FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

سہ ماہی ’سَمت‘

شمارہ ۶۳

جولائی تا ستمبر ۲۰۲۴ء

مدیر: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

اردو تحریر میں اردو ادب کا پہلا آن لائن جریدہ

سَمت

شمارہ ۶۳

جولائی تا ستمبر ۲۰۲۴ء

مدیر: اعجاز عبید

اداریہ

مجھے کہنا ہے کچھ۔۔۔۔۔

تازہ شمارہ حاضر ہے۔ جو اس بار کچھ زیادہ ہی ضخیم ہو گیا ہے اگرچہ اس بار کچھ نیا قسط وار سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ تھا، لیکن رسالے کی ضخامت کے باعث اسے مؤخر کر رہا ہوں۔

اس بار بہت دنوں بعد کوئی گوشہ شامل کیا جا رہا ہے۔ احمد رشید علی گڑھ کے احباب میں (بلکہ کچھ حد تک شاگرد کہا جا سکتا ہے، کہ انہوں نے اپنے ابتدائی افسانے اصلاح کے لئے مجھے دئے تھے!) شامل ہیں، اور ان کے ضمن میں مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اب تک ان کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہو سکی ہے۔ اس احساس کے تحت ان پر گوشہ شامل کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ ادھر کئی احباب کی دائمی جدائی کی خبریں ملیں۔ احباب انہیں محض رسمی طور پر ہی نہیں کہا جا رہا ہے، بلکہ واقعی ان میں سے کئی احباب سے واقعی میرا ربط رہا ہے، ای میل اور فون کے ذریعے۔

طارق غازی ایک عجوبۂ روزگار شخصیت تھے، بلکہ انہیں گذشتہ تہذیب کی آخری علامتوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ دینی سرگرمیوں سے قطع نظر ادبی اور لسانی طور پر بھی وہ ان دنوں کافی سرگرم ہو گئے تھے جب میرے مرحوم بزرگ دوست ابن فرید کی بہو رضیہ مشکور نے ’علی گڑھ اردو کلب‘ نامی یاہو گروپ کی تشکیل کی تھی، اور ایک آن لائن جریدہ ’دیدہ ور‘ کا اجراء کیا تھا۔ ان دنوں  سَمت اور دیدہ ور، دونوں جریدوں میں ان کی تخلیقات شامل ہوتی تھیں، اور انہوں نے کئی علمی سلسلے بھی اس یاہو گروپ  کے تحت شروع کئے تھے۔ ’لفظ نما‘، ’مطالعات‘ اور ’نکتہ گو ‘کے نمونے اس بار ان کی یاد میں شامل کئے جا رہے ہیں۔ انہی سلسلوں کو ترتیب دے کر برقی کتب کی اشاعت بھی عمل میں لائی گئی تھی۔

فریاد آزر بھی ان دوستوں میں شامل تھے جن پر پہلے بھی ایک گوشہ نکالا جا چکا ہے، شمارہ ۲۷ ۔۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۱۵ء میں۔ اب ان کی یاد میں مزید ایک گوشہ شامل ہے۔

سلام بن رزاق ان افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جن کے بغیر اردو فکشن کی تاریخ ادھوری ہے۔ ان کی رہنمائی میں ایک واٹس ایپ گروپ ’بزم افسانہ‘ بھی بہت فعال رہا ہے۔ ان پر گوشہ بھی ضروری تھا۔ اور ابھی ابھی ان سطروں کے لکھنے وقت خلیل مامون کے انتقال کی خبر بھی ملی ہے۔ اللہ ان تمام مرحومین کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے۔

سلام بن رزاق کے گوشے کو خاطر خواہ مواد میسر نہ ہونے کے باعث مؤخر کیا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ یہ اگلے شمارے میں شامل ہو گا۔

احمد فرہاد، جو پاکستان میں مزاحمت کی ایک اہم آواز ہیں (تھے؟)، مفقود الخبر ہیں۔ ان کے تعارف کے طور پر ایک خصوصی گوشہ شامل کیا جا رہا ہے جس میں ان کی تین نمائندہ غزلیں اور ایک نظم شامل ہے۔

باقی تخلیقات بھی امید ہے کہ آپ کو پسند آئیں گی۔

ا ۔ع

٭٭٭

عقیدت

نعت ۔۔۔ محمد بلال اعظم

تسبیحِ محمدﷺ میں یوں مصروف قلم ہو

’’الہام کی رم جھم‘‘ ہو، تصور میں حرم ہو

رنگوں میں دھلے حرف ہوں، خوشبو میں بسے لفظ

اندازِ ثنا ہم سرِ معیارِ ارم ہو

ہر شے میں تراﷺ عکس ابھارا ہے خدا نے

تخلیقِ بہاراں ہو کہ ترتیبِ ارم ہو

تخلیقِ دو عالم ہو کہ ہو نغمۂ توحید

زمزم ہو کہ کوثر ہو، وہ ہستی کہ عدم ہو

تشکیلِ جہاں سے بھی یہ پہلے ہوا فیصل

گردوں سے بھی اونچا تریﷺ عظمت کا علم ہو

جو فعل ہو اُنﷺ کا، وہی دستورِ شریعت

کہہ دیں جو محمدﷺ، وہی تقدیرِ امم ہو

ہو راہِ حرم میں یہ فلک ناز کفِ خاک

خوش بختیِ عالم بھی یوں ہمراہِ قدم ہو

اک خوابِ مسلسل ہے کہ طیبہ میں رہوں میں

ہر لفظ مرا مدحِ محمدﷺ میں رقم ہو

٭٭٭

گاہے گاہے باز خواں

علامہ اقبال کی یاد میں ۔۔۔ امین احسن اصلاحی

یہ دَور ہمارے عروج و اقبال کا دَور نہیں، بد بختی و ادبار کا دَور ہے۔ ہم پاتے کم ہیں، کھوتے زیادہ ہیں۔ اونچے درجے کے اشخاص ہم میں اولاً تو پیدا نہیں ہوتے اور اگر دو چار پیدا ہوتے ہیں تو قبل اس کے کہ ان کے جانشین پیدا ہوں، وہ اپنی جگہ خالی چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ اپنی قوم کے ان لوگوں کو گنیے جن کے دم سے آج ہماری آبرو قائم ہے اور پھر دیکھیے کہ ایک ایک کر کے ان کی صف کس طرح ٹوٹتی جا رہی ہے اور کوئی نہیں جوان کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھے۔ قوموں کے مرنے اور جینے کا ایک اصول ہے جو ہمارے موجودہ فلسفۂ قلت و کثرت سے بالکل مختلف ہے۔ ہم صرف سَروں کو گننے کے عادی ہو رہے ہیں حالاں کہ زندگی سَروں سے نہیں بلکہ دماغوں اور دماغوں سے زیادہ دلوں سے ہے۔

؎ مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے

کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

جن لوگوں کے سامنے معاملہ کی یہ حقیقت، اپنی پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے، کون بتا سکتا ہے کہ علامہ اقبال کی موت نے ان کے دلوں کا کیا حال کیا! دنیا تقدیر سے شکوہ سنج ہوتی ہے تو سر پیٹتی ہے، اور دشمن کی چیرہ دستیوں سے چڑتی ہے تو انتقام لیتی ہے، لیکن اقبال کا نوحہ خواں کیا کرے وہ تو صرف خدا ہی سے شکوہ کر سکتا ہے۔

انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ!

غالباً 1916ء یا 1917ء کا واقعہ ہے۔ استاد مرحوم مولانا عبد الرحمٰن نگرامی، طلبہ کی مجلس میں اقبال کا شکوہ پڑھ رہے تھے۔ میں اس مجلس میں موجود تھا۔ یہ پہلی مجلس ہے جس میں میں نے شعر کے اثر کو آنکھوں سے دیکھا۔ آنکھوں سے اس لیے کہ اس وقت تک میرے دماغ میں شعر کی خوبیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں پیدا ہوئی تھی۔

میں مجلس میں بیٹھا ہوا صاف سن رہا تھا کہ اقبال کے شعروں کی صدائے بازگشت در و دیوار سے بلند ہو رہی ہے اور آنکھوں سے علانیہ مشاہدہ کر رہا تھا کہ آسمان سے کوئی چیز برس رہی ہے اور ساری زمین ہل رہی ہے۔ میں نے آج تک کوئی مجلس اتنی پُر اثر نہیں دیکھی اور اس ایک مرتبہ کے علاوہ شاید کبھی میرے دل نے شاعر بننے کی آرزو نہیں کی۔ لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہوئی کیوں کہ میں نے اقبال بننے کی آرزو کی تھی اور اقبال صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ آج بیس بائیس برس کے بعد اس مجلس کی لذیذ یاد پر رونا بھی آتا ہے اور ہنسی بھی!! ہنسی بچپنے کی اس سادہ لوحی پر کہ شاعر ہونا تو درکنار اقبال کے شعروں کو سمجھنے کی اہلیت بھی پیدا نہیں ہوئی اور رونا اس لیے کہ وہ عظیم الشان ہستی آج اٹھ گئی ہے جو حوصلوں اور ولولوں کو دعوتِ رفعت و سبقت دینے کے لیے ایک نشان پرواز اور دماغوں کی رہنمائی و قیادت کے لیے ’پہاڑی کا چراغ‘ تھی۔

شاید وکٹر ہیوگو نے کہا ہے ’زندگی کتنی ہی شاندار اور عظیم الشان ہو لیکن تاریخ اپنے فیصلہ کے لیے ہمیشہ موت کا انتظار کرتی ہے‘۔ دنیا کے لیے ممکن ہے یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہو۔ لیکن اقبال کے لیے تاریخ نے اپنے اس کلیہ کو توڑ دیا۔ اقبال کی عظمت کی گواہی دلوں نے ان کی زندگی میں دے دی، اب تاریخ کے لیے صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ دلوں کے تاثرات کو محفوظ اور قلم بند کر لے۔

اقبال اس بزم میں یا تو بہت بعد میں آئے تھے، یا بہت پہلے۔ اتنے بعد کہ اہلِ مجلس کے دماغوں اور دلوں میں ان خیالات و افکار کے لیے ایک چھوٹے سے نقطہ کے برابر بھی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ یا اتنے پہلے کہ جس صبح صادق کے وہ مبشر تھے نہ صرف یہ کہ افق میں ابھی اس کی صبح کاذب کا کوئی نشان بھی نمودار نہ ہوا تھا۔ بلکہ دنیا پر ابھی نصف شب کی ہولناک تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن اقبال کو اللہ تعالیٰ نے تسخیرِ قلوب و ارواح کے لیے اس نفوذ میں سے ایک حصہ عطا فرمایا تھا، جسے وہ صرف اپنے ان بندوں کو مسلح فرماتا ہے جو وقت کی فاتحیت کا تاج پہن کر آتے ہیں۔ چناں چہ تھوڑے ہی دنوں میں دنیا نے دیکھا کہ جس شخص کی باتیں اہلِ مجلس کے لیے اتنی بیگانہ تھیں کہ ایک شخص بھی ان کو سمجھنے والا نہ تھا۔ اب اتنی مانوس و محبوب ہو گئی ہیں کہ ہر بزم و انجمن کا افسانہ ہیں اور کوئی دل ایسا نہیں ہے جو اقبال کی عظمت کے آگے جھک نہ گیا ہو۔

اقبال نے جس جرات کے ساتھ ہمارے علم و عمل کے ایک ایک گوشہ پر تنقید کی اور جس بے خوفی کے ساتھ اپنی دیکھی ہوئی راہوں پر چل پڑنے کی دعوت دی، اس میں پیغمبرانہ عزیمت کی نمود ہے۔ جہاں تک جرح و تنقید کا تعلق ہے، مولانا حالی کی زبان بھی تیغ و سناں سے کم نہ تھی، ان کا تیشہ بھی ہمارے عمل و اعتقاد کے ہر گوشہ کے لیے بے امان تھا۔ وقت سوسائٹی جن عناصر سے مرکب تھی ان میں سے ایک ایک کو چُن کر حالی نے پکڑا اور قوم کی عدالت میں مجرم ٹھہرا کر ان کو بے دریغ سزا دے دی اپنی بے پناہ قوت سے ہمارے تمام اعمال و معتقدات کو ایک نئی راہ پر لگا دیا۔ لیکن حالی کا کام آسان تھا۔ وہ قوم کو زمانہ کے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔

؎ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

اور زمانہ اپنی تمام رعنائیوں اور دلربائیوں کے ساتھ ان کی رفاقت کے لیے آمادہ کار ہو چکا تھا۔ ان کو جو دیواریں ڈھانی تھیں وہ خود متزلزل ہو چکی تھیں اور جو عمارت بنانی تھی اس کے لیے دستِ غیب خود چونا اور گارا مہیا کر رہا تھا۔ وہ خزاں کی بلبل ضرور تھے مگر موسمِ گل کی آمد آمد ان کو شہ بھی دے رہی تھی۔

مگر اقبال، اللہ اکبر! اس کی سطوت و جلالت کا کون اندازہ کر سکتا ہے وہ زمانہ سے جنگ کرنے کے لیے آیا تھا۔

؎ زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز

ان کو جو پیغام دینا تھا، نہ صرف یہ کہ زمانہ اس سے آشنا نہیں رہ گیا تھا بلکہ وقت کی ذہنیت بالکل اس سے مختلف قالب پر ڈھل چکی تھی اور اس کائنات کی تمام قوتیں ہم کو ایک نئی سمت میں کھینچ لے جانے کے لیے نہ صرف پوری طرح طاقتور ہو چکی تھیں بلکہ ہم نصف سے زیادہ منزل اس راہ کی طے بھی کر چکے تھے۔ مگر اقبال تسخیر قلوب و ارواح کی ایک غیبی طاقت سے مسلح ہو کر آیا اور اس نے ہم کو ایک بڑے خطرہ سے بچا لیا اور یقیناً یہ اسی کی برکت ہے کہ ہم جو ہر شکل و ہئیت کو قبول کر لینے کے لیے موم کی طرح نرم ہو چکے تھے، گو چٹان کی طرح سخت نہ ہو چکے ہوں لیکن اتنی صلابت ہم میں ضرور آ چکی ہے کہ ہر انگلی ہم پر تصرف نہیں کر سکتی۔ یہ خودی کا وہی احساس ہے جس کو اقبال نے پوری قوت سے جھنجوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی۔

اقبال کے فلسفہ پر غور کرنے والے، اس کا سراغ نٹشے اور برگسان میں لگانا چاہتے ہیں یہ اس لیے کہ ہماری منفعل اور مرعوب ذہنیت تصور بھی نہیں کر سکتی کہ یہ بادۂ تند مشرق کے کسی میکدہ کی ہو سکتی ہے۔ حالاں کہ اقبال کے خیالات کا اصلی مصدر قرآن ہے۔ یوں تو اقبال نے کلمہ حکمت جہاں پایا اس کو لیا لیکن اس لیے کہ وہ اپنی چیز تھی۔ ورنہ جو خود کوہِ نور کی دولت کا مالک ہو وہ فقیروں کی کوڑیوں پر کیا نگاہ ڈالتا!

اقبال نے تو یہ ننگ تک گوارا نہ کیا کہ قرآنی صداقتوں اور عربی حکمتوں کو زمانہ کا آب و رنگ دے کر خوشنما بنائے۔ وہی پرانا کیسہ اور وہی بے ترشے ہوئے نگینے۔ مگر جب اقبال نے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر ان کو پیش کیا تو نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ اقبال کی دنیا ہی الگ تھی۔ جب سب شفا خانۂ حجاز میں زندگی ڈھونڈنے نکلے تو وہ ریگستانِ حجاز میں موت ڈھونڈتا تھا۔ جب مرمریں سلوں اور برقی قمقموں نے حرم کو جگمگا دیا تو اس نے چڑ کر کہا

؎ میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

اور بے لوث صداقت کا اعجاز دیکھو کہ ہم صرف ڈھلی ہوئی ترشی ہوئی، ملمع کی ہوئی چیزوں ہی کے دیکھنے کے عادی ہیں۔ اقبال کی یہ سادگی ہم کو بھی دیوانہ بنا لیتی ہے اور باوجود یہ کہ بغیر عقل و منطق کو ساتھ لیے ہم ایک قدم چلنے کے عادی نہیں مگر جب اقبال کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو کوئی نہیں جو ان سے دلیل مانگے، شاید یہ بات سچ ہے کہ

سچائی اگر سچے کی زبان سے نکلے تو وہ اپنی حمایت کے لیے منطق کی محتاج نہیں۔

اقبال اور ان کی شاعری سے قوم کی جو خدمتیں انجام پائی ہیں ان پر غور کرنا مؤرخ کا کام ہے۔ ہم صرف ایک بات کا حوالہ دینا چاہتے ہیں جس کو صرف اقبال ہی نے کیا اور وہی کر سکتے تھے۔

اگر اقبال نہ پیدا ہوتے تو یقیناً ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم ہمارے نوجوانوں کو اس طرح مسخ کر ڈالتی کہ ان کے اندر دین و ملت کے لیے حمیت و غیرت کا کوئی شائبہ باقی نہ رہ جاتا، وہ جس طرح ظاہر میں مسخ ہو گئے ہیں اس سے زیادہ ان کا باطن مسخ ہو جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اقبال کو بھیجا جو معلوم نہیں کس طرح ظلمات کے ان تہہ بر تہہ پردوں کو چاک کر کے ان کے دلوں میں بیٹھ گئے اور جب تک ان کی روح شعر اس کائنات کے اندر کارفرما ہے اس وقت تک انشاء اللہ ان میں درد کی ایک کسک باقی رہے گی، اگرچہ دلوں کی جگہ سینوں میں پتھر پیدا ہونے لگیں۔

جب مایوسیاں گھیر لیتی تھیں، ہم اقبال کے شعروں میں ایک نشانِ امید دیکھتے تھے جب تاریکیاں چھا لیتی تھیں اقبال ہمارے لیے شعاعِ ہدایت بن کر چمکتے تھے۔ وہ روحوں کو گرما دیتے تھے، دلوں تڑپا دیتے تھے۔ ان کی زبان سے ہم مشرق کے ضمیر کی صدائیں سنتے تھے، ان کی ہندی نغموں میں حجاز کی لے مضطرب تھی۔ وہ زمین کے تھے مگر ان کی پرواز آسمان تک تھی۔ وہ شاعر تھے مگر ان کی شاعری میں علمِ نبوت کی روح کارفرما تھی۔

وہ دنیا داروں کے بھیس میں قلندر اور دیوانوں کے رنگ میں دانائے راز تھے۔ خداوند! ہمارا یہ شاعر کہاں گیا! اس کی روح پر تیری بے پایاں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں!!

(رسالہ الاصلاح، اعظم گڑھ، مئی 1938)

٭٭٭

ادبی نقاد اور ناول نگار شمس الرحمٰن فاروقی سے ایک گفتگو: سونل شاہ (ترجمہ: شفتین نصیر)

انڈیا کے ادبی حلقوں میں حال ہی میں منظر عام پر آنے والے انگریزی ناول The Mirror of Beauty نے ہلچل مچا دی ہے جو دراصل نو سو چوراسی صفحات میں اردو کے مشہور شاعر داغ دہلوی کی والدہ وزیر خانم کی حیات اور ان کے زمانے پر مبنی ایک افسانوی داستان پر مشتمل ہے۔ نیز زیادہ تر انیسویں صدی سے تعلق رکھنے والے دلی شہر اور اس کے مضافاتی ماحول پر مبنی ہے۔ وزیر خانم ایک خوبصورت اور پُر جوش عورت ہے جو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مغل دربار سے وابستہ نواب زادوں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز افسران، معاصر شعراء اور دیگر بہت سے ناقابل فراموش کرداروں سے میل جول رکھتی ہے۔ مذکورہ ناول دراصل، 2006ء میں شائع ہونے والے شمس الرحمن فاروقی کے اردو ناول بعنوان ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ (جولائی 2013ء میں دیے جانے والے اس انٹرویو کے موقع پر) اٹھہتر برس کے فاروقی صاحب جو بھارتی پوسٹل سروس سے ایک اعلیٰ بیوروکریٹ کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے، اردو کے ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی ایک نہایت سرکردہ شخصیت ہیں۔ انھوں نے دہلی میں انڈیا انک (India Ink) کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کی کہ اس ناول کے واسطے انیسویں صدی کے دلی پر مبنی ایک دنیا کیسے تخلیق ہوئی نیز انھیں نوجوان قارئین سے کیا توقع ہے کہ وہ اس کتاب سے کیا کچھ حاصل کر پائیں گے۔

سوال: آپ الٰہ آباد میں رہائش پذیر ہیں، جو کہ نسبتاً ایک چھوٹا شہر ہے، اور آپ کی تحاریر کے قارئین زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اردو بولنے والوں میں سے ہیں یا علمی دنیا سے۔ حال ہی میں اورحان پاموک (Orhan Pamuk) جیسے نامور مصنف نے بھی آپ کی کتاب کو ’’ایک معتبر اور حیرت انگیز تاریخی ناول‘‘ کہا ہے۔ آپ کے لیے عالمی سطح پر ادبی توجہ حاصل کرنے کا تجربہ کیسا رہا ہے؟

شمس الرحمن فاروقی : میں اس تمام معاملے سے متعلق بے یقینی محسوس کرتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو اس تمام تر توجہ اور بڑائی کا مستحق نہیں سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنے مدیر سے کہا کہ اس امر کو جاننے کے باوجود کہ آپ لوگ مجھے ایک دیو قامت شخص کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، میں اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرتا ہوں۔ مجھے ان چیزوں کو پیچھے چھوڑے ہوئے عرصہ دراز بیت چکا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں، اپنے ہی لوگوں کی جانب سے ہونے والی بے پناہ تنقید کا سامنا کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ستائش، محبت اور شاباشی بھی حاصل کی ہے۔ مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا، خواہ عالمی ماحول ہو یا الٰہ آباد جیسی دور افتاد جگہ ہو۔ اگر اورحان پاموک میری تعریف میں لکھتے ہیں تو مجھے خوشی ہے؛ اگر وہ نہ لکھیں، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

سوال: انگریزی زبان میں لکھاری حضرات عالمی سطح پہ قارئین کو بالعموم فرض کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ڈیڑھ سو برس پہلے، اردو زبان کم از کم ہندوستان کی حد تک ایک مشترکہ زبان (یا باہمی رابطے کی زبان یعنی لینگوا فرینکا) تھی، معاصر ادب میں اردو قارئین کی تعداد ایک مخصوص حلقے تک ہی محدود ہے۔ قارئین کے حوالے سے آنے والی یہ تبدیلی، آپ کے ترجمے پر کیسے اثر انداز ہوئی؟

شمس الرحمن فاروقی : اردو مسودے کی بہ نسبت، انگریزی زبان میں مترجمہ ناول کی طوالت قدرے زیادہ ہے، کیونکہ مجھے چند خاص چیزوں کی وضاحت کرنا تھی۔ اور یہ بات قدرے یقینی ہے کہ اردو زبان کے دو مصرعوں کے انگریزی ترجمہ کی خاطر چار پانچ سطریں درکار ہوں۔ ایک نظریۂ ترجمہ کے مطابق، ترجمہ اس وقت تک بے کار ہے تاوقتیکہ ترجمے کی مانند دکھائی نہ دیتا ہو۔ میں اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا، کیونکہ جب آپ ایک خاص قسم کے ثقافتی ضابطے اور علامتیت کو ایک یکسر اجنبی زبان میں منتقل کرتے ہیں، تو قاری کو ہر لحظہ اس بات کا احساس دلانا زیادتی ہے کہ ’’ہاں، میں ایک اعلیٰ درجہ کی اردو تحریر کو انگریزی زبان میں پڑھ رہا ہوں‘‘۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کسی انگریز خاتون نے ہندوستانی کپڑے زیب تن کیے ہوں۔

سوال: آپ کو انیسویں صدی کے دلی کی دنیا یعنی قالین بافی کی تفصیل سے لے کر درباری آداب تک، تحقیق کرنے اور ا س کی تشکیل ِ نو پر کس چیز نے آمادہ کیا؟

شمس الرحمان فاروقی : میں نے کسی طرح کی منظم اور باقاعدہ تحقیق نہیں کی۔ جیسا کہ میں نے لکھا تھا، میں نے چند کتابوں سے مدد لی جب مجھے کچھ خاص تفصیلات، اور وہ بھی زیادہ تر تاریخوں کی تصدیق کرنے کی ضرورت پڑی۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ یہ ناول بے ہنگم اور بے شناخت وجود کی حیثیت سے میرے ذہن میں ہمیشہ ہی موجود تھا۔ حقائق، یا د داشتوں، تاثرات اور یقینی طور پر ناول کو کسی قسم کی شکل دینے سے قبل میرا مطالعہ، یہ سب کچھ ایک بکھری ہوئی صورت میں موجود تھا خصوصاً اس لیے کیونکہ میرے پاس وزیر خانم جیسے اہم کردار کو لکھنے کے واسطے کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ بلاشبہ، ماقبل جدید عہد کی فارسی اور اردو شاعری سے اپنی محبت کی دولت کے سبب، میں بے حد و حساب چیزوں سے مالا مال تھا۔ بعد ازاں، میرے گمان سے بھی زیادہ، میرے لاشعور میں اترنے والی شے داستان امیر حمزہ کا مطالعہ تھا۔ جو کہ ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیا ن ہونے والا زبانی عشق کا ایک تسلسل ہے جس کی 46 جلدوں، بیالیس ہزار سے زائد صفحات، اور دو کروڑ (بیس ملین) الفاظ کو میں نے پڑھا اور بعض صورتوں میں با رہا پڑھا، تقریباً 1980ء تک۔ میں ہمیشہ کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر ایمریطس فرانسز پریچٹ (Frances Pritchett) کا احسان مند رہوں گا جنہوں نے داستان کو میری توجہ کا مرکز بنایا۔

سوال: اردو اور انگریزی زبان میں موجود دونوں ناولوں کے لیے آپ نے خود کو انیسویں صدی کی لغت تک پابند رکھا۔ ’’دی مرر اوف بیوٹی‘‘ بہت آسان کتاب ہے، لیکن کیا اردو زبان میں لکھا جانے والا اصل ناول، دیسی اردو بولنے والوں کو چیلنج دیتا ہے؟

شمس الرحمان فاروقی : لوگ اس کی وسعت اور پھیلاؤ کی بدولت سراہ رہے ہیں، لیکن سبھی اس بات پر شکوہ کناں ہیں کہ : آپ نے حاشیہ نہیں دیا، آپ کو ترجمے میں فارسی متن کو شامل کرنا چاہیے تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی لوگوں نے شکایت کی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مقبول عام کتاب نہیں تھی، چار سالوں میں وہ دو مرتبہ شائع ہوئی، جو کہ ایک اردو ناول کے لیے قدرے غیر معمولی بات ہے۔ میں نے شعوری طور پر اس ناول کو ایسے انداز میں تیار کیا، ایک ایسی لفظیات میں لکھتے ہوئے جو آج کل استعمال نہیں ہوتی یعنی قدیم اردو زبان جس سے بیشتر لوگ ناواقف ہیں۔ میں نے بالکل پرواہ نہیں کی۔ میں اپنا کام کر رہا تھا۔ مجھے اپنے تصور سے وفاداری نبھانی تھی۔

سوال: ہندوستان اور پاکستان کے انگریزی میں لکھنے والے مصنفین کے مابین ایک مضبوط رابطہ موجود ہے۔ وہ ایک دوسرے کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کو جاتے ہیں، انعامات کی ایک جیسی فہرست تیار کرتے ہیں۔ اردو زبان میں لکھنے والے پاکستانی اور ہندوستانی مصنفین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

شمس الرحمان فاروقی: ذاتی سطح پر بہت دوستی ہے۔ بہت حد تک آنا جانا، لکھنا اور تبصرہ نگاری بھی ہے، لیکن بھرپور حوصلہ افزائی نہیں ہے۔ میں بھرپور انداز میں پاکستانی کتاب یا مصنف کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہوں لیکن پاکستان کے ادباء ہندوستانی مصنفین کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنے سے کتراتے ہیں۔ تقریباً ہر ایک اہم لکھاری جس کی وفات پاکستان میں ہوئی یا جسے اب پاکستانی کہا جاتا ہے مثلاً فیض احمد فیض، ن م راشد، سعادت حسن منٹو، ہندوستان میں ان کے بارے میں سبھی نے لکھا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ کو پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ بجز اس کے، وہ محبت سے بھرپور ہیں؛ وہ آپ کو کھلائیں پلائیں گے، آپ کی خاطر تواضع کریں گے۔

سوال: آپ نے دیگر چیزوں کے علاوہ انتونیا سوزن بائٹ (Antonia Susan Byatt) اور پیٹر آکرائڈ (Peter Auckroyd) کے تاریخی افسانوں میں اپنی دلچسپی کا ذکر کیا ہے۔ کیا ہندوستان سے متعلق ایسی افسانہ نگاری موجود ہے بالخصوص اس کی مغل تاریخ سے متعلق، جس پر آپ نے نگاہ ڈالی ہے؟

شمس الرحمان فاروقی : انگریزی میں امیتاو گوش (Amitav Gosh) کے ناول ہیں جنھیں میں نے پڑھا اور سراہا: مثلاً بحر گل ہائے لالہ (Sea of Poppies) کے بعد دھوئیں کا دریا (River of Smoke)۔ ان کے اندر بے شمار تاریخ موجود ہے اگرچہ ایک بے حد محدود علاقہ کی تاریخ ہے، جس کا تعلق انیسویں صدی کے اوائل یا اٹھارویں صدی کے آخری دہائیوں کے بنگال سے ہے، بالخصوص افیم کی تجارت کے ساتھ۔ امیتاو گوش کو بلا شبہ اپنے ناول کے مواد پر پوری گرفت حاصل ہے۔

سوال: آپ نے کہا ہے کہ آپ نے ’’The Mirror of Beauty‘‘ کو صرف زمانی اعتبار سے ماضی کا سفر کرنے کے حوالے سے نہیں لکھا ہے۔ کیا آپ اس بات کی مزید وضاحت کریں گے؟

شمس الرحمان فاروقی: میں اس بات کی توقع کر رہا تھا کہ نوجوان لوگ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی بدولت خود اپنی ذات سے واقفیت حاصل کریں گے یعنی وہ کہاں سے آئے، ان کی تشکیل کیسے ہوئی، 1857ء سے پہلے کی دنیا سے جدائی اور کٹ جانے کا درد کے بارے میں۔ اگرچہ یہ پہلے ہی ریزہ ریزہ ہو رہی تھی، ان کے پاس وہ دنیا تھی جو خود شعوری کی حامل تھی، جسے اپنی قدرو قیمت پر یقین تھا، جس کا موازنہ کسی دوسری ثقافت یا کسی بھی معاشرے سے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ان کے استعماری آقا کی جانب سے فراہم کردہ ناموافق معلومات اور پروپیگنڈے کی بدولت ہمیں تھما دی گئی۔ بہرصورت، ہر قسم کے ماضی کی بازیافت سزاوار ہے خواہ ممکنہ طور پر بھدا ترین ماضی ہو۔ لیکن (اس ناول میں پیش کردہ) ہمارا ماضی بھدا نہیں ہے۔ یہ قابل ِ تعریف ماضی ہے۔ اور ہمارا ماضی معاصر عہد کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ پڑھا لکھا، تہذیب یافتہ اور نفیس ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس ناول کو پڑھنے کی تکلیف اٹھانے والے لوگ، اس کتاب کو اس طور سے آسان محسوس کریں گے کہ کہانی ساتھ چلتی ہے اور قاری کی توجہ کو جذب کرتی ہے اور بالآخر وہ یہ جان لیں گے کہ وہ کہاں سے آئے اور کیا تھے۔

٭٭٭

یاد رفتگاں

نکتہ گو ۔۔۔ محمد طارق غازی

دیباچہ

گزشتہ دنوں یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کبھی کبھی آپ لوگوں سے نُکتَگوٗ رہا کرے۔

در اصل یہ مخفف بنایا ہے نکتہ اور گفتگو سے، یعنی کسی علمی، دینی، ادبی، سماجی، اخباری نکتہ پر مختصر گفتگو، تھوڑے سے الفاظ میں اظہار خیال، رائے زنی، یا کسی پرانی یاد کا تذکرہ۔ میں نے بس اسی کو نکتگو قرار دیا ہے۔

اقبال اکیڈیمی حیدرآباد کے ششماہی مجلہ اقبال ریویو کا تازہ شمارہ آیا تو اس میں محسن عثمانی اور معین الدین عقیل کے مضامین میں ایسے کئی نکات سامنے آئے جن پر گفتگو نہ سہی خود کلامی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ایسا زندگی میں پہلی بار نہیں ہوا۔ لڑکپن سے بعض تحریروں پر تحسین اور تعریف، تنقید اور تعریض، تصدیق اور تردید کرنے کی عادت ہے۔ کسی کتاب یا مضمون کا مطالعے کر کے یا کرتے ہوئے اس پر فوراً کچھ لکھ ڈالا، کبھی کسی کاپی میں، کبھی بے شیرازہ اوراق پریشاں پر، کبھی کسی پرزے پر۔ کبھی ان پر اصل مضمون یا کتاب کا حوالہ ہوتا تھا، کبھی نہیں ؛ کبھی ارتجالاً محض اپنی رائے کا اظہار خود اپنے لئے۔ چنانچہ ایسی تحریروں پر کوئی حوالہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ایک عرصہ کے بعد ایسا کوئی پرزہ یا کاپی دوبارہ سامنے آئی تو اکثر یہ طے کرنا بھی دشوار ہوا کہ وہ تحریر اور رائے میری ہے یا کسی اور کی بات بلا حوالہ یادداشت کے طور پر لکھ چھوڑی تھی۔ ایسی اکثر تحریریں آج نہ جانے کہاں کہاں لاپتہ ہیں۔ بہت سی زندگی بھر کی خانہ بدوشی اور لا مرکزی حیات کر دن کے سبب سے ضائع ہو گئیں۔

تجزیہ نگاری میری زندگی کا عرف رہی ہے۔ علی گڑھ سے باہر آئے تو پہلا قدم کوچۂ صحافت میں پڑا۔ پھر وہی کوچہ میرے لئے میدانِ تیہ بن گیا جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ حقائق کی دنیا میں رہنے والے خود کو بڑا خوش نصیب گردانتے ہیں۔ ہمارا شمار بھی انہی خوش نصیبوں میں ہوا جن کے دل و جگر کو حقائق کے کانٹوں نے چھلنی کر رکھا ہے، اور دل و جگر ہی کیا خارزار صحافت میں سیاست کے کانٹوں کی نوکیں اکثر روح تک میں اتر گئی ہیں۔ کتنے حقائق ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ انہی کے لئے کنایہ اور ایہام کی نثر اور رمز و استعارہ کی شاعری ایجاد ہوئی۔ کچھ ہمارے ملکوں کی غیر اخلاقی اخلاقیات کا بھی بھرم رکھنا ہوتا تھا۔ اسی احساس کا نتیجہ تھا یہ شعر

لکھتے ہوئے قلم پہ مسلط ہے ایسا خوف

مفہوم اپنی با ت کا زیر سطر گیا

عرض صرف یہ کرنا ہے کہ نکتگو کے تحت خوش مقالی بھی ہو گی اور خود کلامی بھی۔ اس میں ماضی، حال اور مستقبل کے چہرے تو دکھائی دیں گے ہی، بقول اقبال عشق کی تقویم کے کچھ ان زمانوں کے احوال بھی زیر سطر ہی سہی آ سکتے ہیں جن کا نہیں کوئی نام۔

اقبال ریویو میں محسن عثمانی اور معین الدین عقیل کے مقالوں کے علاوہ دسمبر کے آغاز میں کچھ اور کتابیں بھی جستہ جستہ مطالعے میں رہیں اور ان کے بعض مندرجات کے بارے میں بھی ایسی ہی کیفیت پیدا ہوئی۔ مگر کچھ لکھا یوں نہیں کہ دیار مغرب میں دسمبر کا مہینہ اہل تجارت کے لئے اضافی مصروفیت کا ہوتا ہے۔ پھر علی گڑھ اردو کلب کی عمّالہ عزیزہ رضیہ مشکور سلمہا نے سفر ہند پر روانگی سے نصف گھنٹہ پہلے فون کیا اور نہایت سعادت مندی کے ساتھ علی گڑھ اردو کلب کی کچھ انتظامی ذمہ داری میرے سر ڈال کر بابل کے دیس کی راہ لی۔ ادھر خود علی گڑھ اردو کلب میں بعض ایسی دلچسپ باتیں اٹھیں کہ دن بھر چکی کی مشقت کے بعد رات کا بیشتر حصہ ان موضوعات پر (مفروضہ – یعنی کمپیوٹر پر) خامہ فرسائی کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس لئے وہ ساری باتیں جو کسی مطالعہ کا حاصل تھیں چولھے سے ہٹا کر اُولے پر دھر دیں کہ وقت ملے گا اور بات یاد رہی تو کبھی لکھ دیں گے۔ بس اسی کبھی کے گوشۂ امکان سے نکتگو کا خیال برآمد ہوا۔

٭٭٭

شاعری کی زبان

نکتہ

میں ڈاکٹر سموئل جانسن کے اس قول میں یقین رکھتا ہوں کہ ادب کے تمام اسالیب اور اصناف میں شاعری ہی در اصل زبان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔۔۔۔ شاعری کے مفاہیم صرف اپنی تعمیر میں صرف ہونے والے لفظوں کے یا زبان کے پابند نہیں ہوتے۔ بحر و وزن، آہنگ و اصوات، متعلقہ زبان اور متعلقہ شاعر کے مخصوص ذخیرۂ الفاظ، اس کے علامتی اور استعاراتی نظام میں بھی معنیٰ کے بہت مضمرات چھپے ہوتے ہیں۔

– پروفیسر شمیم حنفی

جاوید نامہ، اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ؛ اقبال ریویو، حیدرآباد، اپریل ۲۰۰۸ / ص ۴۳

گفتہ

بہت اہم ہے یہ دعویٰ کہ شاعری زبان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ درد و کرب کا اظہار، رنج و خوشی کا بیان، عصری حسّیات کی نگارش، حالات حاضرہ پر تبصرہ یقیناً شاعری کو ایک طاقتور صورت ابلاغ بناتے ہیں مگر میری دانست میں شاعری ہر زبان کے لئے مقننہ کا کام کرتی ہے اور یہی اس کا اصل منصب اور مقصد ہے۔ انسانی کیفیات کا اظہار و بیان و تذکرہ و تبصرہ سب اسی مقصد کے لئے ایک زبان کے ہتھیار اور اوزار ہوتے ہیں۔ میر کو یونہی تو لوگوں نے خدائے سخن نہیں مان لیا تھا۔ انہوں نے جب کہا تھا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا، تو وہ جانتے تھے کہ وہ اردو زبان کے فقیہ و مفتی ہیں۔ آج کا شاعر و ادیب جب مطالبہ کرتا ہے کہ بطور سند قدیم اساتذہ میں سے کسی کا شعر پیش کرو تو وہ وجدانی طور پر شاعری ہی کو زبان کے در و بست، نظم و ترتیب، الفاظ کی نشست و ترکیب کا پیمانہ تسلیم کرتا ہے۔ کسی لفظ، محاور ے یا روزمرہ کی سند تو محمد حسین آزاد اور رتن ناتھ سرشار سے بھی لائی جا سکتی ہے مگر قول فیصل تو شیخ ابراہیم ذوق اور غلام ہمدانی مصحفی کا شعر ہی ہوتا ہے۔

ایک بات اور، کوئی تو وجہ ہے کہ زبان کے سلسلے میں ترقی پسند اور جدید شاعر سند نہ مانے گئے۔ بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ان لوگوں نے وہ زبان اختیار کر لی تھی جس کے بارے میں لکھنو کے سفر کے دوران میر نے پہلوان کی بک بک کے جواب میں کہا تھا کہ کیا ضرور تم سے گفتگو کر کے میں اپنی زبان خراب کروں۔ یہ وہی میر تھا جو یہ بھی کہتا تھا گفتگو مجھ کو پر عوام سے ہے۔ یعنی عوام کی باتیں بھی تھیں اور ان کی لسانی تربیت بھی ساتھ ہی مقصود تھی، اپنی زبان بگاڑے بغیر۔ اسی لئے ان کی زبان خواص و عوام میں آج تک سند ہے۔

انسانیت کے بچپن پر نظر کریں تو رنج، خوشی، محبت، کلفت کے بہتر اظہار کے لئے ابتدائی دور کا انسان مکالمے نہیں بولتا تھا، بلکہ گانے لگتا تھا۔ وہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ شادی کا سہرا اور رخصتی، مرثیہ اور نوحہ، تہنیت اور ہجو، واسوخت اور شہر آشوب سب منظوم ہوتے ہیں، ان پر مقالے نہیں لکھے جاتے۔ مقالے فلسفہ ہوتے ہیں، جذبات نہیں۔ بات بس اتنی ہے کہ شعری پیرائے میں کہی ہوئی بات نسل در نسل یاد رہ جاتی ہے۔ حالی کے مرثیۂ دلی کے بہت سے اشعار آج بھی لوگوں کو نوک زبان ہوں گے ؛ اسی موضوع پر خطوط غالب کے کتنے جملے اور فقرے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی حفظ ہیں؟ بس یہی رمز ہے شاعری کی لسانی اور پھر اس ذیل میں قانونی اور عمرانی اہمیت کا۔

کچھ لوگ باور کرتے ہیں کہ شعر میں اپنا ذاتی یا عصری کوئی کرب بیان کر دیا تو حق شاعری ادا ہو گیا۔ وہ لوگ غلطی پر ہیں۔ جس مثبت یا منفی جذبے کا اظہار شاعری میں ہوتا ہے اس کا اصل مقصد زبان کو نازک باتیں سلیقے سے بیان کر نے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ شاعر اس اعتبار سے مستقبل کی تہذیب کا معمار ہوتا ہے، محض نوحہ گر اور سہرا نویس نہیں۔ وہ زبان ساز ا نسان ہوتا ہے اور الفاظ کے درست استعمال، محاور ے اور روزمرہ کے چست اور بر محل ہونے کی نگرانی کرتا ہے، جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں زبان کو نئے الفاظ مہیا کے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ پھر ان لفظوں سے ادا ہونے والے معانی اور ان معانی کی نیرنگی کا تعین کرتا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بہت اچھی بات کہی ہے کہ شاعری میں اصل شے لفظ ہے۔ میں اضافہ کروں گا کہ نثر میں اصل شے جملہ ہے : جس کے الفاظ و معنیٰ شاعر متعین اور مہیا کرتا ہے۔

چنانچہ جب لفظ کا خزانہ زبان کی امارت، شکوہ و قوت، شوکت و وسعت کا ثبوت بن جاتا ہے تو نثر کے بال و پر آتے ہیں۔ نثر راست شاعری سے متاثر ہوتی ہے۔ قدم قدم پر شعر اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہر زبان میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ نثر لکھتے ہوئے کسی نکتے کی زیادہ خوبصورت وضاحت کے لئے درمیان میں ایک شعر یا مصرعہ لکھ دو تو تحریر کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی شاعر نے اپنی نظم کے درمیان حسن بیان کی خاطر کوئی نثری فقرہ درج کیا ہو۔ یہ بجائے خود ثبوت ہے اس بات کہ نہ صرف شاعری کے ذریعہ بولی کو زبان کا مرتبہ ملتا ہے، بلکہ زبان اپنے ارتقا کے ہر دور میں شاعری کی رہنمائی کی محتاج رہتی ہے۔ جب شاعری کی زبان کمزور پڑنے لگے تو اس میں لسانی زوال کا سبب دیکھا جا سکتا ہے۔ شاعر پست و بے روح الفاظ استعمال کرنے لگے، ان کے شجروں سے ناواقف، معنیٰ کی تہوں سے بے خبر ہو اور غیر ثقہ مفاہیم نظم کرنے لگے تو زبان نیم جاں ہو جاتی ہے اور کسی علمی کام کا بوجھ اٹھا نے کے قابل نہیں رہتی۔

میں نے پہلی نکتگو میں شعر و علم کا موازنہ پیش کیا تھا۔ اسے آج کی نکتگو کا پیش لفظ سمجھ لیجئے۔ وہ یوں کہ مغربی زبانوں میں جب علوم (انگریزی میں سائنسوں) کا عروج ہوا تو شاعری فطری طور پر کمزور ہوئی۔ انگریزی میں رومانوی تحریک کے بعد اُس بلندی کا شعری ادب تخلیق نہیں ہوا جس معیار کی نثر، بالخصوص علمی نثر، لکھی گئی۔ اس نثر کو بھی لسانی رہنمائی تو بہر حال درکار تھی۔ خاص طور سائنسداں قلم کار زبان کے در و بست پر وہ نظر نہیں رکھتے جو تخلیقی زبان لکھنے والے کا امتیاز ہوتی ہے۔ چونکہ شاعری کی صنف صنعتی انقلاب کے ساتھ کمزور پڑنے لگی تھی تو مغرب، خصوصاً انگلستان، میں صحافت کو عروج ہوا اور صحافی نے وہ کر دار ادا کرنا شروع کیا جو رومانوی تحریک تک شاعر ادا کرتا رہا تھا۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر انگریزی شاعری رومانوی دور سے نہ گزری ہوتی تو صنعتی انقلاب کی سائنسی تحریروں کو زبان میسر نہ آتی اور خود صنعتی انقلاب ہی نہ آتا۔ فلسفۂ انقلاب کے بغیر انقلاب کب آتا ہے؟ اور فلسفہ تو صرف تونگر زبان میں لکھا جاتا ہے۔

اردو میں ہم اس دور میں داخل ہوئے ہی تھے کہ نکالے گئے۔ میر و غالب، سودا و ذوق، نصرتی و ولی، نصیر و مومن، درد و داغ، حاتم و حالی، آتش و انشا شاعری کی راہ سے اردو کو اس مقام تک لے آئے تھے کہ ایک طرف عود ہندی کی نثر لکھی جا سکی اور دوسری طرف قول فیصل اور غبار خاطر کی۔ ابو الکلام آزاد، محمد علی جوہر، حامد الانصاری غازی، ظفر علی خان، عبد المجید سالک، شائق عثمانی، نصر اﷲ خان عزیز، چراغ حسن حسرت، حیات اﷲ انصاری، عبد الرزاق ملیح آبادی، شورش کاشمیری، وغیرہ کو غالباً یہ احساس تھا کہ اردو اعلیٰ علمی وقار کی زبان بننے کے مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں شاعری کی روایت کمزور پڑے گی۔ چنانچہ صف اول کے ان تمام صحافیوں نے اپنے اخبارات – الہلال، البلاغ، ہمدرد، مدینہ، جمہوریت، زمیندار، انقلاب، عصر جدید، ایشیا،، قومی آواز، آزاد ہند، چٹان – کے توسط سے اردو زبان کی صحت و معیار کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی، اور دیکھتے ہی دیکھتے حیدرآباد میں دار الترجمہ کو علوم دنیا کے تراجم اور اصطلاح سازی کے لئے بلند پایہ زبان داں افراد اور ایک توانا زبان کا رفیع الشان ذخیرۂ الفاظ مل گیا۔

پھر اس ذخیرۂ الفاظ ہی پر ضرب پڑی۔ اس سے پہلے خود زبان پر ضرب پڑ چکی تھی۔ پاکستان میں بنگالی کے ساتھ نزاع پیدا ہوا اور ہندستان میں ہندی کے ساتھ۔ اب حال یہ ہے کہ اردو صحافت خود بہت کمزور ہے، اور شاعری کے ذریعہ زبان کی اصلاح اور توانائی بخش مہم بھی سرد پڑ ے دیر ہو چکی ہے۔ اردو کا المیہ یہ ہے کہ آج اس کے تحفظ کی ضامن اس کی شاعری رہی اور نہ صحافت۔ آج یہ بے مایہ زبان خود کو امیر خسرو (۱۳۲۵-۱۲۵۳) اور ولی دکنی (۱۷۰۷-۱۶۶۷) کے درمیانی عبوری زمانہ میں پاتی ہے۔ یعنی بات پھر وہیں سے شروع کیجئے جہاں سے ولی، سراج اور نگ آبادی اور میر و سودا نے اٹھائی تھی۔ اور یہ بھی مشروط ہے اس دعوے کے ساتھ کہ اردو کو ایک علمی زبان بنایا جا سکتا ہے اور اس کی راہ سے بھی صنعتی انقلاب قسم کی کوئی زبردست فکری، علمی، عملی اور عمرانی، تبدیلی اس دنیا میں آ سکتی ہے۔

اور یہ سب کچھ ممکن نہ ہو یا کسی کو اس قسم کی لغویات سے دلچسپی نہ ہو تو بھائی نہ تو اردو ہمارے پیر پڑ رہی ہے نہ ہمارے پیروں کی بیڑی ہے۔ جس زبان، جس قوم، جس انسانی گروہ میں صلاحیت ہو گی وہ وہ سب کچھ کر گزرے گا جو دو سو سال پہلے انگریز نے کیا تھا، اور اس سے نو سو سال پہلے جسے مسلمان نامی ایک قوم نے عربی کے راستے سے کیا تھا۔

۔۔۔۔

پس تحریر: اور بھئی یہ ڈاکٹر جانسن کون ہیں؟ یہ وہی تو نہیں جو جانسن اینڈ جانسن کے نام سے بے بی پاؤڈر بنا کر بیچتے ہیں؟ اردو تو کیا جانتے ہوں گے۔ اچھا اچھا یہ وہی ہیں، انگریزی کے محمد حسین آزاد! تو بات کرنے کے لئے آزاد ہی کیا برے ہیں؟ اردو زبان یعنی لسانیات پر ہمارے لوگوں نے بھی تو کبھی کچھ کہا ہو گا۔ آب حیات میں نہ سہی نکات سخن میں سہی، نکات الشعرا میں نہیں تو شعر الہند میں، مقدمہ شعر و شاعری میں نہیں تو شعر شور انگیز میں، کہیں ہمارے کسی آدمی نے بھی تو زبان و ادب و شعر پر کوئی ایسی عقل کی بات کسی جگہ لکھی ہو گی جس پر ہم شرمندہ ہوئے بغیر اپنے یقین کا اظہار کر سکیں۔ اور ایسا نہیں ہے تو بھائی اردو داخل ایمان تو ہے نہیں کہ یقین کے لئے ضروری ٹھہرے، نہ اس سے مفاد دنیا وابستہ کہ ولایتی صاحب کا نام بیچ میں آئے بغیر یہ زبان ہی مستند نہ ہو۔ ہاں بے بی پاؤڈر کی بات الگ ہے۔

٭٭٭

جدیدیت

نکتہ

وہ نسل جو جدیدیت کا تجربہ کر رہی تھی وہ ترقی پسند اصولیت سے مایوس ہو چکی تھی، وہ فرقہ پرست جارحیت سے خائف تھی۔ اس نے زندگی کے امکانات کے دروازے اپنے منہ پر بند ہوتے دیکھے تھے۔ جنونی فرقہ پرستوں کے ہاتھوں سب کچھ لٹتے، نذر آتش ہوتے، بے گناہ عزیزوں کو خاک و خوں میں تڑپتے، آگ میں جلتے، درندوں کی رانوں کے نیچے بے عصمت ہوتے دیکھا تھا۔ عدم تحفظ، بے امانی، اور بے روزگاری ان کی بہت بڑی آزمائشیں تھیں۔ وہ داد فریا د کس سے کرتے، وہاں تو ان کی زبان بھی قساوت کے ساتھ ختم کی جا رہی تھی۔ بے زبان ہو کر وہ داد طلب کرتے بھی تو کس سے؟ یہ نفسیاتِ خوف یا بے امانی جدیدیت کی علم بردار نسل کا بہت بڑا المیہ تھی۔ اس المیہ کا غماز ان کا گنگ افسانوی سرمایہ ہے۔ ان سے شکوہ نہ کیجئے۔ ان پر بہت الزامات عا ئد نہ کیجیے۔ ان پر جمال پرستی، نرگسیت، رومان پروری اور فیوڈل طبقہ وغیرہ کے لیبل نہ لگایئے۔ یہ بہت سے مسائل میں الجھے ہوئے، بہت سے ناوکوں کے نخچیر، ایک انتشار کے مارے ہوئے ہیں۔۔۔۔

– ابن فرید

نئی نسلیں – ایک لمحۂ فکریہ۔ دیدہ ور، سہ ماہی انٹرنیٹ میگزین، شمارہ ۴، جنوری تا مارچ ۲۰۰۹۔ مقالہ گوشۂ ابن فرید / ص ۵۱

گفتہ

یہ قصہ صرف ہندستان کے مسلمان اردو جدیدیت پسندوں کاہے۔ باقی دنیا اور باقی ہندستان ادب میں جدیدیت کی اس تعریف سے خارج ہے۔ ہندی میں بھی جدید ادب لکھا گیا، مگر اس زبان کے قلم کاروں میں سے شاذ و نادر ہی کسی کا یہ المیہ تھا یا ہے۔ جدید ادب پاکستان میں بھی لکھا گیا اور پنجابیوں نے بھی لکھا جن پر الزام ہے کہ قومی وسائل کے بڑے حصہ پر تو وہی متصرف ہیں۔ وہاں ان مذکورہ مسائل میں سے بہت کا وجود کل تھانہ آج ہے۔ جدید ادب عربی میں بھی لکھا گیا۔ وہاں جدیدیت پسندوں کو حَدّاثِین کہا جاتا ہے۔ ان عرب اہل ادب کے ساتھ وہ سب کچھ نہیں ہو رہا تھا جو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ جدید ادب فارسی میں بھی لکھا جا رہا ہے۔ ایران، افغانستان اور تاجکستان میں جنونی فرقہ پرست نہیں ہوتے اور نہ وہاں زبان قساوت کے ساتھ ختم کی جا رہی ہے۔ مگر جدیدیت کی ان سب عمل بردار نسلوں کا مایۂ مشترک تھا ان کا ’’گنگ افسانوی سرمایہ، ان کی جمال پرستی، نرگسیت، رومان پروری‘‘۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ دنیا بھر کے یہ سب اہل ادب ایک انتشار کے مارے ہوئے ہیں – تہذیبی، عمرانی انتشار کے۔ مگر ہر ایک کی زنبیلِ انتشار بھی الگ ہے اور اس میں رکھا نسخۂ انتشار بھی۔

اس موضوع پر خاصی تفصیل سے گفتگو میں اپنے طویل مقالے، سرد جنگ کی سیاست کا ادب (ماہنامہ شاعر، ممبئی، اگست ۲۰۰۸) میں کر چکا ہوں۔ جنہوں نے اسے نہیں پڑھا وہ افتخار امام سلمہٗ کو خط لکھ کر اس شمارے کی ایک کاپی منگوا لیں۔ یہاں بات اس موضوع کے دیگر دو پہلوؤں پر کرنی ہے۔

اردو میں ایلیٹی جدید ادب کا گل بوٹا ادب اسلامی کے گملے میں اُگا تھا بعد میں اسے گملہ سے نکال کر زمین میں بویا گیا تھا۔ شمس الرحمٰن فاروقی شروع میں ’’تعمیر پسند‘‘ ادب سے قریب تھے۔ ان کی ابتدائی تخلیقات حفیظ میرٹھی کے ماہنامہ معیار، میرٹھ، میں شائع ہوئی تھیں۔ حفیظ میرٹھی ہندستان میں ادب اسلامی کے ممتاز ترین شاعر تھے۔ ادب اسلامی اس زمانے میں ترقی پسندی کے جواب میں تعمیر پسندی کے نام سے سکہ بنا تھا۔ اس سے اس تعلق خاطر کا سبب میرا ذہنی سفر میں فاروقی اشارتاً خود یہ بتاتے ہیں کہ ’’مجھ پر ترقی پسندی یا کمیونزم کا جادو نہ چل سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنی تہذیب اور روایت کا بہت گہرا احساس شروع سے تھا، اور مجھے یہ بات معلوم تھی کہ ترقی پسند نظام ادب اور اشتراکی نظام حکومت میں اسلامی (یا مسلم) تہذیب اور روایات کی کوئی جگہ نہ ہو گی۔‘‘

بعد کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاروقی دو وجہوں سے ادب اسلامی سے دور اور مغرب نژاد جدید ادب کے میر کارواں ہوئے۔ اسلام پسند یا تعمیر پسند ادبی تحریک اپنی انتظامی ہیئت میں ترقی پسند تحریک کا چربہ تھی۔ دونوں کے پیچھے ایک طاقتور سیاسی جماعت اور اس کا فلسفہ تھا۔ دونوں معاشرہ میں ایک خاص سیاسی اور اقتصادی نظام قائم کرنے کے مدعی تھے۔ دونوں نظریوں کی بنیادی تحریکات کا سیاست اور اقتصاد کے فلسفوں پر اتنا تکیہ یا اصرار تھا کہ زندگی کے کسی دوسرے گوشے پر توجہ تھی نہ اس کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی، یہاں تک کہ دونوں تحریکات نے اپنے اپنے فلسفہ کی بنیاد پر سیاسی مفکر اور معاشیاتی ماہرین کی بڑی تعداد پیدا کی۔ دونوں تحریکات یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ میں اپنے حلقہ ہائے اثر قائم کرنے کے لئے کوشاں اور کامیاب رہیں۔ اس مقصد کے لئے دونوں تحریکوں نے ادب کو استعمال کیا۔ دونوں نے ابتدا ہی سے اپنے فکری نہج کے مجلے شائع کرنے پر زور دیا اور اپنے جداگانہ ادبی ناقدین پیدا کئے۔ دونوں کو زبان سادہ اور سہل رکھنے پر شدید اصرار تھا۔ دونوں کے ہاں یہ گنجائش تھی کہ پارٹی کے رکن نہ بھی ہوں تو اس کی ادبی شاخ سے وابستگی ممکن ہی نہیں پسندیدہ تھی۔ دونوں طرف جماعت حرف آخر تھی اور اہل ادب کو پارٹی کی ہدایات سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

ہندوستان کی حد تک ادب اسلامی کو جدید ادب کا نقطۂ آغاز بنانا منطقی تھا۔ اردو ادب میں مار کس کا جواب اصغر گونڈوی نہیں تھے۔ لادینیت کے مقابل قلم کی دینیت پر اصرار ضروری تھا۔ مگر ادب اسلامی میں اسلام کو چھوڑ کر باقی سب کچھ تو نقل ہی تھی ترقی پسندی کی۔ نقالی وقتی تفریح کا باعث ہو سکتی ہے، دیرپا نہیں ہو تی۔ اس کے عَلاوہ جوابی اسلامی ادب کا وجود اغلباً دنیا میں کہیں اور نہیں تھا۔ شائد مصر وغیرہ میں اخوانیوں نے اس سمت میں کچھ کام کیا تھا، مگر رفتہ رفتہ خود عالم عرب کو بھی جدیدیت کی جانب ہی جھکنا پڑا۔ عرب تو ویسے بھی یورپ امریکہ سے آنے والی ہر شے کو حلال، بلکہ مطابق بہ شریعت قرار دینے میں بے مثال تفقہ رکھتے ہیں۔ وہ صرف مغرب کی تقلید کو جائز سمجھتے ہیں۔ باقی ہر قسم کی تقلید سے انہیں بوئے کفر آتی ہے۔

لہٰذا پہلی بدیہی وجہ یہ تھی کہ شمس الرحمٰن فاروقی کی عبقری شخصیت زیادہ دنوں یہ ذہنی پابندیاں برداشت نہیں کر سکتی تھی، ورنہ ممکن ہے وہ کمیونزم کا تو نہیں ترقی پسندی کا جادو اپنے اوپر چلنے دیتے۔ وہاں برگ و بار لانے کے امکانات پھر بھی زیادہ تھے کہ وہ باغ بہر حال یک جہانی بھی تھا اور پرانا بھی تھا؛ ادب اسلامی کو دنیا میں تعارف ہی حاصل نہ تھا۔ وہاں حفیظ میرٹھی جیسا شاعر ضائع ہو گیا۔

دوسری امکانی وجہ یہ کہ جدید ادب کو بہرحال عروج حاصل ہونا تھا اور معاملہ وہاں بھی یک جہانی، یعنی عالمی تھا، اس لئے جدیدیت میں تخلیقی تجربات کے امکانات زیادہ وسیع تھے۔ ان تجربات کے ذریعہ کچھ نسلوں کی ذہنی تربیت اور فکری رہنمائی کا میدان بھی ترقی پسندی کے مقابلہ میں زیادہ کھلا ہوا تھا اور اس نوعیت کی کارروائی وہاں زیادہ موثر ہو سکتی تھی۔ یوں بھی ترقی پسندی کو جو کرنا تھا وہ کر چکی تھی۔ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ وہ بحر اسود سے کالے جوہڑ میں تبدیل ہو رہی تھی، اس میں اب کاغذ کی ناؤ نہیں چل سکتی تھی۔ نئے دریا میں پہاڑی جھرنے کی جولانی اور روانی بھی تھی اور اسے پرانے پہاڑ سے برفشاروں (glaciers) کا مقطر پانی بھی حاصل تھا۔ ترقی پسندی سیاسی تسلط کے سبب جمود کا شکار ہو چکی تھی، جبکہ جدید ادب کو ایسے جمود کا شکار ہونے کے لئے وقت درکار تھا۔

جس طرح اردو میں جدیدیت کا پودا مذہب کے گملے میں اگا تھا اسی طرح امریکی جدیدیت کا بیج بھی کلیسا کے گملے ہی میں بویا گیا تھا، نیز بڑے دیس کی بڑی سیاست کی زمین میں اسے بونے کے بعد اس میں دین کے دودھ کے کچھ قطرے بھی ٹپکائے گئے تھے۔ یہ مجبوری بھی تھی۔ مگر یہ دودھ کئی دُدَھاری مویشیوں کا تھا۔ عمیق حنفی نے وحی کی گھنٹیوں کی بازگشت سنائی تو ستیہ پال آنند نے بن دھرتی پر رام کے پگ آکار کا بھجن سنایا۔ ہندستان میں تو اللہ ایشور تیرو نام کا نغمہ چل گیا، باقی دنیا سب کی بانی اپنی بانی تھی۔

ہندوستان کے اہل جدیدیت کے سامنے جو مسائل تھے یا وہاں کے مسلمان اہل ادب کے سامنے آج بھی ہیں اور وہ باقی ساری دنیا کے مسائل سے بہت، بہت مختلف ہیں۔ اسی زاویئے سے ہندستانی اردو جدید ادب کا کوئی جائزہ اسے ہماری روایت سے مربوط کر سکتا ہے، باوجودیکہ جدید ادب اساسی طور پر قنوطیت اور شکوہ کا ادب تھا؛ اور اس کے باوجود کہ ہر قنوطی میر اور ہر شکوہ نویس اقبال نہیں ہوتا۔

یہاں ایک نکتہ یہ ابھرتا ہے کہ جدید ادب کا سیاسی فکری پس منظر چونکہ غیر واضح تھا اس لئے یکجہانیت میں قدرے تنوع کا امکان موجود تھا۔ جن مسائل سے ہندستان کا جدید اہل قلم نبرد آزما تھا – اور ہے – وہ مسائل صرف ہندستانی ادیب و شاعر کے ہیں۔ سعودی مملکت کا حدّاث شاعر اور ادیب قطعی مختلف دنیا میں رہتا ہے۔ وہ سیاسی اور معاشرتی گھٹن کا شکار ہے، کھل کر بول اور لکھ نہیں سکتا۔ اکثر اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ کسی اہم مسئلہ پر انفرادی رائے ہی قائم کر لے، اظہار تو بہت بڑی بات ہے۔ وہاں ایسے اہل قلم موجود ہیں جن پر ایک نظم لکھنے پاداش میں سال چھ ماہ تک کسی بھی سعودی جریدہ یا مجلہ میں اشاعت پر پابندی لگا دی گئی تھی، یا اعلیٰ سرکاری ملازمت یا یونیورسٹی کی تدریسی خدمات سے برطرف کر دیا گیا تھا، یا وکالت کا لائسنس معطل کر دیا گیا تھا۔ ایک امریکی، کنیڈائی جدید ادیب اس کیفیت کا تجربہ تو درکنار تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مگر پھر امریکہ میں یہ ممکن ہے کہ ناشر اس کی کتاب یا تخلیق کو چھاپنے سے انکار کر دے۔ ایسا ہندستان میں بھی ممکن ہے۔ مگر ہندستان میں امتیازی سلوک کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد ہو سکتا ہے اور کوئی زکی انور اس میں قتل ہو سکتا ہے، کسی احسان جعفری کو زندہ جلایا جا سکتا ہے اور کسی ہارون رشید کا گھر نذر آتش کیا جا سکتا ہے۔ جارج بش کے امریکہ میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا، اگرچہ زیریں نسلی سطح پر وہاں مضطرب رہنے کی اجازت تھی۔ فرانس میں فساد و آتش زنی ممکن ہے مگر ایسے کسی واقعہ کے نتیجہ میں انتہا پسند نسلیت زدہ لوگ الیکشن جیت سکتے ہیں اور پھر زندگی کو اجیرن کر سکتے ہیں۔ مگر وہاں کی اُس اجیرن زندگی اور ہندستان کی اجیرن زندگی میں فرق ہے۔

یہ سارا بیان سطحی اور اخباری سا ہے۔ تاہم ایک ملک یا منطقہ کے حالات کے اسباب و علل، اثرات و نتائج، معاشرتی پیش منظر اور نفسیاتی پس منظر کا مکمل ادراک و احسا س کسی دوسری جگہ بسنے والوں کو ہر گز ممکن نہیں۔ مگر چلئے، ممکن ہے ہم رنگ سیاسی نظریات رکھنے والے دو افراد دنیا کے دو کونوں پر رہنے کے باوجود کسی ایک معاملہ میں ایک ہی طرح کا رد عمل تحریر میں ظاہر کر دیں۔ غزہ میں فلسطینیوں کے حالیہ قتل عام پر یمن اور ارجنٹینا میں بسنے والے عربوں کے تاثرات یکساں ہوں گے اور اسی مسئلہ پر دوسرے رخ سے رباط اور نیو یارک میں رہنے والے یہودیوں کی سوچ ایک جیسی ہو گی۔ تو ڈھونڈنے والے یمن اور ارجنٹینا کے عرب جدید ادب میں اور رباط اور نیو یارک کے یہودی جدید ادب میں یکساں فکری اور تجزیاتی لہریں گن لیں گے۔ مگر یہ کیفیت افقی ہے۔ عمودی نہیں ہو سکتی۔ اسی کو ایک نقطہ پر سمیٹ دیا جائے تو بات دو عربوں اور دو یہودیوں کے مابین بھی بدل جائے گی۔

یہ بات انفرادی اعتبار سے زیادہ قابل فہم ہو گی۔ سنا ہے شمس الرحمٰن فاروقی کے گھر میں کئی طرح کے پرندے پلے ہوئے ہیں اور وہ خود ان کی خدمت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے پرندوں کے بارے میں ان کی معلومات بھی بہت ہوں گی۔ ان سے کسی پرندے پر نظم لکھنے کی درخواست کی جائے تو جو کچھ وہ لکھیں گے وہ اس سے بہت مختلف ہو گا جو ولی عالم شاہین یا شہر یار کسی ایسی ہی درخواست پر اسی پرندہ پر لکھیں گے اور یہ بھی طے ہے کہ خود شاہین اور شہریار کی تخلیقات میں بھی پرندہ کے علاوہ کوئی اور قدر مشترک نہیں ہو گی۔ یعنی ایک موضوع پر بھی انفرادی تجربہ، معلومات اور دلچسپی کا معیار اتنا مختلف بلکہ متضاد ہو سکتا ہے کہ معلومات کی فراوانی یا کمی کی بنیاد پر تو بہتر کمتر کا فیصلہ کیا جا سکے گا مگر جذبات نگاری اور بیان کی تفاصیل کو رد و قبول کا معیار نہیں بنایا جا سکے گا، پلہ تو اسی کا بھاری رہے گا جو پرندوں کے جذبات کی موثر ترجمانی کرے گا، یا ان کا عمدہ تعارف کروائے کا۔

ویسے میرے نزدیک اس قسم کی مقابلہ آرائی اور امتحان ہی غلط ہے۔ میر و سودا، غالب و ذوق، مصحفی اور انشاء، سائل و بے خود میں باہمی چشمک یا طرح آرائی اور شے تھی، ایک پورے قبیلے کو کسی ایک فکری رنگ میں میں رنگنا دوسری بات ہے۔

مگر پھر کہا جا سکتا ہے کہ یکجہانی کے باوجود انفرادی سطح پر ابلاغ کا تنوع کافی ہے۔ پھر شکوہ کیا۔ اس سے ہر شخص کی انفرادیت کو تقویت تو ملتی ہے، یہ ترقی پسندوں کی بچھائی ہوئی ریل کی پٹری نہیں ہے۔ مگر ہے۔ پٹری ہی تو ہے۔ ابن فرید نے اور کس بات کے اشارے دئے ہیں۔ بجا کہ جن معاشرتی عوارض کا ذکر کیا گیا ہے ان پر خامہ فرسائی ویسی ہی یکساں اور اتنی ہی مختلف ہے جیسا میر درد اور اقبال کا تصوف تھا۔ درست۔ مگر وہ اختیاری تھا، اِجباری نہیں۔ ترقی پسندی اور جدیدیت پسندی میں جبر کا عنصر موثر تھا۔ کم سے کم یہ کہ ترقی پسند کے لئے پیالہ کو آدھا بھرا ہوا کہنا لازم تھا اور جدیدیت پسند کو آدھا خالی سمجھنا عین صواب۔ قنوط و رجا کی کیا بس یہی پہچان رہ گئی ہے؟ اس سے مجھے تو ویسی ہی بے چینی ہوتی جیسے کوئی میری بند آنکھ کے پپوٹے پر مسور کا دانہ رکھ دے۔

ادیب کی سوچ آزاد نہ ہوتی تو بھلا انقلاب فرانس کیوں آتا۔ اور ۱۹۳۶ سے اب تک دنیا میں کون سا انقلاب آ گیا؟

٭٭٭

مطالعات ۔۔۔ محمد طارق غازی

اس ذات کریم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنی 23 سالہ جد و جہد کے طویل دور میں ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ اے میری قوم کے لوگو تم متحد ہو جاؤ کیونکہ اتحاد ہی قوت ہے۔ یا یہ کہ اے میری قوم کے لوگو تم ٹولیوں، ٹکڑیوں اور قبیلوں میں بٹے رہنے کے بجائے اپنے اندر جذباتی ہم آہنگی پیدا کرو، قومیت کا شعور بیدار کرو اور ایک مضبوط قوم بن کر دنیا کی متمدن و ترقی یافتہ قوموں (ایران و روم) کی صف میں شامل ہو جاؤ۔ … بلکہ جو کچھ کہا وہ صرف یہ تھا … کہ تم سب آدم کی اولاد ہو۔

مولانا محمد فیاض قاسمی

ہندستانی مسلمانوں کے مابین اتحاد کیسے ممکن ہے

ماہنامہ دار العلوم، دیوبند، جولائی 2010، ص 33

محمد طارق غازی

لفظ کو نعرہ بنا دو تو اکثر وہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ اتحاد، ترقی، جذباتی ہم آہنگی، قومیت، سب بہت با معنی الفاظ تھے اور اپنی اصل میں اب بھی عزت مند الفاظ ہیں۔ مگر گزشتہ چند عشروں، بلکہ لگ بھگ ایک صدی سے یہ لفظ نہیں رہے، بے مغز لوگوں کی زبانوں پر مہمل نعرے بن گئے جن کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اور نہ ان سے کوئی مطلب مراد ہوتا ہے۔ بس عام لوگوں کو باندھے رکھنے کے لئے ان کھونٹوں کا سہارا لیا جاتا رہتا ہے۔

سادہ لوح لوگ ڈھول کے پول پر ناچنے لگیں تو حیرت کی جا نہیں۔ مگر جب بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی ان آوازوں پر تھرکنے لگیں تو قیامت کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔

دنیوی اعتبار سے دیکھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بھی ایک قوم تھی اور وہ ان کی اپنی ہی قوم تھی۔ ان کے سامنے بھی ترقی، سیاسی قوت، عالمی سیادت، معاشی سرداری کی مثالیں موجود تھیں اور ان کے تماشے وہ اپنی کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے۔ انؐ جیسے منفرد ذہین شخص کے لئے اس صورت حال کا ویسا تجزیہ کرنا چنداں مشکل نہ تھا جیسا عام دانشور، مفکر، مصلح کرتے رہتے ہیں۔ مگر اللہ کے فرستادہ نبیؑ اور دنیوی عقل و تجربہ تک محدود دانشور، مفکر اور مصلح میں یہی فرق ہے . اور یہ فرق ان کے الفاظ اور اعلانات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ نبیؑ کے پیش نظر ہنگامی مفادات نہیں، انسانیت کی دائمی فلاح کا منصوبہ ہوتا ہے۔ وہ نعروں کے بجائے زندگی کے حقائق پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

قومی اتحاد، جذباتی ہم آہنگی، قومیت کے شعور کی بیداری وغیرہ سطحی مطالبات ہیں جن کے پیچھے نہ تو روحانی عقل ہوتی ہے اور نہ تاریخی شعور۔ یہ نعرے ہنگامی نوعیت کے عمرانی شعور کا نتیجہ ہو سکتے ہیں جو کسی بگڑی ہوئی حالت کو سنبھالنے کے لئے سیاسی لیڈر یا سماجی مصلح قسم کے لوگ لگاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس قسم کے سیاسی لیڈر یا سماجی مصلح نہیں تھے البتہ ان کی پشت پر ایک خاص نوع کی معاشرتی تاریخ تھی اور اس تاریخ کا کامل شعور تھا۔ یہ تاریخی شعور قرآن حکیم نے پیدا کیا تھا اور اس کی اہمیت پر ’ملت ابراہیم‘ کے عنوان سے بار بار توجہ دلائی جا رہی تھی۔ اس تاریخی شعور کی تفسیر خود رسولؐ اللہ کی زبان مبارک سے بھی بار بار بیان ہو رہی تھی۔

ملت ابراہیم اصل میں توحید اساس معاشرہ اور تہذیب و ثقافت کا نام تھا۔ دوسرے الفاظ میں انسانی اتحاد کا رمز قبائلی، قومی، جغرافیائی، نسلی جذباتی قومیت یا ہم آہنگی اور معاشرتی شعور نہیں تھا بلکہ ایک اللہ کی حکم برداری کے راستے سے انسانوں کو ایک مقصد عطا کرنا اور اس مقصد کے لئے ایک عالم انسانیت کے قیام تصور تھا۔ اس بات کو بہت، بہت ہی سادہ زبان میں عرض کیا جائے تو حاصل کلام یہ کہ اتحاد کسی بھی نوعیت کا ہو، ہنگامی اور وقتی ہو یا دائمی اور دور رس ہو، اس کی پہلی شرط نعرہ نہیں مقصد ہوتی ہے۔ میں نے اس بات کو اکثر اس طرح بیان کیا ہے کہ آپ دہلی سے آٹوا کا سفر کرنے والے ہیں اور آپ کا ایک دوست دہلی سے ٹوکیو جانے والا ہے، تو آپ دونوں کے درمیان اتحاد نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں کا مقصدِ سفر اور منزل مقصود مختلف ہے۔ البتہ جو لوگ ایک ہی طیارہ سے ٹوکیو جا رہے ہیں اور جو لوگ ایک ہی کے جہاز سے آٹوا آ رہے ہیں ان کے درمیان، اگر مشترکہ خواہش اور ہم آہنگ مقصد ہو، تو اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔

قرآنی شعور کی اساس پر رسولؐ اللہ نے اس معاملہ میں ملت ابراہیم سے ایک مرحلہ اور آگے آ کر ساری دنیا کے انسانوں کو ایک بھولا ہوا نکتہ یاد دلایا: تم سب تو آدم کی اولاد ہو!

یعنی اتحاد کے معاملہ کو اور بھی سہل کر دیا، کہ ملت ابراہیم بجائے خود بنی آدم کا اتحاد کا ایک قابل عمل نمونہ تھی۔

معاشرتی سطح پر خالی خولی اتحاد سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اتحاد کسی بھی نوعیت کا ہو، بے شمار نئی ذمہ داریوں کا بوجھ افراد کے کاندھوں پر رکھ دیتا ہے۔ اتحاد معاشرہ بناتا ہے اور معاشرہ فرائض اور حقوق کے تعین کا نام ہے۔ جب تک مشترکہ مقصد حیات کے ماتحت ان فرائض اور حقوق کی ادائیگی اور حفاظت ہوتی رہے گی، اتحاد برقرار رہے گا اور معاشرہ کی تہذیب و ترقی کی ضمانت ہو گا۔ مگر جب فرائض کے مقابلہ میں حقوق پر اصرار ہونے لگے گا تو معاشرہ میں فساد رونما ہو گا اور فرائض و حقوق دونوں کو نظر انداز کرنے والے گروہ ابھر کر آئیں گے اور اپنے معاشرہ میں اسی طرح لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر کے تباہی پھیلا دیں گے جس کی مثال درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر اسی شاخ کو آری سے کاٹنے والے فرد کے عمل سے دی جاتی ہے۔ یہ انحطاط، زوال اور بربادی کی سمت پہلا قدم ہوتا ہے۔ اگرچہ ساری قوم کا اتحاد لوٹ کھسوٹ پر ہو جاتا ہے۔

یہ نکتہ ذہن میں تازہ ہو جائے تو دانشوروں کے مسائل اور مدبروں کی مشکلیں بھی حل ہو جاتی ہیں۔ عام آدمی کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتحاد کے نعروں کے باوجود انسانی گروہوں میں اتحاد کا فقدان کیوں نظر آتا ہے؟ امن کی چیخ پکار کے ساتھ جنگوں کی وحشت اور دہشت روز بروز کیوں بڑھ رہی ہے؟ معاشی خوشحالی کے وعدوں اور دعووں کے ساتھ دنیا میں غربت، نکبت اور افلاس میں روز افزوں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے؟

ایک زمانہ میں برصغیر جنوبی ایشیا کے عوام و خواص کا مقصد حیات قومی آزادی تھا تو سارا برصغیر اس پر متحد ہو گیا۔ آزادی کی ہیئت کے معاملہ میں اختلاف رائے ایک فطری اور صحت مند عمل تھا لیکن مقصد ایک ہی تھا تو مسلمان شیخ الہند محمود الحسن، ہندو راجہ مہندر پرتاپ، پارسی داد بھائی نورو جی، اہنسا وادی گاندھی، نفرتوں کا نقیب ساورکر، کرچھا بردوش عنایت اللہ مشرقی، مسلم شناخت کے لئے فکر مند لیاقت علی خاں اور ہندتوا کا وکیل بال گنگا دھر تلک سب اس معاملہ میں ایک رائے تھے ان میں سے کسی کا عزم مکمل آزادی کے لئے تھا، کسی کے لئے داخلی خودمختاری اور سوراج سب کچھ تھا، کسی کے لئے انگریز کی سرپرستی ضروری تھی، کسی اور کے لئے انگریز کی منصفی ناقابل اعتماد تھی۔ مگر سب چاہتے تھے کہ ملک پر اس ملک کے باشندوں کا فکر حکومت کرے۔ معاشرتی اصطلاح میں اسی کو اتحاد کہا جاتا ہے۔ پھر دیکھا کہ جونہی آزادی حاصل ہوئی، یہ ساری مختلف قوتیں تتر بتر ہو گئیں اور اس خطۂ ارض میں فکر و عمل کا اتحاد مفقود ہو گیا۔ پھر بھی کچھ اہل فکر و عمل اس کشتی کو شیطانی سیاست کی طوفانی موجوں میں سنبھال کر لئے جا رہے ہیں، اگرچہ یہ اتحاد بہت مختصر اور منحنی ہے۔

ایک جملہ میں بات کریں تو اتحاد مقصد سے پیدا ہوتا ہے۔ مقصد جس قدر بڑا اور سچا اور دیر پاہو گا، اتحاد بھی اتنا ہی مضبوط ہو گا، مقصد جتنا بودا یا اس کی عمر جتنی کم ہو گی اتحاد بھی اتنی ہی جلد ختم ہو جائے گا۔

باقی رہے جذباتی ہم آہنگی اور قومیت کا شعور وغیرہ تو یہ اس متذکرہ اتحاد کے نتائج ہوتے ہیں، خود مقصد نہیں ہو سکتے۔ عملی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا، وہ زیادہ سے زیادہ شاعری ہوتے ہیں کہ بات کو خوبصورت بنانے کے لئے ان فقروں کا سہارا لے لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے کھوکھلے نعرے دینے کے بجائے انسانیت کو ایک عظیم، ابدی اور دائمی مقصد دیا۔ جن معاشرتی گروہوں نے اسے اپنا مقصد حیات بنایا انہوں نے اس دنیا کو شعور و فکر اور علم و عمل کی جنت بنا دیا تھا، جنہوں نے اس سے صرفِ نظر کیا ان کے معاشروں کا حال سب کی نظروں کے سامنے ہے۔

٭٭٭

لفظ نما ۔۔۔ طارق غازی

طناز

طَن ۰ نَا ۰ ز (ن مشدد ۰ ز ساکن)

عربی

۱۔ صفت ذاتی ۲۔ اسم فاعل ۰ مذکر ۰ واحد

مصدر ثلاثی مجرد ط ۰ن ۰ز سے مشتق اسم مبالغہ۔ عربی سے ماخوذ اسی ساخت اور کئی مرادی معنیٰ کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے۔

اردو میں پہلی بار ۱۶۲۵ میں قصہ سیف الملوک و بدیع الجمال میں استعمال ہوا۔ (اردو لغت)

تعریف : امام ابن منظور نے لسان العرب (ج ۸، ص ۲۰۷) میں عربی کے ماہر لسانیات الجوہری کا قول دیا ہے کہ یہ لفظ باہر سے عربی میں داخل ہوا ہے یا بنایا گیا ہے۔ عام عربی افعال کے برعکس اس کی گردان طویل نہیں ہے۔ عربی میں مصدر طنز تمسخر، استہزا اور مضحکہ خیزی کے معنیٰ میں آتا ہے۔ اردو میں اس لفظ کے یہی معنیٰ ہیں جبکہ طناز کے لئے اصل عربی سے مختلف کئی مرادی معنی بھی رائج ہیں۔

۱۔ صفت ذاتی – مذکر و مؤنث – واحد

۱۔ بہت طنز کرنے والا ۰ تمسخر کرنے والا ۰ مذاق اڑانے والا ۰ رمز و کنایہ میں بات کرنے والا ۰ ہجو گو

پڑ گئے سوراخ دل میں گفتگوئے یار سے

بے کنایہ کے نہیں اک قول اس طناز کا

خواجہ حیدر علی آتش / کلیات / ۱۸۴۶، اردو لغت

۲۔ چلنے میں نازو انداز دکھانے والی ۰ اٹھلا کر چلنے والی ۰ اترا کر چلنے والی۰ اٹکھیلیاں کرنے والی

۳۔ عشوہ گر ۰ شوخ ۰ بے باک

بس شرم کر اے ملکۂ طناز باز آ

مثنوی قہر عشق / ۱۸۸۴ / اردو لغت

۴۔ (کنایتاً) معشوق

۵۔ طنز نگار (جدید اردو ۰ شاذ)

اکبر الہ آبادی ایک شاعر طناز اور مزاح نگار کی حیثیت میں ابھرے۔

اردو ادب کی تحریکیں / ۱۹۸۳

۲۔ اسم فاعل ۰ مذکر ۰ واحد

۶۔ ناز و انداز

نپٹ دلربائی، کے طناز سوں

لٹکتی اپس میں اپیں ناز سوں۔

سیف الملوک و بدیع الجمال / ص ۱۱۵ / ۱۶۲۵ / اردو لغت

مترادفات : پر فن۰چالاک۰ چلبلا/چلبلی ۰چنچل۰ شاطر۰ شریر ۰ شوخ ۰ شوخو شنگ ۰ شوخ نویس ۰ طرار۰ طعن باز۰ عیار۰ غماز۰ فتنہ انگیز۰ فتنہ گر ۰ کٹنی ۰گستاخ

متضادات : باتمیز ۰ برد بار ۰ تمیز دار۰ حلیم۰ حلیم الطبع۰سنجیدہ ۰ شائستہ۰ متأمل۰ متوازن ۰ متین ۰معتدل ۰ مہذب

قوافی : آز۰آغاز۰آواز۰ اعجاز ۰ انداز ۰ ایجاز ۰ باز ۰ تگو تاز ۰ جاں باز ۰ جواز ۰ چالباز ۰ حجاز ۰ دراز ۰ راز ۰ ساز ۰ سنگ ساز ۰ شیراز ۰ شہباز ۰ طراز ۰ غماز ۰ فراز ۰ فواز ۰ قاز ۰ ارتکاز ۰ گاز ۰ مجاز ۰ ناز ۰ نماز ۰ نواز ۰ نیاز

انگریزی مترادفات :

Derider. Facetious. Jocose. Ludicrous. Mocker. One who ridicules. Scoffer.

درنگ

دَ ۰ رَ ۰ ں ۰ گ (ن غنہ، ساکن، گ ساکن)

فارسی

اسم کیفیت ۰ مؤنث ۰ واحد

۱۔ دیر ۰ تاخیر ۰ توقف ۰ تعویق ۰ التوا ء

۲۔ تأمل ۰ تساہل ۰ سستی ۰ آلکسی

۳۔ وقفہ ۰ رکاوٹ ۰ تعطل ۰ ڈھیل ۰ حصر

مترادفات : بے پروائی ۰ جمود ۰ سہل انگاری ۰ غفلت

متضادات : پھرتی ۰ تیزی ۰ شتابی ۰ طراری ۰ عجلت

قوافی : ارژنگ ۰ امنگ ۰ انگ ۰ اورنگ ۰ بے رنگ ۰ پاسنگ ۰ پتنگ ۰ تنگ ۰ ترنگ ۰ جنگ ۰ چنگ ۰ خدنگ ۰ دبنگ ۰ دنگ ۰ رنگ ۰ زنگ ۰ سرنگ ۰ سنگ ۰ شنگ ۰ فرسنگ ۰ لنگ ۰ ملنگ ۰ ننگ

انگریزی مترادفات :

Delay. Procrastination. Tardiness.

کیکر

کِی ۰ کَر

ہندی

اسم معرفہ ۰ مذکر

۱۔ ببول ۰ مغیلاں

۲۔ ریگزار یا سنگستان یا بیابان میں پیدا ہونے والا ایک کانٹے دار درخت۔ عام طور سے تقریباً ۴۰ ہاتھ تک بلند ہوتا ہے۔ اس کے تنے کا قطر چار پانچ قدم ہوتا ہے۔ پتے باریک، کانٹے سخت اور لمبے، پھول زرد خوشبودار ہوتے ہیں۔ تنے کی چھال پتلی، صاف، سبزی مائل ہوتی ہے۔ اس کی چھال سے چمڑے کی دباغت کی جاتی ہے۔ اس سے پان میں کھایا جانے والا کتھا بھی بنایا جاتا ہے۔ اس کا گوند طب مشرق میں بطور دوا مستعمل ہے۔

۳۔ بھوتوں کے رہنے کا ٹھکانہ (قدیم ضعیف الاعتقادی)

قوافی : اجگر ۰ احمر۰ اژدر ۰ افسر ۰ بازیگر ۰ بھیتر ۰ تیتر ۰ دیگر ۰ کھدر ۰ گوہر ۰ محور ۰ مگدر ۰ مہتر ۰ نشتر ۰

انگریزی مترادفات :

Mimosa Arabica.

ڈھنڈار

ڈھ ۰ ں ۰ ڈَا ۰ ر (ن غنہ)

سنسکرت / ہندی

صفت ذاتی

متغیرات : ڈھنڈھار (ن غنہ)

۱۔ بڑا اور ویران مکان ۰ ویران حویلی ۰ بڑی اور کشادہ مگر بے رونق عمارت

۲۔ متروکہ عمارت ۰ کھنڈر

۳۔ سنسان مقام ۰ سونی عمارت ۰ غیر آباد عمارت ۰ اجاڑ مکان

۴۔ خوفناک عمارت ۰ ڈراؤنا کھنڈر ۰ ویران مکان

متضادات : آباد ۰ آبادی ۰ بھرا پرا ۰ پر رونق ۰ رجا بجا ۰ رونق دار

قوافی : آر پار ۰ اچار ۰ اُتار ۰ ادبار ۰ ادھار ۰ اصرار ۰ افطار ۰ اقرار ۰ انار ۰ انبار ۰ انکار ۰ بار ۰ بجار ۰ بچار ۰ بخار ۰ بہار ۰ بگھار ۰ بیزار ۰ بیمار ۰ بھار ۰ پار ۰ پندار ۰ پیار ۰ پیزار ۰ تار ۰ جوار ۰ چار ۰ چہار ۰ حمار ۰ خار ۰ خمار ۰ دار ۰ دھار ۰ دیار ۰ ڈار ۰ زار ۰ ستار ۰ سنوار ۰ شمار ۰ طومار ۰ عار ۰ عیار ۰ غار ۰ غبار ۰ کار ۰ کہار ۰ کھار ۰ گنوار ۰ مار ۰ نار ۰ نکھار ۰ وار ۰ ہزار ۰ یار

انگریزی مترادفات :

Abandoned. Creepy. Deserted. Desolate. Eerie. Empty. Forsaken. Frightening. Ghostly. Haunted. Isolated. Scary. Unoccupied.

چمن

چَ ۰ مَن

فارسی

اسم نکرہ ۰ مذکر ۰ واحد

مصدر چمیدن کے صیغہ امر ’چم‘ کے ساتھ ’ن‘ بطور لاحقۂ ظرف لگا کر اسم بنایا گیا۔

اردو میں پہلی بار دکن میں ۱۵۱۸ میں استعمال ہوا (اردو لغت بحوالہ دکھنی ادب کی تاریخ)

جمع غیر ندائی: چمنوں (و مجہول،ن غنہ)

۱۔ پھلواری ۰ سبزہ زار ۰ گلزار ۰ باغیچہ ۰ بگیا ۰ بگیِن ۰ تختۂ گل

۲۔ پائیں باغ ۰ مکان کے سامنے کے رخ کا باغیچہ

۳۔ درختوں سے گھرا ہوا قطعۂ سبزہو گل ۰ باغ کا ایک قطعہ ۰ گوشۂ باغ ۰ گوشۂ گلشن

۴۔ بستان ۰ بوستان ۰ گلستان ۰ گیاہستان

۵۔ سدا بہار پودوں کا باغیچہ

۶۔ روش ۰ خیاباں

۷۔ بازاروں اور کوچوں کے ناکوں پر اگائے ہوئے پودے اور پھول

۸۔ معرفت ۰ محبت (تصوف)

۹۔ آباد جگہ (مجازاً)

۱۰۔ چھوٹا کھیت

۱۱۔ کسی کپڑے، چادر، تکئے کے غلاف، دوپٹے، میز پوش، خوان پوش پر کاڑھے ہوئے بیل بوٹے

۱۲۔ ریشم کا کنکوا ۰ پتنگ جس کے کناروں پر بادلے اور موتیوں کی جھالر ہو

۱۳۔ خوبصورتی ۰ حسن ۰ شادابی ۰ تروتازگی (کنایتاً)

متراد فات : باغ ۰ بہارستان ۰ چمنستان ۰ حدیقہ ۰ روضہ ۰ کنج ۰ گلشن

استعارات: سیر گاہ ۰ گلگشت کی جگہ ۰ عیش گاہ ۰ نشاط گاہ

ترکیبات: چمن آرا ۰ چمن آرائی ۰ چمن بندی ۰ چمن پیرا ۰ چمن پیرائی ۰ چمن چمن ۰ چمن در چمن ۰ چمنِ دہر ۰ چمنِ حسن ۰ رشک چمن ۰ زمینِ چمن۰ سیرِ چمن ۰ صحنِ چمن

قوافی: ان بن ۰ بدن ۰ بھولپن ۰ پھبن ۰ تھکن ۰ جلن ۰ (گنگ و) جمن ۰ چبھن ۰ چلن ۰ ختن ۰ دامن ۰ دمن ۰ رن ۰ زن ۰ زمن ۰ سخن ۰ سمن ۰ ظن ۰ عدن ۰ فن ۰ کوہکن ۰ محن ۰ نعرہ زن ۰ وطن ۰ یاسمن ۰ یمن

انگریزی مترادفات:

Dale. Flower-bed. Garden. Greenward. Grove. Lawn. Lea. Meadow. Park.

اساطیر

اَ۰سَا ۰ طِی ۰ ر

عربی ۰ اسم نکرہ ۰

مذکر۰واحد

ثلاثی مجرد س۰ط۰ر سے ماخوذ ہے

واحد: اُسطورہ

متبادل: اُسطور

۱۔ دیو کتھا ۰ دیومالا ۰ قدیم مذہبوں میں دیوی دیوتاؤں اور خداؤں کے قصے کہانیاں

۲۔ افسانے ۰ من گھڑنت، پرانی خیالی داستانیں

۳۔ فرضی، بے اصل باتیں

۴۔ قرآن کریم کی دس سورتوں میں اساطیر الاولین (اگلے لوگوں کی دیوکتھاؤں) کا ذکر آتا ہے۔ دیکھئے سورتیں: الانعام (آیت۲۵)، الانفال (۳۱)، النحل (۲۴)، المؤمنون (۸۳)، الفرقان (۵)، النمل (۶۸)، الاحقاف (۱۷)، القلم (۱۵)۔ المطففین (۱۳)

قوافی: اجیر، اسیر، امیر، پیر، تصویر، تعمیر، توقیر، تیر، حقیر۔ دبیر، سفیر۔ شیر، ضمیر، عبیر، عناں گیر، میر، نذیر، نظیر، وزیر، ہیر، یسیر

مہ وش ۰۰ مہوش ۰۰ ماہ وش

مَ۰ہ۰وَش / مَا۰ہ۰وَش

فارسی – صفت ذاتی

یہ ترکیب اردو میں سب سے پہلے ۱۸۷۴ میں مراثی انیس میں تحریراً استعمال ہوئی۔

مہ/ماہ=چاند

وَش=جیسا / سا – جیسی/ سی

چاند جیسا۔ مجازاً خوب صورت۔ حسین۔ محبوب۔ معشوق

انتباہ: پاکستانیوں میں اس ترکیب کا غلط تلفظ رائج ہے۔ لفظ وَش (شَش کے وزن پر) واؤ پر زبر کے بجائے زیر کے ساتھ وِش (مالش کے طریقہ پر) بولا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ایسا ہو تو نکارت کے ساتھ ایک درجہ میں قابل فہم تھا کہ وہاں ترقی پسندوں کے بعد جدید ادبا اور شعرا خود فارسی سے لاعلم اور عموماً عربی فارسی کے الفاظ کے ترک کے حامی ہیں۔ تاہم آدھے پاکستان میں فارسی بولی اور سمجھی جاتی ہے اس کے باوجود وہاں اور غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں میں یہ ترکیب غلط تلفظ کے ساتھ گوارا کر لی گئی ہے۔

بداوت

بَ ۰د ا۰وَت

عربی

بادیہ سے متعلق۔

بادیہ کی زندگی۔ قبل تمدن کی حالت۔ صحرائیت۔ دشت کی زندگی۔

دیہاتیت۔ بے تمدنی۔ خانہ بدوشی کی حالت۔

سادہ مزاجی۔ سادہ انسانی زندگی۔

تمدنی آلائشوں سے پاک سماجی کیفیت

تکلفات سے خالی زندگی۔ بے تکلف زندگی کی کیفیت

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ محمد طارق غازی

تنہائی تھی ہوا تھی ساکت تھی پورن ماسی

بس دل سے آ رہی تھی موہوم اک صدا سی

وصل و فراق دونوں اک کیفیت کے پہلو

اک عارضی خوشی سی اک دائمی اداسی

ٹیسو کے پھول سا تھا چہرہ سواد شب میں

گل آفتاب نکلا تو رنگ تھا کپاسی

اس کو پتا نہیں ہے کیا شے ہے سرد مہری

چھائی ہوئی ہے دل پر گھنگھور اک گھٹا سی

اک ہم نشیں کا چہرہ بدلا ہوا سا دیکھا

چہرہ پہ شرم سی تھی آنکھوں میں تھی دغا سی

وہ جسم کے علاوہ کچھ اور بھی تو ہوتی

بنگلہ کی پریم داسی مندر کی دیو داسی

فلموں نے چشم دل کو ویران کر دیا ہے

آنکھوں میں کاش اترتی طارقؔ ذرا حیا سی

٭٭٭

کہوں دنیا میں اب میں کس سے جا کر

اگر کرنا ہے کچھ تھوڑی وفا کر

ہمارے بخت میں آنسو نہیں ہیں

کوئی حاصل نہیں دریا بہا کر

میں خالی چشم لوٹ آیا دوبارہ

تو دریا ہے تو دو آنسو عطا کر

یہ دنیا ہو کہ عقبیٰ امتحاں ہے

کوئی گوشہ پکڑ خود کو پڑھا کر

نہ حاصل کا نہ غم لا حاصلی کا

اٹھا ہاتھ اپنے اور خالی دعا کر

میں اشرف بھی یہاں برباد بھی ہوں

وہ بے شک خوش ہے یہ دنیا بسا کر

شکستہ دل کا جس دم ناز ٹوٹا

تپش سی رہ گئی شمعیں بجھا کر

میں پھینک آیا ہوں دل دشت نہی میں

اب اک قصہ ہے چاہے تو سنا کر

گلہ کیا کیجئے اس زندگی سے

ملی حسرت تمنائیں سجا کر

کبھی ہوتا تھا آقا بحر و بر کا

مگر اب وہ ہے صنعت گر کا چاکر

پکارا تھا اسے آباد کر دے

وہ جاتا ہے ہمارے دل کو ڈھا کر

ہے انصاری تو پھر یہ مانگنا کیا

اکیلے میں کہیں تنہا صدا کر

٭٭٭

قلم کو مستعد حب جاہ لکھ لیجے

مرے گناہوں میں اور اک گناہ لکھ لیجے

مرا خیال تھا ہم کوہ روح سر کرتے

بدل کے ہجے اسے آپ کاہ لکھ لیجے

بلند عمارتوں میں بس گئی ہے ویرانی

دلوں میں چاہیں تو شہر تباہ لکھ لیجے

اس آنکھ میں کوئی منظر رہا نہ خواب رہا

اب اس کے بعد بھی اس کو نگاہ لکھ لیجے

کتاب حق میں زمیں ملکیت ہے اللہ کی

عرب میں ملکیت بادشاہ لکھ لیجے

دبائے بیٹھے ہیں ہونٹوں میں جس کو منبر پر

قلم کے لب پہ اسے سرد آہ لکھ لیجے

بڑا عذاب تو ہر قوم پر ضروری نہیں

اک آہ کو نفس انتباہ لکھ لیجے

یہ خشک پتیاں آنچل ہیں کہکشاں کا میاں

ہری زمیں پہ ہے اس کو گیاہ لکھ لیجے

کسی بھی صنف میں ذہن آپ کا چلے نہ چلے

قلم ہے ہاتھ میں بس خوا مخواہ لکھ لیجے

انہیں تو گفتگو کرنے میں بھی تکلف ہے

مگر مصر ہیں اسے رسم و راہ لکھ لیجے

دکھوں کی گنتی سے کالی ہے زندگی کی کتاب

تو جنتری میں انہیں سال و ماہ لکھ لیجے

٭٭٭

اک باغ تو لگاؤ ذرا شہر ذہن میں

کچھ پھول پھل اگاؤ ذرا شہر ذہن میں

افکار پھر غروب ہوئے سمت جہل میں

روشن کرو الاؤ ذرا شہر ذہن میں

بھٹکو گے کب تلک بھلا صحرائے نجد میں

اک روز ادھر تو آؤ ذرا شہر ذہن میں

ہم بھی امیدوار ہیں اے شہریار دل

ہم کو بھی تو بلاؤ ذرا شہر ذہن میں

لگتا ہے جیسے باب کرامت ہی بند ہے

پھر چشم ناز اٹھاؤ ذرا شہر ذہن میں

اے اہل خانقاہ جگاؤ دماغ کو

صوت اذاں اٹھاؤ ذرا شہر ذہن میں

آؤ تمہیں تماشا دکھائیں شعور کا

آ جاؤ رہنماؤ ذرا شہر ذہن میں

کب تک بتوں کے پیروں میں خود کو گراؤ‌ گے

اب تو انہیں گراؤ ذرا شہر ذہن میں

زنار بند دیر نشیں سجدہ ریز ہوں

یوں اپنی چھب دکھاؤ ذرا شہر ذہن میں

٭٭٭

سوچ کے نیم وا دریچے سے ۔۔۔ طارق غازی

بند گلیاں دکھائی دیتی ہیں

زرد کلیاں دکھائی دیتی ہیں

رنگ رلیاں دکھائی دیتی ہیں

ہاں وہ شب جس میں خواب ٹوٹے تھے

عشق روٹھا تھا، ساتھ چھوٹے تھے

جتنے سچے تھے سارے جھوٹے تھے

کروٹیں نیم جاں ارادوں کی

آہٹیں کچھ ہیولیٰ سازوں کی

پیچکیں سب الجھتے دھاگوں کی

تقویٰ روئے وہاں ریا روئے

تیرگی روئے یا دیا روئے

تم نے جو چاہا وہ کیا، روئے

ستم نابکار کا غم کیوں

دشت میں شاخسار کا غم کیوں

دل ویراں بہار کا غم کیوں

غلطی کیسی، کیا پشیمانی

شہر غفلت میں کیسی حیرانی

جوئے خوں میں وہی ہے طغیانی

بے سند لفظِ مختصر بھی وہی

خوف اب بھی وہی، خطر بھی وہی

درد اِدھر بھی ہے، درد اُدھر بھی وہی

پوچھتی ہیں الم زدہ نسلیں

اب کہو قافلے کہاں بس لیں؟

پھر بھٹک جائیں؟ پھر کمر کس لیں؟

رنج خوردہ زمیں سے کیا شکوہ

سجدۂ بے جبیں سے کیا شکوہ

مار کا آستیں سے کیا شکوہ

کشتگان فریب، لے آؤ

لاؤ، دامان و جیب لے آؤ

پھر اک اورنگ زیب لے آؤ

سوچ کے نیم وا دریچے سے

٭٭٭

ڈاکٹر فریاد آزر ایک مزاحیہ تعارف ۔۔۔ اسد رضا

ریکارڈ کے مطابق ڈاکٹر فریاد آزر کی پیدائش ۱۰؍ جولائی ۱۹۵۶کو بنارس ضلع میں ہوئی۔ اب یہ ضروری نہیں کہ ۱۰؍ جولائی کو ہی ان کی پیدائش ہوئی ہو مگر اتنا تو طے ہے کہ ان کی پیدائش ضرور ہوئی ورنہ آج مسلسل ادبی رسالوں میں ان کی اتنی غزلیں شائع نہیں ہوتیں۔ انٹر میڈئٹ کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے ۱۹۷۲ میں دہلی تشریف لائے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ دہلی کی تینوں سنٹرل یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت دنوں تک اس خوش فہمی میں شادی نہیں کی کہ لکچرر شپ ملنے کے بعد ہی شادی کریں گے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ فریاد صاحب قول کے پکے نہیں تھے ورنہ آج تک کنوارے ہی بیٹھے ہوتے۔ کیونکہ لکچرر شپ انہیں آج تک نہیں ملی اور اب تو وہ امید کا دامن بھی چھوڑ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امید نے ان کا دامن بہت پہلے سے ہی چھوڑ رکھا ہے۔ ہاں، جامعہ میں اگر ذرا عقلمندی سے کام لیتے تو آج فریاد صاحب لکچرر ہی نہیں بلکہ پروفیسر ہو گئے ہوتے مگر موصوف عقل سے کم اور خود داری سے زیادہ کام لینے کے عادی ہیں لہٰذا آج بھی ہر میدان میں اپنے احباب سے پیچھے ہیں ورنہ ایک زمانہ میں موصوف کا ایک مزاحیہ شعر جامعہ میں بہت مقبول ہوا تھا ؎

جو یونیورسٹی والوں کا رشتہ دار ہو جاتا

کم از کم لکچرر شپ کا تو میں حقدار ہو جاتا

مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ مولانا حالی کا یہ شعر ایک عرصہ تک شادی کے سلسلہ میں ان کی رہنمائی کرتا رہا ؎

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں !

یعنی وہ ایک عرصہ تک گھروں میں گھس کر خوب سے خوب تر حسن کی تلاش میں سرگرداں رہے مگر نتیجہ انہی کے شعر میں ملاحظہ فرمائیں ؎

تلاش خوب تر میں خوب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے

ہم اپنے بے وفا محبوب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے

بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے یعنی موصوف دولہا بنے مگر سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے اور دوبارہ بال اگ آنے کے باوجود آج تک اولے پڑنا جاری ہیں اور اب انہیں سر منڈانے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی کیوں کہ اب ان کے سر پر بچا ہی کیا ہے !

اس طویل اور مسلسل اولہ باری میں فریاد آزر کو اب تک جم جانا چاہیے تھا۔ مگر جان ہر شخص کو عزیز ہوتی ہے۔ لہٰذا مکمل طور پر جمنے سے پہلے تھوڑا بہت ہاتھ پاؤں ہلا کر خود کو گرم کر لیتے ہیں۔ گرم کرنے سے مراد یہ ہے کہ کسی اور مشغلہ میں سرگرم ہو جاتے ہیں، کبھی کسی ادبی رسالے کی ادارت شروع کر دیتے ہیں کبھی انٹرنیٹ پر اردو کا ویب سائٹ شروع کر دیتے ہیں، کبھی کسی اخبار میں نئی نسل کے ادیبوں اور شاعروں کا انٹرویو لینا شروع کر دیتے ہیں کبھی شناخت نامی تنظیم کے ذریعہ نئی نسل کے شاعروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو کبھی فرصت کے لمحات میسر ہونے پر کچھ اشعار بھی کہہ لیتے ہیں۔

اب تک موصوف کے چار شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں مگر نقاد حضرات کی نگاہ ان تک نہیں پہنچی ورنہ اب تک سچ مچ اردو کے اہم شعرا کی فہرست میں ان کے نام کا اضافہ ہو چکا ہوتا۔ اس سلسلہ میں فریاد صاحب خود فرماتے ہیں ؎

ہاں ابھی مجھ کو نہ تسلیم کرے گا وہ بھی

وقت آئے گا تو تعظیم کرے گا وہ بھی

فریاد صاحب ایک دردمند دل رکھتے ہیں۔ غریبوں اور لاچاروں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آج سے تقریباً بیس پچیس سال قبل جب کہ موبائل فون صرف رئیسوں کے پاس ہوا کرتا تھا، ایک بھکاری پر جب انہیں رحم آ گیا تو کیا ہوا آپ خود ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ؎

میں رحم کھا کے جو سائل سے بات کرنے لگا

وہ دور ہٹ کے موبائل سے بات کرنے لگا

آج اس عمر میں اتنا سنجیدہ نظر آنے والا شخص نوجوانی میں کس قدر شوخ تھا، یقین نہیں آتا۔ موصوف نے جامعہ میں طالب علمی کے دوران ایک شوخ رسالہ نکالا تھا اور اس سے پہلے کہ خود انہیں ہی جامعہ سے نکال دیا جاتا انہوں نے دوسرا شمارہ نکالا ہی نہیں۔ رسالہ کا نام تھا دل پھینک اور موصوف اس کے مدیر ادنی تھے۔ لیکن اس کے دوسرے شمارہ کی اشاعت نہ ہو پانے کی وجہ موصوف خود فرماتے ہیں ؎

خود اپنا پرچہ نکالا مدیر ہو بیٹھے

مہینہ بھر میں مکمل فقیر ہو بیٹھے

تخلص شاعر کی پہچان ہے۔ فریاد صاحب تخلص کے معاملے میں بڑے دریا دل رہے ہیں۔ شروع شروع میں شہزادہ فریاد کے نام سے لکھتے رہے، پھر اچانک نئے تخلص کی طرف راغب ہوئے اور یکے بعد دیگرے درجنوں تخلصوں کو اپناتے رہے۔ کبھی فریاد رومی تو کبھی فریاد راوی۔ کبھی صنم بنارسی تو کبھی کچھ۔ اس دور میں اکثر احباب ان سے ان کی نئی غزل کم سنتے، نیا تخلص زیادہ۔ آخر کار فریاد صاحب آزر پر آ کر رک گئے لیکن کچھ بھروسہ نہیں کہ کب کوئی اور تخلص اختیار کر لیں۔

فریاد صاحب کو بچپن سے ہی شعر و شاعری اور ریڈیو پر بچوں کی پروگراموں میں حصہ لینے اور اخبارات و رسائل میں چھپنے چھپانے کا شوق تھا۔ آپ کی پہلی نظم اس وقت بنارس کے مشہور ہندی روزنامہ آج کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی جب آپ نے چھٹی جماعت میں داخل ہوئے ہی تھے۔ پھر تقریباً ہر سنڈے ایڈیشن میں آپ کی نظمیں اور ٹوٹی پھوٹی کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات میں سیاسی مضامین لکھنے لگے۔ انٹر میڈئٹ کے بعد جب اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی آئے تو دہلی یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد اچانک جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اردو میں داخلہ لینے کی کوشش کی۔ مگر ڈاکٹر عنوان چشتی مرحوم، پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر حنیف کیفی اور دیگر اساتذہ نے فریاد آزر کے داخلے کی مخالفت کی کیوں کہ فریاد آزر کے پاس پہلی جماعت سے لے کر بی اے تک کسی کلاس میں اردو بحیثیت مضمون بھی نہیں تھی۔ ایسے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے فریاد آزر کو یہ کہہ کر شعبہ میں داخلہ دے دیا کہ ایک نوجوان ہندی سے اردو کی طرف مائل ہو رہا ہے ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ لیکن سیمیناروں میں فریاد آزر پڑھے گئے مقالات پر جس انداز سے بحث کرتے تھے اس سے مرحوم عنوان چشتی اور شمیم حنفی اور دیگر اساتذہ فریاد آزر کے داخلے سے نہ صرف مطمئن ہو گئے بلکہ عنوان چشتی مرحوم نے فریاد آزر کو اپنی شاعرانہ شاگردی میں بھی لے لیا اور ایم اے کے بعد شمیم حنفی صاحب فریاد آزر کے پی ایچ ڈی کے مقالے کے نگراں مقرر ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ عنوان صاحب کی شاگردی میں فریاد آزر غزل کی طرف مائل ہو گئے اور صحیح معنوں میں ان کی شاعری کا آغاز بھی جامعہ ملیہ سے ہی ۱۹۷۸ء سے ہوا۔

اب فریاد صاحب پی ایچ ڈی کے مقالہ میں کم اور شعر و شاعری میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ پانچ سال تک مسلسل جامعہ اسٹور کے ارشاد ٹی اسٹال پر صبح صبح بیٹھ کر سامعین کا انتظار کرتے اور انہیں چائے پلوا کر غزلیں سناتے۔ سامعین ایک چائے اور غزل کے بعد چلے جاتے مگر فریاد صاحب دوسرے سامعین کے منتظر رہتے۔ اسی طرح سامعین بدلتے رہتے چائے چلتی رہتی اور شام ہو جاتی اور فریاد صاحب اگلے دن پھر آنے کے لیے گھر چلے جاتے۔ طالب علمی کے دور میں اتنا پیسا خرچ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ظاہر ہے کہ فریاد آزر کے بھی بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے ایک ترکیب نکال رکھی تھی کہ سبھی کو آدھی یعنی ایک بٹے دو چائے پلوایا کرتے تھے۔ مگر اس کے لیے انہوں نے ارشاد بھائی اور ان کے ملازمین کو ایک کوڈ ورڈ بتا رکھا تھا۔ یعنی اگر چار لوگ موجود ہوں اور آدھی آدھی چائے پلوانی مقصود ہو تو یہ کہا جائے گا کہ ’ہو جائے ‘ لیکن اگر سب کو پوری پوری چائے پلوانی مقصود ہو تو یہ کہا جائے گا کہ ’چار چائے ‘۔ اس سے کسی کو پتہ نہیں چل پاتا تھا کیوں کہ چائے تو اتنی ہی ہوتی تھی بس کوالٹی میں تھوڑا فرق ہوتا تھا۔

لیکن یہ راز اس وقت کھل گیا جب ایک دن باذل عباسی مرحوم بحیثیت سامع اس چائے خانہ میں تشریف لائے۔ ان کو دیکھتے ہی چائے خانہ کا ملازم فریاد صاحب سے پوچھ بیٹھا کہ ’’دو چائے یا ہو جائے ؟‘‘پھر بھی کب تک ادھار چلتی! ایک دن ارشاد بھائی نے رقم کا تقاضا کر ہی دیا۔ فریاد صاحب ان کی مذہب پسندی سے واقف تھے۔ انہوں نے ارشاد بھائی سے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ جناب آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجیے۔ اور وہ یہ ہے کہ کیا آپ کو روز حساب پر یقین ہے ؟ ارشاد بھائی نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا کہ الحمد للہ! فریاد صاحب فوراً بولے کہ پھر میرا اور آپ کا حساب وہیں ہو گا۔

پانچ سال گزر گئے اور پی ایچ ڈی کا کام برائے نام ہو پایا تھا۔ فریاد آزر اور شاہ رخ خان کو ایک ساتھ جامعہ سے نکال دیا گیا۔ شاہ رخ ٹی وی سیریل میں کام کرنے لگا اور آج ہندوستانی فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ ہے۔ فریاد صاحب اپنے دل سے جامعہ کی محبت نہیں نکال پائے لہٰذا انہیں ایک سال کی مزید مہلت دے دی گئی اور اسی سال موصوف نے واقعی دن رات محنت کر کے پی ایچ ڈی کا مقالہ پورا کر ہی لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر بننے کے بعد لکچرر بننے کی دل سے قطعی کوشش نہیں کی کیونکہ لکچرر شپ کے تمام اوصاف ہونے کے باوجود ایک وصف اپنے اندر پیدا نہیں کر سکے۔ وہ یہ کہ پروفیسروں کے گھروں کے چکر اس دور میں بھی نہیں لگا سکے جب کہ ایسا کرنا نہایت ضروری تھا۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ شعر و شاعری کے جنون کے دوران ہی ایک دوست کے مشورے پر جامعہ سے ہی بی ایڈ کر لیا تھا لہٰذا دال روٹی چل رہی ہے ورنہ شاید دوسروں کی طرح پروفیسروں کے گھروں کے چکر لگا لگا کر لکچرر شپ حاصل کر ہی لیتے اور دال روٹی کے بجائے مرغ مسلم کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ دال اور مرغ کی قیمت میں آج کوئی فرق نہیں رہا۔

بی ایڈ کے دوران ہی فریاد آزر نے اپنا مشہور زمانہ شعر کہا جسے آج بھی ہندوستان کے مختلف حصوں میں بہت سے شعرا اپنے اپنے نام سے مشاعروں میں سنا دیتے ہیں اور پکڑے جانے پر معافی مانگ لیتے ہیں۔ وہ شعر یہ تھا ؎

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

آپ کا پہلا شعری مجموعہ خزاں میرا موسم ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ اسکول میں پڑھاتے ہوئے بچوں کو املا کے طور پر فی البدیہہ نظمیں لکھواتے تھے جسے اردو اکادمی نے ۱۹۹۸ء میں بچوں کا مشاعرہ کے نام سے خود شائع کیا۔ ۲۰۰۵ء میں تیسرا شعری مجموعہ قسطوں میں گزرتی زندگی شائع ہوا اور چوتھا شعری مجموعہ کچھ دن گلوبل گاؤں میں ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا جسے اردو اکادمی نے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کی شاعری کے معیار کو دیکھتے ہوئے ان کے پہلے اور دوسرے مجموعوں کو بھی ایوارڈ سے یقیناً نوازا جاتا لیکن جس ادارے کے مالی تعاون سے دونوں کتابیں شائع ہوئی تھیں، وہی ادارہ قانوناً ان کتابوں پر ایوارڈ نہیں دے سکتا تھا۔ خیر یہ تو اپنے اپنے مقدر کی بات ہے۔

بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ ایوارڈ جیسی چیز خود ہی دوڑ بھاگ کر کے حاصل کر لیتے ہیں مگر آزر صاحب اس انتظار میں ہیں کہ شاید ایمانداری سے ان کو ان کی شاعری پر ایوارڈ آج نہیں تو کل مل ہی جائے گا۔ یہ میں کیا آپ سبھی اسے خوش فہمی محض مانتے ہوں گے۔ خود فریاد صاحب فرماتے ہیں ؎

ورنہ مرا مزاج مجھے مار ڈالتا

شامل مرے وجود میں خوش فہمیاں بھی تھیں

ڈاکٹروں کے مطابق کینسر کا کوئی علاج نہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خوش فہمی کا بھی کوئی علاج نہیں ہے۔ خوش فہمی اور امید کا چولی اور دامن کا ساتھ ہے یہ بات تو ڈاکٹر صاحب بھی جانتے ہیں مگر وہ اتنے بھی سادہ لوح نہیں ہیں۔ ہمیشہ ’امید‘ سے رہیں۔ انہیں زندگی اور حالات کا زبر دست تجربہ ہے ورنہ یہ شعر نہ کہتے ؎

ایک جانب یاس کی سرحد سے لپٹا کرب کفر

دوسری جانب امیدوں کا جہاں جلتا ہوا

سنجیدگی فریاد آزر کی گھٹی میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے لیکن کوٹنے اور چھاننے کے دوران طنز و مزاح کے عناصر بھی اس میں شامل ہو گئے اور کبھی کبھی یہ طنز و مزاح اردو کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب کا بہترین سرمایہ بن جاتا ہے۔

ان کی ایک مزاحیہ غزل (جو کہ احمد فراز کی مشہور غزل کی پیروڈی ہے) کے چند اشعار حاضر ملاحظہ فرمائیں ؎

’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘

سو ہم بھی آج یہی کام کر کے دیکھتے ہیں

ہے شوق اس کو موبائل سے بات کرنے کا

سو ہم بھی چار چھ مِس کال کر کے دیکھتے ہیں

جن عاشقوں کو بڑھاپے کی پونچھ اگنے لگی

سنا ہے وہ بھی اسے دم کتر کے دیکھتے ہیں

بس اس لئے کہ اسے پھر نظر نہ لگ جائے

لگا کے سب اسے چشمے نظر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بالوں سے اس کو بڑی محبت ہے

تمام گنجے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سدھار پائے نہ جن کو پولس کے ڈنڈے بھی

وہی موالی اسے خود سدھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو امیر زادوں سے

سو آج ہم بھی اسے جیب بھر کے دیکھتے ہیں

وہ بالکونی میں آئے تو بھیڑ لگ جائے

رقیب ایسے میں جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں

سڑک سے گزرے تو ٹریفک بھی جام ہو جائے

کہ اہلِ کار بھی اس کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

مجھے بھی آج کسی پارلر میں لے چلئے

اسے رقیب بہت بن سنور کے دیکھتے ہیں

ہماری بات ہوئی تھی نہ دیکھنے کی اسے

ہم اپنی بات سے پھر بھی مکر کے دیکھتے ہیں

مشاعروں کے لئے چاہئے غزل اس کو

یہی ہے مانگ تو پھر مانگ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے شوق ہے تیمار داریوں کا اسے

سو اپنے آپ کو بیمار کر کے دیکھتے ہیں

سنا گیا ہے کہ مردہ پرست ہے وہ بھی

تو جھوٹ موٹ کا پھر ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے لی ’جوڈو‘ کی تربیت اس نے

رقیب دور سے ہی اس کو ڈر کے دیکھتے ہیں

مکان اس کا ہے سرحد کے اس طرف لیکن

ادھر کے لوگ بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

’فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘

سو اس گلی سے اب آزرؔ گزر کے دیکھتے ہیں

اسی طرح احمد فراز کی ایک اور غزل کی زمین میں فریاد آزر کا کمال دیکھیں:

یہ ہے عشق دورِ جدید کا، یہ معاشقہ کوئی اور ہے

میں زکام ہوں کسی اور کا، مجھے چھینکتا کوئی اور ہے

مری زندگی بھی عجیب ہے، مرا کتنا گھٹیا نصیب ہے

میں سہاگ ہوں کسی اور کا، مجھے پیٹتا کوئی اور ہے

کوئی شاعروں کو بلائے کیوں، کوئی اچھا شعر سنائے کیوں؟

ہے یہاں گویّوں کا جمگھٹا، یہ مشاعرہ کوئی اور ہے

کوئی سوکھتا ہے چھوارے سا، کوئی پھولتا ہے غبارے سا

میں کما کے لاتا ہوں دم بہ دم پہ ڈکارتا کوئی اور ہے

جو زمین ہم نے خرید لی، کہیں جا کے تب یہ خبر ہوئی

وہ زمین تھی کسی اور کی، اسے بیچتا کوئی اور ہے

مجھے کس نے الّو بنا دیا، مرے سر پہ سہرا سجا دیا

میں نے ان کا گھونگٹ اٹھا دیا تو پتہ چلا کوئی اور ہے

یہ سیاستوں کے معاملے، انھیں ہم کبھی نہ سمجھ سکے

یہاں بھونکتا کوئی اور ہے، ہمیں کاٹتا کوئی اور ہے

جو میں اک مشاعرے میں گیا، مجھے سن کے سب نے یہی کہا

جہاں بلبلیں ہوں غزل سرا وہیں رینکتا کوئی اور ہے

جو ہوا کہیں کوئی حادثہ، مجھے سیدھا آ کے دھرا گیا

کئی سال بعد پتہ چلا پسِ حادثہ کوئی اور ہے

٭٭٭

منفرد لہجہ کا شاعر: فریاد آزرؔ ۔۔۔ احسن امام احسن

دورِ جدید میں چند مختلف اور منفرد شعرا ہیں جو اپنے کلام کے مخصوص انداز کی وجہ سے منفرد کہلاتے ہیں۔ ان ہی منفرد شعرا میں ایک اہم اور معتبر نام ڈاکٹر فریاد آزرؔ کا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے انھیں پڑھتا آ رہا ہوں۔ وہ واقعی متاثر کرنے والی شاعری کرتے ہیں۔ ان کی غزل کے دو شعر جو میرے ذہن پر نقش ہو گئے ہیں :

وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں

خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں

ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف

مٹا رہے ہیں خود اپنی زبان قسطوں میں

یہ دو شعر میرے ذہن و دل پر چسپاں ہو گئے۔ اس کے بعد فریاد ا ٓزر کا بغور مطالعہ کرنے لگا۔ ان کے مضمون باندھنے کا انداز عمدہ ہے۔ کس طرح کی باتوں کو کس انداز میں پیش کیا جائے، یہ ان کے تخیل کی پرواز سے اندازہ ہوتا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ آج کے دور کے شعرا سے بالکل الگ ہٹ کر کہنے کا انداز موصوف کا نرالا ہے۔ ان کی شاعری میں جا بجا اسلامی فکر نظر اتی ہے۔ ادبی محاذ کے مدیر جناب سعید رحمانی فرماتے ہیں :

’’اس حقیقت سے انکار نہیں جا سکتا کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے۔ جس میں جدید معاشرہ کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں تاہم ان کی شاعری کا ایک خوش گوار پہلو ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ پہلو ہے اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔‘‘

فریاد آزر منفرد طریقہ سے اپنے جذبات، محسوسات، اور مشاہدات کو شعری پیکر میں عطا کرنا خوب جانتے ہیں۔ کہتے ہیں ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، اس آئینے میں آپ بھی زندگی کی تصویر دیکھیں :

عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی

بدن کے نیزہ پہ سر رکھ دیا گیا میرا

جو مکا اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی

اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے

یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں

اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو

چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا

رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں

بدلے میں اس کی موت مرا میں میں تمام عمر

وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی

آج کے عہد میں یہ کھیل چل رہا ہے کہ بچی کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے، کیا کہتے ہیں آزر صاحب، دیکھئے :

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم

رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید

دوسری طرف والدین لڑکیوں کی شادی کے لئے پریشان رہتے ہیں، شاید اسی پریشانی کی وجہ سے اسے رحم میں مار دیتے ہیں لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرنے میں جو پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہے شاید اسی کا اثر ہو کیوں کہ جدید دور میں مانگ اتنی بڑھ گئی ہے کہ والدین کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ آج ہمارا مزاج ایسا ہو گیا ہے کہ ہم خوب صورت لڑکیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ آج نیک سیرت لڑکیاں گھر میں بیٹھی ہیں۔ اس جدید دور میں لوگ سیرت لے کر کیا کیا کریں گے، صورت ہی سب کچھ ہے۔ ایک پیارا سا شعر جو یہ سارے منظر کی طرف اشارہ کرتا ہے :

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

فریاد آزر کا شعور بالغ ہے، ان کے منفرد ہونے پر مشہور و معروف شاعر، و ادیب رفیق شاہین صاحب لکھتے ہیں :

’’نئے لب و لہجہ میں شعر کہنے والے اور بھی ہیں، لیکن فریاد آزر کی بات ہی نرالی ہے، ان کی آواز کے سر میں جو انوکھی دلکشی اور نغمگی کا پر تو ہے وہ کسی بھی شاعر میں موجود نہیں ہے۔ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے جو اپنی مخصوص کھنک اور تیکھے پن کی وجہ سے ان کی ایک الگ پہچان بن گیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ہم انہیں ایک بے مثال اور صاحبِ طرز شاعر کے خطاب سے پکاریں تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہو گا‘‘

رفیق شاہین کی بات میں پختگی لگتی ہے کیوں کہ جس انداز سے فریاد آزر شعر کہتے ہیں وہ دیگر لوگوں سے جدا اور نئے طرز کا ہوتا ہے۔ چند شعر پڑھ کر آپ بھی لطف اندوز ہوں :

کیوں نہیں یکبارگی کی موت مرتی زندگی

اے مری جاں کاہ قسطوں میں گزرتی زندگی

کن کن صعوبتوں سے گزرنا پڑا مجھے

اس زندگی میں بارہا مرنا پڑا مجھے

یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں

اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو

یہ کیسے جرم کی پاداش ہے یہ زندگی جس سے

رہائی مل تو جاتی ہے سزا پوری نہیں ہوتی

ننھے بچپن میں بزرگوں سا تھ جس کا رکھ رکھاؤ

زندگی کی دوڑ میں وہ آدمی بچہ لگا

فریاد آزر نے کس کس نظر سے زندگی کو دیکھا ہے، زندگی کے نشیب و فراز کا Analysis خوب صورت انداز میں کیا ہے، زندگی کو استعارہ بنا کر بات کہنے کا انداز بھی ان کا مختلف ہے۔ عمران عظیم کہتے ہیں :

’’شکست و ریخت کے نوحوں کے علاوہ ان کی شاعری میں درد مندی کا احساس بھی ہے۔ فریاد آزر جس زمانی اور مکانی حدود میں رہتے ہیں، ان میں در پیش مسائل کو اپنی شاعری میں بڑی مہارت اور سلیقہ کے ساتھ اپنی شاعری میں بیان کرتے ہیں۔‘‘

واقعی فریاد آزر کی شاعری عمدہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بلند خیال رکھنے والے معیاری شاعر ہیں، فریاد آزر پر اسرار کیفیات کو رمز و کنایہ کے ذریعہ پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ موصوف عام روش سے ہٹ کر بھی معنوی و صوری اعتبار سے منفرد ثابت ہوتے ہیں، موضوعات اور مضامین کے خیال کا خاص آداب رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ فریاد آزر ایک منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

صحرا سے العطش کی صدا آ رہی ہے پھر

تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر

پھر بیعتِ یزید سے منکر ہوئے حسین

اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر

دوبارہ چکھ لیا نہ ہو ممنوعہ پھل کہیں

وہ بے لباسیوں میں گھری جا رہی ہے پھر

ہیں لوگ اپنے اپنے ہی خیموں کی فکر میں

اور سازشوں میں قوم بٹی جا رہی ہے پھر

اس نے تو جڑ سے کاٹ دیا تھا روایتاً

یہ سبز گھاس ہے کہ اُگی آ رہی ہے پھر

***

بے کراں شہرِ طلسمات سے آزادی دے

مجھ کو خوابوں کی حوالات سے آزادی دے

ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے

سطحِ ’اوزون‘ کو فضلات سے آزادی دے

تھک گیا ہوں تری شطرنج کی بازی سے بہت

زندگی مجھ کو شہ و مات سے آزادی دے

یہ بدل دیں نہ جہنم میں زمیں کی جنت

اس پرستان کو جنّات سے آزادی دے

ایک مدت ہوئی محبوب وطن سے نکلے

اب سکندر کو فتوحات سے آزادی دے

میں بھی کچھ زینتِ آفاق بڑھاؤں شاید

تو اگر مجھ کو غمِ ذات سے آزادی دے

اِس گھٹا ٹوپ اندھیرے کی سیاہی کو ہٹا

دن دکھا مجھ کو بھی اب رات سے آزادی دے

***

تخیلات میں پھر تاج و تخت اُگنے لگے

زمیں ہٹی تو خلا میں درخت اُگنے لگے

جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے

اُسی زمین سے ہم لخت لخت اُگنے لگے

پھر انتخاب کا موسم گزر گیا شاید

پھر اُس کے ہونٹوں پہ لہجے کرخت اُگنے لگے

کچھ اِس طرح انھیں بے رحمیوں سے کاٹا گیا

نحیف پودوں کے پتے بھی سخت اُگنے لگے

خزاں نصیبی کا بوڑھا شجر بھی خوش ہے بہت

کہ برگ شاخوں پہ کچھ نیک بخت اُگنے لگے

تو کیا ہمیں بھی سفر کا پیا م آنے کو ہے

خیال و خواب میں کیوں سبز رخت اُگنے لگے

***

یم بہ یم صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا ہوا

آتشِ نمرود میں سارا جہاں جلتا ہوا

پاؤں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر

اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتا ہوا

نوحؑ کی امت ہے کاغذ کی سبک کشتی میں اور

خواہشوں کا ایک بحرِ بیکراں جلتا ہوا

ایک جانب یاس کی سرحد سے لپٹا شہرِ کفر

دوسری جانب امیدوں کا جہاں جلتا ہوا

سارے منظر ایک پس منظر میں گم ہوتے ہوئے

سبز لمحوں کا سنہرا کارواں جلتا ہوا

جسم سے باہر سنہرے موسموں کا سبز لمس

روح کے اندر کوئی آتش فشاں جلتا ہوا

٭٭٭

کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں

مگر وہ بول پڑا تھا خدا کے لہجے میں

زمین پھر اسی مرکز پہ جلد آ جائے

ندائے ’’کُن‘‘ میں سنوں ابتدا کے لہجے میں

پرندے لوہے کے، کنکر بموں کے پھینکتے ہیں

عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہہ کے لہجے میں

قدم ادھر ہی اٹھے جا رہے ہیں جس جانب

سموم بول رہی ہے صبا کے لہجے میں

کشش تو چاند سے کچھ کم نہیں ہے اس میں بھی

مگر وہ ملتا ہے اکثر خلا کے لہجے میں

نئی ہواؤں کی یلغار سے نمٹنے کو۔!

میں زہر پینے لگا ہوں دوا کے لہجے میں

٭٭٭

حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا

میں وہ زمین جس کا کوئی آسماں نہ تھا

سب میں کرائے داروں کے پائے گیے نشاں

جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا

بچپن کے ساتھ ہو گیے بوڑھے تمام ذہن

ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا

چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر

خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا

لذت نہ مل سکی مری تخئیل کو کبھی

ورنہ مرے گناہ کا موسم کہاں نہ تھا

سب اُس کو پڑھ سکیں یہ ضروری نہ تھا مگر

تھا کون جسم جس کی اداؤں میں ہاں نہ تھا

ہر زاویے سے بول چکے تھے مرے بزرگ

باقی مرے لیے کوئی طرزِ بیاں نہ تھا

ان خواہشوں کی چھاؤں میں گزری تمام عمر

جن خواہشوں کے سر پہ کوئی سائباں نہ تھا

٭٭٭

پکار ۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

(۱۷ اگست ۲۰۲۳ء کو فیس بک میں علالت کی تصویر کے ساتھ پوسٹ کی گئی آخری بلا عنوان نظم، اس کا عنوان مدیر کا دیا ہوا ہے)

یہ میں ہی ہوں

یہ میں ہی ہوں جسے سب لوگ بیماروں کی دنیا میں

اچانک چھوڑ آئے تھے

میرے اعضا کو اکثر منتشر لمحوں نے جانچا تھا

لہو میرے بدن کا کچھ مشینوں کو پلا کر مجھ کو پرکھا تھا

پھر اس کے بعد مردہ خانے کی تاریک گلیوں میں مجھے بھی چھوڑ آئے تھے

فرشتوں نے کہا آزر تمھاری زندگی باقی ہے صدیوں کی

ابھی تم کو اسی دنیا میں رہنا ہے

تمھارا وقت آئے گا تو ہم تم کو پکاریں گے!!!

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ خلیل مامون

مجھے ابھی بہت دور جانا ہے

کیا پیروں کی تھکن اس سفر کو روک سکتی ہے

کیا راستے کے روڑے میرے ارادے کو توڑ سکتے ہیں

کیا میں یہاں سے واپس لوٹ جاؤں گا

کیا میں اور آگے چل نہیں پاؤں گا

نہیں نہیں

شاید مجھے جانا ہے بہت دور

گو ہوں میں تھکن سے چور

اور بے زار ہر منظر سے

جو بار بار لوٹ کر نظر کی اکتاہٹ بن جاتا ہے

وہی آسمان

وہی زمین

وہی چاند وہی ستارے

چاندنی میں چمکتے اور مہکتے وہی پھول

ہاتھوں میں چبھتے وہی ببول

وہی میرے من کو سلاخوں میں لہو کرنے والے اقوال

لیکن شاید اکتاہٹ بھی مانع نہ ہو

قدموں کی

شاید زندگی قیدی نہ بنے لمحوں کی

یہ تو ہوائے برگ و بار کی طرح ہے

جو کبھی نہ کبھی گزر جائے گی

میرے ذہن کے خزانے کی اوپری سطح کو بھی

کبھی نہ چھو پائے گی

شاید ابھی آگے بہت دور جانا ہے

اور ان بار بار آتے لمحوں

ہر بار آنکھ کے سامنے ابھرتے منظروں

دریاؤں صحراؤں جنگلوں

گاؤں اور شہروں

کے بھیڑ سے مجھے کوئی نیا رنگ

نکالنا ہوگا

اپنے پراگندہ ذہن کو قبر میں دفن کر کے

نیا بت نیا مندر بنانا ہوگا

پرانے لفظوں سے نیا لفظ

پرانے معانی سے نئے معانی

خلق کرنے ہوں گے

یہی نہیں

مجھے پارینہ کانوں میں

سماعتوں کے نئے پیمانے

آنکھوں کے لیے

نئے منظر نامے سے ترتیب دینے ہوں گے

چلتے چلتے میرے جوتے بھی گھس گئے ہیں

مجھے اف جوتوں کو ہی بدلنا ہوگا

اور آنکھوں پر نئی عینک لگانی ہوگی

تاکہ پرانے شیشے میں نئے رنگ

پرانے نہ دکھائی دیں

شاید یہ تھکن مجھے روک نہ پائے

شاید میں ان روڈوں کو پھلانگ دوں

شاید اپنے ہاتھوں سے ببولوں کو نوچ

پھینکوں

شاید میں سن کی سلاخوں کو توڑ کر

باہر آ جاؤں

اور ملگجی چاندنی کے عکس گھر

اپنے لہو سے سرخ رو کر دوں

اور قدم بڑھاتے آگے نگل جاؤں

شاید مجھے ابھی بہت دور جانا ہے

٭٭٭

جلا وطن شہزاد گان کا جشن

قبر کی مٹی چرا کر بھاگنے والوں میں ہم افضل نہیں

ہم کوئی قاتل نہیں

بسمل نہیں

منجمد خونیں چٹانوں پر دو زانو بیٹھ کر

گھومتی سوئی کے رستے کی صلیبوں سے ٹپکتے

قطرہ قطرہ سرخ رو سیال کو

انگلیوں پر گن رہے ہیں

چن رہے ہیں

منظر نیلوفری کی جھیل میں

گرتا ہوا اک آسمان نور کا ذخار شور

ہم کہ اپنی تشنگی کے سب ظروف

اپنی اپنی پست قد دہلیز پر توڑ آئے تھے

ناریل کے آسماں اندوختہ سایوں تلے

لڑکھڑا کر

آتشیں ساحل کی جلتی ریت پر اوندھے پڑے ہیں

آتشیں سیال جب جب

جسم کی سرحد پہ غش کھائے سپاہی کی رگوں کو چھیڑتا ہے

ہوش آتا ہے

تو چاروں سمت روشن دیکھتے ہیں

اک الاؤ بے کراں

جس میں تمام آسمانوں کی ردائیں جل رہی ہیں

اور پھر

جلتے گلابوں سے ابھرتی زعفرانی روشنی

ہم کو سلامی دے رہی ہے

٭٭٭

غزال شب کے ساتھ

میں یہاں نہیں تھا

میں وہاں نہیں تھا

درد بھرے آسمان میں

چیخ بن کے

ابھر رہا تھا

تنگ گھاٹیوں میں

گونج بن رہا تھا

سمندروں پہ

ریزہ ریزہ گر رہا تھا

میں یہاں نہیں تھا

کالے جنگلوں کے گھور اندھیرے میں تھا

رفتہ رفتہ سب سیاہی مٹ گئی

سارے جنگل

کٹ گئے

ہیولے گھٹتے گھٹتے

غزال شب بنے

اندھیرے چھٹ گئے

ابر کے سیاہ ٹکڑے دھند بن گئے

چار سو دھند پھیلتی گئی

اکائیوں کو دور دور تک بہاتی

چار سو پھیلتی گئی

دھند میں

غزال شب نے

رفتہ رفتہ آنکھ کھولی

زبان سے کچھ نہ بولی

ہفت آسمانوں سے لے کے

تحت الثریٰ تک

ہزارہا چراغ جل اٹھے

روشنی سے جل گئی

غزال شب کی آنکھ نور تھی

غزال شب کی آنکھ طور تھی

رفتہ رفتہ

روشنی نے روشنی کو

اپنی جانب کھینچا

اور میں نور میں نہا گیا

دودھیا سیہ رنگ

چہار سمت چھا گیا

پانیوں کا زور

بڑھنے لگا

سیلاب آیا

باندھ ٹوٹے

ریت کے گھروندے

مٹی کے گاؤں

پتھروں کے شہر ڈھہ گئے

صبح و شام کے کنارے

ایک دوجے سے گلے مل گئے

اندھیرے جسم کے کھنڈر کی

سیاہ طاقوں میں

دلوں کے سو چراغ جل گئے

رفتہ رفتہ

غزال شب نے آنکھ بند کی

اور

سارا پانی کھائی کی طرف چلا گیا

تیز پانیوں میں

میں بھی آ گیا

اب فقط

میں روشنی میں بند ہوں

اور

اندھیروں کو ترس رہا ہوں

میں یہاں نہیں ہوں

میں

غزال شب کے ساتھ ہوں

میں

غزال شب کے ساتھ ہوں

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ خلیل مامون

بلا رہا ہے مجھے آسماں تمہاری طرف

جلا کے نکلا ہوں سب آشیاں تمہاری طرف

میں جانتا ہوں کہ سارے جہاں ہیں ختم یہاں

مجھے ملے گا نہ کوئی جہاں تمہاری طرف

خموشیوں کا بس اک سلسلہ ہے دور تلک

نہ کوئی لفظ نہ کوئی زباں تمہاری طرف

ہر ایک جیتا ہے وسعت میں کائناتوں کے

کوئی بناتا نہیں ہے مکاں تمہاری طرف

مرے ہوؤں کو کوئی مارے کس طرح آخر

نہ کوئی تیر نہ کوئی سناں تمہاری طرف

نہ کوئی دریا نہ پربت نہ آشیاں نہ شجر

زمیں ہے کوئی نہ ہی آسماں تمہاری طرف

ظہور عشق کی دنیا کو چھوڑ آیا ہوں

میں خود کو کرتا ہوں سب سے نہاں تمہاری طرف

میں منزلوں سے بہت دور آ گیا مامونؔ

سفر نے کھو دیے سارے نشاں تمہاری طرف

٭٭٭

اس شہر سنگ سخت سے گھبرا گیا ہوں میں

جنگل کی خوشبوؤں کی طرف جا رہا ہوں میں

منظر کو دیکھ دیکھ کے آنکھیں چلی گئیں

ہاتھوں سے آج اپنا بدن ڈھونڈھتا ہوں میں

چلا رہا ہے کوئی میرے لمس کے لیے

اندھیاری وادیوں سے نکل بھاگتا ہوں میں

قاتل کے ہاتھ میں کوئی تلوار ہے نہ تیغ

وہ مسکرا رہا ہے مرا جا رہا ہوں میں

مجھ کو وہ میرے دل کے عوض دے سکیں گے کیا

مامونؔ دنیا والوں سے کیا مانگتا ہوں میں

٭٭٭

نیند چبھنے لگی ہے آنکھوں میں

کب تلک جاگنا ہے راتوں میں

تم اگر یوں ہی بات کرتے رہے

بیت جائے گا وقت باتوں میں

انگلیاں ہو گئیں فگار اپنی

چھپ گیا ہے گلاب کانٹوں میں

شاید اپنا پتہ بھی مل جائے

جھانکتا ہوں تری نگاہوں میں

سب ہے تیرے سوال میں پنہاں

کچھ نہیں ہے مرے جوابوں میں

جو نہیں مل سکا حقیقت میں

ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں خوابوں میں

فیصلہ تو تمہیں کو کرنا ہے

دیکھتے کیا ہو تم گواہوں میں

مصلحت کوش ہو گیا مامونؔ

گھر کے تنقید کرنے والوں میں

٭٭٭

خصوصی گوشہ

غزلیں ۔۔۔ احمد فریاد

یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے، اسے اُٹھا لو

’’اُٹھانے والوں‘‘ سے کچھ جُدا ہے، اِسے اُٹھا لو

وہ بے ادب اس سے پہلے جن کو اُٹھا لیا تھا

یہ ان کے بارے میں پوچھتا ہے، اِسے اُٹھا لو

اسے بتایا بھی تھا کہ کیا بولنا ہے، کیا نہیں

مگر یہ اپنی ہی بولتا ہے، اِسے اٹھا لو

جنہیں ’’اُٹھانے‘‘ پہ ہم نے بخشے مقام و خلعت

یہ اُن سیانوں پہ ہنس رہا ہے، اِسے اٹھا لو

یہ پوچھتا ہے کہ امنِ عامہ کا مسئلہ کیوں

یہ امنِ عامہ کا مسئلہ ہے، اِسے اٹھا لو

اِسے کہا تھا جو ہم دکھائیں بس اُتنا دیکھو

مگر یہ مرضی سے دیکھتا ہے، اِسے اٹھا لو

سوال کرتا ہے یہ دیوانہ ہماری حد پر

یہ اپنی حد سے گزر گیا ہے، اِسے اُٹھا لو

٭٭٭

ساری آوازیں دبا دو سارے بندے مار دو

آپ کی مرضی ہے آقا جتنے بندے مار دو

پہلے ہی کڑواہٹوں کی زد میں ہے میری زمیں

اور تم اوپر سے میرے میٹھے بندے مار دو

اب تو اپنے جھوٹ سے نظریں ہٹانے کے لیے

ایک ہی رستہ بچا ہے سچے بندے مار دو

اپنے دامن پر لگے یہ داغ دھونے کے لیے

کیا عجب کلیہ ہے سارے اجلے بندے مار دو

یوں ہی درد سر بنے رہنے ہیں یہ شوریدہ سر

یوں کرو اک ایک کر کے اچھے بندے مار دو

جاں پناہ اب مارنے میں ہچکچاہٹ کس لیے

جیسے پہلے مارتے تھے ویسے بندے مار دو

یہ رہیں گے تو سوال اٹھتے رہیں گے حشر تک

مشورہ ہے میرے جیسے سارے بندے مار دو

بعد میں تحقیق کرنا ان کی گستاخی ہے کیا

گر بہت جلدی میں ہو تو پہلے بندے مار دو

اب جو گھر سے اٹھ رہی ہیں میتیں تو بین کیوں

کس نے بولا تھا کہ تم اوروں کے بندے مار دو

رات کی تحویل میں دے دو مرا شہر ملال

اور چن چن کر مرے جگنو سے بندے مار دو

سلوٹیں پہنا دو چہروں کو مکمل سوگ گی

اور پھر چوکوں میں ہنستے گاتے بندے مار دو

چھوڑیے دشمن سے لڑنا آپ کا شیوہ نہیں

آپ کے جب جی میں آئے اپنے بندے مار دو

خامشی کی لہر آہٹ ہے کسی طوفان کی

اتنی آوازیں اٹھیں گی جتنے بندے مار دو

کیا خبر کب گھر اٹھا لاو کوئی باہر کی آگ

کیا خبر کب کس سے ڈالر لے کے بندے مار دو

٭٭٭

عجیب دن تھے کہ نام کرنے کا سوچتے تھے

ہم اپنے حصے کے کام کرنے کا سوچتے تھے

وہ روشنی تھی ہماری آنکھوں کے طاقچوں میں

چراغ جھک کر سلام کرنے کا سوچتے تھے

یہ زرد پیڑوں کے شاخچوں سے لگے پرندے

کبھی ہوا کو غلام کرنے کا سوچتے تھے

گراں گزرنے لگا ہے ان کو صبا کا لہجہ

جو تیز لو سے کلام کرنے کا سوچتے تھے

کمال یہ ہے کہ ایک ہی عمر تھی جسے ہم

نہ جانے کس کس کے نام کرنے کا سوچتے تھے

عجیب خوابوں بھری وہ آنکھیں تھیں یار جن پر

ہم اپنی نیندیں حرام کرنے کا سوچتے تھے

٭٭٭

ایک نظم ۔۔۔ احمد فرہاد

تارا تارا یہ کہتا ہے

رات ڈھلے گی

رات کے ماتھے پر لکھا ہے

رات ڈھلے گی

صبح پرستو

خواب بدستو

نور کے رستو

تم نے بس یونہی چلنا ہے

رات ڈھلے گی

رات نے آخر کو ڈھلنا ہے

رات ڈھلے گی

٭٭٭

گوشہ احمد رشید

فن کے تخلیقی امکانات کا ڈسکورس: احمد رشید کے افسانے ۔۔۔ شافع قدوائی

افسانہ مقبول عام تصور کے برخلاف محض روزمرہ کے کسی مانوس تجربے، خارجی مظاہر، معاشرتی چیرہ دستیوں، قدرت کی ستم ظریفیوں یا کسی گہرے داخلی احساس یا وجودی سروکاروں کی فنکارانہ شعور کے ساتھ ترسیل سے عبارت نہیں ہوتا بلکہ یہ اصلاً زبان کے حوالے سے حقیقت کا ایک ایسا رویا (Vision) خلق کرتا ہے جسے ہم اپنی تہذیبی ترجیحات اور ثقافتی آرزو مندیوں کے حصول کے لیے ’’حقیقت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ فن پر خارجی حقیقت کا التباس اس قدر قوی ہوتا ہے کہ اسے عام زندگی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ اصناف ادب کی نظری اساس کے خدوخال کی وضاحت، ہیئتی امتیازات کی متعین نشاندہی اور موضوع کی تعبیر و تشریح کو تنقید کا بنیادی وظیفہ متصور کیا جاتا ہے اور فن پارہ کی تعین قدر میں تخلیقی متون سے استنباط کو کم ہی درخور اعتنا سمجھا جاتا ہے اور تنقید ایک نوع کے Platiude کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔

افسانہ صداقت کا پرتو ہونے کے بجائے ایک پُر پیچ اور سیال لسانی حقیقت کو قائم کرتا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ افسانوی متن سے براہ راست اس کی تفہیم کے اصول وضع کیے جانے کی سعی کی جائے اور اگر کسی فن پارہ میں تخلیقی عمل کی پیچیدہ حرکیات اور بیانیہ عرصہ کی تشکیل کے مراحل کو موضوع بحث بنایا گیا تو اس تفہیم کا اساسی حوالہ بنایا جائے۔ افسانہ کس طرح خود کو قائم کرتا ہے، یہ بیانات (Narratalogy) کا بنیادی مسئلہ ہے اور کسی طرح ثقافت کے متخالف اور متجانس عناصر حسیاتی رد عمل کو مہمیز کرتے ہیں اور افسانہ کس طرح ثقافتی عرصہ کے بعض نمایاں پہلوؤں کو جسے باختن نے Chronotype سے تعبیر کیا ہے، مرکز نگاہ بناتا ہے اور پھر کس طرح انہیں Subvert کرتا ہے، افسانہ کی تنقید کا بنیادی سروکار ہے۔ عالمی ادب کے علی الرغم اردو فکشن میں ایسی تحریریں بہت کم لکھی گئی ہیں جن میں فن کے مابہ الامتیاز عناصر کو ایک خیال انگیز مکالمہ کا ہدف بنایا گیا ہو۔ افسانہ کو افسانہ کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش فعل عبث نہیں بلکہ یہ اصلاً تخلیقی امکانات کے لیے افق ہویدا کرتی ہے۔ انتظار حسین نے اب سے کوئی چار دہائیاں قبل اپنے ایک نسبتاً غیرمعروف افسانہ ’انجنہاری کی گھریا‘ میں اپنے افسانہ کے فن پر اظہار کیا تھا یہ اردو میں غالباً پہلا افسانہ ہے جس میں ضمناً ہی سہی افسانہ کی بافت اور اس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ اصلاً Meta Story ہے یعنی افسانہ کے فن کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے، اسے انگریزی میں Story about Story کہا جا سکتا ہے:

’’اس گارے کا گولا تو میں بعد میں بناؤں گا لگے ہاتھوں یہ بات شروع میں بتاتا چلوں کہ یہ افسانہ میں اپنے افسانہ کو سمجھنے کی غرض سے لکھ رہا ہوں۔ انجنہاری کے واسطے سے اپنے اس افسانہ کی بات اکثر لوگوں کے لیے میری کم علمی اور گنوارپن کی دلیل بن سکتا ہے۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ زندہ تعلق میرا کتابوں سے نہیں مخلوقات سے رہا ہے۔‘‘ (انجنہاری کی گھریا)

انتظار حسین کے مذکورہ افسانہ کے بعض حصوں پر Story Narrataloty کا اطلاق کیا جا سکتا ہے اور احمد ہمیش، اسد محمد خاں، خالد جاوید اور صدیق عالم وغیرہ کے بعض افسانے جزوی طور پر اس نوع کے بیانیہ خلق کرتے ہیں مگر کسی ایک مکمل افسانہ کے توسط سے Story Narratology کے جملہ امکانات کو بروئے کار لانے کی کوشش بہت کم کی گئی ہے۔ مقام مسرت ہے عہدِ حاضر کے ایک معروف افسانہ نگار احمد رشید نے اس سلسلے میں کامیاب پیش رفت اپنے افسانہ ’کہانی بن گئی‘ سے کی ہے۔ افسانہ کے عنوان سے لے کر کرداروں کے اعمال و افعال اور بیان کردہ تجربات اور وقوعات کے ان عوامل کو مرکز نگاہ بنایا گیا ہے، جس کے توسط سے بیانیہ کو تشکیل دینے کے عمل کی حرکیات پوری طرح روشن ہو گئی ہے۔ افسانہ کسی تصور- اپنی تخلیقی بافت کا حصہ صرف اسی صورت میں بنایا جا سکتا ہے جب داخلی ارتکاز کی وساطت سے Story line کو ثروت مند بنایا جائے اور قاری کی دلچسپی کا مسلسل التزام رکھا جائے۔

احمد رشید کے افسانوں کے دو مجموعے اہل نظر سے داد حاصل کر چکے ہیں اور ان کی تخلیقی ہنر مندی کے امتیازات کی نشان دہی اب بھی اردو تنقید کے ناخن پر تاہم قرض ہے۔ احمد رشید جدید افسانہ کی ایک امتیازی صفت یعنی استعاراتی اور تمثیلی طرز اظہار کے قتیل ہونے کے باوجود کثیر حسی بیانیہ کے امکانات کا تخلیقی سطح پر اثبات کرتے ہیں اور اپنے افسانوں میں کرداروں کے تفاعل اور راویوں کے نقطۂ نظر سے افسانوی متن کو ایک مرکزی آواز کے جبر سے آزاد کر کے افسانہ کی خفا Polyphony میں منقلب کر دیتے ہیں۔ افسانہ کی بافت سے متعلق تصورات کی مختلف جہتوں کو افسانہ کی ترسیل کا حوالہ بناتے ہیں۔ احمد رشید کے افسانہ ’کہانی بن گئی‘ کے عنوان سے ایک نوع کے تخلیقی اہتزاز اور سرخوشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر معاملہ محض جذباتی تسکین کا نہیں ہے کہ بیان کردہ تجربہ کسی طرح سادہ نہیں ہے۔ افسانہ ایک ادھیڑ عمر عورت اور اس کے ہم سِن مرد کی ملاقات، جو بادی النظر میں متوقع اور پلان نظر آتی ہے، کے محور پر گردش کرتا ہے اور مکالموں کی وساطت سے عمل کی صورت پیدا کی گئی ہے۔ فن کی تخلیق کو در اصل عمل اور رد عمل کو محیط ایک پُر پیچ تجربہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر افسانہ کے راوی کے نزدیک عمل اور رد عمل کی تقسیم مصنوعی اور معنویت سے عاری ہے۔

’’شاید آپ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کا کوئی بھی عمل اپنے آپ میں ردعمل ہوتا ہے، ’’جی ہاں رد عمل ہی تخلیق کی بنیاد ہے۔ عمل کی کھوج بین قانون داں، صحافت داں اور دیگر علوم کے ماہرین کرتے ہیں۔‘‘ (کہانی بن گئی)

منظر، پس منظر اور پیش منظر سے فن اپنی غذا حاصل کرتا ہے۔ مگر راوی کے نزدیک یہ مقبول عام تصور جزوی حقیقت کا حامل ہے کہ فن اس سے ماورا ہے گو کہ:

’’منظر اور پس منظر کے درمیان فن ہے، پیش منظر ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور پس منظر ہم محسوس کرتے ہیں، سوچتے ہیں۔‘‘

ما بعد جدید عہد کا شناس نامہ بعض اعلانات ہیں، جس میں تاریخ کی موت، آئیڈیالوجی کی موت، اور مصنف کی موت شامل ہے۔ اسی طرح میڈیا کی خلق کردہ چکا چوند سے آباد تمام سوسائٹی Spectele Society میں اب حقیقت اور افسانہ کا فرق معدوم ہو گیا ہے اور ہر تخلیقی تحریر Panfictionality کی نئی صورت سامنے آتی ہے۔ کہانی خارج میں وقوع پذیر نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ اس آن واحد کا حصہ ہے جہاں کہانی اور واقعہ کی تفریق یکسر مٹ گئی ہے۔ کائنات جس کا ہر منظر انکشاف بھی ہے اور حجاب بھی، تخلیقی اظہار کے نئے امکانات وا کرتی ہے۔ زندگی کا ہر مظہر اور اس سے متعلق بیانیہ ایک نوع کی کہانی ہے، جس پر موت کے سائے لرزاں نہیں ہیں اور کہانی مرنے کا تصور ہی بے معنی ہے۔ افسانہ کا راوی کہانی کے مر جانے کی تکذیب کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’ایک خیال ہے کہ کہانی مر گئی ہے۔‘‘

’’جب تک کرۂ ارض پر ایک انسان بھی زندہ ہے کہانی مر نہیں سکتی۔ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہر زندگی کے اندر پوشیدہ کائنات کے رموز کا انکشاف اور اس کا بیان دیگر اس کے ایک لمحہ کا اظہار از خود کہانی ہوتا ہے نگاہ چاہیے کہانی تلاش کے لیے۔‘‘ (کہانی بن گئی)

احمد رشید کے نزدیک کلائمکس افسانہ کی لازمی صفت نہیں ہے کہ اس کے فقدان کے باوجود ایک افسانہ اچھا ہو سکتا ہے۔ کلائمکس سے عاری افسانہ مابعد جدید افسانہ کی ایک نمایاں صفت ہے۔ ایسے بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں جن میں ابتداء، وسط اور اختتام کے تصور کو (Subvert) کیا گیا ہے اور یہ افسانے وسط (Middle) میں سانس لیتے ہیں۔ افسانہ میں افسانہ کے فن پر گفتگو اسے افسانہ نہیں بناتی اس کے لیے قاری کی دلچسپی کو قائم رکھنے کے لیے Story line ضروری ہے۔ احمد رشید کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس افسانہ میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور مرد کی باہمی ملاقات سے قبل جو (Build Up) کیا ہے وہ بہت readable ہے۔ عورت اولاً اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کرتی ہے پھر ٹرین کے ڈبے میں مسافروں کی آپسی چپقلش اور پھر منزل مقصود تک پہنچنے سے قبل مختلف لوگوں سے اس کے مکالمے میں یہ پورا بیانیہ بہت Engaging ہے۔ احمد رشید کا یہ افسانہ ہمیش کے مشہور افسانے ’کہانی مجھے لکھتی ہے‘ کے تئیں ایک تخلیقی رد عمل کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔

کائنات کے مختلف مظاہر علی الخصوص ادب کا تانیثی نقطۂ نظر سے مطالعہ اور محاکمہ ہمارے زمانے کا حاوی ڈسکورس Dominant Discourse ہے اور فن کی دنیا میں عورت کو ’بلبل گرفتار‘ کے طور پر پیش کرنے کا چلن عام ہے اردو میں تو صورت اور بھی خراب ہے۔ اردو میں عورت کی لاچاری اور بے بسی کو جذباتی رقت انگیزی کے ساتھ پیش کرنے کو تانیثی بیانیہ Feminist Narrative سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر افسانوں میں ایک ایسی عورت سامنے آتی ہے جو مرد اساس معاشرہ میں انفرادی تشخص سے یکسر عاری اور ہر قسم کے ظلم اور استحصال کا ہدف ہے۔ اس کا وجود محکومی کی بدترین مثال ہے وہ ہر جگہ زنجیروں میں قید بے دست و پا ہے۔ مذہبی اور معاشرتی پابندیاں اس کے وجود کا ناگزیر حصہ ہیں۔ عورت محض ممتا اور امور خاندانی میں مہارت رکھنے والی نہیں بلکہ وہ اپنی کائنات کی Arbiterبھی ہے وہ ایک ایسا وجود ہے جو لازماً مدد پر منحصر نہیں ہے۔ جوزف بون اور مائیکل کنڈن نے اپنی مرتبہ کتاب Emerging: The Question of Feminist Criticism میں لکھا ہے کہ اکثر مرد تخلیق کار عورت کے تخیلی وجود کو مرکز نگاہ بناتے ہیں۔ احمد رشید کے افسانوں میں ہمارے زمانہ کے حاوی ڈسکورس تانیثیت سے بھی تخلیقی سطح پر خیال انگیز مکالمہ قائم کیا گیا ہے۔ احمد رشید نے اردو کے عام افسانہ نگاروں بشمول خواتین فن کاروں کی طرح عورت کی زبوں حالی اور بے بسی کے جذباتی بیان کو اپنا بنیادی سروکار نہیں بنایا بلکہ انھوں نے اپنے متعدد افسانوں مثلاً ’’بجوٹ‘‘، ’’فیصلے کے بعد‘‘، ’’کہانی بن گئی‘‘ اور ’’کھوکھلی کگر‘‘ میں عورت کی اسٹرویو ٹائپ امیج کو شکست کر کے عورت کا ایک متبادل امیج بھی پیش کیا جس سے عورت کے Empowerment کی نئی صورت سامنے آتی ہے۔ ان کے متذکرہ افسانوں میں عورت کے صنفی تشخص سے قطع نظر تخلیق، علم، طاقت اور اسناد سازی (Canon Formation) میں عورت کی سرگرم شرکت کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے اور تانیثی تجربے کی (Interiority) کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ فن کی تخلیق پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے اور اس عمل میں عورت اور مرد دونوں کو مساوی مرتبہ حاصل ہے، کہانی بن گئی‘ کا راوی تخلیق پر مردوں کی خود ساختہ اجارہ داری کے طلسم کو شکست کر دیتا ہے اور برملا کہتا ہے:

’’انسان کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کا بیان فن کی معراج ہے۔ میں نے کہا ’’زندگی کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کا اظہار عورت ہی کر سکتی ہے ورنہ زندگی کی پستی اور ادنیٰ کیفیتیں فن کا موضوع بنانے کے لیے میرے جیسا فنکار چاہیے۔ لیکن میں مسٹر روی کمار کی بلندی کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات پورے دعویٰ کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ… فنکار کوئی عورت ہو سکتی ہے۔‘‘ (کہانی بن گئی)

اسی طرح احمد رشید کا افسانہ ’بجوٹ‘ بانجھ عورت کے وجودی سروکاروں، احساس محرومی اور عدم احساس تحفظ کے حسیاتی تناظر کو واضح کرتا ہے گو کہ انجام متوقع اور کسی نادیدہ منطقہ سے واقف کرانے سے عبارت نہیں نظر آتا ہے۔ انسان کو اکثر اس کے نا کردہ گناہوں کی سزا ملتی ہے اور اگر یہ معاملہ عورت کا ہے، تو صورت حال مزید خراب ہو جاتی ہے۔ تولید کا عمل دو نفوس پر مشتمل ہے تاہم محرومی یا ناکامی کے لیے ایک ہی فرد یعنی عورت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ افسانہ کی مرکزی کردار کی خود کلامی ملاحظہ کریں:

’’بیٹھی تنہا رہ گئی۔ دھوپ چند لمحے پہلے رحمت تھی، سورج سمیت بدن میں داخل ہوئی اور سخت سردی میں دل و دماغ کو نار کی مانند جلانے لگی۔ سوچنے لگی بجوٹ ہونے میں میرا کیا قصور؟ دن رات جلنے کے لیے بجوٹ ہونا از خود نار جہنم ہے۔ زندہ رہنا بھی ہے اور جلنا بھی ہے …… کیا میں اپنی مرضی سے بجوٹ ہوں میرا بس چلے تو صبح لڑکا شام لڑکی پیدا کروں۔‘‘ (بجوٹ)

احمد رشید نے عورت کو Empower کرنے کی مجوزہ حکمت عملی یعنی اس کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر بھی سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ افسانہ ’فیصلے کے بعد‘ کی ہیروئن شق کا مکالمہ دیکھئے:

’’کیا عورت کی ہر بات مان لینا اس کی حفاظت کرنا ہے؟‘‘

اسی طرح ہیرو آفتاب بھی عورت کی آزادی کے تصور کو Subvert کرتا ہے:

’’تم تو آزاد ہو، آزادی کے لیے لڑتی پھرتی ہو، پھر کمی کس بات کی ہے۔ آفتاب نے خاموشی کا یہ سلسلہ توڑا۔

حیرت کی بات ہے کہ حقوق نسواں کی Activist اس کی تائید کرتی ہے

’’اور میں ٹوٹ گئی ہوں … قید ہو گئی ہوں آزادی کی جد و جہد میں‘‘

اس طرح احمد رشید کے افسانے اردو میں تانیثی ڈسکورس کو یک رخا اور سطحی بنانے کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں اور ایک خیال انگیز اور Informed بحث قائم کرتے ہیں۔ ان کے افسانے موضوع کی پیش کش اور طرز اظہار کی سطح پر بھی معاصر اردو افسانہ سے ایک خوشگوار نقطہ انحراف کی خبر دیتے ہیں۔ معاصر معاشرہ سے بے اطمینانی اور اقدار کے زوال کا نوحہ عام بات ہے۔ تاہم تخلیقی فنکار انتہائی حوصلہ شکن حالات میں بھی انسانی برتاؤ کے کسی مثبت پہلو کو خاطر نشاں کرتا ہے۔ احمد رشید کے بیشتر افسانے اس اجمال کی تفصیل پر گواہ ہیں۔ مثال دیکھئے:

’’زمانہ کتنا ہی برا ہو لیکن بوڑھی عورتوں کے لیے آج بھی مرد جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘

(کہانی بن گئی)

اسی طرح احمد رشید نے غیر متوقع رد عمل کے نقوش بھی بڑی ہنر مندی کے ساتھ ابھارے ہیں۔ محبت کرنے والے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کی بات عام طور پر کرتے ہیں اور عاشق محبوبہ کے لیے آسمان سے تارے توڑ لانے کا وعدہ کرتا ہے۔ احمد رشید نے عشق کے ایک مکالمہ کی توسط سے نا ممکن کر دکھانے کی ایک نئی جہت آشکارا کی ہے۔ انسان فرشتہ بننے کی تو آرزو کرتا ہے، شیطان کی نہیں:

’’نہیں نہیں میں سچ کہتا ہوں، مردو زن سب ہی تمہاری خوب صورتی پر فدا ہیں۔‘‘

تو پھر یہ دل کس کو دوں (تھوڑے وقفہ کے بعد) مجبوری یہ ہے کہ ایک انار سو بیمار، وہ بڑی بے شرمی سے ہنسی۔

’’میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ خوشامدانہ لب و لہجہ

’’خیال صرف اس لیے کہ تم میرے اوپر فدا ہو، یہ فدائیت تو دوسروں میں بھی موجود ہے‘‘ اس نے طنز کیا:

’’میں تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ حکم کرو تو انسان سے شیطان بن سکتا ہوں۔‘‘

شیطان شر مجسم ہونے کے باوجود غیر متزلزل وفا داری کا مظہر بھی ہے کہ اس نے خالق مطلق کے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور حکم خداوندی کے انکار کی وجہ سے راندۂ درگاہ ہوا مگر اس نے اپنی وفا کو قربان نہیں کیا۔ افسانہ نگار نے اس فراموش شدہ حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ شیطان کے اس پہلو سے واقفیت عام نہیں ہے۔

احمد رشید کی لفظیات اور اسلوب بیان بھی بہت مختلف ہے۔ کبھی کبھی وہ عام فہم الفاظ کے بجائے عربی کے نامانوس الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں اور کبھی عربی، فارسی کے الفاظ کے ساتھ ہندی تراکیب بھی استعمال کرتے ہیں۔

’’سڑک کے دونوں جوانب شٹر لگی دکانیں خاموش ہیں۔‘‘ (کھوکھلی گگر)

’’سبک خرام ہوا کی چلت پھرت سے گلابی سردی کا احساس ہو رہا تھا۔‘‘ (فیصلے کے بعد)

’بدعت‘ ایک مذہبی اصطلاح ہے جس کا مفہوم دین میں کسی نئی بات کو شامل کرنا ہے۔ بانجھ ہونا (بجوٹ) کوئی شعوری عمل نہیں ہے مگر افسانہ نگار کے نزدیک بجوٹ ہونا بھی ایک شعوری عمل ہے۔

’’میں نے کب کہا کہ تم بجوٹ ہو، لیکن عورت بھی نہیں‘‘ فیصلہ کن لب و لہجہ

’’یہ سوچ سراسر بدعت ہے۔‘‘

’’حقیقت ہے (وقفہ) بجوٹ ہونا بدعت ہے۔‘‘

احمد رشید کے افسانے ہمارے عہد کا ایک ایسا حسیاتی رویا خلق کرتے ہیں، جس کی اساسِ کائنات انسانی کے تضادات پر قائم ہے اور نا سپاسی ہو گی اگر ان کی تخلیقی ہنر مندی کا اعتراف نہ کیا جائے۔

٭٭٭

احمد رشید کی نثری نظمیں (خیال انگیز حسیاتی تجربے کا نیا شعری آفاق) ۔۔۔ پروفیسر شافع قدوائی

تخلیقی اظہار کا وفور صنفی حد بندیوں کا تابع نہیں ہوتا اور اکثر یہ اصناف کے بے لچک درجہ بندی پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔ مرتعش اور پہلو دار اظہار نثر اور نظم کے باہمی ادغام سے نمو پذیر ہوتا ہے اور اس کی سب سے بہتر مثال نثری نظم ہے۔ تخلیقی دبازت کا کثیر حسی بیانیہ عرصہ قائم کرنے والے متعدد شعراء بشمول شفیق فاطمہ شعری، خلیل مامون، فہمیدہ ریاض، افضال احمد سید، سارہ شگفتہ، شائستہ یوسف، خورشید اکرم اور شبنم عشائی نے اس صنف کو ایک نئے شعری آہنگ کے طور پر رائج کرنے کی سعی کی اور ان سے قبل خورشید الاسلام، محمد حسن اور قمر رئیس وغیرہ نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی تھی مگر اوزان اور بحور اور ردیف و قافیہ کے قتیل اردو معاشرہ میں نثری نظم کو قبول عام کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔

مغرب میں علی الخصوص امریکہ میں نثری نظم کے تجربے پر ڈیڑھ سو برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مشہور امریکی ناول نگار شیرو وڈ اینڈرسن (Sherwood Anderson 1876) نے اپنی تحریروں میں نثر اور نظم کی تفریق حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اینڈرسن کی کتاب (Winessberf ohio, 1919) شیر وڈ اینڈرسن اس اجمال کی تفصیل پر دال ہے۔ دونو بل انعام یافتہ امریکی ادیبوں ارنسٹ ہیمنگوے (Ernest Hemingway 1889-1961)اور ولیم فوکنز (William Faulkner 1897-1962)نے اینڈرسن کے گہرے اثرات کا برملا اعتراف کیا اور ہیمنگوے نے تو کثرت سے نثری نظمیں بھی لکھیں۔ اس امر سے واقفیت عام نہیں ہے کہ فرانز کافکا (Franz Kafca 1883-1924) اور جیمس جوائس (Joyce 1824-1924) نے بھی نثری نظمیں لکھیں۔ نثری نظم تخلیقی ارتباط کے اسرار کی نئی منزلوں کا پتہ دیتی ہے لہٰذا جامد تقلید سے گریزاں فنکار اسے مسلسل ذریعہ اظہار بناتے رہتے ہیں اردو میں بھی کچھ یہی صورت نظر آتی ہے۔ خیال انگیز افسانوں کا ایک مخصوص اسلوب قائم کرنے والے عہد حاضر کے معروف افسانہ نگار احمد رشید نے اب نثری نظم کو اپنی تخلیقی تگ و تاز کا محور بنایا ہے۔ احمد رشید کو متعین بحور، ردیف اور قوافی کا مربوط نظام، مخصوص صنفی ہیئت اور جذباتی مدارات کا شعوری اہتمام خوش نہیں آتا۔ اس عمومیت سے گریز پائی سے ان کی تازہ کاری کی کشاکش کا ثمرہ ان کی سو سے زاید نثری نظمیں ہیں جواب ایک مجموعہ کے طور پر شائع ہو رہی ہیں۔ اردو میں نثری جملوں کا اختتام فعل پر ہوتا ہے لہٰذا مترنم آہنگ کی تشکیل بہت دشوار ہو جاتی ہے تاہم مصرع کے مقابلے میں جملہ زیادہ خود مکتفی (Self contained) ہوتا ہے۔ لیکن احمد رشید نے اس تصور کی بھی تکذیب کی ہے۔ جملے میں الفاظ سیاق، در و بست، اور تراکیب الفاظ کے ادغام سے اپنا وجود قایم کر کے معنی کی سطح پر سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ احمد رشید نے اپنی نظموں کی اساس حیات انسانی کے متضاد اور متناقض رویوں کا بیک وقت اثبات اور استر داد کرنے والے جملوں پر رکھی ہے۔ لمحہ منور کی سحر انگیزی کو حسی واردات کے ایک متحرک سلسلہ کے طور پر پیش کرتی ہیں اور معنی کی حتمی ترسیل کو موخر کرتی ہیں اور قاری کو قرأت مکرر کی طرف راغب کرتی ہیں کہ یہی اچھی شاعری کا لازمہ ہے) تشدد، جبر، بے رحمی اور انتظام سے نمو پذیر ہونے والی دنیا میں مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی ضوابط محض طاقت کے محور پر گردش کرتے ہیں۔ عفو و درگزر کی بالا دستی پر اصرار کرنے والا ہر نظام تشدد اور انتقام کو بنظر استحسان دیکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے اجتماعی حافظہ میں زیادہ تر ان افراد کے نام محفوظ ہیں جنھوں نے انسانی خون کی ارزانی کو روا رکھا۔ اصل قوت جارحانہ رد عمل کو شعوری طور پر مسلسل موخر کرتے رہنا ہے۔ سزاد بنا در اصل اپنی لاچاری اور بے بسی کا اعتراف ہے کہ طاقتور انسان کو قتل تو کر سکتا ہے مگر اس کے عیوب اور نقائص سے درگز رنہیں کر سکتا۔ طاقت جلا پاتی ہے معاف کرنے سے۔ اس لیے انسان کی ساری تگ و دو انا کی آبیاری سے صورت پذیر ہوتی ہے۔ انا کی تسکین معافی سے زیادہ ہوتی ہے۔ احمد رشید کی ایک مختصر نظم اسے ایک Lived Reality کے طور پر پیش کرتی ہے بہت کمزور انسان تو معافی کرنے پر مجبور ہے مگر طاقت ور عفو سے گریز کر کے اپنی ضمیر کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے اور یہی اصل ناتوانی ہے۔ رواداری اور خوش خلقی سے طاقت کا حصول نا ممکن نہیں اور یہی اصل طاقت کی امتیازی صفت ہے۔

’’شناخت‘‘

ہم اس سے ناتواں ہیں

کہ ہمارے پاس

عفو نہیں

ور نہ معافی

شناخت ہے

طاقت کی

اجتماعیت انسانی حرمت کی پامالی سے برگ و بار لاتی ہے اور اسے ہدف ملامت شاذ ہی بنایا جاتا ہے۔ افزونی حیات کو دو چند کرنے والی قدریں اپنی عددی قوت پر نازاں اکثریت خاطر میں نہیں لاتی۔ اس صورت حال کو ہجومیت یا (Mobocracy) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ معاشرتی ضابطوں سے انحراف کی سخت سزا جانور اور فرد کو دی جاتی ہے مگر جب انحراف شدید تر ہو کر معاشرے میں بڑے پیمانے پر نفوذ کر جائے تو پھر مکر وہ عمل مباح کیوں کر ہو جاتا ہے۔ احمد رشید نے پاگل پن کے شیں متضاد انسانی رویے Chronic posturing کو صورت میں پیش کیا ہے۔ شاعر کے نزدیک طاقت کے نشے میں دھت اکثریت کا عمل پاگل پن کی ہی ایک شکل ہے۔

’’شکتی شالی‘‘

جانور پاگل ہو جائے

گولی ماردو

اگر انسان پاگل ہو جائے

پاگل خانے میں بند کر دو

بہو جن پاگل ہو جائے

کوئی پاگل نہ کہنے پائے

یہ کیسا پاگل پن ہے

احمد رشید نے حیات آفریں اقدار جو فی زمانہ طاق نسیاں کی زینت بنا دی گئی ہیں، پر اظہار تاسف نہیں کیا ہے بلکہ ان کے انسانی سیاق کو واضح کیا ہے گو کہ نظم تلقین میں منتقل ہو گئی ہے۔

’’اجالا‘‘

اگر تمہارے پاس

شمع ہے

اسے جلتے رہنے کے لیے

دوسروں کی موم بتیاں جلاؤ

ور نہ تمہاری

روشنی بھی

بجھ جائے گی

ہمارے عہد کو ما بعد صداقت دورPost truth period کہا جاتا ہے۔ یعنی اب سچ ایک اضافی شے ہے ٹھوس مری حقائق جذباتی رد عمل پر فوقیت نہیں رکھتے اور اب حقیقت وہی ہے جسے انسان اپنی تہذیبی، اعتقادی، اور لسانی ضروریات کی تکمیل کی خاطر وضع کرتا ہے بقول میر ’’یاں وہی ہے جو اعتبار کیا‘‘

اس صورت حال کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے؟ احمد رشید کے مطابق اپنے ضمیر کی آواز پر، جو آلائشوں سے پاک ہوتی ہے، لبیک کہہ کر انسان سچ کا اثبات کر سکتا ہے اور اس کا حافظہ ہمیشہ سرخرو رہے گا اور یہی مکتی کی راہ ہے۔

’’مکتی‘‘

سدا ستیہ بولو

مکتی اس میں چھپی ہے

یوں

تمہیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں

کہ تم نے کیا بولا تھا

انسان انقلاب کا داعی ہوتا ہے مگر ذاتی طور پر Status quo کا مؤید اور اپنے کو بدلنے پر تیار نہیں ہوتا فرد کے بدلنے سے معاشرہ تبدیل ہوتا ہے۔ شاعر اس نکتے سے واقف ہے۔

’’انقلاب‘‘

اپنے آپ کو بدلو

جو تم

اس سنسار میں

دیکھنا چاہتے ہو

پھر اس سنسار کو بدلو

جیسا

تم دیکھنا چاہتے ہو

احمد رشید کی نثری نظمیں خیال انگیز حسیاتی تجربے کا نیا شعری آفاق وا کرتی ہیں جس کی پذیرائی لازمی ہے۔

٭٭٭

مابعد جدید افسانے کی شعریات اور احمد رشید کی افسانوی دنیا ۔۔۔ پروفیسر مولا بخش

فکشن کی نثر ہموار نہیں ہوتی، کثیر الصوت اور کثیر الآہنگ ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے آنکھیں جدیدیت گزیدہ افسانہ نگاروں نے چرائیں۔ واحد متکلم کا صیغہ نیز داخلی خود کلامی کا اسلوب جدیدیوں کے لیے امرت تارہ تھا، جہاں سے دیکھئے نظر آتا تھا۔ نتیجتاً جدیدیت کے زیر اثر لکھے گئے تقریباً جملہ افسانوں کی نثر ہموار نظر آتی ہے، فکشن کی نثر ہموار ہو جائے تو سارے افسانے ایک جیسے لگنے لگتے ہیں۔ افسانوی نثر کے اس اختصاص سے مابعد جدید افسانہ نگاروں نے فنی واقفیت کے ثبوت دئیے جن میں احمد رشید اور ان کے معاصرین مثلاً حسین الحق شفق، خالد جاوید، صدیق عالم، طارق چھتاری، غضنفر، عبد الصمد، اکرام باگ، معین الدین جینابڑے، مشرف عالم ذوقی، ساجد رشید، انوار قمر، سید محمد اشرف، علی امام نقوی، شوکت حیات اور جابر حسین وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ سر دست احمد رشید کی افسانوی دنیا کی سیر مقصود ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ احمد رشید نے مابعد جدید دنیا کی حسیت اور مسائل سے نبرد آزما انسانوں کو کس زاویے سے سمجھنے کی سعی کی ہے اور مابعد جدید عہد کی افسانوی شعریات میں کس نوع کا اضافہ کیا ہے۔ آیا کیا ان کی کوئی منفرد آواز ہے؟ یا انھوں نے خود کو بھیڑ کا حصہ بنانے میں زیادہ دلچسپی لی ہے۔

۱۹۸۲ء میں احمد رشید کا پہلا افسانہ رسالہ شاہجہاں میں شائع ہوا۔ بعد ازاں ان کا مشہور افسانہ ’وہ اور پرندہ‘ ۱۹۸۴ء میں اور ۱۹۸۵ء میں ان کا ایک اور اہم افسانہ ’پیشین گوئی‘ شائع ہوا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اردو میں ایک نیا ادبی رجحان مابعد جدیدیت سے جدیدیت سے انحراف کی صورت میں سامنے آیا اور بہت سے افسانہ نگاروں نے جدیدیت کے یکرنگ افسانوں اور اس تکنیک سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہانی کی بنیادی شعریات سے خود کو وابستہ کیا۔ جدیدیت گزیدہ افسانے انشائیہ کے قریب چلے گئے تھے۔ راوی پر مصنف حاوی ہو گیا تھا۔ مابعد جدید دور میں افسانہ نگاروں نے از سر نو راوی کی ساختوں پر توجہ دی اور مصنف (افسانہ نگار) کو اس کے اصلی مقام یعنی پردے کے پیچھے رکھتے ہوئے بیانیہ کی نت نئی جہتوں اور امکانات کے دروازے وا کیے۔ احمد رشید کے افسانوں کی قرات کے دوران پہلی قرأت میں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ یہ افسانہ نگار جدیدیت کے زیر اثر تخلیق کیے گئے افسانوں اور اس کی تکنیک، موضوعات یعنی ایجنڈے سے متاثر ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ جیسے شناخت کا مسئلہ، اجنبیت اور بے گانگی کا مسئلہ، بھیڑ میں خود کو اکیلے سمجھنے کا رویہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے جید نقاد پروفیسر شافع قدوائی نے اپنے مضمون احمد رشید کے افسانے میں لکھا ہے:

’’سراب‘ میں بظاہر شناخت سے محرومی کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، جو جدیدیت کا محبوب موضوع رہا ہے تاہم یہاں تلاش میں ایک مثبت نکتہ بھی مشترک ہے:

’’اور میں خوف زدہ ہو کر پھر اس جم غفیر میں شامل ہو گیا جس میں میرے بزرگ شامل تھے، پاداش کا صراط مستقیم تلاش کرنے کے لیے۔‘‘

پروفیسر شافع قدوائی نے احمد رشید کو جدیدیت گزیدہ افسانوں سے جوڑ کر نہیں دیکھا ہے کیونکہ جدیدیت کے زیر اثر لکھے گئے ہر افسانے کی تان منفی رویوں یعنی مایوسی پر ٹوٹتی ہے جبکہ رشید کے یہاں مثبت نکتہ بھی مستتر ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے مضمون کے آغاز میں ہی یہ واضح کیا ہے کہ:

’’احمد رشید کے افسانے ’وہ اور پرندہ، برف تلے، بن باس کے بعد، صدیوں پر پھیلی کہانی اور سراب‘ میں تخلیق کائنات کے آرکی ٹائپ اور اس سے متعلق اساطیری کرداروں اور روایتی عقائد و توہمات کی معنویت عصری تناظر میں واضح کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی یہ کہانیاں مابعد جدید تصورات، بین المتونیت سے تخلیقی سطح پر استفادے کی خبر دیتی ہیں۔‘‘۲؎

عبد البشیر (جن کا قلمی نام احمد رشید ہے) کے اب تک دو افسانوی مجموعے ’وہ اور پرندہ‘ (۲۰۰۲ء) اور ’بائیں پہلو کی پسلی‘ (۲۰۱۴ء) شائع ہو کر قارئین کی داد و تحسین بٹور چکے ہیں۔ پروفیسر شافع قدوائی نے جس ’سراب‘ افسانے کے حوالے سے انہیں جدیدیت کے افسانہ نگاروں کے قریب ہوتے ہوئے الگ بتایا ہے وہ افسانہ ان کے پہلے مجموعے کی دوسری کہانی ہے، جس میں قرآنی آئیڈیالوجی دینی جمالیات یعنی قرآن نے جس اسلوبی رجسٹر میں قیامت کا نقشہ پیش کیا ہے۔ احمد رشید نے اس کا فنی استعمال کیا ہے۔ اشارہ اس جانب ہے کہ کیسے دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی آ رہی ہے۔ خدا نے انسان کو کیا کہہ کر دنیا میں بھیجا اور انسان کیا سے کیا ہوتا چلا گیا۔

یہاں واحد متکلم راوی ’میں‘ کا میں محض ایک شخص کا میں نہیں یہ میں کی اجتماعی جہت یعنی سارے انسانوں کا میں ہے جسے شکتی جو خدا کا استعارہ ہے نے کہا۔

’’اور اگر تم نے مری رسی کو مضبوطی سے نہ پکڑے رکھا تو میخیں اکھڑ جائیں گی، شکتی نے تنبیہ کی۔‘‘ ۳؎

آگے کے پیراگراف میں افسانہ نگار نے واحد متکلم راوی کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی کا منظر اسی قرآنی اسلوبی رجسٹر میں پیش کیا ہے، جس طرح کے رجسٹر میں قیامت کے آثار کا مذہبی بیانیہ پیش کیا جاتا رہا ہے یعنی:

’’اور میں دیکھ رہا ہوں کہ بالکل تنہا ہوں اپنے پیٹ کو لیے سب ہی دوڑ رہے ہیں … سورج سر پر آ گیا ہے۔ موسموں نے نظام بدل دیا ہے اناج کی ہیئت کیڑوں میں بدل گئی ہے … اس دھواں آلود فضا میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی سوائے ٹیں ٹیں، پوں پوں … ہٹو، بچو، بھاگو، گھڑ گھڑ، کر کر، زن زن۔‘‘۴؎

مذکورہ بالا نثر وجودی فلسفے سے زیادہ مذہبی تصورات اور ماحولیاتی خدشات کا رجسٹر بن گیا ہے۔ احمد رشید نے اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ قرآنی اسلوب یعنی آسمانی لہجے والی نثر کو بطور رجسٹر استعمال کیا ہے۔ وہ جا بجا اسی خدائی آسمانی لہجے کو متن میں بطور ندائے آسمانی استعمال کرتے ہیں اور قاری کو غور و فکر پر آمادہ کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ انہیں مابعد جدید حسیت کے قریب کرتا ہے، جہاں عقیدے کی واپسی ہوئی ہے۔ جدیدیت کا ’میں‘ در اصل وجودی ہے اور تقریباً دہر یہ بھی لیکن رشید کے افسانوں یعنی مابعد جدید افسانے کا واحد متکلم خدا پرست ہے۔ افسانے کا اختتام اس امر پر ہونا کہ ’میں‘ کا اسی جم غفیر میں شامل ہونا جس میں میں کے بزرگ تھے، اشارہ اس جانب ہے کہ آج کے مسائل سے نبرد آزما انسان ایک بار پھر آفرینش کائنات اور ماضی بعید کے دھندلکوں میں جانا چاہتا ہے۔ جس کا مقصد حال اور لاکھوں سال پہلے جب انسان نے اس دھرتی پر پہلی بار آنکھیں کھولی تھیں اس کے درمیان کے ختم ہوتے رشتے کی طرف قاری کے ذہن کو راجع کرنا اور اپنی اصل پر غور کرنے کا سیاق فراہم کرنا ہے کہ اسے کن باتوں پر رنجیدہ ہونا ہے یا نہیں ہونا ہے یا اس امر کا عرفان ہو جانا کہ یہ تو انسان کی ازلی فطرت ہے۔

احمد رشید کی کہانی ’بن باس کے بعد‘ کا آغاز بھی اسی قرآنی اسلوب اور آسمانی لہجے کی رہین منت ہے۔ ایسا لگتا ہی نہیں کہ یہ کہانی میاں بیوی کے نازک رشتوں کی گرہیں کھولے گی۔ کہانی یوں شروع ہوتی ہے:

’’صوتی گونج… جو اپنے وجود کے لیے پریشانی تھی، یکایک ماحول صداؤں سے مرتعش ہو گیا… کہ ضرور بناؤں گا… زمین پر ایک نائب، جمیل پری زاد اپنی برتری کے لیے بے چین ہوئے کہا کہ آپ پیدا کریں گے زمین پر ایسے لوگوں کو جو فساد کریں گے۔‘‘ ۵؎

اور پھر اساطیری دھندلکوں کا سلسلہ ہوا سے مریم تک دراز ہوتا ہے اور حال کی حوا اور مریم یعنی جانکی چبوترے پر بیٹھے پنچ پرمیشوروں کو مجبور و مقہور دیکھ رہی ہے۔ کہانی کی ابتدا اس اسلوب سے کرنے کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ حال اور ماضی کے تضادات ابھارے جائیں قاری کو وسیع تر سیاق فراہم کیا جائے۔ (اس کہانی پر تفصیلی گفتگو آگے کی جائے گی) اسی طرح افسانہ ’صدیوں پر پھیلی کہانی‘ میں آفرینش کائنات کا قرآنی بیانیہ اور آسمانی لہجے والی نثر کا رجسٹر سامنے آتا ہے۔ دوسرے مجموعے کی ٹائٹل اسٹوری ’بائیں پہلو کی پسلی‘ میں ندائے غیبی یعنی قرآنی آیات کا رجسٹر ملاحظہ فرمائیں:

’’اگر نہ پیدا کرتا اے حبیب برگزیدہ ہر آئینہ نہ پیدا کرتا میں آسمان اور زمین اور ساری مخلوق۔‘‘ ۶؎

افسانہ ’بی بی بولی‘ کے متن سے پھر وہی ندا آتی ہے:

’’آسمان پر بیٹھا خدا اس روح فرسا منظر کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا اور ابلیس مسکرا رہا تھا کہ تو ایسی مخلوق کی تخلیق کر رہا ہے جو زمین کو فساد اور خون سے بھر دے گی۔‘‘۷؎

مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار اور اس کا راوی دینی جمال کا نقیب اور خدا پرست ہے۔ یہ رویہ بلا شبہ مابعد جدید رویہ ہے۔ ہماری معاصر زندگی میں آفاقی تہذیب کی جگہ ذیلی ثقافتوں کے تحفظ اور تشخص پر زور، دیسی پن پر زور، دلت اور عورت، بچہ اور درخت ایک ہی صف میں کیونکر آ گئے ہیں اور اپنے تحفظ اور تشخص کے لیے کوشاں ہیں۔ عورت اور مرد کائنات کا محور اور مرکز ہیں مگر ایک نے (مرد) دوسرے (عورت) کو کیسے دبایا اسے دیگر The other کے روپ میں دیکھا۔ عورت زمانۂ قدیم تا حال مرد اساس معاشرے میں کیونکر ظلم کی نت نئی ساختوں کا نشانہ بنتی چلی آئی ہے؟ کمزور ملک یا شخص کہیں بھی ہو دبنگ طاقتور ملک کی خوراک کیوں بن جاتا ہے؟ زمین پر فساد برپا کیوں ہوتا ہے؟ کیا یہ رک نہیں سکتا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو فن کاروں کو ماضی کے ان دھندلکوں میں یا کائنات کی ابتدا کے زمانے کی طرف یعنی اجتماعی لاشعور جسے اساطیر کہئے کی طرف لے جاتے ہیں کیونکہ قدیم معاشرے میں ان سوالات کے معصوم جوابات موجود ہیں جب بھی کوئی جدید زمانے کی جانکی پر اپوتر ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے؟ (افسانہ بن باس کے بعد) یا جب لال تکون کا ظاہر پرست، عیاش مرد چودھری دو عورتوں کی زندگی میں ایک ساتھ زہر گھول دیتا ہے یعنی انگوری دوسری بیوی اور چودھرائن اس کی پہلی بیوی، تو قسمت کے یہ کھیل سمجھ میں نہیں آتے کون صحیح کیا غلط؟ انگوری کا آنا صحیح یا چودھری کی پہلی بیوی کا اپنے نندوئی سے رشتہ پیدا کرنا غلط، یا فول… پھول کا واحد متکلم راوی کی گناہوں کو گلے لگانے والی زندگی اور ویسے ہی اوباش باپ۔ دو مردوں کی اس نفسیاتی بیماری کا شکار عورتیں ہی کیوں؟ وہ طوائف خانہ جہاں ایک ہی عورت کا سودا باپ اور بیٹا دونوں کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو حیران آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ درمیان میں کھڑی عورت بازار میں کیوں ہے؟ اور وہ کیا ہے؟ اس کا جواب آسانی سے نہیں دیا جا سکتا۔

تیسری شخصیت کی بھابھی راوی ماسٹر اور بھابھی کا شوہر جو ایک عیاش مرد ہے۔ بھابھی کا ماسٹر سے ناجائز تعلق پیدا ہونا اور اس کا جواز بھابھی کی زبان سے سامنے آنا اور وہ ماسٹر جو محلے کی اس بھابھی کے بارے میں ایک غلط رائے قائم کر چکا تھا کا بھابھی کا جواب سن کر لاجواب ہونا عورت کے دکھ کا عورت کی گہری معنویت کا Code بن جاتا ہے۔ افسانے میں بد چلنی کا جواز ضرور پیش کر دیا گیا ہے کہ وہ جس مرد یعنی شوہر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے بقول بھابھی ’’اس لیے کہ میں ایک گرم مرد کی بیوی ہوں اور میں جلنا نہیں پگھلنا چاہتی ہوں۔‘‘ (افسانہ تیسری شخصیت، ص: ۸۲) لیکن یہ جواز قاری کو مزید کرید اور غور و فکر پر آمادہ کرتا ہے۔

بائیں پہلو کی پسلی کا مرکزی کردار عورت اپنی ازدواجی زندگی سے تھک ہار کر مایوسی کی ایک ایسی صورتحال سے دوچارنظر آتی ہے جس کے اظہار کے لیے افسانہ نگار نے نظم کے ٹیپ کے مصرعے کی طرح کا نثری جملہ کئی بار دہرایا ہے کیوں؟ یعنی ’’آنکھیں بند ہیں، نیند کوسوں دور ہے … نہ نیند ہے نہ عالم بیداری‘ جب ہم عصر عورت اس صورتحال کا شکار ہو تو ذہن کیوں نہیں اساطیر کیا تھاہ اندھیروں کی طرف پرواز کرے۔ تخلیق انسان (مرد) تخلیق عورت مرد کی بائیں پسلی سے پھر گناہ کے ارتکاب کے بعد دونوں کو زمین پر پھینکا جانا۔ برسوں کروڑوں سال بعد ملنا اور جدائی کے دکھ کو پھر بھول جانا اور رشتے کی نزاکتوں کو نہیں سمجھنا یہ کیا ہے؟، جیسے امور افسانے میں بطور ماقبل متن عورت کا لاشعور ہے جس کے لیے ماضی اور حال تضاد کی ایک ایسی دنیا سامنے لاتے ہیں کہ وہ صفر کے مقام پر پہنچ جاتی ہے۔ اس کا ذمہ دار مختار (مرد) ہے، بھورے سید کا بھوت کی مہترانی پر بد اعتقادی کی چادر سماج نے ڈال دی ہے اور وہ یہ کہ وہ چڑیل بن گئی ہے اور ان مردوں سے بدلہ لیتی ہے جنھوں نے اس پر بری نظر ڈالی تھی۔ ’’ایک خوبصورت عورت‘‘ کی مصیبت کی ماری عورت کا آخر کار ٹرین پر سوار ہو کر چلے جانے اور اس مرد کی پرواہ نہ کرنے جو اسے چاہتا تھا کے معنی کیا ہیں؟ ہم عصر صورتحال میں ایسے نہ جانے کتنے لاینحل سوالات ہیں جن کی جڑوں تک یا اصل وجہ تک پہنچنا ایک امر محال ہے اسی لیے مابعد جدید افسانہ نگاروں نے اساطیر یعنی قدیمی شان والے بیانیوں کو ماقبل متن کی رد تشکیل کے طور پر استعمال کرنا ضروری گردانا اور متن سے متن بنانے کی صدیوں سے جاری فطری روایت کے معنی سمجھائے یعنی اساطیر کو استعاراتی تفاعل کے ساتھ ساتھ کہانی پن اور بیانیہ بہاؤ کے لیے استعمال کرنے کا رجحان مابعد جدید افسانہ نگاروں کی خاص پہچان ہے۔ انتظار حسین اسی حوالے سے اردو افسانے کا مہادیو قرار پائے۔ نیر مسعود کا عطر کافور، سریندر پرکاش کا بجوکا، عبد الصمد کا میرے تیرے ہاتھ، حسین الحق کا سوئی کی نوک پر رکا ہوا لمحہ، طارق چھتاری کا باغ کا دروازہ، غضنفر کا تصویر تخت سلمانی، مشرف عالم ذوقی کا باپ بیٹا، مظہر الزماں خاں کا داستان گو، جوگندر پال کا مہابھارت اور عفریت اور شرون کمار کا شمار اساطیری رنگ میں افسانہ پیش کرنے والوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال مجید کا شہر بد نصیب، ترقی پسند عہد میں اساطیری تفاعل کا توجہ خیز متن ہے اور راجندر سنگھ بیدی نے تو اسی حوالہ سے افسانے میں معنیاتی تہہ داری پیدا کی ہے اور منٹو اکا اختصاص یہ ہے کہ وہ اساطیر کو افسانے میں گوندھ کر پیش کرتے ہیں۔

احمد رشید نے بھی راجندر سنگھ بیدی کی طرح اپنی بیشتر کہانیوں کو اساطیری دنیا سے جوڑے رکھا ہے۔ وہ واضح طور پر اساطیر بطور استعاراتی تفاعل کے ساتھ ساتھ کرداروں کے روزمرہ میں بھی اساطیری کرداروں اور واقعوں کا بطور مکالمہ استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اساطیر معاصر ذہن سے ہر وقت جھانکتی رہتی ہے اور یہ ہمارے محاورے نیز روز مرہ کی زندگی کے معمول کا حصہ بھی ہے، جیسے:

(۱)    ’’مجھے بصورت پانڈورہ (Pandora) تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا اور جب ایفروڈایٹ (Aphrodite) یعنی کام دیوی کا روپ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تو میری پرستش کا آغاز ہو گیا۔ ایک دیوتا کی بیوی ہوتے ہوئے تین مزید دیوتاؤں سے آشنائی کا چرچہ عام ہوا۔ میرے بطن سے کیوپڈ پیدا ہوا کہا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی دوست کی لگاوٹ کا نتیجہ ہے … میں دیوی تھی… میں دیوی ہوں۔‘‘

(بائیں پہلو کی پسلی، ص: ۳۹)

(۲)    ’’اس نے اپنا بوجھ اٹھایا جیسے تیسے ویٹنگ روم میں داخل ہوا اسے ویٹنگ روم، عارضی وطن محسوس ہوا اور عارضی وطن ویٹنگ روم جیسے وہ عارضی وطن اور ویٹنگ کے فرق کو جاننے کے لیے دماغ کھپانے لگا؟ نتیجہ صفر نکلا۔‘‘ (ویٹنگ روم، ص: ۳۰)

(۳)    ’’کمرے میں پھر سکوت طاری ہو گیا… کرنیں سمٹ رہی ہیں … اندھیرا گہرا ہو رہا ہے۔ وہ سوچتا ہے … کاش وہ نمرود کی لگائی ہوئی آگ ہوتی اور معصوم خلیل اللہ کے لیے گلزار ہو جاتی لیکن ایسا کیوں ہوتا؟ آگ ہر ناکیشپ نے لگائی تھی… اور معصوم پرہلاد… لیکن ہرناکیشپ کی اگنی اور نمرود کی آگ میں فرق ہی کیا ہے؟ …آگ… اگنی… جہنم… نرک… آگ تو آگ ہی ہے … لیکن مرنے والے معصوم تھے … بے گناہ تھے پھر کیوں جلے؟ (ایضاً، بی بی بولی، ص: ۱۴۲)

(۴)    ’’جانکی بالکل ویسی تھی جیسی چودہ دن پہلے تھی۔ پھر تبدیلی کس بات میں آئی؟ ہاں جانکی کا قصور یہ ہے کہ اس نے جان بچائی۔ لیکن کیا جان بچانے کا مطلب اگنی پریکشا ہے؟ اس نے جھٹکے سے اس شاخ کو توڑ لیا جسے پکڑ کے کھڑا تھا اور پنچ پرمیشور کی جاہ نشست پر پڑے پتھر پر اس زور سے ٹھوکر لگائی کہ وہ دو گز دور جا پڑا۔ پنجہ میں چوٹ لگنے سے وہ کراہ اٹھا اسے لگا جیسے پتھر نے پنچ پرمیشوروں کی کمروں کو توڑ دیا ہو بالکل اسی طرح جیسے دروپدی کے اپمان پر بھیم نے دریودھن کی جانگھ کو توڑ دیا تھا۔‘‘

(وہ اور پرندہ، بن باس کے بعد، ص: ۷۰)

مذکورہ بالا اقتباسات ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ اور ’’وہ اور پرندہ‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ اقتباس نمبر ۱ میں مرد مختار اور شاہین اور مرکزی کردار عورت کے رشتے کی پیچیدگی کے عرفان کے لیے قاری کے سامنے Pandoraاور Aphroditeیعنی یونانی اساطیر سے ماخوذ دو ان عورتوں کو سامنے لایا گیا ہے جو دنیا میں مسائل پیدا کرنے کی وجہ بنی تھیں۔ زیوس خدا نے پنڈورا کو ایک بکس دیا جس میں بھیانک مسائل اور بیماریاں مقید تھیں اور کہا تھا کہ اس بکس کو ہرگز نہ کھولنا لیکن پنڈورا یعنی اپنی فطرت سے مجبور عورت نے یہ دیکھنے کے لیے کہ بکس میں کیا ہے، بکس جیسے ہی کھولا، دنیا میں طرح طرح کی بیماریاں اور بڑے بڑے مسائل پیدا ہو گئے۔ حوّا بھی اس دنیا میں اسی حوالے سے جانی جاتی ہیں یعنی اشارہ یہ ہے کہ دنیا میں طرح طرح کے مسائل کی ماں بھی عورت ہی ہے۔ افسانہ ’بائیں پہلو کی پسلی‘ ٹائٹل اسٹوری ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ احمد رشید نے آج کی اصطلاح میں تانیثی مسائل اور تانیثی ڈسکورس پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے لیکن وہ اس حوالے سے مرد اور عورت کے وجود کی معنویت کی تلاش میں بھٹکنے والے ایک جو گی معلوم ہوتے ہیں اور وہ اس مرد کی تلاش میں ہیں یعنی آدم کہ جس نے حوا کی بات مانی تھی اور ذرا بھی برا نہ مانا تھا کہ چاہے انہیں لاکھوں کروڑوں سال ایک دوسرے سے جدا رہنا پڑا۔ جنت جیسی جگہ سے دونوں نکالے گئے اور دنیا جیسی جگہ مقدر بنی، جہاں مسائل کے انبار ان کے منتظر تھے۔ وہ اس عورت کی تلاش کو اپنے افسانوں کی فکر مندی بناتے ہیں جس کی تخلیقی ضد ایک دنیا خلق کر دیتی ہے اور جو ہزاروں سال اپنے آدم کے لیے تڑپتے رہنے کا حوصلہ اور محبت کا سبق دیتی ہے ان کے افسانے مثلاً بائیں پہلو کی پسلی کی عورت کا کرب اس امر کا اعلامیہ ہے کہ Pandora یا Aphrodite منفی کردار نہیں بلکہ دنیا کو بامعنی بنانے والی روحیں ہیں۔ بھلا کسی ایسی دنیا کا انسانی ذہن تصور کر سکتا ہے جہاں ہر سو صرف سکھ کے بادل ہوں اور دکھوں کا نام و نشان نہ ہو۔ مسائل اور بیماریاں، آفتیں اور مصیبتیں تو دنیا کا زیور ہیں اور یہی وہ مسائل ہیں جو ہمیں محبت کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ شاید عورت نے محبت اور سچے رشتے کی اہمیت کی خاطر مسائل از خود اپنی جانی بوجھی نادانی سے خلق کر دئیے تھے اور مرد جو کہ کمزور اعصاب والا اور عافیت پسند واقع ہوا ہے، عورت کو ازلی گناہ کا مرتکب سمجھ کر اسے لعن طعن کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ اس افسانے میں مختار اور عورت کا پہلے ٹوٹ کر محبت کرنا، عورت جو ایک نوکری یافتہ خاتون ہے، کا آہستہ آہستہ اپنے شوہر کا اس سے لا پرواہ ہونے سے پریشان ہونا دونوں کے رشتے کا سارا رس سوکھ جانا کوئی انوکھا واقعہ نہیں، جو احمد رشید نے بیان کیا ہے، انوکھا ہے، عورت کا مرد اساس معاشرے سے متعلق طرز احساس، مختار کے بہانے تلازماتی بیانیہ کے طور پر لاکھوں کروڑوں سال سے چلی آ رہی اساطیری روایت میں عورت کے وجود کو غلط معنی پہنانے والے رویے کا بار بار اس کے ذہن کے پردے پر جھلملانا اور مختار کے ساتھ گزارے حسین لمحوں کے کچوکے اور پھر مختار یعنی اپنے مرد کے بغیر زندگی کرنے کا اس کا فیصلہ۔ اس کی یہ خواہش کہ ’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘ کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں:

’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ از سر نو محبت کی شروعات کریں … ملاقات کے سلسلے قائم کریں … محبت کی باتیں کریں … سیر و تفریح کریں … ریسٹورنٹ جائیں …‘‘

’’کیا تم پاگل ہو گئی ہو…‘‘

’’میں گھبرا گئی ہوں ان معمولات سے … زندگی کتنی تنگ ہو گئی ہے۔ آفس اور گھر کے درمیان میں!… ایسا لگتا ہے ازدواجی زندگی درمیان سے غائب ہو گئی ہے …مرد پورے طور سے مکمل اور عورت ادھوری ہو گئی ہے … یا بیچ میں کہیں مر گئی ہے۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، ص: ۴۶)

یہ افسانہ بظاہر کرداری افسانہ ہے کیونکہ اس کا راوی نہیں بلکہ راویہ خود افسانے کی ہیروئن عورت ہے۔ (درمیان میں واحد غائب راوی بھی آتا ہے جو اسی عورت اور ہم عصر صورت حال سے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے واقعے کو آگے بڑھاتا ہے)افسانہ نگار احمد رشید نے مرد اساس ذہن سے عبارت ہونے کے باوجود کہانی عورت مرکزی پیراڈائم میں راویہ کے ذریعے بیان کی ہے۔ یہاں ایک ایسی عورت کے وجود سے ہماری ملاقات کرائی گئی ہے جو نہ کہ صرف اپنے مرد مختار کی محبت کی متلاشی ہے بلکہ اس کے نزدیک جنگ عظیم لبنان کے انقلاب، شام کے انقلاب، عراق کی تباہی اور افغانستان یا دنیا کی تباہی سے زیادہ بڑا سانحہ، آفت یا قہر خداوندی یا بڑی دنیاوی تباہی کی وجہ مرد اور عورت کے جملہ رشتوں کی گمشدگی ہی ہے۔

دوسری عبارت ویٹنگ روم سے ماخوذ ہے جس کا پس منظر کروڑوں سال پہلے آدم کے خلد سے نکلنے کی اساطیر کو ذہن میں لاتا ہے۔ آدم جہاں سے نکلے کیا وہ ان کا اصلی وطن تھا؟ اگر جواب ہاں ہے تو پھر وہاں سے وہ کیوں نکالے گئے؟ اور جہاں آ گئے وہاں سے کیوں چلے گئے؟ یہ ایسا رمز ہے یا بھید بھرا بستہ ہے جس کا جواب شونیہ میں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ احمد رشید کا بیانیہ تمثیلی اور ایمائی آہنگ سے مملو ہوتا ہے۔ وہ اکہرے بیانیہ سے حد درجہ اجتناب کرتے ہیں۔ بیشتر کہانیوں میں واقعات کا بیان سیدھی لکیر پر نہیں ہوا ہے بلکہ واقعہ در واقعہ وہ ایک ہی کہانی میں ازل سے ابد تک کے مسائل کا فنی سیاق سامنے لاتے ہیں اور قاری کو غور و فکر پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بی بی بولی سے ماخوذ تیسری عبارت اس کی مثال ہے۔ کہانی فساد کے موضوع پر ہے اور سیاق صدیوں پہلے بلکہ وقت کے شروع ہونے کے زمانے کی اساطیر کیوں بنی ہے؟ شاید بدی اور نیکی کی جدلیات کی گرہ کشائی کے لیے۔ فساد میں مارے جانے والے معصوم تھے پھر کیوں جلے؟ یہ محض سوال نہیں بلکہ انسانی زندگی کا وہ المیہ ہے جس کا جواب شونیہ میں ہے جو قاری کے اندر تلملاہٹ پیدا کرتا ہے۔ چوتھی عبارت میں کچھ اسی طرح کے سوالات کا سیاق سامنے آتا ہے۔ اقتباس افسانے کے ہیرو رگھوویندر کے ذہن میں اٹھنے والے ان محسوسات پر دال ہے کہ ہمارے معاشرے میں تقدس پاکیزگی اورطہارت کی ساری ذمہ داری عورت پر ڈال کر مرد اتنا آزاد کیوں ہے؟ بھیم نے دروپدی کا بدلہ اس طرح لیا تھا کہ دریودھن کی جانگھ کو توڑ دیا تھا۔ تو کیا افسانہ نگار رگھو کو بھی دریودھن بنانا چاہتا ہے؟ کیا رگھوویندر واقعی بھیم بن جاتا ہے؟ اور ہیروئن جانکی واقعی جانکی ہی بن جاتی ہے؟ رام نے تو جانکی کو الگ کر دیا تھا لیکن یہاں تو وہ اپنے رام یعنی رگھو کے ساتھ ہے لیکن کیا ساتھ ہے دونوں کے درمیان نفسیاتی دوری کی آگ لگی ہوئی ہے یہ کہانی ہمیں راجندر سنگھ بیدی کی کہانی لاجونتی کی یاد شدت سے دلاتی ہے۔ وہاں لاجو مغویہ عورت ہے اور ایک مرد کے ساتھ زندگی کے کچھ دن گزار کر سابق شوہر سندر لال کے پاس آ کر بھی اس سے دور ہو جاتی ہے۔ یہاں جانکی فساد میں گھر جانے کی وجہ سے چودہ دن بعد گھر لوٹی ہے۔ کس کے ساتھ رہ کر آئی ہے؟ اور عزت و ناموس محفوظ ہے یا نہیں۔ یہ کیسے مان لیا جائے کہ وہ پوتر ہے۔ احمد رشید نے دوبارہ لاجو والی کہانی اس لیے لکھی ہے کہ حالات وہی آزادی کے دنوں والے اب بھی ہیں۔ وہاں لاجو کو اگنی پریکشا روز رات کی تنہائی میں اپنے شوہر سندر لال کے سامنے دینی پڑتی ہے۔ احمد رشید کے افسانے میں پنچ پرمیشور ایک مخصوص دن مقرر کرتے ہیں لیکن شوہر بھیم کی طرح آڑے آ کر اسے آگ سے الگ کرتے ہوئے گھر لے تو آتا ہے لیکن کیا واقعی اسے وہ چودہ دن پہلے والی بیوی جانکی سمجھ کر اسے کھلے دل سے قبول کر لیتا ہے؟ شاید نہیں یا شاید قبول کر لیتا ہے لیکن وثوق سے کہنا مشکل ہے کیونکہ جس طرح بیدی نے لاجونتی کے آخری صفحات میں زبان کو ایک اندازہ (Trace) بنا کر پیش کیا ہے، اسی طرح احمد رشید نے شوہر اور بیوی کے والہانہ رشتے کے آئینے میں جو بال آ گیا ہے اس کی نشاندہی کے لیے طوطے کو ایک علامت یا بچولیا بنا کر پیش کیا ہے، جس کی ذو معنویت قاری کو شفاف طریقے سے اس نئے رشتے کو دیکھنے سے قاصر رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افسانے میں ایک تناؤ برقرار رہتا ہے۔ آئیے ذرا راجندر سنگھ بیدی کے افسانے لاجونتی کے آخری صفحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے احمد رشید کے افسانے کے بین المتونی رشتے کی جدلیات کو سمجھنے کے لیے ان کے افسانے کے آخری صفحات کا مطالعہ کریں:

’’جب بھری چوپال میں کلوا نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تھا ’بتا سالی ایک رات تو کہاں غائب رہی؟ یہ نہ سمجھنا کہ سب لوگ راگھویندر کی طرح عورت کے بھگت ہو گئے ہیں۔‘

راگھویندر کے پیروں تلے زمیں نکل گئی، اس کے کانوں کی لوئیں جلنے لگیں، پیشانی پربل پڑ گئے۔ چہرہ سرخ ہو گیا، مگر وہ کر کیا سکتا تھا، بے بسی کے عالم میں جب اس رات وہ گھر لوٹا…جانکی بے خبر سو رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ جانکی کو اس قدر مارے کہ چودہ دن کا بدلہ لے لے جو آسیب کی طرح اس کی زندگی سے چپک گئے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ چودہ دن زندگی سے خارج کر دیے جائیں؟ … لیکن ایسا ہو نہیں سکتا! اس کا جی چاہا کہ جانکی کو اپنی زندگی سے نفی کر دے تو سب ہی جھگڑا ختم ہو جائے پھر نہ کوئی زندگی کا حساب لے گا اور نہ ہی چودہ دن کی ضرب و تقسیم کرے گا۔ وہ آہستہ آہستہ جانکی کی طرف بڑھا…

’’ٹیں …ٹیں … مٹھو بیٹے‘‘

وہ چونک گیا۔ جانکی کی آنکھیں کھل گئیں اس نے رگھویندر کو اپنے قریب کھڑا دیکھا۔

کیوں، کیا بات ہے؟ جانکی بستر پر لیٹی تھی۔

رگھویندر اپنی چارپائی پر آ کر بیٹھ گیا اور کچھ نہیں کہا۔ اس کا جی چاہا کہ کلوا کا سر توڑ دے …مگر وہ ایسا بھی نہ کر سکا۔

دل چاہتا ہے کہ آگ لگا دوں اس انصاف کو، اخلاق کی دھجیاں اڑا دوں، سماجی قدروں کو توڑ دوں، اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا… اس کی آواز جھونپڑی میں پھیل گئی۔

جانکی فوراً ہی بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی، کیا ہوا…میں نے کیا کیا؟ اس نے چونکتے ہوئے کہا۔

کچھ نہیں …کچھ نہیں

کچھ تو ہے، جانکی نے کہا

بے شک…بے شک…طوطے نے کہا

پچ پچ مٹھو بیٹے تم ابھی تک سوئے نہیں، جانکی نے کہا

بے شک… بے شک… مٹھو بیٹے ٹیں ٹیں …مٹھو بیٹے، طوطے نے کہا رگھویندر کی نظر پنجرے کی سیخچوں پر گئی جو سنہری رنگ میں رنگے تھے، جس میں طوطا ادھر ادھر پھڑپھڑا رہا تھا۔ اچانک بجلی کی سرعت کے ساتھ وہ چارپائی سے اٹھا اور پنجرے کا دروازہ کھولنے لگا۔ جانکی پنجرے کی طرف دوڑی ارے، ارے، ارے طوطا آزاد ہو چکا تھا اور دور آسمان کی وسعت میں ڈوب گیا۔ جانکی کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ یہ کیا کیا آپ نے؟

میں نے طوطے کو آزاد کر دیا۔ اب یہ رٹے ہوئے الفاظ نہیں بولے گا۔ اب یہ اپنے فطری انداز میں زندہ رہے گا، جہاں چاہے گا بیٹھے گا، جہاں چاہے گا اڑے گا، جانکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

رگھویندر نے جانکی کے آنسو پونچھے، اسے قریب کیا، اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا تم کو مجھ سے چھین لے، میں تم کو تم سے چھین لینا چاہتا ہوں۔

رنگ بدلتے آسمان تلے، اندھیرے کا کالا رنگ پھیکا ہو رہا تھا اور نئی روشنی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔‘‘ (وہ اور پرندہ، بن باس کے بعد، ص: ۷۳، ۷۴، ۷۵)

میاں بیوی جن کے درمیان کلوا کے طعنے، کہاں چودہ دن رہی ہو گی جیسے ناقابل برداشت خبر نے شوہر کے ذہن و دماغ میں نہ چاہتے ہوئے شک نے کیونکر زہر گھول دیا ہے، کا ناقابل بیان منظر ملاحظہ فرمایا۔ اسی لیے تو رگھویندر کے پیشانی پربل آ گئے چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس لیے گھر لوٹ کر اس کے جی نے چاہا کہ بیوی کو خوب مارے، بیوی کی طرف جیسے ہی بڑھا کہ طوطا بول اٹھتا ہے۔ شک اور غصے کے اس عالم میں طوطے کا وجود اس امر کا اشاریہ ہے کہ اس گھڑی رگھویندر جیسے تلملاتے ہوئے شخص کو کچھ نہ کچھ ایسا چاہیے جو اس تلخی کو بھلانے کا بہانہ بنے اور وہ ایک آدرش وادی انسان یا شوہر بن کر بیوی کے سامنے خود کو پیش کر سکے۔ غالب اور آج کے ایک شاعر جمنا پرشاد راہی کا ایک ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:

بے وجہ عکس شوخ سے باندھی ہے دشمنی

طوطیِ خود فریب مقابل ہے آئینہ

(جمنا پرشاد راہی)

از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ

طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئینہ

(غالب)

غالب نے اشارہ کیا ہے کہ ذرہ سے آفتاب تک دل ہی دل ہے یعنی سوچنے والی ذات ہے اور انسان کا دل آئینہ ہے جو خود اپنے عکس کے مقابل ہے جس طرح طوطی جس طرف دیکھتی ہے خود کو منعکس پاتی ہے۔ راہی کا کہنا ہے کہ انسان بلا وجہ پرچھائیوں سے لڑ جاتا ہے کہ طوطی آئینے میں خود کو دوسرا طوطی خیال کر کے اس سے بولنے بتیانے لگ جاتی ہے یا طوطا بولنے لگ جاتا ہے۔ رگھویندر در اصل اس وقت طوطے والی حرکت خود کر رہا ہے اور طوطے کو خود کا غیر سمجھ رہا ہے جبکہ طوطا اس وقت وہ خود ہے اور جب وہ اپنے اس طوطے کو آزاد کرتا ہے تو گویا خود کو اس شک سے کہ جو اس کے دل کے نہاں خانے میں کنڈلی مارکر بیٹھا ہے خود کو اس سے آزاد کرانا چاہتا ہے۔ در اصل رگھویندر طوطے کو نہیں بلکہ خود کو سماج کے رٹے رٹائے، گھسے پٹے اصولوں سے آزاد کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس وقت تک وہ خود کو انہیں اصولوں کا غلام سمجھ رہا ہے اور اس طرح رشتوں کے درمیان کا اندھیرا دور ہوتا ہے اور ایک نئی روشنی آ جاتی ہے؟ نہیں بلکہ افسانہ نگار نے راوی سے یہ کہلوایا ہے کہ ’’نئی روشنی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔‘‘ اس جملے سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان اگر رشتہ عشق کا ہے یا میاں بیوی کا ہے تو یہاں ہمارے سماج کا سندر یا رگھویندر جیسا نرم دل، نیک دل اور عورت سے ہمدردی رکھنے والا شوہر بھی مرد اساس ذہنیت سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ ضرور ہے کہ رگھو ست جگ کے رام پر طنز کا کردار معلوم ہوتا ہے لیکن رام سے مکمل طور پر وہ الگ نہیں ہو پاتا۔ اس طرح یہ کہانی لاجونتی افسانے کی نئی پڑھت کا اشاریہ بن جاتی ہے۔ جو بات بیدی نے کہنی چاہی ہے اس نوع کا اثر احمد رشید کے یہاں دوسرے حوالے سے پیدا ہوا ہے اوراس امر کا احساس دلایا گیا ہے کہ اگر لاجونتی کو دوبارہ خلق کرنا ہو تو اس کی فصیح صورت کیسی ہو سکتی ہے۔ احمد رشید نے لاجونتی کے آخری پیراگرافوں کو سامنے رکھ کر میاں بیوی کے درمیان حالات نے جو نفسیاتی اور انجانی قسم کی دیوار کھڑی کی ہے اس کی گرہ کشائی میں رشید نے بھی اپنی طرح کا کمال دکھایا ہے لیکن احمد رشید نے خود نہ جانکی کے ساتھ رکھا ہے نہ رگھویندر کے ساتھ اور کرداروں کو کھلے سیاق میں پیش کیا ہے۔ احمد رشید نے اپنے بیشتر افسانوں میں عورت کے اتھاہ دکھوں اور اس کے روح کے سناٹوں کو پیش کرتے وقت کھلے دل سے مرد اساس معاشرے کی ذہنیت کا پردہ فاش کیا ہے اور مرد کے مقابلے عورت کو زیادہ انسانیت پسند کردار کے روپ میں پیش کیا ہے۔ جیسے جب ہم ان کا افسانہ تیسری شخصیت پڑھتے ہیں تو وہاں مرد بہت اسٹریو ٹائپ ذہن کے ساتھ نمودار ہوتا ہے جو عورت کی روح کی گہرائیوں سے ناواقف ہے۔ محلے کی جس بھابھی کے گھر آتے جاتے وہ اس کے جسم کا صارف بن جاتا ہے۔ اس عورت کے بارے میں وہ ایک کم فہم انسان کی طرح بلا سوچے سمجھے غلط رائے قائم کر لیتا ہے کہ عورت بد چلن ہے۔ اسے معلوم ہے کہ شوہر خود کوٹھے پرجاتا ہے۔ افسانے کا واحد متکلم راوی ایک ٹیوٹر ہے۔ بقول راوی پہلی شخصیت تو بھابھی کی محلے کی بھابھی کی ہے۔ دوسری شخصیت یہ کہ وہ اس کی محبوبہ بن گئی لیکن یہ مغالطہ کہ بھابھی بد چلن ہیں اس وقت دور ہو جاتا ہے جب وہ کھلے لفظوں میں بھابھی کے کردار پر طنز کرتا ہے۔ اور بھابھی ترکی تر بہ ترکی اسے یہ کہہ کر اپنے اوقات پر لاتی ہے کہ وہ اس کام کے لیے اسے پیسے دیتی ہے، آگے سنئے:

’’اچانک بھابھی نے سلسلہ گفتگو قطع کیا اور بڑی تلخی سے بولیں ’ماسٹر میں تمہاری قیمت چکاتی ہوں پھر تمہیں کیا اعتراض ہے؟

میں کچھ خاموش سا ہو گیا۔ مگر مجھے اپنا وزن گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ غصہ کی وجہ سے میرے جسم میں لرزہ سا طاری ہو گیا بڑی مشکل سے میری آواز نکلی مگر میں زر خرید شے تو ہوں نہیں، یہ کہہ کر میں چلنے ہی والا تھا کہ بھابھی نے مسکرا کر میرا ہاتھ پکڑ لیا… میں ان کے قریب بیٹھ گیا ان کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ آنکھوں میں اب بھی آنسو تھے ماسٹر صاحب شاید آپ مجھ سے ناراض ہو گئے۔‘‘

’’میرے ناراض ہونے سے آپ کی صحت پر کیا اثر پڑے گا؟

پڑے گا، کیونکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے، بھابھی نے زور دے کر کہا مگر کیوں؟

اس لیے کہ میں ایک گرم مرد کی بیوی ہوں اور میں جلنا نہیں پگھلنا چاہتی ہوں۔

(وہ اور پرندہ، تیسری شخصیت، ص: ۸۲)

احمد رشید نے یہاں دو اہم باتوں کی طرف ذہن کو راجع کیا ہے اور وہ یہ کہ عورت ایک ناقابل بیان اور ناقابل فہم ہستی ہے، مرد اسے نہ سمجھ سکتا ہے نہ اسے حیطۂ تحریر میں لا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے بھابھی کے بارے میں قائم کی گئی رائے کے لیے حد درجہ پشیمان ہونا پڑتا ہے اور اس عورت کی پہلی دوسری کے بعد اس کی تیسری پرت اس کے سامنے روشن ہو جاتی ہے وہ بھی اس لیے کہ وہ خود اپنے ناقابل فہم پہلو کو اس کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ دوسری اہم بات جس کی طرف افسانہ نگار نے اشارہ کیا ہے کہ مرد عورت کے بارے میں صدیوں سے کوئی نہ کوئی منفی رائے قائم کرتا چلا آ رہا ہے اسے اپنی کج روی نظر نہیں آتی عورت کی کج روی بہت جلد نظر آتی ہے۔ ایک مرد پیسے لے کر ایک عورت سے رشتہ پیدا کرے اس وقت بھی اسے عورت ہی بد چلن نظر آتی ہے اور اپنی ذات پر وہ ایک لمحہ سوچنا گوارا نہیں کرتا۔ احمد رشید نے اس افسانے میں مرد اور عورت کے صنفی افتراقات پر بلیغ روشنی ڈالی ہے۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ازلی مرد اور ازلی عورت کے فطری اور ثقافتی رشتے کی نزاکتوں کی رد تشکیل کا رجحان وہ اور پرندہ کا ماسٹر صاحب اور نکہت کے درمیاں نوک جھونک میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ بحث آگے بڑھتی ہے اور ہم عصر ثقافتی صورت حال نے عورت کو آج جس مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور آج دنیا کے ہر خطے میں تانیثی تحریک کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں مرد اساس معاشرے کی ذہنیت پر آج کی ادیبائیں جس تیزی و تندی اور سخت لہجے میں تیکھے طنز اور واشگاف تنقید کے ذریعے وار کر رہی ہیں اس سے الگ اس تانیثی آواز کو احمد رشید نے ابھارنے کی کوشش کی ہے جسے آج کے تانیثی مفکرین صائب گردان رہے ہیں۔

احمد رشید کے افسانوں میں ایک ایسا راوی نظر آتا ہے۔ جو مرد ہوتے ہوئے تانیثی جمال کا استقبال کرتا ہے اور اس کا Anima اسے عورت کے احساسات کے عین قریب کر دیتا ہے، اس لیے آسانی سے اس راوی اور افسانہ نگار پر مرد اساس شعریات کے حاوی ہونے اور عورتوں کی حالت و حیثیت اور ان کے کرداروں کی پیش کش کے طریقے پر کسی قسم کی جانب داری کا الزام عائد کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔

اول تو یہ کہ وہ عورت اور مرد کو ضدین سے عبارت کرنے کے بجائے دونوں کو التوا میں ڈال دیتے ہیں اور ان کے درمیان جس نوع کے بین متنی اور بین الوجودی جدلیاتی رشتے ہیں انہیں ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اور پرندہ کی نکہت اور ماسٹر صاحب وہ باریش انسان کا کردار پولیس آفیسر، مرد باپ اور بطور بیٹی (عورت) در اصل یہاں عورت مرد کی رہبر نظر آتی ہے۔ تیسری شخصیت کی بھابھی جان کی بلیغ تہہ دار اور کسی ایک معنی سے عاری کثیر الجہت معنی والی عورت کے روپ میں سامنے آنا اور ماسٹر نے جتنی رائیں اس کے بارے میں قائم کی ہیں اس رائے کا بے معنی ہوتے چلے جانا۔ عورت اور مرد کی فطرت کی نشاندہی پر دال ہے۔ اور اس سے بھی آگے کا مرحلہ بن باس کے بعد میں طے کیا گیا ہے جہاں مرد رگھویندر اور عورت جانکی کے بنتے بگڑتے رشتے کے درمیان انسانیت نوازی کے جوہر کا بطور معنی سامنے آنا۔ افسانہ نگار نے مرد اساس معاشرے کو طوطے کی رٹ سے عبارت کیا ہے۔ رگھویندر کا طوطے کا آزاد کرنا دو طرح کے معنی کا قرینہ سامنے لاتا ہے۔ عورت کو مرد اساس معاشرے میں ایک پنجرے میں بلکہ سونے کے پنجرے میں قید طوطے کی حیثیت حاصل ہے اس کی آزادی مرد اساس معاشرے کی فلاح کے لیے از حد ضروری ہے۔

دوسرے معنی کا قرینہ یہ ہے کہ مرد اساس معاشرے کے صدیوں سے جاری و ساری قوانین طوطے کی رٹ میں بدل چکے ہیں جن کا اصل مسئلے سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے ان قوانین کو پھر سے ہوا میں اڑا دینا ضروری ہے۔

وہ اور پرندہ خالصتاً عورت اور مرد کے رشتے کی جدلیات پر دال ہے۔ یہاں مرد شوہر ہے، عورت بیوی کے روپ میں۔ رجنیش نے کہا ہے کہ دنیا کا سب سے خراب رشتہ شوہر اور بیوی کا رشتہ ہے، اس لیے وہ یعنی ماسٹر صاحب اپنی دو محبوباؤں کو رہ رہ کر یاد کرتے ہیں۔ انہیں اپنی شادی کی بھی یاد آتی ہے اور ساتھ ہی اپنے باپ کی بارات میں جانا بھی۔ پرندہ ضمیر انسانی کا کوڈ ہے اور یہی ضمیر پرندہ بار بار مرد اساس ذہنیت کا پردہ فاش کرتا ہے اور مرد یعنی ماسٹر تلملاتا رہتا ہے۔

(۱)    ’’تمہیں یاد ہو تمہاری ماں کفن اوڑھے دالان میں لیٹی تھی کافور کی بو چاروں طرف پھیل رہی تھی اور دیوار کے سوراخ میں لگی اگر بتیوں کی خوشبو اس میں گڈمڈ ہو رہی تھی۔ پڑوس کی عورتیں چارپائی کے ارد گرد بیٹھی تھیں، رشتہ کی عورتیں رو رہی تھیں، لیکن تمہاری ماں کا مرد دور دور خاموش نظر آ رہا تھا اسے دور رہنے کی سزا اس لیے دی گئی تھی چونکہ اس مرد نے مرحومہ کے ساتھ زندگی کے گیارہ سال گزارے تھے (اور اگر گیارہ گھٹنے بھی گزارے ہوتے) تو بھی یہی سزا ہوتی کیونکہ اس نے نکاح کیا تھا؟ اور وہ عورت جو بے نکاح تھیں اس نے تمہارے باپ کی گود میں دم توڑا تھا۔ اس عورت کی گود میں ایک لڑکا ہے جس کی تخلیق میں تمہارا باپ بھی شامل ہے۔ مرتے وقت اس نے وعدہ لیا تھا اس محبت کے پھول کی پرورش تم اپنے یہاں کرو گے تاکہ اسے باپ بھی مل سکے۔ (مگر تمہارے باپ شریف آدمی تھے۔ در اصل ہر باپ شریف ہوتا ہے۔ (وہ اور پرندہ، ص: ۲۵)

(۲)    ’’اس نے دائیں ہاتھ سے پیشانی پکڑ لی، للہ میرا مذاق نہ اڑاؤ‘

نہیں نہیں میں مذاق نہیں بنا رہا۔ پہلی چیز تو یہ کہ اپنی گفتگو میں لفظ عورت کے بجائے بیوی استعمال کرو اور جہاں تک ضرورت فطرت اور تکمیل کا سوال ہے تو یہ الفاظ تمہارے رسمی اور زبانی ایجاب وقبول کے رشتہ کے تحت ادا ہو رہے ہیں۔ ورنہ یہ رسمی اور زبانی ایجاب و قبول سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ اس نے پوچھا

جسے آپ لوگ شادی و بیاہ کہتے ہیں۔ جو الگ الگ قوموں میں الگ الگ طریقے سے رائج ہے وہی عورت جو آپ نکاح کر کے جائز کر لیتے ہیں، لگن منڈپ کے پھیرے لگانے کے بعد ناجائز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگنی کو شاکھشی مان کر عورت کو قبول کرنے والے کی نظر میں نکاح کے بعد عورت کو سویکار کرنا نا ممکن ہے، جبکہ نکاح کرنے والا بھی انسان ہے اور منڈپ پر بیٹھنے والا بھی انسان ہے۔‘‘ (وہ اور پرندہ، ص: ۲۹)

(۳)    ’’بیوی نے گفتگو کا کنارہ پکڑا۔ تم چاہتی کیا ہو؟ میں وہی چاہتی ہوں جو ہر عورت اپنے مرد سے چاہتی ہے تم کون سی عورت کی بات کر رہی ہو، کیا اپنی جیسی؟ …اس نے کہا: کیا چیز میرے اندر نہیں جو ہر عورت میں ہوتی ہے؟ بیوی نے کہا

وہ سوچتا ہے بے شک تم جسمانی اعتبار سے مکمل ہو۔ اور کہتا ہے میں نے تمہارے حقوق پورے کیے ہیں۔ کیا کمی رہی ہے میرے حقوق میں۔

کمرے میں روشنی ہے، خاموشی ہے، سردی ہے اور تمام چیزیں معمول کے مطابق ہیں۔ گھڑی کی ٹک ٹک اور جھینگروں کی جھیں جھیں خاموشی کو چاٹ رہی ہے۔ بڑی سوئی چھ پر چھوٹی سوئی بارہ پر زاویہ مستقیم بنا رہی ہے۔

حقوق؟ ہاں (ایک گہرا سانس) روٹی دیتے ہو، تنخواہ دیتے ہو، بچے دیتے ہو، بیوی نے گفتگو جاری کی۔

تمہیں مانگنا چاہتی ہے، پرند نے آہستہ سے کان میں کہا۔ (وہ اور پرندہ، ص: ۳۸)

در اصل وہ اور پرندہ ایک رات کی کہانی ہے، وہ عورت جس کے گربھ میں سورج یعنی روشنی کا مینارہ ہے جو روز اوشا کی تلاش میں رات کا پیٹ چاک کر کے باہر آتا ہے اور اسے اوشا کبھی نہیں ملتی اور رات لہولہان ہو جاتی ہے۔ وہ رات بھر بیوی سے مکالمہ کرتا ہے بیوی اور شوہر مختلف مزاج کے ہیں دونوں ایک دوسرے کو اپنا ہم خیال بنانے میں رات کو ختم کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف انسان کا ضمیر یا Antiself ہے جو ناصح کے روپ میں بار بار انسان کو ٹہوکا دینے کا فریضہ انجام دیتا ہے اس دکھ سے نابلد ہے کہ ایک انسان کے روپ میں زندگی کرنا کتنا محال ہے۔ ناصح پرند یا Anti Self کو کیا خبر۔ رات میں ہی وہ کا ماضی اور عشق کے سنہرے لمحات بھی ہیں۔ وہ ماسٹر بھی جس نے اسے پڑھایا ہے۔ سب کو بس اپنی بات کہنی تھی اپنی طرح کی زندگی چاہیے تھی اس سے نابلد کہ ’’وہ‘‘ کا اصل دکھ کیا ہے؟ ’’وہ‘‘ بھی دکھ ہی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بیوی سے لڑ رہا ہے اور سکھ کی تلاش میں ہے لیکن سچ یہ ہے کہ انسان جتنا ہی سکھ تلاش کرتا ہے اسے آخر کار دکھ کا اتنا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اخیر میں وہ پرند جو ضمیر کی علامت کی شکل میں ابھرا تھا اس کی جگہ ایک حقیقی پرند کا افسانے میں در آنا اس امر کا اعلامیہ ہے کہ ضمیر اور دنیا کے اصولوں کا پاٹھ پڑھانے والے استاد ناصح ان کی حیثیت پرندوں کے شور کے مثل ہے جنہیں وہ دیکھ رہا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو کوؤں کی طرح لگاتار کائیں کائیں کر رہے ہیں۔ دکھ کا علاج ان ہنگاموں اور بے کار کی بحثوں سے ہو جاتا تو کیا بات تھی۔ یہ تو مزید دل کی دھڑکنیں بڑھاتے ہیں۔ الجھنوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اصل سکھ سچے روحانی رشتے میں ہے۔ اصل شے محبت کے دو پل ہیں۔ رات بھر جھگڑنے کے بعد دو نفوس مرد اور عورت کا ایک دوسرے سے سب کچھ بھول کر ملن میں ہی یعنی سچے محبت کے رشتے میں ہی کہیں دکھوں سے بھری اس دنیا میں سکھ کے کچھ پل نظر آتے ہیں۔ پرندہ (ضمیر /Anti self یا ناصح یا موٹے موٹے اصول اس رشتے کے بغیر راکھ کا ڈھیر ہیں۔ علاوہ ازیں کہانی بن گئی، بھورے سید کا بھوت میں چڑیل کا کردار اور فیصلے کے بعد عنوان جس کا موضوع بظاہر فسادات لگتا ہے لیکن بباطن عورت کے تشخص کے کرب کو ہی پیش کیا گیا ہے۔ ’فیصلے کے بعد‘ کے ذیل اقتباس پر ایک نگاہ ڈالیں:

’’دیکھو آفتاب میں نے اپنے باپ سے وہ پایا جو میں نے چاہا، ایک کنکر سمندر میں پھینکا، پانی میں لہریں اٹھیں اور ساحل پر ڈوب گئیں۔

یہی ان کا مقدر ہے، کنکر پانی میں اچھالتے ہوئے آفتاب نے دائروں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جن کے بیچ کنکر گرا اور تہہ آب ہو گیا۔

میں سمجھی نہیں۔

اگر انسان کو اس کی فطرت کے مطابق زندہ رہنے کا موقع مل جائے تو یہ زندگی کی معراج ہے۔ اس نے ریت پر ایک دائرہ کھینچا۔ درمیان میں کنکر رکھا یہ تم ہو اور یہ دائرہ میں ہوں۔ تم مرکز اور میں حصار… میرا وجود بے معنی ہے تمہارے بغیر اور چہرے سے بال ہٹانے لگا۔

بس مجھے یہی چڑ ہوتی ہے … تم حصار۔

حصار نہیں … محافظ آفتاب ہنسنے لگا اور اس کے قہقہوں کی گونج میں شفق کا احساس کمزوری قوی تر اور چہرے کا رنگ گہرا ہونے لگا۔

یعنی ہم کمزور ہیں، شفق کی جھنجلاہٹ بڑھنے لگی۔‘‘(بائیں پہلو کی پسلی، ص: ۶۹، ۷۰)

اگر ہم مذکورہ بالا کہانیوں پر غور کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ احمد رشید کے افسانوں میں مرکزی کردار کے بطور اکثر عورتیں ایسی ہیں جو حالات کے جبر یا ستم ظریفی کے بطور اکیلی ہیں جیسے فیصلے کے بعد کی شفق یابائیں پہلو کی پسلی کی راویہ خود عورت۔ تیسری شخصیت کی بھابھی بھی تنہائی کے غار میں ڈھکیل دی گئی ہے۔ وہ اور پرندہ کی عورت بھی مرد یعنی شوہر سے متفق نہیں۔ اس طرح رشید نے عورت کے احساس نارسائی اور محرومیوں اور تنہائیوں کا کنایاتی بیانیہ خلق کیا ہے اور اس درد کو پیش کیا ہے جو عورت کے اندر صدیوں سے موجود ہے لیکن مرد اسے نہیں سمجھ پاتا۔ مرد عورت سے بندھ تو جاتا ہے مگر اس نازک رشتے کے مہین ڈور کو بہت جلد توڑ دیتا ہے اس نازک بندھن کی گرہ کشائی احمد رشید نے افسانہ وہ لمحہ میں کی ہے:

’’تم مرد لوگ عورت کے معاملہ میں انسانی فطرت کو نظرانداز کر دیتے ہو… اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے شیطان کا حوالہ دیتے ہو (تھوڑی دیر وقفہ کے بعد)… شیطان بھی تمہاری ہی جنس کا ہے، پھر عورت کہاں قصوروار ہوئی۔

تم بیوقوفوں کی سی باتیں کر رہی ہو… اس میں بھی تمہارا کوئی قصور نہیں۔ عورت ہوتی ہی کج عقل ہے۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، وہ لمحہ، ص: ۱۱۴)

سبھی جانتے ہیں کہ عورت اور فطرت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مردوں کے مقابلے عورتیں ماحول دوست زیادہ ہوتی ہیں۔ اس نوع کا متن احمد رشید نے اپنے افسانے فیصلے کے بعد میں تیار کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس افسانے کے دو کردار بطور آفتاب اور شفق عورت اور مرد نہ ہوں بلکہ عین فطرت ہوں اور دونوں عورت اور مرد کے مزاج، پسند و ناپسند نیز فطرت کی بولتی تصویر ہوں ساتھ ہی جیسے شفق فطرت پسندی اور آفتاب فطرت سے دوری کے کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہو۔

’’شفق اور آفتاب میاں بیوی ہیں۔ شفق آفتاب سے جدا ہو گئی ہے اور گزرے دنوں کی ایک ایک بات یاد کر رہی ہے۔ شفق ایک Feminist ہے۔ آفتاب کی ہر وہ بات شفق یاد کر رہی ہے جن باتوں نے اسے زخمی کر دیا تھا مثلاً طلاق دینے کا حق صرف مردوں کو کیوں عورتوں کو کیوں نہیں؟ عرفان بھی اس افسانے کا ایک کردار ہے جو Feminist ہے۔ آفتاب تانیثی تحریک پر طنز کرتا ہے اور شفق فیمینزم کی مدافعت کرتی ہے۔ شفق آفتاب سے طلاق چاہتی ہے اور آفتاب اسے آزاد بھی کرتا ہے لیکن عرفان جو خود فیمنسٹ ہے کے اس جملے کے ساتھ کہ جب تم ایک مرد کی نہیں ہوئی تو دوسرے کی کیا ہو گی اور یہ ایک جملہ تھا جس نے آزاد شفق کو ایک انجانے پنجرے میں ڈال دیا ہے۔ کوئی دو ٹوک رائے افسانہ نگار نے پیش نہیں کی ہے بلکہ رشتے کے اس اتھاہ گہرے کنوئیں میں قاری بار بار جھانک کر دیکھتا ہے کہ کون صحیح کون غلط ہے لیکن سوائے حیرانی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ در اصل افسانہ نگار نے یہاں ماحولیاتی مظاہر اور ماحولیاتی کھیل کو بھی پیش کیا ہے۔ فطرت اور ثقافت کا کیا رشتہ ہے؟ ایسی ثقافت جو فطرت کو مسمار کر دے وہ ثقافت شفق اور آفتاب کے درمیان ضرور ہے کہ دراڑ پیدا کر دے گی۔ افسانے کا یہ ایمائی بیانیہ ملاحظہ فرمائیں:

’’دھوپ چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ میں نہا کر سن باتھ لے رہی تھی۔ آفتاب آرام چیئر پر بیٹھا اخبار کا سنڈے ایڈیشن پڑھ رہا تھا۔ حکومت جب کسی اہم مسئلہ کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو وہ عوام کو کسی دوسرے مسئلہ میں الجھا دیتی ہے۔ اخبار کو آنکھوں کے نیچے سے ہٹاتے ہوئے بولا۔

آفتاب اور شفق ایک ہی آسمان کے نیچے ساتھ ساتھ رہتے ہیں مگر ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی، اس نے آفتاب کی گفتگو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔

ہاں اتنے قریب کہ اگر دور کھڑے ہو کر افق کو دیکھیں تو زمین اور آسمان ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہوئے ہیں۔ آفتاب نے کہا۔

وہ سراب ہے آسمان اور زمین کے درمیان ہمیشہ ہر مقام پر فاصلہ برقرار رہتا ہے۔‘‘

(بائیں پہلو کی پسلی، فیصلے کے بعد، ص: ۷۹)

احمد رشید کے افسانوں کی ایک فکر مندی ماحولیاتی تطہیر کی شدید خواہش اور ماحولیاتی آلودگی پر ماتم کناں ہونا ہے۔ مذکورہ بالا عبارت میں فطرت اور ثقافت کے جدلیاتی رشتے پر غور و خوض کیا گیا ہے۔ جیسے کہا گیا ہو فطرت اور ثقافت ایک ہی آسمان کے نیچے رہتے ہیں اور جس طرح ایک شوہر اپنی بیوی سے آہستہ آہستہ دور ہوتا چلا جاتا ہے ہماری اس دنیا نے بھی آہستہ آہستہ فطرت سے دوری اختیار کر لی ہے اور ثقافتوں کے عروج در عروج کی دیوانی ہو کر فطرت کو مسمار کرتے ہوئے اپنے لیے تباہی کا راستہ چن لیا ہے۔ اکثر مقامات پر احمد رشید نے تمثیلی بیانیہ کے سہارے ماحولیات اور کردار کو ایک ہی سکے کا دو رخ بنا کر پیش کیا ہے جیسے شفق اور آفتاب۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری ہر کارکردگی میں فطرت پوشیدہ ہے۔ ہمارا ہر کھیل اور عمل فطرت میں جاری و ساری کھیل کے مانند ہے۔ افسانہ نیلم کے ابتدائی پیراگراف کا تمثیلی بیانیہ ملاحظہ فرمائیں جس سے فطرت اور کردار کے ایک ہونے کی مثال فراہم کی گئی ہے:

’’نیلم سے سب ہی پیار کرتے ہیں، اگر یہ راس آ جائے تو زندگی میں مختلف رنگ پھوٹتے ہیں، اس نے مٹھی کھولی ہتھیلی پر رکھے پتھر سے نیلی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔

نیلے رنگ کی صرف ایک شعاع، زندگی میں گوناں گوں رنگ بھر سکتی ہے، نیلم نے نیلے شفاف آسمان کی جانب دیکھا اور آنکھوں سے نیلم کی طرف اشارہ کیا۔

صرف ایک شعاع کل ہونے والے سانحہ کی پیش قیاسی کرتی ہے۔ اس نے نیلم کی نیلی آنکھوں کے اندر جھانکا۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، نیلم، ص: ۸۲)

ہاف بلڈ بوٹل میں بھی میاں بیوی کی نوک جھونک کے دوران ماحولیاتی آلودگی سے متعلق فکر مندی سامنے آتی ہے۔ احمد رشید نے میاں بیوی کے کردار کو بار بار پیش کیا ہے اور ہر جگہ اس رشتے کی تلخی یہ باور کراتی ہے کہ کیونکر ہمارے اہم رشتے اب اپنی معنویت کھوتے جا رہے ہیں۔

کہانی اور زندگی کے جدلیاتی رشتے کی گرہ کشائی کے لیے افسانوی تنقید (Critifictional Discourse) یا Metamorphosis of story کا استعمال احمد رشید کی افسانہ نگاری کی جان بن گیا ہے۔ رشید عموماً کہانی کی جڑوں یعنی اساطیری بیانیوں کی طرف مراجعت کرتے ہیں اور آفرینش کائنات کے تناظر میں زمانۂ حال کے افسانوں کے پیچیدہ ذہن کی تفہیم کا فنی سیاق سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح ان کے افسانوں میں Metamorphosis یعنی فلسفۂ افسانہ کا عنصر جا بجا نظر آتا ہے، یہ ان کی وہ افسانوی اختصاص ہے جو انہیں پیچیدہ بیانی کی طرف بھی لے جاتا ہے اور عام قاری ان کے متن سے آسانی سے رشتہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا یعنی یہ متن صاحب ذوق قاری کی ضرورت کا شدت سے احساس دلاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ احمد رشید نے اپنے افسانوں مثلاً کہانی کہتی ہے، صدیوں پر پھیلی کہانی، کہانی بن گئی کے علاوہ دیگر کہانیوں میں کہانی کے فلسفے پر تشکیل دیا گیا بیانیہ مثلاً وہ اور پرندہ میں کہانی کا فلسفہ یا شعریات یا مبادیات اس کے آغاز، وسط اور انتہا سے متعلق سوالات کیوں اٹھائے ہیں۔

شاید اس لیے کہ زندگی کے آغاز اور زندگی کے وسط یا انتہا کی کوئی تصویر یا تصور واضح نہیں ہے۔ انسان کی تقسیم برے اور اچھے ہونے کے کی تقسیم ایک مضحکہ خیز تقسیم ہے۔ پل میں تولہ پل میں ماسہ انسان کی شخصیت اور مزاج کا حصہ ہے۔ اس کی اچھائیاں اور برائیاں وقت، حالات، ماحول، تقاضے اور خاص سیاق کا زائیدہ ہوتی ہیں۔ ایسے میں کہانی سے زندگی اور زندگی سے کہانی تک کا سفر اتنا سیدھا اور سادہ سفر نہیں۔ کہانی کب زندگی کو جھٹلا دے اور زندگی کب کہانی کو‘ اس کی ضمانت کون دے سکتا ہے۔ رشید اس لیے اپنے کرداروں کو ایک خاص طرح کے تصوراتی دھند میں پیش کرتے ہیں جیسے وہ اور پرندہ کا وہ یعنی ماسٹر صاحب۔ ایسا لگتا ہے کہ ماسٹر صاحب جیسے لوگ ہر جگہ ہیں مگر غور کریں تو ان سب سے یہ الگ معلوم ہو گا یعنی کہانی یا کہانی سے پرے بھی۔

احمد رشید نے اپنے دونوں مجموعوں ’وہ اور پرندہ‘ اور ’بائیں پہلو کی پسلی‘ کی پسلی کے تقریباً بیشتر افسانوں میں اکہرے بیانیہ کے بجائے رمزیہ بیانیہ سے زیادہ کام لیا ہے۔ وہ اپنے بیانیہ کو اکثر تیکھے طنز (جو نثر کی بڑی خوبی ہے) نادر تشبیہات (جو نثر میں وضاحت اور کہانی کی صورت حال، کرداروں کے ذہن اور نفسیات کو اجاگر کرنے میں مددگار ہوتی ہیں) گہرے مشاہدے پر مبنی اقوال زریں نما جملوں (جن سے افسانہ نگار کے گہرے مشاہدے اور انوکھے تجربے کی غمازی کرتے ہیں) کے علاوہ علم الحساب سے متعلق روزمرہ کو استعارے کی شکل دینے کی وجہ سے ان کی افسانوی نثر اور ان کے بیانیہ میں حد درجہ تہہ داری اور گہری معنویت کا گہرا احساس پیدا ہوتا ہے۔ آئیے چند مثالوں پر یکے بعد دیگرے ایک نظر ڈالیں۔ سب سے پہلے ان کے افسانوں میں سماجی ناہمواریوں پر طنز سے متعلق چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

’’ہاں ہر خوبصورت عورت کو پردے ہی میں رہنا چاہیے ورنہ مرد کی نگاہ پڑتے ہی اس کے کپڑے اترنا شروع ہو جاتے ہیں، ایک صاحب نے جملہ کسا۔‘‘

(وہ اور پرندہ، ص: ۷۷)

’’وہ سوچتا ہے بچہ جب حاصل ضرب ہوتا ہے تو حرامی کیسے ہو گیا۔‘‘

(وہ اور پرندہ، ص: ۱۰۴)

چودھری صاحب کی بیوی اپنے شوہر کو صاف اور اجلے سفید کھدر کے کپڑے دھو دھو کر پہناتی رہیں اور خود اپنے نندوئی کے ساتھ میلی ہوتی رہیں یہاں تک کہ ان کی سفید شلوار پر جگہ جگہ بسنتی اور ہرے رنگ کے پیوند لگ گئے۔ چودھری صاحب قوم کے لیے جاگتے رہے اور ان کی لڑکیاں قوم کی خاطر سوتی رہیں۔‘‘ (ایضاً، ص: ۱۱۲)

بلاڈی فول تو، میری ماں کو اپنے عورت ہونے کا بھرپور احساس اس لیے تھا کہ وہ اکیلی آئی تھی جیسے ہر عورت اکیلی آتی ہے جو اب مکمل یعنی بھاری بھرکم عورت بن گئی ہے۔ اس کے بعد ہم سب ہی بہن بھائی اپنے اپنے لحافوں میں دبکے … بلاڈی… فول… بلاڈی فول کی آوازیں سنتے رہتے اور پھر رات کے نہ جانے کون سے حصے میں پھول …پھ…و…ل پھول کی سرگوشی سنائی دیتی… یہ بات میرے بہت بعد میں سمجھ میں آئی کہ فول اور پھول میں کیا فرق ہے؟‘‘

(وہ اور پرندہ، فول…پھول، ص: ۱۱۵)

’’بھائی جان، قدر دان آبادی کا طوفان خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ کھانے کو ہے نہیں دانے، اماں چلی بھنانے، ڈگڈگی گھوم گھوم کر بجانے لگا، کچھ لوگ جیسے ہی چلنے کو ہوئے اس نے زور سے آواز لگائی، کہاں جاتے ہو بھائی جان… کوئی نہیں ہے تمہارا نگہبان… میں ہوں تمہارا قدر دان… جو ڈالے گا دان۔ وہی بنے گا بھگوان، بچہ لوگ زور سے تالیاں بجائیں۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، مداری، ص: ۸۶)

’’تم مرد لوگ عورت کے معاملہ میں انسانی فطرت کو نظرانداز کر دیتے ہو… اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے شیطان کا حوالہ دیتے ہو (تھوڑی دیر وقفہ کے بعد)… شیطان بھی تمہاری ہی جنس کا ہے، پھر عورت کہاں قصور وار ہوئی۔‘‘

(بائیں پہلو کی پسلی، وہ لمحہ، ص: ۱۱۴)

’’پولیس کی اطلاع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین بتائی جاتی ہے لیکن ان میں ایک لاش ایسی بھی پائی گئی ہے جس کا منہ جھلسا ہوا تھا… اور عضو تناسل بھی غائب تھا اس لیے صحیح پہچان نہیں ہو سکی کہ وہ کون تھا؟‘‘ (ایضاً، سہما ہوا آدمی، ص: ۱۲۳)

احمد رشید نے مذکورہ بالا جملہ افسانوی میں ہم عصر صورت حال، انسانوں کے زوال معاشرتی ناہمواریوں پر جس بلاغت کے ساتھ طنز کا استعمال اپنے بیانیوں میں کیا ہے اس کی داد دئیے بغیر چارہ نہیں۔ طنزیہ لہجے نے قاری کو ان کے افسانوی سے فنی رشتہ پید اکرنے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ طوالت کے خوف سے ان امور پر بحث کی یہاں گنجائش نہیں۔ آئیے ان کے افسانوں میں مستعمل ان تشبیہات پر ایک نظر ڈالیں جن میں اشیاء پر، انسانی صورت حال پر افسانہ نگار کی گہری نگاہ کا پتہ چلتا ہے۔ احمد رشید نے تشبیہوں کا استعمال بڑی تعداد میں کیا ہے۔ یہاں چند ایک بطور مثال پیش کی جاتی ہیں:

’’وہ رات کے مختصر مطالعہ سے ہمیشہ Sleeping Tablet کا کام لیتا ہے۔‘‘

(وہ اور پرندہ، ص: ۲۴)

’’میں نے تجھے روٹی پکانے کے لیے رکھا تھا، مگر تو میرے تاریک دل کی طاق میں ایسے بیٹھ گئی جیسے جن نے ہاتھ لمبا کر کے چراغ روشن کر دیا ہو۔‘‘

(وہ اور پرندہ، وہ باریش انسان، ص: ۹۲)

’’چہار و جوانب نظر دوڑائی اور ربر کی طرح سمٹ کر خود پر آ گئی۔‘‘ (ایضاً، ص: ۹۰)

’’دھوئیں کی آڑی ترچھی لکیریں مبہم تصویریں بنانے لگیں جیسے بدحال عورتوں کی چیخیں سانپ بن کر پھنکار رہی ہوں۔‘‘ ایضاً، ص: ۹۰)

’’پھر بھی وہ تم سے زیادہ خوش نصیب ہے کہ زندگی کا پورا لطف اٹھا کر بھی اس طرح ہے جیسے گندے تالاب میں سفید بطخ تیرنے کے باوجود اس کے پروں پر ایک دھبہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ (وہ اور پرندہ، فول…پھول، ص: ۱۲۰)

’’جدید طرز کی عمارتوں کے بیچ، کچی دیواروں پر رکھا اس کا جھونپڑا ہنستے ہوئے گلاب چہرے پر غلیظ دانتوں کی مانند تھا۔‘‘ (وہ اور پرندہ، پرندہ پکڑنے والا، ص: ۱۲۳)

’’وہ سرخ بوسہ ذہن کے ورق پر رات کی رانی کی طرح آج بھی محفوظ ہے۔‘‘

(بائیں پہلو کی پسلی، وہ لمحہ، ص: ۱۱۲)

’’سیاہ پیراہن پر ستارے سرد کوئلوں کی مانند لٹکے ہوئے ہیں۔‘‘

(ایضاً، وہ لمحہ، ص: ۱۱۳)

’’ایسا ماں نے کہا یہ بھول گئی بہو بیٹی بھی ہوتی ہے بہرحال زن کے آنے سے کوئی نیا رشتہ جڑے تو پرانے رشتے خونم خون ہو جاتے ہیں جیسے دروپدی کے لیے خون کے رشتے خونی ہو گئے اور دھرتی پر مہابھارت وقوع پذیر ہوئی۔‘‘

(بائیں پہلو کی پسلی، ہاف بوٹل بلڈ، ص: ۱۲۵)

’’وہ اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گیا جس کی ادوائن ڈھیلی اور بان برگد کی داڑھی کی طرح زمین کو چھو رہے ہیں۔‘‘ (ایضاً، باف ہوٹل بلڈ، ص: ۱۲۴)

’’وہ اس جھنگولا چارپائی پر لیٹا ہے، جس کے بان کچی زمین کو چھو رہے ہیں اور اس کا بدن اس چارپائی پر اس طرح جھول رہا ہے جیسے ڈھانچہ کا نقشہ (Map) سائنس روم کی دیوار پر ہوا کے جھونکے کے ساتھ ہلتا ہے۔‘‘

(بائیں پہلو کی پسلی، رینگتے کپڑے، ص: ۱۴۴)

آپ نے اگر ان کہانیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ جن کہانیوں سے ماخوذ یہ تشبیہیں ہیں اگر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ فکشن میں کردار، صورت حال اور بعض مسائل اور سماجی ناہمواریوں پر بطور طنز اور ان کی نفسیاتی تصویریں پیش کرنے میں فکشن نگار اپنی نادر تشبیہوں سے کتنی باریکی سے کام لیتے ہیں۔ احمد رشید نے بھی تشبیہوں سے وہی کام لیا ہے۔ احمد رشید کے افسانوں میں قدم قدم پر گہرے جملے، شاعرانہ احساسات والے جملے اور ایسے جملے ملتے ہیں جنہیں ہم اقوال زریں بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے جملے فکشن میں گہری معنویت اور بیانیہ کو فلسفیانہ موڈ عطا کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں مستعمل یہ گہری معنویت والے جملے افسانوی بیانیے کو روشن کرتے ہیں اور رمزیت عطا کرتے ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے زندگی کا مطالعہ زندگی میں گلے گلے ڈوب کر کیا ہے۔ اس کا واسطہ زندگی سے وہی ہے جو مچھلی کا پانی سے ہوتا ہے۔ احمد رشید نے اپنے افسانوں میں علم الحساب کے روزمرہ کو بھی بیانیے میں جا بجا استعمال کرتے ہوئے گہری معنویت پیدا کی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

’وہ اور پرندہ‘ سے ماخوذ

’’اس کائنات پر ایک دائرہ تخلیق ہوا۔ پھر اس کے درمیان ایک نقطہ محیط ہوا۔ نقطہ اور دائرہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔ (کہانی کہتی ہے)

’’نکہت ایک احساس کا نام ہے۔ موت ایک تسلیم شدہ حقیقت اور یادیں کبھی کبھی ٹن-ن ایک ٹن…نن دو- ٹن-ننن ٹن- ٹن-ن ننن چار۔ کلاک ٹاور نے بجائے۔‘‘ (وہ اور پرندہ)

’’اب وہی جرم ان کے اوپر حلال کر دیا گیا اور اس طرح عورت اور مرد ایک دوسرے میں ضرب ہوئے۔‘‘ (صدیوں پر پھیلی کہانی)

’’مجھے معلوم ہے کہ ایک کے دس کس طرح ہوتے ہیں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ دس کی گنتی صفر میں کس طرح تبدیل ہوتی ہے۔‘‘ (فول…پھول)

’بائیں پہلو کی پسلی سے ماخوذ‘

’’دوستی کا رشتہ رفتہ رفتہ محبت کے رشتے سے ہم کنار ہونے لگا جہاں مرد اور عورت ایک دوسرے سے ضرب ہو کر ایک عدد بن جاتے ہیں۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی)

’’ہر جوڑ کا آخری نتیجہ توڑ ہوتا ہے۔‘‘(بائیں پہلو کی پسلی)

’’جلد ہی دو اکائیاں ایک دوسرے میں ضرب ہو کر ایک عدد بن گئیں۔‘‘

(کرب کا سمندر)

آپ نے اگر تشبیہات، طنز اور علم الحساب کے حوالے سے مندرجہ بالا جملوں پر غور کیا ہے تو اندازہ کیا ہو گا کہ ان جملوں میں عورت کی ذات، اس کے کرب اور اس کے مسائل یا عورت کے تئیں مرد کی ذہنیت کیا ہوتی ہے، اس سے متعلق حقائق کی گرہ کشائی ان جملوں میں حاوی موضوع کے طور پر ابھرا ہے۔ ان میں زندگی کی گہری بصیرت اور دنیا اور انسان شناسی کا گہرا سیاق موجود ہے، جو فن کار کی ذہانت پر دال ہے۔ آئیے ان کے افسانوں سے ماخوذ چند بلیغ جملوں پر غور کریں کہ جن کی وجہ سے ان کے افسانے میں گہرائی اور انسانی نفسیات کی فنی تصویر ابھرتی ہے:

’وہ اور پرندہ‘ کی کہانیوں سے ماخوذ چند جملے

(۱)    ’’آدمی کے سر پر ایک پتھر کی سل رکھی ہے بس وہ اس کے نیچے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے۔ نکل جانے کی ناکام کوشش ہی کہانی کو جنم دیتی ہے۔‘‘ (بن باس کے بعد)

(۲)    ’’ہونٹوں کے مسکراتے پھول آنکھوں کی شبنم سے بھیگ گئے ہیں۔‘‘ (ٹوٹی زمین بکھرے بکس)

(۳)    ’’کھیتیاں سبز پوشاک پہنیں رقص کر رہی تھیں۔‘‘(کرما)

(۴)    ’’چودھری صاحب کرسی سے چپکے رہے۔ ان کے گھر کا چولہا بھی گرم رہا۔ مرغ ہانڈی میں اصلی گھی پیتے رہے۔ مچھلیاں سرسوں کے تیل میں نہاتی رہیں۔‘‘ (لال تکون)

’بائیں پہلو کی پسلی‘ کی کہانیوں سے ماخوذ چند جملے

(۱)    ’’عورت خوبصورت ہو یا بدصورت بڑھاپے میں مرد ہو جاتی ہے اور بوڑھا مرد جوان عورت کی طرح مجبور اور معذور ہو جاتا ہے۔‘‘ (کہانی بن گئی)

(۲)    ’’عورت مردانہ لباس فخر کے ساتھ پہنتی ہے حالانکہ کوئی مرد زنانہ لباس پہن کر برسرعام آنے کا خیال بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی)

(۳)    ’’آفتاب اور شفق کے بیچ روشنی کا رشتہ ہے۔‘‘ (فیصلے کے بعد)

(۴)    ’’عقل جب جاتی ہے تو ہاتھ میں پتھر دے جاتی ہے اور جب حسن جاتا ہے تو منہ کو گالی دے جاتا ہے۔‘‘ (دھوئیں کی چادر)

(۵)    ’’کیا عورت لولی پوپ ہے۔‘‘ (سفید لباس سیاہ راتیں)

ان میں بیشتر جملے عورت کے تئیں مردوں کی ذہنیت کا پردہ فاش کرتے ہیں اور بیشتر جملے اقوال زریں کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں جن کی معنویت کبھی ماند نہیں پڑے گی یہی وہ چیز ہے جو فکشن نگاروں کو زندگی عطا کرتی ہے۔

احمد رشید کے افسانوں کے بیانیہ جمال، ان کے افسانوں میں موجود کہانی کی شعریات اور فلسفے سے متعلق گہرے اور معنی خیز مباحث نیز جدید ترین تانیثی مسائل اور عورت اور مرد کے رشتے کی جدلیات پر مبنی عورت اور مرد بالخصوص میاں بیوی کے بدلتے رشتوں کی نفسیاتی گرہ کشائی کی فنی روش ملتی ہے اس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے معاصرین میں جدید ترین تانیثی مسائل کی پیش کش کے لیے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ علاوہ ازیں وہ افسانوں میں کہانی کہنے کے نئے اسلوب اور گہری معنویت پر مبنی بیانیے کے لیے بھی دور سے پہچان لیے جانے والے افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے رہیں گے۔ بلا مبالغہ احمد رشید ۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانوی ادب کا ایک ایسا ستارہ ہیں جن کے پاس اپنی زمین، اپنی روشنی اور اپنا آسمان ہے۔

٭٭

حواشی:

(۱)    احمد رشید وہ اور پرندہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۲ء، ص: ۶

(۲)    ایضاً، مضمون احمد رشید کے افسانے، شافع قدوائی، ص: ۵

(۳)    وہ اور پرندہ، احمد رشید، افسانہ سراب، ص: ۱۷

(۴)    ایضاً، سراب، ص: ۱۷

(۵)    وہ اور پرندہ، بن باس کے بعد، ص: ۶۶

(۶)    بائیں پہلو کی پسلی، ص: ۳۵

(۷)    بائیں پہلو کی پسلی، افسانہ بی بی بولی، ص: ۱۴۲

٭٭٭

احمد رشید: کھوکھلی کگر کا اکیلا مسافر ۔۔۔ نور الحسنین

احمد رشید اُردو کے ان چند افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں جن کی افسانہ گاری سب میں شامل ہوتے ہوئے بھی مختلف ہے۔ جس زمانے میں جدیدیت کا بول بالا تھا اور چند ہی ایسے نام تھے جو جدید افسانوں کے سر خیل کہلاتے تھے تب بھی احمد رشید اُن کے ہمرکاب تھے لیکن بھیڑ کا حصہ بن کر نہیں بلکہ اپنے موضوعات اور اپنی جدت نگاری کے ساتھ۔ جب اُردو افسانہ جدیدیت کی طلسم ہوش ربا سے باہر آیا اور نئے افسانے کی نیو رکھی گئی اُس وقت بھی احمد رشید نے افسانے کے ساتھ وہ سمجھوتا نہیں کیا جو راستہ مراجعت کا تھا۔ اُنھوں نے اُس بیانیہ کا رخ اختیار کیا جو حقیقت پسندی کی اُنگلی تھے علامت استعارے کی موجودگی میں اپنا سفر طئے کر رہا تھا گویا درمیانی راہ کو تھامے ہوئے تھا۔ احمد رشید نے نئے افسانے کو ایک نیا مزاج دینے کی کوشش کی، اُنھوں نے ہمیشہ اپنے مزاج کے افسانے لکھے ہیں۔

آج افسانے کے اس نئے سفر میں اُن کے افسانے نہ تو اکھیرے موضوع کی قید میں ہیں اور نہ ہی اُس لج لجے معاشرتی زندگی کا طواف کرتے نظر آتے ہیں جہاں عام سے موضوعات قاری کا وقت برباد کرتے ہیں۔ وہ اُس بڑے کینوس پر کھڑے ہو کر دنیا کو دیکھتے ہیں جہاں مسائل میں گھرا فرد کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ غربت اور بے بسی کی زندگی جینے کے لیے تیار ہے تو ہے لیکن اُس سے نکلنے کا راستہ معدوم ہے۔ مذہب عمل کا نام ہے لیکن تصوف کی ردا اوڑھے اگربتیوں کی خوشبوؤں میں صبر و تحمل کا ایک احساس بن کر رہ گیا ہے۔ جبکہ عمل سے دور رہ کر کسی بھی کامیابی کا سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ احمد رشید کے افسانے خواب اور جاگ کے درمیان تخئیل کا سفر اس اُمید پر کرتے ہیں کہ کوئی ان دیکھی قوت اُن کے سارے مسائل کو دور کر دے گی:

’’السلام علیکم یا اہل القبور‘‘ منھ ہی منھ میں کہا، اور شیشم کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر خاموشی سے نظارہ دیکھنے لگا۔ عصر و مغرب کے درمیان چڑھتا سورج مغرب میں اُتر رہا ہے۔ اُس کے چاروں طرف خون کی سرخی پھیل رہی ہے۔۔ عورتیں اور مرد ایک پلیٹ میں گلاب اور گیندے کی پنکھڑیاں، ایک ہاتھ میں بتاشوں کی پڑیا لیے سر جھکائے مزار شریف کی طرف جا رہے ہیں، سیڑھیوں پر ما تھا ٹیکے، مزار کے گرد چکر لگاتے، مجاور جو مزار کے قریب ستون سے کمر لگائے بیٹھا پھولوں کی پلیٹ اور بتاشوں کی تھیلی ہاتھ میں لیتا اور ایک جنستر میں ڈال لیتا۔ ہر شخص فاتحہ خوانی کر کے بڑے احترام سے مزار کی جانب چہرا کیے، کمر کی طرف سے سیڑھیوں سے اُتر جاتا۔ اگربتی اور لوبان کا دھواں مزار کے چاروں طرف پھیل رہا ہے۔ مجاور مور پنکھ جھاڑو زائرین کے چہروں پر مارتا ہے۔ کبھی کبھی مزار شریف کے اوپر بڑے احترام سے لہراتا، ’’آگے بڑھو۔۔ جلدی کرو کی آواز لگاتا۔۔ تھوڑی دیر کے بعد مجمع ہلکا ہو گیا۔ مجاور بتاشے اور پھولوں کی ڈلیا لے کر چلا گیا ۰مزار کی سلطنت میں سنا ٹے کی حکومت قائم ہو گئی۔‘‘

(افسانہ۔ ابتداء کی طرف۔ ص۔ ۴۳۔ کتاب کھوکھلی کگر)

جیسے جیسے وقت گزرتا ہے زمانہ بدلتا جاتا ہے اور ایک باخبر قلم کار ان تبدیلیوں پر بھی گہری نظریں رکھتا ہے۔ احمد رشید نے جب یہ محسوس کیا کہ اقدار کی وہ منزلیں بہت پیچھے رہ گئیں ہیں سماجی اور معاشرتی زندگی کہ آداب بدل چکے ہیں۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا ہے جب کبھی محبوبائیں سورج مکھی کے پھول کی مانند منہ اُٹھائے محبوب کا انتظار کرتی تھیں، اور تو اور اب محبوب بھی وفا داریوں کے سارے سبق بھول کر بھونرے کی مانند پھول در پھول بھٹک کر مقابل کی بے وفائیوں کا شکوہ کرتا ہے۔ اب تو معاشرہ مشرق کی مٹتی قدروں اور مغربی تہذیب کے آمیزے میں سانسیں لے رہا ہے۔ اب نہ کوئی ستی ساوتری ہے اور نہ ہی ستیہ وان جو ایک بیوی سے سو بچوں کی پیدائش تک زندگی کا جوّا کھینچتا رہے۔ سب ہی حالات اور وقت کے مارے ہیں۔ تب اُن کے قلم نے افسانہ ’’دو سال بعد‘‘ تحریر کیا۔

آج کا زمانہ سائنس اور تکنالوجی کا زمانہ ہے۔ ایک طرف دنیا خلائی سفر اور سیاروں کی تسخیر میں مصروف ہے تو دوسری طرف وہ لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں جو آج بھی تو ہم پرستی کے شکار دکھائی دیتے ہیں۔ احمد رشید اپنے اطراف بسنے والے افراد میں بھی اس کی جھلک دیکھی کہ کوئی بھورے سید کی شال اوڑھ کر اور کہیں تصوف کی وادیوں میں اُس اندیکھے کرامات میں پناہیں تلاش کرتا ہے جس کے نتائج کبھی اتفاق اور کبھی عقیدے کا ما حاصل ہوتے ہیں۔ احمد رشید نے ایسے افراد کی بھی کہانی ’’بھورے سید کا بھوت‘‘ لکھی ہے، جس میں توہم اور تصور کا تخئیل ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے۔ اُن کا کمال یہ ہے کہ وہ تجسس اور اسرار کی فضاء میں قاری کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ افسانہ کسی شہر یا ہندوستان کے کسی خاص معاشرے کی تصویر کشی نہیں کرتا بلکہ اس میں وہ بھی نظر آتے ہیں جو بظاہر اس کے خلاف ہیں۔

احمد رشید کے افسانوں کی زبان نہایت صاف ستھری اور با محاورہ ہے۔ افسانہ اُن کے قلم کی نوک پر رقص کرتا ہے۔ اس لیے افسانہ اپنے قاری کو نگاہیں ٹھانے کا موقع نہیں دیتا۔ اُن کے افسانوں میں ایک خاص قسم کا ابہام ہوتا ہے جو تجسس کی لئے کو کہیں پر بھی مدھم ہونے نہیں دیتا۔ اُن کے افسانے کے آغاز میں ایک طرح کی اجنبیت ہو تی ہے اور کلائمکس و اختتام ایک ایسے اسرار کے حوالے ہو جاتا ہے جہاں قاری سوچتا رہ جاتا ہے۔

یہ دنیا اور اس میں آباد تمام مخلوق کی قسمت فنا میں پوشیدہ ہے۔ فنا ہونے کا یہ اسرار یا موت کی آہٹ کب کس کے لیے ظاہر ہو گی قدرت نے اُن لمحات، مقام اور وقت کو اپنے قبضے میں رکھا ہے۔ اس کے باوجود انسان اپنی عاقبت سے بے نیاز اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ اُسے سنوارتا سجاتا ہے لیکن نہیں جانتا موت کی ٹرین کا وقت کیا ہے وہ کب آئے گی اور سب کچھ زمین کے اوپر ہی رہ جائے گا۔ احمد رشید نے اس فانی دنیا کے لیے ویٹنگ روم کی تشبیہ استعمال کی ہے جو نئی نہیں ہے لیکن ویٹنگ روم کو سجانے سنوارنے اور اپنے سفر کے سامان کی حفاظت کو زندگی کے معمولات سے جوڑ کر ایک نئی بات ضرور کہی ہے۔ انسان کی کبھی ختم نہ ہونے والی پیاس در اصل اُس کی وہ خواہشات ہیں جو زندگی کے آخری لمحات تک اُس میں موجود ہیں۔ حدیہ کہ ٹرین کا انتظار کرنے والا مسافر اتنا لاغر اور بے بس ہو جاتا ہے کہ اُسے اُسی کی طرح کے چار مسافر سوار کر دیتے ہیں۔ افسانہ۔ ’’ویٹنگ روم‘‘ دنیا کی بے ثباتی کے موضوع پر یہ ایک کامیاب افسانہ ہے۔ اس افسانے کا اسلوب بیانیہ ہے لیکن جس آسانی سے وہ اُسے ویٹنگ روم کو دنیا اور ٹرین کو موت کی علامت میں بدلتے ہیں کہ افسانہ آخری سطور ہی میں ان رازوں سے پردہ اُٹھاتا ہے۔

صدیوں سے انسان یا تو مذہبی اُصولوں کا پابند رہا ہے یا پھر رسم و رواج کے چکر میں دھنسا ہوا ہے۔ قانون کے اپنے معیار ہیں۔ سوسائٹی چاہتی ہے کہ ان ہی اُصولوں اور قانون کی روشنی میں جرم و سزا کے فیصلے ہوں۔ احمد رشید اُن اُصولوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں جو زمانہ در زمانہ مروج ہیں اور انسان اُس طوطے کی مانند اُن رٹے ہوئے اُصولوں کی جگالی کر رہا ہے۔ اچھائی برائی، جرم اور سزا کی حقیقت کے باوجود انسان کا وجود ضروری ہے۔ قانون کا مطلب جرم کو ختم کرنا ہونا چاہیے نا کہ مجرم کے وجود کا صفایا۔ احمد رشید ازل تا ابد خواتین کو جس طرح مذہبی اُصولوں کی پاداش میں اگنی پریکشا کی کسوٹی پر دیکھتے ہیں جبکہ جرم میں مرد بھی برابر کا شریک ہے لیکن پاکیزگی کا مقدر ہمیشہ عورت ہی کے سر رہا ہے۔ وہ اس بات کو تاریخ کے اوراق، اور فیصلہ کرنے والوں کو طوطے کی طرح اُن ہی الفاظ کو دُہراتے ہوئے دیکھتے ہیں تو افسانہ ’’بن باس کے بعد‘‘ لکھتے ہیں۔ جانکی کے حق میں پنچ اگنی پریکشا کا حکم صادر کر دیتے ہیں لیکن راگھویندر کو یہ فیصلہ طوطے کا رٹا ہوا فیصلہ لگتا ہے:

’’راگھویندر کی نظر پنجرے کی سیخچوں پر گئی جو سنہری رنگ میں رنگے تھے، جس میں طوطا ادھر اُدھر پھڑپھڑا رہا تھا۔ اچانک بجلی کی سرعت کے ساتھ وہ چار پائی سے اُٹھا اور پنجرے کا دروازہ کھولنے لگا۔۔ جانکی پنجرے کی طرف دوڑی، ’’ار۔۔ رے۔۔ رے۔۔

طوطا آزاد ہو چکا تھا اور وہ آسمان کی وسعت میں ڈوب گیا۔ جانکی کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا، ’’یہ کیا کیا آپ نے؟‘‘

’’میں نے طوطے کو آزاد کر دیا۔ اب یہ رٹے ہوئے الفاظ نہیں بولے گا۔۔ اب یہ اپنے فطری انداز میں زندہ رہے گا۔، جہاں چاہے گا بیٹھے گا۔۔ جہاں چاہے گا اُڑے گا۔‘‘ جانکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ راگھویندر نے جانکی کے آنسو پونچھے، اسے قریب کیا، ’’اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا تم لو مجھ سے چھین لے میں تم کو تم سے چھین لینا چاہتا ہوں۔‘‘ (افسانہ۔ بن باس کے بعد۔ ص۔ ۱۰۴۔ کتاب۔ کھوکھی کگر)

یہ افسانہ اپنے منہ زور بیانیہ، مذہبی، تاریخی حوالوں اور اُن طئے شدہ اُصولوں کی روشنی میں ایک احتجاج بن کر سامنے آتا ہے اور اُس طوطے کو تقدس کے پنجرے سے آزاد کر دینا چاہتا ہے، لیکن سوال یہاں یہی ہے کہ انسان اور انسانوں کا سماج اُن اُصولوں سے آزاد ہو سکتا ہے؟ اس افسانے کی بافت روانی، تجسس اور مطالعاتی وصف اس قدر پُر اثر ہے کہ قاری پورا افسانہ بے تھکان پڑھتا چلا جاتا ہے۔

اسی طرح افسانہ ’’مداری‘‘ سیاسی جبریت کی عکاسی کرتا ہے۔ افسانے میں موجود اشارے اور علامتیں گنجلک نہیں ہیں بلکہ اس افسانہ کو تمثیلی افسانہ کہیں تو زیادہ درست ہو گا۔ افسانے کا آغاز ملاحظہ فرمائیں:

’’تماش بینوں کا ہجوم گھیرے میں کھڑا تھا۔ مداری ڈگڈگی بجا بجا کر چاروں طرف گھوم رہا تھا۔

’’ہاصتو مہربان، قدردان یا تو اپنی مرضی سے جموڑے بنو۔۔ ورنہ ہمیں جموڑے بنانا آتا ہے۔‘‘ اُس نے نظر گھمائی ڈگڈگی کو تیزی سے بجانے لگا۔

’’بھائیو! جموڑا ہماری مرضی سے چلے گا، اُٹھے گا، بیٹھے گا۔۔ ہم جو دیں گے وہی لے گا۔۔ آگے مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہو گا۔‘‘ وہ مسکرایا، چاروں طرف نظر گھمائی، دھوتی پہنے کثیر الجسامت شخص کی طرف اشارہ کیا۔۔ آگے بڑھ کر اُس کے جان میں کچھ کہا، وہ ’ نہیں‘ کرتے ہوئے ہجوم سے نکل گیا۔‘‘

(افسانہ۔ مداری۔ ص۔ ۸۸۔ کتاب۔ کھوکھلی کگر)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ایک کالی داڑھی والا آگے بڑھا۔۔ مداری نے ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’ہمیں بکرا نہیں چاہیے۔ ہمیں جموڑا چاہیے۔۔ بکرا تو ہم خود بنا لیں گے۔۔ داڑھی والا ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔‘‘ (افسانہ۔ مداری۔ ص۔ ۸۹۔ کتاب۔ کھوکھلی کگر)

یہ دو اقتباس ہی افسانے کو واضح کر دیتے ہیں کہ مداری کون ہے اور وہ کن کو جموڑا بنا نا چاہتے ہیں۔

جیسا کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ احمد رشید کی افسانہ نگاری سفر جدیدیت کے دور میں ہوا ہے۔ اگرچہ نئے افسانے کے ساتھ اُن میں بہت ساری تبدیلیاں بھی آئیں لیکن افسانے کی فضاء سازی، ابہام اور تمثیلی فن اب بھی اُن کے پاس دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے موضوعات بھی عام سے نہیں ہوتے۔ ان کے افسانوں میں اسلامی روایات، میتھالوجی اور تاریخی حوالوں کی آمد سے گہرائی و گیرائی پیدا ہو جاتی ہے ؤ اُن کا افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ ایک طویل افسانہ ہے بلکہ اُس کی جسامت کسی ناولٹ سے کم نہیں۔ یہ انسان کے پیدائش سے اُس کے ارتقائی سفر کی ایک طویل داستان ہے۔ یہاں زماں و مکاں کی قید نہیں ہے۔ وقت کی پرواز ہے یہ افسانہ انسان کے ایام جہالت، جب وہ شرم و حیا سے بے نیاز تھا۔ لباس سے آزاد تھا، پھر وقت کے ساتھ اُس کا ارتقاء اُس کی تہذیبی، تمدنی ادوار سے ہوتے ہوئے پھر ایک بار اُس کا شرم و حیا سے بے نیاز ہونا اور بے لباسی کی طرف مراجعت ہے۔ اس طویل اور انوکھے موضوع پر قلم اُٹھانے کی جرأت احمد رشید ہی کر سکتے ہیں۔

احمد رشید کا اپنا فلسفہ ہے۔ اپنی منطق ہے۔ وہ دنیا کو اور اُس کے نظام کو اپنی سوچ اور اپنے اُصولوں کے تحت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کا افسانہ ’’کھوکھلی لگر‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ افسانہ عصری دور میں زندگی کے ایک ایسے سفر کو بیان کرتا ہے جہاں سکون عدم دستیاب ہے۔ اُن دنوں میں بھی جب جب زندگی سائنس اور تکنالوجی کے غلاف سے بے نیاز چھوٹے چھوٹے گھروں میں سانسیں لیتی تھی۔ جب جان توڑ محنت کرنے کے بعد بھی سکون کی جستجو تھی اور انسان تصوف کی گھنی چھاؤں میں سکون پا لیتا تھا۔ خدا کی تلاش ہی زندگی کا محور تھا، لیکن بھگتی مارگ اور خانقاہیں عشق حقیقی سے پہلے عشق مجازی کی تربیت کرتی تھی۔ خدا تک انسان اُسی وقت پہنچ سکتا ہے جب تک وہ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو نہیں پا لیتا۔ یہی اس افسانے کا ما حاصل ہے۔ اس افسانے میں احمد رشید کا قلم تصوف کی زبان لکھتا ہے:

’’وہ آہستہ آہستہ چلتا رہا۔ سوچتا رہا کہ بدن کا چراغ آنکھ ہے، آنکھ درست ہو تو سارا بدن روشن ہو جائے۔ اگر آنکھ خراب ہو تو سارا بدن تاریک ہو جائے۔ پس وہ روشنی مجھ میں ہے۔ اُس نے مُڑ کر دیکھا کائنات پیچھے چھوٹ گئی ہے۔ آگے کی جانب نگاہ اُٹھائی۔۔ دور سرمئی کہسار پر رکا ہوا نیلا آسمان سفید بادلوں کی پوشاک زیب تن کیے کھڑا ہے۔ چاروں طرف دھویں کے مرغولے سائبان کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ڈھلان پر زیتون کی روشیں آب رواں کی لہروں جیسے پھیلی ہیں۔ پہاڑ کے قدموں کے نیچے سبز مخمل بچھی ہے۔ ایک فرلانگ کی دوری پر آئینہ کی طرح صاف و شفاف چشمہ میں آفتاب کی روشنی کا عکس ٹھنڈے پانی کے سنگ محو رقص ہے۔ ایک کنارے سے تھوڑے فاصلے پر ساگوان سے بنی کٹیا کشتی کی طرح زمین پر رکھی ہے۔ اُس کے دروازے پر انگور کی بیل ٹنگی ہے۔ چاروں طرف خوش گلو پرندوں کی نغمہ سرائی خوب صورت وادی میں شعلہ سا لپک جائے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ خوش منظر دیکھ کر اُس کی بصارت لوٹ آئی اور خوش آواز سن کر جیسے سماعت لوٹ آئی۔۔ جلوۂ حق دیکھ کر اُس نے خوش کلامی کی، ’’سبحان اللہ‘‘! بادشاہت، قدرت اور جلالت ہمیشہ تیری تھی، تیری ہے، تیری رہے گی۔‘‘ (افسانہ۔ کھوکھلی کگر۔ ں۔ ۱۶۲۔ کتاب۔ کھوکھلی کگر)

احمد رشید کا افسانہ ’’حصار‘‘ کا موضوع نیا نہیں ہے لیکن کرافٹ مختلف ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دنیا کے نقشے میں آج دو ملک ہیں لیکن ان کی روایتیں، تہذیب اور ماحول ایک دوسرے سے مختلف بھی نہیں ہے۔ عورت کا محبت کرنا فطری جذبہ ہے۔ اس کے باوجود اگر اُس کی محبت ناکام ہو جائے تب بھی شوہر سے وفاداری اُس کا اخلاقی فرض ہے اور بے وفائی جذبات کی کسوٹی پر ناکامی کی وجہ ہے۔ شادی کے بعد شوہر کے ملک سے واپس آنے کے بعد اپنے محبوب سے ملنا اور پھر شوہر کی امانتوں کو محفوظ رکھنا در اصل اُس وعدے کی تکمیل ہے جو نکاح کے وقت اُس نے اقرار کیا تھا۔

احمد رشید ایک بے باک مصنف ہیں۔ وہ جو کچھ بھی اپنے افسانوں کے وسیلے سے سماج کو دینا چاہتے ہیں وہ اُنکا اپنا فلسفہ ہے۔ اس فلسفہ میں منفی اور مثبت دونوں ہی باتیں ہیں۔ وہ کہیں تو روایات اور اُصولوں کو توڑنا چاہتے ہیں اور کہیں اُس کی پاسداری بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک بات اور، اُن کے اکثر افسانوں کی جزئیات اور تخئیل میں یکسانیت سی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اُن کے افسانوں کا خاص وصف اُس کا مطالعاتی پہلو ہے۔ گو اُنھوں نے اپنے افسانوں میں تکنیک کے تجربات بہت کم کیے ہیں پھر بھی خود کلامی، فلیش بیک اور فلیش فارورڈ کی تکنیک کا عمدہ استعمال ہے۔ آخر میں میں اُن کے فن کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنی کگر کے تنہا مسافر ہیں۔

٭٭٭

احمد رشید کے بیانیوں کا تنزیہی عمل ۔۔۔ پروفیسر طارق سعید

احمد رشید میرے معاصر ہیں لیکن میں ان کو ان کے افسانوں کے ذریعہ ہی جانتا ہوں۔ شاید کسی فنکار کو اس کی تحریروں کی روشنی میں جاننے کا عمل، سب سے بہتر جاننا ہے۔ حقائق کا تنزیہی عمل جب کسی بیانیہ کا مقدر بنتا ہے، تو بقول شافع قدوائی ’’احمد رشید کے لا زمانی اور لامکانی جہت کا تھوڑا سا اندازہ ہو جاتا ہے۔ احمد رشید کے بیانیہ میں زندگی کا التباس ایک تخلیقی تجربہ بن کر اور اسے تہذیبی علائم سے آشکار کرتا ہوا کسی دردمند انسان کا قول محال بن جاتا ہے۔ بیان کنندہ، اصل مصنف اور تخلیق کار کی حیثیت سے ہر جگہ حاضر و موجود ہے اور غائب متکلم کے بجائے بنفس نفیس، بیان کنندہ خود، بیانیہ کے دال و مدلول کی بنیادی شرط پورا کرتا ہوا بیرونی و خارجی مظاہر پر اپنی تخلیق کی مہر ثبت کرتا ہے۔ احمد رشید کے بیانیوں کا یہی وہ داخلی ارتکاز سازی کا عمل (Internal Focalisation) ہے، جہاں غیر یا راوی بھی ارتکاز کے قیام میں معاون و مددگار ہے۔ ارتکازِ بیانیہ کی تنزیہ کی ایک مثال کہانی ’’برف تلے‘‘ ہے جو ’معانی کی تلاش‘ میں ہے۔ سگریٹ، ماچس، دھواں، ان کے دائرے، تنہائی، خاموشیاں، اندھیرا، آغوش، ریشمی، ملائم اور سیاہ زلفیں، بے خودی کا عالم، اندھیرا اور کمرے سے باہر نکلنا خارجی ارتکاز کی لسانی اکائیاں ہیں لیکن ان لسانی اکائیوں میں بیان کنندہ ’’معنی تلاش کر رہا ہوں‘‘ کا داخلی ارتکاز کا اعلان کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ قاری ’’برف تلے‘‘ کہانی میں ارتکاز کی جب شرطوں پر ایک نظر ڈالتا ہے تو اسے زبردست حیرت ہوتی ہے کہ احمد رشید کی Story line مندرجہ ذیل خطوط پر چلتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔

(۱)    لسانی تفاعل کا موضوع اور موٹف کا ارتکاز

(۲)    ناظر اور منظر کا ارتکاز

(۳)    بصارت اور بصیرت کا ارتکاز

(۴)    بیان کنندہ، فیبولا اور سوژیٹ کا ارتکاز

(۵)    یادداشت، حافظہ اور وقت و مکان کا ارتکاز

(۶)    ٹھوس زمینی حقیقتوں کو اجنبی بناتے وقت بیانیہ کے وژن سے ارتکاز

اب احمد رشید کے بیانیہ سے ایک مختصر سی مثال، ان کے بیانیاتی اکائیوں سے پیش ہے۔ کہانی کا عنوان ہے ’’تیسری شخصیت‘‘ عنوان ہی سے ٹھوس زمینی حقیقت کا خارجی روپ، اس کا داخلی روپ اور ان کے درمیان باہم شدید کشمکش کا ہونا، کے ارتکازات کی اطلاع دے رہا ہے۔ بیانیاتی اکائیوں کا اجمالی خاکہ ان لفظیات میں مضمر ہے، ’’شریف آدمی کا بزدل ہونا، بیرونی شخصیت، اندرونی زندگی، چہرے پر کالک، شرافت کا تمغہ، خوبصورت بھابھی، پردہ، فرد کی آنکھیں، کپڑے اتارنا، پتلون کی بیلٹ درست کرنا، خوبصورت عورتیں، دسمبر کی راتیں، بھابھی کے جسم پر لحاظ ڈالنا، بھابھی اور دیور، بھیا کا دہلی جانا، بھابھی کا فطرتاً ڈرپوک واقع ہونا، آپ کا شریف آدمی ہونا، اندر سے کنڈی بند کرنا، احساس ندامت گناہ کی لذت، نئی پڑوسن، ملا داڑھی کی اوٹ، مرد کی ذات کا گندہ ہونا، بھابھی کا بھیا کو نماز کی تاکید کرنا، آدمی کا مختلف سیرتوں کا ہونا (جیسا کہ بھابھی کا کردار باوجود اچھے بچے، اچھا شوہر اور اچھا گھر) بھابھی کا زور دے کر بیان کنندہ حاضر راوی، حاضر متکلم کو یہ مخاطب کرنا کہ ’’مجھے تمہاری ضرورت ہے‘‘ یا بھابھی کا اعتراف، ’’میں ایک گرم مرد کی بیوی ہوں اور میں جلنا نہیں پگھلنا چاہتی ہوں‘‘ اور بھابھی کی تیسری شخصیت کا ظہور۔

اس مختصر سے خاکہ سے بیانیہ کی بنت میں فیبولا کی کارگزاری آپ نے ملاحظہ کیا، احمد رشید نے انتہائی چابکدستی کے ساتھ ایک زمینی حقیقت کو ایک ناظر کی بصارت سے ہم آمیز کر کے، بصیرت آمیز نکتہ پر سوژیٹ کو مرتکز کیا ہے۔ یہاں حافظہ اور یاد داشتیں، دسمبر کی سردی اور گرم مرد کی بیوی کا کمرہ، وقت اور مکان کا ایک ایسا آمیزہ پیش کرتا ہے کہ صرف ’’گرم مرد کی بیوی‘‘ کا استعارہ بلکہ علامت یہ ثابت کرتا ہے کہ خداوند قدوس نے احمد رشید کو ارتکاز نظر کی دولت بیداد سے خوب خوب سرفراز کیا ہے۔ یہاں نمازی بھابی میں کسی تیسری شخصیت ’بیوی‘ کا ہونا، عجب معنی کی جانب اشارہ کناں ہے اور شدید اخلاقی بحران کو خاطر نشان کرتا ہے۔

عصری اخلاقی بحران احمد رشید کے بیانیوں کا وہ جوہر اصلی ہے، جو ان کے تمام فیبولا میں ناخن اور گوشت کی طرح موجود ہے۔ ان کے بیانیوں کا نفس مطلب جو کہانی کے متن کے ذریعہ سوژیٹ کی تشکیل میں معاون ہے، اخلاقیات کی تاکیدی جہت کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ اس کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھیے۔ اخلاقی بحران کے مناظر فسادات میں عام طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ کہانی کار نے ایک سانحۂ فاجعہ کو دیکھا، اس کا قلم بے قرار ہوا، اس بے قراری نے متن افسانہ کے تفاعل کو متحرک کیا اور سوژیٹ پر تاکیدی ارتکاز نے فیبولا کے ایک ظاہری روپ کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا۔ اس پورے فنی تماشے میں اخلاقی پستی کا اضطراب ہی سبب بنا، پلاٹ کی تشکیل کا، اور اسی اضطراب سے کمی اور بیشی سے بیانیہ کا تاثر، کم یا زیاد پیٹرن کے ساتھ، ظہور پذیر ہوتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ کسی مضطرب منظر مثلاً فسادات کے مناظر پر احمد رشید کا بیانیہ پوری قوت کے ساتھ، کہانی کے سوژیٹ (متن) سے ناخون اور گوشت کی طرح پیوست رہتا ہے۔

’’سہما ہوا آدمی‘‘ عنوان ہی اضطرار و اضطراب اور ایک اخلاقی جہت کو نشان زد کر رہا ہے۔ گھر، شہر، گلی، بارود، دھواں، دھماکے، بوٹوں کی آوازیں، ٹانگوں کے درمیان کسی خاص مذہب کی پہچان، مارو، مارو، ٹائیں، ٹائیں، پٹ پٹ، دہلتی ہوئی زمین، خاموش آسمان، زن زن دوڑتی کار، بھاگم بھاگ، کرفیو، انسان گھروں میں اسیر، موت زندگی کے تعاقب میں اور ماں، بیٹی، بہن سب اپنی کائنات کی بربادی کی نوحہ گر۔ ’’میرا فساد میں سب کچھ لٹ گیا‘‘ (ایک خوبصورت عورت) کی غماز المناک کہانیاں۔ بیانیہ کا یہ تہذیبی المیہ بھارتی اقدار کی شکست کا کھلا ہوا وہ منظرنامہ ہے، جہاں کپڑوں سے یا پائجامہ کھول کر مذہب کی پہچان کی جاتی ہے (ایک خوبصورت عورت) یا ’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی‘‘ یا ’’جدید دور میں تہذیبی انحطاط کا نام ماں ہے۔‘‘ یا ’’خاندانی وقار کی خاطر بیٹی کا اسقاط حمل ضروری ہے لیکن بیٹے کا ناجائز جنسی عمل باعث افتخار ہوتا ہے‘‘ جنسی اباحیت کی مثالیں کہاں تک دی جائیں، جب پورا معاشرہ ہی گلے گلے گناہوں دھنسا ہوا ہے اور بیٹی کی پیدائش کی خبر سنتے ہی چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور شرم کا داغ لگنے سے وہ منہ چھپاتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ اسے جینے دے یا اس ذلت کی مٹی کو مٹی میں ہی دبا دے۔ (’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ سے اخذ کچھ لسانی اکائیوں کے تغیر کے ساتھ)

اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ احمد رشید کے بیانیے کا پیٹرن پوری قوت کے ساتھ بیانیہ کے داخلی ارتکاز سے مربوط، متصل اور Involved ہوتا ہے بیانیے کے اس داخلی ارتکاز کے ارتباط و اتصال سے کہانی میں ایک زبردست ردم (Rhythm) پیدا ہوتا ہے۔ احمد رشید کے بیانیے معاشرہ کی اخلاقی زوال کی تصویر کاری کے سبب، کیوں کہ افسردہ خاطر ہیں، اس لیے ان کے قصوں میں المیہ کی غمناک موسیقی کا پیدا ہونا تخلیق عمل کا ایک فطری عمل کہا جائے گا۔ کسی بھی فن پارے میں غمناک موسیقی کا ظہور، کسی بھی نشاطیہ آرٹ کے مقابلہ، ہزارہا درجہ بہتر اور اثرو تازہ کے لحاظ سے ہزارہا درجہ دیرپا ہوتا ہے۔ Comedians، جوکر اور میڈیاکرس در اصل وبال ادب ہیں، وہ عصری انسانی رسوائیوں اور زوال آدم خاکی بدعنوانیوں سے نابلد ہوتے ہیں۔ گوں گا قلم اور اندھا مصنف، انسان کی غمناکیوں کو کیوں کر پسند کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے دانشور احمد رشید کے دل گداختہ کی چند دردمند آوازوں کی مثالیں ملاحظہ کیجیے:

(۱)    ’’کتا اچانک ڈبہ کی جانب لپکا، جس کی کھڑکی میں سے ایک مسافر نے اپنی جھٹن اس کی طرف پھینکی جو غلیظ کپڑے پہنے، بھیک مانگ رہا تھا۔ کتا لپک کر اس دونے کو اٹھا کر لے گیا۔ بچے کی بھیگی ہوئی مایوس آنکھیں اسٹیشن کی دیوار پر اشتہار پر ٹنگ گئیں۔ ’’میرا بھارت مہان ہے‘‘(کہانی بن گئی)

(۲)    ’’زندگی کے بوجھ میں دھنسا بچہ زور زور سے آواز لگا رہا تھا۔ ’’آج کی تازہ خبر، بچوں سے مزدوری کرانا اپرادھ ہے۔‘‘ (کہانی بنگئی)

(۳)    ’’آنکھیں آنسوؤں میں بھیگ گئیں اور مرد ہونے کا خول، جیسے پگھل کر عورت ہونے کے سانچہ میں ڈھل گیا۔‘‘ (کہانی بن گئی)

ایک سوگوار فضا، غمناک ردم، غریب الوطنی، جلاوطنی، مہاجر ہونا، انسانی تہذیب کے مقدرات کی کتاب میں مرقوم فیصلے (ویٹنگ روم)، ایک کنگال، تنہا، مسافر انجان منزل کی جانب آمادۂ سفر، اپنے بوجھ تلے دبا ہوا، کسی کو کسی کی خبر نہیں، نفسی نفسی کا عالم (ویٹنگ روم) سچ بولنے کا انجام سزائے موت۔ (ویٹنگ روم) یا وہ کہانی ’’فیصلے کے بعد‘‘ کا اختتام ملاحظہ کیجیے:

’’اس کے چاروں طرف غبار ہی غبار ہے، سر میں خاک، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے اور چہرے پر لکیروں کے درمیان اس کی شناخت کھو گئی ہے۔‘‘ یا ’’ہاف ہوٹل بلڈ‘‘ افسانہ کی یہ تحریر ’’خودکش نہیں، خود کشیدگی، ایک جرات مندانہ عمل ’’تم سے میں ہار گئی، نرس نے سنجیدگی سے کہا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئی ہیں‘‘ یا ’’اس کی آنکھیں پتھرا گئیں جو ابھی تک جھونپڑے پر نیگی، سرکیوں کو گن رہی تھیں جس میں غریبوں کی زندگی کے ایک ایک پل کا حساب موجود ہے۔ (کہانی رینگتے کیڑے کی آخری سطریں)

کہاں تک مثالیں پیش کی جائیں، جب کہ یہ مثالیں بغیر کسی کوشش کے Random انتخاب ہے، لیکن کہانی کا سوژیٹ المیہ کی فضا سے معمور ہے۔ اور کیوں نہ ہو، سارا ملک، سارا ماحول، سارا معاشرہ بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ دنیا ایک کرب کا سمندر (کہانی) کی حقیقت بن چکا ہے۔

ہر جانب ’’دھواں دھواں خواب‘‘ (کہانی) اور ’’اندھا قانون‘‘ (کہانی) کا بول بالا۔ یہی اس کائناتی المیہ کا نوحہ ہے جس کو غم گسار، احمد رشید بیان کر رہے ہیں۔

اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ احمد رشید کا رنج و محن سے مملو بیانیہ، در اصل ایک زمینی حقیقت ہے جس کا نفس مطلب اور سوژیٹ انتہا کی واضح اور شفاف معنی پر دلالت کرتا ہے تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ سوژیٹ میں ذرہ برابر التباس نہیں تو بیانیہ کی تشکیل کیسے ممکن ہو سکے گی اور بیانیہ اگر تلبیسی عمل کی تحیر افزونی سے مبرہ ہے تو کہانی بننے کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ ٹھوس زمینی حقائق کی پیشکش کو کامیاب فنکار، بیانیہ کی تشکیل میں کس طرح ملتبس کرتا ہے، احمد رشید کے حوالے سے پروفیسر صغیر بجا طور پر فرماتے ہیں:

’’اسٹیشن کی منظر کشی، انسانوں کی چہل پہل، ویٹنگ روم میں بیٹھ کر ٹرین کا انتظار، یہ سب کچھ ریل کے سفر کی تصویرکشی ہے لیکن حقیقت میں زیریں سطح پر انسانی زندگی اور کائنات کے فناہونے کی آتی جاتی لہریں، انسان اور اس کی تہذیبی تاریخ کی منہ بولتی تصویریں ہیں جو مذکورہ کہانی (ویٹنگ روم) کا جزو لازم بن جاتی ہے۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، ص: ۱۸)

حقیقت تو یہ ہے کہ احمد رشید کے بیانیے، التباس و اغماض کی قابل رشک پردہ داری کے غماز ہیں کہ امجد کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے:

آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے

کل شب عجیب عکس مرے آئینے میں تھے

امجد اسلام امجد

التباس کی تحیر افزونی کی انتہا یہ ہے کہ شافع قدوائی سے رتن سنگھ تک احمد رشید کو استعارہ سازی اور علائم کاری کے ہنرمند کے طور پر دیکھتے ہیں، ساتھ اس علائم ساز کے قلم کو بقول نارنگ ’’کہانی کا جوہر یعنی اساطیر کا تفاعل‘‘ کا محافظ اور امین بتاتے ہیں۔ متھ، اسطور سازی، تمثیل اور قول محال، فکشن کے ایسے حربے ہیں، جس کے ذریعہ بعینہ زندگی کا سچا واقعہ بیانیہ کی بُنت میں آ کر، حقیقی زندگی کا ’’التباس‘‘ بن جاتا ہے اور احمد رشید کے حوالے سے صحیح بات یہ ہے کہ ملتبس زندگی کا حقیقی واقعہ جو اجنبی بن کر بیانیہ میں نمودار ہوا ہے، در اصل احمد رشید کو یہ تخلیقی نمود بہت عزیز و محبوب ہے اور اسی تخلیقی رویے سے ان کی شناخت بآسانی کی جا سکتی ہے۔

بیانیہ کا یہ تخلیقی رویہ، بیان کنندہ کی حاضری کے سبب، ظہور پذیر ہوا ہے۔ یہاں ایک شبہ کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ احمد رشید کے افسانوں میں راوی کا کردار کمزور ہے یا احمد رشید ہی راوی کا کردار بھی نبھا رہے ہیں۔ یہاں اس نکتے کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ شاعری ہو یا فکشن، بغیر راوی کے معاملہ نہیں بنتا، یعنی شعر اور قصہ کی ایک ضرورت کا نام راوی ہے ؛ صرف ایک مصرعہ:

’’دیکھا! اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا‘‘

اس دعویٰ کو پایۂ ثبوت تک پہچانے کے لیے کافی ہے۔ یاد رہے کہ جب فنکار اپنی تخلیق میں حد درجہ Involve ہو جاتا ہے تو ’’مضمر راوی‘‘ خودبخود پیدا ہو جاتا ہے اور بیانیہ کے اس مضمر راوی کی صورتیں عجیب و غریب ہیں۔ یہ متکلم، مشاہد، عامل، مخبر، ہمہ داں، فاصلاتی حتیٰ کہ غیر مطلوب راوی کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر بہروپ یا ہمزاد بن جاتا ہے۔ اس لحاظ سے احمد رشید کا مضمر راوی، بہت حد تک اپنے بیانیوں میں مندرجہ ذیل طریقوں سے نمودار ہوتا ہے۔ مضمر مصنف قاری سے قدرے فاصلے پر ہو سکتا ہے۔ یہ فاصلہ ذہنی ہو سکتا ہے۔

مضمر مصنف جو قاری کو ساتھ لے کر چلنا چاہ رہا ہو، کرداروں سے قدرے فاصلے پر ہو سکتا ہے۔ دوسرے فاصلے قدر کے کسی محور (Axis) پر ہو سکتا ہے یعنی بہت کامیاب مصنفین اپنے کردار کو ہر اعتبار سے بہت زیادہ فاصلے پر رکھتے ہیں۔ عام طور پر مصنف، راوی، مشاہد اور دوسرے کرداروں کے درمیان مختلف النوع روابط تشکیل پاتا ہے اور راوی اپنے قاری سے مختلف النوع وابستگی یا علیحدگی سے مختلف ہو سکتا ہے۔ یہ اختلاف شدید ذاتی تعلق سے لے کر معتدل یا قدرے تعجب خیز یا صرف ایک انوکھی علیحدگی تک ہو سکتا ہے۔

کسی بہتر اصطلاح کی غیر موجودگی میں، احمد رشید کے اس راوی کو معتبر راوی کہنا درست ہو گا۔ رشید کا یہ راوی متن کے معیار سے ہم آہنگ ہوتا ہے یا اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ (متن کی اقدار سے مراد مضمر مصنف کے معیار Norm ہیں) اور اس راوی کو غیر معتبر کہتے ہیں جب وہ اس معیار کا پابند نہ ہو۔ یہ صحیح ہے کہ احمد رشید کے یہ راوی جو در اصل ایک Outsider کی طرح ہے، اتفاقیہ طور پر طنز میں ملوث ہوتا ہے۔ وہ مضمر راوی کی شکل اختیار کر لیتا ہے، غالباً اسی لیے اور اس اعتبار سے کہ ان میں دھوکہ دینے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے یعنی وہ التباس کی گہری چادر اوڑھے ہوئے ہوتا ہے لیکن ایک گہرا یا پیچیدہ طنز کسی راوی کو غیر (Outsider) بنانے کے لیے کافی نہیں ہے اورنہ عام طور پر Outsider ہونا صرف غلط بیانی کا معاملہ ہوتا ہے حالاں کہ جان بوجھ کر یا شعوری طور پر دھوکہ دینے والے راوی کردار جدید زمانے کے فکشن نگاروں کا اہم ماخذ ہیں۔ جیسا کہ احمد رشید کے طنزیہ ڈسکورس کا آئرنی سے مملو فنٹاسی کا وطیرہ ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا افسانوی بیانیہ کو دنیا اور زندگی کو جاننے اور سمجھنے کا ایک بنیادی یا اہم وسیلہ فنٹاسی کو مان لیا جائے یا پھر بیانیہ کا کوئی نہ کوئی بیان کنندہ/راوی ہوتا ہے جو کہانی سے باہر موجود ہو سکتا ہے۔ لیکن کہانی کے اندر داخل ہو کر اور قلب ماہیت سے گزر کر، مضمر راوی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ہنر کاری کا یہ تماشہ، کوئی بازیچہ اطفال نہیں اور نہ آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہے مثلاً احمد رشید کی کہانی کا بیانیہ مدلول ہے، اور ان کے پلاٹ دال یا اسی طرح یہ نکتہ کہ احمد رشید کا مضمر راوی بیان کنندہ کی ہی ایک آزاد ہے، جو ان کے غیر (Outsider) کے کردار کا احاطہ کرتا ہے نیز پوری قوت کے ساتھ ثقافتی اور تہذیبی اقدار کا تحفظ بھی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے احمد رشید کے بیانیے، مضمر راوی کے توسط سے سماجی سروکاروں پر گہرے طنز کی علامتی مثال بن جاتے ہیں، مثلاً ’’فول-پھول، کرب کا سمندر، رینگتے کیڑے، تیسری شخصیت، مداری، وہ اور پرندہ، سراب، کھوکھلی کگر، اندھا قانون، سفید لباس، سیاہ راتیں وغیرہ وغیرہ افسانے۔

احمد رشید کا کوئی افسانہ لے لیجیے۔ ان کا مضمر راوی، شدید طنز کا بلیڈ لیے، سماجی ناسوروں کے آپریشن پر مستعد اور منہمک ہے۔ ساتھ ہی بیان کنندہ کے اس مضمر راوی کے انکشاف کے بعد، احمد رشید کے بیانیوں کے تنزیہی عمل کا تعارف بھی مکمل ہو جاتا ہے، جو در اصل سماجی ناسوروں سے زخم خوردہ ہے، سراپا احتجاج ہے یا سرایا دعا ہے یا اس کا دل گداختہ اس نفسی نفسی کے جہانِ مضطر میں فریاد رس کے کہ، یا رحمن و رحیم، تیری کریمی کا واسطہ اے مالک کون و مکاں! اس کالی کائنات کو مشرق تا مغرب پھر سے بقعہ نور سے بھر دے۔ اسی نور و رحمت کے ذکر کو دوبارہ بلند فرما اور خاک و خون سے آلود زمین کو، نور ہی نور (صلی اللہ علیہ و سلم) سے تزکیہ فرما دے، آمین۔

٭٭٭

OOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل