FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

زمیں والوں کو چھوٹا لگ رہا ہوں

ہر اک رستے پہ خود کو ڈھونڈھتا ہوں

میں اپنے آپ سے بچھڑا ہوا ہوں

بھرے شہروں میں دل ڈرنے لگا تھا

اب آ کر جنگلوں میں بس گیا ہوں

تو ہی مرکز ہے میری زندگی کا

ترے اطراف مثل دائرہ ہوں

اجالے جب سے کترانے لگے ہیں

سیہ راتوں کا ساتھی بن گیا ہوں

مراہم شکل کب کا مر چکا ہے

مجھے مت چھیڑئیے میں دوسرا ہوں

٭٭٭

دشت میں گھاس کا منظر بھی مجھے چاہیے ہے

سر چھپانے کے لئے گھر بھی مجھے چاہیے ہے

تھوڑی تدبیر کی سوغات ہے مطلوب مجھے

اور تھوڑا سا مقدّر بھی مجھے چاہیے ہے

تیرنے کے لئے دریا بھی ہے کافی، لیکن

شوق کہتا ہے سمندر بھی مجھے چاہیے ہے

صرف دیواروں سے ہوتی نہیں گھر کی تکمیل

چھت بھی درکار ہے اور در بھی مجھے چاہیے ہے

گاہے فٹ پاتھ بچھا کر بھی میں سو جاؤں گا

گاہے اک مخملیں بستر بھی مجھے چاہیے ہے

تیری معصوم ادائی بھی سر آنکھوں پہ مگر

تجھ میں اک شوخ ستمگر بھی مجھے چاہیے ہے

چاہیے ہے کبھی ریلا بھی مجھے سردی کا

اور کبھی دھوپ کا لشکر بھی مجھے چاہیے ہے

استعارے بھی ضروری ہیں سُخن میں، لیکن

شعر میں صنعتِ پیکر بھی مجھے چاہیے ہے

گفتگو کس سے کریں بونوں کی بستی میں خُمار

بات کرنی ہے تو ہمسر بھی مجھے چاہیے ہے

٭٭٭

تجھ سے بچھڑوں تو یہ خدشہ ہے اکیلا ہو جاؤں

گھور تنہائی کے جنگل کا میں حصہ ہو جاؤں

اک ترے دم سے ہی شاداب ہے یہ میرا وجود

تُو نظر پھیر لے مجھ سے تو میں صحرا ہو جاؤں

دل کی دیواروں پہ مرقوم رہے نام مرا

قبل اس کے کہ میں بھولا ہوا قصّہ ہو جاؤں

تُو اگر دل میں بسا لے تو بنوں میں شاعر

تُو جو ہونٹوں پہ سجا لے تو میں نغمہ ہو جاؤں

ایسا ہو جائے نہ سوجھے تجھے کچھ میرے سوا

ایسا ہو جائے کہ میں ہی تری دنیا ہو جاؤں

جانتا ہوں میں تری سرمئی آنکھوں کا طلسم

اک نظر مجھ پہ بھی، میں بھی ترے جیسا ہو جاؤں

میں ادھورا ہوں بہت تجھ سے بچھڑ کر اے دوست

تُو جو مل جائے دوبارہ تو میں سارا ہو جاؤں

٭٭٭

شناخت مٹ گئی چہرے پہ گرد اتنی تھی

ہماری زندگی صحرا نورد اتنی تھی

تمام عمر اسے سینچتے رہے لیکن

گلاب دے نہ سکی شاخ زرد اتنی تھی

گرے نہ اشک کبھی حادثوں کے دامن پر

ہماری آنکھ شناسائے درد اتنی تھی

تری پکار کا چہرہ دکھائی دے نہ سکا

مرے قریب صداؤں کی گرد اتنی تھی

تلاشِ زیست میں دل جیسی چیز چھوٹ گئی

حکایتِ دل و جاں فرد فرد اتنی تھی

جھلستی دھوپ کا اُس پر گماں گزرتا تھا

بچھی تھی راہ میں جو چھانو زرد اتنی تھی

پِگھل سکی نہ کبھی برف اکیلے پن کی خُمار

وہ شعلہ رو بھی طبعیت کی سرد اتنی تھی

٭٭٭

اِس گھنی شب کا سویرا نہیں آنے والا

اب کہیں سے بھی اُجالا نہیں آنے والا

جبرئیل اب نہیں آئیں گے زمیں پر ہرگز

پھر سے آیات کا تحفہ نہیں آنے والا

ہو گئے دفن شب و روز پُرانے کب کے

لوٹ کر پھر وہ زمانہ نہیں آنے والا

پیڑ تو سارے ہی بے برگ ہوئے جاتے ہیں

دھوپ تو آئے گی سایہ نہیں آنے والا

یہ بھی سچ ہے کہ اجل بن کے کھڑے ہیں امراض

یہ بھی طے ہے کہ مسیحا نہیں آنے والا

ہم کو سہنا ہے اکیلے ہی ہر اک درد کا بوجھ

خیر خواہوں کا دلاسہ نہیں آنے والا

میرے افکار کے سوتے نہیں تھمنے والے

میری سوچوں پہ بُڑھاپا نہیں آنے والا

نئے لفظوں کو برتنے کا سلیقہ بھی تو ہو

صرف الفاظ سے لہجہ نہیں آنے والا

جھوٹ بے پاؤں بھی دوڑے گا بہت تیز خُمار

لب پہ سچّائی کا چرچا نہیں آنے والا

٭٭٭

مدّت ہوئی راحت بھرا منظر نہیں اُترا

ساون کا مہینہ مری چھت پر نہیں اُترا

روشن رہا اک شخص کی یادوں سے ہمیشہ

گرداب میں ظلمت کے مرا گھر نہیں اُترا

جس آنکھ نے دیکھا تمہیں دیتی ہے گواہی

تم جیسا زمین پر کوئی پیکر نہیں اُترا

سچّائی مرے ہونٹوں سے اتری نہیں ہرگز

جب تک مرے کاندھوں سے مرا سر نہیں اُترا

قدرت کی عبارات کو پڑھتے رہے برسوں

مفہوم مگر ذہن کے اندر نہیں اُترا

نشّہ ہی کچھ ایسا تھا فتوحات کا اُس پر

جذبات کے توسن سے سکندر نہیں اُترا

ساحل پہ جو اترا تھا سفینوں کو جلا کر

صدیوں سے پھر ایسا کوئی لشکر نہیں اُترا

اترا نہیں نفرت کے سمندر میں کبھی میں

مجھ میں کبھی نفرت کا سمندر نہیں اُترا

کوشش تو بہت کی تھی خُمار ہم نے بھی لیکن

شیشے میں وہ اک شوخ ستمگر نہیں اترا

٭٭٭

پھول کی رُت نہ بہاروں کا گزر میرے بعد

تھم کے رہ جائے گا موسم کا سفر میرے بعد

جس طرف دیکھیے پت جھڑ کے نظارے ہوں گے

تکتے رہ جائیں گے سایوں کو شجر میرے بعد

کلیاں کھِلنے کی ادائیں بھی بِسر جائیں گی

بھول جائیں گے مہکنا گُلِ تر میرے بعد

دل کے کہساروں پہ لگ جائیں گے شب کے ڈیرے

وادیِ جاں میں نہ اُترے گی سحر میرے بعد

ابر سے قطرۂ نیساں بھی نہیں ٹپکے گا

سیپیاں بھی نہ بنائیں گی گُہر میرے بعد

کیوں نہیں آیا وہ اک شاعرِ آوارہ مزاج

تجھ سے پوچھے گی ترے گھر کی ڈگر میرے بعد

اے محبت ترا ہر ناز اُٹھا یا میں نے

کون اُٹھائے گا ترے ناز مگر میرے بعد

فن لِپٹ کر مری چوکھٹ سے بہت روئے گا

آنکھیں غزلوں کی بھی ہو جائیں گی تر میرے بعد

میرے دیوان کو سینے سے لگا رکھیں گے

اہلِ فن، اہلِ زباں، اہلِ ہُنر میرے بعد

تبصرے کرتے رہیں گے مرے لہجے پہ خُمار

محفلِ شعر میں اربابِ نظر میرے بعد

٭٭٭

شاعری مظہرِ احوالِ دروں ہے، یوں ہے

ایک اک شعر بتا دیتا ہے یوں ہے، یوں ہے

اک تری یاد ہی دیتی ہے مرے دل کو قرار

اک ترا نام ہی اب وجۂ سکوں ہے، یوں ہے

خشک صحرا بھی نظر آتا ہے گلزارِ اِرم

ہمرہی کا یہ تری سارا فسوں ہے، یوں ہے

عشق ہر اک سے غلامی کی ادا مانگتا ہے

اُس کے دربار میں جو سر ہے نگوں ہے، یوں ہے

خاک چھانیں گے چلو ہم بھی بیابانوں کی

جب یہی شیوۂ اربابِ جنوں ہے، یوں ہے

تجھ کو چاہا ہی نہیں تیری پرستش کی ہے

پھر بھی ہونٹوں پہ ترے ہاں ہے نہ ہوں ہے، یوں ہے

حالِ دل سن کے مرا چُپ نہ رہو کچھ تو کہو

خامشی نعمتِ گویائی کا خوں ہے، یوں ہے

جب بھی محفل میں غزل اپنی سناتا ہے خُمار

تبصرے ہوتے ہیں ہر شعر پہ یوں ہے، یوں ہے

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ سلیمان خمارؔ

زندگی

خوبصورت سی ایک دوشیزہ

اپنے کندھوں پہ لے کے غم کی صلیب

ٹھوکریں کھاتی

اشک برساتی

راستوں پر بھٹکتی پھرتی ہے

٭٭

آرزو

بھولی بھالی سی اک بچّی

نِسدن اپنی بے کس ماں کی گود میں جا کر

رنگ برنگی

نئی نئی گڑیوں کی خاطر

چِلّا چِلّا کر روتی ہے

آخر تھک کر سو جاتی ہے

مسرّت

جھیل کی نیلگوں سطح پر

ایک مچھلی، سنہری سی

آوارہ اور خوشنما

چند لمحوں کو

لہروں سے اٹھکھیلیاں

کر کے

پھر ڈوب جاتی ہے

اک مدّتِ بے کراں کے لئے

٭٭٭

برسات کے دنوں کی ایک نظم

امڈتی بڑھتی گھٹا

دن پہ رات کے سائے

کڑکتی بجلیاں لہرا کے ٹوٹتی برسات

گلی کا موڈ، شکستہ مکاں، ٹپکتی چھت

لباسِ نم میں ٹھِٹھرتے ہوئے

جواں دو جسم

حجاب و خوف بھُلا کر

لپٹ کے ……

جلتے ہوئے لب کی آگ پیتے رہے

مکاں ٹھٹھرتا رہا اور مکین جلتے رہے

٭٭٭

نظمیں

مجھے خبر تھی ۔۔۔ فاطمہ حسن

میں نے دیکھ لیا تھا

وہاں آگ بھڑکنے والی ہے

تاریخ کے باب سے کئی صفحات میری آنکھوں کو گرد آلود کر رہے تھے۔

میں آنکھیں بند نہیں کر سکتی تھی

کان پر انگلیاں رکھیں تو میرے اندر کی گونج نے کہا

بانسری ہے یہ

دعائیں مت مانگو اب اس کا وقت نہیں رہا

جسے تم اذان سمجھ رہی ہو وہی آواز ہے جو شہر کے جلتے وقت بھی آ رہی تھی۔۔

میں نے آسمان کی طرف دیکھا، کوئی چڑیا نہیں تھی

جو پانی کا قطرہ لا کر میری آنکھوں پر گرا دیتی۔۔

پرندے ہجرت کر گئے تھے

اس بار بھڑکنے والی آگ کا حاصل کوئی گلزار نہیں

میں نے مٹھی میں ریت اٹھائی اور شعلوں کی طرف اچھال دی

لا حاصلی میں یہی ممکن تھا۔

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ غضنفر

لکھنے کی بیماری

کسی کو عارضہ دل کا

کسی کو دق کی بیماری

 دمے سے کوئی بے دم ہے

کسی کا سر گراں باری سے ہے بھاری

کسی کے دانت میں پیڑا

کسی کے پیٹ میں کیڑے

کسی کے من میں طغیانی

کسی پر یاس ہے طاری

۔کسی کو صبح اٹھتے ہی طلب ٹی کی

کسی کو علت سیر جہاں بانی ، ہوا خوری

کسی کو دفتری اوقات کی جلدی

مجھے لکھنے کی بیماری

نہیں لکھتا تو لگتا ہے

گلا بھنچ جائے گا میرا

لہو کھنچ جائے گا میرا

عجب اک اضطرابی کیفیت

 سینے میں اٹھتی ہے

عجب سیماب سی صورت

رگ و ریشے کی ہوتی ہے

کوئی منظر نظر کے رخ پہ آ جائے

کوئی نکتہ انوکھا ذہن پا جائے

دل حسًاس میں شعلہ لپک جائے

کوئی جذبہ چمک جائے

کسی احساس کی حدت دمک جائے

ہر اک لمحہ یہی خواہش ابھرتی ہے

مجھے بے چین کرتی ہے

مگر لکھنا نہیں آساں

کہ لکھنے میں بھی

دل کا خون ہوتا ہے

رگیں اس میں بھی کھنچتی ہیں

نفس اس میں بھی بھنچتا ہے

تخئیل کے بھی بال و پر جھلستے ہیں

تلاش لفظ و معنی میں

پھپھولے آنکھ کی پُتلی میں پڑتے ہیں

کئی تیر و تبر دیدوں میں گڑتے ہیں

رگ و ریشے ادھڑتے ہیں

تصور کے کئی اشجار بھی

 جڑ سے اکھڑتے ہیں

عجب اک ٹیس اٹھتی ہے

چبھن رہ رہ کے ہوتی ہے

ہر اک ساعت رگ و پے میں

نئی پیڑا سموتی ہے

کوئی تحریر لکھ جاتی ہے

آخر تک

مگر یک جنبشِ خامہ سے

 اکثر کٹ بھی جاتی ہے

کوئی تخلیق کٹتی ہے

تو دل پر کیا گزرتا ہے

نواح ذات میں کیا کیا بکھرتا ہے

دل و جاں میں تلاطم کیسا اٹھتا ہے

تھپیڑے کیسے لگتے ہیں

کلیجہ کیسے پھٹتا ہے

قلم رکتا نہیں پھر بھی

تخئیل دم نہیں لیتا

کبھی احساس بھی تھکتا نہیں میرا

مرے جذبوں کا ریلا بھی نہیں تھمتا

کہ بیماری ہے لکھنے کی

٭٭٭

یادیں

بہت مشکل تھی آسائش

سہولت کم تھی جینے کی

نہ بجلی تھی

نہ پانی کی تھی آسانی

نہ چیزوں کی

نہ دولت کی فراوانی

ہر اک میدان میں

ہر دائرے میں تنگ دامانی

ضروری حاجتوں میں بھی پریشانی

اندھیرے میں مکانوں سے نکلنا تھا

کھلے میں، کھیت میں

چھپ کر پہنچنا تھا

بچا کر خود کو دنیا سے

گزرنا تھا

شجر کو کاٹ کر

ایندھن بنانا تھا

دھوئیں میں بیٹھ کر

چولھا جلانا تھا

کسی سوئی ہوئی لکڑی کو

پھونکوں سے جگانا تھا

سمجھ لیجے کہ مردے کو جلانا تھا

نہ اپنے پاس گھوڑا تھا

نہ ہاتھی تھا

نہ گاڑی تھی

اٹاری تھی، نہ کوٹھی تھی

حویلی تھی ، نہ باڑی تھی

سبھی کو کام پر پیدل نکلنا تھا

نکیلے پتھروں کی راہ پر

دن رات چلنا تھا

دوا دارو کی تنگی تھی

غذا میں سادگی تھی

ایک رنگی تھی

خبر گیری بڑی مشکل سے ہوتی تھی

کئی ہفتوں میں نامہ ہاتھ لگتا تھا

صعوبت جھیلنے کے بعد

منزل پاس آتی تھی

بہت دشوار کن تھی زندگی

پر یاد آتی ہے

کہ اس کی یاد سے اک نور چھنتا ہے

بصیرت میں پہنچتا ہے

کوئی سرمہ سا رکھتا ہے

عجب اک رس نکلتا ہے

رگ و ریشے میں گھلتا ہے

دل و جاں میں سرور و کیف بھرتا ہے

کہ اس تنگی میں دل کتنا کشادہ تھا

نظر میں کیسی وسعت تھی

سمٹ آتے تھے باہوں میں پرائے بھی

بسا لیتے تھے گھر میں مسکرا کر

 بے گھروں کو بھی

نوالہ منہ کا دے دیتے تھے اوروں کو

خبر دکھ کی جو سنتے تھے

تو پیدل بھاگ پڑتے تھے

ہمارا دل بھی کتنا نرم ہوتا تھا

کسی کی آہ سن کر کانپ جاتا تھا

کسی کی چھٹپٹاہٹ پر

وہ خود بھی چھٹپٹاتا تھا

دھواں تھا

پر دھویں میں دم نہیں گھٹتا تھا سینے میں

اندھیرا تھا ،بہت گہرا اندھیرا تھا

اندھیرے میں مگر لوگوں کا چہرہ

صاف دکھتا تھا

بہت دشوار تھا رستہ

مگر چلنے کا یارا تھا

کہیں جانے ،کسی کا کام نمٹانے کا جذبہ تھا

خصوصاً اس گھڑی یادوں کا ریلا تیز ہوتا ہے

کبھی جب دفتری کاموں میں ہوتے ہیں

کسی اسٹار ہوٹل میں

بڑی سی ڈیل کرتے ہیں

کروڑوں ایک جنبش میں

بناتے ہیں

لٹاتے ہیں

گنواتے ہیں

الجھتے ہیں

بپھرتے ہیں

بکھرتے ہیں

تو گزرے دن چلے آتے ہیں آنکھوں میں

ملازم کی کوئی لڑکی بھی آ جاتی نگاہوں میں

وہی لڑکی جو بس جاتی تھی سینے میں

وہی جو پاس ہوتی تھی

مگر ملنا بہت دشوار ہوتا تھا

جسے پانے کی خاطر

کیسی بے چینی سی ہوتی تھی

بہت ہی خوبصورت لڑکیاں ہوتی ہیں دفتر میں

جو اک جنبشِ سے آ جاتی ہیں پہلو میں

رگ و ریشے میں لیکن کیفیت ویسی نہیں گھلتی

جو گھلتی تھی نصیبن سے لپٹنے میں

مسرت کی کوئی کھڑکی نہیں کھلتی

جو کھلتی تھی

 نصیبن کے بدن کے لمس سے تن میں

بہت ہی روشنی ہے ،گہما گہمی ہے

ہر اک شے کی سہولت ہے

ضرورت کی سبھی چیزیں مہیا ہیں

ہر اک نعمت میسر ہے

مگر دل میں

نظر میں

ذہن میں

سب میں قیامت ہے

٭٭٭

نظم نامہ: از وحید احمد ۔۔۔ حمیدہ شاہین

وحید احمد!

 یہ نامہ کن ہواؤں کو تھمایا تھا

جو حفظِ راز کی تہذیب سے نا آشنا نکلیں

یہ کھولے پھر رہی ہیں نظم نامہ دھیان کی نیلی فضاؤں میں

جہاں یہ پَر کُشا نظمیں کبوتر بن کے اُڑتی ہیں

یہ فردوسی پرندے ہیں

اتر آتے ہیں جو احساس کی خوش رنگ چھتری پر

اور ان کی مَدھ بھری، مانوس، البیلی غٹر غوں سے

چٹخ کر ٹوٹ جاتا ہے حریمِ جاں کا سنّاٹا

وحید احمد!

یہ نامہ کِن ہواؤں کو تھمایا تھا

جو اُن منہ بند نظموں کو بھی لے آئی ہیں محفل میں

جنھیں تفہیم کی جادو بھری خلوت میں کھُلنا تھا

وہ خلوت جس کے پہلو میں

’’پرانے گیت کھُلتے ہیں تو آنکھیں بند ہوتی ہیں‘‘

’’تھکن بستر پہ لیٹی ہے‘‘

جہاں تنہائی ماں جائی ہے اور پانی سے کوئی گھر نکلتا ہے

جہاں شدھ یکتائی، مقدّس گھور اکلاپا

’’جہاں پر بادشہ ہیروں جڑی مسند پہ بیٹھے ہیں‘‘

’’جہاں پر کُہر کی تختی گڑی ہے

جس کے اوپر نم ہوا کی پور نے

منزل کا سنگِ میل لکّھا ہے‘‘

’’کشش کا کارخانہ ہے

جہاں سے کوچ بنتا ہے‘‘

’’کوئی جوہر کو ضربائے تو وہ وحشت سے پھٹتا ہے

پھر اِس کے بعد روحیں اتنی سرعت سے نکلتی ہیں

 کہ عزرائیل کی زنبیل میں کہرام مچتا ہے

 کسی کی لپ سٹک میں ہونٹ اپنا رنگ بھرتے ہیں

کشادہ قہقہوں کی شاہراہیں، کھلکھلاتے در

بھری مسکان محرابیں، مچلتے چہل خانے ہیں

کوئی سمجھا رہا ہے

’ہاتھیوں اور تتلیوں میں فرق ہوتا ہے ‘

وہ کہتا ہے

’ہمارا عہد کیا ہے، درد کی خوانچہ فروشی ہے ‘

’’زلیخائے جنوں نے یوسفِ دوراں کے کرتے کو

بیاضِ گردنِ یوسف سے پکڑا

 اور نچلی پسلیوں تک پھاڑ ڈالا ہے ‘‘

یہاں اک نظم کہتی ہے

’’مسیحا! سولیاں مہنگی ہوئیں ہیں، جسم سستے ہیں ‘‘

وہ کہتی ہے

’’ہماری راہ کے پانی کا جُثّہ پھاڑ دے مولا

کہ ہم کو جینے والی زندگی کے گھاٹ اُترنا ہے ‘‘

بتاتی ہے

’’کہ اب پھر عالموں نے

معبدوں میں جانور باندھے ہوئے ہیں

یہاں ٹیلوں، کبھی جھیلوں، کبھی میدان میں ڈھلتا ہوا تھل ہے

یہاں البم کے صفحوں کی تہوں سے خوں نکلتا ہے

سماعت کے افق پر درد کا بادل گرجتا ہے ‘‘

یہ ایسا نظم نامہ ہے

جہاں شاعر ہر اک صفحے پہ محرابیں بناتا ہے

 وہ کہتا ہے

’’لرزتے ہاتھ اُٹھا کر اعترافِ جرم کرنا ہے

خدائے نسلِ آئندہ کے آگے سر جھکانا ہے ‘‘

مگر جب آخری صفحہ تشکر سے سجاتا ہے

تو یوں لگتا ہے وہ سجدوں کی گنتی بھول جاتا ہے

وحید احمد!

یہ نامہ جن ہواؤں کو تھمایا تھا

 ابھی وہ اِس گلابی شام کے آنگن سے گزریں گی

تو خوشبو چھوڑ جائیں گی

٭٭٭

آہ اے ارض فلسطین ۔۔۔ اسلم عمادی

ہماری آنکھوں میں اشک پر ہیں

ہماری آہیں، ہمارے نالے، ہمارے نوحے فضا میں

ماتم بچھا رہے ہیں،

سب اہل انصاف و دانش و عدل

ہیں غم زدہ، دل گرفتہ، حیراں

خبیث جابر کے ظلم، جبر اور بہیمیت بھی عروج پر ہیں،

عدو سبھی، امن و حق کے دشمن جٹے ہوئے ہیں،

ادھر ہمارے عزیز پیارے،

وہ سارے خود دار، گھر سے بے گھر ہوئے بچارے

سب اپنے حق، اپنے گھرکی خاطر تڑپ رہے ہیں،

کئی برس سے یونہی شب و روز،

مر رہے ہیں، بے کفن پڑے ہیں، [بے علاج زخمی، ضعیف، اپاہج]

ستم کا آئینہ بن گئے ہیں۔۔۔۔

عجیب ہے یہ ہماری اکیسویں صدی کا کریہہ منظر

اور اس پہ دعوی ہے

شور ہے یہ

کہ ہم ہیں اعلی اور ارتقا کی بلندیوں پر

یہ دعوی

لگنے لگا ہے اب سچ میں شریر ذہنوں کا جھوٹ،

ہر قولِ بے شک ہے کذب، اور مکر کا تماشہ

اے سب کے رب، ای عظیم و قادر، اے میرے اللہ،

یہ میرے بھائی، بہن، یہ بچے، جوان، بوڑھے،

شہید و مجروح، یتیم و بیوہ، یسیرو تنہا،

یہ سب ترے نام سے جڑے ہیں،

تری کمک، تری مدد اور تری عنایت کی آس میں ہیں

بہت ہوا انتظار مولی، رحیم ہے تو، کریم ہے تو،

تجھی نے پیدا کیا ہے ان کو، تو پھر، انہیں کا حافظ، عظیم ہے تو

گذر چکا ضبط و صبر و شکیب کا پل

بس اب کرم کر،

اے نور والے، قران والے ؛ اے شان والے

وہ نبیوں کا دیس، وہ فلسطین

تری توجہ کے منتظر ہے، اتار دے فتح کے فرشتہ

ستم گروں کو ہلاک کر دے،

لئیم و جلاد غاصبوں کو تباہ و نابود و خاک کر دے

وہ خوبیوں کی زمیں فلسطین، جاگ اٹھے، اس کے اصلی باسی بھی لوٹ آئیں

وہ تین و زیتون کی پیاری دھرتی‘ جو قید میں ہے

وہ پھر سے شاداب ہو، بہاریں پھر اس میں لہلہائیں

اے صاحب عز و جل، اے اللہ

ہم کئی دہوں سے ہیں سر بہ سجدہ،

ہیں منتظر تیرے فیصلے کے

بہت ہوا انتظار مولیٰ

بس اب کرم کر، بس اب کرم کر۔۔۔۔۔

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ فرزانہ نیناں

دعا

بارش کیسی تیز ہوئی ہے

آدھی رات کا سناٹا ہے

آنکھ اداسی میں ڈوبی ہے

خواب بھی چھپ چھپ کر تکتے ہیں

خوشبو کچھ مانوس سی ہے

دل کچھ بکھرا بکھرا ہے

شیشے کی ان دیواروں کے پار

افق ہے

اور دعا۔۔۔

جب تک لوٹ کر آئے گی

شاید میں ہو جاؤں، راکھ۔۔۔!!!

٭٭٭

بجلی

کہاں سے لاؤں

تمہارے لیئے

وہ موجِ حیات

جو زندگی کے تلاطم میں

تم کو تھامے رہے

کہ جس کا لپکا

جلائے

تمہارے جذبوں کو

کہ جس کا ذائقہ

 شیریں ہو

جامِ مئے بھی ہو

یہ کام اتنا ہے مشکل

کہ اس میں جلتا ہے

مرا بدن، یہ مری روح

ہزار برسوں سے۔۔۔!

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ جاناں ملک

نظم کا کچھ بھی نام نہیں

شہزادے!

اے ملک سخن کے شہزادے!

دیکھو میں نے

نظم لکھی ہے

نظم کہ جیسے دل کا شہر۔۔۔۔۔

شہر کہ جس میں تم رہتے ہو

آدھے ہنس ہنس باتیں کرتے

اور آدھے گم سم رہتے ہو

تمہیں ادھوری باتیں اور ادھوری نظمیں

 اچھی لگتی ہیں نا۔۔۔۔۔

تم کہتے ہو بات ادھوری میں بھی اک پورا پن ہوتا ہے

خاموشی کے کتنے معنی ہوتے ہیں

کچھ باتیں ان کہی مکمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہزادے!

میں نظم ادھوری لکھ لائی ہوں

تم اس نظم کو عنواں دے دو

تم یہ نظم مکمل کر دو

لیکن تم اس گہری چپ میں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا اس نظم کو تم انجام نہیں دو گے

اس کو نام نہیں دو گے

٭٭٭

عقیدت کے کینوس پر

جہاں تپش کا

سنہرا آسمان

آنکھوں کی کھڑکیوں سے نرالا دکھے

جہاں دن کی تمازت

محبوب کے

خد و خال سے چبھن نہ دے

جہاں رات کی راحت

کمرے کے بھاری پن کو

 نہ معیوب لگے

اور بدن کے کینوس پہ

نظم کے مصرعوں کی طرح

خیالوں کی موم بتیاں جلنے لگیں

وہاں ہر ڈگر سے پرے

میں تمہیں چاہتوں کی سیج پر ملوں

ادھورے خوابوں کی کرچیاں چنوں

تمہاری آنکھوں میں

 دل کی سرمہ سلائی سے بھروں

تمہیں چاند ستاروں کے مدِ مقابل کروں

اور اِس چاہت کی خاطر

خدا کو میں شکر کے سجدے کروں

میں تمہیں دیکھوں

عقیدت کے کینوس پر

اپنی خواہشوں کی تکمیل کرتے ہوئے

دن رات رفاقت میں

زندگی کی از سر ِ نو تعمیر کرتے ہوئے

میں تمہارے ساتھ

ان ہواؤں پہ خوب چہکا کروں

تمہاری تازگی میں ہر دم مہکا کروں

یہاں تک

عقیدے کا کینوس مجھے معلیٰ لگے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل