شادؔ عارفی: ایک تعارف
سلطان اشرف
(ماخذ: ’شاد عارفی، حیات و جہات‘، مرتبہ فیروز مظفر)
نام احمد علی خاں، تخلص شادؔ، والد کا نام مولوی عارف اللہ خاں۔ والد کے نام کی رعایت سے عارفی لکھتے تھے۔ سنہ پیدائش صحیح نہیں معلوم لیکن اندازاً ۱۹۰۳ء بتاتے تھے۔ سنہ پیدائش کے سلسلے میں شادؔ صاحب کی دلچسپ تحریر کا اقتباس پیش کر دوں تو کچھ بے جا نہ ہو گا۔ ۱۹۵۹ء میں جب صہبا لکھنوی مدیر ’’ افکار‘‘( کراچی) اپنا خاص نمبر شائع کر رہے تھے تو انھوں نے شادؔ صاحب سے اُن کی مختصر سوانح عمری بھی مانگی تھی۔ شادؔ صاحب نے ان کو لکھا تھا:
’’ ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۳ء تک میری پیدائش کا سال ہے۔ زیادہ بوڑھا ہونا کوئی بھی پسند نہیں کرتا اس لیے میں بھی ۱۹۰۳ء کی موافقت میں ہوں۔ ‘‘
چلے فیصلہ ہوا ہم بھی زور نہیں دیتے کہ نہیں صاحب شادؔ صاحب کی پیدائش تو پہلے کی ہے۔ کیا فائدہ جب وہ خود ہی زیادہ بوڑھا ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ شادؔ صاحب کی پیدائش لوہارو اسٹیٹ میں ہوئی تھی۔ لوہارو میں شادؔ صاحب کے والد بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے ویسے ابتدائی تعلیم شادؔ صاحب کی لوہارو میں ہی شروع ہوئی۔ اُن کے والد چونکہ مولوی تھے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ اُن کا بیٹا بھی مولوی بنے چنانچہ انھوں نے شادؔ صاحب کو اسی انداز میں تعلیم دلانا پسند کیا۔ ابتداء میں قاعدہ بغدادی کے بعد قرآن شریف اور عربی صرف و نحو کی کتابیں شادؔ صاحب کو اُن کے والد نے مکان پر پیٹ پیٹ کر پڑھائیں۔ ۱۹۰۹ء میں شاد صاحب کے والد اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو کر رام پور چلے آئے کیونکہ یہاں شاد صاحب کی ننہال تھی۔ ( شادؔ صاحب کے نانا عثمان علی خاں مرحوم رام پور کے مشہور سردار تھے اُن کے نام سے رامپور میں ایک محلہ آج بھی گھیر عثمان خاں کے نام سے مشہور ہے ) رام پور آنے کے بعد بھی کچھ دنوں تک عمّی میاں کے مدرسہ ’’ دبستانِ حیدری‘‘ جو شاد صاحب کے مکان کے برابر ہی تھا، اُس میں داخل کر دیا گیا۔ اس مدرسہ میں شادؔ صاحب نے اُردو کتابوں کا وہ سلسلہ ختم کیا جو مولانا اسمٰعیل میرٹھی کا ہے۔ اردو سے گزر کرگلستاں، بوستاں، دستور صبیان بھی شادؔ صاحب نے اُسی مدرسہ میں پڑھیں۔ اس کے بعد مولوی حکیم یوسف علی خاں صاحب سے دیوانِ حافظ پڑھا اس زمانے میں رامپور میں اس طرح کی کتابوں کو پڑھانے والے علیحدہ علیحدہ لوگ تھے اس لیے دیوان حافظؔ ختم کرنے کے بعد سکندر نامہ اور شاہنامہ رامپور کے مشہور حافظ جو تیز اور جلد پڑھانے کی وجہ سے حافظ ریل کے نام سے مشہور تھے، ان سے پڑھا۔
اُردو عربی اور فارسی کی تعلیم ختم کرنے کے بعد شادؔ صاحب اس زمانے کے رامپور کے واحد انگریزی اسکول جو حامد ہائی اسکول کے نام سے موسوم تھا اور ہے اس میں اپنے ماموں کرامت علی خاں سابق کوتوال شہر رامپور کے مشورہ سے انگریزی پڑھنے کے لیے داخل ہو گئے لیکن جب شادؔ صاحب کے والد کو اس حادثہ کا علم ہوا تو وہ اس قدر ناراض ہوئے کہ انھوں نے شادؔ صاحب اور ان کے ماموں سے گفتگو تک ترک کر دی۔ یہ زبان بندی کا سلسلہ تقریباً تین سال تک چلتا رہا اور اُس وقت ختم ہوا جب ایک دن شاد صاحب کے والد کے پاس کسی جگہ سے ایک تار آیا اور شادؔ صاحب نے اس تار کو پڑھ کر مطلب ٹھیک طور پر سمجھا دیا۔ ان کے والد بہت خوش ہوئے ادھر اس دوران شادؔ صاحب نے بھی اپنے کیریکٹر سے یہ ثابت کر دکھایا تھا کہ ایک مسلمان انگریزی تعلیم حاصل کر نے کے باوجود بھی مسلمان رہ سکتا ہے۔ وہ برابر پنج وقتہ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ شادؔ صاحب میٹرک ( دسویں درجے ) میں آئے ہی تھے، اور صرف سہ ماہی امتحان دے پائے تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد خاندانی حالات اس قابل نہیں رہے کہ شادؔ صاحب اپنی تعلیم کے اس سلسلے کو ریگولر جاری رکھ سکتے۔ لیکن تعلیم کے شوق کو سرد نہیں ہونے دیا۔ انگلش لینگویج میں امتحان دینے کے لیے پہلے توشاد صاحب نے الٰہ آباد سے ادیب کیا پھر منشی اور آخر میں عالم میں بھی کوشش کی آخر میں جب ملازمت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ہندی زبان کے بھی کئی امتحان دیے اور ان میں کامیاب ہوئے۔
ملازمت انھوں نے سب سے پہلے شکر کے کارخانے میں کی جہاں وہ اکاؤنٹینٹ تھے پھر مکامل (میز فیکٹری) میں ویئنگ سپروائزری کی اس کے بعد رامپور کی مشہور عمارت ’’لالہ زار‘‘ کی عمارت بنانے والی کمپنی میں سائٹ انچارج رہے۔ رامپور کی شیرو فیکٹری اور سی اوڈی میں لیجر چیکر کی پوسٹ پر کام کیا اس طرح مذکورہ بالا کار خانوں میں تقریباً پندرہ سال ملازمت کی۔ بعد میں کارخانوں کی ملازمت چھوڑ کر رامپور میونسپل بورڈ میں ٹیکس کلرک ہوئے لیکن یہاں بھی کچھ زیادہ دنوں کام نہ کر سکے اور ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد ناصر مسعود صاحب پبلک انفارمیشن آفیسر رامپور کی فرمائش پر نیم سرکاری اخبار ’’ اقبال‘‘ رامپور کی ایڈیٹری کی اسی ’’ اقبال‘‘ کا نقشِ ثانی روزنامہ ’’ ناظم‘‘ کی شکل میں نکلا جو آج تک نکل رہا ہے۔ شادؔ صاحب ’’ اقبال‘‘ کی ایڈیٹری مستقل مزاجی کے ساتھ نہیں کر سکے۔ ان کے خمیر میں بے قراری شامل ہو گئی تھی کسی بھی جگہ ڈٹ کر رہنا پسند ہی نہیں کرتے تھے۔ ’’ اقبال‘‘ کی ایڈیٹری کے بعد میاں عطاء الرحمن صاحب منیجر کی معاونت اور ناصر مسعود کی کوشش سے اسٹیٹ پریس رامپور میں انگلش پروف ریڈر ہو گئے، تین سال تک پروف ریڈر ی کی۔ اسٹیٹ پریس سے ہی بجٹ اکاؤنٹنٹ کا چانس مل گیا۔ دو سال تک بجٹ اکاؤنٹینٹ رہے۔ جب ریاست مرج ہو گئی تو شادؔ صاحب کو ’’ڈگریڈ‘‘ کر کے تحصیل سوار میں ناظر کے عہدے پر بھیج دیا گیا جہاں جا کر وہ ملیریا جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گئے۔ آٹھ مہینے تک علاج معالجہ کیا، تبادلہ کی بھی کوشش کی لیکن جب تبادلہ نہ ہو سکا تو تنگ آ کر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد شادؔ صاحب نے کوئی نوکری نہیں کی۔ ٹیوشنیں کیں، شاگردوں اور غزلوں نظموں کے معاوضے سے اپنی گزر بسر کرنا شروع کر دی، کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔ انتہائی تنگدستی کی حالت میں آخر عمر بسر کی۔ میں نے ان کی ملازمتوں کا تذکرہ جان بوجھ کر تفصیل سے کیا ہے کیونکہ ان کی زندگی کا یہ بڑا المیہ ہے کہ ایک تووہ ملازمت مستقل مزاجی کے ساتھ کہیں نہیں کر سکے۔ دوسرے جب اُن کا ذاتی مکان فروخت ہوا اس کے بعد سے اٹھارہ انیس مکان کرائے کے تبدیل کیے اور پھر ایسے حالات میں جب ان کا کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہیں تھا غزلوں نظموں کے معاوضے اور شاگردوں کے نذرانے پر گزر بسر کا دار و مدار تھا۔ افسوس ہوتا ہے کہ اُن جیسا آدمی اس طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔
اس جگہ آ کر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے تو مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ ایک حد تک شادؔ صاحب خوداس بات کے ذمہ دار ہیں لیکن ان کا ماحول اس سلسلے میں زیادہ ذمہ دار ہے۔ اُن کے معاصر شعراء نے ان کی صلاحیتوں کا خون کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ انھوں نے ٹیوشنیں کیں تو طرح طرح کی بہتان طرازیاں کی گئیں، انھوں نے ملازمتیں کیں تو ان کو چھل اور فریب میں مبتلا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ جب شعر و شاعری کے تقابل کا وقت آیا تو شادؔ صاحب کو گھٹا کر اور گرا کر پیش کیا۔ غرضیکہ ہر وہ طریقہ اختیار کیا جس سے شادؔ صاحب عملی زندگی میں ناکام انسان ثابت ہوں۔ اُن کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ بد دماغ تھے، رامپور سے باہر کے لوگ بھی اکثر اُن کی اس بات کے شاکی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے مقامی دوست نما دشمن ان کو ہر میدان میں ناکام کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ شادؔ صاحب اس قدر سادہ لوح تھے کہ اگر کوئی ان سے یہ کہہ دے کہ آل احمد سرور آپ کو بُرا کہتے ہیں تو بس شادؔ صاحب یقین کر لیں گے اور پھر ہر صورت سے ان سے بگاڑ پیدا کرنے کی کوششیں کریں گے تحقیق کی ضرورت محسوس ہی نہیں کریں گے۔ یہی ان کی کمزوری تھی اور اس کمزوری پر ہی ان کے دوست نما دشمن چھائے رہے ہیں۔
میں باتوں میں بہت دور نکل آیا۔ مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ شاد صاحب حقیقت میں اس کے ذمہ دار نہ تھے ان کے بگاڑ میں ان کے ارد گرد کے لوگ حقیقی معنی میں اُن کے دشمن تھے۔
شعر و شاعری کی تحریک اگر چہ شادؔ صاحب کو ابتداء سے تھی لیکن اس میں شدّت اس وقت پیدا ہوئی جب مولوی محمود خاں شفقؔ رام پوری سے سلسلۂ شاگردی کو استوار کیا۔ شفقؔ صاحب غزل کے شاعر تھے انھوں نے شاد صاحب کے مزاج کو پختہ کیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ شفق صاحب نے شادؔ صاحب پر بہت ریاضت کی۔ شفقؔ صاحب سے شادؔ صاحب کا سلسلۂ شاگردی تقریباً دس سال تک چلتا رہا۔ یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب شفقؔ صاحب ملازم ہو کر ’’پیسہ اخبار‘‘ ( لاہور) میں چلے گئے۔ اس کے بعد چار پانچ سال تک شاد صاحب نے بغیر کسی استاد کو دکھائے غزلیں مشاعروں میں بھی پڑھیں اور رسالوں اور اخباروں کو بھی بھیجتے رہے۔ لیکن ایک خاص واقعہ سے متاثر ہو کر شادؔ صاحب حضرت فصاحت جنگ جلیل مانکپوری (مرحوم) کے شاگرد ہو گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ رامپور میں قدیم سے سلسلہ چلا آ رہا تھا کہ ہر ماہ مصرع طرح شعراء کو دیا جاتا تھا کہ وہ اس پر طبع آزمائی کریں اس سلسلے میں سال میں دو ایک بار سرکاری طرحی مشاعرے بھی ہوتے تھے۔ اس دوران میں ایک سرکاری مشاعرہ طرحی ہونے والا تھا۔ طرح کا مصرعہ علیا حضرت بیگم صاحبہ رامپور کی ایک غزل کا دیا گیا تھا۔ مصرع تھا:
ارے او بے خبر، تکیے گرے جاتے ہیں بستر سے
شادؔ صاحب نے بھی اسی طرح میں غزل کہی اور مشاعرے میں پڑھی۔ اُن کی غزل کا مطلع تھا:
سلیقہ ہی نہ آیا اشک ہائے دیدۂ تر سے
برسنے کی جگہ ٹھیرے، ٹھہرنے کی جگہ برسے
ایک شعر مشاعرے میں بھی خوب چلا تھا اور جلیلؔ صاحب نے بھی اُس پر ماشاء اللہ لکھا تھا:
ابھی ہنگامہ آرا دل میں ہے اِک عشرتِ رفتہ
ابھی تک تیری خوشبو آ رہی ہے میرے بستر سے
ما حصل اس تمام تمہید کا یہ ہے کہ مشاعرے میں غزل پڑھنے سے پہلے شادؔ صاحب کے ہم عصر شاعر ابو طاہر مجددی ( مرحوم) نے شادؔ صاحب سے کہا کیا فرسودہ شاعری کرتے ہو۔ اگر تم یہ غزل میرے اُستاد جلیلؔ صاحب کو دکھاتے تو وہ کاٹ کر پھینک دیتے مزید یہ بھی کہا کہ وہ تم ایسے شاعر کو اپنا شاگرد بنانا بھی گوارا نہیں کریں گے۔ شادؔ صاحب کو یہ بات تیر بن کر چبھ گئی۔ غزل تو مشاعرے میں پڑھ دی اور داد بھی خاصی حاصل کر لی لیکن اس کے بعد خفیہ طریقے پر جلیلؔ صاحب کا پتہ حاصل کیا (جلیل صاحب اس زمانے میں حیدر آباد دکن میں مقیم تھے اور نظام صاحب کے استاد تھے ) اور اپنی غزل جس کا ذکر اوپر آیا، اس درخواست کے ساتھ کہ میں آپ کا شاگرد ہونا چاہتا ہوں، مجھے شاگرد بنا لیں اور اس غزل پر اصلاح فرما دیں۔ جلیل صاحب کو جب غزل ملی تو انھوں نے پوری غزل پر کہیں اصلاح نہیں کی بلکہ ایک سے لے کر تین صاد تک شعروں پر بنا دیے تھے اور مذکورہ بالا شعر ’’ ابھی ہنگامہ آرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ پر ماشاء اللہ لکھا تھا۔ غزل جب شادؔ صاحب کے پاس واپس آئی تو شادؔ صاحب نے طاہرؔ مجددی (مرحوم) کو دکھلائی۔ اس طرح شادؔ صاحب جلیلؔ مانکپوری کے شاگرد ہو گئے (یہ سلسلۂ شاگردی تین سال تک جلتا رہا اور اس وقت ختم ہوا جب نظام حیدر آباد نے جلیل صاحب پر یہ پابندی عائد کر دی کہ اب اُن کا کوئی شاگرد ان کے پاس اپنا کلام بغرض اصلاح نہ بھیجے کیونکہ اب استاد بیحد ضعیف ہو گئے ہیں ) ادھر جلیل صاحب نے بھی شادؔ صاحب کو لکھ دیا کہ ماشاء اللہ اب تم پختہ مشق ہو گئے ہو، اصلاح کی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس کے بعد سے شاد صاحب بغیر کسی کو دکھائے اپنی نظمیں غزلیں مشاعروں میں پڑھتے رہے اور ہند و پاک کے معیاری رسائل میں بھی بکثرت چھپتے رہے۔
ابتداء میں جیساکہ عام طور پر اردو شعراء کا قاعدہ رہا ہے کہ وہ اپنی شاعری کی ابتدا غزل سے کرتے ہیں، شادؔ صاحب کی شاعری کا آغاز بھی غزل سے ہوا لیکن ۱۹۳۰ء سے طبیعت نظم گوئی کی طرف مائل ہوئی۔ سب سے پہلی نظم ’’ اضطرار‘‘ ہے جو اس زمانے کے مشہور و معروف معیاری جریدہ ’’ ہمایوں ‘‘ ( لاہور) میں شائع ہوئی تھی۔ اس لیے ظاہر ہے نظم خاصی معیاری رہی ہو گی۔ اس کے بعد شادؔ صاحب جو نظم گوئی کی طرف مائل ہوئے تو نظموں پر نظمیں کہہ ڈالیں یہاں تک ۱۹۴۶ء میں علی گڑھ سے رشید احمد خاں مخمورؔ نے شادؔ صاحب کی نظموں کا ایک مجموعہ ’’سماج‘‘ شائع کیا۔ اس مجموعہ سے متعلق جو دیباچہ شادؔ صاحب نے لکھا تھا اس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۶ء تک غزلوں کے تین مجموعے موجودتھے اور نظموں کے حسب ذیل تین مجموعے تیار ہو گئے تھے :
۱۔ سُندر بن ۲۔ کڑوے پھل ۳۔ دکھتی رگیں
۱۹۴۶ء کے بعد سے آج تک ۱۹۶۴ء تک کے عرصے میں انھوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہو گا۔ غالباً پندرہ بیس مجموعے غزلوں نظموں کے تیار ہو گئے ہوں گے لیکن آج تک اُن کو سلیقے سے کتابی صورت میں شائع ہونا نصیب نہیں ہوا ہے۔ یوں شائع ہونے کو اُن کی کوئی چیز غیر مطبوعہ نہیں ہو گی کیونکہ وہ رسائل اور اخبارات میں اس قدر کثرت سے چھپتے رہے ہیں کہ شاید فراقؔ گورکھپوری کے بعد انھیں کا نمبر ہو گا۔ ہندوستان اور پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا پرچہ ہو گا جس میں شادؔ صاحب نہیں چھپے ہوں لیکن میں تذکرہ کر رہا ہوں کہ اُن کا کوئی مجموعہ سوائے ’’سماج‘‘ ( اور بعد از وفات’’ سفینہ چاہیے ‘‘) ابھی تک کتابی شکل میں شائع نہیں ہوا۔ انجمن ترقی اردو (ہند) نے شادؔ صاحب کی کچھ نظموں غزلوں کا ایک مختصر سا انتخاب ضرور شائع کیا جس میں کچھ نئی نظمیں بھی شامل تھیں مثلاً اُن کی طویل نظم ’’ آپ کی تعریف‘‘ کا کچھ حصہ، ’’ رنگیلے راجہ کی موت‘‘ وغیرہ، آخر میں کچھ غزلیں بھی تھیں اور بعض بعض غزلوں کے منتخب اشعار لے لیے تھے۔ انجمن نے جب یہ انتخاب نیازؔ فتح پوری مدیر نگار لکھنؤ کو ریویو کے لیے بھیجا تو انھوں نے ’’نگار‘‘ جون ۱۹۵۷ء میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ شادؔ عارفی زمانۂ حال کے شاعروں میں ایک خاص رنگ کے نقاد و طنز نگار شاعر ہیں۔ اس مجموعہ میں اُن کی چودہ نظمیں شامل ہیں اور سب کی سب ایک ہی طرح کے جارحانہ انتقاد سے تعلق رکھتی ہیں جن میں کہیں کہیں مزاحی رنگ بھی آ جاتا ہے، اس انداز کی شاعری کے لیے ایک خاص لب و لہجہ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں قطعیت بہت زیادہ ہو جسے انگریزی میں To hit the nail on the headکہتے ہیں۔ اس کوشش میں بہت سے حضرات آرٹ سے ہٹ کر خشک واعظ بن کر رہ جاتے ہیں لیکن شادؔ عارفی شاعرانہ زہر خند یا تبسم زیر لب کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مثلاً:
چاپ سُن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی= شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی
اس خصوص میں وہ کبھی کبھی اکبر الٰہ آبادی تک پہنچ جاتے ہیں لیکن ذرا دامن بچائے ہوئے۔ اور یہی شادؔ عارفی کا آرٹ ہے۔ ‘‘
شاد صاحب کی اس غزل کے دو شعر میں بھی پیش کیے دیتا ہوں جو ان کے مخصوص رنگِ سخن کے آئینہ دار ہیں :
اپنی مرضی سے تو اُگتے نہیں خودرو پودے
ہم غریبوں کا بہر حال نگہباں ہے کوئی
زرد چہروں نے تبسم کو کیا ہے رسوا
ورنہ ظاہر بھی نہ ہوتا کہ پریشاں ہے کوئی
شادؔ صاحب کا ایک مخصوص رنگ ہے جو علیٰٰحدہ پہچان لیا جاتا ہے۔ یوں تو شادؔ صاحب نے زیادہ تر نظمیں اور غزلیں ہی کہیں لیکن انھوں نے اس کے علاوہ رباعی، قطعہ، مستزاد، طویل نظمیں ( مثلاً ’’آپ کی تعریف ‘‘) چہار بیت ( جو رامپور اور ٹونک کی خالص مقامی شاعری ہے ) ہر ایک صنف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ہر چیز میں انفرادیت پیدا کر دیتے ہیں۔ شعر میں نُدرتِ ادا خاص طور سے پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے اُن کی کوئی چیز ہو اس کا رنگ علیٰحدہ اور نمایاں ہوتا ہے چاہے غزل ہو یا نظم یا کوئی اور صنفِ سخن، ان کا مخصوص لب و لہجہ شاعر کا تیکھا انداز جو طنز اور مزاح کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کو مزاح نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اُن کو پڑھنے کے بعد قاری زیر لب مسکرا دیتا ہے اور کسک بھی محسوس کرتا ہے۔ یہ رنگ اگرچہ ان کا ابتدائی رنگ نہیں لیکن اُن کی ابتدائی شاعری کا جو نمونہ ہمارے پاس موجود ہے اُسے دیکھنے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ اگرچہ شدّت کے ساتھ یہ بات اس وقت اُن کی شاعری میں نہیں پائی جاتی تھی لیکن اس کے جراثیم اُن کی شاعری میں موجود ضرور تھے اور جب ان جراثیم کو مناسب خوراک اور ماحول مل گیا تو شدت کے ساتھ اُبھر کر آ گئے اور اُن کی شاعری خالص طنزیہ شاعری ہو کر رہ گئی۔ اگرچہ انھوں نے رومانی غزلیں اور نظمیں بھی کہیں لیکن طنز کا چھینٹا اُن پر بھی پڑ جاتا ہے۔ اب اُن کی جو بھی غزل یا نظم ہمارے سامنے آتی ہے وہ قوس و قزح کی شکل میں آتی ہے یعنی اس میں سب ہی رنگ شامل ہوتے ہیں۔ ۱۹۴۹ء تک کی شاعری میں غالبؔ حصہ رومانی تھا لیکن بعد میں اُن کی شاعری کا بیشتر حصہ طنز یہ ہے۔ یہ تبدیلی کیوں ہو گئی، ظاہر ہے حالات نے مجبور کر دیا اور شادؔ صاحب نے شاعری کا رُخ موڑ دیا۔ انھوں نے اپنے مستزاد کے مقطع میں خود کہا ہے۔
شاد ہجر و وصل تک محدود تھی فکر و نظر… اک زمانہ تھا مگر
آج میری ہر غزل وابستۂ حالات ہے … سوچنے کی بات ہے
ایک دوسری غزل کے مقطع میں اس طرح اشارا کیا ہے :
عظمتِ تغزل میں اُن سے کام لیتا ہوں
زندگی گزرتی ہے شادؔ جن ملالوں میں
اپنے اس انقلابِ شاعری پر اپنی ایک اور غزل کے مطلع میں شاد صاحب کہتے ہیں :
بے کسوں پر ظلم ڈھا کر ناز فرمایا گیا
طنز کی جانب میں خود آیا نہیں لایا گیا
………
جیسا کہ میں اوپر بھی اشارتاً تذکرہ کر آیا ہوں، شادؔ صاحب کو زندگی میں جو تلخ تجربے ہوئے انھیں نے شاد صاحب کو طنز کی طرف آمادہ کیا۔ شروع میں شدت کم تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اُن کے طنز میں شدت پیدا ہوتی گئی۔ بعض لوگ اُن کے طنز کو جارحانہ طبیعت کی کارفرمائی بتلاتے ہیں، بعض ان کو یگانۂ ثانی کہتے ہیں۔ بعض خود غرض، غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ٹھیک ہے لوگ جیسا بھی کہتے ہیں صحیح ہی کہتے ہوں گے لیکن میرا تجربہ اس کے خلاف ہے۔ میں اس سلسلے میں ان کو قصور وار نہیں گردانتا۔ میں اسے خلاف حقیقت مانتا ہوں کہ انھیں جارحیت پرست ثابت کیا جائے، خود غرض اور بد دماغ کہا جائے۔ یہ بالکل خلافِ حقیقت باتیں ہیں۔ شادؔ صاحب قطعی ایسے نہیں تھے اگر اُن کا قریب سے مطالعہ کیا جائے تووہ اس کے برعکس ملیں گے۔
در اصل بات یہ ہے کہ اُن کے دوست نما دشمنوں نے انھیں اتنے چرکے لگائے ہیں کہ وہ دوست اور دشمن میں تمیز مشکل سے کر پائے، دوستوں نے دوستی کی آڑ میں اُن کے دل کے ٹکڑے کر دیے۔ سماج نے اُن کے دل کو شکست کر کے ناکامی اور نا مرادی کے عمیق گڑھے میں دھکیل دیا جس سے ان کا نکلنا یوں ممکن نہ تھا کہ اُن کے دوست نما دشمن چھائے رہے۔ وہ اُن کو ایک ناکام انسان کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے ایسی حرکتیں کرتے رہے کہ شادؔ صاحب کو عملی زندگی میں ناکامی و نا مرادی سے دو چار ہونا پڑا۔ دشمنوں کی کوششیں کامیاب ہوئیں۔ ان جیسا اور اتنا بڑا شاعر اور اس کسمپرسی کے عالم میں، آخر یہ ناکام زندگی ہی تو تھی۔ اُن کے دل پر کیا کچھ نہیں گزر جاتا ہو گا جب وہ یہ سوچتے ہوں گے کہ وہ زندگی کے اس طویل سفر میں شریک حیات سے بھی محروم ہیں وہ صرف ڈیڑھ سال شریک حیات کے ساتھ گزار سکے پھر ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا بعد میں ایسے حالات نہ تھے کہ وہ شادی کر سکتے۔ والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ ایک بھتیجا جسے اپنے اوپر تکالیف اٹھا کر پڑھایا لکھایا یہاں تک کہ ایم۔ اے کرا دیا لیکن وہ بھی ساتھ نہ دے سکا۔ ایسے انسان کی زندگی کیا ہو گی؟ پھر ماحول بھی مناسب نہ ملا ہو، دوست غمخوار نہ ہوں بلکہ دوستی کی آڑ میں دشمنی کر رہے ہوں تو ایسے شخص سے کس طرح اُمید کی جا سکتی ہے۔ حقیقت میں شادؔ صاحب کی حالت میرؔ کے اس مخمس کے ایک بند جیسی ہے :
حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ
دل سوزشِ زمانہ سے جلتا ہے جوں چراغ
سینہ تمام چاک ہے سارا جگر ہے داغ
ہے نام مجلسوں میں مرا میرِ بے دماغ
از بس کہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار
بعینہٖ یہی حالت شادؔ صاحب کی رہی۔ اس غم کو غلط کرنے کے لیے وہ طنز کی پناہ لیتے ہیں کہ شاید اس سے ہی کچھ مداوا ہو سکے لیکن وہ جس طرح ابتدائے جوانی سے مسرتوں سے محروم تھے آخر تک اُن کی وہی حالت رہی۔ شاعری میں ضرور وہ کامیاب ہیں۔ قاری ان کا کلام پڑھنے کے بعد ضرور کسک، کھٹک، اور رومانی شاعری سے مسرت کے پھول چُن لیتا ہے۔ اب مجھے بھی کچھ زیادہ نہیں کہنا، اُن کے کلام کا انتخاب پیش کیے دیتا ہوں جس کے ذوق کی جو چیز ہو اُس کا انتخاب خود کر لے۔
انتخاب پیش کرنے سے پہلے اتنا اور کہتا چلوں کہ ایک ایسے شاعر کا انتخاب جو چالیس سال سے شاعری کر رہا ہو اس مختصر سے مضمون میں اگرچہ مکمل تو نہیں ہو سکتا ہے تاہم جس قدر ممکن ہوسکا پیش کر دیا:
انتخاب کلام طنزیہ:
ما سوا کی تاک میں ہیں سجّہ گر دانوں میں ہیں
کچھ یہودی بھی بڑے پکّے مسلمانوں میں ہیں
بارہا پائے گئے ہیں لوٹنے والوں کے ساتھ
جن کو دعویٰ تھا کہ ہم سچے نگہبانوں میں ہیں
شیخ صاحب کی روایات نے رکھا معذور
ورنہ چاہا تھا کئی بار مسلماں ہونا
کہیں فطرت بدل سکتی ہے ناموں کے بدلنے سے
جنابِ شیخ کو میں برہمن کہہ دوں تو کیا ہو گا
………
حضرتِ آدم سے اب تک شیطنت کے دور میں
آدمیت جس نے اپنائی وہ بہکایا گیا
وہ بھی از راہِ تعارف خدمتِ ساقی میں شادؔ
زاہدِ سادہ کئی دن میرے ساتھ آیا گیا
………
پھولوں کی طرح آپ ہیں کانٹوں کی طرح ہم
کس پر اثرِ گردشِ دوراں نہیں ہوتا
گلچیں کو شگوفوں کی تجارت سے غرض ہے
اندھوں کے لیے جلوۂ جاناں نہیں ہوتا
اغیار کی فطرت ہی ’’ درست‘‘ اور ’’بجا‘‘ ہے
اور ہم سے غلط بات پہ ’’ جی ہاں ‘‘نہیں ہوتا
………
کان کیوں کھا رہا ہے اے زاہد
ہم نہیں ہیں تِرے سکھانے کے
………
احباب کے لباس میں اغیار دیکھ کر
حیرت نہیں گلوں میں مجھے خار دیکھ کر
………
آپ کی یہ دلچسپی، ہم شکستہ حالوں سے
واسطہ نہ پڑ جائے مختلف سوالوں سے
………
بُت و بادہ کے بیانات سے چلتا ہے پتہ
شیخ صاحب نے کہاں ہاتھ نہ مارا ہو گا
شادؔ خوش فہمیِ یارانِ ادب کے باعث
میرؔ صاحب کی طرح میرا گزارا ہو گا
اس شعر میں ’’ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں ‘‘ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ شادؔ صاحب نے یہ غزل کرائے کے اٹھارویں مکان کی تبدیلی سے متاثر ہو کر کہی تھی۔
جوان شاعر تو شادؔ اُن وحشتوں سے دامن بچا چکے ہیں
مگر ضعیفوں میں اب بھی چرچا ہے چاک دامانیِ رفو کا
………
میکدے کے چور دروازے بھی ہیں
آ تو جائیں شیخ کی منزل میں ہم
………
آج ہر خار کی حالت ہے اس انساں کی طرح
دیکھ کر جس کو کہیں لوگ کہ ’’ بیچارہ ‘‘ہے
وہ مرے طنز سے مانوس نہ ہوں گے اے شادؔ
آئینہ ہر حبشی کے لیے ناکارا ہے
………
مصرع ہے اگر آپ برا مان نہ جائیں
اوچھوں سے کوئی کارِ نمایاں نہیں ہوتا
………
نگاہِ آرزو سے بد گمان ہیں تو آپ ہیں
شباب ہے تو آپ پر، جوان ہیں تو آپ ہیں
ہمیں تو سرد و گرمِ دہر جھیلنے کی مشق ہے
حضور سوچ لیں کہ دھان پان ہیں تو آپ ہیں
………
مرے وطن میں میرے دشمنوں کی کچھ کمی نہیں
یہی تو وہ ثبوت ہے کہ میں خوشامدی نہیں
………
میں پڑوسی ہوں بڑے دیں دار کا
کیا بگڑتا ہے مگر مے خوار کا
یہ چھچھورا شخص، پہچانے اسے
خون ہے اس میں کسی ’’ سرکار‘‘ کا
بعض احمق تک رہے ہیں آج تک
آسرا گرتی ہوئی دیوار کا
جب سے پی ہے، پی رہا ہے آج تک
شیخ بھی ہے آدمی کردار کا
………
بات کی بات ہے، غیبت ہے نہ بہتان کوئی
ہم بھی تھے رات وہیں، شیخ جہاں ہوتا ہے
………
میرے شعروں میں جو شدت ہو گی
تلخ کامی کی بدولت ہو گی
میکدے میں تمھیں حیرت ہو گی
شیخ صاحب کی زیارت ہو گی
ہم نے پھولوں کو وہاں دیکھا ہے
آپ دیکھیں گے تو عبرت ہو گی
پل رہے ہیں جو یہ کانٹے تہِ گل
ان سے پھولوں کی حفاظت ہو گی
………
شادؔ صاحب کی طویل نظم آپ کی تعریف کے چند حصے ذیل میں پیش کر رہا ہوں تاکہ قاری اُن کے اس رنگ سے بھی واقف ہو جائے کہ شادؔ صاحب نے سماج کا کس طرح مطالعہ کیا ہے :
۱۔ ان کو ادبارِ سخن کہتے ہیں لوگ
مغبچوں پر شعر فرمانے میں طاق
داخلِ عادت ہے ایرانی مذاق
قحط میں ارشادِ سعدی کے خلاف
عشق پر اصرار، گُستاخی معاف
اس تامل میں کہ ہو جائے نہ جیل
ملتے ہیں اشعار پر’’ سانڈے کا تیل‘‘
بد قماش و ننگِ فن کہتے ہیں لوگ
ان کو ادبارِ سخن کہتے ہیں لوگ
………
۲۔ پیر گلشن شاہ سے بیعت ہیں آپ
سونگھتے ہیں پھول، کھاتے کچھ نہیں
جھوٹ ہے، پیتے پلاتے کچھ نہیں
خلوتوں میں مرغ و ماہی کے سوا
کر چکے ہیں ترک حیوان و غذا
بخشتی ہے آپ کی میٹھی نظر
بانجھ کو اولاد اور کنواری کو بر
بند کیجے منہ، بڑے حضرت ہیں آپ
پیرِ گلشن شاہ سے بیعت ہیں آپ
………
۳۔ کیا انھیں بھی آپ پہچانے نہیں
بلبل فردوس کے سالے ہیں یہ
بات اتنی ہے ذرا کالے ہیں یہ
چھِن چکی جاگیر، آمد بند ہے
اب فقط افیون کی آنند ہے
پھل پھلاری بیچتے ہیں آج کل
’’ بھوگتا ہے ‘‘ آدمی کرنی کے پھل
ہیں پریشاں حال، دیوانے نہیں
کیا انھیں بھی آپ پہچانے نہیں
………
۴۔ ان کو کہتے ہیں مدیرِ ’’ عام راہ‘‘
مصلحت اندیش کمیونسٹ ہیں
فکر کے عنوان سے ان لسٹ ہیں
ہم خیالوں کے لیے بنتے ہیں ڈھال
تا نہ رسوا ہو ’’ پسِ پردہ‘‘ کا حال
نظم سے وہ بند کر جاتے ہیں صاف
مقصدیت سے جو پڑتا ہو خلاف
ہیں عوامی مورچے کے خیر خواہ
ان کو کہتے ہیں مدیر ’’ عام راہ‘‘
………
یہاں صرف چار نمونے پیش کیے ہیں، خدا جھوٹ نہ بلوائے، شاد صاحب نے اس طرح کے سیکڑوں ہی نمونے تیار کیے ہیں اور مضمون اس طوالت کا متحمل نہ ہو سکے گا ورنہ کچھ اور نمونے پیش کرتا۔ اس کے بعد شادؔ صاحب کی رباعیوں اور قطعات کے چند نمونے پیش کرتا ہوں تاکہ یہ گوشہ بھی سامنے آ جائے :
رباعیات شادؔ عارفی:
خوش لباس مگر پریشاں حالی
ہر ترقی کی آپ میں پامالی
مونڈھے کے اصول پر ہے ساری شیخی
سر پہ جالی تو پیٹ بالکل خالی
………
پاکبازی سے پیٹ بھرتے رہیے
عاقبت پر نگاہ کرتے رہیے
خوشنودیِ ربِّ دو جہاں کی خاطر
ہر مصیبت پہ شکر کرتے رہیے
………
جن کی ذہنیتیں ہیں رہینِ کجی
جانتے ہیں مجھے ترقی نہ سجی
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمت لیکن
بھینس کے آگے بین مجھ سے نہ بجی
………
غمِ حالات سے جو واقف ہوتے
دولتِ اتحاد ہی کیوں کھوتے
ہے ہمارے نفاق کی دہ مثال
جیسے پنجرے میں لڑ رہے ہوں توتے
………
ہر تھپیڑے پہ مسکرانا بہتر
زندگانی سے ہاتھ اُٹھانا بہتر
جس کنارے میں جذب ہو محکومی
اس کنارے سے ڈوب جانا بہتر
……
……
جنگل میں جو ذکر شہر دہراتا ہے
وہ سیر کے واسطے ہی کیوں آتا ہے
سبزے پہ کسی فکر میں ٹہلنے والا
سبزے کی طراوٹوں کو جھٹلاتا ہے
قطعات
بلند و پست میں نسبت ہے غیر قانونی
غرور و عجز میں رشتہ، سماج بکتی ہے
کسی امیر کی لڑکی کسی غریب کے ساتھ
نکاح عیب سمجھتی ہے، بھاگ سکتی ہے
………
لبوں پر بادۂ احمر نہ روشن سُرخ رخسارے
کہیں چھُپتے بھی ہیں لوگوں سے جلوے ہجر کے مارے
ہمیں عبرت دلا سکتے ہیں، فرحت لا نہیں سکتے
چمن میں صبح کو جھلسے ہوئے پھولوں کے نظارے
………
غم انجام سے مضطر نہ ہو دم لے اے دوست
سطحی ہوتے ہیں آغاز کے حملے اے دوست
عیش کے ساتھ ہے انجام زوال آمادہ
عیش و غم پیش کریں لوگ تو غم لے دوست
مستزاد:
رخنہ کارِ امنِ عالم جو بھی ہو بد ذات ہے … لیکن اتنی بات ہے
چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیر ی رات ہے … سوچنے کی بات ہے
مدرسوں میں پیٹتے پھرتے ہو شخصیت کے ڈھول… کیوں مچا رکھی ہے پول
شیخ صاحب آپ کی کیا ذات کیا اوقات ہے … سوچنے کی بات ہے
………
اب کچھ نمونہ غیر طنزیہ کلام کا پیش کر رہا ہوں اور اس سلسلے میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے شادؔ صاحب کا ہی ایک مقطع پیش کیے دیتا ہوں :
میں کسی رنگ میں مجبور نہیں ہوں اے شادؔ
ورنہ ہر شخص کا ایک طرزِ بیاں ہوتا ہے
غیر طنزیہ کلام
بے خودی کے بعد آتا ہے مقام آگہی
مجھ کو دیوانہ بنا کر ہوش میں لایا گیا
التماسِ حال پر کچھ اور تڑپا یا گیا
یعنی کم ظرفوں کا طرزِ فکر اپنایا گیا
مسکرا کر وہ سنی کو ان سنی کرتے رہے
ہم نے سمجھا یا جہاں تک ہم سے سمجھایا گیا
یا تو ساقی جانتا ہے یا مجھے معلوم ہے
جس طرح محفل میں مجھ تک جام پہنچایا گیا
………
مدّتوں ہم نے جبیں سائی کی
پھر بھی اُس بُت نے نہ سنوائی کی
ڈال دیں اپنے گلے میں بانہیں
نہ بنی بات جو انگڑائی کی
………
پھول پھول چہروں سے، مد بھرے غزالوں سے
ہم بتوں پہ مرتے ہیں سیکڑوں مثالوں سے
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
ورنہ کون واقف تھا، ان پری جمالوں سے
………
سرِ مژگاں جو دمکتا ہے، جو آنسو ہے ابھی
اس کے دامن پہ ڈھلک جائے تو پارا ہو گا
………
تمھارے عشق میں جس دن سے مبتلا ہوں میں
سکونِ قلب و جگر کو ترس گیا ہوں میں
فریب رسمِ محبت کو پا گیا ہوں میں
خطا معاف کہ اب تم کو بھولتا ہوں میں
تم اور زیورِ حسنِ وفا، معاذ اللہ!
اسی فریب میں برسوں پھنسا رہا ہوں میں
………
بنا پائی نہ ذرّے کو نگینا
تو پھر مصرف ترا اے چشمِ بینا
سرہانے کون رکھ جاتا ہے مینا
خدا کا نام لینا اور پینا
کہاں ہیں تجربہ کارانِ خلوت
دھڑکتا ہے مرا دل اُس کا سینا
………
جس طرف جائیں اُدھر اے کاش میخانہ پڑے
تاکہ دل پینے کو چاہے اور سمجھانا پڑے
اس تامل میں۔ نہ آ جائے کسی کافر پہ دل
سیکڑوں پیغام رنگ و رقص ٹھکرانا پڑے
دیکھنا یہ ہے زوال آئے جو بزمِ عیش پر
کون مینا پائے کس کے ہاتھ پیمانہ پڑے
شادؔ اس ماحولِ غمگیں میں نشاط آور غزل
خوش گلو شاعر کو جیسے مرثیہ گانا پڑے
………
ہلکا سا تبسم ترے لب ہائے حسیں پر
مجبور نہ کر مجھ کو محبت کے یقین پر
اے تو کہ شرارت سے نہیں پاؤں زمیں پر
تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشیں پر
حق ہے کہ ستاؤ مگر اتنا نہ ستاؤ
پڑ جائے مری آنکھ کسی اور حسیں پر
سجدوں میں تکلف سے مجھے اور بجا ہے
لکھا ہے ترا نام مری لوحِ جبیں پر
ہاں ہم نے ہی کھائے ہیں دلِ زار پہ چرکے
ہم قتل بھی ہو جائیں تو الزام ہمیں پر
وہ میرے لیے موردِ الزامِ محبت
آتا ہے ترس شادؔ مجھے حسنِ حزیں پر
………
گریۂ غم کا محبت پہ اثر پڑتا ہے
کچھ دکھائی بھی تجھے دیدۂ تر تو پڑتا ہے
شادِ مغموم جو مسرور نظر پڑتا ہے
سچ کہا ہے کہ تخلص کا اثر پڑتا ہے
صرف کعبہ ہی نہ دورانِ سفر پڑتا ہے
میں جدھر جاؤں اُدھر آپ کا گھر پڑتا ہے
حُسنِ کافر کا بھرم کھلتا ہے پاس آنے پر
وہ نہیں ہوتا ہے منظر جو نظر پڑتا ہے
………
تری نگاہ میں احساس کا لہو پا کر
کہیں شراب نہ پینے لگوں میں گھبرا کر
کلی کلی نے چھپایا ہے رازِ نکہتِ رنگ
حقیقتوں کو تامل کے بعد رسوا کر
وہ کیا ہنسیں گے جنھیں تازگی نصیب نہیں
وہ کیا کھلیں گے جو دِل رہ گئے ہیں مرجھا کر
کبھی تو میری طرف بھی نگاہِ ناز اُٹھا
شعورِ بزم کی بابت کبھی تو سوچا کر
بُرے پہ نام خزاں کا نکل گیا ورنہ
چمن چمن کو بہاریں گئی تھیں ٹھکرا کر
………
دیکھتی رہتی ہیں آنکھیں کون ہے کس رنگ میں
سوچتی رہتی ہے دنیا کس کو رسوا کیجیے
………
راستی قدِ خوباں پہ نہ جاؤں
فائدہ مند نہیں سرو کی چھاؤں
آپ ہی مجھ سے کھنچے رہتے ہیں
میں تو کانٹوں سے بھی دامن نہ بچاؤں
قدر گلہائے چمن ہے اس سے
کیوں میں گلچیں کو نہ سینے سے لگاؤں
اہلِ گلشن بھی پرائے تو نہیں
اہلِ گلشن سے بہر طور نبھاؤں
آپ کے دل کو اذیت ہو گی
میں اگر آپ کی باتوں میں نہ آؤں
حد کا جب کوئی تعین ہی نہیں
غیر ممکن، قدم آگے نہ بڑھاؤں
……
جب شفق کی آڑ میں کوئی سرِ بام آ گیا
جگمگا اٹھی فضائے آسمان کوئے دوست
ہر صداقت رنگ لاتی ہے مگر تاخیر سے
دوست بنتے جا رہے ہیں دشمنانِ کوئے دوست
آج کل راتیں بڑی ہیں اس لیے دن گھٹ گیا
تھے کبھی ہم لوگ بھی شایانِ شانِ کوئے دوست
………
دوسرے شاعر جہاں روتے ہیں میں ہنستا ہوں شادؔ
مسکرانا جس کی فطرت ہو وہ رونے سے رہا
………
کوندتا ہے جب کوئی جگنو شفق بجھنے کے بعد
میں چمن کو دیکھ لیتا ہوں، چمن میری طرف
………
شمع بجھتی ہے روشنی دے کر
جان دے زندگی بنانے میں
یہ ہرے قمقمے، یہ آدھی رات
اب نہ جھانکو نگار خانے میں
………
دوسروں کی راہ میں کانٹے بچھا دینے کے بعد
آدمی تکلیف پہنچاتا ہے اپنی ذات کو
ہم اُجالوں کے پجاری تم اندھیروں کے دھنی
دن میں ذرّے جگمگاتے ہیں ستارے رات کو
………
بزم کونے جھانکنے لگتی ہے جن حالات میں
روح کو تسکین ملتی ہے خدا کی ذات میں
کیوں اُمیدیں باندھیے تاریک مستقبل کے ساتھ
کیا بنے گا چند تاروں سے اندھیری رات میں
………
شادؔ صاحب کے اس قدر انتخاب کے بعد میں سمجھتا ہوں اُن کا بس اب ایک ہی گوشہ باقی رہ جاتا ہے جو نظم کا ہے لیکن نظموں کا انتخاب دینا میں اس لیے ضروری نہیں سمجھتا کہ اگر نظم کے کچھ بند انتخاب کرنے جائیں تو شاعر کی بات واضح ہو کر ہمارے سامنے نہیں آسکتی، شاعری کا خون تو ہو سکتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ اس طرح کے دو دو چار چار بند ہر نظم کے انتخاب کر کے مضمون میں کھپا دینے سے شاعر کے حقیقی رنگ سے روشناس کر دیا جائے یا نظم مکمل سامنے آئے تاکہ قاری اندازہ کر سکے کہ شاعر نے نظم کا آغاز کس طرح کیا تھا، درمیان میں نظم کو کس کس موڑ سے گزار کر اُس کا اختتام کس طرح کیا۔ اس کے برخلاف نظم کے کچھ بند لے لیے جائیں تو نظم کا تاثر مفقود ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں انتخاب سے گریز کرتے ہوئے کچھ نظموں کے عنوانات بتا دینا چاہتا ہوں تاکہ شادؔ صاحب کے اندازِ فکر کا عکس آپ کے سامنے آ جائے۔ شادؔ صاحب کی نظموں کے سلسلے میں اتنا اور بتا دوں کہ اُن کی کوئی بھی نظم ہوائی نہیں ہے۔ ہر نظم کا ماڈل اُن کے سامنے رہا ہے۔ کوئی بھی موضوع ہو اس پر پہلے شادؔ صاحب نے عمیق نگاہی سے مشاہدہ کیا ہے اور بعد میں نظم کے سانچے میں ڈھال دیا اس لیے ان کی بیشتر نظمیں واقعیت کی حامل ہیں، بے شمار طنزیہ نظموں میں سے کچھ کے عنوانات یہ ہیں :
’’ مرے پڑوس میں کچّی شراب بکتی ہے ‘‘، ’’مرے محلے کے دو گھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری‘‘، ’’ان اونچے اونچے محلوں میں ‘‘، ’’ رنگیلے راجا کی موت‘‘، ’’ پُرانا قلعہ‘‘ ( جو غالباً ابھی شائع نہیں ہوئی)، ’’ مہترانی‘‘، ’’ شوفر‘‘، ’’اوجھل کے پاس‘‘، ’’ساس‘‘، ’’نوکرانی‘‘، ’’ دیہاتی لاری‘‘، ’’ فسانہ نا تمام‘‘، ’’ سماج‘‘( یہ دونوں نظمیں محبت میں ناکام ہونے کے بعد کہی تھیں )، ’’ شطرنج‘‘، ’’ دھوبی‘‘، ’’ دلال‘‘، ’’ پیر دہقاں ‘‘، ’’ پُرانے کوٹ‘‘، ’’مغرب زدگی‘‘ ’’ نمائش نمبر ۱ ‘‘، ’’ نمائش نمبر ۲‘‘، ’’ نمائش نمبر ۳‘‘، ’’ نمائش نمبر ۴‘‘، ’’ ابھی جبلپور جل رہا ہے۔ ‘‘ اور اس طرح کی بے شمار نظمیں کہی ہیں جو بھر پور طنز کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاد صاحب نے رومانی نظمیں بھی کافی کہی ہیں ان میں ’’ گنگا اشنان‘‘، ’’ دسہرہ اشنان‘‘، ’’ خط کی چوری‘‘، ’’ غازہ‘‘ ’’ اس کی واپسی‘‘، ’’ مفارقت‘‘، ’’ مندر جانے والی‘‘، ’’ایفائے وعدہ‘‘، ’’نوروز‘‘ ان کی بہت مشہور نظمیں ہیں۔ ان دونوں موضوعات کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی کافی نظمیں لکھی میں مثلاً ’’ گوالن‘‘، ’’ گیہوں نے کہا ‘‘، ’’ حریت‘‘، ’’ عورت ‘‘، ’’ نفسیات سرما‘‘، ’’ بیوہ‘‘، ’’ یارانِ سیاست سے ‘‘، ’’ ہولی‘‘، ’’ دیوالی‘‘، ’’گاؤں ‘‘، ’’ ہمارے نو جوان‘‘، ’’ رسمی قید خانے ‘‘ وغیرہ
بلا مبالغہ سیکڑوں نظموں میں سے یہ چند عنوانات ہیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شاد صاحب کسی بھی جگہ مجبور نہیں۔ غزل میں وہ موجود، قطعہ میں وہ موجود، رباعی پر ان کو قدرت، طویل نظمیں انھوں نے کہیں، طربیہ نظمیں اُن کے ہاں موجود، مستزاد اُن کی شاعری میں موجود، اور ان سب سے زیادہ بیش قیمت اور جہاں تک میرا خیال ہے ان کا نام تا قیامت زندہ رکھنے والی چیز وہ ہو گی جو حضرت عمر فاروقؓ کی منظوم سیرت ہے جسے شادؔ صاحب آخری عمر میں نظم کر رہے تھے۔ ایسے ہمہ صفت شاعر کا تعارف اس مختصر مضمون میں کس طرح ممن تھا لیکن بہر طور تفصیلی جائزہ نہیں تو اجمالی خاکہ پیش کر دیا ہے۔ اب آپ بھی اکتا گئے ہوں گے اس لیے میں بھی مضمون ختم کرتا ہوں ورنہ ہو سکتا ہے کوئی دل جلا سوداؔ کا یہ مقطع پڑھ کر میری تمام محنت پر پانی پھیر دے اور میں منہ دیکھتا رہ جاؤں :
سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں
٭٭٭
تشکر: پرویز مظفر، جنہوں نے اصل کتاب کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید