فہرست مضامین
- شیرِ نیپال : حیات و خدمات
- انتساب
- دعائیہ کلمات
- کلمات تبریک ادیب شہیر، حضرت علامہ محمد وارث جمال قادریؔ صاحب قبلہ
- احوال واقعی حضرت مولانا الحاج ڈاکٹر سراج عالم علیگؔ، فیضیؔ، برکاتیؔ
- پیش لفظ
- حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ
- دستار فضیلت
- صوفی کا لقب
- مادر علمی سے بے انتہا محبت
- بدر ملت اور فقیہ ملت، آپ کے گھر
- آپ کے سر پر دستار فضیلت باندھنے والے علما و مشائخ
- حضور بدر ملت کا فرمان
- حافظ ملت اور اکابر علما کی دعائیں
- حضور فقیہ ملت بہت خوش ہوئے
- میدان تدریس کا انتخاب
- بڑھیا میں تعلیمی، تعمیری، تبلیغی خدمات
- مدرسہ غوثیہ بھیرہواں میں آمد
- ناظم تعلیمات
- آپ کی آمد کے وقت کے حالات
- تبلیغی دوروں کا سلسلہ
- شیر نیپال اور ناشر مسلک اعلیٰ حضرت کا لقب
- شیر نیپال کا ایک نرالا انداز
- میلاد ہی میں درس کی محفل سج جاتی
- انداز درس و تدریس
- درس و تدریس بڑا مشکل کام
- بغیر مطالعہ کبھی نہیں پڑھاتے
- علم دین کی ترغیب
- طلبہ کے ساتھ شفقت و محبت
- طلبہ کی تربیت
- طلبہ کی نگرانی
- انداز خطابت
- کبھی نذرانے کا مطالبہ نہیں کرتے
- مختلف علوم و فنون میں دسترس
- معمولات حیات
- آرام کہاں؟
- فتویٰ نویسی
- سادگی پسند کرتے ہیں
- اصاغر نوازی
- حسنِ اخلاق
- ایفائے عہد
- زہد و تقویٰ
- سادات کرام اور علمائے عظام کا احترام
- صبر و تحمل
- عیادت و مزاج پُرسی
- تمام سلاسل اہل سنت کی قدر کرتے ہیں
- اتحاد اہل سنت کے داعی ہیں
- شان بے نیازی
- مدارس اہل سنت سے محبت
- خانقاہ فیض الرسول سے تعلق
- مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت
- ایک نصیحت آموز واقعہ
- فوٹو اور ویڈیو گرافی سے احتراز
- بحیثیت مناظر اہل سنت
- ہمارے لیے عہدے چھوڑ دیے
- جلوس میلا دالنبیﷺ کا آغاز
- عزیزی مسلم مسافر خانہ کا قیام
- زیارت حرمین شریفین
- اولاد
- ہم درس علما
- اساتذۂ تفسیر و حدیث
- مساجد کا قیام
- آپ کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے
- شرف بیعت
- خلافت و اجازت
- مشہور تلامذہ
- حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ
- روبرو
- تاثرات علمائے کرام و مشائخ عظام
- پیر طریقت حضرت علامہ الحاج محمد حبیب الرحمٰن قادری، برکاتی، دام ظلہٗ العالی
- حضرت علامہ محمد شمیم القادری صاحب قبلہ
- شہزادۂ بدر ملت حضرت علامہ و مولانا محمد رابع نور انیبدری
- پیر طریقت حضرت علامہ مولانا سید اشفاق حسین
- حضرت مولانا محبوب عالم قادریؔ، نوریؔ
- حضرت علامہ ابو حسام سید قمر الاسلام جھونسوی حفظہ اللہ تعالیٰ
- حضرت علامہ الحاج محمد معین الدین صاحب قبلہ قادریؔ
- حضرت علامہ و مولانا حافظ وقاری عبد المصطفیٰ ندیم مصباحیؔ صاحب
- حضرت مولانا مظہر علی علیمی نظامی صاحب قبلہ
- حضرت علامہ مفتی محمد نعیم نظامی، برکاتی
- حضرت مولانا سید علی نظامیؔ صاحب قبلہ
- حضرت مولانا محمد آصف علوی ازہری صاحب قبلہ
- حضرت علامہ و مولانا انوار احمد مصباحیؔ صاحب قبلہ
- حضرت علامہ مفتی محمد شہاب الدین نوری، فیضی صاحب قبلہ
- حضرت مفتی محمد صادق مصباحی صاحب قبلہ
- حضرت علامہ مولانا خالد رضا مصباحی صاحب قبلہ
- حضرت علامہ نور محمد مصباحی صاحب قبلہ
- حضرت علامہ مفتی منظور احمد یار علویؔ صاحب قبلہ
- حضرت علامہ مفتی غلام معین الدین چشتی فیضی
- حضرت مولانا مفتی محمد شمس القمر قادریؔ فیضیؔ
- حضرت علامہ و مولانا مطلوب احمد قادری صاحب قبلہ
- حضرت علامہ منور حسین مصباحی صاحب قبلہ
- حضرت حافظ و قاری نور الہدیٰ مصباحیؔ صاحب قبلہ
- حضرت مولانا غلام سرور صاحب قبلہ
- حضرت مولانا طاہر القادری مصباحیؔ صاحب قبلہ
- حضرت مولانا محمد ہاشم فیضیؔ، صاحب قبلہ
- حضرت مولانا برکت حسین مصباحیؔ صاحب قبلہ
- حضرت مولانا شبیر احمد نظامی، صاحب قبلہ
- حضرت مولانا شیر محمد قادری صاحب قبلہ
- حضرت قاری محمد شبیر یار علوی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا صاحب علی چترویدی، صاحب قبلہ
- حضرت مولانا مفتی شمس الدین نظامی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا شمس القمر علیمی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا الحاج عبد اللہ عارف صدیقی
- حضرت حافظ و قاری انوار الحسن صاحب یار علوی
- حضرت مولانا سید غلام حسین صاحب قبلہ
- حضرت مولانا ابو الوفا نظامیؔ صاحب قبلہ
- حضرت مولانا امجد علی نظامیؔ، صاحب قبلہ
- حضرت مولانا نور محمد مصباحی، جامعی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا نذیر احمد فیضی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا محمد عمر نظامی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا مقصود احمد نظامی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا عبد النبی نظامی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا عبد الجبار علیمیؔ نظامیؔ صاحب قبلہ
- حضرت مفتی ابو طالب خان فیضی نوری صاحب قبلہ
- حضرت مولانا منیر عالم رحمانی، صاحب قبلہ
- عالی جناب محمد شرافت علی میاں صاحب
- حضرت مولانا سجاد عالم نظامی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا صدر عالم فیضی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا شیر محمد علیمیؔ صاحب قبلہ
- حضرت مولانا اکبر علی قادری صاحب قبلہ
- عالی جناب الحاج سید اظہار احمد صاحب قبلہ، نولپراسی نیپال
- حضرت مولانا جعفر علی نظامیؔ صاحب قبلہ
- حضرت مولانا محرم علی نظامی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا ضمیر اللہ قادری صاحب قبلہ
- حضرت مولانا محمد صدر الدین مصباحیؔ برکاتیؔ
- عالی جناب سید صدام حسین قادری، نولپراسی، نیپال
- حضرت مولانا شمشیر عالم رضوی صاحب قبلہ
- حضرت مولانا سراج احمد فیضی صاحب قبلہ
- حکیم ملت حضرت علامہ مفتی عبد الحکیم نوریؔ دام ظلہٗ العالی
- حضرت مولانا اکرام علی نوری فیضی صاحب قبلہ
- عزیز القدر مولانا قمر الزماں نظامی ؔ
- مدرسہ غوثیہ رضویہ نور العلوم محلہ کٹھوتیا میں وقتاً فوقتاً تشریف لانے والے اکابر علمائے کرام و مشائخِ عظام کے تاثرات
- سراج الفقہا، حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین، قادری، رضوی، مصباحی
- حضرت علامہ و مولانا سید محمد انجم، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
- مولانا محمد عیسیٰ رضوی، امجدی صاحب قبلہ
- حضرت علامہ مفتی محمد قدرت اللہ رضوی
- پیر طریقت حضرت علامہ سید نجیب حیدر نوری، مارہرہ مقدسہ
- حضرت علامہ سید ارشاد حسین البخاری، بنگلہ دیش
- حضرت علامہ و مولانا شمس الہدیٰ خاں صاحب قبلہ مصباحی
- حضرت علامہ محمد اسماعیل علوی
- اعتذار
شیرِ نیپال : حیات و خدمات
غیاث الدین احمد عارفؔ، مصباحیؔ
مدرسہ عربیہ سعید العلوم، یکما ڈپو، لکشمی پور، مہراج گنج
نظر ثانی: حضرت علامہ مفتی محمد صادق مصباحیؔ
حسب فرمائش: حضرت مولانا سید غلام حسین صاحب
استاذ الاساتذہ، حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب مدظلہٗ العالی کی حیات و خدمات پر مشتمل رسالہ
انتساب
میں اپنی اس حقیر کاوش کو پیکر زہد و تقویٰ، استاذی الکریم
حضور شیر نیپال، علامہ صوفی محمد صدیق خان فیضیؔ دام ظلہ العالی اور اپنے جملہ مشفق و مہربان اساتذۂ کرام
نیز اپنے و الدین کریمین کی جانب منسوب کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں
گر قبول افتد زہے عز و شرف!
غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحی
دعائیہ کلمات
شہزادۂ حضور حافظ ملت، حضرت علامہ، الحاج عبد الحفیظ صاحب دام ظلہٗ العالی
سربراہ اعلیٰ: الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی
عزیز القدر، حضرت قاری نور الہدیٰ مصباحیؔ نے بذریعہ فون یہ اطلاع دی کہ مولانا غیاث الدین احمد مصباحی، استاذ سعید العلوم لکشمی پور، مہراج گنج، حضرت صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ کی حیات و خدمات ترتیب دے رہے ہیں۔
اپنے بزرگوں کی عزت افزائی اور قدر شناسی کا یہ بہتر اور انسب طریقہ ہے۔ کیوں کہ جو لوگ اپنے بزرگوں اور بڑوں کی قدر نہیں کرتے، ان کی بھی کوئی قدر نہیں کی جاتی۔
جہاں تک مجھے معلوم ہے حضرت صوفی صاحب موصوف ایک نیک اور پرہیزگار عالم دین ہیں۔ ان کی مذہبی، علمی، قومی و ملی خدمات نیپال کے ترائی علاقے اور اس سے متصل ہندوستان کے سرحدی علاقے میں بے شمار ہیں۔ دین و سنیت کے فروغ و اشاعت کے لیے آپ شب و روز کوشاں رہتے ہیں۔ میری بارہا ان سے دار العلوم عزیزیہ مظہر العلوم نچلول بازار کے جلسے میں ملاقات ہے۔
جب صوفی صاحب قبلہ نے بھیرہواں میں عزیزی مسلم مسافر خانہ کی تعمیر کا پروگرام بنایا تو حافظ عبد الحکیم مرحوم نے مجھے بھی اس کی اطلاع دی۔ اوراس کے رسم سنگ بنیاد کے موقع پر مجھے مدعو بھی کیا۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ واقعی حضرت صوفی صاحب کے دل میں مسلک اہل سنت و مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت کا بے انتہا درد ہے۔
ان کے اخلاص و ایثار اور تقویٰ شعار زندگی کو دیکھتے ہوئے میں نے اس سال مظہر العلوم نچلول بازار کے سالانہ جلسہ [منعقدہ ۸ مارچ ۲۰۱۸ء] کے موقع پر انھیں سلسلۂ عزیزیہ قادریہ اشرفیہ وغیرہ کی اجازت و خلافت دی۔ اللہ تعالیٰ انھیں عمر دراز اور صحت و تندرستی عطا فرمائے اور ان سے زیادہ سے زیادہ دین کی خدمات لے۔ آمین بجاہ سید المرسلین۔
عبد الحفیظ عفی عنہ
29 مارچ 2018ء،الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور
سراج الفقہا، محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین دام ظلہ العالی
صدر المدرسین و صدر شعبۂ افتا الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ
حضرت مولانا بفضل اولیٰنا، صوفی محمد صدیق صاحب دام ظلہ العالی ایک بلند پایہ شخصیت، عالم با عمل اور صحیح معنوں میں صوفی با صفا ہیں۔ انھوں نے دین کی بہت عظیم خدمات انجام دی ہیں، مثلاً:
ایک تو انھوں نے بھیر ہوا جیسی جگہ میں دار العلوم قائم کیا، جہاں سے نیپال اور ہند کے خطے میں علم کی روشنی پھیل رہی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے وہاں کے لوگوں کو عمل کی ترغیب دی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی وجہ سے وہاں کی سنیت محفوظ ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ محفوظ رہے گی۔
دوسرے، میں ان کی غیرت کو سلام کرتا ہوں کہ وہاں ایک آنکھ کا بڑا ہاسپیٹل ہے، ہماری قوم کے لوگ وہاں جاتے تھے، ان کے رہنے کی کوئی معقول جگہ نہیں تھی، وہ سڑکوں پر مارے مارے پھرتے یا غیر مسلموں کے نا مہذب ہوٹلوں میں رہنے پر مجبور تھے۔ انھوں نے حضرت حافظ عبد الحکیم صاحب مرحوم (سابق پرنسپل مظہر العلوم نچلول بازار) کے تعاون سے وہاں پر ایک عزیزی مسلم مسافر خانے کی بنیاد رکھی، اس کے لیے وہ مبارک پور بھی تشریف لائے اور سربراہ اعلیٰ جامعہ اشرفیہ مبارکپور کی خدمات بھی حاصل کیں اور ایک اچھا مسافر خانہ تعمیر کیا۔ اب جب ہماری قوم کے افراد وہاں جاتے ہیں تو درماندہ اور دربدر بھٹکتے نہیں۔ یہ دو کام ان کے اہم کاموں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
مولانا پر ایک عظیم حادثہ بھی پیش آیا۔ ایسے وقت میں آدمی ٹوٹ جاتا ہے لیکن میں نے حضرت کو دیکھا کہ ایسی مشکل گھڑی میں بھی انھوں نے صبر و رضا اور تسلیم کا دامن نہیں چھوڑا اور کبھی ناشکری کی بات اور جزع فزع کے کلمات اپنی زبان سے نہیں کہے، بلکہ تقدیر الٰہی پر راضی برضا اور شاکر رہے۔
صوفی صاحب قبلہ سے ہماری ملاقات بہت پرانی ہے، پہلی ملاقات غالباً نچلول کے جلسے میں ہوئی تھی اور اس کے بعد ہمارے ان کے تعلقات برابر قائم رہے۔ آج بھی صوفی صاحب کبھی ادھر آتے ہیں تو مجھ سے ضرور ملاقات کرتے ہیں۔ ہمارا ان کا رشتہ استاذی شاگردی کا نہیں، لیکن مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس ناچیز کی غائبانہ طور پر ستائش اور لوگوں میں میرا ذکر خیر بھی کرتے رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی نوازش ہے، میں ان نوازشات کے لائق تو نہیں مگر بڑے لوگ، چھوٹوں کو نوازتے رہتے ہیں، یہ ان کی بس محبت ہے۔ ان کا میرا کوئی علاقائی یا ذاتی رشتہ نہیں، لیکن اہل سنت و جماعت کا ایک خادم ہونے کی حیثیت سے وہ مجھے پسند فرماتے اور اکرام کرتے ہیں۔
ابھی اسی سال ۸ مارچ کو جب میں نچلول کے سالانہ جلسے میں گیا تو مجھے ایک کمرے میں آرام کے لیے لے جایا گیا، وہاں حضرت صوفی صاحب پہلے سے تخت پر آرام کر رہے تھے، انھوں نے میری آواز سنی تو اُٹھ کر بیٹھ گئے اور سلام و مصافحہ کے بعد فرمایا: کہ یہ تخت آپ کے لیے زیبا ہے۔ میں نے ہزار انکار کیا مگر وہ نہ مانے، مجھے تخت پر بِٹھایا اور خود نیچے بیٹھ گئے۔ پھر وہاں موجود لوگوں سے میرا ذکر خیر کیا۔ ان کی اس کشادہ قلبی اور عزت افزائی سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔
ایک بار میں جامعہ اشرفیہ کے کام سے بھیر ہوا گیا تھا جیسے ہی حضرت صوفی صاحب کو معلوم ہوا وہ میری قیام گاہ پر آئے اور مجھے مدرسے پر آنے کی دعوت دی، جب میں وہاں گیا تو انھوں نے اساتذہ و طلبہ کے سامنے میری بڑی عزت افزائی فرمائی۔ یہ سب صوفی صاحب کے اخلاق عالیہ ہیں۔
ہم ان کے لیے دعا کرتے ہیں کہ مولیٰ تعالیٰ ان کا سایہ اس امت کے لیے صحت و سلامتی کے ساتھ قائم فرمائے اور ان کے امثال اس امت میں پیدا فرمائے۔
14 رجب المرجب 1439ھ
محمد نظام الدین رضوی برکاتی عفی عنہ
2 اپریل، 2018ء
جامعہ اشرفیہ مبارک پور
کلمات تبریک ادیب شہیر، حضرت علامہ محمد وارث جمال قادریؔ صاحب قبلہ
صدر آل انڈیا تبلیغ سیرت ممبئی
عزیز گرامی، محترم مولانا غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحیؔ
استاذ سعید العلوم، لکشمی پور، مہراج گنج!
ہدیہ سلام مسنون و اخلاص فراواں واَدعیہ وافرہ۔
آپ کی اس اطلاع سے بے حد مسرت ہوئی کہ آپ فخر الاساتذہ، سند المدرسین، حضرت اقدس با برکت، مولانا صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ نیپالی، مدظلہٗ العالی [جو درس نظامی کی بنیادی کتابوں سے لے کر جلالین شریف تک فقیر راقم الحروف وارث جمال قادری کے بہت مشفق و محسن استاذ رہے ہیں، ان] کی حیات و خدمات پر ’’شیر نیپال حیات و خدمات‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھ رہے ہیں۔ آپ واقعی بہت خوش قسمت ہیں کہ یہ سعادت آپ کے حصے میں آئی۔
۱۳ اپریل ۲۰۱۸ء کے ایک بڑے عوامی جلسے میں [جو نیپال ہی میں منعقد ہو رہا ہے] حضرت صوفی صاحب قبلہ کو سکوں سے تولا جائے گا۔ اور اسی موقع پر یہ کتاب عوام و خواص کو تقسیم کی جائے گی۔ بے شک یہ ایک تاریخی قدم ہو گا جو کسی عالم دین کے عظیم علمی و دینی خدمتوں کے اعتراف میں ہو گا۔ فالحمد للہ رب العالمین۔
ہمارے یہاں تو ’’قدرِ مَردم بعد مُردن‘‘ کا مظاہرہ بہت عام ہے۔ لیکن آپ حضرات بے شک مبارک باد اور دعاؤں کے مستحق ہیں کہ استاذی الکریم حضرت علامہ صوفی صاحب قبلہ کی گراں قدر علمی و دینی و ملی خدمات اور قدردانی کا اعتراف اور اس تاریخی انداز میں! سبحان اللہ، الحمد للہ!
بے شک اہل علم میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ مدرسین کا ہے۔ آج جہاں جہاں اور جس جس انداز میں دین اور علم دین کا اُجالا پھیلا ہوا ہے، وہ انھیں دینی مدارس اور ان کے اساتذہ کا پھیلایا ہوا ہے۔ یہی طبقۂ خاص معمولی مشاہروں پر اپنا خون جگر جلا جلا کر کانفرنسوں کو خطیب، مسجدوں کو امام، خانقاہوں کو سجادہ نشین اور ملت اسلامیہ کے لیے قائدین بناتا ہے۔ خود تو پوری زندگی عسرت و تنگ دستی میں گزار دیتے ہیں مگر دین و علم دین کی لَو مدھم نہیں ہونے دیتے۔ جس کا صلۂ عظیم انھیں ان کا رب تعالیٰ ہی دے سکتا ہے اور یقیناً دے گا۔
ہنوز ایوان استغنا بلند است
مرا فکر رسیدن نا پسند است
حضرت صوفی صاحب قبلہ کی پوری زندگی جُہد مسلسل سے عبارت ہے، انھوں نے بڑی محتاط زندگی گزاری، جہاں بھی رہے اپنے فریضۂ منصبی سے بہت اوپر اٹھ کر کام کیا۔ ع ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
استاذی الکریم حضرت صوفی صاحب قبلہ اُس دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف کی فصل بہار کا ایک بے حد قیمتی ثمر ہیں، جو حضور شعیب الاولیا، بانی فیض الرسول اور مظہر شعیب الاولیاء حضرت خلیفہ صاحب علیہما الرحمہ، کے زمانے کا تھا، آج اور اِس زمانے کے فیض الرسول کا نہیں، جس کی قیادت کو دواؤں سے زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔
فیض الرسول کی پہلی فصل بہار کے ثمرات و حاصلات میں حضرت مولانا صوفی امام بخش صاحب قبلہ تیغی مظفر پوری، دوسرے مولانا محمد محسنچشتی دھنورا، ضلع سدھارتھ نگر، تیسرے مولانا محمد اسماعیل صاحب اطہر بستوی، چوتھے مولانا عبد العلیم صاحب پورنیہ، ضلع بستی اور حضرت مولانا جمیل احمد شمیم قادری یار علوی [شامل ہیں۔] فیض الرسول براؤں شریف کی دوسری فصل بہار میں جن خوش نصیبوں کو علم و فضل کی دستار سے نوازا گیا وہ حضرت مولانا صوفی محمد صدیق خان مد ظلہ العالی کی جماعت تھی، جس میں دو نام بہت نمایاں بلکہ فیض الرسول کے لیے باعث صد افتخار تھے، جس میں پہلا نام فاضل معقول و منقول، حاوی فروع و اصول، زینت فیض الرسول حضرت علامہ مفتی قدرت اللہ عارف رضویؔ ، سابق مفتی فیض الرسول و شیخ الحدیث دار العلوم تنویر الاسلام، امرڈوبھا، ضلع بستی کا ہے، اور دوسری اہم ترین شخصیت نازش فیض الرسول حضرت مولانا صوفی محمد صدیق صاحب شیر نیپال کی ہے۔ جو کم عمری ہی میں علم و فضل کی دولت کے ساتھ دور بینی، دور اندیشی اور ملی بصیرت سے نوازے گئے اور نوجوانی ہی میں انھوں نے میدان عمل میں قدم رکھا یعنی دار العلوم فیض الرسول سے فراغت کے بعد براؤں شریف سے جانب شمال ایک دینی ادارے مدرسہ غوثیہ فیض العلوم بڑھیا میں پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے، مدرسہ غوثیہ بھی ابھی اپنی ابتدائی منزل میں تھا ایک بند مکان میں صاحب مکان کی اجازت سے برسوں مدرسہ اسی مکان میں رہا، جہاں آپ نے اپنے حسن خدمات، حسن عمل، حسن کردار اور اپنی پاکیزہ زندگی کے انمٹ نقوش چھوڑے۔
کچھ نقش تری یادوں کے باقی ہیں ابھی تک
دل بے سر و ساماں سہی ویران نہیں ہے
مدرسہ غوثیہ فیض العلوم بڑھیا میں اشاعت دین و علم دین کے ساتھ ساتھ اطراف و جوانب میں [جو بڑے بڑے گاؤں ہیں، وہاں] کے مسلمانوں کی دینی و دنیاوی ضرورتوں میں ہمیشہ آگے آگے رہے، ان کی فطری اور خدا داد صلاحیتیں نمایاں ہوئیں۔ پھر بھیرہواں، نیپال کے مسلمانوں کے شدید اصرار پر یہاں سے وہ با چشم نم رخصت ہوئے، چوں کہ وہ ان کا وطن تھا، وہاں کی دینی ضرورتوں کا تقاضا بھی تھا کہ وہاں پر جہل کی تاریکیاں دور ہوں اور علم دین کا اجالا پھیلے۔ اتنی دور چلے جانے کے بعد حضرت والا نے خود کو مدرسہ غوثیہ بڑھیا سے الگ نہیں سمجھا، بلکہ جب بھی مدرسہ کو آپ کی ضرورت محسوس ہوئی تو انھیں موجود پایا گیا۔
فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی، مفتیِ فیض الرسول جب مدرسہ غوثیہ کے ناظم تعلیمات کے شعبے سے مستعفی ہوئے تو حضرت کی جگہ صوفی صاحب قبلہ کو مدرسہ کا ناظم تعلیمات بنایا گیا۔ مدرسہ غوثیہ سے کافی دور دوسرے ملک میں رہ کر مدرسہ کی ضرورتوں کے لیے جب بھی ان کی طرف دیکھا گیا وہ اپنی ہر مصروفیت چھوڑ کر تشریف لائے۔ مدرسہ غوثیہ میں رہ کر ان کی خدمات ایک مستقل موضوع ہے جو کافی تفصیل طلب ہے۔ مدرسہ غوثیہ کو غربت و بے سرو سامانی سے نکال کر عروج کی جو نئی سمت و جہت انھوں نے عطا کی ہے وہ خود ہی ایک مستقل کتاب کی متقاضی ہے۔
انھوں نے ہمیشہ اپنے تلامذہ کو اپنا فرزند روحانی سمجھا، اور ان پر ایک باپ سے زیادہ شفیق و مہربان رہے۔ اور ان کی ضرورتوں اور آسائشوں کے لیے حتی المقدور کوشاں۔ اور تلامذہ بھی آپ کی بارگاہ میں نہ صرف مودب بلکہ بڑے وفادار اور جاں نثار تھے۔
آپ کا ایک بڑا حسن یہ بھی تھا کہ علاقے کے مسلمانوں کے درمیان اختلاف و لڑائی اور بات بات میں تھانہ پولس، کورٹ کچہری کی بات کرنے ہی نہیں دیتے بلکہ اپنے حسن تدبیر اور سیاست مدنی سے انھیں سمجھا بجھا کر بات وہیں ختم کرا کے گلے ملا دیتے۔ اسی لیے آج بھی بڑھیا کا پورا علاقہ ان کے لیے اپنے دل و نگاہ کو فرش راہ کیے ہوئے ہے۔ بے شک استاذی الکریم حضرت صوفی صاحب قبلہ نے زندگی کے ہر موڑ پر اپنے آپ کو ڈاکٹر اقبال کے اس شعر کے مطابق کر رکھا ہے:
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
نیاز مند و طالب دعا
۲۹ جمادی الآخر ۱۴۳۹ھ
محمد وارث جمال قادری
مطابق ۱۸ مارچ ۲۰۱۸ء
صدر آل انڈیا تبلیغ سیرت ممبئی
احوال واقعی حضرت مولانا الحاج ڈاکٹر سراج عالم علیگؔ، فیضیؔ، برکاتیؔ
ناظم اعلیٰ، دار العلوم غوثیہ رضویہ اہل سنت نور العلوم کٹھوتیا، روپندیہی، نیپال
آج سے تقریباً ۵۵ سال قبل جب بھیرہواں، قصبے کا وجود عمل میں آنا شروع ہوا [پہلے گاؤں کی شکل میں آبادیاں تھیں] تب ہمارے متقدمین کے ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ کٹھوتیا اور گرد و کے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جائے، لہذا انھوں نے چند حضرات کی ایک مجلس شوریٰ تشکیل دی، لوگوں کے باہمی مشورے سے ایک مکتب کی بنیاد رکھی گئی، اور اس کا نام مدرسہ نور العلوم تجویز ہوا۔ اس مکتب کے سب سے پہلے استاذ حضرت مولوی احسان علی صاحب مرحوم مقرر ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب دور دور تک نہ مدرسے تھے نہ اسکول، اس لیے یہاں دور دراز کے طلبہ کافی تعداد میں آنے لگے، جن میں مسلم بچوں کے علاوہ غیر مسلم بچے بھی شامل تھے۔ پرائمری درجات کی تعلیم تھی۔
کچھ ہی دنوں بعد ارکان مدرسہ کو یہ غم ستانے لگا کہ کہیں یہاں اہل باطل کا قبضہ نہ ہو جائے، کیوں کہ وہابیوں اور غیر مقلدوں نے بھیرہواں قصبے میں پاؤں جمانا شروع کر دیا تھا۔ اسی پریشانی کو مد نظر رکھتے ہوئے مدرسے کے ارکان میں سے چند حضرات [جن میں سے میرے والد مرحوم الحاج خلیل احمد، جناب رحم اللہ بڑ گھر مرحوم، مرحوم جناب عبد الغفور، مرحوم الحاج حسرت علی، مرحوم ہبّو دھوبی، اللہ تعالیٰ ان کی قبروں پر رحمت و نور کی بارش کرے] نے مولوی احسان علی مرحوم کے مشورے پر ۱۹۷۲ء، مطابق ۱۳۹۲ھ کو ہندوستان کی مرکزی درسگاہ فیض الرسول براؤں شریف کا رُخ کیا۔ اور شیخ المشائخ حضور شعیب الاولیاء کی بارگاہ میں جا کر اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ تو حضور مظہر شیخ المشائخ حضور شیخ العلما اور حضور بدر ملت و دیگر علما کے مشورے سے یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ کو بھیرہواں کے لیے منتخب کیا جائے۔
اس طرح حضور بدر ملت نے آج سے تقریباً ۴۶ سال قبل حضرت صوفی صاحب قبلہ کا، بھیرہواں کے لیے انتخاب فرمایا۔ اور ساتھ ہی مدرسہ غوثیہ کے ارکان کو حکم دیا کہ یہ ایک نایاب ہیرا آپ حضرات کو عطا کر رہا ہوں، اسے سنبھال کر رکھیے گا۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ جب تشریف لائے تو اس ادارے کا نام آپ نے از سرِ نو مدرسہ غوثیہ رضویہ اہلسنت نور العلوم رکھا۔ اور اسے ایک دار العلوم کی شکل میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں سے بہت سارے طلبہ درس نظامی کی تعلیم حاصل کر کے ہندوستان کے بڑے اداروں، جیسے جامعہ اشرفیہ مبارک پور، فیض الرسول براؤں شریف، علیمیہ جمدا شاہی، وغیرہ میں داخل ہوئے۔ اور ہندو نیپال میں اس ادارے کا نام روشن کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ کی محنت اور کاوش کا اثر ہے کہ آج اس ادارے کا ایک منفرد مقام ہے۔ یہ ادارہ ۲۵ کمروں پر مشتمل ہے جس میں ایک درجن سے زائد اساتذہ و ملازمین کام کر رہے ہیں۔ درجۂ عالمیت اور حفظ و قرأت کی تعلیم کا معقول انتظام ہے۔
اس کے علاوہ حضرت صوفی صاحب قبلہ کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے شہر بھیرہواں کے محلہ بسڈیلیہ میں ۸۴ دھُر آراضی پر مشتمل عید گاہ کا قیام کیا۔ جہاں شہر کے علاوہ کئی گاؤں کے لوگ عید اور بقر عید کی نماز ادا کرتے ہیں۔
عزیزی مسلم مسافر خانہ نزد آنکھ ہسپتال بھیرہواں جو دس کمروں پر مشتمل ہے، یہ بھی حضرت کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ آپ کی آمد سے قبل محلہ کٹھوتیا کی غوثیہ مسجد چھپر کی تھی، آپ نے اسے دو منزلہ عظیم الشان جامع مسجد کی شکل میں تعمیر کرایا اور فی الحال کثرت آبادی کے سبب اسے شہید کر کے ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر جاری ہے۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ ملک نیپال کے اُن علما میں سے ہیں جن کی طرف عوام تو عوام علما بھی رجوع کرتے ہیں۔ اور آپ کا قول، قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نہایت سنجیدہ، بُرد بار، سوکھی روٹی پر قناعت کرنے والے، حرص و طمع سے خالی، اور تصوف پر کاربند رہنے والے فرد ہیں۔ میں تقریباً انھیں ۵۰ سال سے دیکھ رہا ہوں اور حضرت کی بارگاہ میں، میں نے شرف تلمذ بھی حاصل کیا ہے، لیکن آج تک کبھی بھی انھیں نماز، روزہ اور عبادات کے معاملے میں سُست نہیں پایا۔ جوانی کے ایام سے لے کر پیری کے اِن ایام تک ان کی زندگی یکساں نظر آئی۔
آپ کی حیات کا ایک طائرانہ مطالعہ یہ ہے کہ آپ پابند شرع، وہابیت شکن، مرد مجاہد، مناظر اہل سنت، مسلک اعلیٰ حضرت کے کماحقہٗ ترجمان، بدن نحیف و ناتواں، مگر عزائم قوی، بقول شاعر اسلام استاذ گرامی علامہ محمد نسیم بستوی :
عزم ایماں ہے قوی، جسم کا لاغر ہی سہی
حضرت صوفی صاحب قبلہ نے اپنی جوانی سے لے کر بڑھاپے تک جس طرح ایک نازک معاشرے میں پابند شرع رہ کر زندگی گزاری ہے، اسے دیکھتے ہی ہر صاحب بصیرت یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہمارے درمیان ایک زندہ ولی جلوہ گر ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ رب تعالیٰ اس عالم با عمل، پیر طریقت، پاسبان ملت، استاذ گرامی کے صدقہ و طفیل ہمیں بھی ان کے طرز عمل پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ڈاکٹر سراج عالم علیگؔ، فیضیؔ، برکاتیؔ
ناظم اعلیٰ، دار العلوم غوثیہ رضویہ اہل سنت نور العلوم کٹھوتیا،
روپندیہی، نیپال
پیش لفظ
مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
منظور ہے گزارش احوال واقعی
اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
ملک نیپال کا شمار دنیا کے چھوٹے اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ کچھ دنوں قبل تک یہ ملک پوری دنیا میں واحد ہندو ملک کی حیثیت سے جانا جاتا رہا ہے، لیکن ماؤ نوازوں اور حریت پسندوں کی ایک طویل تحریک آزادی کے بعد ۲۸ مئی ۲۰۰۸ء کو ۶۰۱ رکنی آئین ساز اسمبلی نے نیپال کو ایک سیکولر جمہوری ملک کی حیثیت سے رکھنے پر اتفاق کر لیا اور اِس کے تمام تر قوانین دیگر جمہوری ممالک کے قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے مکمل جمہوری رنگ و روپ میں ڈھال دیے گئے، اس طرح نیپال کی ۲۳۹ سالہ شاہی حکومت کا خاتمہ عمل میں آیا۔
ملک نیپال کئی اعتبار سے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے، تعلیمی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں پورے ملک میں صرف ۹ یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں کے بچے بچیاں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں انھیں دیگر ممالک کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ زراعت کا حال یہ ہے کہ صرف ترائی علاقے کی زمینیں قابل کاشت ہیں، بقیہ ہمالیائی اور پہاڑی علاقوں میں زراعت ایک مشکل امر بلکہ پتھر پر سبزہ اگانے کے مترادف ہے۔ روزگار کے مواقع بہت کم ہیں اس لیے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی خوشحال بنانے کا خواب سجا کر بیرونی ممالک کا سفر کرتے ہیں۔
واضح ہو کہ ہندو شناخت رکھنے کے باوجود اس ملک سے مسلمانوں کا رشتہ بہت قدیم ہے، قدیم تواریخ کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ یہاں پانچویں یا چھٹی صدی ہجری سے ہی اہل اسلام کی آمد شروع ہو چکی تھی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت نیپال کے نول پراسی ضلع میں موجود ’’مدریا پہاڑ‘‘ ہے جہاں حضرت سید بدیع الدین قطب المدار نے چھٹی صدی ہجری ہی میں اُتّر پردیش کے سرحدی راستے سے ہو کر ’’سات ماتھا‘‘ پہاڑی علاقوں کا دورہ فرمایا، یہاں چلّے کیے، یہاں آج بھی ان کا چلہ گاہ موجود ہے۔ کاٹھمانڈو شہر میں حضرت سید مسکین شاہ کشمیری متوفی ۷۲۷ ہجری اور حضرت سید غیاث الدین شاہ کشمیری کے مزار ہائے مبارک بھی اس کا بین ثبوت ہیں۔
اس کے علاوہ ضلع مہوتری میں تین بزرگوں [حضرت سید داتا رحم علی شاہ، حضرت سید گدا علی شاہ، حضرت داتا بہار علی شاہ رحمہم اللہ تعالیٰ علیھم کے مزارات ہیں جن کے آثار بہت قدیم ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں زیادہ تر مسلمان تاجر کی حیثیت سے آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
کچھ سلاطین اسلام نے حکومت کرنے کے ارادے سے بھی یہاں قدم جمانے کی کوشش کی، مورخین بتاتے ہیں کہ سلطان غیاث الدین تغلق نے ۱۳۲۴عیسوی میں ترہت پر حملہ کیا اور وہاں حکومت بھی قائم کی، اسی طرح سلطان شمس الدین الیاس نے وادی کاٹھمانڈو پر ۱۳۴۹ عیسوی میں قبضہ کر کے اپنی مختصر سات دن کی حکومت قائم کی، سلطان محمد تغلق کے عہد میں کاٹھمانڈو پر پیش قدمی کی گئی، سلطان علاء الدین محمد خلجی کے نام کا سکہ بھی یہاں چلایا گیا اور نیپال اُن کے عہد میں دہلی کے ماتحت رہا، لیکن ان سلاطین کو یہ علاقہ سخت سردی کے باعث پسند نہ آیا اور انھوں نے یہاں سے کوچ کا راستہ اختیار کیا۔
ان تمام شواہد و بینات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا نیپال سے بہت ہی قدیم رشتہ ہے اور وہ یہاں صدیوں سے آباد ہیں لیکن زمانۂ ماضی میں اِبلاغ و ترسیل کے ذرائع محدود ہونے اور نیپال کے دشوار گزار راستوں کے سبب مبلغین اسلام کو یہاں مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا، لیکن پھر بھی آج یہاں جو کچھ اسلام کی روشنی ہے یہ انھیں بزرگوں کا احسان ہے۔
میں نے اجمالی طور پر ملک نیپال میں مسلمانوں کی آمد پر روشنی ڈالنا مناسب سمجھا، تاکہ یہ سوچ کر ہم احساس کمتری کا شکار نہ ہوں کہ ایک سابق ہندو ملک سے مسلمانوں کا کیا تعلق؟ اب میں اپنے اصل موضوع پر آتا ہوں۔
نیپال میں جہاں بہت سے بزرگوں کا فیضان جاری رہا ہے وہیں ہمارے بہت سے علمائے کرام نے بھی یہاں اسلام کا چراغ روشن کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے، انھیں میں سے ترائی علاقے کی ایک مشہور و معروف شخصیت کا نام حضرت شیر نیپال علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ ہے، جنھوں نے اپنی تمام عمر دین اسلام کے لیے وقف کر دی ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عقل و شعور کی منزل پر پہنچنے کے بعد میں نے اپنے محترم والد صاحب قبلہ کو دیکھا کہ وہ بار بار کسی ’’بڑے مولانا صاحب‘‘ کا تذکرہ کیا کرتے، جب بھی کبھی دینی بات ہوتی تو میں ان کی زبان سے یہ جملہ سنتا: ’’بڑے مولانا صاحب نے کہا، صوفی صاحب نے کہا، شیر نیپال نے فرمایا‘‘۔ میں سوچتا تھا یہ کوئی تین بڑے مولانا ہوں گے اور واقعی میں یہ لوگ بڑے مولانا ہی ہوں گے جبھی تو صرف ہمارے والد صاحب ہی نہیں بلکہ گاؤں کے دیگر افراد بھی انھیں کا نام لیا کرتے ہیں، پھر میں نے ایک دن ایک دبلے پتلے، کمزور جسم والے مولانا کو اپنے ہی گاؤں میں کسی کے یہاں میلاد شریف میں دیکھا، جنھیں کوئی صوفی صاحب کہہ رہا تھا تو کوئی بڑے مولانا صاحب، کوئی شیر نیپال صاحب، تب مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ تین نام ایک ہی فرد کے ہیں۔
مجھے اس وقت صوفی صاحب کا معنیٰ تو نہیں معلوم تھا لیکن بڑے مولانا کا مطلب میں نے اتنا ضرور سمجھ لیا کہ یہ سب سے بڑے ہوں گے یہاں، جبھی تو انھیں سب بڑے مولانا کہتے ہیں، لیکن یہ بات میری طفلانہ سمجھ سے باہر تھی کہ اتنا دُبلا پتلا مولانا ’’بڑے مولانا‘‘ کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر ایسا ہوا کہ ہمارے والد محترم نے مجھے دار العلوم غوثیہ رضویہ اہل سنت، محلہ کٹھوتیہ سدھارتھ نگر بھیرہواں (نیپال) میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل کرا دیا، پھر جب ان کے درس میں بیٹھا اور جب انھوں نے علم کے دریا بہانا شروع کیا تو سمجھ میں آیا کہ لوگ انھیں بڑے مولانا اور شیر نیپال کیوں کہتے ہیں؟ یہ واقعی میں بڑے مولانا ہیں اور شیر نیپال بھی۔
میں اپنے لیے انتہائی سعادت کی بات سمجھتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے مجھے اپنے مشفق و کریم استاذ، نمونۂ اسلاف، تواضع وبے نفسی کے پیکر، اخلاقِ نبوی کی چلتی پھرتی تصویر، رہبرِ قوم و ملت، ناشر مسلک اعلیٰ حضرت، استاذالاساتذہ، ممتاز العلماء، جامع معقول و منقول، نمونۂ اصفیا، صاحب زہد و تقویٰ، عالم نبیل، فاضل جلیل، شیر نیپال، حضرت علامہ الحاج الشاہ صوفی محمد صدیق خان صاحب ادام اللہ تعالیٰ ظلہ کی حیات و خدمات پر قلم اُٹھانے کا شرف بخشا۔
بلا شبہ آپ کی ذات با برکات ان پاکیزہ نفوس میں سے ہے، جنھوں نے اپنی قیمتی زندگی دین اسلام کے لیے وقف کر دی ہے اور اپنا تمام وقت افراد سازی میں لگا کر قوم و ملت کو قابل ترین سپاہی عطا کیے ہیں، یوں تو کہنے کو آپ دار العلوم غوثیہ رضویہ اہل سنت بھیر ہوا کے رئیس الاساتذہ ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پورے علاقے کے تمام مدارس ومساجد آپ ہی کی مرہون منت ہیں، یہاں ہر عالم بالواسطہ یا بلا واسطہ آپ ہی کا شاگرد ہے۔ کیوں کہ جس زمانے میں آپ نے یہاں قدم رکھا تھا اس وقت یہ علاقہ تعلیمات اسلامی کے معاملے میں بالکل بنجر تھا، آپ نے شب و روز کی مسلسل کاوش اور بے لوث خدمت کے نتیجے میں ان اُجڑی آبادیوں کو گل و گلزار بنا دیا ہے۔
آج نیپال کے ترائی علاقے میں دین کی جو بہاریں ہیں، مسلک اعلیٰ حضرت کا فیضان ہے، باطل فرقوں پر رعب و دہشت کا غلبہ ہے، یہ سب آپ ہی کی محنتوں کا ثمرہ ہے۔
اللہ رب العزت کا بے پناہ شکرو احسان ہے کہ اس نے اپنے محبوب پاکﷺ کے صدقے میں اس مرد جری، شیر مذہب و مسلک کی شکل میں ہمیں ایک عظیم نعمت عطا فرمائی۔ اللہ رب العزت اپنے حبیب پاک صاحب لولاکﷺ کے طفیل حضرت صوفی صاحب قبلہ کو صحت وتندرستی اور عمر خضر عطا فرمائے، ان کا سایہ ہم پر تا دیر قائم رکھے۔ آمین یارب العالمین۔
جب حضرت صوٖفی صاحب قبلہ کی حیات وخدمات پر ایک رسالہ ترتیب دینے کی نیت ہوئی تو میں نے اس کا ذکر سب سے پہلے حضرت صوفی صاحب قبلہ کے ایک چہیتے شاگرد، نوجوان عالم دین، مجاہد ملت، حضرت سید غلام حسین صاحب قبلہ مہتمم جامعہ فیضان اہل بیت نول پراسی (نیپال) سے کیا، جنھوں نے حضرت کی خدمات جلیلہ کے اعتراف میں مورخہ ۱۳ اپریل ۲۰۱۸ء کو سِکوں سے تولنے کا اعلان کیا ہے، میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر اسی موقع سے حضرت کی حیات و خدمات پر مشتمل ایک کتاب بھی آ جائے تو سونے پر سہاگہ ہو گا اور یہی حقیقت میں ان کی خدمات عظیمہ کا اصل اعتراف ہو گا، جسے دیکھ کر آنے والی نسلوں کو دین کا کام کرتے رہنے کا حوصلہ ملے گا اور مشکل گھڑی میں انھیں صبر و ضبط کا نسخہ بھی۔ یوں بھی اپنے بزرگوں، خاص کر اساتذہ کا احسان ماننا اور اسے ہر شخص تک پہچانا ہمارا فریضہ بنتا ہے۔
یہ سن کر حضرت سید صاحب موصوف خوش تو بہت ہوئے لیکن انھوں نے یہ کارِ اہم میرے ہی ذمے سپرد کر دیا اور انھوں نے اپنی خوش گمانی اور حسن ظن کی بنیاد پر فرمایا کہ یہ آپ ہی کر سکتے ہیں۔ بلکہ کہا کہ آپ کو کرنا ہی پڑے گا۔ سو میں نے بھی اللہ کا نام لے کر پختہ نیت کر لی کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ کی حیات و خدمات کا کماحقہ تعارف اگرچہ نہیں پیش کر سکتا لیکن اپنی بساط کے مطابق ضرور کوشش کروں گا۔
اگرچہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اسی وقت سے حضرت کاسراپا ہمارے سامنے ہے، پورے پانچ سال تک آپ کے علمی سمندر سے اپنے ظرف کے مطابق میں نے بھی سیرابی حاصل کی ہے، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں انھیں کا فیضان ہے۔ لوگ پڑھاتے ہیں انھوں نے ہمیں پلایا تھا، یہ سب کچھ اپنی جگہ پر درست، لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے پاس وقت کم اور کام زیادہ تھا، پھر بھی میں نے اللہ کا نام لے کر کام شروع کیا اور اس سلسلے میں حضرت کے بہت سے شاگردوں سے مسلسل رابطے کیے، جسے بھی بتایا، اس نے سن کر خوشی کا اظہار کیا اور دعاؤں سے نوازا، میرا حوصلہ بڑھنے لگا اور اس طرح کام شروع ہو گیا۔
اس کتاب کی ترتیباس طور پر ہوئی ہے کہ پہلے حضرت کی حیات و خدمات اور خصوصیات پر ایک مختصر تحریر ہے، پھر علمائے کرام کے تاثرات پیش کیے گئے ہیں، ممکنہ حد تک شاگردوں اور ہم عصر علمائے کرام سے رابطہ کر کے مکمل حقیقت پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کہیں بھی حقیقت پر عقیدت کو غالب نہیں ہونے دیا گیا ہے، اس کے بعد بھی آپ کی حیات کے بعض ایسے گوشے ہیں جہاں تک رسائی نہیں ہو سکی ہے، شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کسی احسان شناس فرد کو حوصلہ عطا کرے جو کماحقہ یہ کام انجام دے سکے۔
بہت بڑی ناشکری ہو گی اگر اُن احباب کا تذکرہ نہ کیا جائے جنھوں نے اپنا قیمتی وقت دیا اور مشکلات کو آسان بنانے میں اہم رول ادا کیا، اس سلسلے میں سب سے زیادہ کاوشیں دامادِ شیر نیپال حضرت علامہ مولانا غلام سرور صاحب قبلہ فیضیؔ، موضع بینی پور، روپندیہی نیپال کا ہے، جنھوں نے روزِ اول سے میرا ساتھ دیا، ان مدارس کے نام جمع کیے جن کی حضرت نے بنیادیں رکھیں، اور جن کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ مزید انھوں نے کچھ ایسے احباب سے رابطہ کیا جنھوں نے کتاب کی اشاعت میں حصہ لیا، اس کام میں حضرت مولانا اکبر علی قادری، استاذ مدرسہ غوثیہ بینی پور نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
پھر ہمارے محب محترم علامہ مظہر علی علیمیؔ نظامیؔ کا تو ذکر ہی کیا، یوں سمجھیے کہ وہ میرا ہر کام سنتے بعد میں ہیں تائید و حوصلہ افزائی پہلے ہی کر دیتے ہیں، ان کی محبت ہی کچھ ایسی ہے۔
ان احباب کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ میں اپنے ادارے کے استاذ عالم نبیل، حضرت علامہ مفتی محمد صادق مصباحیؔ صاحب قبلہ اور حضرت مولانا نور محمد مصباحیؔ جامعیؔ صاحب کا مشکور ہوں جن میں سے اول الذکر نے رسالے پر نظر ثانی فرمائی اور ثانی الذکر نے کتابت کا فریضہ انجام دیا۔
مزید اُن اکابر علمائے کرام اور مخصوص احباب کا بھی بے حد شکریہ جنھوں نے مجھ حقیر کی گزارش قبول فرماتے ہوئے حضرت صوفی صاحب قبلہ کے بارے میں اپنے قلبی تاثرات عنایت کیے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ عالی میں دعا ہے کہ اپنے حبیب صاحب لولاکﷺ کے صدقہ و طفیل میری یہ ادنیٰ سی کاوش قبول فرمائے اور حضرت ممدوح مکرم کو صحت وتندرستی اور عمر خضر عطا فرمائے۔
غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحیؔ نظامیؔ
مدرسہ عربیہ، سعیدالعلوم، یکماڈپو، لکشمی پور، ضلع مہراج گنج، یوپی
2 اپریل 2018ء
حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حامدا ومصلیا و مسلما
اسم گرامی: محمد صدیق خان
والد محترم: جناب محمد اسحاق خان مرحوم ابن جناب داجو خان مرحوم
والدہ محترمہ: محترمہ خدیجہ مرحومہ
ولادت: ۲۷ جولائی ۱۹۴۶ء
سکونت: روہنی گاؤں پالیکاوارڈ ۲۔ کھرہریا ضلع روپندیہی (نیپال)
ابتدائی تعلیم: آپ نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے براوں شریف کا سفر:
آپ کے زمانۂ طالب علمی میں نیپال کا ترائی علاقہ ضلع، روپندیہی، کپل وستو، نول پراسی [جو انڈیا کے ضلع مہراج گنج سے متصل ہے] مکمل اسلامی روایات سے نا آشنا تھا، پورے علاقے میں کوئی عالم نہ تھا۔ ضلع روپندیہی، نیپال کے ترائی اور اس سے متصل بھارت کے علاقے میں اعلیٰ تعلیم دینے والے مدارس اسلامیہ کی بہت قلت تھی، مکاتب بھی خال خال تھے۔
آپ کے دادا، داجو خان مرحوم جو ایک نیک اور پرہیز گار انسان تھے، دنیاوی امور سے مکمل لاتعلق ہو کر انھوں نے مستقل طور پر گاؤں کے باہر اپنے باغ میں ایک کٹیا بنا رکھی تھی، جس میں وہ شب وروز عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ ان کا کھانا پانی بھی وہیں پہنچایا جاتا تھا، وہ عالم تو نہ تھے مگر اہل علم سے محبت رکھتے تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ میرا پوتا ایک قابل اور با عمل عالم دین بنے۔ اسی درمیان آپ کو پھرینیا سنولی، مہراج گنج کے عبد الغفار (مرحوم) کی زبانی معلوم ہوا کہ براؤں شریف میں ایک ادارہ دار العلوم فیض الرسولہے، جہاں مکمل دینی تعلیم ہوتی ہے، اس سے آپ کو حد درجہ خوشی ہوئی، چناں چہ آپ نے عبد الغفارمرحوم کے ہمراہ اپنے پوتے (صوفی صاحب قبلہ) کو لے کر دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف کے لیے رختِ سفر باندھا اور وہاں جا کر آپ کا داخلہ کرا دیا۔
واضح ہو کہ جس وقت آپ نے براؤں شریف میں بہ حیثیت طالب علم قدم رکھا، وہاں وقت کے نامور اساتذہ موجود تھے اور خود حضور شعیب الاولیا بھی با حیات تھے، وہاں فن تفسیر و حدیث، فقہ واصول فقہ، منطق ومعقولات کے ماہرین کی ایک معتد بہ تعداد تھی، جن کا ہندوستان میں شہرہ تھا اور آج بھی ان کا نام آتے ہی اہل علم و ادب کے سر ادب سے جھک جاتے ہیں۔
دستار فضیلت
آپ نے پوری محنت اور لگن کے ساتھ دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف میں تعلیم و تربیت حاصل کی، آپ کے ہم عصر اور ہم درس عالم دین حضرت علامہ مفتی محمد قدرت اللہ رضوی جو دار العلوم غوثیہ رضویہ اہل سنتنورالعلوم، کٹھوتیا بھیر ہوا میں ہم لوگوں کا سالانہ امتحان لینے آیا کرتے تھے، وہ اکثر بتایا کرتے تھے کہ: پورے ادارے میں حضرت صوفی صاحب قبلہ کی ایک الگ پہچان تھی۔ دنیا داری سے بالکل الگ، بچوں کے بچپن کے کھیل کود سے بے نیاز، کسی گوشے میں بیٹھ کر ہمہ وقت سبق یاد کرنے اور آنے والے کل کا درس حل کرنے میں مشغول رہتے، جس کی وجہ سے طلبہ تو آپ کا احترام کرتے ہی تھے، اساتذہ بھی آپ سے بے حد محبت و شفقت فرماتے تھے۔ آپ نے کل آٹھ سال تک فیض الرسول براؤں شریف میں تعلیم حاصل کی اور ۳ ذوالقعدہ ۱۳۸۴ ہجری میں آپ کے سر پر وقت کے نامور اور مشاہیر علما و دانشوران کے ہاتھوں دستار فضیلت سے سرفرزا کیا گیا۔
صوفی کا لقب
حضرت صوفی صاحب قبلہ کی ذات با برکات محتاج تعارف نہیں۔ تقویٰ و طہارت میں حضور خطیب البراہین کے بعد اس علاقے میں حضور صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ کا نام آتا ہے۔ بلکہ اس پورے علاقے میں علما اور عوام کے درمیان صرف دو ہی لوگ اپنے تقویٰ و طہارت کی بنیاد پر صوفی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ جن میں پہلی ذات مرشد طریقت، حضور صوفی نظام الدین کی ہے، اور دوسری ذات حضرت شیرِ نیپال کی ہے۔
’’صوفی صاحب‘‘ کا لاحِقہ آپ کے ساتھ ایسا خاص ہوا کہ اکثر عام لوگ اب تک آپ کے اصل نام سے واقف نہیں ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں خود حضرت سے استفسار کیا تو آپ نے بتایا کہ مجھے طالب علمی کے زمانے سے ہی کتابیں پڑھنے اور وقت پر نماز کے علاوہ کسی اور امر سے شغف نہیں تھا، بچے کھیل کھیلتے تھے مگر نہ جانے کیوں مجھے اس میں کبھی کوئی دل چسپی نہیں تھی، میری یہی فطرت دیکھ کر مجھے حضور شعیب الاولیاء ’’صوفی‘‘ کہا کرتے تھے اور مجھے اسی نام سے تمام اساتذہ بھی پکارا کرتے تھے، پھر میرے ہم سبق ساتھیوں نے بھی میرا اصل نام بھلا کر مجھے اسی لقب سے یاد کرنا شروع کر دیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایک ولی کامل نے حضرت کو یہ لقب محبت و شفقت میں عطا کیا تھا اس لیے اللہ رب العزت نے ساری زبانوں پر یہی لقب عام فرما دیا۔
مادر علمی سے بے انتہا محبت
حضرت نے بہ زبان خود بتایا کہ ایک بار براؤں شریف میں دوران تعلیم کچھ معاملہ ہو گیا، جس کی وجہ سے اکثر طلبہ نے اپنا بوریا بستر باندھ کر یہاں سے جانے کا عزم مصمم کر لیا، جب حضور شعیب الاولیاء تک یہ بات پہنچی تو انھوں نے طلبہ کو بُلایا اور ان سے وجہ پوچھی، سب خاموش رہے، پھر انھوں نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا: ’’صوفی صاحب‘‘ آپ کا کیا ارادہ ہے؟ تو میں نے اس وقت برجستہ کہا کہ: ’’حضور والا! میں نے اس ادارے کا دانہ کھایا ہے، یہاں کے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کی ہیں، میں نمک حرامی نہیں کر سکتا، چاہے سب چلے جائیں مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے، میں آپ کے زیر سایہ اور انھیں اساتذہ کے قدموں میں رہوں گا‘‘۔
میرا جواب سُن کر حضور شعیب الاولیاء بے انتہا خوش ہوئے اور تمام اساتذہ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’آپ لوگ بہت گھبرائے ہوئے ہیں، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، اب مجھے کوئی غم نہیں ہے، چاہے سب چلے جائیں، کیوں کہ یہ ایک بچہ ہے جس پر ہمیں ناز ہے، اس لیے کوئی رہے نہ رہے، آپ سب مل کر اسی ایک بچے کو پڑھائیں، آپ لوگوں کی عزت میں کوئی کمی نہیں آئے گی، کیوں کہ سو [100] بچے جو ناقدرے ہوں ان کو پڑھانا بے سود ہے۔ یہ ایک ہی بچہ جو اساتذہ کا قدردان اور ادارے کا وفادار ہے اس کو پڑھانا ہی آپ کے لیے سَو کو پڑھانے کے برابر ہے۔‘‘
اس واقعے سے جہاں حضور صوفی صاحب قبلہ کی اپنے پیر و مرشد اور اساتذہ کی بارگاہوں میں مقبولیت کا پتہ چلتا ہے وہیں طالبان علوم نبویہ کے لیے بڑی نصیحتیں بھی ہیں:
وہ یہ کہ اہل سنت و جماعت کے سبھی ادارے قابل تعظیم و تکریم ہیں لیکن جہاں طالب علم کو رہنے، سہنے، کھانے، پینے اور سب سے بڑی بات تعلیم حاصل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے، اسے اپنے اُس ادارے سے دِلی محبت رکھنا چاہیے، اساتذہ کا حد درجہ احترام کرنا چاہیے، کیوں کہ و الدین جسم کے مُربّی ہیں اور اساتذہ روح کے مربّی ہیں۔ بہت افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے دینی اداروں میں طلبہ کے اندر اپنے اساتذہ سے قلبی لگاؤ اور اپنے مادر علمی سے محبت و عقیدت کا رشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے، جو برکتوں سے محرومی کا باعث ہے۔
بدر ملت اور فقیہ ملت، آپ کے گھر
زندگی کے نشیب و فراز سے کبھی نہ کبھی ہر ایک شخص کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے، کچھ الجھنیں ایسی ہوتی ہیں جو انسانی حیات کو ایک ڈگر سے دوسری ڈگر کی طرف مائل کر دیتی ہیں، کچھ ایسا ہی معاملہ حضور صوفی صاحب قبلہ کے ساتھ بھی پیش آیا۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ نے بتایا کہ: ایک بار ایسا ہوا کہ میں کچھ الجھنوں کے سبب براؤں شریف سے تعلیم ترک کرنے کا ارادہ کر کے گھر چلا آیا۔ یہ بات جب بدر ملت حضرت علامہ بدرالدین اور حضرت فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین امجدی کو ہوئی تو یہ دونوں مشفق اساتذہ میرے گھر چلے آئے اور مجھے مسجد میں بُلا کر سمجھایا اور فرمایا کہ: اگر کوئی عام طالب علم، تعلیم ترک کر کے آتا تو شاید ہم اسے بُلانے نہیں آتے، مگر ہمیں آپ کی باطنی صلاحیت اور استعداد اچھی طرح معلوم ہے، آپ سے دین کا بڑا کام ہو گا، اس لیے آپ کا پڑھنا ضروری ہے، پھر مجھ سے مسجد ہی میں تعلیم جاری رکھنے کا اقرار کرایا اور پھر میں ان دونوں اساتذہ کی شفقتوں کے سبب دوبارہ براؤں شریف گیا اور تعلیم مکمل کی۔
بہ ظاہر یہ ایک معمول کا واقعہ لگتا ہے لیکن اگر اس کے پس منظر میں آپ بدر ملت حضرت علامہ بدر الدین اور حضرت فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین امجدی کی عظیم ہستیوں کو ملاحظہ کریں تو احساس ہو گا کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ واقعی بچپن کے زمانے ہی سے اپنے مرشد اور اساتذہ کی بارگاہوں میں مقبول و محبوب تھے، ورنہ وقت کے یہ دو بڑے علما آپ کو بلانے آپ کے گھر تک نہ آتے۔
اس کی اہمیت خاص کر مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ اور علما بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ مدارس میں سیکڑوں طلبہ کی آمد و رفت ہوتی رہتی ہے، کچھ آتے ہیں، کچھ جاتے ہیں، اساتذہ کو کیا فرق؟ انھیں پڑھانا ہے، پڑھاتے ہیں، لیکن ہاں! جب کوئی ذی استعداد طالب علم جس کے بارے میں انھیں احساس ہو کہ اس سے قوم کا روشن مستقبل وابستہ ہے، اگر وہ چلا جائے تو اساتذہ بے قرار ہو جاتے ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ایسا طالب علم دوبارہ اپنی تعلیم جاری کر لے، وہ اس کے لیے ممکنہ جد و جہد سے ہرگز نہیں کتراتے۔ بلا شبہ حضرت صوفی صاحب قبلہ سے قوم کا تابناک مستقبل وابستہ تھا (جو آج جگ ظاہر ہے) جسے اساتذہ نے اپنی فراست باطنی سے محسوس کیا اور اپنی ذمہ داری نبھائی۔
آپ کے سر پر دستار فضیلت باندھنے والے علما و مشائخ
۳ ذوالقعدہ ۱۳۸۴ہجری کو دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف کے سالانہ جلسۂ دستار بندی کے موقع پر حضور شعیب الاولیاء اور اساتذۂ فیض الرسول کی موجودگی میں وقت کی نابغۂ روزگار شخصیت، حضور حافظ ملت حضرت علامہ و مولانا الحاج عبد العزیز محدث مراد آبادی ثم مبارک پوری اور حضور بدر ملت علامہ بدر الدین، اور حضرت سید آل رسول نے آپ کے سر مبارک پر دستار فضیلت رکھی۔
حضور بدر ملت کا فرمان
اس موقع پر نمونۂ سلف حضور بدر ملت نے حضرت صوفی صاحب قبلہ کے سر پر دستار باندھتے ہوئے ارشاد فرمایا: صوفی صاحب، فیض الرسول کی شان ہیں جو محض عالم نہیں بلکہ با عمل عالم بنے ہیں، یہ ایسے طالب علم ہیں کہ صرف انھیں جیسوں کو دستار دینا چاہیے۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ نے جس محنت اور جاں فشانی سے تعلیم حاصل کی، آپ کے رفقا اور اساتذہ اس کے گواہ ہیں۔ اور جس خلوص و ایثار کے ساتھ تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں تمام شاگرد اس کے شاہد ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں اگر ہم لوگوں سے کوئی سبق ناغہ ہو جاتا تو حضرت فرمایا کرتے کہ وقت کی قدر کرو، یہ وقت ایک بار ہی ملتا ہے اگر تم نے یہ وقت ضائع کر دیا تو سمجھو تم نے خود کو ضائع کر دیا۔
مزید بتاتے: کہ سنو میں نے اپنے تعلیمی دور میں کبھی کوئی سبق ناغہ نہیں کیا۔ بلا شبہ تحصیل علم میں محنت و مجاہدہ، اسباق کی پابندی اور درس میں حاضری کا غیر معمولی اہتمام، یہ وہ اسباب ہیں جو شخصیت سازی میں موثر کردار ادا کرتے اور مستقبل کی زندگی کا رخ طے کرتے ہیں۔
حافظ ملت اور اکابر علما کی دعائیں
حضرت صوفی صاحب قبلہ نے خود بتا یا کہ جس وقت میں براؤں شریف تعلیم حاصل کر رہا تھا، اس زمانے میں حضور حافظ ملت محدث مراد آبادی ثم مبارک پوری دو بار سالانہ امتحان کے موقع پر تشریف لائے، تو ان کی بارگاہ میں امتحان دینے کے لیے مجھے اور میرے ہم سبق ساتھی مفتی قدرت اللہ صاحب قبلہ کو پیش کیا گیا، انھوں نے تفسیر و حدیث اور فقہ و اصول فقہ کی کتابوں کا امتحان لیا، عبارتیں پڑھوائیں، ان کی تشریحات دریافت کیں اور پھر کچھ مزید سوالات کیے، جن کے مکمل جوابات ہم دونوں نے بہت ادب کے ساتھ دیے، یہ دیکھ کر حضور حافظ ملت بہت خوش ہوئے اور ہمیں بہت ساری دعائیں دیں اور علم کے ساتھ عمل صالح کی تاکید اور نصیحت فرمائی۔ بعض فاضلین فیض الرسول نے بتایا کہ: اسی موقع پر حضور حافظ ملت نے فرمایا کہ: فیض الرسول میں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کہ ہم نے دوران تعلیم، مصنف قانون شریعت حضرت علامہ شمس الدین اور حضرت علامہ رفاقت حسین، پرنسپل احسن العلوم قدیم کو بھی سالانہ امتحانات دیے۔ ان بزرگوں نے بھی ہمیں بہت ساری دعائیں دیں اور مسرتوں کا اظہار کیا۔
حضور فقیہ ملت بہت خوش ہوئے
وارثین انبیا کی شان نرالی ہوتی ہے، وہ نفس پرستی سے دور ہو کر ہر عمل میں صرف اور صرف اخلاص کو پیش نظر رکھتے ہیں، وہ اپنے سے چھوٹوں سے مشورہ کرنے یا ان سے کوئی مسئلہ پوچھنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے، کچھ یہی شان حضور فقیہ ملت کی بھی تھی، جیسا کہ حضور صوفی صاحب قبلہ نے ایک موقع پر ہمیں بتایا:
ایک بار حضور فقیہ ملت کو ’’شرح وقایہ‘‘ کی ایک عبارت کی تفہیم میں شک وارد ہوا تو انھوں نے مجھے بلایا، میں نے اس عبارت پر تھوڑی دیر غور کیا اور کہا کہ حضرت یہ عبارت اصل میں ’’دفع دخل مقدر‘‘ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے۔ حضرت نے دوبارہ غور کیا تو واقعی وہی بات تھی جو میں نے عرض کیا تھا، اس موقع پر حضور فقیہ ملت بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ میں آپ کو دل سے دعائیں دیتا ہوں۔
نوٹ: اس میں تعجب کی بات نہیں ہے بلکہ ایسا ہر ایک کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ استعداد و صلاحیت کے باوجود بعض اوقات کوئی بات ذہن میں نہیں آتی۔ لیکن اس سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک استاذ کے لیے ضروری ہے، وہ بغیر خود سمجھے کوئی بات اٹکل پچھو شاگردوں کو نہ پڑھائے، کیوں کہ طالب علم کا کل سرمایہ اس کا استاذ ہی ہوتا ہے۔ وہ کتاب سے زیادہ اسی پر اعتماد کرتا ہے۔ اس واقعے سے حضور فقیہ ملت کا انکسار بھی سمجھ میں آتا ہے اور حضور صوفی صاحب قبلہ پر ان کا اعتماد بھی۔
میدان تدریس کا انتخاب
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شخصیت سازی کے عوامل میں مدرسہ ایک اہم عامل ہے، اچھے مدارس اور باصلاحیت اور مشفق اساتذہ ہوں تو اسی مزاج میں طالب علم کی شخصیت بھی تشکیل پاتی ہے۔ آپ نے فیض الرسول کے جس حسین دور میں، جن مشفق اساتذہ کی بارگاہوں سے علم دین کا فیض حاصل کیا اس نے آپ کی شخصیت پر مثبت اثر ڈالا تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے اساتذہ کی طرح پڑھنے، پڑھانے اور تبلیغ دین اسلام کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا یا۔
بڑھیا میں تدریسی خدمات
ذوالقعدہ ۱۳۸۴ھ میں تکمیلِ تعلیم کے بعد آپ مدرسہ غوثیہ اہل سنت فیض العلوم بڑھیا سدھارتھ نگر یوپی (انڈیا) میں تشریف لے آئے اور یہاں درس و تدریس کا آغاز فرمایا اور آٹھ سال تک آپ نے انتہائی حسن و خوبی کے ساتھ تدریس کا فریضہ انجام دیا۔
بڑھیا میں تعلیمی، تعمیری، تبلیغی خدمات
جس وقت آپ بڑھیا میں تشریف لائے اس وقت مدرسہ غوثیہ اہل سنت فیض العلوم اپنے ابتدائی مراحل میں تھا، مدرسہ کی اپنی کوئی مستقل عمارت بھی نہ تھی، بل کہ ایک صاحب کے مکان میں چلایا جا رہا تھا، جسے حضرت نے اپنی مسلسل کوششوں اور خلوص و ایثار کے بل بوتے ترقیوں کی منزل پر گامزن کیا۔ بڑھیا میں آپ کے زیرسایہ رہ کر تعلیم حاصل کرنے والے آپ کے شاگرد بتاتے ہیں کہ حضرت کی آمد کے چند ہی ایام گزرے تھے کہ پورے علاقے میں ہر چہار جانب آپ کے علم و فضل اور تقویٰ شعار زندگی کا شہرہ ہو گیا، جس کے سبب ادارے میں اس کثرت سے طلبہ کی آمد ہونے لگی کہ بچوں کے قیام کی جگہ کم پڑ گئی، پھر آپ نے علاقے کا دورہ کیا، اہل قریہ کو ادارے کی ضرورت کی طرف راغب کیا، انھیں بتایا کہ مدرسے ہیں تو ہمارا وقار ہے، مدرسے ہیں تو شعار اسلام محفوظ ہے، مدرسے ہیں تو ہمارا اسلامی طور طریقہ اور رسم رواج موجود ہے، ورنہ ان کے بغیر ہم ایسے ہی ہیں جیسے بے روح کے جسم۔
آپ کی پُر خلوص گزارش کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے دولت و ثروت کی قلت کے باوجود آپ کی اپیل پر لبیک کہا اور ہر طرح سے دامے، درمے، قدمے، سخنے آپ کا ساتھ دیا، تعاون کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک معتبر ادارے کی تعمیر مکمل ہو گئی۔
آپ نے تدریسی خدمات کے علاوہ علاقۂ بڑھیا میں تبلیغی دورے بھی شروع کیے اور پیدل جا جا کر لوگوں کو اسلامی اصول و عقائد کے تئیں بیدار کیا، احکام و قوانین اسلام پر عمل کرنے کی رغبت دلائی، مسلک اعلیٰ حضرت کی حقانیت پر تقریریں کیں۔ عبادات اسلام کی اہمیت و فضیلت محسوس کرائی۔ یوں آپ کے جہد مسلسل نے پورے علاقۂ بڑھیا کو بقعۂ نور بنا دیا۔
آپ کی بے لوث خدمت کا ثمرہ یہ ہوا کہ پورے علاقے کے لوگ آپ کے گرویدہ ہو گئے۔ آج بھی اہل بڑھیا حضرت کی بارگاہ میں اپنی عقیدتوں اور محبتوں کا خراج پیش کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے، زمانے کے نشیب و فراز نے آپ کے ہم عصر افراد کو اگرچہ زیر خاک کر دیا ہے اور آپ کے شاگردوں کی شکل میں کچھ ہی افراد وہاں با حیات ہیں لیکن جانے والوں اور باقی رہ جانے والوں نے اپنی موجودہ نسلوں کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے کہ: کوئی مرد قلندر تھا جس کی آٹھ سالہ جی توڑ محنتوں اور قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، جس نے ہمیں دور غربت میں دور اَمیری کا احساس کرایا تھا، جس نے اسلامی اصول و قوانین سے آشنائی کرائی تھی، جس نے اپنے سراپا میں علم و عمل کا سراپا دکھا کر ہمیں بھی اسی راہ پر چلنے کا حوصلہ بخشا تھا۔ آج بھی آپ بڑھیا چلے جائیں، کسی سے صوفی صاحب کے بارے میں پوچھیں وہ ضرور آپ کو حضرت صوفی صاحب کے فضائل و مناقب کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور بیان کرتا ہوا نظر آئے گا۔
مدرسہ غوثیہ بھیرہواں میں آمد
مدرسہ غوثیہ اہل سنت فیض العلوم بڑھیا سدھارتھ نگر میں آپ کا زہد تقویٰ اور تعلیم و تربیت کا انداز دیکھ کر ہر کوئی آپ کا گرویدہ تھا ان کی خواہش تھی کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ تا حیات یہیں رہیں اور اس علاقے کو بقعۂ نور بناتے رہیں، آپ کو بھی یہاں ہر طرح کی سہولت میسر تھی، لیکن اس کے باوجود آپ کو اپنے علاقے کی بے علمی، بے عملی، بے راہ روی بار بار تصور ات میں آ کر اس بات کی طرف مجبور کرتی تھی کہ وہ یہاں آ کر علم و ہنر کی شمع روشن کریں اور اسے علم کی ضیا بار کرنوں سے آشنا کریں۔
اسی درمیان بھیر ہوا علاقے کے چار معزز حضرات [الحاج خلیل احمد مرحوم، الحاج رحم اللہ عرف بڑھگر مرحوم، الحاج حسرت علی مرحوم، الحاج عبد الغفور مرحوم] نے یہ تہیہ کر لیا کہ کسی بھی طرح حضرت صوفی صاحب قبلہ کو بھیرہواں میں بُلایا جائے، تاکہ یہاں دین وسنیت کا کام آگے بڑھ سکے۔ یہ عزم و حوصلہ لے کر۱۳۹۲ھ مطابق ۱۹۷۲ء میں یہ حضرات براؤں شریف پہنچے اور اس کا ذکر حضور شعیب الاولیاء سے کیا۔ آپ نے اس وقت کے نابغۂ روزگار اساتذۂ فیض الرسول سے مشورہ کیا تو سب نے بیک زبان حضرت صوفی صاحب قبلہ کا نام لیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ آپ اس وقت بڑھیا میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے تھے اور وہاں کے احباب، حضرت کی جدائی کسی بھی طرح گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ پھر یہ احباب بڑھیا پہنچ گئے اور وہاں جا کر حضرت صوفی صاحب قبلہ سے گزارش کی کہ آپ کسی بھی حال میں بھیرہواں چلیں اور وہاں اُبھرتی ہوئی بد عقیدگی کا خاتمہ کریں۔
اس کا احساس تو آپ کو پہلے ہی سے تھا، اس لیے آپ نے اس سلسلے میں حضور بدر ملت سے گزارش کی اور ارکان مدرسہ غوثیہ اہل سنت فیض العلوم بڑھیا کو بھی اس ضرورتِ شدیدہ کا احساس دلایا، لیکن وہ کسی صورت ماننے کو تیار نہ تھے اور کسی بھی صورت میں حضرت صوفی صاحب قبلہ کو بڑھیا سے بھیجنے پر راضی نہ تھے، آخر کار حضرت نے اپنے علاقے کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ارکان مدرسہ بڑھیا کو اپنا استعفا سونپ دیا، تب انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ صرف دو مہینے کے لیے بھیرہواں جائیں اور جیسے ہی وہاں کسی معتبر عالم کا انتظام ہو جائے آپ یہاں چلے آئیں، آپ کا استعفا منظور نہیں ہے۔ آپ بدستور یہاں کے صدر المدرسین ہیں۔
اس طرح آپ نے ۱۳۹۲ ھ میں نیپال کے مشہور شہر، بھیر ہوا کے محلہ کٹھوتیا میں ایک چھوٹے سے مکتب بنام مدرسہ اہل سنت غوثیہ نور العلوم کو رونق بخشا، چوں کہ جہد مسلسل آپ کی فطرت ثانیہ ہے، اس لیے آپ نے یہاں آ کر مکمل حوصلے اور جذبے کے تحت خدمت دین متین اور تدریس وتعلیم کو اپنا مشن بنایا اور محض ۲ سال کے مختصر عرصے میں اس چھوٹے سے مکتب کو ایک کامیاب دار العلوم کی شکل میں تبدیل فرما دیا، جہاں درجہ حفظ و قرأت اور درس نظامی کی تعلیم دی جانے لگی اور پھر آہستہ آہستہ یہ ادارہ علاقے کے سنیوں کی جان بن گیا اور اسے حضرت صوفی صاحب قبلہ کی ذات نے ایک مرکزی حیثیت دے دی۔
ادھر ’’بڑھیا‘‘ کے احباب کی محبت و عقیدت کا حال یہ تھا کہ مکمل دو سال تک انھوں نے حضرت صوفی صاحب قبلہ کا نام اپنے رجسٹر میں برقرار رکھا اور اس آس میں رہے کہ اب حضرت صوفی صاحب قبلہ تشریف لے آئیں گے، اب ہماری تشنگی بجھائیں گے۔ لیکن حضرت کا احساس ذمہ داری اور مسلک اعلیٰ حضرت کی تبلیغ و اشاعت کا جذبۂ بیکراں انھیں بھیر ہوا نیپال کے کوردہ علاقے کو آباد کرنے پر اُبھارتا رہا اور یوں دوسال کا عرصہ گزر گیا، پھر یوں ہوا کہ آپ رمضان شریف میں ممبئی تشریف لے گئے اور ایک صاحب کے پاس پہنچے تو انھوں نے بھیرہواں اور بڑھیا دونوں مدرسوں کی روداد دیکھ کر کہا: یہ کیا بات ہے کہ دونوں مدرسے کے صدرالمدرسین ایک ہی ہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
ان صاحب سے حضرت صوفی صاحب قبلہ اور بڑھیا مدرسے کے ذمہ دار نے پوری بات واضح کی تو وہ بہت خوش ہوئے کہ اور کہا کہ واقعی عالم ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ اس کے استعفا دینے کے بعد بھی اسے یاد کرتے رہیں یہاں تک کہ اس کی جدائی برداشت نہ کریں۔
لیکن اس واقعے کے بعد حضرت صوفی صاحب قبلہ نے اہل بڑھیا کو سمجھانے کا فیصلہ کر لیا اور جیسے ہی ممبئی سے واپس ہوئے، بعد رمضان بڑھیا تشریف لے گئے اور ایک بار پھر انھیں ملک نیپال کی ضرورت کا احساس دلایا تب کہیں جا کر انھوں نے آپ کا استعفا منظور کیا۔
ناظم تعلیمات
مدرسہ غوثیہ اہل سنت فیض العلوم بڑھیا سے آپ اگرچہ مستعفی ہو گئے لیکن وہاں کے احباب کے دلوں میں آپ کی محبت اور عقیدت برقرار تھی، اسی لیے جب فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی مدرسہ غوثیہ کے ناظم تعلیمات کے شعبے سے مستعفی ہوئے تو ان کی جگہ حضرت صوفی صاحب قبلہ کو مدرسہ کا ناظم تعلیمات منتخب کیا گیا۔
آپ کی آمد کے وقت کے حالات
جس وقت آپ شہر بھیر ہوا میں تشریف لائے اس وقت یہاں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی، نیپال ہندو راشٹر ہونے کی وجہ سے یہاں بہت ساری مشکلات تھیں، ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا تھا، طرفہ تماشہ یہ کہ پورے علاقے میں آپ کے علاوہ ایک بھی باضابطہ عالم دین نہیں تھا، جس کی وجہ سے خرافات و بدعات کا دَور دَورہ تھا۔ بھیر ہوا کی مرکزی مسجد اور شہر بُٹول نیز اس کے اطراف میں اہل باطل نے اپنے قدم جمانا شروع کر دیا تھا، لیکن اللہ کا کرم ہوا کہ حضرت نے اس بنجر خطے کو اپنا مرکز تبلیغ و تعلیم بنا لیا اور پوری تندہی کے ساتھ مسلک اہل سنت و جماعت و مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت و تبلیغ میں کوشاں ہو گئے۔
تبلیغی دوروں کا سلسلہ
آپ کو علاقے کی تمام کیفیات سے واقفیت تھی اس لیے آپ نے تعلیمی اوقات کے علاوہ خارجی اوقات میں دورہ فرما نا شروع کیا۔ آج تو ہر طرح کی تیز رفتار سواریوں کا انتظام ہو گیا ہے لیکن آپ نے اس وقت پیدل اور سائکل سے چل کر پورے علاقے کا دورہ شروع کیا، لوگوں کو دین کی دعوت دی، انھیں مدارس و مساجد کی اہمیت و ضرورت کا احساس دلایا، اس طرح اطراف کے کئی گاؤں میں آپ نے مکاتب کی بنیاد ڈالی، مساجد قائم کیے۔ آج نیپال کے تین ضلعوں ضلع روپندیہی، کپل وستو، نول پراسی، اور ہندوستان کے ضلع مہراج گنج اور سدھارتھ نگر میں بیشتر مدارس ومساجد آپ کی محنتوں، مشقتوں اور کاوشوں کی دین ہیں۔ اللہ کا فضل اور اس کے رسول گرامی وقارﷺ کا کرم ہے کہ آج انھیں کے قائم کردہ ادارے سے تعلیم حاصل کر کے علاقے میں درجنوں علما و حفاظ کی ایک کھیپ تیار ہو چکی ہے۔
شیر نیپال اور ناشر مسلک اعلیٰ حضرت کا لقب
آپ کے زہد و تقویٰ اور طہارت و پاکیزگی کے سبب آپ کو پہلے ’’صوفی صاحب‘‘ کے خطاب سے پکارا جا رہا تھا۔ لیکن جب اطراف و جوانب کے علما نے آپ کی خدمات ملاحظہ کیں تو متفقہ طور پر آپ کو ’’شیر نیپال‘‘ کے لقب سے یاد کرنے لگے، اور جب ہر لمحہ آپ کو مسلک اہل سنت و جماعت، مسلک اعلیٰ حضرت کے لیے تڑپتا دیکھا تو ’’ناشر مسلک اعلیٰ حضرت‘‘سے موسوم کر دیا، جو بلا شبہ آپ کے لیے بجا ہیں۔
شیر نیپال کا ایک نرالا انداز
رات کی تاریکیوں میں ہم خراٹے لے رہے ہوتے اور دور کہیں خوابوں کی کسی حسین وادی اور لالہ زار میں ٹہل رہے ہوتے، تبھی ایک زور دار، کڑک دار مگر پیار سے بھری آواز کانوں سے ٹکراتی، غیاث الدین کی جماعت کہاں ہے؟ صدر الدین کی جماعت کہاں ہیں؟ مظہر کی جماعت کہاں ہے؟ فلاں کی جماعت کہاں ہے؟ یہ آواز صرف ایک بار نہیں بلکہ اس وقت تک آتی رہتی جب تک ہم آنکھیں مَلتے بیدار نہیں ہو جاتے اور جیسے ہی بیدار ہوتے تو ایک دوسرا حکم ہوتا، ’’چلو، نحومیر لے کر آؤ‘‘ جلدی جلدی آؤ، ابھی اور جماعتوں کو بھی پڑھانا ہے۔ اُس زمانے میں میرے پاس گھڑی تو نہ تھی لیکن بعض دوستوں کے پاس بیٹری سے چلنے والی گھڑی تھی، جب اس میں ٹائم دیکھا جاتا تو کبھی رات کے دس، کبھی گیارہ تو کبھی بارہ اور کبھی کبھی ایک بھی بج رہے ہوتے۔ تو کوئی تعجب نہیں ہوتا۔
آپ جانتے ہیں یہ صدا لگانے والی ذات کون تھی، یہی صوفی صاحب تھے اور یہی شیر نیپال اور یہی بڑے مولانا بھی۔ جو بعض اوقات علاقے میں تبلیغی اور تعمیری دوروں کی وجہ سے دن میں سبق نہیں پڑھا پاتے تو راتوں کو پڑھاتے، چاہے جس طرح بھی ہوکسی دن کا درس ناغہ نہیں ہونے دیتے۔
اب یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کہ اس وقت ہم لوگوں کو کتنی تکلیف ہوتی تھی [اور بچپن کا زمانہ جو ماضی، حال اور مستقبل سے بے خبر ہوتا ہے اس میں تکلیف ہونی بھی چاہیے تھی۔] لیکن اب سوچتے ہیں تو وہ لمحے ایک خواب نظر آتے ہیں۔ کیا ایسا بھی کوئی استاذ ہو سکتا ہے جو اگر دِن میں نہ پڑھا سکے تو راتوں کو پڑھائے، مگر پڑھائے ضرور!!!
میلاد ہی میں درس کی محفل سج جاتی
کبھی ایسا ہوتا کہ ہم کسی میلاد کی محفل میں جاتے اور وہاں اگر کچھ تاخیر ہوتی تو وہیں درس کی محفل سج جاتی۔ چلو! بتاؤ، فعل کسے کہتے ہیں؟ فاعل کسے کہتے ہیں؟ حروف ناصبہ کتنے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
اسی کا نتیجہ تھا کہ ہمیں ہر وقت قواعدِ نحو و صرف پر نظر رکھنی پڑتی۔ کیوں کہ وہاں بھی ہماری خدمت ممکن ہو جاتی تھی۔
کبھی تھکے ہوئے آتے اور خدمت کے لیے کہتے، تو ایک طرف پیر دباؤ دوسری طرف کتاب سناؤ اور یوں بوقت خدمت موجودہ اور گزشتہ اسباق سب پوچھ ڈالتے اور اس طرح اوقاتِ خدمت کو بھی ضائع نہیں جانے دیتے۔
کبھی جب انھیں سائکل پر بٹھا کر کہیں جانا ہوتا تو اسی حال میں درسی سوالات شروع ہو جاتے اور منزل تک پہنچنے سے پہلے پہلے درجنوں سوالات کی بھرمار ہو جاتی اور سمجھانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ (یہ صرف میرا ہی نہیں بلکہ تمام شاگردوں کا تجربہ ہے)
آج ہمیں احساس ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے شاگردوں کو کتنی محنتوں سے پروان چڑھایا ہے۔ وہ چاہتے تو آرام کرتے، ان کو نہ کوئی ٹوکنے والا ہے، نہ بولنے والا، نہ اُن کے سامنے کسی کو بولنے کی ہمت، مگر میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو اسلام کی فکر تھی، امت محمدیہﷺ کی اصلاح کا جذبہ تھا اور آپ کی نظر میں ہمارا مستقبل تھا،ا س لیے آپ کی خواہش تھی کہ ہمارے ایک ایک لمحے کا درست استعمال ہو، ہم اسے ضائع نہ ہونے دیں۔ آج بھی ان کا یہی اصول و طریقہ ہے۔ مگر شرط ہے۔
جو ہوں پینے والے تو آج بھی وہی مینا ہے وہی جام ہے
انداز درس و تدریس
آپ جب مَسندِ تدریس پر تشریف فرما ہوتے ہیں تو طلبہ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ آپ کی باتوں پر دھیان لگاتے ہیں، پہلے کوئی طالب علم عبارت پڑھتا ہے، عبارت خوانی میں اگر کہیں طالب علم سے غلطی واقع ہوئی تو اس کی اصلاح فرماتے ہیں پھر توضیح کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ وہ یوں کہ پہلے سبق پر مختصر روشنی پھر ترجمہ اور مشکل الفاظ کی وضاحت کے ساتھ مکمل تشریح فرماتے ہیں۔ درس فقہ و اصول فقہ میں ترجمہ و تفہیم کے بعد اختلافی مسائل میں مطابقت پیدا فرماتے ہیں پھر مسائل اخذ کرنے کے طریقوں پر گفتگو ہوتی ہے۔ خاص کر درس قرآن و حدیث کے درمیان تدریس کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ادب، وقار اور طہارت کا خاص خیال رکھتے ہیں اور طالب علموں کو بھی اسی ادب کے ساتھ قرآن و حدیث پڑھنے کی تاکید فرماتے ہیں۔
جب آپ پڑھاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث، فقہ کے اصول اور اقوالِ علما نیز قواعد صرف و نحو اور رموزِ معقولات و منطق کھلی کتاب کی طرح آپ کے سامنے ہیں، اس وقت تک سمجھاتے ہیں جب تک کہ ان کو یہ احساس نہ ہو جائے کہ طالب علم کو پوری بات سمجھ میں آ چکی ہے۔ کسی دن کا درس ناغہ نہیں کرتے۔ اِلّا یہ کہ کوئی عذرِ حقیقی ہو۔ طلبہ کو ہمیشہ تاکید کرتے ہیں کہ سبق کے ساتھ ماقبل کے پڑھے ہوئے تمام اسباق ہمیشہ یاد رہنا چاہیے، مزید آنے والے سبق کا مطالعہ کر کے درس میں آنے کی ہمیشہ تاکید فرماتے ہیں۔
آپ کے تمام شاگرد یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کا تجربہ ہے کہ ’’حضرت اکثر کھانا کھانا تو بھول جاتے ہیں لیکن پڑھانا کبھی نہیں بھولتے۔‘‘
درس و تدریس بڑا مشکل کام
آج، ایک طرف تو یہ المیہ ہے کہ مدرسین کی وہ اہمیت نہیں جو مقر رین اور شعرا کی ہے، کسی صاحب قدر نے اہمیت دی تو بڑی بات ہے۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ آج بعض مدارس میں ایسے ایسے اساتذہ موجود ہیں جن کو خود ہی عبارت اور اس کی تشریح وتوضیح کا کچھ پتا نہیں اور مدرس بنے بیٹھے ہیں، ڈیسک کی آڑ میں شرح رکھ کر پڑھانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، انھیں یہ بھی توفیق نہیں ہوتی کہ کتاب اور شرح کتاب پہلے مطالعہ کر کے پھر پڑھانے بیٹھیں، اگر ایسا بھی کریں تو کوئی معیوب بات نہیں، لیکن انھیں اس کی بھی فرصت نہیں۔
مجھے ایک عینی شاہد نے ایک صاحب کے بارے میں بتایا کہ وہ پہلی فارسی کا درس دے رہے تھے اور بڑے طمطراق سے طلبہ کو سمجھا جا رہے تھے: ’’راہ فراخ‘‘ کا معنیٰ ہے، ’’فرخ آباد کا راستہ۔‘‘ مزید تشریح کرتے ہوئے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا رہے تھے کہ دیکھو فرخ آباد ایک بہت بڑا شہر ہے، جو ہمارے ہندوستان ہی کا ایک حصہ ہے۔ استغفر اللہ۔
اس لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ تدریس سب سے مشکل کام ہے اور اس کی بھر پور تیاری کر کے ہی درس گاہ میں بیٹھنا چاہیے۔ حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی نے بڑے کام کی بات فرمائی ہے:
’’آج تدریس کو یار لوگوں نے بہت آسان بنا لیا، علمی کاموں میں سب سے آسان تدریس کو سمجھا جانے لگا ہے، عالَم یہ ہے کہ مدارس میں ایسے ایسے لوگ مدرس ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تدریس ایک بہت اہم اور مشکل کام ہے، خود کتاب کے مضامین کو کما حقہ سمجھنا اور پھر طالب علم کو سمجھا دینا کہ واقعی وہ سمجھ لے، اتنا مشکل ہے کہ اس کی تعبیر کے الفاظ نہیں۔ اگر طالب علم ذہین ہے تو اس کے شبہات کو اس طرح دور کرنا کہ وہ مطمئن ہو جائے، صرف خدا داد، اِستعداد ہی سے ہو سکتا ہے، طالب علم جو شبہ وارد کر رہا ہے اس کی بنیاد کیا ہے؟ وہ ابھی قادر الکلام نہیں، اپنی بات کماحقہ کہہ نہیں پاتا ہے، ایک ماہر استاذکا کام یہ ہے کہ وہ طالب علم کے غیر مرتبط جملوں سے یہ اخذ کر لے کہ اس کو کھٹک کیا ہے؟ اور یہ کہنا کیا چاہ رہا ہے؟ جس مدرس میں یہ کمال نہیں وہ حقیقت میں مدرس نہیں۔‘‘(صدر الشریعہ نمبر)
بغیر مطالعہ کبھی نہیں پڑھاتے
ہم میں سے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جب ایک کتاب دو تین بار پڑھا لی جائے تو اب مطالعہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ سالہا سال سے جو کتاب پڑھاتے ہیں اسے بھی مضبوط حافظہ کے باوجود مطالعہ کے بغیر کبھی نہیں پڑھاتے۔ اور یقیناً پڑھانا بھی نہیں چاہیے۔ جیسا کہ محدثِ اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری فرماتے ہیں:
’’جس طرح تازہ روٹی اور تازہ سالن مزا دیتا ہے، اسی طرح تازہ سبق اور تازہ مطالعہ مزیدار ہوتا ہے۔‘‘
فائدہ: حضرت کا یہ انداز ہم جیسے تمام مدرسین کے لیے نمونۂ عمل ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا حافظہ مضبوط ہے، یا ہم بہت قابل ہیں، ہمیں مطالعہ کی ضرورت نہیں، کیوں کہ بغیر مطالعہ، درس گاہ میں بیٹھنا جہاں ہمارے لیے نقصان دہ اور رسوائی کا باعث ہے وہیں اصولِ درس و تدریس کے بھی یکسر خلاف ہے، اس لیے اساتذہ کا یہ معمول ہونا چاہیے کہ کوئی بھی کتاب مطالعہ کر کے ہی پڑھائیں۔
علم دین کی ترغیب
طلبہکے دلوں میں ترغیب کے ذریعہ علم اور اُس مضمون کا شوق پیدا کرنا ایک کامیاب استاذ کی صفات میں سے ہے، تاکہ طلبہ کے ذہنوں میں اس علم اور مضمون کی اہمیت واضح ہو، اور وہ اس علم کو شوق و رغبت سے حاصل کریں۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ ہمیشہ طالبان علوم نبویہ کو علم دین کی فضیلت و اہمیت سمجھاتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’علم دین دنیا کے لیے نہیں بلکہ اللہ ورسول کی رضا کے لیے حاصل کرنا چاہیے‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ: ’’اگر آپ اس عزم کے ساتھ علم دین حاصل کریں گے تو یقیناً اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں فرمائے گا، رہی بات دنیا وی دولت کی تو ویسے بھی یہ چند روزہ ہے۔ لیکن علم وہ بھی علم دین اگر واقعی میں آپ نے خلوص و للہیت سے حاصل کیا تو ایک دن بڑے بڑے دولت مند نہ صرف آپ کی دست بوسی بلکہ قدم بوسی پر بھی ناز کریں گے‘‘۔
طلبہ کے ساتھ شفقت و محبت
ایک استاذ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نہایت شفیق اور ہمدرد ہو، حضرت صوفی صاحب قبلہ میں یہ صفت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس کے علاوہ آپ طالبان علوم نبویہ پر ایک والد کی طرح مشفق اور مہربان بھی ہیں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں، ان کی پریشانیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم غریب ہے اوراس کو تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں تو اہل ثروت حضرات سے بات کر کے اس کے تعلیمی اخراجات کا مسئلہ حل کرتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم درمیان میں تعلیم ترک کرتا ہے تواس کے گھر تک جاتے ہیں اور دوبارہ اسے واپس لانے کی ہر ممکن جد و جہد کرتے ہیں۔
میرا اپنا واقعہ ہے کہ جب میں دار العلوم عزیزیہ نچلول بازار سے دوران تعلیم، ترک تعلیم کی نیت سے گھر چلا آیا تو حضرت صوفی صاحب قبلہ نے مسلسل سمجھانے کی کوشش کی اور جب اس پر بھی بات نہیں بنی تو انھوں نے نچلول کے سابق پرنسپل حضرت حافظ صاحب مرحوم کو فون کیا کہ اسے کسی بھی طرح تعلیم جاری کرنے پر راغب کریں۔ پھر حضرت حافظ صاحب مرحوم نے عزیزیہ نچلول بازار کے ایک قابل استاذ حضرت علامہ خالد رضا مصباحی صاحب قبلہ کو میرے گھر بھیجا اور اس طرح میری تعلیم کا سلسلہ دوبارہ جاری ہوا۔
اس طرح کے درجنوں واقعات ہیں۔ اگر آپ حضرت کے شاگردوں سے رابطہ کریں گے تو ہر ایک کے پاس حضرت کی شفقت و محبت کی ایک طویل داستان ہو گی کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ نے اسے غم و الم کے بھنور سے نکال کر دوبارہ صراط تعلیم پر ڈال دیا ہو گا۔
طلبہ کی تربیت
ایک کامیاب استاذ کی خوبی یہ ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت کا بھی خیال رکھے، اخلاق اور اَچھی عادات کا خوگر بنانے میں ان پراس طرح محنت کرے جس طرح اپنی اولاد کے لیے کرتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی تربیت یافتہ اور بلند اخلاق وکردار کا مالک ہو، تاکہ اس کی بات طلبہ پر کماحقہ اثر کرے۔
اس حوالے سے بھی حضرت صوفی صاحب قبلہ کا طریقہ نہایت احسن ہے، وہ ہمیشہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت پر بھی دھیان دیتے ہیں، بیٹھا کر سمجھاتے ہیں، زندگی کے نشیب و فراز سے واقف کراتے ہیں، انھیں بتاتے ہیں کہ ایک دینی طالب علم کو ہمیشہ اپنی عزت و وقار کا خیال رکھنا چاہیے، دنیا کی رنگینیوں سے الگ تھلگ ہو کر اسے خدمت دین کو اپنا مقصد اصلی بنانا چاہیے۔ اور بتاتے ہیں کہ صرف تعلیم حاصل کرنا ہی کمال نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ حسن عمل بھی ہونا چاہیے، نمازوں کی پابندی کی سخت تاکید کرتے ہیں، ان کے بقول: ایک طالب علم جب گھر جائے تو محلے کی مسجد میں نہ یہ کہ نماز پڑھنے جائے بلکہ سب سے پہلے جا کر اذان بھی کہے تاکہ اسے دیکھ کر دوسرے لوگوں کو اپنے بچوں کو پڑھانے کا حوصلہ ملے اور وہ ایک عالم کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں ویسا ہی پائیں۔
طلبہ کی نگرانی
ایک اُستاذ کے فرائض منصبی میں یہ بھی داخل ہے کہ درس گاہ اور درس گاہ سے باہر حتی الامکان طالب علم پر نگاہ رکھے اور دیکھے کہ کہیں وہ علم حاصل کرنے کے بجائے محض وقت تو برباد نہیں کر رہا ہے؟ غور کرے کہ کیا وہ درس گاہ میں توجہ سے سبق میں دل چسپی لیتا ہے، یاصرف حاضری درج کراتا ہے؟ سبق پڑھنے کے بعد تکرار اور مطالعے کا اہتمام کرتا ہے یا کتابیں بند کر کے گفتگو میں مشغول ہو جاتا ہے؟ کیا درسگاہ میں پابندی سے حاضر ہوتا ہے یا ناغہ کرتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ جہاں تک ممکن ہو اس کی اخلاقی حالت پر بھی نظر رکھے، اس کے احوال و کوائف معلوم کرتا رہے کہ وہ مدرسے اور مدرسے باہر کس طرح زندگی گزارتا ہے۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ اس معاملے میں بھی بہت حساس واقع ہوئے ہیں اور ہمہ وقت طلبہ پر نظر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ اخلاقی بگاڑ اور فساد کی طرف مائل نہ ہوں، انھیں بے راہ روی اور غلط صحبتوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، اوقات تعلیم کے علاوہ شب میں بھی ان پر نظر رکھتے ہیں کہ آیا طلبہ پڑھنے میں مصروف ہیں یا بس یوں وقت گزاری میں ملوث ہیں۔
مجھے اپنے زمانۂ طالب علمی کا ایک بڑا دل چسپ واقعہ یاد آیا، آپ بھی محظوظ ہولیں۔ ایک طالب علم جو بڑا شریف تھا اور محنتی بھی، ہمیشہ پڑھتا رہتا تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کسی دن اس کا سبق یاد ہی نہیں رہتا تھا۔ ایک دن حضرت نے کہا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ تم اتنی محنت کرتے ہو پھر بھی تمہارا سبق یاد کیوں نہیں رہتا؟ پھر بعد نماز مغرب جب سب طلبہ کھانے سے فارغ ہو کر سبق یاد کرنے بیٹھے تو حضرت صوفی صاحب قبلہ دروازے کے کنارے کھڑے ہو کراس کے پڑھنے کا طریقہ سماعت کرنے لگے، وہ تقریباً دس منٹ سے ایک ہی بات رٹے جا رہا تھا: ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اس کا بیان آگے آ رہا ہے‘‘ ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اس کا بیان آگے آ رہا ہے‘‘۔۔ ۔ تب صوفی صاحب قبلہ نے اسے بلایا اور کہا: اب سمجھ میں آیا کہ تمہارا سبق کیوں یاد نہیں ہوتا۔ پھر اسے سمجھایا کہ پڑھنے کا انداز اور طریقہ کیا ہونا چاہیے۔
ایک دن تو اس سے بھی پُر لطف واقعہ درپیش آ گیا، مجھ سے سینیر ایک طالب علم غسل کر رہا تھا، حضرت چھت پر بیٹھے کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے کہ آپ کی نظر اس پر پڑ گئی۔ غسل میں اس نے تقریباً تین یا چار بار صابن کا استعمال کیا، جب وہ غسل سے فارغ ہوا تو حضرت نے اسے بُلوایا اور کہا: اچھا یہ بتاؤ اگر کوئلے کو دس بار رگڑا جائے تو کیا وہ سفید ہو جائے گا؟ اس نے کہا نہیں حضرت، پھر آپ نے مخصوص انداز میں مسکرا کر فرمایا کہ: میں نے تمھیں دیکھا کہ غسل میں تم نے کئی بار صابن لگایا آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
پھر اسے سمجھایا کہ ماں، باپ بڑی محنت سے پیسہ اکٹھا کر کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتے ہیں، ان کے پیسوں کو اس طرح برباد نہ کیا کرو اورہر چیز مناسب اور معقول ڈھنگ سے استعمال کیا کرو، کیوں کہ اگر آج ہی سے فضول خرچی کی عادت ڈال لو گے تو یہ آگے چل کر تمھارے لیے بڑا نقصان دہ ثابت ہو گا۔
خیر یہ میں نے ضمناً دو واقعہ بیان کر دیا، ورنہ حضرت کا اصول یہی ہے کہ وہ طلبہ کی ہمہ وقت نگرانی کا اہتمام کرتے ہیں، اور دیگر اساتذہ کو بھی اس کی تاکید کرتے ہیں۔
انداز خطابت
ایک اچھے اور کامیاب خطیب کی خوبی یہ ہے کہ وہ فصیح اللسان ہو اور جس عنوان کو اپنے خطاب کا موضوع بنائے اس کا حق ادا کرے، جو بھی باتیں پیش کرے انھیں حوالوں سے مزین کرے، اپنا پیغام سامعین کو ذہن نشین کرا دے۔ الفاظ، کم اور ان کے معانی زیادہ ہوں۔ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرے، تاکہ جو بھی اسے سنے آسانی سے سمجھ لے، آج کچھ ایسے خطبا ہیں جو اتنی سرعت کے ساتھ تقریر کرتے ہیں جیسے سانس ہی نہیں لیتے، کوئی سمجھے نہ سمجھے بس چلّائے جاتے ہیں۔ اور تماشہ یہ ہے کہ سامعین کا ذوق سماعت بھی اسی کا عادی ہو چکا ہے، وہ چِلانے والے مقر رین اور بلند آواز خطبا کو ہی پسند کرتے ہیں، صاف ستھری اور سادہ لب و لہجے میں تقریر کرنے والوں کو کم لوگ ہی پسند کرتے ہیں۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ کے اندر ایک اچھے خطیب کے تمام تر اوصاف موجود ہیں۔ آپ کا وعظ و خطاب بہت پیارا، انوکھا اور دلکش اور پر کشش ہوتا ہے، علمی اور فکری ہونے کے باوجود خطاب میں ایسی سادگی اور روانی ہوتی ہے کہ عام آدمی بھی بخوبی سمجھ جاتا ہے، ہر بات قرآن و حدیث کی روشنی میں کہنے کے عادی ہیں، کبھی اپنی تقریر میں بلا ضرورت لمبی چوڑی تمہید نہیں باندھتے، سیدھے موضوع پر آتے ہیں اور جس عنوان پر بولتے ہیں اس کا حق ادا کرتے ہیں، دوران تقریر لطیفہ گوئی اور لوگوں کوہنسانے وغیرہ سے احتراز کرتے ہیں اور مکمل طور پر علمی، فکری اور سنجیدہ و پُر وقار بیان فرماتے ہیں۔
جلسوں کی سرپرستی اور صدارت
کچھ دنوں قبل تک آپ نیپال کے ضلع روپندیہی، نول پراسی، کپلو ستو، اور ہندوستان کے ضلع مہراج گنج اور سدھارتھ نگر وغیرہ کے بیش تر جلسوں اور کانفرنسوں میں خصوصی خطیب ہوا کرتے تھے لیکن اب نقاہت و کمزوری کے سبب خطاب کا سلسلہ کم ہو گیا ہے۔ لیکن اب اُن کی سرپرستی یا صدارت فرماتے ہیں اور خوب فرماتے ہیں۔ جلسے کی ابتدا سے انتہا تک اسٹیج پر موجود رہتے ہیں اور خطبا، شعرا، ارکان جلسہ کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں، البتہ اگر خلاف شرع کوئی بات دیکھتے ہیں تو فوراً، احسن انداز میں گرفت فرما کر اصلاح فرماتے ہیں۔
کبھی نذرانے کا مطالبہ نہیں کرتے
ایک طویل عرصے سے قرب و جوار کے تقریباً اکثر جلسوں اور کانفرنسوں کی آپ سرپرستی و صدارت فرماتے ہیں، خطاب کے لیے مدعو کیے جاتے ہیں، مگر آج تک آپ نے نہ کسی سے نذرانہ طلب کیا اور نہ اس کے لیے کبھی ناراض ہوئے، بل کہ میرا پختہ یقین ہے کہ کسی نے اُن سے نذرانے وغیرہ کا ذکربھی کبھی نہ سنا ہو گا، کسی نے دیا تب بھی خوش، نہیں دیا تب بھی کسی سے کوئی تذکرہ نہیں۔ کسی نے دعوت دی تو ضرور تشریف لے جاتے ہیں اور صرف تقریر کہہ کر اسٹیج خالی نہیں کرتے، بل کہ جلسہ ختم ہونے تک اسے زینت بخشتے ہیں۔
جلسے کے ارکان انھیں کہیں سُلائیں، کہیں بٹھائیں، جو بھی کھلائیں، نہ منہ بناتے ہیں، نہ ناراض ہوتے ہیں، نہ بدکلامی کرتے ہیں، نہ ان کا حوصلہ توڑتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی نظر میں جلسے، جلوس، اصلاح مسلمین ومسلمات کا ایک اہم ذریعہ ہیں، انھیں جاری رہنا چاہیے، ہاں ان کی ایک تاکید ضرور رہتی ہے کہ جلسے کم سے کم خرچ میں کیے جائیں اور مقر رین اور شعرا وقت ضائع نہ کر کے صرف کام کی باتیں کریں اور اپنی تقریر و شاعری کا مقصد صرف رضائے الٰہی اور اصلاح امت رکھیں تاکہ ان کو بھی دارین کی سعادت ملے اور جلسے کی افادیت بھی برقرار رہے۔
مختلف علوم و فنون میں دسترس
شیر نیپال حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ اپنی خدا داد ذہانت و فطانت کی بدولت علم وفن کی بیشتر شاخوں پردسترس رکھتے ہیں۔ خصوصاً علوم اسلامیہ، تفسیر، اصول تفسیر، تجوید و قرأت، حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، عقائد و تصوف، بلاغت و عروض، ادب و لغت، نحو و صرف، معانی و بیان میں آپ کو درجۂ کمال حاصل ہے، اکثر کتب کی عبارتیں آپ کو اب بھی ازبر ہیں۔
معمولات حیات
ایک عرصے سے آپ کا یہ معمول ہے کہ فجرکا وقت شروع ہونے سے پہلے ہی بیدار ہو جاتے ہیں اور ضروریات سے فارغ ہو کر طلبہ کو بیدار کرتے ہیں، نماز فجر ادا فرمانے کے بعد ذکر و مناجات سے فارغ ہو کر تدریس کا سلسلہ جاری ہوتا ہے، اپنے پاس آنے والے مہمانوں سے بڑی فراخ دلی سے ملتے ہیں، اگر کوئی دینی سولات لے کر آتا ہے تو اس کا جواب دیتے ہیں۔ آج آپ کی عمر بہتر [۷۲] سال ہو گئی ہے لیکن اب بھی خدمت دین کا وہی جذبہ برقرار ہے جو عالم جوانی میں تھا۔
آرام کہاں؟
عمر کے اس آخری حصے میں بھی تبلیغ دین، مطالعہ کتب اور درس و تدریس آپ کا خاص معمول ہے۔ کمزوری اور نقاہت کے باوجود پوری پابندی کے ساتھ پوری گھنٹیاں پڑھاتے ہیں۔ جب کہ ارکان ادارہ نے بارہا آپ سے کہا اور کہتے ہیں کہ اب آپ آرام کریں اور صرف سرپرستی فرمائیں، لیکن آپ آرام پر درس و تدریس اور تبلیغ دین کو ترجیح دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:
اس سے بہتر کیا ہے کہ قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے دیتے زندگی کی آخری سانس آ جائے اور اسی عالم میں عمر تمام ہو جائے۔
ایک بار میں نے خود حضرت سے عرض کیا: حضور! اب آپ کے جسم میں کافی نقاہت ہے، آپ زیادہ سے زیادہ ایک دو کتاب پڑھائیں اور مزید دیگر اساتذہ ہیں ہی۔ تو حضرت نے فرمایا:
بابو! پوری زندگی میں نے مدرسہ اور درس گاہ میں کھپا دیا اور اسے ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اب اس کے سوا کہیں سکون نہیں ملتا۔ ہمارا سکون تو بس مدرسہ اور درسگاہ میں ہے۔
البتہ ابھی کچھ دن قبل حضرت نے مجھے خود ہی فون کر کے بلایا، میں حاضر ہوا، کافی دیر تک حضرت نے دعائیں دیں اور نصیحتیں فرماتے رہے پھر درمیان گفتگو آپ نے بڑے درد کا اظہار کیا اور فرمایا:
مولانا صاحب! آپ لوگ جب پڑھتے تھے تو بات کچھ اور تھی، آج تو ماحول ہی بدل گیا ہے، جیسے کسی کو پڑھنے کا شوق ہی نہیں رہ گیا ہے، اکثر بچے صرف تضیعِ اوقات کر رہے ہیں، جسے دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ اللہ پاک فضل فرمائے اور ان کے دلوں میں علم دین کی محبت ڈال دے۔
فتویٰ نویسی
آپ کی صلاحیت وقابلیت عوام وخواص سب کے مابین مسلم ہے، اس لیے انفرادی طور پر علاقے کے تمام مسائل شرعیہ میں آپ ہی طرف رجوع کیا جاتا ہے، جن کا آپ تصفیہ کرتے اور عوام اہل سنت کو مسائل دینیہ سے روشناس فرماتے ہیں، آپ کے اندر ایک بہترین مفتی کا ہنر بھی موجود ہے۔ اس کا بین ثبوت فتاویٰ فیض الرسول ہے جس میں آپ کے تحریری فتاویٰ موجود ہیں۔ لیکن اب اگر کوئی شرعی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اسے زبانی طور پر بتا دیتے ہیں اور اگر تحریری طور پر کسی کو استفتا کی ضرورت درپیش ہوتی ہے تو اسے جامعہ اشرفیہ مبارکپور یا دار العلوم فیض الرسول کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
سادگی پسند کرتے ہیں
آپ کی پوری زندگی تواضع اور سادگی پر مشتمل ہے، خود بینی، خود نمائی سے پاک و منزہ ہیں، آپ کے طرز لباس، اکل و شرب، نشست وبرخاست، رفتار و گفتار میں عجز وانکسار کا عنصر غالب ہے، میں اُنھیں سالوں سے دیکھ رہا ہوں مگر کبھی انھیں زرق برق لباسا ستعمال کرتے نہیں دیکھا، ہمیشہ سفید اور سادہ کپڑوں کا انتخاب فرماتے ہیں، وہ بھی ایسا کہ جسے دیکھ کر ہی پاکیزگی اور نفاست کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ بھی ملے کھا لیتے ہیں، البتہ روٹی اور سادہ، بغیر سالن والی غذائیں زیادہ محبوب ہیں، کبھی کھانے میں نہ عیب نکالتے ہیں اور نہ اس پر تبصرہ فرماتے ہیں، کسی خاص کھانے کی فرمائش کبھی نہیں کرتے۔ البتہ ادھر کچھ ایام سے جسم میں شکریات کی کثرت کے سبب کچھ قسم کے کھانوں سے پرہیز ضرور فرماتے ہیں، کھانا بہت قلیل مقدار میں کھاتے ہیں بلکہ میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں مشاہدہ کیا کہ مدرسے میں باورچی وقت پر کھانا پانی لا کر رکھ دیتا مگر حضرت بچوں کو پڑھانے میں اس قدر مشغول رہتے کہ انھیں کھانا کھانے کا ہوش ہی نہیں رہتا، اسی درمیان اگر کہیں پلیٹ پر نظر پڑ جاتی تو بچوں سے کہتے: ذرا دیکھو شاید میں نے ابھی کھانا نہیں کھایا ہے، اب تک روٹی سوکھ چکی ہوتی، دال اور سبزی ٹھنڈی ہو چکی ہوتی مگر اسے گرم کرنے کونہ کہتے بلکہ اسی کو تناول فرما لیتے۔
اصاغر نوازی
اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کبِیرَنَا۔ (جامع ترمذی، رقم: 1919)
’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر و احترام نہ کرے۔‘‘
اس حدیث پاک سے پتا چلتا ہے کہ بڑوں کو چھوٹوں پر شفقت اور چھوٹوں کو بڑوں کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اساتذہ بھی علم و عمر میں اپنے شاگردوں سے بڑے ہوتے ہیں، اس لیے ان کو چاہیے کہ وہ نبیِ کریمﷺ کی سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے شاگردوں سے نرمی اور شفقت کا برتاؤ کریں، ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں، اگر ان سے کوئی نامناسب حرکت ہو جائے تو درگزر کریں، ان سے وقار اور بردباری کے ساتھ پیش آئیں۔ پڑھائی کے دوران اپنے شاگردوں کو ان کے نام یا کنیت سے مخاطب کریں، نام بگاڑ کر پکارنے سے ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ ان سے بد ظن ہو جاتے ہیں۔
جب اس تناظر میں ہم حضرت صوفی صاحب قبلہ کی شب و روز کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ:
آپ اپنے شاگردوں، تلامذہ اور چھوٹوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت ونرمی کا معاملہ کرتے ہیں، ان سے کوئی نامناسب حرکت ہو جائے تو عفو و درگزر سے کام لے کر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، بہت شاذ معاملات میں زد و کوب کی نوبت آتی ہے، ورنہ عام حالات میں درگزر سے کام لیتے ہیں، کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ناراض ہو رہے ہیں۔ لیکن بہت جلد یہ لہجہ تبدیل ہو جاتا ہے اورپھر گفتگو میں نرمی آ جاتی ہے۔ اس طرح اگر کبھی کسی بات پر ناراض بھی ہوتے ہیں تو یہ ناراضی دیر پا نہیں ہوتی، چندساعتوں میں دور ہو جاتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
حسنِ اخلاق
حسنِ اخلاق دین کا ایک عظیم شعبہ ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے۔ “
اللہ تعالیٰ نے حضرت صوفی صاحب قبلہ کو حسنِ اخلاق کی دولت بے بہا سے سرفراز فرمایا ہے۔ ان سے ملاقات کرنے والا اجنبی بھی جب ان سے ملتا ہے تو اسے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ عام طور سے بڑے لوگ عوامی ملاقاتوں، مصافحوں سے اجتناب کرتے ہیں، کبھی بھیڑ بھاڑ میں اگر لوگوں کا سامنا ہو جائے اور وہ سلام و مصافحہ کے لیے ٹوٹ پڑیں تو عموماً ان کے چہروں پر خندہ پیشانی کی جگہ تلخی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں، مصافحہ بھی بمشکل خلافِ سنت ایک ہاتھ بلکہ کبھی نصف ہاتھ اور انگلیوں سے کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی کی بات غور سے سننا تو بہت دور، اس کی باتوں پر کان دھرنا گورا نہیں کرتے، کسی کو مشورہ دینا یا مشورہ لینا تو ان کے نفیس مزاج کے ہی خلاف ہوتا ہے، اس لیے عوام الناس ان سے دور رہتے ہیں، عوام کی ان تک رسائی بڑی مشکل ہوتی ہے، ایسے لوگوں کا حلقۂ احباب مخصوص اور خواص کا ہوتا ہے۔
لیکن حضرت صوفی صاحب قبلہ علاقے کے سب سے بڑے عالم ہونے کے باوجود عوام و خواص ہر ایک سے یکساں میل جول رکھنے اور ہر ایک کے دکھ سکھ میں ساجھی رہنے کے عادی ہیں۔ ان سے ملنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ان کا نہ کوئی دربان ہے اور نہ ہی کوئی سکریٹری، جو بھی ملنے آتا ہے بلا تردّد چلا آتا ہے اور حضرت سبھی سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے گرم جوشی سے مصافحہ فرماتے ہیں، سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں، خیریت دریافت کرتے ہیں پھر بڑی نرمی سے کلام شروع کرتے ہیں اور آنے کا سبب پوچھتے ہیں۔ فوراً کسی بچے کو آواز دیتے ہیں اور چائے منگا کر پلاتے ہیں، جب تک، جتنی دیر تک گفتگو کریں کر سکتے ہیں، ان کی طرف سے کوئی روک ٹوک یا ناراضی نہیں۔ کوئی شرعی مسئلہ ہے تواسے حل کرتے ہیں، کوئی مشورہ طلب کیا جائے تو بہتر مشورہ دیتے ہیں، اگر ان کو خود ضرورت ہے تو مشورہ لیتے بھی ہیں۔
آپ کے حسن اخلاق کا حال یہ ہے کہ انسان تو انسان جانوروں سے بھی حسن سلوک کا معاملہ کرتے ہیں۔ حضرت کے قدیم شاگرد اور موجودہ وقت میں دار العلوم غوثیہ کٹھوتیہ کے استاذ حضرت مولانا ابو الوفا نظامی جو اپنے طالب علمی کے زمانے سے اب تک مسلسل حضرت کی ذات کا مشاہدہ کر رہے ہیں، انھوں نے مجھے ایک واقعہ بتایا کہ:
ایک بار مدرسہ کے غلہ خانے میں بِلّی اور اس کے دو بچے آ گئے، جو بہت گندگی کر رہے تھے، کئی روز تک تو میں نے انھیں برداشت کیا مگر ایک شب جب انھوں نے حد کر دی تو میں نے بچوں سے کہا کہ اس وقت تو انھیں رہنے دو لیکن کل صبح ان کو کہیں دور لے جا کر ڈال آؤ، یہ کہہ کر میں کمرے میں آ گیا اور سو گیا، جب صبح ہوئی اور میں صبح کا غلہ نکلوانے گیا تو دیکھا کہ وہاں نہ بِلّی تھی نہ اس کے بچے۔ مجھے حیرت ہوئی مگر اسی وقت حضرت نے مجھے اپنے حجرے میں مدعو فرمایا، میں نے دیکھا کہ دونوں بچے حضرت کے سامنے بیٹھ کر میاؤں، میاؤں کر رہے ہیں، میں نے کہا: حضرت یہ آپ کے کمرے میں کب آئے؟ یہ تو غلہ خانے میں تھے، پھر میں نے پورا واقعہ بتایا اور کہا کہ حضرت! یہ اصل میں آپ سے میری شکایت کرنے آئے ہیں۔ اس کے بعد حضرت نے دودھ منگوا کر انھیں پلایا اور کہا کہ: مولوی صاحب! یہ بھی تو اللہ کی مخلوق ہیں، بلا ضرورت شرعی کسی جانور کو تکلیف دینا رَوا نہیں ہے۔
یہ ہے آپ کے حسن اخلاق کی ایک ہلکی سی جھلک۔ ان کی خدمت میں جاتے ہیں تو زبان پر بے ساختہ جوش ملیح آبادی کا یہ شعر آ جاتا ہے:
بہت جی خوش ہوا، اے ہم نشیں! کل جوشؔ سے مل کر
ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں
ایفائے عہد
ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جب کوئی وعدہ کرے تو اسے پورا بھی کرے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے جب بھی خطبہ دیا اس میں یہ ضرور ارشاد فرمایا: ’’جس شخص میں امانت داری نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں، جس شخص میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔‘‘
کسی سے کوئی وعدہ کیا جائے تو اسے پورا کرنے کو ’’ایفائے عہد‘‘ کہتے ہیں۔ وعدہ پورا کرنا نہایت ضروری ہے، جو لوگ وعدہ پورا نہیں کرتے وہ بہت بڑے مجرم ہیں۔ قرآن پاک میں وعدہ پورا کرنے کا واضح حکم موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۱ۚ اِنَّ الْعَہْدَ کانَ مَسُْٔوْلًا۔ (بنی اسرائیل، ۳۴)
’’اور عہد پورا کرو(اس لیے کہ قیامت کے دن) عہد کی باز پرس ہو گی۔‘‘
قرآن پاک میں جہاں ایمان والوں کی بہت سی علامتیں بتائی گئی ہیں مثلاً وہ نماز پڑھتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے ہیں، وہیں یہ بھی بتایا گیا ہے:
وَ الَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَ عَہْدِہِمْ رٰعُوْنَۙ۰۰۸(المومنون، ۸)
’’جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کا پاس کرتے ہیں۔‘‘
لہذا، اگر آپ کسی سے کہتے ہیں کہ ’’بھائی! میں ٹھیک چار بجے آ جاؤں گا‘‘۔ تو وہ آپ پر اعتماد کر کے آپ کی بات مان لیتا ہے۔ اگر آپ اپنے وعدے کے مطابق نہیں آتے تو آپ اپنا اعتماد کھو دیتے ہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ دنیا میں بدترین قسم کا معاشرہ وہ ہے جس میں کسی کو دوسرے پر اعتماد اور بھروسا نہ ہو۔ ایسے معاشرہ میں ہر شخص عدم اطمینان کا شکار رہتا ہے۔ بعض لوگ تو وعدہ کرتے ہی منافقت سے ہیں، یعنی انھوں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا ہوتا ہے کہ وعدہ پورا نہیں کرنا ہے، کچھ جذباتی لوگ‘ شدتِ جذبات میں وعدہ کر لیتے ہیں اور اس کے بعد جب جذبات کی شدت ماند پڑ جاتی ہے تو اس وعدہ سے پھر جانے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اس سے جو نقصان دوسروں کو پہنچتا ہے اسے تو چھوڑیئے۔ خود ایسے لوگوں کی سوسائٹی میں کوئی عزت نہیں رہتی۔ ایک مومن کی یہ حالت ہرگز نہیں ہونی چاہیے بلکہ وہ جب وعدہ کرے تو سوچ سمجھ کر اور جب وعدہ کر لے تو پھر کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ اسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔
احادیث و قرآن کے ان فرامین کی روشنی میں جب ہم صوفی صاحب قبلہ کی حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ آپ ہر حال میں وعدہ پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، آپ کبھی کسی سُنی صحیح العقیدہ کی دعوت رد نہیں فرماتے، دعوت دینے والے آپ کے بارے میں مکمل طور پر مطمئن رہتے ہیں کہ کوئی آئے نہ آئے حضرت صوفی صاحب قبلہ ضرور آئیں گے۔ موسم گرما وسرما کی حرارت و برودت میں بھی اپنے وعدے کا پورا خیال رکھتے ہیں، دیہی علاقوں میں راستوں کی ناہمواری اور طول مسافت کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ وعدہ کیا ہے تو اسے پورا کرتے ہیں، اور اگر طبیعت اس قدر ناساز ہے کہ نہیں جا سکتے تو بذریعہ فون یا کسی وسیلے سے رابطہ کر کے معذرت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
زہد و تقویٰ
اللہ رب العزت کو وہی علم مقبول و محبوب ہے جس میں حسن عمل ہو، کیوں کہ علم بلا عمل، وبال اور عمل بلا علم، ضلال اور علم و عمل کا اجتماع، کمال ہوتا ہے۔ حضرت صوفی صاحب قبلہ جبلِ علم ہونے کے ساتھ فرائض وسنن، نوافل و اذکار، اعمالِ صالحہ اور اتباعِ سنت کے خوگر ہیں۔ عبادات، معاملات، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں وہ تقویٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ اور کیوں نہ ہو انھوں نے یہ ہنر اپنے شیخ طریقت حضور شعیب الاولیاء سے سیکھے ہیں، جنھوں نے چالیس سال تک نماز تو نماز جماعت تو جماعت، تکبیر اولیٰ بھی نہیں فوت ہونے دیا۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنے مشفق اساتذہ یعنی صوفی وقت حضور بدر ملت، حضور فقیہ ملت، حضور شیخ العلما، علیھم الرحمہ وغیرہ جیسے شخصیت ساز علمائے کبار کے زیر تربیت رہ کر جو معمولات سیکھے ہیں ان پر مضبوطی سے کاربند ہیں۔
عوام و خواص جس قدر آپ کا احترام کرتے ہیں، آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اس ماحول میں اگر آپ چاہتے تو پوری شان و شوکت کے ساتھ زندگی گزارتے اور اے۔ سی گاڑیوں سے سفر کرتے۔ لیکن یہ آپ کا زہد و تقویٰ ہی ہے کہ آپ نے ان آسایش و زیبائش کی اشیا پر کبھی کوئی توجہ ہی نہیں دی اور ایک عرصے سے ایک ٹوٹی، پرانی سائکل پر چلتے رہے، جسے ہم جیسے عام لوگوں کو چلانے میں بھی بڑی مشکل درپیش ہوتی۔
طالب علمی کے زمانے میں بارہا آپ کو سائکل پر بٹھا کر علاقے کے میلادی اور تبلیغی پروگراموں میں میرا جانا ہوا ہے، سائکل چلانے کے بعد احساس ہوتا کہ یہ کس قدر خراب ہو چکی ہے۔ اب ادھر کچھ دنوں سے آپ نے نقاہت اور کمزوری کے سبب سائکل چلانا بند کر دیا ہے۔ مگر ایک زمانے تک یہی سائکل ان کی موٹر سائکل تھی اور وہی ان کی کار۔ جب تک انھیں سائکل چلانے کی طاقت تھی تب تک بیس سے پچیس کلو میٹر کے دائرے میں کہیں کسی میلاد یا جلسے کے پروگرام میں جانا ہوتا چلے جاتے، کبھی اکیلے جاتے تو کبھی کوئی استاذ بٹھا کر لے جاتا اور کبھی کوئی طالب علم، مگر کبھی کسی سے سواری بھیجنے کی فرمائش نہیں کی۔
سادات کرام اور علمائے عظام کا احترام
سادات کرام کا احترام و اکرام ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ لَّاۤ اَسَْٔلُکمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی۔ (الشوری، 23)
اے محبوب! تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبّت۔
حضورﷺ نے تبلیغ رسالت کے ذریعے ہم پر جو احسان فرمایا اس پر آپﷺ نے ہم سے کوئی اجر طلب نہیں فرمایا، سوائے اِس کے کہ آپﷺ کے اہل بیت اور قرابت سے محبت کریں۔ اس لیے ہر شخص کے لیے جہاں آقائے کریمﷺ سے محبت کرنا فرض ہے، وہیں آپﷺ کی آل پاک سے محبت و عقیدت رکھنا بھی لازم و ضروری ہے۔
اللہ و رسول کے اس اعلان کی روشنی میں حضرت صوفی صاحب قبلہ کا طریقۂ کار یہی ہے کہ وہ سادات کرام اور اہل بیت اطہار سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ میں نے انھیں بارہا دیکھا ہے کہ سادات کرام کو دیکھتے ہی مکمل ادب کا پیکر بن جاتے ہیں، انتہائی ادب و احترام کے ساتھ ان کی دست بوسی کرتے ہیں اور ان کے روبرو دو زانو ہو کر بیٹھتے ہیں۔
ابھی 12 اپریل 2018ء کی بات ہے، بھیر ہوا کے بدھ کالونی میں ایک جلسہ تھا جس میں خاندان مارہرہ شریف کے چشم و چراغ حضرت سید شاہد حسین زیدی صاحب قبلہ کی تشریف آوری ہوئی، حضرت صوفی صاحب نے پہلے تو فقط سلام و مصافحہ کیا، وجہ یہ تھی کہ آپ کی پہلے سے ان سے ملاقات اور پہچان نہ تھی، لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ یہ آل رسول ہیں، پھر کیا تھا، فوراً انتہائی ادب کے ساتھ کھڑے ہو گئے، دست بوسی اور قدم بوسی کی اور عدم علم کی وجہ سے ان سے معذرت بھی کی۔ حضرت صوفی صاحب قبلہ کی یہ محبت دیکھ کر آل رسول حضرت سید شاہد حسین زیدی صاحب قبلہ نے انھیں گلے سے لگا لیا اور خوب دعاؤں سے نوازا۔ پھر جب اسٹیج پر تشریف لے گئے تو فرمایا:
صوفی صاحب قبلہ اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہیں، ان کا احترام کرو، عزت پاؤ گے۔
اس کے علاوہ آپ کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ آپ خود بزرگ عالم دین ہونے کے باوجود اکابر علمائے کرام کا حد درجہ احترام کرتے ہیں۔ میں نے بارہا انھیں دیکھا ہے کہ جب بھی کسی عالم کبیر سے ملاقات کرتے ہیں تو کھڑے ہو کر ان سے سلام و مصافحہ کرتے ہیں، ان سے گلے ملتے ہیں، انھیں دعا دیتے ہیں اور اپنے لیے دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں۔ عالم اگر عمر یا علم میں ان سے چھوٹا ہے تو اس سے بھی اسی محبت و خلوص سے ملتے ہیں، سلام و مصافحہ کے بعد پیار سے بٹھاتے ہیں، چائے پلاتے ہیں، شفقتوں سے نوازتے ہیں، کوئی دینی کام کر رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں، دینی کام میں کوئی مشکل درپیش آ رہی تو صبر کی تاکید کرتے ہیں۔
صبر و تحمل
بعض اوقات زندگی میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن میں انسان رنج و غم سے مغلوب ہو جاتا ہے اور شدت تکلیف سے اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے، ایسی آزمائش کی گھڑی میں اکثر لوگ ناکام ہو جاتے ہیں اور اپنی زبان پر ناشکری کے کلمات لا کر اپنی عاقبت کی بربادی کا سامان کرتے ہیں، لیکن جن کے دل اللہ کے فیصلوں پر مطمئن ہوتے ہیں وہ صبر کرتے ہیں اور اپنی لَو اللہ سے لگا کراسی پر اعتماد و توکل کرتے ہیں۔
اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
گویا ایک مومن کو صبر اپنی زندگی کا جزوِ لاینفک بنا لینا چاہیے اور ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہ کر توکل و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اسی میں اس کی کامیابی اور بھلائی مضمر ہے۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ کی زندگی میں دیگر آزمائشوں کے ساتھ ایک بہت کڑی آزمائش یہ آئی کہ ۱۳ دسمبر ۲۰۰۵ء میں آپ کے جوان صاحبزادے حضرت مولانا اعجاز احمد (مرحوم) ایک دردناک واقعے میں شہید ہو گئے۔ ظاہر سی بات ہے، ایک باپ کے لیے اس سے زیادہ صبر آزما گھڑی اور کچھ نہیں ہو سکتی تھی۔ مگر اس مشکل اور کٹھن وقت میں بھی آپ نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا، اور اللہ کی رضا پر راضی رہے، خود کو سنبھالا اور اہل خانہ کو بھی ڈھارس بندھاتے رہے۔
اور یہ بات سچ ہے کہ انسان کے لیے صبر و تحمل ہی سکون و اطمینان کا باعث بنتا ہے، ورنہ دنیا میں رنج و غم کے اجتماعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ بہتر انسان وہی ہے جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی خود کو سنبھالے، ناشکری کرنے سے بچے اور اللہ کی رضا پر راضی رہے۔
عیادت و مزاج پُرسی
مذہب اسلام نے عیادت و بیمار پرسی اور تیمار داری کو بڑی اہمیت دی ہے، یہاں تک کہ اسے صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے دامنِ رحمت کو وسعت دیتے ہوئے غیر مسلموں تک اسے پھیلایا ہے۔ احادیث کریمہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ جہاں صحابۂ کرام کی عیادت اور مزاج پرسی فرماتے تھے وہیں مختلف بار آپﷺ نے غیر مسلموں کی بھی عیادت فرمائی ہے۔
صحابی رسول حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی مزاج پرسی کرتا ہے تو وہ جنت کے پھلوں کے چننے میں مصروف رہتا ہے یہاں تک کہ وہ واپس آ جائے۔
شیر نیپال حضرت صوفی صاحب قبلہ کا طریقہ اس معاملے میں بھی وہی ہے جس کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے۔ یعنی وہ بیماروں کی عیادت کرتے ہیں، ان کی مزاج پُرسی کرتے ہیں، قریب ہے تو گھر جا کر ورنہ بذریعہ فون، مگر عیادت و مزاج پرسی کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، اگر وقت پر معلوم نہ ہو سکا اور بعد میں جانکاری ہوئی تب بھی معلوم ہونے کے بعد خیریت دریافت کرتے ہیں اور دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ پورے علاقے میں اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو معلوم ہوتے ہی جنازے میں ضرور شرکت کرتے ہیں، چاہے میت کے اہل خانہ نے از خود انھیں اطلاع پہنچائی ہو یا کسی اور ذریعہ سے معلوم ہوا ہو۔ بہر دو صورت تشریف لے جانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
تمام سلاسل اہل سنت کی قدر کرتے ہیں
یوں تو آپ نے حضور شعیب الاولیاسے شرف بیعت حاصل کی ہے اور آپ کا قلبی لگاؤ بھی خانقاہ فیض الرسول سے ہے، اس تناظر میں اگر دیکھا جائے (جس طرح آج کا ماحول ہے) تو آپ کو اس علاقے کے تمام نہیں تو بیشتر افراد کو خانقاہ فیض الرسول سے ضرور منسلک کرانا چاہیے، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، کیوں کہ آپ کے دل میں اہل سنت کی تمام خانقاہوں کے لیے یکساں احترام کا جذبہ ہے، آپ ہراُس سلسلے سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں جس کی نسبت غوث صمدانی، شہباز لامکانی حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے اور نبی کریمﷺ تک پہنچاتا ہے۔ البتہ آپ ایسے پیروں سے ضرور احتراز فرماتے ہیں جو طریقت کے نام پر شریعت کا مذاق اڑاتے ہیں، یا پیری مریدی کی آڑ میں مکر و فریب کا دھندا کرتے ہیں۔
اتحاد اہل سنت کے داعی ہیں
آج جماعت اہل سنت کو جو نقصان آپسی اختلاف و انتشار کی وجہ سے پہنچ رہا ہے اسے حیطۂ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے بعض کرم فرماؤں نے اسے شب وروز کا معمول بنا لیا ہے، جس کے نتیجے میں روز بروز ہماری جماعت زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے، بڑے بڑوں کی پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں، احترام کا جنازہ نکل رہا ہے، اپنے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کا اسلامی اصول زمانۂ ماضی کی داستان بنتا جا رہا ہے۔
اس کش مکش اور پُر فتن دور میں بھی حضرت صوفی صاحب قبلہ کی ذات بہت محتاط ہے، آپ نے کبھی کسی طرح کے اختلاف میں حصہ لینا بہتر نہیں سمجھا، آپ کا ماننا ہے کہ تمام فروعی مسائل آپسی گفتگو سے حل کرنا چاہیے، کسی کو کسی سے اعتراض ہے تو ایک دوسرے سے نہ کہہ کر براہ راست اس سے گفتگو کر کے مسائل کا تصفیہ کرنا چاہیے۔
ہم نے ایک بار آپ سے آج کے اختلافات کے حوالے سے بات کی تو فرمایا:
بزرگوں کے اختلافات میں بھی کوئی نہ کوئی فائدہ مضمر ہوتا ہے، چھوٹوں کو اس میں ہرگز ہرگز نہیں پڑنا چاہیے، بل کہ انھیں اہل سنت و جماعت کے ہر بزرگ کا احترام کرنا چاہیے۔
آپ سوشل میڈیا وغیرہ سے تو رابطہ نہیں رکھتے نہ اسے چلانا جانتے ہیں لیکن جب آپ سے بتایا گیا کہ آج کل لوگ کوئی اختلافی مسئلہ ہو تو اسے فوراً فیس بک، وہاٹس ایپ وغیرہ پر ڈال دیتے ہیں اوراس طرح خرافات و ہفوات کا ایک لامتناہی سلسلہ نکل پڑتا ہے اور پھر بات بننے کے بجائے مزید بگڑتی جاتی ہے، تو آپ نے فرمایا کہ:
یہ تو فتنہ ہے اور فتنہ پھیلانا قتل کرنے سے زیادہ شدید ہے۔ مزید فرمایا کہ: بزرگوں اور علما کے اختلافات، عوام میں نہیں آنے چاہییں، اگر لائق حل ہے تو اسے آپسی گفت و شنید سے حل کر لینا چاہیے۔
شان بے نیازی
آپ جہاں انتہائی نیک و پرہیزگار اور متقی ہیں وہیں حد درجہ محتاط بھی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ۱۹۹۵ء میں ہی آپ کو حضرت علامہ سید محمد اشفاق صاحب قبلہ [سگرولی مدھیہ پردیش] نے خلافت و اجازت سے نوازا جس کے بعد آپ کے معتقدین اور خود میں نے بھی آپ سے بارہا التجا کی کہ آپ بیعت فرمائیں لیکن آپ نے فرمایا کہ: میں ابھی خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا، کیوں کہ میں درسگاہی آدمی ہوں اور اس سے طلبہ کی تعلیم میں خلل واقع ہو گا اور میں انھیں کماحقہ وقت نہیں دے پاؤں گا۔
آپ اندازہ لگائیں کہ اس دور میں جب کہ مرید، پیروں کو نہیں بل کہ پیر مریدوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں ایسے میں آپ کی یہ شان بے نیازی اور احتیاط یقیناً لائق ستائش اور قابل تعریف ہے۔ البتہ اب جا کر بعض احباب کے سخت اصرار کے بعد آپ نے کچھ افراد کو داخل سلسلہ فرمایا ہے۔
مدارس اہل سنت سے محبت
مدارس اسلامیہ دین کے قلعے ہیں اور ان کی حفاظت و صیانت میں دین کا استحکام مضمر ہے۔ صُفَّہ، اسلام کا پہلا مدرسہ ہے جس کو ہمارے آقائے کریمﷺ نے قائم فرمایا اور اصحاب صفہ اس کے پہلے طالب علم تھے، آج جو مدارس اسلامیہ ہیں اسی ’’صُفّہ‘‘ کی شاخیں ہیں، اس لیے ان کو سنبھالنا، چلانا اور ان کا تعاون کرنا مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، آج لوگوں میں نماز، روزہ کا جو چرچا ہے، مساجد میں جو رونق ہے، دیہات اور قصبات میں جس قدر لوگ اسلام سے آشنا ہیں، سب انہیں مدارس کا فیض ہے۔
یوں تو حضرت صوفی صاحب قبلہ کا اوڑھنا بچھونا ہی مدرسہ ہے، ان کے خیالات و تصورات میں شب و روز اگر کوئی شے سب سے زیادہ رچی بسی ہے تو وہ مدرسہ ہی ہے، لیکن آپ کی بڑی قابل فخر صفتیہ ہے کہ آپ جہاں اپنے ادارے سے محبت کرتے ہیں وہیں دوسرے اداروں سے بھی محبت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ آپ جب بھی دعا کرتے ہیں تو ان مدارس کو اپنی دعا میں ضرور شامل کرتے ہیں، ان کے الفاظ یہ ہوتے ہیں: یا اللہ اپنے حبیب پاکﷺ کے صدقے تمام مدارس اسلامیہ کی غیب سے مدد فرما دے۔
خانقاہ فیض الرسول سے تعلق
خانقاہ فیض الرسول سے آپ کا رشتۂ الفت بہت گہرا ہے اور کیوں نہ ہو، آپ کے مرشد کا تعلق اسی خانقاہ سے ہے اور اسی خانقاہ کے ادارہ فیض الرسول براؤں شریف میں آپ نے آٹھ سال تک تعلیم و تربیت کے قیمتی موتی چنے ہیں، سال میں کم از کم دو بار خانقاہ فیض الرسول میں ضرور تشریف لے جاتے ہیں، ایک تو حضور شعیب الاولیاء کے عرس مقدس کے موقع پر اور دوسرے حضور خلیفہ صاحب کے عرس مبارک پر۔ خانقاہ و ادارہ فیض الرسول کو خود بھی اپنے اس فرزند پر ناز ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں طلبہ کاسالانہ امتحان لینے کے لیے دیگر ممتحنین کے ساتھ آپ کو بھی بلایا جاتا ہے۔
مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت
جس دور میں آپ بھیرہواں کی سر زمیں پر تشریف لائے اس وقت کا عالم یقیناً پر آشوب تھا، جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے۔ علاقے میں علمائے اہل سنت کی شدید قلت کے سبب جماعت اہل سنت کے لیے مشکل گھڑی تھی اور باطل اپنے بال وپر نکالنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہا تھا۔ فرق باطلہ کے افراد اسلامی لبادہ اوڑھ کر قصر اسلام کو نقصان پہچانے کی ناکام کوشش میں مصروف تھے۔ شہر کی جامع مسجد میں ہر روز اہل باطل کا یلغار جاری تھا۔ اہل سنت کی آبادیوں کو اپنے عقائد باطلہ کے دام فریب میں پھانسنے اور بہکانے کا بے روک ٹوک سلسلہ جاری تھا۔ ایسے ماحول میں آپ نے علاقے کے با ہمت افراد کے ساتھ پوری قوت سے ان کا مقابلہ کیا، اور مسلک اعلیٰ حضرت کے عقائد کو دلائل کی روشنی میں دلوں میں اتار کر ایک مضبوط حصار قائم فرما دیا۔ اور پھر پورے علاقے میں خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کے اندر بیداری پیدا فرما کر مکاتب اہل سنت کی ایک جال بچھا دی۔ گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو دینی تعلیم کی طرف راغب کیا جس کے نتیجے میں علما و فضلا کی ایک معتد بہ ٹیم تیار ہو گئی، اور فرزندان اسلام کو ایسے ہتھیاروں سے لیس اور آراستہ کر دیا جن کے ذریعہ وہ باطل فرقوں کا دنداں شکن اور منھ توڑ جواب دے سکیں۔
آج اگر کوئی ایک جلسہ کر لیتا ہے، ایک دن اجتماع کی محفل منعقد کر لیتا ہے، یا اس طرح کا کوئی کام کر لیتا ہے تو بڑی بے باکی سے کہنے لگتا ہے کہ: ہم نے سب کچھ کیا ہے، اب سے پہلے تو کچھ ہوا ہی نہیں، لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب اس علاقے میں خال خال مکاتب تھے، مسجدیں گنے چنے گاؤں میں تھیں، تب جس نے اس اُجڑے چمن کو سینچا، اس کے سوکھتے درختوں کو ہرا کیا، جس نے مرجھاتے پھولوں کو پانی دے کر شاداب کیا، اصل تعریف کا حق دار وہی ہے۔
آج ہم جو کچھ کر پا رہے ہیں، اگر حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو اس میں بھی حضور صوفی صاحب قبلہ ہی کا فیضان شامل حال ہے۔ آپ بتائیں اگر اہل سنت کی آبادیاں نہ ہوتیں تو آپ کے مدارس ومساجد اور جلسہ جلوس کہاں ہوتے؟ یہ آبادیاں حضرت صوفی صاحب قبلہ کی بچائی ہوئی ہیں، یہ پگڈنڈیاں انھیں کی بنائی ہوئی ہیں، آج ہم ان آبادیوں میں دین کا کام کر لیں، یا پگڈنڈیوں کو پکی سڑک میں تبدیل کر لیں تب بھی اصل انعام کا سہرا تو اسی کو جائے گا جس نے ہمیں پگڈنڈی بنا کر دی۔
حقیقت یہی ہے کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ کی خدمات جلیلہ کا ہم جتنا بھی ترانہ گائیں، کم ہے۔ آج ہمیں بولنے کی جرأت، لکھنے کا ہُنر، سر اُٹھا کر جینے کا موقع اسی ذات ستودہ صفات کے سبب ملا ہے، ورنہ ہم نہ جانے کہاں اور کس خیمے میں ہوتے؟ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ایک نصیحت آموز واقعہ
دار العلوم غوثیہ رضویہ نور العلوم بھیر ہوا کے استاذ حضرت مولانا ابو الوفا صاحب قبلہ نے بتایا کہ ایک بار میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ چلو اجمیر شریف چلتے ہیں، بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے چلیں گے۔ فیصلہ ہو گیا اور جانے کی تیاری بھی مکمل ہو گئی، لیکن جیسے ہی میں مدرسے پر آیا، حضرت صوفی صاحب قبلہ نے مجھے فوراً بلایا اور کہا کہ مولوی صاحب! مزار پر تو عورتوں کا لے جانا جائز نہیں ہے۔ یہ مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف اور شرعاً ممنوع ہے۔ کہتے ہیں کہ میں تو حیرت واستعجاب سے حضرت کا منہ تکنے لگا، اور میں نے کہا: حضرت آپ سے کس نے بتایا، ابھی تو بات ہوئی ہے اور وہ بھی صرف ایک آدمی سے، میں نے کسی اور سے اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا، بلکہ بیان کرنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ حضرت مسکرائے اور فرمایا کہ: ہم مسلک اعلیٰ حضرت کے ماننے والے ہیں ہمیں اسی کے مطابق زندگی گزارنا چاہیے، اسی میں ہمارے لیے دارین کی بھلائی ہے۔
فوٹو اور ویڈیو گرافی سے احتراز
اس دور پُر فتن میں جہاں بہت ساری برائیوں نے جنم لیا ہے انھیں میں ایک بہت بڑی برائی فوٹو اور ویڈیو گرافی کی ہے جس نے ایک ایسی وَبا کی صورت اختیار کر لی ہے جس سے بچ کر نکل پانا ایک امر متعذر ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر بنانے کے جدید ذرائع فوٹوگرافی، مووی میکنگ وغیرہ کے بارے میں کچھ اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ تصاویر نہیں ہیں بلکہ یہ عکس ہے، اور یہ جائز ہے۔ جبکہ اہل علم کا دوسرا گروہ اسے بھی تصویر ہی سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تصویر کی جدید شکل ہے، لہذا ان کے نزدیک فوٹو گرافی اور ویڈیو ناجائز اور غیر مشروع ہے۔ اہل علم کے ایک تیسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ یہ تصویر ہی ہے، لیکن بامر مجبوری ہم دین کی دعوت و تبلیغ کی غرض سے ویڈیو کو استعمال کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رائے اکثر اہل علم کی ہے جن میں عرب وعجم کے بہت سے علما شامل ہیں۔
اس تیسری رائے کے حاملین نے ویڈیو کو اصلاً مباح اور حلال قرار نہیں دیا ہے، لیکن دینی اصول ” اضطرار” کو ملحوظ رکھ کر قاعدہ فقہیہ ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘(یعنی ضرورتیں ناجائز کاموں کو جائز بنا دیتی ہیں) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے اس تیز ترین دور میں ویڈیو کو صرف تبلیغ دین کے مقاصد میں بامر مجبوری استعمال کرنا مباح قرار دیا ہے۔ یعنی دعوت و تبلیغ کے علاوہ امور میں یہ گروہ بھی اسے ناجائز ہی سمجھتا ہے۔
ان پر پیچ حالات کے باوجود حضرت صوفی صاحب قبلہ اس معاملے میں بھی بہت محتاط ہیں اور تقویٰ کو فوقیت دیتے ہیں۔ نیز اپنی دانست میں حتی المقدور اس امر شنیع سے احتراز فرماتے ہیں۔ سرکاری دستاویزات وغیرہ [جن کے بغیر حکومتی حقوق سے مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے ان] میں بوجہ شرعی مجبوری جواز کے قائل ہیں، جو بلا شبہ ان کے بے مثال تقویٰ و پرہیزگاری کی علامت ہے۔
بحیثیت مناظر اہل سنت
آپ ایک باصلاحیت اور قابل ترین عالم و فاضل ہیں، عقائد اہل سنت و جماعت پر آپ کی گہری نظر ہے، اس لیے آپ کے اندر ایک مناظر کی تمام تر صفات بھی موجود ہیں۔ انفرادی طور پر آپ نے بہت سے باطل عقائد کے حاملین کو لاجواب کیا ہے اور کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے علاقے میں کسی بھی فرد باطل کی یہ مجال و ہمت نہیں کہ آپ سے نظر ملا سکے۔ آپ کی جانب سے بارہا جلسوں اور کانفرنسوں میں مناظرے کا چیلنج کیا گیا لیکن کسی نے قبول نہیں کیا کیوں کہ انھیں معلوم ہے کہ حضور شیر نیپال کے روبرو ہمیں منہ کی کھانی پڑے گی۔
لیکن علاقۂ بھیر ہوا سے کافی دور پہاڑی ضلع رام پور نیپال میں ۱۹۹۴ء میں ایک بار ایک وہابی مُلّا نے وہاں کے سنیوں سے مناظرے کا چیلنج دیا، تو وہاں کے سُنّیوں نے ایک صاحب کے ذریعے خبر بھجوا کر ساری کیفیت حضرت صوفی صاحب قبلہ کو بتائی، آپ نے فوراً اس کا انتظام کیا، مناظرہ ہوا، باطل کو شکست ہوئی اور سنیوں کا بول بالا ہوا۔
(مناظرے کی تفصیل حضرت قاری ندیم مصباحی کی تحریر میں ملاحظہ کریں)
اسی طرح حضرت مولانا ضمیر اللہ صاحب مقام بنرہواں، مہراج گنج نے بتایا کہ تقریباً ۱۹۸۸ء میں، جس وقت میں دار العلوم غوثیہ بیروا بنکٹوا میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو عُزیر نامی ایک دیوبندی مولوی نے اپنی جماعت کے ساتھ حضرت مولوی محمد نثار احمد مرحوم سے علم غیب کے مسئلے میں بحث شروع کی اور مناظرے کا چیلنج کیا تو انھوں نے فوراً حضرت صوفی صاحب قبلہ کو بُلایا، پھر حضرت صوفی صاحب قبلہ تشریف لائے اور انھوں نے دیوبندی مولویوں کی وہ دُرگت بنائی کہ اُنھیں بھاگتے ہی بنی۔ اور آخر کار انھیں حضرت صوفی صاحب قبلہ کے سامنے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
ہمارے لیے عہدے چھوڑ دیے
آپ کا بے پناہ احسان ہے کہ آپ نے نیپال کے اس علاقے کو خدمت دین کے لیے چُنا، پہلے آپ کو بت اچکے ہیں کہ یہاں تشریف لانے سے قبل حضرت بڑھیا میں تعلیم دے رہے تھے، ایک طرف بڑھیا کا مدرسہ تھا جسے آپ نے خون پسینے سے سیراب کر کے ہرا بھرا کیا تھا، اور دوسری طرف نیپال کے ترائی کا یہ علاقہ جہاں گنے چنے چند مکاتب تھے اور دار العلوم غوثیہ رضویہ بھیر ہوا بھی ایک چھوٹا سا مکتب ہی تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر آپ دنیاوی نقطۂ نظر سے سوچتے تو آپ کے لیے ہر اعتبار سے ’’بڑھیا‘‘ کا مدرسہ ہی اچھا تھا، وہاں تعلیم بھی منتہی درجات تک تھی اور سہولت بھی، وہاں مستقبل بھی خوش گوار ہو سکتا تھا۔ لیکن آپ نے ان تمام باتوں کو پس پشت ڈال کر اس علاقے کو صرف اور صرف اس لیے چُنا کہ پھل لگے ہوئے درخت سے پھل توڑ کر کھانا کمال کی بات نہیں ہے، بلکہ کمال تو یہ کہ درخت لگا کر پھر ایک لمبی آزمائش اور محنت کے بعد پھل کھایا جائے۔
اس کے علا وہ ہندوستان کے مختلف مدارس سے آپ کے لیے پیغامات آئے کہ آپ یہاں آ جائیں، آپ کی زندگی خوشگوار ہو جائے گی، یہاں تک کہ آپ کے مادر علمی براؤں شریف میں آپ کو بہت اصرار کے ساتھ مدعو کیا گیا، لیکن آپ نے اپنے اسی علاقے کو خدمت دین کے لیے ترجیح دیا۔ یقیناً یہ آپ کی بہت بڑی قربانی ہے جسے فراموش کرنا ممکن نہیں۔
جلوس میلا دالنبیﷺ کا آغاز
بھیرہواں تشریف لانے کے بعد آپ نے اس علاقے میں پہلی بار۱۹۷۲ء مطابق۱۳۹۲ہجری میں جلوس عید میلاد النبیﷺ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے جب یہاں کے لوگوں سے اس کا ذکر کیا تو سب کے کان کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ حضرت آپ کو معلوم ہے: یہاں شاہی حکومت ہے، جو کام آج تک نہیں ہوا، اسے کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ اس کا ارادہ ترک کر دیں۔ لیکن آپ کا حوصلہ پختہ اور ارادہ مستحکم تھا۔ آپ نے کچھ احباب کے ساتھ مل کر کوشش کی اور آخر کار بڑی مشکل سے اجازت مل گئی۔ اس طرح آپ نے اس علاقے میں جلوس عید میلاد النبیﷺ کی ابتدا فرما کر اہل سنت و جماعت پر احسان عظیم فرمایا۔
بعض احباب کہتے ہیں کہ یہ نیپال کا پہلا جلوس میلاد النبیﷺ تھا جسے حضرت صوفی صاحب نے شروع کیا۔ بعد میں دھیرے دھیرے سب کو حوصلہ ملا اور آج تو الحمد للہ اس کی شان یہ ہو گئی کہ درجنوں گاؤں سے لوگ اس جلوس میں شریک ہوتے ہیں، میرا خیال ہے کہ یہ ملک نیپال کا سب سے بڑا جلوس ہوتا ہو گا۔
عزیزی مسلم مسافر خانہ کا قیام
شہر بھیر ہوا (نیپال) میں ایک بہت ہی قدیم آنکھ ہسپتال ہے، جہاں ہند و نیپال کے دور دراز علاقوں سے دیگر مریضوں کے علاوہ کثیر تعداد میں مسلم بھائی بھی آتے ہیں۔ جہاں تقریباً تمام رہائشی ہوٹل غیر مسلموں کا ہونے کی وجہ سے انھیں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا، ان کو کھانے، پینے، رہنے، سہنے اور نماز وغیرہ کی ادائیگی میں کافی مشقتوں سے جُوجھنا پڑتا تھا۔ بَرادران اسلام کی ان مشکلات کا حضرت صوفی صاحب قبلہ نے احساس کیا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہاں زمین سونے کے بھاو بکتی ہے، اس لیے حضرت نے اہل ثروت حضرات سے گفتگو کی، کچھ امید کی کرن نظر آئی تو آپ نے اس سلسلے میں معتمد حضور حافظ ملت حضرت حافظ عبد الحکیم مرحوم، سابق پرنسپل دار العلوم عزیزیہ مظہر العلوم نچلول بازار مہراج گنج سے بات کی۔
چوں کہ مرحوم حافظ صاحب قوم و ملت کے بہت بڑے ہمدرد تھے، اس لیے انھوں نے فوراً تعاون کا وعدہ کر لیا، اور کہا کہ میں ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہوں، انھوں نے اپنا وعدہ نبھایا بھی اور اپنے متعلقین سے زمین کی خریداری کی رقم مہیا کرانے میں اہم رول ادا کیا، اور اس طرح کافی تگ و دو کے بعد حضرت صوفی صاحب قبلہ نے مخیرین ہند و نیپال کے تعاون سے بھیر ہوا آنکھ ہسپتال کے پاس ایک قیمتی زمین خرید لی۔ اور سن ۱۴۱۸ھ میں حضور سربراہ اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ و حضرت حافظ عبد الحکیم مرحوم اور دیگر علمائے کرام کے ہاتھوں اس کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔
اب تعمیر کا مرحلہ درپیش تھا جو یقیناً مشکل تھا، حضرت صوفی صاحب قبلہ نے اپنے ارکان واساتذہ کے ساتھ مل کر کافی محنت و مشقت کی اور جلد ہی یہ مرحلہ بھی آسان ہو گیا۔ اس وقت اللہ جل شانہ اور اس کے رسول پاکﷺ کے کرم سے ۸ کمرے، ۳ بیت الخلا اور دو غسل خانوں پر مشتمل یہ ’’عزیزی مسلم مسافر خانہ‘‘ برادران اسلام کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
زیارت حرمین شریفین
۲۰۰۰ء میں آپ نے زیارت حرمین شریفین کی سعادت سے شرفیابی حاصل کی۔
اولاد
1 جناب سراج احمد صاحب قبلہ
2 حضرت مولانا اعجاز احمد شہید
3 جناب ڈاکٹر نیاز احمد صاحب قبلہ
4 محترمہ صالحہ خاتون، زوجہ مولانا عبد الرحمٰن صاحب
5 محترمہ عابدہ خاتون، زوجہ مولانا غلام سرور صاحب
6 محترمہ ساجدہ خاتون، زوجہ آزاد عالم صاحب
7 محترمہ صابرہ خاتون، زوجہ محمد اسلم صاحب
ہم درس علما
حضرت علامہ مفتی قدرت اللہ رضوی
حضرت مولانا رحیم الدین صاحب
حضرت مولانا عبد الجبار چرکھوی
حضرت مولانا محمد شفیع صاحب مرحوم
حضرت مولانا علیم الدین صاحب
اساتذۂ تفسیر و حدیث
نمونۂ اسلاف، بدر ملت حضرت علامہ بدر الدین احمد قادریؔ مصباحیؔ
حضرت فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی
حضرت علامہ محمد نسیم مصباحیؔ صاحب
حضرت مولانا یونس نعیمیؔ صاحب
حضرت علامہ حکیم محمد نعیم الدین صاحب
شیخ العلما حضرت علامہ غلام جیلانی اعظمی
حضرت علامہ قاری علی حسین صاحب قبلہ بستوی
مساجد کا قیام
ضلع روپندیہی اور اطراف میں تقریباً جتنی مساجدہیں سب کاسنگ بنیاد آپ کے ذریعہ رکھا گیا ہے۔ اور آپ ہی کی تحریک و تبلیغ پر اُن کا قیام عمل میں آیا ہے۔ ابھی فروری ۲۰۱۸ء میں آپ نے حضرت مولانا نور محمد مصباحی صاحب کے ساتھ کاٹھمانڈو میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی، جہاں پر اہل باطل قبضہ کرنے کے فراق میں تھے۔
آپ کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے
دار العلوم قادریہ اہل سنت فیض العلوم بینی پور ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ قادریہ اہل سنت فیض العلوم دُبولیا، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ اہل سنت نور العلوم اَورہواں، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ غوثیہ اہل سنت فیض العلوم، چھیپا گڑھ، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ یار علویہ فیض الرسول ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ قادریہ اہل سنت مصباح العلوم، پوکھربھنڈی ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ عربیہ اہل سنت غریب العلوم، دیو دہ، بِرتا بازار ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ قادریہ اہل سنت مصباح العلوم، پننی ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ غوثیہ اہل سنت نورالعلوم، للت پور پکڑِہوا، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ عربیہ اہل سنت انوار العلوم، دَرخَشْواں ضلع روپندیہی (نیپال)
دار العلوم قادریہ اہل سنت شمس العلوم، بالا پور، ضلع روپندیہی (نیپال)
دار العلوم محمدیہ غوث العلوم کھجوریا، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ غوثیہ نورالعلوم پکلہواں، رانی گاؤں، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ ٖغوثیہ اہل سنت نورالعلوم، چین پور، ضلع روپندیہی (نیپال)
جامعہ قمرالنسا نسواں (کالج) چین پور، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ عربیہ اہل سنت فیض العلوم، بیرہواں، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ غوثیہ اہل سنت غریب نواز، کھُرہُریا، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ عربیہ اشرفیہ اہل سنت نور الاسلام، دھکدئی ضلع روپندیہی (نیپال)
دار العلوم عربیہ اہل سنت نور العلوم، پوکھربھنڈا، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ عربیہ نور العلوم، شنکر پور، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ عربیہ سسوا، ضلع روپندیہی (نیپال)
مدرسہ قادریہ اہل سنت چھتونیا، مہراج گنج (یوپی)
شرف بیعت
جس وقت آپ نے دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف میں داخلہ لیا اس وقت حضور سیدنا یار علی شاہ المعرف بہ شعیب الاولیاء بانی فیض الرسول با حیات تھے۔ چوں کہ آپ کا زہد و تقویٰ ایک عالم میں مشہور و معروف تھا۔ حضرت صوفی صاحب نے بھی جب ان کے شب و روز کا مشاہدہ کیا تو دل دے بیٹھے اور انھیں سے شرف بیعت حاصل کی۔
خلافت و اجازت
آپ کو مندرجہ ذیل اصحاب طریقت سے مختلف سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے:
حضرت علامہ الحاج سید اشفاق حسین صاحب قبلہ سگرولی، مدھیہ پردیش سے آپ کو سلسۂ عالیہ قادریہ، تیغیہ کی خلافت و اجازت ملی۔
شہزادۂ حضور حافظ ملت حضرت علامہ الحاج عبد الحفیظ صاحب قبلہ، سربراہ اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور نے سلسۂ عالیہ قادریہ، اشرفیہ، عزیزیہ کی اجازت و خلافت مرحمت فرمائی۔
حضرت علامہ الحاج سید احمد اشرف کچھوچھوی صاحب قبلہ کی جانب سے سلسلۂ اشرفیہ وغیرہ کی اجازت و خلافت عطا کی گئی۔
مشہور تلامذہ
رئیس التحریر حضرتِ علامہ محمد وارث جمال صاحب، صدر آل انڈیا تبلیغ سیرت ممبئی۔
حضرت علامہ شمیم القادری صاحب قبلہ، پرنسپل دار العلوم غوثیہ بڑھیا سدھارتھ نگر
فاضل جلیل حضرت علامہ مفتی کوثرحسن صاحب قبلہ بلرام پور۔
صاحبزادہ حضرت مولانا اعجاز احمد (شہید) ۔
عتیق العلما، حضرت علامہ عتیق الرحمن صاحب قبلہ، مہوا۔
حضرت علامہ طفیل احمد صاحب قبلہ، بڑھیا۔
حضرت علامہ عبد القیوم صاحب قبلہ، کتھولیا۔
حضرت علامہ محمد عارف صاحب قبلہ، بڑھیا۔
حضرت علامہ مبارک حسین صاحب، مہوا۔
حضرت مولانا اقبال احمد صاحب قبلہ، احمد آباد گجرات۔
حضرت مولانا سید علی نظامی صاحب، پرنسپل دار العلوم سعیدالعلوم لکشمی پور۔
حضرت مولانا ڈاکٹر سراج احمد فیضی برکاتی صاحب علیگ، کٹھوتیا بھیر ہوا۔
حضرت علامہ مفتی محمد نعیم الدین صاحب، بحر العلوم خلیل آباد سنت کبیر نگر۔
حضرت علامہ محبوب عالم نوری صاحب، دار العلوم سعیدالعلوم لکشمی پور۔
حضرت مولانا غلام محی الدین رضوی، دار العلوم سعیدالعلوم لکشمی پور۔
حضرت علامہ مظہر علی علیمی، دار العلوم عربیہ اہل سنت پوکھر بھنڈا ضلع روپندیہی۔
حضرت علامہ قاری منور حسین صاحب، سراج العلوم برگدھی مہراج گنج۔
حضرت مولانا حسن رضا نظامی صاحب قبلہ خطیب و امام جامع مسجد کھنڈوہ۔
حضرت مولانا محمد صدر الدین مصباحیؔ صاحب، دار العلوم سعید العلوم لکشمی پور۔
حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب، پراتھمک ودیالیہ کلہوئی، مہراج گنج۔
حضرت مولانا مختار احمد صاحب، جامعہ اقرا نسواں گلش برکات ٹھوٹھی باری۔
حضرت مفتی ذوالفقار احمد صاحب، مہتمم جامعہ امام احمد رضا، چمن ٹولہ، نول پراسی۔
حضرت مولانا غلام سرور صاحب، بینی پور، بھیرہواں، (نیپال) ۔
حضرت مولانا مقصود عالم نظامی صاحب، مدرسہ اہل سنت دھکدئی روپندیہی۔
حضرت مولانا منیر عالم رحمانی، کٹھوتیا، بھیر ہواں، نیپال۔
حضرت مولانا مقبول احمد صاحب قبلہ، شیوپوری، مہراج گنج۔
حضرت مولانا عبد الرحمٰن صاحب (مرحوم) پڑولی، مہراج گنج۔
حضرت مولانا ابو الوفا نظامی صاحب، استاذ مدرسہ غوثیہ بھیر ہوا نیپال۔
حضرت مولانا زبیر احمد شمشی صاحب، بیرہواں، روپندیہی، (نیپال) ۔
حضرت مولانا محمد عمر مصباحیؔ نظامیؔ صاحب، شیوپوری سری نگر، مہراج گنج۔
حضرت مولانا زبیر احمد صاحب، دھرم سنگھوا، سدھارتھ نگر (یوپی) ۔
حضرت مولانا جعفر علی نظامی صاحب، پرنسپل مدرسہ کھجوریا(نیپال) ۔
حضرت مولانا شہزاد احمد قادری صاحب، مہتمم مدرسہ اشرفیہ چھوٹو ڈیہوا۔
حضرت قاری مشکور احمد نیپالی صاحب، دار العلوم اہل سنت آگرہ۔
حضرت مولانا شاہ عالم نیپالی صاحب، کھرہریا، نیپال۔
حضرت مولانا محمدشریف صاحب، پرنسپل مدرسہ ہتھیا گڑھ۔
حضرت مولانا سید مختار احمد صاحب قبلہ، پراسی نیپال۔
حضرت مولانا سید غلام حسین صاحب، مہتمم جامعہ فیضان اہل بیت نول پراسی۔
حضرت مولانا صدام حسین صاحب، جامعہ فیضان اہل بیت پراسی نیپال۔
حضرت مولانا محمد عمر صاحب، پرنسپل مدرسہ بِرتا نیپال۔
حضرت مولانا قاسم صاحب، اُدَے پور، نیپال۔
حضرت مولانا قمر الزماں نظامی ازہری صاحب، پھلوریا مہراج گنج۔
حضرت مولانا محمد خالد ازہری صاحب، گورکھا (نیپال) ۔
حضرت مولانا محمد شاہد نیپالی صاحب، پوکھرا (نیپال) ۔
حضرت مولانا ضمیر الدین نیپالی صاحب، گورکھا (نیپال) ۔
حضرت حافظ وقاری شبیر احمد یارعلوی صاحب، پرنسپل مدرسہ پہونی، مہراج گنج۔
حضرت حافظ وقاری قمر الدین صاحب، رام پور (نیپال) ۔
حضرت مولانا حاجی محمد علی نظامی ازہری صاحب، بلہیا روپندیہی (نیپال) ۔
حضرت مولانا محمد معروف ازہری، نظا می صاحب، پکھربھنڈا (نیپال) ۔
حضرت مولانا محبوب عالم نظامی صاحب، متھرا نگر، مہراج گنج۔
راقم الحروف غیاث الدین احمد مصباحیؔ نظامیؔ، سعید العلوم لچھمی پور مہراج گنج۔
٭٭٭
روبرو
راقم الحروف نے حضور صوفی صاحب قبلہ سے براہ راست کچھ اہم سوالات کیے، جن کا حضرت نے جواب عنایت کیا۔ افادۂ عام کے لیے سوال و جواب قارئین کی نذر ہیں۔ (مرتب)
سوال: حضور یہ ارشاد فرمائیں کہ ایک استاذ کو کیسا ہونا چاہیے؟
جواب: دنیا کے سب سے عظیم معلم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ چنانچہ حضور نبی اکرمﷺ نے خود اپنے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’انما بعثت معلماً‘‘۔ یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (بخاری ومسلم)
آپﷺ کے منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری تعلیم و تزکیہ کی بھی تھی۔
استاداور معلم معاشرے میں اس عظیم شخصیت کو کہا جاتا ہے، جو نظام عالم کی بقا میں بنیادی اور مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور اسے گھن لگنے سے بچاتا ہے۔ ایک استاد محض ایک شخص یا ذات کا نام نہیں، بلکہ وہ پورا ایک جہان ہوتا ہے، جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ متعلق ہوتے ہیں۔ استاد کی محنت، لگن، شوق، امانت، دیانت، راست بازی، نیک نیتی کا اثرصرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں ہوتا، بلکہ ان صفاتِ حسنہ کا دائرہ کار کروڑوں لوگوں تک وسیع ہوتا ہے۔
دنیا میں آنکھ کھولنے والا ہر انسان استاذ کے بغیر کامل انسان بن سکتا ہے، نہ دنیا کی رنگینیوں میں بے مثال اور بہترین زندگی گزار سکتا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہ ہو گی کہ استاد ہی دنیا میں وہ عظیم ہستی ہے جس کی بقا تا قیامت رہتی ہے۔
سوال: ایک استاذ کے لیے کس قدر لیاقت کا ہونا ضروری ہے؟
جواب: کوئی بھی کتاب پڑھانے کے لیے استاذ کے اندر اس کی لیاقت ہونی چاہیے۔ اگر کسی نے نہ تو وہ کتاب پڑھ رکھی ہو اور نہ ہی اس کے اندر پڑھانے کی صلاحیت ہو تو اس کے لیے اس کتاب کا پڑھانا درست نہ ہو گا، ایسے شخص کے ذمہ اس کتاب کو پڑھانا طلبہ کے ساتھ خیانت ہو گی۔
سوال: مدرسے کا نظم ونسق سنبھالنے والوں کا اخلاق و کردار کیسا ہونا چاہیے؟
جواب: مدرسہ کو کسی عالم کی سرپرستی میں چلانا چاہیے، تاکہ نظام درست اور شریعت کے مطابق چل سکے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو کم از اتنا ضرور ہو کہ مدرسے کا سرپرست ایسا ہو جو دیندار، علما کا قدر دان اور مخلص ہو، کیونکہ مدرسے میں علومِ دینیہ کی تعلیم دی جاتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ ایسا شخص باقاعدہ کسی مدرسے سے فارغ بھی ہو، تاکہ نظام کو چلانا آسان ہو۔
اگر مدرسہ چندہ سے چلایا جا رہا ہو تو چندہ وصول کرنے اور اس کو صحیح مصرف میں خرچ کرنے کا علم بھی ہو۔ اورمدرسہ چلانے والا ایسا شخص ہو جو با اخلاق ہو اور لوگوں کے ساتھ ان کے احوال کے مطابق عمل کرنے والا ہو۔
سوال: آج کل خواتین کی تعلیم گاہوں کا رواج عام ہو گیا ہے اس طرح کے اسلامی اسکول چلانے کے لیے کیا شرائط ہیں؟
جواب: خواتین کی تعلیم گاہیں اور اسکول و کالجز صرف اور صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں، مخلوط تعلیم نہ ہو اور مردوں کا ان تعلیم گاہوں میں آنا جانا اور عمل دخل ہرگز مناسب نہیں ہے، بلکہ ایسے مدارس کی جائے وقوع بھی فتنہ وفساد اور اس کے امکان سے محفوظ ہو۔
شرعی پردہ کے ساتھ ان تعلیم گاہوں تک خواتین کی آمد و رفت کا محفوظ انتظام ہو کہ کسی مرحلہ میں بھی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
نیک کردار، پاک دامن عورتوں کو تعلیم کے لیے مقرر کیا جائے۔ اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں تو بدرجۂ مجبوری نیک صالح اور قابل اعتماد عمر دراز مردوں کو مقرر کیا جائے جو پس پردہ خواتین کو تعلیم دیں۔
سوال: ایک عالم دین کی وضع قطع کیسی ہونی چاہیے؟
جواب: علمائے دین کو ایسا لباس زیب تن کرنا چاہئے جسے ’’لباس التقویٰ‘‘ کہا جائے یعنی ایسا لباس جس سے خشیت الٰہی کا اظہار ہوتا ہو۔ اور لباس کے بارے میں جو شرعی ہدایات ہیں ان کی پاسداری کرے۔ اگر کوئی بہ ظاہر عالم دین شخص بھی اسلامی لباس کی حدود پر کاربند نہیں ہے تو اس کی اس معاملے میں پیروی نہیں کی جائے گی۔ کیوں کہ انسان جس قوم کا لباس پہنتا ہے، اسی سے اس کی مشابہت ہوتی ہے۔ متقیوں یا اہل علم کا سا لباس پہننے سے انسان متقی نظر آتا ہے اور یہی اسلام کا تقاضا ہے۔ غیر مسلموں، فاسقوں اور آبرو باختہ عورتوں جیسا لباس پہن کر ان سے محبت بڑھتی ہے اور ان جیسی عادات پیدا ہوتی ہیں۔
اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: ’’المرء مع من احب‘‘ ’’انسان اسی کے ساتھ ہو گا جس کو وہ پسند کرتا ہے۔‘‘ اس لیے خاص کر طالبان علوم نبویہ اور علمائے اسلام کو ایسے لباس اور وضع قطع ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہئے جو شریعت کے منافی اور سماج میں رسوائی کا باعث ہو۔
سوال: آج کل غیروں کی دیکھا دیکھی مسلم سماج میں بھی عریانیت عام ہوتی جا رہی ہے اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: دیکھیے! شیطان نے انسان کے اوپر جو سب سے پہلا حملہ کیا وہ یہ ہے کہ اس نے اس کو بے لباس کروایا اور آج بھی شیطان خود اپنے چیلوں سمیت، انسان کا لباس اتروانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ آج جس چیز کا نام ہم نے تہذیب، شائستگیاور ترقی رکھا ہوا ہے وہ سوائے فحاشی کے کچھ بھی نہیں۔
اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ نماز فرض ہے لیکن ستر کا چھپانا یہ نماز سے پہلے فرض ہے۔ ستر پوشی کی اتنی اہمیت ہے کہ نماز بھی اس کے بغیر مکمل نہیں۔
لباس اتنی بڑی نعمت ہے کہ نبیعلیہ السلامکو جب نیا لباس ملتا تو یہ دعا مانگا کرتے تھے:
اَلْحَمْدُ لِلہِالَّذِیکسَانِی.
ترجمہ: اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے لباس عطا کیا۔
سوال: آج اسلامی مدارس کے طلبہ کے اندردینی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے، اس حوالے سے آپ انھیں کچھ نصیحت فرمائیں۔
جواب: ایک طالب علم کی سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری علم کا حصول ہے۔ اسے علم کی سچی لگن ہونی چاہیے اور اسے حصول علم کے لیے جوش وجذبے سے کام لینا چاہیے۔
طالب علم کے اَخلاق و عادات اور اَطوار و مشاغل میں اِسلامی قوانین اور روایات کی نمایاں جھلک ہونی چاہیے۔ اسے مذہبِ اِسلام کی سنہری اَقدار و روایات کا امین ہونا چاہیے۔ و الدین اور اَساتذہ کا دل سے قدردان ہونا چاہیے کیوں کہ علم کا پہلا زینہ اَدب ہے۔ استاذ کی قدر اور عزت کے بغیر علم کے اَسرار و رموز پانا مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔ و الدین بچوں کی جسمانی پرورش کرتے ہیں تو اَساتذہ ان کی ذہنی، اخلاقی، تعلیمی اور روحانی تربیت کرتے ہیں۔
معاشرہ، طلبہ سے بہت سی توقعات وابستہ رکھتا ہے، پس انھیں چاہیے کہ وہ معاشرتی فلاح و بہبود کے اصول پر نہ صرف خود عمل کریں بلکہ ان کے فروغ کا سبب بھی بنیں۔ وہ مار دھاڑ، دنگافساد اور توڑ پھوڑ جیسے ناپسندیدہ اور برُے اَعمال سے دور رہیں۔ ان کی نظر ہمیشہ صرف ایک بات پر رہنی چاہئے کہ وہ انبیائے کرام کے وارث ہیں، ان کا مشن سب سے عظیم ہے، لہذا ان کے اخلاق وکردار اور عادات و اطوار بھی اعلیٰ ہونا چاہئے۔
سوال: ایکسچے مسلمان کی زندگی کیسی ہونی چاہیے؟
جواب: قرآن و حدیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے جس نے اللہ رب العزت کی کتاب اور اس کے احکام کی پیروی کی، جو حبیب مصطفیﷺ کو اللہ سبحانہ و تعالی کا آخری رسول مانے اور ان کے اقوال اور افعال کی روشنی میں اپنی زندگی گزارے۔ سچا مسلمان وہ ہے جو ہاتھ سے پہلے اپنی زبان سے دوسروں کو محفوظ رکہے، جو سچا، صادق اور امانت دار ہو۔ جو خود غرض نہ ہو اور اپنے بہائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو۔ جو اپنے ہر فعل اور ہر قول میں اللہ سے ڈرے یعنی وہی کام کرے جس سے اس کا رب راضی اور خوش ہو جائے۔ مسلمان وہ ہے جو دین اور دنیا دونوں کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑے – جو اپنی زندگی کے لئے ایسے کام کرے کہ رہتی دنیا تکاس کے کارنامے باقی رہیں اور اپنی آخرت کے لئے ایسے کام کرے جیسے وہ اگلے لمحہ مرنے والا ہے۔ بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی اتنا اچہا سلوک کرے کہ وہ اس کے حسنِ اخلاق کی وجہ سے اس کے دین میں داخل ہونے کے لئے بے چین ہو جائیں۔
سوال: مسلک اعلیٰ حضرت کیا کوئی نیا مسلک ہے؟
جواب: مسلک اعلیٰ حضرت، مسلک اہل سنت و جماعت کا ہی دوسرا نام ہے۔ یہ کوئی نیا مسلک نہیں۔ مسلک اہل سنت و جماعت کا تعلق عقائد سے ہے۔ اسی مسلک سے عہد رسالت سے لے کر آج تک ساری دنیا کے مسلمان وابستہ رہے۔ پھر بعد میں، فقہی، فروعی، اجتہادی مسائل میں دلائل کی بنا پر اسی مسلک سے وابستہ فقہا کے چار مذاہب وجود میں آئے۔ (1) حنفی (2) مالکی (3) شافعی(4) حنبل۔ اور یہی چاروں اہل مذاہب ناجی ہیں، اور آج جو ان سے الگ ہے ناری ہے۔
یہ چاروں مذاہب صرف فقہی، فروعی، اجتہادی مسائل میں باہم اختلاف رائے رکھتے ہیں اور عقائد میں سب کا مسلک ایکہے۔ تمام اہل اسلام و مجددین اسلام کا مسلک یہی رہا ہے۔ اسی مسلک اہلسنت کو عصر حاضر میں مسلک اعلی حضرت کہا جاتا ہے۔
٭٭٭
تاثرات علمائے کرام و مشائخ عظام
پیر طریقت حضرت علامہ الحاج محمد حبیب الرحمٰن قادری، برکاتی، دام ظلہٗ العالی
خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ نوریہ رضویہ نظامیہ اگیا شریف سنت کبیر نگر
عظیم القدر شخصیتوں کی دینی، علمی، عملی زندگی اور ان کی خدمات جلیلہ کو خراج عقیدت پیش کرنا، انھیں یاد رکھنا اور ان کے شعبہ ہائے حیات کے پاکیزہ گوشوں اور اچھے کارناموں کو مشعل راہ بنانا، زندہ قوموں کی نشانی ہے۔
اس کے برخلاف جو قومیں اپنے اسلاف سے غافل و دور ہو جاتی ہیں، وہ قومیں بڑی تیزی سے زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ایک عبقری شخصیت شیرِ نیپال حضرت علامہ و مولانا صوفی محمد صدیق قادری جو علوم و فنون، تقویٰ و طہارت اور خدمت خلق اور حسن اخلاق کی بنیاد پر پورے ملک نیپال میں ہر دل عزیز ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’شیرِ نیپال حیات وخدمات‘‘برادر طریقت مولانا غیاث الدین احمد مصباحی نے حضرت شیرِ نیپال کی زندگی کے مختلف گوشوں کو اجمالی طور پر سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ قاری اس کے ذریعہ حضرت کی شخصیت سے براہ راست متعارف ہو سکتا ہے۔ اور ان کے علمی و فکری مقام، زہد و تقویٰ، اخلاق حمیدہ، خرد نوازی نیز دینی مصروفیات سے آشنا ہو کر خود بھی ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کر سکتا ہے۔ رب کریم اس کاوش کو قبول فرمائے اور حضرت شیرِ نیپال کی عمر میں برکتیں عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت علامہ محمد شمیم القادری صاحب قبلہ
پرنسپل دار العلوم فیض الرسول، بڑھیا سدھارتھ نگر
صوفی با صفا، پیر طریقت، حضور شعیب الاولیاء شاہ محمد یار علی علوی کا ورود مسعود ایک ایسی جگہ ہوا، جہاں جہالت کا راج تھا، جسے سرزمین براؤں شریف کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ کی نگاہ التفات سے یہ بستی آج مرکز روحانیت بن چکی ہے۔ اس مرد قلندر نے اس ظلمت کدہ میں علم و عرفان کا مینارۂ نور کھڑا کر دیا، یعنی دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف، جہاں سے علم و حکمت، معرفت و حقیقت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ جس کی ضیا پاشیوں سے ایک عالَم منور ہو رہا ہے، اورجس کی بنیاد ہی اخلاص و للہیت پر رکھی گئی ہے۔ اسی نادر المثال درس گاہ سے ایک فقید المثال عالم دین کا وجود ہوا۔
شرم و حیا، غیرت و خود داری کا پیکر، کشادہ جبیں، نرم گفتار، سنجیدہ لب و لہجہ، گفتگو میں شیرینی ایسی کہ دل چاہے وہ اسی طرح بولتے رہیں، نیچی نگاہیں جو ان کی غیرت کی دلیل تھی، وہ مختصر سا وجود، مگر سیکڑوں عجائبات اپنے اندر سموئے ہوئے۔
اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
پیشانی پر فکر کی سلوٹیں، آنکھوں میں سنہرے خواب، سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل، عزم و ارادے کے کوہِ گراں، صلح و آشتی کے پیکر، علم و حکمت کے بحر ذخار، اولو العزمی کے بادشاہ، کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھنے والے، دین و سنیت کے لیے درد مند، اور مسیحا، باطل قوتوں کے آگے سد سکندری، حق گو، حق پسند۔
ہو مجلس یاراں تو ریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اخلاق و کردار میں اسلاف کے آئینہ دار، با غیر، با مروت، حسن اخلاق کا پیکر، شاگردوں پر مشفق و مہربان، یعنی حضرت علامہ مولانا صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ فیضیؔ کی ذات والا صفات، جو آج ہمارے درمیان موجود ہے۔
حضور والا کو فارغ ہونے کے بعد جو پہلی درس گاہ ملی وہ مدرسہ غوثیہ بڑھیا، سدھارتھ نگر ہے۔ جس کو وجود میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے تھے جو حضور شعیب الاولیاء کی نگاہ ولایت کی وجہ سے وجود میں آیا جس کے بانی و ناظم الحاج محمد منیف یار علوی صاحب تا دم تحریر اپنے فرض منصبی پر فائز ہیں اور ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔
حضور صوفی صاحب قبلہ نے ۱۳۸۴ھ کے اواخر میں مدرسہ غوثیہ بڑھیا میں قدم رنجہ فرمایا۔ اور اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری فرمائی۔ دیکھتے دیکھتے اس کو اوج ثریا پر پہنچا دیا۔ مدرسے کی تعمیر، مطبخ کا قیام، انتظام و انصرام، حساب و کتاب، آمدنی کے ذرائع کا پیدا کرنا، عوام سے رابطہ، انھیں مدرسے کی طرف مائل کرنا، طلبا کی نگہ داشت، ان کے تعلیم و تربیت پر توجہ، ایسے بے شمار امور تھے، جن کو اپنے کندھوں پر آپ اٹھائے ہوئے تھے۔ اس طرح بے شمار کارنامے ایسے ہیں جو قابل تقلید ہیں، اور قابل تعریف بھی۔
بانیان مدارس اور ناظمان ادارہ کے لیے حضرت صوفی صاحب قبلہ کی شخصیت مشعل راہ ہے۔ جس طرح آپ نے مدرسہ غوثیہ بڑھیا کی ترویج و ترقی میں انتھک کوشش کی، اس کی وجہ سے آپ آج بھی ارکان مدرسہ غوثیہ کے دل کے نہاں خانے میں موجود ہیں۔ آج بھی لوگوں کی نگاہیں، آپ کے آمد کی منتظر ہیں۔
آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مدرسہ غوثیہ بڑھیا میں اس وقت حضور بدر ملت بھی جلوہ گر تھے۔ اور آپ کے تقویٰ و طہارت اور پاکیزگیِ نفس کا شہرہ تھا، وہ ایک آفتاب تھے، جن کی کرنیں لوگوں کے دلوں کو منور کر رہی تھیں، اس آفتاب کے سامنے حضرت صوفی صاحب کا چراغ آج بھی لوگوں کے دلوں میں روشن ہے۔
کچھ نقش تری یادوں کے باقی ہیں ابھی تک
دل بے سر و ساماں سہی ویران نہیں ہے
تقریباً آٹھ سال تک آپ نے یہاں پر خدمت دین کی۔ اور عوام و خواص کے دلوں پر راج کیا۔ پھر حضور بدر ملت کے حکم کو سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے بھیرہواں نیپال تشریف لے گئے۔ تادم تحریر وہیں پر جلوہ گر ہیں۔
بڑھیا سے ان کے جانے کا منظر بھی عجیب تھا، رخصت کرنے والوں کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں، حسرت سے حضرت صوفی صاحب قبلہ کو تک رہی تھیں، اور پوچھ رہی تھیں آپ کیوں جا رہے ہیں؟ ہم لوگوں سے کیا کوتاہی ہوئی؟ جواب تھا، اساتذہ کا حکم یہی ہے۔
وہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے ہر ایک دشت تو پیاسا دکھائی دیتا ہے
نہ اتنی تیز چلے بے سری ہوا سے کہو شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے
شہزادۂ بدر ملت حضرت علامہ و مولانا محمد رابع نور انیبدری
استاذ دار العلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف وسجادہ نشین آستانۂ حضور بدر ملت بڑھیا سدھارتھ نگر
شیر نیپال حضرت علامہ صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ فرزند و فاضل دار العلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف کی شخصیت اپنے آپ میں ایک انجمن ہے، حضرت موصوف یادگار حضور شعیب الاولیاء بین الاقوامی شہرت کی حامل برصغیر کی عظیم ترین دینی درسگاہ دار العلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف کے اولین فضلا اور حضور بدر ملت کے صف اول کے تلامذہ میں سے ہیں۔
میرے والد حضور بدر ملت حضرت علامہ مفتی بدر الدین احمد صاحب قبلہ کی آپ پر خاص نظر عنایت تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک بار زمانۂ طالب علمی میں کسی وجہ سے بغیر اجازت دار العلوم اہل سنت فیض الرسول سے اپنے وطن نیپال ترک تعلیم کی نیت سے چلے گئے تھے، یہ خبر شدہ شدہ حضور بدر ملت تک پہنچی توآپ نے افسوس کا اظہار فرمایا پھر علامہ صوفی محمد صدیق صاحب کے گاؤں (جو کہ نیپال میں ہے) کا صبر آزما سفر یہ کہتے ہوئے طے کیا کہ چلیں، انہیں سمجھا بجھا کر لائیں، اس لیے کہ کم از کم ایک فرد کو تو نیپال کے اس کو ردہ علاقہ میں سنیت اور مسلک رضویت کا چراغ جلانے والا تیار کر دیا جائے۔
حاصل کلام حضرت وہاں پہنچے اور انہیں سمجھا کر لائے اور بفضلہ تعالیٰ انہیں عالم با عمل بنایا، الحمد للہ رب العالمین آج اس علاقہ میں تنہاسنیت اور رضویت کا چراغ جلائے ہوئے ہیں وہاں پر بقیہ علاقوں میں وہا بیت کا غلبہ ہے۔ یہ واقعہ حضرت کی دور اندیشی اور شاگردوں پر شفقت و محبت کا پتہ دیتا ہے (ماخوذ از مضامین بدر ملت)
میں نے بہت سوچ سمجھ کر حضرت ممدوح کو شاہین صفت کہا ہے۔ شاہین صفت یعنی دور اندیشی، بلند ہمتی و بے خوفی اور اعتماد و بلند پروازی کا مجموعہ۔ در اصل شاہین وہ پرندہ ہے جس کی پرواز میں پستی نہیں بلندی ہے، جس کی نگاہوں میں کوتاہی نہیں وسعت ہے، جس کے عمل میں کاہلی نہیں برق رفتاری ہے، جس کی روح میں سکون نہیں بے قراری ہے، جس میں ضعف نہیں قوت ہے، جس میں لالچ نہیں قناعت ہے، جس کی ذہنیت میں غلامی نہیں آزادی ہے، جس کا لہو سرد نہیں ہر لحظہ گرم بلکہ اس کے لئے تو:
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
اللہ تعالیٰ نے شاہین پرندے کو کمال کی خوبیوں سے سرفراز کیا، شاہین خوددار اور غیرت مند ہے، وہ کسی کے ہاتھ کا شکار کردہ کچھ نہیں کھاتا، شاہین آشیانہ نہیں بناتا وہ بلند پرواز رہتا ہے، اُس کی نگاہ تیز ہے، فقر و استغنا اُس کا طرہ امتیاز ہے، شاہین توانائی، جہدِ مسلسل، حریت، تجسس، محنت، پہل کرنے کی خوبی اور خلوت پسندی کی خوبیوں سے مزین ہے۔
حضرت ممدوح میں شاہین کی طرح پرواز میں بلندی، نگاہوں میں وسعت، جہد مسلسل، حریت، تجسس ہے، شخصیت بڑی خود دار، غیور، بہادر، سخت شعار، جرأت مند وفادار، درد مند واقع ہے، ہر لحظہ شاندار ماضی سے سبق حاصل کرنا، حال کو تابناک بنانا، اور حسین مستقبل کی تعمیر کے لئے مصروف عمل رہنا آپ کا وطیرہ ہے۔
آپ نے اپنی آبادی میں ایک عظیم الشان ادارہ ’’دار العلوم غوثیہ رضویہ اہل سنت نور العلوم قائم کیا ہے۔ یہ ادارہ محلہ کٹھوتیا بھیر ہوا ضلع روپندیہی نیپال میں واقع ہے اور دین متین کی خدمت میں مصروف ہے۔
تحریر کے آخر میں دعا ہے کہ:
تو نے اس باغ کو سینچاہے لہو سے اپنے تیری خوشبو سے تیرا باغ ہمیشہ مہکے
پیر طریقت حضرت علامہ مولانا سید اشفاق حسین
سگرولی مدھیہ پردیش
حضرت صوفی محمد صدیق خاں صاحب مد ظلہ العالی اس ذات کا نام ہے جس نے ہر قدم پر سنتوں پر عمل کے ساتھ اس کی اشاعت و ترویج میں خود کو کھپا دیا، ان کی زندگی سنت نبوی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ آپ کی زندگی کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ آپ علم نبوت کے صحیح وارث اور قرآن و سنت کے سچے عاشق ہیں۔ آپ نے زبانی کلامی مدح کے بجائے نبیﷺ کی مبارک سنتوں کو زندہ کر کے عشق کا عملی ثبوت پیش کیا۔ ان کی زندگی میں محبت الٰہی اور ادب نبویﷺ کا حسین امتزاج نظر آتا ہے، نصرتِ خداوندی اور تائید خداوندی اس طرح شامل حال رہی کہ یہ افراط و تفریط سے بچ بچا کر خیر الاموراوسطھا پر عمل پیرا ہوئے۔ جو شخص بھی ضد، حسد عناد سے بالا تر ہو کر ان کی علمی اور عملی کاوشوں کا جائزہ لے گا وہ ان کو خراج تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ آپ کی زندگی میں روح بلالی اور تلقین غزالی کے نمونے جا بجا نظر آئیں گے۔
اصل چیز اتباع سنت ہے۔ جس کو پرکھنا ہو اسی معیار پر پرکھا جائے گا۔ جو شخص اتباع سنت کا جتنا زیادہ اہتمام کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب و مقرب ہو گا۔ اس تناظر میں صوفی صاحب قبلہ کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اتباعِ سنت کا اہتمام آپ کی حیات کا لازمی حصہ ہے۔
حضرت مولانا محبوب عالم قادریؔ، نوریؔ
استاذ مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو لکشمی پور، مہراج گنج
استاذ محترم حضرت صوفی صاحب قبلہ کی ذات ایک منکسر المزاج طبیعت کی حامل ہے۔ آپ ہر چھوٹے بڑے کی قدر اور ان کی خاطر و مدارات میں کوشاں رہتے ہیں۔ طلبا کی تربیت، کریمانہ اور اصلاحانہ طور پر کرتے ہیں۔ اپنی ذاتی نقصان کی وجہ سے زجر و توبیخ نہیں کرتے۔ اکثر و بیشتر طلبا کی کوتاہیوں سے چشم پوشی اور در گزر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شاگرد آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور آپ کا حد درجہ ادب و احترام کرتا ہے۔
میں نے آپ کے اندر بہ طور خاص مہمان نوازی کا جو جذبہ دیکھا وہ قابل تعریف ہے اور قابل عمل بھی۔ جب بھی آپ کے پاس کوئی عالم، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، آتا ہے تو آپ اسے دیکھ کر فرحت وانبساط کا اظہارفرماتے ہیں اور اس کی خاطر خواہ مہمان نوازی بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ذات خاص و عام میں بے حد مقبول ہے۔
آپ کے اندر سنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ بد مذہبوں سے نفرت، دوری اور ان سے قطع تعلق آپ کا معمول ہے۔ اور اہل سنت کی کامیابی اور کامرانی پر بے انتہا خوش ہونا آپ کی عادت جمیلہ ہے۔
میں جس وقت مدرسہ کٹھوتیا میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا، اس وقت بٹول کی مسجد پر ایک دیوبندی امام و خطیب کا قبضہ تھا، اور سب لوگ اسی کی اقتدا میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ بٹول کے ایک صاحب جن کا نام عبد الخلیل (مرحوم) تھا، جو حضور مفتی اعظم کے مرید تھے اور بد مذہبوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ وہ عید اور بقر عید کی نماز بھیرہواں پڑھنے آتے تھے۔ حضرت صوفی صاحب قبلہ اور میں نے جب ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے پورا واقعہ واضح کیا۔ یہ سن کر حضرت صوفی صاحب قبلہ بے تاب ہو گئے اور انھوں نے جناب عبد الخلیل مرحوم صاحب سے فوراً اس بدعقیدہ امام کو بے دخل کرنے کے لیے کہا تو انھوں نے بتایا کہ ہمارے پاس اس کا کوئی انتظام ابھی نہیں ہے۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ کے اندر چوں کہ مسلک اہل سنت کا بے پناہ درد ہے، اس لیے انھوں نے فوراً اپنے ادارے کے ایک استاذ کو بٹول بھیجا اور کہا کہ بدعقیدہ امام کو فوراً ہٹا کر اِن سے امامت کروائیں، میں جب تک کسی سنی صحیح العقیدہ امام کا انتظام کرتا ہوں۔ اس طرح آپ نے وہاں کی مسجد کو غیروں کے قبضے سے بچا لیا اور پھر مسلسل بٹول جا کر عقائد حقہ کی ترویج و اشاعت کرتے رہے، جس کی وجہ سے آج بٹول میں اہل سنت و جماعت اور مسلک اعلیٰ حضرت کا غلبہ اور دبدبہ ہے۔
آپ کی انہی صفات جمیلہ کو دیکھ کر آپ کو پاسبانِ مسلک اعلیٰ حضرت اور شیرِ نیپال کا لقب دیا گیا۔ رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ آپ کی عمر دراز فرمائے اور آپ سے زیادہ سے زیادہ دینی خدمات لے۔ اور بد مذہبوں کے دل میں آپ کا رعب و دبدبہ بیٹھا رہے۔
حضرت علامہ ابو حسام سید قمر الاسلام جھونسوی حفظہ اللہ تعالیٰ
خانقاہ قادریہ ولیہ، جہانگیر نگر، فتح پور
یہ دنیا میدان عمل ہے اور اس کے بعد کی دنیا دار الجزاء۔ یہاں انسان کی آمد ہوئی تاکہ اس کے عمل و کردار کی آزمائش کی جا سکے، جب کہ یہاں سے آخرت کی طرف کوچ کرنے کا مقصد یہ ہو گا کہ انسان زندگی میں کیے ہوئے کاموں کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ قرآن کے مطابق اس مقصد تخلیق کی معرفت اور اس کی بجا آوری انسان کے لیے فلاح دارین کے در وا کرتی ہے۔
لیکن امت محمدیہ علی صاحبھا الف الف تحیۃ کی منصبی ذمہ داری اس سے کہیں زیادہ برتر ہے، اس امت کا مقصد وجود صرف اس قدر نہیں کہ وہ صرف اپنی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہو، بلکہ کلام ریب کے مطابق اس کو انسانیت کی فلاح عام کے لیے برپا کیا گیا۔ در اصل یہی وہ اساسِ شرف ہے جس کی بدولت اس امت کو خیر الأمم کا درجہ بخشا گیا ہے۔
دوسروں کے لیے جینا، ان کی سرکشی و نافرمانی دیکھ کر تڑپ اٹھنا، ان کی اصلاح کے لیے تگ ودو کرنا، ان کو برائیوں سے روکنا اور اچھائیوں کی طرف راغب کرنا، یہ در اصل نبوی وراثت ہے، اس امت کے علما و صوفیہ نے اپنی گوناگوں خدمات کے ذریعے اس وراثت کو آگے بڑھایا ہے، جس کی بدولت کفر کے اندھیروں میں ایمان کا نور پھیلا، گناہوں سے آلودہ افراد عمل و کردار کے حامل بنے اور معاشرہ بے مثال اخلاقی اور اسلامی تہذیبوں کے زیر اثر جگمگا اٹھا۔
سادات صوفیہ اور علمائے ربانین کی یہی وہ پاکیزہ جماعت تھی جس نے مختلف زمانوں میں امت میں در آنے والے نت نئے فتنوں کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے لائحۂ عمل بھی پیش کیا۔ یہ ان ہی مردانِ حق آگاہ کی دعوتی مساعی کا ثمرہ ہے کہ اکناف عالم میں اسلام کے غنچے لہلہا رہے ہیں۔
قابل مبارک باد ہیں ہمارے مشفق و کرم فرما حضرت مولانا غیاث الدین مصباحی صاحب جنھوں نے ملک نیپال کے جلیل القدر عالم دین حضرت علامہ صدیق حسن صاحب حفظہ اللہ کی حیات و خدمات کو یکجا کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، اس سے جہاں ایک طرف احسان سناشی کی پاکیزہ روایت تازہ ہو گی وہیں نسل نو اس عظیم المرتبت عالم ربانی کے نقوش سیرت کی روشنی میں اپنے سمت سفر کا تعین کرے گی۔
مولی کریم سے دعا ہے کہ وہ امت پر مخلص، با کردار اور وسیع ذہن و فکر کے حامل علما کا سایہ دراز فرمائے۔
اخیر میں ایک مرتبہ پھر یہ عاجز حضرت مولانا غیاث الدین مصباحی اور گرامی مرتبت حضرت مولانا سید غلام حسین صاحبان کی خدمت میں دلی مبارک باد پیش کرتا ہے، امید ہے کہ حضرت شیر نیپال کے محبین و تلامذہ کے لیے یہ کتاب بیش بہا تحفہ ثابت ہو گی۔
حضرت علامہ الحاج محمد معین الدین صاحب قبلہ قادریؔ
پرنسپل دار العلوم رضویہ نور العلوم سول لائن، مہراج گنج
ملک نیپال کے علمائے ربانین کی فہرست میں ایک معروف و مشہور نام حضرت علامہ و مولانا صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ مد ظلہٗ العالی کا ہے۔ جو ایک جید عالم دین، پختہ کار مدرس، متبع شریعت، متقی و پرہیزگار، صوفی کی حیثیت سے عوام و خواص کے درمیان متعارف ہیں، آپ سے میرے دیرینہ تعلقات ہیں۔ جب بھی آپ کا مہراج گنج آنا ہوتا ہے، ہمارے جامعہ ضرور تشریف لاتے ہیں۔ مجھ سمیت، دیگر مدرسین و متعلمین سے بڑے خوش گوار انداز میں ملتے اور دعائیں دیتے ہیں۔
ذاتی طور پر آپ بڑے محتاط، و ضع دار، شریف النفس، ملنسار، مخلص، اور منکسر المزاج ہیں۔ شریعت مطہرہ پر خود بھی سختی سے پابند ہیں، اور دوسرے میں بھی یہی جذبہ پیدا کرنے کی سعی بلیغ کرتے ہیں۔ مذہب حق کی اشاعت اور مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔ وضع قطع، اعمال و کردار، رفتار و گفتار، نشست و برخاست، ہر زاویے سے آپ کی شخصیت ممتاز ہے، اور حضور شعیب الاولیاء کے فیضان کا مجسمہ نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکتیں عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت علامہ و مولانا حافظ وقاری عبد المصطفیٰ ندیم مصباحیؔ صاحب
شیخ الادب دار العلوم مفتاح القرآن، بیجولی، مہراج گنج (یوپی)
یہ ایک زندہ و تابندہ حقیقت ہے کہ شیر نیپال حضرت علامہ صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ نے ہند و نیپال کے سرحدی اور پہاڑی علاقوں میں سنیت کی ترویج و اشاعت اور تحفظ وترقی کے لیے خاموشی اور سادگی کے ساتھ جو قربانیاں پیش کی ہیں وہ آپ ہی کا حصہ ہیں، دار العلوم غوثیہ رضویہ اہل سنت نورالعلوم محلہ کٹھوتیہ سدھارتھ نگر، بھیر ہوا ضلع روپندیہی نیپال کی تعمیری اور تعلیمی پیش رفت ہو یا اصلاح عقائد و اعمال کے لیے تبلیغی دورے، دینی جلسوں اور کانفرنسوں کی سرپرستی ہو یا بحث و مناظرہ کے چیلنجز، آپ نے ہر میدان میں اپنی عظمت و مقبولیت کا لوہا منوایا ہے۔ عوام و خواص، علما و شعرا، اکابر و اصاغر کی محفلوں میں بھی آپ کی سنت مصطفیٰ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی سادہ اور پُر وقار شخصیت، جاذب نظر اور مرکز توجہ بنی رہتی ہے، مسلمانان اہل سنت کے عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے آپ اپنے پہلو میں ایک دھڑکتا ہوا درد مند دِل رکھتے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ نیپال کے پہاڑی اضلاع میں سعودی ریال کے زور پر بد عقیدگی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے آپ ہمیشہ فکر مند اور فعال و متحرک رہتے ہیں۔
الغرض آپ کی شخصیت گوناگوں خوبیوں اور بے پناہ صلاحیتوں کی آئینہ دار ہے۔ آپ کی روشن و منور اور پاکیزہ حیات کا ہر پہلو تفصیل طلب ہے جسے منظر عام پر لانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عہد جدید اور نسلِ نو کے لیے چراغ ہدایت اور منارۂ نور بن کر جگمگاتا رہے۔ خصوصاً وہابیت اور بد عقیدگی کے سیلاب بلا سے بھولے بھالے سنی مسلمانوں کو بچانے کے لیے آپ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ لائق تحسین بھی ہیں اور قابل تقلید بھی، تحفظ سنیت کے لیے آپ کتنا بے چین اور مضطرب رہتے ہیں یہ ایک کشادہ عنوان ہے، لیکن زیر نظر مختصر سطور میں صرف رام پور، پالپا (نیپال) کے مناظرے کی روداد قدرے اجمال وتفصیل کے اشتراک کے ساتھ قید تحریر میں آ جائے تو یہ دعویٰ کافی حد تک مصدق اور مبرہن ہو جائے گا۔
۱۹۹۴ عیسوی کی بات ہے کہ رامپور پالپا (نیپال) میں غیر مقلد وہابیوں نے منصوبہ بند اور منظم طور پر ایک فتنہ برپا کیا اور کچھ غریب سنی مسلمانوں کو ریال کا لالچ دے کر دام فریب میں گرفتار کر لیا اور وہاں کی مقامی مسجد میں ایک سراجی مولوی کو مسلط کرنے میں کامیابی حاصل کر لی اور اسے مستقل امام بنا دیا، پاؤں جمنے کا احساس ہوتے ہی وہ اپنی معروف شرارت پر آمادہ ہو گیا، جمعہ وغیرہ کی تقریروں میں اہل سنت و جماعت کے عقائد و مراسم خیر پر کیچڑ اچھالنے لگا، انبیاء، اولیاء اور محبوبان خدا کی تقدس مآب اور محترم بارگاہوں میں گستاخی، بے ادبی اور دشنام طرازی کا سلسلہ دراز کر دیا، لیکن آخر کب تک جب اس کے جارحانہ انداز خطابت کے تیروں سے سادہ لوح سنی مسلمانوں کے دل زخموں سے چور ہو گئے تو وہ تڑپ اُٹھے اور اس کی شرارتوں کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے، وہ مولوی شاید اسی صورت حال کا منتظر تھا، سنیوں کو مرعوب کرنے کے لیے مناظرہ کا چیلنج کر دیا اور شرط رکھ دی کہ مناظرہ صرف قرآن اور صحاح ستہ کی روشنی میں ہو گا۔
شاید اس کو اطمینان رہا ہو کہ اس دُور افتادہ اور پُر پیچ علاقے میں آنے کے لیے کوئی سنی عالم تیار نہیں ہو گا، بالخصوص صحاح ستہ کی شرط پر، لیکن اسے کیا پتہ کہ نبی کے دیوانے گستاخان نبی کا پنجہ مروڑنے کے لیے سمندروں کا سینہ چاک کرنے اور سربفلک پہاڑوں کی بلندیوں کو پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور بحمدہ تعالیٰ ایسا ہی ہوا، ظلمتیں کافور ہوئیں اور حق کا اُجالا پھیلا اور سنی مسلمانوں نے مولوی رحمت نامی شخص کو شیر نیپال کی خدمت میں روانہ کر دیا۔
موصوف جس وقت صوفی صاحب کے مدرسے میں پہنچے اس وقت مدرسے میں سالانہ امتحان چل رہا تھا، تعلیمی جائزے کے لیے اکابر علماء کو مدعو کیا جا چکا تھا، مولوی صاحب کی زبانی وہابیوں کی کارستانی سن کر حضرت تڑپ اُٹھے اور فرمایا میں ابھی چل پڑتا لیکن حجۃ العلم مفتی قدرت اللہ رضوی صاحب بہت اصرار کے بعد تشریف لا رہے ہیں میں انھیں کے انتظار و انتظام میں لگا ہوں، لیکن سنیت کی بقا اور تحفظ کا سوال ہے تو میں آپ کو مایوس ہونے نہیں دوں گا، آپ میرے حوالے سے بلا تاخیر مدرسہ نچلول مہراج گنج نباض قوم حافظ عبد الحکیم صاحب (مرحوم) کے پاس پہنچیں، ان شاء اللہ تعالیٰ سارا انتظام ہو جائے گا۔
مولوی صاحب نچلول آئے، اور حافظ جی کو وہابیوں کی داستان ستم اور روداد الم سنائی، حافظ صاحب مرحوم بذات خود وہابیت کے لیے شمشیر برہنہ تھے اور پھر صوفی صاحب قبلہ کی تاکید نے دو آتشہ کا کام کیا، اساتذہ کی ہنگامی میٹنگ ہوئی اور طے پایا کہ بہر حال علما کی ایک جماعت کو روانہ کیا جائے اس کے لیے احقر راقم الحروف و حضرت علامہ قاری ریاض الدین احمد صاحب مصباحیؔ اور پہاڑی خطوں سے واقفیت کے سبب بطور رہنما حافظ بارک اللہ صاحب (مرحوم) کو منتخب کیا گیا اور تاریخ طے کر کے مولوی صاحب کو رخصت کر دیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ آپ وقت مقر رہ پر بُٹول آ کر انتظار کریں گے وہیں ملاقات ہو گی۔
ہم لوگ نچلول سے روانہ ہو کر مشروط اور غیر مشروط بہا کتابوں کا گٹھر لے کر سیدھے بھیرہواں صوفی صاحب کے مدرسے پر پہنچے، آپ نے ذرہ نوازی کرتے ہوئے بے پناہ خوشی کا اظہار فرمایا، حوصلہ افزا کلمات سے نوازا اور یہ بھی فرمایا کہ بلا شبہ آپ لوگ تحفظ سنیت کے لیے جا رہے ہیں، لیکن حقیقت میں آپ لوگوں نے میرا بوجھ ہلکا کر دیا ہے، پھر حضرت نے دعاؤں کے سائے میں ہماری جماعت کو روانہ کیا، ہم لوگ بھیرہوا سے بٹول بس اسٹینڈ پر پہنچے، رام پور کے مولوی رحمت صاحب ایک ستون کے سہارے اُداس حالت میں کھڑے تھے، شاید طویل انتظار اور موہوم اندیشوں کا اثر تھا، دیکھتے ہی گلاب کی طرح کھل اُٹھے، خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور کیوں نہ ہو عزت جو داؤں پر لگی تھی۔
ہم لوگوں کو بٹول سے ’’آریہ بھنجن‘‘ پھر وہاں سے ’’چپکا دی‘‘ نامی مقام تک پہنچنا تھا، پہاڑوں کی چٹانیں تراش تراش کر ابھی نیا نیا راستہ بنا تھا، راستے کی کیفیت یہ تھی کہ ایک طرف پہاڑ اور دوسری طرف گہری کھائی اور بمشکل اتنا کہ صرف ایک گاڑی جا سکے، اگر آگے سے کوئی گاڑی آ جاتی تو پھر دونوں میں سے کسی ایک کو کافی پیچھے مناسب جگہ پر بیک کر کے لے جانا پڑتا، پھر دوسری گاڑی بمشکل پاس ہوتی تھی، پورے آزمائشی راستے میں کئی بار اس خطرناک صورت حال سے دوچار ہونا پڑا، راستہ بھر دعا و درود کا سلسلہ جاری رہا، خدا خدا کر کے ’’چپکادی‘‘ پہنچے وہاں بَس کا راستہ ختم ہو گیا معلوم ہوا کہ یہاں سے ابھی رام پور جانا ہے اور ناہموار چٹانوں اور پتھروں والی پگڈنڈی سے ڈھائی تین گھنٹہ پیدل چلنا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ کتابوں کا تھا، رات ہو چکی تھی، خون جما دینے والی ٹھنڈ کا موسم تھا لیکن ہم لوگ پسینے میں شرابور تھے، باری باری کتابوں کا بنڈل ڈھوتے رہے۔ کافی دیر چلنے کے بعد ایک ہموار پگڈنڈی کے کنارے ایک مکان نظر آیا، مولوی صاحب موصوف نے گھر والے کو آواز دی وہ باہر آئے سلام و دعا سے لگا کہ نیپالی مسلمان ہیں، مولوی صاحب نے ہماری حالت زار پر ترس کھاتے ہوئے بنڈل ان کے حوالے کر دیا اور تاکید کر دی کہ فجر سے پہلے رام پور ہمارے گھر پہنچا دیجیے گا، اب بھی ایک گھنٹہ کی مسافت باقی تھی، کافی رات کو وہاں پہنچے لیکن پہنچتے ہی ایک احساس ستانے لگا کہ سب سے بڑا ہتھیار کتابوں کا بنڈل کسی اجنبی کے حوالے کر دیا گیا، مبادا کوئی انہونی ہو جائے۔ عشاء کی نماز پڑھ کر ماحضر کھا پی کر سو گئے۔
صبح فجر میں اُٹھتے ہی مولوی موصوف صاحب سے کتابوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ تین بجے رات ہی میں اس آدمی نے کتابیں پہنچا دی ہیں، حیرت کے ساتھ پہلی بار نیپالیوں کی وعدہ وفائی اور وفا داری دیکھ کر عش عش کر اُٹھا، صبح کا اجالا پھیلتے ہی ہر طرف چہل پہل تھی، پتہ چلا کہ وہابیوں نے دور و نزدیک کے پہاڑی شہروں اور گاؤں میں مناظرے کا اعلان کر دیا ہے، لوگوں کا سیلاب آنے لگا، مسجد کے سامنے کا کھلا میدان کھچا کھچ بھر گیا، اسٹیج تیار ہوا، شرائط مناظرہ کا تعین کیا گیا، جب کہ سنیوں کی طرف سے بحث کی ذمہ داری راقم الحروف کے حصے میں آئی۔
المختصر تین نشستوں میں مناظرہ ہوا، سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم غیب، حاضر و ناظر، نور و بشر اور حیات النبی جیسے اہم مسائل پر بحث ہوئی، میں اتمام حجت کے لیے مستدل احادیث کا ترجمہ وہابی مولوی سے کرواتا تھا جس کا نقد فائدہ ظاہر ہوا، ایک موقع پر جب اس نے ایک حدیث کا ترجمہ کیا کہ: ’’اللہ کے نبی زندہ ہیں، انھیں روزی بھی دی جاتی ہے‘‘ تو تمام مسلمان لاٹھی لے کر اس مولوی کی طرف دوڑ پڑے کہ یہ مسجد کے ممبر سے کہہ رہا تھا کہ: ’’معاذ اللہ، نبی مر کر مٹی میں مِل گئے ہیں‘‘ اور یہ خود حدیث کے ترجمے میں نبی کی حیات اور روزی کی بات کر رہا ہے۔ بمشکل لوگوں کو ٹھنڈا کیا گیا۔ نیپالی سمیتی جملہ فیصلہ شدہ مسائل کو نوٹ کر کے دستاویز تیار کر رہی تھی، وہابی مناظرین نے اس پر دستخظ کیے اور اہل سنت کے عقائد کو حق اور وہابی عقائد کو باطل تسلیم کیا، آج بھی وہ مناظرہ اس اندھیرے میں حق پسندوں کے لیے مینارۂ نور ہے (جو نیپالی زبان میں موجود ہے) ۔
آخری نشست کا مناظرہ فائنل ہو چکا تھا، وہابیوں نے اپنی گمراہی اور اہل سنت کی حقانیت تحریری طور پر تسلیم کر لی تھی، ٹھیک اسی وقت حضرت صوفی صاحب قبلہ جلوہ افروز ہوئے، میں حیران تھا کہ بیداری میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں یا حضرت کی کرامت ہے۔ عرض کی حضور! آپ کو یہ پُر خطر سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اللہ تعالیٰ نے اہل سنت کو شاندار فتح عطا فرما دی ہے۔ حضرت نے آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ آپ لوگوں کو روانہ کرنے کے بعد میں دن بھر بے چین رہا، رات میں نیند نہیں آ رہی تھی کہ میں کب پہنچوں، آخر کار صبح ہوتے ہی میں نے رخت سفر باند لیا اور مولوی ابو الوفاء صاحب کے ساتھ ضروری کتابیں لے کر گرتا پڑتا حاضر ہو گیا۔
دوسرے دن حضرت کی سرپرستی میں جشن فتح کا شاندار جلسہ ہوا، وہابی لیکچرر نے برسر عام اعلان کیا کہ ہم علمائے کرام کے مشکور ہیں کہ انھوں نے اندھیرے سے نکال کر ہمیں اجالے میں کر دیا، آخر میں صلوٰۃ وسلام اور حضرت کی دعا پر فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ جلسہ اختتام پذیر ہو گیا
میں بار بار یہی سوچتا رہا کہ کمزوری، لاغری، ضعیف العمری، سردی کی شدت، راستے کی طوالت، پرخطر مسافت، پہاڑوں میں پیدل چلنے کی مشقت، نہ راہبر، نہ رہنما، ہر طرف وحشت و اجنبیت مگر انھیں کوئی بھی چیز پابند سلاسل نہ کر سکی، کیوں کہ ان کے اندر ایک جنون ہے تحفظ سنیت کا، احقاق حق اور ابطال باطل کا اور درد ہے مسلک اعلیٰ حضرت کا۔ واقعی حضرت صوفی صاحب قبلہ کی ذات کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے:
ہم تو دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ بن جائے گا
اللہ رب العزت حضرت صوفی صاحب قبلہ کا سایہ کرم ہمارے سروں تا دیر قائم و دائم رکھے۔ آمین یارب العالمین۔
حضرت مولانا مظہر علی علیمی نظامی صاحب قبلہ
پرنسپل دار العلوم عربیہ اہل سنت پوکھر بھنڈا روپندیہی نیپال
استاذ العلما شیر نیپال حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ مد ظلہ العالی ایک قابل ترین عالم دین ہیں، فقہ، اصول فقہ حدیث علوم حدیث، تفسیر، اصول تفسیر، منطق، صرف، نحو جیسے علوم میں زمانہ حال کے مشاہیر اور ممتاز علما میں شمار کیے جاتے ہیں آپ کے علم و فضل اور کمالات کا شہرہ ملک نیپال کے علاوہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہے اسی لئے تشنگان علوم نبویہ آپ کی بارگاہ میں دور دراز سے چل کر اکتساب فیض کے لئے آتے اور آپ کی ذات گرامی سے استفادہ کرتے ہیں۔
مجھے اپنے زمانہ طالب علمی کا یہ روح پرور منظر ابھی بھی اچھی طرح یاد ہے کہ آپ جب تدریس کے لئے تشریف فرما ہوتے تو بعض اوقات ارکان ادارہ کے بڑے بوڑھے یا دیگر متعلقین آ جاتے تو وہ بڑے ادب سے آپ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے اور نہایت غور سے سن کر مستفیض ہوتے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ علمائے اہل سنت کے مابین آپ کی ذات اس قدر مسلم ہے کہ آج بھی نیپال اور ہندوستان کے سرحدی علاقوں کے علما ضروری مسائل دینیہ میں آپ کی بارگاہ میں مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور حضور والا انھیں تسلی بخش جواب اور مفید مشوروں سے نوازتے ہیں، آپ قوم و ملت کا کا درد رکھنے والے، ان کے مسائل کو حل کرنے کی مساعی جمیلہ کرنے والے ایک فقید المثال اور ممتاز عالم دین ہیں۔
آپ کی خدمات کا دائرہ ملک نیپال کے ترائی اور مدھیش کے علاوہ پہاڑی علاقوں کی دشوار گزار آبادیوں تک پھیلا ہوا ہے، اپنی آمد کے ابتدائی ایام میں آپ نے پہاڑوں کے درمیان مشکل ترین راہوں پر پا پیادہ چل کر اللہ و رسول کے پیغامات کو عام کیا ہے اور وہاں کے باشندوں کو اسلام کے اصولوں سے آشنا کرایا، پہاڑ پر بسنے والے بھولے بھالے مسلمان صرف اتنا جانتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں لیکن اسلام کے اصول و ضوابط کیا ہیں اس سے نا آشنا تھے، ان کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر اہل باطل انھیں گمراہ کرنے کی ناپاک کوشش کرتے، جیسے ہی صوفی صاحب قبلہ کو اس کی بھنک لگتی اپنی تمام تر مصروفیات ترک فرما کر پہاڑوں کا سفر فرماتے اور دشمنان اسلام کے مکر و پود سے اہل ایمان کو بچانے کی سعی کرتے۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ کی طبیعت میں درشتی اور نرمی دونوں کا حسین امتزاج ہے، ضرورت کے مطابق دونوں کا استعمال کرتے ہیں، طلبہ پر نہ زیادہ سختی کرتے ہیں کہ وہ تعلیم سے بے زار ہو جائیں، نہ اتنی نرمی کہ اساتذہ کے گستاخ ہو جائیں۔ راقم الحروف بڑے بال رکھنے کا شائق تھا، غسل کر کے نکل رہا تھا کہ حضرت کی نظر پڑ گئی آپ نے فرمایا کپڑے پہن کر آؤ میں نے یہ سوچ کر کہ کہیں جانا ہو گا جلدی سے کپڑے پہن کر بارگاہ میں حاضر ہو گیا، حضرت نے فرمایا: بیٹھو اور ذرا ٹوپی اتارو اب مجھے لگا کہ خیر نہیں ہے۔ مگر حضرت نے بڑی نرمی سے کہا کہ بیٹا تم نے پولیس والوں کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی حضور۔ کہا ان سے ڈرتے ہو؟ میں نے ہاں میں جواب دیا، پھر آپ نے کہا اگر پولیس والا بغیر ڈریس اور ہتھیار کے تمہارے پاس آ جائے تو کیا اس سے ڈرو گے میں نے کہا ایسی صورت میں تو پتہ ہی نہیں چل پائے گا کہ وہ پولیس والا ہے تو حضرت نے فرمایا جس طرح پولیس والا بغیر ڈریس اور ہتھیار کے نہیں پہچانا جاتا اسی طرح عالم بھی اپنی وضع قطع کے بغیر نہیں پہچانا جاتا۔ مزید فرمایا کہ طالبان علوم نبویہ مہمانان رسول ہوتے ہیں انھیں ہمیشہ اپنا اخلاق و کردار اور طرز زندگی ایک سچے عالم کی طرح ہی رکھنا چاہئے۔ آپ ایسی ہی مخلصانہ نصیحتوں سے پتھروں کو ہیرا بناتے ہیں۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ طلبہ سے بے انتہا محبت فرماتے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی طالب علم پڑھائی کے درمیان تعلیم چھوڑ کر گھر چلا آئے تو بذات خود اس کے گھر تشریف لے جاتے ہیں اورکسی نہ کسی طرح اسے مدرسہ ضرور واپس لاتے ہیں اور اگر کوئی تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس و تدریس کے علاوہ کوئی کام انجام دینے لگے تو اسے بھی سمجھا بجھا کر درس و تدریس کے میدان کی طرف واپس لاتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ پیش آیا کہ جب میں نے دار العلوم عزیزیہ مظہر العلوم نچلول بازار سے عالمیت مکمل کر لی اور آگے کی تعلیم کا ارادہ ترک کر کے تلاش رزق میں ممبئی چلا گیا، جب صوفی صاحب قبلہ کو پتہ چلا تو میرے والد صاحب قبلہ کو بلا کر ان سے تفصیل پوچھی اور کہا کہ اسے فوراً بلائے، میرے والد صاحب قبلہ نے میرے پاس فون کیا اور مجھے ہر حال میں آنے کی تاکید کی، آخر کار مجھے آنا پڑا، ادھر جیسے ہی میں گھر آیا ادھر صوفی صاحب قبلہ میرے گھر پہنچ گئے اور مجھے سمجھا کر دوبارہ تعلیم جاری کرنے کے لیے راضی کیا اور اسی وقت مجھے ساتھ لے کر مدرسہ کٹھوتیہ آئے اور حضرت علامہ مفتی قدرت اللہ رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نام ایک خط لکھا کہ اس بچے کا کسی بھی حال میں داخلہ فرما لیں، میں نے کہا حضور میرے پاس کوئی سامان نہیں ہے گھر جانے دیں تاکہ ضروری سامان لے کر آ جاؤں لیکن آپ نے فرمایا اسی حال میں جاؤ آخر کار میں وہیں سے دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی پہنچا، حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت صوفی صاحب قبلہ کا خط دیکھتے ہی بہت خوش ہوئے اور میرا داخلہ فرما کر کہا کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہیں میں نے انھیں دوران طالب علمی سے ملاحظہ کیا ہے وہ میرے ساتھ پڑھے ہیں میں نے کبھی ان کو شریعت مطہرہ کے خلاف قدم اٹھاتے نہیں دیکھا ہے، ان کی کوئی بات نہیں ٹالی جا سکتی۔
اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ یوں ہوا کہ گھریلو ضروریات کے پیش نظر میں نے فراغت کے بعد سلائی کا کام کرنا شروع کر دیا، شدہ شدہ یہ بات جب حضرت کو معلوم ہوئی تو بے قرار ہو گئے اور میری دکان کا پتہ لگا بنفس نفیس وہاں پہنچ گئے اور آتے ہی انتہائی ناراضگی کے ساتھ فرمایا: سٹر بند کرو، میں نے تمہیں بلاوز سلنے کے لیے تھوڑی پڑھایا ہے، تم سے اللہ رب العزت دین کا کام لینے ولا ہے۔
میں نے لاکھ اپنا عذر بتانے کی کوشش کی لیکن حضرت نے ایک نہ سنی اور کہا: میں کچھ نہیں سننا چاہتا ہوں بس تمہیں دین کا کام کرنا ہے اور تم سے دین کا کام ہو گا، آخر کار دکان بند کروائی اور اسی وقت مجھے ساتھ لے کر پوکھربھنڈا نیپال کے دار العلوم عربیہ اہل سنت نور العلوم میں آئے اور یہاں کے ارکان سے گفتگو کر کے کہا کہ یہ ایک اچھے عالم دین ہیں ان کو یہاں رکھ لیں ان سے دین کا اور آپ کے ادارے کا بہت کام ہو گا، ان شاء اللہ۔
اس وقت پوکھر بھنڈا کے عظیم اللہ عرف ناگر پردھان نامی صاحب نے کہا صوفی صاحب! سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ ابھی نوجوان ہیں کہیں کوئی بات نہ ہو، تو حضرت نے فرمایا: میں نے ان کو بچپن سے دیکھا ہے، میں ان کے اخلاق و کردار کی ضمانت لیتا ہوں اور فرمایا کہ نوجوان ہی میدان جہاد میں بہترین مظاہرہ کرتے ہیں، میں یقین کرتا ہوں کہ حضرت کی اسی ضمانت کا نتیجہ ہے کہ آج مجھے پوکھر بھنڈا کے ادارہ میں اٹھارہ سال ہو گئے لیکن بفضل الٰہی میرے اخلاق و کردار کے تعلق سے ہر شخص مطمئن ہے، بلا شبہ یہ حضرت کی محبت اور دعاؤں کی برکت ہے۔ اسی طرح حضرت نے مجھ جیسے نہ جانے کتنوں کو راہ راست پر لا کر اس کی زندگی کا یہ پلٹ دی ہے۔
حضرت علامہ مفتی محمد نعیم نظامی، برکاتی
دار العلوم بحر العلوم خلیل آباد سنت کبیر نگر
قرآن عظیم میں ہے:
وَ مَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکسْہُ فِی الْخَلْقِ۱ؕ(یٰسٓ: ۶۸)
اور جب ہم بڑی عمر کا کرتے ہیں اسے پیدائش میں الٹا پھیر دیتے ہیں۔
یعنی جیسے پہلے اس کی ہر چیز بچپن میں کمزور تھی، اسی طرح بڑھاپے میں بچوں کی طرح دوبارہ کمزور کر دیتے ہیں۔ اس کی قوت عاقلہ، سامعہ، باصرہ وغیرہا ہر قوت کو ضعیف کر دیتے ہیں۔ چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے اور دوسرے سب کاموں میں ناتواں کر دیتے ہیں، چھوٹے بچوں کی طرح وہ ہر کام میں دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔
اسی آیت کے تحت تفسیر مدارک التنزیل میں ہے:
إلا العلماء العاملین۔ سوائے علمائے عاملین کے۔
یعنی علمائے عاملین اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے مستثنیٰ ہیں۔ ان کی قوتیں باوجود کبر سنی کے صحیح و سالم ہوتی ہیں، اگرچہ دیکھنے میں بظاہر بوڑھے اور کمزور ہوں، لیکن جو بات اور مسئلہ نوجوان علمائے کرام نہ سمجھ سکیں وہ اسے سمجھتے اور سمجھا دیتے ہیں۔
حضرت علامہ صوفی محمد صدیق خان صاحب انھیں علمائے ربانیین میں سے ہیں کہ اس وقت جب کہ آپ کی عمر ستّر [۷۰] سال سے زیادہ ہو چکی ہے، مسلسل علاج بھی چل رہا ہے، کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ گھر پر رہ کر آرام کریں، مگر آپ نے اس مشورے کو قبول نہیں کیا اور آج بھی طالبان علوم نبویہ کی تشنگی کو اپنی درس گاہ میں بیٹھ کر بجھا رہے ہیں۔ آپ نے اکابر علما کی صحبت اختیار کی اور حضور شعیب الاولیاء کی نگاہ فیض نے آپ کو کندن بنا دیا۔ آپ فیض الرسول براؤں شریف کے اُن فاضلین میں سے ہیں جن پر ان کے اساتذہ ناز کرتے تھے۔ فراغت کے بعد آپ نے کچھ سالوں تک بڑھیا، ضلع سدھارتھ نگر میں تعلیم دیا۔ اس کے بعد اپنے آبائی وطن سے قریب بھیرہواں جو ملک نیپال کا سرحدی علاقہ ہے، یہاں کی بڑھتی ہوئی گمراہیت کو دیکھ کر مدرسہ غوثیہ رضویہ اہل سنت، محلہ کٹھوتیا کو اپنا تبلیغی مرکز بنایا۔
میں خود ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۴ء تک آپ کی بارگاہ میں علم دین حاصل کرتا رہا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا [اکثر اوقات ساتھ میں آنے جانے کا اتفاق ہوا] کہ دن میں طلبہ کو تعلیم دیتے اور شام کے وقت دیہاتوں میں پیدل چل کر اہل بستی کو اکٹھا کر کے ان کو دین کی باتیں بتاتے، وہابیوں سے مناظرے بھی کرتے اور لوگوں کو ان کے باطل عقیدے سے آگاہ بھی کرتے۔ اسلام و سنیت کا سچا داعی بن کر لوگوں کو عشق رسول کا جام پلاتے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ سنولی بارڈر کے اطراف و جوانب سے لے کر بٹول تک جو آج سنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کی بہاریں نظر آ رہی ہیں، صوفی ملت حضرت علامہ صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ کی کدو کاوش اور ان کے سعیِ جمیل کا نتیجہ ہے۔ یہ سب اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب اس علاقے میں دور دور تک کوئی معتبر عالم نظر نہیں آتا تھا۔ لوگوں کی نگاہیں آپ پر ہی آ کر مرکوز ہو جاتی تھیں۔
ایک لائق و فائق استاذ میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں وہ آپ میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ انداز تفہیم تو اتنا سہل اور عمدہ ہے کہ مشکل سے مشکل مسائل و قواعد کو آسان بنا دیتے ہیں۔ آج کل تو مدرسوں میں گھنٹیوں سے پڑھائی ہوتی ہے، اگر گھنٹی کے وقت سبق نہ ہو پایا تو دوسرے دن ہی پڑھنا نصیب ہو گا۔ مگر آپ کا حال یہ تھا کہ جس طرح دن میں درس گاہ میں بیٹھتے ایسے ہی رات میں درس گاہ لگوا کر طلبہ کے درمیان بیٹھتے اور دن کا چھوٹا ہوا سبق پڑھا دیتے۔ اپنے شاگردوں کو سکھانے اور کامیاب بنانے میں بھرپور کوشش کرتے۔ چناں چہ بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ شام کے وقت بھیرہواں سے اپنے گاؤں کھُرہُریا تشریف لے جاتے مجھے بھی اپنے ساتھ رکھتے، راستے میں آموختہ سن لیا کرتے۔ غلطیوں کی نشان دہی کر کے اصلاح بھی فرما دیتے، ایسے مشفق استاذ اب کہاں ملیں گے۔
اگر کبھی تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں تو آپ نے میرے ورثہ کو سمجھا کر پیچیدگیوں کو دور فرمایا۔
ایک عالم با عمل ہونے کی حیثیت سے بھی آپ کی زندگی محتاج تعارف نہیں۔ مدرسہ کی مصروفیت، علاقائی دورہ، گھریلو ذمہ داریوں کے باوجود آپ کی نمازیں قضا نہیں ہوتیں، آپ فرائض کے ساتھ سُنن و نوافل کا بھرپور اہتمام فرماتے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی خدمت دین متین میں صَرف کر دی۔ آپ ذرا سوچیں تو سہی کہ جو عنفوانِ شباب سے لے کر اب تک تقریباً پچاس سال تک ملت کی شیرازہ بندی کرتا رہا، کیا اگر وہ چاہتا تو اپنے لیے بہت کچھ نہ بنا لیتا۔ مگر نہیں۔ جو کچھ بھی کیا ملت کے لیے، اسلام و سنیت کے فروغ کے لیے۔ آپ کے اندر قناعت کا مادہ بھی بدرجۂ اتم موجود ہے، جو آپ کے زہد و تقویٰ کا ایک حصہ ہے۔
حضرت مولانا غیاث الدین احمد عارف مصباحیؔ صاحب کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ۱۳ اپریل ۲۰۱۸ء کو نول پراسی کی سرزمین پر حضرت کے اعزاز میں ایک جلسہ کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں آپ کو سِکوں سے تولا جائے گا۔ اس موقع پر مولانا موصوف نے اُن کی حیات و خدمات پر ایک رسالہ ترتیب دینے کا جو عزم مصمم کیا ہے، یقیناً لائق تعریف اور قابل مبارک باد ہے۔ اللہ تعالیٰ ان احباب کا حوصلہ مزید مضبوط فرمائے۔
حضرت مولانا سید علی نظامیؔ صاحب قبلہ
پرنسپل مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو، لکشمی پور، مہراج گنج
ملک نیپال کی عظیم ترین شخصیت، استاذی الکریم حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ مدظلہٗ العالی نے اپنی پوری زندگی خدمت دین کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ آپ نے اپنی محنت شاقہ سے سیکڑوں علما و فضلا و حفاظ و قرا کی ٹیم تیار کی۔ درجنوں مدارس و مساجد کی بنیاد رکھ کر ملک نیپال میں اسلام و سنیت کی آبیاری کی۔
جس وقت آپ مدرسہ غوثیہ بھیرہواں تشریف لائے، اس وقت ملک نیپال میں شاہی حکومت قائم تھی، اور ہر گھر اور دوکان میں راجا کی تصویر لگانا لازم تھا۔ مسلمانوں میں بھی غیروں کے بہت سے رسوم و رواج داخل ہو چکے تھے۔ علما و ائمہ کی قلت کی وجہ سے مسلمانوں کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اللہ بھلا کرے کہ کچھ خدا ترس حضرات نے اپنے نونہالوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ہندوستان بھیجا۔ علما تیار ہوئے، اور انھوں نے آبادیوں میں جا کر تبلیغ سنیت کیا۔
انھیں علمائے کرام میں ایک عظیم ذات حضرت علامہ صوفی محمد صدیق خان صاحب کی ہے جنھوں نے فارغ ہونے کے بعد اپنی زندگی نیپال کی لیے وقف کر دی۔ خود آپ کے مادر علمی دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف میں آپ کو درس و تدریس کے لیے بلایا گیا تھا، مگر یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ملک نیپال میں تبلیغ کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہیں کام کرنا ہے۔
میں نے خود حضرت کے زیر سایہ رہ کر تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ بچے دینی تعلیم سے آراستہ ہو کر خدمت دین کریں۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں کم یا زیادہ، یہ حضرت ہی کا فیض و کرم ہے کہ انھوں نے مجھے ایک کوردہ علاقے سے اٹھا کر دینی تعلیم سے مزین کیا۔ یقیناً حضرت کی ذات اہل نیپال کے لیے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے بیش تر علاقوں کے لیے اللہ رب العزت کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اللہ رب العزت ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے۔ آمین۔
حضرت مولانا محمد آصف علوی ازہری صاحب قبلہ
نائب سجادہ نشین خانقاہ فیض الرسول و نگران اعلی، دار العلوم فیض الرسول براوں شریف
یہ خبر موصول ہونے کے بعد مادر علمی دار العلوم فیض الرسول براوں شریف میں مسرت و شادمانی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ مورخہ ۱۳ اپریل ۲۰۱۸ء نول پراسی نیپال میں منعقد ہونے والے ’’فیضان اہل بیت‘‘ کانفرنس میں شیر نیپال حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان حفظہ اللہ ورعاہ کی خدمات جلیلہ کے اعتراف میں انہیں سکوں سے تولا جائے گا اور ان کی حیات و خدمات پر مشتمل ایک مستقل رسالہ شائع کیا جائے گا۔
حضرت علامہ صوفی محمد صدیق خان مادر علمی دار العلوم فیض الرسول براوں شریف کے اولین فاضلین میں سے ہیں آپ کا شمار مادر علمی کے ممتاز اور نمایاں فضلا میں ہوتا ہے آپ ہمیشہ سے مادر علمی کے تئیں بے پناہ خلوص و محبت کا جذبہ رکھنے والے رہے ہیں آپ کے علمی استعداد اور مادر علمی کے تئیں خلوص و محبت کا ہی نتیجہ تھا کہ جب تک آپ سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنے پر قادر تھے برسہا برس تک مادر علمی دار العلوم فیض الرسول کے سالانہ امتحان میں بحیثیت ممتحن بلائے جاتے رہے ہیں۔
ایک نجی مجلس میں جب میں نے یہ خبر والد گرامی شہزادہ و جانشین شعیب الاولیاء مفکر اسلام تاج العلماء حضرت علامہ الحاج الشاہ غلام عبد القادر صاحب قبلہ علوی سجادہ نشین خانقاہ فیض الرسول و ناظم اعلیٰ دار العلوم فیض الرسول کے گوش گزار کی کہ حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ کو ان کے دینی خدمات کے اعتراف میں آنے والے مہینے کی ۱۳ تاریخ کو انہیں سکوں سے تول کر اور ان کی حیات و خدمات پر مشتمل ایکرسالہ شائع کر کے انہیں "اعزاز و تکریم” پیش کیا جائے گا تو والد گرامی صاحب قبلہ نے ان کے لیے صحت اور درازی عمر کی دعا فرماتے ہوئے بے پناہ مسرت کا اظہار فرمایا۔
حضرت علامہ موصوف والد گرامی صاحب قبلہ کے انتہائی خاص الخواص اور معتمدین میں سے رہے یہ انتہائی قرب و اعتماد ہی تھا کہ سنہ 1984 میں جب والد گرامی صاحب قبلہ نے کاٹھمانڈو نیپال کا اپنا پہلا دعوتی و تبلیغی دورہ کیا تو آپ ہی کو اپنا شریک سفر منتخب کیا اور وہاں پر والد گرامی صاحب قبلہ نے معززین شہر کے ساتھ دعوتی و تبلیغی تحریکات کے حوالے سے جتنی بھی میٹنگیں لیں سب میں حضرت علامہ موصوف کی شراکت رہی۔
اس دور نا شکری میں جبکہ مادر علمی ہی کے کچھ پروردہ شخصی نصرت و حمایت کے لئے مادر علمی ہی کی بیخ کنی میں لگے ہوئے ہیں ایسے نازک دور میں مادر علمی کے لیے حضرت علامہ محمد صدیق خان جیسے فاضلین کا وجود "کبریت احمر”کی حیثیت رکھتا ہے
حضرت علامہ نے ضلع روپندیہی نیپال اور اس سے متصل نیپال کے دوسرے اضلاع یونہی ضلع روپندیہی سے متصل ہندوستان کے اضلاع جیسے مہراج گنج، سدھارتھ نگر میں اپنے عمل ملحوظ، اور سعی مشکور سے فروغ مسلک و ملت کا جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے آپ کو آپ کے ان عظیم خدمات کے بدلے میں جس قدر بھی اعزاز و تکریم دی جائے وہ کم ہے
ادارہ دار العلوم فیض الرسول براوں شریف اپنے اراکین و اساتذہ کے ساتھ اپنے اس عظیم فرزند کو پیشگی مبارکباد پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ مولیٰ تعالیٰ صحت و توانائی کے ساتھ علامہ موصوف کی حیات کو دراز فرمائے
حضرت علامہ و مولانا انوار احمد مصباحیؔ صاحب قبلہ
دار العلوم عزیزیہ مظہر العلوم نچلول بازار مہراج گنج
۱۹۹۶ء میں جب احقر کی تقرری بحیثیت خادم التدریس دار العلوم عزیزیہ مظہر العلوم نچلول بازار میں ہوئی۔ رفتہ رفتہ لوگوں سے مراسم اسطوار ہوئے۔ اسی درمیان میں نے شیر نیپال کے بارے میں سنا کہ وہ ایک عظیم شخصیت ہیں۔ پھر مزید کچھ اور سننے کا شوق پیدا ہوا، اور ملاقات کا جذبہ بڑھا۔ اسی جذبہ نے ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ اور اس ذات سے ملاقات ہوئی جسے آج ہندو نیپال کے لوگ شیرِ نیپال حضرت علامہ صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔
آپ کی ذات مختلف صفتوں کی حامل ہے۔ دین و سنیت کی اشاعت کی تڑپ آپ کے اندر بدرجۂ اتم موجود ہے۔ جس کا جیتا جاگتا ثبوت دار العلوم غوثیہ کٹھوتیا ہے جو آپ کی مکمل کوششوں سے شاہراہ ترقی پر گامزن ہے۔
آپ کا ظاہر و باطن یکساں ہے۔ ریا کاری اور دکھاوے سے آپ کی زندگی بالکل پاک و صاف ہے۔ گو کہ آپ صاحب ثروت ہیں لیکن اس کا اظہار آپ کی زندگی سے نہیں ہوتا۔ ہمیشہ آپ اخلاص و اخلاق سے ملتے اور بلا تفریق صغر و کبر علما کی قدر کرتے ہیں۔ علمی میدان میں بھی آپ کو راسخ اور پختہ پایا گیا۔
احقر سے ایک بار حضرت نے قطبی تصدیقات کے ایک منطقی جزئیہ پر تبادلۂ خیال فرمایا۔ اور اس طرح سے سیر حاصل گفتگو فرمائی کہ مسامحت اور شکوک و شبہات کے سارے دروازے بند ہو گئے۔ اور مطلع بالکل صاف ہو گیا۔ اپنی کم گوئی کے باعث آپ اپنے اندر علم کا ایک بحر بیکراں سمیٹے ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ کامیاب انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی یاد میں اپنا قیمتی وقت گزارے۔ حضرت صوفی صاحب قبلہ بھی انھیں کامیاب انسانوں میں سے ایک ہیں، کیوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہتے۔ وقت پر نماز کی ادائیگی کا خیال فرماتے اور اَوراد و وَضائف میں مصروف رہتے ہیں۔
ہر کام میں میانہ روی اختیار فرماتے ہیں اور احتیاط کا دامن ترک نہیں کرتے ہیں۔ اپنی زندگی میں فضولیات اور لغویات کو قریب نہیں آنے دیتے۔ شریعت مطہرہ کے پاسدار، منکسر المزاج، مصیبتوں کے وقت صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمانے والے ہیں۔ آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی سال ۸ مارچ ۲۰۱۸ء ہمارے ادارہ میں حضور عزیز ملت علامہ الشاہ عبد الحفیظ سربراہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور نے آپ کے سر پر دستار تکریم رکھتے ہوئے، اجازت و خلافت سے نوازا۔ اور آپ کی دینی و ملی خدمات کو سراہا۔
حضرت علامہ مفتی محمد شہاب الدین نوری، فیضی صاحب قبلہ
دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف، سدھارتھ نگر، یوپی
صوفی با صفا، عالم حق، مبلغ سنیت، ناشر مسلک رضویت، پاسبان اہل سنت، نمونۂ اسلاف، بقیۃ السلف حضرت علامہ مولانا محمد صدیق احمد خان فیضی، فاضل فیض الرسول براؤں، شریف، شیرِ نیپال کی ذات با برکات دنیائے سنیت میں محتاج تعارف نہیں۔ آپ قدیم ابنائے فیض الرسول میں سے ہیں۔ جو ایک نہایت با صلاحیت مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ مبلغ سنیت، مصلح قوم و ملت بھی ہیں۔
یہ فیض آپ کو ان اساتذۂ کرام سے ملا ہے جو علم وعمل کے کوہ ہمالہ کی حیثیت رکھتے تھے، جن کے قول و عمل میں یکسانیت تھی، جو حق گوئی اور جرأت وبیباکی میں بے مثال تھے جو متبع سنت و مسلک رضا کے صحیح مبلغ تھے، جنھوں نے دشمنان دین کو دشمن جانا، وہابیت، دیوبندیت، غیر مقلدیت، نیچریت، چکڑالویت الغرض تمام فرق باطلہ سے ناتا توڑ کر الگ تھلگ رہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کو ولی کامل حضور شعیب الاولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مبارک زمانہ اور ان سے کامل طور پر فیض حاصل کرنے کا شرف ملا، جن کی بابرکت صحبت نے آپ کو ایسا نکھارا کہ نادر زمانہ ہو گئے۔ آپ کی علمی و عملی دھمک نے ہند و نیپال کے اکثر حصوں میں اپنا دبدبہ قائم کر رکھا ہے۔ مسلک رضا کا تعارف عام و خاص تک پہچانا آپ کا محبوب مشغلہ ہے۔
آپ ہند و نیپال کے سرحدی علاقے کے مسلمانوں کی دلوں کی دھڑکن ہیں۔ اور ایک سچے اور اچھے معتمد، مقتدر اور عالم حق کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کی آواز پر وہاں کے مسلمان فوراً لبیک کہتے ہیں۔ چنانچہ انہیں تمام خدمات کو دیکھتے ہوئے ان کے ایک نیک اور صالح شاگرد مولانا غلام حسین صاحب نے انھیں سکوں سے تولنے کا جو اعلان کیا ہے وہ خوش آئند ہے۔
اور جیسا کہ مجھے حضرت علامہ و مولانا سید علی صاحب قبلہ نظامی پرنسپل مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو، لکشمی پور نے بتایا کہ ان کے ادارے کے استاذ عزیز القدر مولانا غیاث الدین احمد مصباحیؔ ان کی حیات و خدمات ترتیب دے رہے ہیں۔ یہ اقدام انتہائی بہتر اور قابل تعریف ہے۔ بلکہ اپنے بزرگوں کی سوانح حیات کو تحریری شکل میں مرتب کرنا ان کی بارگاہوں میں خراج عقیدت پیش کرنے کا افضل اور احسن طریقہ ہے۔ مولائے کریم ان تمام احباب کو مزید حوصلہ اور ایمان و ایقان کی زندگی عطا فرمائے اور حضور صوفی صاحب قبلہ کو صحت و تندرستی اور عمر دراز عطا فرمائے۔
حضرت مفتی محمد صادق مصباحی صاحب قبلہ
مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو لکشمی پور، مہراج گنج
استاذ الاساتذہ، نمونۂ سلف، یادگار اکابر، ماہر درس و تدریس، اور ہر دل عزیز خطیب، حضرت علامہ صوفی محمد صدیق خان صاحب مدظلہٗ العالی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ اخلاص و صفا کا پیکر اور دنیا بیزار ہونے کے باعث کچھ لوگ آپ کو ’’صوفی صاحب‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ تو آپ کے عالمانہ وقار و تمکنت اور فاضلانہ جاہ جلال کے سبب کچھ لوگ ’’شیرِ نیپال‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اس مادی دور میں بھی آپ کا حال یہ ہے کہ نہ صلے کی پروا، نہ ستائش کی تمنا، بلکہ خالص اپنے دینی و علمی ذوق کے تحت بغیر کسی عوض کے دینی کام کیے جاؤ اور بس۔ جب کہ تجربہ شاہد ہے کہ لوگوں میں اب بڑی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ اور خالصاً لوجہ اللہ کچھ کرنے کا جذبہ خال خال لوگوں میں نظر آتا ہے۔ ایسے پُر آشوب ماحول میں جب آپ جیسی شخصیتوں پر نظر پڑتی ہے تو خوش گوار حیرت ہوتی ہے۔ اور دل سے دعا نکلتی ہے۔
آپ کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا ایک واقعہ(جیسا کہ بعض معتمد راویوں کی زبانی اس ناچیز تک پہنچا) قارئین کی نظر کرتا ہوں:
مشرقی یوپی کی معروف دینی درس گاہ، دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف، سے فراغت کے بعد، مدرسہ غوثیہ فیض العلوم بڑھیا ضلع سدھارتھ نگر کے ارباب حل و عقد نے آپ کو درس و تدریس کی دعوت دی۔ جسے آپ نے قبول فرمایا۔ اور تقریباً آٹھ سال تک پوری ایمانداری، دیانت داری، تندہی اور لگن کے ساتھ مدرسے کی خدمت کرتے رہے۔ بعد ہٗ مدرسہ غوثیہ کٹھوتیا بھیرہواں، نیپال کے منتظمین کے پیہم اصرار پر آپ نے بڑھیا سے استعفا دے دیا اور بھیرہواں تشریف لائے۔
چوں کہ بڑھیا کے ارباب حل و کشاد اس بات پر کسی طرح راضی نہ تھے کہ آپ ادارے کے چھوڑ کر کہیں اور تشریف لے جائیں۔ اس لیے تقریباً دو سال تک انھوں نے آپ کا استعفا منظور ہی نہیں کیا۔ چناں چہ آپ کا نام دونوں مدرسوں کی روداد میں چھپتا رہا۔ جب آپ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ دونوں مدرسوں میں آپ کا نام چلتا رہے۔ اس لیے آپ بھیرہواں سے بڑھیا تشریف لے گئے اور اہل بڑھیا کو اپنے علاقے کی علمی پسماندگی، دین متین کی خدمت اور ضرورت کا حوالہ دے کر کسی طرح راضی کیا۔ اور اپنا استعفا منظور کرایا۔
تواضع و انکسارآپ کا طرۂ امتیاز ہے۔ استاذ العلما ہوتے ہوئے علمائے کرام سے حد درجہ محبت فرماتے ہیں۔ اصاغر نوازی کا یہ حال ہے کہ بعض ضرورتوں کے تحت دو مرتبہ یہ ناچیز آپ کی مسجد میں جمعے کی نماز کے لیے حاضر ہوا۔ جہاں آپ خطیب و امام بھی ہیں۔ دونوں مرتبہ اس بے مایہ کے انکار و معذرت کے باجود آپ نے اعلان و اصرار فرما کر، ناچیز سے خطاب کرایا۔ جب کہ اپنا حال یہ ہے کہ تقریر و خطابت کے نام سے ہی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔
آپ کی دینی، علمی، دعوتی اور رفاہی کاموں سے متاثر ہو کر امسال مدرسہ عزیزیہ مظہر العلوم نچلول بازار کے سالانہ جلسے کے موقع پر ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ کے سربراہ اعلیٰ، عزیز ملت، حضرت علامہ عبد الحفیظ دامت برکاتہم العالیہ نے سیکڑوں علما و مشایخ اور عوام اہل سنت کے جم غفیر میں آپ کو سند خلافت و اجازت سے نوازا۔ اور آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
میں ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں حضرت علامہ غیاث الدین احمد مصباحی کی بارگاہ میں کہ آپ نے حضرت صوفی صاحبقبلہ کی تقریباً پانچ دہائیوں پر محیط حیات و خدمات پر مشتمل ایک رسالہ بنام ’’شیر نیپال، حیات و خدمات‘‘ ترتیب دینے کا عزم مصمم فرمایا ہے۔ امید ہے کہ علامہ موصوف کا یہ قدم ایک تاریخی قدم ثابت ہو گا۔
اسی طرح لائق صد مبارک باد ہیں، نول پراسی کے حساس علما و عوام جنھوں نے حضرت صوفی صاحب قبلہ کے اعزاز میں ایک جلسے کا اہتمام کیا۔ اور آپ کو سکوں سے تولنے کا جگر دکھایا۔ فجزاہم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ بے نیاز میں دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ حضرت صوفی صاحب قبلہ کی عمر میں برکتیں عطا فرمائے۔ اور آپ کا علمی فیضان عام و تام فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین وصلی اللہ تعالیٰ علی النبی الکریم و علی آلہ و صحبہٖ اجمعین۔
حضرت علامہ مولانا خالد رضا مصباحی صاحب قبلہ
دار العلوم عزیزیہ مظہر العلوم نچلول بازار مہراج گنج
عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ صوفی صاحب قبلہ کی ذات و شخصیت اکابر سلف و خلف علمائے متقدمین کی سیرت و کردار کا اعلیٰ نمونہ اور حضرت شعیب الاولیاء حضرت خلیفہ صاحب، حضرت بدر ملت، حضرت فقیہ ملت، حضرت حکیم ملت، علیہم الرحمہ کی تابناک زندگی اور کردار و عمل کا عکس جمیل ہے۔
فراغت سے تادم تحریر آپ کی پوری حیات خدمت دین و ملت سے عبارت ہے۔ آپ کی دینی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ آپ صرف درسگاہی مدرس ہی نہیں بلکہ عوام و خواص کے قائد بھی ہیں۔
ہند و نیپال کے اکثر حصوں میں آپ کے تلامذہ دینی خدمات پر مامور ہیں۔ مدارس کی نگرانی، سیاسی و سماجی و معاشرتی مسائل میں سب کی دیکھ بھال، دینی خدمات، دینی مزاج، تبلیغی ذوق، امت مسلمہ کی خیر خواہی، ناتواں علما کی پشت پناہی میں یکتائے روزگار ہیں۔
اعلائے کلمۃ الحق کا جذبہ آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ مداہنت سے دور، جرأت وحق گوئی کا نمونہ ہیں۔ اسی لیے ہندو نیپال کے سرحدی علما آپ کو شیرِ نیپال کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ جب کہ معاصرین بھی آپ کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مذہبی امور میں آپ سے مشورہ لیتے ہیں۔
راقم الحروف نے پہلی مرتبہ ۱۹۹۲ء میں آپ کی زیارت سے شرف یابی حاصل کی۔ جب آپ نباض قوم حضرت حافظ عبد الحکیم مرحوم کی دعوت پر دار العلوم عزیزیہ مظہر العلوم نچلول بازار کے سالانہ امتحان کے موقع پر بحیثیت ممتحن تشریف لائے تھے۔
میں نے دیکھا کہ حضرت نے جب طلبا سے سوالات شروع کیے تو جب طلبا درست جواب دیتے تو آپ ان کی حوصلہ افزائی فرماتے اور نا درست جواب پر مسکراتے، اور صحیح جواب ارشاد فرماتے۔ اس پہلی ملاقات کے بعد مسلسل زیارتیں ہوتی رہیں۔ چوں کہ آپ ہمیشہ دار العلوم عزیزیہ کے سالانہ امتحانات اور سالانہ جلسوں میں مدعو کیے جاتے ہیں۔
الغرض حضرت صوفی صاحب قبلہ نے ہندو نیپال کے سرحدی علاقے میں جو دینی خدمات انجام دی ہیں، وہ لائق تعریف اور قابل تحسین ہیں۔ آج نیپال میں علمی بیداری کی جو کرن نظر آتی ہے یہ سب آپ کی خاموش مومنانہ اور مجاہدانہ جد و جہد کا ثمرہ ہے۔ اللہ رب العزت آپ عمر خضر عطا فرمائے۔
حضرت علامہ نور محمد مصباحی صاحب قبلہ
بانی و مہتمم جامعہ احسن البرکات تولہوا کپل وستو نیپال
تقریباً بیس سالوں سے میں حضرت صوفی صاحب قبلہ کا مشاہدہ کر رہا ہوں اس درمیان میں نے محسوس کیا کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ بڑے ہی منکسر مزاج، صاحب مروت، خوش اخلاق، متقی، عبادت گزار اور سادہ طبیعت انسان ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نفسانیت ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔
مذہب و مسلک کے معاملے میں بہت ہی مخلص ہیں، وہ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرماتے ہیں بلکہ جو بھی دین کا کام کرتا ہے اس کی تعریف کرتے اور دعائیں دیتے ہیں۔
میں نے ان کے ساتھ ترائی سے لے کر کاٹھمانڈو تک کے کئی تبلیغی اسفار کیے ہیں ابھی حال ہی میں کاٹھمانڈو میں آپ نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔ آپ اس بڑھاپے میں بھی تبلیغ واشاعت اسلام وسنیت کے لیے کہیں بھی جانے کو فوراً تیار ہو جاتے ہیں۔ انھیں میں نے ہمیشہ صرف دین کے لئے تڑپتا پایا، انھوں نے اپنی تمام تر زندگی قوم کے لئے وقف کر دی ہے اور اپنے لیے کچھ بھی نہیں کیا، علم کے اعتبار سے وہ ایک پختہ اور قابل ترین عالم دین ہیں پورے علاقے میں ہر عالم بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کا ہی شاگرد ہے۔
حضرت علامہ مفتی منظور احمد یار علویؔ صاحب قبلہ
صدر دارالافتا، دار العلوم برکاتیہ گلشن نگر جوگیشوری (ممبئی)
حضرت علامہ صوفی صدیق احمد صاحب قبلہ حضور شیخ المشائخ شعیب الاولیاء سیدی شاہ محمد یار علی لقد رضی المولیٰ عنہ کے قائم کردہ یادگار دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف کے عظیم فرزند اور اتباع شریعت و معمولات اہل سنت میں اپنے مرشد کے سچے مظہر و آئینہ دار ہیں۔
شیر نیپال حضرت علامہ الحاج صوفی صدیق احمد خان صاحب قبلہ کی ذات ستودہ صفات تصنع وریاسے خالی ہے۔ ان کی خدمات جلیلہ کا ایک زمانہ گواہ ہے آپ استاذگرامی حجۃ العلم حضرت علامہ مفتی قدرت اللہ صاحب قبلہ کے ہم سبق ساتھیوں میں سے ہیں۔
آپ نے نیپال سے متصل ہندوستان کے ضلع مہراج گنج اور گورکھپور کے بہت سے اضلاع کا تبلیغی دورہ فرمایا جہاں مدرسے کی ضرورت تھی مدرسہ قائم فرمایا اور جہاں مسجد کی ضرورت تھی مسجد بنوائی۔ کپل وستو اور نول پراسی کے اکثر مدارس و مساجد آپ ہی کی کاوشوں و محنتوں کا ثمرہ ہیں۔ ان علاقوں میں آپ نے سینکڑوں علماء، حفاظ، قراء و خطبا کی جماعت تیار کی اور وہابیہ و دیابنہ کے فتنوں سے مسلمانان اہل سنت کو محفوظ فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے ان خدمات جلیلہ کو دیکھ کر وہاں کے علمائے ذوی الاحترام آپ کو شیر نیپال کے لقب سے یاد کرنے لگے۔ آپ نے اپنے ارشد تلامذہ سے عوام اہل سنت کو مالا مال فرمایا، آپ کا وجود مسعود قوم و ملت خصوصاً عاشقان اعلیٰ حضرت کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔
مولیٰ تعالیٰ علامہ موصوف کے فیضان علم کو جاری وساری رکھے اور آپ کو عمر خضری و صحت سکندری سے مالامال فرمائے۔ آمین یا رب العالمین، بجاہ سید المرسلین۔
حضرت علامہ مفتی غلام معین الدین چشتی فیضی
شیخ الحدیث جامعہ اہل سنت فاطمۃ الزہرا، گھاٹ کوپر (ممبئی)
ممدوح مکرم شیر نیپال حضرت علامہ صوفی محمد صدیق احمد یار علوی مد ظلہ النورانی میرے سگے ماموں حضرت علامہ عبد الجبار قادری یار علوی صاحب قبلہ کے ہم سبق ہیں۔ یہ لوگ ساتھ ہی شیخ المشائخ قطب الاقطاب حضور شعیب الاولیاء الشاہ محمد یار علی سے سلسلہ قادریہ یار علویہ میں بیعت ہوئے، اور ساتھ ہی پوری جماعت بڑی عرق ریزی سے حصول تعلیم میں مصروف رہے۔ سن 1961 اور 1962 دو سال کی جماعت کو ایک ہی ساتھ میں سند و دستار فضیلت سے نوازا گیا، جس میں حضرت علامہ محمد اسماعیل ا گیا چھاتا والے، اور حجۃ العلم حضرت علامہ مفتی قدرت اللہ رضوی بھی شامل تھے۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ نے نیپال کے مختلف اضلاع اور ہندوستان کے ضلع مہراجگنج اور گورکھپور سرحدی علا قے میں دین و سنیت کی اشاعت کے لیے جی توڑ محنت کر کے اسے مسلک اعلی حضرت کا قلعہ بنا دیا جہاں آج سنیت اور مسلک اعلی حضرت کا بول بالا ہے جو حضرت صوفی صاحب قبلہ کے مجاہدانہ کردار کا منھ بولتا ثبوت ہے۔
ان علاقوں میں آپ نے مختلف مساجد و مدارس قائم کیے اور قابل ترین علمائے کرام کی ایک مضبوط ٹیم تیار کر کے میدان عمل میں اتاردیا جو آج مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت میں شب وروز مصروف عمل ہیں۔
آپ زبر دست عالم دین ہونے کے ساتھ انتہائی منکسر المزاج، خلیق و ملنسار شخصیت کے مالک ہونے کی وجہ سے علما اور عوام میں مقبولیت عامہ کے حامل ہیں، حضرت صوفی صاحب قبلہ کے ایک شاہزادے تھے جن کا اسم گرامی مولانا محمد اعجاز خان تھا جو میرے ہم درس تھے فراغت کے بعد سے میری ملاقات ان سے نا ہو سکی ابھی چند روز قبل میں نے حضرت علامہ غیاث الد ین احمد مصباحی نظامی سے ان کی چند سال پہلے شہادت کی خبر سنی، دل صدمات سے دو چار ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ حضرت صوفی صاحب قبلہ کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور ممدوح مکرم کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور خدمت دین و مسلک اعلی حضرت کی توفیق عطا فرمائے۔ بڑی مسرت ہوئی کہ اسی سال حضرت صوفی صاحب قبلہ کو ان کے شاگرد خاص حضرت علامہ سید غلام حسین صاحب اپنے ادارہ جامعہ فیضان اہل بیت کے ارکان کے تعاون سے سِکوں سے تولیں گے، یقیناً آپ اپنی خدمات جلیلہ کی بنیاد پر اس سے کہیں زیادہ کے حقدار ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے مرشد حضور شعیب الاولیاء کے فیوض و برکات سے مالامال فرمائے اور ان کے چاہنے والوں کو شاد و آباد رکھے۔ آمین۔
حضرت مولانا مفتی محمد شمس القمر قادریؔ فیضیؔ
دار العلوم بہار شاہ فیض آباد یوپی
حضرت علامہ صوفی صاحب قبلہ مد ظلہٗ النورانی جماعت اہل سنت کے ایک عظیم و جلیل فرد کا نام ہے۔ علامہ موصوف تقریباً ۵۵ برس قبل دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف سے فارغ ہوئے۔ اس کے بعد مدرسہ غوثیہ فیض العلوم بڑھیا میں بحسن و خوبی ۸ سال تک تدریسی فرائض انجام دیے اور پھر بھیر ہوا تشریف لے گئے۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ حضور بدر ملت علامہ مفتی بدر الدین احمد کے منظور نظر و تربیت یافتہ ہیں۔ بذات خود حضرت صوفی صاحب نہایت سنجیدہ، متین، منکسر المزاج، کم گو، سادہ مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ تقویٰ، طہارت، علم وعمل اور فضل و کمال میں بلند ہیں۔ اور ایک معتمد اور معتبر عالم دین ہیں۔ وطنیت کے اعتبار سے اگرچہ نیپالی ہیں مگر ان کا عملی و علمی دبدبہ ہندوستان میں بھی ہے۔ اہل نیپال انہیں شیرِ نیپال کے لقب سے یاد کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ صرف شیرِ نیپال ہی نہیں بلکہ جماعت اہل سنت کے بطل جلیل اور اسدُ السُّنہ ہیں۔ اشاعت اسلام وسنیت و فروغ مسلک اعلیٰ حضرت کا جذبہ فراواں ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ ہندو نیپال کے سرحدی علاقے میں آپ کی دینی سرگرمیاں روز روشن کی طرح واضح ہیں۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ نے اگرچہ تصنیفی میدان کی طرف کم شغف رکھا مگر پورے نیپال میں چاہے وہ ترائی ہو یا پہاڑ، ہرجگہ آپ نے حتی المقدور مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے کوشش کی۔ اور جگہ جگہ مدرسے قائم کیے، مسجدیں بنوائی۔
راہ تصوف کے راہی علامہ صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ منازل تصوف کے تمام گوشوں سے واقف نظر آتے ہیں۔ جو بظاہر ان کی زندگی کے معمولات سے جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ طبعاً نہایت شریف ہیں، تصنع اور بناوٹ سے یکسر پاک، چھوٹوں پر شفقت و محبت، بڑوں کی عزت و تکریم، آپ کی حیات کا خاصہ ہے۔
حضرت علامہ و مولانا مطلوب احمد قادری صاحب قبلہ
دار العلوم اشاعت الاسلام، کوٹوا پیپریا، پرتاول بازار، گورکھ پور
یہ جان کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ پیکر اخلاص و عمل حضرت علامہ و مولانا صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ کو ان کے دینی و ملی خدمات کے اعتراف میں ارکان فیضان اہل بیت نول پراسی کے ذریعہ سکوں سے تولا جائے گا۔ اور اس موقع پر مولانا غیاث الدین صاحب ان کی حیات و خدمات بھی ترتیب دے رہے ہیں۔ سبحان اللہ، الحمد للہ!
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حضرت صوفی صاحب قبلہ کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ اور وہ اس کے حق دار ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے تقریباً اپنی پوری زندگی خدمت دین متین کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ اور وہ ہر آن، ہر لمحہ، صرف مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ آپ ایک سچے عاشق رسول ہیں۔ آپ کا کوئی بھی عمل شریعت کے خلاف نہیں دیکھا جاتا، اسی وجہ سے آپ ہر نظر میں عزت و وقار رکھتے ہیں۔
حضرت علامہ منور حسین مصباحی صاحب قبلہ
سرپرست تنظیم ابنائے اشرفیہ، ضلع گورکھ پور
حضرت صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ ایک بزرگ عالم دین ہیں، جو صغر سنی سے ہی زہد و تقویٰ کے عظیم پیکر ہیں، آپ کے زہد و تقویٰ کو دیکھ کر ہی آپ کے اساتذہ نے صوفی کا لقب عطا کیا۔ خدمت دینِ متین کا جذبہ آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بدر ملت نے آپ کو مدرسہ غوثیہ بھیرہواں میں بھیجا تو ارکان سے کہا کہ میں آپ کو ایک ہیراسپرد کر رہا ہوں، اس کی حفاظت کرنا۔ آپ نے نیپال اور سرحدی علاقے میں جو دین کی خدمات انجام دی ہیں، وہ ناقابل فراموش ہیں۔ آپ بہت ہی مخلص اور ملنسار ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ اور نوجوان علما کو آپ کی طرح دین کی خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔
حضرت حافظ و قاری نور الہدیٰ مصباحیؔ صاحب قبلہ
مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو، لکشمی پور، مہراج گنج
حضرت صوفی صاحب قبلہ کی ذات زہد و تقویٰ کی وہ نیّر تاباں ہے، جسے دیکھ کر اسلاف کرام کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ آپ حقوق اللہ کی ادایگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا مکمل پاس رکھتے ہیں۔ سب سے خندہ پیشانی اور خوش روئی سے ملتے ہیں۔ گفتار میں نرمی، فکر میں سنجیدگی آپ کی خاصیت ہے۔ سادگی اور پاکیزگی کے پیکر ہیں۔ آپ کی زندگی کا ورق ورق شبنم کی طرح پاکیزہ اور دودھ کی طرح صاف شفاف ہے۔ آپ ایک ماہر استاذ اور قائد ہونے کے ساتھ ساتھ زہدو پارسائی کے پیکر بھی ہیں۔ آپ ایک سچے عاشق رسول اور عاشق اولیا ہیں۔ میری ان سے بارہا ملاقات ہے۔ ان سے مل کر یقیناً اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
حضرت مولانا غلام سرور صاحب قبلہ
دار العلوم قادریہ فیض العلوم بینی پور روپندیہی (نیپال)
عہدحاضر کی ایک انتہائی لائق صد تکری مذات جامع علوم عقلیہ و نقلیہ، جلیل القدر عالم دین، زبردست مناظر، بلند پایہ محقق، بالغ نظر فقیہ، اسلامی دانشور، نکتہ سنج مفتی، ماہرمدرس، رہنمائے ملت، معمار قوم و ملت، شہر یار علم و حکمت، مطلع فکر و نظر، پیکرِ اخلاص و الفت، سادگی کے مجسمہ، حُسن عمل کے پیکر، پیر طریقت، حضرت علامہ و مولانا الحاج صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ ہیں، جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور حیات کی ایک ایک ساعت سرمایۂ سعادت اور دولتِ افتخار ہے۔ جن کی ساری عمر شریعت کا علم پھیلاتے اور طریقت کی راہ بتلاتے گزر رہی ہے اور ان کی زندگی کا ہر عمل شریعت کی میزان اور طریقت کے ترازو پر تولا ہوا ہے۔
اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں لیکن حضرت صوفی صاحب قبلہ نے قوم کے لئے جینا سیکھا ہے، ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قوم و ملت کے لیے وقف ہے۔ آپ کا شمار ملک نیپال کے ان مشاہیرمستندومعتبرعلما و دانشوران میں ہوتا ہے جنہوں نے نیپال جیسے ملک میں ملت اسلامیہ کی دینی قیادت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حضرت والا بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں ان کی ہمہ گیر اور ہشت پہلو شخصیت نے کتنے ہی ذرّوں کو آفتاب اور جگنوؤں کو ماہتاب بنا دیا۔ وہ صحرا کو گلستاں بنانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انھوں نے پہاڑ کھود کر دودھ کی نہر نکالنے کا محاورہ سچ کر دکھایا ہے۔ علما، طلبہ، عوام و خواص سب کے ساتھ شفیق ہیں۔
حضرت مولانا طاہر القادری مصباحیؔ صاحب قبلہ
شیخ الحدیث دار العلوم اہل سنت غوثیہ نظامیہ، مقام حسنی، بانس پور، بستی
حضرت علامہ الحاج الشاہ صوفی محمد صدیق خان رضوی مدظلہٗ العالی سرزمین نیپال کی اُس عظیم، مقتدر اور محنت کش شخصیت کا نام ہے، جو ایک گم نام آبادی موضع کھرہریا کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ اور دو دہائیوں کے اندر تمام مروجہ علوم دینیہ پر مہارت حاصل کی۔ ۱۳۸۴ھ میں فیض الرسول براؤں شریف سے فراغت حاصل کی۔ آپ نے افراد سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ علما نواز ہیں۔ اکابر کا حد درجہ احترام کرتے ہیں۔ اصاغر نوازی کا حال یہ ہے کہ اُن کی حوصلہ افزائی کرنا، سماج میں انھیں عزت دلانا، عوام کے درمیان انھیں بڑا بتانا، آپ کی زندگی کا شیوہ ہے۔
مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک مرتبہ جب نیپال کے حالات بہت خراب تھے۔ ماو نوازوں کا دبدبہ تھا، اس وقت حضرت شیرِ نیپال صاحب قبلہ نے طلبہ کی دستار بندی کا پروگرام مسجد میں رکھا تھا، جس میں حضرت نے مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ کٹھوتیا کی جامع مسجد میں بعد نماز جمعہ دستار بندی ہوئی۔ دستار کے بعد جب عوام آپ کی جانب دست بوسی کرنے کے لیے جھکی تو حضرت نے برجستہ فرمایا میری نہیں، ان نوجوان علما کی دست بوسی کرو۔ اور آپ کھڑے ہو کر عوام سے یہ کہتے رہے، یہ نوجوان علما مستقبل کی امانت ہیں۔ حضرت علامہ صوفی صاحب نے اگرچہ بظاہر اپنے لیے کچھ نہیں کیا مگر قوم و ملت کے لیے آپ نے اپنی زندگی قربان کر دی جس کی وجہ سے آپ رہتی دنیا تک یاد کیے جائیں گے۔
حضرت مولانا محمد ہاشم فیضیؔ، صاحب قبلہ
استاذ پراتھمک ودیالیہ سنپتیہا، مہراج گنج
حضرت صوفی صاحب قبلہ نہایت پرہیزگار، محسن، دین دار، اور انتہائی محنت اور لگن سے درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے والے فرد ہیں۔ اس وقت انڈو نیپال میں کثیر تعداد میں آپ کے شاگرد موجود ہیں۔ میں نے حضرت کے زیر سایہ رہ کر مسلسل تین سال تک جماعت اولیٰ سے جماعت ثالثہ تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اس زمانے میں، میں نے محسوس کیا کہ حضرت انتہائی مخلص اور طلبہ کے تئیں بہت ہی ہمدرد ہیں۔ آپ کا حال یہ ہے کہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں لیکن پڑھانا نہیں چھوڑتے۔ نہ یہ کہ صرف کتاب پڑھاتے ہیں، بلکہ اس کے مغلقات کو واضح کر کے نوٹ بھی لکھواتے ہیں۔ آپ کی درسگاہ میں کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہمیں کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ہر فن میں آپ ماہر اور بے مثال ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تا دیر ہم پر قائم و دائم رکھے۔
حضرت مولانا برکت حسین مصباحیؔ صاحب قبلہ
پرنسپل جامعہ کاملیہ مفتاح العلوم کلہوئی بازار، مہراج گنج
حضرت صوفی صاحب قبلہ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ تعمیری و تنظیمی صلاحیتوں سے نوازا ہے، عزم و حوصلہ، جرأت و بے باکی گویا فطرت ثانیہ ہے۔ نظم و ضبط، انتظام و انصرام اور تعلیم و تربیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ عالی ظرفی، وسیع القلبی، خود داری و غیرت و حمیت آپ کا طرۂ امتیاز ہے۔
حضرت مولانا شبیر احمد نظامی، صاحب قبلہ
جامعۃ البرکاتیہ، مغلہاں، بھگیرتھ پور، مہراج گنج
حضرت صوفی صاحب قبلہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے بہت ساری ظاہری و باطنی کمالات و خوبیاں جمع فرما دی ہیں۔ آپ ایک عرصے سے بہت ہی اخلاص کے ساتھ دینی و ملی و قومی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دینی علوم و فنون کے دریائے بے بہا ہیں۔ آپ کی سادگی، شریف النفسی، تقویٰ شعاری، حلم و بردباری عوام و خواص میں مشہور ہے۔ آپ مسلک اعلیٰ حضرت کے سچے نقیب ہیں۔
حضرت مولانا شیر محمد قادری صاحب قبلہ
پرنسپل دار العلوم سراج العلوم برگدہی مہراج گنج
شیرِ نیپال حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ ایک اچھے عالم، دین کا درد رکھنے والے مبلغ، طلبا کے غم میں شریک رہنے والے استاذ، قوم کی ہر مصیبت میں ساتھ دینے والے پیشوا، مسلک اعلیٰ حضرت کے لیے بے قرار رہنے والے ہمدرد ہیں۔ قوم کوجس موڑ پر جس طرح کی ضرورت پیش آتی ہے آپ اس کے پیش نظر اقدام کرتے ہیں۔ آپ کی پوری زندگی جماعت اہل سنت کی ترویج و ترقی کے لیے وقف ہے۔
ہم نے بہت سے علما کو دیکھا مگر ان میں حضرت صوفی صاحب قبلہ کو اس اعتبار سے ممتاز پایا کہ انھوں نے اپنی ستر سالہ زندگی میں اپنے لیے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ جو کچھ کیا وہ قوم و ملت کے لیے کیا۔ حضور شیرِ نیپال صاحب قبلہ کا طرز زندگی کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، لین دین، بات چیت وغیرہ کا طریقہ اس قدر نفیس ہے کہ دیکھ کر رشک آتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی اسلام کی تبلیغ اور سنت مصطفویﷺ کی پاسداری میں صَرف ہو رہی ہے۔ تدریس و تقریر، وعظ و تبلیغ، اخلاق و کردار میں آپ بزرگان دین کا عکس ہیں۔
حضرت قاری محمد شبیر یار علوی صاحب قبلہ
پرنسپل جامعہ عربیہ اہل سنت انوار العلوم، ترلوک پور، پہونی، مہراج گنج
حضور صوفی صاحب قبلہ یوں تو ایک مدرس اور استاذ ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ قوم و ملت کے سچے پاسبان اور رہنما ہیں۔ آپ کے دل میں قوم کا جو درد ہے، وہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ آپ نے جس انداز میں ملک نیپال میں دین کی خدمت انجام دی ہے، وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ آپ کی دعوتی زندگی کا اگر جائزہ لیں تو آپ کی شخصیت ایک سچے داعی اور مبلغ کی حیثیت سے نکھر کر سامنے آتی ہے۔
حضرت مولانا صاحب علی چترویدی، صاحب قبلہ
ایڈیٹر امام احمد رضا میگزین، بندیشر پور، سدھارتھ نگر
مناظر اہل سنت، ناشر مسلک اعلیٰ حضرت آبروئے سنیت، نمونۂ اسلاف ممتازالاصفیا، عالم باعمل حضرت شیر نیپال صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ کی ذات با برکات دنیائے سنیت کے لیے مانند آفتاب و ماہتاب ہے، ہمارے اکابر و اصاغر علما آپ کی دینی خدمات کے معترف ہیں، ایسی منفرد المثال شخصیت جس نے زندگی کے اکثر ایام مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کر دیے ہوں ان کی حیات و خدمات کو تحریری شکل میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ ایک بزرگ عالم دین ہونے کے باوجود اصاغر کا بھی مکمل خیال فرماتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔
غالباً ۲۰۰۰ء کی بات ہے راقم الحروف حضرت مولانا عبد اللہ عارف صدیقی کی دعوت پر مٹیریا نیپال کے ایک جلسے سے خطاب کرنے کی غرض سے حاضر ہوا تھا، حسن اتفاق اس جلسے میں مقرر خصوصی کی حیثیت سے حضرت صوفی صاحب قبلہ کی بھی آمد ہوئی تھی، یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ رسمی گفتگو کے بعد جب حضرت اسٹیج پر تشریف لے گئے تو پہلے میرے نام کا اعلان ہوا، میں نے اپنی وسعت کے مطابق خطاب کیا، جسے حضرت نے بغور سماعت فرمایا، جلسہ ختم ہونے کے بعد حضرت نے مجھے اپنے پاس بلایا میرے بیان کی بہت تعریف کی اور میرے بارے میں پوری تفصیل دریافت کی۔ میں نے کہا حضور!میں بندیشر سدھارتھ نگر میں تعلیم دے رہا ہوں، جہاں میری آمد کے وقت صرف ایک مسجد تھی جہاں نماز بھی ہوتی اور پھر وہیں درس گاہ کا بھی انتظام تھا۔ لیکن بفضل الٰہی اب ایک چھوٹے سے مکتب کی تعمیر عمل میں آ گئی ہے۔
حضرت نے یہ سن کر فرمایا: کہ مولانا صاحب آپ وہیں خدمت کرتے رہیں۔ اِن شاء اللہ، آپ کا اقبال بلند ہو گا اور آپ کا قائم کردہ یہ مکتب جلد ہی دار العلوم کی شکل اختیار کر جائے گا۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ آجوہ چھوٹا سا مکتب دار العلوم امام احمد رضا بندیشر پور کی شکل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سچ کہا ہے:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
حضرت صوفی صاحب قبلہ ہمارے ادارے سے نکلنے والے سہ ماہی رسالہ امام احمد رضا میگزین کے ادارتی رکن ہیں۔ اور ہر سال ادارہ کے سالانہ جلسے میں مدعو کیے جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کا سایہ ہم پر دراز فرمائے۔ آمین
حضرت مولانا مفتی شمس الدین نظامی صاحب قبلہ
صدر دار الافتا، الجامعۃ النظامیہ شکرولی، سنولی، مہراج گنج
حضرت علامہ مولانا الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ مدظلہٗ العالی المعروف بہ شیرِ نیپال کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ آپ ان پاک باز شخصیات میں سے ہیں، جو اپنے آپ کو خود ہی منوا لیتے ہیں۔ یقیناً حضور شیرِ نیپال آسمان علم و فضل کے خورشید تاباں اور میدان زہد و ورع کے شہ سوار، صدق و وفا کے پیکر، سُنن نبوی کے متبع کامل اور ایک متبحر عالم دین، اور انبیا علیم السلام کے سچے وارث ہیں۔
بلا شبہ آپ ان نفوس قدسیہ میں سے ہیں جنھیں دیکھ کر خدا یاد آ جائے۔ آپ کے علم و عمل کے نور نے ملک نیپال کے گوشے گوشے، کونے کونے اور سنگلاخ وادیوں کو روشن کر دیا۔ آپ کے سیکڑوں قابل قدر شاگرد اندرون و بیرون ملک اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کا مقدس فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کے درجات کو بلند فرمائے، اور ان کا ظل کرم ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے۔ آمین بجاہ سید المرسلین علیہ الصلاۃ والتسلیم۔
حضرت مولانا شمس القمر علیمی صاحب قبلہ
مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو، لکشمی پور، مہراج گنج
حضرت صوفی صاحب قبلہ ایک تہہ دار شخصیت کے مالک ہیں، آپ زہد و تقویٰ اور علم و فضل کے حسین سنگم ہیں۔ آپ بیک وقت مدرس بھی ہیں، مبلغ بھی، اور پیر طریقت و عالم با عمل بھی۔ آپ ایک مشفق استاذ اور اپنے اساتذہ کے ادب شناس بھی ہیں۔ آپ کی عنایتیں اپنے تمام شاگردوں پر یکساں رہتی ہیں۔
حضرت مولانا الحاج عبد اللہ عارف صدیقی
ایڈیٹر اسلامی آواز بگلہوا، و خطیب جامع مسجد شہرت گڑھ، سدھارتھ نگر
ماضی قریب کے اکابر علمائے کرام میں جن علمائے کرام کو ان کے گراں قدر دینی خدمات اور کارہائے نمایاں کے پیش نظر غیر معمولی شہرت و مقبولیت، عزت و رفعت حاصل ہوئی، ان میں ایک بہت ہی نمایاں اور قابل ترین شخصیت جامع معقول و منقول آبروے اہل سنت ناشر مسلک اعلیٰ حضرت، حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ کی ہے۔ جو بھی آپ سے قریب ہوا، وہ آپ کے علمی جاہ و جلال، فضل و کمال سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ سب پر آپ کا علمی رعب قائم ہے۔ آپ کبھی کسی سے گھبرائے نہیں۔
آپ کی ذات ستودہ صفات کا کیا کہنا۔ خود میری کئی مرتبہ آپ سے ملاقات ہوئی، ہمیشہ آپ نے گلے سے لگایا۔ ایک مرتبہ ایک جلسے میں آپ نے فرمایا مولانا! ’’آپ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے، جو کام کر رہے ہیں، کیجیے، کبھی گھبرائیے گا نہیں‘‘۔ آپ کی اسی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ آپ کے درس گاہ با فیض سے جن لوگوں نے بھی خوشہ چینی کی، اور چشمۂ علم سے سیراب ہوئے وہ علم و فضل کا آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔
آپ نے علم دین، خدمتِ دین و خدمتِ خلق ہی کے لیے حاصل کیا ہے۔ دنیا کے مال و منال، جاہ و جلال اور شہرت و ناموری کے لیے نہیں۔ آپ نے اب تک جو کچھ کیا اور کر رہے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے کر رہے ہیں۔ حضرت صوفی صاحب قبلہ موصوف علم کے سمندر کا نام ہے، جس سے ہزاروں لوگ سیراب ہو رہے ہیں۔ آپ کے فضل و کمال کو ثریا بھی جھک کر سلام کرتا ہے۔
آپ کی سادگی، شگفتہ مزاجی، قابل دید ہے، وہی معمولی سا لباس، وہی سادگی و بے ریائی، چال ڈھال میں طمانیت، نہ عالمانہ طمطراق، نہ حاکمانہ نخوت و غرور، پھر بھی ایک بات ضرور ہے کہ آپ کی سادگی میں رعب ٹپکتا ہے۔ آپ کی بے ریائی سے وقار ابلتا ہے۔ آپ کے اندازِ فقیری سے شاہانہ جلال جھلکتا ہے۔ آپ کی شان بے نیازی سے علم و حکمت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔
آپ کی سادگی دیکھ کر کچھ لوگ آپ پر یہ فقرے بھی کستے ہوں گے کہ یہ تو ایک کسان جیسے لگتے ہیں، مگر میں کہتا ہوں ہاں، یقیناً آپ کسان جیسے ہی لگتے ہیں، مگر آپ علم و ہنر کے کسان ہیں، کیوں کہ آپ نے اپنے علم و حکمت سے نہ جانے کتنی بنجر زمینوں کو رشک گلستاں بنا ڈالا ہے۔ دلوں کی سوکھی کھیتیوں کو سر سبز و شاداب کر دیا ہے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں سے بہت سی سوکھی آبادیوں میں حکمت و موعظت کے بیج ڈال کر خون جگر پلا کر ہرا بھرا کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ ممدوح مکرم کا علم و عمل، تصلب فی الدین، حکمت و دانائی، دل جوئی، دل آشا نائی، صبر و توکل، خوش کلامی، خوش بیانی اپنے آپ میں منفرد المثال ہے۔ ہندو نیپال کی سرحدی علاقوں میں آپ کی دینی خدمات کئی سالوں پر محیط ہے۔
آپ کی زندگی میں بہت سارے مصائب و مشکلات آتے رہے ہیں۔ پھر بھی آپ نے حرف شکایت زبان پر نہیں لایا۔ اور ہمیشہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔ آپ کے بے شمار تلامذہ مخلصین و محبین ہندو نیپال کے مختلف گوشوں میں پھیل کر آپ کا فیضان عام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے۔ آمین۔
حضرت حافظ و قاری انوار الحسن صاحب یار علوی
صدر شعبۂ حفظ مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو، لکشمی پور، مہراج گنج
حضرت شیرِ نیپال ادام اللہ تعالیٰ حیاتہٗ ہر میدان کے سلطان ہیں، چاہے وہ میدان درس و تدریس ہو، یا میدان خطابت و موعظت ہو۔ آپ مختلف علوم و فنون پر دسترس اور قدرت رکھتے ہیں۔ آپ کی خدمات دینیہ تقریباً نصف صدی پر محیط ہیں۔ آپ نے غیر شرعی رسوم کا خاتمہ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ آپ کی شخصیت و عظمت عوام و خواص میں مسلم ہے۔ آپ معتصم بالکتاب والسنہ، متوکل علی اللہ ہیں۔ شرافت و صیانت آپ کی فطرت ثانیہ ہے۔ آپ کے اندر کمال درجے کا استغنا پایا جاتا ہے۔ آپ کی خطابت کی شہرت دور دراز تک ہے۔ آپ کی عظمت کے معترف عوام تو عوام بڑے بڑے علما بھی ہیں۔
حضرت مولانا سید غلام حسین صاحب قبلہ
مہتمم جامعہ فیضان اہل بیت نول پراسی، نیپال
اللہ رب العزت کا بے پناہ شکر ہے کہ اس نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ میں اپنی ناتوانی اور بے وسعتی کے باوجود اپنے استاذ محترم حضرت شیرِ نیپال صاحب قبلہ مدظلہٗ العالی کو بطور اعتراف خدمات سکوں سے تول کر ان کی عظمت کا سکہ لوگوں کے دلوں پر عام کروں۔ جب کہ یہ ان کی عظمت و رفعت کے اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس موقع پر حضرت مولانا غیاث الدین احمد مصباحی صاحب قبلہ نے ان کی حیات و خدمات ترتیب دے کر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ جو بلا شبہ قابل تعریف اور لائق تقلید ہے۔
حضور صوفی صاحب قبلہ ایک ایسے عالم دین ہیں، جن کی پوری زندگی مذہب و مسلک کی حفاظت پر مشتمل ہے۔ حضرت کی محبت و شفقت اور عنایت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ان کے چاہنے والے ہندو نیپال کے مختلف گوشوں میں پائے جاتے ہیں۔ آپ انتہائی درجہ کہ متقی و پرہیزگار ہیں۔ آپ کے اندر کبر و نخوت اور غرور و تکبر کا نام و نشان نہیں۔ آپ سادگی و انکساری، لطف و عنایات کے سراپا پیکر ہیں۔ بہت ہی نرم مزاج، بڑے خلیق اور شفیق و مہربان ہیں۔ اگر کوئی بات ناگوار خاطر ہوتی ہے، تو اس پر تحمل فرما لیتے ہیں۔ بالخصوص ایسے موقع پر جب لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ البتہ خلاف شرع کسی معاملے کو قطعاً برداشت نہیں کرتے۔ اور فی الفور اس کی اصلاح فرماتے ہیں۔ متانت و سنجیدگی آپ کی طبع شریف کا خاصہ ہے۔ علم و عرفان، فضل و کمال، زہد و تقویٰ میں منفرد اور ممتاز ہیں۔ اللہ رب العزت آپ کو عمر خضر عطا فرمائے۔
حضرت مولانا ابو الوفا نظامیؔ صاحب قبلہ
استاذ مدرسہ غوثیہ اہل سنت نورالعلوم کٹھوتیہ بھیر ہوا نیپال
حضرت صوفی صاحب نے اپنی پوری زندگی اشاعت دین میں صَرف کر دی۔ اس کوردہ علاقے میں دین کی تبلیغ و اشاعت کرنا آسان کام نہ تھا۔ علمی طبقہ بھی نہ تھا کہ آسانی سے تبلیغ ہو جاتی۔ جس وقت آپ بھیرہواں میں تشریف لائے تو اہل باطل بھیرہواں کی جامع مسجد پر قبضہ کرنا چاہ رہے تھے تو حضور صوفی صاحب قبلہ کا جلال پورے شباب پر تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے دم لیں گے۔ پھر آپ نے جناب حسرت ٹھیکیدار صاحب سے اس سلسلے میں بات کی، تو انھوں نے کہا کہ صوفی صاحب! دامے درمے سخنے جس طرح ہماری ضرورت پڑے، میں حاضر ہوں۔
دیابنہ کی تیاری یہ تھی کہ شہر کی قدیم جامع مسجد میں عید کے دن زبردستی با جماعت نماز ادا کر کے انتشار پھیلایا جائے۔ اور اس طرح یہاں پر ہم قابض ہو جائیں گے۔ لیکن حضرت صوفی صاحب قبلہ نے اپنے معاونین کے ہمراہ اہل باطل کو جامع مسجد میں گھسنے نہیں دیا۔
میں جس وقت آپ کی تربیت میں تھا، تو حضرت بارہا اسی کا تذکرہ کرتے کہ اس علاقے سے وہابیت اور دیوبندیت کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ گویا آپ سوتے، جاگتے، اٹھتے بیٹھتے ہمہ وقت مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت کے لیے ہی فکر مند رہتے تھے۔ بھیرہواں سے لے کر بٹول، نول پراسی تک جہاں بھی ضرورت پڑتی، حضرت سائیکل سے اور کبھی پیدل ہی چلے جاتے۔
اکثر ایسا ہوتا کہ حضرت مجھ سے فرماتے تیار ہو جاؤ، چلنا ہے۔ میں تیار ہو جاتا، جرأت کہاں تھی کہ پوچھتے، کہاں جانا ہے؟ جب حضرت کو سائیکل پر بٹھا کر مدرسے سے باہر نکلتے تو کسی سَمت جانے کا اشارہ کرتے۔ اس زمانے میں راستے اس قدر خراب تھے کہ اسے راستہ کہنا بھی زیب نہیں دیتا۔ یوں کہیے کہ صرف گڈھے تھے، میری حالت غیر ہو جاتی۔ لیکن حضرت کے رخ زیبا پر کہیں سے بھی تکان کے آثار نمایاں نہیں ہوتے۔ علاقے کے مختلف گاؤں میں جا کر احباب کے ساتھ مسلک اہل سنت و جماعت کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے گفتگو فرماتے۔ (آج راستے اچھے ہو گئے ہیں، آپ بُڑھاپے کی منزل میں پہنچ گئے مگر وہی جوش وہی جذبہ آج بھی رکھتے ہیں جو ایام جوانی میں تھا)
حضرت کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ آپ کو جو بھی دعوت دے خواہ امیر ہو یا غریب، اس کے یہاں ضرور جاتے ہیں چاہے پیدل ہی جانا پڑے۔
حضرت طلبہ سے اس طرح پیار کرتے ہیں جس طرح و الدین اپنی اولاد سے کرتے ہیں۔ کوئی طالب علم اگر اوقات تعلیم میں بلا اطلاع گھر چلا جاتا، یا ترک تعلیم کی نیت کرتا تو حضرت بذات خود اس کے گھر جا کر اسے سمجھا بجھا کر واپس مدرسہ لانے کی ہر ممکن کوشش کرتے یا کسی استاذ کو بھیجتے۔ ایک بار میں بلا اطلاع گھر چلا آیا، اور مجھے مدرسہ جانے میں تاخیر ہوئی تو حضرت بذات خود میرے گھر چلے آئے اور وہ آخر کار مجھے مدرسہ واپس لے کر آئے۔ اسی طرح ایک بار میں نے مع اہل و عیال اجمیر شریف جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے مجھے مسلک اعلیٰ حضرت پر قائم رہنے کی سخت تاکید فرمائی۔ آپ خلق خدا سے بے انتہا محبت فرماتے ہیں، ان دونوں واقعے کی تفصیل مولانا غیاث الدین احمد مصباحی صاحب نے ذکر کر دیا ہے، اس لیے اس کا اعادہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ اللہ رب العزت ان کا سایہ ہم پر تا دیر قائم رکھے۔
حضرت مولانا امجد علی نظامیؔ، صاحب قبلہ
استاذ، دار العلوم رضویہ نور العلوم سول لائن، مہراج گنج
ملک نیپال کے مقتدر علما اور مشاہیر شخصیات میں ایک محبوب اور پسندیدہ شخصیت حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خاں صاحب قبلہ شیرِ نیپال کی ہے۔ آپ انتہائی سنجیدہ و پُر وقار، محنتی، گرم جوش داعی و مبلغ، اور متحرک و فعال عالم دین کی حیثیت سے عوام و خواص کے درمیان متعارف ہیں۔ اسی لیے نئی نسل آپ کو شیرِ نیپال کے نام سے یاد کرتی ہے۔ حق بیانی میں اپنی مثال آپ ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک جلسے میں ایک بڑے خطیب نے شریعت سے ہٹ کر کچھ باتیں کی، دیگر علما تو خاموش تھے مگر آپ کی ہمت مردانہ اور جرأت رندانہ کو داد دیجیے کہ بے خوف ہو کر آپ اسٹیج پر آئے اور اس خطیب سے مائک لے کر اس کا رد بلیغ کیا۔ اس طرح ہر محاذ پر آپ اہل سنت کے داعی و نقیب بن کر کھڑے نظر آتے ہیں۔ آپ کی دینی خدمات کا دائرہ تقریباً ۵۰ سالوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اس طویل مدت میں اسلامی اصولوں پر عمل کرنا، زمانے کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے اس کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانا اور خلق خدا کو زیادہ سے زیادہ استفادہ کا موقع فراہم کرنا، آپ کے شب و روز کا معمول ہے۔
اللہ رب العزت حضرت صوفی صاحب قبلہ کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔
حضرت مولانا نور محمد مصباحی، جامعی صاحب قبلہ
مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو، لکشمی پور، مہراج گنج
شیرِ نیپال حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خاں صاحب قبلہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ آپ حق گو، بیباک، مخلص، ملنسار، ظاہر و باطن یکساں رکھنے والے، جماعتی، ملی ہمدرد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آپ میں اللہ نے جو بڑی اور نمایاں خوبیاں ودیعت کی ہے۔
ان میں سے ایک نہایت اہم خوبی ”کسب افراد“ کی ہے وہ دلوں کو جیتنے اور انہیں اپنا بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ آپ کو اللہ نے دینی علم اور عصری شعور و آگہی کے علاوہ گہری اور وسیع ملی و سیاسی بصیرت سے نوازا ہے۔ ان کی شخصیت میں ملت کا دردکوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
حضرت مولانا نذیر احمد فیضی صاحب قبلہ
استاذ مدرسہ غوثیہ اہل سنت نورالعلوم چین پور، روپندیہی (نیپال)
حضرت علامہ شیر نیپال صاحب قبلہ دام ظلہ العالی جماعت اہلسنت کے بے باک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ حالات زمانہ پر عقابی نگاہ رکھنے والے عالم دین ہیں، ساتھ ہی خلیق و ملنسار واقع ہوئے ہیں، انتہائی ذہین و فطین ہونے کے ساتھ ساتھ علم فقہ میں ژرف نگاہی رکھتے ہیں۔ طبیعت میں سادگی کے جلوے نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ اپنے اساتذہ و مشائخ کرام کی عالی بارگاہوں میں سراپا مودب ہونے کی وجہ سے ان کے عکس جمیل نظر آتے ہیں۔ خاص کر مسلک اعلی حضرت کے سچے علم بردار ہیں، نیپال کے کئی اضلاع آپ کے فیضان سے مالا مال ہو رہے ہیں۔
حضرت مولانا محمد عمر نظامی صاحب قبلہ
مدرسہ اشرفیہ اہل سنت نورالاسلام روہنی گاؤں پالیکا وارڈ نمبر۷ روپندیہی
حضرت علامہ شیر نیپال صاحب قبلہ دام ظلہ العالی گوناگوں خوبیوں کے مالک ہیں، ، بہت ہی اخلاق مند، ملنسار اور حق گو عالم دین ہیں، قوم و ملت کے سچے ہمدرد اور مسلک اعلیٰ حضرت کے سچے ترجمان ہیں، وہ ہمیشہ صرف امت مسلمہ کے لیے تڑپتے ہیں، اہل سنت و جماعت کے تمام علما اور خانقاہی افراد کا یکساں احترام فرماتے ہیں۔
حضرت مولانا مقصود احمد نظامی صاحب قبلہ
پرنسپل مدرسہ اشرفیہ اہل سنت نورالاسلام روہنی گاؤں پالیکا وارڈ نمبر۷ روپندیہی
حضرت علامہ شیر نیپال صاحب قبلہ دام ظلہ العالی میرے استاذ گرامی ہیں۔ اس حوالے سے میں آپ کو تقریباًتیس سالوں سے دیکھ رہا ہوں، آپ کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ آپ اپنے شاگردوں کو بھی بہت وقار و عزت دیتے ہیں۔ علم وفضل اورعمر میں بڑے ہونے کے باوجود بات چیت اور ملاقات سے کبھی بڑکپن ظاہر نہیں ہونے دیتے، بلکہ ہمیشہ تواضع وانکسار کو ہی مقدم رکھتے ہیں۔ ان کا انکسار دیکھ کر رشک آتا ہے۔
اس علاقے [یعنی نیپال کے ترائی کے حصے] میں آپ کی خدمات کا احاطہ کرنا مشکل ہے، بل کہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ یہاں سارا کا سارا علمی وعملی فیضان آپ ہی کی محنتوں کا ثمرہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عمر خضر عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت مولانا عبد النبی نظامی صاحب قبلہ
مدرسہ غوثیہ اہل سنت وارڈ نمبر (۱) للت پور پکڑہوا، روپندیہی، نیپال
فخر قوم و ملت حضرت علامہ شیر نیپال صاحب قبلہ دام ظلہ العالی کے اندر جماعت اہل سنت کا بے انتہا درد پایا جاتا ہے، آپ خود بھی ایک طویل عرصے سے دین کی تبلیغ و ساشاعت میں لگے ہیں اور اس کے علاوہ جو لوگ کسی طریقے سے اہل سنت و جماعت کا کام کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور مزید خدمات کے لیے ابھارتے ہیں۔
علمائے اہل سنت کو مذہبی، دینی، تعلیمی، تصنیفی، فلاحی، رفاہی اور سماجی اور سیاسی میدانوں میں کام کرتے دیکھتے ہیں تو ان کی بہت قدر کرتے اور دوسروں کے سامنے ان کی خدمات کو پیش کرتے ہیں۔ آپ ایک ایسے عالم دین ہیں جس پر عوام ہی نہیں بلکہ علما اور اکابر کوبھی ناز ہے۔
حضرت مولانا عبد الجبار علیمیؔ نظامیؔ صاحب قبلہ
مقام بیرہواں، ضلع روپندیہی نیپال
حضرت صوفی صاحب قبلہ کی ذات اپنے علم و فضل، حکمت و تدبر، عبادت و ریاضت، صبر و قناعت استقلال و استقامت، تواضع وانکساراور حسن اخلاق و کردار کے اعتبار سے اسلاف کی چلتی پھرتی تصویر ہے، جن کو دنیائے سنیت صوفی با صفا، بقیۃ السلف استاذ الاساتذہ، مخلص العلما اور شیر نیپال جیسے القابات سے جانتی اور پہچانتی ہے
حضور صوفی صاحب کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کے علم و عرفان پر جامعہ فیض الرسول کو بھی ناز ہے آپ نے اپنے علم و عمل سے لوگوں کے دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا چراغ روشن کیا۔
راقم الحروف اپنے زمانہ طالب علمی میں حضرت کے متعلق سنا کرتا تھا حسن اتفاق کی جب میں الجامعۃ النظامیۃ شکرولی میں زیر تعلیم تھا اس کے سالانہ جشن دستار بندی میں حضرت کی خدمت کی ذمہ داری مجھ حقیر کے حصہ میں آئی حضرت سے وہ میری پہلی ملاقات تھی حضرت سامنے کھڑے تھے اور ہم انہیں کو تلاش کر رہے تھے ہمارے استاد نے بتایا تو ہم انہیں ان کے قیام گاہ لے گئے حضرت نے سب سے پہلے وضو کے لئے پانی منگوایا، نماز عشاء کا وقت ہونے کو تھا ہم نے عرض کیا حضور ابھی اذان نہیں ہوئی ہے آپ نے فرمایا اذان کا انتظار نہ کرو ہمیشہ وقت سے پہلے وضو کر لینا چاہیے۔
ہم نے آپ کی ذات کو بڑی گہرائی اور گیرائی سے مشاہدہ کیا مگر کوئی خلاف شرع عمل کرتے نہیں دیکھا آپ کی زندگی میں سیرت بزرگان دین کی جھلک معلوم ہوتی ہے خردہ نوازی، مہمانوں کی خاطر داری، اکابرین و معاصرین کا احترام آپ کا شیوا ہے، خلوص و للہیت ایثار و قربانی دعوتی و تبلیغی جذبات، فکری و عملی جد و جہد آپ کی ذات میں نمایاں اوصاف ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ نیپال کی طاقت کوہ ہمالہ ہے سچ ہے زمینی اعتبار سے ہماری مضبوطی ہمالیہ ہے اور علمی و عملی اعتبار سے ہمارے علم کا کوہ ہمالہ حضور صوفی محمد صدیق صاحب دامت برکاتہم القدسیہ ہیں۔
حضور صوفی صاحب قبلہ پوری زندگی اہل سنت کی نشر و اشاعت میں صرف کرتے رہے ہیں اور آج بھی جب کبھی کسی جلسے میں آپ کا خطاب ہوتا ہے تو آپ کا سب سے پہلا فرمان ہوتا ہے کہ مسلک اعلی حضرت کو مضبوطی سے پکڑے رہو یہی مسلک آپ کو جنت کا حقدار بنائے گا۔
حضور صوفی صاحب قبلہ سے گذشتہ سال 7 اپریل 2017 بروز جمعہ مبارکہ "سیمرپانی” (ایک گاؤں کا نام) ایک جنازہ میں ملاقات ہوئی اس وقت حضرت نے فرمایا مولانا علیمی میں بوڑھا ہو چکا ہوں اب آپ لوگوں کی اس علاقہ میں سنیت کو عام کرنے کی ذمہ داری ہے اس وقت حضرت کی زبان سے نکلے ہوئے ان کلمات نے لوگوں کی آنکھوں کو اشک بار کر دیا لوگوں نے عرض کیا آپ ایسا نہ فرمائیں، اس علاقہ کے علمائے کرام کے آپ سپہ سالار اعظم ہیں آپ نے فرمایا کوئی بھی کام ہو تو علاقہ کے علمائے کرام سے مشورہ کر لینا۔
اور آپ کی وہ بات بھی یاد آ گئی کہ آپ نے فرمایا تھا کہ میں رہوں یا نہ رہوں آپس میں اس علاقہ کے علمائے کرام کے درمیان اختلاف نہ ہونے پائے سب مل کر کام کریں۔
کہاوت بہت مشہور ہے کہ بادشاہ وہ نہیں جو زمیندار ہو جائے بادشاہ وہ ہے جو دل دار ہو جائے جو دلوں پر حکمرانی کر لے وہی اصل بادشاہ ہے حضور صوفی صاحب لوگوں کے دلوں پر بادشاہت کرتے ہیں۔
رب قدیر کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولیٰ حضور صوفی صاحب کو عمر خضر عطا فرمائے اور ان کے سایہ رحمت کو ہمارے سروں پر تا قیام قیامت سلامت رکھے آمین بجاہ سید المرسلین۔
حضرت مفتی ابو طالب خان فیضی نوری صاحب قبلہ
دار العلوم نور العلوم، سلطان پور، یوپی
حضرت علامہ صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ فیضیؔ ایک عظیم مفکر، نامور عالم دین، اعلیٰ درجہ کے مدرس، شاندار خطیب، کامیاب مناظر، اور علم و فضل کے آفتاب ہیں۔ آپ بلند اخلاق اور اعلیٰ اوصاف سے آراستہ ہیں۔ منکسر المزاج اور قناعت پسند ہیں۔
آپ نے ایسے اساتذہ سے علم حاصل کیا جو فضل و کمال کے تاجدار اور میدان درس و تدریس کے عظیم شہسوار تھے۔ آپ نے اپنی محنت اور شیریں کلامی کے ذریعہ اساتذۂ کرام کے قلوب و اذہان کو اپنی طرف نہ صرف مائل کر لیا، بلکہ اساتذہ سے بہت قریب ہو گئے۔ اور آگے چل کر اپنی طبعی ذہانت اور خدا داد صلاحیتوں کی بنا پر جلد ہی منظور نظر بھی ہو گئے۔
آپ دوران تعلیم اپنے تمام تر اوقات مطالعہ اور تکرار میں صَرف کرتے۔ اسی لیے اساتذۂ فیض الرسول ہمیشہ آپ کا ذکر کرتے، اور آپ سے محبت فرماتے۔ اساتذہ کا آپ پر اس قدر اعتماد تھا کہ انھوں نے دوران تعلیم ہی آپ کو تدریس کی ذمہ داری بھی دے رکھی تھی۔ اور آپ متوسطات تک اس طرح پڑھاتے تھے، جس طرح کوئی ماہر مدرس پڑھاتا ہے۔ آپ کی سادگی، اصول پسندی، خلوص اور ذہانت و فتانت کا تذکرہ ضَرب المثل ہے۔
تقریباً ۵۰ سالوں سے آپ نے اپنے علم و عمل کا لوہا قوم سے منوالیا ہے۔ آپ ہر شخص سے محبت اور پیار سے ملتے ہیں۔ ہر جگہ شریعت مطہرہ کے احکام کو مد نظر رکھتے ہیں۔ اپنی زبان سے بڑے سے بڑے مخالف اور معاند کے لیے بھی نازیبا الفاظ استعمال کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ بندگان مقبولانِ الٰہی میں سے ہیں۔ آپ کے عقیدت مند ہر علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کی خدمات دینیہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں خاص کر مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت کے تعلق سے آپ نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق گھسا تب نگیں ہوا
حضرت مولانا منیر عالم رحمانی، صاحب قبلہ
مقام کٹھوتیا، بھیرہواں، نیپال/نزیل حال دوحہ، قطر
حضور صوفی صاحب قبلہ شروع ہی سے اپنے اسلاف کے طریقے پر گامزن ہیں۔ عبادت و ریاضت کی ادائیگی میں آپ نے کبھی کوئی تساہلی نہیں برتی۔ آپ سچے عاشق رسول، متبحر عالم دین ہیں۔ تقریر و تحریر، درس و تدریس، وعظ و خطابت ہر میدان کے غازی ہیں۔ آپ بہت ہی خاک سار، متحمل مزاج، شیریں مقال ہیں۔ خوش خلقی، شیریں بیانی آپ کا خاصہ ہے۔
آپ کی سب سے بڑی اور اہم صفت یہ ہے کہ دشمنان مصطفیٰﷺ کے لیے برق بار اور کلک رضا بن کر ہر گھڑی تیار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب دشمنان مسلک اعلیٰ حضرت آپ کا نام سنتے ہیں تو ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
چناں چہ ایک بار اتفاقیہ طور پر میں ہوٹل میں چائے پی رہا تھا۔ وہاں ایک دیوبندی مولوی بھی میرے ٹیبل پر موجود تھا، علاقائی اعتبار سے میری اس سے جان پہچان تھی۔ اسی درمیان حضور صوفی صاحب قبلہ کا ادھر سے گزر ہوا میں نے تو انھیں نہیں دیکھا، لیکن دیوبندی مولوی نے انھیں دیکھ لیا، اور دیکھتے ہی اس کے بدن پر گھبراہٹ کے آثار نظر آنے لگے۔ اس نے کہا مولانا منیر صاحب کہیں آپ کے شیر نیپال آپ کو دیکھ کر ادھر نہ آ جائیں۔ میں نے کہا کیا فرق پڑتا ہے، تو اس نے کہا کہ ہمیں ان سے بہت خوف محسوس ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ ایک قابل ترین عالم دین تو ہیں ہی اس کے ساتھ ہی آج تک ہم نے ان کو شریعت کے خلاف قدم اٹھاتے نہیں دیکھا۔ ہم ان کے بارے میں اعتراض کرنے کا کوئی گوشہ نہیں پاتے، اس لیے ہمیں ان سے گفتگو کرنے میں بہت ڈر لگتا ہے۔
سچ یہی ہے کہ حضور صوفی صاحب قبلہ کا اپنوں کے اندر اس قدر احترام ہے کہ وہ ان کے سامنے خواہ جوان ہوں خواہ بوڑھے، بڑے ادب کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اور جو مخالفین مسلک اعلیٰ حضرت ہیں وہ آپ کے علم و فضل اور زہد و تقویٰ کی وجہ سے آپ سے خوف کھاتے ہیں۔
عالی جناب محمد شرافت علی میاں صاحب
نائب صدر الجامعۃ الاسلامیہ، میاں پاٹن، پوکھرا
الحمد للہ عز و جل، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نیپال میں مسلمانوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جار ہی ہے۔ زیادہ تر مسلمان نیپال کے ترائی علاقے میں آباد ہیں۔ اور خاص کر کے یہیں علمائے کرام کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے اہل سنت و جماعت کا بول بالا ہے۔
وہ علمائے کرام جن کی کوششوں سے یہاں سنیت قائم و دائم ہے ان میں صوفی محمد صدیق خان مد ظلہٗ العالی کا نام سب سے اوپر آتا ہے۔ ان کی خدمات سے مسلمانوں کے اندر عشق رسولﷺ کا چراغ روشن ہے۔ اور وہ سنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت پر قائم ہیں۔ حضرت صاحب کے دورے اور بیانات نے بد عقیدوں کا قلعہ قمع کر دیا ہے۔ ان کا فیضان نیپال کے دوسرے سب سے بڑے شہر پوکھرا میں بھی ہے۔ یہاں ان کے شاگرد مولانا محمد شاہد علی، عبد اللہ میاں، جمیل احمد، مولانا منظور احمد، ان کا فیضان عام کر رہے ہیں۔ آپ کی خدمات کا دائرہ ترائی سے لے کر پہاڑی علاقوں تک ہے۔
حضرت مولانا سجاد عالم نظامی صاحب قبلہ
خطیب و امام مدینہ مسجد بٹول
حضرت صوفی صاحب قبلہ شیر نیپال کی شخصیت کی ہمہ جہتی و ہمہ گیری ملک ہند و نیپال کے دینی تعلیم یافتہ طبقوں میں مسلم ہے، خدائے تعالیٰ نے انھیں مختلف نوعیتوں کی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں، علمی و اخلاقی پہلو سے وہ ایک مکمل انسان ہیں۔ ان کی علمی پرواز کا اندازہ ان کی درسگاہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، آپ کے قابل ترین شاگرد آپ کی علمی قابلیت اور خداداد صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپ ایک بہت ہی با اخلاق عالم دین ہیں آپ کی خدمات بہت زیادہ ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے۔
برداشت اور تحمل مزاجی ان کی فطرت ثانیہ ہے۔ کسی حادثہ یا مشکل کے وقت ان کا ضبط قابل دید اور قابل رشک ہوا کرتا ہے۔ جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
فقہ و فتاویٰ اور شرعی مسائل میں حضرت صوفی صاحب قبلہ کو خصوصی ملکہ حاصل ہے، قضا و افتا کے معاملے میں آپ کو خاصا عبور حاصل ہے، فقہی مسائل میں کافی دسترس رکھتے ہیں۔ معاملہ فہمی، نکتہ رسی اور فقہی دقیقہ سنجی ان کے خصوصی اوصاف ہیں۔ حق گوئی آپ کی فطرت ثانیہ ہے۔ مسلک اعلیٰ حضرت کے سچے مبلغ ہیں۔
حضرت مولانا صدر عالم فیضی صاحب قبلہ
مدرسہ غوثیہ اورہواں، روپندیہی، نیپال
حضرت صوفی صاحب قبلہ ایک مکمل انقلابی، با عزم منتظم، حوصلے سے لبریز مربی و مبلغ اور امت و انسانیت کے درد سے آشنا اور غمخوار انسان ہیں، نفسیاتی، تاریخی اور روحانی طور پر زیادہ بامعنی بنانے والی طبعی قوت، انسانی امکانات اور کائناتی مظاہر پر حکیمانہ نگاہ ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ ان کی کار کردگی، تگ و دو اور ذمہ دارانہ جد و جہد ہمارے لیے موقع افتخار اور قابل اتباع ہے۔ آپ نے جس محنت و جانفشانی سے نیپال کے ترائی علاقے میں سنیت کا کام کیا ہے وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔
حضرت مولانا شیر محمد علیمیؔ صاحب قبلہ
مدرسہ قادریہ پوکھربھنڈی، روپندیہی، نیپال
حضرت صوفی صاحب قبلہ کے علمی کمالات مسلم ہیں اس کے علاوہ، مزاج اور اخلاق کے اعتبار سے زندہ دلی اور خوش مزاجی آپ کی ایک نمایاں خصوصیت ہے، جس سے ان کا ہر ملنے والا واقف ہے، گفتگو اور مزاج میں سادگی ان کا امتیاز ہے۔
ایک بہت خاص بات یہ ہے کہ اختلافِ رائے میں بھی حدود پر قائم رہتے ہیں جو بڑی اہم بات ہے۔ کبھی بھی کسی سنی عالم دین کی غیبت نہیں کرتے بل کہ دین و سنیت کا کام کرنے والے ہر شخص کی تعریف و توصیف اور حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔
حضرت مولانا اکبر علی قادری صاحب قبلہ
دار العلوم قادریہ فیض العلوم بینی پور روپندیہی، نیپال
حضرت صوفی صاحب قبلہ فہم وفراست، حکمت و دانائی اور زندگی کے وسیع تجربوں کے ساتھ، مکارم اخلاق اور انسانی شرافت کے نمونہ ہیں، ان کی بے نفسی، سبک روی، صلہ رحمی، ایثار اور توازن و اعتدال نے انھیں ہر دلعزیز بنا رکھا ہے، اور ہر شخص انھیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مہمان نوازی اور واردِین و صادرین کی خاطر و مدارات تو ایسی کرتے ہیں جس کی مثال مشکل سے ملے گی۔
اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ نہایت شفقت اور نوازش کا معاملہ فرماتے ہیں۔ زمینی سطح پر حضرت والا کی دینی خدمات بہت زیادہ ہیں۔
عالی جناب الحاج سید اظہار احمد صاحب قبلہ، نولپراسی نیپال
حضرت صوفی صاحب قبلہ میری نظر میں اللہ کے ایک برگزیدہ بندے بلکہ ولی اللہ ہیں کیوں کہ میں انھیں طویل عرصے سے دیکھ رہا ہوں لیکن کبھی ان کو شریعت کے خلاف کام کرتے نہیں دیکھا دوسری بات یہ ہے کہ ضلع نول پراسی میں حضرت نے اس وقت دین کا کام کیا ہے۔ جب یہاں کوئی نہ تھا آپ بھیر ہوا سے کبھی سائکل تو کبھی پیدل ہی چلے آتے تھے، آج تو اللہ کا شکر ہے کہ بہت سے مولانا لوگ کام کر رہے ہیں لیکن اس وقت جب یہاں کچھ نہیں تھا تو اس وقت صوفی صاحب ہی نے کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو لمبی عمر اور صحت عطا فرمائے۔
حضرت مولانا جعفر علی نظامیؔ صاحب قبلہ
پرنسپل دار العلوم محمدیہ غوث العلوم کھجوریا، ضلع روپندیہی (نیپال)
شیر نیپال حضرت علامہ صوفی صاحب قبلہ کی مشکل پسندطبیعت نے دینی اور ملی کام کے لئے نیپال کی ایک ایسی وادی کا انتخاب کیا جہاں صرف جنون عشق ہی کام آ سکتا تھا، کیوں کہ وہ راہ کی دشواریوں کو حوصلہ شکنی کا سبب نہیں، بلکہ حصول منزل کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اور یہ صرف میرا دعویٰ نہیں بل کہ آپ نے یہ کر کے دکھایا اور نیپال کی اس سنگلاخ زمین کو اپنے ناخن تدبیر سے گل و گلزار بنا دیا۔ ان کی کاوشوں اور آبلہ پائیوں کا نتیجہ ہے کہ جہاں جہالت کا دور دورہ تھا علم کا اجالا پھیل گیا۔
آپ ایک ہمہ جہت عالم دین ہیں۔ قوم مسلم کی اصلاح و تربیت اور ان کے تزکیۂ نفس کے لئے آپ ہر جہت سے کوشش کرتے ہیں۔ قوم مسلم میں فکراسلامی کی صحیح اسپرٹ پیدا کرنے کے لئے ہر ممکن جد و جہد کرتے ہیں۔ میں آپ کا ایک ادنیٰ شاگرد ہوں میری کیا حیثیت ہے؟ لیکن آپ نے ازراہ شفقت ہر موڑ پر میری حوصلہ افزائی فرمائی اور مشکل گھڑی میں میری تعلیم میں آنے والی مشکلات حل فرما کر اپنی ذرہ نوازی کا ثبوت دیا۔
آپ کو بتا دوں کہ میں دوران تعلیم جب انتہائی مشکل دور سے گذر رہا تھا، اور میں نے مکمل طور پو تعلیم ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا کیوں کہ میرے پاس تعلیم جاری رکھنے کے اسباب نہیں تھے، ایسے میں حضرت صوفی صاحب قبلہ نے درخشواں، بھیر ہوا نیپال کے ایک اہل خیر عالی جناب محمد شمع انصاری صاحب قبلہ کواس بات کے لیے تیار کیا کہ وہ میری تعلیم کے تمام تر اخراجات قبول فرمائیں۔ حضرت کی تبلیغ اور علم دین کی اہمیت بتانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ درجۂ فضیلت تک میرے تمام اخراجات بخوشی عطا کرتے رہے۔ (اللہ رب العزت انھیں اس کا بہترین اجر عطا فرمائے) یقیناً آپ بہت ہی مشفق اور قوم و ملت کے تئیں ہمدرد واقع ہوئے ہیں۔
حضرت مولانا محرم علی نظامی صاحب قبلہ
نائب صدر فیضان اہل بیت نولپراسی، نیپال
سچی تواضع اور انکسارِ نفس جتنا آپ کے اندر میں نے دیکھا دوسری جگہ کم نظر آیا، جلیل القدر عالم ہونے کے باوجود آپ خود کوبڑا نہیں ظاہر کرتے بلکہ سب سے کم تر سمجھتے ہیں، بہ حیثیت تبلیغ جو خدماتِ عالیہ آپ نے انجام دی ہیں وہ لاثانی ہے۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ میں جو کمال بہت ہی نمایاں ہے، جس کو ہم جیسے صرف ظاہری آنکھیں رکھنے والے بھی دیکھتے ہیں، وہ ان کی انتہائی بے نفسی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے اس بندہ کے اندر وہ چیز ہے ہی نہیں جس کا نام نفس ہے۔ یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ اپنے گھر کے کام بھی بے تکلف، بلکہ بشاشت اور خوشی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔
سفر و حضر میں کبھی نہیں دیکھا گیا کہ لیٹ کر مطالعہ کر رہے ہوں، یا کتاب پر کہنی ٹیک کر مطالعہ میں مشغول ہوں، بلکہ کتاب کو سامنے رکھ کر مؤدب انداز سے بیٹھتے ہیں، گویا کسی شیخ کے آگے بیٹھے ہوئے استفادہ کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ کسی بھی دینی کتاب کا مطالعہ بے وضو نہیں کرتے۔
میں نے بارہا دیکھا کہ مدرسے یا کسی بھی جگہ انتہائی سادگی سے تشریف فرما ہوتے ہیں لگتا ہی نہیں کہ کوئے بڑے اور بزرگ عالم دین ہیں۔ یہ چیز اب شاذونادر ہی ملتی ہے۔ یہ خصوصی وصف اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کو دیا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے اندر بھییہ وصف پیدا فرما دے، آمین۔
حضرت مولانا ضمیر اللہ قادری صاحب قبلہ
مقام بنر ہوا عرف پوکھر بھنڈا، نوتنواں، مہراج گنج
فقہ و تدبر اور علم و حکمت کے شہنشاہ فقیہ النفس حضرت مولانا صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ علم کے ساتھ عشق اور فقہ و بصیرت کے ساتھ محبت ومعرفت میں یگانۂ روزگار ہیں محبت رسول کا عالم یہ ہے کہ سرکار کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے منسوب ہر شئی سے عشق کرتے ہیں مدینہ پاک کا نام آتے ہی جھوم جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ تقریباً ہر تقریر میں یہ نظم ضرور پڑھتے ہیں: عجب رنگ پر ہے بہار مدینہ
آپ کے شب و روز کا نظام خود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ محبت رسول کے دھنی اور عشق رسول کے شیدائی ہیں آپ کی شدید چاہت رہتی ہے کہ کوئی کام خلاف سنت اور منشائے نبوت کے نہ ہو۔ آپ کے بے شمار علمی، اصلاحی، اور تعمیری خدمات کا دائرہ دور تک پھیلا ہوا ہے۔
آپ زندگی کے تمام شعبوں: چلنے، پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، کھانے پینے، آرائش و زیبائش، پوشاک ولباس، گھر اور مسجد، خلوت و جلوت، صبح وشام، لوگوں سے ملاقات وزیارت، مریض کی عیادت وغیرہ اور عبادات و معاملات سے لے کر اجتماعی اور انفرادی زندگی میں اتباع سنت کے پابند ہیں۔ اور اپنے رفقا اور واردین و صادرین کو بھی اس کی تاکید کرتے ہیں۔ اور انھیں سنتوں کی قدرو قیمت کا دھیان دلاتے ہیں، جنھیں معمولی سمجھ کر عوام خاطر میں نہیں لاتے۔
حضرت مولانا محمد صدر الدین مصباحیؔ برکاتیؔ
استاذ سعیدالعلوم یکما ڈپو لکشمی پور، مہراج گنج
جامع معقول و منقول حضرت علامہ الحاج الشاہ صوفی محمد صدیق خان فیضی مد ظلہٗ النورانی دعوت و تبلیغ اور تدبیر و تفکیر جیسے میدان کا ایک عظیم سپاہی ہونے کے ساتھ میدان درس و تدریس کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ تمام تر صفات محمودہ اور اوصاف حمیدہ میں آپ کا نمایاں وصف درس و تدریس ہے، جس کے ذریعہ آپ مابین طلبہ مشہور ہیں، اس فن میں آپ کو ید طولیٰ حاصل ہے، بلا شبہ آپ اپنے علاقہ خصوصاً سرحدی علاقے کے سلطان الاساتذہ ہیں۔
میں نے ذاتی طور پر آپ کی ذات کو ایک مشفق استاذ و مربی کی طرح پایا، آپ طلبہ کی تعلیم پر بے حد توجہ فرماتے، کبھی دن میں مصروفیات کے سبب سبق ناغہ ہو جاتا تو شب کو جب آپ تشریف لاتے، کھانا و ناشتہ سے قبل جماعت کے کسی طالب علم کا نام لے کربلاتے اور وہ پوری جماعت کے ساتھ آتا تو سبق پڑھانا شروع کرتے، اور پوری دل جمعی کے ساتھ درس دیتے، اگر کوئی طالب علم گھر چلا جاتا اور مطلوبہ رخصت سے زیادہ گھر پر رک جاتا تو آپ بنفس نفیس اس کے گھر جا کرا س کے و الدین سے وجہ دریافت کرتے، اور تعلیم کی فضیلت واہمیت بتا کر دوبارہ مدرسہ آنے کی دعوت دیتے۔
ایک مرتبہ دار العلوم غوثیہ کٹھوتیہ بھیرہواں میں دوران تعلیم میرے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا، اور میں گھر چلا آیا جب آپ کو پتہ چلا تو آپ خود میرے غریب خانہ پر تشریف لائے اور سمجھا بجھا کر دوبارہ واپس مدرسہ لے گئے۔ الحاصل حضور صوفی صاحب قبلہ ہمارے مشفق اور کرم فرما اساتذہ میں سے ایک ہیں۔ میں فخر کے ساتھ کہتا ہوں کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں وہ آپ کی عنایت و توجہ خاص کا نتیجہ ہے۔
عالی جناب سید صدام حسین قادری، نولپراسی، نیپال
مفکر اسلام حضرت صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ شیر نیپال کی پوری زندگی محبت رسولﷺ کیجیتی جاگتی تصویر ہے، عشق رسول اور فکر رسولﷺ جن کی زندگی کا سرمایہ ہے، جو نیپال کے کونے کونے میں مئے الفت کو لٹاتے اور اسرار محبت سکھاتے پھرتے ہیں جن کے خطابات محبت رسول کی گواہی دیتی ہیں
اگر تعصب کی عینک نکال کر دیکھا جائے تو بلا شبہ عشق و محبت، اتباع و پیروی میں آپ اپنے زمانے میں ممتاز ہیں۔ آپ نے زبانی دعوؤں اور ظاہری چیخ پکار سے ہٹ کر حقیقی اور عملی ثبوت دیا۔ دنیا کے سامنے محبت رسول اور اتباع سنت کا صحیح مفہوم پیش کیا۔ اوراسلامیزندگی کی منظر کشی کی۔ آپ کی ہر ہر سانس میں مسلک اعلیٰ حضرت کی محبت رچی بسی ہے آپ اس مسلک حق سے انحراف قطعاً گوارا نہیں فرماتے۔
حضرت مولانا شمشیر عالم رضوی صاحب قبلہ
استاذ مدرسہ غوثیہ اہل سنت کٹھوتیہ بھیر ہوا نیپال
شیخ العلما، جامع معقول و منقول، حضرت علامہ مولانا الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ کی زندگی کے اکثر و بیشتر اوقات دینی امور میں گزرتے ہیں۔ آپ پابند شرع اور اوامر و نواہی پر عامل ہیں۔ آپ جب طلبہ کودرس دیتے ہیں تو بعض اوقات ادارہ کے اساتذہ بھی آپ کے بحر علم سے استفادہ کرتے اور اسے موتی سمجھ کر چن لیتے ہیں، جو لوگ آپ کی درسگاہ کے خوشہ چین ہیں وہ زمانے میں ممتاز ومنفرد ہیں، کیوں کہ آپ جس اخلاص و محبت کے ساتھ درس دیتے ہیں وہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ آپ اپنوں کے لیے پھول اور دشمنان مصطفی کے لیے برق رضا کی صورت نظر آتے ہیں۔ نیپال کے ترائی علاقے میں آپ ہی کی وجہ سے سنیت کا بول بالا ہے، آپ اپنے ادارہ کے اساتذہ کے لیے باپ کی طرح شفیق ہیں اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔
حضرت مولانا سراج احمد فیضی صاحب قبلہ
استاذ مدرسہ غوثیہ اہل سنت کٹھوتیہ بھیر ہوا نیپال
استاذ الاساتذہ حضرت شیر نیپال صاحب قبلہ کی ذات ستودہ صفات ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ کا زہد و تقویٰ صرف عوام ہی میں نہیں بل کہ علمائے کبار میں بھی مشہور و معروف ہے، آپ یقینی طور پر بقیۃ السلف اور حجۃ الخلف ہیں۔
میں مسلسل چھ سالوں نے ان کے شب و روز کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ میں نے اس درمیان انھیں مسلسل اس حالت میں پایا ہے کہ خواہ سردی کا موسم ہو یا گرمی کا وہ نماز فجر میں اس بڑھاپے میں بھی ہمیشہ ہم لوگوں سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں۔ ہم لاکھ کوشش کرتے ہیں کہ کبھی ان سے پہلے بیدار ہو کر بچوں کو بیدار کر دیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہو پاتا۔ جب سخت سردی میں عام لوگوں کی ہمت جواب دے جاتی ہے ایسے عالم میں بھی آپ نماز فجر کے بعد وظیفہ وتلاوت میں مشغول رہتے ہیں۔
ہم اساتذہ کو جب کسی مسئلہ میں الجھن پیش آتی ہے، تو اسے حضرت کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں جسے حضرت پلک جھپکتے حل فرما دیتے ہیں۔ آپ کے دل میں اہل سنت و جماعت کے لیے جو درد ہے، وہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔
حکیم ملت حضرت علامہ مفتی عبد الحکیم نوریؔ دام ظلہٗ العالی
چیف ایڈیٹر: ندائے حنفی سدھارتھ نگر یوپی
حضور بدر ملت کے شاگرد رشید حضور شعیب الاولیاء کی بارگاہ کے تربیت یافتہ، امام احمد رضا کے مسلک کے مروج نمونۂ سلف حضرت علامہ صوفی محمد صدیق دام ظلہٗ العالی نیپال کے کوردہ علاقہ میں رہ کر افراد سازی میں مصروف رہے۔ ہندو نیپال کے سیکڑوں افراد کو علمی، فنی طور پر سیراب کیا۔ میرے والد گرامی جناب اصغر علی مرحوم علما کی قدر و منزلت کو سرمایہ حیات تصور کرتے۔ حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی، بحر العلوم علامہ مفتی عبد المنان مبارک پوری، براؤں شریف کے حضرت خلیفہ صاحب، خطیب البراہین حضرت علامہ مفتی صوفی نظام الدین، علامہ قدرت اللہ رضوی، علامہ محمد اسلم بستوی، علیہم الرحمہ بعض اوقات جلوہ گر ہوتے، مگر حضرت صوفی صاحب قبلہ میرے گھر ہر چھوٹی بڑی تقریب میں تشریف لاتے۔ میرے والد گرامی بھیرہواں تشریف لے جاتے۔ وافر مقدار میں پھل اور مٹھائیاں لے کر جاتے۔ طلبا کو بھی نوازتے۔ اور حضرت صوفی صاحب قبلہ کو نذرانہ پیش کر کے رخصت ہو جاتے۔ بفضلہٖ تعالیٰ علما کی خدمات کی برکتوں سے رزق میں وسعت اور مجھ جیسے ناکارہ کو خدمت دین متین میں یک سوئی و تنگی و ملال کا گزر نہیں۔
بلا شبہ شیرِ نیپال پر حضور شعیب الاولیاء کا خصوصی کرم و احسان ہے۔ علم و عمل اور اخلاص و تقویٰ کے باعث مقبول انام ہیں۔ محرمات و شبہات سے گریزاں، تصویر کشی سے مجتنب، ویڈیو اور اپنی تصویروں کے ذریعہ نمائش کرنے والوں سے متنفر، گویا کہ شریعت مطہرہ کے عامل کامل ہیں۔ قحط الرجال کے دور میں حضرت صوفی صاحب یکتا وبے مثال ہیں۔ ایسی عظیم شخصیت کی حیات و خدمات کو محفوظ رکھنے کی ضرورت تھی۔ حضرت مولانا غیاث الدین صاحب مصباحی کی یہ محنت و کاوش قابل تعریف ہے۔ رب کائنات اپنے حبیب پاک صاحب لولاکﷺ کے صدقہ میں قبول فرمائے۔ ع
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
حضرت مولانا اکرام علی نوری فیضی صاحب قبلہ
صدر المدرسین دار العلوم اہلسنت نور العلوم کنہٹی سلطانپور، یوپی
ہر دور میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی خاندانی وجاہت نیز اپنے آباء و اجداد کے کارناموں کی بنا پر شہرت و عزت حاصل کرتے ہیں، لیکن حضرت صوفی صاحب قبلہ نے خود اپنے علم و عمل نیز دینی خدمات کی بنا پر بلند مقام حاصل کیا، کیونکہ آپ ایک گمنام بستی میں پیدا ہوئے۔ ماضی میں خاندان سے کوئی نامور ہستی بھی نہیں گزری تھی اس کے با وجود معاصرین میں ممتاز رہے۔ چونکہ نیپال میں جہالت بام عروج پر تھی اس پر مستزاد یہ کہ وہاں کے ماحول میں بے حیائی اور عریانیت کی کثرت اس وقت بھی پائی جاتی تھی اور آج بھی پائی جاتی ہے۔ نیز دیگر خامیاں بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں لیکن حضرت صوفی صاحب قبلہ و دیگر علما و فضلا کی دینی و ملی کوششوں سے مسلم معاشرے کے اندر جو بے حیائی و فحاشی تھی اس میں قدرے کمی نظر آتی ہے، ایسی صورت میں مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچانے کے لیے اور دینی معلومات سے آگاہ کرنے کے لیے آپ نے ایک دینی ادارے کی بنیاد رکھی، چند سالوں میں ادارہ نے کافی ترقی حاصل کی۔
حضرت صوفی صاحب نے طلبہ کی ذہن سازی شروع کی، قرب و جوار نیز مہراج گنج کے علاقے سے طلبہ جوق در جوق آنے لگے اور حضرت کے علمی فیضان سے سیراب ہو کر دیگر بڑے مدارس میں جا کر فراغت حاصل کرنے کے بعد دینی خدمات میں مصروف ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے علماء اور دینیات سے واقف حضرات کی اچھی خاصی تعداد ہو گئی اور عوام میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی۔ بھیرہواں اور اطراف کے لوگوں کو بد عقیدگی سے بچانے میں آپ کا اہم رول ہے۔ حضرت کے وجود مسعود نے ہی یہاں کے خوش عقیدہ مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائی۔
حضرت صوفی صاحب قبلہ با اخلاق، عاجزی و انکساری اور رواداری کے پیکر ہیں۔ خطیبانہ زور شور تو نہیں مگر آپکے مواعظ و نصائح معلوماتی اور اصلاحی اعتبار سے مفید ہوتے ہیں۔
عزیز القدر مولانا قمر الزماں نظامی ؔ
متعلم شعبہ کلیہ شرعیہ اسلامیہ، جامعۃ الازہر شریف، قاہرہ، مصر
مفکر قوم و ملت، شیر نیپال، صوفی با صفا، حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان فیضی یار علوی حفظہ اللہ تعالی و رعاہ بلا شبہ نادِرِ روزگار ہیں، جن کی حیات طیبہ کا لمحہ لمحہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ آپ کا سب سے عظیم کارنامہ علما کی ٹیم تیار کرنا ہے، آپ نے متبحر علما و فضلا کی ایک ایسی جماعت تیار کی ہے جو امت مسلمہ کو در پیش ہونے والے مسائل میں قرآن و حدیث اور فقہ حنفی کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
آپ کی بارگاہ سے فیض یافتگان دنیا کے مختلف ممالک میں دین وسنیت اور مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت میں کوشاں ہیں۔ حضرت نے خصوصاً اپنے تلامذہ اور عموماً عوام اہلسنت کو مسلک اعلی حضرت پر زندگی گزارنے کا سلیقہ، جینے کا ڈھنگ، تہذیب و تمدن کی سمجھ، اصابت رائے، بلندئ فکر، رفعت پرواز، دل نوازئ سخن، حسن اخلاق، حقوق و فرائض کی رعایت، انسانیت و ہمدردی کی لگن اور اخوت و محبت کی تڑپ عطا کی ہے۔
آپ وقت کے انتہائی پابند اور قدرداں ہیں ہر کام اپنے وقت پر کیا کرتے ہیں، آپ ایک شفیق اور مہربان باپ کی طرح طلبہ کی ضروریات اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کی شخصیت کو بھی نکھارتے ہیں۔
مولی تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے صدقے ان کے اس عمل خیرکو اپنی بارگاہ میں قبول و مقبول فرمائے، اور صوفی صاحب قبلہ کا سایہ ہمارے سروں پر تا دیر قائم فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭
مدرسہ غوثیہ رضویہ نور العلوم محلہ کٹھوتیا میں وقتاً فوقتاً تشریف لانے والے اکابر علمائے کرام و مشائخِ عظام کے تاثرات
سراج الفقہا، حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین، قادری، رضوی، مصباحی
صدر شعبۂ افتا و صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ۔ ۱۸ شوال ۱۴۱۴ھ
حامدا ومصلیا و مسلما۔
اما بعد! جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے کام سے پہلی بار بھیرہواں، نیپال آنے کا اتفاق ہوا، تو اپنے میزبان عالی جناب محمد حسن صاحب کے ہمراہ اس خطہ کے عظیم عالم حضرت مولانا صوفی محمد صدیق صاحب دام مجدہم کے دار العلوم میں بھی حاضر ہوا۔ مدرسہ کا محل وقوع اور تعلیم و تربیت کا نظم ونسق بہت پسند آیا۔
حضرت صوفی صاحب زید مجدہم پوری جماعت اہل سنت کی طرف سے قابل مبارک باد ہیں کہ نیپال کے اس خطہ میں اپنے دار العلوم کے ذریعہ خدمت دین حنیف کا فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ اس دار العلوم کو دین کا حصن حصین بنائے۔ یہاں کے فضلا تمام عالم میں اسلام کا پیغام عام کریں اور یہ مینارۂ نور، دنیا کو ضیا بار کرے۔ آمین، ثم آمین، بجاہ النبی الامین۔
حضرت علامہ و مولانا سید محمد انجم، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف ۵ شعبان المعظم ۱۴۲۵ھ
قائد قوم و ملت حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خان صاحب قبلہ یار علوی، زید مجدہٗ، صدر المدرسین مدرسہ غوثیہ نور العلوم، کٹھویتا کی دعوت پر ادارۂ مبارکہ میں حاضری ہوئی۔ تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔
الحمد للہ طلبہ کے اندر تعلیمی و تربیتی صلاحیتیں اجاگر کرنے میں علامہ موصوف اور ان کے شریک کار اساتذۂ کرام کی گرفت لائق ستائش ہے۔ ایسے کوردہ علاقہ اور نیپال کے پُر آشوب ماحول میں مسلک اعلیٰ حضرت کا مشن عام کرنا اور اس کی ترقی میں لگے رہنا، حضرت علامہ موصوف ہی کا حصہ ہے۔ ان پر حضور قطب وقت شاہ صاحب قبلہ براؤں شریف کا خصوصی کرم ہے۔
مولانا محمد عیسیٰ رضوی، امجدی صاحب قبلہ
دار العلوم تنویر الاسلام امرڈوبھا، سنت کبیر نگر ۶ شعبان المعظم ۱۴۲۷ھ۔
آج مورخہ ۶ شعبان ۱۴۲۷ھ کو دار العلوم غوثیہ رضویہ نور العلوم کٹھوتیا کے سالانہ امتحان کے موقع پر بانیِ ادارہ، نمونۂ سلف، حضرت علامہ الحاج صوفی محمد صدیق خاں صاحب قبلہ کی دعوت پر حاضر ہوا۔ دار العلوم کی عمارت، اور بچوں کی تعلیم و تربیت سے کافی متاثر ہوا۔
ملک نیپال میں، جہاں صرف تین فیصد مسلمان آباد ہوں، ایک عظیم ادارہ کا قیام جو مسلک اعلیٰ حضرت کا صحیح ترجمان اور سنیت کی بقا و تحفظ کا ضامن ہوا، یہ قائد اہل سنت حضرت علامہ صوفی صاحب قبلہ کی قیادت اور دعائے صبح گاہی کا نتیجہ ہے۔
حضرت علامہ مفتی محمد قدرت اللہ رضوی
۲۷ رجب ۱۴۲۷ھ
برادر گرامی حضرت صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ کی دعوت پر مورخہ ۲۶ رجب المرجب ۱۴۲۱ھ دار العلوم غوثیہ رضویہ کٹھوتیا کے طلبہ کے امتحان لینے کی غرض سے حاضر ہوا۔ طلبہ کے اس بے رغبتی کے دور میں بھی بفضلہٖ تعالیٰ یہاں کے طلبہ کا معیار کافی حد تک اچھا ہے۔ یہ سب حضرت مولانا صوفی محمد صدیق صاحب قبلہ اور دار العلوم کے مخلص اساتذہ کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غربت و افلاس کے ماحول میں اس مدرسہ کا یہاں چلنا ہی ایک عجیب مسئلہ ہے۔ جو محض رب کریم کے فضل اور اس کے پیارے حبیبﷺ کے کرم کا مرہون منت ہے۔ صمیم قلب سے میری دعا ہے کہ پروردگار اس مدرسہ کو حفظ و بقا اور ترقی کا سامان خزانۂ غیب سے مہیا فرمائے۔ آمین۔
پیر طریقت حضرت علامہ سید نجیب حیدر نوری، مارہرہ مقدسہ
حضرت علامہ سید ارشاد حسین البخاری، بنگلہ دیش
حضرت علامہ و مولانا شمس الہدیٰ خاں صاحب قبلہ مصباحی
استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی۔
آج بتاریخ ۹ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۱ھ کو دار العلوم غوثیہ کٹھوتیا کی زیارت کا شرف بمعیت گل گلزار برکاتیت حضرت سید شاہ نجیب حیدر میاں صاحب قبلہ دام ظلہٗ العالی (مارہرہ شریف) کی قیادت میں ہوا۔ دل باغ باغ ہو گیا۔ طلبہ کا نظم و نسق بہتر پایا۔
امید کرتا ہوں کہ تعلیمی معیار ان شاء اللہ بہتر سے بہتر ہو گا، اور سرکار کے لطف و کرم سے روز افزوں ترقیوں سے ہمکنار ہو گا۔ خدائے عز و جل حسن توفیق سے نوازے۔
حضرت علامہ محمد اسماعیل علوی
دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف۔ ۷ شعبان المعظم ۱۴۳۴ھ
آج مورخہ ۷ شعبان ۱۴۳۴ھ، دار العلوم غوثیہ رضویہ اہل سنت کٹھوتیا کے سالانہ امتحان کے موقع پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ چوں کہ ماضی میں بھی متعدد بار حاضر آ چکا ہوں۔ دار العلوم کی تعمیری و تربیتی ترقیوں کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔
ہونہار طلبہ کی جماعت خوش اخلاق، ارکان و عہدیداران و اساتذۂ کرام کی ایک حسین جماعت کو موجود پایا۔ یہ بالخصوص بقیۃ السلف حضرت علامہ الحاج محمد صدیق خان صاحب قبلہ صدرالمدرسین کی انتھک کوششوں کا ثمرہ ہے۔ جو دار العلوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیے ہوئے ہے۔
حضرت علامہ موصوف دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف کے ابنائے قدیم سے ہیں، زمانۂ طالب علمی سے اپنے تبحر علمی کی وجہ سے بین الاساتذہ والطلبہ باعث توجہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و عافیت کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔
٭٭٭
اعتذار
(۱) رسالہ ہذا کی ترتیب و تصحیح میں حتی الامکان کوشش کی گئی۔ مگر قلت وقت کی بنا پر کما حقہٗ کام نہ ہو سکا (۹ مارچ ۲۰۱۸ء کو رسالے کی ترتیب کاپلان بنا اور ۲ اپریل ۲۰۱۸ء کو اسے پریس بھیج دیا گیا۔) اس لیے احباب سے گزارش ہے کہ اگر کسی طرح کی کوئی خامی نظر آئے تو فوراً مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح کی جا سکے۔
(۲) کوشش کے باوجود تاثرات کی ترتیب میں شخصیات کے مراتب کا لحاظ نہ ہو سکا۔ جیسے جیسے تاثرات دستیاب ہوتے رہے، درج کیے جاتے رہے۔ شخصیات کے اسما اور ان کے مضامین کی تقدیم و تاخیر کے سلسلے میں ہم معذرت خواہ ہیں۔
(۳) بخوف طوالت بہت سے تاثرات کی تلخیص کر دی گئی، یا کوئی بات کسی سابقہ مضمون میں آ چکی تھی، تو لاحق میں اسے حذف کر دیا گیا۔ اس کے لیے بھی ہم معذرت خواہ ہیں۔ والعذر مقبول عند کرام الناس۔ (مرتب)
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ماشاءاللہ سبحان اللہ کافی عمدہ کتاب ہے نیپال کے ایک متبحر عالم دین ہیں صوفی الحاج محمد صدیق خان معروف بہ شیر نیپال صاحب قبلہ دامت برکاتہم القدسیہ ، نام تو کافی دنوں سے سنتا آرہا تھا پر کبھی ان کے تعلق سے معلومات حاصل نہ ہو سکی ، آج جب ایک واٹس ایپ گروپ میں اس کتاب کا لنک دیکھا تو دل میں خیال آیا کہ شاید یہ کتاب ہمارے پیر و مرشد مفتی اعظم نیپال علامہ جیش محمد صدیقی البرکاتی المعروف بہ حضور شیر نیپال علیہ الرحمۃ والرضوان والی ہے لیکن جب کہ تاب کھولا تو دیکھا کہ علامہ صوفی صدیق صاحب قبلہ دام ظلہ کی حیات و خدمات پر مشتمل ہے تو کافی خوشی ہوئی اور پڑھنا شروع کیا اس مکمل مطالعہ نہیں کر پایا ہوں چند جگہوں سے پڑھا کافی عمدہ ہے اور حضرت نے جو خدمات انجام دی ہیں ملک نیپال میں الحمدللہ کافی پسند آیا ، ان شاءاللہ تعالیٰ مکمل مطالعہ کے بعد کچھ مزید تحریر کرنے کی کوشش کروں گا ،
اگر ہوسکے تو یہ کتاب مجھے پی ڈی ایف میں ارسال فرماکر شکریہ کا موقع فراہم کریں
واٹس ایپ نمبر : 97431418731+
بلال برکاتی نیپالی