FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سید احمد شہیدؒ اور تحریکِ جہاد

               نا معلوم

 

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’من المؤمنین رجال صدقوا ما عاہدوا للہ علیہ فمنہم من قضیٰ نحبہ ومنہم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا‘‘۔ (الاحزاب:۳۳)

ترجمہ:․․․’’ان ایمان والوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچ کر کے دکھا یا پھر ان میں کچھ وہ ہیں جو اپنی نذر پوری کر چکے اور کچھ وہ ہیں جو شہادت کے مشتاق ہیں اور انہوں نے ذرا سا بھی بدل نہیں کیا‘‘۔ مجدد سرہندیؒ اور مجدد دہلی کے فضل و کمال اور مجاہدہ : یہ سادات حسنی کا خاندان تھا، جس میں مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمات کا فیض آ کر مل گیا تھا، اس خاندان کا آغاز شیخ الاسلام امیر کبیر قطب الدین مدنیؒ سے ہوا، جنہوں نے ساتویں صدی ہجری کی ابتداء میں ہندوستان آ کر جہاد کیا، اس خاندان کے آخری مورث سید علم اللہ ہیں جو عالم گیر کے زمانہ میں تھے اور حضرت مجدد الف ثانی کے مشہور خلیفہ اور جانشین حضرت سید آدم بنوریؒ کے فیض سے مستفید اور مشرق کے دیار میں ان کے خلیفہ خاص تھے، اس خاندان کے ممتاز افراد مجدد دہلوی شاہ ولی اللہ کے فیض درس اور فیض صحبت سے سیراب تھے، اس طرح اس خاندان میں حضرت مجدد الف ثانی سرہندیؒ اور مجدد شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی برکتیں اور سعادتیں جمع ہو گئیں۔ تیرھویں صدی کا آغاز تھا کہ اس خاندان میں چودھویں کا چاند طلوع ہوا۔ یعنی ۱۲۰۱ھ میں مجاہد کبیر حضرت سید احمد شاہ شہیدؒ کی پیدائش ہوئی۔ چند سال کے بعد یہ مجاہدہ و عرفان، نفس کشی اور خدا شناس کا آفتاب بن گیا۔ رسول اللہ اکا ایک غیر فانی معجزہ یہ ہے کہ آپ اکے فیض کا چشمہ کبھی خشک نہیں ہونے پاتا، آپ ا کا نمونہ آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا، آپ کی امت کی ضرورتیں زیادہ دیر تک اٹکی نہیں رہتیں اور وہ اس طرح کہ آپ اکی مشعل نور سے براہ راست مسلسل طریقے پر سینکڑوں مشعلیں روشن ہوتی رہی ہیں اور قیامت تک ہوتی رہیں گی۔ جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اللہ کا کام بند نہیں ہوا، اللہ کا دین زندہ ہے، رسول اللہ ا کی پیروی ہر زمانے میں ممکن ہے اور انہیں کی وجہ سے خاتم النبین کے بعد کسی نبی کی عملاً ضرورت نہیں۔ اسلام ایک دین ہے، اس کے لئے ایک خاص قسم کی اعتقادی، دینی، اخلاقی تربیت اور انقلاب کی ضرورت ہے۔ نیز بہت بڑے ایثار اور قربانی کی اور جان و مال کا ایثار بھی، اور اس کے خلاف ہرقسم کے خیالات و رجحانات اور ارادوں اور خواہشوں کی قربانی بھی۔ اسلامی دعوت کے علمبرداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قدیم و جدید تمام مخالف مؤثرات ماحول اور مخالف ذہنی تربیت کے اثرات سے آزاد ہو چکے ہوں اور اس کے اصول و نظام پر پورا ایمان لا چکے ہوں اور ذہنی و عملی طور پر اس کے حلقۂ بگوش ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں اللہ تعالیٰ دو شخصوں کو پیدا نہ کرتا اور ان سے دین کی دستگیری نہ فرماتا توہندوستان سے دین کا نام و نشان مٹ جاتا  (یوں تو اللہ تعالیٰ اپنے دین کا نگہبان ہے۔ لیکن بظاہر ہندوستان کے مسلمانوں کے جلیل القدر محسن اور اسلام کے عظیم الشان پیشوا حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ شیخ احمد سرہندی ؒ اور شیخ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ ہیں۔ احیاء اسلام اور خدمت شرع کے تذکرے میں ان نائبانِ رسول اللہﷺ  اور درویشوں کے ساتھ ایک دیندار بادشاہ محی الدین اورنگ زیب عالم گیر مرحوم کا نام بھی زبان پر آتا ہے۔ ’’ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء․․․‘‘ یہ بڑائی اللہ کی ہے دیتا ہے جس کو چاہے۔

سید احمد شہیدؒ کے ابتدائی حالات

سلسلۂ نسب

سید احمد بن سید محمد عرفان بن سید محمد نور بن سید محمد ہدی بن سید علم اللہ بن سید محمد فضیل بن سید محمد معظم بن سید احمد بن قاضی سید محمد بن سید علاؤ الدین بن سید قطب الدین محمد ثانی بن سید صدر الدین ثانی بن سید زید الدین بن سید احمد بن سید علی بن سید قیام الدین بن سید صدر الدین بن قاضی سید رکن الدین بن امیر سید نظام الدین بن امیر کبیر سید قطب الدین محمد الحسنی الحسینی المدنی الکڑوی بن سید رشید الدین احمد مدنی بن سید یوسف بن سید عیسیٰ بن سید حسن بن سید ابی الحسن علی بن ابی جعفر محمد بن قاسم بن ابی محمد عبد اللہ بن سید حسن الاعور الجواد نقیب کوفہ بن سید محمد ثانی بن ابی محمد عبد اللہ الاشتر بن سید محمد صاحب النفس الزکیہ بن عبد المحض بن حسن مثنی بن امام حسن بن امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ۔ حسن مثنی کی شادی اپنے عم نامدار شہید کربلا کی صاحبزادی فاطمہ صغریٰ سے ہوئی تھی اس لئے اس خاندان کو حسنی حسینی کہا جاتا ہے۔

تعلیم

جب آپ کی عمر چار سال کی ہوئی تو شرفا کے دستور کے مطابق آپ مکتب میں بٹھائے گئے لیکن لوگوں نے تعجب سے دیکھا کہ آپ کی طبیعت خاندان کے اور لڑکوں اور اپنے ہم عمروں کے برخلاف علم کی طرف راغب نہیں، تین سال مکتب میں گذر گئے صرف قرآن مجید کی چند سورتیں یا د ہوسکیں اور مفرد و مرکب الفاظ لکھنا سیکھ سکے۔

آپ کے مشاغل

آپ کو بچپن میں کھیل کا بڑا شوق تھا، خصوصاً مردانہ اور سپاہیانہ کھیلوں کا۔ کبڈی بڑے شوق سے کھیلتے۔ اکثر لڑکوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے قلعہ پر حملہ کرتا اور فتح کرتا، اس طرح نادانستہ آپ کی جسمانی و فوجی تربیت کی جا رہی تھی۔

آپ کی ورزش

اللہ تعالیٰ جس سے جو کام لینا چاہتا ہے، اس کے لئے اس کا سامان اور اس کا شوق پیدا کر دیتا ہے اور اس قسم کی تربیت فرماتا ہے۔ سید صاحب سے اللہ تعالیٰ نے جو کام لینا تھا، اس کے لئے جسمانی قوت و تربیت کی ضرورت تھی، چنانچہ آپ کو ابتداء سے بہت زیادہ توجہ اسی طرف تھی اور آپ کے بچپن کے کھیلوں میں بھی یہ چیز نمایاں تھی، سید عبد الرحمن مرحوم سپہ سالار افواج نواب وزیر الدولۃ مرحوم سید صاحب کے چھوٹے بھانجے تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی عادت تھی کہ سورج نکلنے کے گھنٹوں بعد تک ورزش اور کشتی میں مشغول رہتے۔ میں بچہ تھا، آپ کے بدن پر مٹی ملتا، یہاں تک کہ وہ مٹی خشک ہو کر جھڑ جاتی، پیروں پر مجھے کھڑا کر کے پانچ سو ڈنٹ لگاتے پھر کچھ دیر ٹھہر کر پانچ سو اور لگائے۔

خدمت خلق

جب آپ سن بلوغ کو پہنچے تو آپ کو خدمت خلق کا ایسا ذوق پیدا ہوا کہ اچھے اچھے بزرگ اور خدا پرست انگشت بدنداں رہ گئے۔ ضعیفوں، اپاہجوں اور بیواؤں کے گھروں پر دونوں ہی وقت جاتے، ان کا حال پوچھتے اور کہتے: اگر لکڑی، پانی، آگ وغیرہ کی ضرورت ہو تو لے آؤں؟ وہ لوگ آپ ہی کے بزرگوں کے مرید اور خادم تھے۔ کہتے: میاں! کیوں گنہگار کرتے ہیں، ہم تو آپ اور آپ کے باپ دادا کے غلام ہیں، ہماری مجال ہے کہ ہم آپ سے کام لیں، آپ ان کو خدمت گزاری اور اعانت کی فضیلت اس طرح سناتے کہ وہ زار و قطار روتے۔اور باصرار ان کی ضرورتیں معلوم کر کے پوری کرتے، بازار سے ان کے لئے سوداسلف لاتے، لکڑی لاد کر اور پانی بھر کر لاتے اور ان کی دعائیں لیتے اور کسی طرح سے اس کام سے سیری نہ ہوتی۔

عبادات

اسی کے ساتھ آپ کو عبادت و ذکر الٰہی کا بے حد ذوق تھا، رات کو تہجد گزاری اور دن کو خدمت گزاری اور تلاوت، دعا اور مناجات میں مشغول رہتے، قرآن مجید میں تدبر فرماتے رہتے اور یہی آپ کا مشغلہ تھا۔

دہلی کا قیام اور حضرت شاہ عبد العزیز سے ملاقات

آپ جوان ہو چکے تھے، والد کا انتقال ہو چکا تھا، حالات کا اقتضاء تھا کہ آپ ذمہ دارانہ زندگی میں قدم رکھیں اور تحصیل معاش کی فکر کریں۔ آپ کی عمر ۱۷،۱۸ سال کی تھی کہ ۱۲۱۸ھ یا ۱۲۱۹ھ میں اپنے سات عزیزوں کے ساتھ لکھنؤ چلے گئے، لکھنؤ رائے بریلی سے انچاس میل کی مسافت پر ہے۔ لکھنؤ پہنچ کر سب ساتھی روز گار کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرنے لگے، دن بھر دوڑ دھوپ کرتے مگر بے کار تھا۔ خرچ بھی ختم ہو رہا تھا اور اب دو وقت کھانے کے بھی لالے پڑ رہے تھے،سوائے سید صاحب کے ہر شخص پریشان اور متفکر تھا، سید صاحب اپنے عزیزوں کو سمجھاتے رہے اور فرماتے۔ عزیزو! اس تلاش وجستجو اوراس تکلیف و مصیبت کے باوجود دنیا تمہیں نہیں ملتی، ایسی دنیا پر خاک ڈالو اور میرے ساتھ دہلی چلو اور شاہ عبد العزیزؒ کا وجود غنیمت سمجھو۔ لیکن آپ کے ساتھی دوسرے عالم میں تھے، یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی، بلکہ ہنستے تھے۔

 سید صاحب لکھنؤ سے دہلی پہنچ کر شاہ عبد العزیز ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شاہ صاحبؒ نے مصافحہ و معانقہ فرمایا اور اپنے برابر بٹھایا اور دریافت کیا: کہاں سے تشریف لائے؟ آپ نے فرمایا: رائے بریلی سے، فرمایا: کس خاندان سے؟ کہا: وہاں کے سادات میں شمار ہے۔ فرمایا: سید ابو سعید صاحب اورسید نعمان صاحب سے واقف ہیں؟ سید صاحب نے فرمایا: سید ابو سعیدؒ میرا نانا اور سید نعمان صاحبؒ میرے حقیقی چچا ہیں۔ شاہ صاحب نے اٹھ کر دو بارہ مصافحہ و معانقہ کیا اور پوچھا: کس غرض کے لئے اس طویل سفر کی تکلیف برداشت کی۔ سید صاحب نے جواب دیا: آپ کی ذات مبارک کو غنیمت سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی طلب کے لئے یہاں پہنچا۔ شاہ صاحب نے فرمایا: اللہ کا فضل اگر شامل حال ہے تو اپنے ’’ددھیال اور ننھیال‘‘ کی میراث تم کو مل جائے گی۔ اس وقت آپ نے ایک خادم کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا: سید صاحب کو بھائی مولوی عبد القادر صاحب کے ہاں پہنچا دو اور آپ کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے کر کہنا کہ اس عزیز مہمان کی قدر کریں اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کریں۔ ان کا مفصل حال ملاقات کے وقت بیان کروں گا۔ چنانچہ سید صاحبؒ شاہ عبد القادر صاحبؒ کی خدمت میں اکبر آبادی مسجد میں رہنے لگے۔ یہ بھی حسین اتفاق ہے کہ آپؒ کو اس مبارک خاندان کے دونوں بزرگوں سے استفادے کا موقعہ ملا۔ شاہ صاحبؒ کو سید صاحبؒ سے بڑی محبت تھی اور ایک روایت کے مطابق انہوں نے سید صاحبؒ کی بعض ادائیں دیکھ کر شاہ عبد العزیزؒ سے مانگ لیا تھا۔ آپ نے شاہ عبد القادر ؒ سے کچھ پڑھنا بھی شروع کر دیا تھا۔ہر دو ممتاز علماء مولانا شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا عبد الحی صاحبؒ کو لے کر حضرت سید صاحب ۱۸۲۰ء میں مشرقی اور جنوبی صوبہ جات کے دورہ پر روانہ ہو گئے،۔

انگریز ڈبلیو ہنٹر لکھتا ہے کہ:

’’۱۸۲۰ء میں اس مجاہد نے آہستہ آہستہ اپنا سفر جنوب کی طرف شروع کیا اور ان کے مرید ان کی روحانی فضیلت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ادنیٰ ادنیٰ کام کو بخوبی سرانجام دیتے تھے اور صاحب جاہ اور علماء کے لئے عام خدمت گاروں کی طرح ان کی پالکی کے ساتھ ننگے پاؤں دوڑنا اپنے لئے فخر سمجھتے تھے۔پٹنہ میں ایک مستقل مرکز قائم کرنے کے بعد انہوں نے دریائے گنگا کے ساتھ ساتھ کلکتہ کی طرف کوچ کیا، راستے میں لوگوں کو سلسلۂ مریدی میں داخل کرتے جاتے تھے۔ کلکتہ میں ان کے ارد گرد اس قدر ہجوم ہو گیا تھا کہ لوگوں کو مرید کرتے وقت اپنے ہاتھ پر بیعت کرانا ان کے لئے مشکل تھا۔ بالآخر انہیں پگڑی کھول کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہر وہ شخص جو اس کے کسی حصے کو چھولے گا ان کا مرید ہو جائے گا‘‘۔ (ہمارے ہندوستانی مسلمان ص:۱۴-۱۵ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر)

حج کا عزم اور اس کی تبلیغ

اس سفر سے ہزاروں بلکہ لاکھوں بندگانِ خدا کی اصلاح ہوئی، ان کے اخلاق،  اعمال اور عقائد درست ہوئے، جہاد کی تلقین اور دعوت کے لئے زمین تیار ہو گئی۔ پنجاب سے برابر خبریں،  مظالم کی آ رہی تھیں، انگریز بھی مطمئن ہو کر اپنے مظالم کی کڑیاں اس زنجیر میں جس میں ہندوستانیوں کو باندھ رکھا تھا، بڑھا تا جا رہا تھا۔ مگر چونکہ ہندوستان کے اہلِ ثروت فریضۂ حج ادا کرنا چھوڑے ہوئے تھے، کیونکہ خشکی کے راستہ سے مکہ معظمہ جانا بہت ہی طویل مدت اور بہت زیادہ مشقت اور بہت زیادہ مصارف کا متقاضی اور طالب تھا، مختلف ممالک، افغانستان، ایران، عراق، نجد وغیرہ درمیان میں حائل تھے اور بحری راستہ سمندر کے تلاطم اور طوفان کی وجہ سے لوگوں کی ہمتوں کو پست کئے ہوئے تھا۔ سید صاحبؒ نے ضروری سمجھا کہ فریضہ ٴ حج کی ادائیگی میں جو خوف اور کم ہمتی لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے، اس کو نکالا جائے اور اس کی ہمت پیدا کی جائے، چنانچہ ۱۸۲۲ء میں ایک بڑے قافلہ کے ساتھ آپ نے کلکتہ بندرگاہ سے عرب کا سفر کیا، شوال ۱۲۳۶ھ میں سفر حج کے لئے وطن سے روانگی ہوئی، راستہ میں مختلف مقامات پر جو گنگا کے کنارے پڑتے تھے ٹھہرتے اور تبلیغی خدمات انجام دیتے ہوئے کئی مہینہ کے بعد کلکتہ پہنچے، کلکتہ میں بھی تقریباً تین مہینے قیام کرنا پڑا، قافلۂ حجاج کی تعداد اس قدر زیادہ ہو گئی تھی کہ گیارہ جہاز کرایہ کے لئے گئے۔ وطن سے روانہ ہو کر گیارہ مہینہ بعد یہ قافلہ بخیریت و عافیت مکہ معظمہ پہنچا۔ حج کرنے کے بعد مدینہ منورہ کو روانگی ہوئی اور وہاں تین ماہ سے کچھ زائد قیام کرنے کے بعد مکہ معظمہ کو واپس ہوئے۔ یکم ذیقعدہ ۱۲۳۸ھ مکہ معظمہ سے واپس ہوئے۔ حجاز میں کل قیام چودہ مہینہ رہا۔۲۹  شعبان ۱۲۳۹ھ کو ایک سال نو ماہ کے بعد وطن عزیز میں داخل ہوئے۔ (نقش حیات ص: ۴۳۰-۴۳۳ مولانا سید حسین احمد مدنیؒ)

تحریک جہاد اور اس کے مقاصد

۲۹ شعبان کو جب یہ قافلۂ حج واپس وطن پہنچا تو سید صاحبؒ ہمہ تن جہاد کی تیاریوں میں مشغول ہو گئے، لیکن شاہ عبد العزیز صاحبؒ جن کی سرپرستی میں یہ تحریک منظم کی جا رہی تھی، اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور سید صاحبؒ کو یہ موقع نہیں مل سکا کہ حج سے واپسی کے بعد حاضر خدمت ہو کر اپنی جماعت کے حالات اور آئندہ کے بارے میں شاہ صاحبؒ سے مناسب ہدایات حاصل کرسکتے، ورنہ اس سے پہلے سید صاحبؒ کی ہر اصلاحی اور تبلیغی مہم کا آغاز دہلی سے ہوا۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ سید صاحبؒ کی تحریک جہاد کے سرگرم ارکان مولانا عبد الحئ ؒ،  مولانا شاہ محمد اسماعیل ؒ اور مولانا محمد یوسف ؒ پھلتی تھے، جن کی تحریر و تقریر اور عملی کوششوں سے یہ تحریک پروان چڑھی اور ہندوستان کے گوشے گوشے میں اس کا تعارف ہوا اور یہ تینوں حضرات خاندان ولی اللہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

سید صاحب کی شہرت اور قبول عام کی ابتداء مولانا عبد الحئ اور شاہ اسماعیل ؒ کی بیعت سے ہوئی تھی اور ان حضرات کی بیعت خود شاہ عبد العزیزؒ کی ترغیب اور مشورے کا نتیجہ تھی، لہذا سید صاحبؒ کی تحریک ِ جہاد کو استقلالِ امت اور احیاءِ دین کی اس تحریک سے الگ نہیں کیا جا سکتا جس کو حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے شروع کیا تھا اور ۱۱۷۴ھ ۱۷۴۱ء میں نواب نجیب الدولہ کی وساطت سے احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں پانی پت کے تاریخی میدان میں مرہٹوں کا زور ختم کر کے دہلی کے اسلامی مرکز کو ان کے خطرات سے محفوظ کر لیا تھا، پھر اس تحریک کو حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ نے درس وتدریس اور وعظ و ارشاد کے ذریعہ ملک کے گوشے گوشے میں پھیلا دیا اور اپنے مشہور فتویٰ ’’دار الحرب‘‘ کی اشاعت سے ہجرت و جہاد کی اس تحریک کو جسے ان کے خاندان کے جگر گوشوں اور روحانی فرزندوں نے عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا تھا، مزید تقویت پہنچائی تھی، یہ تمام حقائق اس امر پر ہیں کہ یہ تحریک تاریخی تسلسل کے ساتھ لگاتار جاری رہی۔ (بریلی سے بالاکوٹ مصنف قمر احمد عثمانی ماخوذ ص:۱۱۹-۱۲۰)۔

سید صاحب کا اصل مقصد چونکہ ہندوستان سے انگریزی تسلط و اقتدار کا قلع قمع کرنا تھا، جس کے باعث ہندو اور مسلمان دونوں پریشان تھے اس بناء پر آپ نے اپنے ساتھ ہندوؤں کو شرکت کی دعوت دی اور اس میں صاف صاف انہیں بتا دیا کہ آپ کا واحد مقصد ملک سے پردیسی لوگوں کا اقتدار ختم کرنا ہے

وبہ جات کے درو ارجاز عبید ا د

، چنانچہ اس سلسلہ میں سرحد سے ریاست گوالیار کے مدار المہام اور مہاراج دولت رائے سیندھیا کے وزیر برادر نسبتی راجہ ہندو راؤ کو آپ نے جو خط تحریر فرمایا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔فرمایا:

’’جناب کو خوب معلوم ہے کہ یہ پردیسی، سمندر پار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجدار اور یہ سودا بیچنے والے تاجرسلطنت کے مالک بن گئے ہیں۔ بڑے بڑے امیروں کی امارت اور بڑے بڑے اہل حکومت کی حکومت اور ان کی عزت کو انہوں نے خاک میں ملا دیا ہے۔ جو حکومت وسیاست کے مرد میدان تھے، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، اس لئے مجبوراً چند غریب و بے سرو سامان کمربستہ ہو گئے ہیں اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے، یہ اللہ کے بندے ہرگز دنیا دار اور جاہ طلب نہیں ہیں، محض اللہ کے دین کے لئے اٹھے ہیں، جس وقت ہندوستان ان غیر ملکی دشمنوں سے خالی ہو جائے گا اور ہماری کوششوں کا تیر مراد کے نشانوں تک پہنچ جائے گا، حکومت کے عہدے اور منصب ان لوگوں کو ملیں گے جن کو ان کی طلب ہو گی اور ان حکام و اہل ریاست کی شوکت و قوت کی بنیاد مستحکم ہو گی۔ ہم کمزوروں کو والیانِ ریاست اور بڑے بڑے سرداروں سے صرف اسی بات کی خواہش ہے کہ جان و دل سے اسلام کی خدمت کریں اور اپنی مسند حکومت پر برقرار رہیں‘‘۔ (نقش حیات مصنف مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ص:۴۱۹ ج:۲، طبع دار الاشاعت کراچی)

پنجاب اور سرحد کے حالات اور سکھ

سکھ پنجاب کا ایک مذہبی گروہ تھا جس کی بنیاد پندرہویں صدی عیسوی میں گرو بابا  نانک کے ہاتھوں پڑی، وہ نفس کشی، اخلاقیات اور سچائی کی تعلیم دیتے تھے۔ سیر المتاخرین کے بیان کے مطابق بابا نانک نے فارسی اور دینیات کی تعلیم ایک بزرگ سید حسین سے حاصل کی تھی اور ان کی بابا نانک پر خصوصی نظر تھی، بعض روایات کے مطابق بابا گرو نانک متعدد مسلمان درویشوں اور فقیروں کی صحبت میں رہے، ان میں پیر جلال، میاں مٹھا، شاہ شرف الدین، پیر عبد الرحمن اور پاک پٹن کے فرید ثانی بعض روایات کے مطابق گرو نانک نے بغداد اور حرمین شریفین کا سفر بھی کیا۔ تیسرے گرو امر داس نے سکھوں کی مذہبی اور معاشرتی تنظیم کے سلسلہ میں سب سے پہلے قدم اٹھایا، اکبر بادشاہ ان کے مکان پر ان سے ملنے گیا اور انہیں ایک بڑی جاگیر عطا کی، انہوں نے اخلاقیات کی تعلیم میں گرو نانک کی تعلیمات کی روح کو قائم رکھا، انہیں کے زمانہ میں امرتسر کے مذہبی مرکز کی بنیاد پڑی، اس طرح سکھوں کی قومی زندگی کے لئے ایک روحانی مرکز تیار ہو گیا۔۱۵۱۸ء میں گرو ارجن اپنے باپ کے جانشین ہوئے، انہوں نے سکھوں کو ایک فرقہ کی حیثیت سے منظم کرنے کی مزید کوشش کی۔ گرو ارجن نے اپنے آپ کو سچا بادشاہ کے نام سے ملقب کیا، جو ان کے سیاسی اقتدار کی ہوس کا پتہ دیتا ہے۔جہانگیر کے حکم سے گرو کو لاہور میں قید کر دیا گیا، اس لئے کہ انہوں نے اس کے باغی شہزادہ خسرو کی مالی امداد کی تھی، وہاں ان کو قتل کر دیا گیا، ان کے جانشین ہرگورند نے علانیہ عملی مدافعت و مزاحمت کا طرز عمل اختیار کیا، جس سے سکھوں کی فوجی زندگی کا آغاز ہوا۔ جہانگیر نے انہیں گوالیار کے قلعہ میں نظر بند کر دیا، لیکن کچھ عرصہ بعد رہا کر دیا گیا۔ شاہ جہان کے تخت نشینی کے فوراً بعد انہوں نے کھلم کھلا سرکشی اختیار کر دی، وہ پہاڑیوں کی طرف نکل گئے، ان کے انتقال کے بعد ۱۶۶۴ء میں اورنگ زیب کے زمانہ میں ہرگووند کے بیٹے تیغ بہادر گرو منتخب ہوئے، انہوں نے مفروروں اور قانون شکنوں کو پناہ دی، اورنگ زیب کے حکم سے ۱۶۷۵ء میں انہیں سزائے موت دی گئی، ان کے بعد ان کے بیٹے گووند رائے کو گرو تسلیم کیا گیا، انہوں نے سکھوں کو ایک جنگجو قوم بنا دیا، اورنگ زیب کے جانشین بہادر شاہ نے انہیں دکن کی فوجی کمان عطا کر دی، لیکن انہوں نے اکتوبر ۱۷۰۸ء میں ایک افغان ملازم کے زخم سے جانبر نہ ہوتے ہوئے انتقال کیا۔ ہرگووند رائے کا جانشین بندہ بیراگی ہوا، اس نے پنجاب میں وسیع پیمانے پر رہزنی کی وارداتیں شروع کر دیں۔

 اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد سلطنت کو زوال آنا شروع ہو گیا، اس کے بیٹوں اور پوتوں کے مابین تخت کے لئے متواتر لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے، جن کی وجہ سے سکھوں کو کھلم کھلا اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کا موقع مل گیا۔ ۱۷۱۰ء میں اس نے سر ہند پر دھاوا بول دیا اور لوٹ مار اور قتل و غارت کے لئے کھلا چھوڑ دیا، قصبہ کے باشندوں پر ہیبت ناک مظالم توڑے گئے، بالآخر ۱۷۱۶ء میں اسے دہلی لا کر قتل کر دیا گیا، اس کی قیادت میں سکھ فوجی طاقت بن گئے۔سلطنت مغلیہ کی زوالی رفتار بہت تیز تھی، پنجاب کی حکومت احمد شاہ ابدالی کے پے درپے حملوں کی وجہ سے کمزور ہو گئی تھی۔ سکھوں کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا، احمد شاہ درانی کے فرزند شاہزاد تیمور کو جو پنجاب کا حاکم تھا نکالنے میں کامیاب ہوئے،  بلکہ لاہور پر عارضی طور پر قبضہ بھی کر لیا، لیکن رگھوبا کے زیر کمان مرہٹوں کی آمد ۱۷۵۸ء پر وہ لاہور سے نکل گئے۔ ۱۷۶۳ء میں سکھوں نے سرہند کو تخت و تاراج کر کے ویران کر دیا۔ایک بار پھر لاہور پر قبضہ کر کے حکومت کا اعلان کر دیا، اس کے بعد سکھ متعدد ریاستوں اور گروہوں میں منقسم ہو گئے، ان پر کوئی حاکم اعلیٰ متعین نہیں تھا اور مذہب کے سوا ان کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ تیس سال کی اس غیر مستقل صورت حال کے بعد پنجاب میں رنجیت سنگھ کا ستارۂ اقبال بلند ہوا، جنہوں نے ان مخالف گروہوں کو ایک مضبوط سلطنت کی شکل میں متحد کر دیا۔ ۱۷۹۹ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور کو ان تین سرداروں سے چھین لیا جو اس پر حکومت کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے ایک ایک کر کے وہ تمام ریاستیں اور صوبے جو خود مختار سکھ سرداروں اور مسلمان حکمرانوں کے پاس تھے، فتح کر لئے ‘‘۔ (تاریخ دعوت و عزیمت ص:۲۸۱)

’’ملتان کا ایک حصہ جمنا اور ستلج کے درمیان کا سب سے بڑا علاقہ سکھ رئیسوں اور سرداروں کے قبضہ میں تھا، جن مسلمان ریاستوں نے نذرانے سے انکار کیا اور مقابلہ کیا ان کو بے ترتیب نیم وحشی اور فتح کے نشے میں سرشار فوجوں کے ہاتھوں سخت ذلت و عذاب کا سامنا کرنا پڑا۔ احمد خان رئیس جھنگ کی شکست کے بعد سکھوں نے شہر کو لوٹ لیا اور تمام رعیت کو روٹی کے ٹکڑوں کا محتاج کر دیا‘‘۔ (تاریخ پنجاب اردو از رائے بہادر کنھیا لال ص:۱۷۰)

سن رسیدہ نواب مظفر خان والیِ، ملتان اور اس کے جواں مرد بیٹوں کی بدست جنگ اور دلیرانہ شہادت کے بعد ملتان حملہ آوروں کے رحم و کرم پر تھا، چار پانچ سو مکانات پیوند زمین ہو گئے، عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا، بہت سی عورتوں نے کنوؤں میں گر کر جان دی اور عزت بچائی۔( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: محمد لطیف کی THEHISTORY of THEPUNJABص:۴۱۲) قصور میں سکھوں نے لوگوں کے بدن کے کپڑے تک اتار لئے، عورتیں ننگے سر، ننگے بدن، بے ستر ہو کر جا بجا اپنے آپ کو چھپاتی پھرتی تھیں، مگر کوئی امن کی جگہ نہیں ملتی تھیں، بہت سی جوان عورتیں اور لڑکیاں اور لڑکے سکھوں نے شہر سے پکڑ لئے اور غلام بنانے کے ارادے سے اپنے پاس رکھ لئے۔ (تاریخ پنجاب اردو از رائے بہادر کنھیا لال ص:۱۸۲)

افغانستان وسرحد

افغانستان وسرحد مسلمانوں کی طاقت کا بڑا مرکز رہے ہیں، ہندوستان میں مسلمان فاتح یا تو اسی ملک کے رہنے والے تھے یا اس راستے سے آئے۔ آخر آخر میں بھی جب ہندوستان کے مسلمانوں اور ان کی حکومتوں پر کوئی نازک وقت آیا ہے تو اس ملک نے عین وقت پر مدد کی ہے۔ احمد شاہ ابدالی نے آخر وقت میں مسلمانوں کی عزت رکھ لی اور مرہٹوں کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے فنا کر دیا، لیکن احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد انیسویں صدی کی ابتداء میں جب تمام عالم اسلام میں ایک عام زوال تھا، یہ ملک بھی طوائف الملوکی اور بے نظمی کا شکار ہو گیا۔ نا اتفاقی اور خانہ جنگی نے اس طاقت ور ملک کو اتنا کمزور کر دیا کہ ہندوستان اور پنجاب کے مسلمانوں کی مدد تو درکنار اس کو اپنی آزادی اور اپنے مقبوضات کا برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔

پشاور پر سکھوں کا قبضہ

مہاراجہ رنجیت سنگھ نے افغانستان کے ان حالات سے پورا فائدہ اٹھایا ۱۸۱۸ء میں مہاراجہ کو اطلاع ملی کہ پشاور میں اس کے مقابلے کے لئے کوئی منظم فوج نہیں۔ ۲۰  نومبر کو اس نے پشاور پر قبضہ کر لیا۔ یار محمد خان نے سکھوں کی آمد پر پشاور چھوڑ کر یوسف زئی کے پہاڑ پر پناہ لی، مہاراجہ نے شہر کو تباہی سے بچا لیا مگر  ’’بالا حصار وچمکنی‘‘ کو جو مشہور بزرگ شیخ عمرؒ کا مدفن ہونے کی وجہ سے متبرک مقام سمجھا جاتا ہے، آگ لگا دی۔ چوتھے دن پشاور کو اپنے حلیف اور وفادار جہانداد خان وزیر خیل کو سپرد کر کے لاہور کو کوچ کیا، بعد میں دوست محمد خان نے پچاس ہزار کی ہنڈی (چیک روپیہ کا رقعہ) اور گھوڑے پیش کر کے پشاور کو دوبارہ حاصل کر لیا، اس وقت سے پشاور اور یوسف زئی کا علاقہ حکومت لاہور کا باج گزار (ریاست کو محصول دینے والا) بن گیا۔ ہر سال خالصہ (یعنی سکھ) لشکر اس علاقہ میں آ کر سالانہ نذرانہ اور تحائف وصول کرتا اور واپس چلا جاتا۔

سرحد کا انتخاب

سید صاحبؒ کے نزدیک اگرچہ مقصود اصلی ہندوستان تھا، جیساکہ خود ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:

’’ یعنی اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستان کا رخ کروں گا، تاکہ اسے کفر و شرک سے پاک کیا جائے۔ اس لئے میرا مقصد اصلی ہندوستان پر جہاد ہے، نہ کہ ملک خراسان (سرحد افغانستان) میں سکونت اختیار کرنا لیکن پنجاب میں جس پر کچھ عرصہ سے رنجیت سنگھ کی باقاعدہ حکومت قائم ہو گئی تھی۔ مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات ان کی فوری امداد کی ضرورت جو ایک شرعی فریضہ تھا نیز فوجی مصالح اور سیاسی تدبر کا تقاضا تھا کہ یہ مہم ہندوستان کی شمال مغربی سرحد سے شروع کی جائے۔ جو طاقتور وپر جوش افغان قبائل کا مرکز ہے اور جہاں سے ترکستان آزاد مسلمان حکومتوں کی ایک مسلسل زنجیر ہے، نقشے پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوسکتاہے کہ پنجاب کے مسلمانوں کی امداد ہندوستان کی دوبارہ تسخیر اور ایک طاقتور اسلامی حکومت کے قیام کے لئے بظاہر اس سے زیادہ موزوں مقام نہیں ہوسکتا‘‘۔

سید صاحبؒ کی نگاہ کے سامنے ان لوگوں کا انجام تھا جنہوں نے ہندوستان کے کسی حصہ کو اپنی تحریک اور جنگی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور بہت جلد ان کے گرد سازشوں،مخالفتوں اور ریشہ دوانیوں کا ایک جال پھیلا دیا گیا جس میں وہ جکڑتے چلے گئے، انگریزوں کی زیرک اور پُر فن حکومت ہر حوصلہ مند قائد اور اپنے ہر مخالف کے لئے ایسے حالات پیدا کر دیتی تھی کہ اس کی جنگی کاروائیوں اور آزادانہ سرگرمیوں کا میدان تنگ سے تنگ ہوتا چلا جاتا تھا اور وہ محسوس کر لیتا کہ وہ ایک قفس میں محبوس ہے۔ یہ سید صاحب کی بہت بڑی سیاسی بصیرت تھی کہ انہوں نے ہندوستان کے اندر اپنی مجاہدانہ سرگرمیوں کا مرکز نہیں بنایا، جس کے لئے بہت جلد ایک ایسا جزیرہ بن جانے کے قوی امکانات تھے جس کے چاروں طرف مخالفتوں، مزاحمتوں اور سازشوں کا ایک سمندر پھیلا ہوا ہوتا اور جس کو کہیں سے کمک یا رسد ملنے کی کوئی توقع نہ رہتی۔ چنانچہ خود سید صاحبؒ نے اس انتخاب اور فیصلے کی وجہ اپنی زبان سے ایک تقریر میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے ہندوستان میں خیال کیا کہ کوئی جگہ ایسی محفوظ ہو کہ وہاں مسلمانوں کو لے کر جاؤں اور جہاد کی تدبیر کروں۔ باوجود اس وسعت کے کہ صدہا کوس (میل) میں ملک ہند واقع ہوا ہے، کوئی جگہ ہجرت کے لائق خیال میں نہ آئی: کتنے لوگوں نے صلاح دی کہ اسی ملک میں جہاد کرو، جو کچھ مال خزانہ، سلاح وغیرہ درکار ہو، ہم دیں گے۔ مگر مجھ کو منظور نہ ہوا، اس لئے جہاد سنت کے موافق چاہیئے، بلوا کرنا منظور نہیں۔ تمہارے ملک کے ولایتی بھائی حاضر تھے، انہوں نے کہا: کہ ہمارا ملک اس کے واسطے بہت خوب ہے، اگر وہاں چل کر کسی ملک میں قیام اختیار کریں تو وہاں کے لاکھوں مسلمان جان و مال سے آپ کے شریک ہوں گے، خصوصاً اس سبب سے کہ رنجیت سنگھ والئی لاہور نے وہاں کے مسلمانوں کو نہایت تنگ کر رکھا ہے، طرح طرح کی ایذاء پہنچاتا ہے اور مسلمانوں کی بے آبروئی کرتا ہے، جب اس کی فوج کے لوگ اس ملک میں آتے ہیں تو مسجدوں کو جلا دیتے ہیں بلکہ عورتوں اور بچوں کو پکڑ لے جاتے ہیں اور اپنے ملک پنجاب جا کر بیچ دیتے ہیں، پنجاب میں وہ مسلمانوں کو اذان بھی نہیں کہنے دیتے، مسجدوں میں گھوڑے باندھتے ہیں، یہ سن کر میرے دل میں خیال آیا کہ یہ سچ کہتے ہیں اور یہی مناسب ہے کہ مسلمانوں کو متفق کر کے کفار سے جہاد کریں اور ان کے ظلم سے مسلمانوں کو چھڑائیں‘‘۔

دعوتِ جہاد

حج سے واپسی کے بعد تقریباً پونے دو سال دعوتِ جہاد میں صرف ہوئے۔ مولانا عبد الحئیؒ اور شاہ اسماعیلؒ نے تبلیغ جہاد کے لئے اطرافِ ہند کا دورہ کیا، ان تبلیغی اور جہادی دوروں کا یہ اثر ہوا کہ ملک کے گوشے گوشے سے لوگ جوق در جوق آ کر اس تحریک سے وابستہ ہونے لگے، خواتین اسلام کے ایثار و قربانی کا یہ عالم تھا کہ مولانا شاہ عبد الحئیؒ اور مولانا شاہ محمد اسماعیلؒ کی مجالس وعظ میں جن کے پاس نقد جمع کیا ہوا نہ تھا وہ اپنے طلائی زیورات تحریک جہاد کو پروان چڑھانے کے لئے پیش کر دیتی تھیں، نیز اس دعوت تبلیغ کا یہ اثر ہوا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اعلیٰ خاندانوں کے ناز و نعم میں پلے ہوئے نوجوان سید صاحب کی قیادت میں سندھ کے تپتے ہوئے ریگستان سے گذر کر بلوچستان کے صحراؤں اور کابل و قندھار کے دشوار گزار پہاڑی راستوں کو عبور کر کے پشاور پہنچے، پہاڑوں اور جنگلوں میں مرنے مارنے کے لئے تیار ہو گئے۔ (بریلی سے بالاکوٹ ص:۱۳۶ مصنف قمر امجد عثمانی)

سفر ہجرت

جب سید صاحبؒ نے جہاد کے عزم سے ہندوستان کو خیر باد کہا اور اپنے مخلص رفقاء کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت فرمائی اور ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر پہنچنے کے لئے آپ نے ہندوستان، بلوچستان، افغانستان کا نہایت طویل اور بے حد پُر مشقت سفر اختیار کیا آپ کی بلند ہمتی، عالی حوصلگی اور جوشِ جہاد اور مجاہدین کی جفا کشی، صبر و ضبط اور شوقِ جہاد کا اندازہ کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہندوستان، سرحد، افغانستان کے نقشے پر ایک نظر ڈالی جائے اور راجپوتانے، مارواڑ، سندھ، بلوچستان، افغانستان اور صوبہ سرحد کے ان ریگستانوں میدانوں، پہاڑوں، دروں، جنگلوں اور دریاؤں کا تصور کیا جائے جو ان مجاہدین کو طے کرنے پڑے حقیقت میں اس ہفت خواں کا سر کرنا خود ایک مستقل جہاد تھا۔ (اصل میں ہفت خوان رستم ہے) رستم کا سات منزلوں کا نہایت پر خطر اور دشوار گزار سفر جو اس نے کیکاؤس کو شاہ ماژندران کی قید سے چھڑانے کے لئے اختیار کیا تھا ہر منزل پر اژدہا، جادوگر اور دیوں سے مقابلہ ہوتا رہا اور سب کو تہس نہس کر کے نکل گیا۔ چونکہ ہر منزل پر اپنی کامیابی اور سلامتی کے شکرانہ میں دسترخوان بچھاتا تھا اس لئے یہ نام ہوا۔(تاریخ دعوت و عزیمت مصنف مولانا سید ابو الحسن ندوی ج:۶، ماخوذ حصہ اول)

مجاہدین کی روانگی

سید صاحبؒ نے جنوری ۱۸۲۶ء بریلی سے روانہ ہو کر راہ ہجرت میں قدم رکھا اور سرزمین وطن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا مال خانہ سے رقم نکلوائی تو کل دس ہزار روپے نکلے دن بھر سٹی ندی کے کنارے دوستوں اور عزیزوں سے رخصتی ملاقاتیں جاری رہیں رات کے وقت ندی کو عبور کیا اور چند روز کی مسافت کے بعد گوالیار پہنچ گئے۔

گوالیار

گوالیار میں فتح علی خان کے باغ میں قیام ہوا اور مہاراجہ گوالیار دولت راؤ کی طرف سے جو سید صاحبؒ کا معتقد تھا مہمان داری کا انتظام کیا گیا کئی مرتبہ راجہ ہندو راؤ نے پُر تکلف دعوتیں کیں اور بہت سے تحائف پیش کئے دس بارہ روز ٹھہر کر عازم ٹونک ہو گئے۔

ٹونک

جب سید صاحبؒ ٹونک پہنچے تو نواب امیر خان اور ان کے فرزند نواب وزیر الدولۃ خود گھوڑوں پر سوار ہو کر ملاقات کے لئے آتے، یہاں ایک ماہ سے زائد قیام ہوا۔ ٹونک سے روانگی کے وقت نواب امیر خان نے اسلحہ اور دوسرے سازو سامان کے علاوہ ایک بڑی رقم بطور نقد پیش کی۔

اجمیر

ٹونک سے چل کر چند روز اجمیر میں قیام فرمایا۔

سرزمین سندھ

اجمیر سے مارواڑ اور جودھ پور کے راستے سوہالی، سورہا، کھوسا بلوچ، پاڑیو اور کٹھیا ر وغیرہ کی کٹھن منزلیں طے کرتے ہوئے سرزمین سندھ میں داخل ہوئے۔ تمام علاقہ ریگستان تھا راسستے میں دور، دور تک کہیں آب و گیاہ کا نام و نشان نہ تھا، سندھ میں داخل ہو کر عمر کوٹ کے قریب سے ہوتے ہوئے کارو، میر پور، ٹنڈو اللہ یار اور ٹنڈجام کے راستے حیدر آباد پہنچے۔

پیر صبغۃ اللہ شاہ عرف پیر پگاڑا

حیدر آباد سے اگلی منزل پیر کوٹ تھا جہاں سید صبغۃ اللہ شاہ کی ملاقات کا عزم تھا سید صبغۃ اللہ شاہ پیر محمد مکیؒ کی اولاد میں سے ہیں ان کے والد پیر محمد راشد کے عہد میں مریدوں کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر گئی تھی۔ سید صبغۃ اللہ شاہؒ والد کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے سید صاحبؒ ۱۷  ذی قعدہ کو پیر کوٹ پہنچے تھے تین دن تک پیر صبغۃ اللہ شاہ کے یہاں سارے لشکر کی دعوت رہی یہاں کم و بیش دو ہفتے قیام رہا پیر کوٹ سے روانہ ہو کر دریائے سندھ کو عبور کیا ایک رات جیب کوٹ میں قیام ہوا اس کے بعد شکار پور پہنچے۔

سفر کوئٹہ

۲۰ جولائی ۱۸۲۶ء کو سید صاحبؒ کا قافلہ شکارپور سے روانہ ہوا۔ ۲۶ ذی الحجہ کو بھاگ حاجی اور ریڑی کے مقامات سے ہوتے ہوئے دھاڈر پہنچ گئے۔

درہ بولان

یہ راستہ انتہائی خطرناک تھا دونوں جانب بلند پہاڑوں کی دیواریں کھڑی تھیں چور، ڈاکو پہاڑی کمین گاہوں سے نکل کر اچانک حملہ کر  دیتے تھے۔ انگریز سیاح لکھتا ہے کہ : یہ لوگ یعنی بلوچستان والے بڑے ہی نادان تھے جنہوں نے ایسے درے کے ہوتے ہوئے ہمیں اپنے ملک میں آنے دیا غرض سید صاحب چار روز کا سامان خورد نوش ہمراہ لے کر یہ محرم الحرام کو درے میں داخل ہو گئے یہاں سے کوئٹہ صرف آٹھ میل کے فاصلہ پر تھا نماز فجر پڑھ کر درے سے باہر نکلے اسی روز یا اگلے روز کوئٹہ پہنچ گئے۔ ۱۸ محرم کو کوئٹہ سے روانہ ہوئے۔ ۲۸  محرم کو قندھار پہنچے غزنی، کابل کے راستے نومبر ۱۸۲۶ء میں پشاور۔

پشاور

کیوں نہ آپ کے سامنے سید صاحب اور ان کی جماعت اور تحریک پر دشمن انگریز ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی ’’تالیف‘‘ سے اقتباس پیش کر دیوں جو اس نے ’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ کے نام سے تصنیف کی ہے۔پہلے آپ اس فقرہ کو ذہن نشین کر لیں کہ مغربی اقوام کا یہ اصرار ہے کہ ہر محب وطن اور آزادی خواہ کو پہلے لٹیرے ہی کے لقب سے یاد کرتی ہے مولانا مدنی سنیئے سید احمد نے نہایت دانشمندی سے اپنے آپ کو زمانہ کے مطابق بدل دیا۔ چنانچہ انہوں نے قزاقی کا پیشہ ترک کر کے ۱۸۱۶ء میں احکام شرعیہ پڑھنے کے لئے وہاں جا کر ایک جید عالم شاہ عبد العزیز کی شاگردی قبول کی اور  پھر تین سال کی اس طالب علمانہ حیثیت کے بعد ایک مبلغ کی زندگی اختیار کی انہوں نے پر زور طریقہ پر ان بدعات کے خلاف جہاد شروع کیا جو مسلمانانِ ہند کے اسلامی عقائد میں داخل ہو چکی تھیں اور اس طرح پر جوش اور حوصلہ مند لوگوں کو اپنا مرید بنا لیا۔ ۱۸۲۰ء میں اس مجاہد نے آہستہ آہستہ اپنا سفر جنوب کی طرف شروع کیا، صاحب ِ جاہ اور علماء عام خدمت گاروں کی طرح ان کی پالکی کے ساتھ ننگے پاؤں دوڑنا اپنے لئے فخر سمجھتے تھے۔

پٹنہ میں طویل قیام کے بعد ان کے مریدوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک باقاعدہ نظامِ حکومت کی ضرورت پیش آ گئی، کلکتہ میں ان کے ارد گرد اس قدر ہجوم ہو گیا تھا کہ لوگوں کو مرید کرتے وقت اپنے ہاتھ پر بیعت کرانا ان کے لئے مشکل تھا۔ بالآخر انہیں پگڑی کھول کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہر وہ شخص جو اس کے کسی حصے کو چھولے گا ان کا مرید ہو جائے گا۔

۱۸۲۲ء میں وہ حج کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ چلے گئے اگلے سال ماہ اکتوبر میں بمبئی میں وارد ہوئے یہاں پر آپ کی تبلیغی کوششوں کو وہی کامیابی حاصل ہوئی جو کلکتہ میں ہوئی تھی مگر اس لٹیری ولی کے لئے انگریزی علاقے کے پرامن شہریوں کی بجائے ایک اور زیادہ موزوں میدان موجود تھا۔ ۱۸۲۴ء میں سرحد پشاور کے وحشی اور پہاڑی قبیلوں میں آ نمودار ہوتے یہاں انہوں نے سکھ سلطنت کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی تبلیغ شروع کر دی۔ پٹھانوں کے قبائل نے نہایت جوش و خروش کی ساتھ ان کی دعوت پر لبیک کہی انہوں نے کابل اور قندھار کا سفر اختیار کیا اور جہاں کہیں بھی گئے ملک کو جہاد پر آمادہ کرتے رہے، اس طرح پر مذہبی احکام کی کامیابی کے لئے راستہ صاف کرنے کے بعد انہوں نے خدا کے نام پر ایک باقاعدہ فرمان جاری کیا جس میں تمام مسلمانوں کو جہاد میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی، پس ۲۱ دسمبر ۱۸۲۶ء کو سکھوں کے خلاف جہاد شروع ہو جائے گا۔ اس اثناء میں امام صاحبؒ کے قاصدوں نے اس اعلان کو شمالی ہندوستان کے ان بڑے شہروں میں پہنچا دیا جہاں انہوں نے اپنے مرید بناتے ہوئے تھے۔ اس کے بعد سکھوں کے خلاف ایک مذہبی جنگ شروع ہو گئی اس جنگ میں کبھی ایک فریق غالب آیا اور کبھی دوسرے فریق کو فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح انہوں نے جنگ چپاول میں فتح مندی سے اپنا نام یہاں تک پیدا کر لیا کہ سکھ حاکم ان قبائل کی حمایت خریدنے پر مجبور ہو گیا جو چھا پہ مارنے میں سب سے پیش پیش تھے۔

۱۸۲۹ء میں تو حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ میدان والوں یعنی سکھوں کو پشاور شہر کے متعلق بھی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا، سرحدی صوبہ کا دار الخلافہ تھا وہاں کے صوبہ دار نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے دغا بازی سے امام صاحب کو زہر دینے کی کوشش کی اور اس افواہ نے کوہستانی مسلمانوں کے جوش کو انتہائی درجہ تک پہنچا دیا، وہ نہایت ہی جوش و خروش سے میدانی علاقوں پر ٹوٹ پڑے اور کفار کی تمام افواج کو تہ تغ اور اس کے جرنیل کو مہلک طور پر زخمی کر دیا صرف شہر پشاور اس فوج کی وجہ سے بچ گیا جو شہزاد شیر سنگھ اور جرنیل وینطور کی ماتحتی میں تھا ایک لشکر جرار اپنے قابل ترین جرنیل کی سرکر دے ی میں روانہ کیا، جون ۱۸۳۰ء میں شکست کھانے کے باوجود امام صاحب کی فوج نے بہت بڑی قوت کے ساتھ میدانی علاقہ پر قبضہ کر لیا اور اس سال کے اختتام سے پہلے خود پشاور کو بھی جو پنجاب کا مغربی دار السلطنت تھا فتح کر لیا پشاور کے چھن جانے کا غم رنجیت سنگھ کے بے نظیر سیاسی تدبر کو بروئے کا لایا اس چالاک سکھ نے معمولی معمولی ریاستوں کو ان کے اپنے مفاد کا واسطہ دے کر اسلامی فوج سے علیحدہ کرا دیا اس صورت حال کو دیکھ کر امام صاحب پشاور کو خالی کر دینے پر مجبور ہو گئے۔ ۱۸۳۱ء میں سکھ فوج نے جو شہزادی شیر سنگھ کے زیر کمان تھی ان پر اچانک حملہ کر دیا اور ان کو شہید کر ڈالا۔ (ہمارے ہندوستانی مسلمان مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر انگریز ص:۱۸،۱۹،۲۰)

جنگ بالاکوٹ

بالاکوٹ مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے آگے پہاڑی علاقہ میں واقع دریائے کنہار کے مغربی کنارے پر ہے، شیر سنگھ اور سید احمدؒ کی فوجیں دریائے کنہار کے پار ایک دوسرے سے مقابل ہوئیں،بالاکوٹ کا گاؤں دریا کے مغربی کنارے پر ایک ٹیلے پر واقع تھا، شیر سنگھ کی فوج کا پڑاؤ بالاکوٹ سے تھوڑی دور مشرقی کنار ہ پر تھا، شیر سنگھ دوراستوں سے بالاکوٹ پر حملہ آور ہوسکتا تھا:

۱- بالاکوٹ کے مشرقی کنارے سے دریا پار کے۔

۲- پکھلی کی طرف سے بالاکوٹ کے مغربی پہاڑ پر چڑھ کر۔

مٹی کوٹ پہاڑی کے دامن اور بالاکوٹ کے آباد حصہ کے درمیان کھیتوں کا ایک نشیبی علاقہ تھا۔ سکھوں کے اقدام کو روکنے کے لئے اس نشیبی علاقہ میں بہت پانی چھوڑ دیا گیا تھا۔اور اسے دلدلی بنا دیا گیا تھا۔ سید احمدؒ نے پہاڑی پر جانے والی پوشیدہ پگڈنڈیوں کی نگرانی کے لئے ایک مختصر سا دستہ تعینات کر دیا تھا، مگر یہاں بھی غداری اپنا کام کر گئی،پوشیدہ پگڈنڈیوں کا پتا سکھوں کو بتا دیا گیا اور کسی کمک کے پہنچنے سے پہلے محافظ دستہ کو اچانک زیر کر لیا گیا۔ مجاہدین کے نقشۂ جنگ پر یہ بہت بڑی ضرب تھی، کیونکہ اس کے فوراً بعد سکھ تمام پہاڑی پر چڑھ دوڑے جو بالاکوٹ پر سایۂ افگن تھی۔

جنگ شروع ہوئی،مجاہدین کی مختصر فوج چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم اور ایک دوسرے سے لا تعلق ہو گئی، جنگ جم کر ہوئی اور دست بدست۔ سید احمدؒ پہاڑی کے دامن میں بہادری سے لڑتے ہوئے گر گئے۔ کسی نے ان کو گرتے ہوئے نہیں دیکھا،جو مجاہدین ان کے ساتھ لڑ رہے تھے وہ ان کے ساتھ شہید ہو گئے، سید صاحبؒ اور ان کے رفقاء کی شہادت ۲۴  ذوالقعدہ ۱۲۴۶ھ ۶ مئی ۱۸۳۱ء تقریباً بروز جمعہ قبل از دو پہر ہوئی

معرکۂ بالاکوٹ میں سکھ فوجوں کی تعداد تقریباً کم و بیش بیس ہزار تھی، جب کہ بالاکوٹ میں موجود مجاہدین کی تعداد ایک ہزار بھی نہ تھی۔ خلاصہ یہ کہ ابتداء میں حضرت سید صاحبؒ کو بہت عمدہ کامیابیاں حاصل ہوئیں، مگر بعد میں اپنوں کی غداریوں، انگریزوں اور سکھوں کی مسلسل سازشوں وغیرہ سے کامیابیاں سست پڑ گئیں، اگر چہ مخلصین کا جوش و خروش بڑھتا ہی رہا،بالآخر ۱۸۳۱ء میں بمقام بالاکوٹ جنگ و جہاد کرتے ہوئے ایک سرحدی مسلمان کی سازش سے مع شاہ محمد اسماعیلؒ و دیگر رفقاء شہید ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

اب ہم مختصر طور پر چند باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں:

۱- یہ تحریک آزادی ہند ۱۸۰۶ء یا ۱۸۰۳ء سے شروع ہوئی اور ۱۹۴۷ء کی آزادی ہند تک باقی رہی،اس کی جنگی کارروائی صوبہ سرحد میں ۱۸۲۶ء میں شروع ہوتی ہے، چھ برس متواتر جنگ رہنے اور اکثر فتح مند ہونے اور اپنوں کی غداریوں کی بناء پر جبکہ ۱۸۳۱ء میں حضرت سید صاحبؒ اور شاہ محمد اسماعیل صاحبؒ اور بہت سے مجاہدین شہید ہو جاتے ہیں اور باقی ماندہ لوگوں میں سے بہت سے حضرات اپنے اپنے وطن کو واپس آ جاتے ہیں،تب بھی ایک جماعت مسلمان مجاہدین کی وہاں باقی رہتی ہے اور اپنی تمام جد و جہد کی کارروائیوں کو سرگرمی کے ساتھ عمل میں لاتی رہتی ہے، وہ مایوس نہیں ہوتی، وہ جماعت ہزاروں سے بڑھتے بڑھتے بعض اوقات لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔

ڈاکٹر ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر لکھتا ہے: ’’جب ہم نے پنجاب کا الحاق کیا تو تعصب کی اس رو کا رخ جو پہلے سکھوں کی طرف تھا، ان کے جانشینوں یعنی انگریزوں کی طرف پھر گیا، سکھوں کی سرحد پر جس بدامنی سے ہم نے چشم پوشی کی تھی یا جس سے بے پروائی کی تھی، وہ ایک تکلیف دہ وراثت کی صورت میں ہم تک پہنچی تھی۔‘‘(باب اول ص:۲۳)

’’۱۸۲۱ء میں امام صاحبؒ نے اپنے خلفاء کو منتخب کرتے وقت ایسے آدمیوں کا انتخاب کیا جو بے پناہ جوش و خروش کے مالک اور بہت ہی مستقل مزاج تھے،ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس کس طرح متعدد بار جب یہ تحریک ناکام ہونے کے قریب تھی، انہوں نے بار بار جہاد کے جھنڈے کو تباہی سے بچا کر از سر نو بلند کر دیا۔ پٹنہ کے خلفاء جو انتھک واعظ، خود اپنے آپ سے بے پرواہ، بے داغ زندگی بسر کرنے والے، انگریز کافروں کی حکومت کو تباہ کرنے میں ہمہ تن مصروف اور روپیہ اور رنگروٹ جمع کرنے کے لئے ایک مستقل نظام قائم کرنے میں نہایت چالاک تھے۔‘‘ (باب دوم ص:۶۳،۶۴)

’’روپیہ اور آدمی ہمارے علاقہ سے تھانہ کیمپ کو متواتر جا رہے تھے، اس سلسلہ میں حکومت پنجاب نے ہماری فوج کے ساتھ سازشی خط و کتابت بھی پکڑ لی تھی، یعنی انہوں نے کمال ِ عیاری کے ساتھ ہماری نمبر ۴ دیسی پیادہ فوج کے ساتھ سازش کی تھی جو اس وقت راولپنڈی میں مقیم تھی، ان خطوط سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی تھی کہ بنگال سے باغی کیمپ تک روپیہ اور آدمی پہنچانے کے لئے ایک باقاعدہ نظام موجود ہے۔ سرحد پر مجنونوں کے کیمپ تک روپیہ اور آدمی پہنچانے کے لئے جو باغیانہ نظام قائم تھا، اس کی طرف سے انگریزی حکومت اب زیادہ دیر تک آنکھیں بند نہ کر سکتی تھی، اسی سال یعنی ۱۸۵۲ء میں انہوں نے ہمارے حلیف ریاست رمب کے نواب صاحب پر حملہ کر دیا،جس کی وجہ سے انگریزی فوج بھیجنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ۱۸۵۳ء میں ہمارے بہت سے سپاہی غداروں کے ساتھ خط و کتابت کرنے کے جرم میں سزا یاب ہوئے۔ ایک ہی واقعہ تمام حالات کو واضح کر دیے گا۔یعنی ۱۸۵۰ء سے ۱۸۵۷ء تک ہم علیحدہ علیحدہ سولہ فوجی مہمیں بھیجنے پر مجبور ہوئے، جس سے باقاعدہ فوج کی تعداد پینتیس ہزار ہو گئی تھی اور ۱۸۵۶ء سے ۱۸۶۳ء تک ان مہمات کی گنتی بیس تک پہنچ گئی تھی اور باقاعدہ فوج کی مجموعی تعداد ساٹھ ہزار تک ہو گئی تھی۔ بے قاعدہ فوج اور پولیس اس کے علاوہ تھی،اب ہم تقریباً انہی حالات سے دوچار تھے جو ۱۸۲۰ء و۱۸۳۰ء کے درمیان پیدا ہو گئے تھے اور جس کے نتیجہ پر اس متعصب لشکر نے پنجاب پر اپنا تصرف اور قبضہ جما لیا تھا، یہاں تک کہ سرحدی دار الخلافہ ان کے قبضہ میں ہو گیا، اب جنگ سے گریز کرنا بالکل ناممکن ہو گیا تھا۔۱۸۶۳ء کی لڑائی میں ہم نے کافی نقصان اٹھانے کے بعد یہ سبق حاصل کیا تھا کہ مجاہدین کے کیمپ کے خلاف مہم روانہ کر دینا کہ ۵۳ ہزار جنگجو اور بہادر انسانوں کی مجموعی طاقت کے ساتھ جنگ کرنا ہے، ایک ایک دن کی تاخیر دشمنوں کے تعصبی جوش،ان کی طاقت اور امیدوں کو بہت بڑھا دیتی ہے۔ کمک کے باوجود ہمارے جرنیل کے لئے آگے بڑھنا ناممکن تھا۔ ہفتوں تک برطانوی سپاہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ڈر کے مارے درے میں دبکی پڑی ہے اور وادی چومالہ میں بڑھنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔‘‘ (باب اول ص:۲۴،۲۵،۲۸،۳۴)

’’بہت مدت تک مجاہدین سرحد کی اس حیرت انگریز قوت کا سرچشمہ ایک راز بنا رہا، اس ہندوستان حکومت نے جو ہم سے پہلے پنجاب پر حکمران تھی یعنی سکھ، اسے تین مرتبہ منتشر کیا اور تین دفعہ یہ انگریزی فوج کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوئے،لیکن باوجود اس کے یہ ابھی تک زندہ ہیں اور دیندارمسلمانوں کے معجزانہ طور پر زندہ رہنے کو ہی ان کے آخر کا ر غالب ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جس وقت اس سرحدی نو آبادی کو ہم فوجی قوت کے بل بوتے پر تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وقت ہماری مسلمان رعایا کے متعصب عوام ان لاتعداد آدمیوں اور روپیوں سے مدد دے کر گویا ان چنگاریوں کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ ‘‘ (باب دوم ص:۴۲)

’’اب میں نے اپنی سرحد پر اس باغی کیمپ کی تمام تاریخ ۱۸۳۱ء سے جبکہ اس کی ابتداء ہوئی ۱۸۶۸ء تک جبکہ انہوں نے ہم کو جنگ میں دھکیل دیا، بیان کر دی ہے۔ وہ تمام پرانی مصیبتیں جو انہوں نے سکھ حکومت کے وقت سرحد پر نازل کی تھیں، وہ تمام ایک تلخ وراثت کی صورت میں ہم تک پہنچیں، اس نے تمام سرحد میں تعصبی جذبات کو برقرار رکھنے کے علاوہ تین مرتبہ قبائل کو یکجا اکٹھا کر دیا، جس کی وجہ سے برطانوی ہند کو ہرایک موقعہ پر بہت ہی مہنگی لڑائیاں لڑنی پڑیں، یکے بعد دیگرے ہر گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ یہ ہمارے لئے ایک مستقل خطرہ ہے، لیکن اس کے باوجود ان کو تباہ کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں، ہم نہیں جانتے کہ کس وقت ہم قبائل کی خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں آ جائیں گے جو وسط ایشیاء میں ہر وقت جاری رہتی ہیں، مگر اس وقت یہ عین ممکن ہے کہ اس سال کے ختم ہونے سے پہلے ایک اور افغانی جنگ لڑنی پڑے، یہ جنگ جب کبھی بھی ہو گی اور جلد یا بدیر ہو کر رہے گی تو ہماری سرحد پر غدار آبادی ہمارے دشمنوں کو ہزار ہا آدمی مہیا کر سکے گی،ہمیں ان غداروں کی اپنی ذات سے کوئی ڈر نہیں، اگر ہمیں ڈر ہے تو ان شورش پسند عوام سے جن کو یہ مجاہدین ہمارے خلاف جہاد کرنے کے لئے بار بار اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘ (باب اول ص:۴۱)

مندرجہ بالا واقعات جو کہ ایک اس دشمن انگریز کے بیانات کے اقتباسات ہیں جس نے اس بارہ میں بہت چھان بین کی ہے اور بہت سے امور کا خود معائنہ کیا ہے، ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک مسلمانوں کی اٹھائی ہوئی نہایت منظم اور دیر پا اور موثر تھی اور اس نے تمام ملک میں اندر اور باہر ایسی بڑی ہلچل پیدا کر دی کہ مدبران برطانیہ لرزہ بر اندام ہو گئے، اس تحریک نے اس قدر جوش اور قربانی کے جذبات پیدا کر دیئے کہ جس کی نظیر اس ملک میں کبھی پائی نہیں گئی،یہ تحریک اور اس کے چلانے والے اس قدر عالی ہمت، مستقل مزاج، جفا کش اور منظم تھے کہ انگریزوں کی انتہائی بربریت اور درندگی بھی ان کو فنا نہ کر سکی،اس تحریک کی راز داری، اور اخلاص و دیانت داری اعلیٰ پیمانہ پر تھی،بے شمار مقدمات چلائے گئے اور ہرقسم کی شیطانی تدبیریں کام میں لائی گئیں، مگر انگریزوں کو کامیابی نہیں ہوئی۔

ڈاکٹر ہنٹر ص:۷۲ باب دوم پر لکھتے ہیں :

’’۱۸۷۰ء میں جب ایسے دو ضلعوں کے مراکز کو توڑ دیا گیا تو ان کے رئیسوں کے خلاف غیر جانبدارانہ طور پر عدالت میں مقدمہ چلا گیا تھا،جہاں ان کو عمر قید ببعبور دریائے شور یعنی کالا پانی اور ضبط املاک کی سزا ہوئی، اس وقت جو واقعات گواہیوں سے ظاہر ہوتے، وہ ہر اس غیر ملکی حکومت کو خوف دلانے کے لئے کافی ہیں جو انگریزی ہو، ہندوستان کی طرح اپنے آپ کو اتنی مستحکم خیال نہ کرتی ہو۔ ص: ۷۶ پر لکھتا ہے: گذشتہ سات سال کے دوران میں ان غداروں کو یکے بعد دیگرے مجرم ثابت کر کے عمر قید بعبور دریا شور کی سزا دی گئی۔ الحاصل یہ کہ مجاہدین اور ان کے مددگار مسلمان وہ شریف النفس اور شریف اخلاق والے لوگ تھے جن کو ڈاکٹر ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر بار بار مجبور ہو کر انتہائی تعریفی کلمات سے یاد کرتا ہے،مگر ان کو ہر طرح ستایا گیا۔ان کوسخت سے سخت سزائیں، پھانسی، عبور دریائے شور، عمر قید، توہین و تذلیل وغیرہ کی دی گئیں، تاہم نتیجہ کیا ہوا؟ خود ڈاکٹر ہنٹر سے پوچھئے :لیکن ۱۸۶۴ء کا سیاسی مقدمہ غداروں کے جوش کو ٹھنڈا کرنے میں ویساہی ناکام ہوا، جیساکہ ۱۸۶۳ء کی تادیبی مہم۔‘‘ (باب دوم ص:۸۹)

سرحد پر تباہ کن جنگیں اور اندرونی ملک میں عدالتی سزائیں اس قابل نہ ہوئیں کہ مجاہدین کے اتحاد کو توڑ سکیں۔(ص:۹۳) مندرجہ بالا تاریخی اقتباسات جو کہ عموماً صحیح ہیں، مبالغہ کا ان میں شائبہ بھی نہیں ہے،بلکہ واقعات سے بہت کم ہیں، ناظرین غور فرمائیں اور دیکھیں کہ مسلمانوں کی جد و جہد اور تحریک آزادی ہند میں جانبازی اور سرفروشی کس قدر عظیم الشان اور کس بلندی پر پہنچی ہوئی اور کس قدر پرانی ہے، کیا کوئی دوسری جماعت اس کے مقابل تاریخی اعتبار سے اپنا یا اپنی جماعت کا نام پیش کر سکتی ہے؟۔ ہرگز نہیں

۱- یہ جماعت حقیقۃً ۱۸۰۳ء سے وجود میں آئی یعنی جس وقت شاہ عبد العزیز صاحبؒ نے ہندوستان دار الحرب ہے کا فتویٰ دیا۔

۲-اس جماعت نے کھلے بندوں آزادی کی تحریک کی قیادت کی اور لوگوں کو جہاد کے لئے آمادہ کیا۔

۳-اس جماعت نے ملک کے اکثر حصہ میں دورہ کر کے آزادی کا جوش و خروش پیدا کیا۔

۴-اس جماعت نے باقاعدہ تنظیم کی، ہر ہر ضلع، صوبہ اور قصبات وغیرہ میں مراکز بنائے اور عہدے دار مقرر کئے۔

۵- یہ جماعت سرحد تک کئی ہزار میل سفر کر کے جب کہ ریل، ہوائی جہاز، موٹریں نہ تھیں،ہرقسم کی تکالیف جھیلتی ہوئی ہزاروں جان فروشوں کو لئے ہوئے پہاڑوں، دشوار گذار دروں، ریگستانوں کو عبور کرتے ہوئے سندھ، قندھار، کابل، درہ خیبر صوبہ سرحد میں پہنچتی ہے، کیونکہ انگریز نے کسی دوسرے راستے سے جانے نہیں دیا تھا اور آزادی کی جد و جہد عملی طور پر شروع کرنی تھی۔

۶-یہ جماعت غریبوں کی ہے، اس کے پاس رسد وغیرہ کا پورا سامان نہیں ہے،فاقوں پر آدھے پیٹ کھانے پر موٹے جھوٹے پر گزارہ کرتی ہے اور پھر بھی دشمن پر یلغار کرتی ہے۔

۷- اس جماعت کی پارٹیاں تقریباً ڈیڑھ ہزار میل سے مالی اور جانی امداد کرتی ہیں، راستہ میں انگریز پکڑتے ہیں،سزائیں دیتے ہیں، مگر یہ نظام جاری ہے۔

۸- یہ جماعت انگریزوں کی طرف سے ہر قسم کی ہلاکتوں اور ایذاؤں کا نشانہ بنتی ہے اور تحمل کرتی ہے، مگر آزادی کی جد و جہد اور انگریز دشمن سے باز نہیں آتی، انگریز لالچ دیتا ہے قبول نہیں کرتی، انگریز ڈراتا ہے، مگر نہیں ڈرتی۔

۹- اس جماعت کو سرحدی قبائل نے انگریزی سازشوں میں آ کر برباد کرنا چاہا، اس کے امام کو زہر دیا، میدان جنگ میں غدر کیا،کئی مرتبہ متفق ہو کر اس جماعت کے منتشر لوگوں کو جہاں پایا قتل اور شہید کیا، دشمنوں سے مل گئے مگر یہ سخت جان جماعت آزادی کی متوالی آج تک اپنی جگہ پر پہاڑ کی طرح جمی ہوئی ہے۔

۱۰- انگریزوں نے بار بار اس پر چڑھائی کی اور اس کے گھر بار کو بزعم خود جلا کر اور فنا کر کے چلے آئے پھر بھی وہ باقی ہے اور لڑائیوں میں وہ پچاس ہزار ساٹھ ہزار، حتی کہ لاکھ تک مردان میدان کو انگریزوں کے خلاف افغانیوں کی مدد میں پیش کر دیتی ہے۔

۱۱-اس حال پر ایک صدی سے زیادہ اس پر گزرتا ہے، ہندوستان کے آزاد ہونے تک یہ اسی طرح جمی رہتی۔ (نقش حیات ص:۶۴۴ مصنف مولانا سید حسین احمد مدنی

٭٭٭

ماخذ:

ماہنامہ دار العلوم، دیوبند

تشکر: اسد، رکن اردو محفل جنہوں نے جریدے کی جلد کی فائل مہیا کی

تدوین اور ا بک کی تشکیل: اعجاز عبید