فہرست مضامین
- شاد عارفی حیات و جہات
- چہرے کی تلاش
- شادؔعارفی کردار و گفتار کے آئینے میں
- شادؔ عارفی کا جہانِ فکر و فن
- شادؔ عارفی کی غزل: ایک نئی آواز
- شادؔ و یگانہؔ: امتیازات اور مماثلتیں
- غزل سے طنز کا شاد عارفی نے کام لیا
- میرے کلام پر شادؔ عارفی کی اصلاح
- شادؔ عارفی کی نثر
- شادؔ عارفی کا نفسیاتی تجزیہ
- شادؔ کی نظم نگاری
- شاد عارفی کا آرٹ
- ایک تھا شاعر
- ایک خود شناس شاعر
- ایک خط!
- ایک تاثر
- شادؔ عارفی کا فن
- ایک تاثر
- شادؔ عارفی کی شاعرانہ انفرادیت
- شادؔ عارفی کی ایک جھلک
- کچھ اپنے اور شادؔ عارفی کے بارے میں
- شادؔ عارفی کی موت پر
شاد عارفی حیات و جہات
جلدسوم
مرتبہ: فیروز مظفر
نوٹ
اس کتاب میں سے تین طویل مضامین کو علیحدہ ای بکس کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے
۱۔ ایک اور گنجا فرشتہ ۔۔۔ اکبر علی خاں عرشی زادہ
۲۔ شاد عارفی: ایک تعارف ۔۔ سلطان اشرف
۳۔ شاد عارفی: فن اور شخصیت ۔۔ عروج زیدی
شمیم حنفی
چہرے کی تلاش
ادب میں فیشن پرستی کی جتنی مثالیں ہماری زبان میں ملتی ہیں ان کے مقابلے میں دنیا کی کسی بڑی سے بڑی زبان کا ادب پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات پر فخر کرنے یا کچھ اونچا اڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ شرمانا چاہیے کیونکہ بڑا ادب روایت یا فیشن کی کوکھ سے پھوٹنے کے با وجود اس سے اتنا الگ ہوتا ہے کہ بادی النظر میں اس کا شجرہ مشکوک کیا، غلط معلوم ہوتا ہے۔ باہر کا کوئی ایسا آدمی جس نے اردو ادب کی تاریخ کے اوراق نہ پلٹے ہوں بھلا کیسے یقین کر سکتا ہے کہ غالبؔ اور ذوقؔ ایک ہی زمانے کے شاعر تھے۔
خیر اس بحث کو چھوڑیے، یہاں میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تنقید، تنقیص، تقریظ، مطالعے، جائزے، تاثر، اشارے اور طائرانہ نظر وغیرہ رسمی الفاظ کے ساتھ جو باتیں عام طور سے کہی جاتی رہی ہیں وہ آج بھی کہی جا رہی ہیں ان کا تکیہ بہت گیلا اور بوسیدہ ہو چکا ہے۔ سب سے بڑا دُکھ اس بات کا ہے کہ کچھ کہتے یا لکھتے وقت دماغوں والے یا دماغوں سے خالی سر اپنے مفروضات یا سنی سنائی باتوں کے تکیے سے ایک انچ بھی اوپر اٹھنا پسند نہیں کرتے یا اگر کھل کر کہا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارۂ کار بھی نہیں ہے۔
جوشؔ شاعرِ انقلاب ہیں، فراقؔ شاعرِ نیم شبی ہیں، جگرؔ امام تغزل تھے، حسرتؔ رئیس المتغزلین تھے، اصغرؔ صوفی تھے، فانیؔ یاسیات کے امام تھے، یہ مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر چند فتوے ہیں جنھیں فیشن کی ماری ہوئی نگارشات میں بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان باتوں سے الگ ہو کر کوئی بات کہنے کی کوشش کی جائے تو ہمارے بزرگ فوراً ناراض ہو اٹھتے ہیں اور پھر اس قسم کی باتیں سننی پڑتی ہیں کہ نئے لوگ گمراہ ہیں، کام چور ہیں، ذہین ہیں لیکن فکر کی گہرائی اور فن کی ریاضت سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے، شریر ہیں اور اپنی شرارتوں سے لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوشش میں shocking way to success والا نسخہ استعمال کر رہے ہیں (حکیموں سے پوچھے بغیر)۔ اس وقت مجھے بھی ایک شکایت ہی کا اظہار کرنا ہے جس کے لیے میں نے یہ فضا تیار کی ہے۔ شکایت یہ ہے کہ ہمارے بہت سے شاعروں کے بارے میں جو باتیں ہزار ہا جُگوں سے کہی جا رہی ہیں ان میں اب تک کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی ہو یا نہیں، لیکن اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے کہ وہ شاعر جنھیں ان کے زمانے میں غیر اہم یا حرفِ غلط تک سمجھا گیا، کیا آج بھی واقعی سنجیدہ غور و فکر کے پیمانے پر ویسے ہی مورکھ ثابت ہوتے ہیں یا ان کے بارے میں محض اس لیے باتیں نہیں کی جاتیں کہ اس سے پہلے ان کے بارے میں بزرگوں نے کچھ ارشاد نہیں فرمایا جو سند رہے اور ماضی کی قبر پر پھول چڑھانے والوں کے لیے بوقتِ ضرورت کام آئے۔
غالباً دوسری ہی بات صحیح ہے۔ مثال کے لیے شادؔ عارفی اور یگانہؔ چنگیزی کے ناموں پر ایک لمحے کے لیے توقف کیجیے۔ آپ کو ان کی شاعری کا بت ان کی اپنی صحیح یا غلط صلاحیتوں کے علاوہ کسی دوسرے Standپر نہیں دکھائی دے گا۔ نصابی کتابوں کو تو خیر جانے دیجیے اچھے خاصے ادبی رسائل میں بھی ان کا نام بہت بعد میں نظر آیا۔ انھیں کسی مستند ادیب کی سند حاصل نہیں تھی اس لیے مدیرانِ شہیر نے بھی انھیں قابل توجہ نہیں سمجھا۔ ان کے نزدیک توجہ کے قابل عام طور پر وہی شاعر ہوتا ہے جو پکّی روشنائی سے چھپے ہوئے ادب کی منڈی میں اپنی Market value بنا لے۔
اب ہم لوگ صرف شادؔ کی باتیں کریں گے۔
افسوس یہ ہے کہ شادؔ نے Time valueکے دائرے میں آنے والی شاعری سے ہمیشہ اپنا دامن بچایا اور جب کچھ لوگ ان کو مستقل Market valueوالا شاعر سمجھنے پر آمادہ ہوئے تو زندگی ان سے اپنا دامن بچا کر آگے بڑھ گئی اور وہ اس لمحے کی گرفت میں آ کر ہمیشہ کے لیے دور چلے گئے جس کا نام موت ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر شادؔ نے اپنے لیے جو راہ منتخب کی تھی اس میں قدم قدم پر بڑی رکاوٹیں تھیں۔ روایات کا بوجھ، جدّت کا شوق، رجعت پرستی، ترقی پسندی، غزل کا مزاج، اردو شاعری کا مزاج، مشرقی مذاق، مغربی مذاق، علامت، تمثیل، ابہام، تحلیل نفسی، سماجی شعور، اقتصادی شعور، سیاسی شعور، فنی بصیرت، خارج اور داخل اور خدا جانے کیا کیا یہ اور ایسے ہی بہت سے پہاڑ تھے جن سے بچ کر شادؔ اپنا راستہ طے کرنا چاہتے تھے۔ وہ نہ تو فلسفی تھے، نہ عظیم تھے، نہ بہت بڑا ذہن رکھتے تھے، نہ کسی سیاسی اور تہذیبی مکتب کی علمبرداری کر رہے تھے، نہ روایتوں سے مرعوب تھے اور نہ جدید ترین فیشن سے متاثر تھے، وہ بہت عام، بہت معمولی، بہت حساس، اتنے حساس کہ ان پر گوشت پوست کے بجائے لوہے یا پتھر کا گمان ہو، انسان تھے۔ انسان، خلیفۃ الارض، اشرف المخلوقات، سب پر جس بار نے گراں کی، اس کو اٹھانے والے ایک نا تواں انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی کوئی بڑی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
اب اس وقت فطری طور پر یہExplanation طلب کیا جا سکتا ہے کہ اگر ان کی شاعری کسی غیر معمولی خصوصیت کی حامل نہیں تو ان کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب میرے پاس موجود ہے اور اپنے بعض مضامین میں اس سے پہلے بھی اس کا اظہار کر چکا ہوں۔ پہلے یہ بتائیے کہ ہم غیر معمولی پن یا عظمت کی کھوج ہی کیوں کرتے ہیں۔ کیا عام باتیں، عام مسائل، عام واقعات اگر روزمرہ اور عام ( عامیانہ نہیں ) کے طریقے سے بیان کیے جائیں تو وہ کسی توجہ کے مستحق نہ ہوں گے ؟ اب یہ بھی عرض کرنے دیجیے کہ عظمتِ فکر اور عظمتِ فن کی وہ فضول باتیں جواب سے پندرہ بیس برس پہلے تک سنی جاتی تھیں یا آج بھی اُن لوگوں کی زبان سے سنی جا رہی ہیں جو پندرہ بیس برس پہلے کی فضا سے چپکے ہوئے ہیں، اتنی پرانی اور معمولی ہو چکی ہیں کہ انھیں عظمت کی بوسیدہ قبا پہنانا کچھ اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ ہم لوگ صفات کے استعمال میں کچھ اتنے فراخ حوصلہ واقع ہوئے ہیں کہ کسی بھی ایرے غیرے یا ایرے غیرے نہ سہی اچھے بھلے شاعر کی تعریف کرتے ہوئے اس کے فلسفۂ غم، فلسفۂ حیات اور فلسفۂ موت وغیرہ وغیرہ کو خراج عقیدت ادا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ میں اب تک یہ نہیں سمجھ سکا ہوں کہ کسی شاعر کو فلسفی کہہ دینے سے اس کے شعری کارنامے کی ٹوپی میں کون سا نیا پر لگ جاتا ہے اور پھر اگر ہمارے یہ شاعر فلسفی تھے تو ہیگل، مِل، مارکس، کانٹ اور فلاطوںؔ کیا تھے ؟
فیشن زدگی کی بد ترین مثالوں میں سے ایک اس واقعے سے دی جا سکتی ہے کہ اردو ادب کی کم و بیش ہر تاریخ میں شیفتہؔ کا ذکر کرتے وقت یہ ضرور لکھا جاتا ہے کہ وہ شعر و ادب کا بہت اچھا ذوق رکھتے تھے اور ان میں بڑی گہری ناقدانہ بصیرت تھی جب کہ اب یہ بات بھی منظرِ عام پر آ چکی ہے کہ شیفتہؔ نے جن خوبیوں کا ذکر ایک شاعر کے سلسلے میں کیا ہے وہ ایسی وسیع المعنی ہیں کہ ان کا اطلاق کسی بھی شاعر پر ہو سکتا ہے، سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ کی وضاحت کے لیے الفاظ تلاش کرنے سے زیادہ اس بات کے عادی رہے ہیں کہ الفاظ کے سانچے میں اپنی فکر کے چرند و پرند دیوالی کے کھلونوں کی طرح بازارِ ادب میں پیش کرتے رہیں کہ خریدار متوجہ ہوں اور مال اچھا سمجھا جائے۔ ایسی باتیں امتحان پاس کرنے میں کسی طالب علم کے لیے چاہے جتنی کار آمد اور نفع بخش ہوں لیکن ان کے سرچشمے سے بد مذاقی کی جو لہریں اُبلی ہیں انھوں نے ادبی افہام و تفہیم کو چوپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ بہت سی شرحوں اور تنقیدی مضامین میں سیدھے سادے معمولی اشعار کی وہ عالمانہ اور خالص عشقیہ اشعار کی وہ صوفیانہ تاویلیں ملتی ہیں کہ پڑھنے والے کی طبیعت بد مزہ ہو جائے ( بشرطیکہ ادبی ذوق اس حد تک نکما نہ ہو چکا ہو کہ بد مذاقیاں اثر ہی نہ ڈال سکیں )۔
یہ اگلے وقتوں کے رہ نما ان کی مصلحت پر نگاہ رکھیے
پٹے ہوئے راستوں پہ چل کر سُراغ دیتے ہیں جستجو کا
( شادؔ عارفی)
دو شعر اور سنیے جن سے میرے ما فی الضمیر کی مزید وضاحت ہو جائے گی:
ہم نے پھولوں کو وہاں دیکھا ہے
آپ دیکھیں گے تو عبرت ہو گی
………
اب کس کو دوش دیں کہ ہماری ہی بھول ہے
جس کو تمیز راہ نہیں راہ بر ہے آج
(شادؔ عارفی)
خدا جانے کیوں بہت سے لوگوں نے ادب کو ایک ایسا شیش محل تصور کر رکھا ہے جہاں شرافت، اخلاق، مروت، مصلحت، فراخ حوصلگی، اعلیٰ ظرفی اور وسیع القلبی کے نام پر ہرقسم کی حماقت، جہالت، کمزوری، بزدلی، بے ایمانی، ذہنی افلاس اور حسیاتی کھوکھلے پن کا مظاہرہ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ ان شیشوں کو ٹھیس نہ پہنچ جائے۔ ڈر ڈر کر چلنا، دھیرے دھیرے بولنا، اپنی مظلومی، مصائب، بے چارگی اور بد حالی کا انتہائی بھونڈے طریقے سے ڈھنڈورا کرنا ہمارے اذیت پسند، حقیر اور اپنے دکھوں کے بوجھ اور ذہنی ناداری کے بار سے دبے ہوئے شاعروں کا شیوہ رہا ہے۔ شعر و ادب کی اس کار گہِ شیشہ گری کا کام در اصل جتنا نازک نہ تھا اس سے زیادہ نازک سمجھ لیا گیا ہے اس لیے لوگ سانسیں بھی اس طرح لیتے ہیں کہ ان پر کسی مہلک مرض کا شکار ہونے کا گمان ہو۔ یہ لفظ غیر ادبی ہے، یہ لفظ متروک ہے، یہ لفظ غزل کی نزاکت پر بار ہے (گویا غزل نہ ہوئی فاقوں کی ماری بھکارن ہو گئی) یہ لفظ اس خیال کو ادا نہیں کر سکتا، فن مجروح ہو جائے گا، جذبہ مجروح ہو جائے گا، زبان کا خون ہو جائے گا، زبان نازک ہے، تشبیہ و استعارے میں نزاکت ہے، احساس میں نزاکت ہے، نزاکت، نزاکت، نزاکت اور بس نزاکت، قوت کا کہیں گزر ہی نہیں :
یہ آدمی ہے کہ سر مارتا پھرے ہے بسنگ
کہ موجِ تند سرِ کوہسار گزرے ہے
جیسے اشعار سے زیادہ ’’اب اٹھا چاہتی ہے نعشِ فانیؔ دیکھتے جاؤ‘‘ کی قماش کے گھٹیا مصرعے زبان زد عام و عوام رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے شاعروں نے اپنے آپ کو سمجھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ اس کور چشمی اور پست مذاقی کا سبب یہ ہے کہ ہمارا روایتی شاعر جو عام طور پر بچپن ہی میں والدین کے سایۂ عاطفت سے محروم ہو جاتا تھا، دس برس کی عمر میں عربی وفارسی زبان و ادب پر عبور حاصل کر لیتا تھا۔ چچا، پھوپھا، ماموں وغیرہ وغیرہ کی ادبی سر گرمیوں سے معمور گھریلو فضا میں اپنے شاعرانہ ذہن کی تعمیر کرتا تھا، بعد میں زمانے کی ناقدری کا شکار ہوتا تھا، محبت میں ناکام ہوتا تھا، زندگی کی ہر منزل پر ٹھوکریں کھاتا تھا، احباب کی بے حسی، اقربا کی ریشہ دوانی، ادیبوں کی گروپ بازی، مدیران رسائل کی بے نیازی، عوام کی بد مذاقی، مالی حالات، سماجی حالات، سیاسی حالات، ذہنی حالات کی افراتفری کے ہاتھوں تباہ ہوتا تھا، وہ خود آگاہی، یا عرفان ذات یا اپنی شخصیت کے وزن و وقار ( اگر سرے سے شخصیت ہی نہ غائب ہوئی ہو تب)، اپنی صلاحیتوں (بشرط موجودگی) کے مناسب اعتراف و احساس کی منزلوں سے بھی اتنا دور ہوتا تھا کہ اس کی پوری شخصیت نامردی اور ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کی گرفت میں آ کر بورنگ حد تک مظلوم، مسخ اور منتشر نظر آتی ہے کہ عام پڑھنے والے رحم و کرم کے جذبات کا اظہار کر کے اپنی جھوٹی انا کی تسکین کا سامان پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر پاتے۔ بیمار شخصیت، بیمار ذہن، بیمار لب و لہجہ ایسے ایسے تماشے دکھاتا ہے کہ آنکھیں حیران اور دل پریشان ہو جاتا ہے۔ شادؔ عارفی کو بھی زندگی میں کبھی بڑے اچھے دن دیکھنا نصیب نہیں ہوئے، معمولی گھر، معمولی اشیا، بیحد معمولی الجھنیں زندگی بھر ان پر اپنی نحوستوں کی کمندیں ڈالتی رہیں لیکن انھوں نے نہ تو اُسے اپنی بد نصیبوں کا اشتہار بنایا اور نہ بہتر حالات پیدا کرنے کا وسیلہ۔ وہ صوفی یا درویش یا قلندر کچھ بھی نہیں تھے۔ ان میں نہ تو ان بد حالیوں پر قناعت، توکل، صبر اور رضا کے شکست خوردہ جذبات پیدا ہوئے اور نہ انھوں نے مشاعرہ بازی یا اس قسم کی کسی دوسری بازی گری کے ذریعہ اپنا بھاؤ بڑھانے کی کوشش کی۔ ان میں ایک خوبی ایسی تھی جس نے ایسے تمام مفعول اور نکمے ارادوں سے انھیں باز رکھا۔ والٹیئر نے تخلیقی فن کار میں جس اہلیت کو ضروری قرار دیا ہے اور جس سے اپنی انا کے احساس سے سرشار ہو کر منظور شدہ کلیوں کو بھی ٹھکرا سکنے کی ہمت مراد ہے یا پاؤنڈ کے بیان کے مطابق وہ پھکّڑ پن جو سنجیدہ مسائل کو بھی پر کاہ کی طرح اڑا دیتا ہے، ان باتوں کی شادؔ عارفی میں کمی نہیں تھی وہ اچھی طرح تپتے رہے، ابلتے رہے، اینٹھتے رہے اور اکڑتے رہے اور رام پور کی خان صاحبیت کے فیض سے کلاہ کج ہی رکھی، Degeneration کے خلاف جو غم و غصہ ان کے مزاج میں بھرا ہوا تھا اس کا وہ اُسی شدّ و مد کے ساتھ اظہار کرتے رہے، اس کی پروا کیے بغیر کہ شاعری بہت نازک فن ہے اور لغت کا یہ لفظ اور وہ لفظ بہت وزنی ہے، احساس بہت نازک اور لطیف ہے اور اظہار بہت کھرا اور کثیف ہے۔ یہ سب کچھ بھی نہیں۔ اس بکواس، فراڈ اور واہیات مرض سے وہ ہمیشہ بچے رہے جو لغت کے معاشرتی نظام میں اچھے خاصے الفاظ کو بھی شُودر بنا دیتا ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ جس دائرے کو انھوں نے جولانگاہ بنایا وہ بہت نازک ہے۔ نازک ان معنوں میں نہیں جن میں ہمارے بیشتر نقاد، اساتذہ یا سعادتمند طالب علم اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس دائرے کی حیثیت ربر کی ایک ایسی تنی ہوئی رنگ جیسی ہے جس پر نامناسب حد تک دباؤ ڈالا جائے تو اچانک بکھر جائے گی۔ طنز و مزاح کے ہر میدان سے سرخرو گزر جانا بڑے جگرے کا کام ہے۔ ذرا سی طبیعت مچلی اور ساری شخصیت پر پانی پھر گیا۔ اس کے بعد شاعر جعفر زٹلّی یا چرکینؔ بن جاتا ہے، انسان اور شاعر نہیں رہ جاتا ہے۔ شادؔ عارفی نے سڑکوں پر آوارہ پھرتے ہوئے کھوکھلے چہروں، کھوکھلے لباس، شہر کی کھوکھلی فضا، کھوکھلی روایات ( ادبی اور معاشرتی سبھی)، تمام تر کھوکھلے معاشرتی نظام، کھوکھلی شرافت، کھوکھلے اخلاق، کھوکھلی وضعداریوں اور کھوکھلے قہقہوں کا جو درد محسوس کیا تھا وہ ایک کانٹا بن کر مستقل طور پر ان کے رگ و پے میں کھٹکتا رہا چنانچہ خود شادؔ کا تبسم، شادؔ کی ہنسی، شادؔ کی زندہ دلی، شادؔ کے ہوش و حواس ایک تیز، بے حد تیز نشتر میں ڈھل گئے جس کی سفاکی محسوس کرنے کے لیے گینڈے کی کھال کے بجائے جاگتا ہوا ذہن چاہیے۔
اس کے علاوہ شادؔ عارفی نے ایک اور روگ بھی پال رکھا تھا۔ اس روگ کے لیے کرب آگہی سے بہتر کوئی اور لفظ مجھے نہیں مل رہا ہے۔ آج کی زندگی کا مسئلہ آگہی سے پیدا شدہ کرب و اضطراب کا ہے، جہالت کا نہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ غالب نے انیسویں صدی میں دنیا کو آئینہ آگہی سے تعبیر کیا تھا اور ہمارے فیشن پرست شاعروں کی ایک بڑی تعداد اب تک جنون و خرد کی کشاکش کیں جنون کو خراج تحسین ادا کر رہی ہے۔ جنوں کے نام پر جہل کی پرستش کر رہی ہے۔ یہ جنون اگر وفورِ شوق اور غیر مصلحت آمیز تقاضۂ طلب کے مفہوم میں استعمال کیا جائے تو مجھے کوئی شکایت نہیں لیکن اس سے اگر محض جہل، اندھا پن یا بصارت کا خوف اور خود کو چھپانے کی کوشش مراد ہے تو اس پر سخت ترین اعتراض کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ بات ذہنی بد مذاقی، بے ایمانی اور Degeneration کی علامت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پتھر کے محل میں کبھی جی گھٹنے لگے تو باہر نکلنے کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن اس خواہش کا یہ مطلب تو نہیں کہ کسی ایسے کچے، بوسیدہ اور پھٹیچر مکان کی طرف بھاگا جائے جہاں کثافتوں کے انبار کے سوا کچھ بھی نہ ہو اور دیواریں دروازوں اور کھڑکیوں سے خالی ہوں۔ آج کے زمانے میں جب ایک اسکولی لڑکے کا ذہن بھی رجب علی بیگ سرورؔ اور نذیر احمد سے زیادہ بیدار یا Conscious ہو چکا ہے جنوں جنوں کی رٹ لگانا ناقابل معافی حماقت ہے۔ عقل نے ہمیں کرب دیا ہے، بے حد شدید کرب:
’’ہم نے کرب کے لمحوں کو ڈھونڈ نکالا۔ ( سوال یہ نہیں کہ یہ کرب غلط فہمی کا نتیجہ تھا یا غلط چیزوں کی تمنّا کا، یا غلط چیزوں کے خوف کا) یہ لمحے مستقل ہیں۔ جس طرح وقت مستقل ہے ہم اس بات کو بہ نسبت اپنے کرب کے دوسروں کے کرب میں بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ‘‘
( ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ)
لیکن اسی عقل نے ہماری شخصیت کی تہذیب بھی کی ہے اور ہم بربریت اور اندھے عقیدوں کے وحشت ناک دور سے نکل کر آج کی فضا تک پہنچے ہیں۔ اب اس فضا میں جو دُکھ درد، پریشاں خیالیاں، اذیت کوشیاں، الجھنیں اور مخبوط الحواسیاں چھپی ہوئی ہیں انھیں Issue بنا کر عقل کے شجر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش بٹینکس کے مسیحا گنس برگ کے نزدیک تو جائز ہو سکتی ہے لیکن ہمالیہ اور گنگا جمنا اور ایودھیا نگری اور کاشی اور اجنتا اور تاج محل اور شیخ سلیم چشتی کا مزار ہندوستان میں ہے اور ہندوستان امریکہ نہیں ہے۔ اسی عقل کے فیضان نے ہم میں احساس کی وہ توانائی بھی پیدا کی ہے کہ کرب نظارہ کے شعلوں میں گھر کر بھی فانیؔ کی شاعری یا ہارڈی کی ناول نویسی کا غار مناسب پناہ گاہ نہیں معلوم ہوتا۔ شادؔ کا سب سے بڑا مسئلہ بھی بصیرت اور بصارت کی یہی اُٹھا پٹک ہے۔
قدریں انسان کے لیے ہوتی ہیں، وقت انسان کے لیے ہوتا ہے، ہاتھ، پیر، آنکھ، کان اور ناک سب انسان کے لیے ہوتے ہیں، اس انسان کے لیے جو ذہن اور جذبے اور احساس کی علامت ہے۔ آج کی دنیا کا سرطان یہی ہے کہ انسان بے دست و پا ہو کر ان کا غلام بن بیٹھا ہے۔ سیاست کا غلط دباؤ، Taste اور Cultureکا غلط دباؤ، امارت اور افلاس کا غلط دباؤ، ان سب نے انسانی تہذیب کے سفر کا ہر راستہ، ہر موڑ، ہر منزل، ہر مقصد سب کا سب غلط کر دیا ہے۔ لوگ ان غلطیوں کی پاداش میں سراسیمہ اور حواس باختہ اور سرگرداں اور پریشان ہیں، گھوم رہے ہیں، دوڑ رہے تھے، ہانپ رہے ہیں، کھوکھلے لباس، کھوکھلے چہرے، شادؔ عارفی بھی اس بھیڑ کا جسے بلا وجہ معاشرہ، سماج، سو سائٹی، قوم، راشٹر، سنگٹھن، خدا جانے کیا کیا سمجھا جاتا ہے ایک جزو تھے لیکن ان کے قوی شاعرانہ ذہن اور احساس نے انھیں اس سے الگ بھی کر رکھا تھا۔ وہ فکر و نظر کی کھردری چٹان پر بیٹھے نیچے کی آتی جاتی دنیا کا نظارہ کر رہے تھے۔
’’اس وقت ایک ایسے مکان میں ہوں جس کی چھت آسمان ہے ایسا ٹین پڑا ہوا ہے جس میں ہزاروں سوراخ ہیں جو رات کو ستاروں کی طرح چمکتے ہیں اور ان میں سے اوس ٹپکتی ہے۔
باہر بارش آدھ گھنٹہ ہو تو اندر دو گھنٹہ ٹپکا لگا رہتا ہے !!!‘‘
( یہ شادؔ عارفی کے ایک خط کا اقتباس ہے ) وہ دشمنوں کے شہر میں رسوا ہونے کے بجائے اپنے گھر میں پڑے رہے لیکن چھت کھلی رکھی، آسمان کو دیکھتے رہے، باہر کی آدھے گھنٹے کی کوفت دو گھنٹے تک محسوس کرتے رہے۔ یہ علامتیں ان کے ذہنی تانے بانے اور عملی سفر کا اشاریہ سی بن گئی ہیں۔
’’اور جب درد حد سے سوا ہو گیا تو وہ چپکے سے کھسک لیے۔ مرنے والے سے زندگی کے عناصر الگ ہو گئے۔ اس کے مقدس حقوق کی نگہبانی اب ہمارے حصے میں آئی ہے۔ ‘‘ (رگ وید: ۱۰۔ ۱۸)
ہمیں شادؔ عارفی کو عظمت کی پرانی قبا نہیں پہنانی چاہیے۔ یہ قبا کھلے ذہن کا دم گھونٹ کر اُسے ماضی کی لاش کا ایک عضو بنا دیتی ہے جس کے حق کے لیے شادؔ کا ذہن شعلوں کی وادی سے گزرا اُسے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو شادؔ عارفی خود بخود سمجھ میں آتے جائیں گے۔
’’موت کی اس چٹان کے اس پار، وہ ہزاروں فصلوں کا سہاگ دیکھے، اور یہ چٹان ہماری آنکھوں کو اندھا نہ کر دے کہ ہم بھی ان فصلوں کا نکھار دیکھ سکیں۔ لیکن یہ کب ہو گا، کون بتا سکے گا؟؟؟ ( رگ وید: ۱۰۔ ۱۸)
٭٭٭
ظفرؔ ادیب
شادؔعارفی کردار و گفتار کے آئینے میں
احتشام صاحب ’’ سفینہ چاہیے ‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے شادؔ عارفی کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے غیر مقلد اور باغی تھے، نفسیاتی زبان میں اسے احساسِ برتری کی ایک شکل کہہ سکتے ہیں۔ ‘‘ آگے چل کر وہ کہتے ہیں :
’’ شادؔ کے یہاں طنز اور تلخی کے اسباب کی جستجو کرنے والے کو ان کی زندگی میں بہت سے ایسے عناصر ملیں گے جن سے ذہنی توازن برقرار نہیں رہ جاتا اس پر طرہ یہ ہوا کہ انھیں اپنی ناقدری کا احساس شدید تھا، دونوں باتوں نے مل کر انھیں سماج کی ابتری اور زبوں حالی، اس کے اندرونی تضادات کی طرف متوجہ کر دیا اور انھوں نے اپنی ناکامیوں سے انتقام لینے کے لیے طنز کی راہ اختیار کی۔ ‘‘
احساسِ برتری کی کون سی شکل احتشام صاحب کے پیش نظر ہے، اس بارے میں کچھ واضح ہوتا ہے نہ کچھ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ غیر مقلد اور باغی ہونا بڑا ہی صبر آزما مرحلہ ہے، اور کوئی ایسی ویسی شخصیت اس سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی۔ ایک جاندار، مٹائے نہ مٹنے والی ہستی ہی اس آزمائش میں پڑتی ہے۔ ظاہر ہے آزمائش کو دعوت دینے والی یا آزمائش میں پڑنے والی، یا آزمائش کی زد پر آ جانے والی طبائع مطلق صفات کی حامل ہوتی ہیں ان کو اضافی کیفیات سے ہمیشہ ہی دور پایا جاتا ہے۔ ان کی ہر بات اپنی بنیاد میں ایک خالص اور ٹھوس حقیقت رکھتی ہے اور حقیقت پر مبنی کوئی ذات بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوتی، کیونکہ اعلانِ حق کی جرأت اس راہ میں پہلا قدم ہوتا ہے۔ یہاں شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر پتھر نہیں اُچھالے جاتے بلکہ بے سپر سامنے آ کر کہنے کی بات کہی جاتی ہے اور سرو سینہ سے بے نیاز رہا جاتا ہے۔ یہ نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ کور ذوق اور تنگ نظر اس پر چاہے جو بھی سلوک کریں اسے کون خیال میں لاتا ہے۔ ہمارے سامنے یگانہؔ کی مثال ہے جو اس سنگ زار میں ہر مقام پر ثابت قدم رہے اور کہیں بھی بلند ارادی اور پیغمبری استقلال سے روگرداں نہیں ہوئے، کیا کچھ نہ کیا زمانے نے ان کے ساتھ۔ حق سے لیکن نہ کبھی زبان نا آشنا ہوئی نہ کبھی مصلحت کی آڑ لی۔ جس طرح اُن کے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ انھیں احساس برتری تھا بالکل اسی طرح ان کے بارے میں بھی یہ کہنا مناسب نہیں کہ وہ کسی خوش فہمی میں مبتلا تھے ان کا فن بھی اتنا ہی اونچا اور سچا تھا۔ یہ عام خیال درست نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو ناقدری کی شکایت ہوتی ہے، یہ لوگ تو داد و قدر سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور فن سے مطمئن رہتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے یہاں حق گوئی اور حق نا شناسی کے درمیان ٹکراؤ سے شدت آ جاتی ہے اور یہ شدت اس ٹکراؤ کی تیزی کے مطابق بڑھتی جاتی ہے اگر یہ نہ ہو تو ایک طرح کی مصلحت پر تو ڈالنے لگتی ہے، شادؔعارفی کے یہاں جو جھلاہٹ محسوس ہوتی ہے وہ در حقیقت حق گوئی پر اور زیادہ زور کی ایک صورت ہے وہ کسی قسم کی شکست کے اعتراف کی پرچھائیں نہیں اور اسے ناکامیوں کے انتقام کا نام بھی نہیں دینا چاہیے، کیونکہ یہ مقام وہ ہے جہاں ایک فنکار یہ کہتا ہوا محسوس ہوتا ہے :
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
اگرچہ اس میں ایک طرح کی جھلاہٹ محسوس ہوتی ہے لیکن در حقیقت اس میں جھلاہٹ نہیں ہے، اس میں کمال فن کی اطلاع اور فنکار کا اپنے فن سے اطمینان بلند آہنگ پایا جاتا ہے۔ بلا شبہ شادؔ عارفی کا فن اس منزل میں تھا کہ وہ کسی کے ناک بھوں چڑھانے کی مطلق پروا نہیں کرتا تھا۔
عابد رضا بیدارؔ نے جو شادؔ عارفی صاحب کے اشعار سے دیباچہ ترتیب دیا ہے وہ شادؔ عارفی کے نظریۂ شعر، زاویۂ نظر، شیوہ و شعار پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالتا ہے۔ شادؔ اپنے اشعار کے بھرپور اشاریت کے حامل ہونے کا اعلان کرتے ہیں، اور افادیت کے اعتبار سے ان کی ہمہ گیری کے یقین کا اظہار کرتے ہیں تو کہتے ہیں :
تائیدِ غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں
نو لمبی لمبی نظموں سے نو شعر ہمارے کیا کم ہیں
اور جب اپنے ارتقائے شاعری کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو اتنی بڑی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں کہ مانتے ہی بن پڑتی ہے :
مجھے بھی شاد ریشمین شاعری کا شوق تھا
مگر وہ عمر سر خوشی کی تھی یہ آگہی کی ہے
ان کی اس شدت سے بہت سے لوگوں کا ناک بھوں چڑھانا اور برہم ہو نا یقینی ہے لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ حقیقت نہیں اور اس میں سو فیصدی صداقت نہیں :
جوان شاعر تو شادؔ اس لغویت سے دامن چھڑا چکے ہیں
مگر ضعیفوں میں اب بھی چرچا ہے چاک دامانیِ رفو کا
شعر کے لیے بعید از قیاس ہونا ایک اتنا بڑا عیب ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ شاد عارفی کا زاویہ فکر کیا تھا اور نظریۂ شعر کے عناصر کس انداز اور کس نوعیت کے تھے :
سوال اس میں نہیں حسینوں کو بُت نہ کہیے ضرور کہیے
مگر بعید از قیاس ہو جائے گا کہ پتھر بھی بولتا ہے
اور یہ دیکھیے زمانے سے با خبری اور آگہی کی عمر کا ثبوت۔ یقیناً ایک بات کھری صداقت سے کہنا جھلاہٹ نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ طاعت میں مے و انگبیں کی لاگ نہیں رہ جاتی اور اسی سے تلخیِ کام و دہن کی آزمائش آ پڑتی ہے :
وہ جو ننگی ناچتی رہتی ہے بزمِ عیش میں
اس غزل کا شادؔ کیا ماحول بھی قائل نہیں
دوسرے انداز سے ذرا کچھ اور وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
شباب و خلوت کی بات اچھی تو ہے مگر آج کل نہ کہیے
غزل برائے حیات لکھیے غزل برائے غزل نہ کہیے
اپنی منازل شاعری کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور موجودہ رنگ کا تعین اور تجدید کرتے ہیں :
میرے نغمے نہ سمجھنے والے
سب سمجھتے ہیں، مگر بنتے ہیں
نہایت صحیح کہا ہے عابد رضا بیدارؔ نے کہ ’’ ہند و پاک کے چار چھ گنے چنے ممتاز شاعر جو اپنی آواز اور لہجہ سے پہچان لیے جاتے ہیں ان میں سے ایک شادؔ عارفی ہیں۔ ‘‘ شادؔ کے ہاں انفرادیت لب و لہجہ بدرجۂ اتم موجود ہے وہ اپنے اشعار سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ بڑی سی دھار دار ہے ہے ان کی چال۔ حقیقت اور اصلیت کو چھپانے والے یا مبہم کرنے والے جتنے متعلقات ہوتے ہیں وہ ان کی دھار دار چال سے چھنٹ جاتے ہیں اور اصلیت کے ظاہر ہونے میں مانع نہیں آتے لیکن یہ اسے حسن سے بھی مبرا نہیں کرتی۔ حقیقت تو جتنی اصلیت کے قریب ہوتی جاتی ہے حسین ہی ہوتی جاتی ہے جب فنکار غیر مقلد اور باغی ہو گا تو اس کے یہاں حقیقت اور اصلیت کی ہی کیفیت اور حالت رہے گی۔ کیونکہ اس کی وارستگی، آزادہ روی اور قلندر مزاجی کسی دوسری کیفیت اور حالت کو برداشت ہی نہیں کرے گی یہاں تو اوپری رنگینی در خورِ التفات ہی نہیں ہوتی۔
شادؔ عارفی کا آرٹ کیا ہے جب کہ حُسن اور زندگی ( عابد رضا بیدار) یا زہر خند تبسم زیر لب ( نیاز فتحپوری) یا طنز اور پھکڑ پن ( ناظر کاظمی) کہتے ہیں اور وہ خود کہتے ہیں۔
’’ میرا اپنا ایک مخصوص زاویۂ فکر ہے جو طنز و سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ ندرت ادا میرے نزدیک شعر کی جان ہے۔ ‘‘ مجملاً ان کے آرٹ کے بارے میں یہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیل میں بہت کچھ آ جاتا ہے اور حقیقت کو اصلیت کے رنگ میں عیاں کرنے کے لیے جو بھی ضروری ہے اس میں سے کچھ بھی نہیں رہ جاتا اور یہی حقیقت کو عیاں کرنا ان کا فن ٹھہرتا ہے، لیکن ندرتِ ادا کے ساتھ جو حقیقت کو اصلیت سے اور زیادہ قریب ہونے میں معاون ہوئی ہے نہ کہ اُسے اور حسین اور گوارا بنانے میں۔ شادؔ عارفی پردوں کے حسن میں یقین نہیں رکھتے۔ یہی ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان کا ایمان حقیقت کا اظہار ہے۔ بلا آمیزش حقیقت کا اظہار، بے رنگ و روغن حقیقت کا اظہار۔ اب چاہے کوئی اسے کچھ نام دے دے، چاہے ندرت ادا میں حسن دیکھے چاہے طنز و سیاست کے امتزاج میں زندگی کا عنصر پائے یا زہر خند اور تبسم زیر لب ڈھونڈ نکالے، یہ بات دوسری ہے کہ انھیں کن حالات اور کن کوائف نے اتنا مبلغِ حقیقت بنا دیا اور سچی سچی اور کھری کھری کہنے پر آمادہ کر دیا۔ لیکن کچھ بھی زندگی سے الگ یا زندگی کا دشمن نہیں ہے، انھیں تو زندگی کی محرومیوں نے زندگی کی صحیح قدر کرنی سکھائی زمانے کی شکایت کرنی نہیں۔ اس لیے وہ ہر کہیں زندگی کا احترام پیشِ نظر رکھتے ہیں اور زندگی کو غیر حقیقی بنانے والوں پر اپنے سارے زور سے وار کرتے ہیں، یہ ان کا کام نہیں کہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ انھیں کامیابی ہوئی یا نہیں، ان کا کام صرف اتنا ہے کہ نہایت ایمانداری اور صداقت سے اپنی طاقت اور صلاحیت کا شمّہ بھر بھی الگ رکھے بغیر دوسروں کو زندگی سے محروم کرنے والوں کو برہنہ کریں اور کمزور و بے اثر بنائیں۔
غالباً ان کی سیاست جس کے طنز سے امتزاج پر وہ اپنے زاویۂ فکر کو مبنی رکھتے ہیں، عملی سیاست نہیں بلکہ وہ سیاست ہے جس کے وہ شکار ہوتے رہے اور جس کے ردِ عمل کی صورت کچھ خاص تاثرات ان کے مزاج اور طبیعت پر مُرتسم نہیں ہوئے۔ ان کا عملی سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا، ایسا کہ جیسے عام طور سے سیاست کاروں کو ہوتا ہے۔ ان کے دل و دماغ تو شاعری جیسے لطیف فن کے لیے بنے تھے وہ سیاست سے کیا آشنائی کرتے یہ ضرور ہوا کہ سیاست نے، جس سیاست کے وہ اپنے کھرے پن کی وجہ سے شکار ہوئے، شدت پسند اور کٹیلا بنا دیا ور نہ ممکن ہے کہ ان کے ہاں اتنی تلخی نہ ہوتی جو بعض لوگوں سے یہ کہلاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے :
تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
یوں حقیقت کا تلخ ہونا مسلم ہے لیکن اتنا تلخ ہونا کہ کچھ لوگ اسے گالی بھی سمجھنے لگیں، بہت کم لوگوں کو گوارا ہونا چاہیے اس میں کتنی ہی خوبصورتی کیوں نہ ہو کتنے لوگ ہیں جو ناصر کاظمی کی طرح ان میں معاشرے کی دردناک کتھائیں سُن لیتے ہیں مگر شاید شادؔ عارفی کے یہاں تلخی کا کم ہونا ناگوار ہوتا اور مصلحت کا نام پاتا انھوں نے اچھا ہی کیا کہ اپنے تاثرات کو قطع و برید اور آمیزش و ترکیب کے بغیر جہاں تک ممکن ہو سکا یا ممکن تھا ایک خوبصورت انداز میں پیش کر دیا۔
ان کے یہاں تقلیدکسی کی نہیں ملتی وہ واقعی غیر مقلد ہیں اور خالص غیر مقلد۔ ہاں پرچھائیاں ضرور پڑتی ہیں، لیکن پرچھائیاں بجنسہٖ قبول نہیں کر لی جاتیں بلکہ وہ انھیں اپنے انداز کی بنا لیتے ہیں اگر وہ ایسا نہ کر پاتے تو بھی ان کے غیر مقلد ہونے پر حرف آتا اور ان کی انفرادیت بے داغ اور خالص نہ ہوتی یہ پرچھائیاں سوداؔ کے ہجویہ تیکھا پن کی نہیں، یگانہؔ کے بے لاگ انداز کی ہیں، اکبرؔ کی شیرینی ظرافت سے الگ کھری باتیں کہنے کے ڈھنگ کی ہیں جب ان پرچھائیوں میں صداقت کی جارحیت شامل ہو جاتی ہے تو وہ شاد عارفی کی اپنی اور بالکل اپنی پرچھائیاں بن جاتی ہیں۔ اسی لیے وہ معاشرے کی دردناک کتھا سنا سکے۔ کچھ تو خاندانی مزاج اور کچھ زندگی کے حالات اور بہت کچھ اربابِ زمانہ کے سلوک نے انھیں اس روش پر آنے اور چلتے رہنے میں معاونت کی ورنہ جلیلؔ مانکپوری ( مینائی) کے تصرف کا اثر اتنا ناپید نہ ہو جاتا۔ اب اگر یہ کہیں رہ گیا ہے تو صرف ندرتِ ادا میں شاعرانہ حسن کی حیثیت سے رہ گیا ہے، جب مجھے پہلے پہل یہ علم ہوا کہ شادؔ عارفی حضرتِ جلیل مانکپوری کے مدرسۂ شاعری سے وابستہ رہے ہیں تو ان کے انداز اور زاویۂ فکر کے پیشِ نظر مجھے بہت دیر تک یقین نہ آیا حالانکہ کوئی وجہ نہ تھی بے یقینی کی، کیونکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کسی جریدے میں ان کی کوئی غزل تھی اور اس کے ساتھ ہی اس امر کی اطلاع تھی میں اس رائے کا نہیں ہوں کہ ایک فنکار پر ( چاہے وہ کتنا ہی منفرد ہو) کسی وابستگی کا ( چاہے وہ کسی انداز کی ہو) اثر نہیں ہوتا، آخر کوئی تو طبیعت کی مناسبت رہی ہو گی جو کسی شخص کی جانب استفادہ اور استفاضہ کے لیے رجوع کیا گیا۔ پھر اثر نہ ہونا قرینِ قیاس نہیں۔
اگرچہ ان کی نظمیں عابد رضا بیدار کی اطلاع کے مطابق ’’ان کی شاعری کی آدھی ضخامت ‘‘ہیں اور ناصر کاظمی انھیں بنیادی طور پر نظم کا شاعر کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ انھوں نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر بھی بڑی ہنگامہ پرور نظمیں لکھیں۔ ناصر کاظمی صاحب کی یہ بھی رائے ہے ’’ نظموں میں تو وہ بڑی خوبی اور چالاکی سے تار پر چل کر دکھاتے ہیں ( چونکہ وہ ان کے اسلوبِ اظہار کو تار پر چلنے کے مصداق ٹھہراتے ہیں ) مگر غزلوں میں انھوں نے اپنے اسلوب کے تار کے نیچے روایت کا جال پھیلا رکھا ہے۔ غزل کہتے کہتے جب ان کا پاؤں اسلوب کی تار سے پھسلتا ہے تو وہ سیدھے جال میں گر کر جان بچا لیتے ہیں۔ ‘‘ لیکن میرا خیال اس کے برعکس ہے میں انھیں بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہی کہوں گا حالانکہ یہ درست ہے کہ نظم ان کے موضوعات کے لیے کہیں زیادہ موزوں اور مناسب تھی، اس کے باوجود ان کے جوہر غزل کے اشعار ہی میں کھلتے ہیں اور یہیں ان کا فن اپنی بلندیوں پر ہوتا ہے غالباً نظم میں یہ کیفیت پیش نہیں آتی۔ چاہے ناصر کاظمی روایت کا جال نیچے تنا ہوا دیکھ لیں اور شادؔ عارفی کو ان کے اسلوب کے تار سے گرتا ہوا اور اپنی جان بچاتا ہوا بھی فرض کر لیں، انھیں ایسا کوئی اندیشہ در پیش نہیں ہے، انھیں غزل کا بنیادی شاعر کہنے میں۔ ایک تو اس وجہ سے بھی کہ میں ان کے یہاں اختصار پسندی، رمزیت، اور اشاریت نمایاں پاتا ہوں جو نظم میں اتنا کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دیتیں جتنا غزل میں بات بنا جانے کے لیے موثر ہوتی ہیں میں ان کا ہی شعر اپنی تائید میں پیش کر سکتا ہوں :
تائید غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں
نو لمبی لمبی نظموں سے نو شعر ہمارے کیا کم ہیں
اب بھی اگر کوئی شادؔ عارفی کو بنیادی طور پر نظم کا شاعر کہنے پر مُصر ہو تو اس کو اختیار ہے میں اپنی مزید تائید کے لیے چند اشعار بھی پیش کیے دیتے ہوں اگرچہ ڈرتا ہوں کہ شعروں کا انتخاب مجھے رسوا نہ کر دے :
سلیقۂ چمن پہ تم سے بات کیا کروں کہ تم
کہو گے باغبان کے اثر سے کہہ رہا ہوں میں
………
مجھے آج کانٹوں کا منھ چومنے دو
بہاروں کا رُخ دیکھ کر کہہ رہا ہوں
………
کارواں کے کاندھوں پر رہروی سے حاصل کیا، سنگِ میل گن گن کر قطع راہِ منزل کیا
آپ نے سیاحت کی، پاؤں میں کوئی کانٹا، پاؤں میں کوئی چھالا، خاک جستجو کی ہے
ہم وفا شعاروں کی تا کجا دل آزاری، طنزِ تلخ ناداری، طعنۂ سبک ساری
چاہیے رواداری، اے بتانِ سنگیں دل، آبرو نہیں بیچی ہم نے آرزو کی ہے
………
آشیاں پھول نہیں تھے کہ خزاں لے اڑتی
آپ اس بحث میں جانے کی اجازت دیں گے
………
تو برے وقت سے واقف ہی نہیں اے گلچیں
خار کیا پھول بھی پیوستِ رگِ جاں ہوں گے
………
سستائے جو رہرو تو نہ دیجے کوئی طعنہ
یہ دیکھیے ہمت تو نہیں ہار رہا ہے
………
اندھیرے کو اندھیرا ہی کہیں گے دیکھنے والے
سوادِ شام کو صبحِ وطن کہہ دوں تو کیا ہو گا
………
یہی کہیں گے کہ آنکھیں ہمارے پاس بھی ہیں
تجو کم نگاہی اربابِ فن پہ چوٹ کروں
………
وہاں بہاروں سے باغبانوں کی سازشیں بارور نہ ہوں گی
جہاں خزاں نے اٹھا دیا ہو سوال کانٹوں کی آبرو کا
………
روش روش پہ بچھا دو ببول کے کانٹے
چمن سے لطف اٹھانے کی بات کرتا ہوں
………
ہم کہ ہیں تازہ واردانِ قفس
اور صیاد کہہ رہا ہے کہ گاؤ
………
کہہ رہے ہیں کہ پڑو پاؤں نگہبانوں کے
آپ ہمدرد ہیں ہم سوختہ سامانوں کے
………
وقت کیا شے ہے پتا آپ کو چل جائے گا
ہاتھ پھولوں پہ بھی رکّھیں گے تو جل جائے گا
………
نام سے کام حفاظت کا نہیں چل سکتا
کسی رہزن کی ضمانت نہیں درباں ہونا
………
یہ دیکھیے صحیح تغزل اور اس کا حسن و رنگ۔ لیکن جو کچھ ہے وہ ایک بانکپن کے ساتھ ہے :
اسے جس حال میں سجدہ کیا ہے
اسے اللہ بہتر جانتا ہے
………
وارفتگیِ شوق میں طوفان آ گیا
اب میرے ہاتھ جس کا گریبان آ گیا
یہ بتانِ مرمرینِ بُت کدہ
جیسے اب انگڑائی لی اب بات کی
………
سانولا رنگ کشیدہ قامت
نہ پری ہے نہ کوئی حور ہے وہ
………
کسی کے حسنِ سماعت پہ چوٹ ہے یہ بھی
کہ ہم فسانۂ غم بار بار کہتے ہیں
………
کسی بھی در پر علاجِ آویزش گمان و یقیں نہ ہو گا
ادھر چلا آ کہ میکدے میں اگر نہیں ہے مگر نہیں ہے
………
جذبہ محبت کو تیر بے خطا پایا
میں نے جب اسے دیکھا دیکھتا ہوا پایا
………
تب ہم کو سوجھتے ہیں مشیت کے آسرے
جب سوچتے ہیں اب کوئی امکاں نہیں رہا
………
غمِ حالات سے فرصت ہی کسے
ہم کسے عشق کا مارا سمجھیں
………
ایسی شراب جس کی زمانے کو بو نہ آئے
میری نظر کسی کے تبسم کو چھو نہ جائے
………
اب ہاتھ بڑھ گیا ہے تو میرا قصور کیا
میں کہہ چکا تھا جام مرے روبرو نہ آئے
………
رنگ کو دھوپ کھا گئی بو کو ہوا اڑا گئی
کہیے اس اعتبار سے آئی بہار یا گئی
………
ہم نے پھولوں کو وہاں دیکھا ہے
آپ دیکھیں گے تو عبرت ہو گی
………
یا تو ساقی جانتا ہے یا مجھے معلوم ہے
جس طرح محفل میں مجھ تک جام پہنچایا گیا
………
جس طرف جائیں ادھر اے کاش میخانہ پڑے
تاکہ دل پینے کو چاہے اور سمجھانا پڑے
………
یہ ہیں شادؔ عارفی کی تصویر کے کچھ مبہم اور واضح خد و خال، جنھیں ان کے والد اور نانا مولوی بنانا چاہتے تھے اور جو اپنے ماموں کی تائیدِ غیبی سے ( اسے تائید غیبی ہی کہیے ) بال بال بچے۔
٭٭٭
سید عبد الباری(شبنم سبحانی)
شادؔ عارفی کا جہانِ فکر و فن
شادؔ عارفی کا ذکر ہوتا ہے تو تقریباً نصف صدی پہلے کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور حیرت کرتا ہوں کہ ہماری تہذیب اور اقدار نے کیسے کیسے دلکش اور بے باک انسان پیدا کیے تھے۔ بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی اردو شاعری کے لیے بڑے اتھل پتھل اور بڑے انقلابات کا دور تھا۔ اس عہد میں نظم کے بالمقابل غزل کو دوبارہ مستحکم کرنا اور اس کی عصری قدر و قیمت کو ثابت کرنا ایک دشوار کام تھا۔ فیضؔ، مجروحؔ اور جذبیؔ وغیرہ نے یہ فریضہ انجام دیا تھا۔ مگر اسے نظم کے بالمقابل لا کر کھڑا کر دینا اور احتجاج و انقلاب کا اسے نقیب بنانا اور ارباب عشرت اور اہل سیاست کے بالمقابل اسے زندگی کی ہزار ہا مشکلات سے جوجھنے والے عوام کے احساسات کی ترجمانی کے مقام تک لانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس عہد میں یہ نرالا شاعر شادؔ عارفی ایک ایسے مقام پر نمودار ہوتا ہے جو جاگیردارانہ، نسلی غرور و تکبر، انانیت و سرکشی سے بھرے ہوئے نظام کے شکنجے میں گزشتہ سو دو سو سال سے جکڑا ہوا تھا۔ ترقی پسند تحریک دولت کی لائی ہوئی خرابیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی خباثتوں کے خلاف سراپا احتجاج تھی مگر اس نے انسانی شخصیت کی ٹھوس تعمیر اور مظلوم کو اندر سے مضبوط بنانے والی اقدار کی آبیاری سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ اس لیے کہ مارکس نے مذہب کو افیون قرار دے دیا تھا۔ حضرتِ شادؔ نے اس دور میں اپنے لیے ایک منفرد شاہراہ فکر و تخلیق کا انتخاب کیا اور اپنی انفرادیت کا نقش اپنے ماحول پر بٹھا دیا۔ وہ ایک عام مزدور اور غریب انسان کی سی زندگی گزارتے رہے لیکن کبھی احساس کمتری کو قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ اپنی عزت نفس کے چراغوں کو حالات کی آندھیوں کے بالمقابل بجھنے نہ دیا۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ رامپور میں ان کی زندگی کے آخری دور میں سال دو سال مجھے ان سے نیاز حاصل کرنے، طالب علمانہ انداز میں استفادہ کرنے اور ان کی دلکش شخصیت کا بالمشافہ مطالعہ کرنے کا موقع حاصل ہوا۔ میں اپنے بزرگ دوست حضرت ابو المجاہد زاہدؔ کے ساتھ ان کی ادبی و علمی خانقاہ تک جایا کرتا تھا۔ میں نے اپنی چند غزلیں ان کی خدمت میں اصلاح کے لیے پیش کی تھیں۔ ان کی گفتگو، طرز کلام، عصری شعور اور انسانی درد مندی کو قریب سے دیکھا سنا تھا۔ اور میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہوں گا کہ وہ اپنے عہد کا ایک منفرد سخنور تھا جس نے مشقت کی زندگی گزارتے ہوئے وقت کے جباروں اور قہاروں کی لا یعنیت اور شقاوت کا پردہ فاش کیا اور اپنی آنے والی نسلوں کو حق گوئی و بے باکی کا پیغام زندگی کے آخری ایام تک دیتا رہا۔
شاعر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ فلسفی ہو۔ کسی مربوط فلسفہ حیات کا باضابطہ ترجمان ہو۔ ماحول کے ایک ایک پہلو پر ناقدانہ نگاہ ڈالے۔ شاعر کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ ایک ہی آہنگ میں ایک ہی لَے، ایک ہی تیور سے ہمیشہ فکر و تخلیق کے ساز کو چھیڑتا رہے۔ اختر انصاری حضرت شادؔ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ کبھی کبھی مبتذل نوائی اور قافیہ پیمائی کی وادیوں میں قدم رکھ دیتے تھے اور کبھی کبھی ان کے ساز سخن کے سُر اتنے بلند ہو جاتے ہیں کہ دل خراش آہنگ پیدا ہوتا ہے۔ مگر شادؔ کی زندگی کے آخری دور کے کلام پر نظر ڈالیے تووہ اپنے لب و لہجہ اور اپنے موضوعات کے اعتبار سے انفرادیت و تنوع کا ایک پہاڑ نظر آتے ہیں۔ شاعر فلسفہ طرازی نہ کرے بلکہ اپنے عہد کے سلگتے مسائل اور اپنے گرد و پیش کے انسانوں کے دکھ درد اور اضطراب اور ان پر ہونے والے مظالم پر اپنا شدید رد عمل ظاہر کرے اور اپنے ماحول کے جباروں کو کھری کھری سنائے تو وہ ہمارے دل کے تاروں کو چھیڑ دیتا ہے اور اس کے کلام کو ہم اپنے دل کی آواز محسوس کرنے لگتے ہیں۔ حضرت شادؔ کا سماجی تہذیبی و نظریاتی شعور خاصا بالیدہ و توانا ہے۔ وہ بے حد حساس دل اپنے سینے میں رکھتے ہیں۔ وہ ماحول کے جبر و تشدد، نفاق، مکاری، تصنع اور فریب کاری کو برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے فن کا مقصود انسان کی عزت نفس کا دفاع سمجھتے ہیں۔ محض قافیہ پیمائی اور الفاظ کی طلسم بندی کے قائل نہیں۔ وہ خود اپنے فنی مسلک کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
عظمتِ فن کی روایات کو مرنے نہ دیا
شعر سے بچ کے کوئی ظلم گزرنے نہ دیا
میں دنیا پر طنز کروں گا
دنیا میرے کیوں در پے ہو
شاد مجھے یہ دھن رہتی ہے
اپنا نغمہ اپنی لے ہو
پئے تحسین وطن طنز ہمارا فن ہے
ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں
کبھی مزاح کبھی طنز گدگداتا ہے
میں شادؔ خود نہیں ہنستا کوئی ہنساتا ہے
غزل برائے غزل کے حامی پڑھا رہے ہیں یہ شاد ان کو
اگر سنواریں گے آپ گیسو تو نظم عالم سنوار دیں گے
اس نتیجہ پر انھیں آنا پڑا
شادؔ شاعر ہے مگر جھوٹا نہیں
حضرت شادؔ نے بزدلی، پست حوصلگی، خود شکنی و مایوسی کی پرچھائیں اپنے نقوش فن پر پڑنے نہیں دی تھیں۔ ترقی پسندشعر اور ان سے پہلے اقبالؔ نے امید و حوصلہ مندی، اولوالعزمی و سربلندی کا پیام دیا تھا۔ حضرت شادؔ نے ہندوستان کا عہد غلامی بھی دیکھا تھا اور ایسے شعرا کی پذیرائی بھی دیکھی سنی تھی جو فانیؔ کی طرح یہ خبر دیتے تھے :
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
کچھ لوگ زندگی کو عمر گزشتہ کی میت قرار دیتے اور مر مر کے جیے جانے کو زندگی سے تعبیر کرتے۔ حضرت شادؔ نے یہ بیان دیا:
ہم آخر ہمت کیوں ہاریں
ہو ناکامی پے در پے ہو
ان بُتان ستمگر کو جو کچھ بھی ہو
ہم نے سجدہ کیا ہے نہ سجدہ کریں
حضرت شادؔ اپنی جرأت حق گوئی میں منفرد ہیں وہ اپنے ماحول سے مصالحت پر کسی طور راضی نہیں ان کی ساری زندگی اسی خود نگری و کج کلاہی کا مرقع ہے۔ ساری زندگی آفتیں جھیلتے، پریشانیاں اٹھاتے گزری اور انھیں نہایت معمولی زندگی گزارنے پر قناعت کرنی پڑی مگر اہلِ زر کے سامنے دست طلب دراز نہیں کیا بلکہ ان کے خرمن جہل پر برق بے اماں بن کر کوندتے رہے :
ہے تو احمق چونکہ عالی شان کاشانے میں ہے
اس لیے جھک مارنا بھی کار فرمانے میں ہے
پیٹھ پیچھے جو کہا تھا وہ کہا منہ پر بھی
فکر فردا نے صداقت سے مُکرنے نہ دیا
ہم سے اس طرح کی امید نہ رکھے دُنیا
ہم کسی شخص کی تعریف تو کرتے ہی نہیں
حضرتِ شادؔ نے غزل کو طنز کے نشتر میں تبدیل کر دیا اپنے ماحول سے کشمکش کرنے والا اور اس کے ہر بے ہنگم پن، ریا کاری کے منظر اور عیاری کے ہر پہلو پر تیر چلانے والا یہ انوکھا فنکار ساری عمر اپنے ضمیر کی آگ میں جلتا اور پگھلتا رہا:
کیوں مزاج والا کو روشنی نہیں بھاتی
کیوں حضور والا کو آگہی کھٹکتی ہے
دل دُکھانا آپ کا شیوہ نہیں
بولتے ہیں سچ مگر اتنا نہیں
ہم وطن ہوں آپ کا بندہ نہیں
فیصلہ منظور ہے جھگڑا نہیں
گویا اے اربابِ سیاست اس نے جب انسان بنائے
تم ایسوں کو عقل عطا کی ہم ایسے ناداں بنائے
یہ من کے میلے یہ تن کے اُجلے رہے جو ظاہر فریب اب تک
کہاں تک آشوب عہد نو ان کو روپ دیں گے نکھار دیں گے
حضرت شادؔ نے اپنے ان ہم عصروں کو کبھی پسند نہ کیا جو ترقی پسندی کے نام پر مشرق کی ممتاز تہذیبی روایات حتیٰ کہ بعض اہم اور زندگی کے لیے فیصلہ کن معتقدات کا مذاق اڑاتے تھے۔ جوشؔ کو وہ اسی لیے نا پسند کرتے تھے۔ مجنوںؔ گورکھپوری کے بارے میں اپنی رائے خود مجھے انھوں نے ایک خط میں تحریر کی تھی۔ حضرت شادؔ ہزار کوتاہیوں کے باوجود جو عقائد اور جو طرز زندگی اپنے معاشرہ میں دیکھتے ہیں اسے بچا کر رکھنا اور اس کی بنیاد پر ایک جدید سماج کی تعمیر ضروری تصور کرتے ہیں۔ دیکھیے ہماری اقدار کے جواہر پارے کس طرح ان کے کلام میں جگمگاتے ہیں :
عمل کو لازم ہے استواری نہ یہ کہ اظہار بے قراری
جو تیز گامی پہ فخر کرنے چلے ہیں ہمت بھی ہار دیں گے
جس کو دولت پر غرّہ ہے پھرتا ہے جو شان بنائے
آنکھیں کھولے دنیا دیکھے اپنے کو انسان بنائے
آفتاب چہرہ ہے جن شراب خواروں کا
داغ داغ حلیہ ہے ان سیاہ کاروں کا
شیخ پر ہاتھ اُٹھانے کے نہیں ہم قائل
ہاتھ اُٹھانے کی جو ٹھانی ہے تو باطل پہ اٹھا
یہ زلف پُر شکن نہیں یہ ابروؤں کے خم نہیں
نکل نہ پائیں گے کبھی اگر دلوں میں بل پڑے
جس کو نکہتِ گل سے واسطہ نہیں ہوتا
خوش لباس پھولوں میں وہ نظر بہکتی ہے
حضرت شادؔ اپنے زمانہ کے بے کردار شاعروں کی نسل سے سخت بیزار تھے، مے نوشی، آوارگی، عریانی و بے حیائی کو سخت نا پسند کرتے تھے۔ اقدار کے معاملہ میں وہ مکمل طور پر قدامت پسندتھے۔ ترقی پسندوں کی بے راہ رو نو جوان نسل سے بے حد بے زار تھے۔ وہ جس طرح سماج کے ناسوروں پر نشتر چلاتے تھے اسی طرح فنکاروں کی اخلاق باختگی کو بھی نشانہ بناتے تھے۔
خوشنما غزلیں جو شاعر صرف عریانی کریں
کس طرح ظاہر زمانے کی ستم رانی کریں
آدمی کو آدمی مصروف بہکانے میں ہے
یہ قباحت ہے جو ذہنی انقلاب آنے میں ہے
اس نتیجہ پر انھیں آنا پڑا
شادؔ شاعر ہے مگر جھوٹا نہیں
صحرا میں گلزار کھلائے گلشن میں دے کانٹے بو
گھر بیٹھے تخئیلی شاعر شہرت کا میدان بنائے
ملک کی آزادی کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی حضرت شادؔ اس پر بے حدافسردہ خاطر ہیں۔ آزادی و جمہوریت کے اعلان کے بعد ملک کے کمزور لوگوں پر جو ستم ڈھائے گئے اس سے بیزار ہیں وہ بار بار اس صورت حال پر احتجاج کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
گر ہم آپ کو ظالم کہیں انکار مت کیجیے
مثالیں سیکڑوں مل جائیں گی اصرار مت کیجیے
اٹھیں گی انگلیاں اس غیر جمہوری طریقہ پر
ہماری حسرتوں کے تخت پر دربار مت کیجیے
کہیں ایسا نہ ہو یہ بات جا پہنچے بتنگڑ تک
جو جنتا مانگتی ہے دیجیے تکرار مت کیجیے
شعوروں کے لیے شعلے ہیں طنز نا وفاداری
وفاداروں کی غیرت پر یہ اوچھا وار مت کیجیے
انتظار تھا ہم کو خوش نما بہاروں کا
یہ قصور کیا کم ہے ہم قصور واروں کا
آزادی کے دس پندرہ سال بعد جب حضرت شادؔ کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے وطن کی فضا فرقہ وارانہ نفرت و انتقام سے مسموم ہوئی، مسلمانوں کے خلاف خوفناک فسادات کا سلسلہ شروع ہوا اور آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سب سے پہلا خوفناک فساد ۱۹۶۱ء میں جبل پور میں ہوا تو صاحب ضمیر انسانوں کی روح لرز گئی اور ملک میں وحشت و بربریت کے اس طوفان پر حضرت شادؔ جیسے حساس و درد مند انسانوں کی آنکھیں اشک آلود ہو گئیں۔ انھوں نے اپنی مشہور نظم’’ ابھی جبل پور جل رہا ہے ‘‘ لکھی حقیر کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے طلبا ء کی ایک جماعت کے ساتھ ریلیف کے لیے وہاں جانے کا موقع ملا۔ وہاں حیوانیت و درندگی کے جو مناظر دیکھے ان پر دل لرز اُٹھا حضرت شادؔ کی طویل نظم کے دو بند ملاحظہ ہوں :
یہ مسجدیں یہ مکان یہ مدرسے یہ بھرپور کارخانے
یہ برج و محراب و طاق و در ادھ جلی کتابیں کھلے خزانے
نقوش کالک سے بھر گئے ہیں مگر پتہ صاف چل رہا ہے
ابھی جبلپور جل رہا ہے
سنا ہے وحشی سپاہیوں نے جو اس کو بوٹوں سے روند ڈالا
تو اس کو سنگین پر اُٹھا کر بھڑکتی اگنی کے رخ اُچھالا
زمین رہ رہ کے کانپتی آسمان تھم تھم کے چل رہا ہے
ابھی جبلپور جل رہا ہے
حضرتِ شاد اہل وطن کو اس اخلاقی زوال اور انحطاط پر اپنے فن کے ذریعہ وارننگ بھی دیتے ہیں :
تم نے فطرت کو سمجھنے میں بڑی تاخیر کی
تم کو فطرت نے سنبھلنے کے بڑے موقعے دیے
جنھیں بہی خواہ موسم گل پیام سیر بہار دیں گے
جلے ہوئے آشیاں انھیں ہر قدم پہ اک اشتہار دیں گے
انھیں اہلِ وطن کی بے حسی اور ماحول میں انسانی درد مندی کے روز افزوں فقدان پر بے حد ملال ہے :
یہ جانتے ہوئے کہ طاق و در سے کہہ رہا ہوں میں
پتے کی بات بزم بے خبر سے کہہ رہا ہوں میں
اُس بت سے ماحول کی الجھن کہنے سے کیا حاصل شادؔ
احمق ہی آوازیں دے گا قفل پڑے دروازے پر
حضرت شادؔ کو وطن اور سماج کے بگاڑ و فساد کا غم ہے لیکن وہ اس کی صحت سے مایوس نہیں۔ آخر اسی سرزمین کو انھوں نے تقسیم ملک کے وقت ترجیح دیا تھا اور اس کی بہی خواہی کے جذبہ سے سرشار تھے :
وطن کی اس سرزمیں کو اے شادؔ کون سے دل سے چھوڑ دیں ہم
وطن کی جس سر زمیں پہ گزرا ہے دور دار و رسن ہمارا
آپ سے شکوے تو ہیں بے شک ہمیں
آپ سے بیزار ہیں ایسا نہیں
عام ذہنی الجھنوں کو چھوڑ کر
کیا نہیں میرے وطن میں کیا نہیں
حضرت شادؔ ایک بلند پایہ قادر الکلام اور فطری شاعر ہیں۔ ان کا ایک مخصوص لہجہ ہے منفرد انداز ہے بقول آل احمد سرور انھوں نے عوامی بول چال کی زبان کو شعر کی زبان بنا دیا اور بے ساختگی و بے تکلفی کو اپنا شیوہ بنایا۔ تصنع و تکلف سے انھیں بے حد نفرت ہے۔ کھری کھری سنانے اور دل لگتی بات کہنے کے وہ عادی ہیں :
میکدے میں اور سب کچھ ہے مگر
صرف ساقی کا سلوک اچھا نہیں
کون تسلیم کر لے گا فرمائیے
ہم جوان کی جفاؤں کا چرچا کریں
آئیے آج ہم رہزنوں کی طرح
دور تک رہنماؤں کا پیچھا کریں
حضرت شادؔ کا فن اپنے نقطہ عروج پر ہوتا ہے جب وہ داغ دہلوی کے لہجے میں اس انداز سے نغمہ طراز ہوتے ہیں :
اُٹھ گئی ان کی نظر میں جو مقابل سے اُٹھا
ورنہ اُٹھنے کے لیے غیر بھی محفل سے اُٹھا
چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اُٹھا لا ساقی
شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی
آپ کے عقیدوں کی دھجیاں نہ اڑ جائیں
پل رہے ہیں کچھ فتنے دل کی خانقاہوں میں
ضبط ناوک غم سے بات بن تو سکتی ہے
آدمی کی انگلی میں پھانس بھی کھٹکتی ہے
ہم قفس نصیبوں کا گلستاں سے کیا رشتہ
جس طرح کوئی ڈالی ٹوٹ کر لٹکتی ہے
ان کی غزلوں میں تشبیہات اور محاوروں کی دلکشی بھی ان کی فنی انفرادیت کو دو بالا کرتی ہے :
یوں سہارا دے رہے ہیں عام لوگوں کو خواص
روشنی دیتا ہے جیسے ٹوٹ کر تارا کوئی
چور کی داڑھی میں تنکے کا منظر اکثر اکثر دیکھا
میرے رہزن کے فقرے پر راہنما نے مڑ کر دیکھا
حضرت شاد کے کلام کے اس مختصر سے جائزہ سے مقصود یہ ہے کہ بیسویں صدی کے اردو کے شعرا میں ان کی انفرادیت و امتیاز کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔ حضرت شادؔ نے بے شک اردو شاعری کو ایک نازک مرحلہ میں ایک توانا طرز اظہار اور ایک متوازن و صحت مند فکر عطا کی۔ ان کے اثرات ہماری نئی نسل کے طرز بیاں اور موضوعات کے انتخاب پر پڑے ہیں اور ہمیں جدید شعراء کی نسل میں بہت سے فنکاروں پر شادؔ کے فکر و فن کی چھاپ محسوس ہوتی ہے۔ بلا شبہ عہد ساز شعراء کی صف میں ان کا یہ وصفِ خاص انھیں معزز مقام عطا کرتا ہے۔
٭٭٭
نداؔ فاضلی
شادؔ عارفی کی غزل: ایک نئی آواز
زندگی سے دو طرح سے نبٹا جاتا ہے۔ زندگی گزرتی بھی اور زندگی کی بھی جاتی ہے۔ پہلا طریقہ سیدھا، صاف اور ہموار بھی ہے۔ جیسے آگرہ، بمبئی روڈ۔ ٹرک کو بس اسٹارٹ کرنے کی زحمت اٹھانی پڑتی ہے اور منزل آ لیتی ہے۔ لیکن دوسرے طریقے میں راستے کی کھوج کرنی پڑتی ہے۔ جنگلوں، پہاڑوں اور دریاؤں کو لانگھنا پڑتا ہے۔ پاؤں کے چھالوں سے نوکیلے کانٹوں کی پیاس بھی بجھائی جاتی ہے اور بپھرتی موجوں میں جان بوجھ کر کشتی پھینک دی جاتی ہے۔ یہاں حرکت کا نام زندگی اور ٹھہرنے کانا م موت ہے۔
پیدا ہونا، جوان ہونا، بال بچے پیدا کرنا اور ایک کامیاب اور اچھے شہری کی طرح سپردِخاک ہو جانا واہ کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے اور جنم لیتے ہی سماجی مشین میں کسی بے حس کل پرزے کی طرح فٹ ہونے کے بجائے مروجہ رسوم و قیود کی ضد بن کر رہنا۔ دونوں میں فرق ہے۔ یہ دو متضادAttitudes کا فرق ہے۔ یہ آنگن کے سکڑاؤ اور دھرتی کے پھیلاؤ کا انتر ہے۔ ایک میں Adjustment کی بات ہے اور دوسرے میں Anti Adjustment کے تیور ہیں۔
انسانی تاریخ انھیں دو خطوط کے درمیانی فاصلے میں سانس لیتی رہی ہے۔ یہ خطوط کہیں چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، کہیں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور کبھی ایک، دوسرے سے میلوں آگے نکل جاتا ہے۔ ان خطوط کی تقابلی لمبائی چھوٹائی کے نتائج کسی عہد میں ارتقائے حیات پر کوئی فیصلہ سناتے ہیں۔ پرانے زمانے میں تہذیبی جمود کو توڑنے کے لیے پیغمبر، اوتار، صوفی، اور رشی مُنی پیدا ہوتے تھے۔ نئے عہد میں باغی روایت شکن، اور دیوانے اس کام کی تکمیل کرتے ہیں۔ رام اوتار تیاگی کے ہندی گیت کی لائنیں ہیں
سبھیتا کی جس اٹاری پہ کھڑے ہو
وہ ہمیں بد نام لوگوں نے رچی ہے
عام ذہن ہمیشہ سے جذباتی رہا ہے۔ ٹوٹتی دیواروں سے چپٹے رہنا اور اُن سے نئے نئے حسّیاتی رشتے بنائے رکھنا اس کی بنیادی کمزوری ہے۔ کچھ سر پھرے صرف اس لیے بدنام لوگوں کی فہرست میں شامل کر لیے جاتے ہیں کیونکہ وہ عصری شعور کے اعتماد کے ساتھ ٹوٹے پھوٹے صندوق اور مچان پر رکھے کاٹھ کباڑ کی یاد گاری اہمیت سے انکار کرنے لگتے ہیں۔ یہ انکار کی جرأت ہی در اصل ہر دور میں زندگی کی لاج اور ارتقائے حیات کی زندہ پہچان ہوتی ہے۔
شادؔ عارفی کی شاعری ’نہیں ‘ کی شاعری ہے۔ اس میں آنگن کا سکڑاؤ نہیں دھرتی کا پھیلاؤ ہے۔ ان کی شخصیت میں مصلحت کے برخلاف ضد کا عنصر نمایاں ہے جس کی سزائیں بھی حسبِ روایت انہیں افلاس، تنہائی، گمنامی اور نت نئی پریشانیوں کی صورت میں بھگتنا پڑیں۔ مگر انھوں نے کبھی وقت کے ہاتھوں اپنی کُشتیاں نہیں ہاریں۔ اپنے ایک انٹرویو میں وہ خود کہتے ہیں :
’’ عمر کے ساتھ ماحول اور حالاتِ ناسازگار نے مجھے جھلّا دیا۔ میں نے ہر ٹھوکر کے بعد سنبھل کر اس پتھر کو روند ڈالنے پر کمر کس لی۔ آج بھی وہی حالات و ماحول میری مخالفت میں ہیں۔ جن کا حتی الوسع مقابلہ کرتا رہا ہوں، کرتا رہوں گا۔ فولاد لچکتا نہیں، ٹوٹ جاتا ہے، ہمارے یہاں انعام یافتہ، ڈگری یافتہ اور مصلحت یافتہ ادیب و شاعر کی اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ کبھی کبھار جب کوئی نظیرؔ، غالبؔ یا یگانہؔ چنگیزی اپنی کج کلاہی کے ساتھ ہمارے سامنے سے گزرتے ہیں تو ہم انھیں پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ شادؔ عارفی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اُن کی آواز، اُن کے تیور، اُن کی انفرادی لٹک، ان کی بول چال کے اسلوب، ان کے لہجے کا طنز، ان کا بیدار سماجی شعور( جس پر کسی نظریاتی مصلحت کا غازہ نہیں تھا) ہمارے محترم ناقدین کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکا۔ کیونکہ شاید شاد عارفی ایک ایسا طلسمی آئینہ تھے جس کے سامنے آ کر ہر شخص کو اپنا آپا ڈھانپنا مشکل ہو جاتا تھا۔ کمزوریاں ہر زمانے میں آئینے کی دشمن رہی ہیں اور شادؔ کی غزل سراپا آئینہ خانہ۔
دیکھیے کیسے کیسے ننگے چہرے نظر آ رہے ہیں۔ کھوکھلے ٹوٹے ہوئے چہرے اور اس پر آئینے کی صفائی کہ ایک ایک خد و خال اپنی پوری برہنگی کے ساتھ اُبھرتا آ رہا ہے۔
ہم خدا کے ہیں وطن سرکار کا
حکم چلتا ہے مگر زر دار کا
ہر غلط بات پر بھی ہاتھ اٹھاؤ
یہ نمائندگی نہیں شرماؤ
یہ نرالی طرز استدلال یہ جمہوریت
خون کے دھبے بتاتے ہیں کہ یہ قاتل نہیں
لپٹ گئی ہے یہاں بات کچھ دوشالے میں
عدوئے شہر کو ہم شہر یار کہتے ہیں
ہر زاہدِ شب زندہ کے افعال پرکھیے
کہنے کو تو عیاش بھی بیدار رہا ہے
داڑھیوں پہ اوس پڑ جائے تو پیشانی پہ بل
ہم جو کہہ دیں بُت کدوں سے فیض پاتا کون ہے
باطن ہے آستین میں خنجر لیے ہوئے
ان کا کوئی سلوک بہ ظاہر بُرا نہیں
اٹھا رہے ہیں جو لطفِ شبابِ آئینہ
ضمیر اپنے اگر دیکھ لیں تو ڈر جائیں
شادؔ عارفی نے خود اپنے کو پہچان کر دوسروں کو پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے عام ترقی پسند شاعروں کی طرح سڑک کنارے کھڑے ہو کر تماشا نہیں دیکھا بلکہ تماشے میں شامل ہو کر خود کو بھی تماشا بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ آرٹ میں تاثراتی کاٹ، لفظی پینترے بازی اور بلند آہنگی سے پیدا نہیں ہوتی، اس کے لیے دل پُر خوں کی اک گلابی کی ضرورت پڑتی ہے۔ صرف نظارے سے کام نہیں چلتا۔ آپ کے دریا سے تیر کر گزرنا پڑتا ہے۔ میکسم گور کی کی مانند شادؔ کی سوچ اپنے پیروں سے دھرتی پر چلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ماتھے پر سلوٹوں کے ساتھ ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی ہے۔ ماتھے کی شکنیں تو یگانہؔ چنگیزی کے یہاں بھی اپنے پورے تیکھے پن کے ساتھ نمایاں ہیں مگر ان سلوٹوں سے کبھی کبھی چہرے کے خطوط بگڑتے نظر آتے ہیں۔ ان کی آواز کی تیزی بھی اُن کے اعصابی تناؤ کا ثبوت دیتی ہے۔ یگانہؔ کو اپنے آپ سے زبردست عشق تھا۔ وہ دوسروں کے ہاؤ بھاؤ دیکھ کر ماتھے پر سلوٹیں ڈال لیتے ہیں لیکن خود کو تماشا بناتے ہوئے اور اپنے پر مسکراتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
شادؔ کی مسکراہٹ کچھ نظیر کے زیر لب تبسم سے ملتی جلتی ہے۔ مگر ان کے تبسم اور شادؔ کی مسکراہٹ میں وہی فرق ہے جو ایک صوفی کے مزاجی ٹھہراؤ اور گوشت و خون کے زندہ انسان کے اضطراب میں ہے۔
شادؔ عارفی کے فن کی انفرادیت ماتھے کی سلوٹوں اور بے لاگ مسکراہٹ کی آمیزش سے ترغیب پاتی ہے جس پر ان کی شخصیت کی چھاپ ہر جگہ نمایاں ہے۔ اس میں کھلا پن بھی ہے اور اپنا پن بھی۔ ان کی مسکراہٹ شعورِ غم کی علامت ہے جو ماتھے کی تہہ دار شکنوں سے مل کر ایک تیز اور کئی دھاری نشتر کی طرح اُبھرتی ہے جو جہاں بھی پڑتی ہے اندر بیٹھتی ہی چلی جاتی ہے۔
شادؔ نے صحیح معنوں میں غزل کو فرش اور قالین سے اٹھا کر جہاں وہ مدت سے براجمان تھی سڑکوں، گلیوں اور ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر چلنا سکھایا جس سے اس کے خوبصورت بدن میں ایک نئی پھرتی اور چونچال پیدا ہو گئی۔ اس کی چال ڈھال میں ایک عجیب سی کاٹ اُبھر آئی۔
شادؔ کی غزلیں نظیرؔ کی نظموں کی طرح صرف مخصوص محفلوں میں ہی نہیں، دفتروں، تفریح گاہوں، کلبوں، چوراہوں، بازاروں میں بھی ہمارے ساتھ چلتی پھرتی ہیں اور جگہ جگہ نئے نئے سوانگ رچ کر سامنے آتی ہیں۔ کہیں یہ خود ہمارا روپ دھار کر مسکراتی ہیں، کہیں دوسروں کے جھوٹے چہروں کی نقل بھرتی ہیں۔
شادؔ عارفی بیدار ذہن اور کھلی آنکھوں کے شاعر ہیں۔ انھوں نے کمرے کی چار دیواروں میں صرف عورت سے باتیں نہیں کیں بلکہ کمرے کے باہر کی فضاؤں کا بھی بھرپور جائزہ لیا ہے۔
اُن کے ہاں موضوعات میں بلا کا پھیلاؤ ہے۔ سیاست، اقتصادیات، جمہوریت، کرپشن، رشوت، سفارش، فسادات، امیری، غریبی، جنس، رشتے، جعلسازیاں، دھوکے بازیاں، کون سا ایسا موضوع جس پر ان کی گرفت نہیں۔ غزل ایسے کومل اور لطیف فورم میں یہ سب کچھ سمو دینا کوئی آسان کام نہیں۔ اس میں تو ذرا سی بھول چوک سے آواز بگڑ جاتی ہے اور فکر میں دھندلاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ شاد نے بڑی فن کارانہ شائستگی کے ساتھ غزل کو زندگی کے سماجی پہلو کا ہمراز بنایا ہے۔ اس کو شہری بانکپن اور بازاری تہذیب عطا کی۔ ان غزلوں میں نئے امکانات کی دِشائیں بھی کھلتی ہیں اور نیا آہنگ بھی ابھرتا ہے۔ شادؔ کی غزل اپنے ماحول کی بھرپور آواز ہے :
ہماری غزلوں ہمارے شعروں سے تم کو یہ آگہی ملے گی
کہاں کہاں کارواں لٹے ہیں، کہاں کہاں روشنی ملے گی
یا
ہزار ہا سامنے کی باتوں سے جان پڑتی ہے شاعری میں
وہ کون سے پیش پا مضامیں میں ہیں جن پہ میری نظر نہیں ہے
یہ ضرور ہے کہ شادؔ عارفی زندگی کے ساتھ گہرے اُترتے نظر نہیں آتے۔ ان کی نظر غالبؔ و یگانہؔ کی طرح باریک بیں نہیں۔ وہ زندگی کی اوپری سطح کے شاعر ہیں اور کامیاب شاعر۔ اس میدان میں ان کا حریف اردو غزل میں دور دور نظر نہیں آتا۔ ان کی اپنی ایک کینوس ہے۔ چھوٹی یا بڑی دیکھنا یہ ہے کہCanvassپر انھوں نے جو تصویریں ابھاری ہیں اور ان میں جو رنگ کاری کی ہے اس میں وہ کہاں تک کامیاب ہیں اور اس سے عملی زندگی کے سمبندھ کی نوعیت کیا ہے۔
شادؔ کے فن پر کسی مبسوط فلسفے کی چھاپ نہیں، وہ بدلتے موڈس کا مبصر ہے۔ شاعری یا ادب کی کسی تخلیقی صنف میں کسیSystematic Thought Scheme کی نمائش میرے خیال میں غیر فطری امر ہوتا ہے۔ زندہ ذہن اُگتے پودے کی مانند پھلتا پھیلتا اور بڑھتا ہے۔ اس کا رنگ و روپ لمحہ بہ لمحہ بدلتا رہتا ہے۔ پابند ذہن سے رٹے رٹائے نعرے تو بولے جا سکتے ہیں سچی اور اچھی شاعری ممکن نہیں۔ پاول ویلری نے کتنے پتے کی بات کہی ہے :
’’ نظم لکھنے سے پہلے ذہن کو کسی نظریہ یا اصول کے دائرے میں محدود کرنا مناسب نہیں۔ اس طریقہ کار کے لیے نثر زیادہ موزوں ثابت ہو سکتی ہے۔ پلان بنا کر سوچنے کا کام شاعر کا نہیں نثر نگار کا ہے۔ ‘‘
شادؔ نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو جس طرح اور جس روپ میں دیکھا اسے ویسا ہی نظم کیا۔ وہ دوسرے شاعروں کی طرح محض زیب داستان کے لیے بھینس کو دے دیجیے جنگل کی شہزادی کا نام۔ کی روش سے ہمیشہ کتراتے رہے ہیں۔ ان کے لہجے کی جھلاہٹ، طنزیاتی کاٹ اور تلخ مسکراہٹ جو کہیں کہیں برناڈ شا کے witکی یاد دلاتی ہے، اس میں دھرتی کی گرمی اور سانسوں کی صداقت دونوں شامل ہیں۔ ان غزلوں میں حسن بھی ہے، آنچ بھی ہے اور کاٹ بھی۔
شادؔ عارفی کی غزلوں میں لوک گیتوں سی بے لاگ معصومی اور عصری پھیلاؤ ان کے مزاج اور حالات کی علامتیں ہیں، ان میں نہ اوڑھے ہوئے درد کی شکستگی نظر آتی ہے اور نہ کتابی شعور کی نمائش۔ انھوں نے بنی بنائی اقدار کے سامنے سوالیہ نشان بھلے ہی نہیں بنائے ہوں مگر وہ خود ایک اتنا بڑا سوالیہ نشان بن گئے تھے جس کے سامنے سماج اپنے تمام کھوکھلے پن کے ساتھ پاش پاش ہو جاتا ہے۔ ان کی جھلاہٹ زندگی کے خوش آئند مستقبل کا اشاریہ بھی ہے اور اردو غزل میں شاعر کی پہچان بھی۔
شادؔ عارفی دور سے پہچان میں آنے والے شاعر ہیں۔ ان کی آواز اپنی ہے، اُن کے بات کرنے کا ڈھنگ اپنا ہے۔ اُن کے انداز اپنے ہیں وہ اپنے ڈھب کے منفرد شاعر ہیں۔ مگراس انفرادیت کو پانے کے لیے انھوں نے خلاؤں میں ہاتھ پیر مارنے کے بجائے غزل کے صِنفی مزاج اور کلاسکی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا ہے۔ انھوں نے روایات کو یکلخت نہیں ٹھکرایا بلکہ صحت مند روایات سے نئے سکے بھنائے ہیں۔ ایلیٹ کے لفظوں میں انھوں نے ماضی کو ’شعوری‘ طور پر اپنایا ہے۔ وہ کلاسکی ورثہ کے وہیں تک قائل ہیں جہاں تک وہ ان کے مزاج اور عہد کے اظہار میں معاون ہوتا ہے۔ ان کے پاس اپنی داستان ہے جس کو بیان کرنے کے لیے انھیں موزوں ڈکشن بھی بنانا پڑا۔ جس میں کلاسکی گمبھیرتا بھی ہے اور نئے پن کی تازگی بھی۔
جہاں انھوں نے موضوع کی مناسبت سے زبان میں تراش خراش کی ہے وہاں پرانی علامات، امیجس اور تصویروں میں نیا خون حرارت اور شکتی بھی پیدا کی ہے۔
ان کی غزل ایک لحاظ سے تجرباتی ہے مگر غزل کی تاریخی و تہذیبی مزاج کے ساتھ۔ انھوں نے کچھ ایسے ایپروچ، علامات اور آوازوں کو غزل میں رائج کیا ہے جو برسوں سے گوشۂ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے لہجے میں ساون کی دُوب کی سی تازگی اور اُگتے سورج سا نیا پن ہے جو اپنے مخصوص اندازوں کے لحاظ سے انھیں کی ذات سے منسوب ہے :
گدگدائے نہ بنے، ہاتھ لگائے نہ بنے
بن کے لیٹی ہو جوانی تو اٹھائے نہ بنے
اس کے چہرے پر بکھر جاتی ہے سرسوں دفعتاً
ہم کسی کافر کو جب نا مہرباں کہنے لگیں
اداسیوں کی چھاؤں کو سمجھ رہے ہیں نور ہے
یہ آپ کی تمیز ہے یہ آپ کا شعور ہے
چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں
جو ہے وہ کہتا ہے اوس میں سو کے اپنی حالت خراب کر لی
کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں
کسی بھی در پر علاجِ آویزشِ یقین و گماں نہ ہو گا
ادھر چلا آ کہ میکدہ میں اگر نہیں ہے مگر نہیں ہے
رنگ کو دھوپ کھا گئی بو کو ہوا اڑا گئی
کہیے اس اعتبار سے آئی بہار یا گئی
شادؔ زندہ حال کے با شعور شاعر ہیں۔ ان کا فن زندہ لمحوں کا اعلان نامہ ہے۔ انھوں نے شاید ہی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا ہو وہ مستقبل میں کبھی کبھی ضرور جھانکتے ہیں مگر اس کی بھول بھلیوں میں گم ہونے اور حالات سے وقتی فرار حاصل کرنے کے لیے نہیں۔ ان کا رشتہ زمین اور اُس پر ہونے والے دکھ، سکھ کے ڈرامے سے بہت گہرا اور شعوری ہے۔
ان کی غزل کسی قسم کے ILLIUSION کی بیساکھیوں کے سہارے نہیں چلتی۔ وہ شادؔ کے تلخ تجربات و مشاہدات کی انگلی پکڑے رستے ناپتی ہے۔ شادؔ کو دھرتی کے ذرہ ذرہ سے پیار ہے۔ ان کی تنقید اس اٹوٹ پیار کا نفسیاتی رد عمل ہے۔ کسی کا شعر ہے :
ہر لحظہ ایک تازہ شکایت ہے آپ سے
اللہ مجھ کو کتنی محبت ہے آپ سے
شادؔ کی شخصیت ( انھیں کے لفظوں میں ) فولاد کی طرح سخت ہے جو لچکنا نہیں ٹوٹ جانا جانتی ہے اور ہوا بھی یہ۔ شادؔ وقت سے پہلے لچک تو نہیں پائے مگر ٹوٹ گئے۔ یہ حالات کی فتح ہے یا شادؔ عارفی کی؟اس کا جواب شاد عارفی کی وہ جان دار غزلیں ہیں جو اپنے مردانہ تیوروں، سماجی شعور اور طنز کے ساتھ عوام کے دلوں میں اپنا گھر کر چکی ہیں۔
٭٭٭
محبوب راہیؔ
شادؔ و یگانہؔ: امتیازات اور مماثلتیں
شکل و شباہت، چال ڈھال، عادات و اطوار، افکار و کردار، رجحانات و نظریات اور مسائل و وسائل کے اعتبار سے کچھ لوگوں کے ما بین اکثر و بیشتر یا شاذ و نادر مشابہتیں، مطابقتیں یا مماثلتیں تو نظر آ جاتی ہیں لیکن قدرت کی بے مثال اور حیرت انگیز صناعی پر ایمان لاتے ہی بنتی ہے جب ہم ایک دوسرے سے بڑی حد تک مشابہ یا مماثل دو یا زیادہ اشخاص کے ما بین (چاہے وہ توام حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہوں ) باریک بینی سے دیکھنے پر واضح یا خفیف سا امتیاز و افتراق پاتے ہیں۔
اردو شاعری کی چار سو سالہ تاریخ میں بہ لحاظ رنگ و آہنگ، لب و لہجہ، طرز اظہار اور موضوع و متن، ارباب نقد و نظر میں مشابہتوں اور مطابقتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے شعراء کی درجہ بندیاں کرنے کا چلن عام ہے۔ اس تناظر میں طنزیہ لہجے کی بلند آہنگی، نشتریت، واقعیت نگاری، غیر مصلحت آمیز حق گوئی و بیباکی وغیرہ کے حوالوں سے شادؔ عارفی اور یاسؔ یگانہ چنگیزی کا ذکر لازم و ملزوم کی طرح آتا ہے اس میں کبھی کبھار کچھ دوسرے مثلاً فراقؔ و جوشؔ وغیرہ کے نام بھی جوڑ دیے جاتے ہیں جنھیں زیب داستان سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ مثلاً شمس الرحمن فاروقی کے بقول ’’ یگانہؔ، فراقؔ اور شادؔ عارفی نے اپنی اپنی انفرادیت کو زیادہ استقلال بخشا۔ انھوں نے غزل کے سرمایے سے ایسے الفاظ کم کرنے کی کوشش کی جو اردو غزل کی دونوں روایتوں میں مشترک تھے۔ ‘‘
خلیل الرحمن اعظمی کی رائے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یگانہؔ اور فراقؔ کے ساتھ بیسویں صدی میں غزل کو نئے لہجے اور نئے ذائقے سے روشناس کرانے اور اپنے دور کی کھردری حقیقتوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بنانے میں شادؔ کا کام خاص طور سے قابل توجہ ہے۔ ‘‘ ایک جگہ شادؔ کو جوشؔ کے ساتھ منسلک کرتے کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ’’ طنزیہ ادب کی کوئی تاریخ جوشؔ اور شادؔ عارفی کے نام اور کام کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
جبکہ شمس الرحمن فاروقی، شادؔ و یگانہؔ کے اسلوب کو سوداؔ کی اسیری سے تعبیر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ یگانہ اور شادؔ کی غزل ہر اعتبار سے سوداؔ کے اسلوب کی اسیر تھی۔ ‘‘
لیکن فرمان فتح پوری نے انھیں کسی خاص گروہ سے منسلک نہ کرتے ہوئے ان کی آواز کو میرؔ، نظیرؔ اور غالبؔ کی آواز سے ملاتے ہوئے لکھا ہے : ’’ انھیں کسی خاص گروہ سے منسلک نہیں کر سکتے۔ ان کی آواز میرؔ، نظیر، غالبؔ اور یگانہؔ کی طرح اردو غزل کی تاریخ میں یکسر انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔ ‘‘
شاعر اسلام حفیظ جالندھری، یگانہ کے ساتھ حسرتؔ، فانیؔ، اصغرؔ، جوشؔ، جگرؔ اور اثرؔ ان تمام کو شادؔ عارفی کا ہمعصر بتاتے ہوئے عوام کی مزاج شناسی اور اجتماعی شعور کے ساتھ انھیں اپنے فن میں یکتا ثابت کرتے ہیں۔ بقول ان کے : ’’ حالیؔ کی طرح ان کا مقصود اپنے زمانے کے شعراء کو مشعلِ راہ دکھانا ہے۔ شادؔ اس راہ پر آگے بڑھے ہیں جو حقیقت اور صداقت کی طرف جاتی ہے۔ ‘‘
شادؔ و یگانہؔ کی شاعری کا باہم موازنہ کرتے ہوئے عصر ساز نقاد شمس الرحمن فاروقی نئی غزل پر دونوں کے منفی اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے یگانہؔ کے طنز اور غیر جذباتیت اور طنز اور بے تکلف لہجے کو ان کی دین اور نئی غزل کی خصوصی پہچان قرار دیتے ہیں جبکہ ایک جگہ ان دونوں کی غیر ضروری الفاظ کے اخراج کی کوشش لیکن نئے الفاظ غزل میں داخل نہ کر پانے کا انکشاف کرتے ہوئے ان کے یہاں اس چکراتے ہوئے تحیر کی کمی بتاتے ہیں جو بظاہر ہستی کو عریاں دیکھنے کے نتیجے میں نئے شاعر کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ فاروقی صاحب یگانہؔ کی شوریدگی اور شادؔ کے بے تکلف طنزیہ انداز گفتگو کو نئے شاعروں کے مزاج سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے بطور خاص یگانہؔ کے طرز کلام کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ یگانہؔ میں جھنجھلاہٹ، تنگ نظری، اکڑفوں، غصّہ، خشک مزاجی تو نظر آتی ہے لیکن نا بالغ عشق کی میٹھی گولیوں سے ان کا کلام یکسر عاری ہے۔ یگانہ غالباً غزل کے پہلے شاعر ہیں جنھیں لہجہ کا شاعر کہنا چاہیے۔ ‘‘
گیان چند جین کو شادؔ کے تیوروں میں یگانہ کی باز گشت سنائی دیتی ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ’’ ان کا دامن یگانہؔ سے زیادہ وسیع ہے گو کہ غزل کی پختگی اور رچاؤ میں وہ یاسؔ سے کم رہ جاتے ہیں۔ ‘‘
ندا فاضلی کو شادؔ کے ماتھے پر سلوٹوں کے ساتھ ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی نظر آتی ہے جب کہ وہ یگانہ کے ماتھے پر سلوٹوں کے تیکھے پن کے ساتھ چہرے کے بگڑے ہوئے خطوط بھی دیکھتے ہیں۔ انھیں شاد کے ماتھے کی سلوٹوں اور بے لاگ مسکراہٹ کی آمیزش میں ان کے فن کی انفرادیت محسوس ہوتی ہے۔
شادؔ و یگانہؔ کے تقابلی موازنہ کے تحت چند ناموران قلم کی آراء سے مختصر اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔
’’شادؔ عارفی کا رویہ بھی یگانہ سے ملتا جلتا ہے لیکن ان کا رد عمل یگانہ سے زیادہ فوری ہوتا ہے اور اسی لیے زیادہ سطحی بھی۔ ان کے پاس زندگی کی تلخیوں کا شدید احساس ہے لیکن اس سے نبرد آزمائی کا وہ جذبہ نہیں ملتا جو یگانہؔ کی شاعری کو شخصی رزمیہ کا درجہ دے دیتا ہے۔ ‘‘( بشر نواز)
’’ یگانہ و شادؔ دونوں زبان و بیان پر بڑی قدرت رکھتے تھے ان کے یہاں ایک طرح کی تلخی اور طنزیاتی سوچ ان کے مزاج کا فطری عنصر معلوم ہوتی ہے اس لیے انھوں نے خارجیت سے کام لیا۔ ‘‘ ( خلیل الرحمن اعظمی)
’’ یگانہ کے ہاں جو جھلاہٹ اور چڑچڑا پن ہے وہ شادؔ عارفی کے ہاں نہیں ہے ان کا طنزیہ لہجہ سیاست کو بھی اپنا ہدف بناتا ہے چنانچہ سیاسی ہجو نگاری بھی شادؔ کے ہاں ملتی ہے اس کا اثر جدید غزل پر بھی ہوا ہے۔ ‘‘ ( احتشام اختر)
’’ مزاج کے اعتبار سے معاصرین میں ان کا حریف صرف یگانہ چنگیزی سمجھے جاتے ہیں مگر سماجی اقدار، تہذیب و معاشرت کے تاریک گوشوں تک پہنچنے اور سماجی عدم توازن کو ہدف بنانے میں شاد عارفی ان سے کہیں زیادہ بلند و بالا نظر آتے ہیں۔ ‘‘ ( احمد جمال پاشا)
یگانہؔ اور شادؔ کے تعلق سے ان تقابلی آراء کے بعد دونوں کے بارے میں الگ الگ اقتباسات کے تحت پہلے مجنوں گورکھپوری کی رائے ملاحظہ فرمائیں : ’’ یگانہؔ ان لوگوں میں ہیں جن کے کلام کی رہنمائی میں غزل کی ایک نئی نسل تیار ہو سکتی ہے جو اس قابل ہو کہ زندگی کے نئے میلانات اور نئے مطالبات سے عہدہ برآ ہوسکے۔ ‘‘
یگانہؔ کے ایک بڑے طرفدار باقر مہدی کا خیال ہے کہ ’’ مجھے اردو غزل کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی کی گئی۔ یگانہؔ کے بارے میں نقادوں اور شاعروں کا رویّہ زیادہ تریک طرفہ تھا۔ ‘‘ نیز وہ فرماتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ یگانہؔ آرٹ وہ آئینہ ہے جس میں ایک بلند شخصیت شاعر کی تنہا جد و جہد چھپی ہوئی ہے۔ ‘‘ ساتھ ہی انھیں اس حقیقت کا بھی اعتراف ہے کہ ’’یگانہؔ آرٹ میں تب و تاب بھی ان کے انتہا پسندانہ رویّے سے آئی ہے۔ ‘‘ اس کے باوجود یگانہؔ کی خوش نصیبی کی پیش گوئی کرتے ہوئے انھیں توقع ہے کہ ’’آنے والا زمانہ انھیں زیادہ عزت دے گا۔ ‘‘
آل احمد سرور کی رائے میں :
’’ ان کے یہاں قوت ایجاد کی کمی نہیں مگر ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انھوں نے پینترے بازی کو آرٹ سمجھ لیا۔ ‘‘
جب کہ خلیق انجم کو افسوس ہے کہ:
’’ یگانہؔ کے شعور کی تربیت میں ایک آنچ کی نہیں کئی آنچوں کی کسر رہ گئی ہے۔ ‘‘
راہی معصوم رضاؔ ایک تمثیل کے وسیلے سے یگانہؔ کا اقبالؔ سے موازنہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’ اقبالؔ نے ابلیس کے مقابلے میں ایک مرد مومن کی تخلیق کر کے ابلیس کی انانیت کو ایک حد تک مجبور کر لیا لیکن یاسؔ اپنے اس فرد کے مقابلے میں کوئی مثالی کردار نہ بنا سکے جو انھیں گمراہ ہونے سے بچا لیتا۔ ‘‘
مرزا یاسؔ یگانہ چنگیزی کے شعری رُجحانات کو دو مختلف ادوار پر منقسم کرتے ہوئے راہیؔ معصوم رضا فرماتے ہیں :
’’یاسؔ کے یگانہ بننے تک شائبہ خوبیِ تقدیر کے علاوہ معیار پارٹی، ماہر القادری، نیازؔ فتح پوری، مولانا عبد الماجد دریابادی اور اس قسم کے دوسرے ذمہ دار حضرات کا بھی ہاتھ ہے۔ ‘‘(تفصیلات کے لیے یگانہؔ کی زندگی کی عبرتناک داستان کا مطالعہ ضروری ہے )
آئیے اب شادؔ عارفی کے بارے میں نیاز فتح پوری کی گرانقدر رائے سے شروعات کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں :
’’ شادؔ عارفی زمانہ حال کے شاعروں میں ایک خاص رنگ کے نقاد و طنز نگار شاعر ہیں جن کی نظمیں جارحانہ انتقاد سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس انداز کی شاعری کے لیے ایک خاص لہجے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ‘‘
شادؔ کے لہجے کی انفرادیت کا اعتراف کرتے ہوئے یہی بات ظ۔ انصاری نے اس طرح لکھی ہے :
’’ ان کے بیشتر الفاظ ایسے ہیں جنھیں خاص لہجہ اختیار کیے بغیر پڑھا نہیں جا سکتا اور نہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کی ایک آواز کو ہزاروں آوازوں کی ہڑبونگ میں صاف سنا جا سکتا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر محمد حسن، شادؔ عارفی کے لب و لہجہ کی ندرت کے ضمن میں فرماتے ہیں :
’’ شاد عارفی نے غزل کی زبان کو روز مرہ کی گفتگو، طنز، تلخی، زہر خند کی کیفیت اور عصری مسائل کی باز گشت سے قریب کیا۔ یہ ایک نیا لب و لہجہ تھا جو ان اپنا تھا اور اس کا خاتمہ انھیں پر ہو گیا۔ ‘‘
شادؔ عارفی کی آواز کی اس نشتریت سے ایک نیا پہلو برآمد کرتے ہوئے وارث کرمانی رقم طراز ہیں :
’’آزادی کے بعد ناسخؔ و غالبؔ کی ڈھالی ہوئی غزل کو جو آواز سب سے پہلے کاٹتی ہوئی ابھرتی ہے وہ شادؔ عارفی کی ہے۔ شادؔ کی تلخ نوائی، بیباکی اور نشتریت نے اصغر وغیرہ کی پاکدامن اور مہذب غزلوں کا بھاؤ گرا کر ان کے اثر سے لوگوں کو چونکا یا اور انھیں سماجی و سیاسی حقائق کی ناہموار زمین پر کھڑا کر دیا جہاں سے انسانی فطرت کے تاریک گوشے صاف نظر آتے تھے۔ ‘‘
میکش اکبر آبادی شادؔ کی آواز کی انفرادیت کے ساتھ ان کے موضوعات و مسائل کی ندرت کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں :
’’ شادؔ عارفی ہمارے ان چند شعراء میں ہیں جن کے ہر شعر پران کی مہر ہوتی ہے اور ان کی آواز بہت سی آوازوں میں بھی دور سے پہچانی جاتی ہے۔ ان کے موضوع اور مسائل سب ہی میں انوکھا پن اور جدت ہے۔ ‘‘
رئیس امروہوی نے شادؔ عارفی کے طنز کو غالبؔ کی طنزیہ ذکاوت سے مماثل قرار دیتے ہوئے لکھا ہے :
’’ وہ ایک شدید الاثر شاعر تھے۔ اس براق اور بُرش دار تاثیر پذیری نے ان کے کلام کو ایک ایسا لہجہ عطا کیا ہے جو بار بار ہمیں چونکاتا ہے۔ ذہن کی سب سے زیادہ کارگر اور تابناک نوک وہ ہے جسے طنز کہتے ہیں۔ غالبؔ کے یہاں طنزیہ ذکاوت بے مثال پیمانے پر پائی جاتی ہے۔ تغزل میں طنزیہ لہجہ شادؔ عارفی کی ذکاوت کا ثبوت ہے۔ ‘‘
ایک اور پہلو سے شادؔ کو غالبؔ سے مشابہ بتاتے ہوئے فرمان فتح پوری فرماتے ہیں :
’’ مجھے اردو غزل کی تاریخ میں صرف دو ہی ایسے نام نظر آتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے غزل سے با مقصد اور سنجیدہ طنز نگاری کا بھرپور کام لیا ہے۔ میری مراد مرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالبؔ اور شادؔ عارفی سے ہے۔ دونوں نسلاً پٹھان ہیں اور دونوں کو شاعری سے زیادہ آبا و اجداد کے پیشۂ سپہ گری پر ناز تھا۔ ‘‘
قطع کلام کرتے ہوئے اس موقع پر شادؔ کا بر موقع، بر محل اور بر جستہ معنی خیز شعر سن لیجیے :
غالبؔ کے شعر نام سے میرے سنا کے دیکھ
پھر اعتراض ناقدِ فن آزما کے دیکھ
احمد ندیم قاسمی، شادؔ کی شاعری کو جذبے کی شدت اور طنز کی تیزی کی واحد مثال قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ شادؔ مرحوم اردو غزل اور نظم میں جذبے کی شدت اور طنز کی تیزی کی واحد مثال تھے اور ایسی انفرادیت کے مالک تھے جو مدتوں کے فنی ریاض کے بعد ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ‘‘
حرف آخر کے طور پر مخمور سعیدی کی اس رائے پر اس سلسلے کو یہاں روکتا ہوں، لکھا ہے :
’’ شادؔ عارفی اردو کے ان گنتی کے چند شاعروں میں ہیں جو اچھے انفرادی خد و خال کی بدولت ہر ہجوم میں آسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں۔ ‘‘
لطف کی بات یہ کہ متذکرہ بالا ناقدین میں بیشتر کے بارے میں شادؔ و یگانہؔ نے منفی اور جارحانہ انداز میں لکھا ہے۔ پیش کردہ مثبت آرا کی عددی عدم مناسبت کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ شادؔ عارفی پر موصولہ آراء ان کے شاگرد رشید مظفر حنفی کی سعادت مندانہ کد و کاوش کا نتیجہ ہیں جبکہ یگانہ کے شاگردوں میں کسی کو یہ سعادت نصیب نہیں ہو پائی۔ دوسرے یگانہؔ نے سابقون الاولون مثلاً غالبؔ و اقبالؔ کے بعد، اپنے ہم عصر کم و بیش تمام اکابرین ارباب قلم کو اپنے مزاج کی درشتگی سے برافروختہ کر رکھا تھا لہٰذا بیشتر نے اپنی منفی آراء کے ذریعے اپنے رد عمل کا مظاہرہ کیا۔ مثلاً ماہر القادری نے لکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ’’ یہ کون سی شرافت ہے کہ اگر ہم کسی سے اختلاف رکھتے ہیں تو مادر پدر پر اتر آئیں۔ یہ تو کمینوں، لفنگوں اور بازاری لوگوں کا کام ہے۔ میرا ایقان ہے کہ جو شخص غالبؔ کو شاعر تسلیم نہیں کرتا اسے شاعری سے ذرا سا بھی لگاؤ نہیں ‘‘۔ اور عندلیب شادانی نے لکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ جب ان کے نزدیک اپنے مقابلے میں غالبؔ کی کوئی ہستی نہیں تو بیچارے حسرت موہانی، اصغرؔ، جگرؔ اور فانیؔ کس شمار میں ہیں۔ ‘‘
ضاحک کی رائے ہے کہ:
’’ جس شخص کو صحیح اردو کی تمیز نہ ہو، ادائے تخیل کی قدرت نہ ہو، الفاظ کی صحیح املا نہ جانتا ہو وہ کتاب لکھے اور اس پر یہ لاف گزاف۔ یہ تعلّی کہ غالبؔ کے منہ آئے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
(اردو شعر و ادب کی تاریخ پر جن کی نظر ہے انھیں یگانہؔ کی غالبؔ شکنی کے تعلق سے تفصیلات کا بخوبی علم ہے یہاں ان کے بیان کا محل نہیں ہے )۔ یگانہؔ کی جن معاندانہ اور جارحانہ تحریروں کا رد عمل متذکرہ بالا تحریر میں ہے ان کی تلخی، زہرناکی اور درشتگی کا اندازہ یگانہؔ کی تحریروں کے حسب ذیل اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے :
’’مجھے ڈاکٹر بجنوری جیسے دیوانے، بدحواس شرح نگار کی ضرورت نہیں، ہاں رضوی جیسا سمجھا بوجھا ہوا معتدل مزاج شرح و تنقید کا حق ادا کر سکتا ہے۔ ‘‘
’’ اس بیچارے موہانیؔ کیCommon Sense میں فتور پہلے ہی تھا مگر اب زیادہ ہو گیا ہے۔ مجھے اس الّو کے پٹھے ٹھینگا موہانی کی جوہرِ آئینہ کی اطلاع آپ کے خط سے ہوئی۔ ‘‘ (بیخودؔموہانی مراد ہیں )
’’ اپنی ضمیر پرستی کے ہاتھوں الٹا مورد الزام ہونا غالبؔ جیسے خود غرض، پیٹ کے بندے، خلعت کے بھوکے، انگریزوں کے استاد اور پنشن خوار کا کام نہیں ہے۔ ‘‘
’’ فن شعر و سخن پر محاسبہ کرنا فراقؔ کے بس کی بات نہیں۔ جوشؔ خاں کی طرح انگوٹھے کے بل کھڑے ہو کر اونچا ہونے کی کوشش کرنا مرزا یگانہ کا شیوہ نہیں۔ ‘‘
’’ فضیلۃ الشعراء میاں عزیز لکھنوی، بیوقوفوں کے گروہ میں جس بے تکی شاعری کی ہوا باندھ رہے ہیں وہ تھوڑے ہی دنوں میں نکل جائے گی۔ پچھتر وضو شکن اعتراضات میں نے میاں عزیز کے قصائد پر کیے ہیں۔ ‘‘
’’واللہ چرکین کے ہاتھوں بھی فن شاعری اتنا ذلیل نہیں ہوا تھا جتنا ترقی پسندوں کے ہاتھوں ہو ا۔ ‘‘
اور یگانہؔ کی انانیت کی اس انتہا کا تو اندازہ ہی دشوار ہے جب وہ کہتے ہیں کہ:
’’ اس دور نے میرا کوئی حریف پیدا نہیں کیا
موجودہ دور کی لاشوں سے ٹکرانا مجھے پسند نہیں ‘‘
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
خود پرستی کیجیے یا حق پرستی کیجیے
یاسؔ کس دن کے لیے ناحق پرستی کیجیے
ادب کے واسطے کتنوں کے دل دکھائے ہیں
یگانہؔ حد سے گزرنا نہ تھا مگر گزرے
خودی کے نشے میں حد سے گزرنے والے یگانہ کے اس نوع کے انانیت کی تمامتر انتہاؤں کو پار کرنے والے مزید چند اشعار ملاحظہ کیجیے :
میں کہاں اور کہاں کے پست و بلند
ایک ٹھوکر میں تھا بکھیڑا پاک
چِت بھی اپنی ہے پٹ بھی اپنی ہے
میں کہاں ہار ماننے والا
ٹھوکریں کھلوائیں کیا کیا پائے بے زنجیر نے
گردشِ تقدیر نے جولانیِ تدبیر نے
شاد عارفی نے غالبؔ و اقبالؔ جیسے بلند قامتوں کی پگڑیاں نہیں اچھالیں جب کہ اپنے ہم عصر بڑے بڑے قد آوروں پر بے خطا وار کرنے سے وہ بھی نہیں چوکے۔ لہجہ و آہنگ بھی صاف گوئی، حقیقت پسندی اور بے باکی کے با وصف تلخی، ترشی اور درشتگی کے اعتبار سے نسبتاً کم رہا۔ ان کی تحریروں سے چند مثالیں ملاحظہ کیجیے :
’’ طرفداران نیازؔ بر افروختہ نہ ہوں بلکہ ٹھنڈے دل سے یہ دیکھیں کہ میں نے غلط گرفت کی ہے یا صحیح۔ اگر وہ واقعی ٹھکانے کے اعتراض ہوں تو مجھے دعا میں یاد رکھیں اور اپنی غلطیاں درست کر لیں اور ایسے استاد سے ہوشیار رہیں جو کاروانِ ادب کو غلط روش پر لے جا رہا ہو۔ ‘‘
نیاز فتح پوری کے تعلق سے کہا ہے :
’’ اس کم بخت کو براہِ راست جو میں نے لکھا تھا اس نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ جواب دے بھی کیا سکتا تھا ( جاہل کہیں کا) بنتا ہے قابل، مجھے تو اس کی وہ وہ کمزوریاں معلوم ہیں کہ گھوم جائے گا۔ ‘‘
’’ ڈاکٹر عبد اللہ کا نام محل نظر رہا کیونکہ یہ بہت ریزہ چیں بلکہ عبادت بریلوی قسم کا ناقد ہے۔ ابھی تخلیق کراچی کے تبصرے کے ذیل میں میں نے اس کی اتنی غلطیاں گنائی ہیں کہ گھوم ہی تو جائے گا۔ ‘‘
’’مرزا ادیب مدیر ادب لطیف کو میں بہت اچھا آدمی سمجھتا تھا مگر نہایت ہی سیاسی یعنی مکّار آدمی ثابت ہوا۔ ‘‘
’’ مجروحؔ سلطانپوری فنی مرتبے میں کتنے سر بلند ہیں یہ میرے شاگردوں کے ذمّے ہے۔ ہاں بنّے بھائی اور سردار جعفری جوابی مضمون لکھتے تو برابر کی چوٹیں رہتیں۔ مجروح سلطانپوری سے میں کہاں الجھوں گا۔ ‘‘
’’ اثر لکھنوی مجھے جانتے ہیں۔ فراق بھی مجھے پہچانتا ہے۔ معمولی لوگوں کا ذکر نہیں۔ ‘‘
’’ جگرؔ کے ہاں فنی خامیوں کی بھرمار ہے اس لیے وہ بیچارہ کسی بھی مشاعرے میں مجھ سے آنکھیں چار نہیں کر سکا بلکہ میری تواضع میں لگا رہا۔ ‘‘
’’ روش صدیقی اور عدمؔ تو ٹھیک ہیں مگر نشور واحدی اور جذبی دونوں کافی غلط گو ہیں ان کے انداز کلام سے بچو۔ ‘‘
’’ جگرؔ کے یہاں لفظی و معنوی جھول بھی ملتے ہیں۔ جوشؔ کا کیا حال بنا۔ زندگی میں یہ بے چارہ تو تباہ ہو گیا۔ آج اس کے ہوا خواہ ہی اسے برا کہہ رہے ہیں۔ ‘‘
بر سبیل تذکرہ یگانہؔ اور جگرؔ کے تعلق سے میکشؔ اکبر آبادی کا بیان ہے کہ ایک مشاعرے میں عالم سرور میں جگر نے یہ کہہ کر میکشؔ کو یگانہؔ کے پاس سے ہٹا دیا کہ میکشؔ شاعر ہے، تم شاعر نہیں ہو۔
چلتے چلاتے شادؔ عارفی کے راست چوٹ والے طنزیہ لب و لہجے کے چند اشعار بھی ملاحظہ فرما لیں :
اس نے جب سو تیر چلائے
میں نے ایک غزل چپکا دی
بے کسی جب فروغ پا لے گی
ظلم کی بوٹیاں چبا لے گی
ہم سے اس قسم کی امید نہ رکھے دنیا
ہم کسی شخص کی تعریف تو کرتے ہی نہیں
یہ دوسری بات ہے کہ ہجرت نہ کر کے در در کی خاک چھانے
چنے نہ بیچے گا جوشؔ کی طرح ذوقِ شعر و سخن ہمارا
یہی ہے شادؔ میں سب سے بڑا عیب
وہی لکھتا ہے جو بھی دیکھتا ہے
پئے تحسین وطن طنز ہمارا فن ہے
ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں
یہ فن طنز میرے حق میں در حقیقت شادؔ
بہت بڑا المیہ ہے اختصار کے ساتھ
کسی خانہ بر انداز سے ڈرے بغیر جو دیکھے وہی لکھنے کا فن طنز شاد اور یگانہ دونوں کی زندگیوں ہی کا نہیں پوری دنیائے اردو شعر و ادب کا بہت بڑا المیہ ہے۔ جیسا کہ آغاز کلام میں مضمون کے عنوان کے تحت دو یا زائد لوگوں کے مابین فطری مشابہتوں، مطابقتوں اور مماثلتوں کے با وصف چند امتیازات کے بھی پائے جانے کا ذکر کر چکا ہوں شاد اور یگانہ کے ما بین بھی حالات، واقعات، نظریات اور رجحانات کے تحت طبعی اور مزاجی مناسبتوں کے ساتھ چند تضادات بھی پائے جاتے ہیں۔
۱۷؍ اکتوبر ۱۹۸۴ء کو عظیم القدر تہذیبی و ثقافتی مرکز عظیم آباد میں پیدا ہوئے سایۂ پدری سے محروم ہو کر عالم میں انتخاب مرکز ادب و ثقافت شہر لکھنؤ میں بسے، ارباب لکھنو کی مخاصمانہ سازشوں سے نبرد آزما رہتے ہوئے شہرت و ناموری کے باوجود تمام عمر در بدری اور ذلت و رسوائی جھیل کر نیز اپنی طویل المیہ داستان چھوڑ کر ۴؍ فروری ۱۹۵۶ء کو با حسرت و یاس اس عالم آب و گل کو خیر باد کہنے والے میرزا واحد حسین یاسؔ یگانہ چنگیزی اور ان کے سولہ برس بعد ۱۹۰۰ء میں ریاست لوہارو میں پیدا ہو کر عالم طفلی ہی میں اسلامی تہذیب و تمدن اور شعر و ادب کی آماجگاہ رامپور آ بسے، زندگی بھر ارباب وطن کی رقابتوں، مناقشتوں اور منافقتوں سے معرکہ آرائی کرتے ہوئے دنیا بھر کی شہرتیں سمیٹے ۸؍ فروری ۱۹۶۴ء کو راہیِ ملک عدم ہو جانے والے احمد علی خاں شاؔؔد عارفی اپنی بیشتر خصوصیات کی بنا پر باہم دگر کئی مماثلتوں اور مطابقتوں کی حامل تاریخ اردو شعر و ادب کی ان دو منفرد بے مثال اور شدید انانیت کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث یگانۂ روزگار شخصیتوں کے حالات زندگی میں کئی زاویوں سے حیرت انگیز یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ دونوں کو اپنی اعلیٰ نسبی اور نجیب الطرفینی پر بڑا غرہ تھا۔ ایک اپنے آپ کو اصیل النسل افغان اور دوسرے چنگیزی ہونے پر نازاں تھے۔ دوسرے سن وفات میں محض ۸ برسوں کے فرق سے دونوں ہم عصر رہے ہیں۔ تیسرے دونوں کا راست تعلق اردو علم و ادب کے تاریخی مراکز عظیم آباد، لکھنؤ اور رامپور سے رہا ہے۔ چوتھے دونوں کی ازدواجی زندگیاں ناکام اور ادھوری رہی ہیں۔ یگانہؔ کی بیوی کنیز حسین زندگی بھر شہر بدری کے با وصف یگانہ کی یک طرفہ محبتوں اور چاہتوں کے نتیجے میں سات بچوں کی پیدائش کے با وجود اپنے وفا شعار اور جاں نثار شوہر کو بہتر برس کی قریب المرگ عمر میں نہایت کسمپرسی کی حالت میں تن تنہا چھوڑ کر اپنے بیٹے کے پاس پاکستان جا بسیں جبکہ شاد عارفی کی ۴۰ سالہ عمر میں پری بیگم سے شادی ہوئی لیکن ڈیڑھ سالہ قلیل ترین ازدواجی زندگی گزار کر ان کی اطاعت شعار بیوی انھیں داغِ مفارقت دے گئی جسے تا دم مرگ، شادؔ نے اپنے سینے پر روشن رکھا۔
مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں دونوں کو بار بار روزگار کے ذرائع سے محروم ہو کر تلاش معاش میں در بدر ہونا پڑا۔ یگانہ کو شہر بدر ہو کر ملک کے طول و عرض میں اٹاوہ، علی گڑھ، لاہور، عثمان آباد، لاتور، یادگیر، میلو، کنوٹ وغیرہ مقامات پر مہاجرانہ زندگی کے روز و شب کاٹنے پڑے جب کہ شادؔ نے ارباب وطن کا ہر ستم چھیلا لیکن رامپور نہیں چھوڑا جب کہ حالات نے انھیں پندرہ بار گھر بدلنے پر مجبور کیا۔
’’ شاد و یگانہ کے ما بین سب سے اہم اور قابل ذکر مماثلت ان دونوں نابغۂ روزگار فنکاروں کے ساتھ حالات و معاملات بالخصوص سیاسی اور ادبی مسائل ووسائل پر مسلط ارباب اقتدار کے نا قابل برداشت تشدد و تحقیر آمیز ظالمانہ رویے اور ان کے رد عمل کے نتیجے میں دونوں کے مزاجوں میں پیدا شدہ غیر معمولی تلخی اور کھردرا پن ہے جو نادر المثال طنزیہ ادب کی تخلیق کا سبب ہو کر اردو شعر و ادب میں منفرد اور بیش بہا اضافوں کا موجب ہوا۔ بقول شادؔ عارفی:
بیکسوں پر ظلم ڈھا کر ناز فرمایا گیا
طنز کی جانب میں خود آیا نہیں لایا گیا
اور بقول یگانہؔ:
چت بھی اپنی ہے پٹ بھی اپنی ہے میں کہاں ہار ماننے والا
فرق دونوں کے مابین یہ ہے کہ شادؔ عارفی کا طنز عالمی سیاسی اور سماجی بگاڑ پر ہے جس کے لیے انھوں نے بطور علامت مقامی ارباب اقتدار کو اپنے طنز کا ہدف بنایا جب کہ یگانہؔ کے طنز کے نشانے پر ان کے ہم عصروں سے لے کر وہ تمام ارباب قلم آتے ہیں جنھیں وہ اپنی احساسِ کمتری کی بدولت اپنی انانیت کا حریف سمجھتے ہیں۔ دونوں کی تحریروں سے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے :
’’ میرا کلام میری زندگی کے عین مطابق ہے میں نے صرف حقائق سے محبت کی ہے۔ ‘‘(یگانہؔ)
’’ٹھوکر مارتا ہوں ایسی عزت کو جو غالبؔ پرستی کے صدقے میں ملی ہو‘‘ ( یگانہؔ)
’’ لکھنؤ نے میری وہ قدر کی کہ سبحان اللہ غلیظ گالیاں، ناپاک ہجویں، آبرو ریزی کی فکریں میرے لیے جائز ہی نہیں فرض سمجھ لی گئیں۔ جسے عزت کہتے ہیں کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اس عزت کو میں نے لکھنؤ میں کس طرح قربان کر ڈالا۔ ‘‘ ( یگانہؔ)
’’ بجائے اس کے کہ میرا ملک میرے ذہن کی انقلابی رفتار سے فائدہ اٹھاتا ہمیشہ مجھے نظر انداز کرتا رہا۔ ‘‘ ( یگانہ)
شادؔ عارفی نے متعدد مقامات پر غالبؔ سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار برملا کیا ہے اور اُس کے اشعار کی تضمین بھی کی ہیں۔ اپنے بارے میں شادؔ لکھتے ہیں :
’’ میں تو ایک سیدھا سادہ پٹھان شاعر ہوں لگی لپٹی مجھے قطعاً نہیں آتی اس وجہ سے منافق اکثر مجھے خلوص کا فریب دے چکے ہیں۔ ( شادؔ)
فولاد لچتا نہیں ٹوٹ جاتا ہے۔ چنانچہ میں نہ لچنا تھا نہ لچا۔ ‘‘ ( شادؔ)
’’ برہنہ اطوار کی خدمت میں برہنہ تلوار بن جاتا ہوں۔ ‘‘ ( شادؔ)
’’ میں اس لیے مطعون ہوں کہ حکومتوں کے عیب گناتا ہوں۔ ‘‘ ( شادؔ)
شادؔ و یگانہؔ کے ما بین متذکرہ مماثلتوں کے ساتھ بین السطور میں چند امتیازات بھی واضح طور پر جھلکتے ہیں جہاں تک معاشی حالات کا تعلق ہے یگانہؔ کو کئی ملازمتوں سے نکلوایا گیا۔ بقول ان کے ’’ میری روزی پر حملہ کر کے مجھے پریشانِ روزگار بنا کر کلیجہ ٹھنڈا کیا گیا۔ ‘‘ تاہم وہ کئی برس سب رجسٹرار کے عہدہ پر فائز رہے۔ علاوہ ازیں ان کے شاگردوں بالخصوص دوارکاداس شعلہؔ کے ۱۹۲۸ء تا ۱۹۵۳ء پچیس برسوں کے طویل عرصہ میں تحریر کردہ ایک سو خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اجناس اور رقومات کی شکل میں ہمیشہ یگانہؔ کی کفالت کی ہے۔
جب کہ مخالفینِ شادؔ کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ملازمتوں اور روزگار کے تمام ذرائع سے محروم کر دیے جانے کے بعد شادؔ کے پاس سوائے چند شاگردوں سے حق الاصلاح کے طور پر موصولہ معمولی سے نذرانوں یا رسائل میں اشاعت پذیر کلام کے معاوضہ کی قلیل سی رقم کے مستقل آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ لہٰذا ساری عمر کرایہ کے شکستہ چھپروں میں گزار دی۔
یگانہؔ کی معرکہ آرائی بیشتر ان کے ہم عصر اربابِ قلم سے رہنے کی بنیادی وجہ یگانہ کی تمام تر امکانی حدوں سے متجاوز انانیت تھی جسے انسانی تاریخ کے کسی بھی دور میں بنظر استحسان نہیں دیکھا گیا۔ ان کی نگاہوں میں ہر ایک وجود مشکوک اور معدوم ہو کر رہ گیا۔ حتیٰ کہ وجودِ خدائے باری تعالیٰ بھی، لہٰذا ان کی شاعری بھی ضرورت سے زیادہ داخلی ہو جانے کی وجہ سے اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ گئی معرکہ ہائے ذات تک محدود رہ جانے کی وجہ سے ان کی شاعری کے موضوعات تنوع کے باوجود داخلیت کی سرحدوں میں گھٹ کر رہ گئے چند مثالیں ملاحظہ کیجیے :
نہ خداؤں کا نہ خدا کا ڈر اسے عیب جانیے یا ہنر
وہی بات آئی زبان پر جو نظر پہ چڑھ کے کھری رہی
خضرِ منزل اپنا ہوں اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا کیا سمجھ کے ہنستی ہے
دنیا میری بلا سے خوش ہو کہ نہ ہو
میں اپنے سے خوش ہوں تو غم دنیا کیا
زمانے پر نہ سہی دل پہ اختیار تو ہے
دکھا وہ زور کہ دنیا میں یاد گار رہے
نہ خداؤں سے نہ خدا سے ڈرنا اپنے خضرِ راہ خود بننا، زمانے کی خوشی یا نا خوشی سے بے نیاز اپنے دل پر اختیار کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے آپ میں خوش رہنا خود پسندی، خود سری اور خود نمائی کی آخری حدوں کو چھوتی انانیت پسندی کے آئینہ دار یہ اشعار ’’ غالب شکن‘‘ اور ’’شہرتِ کاذبہ‘‘ کا خالق اپنی ذہنی چنگیزیت کے باوجود خود کو حسینیت کا پیرو اور اپنے مخالفین کو یزیدی فوج قرار دیتے ہیں۔ یگانہؔ نے اپنے مخالفین کے معاندانہ رویوں کے رد عمل میں یہ منفی تخلیقی روش اختیار کی یا ان کے اس مبارزت طلبانہ تخلیقی رویہ نے لوگوں کو ان کی مخالفت پر اکسایا، انڈا پہلے یا مرغی کی مصداق اس کا فیصلہ دشوار ہے۔ البتہ اس حقیقت کے اعتراف کے سوا چارہ نہیں کہ ان معرکہ آرائیوں کا نتیجہ یگانہؔ کے یگانۂ روز گار تخلیقی بہاؤ کو محض غزل اور رباعیات کی تنگنائیوں میں سمٹنے کی صورت میں نکلا کہ دیگر اصناف میں ’’ اظہار ذات‘‘، ’’ شکستِ ذات‘‘، ’’ کربِ وجود‘‘، ’’تنہائی کا المیہ‘‘ وغیرہ موضوعات کی گنجائشیں کم کم ہیں۔ لہٰذا یگانہؔ کو اعتراف کرنا پڑا کہ:
تمھاری جیت تو تب تھی دلوں میں گھر کرتے
زباں سے ہار نہ مانیں گے ہارنے والے
اپنے الحاد و مذہب بیزاری کے باوجود یگانہ زندگی بھر ترقی پسند تحریک کے مخالف رہے جب کہ شادؔ عارفی مذہبی امور میں کمیونزم سے اختلاف رکھنے کے با وصف خود کو ترقی پسند کہتے رہے اور اکثر ترقی پسندانہ نظمیں بھی تخلیق کیں۔
غالباً اسی لیے یگانہؔ کو اس جدیدیت کا پیش رو سمجھا جاتا ہے جو اپنی لا یعنیت ژولیدہ بیانی، فلسفیانہ مو شگافی اور پیچیدگی کی وجہ سے بہت جلد اپنے اختتام کو پہنچی بر خلاف اس کے شادؔ عارفی کا شمار بھی جدیدیت کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے جس جدیدیت میں فکر و نظر کی کشادگی ہے موضوعات کا تنوع ہے، انسانی زندگی کے بنیادی مسائل کی ترجمانی ہے، روز مرہ معمولات و معاملات کی صداقتیں ہیں، واقعیت پسندی ہے اور دلوں میں گھر کرنے والی تاثر پذیری ہے لہٰذا لہجہ کے اکھڑ پن، بے تکلفی، شوخی، بے ساختگی، کھردرے پن اور تلخی و ترشی نیز اپنے ہم عصروں کے علاوہ بالخصوص ارباب اقتدار و حکومت کے ساتھ معرکہ آرائی کے باوجود شادؔ کو یگانہ کی طرح تذلیل کی حد تک شدید مخالفانہ ردِّ عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ان کے ہاں موضوعات کا پھیلاؤ، رنگارنگی تنوع وسعت و کشادگی کے ساتھ سماجی مقصدیت اور داخلیت و خارجیت کا امتزاج بھی ہے جو تنگنائے غزل میں محصور نہ رہتے ہوئے موضوعات و مضامین نو بہ نو کی تلاش وجستجو میں اڑانیں بھرنے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لہٰذا ان کے تخلیقی سرمایہ میں غزلوں کے علاوہ سیکڑوں طویل و مختصر نظمیں ہیں جن میں ان کے تخلیقی مزاج کی ترجمان طنزیہ نظموں کے ساتھ ساتھ منظریہ، عشقیہ نظموں نیز منظوم خاکوں کا بھی متنوع و خطیر سرمایہ ہے۔ نظم نگاری میں شادؔ عارفی کی مشاقی کا یہ عالم رہا کہ بقول ماجد الباقری ’’ وہ ا یک ایک مصرعے میں بڑی بڑی حکایتیں نظم کر دیتے ہیں۔ مضمون آفرینی کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ڈراموں اور افسانوں کے پلاٹ کے پلاٹ مصرعوں میں سموتے چلے جاتے ہیں۔ جزئیات نگاری کی طرف آتے ہیں تو بال جیسی باریک شے کو موئے قلم سے لمبائی میں چیرتے محسوس ہوتے ہیں۔ ‘‘
طوالت کے خوف کے پیش نظر نظموں سے مثالیں پیش کرنے کی بجائے شادؔ کے مقصدیت کے حامل چند غزلیہ اشعار پیش کرنے پر اکتفا کر رہا ہوں :
صداقتوں کی تلخیوں کے ساتھ شادؔ عارفی
لطافتِ بیانِ واقعہ غزل کی جان ہے
مرہونِ بصیرت ہے تابانیِ ذرّہ بھی
ٹوٹا ہوا تارہ بھی اڑتا ہوا جگنو بھی
مگر یہاں تو جل رہا ہے آدمی سے آدمی
سُنا یہ تھا چراغ سے چراغ جلتے آئے ہیں
کہنے والوں نے کہا ظل الٰہی جن کو
ہم انھیں سایۂ دیوار نہیں کہہ سکتے
مروجہ روش کے خلاف ظلِّ الٰہی کو سایۂ دیوار نہ کہنے کا ضدّی پن شادؔ کو عمر بھر ناشاد رکھنے کا سبب ہوا۔ بقول غلام مرتضیٰ راہیؔ:
’’ اگر مصلحتِ وقت کو قبول کر لیتے تو رام پور کا نارِ نمرود ان کے لیے گلزارِ خلیل بن جاتا۔ ‘‘
ایک اور تضاد شادؔ و یگانہ کے ما بین جو ہے وہ مذہبی عقائد کا ہے۔ شادؔ نے نیاز فتح پوری کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے :
’’ میں رام پور کے بیشتر جاہل پٹھانوں کی طرح کٹّر حنفی ہوں۔ ‘‘
جب کہ ان کی بھانجی طاہرہ اختر کے بقول: ’’ لڈن ماموں ( شادؔ کی کنیت) کٹّر سنّی تھے۔ اللہ رسول کے دل سے قائل تھے۔ ‘‘اور شادؔ کا ایک شعر ہے :
میں فدائے پنجتن ہوں شادؔ لیکن میرے دوست
اس عقیدے پر اڑے ہیں پانچویں کالم میں ہوں
لہٰذا ۸؍ فروری ۱۹۶۴ء کو افلاس و تنگدستی اور کسمپرسی کے عالم میں شادؔ عارفی کا خاتمہ بالخیر ہو گیا۔ عابد رضا بیدار نے شاد عارفی ایک تاثر کے تحت لکھا ہے :
’’ کس کا انتقال ہو گیا بھائی‘‘ دس پندرہ آدمیوں کی مختصر جمعیت کے ساتھ جنازہ جاتے دیکھ کر ایک راہرو نے از راہ ترحّم پوچھا۔ ’’ شاد عارفی کا۔ ‘‘ ان میں سے ایک نے جواب دیا اور پوچھنے والا سوالیہ علامت بن گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ کون شادؔ عارفی؟‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ شاعر تھے بھئی ایک۔ ‘‘
جبکہ شدید انانیت کے زیر اثر خدا اور اس کی خدائی سے انحراف کر کے خود خدا بننے کا جنون یگانۂ روزگار یگانہؔ کے لیے لکھنؤ میں سرِ بازار تذلیل کا موجب ہوا اور شرمناک بلکہ عبرتناک واقعے کے اعادہ کی بجائے خود ان کے خط سے ان کی قابل رحم حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اقتباس پیش ہے :
’’ بھیڑیے مجھے ڈھونڈ رہے ہیں ممکن ہے وہ میرا جسم پا جائیں لیکن میری روح اس بھیڑ میں گم نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
بالآخر یگانہؔ کی بے چین روح ۴؍ فروری ۱۹۵۶ء کو بھوکے بھیڑیوں کے چنگل سے نکل کر عالم بالا کو پرواز کر گئی، جسم کو بمشکل بارہ آدمیوں نے سپرد خاک کیا۔ ہم کوئی خدائی فوجدار نہیں کہ یگانہؔ کے تعلق سے کوئی فتویٰ صادر کریں جبکہ سید مسعود حسین رضوی سے روایت ہے کہ شبِ مرگ یگانہؔ نے تین افراد کے سامنے کلمہ پڑھ کر اپنے مسلمان اور شیعہ ہونے کا اقرار کر لیا تھا۔ اللہ غفور الرحیم ہے ممکن ہے اس نے اپنی رحمت کاملہ کے صدقے یگانہ کو در گزر کر دیا ہو۔
یگانہؔ کی داستانِ عبرت کو راہیؔ معصوم رضا کے ان کے تعلق سے تحریر کردہ ایک تاثر انگیز جملے میں بیان کر کے اپنی بات ختم کر رہا ہوں :
’’ ایک دریا تھا جو خود اپنے ہی کناروں کو کاٹتا ہوا چڑھتا چلا گیا اور پھر اپنی ہی طغیانی میں گم ہو گیا۔ ‘‘
فاعتبروا یا اولی الابصار
٭٭٭
ڈاکٹر مولا بخش اسیرؔ
غزل سے طنز کا شاد عارفی نے کام لیا
دبستان رام پور نے اردو کے جہاں بہت سے لعل و جواہر پیدا کیے ہیں ان میں شاد عارفی کا نام ایک رجحان ساز غزل گو نیز نظم گو شاعر کی حیثیت سے مشہور عام و خاص ہے۔ انھوں نے نثر نگاری، تنقید نگاری میں بھی ایک انمٹ چھاپ چھوڑی ہے لیکن راقم کے نزدیک وہ ایک کامیاب غزل گو شاعر ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ غزل اشارے اور کنایے میں پوری کائنات کو سمیٹنے کی طاقت رکھتی ہے :
تائید غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں
نو لمبی لمبی نظموں سے نو شعر ہمارے کیا کم ہیں
اس مضمون میں ان کی غزلیہ شاعری کے اختصاص پر گفتگو کی جائے گی۔ شاد نے اپنی غزل گوئی کی ابتدا ان کے نقاد اور محقق پروفیسر مظفر حنفی کی رو سے ۱۹۱۷ء سے کی تھی اور یہ سلسلہ۱۹۶۴تک جاری رہا اور ان کی آخری تخلیق غزل ہی تھی۔
ان سینتالیس برسوں میں ادب میں ایک ہی رجحان یا مکتبہ فکر کا غلبہ رہا تھا جسے ہم ترقی پسندی کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کے آخری ایام میں جدیدیت کی تحریک بھی جڑ پکڑ چکی تھی جس کا براہ راست کوئی اثر ان کی شاعری پر نہیں دکھائی دیتا۔ شاد کے معاصرین میں یگانہ، حسرت، فانی، جگر اور فراق تھے۔ شاد کی آواز ان غزل گو شاعروں میں منفرد تو تھی مگر شاداسی طرح گمنامی کے گوشے میں رہے۔ اپنی زندگی میں شاد عارفی نے اپنے زمانے کی ادبی تحریک ترقی پسند ی کا راست اثر قبول نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف حسرت موہانی ہیں جن کا راست تعلق ترقی پسند تحریک سے ہونے کے باوجود ان کی غزلیہ شاعری پر اس تحریک کا اثر محسوس نہیں ہوتا۔ شاید اس کی وجہ غزل کا اپنا مخصوص استعاراتی نظام بھی ہو سکتی ہے شاد پر ترقی پسند تحریک کا بلاواسطہ اثر ضرور ہے۔ وہ اس تحریک سے تنقیدی رشتہ استوار کرتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے بیشتر مقامات پر اس تحریک کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے لیکن جس طرح ترقی پسند فن کار دولت کی غیرمساویانہ تقسیم سے نالاں نظر آتا ہے شاد عارفی کی غزلوں کا عاشق بھی اس امر کے خلاف فن کارانہ انداز میں رد عمل پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
ناجائز پیسے کی اجلی تعمیروں کے ماتھے پر
آپ نے لکھا دیکھا ہو گا یہ سب’’فضل باری ہے ‘‘
دائیں بازوں سے مت لیجے، بائیں بازو والی رائے
ان بیچاروں کے منصب کو شامل تابعداری ہے
شباب و خلوت کی بات اچھی تو ہے مگر آج کل نہ کہیے
غزل برائے حیات لکھیے غزل برائے غزل نہ کہیے
نہ جانے کیوں خادمان قوم و وطن ہوئے جا رہے ہیں دبلے
جہاں دیوالہ نکالنا ہو وہاں کوئی یونین بنا دے
شاد! کئی پس ماندہ شاعر آزادی مل جانے پر
آنکھیں مل کر پوچھ رہے ہیں ’’خواب ہے یا بیداری ہے ‘‘
اور
سنیما کی جانب چلے آئیے
پتا دیجیے ’’رنگ بتلائیے ‘‘
یہ زینہ ہے اوپر چلے جائیے
منجیر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ایسا نہ فرمائیے
ترقی پسندوں سے گھبرائیے
نظم نمائش سیریز دو
ترقی پسند مکتبۂ فکر کا اثر شاد عارفی پر بادی النظر میں ضرور محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اسے زمانے کی لہر سے متاثر ہونے کا نام دے سکتے ہیں وہ کوئی سردار جعفری یا کیفی اعظمی نہیں تھے یا جوش نہیں تھے کہ میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب کہتے پھریں۔ ان کی شاعری پر ترقی پسند آئیڈیولوجی کا گمان ان کے پس منظر سے ناواقف قاری کو اس لیے ہو سکتا ہے کیونکہ شاد عارفی کی غزل میں غالباً پہلی بار تغزل سے انحراف کا رویہ دانستاً اپنایا گیا ہے۔ یہ وہ غزل ہے جس میں بات چیت کی ساخت، محاوروں اور کہاوتوں کی چھونک بھگار اور مکالماتی لہجے کو اس طرح برتا گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم شعر نہیں بلکہ نثر کا کوئی جملہ پڑھ رہے ہیں۔ ایسا میر نے بھی کیا تھا۔ ان کے مصرعے نحوی واحد معلوم ہوتے ہیں لیکن شاد نے اس ساخت کو غالباً منتہا تک پہنچا دیا جیسے :
ہاں تو، ساقی رقص میں جب ساغر جوش تھا
آگہی کا جس کو دعویٰ تھا بے ہوش تھا
عمر بکر کی شرارتوں پر جو زید کو بزم سے اٹھا دیں
بتائیے، ان کے اس روش پر جو سر نہ پٹکیں تو مسکرا دیں
نظم نو پہ ہنسنے کو تم، ہنسی سمجھتے ہو، چین سے گزرتی ہے، میکدوں میں بستے ہو
عادتاً بہاروں میں، پھول مسکراتے ہیں، حرف مسکراتے ہیں، بحث رنگ و بو کی ہے
علم البلاغت کی اصطلاح میں ایسے موزوں کلام کو جس کو نثر کی طرح پڑھا جا سکے اسے نظم النثر کہتے ہیں انگریزی میں اس صنعت کو Epistleکا نام دیا گیا ہے۔ آپ شاد صاحب کی غزلیں پڑھیں تو احساس ہو گا کہ غزل کی وہ نرمی وہ گھلاوٹ ذرا سکڑ گئی ہے۔ اس کی جگہ نثر کا کھردرا پن اور لہجے میں حد درجہ تلخی آ گئی ہے اور اس کی وجہ غزل سے طنز کا کام لینا ہے۔ مذکورہ بالا اشعار اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ شاد ہی نہیں اس عہد میں غزل کی زبان وہ نہیں رہی تھی جو ہمیں غالب یا داغ کے یہاں نظر آتی ہے۔ یہیں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاد نے دبستان رامپور کی غزلیہ خصوصیات کی پیروی کتنی اورکس حد تک کی ہے۔ ظہیر رحمتی نے اپنی کتاب ’’غزل کی تنقید کی اصطلاحات‘‘ اظہر عنایتی اور سلیم عنایتی نے اپنی کتاب’’ دبستان رامپور‘‘ میں رام پور اسکول کے خصائص پر روشنی ڈالی ہے۔ دراصل دبستان رام پور کے شعرا کے یہاں رونے دھونے سے گریز اور نسلی برتری کا اظہار، بانکپن اور مردانہ لہجہ نیز ایک خاص طرح کی شوخی اور روزمرہ اور محاورے کا لطف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شاد عارفی کی غزل میں انھیں خصوصیات کی تخلیقی تشکیل نظر آتی ہے۔ شاد برملا کہتے ہیں :
تغافل کمال فن مزاج رام پور ہے
تو مجھ سے بے رخی میں دوستوں کا کیا قصور ہے
کہا جاتا ہے کہ داغ کے یہاں جو شوخی اور جو لہجہ نظر آتا ہے وہ بھی دراصل رامپورجیسے ادبی دبستان کی دین ہے لیکن اس کے برعکس دبستان رام پور کے خصائص کی فنی رد تشکیل کے علاوہ شاد کے یہاں حد درجہ نثریت زدگی اور حد درجہ عامیانہ لہجہ غزل میں استعمال کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے یہاں عموماً Shock effectپیدا ہوا ہے اور کبیر داس کا الٹا بانی Topsy-turvy language یعنی زبان معکوس کا استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے :
تو وہ انداز جیسے میرا گھر پڑتا ہورستے میں
پئے اظہار ہمدردی وہ جب تشریف لائے ہیں
’’امارت پر فریب‘‘قسمت کا اتنا ’’پرچار‘‘ کر چکی ہے
غریب بے چارہ آج تک وجہ بد نصیبی نہیں سمجھتا
——————
کوئی مصرف نہیں دولت کا اگر
دوسرا تاج محل بنوا دو
جیل ٹکسال سے باہر ہی صحیح
ہم کو فی الحال قفس پہنچا دو
——————
جن کے ’’اپنے ‘‘ ان کی بابت کہتے ہیں بیہودہ باتیں
ہم نے ’’ایسوں کا‘‘ ہر غصہ ان کے بدلے ’’ہم پر‘‘ دیکھا
——————
جناب شیخ سیاست کے پھیر میں پڑ کر
بتان دیر کو پروردگار کہتے ہیں
مذکورہ بالا اشعار میں طنز کی دھار کتنی تیز ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ غزل نہیں جس میں حد درجہ ایمائی لہجے میں دل کا حال زار اور محبوب سے لگاوٹ کی باتیں یا اس کے جدائی کے غم میں غزل کے عاشق کو بے طرح ہو جانے کے مضامین باندھے گئے ہوتے ہیں۔ ان غزلوں میں سماج کا اورسماج میں پھیلی گندی سیاست کا ایک نقاد چھپا بیٹھا ہے جو رہ رہ کر نشتر زنی کرتا نظر آتا ہے۔ یہاں زبان معکوسی ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے طنز کے ساتھ ساتھ ستم ظریفی کی صورتحال خلق ہو گئی ہے۔ شاد عارفی کی غزلوں میں انورٹڈ کوما میں کچھ تراکیب یا الفاظ یا کوئی ضمیر اکثر استعمال ہوا ہے یہ ان کے غزلوں کا اہم اسلوبی وصف ہے جس کی وجہ سے قاری ان لفظوں پر یا تراکیب پر غور و فکر کرتا ہے۔ غور کیجیے کہ مذکورہ بالا غزلیہ اشعار میں انھوں نے ایک جگہ’ امارت پر فریب‘ اور ’پرچار‘ کو انورٹڈ کوما میں کیوں رکھا ہے ؟یہ وہ غزل نہیں ہے جس کی تفہیم اتنی آسانی سے کی جا سکے گی۔ امارت پر فریب دراصل ما بعد سرمایہ دارانہ نظام کی موجودہ صورتحال کا کوڈ اور لفظ پرچارجسے انور ٹیڈکوما میں رکھا گیا ہے یہ دراصل میڈیا تماشاسوسائٹی کا کوڈ معلوم ہوتا ہے۔ ان دونوں نے مل کر ہمیشہ عام آدمی کو یا غریب آدمی کو اس احساس سے محروم کر دیا ہے کہ وہ غریب کیوں ہے ؟کیونکہ پرچار یعنی میڈیا اور بازار یعنی امارت پر فریب نے عام آدمی سے اس کی اپنی سوچ چھین لی ہے۔ اس طرح سے وہ زبان کا معکوسی استعمال کرتے ہیں اور اپنے طنز کو حد درجہ پر فن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر جیسی اکھڑی اکھڑی زبا ن بھی قاری کو ویسے ہی متاثر کرتی ہے جیسے پہلے سے چلی آ رہی غزل کی سبک زبان قاری کے دامن دل کو کھینچتی رہی ہے۔
دراصل شاد کا زمانہ اردو شاعری پر نثر کے غلبے کا زمانہ تھا اور اب بھی ہے۔ نظم زدہ سماج، غالب کی شکل میں اپنی انتہا پر پہنچ کر نثر زدہ سماج میں سانسیں لینے لگا تھا۔ اب شاعری میں وہ لطافت وہ نزاکت، وہ خوش آہنگی نہیں تھی جوکبھی شاعری کا طرۂ امتیاز ہوا کرتی تھی۔ زمانہ اب تجزیے یعنی سائنس کا آ گیا تھا۔ دوا وین اب دیوان فلاں اور دیوان فلاں کے نام سے چھپنا بند ہو گئے تھے۔ اب دوا وین شعری مجموعوں میں تبدیل ہو گئے تھے جس کا کچھ نہ کچھ عنوان ہوتا تھا کیونکہ غزل کے مقابلے ترقی پسند افکار کی ترجمانی کے لیے نظم پر زور دیا جانے لگا تھا اور نظم کے مقابلے نثر کا دور دورہ ہو چلا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزل نے بھی ان تقاضوں کا جامہ زیب تن کر لیا تھا یعنی غزل نثر زدہ سماج سے مطابقت پر اتر آئی تھی۔
ترقی پسند آئیڈیولوجی میں ساختیے (Structure)دو ہی ہیں۔ امیر اور غریب، مزدور اور مالک۔ معنی ایک تھا یعنی انقلاب۔ یعنی زندگی کے صرف دو ہی رنگ مگر غزل میں وہ ہیئتی نظام ہے یعنی اس سماج کا چہرہ ہے جس میں بوقلمونی، نیرنگی(Diversity)ہے۔ جس میں ہر طرح کے لوگ الگ الگ اکائی کی صورت میں اشعار میں نظر آتے ہیں جن سے ہندوستان کی مختلف نسلوں اور قوموں کی نمائندگی ہوتی ہے جن کی اپنی الگ الگ شناخت ہے یعنی غزل کے یہ اشعار اپنی نسل کے اعتبار سے مقطع، مطلع، بیت، بیت الغزل، حسن مطلع میں بٹے ہوئے تو ہیں مگر قافیے اور ردیف کے مضبوط دھاگوں سے بندھے ہوئے بھی ہیں۔ اپنی اس انفرادیت اور اجتماعیت کے تصور سے عبارت یہ غزل اپنے اندر آج تک کوئی تبدیلی لانے پر مجبور نہ ہوئی۔ سب کچھ پہلے سے طے ہے۔ غزل کے شاعر کو اپنی انفرادیت اس سے پہلے موجود غزل کے ناقابل نظر انداز ہیئتی و اسلوبیاتی نظام کے اندر ہی رہ کر قائم کرنی پڑتی ہے۔ غزل کے اس رمزسے شاد عارفی بخوبی واقف تھے۔
اس زبردست ہیئتی و لسانی جبر کی وجہ سے کہ شاعر جس سے رو گردانی نہیں کر سکتا غزل کی شاعری میں توارد، تتبع، سرقہ، مضمون کا لڑنا وغیرہ ایک عام سی بات نظر آتی ہے جو غزل گو شعرا کا مقدر رہا ہے۔ اس لیے غزل میں انفرادیت کا سوال قائم کرنا حاتم طائی کے سات سوالوں کی طرح ہے۔ دراصل غزل میں کسی شاعر کی انفرادیت کی تلاش پانی پر لاٹھی مارکر لکیر بنانے جیساعمل ہے۔ شاد عارفی جیسے شاعر غزل کے اس چمن میں بڑی دقتوں کے بعد اپنی طرح کا پودا لگانے میں کامیاب ہو سکے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے تہذیبی ورثے کے تحفظ کے لیے ہر حال میں کوشاں تھے۔ شاد کی غزل پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم پوری غزلیہ تہذیب سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ کہیں شاد عظیم آبادی تو کہیں میر، کہیں اقبال اور سب سے زیادہ غالب ہمارے اجتماعی حافظے میں چلے آتے ہیں اور وہ شاد عارفی کے متن کو دوبالا کر جاتے ہیں۔
شاد عارفی غالب ہی کی طرح ان خوش نصیب شاعروں میں سے ہیں جنھیں پروفیسر مظفر حنفی جیسا شاگرد ملا۔ پروفیسر موصوف نے ’’شاد عارفی فن اور فن کار‘‘۲۸۰صفحات پر مبنی کتاب لکھ کر شدت سے احساس دلا دیا ہے کہ شاد عارفی نے غزل، نظم، رباعیات، قطعات، نعت، منقبت، سہرے مبارکبادیاں، بچوں کے گیت، ہندی شاعری، تخلیق، تنقید ان جملہ میدانوں میں منفرد ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ رولاں بارتھ سے بہت پہلے ٹی ایس ایلیٹ نے Impersonal Theoryپیش کی تھی جس میں شخصیت کے اثر سے شاعری یعنی ادب کو آزاد قرار دیا تھا لیکن پروفیسر مظفر حنفی نے ٹی ایس ایلیٹ کے نظریے کو ایک طرح سے رد کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’شاد عارفی، فن اور فنکار‘‘ میں لکھا ہے :
ہو چکا خیر سے ہشیار تو
اپنے دشمن پر اٹھا تلوار تو
’’ والد بچپن میں تلوار کے ہاتھ سکھایا کرتے تھے۔ جسمانی طور پر حد درجہ کمزور ہونے کے باعث، یہ زود رنج نجیب الطرفین افغان سپہ گیری کا پیشہ تو نہ اختیار کر سکا لیکن عمر بھر تلوار کا کام قلم سے لیتا رہا۔ ان کی شخصیت اور فن ایلیٹ کے مشہور غیر شخصی نظریے (Impersonal Theory)کو غلط ثابت کرتے ہیں جس کے مطابق فن کار بحیثیت انسان ایک علیحدہ شخصیت رکھتا ہے اور بحیثیت فن کار ایک دوسری شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ شاد عارفی کی شخصیت اور فن میں کوئی تضاد نہیں۔ جہاں بھی انھیں اپنی یاکسی دوسرے کی حق تلفی کا احساس ہوتا تھا وہ مخالف کے لیے شمشیر برہنہ بن جاتے تھے۔ ‘‘ (شاد عارفی فن اور فن کار، ص:۴۱)
دراصل اردو میں غالب اور پھر اس کے بعد فراق اور مجاز نیز جوش ایسے شعرا ہیں جو اپنے فن میں اپنی شخصیت کو بڑی حد تک منہا نہیں ہونے دیتے۔ شاد عارفی کی سوانح ان کی شاعری میں ضرور منعکس ہوئی ہے لیکن ان کے شعر محض اسی سیاق میں قطعاً سمجھے نہیں جا سکتے۔ البتہ ان کی سوانح کا مطالعہ ان کے اشعار کی تفہیم میں بڑی حد تک مددگار ضرور نظر آتا ہے۔
مظفر حنفی اپنی اس کتاب میں شاد کے منفرد طنزیہ لہجے کو ان کی شاعری کا طرۂ امتیاز قرار دیتے ہیں اور شاد عارفی کی عشقیہ غزلوں کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ اسے ان کی پہچان نہیں بتاتے بلکہ اس کو ضمنی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے ان کے خاص وصف طنزیہ لے کی تعبیر و تشریح کے لیے قاری کا ذہن تیار کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’اس زمانے اورایسے ناموافق حالات میں ریاست رام پور، عرشی رام پوری، راز یزدانی، بدر تسلیمی اور اثر رام پوری جیسے عام اور روایت پرست شاعر ہی پیدا کر سکتی تھی۔ اس کے مطلع ادب پر طنز و سیاست کو فن قرار دے کر برطانوی ہند کی سازگار فضا کے پروردہ بڑے فن کاروں سے زیادہ جوشیلی، با ا ثر اور حقیقت پسندانہ نظمیں اور غزلیں کہنے والے شاد عارفی جیسے منفرد فن کار کا نمودار ہونا ایک معجزہ سا معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘(شاد عارفی فن اور فن کار، ص:۲۳)
قصہ مختصر یہ کہ جس قسم کے حالات اور فاقہ مستی سے ان کی زندگی گزری ہے اس میں آدمی دیوانہ یا پاگل ہو سکتا ہے۔ سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں کر اردو غزل میں شاد نے ایک نئی روایت قائم کی۔ اپنی آنکھوں سے آزادی کی جنگ، ریاست میں ہو رہے ظلم و تشدد پھر آزادی کے بعد فساد، فساد کے بعد تقسیم کیا کیا شاد کی آنکھوں نے نہیں دیکھا۔ ایسے موقع پر غالب ہی کی یاد آسکتی ہے۔ دونوں کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور مکان بدلتے رہتے تھے۔ خط باقاعدگی سے لکھتے تھے۔ یہ مماثثلتیں اپنی جگہ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ جن شدائد کا بیسویں صدی کا یہ شاعر سامنا کر رہا تھا اس کے مقابلے غالب کا دکھ بہت ہلکا معلوم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے یہاں طنز کی جگہ المیہ ابھرتا ہے اور شاد کے یہاں طنز اور المیہ ایک ساتھ ابھرتا ہے۔ میرا منشا یہاں غالب کا تقابل شاد سے کرنا نہیں ہے صرف یہ باور کرانا ہے کہ شاد اپنے معاصرین میں اپنے اسلوب اور لب و لہجہ کے اعتبار سے کیونکر منفرد ہیں :
اصطلاحاً برے کو بھلا کہہ دیا
یعنی گالی نہ دی رہنما کہہ دیا
ان کے مداح اس زمانے میں
جیسے کتے قصائی خانے میں
ایسے اشعار غالب نہیں کہہ سکتے کیونکہ غالب اپنے زمانے میں اپنے دور کے ا تھارٹی سے ٹکراؤ کا رشتہ پیدا نہیں کر سکے تھے۔ جبکہ شاد نے ٹکراؤ کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ مقتدرہ کو کھلے طور پر چیلنج کرنا ان کے مزاج کا حصہ تھا اور اس کے اظہار کو ہی وہ اپنا فن سمجھتے تھے۔ اسی لیے ان کے اشعار میں بیشتر مقامات پر جولانیِ طبع کا احساس ہوتا ہے اور ان کے اشعار حد درجہ اکہرے ہو جاتے ہیں۔ جولانی شاعر کے یہاں تب پیدا ہوتی ہے جب وہ طبیعتاً تیز ہو اوراس کے اندر احساس خودی اوراحساس حقیقت کی تیز لہریں چل رہی ہوں ایسا شاعر غلط طرز عمل کو قطعاً برداشت نہیں کرتا۔ ساتھ ہی شعراء کے یہاں اسی وجہ سے کہیں کہیں کرختگی بھی عود کرسامنے آ جاتی ہے۔ مذکورہ بالا اشعار کے علاوہ مندرجہ ذیل اشعار بھی جو شاد کی غزل گوئی میں نظر آنے والی جولانیِ طبع، کرختگی اور ہیجان کی مثال پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
اس میں میرے سکھانے کی کیا بات تھی
جس نے برتا تمھیں بے وفا کہہ دیا
اونٹ کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہوتی تو پھر
کلیہ تسلیم کر لیں آپ کی ہر بات کو
بے کسی جب فروغ پا لے گی
ظلم کی بوٹیاں چبا لے گی
حالانکہ مذکورہ بالا اشعار کی ایک خوبی برجستگی بھی ہے۔ بہر کیف شاد عارفی کی غزلوں میں جولانی کی وجہ سے جو ترقی پسندشعراکے یہاں زیادہ تر نظر آتی ہے سے ان کے فن کو نقصان پہنچا ہے۔ جولانی کی وجہ سے ہی انھوں نے اپنی غزلوں میں جس لہجے کو مرکزی حیثیت دی وہ ان کا طنزیہ لہجہ ہے۔ واضح رہے کہ شاعری میں دور تک طنز کو اپنا شیوہ بنائے رکھنا بھی اپنی شاعری کے فن کو معرض خطر میں ڈالنے کے برابر ہے۔ یہ جوکھم بڑی حد تک شاد عارفی نے مول لیا ہے اور انھوں نے اس صورت میں بھی شاعری میں اپنا رنگ فکر اور فن کے اعتبار سے برقرار رکھا ہے اور یہ بڑی بات ہے۔ ان کی غزلوں میں جلی کٹی سنانے والا ایک بر افروختہ نوجوان تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ غزل کا ایک روایتی عاشق بھی طنز کی برسات کے درمیان سے اپنا چہرہ رہ رہ کر ابھارتا ہے۔ اسی لیے آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ
’’جو لوگ شاعری اور بول چال کی زبان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھتے ہیں، انھیں شاد کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ شاد نے بول چال کی زبان کی طاقت اور شعریت کوجس طرح اجاگر کیا اور جس طرح بقول ایذرا پاؤنڈ ’’حقیقی نفسیات‘‘کوزبان دی ہے، اسے جدید اردو شاعری ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ‘‘(میرا صفحہ، ہماری زبان علی گڑھ، ۸؍اپریل، ۱۹۶۸، ص:۱۱)
طنز ان کی غزل گوئی میں اسی طرح ناگزیر نظر آتا ہے کہ شاد کی عشقیہ غزلوں میں بھی طنز کی زیریں لہریں محسوس کی جا سکتی ہیں :
شاد ہم شعر کی دنیا میں بقول غالب
عشق کی وجہ سے جیتے بھی ہیں مرتے ہی نہیں
وہ بزم شعر و سخن میں خاموش رہ کے میری غزل کا مطلب
اگر سمجھ لیں تو مسکرا دیں اگر نہ سمجھیں تو سر ہلا دیں
گویا یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے بنیادی اسلوبیاتی Marker طنزکوکسی موقع پر بھی نہیں بھولتے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی غزلوں میں غزل کا وہی کلاسیکی رچاؤ اور وہی غزل کا عاشق ان سے دامن بچا کر سامنے آ جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے اشعار میں ادا بندی، خمریات، برجستگی اور خیال بندی کے عمدہ نمونے سامنے آ جاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ا ن کی غزلوں میں کلاسیکی انداز کی صنعتیں مثلاً چمن بندی وغیرہ بھی ان کی شاعری میں نیرنگ نظر پیدا کر دیتی ہے۔ اس نوع کے کچھ اشعار پر نگاہ ڈالتے چلیں :
(۱) چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی
شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی
(۲) انگلیاں اس کی میرے ہاتھ میں ہیں جام کے ساتھ
ہاتھ کھینچے نہ بنے جام گرائے نہ بنے
(۳) نیند آنکھوں میں مگر آتی گئی اڑتی گئی
جوش نکہت پر پیام زلف یار آتا گیا
(۴) نہ یہ دیر ہے نہ یہ میکدہ، نہ یہ خانقاہ نہ مدرسہ
تیری انجمن میں جو آ گیا تیری انجمن سے کہاں اٹھا
(۵) دیکھتا ہوں پھول کو کھویا ہوا شبنم میں ہوں
کوئی کیا جانے کہ کس حالت میں کس عالم میں ہوں
(۶) شکوۂ حال پریشاں پہ کہا
اس کا مطلب ہے کہ زلفیں نہ بناؤں
(۷) جیسے مصرعۂ موزوں ’’تکملہ کی بانہوں میں ‘‘
وہ میرے برابر سے اس طرح گزرتا ہے
(۸) چھپائیں ہیں جس نے میری آنکھیں میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستاً لطف اندوز ہو رہا ہوں
مذکورہ بالا اشعار غزل کی خالص عشقیہ شاعری کی تخلیقی مثالیں ہیں۔ ایسی مثالیں آپ ان کے متن سے اور بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ پہلے دوسرے اورتیسرے شعر میں غزل کا ایمائی لہجہ اور عشقیہ رنگ آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ یہاں آپ کی توجہ مذکورہ بالا اشعار کے چوتھے شعر پر مبذول کرنا چاہتا ہوں جہاں محبوب کے مقام کے تعین پر نفی در نفی کی صورتحال کا پردہ ڈال کر دراصل مجاز اور حقیقت کی آنکھ مچولی کا منظر نامہ خلق کیا گیا ہے۔ اگر یہاں محبوب حقیقی ہے تو اس کی محفل سے اٹھنے والے کہاں جاتے ہیں کوئی خبر نہیں اور اگر مجازی محبوب کی طرف اشارہ ہے تو یہ محبوب کی محفل کا خوبصورت قصیدہ ہے کہ جو اس کے پاس آ گیا وہ وہاں سے بھلا کیا مجال کہ اٹھ سکے۔ پانچویں شعر میں خموشی کو مضمون کیا گیا ہے۔ پھول کو دیکھنا اور شبنم میں کھونا سے کیا مراد ہے ؟اور یہ کیفیت ناظر پر یا عامل پر کب طاری ہوتی ہے، شاید یہ عشق کی محویت یا دھیان کی کیفیت ہے۔ چھٹے شعر میں غزل کا بہت پرانا مضمون نئے انداز سے باندھا گیا ہے۔ گویا کہ عاشق جیسے ہی اپنے غم اور پریشانی محبوب کے سامنے رکھتا ہے محبوب سوبہانے سے اسے ٹال دیتا ہے۔ شاد نے اس کے لیے خوبصورت استعارے کا استعمال کیا ہے اور وہ کچھ اس طرح کے محبوب عاشق کی پریشانی کوسن کر بول اٹھتا ہے کہ کہیے تو آج سے میں اپنی زلفیں نہ بناؤں۔ قرینہ یہ پیدا کیا گیا ہے کہ عشق میں ملنے والی الجھنیں اور پریشانیاں کبھی ختم نہیں ہوسکتیں اور دوسرا قرینہ یہ ہے کہ زندگی اور پریشانی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ساتویں شعر میں لفظ ’تکملہ‘ کا استعمال کیسا استعارہ خلق کرتا ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔ یعنی تکملہ کے معنی ہیں جو اصل مضمون کو مکمل کر دے۔ گویا عاشق اور معشوق کو دو مصرعوں کی طرح تصور کیا گیا ہے اور اپنی تنہائی کا یا اپنے تنہا ہونے کے احساس کو زبان دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ تنہا عاشق کے سامنے سے محبوب کا گزرنا مصرعۂ ثانی کے مثل قرار دے کر اس المیے کا اظہار کیا گیا ہے کہ کیونکر محبوب نے اس سے بے اعتنائی برتنے کا رویہ اپنا رکھا ہے اور آخری شعر میں ایک عمومی تجربے کو انتہائی حسین پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تقریباً ان کی ۲۶۰غزلوں کے مطالعے کے بعد میرے ذہن میں چپک جانے والے بیشتر اشعار مظفر حنفی نے بھی اکثر مقامات پر ان کے فکر اور فن سے گفتگو کرتے وقت کوٹ کیا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ شاد عارفی کے شاگرد اور ان کے نقاد مظفر حنفی بھی ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت طنز کو ہی مانتے ہیں۔ مظفر حنفی لکھتے ہیں :
’’میرا خیال ہے کہ ہجو(Satire)سے ظرافت(Humour)کو نکالنے کے بعد اس میں رمز و تعریض (Irony) کے اضافے کے ساتھ جب سچا فن کار اپنے ذاتی جذبے کو آفاقی حیثیت عطا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو خالص طنزیہ ادب پارے وجود میں آتے ہیں۔ ‘‘ ص:۹۱
’مزید برآں شاد غزل میں صرف خود ہی مقصدیت اور طنز نگاری کی طرف متوجہ نہیں ہوئے بلکہ روایتی شعرا کو بھی بار بار اپنے مخصوص لہجے میں ٹوکتے ہیں کہ وہ اپنے ماحول کا جائزہ لے کر غزل سے تعمیر کا کام لیں۔ وہ غزل میں انقلابی تبدیلیوں کے خواہاں تھے اور اس صنف میں نئے موضوعات و اسالیب رائج کرنا چاہتے تھے۔ ‘‘ ص:۱۰۲
’’بعض مقامات پر انھیں فنی اجتہادات سے بھی کام لینا پڑا۔ لفظی پینترے، تراکیبی داؤ پیچ، محاوروں کی کاٹ چھانٹ اور پیوند کاری، مقامی رنگ کی آمیزش، افسانوی انداز، مکالماتی اسلوب، آواز کا اتار چڑھاؤ، رمزیت، طرفہ کاری، نرالی ترکیبوں کی اختراع، جھکڑ پن سے بچ کر گزرتی ہوئی عمومیت قدما کے مشہور اشعار میں تصرف و اضافہ نثر کے نزدیک پہنچتا ہوا سہل ممتنع مختلف مقامات پر ان رنگوں کی مختلف مقدار میں آمیزش کے استعمال سے شاد عارفی نے اپنی راہ بالکل الگ نکالی۔ ‘‘ ص:۱۱۸
شاد کی غزلوں کے تجزیے کے بعد مذکورہ بالا خصوصیات سے قطع نظر مزید مندرجہ ذیل خصوصیات ابھر کر سامنے آتی ہیں جو شاد کو اپنے ہم عصروں سے واضح طور پر غزل گوئی کے میدان میں منفرد بنا دیتی ہیں۔ شاد کی لے اور ان کے لہجے کو مظفر حنفی نے جس طرح سے دریافت کیا ہے وہ خاصے کی چیز ہے۔ ان خصوصیات سے قطع نظر وہ حربے یا فنی اور اسلوبی طریق کار جو شاد نے اپنی غزل کے لیے منتخب کیے ہیں وہ کچھ اسی طرح ہیں :
(۱) اگر اپنے جاننے والے پر خود ذراسا آپ سے خفا ہو کر کسی محفل میں اسے دیکھ کر مسکرا دیجیے۔ مسکرانے میں جو استعاراتی طنز کی زہر ناکی ہو گی وہ بیان سے باہر ہو گی۔ شاد نے انسانی زندگی کی بنیادی جبلت کی تین ساختیوں اور اس کے مراتب مثلاً ہنسی، مسکراہٹ اور قہقہہ، تبسم، مذاق، گدگداہٹ وغیرہ جیسے الفاظ کا مختلف سیاق و سباق میں استعمال کر کے اپنے اشعار میں طنز کی وہ سحر یا کاٹ پیدا کی ہے جس کی نظیر صرف میر کے یہاں دکھائی دیتی ہے۔ شاد کی غزل میں لفظ مسکرانے اور ہنسنے وغیرہ کے استعمال سے ان کی غزلیہ شاعری تعریضی اور طنزیہ لہجے اور مزاج کی شاعری کی بلیغ مثال بن گئی ہے۔ غزل سے موسوم کرنا چاہوں گا۔ کلیات شاد میں ایسے سینکڑوں اشعار ہیں جس میں ہنسنا، مسکرانا، قہقہہ وغیرہ کا مختلف سیاق و سباق میں استعمال کیا گیا ہے مثالیں آگے آئیں گی۔
(۲) بیانیہ انداز غزل میں عموماً استعمال کر کے شاد عارفی فکشن کا سا تاثر غزل گوئی کے ذریعے پیدا کر دیتے ہیں۔
(۳) غزل کے پرانے کرداروں کو نئے سیاق و سباق میں پیش کرنا مثلاً شیخ، نامہ بر، اور بعض علائم اور کرداروں سے گریز مثلاً رقیب وغیرہ۔ شیخ اردو غزل کا انتہائی پامال کردار ہے جس کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہوئے موجودہ دور کے مسلم معاشرے کے تضادات کو ابھارا گیا ہے :
جناب شیخ شہر بھی اچھل پڑے یہ دیکھ کر
کہ میرے گھر کے پاس ہی شراب کی دکان ہے
جناب شیخ سیاست کے پھیر میں پڑ کر
بتان دیر کو پروردگار کہتے ہیں
(۴) بین المتنیت( Intertextualism)متن سے متن بنانے کا اور پرانے متن کے معنی کے دوسرے پن کو اجالنے کا کام شاد عارفی نے اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ کیا ہے۔ ان کی بہت سی غزلیں غالب کی زمین میں ہیں اور اکثر مقام پر انھوں نے غالب کے مصرعوں کی تضمین کے ذریعے نئے مضامین پیدا کیے ہیں اور انھوں نے اس عمل میں اپنے اسلوب اور لہجے کی انفرادیت کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ غالب کے یہاں خطوط نگاری سے متعلق تجربات اور اس حوالے سے نامہ بر، نامہ نگار یعنی عاشق، معشوق اور رقیب کے کرداروں کی نفسیات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ شاد عارفی نے غالب کے اس متن کو اپنی طرح سے نئے معنی عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔ نامہ بر کے کرداروں کو ان اشعار میں دیکھیں :
بات کچھ خطرے کی ہو گی نامہ بر
بارہا خط دے کے نامہ بر سے واپس لے لیا
ورنہ وہ اور یہ جواب مختصر
اور یہ سب جانتے ہیں جس نظر سے لے لیا
آنکھوں آنکھوں میں جو مضمون ادا ہوتے ہیں
گھٹ کے رہ جائیں گے اگر نامہ و پیغام میں ہو
ان اشعار کو پڑھ کر غالب کے وہ اشعار یاد آ جاتے ہیں جن میں خطوط نگاری سے متعلق تجربات بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ برتو اور پاسخ مکتوب؟والے شعر پرشاد کا یہ شعر کہ ’بات کچھ خطرے کی ہو گی نامہ بر‘ اس مضمون کی توسیع کی مثال ہے۔ غالب کی شاعری کا یہ کردار نامہ بر بڑا ہی ہوشیار معلوم پڑتا ہے۔ بلکہ وہ نامہ بری کا کام انجام دیتے دیتے بذات خود عاشق بن جاتا ہے۔ شاد کا نامہ بر غالب کے نامہ بر سے بھی دو ہاتھ آگے جاتا معلوم ہوتا ہے۔
شاد پرانی اصطلاح میں تحریف اور نئی اصطلاح میں بین المتنیت سے بھی خوب کام لیتے ہیں اس کی کچھ مثالیں دیکھیں :
ذکر اس پری کاوش کا اور پھر بیاں اپنا
ورنہ کوئی واقف تھا ان پری جمالوں سے
تضمین کی مذکورہ بالا صورت میں غالب کا شعر بالکل اپنے معنی سے دست بردار ہو جاتا ہے۔ بین المتنیت کا مطلب ہے ماقبل متن یا شعر کو اس کے مخصوص معنی سے آزاد کرنا اور معنی افشانی کی نئی راہیں دریافت کرنا۔ اگرایسا نہ ہو تو تحریف یا تضمین بین المتنیت نہیں تتبع، توارد یا سرقہ ہے۔ شاد کے اس شعر میں معنی کی نئی دنیا آباد ہو ئی ہے۔ غالب کے شعر میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ’’رقیب‘‘ عاشق کا دشمن شاید نہ بنتا اگر عاشق اپنے محبوب کے حسن کا بیان بڑھ چڑھ کر نہیں کرتا۔ شاد ’’رقیب‘‘ کے کردار کو بے دخل کرتے ہیں اور اپنے اس شعر میں بین المتونی انداز کے اظہار کے ذریعے یہ معنی قائم کرتے ہیں کہ محبوب کا خوبصورت ہونا ناظر کا انداز نظر ہی تو ہے کیونکہ حسن ناظر کی آنکھ میں ہوتا ہے نہ کہ شئے میں۔ اگر ناظر یعنی محبوب اس کی تعریف اس کا ذکر نہ کرے تو کسے پتہ چلے گا کہ کوئی اس دنیا میں اتنا خوبصورت بھی ہے یا حسین بھی ہے۔ اسی طرح میر کے مضمون کو متن کی توسیع کے طور پر شاد سامنے لاتے ہیں :
بربادیوں کو ہم نے گلے سے لگا لیا
ان کی خوشی کو اپنے موافق بنا لیا
غالب کے اشعار کو ذہن میں رکھ کر دیکھیے اس کی رد تشکیل شاد کیونکر کرتے نظر آتے ہیں :
گریۂ جدائی کو سہل جاننے والوں
دل سے آنکھ کی جانب خون دوڑتا پایا
تعریف کے لہجے میں تذلیل کا پہلو ہے
جو آپ نے برتا ہے وہ ’’آپ‘‘ نہیں ’’تو‘‘ ہے
پہلے شعر کو پڑھ کر میر کا مشہور شعر ’تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا‘ یاد آ جاتا ہے۔ دوسرے شعر کو پڑھتے ہی غالب کی مشہور غزل کا یاد آ جانا فطری ہے۔ ’کہتے ہیں کہ دل نہ دیں گے دل اگر پڑا پایا‘ اور پھر ’جو آنکھ سے ہی نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے ‘کی یاد شاد کے دوسرے مصرعے کو پڑھ کر آتی ہے۔ دل سے آنکھ کی جانب خون دوڑتا پایا‘۔ آخری شعر کی قرات کے دوران ’ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے ‘تمھیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے ‘کی یاد آ جاتی ہے۔ شاد عارفی اپنے پڑھنے والوں کو ہمیشہ پوری غزلیہ روایت کی یاد دلاتے رہتے ہیں اور بین المتنیت کے ذریعے زمانے کے بدلنے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
(۶) شاد عارفی شعر میں رموز اوقاف، سوالیہ نشان، کوما، قوسین اور انورٹڈ کوما وغیرہ کی پابندی سختی سے کی ہے۔ جبکہ اس طرح کی پابندی کو اچھا نہیں سمجھا گیا ہے۔ لیکن انھوں نے معنی افشانی انھیں کے ذریعے کی ہے۔ پچھلے صفحے پر انورٹیڈ کوما کی گفتگو آپ نے اس سلسلے میں ملاحظہ فرمائی ہے۔
(۷) گو کہ ہر شاعر اچھوتے مضامین اپنی غزل میں باندھتا ہے مگر شاد کے یہاں مروجہ اسالیب غزل اور تہذیب غزل میں کچھ تبدیلی کی خواہشیں موجیں مارتی ہوئی نظر آتی ہیں، اس کی وجہ سے ان کے یہاں اچھوتے خیال اور اچھوتے مضامین کی تعداد عام شاعروں کی بہ نسبت زیادہ ہے یہ وہ وصف ہے جس سے ان کی پہچان بنتی ہے۔
(۸) محاورہ، روزمرہ، مثل اور کہاوت کا وافر تعداد میں استعمال شاد کی غزلیہ شاعری کو بول چال کے قریب لاتا ہے۔ داغ دہلوی کی شاعری کا بھی بنیادی اسلوب محاوراتی اسلوب ہی ہے مگر داغ نے محاوروں سے حسن و عشق کی رنگینیوں کے بیان کا کام لیا ہے نیز نوک جھونک کے لیے بھی انھیں استعمال کیا ہے مگر شاد نے اس سے جو کام لیا ہے اسے سودا کی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ صبا نے تیغ کا آب رواں سے کام لیا۔ شاد محاوروں اور کہاوتوں کے استعمال سے ایک ایسے سماج کی تشکیل کرتے ہیں جس میں طنز ایک ضرورت بن کر ابھرتا ہے اور اس طنز میں آفاقیت محاوروں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کہاوتوں اور محاوروں میں بذات خود کسی نہ کسی سماجی تجربے، انسانی کمزوری یا کوئی اور آئیڈیولوجی نیز طنز کھدی ہوئی ہوتی ہے۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ اللہ مہربان تو گدھا پہلوان۔ ان جیسے سینکڑوں کہاوتوں اور محاوروں میں طنز کی ساختیں ہمارے سماجی نظام میں پہلے سے موجود ہیں۔ شاد اپنے متن میں جان انھیں کے استعمال کی طرف جھکاؤ پیدا کر کے ڈال دیتے ہیں۔
(۹) شاد غزل میں عوامی زبان ( Common Language)کے استعمال میں نظیر اکبرآبادی سے جا ملتے ہیں۔ مثلاً ان کے یہ الفاظ مصرعے اور اشعار دیکھیں :
؎ موافقان خزاں کو لگائیے سینے
؎ مخالفان خزاں سے اگر مگر کیجیے
؎ عوام جس کو سمجھتے ہیں بہترینوں میں
؎ لوگ جھوٹا لپٹی نہ کہنے لگیں
؎ غریبی جن کے لتے لے گئی
؎ بقول شاد رسم طوطمیت
اچھوتے مضامین سے متعلق کچھ شعر دیکھیں :
کانٹے چنے جو ہم نے سر راہ کوئے دوست
جھگڑا یہ ہے کہ ’’دکھاؤ ہمیں ‘‘کیا اٹھا لیا
سکوت بھی قیام بھی لحاظ بھی صبح و شام بھی
اصول جستجو نہیں کہ چل پڑے تو چل پڑے
شرط اول ہے مسلمان کا انساں ہونا
وہ مسلمان کے دشمن ہیں کہ انسانوں کے
خار و گل پہ گلشن میں غور کیجیے یعنی
ایک سر بسر باغی ایک جی حضوری ہے
پہلے شعر پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ آدمی بنا فائدے کا کوئی کام نہیں کرتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی حساس کردار راستے میں پڑے کانٹوں کو چننے کے لیے جھکتا ہے تو ایک المناک صورتحال سے دو چار ہوتا ہے۔ لوگ اس سے سوال کرنے لگ جاتے ہیں کہ بتاؤسنو بتاؤ ابھی تم نے کیا اٹھایا، اس شعر کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس شعر میں انور ٹیڈ کوما میں ’’دکھاؤ ہمیں ‘‘کو رکھنے کا کیا جواز ہے۔ دراصل شاد غزل سے فکشن کا کام، ڈرامے کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اس شعر میں ڈرامے کا ایک مکمل سین خلق کیا گیا ہے۔ پردے پر ایک آدمی کا آنا اور کانٹا چننے کے عمل کو دکھانا۔ تبھی کچھ لوگ اس سے اسی بات پر لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں کہ آیا اسے کہیں پیسہ یا سونے کی انگوٹھی یا کوئی قیمتی شئے تو نہیں مل گئی؟ انھیں کیوں نہ ملی؟ وہ لگ بھگ اس سے وہ نا معلوم شئے شاید چھین لینا چاہتے ہیں۔ اس شعر میں انورٹیڈ کوما میں ایک مکالمہ بند ہے جو خالص بول چال کی سطح پر ابھرتا ہے۔ آخری شعر کے کنایہ پر قربان جائیے خار، باغی کا استعارہ ہے اور گل جی حضوری کا۔ پہلی نظر میں معلوم نہیں ہوتا کہ گل بھلا محبوب کا استعارہ نہ ہو کر جی حضوری کا استعارہ کیونکر ہو گا۔ دراصل گلوں کی ٹہنیوں کا ہوا سے کبھی ادھر کبھی ادھر جھولنا اس رعایت سے گل کو جی حضوری کا استعارہ بنانے کے لیے کنایہ کا ایک قرینہ پیدا کیا گیا ہے۔
شاد عارفی کی شاعری میں طنز کو اسلوب کے بجائے ایک صنف کی شکل عطا کرنے کی سعی نظر آتی ہے۔ مثلاً طنز کیا ہے ؟سے متعلق انھوں نے کئی مقامات پر اشعار کہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
طنز کب تک اس کافر پر
جونک نہیں لگتی پتھر پر
شاد سب پہ یکساں ہے عدل خالق و قادر
مجھ میں طنز کی طاقت ان کے پاس پیسہ ہے
طنز ہے رنج و مصیبت میں مگن رہنا بھی
ہر مصیبت میں مگن ہوں یہ خطا کافی ہے
طنز کی جانب میں خود آیا نہیں لایا گیا
’’پئے تحسین وطن طنز ہمارا فن ہے ‘‘
ان اشعار میں طنز کو اسلوب کے بجائے فن یعنی صنف قرار دینے کی فکر مندی نظر آتی ہے۔ آئیے اب کچھ خالص طنزیہ اشعار کی فکری و فنی جہتوں پر غور کریں :
زاہد کی مے کشی کا سلیقہ نہ پوچھیے
جیسے کوئی نماز پڑھے اور وضو نہ آئے
التماس حال پر ہلکی ہنسی کے باوجود
ماننا پڑتا ہے بے شک آپ کو صدمہ ہوا
جن کا ہر قہقہہ حماقت ہے
لوگ ان مسخروں سے ڈرتے ہیں
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ہمیں آگے بڑھا کر خود ہماری آڑ لیتے ہیں
یہیں سے ہم بڑے لوگوں کی نیت تاڑ لیتے ہیں
مذکورہ بالا اشعار کے پہلے تین یا چار شعر میں طنز کی نفسیات کو مضمون کیا گیا ہے اوراسے باضابطہ سماج میں آئی خرابیوں کی اصلاح کا ایک حربہ یا Defence Mechanismقرار دیا گیا ہے۔ ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ سماج کی کچھ برائیاں ایسی ہوتی ہیں جن پر طنز کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جیسے جونک پتھر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ گویا شاد نے یہ باور کرایا ہے کہ طنز حساس معاشرے یا افراد کے لیے ہی کارگر اظہار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ شاد نے فرد اورسماج کے تضادات کو ابھارنے کے لیے طنز تو کیا ہی ہے ساتھ ہی ان کی پوری شاعری میں وطن کی سالمیت کی فکر کے ساتھ ساتھ آزادی کے بعد وطن کو ترقی کی جس راہ پر گامزن ہونا چاہیے تھا عام آدمی کے دکھوں اور مصیبتوں کا جس طرح ازالہ ہونا چاہیے تھا۔ اس نوع کی گہری فکر مندی کو مضمون کرنے کا ایک سلسلہ ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں شعری کردار نالاں نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک Nationalist انسان کا چہرہ بڑی مضبوطی سے ابھرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں لفظ ’وطن‘ کا استعمال وافر مقدار میں ہوا ہے۔ گویا کہ ان کی غزلیہ شاعری میں قومی ادب اور قومی کلچر کا اظہار بہت فنکارانہ انداز میں ہوا ہے۔ دراصل شاد عارفی کی غزلیہ شاعری کا یہ کردار اپنے وطن کو نو آبادیاتی ذہنیت سے باہر نکالنا چاہتا ہے اور وطن میں موجود آمرانہ قوتیں جو نو آبادیاتی ذہنیت سے اب تک آزاد نہیں ہو پائیں ہیں ان پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور آزادی کے بعد مغرب کی بالادستی کو اپنے آزاد ملک میں ذہنی غلامی کے پس منظر میں دیکھتا ہے۔ یعنی وہ اس بات کے لیے فکرمند نظر آتا ہے کہ قوم کی غلامی ختم ہو جانے کے بعد کا سفرکیا ہے ؟اس سلسلے میں جو صورت حال اس کے پیش نظر ہے اس پرشاد عارفی شدید طنز کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں اس مضمون پر مبنی طنزیہ اشعار وافر مقدار میں نظر آتے ہیں۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ ایسالگتا ہے کہ شاد تقسیم وطن سے دل برداشتہ تھے۔ لکھتے ہیں :
تمھاری فرزانگی سے کچھ کم نہیں ہے دیوانہ پن ہمارا
تمھیں مبارک تمھاری ہجرت ہمیں مبارک وطن ہمارا
شاد حب وطن کو اپنا ایمان ضرورسمجھتے ہیں لیکن انھیں یہ بھی احساس ہے کہ ہمارا ملک کہاں جارہا ہے ؟
بہ اعتبار لباس یہ شیخ وقت ہے اور وہ برہمن
بہ اعتبار مزاج وطنیت اسے اٹھا دیں اسے بٹھا دیں
اے شاد مجھ کو حب وطن کے لحاظ سے
کہنا یہی پڑے گا ’’اچھی گزر گئی!‘‘
وطن دشمن بھی ہم ہیں، دشمنوں کے دوست بھی ہم ہیں
گریباں میں بھی جھانکیں جھانکنے والے گریباں سے
جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے آج
کیا اسی کو کہیں گے جنتا راج
جن ذلیل شرطوں پر جن ضعیف ہاتھوں میں دی ہوئی یہ آزادی مغربی گرد کی ہے
پوچھ سب ہے چیلوں پر، ہاتھ ہیں نکیلوں پر، رہنما کا مقصد ہی طائف الملوکی ہے
دھنگنا دے کر چھوڑ دیا ہے
یوں بھی ملتی ہے آزادی
اک اجنبی کی طرح اپنی زندگی گزار کر
جہاں میں رہ رہا ہوں وہ میرا وطن ضرور ہے
خدمت قوم و وطن میں اے شاد
مرنے والے ہی امر ہوتے ہیں
جس باغباں کے ساتھ لڑے تھے خزاں سے ہم
ایسا بدل گیا کہ ہمیں جانتا نہیں
یہ زر پرست وطن پر فدا ہوئے ہیں نہ ہوں
مگر غریب کے ہو جائیں گے نثار ابھی
ان جملہ اشعار میں ملک کی سیاسی صورتحال پر طنزیہ تنقید کی گئی ہے اور جس آزادی کی خاطر لاکھوں لوگوں نے شہادت دی تھی اس پر شدید طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ہماری آزادی ان مویشیوں کی طرح ہے جن کے پچھلے پیروں میں رسی باندھ دی گئی ہو۔ ’’دھنگنا دے کر چھوڑ دیا ہے ‘‘۔ شاد نے یہاں نو آبادیاتی ذہنیت کو از سر نو آزاد ہندوستان میں موجود ہونے کی خبر طنزیہ اسلوب میں دی ہے۔ جہاں وطن کے ہر افراد کے لیے وطن کی پہچان یہ ہو گئی ہے کہ وہ اپنے وطن میں اجنبی بن جائیں اب اخیر میں وطن کے رہنماؤں پر یہ متغزلانہ طنز بھی ملاحظہ فرمائیں :
راہنما کی الجھی باتیں جیسے پگڈنڈی کی زلفیں
ماتھے کی شکنیں کچھ ایسی جیسے رستہ بھول گیا ہو
شاد نے فرد، سماج، تہذیب اور اپنے وطن کی سا لمیت کے لیے فن طنز نگاری کا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنی غزل گوئی میں انفرادیت کی واضح لکیر کھینچ دی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں کہ طنز کی راہ کیوں چنی جاتی ہے ؟:
بو دیے ہیں سماج نے کانٹے
راہ الفت میں خار زار کہاں ؟
ہنس کر گزار نا ہے یہ عہد جہاد غم
وہ دن گئے کہ رو کے مقدر بنا لیا
پہلے شعر میں اس معنی کو رد کیا گیا ہے کہ محبت کی راہوں میں کانٹے نہیں ہوتے۔ لہٰذا اس شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ اب یہ کام سماج نے اس خوبی سے کر دیا ہے کہ محبت کی راہوں میں اب کانٹے ہی کانٹے نظر آتے ہیں یا یہ بھی کہ اب محبت میں ہی کانٹے کا کیا ذکر خو دسماج ہی کانٹوں کی کھیتی کر نے لگا ہے۔ ظاہر ہے محبت تو اس سماج کا ایک عمل ہے۔ دوسرے شعر میں جس المیے پر طنز کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان خوش ہو تو ہنستا ہی ہے لیکن اسے کبھی کبھی غم کی حالت میں بھی سماج اور رسم دنیا کی خاطر زبردستی ہونٹ پھیلا کر ہنسنے کی اداکاری کرنی پڑتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک بچپن تھا کہ جہاں رونا ہی مقدر سنوارتا تھا۔ رو دیا تو کھلونا آیا۔ رو دیا تو بسکٹ ملی۔ رو دیا تو میلے گئے۔ دوسرے شعر میں ’’ہنس کر ‘‘فعلی مرکب یا فعلی فقرہ اس المناک طنز کو کس طرح ابھارتا ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔ کہا یہ گیا ہے کہ بچپن میں رونا کچھ پا لینے کا ذریعہ تھا لیکن زندگی تو عہد جہاد غم کا نام ہے اس لیے رونا یہاں غم کو دو آتشہ کرنے کے برابر ہو گا۔ اس لیے ہر صورت میں ہنسنا ہی اس کا علاج ہے چاہے ہنسنے کی اداکاری ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس تجزیے کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شاد کا طنز بہت تہہ دار اور معنی خیز ہے۔ تبھی تو وہ کہتے ہیں :
یہ فن طنز مرے حق میں در حقیقت شاد
بہت بڑا المیہ ہے اختصار کے ساتھ
شاد عارفی کے جملہ اشعار پر بحث کے بعد اب یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے نثریت کو شعریت کے لیے بڑی خوبی کے ساتھ استعمال کیا ہے اوراس میں وہ کامیاب ہیں۔ ان کی زبان نثر نما یا نثری اظہار کے قریب اس لیے بھی ہے کہ انھوں نے طنز جو کہ نثر کا وصف خاص ہے انہوں نے غزل سے بھی طنز کا کام لیا نتیجتاً انھوں نے دانستاً شعری لوازمات، صنائع و بدائع سے اپنے کو دور رکھا لیکن علم بیان کی نمایاں صنعت تشبیہ سے زیادہ کام لیا اور ساتھ ساتھ استعارہ سے بھی۔ ان کے یہاں تشبیہ مفصل کم لیکن تشبیہ مجمل سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ کچھ اشعار دیکھیں :
بے رونقی شمع تمنا نہ پوچھ
جیسے کوئی چراغ کسی قبر پر جلے
دل میں لہو کہاں تھا کہ اک تیر آ لگا
فاقہ سے تھا غریب کہ مہمان آ گیا
نرگس شہلا کو نیند آئی ہوئی
اور کیا تمثیل چشم ناز دوں
ہم پر تیری تنقیدیں کیا
شیشے کا حملہ پتھر پر
رنگ رخ، یوں غم حالات نمایاں کر دے
جیسے افسانے پہ قائم کوئی عنواں کر دے
پہلے شعر میں بجھی ہوئی شمع کی تشبیہ قبر پر جلائے گئے اس چراغ سے دی گئی ہے جو قبر پر جلایا جاتا ہے۔ تمنا ایک احساس کا نام ہے، اسے شمع تمنا کی ترکیب کے ذریعے نوری پیکر میں تبدیل کیا گیا ہے اور قاری کے بصارتی احساسات کو متحرک کیا گیا ہے۔ یعنی مشبہ جو غیر عقلی تھا اسے عقلی بنا کر پھر دوسرے مصرعے میں ایک ایسے چراغ کا مشاہدہ پیش کیا گیا ہے جو جل تو رہا ہے مگر کسی کی قبر پر۔ اس چراغ کی ویرانی کا اندازہ کوئی بھی قاری لگا سکتا ہے۔ دل کی یا تمنا کتنی اداس ہے اس غیر مرئی یا خالص داخلی احساس کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے جس تشبیہی منظر کو ابھارا گیا ہے وہ بذات خود ایک جدت طرازی ہے۔ گویا یہ کہنے کی سعی کی گئی ہے کہ ہم ایک ایسے انسان ہیں جس کی تمنا بھی غریب ہے۔ یہاں طنز زیریں ساخت میں لہریں لے رہا ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی (Irony of fate )کے مضمون کو کتنے بلیغ اسلوب میں بیان کیا گیا ہے اس کی داد اہل نظر ہی دے سکتے ہیں۔
تشبیہ مجمل میں وجہ شب یا قدر مشترک مخفی ہوتا ہے۔ استعارہ میں بھی کچھ یہی عمل ہوتا ہے مگر تھوڑے سے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے استعارہ میں سیدھے چیزوں کو نیا نام دے دیا جاتا ہے۔ شعر نمبر(۲)(۳)دیکھیں اس کا اندازہ ہو جائے گا۔ شعر دو دراصل ہمیں ’’کربلا‘‘ میں بھی لے جاتا ہے اور یہ بیک وقت اس افلاس یا غربت کی طرف قاری کے ذہن کو لے جاتا ہے، جسے عظمت، محمد ﷺ نے بخشی تھی لیکن وہ تو نبی تھے ایک عام انسان بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر کیا کیا کرنے پر مجبورہو سکتا ہے کسی سے چھپا نہیں ہے۔ یعنی دل میں خون تو پہلے ہی سے کم تھا کہ کہیں سے بلا وجہ تیر آ کر دل پر لگا۔ گویاجس دن فاقے کی نوبت آئی تھی اسی دن مہمان نازل ہوئے۔ کیسی بے چارگی(Irony) ہے۔ یہی وہ المیہ طنزیہ صورت حال ہے یا انسانی زندگی کا مذاق اڑاتی ہوئی صورتحال ہے جو شاد کے یہاں طنز بن جاتا ہے۔ انھیں شبیہی اسالیب سے شاد اپنی غزل گوئی کو ناول نگاری کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔
اخیر میں کہا جا سکتا ہے کہ شاد اردو غزل کے منٹو ہیں۔ اگر شاد نے اپنے جذبات اور چڑچڑے پن پر قابو رکھا ہوتا تو آج کی غزل کی تاریخ فراق کی عظمت پر سوالیہ نشان قائم کر چکی ہوتی لیکن انھیں کمزوریوں نے ہی شاد کو ایسا خالص طنزیہ شاعر بنا دیا ہے جس کی نظیر اردو ادب میں شاید ہی ملے۔
٭٭٭
فضاؔ کوثری
میرے کلام پر شادؔ عارفی کی اصلاح
منشی امتیاز خاں رازؔ عرف پیارے رامپوری ( متوفی ۱۹۷۱ئ) نے امیرؔ مینائی کی خدمت میں ایک غزل بھیج کر استدعا کی تھی کہ ’’ قبلہ! اس غزل کو پری بنا دیجیے ‘‘ امیرؔ مینائی نے جواب میں لکھا ’’پیارے ! غزل خود پری ہے اس کو پری کیا بناؤں ‘‘ اور غزل بغیر اصلاح کے واپس فرما دی تھی۔
میں نے جنوب کے مشہور شاعر حضرت نفیسؔ مرحوم کے ایماء پر ان کے خواجہ تاش رام پور کے شادؔ عارفی کی خدمت میں بغرضِ اصلاح پہلی بار غزل بھیجی تو شادؔ عارفی صاحب نے بھی امیرؔ مینائی کی طرح غزل جوں کی توں واپس تو کر دی لیکن غزل کو پری کہنے کی بجائے لکھا کہ میں خود نظر ثانی کروں اور دوبارہ اصلاح کے لیے بھیجوں۔ یہ تھا حضرت شادؔ عارفی سے میری شاگردی کا پہلا سلسلہ۔ نسبتاً دو شادؔ ادبی دنیا میں بہت مشہور ہوئے ہیں ایک شادؔ عظیم آبادی دوسرے شادؔ عارفی، شادؔ عظیم آبادی کی وہ طویل نظم جس میں انھوں نے اردو شاعری کے لوازم کا اظہار کیا ہے ان کے ذہن کی آئینہ دار ہے چند شعر یہ ہیں :
بہت ہیں نظم کے بارے میں مختلف رائیں
کسی کا قول ہے کچھ اور کسی کا کچھ دعویٰ
جہاں تلک ہے مری دستگاہ اس فن میں
مجھے پسند ہے انداز اہلِ یورپ کا
وہ جانتے نہیں املی کا آم کر دینا
جسے سمجھتے ہیں معراج ادھر کے سب شعرا
تو دست بستہ مری عرض ہے قصور معاف
کہ اب زمانے نے بدلا ہے اور پیرایا
شادؔ عظیم آبادی کی یہ پسند اور ان کا لب و لہجہ حالیؔ کی صدائے باز گشت ہے جنھوں نے میرؔ و مصحفی کی اقتدا ترک کر کے پیرویِ مغربی کی دعوت دی تھی۔ شادؔ عارفی کا چونکا دینے والا اندازِ بیان حالیؔ اور شادؔ عظیم آبادی کی صداؤں کا واضح جواب تھا۔ شادؔ عارفی نے ہمیشہ املی کو املی ہی کہا آم کبھی نہیں۔ ان کی یہ وہ ادا تھی جو مجھے بھا گئی اور میں ان کے تلامذہ میں شامل ہو گیا۔ شادؔعارفی حالیؔ کے آقا کی طرح بڑے سخت گیر استاد تھے۔ انھوں نے میری بعض غزلیں تمام کی تمام قلم زد کر کے واپس کر دیں کہ ان پر اصلاح کرنا میرے شرائط نامے میں داخل نہیں۔ نقد و اصلاح کا طریقہ شاعری کے ہر دور میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے اس سے فن نکھر کر تہذیب پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ تہذیب کا تقاضہ ہے کہ شاعری کے الفاظ، بندش، روز مرہ، محاورے، طرزِ بیان، تخیل ہر ایک پر صحتِ ذوق، نفاست طبع، سلاستِ فکر کی مہر لگی رہے۔ نقد و اصلاح کی اسی اہمیت کے پیش نظر صفدرؔ مرزا پوری اور شوقؔ نیموی نے اساتذہ کی اصلاحوں کے مجموعے مرتب کیے تھے۔ رفتہ رفتہ نقد و اصلاح اور اس کی توجیہیں ادب کے لیے نشانِ راہ بن گئیں۔ ذیل میں میرے کلام پر حضرت شادؔ عارفی کی اصلاح اور خود میری توجیہ ہے آپ کو میری توجیہ سے اختلاف کا پورا پورا حق حاصل ہے لیکن اس کے مطالعے سے آپ محسوس کریں گے کہ شادؔ عارفی کی اصلاح سے اختلاف کی مطلق گنجائش نہیں اور یہی استادی کا کمال ہے۔
شعر:
جس کی نگاہ مست مخاطب ہے آپ سے
اس کی لگاوٹوں کا سہارا ہمیں بھی ہے
اصلاح:( پہلے مصرعے میں )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بزم سے
توجیہ: نگاہِ مست کے مخاطبے کے لیے ’’ آپ‘‘ کی بجائے ’’ بزم‘‘ ضروری تھا ورنہ مستی پر حرف آتا اور پھر ہمیں کا تقابل ’’ آپ‘‘ سے وقیع بھی نہ تھا۔ بزم نے شعر کی رونق بڑھا دی۔
شعر:
پیچیدہ راستوں کے تصور کے بعد ہی
اس منزلِ طرب کی تمنا ہمیں بھی ہے
اصلاح:
’’ ’’ سے گزرنے کے بعد ہی
’’ ’’ ’’ ’’
توجیہ: منزل طرب کی تمنا کے لیے پیچیدہ راستوں کا تصور کافی نہ تھا گزرنا ضروری تھا۔ گزرنے سے راستوں کی پیچیدگی کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے اور منزلِ طرب کا لطف بھی دو بالا ہو جاتا ہے۔
شعر:
رواجاً برہمی و بے رخی ہی کام آتی ہے
عموماً حسن کو وارستگی ہی کام آتی ہے
اصلاح:
’’ ’’ ’’ ’’ دیتی ہے
’’ ’’ ’’ ’’دیتی ہے
توجیہ: کام آنا اور کام دینا دونوں درست محاورے ہیں فارسی کے بکار آمدن کے ترجمے لیکن کام آنا میں کسی کے قتل ہو جانے کا التباس بھی ہے۔ بقول شاعر:
دل ہمارا بھی اُسی جا ہے خدا خیر کرے
کوئے قاتل میں یہ غل ہے کہ کوئی کام آیا
میری غزل میں کام آنا کو کام دینا سے بدل کر حضرت شادؔ عارفی نے میرے تمام قوافی کی جان بچا لی۔
شعر:
نظر نے طاقت نظارگی پائی جسارت سے
کہاں تک عشق میں بیچارگی ہی کام آتی ہے
اصلاح:
جہاں تک حسن خود آرا کو دلچسپی نہیں ہوتی
وہاں تک’’ ’’ ’’ ’’ ’’ دیتی ہے
توجیہ: عشق کی بے چارگی کے بعد نظر کی جسارت بے معنی تھی نظر کی جسارت اگر مان بھی لی جائے تو ردیف ’’ ہے ‘‘ مہمل ہو جاتی۔ مصرع اولیٰ کی تبدیلی سے شعر کا مفہوم بہت بلند ہو گیا۔ عشق وہیں بے چارہ ہوتا ہے جہاں حسن ( خود آرا) دلچسپی نہیں لیتا اور جہاں حسن دلچسپی لے وہاں عشق کے کیا کہنے !
شعر:
ٹپکتا ہو لہو جس کے ہر اک حرف تمنا سے
اس انساں کو مگر افسردگی ہی کام آتی ہے
اصلاح:
’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’
اس انسان کو زباں کی بے بسی ہی کام دیتی ہے
توجیہ: مگر کا یہ محل استعمال نہ تھا اور پھر جس شد و مد سے حرف تمنا سے لہو ٹپکنے کا دعویٰ پہلے مصرع میں کیا گیا ہے دوسرے مصرع میں افسردگی کی دلیل اسے لے ڈوبتی ہے ’’زباں کی بے بسی‘‘ کی اصلاح نے ایک بین ثبوت فراہم کر دیا۔
شعر:
کتنی بسیط تھی ترے جلوؤں کی چاندنی
کتنی محیط تھی مری چاہت تری لگن
اصلاح:
’’ ’’ محیط’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’
’’ ’’ بسیط ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’
توجیہ: چاہت اور لگن بسیط سہی لیکن ان کا احاطہ جلوؤں کی چاندنی ہی سے ممکن تھا۔ محیط کو اگر چاہت اور لگن کی صفت قرار دیا جائے تو جلوؤں کی چاندنی اس میں گھر جاتی اور یہ قید جلوؤں کی چاندنی کے شایانِ شان نہ تھی۔
شعر:
کتنی جمیل تھی ترے عارض کی روشنی
کتنا گداز تھا وہ ترا پھول سا بدن
اصلاح:
کتنی جمیل تھی تری رنگت شراب سی
’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’
توجیہ: دوسرے مصرعے میں بدن اور پہلے مصرعے میں عارض سے بحث ہے جو بدن ہی کا ایک حصہ ہے اور جس کا ذکر تحصیلِ حاصل سے زیادہ نہ تھا، مصرع اولیٰ کی تبدیلی نے معشوق کے بدن کے ساتھ اس کی رنگت کو شراب سے تشبیہ دے کر جمال کو دو آتشہ کر دیا ہے۔
شعر:
چتون کا تیری راز نہاں جانتے ہیں ہم
خاموش انکھڑیوں کی زباں جانتے ہیں ہم
اصلاح:
دلبستگی کا ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’
’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’
توجیہ: ( حسرتؔ موہانی کی رائے میں انکھڑیوں کا لفظ دور چہارم کے بعد متروک ہے لیکن آنکھوں کا نام پیار سے لینا مقصود ہو تو وہ اسے جائز اور مستعمل قرار دیتے ہیں۔ شادؔ مرحوم زبان کے معاملے میں اوروں سے مختلف تھے۔)
مصرع اولیٰ میں انکھڑیوں کی زبان کو راز بتایا گیا ہے جو چتون کا مضاف ہے اور چتون انکھڑیوں کا مترادف، اس لیے حضرت شادؔ عارفی نے مضاف الیہ سے بدل کر شعر کے مفہوم میں لطافت پیدا کر دی۔
شعر:
تکمیل آرزو کی تمنا کے ساتھ ساتھ
نا پختہ خواہشوں کا زیاں جانتے ہیں ہم
اصلاح:
’’ ’’’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ میں دوستو
’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’
توجیہ: تکمیل آرزو کی تمنا کے ہمراہ نا پختہ خواہشوں کا زیاں ہو جائے تو تکمیلِ آرزو کی تمنا باقی نہ رہے ’’ میں دوستو‘‘ کی اصلاح نے تمنا کی بقا کا سامان پیدا کر دیا ہے، غالبؔ نے ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے ‘‘کہہ کر جہاں ارمان کے پورے نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے وہاں اپنی خواہشوں کی قدر و قیمت بھی واضح کر دی ہے۔
شعر:
تعظیم میکدہ کا سبب کیا بتائیں ہم
تعمیل حکم پیر مغاں جانتے ہیں ہم
اصلاح:
’’ ’’ ’’ کی ہمیں کچھ خبر نہیں
’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’
توجیہ: مصرع میں کیا بتائیں ہم کا انداز بیان کچھ ایسا ہے کہ اس سے استفہام انکاری کے ساتھ استخباری کا بھی شبہ پیدا ہوتا ہے گویا مخاطب کو کسی سبب کا انتظار ہے حالانکہ مقصود اس سے لا علمی ہے جو استاد کے مصرع سے واضح ہو جاتی ہے۔ تعظیم میکدہ تو پیرِ مغاں کی تعمیلِ حکم میں ہے۔
شعر:
دشتِ جنوں کی آب و ہوا میں ہے زندگی
گردش کو گرد راہ رواں جانتے ہیں ہم
اصلاح:
’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’
منزل کو وہم ’’ ’’ ’’ ’’ ’’ ’’
توجیہ: گردش ( غیر مرئی) کو منزل ( مادی) سے اور گرد ( مادی) کو وہم ( غیر مرئی) سے بدل کر شعر میں معنویت پیدا کر دی ہے اور دشتِ جنوں کی آب و ہوا میں سکونت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ منزل کو بھی گرد راہ رواں سمجھا جائے۔
قطعہ:
بھائی چارہ کہیں کہ میل ملاپ
ان میں نقص دوئی نہیں ہوتا
اونچ اور نیچ کے تصور میں
آدمی آدمی نہیں ہوتا
اصلاح:
عصبیت کے ساتھ کچھ بھی سہی
آدمی ’’ ’’ ’’ ’’
توجیہ: ( حدیث میں مروی ہے کہ بُرائی کی محض نیت پر کوئی مواخذہ نہیں ہوتا) اونچ اور نیچ کے محض تصور سے آدمی کو آدمی نہ ہونے دینا اس پر سراسر ظلم ہے۔ اونچ نیچ کا تصور تو الگ رہا خود اونچ نیچ ایسا کوئی گناہ کبیرہ نہیں ہے جس کی پاداش میں آدمی کو آدمیت کے دائرے سے خارج کر دیا جائے البتہ شادؔ عارفی نے عصبیت کی آدمی کو قرار واقعی سزا دی ہے۔
٭٭٭
غلام مرتضیٰ راہیؔ
شادؔ عارفی کی نثر
شادؔ عارفی کی نثر سے ان کی طنزیہ شاعری کے پس منظر اور دوسرے کارفرما عوامل کا پتہ چلتا ہے۔ انھیں اپنے معاشرے سے بے شمار تلخیاں اور ناخوش گواریاں ملیں جو ان کی طنز گوئی کی محرک ہوئیں۔ ان کو اپنی عمر میں نہ تو اقتصادی راحت نصیب ہوئی اور نہ بہ حیثیت شاعر انھیں زندگی میں وہ ارفع مقام ملا جس کے وہ مستحق تھے۔ علاوہ ازیں رام پور کے سیاسی و تنگ نظر عناصر نے بھی ان کو سکون و اطمینان کی سانس نہ لینے دی۔ ان تمام داخلی و خارجی بے کیفیوں سے ان کا مزاج یکسر تلخ و تیکھا ہو گیا۔ اکھڑ پن تو گویا ان کی پٹھانی سرشت میں تھا۔ اس نا مساعدت و دل گرفتگی کا ردِّ عمل یہ ہوا کہ ان کا قلم پوری شدت کے ساتھ نشتر زنی پر آمادہ ہو گیا۔ ان کی نثر میں بھی وہی انفرادیت اور تیکھا پن ہے جو ان کی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے۔ اپنے ایک مضمون میں طنز نگاری کی بابت وہ یوں رقم طراز ہیں :
’’ میں طنز نگاری کی تعریف میں یہ بات شامل سمجھتا ہوں کہ ایک طنز نگار کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ کسی فرد، مضمون، شعر یا افسانے کی خوبیاں گنائے اس لیے کہ خوبیاں گنانا تعارف و دیباچہ نگار کا کام ہے، طنز نگار کا نہیں۔ اس کے نزدیک کسی شخص کی اچھائیاں تو گویا بجائے خود اس کی اچھائیاں ہیں ان کی نشاندہی سے کیا حاصل۔ ہاں ان اچھائیوں سے گزر کر کسی فن پارے، شخص یا ذات کے بقیہ عیوب پر انگلی دھرنی اور اس اندازسے دھرنی کہ اسے غصہ تو آئے مگر غصے میں اس لیے کچھ نہ کہہ سکے کہ اس کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے۔ اس کی حقیقت سے انکار ممکن نہ ہو۔ ‘‘
یہی سبب ہے کہ شادؔ عارفی کے تمام تنقیدی مضامین تلخ و تند ہیں۔ اگرچہ وہ اپنا حرفِ مطلب روز مرہ کی زبان میں ادا کرتے ہیں مگر ان کی سیدھی اور بہ ظاہر سپاٹ تحریر میں بھی بھرپور نشتریت اور تہہ داری ہے۔ چست محاوروں اور فقروں کے بر محل استعمال سے طنز میں وہ شدت پیدا ہو گئی ہے جو قاری کے دل و دماغ پر فوراً اثر انداز ہوتی ہے۔ ان کی تحریر میں زبان و بیان کی بر جستگی، رمزیت و اشاریت جیسے محاسن بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ وہ الفاظ کی ہیئت، داخلیت و خارجیت سے بخوبی واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے پیرایۂ بیان میں بڑا کس بل ہے۔ ان کی تحریروں کے در پردہ ان کی شخصیت کا چمتکار اور ان کی محسوسات کی سچی کہانی ہے جو اخلاص، توازن اور شائستگی کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ بقول کسے ’’ احساسات کا ردِّ عمل شدید، پیچیدہ اور قدرے تخریب کارانہ ہوتا ہے ‘‘ شادؔ عارفی پر جتنی طاقت سے معاشرے، ماحول اور سیاسیات کا دباؤ پڑا، اتنی ہی شدت سے وہ سینہ سپر ہوئے۔ چنانچہ ان کی نثر میں کہیں طنز آمیز تبسم ہے کہیں خندۂ ملامت ہے اور کہیں نشتر زنی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے، انھوں نے کیسے خوبصورت پیرایہ میں علامہ نیازؔ فتحپوری پر نشتر زنی کی ہے :
’’ آپ خفا نہ ہوں کہ میں مضمون کے بیچ بیچ میں دوسری باتیں کہنا شروع کر دیتا ہوں جب کہ آپ کا وطیرہ ہی یہ ہے کہ آپ نگار میں شائع ہونے والے ہر مضمون میں اپنی قابلیت کی ٹانگ اڑانے کے لیے ’’ روسی ہنسیے ‘‘(؟؟؟) بنا بنا کر دخل در معقولات، کرتے چلتے ہیں جس میں مضمون نگار کی توہین کا پہلو ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔ ان حالات میں اگر میں آپ کے انداز پر ’ دخل در معقولات‘ استعمال کروں تو یہ آپ کی تقلید ہو گی جس سے آپ کو بجائے ناراض ہونے کے خوش ہونا چاہیے کہ کوئی پیروکار تو میسر ہوا۔ ‘‘
شادؔ عارفی کی طنزیہ تحریر کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ایک تو اپنے مخالف کو ہدف طعنہ زنی بنانا اور دوسرا مخالف کو اس کی کوتاہیوں کا احساس دلانا۔ گویا شادؔ عارفی کا اندازِ بیان سخت و کھردرا ہوتے ہوئے بھی صحت مند ہے۔ نیازؔ صاحب کے سلسلے میں ہی رقم طراز ہیں :
’’ مسلمان صوفیہ ( مجھے صوفیہ کے املے میں شک ہے ) یہاں آئے۔ آپ دوسرے کالم کی پہلی سطر میں ’’ بہار کے صوفیا‘‘ ( مکرم ! آپ نے املے کی غلطی خود ہی ٹھیک کر لی یا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو صوفیا کے املے کی صحت میں شک ہوا ہو تو آ پ نے سوچا کہ دونوں طرح لکھ دو کوئی تو درست ہو گایا تو ’ صوفیہ‘ یا’ صوفیاء‘۔ ‘‘
مندرجہ بالا اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ شاد عارفی کو نقد و تبصرہ میں معمولی سے معمولی کوتاہی کو اپنے مخصوص و منفرد ڈھنگ سے منظرِ عام پر لانے کا سلیقہ تھا۔
ہر چند کہ شادؔ عارفی کی نثر کا بہت زیادہ سرمایہ اب تک منظرِ عام پر نہیں آسکا اور جو کچھ ہے وہ بیشتر مکتوبات کی شکل میں ہے اور چند تنقیدی مضامین ہیں جو مختلف رسائل میں مطبوعہ تخالیق پر لکھے گئے ہیں مگر ان کی یہ مختصر مگر جا مع نثر ان کے ذاتی حالات کا تجزیہ کرنے میں معاون ہے۔ ان کے نجی حالات جان کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ نا مساعدت کی زد میں رہتے ہوئے بھی پورے عزم و استقلال کے ساتھ زندگی سے سینہ سپر رہے۔ ان کی زندگی بتاتی ہے کہ اگر وہ مصلحتِ وقت کو قبول کر لیتے تو انھیں اپنے ہم عصر ادیب و شاعروں کی صف میں اپنی زندگی میں ہی بہت جلد ایک مستقل اور نمایاں جگہ مل جاتی۔ بالخصوص رامپور کا ’’ نار نمرود‘‘ ان کے لیے ’گلزارِ خلیل‘ بن جاتا مگر یہ شادؔ کی بلند حوصلگی تھی کہ ان کے فن اور ان کی زندگی میں زبردست ارتباط پیدا ہو گیا ورنہ انھیں تو فانیؔ کی طرح ’ یاس و حرماں ‘ کی شاعری کرنی چاہیے تھی۔ غالباً اس لیے کہ وہ شکست خوردہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کے سامنے اعلانِ شکست کو اپنی توہین سمجھتے تھے۔ مندرجہ ذیل اقتباسات میں ان کے معاشی و اقتصادی بحران کا ذکر کتنا دل خراش اور عبرت ناک ہے :
’’ تصویر فی الحال میرے پاس کوئی نہیں ہے ورنہ حاضر کرتا۔ نئی کھنچوانے پر تین کاپیوں کے لیے دس روپیہ درکار ہیں جن کے صرف کے لیے میں اپنی جیب کی کم مائیگی کے تحت تیار نہیں ہوں۔ ‘‘
’’ پاکستان میں میری بڑی مانگ ہے مگر میں اپنا وطن ( جوشؔ ملیح آبادی کی طرح) ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔ یہیں فاقے کر کے مرجانا پسند کرتا ہوں۔ چنانچہ دس سال سے ادبی کارو بار سے روٹی چلا رہا ہوں۔ کبھی ملی کبھی نہ ملی۔ کرائے کے گھروں میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔ اپنا گھر بیچ کر والدہ کا کفن دفن کر دیا۔ آج سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ‘‘
اس عالمِ نفسی نفسی میں بھی شادؔ عارفی کی ہوش مندی دیکھیے کہ نشتر زنی سے باز نہیں آتے، ان کی اس تحریر سے ان کے جذیہ حب الوطنی کی بھی نشان دہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی خاکِ وطن کو فاقہ کشی اور ہجرت پر ترجیح دیتے تھے۔
شادؔ عارفی نے جہاں سنجیدہ موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہاں ان کے طنز میں بلا کی گہرائی و گیرائی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ خشک موضوعات پر اپنے منفرد انداز سے روشنی ڈالتے ہیں مگر کچھ اس طرح کہ قاری محض مسکرا کر آگے نہ بڑھ جائے۔ ان کا ہر اشارہ بہت بلیغ اور مکمل ہوتا ہے اور بحسنِ تمام پڑھنے والے کے دل و دماغ میں پیوست ہو جاتا ہے۔ ان کی تحریر میں روایتی سج دھج نہیں بلکہ جدت و ندرت ہے جس سے ان کے صاحبِ طرز انشا پرداز ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اپنے ایک مضمون میں انھوں نے کہا ہے :۔
’’ میں نہیں سمجھتا کہ اساتذہ کے احترام کا مجھ سے زیادہ بھی کوئی قائل ہو سکتا ہے۔ مگر اس احترام کے سلسلے میں یہ تفریق و تقسیم دیانت داری کے خلاف سمجھتا ہوں کہ جب مسئلہ کسی مفاد کو ٹھیس پہنچا رہا ہو تو علم عروض کی گڑی اینٹ پکڑ لی جائے اور اس طرح کہ پنچوں کی بات سر آنکھوں پر مگر ’پرنالہ جہاں گر رہا ہے وہیں گرے گا‘ یعنی قادری صاحب کا یہ کہنا کہ ظہوریؔ جیسے مستند شاعر کے گرتے پڑتے ’ عین‘ کا اِتباع ادب میں فتنہ وفساد کا باعث بن جائے گا۔ مگر جب ’مفاعلان‘ کی غلط تعبیری کا سوال اٹھے تو حضرت داغؔ اور ان کے جا نشین حضرت محمود کی سند کو کافی تصور کر لیا جائے اور اس ادّعا کے ساتھ کہ غلطی موجود ہو مگر اس کے وجودسے عقیدت مندی کے تحت قطعاً انکار اور بحر الفصاحت جیسے نخاسے کی دوکان ( اس بابت اوپر عرض کر چکا ہوں ) جس میں ہر مال کا کوڑا بھان متی کے کنبے کی طرح جوڑ دیا گیا ہے، مستند مان لیا جائے۔ مجھے کافی سے زیادہ شک اور شک سے زیادہ یقین ہے کہ یہ ’ مفاعلان‘ یا تو ’ مفاعیلان‘ ہو گا یا ’فاعلان‘ جس کو مرتب کی لغزشِ نظر یا کاتب صاحب کی شعبدہ گری نے ’مفاعلان‘ کا روپ دے دیا۔ ‘‘
شادؔ عارفی کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بہت ہی ناسازگار ماحول میں جی رہے تھے۔ ’ مصلحتِ وقت ‘ کے اشاروں پر ان کو سماجی، معاشی اور اقتصادی سہولتوں سے محروم کیا جا رہا تھا۔ ان کے ہم عصر بونے ادیب و شاعران کا مکمل بائیکاٹ کر رہے تھے۔ مدیرانِ رسائل بھی ان کی خاطر خواہ دلجوئی نہیں کر رہے تھے۔ ان کے ہم وطن با اقتدار سیاسی عناصر الگ سدِّ راہ بنے ہوئے تھے۔ ان حالات کا تجزیہ ان کے ایک مضمون کے مندرجہ ذیل اقتباس سے بخوبی کیا جا سکتا ہے :
’’ وہ سرمایہ دار جن کو نہ مجھ سے کوئی دُکھ پہنچا نہ ادب سے کوئی تعلق رہا، جواب دیں گے شاد عارفی کون؟۔ شاعر کیا ہوتا ہے ؟ اس کے جشن کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا یہ جشن منائے بغیر بارش نہیں ہو گی؟ قحط پڑ جائے گا! بھینس دودھ دینا چھوڑ دے گی؟ گنّوں سے رس کم نکلے گا؟ مگر دنیاوی اعتبار سے یہ جشن کیوں ضروری ہے ؟ اگر ضروری ہے تو پھر ان لوگوں سے چندہ لیجیے جن کو شادؔ عارفی سے غرض اٹکی ہو۔ ‘‘
ان تمام دل خراشیوں کا ردِّ عمل یہ ہوا کہ شادؔ عارفی کے مزاج میں کھردرا پن، جھنجھلاہٹ اور جارحیت جیسے عناصر نے گھر کر لیا اور وہ پوری شدت کے ساتھ اپنے قلم کے ذریعہ انتقام لینے پر آمادہ ہو گئے۔ ان کی غربت و افلاس نے ان کے مجروح جذبہ کو شہ دی اور وہ انتہا پسند ہو گئے۔ یہاں تک کہ مولانا آزاد، نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی و دیگر مستند شخصیتوں کی ذاتیات اور تخالیق پر شادؔ عارفی نے بڑی بے باکی و دلیری سے حملے کیے ہیں جو بہ ظاہر زیادتی معلوم ہوتی ہے لیکن اعتراضات اپنی جگہ بھاری بھرکم ہیں۔
مگر جہاں وہ اس قدر کٹھور اور اکھّڑ تھے وہاں ان کے سینہ میں گداز دل بھی تھا۔ وہ اپنے مخلصین سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ دوسروں کے دکھ درد کے آگے انھیں اپنی تکالیف کا ذرا بھی احساس نہ رہتا تھا۔ اپنے کردار کے ان متضاد پہلوؤں کے اعتبار سے ’’ جیسے کو تیسا‘‘کے مصداق تھے۔ ایک جگہ رقم طراز ہیں :۔
ــ تمھارا مفصل نامہ ملا۔ میرا دل بھر آیا اور میں اپنی مصیبتیں بھول گیا۔ ان حالات میں، میں تم سے اپنا رونا نہیں رو سکتا۔ تم اسی طرح لفافے کے اندر لفافہ رکھ کر اصلاح کرا سکتے ہو۔ میں نے تمھیں اپنا شاگرد تسلیم کر لیا۔ ‘‘
فیضؔ اور حفیظؔ جالندھری کے فن پر مضامین اور بیشتر نجی مکاتیب میں شادؔ صاحب کا لہجہ مقابلتاً نرم، سبک اور گداز ہے۔ عمر کے آخری ایام میں ان کا قلم خود ان کی ذات پر طنز کرنے لگا تھا۔ وہ اپنی بے چارگی اور نامساعدت پر کچھ اس طرح مسکراتے ہیں کہ قاری کے دل سے بے ساختہ آہ نکل جاتی ہے :
’’ تمھارے رامپور آنے کا سوال اچھا نہیں ہے۔ اس لیے کہ میرے اپنے سر چھپانے کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ تمھیں کہاں ٹھہرا سکوں گا ( کھانا پینا تو در کنار) اس لیے تمہارا میرے پاس آنا بھی میرے مزاج کے خلاف ہو گا۔ ہاں اگر میری غُربت کی ہنسی اڑانا چاہتے ہو تو ضرور چلے آؤ۔ ‘‘
ایک دوسرے مکتوب میں اپنی ذات پر یوں نشتر زنی کرتے ہیں :
’’ صبح کی ساڑھے تین بجے چھٹکارا ہوا۔ شدید سردی اور سینے کے زکام نے مزید تکلیف پہنچا دی۔ بڑا کوٹ یا کمبل نہ ہونے کے عذر پر مانگے کا کوٹ لا دیا اور کمبل بھی پیش کیا جسے میری غیرت نے قبول نہیں کیا۔ صرف جواہر کٹ اور گاندھی کوٹ میں رات بسر کی۔ سوئٹر اتنا چھلنی ہو چکا ہے یعنی کیڑے نے اسے چاٹ لیا ہے کہ وہ جالی دار بنیان بن گیا ہے۔ ‘‘
ایک اور خط میں لکھتے ہیں :۔
’’ خطوں کے ( ان کے ایک شاگرد نے حکومت کو ان کی تباہ حالی کی طرف متوجہ کرانا چاہا تھا) لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جن اندھوں کو سوجھتا نہیں ہے انھیں چراغ دکھانے سے کیا حاصل۔ ادھر یہ کہ آخری وقت میں خوشامدی زندگی گزارنی، اپنے پچھلے کردار پر کیچڑ ڈالنا ہے۔ تم بھی خاموش ہی رہو۔ یہ زندگی بہر حال گزر ہی جائے گی، مگر بات رہ جائے گی بھیک کے ٹکڑے اگر مقدر ہیں تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو۔ ‘‘
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ شاد عارفی کی نثر کا مختصر مگر گراں قدر سرمایہ، ان کے فن نیز ان کی زندگی کے ما بین قدر مشترک کا پتہ لگانے میں ممد و معاون ہے۔ محققین، ان کی تحریروں کی مدد سے ان کی شاعری نیز محرکاتِ شاعری کا بھر پور جائزہ لے سکیں گے۔
شادؔ عارفی کے تنقیدی مضامین اور مضمون نما خطوط کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک صاحبِ طرز انشا پرداز اور قابلِ قدر نقاد بھی تھے۔ ان کی پرکھ کا ایک منفرد نظر یہ تھا۔ ہر قسم کے موضوع پر پورے اعتماد کے ساتھ بے لاگ اظہارِ خیال کرتے تھے۔ ان کے تنقیدی مضامین خشک، سپاٹ اور سنجیدہ ہونے کے بجائے طنز آمیز مزاح سے لیس ہوتے تھے۔ یہی ان کی انفرادیت تھی۔ انھیں علمِ عروض پر بھی خاصی دسترس حاصل تھی۔ وہ نقد و تبصرہ کے ضمن میں بڑی چھان بین اور جگر کاوی سے کام لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی ادبی بحثیں، مدلل اور جامع ہوتی تھیں۔ ’ توارُد و ترجمہ، عین اور قاف، نظام پوری ‘ کے زیر عنوان ادبی معرکہ آرائیوں سے ان کے مطالعہ و فکر و نظر کی گہرائی و گیرائی کا پتہ چلتا ہے۔ چند اقتباسات درج ذیل ہیں :
’’ تو محترم! ہمارے کسی بھی پسندیدہ شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ ادب و شعر کی الجھنوں میں ہمارا ساتھ دے اور ہمارے ناقدین کے آڑے ترچھے اعتراضات کی سپر بن جائے اور اس طرح کہ معترض ہمارے ناک کان، نہ کاٹ سکیں۔‘‘
’’ چاہے اسے آپ میرا مشرقی مزاج کہہ لیں چاہے بد ذوقی لیکن یہ حقیقت ہے کہ شعرائے عرب کی سادگی اور ندرتِ ادا کے سامنے نہ تو ورڈز ورتھ ٹِک سکا نہ ٹینی سن۔ نہ سوئفٹ کے قدم جم سکے اور نہ ( کوئی اور نام لیجیے ) بروئے کار آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوئفٹ میرے نزدیک طنز نگاروں میں سے ایک ہے مگر عرب شعراء کے طنز کی اس کو ہوا بھی نہیں لگی۔ ‘‘
’’ بات چیت، تجربے سے بحث کی حد میں داخل ہو گئی تو میں نے اپنے جواز میں اول سے آخر تک کے اساتذہ سے سندیں پیش کیں اور کہا کہ انوریؔ سے لے کر صائبؔ تک، ولیؔ سے لے کر داغؔ تک، داغؔ کے بعد ان کے جا نشینوں اور عہد حاضر کے ہر شاعر کے ہاں اس قسم کے تصرفات و تجارب ملتے ہیں۔ ‘‘
شادؔ عارفی تخلیق کار کے راستے میں غیر ضروری قدغنیں لگانے کے قائل نہیں ہیں۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں :
’’ تجربتاً تھوڑی سی پی لینا کون سا ادبی گناہ ہو گیا جب کہ اساتذہ نے اس سلسلے میں خم کے خم لنڈھائے ہیں۔ ‘‘
جیسا کہ مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ شادؔ عارفی شعر و ادب میں تصرفات و تجربات کو معیوب نہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے خود اپنے کلام میں تصرفات و تجربات داخل کر کے نئی پود کی حوصلہ افزائی کی۔ علم عروض، ان کی نظر میں مشعلِ راہ تھا کیونکہ علم عروض سے نابلد ہونے کی صورت میں شاعر نہ تو مختلف شکستہ و پیچیدہ بحور میں طبع آزمائی کر سکتا ہے اور نہ اپنے اندر اعتماد پیدا کر سکتا ہے۔ مگر ان کے ذہن میں علم عروض کی رہنمائی قبول کرنے کا ہرگز یہ تصور نہ تھا کہ ہر حال میں شعر پر عروضی کمند، مضبوط ہی رہے۔ ضرورتِ شعری کے تحت مختلف اساتذہ سے تصرف و تجربہ کی مثالیں دے کر وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں :۔
’’ اس تجربے کا ان کو حق تھا اور مثالوں کی روشنی میں حق تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کو ہم بطور سند استعمال کر سکتے ہیں۔ ‘‘
فیض کے مجموعۂ کلام ’زنداں نامہ‘ پر شاد عارفی نے بے لاگ اور دو ٹوک تبصرہ کیا ہے۔ وہ تخلیق کے پس پردہ کار فرما مختلف عوامل پر گہری نگاہ ڈالتے تھے۔ فنکار کی زندگی، ذہن اور حالات کا تجزیہ کرتے تھے اور پھر اس کے کلام کی بابت کوئی رائے قائم کرتے تھے۔ وہ نقد و تبصرہ کے بندھے ٹکے اصول برتنے کے سخت خلاف تھے۔ ’ زنداں نامہ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’ لیکن میرا خیال ہے کہ وہ ڈاکٹر محمد حسن ہوں یا عبادت بریلوی حتیٰ کہ احتشام صاحب بھی اپنی تنقیدوں میں کسی ترقی پسندانہ رجحان کی نشاندہی نہیں کر رہے ہیں ان حضرات کی بیشتر تنقیدیں آپس میں یا تنقیص کر تی ہیں یا تائید۔ ہیر پھیر کر وہی مغربی مفکرین کے نام، وہی نپی تلی عبارت، وہی الفاظ کی نشست۔ کچھ ما بہ الامتیاز ہوتا بھی ہے تو عبارت کے الٹ پھیر سے ہوتا ہے نفسِ مضمون سے نہیں۔ جو تنقید میرؔ پر ہوتی ہے وہی سوداؔ کے لیے بھی اتنی ہی مناسب ہو سکتی ہے۔ حالیؔ اور غالبؔ پر یہ کچھ لکھتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک تیر سے دو ہرن زخمی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ‘‘
فیضؔ کے زنداں نامہ پر شاد عارفی کی تنقید کا اختتامیہ جملہ اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی پسندیدہ تخالیق اور اچھے فنکار کی تعریف کرنا بھی جانتے تھے۔ ان کے مندرجہ ذیل تاثرات سے اس الزام کی تردید ہو جاتی ہے کہ وہ نقد و تبصرہ کے ذیل میں ایک ہی لاٹھی سے سبھوں کو ہانکنے کے عادی تھے جو ان کے ذہنی انتشار و احساس کمتری کا ردِ عمل تھا:
’’ ان اشعار کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے کہ ادب میں جمود ہے انحطاط ہے، اور ترقی پسند مصنفین تھک کر بیٹھتے جا رہے ہیں۔ سجاد حیدر نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ فیضؔ کا ہر شعر ان بلندیوں کو چھو رہا ہے جس کی آج ترقی پسند ادب کو ضرورت ہے۔ ‘‘
شادؔ عارفی خاصا سیاسی شعور بھی رکھتے تھے۔ ان کی نظم و نثر میں یکساں طور پر سیاسی میلان موجود ہے۔ ’ سیاسی موضوعات ‘پر بھی وہ بلا خوف تردد اظہارِ خیال کرتے تھے۔ مصلحتِ وقت کی مضبوط گرفت سے وہ قطعاً خائف نہ تھے، کیونکہ وہ اپنے ما فی الضمیر کے بر خلاف کوئی اقدام کرنا گناہ کبیرہ تصور کرتے تھے۔ جوہر اور رامپور کے زیر عنوان ان کا مضمون ان کے کردار کی پختگی کا آئینہ دار ہے۔
شادؔ عارفی کے تنقیدی مضامین میں طنز آمیز مزاح کی چاشنی بھی بدرجہ اتم موجود ہے وہ اپنے مد مقابل پر نشتر زنی کرنے کے بعد خود ہی زیر لب تبسم کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک طویل قہقہہ بھی لگا لیتے ہیں۔ ان کی تنقید کا یہ عنصر سمِ قاتل کے مترادف ہے۔ محاوروں، فقروں کا بر محل استعمال، ان کے طنز آمیز مزاح کو زہر کا بجھا ہوا تیر بنا دیتا ہے۔ مثلاً:
’’ عیسیٰ کا گدھا مکے سے پلٹ کر بھی گدھا ہی رہے گا۔ ‘‘ ’’ میری ہر نظم سے پانی کہیں نہ کہیں ضرور مرے گا‘‘۔ ’’ کوئی بھی ادب کھجور یا ناریل کا درخت نہیں ہوتا کہ اس سے شاخیں نہ پھوٹیں ‘‘۔ ’’کتابت کی غلطیاں ایسی ہیں جیسے ریل کی پٹریاں اکھڑ گئی ہوں ‘‘۔ ’’ سیاہی پیندے سے آ لگی ہے اور قلم گھٹنوں چل رہا ہے ‘‘۔ ’’ بیچ کے کچھ نمبر ٹوٹی ہوئی بتیسی یا سیڑھی کی طرح غائب رہے ہیں ‘‘۔
شاد عارفی اپنی طنز و مزاح آمیز تحریروں میں چھوٹے چھوٹے چٹکلے بھی چسپاں کرتے چلتے ہیں جس سے ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ حرف مطلب واضح ہونے کے ساتھ ساتھ مد مقابل کی خبر گیری بھی ہوتی چلے۔ مثلاً:
’’ کیوں کہ یہاں میری حالت اس صوفی سے ملتی جلتی ہے جو قوال کے کسی شعر پر جس میں ’’ شمع و پتنگ‘‘ کا ذکر تھا، پتنگ یعنی پروانے کو کنکوا سمجھ کر جھوم رہے تھے اور وہ فلمی گیت ’ اڑی اڑی رے پتنگ‘ الاپ رہے تھے۔ ‘‘
’’ میرے پیش نظر یہ شعر کہتے وقت وہ افسانوی منظر تھا جس میں کوئی مجذوب دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر صدا لگا رہے تھے کہ دہلی کا تخت ایک بوتل شراب کے بدلے کون خرید تا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کسی انگریز نے ایک بوتل شراب لا کر ان کو دے دی جس کے نتیجے میں انگریز کی حکومت ہندوستان پر ڈیڑھ سو سال رہی اور آج بھی اثرات باقی ہیں، ‘‘
’’ بہ ظاہر میرے اس مضمون کا یہ حصہ بھی اس بھیڑ سے مشابہ ہے جو اپنے گلے سے بچھڑ گئی ہو۔ ‘‘
شادؔ عارفی کا حافظہ بڑے غضب کا تھا۔ مضمون لکھتے وقت محاورے، اشعار، فقرے، چٹکلے، حوالے برجستہ و بر محل ان کی نوکِ قلم پر آ جاتے تھے۔ ان کی تحریروں میں یہ بلا کا تاثر بڑی حد تک ان کے بہتر حافظہ و یاد داشت کا مرہونِ منت ہے۔ نہ تو ان کے پاس کوئی ذاتی لائبریری تھی اور نہ وہ ہر مضمون کی خاطر رامپور کے کتب خانوں کی خاک چھاننے کی زحمت اٹھاتے تھے۔ انھوں نے دیگر زبانوں کا بہت گہرا و عمیق مطالعہ بھی نہ کیا تھا مگر کیا مجال کہ مضمون نگاری کے وقت حسبِ ضرورت و موقع کوئی حوالہ ان کے لا شعور سے ابھر کر نہ آ جائے۔
شادؔ عارفی اکثر جگہوں پر اپنے مد مقابل سے جارحیت کے ساتھ بھی پیش آئے ہیں۔ یہ اس نا مساعدت کا رد عمل تھا جو ماحول کی پروردہ تھی جس نے ان کی اقتصادیات کا شیرازہ یکسر منتشر کر دیا تھا۔ اس لیے وہ ادبی معرکہ آرائیوں میں از راہِ تنقید، تنقیص بھی کر جاتے تھے۔ اس قسم کے غیر اہم مباحث پر انھوں نے اپنے بہترین وقت اور اعلیٰ صلاحیتوں کا بے دریغ تصرف کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ تو وہ ’ نقد و تبصرہ‘ کے لیے ایک وسیع تر فضا بنا سکے اور نہ معاصرین کو اپنے حق میں ہموار کر سکے۔ افسوس کہ ان کی بے شمار ادیبانہ صلاحیتیں، روحانی کرب اور ذہنی انتشار کی نذر ہو گئیں اور وہ نثر کے ذیل میں چند مضامین و کچھ مکاتیب کے سوا کچھ زیادہ نہ دے سکے۔
٭٭٭
فضل تابشؔ
شادؔ عارفی کا نفسیاتی تجزیہ
تلخ سہی مگر حقیقت یہی ہے کہ اچھے ادیبوں میں سے بیشتر زندگی بھر گھٹ گھٹ کر جیے ہیں۔ اسی لیے اکثر لوگ نا مساعد حالات کو بہترین تخلیقات کا سبب بناتے ہیں، کہیں تو یہ بات محض غلط فہمی یا نا واقفیت کی بنا پر کہی جاتی ہے اور کہیں یہی بات ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت جان بوجھ کر کہی جاتی ہے تاکہ لوگ اگر ادیبوں کی پریشان حالی پر رحم کھائیں بھی تو یہ جھوٹ انھیں مطمئن کر دے کہ اچھے ( اور کبھی کبھی عظیم) ادب کی تخلیق کے لیے ادیب کا مصائب میں پھنسا رہنا ضروری ہوتا ہے اور اس طرح وہ لوگ چاہتے ہیں کہ عوام کی سوچ عمل میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے۔ یہی خیال ہے جو ہمارے دور کے بہت سے فنکاروں میں غم پرستی کی روایت کو استوار کرتا ہے۔ وہ یقین کر لیتے ہیں کہ غم کی موجودگی اور اس کی کثرت سے تخلیقی صلاحیتوں کے اُجاگر ہونے یا ان کو جلا پانے میں مدد ملتی ہے۔ دورِ جدید کی خاصی تعداد اس قسم کے خیالات کے اظہار میں جٹی ہوئی ہے۔ ایسے فنکاروں کو غموں کی زیادتی نے کبھی موقع نہیں دیا کہ وہ غم اور اس کی پیدا کردہ برائیوں کے بارے میں گہرائی سے سوچیں یا اُن صاحب فہم حضرات کے سرمائے سے کچھ سمجھنے کی کوشش کریں جنھوں نے اس پہلو پر غور کیا ہے اور غم کے بھیانک نتائج پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
یہاں اس کا تفصیل سے ذکر کرنا تو بے محل ہے لیکن ایک بات صاف کرنا ضروری ہے۔ یہ بات سچ ہے اور راقم بھی اعتراف کر چکا ہے کہ عظیم ادب پیدا کرنے والوں میں سے بیشتر فنکار زندگی بھر پریشان رہے۔ اگر پریشانی یا غم ادیب کے راستے کی رکاوٹ ہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ وہی پریشان حال فنکار عظیم بھی ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں معاملہ اس کے بر عکس ہونا چاہیے تھا۔ اس مسئلہ پر غور کرنے کے لیے کسی پریشان حال آدمی کا تصور کرنا ضروری ہے۔ وہ اس لیے پریشان ہے کہ اس کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں۔ بنیادی اور اہم ترین ضروریات کے باعث اسے در در ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ محنت کرتا ہے مگر معاوضہ اتنا کم ملتا ہے کہ روکھا سوکھا کھانے بھر کو میسر نہیں آتا۔ اس لیے جب وہ کسی کو خوشحال دیکھے گا تو اُسے دُکھ ہو سکتا ہے وہ اس کی آمدنی کے ذرائع پر شک کر سکتا ہے۔ وہ ہمدردی کے الفاظ میں مکر و ریا محسوس کر سکتا ہے وہ اپنی طرح کسی کو پریشان دیکھ کر تڑپ بھی سکتا ہے اور خوش بھی ہو سکتا ہے وہ ذرا ذرا سی باتوں پر ناراض ہو کر بد ترین عمل کر سکتا ہے۔ وہ تنہائی پسند کر سکتا ہے کیونکہ ایسے عالم میں وہ جو چاہے اور جتنا چاہے خواب دیکھ سکتا ہے۔ وہ نا ممکن قسم کی اُمیدوں کے سہارے زندہ رہنے کی کوشش کر سکتا ہے اور ان اُمیدوں کے ٹوٹنے پر وہ دنیا بھر کو اس کا ذمہ دار گردان کر ہر آدمی سے نفرت بھی کر سکتا ہے۔ وہ بے سوچے سمجھے بے خوفی سے ہر کسی سے ہر کچھ کہہ سکتا ہے یا وہ بالکل نا امید ہو کر بز دل ہو سکتا ہے اور مصلحت پسندی اور جی حضوری کو اپنا کرانسانیت سے گر سکتا ہے۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کچھ نہ کچھ ایک پریشان حالی آدمی میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اور اگر ایسا آدمی ادیب ہو تو دو ہی صورتیں ہوں گی۔ یا تو وہ بالکل غارت ہو جائے گا یا پھر وہ اپنی ہمت اور عزم کے بل بوتے پر جتنا آگے بڑھ سکتا ہے بڑھے گا لیکن اسے اپنی صلاحیتوں کو دو محاذوں پر صرف کرنا پڑے گا۔ اُسے ایک طرف اپنی پریشان حالی اور اس کی پیدا کردہ برائیوں سے لڑنا ہو گا اور دوسری طرف ادبی سرگرمیوں میں دوڑ دھوپ کرنا ہو گی۔ بہر حال جو ادیب جتنا زیادہ طاقت ور ذہن رکھتا ہو گا وہ اتنا ہی اپنی پریشانی کی پیدا کردہ برائیوں پر غلبہ پالے گا مگر پھر بھی کسی نہ کسی حدتک اس کی دبی ہوئی خواہشات لا شعوری طور پر اس کی بہتر تخلیقات میں شامل ہو کر ان کا درجہ کچھ نہ کچھ کم ضرور کر دیں گی۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے اور یہی سچ کے زیادہ قریب بھی ہے کہ اگر عظیم ادیب پریشان حال نہ ہوتے تو موجودہ حیثیت سے کہیں زیادہ عظیم ہوتے۔ ظاہر ہے بصورت دیگر وہ اپنی صلاحیتوں کو کسی دوسرے محاذ پر برباد کرنے کے بجائے صرف تخلیقات کے لیے وقف کر دیتے۔
شادؔ عارفی مرحوم بھی ایسے ہی اچھے شاعروں میں سے تھے جو ہمارے درمیان رہے، سسکے، تڑپے، خفا ہوئے، جھلائے یا جنھوں نے آہیں بھریں، اپنے اور پرائے دکھوں پر طنز کیے، کبھی اس لیے آہوں کو دبائے رہے کہ دشمن خوش نہ ہو جائیں کبھی صرف مضحکہ اڑانے کو طنز کیے اور پھر ایک دن تھک ہار کے اس دنیا سے گزر کر ہمیشہ کے لیے موت کی تاریکی میں کھو گئے۔
’’ موت یا تو ایک ابدی نیند ہے، ایک ایسی دوامی خود فراموشی جس میں کوئی مقدمہ انصاف، نا امیدی، تکلیف اور رنج نہیں ہے یا پھر ایسا دروازہ جس سے گزر کر ہم جنت میں داخل ہوتے ہیں۔ سقراط ہی کیا بہت سے ایسے ہوں گے جنھوں نے اپنی پریشانیوں سے تنگ آ کر موت کو اتنے اچھے انداز میں دیکھا ہو گا بہر حال میرے محدود مطالعہ میں شادؔ عارفی کا کوئی ایسا شعر نہیں آیا جس میں موت کی خواہش ہو یا موت کو نجات دہندہ کی شکل میں دیکھا گیا ہو البتہ ایک جگہ موت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھارت میں مروں، بھارت میں بھی اس طرح کہ جیل میں موت آئے ‘‘ اس جملہ میں کہیں سے بھی موت کی تعریف یا خواہش کا پہلو نہیں نکلتا۔ البتہ اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ درد ناک حالت میں موت کے خواہش مند ہیں شاید ( ان کا خیال ہو) اس طرح زیادہ قابلِ رحم ہو کر زیادہ ہمدردی چاہتے ہیں۔ یہ ایذا پسندی کا قابلِ در گزر معاملہ ضرور ہے۔ وہ ایک جگہ غم پرستی کا ہلکا سا اظہار اس طرح کرتے ہیں :
اگر بسمل اگر گھائل نہ ہو گی
کلی قائم مقامِ دل نہ ہو گی
یہاں بھی اسی جذبے کی کار فرمائی نظر آتی ہے جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ مگر یہ زیادہ اہم باتیں نہیں ہیں اس لیے قابلِ در گزر ہیں۔
شادؔ مرحوم زندگی بھر نا سازگار حالات سے نپٹتے رہے حالات کی خرابی نے اس عظیم شخصیت کوکس حد تک متاثر کیا یہی جائزہ یہاں مقصود ہے۔
وہ ابھی بچے ہی ہیں۔ ان کی امنگوں اور خودی کا اندازہ لگائیے۔ وہ ایک افغانی کے بیٹے ہیں۔ افغانی کا بیٹا بڑا ہو کر نسلی برتری کے احساس کو نا پسند کر کے ذہن سے جھٹک سکتا ہے لیکن جب تک وہ شعوری عمر کو نہ پہنچے کوئی طاقت اس سے یہ خیال نہیں چھین سکتی کہ وہ افغانی باپ کا بیٹا ہے اور اگر وہی باپ تھانیدار بھی ہو تو پھر سونے پر سہاگہ۔ اپنی برتری کے کیا کیا خیالات ہوں گے اس بچے کے دل میں۔ پندرہ برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے یہ بچہ کبھی سپنوں ہی سپنوں میں تھانیدار بنا ہو گا، کبھی ضلع کا کوئی بڑا افسر بنا ہو گا، کبھی کسی ٹیچر کا روپ دھار کے شریر لڑکوں کو سزائیں دی ہوں گی، کبھی بہت سارے روپے کما کر لایا ہو گا اور ماں کی جھولی نوٹوں سے بھر دی ہو گی، کبھی کسی کی نازک کلائیوں میں سونے کے جڑاؤ کنگن پہنا دیے ہوں گے، ان گنت سپنوں کا معصوم راجہ صرف سپنوں ہی کے دیش میں نہیں رہتا بلکہ ان سے باہر آ کر اسکول بھی جاتا ہے۔ لگن سے پڑھتا ہے، ظاہر ہے اگر محنت سے نہ پڑھے گا تو سپنے پورے کیونکر ہوں گے مگر قہقہے پتھر کی زمین پر گر کر شیشے کے برتن کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں۔ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اب وہ تھانیدار کا بیٹا نہیں ہے صرف ایک نجیب الطرفین افغانی کا خون اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے وہ باپ کی کمی کو مٹانے کے لیے نسلی برتری کے خیال سے زیادہ شدت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔ پڑھائی باوجود کوشش کے جاری نہ رہ سکی ایک اور نا کامی جبراً گلے مل گئی۔ مگر بہ وقت ناکامیوں پر رونے کا نہیں ہے۔ ماں کا بوجھ باپ کے مضبوط کاندھوں سے گرا پڑا ہے۔ پندرہ سالہ کمزور بازوؤں سے یہ بوجھ کیسے تھمے گا۔ ’’ تم ایک نجیب الطرفین افغانی کے بیٹے ہو۔ ما ں کا بوجھ نہیں سنبھال سکتے۔ بڑھو کہ حالات کی طرف تم سینہ سپر ہو سکتے ہو۔ پیٹھ دکھانا تمھارے مسلک میں حرام ہے۔ ‘‘وہ مسکرا کر بوجھ اٹھا لیتا ہے اور سالوں تک اُٹھائے رہتا ہے۔ پھر وہ اپنے آس پاس ہزاروں انسانوں کی کراہیں سنتا ہے۔ نواب۔ ظلم، افلاس۔ کون اُٹھے اور وہی کمزور و نا تواں جس کی کمر اپنے ہی بوجھ سے جھکی ہوئی ہے اپنی نظموں اور غزلوں کے شعلوں سے حکمرانوں کے چہرے جھلسانے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ پھیلے ہوئے ہاتھوں کے درمیان کھڑا ہے مگر تاجِ شہی کی جانب ہاتھ بڑھا کر دیکھتا ہے۔ دوسری طرف ریاست کے باہر ایک طاقت ظلم کے بڑے دیو کے تاج کی طرف ہاتھ بڑھا رہی ہے۔ تاج برطانیہ پر بڑھے ہوئے ہاتھوں کے دلوں کی دھڑکن میں اسے اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ وہ اُن ہاتھوں سے امیدیں وابستہ کر لیتا ہے۔ وہ انتظار کرتا ہے کہ صبح ہو گی تو اس کے ہم خیال ہاتھ اس کی طرف محبت سے بڑھیں گے مگر صبح سے جو اُمیدیں باندھ رکھی تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں اور پھر اسے بڑھاپے میں لڑنے کو اُٹھنا پڑا۔ ہمت جوان ہے لیکن ان کی عمر دیکھتے ہوئے اگر یہ تقاضا کیا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔
’’ قبلہ اب نجیب الطرفین افغانی ہونے پر فخر کرنا چھوڑیے کیونکہ آدمی نسل کے بجائے خود اپنی خصوصیات سے عظیم ہوتا ہے اور آپ میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں اور کسی حد تک یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس خیال کو چھوڑ چکے ہیں مگر کہیں نہ کہیں اس کا اظہار ہو ہی جاتا ہے۔ اپنے بارے میں لکھتے ہوئے نجیب الطرفین ہونے کا ذکر اس شدید جذباتیت سے کرتے ہیں کہ نانا کے نام میں ’’ سید‘‘ ہونے کے ہلکے سے اشارے کو گوارا نہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ نام کا جزو ہے، یہ بات سچ ہے لیکن وہ شیخ ہوتے تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔ یہ نسلی برتری کا جذبہ ان کے یہاں جوشؔ سے کسی طرح کم نہیں ہے لیکن شادؔ مرحوم اپنے اس جذبے کی حفاظت جان تک دے کر کرنے پر آمادہ ہیں۔ ایک خط میں ایڈیٹر تخلیق کو لکھتے ہیں۔ ’’ پاکستان میں میری بڑی مانگ ہے مگر میں اپنا وطن ( جوشؔ ملیح آبادی کی طرح) ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔ ‘‘ باوجود اس کے کہ یہ حقیقت ہے لیکن وہ جوشؔ کا ذکر کیے بغیر بھی اپنا کام چلا سکتے تھے۔ کسی کی برائی بتا کر اپنی اچھائی ثابت کرنا پسندیدہ عمل تو نہیں ہے لیکن اتنا نا پسندیدہ بھی نہیں کہ شادؔ مرحوم کی شخصیت اس عمل کی وجہ سے گھٹ جائے۔ ویسے یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ شادؔ مرحوم میں خود سے احتساب کرنے کی بلند پایہ خوبی موجود تھی۔ مظفر حنفی کو لکھتے ہیں ’’ ابرؔ کی لمبی غزل کی ( مجھے اخلاقاً حضرت ابرا حسنی گنوری لکھنا چاہیے تھا مگر چونکہ اس تیسری کرن میں انھوں نے میرا نام اس احساس برتری کے ساتھ لیا ہے جیسے وہ قطب مینار سے بول رہے ہوں چنانچہ میں گنبد کی صدا کے طور پر صرف ابرؔ لکھ کر اپنے احساسِ کمتری کی تسکین چاہتا ہوں ) سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ طولِ شبِ فرقت سے بھی دو ہاتھ بڑی ہے۔ جن ادیبوں میں اپنے افعال کو نفسیاتی نقطۂ نظر سے ناپنے کی اور نتیجہ کے اظہار کی جرأت ہوتی ہے ان کے کیریکٹر میں کم سے کم جھول پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ شادؔ مرحوم کے کیریکٹر میں کچھ اور خوبیاں نظر آتی ہیں جو عموماً ایسے شاعروں میں نہیں ہوتیں۔
حالات کی خرابی آدمی میں مصلحت پسندی پیدا کر دیتی ہے اور اکثر وہ جی حضوری کی حد تک مصلحت پسند ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہر معاملہ میں ’’ فکر فردا‘‘ کی لگام اسے سر بہ سجود رکھتی ہے۔ وہ صرف سر جھکا کر ہاں کہنے کو اپنا مسلک بنا لیتا ہے۔ مگر شادؔ مرحوم ایسی ’’ فکر فردا‘‘ سے دور ہی رہے جو جی حضوری والی مصلحت پسندی سکھائے ایسی صورت میں یہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ کھٹ قسم کی شخصیت نہ بن جائیں۔ جس کو چاہا ایک ہی لٹھ سے ہانک دیا۔ طنز کرنا ہے، پھٹکارنا ہے۔ بُرے کو پھٹکارا تو پھٹکارا اچھے کے بھی لتّے لے ڈالے، کیونکہ عام طور پر ایسے طنز کرنے والے جو مصلحت پسند نہ ہوں شدید قسم کی جذباتیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور جب خود شادؔ مرحوم نے کہا ہو :
ہم سے اس قسم کی اُمید نہ رکھے دنیا
ہم کسی شخص کی تعریف تو کرتے ہی نہیں
یہ انتہائی خطرناک ارادہ ہے بُرے بھلے سب کو ایک ہی لٹھ سے ہانکے جانے کا فیصلہ ہے لیکن شادؔ عارفی نے کسی پر بیجا طنز نہیں کیے وہ برائی دیکھتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی باریک ہو مگر وہ برائی ان کے طنز کے نشتر سے بچ کر نہیں گزر سکتی۔
ان دونوں صورتوں کے علاوہ ایک درمیانہ قسم کی پالیسی ہوتی ہے۔ برائی کی برائی کرو مگر ہنسی بھی شامل کر دو، نتائج زیادہ ہوں تو ہنسی میں ٹال دو۔ مگر شادؔ مرحوم نے طنز کے ساتھ مزاح کو شامل نہیں کیا اور یہ بات غالباً ان کے باطن کی پاکیزگی پر مبنی ہے اور باطن کی یہ پاکیزگی ان میں شعوری ہے جسے انھوں نے مستقل مشاہدے سے حاصل کیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ہنسانے والی باتوں سے برائی کے اظہار میں شدت باقی نہیں رہتی اسی لیے وہ سیدھے سیدھے بقول نیازؔ فتحپوری کیل کے سر پر کاری چوٹ مارتے تھے۔ یہاں کوئی ناقد ایذا پسندی کے رجحان کا پتہ لگا سکتا ہے لیکن شادؔ مرحوم میں مجرمانہ یا غیر شائستہ رسم کی ایذا پسندی بالکل نہیں ہے اور باوجود جارحانہ انداز تنقید کے غالباً ایک فیصدی اشعار بھی ایسے نہ مل سکیں گے۔
شادؔ مرحوم کے پورے کلام میں یکساں تاثر تو نہیں ہے اور غالباً یہ کسی بھی شاعر سے ایک بیجا اُمید ہے مگر انھوں نے اتنے لمبے عرصہ تک زیادہ شاعری کی اور خود کو نہیں دوہرایا یہ بہت بڑا کمال ہے جو اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔
کتنے ایسے صدمات جو ہم جانتے ہیں اور کتنے ایسے جنھیں ہم نہ جان سکے شادؔ مرحوم کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے اور ان کی شخصیت کو مسخ کرنے کے در پے رہے مگر وہ اپنی شاعرانہ صلاحیت کے ساتھ مردانہ وار سب سے لڑتے رہے۔ بدی کی تمام طاقتیں ایک طرف اور وہ اچھائی کے شیدائیوں کے ساتھ دوسری طرف؟ جہاں کہیں بدی نے موقع پا کر دھوکے سے ان پر کوئی کاری وار کرنا چاہا وہ نہایت چابکدستی سے جھولاوا دے کر بچ گئے مگر ایسے موقعوں پر خراشیں تو آ ہی جاتی ہیں اور ہلکی پھلکی خراشوں سے زیادہ ان پر کوئی گہرا بدنما داغ نہیں پایا جاتا یہی ان کی بڑی شخصیت کا ثبوت ہے۔
٭٭٭
مسعود قمر تاباںؔ
شادؔ کی نظم نگاری
شادؔ عارفی کا نام ذہن میں آتے ہی ایک خاص قسم کی شاعری کا تصور پیدا ہو جاتا ہے جس میں طنز، تلخی، تیکھاپن، روایت سے بغاوت، نئی اور انوکھی علامات، تشبیہات و استعارات کا استعمال اور ایک منفرد اسلوب سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔ اس حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو شادؔ عارفی کی ذات ایک انجمن نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری ایک ایسا گلستان ہے جہاں اگر پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو مہک رہی ہے تو کانٹوں کی چبھن بھی موجود ہے۔ پھول اور کانٹے اپنی فطرت کے لحاظ سے دو متضاد چیزیں ہیں لیکن دونوں کا چولی دامن کا ساتھ بھی ہے اور پھر ’’گلستانِ شادؔ‘‘ کی یہ ایک منفرد خصوصیت ہے کہ بعض وقت کانٹوں کی چبھن بھی نرم نرم خوشنما پھولوں کی سی لذّت دے جاتی ہے کیونکہ ان کانٹوں پر بھی خلوص کا پالش ہوتا ہے جو اپنے اندر ایک ڈاکٹر کے نشتر کی سی خصوصیت رکھتا ہے۔
شادؔ کی زندگی ہمیشہ ناشاد یوں کے ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزرتی رہی ہے جس کی بدولت ان کا مزاج تلخ سے تلخ تر ہوتا گیا اور شادؔ کو اپنی خود داری، حق گوئی اور بے باکی نے ہمیشہ ناشاد رکھا۔ یہی نا شادی ان کی شاعری میں طنز کا روپ دھار کر رونما ہوئی جسے ان کے منفرداسلوب نے اردو ادب میں ایک خاص مقام کا حامل بنا دیا۔ حالانکہ شادؔ عارفی کے نام کے ساتھ ہی طنز یہ شاعری کا تصور ذہن میں آ جاتا ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شادؔ عارفی بہ ہر حال ایک شاعر تھے جن کے سینے میں ایک فنکار کا حساس دل دھڑک رہا تھا اور جس میں جمالیاتی حس بھی بدرجۂ اتم موجود تھی۔ شادؔ کی جمالیاتی حِس کا اندازہ اُن نظموں سے ہوتا ہے جن میں انھوں نے مناظر فطرت کی عکاسی یا کسی واقعہ کی مرقع کشی کی ہے۔ یہ تمام نظمیں عکاسی فطرت، مناظر کی مرقع کشی واقعیت اور حقیقت نگاری، جزویات نگاری، اچھوتی علامات، نئی نئی تشبیہات و استعارات، عام فہم انداز بیان، طنز، سیاسی شعور، روایتی اسلوب سے بغاوت اور ہلکے ہلکے مزاح کا بہترین نمونہ ہیں۔
۱۹۴۵ء سے قبل کا زمانہ جب کہ ترقی پسند ادب کی تحریک اپنے شباب پر تھی اور ادب میں واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دیا جا رہا تھا نیز ن۔ م۔ راشد اور میراؔ جی اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دے رہے تھے ٹھیک اسی وقت شادؔ عارفی کسی تحریک اور رجحان کے پابند ہوئے بغیر اپنے منفرد اسلوب میں جو نظمیں کہہ رہے تھے وہ اس زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات اور کلاسیکل شاعری کو دیکھتے ہوئے ایک زبردست بغاوت سے کم نہ تھی۔ شادؔ کی نظمیں مبالغہ آرائی سے پاک اور حقیقت و واقعیت کا پہلو لیے ہوئے ہوتی ہیں جن میں عموماً کہانی کا سا پلاٹ ہوتا ہے جو آج کی نئی شاعری کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اس حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو شادؔ کی شاعری اور آج کی نئی شاعری میں ابہام کو چھوڑ کر بہت سی قدریں مشترک نظر آتی ہیں۔ شادؔ عارفی ۱۹۴۵ء سے قبل جو نظمیں کہہ رہے تھے وہ کچھ اس طرح کی تھیں :
کچھ تو مَیل نے میری ضد میں اپنی چال گھٹا لی ہے
کچھ اسٹیشن پر پہلے سے آ کر آفت ڈھالی ہے
’ کاننؔ‘ کی ہرنی ایسی آنکھوں سے آنکھ لڑا لی ہے
جانے والی پارسلوں کی ہر دفتی پڑھ ڈالی ہے
………
پوسٹروں میں اردو کی درگت سے جی بہلاتا ہوں
نیم شعوری حال میں سگرٹ پے در پے سلگاتا ہوں
بید کی نوک سے خالی پیکٹ کا سینہ برماتا ہوں
پلیٹ فارم کے اس کونے سے اُس کونے تک جاتا ہوں
………
یوں تو شادؔ کی پوری شاعری حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہے لیکن مندرجہ بالا اشعار دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ اب سے تقریباً ۳۰ سال قبل کہے ہوئے ہیں جب کہ اردو شاعری کا زیادہ حصہ روایتی اسلوب کی چٹّان کے نیچے دبا ہوا تھا۔
شادؔ کی شاعری میں نئی اور اچھوتی تراکیب کا برمحل استعمال ان کی جدّت طبع کا پتہ دیتا ہے۔ انھوں نے نئی نئی تراکیب اور اچھوتی تشبیہات و علامات وضع کر کے اردو کے دامن میں کچھ بیش بہا موتیوں کا اضافہ کیا ہے :
کھلی ہوئی جرأتوں کے پہلو میں تھی رسیدِ پیام جس میں
لکھا تھا سُرخی سے ’’ حسنِ القاب‘‘ کے لیے تیرا نام جس میں
………
پگھلے ہوئے بلّور کی لہروں میں جوانی
ٹھیرے ہوئے سیماب کے پہلو میں شرارے
………
سرد موسم کا لڑکپن گرم چولھوں پر شباب
برف میں ساقی لگا لایا ہے ’’مینائے شراب‘‘
………
شادؔ نے مناظر کی عکاسی بڑے خوبصورت ڈھنگ سے کی ہے۔ وہ جب کسی منظر کی عکاسی کرتے ہیں تو اُن کا قلم مصور کا برش بن جاتا ہے اور وہ الفاظ کے رنگوں کے امتزاج سے حسین مناظر کو حسین ترین بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ شادؔ نے ایک نظم ’’ مندر جانے والی‘‘ میں بڑی خوبصورت مرقع کشی کی ہے۔ یہ نظم جزئیات اور حقیقت نگاری کے اعتبار سے شاہکار کہلائی جانے کی مستحق ہے۔
اٹھائے ہاتھ پہ ہلکی سی پیتلی تھالی
کمر دباؤ سے تھوڑا سا لوچ کھائے ہوئے
تلک سے ’’ برہمنِ ہردوار‘‘ پیشانی!
لرز رہے ہیں میرے ادّعائے ایمانی
’’گنگا اشنان‘‘ کے بھی کچھ اشعار
اشنان کے تقریب میں گنگا کے کنارے
جمعیتِ افراد پر حاوی ہیں نظارے
آغوشِ حزیمت میں ’’ حسینانِ سمن پوش‘‘
ذرّاتِ ضیا پاش پہ بکھرے ہیں ستارے
مستانہ اداؤں سے جھٹکتے ہوئے چپل
ریتی پہ ٹہلتے ہیں شفق رنگ چکارے
وہ دوڑ رہی ہے کوئی رنگین شرارت
ہرنی ہے کہ میدان میں بھرتی ہے طرارے
بستر سے کوئی اُٹھ کے نہانے کو چلی ہے
آتی ہے کوئی پھول سے چہرے کو نکھارے
وہ پھاٹ میں موجوں سے کوئی کھیل رہی ہے
وہ گھاٹ میں بیٹھی ہے کوئی پاؤں پسارے
ڈھلتے ہوئے آنچل سے کوئی دھیان ہٹائے
لپٹی ہوئی چادر میں کوئی شرم کے مارے
پانی میں اُترتی ہے کوئی پاؤں جما کر
ساحل پہ ابھرتی ہے کوئی ہاتھ پسارے
منجدھار سے ڈر ڈر کے پلٹ آتی ہے کوئی
جاتی ہے کوئی دھار میں ساتھن کے سہارے
………
مندرجہ بالا اشعار اگر ایک طرف ’’ گنگا اشنان‘‘ کے منظر کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں تو دوسری طرف شادؔ عارفی کی گہری نظر اور عمیق مشاہدے کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے۔ شادؔ نے ’’گنگا اشنان‘‘ کی جوعکاسی اپنی تمام تر جزویات کے ساتھ کی ہے وہ ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کی دلیل ہے۔ اسی طرح کی ایک نظم ’’ دیوالی‘‘ بھی ہے :
ہو رہے ہیں رات کے دیوؤں کے ہر سو اہتمام
صبح سے جلوہ نما ہے آج دیوالی کی شام!
ہو چکی گھر گھر سپیدی دھُل رہی ہیں نالیاں
پھرتی ہیں کوچوں میں مٹّی کے کھلونے والیاں
سرد موسم کا لڑکپن گرم چولھوں پر شباب
برف میں ساقی لگا لایا ہے ’’ مینائے شراب‘‘
ابخرے بن کر کڑھائی پر ہوا لہکی ہوئی
ہر گلی پکوان کی بو باس سے مہکی ہوئی
ادھ جلے ایندھن کا آنکھوں میں دھواں بھرتا ہوا
نرگسِ شہلا میں ’’تیزابِ خزاں بھرتا ہوا‘‘
کھو گئی ہیں کام کے اندر کنواری لڑکیاں
ساتھ وہ ہمجولنیں بھی آئی ہیں جو میہماں
بتیاں بنتی ہے کوئی روئی کا گالا لیے
تیل کا ’’ گڑوا‘‘ کوئی ’’آفت کی پرکالا‘‘ لیے
بجھ گئی شمعِ شفق نظروں میں کہرا بھر گیا
شام کا گیسو کھلی آنکھوں پہ جادو کر گیا
مختلف آنچل ہوا کے رُخ پہ بل کھانے لگے
روشنی میں ساریوں کے رنگ لہرانے لگے
یہ دیوالی کے مناظر یہ نگاہیں کامیاب
’’ یا الٰہی تا قیامت بر نہ آید آفتاب‘‘
………
لیکن جب خوبصورت مناظر کی حسین عکاسی کرنے والا شادؔ کا قلم طنز کے تیر چلاتا ہے تو اس کی تمامتر تلخی ابھر کر سامنے آ جاتی ہے اور ’’ شاعرِ جمالیات‘‘ شاعرِ طنزیات‘‘ کے روپ میں اپنے فن کا سب سے زیادہ روشن پہلو لے کر کچھ اس طرح سے ہمارے سامنے آتا ہے :
سوچنا تو چاہیے اے شاعرِ ہم شکلِ خضر
اسپ سودا ہے کہ تیرا توسنِ عمرِ رواں
صورت و معنی کی بے ربطی سے بزمِ شعر میں
تیرے ’’ بوڑھے منہ مہاسوں ’’ پر ہزاروں پھبتیاں ‘‘
رعشہ بر اندام لیکن وصلِ جاناں کی ہوس
جھرّیاں چہرے پہ، دل مردہ! تمنائیں جواں
………
شادؔ نے دیہاتی لاری کی تصویر کچھ اس طرح کھینچی ہے :
۱۶ بیٹھنے کا حق حاصل ۳۰ مسافر یہ کیا سوانگ
بابو اس قانون کی ہم نے رشوت دے کر توڑی ٹانگ
چھت پر ایسے اتنے بوجھل انمل بے جوڑ اوٹ پٹانگ
بستر نقلی گھی کے پیپے، شکر تمباکو بسکٹ بھانگ
جی ہاں جتنے آنے والے آتے جائیں اتنی مانگ
………
کھدر پوشوں کی کی اصلیت بھی دیکھیے :
تو دکھاوے کے لیے کھدّر پہنتا ہے مگر
قاقم و سنجاب میں لپٹی ہے تیری ہر نظر
شادؔ کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ انھوں نے حق گوئی اور بے باکی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے طنز کچھ ایسے ’’ چپکتے ‘‘ ہوئے ہوتے ہیں کہ شکار تڑپتا ہی رہ جاتا ہے۔ طنز کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے اس کے لیے بڑی متانت، سنجیدگی اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ طنز نگاری اور پھکڑ پن میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا جیسے سوداؔ اور جعفر زٹلی کی ہجویات یا انشاؔ اور مصحفیؔ کی چشمکیں۔ شادؔ کے طنز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں پھکّڑ پن شاذ ہی دکھائی دیتا ہے۔
شادؔ عارفی کی شاعری میں گہرا سیاسی و سماجی شعور بھی ملتا ہے۔ شادؔ نے جگہ جگہ اپنے زمانے کے سیاسی سماجی اور معاشرتی ماحول کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ بنگال کا قحط دیکھ کر شاد کا قلم بھی خون کے آنسو روتا نظر آتا ہے :
ہائے بنگال دیکھنا سارا
ماں سے چمٹا ہے بھوک کا مارا
ہار ہے ہڈّیوں کا بے چارہ
………
شادؔ نے جد و جہد آزادی کے نقطۂ عروج کے زمانے میں جو نظمیں کہی ہیں وہ ان کے سیاسی شعور کا پتہ دیتی ہیں۔ آزادی سے کچھ سال قبل کے سیاسی و سماجی ماحول کے پس منظر میں مندرجہ ذیل اشعار دیکھیے :
دھرا ہوا ہے جہالت کے سر پہ تاج ابھی
نہیں عروس کی آزادیوں کا راج ابھی
دلوں کے بھید سے واقف کہاں سماج ابھی
محبتوں میں تباہی کا ہے رواج ابھی
شادؔ نے پُرانے سانچوں میں نئے نئے مضامین ڈھال کر اردو شاعری کو ایک نیا آہنگ اور ایک نیا اسلوب دیا۔ ایک چھوٹی سی نظم’’ اختلافات‘‘ دیکھیے جس میں شاعر نے علاماتی اظہار بیان اختیار کیا ہے۔
جہاں گنگا سے کٹ جاتی ہیں شاخیں
جہاں شاخوں میں بٹ جاتی ہیں شاخیں
جہاں رستے سے ہٹ جاتی ہیں شاخیں
جہاں دب کر سمٹ جاتی ہیں شاخیں
جہاں ریتی سے پٹ جاتی ہیں شاخیں
وہاں رہتی نہیں گنگا کی دھارا
یہی اے شادؔ عالم ہے ہمارا
شادؔ عارفی کی زبان اور اندازِ بیان بھی قابلِ غور ہے۔ شادؔ نے آسان اور عام فہم اندازِ بیان کو اپنا وسیلۂ اظہار بنانے کی شعوری کوشش کی ہے انھوں نے کئی جگہ اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں عوام سے مخاطب ہوئے ہیں۔
شادؔ نے عموماً ضرورت کے مطابق عام فہم اور ٹکسالی زبان استعمال کی ہے۔ عام بول چال کی زبان میں اپنے مطلب کا اظہار کتنا مشکل کام ہے یہ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس کی کوشش کر چکے ہیں۔ شادؔ کی ایک نظم ’’ پرانے کوٹ‘‘ کا ایک بند دیکھیے :
اتنے کم سلوائی دے دو
پانچ نہیں تو ڈھائی دے دو
فی ’’سلوٹ‘‘ نو پائی دے دو
یاساس اور بہو کے ڈائلاگ:
نمک سالن میں اتنا تیز توبہ
مُزعفر ڈالڈا آمیز توبہ
بہو اور ساس رستاخیز توبہ
گھریلو زبان میں بھی ایک بند ملاحظہ ہو:
چھچوندر کا سا بھپکا مار ڈالا
یہ کس بھڑوے نے تھا پوڈر نکالا
نگاہوں کے لیے مکڑی کا جالا
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ شادؔ عارفی پہلو دار شخصیت کے مالک تھے اور بذاتِ خود ایک انجمن تھے اسی طرح ان کی شاعری بھی گو نا گوں خصوصیات کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ ان کی پہلو دار شخصیت اور فن کا جائزہ لینے کے لیے کافی وقت اور فرصت در کار ہے۔ یہ مختصر سا مضمون اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شادؔ عارفی کا تیکھا لب و لہجہ اور منفرد اسلوب اُنھیں ادب میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
٭٭٭
نیازؔ فتح پوری
شاد عارفی کا آرٹ
میں شادؔ عارفی کی شاعرانہ اہلیت کا دیرینہ معترف ہوں۔ شادؔ عارفی زمانہ حال کے شاعروں میں ایک خاص رنگ کے نقاد و طنز نگار شاعر ہیں، جن کی نظمیں جارحانہ انتقاد سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں کہیں کہیں مزاحی رنگ بھی آ جاتا ہے۔ اس رنگ کی شاعری کے لیے ایک خاص لب و لہجہ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں قطعیت بہت زیادہ ہو، جِسے انگریزی میں To hit the nail on the head کہتے ہیں۔ اس کوشش میں بہت سے حضرات آرٹ سے ہٹ کر خشک واعظ بن کر رہ جاتے ہیں لیکن شادؔ عارفی شاعرانہ زہر خند یا تبسمِ زیر لب کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مثلاً:
چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اُٹھا لا ساقی
شیخ صاحب ہیں، میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی
اس خصوص میں وہ اکبر الٰہ آبادی تک پہنچ جاتے ہیں مگر ذرا دامن بچائے ہوئے۔ یہی شادؔ عارفی کا آرٹ ہے۔
٭٭٭
حفیظؔ جالندھری
ایک تھا شاعر
شادؔ عارفی نے جزو سے کل پر عبور کا حوالہ دیتے ہوئے اور اچھے چاول کو پورے خرمن کی عمدگی بتا کر میرا یہ شعر پیش کرنے کے بعد:
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
نثر میں جو دو سطریں لگھ دی ہیں وہ ان کی شخصیت کی انصاف پسندی اور ایمانداری اور علاقائی بے تعصبی کا ثبوت ہیں۔ وہ سطریں حسبِ ذیل ہیں :
’’ اس شعر میں کیا کمی رہ گئی ہے۔ بتائیے۔ کیا زندگی کا کوئی ایسا پہلو ہے جس کو اس نے احاطہ نہ کیا ہو؟ میں نہیں سمجھتا کہ دنیائے ادب ایسے شاعر کو جس نے یہ شعر کہا کس طرح بھلا سکے گی؟‘‘
اب شادؔ کے جاننے والو، حفیظ کی رائے اپنے بارے میں واللہ طالب علمی کی ہے۔ حفیظ کا اپنا شعر ہے :
حفیظؔ اپنی ترقی شعر میں یہ ہے کہ اس فن کو
بہت آسان سمجھے تھے، بہت مشکل سمجھتے ہیں
لیکن حفیظ کے بارے میں رائے دینے میں خواہ اسے معاصرانہ دل دہی کیوں نہ کہیے شادؔ عارفی کی زندہ و پائندہ شخصیت موجود ہے۔
شادؔ ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے اور افغانی الاصل ہیں۔ حفیظؔ بھی ۱۹۰۰ء میں ظہور پذیر ہوا لیکن مسلم راجپوت چوہان نسل۔ دونوں لڑنتئے، دونوں غزل کہنے والے، دونوں دوسری اصناف کے دریاؤں پر تغزل کی لہروں میں بہنے والے۔
٭٭٭
ضیاء احمد بدایونی
ایک خود شناس شاعر
قطب شاہی عہد سے لے کر اب تک ہزاروں غزل نگار پیدا ہوئے اور حجابِ عدم میں پنہاں ہو گئے مگر ایسے شعرا بہت تھوڑے تھے جن کو سن کر انسان چونک جائے۔ جنھوں نے اپنے من میں ڈوب کر زندگی کی ترجمانی کا فرض ادا کیا ہو اور جن کی تخلیق، فکر اور جذبے پر ان کی انا کی چھاپ ہو۔ شاد عارفی کا شمار بھی اسی آخری گروہ میں ہے۔ ان کی غزل بڑی حد تک ان کی وارداتِ دل کی ترجمانی ہے۔ پڑھنے والا جب ان کا کلام پڑھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ وہ جگ بیتی نہیں بلکہ آپ بیتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آپ بیتی میں آفاقیت کا وہ انداز آ جائے کہ اس پر جگ بیتی کا دھوکا ہونے لگے۔
چند شعر ملاحظہ کیجیے جن سے ہمارے بیان کی تصدیق ہو گی۔ لکھتے ہیں :
میں دنیا پر طنز کروں گا
دنیا میرے کیوں در پَے ہو
ہم اس کے پابند نہیں ہیں
ساغر ہوِ مینا ہو، مَے ہو
شادؔ مجھے یہ دھن رہتی ہے
اپنا نغمہ اپنی لَے ہو
٭٭٭
سردار جعفری
ایک خط!
برادرم مظفر حنفی صاحب! تسلیم
۲۰ ؍جولائی کا پوسٹ کارڈ، شاعر کی معرفت وصول ہوا۔ یاد آوری کا شکریہ۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ مرحوم شادؔ عارفی کے فن اور شخصیت پر ایک کتاب مرتب کر رہے ہیں۔ اگر ان کا سارا کلام ایک جگہ مرتب کر کے شائع کرنے کا انتظام بھی ہو جائے تو بہتر ہے۔
شاد عارفی اپنی زندگی میں جس توجہ کے مستحق تھے وہ انھیں نہیں مل سکی۔ شایداس کی وجہ یہ ہو کہ اردو شاعری، جو غیر ضروری آرائش کا شکار ہے، شادؔ کی صاف ستھری بول چال کی زبان کو آسانی سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اُن کی حقیقت نگاری کی تلخی کو بھی شاید یہ شہد و شبنم پینے والی شاعری اپنے گلے سے نیچے نہیں اتار سکی۔ پھر بھی شادؔ عارفی کے خلوصِ فن نے اُن کو گوشۂ گمنامی کے اندھیرے میں بالکل ہی غرق ہو جانے سے بچا لیا۔ اُن کے یہاں غیر محسوس طنز کے نشتر بھی ہیں۔
ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی شاعری کو صف اول کی شاعری میں جگہ دی جا سکتی ہے لیکن اس کا اپنا ایک مقام ہے جو کبھی نہیں چھینا جا سکے گا اور اسی اعتبار سے یہ شاعری ایک قیمتی سرمایہ ہے جسے جلد محفوظ کر لینا چاہیے۔
مجھے مرحوم سے نیاز حاصل کرنے کا موقع کبھی نہیں ملا۔ اس لیے اُن کی شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن وہ شخصیت جو ان کی شاعری کے پردے سے اُبھرتی ہے مجھے متاثر کر چکی ہے۔ اس میں ایک حساس انسان کے درد مند دل کی ساری دھڑکنیں موجود ہیں۔ بعض شاعروں کی شخصیت کے لیے اُن کی شاعری ایک طرح کا حجاب بن جاتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ شادؔ کی شاعری ان کی دلنواز شخصیت کو بے نقاب کر دیتی ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے میں کوئی معقول مضمون لکھنے کا وقت نہیں نکال سکتا، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرا یہ خط شائع کر سکتے ہیں۔
امید ہے مزاج بخیر ہو گا۔
مخلص:سردار جعفری
بمبئی۔ ۲۵؍ جولائی ۱۹۶۶ء
٭٭٭
میکشؔ اکبر آبادی
ایک تاثر
مظفرؔ حنفی صاحب ارباب علم و ادب کے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے شادؔ عارفی کی شخصیت اور فن کو روشناس کرایا کاش یہ کوشش شادؔ صاحب کی زندگی میں ہوئی ہوتی۔ میرے مشاہدے میں بعض ہی شخصیتیں ایسی آئیں جن کا اعتراف بغیر پروپاگنڈے اور تشہیر کے کیا گیا۔ ان میں ایک شخصیت شادؔ صاحب کی ہے۔ ان کے کلام نے خود اربابِ ذوق کواپنی طرف متوجہ کیا۔
میں نے پہلے پہل ان کا کلام ’نقوش‘ لاہور میں دیکھا اور ایک قسم کی اجنبیت کے ساتھ ایڈیٹر نقوش سے در گزر کرتا ہوا گزر گیا لیکن تھوڑے ہی دن بعد نقوش کے حصہ نظم میں سب سے پہلے شادؔ صاحب کو تلاش کرنے لگا۔ رام پور جب بھی جانا ہوا میں شاد صاحب سے نہ مل سکا میں نے چاہا بھی نہیں کیونکہ تصور نے جو ان کی شخصیت بنائی تھی اس میں کوئی کشش نہ تھی لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ ایک مرتبہ میں نے ان کے ایک عزیز شاگرد صابر رامپوری مرحوم سے آرزو کی کہ مجھے شادؔ صاحب کے پاس لے چلیں۔ دوسرے دن صابر صاحب ایک منحنی سے سادہ وضع، قدرے بے تکلف مگر شائستہ بزرگ کو میری قیام گاہ پرلے آئے۔ یہ شاد صاحب تھے جن سے میری پہلی اور آخری ملاقات کئی گھنٹے چلتی رہی وہ بڑے اخلاص کے آدمی ثابت ہوئے۔ زمانے کے ستائے ہوئے ہونے کی تلخی کبھی کبھی ان کے کلام میں آ جاتی تھی۔ انھوں نے اپنے اور ریاست کے تعلقات، ترکِ ملازمت کے واقعات اور بہت سے حالات بیان کیے لیکن مجھے کہیں بھی غرور اور خود ستائی کا جذبہ ان میں محسوس نہیں ہوا۔ بہت سی چیزیں نہیں ہوتی ہیں اور شعر میں لانی پڑتی ہیں اور پھر بہت سی چیزیں انسان میں ہوتی ہیں اور گفتگو میں چھپانی پڑتی ہیں مگر فی الجملہ میں ان کی انسانیت سے بہت متاثر ہوا اسی صحبت میں انھوں نے مجھے اپنے صوفیانہ رنگ کے شعر سُنائے تو میں نے سوال کیا کہ آپ نے یہ رنگ کیوں اختیار کیا تھا اور پھر کیوں ترک کر دیا۔ انھوں نے فرمایا میں ایک علاحدہ راستے اور انفرادی رنگ کی تلاش میں تھا۔ اسی کوشش میں یہ صوفیانہ رنگ اختیار کیا تھا لیکن اس سے مطمئن نہیں ہوا اور آخر اسے ترک کر دیا۔ اس موقع پر میری گزارش یہ ہے کہ اگر شادؔ عارفی کا کلام سنہ وار مرتب کیا جائے تو ان کے ذہنی سفر کی منزلیں واضح ہو کر ہمارے سامنے آ جائیں۔
شادؔ عارفی ہمارے ان چند شعرا میں ہیں جن کے ہر شعر پر ان کی مہر ہوتی ہے اور ان کی آواز بہت سی آوازوں میں بھی دور سے پہچان لی جاتی ہے ان کے موضوع اور مسائل سب ہی میں انوکھا پن اور جدت ہے، اگر چہ ان کے مسائل ہمارے روز مرہ کے مسائل ہیں ان کی زبان محاورے اور بول چال ہماری روز مرہ کی زبان ہے اور ان کے کردار ہمارے چلتے پھرتے زندہ انسان ہیں مگر پھر بھی ہمارے ادب کے لیے اس میں بہت کچھ نیا ہے۔
شعر و ادب کے متعلق میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس جیسے دوسرے صاحبانِ کمال اس کے مقابلے میں کسی نہ کسی درجے میں اپنا عجز محسوس کریں اس میں اتنا اضافہ کر لیا جائے کہ خود شاعر بھی اپنے اُن اشعار کے مقابلے میں اپنا عجز محسوس کرتا ہے اور دوبارہ ویسا ہی کہنا اکثر اس کے قابو سے باہر ہوتا ہے اور یہ کیفیت ہمیں شاد صاحب کے کلام میں کم و بیش کتنے ہی مقامات پر محسوس ہوتی ہے۔
شادؔ صاحب کے یہاں نظیر اکبر آبادی کی طرح ہمہ گیری اور تنوع اور محاکات کا کمال نہیں ہے مگر نظیرؔ کی طرح ان کی شاعری میں اُن کے سماج کا دل دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کے عہد کے کردار متحرک اور زندہ نظر آتے ہیں اور ایک مورخ ان کے کلام سے ان کے معاشرے کا بہت کچھ اندازہ کر سکتا ہے، اسی طرح ان کے اشعار سے ہمیں بہت سے ایسے لغت میسر آ جاتے ہیں جو عام طور سے ہمارے ادب میں مستعمل نہیں ہوئے ہیں مگر عوامی زبان میں رائج ہیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ مظفرؔ حنفی صاحب کی یہ کوشش کامیاب ہو گی اور اس کی اتنی ہی پذیرائی کی جائے گی جس کی وہ مستحق ہے۔
٭٭٭
سید احتشام حسین
شادؔ عارفی کا فن
شادؔ عارفی موجودہ دور کے بہت اہم، ذہین اور طباع شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کے جوہر نظم اور غزل دونوں میں یکساں نمایاں ہوتے ہیں۔ مسائلِ حیات کی عکاسی، انسانی دُکھ درد کا احساس اور اخلاقی اقدار کا لحاظ ان کی شاعری کے نمایاں پہلو ہیں۔ ان میں اس وقت اور جان آ جاتی ہے جب وہ طنز کے پردے میں حقائق کا اظہار کرتے ہیں۔
اردو شاعری میں ہر رنگ کے نمونے مل جاتے ہیں۔ ایسا کچھ تو وقت کے تقاضوں اور ادبی تغیرات کے عام رجحان کا نتیجہ ہوتا ہے اور کچھ ذاتی اور انفرادی افتادِ مزاج کا عکس، شادؔ عارفی کے یہاں دونوں باتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے غیر مقلد اور باغی تھے۔ نفسیاتی زبان میں اسے احساس برتری کی ایک شکل کہہ سکتے ہیں اور زمانہ انھیں وہ ملا جس میں روایت شکنی عام ہو رہی تھی، شعر و ادب میں طرح طرح کے تجربے کیے جا رہے تھے اور شاعری کو اونچے ایوانوں سے نکال کر عام پڑھنے والوں کے ذوق کی چیز بنانے کی کوششیں ہو رہی تھیں چنانچہ شادؔ عارفی نے اپنے لیے ایک نیا طنزیاتی رنگِ سخن پیدا کر لیا۔ ’’ سفینہ چاہیے ‘‘ (مجموعۂ کلام) اس رنگ کا آئینہ دار ہے۔
شادؔ عارفی کے یہاں طنز اور تلخی کے اسباب کی جستجو کرنے والے کو ان کی زندگی میں بہت سے ایسے عناصر ملیں گے جن سے ذہنی توازن برقرار نہیں رہ جاتا اس پر طرہ یہ ہوا کہ انھیں اپنی ناقدری کا احساس شدید تھا۔ دونوں باتوں نے مل کر انھیں سماج کی ابتری اور زبوں حالی، اس کے اندرونی تضادات کی طرف متوجہ کر دیا اور انھوں نے اپنی ناکامیوں سے انتقام لینے کے لیے طنز کی راہ اختیار کی۔ طنز کی شاعری عام طور سے ہر دلعزیز نہیں ہوتی کیونکہ اس میں جو اشارے اور کنائے ملتے ہیں، زبان کا جو اکھڑ پن ہوتا ہے اور اندازِ بیان میں جس قسم کی تلخی پیدا ہو جاتی ہے ان سے ہر شخص لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے شادؔ عارفی کو عام قبولیت حاصل نہیں ہوئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کا انفرادی رنگ اردو شاعری کے سرمایہ میں ایک اضافہ ہے۔
(جشنِ شاد اور ’’ سفینہ چاہیے ‘‘ پر)
٭٭٭
مجروحؔ سلطان پوری
ایک تاثر
اجنبی سے اجنبی مضمون پر یہ قابو کہ اسے شعر بنا کر چھوڑا، شادؔ عارفی ہی کا کام ہے۔ میں شاد عارفی کی تمام غزلیں بڑے شوق سے پڑھتا ہوں، بعض بعض مصرعوں میں جس طرح محاکاتی کیفیت تخیل کا رنگ لے کر آتی ہے، یقین کیجیے کہ رشک نہیں حسد کے مارے جلنے لگتا ہوں۔
بیٹھے ہوئے سادھو کو ’’ سنگ میل‘‘، کوٹھے سے ہمسائے میں جھانکنے کی مثال، سیاست کو طوائف اور سیاست دانوں کو تماش بین کہنا، یہ باتیں کسی بھلے آدمی کو ستانے کے لیے کیا کم ہیں جب کہ وہ خود بھی یہی کہنا چاہتا ہو اور دیکھے کہ شادؔ صاحب سبقت لے گئے۔
جبل پور والی نظم نے تو کہیں کہیں آبدیدہ کر دیا۔ کیا تخیل کو حقیقت کے سانچے میں ڈھال دینے کی کوئی مثال ( اس قسم کی نظموں میں ) اس سے بہتر بھی ہو سکتی ہے۔ ؟ فارم کے اعتبار سے بھی، جدید ہیئت کے دلدادہ حضرات کے لیے بھی باوجود اپنی ہیئت کی قدامت کے ایک سوغات ہے۔
٭٭٭
کوثر جائسی
شادؔ عارفی کی شاعرانہ انفرادیت
دس پانچ برس حضرت حالیؔ کی طرح شادؔ
مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے
یہ مقطع شادؔ عارفی کے رجحان شعری کا غماز ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عرصہ تک رسمی طور پر غزل گوئی میں زور قلم صرف کرنے کے بعد انھیں اپنا زاویۂ نظر بدل دینا پڑا ذاتی مشاہدات اور محسوسات کی مصوری کی قدر و قیمت کا اندازہ کر کے انھوں نے اپنی شاعری میں ناقدانہ طنز نگاری کی داغ بیل ڈالی۔
جب ہم شادؔ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس میں نظمیں اور غزلیں بھی ملتی ہیں اور رباعیات و قطعات بھی۔ شادؔ عارفی کا اسلوب بیان انفرادی شان رکھتا ہے جس میں ایجاد اور تجربات کا بھی دخل ہے اور اس ایجاد و تجربے کی منزل میں شاعر ماحول کے جس تلخ اور حوصلہ شکن مراحل سے گزرتا ہے اور انھیں بھی گزرنا پڑا ہے۔ ان کے اشعار پر معاصرِ شعرا اور ناقدین کی جانب سے سخت احتساب ہوا ہے۔ شدید تنقیدی وار بھی ہوئے ہیں جن کے جوابات شادؔ نے جی کھول کر دیے ہیں۔ ہر چند کہ ان کے دلائل اصول و قواعد کے سِپر لیے ہوئے ہیں لیکن کہیں کہیں وہ ضد پر بھی اتر آئے ہیں۔ کچھ عروضی اور لفظی اعتراضات میری نظر سے گزرے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اگر شاد عارفی کو دماغی سکون حاصل ہوتا اور انھیں تحمل و ضبط کی فضا میں رہنے دیا جاتا تو وہ یقیناً ایک بالغ نظر صاحب فن کی حیثیت سے بہت کچھ ہمارے ادب کو دے جاتے۔ ان کے اشعار پر جو اعتراضات ہوئے ان کے جواب میں انھوں نے ضوابط و قواعد کی راہ سے انحراف کر کے کچھ لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ ثبوت میں مستند شعرا کا کلام اور مسلمہ عروضی اصول پیش کیے ہیں لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ مناظرہ و مباحثہ میں مبہم تاویلات اور ناقابلِ قبول دلائل کا وجود ہمیشہ ایک امر ناگزیر رہا ہے۔ چونکہ میں نے ان مباحث میں کبھی حصہ نہیں لیا ہے نہ شادؔ صاحب کی طرف سے اور نہ معترضین کی جانب سے۔ اس لیے مصلحتاً یہ تذکرہ ختم کر کے میں فی الوقت یہ عرض کروں گا کہ شاد عارفی کی شاعری پر جب نظر پڑتی ہے تو اس میں گہرائی اور وسعت نظر آتی ہے۔ انھوں نے مختلف اور جاذب توجہ موضوعات پر اپنے خاص انداز میں اچھی اچھی نظمیں لکھی ہیں جن کو ہم سماج اور ماحول کا ایک ایسا آئینہ خانہ کہہ سکتے ہیں جس میں زندگی کے صحیح خد و خال نظر آتے ہیں۔ انھوں نے غزلیں بھی لکھی ہیں جن کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ شادؔ نے اپنی غزلوں کو بھی نیا مزاج دیا ہے۔ ہم ان غزلوں سے قطع نظر نہیں کر سکتے۔
٭٭٭
نشور واحدی
شادؔ عارفی کی ایک جھلک
وہ مجذوب نہیں تھا بلکہ سالک آبلہ پا تھا، وہ دیوانہ نہ تھا ایک زخمی تھا جراحتِ دل کا شکار، کتنے گہرے اور انگنت زخم اس نے کھائے تھے۔ ’’ غالب کے داغ حسرتِ دل کے شمار‘‘ سے بالکل مختلف، جسے صرف اس دور جراحت کا شاعر محسوس کر سکتا ہے۔ اس نے زندگی اور شعر کے طویل، پر خار راستوں کو باوجود آبلہ پائی، بلند قہقہوں اور گہرے زہر خند کے ساتھ طے کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی
شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی
اپنی مرضی سے تو اُگتے نہیں خود رو پودے
ہم غریبوں کا بہر حال نگہباں ہے کوئی
الفاظ و معانی کے شکستہ ساغروں سے اس کی شاعری کا خونابہ کس طرح ٹپکتا ہے اس کا اندازہ ان اشعار سے ہو گا:
اسے جس حال میں سجدہ کیا ہے
اسے اللہ بہتر جانتا ہے
…………
نامرادی کو معتبر نہ بناؤ
بزم سے ہم کو مسکرا کے اٹھاؤ
سینک سکتے ہیں آپ بھی آنکھیں
جل رہے ہیں نشیمنوں کے الاؤ
اس کی غزلیں غیر مسلسل نظمیں ہیں اور نظمیں مسلسل غزلیں، جن میں زمانے کی پیشانی کی سلوٹیں، انقلاب کی کروٹیں، نا توانوں کے کس بل، ناداروں کی انگڑائیاں، گزرتے لمحوں کی جماہیاں تمام نقوش ابھرتے اور لرزتے ملیں گے :
جھپٹ پڑیں نہ کہیں دن میں مشعلیں لے کر
عوام کو نہ سُجھاؤ کہ روشنی کم ہے
در آئے بزم سیاست میں کچھ بڑے چہرے
ذرا قریب تو لاؤ کہ روشنی کم ہے
سنجیدگی اور گھٹن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ چیخنا، چلانا، للکارنا، پھٹکارنا، قہقہے لگانا، مغروروں کو ٹھوکر رسید کرنا، مجرموں پر وار کرنا، سزا دینا، معاف کرنا، ایک دلیر و شوخ و شنگ شاعر کا کام ہے۔ شاد عارفی نے یہی خوشگوار اور نا گوار فرض انجام دیا ہے، ملاحظہ ہو:
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
………
یقیں کیجیے انقلاباتِ ہستی
محلات کے سائے سائے کھڑے ہیں
شادؔ عارفی کی شخصیت اور فن میں کوئی پیچیدگی یا الجھن نہیں ہے وہ ایک بے نقاب حقیقت کا نمائندہ ہے اور بے حجاب طرز گفتگو کا مالک۔ اس نے فن سے کبھی بغاوت نہیں کی لیکن روایتی بے روح شاعری سے ضرور انکار کیا ہے۔ وقت سے بغاوت، دولت سے بغاوت، نفاق سے بیزاری، خوشامدسے نفرت اس کا درخشاں کارنامہ ہے :
جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی
چوم لوں منھ آپ کی تلوار کا
شادؔ کے کلام میں نرالا پن نہیں بانکپن ہے، ظرافت نہیں جراحت ہے، طنز نہیں زہر خند ہے، تبسم نہیں قہقہے ہیں، تیور نہیں جسارت ہے، انکار نہیں بغاوت ہے، شکست نہیں نفرت ہے، طرز نہیں اعلان ہے۔ میں شاعر کی شخصیت سے زیادہ واقف نہیں پھر بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے حالات اور ذہنی فیصلوں کی رفتار بہت تیز تھی جس نے کبھی سنبھلنے کا موقع نہ دیا ورنہ اس کی شاعری کا رنگ کچھ اور ہی ہوتا۔
میں ان دنوں سخت علیل ہوں اور یہ چند سطریں عزیزی مظفر حنفی کی خاطر سے تحریر کر رہا ہوں وہ بھی اس خوش گمانی کے ساتھ کہ اس سے شادؔ عارفی کی شخصیت اور فن کے سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔
٭٭٭
غلام احمد فرقت کاکوروی
کچھ اپنے اور شادؔ عارفی کے بارے میں
حضور والا!
آپ کا کارڈ ملا، آپ نے یہ خوب لکھا کہ شادؔ عارفی مرحوم پر مضمون جلد بھیجیے ورنہ بخشش نہ ہو گی۔ آپ میری بخشش کی فکر نہ کریں اور وہ یوں کہ مجھے داورِ محشر کے روبرو پیش کیا جائے گا اور میرے گناہوں کا انبار دیکھ کر حکم ہو گا کہ اسے فوراً سقر اور ہاویہ میں بھیج دیا جائے تو ملائکہ عرض کریں گے حضور! یہ تو کوئی سزا ہی نہیں ہوئی کیونکہ یہ نجیب الطرفین ہندوستانی ہے اور سر دست سقر ہی سے حاضر ہوا ہے، لہٰذا سقر کی آگ، تشدد اور نفسی نفسی اس کا کیا بگاڑ پائے گی؟ اسے تو اگر بخش دیا جائے تو یہی اس کے حق میں سب سے بڑی سزا ہو گی۔ یہ جواہر لال کے بعد والے ہندوستان کا مردہ ہے جس کا سقر اور ہاویہ تک احترام کرتے رہے ہیں۔
اب رہا شادؔ عارفی پر مضمون لکھنے کا سوال تو ان کی زندگی میں متعدد بار مجھے رامپور جانے کا اتفاق ہوا مگر شومیِ قسمت سے میں ان سے نہ مل سکا۔ جس کا مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا اور مرتے وقت شاید مرنے کی خوشی یہ ہو گی کہ عالم بالا میں شاد عارفی سے ملاقات ہو سکے گی۔ اگرچہ وہاں بڑے بڑے شعراء میں گنتی کے چند ہی ہوں گے اور وہ بھی میر دردؔ، میر انیسؔ، محسنؔ کاکوروی اور امیر خسروؔ کی قسم کے۔ اصلی جمگھٹا تو دوزخ میں ہی ہو گا مگر میں محض شادؔ عارفی سے ملنے کی خاطر اس جیتی مکھی کو بھی نگل لوں گا اور عالم بالا اور دوزخ کی ادبی اور دھواں دھار نشستوں سے بھی کنارہ کش ہو جاؤں گا۔
جہاں تک شادؔ عارفی کی ادبی اور شاعرانہ عظمتوں کا تعلق ہے، آپ مجھے معاف کریں اگر میں یہ کہوں کہ انھوں نے اس دور میں پیدا ہو کر خود اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی ماری ورنہ کیا حرج تھا اگر وہ کسی ایسے دور میں پیدا ہوئے ہوتے جب شادؔ عارفی جیسے با کمال شعراء کے ایک ایک مصرعے پر ہیرے اور جواہرات سے ان کا منہ بھر دیا جاتا تھا۔ آپ اس کے جواب میں زیادہ سے زیادہ یہ کہیں گے کہ یہ سب فرشتوں کی فرو گزاشت کے سبب ہوا ورنہ انھیں شادؔ عظیم آبادی سے بھی پہلے پیدا کیے جانے کا حکم ہوا تھا مگر نہ جانے کاغذات میں کیا گڑبڑ ہوئی کہ ان کا بنا بنایا ڈھانچہ رکھے کا رکھا رہ گیا اور جب ایک عرصے کے بعد فرشتوں کے پاس ریمائنڈر پر ریمائنڈر آنا شروع ہوئے تو اس وقت بھی فرشتوں نے گھبرا کر بجائے شادؔ عارفی کے شادؔ عظیم آبادی کو پیدا کر دیا۔ شادؔ عارفی سے میری زندگی میں ملاقات نہ ہونے کی جتنی شکایتیں ہیں ان کا میں عالمِ بالا میں بالمشافہ جواب دے لوں گا۔ البتہ یہ ضرور عرض کروں گا کہ رامپور والوں نے زندگی میں ان کی قدر نہ کی حالانکہ وہ اس امید پر اپنی عمر بڑھاتے گئے کہ شاید رامپور والوں کو ہوش آ جائے اور ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔
شادؔ عارفی صاحب کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ انھوں نے میرؔ کی خود داری اور بابائے اردو عبد الحق کی عمر پائی۔ بھلا اس شریف تراش عہد میں اول تو شرافت سے بغاوت کر کے وہ پیدا ہی کیوں ہوئے۔ دوسرے اس ضمیر فروش اور خود دار شکن زمانے میں وہ دنیا میں آئے کیوں ؟ ایسے لوگوں کو دنیا ہمیشہ سزائیں دیتی رہی ہے چنانچہ میرؔ کی زندگی اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
جہاں تک شادؔ عارفی کی شاعری کا تعلق ہے میں اس کا بغور مطالعہ کرتا رہا ہوں اور در حقیقت ان کی شاعری تنزل پسندوں میں ترقی پسندانہ اور ترقی پسندوں میں تنزل پسندانہ شاعری تھی۔ اس لیے ان کو ان حالات میں زندگی گزارنا پڑی جن حالات سے اس وقت ہندوستان گزر رہا ہے۔
جب میں نے سنا تھا کہ شاد عارفی ابھی تک زندہ ہیں تو مجھے یہ سوچ کر بڑی تکلیف ہوئی تھی کہ کہیں یہ ایسے دور میں پیغامِ اجل کو لبیک نہ کہیں جب پیغام اور اجل دونوں کے معنی سمجھنے سے ہندوستان بیگانہ ہو چکا ہو کیونکہ موجودہ حالات میں ہندوستان میں اردو زبان ایسی منزل سے گزر رہی ہے جب ایک ایسا بھیانک اندھیرا اس پر طاری ہونے والا ہے جہاں کوئی اردو زبان میں فغاں کرتا ہوا بھی نہ سنائی دے گا۔ مگر یہ ستم ظریفی دیکھیے کہ بعض اشعار جو شادؔ عارفی کو کہنا چاہیے تھے وہ شادؔ عظیم آبادی ان کے لیے کہہ گئے :
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں، منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہلِ زمانہ قدر کرو، نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم
بہر صورت اب عالم یہ ہے کہ جب تنہائی میں بیٹھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شادؔ عارفی عالم بالا سے آواز دے رہے ہیں کہ حیف اے اردو والو! بہتر صورت یہی ہے کہ ہندوستان کے اردو داں طبقے کو عالم بالا بھیج دو کیونکہ یہاں کی سرکاری زبان بجائے عربی کے اردو ہونے والی ہے اور سوائے چند کے بقیہ تمام حضرات یہاں پہنچ چکے ہیں۔
اب کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور حامیانِ شرحِ متین درمیان اس مسئلے کے کہ میری بخشش خطرے میں ہے یا آپ تمام حضرات کی بخشش خطرے میں ہے ؟!
٭٭٭
گوپال متّل
شادؔ عارفی کی موت پر
ادبی دنیا میں یہ خبر بڑے افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ اردو کے صاحب طرز شاعر جناب شادؔ عارفی رام پور میں انتقال کر گئے۔ شادؔ عارفی مجتہد بھی تھے اور مجاہد بھی۔ انھوں نے شاعری میں ایک نیا اسلوبِ سخن ایجاد کیا۔ نظیر اکبر آبادی کے بعد غالباً وہ پہلے شاعر تھے جس نے بول چال کی زبان سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اس کے امکانات میں اضافہ کیا۔ نظیر ہی کی طرح انھوں نے شاعری کو ایک مخصوص طبقے کے جذبات کی بجائے وسیع تر عوام کے جذبات کا آئینہ دار بنایا لیکن جہاں نظیر اکبر آبادی کے لہجے میں ایک قسم کا عامیانہ پن تھا، وہاں شاد کے لہجے میں پختگی بھی تھی۔ وہ بہ یک وقت استاد بھی تھے اور شاعر بھی اور یہ دونوں خوبیاں ایک ہی شخص میں شاذونادر ہی جمع ہوتی ہیں۔
ان کی شاعری میں بلا کا طنز تھا لیکن ہمارے معاشرے پر سب سے بڑا طنز ان کا وجود تھا۔ ایک ویلفیئر اسٹیٹ کے متعلق عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ادیبوں اور فنکاروں کی سرپرست اور خدمت گزار ہوتی ہے۔ یہ سب صحیح ہو سکتا ہے لیکن وہ ایک ایسی نظر سے محروم ضرور ہوتی ہے جو انتخاب کا حق ادا کر سکے۔ ہمارا معاشرہ شاعری کی سرپرستی کے نام پر یا تو گلے بازوں کو نوازتا ہے یا حکام رس سازشیوں کو۔ اس کا دستِ سخاوت ان لوگوں تک بمشکل ہی پہنچتا ہے جو اپنی تمام تر توجہات فنی ریاض پر مرکوز کر دیں اور اس کے ساتھ بد قسمتی سے طبع غیور بھی رکھتے ہوں۔
شادؔ عارفی غیر معروف نہیں تھے بلکہ جہاں تک سیرت کا تعلق ہے اردو کے بہت کم شعرا ان کی ہمسری کا دعوا کر سکتے ہیں۔ صرف ہندوستان ہی نہیں پاکستان کے تمام معیاری جریدوں میں بھی ان کا کلام چھپتا تھا اور ہر وہ شخص جو اردو شاعری کا صحیح ذوق رکھتا ہے ان کا مداح تھا لیکن اردو کے نئے سرپرستوں کو جو مال مرغوب ہے وہ ان کے پاس نہیں تھا۔ وہ نہ ان کی ارزاں تفریح کا سامان مہیا کر سکتے تھے اور نہ وہ خوشامد ہی کرتے تھے۔ اس صورت میں ان کی حوصلہ افزائی کیا ہوتی۔
شادؔ موجودہ حالت سے مطمئن نہیں تھے اور انھوں نے موجودہ حکومت پر بھی چوٹیں کیں اور موجودہ معاشرے پر بھی، لیکن بنیادی طور پر وہ سچے اور گہرے وطن پرست تھے اور ان کی تنقید کا مقصد ہمارے معاشرے کو بہتر اور خوب تر بنانا تھا۔ ایک مہاجر شاعر کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا:
تمہاری فرزانگی سے کچھ کم نہیں ہے دیوانہ پن ہمارا
تمہیں مبارک تمہاری ہجرت ہمیں مبارک وطن ہمارا
نہ ہو، نہیں ہے اس انجمن میں اگر کوئی ہم سخن ہمارا
مگر یقیں ہے کہ اور چمکے گا اور چمکے گا فن ہمارا
صدائے نا قوسِ بتکدہ پر گرفت کا مشورہ نہ دیجے
عبادت و بندگی کے مانع نہیں ہے جب برہمن ہمارا
وطن کی اس سرزمیں کو اے شادؔ کون سے دل سے چھوڑ دیں ہم
وطن کی جس سرزمیں پہ گزرا ہے دورِ دار و رسن ہمارا
رام پور کے کچھ مخلص نوجوان ان کی موت سے پہلے ان کے پورے کلام کو یکجا کر کے چھاپنے کے لیے کوشاں تھے، خدا انھیں توفیق عمل دے۔
٭٭٭
تشکر: پرویز مظفر، جنہوں نے اصل کتاب کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید