہو کر اسی پہلو زمین پر آ رہا۔

            باغ میں گئے دونوں آدمیوں نے پھولوں کے گرد جال پھیلایا اور کونے میں بیٹھ کر تتلی کا انتظار کرنے لگے۔ اس نے جھک کر گھوڑے کی پسلیوں سے نیچے دیکھنے کی کوشش کی۔ زخم تو نظر نہ آیا البتہ رستے خون کی رفتار اس کے پھیلاؤ اور گھیراؤ کو ظاہر کر رہی تھی۔خون کا دھبہ اب سڑک کے درمیان آ گیا تیزی سے آتے سائیکل سوار نے خون دیکھ کر بریکیں لگائیں۔ ’’کیا ہوا‘‘۔ وہ سائیکل سے اترتے ہوئے بولا۔ چاروں چپ رہے۔ گھوڑا جانکنی کے عالم میں تھا۔ اس کی آنکھوں میں موت کی غنودگی پھیل رہی تھی۔

            باغ کے کونے میں بیٹھے ایک نے دوسرے سے کہا۔۔۔  ’’تتلی کہاں ہے؟‘‘

            ’’خاموش رہو‘‘ دوسرے نے سرگوشی کی۔

            دو راہ گیر بھی وہاں رک گئے۔

            ’’کیا ہوا‘‘

            کیا ہوا؟

            جواباً اچکتے شانے اور گہری خاموش چپ۔ گھوڑے نے پسلیوں کے بل اٹھنے کی کوشش کی۔ اس کی ساری پسلیاں پھڑپھڑائیں۔ ٹانگیں ہلیں ، جسم ذرا سا اوپر اٹھا اور پھر دھپ سے نیچے جا گرا۔ اس کے ذہن کے خیمہ میں خون میں نہایا گھوڑا آن کھڑا ہوا۔ پیاسا میدان اور خون خون خیمے۔

            خون، خون۔۔۔  خون،

            سرخ، گرم، ابلتا خون،خون کا دائرہ پھیل کر سڑک کے بیچو بیچ آ گیا۔ ایک گزرتی کار چیختی بریکوں کے ساتھ فٹ پاتھ سے آ لگی۔ ’’کیا ہوا‘‘؟ کار والا بڑے نخرے سے نیچے اترا گھوڑے کے قریب آ کر اس نے ترحم سے اسے دیکھا اور بولا۔۔۔ ’’ oh poor soul‘‘

            پھر کار کی طرف منہ کر کے بولا۔۔۔  ’’گھوڑا مر رہا ہے‘‘۔

            ’’ہائی۔۔۔  میں نے آج تک کسی گھوڑے کو مرتے نہیں دیکھا‘‘ کار میں سے نسوانی آواز آئی۔ کار والے نے سامنے کھڑے ایک شخص کو کندھے سے پکڑ کر ایک طرف ہٹایا اور  بولا۔۔۔

            ’’پلیز، ذرا ایک طرف ہو جائیے، بے بی گھوڑے کو دیکھنا چاہتی ہے‘‘۔۔۔

            بے بی نے کار میں سے منہ نکال کر گھوڑے کو دیکھا۔ ’’What Exciting Scene‘‘  ”oh poor soul” دوسری عورت نے جو عمر کی آدھی سے زیادہ سیڑھیاں پھلانگ چکی تھی۔ اس کے شانوں سے جھانکا۔۔۔  ’’What a Scene‘‘

            گھوڑے نے پتلیاں پھیر پھیر کر ایک ایک کو دیکھا، اس کے نرخرے سے نکلتیں خرخر کی آوازیں قدرے اونچی ہو گئیں۔ ’’تتلی‘‘ باغ میں بیٹھے ہوئے ساتھ والے نے کہا۔

            ’’ہاں تتلی، دوسرے سے سرگوشی کی۔

            تتلی اوپر ہی اوپر منڈلا نے لگی۔

            ایک اسکوٹر والا کار سے ذرا پیچھے اسکوٹر روک کر فٹ پاتھ پر آ گیا۔۔۔  ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے کار میں بیٹھی عورتوں کو دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھیری فٹ پاتھ کی سلیں خون پی کر ہونٹ چاٹنے لگیں۔ ان سب کو دو دو چار چار قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔ ان کے ہٹنے سے فضا قدرے خالی ہوئی تو گھوڑے نے لمبا گہرا سانس لیا اور موت کی غنودگی کو سمیٹتا ہوا پوری آنکھیں کھول کر ارد گرد دیکھنے لگا۔ اس کی گردن دو تین لمحے تنی رہی، پھر نڈھال اور بے دم ہو کر زمین پر گری اور پسلیاں ٹوٹی ہوئی کمانوں کی طرح پھڑپھڑا کر رہ گئیں۔

            تتلی نیچے اور نیچے اترنے لگی۔ دونوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دو اور راہ گیر ان میں شامل ہو گئے۔

            ’’کیا ہوا؟‘‘

            ’’کیا ہوا؟‘‘

            گھوڑے نے ان کی آوازیں سن کر ایک لمحے کے لیے آنکھیں کھولیں ، پھر بند کر لیں اور موت کے گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ خون کا دائرہ گداں مارتا سڑک کے دوسرے کنارے کو چھونے کی کوشش کرنے لگا۔ تتلی نے ایک ادھورا چکر کاٹا اور پھول پر آ بیٹھی۔ دونوں کے سانس زبانوں پر آ رکے، ہاتھوں میں پھڑپھڑاہٹ اور ڈوری پر ان کی گرفت مضبوط ہو گئی۔

            اس کی آنکھوں کی کربلا میں بھوکے پیاسے خیمے ابھر آئے، پیاسے خیموں سے گھوڑا باہر نکلا اور اپنے سوار کو لے کر خون خون میدان میں قدم قدم آگے بڑھنے لگا۔

            کار والے نے ناک سکیڑی۔۔۔  ’’یہ گھوڑے کے خون کی بو بھی عجیب ہے، ’’Not Tolerable‘‘ اور دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

            کار میں بیٹھی عورتوں نے پرس کھول کر معطر رومال نکالے، خوشبو کے چھوٹے چھوٹے نقطے خون کی مہک کو گدگدانے لگے، اسکوٹر والے نے کار کی طرف دیکھتے ہوئے پھر ہونٹوں پر زبان پھیری اور وہ دو قدم پیچھے ہو گیا۔

            خون کا دائرہ پھیل گیا۔۔۔  انھیں چند قدم اور پیچھے ہٹنا پڑا۔ دونوں نے بیک وقت ڈوری کھینچی۔۔۔  تتلی پھڑپھڑائی، اڑنے کی ایک ناکام کوشش کی۔

            گھوڑے نے آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا، اٹھنے کی آخری کوشش کی۔ اس بار اس نے دونوں ٹانگیں جوڑ کر اٹھنا چاہا۔ مگر ذرا سا اٹھ کر دھپ سے نیچے جا گرا۔

            انھوں نے ہاتھ بڑھا کر تتلی کو پکڑا، احتیاط سے ڈبے میں بند کیا، جال سمیٹا اور چپ چاپ سڑک پر آ گئے۔ اس کے ذہن میں ساحل سمندر سے لگا گھوڑا ابھر آیا جو سموں سے ساحل کی ریت کریدتا آگے اور آگے بڑھنے کے لیے مچل مچل گیا۔ آگے سمندر۔۔۔  گہرا نیلا سمندر۔۔۔

            گھوڑا الوداعی ہچکیاں لینے لگا۔ کار والے نے کار کی طرف واپس جاتے ہوئے ترحم سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ ’’oh poor soul ‘‘

            ’’گھوڑے کے خون کی بو خاصی ناگوار ہے‘‘ اس نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے ساتھ والیوں سے کہا۔۔۔  کار خون کے دائرے کو کاٹتی ہوئی آگے نکل گئی۔ اسکوٹر والے نے کار کی طرف دیکھ کر پھر ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔۔  اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور کار کے کاٹے ہوئے دائرے میں سے ہوتا ہوا کار کے پیچھے چلا گیا۔۔۔  گھوڑے کی آنکھیں بند ہو گئیں ، پاؤں خاموش،  صرف پسلیوں کا ارتعاش دھیمے سروں میں جاری رہا۔ راہ گیر ایک ایک کر کے اپنے اپنے راستوں پر ہو لیے، سڑک پر پھیلا خون جم کر لوتھڑے کا چوغہ اوڑھنے لگا، سامنے والے کھمبے کا بلب بھی تھک کر دھندلا پڑ گیا وہ گھوڑے کے پاس اکیلا رہ گیا۔

            پیاسے خیموں سے نکلتا خون میں ڈوبا گھوڑا، سموں سے ریت کریدتا گھوڑا۔۔۔  سب ایک ایک کر کے ذہن کے دھندلکوں میں گم ہونے لگے۔

            گھوڑا خاموشی سے چپ چاپ مر رہا تھا، اس کا جسم ساکت اور آنکھیں بند تھیں۔ پسلیوں کا ہلکا سا ارتعاش جاتی زندگی کے آخری سانس گن رہا تھا۔

            سڑک دور دور تک سنسان ہو گئی۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور پاس پڑے ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔  ’’کم از کم ایک آدمی تو ایسا ہو جو آخری سانس تک اس کے پاس رہے۔۔۔ ‘‘

٭٭٭

 

٭٭٭خوا ا ب سے اپاہچہ فضا ا سرانڈ

سہ پہر کی خزاں

            اس نے لمبا سانس لیا اور کہنے لگا۔ ’’میں زندہ رہنا چاہتا ہوں ‘‘۔

            ب کے ہونٹوں پر عجیب پراسرار مسکراہٹ نے آنکھ کھولی۔ ’’زندگی اک ست رنگا کبوتر اس کے سارے رنگ کس نے دیکھے‘‘۔

            اس نے چٹکیوں سے چاندنی کو پکڑنے کی کوشش کی، بہتی چاندنی اس کی انگلیوں سے پھسل کر ادھر اُدھر نکل گئی۔

            ’’ایک خواب۔ محض ایک خواب‘‘

            ب نے ہنکارا بھرا۔ ’’خواب مگر اکیلے کا نہیں ‘‘۔

            وہ تیزی سے مڑا۔ ’’دوسرا کون؟‘‘

            ب مسکرایا۔ ’’وہی جسے دکھانے کے لیے ہم سب کچھ کرتے ہیں ؟‘‘

            ’’یہ تو ہے‘‘۔ وہ مسکرائی ’’تم باہر کیوں نہیں نکلتے؟‘‘

            ’’باہر نہیں تو کہاں ہوں ؟‘‘

            وہ کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔  ’’باہر آنے کے انتظار میں ‘‘۔

            ’’اور انتظار ایک کڑوا پھل ہے‘‘۔ ب نے اس کے کندھوں پر کھڑے ہوتے ہوئے اعلان کیا اور دیوار کے دوسری طرف کود گیا۔

            چاند گہرے گہرے سانس لے رہا تھا اور اندھیرا پاؤں کے نیچے چُرمرا رہا تھا۔

            وہ تھوڑی دیر پہلے توڑے گئے پھول کو پتی پتی کرنے لگا۔

            وہ پتیوں پر پاؤں رکھتی ہوئی آئی۔۔۔  ’’ہائی‘‘۔

            ’’ایک گھنٹہ تین منٹ لیٹ‘‘۔

            اس نے بے پرواہی سے شانے جھٹکے اور بولی۔ ’’شاپنگ کے لیے نکل گئی تھی‘‘۔

            اس کے چہرے پر بہت سے رنگ آنکھ مچولی کھیلنے لگے۔ ’’میں ‘’

            ’’مجھے معلوم تھا تم انتظار کر رہے ہو گے‘‘۔ وہ ہنسی ’’تم اور کر ہی کیا سکتے ہو؟‘‘

            ’’تم میری توہین کر رہی ہو‘‘۔

            ’’میں تو صرف دیر سے آنے کی وجہ بتا رہی ہوں ‘‘۔

            ’’وجہ۔۔۔  خود کو محفوظ رکھنے کی ایک ڈھال۔۔۔  ہونہہ‘‘

            وہ اس کے قریب بیٹھ گئی اور نرمی سے بولی۔ ’’تم لفظوں سے کھیلتے ہو‘‘۔

            ’’لفظ تو ٹوٹی ہوئی کمانیں ہیں ‘‘۔ ب نے آہستگی سے اس کا کندھا دبایا‘‘۔ اور ہم تو صرف تعمیل کرتے ہیں ‘‘۔

            وہ اپنے آپ میں سمٹنے لگتا ہے۔ سمٹتا ہی چلا جاتا ہے۔

            اس کے سامنے کھڑی وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتی رہی۔ پھر لفظوں کو چبا چبا کر بولی بغیر مانگے کبھی کچھ نہیں ملتا‘‘۔

            اس کی آنکھوں میں لہر سی اچھلی،  لیکن دوسرے لمحے ڈوب گئی۔ ’’میرے پاس مانگنے کے لفظ نہیں ‘‘۔

            ب نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور بولا۔ ’’کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بغیر مانگے ہی مل جاتا ہے، مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ طلب ایک تیز رفتار گاڑی ہے جو دوڑتی ہی رہتی ہے، کبھی نہیں ٹھہرتی‘‘۔

            اس نے کندھے جھٹکے۔۔۔  ’’لیکن میں دوسروں کی طرح اس گاڑی کے پیچھے نہیں دوڑ سکتا‘‘۔

            ب مسکرایا۔ ’’دوڑ تو تم اب بھی رہے ہو‘‘۔

            ’’ہم الگ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے اندر ہی ہوتے ہیں ‘‘۔

            وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ ’’میں کسی کے اندر نہیں ، اپنا چہرہ خود بنانا چاہتا ہوں ‘‘۔

            ب ہنسا، دیر تک ہنستا رہا، پھر بولا۔ اپنا چہرہ ہم خود تو بنا سکتے ہیں ، لیکن اسے شناخت دوسرے ہی کرتے ہیں۔ اپنی شناخت کے لیے ہمیں دوسروں کے پاس جانا پڑتا ہے۔

            ’’نمبر‘‘ بوڑھے اکاؤٹنٹ نے عینکوں کے دھندلے شیشوں میں سے اسے گھورا۔

            اکاؤنٹنٹ نے پے رول پر نشان لگایا اور تنخواہ کا ٹوکن اس کی طرف لڑھکا دیا۔ نوٹ گنتے ہوئے اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں لین دین کے پورے صفحے کو جلدی جلدی جمع تفریق کیا اور دس دس کے دو نوٹ نکال کر پتلون کی پچھلی جیب میں رکھ لیے۔

            ’’تو آج تمہیں تنخواہ ملی ہے‘‘۔ وہ مسکرائی۔

            ’’ہاں اور میں بڑی مشکل سے بیس روپے بچا سکا ہوں ‘‘۔

            ’’تم بے وقوفی کی حد تک صاف گو ہو‘‘۔ وہ آہستہ سے بولی۔ ’’اور یہ اچھی بات نہیں ‘‘۔

            بیرا چائے لے آیا۔ اس دوران وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ بیرا چائے اور کباب رکھ کر چلا گیا تو وہ بولا ’’مجھ میں بہت سی اچھی باتیں نہیں ہیں ‘‘۔

            ’’ہاں ‘‘ اس نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ ’’تم ڈیڈی سے نہ ملنا نہیں ایسے لوگ ذرا بھی اچھے نہیں لگتے‘‘۔

            کیبن کی چھت میں بڑا سا سوراخ ہو گیا اور تیز جلتا سورج عین اس کے سر پر ناچنے لگا۔

            ’’اپنی شناخت کراؤ‘‘ ب نے سسکاری لی اور قریب سے گزرتی ایک عورت کو دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔

            عورت کچھ دور جا کر بس سٹاپ پر کھڑی ہو گئی اور مڑ مڑ کر ان کی طرف دیکھنے لگی۔

            ب نے چٹخارہ بھرا۔ اور بولا۔ ’’اس عورت نے اپنی شناخت دو منٹوں میں کرا دی ہے اور تم دو سال سے مل رہے ہوں مگر ابھی تک یہ بھی نہیں جان سکے کہ وہ تمہیں سمجھتی کیا ہے؟‘‘

            ’’تم مجھے کیا سمجھتی ہو؟‘‘

            ’’میں۔۔۔  میں تمہیں۔۔۔  بس اچھا آدمی‘‘۔

            ’’صرف اچھا آدمی‘‘ اسکے چہرے پر گھنے سیاہ بادل چھا گئے۔

            ’’نہیں میرا مطلب ہے‘‘۔

            ’’کیا؟‘‘

            ’’یہی کہ تم اچھے آدمی ہو مگر۔۔۔ ‘‘

            ’’مگر کیا؟‘‘

            وہ ہنسی‘’ یہ کہ تم ضرورت سے زیادہ اچھے اور۔۔۔ ‘‘

            ’’اور ایسے لوگ تمہارے ڈیڈی کو پسند نہیں ‘‘۔

            ’’ہاں ‘‘ اس نے سر ہلایا۔

            ’’اور تمہیں ‘‘۔

            وہ کچھ دیر ناخن سے ناخن کھرچتی رہی پھر آہستہ آہستہ،  بہت ہی آہستہ سے بولی۔ ’’میں بھی تو اسی دنیا میں رہتی ہوں ‘‘۔

            گھنی سیاہ رات سارے جنگل میں پھیل گئی۔ گہرے گھپ اندھیرے میں وہ سر سے پاؤں تک بھیگ گیا۔

            بہت دیر بعد وہ جنگل سے باہر نکلا۔ ’’واقعی تم اسی دنیا میں رہتی ہو‘‘۔

            ب چپ چاپ اسے چائے پیتے دیکھتا رہا۔ اس نے پیالی میز پر رکھ دی اور ڈوبی ہوئی آواز میں بولا۔۔۔ ’’اس کے بعد ہم چپ چاپ اٹھے، خاموش سے باہر آئے اور کچھ کہے بغیر اپنے اپنے راستوں پر ہو لیے‘‘۔

            ب اب بھی چپ رہا۔

            ’’میں کیا کروں ؟‘‘

            ب کے ہونٹ اس کے چہرے میں دفن ہو گئے۔

            ’’میں کیا کروں ؟‘‘

            گہری الف خاموشی،

            اس نے ب کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا۔

            ب کچی مٹی کے کھلونے کی طرح بھرکر زمین پر بکھر گیا۔

            سنسان ویران سڑک پر دھند چپ چاپ قدم قدم چل رہی ہے۔

            سلاخ دار کھڑکی کے پیچھے پتھر ہوتی آنکھوں سے،  دور سے کسی کے آنے کی تمنا میں وہ دیر سے یونہی کھڑا ہے۔

            ملازم آتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔  ’’بیگم صاحبہ کھانے کی میز پر آپ کا انتظار کر رہی ہیں ‘‘۔

            ’’آ رہا ہوں ‘‘۔ وہ جانے سے پہلے پھر ویران سنسان سڑک کو دیکھتا ہے۔

            یہ سڑک کتنی ویران اور اداس ہے۔

            اسے خیال آتا ہے کہ دس سال پہلے ہوٹل والے واقعہ کے دوسرے دن جب وہ اس کے ڈیڈی سے ملنے آیا تھا تو یہ سڑک!

            وہ سلاخوں میں سے باہر جھانکتا ہے۔

            سنسان ویران سڑک پر دھند اکیلی ہی قدم قدم، قدم قدم چل رہی ہے۔

٭٭٭

 

دھوپ میں سیاہ لکیر

            اوپر غیر دوستانہ انداز میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے بادل، نیچے شرماتی لجاتی شام، وہ ایک نظر بادلوں پر،  دوسری شام پر ڈالتا ہے، کک اور زن سے گلی سے نکل کر سڑک پر آ جاتا ہے، چوک میں اسے دائیں طرف مڑ کر ریستوران میں جاتا ہے، جہاں روز شام کو بیٹھتا ہے۔ دائیں طرف کی بتی سرخ ہے، وہ غیر ارادی طور پر بائیں مڑ جاتا ہے۔

            ساری زندگی یوں ہی غیر ارادی طور پر نہ چاہے راستوں پر چلنے کی مجبوری،  کئی بار باگ چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتی ہے، مگر ہاتھ بدل جاتے ہیں ، باگ نہیں چھوٹتی، کئی ہاتھ،  مختلف چھوٹے بڑے، سخت نرم ہاتھ۔۔۔  دائیں طرف مڑنے کی تمنا، مگر بائیں چلنے کی مجبوری۔۔۔  بائیں چلنے کی خواہش، مگر دائیں مڑنے کی مجبوری، خواہش تو ہاتھ میں پھسلتی ریت،

            اندھیرا اور اوباش لڑکوں کی طرح سیٹیاں بجاتا شرماتی شام کے پیچھے لگا ہوا ہے، شام چھجوں ، سائبانوں اور کونوں میں سمٹ رہی ہے، وہ ان کے درمیان سے گزرتا، مرکزی شاہراہ پر آ گیا ہے۔ دور دھندلاتے پہاڑ اشارے کرتے،  نام لے لے پکارتے ہیں۔ وہ ایک لمحہ کے لیے سپیڈ کم کر کے واپس مڑنے کے لیے پیچھے نظر ڈالتا ہے، مگر رکے بغیر آگے نکل جاتا ہے۔

            گھوڑا دونوں ٹانگیں اٹھا کر ہنہناتا ہے، باگ توڑ کر نکل جانا چاہتا ہے، مگر؟ زندگی کے راستوں پر کبھی ماں ، کبھی باپ ٹریفک سپاہی کے روپ میں ، سرخ بتی،

            ’’میں ‘‘۔۔۔  ’’میں ‘‘، لیکن ہمیشہ ’’وہ‘‘۔۔۔  ’’وہ‘‘

            تانگے میں جتا گھوڑا۔۔۔  کوچوان ہنستا ہے، سواریاں کھلکھلاتی ہیں ،

            غیر ارادی طور پر  ایکسی لیٹر پر اس کے ہاتھ کا دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے۔

            دروازے میں کھڑی اس کی بیٹی کہتی ہے۔۔۔ ’’ابو،  ایک شاپنر، ایک پنسل، ایک ربر۔۔۔ ‘‘

            بیٹی کے پیچھے کھڑی بیوی۔۔۔  ’’جلدی آ جانا‘‘

            موٹر سائیکل مرکزی شاہراہ پر اڑتی چلی جا رہی ہے، بھورے پہاڑ رات کی گود میں چھپ گئے ہیں ، ٹھنڈی ہوا اس کی گالوں پر چٹکیاں لیتی ہے وہ مڑنے کے لیے سپیڈ کم کرتا ہے، مگر بڑھا دیتا ہے۔

            شہر اندھیرے کے تالاب میں ڈوبے کنکر کی طرح لہر کی صورت اس کے ذہن میں پھیلتا سمٹتا ہے۔ سردی اس کے انگ انگ میں انگڑائیاں لیتی ہے۔

            ’’میں کہاں جا رہا ہوں ؟‘‘

            کھوئی آنکھوں کے سامنے پھیلی سڑک، واپس مڑنے کا ارادہ، موٹر سائیکل بھاگتی چلی جاتی ہے۔ اوپر بادل ایک دوسرے کو بوسہ دیتے ہیں۔ بارش کی پھوار اس کے چہرے کو بھگو دیتی ہے۔ آس پاس کا سارا منظر اندھیرے کی بُکل میں۔۔۔

            ’’میں کہاں جا رہا ہوں ؟‘‘

            ’’ابو ایک شاپنر، ایک پنسل، ایک ربر‘‘

            ’’جلدی آ جانا‘‘

            دھندلائے چہرے، دھندلائی آوازیں ‘

            سڑک کی ویرانی اس کے ساتھ ساتھ سمٹ رہی ہے، شہر دور۔۔۔  بہت دور تالاب میں ڈوبے کنکر کی طرح۔۔۔

            موٹر سائیکل جھٹکے لیتا ہے، غیر ارادی طور پر اس کا ہاتھ ریزرو کو آن کر دیتا ہے۔

            سامنے گیارہویں میل کا پتھر۔۔۔

            گھر ابھی تک اس کی بانہوں کے دائرے میں۔۔۔ مڑنے کی خواہش پھر اس کی آنکھوں میں چمکتی ہے، مگر موٹر سائیکل رکے بغیر پھر رفتار پکڑ لیتا ہے،

            بارھواں میل۔۔۔

            تیرھواں۔۔۔

            چودھواں۔۔۔

            بارش کے موٹے موٹے قطرے۔۔۔  سردی ماہر شکاری کی طرح اس پر جال پھینکتی ہے پانی کوٹ، سویٹر اور قمیص سے رستا ہوا اس کے بدن پر ٹھنڈی انگلیاں پھیرتا ہے۔

            جھرجھری۔۔۔

            پندرھواں میل۔۔۔  سولھواں ، پھر سترھواں ، اٹھارواں ،

            سر جھٹک کر، جھرجھری لے کر، خود کو سنبھالنے کوشش

            ریزرو کی گنجایش اب ایک دو میل اور۔۔۔

            ایک دو میل،

            مایوسی کی ننھی چڑیا اس کے کندھے پر پھدکتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک پرندے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

            اب چڑھائی شروع ہو چکی ہے۔ مشین کی طرح اس کا پاؤں گیئر بدلتا ہے۔

            گھر دور۔۔۔  ایک موہوم نقطہ کی طرح،

            ’’ابو، میرے لیے ایک شاپنر،ایک۔۔۔ ایک‘‘

            ’’جلدی گھر آ جانا۔۔۔  جلدی، جلدی۔۔۔ جلدی‘‘

            شفاف صاف آسمان پر نیلی چڑیا اڑ رہی ہے، دفعتاً بلندیوں سے شکرا۔۔۔  چونچ نکالتا ہے، پنجے پھیلا کر جھپٹتا ہے۔۔۔

            بارش اس کے بدن پر دریاؤں کی طرح بہہ رہی ہے۔۔۔  سردی ریڑھ کی ہڈی پر لمبی نکیلی چونچ مارتی ہے۔۔۔  مارتی چلی جاتی ہے،

            دوسرا گیئر،  موٹر سائیکل اب پہاڑ پر جانے والی سڑک پر دوڑے جا رہی ہے۔

            شہر کی روشنیاں۔۔۔  دور، جھلملاتی۔۔۔  تیرتی، تیرتی۔

            ’’میں کہاں جا رہا ہوں ؟‘‘

            گھر۔۔۔  سونے کا کمرہ،  ہیٹر کے آگے دری پر اس کی بیٹی، بیوی، درمیان میں چلغوزوں کی ٹرے۔۔۔  بیٹی ایک چلغوزہ چھیل کر اس کے منہ میں ڈالتی ہے اور کُلے میں جھول جاتی ہے۔۔۔  ’’ابو جی‘‘

            بیوی اس کے کندھے سے ٹیک لگائے چلغوزے چھیل رہی ہے،

            ہیٹر کی تمازت۔۔۔  لمس، گرم لمس، وجودوں کا، سانسوں کا۔

            بارش تیز ہو گئی ہے۔

            سردی ہاتوں میں گینتی لیے اس کے جسم پر اس کی قبر کھود رہی ہے۔

            اندھیرا گپ

            ’’میں کہاں۔۔۔ ؟؟‘‘

            بارش کا پانی آنکھوں میں اتر رہا ہے،

            منجمد ہاتھ۔۔۔

            دفتر میں ہیٹر کے سامنے خوش گپیوں کی سرسراہٹیں ، گرم چائے کا لمس،

            موٹر سائیکل کی آواز اور رفتار میں کپکپاہٹ۔۔۔  ریزرو بھی ختم ہو رہا ہے۔

            اوپر اندھیرا اور اندھیرے سے برستا منوں پانی۔۔۔

            ’’ابو جی میرے لیے۔۔۔ ‘‘

            ’’جلدی۔۔۔ ‘‘

            گھوڑا باگ تڑوانے کی کوشش میں دائیں بائیں سر مارتا ہے، سموں سے زمین کریدتا ہے۔۔۔

             اس کے وجود کی ڈائری سے لکھے ہوئے، کٹے ہوئے بے شمار ورق پھڑپھڑا کر نکلتے ہیں اور اڑتے اڑے، پرزہ پرزہ ہو جاتے ہیں۔

            ایکسی لیٹر پر اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں ،

            واپسی، ایک خواہش جس کے پر ٹوٹے ہوئے ہیں ،

            موٹر سائیکل جھٹکے لیتا ہے۔۔۔  ریزرو بھی ختم ہو رہا ہے۔

            وہ بے بسی سے ادھر اُدھر دیکھتا ہے۔۔۔  سڑک کے دونوں طرف گھنا جنگل،

            ’’ابو جی۔۔۔  ‘‘

            موٹر سائیکل ایک جھٹکے کے ساتھ بند ہو جاتی ہے، اس کے ساتھ ہی ہیڈ لائٹ کی روشنی بھی۔۔۔

            گپ اندھیرا،

            سردی نکیلی چونچوں سے اس کا سارا جسم ادھیڑ رہی ہے۔ موٹر سائیکل سے اترنے کی کوشش میں لڑکھڑا جاتا ہے۔ موٹر سائیکل لڑھک کر سڑک کے درمیان جا گرتی ہے۔ وہ اٹھتا ہے، سنبھلتا ہے، گر پڑتا ہے۔۔۔  درد کدال ہاتھ میں لیے اس کی قبر کھود رہی ہے۔۔۔  سردی بھوکے گدھ کی طرح اسے نوچ نوچ رہی ہے۔۔۔

            اندھیرا تیرتا اندھیرا۔۔۔

            شہر، روشنیاں ، گھر۔۔۔  دھندلائی شبیہیں ،

            آنسو اور بارش کا پانی،

            ’’ابو جی۔۔۔ ‘‘

            وہ بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔

            ’’ابو میرے لیے۔۔۔ ‘‘

            ’’جلدی آ۔۔۔  جلدی،۔۔۔ ‘‘

            مسکراتے چہرے دھیرے دھیرے پیچھے ہٹ رہے ہیں ،

            آنکھوں کو کھلا رکھنے کی ناکام کوشش،

اندھیرا، بارش اور سردی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اس کے گرد ناچ رہے ہیں ،

            دور نیچے۔۔۔  شہر کے ایک گھر میں ہیٹر کے سامنے چلغوزے چھیلتے ماں بیٹی سے کہتی ہے۔۔۔  ’’اب سو جاؤ میری جان‘‘

            بیٹی جواب دیتی ہے۔۔۔  ’’ابو آئیں گے تو سوؤں گی۔۔۔  شاپنر، پنسل اور ربر۔۔۔  لائیں گے میرے لیے‘‘

            دور پرے۔۔۔  ویران سڑک پر گرا ہوا موٹر سائیکل،  فاصلہ پر بارش میں بھیگتا، سردی کے پنجوں میں پھڑپھڑاتا ایک شخص۔۔۔  بند آنکھوں میں خواب،  خوابوں میں آوازیں ،

            دھندلے خواب،  دور ہوتی آوازیں ،

            ’’ابو جی۔۔۔  میرے لیے‘‘

            ’’جلدی آ جانا۔۔۔ آ۔۔۔ آ‘‘

            ’’ابو جی۔۔۔ ابو۔۔۔ اب‘‘

٭٭٭

 

بانجھ ریت اور شام

            آسمان کا طشت اندھیرے سے لبالب بھرا ہوا ہے۔

            اور الف ننگی رات ہاتھوں میں خوف کے چابک لیے گلیوں اور سڑکوں پر ناچ رہی ہے،

            خار دار باڑوں اور بے بسی کے جبڑوں میں دبا ہوا شہر،

            غراتے کتے تھوتھنیاں اٹھا کر ہوا میں سونگھتے ہیں ،

            غراتے ہیں ،

            ہوا اور رات الف ننگی ہو کر،

            ہاتھوں میں دہشت اور خوف کی چابکیں لیے سڑکوں ، گلیو ں میں دوڑتی ہیں ،

            یہ خوف کی رات ہے،

            مجسم رات،

            صبح سے شام اور شام سے صبح تک رات ہی رات

            اس رات، اندھیرے کی پھوار میں بھیگتا وہ چند لمحوں کے لیے ٹھٹھکتا ہے، تاریکی میں چھپے ڈراؤ نے خواب، پیچھے سے دبے پاؤں آتے اور حملہ کرنے والے کی چاپ، ٹھنڈک اس کی گالوں پر نرم نرم انگلیاں پھیرتی ہے، ہوا اس کی پسلیوں میں ٹھوکا دیتی ہے، اسے اپنے اندر کسی چیز کے پھیلنے، سکڑنے کا احساس ہوتا ہے، لڑکھڑاتے منظر آنکھوں کی انگلیوں سے پھسل جاتے ہیں۔

            دروازہ کھولتے اس کی بیوی پُر اسرار نظروں سے اس کی طرف دیکھتی ہے،

            چپ دریا میں سانس کی لہریں ،

            وہ کہتی۔۔۔  ’’میں نے سنا ہے۔۔۔ ‘‘

            ’’وہاں ‘‘وہ بات کاٹتا ہے ’’کوئی ہے ضرور جو دبے پاؤں آتا ہے اور پیچھے سے اچانک وار کر دیتا ہے‘‘۔

            ’’تم نے دیکھا اسے‘‘ بیوی اس کی آنکھوں پر دستک دیتی ہے۔

            ’’میں۔۔۔  میں کیسے دیکھ سکتا ہوں ، تمہیں کیسے خیال آیا؟‘‘

            ’’ویسے ہی۔۔۔  ویسے ہی‘‘

            کچھ دیر بعد پھر وہی سوال۔۔۔  وہی بات۔۔۔

            ’’سنا ہے وہ دبے پاؤں آتا ہے اور اچانک پیچھے سے وار کر دیتا ہے‘‘۔

            ’’ہاں ‘‘

            ’’وہ ایک اور شہر اتنا بڑا، آخر کوئی اسے پکڑتا کیوں نہیں ، کچھ کہتا کیوں نہیں ؟‘‘

            ’’کون کہے، ہر کوئی دوسرے سے اس کی توقع کرتا ہے‘‘۔

            بے معنی گفتگو، پھوکے لفظوں کی چھینٹیں ،

            گہری خاموشی سہمے ہوئے لوگوں کے درمیان سرسراتی ہے،

            سوال آنکھیں ملتا سر اٹھاتا ہے،

            ’’ہے کون جو دبے پاؤں پیچھے سے آتا ہے اور اچانک وار کر جاتا ہے‘‘۔

            بڑبڑاہٹ۔۔۔

            ’’تم نے دیکھا اسے‘‘ ساتھ والی میز سے آواز آتی ہے۔

            ’’میں نے۔۔۔  نہیں تو، تم نے۔۔۔ ‘‘

            ’’میں نے بھی نہیں ‘‘۔

            ٹی ہاؤس کی میز پر لفظ بکھرے ہوئے ہیں ، وہ انھیں جوڑتا ہے، جھکے ہوئے سر اور جھُک جاتے ہیں ،

’’تو کیا یہ مقدر ہے کہ وہ اچانک وار کرے اور ہم۔۔۔  ایک ایک کر کے، ایک ایک کر کے‘‘۔

            وہ جانے والوں کے نام گنتا ہے، ہندسے ختم ہو جاتے ہیں ،

            اندھیرا آسمان کے طشت میں بوند بوند جمع ہو رہا ہے، یہاں تک کہ آسمان کا طشت لبالب بھر جاتا ہے، تاریکی کی پھوار میں بھیگتا وہ سر سے پاؤں تک اندھیرے میں لتھڑ جاتا ہے،

            ڈراؤنے خواب کھلکھلا کر ہنستے ہیں ،

            پیچھے آنے والا ناچتے شعلے کی طرح پھڑپھڑاتا، گلی کی نکڑ سے نمودار ہوتا ہے۔ اسے اپنے اندر کسی شے کے پھیلنے، سمٹنے اور پھر پھیلنے کا احساس ہوتا ہے،

            لڑکھڑاتے ہوئے بہت سے منظر۔۔۔  بہت سے منظر،

            بہت سے منظر،

            وہ سر اٹھاتا ہے تو ناچتا شعلہ گزر چکا ہے،

            آسمان کے طشت کے کناروں سے چاند منہ نکال کر اسے آنکھ مارتا ہے

            بیوی دروازہ کھولتے ہوئے کوئی سوال نہیں کرتی،

            بیٹی کو گود میں اٹھاتا ہے تو ٹافیاں نہیں مانگتی،

            کھانے میں سے کچے گھی کی ہمک نہیں آتی،

            دیواروں سے سیلن کی بو بھی نہیں ،

            بستر کی سختی چبھتی نہیں ،

            کوئی سوال نہیں۔۔۔  کوئی جواب نہیں ،

            صبح دفتر جاتے ہوئے مسکراہٹیں ، ٹاٹا کی چہکار،

            دفتر میں میز پر کوئیPendingفائل نہیں ،

            مسکراہٹیں ہی مُسکراہٹیں ،

            واپسی پر ٹی ہاؤس میں میز صاف ستھری،  کوئی بکھرا ہوا لفظ نہیں ،

            گھر آتے ہوئے جب وہ گلی کی نکڑ پر پہنچتا ہے تو دائیں ، بائیں پھر مڑ کر دیکھتا ہے اور کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے،

            بیوی مسکراہٹ کے چراغ جلائے دروازہ کھولتی ہے،

            بیٹی دوڑ کر ٹانگوں سے لپٹ جاتی ہے،

            اور سرمئی دھند کے دوسری طرف اس کی بیوی تعزیت کے لیے آنے والوں کو بتا رہی ہے ہ پرسوں رات گھر آتے ہوئے جب وہ گلی کی نکڑ پر پہچا تو اچانک اس پر دل کا دورہ پڑا، اور۔۔۔  اور۔۔۔  اور پھر وہ پھُسک پھُسک کر رونے لگتی ہے!

٭٭٭

 

طناب ٹوٹا خیمہ

            یہ شہر بہت پراسرار ہے یہاں لوگ جاگ رہے ہیں پھر بھی سور ہے، سو رہے ہیں پھر بھی جاگ رہے ہیں۔

            سڑک کے بیچو بیچ اس منڈیر پر جو اس چوڑی سڑک کو دائیں بائیں تقسیم کرتی ہے، پنجوں کے بل توازن درست کرتی۔ ایک عورت، ایک مرد، ان کے درمیان ایک گول مٹول بچہ۔۔۔  سڑک پار کرنے کی کوشش میں ایک قدم اٹھاتے ہیں لیکن سنسناتی گاڑیوں کی سیٹیاں انھیں پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔

            چوک میں ٹریفک کا سگنل سرخ ہوتا ہے۔

            دونوں بچے کو بازوؤں سے پکڑ لیتے ہیں اور ڈولی ڈنڈا۔۔۔  ڈولی ڈنڈا کرتے سڑک کی پھیلی بانہوں میں اتر جاتے ہیں۔

            بچہ بازوؤں میں جھولتے ہوئے ہنستا ہے۔۔۔  غوں غوں غوں۔

            ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر پھولی سانسوں کو ٹھیک کرتے ہوئے وہ دور تک پھیلے خلا، میں نظر دوڑاتا ہے۔ دائیں ہاتھ ٹیلے کے ساتھ جڑے پانچ چھ کیکر کے درخت ہیں۔ اوپر سے یہ کئی دکھائی دیتے ہیں لیکن نیچے جا کر ایک ہو جاتے ہیں۔ زمین دور دور تک کٹی پھٹی ہے۔ اونچے نیچے ٹکڑے،  گندم کی سبز بالیاں جن میں پھیلاہٹ جھلملا رہی ہے۔ بائیں طرف درختوں کا ایک خاموش جھنڈ کھیتوں کے درمیان خاموش سوئی ہوئی پگڈنڈی۔

            تینوں سڑک کے دوسری طرف پہنچ گئے ہیں۔ بچے کو فٹ پاتھ پر کھڑا کر کے مرد گزرتی ٹیکسیوں کو ہاتھ دے رہا ہے۔

            ایک ٹیکسی ان کے قریب رک جاتی ہے۔

            وہ بچے کو بازوؤں میں جھلاتے ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔

            بچہ اُچک اُچک کر کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

            ٹیکسی کی رفتار تیز ہوتی ہے پھر کم ہونے لگتی ہے۔

            برابر کی گلی میں سے بھینسوں کا ایک قافلہ نکلتا ہے اور سڑک عبور کرنے لگتا ہے۔

            مرد ہنستا ہے۔

            عورت اس کی طرف دیکھتی ہے تو کہتا ہے۔ ’’اس سڑک پر چھٹی اور بیسویں صدی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں ‘‘۔

            ٹیکسی بھینسوں کے درمیان سے راستہ بنانے کی کوشش میں ایک اور گاڑی سے رگڑ کھاتی ہے۔

            دونوں ڈرائیور نیچے اتر آتے ہیں اور ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے کے لیے زور زور سے بولتے ہیں۔

            پیچھے دور تک ٹریفک رکی ہوئی ہے۔

            بھینسوں والا بڑے مڑے سے۔۔۔  ہو ہو کرتا چلا جا رہا ہے۔

            ٹیلے کے چاروں طرف ایک پراسرار خاموشی ہے۔

            اکا دُکا درختوں کے ساتھ چلتی پگڈنڈی ڈھلوان کی طرف مڑنے لگتی ہے اس سے آگے گہری کھائی ہے۔ اتنے سالوں میں بھی اس پر پل نہیں بن سکا۔ کھائی کے دوسری طرف جرنیلی سڑک ہے جس پر سارا دن ٹرک، بسیں اور کاریں دوڑتی رہتی ہیں۔ کھائی سے اس طرف خاموش کھیت ہیں ، جہاں رات پستی ہوئی آئی ہے اور پاؤں پسار کر لیٹ جاتی ہے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی سورج گھر کے آنگنوں میں جھاتیاں مارنے لگتا ہے۔

            کُکو۔۔۔  کُکو کی آواز وقفوں وقفوں سے چاروں طرف گونجتی ہے۔ ایک ہی لے۔۔۔  ایک ہی سُر میں۔

            ٹیکسی ایک چھوٹی سڑک پر دوسری گاڑیوں کے ہجوم میں گھری قدم قدم چل رہی ہے بچہ اُچھل اُچھل کر کھڑکی کی طرف لپکتا ہے۔

            ’’دیکھو، دیکھو شیشے سے سر نہ ٹکرا جائے‘‘۔ مرد عورت کو خبردار کرتا ہے،

            اونچے ٹیلے پر بیٹھا وہ سامنے والے کھیت میں کام کرتی ایک عورت اور اس کے بچے کو دیکھ رہا ہے عورت چھولئے کے پکے پودے توڑ رہی ہے اور بچہ انھیں گڈیوں میں باندھ رہا ہے۔

            سورج کی کرنوں میں جوانی کا گرم خون دوڑنے لگا ہے، وہ جسموں میں چٹکیاں لینے لگی ہیں۔

            پسینے میں ڈوبی ہوئی عورت اور بچہ۔

            چھولئے،  مسور اور گیہوں کی مسحورکن خوشبو

            اور مسلسل۔۔۔ کُکو۔۔۔ کُکو

            ٹیکسی آگے پیچھے کے رش میں اب تقریباً رُک گئی ہے۔

            بچہ شیشے میں سے جھانکتے ہوئے مسلسل، غوں غوں۔۔۔  غوں غوں کر رہا ہے۔

            عورت کہتی ہے۔۔۔  ’’جان دیکھو منا باتیں کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔

            بچہ یہ سن کر۔۔۔ ’’ اُکاں۔۔۔ کناں۔۔۔ کاں ‘‘ کرتا ہے۔

            ’’دیکھا۔۔۔  دیکھا۔۔۔۔۔۔  عورت خوشی سے پھولے نہیں سماتی۔

            مرد مسکراتا ہے۔ ایک گہری پر اسرار مسکراہٹ

            ’’بس بولنے کا چاؤ ہی ہوتا ہے‘‘۔ وہ مسکراتا رہتا ہے۔ ’’ہم بول سکتے ہیں مگر کیا واقعی بول سکتے ہیں ؟‘‘

            بچہ اس بات سے بے نیاز، شیشوں میں سے جھانکتے ہوئے۔۔۔  غوں ،  غاں ، آکناں۔۔۔  کاں کا‘‘ کرتا رہتا ہے۔

            آگے ایک ٹانگے والا بد کے ہوئے گھوڑے کو رام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

            پیچھے مسلسل پُوں پُوں میں پروئی ہوئی لمبی گاڑیوں کی قطار۔

            ایک موٹر سائیکل ٹیکسی کے برابر آ کر رکتی ہے موٹر سائیکل پر ایک نوجوان جوڑا بیٹھا ہے لڑکے نے جین کی جیکٹ اور پتلون پہنی ہوتی ہے۔ لڑکی نے پتلون نما پائجامہ،

            سٹیئرنگوں کے پیچھے بیٹھے سارے مرد اسے دیکھتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے اور مزے سے ہارن بجاتے رہتے ہیں۔

            سڑک کے دوسری طرف فٹ پاتھ پر دو عورتیں سفید ٹوپی دار برقعہ پہنے سڑک پار کرنے کی جستجو میں کبھی ادھر کبھی ادھر جاتی ہیں۔ ان کے لمبے خیمہ نما برقعے ان کے لیے مصیبت بنے ہوتے ہیں اور بار بار ان کے پاؤں میں الجھتے ہیں۔

            ٹیلہ پر بیٹھا وہ خاموش چپ نظروں سے چاروں طرف دیکھتا ہے، عورت اور بچے نے چھولئے کی گڈیاں سروں پر رکھ لی ہیں اور وہ مزے مزے پگڈنڈی پر چلے جا رہے ہیں۔

            گھوڑا تانگے والے کی مسلسل کوششوں کے باوجود تہیں مان رہا۔ سٹیئرنگ کے پیچھے بیٹھے سارے پوں پوں کر رہے ہیں۔ برابر کی سڑک میں ایک بیل گاڑی نکل کر ٹیکسی کے دوسری طرف آن کھڑی ہوتی ہے۔

            بچہ شیشوں میں سے جھانکتے۔۔۔  ’’اُکاں۔۔۔ کاں کاں ‘‘ کر رہا ہے۔

            بدکا ہوا گھوڑا

            اس کے پیچھے گاڑیوں ، بیل گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کی قطاریں رفتہ رفتہ ساکت ہوتی چلی جاتی ہیں۔

            ایک پُر اسرار شور

            شور ہی شور

            دفعتاً ٹیکسی ڈرائیور کو احساس ہوتا ہے کہ پچھلی سیٹ پر گہری خاموشی ہے۔

            وہ تیزی سے مڑتا ہے۔

            پچھلی سیٹ خالی ہے۔

            وہ حیرت سے ادھر اُدھر دیکھتا ہے اور اس کی نظر دکانوں پر لگے سائن بورڈوں پر جا رکتی ہے

            عورت چائے کے ایک اشتہار پر چپکی ہوئی ہے۔

            مرد سگریٹ کے ایک اشتہار پر کھڑا ہے۔

            اور بچہ۔۔۔  دودھ کے ایک اشتہار پر گلاس ہاتھ میں لیے کچھ کہہ رہا ہے۔

            یہ شہر بہت پر اسرار ہے یہاں لوگ جاگ رہے ہیں ، پھر بھی سو رہے ہیں ، سو رہے ہیں پھر بھی جاگ رہے ہیں۔

٭٭٭

 

پیلا شہر سراب

            بڑی غیر متوقع اور عجیب رات ہے۔

            یوں لگتا ہے جیسے بھری دوپہر میں رات نے گھات لگا کر حملہ کیا ہے اور آناً فاناً سارے شہر کو اندھیرے کی بُکل میں لپیٹ لیا ہے۔

            آسمان پر گھنے سیاہ بادلوں نے شب خون مارا ہے۔۔۔ !

            بادلوں کے آگے آگے دوڑتے ستارے جان بچانے کی کوشش میں دور گہرائیوں میں ڈوب ڈوب گئے ہیں۔

            بڑی سڑک پر دکانیں بند ہو رہی تھیں۔

            شٹروں کے گرنے، شوکیس کے کھینچنے کی اکا دکا آوازوں کے درمیان،  ہوائی سرسراہٹ کا مسلسل احساس اور ایک عجیب بے یقینی کی کیفیت میں ڈوبا تیز تیز چلتا وہ، تعاقب کرتی آہٹ کا ایک ہی روم۔

            وہ شخص اس کے پیچھے پیچھے چلے آ رہے ہیں۔

            ہوا میں سرسراہٹ،  بوند بوند گرتی ہے یقینی۔

            اس کے قدموں میں تیزی آ جاتی ہے۔

            تعاقب کرتی آہٹ کا روم وہی،

            وہ دونوں اس کی رفتار کا برابر ساتھ دے رہے ہیں۔۔۔ !

            ’’تعاقب‘‘ خوف پہلو سے بل کھاتا نکل جاتا ہے۔

            وہ تیز ہو جاتا اور مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا ہے۔

            وہ بھی تیز ہو جاتے ہیں۔

            سامنے چوک۔ سمت کا انتخاب۔

            پیدل کراسنگ کی بتی سرخ ہے لیکن وہ ٹریفک کی پروا کیے بغیر دوڑ پڑتا ہے اور گاڑیوں سے بچتا بچاتا ہانپتا کانپتا دوسری طرف نکل جاتا ہے۔

            پیچھے آتے وہ دونوں سڑک کے درمیان پہنچ چکے ہیں۔

            ’’تو تعاقب‘‘۔۔۔  وہ دوڑ پڑتا ہے۔۔۔  دوڑتا رہتا ہے۔

            دکانیں کب کی بند ہو چکی ہیں ، لوگ گھروں کو جا چکے ہیں اور وہ اس تنہا اکیلی سڑک پر،  ہانپتی ہوا کے ساتھ قدم قدم چل رہا ہے۔

            وہ میرا پیچھا کیوں کر رہے ہیں ؟

            ’’کیوں ؟‘‘

            فضا میں شعلہ لپکتا ہے، ہوا بجلی کے تاروں کو جھولے کی رسی کی طرح گھما رہی ہے۔

            تار سے تار ٹکراتی ہے تو شعلہ لپکتا ہے اور پھر گھور اندھیرا۔۔۔

            اگر تار ٹوٹ کر مجھ پر آ گریں ؟

            وہ جست لگا کر سڑک کے بیچو بیچ آ جاتا ہے۔

            یہ انتہائی تاریک رات ہے۔

            یوں لگتا ہے جیسے اندھیرے نے روشنی کی ایک ایک کرن کو چُن چُن کر نگل لیا۔

            وہ سڑک کے بیچو بیچ چل رہا ہے۔

            اُڑتی مٹی سے آنکھوں کو بچاتے، اسے خیال آتا ہے اگر اچانک کوئی تیز رفتار گاڑی آ جائے تو۔

            تو۔۔۔

            وہ سمٹ کر دوسری طرف کی فٹ پاتھ پر آ جاتا ہے۔

            ہوا تیز ہاتھوں سے سائن بورڈوں کو ڈھول کی طرح بجا رہی ہے۔

            اس کے سر پر سائن بورڈوں کی قطار ہے۔

            ہوا پھنکارتی ہے، خوف کا کتا اس کے گرد چکر لگاتا،  بھوں بھوں کر رہا ہے۔

            اکر کوئی سائن بورڈ مجھ پر آن گرے تو۔۔۔

            تو۔۔۔

            وہ اچھل کر سڑک کے بیچو بیچ آ جا تا ہے۔

            یہ بڑی ڈراؤنی سرد رات ہے۔

            کھمبوں پر لگے ہوئے بلب تھک کر پیلے پڑ گئے ہیں اور ٹمٹماتے ہوئے آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔

            وہ رک جاتا ہے۔ جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالتا ہے اور سڑک پر تقریباً اوندھا ہو کر سگریٹ سلگانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر ہوا ہاتھوں میں تیر کمان لیے نشانے لگا رہی ہے۔

            وہ سڑک کے درمیان بیٹھ جاتا ہے اور گھٹنوں میں سردے کر ماچس جلاتا ہے۔ دفعتاً اسے خیال آتا ہے اگر ایسے میں کوئی گاڑی اس کے اوپر سے گزر گئی تو۔۔۔

            تو۔۔۔

            وہ اتنی تیزی سے اچھلتا ہے کہ سگریٹ منہ سے نکل کر دور جا گرتی ہے۔

            یہ رات ٹوٹ ٹوٹ کر اندھیرے میں ڈوبی ہوتی ہے۔

            گہرا گاڑا اندھیرا تارکول کی طرح چیزوں کے منہ پر بہہ رہا ہے۔

            ایک طرف کی فٹ پاتھ پر بجلی کی تاریں اور تیز طوفانی ہوا۔

            دوسری طرف کی فٹ پاتھ پر سائن بورڈ اور ہانپتی کانپتی پاگل ہوا۔

            سڑک کے بیچو بیچ شاں شاں کرتی تیز گاڑیاں۔

            ’’گھر۔۔۔ ‘‘

            کہیں دور تاریکی میں ڈوبا ہوا گھر عکس کی طرح ہلتا جھلملاتا ہے۔

            تیز ہوا، ڈراؤنی شکلیں بناتے بادل۔

            نہ ختم ہونے والی ہیبت ناک رات اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔

             چیزیں اندھیرا

            آواز اندھیرا

            پہچان اندھیرا

            رنگ اندھیرا۔۔۔  اندھیرا ہی اندھیرا

            وہ سڑک کے بیچو بیچ کھڑا کبھی مڑ کر دیکھتا ہے کہ کوئی پیچھا تو نہیں کر رہا۔ کبھی ایک طرف کی  فٹ پاتھ پر نظر ڈالتا ہے جس کے اوپر بجلی کی تاریں ہوا کے زور سے پھڑپھڑا رہی ہیں۔ ان کے ٹکرانے سے بجلی کا شعلہ لحظہ بھر کے لیے اندھیرے میں چمکتا ہے۔ پھر تیز رگڑ اور موت کی سیٹی کا مسلسل شور دوسری طرح کی فٹ پاتھ پر بڑے بڑے سائن بورڈ ہل ہل کر اپنی اپنی میخوں میں ڈھیلے ہو کر جھول رہے ہیں۔

            سر پر گہرے گھنے اُمڈتے بادل اور دل ہلانے والی گڑگڑاہٹ۔

            سڑک کے بیچو بیچ تیز گاڑیوں کے نیچے آ کر کچلے جانے کا خوف آگے گھورا اندھیرا جس میں ڈوبے ہوئے گھر کا تصور۔۔۔  ایک خواب محض ایک خواب۔

            اس خواب کے پیچھے قدم قدم چلتا وہ کبھی رُک جاتا ہے چل پڑتا ہے پھر رُک جاتا ہے۔ آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھتا ہے پھر چل پڑتا ہے۔

            بادل پورا زور لگا کر چیختے ہیں اور بارش کا ایک بھرپور تھپڑ اس کے منہ پر آ کر لگتا ہے کھمبے کے اوپر زور دار دھماکہ ہوتا ہے۔ شعلہ چمکتا ہے تو سڑک دور دور تک روشن ہو جاتی ہے لیکن دوسرے لمحے بتاشے کی طرح اندھیرے میں بیٹھ جاتی ہے۔ ایک سائن بورڈ چرچراتا ہے اور دھماکے سے نیچے آن گرتا ہے۔

            وہ کبھی دائیں کبھی بائیں اور کبھی درمیان ہونے کی کوشش میں سر سے پاؤں تک بھیگ جاتا ہے۔

            عمریں بیت جاتی ہیں۔

            برف سر اور برف بھنوؤں کے ساتھ گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اسے لگ رہا ہے جیسے ٹھنڈک اس کے بدن پر ننگی ننگی انگلیاں پھیر رہی ہے۔

            دروازہ کھُلتا ہے اس کی بیوی لپک کر کہتی ہے۔ ’’ شکر ہے آپ‘‘۔

            پھر ذرا گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتی ہے۔۔۔  ’’کون ہیں آپ؟‘‘۔

            ’’میں۔۔۔  میں ‘‘ وہ تتلا کر رہ جاتا ہے۔

            اندر سے اس کی بیٹی کی آواز آتی ہے۔۔۔ ’’امی کون ہے؟‘‘

            پتہ نہیں کون ہے، اس کی بیوی خوفزدہ سی آواز میں کہتی ہے اور جلدی سے دروازہ بند کر لیتی ہے۔

            یہ بڑی غیر متوقع اور عجیب رات ہے۔

            یوں لگتا ہے جیسے بھری دوپہر میں رات نے گھات لگا کر حملہ کیا ہے اور آناً فاناً سارے شہر کو اندھیرے کی بکل میں لپیٹ لیا ہے۔

            یہ بڑی غیر متوقع اور عجیب۔۔۔ !

٭٭٭

 

دھند ریت

            ٹیکسی شہر جانے والی لمبی سرک پر مڑی تو اسے برسوں پہلے کی وہ رات یاد آ گئی۔ جب وہ ائر پورٹ آیا تھا۔ باہر جانے کے تجسس کے ساتھ ساتھ شہر چھوڑنے کا دکھ بھی اس کے دل میں چٹکیاں لے رہا تھا۔ وہ شہر سے بہت پیار کرتا تھا لیکن اس کی خالی جیبیں اور ضرورتوں کے بھیانک عفریت اسے دھکیل کر ائر پورٹ لے آئے،  جہاز میں بیٹھنے تک وہ مڑ مڑ کر دور دھندلکے میں گم شہر کو دیکھتا رہا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے محسوس ہوا جیسے شہر کی سیمیں کلائی اس کے ہاتھ سے چھوٹی جا رہی ہے وہ سیڑھیوں کے درمیان رک گیا اور ڈبڈبائی آنکھوں سے مڑ مڑ کر دیکھنے لگا۔ شہر کی سرمئی کلائی اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔ شہر کی کچی، سوندھی خوشبو دور دور ہوتی گئی۔

            اس کا دل بیٹھ گیا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور امڈتے آنسوؤں کو اندر ہی اندر چوسنے لگا۔ ٹیکسی لمبی سڑک پر بھاگتی چلی جا رہی تھی۔ راستے کی ملی جلی روشنیاں آنکھیں مارتیں اسے گدگدا رہی تھیں۔

            وہ برسوں بعد واپس آیا تھا۔

            یہ طویل برس اس نے مشقتوں کے پہاڑ چڑھتے گزارے تھے۔ نئے شہر کی رنگ برنگی روشنیوں میں اسے کئی بار اپنا شہر یاد آیا۔ پھر دھیرے دھیرے وہ آس پاس کے شور کا عادی ہوتا گیا۔

            ٹیکسی شہر جانے والی لمبی سڑک پر تیزی سے دوڑی جا رہی تھی۔ سڑک کے کنارے بھاگتے کھمبوں کی روشنی دھندلاہٹوں میں تیر رہی تھی۔ ان طویل برسوں میں اپنے شہر سے اس کا رابطہ دوستوں عزیزوں کے خطوں یا اخباروں کے تبصروں اور خبروں تک محدود رہا تھا۔

            ٹیکسی کے شیشوں سے سڑک کی ڈھلوانوں پر اگے گھنے درختوں کو دیکھ کر اسے مٹیالی دیواروں والا ہوٹل یاد آگیا۔

            کھرچتے اور تھکے قدموں گھر لوٹ جاتے۔

            ’’وہ مٹیالے نام والا ہوٹل تو وہیں ہے نا‘‘

            ڈرائیور نے مڑ کر حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ ’’کون سا ہوٹل؟‘‘

            ’’وہ‘‘۔۔۔  وہ چپ ہو گیا۔۔۔  ’’کچھ نہیں ‘‘

            ڈرائیور نے مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

            ٹیکسی پل سے گزر ہی تھی۔

            وہ اس ٹوٹے پل سے کئی بار گزرا تھا۔ اس رات بھی جب وہ شہر چھوڑ کر جا رہا تھا۔ ٹیکسی پل کی ناہموار سطح سے اچھل اچھل پڑی تھی۔ وہ ڈر سا گیا تھا کہ کہیں ٹیکسی اچھل کر ندی میں نہ جا گرے۔

            وہ سنبھل گیا۔

            ٹیکسی خاموشی سے گزر گئی۔

            ’’تو پل بن گیا ہے‘‘۔

            ’’کیا‘‘

            ’’کچھ نہیں۔۔۔  کچھ نہیں ‘‘

            ڈرائیور نے شانے جھٹکے اور چپ چاپ ون سکرین میں دیکھنے لگا،

            ٹیکسی شہر جانے والی لمبی سڑک پر دوڑے جا رہی تھی۔

            ’’سڑک اتنی لمبی کیوں ہو گئی ہے؟ ‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا، اور مشکوک آنکھوں سے ڈرائیور کی طرف دیکھا۔

            ’’یہ مجھے کہیں اور تو نہیں لے جا رہا‘‘

            راستہ سنسان اور طویل

            شہر کتنی دور ہے؟

            دھندلاتی روشنیاں گہری تاریکی میں تبدیل ہوتی جا رہی تھیں اور سڑک کے آس پاس کا منظر پہچان کھو رہا تھا۔

            ٹیکسی اندھیرے میں رک گئی۔

            ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے جلدی سے پوچھا۔

            ’’شہر آگیا ‘‘

            ’’شہر۔۔۔  کہاں ہے شہر‘‘

            ڈرائیور نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔  دیکھتا رہا، پھر بولا۔۔۔  ’’یہ شہر نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘

            اس نے شیشوں سے باہر جھانکا۔

            دھند۔۔۔  دھند، دھند

            ڈرائیور دروازہ کھول کر باہر آگیا۔

            اس نے سوچا اترنے سے انکار کر دے۔ ڈرائیور شاید اس ویرانے میں اسے لوٹنے کا ارادہ کر رہا ہے لیکن پھر سوچا اندر بیٹھنے سے بھی کیا۔

            وہ بھی باہر آ گیا۔

            ’’کہاں ہے شہر؟‘‘

            ’’یہ اور کہاں ؟‘‘

            ’’کہاں ‘‘

            ڈرائیور ایک دو لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر بولا۔۔۔  ’’تم پاگل تو نہیں ‘‘

            ’’پاگل۔۔۔ پاگل تو تم ہو‘‘

            ’’بابا میری جان چھوڑو۔۔۔  چودہ روپے بنے ہیں ‘’

            ’’لیکن شہر‘‘

            ’’کون سا شہر۔۔۔  یہ شہر نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘

            ’’ک۔۔۔ کہاں ؟‘‘

            ’’یہ بازار۔۔۔ دکانیں اور روشنیاں ، یہ کیا ہے؟‘‘

            ’’کون سا بازار۔۔۔  کہاں ہیں دکانیں ؟‘‘

            ’’اوہ خدا یا کس پاگل سے واسطہ پڑ گیا ہے؟‘‘ ڈرائیور ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے  بولا۔۔۔ ’’بھائی مجھے چودہ روپے دے دو میری جان چھوڑو‘‘

            ’’لیکن شہر‘‘

            ’’شہر، شہر۔۔۔  یہ شہر نہیں تو کیا میرا سر ہے؟‘‘

            ’’کہاں۔۔۔  ؟‘‘ وہ چیخ اٹھا۔۔۔  ’’مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے، کہاں ہے شہر؟‘‘

            ’’جہنم میں ‘‘ ڈرائیور غصہ سے بولا۔۔۔  ’’میرے چودہ روپے دو‘’

            ’’میں نہیں دوں گا، پہلے مجھے شہر لے کر چلو‘‘

            ڈرائیور دو تین لمحے چپ چاپ اسے دیکھتا رہا، پھر گھوم کر اسی کے سامنے آ گیا۔ اور غور سے اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ پھر اس نے ہاتھ اٹھا کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔

            ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ غصہ سے بولا۔

            ’’دیکھ رہا ہوں تم اندھے تو نہیں ‘‘

            ’’اندھا میں۔۔۔  اندھے تم ہو‘‘ وہ دو قدم آگے بڑھ آیا۔

            ڈرائیور کی نظر میں ابھی تک اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کے آگے بڑھنے سے وہ ہڑبڑا کر دو قدم پیچھے ہٹا تو اس کی نظریں اس کے پاؤں پر پڑیں۔

            وہ چونک پڑا۔

            دہ تین لمحے سکوت، پھر وہ بولا۔۔۔  ’’تم زمین پر تو کھڑے ہی نہیں ، تمہیں شہر کیسے دکھائی دے؟‘‘

            ’’کیا؟‘‘ اس نے بوکھلا کر اپنے پاؤں کی طرف دیکھا۔۔۔ ‘‘ اگر میں زمین پر نہیں کھڑا تو کیا ہوا میں ہوں ؟‘‘

            ’’اور کیا‘‘

            ’’کیا بکواس کرتے ہو؟ مجھے شہر لے کر چلو‘‘

            ڈرائیور نے آگے بڑھ کر اسے کندھوں سے پکڑ لیا اور زمین کی طرف دباتے ہوئے بولا۔۔۔ ’’ابھی تمہیں شہر نظر آتا ہے‘‘۔

            ’’یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔  نیچے گرا کر میرا بٹوہ نکالنا چاہتے ہو‘‘

            اگلے لمحے وہ ڈرائیور سے گتھم گتھا ہو گیا۔

(۲)

            جب وہ ایئرپورٹ کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوا تو دوسری ٹیکسیاں سواریاں لے کر نکل رہی تھیں ؟ جہاز آئے دیر ہو چکی تھی۔

            بے دلی سے سگریٹ سلگا کر، وہ مرجھائی نظروں سے بڑے گیٹ کو دیکھنے لگا۔ بڑا گیٹ سنسانی کی سیٹیاں بجا رہا تھا۔

            اس کا جی چاہا، کبھی وہ بھی اس گیٹ سے نکلے، ہاتھوں میں چمڑے کے سوٹ کیس، چیزوں سے، کپڑوں سے،  ڈالروں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس۔

            وہ رعب سے آواز دے۔۔۔  ’’ٹیکسی‘‘

            ’’ٹیکسی‘‘

            ’’جی صاحب‘‘

            گاڑی شہر جانے والی لمبی سڑک پر رواں ہوئی تو اس نے کن انکھیوں سے سواری کا جائزہ لیا، پشت سے ٹیک لگائے یہ شخص تیزی سے دوڑتے منظروں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا،

            اس نے سوچا، یہ لوگ ضرورتوں کی منہ زور چڑیلوں سے بھاگ کر شہر چھوڑ جاتے ہیں ، باہر جا کر محنت کی چکیوں میں پستے ہیں اور پھر جب واپس آتے ہیں تو ان کے بٹوے پھولے ہوئے ہوتے ہیں۔

            ’’بزدل‘‘

            ’’کیا‘‘

            ’’کچھ نہیں ‘‘ وہ سنبھل گیا۔

            ایک گہری چپ

            اس جہاز سے آنے والی سواریاں عموماً منہ مانگا کرایہ دیا کرتی ہیں ، اسی لیے وہ اس وقت ایئر پورٹ آ جاتا ہے اور دن بھر کی چخ چخ ایک ہی پھیرے میں دور ہو جاتی ہے،  لیکن آج معاملہ قدرے مشکوک محسوس ہو رہا ہے۔ ڈکی میں چمڑے کے دو سوٹ کیس،

            چیزوں سے،  کپڑوں سے، ڈالروں سے بھر ے ہوئے سوٹ کیس،

            ایک دن وہ بھی ان سوٹ کیسوں کے ساتھ آئے گا۔۔۔  ابھی تو وہ صرف ٹیکسی چلا رہا ہے،

            بی۔اے کرنے کے بعد بھی ٹیکسی

            دفتروں کی خاک چھان چھان کر،  کورا روکھا جواب سن سن کر آخر یہ ٹیکسی

            خواب، خواب۔۔۔  خواب

            سوٹ کیس۔۔۔  چیزوں سے،  کپڑوں سے، ڈالروں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس،

            آج کام کچھ پھیکا ہے

            ’’کوئی بات نہیں ‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔ ’’میں جھگڑا نہیں کروں گا‘‘۔

            ٹیکسی شہر کی حدود میں داخل ہو گئی۔

            اس نے کن انکھیوں سے اس کا جائزہ لیا۔۔۔  ’’یہ شخص ٹھیک نہیں ، پر میں کرائے کا جھگڑا کروں گا ہی نہیں ‘‘

            ٹیکسی شہر کے بیچو بیچ آ گئی۔

            ایک گہری اداس، نم آلود چُپ،

            اس نے فٹ پاتھ کے ساتھ ٹیکسی روک دی۔

            پھر بھی ایک اداس، غم ناک، بھیگی بھیگی ٹھنڈی چُپ،

            ’’شہر آ گیا‘’

            ’’شہر۔۔۔  کہاں ؟‘‘

            ’’کیا کہاں ؟‘‘

            ’’شہر‘‘

            ’’شہر‘‘۔۔۔  یہ شہر ہی تو ہے‘‘ وہ نیچے اترتے ہوئے بولا،

            پیچھے بیٹھا ہوا وہ چند لمحے سوچتا رہا، پھر وہ بھی نیچے اتر آیا۔۔۔  ’’کہاں ہے شہر؟‘‘

            ’’یہ اور کہا؟‘‘

            ’’کیا یہ شخص کرایہ نہ دینے کے لیے،  یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ اس نے جھک کر میٹر دیکھا، چودہ روپے بنے تھے،

            یہ بازار، دکانیں ، روشنیاں۔۔۔  اسے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا؟

            اسے یقین ہو گیا کہ اس شخص سے کرایہ بھی وصول نہیں ہو گا، آخری کوشش کے طور پر اس نے پھر کرائے کا مطالبہ کیا تو اس کی وہی رٹ۔۔۔  ’’مجھے شہر لے کر چلو‘‘

            وہ گھوم کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا، اور غور سے اس کا جائزہ لینے لگا۔

            یہ کیا۔۔۔  یہ شخص تو زمین پر کھڑا ہی نہیں

            تو کیا شہر اسی لیے اسے نظر نہیں آ رہا،

            اسے تو آگ ہی لگ گئی۔۔۔  تم زمین پر تو کھڑے ہی نہیں ، تمہیں شہر کس طرح نظر آئے،

            ’’کیا۔۔۔  کیا‘‘ وہ بوکھلا گیا۔۔۔  ’’مین زمین پر نہیں تو کیا ہوا میں کھڑا ہوں ‘‘۔

            ’’ہاں۔۔۔  ہوا ہی میں کھڑے ہو‘‘ وہ لفظوں کو چبا چبا کر بولا۔۔۔ ‘‘ بالکل ہوا میں کھڑے ہو،

            دوسرے شخص نے ایک لمحہ تک سٹ پٹاہٹ کے بھنور میں غوطہ کھایا، پھر فوراً سنبھل کر غصہ سے بولا۔۔۔  بکواس کرتے ہو، مجھے لوٹنا چاہتے ہو‘‘۔

            ’’کیا۔۔۔  کیا‘‘

            اگلے لمحے دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔

(۳)

            وہ اندر داخل ہوا تو اس کی بیٹی بھاگتی ہوئی آئی۔۔۔  ’’ابو میری ٹافیاں ‘‘

وہ جیب سے دو ٹافیاں نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیتا ہے۔

            ’’ابو۔۔۔ سچ‘‘

            ’’بیٹے بس‘‘

            اس کی بیٹی دونوں ٹافیاں ایک ساتھ منہ میں ڈال کر ننھے ہاتھ پھیلاتی ہے۔۔۔  ’’ابو۔۔۔ اور‘‘

            وہ بے بسی سے بیٹی کے خالی ہاتھوں کو دیکھتا ہے۔۔۔ ’’میں جب باہر جاؤں گانا تو اپنی بیٹی کے لیے ڈھیر ساری ولایتی ٹافیاں لاؤں گا۔۔۔  ہے نا‘‘

            پھر جیب سے دن بھر کی ریزگاری نکال کر بیوی کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے، دھیمے، سست لہجہ میں کہتا ہے۔۔۔  آج ایئر پورٹ سے خالی ہی آنا پڑا ہے‘‘۔

            بیوی پیسے گننے لگتی ہے، لیکن وہ اسی طرح کھڑا رہتا ہے‘‘۔

            ’’کیا بات ہے؟‘‘ بیوی سر اٹھا کر تشویش سے اس کی طرف دیکھتی ہے۔

            وہ ہچکچاتا ہے، پھر رکتے رکتے کہتا ہے۔۔۔  میں زمین پر ہی کھڑا ہوں نا‘‘

            ’’کیا مطلب ‘‘ بیوی حیرت سے کہتی ہے۔

            ’’کچھ نہیں۔۔۔  کچھ نہیں ‘‘ وہ تیزی سے ساتھ والے کمرے میں چلا جاتا ہے!

٭٭٭

 

چپ فضا میں تیز خوشبو

ریکارڈنگ ہال کی تیز روشنی میں ساری چیزیں تیرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں ، اس کا اپنا آپ وجود کی تنگنائے سے نکل کر اوپر اٹھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سامنے والا کیمرہ مین ٹرالی کو آگے پیچھے کر کے زاویے درست کرتا ہے۔ دو نمبر کیمرہ نے اس کے ساتھ والے کو کور کرنا ہے، تین نمبر کیمرے نے لمبے شاٹ لینے ہیں اور ٹائٹل کو کور (Cover) کر کے منظر ایک نمبر کیمرے کو منتقل کر دینا ہے، پروڈیوسر باری باری تینوں کیمروں کے فوکس سے ان کی ترتیب ٹھیک کرنے کے لیے کرسیوں کو آگے پیچھے سرکاتا، میز کو ذرا ٹیڑھا کرتا ہے، پھر کہتا ہے۔۔۔  ’’آپ سمجھ گئے نا، جب ایک نمبر کا کیمرہ مین انگلی سے دائرہ بنائے گا تو پروفیسر صاحب آپ گفتگو شروع کریں گے، بالکل نیچرل طریقہ سے، بغیر کسی تمہید کے، ٹائٹل کے لانگ شاٹ کے فوراً بعد دو نمبر کیمرہ آپ کا کلوز اپ لے گا، لیکن آپ نے براہِ راست کیمرہ کی طرف نہیں دیکھنا۔‘‘ پھر بائیں طرف والی روشنی کو دیکھ کر نفی میں سر ہلاتا ہے۔۔۔  ’’اسے نوّے کے زاویے پر لائیں۔‘‘

نیلی وردی والا روشنی میں لمبی سی چھڑی سے لائٹ کو آگے پیچھے کر کے زاویہ درست کرتا ہے۔

پروڈیوسر ایک نمبر کیمرے سے ان کی ترتیب چیک کرتا ہے اور اس کی طرف منہ کر کے کہتا ہے۔۔۔  ’’پروفیسر صاحب! آپ نے کرسی کے ہتھوں کو اتنی مضبوطی سے کیوں پکڑ رکھا ہے۔‘‘

وہ کیسے بتائے کہ اگر اس نے ہتھیاں چھوڑ دیں تو اس کا سارا جسم کرسی کی گرفت سے نکل کر فضا میں تیرنے لگے گا، لیکن وہ کچھ کہے بغیر گرفت ڈھیلی کر دیتا ہے اور پاؤں پر بوجھ ڈال کر زمین کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

پروڈیوسر اطمینان سے چاروں طرف دیکھتا اور کہتا ہے۔۔۔  ’’میں کنٹرول روم میں جا رہا ہوں ، جب ایک نمبر کیمرہ مین انگلی سے دائرہ بنائے تو پروفیسر صاحب آپ۔۔۔ ‘‘

وہ سر ہلاتا ہے۔

پروڈیوسر کنٹرول روم میں چلا جاتا ہے۔

ایک منٹ۔۔۔  دو منٹ۔۔۔

پھر تین آوازیں ایک ساتھ گونجتی ہیں۔

Silent              Silent              Silent

ریکارڈنگ ہال میں سے زندگی رینگ رینگ کر باہر نکل جاتی ہے اور موت دبے پاؤں اندر داخل ہو تی ہے۔

گہری گھپ خاموشی

وہ تھوک سے گلا تر کرتا ہے

لمحہ لمحہ گزرتا ہے۔۔۔  ٹک، ٹک، ٹک،

نمبر ایک کا ہاتھ آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہے، انگلی اٹھتی ہے، دائرہ بننے لگتا ہے، وہ بولنے کے لیے منہ کھولتا ہے۔

لیکن۔۔۔  لیکن آواز نہیں نکلتی۔

پسینے کی لہر سارے جسم کو اپنے اندر لپیٹ لیتی ہے۔

وہ منہ کھولتا ہے۔۔۔  جملہ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے، کیا عمدہ جملہ سوچا ہوا تھا، مگر ایک لفظ یاد نہیں آتا، منہ سے آواز ہی نہیں نکلتی۔

تیز روشنیاں چاروں طرف سے ٹوٹے پڑ رہی ہیں۔

لمحہ لمحہ گزر رہا ہے۔

بولنے کی کوشش۔۔۔  آواز نہیں۔

گفتگو اس نے شروع کرنی ہے، پھر ساتھ والے سے سوال کر کے اسے شامل کرنا اور پھر تیسرے ساتھی سے سوال۔۔۔  لیکن بات شروع ہو تو تب نا۔

بولنے کی ایک اور کوشش۔۔۔

تھوک سے گلا تر کر کے ٹوٹے پھوٹے جملوں کو جوڑنے کی کوشش

لیکن آواز نہیں

کَن انکھیوں سے ساتھ والوں کو دیکھتا ہے، دونوں اس کی طرف دیکھ رہے ہیں ،

لیکن آواز؟

سارا زور لگا کر ایک بے ربط سا جملہ بولنے کی کوشش،

لیکن ہونٹ سر سرا کر رہ جاتے ہیں۔

پروڈیوسر ابھی دوڑتا ہوا آئے گا۔۔۔  ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

بس آتا ہی ہو گا۔

چیزیں آتی جاتی رہتی ہیں ، کائنات کا سلسلہ بھی عجیب ہے، چیزیں جنم لیتی ہیں اور پھر کسی بلیک ہول میں گم ہو جاتی ہیں ، ہر روشنی کے پیچھے ایک بلیک ہو ل ہے، ہر سانس بھی ایک بلیک ہول ہے کہ ہر سانس کے پیچھے موت کی دستک ہے، چھوٹی چھوٹی دستکیں اور پھر ایک لمبی اونچی دستک۔ وقت بھی ایک بلیک ہول ہے جو بالآخر ہر شے کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔

وہ بولنے کے لیے منہ کھولتا ہے لیکن آواز

لفظ گم ہو گئے ہیں۔

بیوی کہتی ہے۔۔۔  ’’پروگرام کا چیک اوپن کرا لینا، دس بارہ روپے رہ گئے ہیں اور ابھی تو چار پانچ دن باقی ہیں۔‘‘

بیٹی ماں کے پہلو سے سر نکالتی ہے۔۔۔  ’’ابو! گڑیا۔۔۔  چابی والی۔۔۔  آپ نے وعدہ کیا تھا نا، اب پروگرام ملے گا تو۔۔۔ ‘‘

بیٹا توتلی آواز میں کہتا ہے۔۔۔  ’’ابا۔۔۔  ابا‘‘

وہ آنکھیں جھپکاتا ہے،

ریکارڈنگ روم میں موت کی سی خاموشی ہے،

موت تو ایک خوشبو ہے، جو دھیرے دھیرے ہر چیز پر نشہ طاری کر دیتی ہے اور اس نشہ کے عالم میں ہم چپکے سے ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ سارے حصے فوری طور پر نہیں مرتے۔ بعض حصے موت کے کئی دن بعد تک زندہ رہتے ہیں۔ بال اور ناخن قبر میں بھی بڑھتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں ، ذہن کے بعض حصے بھی موت کے کئی کئی دن بعد تک اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی کیا عذاب ہے کہ آدمی مر چکا ہے لیکن اس کے ذہن کے کچھ حصے کام کر رہے ہیں اور وہ خود اپنی آخری رسوم کو دیکھ رہا ہے، اچانک یا حادثاتی موت کی شکل میں تو بہت سے حواس اور کبھی کبھی وجود کا سرمئی ہیولا بھی کئی کئی دن تک موجود رہتا ہے، لیکن پھر ایک چپ۔

گہری چپ۔۔۔

وہ چپ کے پنجوں سے نکلنے کے لیے پھڑپھڑاتا ہے، بولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن آواز نہیں نکلتی۔

آغاز کے لیے کیا عمدہ جملہ سوچا ہوا تھا، وہ جملہ کیا تھا؟ تو کوئی اور جملہ۔۔۔  لیکن لفظ تو اس سے دور بھاگ گئے ہیں۔

بولنے کی کوشش۔۔۔  آواز؟

پسینے کے قطرے سارے چہرے پر پھیلتے جار ہے ہیں۔

عینک کے اوپر سے لڑکوں کو دیکھتا ہے۔

کائنات بھی ایک جسم ہے، جیسے ہمارا یہ جسم، جس کے اندر کئی دنیائیں آباد ہیں ، جراثیموں سے بھری ہوئی دنیائیں۔ اور ہمارا ذہن ان سب کو، پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ کائنات بھی ایک جسم ہے اور ہم اس کے اندر چھوٹے چھوٹے جراثیم ہیں ، اس کا بھی ایک ذہن ہے۔۔۔  ایک ماسٹر مائنڈ۔

گھنٹی کی آواز کے ساتھ ہی لڑکے کندھے جھٹک کر اس کی باتوں کو واپس اس کے منہ پر دے مارتے ہیں۔

سٹاف روم میں ایک ساتھی کہتا ہے۔۔۔  ’’یار ذرا حساب کر کے تو بتاؤ، نئے سکیلوں سے کتنا فرق پڑے گا؟‘‘

’’نئے سکیل؟‘‘

’’آ ج کا اخبار نہیں دیکھا، پے کمیشن کی سفارشات۔‘‘

’’لیکن یہ تو صرف سفارشات ہیں ، اصل تو خدا جانے کیا ہو گا؟‘‘

’’تو کیا۔۔۔  دل خوش کرنے میں کیا نقصان ہے؟‘‘

پروڈیوسر کہتا ہے۔۔۔  ’’پروفیسر صاحب بات آپ شروع کریں گے، جونہی ایک نمبر انگلی سے دائرہ بنائے آپ۔۔۔ ‘‘

وہ بولنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے، لیکن آواز نہیں نکلتی۔

معلوم نہیں آواز گم ہو گئی ہے یا لفظ ختم ہو چکے ہیں۔

آواز ایک پرندہ ہے۔

لفظ اس کی چہکار

سوچ  ہفت رنگ فضا

نہیں شاید۔۔۔

لفظ ایک پرندہ

آواز چہکار

سوچ۔۔۔

نہیں نہیں۔۔۔  شاید یوں

سوچ ایک پرندہ

لفظ اس کی چہکار

اور آواز۔۔۔  ؟

آوا ز نہیں نکلتی، کوشش کے باوجود آواز نہیں نکلتی۔

بھاری غرارے والی خاموشی ریکارڈنگ ہال میں ٹہل رہی ہے۔

تیز روشنیاں۔۔۔  کیمروں کی آگے پیچھے ہوتی بے آواز ٹرالیاں۔

فضا ایک انتہائی حساس مووی کیمرے کی طرح ہر حرکت، ہر آواز کو ریکارڈ کر رہی ہے۔ فضا میں ازل سے ابد تک کی ہر حرکت، ہر آواز محفوظ ہے اور اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ کیا معلوم اس لمحہ کائنات کے کسی حصے میں اس کی تصویر بھی ری کاسٹ ہو رہی ہو اور یہ بھی کیا معلوم کہ اس لمحہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر بیت رہا ہے وہ ری کاسٹ ہو اور اصل منظر کہیں اور ہو۔۔۔  ہزاروں نوری سالوں کے فاصلہ پر کسی جگہ، وہ اس لمحہ یا اس سے ہزاروں سال پہلے موجود ہو اور یوں ہی بولنے کی کوشش میں بار بار منہ کھول رہا ہو اور آواز نہ نکلتی ہو، لفظ بے وفا ہو گئے ہوں۔

وقت کے ساتھ ساتھ تو سب کچھ بے وفا ہو جا تا ہے، عمر بھی، دن بھی، یادیں بھی۔ بس سب کچھ پاس سے گزر جاتا ہے۔۔۔  اور  آدمی ہاتھ بڑھا بڑھا کر ہی رہ جاتا ہے۔۔۔  لیکن پروگرام کے بعد اسے چیک ضرور اوپن کرانا ہے، کسی کے سامنے نہیں ، بس کسی بہانے سے کچھ دیر کے لیے رک جانا ہے اور جب دوسرے دونوں چلے جائیں تو۔۔۔

لیکن پروگرام ریکارڈ ہو تو تب نا۔۔۔  پروڈیوسر تو ابھی کنٹرول روم سے چیخنے ہی والا ہے۔۔۔  ’’یہ کیا ہو رہا ہے، آپ بولتے کیوں نہیں ؟‘‘

وہ پھر بولنے کے لیے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتا ہے،

پہلی میں ابھی چار دن باقی ہیں بلکہ پانچ دن، تنخواہ تو دو ہی کو ملے گی نا،

اور چیک اوپن۔۔۔

لیکن بولنے کی ہر کوشش بے کار۔

آواز ساتھ چھوڑ گئی ہے۔۔۔  بے وفا ہو گئی ہے۔

کیا کہے؟۔۔۔  کیسے کہے؟

کتنے عمدہ عمدہ جملے سوچ کے آیا تھا۔

ابھی گفتگو شروع کرنا ہے اور اختتام بھی۔۔۔

پروڈیوسر نے کہا تھا۔۔۔  ’’جب آخری دو منٹ رہ جائیں گے تو نمبر ایک دو بارہ انگلی سے دائرہ بنائے گا، بس آپ بات نیچرل طریقہ سے اُچک لیں اور پانچ چھ اختتامی جملے کہہ کر ختم کر دیں۔‘‘

لیکن ابھی تو ابتدائی جملے بھی نہیں کہے گئے، اختتام کب اور کیسے ہو گا؟

وہ پھر بات کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

مسلسل بولنے کی کوشش میں ہونٹ پھڑپھڑانے لگے ہیں۔ ایک آخری کوشش کے طور پر وجود کا سارا زور لگا کر، ساری توانائیاں اکٹھی کر کے بولنے کے لیے منہ کھولتا ہے۔۔۔  لیکن آواز نہیں نکلتی، ہونٹوں کی سرسراہٹ کے ساتھ ساتھ اس کا وجود سکڑنے لگتا ہے۔ ریکارڈنگ ہال چھوٹے سے بلیک ہول کی طرح اسے اپنے اندر گم کر رہا ہے۔۔۔  اسے تیزی سے اپنے اندر سمیٹ رہا ہے۔ وہ ہاتھ پیر مارتا ہے، خود کو اس کی کشش سے بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن بے سود، بلیک ہول اسے تیزی سے اپنی طر ف کھینچے چلا جاتا ہے، ایک گھنی تاریکی تیزی سے اس کے قریب آتی جاتی ہے۔ تیز روشنیاں پلک جھپکنے میں بجھ جاتی ہیں اور ریکارڈنگ ہال مختلف آوازوں سے گونجنے لگتا ہے۔ پروڈیوسر بھاگتا ہوا اندر آتا ہے اور کہتا ہے۔

’’واہ وا۔۔۔  کمال ہو گیا، بہت اچھی ریکارڈنگ ہوئی ہے، یہ پروگرام تو ہٹ جائے گا۔‘‘

اور وہ  بِٹر بِٹر اس کا منہ دیکھے جاتا ہے!

٭٭٭

 

سہ پہر کا مکالمہ

صبح سب سے پہلے بیوی نے دیکھا کہ وہ بستر پر نہیں ہے۔

کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد کہ باتھ روم میں نہ ہو، اس نے سارے کمرے دیکھ ڈالے۔ باہر والا دروازہ اندر سے بند تھا۔ دوبارہ ایک ایک کمرہ دیکھا، پھر بڑے بیٹے کو جگایا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘بڑا بیٹا ہڑ بڑا کر اٹھا۔

’’تمہارے ابو!‘‘ آواز رندھ گئی۔

’’کیا ہوا۔۔۔  کیا ہوا؟‘‘ بیٹا اچھل کر کھڑا ہو گیا۔

’’تمہارے ابو۔۔۔  گھر میں نہیں ہیں۔‘‘

بڑے بیٹے نے بے یقینی اور جھنجھلاہٹ سے اس کی طرف دیکھا، ’’کیا مطلب؟‘‘

’’میں نے ایک ایک کمرہ دیکھ لیا۔ وہ کہیں نہیں۔‘‘

گفتگو سن کر بیٹی بھی اٹھ گئی، ’’تو پھر کہاں ہیں ؟‘‘

’’باہر والا دروازہ بھی اندر سے بند ہے۔‘‘ اب آنسو رکے نہیں رکتے۔

چند لمحے عجیب پُر اسرار سکوت۔۔۔

پھر وہ سب اپنے اپنے بستروں سے نکل کر اسے تلاش کرتے ہیں۔ باتھ روم میں ، سونے کے کمروں میں ، ڈرائنگ روم میں ، باورچی خانے میں ، اسٹور میں۔

بڑا بیٹا کہتا ہے، ’’کہیں صبح سویرے باہر نہ نکل گئے ہوں۔‘‘

ماں جھنجلا کر کہتی ہے، ’’لیکن دروازہ اندر سے بند ہے۔‘‘

چھوٹا بیٹا چند لمحے سوچتا رہتا ہے، ’’کیا معلوم رات ہی کو گھر نہ آئے ہوں ؟‘‘

بیٹی نفی میں سر ہلاتی ہے، ’’میں نے خود دروازہ کھولا تھا، جب انہوں نے گھنٹی بجائی تھی۔‘‘

چھوٹا بیٹا اسے گھورتا ہے، ’’تم تو ہر وقت اپنے ہی خیالوں میں رہتی ہو، کیا پتا وہ باہر ہی رہ گئے ہوں اور تم نے دروازہ بند کر لیا ہو۔ یا وہ گھنٹی ہی بجاتے رہے ہوں اور تم نے دروازہ کھولا ہی نہ ہو۔‘‘

بیٹی غصے سے اسے دیکھتی ہے، ’’تم تو ہر وقت میرے ہی پیچھے رہتے ہو۔‘‘

ماں بستر پر ہاتھ پھیرتی ہے، ’’رات کو وہ یہاں سوئے تھے۔‘‘

بڑا بیٹا مشکوک نظروں سے ماں کی طرف دیکھتا ہے، ’’کیا معلوم؟‘‘

چھوٹا بیٹا کہتا ہے، ’’مجھے ساری رات باہر کھڑ کھڑ سنائی دیتی رہی ہے۔ میرا خیال ہے وہی ہوں گے۔ وہ ضرور رات کو باہر ہی رہ گئے ہیں ؟‘‘

’’کیا معلوم وہ گھر ہی میں کہیں ہوں ؟‘‘ ماں بڑبڑاتی ہے۔

وہ پھر اسے تلاش کرنے گھر کے کونے کونے میں پھیل جاتے ہیں۔

ایک ایک کمرہ دیکھتے ہیں۔

’’رات کو انہیں کھانا کس نے دیا تھا؟‘‘ بڑا بیٹا ماں اور بہن کی طرف دیکھ کر سوال کرتا ہے۔ ماں کو یاد آتا ہے اس نے انہیں کھانا دیا تھا۔ پھر یاد آتا ہے شاید اس نے نہیں دیا تھا۔ بیٹی کو یاد آتا ہے شاید اس نے یا شاید اس نے نہیں۔

دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر چپ رہتی ہیں۔

’’سوال ہے، اب انہیں کہاں تلاش کیا جائے؟‘‘ بڑا بیٹا بڑبڑاتا ہے۔

’’کیوں نہ ان کے سارے دوستوں کے گھر فون کیا جائے، شاید دیر ہونے کی وجہ سے کہیں رک گئے ہوں۔‘‘ چھوٹا بیٹا رائے دیتا ہے۔

بیٹی جھنجلا کر کہتی ہے، ’’میں نے خود دروازہ کھولا تھا، وہ رات کو گھر آئے تھے، کیوں امی؟‘‘

ماں کو کچھ یاد نہیں آتا۔ کبھی خیال آتا ہے وہ آئے تھے، اس نے ان کے لیے کھانا گرم کیا تھا۔۔۔  کھانا کھاتے ہوئے وہ باتیں کرتے رہے تھے، پھر کتاب۔۔۔  کبھی خیال آتا ہے وہ آئے ہی نہیں ، وہ ساری رات انتظار اوڑھ کر ان کی راہ تکتی رہی ہے۔

’’کیوں امی؟‘‘

’’لیکن فون کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘

’’دروازہ اندر سے بند ہے۔‘‘ بڑا بیٹا بڑبڑاتا ہے، ’’اس کا مطلب ہے وہ آئے ہی نہیں اور اگر آئے ہیں تو پھر کہیں گئے نہیں۔‘‘

تو پھر کہاں ہیں ؟

وہ پھر اسے تلاش کرنے کے لیے گھر کے کونے کونے میں پھیل جاتے ہیں۔

ایک ایک کمرہ، ایک ایک کونا، ایک ایک الماری۔

’’میرا خیال ہے وہ رات کو آئے ہی نہیں۔‘‘ بڑا بیٹا صوفے میں گرتے ہوئے مایوسی سے کہتا ہے، ’’امی آپ بتائیں نا۔‘‘

ماں کو کچھ یاد نہیں آتا۔ کبھی خیال آتا ہے اس نے کھانا گرم۔۔۔  کبھی نہیں ، ساری رات انتظار۔۔۔

’’مجھے کچھ پتا نہیں ، کچھ معلوم نہیں۔‘‘ وہ روہانسی ہو جاتی ہے۔

بیٹی آگے بڑھ کر اسے سنبھالتی ہے۔ چھوٹا بیٹا فون کی طرف بڑھ جاتا ہے۔

بڑا بیٹا کہتا ہے، ’’میں ذرا باہر تو دیکھ لوں ، کہیں وہ ابھی تک دروازے پر ہی نہ کھڑے ہوں۔‘‘

وہ باہر جاتا ہے۔ پھر اندر آ کر مایوسی سے سر ہلاتا ہے۔

ماں اب رونے لگتی ہے، ’’وہ کبھی رات کو باہر نہیں رہے۔ یہ پہلی رات ہے۔‘‘

خالی بستر پر شکنیں ہیں بھی اور نہیں بھی۔

وہ رات کو سوئے تھے یا شاید نہیں۔

تھوڑی دیر بعد چھوٹا بیٹا منہ لٹکائے آتا ہے، ’’وہ کسی دوست کے یہاں بھی نہیں۔‘‘

’’تو پھر کہاں گئے؟‘‘ اب بیٹی کی آنکھوں میں بھی آنسو جھلملانے لگے ہیں ، ’’کہیں میں نے واقعی انہیں باہر چھوڑ کر دروازہ بند نہ کر لیا ہو؟‘‘ کبھی یاد آتا ہے، وہ آئے تھے۔ گھنٹی کی آواز سن کر اس نے دروازہ کھولا تھا، انہوں نے اسے پیار کیا تھا، پھر اس کے پاس سے گزر کر اپنے کمرے کی طرف چلے گئے تھے، وہ دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔ کبھی یاد آتا ہے گھنٹی کی آواز سن کر اس نے دروازہ ہی نہیں کھولا تھا۔ گھنٹی بار بار بجتی رہی تھی مگر اس نے۔۔۔

’’نہیں نہیں ، وہ اندر آئے تھے۔۔۔  وہ اندر آئے تھے۔‘‘ وہ ہذیانی انداز میں چیختی ہے، ’’وہ نہیں آئے تھے۔۔۔  نہیں۔۔۔  نہیں۔‘‘

ماں اور بڑا بیٹا اسے شانوں سے پکڑ کر صوفے میں دھکیل دیتے ہیں۔

چھوٹا بیٹا بڑبڑاتا ہے، ’’وہ آئے ہی نہیں۔ اس نے دروازہ ہی نہیں کھولا ہو گا۔‘‘

بڑا بیٹا اسے ڈانٹتا ہے، ’’چپ رہو۔‘‘

خود وہ رات گئے تک ناول پڑھتا رہا تھا۔ کبھی یاد آتا ہے کہ گھنٹی کی آواز آئی تھی اور کسی نے دروازہ کھولا تھا اور کوئی اندر آیا تھا۔ کبھی یاد آتا ہے کہ گھنٹی بجی ہی نہیں۔

چھوٹا بیٹا اصرار کئے جاتا ہے، ’’رات کو کوئی ضرور باہر تھا۔ ساری رات کھڑ کھڑ ہوتی رہی ہے۔‘‘

اسے کبھی یاد آتا ہے کہ ساری رات کوئی دیواروں ، کھڑکیوں اور دروازوں پر دستکیں دیتا رہا ہے۔ کبھی یاد آتا ہے کہ وہ ساری رات مزے سے سویا رہا، ذرا بھی آواز نہیں آئی۔

’’تو وہ گھر کے اندر بھی نہیں ہیں اور باہر بھی نہیں۔‘‘ ماں افسوس سے سر ہلاتی ہے۔

دنوں ، سالوں اور مہینوں کے بعد کئی بند تھان خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ رنگ برنگی کھٹی میٹھی تصویریں۔۔۔  ذائقے، کڑواہٹیں ، مٹھاسیں ، دکھ سکھ کے کئی لمبے سال سمٹ کر سوئی کے ناکے میں سما جاتے ہیں۔

’’تو وہ نہیں ہیں۔‘‘ وہ چیخ مار کر بیٹی سے لپٹ جاتی ہے۔

دروازہ اندر سے بند ہے، یا شاید نہیں ہے۔

کسی نے دروازہ کھولا، شاید نہیں کھولا۔

وہ ساری رات باہر ہی کھڑے رہے، یا اندر آ گئے۔

شاید۔۔۔  یا شاید نہیں۔

وہ سارے ڈرائنگ روم میں صوفوں میں دھنسے اپنے اپنے جہنم کو سمیٹ رہے ہیں۔ کوئی کچھ نہیں بولتا، بس کبھی کبھی سر اٹھا کر ایک دوسرے کو دیکھ لیتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے مجرموں کی طرح سر جھکا کر اپنے اپنے طوقوں میں دبک جاتے ہیں۔

ایک عجب پر اسرار خاموشی۔

اور ان سب سے الگ وہ۔۔۔  جسے یہ سارے تلاش کر رہے ہیں ، لکھنے کی میز پر بیٹھا سر جھکائے کتاب پڑھے جا رہا ہے۔ کبھی کبھی سر اٹھا کر ان کی بوکھلاہٹیں ، اداس چہرے اور مایوس باتیں سنتا ہے اور پھر سر جھکا کر پڑھنے لگتا ہے۔

یہ کہانیاں بھی کم بخت عجیب ہوتی ہیں۔ کبھی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہیں اور کبھی شروع ہو کر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔

٭٭٭

 

بانجھ لمحے میں مہکتی لذت

سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے دفعتاً اسے یاد آیا کہ پچھلی رات ٹیکسی سے اترتے ہوئے وہ خود کو پچھلی سیٹ پر بھول آیا ہے۔

اس کی بیوی اور تینوں بچے ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کرتے تالیاں بجا رہے تھے اور وہ چھری ہاتھ میں پکڑے بوکھلائی نظروں سے انہیں دیکھے جا رہا تھا۔ تالیاں بجاتے بجاتے اس کی بیوی کو دفعتاً اس کی بوکھلاہٹ کا احساس ہوا تو اس نے پوچھا۔۔۔  ’’کیا بات ہے؟ تم ٹھیک تو ہونا؟‘‘

وہ منہ کھولے بِٹ بِٹ دیکھتا رہا۔

’’کیا بات ہے۔۔۔  کیا بات ہے؟‘‘ اب بچے بھی متوجہ ہو گئے۔

اس نے بغیر کیک کاٹے چھری میز پر رکھ دی اور کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’کیا بات ہے؟ کیا ہوا؟‘‘ بیوی اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی، ’’خیریت تو ہے نا، تم ٹھیک ہونا؟‘‘

وہ ایک لمحہ خالی نظروں سے اسے دیکھتا رہا، پھر بولا۔۔۔  ’’کل رات میں خود کو ٹیکسی میں بھول آیا ہوں۔‘‘

بیوی نے لمحہ بھر کے لیے حیرت سے دیکھا، لیکن اگلے ہی لمحہ جھنجلاہٹ اس کے سارے چہرے پر رینگنے لگی۔۔۔  ’’کیا؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘ وہ رک رک کر کہنے لگا، ’’ٹیکسی جب گلی کی نکڑ پر رُکی تو بے خیالی میں مَیں خود کو پچھلی سیٹ پر ہی بھول گیا۔‘‘

بیوی نے سر پر ہاتھ مارا اور بولی۔۔۔  ’’میرے خدایا، اگر تم خود کو بھول آئے ہو تو یہ کون ہے؟‘‘ اس نے اس کے بازوؤں کو دبایا۔۔۔  ’’یہ کون ہے؟‘‘

’’ارے واقعی یہ کون ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ کو اور پھر بچوں کو دیکھا جو حیرت سے منہ کھولے ان کی باتیں سن رہے تھے۔

’’واقعی یہ کون ہے؟‘‘

لمحہ بھر خاموشی رہی پھر بولا۔۔۔  ’’ہو سکتا ہے یہ وہی ٹیکسی ڈرائیور ہو جس کی ٹیکسی میں مَیں گھر آ رہا تھا، یا پھر کوئی اور ہو۔۔۔  کوئی بھی۔‘‘

’’تمہارا تو دماغ چل گیا ہے۔‘‘ بیوی غصہ سے بولی۔۔۔  ’’اٹھو کیک کاٹو، بچوں کو بھی پریشان کر دیا ہے۔‘‘

’’نہیں ، یہ میں نہیں ہوں۔‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔

’’تو پھر یہ کون ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔۔۔  ’’اس کے وجود میں یہ کون ہے؟‘‘

کوئی اجنبی۔۔۔  لیکن کون ؟

’’اٹھو کیک کاٹو۔‘‘ بیوی نے ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا۔۔۔  ’’دیکھو بچے پریشان ہو رہے ہیں۔‘‘

اس نے ویران نظروں سے بچوں کو دیکھا جو منہ کھولے اسے دیکھے جا رہے تھے، ’’تو ان کو بھی معلوم نہیں کہ یہ میں نہیں ہوں۔ عجیب بات ہے، یہ میری خوشبو بھی نہیں پہچانتے، بالکل اپنی ماں کی طرح ہیں اور یہ عورت یہ جان کر بھی کہ یہ میں نہیں ہوں کیک کاٹنے کی ضد کئے جا رہی ہے۔‘‘

وہ بے دلی سے اٹھا اور کیک کاٹنے لگا۔

بچوں اور بیوی نے ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کا کورس شروع کیا لیکن اب ان کی آواز میں پہلے کی سی کھنک نہیں تھی۔

کیک کاٹتے ہوئے وہ مسلسل سوچتا رہا کہ وہ کہاں اپنے آپ کو بھولا تھا۔

ٹیکسی مورس تھی اور ڈرائیور چھوٹے قد کا، جس نے کالی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ پچھلی نشست پر بیٹھا تھا۔ اس کے اترنے کے بعد شاید ڈرائیور کی نظر پچھلی نشست پر پڑی ہو اور اسے معلوم ہو گیا ہو کہ وہ وہیں رہ گیا ہے۔ یا کیا معلوم ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا ہی نہ ہو اور اسی طرح ٹیکسی بند کر دی ہو۔۔۔  یا۔۔۔  ؟

ساری رات اسی بے چینی میں گزری، بار بار خیال آتا کہ کیا معلوم ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا ہی نہ ہو اور وہ اسی طرح پچھلی نشست پر ہی پڑا ہو، پھر خیال آتا کہ شاید ڈرائیور نے مڑ کر دیکھ لیا ہو، لیکن کس لیے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے ڈرائیور نے غیر اہم سمجھ کر کہیں پھینک دیا ہو اور وہ ابھی تک کسی ویران سڑک کے کنارے پڑا ہو۔ سردی اور ویرانی اس کے بدن پر رینگنے لگیں۔ اس نے کروٹ بدل کر گہری نیند سوتی بیوی کو دیکھا۔۔۔  ’’یہ عورت کتنی عجیب ہے، یہ جان کر بھی کہ یہ وہ نہیں ہے، کتنے اطمینان سے سوئی ہوئی ہے۔۔۔  کتنے ہی برس بیت گئے لیکن اس عورت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اسی طرح بالکل اسی طرح، اس کے خوابوں اور خیالوں سے بالکل مختلف۔‘‘

صبح ناشتہ کی میز پر بھی وہ چپ چپ تھا، بچے ایک دوسرے سے سلائس چھین رہے تھے، بیوی نے چائے بنا کر پیالی آگے کی اور بولی۔۔۔  ’’کس سوچ میں ہو؟‘‘

وہ ایک لمحہ چپ رہا پھر بولا۔۔۔  ’’معلوم نہیں اب وہ ٹیکسی ملتی بھی ہے کہ نہیں۔ تھی وہ مورس اور ڈرائیور۔۔۔ ‘‘

بیوی نے غصے سے گھورا۔۔۔  ’’تو تم ابھی تک اسی پاگل پن میں ہو۔۔۔  یہ تمہیں کیا ہوتا جا رہا ہے۔۔۔  کچھ عرصہ سے عجیب عجیب باتیں کر نے لگے ہو۔‘‘

ناشتہ کر کے اس نے بچوں کو سکول چھوڑا اور اسی جگہ آن کھڑا ہوا جہاں سے ٹیکسی پکڑی تھی۔ بس دھند لا دھند لا یاد تھا کہ مورس تھی اور ڈرائیور نے کالے رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ شاید مورس نہیں سَنی تھی، یا نہیں یہ بھی نہیں۔۔۔  شاید۔۔۔  اور ڈرائیور نے کالے رنگ۔۔۔  یا شاید نہیں ؟

ساری چیزیں عجب طرح دھند لا گئی تھیں اور ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوئی جا رہی تھیں۔ بے خیالی اور دھند لائی آنکھوں سے ایک ایک ٹیکسی کو دیکھتا رہا۔ کئی ٹیکسیوں پر شبہ بھی ہوا۔ دوڑ کر پہنچا، کئی ڈرائیوروں سے پوچھا، لیکن۔۔۔  ؟

دن کروٹ لے کر شام کی گود میں سو گیا لیکن وہ اسی طرح پاگلوں کی طرح ٹیکسیوں کے پیچھے بھاگتا رہا۔ رات گئے گھر آیا تو بیوی بچے پریشانی سے اس کے منتظر تھے۔

’’اتنی دیر۔۔۔ ‘‘

’’ابو آپ کہاں تھے؟‘‘

’’ابو۔۔۔ ‘‘

’’ابو۔۔۔ ‘‘

تھکاوٹ، بے چینی اور اداسی چاروں طرف منڈلا رہی تھی۔

بار بار خیال آتا کہ ابھی تک ٹیکسی کی پچھلی نشست پر ہی نہ پڑا ہو، دھند چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور چیزیں ایک دوسر ے کی اوٹ میں چھپ گئی تھیں۔

’’یہ میں نہیں ہوں۔‘‘ اس نے اپنے بدن پر ہاتھ پھیرا۔۔۔  ’’یقیناً یہ میں نہیں ہوں لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں۔ بچوں کو بھی نہیں ، بیوی کو بھی نہیں۔‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا۔۔۔

’’کس مزے سے سو رہی تھی۔ یہ جان کر بھی کہ یہ وہ نہیں ہے۔‘‘

کروٹیں بدلتی رات چپکے سے صبح کے روشن  بطن میں اتر گئی۔ اس کے اداس اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بیوی نے پوچھا۔۔۔  ’’تو تم ابھی تک اسی چکر میں ہو۔‘‘

اس نے سر ہلایا لیکن کچھ کہا نہیں۔ کہتا بھی کیا۔۔۔  مکالمہ کے لیے دونوں طرف کے سیٹوں کی فریکیونسی ایک سی ہونا چاہئے ورنہ آواز کی بجائے شاں شاں ہی سنائی دیتی ہے۔۔۔

اس دن بھی وہ چوراہوں پر مختلف ٹیکسیوں کے پیچھے بھاگتا رہا۔ یہ ہو، شاید یہ۔۔۔  نہیں یہ نہیں۔۔۔  شاید وہ۔۔۔  ؟

اب اسے بالکل یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ ٹیکسی کس ماڈل اور مارکہ کی تھی، مورس، سَنی، ٹیوٹا، یا ڈرائیور چھوٹے قد۔۔۔  نہیں لمبے قد، شاید درمیانہ، جیکٹ کالی، بھوری، نیلی۔۔۔  یا۔۔۔

سب کچھ گہری دھند میں گڈ مڈ ہو گیا ہے۔

کچھ یاد نہیں ، بس یاد ہے تو اتنا کہ پچھلی سیٹ پر وہ، اپنے وجود کی ساری خوشبوؤں ، تمناؤں اور خوابوں کے ساتھ اس لفافہ میں تھا۔ دفعتاً اسے خیال آیا تھا کہ لفافہ پر پتہ تو تھا، شاید ڈرائیور نے اسے پوسٹ کر دیا ہو۔ یہ خیال آتے ہی خوشبوؤں ، تمناؤں اور خوابوں کے لذت بھرے لمس اس کے سارے وجود پر پھیل گئے۔ لمبی لمبی غلافی آنکھوں ، مسکراتے سرخ ہونٹوں اور کھلے گلاب ایسے روشن چہرے کے ساتھ وہ لمحہ بھر کے لیے اس کی آنکھوں میں آئی۔۔۔  کیا معلوم خط اسے مل ہی گیا ہو اور اس وقت وہ اپنی آرام کرسی پر نیم دراز مزے مزے سے اسے پڑھ رہی ہو۔

لیکن کیا معلوم ؟

کوئی جواب بھی تو نہیں آیا۔۔۔  ؟

٭٭٭

 

لاشیئت کا آشوب

اندھیرا جونہی شام کی طنابیں توڑ کر رات کے خیمے سے باہر نکلتا ہے، وہ دبے پاؤں اندر داخل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں۔۔۔  ’’چلو، ہمارے ساتھ چلو۔‘‘

وہ اپنے جسم کے ملبے سے خوشبو کی صورت اٹھتا ہے۔

وہ کہتے ہیں۔۔۔  ’’چلو بستر اٹھاؤ اور ہمارے ساتھ چلو۔‘‘

وہ نفی میں سر ہلا کر کہتا ہے۔۔۔  ’’نہیں ، پہلے مکالمہ ہو گا۔‘‘

وہ ہنستے ہیں۔۔۔  ’’وقت اور موت کبھی مکالمہ نہیں کرتے۔‘‘

وہ ان کی بات سنے بغیر ضد کئے جاتا ہے۔۔۔  ’’نہیں پہلے مکالمہ، پھر میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔‘‘

وہ جواب نہیں دیتے اور کمرے میں پاؤں پسار کر لیٹے سنّاٹے میں سما جاتے ہیں۔

وہ کھڑکی کے نیچے بہتے دریا کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اتر آتا ہے اور کنارے کنارے چلنے لگتا ہے۔ دریا اس کی پرواہ کئے بغیر چپ چاپ بہتا رہتا ہے۔ چند لمحے اس کی توجہ کا انتظار کرنے کے بعد جھنجلا کر کہتا ہے۔۔۔  ’’تم مجھے پہچانتے کیوں نہیں ؟‘‘

دریا کھلکھلا کر ہنستا ہے۔۔۔  ’’وقت اور دریا کسی کو نہیں پہچانتے۔‘‘

’’لیکن میں۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز میں گئے دنوں کی کائی اور زمانوں کا زنگ جم جاتا ہے۔

’’تمہیں یاد نہیں ، میں کبھی یہاں سے گزرا تھا، کس طمطراق کے ساتھ، تم میرے قدموں میں جھکے تھے۔‘‘

دریا چپ رہتا ہے۔

’’اور میں نے تمہارے کناروں پر اپنے قدموں کے کتنے ہی نشان ثبت کئے تھے۔‘‘ تاسّف اس کی آواز میں سرسرانے لگتا ہے۔۔۔  ’’تب فتح میرے قدموں سے قدم ملا کر چلتی تھی اور اب۔۔۔ ‘‘

سامنے اس کا مقبرہ ہے،

سنسان، خاموش، دبیز سناٹا اس کے گرد کنڈل مارے بیٹھا ہوا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا مقبرے کے احاطہ میں آ جاتا ہے۔ سامنے اس کی قبر ہے۔ بیمار دیا دق کے مریض کی طرح ٹھہر ٹھہر کر، کانپ کانپ کر قبر کے سرہانے کھانس رہا ہے۔

’’تو یہ میری قبر ہے۔‘‘

اداسی احاطے میں بوند بوند ٹپک رہی ہے۔

’’میں۔۔۔  جس کے لیے وقت رک جایا کرتا تھا، جس کے نام کے بغیر تاریخ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔  تو یہ میں ، اب اس ٹوٹی قبر کی صورت باقی رہ گیا ہوں ، شاید مدتوں سے کسی نے فاتحہ بھی نہیں پڑھی۔‘‘

وہ دریا کی سمت آن کھڑا ہوتا ہے۔

دریا اسے دیکھ کر مسکراتا ہے،

’’تو تم مجھے پہچان گئے ہو۔‘‘ اس کے لبوں پر مسکراہٹ کا بور آنکھ کھولتا ہے۔

دریا ہنکارا بھرتا ہے۔۔۔  ’’وقت اور دریا کسی کو یاد نہیں رکھتے۔۔۔  اور تم۔۔۔  تمہیں تو تمہارے اپنے بیٹے بھی بھول گئے ہیں۔‘‘

وہ مڑ کر دریا کے دوسرے کنارے سے لپٹے شہر پر نظر ڈالتا ہے، نیند میں بڑبڑاتے لوگ کروٹ بدل کر سو جاتے ہیں۔ سارے دروازے اندر سے بند ہیں ، لیکن گلیوں اور سڑکوں پر اس کے قدموں کے نشان اب بھی ہمک رہے ہیں۔ دن بھر ڈیزل چھوڑتی بسیں ، ٹرک، کاریں ، ٹانگے اور سکوٹر فرش کو کھر چ کھرچ کر اس کے نشانات مٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، لیکن جونہی اندھیرا رات کے خیمے سے اَڑیل گھوڑے کی طرح بدک کر باہر نکلتا ہے، یہ نشان سر اٹھاتے ہیں۔ وہ رینگ رینگ کر ان نشانوں سے نکلتا ہے اور اندھیرے میں گردن گردن ڈوبی گلیوں اور سڑکوں پر گھومنے لگتا ہے۔ ایک ایک دروازے پر دستک دیتا ہے۔

’’کون؟‘‘

’’میں۔۔۔  دروازہ کھولو۔‘‘

لیکن کوئی دروازہ نہیں کھلتا۔

وہ پھر دستک دیتا ہے۔

’’کون؟‘‘

’’میں۔۔۔  دیکھو میں تمہارا نام ہوں ، تمہاری پہچان ہوں۔۔۔  دروازہ کھولو۔‘‘

جواباً گہری گھنیری چپ۔۔۔

’’تو کیا میں نہیں ہوں۔‘‘۔۔۔  وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے، پھر اپنے سارے وجود پر ہاتھ پھیر کر اطمینان کرتا ہے کہ وہ ہے۔

’’دیکھو میں ہوں۔۔۔  میں اب بھی ہوں۔‘‘

مگر وہی گہری گھنیری چپ۔۔۔

اور نہ ہونے کی رات۔۔۔

ہو کر بھی نہ ہونا۔۔۔

لا حاصلی کا عذاب۔۔۔  بوند بوند اس پر گرتا ہے۔

جب رات اپنے بادبان کھولتی ہے اور اندھیرا ہمک ہمک کر باہر نکلتا ہے تو اس نہ ہونے کی رات کے پاؤں پھیل جاتے ہیں۔

میں ہوں بھی کہ نہیں۔۔۔

ایک کھنڈر، جس کے در و دیوار پر وقت چمگادڑوں کی بیٹھوں کی صورت نقش کندہ کرتا جاتا ہے۔

دریا اور وقت نہ کسی کا ساتھ دیتے ہیں ، نہ کسی کے لیے رکتے ہیں اور نہ کسی کو پہچانتے ہیں۔

تو میں کوئی بھی نہیں۔۔۔

اگر کوئی تھا بھی تو اب کچھ نہیں۔

فرش ٹوٹے احاطے میں ، جہاں ہر وقت سناٹا پاؤں پسارے خراٹتا رہتا ہے، ایک شکستہ قبر ہے، جس کی لوح پر لکھی تاریخ اپنے واقعات سمیت سمٹتی جاتی ہے۔۔۔  ایک ٹوٹا دیا، جس کا تیل اور بتّی دونوں اتنے بوڑھے ہو گئے ہیں کہ ہر سانس پر کھانستے ہیں۔

لا حاصلی کا عذاب

ہو کر بھی نہ ہونا

نہ ہونے کی رات۔۔۔  ہر رات

اور ہر رات جب اندھیری رات کے کوزے میں قید جن کی طرح آزاد ہوتا ہے تو وہ آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں۔۔۔  ’’چلو بستر اٹھاؤ اور ہمارے ساتھ چلو۔‘‘

تب وہ دیکھتا ہے کہ کمرے کی چھت اور دیواریں بوسیدگی کے پنجوں میں پھڑپھڑا رہی ہیں۔

’’اب میرے لیے جانے اور نہ جانے میں کیا فرق باقی رہ گیا ہے؟‘‘

لیکن وہ اصرار کئے جاتے ہیں۔۔۔  ’’چلو‘‘

وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’آ ؤ پہلے مکالمہ کریں۔‘‘

لیکن مکالمے سے وہ بہت گھبراتے ہیں ، سارا شہر ہی مکالمے سے گھبراتا ہے۔ وہ سب کچھ بغیر مکالمے کے کرنا چاہتے ہیں ، ان کا کہنا ہے موت اور وقت کبھی مکالمہ نہیں کرتے۔

لیکن اس نے تو وقت سے مکالمہ کیا تھا اور موت۔۔۔  موت تو تب اس کے سائے کے پیچھے چھپتی پھرتی تھی۔

مگر اب موت دندناتی اس کے تعاقب میں چلی آتی ہے اور وقت مکّار عورت کی طرح دیدے نچا نچا کر کہتا ہے۔۔۔  ’’میں کسی سے مکالمہ نہیں کرتا۔۔۔ ‘‘

اب وہ کھوکھلے درخت کی طرح ہے جس کے تنے میں پرندوں نے آلنے بنائے ہیں۔ یہ درخت اپنی عمر گزار چکا ہے، اب ان پرندوں کے سہارے جی رہا ہے اور یہ دریا۔۔۔  اب اسے دیکھ دیکھ کر ہنستا ہے۔ کبھی کہتا ہے میں تجھے نہیں پہچانتا اور کبھی پہچان کی چٹکیاں بھر کر اس کے نیم مردہ جسم میں گدگدی کرتا ہے۔۔۔  اور یہ قبر، وہ پھر قبر کے پاس آ کھڑا ہوتا ہے۔۔۔  یہ قبر اب فاتحہ کے لیے ترستی ہے، ٹمٹماتا دیا آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔

تو یہاں اب کوئی فاتحہ پڑھنے نہیں آتا۔

شاید کوئی آئے گا بھی نہیں۔ کسی کو اب اس قبر کی یاد نہیں ، شاید ضرورت بھی نہیں۔

سب اپنے اپنے خوابوں میں گم ہیں

اور قبریں تو ہمیشہ اکیلی اور  تنہا ہوتی ہیں ،

اکیلی اور تنہا

اور ماضی صرف میوزیم اور کھنڈروں میں باقی رہ جاتا ہے۔

وہ چند لمحے سوچتا رہتا ہے، پھر خود بخود اس کے دونوں ہاتھ اوپر اٹھ جاتے ہیں اور وہ جو فاتحوں کا فاتح تھا، اپنی قبر پر خود ہی فاتحہ پڑھنے لگتا ہے۔

٭٭٭

 

بند ہوتی آنکھ میں ڈوبتے سورج کا عکس

اس کے گھر کا دروازہ گم ہو گیا ہے اور اب اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں۔

وہ اس جگہ، جہاں اس کے اندازے کے مطابق دروازہ ہونا چاہئے تھا، حیرانی، پریشانی کے بوجھ تلے دبا کھڑا ہے۔ یاد آتا ہے کہ صبح جب وہ دفتر جانے کے لیے نکلا تھا تو دروازہ موجود تھا، بیوی ڈیوڑھی تک آئی تھی۔ بیٹے نے بسکٹوں کے ڈبہ کی فرمائش کی تھی، بیٹی نے کاپیوں کے لیے کہا تھا۔ اور اب بسکٹوں کا ڈبہ ہاتھ میں پکڑے وہ گم سم اس جگہ کھڑا ہے جہاں اس کے اندازے کے مطابق دروازہ ہونا چاہئے تھا، لیکن دروازہ نہیں ہے۔ بس ایک سنگین حصار ہے جس نے سارے گھر کو اپنے کنڈل میں دبایا ہوا ہے۔ اس نے دیوار کو کئی جگہ سے ٹٹول کر، چھُو کر، دبا کر دیکھا ہے مگر کہیں راستہ نہیں ، بس ایک مضبوط دیوار ہے جو اوپر اٹھتی چلی گئی ہے اور گھر اس کے اندر، کہیں اس کی بُکل میں دبکا بیٹھا ہے، اس نے آوازیں بھی دی ہیں مگر آواز دیوار سے ٹکرا کر واپس منہ پر آ لگتی ہے۔ تو اب کیا کرے؟

اندھیرا تھکے ہوئے پرندے کی طرح تیزی سے زمین کی طرف گرتا چلا آ رہا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے سردی رتھ میں سوار دوڑی چلی آتی ہے۔

تو وہ کیا کرے؟

اندر جانے کا راستہ گم ہو گیا ہے۔

اور وہ اس جگہ، جہاں اس کے اندازے کے مطابق دروازہ ہونا چاہئے تھا، حیرانی کی چادر میں لپٹا خاموش کھڑا ہے۔

ایک عجیب خوفناک، لمبوترے چہرے والا خوف دبے پاؤں گلی میں چلا آتا ہے۔ اس کے بیوی بچے کہاں ہیں ؟

گھر کہاں ہے؟

یہ دیوار ہے تو گھر کدھر ہے؟

گھر ہے تو دروازہ کہاں ہے؟

صبح دروازہ یہاں تھا، گھر بھی، دروازہ بھی،

بیوی ڈیوڑھی میں آئی تھی، بیٹے نے  بسکٹ لانے کے لیے کہا تھا، بیٹی نے کاپیاں۔ وہ گلی میں ہوتا، سلام دعا کرتا، بڑی سڑک تک آیا تھا، بس میں بیٹھ کر دفتر پہنچا تھا، دن بھر فائلوں پر لفظوں اور قوانین کی شطرنج کا کھیل۔

مگر اب گلی کے ہونٹ چپ ہیں ، چہرے بے پہچان،

وہ کبھی ایک طرف، کبھی دوسری طرف جاتا ہے، لیکن اندر جانے کا راستہ نہیں ملتا۔ اس کے اندازے کے مطابق جس جگہ دروازہ ہونا چاہئے تھا، وہاں کچھ بھی نہیں ، بس ایک دیوار سی ہے جو اوپر اٹھتی چلی گئی ہے۔ دستکیں دے دے کر اس کے ہاتھ شیل ہو گئے ہیں ، دیوار سے کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔  گہری خاموشی۔

مڑ کر گلی میں دیکھتا ہے۔۔۔  گہری خاموشی۔

اور اس گہری چپ خاموشی میں وہ اندر جانے کی تمنا میں قطرہ قطرہ گھلتا جا تا ہے۔

اندھیرا اور سردی بھوکے شکاری پرندوں کی طرح چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے ہیں۔

دروازہ گم۔۔۔

اور گلی سنسانی کے دریا میں ڈبکیاں کھا رہی ہے۔

اسے خیال آتا ہے کہ صبح سے اس نے سوائے چائے کے کچھ نہیں کھایا۔۔۔  اندر، گھر کے اندر۔۔۔  باورچی خانہ میں اس کی بیوی گرم گرم روٹیاں اتار رہی ہو گی، دونوں بچے چوکیوں پر بیٹھے سبق یاد کر رہے ہوں گے۔۔۔  سالن کی پتیلی سے اٹھتی ذائقہ دار گرم خوشبو چٹخارہ۔۔۔  بھوک اس کی انتڑیوں میں سیٹیاں بجاتی تیز تیز چلتی ہے۔

وہ  بسکٹ کے ڈبے کو کھولتا ہے۔ رک جاتا ہے۔۔۔  یاد آتا ہے کہ بیٹے نے بڑے اصرار سے  بسکٹ لانے کے لیے کہا تھا، رک کر سوچتا ہے اور دروازہ تلاش کرنے کے لیے دائیں بائیں جاتا ہے۔ پتھر کی خنک دیوار اوپر اٹھتی چلی گئی ہے، وہ اس خنکی کو پوروں پر محسوس کرتا ہے، پھر زور زور سے بیوی اور بچوں کو آوازیں دیتا ہے۔

شوکتی سردی اور بھونکتا اندھیرا منہ چھپا کر اندر ہی اندر ہنستے ہیں۔

بھوک اب اس کے سارے جسم میں دوڑتی پھر رہی ہے۔

پیکٹ کھولتا ہے،  بسکٹ نکال کر منہ میں رکھنے لگتا ہے، رکتا ہے، پھر جلدی سے منہ میں ڈال لیتا ہے۔

گاڑھا اندھیرا آسمان کی طرف منہ کر کے بھونک رہا ہے، سردی شور مچاتی ساری گلی میں کِکلیاں ڈال رہی ہے۔

وہ ٹھٹھر کر دیوار کے ساتھ لگ جاتا ہے۔

بیوی کا مسکراتا چہرہ، بچوں کی میٹھی باتیں

وہ اب کھانا کھا کر سونے کے کمرے میں چلے گئے ہوں گے۔

گرم بستر

اس کی آنکھوں میں ایک لہر سی اٹھتی، بیٹھ جاتی ہے۔

سونے کا کمرہ تو گلی کی طرف ہے، شاید اس کی آواز اُن تک پہنچ جائے۔۔۔  مگر کیا معلوم سونے کا کمرہ دوسری طرف ہو۔

ذہن میں گھر کے نقشے کو مرتّب کرنے کی کوشش،

ڈیوڑھی کے سامنے صحن،دائیں طرف سونے کا کمرہ، بائیں طرف ڈرائنگ روم، سونے کا کمرہ بائیں طرف۔۔۔  نہیں بائیں طرف تو سٹور ہے اور دائیں طرف۔۔۔  نہیں سونے کا کمرہ بائیں۔۔۔  دائیں ، ڈرائنگ روم، سونے کا کمرہ، باورچی خانہ۔۔۔  دائیں بائیں۔۔۔  نہیں بائیں دائیں۔۔۔  دائیں بائیں۔۔۔  بائیں دائیں۔

تو جس جگہ وہ اس وقت ہے اس کے قریب سونے کا کمرہ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔

کیا خبر ہو ہی؟

شاید اس کی آواز سن لیں ،

آواز دینے کے لیے منہ کھولتا ہے مگر۔۔۔

نام۔۔۔  لفظ۔۔۔  بیوی کا نام ہی یاد نہیں آتا،

بیٹے اور بیٹی کا نام یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے

ان کے نام بھی یاد نہیں آتے۔۔۔

بیوی۔۔۔  بیٹا، بیٹی۔۔۔  نام، لفظ۔۔۔  ایک گہری چپ۔

’’میں۔۔۔  میں ‘‘ وہ چیختا ہے۔

مگر فوراً خیال آتا ہے۔۔۔  ’’میں کون؟‘‘

نام بے نشان، بے پہچان

لفظ بے معنی، بے چہرہ

سمندوں سے بھی گہرا اندھیرا اور موجیں مارتی سردی،

رات پینجے کی طرح تیزی سے اندھیرے کو دھنک رہی ہے،

اندھیرے کے ڈھیر کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔

منجمد ہوتا جسم، خواہشوں کے  بھنور

ڈوبتے ہوئے۔۔۔  ابھرنے کی تمنا

کسی طرح دیوار میں سَن لگائی جائے۔

تیزی سے جیبیں ٹٹولتا ہے، مگر بال پوائنٹ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔۔۔  ایک رومال، چند سکے، بسکٹوں کا خالی ڈبہ اور دو کاپیاں ،

وہ لکھتا ہے۔۔۔

میرا نام۔۔۔  میرا نام کیا ہے؟

میری پہچان۔۔۔  میری پہچان کیا ہے؟

میرے بیوی بچے۔۔۔  میری بیوی بچے کہاں ہیں ؟

میرا گھر۔۔۔  میرا گھر کہاں ہے؟

اندر جانے کی تمنا۔۔۔  مگر راستہ نہیں ، راستہ کہاں ہے؟

ہر جملہ کے بعد ایک سوالیہ نشان۔۔۔  بال پوائنٹ کی سیاہی ختم ہو جاتی ہے۔۔۔

لفظ بے ترتیب۔۔۔  نام بے چہرہ، بے پہچان

دیوار کے ساتھ ساتھ گھسٹتا دھم سے زمین پر گر پڑتا ہے،

بھوک کی چنگاریوں میں شعلے بھڑکنے لگے ہیں ،

اکڑتے جسم کو ہلانے کی کوشش میں وہ لڑکھڑا لڑکھڑا کر کھڑا ہوتا ہے۔

گھسٹ گھسٹ کر دیوار کو ٹٹولتا ہے

کبھی اس طرف، کبھی اُس طرف

بیوی بچوں کے نام یاد کرنے کی کوشش

نام یاد نہیں آتے،

آواز دینے کے لیے منہ کھولتا ہے،

آواز نہیں نکلتی

نہ لفظ ہیں۔۔۔  نہ آواز۔۔۔  نہ پہچان،

بس ایک سنگین، ٹھنڈی دیوار ہے، سنسان اندھیری گلی اور شوکتی ہوئی سردی۔

وہ ناخنوں سے دیوار کو کھرچتا ہے۔

ذہن میں گھر کا نقشہ اور کمروں کی ترتیب یاد کرتا ہے۔

سونے کا کمرہ بائیں یا دائیں

ڈرائنگ روم اِدھر یا اُدھر

اندر جانے کا راستہ۔۔۔  ؟

اس کے اندازے کے مطابق جہاں جو ہونا چاہئے تھا وہ وہاں نہیں ہے۔ بس ایک دیوار ہے۔۔۔  یا شاید وہ بھی نہیں ہے۔

رات بیتتی جا رہی ہے۔

شاید نصف بیت گئی ہے یا شاید نہیں۔

شاید صبح ہونے والی ہے یا شاید نہیں ہونے والی،

صبح ہونے تک وہ شاید۔۔۔  یا شاید نہیں۔

کچھ معلوم نہیں۔۔۔  کوئی بات یقینی نہیں ،

بس دور دور تک پھیلا ہوا اندھیرے اور سردی کا تنبو ہے، منجمد کرتی سردی اور کلباتی بھوک بھونک بھونک کر اسے بھنبھوڑ رہی ہیں ، بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر بھونک رہی ہیں اور پرانے سوئیٹر کی طرح تیزی سے ادھڑتے ہوئے وہ نہ کچھ سوچ رہا ہے، نہ دیکھ رہا ہے، نہ سن رہا ہے۔

بس تیزی سے اُدھڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔

ادھڑتا ہی چلا جاتا ہے۔

٭٭٭

 

گم راستہ میں کشف

انکشاف کا یہ لمحہ،

 یہ عجب بے ڈھنگے چہرے، سوکھی لٹکتی زبان والا لمحہ،

موڑ مڑتے ہی دفعتاً احساس ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی نہیں ہے،

تیزی سے گھوم کر دیکھنا، بریکوں پر پاؤں کا دباؤ،

پاؤں پسارے لیٹی سڑک پر کاروں ، رکشاؤں ، بسوں اور سکوٹروں کی قطاریں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رینگ رہی ہیں۔

وہ دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتی۔

سڑک کے بیچوں بیچ یوں یکدم رک جانے سے رینگتی قطاریں الٹ پلٹ ہو جاتی ہیں۔

ہارن کی مسلسل آوازیں ، گھورتی آنکھیں اور بڑبڑاتے لب۔۔۔  وہ تیزی سے موٹر سائیکل فٹ پاتھ کی طرف گھسیٹتا ہے۔

پچھلے اشارے تک تو وہ ساتھ تھی، شاید کوئی بات بھی کی تھی۔

نہیں پچھلے اشارے پر وہ اس کے ساتھ نہیں تھی

اس سے پچھلے اشارے پر۔۔۔  شاید نہیں

ٹریفک کا لہریں مارتا دریا کسی نامعلوم منزل کی طرف رواں ہے

کیا معلوم وہ جب کسی اشارے پر چند لمحوں کے لیے رکا ہو تو چپکے سے اتر گئی ہو؟

یا کہیں جھٹکا لگا ہو اور وہ گر گئی ہو؟

کیا معلوم؟

شاید وہ ابھی تک پچھلے اشارے پر ہی کھڑی ہو؟

یا جہاں گری ہو وہاں پڑی ہو اور موٹریں ، رکشا، بسیں اور سکوٹر اس کے اوپر سے گزر رہے ہوں۔

موٹر سائیکل موڑتا ہے۔

پچھلے اشارے پر چند لمحوں کے لیے رکی ٹریفک زبان باہر نکالے ہانپ رہی ہے، اس کی بھوکی نظریں بے چینی سے منظر کو چاٹتی ہیں۔

شاید اس سے پچھلے اشارے پر۔۔۔

پچھلے اشارے سے اس سے بھی پچھلے اشارے تک، منظر کرچ کرچ بکھرا ہوا ہے۔ اس کی ٹٹولتی آنکھیں ایک چہرے سے دوسرے چہرے کی سیڑھیاں چڑھتی اور اترتی ہیں۔ دن ورق ورق کھلتا ہے۔

صبح وہ ایک ساتھ گھر سے نکلے تھے،

گلی کا موڑ مڑتے ہوئے اس نے کہا تھا۔۔۔  ’’پہلے ذرا درزی کی طرف۔‘‘

درزی کی دکان کے سامنے وہ اتری تھی، دکان کے اندر بھی گئی تھی، لیکن باہر نکلنا؟

شاید وہ درزی کی دکان سے باہر ہی نہ آئی ہو اور وہ اس کے بغیر ہی وہاں سے چل پڑا ہو؟

نہیں۔۔۔  وہ سر جھٹکتا ہے۔ بڑی سڑک پر جب وہ بس سے آگے نکلنے کی کوشش میں ایک کار سے ٹکراتے ٹکراتے رہ گیا تھا تو اس نے کندھا دباتے ہوئے کہا تھا۔۔۔  ’’اتنی تیزی کیوں دکھاتے ہو؟‘‘

کیا معلوم عین اسی وقت جب وہ بل کھا کر کار کی زد سے بچا تھا، وہ سڑک پر گر گئی ہو؟

لیکن پھر یاد آیا کہ آگے جا کر وہ پٹرول پمپ پر رکا تھا، وہ نیچے اتری تھی۔

تو کہیں وہ پٹرول پمپ پر ہی نہ رہ گئی ہو۔۔۔  وہ اسے بٹھائے بغیر وہاں سے چل پڑا ہو؟

لیکن پھر فوراً خیال آتا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے ایک جنرل سٹور سے کچھ سامان بھی خریدا تھا۔

تو شاید وہ جنرل سٹور میں۔

کیرئیر پر سامان کا تھیلا رکھا ہوا ہے، شاید وہ تھیلا اٹھا لایا ہو اور اسے وہیں چھوڑ آیا ہو اور وہ ابھی تک۔۔۔

لیکن سٹور سے باہر نکل کر اس نے ایک بھکاری کو روپیہ دیا تھا۔

تو شاید وہ اسی بھکاری کے پاس کھڑی ہو۔

نہیں۔۔۔  نہیں ، اس کے بعد، اس کے بعد بھی

تو پھر

تو ہم کہاں جا رہے تھے

شاید وہ راستہ میں کہیں اتر کر پہلے ہی وہاں پہنچ گئی ہو۔

بہت سوچتا ہے۔۔۔  کچھ یاد نہیں آتا کہ وہ جا کہاں رہے تھے، گھر سے کیوں نکلے تھے، کسی کے پاس جانے کے لیے، پٹرول ڈلوانے کے لیے، جنرل سٹور سے کچھ خریدنے کے لیے، بھکاری کو روپیہ دینے کے لیے۔۔۔  معلوم نہیں وہ گھر سے کیوں نکلے تھے اور گھر، گھر کہاں ہے؟۔۔۔  کچھ یاد نہیں آتا۔

تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کہاں سے آ رہے تھے اور کہاں جا رہے تھے؟

ایک عجب طرف کی دھند ہے کہ جس میں دکھائی بھی دیتا ہے اور نہیں بھی دیتا۔ کوئی جگہ ضرور ہے جہاں انہوں نے جانا تھا۔ لیکن کہاں ، یہ معلوم نہیں۔ گھر بھی کہیں ہے جہاں سے وہ آ رہے تھے، مگر کہاں ہے یہ معلوم نہیں ؟

ایک عجب طرح کی دھند ہے۔

دوپہر ڈھل کر سرمئی شام میں گھلتی جا رہی ہے۔ وہ اسی طرح فٹ پاتھ کے ساتھ موٹر سائیکل ٹکائے کھڑا کا کھڑا ہے۔

وہ راستہ میں کہیں ؟

درزی کی دکان پر، جنرل سٹور میں ، پٹرول پمپ پر آگے، پھر آگے یا پیچھے، بہت پیچھے، شاید پچھلے اشارے پر یا اس سے پچھلے، یا اس سے بھی پچھلے۔

سر جھٹکتا ہے اور شروع سے دن کی تہیں کھولنے لگتا ہے۔

گھر سے نکلتے ہوئے، درزی کی دکان، جنرل سٹور، پٹرول پمپ

سرمئی شام گہرے اندھیرے میں ڈھلتی جا رہی ہے

سڑک آہستہ آہستہ ویران ہو گئی ہے اور سردی دبے پاؤں اس کے بدن پر قدم قدم چلتی ہے۔ دن کی تہیں کھلتی ہیں ، بند ہوتی ہیں پھر کھلتی ہیں

لیکن دن تو جا چکا ہے

اب ٹھنڈی انگلیوں والی رات اس کے بدن کو ٹٹول رہی ہے۔

شاید وہ ابھی تک سڑک کے کنارے، یا درزی، یا جنرل سٹور۔۔۔  یا،

رات نے اپنے چہرے پر پڑا گھونگھٹ الٹ دیا ہے، سردی بال کھولے، بازو پھیلائے اس کے چاروں طرف ناچ رہی ہے۔

ویران سڑک۔۔۔  تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ایک آدھ گاڑی یا سکوٹر گزرتا ہے تو لمحہ بھر کے لیے روشنی پھیلتی، پھر مرجھا جاتی ہے۔

گھپ اندھیرا۔۔۔  اور ناچتی ٹھنڈ،

وہ اسی طرح کھڑا کا کھڑا، دن کی تہیں کھولتا، لپیٹتا، پھر کھولتا ہے۔

سردی نے اب اسے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا ہے۔

کانپتے جسم، بجتے دانتوں اور یخ ہوتے ہاتھوں سے وہ دن کی تہیں کھولنا چاہتا ہے، لیکن اس کے سامنے دھند۔۔۔  چیزیں سمٹنے مٹنے لگتی ہیں۔

دھندلی یادوں۔۔۔  صبح گھر سے نکلنا، درزی کی دکان، جنرل سٹور، پٹرول پمپ، پہلا، دوسرا، تیسرا۔۔۔  اور پھر دھند۔۔۔  ایک عجب دھند، جس میں دکھائی دیتا بھی ہے اور نہیں بھی،

اور آتش دان کے سامنے بیٹھی ٹی وی دیکھتے ہوئے وہ سوچتی ہے۔۔۔  آج پھر اس نے دیر کر دی ہے، کھانا پھر ٹھنڈا ہو جائے گا۔

٭٭٭

 

قافلے سے بچھڑا غم

قدموں کے نشان شہر کی ناف تک تو آتے دکھائی دیتے ہیں ، آگے پتہ نہیں چلتا۔ بس ایک خراٹے لیتا سناٹا ہے کہ چوکڑی مارے بیٹھا ہے اور وہ جو قافلہ سے بچھڑ گیا ہے شہر کے بیچوں بیچ اکیلا کھڑا سوال پہ سوال کئے جا رہا ہے۔ سنسان سڑکیں اور ویران گلیاں اس کے سوال سن کر بِٹر بِٹر دیکھتی ہیں اور خالی جھولیاں اس کے سامنے الٹ دیتی ہیں۔

منظر یہ ہے۔۔۔

دکانوں میں چیزیں سجی ہیں ، کاؤنٹر کھلے پڑے ہیں ، لیکن آدمی نظر نہیں آتے

ہوٹلوں میں میزوں پر کھانے کی چیزیں ترتیب سے رکھی ہیں ، لیکن نہ کوئی کھانے والا ہے، نہ کھلانے والا،

بس سٹاپ خالی پڑا ہے، بس کھڑی ہے، انجن سٹارٹ ہے، لیکن نہ ڈرائیور ہے نہ کنڈیکٹر، نہ کوئی سواری،

سڑک پر کاروں ، بسوں اور سکوٹروں کی لمبی قطار ہے، انجن سٹارٹ ہیں ، لیکن آدمی کوئی نہیں ،

اس شہر کے لوگ کہاں گئے ہیں ؟ وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے اور بڑے چوک کی طرف چل پڑتا ہے۔

اشارہ بند ہے، سرخ بتی زبان باہر نکالے ہانپ رہی ہے۔

تو یہ ٹریفک اسی طرح بند رہے گی، لیکن لوگ۔۔۔  لوگ کہاں گئے ہیں ؟

شاید گھروں میں بند ہیں ؟

دستک

خاموشی

دستک۔۔۔  کوئی ہے؟

خاموشی

وہ دروازہ کھول کر اندر چلا جاتا ہے، باورچی خانے میں چولہا جل رہا ہے، دیگچی میں سالن پک رہا ہے لیکن کوئی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔  ڈرائنگ روم، بیڈ روم، سٹور، کہیں بھی کوئی نہیں ،

یا خدا یہ کیا طلسم ہے کہ گھر سجے سجائے، دکانیں بھری پُر ی، سڑکیں کاروں ، بسوں اور سکوٹروں سے ٹھسا ٹھس، لیکن آدمی کوئی نہیں۔ خوف اس کے بدن پر رینگنے لگتا ہے،

وہ بغیر کسی ارادے کے، بغیر کسی سمت کا تعیّن کئے دوڑ پڑتا ہے،

دوڑتا رہتا ہے۔۔۔  ہانپنے لگتا ہے تو رُک جاتا ہے،

یہ تو کوئی سکو ل ہے

شاید یہاں کوئی ہو۔۔۔  یہاں ضرور کوئی ہو گا۔

کوئی ہے؟

کوئی ہے۔۔۔  کوئی ہے؟ اس کی اپنی آواز چاروں طرف سے اس پر ٹوٹ پڑتی ہے، وہ نڈھال ہو کر چند قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔۔۔  بہت دیر اسی طرح کھڑا رہتا ہے، پھر اپنے آپ کو اکٹھا کر کے آگے بڑھتا ہے۔۔۔  کلاس روم میں ڈیسکوں پر بستے کھلے پڑے ہیں ، کاپیاں کھلی ہیں ، بلیک بورڈ پر سوال لکھا ہوا ہے، لیکن نہ پڑھانے والا موجود ہے نہ پڑھنے والے، ایک گہری چپ ہے،

یا خدا یہ کیا جادو ہے۔۔۔  لوگ اس شہر سے کہاں گئے ہیں ؟

ہلکی سی آہٹ ہوتی ہے

کون۔۔۔  اس کے اندر تجسّس کی پو پھٹتی ہے،

آہٹ قریب محسوس ہوتی ہے، ہلکی سی چڑچڑاہٹ۔۔۔  ایک چوہا گردن باہر نکالتا ہے، چوہا آہستہ سے سامنے آتا ہے، چند لمحے اس کی طرف دیکھتا ہے، پھر دوڑتا ہوا سامنے کے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے،

تو کیا شہر کے سارے لوگ چوہے بن کر زمین کے نیچے چلے گئے ہیں ؟

منظر وہی ہے،

سڑکوں پر کاریں ، بسیں ، سکوٹر اور سائیکل اپنی روانگی کی حالت میں ہیں ، لیکن نہ کوئی چلانے والا ہے، نہ سفر کرنے والا، بس انجن چل چل کر آپ ہی آپ بوڑھے ہوئے جا رہے ہیں۔

گھروں میں چولہے جل رہے ہیں ، سالن اور روٹیاں پک رہی ہیں ، لیکن نہ کوئی کھانے والا نہ کھلانے والا،

ہوٹلوں کی میزوں پر کھانے سجے ہوئے ہیں لیکن۔۔۔

دفتروں میں فائلیں میزوں پر کھلی پڑیں ہیں ، لیکن کرسیاں خالی ہیں

تو کیا شہر کے سارے لوگ چوہے بن کر زمین کے نیچے چلے گئے ہیں ، تو کیا اسے بھی۔۔۔  اسے بھی

کوئی چیز اس کے اندر اُچھلتی ہے،

بانسری کی مدھم آواز آہستہ آہستہ ابھرتی ہے اور لمحہ بہ لمحہ تیز ہونے لگتی ہے۔ کونوں کھدروں سے چوہے سیلاب کی طرح اچھل اچھل کر باہر نکلتے ہیں اور بسوں ، کاروں ، سکوٹروں ، گھروں ، دفتروں ، ہوٹلوں اور درس گاہوں میں پھیل جاتے ہیں۔ بانسری کی آواز اب چاروں طرف پھیل گئی ہے۔۔۔

رکی چیزیں دفعتاً چل پڑی ہیں ،

اس کے پیٹ کی گہرائیوں میں کوئی چیز اچھلتی ہے اور پھسلتی ہوئی اس کے حلق میں آن اٹکتی ہے۔ وہ منہ کھول کر اسے اگل دینا چاہتا ہے، لیکن اچھلتی شے باہر نہیں نکلتی، اندر ہی اندر اُچھلتی رہتی ہے۔ وہ چیختا ہے، چیخ آدھی باہر نکلتی ہے اور منجمد ہو جاتی ہے۔

آدھی اندر، آدھی باہر

حلق میں اٹکی شے اندر ہی اندر گھومتی ہے

وہ اچھل اچھل کر منہ سے بے ہنگم آوازیں نکالتا ہے،

اردگرد کھڑے لوگ ہنستے، تالیاں بجاتے ہیں اور جیبوں سے سکے اور نوٹ نکال نکال کر اس کے سامنے پھینکتے ہیں۔

٭٭٭

 

کھلے دروازے پر دستک

شام کی بانسری سے نکلتی اندھیرے کی تان گہری ہوتی جاتی ہے۔

سامنے والی دیوار اور اس پر بیٹھا کبوتر دھیرے دھیرے روئی کے گالوں ایسے نرم اندھیرے میں ڈوبے جا رہے ہیں۔ نیچے صحن کی کھردری اینٹوں پر بے چینی سے اِدھر اُدھر آتی جاتی بلی پنجوں سے اینٹیں کریدتی ہے، اس کی تیز غرّاتی میاؤں میاؤں سن کر کبوتر چوکنّا ہو کر چاروں طرف دیکھتا ہے، دیوار کی اونچائی پر نظر کرتا ہے اور پھر دبک کر بیٹھ جاتا ہے۔ بلی صحن میں بے چینی سے پھر رہی ہے۔ دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن چند فٹ کے بعد پھسل کر واپس صحن میں آ جاتی ہے۔ سر اٹھا کر کبوتر کو دیکھتی، ہونٹوں کو سسکارتی میاؤں میاؤں کرتی ہے۔

صحن کے سامنے والے کمرے میں بیڈ پر لیٹا وہ کھلے دروازے سے سارا منظر دیکھ رہا ہے۔ اس نے کئی بار ہش ہش کر کے بلی کو بھگانے کی کوشش کی ہے لیکن بلی کچھ دیر کے لیے اِدھر اُدھر ہوتی ہے، پھر چند ہی لمحوں بعد کبوتر کے گرم خون کی مہک اسے صحن میں واپس کھینچ لاتی ہے۔ وہ صحن کی کھردری اینٹوں کو پنجوں سے کریدتی میاؤں میاؤں کرتی ہے۔ کبوتر اس کی بھوکی میاؤں میاؤں سن کر چوکنّا ہوتا، اِدھر اُدھر دیکھتا، پھر مطمئن ہو کر پروں میں سمٹ جاتا ہے۔ شام کی بانسری سے نکلتی اندھیرے کی تان گہری ہو گئی ہے۔

کبوتر اور دیوار تاریکی کی نرم دبازت میں ڈوب گئے ہیں۔ کبوتر کا سفید ہیولہ بس ایک نشان سا ہے۔

اسے خیال آتا ہے۔۔۔  کبوتر صبح سے پہلے کہیں جائے گا اور یہ بلی۔۔۔  بلی مایوس ہو کر غصے سے چکر کاٹتی ہے۔ اس کی بھوک سے لتھڑی میاؤں میاؤں میں چیر پھاڑنے والی غرّاہٹ شامل ہوتی جا رہی ہے۔

بیڈ پر لیٹے لیٹے اسے اپنا آپ کبوتر میں تبدیل ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ تیز پنجوں اور چمکیلی آنکھوں والی بلی دبے پاؤں اس کے پیچھے آتی ہے۔ وہ سمٹ سمٹ کر دیوار کے ساتھ لگ جاتا ہے، ساتھ والے پلنگ پر سوئی اس کی بیوی اس کے بوجھ سے گھبرا کر کروٹ لیتی ہے۔ وہ کہنی کے بل بستر پر گر جاتا ہے۔ چند لمحے یوں ہی پڑا رہتا ہے پھر صحن میں نکل آتا ہے۔ کبوتر سامنے والی دیوار پر سفید دھبّا بنا دبکا بیٹھا ہے۔ بلی اسے دیکھ کر صحن سے غائب ہو جاتی ہے۔ پانی پی کر وہ واپس بیڈ پر آتا ہے اور ٹکٹکی باندھے صحن کو دیکھتا رہتا ہے۔ بلی جا چکی ہے اور ابھرتی چاندنی میں سامنے دیوار پر بیٹھا کبوتر صاف نظر آ رہا ہے۔

دیوار کے اختتام پر ایک اور اوپر اٹھتی دیوار ہے جس کے بعد ساتھ والوں کی چھت ہے۔ وہ سوچتا ہے بلی کا وہاں پہنچنا ناممکن ہے۔ ساتھ والوں کا دروازہ بند ہو چکا ہے اس لیے ان کے کوٹھے تک بلی نہیں پہنچ سکتی اور اگر پہنچ بھی جائے تو سیدھی دیوار پر وہ اتنا نیچے نہیں اتر سکتی،

لیکن بلی ہے کہاں ؟

وہ اٹھ کر صحن میں آتا ہے، بلی کہیں دکھائی نہیں پڑتی۔ اوپر دیوار کو اور پھر چھت کو دیکھتا ہے اور بستر پر آ گرتا ہے۔

موت بلی کی طرح نفس کے کبوتر کا تعاقب کرتی ہے۔ کبوتر لاکھ بچنے کی کوشش کر کے کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں اس کی جھپٹ میں آ ہی جاتا ہے۔ گرم خون بھی کیا چیز ہے؟ چیزیں بھی کیا ہیں ، کوئی بلی کوئی کبوتر۔۔۔  کبوتر، بلی ہوتا تو کیا اور اگر بلی کبوتر ہوتی تو پھر بھی کیا؟

دفعتاً اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ سارا صحن چاندنی میں نہایا ہوا ہے۔ دیوار پر بیٹھا کبوتر پروں میں سر دئیے گہری نیند کے سپنوں میں ہے۔ وہ چاروں طرف نظر گھماتا ہے۔ اچانک ساتھ والوں کی چھت پر ہیولہ سا دکھائی دیتا ہے۔ وہ ہڑ بڑا کر دروازے میں آتا ہے۔۔۔  ساتھ والوں کی چھت پر بلی بڑی آہستگی سے اِدھر اُدھر پھر رہی ہے۔۔۔  وہ حیرت سے سوچتا ہے، یہ اوپر کیسے پہنچی؟ کیا دروازہ کھلا تھا؟ وہ ڈیوڑھی میں جاتا ہے۔ دروازہ بند ہے۔ تو پھر۔۔۔  شاید کسی نالی سے یا۔۔۔

وہ گھبرایا سا صحن میں آتا ہے۔ بلی ساتھ والوں کی چھت پر ٹہل رہی ہے۔ وہ چھت سے دیوار کے زاویے اور اونچائی کا اندازہ کرتا ہے اور نفی میں سر ہلاتا ہے۔ بلی نیچے کبھی نہیں پہنچ سکتی۔۔۔  بالکل نہیں۔۔۔  ممکن ہی نہیں۔ کچھ دیر صحن میں کھڑے رہنے اور دیوار و چھت کا اندازہ کرنے کے بعد بستر پر آ لیٹتا ہے اور تکئے کو ذرا سا ٹیڑھا کر کے کبوتر پر نظریں جما دیتا ہے۔ کبوتر بلی کی ان ساری کارروائیوں سے بے خبر مزے سے دیوار پر بیٹھا کسی خوشبو دار خواب کے سحر میں ڈوبا ہوا ہے۔ آہستہ آہستہ نیند اس کے پپوٹوں کو سہلانے لگتی ہے۔ نیند کی نرم نرم سیڑھیاں اترنے سے پہلے وہ نیم وا غنودتی آنکھوں سے اوپر بلی اور نیچے کبوتر کو دیکھتا ہے اور آہستہ سے نفی میں سر ہلاتا ہے۔۔۔  ناممکن !

جبر اور ظلم طاقتور مقناطیس کی طرح چیزوں اور ماحول کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور انہیں اپنے پنجوں میں دبا کر توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ یہ تو ایک کیفیت ہے جو دکھائی نہیں دیتی، صرف محسوس کی جا سکتی ہے۔

بلی کی آنکھوں میں بھی ایک مقناطیس ہوتا ہے اور وہ۔۔۔  !

اسے لگتا ہے کوئی چیز اس کے سینہ پر کودی ہے۔ ہڑبڑا کر اٹھتا ہے۔ سامنے دیوار پر بلی کبوتر سے تھوڑے سے فاصلے پر بیٹھی آخری چھلانگ کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ حیرت سے پھڑپھڑاتی آنکھوں سے کبھی چھت کو کبھی دیوار کی اونچائی اور کبھی کبوتر اور بلی کو دیکھتا ہے۔ کبوتر کی گردن اس کے پروں میں ہے اور بلی چمکیلی آنکھیں اس پر جمائے قدم قدم آگے کھسک رہی ہے۔۔۔  اسے سانس رکتا سا لگتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ زور سے چیخے اور بھاگ کر کوئی چیز اٹھا کر بلی کی طرف پھینکے، لیکن فاصلہ۔۔۔  اونچائی۔۔۔  نہ اس کے منہ سے آواز نکلتی ہے، نہ پاؤں حرکت کرتے ہیں۔

بلی ایک انچ اور آگے سرک آئی ہے اور اب ایک ہی لمحہ میں کبوتر پر جست لگانے والی ہے، بس ایک ہی لمحہ۔۔۔  اور عین اسی لمحہ کبوتر ایک دم آنکھیں کھولتا ہے اور چشم زدن میں لمبی اڈاری مار کر اندھیری فضا میں گم ہو جاتا ہے۔ بلی کے اٹھے پنجے فضا ہی میں معلق رہ جاتے ہیں۔ وہ بچوں کی طرح اچھلتا اور ہنستا چلا جاتا ہے لیکن اگلے ہی لمحے دھاڑیں مار مار کر رونے لگتا ہے۔ رونے کی اونچی آواز سن کر اس کی بیوی جاگ پڑتی ہے۔ ساتھ والے کمرے سے بچے دوڑے آتے ہیں کیا ہوا۔۔۔  کیا ہوا؟ خیر تو ہے۔ وہ روتے روتے ایک لمحہ کے لیے حیران بیوی بچوں کو دیکھتا ہے اور بھرّائی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔۔۔  ’’کبوتر کو تو اس کی چھٹی حِس نے بچا لیا۔۔۔  میری تو چھٹی حِس بھی ختم ہو چکی ہے۔‘‘

اور وہ دو بارہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتا ہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اجازت دی اور سید زبیر جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید