FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

شادؔ عارفی، فن اور شخصیت ۔۔ کچھ مضامین

               ڈاکٹر مظفر حنفی

 

شادؔ عارفی۔۔ سوانح حیات اور شخصیت

               سوانح

انیسویں صدی میں رام پور کامدرسۃالعالیہ ایک مستند مدرسہ تھا جس میں مولوی فضل حق جیسے اساتذہ موجود تھے۔ افغانستان کے علاقہ یاغستان کے قبیلہ ڈوڈال اور زّڑ سے تعلق رکھنے والے خان سیّد ولی خاں اور بعد ازاں انھیں کے توسط سے اُن کے عزیز خان محمد عارف اللہ خاں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے رام پور آئے۔[i] مدرسۃ العالیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سیّدولی خان کو اسی مدرسہ میں منطق اور فلسفہ کے مدرس کی حیثیت سے ملازمت مل گئی اور رام پور کے مشہور پٹھان عثمان خاں رزّڑ نے اپنی بیٹی کا نکاح اُن کے ساتھ کر دیا۔ عارف اللہ بھی مدرسۃالعالیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ولی خان کے ساتھ رام پور میں ہی مقیم ر ہے۔ اُسی زمانے میں نواب علاء الدین خاں ، والی ریاست لوہارو، رام پور آئے اور اپنے ولی عہد کے لیے ایک مولوی کی فرمائش کی۔ نواب کلب علی خاں حکمرانِ رام پور نے سیّد ولی خاں کی سفارش کی اور نواب علاؤ الدین احمد خان انھیں اپنے ہمراہ لوہارو لے گئے جہاں وہ نواب لوہارو کے بچَوں کے اتالیق اور پھر قاضی شہر کے منصب پر فائز رہے۔ عارف اللہ خاں بھی ولی خاں کے ساتھ گئے اور لوہارو میں تھانیدار کی حیثیت سے اُن کا تقرر بھی ہو گیا۔ آگے چل کر خان سیّد ولی خان نے اپنی بڑی صاحبزادی خورشید بیگم کا عقد عارف اللہ خاں کے ساتھ کر دیا۔[ii]

ریاست لوہارو میں عارف اللہ خان اور خورشید بیگم کے ہاں تین لڑکے پیدا ہوئے۔ سیّد احمد خاں ، سعید اللہ خاں اور احمد علی خاں عرف لڈّن۔[iii]  ان میں سے آخر الذکر اُردو ادب کے شادؔ تھے، جو والد کے نام کی رعایت سے خود کو شاد عارفی لکھتے تھے۔[iv]  عبادتؔ بریلوی اُن کا سنہ پیدائش ۱۹۰۶ء بیان کرتے ہیں[v]  اور خلیل الرحمن اعظمی نے ۱۹۰۱ء لکھا ہے[vi]  لیکن ہر دو حضرات کو غلط فہمی ہوئی ہے۔

شادؔ کی تاریخِ پیدائش کہیں دستیاب نہیں ہو سکی۔ سنہ پیدائش کے بارے میں بھی اُن کے اپنے بیانات متضاد ہیں۔ بعض مقامات پر اپنی والدہ کے حوالے سے ۱۹۰۳ء کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ زیادہ بوڑھا ہونا کوئی پسند نہیں کرتا۔[vii]  اور کہیں اپنے والد کے بیان کردہ سنِ پیدائش ۱۹۰۰ء کا حوالہ دیتے ہیں۔ میری تحقیق کے مطابق،جو رام پور میں اُن کے اعزّا اور بچپن کے دوستوں کی تصدیق پر مبنی ہے، اُن کا سنہ پیدائش ۱۹۰۰ء ہے۔ خود شادؔ  عارفی نے جہاں ۱۹۰۳ء کا ذکر کیا ہے وہاں والدہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ زیادہ بوڑھا ہونا پسند نہیں کرتے اور عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خواتین اپنی اور اپنے بچّوں کی عمریں گھٹا کر بتانے کی عادی ہوتی ہیں۔ ۱۹۰۰ء کی تائید میں شادؔ  کا ایک شعر بھی ملتا ہے:

زہے قسمت تریسٹھ سال کا ہو کر کہا میں نے

نومبر ۶۳ میں وصیؔ اقبال کا سہرا [viii]

اور نومبر ۱۹۶۲ء کے ایک خط میں رقمطراز ہیں :

’’ اس وقت میری عمر ۶۲ سال ہے۔ ۱۹۰۰ء میری پیدائش ہے اس لیے سنہ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں۔[ix]

شادؔ عارفی کی ایک عزیزہ طاہرہ اختر نے بھی اپنے مضمون ’’ شادؔ عارفی‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے تھے نیز اپنے والد کی پنشن (۱۹۰۹ء) کے وقت اُن کی عمر نو سال تھی۔[x]  وصی اقبالؔ  کے مضمون ’’ شادؔ عارفی سے ایک ملاقات‘‘ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے عشق کا حادثہ شادؔ کو تیرہ برس کی عمر میں پیش آیا۔  اس عشق کے سلسلے میں اُن کے خاصے جذباتی ہونے کی شہادتیں ملتی ہیں۔ بیسویں صدی کے تیرہ سال کے لڑکے سے ایسے سنجیدہ عشق کی توقع نہیں کی جا سکتی اگر اُن کی عمر کے متنازعہ فیہ تین سال کا فرق ہٹا دیا جائے تو یہ عشق سولہ سال کی عمر میں ہو گا اور قرینِ قیاس بھی۔ اس طرح شاد عارفی کا سنہ پیدائش ۱۹۰۰ء ہی طے پاتا ہے۔

۱۹۰۹ء میں عارف اللہ خاں ملازمت سے سبکدوش ہو کر اہل و عیال کے ساتھ رام پور چلے آئے جو شاد عارفی کی نانہال تھی۔ اُن کے پَرنانا عثمان خاں رزّڑ رام پور کے مشہور سردار تھے جن کا ذکر ’’ تذکرۂ  کاملانِ رام پور‘‘ میں موجود ہے۔ اور رام پور کا ایک محلہ آج بھی ان کی مناسبت سے گھیر عثمان خاں کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۹۰۹ء سے ۸؍ فروری ۱۹۶۴ء یعنی اپنی تاریخ وفات تک شادؔ عارفی مستقلاً ریاست رام پور ہی میں مقیم رہے۔ باپ اور نانا اُنھیں مولوی بنانا چاہتے تھے چنانچہ کلام پاک اور عربی صرف و نحو کی کتابیں انھوں نے خود پڑھائیں۔ بعد ازاں شادؔ کو حکیم غلام حیدر عرف عمّی میاں کے مکتب ’’ دبستانِ حیدری‘‘ میں داخل کر دیا گیا جہاں انھوں نے اسمٰعیل میرٹھی کی اُردو ریڈروں کے علاوہ فارسی کی ’’ گلستان‘‘، ’’ بوستان‘‘، ’’ دستور صبیان‘‘ وغیرہ بھی پڑھیں۔ پھر حکیم یوسف علی خاں نے انھیں ’’دیوانِ حافظ‘‘ اور رام پور کے مشہور حافظ ریل نے ’’سکندر نامہ ‘‘ اور’’ شاہنامہ ‘‘ پڑھایا۔ شادؔ عارفی انگریزی تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن عارف اللہ خاں اس کے خلاف تھے۔ اپنے ماموں کرامت علی خاں ( کوتوال رام پور) کی سفارش سے بڑی لے دے کے بعد شادؔ نے اسٹیٹ ہائی اسکول ( حامد اسکول) میں داخلہ لے لیا۔[xi]

گھر پر عارف اللہ خاں نے شادؔ عارفی اور ان کے بھائیوں کے لیے چھوٹی چھوٹی تلواریں اور ڈھالیں بنوا رکھی تھیں اور تلوار کے ہاتھ سکھاتے تھے۔[xii]  ۱۹۱۸ء میں دسویں جماعت میں پہنچے تھے کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔ بڑے بھائی ناکارہ ثابت ہوئے اس لیے خاندان کا بوجھ اٹھارہ سال کی عمر میں ہی شاد عارفی کے کاندھے پر آ گیا۔ ریاست لوہارو سے عارف اللہ خاں کی پنشن قدرے کم ہو کر والدہ کے نام منتقل ہو گئی، کچھ شادؔ عارفی ٹیوشن وغیرہ سے کما لیتے، گھر کا خرچ لشٹم پشٹم چلتا رہا۔ اُن کی تعلیم کاسلسلہ بھی منقطع ہو گیا البتہ شادؔ نے پرائیویٹ اُمیدوار کی حیثیت سے الٰہ آباد کے امتحانات ادیب اور منشی،وغیرہ پاس کر لیے اور ہندی زبان کے کچھ امتحانات میں بھی کامیابی حاصل کی۔[xiii]

شادؔ عارفی نے اپنے خالہ زاد بھائی عتیق الرحمن خاں پر رعب جمانے کے لیے پہلا شعر آٹھ سال کی عمر میں کہا تھا جو حسبِ ذیل ہے:

ہو چکا ہے خیر سے ہشیار تُو

اپنے دَشمن پر اُٹھا تلوار تو

شاعری میں تلوار اُٹھانے کا یہ تصوّر اُن کی فطرت ثانیہ بن گیا۔ انگریزی کی پانچویں کلاس میں راز یزدانی ان کے ہم جماعت تھے اور شاعری سے شغف رکھتے تھے، اسکول سے باہر کے دوستوں میں علی حسن ماہر بھی شاعری کرتے تھے چنانچہ ان لوگوں کے مقابلے میں شادؔ عارفی بھی باقاعدگی سے تک بندیاں کرنے لگے۔[xiv] ساتویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے یہ شوق سنجیدگی اختیار کر گیا۔ سمندِ شوق پر ایک تازیانہ یہ بھی ہوا کہ شاد عارفی کے پڑوس میں امیر مینائی کا خاندان رہتا تھا۔ دونوں گھرانوں میں قریبی تعلقات تھے، اس طرح انھیں بچپن سے ہی محمد احمد صریرؔ مینائی کی ادبی صحبتوں میں شرکت کے مواقع ملے صریرؔ کے صاحبزادے اسمٰعیل سے دوستی اور منہاج الدین مینائی کی رغبت دلانے والی رایوں نے شادؔ کے فطری ذوق کو جلا دے کر اُنھیں سنجیدگی سے شعر و ادب کی طرف مائل کر دیا بعد ازاں اپنے دوست علی حسن خاں ماہرؔ کی رائے سے اُنھوں نے مولانا شفقؔ رام پوری کی شاگردی اختیار کر لی۔[xv]   شفقؔ صاحب صرف غزلوں پر اصلاح دیتے تھے۔ اُن سے اصلاح کا یہ سلسلہ تقریباً آٹھ دس سال تک چلا پھر شفقؔ رام پوری ’’پیسہ اخبار‘‘ میں ملازم ہو کر لاہور چلے گئے۔ اس کے بعد شادؔ عارفی نے ابو طاہر مجدّدی کی تحریک سے کچھ غزلوں پر جلیلؔ مانکپوری سے بھی اصلاح لی۔ جلیلؔ سے مشورۂسخن کا یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا۔[xvi]  نظموں میں وہ اپنے اُستاد آپ تھے۔ [xvii]

شاعری میں اپنی راہ الگ نکالنے کی دھُن شادؔ عارفی کو ابتدا ہی سے تھی۔ والد کے انتقال کے بعد عزیزوں کی لوٹ کھسوٹ نے اُن میں بغاوت کا مادّہ پیدا کر دیا چنانچہ حقیقت نگاری، ندرتِ ادا اور طنز کی آمیزش سے لگاتار ایسی تلخ نظمیں اور چونکا نے والی غزلیں کہتے رہے جن کے ردِّ عمل میں ان کے مخالفین اور حاسدین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی گئی۔ اپنی ندرت کی بنا پر رام پور سے باہر بھی اُن کی غزلیں اور نظمیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ اس ہندوستان گیر شہرت نے اُن کے مقامی حاسدین کی تعداد اور بڑھا دی۔

یہ بھی ہوا کہ شادؔ عارفی نے دو بار عشق کیا اور دونوں مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھا۔ پہلا عشق بلوغت سے قبل شروع ہوا اور اس کا سلسلہ دس سال جاری رہا لڑکی ان کے نانہال کی طرف سے دور کی رشتے دار تھی۔[xviii]  لیکن خاندانی اعتبار سے ہم مرتبہ نہ تھی اور شادؔ عارفی اس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جہاں اُن کے بڑے بھائی ایک ساقط النسب عورت کے ساتھ دوسری شادی کرنے کے جُرم میں خاندان سے علیحدہ کر دیے گئے تھے۔[xix]  لہٰذا شادؔ کواس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت نہیں مل سکی اور وہ دوسری جگہ بیاہ دی گئی۔ عشق میں اس ناکامی نے اُن کے ذہن پر بہت گہرا اثر چھوڑا اور تقریباً تین سال تک ان پر جنونی کیفیت طاری رہی۔ اس کیفیت سے گزر چکنے کے بعد اُنھیں دوسراعشق تارا نام کی ایک لڑکی سے ہوا جس کے پڑوس میں شادؔ بچّوں کو پڑھانے جاتے تھے لیکن یہاں بھی شادؔ عملاً ناکام رہے کیونکہ مذہب آڑے آتا تھا اور اُنھیں اس امر کا شدید احساس تھا کہ اُن کے کسی غلط اقدام سے مسلمانوں پر ہندوؤں کو اعتماد نہ رہے گا۔ اس دوسرے عشق میں ناکامی نے شادؔ کی رہی سہی سکت چھین لی،اب اُن کی مایوسیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، طرّہ یہ کہ اس دوہرے احساسِ شکست کو تا عمر زندہ و تازہ رکھنے کے لیے شادؔ کی دونوں محبوبائیں اُن کے انتقال تک رام پور ہی میں مقیم رہیں۔ [xx]

مذکورہ بالا اُلجھنوں اور پریشانیوں نے کچھ ایسے اثرات قائم کیے کہ شاد عارفی مستقل مزاجی کے ساتھ کہیں ملازمت بھی نہ کر سکے۔ عام طور پر ماتحتوں سے جس خوشامدانہ انداز میں گردن ڈال کر چلنے کی توقع کی جاتی ہے وہ شادؔ کے بس کی بات نہ تھی۔ ایک زمانے میں ’صولت پبلک لائبریری‘ رام پور میں اسسٹنٹ لائبریرین کے فرائض انجام دیے وہاں مطالعہ کا اچھا خاصا موقع ہاتھ آیا اور یہ مشغلہ اُن کے لیے بہت دلچسپ تھا لیکن تنخواہ بہت کم تھی، اس کو جلد ہی چھوڑنا پڑا۔[xxi] کچھ دنوں مقامی شکر فیکٹری میں اکاؤنٹنٹ رہے پھر مکّا مل( میز فیکٹری) میں ویئنگ سپروائزری کی،وہاں سے چھوٹے تو ایک ’ بلڈنگ کنسٹرکشن کمپنی‘ میں سائیٹ انچارج بنا دیے گئے بعد ازاں رام پور شیرو فیکٹری اور سی۔ او۔ ڈی۔ میں لیجر چیکر کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کارخانوں میں کام کرنے کی مجموعی مدّت تقریباً پندرہ سال ہے۔ اس کے بعد فیکٹریوں کی ملازمت کا سلسلہ ترک کر کے انھوں نے رام پور میونسپل بورڈ میں ٹیکس کلرک کی حیثیت سے ملازمت شروع کی لیکن وہاں بھی زیادہ عرصے تک نہ ٹک سکے پھر ناصر مسعود، پبلک انفارمیشن آفیسر رام پور کی فرمائش پر انھوں نے نیم سرکاری ہفتہ وار (اور بعد ازاں سہ روزہ) اخبار ’’اقبال‘‘ رام پور کی ادارت سنبھالی مگر اُن کے خمیر میں جو بے قراری شامل تھی،اس نے شادؔ عارفی کو یہاں بھی جم کر کام نہ کرنے دیا۔ کچھ دن بعد اسٹیٹ پریس رام پور میں انگلش پروف ریڈر ہو گئے۔ اس ملازمت کا سلسلہ تین سال تک چلا اور وہیں سے بجٹ اکاؤنٹینٹ کی جگہ ترقی مل گئی اور وہ دو سال تک بجٹ اکاؤنٹینٹ رہے۔ آگے چل کر ریاست رام پور کا انضمام شادؔ عارفی کی تنزلی کا باعث ہوا اور انھیں نائب ناظر کے عہدے پر تحصیل سُوار میں منتقل کر دیا گیا، جسے رام پور کا سائبیریا کہا جاتا ہے۔ یہاں قیام کے دوران وہ ملیریا میں مبتلا ہو گئے جس کے تباہ کن اثرات نے تمام عمر اُن کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اپنے تبادلے کے لیے انھوں نے بہتیری کوششیں کیں لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، آخرش استعفا دے کر گھر بیٹھ رہے اور پھر کہیں ملازمت نہ کی۔[xxii]

بحیثیت مجموعی شادؔ عارفی کی ملازمتوں کاسلسلہ ۱۹۱۸ء سے ۱۹۴۸ء تک پھیلا ہے جس میں تقریباً نو دس سال کے درمیانی وقفوں کو چھوڑ کر انھوں نے مندرجہ ذیل خدمات انجام دیں :

اسسٹنٹ لائبریرین صولت لائبریری رام پور                      چند ماہ

مقامی کارخانوں کی ملازمتیں                                                پندرہ سال

ایڈیٹر اور سرکاری پریس میں انگلش پروف ریڈر                    تین سال

بجٹ اکاؤنٹینٹ                                                               دو سال

نائب ناظر تحصیل                                                 دس ماہ

آخری ملازمت سے وہ مئی ۱۹۴۸ء میں مستعفی ہو گئے۔ [xxiii]

ضعیف اور نابینا والدہ کی خدمت میں انھوں نے اپنی ساری عمر گزار دی۔ موصوفہ شادؔ کی وفات سے تقریباً دس بارہ سال پہلے تک زندہ رہیں۔ بڑے بھائی سیّد احمد خان کو پہلی بیوی کے انتقال کے بعد غیر کفو میں دوسری شادی کر لینے کی بنا پر ماں نے خاندان سے علیحدہ کر دیا تھا، ان کے بچوں کی پرورش و پرداخت شادؔ عارفی نے ہی کی،خود اپنی ذات پر ہزاروں تکلیفیں جھیل کر اپنے بھتیجے فدا احمد خاں اور بھتیجی الیاسی بیگم کی ضروریاتِ زندگی اور تعلیم کا معقول بندوبست کیا، فدا احمد خاں کو معلمی کی ٹریننگ دلائی،انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا، اُن کی شادی کا بندوبست کیا لیکن جب وہ اس لائق ہوئے کہ شادؔ کا سہارا بن سکیں تو شادؔ عارفی نے از راہِ غیرت اُن سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اسی طرح الیاسی بیگم کی شادی بھی شادؔ نے ہی کی اور کچھ عرصے بعد جب وہ بیوہ ہو گئیں تو شادؔ عارفی پھر اُن کے کفیل ہو گئے اور تا دمِ آخر اُن کی اور اُن کے بچوں کی امداد کرتے رہے۔ عبدالبشیر عرف نبّو ( الیاسی بیگم کے لڑکے) کو توشادؔ عارفی بالکل اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے تھے اور خود فاقوں میں گزارنے کے باوجود انھوں نے نبّو اور اُن کے بھائی کی تعلیم اور ملازمت کا انتظام بھی کیا۔[xxiv]  زندگی کے بالکل آخری دور میں اُن کے بڑے بھائی سیّداحمدخاں تقریباً مخبوط الحواس ہو کر شادؔ کے ساتھ ہی رہنے لگے تھے، اس طرح شادؔ پر ایک اور بار بڑھ گیا جسے وہ بڑی فراخدلی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔

ایسا بھی نہیں کہ خوشی کی ٹھنڈی ہوا کا ایک آدھ جھونکا بھی شادؔ عارفی کو زندگی میں نصیب نہ ہوا ہو۔ اسٹیٹ پریس میں پروف ریڈری کی ملازمت کا دور تھا۔ اُن کی والدہ بہت ضعیف ہو چکی تھیں ، جب وہ سو سال سے زیادہ معمر ہو کر بینائی سے تقریباً محروم ہو گئیں تو اُن کے اصرار پر ۳۹یا ۴۰ سال کی عمر میں شادؔ نے رام پور کی تحصیل شاہ آباد کے منوّر شیر خاں نامی ایک غریب لیکن شریف خاندانی پٹھان کی لڑکی پری بیگم سے شادی کر لی اور نسبتاً زیادہ آرام دہ مکان میں اُٹھ آئے۔ یہ غالباً اُن کی زندگی کا سب سے زیادہ آسائش کا دور تھا لیکن قسمت نے یہاں بھی اُنھیں چین کا سانس نہ لینے دیا اور شادی کے ڈیڑھ سال بعد ہی اُن کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔[xxv]   پری بیگم بڑی اطاعت شعار اور نیک بیوی تھیں۔ شادؔ عارفی نے اُن کے انتقال کا گہرا اثر قبول کیا اور عمر کے آخری ایام تک انھیں کسی نہ کسی نہج سے یاد کرتے رہے۔

۱۹۵۱ء میں اُن کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا اور شادؔ عارفی نے پریشان حالی میں اپنے مکان کی ضمانت پر قرض لے کر اُن کی تجہیز و تکفین کا بندوبست کیا، یہ مکان بعد ازاں قرض ادا کرنے کی غرض سے انھیں اپنے ایک رشتہ دار اشفاق حسن خاں کے ہاتھ چھ سوروپے میں فروخت کرنا پڑا۔ اس کے بعد زندگی کے باقی ماندہ بارہ تیرہ سال شادؔ عارفی نے حد درجہ افلاس اور پریشانی کے عالم میں گزارے۔

اس عرصے میں انھیں کم از کم پندرہ کرائے کے مکانات تبدیل کرنے پڑے اور انھوں نے رام پور کے چاروں کھونٹ دیکھ ڈالے۔ کبھی گھیر حسن خاں کو رونق بخشی،کبھی گھیر سیّدانی کو اور کبھی گھیر میر باز خاں کو۔ آج پُرانی کھنڈ سار میں مقیم ہیں ، کل نالے پار میں تو پرسوں حلقے والی زیارت میں ، کبھی پیلا تالاب کے قریب فروکش ہیں اور کبھی بیریاں میں۔ آخری ایام مزار شاہ ولی اللہ کے قریب ایک مکان میں بسر کیے۔ محمد طفیل مدیر ’’نقوش‘‘ لاہور نے اُن کے اس طرح جلد جلد پتے کی تبدیلی سے تنگ آ کر لکھا تھا۔ [xxvi]

’’ شاد صاحب ! خدا کے لیے آپ میرے اوپر رحم کھائیے، اس قدر جلد مکان مت تبدیل کیجئے۔ آپ کی اس قدر تبدیلی مکان سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ شاید آپ خانہ بدوش شاعر ہیں۔ ‘‘

شادؔ عارفی کے خطوط سے رام پور کے مختلف محلّوں میں اُن کے قیام کا تعین بڑی حد تک ہو جاتا ہے۔ مثلاً ۲۹؍ جولائی ۱۹۵۶ء سے ۱۲؍ جولائی ۱۹۵۹ء تک خطوط محلہ بیریاں سے، ۶؍جنوری۱۹۶۰ء سے ۱۶؍ ستمبر ۱۹۶۰ء تک حلقے والی زیارت سے اور ۱۱؍دسمبر ۱۹۶۰ء سے ۲۶ فروری۱۹۶۱ء تک گھیر میر باز خاں ( جیل روڈ) سے لکھے گئے۔ ۸؍ مئی ۱۹۶۱ء کے ایک خط میں کیت کا پیڑ(متصل پیلا تالاب) کا پتہ درج ہے۔ ۸؍ جولائی ۱۹۶۱ء سے ۲۱؍ اگست ۱۹۶۱ء تک درخت کھیت ( گھیر سیّدانی) میں ، ۲۲؍ اگست ۱۹۶۱ء سے ۲؍ نومبر تک گھیر حسن خاں ( پکّا باغ روڈ) اور یکم جنوری ۱۹۶۳ء سے ۲۷؍ جنوری ۱۹۶۴ء تک مکان نزد مزار شاہ ولی اللہ صاحب میں اُن کے قیام کا پتا چلتا ہے۔[xxvii]  اسی آخری مکان میں ان کا انتقال ہوا۔ اس طرح شہر رام پور میں ہی اُنھوں نے اتنے سفر کیے کہ بیرونی مقامات کے سفر کے مواقع اُن کی زندگی میں بہت کم آئے۔ خلیل الرحمن اعظمی، شاہد احمد دہلوی اور صہباؔ لکھنوی کے نام اُن کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے بالترتیب علی گڑھ دہلی اور لاہور کے سفر کیے تھے۔

بے روزگاری کے ہاتھوں یہ زمانہ اُن پر اتنا سخت گزرا کہ اکثر فاقوں کی نوبت آ گئی،اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’ الیاسی اور رابعہ( بھتیجی اور نواسی، جن کے کفیل شادؔ صاحب تھے) بغیر سحری کا روزہ تین دن سے رکھ رہی ہیں۔ ‘‘[xxviii]

حالت یہ تھی کہ آخری عمر میں گزر بسر کے لیے حق الاصلاح کے طور پر شاگردوں سے ملنے والی قلیل رقومات پر تکیہ تھا۔ اُن سے گزر اوقات نہ ہوتی تو اعزازی طور پر آنے والے رسائل اور کتابیں اونے پونے داموں فروخت کر کے انھیں اپنی اور اپنے لواحقین کی روٹیوں کابندوبست کرنا پڑتا تھا۔ شادؔ  عارفی کے خطوط اس تلخ حقیقت کے گواہ ہیں۔ ملّا بھائی جنرل مرچنٹ رامپور کے نام لکھتے ہیں :

’’ اگر’ آبِ رواں ‘ نہ بِکا ہو تو اب فروخت نہ کریں میں منگا لوں گا۔‘‘[xxix]

مکتوب بنام سلطان اشرفؔ کا ایک جزو ہے:

’’ آج ’ ساقی‘ کا میرؔ نمبر آ گیاہے، اس کی قیمت تین روپیہ ہے، قاعدے میں آپ سے  ۸؍ لینا چاہیے مگر میں حالات کے تحت مبلغ دو روپے کی آرزو رکھتا ہوں۔ ‘‘[xxx]

حقیقت یہ ہے کہ اس مدّت میں شادؔ عارفی کے ساتھ کہیں کھل کر اور کہیں ہمدردی کے آڑ میں طرح طرح کے ظلم کیے گئے۔ کسی نے انھیں رجعت پرست مقامی استاد شعرا سے بھڑا دیا، کسی نے ترقی پسندوں سے ٹکرا دیا۔ کوئی ہمدرد اُن کے نام پر سیکڑوں کا چندہ وصول کر کے ڈکار گیا۔ آخر ۸؍ فروری۱۹۶۴ء کی تپتی ہوئی دوپہر میں :

’’__’کس کا انتقال ہو گیا بھائی؟‘

دس پندرہ آدمیوں کی انتہائی مختصر جمعیت کے ساتھ جنازہ جاتے دیکھ کر ایک راہرو نے از راہ ترحم پوچھا۔

’ شادؔ عارفی کا__‘ ان میں سے ایک نے جواب دیا اور پوچھنے والا سوالیہ علامت بن گیا:

’ کون شادؔ عارفی؟‘

’شاعر تھے بھئی ایک!‘[xxxi]

اور یہ شاعر مزار شاہ ولی اللہ کے احاطے میں شاہ صاحب کی تربت سے بائیں طرف آٹھ دس قدم کے فاصلے پر سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ‘‘

٭٭

               شخصیت

’’ میں انتہا پسند واقع ہوا ہوں ‘‘۔ [xxxii]

اپنی نظموں کے مجموعہ ’’ اندھیر نگری‘‘ میں شاد عارفی کا مندرجہ بالا اعتراف اُن کی شخصیت کے تجزیے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ کلام کے آئینہ خانے میں تو شادؔ کے ہاں ذات کو کائنات میں پھیلا دینے والی روش اختیار کی گئی ہے اور شاعری میں وہ آپ بیتی کوایسے انداز میں کہہ گزرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں کہ وہ جگ بیتی نظر آنے لگے۔ بقول سردار جعفری:

’’ وہ شخصیت جو اُن کی شاعری کے پردے سے اُبھرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ایک حساس انسان کے درد مند دل کی ساری دھڑکنیں موجود ہیں۔ بعض شاعروں کی شخصیت کے لیے اُن کی شاعری ایک طرح کا حجاب بن جاتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ شادؔ کی شاعری اُن کی دلنواز شخصیت کو بے نقاب کر دیتی ہے۔[xxxiii]

لیکن شادؔ عارفی کی شخصیت کا مطالعہ اُن کی نثری تخلیقات، تنقیدی مضامین اور خطوط کی روشنی میں کیا جائے تو۔۔۔۔۔ ’’ وہ تنگ نظر، احساس کمتری کا شکار اور چڑچڑے بھی نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی ان میں انتہائی سخاوت، ذہنی اور قلبی فراخدلی اور فیاضی، جرأت مندی،اخلاص، اعلیٰ ذہانت و جودت طبع جیسی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں ، وہ واقعی ایک زندہ اور حرارت سے بھر پور شخصیت کے مالک تھے۔ ‘‘[xxxiv]

ان کے استاد شفقؔ رام پوری کا قول ہے کہ وہ ’’ فطرت سے شاعر پیدا ہوئے تھے۔ مزاج میں شوخی، قدرتی تھی۔ [xxxv]  اس طرح اُن کی شخصیت خوش رنگ عنبر بیز پھولوں کا ایک ایسا گلدستہ ہے، جس میں خشک ڈالیاں ، زرد پتّے اور نکیلے کانٹے بھی شامل ہیں۔ وہ مجموعۂ  اضداد تھے۔ اپنی شخصیت کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا اُنھیں خود بھی احساس تھا چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’ میری سوانح حیات کا احاطہ ٹیڑھی کھیر ہے اس لیے کہ اس میں جلیبی کے سے پھیر اور اُونٹ کے سے ’کیف خلقت‘ کے اتنے موڑ،اتنی اُلجھنیں اور ایسے ایسے نشیب و فراز ہیں کہ سفینہ چاہیے اُس کے لیے۔‘‘[xxxvi]

ایک اور مقام پر اِسی بات کو دوسرے انداز میں کہا ہے:

’’ وصی صاحب ! میری زندگی نَو بہ نَو اور رنگ برنگ روپ کی حامل ہے؟ یہاں اتنا بتاتا چلوں کہ میری فطرت انتہا پسندرہی ہے۔‘‘[xxxvii]

در اصل شادؔ عارفی کی شخصیت کا یہ پودا ایک ایسی سرزمین میں کچھ اس قسم کی آب و ہوا پا کر پروان چڑھا تھا کہ اس میں حسین، خوشبودار اور رنگ برنگے پھولوں کے ساتھ نیش عقرب کی سی جلن رکھنے والے کانٹوں کی موجودگی فطری اور لازمی تھی۔ رام پورویسے ہی متشرع لوگوں کی بستی ہے،شادؔ صاحب کے والد مدرسۃ العالیہ کے فارغ التحصیل مولوی تھے اور اس مولویت کو اُن کی تھانیداری نے کٹّر پن میں تبدیل کر دیا تھا، ماں ایک عالمِ وقت کی بیٹی تھیں ،چنانچہ اس گھر کی فضا، جہاں شادؔ عارفی نے آنکھیں کھولیں ، مذہبیت اور قدامت پرستی سے مملو تھی۔ باپ اور نانا اُنھیں مولوی بنانا چاہتے تھے جو شادؔ عارفی نہ بن سکے لیکن گھریلو ماحول کے زیرِ اثر مذہب اور کسی حد تک قدامت نے بچپن میں ہی اُن کے دل و دماغ میں اس طرح گھر کر لیا تھا کہ عمر بھر پوری طرح اس سے دست کش نہ ہو سکے۔ اس بات کے شواہد اُن کی نثری و شعری کاوشوں میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ مثلا___’’ میں رام پور کے بیشتر جاہل پٹھانوں کی طرح کٹّر حنفی ہوں۔‘‘[xxxviii] اور :

’’ فخر ہے مجھ کو کہ جاہل ہے مری ’گھر والی‘

ایسی جاہل ہے کہ پابندِ نماز و روزہ

شرع کی حد میں کھلا رکھتی ہے ماتھا موزہ

ملکہ گھر کی، پہ مجبور سبق آموزہ

ذہن آزادیِ بے باک سے قطعاً خالی‘‘[xxxix]

کمیونزم کے متعلق شادؔ عارفی کے خیالات کچھ اس قسم کے ہیں :

’’ مولانا! اس سے کم لفظوں میں کمیونزم کی تعریف کسی کے بس کی نہیں کہ کمیونزم کے اندر اسلامی بہترین تصورات لے کر اُس میں کچھ خباثتیں شامل کر لی ہیں ، مثلاً عبادت، ریاضت اور باطنی پاکیزگی کوئی چیز نہیں۔[xl]

عروج زیدی لکھتے ہیں :

’’ میں نے ایک مرتبہ اُن کے گلے میں لٹکنے والے تعویذوں کے بارے میں استفسار کیا تو فرمایا کہ کسی آئندہ موقع پر اس بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا،سرِ دست یہ مقطع سن لیجیے:

میں فدائے پنجتن ہوں شادؔ، لیکن میرے دوست

اس عقیدے پر اڑے ہیں ،پانچویں کالم میں ہوں ‘‘[xli]

لیکن شادؔ عارفی کی اس مذہبیت میں کٹّر پن کے ہمراہ آزاد خیالی بھی شامل تھی۔ رسوماتِ ظاہری کی بہ نسبت مذہب کی روح سے اُن کا تعلق بہت پختہ تھا جس کے ساتھ وسیع المشربی بھی فطرت میں داخل ہو گئی تھی اور تنگ نظری و تعصب کی گرد پاس نہ پھٹکنے پاتی تھی۔ طاہرہ اخترؔ کہتی ہیں :

’’ لڈّن ماموں کٹّر سنّی تھے،اللہ رسول کے دل سے قائل تھے مگر مذہب کی ظاہری پابندیوں سے آزاد تھے۔ انھیں مسجد میں بہت ہی کم دیکھا گیا مگر درود و وظائف کے قائل تھے،میّت والے گھر کا کھانا کبھی نہیں کھاتے یہاں تک کہ سعید اللہ ماموں (لڈّن ماموں کے حقیقی بھائی) کا انتقال ہوا تو آپ دو تین دن تک گھر سے غائب رہے۔ لوگ ان کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا رہے۔ کچھ لوگ انھیں کمیونسٹ بھی سمجھتے تھے۔۔۔۔۔ اُن کے شاگردوں میں ہندو،مسلمان، سکھ سبھی شامل تھے۔ رام پور میں اُن کے کئی سکھ شاگرد ہو گئے تو اُنھوں نے لڈّن  ماموں کو گرو گوبند سنگھ کے جلوس میں مدعو کیا۔ رامپور میں گرو گوبندسنگھ کا جلوس بہت شان سے نکلتا ہے۔ لڈّن ماموں اس میں برابر شریک ہوتے تھے۔ اُن کے شاگرد اُنھیں ایک سجے ہوئے ٹرک کے بالائی حصے میں بٹھاتے تھے، اُن کے گلے میں ہار بھی ڈالتے۔ اس شرکت پر بہت سے لوگوں کو اعتراض تھا اور کچھ مَن چلے لوگوں نے لڈّن ماموں پر چوٹیں بھی کیں لیکن وہ برابر اس قسم کے جلوس اور جلسوں میں شریک ہوتے رہے۔[xlii]

اُن کے مزاج کی یہ دلچسپ پہلو دار مذہبیت جگہ جگہ اُن کے ہاں جھلکتی ہے۔ آج عام طور پر اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ ترقی پسندنقادوں نے شادؔ عارفی کو اُن کی زندگی میں وہ اہمیت نہیں دی، جس کے وہ مستحق تھے۔ اس حق تلفی کے اسباب بھی ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ میرے خیال میں شادؔ عارفی کی مذہبیت ہے۔ آزادی سے قبل وہ رامپور جیسی کٹّر ریاست میں ، جہاں محمد علی جوہرؔ جیسے لیڈر کا اپنے وطن میں داخلہ ممنوع تھا، انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بنیاد ڈالنے میں پیش پیش تھے لیکن خود انھیں کا بیان ہے:

’’ رامپور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام تاباں صاحب کی معرفت میری نگرانی میں ہوا مگر آگے چل کر بات خدا اور مذہب کے ساتھ گستاخی تک پہنچی تومیں اور میرا منجھا ہوا شاگرد ہادی مصطفی آبادی اس سے الگ ہو گئے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی مجھ سے بنیادی اختلاف رکھتی ہے اور میرے بارے میں نقد و نظر کے تحت خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔[xliii]

یہ ایک ایسا سچ ہے جس کا اعتراف اب اہم ترین ترقی پسندنقادوں اور فنکاروں کو بھی ہے مثلاً سردار جعفری کہتے ہیں :

’’ شادؔ اپنی زندگی میں جس توجّہ کے مستحق تھے وہ انھیں نہ مل سکی۔‘‘[xliv]

سجاّد ظہیر فرماتے ہیں :

’’ یقیناً شاد عارفی موجودہ دَور کے اہم ترین ادیبوں سے تھے،میں نے شادؔ صاحب کے مجموعے میں سے نثری حصہ پڑھ ڈالا اور بہت لطف آیا۔ معلوم نہیں وہ کون ترقی پسند تھے جو خواہ مخواہ اُن سے اُلجھ پڑے۔ میں اس مناقشے سے واقف نہیں تھا۔ بہر حال استادوں کو چھیڑ دینا عام طور پر مفید ہی ہوتا ہے ورنہ بھلا اتنی بہت سی معلومات (بہت سی چڑچڑے پن کی باتوں کے ساتھ) کون فراہم کر سکتا تھا؟ ‘‘[xlv]

اور فیض احمد فیضؔ تسلیم کرتے ہیں :

’’ میں شادؔ عارفی کے کلام کا دل سے معترف ہوں اور ان سے رنجش کا کبھی کوئی قصہ نہیں ہوا۔[xlvi]

ظاہر ہے اُن کی زندگی میں شادؔ عارفی کو نظر انداز کرنے کی وجہ وہی مذہبیت ہے جس کا احساس خود شادؔ کو بھی تھا یہی مذہبیت شادؔ عارفی کے اس دوسرے عشق میں ناکامی کا سبب بھی بنی جو انھیں ایک دوسرے مذہب کی لڑکی سے ہوا تھا اور جس میں ناکامی کا احساس اُنھیں دیمک کی طرح تمام عمر چاٹتا رہا۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں :

’’ لڑکی میرے ساتھ بھاگنے تک پر آمادہ تھی لیکن میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ در اصل اپنی شرافت سے زیادہ ایک مسلمان کے کردا پر دھبّہ آتا تھا۔[xlvii]

شادؔ کی یہ مذہبیت، خشک اور تنگ نظر کٹھ ملائیت سے قطعی مختلف چیز تھی۔

باپ کی طرف سے شادؔ عارفی کا سلسلۂ  نسب یاغستان کے ڈوڈال، پنج میرال اور رزّڑ قبائل سے ملتا ہے اور ماں خالص رزّڑ پٹھان کی نواسی تھیں۔ عمر کے ابتدائی اٹھارہ سال تک شادؔ عارفی نے گھر کا جو نقشہ دیکھا تھا، اُس میں نانا لوہارو کے والی ریاست کے بچوں کے اتالیق تھے اور باپ تھانیدار۔ ماں کے نانا ریاست کے مشہور سردار تھے اور شادؔ کے ماموں شہر رام پور کے کوتوال۔ فطری طور پر انھوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں ابتدا ہی سے خوش آئند خواب دیکھے ہوں گے اور معاشرے میں اپنے لیے نمایاں جگہ کی توقع کی ہو گی لیکن ہوا یہ کہ نو عمری میں ہی اُن پر ایک ایسے خاندان کا بوجھ آ پڑا جو اُن کی ضعیف ماں اور بڑے بھائی کے بے سہارا بچوں پر مشتمل تھا۔ اب تک شادؔ عارفی کی شخصیت کا نفسیاتی ارتقا جن راستوں پر ہوا تھا حالات اس کے قطعاً برخلاف پیش آئے۔ اپنی اور اپنے لواحقین کی ضروریات کے تحت تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے انھیں ٹیوشن کرنے پڑے اور مقامی کارخانوں کی ’وے مینی‘ اور کلرکی جیسی چھوٹی چھوٹی ملازمتوں سے واسطہ پڑا۔ عام زندگی میں اُن کے افلاس کی پیدا کردہ یکرنگی اُن کے مزاج میں صد رنگی کی موجب بن گئی __ ’’ حساس اس درجہ تھے کہ گفتگو کے لہجے سے قائل کے ما فی الضمیر کو سمجھ لیتے، مصلحت کی خاطر تصنع اور زمانہ سازی سے کام لینا اُنھیں بالکل نہ آتا تھا۔[xlviii]   ‘‘مخالفین کی ریشہ دوانیوں اور اپنی افتادِ طبع کے باعث وہ کوئی بھی ملازمت جم کر نہ کر سکے۔ افسرانِ بالا کی کمزوریوں پر نکتہ چینی کرنا اُن کی عادت میں داخل تھا۔ بیشتر جگہوں پر افسروں کی وہ گرفت جو عام اہلکاروں کے لیے روز مرّہ کی چیز ہوتی ہے، شاد عارفی کے لیے باعثِ توہین ہو جاتی اور وہ ملازمت کو ٹھکرا دیتے۔ چالیس سال کی عمر میں شادی ہوئی تو بیوی جلد ہی تپِ دق کی شکار ہو کر راہی ملکِ عدم ہو گئیں۔ افلاس و پریشانی کے ان حالات میں معاشرے میں اپنی حیثیت انھیں بہت حقیر محسوس  ہوئی اور شادؔ عارفی نے اپنے احساسِ کمتری کواحساسِ برتری میں بتدیل کرنے کے لیے اپنی اعلیٰ نسبی کی آڑ پکڑ لی جو ایک ایسی چیز تھی جسے کوئی بھی انقلاب تبدیل نہیں کر سکتا تھا چنانچہ اپنے خطوط اور مضامین میں جگہ جگہ وہ نجیب الطرفین افغانی النسل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں :

’’ میں خالص افغانی ہوں۔ آج بھی دو ہار ساری کی ساری سات چچاؤں کے ساتھ افغانستان میں ہے۔ ننہار بھی خالص افغانی ہے۔‘‘[xlix]

’’ ہم لوگ خالص افغانی ہیں ، والد و والدہ نانا، نانی، سب افغانی۔ آج بھی میرے سات چچا افغانستان میں ہیں۔ زمین، بندوقیں اور خان کا حق محفوظ ہے۔‘‘[l]

اُن کی انتہا پسندی اس معاملے میں بھی دخیل ہے چنانچہ سوداؔ کی تُنک مزاجی میں انھیں افغانیت کی کارفرمائی نظر آتی ہے:

’’ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ مرزا سوداؔ میں مرزا ہونے کے باوجود کوئی افغانی رگ ضرور تھی جو ہر خلافِ مزاج بات پر پھڑک اٹھتی تھی۔[li]

ادبی دنیا میں شادؔ عارفی کی بڑھتی ہوئی شہرت نے مقامی شاعروں اور ادیبوں میں اُن کے خلاف حسد کا مادّہ پیدا کر دیا، جو اُن کے منہ پر تعریفیں کرتے تھے لیکن غیبت میں نکتہ چینیاں ہوتیں اور اُن کے خلاف ریشہ دوانیاں کی جاتیں۔ دوست بن کر نقصان پہنچانے والوں نے بھی بڑی تکلیفیں پہنچائیں۔ چار پانچ روپیہ میں مشاعرے کر کے اُنھیں لوگوں سے ٹکرایا۔ اس سلسلے میں انجمن بازیاں ہوئیں ،گروپ بندیاں کی گئیں۔

’’شادؔ صاحب کے مانجھے کی کاٹ کوئی برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لیے تمام اُستادانِ سخن نے اُن کے خلاف متحدہ محاذ بنا رکھا تھا۔‘‘[lii]

اپنے ساتھ ان زیادتیوں کا شادؔ عارفی کو پورا پورا احساس تھا جس کا اظہار انھوں نے مختلف مقامات پر کیا ہے۔ مثلاً:

’’ میں ریاست سے ٹکرا کر تباہ ہوا، دس سال سے ملازمت سے موقوف ہوں ، پراوڈنٹ فنڈ حکومت نے بلا وجہ ضبط کر لیا،والدہ صاحبہ کی پنشن بند کر دی تھی وہ پانچ سال تک میرے ساتھ فاقے کرتے کرتے مر گئیں ،گھر بیچ کر اُن کا کفن دفن کیا اور گھر گھر مارا مارا پھر رہا ہوں۔ حد یہ ہے کہ یہ مکان، جس کی چھت چھنی کی طرح ہے، شہر کے اندر چودھواں مکان ہے، دن میں دھوپ، رات کو اوس اور بارش اور گرمی، سب سے پالا پڑتا ہے‘‘۔[liii]

اور طرح طرح سے ذلیل کرنے کی کوششیں کی گئیں ، اُس کے پاس اپنی اعلیٰ نسبی کا احساس ہی سر بلندی کے ساتھ زندہ رہنے کا واحد سہارا تھا۔ خود اس احساس کے زیرِ اثر بھی انھیں مشکلات کے دو ایسے  ہفت خواں پار کرنے پڑے کہ اُن کی زندگی جہنم کا نمونہ بن گئی۔ اوّل تو یہ کہ اُن کے بڑے بھائی سیّد احمد خاں نے جب اپنی پہلی بیوی کے انتقال پر ایک ساقط النسب عورت سے شادی کر لی تو شادؔ عارفی نے اُن سے قطعِ تعلق کر کے بھائی کے اُن بچوں کو،جو پہلی بیوی کے  بطن سے تھے، اپنی کفالت میں لے لیا اور اپنی بے روزگاری کے عالم میں اُن کی تعلیم و تربیت اور شادی وغیرہ کے سلسلے میں عمر کے آخری دور تک پریشان رہے،دوم یہ کہ اُن کا پہلا عشق محض اسی اعلیٰ نسبی کے احساس کی بنا پر ناکام ہوا اور اُن کی محبوبہ، جو نسبی حیثیت سے اُن کے مرتبے سے کچھ کم تھی، دوسری جگہ بیاہ دی گئی۔ عام زندگی میں شادؔ عارفی جتنے دلیر تھے،اُسے دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اگر اُن میں اپنے نجیب الطرفین افغانی ہونے کا بڑھا ہوا غیر ضروری احساس نہ ہوتا تو وہ ماحول سے بغاوت کر کے اپنی اس ناکامی کو کامیابی میں بدل سکتے تھے۔ دوسرے عشق میں بھی ناکامی کا ایک باعث اُن کا یہ احساس بھی تھا کہ وہ افغانی الاصل مسلمان ہیں۔ احساسِ ناکامی کے یہ زخم شادؔ کے دل میں عمر بھر ہرے رہے۔

ادھر انھوں نے گرد و پیش میں بکھری ہوئی ناہمواریوں اور سماج کی خامیوں پر طنز کر کے عام لوگوں میں بھی اپنے بے شمار دُشمن پیدا کر لیے تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :

’’ آج تک ہمارے شعرا مغرب کے مسموم اثرات کو نشانۂ  طنز بناتے آئے تھے تاہم اس طنز کا دائرہ کچھ زیادہ وسیع نہ ہو سکا اور اسی لیے جب دورِ جدید کے شعرا نے زندگی اور سماج کے چھپے ہوئے ناسوروں پر تیز نشتر چلانے کا آغاز کیا تو اُن کے طنز کی چبھن کو بڑی سختی سے محسوس کیا گیا۔ اس ضمن میں شادؔ عارفی۔۔۔۔۔۔۔۔ کی طنزیہ نظمیں قابلِ ذکر ہیں کہ ان میں زندگی اور سماج کی بیشتر مریضانہ کیفیتوں اور پنہاں نا ہمواریوں کو ہدفِ طنز بنایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ شادؔ عارفی کی بیشتر نظمیں سماج کے مرکز ’ گھر‘ کی بعض نا ہمواریوں کو اُجاگر کرتی ہیں ‘‘۔[liv]

شادؔ عارفی کی جن خداداد پریشانیوں اور ردِّ عمل کے طور پر خود ساختہ مصیبتوں کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، اُن کے نتیجے میں چڑچڑاپن، بہت جلد سیخ پا ہو جانا، خود ترحّمی، زود حسی،تشکک مزاجی، اور انانیت نے اُن کی فطرت میں گھر کر لیا۔ آئے دن کی بیماریوں نے ان کمزوریوں کو مزید بڑھاوا دیا۔ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا لینا، اُس کا بہت گہرا اثر قبول کرنا اور اُتنی ہی شدّت کے ساتھ Reactکرنا ان کے مزاج میں داخل ہو گیا۔ جزوی اختلاف کے وہ قائل نہ تھے کسی سے ذرا سی ناراضگی کا موقع ملتا تو سلام دعا تک ترک کر دیتے تھے۔ منافقوں کے ساتھ ساتھ اپنے مخلصین پر سے بھی ان کا اعتماد اُٹھ چکا تھا۔ اگر ان کے مزاج سے گہری واقفیت نہ ہو تو کسی کا شادؔ عارفی کے ساتھ زیادہ دن تک نباہ لے جاتا مشکل تھا۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے، ان کا اوّلین شعر ہے:

ہو چکا ہے خیر سے ہشیار تُو

اپنے دُشمن پر اُٹھا تلوار تُو

والد بچپن میں تلوار کے ہاتھ سکھایا کرتے تھے، جسمانی طور پر حد درجہ کمزور ہونے کے باعث یہ زود رنج،نجیب الطرفین افغان، سپہ گری کا پیشہ تو نہ اختیار کر سکالیکن عمر بھر تلوار کا کام قلم سے لیتا رہا۔ اُن کی شخصیت اور فن،ایلیٹ کے مشہور ’ غیر شخصی نظریے‘(Impersonal Theory) کو غلط ثابت کرتے ہیں جس کے مطابق فنکار بحیثیت انسان ایک علیحدہ شخصیت رکھتا ہے اور بحیثیت فنکار ایک دوسری شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ شادؔ عارفی کی شخصیت اور فن میں کوئی تضاد نہیں۔ جہاں بھی اُنھیں اپنی یاکسی دوسرے کی حق تلفی کا احساس ہوتا تھا وہ مخالف کے لیے شمشیر برہنہ بن جاتے تھے۔ معاشرے نے اُن کی حق تلفی کی تو انھوں نے اپنی دھار دار غزلوں اور آتشیں نظموں سے اُس کے ناسور کریدے۔ دوستوں ، عزیزوں اور ہم وطنوں نے اُنھیں تکلیف پہنچائی تو اُن کی بھی نظموں ، غزلوں ، رباعیوں ، قطعوں اور خطوں کے ذریعے خبر لی گئی۔ ’’ زن مرید شوہر‘‘،’’ مہترانی‘‘، ’’ مرے محلے کے دو گھرانے‘‘، ’’ پرانا قلعہ‘‘، ’’ میرے پڑوس میں کچی شراب بکتی ہے‘‘، ’’ ٹکڑ گدے‘‘ وغیرہ اُن کی اسی قسم کی نظمیں ہیں۔ ان کے خطوط میں بھی قدم قدم پر اس افتادِ طبع کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ جب معاصرین و ناقدین نے انھیں نظر انداز کیا تو وہ مختلف اوقات میں نیازؔ فتح پوری، آل احمد سرورؔ،ڈاکٹر محمد حسن، ڈاکٹر سیّد عبد اللہ، رشید احمد صدیقی، خواجہ احمد فاروقی، سردار جعفری،اثر لکھنوی، ظ۔ انصاری،مجروح سلطان پوری، وقار عظیم، فراق گورکھ پوری، ماہر القادری، ارشدؔ کاکوروی،سجادؔ ظہیر، حامد حسن قادری،محی الدین قادری زورؔ، مجنوںؔ  گورکھپوری، جگرؔ مراد آبادی، سیّد احتشام حسین، عبادتؔ بریلوی، جوشؔ ملیح آبادی، معین احسن جذبیؔ، اخترؔ انصاری، ابرا حسنی، سلیمان اریب، امتیاز علی عرشی، صہبا لکھنوی، حنیف رامے اور بے شمار دوسرے لوگوں سے معرکہ آرائی کرتے رہے۔ اس طرح کم از کم اپنی زندگی تک انھوں نے ایسی فضا برقرار رکھی کہ نقاد اُن پر لکھتے ہوئے خوف کھاتے تھے۔ ’’ نثر و غزل دستہ‘‘ ( شادؔ عارفی کے مضامین اور جزو کلام مرتبہ راقم الحروف) کے مضامین اس امر کا بیّن ثبوت ہیں۔ پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں :

’’ عام انسانی تاریخ کی طرح تاریخ ادب میں بھی کچھ شخصیتیں اپنے حق سے زیادہ بلند جگہ پا جاتی ہیں اور کچھ ایسے اندھیرے میں پڑ جاتی ہیں جہاں اُن کے صحیح خد و خال نظر نہیں آتے لیکن غور کیا جائے تو اکثر و بیشتر اس کے ڈھکے چھپے اسباب ہوتے ہیں۔ بعد کے مورّخ اور ناقد انھیں نظر انداز نہیں کر سکتے، یہی صورت حال شادؔ عارفی کے ساتھ پیش آئی۔ انھوں نے نظمیں اور غزلیں لکھیں ، طنز یہ شاعری کی، مضامین اور خطوط لکھے لیکن انھیں وہ اور ویسی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جو اُن سے کم صلاحیت رکھنے والے ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کو حاصل ہوئی۔ اس میں کچھ تو رام پور کی ادبی فضا کا ہاتھ تھا، کچھ اُن کے افتادِ مزاج کا اور کچھ اُس رنگِ سخن کی کساد بازاری کا، جس کے وہ تاجر تھے۔ ‘‘[lv]

ایسا بھی نہیں تھا کہ شادؔ اپنے متعلق محض توصیفی مضامین پسند کرتے ہوں اور جائز تنقید کو برداشت نہ کر پاتے ہوں۔ اُن میں خود تنقید کا مادّہ بھی تھا اور منصفانہ تنقید کو قبول کرنے کی اہلیت بھی۔ بڑے نقادوں کی بات الگ ہے،اپنے شاگردوں کو بھی شادؔ اپنی تخلیقات پر بے لاگ اظہار رائے کی اجازت دیتے تھے۔ مثلاً مسرّت حسین آزادؔ  کو لکھتے ہیں :

’’ اپنی سنجیدہ اور بیباک رائے ظاہر کرنے میں قطعاً تکلف نہ کرو،جہاں بھی میرے ہاں ادبی، فنّی اور غیر ذمے دارانہ بیان دستیاب ہو اس پر جی کھول کر تبصرہ اور نقد ضروری ہے۔ ‘‘[lvi]

لیکن اُن کو چلتی پھرتی رایوں اور تعلقات کے تحت لکھے ہوئے تبصروں سے چڑ تھی اور مستثنیات کو چھوڑ کر ہمارے ہاں بیشتر یہی طریق نقد رائج ہے۔ اس طرح نقادوں کی بے اعتنائی شادؔ عارفی کے لیے بے حد مضرت رساں ثابت ہوئی اور وہ اس نفسیاتی تسکین سے بھی محروم ہو گئے جو کم از کم اپنی ادبی اہمیت کے چرچے سُن کر فنکار کو میسّر آتی ہے۔

یعنی چھوٹے اور بڑے کی کوئی قید نہ تھی، شاد کو کسی کی کوئی بات ناگوار لگنے کی شرط تھی پھر انھیں قلم سنبھالتے دیر نہ لگتی۔

حکیم عمّی میاں نے شادؔ عارفی کو عشق کی ناکامیوں سے پیدا شدہ مجنونانہ کیفیت اور اختلاج قلب کا علاج یہ بتایا تھا کہ پتنگیں اُڑایا کرو اور کبوتر بازی سے شوق کرو، شادؔ نے دل کھول کر پتنگیں اُڑائیں اور کبوتر بازی کی، اس طرح اُنھیں آسمان پر نگاہیں جمانے کی ایسی عادت پڑی کہ پھر نیچے نہیں دیکھا۔[lvii]  عین ممکن ہے کہ اس انتہا پسندی کے سر چشمے انھیں مشاغل سے پھوٹے ہوں جن میں انسان آسمان کو چھو لینے کی کوشش کرتا ہے۔

جو رسالے اُن کے پاس آتے تھے اُن پر متعدد جگہ اپنا نام مختلف طریقوں سے لکھنے کا اُنھیں خبط سا تھا، غالباً اس طرح وہ اپنی جانب سے ناقدین ادب کی بے التفاتی کا کفارہ ادا کرتے تھے، بہر حال انھوں نے خود اپنے نام کو اتنی بار اور اتنے مختلف انداز سے لکھا کہ اپنی انفرادیت قائم کر گئے۔[lviii] ایک ہی تخلیق کو مختلف اوقات میں مختلف رسائل میں کئی کئی بار شائع کرانے کا اُن کا شوق بھی اس خیال کی تائید کرتا ہے۔ اسی احساس کے زیرِ اثر رسالوں میں اپنی تخلیقات کی نمایاں مقامات پر اشاعت سے بہت خوش ہوتے تھے۔ ’’ مدیر رومان‘‘ کراچی کو لکھتے ہیں :

’’کل ’ رومان‘ ملا۔ اپنی غزل دیکھی اور اس طرح د یکھی __ فقیر کے قدم ہوں جیسے تاجِ بادشاہ پر__ اس قدر دانی سے خوش ہو کر یہ نئی غزل کسی بھی آنے والے شمارے کے لیے حاضر ہے۔[lix]

اسی طرح غیر نمایاں مقام پر اپنی تخلیق کی اشاعت انھیں بہت ناگوار گزرتی تھی۔ نامناسب مقام پر اپنی غزل کی اشاعت سے برافروختہ ہو کر حنیف رامے کے خط میں رقم طراز ہیں :

’’ اگر ’’ نصرت‘‘ میں غزلوں کی اتنی ہی کثرت ہے کہ ان کا ’ ہزار گلہ‘ کھینچا جائے تو میں اپنی معذوری میں ہی اپنی عاقبت سمجھتا ہوں۔‘‘[lx]

’’ ایک تھا شاعر‘‘ میں شاد عارفی کی ایک غزل ’ عکسِ تحریر‘ کے طور پر شامل ہے جس میں اُن کے قلم سے مدیر کے لیے ہدایت درج ہے کہ غزل پورے صفحے پر شائع کی جائے اسی نمایاں نظر آنے کے احساس کے تحت اکثر مقامات پر ’ توتا‘ اور ’ حضرۃ‘ جیسے الفاظ لکھ کر فٹ نوٹ لگاتے تھے کہ اُن کا لکھا ہوا املا ہی صحیح ہے۔

اپنے احساس کمتری کا اُنھیں بخوبی علم تھا اور اس پر غالب آنے کے لیے وہ شعوری طور پر کوشاں بھی رہتے تھے، مثلاً ایک جگہ لکھا ہے:

’’ میں چھریرے جسم کا لڑکا رہا،اس لیے فٹ بال میں دو مرتبہ تنو مند فارورڈوں سے ٹکر ہوئی اور دونوں مرتبہ دونوں گرے مگر مخالف کپڑے جھاڑ کر خود اُٹھ کھڑا ہوا اور مجھے دوسروں نے اُٹھایا۔ اس احساس کمتری نے فٹ بال سے نفرت پیدا کر دی شاعری کی تو اس میں صدر نشینی کی خواہش ہنوز چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔[lxi]

شادؔ عارفی کا غائر مطالعہ اُن کی ایک اور نفسیاتی کمزوری ہم پر واضح کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اُن کے دونوں عشق دنیاوی اعتبار سے ناکام رہے۔ یعنی ہر چند کہ اُن کی محبوباؤں نے محبت کا جواب محبت سے دیا لیکن شادؔ  اُن میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی نہ کر سکے اور اپنے مذہبی رجحان نیز اعلیٰ نسبی کے احساس کی وجہ سے اُن کی جنسی تسکین کا سامان بھی نہ ہو سکا بعد ازاں غالباً ان عشقوں میں ناکامی کے ردِّ عمل کے طور پر خاصی تاخیر کے ساتھ بھی چالیس سال کی عمر میں انھوں نے شادی بھی کی تو اہلیہ ڈیڑھ سال سے زیادہ ساتھ نہ دے سکیں اس طرح انھوں نے تقریباً تمام عمر تجرّد میں گزار دی۔ ایسا لگتا ہے کہ جنسی آسودگی حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے عشقوں کا ذکر چٹخارے لے کر کرتے ہیں اور معاشرے میں جنسی خامیاں بطور خاص تلاش کر کے اُن کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور اُن پر کھل کر طنز کرتے ہیں۔ اس طرح شخصیت کی یہ اُلجھن اُن کے فن میں صحت مندانہ طور پر داخل ہو گئی۔

مزاج میں کسی حد تک وہم کو بھی دخل تھا۔ ایک بار انجکشن لگوانے سے محض اس وہم کی بنا بر انکار کر دیا کہ اس طرح وہ مر جائیں گے۔[lxii]   تعویذ پہنتے تھے۔ ’’ کہتے تھے کہ اکبر نام کے کسی شخص کو کبھی پریشان حال نہیں دیکھا، اس نام میں برکت ہے۔۔۔۔۔ میّت والے گھر کا کھانا کبھی نہیں کھاتے تھے۔ ‘‘[lxiii]

ایسی ہی کچھ نفسیاتی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ جو شادؔ عارفی کو اُن کے ماحول اور معاشرے کی دین تھیں ، فطرتاً وہ انتہائی غیور، خوددار، کشادہ قلب،منصف مزاج، اقربا پرور، انسان دوست، سادہ لوح، خلیق،ملنسار، صاف گو،جری اور خوش دل انسان تھے۔ بہت جلد اثر قبول کرنا اور فوراً من جانا اُن کی سادہ لوحی کی دلیلیں ہیں اور اس کا اعتراف اُن کے کٹّر سے کٹّر مخالف نے بھی کیا ہے۔ مولانا ابراؔ حسنی، جواُن کے دیرینہ مخالف تھے،لکھتے ہیں :

’’ وہ منکسرمزاج بھی انتہائی تھے۔ جب موڈ درست ہو تا تو اپنے بڑے سے بڑے مخالف سے بھی اس طرح ملتے جیسے کبھی کوئی بات ہی نہیں ہوئی اور اُس کی راہ میں آنکھیں بچھا دیتے، ہر ہر حرکت سے خلوص، فدائیت اور یگانگی کا نمایاں مظاہرہ ہوتا جس میں تصنع، بناوٹ یا نمائش کا شائبہ بھی نہ ہوتا۔‘‘[lxiv]

اس ضمن میں اُن کے ہمعصر مقامی اُستاد شاعر،محشر عنائتی،ایک واقعہ بیان کرتے ہیں :

’’ ایک مشاعرہ ہونے والا تھا۔ صاحبِ مشاعرہ سے میرے کافی تعلقات تھے اور کچھ رشتہ بھی ہوتا تھا۔ وہ پانوں کا خاصدان اور سگریٹ کا ڈبّہ پہلے میرے سامنے لائے زاں بعد شادؔ صاحب کے پاس لے کر گئے اس پر شادؔ صاحب بھڑک اُٹھے، سبب پوچھا تو فرمایا،مجھے ذلیل کیا گیا۔ میں قریب پہنچ کر اُن کا ہاتھ تھام لیا اور کہا کہ آپ کے چلے جانے سے ان کا مشاعرہ صفر ہو جائے گا، یہ غلطی ان سے بر بنائے رشتہ داری ہو گئی___ شادؔ صاحب راضی ہو گئے اب وہ وہی میرے ۳۰ء تا ۳۶ء والے دوست تھے۔ ‘‘[lxv]

کشادہ قلبی کا یہ عالم تھا کہ ___ ’’دورانِ ملازمت میں شرکتِ مشاعرہ کے لیے نذرانہ تو کجا زادِ سفر بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ ‘‘[lxvi]

بھائی کے بچوں کی پرورش اور ماں کی خدمت میں تمام عمر گزار دی۔ نرم دل اتنے کہ دوسروں کی ذرا سی تکلیف کا حال سُن کر اپنے پہاڑ جیسے غم بھول جاتے اور اُس کی دل دہی کرنے لگتے۔ ایک بار راقم الحروف نے انھیں اپنے حالاتِ زندگی لکھ بھیجے تو جواب ملا:

’’ تمھارا مفصل لفافہ پڑھ کر میرا دل بھر آیا اور میں اپنی مصیبتیں بھول گیا، ان حالات میں میں تم سے اپنا رونا نہیں رو سکتا۔‘‘[lxvii]

مروت اُن کی فطرت میں داخل تھی۔ انتہائی زود رنج ہونے کے باوجود بے مروّت صرف اسی وقت تک رہتے جب تک کہ مخالف سے اُن کی آنکھیں چار نہ ہوں جہاں رو در رو بات ہوئی، اُن کی با مروّتی دلوں کے غبار کو دھو ڈالتی تھی۔

وہ اپنا احتساب کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے، ایسے ہی ایک موقع پر لکھتے ہیں :

’’ احباب کا خیال ہے کہ مکان کی مرمّت کے لیے آپ کو یہ نذرانہ قبول کر لینا چاہیے حالانکہ میرا دل نہیں چاہتا مگر ’ نفسِ راحت خور‘ مجھے اکسا رہا ہے۔ ‘‘[lxviii]

غیرت اور خود داری کے معاملے میں تو شادؔ عارفی اپنی مثال آپ تھے۔ مرتے مر گئے لیکن فاقہ کشی کے عالم میں بھی کسی کا زیر بار احسان ہونا گوارا نہ کیا،مجروحؔ سلطان پوری نے مکان کی مرمت کے لیے رقم پیش کی تو اُسے رد کر دیا، پروفیسر آل احمد سرور، کچھ مخلص احباب اور بعض شاگرد چاہتے تھے کہ حکومت سے اُن کے لیے وثیقے کی درخواست کی جائے۔ لیکن شادؔ کی غیرت نے اسے بھی گوارا نہیں کیا۔ اپنی بے سرو سامانی کا نقشہ سامنے تھا لہٰذا اس خیال سے کہ کہیں اُن کی تجہیز و تکفین دوسروں کی اعانت سے نہ ہو، انتقال سے بہت پہلے ہی سلطان اشرف کے پاس اپنی نظموں اور غزلوں کے معاوضے کی رقم جمع کر دی جو بعد ازاں اُن کے کفن دفن میں صرف ہوئی۔ عمر کے آخری دس بارہ سال، جب اُن کا کوئی بھی ذریعۂ  معاش نہ رہا تھا اور وہ مسلسل بیمار رہتے تھے،ایسے گزرے کہ فرشتہ بھی ڈگمگا جاتا، لیکن اس حال میں بھی شادؔ عارفی نے اپنی آن پر دھبّہ نہ آنے دیا۔ شاگردوں سے حقِ اصلاح کے طور پر اور رسائل و جرائد سے تخلیقات کے معاوضے کی شکل میں جو تھوڑی سی رقم مل جاتی (ظاہر ہے اُردو کے رسائل کتنا معاوضہ دے سکتے ہیں ) شادؔ عارفی نے اُسی میں اپنے لواحقین کے ساتھ گزر بسر کی۔ بالکل آخری وقت میں ، جب اُن کے حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو گئے تو ’ بزم ارباب ادب‘ رام پور نے جو ’ فروغِ اُردو لائبریری‘ بھی چلا رہی تھی، اُن کے پاس اعزازی طور پر آنے والے رسائل و کتب کو نصف قیمت پر خریدنے کی بات طے کر لی مکاتیب شاد بنام عہدیداران ’ بزم اربابِ ادب‘ ( مشمولہ ’’ ایک تھا شاعر ‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ) میں جا بجا انھیں رقومات کا ذکر ہے۔ سلطان اشرف بھی، جن کے نام خطوط میں شادؔ عارفی نے اکثر فرمائشیں اور تقاضے کیے ہیں ، ’’بزم اربابِ ادب کے عہدیداروں میں سے ایک تھے۔ فضاؔ کوثری  کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا بھی ہے:

’’پاکستانی رسائل فروغِ اُردو لائبریری میں فائل ہو جاتے ہیں۔ تمھیں کس طرح بھیجے جائیں ،فائل خراب ہو جائیں گے۔ میں اپنے سب رسالے لائبریری کو دے دیتا ہوں ، وہ مجھے اس کے عوض بہت کجھ فراہم کرتے ہیں۔‘‘[lxix]

عام طور پر دنیائے ادب  میں شادؔ عارفیؔ کو یگانہ جیسا خشک مزاج اور خود پرست شاعر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقتاً وہ ایک شگفتہ مزاج، سادہ لوح اور انسان دوست آدمی تھے۔ خلیل الرحمن اعظمی کے الفاظ میں :

’’ وہ ایک انوکھی اور نرالی شخصیت کے مالک تھے اور اُن کے اندر بعض ایسی ادائیں تھیں ، جو اُنھیں سے مخصوص تھیں۔۔۔۔۔۔ مرحوم طبعاً بت معصوم اور بھولے بھالے تھے، اُن کا روٹھنا اور بہت جلد مَن جانا بالکل بچوں کا سا ہوتا تھا۔ عزیزوں اور دوستوں سے بے حد محبت کرتے تھے اور اُن کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ خلوت پسند اور بندبندسے آدمی بھی نہیں تھے اور نہ اپنے بارے میں زیادہ باتیں کرتے تھے۔ میں نے انھیں اپنی شاعری کے بارے میں عام لوگوں سے گفتگو کرتے کبھی نہیں دیکھا اور نہ وہ اپنا دکھڑا ہر ایک سے رونا پسند کرتے تھے۔ جس زمانے میں وہ فاقہ مستی کی زندگی گزار رہے تھے اور اُن کو پے بہ پے کئی صدموں سے دوچار ہونا پڑا تھا، اُس وقت بھی میں نے اُنھیں شگفتہ پایا۔ اُن کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتیں۔ ان کو ایسے ایسے واقعات، لطیفے، ادبی چٹکلے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ایسی تجربے کی باتیں معلوم تھیں اور ان کو اس مزے سے سناتے تھے کہ ان کے پاس بیٹھنے والے کبھی ان سے بور نہیں ہوتے تھے۔ شادؔ صاحب سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی اور میں اُن کا اتنا گرویدہ ہو گیا تھا کہ اُن سے بار بار ملنے کو جی چاہتا۔‘‘[lxx]

وہ بچوں کے ساتھ بچّے اور جوانوں کے ساتھ جوان تھے۔ محلے کے تمام بچّے انھیں پاپا کہتے تھے اور اُن سے بے حد مانوس تھے۔[lxxi] جوانوں میں اکبر علی خاں شادؔ عارفی سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر یوں کرتے ہیں :

’’ ایک دن دل پکّا کر کے پہنچ گیا اور ان سے شاگردی کی درخواست کی۔ چھوٹتے ہی پوچھنے لگے کہ، ’عشق وشق کیا ہے؟‘‘ یہ کسے توقع تھی کہ ایسا بے تکلف سوال کریں گے،میں نے کہا،نہیں ، تو بولے،پھر شاعری تمھارے بس کی نہیں۔ انھوں نے وہ قصّے چھیڑ دیے جب آتشؔ جوان تھا۔ اور پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو بڑے ہی دلچسپ آدمی ہیں ‘‘۔[lxxii]

موقع ملنے پر اپنے معاشقوں کی روداد بڑے اشتیاق اور پوری تفصیل کے ساتھ سناتے تھے۔ اُن سے ملاقات کے بعد عابد رضا بیدارؔ لکھتے ہیں :

’’ صاف گوئی اور تلخ گوئی کی صفات سے متصف ہونے کے باوجود بڑے خوش طبع، ہنس مُکھ، بذلہ سنج اور ظریف تھے، بات بات پر قہقہہ لگا کر ہنسنے والے۔ آپ جاتے تو آپ کے ساتھ گھنٹوں دلچسپ باتیں کر سکتے چاہے آپ کی اُن سے پہلی ہی ملاقات ہو، بس دو چار منٹ رسمی ملاقات ہوتی،اس کے بعد وہ آپ کے مدتوں کے ساتھی بن چکے ہوتے۔ بالکل ساتھی، بڑوں میں بڑے اور چھوٹوں میں چھوٹے۔ رام پور میں ترقی پسندادب کا ملجا اور ماوا۔ باہر سے نئے ادیب اور شاعر آتے تو اس تبرّک کی زیارت کے بغیر اُن کا سفر ادھورا رہ جاتا تھا۔ دوسرے کو یہ محسوس نہ ہونے دیتے کہ اُس سے کسی بھی طرح بور ہوئے ہیں اور جب تک ملاقاتی خود ہی جانے کے لیے آمادگی ظاہر نہ کرتا، کسی قسم کی کسلمندی بیماری میں بھی ظاہر نہ کرتے۔ ‘‘[lxxiii]

جان و مال کا خوف کیے بغیر سچ بات کہہ گزرنے کی جرأت جیسی شادؔ عارفی میں تھی اُس کی مثال اردو ادب میں مشکل سے ملے گی:

’’اس کا تجربہ آزادی سے کچھ عرصہ قبل یا بعد ایک محفل میں ہو بھی گیا۔ نواب صاحب نے خاص ’ باغ پیلیس‘ میں مشاعرہ کی نشست کی، شادؔ صاحب اگرچہ وہاں نہیں جاتے تھے، لیکن شاید نواب صاحب اس زمانے میں اُن کی شہرت کی وجہ سے اُن سے خوش تھے یا پھر مصاحبوں نے سفارش کی اور شادؔ صاحب کو بھی یار لوگ پکڑ لے گئے ( غالباً اس زمانے میں جوشؔ صاحب رام پور آ گئے تھے اور نواب صاحب کے یہاں مقیم تھے) شادؔ نے وہاں جس قسم کی نظمیں سنائیں ، اس کے بعد پھر کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ شاد صاحب کو ’پیلیس باغ‘ لے جاتا۔ ریاست کے زمانے میں کبھی نواب صاحب سے نہیں ڈرے۔ [lxxiv]

شادؔ کی کشادہ قلبی، فراخدلی، دلیری اور نوجوانوں کی ہمت افزائی کے متعلق بھی ایک واقعہ سنئے۔  مسعود اشعرؔ ہی کا بیان ہے:

’’ انھیں دنوں ہم نے فرسودہ غزلوں کے مشاعروں سے تنگ آ کر ایک مناظمہ کرانے کی ٹھانی، شادؔ صاحب کو اس میں آگے رکھا، شاہدؔ عشقی اور ہادی مصطفی آبادی اس میں پیش پیش تھے، بعض ایسے نو جوان شاعر بھی تھے جو شادؔ صاحب کے مخالف استادوں کے شاگرد تھے۔ لیکن شاد صاحب نے بڑی فراخدلی کے ساتھ اُن کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ اس مشاعرے کا صدر شاد عارفی کو ہونا چاہیے تھا لیکن انھوں نے اس میں بھی اجتہاد کرایا اور ہندی کے ایک شاعر، کلیان کمار ششی کو اس کا صدر بنا دیا۔ بہت دنوں تک اس مناظمہ کی دھوم رہی اور اس میں جس قسم کی نظمیں پڑھی گئی تھیں اس سے اُستادوں کی ناراضگی بڑھ گئی۔ رام پور میں شاید یہ پہلا مشاعرہ تھا جہاں آزاد نظم نہ صرف خاموشی سے سنی گئی بلکہ اسے داد بھی ملی۔ شاد صاحب نے کبھی آزاد نظم نہیں کہی لیکن اس میں اپنے شاگردوں کی ہمیشہ ہمت بڑھائی۔‘‘[lxxv]

عام اُستادوں کی روش کے بر خلاف ادبی محفلوں میں مبتدیوں کے بے عیب اشعار پر جی کھول کر داد دیتے تھے۔ کسی کو اپنا  شاگرد بنانے پر جلد رضا مند نہ ہوتے تھے، بالفرض کسی نوجوان شاعر نے کسی طرح اُنھیں راضی بھی کر لیا تو اُس کی غلط توقعات پوری نہ ہوتی تھیں اور وہ بہت جلد اُن سے علیحدگی اختیار کر لیتا تھا۔ گووند  رشکؔ نے کچھ ایسی ہی توقعات کے ساتھ اُن کی شاگردی اختیار کرنی چاہی تھی، انھیں لکھتے ہیں :

’’ یہ طریقۂ  کار اچھا نہیں ، چنانچہ بہ قسم کہہ سکتاہوں کہ میں نے اپنے کسی شاگرد کی سفارش نہیں کی، ہاں یہ کہہ کر کبھی کوئی غزل بھجوا دی کہ مال دیکھ کر، ’اگر کھرا ہو‘ چھاپ دو۔ اگر تم چاہو تو اس طرح کے تعارفی خط لکھ سکتا ہوں۔‘‘[lxxvi]

ہونے والے شاگرد کو جتا دیتے کہ جو جی میں آئے اور جس رنگ میں چاہو لکھو، میں زبان و بیان کی خامیوں کی طرف اشارہ کر دوں گا، درست خود تمھیں کرنا ہو گا۔

اپنی مفلوک الحالی کے باوجود اقربا نوازی کا یہ حال تھا کہ اپنا آبائی مکان ایک عزیز کو رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہوئے بہت سستے داموں فروخت کیا حالانکہ محلِ وقوع کے لحاظ سے دوسرے اُس کی زیادہ قیمت دینا چاہتے تھے۔ [lxxvii] بڑے بھائی نے پہلی بیوی کے انتقال کے بعد ایک ساقط النسب عورت سے شادی کر لی تو خاندان نے اُن سے قطع تعلق کر لیا اور شادؔ عارفی نے مرحومہ کے لڑکے اور لڑکی کی پرورش اپنے ذمّہ لے لی، اپنی غربت کے باوجود لڑکے کو پڑھایا، لکھایا، شادی کی، ملازمت دلائی اور جب وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا تو اس سے کسی قسم کی امداد کے طالب نہ ہوئے۔ لڑکی کی شادی بھی انھیں نے کی اور بیوگی کے بعد پھراس کے کنبے کی کفالت کا بار اپنے سرلے لیا:

’’ روایتی شاعروں ،مشاعرے بازوں ، تک بندوں اور اُستادی کا ڈھونگ رچانے والوں سے بہت چڑتے تھے اور اُن کے شعروں کی تشریح انوکھے اندازسے کرتے تھے کہ لوگ ہنسی کے مارے لوٹنے لگتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ فحش لطیفوں اور گالی گلوچ سے بھی باز نہیں آتے تھے۔‘‘[lxxviii]

شادؔ عارفی نحیف الجثّہ،دھان پان سے، معراجؔ لکھنوی کے الفاظ میں بیس سیر کے آدمی تھے۔ قد میانہ،رنگت سانولی اور چہرہ کتابی تھا۔ صحت ہمیشہ خراب رہتی، دمے کے مریض تھے۔ پچکے ہوئے گال اور جسم میں ہڈیاں اور کھال ہی رہ گئی تھی۔ صورت شکل قطعاً غیر شاعرانہ، بال خورے کی وجہ سے ہمیشہ داڑھی مونچھیں صاف رکھیں۔ سر کے بال بھی بعض مقامات سے اُڑ گئے تھے۔ بالوں کی اس بیماری کا انھیں بہت احساس تھا۔ جوانی میں سنہرے فریم کی اور آخر عمر میں گول شیشوں اور موٹے کالے فریم والی عینک استعمال کرتے تھے۔ کپڑوں کے سلسلے میں بھی لا اُبالی تھے، سیدھا سادہ لباس پہنتے تھے۔ مخصوص مواقع پر شیروانی، ورنہ عام طور پر قمیص پاجامہ، قمیص کے کالر پر ایک رومال لگا ہوا۔ گرمیوں میں جواہر کٹ اور سردیوں میں مرزیٔ پہنتے تھے اور گلے میں رومال کی جگہ مفلر لپیٹے رہتے۔ موسم کے لحاظ سے کبھی اونی کبھی سوتی رام پوری ٹوپی استعمال کرتے۔ سوٹ بوٹ میں انھیں زندگی میں شاید ایک آدھ بار ہی دیکھا گیا۔ لیکن فوٹو کھنچواتے وقت کبھی کبھی قمیص پر ٹائی باندھ لیا کرتے تھے۱؎ حقّہ اور بیڑیاں بکثرت پیتے تھے[lxxix] غالب کی طرح آم انھیں بھی بہت مرغوب تھے اور اکثر خطوط میں اپنی اس رغبت کا ذکر کیا کرتے۔ ہلکے سبُک رنگ پسند کرتے تھے اور بھینی خوشبو والے ہلکے عطروں کے شائق تھے[lxxx]   طبی معلومات بھی خاصی وسیع تھیں۔ حافظہ بہت اچھا تھا جس کے سہارے حوالے کی کتب کے بغیر ہی جید عالموں ، محققوں اور نقادوں سے علمی و ادبی بحثوں میں بازی لے جاتے تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں خاصے حُسن پرست واقع ہوئے تھے۔ ایک جگہ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ میری طالب علمانہ زندگی کا وہ دَور جوکسی بھی ’ خوشنما‘ جلد، سے متاثر ہو جاتا تھا، کافی زرخیز رہا ہے۔ ‘‘[lxxxi]

نظیر اکبر آبادی کی طرح شادؔ بھی زندگی کے معمولی سے معمولی واقعات اور ہنگاموں میں دلچسپی لیتے تھے اور اُسی سے اپنی شاعری کا مواد اخذ کرتے تھے، بچوں کے ساتھ بڑی شفقت کا برتاؤ کرتے تھے۔ عمر کے مختلف ادوار میں انھیں مختلف مشغلوں سے شغف رہا، بچپن میں فٹ بال، بیت بازی اور غلیل وغیرہ سے دلچسپی تھی۔ طالب علمی کے زمانے میں کرکٹ اور ٹینس وغیرہ کا شوق تھا۔ عہدِ شباب میں پتنگ بازوں کی صفِ اوّل میں شمار کیے جاتے تھے اور کبوتر بازی میں رام پور میں نام پیدا کیا، بٹیروں سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ جوانی میں انھیں شکار کا بھی بہت شوق تھا۔ ماہر القادری لکھتے ہیں :

’’رام پور کے مشاعروں اور ادبی نشستوں میں شادؔ عارفی کو نہیں دیکھا، جب بھی دریافت کیا معلوم ہوا وہ شکار کھیلنے گئے ہیں۔ ‘‘[lxxxii]

اس شوق کو ابھارنے میں نواب حامد علی خاں کے میرِ شکار زبر استاد کا ہاتھ تھا۔ [lxxxiii]اس شغف کی نشاندہی اُن کی نظموں ’’ جبر و قدر‘‘، ’’ شکار ماہی‘‘، ’’ پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر‘‘ وغیرہ سے بھی ہوتی ہے۔ آخر عمر میں شطرنج، پچیسی( چوسر) اور تاش کھیلنے کے علاوہ معمے حل کر کے،چڑیوں کو دانہ کھلا کر، شاگردوں اور دوستوں کو خط لکھ کر جی بہلاتے تھے۔ مطالعہ کا شغف آخری دم تک رہا۔ جلد سونے اور علی الصبح جاگنے کے عادی تھے۔ حساب کتاب میں کمزور، لکھتے ہوئے  الفاظ اور نقطے بھول جانے کے عادی،تحریر میں قوسین اور واوین کے اس درجہ شوقین کہ بعض مقامات پریہ قطعاً غیر ضروری نظر آتے ہیں۔ اپنی ذات کی حد تک بڑے غیر محتاط اور کھانے پینے کے معاملے میں بلا کے بد پرہیز تھے، برسوں سے سانس کے مریض تھے۔ پھیپھڑے کمزور تھے اور معدہ و جگر خراب،خوراک بھی بہت کم تھی لیکن جاڑوں میں رساول اور برسات میں آم کھائے بغیر نہیں رہتے تھے۔[lxxxiv]

موقع پڑنے پر گالیاں بھی خوب دے لیتے تھے۔ کبھی کبھار بے تکلف دوستوں کی محفل میں مغلظات سے مملو واقعات،فحش لطیفے اور اشعار بھی سُناتے تھے، مقامی لوگوں میں رشید احمد خاں مخمور، ہادی مصطفی آبادی، جاوید کمال، مسعود اشعر، رام ناتھ نازاںؔ ، کلیان کمار ششی، منہاج الدین مینائی، امتیاز علی کھنڈارا، صدیق خاں ، مندا خاں ، سلطان خاں سحرؔ، یوسف خان فلکؔ، فضل احمد خاں ، محمد احمد خاں ، قیصر خاں ، منّے میاں صابرؔ، اور سلطان اشرف وغیرہ سے زندگی کے مختلف ادوار میں اُن کے تعلقات وسیع رہے۔ بدر تسلیمی، مسیحاؔ نظامی، محشر عنایتی، راز یزدانی،امتیاز علی عرشیؔ وغیرہ سے تعلقات بنتے بگڑتے رہتے تھے:

معززین تقریبات میں بہت کم شریک ہوتے تھے۔ شعر پڑھنا تو اُنھیں آخر عمر تک نہیں آیا، اپنے ٹھیٹ رامپوری لہجے میں نظم اس طرح پڑھتے جیسے کسی کو خط پڑھ کرسُنا رہے ہوں۔ اس گھبراہٹ کے عالم میں شعر سُناتے کہ یہ ہوش بھی نہ رہتا کہ کس شعر پر داد مل رہی ہے اور مکرّر سُننے کی فرمائش ہے۔[lxxxv]

عمر کے بالکل آخری حصّے میں بیماری کی وجہ سے گوشہ گیر سے ہو گئے تھے، گھر سے بہت کم نکلتے تھے۔

عام طور پر شادؔ عارفی اس وقت فکر سخن کرتے تھے جب طبیعت میں اعتدال ہو،کبھی برہمی کے عالم میں اپنی رات کی نیند حرام کر کے طویل نظمیں کہہ لیتے تھے جو طنز یہ اور کڑوی کسیلی ہوتی۔ ‘‘ صبح کی چائے پینے کے بعد اُن پر بالعموم ایک خاص موڈ طاری ہوتا، جس میں فکرِ سخن کرتے تھے۔[lxxxvi]   شادؔ کی ایک بڑی خصوصیت اُن کے ذہن کی زرخیزی اور پُر گوئی بھی تھی،اُنھیں کبھی یہ کہتے نہیں سُنا گیا کہ آج کل شعر نہیں ہو رہے ہیں یا فلاں فلاں پریشانیوں کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکا۔[lxxxvii]

یہ ہے شادؔ عارفی کی شخصیت جو اپنی فطرت سے نہ نور ی تھے نہ ناری تھے:

ہم تھے سو ہوئے نذرِ تگ و تازِ معیشت

اب کون حریفِ رسن و دار رہا ہے

( شادؔ عارفی)

٭٭٭

شادؔ عارفی کے معاشقے اور اُن کا تخلیقی ردّ عمل

               مظفر حنفی

ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق

اس سے زائد عشق کا اے شادؔ میں قائل نہیں

شادؔ عارفی نے دو بار عشق کیا اور دونوں مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھا۔ پہلا عشق بلوغت سے قبل شروع ہوا اور اس کا سلسلہ دس سال جاری رہا۔ لڑکی اُن کے نانہال کی طرف سے دُور کی رشتے دار تھی، لیکن خاندانی اعتبار سے ہم مرتبہ نہ تھی اور شادؔ عارفی اس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جہاں ان کے بڑے بھائی ایک ساقط النسب عورت کے ساتھ دوسری شادی کرنے کے جرم میں خاندان سے علاحدہ کر دیے گئے تھے، لہٰذا شادؔ کو اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت نہیں مل سکی اور وہ دوسری جگہ بیاہ دی گئی۔ عشق میں اس ناکامی نے ان کے ذہن پر بہت گہرا اثر چھوڑا اور تقریباً تین سال تک ان پر جنونی کیفیت طاری رہی۔ اس کیفیت سے گزر چکنے کے تقریباً تین سال بعد انھیں دوسرا عشق تارا نام کی ایک لڑکی سے ہوا جس کے پڑوس میں شادؔ بچوں کو پڑھانے جاتے تھے لیکن یہاں بھی شادؔ عملاً ناکام رہے کیونکہ مذہب آڑے آتا تھا اور انھیں اس امر کا شدید احساس تھا کہ ان کے کسی غلط اقدام سے مسلمانوں پر ہندوؤں کو اعتماد نہ رہے گا۔ اس دوسرے عشق میں ناکامی نے شادؔ کی رہی سہی سکت چھین لی۔ اب ان کی مایوسیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ طرّہ یہ کہ اس دوہرے احساسِ شکست کو تا عمر زندہ و تازہ رکھنے کے لیے شادؔ کی دونوں محبوبائیں ان کے انتقال تک رامپور ہی میں مقیم رہیں۔

ان معاشقوں کی کچھ تفصیل شادؔعارفی کے مکتوب بنام علی حماد عباسی میں بیان ہوئی ہے۔ اس خط کا متعلقہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

’’بات یہ ہوئی تھی کہ مجھے اپنے دُور کے خاندان میں سے ( جہاں ہماری بیاہ شادی ممنوع تھی ) بہ اعتبار قومیت وہ گھٹیا قوم کی لڑکی تھی اور ہم لوگ خالص افعانی رزّڑ،ڈوڈال، اور آفریدی۔ ایک لڑکی سے ( نام نہیں بتاؤں گا) بچپن ہی میں محبت ہو گئی جو ساتھ کھیلے کا نتیجہ تھی۔ اس پر میں نے ایک غزل میں مقطع یوں کہا تھا:

ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق

اس سے زائد عشق کا اے شادؔ میں قائل نہیں

نتیجہ تو وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا یعنی وہی جو میری نظم’ ’ فسانۂ ناتمام‘‘ سے ظاہر ہے جس کو تفصیل سے میں نے اپنی نظم’سماج‘ میں بھی بیان کر دیا ہے۔ اس محبت نے مجھے جو نظمیں دیں وہ یہ ہیں’  فسانۂ نا تمام‘،’  خط کی چوری‘،’ سماج‘ ،’ غمازہ‘ ،’  مفارقت، اور ایک آدھ نظم جو اب یاد نہیں آ رہی ہے۔ غزلوں میں بھی کچھ زیادہ مواد اس لیے فراہم نہیں ہو سکا کہ اس محبت میں نہ تو فراق کا سوال تھا نہ رقیب کا ڈر۔ وہ لوگ (لڑکی والے) خدا سے چاہتے تھے کہ میں پھنس کر شادی کر لوں تاکہ میرے خاندانی غرور کا سر نیچا ہو، اس لیے وہ ( اس کے ماں باپ) مجھے زیادہ سے زیادہ موقع دیتے رہے کہ میں خوب گھل مل جاؤں۔ اب ہم جوان تھے۔ ایک روز مجھے’ اُدمات‘ لگا۔ اُدمات کو سمجھے۔ جوش جوانی میں آپے سے باہر ہو جانا۔ مگر ایمان کی بات ہے کہ وہ لڑکی آڑے آ گئی۔ کہنے لگی میں تم سے باہر نہیں ہوں مگر اس کے بعد محبت ختم ہو جائے گی اگر آپ یہ چاہتے ہیں تومیں حاضر ہوں۔ عرب معشوقہ بثینیٰ اور اس کے عاشق جمیل کا واقعہ یاد آ گیا۔ یہ قصہ بھی سُن لو۔ یہ قبیلے بھی آپس میں بَیر رکھتے تھے مگر ان دونوں میں محبت ہو گئی۔ چھپ چھپ کر ملتے رہے۔ ایک دن جبکہ یہ قبیلے تلاشِ آب و سبزہ میں اپنے اپنے گلّے لے کر مختلف سمتوں میں جانے والے تھے گویا صبح کو روانہ ہوں گے تو بثینیٰ نے جمیل سے کہلا بھیجا کہ رات کو میں خیموں کے پیچھے روشنی کر دوں گی تم اسے دیکھ کر چلے آنا۔ میں وہیں ملوں گی۔ چنانچہ اس نے یہی کیا اور جمیل وہاں پہنچ گیا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد جمیل نے اظہارِ مطلب’ ’ خواہشِ وصل‘‘ کا اظہار کیا

تو بثینیٰ نے اپنی کمر سے خنجر نکال لیا اور کہا کیا تم ایسا ارادہ کر کے یہاں آئے تھے۔ کیا اسی کو عفّتِ عشق کہتے ہیں۔ چلے جاؤ میرے سامنے سے ورنہ ابھی خنجر سے تمھارا کام تمام کر دوں گی۔ جمیل اس پر بجائے بگڑنے کے مسکرایا اور اپنا پیش قبض ( خاص قسم کا خنجر) کھینچ لیا اور کہا اگر تو وصل کا اقرار کر لیتی تومیں اسی خنجر سے تیرا کام تمام کر دیتا۔  خاندانی اختلاف کی بنا پر اُن میں شادی تو نہ ہو سکی مگر بیثنیٰ جب دوسری جگہ بیاہ کر چلی گئی تو وہ فقیر کے بھیس میں وہاں پہنچا اور آخر وقت تک اس کے دروازہ پر فقیر بن کر پڑا رہا اور مر گیا۔ ہاں تو اس کے سمجھانے سے میں سنبھل گیا۔ یہ محبت گیارہ سال رہی پھر اس کی شادی ہو گئی۔ اب  میرے اوپر جُدائی کے تین سال قیامت بن کر گزر گئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دیوانہ ہو جاؤں گا۔ مجبوراً میرے استاد حکیم غلام حیدر صاحب ،جن سے میں نے فارسی اردو وغیرہ پڑھی تھی، جو جید طبیب بھی تھے، ان کے پاس پہنچا اور پوری حقیقت بیان کی۔ انھوں نے کہا اس کا علاج یہی ہے کہ کہیں اور محبت کرو۔ ’ ’ یہ کیسے ممکن ہے۔ ‘‘ میں نے عرض کیا۔ ’ ’ محبت آپ ہوتی ہے، محبت کی نہیں جاتی۔ ‘‘ تو پھر انھوں نے کہا تم پتنگیں اُڑایا کرتے تھے؟ میں نے کہا ہاں۔ کہا پتنگ بازی شروع کر دو اور اپنے آپ کو اس میں کھو دو۔ چنانچہ بھیئے حماد! میں نے ساڑھے پانچ برس تک اس بُری طرح پتنگ بازی کی کہ شہر بھر میں میرا شہرہ ہو گیا۔ لوگ مجھے دیکھنے کو آنے لگے کہ کون ماسٹر ہے ( میں شہر میں ٹیوشن کرنے کی وجہ سے ماسٹر بھی مشہور تھا اور اب بھی ہوں ) جو اتنا بہتر پتنگ لڑاتا ہے۔ حکیم صاحب کا یہ علاج کارگر پڑا۔ اب میں اسے ایک حد تک بھُلا چکا تھا مگر مکمل طور پر آج بھی نہیں ( ابھی وہ زندہ ہے) پھر میں ایک جگہ ٹیوشن پڑھاتا تھا اس مکان سے سڑک پار کر کے ایک مکان میں ایک لڑکی’ ’تارا‘‘ نامی رہتی تھی وہ اسکول جا رہی تھی اور میں پڑھا کر لوٹ رہا تھا کہ اس کا سامنا ہوا اور وہی کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ عجیب الجھن اور دشواریوں کا سامنا رہا۔ میں مسلمان وہ ہندو۔ مگر زیادہ تر اس طرف سے ، کچھ اس طرف سے ایسے حالات بنے یا بنائے گئے کہ خط و کتابت اور ملاقاتیں آسان ہو گئیں۔ یہ  محبت پانچ برس رہی اور پھر سماج اور اختلاف مذہب کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اس کی تفصیل کافی دلچسپ ہے مگر پھر یہ فسانہ طویل ہو جائے گا۔ خط نہیں رہے گا۔ رامپور آؤ تو زبانی کہوں گا۔

                        اب میری عمر کافی زائد ہو چکی تھی۔ اس محبت نے کئی اچھی نظمیں دیں’ ’ جہاں میں تھا‘‘،’ ’ ہولی‘‘،’ ’ دسہرہ اشنان‘‘ وغیرہ۔ ادھر گھریلو حالات یہ تھے کہ میرے جس بھائی نے شادی کی وہ والدہ کو چھوڑ کر علاحدہ ہو گیا( ہم تین بھائی تھے) دوسرے بھائی کی شادی ہوئی وہ بھی جورو کے غلام نکلے ، زن مرید کہیں کے۔ بڑے بھائی نے دو شادیاں کیں اور دونوں ناکام، یعنی والدہ سے متنفر۔ اب ۳۸ سال کی عمر میں جب والدہ نے مجھے شادی کرنے کو کہا تو میں نے عرض کیا کہ دو بھائیوں نے آپ کی کون سی خدمت کی جو آپ مجھ سے اتنی توقع رکھتی ہیں کہ میں آپ کا فرماں بردار ہی رہوں گا۔ انھوں نے مجھے سینے سے لگا لیا اور کہا نہیں ، مجھے تجھ پر بھروسہ ہے۔ پھر بھی میں ٹالتا رہا۔ مگر ایک دن ( ہونے والی بات) والدہ صاحبہ نے جن کی عمر ۸۰ سال تھی اس وقت  (موصوفہ نے ۱۰۵ سال کی عمر میں وفات پائی)ایک روز بھنڈیاں پکائیں۔ بھنڈی بنانے کے بعد چاقو بھی چنگیر میں بند کر کے رکھ دیا اور پکاتے وقت نہ تو انھیں یاد رہا اور نہ سوجھا۔ چنانچہ چاقو بھنڈیوں کے ساتھ پک گیا۔ میں عموماً ٹیوشنیں کرنے کے بعد ۱۰ بجے رات کو گھر پلٹتا تھا۔ خود ہی کھانا نکالتا اور خود ہی کھاتا۔ بھنڈیاں جب نکالیں تو چاقو نے رکابی میں گر کر کھٹاکا دیا۔ میں نے چونک کر دیکھا کہ یہ کس قسم کی بھنڈی ہو سکتی ہے۔ لالٹین کی بتّی اونچی کی تو پتہ چلا کہ راجرس چاقو بھی بھنگر آ گیا تھا۔ اس واقعہ سے میری خالائیں وغیرہ بہت متاثر ہوئیں اور میں نے بھی سوچا کہ والدہ کی خدمت کے لیے کوئی نہ کوئی ضروری ہے۔ نوکرانی کو نہ تو محبت ہو گی اور نہ ضرورت کہ وہ میرے پیچھے ان کی حسبِ منشا کام کرے اور نہ ساز و سامان سے ہمدردی۔ چنانچہ مجبوراً یہ شادی کی۔ یقین کرو کہ اب جنسی بھوک کا کوئی خیال نہ تھا۔ صرف والدہ کی خدمت مدِّ نظر تھی۔ چنانچہ وہ شادی رچا دی گئی۔ مرنے والی میں عموماً اچھائیاں دیکھی گئی ہیں اس لیے وہ بھی بڑی شوہر پرست اور خدمت گزار ثابت ہوئی۔ میری والدہ کی خدمت اپنا فرض سمجھتی رہی۔ کچھ یہ بھی تھا کہ وہ میرا منشاء پا گئی تھی۔ اس معاملے میں عورت بڑی چالاک ہوتی ہے۔ اس نے ایک آدھ مرتبہ والدہ کے سلسلے میں مجھے ٹٹولا مگر میرا اثر نہ لینا اسے’ ’ پند نامۂ شوہر‘‘ ثابت ہوا اور پھر کوئی ایسی بات نہ کی جس سے میری والدہ کو تکلیف کا احساس ہوتا۔ ‘‘

ان معاشقوں کا ردِّ عمل شادؔ عارفی کے اشعار میں اس طرح نظر آتا ہے:

میرے ہاں وہ اور کبھی میں اس کے گھر

اک قدم پھولوں پہ ، اک تلوار پر

………

سانولا رنگت کشیدہ قامت

نہ پری ہے نہ کوئی حُور ہے وہ

………

بھرا گھر جس کی شوخی اور طرّاری کا قائل ہے

مجھے دیکھا کہ اس پر ہو گئی سنجیدگی طاری

………

لائے ہیں تشریف تکیوں پر دلائی ڈال کر

حُسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے

………

راتیں گزر گئی ہیں مجھے جاگتے ہوئے

تکیوں سے اب تو اس کے پسینے کی بُو نہ آئے

………

چھُپ چھُپ کے جو مصروفِ دعا میرے لیے ہے

شاید وہ بُتِ ہوشربا میرے لیے ہے

………

مًسکرا دیں گے،مرا نام کوئی لے دیکھے

وہ کسی فکر میں بیٹھے ہوں ، کسی کام میں ہوں

………

کھنچے رہیے تو سو سو طرح نظارے لُٹائیں گے

بُتوں سے آپ کو بھی واسطہ اکثر رہا ہو گا

………

کہیں پڑوس، نہ در تک، نہ بام پر جائیں

جو ہم پہ ہوں یہی پابندیاں تو مر جائیں

………

آپ یا میں ، سوچیے، الفت جتاتا کون ہے

انجمن میں آنکھ ملتے ہی لجاتا کون ہے

………

جذبۂ محبت کو تیرِ بے خطا پایا

میں نے جب اسے دیکھا، دیکھتا ہوا پایا

………

’حسیں ہو تم‘،’  آپ کی بلا سے‘،’ پری ہو تم‘ ،’  آپ کی دعا سے‘

جواب ملتا ہے سخت لہجے میں ، اُن سے جو بات پوچھتا ہوں

………

بھیجا ہے اس لحاظ سے شادؔ اس کو آئینہ

کیا حال ہو گیا ہے محبت چھپا کے ، دیکھ

ان شعروں کی تخلیق آج سے پچاس سال قبل کی گئی تھی۔ عہدِ حاضر کے قاری اور اس زمانے کے پڑھنے والوں کے مزاجی فرق کو ملحوظ رکھا جائے تو واضح ہو گا کہ ممکن ہے آج اس قسم کے اشعار کہنے والا غزل کا باغی نہ سمجھا جائے لیکن اس عہد میں اساتذہ نے شادؔ عارفی کو ضرور’ نا شاعر‘ قرار دیا ہو گا۔ اس زمانے میں اس نہج کی جدّت اور اختراعیت کا کیا مفہوم تھا، اس کا صحیح اندازہ آج بمشکل ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان اشعار کی روشنی میں شادؔ عارفی کا یہ دعوہ کچھ ایسا غلط بھی نظر نہیں آتا کہ انھوں نے خوبصورتی کے ساتھ واقعیت کو مصور کرنے کی کوشش کی ہے صاف دکھائی پڑتا ہے کہ غزل میں ان کی محبوبہ متوسط طبقے کی ایک ہندوستانی لڑکی ہے جو ذہین اور تیز و طرار بھی ہے، الھڑ اور معصوم بھی۔ یہ محبت یکطرفہ نہیں ہے۔ شادؔ کی محبوبہ ان کی خاطر بال سکھانے حیلے سے آنگن ناپتی ہے ، دردِ محبت سے بے چین ہو کر روتی ہے اور اسے چھپانے کے لیے دردِ سر کی آڑ لیتی ہے، راہ میں جہاں شاد ؔ رُکتے ہیں ، وہ برقِ سرو قد بھی ٹھہر جاتی ہے۔ انھیں رجھانے کے لیے مسلسل انگڑائیاں لیتی ہے۔ صرف شادؔ ہی اس کے گھر نہیں جاتے وہ بھی سماجی پابندیوں کی تلوار پر چل کر اُن کے گھر آتی ہے،وہ روایتی غزل کے فرضی مجبوب کی طرح پری یا حور نہیں ، اسی جیتی جاگتی دنیا کی ایک کشیدہ قامت، سانولی رنگت کی حقیقی لڑکی ہے۔ عام طور پر شوخ و طرار لیکن شادؔ کو دیکھتے ہی وہ مصنوعی سنجیدگی اختیار کر لیتی ہے، تکیوں پر دُلائی ڈال کر گھر سے بے خوف و خطر ان سے ملاقات کرنے آ جاتی ہے۔ شادؔ کے تکیے اس کے پسینے کی بُو سے رچ بس گئے ہیں۔ ۃہ ان کے لیے چھپ چھپ کر دعائیں مانگتی ہے۔ اور کتنی ہی فکر مند یا مصروف ہو، شادؔ کا نام سُن کر مسکرا دیتی ہے۔ شادؔ کھنچے کھنچے رہتے ہیں توسو سو طرح نظارے لُٹا کر انھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہے، اس پر بھی پابندیاں عائد ہیں کہ پڑوس ، در  یا  بام پر نہ جائے، وہ شادؔ سے آنکھ ملتے ہی لجا کر الفت کا اظہار کرتی ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ شادؔ سے خفا ہو کر پیار کی باتوں کے جواب میں آپ کی بلا سے، اور آپ کی دُعا سے، قسم کا بہ ظاہر سخت لیکن بہ باطن پیار بھرا لہجہ اپناتی ہے پھر بھی شادؔ جب اُسے دیکھتے ہیں ، اپنی طرف دیکھتے ہوئے پاتے ہیں ،اس کے سامنے پہنچ کر وہ واپس جانے کا تصور بھی نہیں کر پاتے۔ ان کی محبوبہ تابِ ہجر نہ لا کراس حالت کو پہنچ جاتی ہے کہ شادؔ کو بطورِ ہمدردی آئینہ بھیجنا پڑتا ہے کہ کہ وہ اپنی حالت سُدھار سکے۔

سادہ سادہ سے واقعات ہیں لیکن زندگی، حُسن اور حرارت سے کتنے بھرپور۔ شادؔ عارفی کے علاوہ پوری اُردو شاعری میں غزل اس حد تک سچ بولتی ہوئی صرف حسرتؔ کے یہاں نظر آتی ہے۔ حسرتؔ اُردو غزل کے امام کہے جاتے ہیں کہ اُنھوں نے تجدیدِ غزل کا سامان کیا۔ امام کے لیے مقلدین ضروری ہوتے ہیں لیکن نگاہ غور بیں سے حسرتؔ کے فوراً بعد آنے والی نسل کا جائزہ لیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ کلامِ حسرتؔ نے اس حد تک اگلی نسل کو متاثر نہیں کیا جتنا کہ شادؔ عارفی کی شاعری نے نئی نسل پر اپنا اثر قائم کیا ہے۔ یہ بحث آگے آئے گی، فی الحال یہ عرض کرنا تھا کہ ہر چند کہ شادؔ عارفی نے کہا ہے:

دس پانچ برس حضرتِ حالی ؔ کی طرح شادؔ

مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے

لیکن یہاں اُن کا مفہوم صرف یہ ہے کہ وہ حالیؔ کی طرح عاشقانہ شاعری سے مقصدی شاعری کی طرف آئے ہیں ورنہ ان کی عشقیہ شاعری دس پانچ برس کا نہیں چوتھائی صدی کا احاطہ کرتی ہے اور ان کی’  ریشمیں غزلوں ‘ پر کہیں بھی حضرتِ حالیؔ کی عشقیہ غزلوں کے سپاٹ پن کا سایہ نہیں پڑا ہے نہ انھوں نے غزل میں حالیؔ سے اثر قبول کیا ہے  البتّہ حسرتؔ کے اثرات ان کی عاشقانہ غزلوں میں اس حد تک ضرور پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنی داستانِ عشق میں سچ بولتے ہیں اور ان کا عشق بھی حسرتؔ کی مانند دونوں طرف آگ لگاتا ہے۔ انھوں نے بھی حسرتؔ کی طرح خاندان کی لڑکی سے عشق کیا اور اپنی شاعر ی میں عرب کے شعرائے جاہلیت سے اثر قبول کرنے کے علاوہ’ بنتِ عم‘ سے عشق کرنے میں عربی روایت پر بھی عمل پیرا ہوئے۔ ان کی شاعری میں احساس کی جتنی شدت ہے اتنی ہی محسوسات کی صداقت بھی ہے لیکن حسرتؔاور شادؔ کی عشقیہ شاعری میں بہت فرق بھی ہے۔ حسرتؔ کا عشق،ایک سیدھے سادے مولوی نما نوجوان کا عشق ہے اور ان کی محبوبہ بھی واجبی سی شوخی کے ساتھ ایک سادہ لوح دیہاتی لڑکی ہے۔ پھر حسرتؔ نے رودادِ عشق کے بیان میں کوئی خاص نُدرت نہیں برتی اور نہ کوئی مخصوص اسلوب اختیار کیا۔ اُن کے اشعار میں عاشق و محبوب کے نفسیاتی تجزیے بھی نظر نہیں آتے، وہ جیسا ان کے ساتھ عشق میں پیش آتا ہے اتنا کچھ ہی سچ سچ بیان کرنے پر قناعت کر لیتے ہیں۔ یہ سپاٹ سچ بھی ان کی غزلوں کے سبھی اشعار میں نظر نہیں آتا، اکثر غزلیں خالصتاً روایتی گل و بلبل والی شاعری کا نمونہ ہیں اور بیشتر غزلوں میں ان کے مخصوص’  سچ‘ کے ساتھ روایتی رنگ کے اشعار ملے جلے ہیں۔ بر خلاف اس کے شادؔ عارفی کے ہاں ہمیں حسن و عشق کی پیچیدہ کیفیات کے دائرہ در دائرہ عکس بھی واضح نظر آتے ہیں اور سچ بولنے میں بھی وہ حسرتؔ سے میلوں آگے ہیں۔ ان کی عشقیہ غزل میں روایتی موضوعات پر مبنی اشعار بہت کم نظر آتے ہیں ، بقول آل احمد سرور:

’’ شادؔ کے یہاں صرف سماج کی خرابیوں پر طنز ہی نہیں ،محبت اور نفسیاتِ انسانی کی سچی تصویریں بھی ہیں اور انھیں ایک ایسے تیور اور بانکپن سے پیش کیا گیا ہے کہ فوراً ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں۔ ‘‘

شادؔ کا کہنا ہے:

شریکِ راہ محبت ہے طبعِ موزوں شادؔ

ہر ایک شعر مرا حسبِ حال ہوتا ہے

اور:

دوسروں کے واقعاتِ عشق اپناتے ہیں وہ

جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں

اُن کے پاس دو دو معاشقوں کے ٹھوس اور حقیقی تجربات ہیں۔ وہ حسرتؔ کی طرف مسکین طبع نہیں ، رامپوری پٹھان ہیں۔ ان کی محبوبہ بھی گھریلو عورت ہونے کے باوجود ایک زندہ دل ، حاضر دماغ، ذی فہم، با شعور، چنچل اور ذہین دوشیزہ ہے۔ پھر شادؔ کی نُدرتِ ادا سونے پر سہاگے سے کم نہیں ، چنانچہ:

تغافل ، تجاہل سے آتا ہے عاجز

مرا کچھ نہ کہنا بھی حُسنِ طلب ہے

………

تو وہ انداز جیسے میرا گھر پڑتا ہو رستے میں

پئے اظہارِ ہمدردی وہ جب تشریف لائے ہیں

………

اے تُو! کہ شرارت سے نہیں پاؤں زمیں پر

تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشیں پر

………

گدگدائے نہ بنے، ہاتھ لگائے نہ بنے

بن کے لیٹی ہو جوانی تو اٹھائے نہ بنے

………

مری بے بسی ہو کہ بیکسی تری بے رُخی ہو کہ دلبری

کوئی کہہ رہا تھا کہ بیٹھ ابھی تری بزم سے میں جہاں اٹھا

………

بھولی سی ہم مکتب کوئی ، کوئی سہیلی خالہ زاد

ان کے ہاتھوں خط بھجواتے میں ڈرتا ہوں لیکن وہ

………

عتاب کی نگاہ سے جھلک رہی ہیں شوخیاں

کسی بھی فن میں ہو مگر کمال بھی تو چاہیے

………

نقاب کی یہ جنبشیں ، حجاب کے یہ زاویے

جو اس سے چاہتا ہوں میں اسے سمجھ رہا ہے وہ

………

آپ اس کو اتفاقی بات کہتے ہیں ،مگر

سامنے آ جائے وہ دیوانہ وار، آساں نہیں

………

کام کی شے ہیں کروٹن کے یہ گملے اے شادؔ

وہ نہ دیکھے مجھے،میں اس کا نظارا کر لوں

………

لکھ کر میرا نام اے شادؔ

اُس نے بھیجا ہے رومال

………

بہ پاسِ احتیاطِ آرزو یہ بارہا ہوا

نکل گیا قریب سے وہ حال پوچھتا ہوا

………

نگاہِ اشتیاق میں وہ زلف و رُخ کے زاویے

کبھی سلام ہو گیا، کبھی پیام ہو گیا

………

بھاگتا ہے جیسے جنگل میں شکاری سے ہرن

وہ ادھر دَر پر نظر آیا اُدھر روپوش تھا

………

خط غلط تقسیم ہو جاتے ہیں اکثر، تم نے بھی

کہہ دیا ہوتا یہ کس کا خط مرے نام آ گیا

………

کیا لکھ رہے ہو میری طرف دیکھ دیکھ کر

میں نے دیا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں

………

رفتہ رفتہ میری’ الغرضی‘ اثر کرتی رہی

میری بے پروا ئیوں پر اُس کو پیار آتا گیا

………

میں اس کو دیکھ رہا ہوں اس احتیاط کے ساتھ

ابھی تو جیسے محبت کی ابتدا بھی نہیں

آپ نے دیکھا، شادؔ کے یہ عشقیہ اشعار ہماری عام اردو غزل کے عاشقانہ اشعار سے بشمول حسرتؔ کتنے ہٹے ہوئے ہیں۔ ان کے عاشق نے محبوب کے آگے سرِ تسلیم اس لیے نہیں خم کر رکھا ہے کہ بے زبانی روایتی شاعری کے عاشق کا شیوہ ہے۔ اس کی خاموشی در اصل حُسنِ طلب ہے کیونکہ وہ صنفِ نازک کی اس فطرت سے واقف ہے کہ اس کے تغافل کا جواب تجاہل سے ملے تو خود کھینچتی ہے۔ عاشق محبوب کی ایک ایک ادا کا مزاج داں ہے چنانچہ اظہارِ ہمدردی کے لیے تشریف لانے والی محبوبہ کی اس بناوٹ کو بھانپ لیتا ہے جو ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ راہ سے گزرتے ہوئے وہ یوں ہی عاشق کے گھر بھی آ نکلی ہے، ادھر شوخ اور چنچل محبوبہ ہے کہ اس کے پاؤں شرارت سے زمین پر نہیں پڑتے، بن بن کر لیٹ جاتی ہے کہ تہذیب عاشق کو نہ گدگدانے دیتی ہے نہ ہاتھ لگانے کی ہمت پڑتی ہے۔ شاعر کو صحبتِ یار سے اٹھنا ہے لیکن طبیعت نہیں چاہتی۔ وہ تجزیہ نہیں کر پاتا کہ اسے اپنی بے بسی اور بے کسی سے تعبیر کرے یا محبوبہ کی بے رُخی یا دلبری کواس کا سبب سمجھے۔ محبوبہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہے اور عاشق کا مشورہ ہے کہ بہر حال اسے دیکھ کر مسکرا دینے میں افشائے راز کا احتمال نہیں ہے۔ حیا خو محبوبہ اسے نگاہ بھر کر نہیں دیکھتی لیکن عاشق اس کے مدّعا کو پا لیتا ہے کیونکہ وہ محبوبہ کی محتاط طبیعت اور زمانے کی سخت گیری اور بہتان تراشی کو پہچانتا ہے۔ وہ محبوبہ کی ذرا ذرا سی بے اعتدالیوں پر اسے متنبہ کرتا ہے۔ کہیں کسی خاص خالہ زاد سہیلی کے ذریعے اور کبھی کسی بھولی بھالی ہم مکتب سے نامہ بر کا کام لیا جاتا ہے تو وہ محبوبہ کی رسوائی کے ڈر سے کانپ کانپ جاتا ہے۔ محبوبہ محبت کو عاشق سے بھی چھُپاتی ہے اور جواباً اسے آئینہ بھیجا جاتا ہے کہ دیکھ خود تیرا سراپا محبت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ محبوبہ کے نقاب کی ایک ایک جنبش اور حجاب کا ایک ایک زاویہ عاشق کے لیے سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ وہ دیوانہ وار عاشق کے سامنے بھی آتی ہے تو ایسی ذہانت کے ساتھ کہ لوگ سے ایک اتفاقی بات سمجھیں لیکن حقیقت عاشق پر روشن ہے۔ کروٹن کے گملوں کی آڑ سے چھپ چھپ کر اس طرح نظارہ کر لیا جاتا ہے کہ محبوبہ کو پتہ نہ چل پائے۔ دوسری طرف سے رومالوں پر شادؔ کے نام کاڑھ کر بھیجے جاتے ہیں۔ یہ اور ایسے ہزاروں معاملات شادؔ عارفی کی عشقیہ غزل میں بھرپور شاعرانہ کیفیات کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے ہندوستانی، مسلم متوسط طبقے کے عاشق و معشوق کی ان باریک نفسیاتی کیفیتوں پر اُردو کے کسی شاعر کی نگاہ اس طرح نہیں پہنچ سکی جس طرح کہ شادؔ اُن کے غماز ہیں۔ یہاں نہ محبوب، میرؔ کے عہد کا ہے نہ عاشق قرونِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والا۔ شادؔ عارفی کی شاعری جس طرح ان کی شخصیت کے لیے نقاب نہیں بلکہ آئینے کا کام دیتی ہے بالکل وہی فریضہ ان کی عشقیہ، غزل اُن کے محبوب کے لیے انجام دیتی ہے اور یہ فریضہ ہماری شاعری میں کم کم ہی ادا کیا گیا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں :

’’ کلاسیکی اُردو غزل میں مجموعی طور پر محبوب کا تصور گھُٹا گھُٹا، بھنچا بھنچا ہے۔ دکنی شاعروں کو چھوڑ کی صرف میرؔ اور مصحفیؔ کے یہاں تصورِ حسن کا ہندوستانی روپ ملتا ہے،دہلوی شعراء سے لے کر حالیؔ اور حسرتؔ تک اُردو غزل میں جس محبوب کی کار فرمائی ملتی ہے اس کی ارضیت سے انکار نہیں لیکن اس کی جمال آرائی ٹھیٹھ ہندوستانی انداز سے نہیں کی گئی۔ ‘‘

(جوش ؔ اور فراق ؔ کا جمالیاتی احساس۔ ماہنامہ’  شاہکار‘ ( الٰہ آباد ) فراقؔ نمبر ص ۸۵)

شادؔ عارفی کی عشقیہ غزل ایسے چبھتے ہوئے حقیقت آمیز اعتراضات کے سامنے استثناء کی حیثیت رکھتی ہے۔

شاد عارفی کی عشقیہ غزل،سلیم احمد کے الفاظ میں اُردو شاعری میں ایک’  پورے آدمی‘ کے عشق کی داستان ہے جس کا لہجہ عام عشقیہ شاعری کے انفعالی لہجے سے علاحدہ اور منفرد ہے۔ اس آواز میں جو مردانہ پن ہے، وہ غزل کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کرتا ہے۔ حالیؔ کی اصلاحی تحریک کے زیر اثر، لکھنؤ اسکول کی بھونڈی اور مبتذل خارجیت کو ترک کر کے غزل میں میرؔ جیسی داخلیت کا دوبارہ دَور دورہ تو ہوا لیکن چونکہ اس داخلیت کو شعوری طور پر اپنایا جا رہا تھا اور اسے برتنے والوں میں کوئی میرؔ کی سی خلاقانہ صلاحیتوں کا عظیم فنکار نہ تھا اس لیے اپنی انتہا کو پہنچ کر اس نے فانیؔ کی قنوطیت کی شکل اختیار کر لی۔ جدید تر غزل کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی کہتے ہیں :

’’ بعض شعراء کا خیال تھا کہ غزل ضرورت سے زیادہ داخلی ہو جانے کی وجہ سے انفعالیت کا شکار ہو گئی ہے اس لیے اسے مردانہ لہجہ اور صلابت عطا کرنے کے لیے خارجیت کو بھی ایک حد تک اپنا نا چاہیے۔ یگانہؔ اور شادؔ عارفی نے اس عنصر کو ایک بار پھر اپنی غزل میں جگہ دی۔ یگانہؔ اور شادؔ دونوں زبان و فن پر بڑی قدرت رکھتے تھے اور ان کے یہاں ایک طرح کی تلخی اور طنزیاتی رُوح ان کے مزاج کا فطری عنصر معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے انھوں نے اس خارجیت سے خاصا کام لیا۔ ‘‘

( عشقیہ غزل: خلیل الرحمن اعظمی۔ سہ ماہی’ ’ فنون‘‘ ( لاہور) غزل نمبر حصہ اول ص ۷۲)

یہی وجہ ہے کہ شادؔ عارفی کی غزل پر کہیں کہیں آتشؔ کے رنگ کی چھوٹ پڑتی نظر آتی ہے۔ بے باک لہجہ اور بے تکلف انداز گفتگو اور محبوب کے سامنے بھی سپاہیانہ بانکپن کے ساتھ آنا،آتشؔ کی نمایاں خصوصیت ہے۔ شادؔ کے ہاں بھی ہمیں آتشؔ کی طرح شوخ لہجے کے ساتھ احساس کی گرمی، محبوب کے جسم کی آنچ،حُسن کی چلتی پھرتی تصویر اور عشق کی حقیقی کیفیات کی نقاشی ملتی ہے لیکن آتشؔ کی پوری شاعری اس پائے کی نہیں ہے اور بیشتر مقامات پر وہ بری طرح لکھنوی رنگ کا شکار ہو گئی ہے جب کہ شادؔ کی تقریباً تمام عشقیہ غزلیں ان خصوصیات کی حامل ہیں اور اُنکے ہاں یہ رنگ کافی نکھر کر اوپر آیا ہے۔ ان کے اشعار میں عاشق و محبوب کی انسانی فطرت اور نفسیات کے ایسے متحرک عکس نظر آتے ہیں جو پڑھنے والے کو دیر پا مسرت سے ہمکنار کرتے ہیں ، احتساسی شاعری اور لمسیت کی اتنی اچھی اور ایسی وافر مثالیں جن کے لیے انگریزی ادب میں کیٹسؔ مشہور ہے، اردو میں شادؔ عارفی کے ہاں بکثرت ملتی ہیں۔ ثبوت میں کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔

انگلیاں اس کی مرے ہاتھ میں ہیں جام کے ساتھ

ہاتھ کھینچے نہ بنے، جام گرائے نہ بنے

دیکھ پاتے ہیں جو ہم کو درمیانِ کوئے دوست

کھڑکیوں سے جھول جاتے ہیں بُتانِ کوئے دوست

………

مچل رہے ہیں لبِ شگفتہ پہ اس طرح بے صدا دلاسے

چمن میں جس طرح ہل رہی ہوں گلاب کی پتّیاں ہوا سے

………

وہ چشم نیم خواب، وہ زلفیں گری ہوئی

صبحِ بہار ایک ہی انگڑائی کی ہوئی

………

شبِ مہتاب وہ پھولوں کا زیور منتشر زلفیں

بقولِ راز داں کیا خوشنما منظر رہا ہو گا

………

وہ قریب سے گزرا ،بن کے صبح کا جھونکا

اس طرح کہ چپکے سے حرفِ مدعا کہہ دوں

………

وہ زبانِ بے زبانی سے ابھی واقف نہیں

ہاتھ رکھنا پڑ رہا ہے بارہا دل پر مجھے

………

ابھی ہنگامہ آرا دل میں ہے اک عشرتِ رفتہ

ابھی تک تیری خوشبو آ رہی ہے میرے بستر سے

شادؔ عارفی نئی بات کہتے ہیں یا عام سی بات کو اس زاویے سے کہتے ہیں کہ نئی ہو جاتی ہے۔ انھوں نے پُرانے لفظوں کو نئی فضا اور معنویت بخشی۔ یہی نہیں کہ ان کی عشقیہ غزلوں میں محاکات ،معاملہ بندی اور واقعہ نگاری ایک ایسے انوکھے انداز سے کی گئی ہے جو ان سے قبل نا پید تھا بلکہ وہ عشق کے تاثرات اور وارداتِ قلب کو بھی اسی ندرت ادا کے ساتھ بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے موضوعات کو ادراک و احساس کا لمس بھی دیا۔ شادؔ کی عشقیہ غزل میں بڑی حلاوت اور جذباتی آسودگی پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار دیکھیے:

سوتے ہی اپنے بسترپر

میں ہوتا ہوں اس کے گھر پر

………

ذرا خاموش رہنے دے کہ ذہنی طور پر ہمدم

ابھی واپس نہیں آیا ہوں میں اس کے شبستاں سے

………

لرز رہا تھا میں کہیں کھٹک نہ جائے انجمن

وہ انجمن میں آج اس قدر بچا بچا رہا

………

جیسے کسی حسین کے ہونٹوں پہ سرد آہ

پھولوں کی پتیوں پہ کرشمے ہوا کے دیکھ

………

حیرتِ جلوہ محبوب بتاؤں

ڈر رہا تھا کہ کہیں جاگ نہ جاؤں

………

چارہ گر الفت کی نفسیات سے واقف نہیں

لے کے نام اس کا کوئی دیکھے مرے چہرے کا رنگ

………

حُسن ہر حال میں ڈرتا ہے ہوسناکوں سے

پھول کھِلتا ہے تو ہر سو نگراں ہوتا ہے

………

دھیمی پے چل، بھینی خوشبو، ہلکی دستک جاری ہے

یا وہ ہے، یا صبحِ بہاراں ، یا ذہنی گُلکاری ہے

………

تجھ بِن مرا مذاق اُڑانے کے واسطے

ہر مہ جبیں نقاب اُٹھا کر ٹھہر گئی

………

بتائیں کیا کہ کسی بُت کو ہم نے کیوں چاہا

یہ فیصلہ تو ہماری نگاہ پر رکھیے

………

جہاں سے اُس نے بچشم غلط نظر ڈالی

وہیں سے کنگرۂ آرزو بلند ہوا

………

جاڑے کی وہ بھیگی راتیں ، گرمی کے یہ جلتے دن

یادوں کے دانتوں سے ناخن کاٹ رہا ہوں لیکن وہ

………

اپنی جانب سے نہیں ممکن جو ان کو خطِّ شوق

بھیج دینی چاہیے میری غزل لکھ کر مجھے

………

بڑھ جاتی ہے اس روز مناظر کی اُداسی

جب اس سے ملاقات کا امکاں نہیں ہوتا

………

شادؔ صاحب جو ہنسے پڑتے ہیں ہر بات میں آپ

آج وہ ہوشربا آپ کا مہماں تو نہیں

………

مخاطب ہے وہ ایسے زاویے سے

جسے دیکھو مرا منہ تک رہا ہے

………

دلنوازی جو بھرے گھر میں نہیں بن پڑتی

رُخِ محبوب پہ گیسو ہی بکھر پڑتا ہے

ڈاک سے بھینی خوشبو والے خط پر خط آئے تو اک دن

پوچھے گا خط لانے والا، بابو جی! یہ خط کس کا ہے

شادؔ عارفی کی عشقیہ غزلوں میں فطری سادگی ،شوخی اور لہجے کا انوکھا پن ہے۔ ان میں جوانی کی تازگی،متوسط طبقے کے نوجوان کو پیش آنے والا واقعات کی سرشاری اور زندگی کی حرارت ہے جس میں محاکاتی پہلوؤں کے ساتھ ایک خوشگوار سا کھُردرا پن،واقعیت، خلوص اور بے جھپک قسم کا مکالماتی طرز( جسے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ حقیقی شاعری کا جزوِ اعظم قرار دیتا ہے) طرفہ کاری، تنوع،واشگاف مخاطبت اور ابلاغ کا براہِ راست انداز ہے۔ ہر چند کہ اس میں حیات و کائنات کے متعلق کوئی خاص نظریہ یا زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے گہرے تجربات کا عکس اور فلسفیانہ تفکر نہیں ہے ( جسے حقیقی عشق کے بیان میں ہونا بھی نہیں چاہیے) لیکن اپنے جدید اسلوب اور مخصوص رنگ و آہنگ کے لحاظ سے اس غزل کی ایک جدا گانہ اور منفرد اہمیت ہے۔ در اصل شادؔ عارفی نے روایتی غزل کے مروّجہ  علائم و رموز سے رو گردانی کرتے ہوئے غزل کی مخصوص رمزیت اور اشاریت سے دانستہ پہلو تہی برتی اور موضوع کی براہِ راست ترجمانی کا فن اختیار کیا۔ اس طرح وہ بڑی فراخدلی کے ساتھ غزل کی مروجہ علامتوں ، تمثیلوں ، کنایوں اور ان کے ساتھ وابستہ ذہنی متعلقات اور تصوراتی لوازمات سے دست بردار ہو گئے۔ نتیجے کے طور پر ان کی غزل کسی حد تک ان لوازمات کی پیدا کردہ پہلو داری اور اس پس منظر کے ایک حصے سے محروم بھی ہو گئی جو غزل کی روایت عام اشعار کو فراہم کرتی ہے ، نیز وہ شے بھی ان کے ہاں کم نظر آتی ہے جسے اساتذہ خالص تغزل کا نام دیتے ہیں۔

ان غزلوں کے گہرے مطالعے سے اس حیرتناک حقیقت کا انکشاف بھی ہوتا ہے کہ اس کھلے کار و بارِ عاشقی میں کہیں جنسی کثافت کی کھوٹ نہیں ہے۔ شادؔ جیسا کھل کر بات کہنے والا شاعر کہیں محبوب یا تصورِ محبوب کے ساتھ کھل نہیں کھیلا۔ نازک سے نازک تر مقام پر بھی انھوں نے احترام حسن کو ملحوظ رکھا ہے۔ اس کا سبب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ بے باک اور حق پرست تو تھے، لیکن ان کے دل و دماغ پر مذہب کا جو اثر قائم ہو چکا تھا اس نے عام زندگی میں بھی انھیں محبوب کے جسم سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں دیا حتیٰ کہ ان کے دونوں معاشقے اس اعتبار سے ناکام رہے کہ وہ اپنے محبوب سے شادی نہ کر سکے لیکن اس جذبے نے عشقیہ غزلوں میں جہاں انھیں شدتِ احساس سے مالامال کیا،وہیں انھیں دوسرا جرأتؔ ہونے سے بچا لیا  ورنہ   ان کا مزاج حقیقت کو نقاب پہنا کر سامنے لانے کا عادی نہ تھا۔ اس سلسلے میں ان کے خیالات کا اندازہ ان اشعار سے ہو سکتا ہے:

عشق بانہیں مروڑنے میں نہیں

شاعری پھول توڑنے میں نہیں

………

ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق

اس سے زائد عشق کااسے شادؔ میں قائل نہیں

………

احترامِ جلوہ چینی یہ بھی کچھ تھوڑا نہیں

آنکھ نے جس پھول کو دیکھا اسے توڑا نہیں

………

خوشنما پھولوں کو چھونا کفر تھا میرے لیے

گدگدا سکتا تھا ورنہ بارہا پہلوئے دوست

…………

ہم ہی کچھ احترام کرتے ہیں

ورنہ دامن چھڑاکے بھاگ نہ پاؤ

………

ذکر قرب دوست ہی میرے لیے کافی ہے شادؔ

جبکہ اربابِ غزل کہتے وہ ہم آغوش تھا

حسرتؔ جیسے مہذّب انسان اور پاکباز شاعر کے ہاں بھی کافی اشعار میں دھول دھپّے والی وہ کیفیت مل جاتی ہے جسے خود انھوں نے،فاسقانہ شاعری کا نام دیا ہے لیکن شادؔ کی غزلوں میں تلاشِ بسیار کے بعد بمشکل دو تین اشعار اس قسم کے ملیں گے:

پھانس نکلوانے کے کارن دے دیتا ہوں ہاتھ میں ہاتھ

موقع پا کر ران میں چٹکی بھر لیتا ہوں ، لیکن وہ

………

اک بھینی بے نام سی خوشبو

شامل ہے ہونٹوں کے رس میں

………

یہ گدگدانا یہ بوسۂ لب اسی کا ردّ عمل سمجھیے

ابھی جو ارشاد ہو رہا تھا کہ ہم سے کیوں کوئی بولتا ہے

اپنی شاعری کی جنسیت اور ارضیت کے باوجود وہ عشق اور ہوسناکی کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ عملاً ہجر نصیب شاعر ہونے کے باوجود حرماں نصیبی کی فضا، چند اشعار کے استثناء کے ساتھ، شادؔ کی عشقیہ غزلوں میں نہیں پائی جاتی۔ انھیں خود بھی اعتراف ہے کہ:

’’ میرے یہاں غمِ جاناں کا ذکر بہت کم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں محبت میں خود داری کو ہاتھ سے دینے کا قائل نہیں ہوں۔ ‘‘

اُن کی پوری عشقیہ شاعری دیکھ جائیے۔ بہت کم اشعار اس روایتی انداز میں ملیں گے جس میں ہمارے غزل گو محبوب کو ستم پیشہ اور غارت گر قرار دے کر اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ملتے ہیں ،اور دشنامِ یار کے طبع حزیں پر گراں نہ گزرنے کا اعلان فرماتے ہیں۔ غالبؔ کی طرح شادؔبھی اس معاملے میں بے حد غیور اور خود دار عاشق ہیں۔ محبوبہ کو جی جان سے چاہتے ہیں لیکن اس کے ہاتھ اپنی عزت نیلام نہیں کرتے:

محبت میں خودی کی موت بھی دیکھی نہ جائے گی

اگر میں بارِ خاطر ہوں تو اٹھ جاؤں ترے در سے

………

جھٹک کے ہاتھ سے دامن کو جانے والے ، بس

ترے خیال کا دامن بھی چھوڑتا ہوں میں

………

کس طرف رُوئے سخن ہے،نام اس کا لیجیے

بِن بُلائے آپ کی محفل میں آتا کون ہے

………

   یہ تو مت محسوس ہونے دیجیے

اجنبی ہیں آپ کی محفل میں ہم

اُردو غزل میں امتحانِ وفا، محض عاشق دیتا آیا ہے۔ شادؔ کی غز ل محبوبہ کا امتحان بھی لیتی ہے:

دیر سے پہنچنے پر بحث تو ہوئی لیکن

اس کی بے قراری کو حسبِ مدّعا پایا

اس لیے شادؔ جورِ محبوب کا شکوہ بہت کم کرتے ہیں :

شادؔ غیر ممکن ہے شکوۂ بُتاں مجھ سے

میں نے جس سے اُلفت کی اس کو با وفا پایا

ان کی شاعری میں بڑی باوقار اور توانا ارضیت ہے۔ عام بول چال کی زبان میں اس نُدرتِ ادا کے ساتھ جو صرف انھیں سے مخصوص ہے، حقیقت پر مبنی واقعاتِ عشق کو بعینہٖ غزلوں میں منعکس کر کے شادؔ عارفی نے عشقیہ شاعری میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ اُن کی عشقیہ غزلیں غیر ضروری آرائش کے عناصر سے بالکل پاک ہیں۔ اسی لیے تغزل پسند طبیعتیں غزل کے مروجہ معیاروں کی روشنی میں ان کی غزلوں کی سچی قدر نہیں کر پاتیں۔

٭٭٭

 

اُردو ادب میں شادؔ عارفی کا مقام

               مظفر حنفی

اُردو ادب کی مختلف اصنافِ سخن میں شاد عارفی نے جو کارنامے انجام دیے ہیں اور اضافے کیے ہیں اُن کی نوعیت ، انفرادیت ، افادیت اور مقدار کو ذہن میں رکھیے تو شادؔ کے ہاں میدانی دریاکاسا پھیلاؤ اور پہاڑی ندی کا زور شور نظر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میدانی دریا پھیل کر بہتا ہے اس لیے اُس میں اُتھلا پن اور پایابی آ جاتی ہے اور پہاڑی ندی زور شور سے بہتے ہوئے اپنا ذخیرۂ آب خارج کر کے بہت جلد خشک ہو جاتی ہے لیکن شادؔ عارفی کے فن میں پھیلاؤ کے باوجود گہرائی ہے۔ یہ گہرائی کانچ جیسے شفاف پانی کی سی گہرائی ہے جوسطحِ آب سے دیکھنے والوں کو پایا بی کے وہم میں مبتلا کر دیتی ہے لیکن اس میں اُترا جائے تو تھاہ نہیں ملتی اور اس کا طوفانی بہاؤ قدموں کو ٹکنے کی مہلت نہیں دیتا۔ فن کا یہ گہرا پاٹ دار اور تند و تیز دریا مسلسل پینتالیس سال تک پوری آن بان، تمکنت، بانکپن اور زور شور کے ساتھ بہتا رہا لیکن اس کے تخلیقی سوتے اتنے ذخّار تھے کہ ہمیشہ خطرے کے نشان کو چھوتا رہا۔

شادؔ عارفی غلام ہندوستان کی ایک ایسی چھوٹی سی سخت گیر ریاست میں پلے، بڑھے اور عمر گزار گئے جہاں اپنے لیے دنیاوی کامیابیوں اور راحتوں کے دروازے بند کرنے کے بعد ہی وسیع النظری بے باکی اور سیاسی شعور کو اپنایا جا سکتاتھا۔ جاگیر دارانہ معاشرے کی گھٹن اور اُس کی، آخری حدوں کو پہنچی ہوئی تمام خامیاں شادؔ کے ارد گرد بکھری ہوئی تھیں ، شعر و سخن کا معیار امیر ؔ و داغؔ کے طرز کی جُگالی اور درباری قسم کی شاعری تک محدود تھا جس میں حقیقت نگاری اور صاف گوئی کی گنجائش کہیں نہ تھی۔ اس کے برعکس شادؔ عارفی کے دوسرے معاصرین کو،جو برطانوی ہند میں پھیلے ہوئے تھے، نسبتاُ بہت کھلی ہوئی سیاسی فضا اور سازگار ادبی ماحول میسر تھا اس کے باوجود شادؔ اپنے مقامی اور بیرونی ہم عصر فنکاروں سے بہت آگے نظر آتے ہیں۔ شادؔ کے مطالعے میں   اس پس منظر کو بطور خاص مدّ نظر رکھنا ہو گا۔

انھوں نے زندگی کو کسی ٹیلے پر چڑھ کر نہیں دیکھا ہے۔ وہ اس دریا میں ڈوب ڈوب کر اُبھرے اور اُبھر اُبھر کر ڈوبے ہیں چنانچہ اُن کے تجربات، ان کا مشاہدہ اور اُن کی صلاحیتیں اکتسابی نہیں ،وہبی ہیں۔

اُن کی شخصیت بڑی متنوّع ، پہلو دار، چاق و چوبند اور اپنی بشری خامیوں کے باوجود انفرادی دل کشی کی حامل ہے۔

امام المتغزّلین ، حسرت موہانی نے اُردو غزل کو تصنع ، نمائش اور مبالغہ کی راہ سے ہٹا کر جس خلوص کے ساتھ اُسے ہندوستانی فضا سے روشناس کرانا چاہا تھا، اس کی تاریخی اہمیت برحق، لیکن اُن کی شاعری میں اس وصف کے حامل سطحی، سپاٹ، یک رُخے اور بے کیف نمونے زیادہ نظر آتے ہیں اور وہ کلّی طور پر گل و بلبل کی روایتی شاعری سے دامن کش نہیں ہوسکے۔ شادؔ عارفی کے عشقیہ غزلوں کے وسیلے سے ہمیں حقیقی معنوں میں پہلی بار ہندوستانی گھریلو محبت اور متوسط طبقے کے جیتے جاگتے ،مانوس، عاشق و محبوب اردو شاعری میں نظر آتے ہیں۔ وہ رودادِ عشق بیان کرنے میں موشگافیوں سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے نجی تجربات کی چھوٹ سے غزل کو منور کرتے ہیں۔ صحت مند جسمانیت، پاکیزہ جنسیت، نرم و گرم لمسیت، مردانہ اور فعال رُجحان اور احتساسی ذائقہ رکھنے والی جوان عشقیہ غزل اُردو شاعری میں شادؔ عارفی کے ہاں پہلی بار نظر آتی ہے۔ اس میدان میں از اوّل تا آخر اُن کے کوئی  ہم سفر ہیں تو حسرتؔ اور آتشؔ ، لیکن آتشؔ بھی بہ لحاظِ مقدار  و معیار شادؔ عارفی کی سطح سے نیچے رہ جاتے ہیں۔

ظرافت،ہزلیہ پھکڑ پن اور سطحیت سے پاک نتھری ستھری خالص طنزیہ غزل اُردو ادب کو شادؔ عارفی کی دین ہے۔ اُن سے قبل غالبؔ اور دوسرے بڑے شاعروں کے ہاں خالص طنز کے حامل کچھ اشعار کبھی کبھار نظر آ جاتے تھے ، شادؔ نے پہلی بار خالص طنز کو اپنا فن قرار دے کر اپنی ایک انفرادی راہ تلاش کی جس میں قدما سے عہدِ حاضر تک اُن کے سامنے اکبرؔ یا کسی دوسرے بڑے سے بڑے شاعر کا چراغ نہیں جل سکتا۔ اُنھوں نے رائج الوقت اور فارمولا ٹائپ شاعری سے ہمیشہ اپنا دامن بچایا اس لیے ناقدین انھیں نظر انداز کرتے رہے۔

منظر یہ شاعری کے میدان میں شادؔ عارفی کی نظیں اُردو کے بلند مرتبت منظر نگار شاعروں کی نگارشات کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہیں۔

اُن کی جیسی حقیقت آمیز، متوسط ہندوستانی گھرانوں کی محبت کا ذکر کرنے والی سچی اور دلکش عاشقانہ نظمیں اُردو شاعری میں نایاب ہیں۔ جس طرح حسرتؔ امام المتغزّلین ہیں ، عشقیہ نظموں کے باب میں شادؔ کو بھی امام تسلیم کرنا چاہیے۔

طنزیہ نظموں میں شادؔ عارفی مجتہد کا درجہ رکھتے ہیں اور ایک بالکل ہی نئی طرز کے موجد ہیں۔ حقائق پر مبنی واقعات، گھریلو ،سماجی ، اشاریاتی اور علامتی نظمیں جن میں مکالماتی انداز اور ڈرامائی کیفیات نمایاں ہوں اور طنز رُوح کی طرح جاری و ساری ہو، اُردو ادب میں شادؔ کی طرف سے ایک نادر اور نایاب اضافہ ہیں۔ ان کی ان نظموں میں جوسماجی مقصدیت اور حقیقت نگاری ہے اُس سے شعریت مجروح نہیں ہوتی اور یہ خصوصیت مشہور ترقی پسند شاعروں کے کلام میں بھی کم نظر آتی ہے۔ وہ ترقی پسند ضرور ہیں لیکن ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ نظریاتی طور پر کمیونزم سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن عوامی بہبود انسان دوستی کا جذبہ اُن کی نظموں میں ، پارٹی لائن پر کام کرنے والے کمیونسٹ شاعروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اُن کی نظموں میں موضوعات کا جو تنوّع اور پھیلاؤ ہے وہ گہرائی اور افادیت سے مل کر اُنھیں نظیر ؔاکبرآبادی، انیسؔ، اقبالؔ اور جوشؔ کی صف کا نظم گو بناتا ہے۔

وہ حق پرست، بے باک اور جری شاعر ہیں۔ یگانہؔ چنگیزی کی طرح اُن کا لہجہ اور آواز دُور سے پہچان میں آنے والی چیزیں ہیں۔ ہماری شاعری نے لہجے کے یہی دو شاعر پیدا کیے ہیں البتہ وسعتِ نظر ،موضوعات کے تنوع اور سماجی مقصدیت کے اعتبار سے شادؔ عارفی، یگانہؔ سے بلند ہیں۔

اُن کی رباعیوں ، قطعات، نعت و منقبت، سہرے اور مبارکبادیوں ، بچّوں کے گیتوں اور ہندی نظموں میں بھی انفرادیت اور مخصوص لہجے کی جھلک ملتی ہے لیکن یہ تخلیقات اُن کی ادبی قامت کو بالا نہیں کرتیں۔

نثر میں اُن کے تخلیقی مضامین دلچسپ اور پُر لطف ہونے کے باوجود اُن کی ادبی حیثیت میں کوئی اضافہ نہیں کرتے لیکن اس بات کے شاہد ضرور ہیں کہ اُنھیں زبان کا سچّا شعور حاصل تھا۔

اُن کے تنقیدی مضامین سکّہ بند تنقید کے معیار پر پُورے نہیں اُترتے کیونکہ وہ تنقید   میں تخلیق کا سا لُطف پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور غیر متعلق امور پر بحث چھیڑ کر مضمون کو زیادہ پہلو دار بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ اُن کا یہ انداز آگے چل کر ایک نئے دبستانِ تنقید کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کے نمائندہ نقاد سلیم احمد، جیلانی کامران، سلیم اختر، محمود ہاشمی، وزیر آغا، وارث علوی، مظفر حنفی، باقر مہدی ،شمیم احمد،شمس الرحمن فاروقی وغیرہ ہیں۔

شاعری میں الفاظ کے ساتھ جمہوری برتاؤ کرنے میں وہ اپنے ہم عصر تمام شاعروں سے آگے ہیں۔ اس باب میں اُن کے ساتھ صرف نظیر اکبر آبادی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

شادؔ عارفی کے بعد آنے والے شاعروں کی پوری نئی نسل نے اُن سے اثر قبول کیا ہے اور یہ سعادت اُن کے دو ایک معاصروں کو ہی نصیب ہوئی ہے۔

اُردو کے مکتوباتی ادب میں اُن کے خطوط بہ اعتبارِ تعداد و معیار غالبؔ کے مکاتیب کے بعد دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں۔

وہ بیک وقت بڑے اور اہم غزل گو، منفرد نظم نگار، البیلے نقاد اور صاحبِ طرز مکتوب نویس ہیں۔ اُردو ادب میں شاد عارفی کی طرح کسی ایک ہی فنکار نے اتنی بڑی تعداد میں ایسی اعلیٰ غزلوں ،بلند پایہ نظموں ، تخلیقی تنقیدوں اور ادبی مکتوبات کا اضافہ نہیں کیا۔ ایک اچھے اور بڑے فنکار کی طرح شادؔ کا فن بھی تہہ بہ تہہ اور پہلو دار ہے جسے کسی ایک صنفِ سخن میں قید نہیں کیا جا سکتا۔

ان تمام اوصاف کے پیشِ نظر شادؔ عارفی کی مجموعی ادبی حیثیت کا تعین کرنا ہو تو بہت محتاط رہتے ہوئے بھی اُنھیں میرؔ، غالبؔ اور اقبال کے بعد اُردو ادب کے گنتی کے اُن چند بڑے اور ممتاز فنکاروں کی صف میں نمایاں جگہ دینی ہو گی جن کی تعداد دس پندرہ سے زیادہ نہیں ہے۔

مجھے اے شادؔ ان رجعت پرستوں سے تو کیا لینا

کرے گی یاد مستقبل کی تہذیبِ جواں مجھ کو

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر ابن مظفر حنفی، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


[i] شادؔ عارفی۔ طاہرہ اختر( مطبوعہ ’’نقوش‘‘ لاہور، شخصیات نمبر، حصہ دوم۔ ص ۱۱۳۴)

[ii] مکتوبِ شاد بنام صہبا لکھنوی،مشمولہ ’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ: مظفر جنفی۔ ص ۷۳۲۔۷۳۱

[iii] اسکول میں غلطی سے شادکا نام بجائے احمد علی خاں کے لطف علی خاں لکھا گیا تھا جو بہت دِنوں تک چلتا رہا۔ ’’اندھیرنگری‘‘ شاد عارفی۔ ص۱

[iv] شادؔ عارفی۔فن اور شخصیت۔عروج زیدی ( دو ماہی ’’محور‘‘ دہلی ،شمارہ نمبر ۲۔ ص ۱۸۵)

[v] جدید شاعری۔ عبادت بریلوی۔ ص ۶۰۰

[vi] اردومیں ترقی پسند ادبی تحریک۔ خلیل الرحمن اعظمی۔ص ۱۸۵

[vii] شادؔ مرتبہ: عابد رضا بیدارؔ ۔ ص ۲۴

[viii] نثر و غزل دستہ۔ مرتبہ:مظفر حنفی۔ ص۲۷۲

[ix] مکتوبِ شادؔ بنام جون ایلیا، مشمولہ ماہنامہ ’’انشا‘‘عالمی ڈائجسٹ،کراچی، خاص نمبر۔ ۱۹۶۲ء

[x] شادؔ عارفی ۔ طاہرہ اختر۔ مطبوعہ سہ ماہی ’’ نقوش‘‘ لاہور۔ شخصیات نمبر، حصّہ دوم۔ ص۱۱۳۴

[xi] شادؔ عارفی۔ایک تعارف۔ سلطان اشرف۔مشمولہ ’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص ۲۹۲

[xii] شادؔ عارفی سے ایک ملاقات ۔ وصی اقبال۔ماہنامہ ’’تحریک‘‘ دہلی۔جون ۱۹۶۴ئ۔ص ۱۱

[xiii] شادؔ عارفی۔ایک تعارف۔ سلطان اشرف۔مشمولہ ’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص ۲۹۳

[xiv] شادؔ عارفی سے ایک ملاقات ۔ وصی اقبال۔ماہنامہ ’’تحریک‘‘ دہلی۔جون ۱۹۶۴ئ۔ص ۱۲

[xv] میں ۔ شادؔ عارفی۔ ’’ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ مظفر حنفی ۔ ص ۷۳۳

[xvi] شادؔ عارفی۔ایک تعارف۔ سلطان اشرف۔مشمولہ ’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص ۲۹۵

[xvii] شادؔ عارفی مرحوم۔ منہاج الدین مینائی۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی۔ ص ۴۴۵

[xviii] عروج زیدی نے اپنے مضمون ’’ شاد عارفی: شخصیت اور فن‘‘ ( مطبوعہ دو ماہی ’’محور‘‘ دہلی،شمارہ نمبر ۲، ۱۹۶۲ئ) میں اشارتاً ان محترمہ کا نام ’ص‘ بیگم درج کیاہے۔

[xix] مکتوب شادبنام علی حماد عباسی’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ص ۶۵۰

[xx] شادؔ عارفی۔ایک انٹرویو۔ سلطان اشرف۔ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ لاہور۔ماہانہ ایڈیشن۔ ۱۲؍نومبر ۱۹۶۱ء ص ۱۴

[xxi] شادؔ عارفی مرحوم۔ منہاج الدین مینائی۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی۔ ص ۴۲۷

[xxii] شادؔ عارفی۔ایک تعارف۔سلطان اشرف ’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص۲۹۳

[xxiii] شادؔ عارفی  اپنی نظر میں ۔مشمولہ ’’ شاد‘‘ مرتبہ : عابد رضا بیدارؔ ۔ ص ۲۷

[xxiv] ایک اور گنجا فرشتہ۔ اکبر علی خاں ۔ سہ ماہی ’’ نقوش‘‘ لاہور، خاص نمبر۔ ۱۹۶۵ء

[xxv] کٹی پتنگ۔مسعود اشعر۔ سہ ماہی’’فنون‘‘ لاہور۔اشاعت خاص نمبر ۵۔۱۹۶۴ ء  ص۳۳۴

[xxvi] شادؔعارفی۔ایک انٹرویو۔سلطان اشرف۔ہفت روزہ ’’ نصرت‘‘ لاہور۔ ماہانہ ایڈیشن ۔ ۱۲؍ نومبر ۱۹۶۱ء ص۱۱

[xxvii] مکاتیبِ شادؔ۔مطبوعہ ’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ: مظفر حنفی۔ ص ۴۳۱تا ۶۹۹

[xxviii] مکتوب شادبنام قیصر خاں وظاہرہ اختر۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ص ۶۴۴

[xxix] مکتوب شادبنامملّا بھائی جنرل مرچنٹ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ص ۵۸۵

[xxx] مکتوب شادبنامسلطان اشرف’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ص ۵۱۸

[xxxi] شادؔ عارفی : ایک تاثر۔عابد رضا بیدارؔ۔ ’’اردوادب ‘‘ علی گڑھ۔ تخلیق نمبر ۔ ۱۹۶۳ء ۔ ص ۱۲۷

[xxxii] زبر استاد۔ اندھیر نگری۔ شادؔ عارفی۔ ص۱۰

[xxxiii] ایک خط۔ سردار جعفری۔’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفرحنفی۔ ص۵۵

[xxxiv] ’’ ایک تھا شاعر‘‘ پر تبصرہ۔ شمس الرحمن قاروقی۔ ماہنامہ ’’ شب خون‘‘ الٰہ آباد۔ اگست ۱۹۶۸ء۔ ص ۷۶

[xxxv] شاگر اور استاد ۔ شفقؔ رام پوری۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ۔ص ۷۳۹

[xxxvi] میں ۔ شادؔعارفی۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ : مظفر حنفی ۔ ص ۷۳۹

[xxxvii] مکتوب شادبنام وصی اقبال’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ص۵۷۲

[xxxviii] مکتوب شادبنام نیاز فتح پوری’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ص۴۱۳

[xxxix] نصف بہتر۔ شادؔ عارفی۔ ’’ اندھیر نگری‘‘ ص ۱۲۷

[xl] مکتوب شادبنام راہی عارفی’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ص۵۹۷

[xli] شادؔ عارفی کا آخری سفر۔ عروجؔ زیدی۔ مشمولہ ’’یادگارِ شاد‘‘ مرتبہ :مظفر حنفی ۔ ( زیرِ طبع)

[xlii] شادؔ عارفی، میرے ماموں ۔ طاہرہ اختر۔’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی۔ ۷۹۷ تا ۸۰۰

[xliii] شاد عارفی سے ایک ملاقات۔ وصی اقبال۔ ماہنامہ ’’ تحریک ‘‘ دہلی ۔جون ۱۹۶۴ء ص ۱۳

[xliv] ایک خط ۔ سردار جعفری ۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ۔ص ۵۴

[xlv] مکتوب سجاد ظہیربنام مظفر حنفی۔ماہنامہ ’’ عارض‘‘دہلی۔ جولائی ۱۹۶۸ء ۔ ء ۱۴۳

[xlvi] مکتوب فیض بنام مظفر حنفی۔مشمولہ ’’ شاد عارفی: ایک مطالعہ‘‘ مرتبہ۔ مظفر حنفی۔ ص ۲۴۷

[xlvii] شادؔ عارفی، ایک انٹر ویو۔سلطان اشرف۔ہفت روزہ ’’ نصرت‘‘ لاہور۔ماہنامہ ایڈیشن۔ ۱۲۔ نومبر ۱۹۶۱ء

[xlviii] شادؔ عارفی مرحوم۔ منہاج الدین مینائی۔’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی۔ص ۴۲۷۔۴۲۶

[xlix] مکتوب بنام جون ایلیا۔ ماہنامہ ’’انشا‘‘ عالمی ڈائجسٹ کراچی۔ خاص نمبر۔ ۱۹۶۲ء

[l] مکتوب شادؔ بنام علی حماد عباسی۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ۔ص۶۵۰

[li] شادؔ عارفی خود اپنی نظر میں ۔ ’’ سفینہ چاہیے‘‘شادؔ عارفی۔ مرتبہ:سلطان اشرف۔ ص ۱۵

[lii] کٹی پتنگ۔ مسعود اشعر۔’’ فنون‘‘ لاہور۔اشاعت خاص نمبر۵۔ ۱۹۶۴ئ۔ ص ۳۳۲

[liii] مکتوبِ شاد بنام محب عارفی۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی۔ ص ۵۸۰

[liv] اُردو ادب میں طنز ومزاح۔ ڈاکٹر وزیر آغا( ہندوستانی ایڈیشن۔ ص ۱۴۷)

[lv] تبصرہ سیّد احتشام حسین۔ماہنامہ ’’ شاہکار‘‘ ادبی ڈائجسٹ۔ الٰہ آباد۔ جولائی ۱۹۶۹ء ۔ ص ۱۴۰

[lvi] مکتوبِ شادؔ بنام مسرت حسین آزاد۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ : مظفر حنفی ۔ ص ۵۹۵

[lvii] کٹی پتنگ۔ مسعود اشعر ۔ سہ ماہی ’’ فنون‘‘ لاہور۔اشاعت خاص نمبر۵۔ ۱۹۶۴ئ۔ ص ۳۳۱

[lviii] ایک اور گنجا فرشتہ۔ اکبر علی خاں ۔ سہ ماہی ’’ نقوش‘‘ لاہور۔ خاص نمبر۔ ۱۹۶۵ء

[lix] مکتوبِ شادؔ بنام کششؔ صدیقی۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ : مظفر حنفی ۔ ص ۴۹۲

[lx] مکتوب شادؔ بنام حنیف رامےؔ۔ہفت روزہ ’’ نصرت‘‘لاہور۔ماہانہ ایڈیشن۔ ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۶۰ء

[lxi] مکتوبِ شادؔ بنام وصی اقبال۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ : مظفر حنفی ۔ ص ۵۷۳۔۵۷۲

[lxii] ایک گنجا فرشتہ۔ اکبر علی خاں ۔سہ ماہی’’ نقوش‘‘ لاہور۔ خاص نمبر۔ ۱۹۸۵ء

[lxiii] شادؔ عارفی میرے ماموں ۔ طاہرہ اختر۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ:مظفر حنفی۔ ص ۷۹۷۔ ۷۹۲

[lxiv] ’’ فنکار‘‘ ۔ ابراؔ حسنی گنوری۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص ۲۳۵

[lxv] شادؔ عارفی مزاجی اعتبار سے۔ محشرؔ عنائتی۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص ۷۲۸

[lxvi] ’’شادؔ عارفی: شخصیت اور فن‘‘ عروج عروج زیدی ۔وہ ماہی ’’محور‘‘ دہلی، شمارہ نمبر ۲۔۱۹۶۲ء

[lxvii] مکتوب شادؔ بنام مظفر حنفی۔’’ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ:مظفر حنفی۔ ص ۶۸۳

[lxviii] مکتوب شادؔ بنام فضاؔ کوثری۔’’ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ:مظفر حنفی۔ ص ۶۱۷

[lxix] مکتوب بنام فضاؔ کوثری۔ ’’ شاد عارفی:ایک مطالعہ‘‘مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص ۳۲۳

[lxx] شاد عارفی کی یاد میں ۔ خلیل الرحمن اعظمی ۔’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ : مظفر حنفی ۔ ص ۷۴۱

[lxxi] شاد عارفی۔ طاہرہ اختر۔ ’’ نقوش‘‘ لاہور ، شخصیات نمبر،حصہ دوم۔ ص ۱۱۲۳

[lxxii] ایک اور گنجا فرشتہ۔ اکبر علی خاں عرشی زادہ۔ ’’ نقوش ‘‘ لاہور، خاص نمبر ۱۹۶۵ء

[lxxiii] شاد عارفی، ایک تاثر۔ عابد رضا بیدار۔ ’’اردوادب‘‘ علی گڑھ ۔تخلیق نمبر ۴۔ ۱۹۶۳۔ ص ۱۲۹

[lxxiv] کتی پتنگ۔مسعود اشعر۔ ’’فنون‘‘ لاہور‘ اشاعتِ خاص نمبر۵۔ ۱۹۶۴ء ۔ ص ۳۳۳۔۳۳۵

[lxxv] کتی پتنگ۔مسعود اشعر۔( ’’ فنون‘‘ لاہور‘ اشاعتِ خاص نمبر۵۔ ۱۹۶۴ء ۔ ص ۳۳۴) یہاں مسعود اشعرکو غلط فہمی ہوئی ہے۔شاد عارفی نے کم از کم ایک آزاد نظم لکھی ہے جس کاعنوان ہے ’’ یہ عبادت،یہ رسوم‘‘

[lxxvi] مکتوبِ شادؔ بنام گووند رشکؔ ۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ : مظفر حنفی ۔ ص ۶۶۸

[lxxvii] ’’ شادؔ عارفی،میرے ماموں ۔ ‘‘طاہرہ اختر۔ ’’ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص ۷۹۴

[lxxviii] ’’ شاد عارفی کی یاد میں ‘‘ ۔ خلیل الرحمن اعظمی۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ : مظفر حنفی۔ ص۷۴۲

[lxxix] ’’ شاد عارفی، میرے ماموں ۔ ‘‘ طاہرہ اختر۔’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ: مظفر حنفی۔ ص ۷۹۸

[lxxx] مکتوبِ شادؔ بنام محمد ارشاد خاں ۔ سہ ماہی ’’ نقوش‘‘ لاہور‘ خطوط نمبر ۲۔ ص ۵۴۳

[lxxxi] ’’ اندھیر نگری‘‘۔ شاؔد عارفی ۔ ص ۱۳

[lxxxii] وفاتیات۔ماہر القادری۔ ماہنامہ ’’ فاران‘‘ کراچی۔ جون ۱۹۶۴ء ۔ ص ۱۹

[lxxxiii] زبر استاد ۔شاد عارفی۔ ’’اندھیر نگری‘‘۔  ص ۱۶

[lxxxiv] ’’ شادؔ عارفی،میرے ماموں ۔ ‘‘طاہرہ اختر۔ ’’ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص ۷۹۴

[lxxxv] ’’ شاد عارفی کی یاد میں ‘‘ ۔ خلیل الرحمن اعظمی۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ : مظفر حنفی۔ ص۷۴۲

[lxxxvi] ’’ ایک اور گنجا فرشتہ‘‘۔ اکبر علی خاں عرشی زادہ۔ سہ ماہی ’’ نقوش‘‘ لاہور ، خاص نمبر۔ ۱۹۶۵ء

[lxxxvii] ’’ شاد عارفی، میرے ماموں ۔ ‘‘ طاہرہ اختر۔’’ ایک تھا شاعر‘‘مرتبہ: مظفر حنفی۔ ص ۷۹۸