فہرست مضامین
- طمانچے
- انتساب
- احمد علوی کا طریق شعریہ
- مزاحیہ شاعری کا عروج
- پیش لفظ
- سحری و افطار
- ا سلامیات
- تضمین نظیر اکبرآبادی
- تری شان جلّ جلالہُ
- ہزل
- الہ دین کا جن
- ہمّتِ مرداں
- ویر رس کے کوی
- کرسی
- میں تیرا شہر
- موڈرن ڈراکیولاز
- ہزل
- ہزل
- ہزل
- انتیشٹی
- ہزل
- ہزل
- اشتہار
- شیطان کا شکوہ
- ’’ب ‘‘ پروف
- تین ہزار
- بدنام
- درباری مسلمان
- وردان
- پنگے
- ہزل
- کرکٹ
- دعا
- پندرہ دسمبردو ہزار آٹھ
- تلاشِ شوہر
- فیوچر
- اقبالِ جرم
- مشاعروں کی شاعرات
- آج کل کا ایڈیٹر
- سولہواں سہرا
- مادھوری کا عاشق
- کثرت
- شرافت
- پیروڈی
- دال
- قطعات
- مردِ مسلماں
- مجتبیٰ حسین
- فاروق ارگلی
- بے وقت کا راگ
- طمانچے
- فاعلاتن فاعلات
- قناعت
- سچی بات
- پارٹ ٹائم جاب
- بیدُم عثمانی
- لیڈر
- لفنگا
- فوجی
- سید مصطفی کمال
- (مدیر ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد)
- کمال جعفری
- الجھن
- مقابلہ
- کان دو
- مہیش بھٹ
- اقبال فردوسی
- لال کرشن اڈوانی
- دو شادیاں
- سیل
- مشورہ
- راج ٹھاکرے
- احمد علوی
- امر سنگھ
- مسئلہ
- مشاعرے کا پوسٹر
- معاوضہ
- آم
- شکیلا رفیق
- (ممتاز افسانہ نگار)
- بدو لت
- چناؤ کا زمانہ
- بے بس
- لیڈر
- اپوزیشن
- خوش فہمی
- چچا
- کمال
- کنٹرول
- مقام استاد
- میڈ
- ٹریجڈی
- گانا بجانا
- آبادی
- نیک صلاح
- نذرِ دلاور فگار
- اعلان
- پان
- حق بات
- شوق
- چھ یاسات
- اثر
- سرکس
- کتے کی دم
- برسات
- عاشقِ نامراد
- ایک منظر 2008 کا
- دو منظر
- ایک منظر سن 1970کا
- تانک جھانک
- مستقبل کا لیڈر
- عزتِ سادات
- لیڈر کا پتہ
- بے حسی
- انگوٹھاچھاپ
- پوٹا
- لیڈر کا تعارف
- شعراء کو مشورہ
- ظریف
- اشتہار
- قیامت
- گلاب
- لپٹن
- ٹرائی
- ایم۔ آئی۔ پی
- شاعر اعظم
- پاپولر
- ڈر
- گنجی دلہن
- مختصر مصیبت
- حوالہ
- بابری مسجد
- ٹاڈا
- بڑے لیڈر
- بے خوف
- اٹل جی
- (رام جیٹھ ملانی کے خلاف واجپئی کے الیکشن لڑنے پر)
- دھوکا
- ثبوت
- تھوکدان
- جرنلسٹ
- سحر
- دوا ہو جانا
- دلشاد
- منزلِ مقصود
- چاند کا چّکر
- نیکیاں
- شری رام
- درخواست
- چمچہ
- نا اہلی
- بم
- اردو کتابیں
- مسلمان
- شادی
- جنرل مشرّف
- تلاش
- درسِ اسلام
- گذارش
- دوسری
- ایکسپورٹ
- ای میل
- آٹھویں بار
- صلاح
- بیچلر
- فرعون
- میرا وطن
- ایکتا
- دو شعر
- بڑے میاں
- من موہن سنگھ
- (وزیر اعظم ہند)
- چمچ
- محبت کے نام سے
- معاوضہ
- تجربہ
- مشورہ
- آداب
- پناہ
- (ایک امام کو پولس کی حفاظت میں دیکھ کر)
- مزاح میں
- نئے امیر
- پرایا مال
- سیلابِ بلا
- مردِ مسلماں
- اندر کی بات
- قربانی
- جمود
- افزائش نسل
- آل انڈیا شاعر
- دیدار یار
- ڈاکٹر
- بے سبب
- ہمارا نہ ہوا
- فون پر
- مولانا ڈبلو دین خان
- آم کی دعوت
- رونا آیا
- دیر آید
- فرقہ پرست لیڈر
- نیا امیر
- گھر داماد
- اسلامی ملکوں کے صدر
- چالو
- فوٹو کاپی
- اٹل بہاری
- اے۔ پی۔ جے عبد الکلام
- (عزت مآب صدرِ محترم بھارت)
- ماضی
- ایک مسلم لیڈر
- کنواروں کی سرکار
- (عالی جناب راشٹر پتی اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی دونوں کے کنوارے ہونے پر)
- بھاری
- لیڈران
- ولدیت
- نظام قدرت
- جعفری
- (گجرات میں کانگریس لیڈر کو زندہ جلائے جانے پر)
- یونہی کہا تھا
- نذر ایم آر قاسمی
- مشاعرے کی فیس
- ہٹ دھرمی
- مستقل ٹھپّہ
- فنونِ لطیفہ
- امتحاں
- عراق
- بے میل شادیاں
- جھوٹی کہانی
- سالانا
- صدام حسین
- (وقتِ گرفتاری)
- عراقی
- ( صدّام کی پھانسی کے وقت)
- دانشور
- بُرے دن
- نکتہ
- ایرانی بم
- تنگ قافیہ
- مہربانی
- نذرِشہر یار
- غلط فیصلہ
- اثر
- فرق
- کمال جوتے کا
- کارواں گذر گیا
- منھ بولی بیوی
- گھر داماد
- آزادی
- باجا
- شامی کباب
- جادوگر
- پوسٹ مارٹم
- (تحریف)
- غزل
- غمِ مسلم
- مزاج
- غزل
- ایک خط
- اردو کے پروفیسر
طمانچے
احمد علوی
انتساب
متشاعروں کے نام
احمد علوی کا طریق شعریہ
— ساحل احمد
تندی و تیزی، ترشی و تلخی، نشتریت و تیزابیت کا عیوب و نقائص، نفاق و تفرقہ، بغض و عناد اور نشتریت کو نہ صرف مشرح کرتی ہے بلکہ ناقصہ صیغوں سے گریز کرنے کا مشورہ بھی دیتی ہے اور پھر یہی ظرافت اعانتی رشتے سے معاشرے کو ان خفی و جلی کڑواہٹوں سے دور رکھتی ہے اور یہی صیغۂ احساس الگ الگ معنوں میں مستعمل ہے، مثلاً ہزل، ضلع جگت، لطیفہ، اور ہجو، اردو میں ان اصطلاحات کا استعمال نحوی طریق سے کرنے کی سعی ہوتی رہی ہے۔ الفاظ و تراکیب سے اس نحوی استعمال سے فاسد نوشتوں کو بے نقاب کرنے میں خاصی مدد ملی ہے۔ اس سلسلے میں بعض اخبارات ورسائل نے معاشرت کی اس بد روئی کو رونما کرنے میں خاصہ اہم رول ادا کیا ہے۔ اکبر الہ آبادی، ظریف لکھنوی، احمق پھپھوندوی، فکر تونسوی، کنہیا لال کپور، ماچس لکھنوی، دلاور فگار، پطرس بخاری، فرقت کاکوروی، رضا نقوی واہی، مجتبیٰ حسین، رشید احمد صدیقی وغیرہ نے اپنی ذہانت و ذکاوت کی شمع روشن کرتے ہوئے فکر و فریب کے چہروں کو بے نقاب کر دیا ہے۔
احمد علوی کا طریق شعریہ، بدرو رشتوں کو لعن طعن کی زنجیر پہنانے سے گریز نہیں کیا، صرف طنزی طریق سے ہی نہیں پہلوئے مزاحیہ سے بھی کام لیتے ہوئے ان بہروپیوں کو بے نقاب کرنے میں کسی رو رعایت سے کام نہیں لیا، وہ اس لیے کہ طنز و مزاح کی ہم رشتگی، شیر و شکر جیسی ہے، مزاح نگار حیات دو روزہ کا ناقد بھی مصّور بھی اور شارح بھی۔ وہ ایک وقت ہر رخ ثالثہ سے زندگی اور طریق زندگی کی تشریح کرنے اور نیکی و بدی کے فرق و مزاحمات کو مشروح کرنے کا ہنر جانتا ہے علوی کے ان ذیلی قطعات سے اس کی توضیح ہوتی ہے۔
میں سب کچھ ہوں مگر جھوٹا نہیں ہوں
خدا کے فضل سے نیتا نہیں ہوں
شہیدوں کے کفن تک بیچ کھاؤں
کمینہ ہوں مگر لگتا نہیں ہوں
جس طرح غنڈوں کے غنڈے ہیں رفیق
دوست ہوتے ہیں شریفوں کے شریف
سب کی قسمت میں نہیں ہیں قہقہے
بس ظرافت کو سمجھتے ہیں ظریف
نہ بیویوں سے نہ یہ بیلنوں سے ڈرتے ہیں
مشین گن سے نہ ایٹم بموں سے ڈرتے ہیں
عدالتوں سے بھی خائف نہیں کئی لیڈر
مگر چھپے ہوئے کچھ کیمروں سے ڈرتے ہیں
بڑھاتا کون قبرستان میں قبروں کے ریٹ علوی
اگر ہوتے نہیں وید و حکیم و ڈاکٹر پیدا
مریضوں کا یوں ہی بے موت مر جانا ضروری ہے
’’کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا‘‘
ٹوٹ جائیں گے ہاتھ اور پاؤں
تو یہاں ڈان وان مت بنیو
اس میں سلمان خان رہتا ہے
اس گلی میں پٹھان مت بنیو
اسی طرح انہوں نے صیغۂ غزل میں بھی طنزی گل پاشیاں کی ہیں، غزل کے اس مزاج حسنہ کے پردے میں ان چھپے بدرو چہروں کو بے نقاب کرتے ہوئے ان منافقانہ رشتوں، بد گویوں اور دغا بازیوں کی ہر وہ پول کھول دی ہے، جس سے معاشرہ میں گندگی اور منافرت پھیلتی ہے۔
علوی نے طنز و مزاح کے اسی رشتے کو شیر و شکر کرتے ہوئے ملکی حالات، سیاسی مد و جزر اور معاشرے کے غیر صحت مند رجحانات کو اپنی قوت فکریہ سے ہدف ملامت بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے۔ لیجیے کچھ اشعار بھی ملاحظہ فرما لیں۔
حاصل وصول کچھ نہیں ہو گا تمام عمر
پاؤں دبا رہے ہیں جو سرمایہ دار کے
ملا جب کالا دھن ہم کو برائیٹ ہو گیا سب کچھ
بدن، ملبوس گھر باہر کہ وہائٹ ہو گیا سب کچھ
اب دوستی کا مطلب شاید یہی رہا ہے
تم یوز کر رہے ہو، ہم یوز ہو رہے ہیں
ہر بات وہ دلیل سے کرتا ہے اس طرح
جیسے تمام علم اک جاہل میں گھس گیا
سنا ہے شوق ہے اس کو بھی پہلوانی کا
چلو کہ اس سے بھی دو ہاتھ کر کے دیکھتے ہیں
تمہارے باپ کو اب اعتراض ہو تو ہو
تمہاری یاد میں دل بے قرار ہے تو ہے
انہوں نے انتہائی بے تکلفی اور شائستگی کے ساتھ انگریزی الفاظ کو بھی قبولنے اور برتنے کا موثر طریقہ اختیار کیا ہے اور انہیں ہندی واردو کی ہی طرح اپنائیت کے ساتھ ہی معنی و مفہوم کے قریب کیا ہے۔ یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ انہوں نے بہت عمدگی کے ساتھ ان تمام عصری حسیات اور رویوں کو بغیر کسی لاگ لپیٹ یا آناکانی کے استعمال کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے اور اس رشتۂ طنز و مزاح کی اعانت سے ہر خفی و جلی رویہ کو خواہ وہ معاشی ہوں یا معاشرتی، منور کرنے کی ہر امکانی سعئی کی ہے۔ ان کی یہ سعی شعریہ لائق تحسین اور لائق ایقان بھی ہے۔
ہاں ان کی نظمیں ہوں یا پیروڈیاں ہر ہیئتی اشکال میں یہی خوبی، یہی فکر یہی سوچ اور یہی انداز موجود ہے۔
غرض کہ احمد علوی اپنی جودت حسنہ اور نشتری لہجہ سے اسی عمل کے پیرو ہیں جو ایک مصلح کا اور ایک راست گو کا ہو سکتا ہے۔
4/04/08
مزاحیہ شاعری کا عروج
— یوسف ناظم
ایک زمانے کے بعد مزاحیہ شاعروں کے عروج کا زمانہ آیا ہے اور کافی دھوم دھام سے آیا ہے پہلے بھی مزاح گو شاعروں کو شوق سے سنا جاتا تھا۔ لیکن ان کی کوئی علاحدہ شناخت نہیں تھی سنجیدہ شاعروں ایک یا دو مزاح گو شاعر شہ نشین پر براج مان ہوتے تھے اور جب ان کی کلام سنانے کی باری آتی تو سامعین کی طرف سے ونس مور ونس مور کی آوازیں آنی شروع ہو جاتی تھیں۔ ہنسی کا خیر مقدم اب اتنا ہونے لگا ہے کہ جگہ جگہ ہندوستان میں ہی نہیں ہندوستان کے باہر بھی کئی علاقوں میں صرف مزاحیہ مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں۔ ہنسی کو ایسی نعمت مانا گیا ہے، مزاح گو شاعروں کو پہلے صرف انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا اور صرف ایک ہاتھ کی چار انگلیاں اس کام کے لیئے کافی ہوتی تھیں (انگوٹھا اس میں شامل نہیں تھا) اب مزاحیہ شاعری گیہوں اور جوار کی فصل کی طرح کی چیز ہو گئی ہے۔ بہر حال یہ خوشی کی بات ہے ان مزاح گو شاعروں میں ایک نام احمد علوی کا بھی ہے جن کا دوسرا مجموعہ کلام آپ کے ہاتھوں میں ہے مجموعہ کلام کا نام ہے ’’ طمانچے ‘‘ اور غنیمت ہے کہ یہ طمانچے صرف برائے نام ہیں اور ان کا تعلق کرکٹ کے میدان سے نہیں ہے۔
احمد علوی میرٹھ کے باشندے ہیں ان کی پرورش میرٹھ اور پیدائش بلند شہر جیسے بلند و بالا شہر میں ہوئی ان دونوں شہروں کی مٹّی اور پانی سے احمد علوی کی مزاح گوئی کی پرورش و پرداخت ہوئی۔ آج کل مزاح گو ئی پر صحا فیانہ رنگ چھایا ہوا ہے جب تک کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعے کا ذکر مزاحیہ قطعے یا غزل کے شعر میں نہ ہو سامعین میں ہلچل اور تہلکہ نمودار نہیں ہو تا۔ لیکن یہ بدعت نہیں ضرورت ہے اور علوی نے اس ضرورت کی تکمیل میں دل کھول کر حصہ لیا ہے۔ شوخی بھرے مزے مزے کے شعر کہنے میں ان کا دل لگتا ہے اور واہ واہ سننے کے لیئے ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔ خوش رہنا اور خوشی کے چند لمحے لوگوں میں بانٹنا میرے حساب سے کارِ خیر ہی نہیں کارِ ثواب بھی ہے۔ ان کی شاعری طمانچوں کی نہیں دبی دبی آنچوں کی شاعری ہے۔ ہنسی ہنسی میں علوی بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔ ان کی مصروفیات بہت ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ ان میں سب سے اچھی مصروفیت مزاح گوئی ہے علوی کی نظم شیطان کا شکوہ پڑھیئے اور مجھے از راہ کرم بتایئے کہ یہ کس کا شکوہ ہے۔ اور ہاں مزاح گو ئی میں ترقّی کی گنجائش زیادہ ہے۔
پیش لفظ
— منظور عثمانی
مزاح نگار ہنستا ہے جب کہ طنز نگار ڈستا ہے ‘‘ لیکن رشید احمد صدیقی کے خیال میں طنز کسی کی آبرو ریزی یا اپنی نا لائقی کی تسکین کے لیئے نہیں ہے ‘‘ کیوں کہ بغیر مزاح کے طنز گالی بن کے رہ جاتا ہے۔ اسے ملائمیت اور نشتریت کا خوشگوار امتزاج ہونا چاہیے۔ کامیاب مزاح نگار گھونسا جڑ دینے سے پہلے پیٹھ سہلاتا ہے یا چٹکی بھر نے سے پہلے گدگداتا ہے۔ (یوسف ناظم)
مشتاق احمد یوسفی صاحب نے ابن انشا کے فن کے بارے میں لکھا ہے ’’ کہ بچھّو کا کاٹا روتا ہے اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے لیکن ابن انشا کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے ‘‘ میری رائے ہے کہ طنزو مزاح نگار کے لیئے یہی کسوٹی ہونی چاہیئے۔
محسوس ہوتا ہے کہ احمد علوی خاصے با خبر انسان ہیں انہیں اساتذہ کے مقرر کردہ پیمانوں کی مکمل جان کاری ہے تب ہی تو ان کے ہدف طمانچے کھا کے بھی مسکراتے ہیں۔
ہمارے ممدوح پیدا تو ۱۱ستمبر ۱۹۵۴ء میں ناطق کے وطن گلاؤٹھی میں ہوئے لیکن تر بیت اس سر زمین میں ہوئی جہاں سے ۱۸۵۷ء کا شورِ محشر اٹھا تھا یا جہاں کے ایک عظیم سپوت نے اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیئے گائے کو وسیلہ بنایا تھا۔ یہیں سے گریجویشن کیا اور یہیں سے جناب عظمت کاظمی کی سر پرستی میں اپنے ذوقِ شاعری کی آبیاری کی۔
موصوف کوچۂ ادب میں نو وارد نہیں ہیں آپ کا ورود اس بزم میں بہ حیثیت سنجیدہ شاعر کے ہوا جب آپ کا مجموعہ ’’ صفر‘‘ کے عنوان سے ۱۹۹۲ء میں منصہ شہود پر نمودار ہوا اس سے پہلے بھی آپ کا ایک ڈرامہ ۱۹۷۵ء ’’ ٹماٹر کے چھینٹے ‘‘اچھی خاصی شہرت پا چکا تھا۔
’’ طمانچے ‘‘ طنزیہ مزاحیہ شاعری کا انتخاب آپ کی دوسری کاوش ہے، ۱۷۶ صفحات پر محیط اس کتاب میں ۸۶ قطعات ۱۴ غزلیں ۲۱ نظمیں اور دو پیروڈیاں شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ احمد علوی اچھی خاصی سنجیدہ شاعری سے مزاحیہ شاعری پر کیوں اتر آئے ممکنہ جواب یہی ہو سکتا ہے کہ دلاور فگار اور سیّد ضمیر جعفری (جن سے بہت متاثر ہیں ) جیسے پرلے درجے کے ادیبوں کی صحبت بد میں پڑ کر خراب ہو گئے۔ خیال رہے کہ یہ خیال ہمارا نہیں بلکہ ان خرابوں (طنز نگاروں ) کے امام پدم شری مجتبیٰ حسین کا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارے نام نہاد ادب کے ٹھیکیداروں کی نظر میں طنزیہ مزاحیہ ادب دوسرے درجے کا ادب ہے۔
جس پر یوسف ناظم صاحب نے جل کر کہا تھا ’’ جی ہاں دوسرے درجے کا ادب اس لیئے ہے کہ اوّل درجے کا ادب تخلیق ہی نہیں ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں ہنسنے کا رواج ذرا کم ہے۔ منھ پھلائے رکھنا دانشوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جہاں کسی کو خوش دلی کا مظاہرہ کرتے یا ہنستے ہوئے پایا بگڑا چہرہ زبانِ حال سے تنبیہ کرتا محسوس ہوتا ہے کہ ’’تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں ‘‘
عصر حاضر کے سب سے بڑے مزاح نگار (جن کے بارے میں برسوں پہلے رشید احمد صدیّقی نے کہا تھا کہ ہم عہد یوسفی میں جی رہے ہیں ) نے بھی اس پر مہر ثبت کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں ’’ ہم میں ہنسنے کا حوصلہ کم ہے چنانچہ صورت حال یہ ہے کہ ’’ نہ کوئی خندہ رہا اور نہ کوئی خندہ نواز‘‘
ناچیز کی رائے میں مردہ دلی منشائے ایزدی کی سراسر نفی ہے کیونکہ انسان واحد مخلوق ہے جسے ہنسی جیسی نعمت سے نوازہ گیا ہے انسان کی زندگی غم و آلام، یاس و حرماں نہ آسودہ حسرتوں سے پر ہے غنیمت ہے ان تاریکیوں کے بیچ حسّ مزاح کا ٹمٹماتا دیا بھی ہے جو یاس کو ہچکیوں میں تبدیل ہونے سے بچائے رکھتا ہے۔ بقول اسٹیفن لیکاک ’’ دنیا میں آنسوؤں کی فراوانی ہے لیکن یہ کتنی خوفناک جگہ ہوتی اگر آنسوؤں کے علاوہ کچھ نہ ہوتا ‘‘
عجیب بات ہے یوں تو جلوت، خلوت، ہر جگہ مزاح کی چاشنی اور طنز کی نمکینی پسند کی جاتی ہے لیکن جب صنفِ ادب میں ریٹنگ کا سوال آتا ہے تو اس پر دوسرے درجے کے ادب کا ٹھپّہ لگا دیا جاتا ہے میرے خیال میں طنز و مزاح کو غیر سنجیدہ صنف یا دوسرے درجے کا ادب کہنے والے خود احساس کمتری کا شکار ہیں۔ ان کے روئے میں کبڑی بڑھیا کی نفسیات کارفرما ہے۔ ایسے ہی ایک خشک مزاج ناقد کے بارے میں رام بابو سکسینہ نے کہیں لکھا ہے دورانِ تحریر اگر شگفتگی کا اظہار سرزد ہو بھی جاتا تو نظر ثانی کرتے وقت قلم زد کر دیتے ہیں ( الفاظ میرے ) اسی قبیل کے نمائندہ افراد نے میاں نظیر جیسے فقیرا لمثال شاعر کو ’’ نا شاعر‘‘ قرار دیا تھا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے مزاح نگار سنجیدہ ادیب سے زیادہ ذہین فطین اور زبان کا ماہر ہوتا ہے یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی زبان میں مزاح نگاروں کی ریل پیل کبھی نہیں رہی ع
بڑی مشکل میں ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
طمانچے کے سرسری مطالعے سے بھی پتہ چل جاتا ہے کہ احمد علوی کا کینوس بہت وسیع ہے ان کی نظر سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں جگر نے کہا تھا
جب کہیں حادثۂ کون و مکاں ہوتا ہے
سب سے پہلے دلِ شاعر پہ عیاں ہوتا ہے
کچھ ایسی ہی کیفیت احمد علوی کے یہاں بھی ہے اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی اونچ نیچ ناہمواری بھونڈے پن پہ نہ صرف ان کی نظر پڑتی ہے بلکہ یہ سماج کی ان دکھتی رگوں کو ملائمیت کے ساتھ چھیڑتے بھی ہیں وہ ہوائی تیر نہیں چلاتے سارا مال مسالہ سماج کے بیچ رہ کر اخذ کرتے ہیں ذیل میں چند نمائندہ اشعار ملاحظہ فرمائیں
لکھ ڈالے شاعروں نے جو اشعار بے شمار
ایسا کہاں کا حسن ترے تل میں گھس گیا
دس کے بدلے سو روپے کا نوٹ مجھ سے لیجییے
پورے دس نیتاؤں کی انتیشٹی کر دیجیے
(نیتاجی کے شاندار کریہ کرم کے لیئے چندہ وصول کرنے والوں سے )
شاعروں کو مشاعرے بھی نہیں
اور غنڈے بنے ہیں تنخواہ دار
(نیتش کمار کے غنڈے سدھارنے کے لیئے وظیفے کے اعلان پر)
اب دوستی کا مطلب، شاید یہی رہا ہے
تم یوز کر رہے ہو، ہم یوز ہو رہے ہیں
اس کی ہر لائین پہ پبلک اس طرح قربان ہے
چار غزلوں کے برابر اس کی اک مسکان ہے
گر کوئی دلا دیتا ڈاکٹریٹ کی ڈگری
میں بھی قبر اردو کی آج کھودتا ہوتا
اللہ کی اماں پہ بھروسہ نہیں رہا
شاہی امام اب ہیں پولس کی پناہ میں
مریضوں کا یونہی بے موت مر جانا ضروری ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
ہے چناؤ کا زمانہ موج اور مستی کا دور
چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے
سویرے ملاقات ان سے ہوئی
نگاہیں ملیں اور فدا ہو گئے
کہا لنچ میں پیار ہے آپ سے
ڈنر تک مگر بے وفا ہو گئے
قاتلوں میں مقام رکھتا ہوں
قابلیت تمام رکھتا ہوں
میں بھی حقدار ہوں وزارت کا
اپنے سر پر انعام رکھتا ہوں
چل دیئے ڈھونڈھنے جناب کہاں
وہ پری چہرہ ماہتاب کہاں
سب عر بوں کو ایکسپورٹ ہوئے
حیدرآباد میں گلاب کہاں
اس کے علاوہ ’’اقبال جرم‘‘ کے عنوان سے شکوہ کی پیروڈی ’’ درباری مسلمان ‘‘ کرسی نہیں چھوڑوں گا ‘‘ بھی خاصے کی چیزیں ہیں انہیں پڑھ کر احمد علوی کی کئی بیش بہا صلاحیتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
انہیں پڑھنے کے بعد قاری کو بخوبی احساس ہو جائے گا کہ زیر نظر مجموعے کا خالق کتنی سادگی سے دل کی بات کہنے کا ہنر جانتا ہے۔ ایسا ہی کلام ’’ از دل خیز ہر دل ریز ‘ کا اثر رکھتا ہے جہاں ترسیل کا کوئی مسئلہ نہ ہو وہاں شاعر کی ہر دل عزیزی میں بھلا کون سی چیز مانع ہو سکتی ہے
شیفتہ سادہ بیانی نے ہمیں چمکایا
ورنہ صنعت بہت لوگ ہیں ہم سے آگے
شاید یہی سبب ہے کہ احمد علوی ہندی داں طبقے میں یکساں طور پر پسند کیئے جاتے ہیں شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ اردو سے بھی زیادہ ہندی کے حلقوں میں معروف ہیں کیونکہ وہ ہندی میں لکھتے ہی نہیں بلکہ ایک ہندی کے رسالے بھوبھارتی سے بھی وابستہ ہیں اس کے علاوہ وہ قلم سمّان (الہ آباد یونیورسٹی کی ادبی ایسوسی ایشن ) اور ویسٹرن یوپی جرنلسٹ ایسو سی ایشن کے ذریعہ بھی سمآنت کیئے جا چکے ہیں۔ کراچی پاکستان سے چھپنے والی روئداد ’’ تذکرہ شعرائے میرٹھ میں بھی ان کا تعارف تین صفحات پر مشتمل ہے۔
احمد علوی نے اپنی کئی نظمیں اور قطعات معروف لطائف کے پسِ منظر میں تخلیق کی ہیں گو وہ اپنے اس قطعے میں اس پر طعنہ زن بھی ہیں۔
نظمیں کہہ ڈالیں بن گئے شاعر
چٹکلوں کے لطیف منظر میں
فرق کرنا بہت ہی مشکل ہے
ایک شاعر میں اور جوکر میں
لیکن یہ بات بہرحال ان کے حق میں جاتی ہے کہ انہوں نے ان لطائف کو برتا بہت سلیقے سے ہے۔ سادگی اور پرکاری کے ساتھ ان کے حسن بیان کو سراہا جانا چاہیئے۔
اپنے بہت سے قطعات میں انہوں نے اساتذہ اور فلمی بولوں کا تصرف کیا ہے کہیں کہیں تحریف بھی کی ہے جس سے قطعے کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ تصرف یا تحریف کوئی آسان کام نہیں ہے اس میں جڑیئے (سنار) جیسی مہارت درکار ہے کہ پڑھنے والا بے اختیار پکار اٹھے کہ یہ نگ یہیں کے لیئے بنا ہے مثال کے طور پر کچھ بند دیکھیں۔
ہر قدم پر تھا زمانے میں ہجومِ دلبراں
اور ان پھولوں کو پا لینا تجھے آساں بھی تھا
تو ہی ناداں ایک بیوی پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگئیِ داماں بھی تھا
سہاگ رات میں بلّی نہ مار پائے تو کیا
مُقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا ٍ
ہے چناؤ کا زمانہ موج اور مستی کا دور
چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے
بڑھاتا کون قبرستان میں قبروں کے ریٹ علوی
اگر ہوتے نہیں وید و حکیم و ڈاکٹر پیدا
مریضوں کا یونہی بے موت مر جانا ضروری ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دیکے آیا تھا
اسی حسین کا شوہر مری تلاش میں ہے
اس لیئے روز نہیں جاتا خدا کے گھر میں
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
ہم سے ہارے ہوئے لیڈر نے کہا رو رو کر
اس بھری دنیا میں کوئی بھی ہمارا نہ ہوا
جیل میں ہونا تھا جن کو ہیں وہی سنسد میں
اے سیاست ترے انجام پہ رونا آیا
مختصر یہ کہ اس مجموعۂ کلام میں زبان و بیان کا حسن، سادگی و پُر کاری دلچسپ موضوعات کا تنوع، فکر انگیزی، برجستگی و بے ساختگی، دیکھتے ہوئے بجا طور پر امیّد کی جا سکتی ہے کہ مزاحیہ شاعری میں یہ مجموعہ گرانقدر اضافہ ثابت ہو گا۔ اور احمد علوی کے طمانچے قارئین کے چہروں پر لطف و انبساط کی وہ کیفیت پیدا کریں گے جو ایسی دلچسپ تخلیق کا جائز حق ہے۔ میں انہیں اس پر بہار تخلیق پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
احمد علوی طنزو مزاح کا ایک منفرد شاعر احسان ہے کہ کساد بازاری کے اس دور میں احمد علوی کی طنزیہ مزاحیہ شاعری اپنی انفرادیت قائم کرنے میں بہت جلد کامیاب ہوئی ہے۔ شعرا کی بھیڑ میں احمد علوی ایک امتیازی شان رکھتے ہیں۔ انہوں نے اکبر اور نظیر کی طرح اس گلو بلائیزیشن کے دور میں طنزیہ مزاحیہ قطعات نظموں غزلوں سے اردو ادب کو مالامال کیا ہے۔ ان کے کلام کی بے ساختگی اور گداختگی انسانی قدروں کی سچّی غمّاز ہے۔ احمد علوی تصنع اور ریا سے الگ سچّی اور کھری بات کہنے کے عادی ہیں یہی سبب ہے کہ وہ مشاعروں میں بھی مقبول ہیں اور ادبی رسالوں میں بھی اپنی شناخت بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں وہ زندگی اور سماج کے نئے نئے مسائل کا ذکر ہی نہیں کرتے بلکہ ان کا مداوا بھی کرتے ہیں۔ امیّد ہے اپنی لگن اور سعیِ بیکراں کی بدولت وہ بہ حیثیت طنزو مزاح نگار گہری چھاپ قائم کریں گے اور اردو کے دامن کو اپنے اچھوتے اشعار سے مالامال کریں گے میں تو اقبال کی زبان میں صرف اتنا کہوں گا۔
ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلّی
اللہ نہ کرے طے ہو کبھی مرحلۂ شوق
— کمال جعفری
(آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی )
سحری و افطار
کافر ہوں جو افطار کی دعوت کوئی چھوڑی ہو
اک مردِ مسلماں ہوں، اظہار تو کرتا ہوں
رمضاں کے مہینے میں، روزے میں نہیں رکھتا
پابندی سے پر سحری افطار تو کرتا ہوں
ا سلامیات
اسلام کو غیروں نے، بس اتنا ہی سمجھا ہے
اسلام کی راہوں میں، ہر موڑ پہ خطرہ ہے
مومن کی کریں ختنہ مرتد کی کٹے گردن
آنے پہ بھی کٹنا ہے جانے پہ بھی کٹنا ہے
تضمین نظیر اکبرآبادی
تو چار قل پڑھتے ہوئے، پڑھتے ہوئے دُرود
مایوس نہ ہو آٹھویں، منزل سے یوں نہ کود
مانا کہ محل ریت کا ہے، نام اور نمود
میری کوئی بساط ہے نے کچھ ترا وجود
شیروں کے درمیان پھنسی ایک بھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
خاتون اک جوان کوئی کاٹھ کی پکڑ
تو اپنی عمر وا لی بڑے ٹھاٹ کی پکڑ
سولہ کی سمت دیکھ نہ اب آٹھ کی پکڑ
سیٹھانی مالدار کوئی ساٹھ کی پکڑ
اس عمر کے پڑاؤ پہ لڑکی نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
تیرا پڑوسی دیکھ ترا سر نہ پھوڑ دے
رشتے تمام اپنی پڑوسن سے توڑ دے
تو اپنی خواہشات کی گردن مروڑ دے
کرنا طواف گرلز کے کالج کا چھوڑ دے
بوڑھا ہے کیا جوان ہے اب ہے ادھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
پیوند کس کے کُرتے میں کتنے گنا نہ کر
اوروں کی میلی شرٹ ہر تو تبصرہ نہ کر
تو ٹیڑھی چال والوں کو لنگڑا کہا نہ کر
چورا ہے پہ سچ بول کے علوی پٹا نہ کر
اپنی قمیض روز سی اپنی اُدھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
تری شان جلّ جلالہُ
ہوئی خستہ بیگمِ سیم تن تری شان جل جلالہُ
مجھے بخش دے کوئی گل بدن تری شان جل جلالہُ
تو رقیب کو مرے دال دے اسے سوکھی روٹی پہ ٹال دے
مجھے روز کھلوا مٹن چکن تری شان جل جلالہُ
میں ہوں اہل۱ پھول کپاس کا مرا وزن کے جی پچاس کا
مری اہلیہ مگر ایک ٹن تری شان جل جلالہُ
رکھا بکریوں کی قطار میں ملی کیا کمی مرے یار میں
دیئے کالی بھینس کو چار تھن تری شان جل جلالہُ
بنا باپ پہلی ہی رات میں مجھے نیک بیوی کے ساتھ میں
دیئے مفت بچّے بھی اک ڈزن تری شان جل جلالہُ
جنھیں تو نے بخشی ہے علمیت کریں دوسروں کی ملازمت
دیا ان پڑھوں کو اپار دھن تری شان جل جلالہُ
مجھے شعر تو نے لکھا دیئے سرِ بزم میں نے سنا دیئے
یہ مرا ہنر وہ ہے تیرا فن تری شان جل جلالہُ
ہزل
سروں کا نہ کوئی سرا چھوڑتے ہیں
نہ آشا رفیع لتا چھوڑتے ہیں
یہ ہیں آج کی محفلوں کی ضرورت
نہ سرتال کا سلسلہ چھوڑتے ہیں
یہ شاعر ہیں دونوں طرف سے سریلے
یہ ساتوں سروں کی ہوا چھوڑتے ہیں
گھریلو ہو وہ چا ہے بازاری عورت
بنا کر اسے شاعرہ چھوڑتے ہیں
جب استاد کہتے ہیں غزلیں طرح میں
لغت میں نہ اک قافیہ چھوڑتے ہیں
بنانے پہ آتے ہیں جب منتری ہم
نہ خچرّ، نہ گھوڑا، گدھا چھوڑتے ہیں
ہے عادت پرانی ہمیں چھوڑنے کی
بڑی لمبی لمبی سدا چھوڑتے ہیں
الہ دین کا جن
پاؤں تھے میرے زمیں پر آسماں پر تھا دماغ
مل گیا جس وقت مجھ کو وہ الہ دینی چراغ
ساری دنیا آ گئی ہو جیسے میری جیب میں
چٹکیوں میں پوری ہوں گی سب ادھوری خواہشیں
دوستو پانے کی خاطر جادوئی جن کا سراغ
گھس دیا میں نے زمیں پر وہ الہ دینی چراغ
اک دھواں اٹھا فضا میں اور جن ظاہر ہوا
اپنی ہیبت ناک سی آواز میں اس نے کہا
در حقیقت آج سے یہ جن تمہارا ہے غلام
زندگی کا ایک اک پل ہے مرا آقا کے نام
سیر پیرس اور لندن کی کراؤں گا تمہیں
چین سے چلی چکن لا کر کھلاؤں گا تمہیں
تم کہو تو آسماں سے چاند تارے توڑ دوں
مجھ میں وہ قوت ہے کہ طوفان کے رُخ موڑ دوں
حکم دو صحراؤں میں برسات کر سکتا ہوں میں
حکم دو تو دوپہر کو رات کر سکتا ہوں میں
کون سا ہے کام ایسا جو میرے بس میں نہیں
میرے تابع آسماں ہے میرے تابع ہے زمیں
ایک ہی پل میں بدل دوں میں تمہاری زندگی
تم کو کیا معلوم آقا کتنی طاقت ہے مری
جن کی ان باتوں کو سن کر میں نے جن سے یہ کہا
سب سے پہلے ایک گھر تو مجھ کو دلّی میں دلا
جن یہ بولا میرے آقا اب میں تم سے کیا کہوں
گھر اگر مل جائے مجھ کو میں چراغوں میں رہوں
ہمّتِ مرداں
ستر برس میں ساتویں شادی جناب کی
پیری میں کیسے کرتے ہو باتیں شباب کی
سر پر ہی کوئی بال نہ آنکھوں میں نور ہے
پر ساتویں نکاح کی حاجت ضرور ہے
اک بے ثمر شجر ہو اک ویران باغ ہو
سوکھا ہوا چھوارہ ہو بجھتے چراغ ہو
جنت میں راہ تکتی ہیں حوریں جناب کی
باقی بچی ہوئی ہیں کچھ سانسیں گِنی چنی
مولیٰ کو یاد کیجئے سب بھول جائیے
اب زندگی کا کیا ہے بھروسہ بتائیے
اس پر بڑے سکون سے بولے بزرگوار
ہے بے بھروسہ زندگی کیا اس کا اعتبار
کر کے یقیں حیات کا پچھتا رہا ہوں میں
چھ بیویوں کو پہلے ہی دفنا چکا ہوں میں
آباد ہیں چھے بیویاں شہرِ خموش میں
لیکن کمی نہیں ہے ذرا میرے جوش میں
چھ بار دھوکا دے چکی ہے مجھ کو زندگی
میں بھی مثالِ غزنوی ہارا نہیں ابھی
چھ نوجوان بیویاں پہلے ہی مر چکیں
سامان سوبرس کے ہیں پل کی خبر نہیں
اُن چھے کی طرح ساتویں بھی مر گئی اگر
کرنی پڑے گی آٹھویں شادی مجھے ڈِیئر
ویر رس کے کوی
اپنی فوجوں کو اب بلا واپس
پاک حملہ اگر کرے اس بار
ویر رس کے تمام کویوں کو
پاک بارڈر پہ بھیج دے سرکار
ڈھونڈھنے پر کسی بھی نقشے میں
کیا ملے گا ذرا سا پاکستان
ایسا کر دیں گے ویر رس کے کوی
اس زمیں پر کہیں تھا پاکستان
ویر رس کے کوی لگائیں گے
جا کے لاہور میں ترنگے کو
اب قلم کے یہ ویر جھیلیں گے
ملک میں ہر سیاسی پنگے کو
ان کو کم آنکتی ہے یہ دنیا
ویر رس کے کوی کی اک ہنکار
پاک کی کوئی حیثیت ہی نہیں
توڑ سکتی ہے چین کی دیوار
چین کی حرکتوں پہ یہ خاموش
چین پہ کب چلے ہیں شبد کے بان
ویر رس کے تمام کویوں کا
ایک موضوع صرف پاکستان
ختم کر دیں گے یہ کراچی کو
ایسے شبدوں کے تیر پھینکیں گے
آگ اُگلتی ہوئی کویتائیں
ویر رس کے یہ ویر پھینکیں گے
ویررس کے سبھی کوی مل کر
پاک کا روز دھنیہ واد کریں
پاک کے دم سے ہے وجود ان کا
بس محّمد علی کو یاد کریں
ایک ساتھی ہے ان کا دنیا میں
صرف اور صرف، صرف پاکستان
ویررس کے تمام کویوں کو
صرف ملتی ہے اسی سے پہچان
کرسی
سوبار قسم کھائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
تاؤ کہے یا تائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
نیتا ہوں میں تو بھائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
سوہیر پھیر کر کے کرسی مجھے ملی ہے
مدّت کی کوششوں سے دل کلی کھلی ہے
کرسی سے زندگی کی ہر اک خوشی جڑی ہے
کرسی ہے کرشمائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
تاؤ کہے یا تائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
کرسی نے کار دی ہے، کرسی نے گھر دیا ہے
مجھے جیسے بے ہنر ہر اک ہنر دیا ہے
ابلیس کر نہ پائے وہ کام کر دیا ہے
کرسی سے ہے کمائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
تاؤ کہے یا تائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
جس وقت کر دیا تھا والد نے عاق مجھ کو
لگتی تھی زندگی بھی اپنی مذاق مجھ کو
بیوی بھی کہہ رہی تھی، دے دو طلاق مجھ کو
کرسی ہی کام آئی کرسی نہیں چھوڑوں گا
تاؤ کہے یا تائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
کرسی سے ہی جہاں میں نیتا کی اہمیت ہے
کرسی سے گدھوں کی بھی بن جاتی شخصیت ہے
کرسی ہی در حقیقت لیڈر کی ولدیت ہے
مشکل سے ہاتھ آئی کرسی نہیں چھوڑوں گا
تاؤ کہے یا تائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
کرسی سے دعوتیں ہیں بریانی قورمہ ہے
کرسی سے ساری طاقت کرسی سے دبدبہ ہے
اس زندگی میں یارو، کرسی بغیر کیا ہے
پبلک کرے پٹائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
تاؤ کہے یا تائی کرسی نہیں چھوڑوں گا
میں تیرا شہر
مجھ سے پھر میری کار تو مانگے
ایک یا دو ہزار تو مانگے
اس سے پہلے ادھار تو مانگے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
گیت فلموں کے گنگنانے میں
روڈ پر لڑکیاں پٹانے میں
اس سے پہلے پٹوں میں تھانے میں
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
بن نہ جائے خبر بڑی کوئی
پھونک دے دل کی جھونپڑی کوئی
اس سے پہلے کہ پھلجھڑی کوئی
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
میری خاطر خرید لیں ڈنڈے
اس سے پہلے کرائے کے غنڈے
توڑ دیں دانت میرے مسٹنڈے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
تیرے بچے شرارتی نادان
میرے رشتوں سے ہو کے یہ انجان
اس سے پہلے پکاریں ماموں جان
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
دور مجھ سے مری شمیمہ ہو
میرے دل اور جگر کا قیمہ ہو
اس سے پہلے ترا ولیمہ ہو
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
موڈرن ڈراکیولاز
ہے پسند خوں ہم کو عورتوں اور بچوں کا
خون روز پیتے ہیں خون سے نہاتے ہیں
بھونتے ہیں اوون میں لیگ پیس بچوں کے
نوجوان لاشوں کے دل دماغ کھاتے ہیں
کیا لذیذ ہوتا ہے، اف عراقیوں کا خوں
جارج بش بلیئر کو فون پر بتاتے ہیں
ہزل
جیسے کہ ایک چوہاکسی بل میں گھُس گیا
ایک بے وفا کا عشق مرے دل میں گھس گیا
لکھ ڈالے شاعروں نے جو اشعار بے شمار
ایساکہاں کا حسن ترے تل میں گھس گیا
ہر بات وہ دلیل سے کرتا ہے اس طرح
جیسے کہ سارا علم اک جاہل میں گھس گیا
مقبولِ عام ہے سخنِ سہلِ ممتنع
اردو ادیب کون سی مشکل میں گھس گیا
ہزل
چہرے پہ میرے زخم ہیں دیدارِ یار کے
پردہ نشیں نے مارا ہے برقع اتار کے
بس خواب میں ہوئی تھی ملاقات ایک بار
اس دن سے ڈھونڈھتی ہے وہ ٹھیلے اچار کے
معشوق تھا بخیل پسیجا نہ دوستو
دیکھا ہے کتنی مرتبہ مِس کال مار کے
بیوی ادھیڑ ہو گئی شوہر جوان ہے
ٹیمپو چلا رہے ہیں یہ شوقین کار کے
حاصل وصول کچھ نہیں ہو گا تمام عمر
پاؤں دبا رہے ہیں جو سرمائے دار کے
ان سے حساب حشر میں علوی کریں گے ہم
بیٹھے ہوئے ہیں مال جو اپنا ڈکار کے
ہزل
اگر ہے گھاٹے کا یہ کاروبار ہے توہے
کئی حسینوں پہ بوسہ ادھار ہے تو ہے
نہ گولیوں سے نہ انجیکشنوں سے اترے گا
تمہارے عشق کاہم کو بخار ہے توہے
تمہا رے شہر میں عاشق ہیں سب قرینہ کے
ہمیں قرینہ کی امّاں سے پیار ہے تو ہے
تمہارے باپ کو اب اعتراض ہو تو ہو
تمہاری یاد میں دل بے قرار ہے تو ہے
نہیں سمجھتا نہ سمجھے وہ شاعر اعظم
کہ چربہ کاروں میں اپنا شمار ہے تو ہے
ہمیں نہ تھانے کا ڈر ہے نہ جیل خانے کا
ہمیں دروغہ کی دخترسے پیار ہے توہے
مکان قسطوں میں اپنا ہے کار قسطوں میں
حیات قرض سے ہے شاندار ہے تو ہے
انتیشٹی
ہار بیٹھے ہیں چناؤ جیت کا تھا انتظار
دل کا دورہ پڑ گیا نیتا کو اس نیوز سے یار
ہار کی ہیڑا نہ سہہ پائے وہیں دم دے دیا
دیش پر قربان خود کو ایک پل میں کر لیا
دل کئی بے روز گاروں کا خوشی سے کھل گیا
ان کے شاگردوں کو چندے کا بہانا مل گیا
لے کے چندے کی رسیدیں آ گئے بازار میں
جان نیتا نے گنوائی ووٹروں کے پیار میں
دیش کے نیتا کی ہو گی دھوم سے انتیشٹی
پر ارتھنا ہے دس روپے سے آپ کے سہیوگ کی
دیش کے نیتا کا یارو آخری ہے یہ سفر
دس روپے کا نوٹ تو بھاری نہ ہو گا جیب پر
کرنا ہے سمآن سے نیتا کا انتم سنسکار
نقد دس کا نوٹ دیجے اس میں نہ کیجیے ادھار
تب ہی ان سے بھڑ گئے مشہور ہندی کے کوی
دیش میں ہے سارے نیتاؤں کی اک جیسی چھوی
ہیں پریشاں لیڈروں سے دیش کے چھوٹے بڑے
ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں کھوٹے کھرے
دس کے بدلے سوروپے کا نوٹ مجھ سے لیجئے
پورے دس نتیاؤں کی انتیشٹی کر دیجئے
ہزل
ملا جب کالا دھن ہم کو برائیٹ ہو گیا سب کچھ
بدن، ملبوس، گھر باہر کہ وہائیٹ ہو گیا سب کچھ
خبر ہونے نہ دو، ہو جائے تو اک جانچ بٹھوا دو
کہیں کیسا ہو گھوٹا لا کہ رائیٹ ہو گیا سب کچھ
حسیں تھے بے پڑھے لکھے، تو سب کچھ ڈھیلا ڈھالا تھا
ملی تعلیم مغرب کی تو ٹائیٹ ہو گیا سب کچھ
منی کے فضل سے سب کام ہوتے آٹو مٹیکلی
کہ جب جیبیں ہوئیں بھاری تو لائیٹ ہو گیا سب کچھ
زمینیں ساری بکوا دیں، وکیلوں کی وکالت نے
سڑک پر آ گئے ہم نذر فائیٹ ہو گیا سب کچھ
ہزل
سنا ہے روز وہ ہم کو سنور کے دیکھتے ہیں
یہ بات سچ ہے تو ان پہ بھی مر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے لوگوں سے محبوب ہے مرا گنجا
چلو کہ چاند پہ اس کی اتر کے دیکھتے ہیں
کریں گے آنکھ مٹکّا وہ کیا پڑوسن سے
جو لوگ اپنی ہی بیوی کو ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے شوق ہے اس کو بھی پہلوانی کا
چلو کہ اس سے بھی دو ہاتھ کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمہ لگا تا نہیں گدھا کوئی
یہ بات ہے تو ہری گھاس چر کے دیکھتے ہیں
گئے زمانے کی باتیں ہیں شکل اور صورت
بس اب تو اہلِ نظر خم کمر کے دیکھتے ہی
سنا ہے پیار ہے اس کو کلین چہروں سے
سو ہم بھی چہرے سے داڑھی کتر کے دیکھتے ہیں
اشتہار
ایک دن دل میں خیال آیا چلو شوہر بنیں
خوبصورت خوب سیرت کوئی بیوی ڈھونڈ لیں
اس غرض سے دے دیا اخبار میں اک اشتہار
ایک بیوی چاہئے ہو، خوبرو و ہوشیار
سارے بھارت سے ملے خط مجھ کو یارو بے شمار
ایک بھی خط سے نہ آئی خوشبوئے انفاسِ یار
شوہروں نے سارے خط لکھے تھے اپنے خون سے
میں پریشاں اس قدر ہوں آج کی خاتون سے
ایک ہی جملہ لکھا تھا سب خطوں میں بار بار
میری بیوی لیجئے احسان مانوں گا ہزار
شیطان کا شکوہ
اک عمارت پہ دیکھا جو لکھا ہوا
ھٰذا من فضل ربی کو شیطان نے
وہ دکھی ہو کے گویا ہوا اس طرح
کیسا دھوکا کیا مجھ سے انسان نے
ھٰذا من فضل ربی لکھا گیٹ پر
میرے احساں کا اس نے دیا یہ بدل
یہ عمارت میرے فیض سے ہے بنی
اس کے سرپہ نہ تھا ایک چھپر بھی کل
میرے ہی فضل سے اتنی دولت ملی
ٹیکس چوروں پہ کب فضل ربی ہوا
میرے رب نے انہیں منھ لگا یا نہیں
سود خوروں پہ کب فضل ربی ہوا
لوٹنے کا ہنر اس کو میں نے دیا
ورنہ ایمان کا اک پجاری تھا یہ
میں نے پیسہ بنانا سکھایا اسے
گندے فٹ پاتھ کا اک بھکاری تھایہ
میں نے بکوائی اس سے افیم اور چرس
میں نے ہتھیاروں کا دھندہ اس کو دیا
سیکھ دی قتل و غارت گری کی اسے
کہتا ہے فضل ربّی اسے بے وفا
فضل میرا ہے کاروں میں چلتا ہے اب
فضل ربی سے ٹم ٹم چلا کے دکھا
ملٹی اسٹوری بلڈنگ بڑی چیز ہے
تو شرافت سے اک گھر بناکے دکھا
گھر کے دروازوں پہ پھر بھی لکھتا ہے یہ
ھٰذا من فضل ربی بڑی شان سے
کہتا ہے فضل ربّی میرے فضل کو
دو قدم بڑھ کے انساں ہے شیطان سے
’’ب ‘‘ پروف
(نذر شوکت تھانوی)
اک نجومی کو دکھایا ایک دن میں نے جو ہاتھ
اس نے فرمایا بتاؤں راز کی اک تجھ کو بات
بند کر رکھے ہیں لفظِ ب نے سارے راستے
صرف ’ب‘ خطرہ ہے تیری زندگی کے واسطے
وجہ بربادی تری ’ب‘ کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگانی میں تری ’ب‘ سے بُرا کچھ بھی نہیں
کچھ نہیں بگڑے گا تیرا تیر اور تلوار سے
بچ نہیں سکتا کسی بھی طرح ب کی مار سے
سانپ سے بچ جائے گا پر مارو دے گا تجھ کو بوم
ب میں تیری موت ہے یہ کہتا ہے علم نجو
علم کہتا ہے مرا بے بات کی باتوں سے بچ
ان کڑکتی بجلیوں بادل سے برساتوں سے بچ
پہلی ہی فرصت میں دے دے نیک بیوی کو طلاق
مار ہی ڈالے گا تجھ کو بارہ بچوں کا فراق
بند گوبھی اور بینگن کی محبت چھوڑ دے
فرش پر سو بیڈ اور بستر کی چاہت چھوڑ دے
برفی و بالائی اور بنگالی رس گلّہ ہے زہر
جن پہ تو مرتا ہے بُشرہ اور بسم اللہ ہے زہر
خیریت چاہے اگر باجی کے گھر بمبئی نہ جا
زہر ہے تیرے لیے بکرے کی بریانی نہ کھا
دور رہنا ہے اگر تجھ کو اندھیری قبر سے
بیکلؔ اتساہی سے بچنا اور بشیرِ بدر سے
برقع و بنیان اور بو ایک ہیں تیرے لئے
بیل بندر اور بچھو ایک ہیں تیرے لیے
کھیل یہ کرکٹ کا تجھ پر اک وبالِ جان ہے
باؤنڈری بالنگ و بیٹنگ موت کا فرمان ہے
بمبئی بوریولی میں بس سے ایکسی ڈینٹ میں
تجھ کو مرنا ہے بنارس میں کسی بیس منٹ میں
’ب‘ سے اتنا ڈر گیا ہوں بولنا بھی بند ہے
گفتگو لکھ کر کروں منھ کھولنا بھی بند ہے
’ب‘ کو جب سوچا تو ب ہی ب کا بس پھیلا ہے جال
ب ہی ب چاروں طرف ہے ب تو ہے پورا وبال
ب سے بیٹی ب سے بیٹا ب سے ہی بنتا ہے باپ
سوچیئے کیا زندگی میں ب سے بچ سکتے ہیں آپ
کیا کہوں بیوی کے اک بوسے سے بھی ڈرتا ہوں میں
بیوی کو وائف سمجھ کر کِس کیا کرتا ہوں میں
ایک ہیں میرے لئے بد شکل ہوں یا بیوٹی فل
باغ میں بلبل کے نغمے موت کا میری بگل
بیسویں بائیسویں تاریخیں مجھ پر ہیں گراں
اک قیامت بن کے آتا ہے مہینہ بارہواں
ب سے بم بارود اور بندوق بھی ب سے بنیں
ب سے برتن ب سے بچے ان سے کس طرح بچیں
شرٹ میں اور شیروانی میں بٹن بھی بیس ہیں
کیا کروں اب میرے منھ میں دانت بھی بتیس ہیں
ب سے بچتے بچتے مولا بن گیا ہوں بے وقوف
ب سے ناممکن ہے بچنا کر دے مجھ کوب پروف
ــ
نوٹ: اس نظم کا بنیادی خیال شوکت تھانوی کے مشہور مضمون ’’ب‘‘ سے لیا گیا ہے۔
تین ہزار
(اخبار میں ایک خبر چیف منسٹر نتیش کمار کے حوالے سے چھپی کہ بہار میں ہسٹری شیڑ بد معاشوں کو دس دس ہزار روپے ملیں گے، اور تین ہزار روپے مہینہ سرکار کے خزانے سے ملے گا تاکہ ان کو مجرمانہ حرکتوں سے روکا جا سکے، مندرجہ ذیل نظم اسی پس منظر میں لکھی گئی ہے )
دے رہے ہیں شری نتیش کمار
ہسٹری شیٹروں کو تین ہزار
لوٹ چوری کی اور ڈکیتی کی
درج ہیں جن کے نام ایف آئی آر
ریٹ سب کو ملے گا اک جیسا
کوئی قاتل ہو کوئی پاکٹ مار
مجھ سے فرمایا رات بیگم نے
تم تو شاعر ہو ایک دم بیکار
دو روپے تم کما کے لاتے نہیں
تم سے اچھا ہے کلّو پاکٹ مار
اس کو سرکار کے خزانے سے
ہر مہینے ملیں گے پانچ ہزار
کاش لڑکی کو چھیڑ نے کی ہی
نام ہوتی تمہارے ایف آئی آر
واقعی روز گار مل جاتا
غنڈے ہوتے اگر سبھی فن کار
تم جو دو چار قتل کر دیتے
شہر میں ہوتے تم بھی عزت دار
شاعروں کو مشاعرے بھی نہیں
اور غنڈے بنے ہیں تنخواہ دار
اب تو یہ حال ہو گیا ہے میاں
للو پنجو چلا رہے سرکار
شاعروں کو نوازہ جاتا تھا
اب کہاں ہے وہ اکبری دربار
اب ہے عزت اٹھائی گیروں کی
یہ ہے اپنے نیتیش کی سرکار
بدنام
ایک شاعر نے جج کو دی عرضی
اک سپاہی نے مجھ کو لوٹا ہے
شرٹ پتلون گھڑی سب چھینی
دیکھیے جسم پہ کیا چھوڑا ہے
جج یہ بولا کہ جسم پر تیرے
دیکھتا ہوں کہ ایک کچھّا ہے
صرف اس بات سے یہ ثابت ہے
تیرا دعویٰ غلط ہے جھوٹا ہے
کر رہا ہے پولس کو تو بدنام
کب پولس نے کیا ادھورا کام
درباری مسلمان
تم غلامانِ حکومت ہو فقط
بجھ گئے سینے میں غیرت کے چراغ
تم نہ دھو پاؤ گے دامن سے کبھی
بابری مسجد کی مسماری کے داغ
در حقیقت تم ہو اک اندھی سرنگ
کیا ملے گا تم کو منزل کا سراغ
آبرو بہنوں کی لٹتی دیکھ کر
لب پہ کب آیا تمہارے احتجاج
کیا نہیں بہتا رگوں میں گرم خوں
بے ضمیری بن گئی ہے سرکا تاج
کوئی مقصد ہے، نہ ہے کوئی اصول
ایسی بیماری نہیں جس کا علاج
قوم کے زخموں پہ چھڑکا ہے نمک
اپنے عیبوں پر سدا ڈالا غلاف
تم نے پی ہر شام امپور ٹڈ شر اب
اور ہمیں چھوڑا نہیں پانی بھی صاف
جن کے ووٹوں سے تمہیں منصب ملے
تم ہمیشہ ہی رہے ان کے خلاف
قوم کے بارے میں تم کیا سوچتے
تم رہے ہو اپنی خواہش کے غلام
تم ربر اسٹیمپ بن کر رہ گئے
تم نے گر پا بھی لیا کوئی مقام
بے یقینوں آفریں صد آفریں
بے ضمیرو السلام والسلام
تم بنے مالک ہمارے ووٹ کے
کام آئے غیر مسلم کے سدا
کی ہیں سیدھی دوسروں کی چپلیں
اور مسلمانوں کو ٹھو کر پر رکھا
چند سکوں میں ہمیشہ بک گئے
پاس رکھ پائے نہیں تم قوم کا
تھے حقیقت میں اگر عبد الکریم
یہ بتاؤ نذرِ آتش کیوں ہوئے
تھی ہدایت گر تمہیں اللہ کی
خاک ہو کر آگ میں کیونکر جلے
موم بن پائے نہ تم پتھر کبھی
تم ہمیشہ سے رہے ہو دوغلے
بھیس مسلم کا بدل کر آ گئے
تم مسلمانوں کے ووٹوں کے لئے
قوم کی لاشوں کو بیچا عمر بھر
مرتبوں اور اونچے عہدوں کے لئے
ملک کو برباد تم نے کر دیا
قیمتی ذاتی اساسوں کے لئے
تم کو ہم کہتے نہیں ملت فروش
تم ستم پیشہ ستم ایجاد ہو
ہم نظر انداز کر بھی دیں اگر
وقت کی تاریخ کو تم یاد ہو
وقت کر سکتا نہیں تم کو معاف
میر جعفر کے تمہیں استاد ہو
وردان
سادھنا کی ایک لیڈر نے بہت بھگوان کی
ہو گئی امید پوری ایک دن وردان کی
خوش ہوئے بھگوان اس سے اور پرکٹ ہو گئے
دل میں جو ارمان تھے پورے وہ جھٹ پٹ ہو گئے
بولے یہ بھگوان لیڈر سے بتا کیا چاہیئے
کیڑنیا کیف تجھ کو یا قرینہ چاہئے
کھل گئے ہیں تجھ پہ دو عالم کے دروازے تمام
صرف اک چٹکی میں کر سکتا ہے اب تو سارے کام
بولا لیڈر مجھ کو بھگون بس یہی وردان دو
ایسی شکتی کنٹھ میں دو شبد میں وہ جان دو
جس کو لڑواؤں لڑے وہ جس کو پٹواؤں پٹے
یہ تراسنسار سارا میرے کہنے پر چلے
میں کہوں جو بات بس وہ بات ہونی چاہئے
دن کو بولوں رات تو بس رات ہونی چاہئے
بات اس لیڈر کی یہ بھگوان جی نے مان لی
آج سے تو جو کہو گے بس یہاں ہو گا وہی
قورمہ زردہ پلاؤ مرغ کی ڈش کھائے گا
تو جسے کشمش کھلائے گا وہ کشمش کھائے گا
بولے پھر بھگوان یہ وردان دیتا ہوں تجھے
زندگی اور موت کا سامان دیتا ہوں تجھے
ہاتھ میں لیڈر کے پھر تو ساری طاقت آ گئی
ہر مخالف سے اسے لڑنے کی ہمت آ گئی
آزمانے کے لئے اک دن یونہی بھگوان کو
اور جتا نے کے لئے دنیا پہ اپنی شان کو
شام کو دفتر سے جب بھی اپنے گھر پر جائے گا
اک مخالف سے کہا لیڈر نے تو مر جائے گا
شام کو جیسے ہی گھر پر اپنے وہ لیڈر گیا
اس کو اک ٹھوکر لگی دھپ سے گرا اور مرگیا
بس طریقہ ہو گیا اب تو یہی شریمان کا
اس سے جو الجھا ہوا شہری وہ قبرستان کا
ایک دن لیکن میاں لیڈر بھی دھوکا کھا گیا
موت کا وارنٹ اپنے باپ کو پکڑا گیا
شام تک مر جائے گا تو باپ سے یہ کہہ دیا
باپ تو زندہ رہا لیکن پڑوسی مرگیا
پنگے
اپنا سمجھ کے تم کو بتاتا ہوں راز میں
اک روز میں اُڑا تھا ہوائی جہاز میں
اس وقت میرا پالتو طوطا بھی ساتھ تھا
جس وقت میرے ساتھ عجب حادثہ ہوا
بیٹھی تھی ایک لیڈی برابر کی سیٹ پر
مٹھّو میاں کی جیسے ہی اس پر پڑی نظر
طوطے نے کہا پیار سے کیا لگ رہی ہو خوب
موڈل ہو اداکارہ ہو یا پھر پری ہو خوب
طوطے کی بات سن کے ہوئی باغ باغ وہ
انگریز کی طرح تھی وسیع الدماغ وہ
طوطے کی چونچ چوم کے بولی وہ مائی ہارٹ
دل میرا تو نے لوٹ لیا میرے دل کے پارٹ
منظر یہ میں نے دیکھا تو بس دیکھتا رہا
میں آج جیسے اپنی ہی نظروں میں گر گیا
یہ عرض کی خاتون سے کیا کر رہی ہیں آپ
اک بے وفا پرندے پہ کیوں مر رہی ہیں آپ
ایسے نہ میرے طوطے پہ نظرِ کرم کریں
طوطے پہ مر کے مجھ پہ نہ ایسے ستم کریں
غُصّے میں لال ہو گئی یارو بکھر گئی
اتنی سی بات سنتے ہی وہ تو بپھر گئی
خاتون کی طرف سے سبھی ہو گئے کھڑے
حرکت پہ میری سارے مسافر ابل پڑے
اتنے میں لات گھونسوں کا اک دور چل گیا
جغرافیہ ہی چہرے کا پل میں بدل گیا
کچھ نے کہا یہیں پہ اتارو جہاز کو
کچھ نے کہا کہ دونوں کو اوپر سے پھینک دو
آخر مسافروں نے یہی فیصلہ کیا
اُڑتے جہاز سے ہمیں نیچے گرا دیا
اُڑتے ہوئے طوطے نے بڑی شان سے کہا
لم عشق سے نہیں ہے ذرا موت کا مزا
میں نے کہا یہ طوطے سے اڑنا سکھا مجھے
بے موت مر نہ جاؤں کہیں تو بچا مجھے
مجھ سے کہا اُڑتے ہوئے طوطے نے لفنگے
اُڑنا نہیں آتا ہے تو کیوں لیتا ہے پنگے
ہزل
پیتی ہے خون میرا وہ کھاتی ہے آملیٹ
یونہی تو بڑھ نہیں رہا بیگم کا میری ویٹ
سیبوں کی طرح سرخ ہوئے جا رہی ہے وہ
جل بھن کے ہو رہاہوں میں ہر روز پاپلیٹ
یارو میں اس پہ جان لٹانے کے واسطے
اپنی بغل میں رکھتا ہوں دو چار ہیلمیٹ
شادی سے پہلے شیر اور بکری کی طرح تھے
شادی کے بعد ریٹ ہوا وہ بنی ہے کیٹ
طنز و مزاح کا یہ زمانہ ہے دوستو!
سنجیدہ شاعری تو ہوئی آؤٹ آف ڈیٹ
کرکٹ
ان کی نظروں میں ہیں سب شاعر اعظم بے کار
آج ہر لڑکی کے اعصاب پہ کرکٹ ہے سوار
ان کو شاعر کوئی اس دنیا میں بھاتا ہی نہیں
ان کو کرکٹ کے سوا کچھ نظر آتا ہی نہیں
ان کو بلبل نہیں بھاتی انہیں گرگٹ ہے پسند
لڑکیوں کو مری غزلیں نہیں کرکٹ ہے پسند
لڑکیاں غالب و اقبال سے ناواقف ہیں
میرؔ و سودا کے بھی احوال سے ناواقف ہیں
ان کے پیارے تو ہیں عمران سچن تندولکر
فن شعری کو بتاتی ہیں یہ بے ہودہ ہنر
راحت اندوری پسند ان کو نہ انجم رہبر
ان کو گلزار لگے پیارا نہ جاوید اختر
ان کو رفعت؎۱ ہے نہ مخمور سعیدی ہے پسند
ان کو ناظر ہے نہ ساغر ہے نہ علوی ہے پسند
یہ نہیں مانتی نیرج ہو کہ ہو اندیور
ان کی نظروں میں بسے ہیں کپل دیو اظہر
یہ ملک؎۲ زادہ سے واقف ہیں نہ اجلال سے ہیں
ہاں یہ واقف مگر کرکٹ کی ہر اک بال سے ہیں
مصطفی؎۳ ان کو پسند آئے نہ یوسف ناظم
ان کی نظروں میں نہ طالب؎۴ نہ نریندر عالم
قاسمی ان کو سمجھ آئے نہ باری نہ منیر
ان کے اشعار بھی لگتے ہیں انھیں ٹیڑھی کھیر
مجھ کو ہو کیوں یہ شکایت کہ مری قدر نہیں
ان کی نظروں میں تو فن کار میاں بدر نہیں
پوٹلی لے کے کو تیاؤں کی گھومے سنسار
آج تک پھر بھی کنوارے ہیں ہری اوم پوار
بن گئے آبرو غزلوں کی بریلی کے وسیم
پاس پھر بھی نہیں پھٹکی کوئی نکہت نہ شمیم
گیت گا گا کے ہوئے بوڑھے دھرم جیت سرل
اک حسینہ نے کیا بھینٹ نہ چاہت کا کنول
عمر بھر گھستے رہے کیفی و مجروح قلم
اک حسینہ کا بھی ان پر نہ ہوا خاص کرم
ان کا کہنا ہے حسینوں کا تھا پیارا ساحر
اٹھ گیا پھر کیوں زمانے سے کنوارا ساحر
نہ رہے رام کے نہ کرشن کی گیتا کے اشوک
چکر دھر ہو گئے چکر میں کویتا کے اشوک
اک گلے باز کو اپنایا مدھو بالا نے
اک ودیشی کے پڑی مادھوری دکشت پیچھے
ساری دنیا میں اسے ایک بھی شاعر نہ ملا
رینا رائے نے بھی تو پاک سے محسن کو چنا
ایک شرمیلا تھی جو بھائی پٹودی سے پٹی
کوئی ٹُن ٹُن بھی پٹائی ہو تو بتلائے کوئی
ہوکے ستر کے ابھی تک بھی کنوارے ہیں اٹل
ان کا کہنا ہے کو تیاؤں کے مارے ہیں اٹل
بیوی والے بھی کنوارے سے نظر آتے ہیں
سارے شاعر ہی بچارے سے نظر آتے ہیں
کوئی معشوق ملی گوری نہ کالی ان کو
حسن والوں نے کبھی گھاس نہ ڈالی ان کو
ہم سے خاتونوں کو بس اتنا ہی غم ہے یارو
ان کو بلّے کی طلب ہم پہ قلم ہے یارو
ـــ
(۱) رفعت سروش (۲) ملک زادہ منظور احمد (۳)مصطفی کمال (ایڈیٹر شگوفہ) (۴) طالب خوند میری۔ (۵) ساغر خیامی، مزاج نگار نریندر لوتھر، ایم آر قاسمی،منیر ہمدم، انور باری، وسیم بریلوی، ملک زادہ جاوید
دعا
طوطی ہمارے گھر میں ہے اتنی شرارتی
ہر آتے جاتے طوطے کو ہے آنکھ مارتی
اتنے تو قرینہ کے بھی چکّر نہیں چلے
جتنے ہماری طوطی نے عاشق بنا لئیے
اسرار جامعی جو ہیں شاعر مزاح کے
طوطی کی حرکتوں پہ بڑی دیر تک ہنسے
طوطی کے قصّے سن کے یہ موصوف نے کہا
طوطوں کا ایک جوڑا مرے گھر بھی ہے پلا
یہ پاکباز طوطے مرے ہیں بڑے شریف
ان کی شرافتوں کی قسم کھاتے ہیں حریف
رہتے ہیں سارے وقت یہ مصروفِ عبادت
گھر میں مرے طوطوں کی نمازوں سے ہے برکت
فرمایا جامعی نے کہ اک کام کیجیئے
بگڑی ہوئی طوطی مرے گھر بھیج دیجیئے
صحبت میں میرے طوطوں کی جائے گی وہ سدھر
انساں کو بدل دیتا ہے صحبت کا یہ اثر
اسرار جامعی کا تھا معقول مشورہ
میں نے بھی پنجرہ طوطی کا ان کو تھما دیا
اسرار جامعی نے بھی فوراً ہی یہ کیا
طوطی کو دونوں طوطوں کے پنجرے میں رکھ دیا
طوطی پہ ایک طوطے کی جیسے نظر پڑی
باندھی تھی جو نماز کی نیّت وہ توڑ دی
طوطا یہ بولا دوسرے طوطے سے سر پھرے
کون آ گیا ہے سجدے سے اٹھ دیکھ تو گدھے
برسوں کی عبادت کا یہ کیسا اثر ہوا
ایک حور کی آمد سے منّور یہ گھر ہوا
مانگی دعا جو ہم نے تھی وہ قبول ہو گئی
محنت تمام عمر کی اب وصول ہو گئی
پندرہ دسمبردو ہزار آٹھ
(نذرِ صدرِ امریکہ جارج بش )
ملا ہے مفت میں بُش کو انعام جوتوں کا
کیا ہے تو نے حقیقت میں کام جوتوں کا
یہ بد نصیبی ہے تیری ادھر گذر نہ ہوا
کیا تو ہم نے بھی تھا انتظام جو توں کا
تمام اہلِ زباں نہ اسے کہا پاپوش
سرِ عزیز نہیں ہے مقام جوتوں کا
نواز نے لگے عزت مآب کو جب سے
کہ بڑھ گیا ہے بہت احترام جوتوں کا
ہمارے پاؤں میں قیمت تھی کوڑیوں میں مگر
یہ تیرے سر نے بڑھایا ہے دام جوتوں کا
یہ بھوت لاتوں کے کب مانتے ہیں باتوں سے
اسی لیئے تو کیا اہتمام جوتوں کا
ہر ایک دور نوازے گا تجھ کو جوتوں سے
قبول کرنا پڑے گا سلام جوتوں کا
تلاشِ شوہر
خوبرو خاتون سے شادی رچانے کے لئے
ایک شوہر چاہئے اونچے گھرانے کے لئے
خوبیاں رکھتا ہو یہ ساری ہر اک امیدوار
بیٹا نالائق ہو چاہے باپ ہو سرمائے دار
ڈگریاں رکھتا ہو سب چاہے پڑھا لکھا نہ ہو
عقل کا اندھا ہو لیکن آنکھ کا اندھا نہ ہو
کپڑے دھونے کا انوبھؤ کم سے کم ہو پانچ سال
قورمہ زردہ پلاؤ اور پکا سکتا ہو دال
گوشت سبزی کی خریداری کا آتا ہو ہنر
گھر کی پہریداری کر سکتا ہو شب بھر جاگ کر
جھاڑو پونچھا اور برتن مانجھنے کا شوق ہو
تھوڑا تھوڑا اس کو فلمی شاعری کا ذوق ہو
پیار بچوں سے کرے بچوں سے اکتاتا نہ ہو
سونگھتا ہو کھانے کو شام وسحر کھاتا نہ ہو
پہلی ہی عرضی میں کیجیے درج ساری معلومات
چڑھ چکی ہے پہلے کتنی بار دو لہے کی برات
یس یا نو میں دیجئے ان دوسوالوں کے جواب
اس سے پہلے کر چکے ہو کتنوں کا خانہ خراب
کیا کوئی تھانے کچہری والا بھی لفڑہ ہوا
سابقہ بیوی سے کتنی مرتبہ جھگڑا ہوا
کر رہے ہو کام شوہر کا جو پہلی مرتبہ
ساتھ ڈپلومہ لگاؤ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کا
اور بھی پیشے ہیں اس دنیا میں کافی با وقار
ڈاکٹر دھوبی بڑھئی ورزی ہیں پیشے شاندار
کس لئے بنتے ہیں شوہر آپ لیڈر کیوں نہیں
پہن کر کھدر یہاں بنتے منسٹر کیوں نہیں
شوہری کے کام پر گر آپ کا ہو انتخاب
اپنی بیگم کو لکھیں کیا منتھلی دیں گے جناب
فیوچر
ایک اسٹوڈینٹ نے نیچر کو نیٹورے پڑھا
ماسٹر صاحب کا اس پر اس قدر پارہ چڑھا
لے گئے اس کو پکڑ کر پرنسپل صاحب کے پاس
چھ برس سے کھا رہا ہے یہ گدھا کالج میں گھاس
کر دیا ہے میرا تو اس لڑکے نے بھیجہ خراب
چھ برس سے پڑھتا ہے نیچر کو نیٹورے جناب
سخت سے سخت ایکشن سر لیجئے اس کے خلاف
اب کسی صورت بھی اس لڑکے کو نہ کیجیے معاف
اس کو کالج سے نکالیں اب ہمیشہ کے لئے
تاکہ ہر اک پڑھنے والا اس بلنڈر سے بچے
ماسٹر کی بات سن کر پرنسپل گویاہوئے
اب نہ یہ مسٹیک ہو گی ماسٹر جی چھوڑئیے
یہ تو بے ہو وہ ہے جاہل کم سمجھے کم عقل ہے
کیا سبق اس کو سکھانے کی یہی اک شکل ہے
ڈانٹیے دو چار تھپڑ مار کر سمجھائیے
راہ پر جس طرح بھی ممکن ہو اس کو لائیے
پرنسپل نے ماسٹر سے پھر یہ سمجھا کر کہا
ایکشن سے حل نہ ہو گا ماسٹر جی مسئلہ
ایکشن ہی ماسٹر جی مسئلے کا حل نہیں
آج ہی دیکھا ہے اس لڑکے کا تم نے کل نہیں
ایکشن لینے کا مطلب جانتے ہیں کچھ جنا ب
ایکشن کر دے گا اس لڑکے کا فیوٹورے خراب
اقبالِ جرم
(شکوہ کی پیروڈی)
چمچہ گیری کے لئے ملک میں مشہور ہیں ہم
اونچے عہدوں پہ اسی واسطے مامور ہیں ہم
خون پینے کے لیئے اپنوں کا مجبور ہیں ہم
قوم کے سینے پہ رستے ہوئے ناسور ہیں ہم
اپنی گردن پہ ہی چلتی ہے جو تلوار ہیں ہم
ہند میں امتِ احمد کے گنہگار ہیں ہم
ہم سے پہلے تھے عجب اپنے وطن میں لیڈر
دال روٹی پہ ہی ہوتی تھی بچاروں کی گذر
قورمہ زردہ پلاؤ کی نہ تھی ان کو خبر
فائیواسٹار کے کھانوں پہ ہی رہتی تھی نظر
ہم سے پہلے نہ لگا پایا کوئی دام ترا
قوّتِ بازوئے چمچّ نے کیا کام ترا
اب کے چمچوں کی نہیں ملتی کہیں پر بھی نظیر
ایک سے ایک ہیں بڑھ چڑھ کے یہ چمچے کفگیر
بینک بیلینس کہیں پر تو کہیں پر جا گیر
اونچے عہدوں کے لئے بیچ دیا سب نے ضمیر
رشوتیں لینے میں بنگلے پہ ہی آسانی تھی
یوں تو دفتر میں بھی نوٹوں کی فراوانی تھی
ہم تو جیتے ہیں فقط قوم کی خدمت کے لئے
رشوتیں لیتے ہیں کیا اپنی ضرورت کے لئے
غنڈے رکھتے ہیں مخالف کی مرمت کے لئے
کار بنگلے بھی ہیں اس قوم کی عزت کے لئے
قوم اپنی جو زر و مال و جہاں پر مرتی
چمچہ گیری نہیں پھر کا لاہی دھندہ کرتی
پینشن کے لئے سرکار سے اڑ جاتے ہیں
عہد چھن جائے ہمارا تو بگڑ جاتے ہیں
در پہ نیتاؤں کے اے دوستو پڑ جاتے ہیں
فائدے کے لیئے اللہ سے لڑ جاتے ہیں
چار بیوی پہ لڑے ہم کبھی روٹی پہ نہیں
شاہ بانوں کے لیئے ایک لنگوٹی پہ نہیں
قوم کے واسطے قربانی کو تیار نہیں
چندے کھانے میں مگر ہم کو کوئی عار نہیں
قوم کیا شے ہے ہم اپنے ہی وفادار نہیں
اک طوائف کا ہے اپنا کوئی کردار نہیں
تم ہو اللہ کے ، کرسی کے پجاری ہم ہیں
شعبدے باز میاں مدنی بخاری ہم ہیں
ہم کو آتا ہے الکشن میں ہی ملّت کا خیال
یاد رہتا ہی نہیں ماضی ومستقبل و حال
گوشت سبزی ہی میسّر ہے نہ اب آٹا نہ دال
فاقے کرتے ہیں کریں قوم کے یہ اہل و عیال
جنتا دل، بھاجپا، و کانگریسی ایک ہوئے
پار لیمینٹ میں پہونچے تو سبھی ایک ہوئے
اپنے کاندھوں پہ لیے پرچمِ اسلام پھرے
چند ووٹوں کے لئے باندھ کے احرام پھرے
ہم مئی جون میں بھی دوپہر و شام پھرے
کس مُحلّے سے بتاؤ کبھی ناکام پھرے
ایسے دوڑائے سیاست میں وہ گھوڑے ہم نے
ووٹ تو ووٹ ہیں ووٹر بھی نہ چھوڑے ہم نے
ہندو مسلم کو لڑانے کا وہ فن جانتے ہیں
حرکتیں اپنی سبھی اہلِ وطن جانتے ہیں
ہم نے بیچے کہاں لاشوں کے کفن جانتے ہیں
کس سے پوشیدہ ہے سب اپنا چلن جانتے ہیں
اپنی آنکھوں پہ چڑھا رہتا ہے سرکاری غلاف
عہدہ چھن جائے اگر جائیں ہم آقا کے خلاف
چھاگلہ ہم میں ہوئے ہم میں بخاری بھی ہوئے
دیو بندی بھی، بریلی بھی، بہاری بھی ہوئے
پیر و مرشد بھی بنے مولوی قاری بھی ہوئے
تیری امت میں یہ دولت کے پجاری بھی ہوئے
لال بتّی کی نئی کار ہے چاہت اپنی
ہم نے عہدوں کے لیئے بیچ دی غیرت اپنی
ذات تو اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں
ان میں کچھ بنگلہ بھگت ہیں کئی غدّار بھی ہیں
ان میں عیسائی بھی ہندو بھی ہیں سردار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ وطن سے مرے بیزار بھی ہیں
ایڈ آتی ہے برہمن کے شبستانوں پر
ٹاڈا لگتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
نفسِ امارہ کو ہر طرح سے مارا ہم نے
آٹھ کاروں پہ کیا صرف گذارا ہم نے
آسمانوں کی بلندی سے اتارا ہم نے
رکھ دیا نام مسلماں کا بچارا ہم نے
نائی دھوبی ہے مسلماں کہیں رکشہ پولر
چند برسوں میں اس ہیرو کو بنایا جوکر
قتل مسلم کا فسادوں میں کرایا ہم نے
گھر جلے ایک بھی آنسونہ بہایا ہم نے
راسو کا میں کہیں ٹاڈا میں پھنسایاہم نے
قوم پر ظلم ہوئے لب نہ ہلایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم سے بڑھ کے تو کوئی لائقِ دربار نہیں‘‘
بینک بیلنس ہیں بھارت میں تو اس پار بھی ہیں
ہم وہ لیڈر ہیں جو کرسی کے وفادار بھی ہیں
ہم بھکاری بھی ہیں اس ملک میں خوددار بھی ہیں
چار بیوی ہی نہیں ہم پہ کئی کار بھی ہیں
آپ نے سچ ہی کہا قوم کے غدار ہیں ہم
بے وفا اپنے سہی تیرے وفادار ہیں ہم
کس سلیقے سے محبت سے مٹا دی اردو
دفن آثارِ قدیمہ میں کرا دی اردو
دفتروں اور کچہری سے ہٹا دی اردو
فلمی گیتوں میں ہی محدود بنا دی اردو
آگ اردو کی کلیجوں میں دبی رکھتے ہیں
عشق ہم غالب و مومن سے دلی رکھتے ہیں
ہر مسلماں کو کیا ہم نے یہاں خانہ خراب
بنگلہ دیشی کا اسے ہم نے ہی دلوایا خطاب
اب تو فٹ پاتھ پہ سوتے ہیں یہاں کل کے نواب
ہم کہ خودساختہ ہیں محترم و عالیجناب
طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے
اپنے چہرے پہ یہ داڑھی بھی تو سرکاری ہے
عقل والے بھی وہی ہیں یہاں بدھو بھی وہی
ناصر الدین وہی ہیں شری نتھو بھی وہی
یوں تو مسلم بھی وہی ہیں یہاں ہندو بھی وہی
وہی بینگن یہاں تھالی کے ہیں کدّو بھی وہی
آئے لیڈر گئے ووٹوں کا ذخیرہ لے کر
اب انہیں ڈھونڈیں کہاں گیس کا ہنڈہ لے کر
میں نے چاہا نہیں ہوں قوم کے بچے نوکر
چور ڈاکو یہ بنیں اور بنیں اسمگلر
یا کریں لیڈری بچے یہ پہن کر کھدر
اور رہ جائیں فقط تھانے کے مخبر بن کر
نوجوانوں کی ترقی کا نہ کچھ کام کیا
ہم نے ملّت کو ہر اک موڑ پہ بدنام کیا
راہبر جب سے بنے ہیں بڑے لیڈر کے غلام
فائیو اسٹار میں مولانا کا رہتا ہے قیام
بھوک اور پیاس سے مرتے ہیں تو مر جائیں عوام
ان کو پانا ہے سیاست میں بہت اونچا مقام
قبر ہیں سارے مسلمان مُجاور ہم ہیں
بیچ دیتے ہیں جو ایمان وہ تاجر ہم ہیں
کچھ تو بتلاؤ مسلماں کا یہاں کیا ہے قصور
اس کو سروس سے ویاپار سے کیوں رکھتے ہو دور
اس کو فردوس کی چاہت نہ تمنائے حور
ہاں طلبگار ہے دو وقت کی روٹی کا ضرور
کوئی تکلیف سے دکھ درد سے آگاہ نہیں
سب کو ہے اپنی طلب میری کوئی چاہ نہیں
بات مسلم کی نہ کی ہم نے مسلماں ہو کر
کفر ہی بکتے رہے صاحبِ ایماں ہو کر
درد تقسیم کیے درد کا درماں ہو کر
منتشر خو دکو کیا دست و گریباں ہو کر
جوتیوں میں سدا اس دال کو باٹا ہم نے
ووٹ لے کر کیا اس قوم کو ٹاٹا ہم نے
قوم پر بند کیے ہم نے ہی روزن سارے
کارناموں سے مرے خوش ہیں برہمن سارے
جُھن جُھنا لے کے ہی گھومے ہیں جھنا جھن سارے
ہم نے بکوا دیئے اس قوم کے برتن سارے
کی ہے مسلم کی فسادوں سے سگائی ہم نے
اپنی گردن پہ ہی تلوار چلائی ہم نے
ان کی سرسبز زمیں کو کیا بنجر ہم نے
جسمِ ناپاک پہ کھدّر کو سجا کر ہم نے
بس مسلمان کو گردانہ ہے ووٹر ہم نے
قوم کے پیٹ سے بندھوا دیئے پتھر ہم نے
ووٹ لینے کے لئے فتوے برابر لائے
اپنے مطلب کے لئے بھیس بدل کر آئے
پاس ہے اپنے حرامی نہ ہلالی دنیا
صرف نیتاؤں کی کرتی ہے دلالی دنیا
رہ گیا علم ‘ عمل سے ہوئی خالی دنیا
رہبرِ قوم کی ہوتی تھی مثالی دنیا
جھوٹ ہے مکر ہے ہر بات میں عیاری ہے
ایم پی بننے کی علّامہ کی تیاری ہے
ایک بھی راستہ سورج سا منور نہ رہا
عہدِ حاضر میں کوئی قوم کا لیڈر نہ رہا
خون میں جوش نگاہوں میں وہ تیور نہ رہا
راہ زن رہ گئے اس قوم میں رہبر نہ رہا
صرف میدانِ سیات کے وہی غازی ہیں
چمچہ گیری کے عوض ایم پی اعزازی ہیں
مشاعروں کی شاعرات
شاعری کے کھیل میں بس موج میں ہیں شاعرات
ان کے آگے میر اور غالب بھی لگتے واہیات
ان کے ہر مصرعے پہ پبلک اس طرح قربان ہے
چار غزلوں کے برابر ان کی اک مسکان ہے
کامیابی کی ضمانت شاعرہ کی ہر غزل
چھوٹ ان کو ہے پڑھیں یہ عقل کو چاہے اکل
آج کل کی شاعرہ سب واقفِ سرتال ہیں
کچھ تو گانے والیاں ہیں اور کچھ قوال ہیں
کچھ کنواری بھی ہیں ان میں شوہروں والی بھی ہیں
ہر طرح کا مال ہے گوری بھی ہیں کالی بھی ہیں
آج ہر محفل میں یارو بس انہیں کی مانگ ہے
کچھ نہیں ہے فکر گر پے مینٹ ان کی لانگ ہے
شاعری سننے نہیں اب دیکھنے آتے ہیں لوگ
شاعرہ کے نام پر دوڑے چلے جاتے ہیں لوگ
شاعرہ جب مسکرا کے چھیڑ دیتی ہے غزل
شاعری کی محفلیں اک پل میں جاتی ہیں بدل
در حقیقت یہ ہے نسوانی ادب کی ٹریجڈی
شعر کہتا ہے کوئی اور شعر پڑھتا ہے کوئی
مرد ہی کرتے ہیں اردو میں زنانی شاعری
محفلوں میں پڑھتی ہیں نانا کی نانی شاعری
فکر سے اپنے تراشا کرتی ہیں جو نظمیات
دور ہی اسٹیج سے رہتی ہیں ایسی شاعرات
دل کے بہلانے کے ساماں کیا سے کیا ہونے لگے
شاعری کی شکل میں مجرے بپا ہونے لگے
چھوڑیے اردو انہیں آتی ابھی ہندی نہیں
شعر اردو میں لکھیں ان پر یہ پابندی نہیں
ان میں معیاری مفّکر فن میں ماہر کون ہے
شاعرہ کتنی مگر پروین شاکر کون ہے
ناقدوں کو موم کر دے ان کی نظرِ التفات
بے سندعلوی ہیں لیکن مستند ہیں شاعرات
آج کل کا ایڈیٹر
میں جو آپ کی صورت بے پڑھا لکھا ہوتا
’’آج کل‘‘ کا ایڈیٹر کب کا بن گیا ہوتا
غیر مستند ہوتا میرؔ کا بھی فرمایا
پھر تو میری نظروں میں فیض بھی گدھا ہوتا
گرکوئی دلادیتا ڈاکٹریٹ کی ڈگری
میں بھی قبر اردو کی آج کھودتا ہوتا
دیوناگری لکھ کر بنتا شاعر ا عظم
شین کا تلفظ گر ٹھیک کر لیا ہوتا
ساری بے تکی غزلیں آج کل میں چھپ جاتیں
نام میں ہمارے گر ڈاکٹر لگا ہوتا
سولہواں سہرا
ایسالگتا ہے ضعیفی میں ترے سرسہرا
باندھ کر بیٹھا ہو جیسے کوئی بندر سہرا
سولہواں سہرا ہے یہ ابّا میاں کے سرپر
ہار بیٹھا ہوں میں کہہ کہہ کے مکرّر سہرا
وقت ہنسنے کا ہے مرجھائی ہوئی ہیں کلیاں
جیسا بننا ہے مرا ویسا ہی بنجر سہرا
ایک تبیّسی چلا لو تو ہے سب کچھ اصلی
ہم نے باندھا ہے بہت ٹھوک بجا کر سہرا
مادھوری کا عاشق
ایک انٹر نیشنل عاشق ہے ہندوستان میں
مل نہیں سکتا جو تم کو جرمن و جاپان میں
آرٹ کی لائین میں اس کا ا چھّا خاصہ دخل ہے
پونچھ سی ڈاڑھی میں لگتا کس قدر خوش شکل ہے
میں قلم کا ہوں مگر یہ برش کا فن کار ہے
پر دل عاشق کے آگے دوستولاچار ہے
عمر ہے عاشق کی اسّی یا نواسّی کے قریب
عشق چوبس کر چکا تھا یہ چھیاسّی کے قریب
دانت منھ میں اور آنکھوں میں نظر باقی نہیں
ایک کالا بال اس کے جسم پر باقی نہیں
بیوٹی شن ایک پر مانینٹ اس کی سیٹ ہے
سرسے لے کر پاؤں تک عاشق یہ اپ ٹوڈیٹ ہے
چپلیں کھانے کا اس کو دس برس سے شوق ہے
اس کی گردن میں پڑا بچپن سے ہی یہ طوق ہے
بے پڑھا لکھا ہے لیکن ہے بہت ہی ہونہار
چار بنگلے بمبئی میں پانچ جاپانی ہیں کار
اس کی شہرت کا ہے چرچا چین سے جاپان تک
چپلیں کھانے کو پہونچا ہے یہ انگلستان تک
نوجوانی میں ثُرّیا کا یہ دیوانہ رہا
بعد میں پھر یہ مدھو بالا سے بھی کافی پٹا
چاہئے معشوق اس کو اب بھی سولہ سال کی
اس کی محبوبہ بنی ہے ہیروئین اک حال کی
مدتوں سے یارو فن عاشقی میں ہے یہ طاق
کل تلک حضرت کو جو ہی چاؤلہ کا تھا فراق
اس کی ساری زندگانی ہے فنا فی العاشقی
اس کی ساری زندگی کا صرف حاصل عاشقی
شغل تصویریں بنانے کا وہی دن رات ہے
آج کل حضرت کا چکر مادھوری کے ساتھ ہے
سوبرس کا نوجواں، دنیا میں شہرت یافتہ
دل تو حاضر مگر ہے ذہن اس کالا پتہ
عاشقی پہلے تو ہوتا تھا جوانوں کا ہنر
کام یہ بھی آ گیا ہے اب بزرگوں کے ہی سر
مبتلائے عاشقی ہوتا نہیں ہے نوجواں
مادھوری کے عشق میں اب روتے ہیں ابا میاں
کثرت
چودھرن سے ایک دن آ کر یہ بولے چودھری
کیوں لگا رکھی ہے تو نے یہ نمازوں کی جھڑی
یہ تری ساری نمازیں سن سراسر ہیں غلط
تو ہی کیا یہ مولوی ملا بھی اکثر ہیں غلط
میں کباڑی کی دکاں سے لے کے آیا ہوں کتاب
اس میں لکھا ہے نمازوں کا بڑا سچا حساب
اتنا کہہ کر چودھری صاحب وضو کرنے لگے
جو بھی اس بک میں پڑھا تھا ہو بہو کرنے لگے
توڑ کر پابندیاں ہر قاعدے سے بے نیاز
پھر مصلے پر کھڑے ہو کر پڑھی ایسے نماز
چودھری نے دس دفعہ پہلے کیئے اوپر کو ہاتھ
پھر لگائیں ساٹھ بیٹھک سانس بھر کے ایک ساتھ
پھر گئے سجدے میں بارہ ڈنڈ فرمانے کے بعد
ہاتھ چاروں سمت پھینکے رکوع میں جانے کے بعد
پڑ گئیں حیرت میں بیگم دیکھ کر ایسی نماز
چودھری نے جو پڑھی تھی جانے تھی کیسی نماز
توبہ توبہ چودھری تم تو ہو شیطانِ لعیں
تم پہ لعنت ہو خدا کی تم نمازی تو نہیں
یہ نمازوں کی نہیں ہے، پہلوانی کی کتاب
پھینک دو اس کو نہیں تو تم یہ آئے گا عذاب
سن کے یہ تنقید بولے چودھرن سے چودھری
پڑھ لے خود ہی یہ عبارت توتو ہے لکھی پڑھی
لے کے آئے تھے رسول اللہ جنت سے نماز
ہے وہی مومن پڑھے جو روز کثرت سے نماز
شرافت
حسن و جمال ایساکہ جیسے کوئی پری
سنسان راستے میں اکیلی تھی وہ کھڑی
چہرے سے لگ رہا تھا پریشان تھی بہت
جنگل کی سونی راہ سے انجان تھی بہت
دل میں خیال آیا کہ اس کی مدد کروں
مے آئی ہیلپ یو، اسے جا کر ابھی کہوں
ہو گی خوشی مجھے اگر آؤں تمہارے کام
انسان بے ضرّر ہوں میں شاعر ہوں نیک نام
میرے تو نوجوانی میں بھی پر نہیں کھلے
میں ہر طرح بھروسے کے لائق ہوں آپ کے
جیسے اندھیری رات میں چھوٹی ہو پھلجھڑی
چپکے سے میرے کان میں گویا وہ یوں ہوئی
ڈسٹرب ہوں بہت مری گاڑی ہوئی خراب
سنسان رات، راہ میں جاؤں کہاں جناب
نزدیک گھر ہے میرا مرے گھر چلی چلیں
اس رات کو آرام سے سوکر بسر کریں
آفر یہ میری تھوڑا سا جھجکی وہ نیک نام
اک اجنبی کے ساتھ کروں کس طرح قیام
سو فی صدی ہوں اصل کہیں سے نہ فیک ہوں
میڈم میں اک مزاحیہ شاعر ہوں نیک ہوں
کچھ سوچتے ہوئے وہ مرے ساتھ چل پڑی
پُر نور اس کے چلنے سے یہ رات ہو گئی
شاعر کا گھر یہ قبر سے چھوٹا سہی مگر
اتنا وسیع دل کہ سما جائیں بحر و بر
کمرہ بھی ایک ہے یہاں بستر بھی ایک ہے
بے فکر ہوکے سوئیے شاعر بھی نیک ہے
جذبات اپنے رہ گیا یارو مسل کے میں
کروٹ بدل کے سوئی وہ کروٹ بدل کے میں
اللہ کا شکر خیر سے یہ شب گذر گئی
دل پر شرافتوں کے نشاں نقش کر گئی
پوچھا یہ میں نے صبح کو کیا کرتی ہیں حضور
بولی ہمارا پولٹری فارم ہے تھوڑی دور
کچھ مرغ اور مرغیوں کو پالتی ہوں میں
مرغوں کی نسل نسل کو پہچانتی ہوں میں
کتنے ہیں مرغ آپ پہ کتنی ہیں مرغیاں
شادی شدہ ہیں کتنی اور کتنی کنواریاں
جتنی ہیں مجھ پہ مرغیاں اتنے ہی مرغ نر
رکھتی ہوں مرغ مرغیاں دونوں ہی تول کر
اپنی سمجھ سے دور ہے یہ سو پہ سو کا گیم
دس ہی بہت ہیں آپ کی سو مرغیوں پہ میم
معصومیت سے بولی یہ میڈم وہ پاکباز
سو مرغ پالنے میں بھی پنہاں ہے ایک راز
سو میں سے دس یا پانچ ہی مرغے ہیں کام کے
باقی تو آپ کی طرح شاعر ہیں نام کے
پیروڈی
یہ کرسی چپکو لیڈر کریں دیش سے بے ایمانی
جو شہید ہوئے تھے ان کی نہیں یاد رہی قربانی
اب دھرم ہے نیتاؤں کا ہر کام میں رشوت خوری
رشوت لینے دینے میں ہے سب کی یہی اسٹوری
تابوت ہوں یا ہوں تو پیں ہے سب کی یہی کہانی
جو شہید ہوئے تھے ان کی نہیں یاد رہی قربانی
سمان نہیں ویروں کا، ہتھیاروں میں کھائیں دلالی
زیادہ ترچور ہیں افسر، جن کی کرتوت ہیں کالی
قانون کو کھیل سمجھتے، ہردم کرتے من مانی
جو شہید ہوئے تھے، ان کی نہیں یاد رہی قربانی
ہندومسلم کو بانٹیس، ڈلوائیں دیش میں پھان کیں
سنسد کی نہ کورٹ کی مانیں، بس اپنی اپنی ہانکیں
کہیں راشٹر بھگت یہ خود کو ہیں بگلا بھگت ابھیمانی
جو شہید ہوئے تھے ان کی نہیں یاد رہی قربانی
ہے قلم بڑا کرسی سے جو جنتا کا ہت سادھے
ہیں راجیہ سبھا کے ممبر، جو پتر کار ہیں آدھے
اپمان شہیدوں کا ہے رَکشا سودوں میں دلالی
پیشے ور ڈاکو بھی تو اک گھر رکھتے ہیں خالی
اک گھر بھی نہ خالی چھوڑا، اتنی سی بات نہ جانی
جو شہید ہوئے تھے ان کی نہیں یاد رہی قربانی
سدھانتوں آدرشوں کو کہتے ہو راگ پرانا
بس سراسندری کو ہی ہے تم نے سب کچھ جانا
کیوں اپنے پوروجوں کی، کچھ تم نے قدر نہ جانی
جو شہید ہوئے تھے ان کی نہیں یاد رہی قربانی
کوئی سکھ کوئی جاٹ مراٹھا، کوئی گورکھا کوئی مدراسی
کوئی ہندو ہے، کوئی مسلم، نہیں کوئی بھارت واسی
ہوتی میرے ہندوستاں میں، کوئی قوم تو ہندوستانی
جو شہید ہوئے تھے ان کی نہیں یاد رہی قربانی
کب تک آخر لوٹے گا، یہ پاپ گھڑا پھوٹے گا
جاگے گی یہ سوئی جنتا، لیڈر پہ قہر ٹوٹے گا
ہے وقت ابھی بھی سنبھل جا، ہے تجھ پہ آفت آنی
جو شہید ہوئے تھے ان کی نہیں یاد رہی قربانی
دال
یہ عالمِ برزخ سے خبر آئی ہے فی الحال
جنّت میں پریشاں ہیں بہت حالی و اقبال
غالب مجاز جوش ہیں دوزخ میں بہت خوش
جنّت میں ہیں افسردہ مگر حالی و اقبال
جنّت میں نشستیں ہیں نہ ہنگامے ادب کے
نقّاد کے نشتر ہیں نہ مدّاحوں کا ہے جال
جنّت میں یہاں جیسی پذیرائی نہیں ہے
یارو وہاں گمنام ہیں شا عر یہ با کمال
پوری سبھی ضرورتیں کرتے ہیں فرشتے
ٹوپی ہو کہ پگڑی ہو، کرتا ہو کہ رومال
ہر چیز وہاں ملتی ہے کوٹے سے سبھی کو
ہوتی نہیں ہے ملکِ عدم میں کوئی ٹکسال
ہیں کوثر و تسنیم کے ٹھیکے مجاز پر
یارو عدم میں فیض اور ساحر ہیں کوتوال
برسوں سے یہی ایک ڈش کھاتے ہیں بچارے
ہر صبح آلو شوربہ، ہر شام پتلی دال
تکّے کباب پائے نہاری ہیں ندارد
جنّت میں چکن قورمہ بریانی کا ہے کال
حالی سے ایک روز یہ اقبال سے کہا
باشند گانِ شہر جہنم کی ہو پڑتال
جنّت میں اگردال پہ روٹی پہ گذر ہے
دوزخ میں ہونا چاہیئے فاقوں سے برا حال
اک روز ٹہلتے ہوئے دوزخ میں پئے سیر
مرزا سے ملاقات کو پہونچے وہاں اقبال
منظر بڑا عجیب تھا دوزخ کا دوستو
ہر شخص ترو تازہ تھا ہر شخص تھا خوش حال
دیگیں کہیں بریانی و زردے کی چڑھی تھیں
بنتے تھے چکن قورمہ بریانی شیرمال
اقبال سے مرزا نے یہ فرمایا پئیں گے
آؤ نہیں حرام یہاں آتشِ سیّال
دوزخ کا حال دیکھ کر دونوں ہوئے اداس
مولیٰ نے ہمیں کونسی جنّت میں دیا ڈال
فردوس میں یہ جیل سا کھانا نہ کھائیں گے
اک روز فرشتوں پہ خفا ہو گئے اقبال
یہ کیسی مساوات ہے یہ کیا مذاق ہے
جنّت میں سوکھی روٹیاں دوزخ میں شیرمال
اقبال کی خفگی پہ فرشتوں نے کہا یہ
احسان مانیئے جو تمہیں مل رہی ہے دال
دو چار فرد کے لیئے ٹنڈر نہ چھٹے گا
ہم خود ہی بناتے ہیں کبھی آلو کبھی دال
دو چار فرد کے لیئے دیگیں نہ پکیں گی
جنّت میں اگر رہنا ہے چپ چاپ کھاؤ دال
قطعات
مردِ مسلماں
ہم صاحبِ تقوی ہیں، نہ ہم صاحبِ ایماں
آپس میں ہیں کتّوں کی طرح دست و گریباں
ناراض نبی ہم سے ہے اللہ بھی نالاں
ہیں خوار زمانے میں بہت مردِ مسلماں
جس روز سے دامانِ اُمم چھوڑ دیا ہے
اللہ نے بھی اللہ قسم چھوڑ دیا ہے
مجتبیٰ حسین
طنز و مزاح کے یہ اکیلے ہیں بادشاہ
رنج و الم فسردگی ان کے یہاں ہے بین
ان کے قلم سے ہوتے ہیں تخلیق قہقہے
ہیں قہقہوں کی فیکٹری مجتبیٰ حسین
فاروق ارگلی
اردو میں جن کے کام سے یارو ہے کھلبلی
برسوں سے یہ بنے ہیں ادب کے مہا بلی
کچھ بولڈ ہو گئے، یہاں کچھ کیچ ہو گئے
پچ پر جمے ہیں آج بھی فاروق ارگلی
بے وقت کا راگ
اب کہیں جا کے ہوئے ہیں ترے ابّا راضی
اب انہیں سوجھی ہے بیٹی بیاہ لانے کی
بے اثر ہو گئی معجون شباب آور بھی
اب خوشی ویسی کہاں ہو گی تجھے پانے کی
طمانچے
شکل بد شکل ہو گئی اب تو
زندگی کے تمام سانچوں کی
اس کے گالوں پہ چھپ گیا پنجا
ضرب ایسی پڑی ہے پانچوں کی
میں رہوں یا نہیں رہوں لیکن
گونج گونجے گی ان طمانچوں کی
فاعلاتن فاعلات
شعر میں مضمون و معنی کی ضرورت ہی نہیں
وزن پورا ہو ردیف اور قافیے کے ساتھ ساتھ
کانپنے لگتی ہیں روحیں غالب و اقبال کی
جب عروضی پھونکتا ہے، فاعلاتن فاعلات
قناعت
ہر قدم پر تھا زمانے میں ہجومِ دلبراں
اور ان پھولوں کو پا لینا تجھے آساں بھی تھا
تو ہی ناداں ایک بیوی پر قناعت کر گیا
’’ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا‘‘
سچی بات
اک رہنمائے قوم کو کیا کہہ گیا ہوں میں
یعنی کہ اک گدھے کو گدھا کہہ گیا ہوں میں
لگ جائے اب پھانسی مجھے پوٹا میں پھنسوں میں
جو کچھ بھی کہہ گیا ہوں بجا کہہ گیا ہوں میں
پارٹ ٹائم جاب
دوست پرمانینٹ سروس کی طرح
یوں تو شادی اک پرائم جاب ہے
کیجول ہوتا ہے عاشق نامراد
عشق کیونکہ پارٹ ٹائم جاب ہے
بیدُم عثمانی
پست قد ہے مگر سمجھتا ہے
اس سے لمبا یہاں پہ کوئی نہیں
ساری دانش وری اسی پہ ہے ختم
ایسا گنجا یہاں پہ کوئی نہیں
لیڈر
بہادر ہیں بہت ہی دوستو اس دور کے لیڈر
نہ یہ پستول بم سے اور نہ میزائیل سے ڈرتے ہیں
جہاں کھلتی ہیں پولیں ان کے کالے کارناموں کی
یہ اس ٹی وی سے یا اخبار کے کالم سے ڈرتے ہیں
لفنگا
اپنے گھر میں بھی سجے ہوتے کئی ٹی وی فریج
شہر میں اپنے کسی روز جو دنگا ہوتا
وشو ہڑدنگ پریشد کا رکن بنواتا
چار بیٹوں میں اگر ایک لفنگا ہوتا
فوجی
دیش پہ مٹنے والا فوجی
لیڈر کا بیٹا تو نہیں ہے
جنگ کی باتیں کرنے والا
سرحد پر لڑتا تو نہیں ہے
سید مصطفی کمال
(مدیر ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد)
مدیرِ اعلیٰ ہیں یہ منتھلی شگوفہ کے
مزاح و طنز کی دنیا کے چودھری بھی ہیں
انہیں کے بینک میں محفوظ قہقہے سب کے
یہ کچّا آم بھی ہیں اور رس بھری بھی ہیں
کمال جعفری
ہر سیاست سے انجان ہے
سیدھا سادہ مسلمان ہے
آدمیوں کی اس بھیڑ میں
در حقیقت وہ انسان ہے
الجھن
یہ الجھن آج تک سلجھی نہ یارو
کہاں شیمپو کہاں صابن لگائیں
پریشانی یہ گنجوں کی بجا ہے
کہاں تک ان کا چہرہ ہے بتائیں
مقابلہ
بس ایک رات میں ہی بیوہ ہو گئی دلہن
نکاح اسّی برس میں میاں نے خوب کیا
سہاگ رات میں بلی نہ مار پائے تو کیا؟
’’مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا‘‘
کان دو
آسماں سے جب زمیں پر دوستو پھینکا گیا
آدم و حوا پہ اترے بس یہی فرمان دو
عمر بھر بولے گی عورت اور سنے گا آدمی
’’اک زباں بیگم کو اور شوہر کو بخشے کان دو‘‘
مہیش بھٹ
جارج بش کو جو کہے دہشت گرد
اور ٹھکرا دے اس کا شاہی طعام
خوف جس کو نہیں بش گیری کا
ایک وہ ہے مہیش بھٹ بد نام
اقبال فردوسی
خوف کھاتے ہیں پرانے پاپی
جب سے آپا کو کر دیا آپی
پاپولر بھی ہے ان سے خوفزدہ
یہ دلاور کی ہیں فوٹو کاپی
لال کرشن اڈوانی
اپنی کہاں تھی رام کے مندر میں آستھا
ہم نے گرائی بابری مسجد مزاح میں
عقدہ کھلا یہ آج مزارِ جناح پر
تھی آستھا ہماری تو مسٹر جناح میں
دو شادیاں
دو بیویاں رکھنے کا انجام ہے یارو
رضیہ مرے پیچھے ہے تو سلمہ مرے آگے
اک ہاتھ میں چپل ہے تو اک ہاتھ میں سینڈل
’’ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے ‘‘
سیل
بڑھ رہے ہیں بیگم کے مگر
گھٹ رہی ہے قیمتِ نوکر بہت
اک خریدو مُفت میں لے جاؤ ایک
بک رہے ہیں سیل میں شوہر بہت
مشورہ
سبق شادی شدہ لوگوں سے لیجیے
محبت میں پریشانی سے بچیئے
مزے سے عشق کیجیے بیس پچیس
مگر شادی کی نادانی سے بچئیے
راج ٹھاکرے
چھوڑ دے چھوڑ دے بڑ بولا پن
کچھ رکھا کر زبان پر قابو
کیا مصلّہ بچھاؤں تیرے لئے
ایک رکعت کا بھی نہیں ہے تو
احمد علوی
نوازے شاعر اعظم سے خود کو
نہیں آیا سلیقہ شاعری کا
عظیم المرتبت کچھ اس لئے ہے
کہ ہے شاگرد عظمت کاظمی کا
امر سنگھ
ساتھ بیت الخلاء میں بھی جائیں
ممبئی چینئی کہ دلّی ہو
یوں امتیابھ سنگ امر سنگھ ہیں
جیسے ڈنڈے کے ساتھ گلّی ہو
مسئلہ
خدمتِ خلقِ خدا سے پیٹ بھرتا ہی نہیں
آپ بھی اس مسئلے پر غور فرمائیں گے کیا
خوامخواہ اخبار والے کرتے ہیں بدنام انہیں
منتری رشوت نہیں لیں گے تو پھر کھائیں گے کیا
مشاعرے کا پوسٹر
جانے کس کس کے نام تھے لیکن
سارے عالی مقام غائب تھے
پوسٹر تھا مشاعرے کا مگر
شاعروں کے ہی نام غائب تھے
معاوضہ
جنت الاٹ ہو گئی میرے رقیب کو
کھانے کو ٹھوکریں میں زمانے میں رہ گیا
وہ ایک لاکھ پا گیا مر کر فساد میں
لیکن میں اپنے زخم دکھانے میں رہ گیا
آم
ہوئے ہیں دربدر ہم جس کی خاطر
یہی وہ ذائقہ بدنام ہو گا
وہ جس نے ہم کو جنت سے نکالا
نہیں گندم نہیں وہ آم ہو گا
شکیلا رفیق
(ممتاز افسانہ نگار)
برش کا کام لیا لفظوں سے
اس نے ایسی مصوّری کی ہے
شاہزادی ہے وہ کہانی کی
ماہرِ فنّ قصّہ گوئی ہے
بدو لت
حیثیت تو بن گئی پر شخصیت کیا بن سکی
زندگی محدود ہے اولاد سے داماد تک
اپنے ماموں کی بدولت بن گیا سرمائے دار
بھیک والا وہ کٹورہ، اب نہیں ہے یاد تک
چناؤ کا زمانہ
بے گھروں میں چل رہا ہے چائے پانی آج کل
سب غریبوں کے سروں پر لیڈروں کا ہاتھ ہے
ہے چناؤ کا زمانہ موج مستی کا ہے دور
چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے
بے بس
جانا ہوتا ہے دس کلو میٹر
صَرف ہوتے ہیں گھنٹے پورے دس
بیٹھ کر دیکھو بس میں دلّی کی
کس طرح لوگ ہوتے ہیں بے بس
لیڈر
کچھ سمجھ ہے تو دھو کے میں مت آئیے
یہ نہ ہندو کے ہیں نے مسلماں کے ہیں
باپ کو اپنے یہ باپ کہتے نہیں
یہ وفادار بس کرسی امّاں کے ہیں
اپوزیشن
دلالی میں ملے حصہ انہیں بھی
اپوزیشن کو ہیں روٹی کے لالے
چنے کھا کر گذارہ کر رہے ہیں
چکن مکھّن ملائی کھانے والے
خوش فہمی
آپ خوش فہمی میں کیوں ہیں مبتلا
وہ طبیعت کی اگر رنگین ہے
اس کے عاشق کی ضعیفی پہ نہ جا
اینٹک اشیاء کی وہ شوقین ہے
چچا
یارو سفید ہو گئے سرکے تمام بال
اب کیا بتائیں آپ کو کہنے کو کیا بچا
کہتی ہیں لڑکیاں ہمیں انکل ! یہ غم نہیں
غم یہ ہے ان کی مائیں بھی کہنے لگیں چچا
کمال
دیش بھگتوں کا یہی تو ہے کمال
پی کے معصوموں کا خوں جیتے ہیں یہ
دیش بھگتی! ہاں اسی کا نام ہے
پانی بھی امپورٹڈ پیتے ہیں یہ
کنٹرول
سولہ آنہ پاؤ رتی بات کہتا ہوں سدا
سب مگر ہر بات کو میری سمجھتے ہیں مخول
فرق ٹی وی اور بیوی کا بتاتا ہوں تمہیں
ایک میں ہے کنٹرول اور ایک ہے بے کنٹرول
مقام استاد
سننے والے ایک اک کر کے سبھی رخصت ہوئے
شعر سننے کے لئے بس بار دانہ رہ گیا
اب بلایا جا رہا ہے محترم استادکو
ہال میں جب کرسیاں اور شامیانہ رہ گیا
میڈ
انگلش پڑھا رہی تھی اک میڈم کلاس میں
ممی کو موم شارٹ میں ڈیڈی کو کہیئے ڈیڈ
بچے نے اک کلاس میں پوچھا یہ میم سے
میڈم کہیں کیا شارٹ میں ہم آپ کو بھی میڈ
ٹریجڈی
مسئلہ ہے یہ ایک بیوی کی
کوئی دو چار دس کی بات نہیں
شادی کر کے بھی مسکراؤں میں
بس یہی میرے بس کی بات نہیں
گانا بجانا
غزل دے کر کہا استاد نے یہ
بڑا اچھّا زمانہ آ گیا ہے
کما لے گا تو دوپیسے یقیناً
تجھے گانا بجانا آ گیا ہے
آبادی
توازن ایسا آبادی کا بگڑا
ہیں لڑکی کم یہاں لڑکے زیادہ
ملیں گے بیویوں کو دو دو شوہر
مگر بیوی میں ہو گا آدھا آدھا
نیک صلاح
اب نہ تخلیقی ہنر کو فنّی پالش چاہیئے
اب نہ تعلیمی لیاقت، علم و دانش چاہیئے
شاعری سرکار سے شائع کرانے کے لیئے
صرف دو ان پڑھ وزیروں کی سفارش چاہیئے
نذرِ دلاور فگار
بن گیا روپیہ اٹھنّی پان آدھا رہ گیا
قورمے کی ڈش ہے غائب نان آدھا رہ گیا
جب سے ہم اک نازنیں سے عشق فرمانے لگے
اپنے گھر کا دوستو سامان آدھا رہ گیا
اعلان
میں سب کچھ ہوں مگر جھوٹا نہیں ہوں
خدا کے فضل سے نیتا نہیں ہوں
شہیدوں کے کفن تک بیچ کھاؤں
کمینہ ہوں مگر لگتا نہیں ہوں
پان
اس تعلق سے ایک ہیں سارے
کوئی پنڈت پٹھان نکلے گا
کاٹیئے نس ہمار بھینّ کی
خون کے بدلے پان نکلے گا
حق بات
ان میں اچھے بھی لوگ ہوتے ہیں
سب یقیناً برے نہیں ہوتے
ایک لاٹھی سے سب کو مت ہانکو
سارے لیڈر گدھے نہیں ہوتے
شوق
ہم کالج کی شان رہے
کوئی بھی ہم کو چھو نہ سکا
پڑھنے کا تھا شوق ہمیں
دسویں میں دس سال پڑھا
چھ یاسات
اک گھر میں ہو اک بیوی
گھر بنوائیں چھ یا سات
بچے اچھے ایک یادو
محبوبائیں چھ یاسات
اثر
یہ اثر ہے پولس کے ڈنڈے میں
شیر بکری سا ممیّاتا ہے
آ کے تھانے میں ایک گھوڑا بھی
نام اپنا گدھا بتاتا ہے
سرکس
ملک میں ہر اک کھدرّی دھاری
جھوٹا اور بوگس لگتا ہے
لیڈر بھی جوکر لگتے ہیں
سنسد بھی سرکس لگتا ہے
کتے کی دم
سیاست سے نہ رکھ امید کوئی
یہ بدعنوانیوں میں ایسے گم ہے
رکھو بارہ برس نلکی میں چاہے
نہ ہو سیدھی یہ وہ کتے کی دم ہے
برسات
گھر میں بچوں کی پوری پلٹن ہے
کپڑے جن پر ہیں اور نہ جوتے ہیں
اب کے برسات کیسے گذرے گی
پانچ کمروں میں چار چوٗتے ہیں
عاشقِ نامراد
عاشقِ نامراد ہوں یارو
حسن والوں نے مجھ کو چیٹ کیا
جب کہا میں نے آئی وانٹ اے کِس
اس نے تھپڑ وہیں رپیٹ کیا
ایک منظر 2008 کا
سویرے ملاقات ان سے ہوئی
نگاہیں ملیں اور فدا ہو گئے
کہا لنچ میں آئی لو یو اُنہیں
ڈنر تک مگر بے وفا ہو گئے
دو منظر
ایک منظر سن 1970کا
نہ اظہار الفت ہوا آج تک
محبت میں ہم کیا سے کیا ہو گئے
جوانوں کی وہ بن گئی آنٹی
حسیناؤں کے ہم چچا ہو گئے
تانک جھانک
شکل لنگور کی ہوئی لیکن
سر سے سودائے جستجو نہ گیا
چڑھ گیا چشمہ آنکھوں پر موٹا
تانکنا جھانکنا کبھو نہ گیا
مستقبل کا لیڈر
جو کہتا ہے نہیں کرتا جو کرتا ہے نہیں کہتا
نکمّا ہے، فریبی ہے، یہ جھوٹوں کا سکندر ہے
ہیں ساری خوبیاں اس میں سیاسی رہنماؤں کی
مجھے لگتا ہے یہ بچہ تومستقبل کا لیڈر ہے
عزتِ سادات
جاناں یہ راز ہم پہ کھلا جیل میں آ کر
جو بات اپنی شہر میں تھی بات بھی گئی
قیمے کی طرح کوٹ دیا تیرے بھائی نے
’’اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی‘‘
لیڈر کا پتہ
پی کر لہو عوام کا ہوتے ہیں سرخ رو
بے جان ساری قوم ہے لیڈر میں جان ہے
آساں ہے پتہ راہبرِ ملک و قوم کا
بستی میں صرف ایک ہی پختہ مکان ہے
بے حسی
رہبرانِ قوم کو بکرے کی بریانی عزیز
لیڈرانِ ملک و ملت کھائیں تندوری چکن
کھا رہے ہیں ہوٹلوں میں کانٹی نینٹل ڈنر
بھاڑ میں جائیں عوام اور بھاڑ میں جائے وطن
انگوٹھاچھاپ
آپ جیسے جیب میں کرتے کی رکھتے ہیں سدا
آپ پر ڈگری ہیں جتنی جتنے قابل آپ ہیں
ان کے چپراسی کی ڈگری ایم۔ اے سے کم نہیں
یہ الگ کہ منتری جی خود انگوٹھا چھاپ ہیں
پوٹا
بنا لے ہاتھ سے روٹی چھپا کے رکھ دے یہ بیلن
پولس بیلن کو تیرے اے۔ کے سینستالیس بنا دے گی
بر آمد ہو گیا چاقو اگر سبزی کترنے کا
پولس اس جرم میں ہم دونوں پہ پوٹا لگا دے گی
لیڈر کا تعارف
قاتلوں میں مقام رکھتا ہوں
قابلیت تمام رکھتا ہوں
میں بھی حقدار ہوں وزارت کا
اپنے سر انعام رکھتا ہوں
شعراء کو مشورہ
شعر کہنے سے کچھ نہیں ہو گا
کچھ سیاسی مقام پیدا کر
چاہتا ہے وزیر بننا اگر
غنڈہ گردی میں نام پیدا کر
ظریف
جس طرح غنڈوں کے غنڈے ہیں رفیق
دوست ہوتے ہیں شریفوں کے شریف
سب کی قسمت میں نہیں ہیں قہقہے
بس ظرافت کو سمجھتے ہیں ظریف
اشتہار
روز دھوتی ہے لکس سے چہرہ
دن میں دس مرتبہ مری بیوی
حسن پھر بھی نہ مادھوری کا ملا
کتنا جھوٹا ہے دوستو ٹی، وی
قیامت
جب سے بھرتی ہوا پولس میں وہ
عاشقوں کی عجیب حالت ہے
صنف نازک کے ہاتھ میں ڈنڈا
’’اسد اللہ خاں قیامت ہے ‘‘
گلاب
چل دیئے ڈھونڈھنے جناب کہاں
وہ پری چہرہ ماہتاب کہاں
سارے عربوں کو ایکسپورٹ ہوئے
حیدر آباد میں گلاب کہاں
لپٹن
کام آتی نہیں کوئی ترکیب کیوں
دن کبھی عاشقوں کے پلٹتے نہیں
روز لپٹن کی چائے پلاؤں انہیں
جانے کیوں پھر بھی مجھ سے لپٹتے نہیں
ٹرائی
اب تو گھر والی تری باسی پرانٹھا ہو گئی
اپنی گھر والی سے تھوڑی بے وفائی کر کے دیکھ
سامنے والی پڑوسن پھلجھڑی ہے پھلجڑی
سامنے والی پڑوسن کو ٹرائی کر کے دیکھ
ایم۔ آئی۔ پی
ملک میں جب سے الیکشن ہو گئے
پاس والے دور درشن ہو گئے
ایڈیٹ جتنے تھے اپنے شہر میں
موسٹ امپورٹینٹ پرسن ہو گئے
شاعر اعظم
شاعری کے شین سے واقف نہیں
پھر بھی دیکھو شاعر اعظم ہیں ہم
ہم سے ڈرتے ہیں سبھی استادِ فن
میرؔ اور غالبؔ سے کچھ ہی کم ہیں ہم
پاپولر
شعر کہنے کی ضرورت ہی نہیں
شعر کہنے سے بھلا کیا پاؤ گے
صرف کچھ ٹھمکے لگانا سیکھ لو
خود بخود تم پاپولر ہو جاؤ گے
ڈر
جو ہے تیری خواہش وہی میری منشا
میں دکھلاؤں لے جا کے تجھ کو سینما
اسی بات کا ڈر ستاتا ہے مجھ کو
تیرا باپ میرا بنا دے نہ قیمہ
گنجی دلہن
مکمل ہو بھی جائیں سات پھیرے
مکمل ہوں گے یہ دستور کیسے
اگر گنجی ہوئی دلہن تمہاری
بھرو گے مانگ میں سیندور کیسے
مختصر مصیبت
ہم بیاہ کر لائے ہیں ٹھگنی دلہن
ہم نے کی یارو حماقت مختصر
لمبی چوڑی کی بہ نسبت دوستو
اچھی ہوتی ہے مصیبت مختصر
حوالہ
ودیشوں میں ہے اپنا مال سارا
یہاں دو چار تالے کھل گئے ہیں
کھلے کب نامۂ اعمال اپنے
حوالہ کے حوالے کھل گئے ہیں
(حوالہ کانڈ پر)
بابری مسجد
ستم گر تیرے یک طرفہ ستم سے
مسلماں کتنے غازی بن گئے ہیں
گری ہے جب سے اک بوسیدہ مسجد
ہزاروں گھر نمازی بن گئے ہیں
(بابری مسجد کے انہدام پر)
ٹاڈا
اے مرے بچے مرے لختِ جگر
دس مہینے ہو چکے آ جا نظر
تو فرشتوں کی طرح معصوم ہے
کیوں ستاتا ہے تجھے ٹاڈا کا ڈر
بڑے لیڈر
نہ بیویوں سے نہ یہ بیلنوں سے ڈرتے ہیں
مشین گن سے نہ ایٹم بموں سے ڈرتے ہیں
عدالتوں سے بھی خائف نہیں کئی لیڈر
مگر چھپے ہوئے کچھ کیمروں سے ڈرتے ہیں
بے خوف
پہن کر دودھیا کرتے پجامے
یہ سارے کام کالے کر رہے ہیں
نہیں قانون یا اللہ کا ڈر
گھوٹالوں پر گھوٹا لے کر رہے ہیں
اٹل جی
(رام جیٹھ ملانی کے خلاف واجپئی کے الیکشن لڑنے پر)
کہو کس کام کے ہیں اب اٹل جی
میاں بس نام کے اب اٹل جی
سمےا س سے بُرا کیا ان پہ ہو گا
مخالف رام کے ہیں اب اٹل جی
دھوکا
دیکھ کے بیوی کے چہرے کو یہ بولا دولہا
میری شادی مرے احباب کی سازش نکلی
سبز انگور کے دانے کا جسے نام دیا
سرخ جوڑے میں وہ سوکھی ہوئی کشمش نکلی
ثبوت
آپ پر لاگو نہیں قانون کی پابندیاں
ہاں اگر قانون ہے تو رحمت اللہ کے لئے
کیا ضرورت ہے ثبوتوں کی پولس کو دوستو
تم مسلماں ہو یہی کافی ہے ٹاڈا کے لئے
تھوکدان
سڑک میں کونے میں کمرے میں ریل میں بس میں
کہ تھوکنا ہی بہاری کی شان ہو جیسے
بہار دیکھ کے مجھ کو تو ایسا لگتا ہے
بہار صوبہ نہ ہو تھوکدان ہو جیسے
جرنلسٹ
کانگریسی، بھاجپا ئی ہم نہ کمیونسٹ ہیں
ہم نہ شاعر ہیں نہ لیکھک اور نہ پامسٹ ہیں
اپنی اردو ہے غلط، انگلش میں بھی مسٹیک ہے
پگڑیاں سب کی اچھالیں ہم وہ جرنلسٹ ہیں
سحر
بڑھاتا کون قبرستان میں قبروں کے ریٹ علویؔ
اگر ہوتے نہیں وید و حکیم و ڈاکٹر پیدا
مریضوں کا یونہی بے موت مر جانا ضروری ہے
’’کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا‘‘
دوا ہو جانا
ہم نے کل جب کہا بیگم سے یہ ڈرتے ڈرتے
عشرتِ بیوی ہے شوہر میں فنا ہو جانا
اس نے فرمایا یونہی، ٹانگیں دباتے رہئیے
’’درد کا حد سے گذرنا ہے دوا ہو جانا‘‘
دلشاد
شادی سے اک بزرگ کی سنتے ہیں دوستو
کتنے ہی گھر محلّے کے آباد ہو گئے
سولہ برس کی لائے ہیں وہ ان چھوئی کلی
سارے جوان لڑکوں کے دل شاد ہو گئے
منزلِ مقصود
بس وہیں پر ہے مری منزل مقصود جہاں
شامیانہ لگا قنّات تنی ہوتی ہے
قورمہ زردہ و بریانی کی کچھ قید نہیں
بیٹھ جاتا ہوں جہاں دیگ کھلی ہوتی ہے
چاند کا چّکر
اس کی چھت پہ پٹ چکا ہے شہر کا ہر نوجوان
آپ کی بھی چاند کے چکر میں جا سکتی ہے جان
ہم نے مانا چاند کا دیدار ہے کارِ ثواب
کیا کریں جب چاند کا ابّا ہے نامی پہلوان
نیکیاں
کھا رہا ہوں اس لیئے بیگم تمہاری گالیاں
ایک نیکی کی ملا کرتی ہیں ستّر نیکیاں
ماہ ِرمضاں میں تمہارا کر دیا صدقہ اگر
کون جھیلے گا تمہارے جیسی ستّر بیویاں
شری رام
تابوت اور تہلکہ کئی کام ہو گئے
راجیو گاندھی مفت میں بدنام ہو گئے
سکھ رام، جے للیتا نے سب پاپ دھو لیے
راون بھی بھاجپا میں شری رام ہو گئے
درخواست
اپنی آنکھوں کے دہکتے ہوئے بلڈوزر سے
اس طرح تم مرے ارمانوں کا چورا نہ کرو
چاہے تنہائی میں تم مرغ بنا لو مجھ کو
سامنے سب کے تو میڈم مجھے گھورا نہ کرو
چمچہ
دوستو اس کو چناؤ میں کھڑا کر دیتا
چار بیٹوں میں اگر ایک نکمّا ہوتا
جیت جاتا وہ چناؤ تو بناتا چمچے
ہار جاتا تو کسی نیتا کا چمچہ ہوتا
نا اہلی
یہ تعجب کی کوئی بات نہیں
دوست اکثر تراش لیتے ہیں
ہم سے انساں بھی تراشے نہ گئے
لوگ پتھر تراش لیتے ہیں
بم
نوجواں اور نہ بوڑھے محفوظ
کون کہتا ہے خطرناک ہیں کم
چاندنی چوک میں جا کر دیکھو
جینس ٹی شرٹ میں مل جائیں گے بم
اردو کتابیں
تقسیم مفت ہوتی ہے اردو کی ہر کتاب
دیوانہ ہے جو کہتا ہے دیوان بک گیا
دیوان اپنا بک نہ سکا ایک بھی مگر
گھر کا تمام قیمتی سامان بک گیا
مسلمان
نہ سیاسی، نہ سماجی، نہ ہے تعلیمی شعور
قابلِ رحم ہے وہ جو بھی یہاں قابل ہے
صرف تندوری چکن اور نہاری پائے
آج ہر ایک مسلماں کی یہی منزل ہے
شادی
آنکھ اور ٹانگ تو کم بھی چل جائے گی
اس کی صورت نہ کردار کی بات کر
تجھ کو شادی جو بیٹی کی منظور ہو
کیش کا ذکر کر، کار کی بات کر
جنرل مشرّف
جو پانچ وقت مشرف کا بش کو سجدہ ہے
اگر یہ شرک ہوا ہے تو کوئی بات نہیں
کسے مجال کہے ان کو بے وقوف گدھا
اگر یہ بش نے کہا ہے تو کوئی بات نہیں
تلاش
جہاں بھی جاؤں برابر مری تلاش میں ہے
وہ لے کے ہاتھ میں پتھر مری تلاش میں ہے
’’میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا‘‘
اسی حسین کا شوہر مری تلاش میں ہے
درسِ اسلام
درس اسلام کا دیتے ہیں شیخ جی
اس طرح غیر مسلم خواتین کو
ان سے کرتے ہیں پہلے میاں جی نکاح
زندگی بھر سکھاتے ہیں پھر دین کو
گذارش
آپ کے پاس نہ ہو آپ کو منظور نہ ہو
آپ سے چیز کچھ ایسی تو نہیں مانگی تھی
آپ سے ایک ہی بوسے کی گذارش کی تھی
آپ سے آگرہ، دلّی تو نہیں مانگی تھی
دوسری
دوسری جب سے آئی ہے گھر میں
ناک میں دم رہے میری ہر دم
ایک سے بڑھ کے ایک ہیں دونوں
پہلی ٹم ٹم ہے دوسری چھم چھم
ایکسپورٹ
میرا خیال یہ ہے ایکسپورٹ ان کاکر دو
بے کار انڈیا میں کنفیوز ہو رہے ہیں
یورپ میں ان کی اچھی قیمت ملے گی تم کو
اس کنٹری میں لیڈر مس یوز ہو رہے ہیں
ای میل
آج کل یورپ کے ہر اک شہر میں
ہو رہی ہیں شادیاں ای میل سے
ہم مگر ہیں آج تک پچھڑے ہوئے
کر رہے ہیں شادیاں فی میل سے
آٹھویں بار
ووٹ نقلی ہی دلا دیجئے اس بار اسے
صرف تعداد سے ووٹوں کی سکوں پائے گا
آٹھویں بار چناؤ میں کھڑا ہے یارو
ظالم اب کے بھی نہ جیتے گا تو مر جائے گا
صلاح
ٹوٹ جائیں گے ہاتھ پاؤں ترے
تو یہاں ڈان وان مت بنیو
اس میں سلمان خان رہتا ہے
اس گلی میں پٹھان مت بنیو
بیچلر
پہلے کچھ دن تیر نا سیکھوں گا میں
کتنی گہرائی ہے یہ ناپوں گا میں
بیچلر ہوں عشق کے سبجیکٹ کا
جھیل سی آنکھوں میں تب اتروں گا میں
فرعون
نام چہرے بدل کے دنیا میں
یوں تو ہر دور میں ہوا فرعون
جس سے فرعونیت ہے شرمندہ
جارج بش ہے وہ آج کا فرعون
میرا وطن
میرا وطن تو سونے کی چڑیا تھا اصل میں
قدرت نے آسماں سے اتارا تھا دوستو
نیتاؤں افسروں نے اسے نرک کر دیا
ہندوستان خلد سے پیارا تھا دوستو
ایکتا
کوئی مذہب بھی نفرت سکھائے اگر
ایسے بھگوان سے اور خدا سے بچو
ایکتا دیش کی چاہتے ہو اگر
بھاگیہ، بھگوا سے، اور بھاجپا سے بچو
دو شعر
جب سے اہلِ ذوق کے ذہنوں کی قرقی ہو گئی
ملک میں سارے گلے بازوں کی چاندی ہو گئی
اب غزل بھی بن گئی ہے آج کی تازہ خبر
کل چھپی اخبار میں اور آج ردّی ہو گئی
بڑے میاں
اک کشتہ شباب کو کھا کر بزرگوار
اسی برس کی عمر میں لگتے ہیں جواں اور
بیٹے سے یہ کہتے ہیں نہ گھبرا مرے بچے
لے آؤں گا بازار سے جا کر تری ماں اور
من موہن سنگھ
(وزیر اعظم ہند)
شریفوں کا یہاں پر کام کیا ہے
سیاست میں سبھی ہیں ایسے ویسے
بچارے من موہن جی کو کہوں کیا
کہ رضیہ پھنس گئی غنڈوں میں جیسے
چمچ
جھٹ سے منھ میں گئے ہاتھ جس کے لگے
جب سے چمچ بنے محترم ہو گئے
چاپلوسوں کے سر کتنے اعزاز ہیں
کتنے اکڑے ہوئے سر قلم ہو گئے
محبت کے نام سے
یارو لگا کے بالوں میں امپورٹڈ خضاب
کرنے چلے تھے عشق بڑتے نام جھام سے
جب بک گئے مکان اب کہتی ہے بھائی جان
نفرت سی ہو گئی ہے محبت کے نام سے
معاوضہ
عشق میں ہم پر ہوئے کیا کیا ستم
ہر ستم ہم مسکرا کے سہہ گئے
ہر کنواری ہو گئی شادی شدہ
ہم کنوارے کے کنوارے رہ گئے
تجربہ
ہو گئی تحقیق گر یہ کامیاب
دوستو اس آنے والی عید سے
انشاء اللہ اپنی بیگم کی طرح
ہوں گے شوہر بھی یہاں امّیدسے
مشورہ
قصیدے پڑھو بس برا مت کہو
کسی کی حقیقت ذرا مت کہو
تقاضہ یہی ہے نئے دور کا
گدھے کو بھی علویؔ گدھا مت کہو
آداب
کام مشکل تو نہیں تھا لیکن
بھائی کر دیتے مرا خانہ خراب
اس لئے بھی نہ دبایا اس کو
روز جو کہتے تھے آداب آداب
پناہ
(ایک امام کو پولس کی حفاظت میں دیکھ کر)
ملت کے راہبر کو ہے ملّت سے خوف کیوں
ڈرتا ہوا نکلتا ہے کیوں روز راہ میں
اللہ کی اماں پہ بھروسہ نہیں رہا
شاہی امام اب ہیں پولس کی پناہ میں
مزاح میں
پچیس برس سے جھیل رہا ہوں میں آج تک
میں نے بس ایک بات کہی تھی مزاح میں
فوراً ہی ان کے ابا نے قاضی بلا لیا
سنجیدگی سے پھنس گئے علوی نکاح میں
نئے امیر
ان امیروں سے کچھ نہ رکھنا آس
کچھ نہیں کچھ نہیں ہے ان کے پاس
یہ سمندر کی طرح ہوتے ہیں
یہ بجھاتے نہیں کسی کی پیاس
پرایا مال
کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے
بہت موٹی ہے یا پتلی کمر ہے
پڑوسن پر فدا ہم ہی نہیں ہیں
پرائے مال پر سب کی نظر ہے
سیلابِ بلا
ساتھ بیگم کے مری بارہ عدد بچے ہیں
کون پالے گا انہیں میرے خدا میرے بعد
ایک مدت سے اسی فکر اسی سوچ میں ہوں
’’کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد‘‘
مردِ مسلماں
کافر ہوں جو چھوڑوں میں افطار کی دعوت کو
اک مردِ مسلماں ہوں اظہار تو کرتا ہوں
رمضاں کے مہینے میں روزے میں نہیں رکھتا
پابندی سے پر سحری افطار تو کرتا ہوں
اندر کی بات
خادم ہیں سبھی بیوی کے، سب بیوی کے نوکر
وہ جج ہوں کمشنر ہوں دروغہ کہ منسٹر
دفتر میں ہی چلتی ہے، فقط ہینکڑی ان کی
گھر میں تو یہ لاتے ہیں، بلاؤز بھی دھوکر
قربانی
اگر بتی جلانے قبر پر آتی ہے محبوبہ
یہ مانا عشق میں بیکار قربانی نہیں جاتی
پٹائی دوستو ہوتی ہے جب عاشق کی تھانے میں
’’تو پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی‘‘
جمود
آٹھ برسوں سے ہم ہیں وہیں کے وہیں
گل سے وہ گل بدن گلستاں ہو گئی
آج تک ایک سے دو نہ ہو پائے ہم
اور وہ آٹھ بچوں کی ماں ہو گئی
افزائش نسل
جتن ہزار ہوں آبادیاں گھٹانے کے
ملیں نہ برسوں بھی جو روز ملنے والے ہیں
نہ رک سکے گی کبھی پیداوار بچوں کی
’’وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں ‘‘
آل انڈیا شاعر
تحت کیا پبلک میں ہیں اہلِ ترنم بھی فلاپ
شاعری چلتی نہیں شاعر بھلا گائیں گے کیا
آج کل تو ہو رہی ہے ہوٹ ہر بزمِ سخن
بزم میں آل انڈیے، اب رقص فرمائیں گے کیا
دیدار یار
غیروں نے میرے یار کا دیدار کر لیا
کمزوریاں میں اپنی چھپانے میں رہ گیا
اس نے نقاب اٹھا کے الٹ بھی دی اور میں
آنکھوں پہ اپنی چڑھانے میں رہ گیا
ڈاکٹر
لوٹنے کے واسطے ان پر ہے سرکاری سند
لوٹنے کی ساری ترکیبیں زبانی یاد ہیں
یہ بنا دیتے ہیں نزلے کو تپ دق دوستو
اس لئے تو ڈاکوؤں کے ڈاکٹر استاد ہیں
بے سبب
آج تک کوئی پپلو سیٹ کر نہیں پائے
آج تک نہ بن پایا کوئی جانِ جاں اپنا
آج تک نہ فرمایا عشق اپنی بیگم سے
’’بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا‘‘
ہمارا نہ ہوا
ووٹ بیوی سے نہ سالی نہ پڑوسن سے ملے
غیر تو غیر تھے اپنوں کا سہارا نہ ہوا
ہم سے ہارے ہوئے لیڈر نے کہا رو رو کر
’’ اس بھری دنیا میں کوئی بھی ہمارا نہ ہوا‘‘
فون پر
جارج بُش سے فون پر لادن نے اک دن کہہ دیا
میں نہ فوجوں کو ملوں گا ڈھونڈھتا رہ جائے گا
تجھ میں ہمت ہے تو آ میدان میں لٹھ لے کے آ
’’جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا‘‘
مولانا ڈبلو دین خان
ان پہ کچھ بھی نہیں مسلماں سا
شکل تھوڑی سی مسلمانی ہے
کیا تعجب لباس کیسریا
روح بھی ان کی زعفرانی ہے
آم کی دعوت
یہ ہم آم پر آم جو کھا رہے ہیں
کوئی اپنی منشا ذرا بھی نہ سمجھے
اسی واسطے آم کی دعوتیں ہیں
گدھوں کو زمانہ گدھا بھی نہ سمجھے
رونا آیا
جے للیتا پہ نہ سکھ رام پہ رونا آیا
سی بی آئی کے ہر اک کام پہ رونا آیا
جیل میں ہونا تھا جن کو ہیں وہی سنسد میں
’’اے سیاست ترے انجام پہ رونا آیا‘‘
دیر آید
سترّ برس میں سوجھی ہے شادی کی آپ کو
اس عمر میں یہ پھول کھلائے تو کیا کیا
دو کھوپڑی پہ بال ہیں، دو منھ میں دانت ہیں
’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا‘‘
فرقہ پرست لیڈر
جو اپنے باپ کو کہتا نہیں ہے اپنا باپ
چچا پڑوسی کو اپنے وہ کہہ نہیں سکتا
جو اپنی قوم کا غدّار ہو وہ دنیا میں
کبھی کسی کا وفادار رہ نہیں سکتا
نیا امیر
فنّ قینچی کا ہوں استاد سبھی واقف ہیں
خون کے رشتے کئی اچھے بھلے کاٹے ہیں
خود بخود آئی نہیں ہے یہ امیری چل کے
جیب کاٹی ہے زمانے کی گلے کاٹے ہیں
گھر داماد
ممکن ہے بنا لے وہ داماد تجھے اپنا
گردن بھی دبا اس کی پاؤں بھی دبا اس کے
معشوق پٹا نے سے کچھ بھی تو نہیں ہو گا
امی کو پٹا اس کی، ابا کو پٹا اس کے
اسلامی ملکوں کے صدر
یہیں سے ہوتی ہیں ان سب کی کرسیاں پکّی
غلام جانتے ہیں اپنے حاکموں کی قدر
طواف کرتے ہیں ہر سال وہائیٹ ہاؤس کا
تمام دنیا کی اسلامی مملکت کے صدر
چالو
ہم نے بچپن سے یہ ہی کام کیا
اب تو ہم ہو گئے بہت چالو
روز خوابوں میں ہم کو ملنے سے
روک سکتا نہیں ترا خالو
فوٹو کاپی
نئے دور میں یہ ہوا چل رہی ہے
نہ ممی ہیں دوشی، نہ پاپا ہیں پاپی
کرشمہ یہ اپنی سمجھ سے ہے باہر
جو بیٹا پڑوسی کی ہے فوٹو کاپی
اٹل بہاری
ہیں ان کے ساتھ میں دو دو کنواری
اٹل کو بے سہارا کیسے کہہ دوں
بچارے تو فقط ہوتے ہیں شوہر
کنوارے کو بچارہ کیسے کہہ دوں
اے۔ پی۔ جے عبد الکلام
(عزت مآب صدرِ محترم بھارت)
پرنام بھی لگتا ہے جس کا سلام جیسا
دل میں بسا محمد دِکھتا ہے رام جیسا
خشونت سنگھ کا کہنا سوفی صدی صحیح ہے
ہو گا نہ صدر کو ئی عبد الکلام جیسا
ماضی
رسّی تمام جل گئی پر بل نہیں گئے
صرصر ہے آج جو کبھی بادِ نسیم تھی
ڈھلتی ہوئی جوانی کا عالم نہ پوچھیئے
کھنڈ رات کہہ رہے ہیں عمارت عظیم تھی
ایک مسلم لیڈر
بھیک میں شہ نوازی بدل جائے گی
ہاتھ سے عیش و عشرت کے دن جائیں گے
ہم نے گجرات پر منھ جو کھولا کبھی
سارے دونے ملائی کے چھن جائیں گے
کنواروں کی سرکار
(عالی جناب راشٹر پتی اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی دونوں کے کنوارے ہونے پر)
حشر کیا ہو گا یہاں شادی شدہ لوگوں کا
فکر ہے سب کو یہی یار خدا خیر کرے
ملک میں صرف کنواروں کی ترقی ہو گی
یہ کنواروں کی ہے سرکار خدا خیر کرے
بھاری
خود کو کہتا پھرے سپر پاور
سب سمجھتے ہیں کیا ہے امریکہ
ایک لادن نہ اس سے پکڑا گیا
بھاری لادن ہے یا ہے امریکہ
لیڈران
انہیں ہتھیلی پہ سرسوں جمانا آتا ہے
شریف لوگوں سے ان کی دعا سلام نہیں
زمیں کی طرح گھما دیں یہ آسمان کو بھی
’’ابھی فلک کو پڑا لیڈروں سے کام نہیں ‘‘
ولدیت
ہے حقیقت رہو گے تم زیرو
اور کر لو گے شخصیت مشکوک
وہ سیاست میں نام پاتے ہیں
جن کی ہوتی ہے ولدیت مشکوک
نظام قدرت
تیری میری کوشش سب ہے بے معنی
سب کچھ اپنے آپ بدلنے والا ہے
پل دو پل ہے راج اندھیری راتوں کا
سورج اپنے آپ نکلنے والا ہے
جعفری
(گجرات میں کانگریس لیڈر کو زندہ جلائے جانے پر)
ایک دن زندہ جلائے جائیں گے
جل گیا جس طرح بے بس جعفری
آج ہیں کرسی کی عیاشی میں گم
دیکھنا اک روز مسلم ایم۔ پی
یونہی کہا تھا
اتنی بڑی سزا ملی لفظ قبول کی
لپٹی ہوئی سہرے کی لڑیوں میں بلا آئی
ہر روز ہے اک لفڑہ ہر سال ہے اک بچہ
’’لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی‘‘
نذر ایم آر قاسمی
ایک دن بیوی نے یہ اپنی سہیلی سے کہا
اک عدد شاعر غزل کا مفت ہے گر چاہیئے
آج اپنی فالتو چیزیں جدا کرتی ہوں میں
ہے کوئی ایسی کہ جس کو میرا شوہر چاہیئے
مشاعرے کی فیس
مشاعرے کی کوئی فیس میں نہیں لیتا
یہ دس ہزار جو ہنس کر قبول کرتا ہوں
یہ مجھ کو چھوڑ کے جتنے بھی ہیں متشاعر
میں ان کو سننے کی قیمت وصول کرتا ہوں
ہٹ دھرمی
تاؤ کہے یا تائی مائیک نہیں چھوڑوں گا
سوبار قسم کھائی مائیک نہیں چھوڑوں گا
میں چھوڑ دوں گا یارو یہ کائنات لیکن
شاعر ہوں میں تو بھائی مائیک نہیں چھوڑوں گا
مستقل ٹھپّہ
عارضی ٹھپّے تلک تثلیث کیا تلوار کیا
خوں بہا کو مسلموں نے کام پکّہ کر لیا
دشمنِ اسلام کر سکتے نہیں جس کو ڈیلیٹ
پیدا ہوتے ہی ہر اک بچّے کا ختنہ کر دیا
فنونِ لطیفہ
شعر غالبؔ کے ہوں یا میرے ہوں
اس کو جو پھوٹی آنکھ بھاتے ہوں
وہ فنونِ لطیفہ کہتی ہے
جانی لیور کے جو لطیفے ہوں
امتحاں
غزلیں پڑوسنوں پر لکھتے رہیں گے یونہی
بن جائے چاہے دشمن سارا جہاں ہمارا
بیلن سے ڈرنے والے منیّ کی ماں نہیں ہم
سو بار لے چکی ہو تم امتحاں ہمارا
عراق
یہ کربلا ہے یہاں صرف خون بہتا ہے
یہاں پہ ماہِ محرم ہے یوم عید نہیں
وہ جنگ آج بھی جاری ہے حق و باطل کی
ادھر حسین نہیں ہے ادھر یزید نہیں
بے میل شادیاں
کس طرح کامیاب ہوں بے میل شادیاں
ربڑی مجھے پسند سموسہ اسے پسند
کیسے چلے ہماری گرہستی بتائیے
بوسہ مجھے پسند ہے ڈوسہ اسے پسند
جھوٹی کہانی
نہ دادا نہ دادی نہ نانی پہ روئے
نہ ماموں ہمارے ممانی پہ روئے
مگر دیکھ کر مغلِ اعظم جو آئے
’’محبت کی جھوٹی کہانی پہ روئے ‘‘
سالانا
عید کے روز یہ فرمانے لگے مولانا
آپ مسجد میں نظر آتے ہیں بس سالانا
میں نے برجستہ کہا ان سے جناب عالی
بے سبب تو نہیں یہ فعل مرا کفرانہ
اس لیئے روز نہیں آتا خدا کے گھر میں
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جا نا
صدام حسین
(وقتِ گرفتاری)
ساری دنیا کی تباہی کا جس سے خدشہ تھا
جیب میں اس کی نہ اک کانچ کا کنچہ نکلا
کھو دیا اس نے شہادت کا سنہری موقع
ہم جسے توپ سمجھتے تھے طمنچہ نکلا
عراقی
( صدّام کی پھانسی کے وقت)
ہیں تو نبیوں کی سرزمیں سے مگر
تیرے کیا ہوتے کسی کے نہ ہوئے
ہم سے صدّام توقع کیسی
ہم حسین ابنِ علی کے نہ ہوئے
دانشور
ان کی قسمت میں قہقہے کب ہیں
خوب دیکھا ہے مسخرہ بن کر
نسل دونوں کی ایک ہے شاید
جانور! یا جنابِ دانش ور
بُرے دن
کمپیوٹر شاعری کرنے لگا
یہ خبر سنتے ہی ہم گھبرا گئے
یہ بھی علوی ہو گیا خانہ خراب
کمپیوٹر کے برے دن آ گئے
نکتہ
نکتہ ہمارا جان کے اللہ کے فضل سے
جتنے عروضیے تھے سبھی کولڈ ہو گئے
ہ کو گرا کے میرؔ جمے ہیں کریز پر
ہم نے الف گرایا تو ہم بولڈ ہو گئے
ایرانی بم
روز کر دیتا ہے بستر گیلا
روز پتلون بھی اس نے نم کی
فوٹو کاپی ہی ابھی دیکھی ہے
بُش نے ایران کے ایٹم بم کی
تنگ قافیہ
باپ معشوق کا خبر ہے گرم
آمدِ جنگ ہونے والا ہے
لوگ خوش ہیں کہ ایک شاعر کا
قافیہ تنگ ہونے والا ہے
مہربانی
آج ہیں شادی شدہ ہم ایک پتنی کے پتی
ہم تھے برسوں سے کنوارے مہربانی آپ کی
ساری کوشش دوستوں کی سب کرم ہے آپ کا
اب ہیں چھ بچے ہمارے مہربانی آپ کی
نذرِشہر یار
یہ انتقام اس نے لیا ہم سے شاندار
جب ڈاکٹر کا ہم نے چکایا نہیں ادھار
جلّاب والی گولیاں اس نے کھلائیں چار
بیت الخلاء میں شعر یہ لکھ آئے میرے یار
اس انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار
دیوار و در کو غور سے پہچان لیجئے
غلط فیصلہ
ایک لیڈر نے یہ شکایت کی
میرے حق میں یہ فیصلہ ہے غلط
میں تو آتا نہیں کسی بھی کام
میرا اس سے مقابلہ ہے غلط
ہاں ! بڑے کام کا ہوتا ہے گدھا
مجھ کو تم نے گدھا کہا ہے غلط
اثر
یوں علاجِ دلِ بیمار کریں گے ہم تو
جو کریں گے سرِ بازار کریں گے ہم تو
شرم کی ساری حدیں پار کریں گے ہم تو
اس طرح حسن کا دیدار کریں گے ہم تو
آج ہم اپنی دوائی کا اثر دیکھیں گے
کتنی پتلی ہوئی وہ موٹی کمر دیکھیں گے
فرق
نظمیں کہہ ڈالیں بن گئے شاعر
چٹکلوں کے لطیف منظر میں
فرق کرتا بہت ہی مشکل ہے
ایک شاعر میں اور جوکر میں
کمال جوتے کا
بھر نہیں پائے گا کسی صورت
زخم یہ سالوں سال جوتے کا
پل میں ظالم کو کر دیا رسوا
سب نے دیکھا کمال جوتے کا
کارواں گذر گیا
جس وقت سترہ سال کی وہ نوجوان تھیں
خاطر میں نہ آتا تھا کوئی لیکچرار بھی
طے کر چکی ہیں عمر کی چالیس بہاریں
اب پوچھتا نہیں ہے کوئی چوکیدار بھی
منھ بولی بیوی
مری راتیں ہوئیں ویران یارو
ترس کھایا نہیں حالت پہ میری
ملے منھ بولے بھائی بہن کتنے
ملی نہ آج تک منھ بولی بیوی
گھر داماد
دو انچ زمیں بھی نہ خریدی کبھی ہم نے
رہتے ہیں فلیٹوں میں بھی سسرال کے دم سے
مولیٰ سے بڑا ہے ہمیں بیگم کا سہارا
کچھّا بھی ہے اس جسم پہ بیگم کے کرم سے
دو بال بھی ہم سے نہ اُگے چاند پہ اپنی
سالوں کی عنایات سے زندہ ہیں قسم سے
آزادی
ایک امریکی سٹی زن نے یہ رشین سے کہا
صرف امریکہ میں آزادی کا ہے اصلی مزا
صرف امریکہ زبانوں پر نہیں پابندیاں
ہر کسی کو بولنے کی ہیں یہاں آزادیاں
اتنی آزادی ملے گی اور دنیا میں کہاں
صدرِ امریکہ کو بک سکتے ہو جم کر گالیاں
سنکے امریکی کی باتیں پھر یہ رشین نے کہا
گالیاں بکنے کی آزادی نہیں ہے مسئلہ
روس میں بھی روسیوں پر ایسی پابندی نہیں
اس طرف سے روسیوں کی ذہنیت گندی نہیں
اتنی آزادی تو ہر روسی کو حاصل ہے یہاں
صدرِ امریکہ کو بک سکتا ہے کھُل کر گالیاں
باجا
جی جی کے پتی دیو کو وہ کہتے ہیں جیجا
ہم اہلِ زباں ہوکے بھی ایسا نہیں کہتے
جس طرح بڑی بہن کو ہم کہتے ہیں باجی
بہنوئی کو ہم اس طرح باجا نہیں کہتے
شامی کباب
یہ ماہ جبین چہرہ کب ماہتاب نکلا
اب کیا بتائیں تم کو کیا آنجناب نکلا
جس گل بدن کا چہرہ ہم نے گلاب سمجھا
میک اپ جو اتارا تو شامی کباب نکلا
جادوگر
ادھر سوئے اُدھر نکلے ادھر سوئے ادھر نکلے
کہا بچوں نے پاپا تو غضب کے جادوگر نکلے
ہمارے پاس سوئے تو ملے ممی کے کمرے میں
بغل میں سوئے ممی کے برابر والے گھر نکلے
پوسٹ مارٹم
(تحریف)
مُرغ بنوا کے بلا لو مجھے چاہوں جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
میں شاہراہ نہیں راستے کا گڈّھا ہوں
یہاں سوار بھی پیدل اتر کے چلتے ہیں
غلط کہے کہ صحیح اس کو تم بجا سمجھو
زبانِ زوج کو نقّارہِ خدا سمجھو
نہ یہ چاند ہو گا نہ تارے رہیں گے
کنوارے اٹل جی کنوارے رہیں گے
جیب کٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی
غزل
غزل اس کو نہیں کہتے ہیں علوی
رسالوں میں چھپے اور داد پائے
غزل وہ ہے کہ جو سر تال میں ہو
غزل وہ ہے جسے جگجیت گائے
غمِ مسلم
ملک کے فرقہ پرستوں سے یہ کہہ دو علوی
ہیں لقب اور بھی کچھ، ضدّی و ظالم کے سوا
مسئلے اور بھی ہیں، میرے وطن کے اندر
ملک میں اور بھی غم ہیں غمِ مسلم کے سوا
مزاج
ہر طرف بیوی کی دھومیں ہر طرف بیوی کا راج
ٹھو کریں پر کھا رہا ہے بیویوں کے سر کا تاج
شوہروں کو چاہیئے کہ ڈر کے بیلن سے رہیں
کون جانے کس گھڑی اب بدلے بیگم کا مزاج
غزل
حسن والوں کی اداکاری سے بچ
بے خبر آنکھوں کی بمباری سے بچ
لے کے بیگم کو کسی ہوٹل میں جا
تیل آٹا دال ترکاری سے بچ
شہر میں افواہیں پھیلا نے کی سوچ
کام کر کچھ کام بیکاری سے بچ
ہو سکے تو کچھ ترنم کو سدھار
شعر کہنے والی بیماری سے بچ
اب ترقی کا یہی نکتہ ہے بس
چمچہ بن لیڈر کا خود داری سے بچ
جیکسن کی تال پر ٹھمکے لگا
تان سینی راگ درباری سے بچ
ایک خط
شوہر کو اپنے بیوی نے اک خط میں یہ لکھا
دل آپ کی چاہت میں بہت بے قرار ہے
پردیس میں گئے تمہیں دس سال ہو گئے
جب سے گئے ہو اب کے نہ چٹھی نہ تار ہے
تم آؤ یا نہ آؤ مگر خرچ تو بھیجو
پہلے تھا خرچ سو روپے اب دس ہزار ہے
تم چھوڑ کر گئے تھے فقط ایک ہی بچّہ
اب ماشا اللہ بچّوں کی پوری قطار ہے
اردو کے پروفیسر
بدن پہ سوٹ اردو کا گلے میں ٹائی اردو کی
انہیں معلوم ہے گہرائی اور گیرائی اردو کی
بجاتے ہیں ہر اک محفل میں یہ شہنائی اردو کی
کہ ساری عمر کھائی ہے فقط بالائی اردو کی
پروفیسر یہ اردو کے جو اردو سے کماتے ہیں
اسی پیسے سے بچوں کو یہ انگریزی پڑھاتے ہیں
٭٭٭
تشکر: ’کتاب‘ ایپ، آئڈیل آئیڈیاز
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید