FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

 

سورج کا ساتواں گھوڑا

 

(نئے ڈھنگ کا مختصر ہندی ناول)

 

دھرم ویر بھارتی مترجم: عامر صدیقی

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

 

ای پب فائل

 

 

کنڈل فائل

 

پہلی دوپہر

نمک کی ادائیگی

 

یعنی مانک نے جمنا کا نمک کیسے ادا کیا

 

 

انہوں نے سب سے پہلی کہانی ایک دن گرمیوں کی دوپہر میں سنائی تھی، جب ہم لوگ لو کے خوف سے کمرا چاروں طرف سے بند کر کے، سر کے نیچے بھیگا تولیہ رکھے خاموشی سے لیٹے تھے۔ پرکاش اور اونکار تاش کے پتے بانٹ رہے تھے اور میں اپنی عادت کے مطابق کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک مانک نے مجھ سے کتاب چھین کر پھینک دی اور بزرگانہ انداز میں کہا، ’’یہ لڑکا بالکل نکما نکلے گا۔ میرے کمرے میں بیٹھ کر دوسروں کی کہانیاں پڑھتا ہے۔ بول کتنی کہانیاں سنے گا۔‘‘ سبھی اٹھ بیٹھے اور مانک ملّا سے کہانی سنانے کا اصرار کرنے لگے۔ آخر میں مانک ملّا نے ایک کہانی سنائی، جس میں ان کی کہانی کے مطابق اس کا تجزیہ یہ کیا تھا کہ پیار نامی احساس کوئی پراسرار، روحانی یا سیدھا سادا انفرادی احساس نہیں ہے بلکہ حقیقتاً ایک سیدھا سادہ سماجی احساس ہے، اس لئے سماجی نظام سے جڑا ہوتا ہے اور اس کی بنیاد معاشی اور طبقاتی اونچ نیچ پر قائم ہے۔

روایت کے مطابق پہلے انہوں نے کہانی کا عنوان بتایا، ’’نمک کی ادائیگی‘‘۔ اس عنوان پر ناول نگاری کے شہنشاہ پریم چند کے ’’نمک داروغہ‘‘ کے کافی اثرات معلوم ہوتے تھے، لیکن کہانی سیدھی سادی اور اصلی تھی۔ کہانی کچھ اس طرح سے تھی۔۔۔۔

مانک ملّا کے گھر کے ساتھ ایک پرانی کوٹھی تھی، جس کے پیچھے چھوٹا سا احاطہ تھا۔ احاطے میں ایک گائے رہتی تھی، اور کوٹھی میں ایک لڑکی۔ لڑکی کا نام جمنا تھا، گائے کا نام معلوم نہیں۔ گائے بوڑھی تھی، رنگ لال تھا، اور سینگ نوک دار۔ لڑکی کی عمر پندرہ سال کی تھی، رنگ گندمی اور لہجہ میٹھا، ہنس مکھ اور الھڑ۔ مانک، جن کی عمر صرف دس برس کی تھی، اسے جمنیاں کہہ کر بلایا کرتے تھے اور وہ بڑی ہونے کی وجہ سے جب کبھی مانک کو پکڑ پاتی تھی تو ان کے دونوں کان مروڑتی اور چٹکیاں کاٹ کر سارا بدن لال کر دیتی۔ مانک ملّا فرار کی کوئی راہ نہ پا کر چیختے تھے، معافی مانگتے اور بھاگ جاتے تھے۔

لیکن جمنا کے دو کام مانک ملّا کے سپرد تھے۔ الہ آباد سے نکلنے والے جتنے سستے قسم کے رومانی کہانیوں کے رسائل ہوتے تھے، وہ جمنا انہیں سے منگواتی تھی اور شہر کے کسی بھی سنیما گھر میں اگر نئی پکچر آتی تو اس کے گانوں کی کتاب بھی مانک کو خرید کر لانی پڑتی تھی۔ اس طرح جمنا کا گھریلو ’’کتب خانہ‘‘ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔

وقت گزرتے کتنی دیر لگتی ہے۔ کہانیاں پڑھتے پڑھتے اور سنیما کے گیت یاد کرتے کرتے جمنا بیس برس کی ہو گئی اور مانک پندرہ برس کے اور بھگوان کی مایا دیکھو کہ جمنا کا بیاہ ہی کہیں طے نہیں ہوا۔ ویسے بات چلی ضرور۔ قریب ہی رہنے والے مہیسر دلال کے لڑکے تنّا کے بارے میں سارا محلہ کہا کرتا تھا کہ جمنا کا بیاہ اسی سے ہو گا، کیونکہ تنّا اور جمنا میں بہت جمتی تھی، تنّا، جمنا کی برادری کا بھی تھا، حالانکہ کچھ نیچے درجے کا تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مہیسر دلال سے سارا محلہ ڈرتا تھا۔ مہیسر جتنا جھگڑالو، مغرور اور فحش گو تھا، تنّا اتنا ہی سیدھا، شائستہ اور نرم گو، سارا محلہ اس کی تعریفیں کیا کرتا تھا۔

لیکن جیسا پہلے کہا  جا چکا ہے کہ تنّا تھوڑے نچلے درجے کا تھا اور جمنا کا خاندان ساری برادری میں کھرے اور اونچے ہونے کیلئے مشہور تھا، اس لئے جمنا کی ماں کی رائے نہیں مانی گئی۔ چونکہ جمنا کے پِتا بینک میں بس عام سے کلرک بھر تھے اور تنخواہ سے کیا آتا جاتا تھا، تیج تہوار، مونڈن دیو کاج میں ہر سال جمع شدہ رقم خرچ کرنی پڑتی تھی، اس لئے جیسا ہر درمیانے طبقے میں ہوتا ہے، بہت جلد سارا جمع شدہ روپیہ خرچ ہو گیا اور شادی کے لئے کانی کوڑی نہیں بچی۔

اور بیچاری جمنا، تنّا سے سگائی ٹوٹ جانے کے بعد خوب خوب روئی۔ پھر آنسو پونچھے، پھر فلم کے نئے گیت یاد کئے اور اس طرح سے ہوتے ہوتے ایک دن بیس کی عمر کو بھی پار کر گئی۔ اور ادھر مانک کا یہ حال کہ جیسے جیسے جمنا کی عمر بڑھتی جائے، ویسے ویسے وہ کبھی دبلی تو کبھی موٹی ہوتی جائے اور ایسی کہ مانک کو بھلی بھی لگے اور بری بھی۔ لیکن اسے ایک بری عادت پڑ گئی تھی کہ چاہے مانک ملّا اسے چڑائے یا نہ چڑائے وہ انہیں کونے کھدروں میں پاتے ہی اس طرح دبوچتی تھی کہ مانک ملّا کا دم گھٹنے لگتا تھا اور اسی لیے مانک ملّا اس کی چھایا سے بھی کتراتے تھے۔

لیکن قسمت کی مار دیکھئے کہ اسی وقت محلے میں دھرم کی لہر چل پڑی اور تمام عورتیں جن کی لڑکیاں بیاہنے سے رہ گئی تھیں، جن کے شوہر ہاتھ سے نکلے جا رہے تھے، جن کے لڑکے لڑائی میں چلے گئے تھے، جن کے دیور بک گئے تھے، جن پر قرض ہو گیا تھا۔ سب نے بھگوان کی شرن لی اور کیرتن شروع ہو گئے اور کنٹھیاں لی جانے لگیں۔ مانک کی بھابھی نے بھی ہنومان چوترا والے برہمچاری سے کنٹھی لی اور قاعدے کے مطابق دونوں وقت بھوگ لگانے لگیں۔ اور صبح شام پہلی ٹکّی گاؤ ماتا کے نام سینکنے لگیں۔ گھر میں گائے تو  تھی نہیں اس لئے کوٹھی کی بوڑھی گائے کو وہ ٹکّی دونوں وقت کھلائی جاتی تھی۔ دوپہر کو تو مانک اسکول چلے جاتے تھے، دن کا وقت رہتا تھام اس لئے بھابھی خود چادر اوڑھ کر گائے کو روٹی کھلانے آتی تھیں پر رات کو مانک کو ہی جانا پڑتا تھا۔

گائے کے احاطے کے قریب جاتے ہوئے مانک ملّا کی روح کانپتی تھی۔ جمنا کا کان کھینچنا انہیں اچھا نہیں لگتا تھا (اور اچھا بھی لگتا تھا!) چنانچہ ڈر کے مارے رام کا نام لیتے ہوئے خوشی خوشی وہ گائے کے احاطے کی طرف جایا کرتے تھے۔

ایک دن ایسا ہوا کہ مانک ملّا کے یہاں مہمان آئے اور کھانے پینے میں کافی رات گزر گئی۔ مانک سو گئے تو ان کی بھابھی نے انہیں جگا کر ٹکّی دی اور کہا، ’’گائے کو دے آؤ۔‘‘ مانک نے کافی بہانے بازی کی، لیکن ان کی ایک نہ چلی۔ آخر کار آنکھیں ملتے ملتے احاطے کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گائے کے پاس بھوسے والی کوٹھری کے دروازے پر کوئی پرچھائیں، بالکل کفن جیسے سفید کپڑے پہنے کھڑی ہے۔ ان کا کلیجہ منہ کو آنے لگا، تاہم انہوں نے سن رکھا تھا کہ بھوت کے آگے آدمی کو ہمت باندھے رکھنا چاہئے اور اسے پیٹھ نہیں دکھلانی چاہئے، ورنہ اسی وقت آدمی کا دم نکل جاتا ہے۔

مانک ملّا سینہ تانے اور کانپتے ہوئے پیروں کو سنبھالے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور وہ عورت وہاں سے غائب ہو گئی۔ انہوں نے بار بار آنکھیں مل کر دیکھا، وہاں کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اطمینان کی سانس لی، گائے کو ٹکّی دی اور واپس چلے۔ اتنے میں انہیں لگا کہ کوئی ان کا نام لے کر پکار رہا ہے۔ مانک ملّا خوب جانتے تھے کہ بھوت محلے بھر کے لڑکوں کا نام جانتے ہیں، اس لئے انہوں نے رکنا محفوظ نہیں سمجھا۔ لیکن آواز قریب آتی گئی اور اچانک کسی نے پیچھے سے آ کر مانک ملّا کا کالر پکڑ لیا۔ مانک ملّا گلا پھاڑ کر چیخنے ہی والے تھے کہ کسی نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ اس لمس کو بخوبی پہچانتے تھے، جمنا!

لیکن جمنا نے کان نہیں مروڑے اور کہا، ’’چلو آؤ۔‘‘ مانک ملّا بے بس تھے۔ چپ چاپ چلے گئے اور بیٹھ گئے۔ اب مانک بھی چپ اور جمنا بھی خاموش۔ مانک، جمنا کو دیکھیں، جمنا، مانک کو دیکھے اور گائے ان دونوں کو دیکھے۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مانک نے گھبرا کر کہا، ’’ہمیں جانے دو جمنا۔ ‘‘

جمنا نے کہا، ’’بیٹھو، باتیں کرو مانک۔ دل بڑا گھبراتا ہے۔ ‘‘

مانک پھر بیٹھ گئے۔ اب بات کریں تو کیا کریں؟ ان کی کلاس میں ان دنوں جغرافیہ میں نہر سوئیز، تاریخ میں شہنشاہ جلال الدین اکبر، ہندی میں ’’سوانح عمریاں‘‘ اور انگریزی میں ’’ریڈ رائیڈنگ ہڈ‘‘ پڑھائی جا رہی تھی، پر جمنا سے اس کی باتیں کیا کریں! تھوڑی دیر بعد مانک بور کر بولے، ’’ہمیں جانے دو جمنا، نیند آ رہی ہے۔‘‘

’’ابھی کون سی رات گزر گئی ہے، بیٹھو۔‘‘ کان پکڑ کر جمنا بولی۔

مانک نے گھبرا کر کہا، ’’نیند نہیں لگ رہا ہے، بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

’’بھوک لگ رہی ہے! اچھا، جانا نہیں! میں ابھی آئی۔‘‘ اتنا کہہ جمنا فوراً پچھواڑے کے صحن میں سے ہو کر اندر چلی گئی۔ مانک کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آج جمنا اچانک اتنی مہربان کیوں ہو رہی ہے، ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اتنے میں جمنا لوٹ آئی اور آنچل کے نیچے سے دو چار پوئے نکالتے ہوئے بولی، ’’لو کھاؤ۔ آج تو ماں بھاگوت کی کتھا سننے گئی ہیں۔ ‘‘اور جمنا اسی طرح مانک کو اپنی طرف کھینچ کر پوئے کھلانے لگی۔

ایک ہی پوا کھانے کے بعد مانک ملّا اٹھنے لگے تو جمنا بولی، ’’اور کھاؤ۔ ‘‘تو مانک ملّا نے اس سے کہا کہ انہیں میٹھے پوئے اچھے نہیں لگتے، انہیں بیسن کے نمکین والے اچھے لگتے ہیں۔

’’اچھا کل تمہارے لئے بیسن کے نمکین بنا کر رکھوں گی۔ کل آؤ گے؟ کہانی تو سات روز تک ہو گی۔‘‘ مانک نے اطمینان کی سانس لی۔ اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوٹ کر آئے تو دیکھا کہ بھابھی سو رہی تھیں۔ مانک ملّا خاموشی سے گاؤ ماتا کا دھیان کرتے ہوئے سو گئے۔

دوسرے دن مانک ملّا نے جانے کی کوشش کی، کیونکہ انہیں جانے میں ڈر بھی لگتا تھا اور وہ جانا بھی چاہتے تھے۔ اور نہ جانے کون سی چیز تھی جو اندر ہی اندر انہیں کہتی تھی، ’’مانک! یہ بہت بری بات ہے۔ جمنا اچھی لڑکی نہیں۔‘‘ اور ان کے ہی اندر کوئی دوسری چیز تھی جو کہتی تھی، ’’چلو مانک! تمہارا کیا بگڑتا ہے۔ چلو دیکھیں تو کیا ہے؟‘‘ اور ان دونوں سے بڑی چیز تھی، نمکین بیسن کا پوا، جس کیلئے مورکھ مانک ملّا اپنا لوک پرلوک دونوں خراب کرنے کیلئے تیار تھے۔

اس دن مانک ملّا گئے تو جمنا نے دھانی رنگ والی وائل کی ساڑی پہنی تھی، ارگنڈی کا مہین بلاؤز پہنا تھا، دو چوٹیاں کی تھیں، پیشانی پر چمکتی ہوئی بندیا لگائی تھی۔ مانک اکثر دیکھتے تھے کہ جب لڑکیاں اسکول جاتی تھیں تو ایسے ہی سج دھج کر جاتی تھیں، گھر میں تو میلی دھوتی پہن کر فرش پر بیٹھ کر باتیں کیا کرتی تھیں، اس لئے انہیں بڑا تعجب ہوا۔ بولے، ’’جمنا، کیا ابھی اسکول سے لوٹ رہی ہو؟ ‘‘

’’اسکول؟ اسکول جانا تو ماں نے چار سال سے چھڑا دیا۔ گھر میں بیٹھی بیٹھی یا تو کہانیاں پڑھتی ہوں یا پھر سوتی ہوں۔‘‘ مانک ملّا کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جب دن بھر سونا ہی ہے تو اس سج دھج کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ مانک ملّا حیرت سے منہ کھولے دیکھتے رہے۔ اس پر جمنا بولی، ’’آنکھ پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہے ہو! اصلی جرمنی کی ارگنڈی ہے۔ چچا کلکتے سے لائے تھے، بیاہ کیلئے رکھی تھی۔ یہ دیکھو چھوٹے چھوٹے پھول بھی بنے ہیں۔‘‘

مانک ملّا کو بہت تعجب ہوا، اس ارگنڈی کو چھو کر، جو کلکتہ سے آئی تھی، اصلی جرمنی کی تھی اور جس پر چھوٹے چھوٹے پھول بنے تھے۔

مانک ملّا جب گائے کو ٹکّی کھلا چکے تو جمنا نے بیسن کے نمکین پوئے نکالے۔ اور ساتھ ہی کہا، ’’پہلے بیٹھ جاؤ تب کھلائیں گے۔‘‘

مانک خاموشی سے کھانے لگے۔ جمنا نے چھوٹی سی بیٹری جلا دی، مگر مانک مارے خوف کے کانپ رہے تھے۔ انہیں ہر لمحے یہی لگتا تھا کہ تنکوں میں سے ابھی سانپ نکلا، ابھی بچھو نکلا، ابھی کنکھجورا نکلا۔ رندھے گلے سے بولے، ’’ہم کھائیں گے نہیں۔ ہمیں جانے دو۔ ‘‘

جمنا بولی، ’’کیتھے کی چٹنی بھی ہے۔ ‘‘اب مانک ملّا مجبور ہو گئے۔ کیتھا انہیں خصوصیت سے پسند تھا۔ آخر کار سانپ بچھو کے خوف کو بھگا کر کسی طرح وہ بیٹھ گئے۔ پھر وہی منظر کہ جمنا کو مانک خاموشی سے دیکھیں اور مانک کو جمنا اور گائے ان دونوں کو۔ جمنا بولی، ’’کچھ بات کرو، مانک۔‘‘ جمنا چاہتی تھی کہ مانک کچھ اس کے کپڑے کے بارے میں باتیں کرے، جب مانک نہیں سمجھے تو وہ خود بولی، ’’مانک، یہ کپڑا اچھا ہے؟‘‘

’’بہت اچھا ہے جمنا۔‘‘ مانک بولے۔

’’دیکھو، تنّا ہے نہ، وہی اپنا تنّا۔ اسی کے ساتھ جب بات چیت چل رہی تھی، تبھی چچا کلکتے سے یہ تمام کپڑے لائے تھے۔ پانچ سو روپے کے کپڑے تھے۔ پنچم بنیا سے ایک سیٹ گروی رکھ کے کپڑے لائے تھے، پھر بات ٹوٹ گئی۔ ابھی تو میں اسی کے یہاں گئی تھی۔ اکیلے دل گھبراتا ہے۔ لیکن اب تو تنّا بات بھی نہیں کرتا۔ اسی کے لیے کپڑے بھی بدلے تھے۔‘‘

’’بات کیوں ٹوٹ گئی جمنا؟‘‘

’’ارے تنّا بہت ڈرپوک ہے۔ میں نے تو ماں کو راضی کر لیا تھا پر تنّا کو مہیسر دلال نے بہت ڈانٹا۔ اس کے بعد سے تنّا ڈر گیا اور اب تو تنّا اچھے طریقے سے بولتا بھی نہیں۔‘‘ مانک نے کچھ جواب نہیں دیا تو پھر جمنا بولی، ’’اصل میں تنّا برا نہیں ہے پر مہیسر بہت کمینہ آدمی ہے اور جب سے تنّا کی ماں مر گئی اس کے بعد سے تنّا بہت دکھی رہتا ہے۔‘‘ پھر اچانک جمنا نے بات بدلتے ہوئے کہا، ’’لیکن پھر تنّا نے مجھے آس میں کیوں رکھا؟ مانک، اب نہ مجھے کھانا اچھا لگتا ہے نہ پینا۔ اسکول جانا چھوٹ گیا۔ دن بھر روتے روتے گذر جاتا ہے۔ ہاں، مانک۔‘‘ اور اس کے بعد وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔

مانک بولے ’’وہ بہت ڈرپوک تھا۔ اس نے بڑی غلطی کی۔‘‘

تو جمنا بولی، ’’دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے۔‘‘ اور مثال دیتے ہوئے اس نے کئی کہانیاں سنائی جو اس نے پڑھی تھیں یا پکچر پر دیکھی تھیں۔

مانک اٹھے تو جمنا نے پوچھا کہ ’’روز آؤ گے نا۔‘‘ مانک نے آنا کانی کی تو جمنا بولی، ’’دیکھو مانک، تم نے نمک کھایا ہے اور نمک کھا کر جو ادا نہیں کرتا اس پر بہت گناہ پڑتا ہے، کیونکہ اوپر بھگوان دیکھتا ہے اور سب کھاتے میں درج کرتا ہے۔‘‘ مانک مجبور ہو گئے اور انہیں روز جانا پڑا اور جمنا انہیں بٹھا کر روز تنّا کی باتیں کرتی رہی۔

’’پھر کیا ہوا۔‘‘ جب ہم لوگوں نے پوچھا تو مانک بولے، ’’ایک دن وہ تنّا کی باتیں کرتے کرتے میرے کندھے پر سر رکھ کر خوب روئی، خوب روئی اور چپ ہوئی تو آنسو پونچھے اور اچانک مجھ سے ایسی باتیں کرنے لگی، جیسی کہانیوں میں لکھی ہوتی ہیں۔ مجھے بڑا برا لگا اور سوچا اب کبھی ادھر نہیں جاؤں گا، پر میں نے نمک کھایا تھا اور اوپر بھگوان سب دیکھتا ہے۔ ہاں، یہ ضرور تھا کہ جمنا کے رونے پر میں چاہتا تھا کہ اسے اپنے اسکول کی باتیں بتاؤں، اپنی کتابوں کی باتیں بتا کر اس کا دل بہلاؤں۔ پر وہ آنسو پونچھ کر کہانیوں جیسی باتیں کرنے لگی۔ یہاں تک کہ ایک دن میرے منہ سے بھی ویسی ہی باتیں نکل گئیں۔‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ہم لوگوں نے پوچھا۔

’’عجب بات ہوئی۔ اصل میں ان لوگوں کو سمجھنا بڑا مشکل ہے۔‘‘   جمنا خاموشی سے میری طرف دیکھتی رہی اور پھر رونے لگی۔ بولی، ’’میں بہت خراب لڑکی ہوں۔ میرا دل گھبراتا تھا اسی لئے تم سے بات کرنے آتی ہوں، پر میں تمہارا نقصان نہیں چاہتی۔ اب میں نہیں آیا کروں گی۔‘‘ لیکن دوسرے دن جب میں گیا تو دیکھا، جمنا پھر موجود ہے۔‘‘

پھر مانک ملّا کو روز جانا پڑا۔ ایک دن، دو دن، تین دن، چار دن، پانچ دن۔۔۔ یہاں تک کہ ہم لوگوں نے بور ہو کر پوچھا کہ آخر میں کیا ہوا تو مانک ملّا بولے، ’’کچھ نہیں، ہوتا کیا؟ جب میں جاتا تو مجھے لگتا کوئی کہہ رہا ہے مانک ادھر مت جاؤ یہ بہت خراب راستہ ہے، پر مجھے پتہ تھا کہ میرا کچھ بس نہیں ہے۔ اور آہستہ آہستہ میں نے دیکھا کہ نہ میں وہاں جائے بغیر رہ سکتا تھا نہ جمنا آئے بغیر۔‘‘

’’ہاں، یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کا انجام کیا ہوا؟‘‘

’’انجام کیا ہوا؟‘‘ مانک ملّا نے طنزیہ لہجے میں کہا، ’’تب تو تم لوگ خوب نام کماؤ گے۔ ارے کیا پریم کہانیوں کے دو چار انجام ہوتے ہیں۔ ایک ہی تو آخر ہوتا ہے۔ ہیروئن کی شادی ہو گئی، مانک منہ تکتے رہ گئے۔ اب اسی کو چاہے جتنے طریقوں سے کہہ لو۔‘‘

بہرحال اتنی دلچسپ کہانی کا اتنا عام سا خاتمہ ہم لوگوں کو پسند نہیں آیا۔

پھر بھی پرکاش نے پوچھا، ’’لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ محبت نامی احساس کی بنیاد اقتصادی تعلقات پر ہے اور طبقاتی اونچ نیچ کا نظام اسے متاثر کرتا ہے۔‘‘

’’کیوں؟ یہ تو بالکل واضح ہے۔‘‘ مانک ملّا نے کہا، ’’اگر ہر گھر میں گائے ہوتی تو یہ صورت حال کیسے پیدا ہوتی؟ جائیداد کی نا موزونیت ہی اس محبت کا اصل سبب ہے۔ نہ ان کے گھر گائے ہوتی، نہ میں انہیں دیکھنے جاتا، نہ نمک کھاتا، نہ نمک ادا کرنا پڑتا۔‘‘

’’لیکن پھر اس سے سماجی فائدے کیلئے کیا نتیجہ نکلا؟‘‘ ہم لوگوں نے پوچھا۔

’’بغیر نتیجے کے میں کچھ نہیں کہتا دوستو! اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ہر گھر میں ایک گائے ہونی چاہئے، جس سے دیس کا لائیو اسٹاک بھی بڑھے، اولاد کی صحت بھی بنے۔ پڑوسیوں کو بھی فائدہ ملے اور ہندوستان میں دوبارہ دودھ، گھی، مکھن کی ندیاں بہیں۔‘‘

اگرچہ ہم لوگ اقتصادی نظریے والے اصول سے اتفاق نہیں رکھتے تھے، تاہم یہ نتیجہ ہم سبھوں کو پسند آیا اور ہم لوگوں نے وعدہ کیا کہ بڑے ہونے پر ایک ایک گائے ضرور پالیں گے۔

اس طرح مانک ملّا کی پہلی نان فکشن پریم کہانی ختم ہوئی۔

 

 

متفرقات

 

اس کہانی نے اصل میں ہم لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ گرمی کے دن تھے۔ محلے کے جس حصے میں ہم لوگ رہتے ادھر چھتیں بہت تپتی تھیں، اس لئے ہم سب لوگ حکیم جی کے چبوترے پر سویا کرتے تھے۔

رات کو جب ہم لوگ لیٹے تو نیند نہیں آ رہی تھی اور رہ رہ کر جمنا کی کہانی ہم لوگوں کے ذہنوں میں گھوم جاتی تھی اور کبھی کلکتے کی ارگنڈی اور کبھی بیسن کے پوئے یاد کر کے ہم لوگ ہنس رہے تھے۔

اتنے میں شیام بھی ہاتھ میں ایک بنسکھٹ اور بغل میں دری تکیہ دبائے ہوئے آیا۔ وہ دوپہر کی محفل میں شامل نہیں تھا، اس لئے ہم لوگوں کو ہنستے دیکھ کر اسے بیتابی ہوئی اور اس نے پوچھا کہ مانک ملّا نے کون سی کہانی ہم لوگوں کو سنائی ہے۔ جب ہم لوگوں نے جمنا کی کہانی اسے سنائی تو دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ بجائے ہنسنے کے وہ اداس ہو گیا۔ ہم لوگوں نے ایک ساتھ پوچھا کہ ’’کہو شیام، اس کہانی کو سن کر دکھی کیوں ہو گئے؟ کیا تم جمنا کو جانتے تھے؟‘‘ تو شیام روندھی ہوئی آواز میں بولا، ’’نہیں، میں جمنا کو نہیں جانتا، لیکن آج نوے فیصد لڑکیوں کی حالت زار جمنا جیسی ہے۔ وہ بیچاری کیا کریں! تنّا سے اس کی شادی ہو نہیں پائی، اس کے والدین جہیز جٹا نہیں پائے، تعلیم اور من بہلاؤ کے نام پر اسے ملیں ’’میٹھی کہانیاں‘‘، ’’سچی کہانیاں‘‘، ’’رس بھری کہانیاں‘‘ تو بیچاری اور کر ہی کیا سکتی تھی۔ یہ تو رونے کی بات ہے، اس میں ہنسنے کی کیا بات! دوسروں پر ہنسنا نہیں چاہئے۔ ہر گھر میں مٹی کے چولہے ہوتے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

شیام کی بات سن کر ہم لوگوں کا جی بھر آیا اور آہستہ آہستہ ہم لوگ سو گئے۔

***

 

 

 

 

دوسری دوپہر

 

گھوڑے کی نال

 

یعنی کیسے گھوڑے کی نال خوش قسمتی کی علامت ثابت ہوئی؟

 

 

دوسرے دن کھا پی کر ہم لوگ پھر اس بیٹھک میں جمع ہوئے اور ہم لوگوں کے ساتھ شیام بھی آیا۔ جب ہم لوگوں نے مانک ملّا کو بتایا کہ شیام جمنا کی کہانی سن کر رونے لگا تھا تو شیام جھینپ کر بولا، ’’میں کہاں رو رہا تھا؟‘‘

مانک ملّا ہنسے اور بولے، ’’ہماری زندگی کی ذرا سی پرت اکھاڑ کر دیکھو تو ہر طرف اتنی گندگی اور کیچڑ پوشیدہ ہے کہ حقیقت میں اس پر رونا آتا ہے۔ لیکن پیارے دوستوں، میں تو اتنا رو چکا ہوں کہ اب آنکھ میں آنسو آتے ہی نہیں، اس لئے لاچار ہو کر ہنسنا پڑتا ہے۔ ایک بات اور ہے کہ جو لوگ جذباتی ہوتے ہیں اور وہ بس روتے ہیں، اور رو دھو کر رہ جاتے ہیں، پر جو لوگ ہنسنا سیکھ لیتے ہیں، وہ کبھی کبھی ہنستے ہنستے اس زندگی کو تبدیل بھی کر ڈالتے ہیں۔‘‘

پھر خربوزہ کاٹتے ہوئے بولے، ’’ہٹاؤ جی ان باتوں کو۔ لو آج جونپوری خربوزے ہیں۔ ان کی مہک تو دیکھو۔ گلاب کو مات ہے۔ کیا ہے شیام؟ کیوں منہ لٹکائے بیٹھے ہو؟ اجی منہ لٹکانے سے کیا ہوتا ہے! میں اب تمہیں بتاؤں گا کہ جمنا کی شادی کیسے ہوئی؟‘‘

ہم لوگ تو یہی سننا ہی چاہتے تھے اس لئے ایک آواز میں بول اٹھے، ’’ہاں، آج جمنا کی شادی کی کہانی رہے۔‘‘

پر مانک ملّا بولے، ’’نہیں، پہلے خربوزے کے چھلکے باہر پھینک آؤ۔‘‘

جب ہم لوگوں نے کمرا صاف کر دیا تو مانک ملّا نے سب کو آرام سے بیٹھ جانے کا حکم دیا، طاق پر سے گھوڑے کی پرانی نال اٹھا لائے اور اسے ہاتھ میں لیا اور اوپر اٹھا کر بولے، ’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’گھوڑے کی نال۔ ‘‘ہم لوگوں نے ایک آواز میں جواب دیا۔

’’ٹھیک۔‘‘ مانک ملّا نے جادوگر کی طرح نال کو حیرت انگیز تیزی سے انگلی پر نچاتے ہوئے کہا، ’’یہ نال جمنا کی ازدواجی زندگی کا ایک اہم یادگاری نشان ہے۔ تم لوگ پوچھو گے نہیں کہ کیسے؟ یہ سب میں پوری تفصیل میں بتاتا ہوں۔ ‘‘

اور مانک ملّا نے تفصیل سے جو بتایا وہ اختصار میں درجِ ذیل ہے۔۔۔

جب بہت دنوں تک جمنا کی شادی نہیں طے ہو پائی اور مایوس ہو کر اس کی ماں پوجا پاٹھ کرنے لگیں اور باپ بینک میں اوور ٹائم کرنے لگے تو ایک دن اچانک ان کے گھر، دور پرے کی ایک رشتہ دار رامو بی بی آئیں اور انہوں نے بیج چھیلتے ہوئے کہا، ’’ہرے رام رام! بٹیا کی اٹھان تو دیکھو۔ جیسن نام تیسن کرنی۔ بھادوں کی جمنا اس پھاٹی پڑت ہے۔ ‘‘ اور پھر جھک کر ماں کے کان میں دھیمے سے بولیں، ’’اے کر بیاہ ویاہ کہوں ناہِیں طے کیو؟‘‘

جب ماں نے بتایا کہ برادری والے جہیز بہت مانگ رہے ہیں، اور کہیں ذات پرجات میں دے دینے سے تو اچھا ہے کہ ماں بیٹی گلے سے رسی باندھ کر کنویں میں گر پڑیں تو رامو بی بی فوراً چمک کر بولیں، ’’اے اے! کیسی بات جبان سے نکالت ہو جمنا کی اماں! کہت کچھو ناہیں لگت! اور کنویں میں گریں تمہارے دشمن، کنویں میں گرے اڑوس پڑوس والے، کنویں میں گرے تنّا اور مہیسر دلال، دوسرے کا سکھ دیکھ کے جن کے دل پھاٹت ہیں۔ ‘‘ بہرحال ہوا یہ کہ رامو بی بی نے فوراً اپنی کرتی میں سے اپنے بھتیجے کی کنڈلی نکال کر دی اور کہا، ’’بکھت پڑے پر آدمی ای آدمی کے کام آوت ہے۔ جو ہارے گاڑھے کَبو کام نہ آوے۔ اُو آدمی کے روپ میں جناور ہے۔ ابھی ای ہمارا بھتیجا ہے۔ گھرکا اکیلا، نہ ساس نہ سسر، نہ نند نہ جٹھانی، کونو کِچائن ناہیں ہے گھر میں۔ نانا اوکے نام جاگیر لکھ گئے ہیں۔ گھر میں گھوڑا ہے، تانگہ ہے۔ پرانا نامی خاندان ہے۔ لڑکی رانی مہارانی اس بل سہے۔‘‘

جب شام کو جمنا کی ماں نے یہ خبر باپ کو دی تو اس نے سامنے سے تھالی کھسکا دی اور کہا، ’’اس کی دو بیویاں مر چکی ہیں۔ رنڈوا ہے لڑکا۔ مجھ سے چار پانچ برس چھوٹا ہو گا۔‘‘

’’تھالی کا ہے کھسکا دی؟ نہ کھائیں میری بلا سے۔ کیوں نہیں ڈھونڈ کے لاتے؟ جب لڑکی کی عمر میرے برابر ہو رہی ہے تو لڑکے کہاں سے گیارہ سال کا مل جائے گا۔ ‘‘ اس بات کو لے کر شوہر اور بیوی میں بہت کہا سنی ہوئی۔ آخر میں جب بیوی پان بنا کر لے گئی اور شوہر کو سمجھا کر کہا، ’’لڑکا رنڈوا ہے تو کیا ہوا۔ مرد اور دیوار، جتنا پانی کھاتے ہیں اتنا پختہ ہوتے ہیں۔ ‘‘

جب جمنا کے دروازے بارات چڑھی تو مانک ملّا نے دیکھا اور انہوں نے اس پختہ دیوار کی جو تفصیل بیان کی، اس سے ہم لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے۔ جمنا نے اسے دیکھا تو بہت روئی، زیور چڑھا تو بہت خوش ہوئی، چلنے لگی تو یہ عالم تھا کہ آنکھوں سے آنسو نہیں تھمتے تھے اور دل میں امنگیں نہیں تھمتی تھیں۔

جب جمنا لوٹ کر میکے آئی تو تمام سکھیوں کے یہاں گئی۔ انگ انگ پر زیور لدا تھا، رواں رواں باغ باغ تھا اور شوہر کی تعریف کرتے اس کی زبان نہیں تھکتی تھی۔ ’’اے ری کمّو، وہ تو اتنے سیدھے ہیں کہ ذرا سی تین پانچ نہیں جانتے۔ اے، جیسے چھوٹے سے بچے ہوں۔ پہلی دونوں کے میکے والے ساری جائداد لوٹ کر لے گئے، نہیں تو دولت پھٹے پڑتی تھی۔ میں نے کہا کہ اب تمہارے سالے سالی آویں گے تو باہر ہی سے رخصت کروں گی، تم دیکھتے رہنا۔ تو بولے، ’’تم گھر کی مالکن ہو۔ صبح شام دال روٹی دے دو بس، مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘ ‘‘چوبیس گھنٹے منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ذرا سی کہیں گئی نہیں کہ ارے سنتی ہو، او جی سنتی ہو، اجی کہاں گئیں! میری تو ناک میں دم ہے کمّو! محلے پڑوس والے دیکھ دیکھ کر جلتے ہیں۔ میں نے کہا، جتنا جلو گے اتنا جلاؤں گی۔ میں بھی تب دروازہ کھولتی ہوں، جب دھوپ سر پر چڑھ آتی ہے اور خیال اتنا رکھتے ہیں کہ میں آئی تو ڈھائی سو روپے زبردستی ٹرنک میں رکھ دیئے۔ کہا، ہماری قسم ہے جو اسے لے نہ جاؤ۔‘‘

لیکن جمنا کو جلد ہی سسرال لوٹ جانا پڑا، کیونکہ ایک دن اس کے باپ بہت پریشانی کی حالت میں رات کو آٹھ بجے بینک سے واپس آئے اور بتایا کہ حساب میں ایک سو ستائیس روپیہ تیرہ آنے کی کمی پڑ گئی ہے، اگر کل صبح جاتے ہی انہوں نے جمع نہ کرا دیا تو حراست میں لے لئے جائیں گے۔ یہ سنتے ہی گھر میں کہرام مچ گیا اور جمنا نے جھٹ ٹرنک سے نوٹ کی گڈی نکال کر چھپر میں ٹھونس دی اور جب ماں نے کہا، ’’بیٹی ادھار دے دو۔ ‘‘تو چابی ماں کے ہاتھ میں دے کر بولی، ’’دیکھ لو نہ، ٹرنک میں دو چار اکنیاں پڑی ہوں گی۔ ‘‘لیکن جمنا نے سوچا آج بلا ٹل گئی تو ٹل گئی، آخر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اتنا تو پہلے لٹ گیا ہے، اب اگر جمنا بھی ماں باپ پر لٹا دے تو اپنے بال بچوں کے لئے کیا بچائے گی؟ ارے ماں باپ کتنے دنوں کے ہیں؟ اسے سہارا تو اس کے بچے ہی دیں گے نا!

یہاں پر مانک ملّا کہانی سناتے سناتے رک گئے اور ہم لوگوں کی طرف دیکھ کر بولے، ’’پیارے دوستو! ہمیشہ یاد رکھو کہ عورت سب سے پہلے ماں ہوتی ہے تب کچھ اور! اس کا جنم ہی اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ماں بنے۔ نسل آگے بڑھاوے۔ یہی اس کی عظمت ہے۔ تم نے دیکھا کہ جمنا کے من میں پہلے اپنے بچوں کا خیال آیا۔ ‘‘

مختصر یہ کہ جمنا اپنے ممکنہ بال بچوں کا خیال کر کے اپنی سسرال چلی گئی اور خوش و خرم رہنے لگی۔ سچ پوچھو تو یہیں جمنا کی کہانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔

’’لیکن آپ نے تو گھوڑے کی نال دکھائی تھی۔ اس کا تو ذکر آیا ہی نہیں؟‘‘

’’اوہ! میں نے سوچا کہ دیکھوں تم لوگ کتنے دھیان سے سن رہے ہو۔‘‘ اور پھر انہوں نے اس نال کا قصہ بھی بتایا۔۔۔۔

اصل میں جمنا کے رنڈوے شوہر عرف پختہ دیوار، میں اور جمنا میں اتنا ہی فرق تھا، جتنا پلستر اکھڑی ہوئی پرانی دیوار اور لپے پتے تلسی کے چبوترے میں۔ ادھر ادھر کے لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرتے تھے پر جمنا دل و جان سے شوہر قربان تھی۔ شوہر بھی جہاں اس کے گہنے کپڑے کا دھیان رکھتے تھے، وہیں اسے بھجنامرت، گنگا ماہاتمیہ، گٹکا رامائن وغیرہ جیسے گرنتھ رتن لا کر دیا کرتے تھے۔ اور وہ بھی اس میں ’’اُتّم کے اس بس من ماہِیں‘‘ وغیرہ پڑھ کر فائدہ اٹھایا کرتی تھی۔ ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ دھرم کا بیج اس کے دل میں جڑ پکڑ گیا اور بھجن کیرتن، کتھاست سنگ میں اس کا من لگ گیا اور ایسا لگا کہ صبح شام، دوپہر رات وہ دیوانی گھومتی رہے۔ روز اس کے یہاں سادھو سنتوں کا کھانا ہوتا رہے اور سادھو سنت بھی ایسے تپسیا والے اور روپ وان کہ دماغ سے روشنی پھوٹتی تھی۔

ویسے اس کی بھکتی بہت بے غرض تھی، مگر جب سادھو سنت اسے آشیرواد دیں کہ ’’سنتانوتی بھو‘‘ تو وہ اداس ہو جایا کرتی۔ اس کے شوہر اسے بہت سمجھایا کرتے تھے، ’’اجی یہ تو بھگوان کی مایا ہے اس میں اداس کیوں ہوتی ہو؟ ‘‘ لیکن اولاد کی فکر انہیں بھی تھی، کیونکہ اتنی بڑی جاگیر کے زمیندار کا وارث کوئی نہیں تھا۔ آخر میں ایک دن وہ اور جمنا دونوں ایک جیوتشی کی یہاں گئے، جس نے جمنا کو بتایا کہ اسے کارتک مہینے کی ہر صبح گنگا نہا کر چنڈی دیوی کو پیلے پھول اور برہمنوں کو چنا، جو اور سونے کا دان کرنا چاہئے۔

جمنا اس رسم کے لئے فوری طور پر تیار ہو گئی۔ لیکن اتنی صبح کس کے ساتھ جائے! جمنا نے شوہر (زمیندار صاحب) سے کہا کہ وہ ساتھ چلا کریں، مگر وہ ٹھہرے بوڑھے آدمی، صبح ذرا سی سرد ہوا لگتے ہی انہیں کھانسی کا دورہ آ جاتا تھا۔ آخر میں یہ طے ہوا کہ رامدھن تانگے والا شام کو جلدی چھٹی لیا کرے گا اور صبح چار بجے آ کرتا نگہ جوت دیا کرے گا۔

جمنا طے شدہ قاعدوں کے مطابق روز نہانے جانے لگی۔ کارتک مہینے میں کافی سردی پڑنے لگتی ہے اور گھاٹ سے مندر تک اسے بس ایک پتلی ریشمی دھوتی پہن کر پھول چڑھانے جانا پڑتا تھا۔ وہ تھر  تھر کانپتی تھی۔ ایک دن مارے سردی کے اس کے ہاتھ پیر سُن پڑ گئے۔ اور وہ وہیں ٹھنڈی ریت پر بیٹھ گئی اور یہ کہا کہ رامدھن اگر اسے اٹھا کر تانگے پر نہ بیٹھا دیتا تو وہ وہیں بیٹھی بیٹھی سردی سے جم جاتی۔

آخر میں رامدھن سے نہ دیکھا گیا۔ اس نے ایک دن کہا، ’’بہو جی، آپ کا ہے جان دییہ پر اُتارُو ہو۔ اَ یسن تپسیا تو گورا مائی یو نیں کرن ہوئیں۔ بڑے بڑے جوتسی کا کہا کر لیو اب ایک غریب کا بھی کہا کے لیو۔ ‘‘جمنا کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جس گھوڑے کی پیشانی پر سفید تلک ہو، اس کے اگلے بائیں پاؤں کی گھسی ہوئی نال، چاند گرہن کے وقت اپنے ہاتھ سے نکال کر اس کی انگوٹھی بنوا کر پہن لے توسب تمنائیں پوری ہو جاتی ہیں۔

لیکن جمنا کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہوا، کیونکہ پتہ نہیں چاند گرہن کب پڑے۔ رامدھن نے بتایا کہ چاند گرہن دو تین دن بعد ہی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ نال ابھی نیا لگوایا ہے، وہ تین دن کے اندر کیسے گھسے گا اور نیا کچھ اثر نہیں رکھتا۔

’’تو پھر کیا ہو، رامدھن؟ تم ہی کوئی حل بتاؤ۔ ‘‘

’’مالکن، ایک ہی حل ہے۔‘‘

’’کیا؟ ‘‘

’’تانگہ روز کم از کم بارہ میل چلے۔ لیکن مالک کہیں جاتے نہیں۔ اکیلے مجھے تانگہ لے نہیں جانے دیں گے۔ آپ چلیں تو ٹھیک رہے۔‘‘

’’لیکن ہم بارہ میل کہاں جائیں گے؟‘‘

’’کیوں نہیں سرکار! آپ صبح ذرا اور جلدی دو ڈھائی بجے نکل جائیں! گنگا پار پکی سڑک ہے، بارہ میل گھما کر ٹھیک وقت پر حاضر کر دیا کروں گا۔ تین دن کی ہی تو بات ہے۔‘‘

جمنا مان گئی اور تین دن تک روز تانگہ گنگا پار چلا جایا کرتا تھا۔ رامدھن کا اندازہ ٹھیک نکلا اور تیسرے دن چاند گرہن کے وقت نال اتروا کر انگوٹھی بنوائی گئی اور انگوٹھی کی کرامت دیکھئے کہ زمیندار صاحب کے یہاں نوبت بجنے لگی اور نرس نے پورے ایک سو روپے کی بخشش لی۔

زمیندار بیچارے عمر دراز ہو چکے تھے اور انہیں بہت تکلیفیں بھی تھی، وارث بھی ہو چکا تھا، اس لئے بھگوان نے ان کو اپنے دربار میں بلا دیا۔ جمنا شوہر کے فراق میں دھاڑیں مار مار کر روئی، چوڑی کنگن جلا ڈالے، کھانا پینا چھوڑ دیا۔ آخر میں پڑوسیوں نے سمجھایا کہ چھوٹا بچہ ہے، اس کا منہ دیکھنا چاہئے۔ جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ یہ تو مقدر ہے۔ اس پر کس کا بس چلتا ہے۔۔ پڑوسیوں کے بہت سمجھانے پر جمنا نے آنسو پونچھے۔ گھر بار سنبھالا۔ اتنی بڑی کوٹھی تھی، اکیلے رہنا ایک بیوہ عورت کیلئے غیر مناسب تھا، اس لئے اس نے رامدھن کو ایک کوٹھری دی اور پاکیزگی سے زندگی بسر کرنے لگی۔

جمنا کی کہانی ختم ہو چکی تھی۔ لیکن ہم لوگوں کی پریشانی یہ تھی کہ مانک ملّا کو یہ گھسی نال کہاں سے ملی، اس کی تو انگوٹھی بن چکی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک دن کہیں ریل کے سفر میں مانک ملّا کو رامدھن ملّا۔ سلک کا کرتا، پانوں کا ڈبہ، بڑے ٹھاٹ تھے اس کے۔ مانک ملّا کو دیکھتے ہی اس نے اپنے بھاگ جاگنے کی ساری کہانی سنائی اور کہا کہ واقعی گھوڑے کی نال میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ اور پھر اس نے ایک نال مانک ملّا کے پاس بھیج دی تھی، اگرچہ انہوں نے اس کی انگوٹھی نہیں بنوائی۔ بلکہ اسے حفاظت سے رکھ لیا۔

کہانی سنا کر مانک ملّا، شیام کی طرف دیکھ کر بولے، ’’دیکھا شیام، بھگوان جو کچھ کرتا ہے بھلے کیلئے کرتا ہے۔ آخر جمنا کو کتنا سکھ ملّا۔ آپ بیکار میں دکھی ہو رہے تھے؟ کیوں؟‘‘

شیام نے خوشی خوشی قبول کیا کہ وہ بیکار میں دکھی ہو رہا تھا۔ آخر میں مانک ملّا بولے، ’’لیکن اب بتاؤ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟‘‘

ہم لوگوں میں سے جب کوئی نہیں بتا سکا تو انہوں نے بتایا، ’’اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ دنیا کا کوئی بھی کام برا نہیں۔ کسی بھی کام کو نیچی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے پھر چاہے وہ تانگہ چلانا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

ہم سبھوں کو اس کہانی کا یہ انجام بہت اچھا لگا اور ہم سب نے حلف اٹھا لیا کہ کبھی کسی قسم کے ایماندارانہ کام کو نیچی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے، پھر چاہے وہ کچھ بھی کیوں نہ ہو۔

اس طرح مانک ملّا کی دوسری نان فکشن کہانی ختم ہوئی۔

 

 

متفرقات

 

جمنا کی زندگی کی کہانی ختم ہو چکی تھی اور ہم لوگوں کو اس کی زندگی کا ایسا خوشگوار حل دیکھ کر بہت اطمینان ہوا۔ ایسا لگا کہ جیسے تمام تر دھاتی کشتے گھس گھس کر ٹھنڈے یا فائدہ مند بنائے جاتے ہیں، ایسے ہی اس بدنصیب کی زندگی، ان تمام تر تکالیف اور مصائب میں گھس گھس کر پر سکون، روشنی بھری، مقدس، بے داغ ہو گئی۔

رات کو جب ہم لوگ حکیم جی کے چبوترے پر اپنی اپنی کھاٹ اور بسترا لے کر جمع ہوئے تو جمنا کی زندگی کی کہانی ہم سبھوں کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھی اور اس کو لے کر جو بات چیت اور بحث ہوئی، اس کی ڈرامائی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔۔۔۔

میں: (پلنگ پر بیٹھ کر، تکیے کو اٹھا کر گود میں رکھتے ہوئے) بھئی کہانی بہت اچھی رہی۔

اونکار: (جمائی لیتے ہوئے) رہی ہو گی۔

پرکاش: (کروٹ بدل کر) لیکن تم لوگوں نے اس کا مطلب بھی سمجھا؟

شیام: (جوش سے) کیوں، اس میں کون سی مشکل زبان تھی؟

پرکاش: یہی تو مانک ملّا کی خوبی ہے۔ اگر ذرا سابھی دل لگا کر تم ان کی بات نہیں سمجھتے تو گئے، فوراً ہی تمہارے ہاتھ سے اصل مال نکل جائے گا، ہلکا پھلکا بھوسا ہاتھ آئے گا۔ اب یہ بتاؤ کہ کہانی سن کر کیا احساس اٹھا تمہارے دل میں؟ تم بتاؤ۔

میں: (یہ سمجھ کر کہ ایسے موقع پر تھوڑی تنقید کرنا بزرگی کی علامت ہے) بھئی، مجھے تو یہی سمجھ میں نہیں آیا کہ مانک ملّا نے جمنا جیسے کردار کی کہانی کیوں سنائی؟ شکنتلا جیسی بھولی بھالی یا رادھا جیسی پوتر کردار اٹھاتے، یا بڑے ماڈرن بنتے ہیں تو سنیتا جیسی بہادر کردار لیتے یا دیو سینا، شیکھر جیسی تمام اقسام مل سکتی تھیں۔

پرکاش: (سقراط کے سے انداز میں) لیکن یہ بتاؤ کہ زندگی میں زیادہ تر کردار جمنا جیسے ملتے ہیں یا رادھا، سودھا، گیسو، سنیتا یا دیو سینا جیسے؟

میں: (چالاکی سے خود کو بچاتے ہوئے) پتہ نہیں! میرا ان سب کے بارے میں کوئی خاص تجربہ نہیں۔ یہ تو آپ ہی بتا سکتے ہیں۔

شیام: بھائی، ہمارے چاروں جانب بد قسمتی سے نوے فیصد لوگ تو جمنا اور رامدھن کی طرح کے ہوتے ہیں، لیکن اس سے کیا کہانی نویس کو آنکھیں بند کر دینی چاہئیں۔

پرکاش: یہ تو ٹھیک ہے۔ پر اگر کسی جمی ہوئی جھیل پر اوپر آدھے انچ برف ہو اور نیچے لا محدود پانی اور وہیں ایک گائیڈ کھڑا ہے جو اس پر سے آنے والوں کو اس کے آدھے انچ ہونے کی تو اطلاع دے دیتا ہے اور نیچے موجود پانی کی خبر نہیں دیتا تو وہ راہگیروں کو دھوکہ دیتا ہے یا نہیں؟

میں: کیوں نہیں؟

پرکاش: اور اگر وہ راہگیر برف ٹوٹنے پر پانی میں ڈوب جائیں تو اس کا وبال گائیڈ پر پڑے گا نا!

شیام: اور کیا؟

پرکاش: بس، مانک بھی تمہاری توجہ اس لامحدود پانی کی طرف دلا رہے ہیں جہاں موت ہے، اندھیرا ہے، کیچڑ اور گندگی ہے۔ یا تو دوسرا راستہ بناؤ نہیں تو ڈوب جاؤ۔ لیکن آدھے انچ کی اوپر جمی برف کچھ کام نہ دے گی۔ ایک طرف نئے لوگوں کا یہ رومانی نقطہ نظر، یہ جذباتیت، دوسری طرف بوڑھوں کا یہ آدرش اور جھوٹی غیر علمی عزت، صرف آدھا انچ برف ہے، جس نے پانی کی گہرائیوں کو چھپا رکھا ہے۔

میں اور اونکار: (بور ہو جاتے ہیں، سوچتے ہیں کب یہ لیکچر بند ہو۔ )

پرکاش: (جوش سے کہتا جاتا ہے) جمنا متوسط طبقے کا ایک بھیانک مسئلہ ہے۔ معاشی بنیاد کھوکھلی ہے۔ اس کی وجہ سے شادی، خاندان، محبت، سب کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ پر سب اس طرف سے آنکھیں موندے ہیں۔ اصل میں پوری زندگی کا سسٹم بدلنا ہو گا۔

میں: (بور ہو کر جمائی لیتا ہوں۔)

پرکاش: کیوں؟ نیند آ رہی ہے تمہیں؟ میں نے کئی بار تم سے کہا کہ کچھ پڑھو لکھو۔ بس ناول پڑھتے رہتے ہو۔ سنجیدہ چیزیں پڑھو۔ سماج کا ڈھانچہ، اس کی ترقی، اس کا مفہوم، اخلاقیات، ادب کا مقام۔۔۔

میں: (بات کاٹ کر) میں نے کچھ پڑھا نہیں۔۔ بس تم ہی نے پڑھا ہے۔ (یہ دیکھ کر کہ پرکاش کی دانش مندی کا رعب لوگوں پر جم رہا ہے، میں کیوں پیچھے رہوں) میں بھی اس کی مارکسی تشریح کر سکتا ہوں۔

پرکاش: کیا؟ کیا تشریح دے سکتے ہو؟

میں: (اکڑ کر) مارکسی!

اونکار: ارے یار، رہنے بھی دو۔

شیام: مجھے نیند آ رہی ہے۔

میں: دیکھئے، اصل میں اس کی مارکسی تشریح کچھ اس طرح سے ہو سکتی ہے کہ جمنا انسانیت کی علامت ہے، متوسط طبقہ (مانک ملّا) اور امیر طبقہ (زمیندار) اس کو انجام دینے میں ناکام رہے، آخر میں نچلا طبقہ (رامدھن) نے اس کو نئی سمت سُجھائی۔

پرکاش: کیا؟ (لمحے بھرکو ساکت ہو گیا۔ پھر ما تھا ٹھونک کر) بیچارا مارکسزم بھی ایسا بدنصیب نکلا کہ تمام دنیا میں فتح کے جھنڈے گاڑ آیا اور ہندوستان میں آ کر اسے بڑے بڑے نمونے مل گئے۔ تم ہی کیا، اسے ایسے ایسے شارحین یہاں ملے ہیں کہ وہ بھی اپنی قسمت کو روتا ہو گا۔ (زوروں سے ہنستا ہے، میں اپنی ہنسی اڑتے دیکھ کر اداس ہو جاتا ہوں۔)

حکیم جی کی بیوی: (پردے کے پیچھے سے ) میں کہتی ہوں یہ چبوترہ ہے یا سبزی منڈی۔ جسے دیکھو پلنگ اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ آدھی رات تک کِل کِل! کل سے سب کو نکالو یہاں سے۔

حکیم جی: (پردے کے پیچھے سے کانپتی ہوئی بوڑھی آواز) ارے بچے ہیں۔ ہنس بول لینے دے۔ تیرے اپنے بچے نہیں ہیں پھر دوسروں کو کیوں کھانے دوڑتی ہے۔۔۔ (ہم سب پر سکتہ چھا جاتا ہے۔ میں بہت اداس ہو کر لیٹ جاتا ہوں۔ نیم پر سے نیند کی پریاں اترتی ہیں، پلکوں پر چھم چھم، چھم چھم رقص کرتی ہیں )۔

(پردہ گرتا ہے )

***

 

 

 

 

تیسری دوپہر

 

عنوان مانک ملّا نے نہیں بتایا

 

 

ہم لوگ صبح سو کر اٹھے تو دیکھا کہ راتوں رات اچانک ہوا بالکل رک گئی ہے اور اتنی اُمس ہے کہ صبح پانچ بجے بھی ہم لوگ پسینے میں تر بتر تھے۔ ہم لوگ اٹھ کر خوب نہائے مگر اُمس اتنی شدید تھی کہ کوئی بھی حل کام نہ آیا۔ پتہ نہیں ایسی اُمس اس شہر کے باہر بھی کہیں ہوتی ہے یا نہیں۔ پر یہاں تو جس دن ایسی اُمس ہوتی ہے، اس دن تمام کام رک جاتے ہیں۔ سرکاری دفتروں میں کلرک کام نہیں کر پاتے، سپرنٹنڈنٹ بڑے بابوؤں کو ڈانٹتے ہیں، بڑے بابو چھوٹے بابوؤں پر جھنجلاہٹ اتارتے ہیں، چھوٹے بابو چپراسیوں سے بدلہ لیتے ہیں اور چپراسی گالیاں دیتے ہوئے پانی پلانے والوں، بہشتیوں اور مالیوں سے الجھ جاتے ہیں، دکاندار مال نہیں بیچتے بلکہ گاہکوں کو کھسکا دیتے ہیں اور رکشے والے اتنا کرایہ مانگتے ہیں کہ سواریاں پریشان ہو کر سواری نہ کریں۔ اور ان تمام سماجی اتھل پتھل کے پیچھے تاریخی منطقی استدلال کا اصول نہیں ہوتا، ہوتا ہے تو فقط درجہ حرارت یعنی ٹمپریچر، اُمس، ایک سو بارہ ڈگری فارن ہائیٹ!

لیکن اس اُمس کے باوجود مانک ملّا کی کہانیاں سننے کا لالچ ہم لوگوں سے چھوٹ نہیں پاتا تھا، اس لئے ہم سب کے سب مقر رہ وقت پر وہیں جمع ہوئے، اور تو اورسب سے پہلے بجائے سلام دعا کے یہی کہا گیا، ’’آج بہت اُمس ہے۔‘‘

’’ہاں جی، بہت اُمس ہے ؛ اُف او۔‘‘

صرف پرکاش جب آیا اور اس سے سب نے کہا کہ آج بہت اُمس ہے تو فلسفہ جھاڑتے ہوئے افلاطون کی طرح منہ بنا کر بولا (اپنے اس طنز بھرے تبصرے کیلئے معذرت خواہ ہوں، کیونکہ گزشتہ رات اس نے مارکسزم کے سوال پر مجھے نیچا دکھایا تھا اور سچے فعال مارکسیوں کی مانند میں جھنجلا اٹھا تھا اور میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صحیح بات بھی کرے گا تو میں اس کی مخالفت کروں گا)، بہرحال پرکاش بولا، ’’بھائی جی، جو اُمس ہم سب کی زندگیوں میں چھائی ہوئی ہے، اس کے سامنے تو یہ کچھ نہیں ہے۔ ہم سب نیم متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگیوں میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا تک نہیں۔ چاہے دم گھٹ جائے پر پتا نہیں ہلتا، دھوپ جسے روشنی دینا چاہئے، ہمیں بری طرح جھلسا رہی ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں۔ کسی نہ کسی طرح نئے اور تازہ ہوا کے جھونکے چلنے چاہئیں۔ چاہے لو کے ہی جھونکے کیوں نہ ہوں۔ ‘‘

پرکاش کی اس حماقت بھری بات پر کوئی کچھ نہیں بولا۔ (میرے جھوٹ کیلئے معذرت، کیونکہ مانک نے اس بات کی زور سے تائید کی تھی، پر میں نے کہہ دیا نا کہ میں اندر ہی اندر چڑ گیا ہوں!)

’’خیر۔‘‘ تو مانک ملّا بولے کہ، ’’جب میں محبت پر اقتصادی اثرات کی بات کرتا ہوں تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل میں اقتصادی ڈھانچہ ہمارے من پر اتنے عجیب و غریب انداز سے اثر ڈالتا ہے کہ من کے سارے جذبات اس سے مطابقت نہیں کر پاتے اور ہم جیسے لوگ جو نہ اپر کلاس کے ہیں، اور نہ لوئرکلاس کے، ان کے یہاں رسم و رواج، روایتیں، طور طریقے بھی ایسے پرانے اور زہریلے ہیں کہ مجموعی طور پر ہم سب پر ایسا اثر ڈالا ہے کہ ہم صرف ایک مشین یا ایک پرزہ بن کر ہی رہ جاتے ہیں ہمارے اندر ہمت اور اونچے خواب ختم ہو جاتے ہیں اور ایک عجب سی مردم بیزاری ہم پر چھا جاتی ہے۔ ‘‘

پرکاش نے جب اس کی حمایت کی تو میں نے ان کی مخالفت اور کہا، ’’لیکن انسان کو تو ہر حالت میں ایماندار بنے رہنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ٹوٹتا پھوٹتا چلا جائے۔‘‘

اس پر مانک ملّا بولے، ’’یہ سچ ہے، مگر جب پورے نظام میں بے ایمانی ہو تو ایک شخص کی ایمانداری اسی میں ہے کہ وہ نظام کی جانب سے لادی گئی ساری اخلاقی گراوٹ کو بھی رد کرے اور اس کی جانب سے مضبوطی سے قائم ساری جھوٹی اقدار کو بھی، کیونکہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بغاوت نہیں کر پاتے، اس لئے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جمنا کی طرح ہر صورتِ حال میں بس سمجھوتا کرتے جاتے ہیں۔‘‘

’’لیکن سبھی تو جمنا نہیں ہوتے؟‘‘ میں نے پھر کہا۔

’’ہاں، لیکن جو اس اخلاقی گراوٹ سے خود کو الگ رکھ کر بھی اس سارے نظام کے خلاف نہیں لڑتے، ان کی ساری عزت و شرافت صرف شائستگی بھری بزدلی ہوتی ہے۔ سنسکاروں کا غلط استعمال! اور ایسے لوگ بھلے آدمی کہلائے جاتے ہیں، ان کی تعریف بھی ہوتی ہے، پر ان کی زندگی انتہائی تکلیف دہ اور بھیانک ہو جاتی ہے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ بھی اپنی زندگی کا یہ پہلو نہیں سمجھتے اور بیل کی طرح چکر لگاتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً میں تمہیں تنّا کی کہانی سناؤں؟ تنّا یاد ہے یا نہیں؟ وہی مہیسر دلال کا لڑکا۔ ‘‘

ہم لوگ بیکار کی بحث سے اکتا گئے تھے اس لئے مانک ملّا نے کہانی سنانی شروع کی۔

حادثاتی طور پر اونکار نے روک کر کہا، ’’اس کہانی کا عنوان؟‘‘ مانک ملّا اس مداخلت سے جھنجلا اٹھے اور بولے، ’’ہٹاؤ جی، میں کیا کسی میگزین کو کہانی بھیج رہا ہوں کہ عنوان کے جھگڑے میں پڑوں۔ تم لوگ کہانی سننے آئے ہو یا عنوان سننے؟ یا میں ان کہانیوں کے مصنفین میں سے ہوں جو دل چسپ موضوع کی عدم موجودگی کی وجہ سے پر کشش عنوان دے کر ایڈیٹرز اور قارئین کا دھیان کھینچا کرتے ہیں۔ ‘‘

یہ دیکھ کر کہ مانک ملّا، اونکار کو ڈانٹ رہے ہیں، ہم لوگوں نے بھی اونکار کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ جب مانک ملّا نے ہم لوگوں کو ڈانٹا تو ہم لوگ خاموش ہوئے اور انہوں نے اپنی کہانی شروع کی۔۔۔

تنّا کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ پر تین بہنیں تھیں۔ ان میں سے جو سب سے چھوٹی تھی، اسی کو جنم دینے کے بعد اس کی ماں اوپر چلی گئی تھی۔ رہ گئے پِتا جو دلال تھے۔ چونکہ بچے چھوٹے تھے، ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا، اس لئے تنّا کے پِتا مہیسر دلال نے اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ کسی بھلے گھر کی کوئی شریف لڑکی مل جائے تو بچوں کی پرورش ہو جائے، ورنہ اب انہیں کیا بڑھاپے میں کوئی عورت کا شوق چڑھا ہے؟ رام رام! ایسی بات سوچنا بھی نہیں چاہئے۔ انہیں تو صرف بچوں کی فکر ہے، ورنہ اب تو بچے کچے دن رام کے بھجن میں اور گنگا اشنان میں کاٹ دینے ہیں۔ رہی تنّا کی ماں، سو وہ تو دیوی تھی، سورگ چلی گئی۔ مہیسر دلال گنہگار تھے سو رہ گئے۔ بچوں کا منہ دیکھ کر کچھ نہیں کرتے، ورنہ ہردوار جا کر بابا کالی کملی والے کے بھنڈاروں میں دونوں وقت کھاتے اور لوک پرلوک سدھارتے۔

لیکن محلے بھر کی بڑی بوڑھی عورتیں کوئی ایسی شریف لڑکی نہ ڈھونڈ پائیں، جو بچوں کی پرورش کر سکے، آخر میں مجبور ہو کر مہیسر دلال ایک عورت کو خدمت گذاری اور بچوں کی پرورش کیلئے لے آئے۔

اس عورت نے آتے ہی پہلے مہیسر دلال کے آرام کے سارے اہتمام کئے۔ ان کا پلنگ، بستر، حقہ چلم ٹھیک کیا، اس کے بعد تینوں لڑکیوں کے کردار اور عزت کی سخت انداز میں جانچ پڑتال کی اور آخر میں تنّا کی فضول خرچی روکنے کی پوری کوشش کرنے لگی۔ بہرحال اس نے بکھرتی ہوئی گرہستی کو بڑی احتیاط سے سنبھال لیا۔ اب اس میں اگر تنّا اور ان تینوں بہنوں کو کچھ تکلیف ہوئی تو اس کیلئے کوئی کیا کرے؟

تنّا کی بڑی بہن گھر کا کام کاج، جھاڑو پونچھا، چوکا برتن کیا کرتی تھی، منجھلی بہن جس کے دونوں پیروں کی ہڈیاں بچپن سے ہی خراب ہو گئی تھیں، یا تو کونے میں بیٹھی رہتی تھی یا آنگن بھر میں گھسٹ گھسٹ کر سبھی بھائی بہنوں کو گالیاں دیتی رہتی تھی۔ سب سے چھوٹی بہن، پنچم بنیا کے یہاں سے تمباکو، چینی، ہلدی، مٹی کا تیل اور منڈی سے ادرک، نیبو، سبز مرچ، آلو اور مولی وغیرہ لانے میں مصروف رہتی تھی۔ تنّا صبح اٹھ کر پانی سے سارا گھر دھوتے تھے، بانس میں جھاڑو باندھ کر گھر بھر کا جالا صاف کرتے تھے، حقہ بھرتے تھے، اتنے میں اسکول کا وقت ہو جاتا تھا۔ لیکن کھانا اتنی جلدی کہاں سے بن سکتا تھا، اس لئے بغیر کھائے ہی اسکول چلے جاتے تھے۔ اسکول سے لوٹ کر آنے پر انہیں دوبارہ شام کیلئے لکڑی چیرنی پڑتی تھی، برادے کی انگیٹھی بھرنی پڑتی تھی، دیا بتی کرنی پڑتی تھی، پھوپھی (اس عورت کو سب بچے پھوپھی کہا کریں، یہ مہیسر دلال کا حکم تھا) کا بدن بھی اکثر دبانا پڑتا تھا، کیونکہ بیچاری کام کرتے کرتے تھک جاتی تھی اور تب تنّا چبوترے کے سامنے لگی ہوئی میونسپلٹی کی لالٹین کی ملگجی روشنی میں اسکول کا کام کیا کرتے تھے۔ گھر میں لالٹین ایک ہی تھی اور وہ پھوپھی کے کمرے میں جلتی بجھتی رہتی تھی۔

تنّا کا دل نازک تھا۔ چنانچہ وہ اکثر ماں کو یاد کر کے رویا کرتے تھے اور انہیں روتے دیکھ کر بڑی اور چھوٹی بہن بھی رونے لگتی تھی اور منجھلی اپنے دونوں ٹوٹے پیر پٹخ کر انہیں گالیاں دینے لگتی تھی اور دوسرے دن وہ پھوپھی سے یا باپ سے شکایت کر دیتی تھی اور پھوپھی پیشانی میں آلتا بندی لگاتے ہوئے روتے ہوئی کہتی تھیں، ’’ان کم بختوں کو میرا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، پہننا اوڑھنا اچھا نہیں لگتا۔ پانی پی پی کر کوستے رہتے ہیں۔ آخر کون سی تکلیف ہے انہیں! بڑے بڑے نواب کے لڑکے ایسے نہیں رہتے جیسے تنّا بابو بال بنا کے، چھیل چھبیلوں کی طرح گھومتے ہیں۔‘‘ اور اس کے بعد مہیسر دلال کو خاندان کی عزت قائم رکھنے کیلئے تنّا کو بہت مارنا پڑتا تھا، یہاں تک کہ تنّا کی پیٹھ میں نیل نمودار ہو جاتے تھے اور بخار چڑھ جاتا تھا اور دونوں بہنیں ڈر کے مارے ان کے پاس جا نہیں پاتیں اور منجھلی بہن مارے خوشی کے آنگن بھر میں گھسٹتی پھرتی تھی اور چھوٹی بہن سے کہتی تھی، ’’خوب مار پڑی۔ ارے ابھی کیا؟ رام چاہیں تو ایک دن پیر ٹوٹیں گے، کوئی منہ میں دانہ ڈالنے والا نہیں رہ جائے گا۔ اے ری چل، آج میری چوٹی تُو کر دے! آج خوب مار پڑی ہے تنّا کو۔‘‘

ان حالات میں جمنا کی ماں نے تنّا کو بہت سہارا دیا۔ ان کے یہاں پوجا پاٹھ اکثر ہوتی رہتی تھی اور اس میں وہ پانچ بندروں اور پانچ کنواری لڑکیوں کو کھلایا کرتی تھیں۔ بندروں میں تنّا اور کنواریوں میں اس کی بہنوں کو دعوت ملتی تھی اور جاتے وقت پھوپھی صاف صاف کہہ دیتی تھیں کہ دوسروں کے گھر جا کر ندیدوں کی طرح نہیں کھانا چاہئے، آدھی پوڑیاں بچا کر لے آنا۔ وہ لوگ یہی کرتے اور چونکہ پوڑی کھانے سے سے معدہ خراب ہو جاتا ہے اس لئے بیچاری پھوپھی پوڑیاں اپنے لئے رکھ کر روٹی بچوں کو کھلا دیتیں۔

تنّا کو اکثر کسی نہ کسی بہانے جمنا بلا لیتی تھی اور اپنے سامنے تنّا کو بٹھا کر کھانا کھلاتی تھی۔ تنّا کھاتے جاتے اور روتے جاتے، حالانکہ جمنا ان سے چھوٹی تھی، پر پتہ نہیں کیوں اسے دیکھتے ہی تنّا کو اپنی ماں کی یاد آ جاتی تھی اور تنّا کو روتے دیکھ کر جمنا کے من میں بھی ممتا امڈ پڑتی اور جمنا گھنٹوں بیٹھ کر ان سے سکھ دکھ کی باتیں کرتی رہتی۔ ہوتے ہوتے یہ ہو گیا کہ تنّا کیلئے کوئی تھا تو جمنا تھی اور جمنا کو چوبیس گھنٹے اگر کسی کی فکر تھی تو تنّا کی۔ اب اسی کو آپ محبت کہہ لیں یا کچھ اور!

جمنا کی ماں سے بات چھپی نہیں رہی، کیونکہ وہ خود بھی کبھی اسی عمر کی رہی ہوں گی، اس نے بلا کر جمنا کو بہت سمجھایا اور کہا کہ تنّا ویسے تو بہت اچھا لڑکا ہے، پر نچلے درجے کا ہے اور اپنے خاندان میں ابھی تک اپنے سے اونچے درجے میں ہی بیاہ ہوا ہے۔ جب جمنا بہت روئی اور اس نے تین دن کھانا نہیں کھایا تو اس کی ماں نے آدھے پر توڑ کر لینے کا فیصلہ کیا یعنی انہوں نے کہا کہ اگر تنّا گھر جمائی بننا پسند کرے تو اس تجویز پر غور کیا جا سکتا ہے۔

لیکن جیسا پہلے کہا  جا چکا ہے کہ تنّا تھے ایماندار اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ پِتا جی، جیسے بھی ہوں، آخر باپ ہیں۔ ان کی خدمت کرنا ان کا دھرم ہے۔ وہ گھر جمائی جیسی بات کبھی نہیں سوچ سکتے۔ اس پر جمنا کے گھر میں کافی ہنگامہ مچا، مگر آخر میں جیت جمنا کی ماں کی رہی کہ جب جہیز ہو گا، تبھی بیاہ کریں گے، نہیں تو لڑکی کنواری رہے گی۔ کوئی راستہ نہیں سوجھے گا تو لڑکی کو پیپل سے بیاہ دیں گے، پر نیچے گوت والوں کو نہیں دیں گے۔

جب یہ بات مہیسر دلال تک پہنچی تو ان کا خون ابل اٹھا اور انہوں نے پوچھا، ’’کہاں ہے تنّا؟‘‘ معلوم ہوا میچ دیکھنے گیا ہے تو انہوں نے چیخ مار کر کہا تاکہ جمنا کے گھر تک سنائی دے۔ ’’آنے دو آج حرام زادے کو۔ چمڑی نہ ادھیڑ دی تو نام نہیں۔ لکڑی کے ٹھونٹھ کو ساڑی پہنا کر نوبت بجوا کر لے آؤں گا پر ان کے یہاں میں لڑکے کا بیاہ کروں گا جن کے یہاں۔۔۔؟ ‘‘اور اس کے بعد ان کے یہاں کی جو خوبیاں مہیسر دلال نے بیان کیں، اسے جانے ہی دیجیے۔ بہرحال پھوپھی نے تین دن تک کھانا نہیں دیا اور مہیسر نے اتنا مارا کہ منہ سے خون نکل آیا اور تیسرے دن بھوک سے پریشان تنّا چھت پر گئے تو جمنا کی ماں نے انہیں دیکھتے ہی جھٹ سے کھڑکی بند کر لی۔ جمنا بالکنی پر دھوتی سکھا رہی تھی، لمحے بھر کیلئے ان کی طرف دیکھتی رہی، پھر خاموشی سے بغیر دھوتی سکھائے نیچے اتر گئی۔ تنّا چپ چاپ تھوڑی دیر اداس کھڑے رہے پھر آنکھوں میں آنسو بھرکے نیچے اتر آئے اور سمجھ گئے کہ ان کا جمنا پر جو بھی حق تھا وہ ختم ہو گیا۔ اور جیسا کہا  جا چکا ہے کہ وہ ایماندار آدمی تھے اس لئے انہوں نے کبھی ادھر کا رخ بھی نہ کیا، حالانکہ ادھر دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک جاتے تھے اور لگتا تھا جیسے گلے میں کوئی چیز پھنس رہی ہو، سینے میں کوئی آرا چلا رہا ہو۔ آہستہ آہستہ تنّا کا من بھی پڑھنے سے اچٹ گیا اور وہ ایف اے کے پہلے سال میں ہی فیل ہو گئے۔

مہیسر دلال نے انہیں پھر خوب مارا، ان کی منجھلی بہن خوش ہو کر اپنے لُنج پنج پاؤں پٹخنے لگی، اور حالانکہ تنّا خوب روئے اور دبی زبان میں اس کی مخالفت بھی کی، پر مہیسر دلال نے ان کا پڑھنا لکھنا چھڑا کر انہیں ’ آر ایم ایس‘ میں بھرتی کرا دیا اور وہ اسٹیشن پر ڈاک کا کام کرنے لگے۔ اسی وقت مہیسر دلال کی نگاہ میں ایک لڑکی (یہاں پر میں یہ صاف صاف کہہ دوں کہ یا تو کہانی کے موضوع کی وجہ سے ہو، یا اس دن کی ہر جگہ موجود ہونے والی اُمس کی وجہ سے، لیکن اس دن مانک ملّا کی کہانی کے اسلوب میں وہ چٹ پٹاپن نہیں تھا، جو پچھلی دو کہانیوں میں تھا۔ عجیب سپاٹ انداز میں وہ تفصیلات بتاتے چلے جا رہے تھے اور ہم لوگ بھی کسی طرح دھیان لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُمس بہت تھی۔ کہانی میں بھی، کمرے میں بھی۔)

ٹھیک ہے، تو اسی وقت مہیسر دلال کی نگاہ میں ایک لڑکی آئی، جس کے باپ مر چکے تھے۔ ماں کی اکلوتی اولاد تھی۔ ماں کی عمر چاہے کچھ بھی رہی ہو پر اسے دیکھ کر یہ کہنا مشکل تھا، ماں بیٹی میں کون انیس ہے کون بیس۔ مشکل ایک تھی، لڑکی انٹر کے امتحان میں بیٹھ رہی تھی، حالانکہ عمر میں تنّا سے بہت چھوٹی تھی۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس خوبصورت بیوہ کے پاس زمین جائداد کافی تھی۔ نہ کوئی دیور تھا، نہ کوئی لڑکا۔ چنانچہ اس کی مدد اور حفاظت کے خیال سے تنّا کو انٹرپاس بتا کر مہیسر دلال نے اس لڑکی سے تنّا کی بات پکی کر لی، مگر اس شرط کے ساتھ کہ شادی تب ہو گی، جب مہیسر دلال اپنی لڑکی کو نمٹا لیں گے اور تب تک لڑکی پڑھے گی نہیں۔

چونکہ لڑکی کی جانب سے بھی سارا انتظام مہیسر دلال کو ہی کرنا تھا، اس لئے وہ گیارہ بارہ بجے رات تک واپس آ پاتے تھے اور کبھی کبھی رات کو بھی وہیں رہ جانا پڑتا تھا، کیونکہ جنگ چل رہی تھی اور بلیک آؤٹ رہتا تھا، لڑکی کا گھر اسی محلے کی ایک دوسری بستی میں تھا، جس میں دونوں اطراف پھاٹک لگے تھے، جو بلیک آؤٹ میں نو بجتے ہی بند ہو جاتے تھے۔

پھوپھی نے اس کی مخالفت کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ مہیسر دلال نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس کے گھر میں رہنے سے محلے میں چاروں جانب چار الگ الگ آدمی چار الگ الگ طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ مہیسر دلال ٹھہرے عزت دار آدمی، انہیں بیٹے بیٹیوں کا بیاہ نبٹانا ہے اور وہ یہ ڈھول کب تک اپنے گلے باندھے رہیں گے۔ آخر میں ہوا یہ کہ پھوپھی جیسے ہنستی، اٹھلاتی ہوئی آئی تھیں، ویسے ہی روتی دھوتی اپنی گٹھری باندھ کر چلی گئیں اور بعد میں معلوم ہوا کہ تنّا کی ماں کے سبھی زیور اور کپڑے جو بہن کی شادی کیلئے رکھے ہوئے تھے، غائب ہیں۔

ان سب باتوں نے تنّا کو ایک شدید بوجھ تلے ڈھانپ لیا۔ مہیسر دلال ان دنوں عجب حال میں تھا۔ محلے میں یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ مہیسر دلال جو کچھ کماتے ہیں وہ ایک صابن بیچنے والی لڑکی کو دے آتے ہیں۔ تنّا کو گھر کا بھی سارا خرچ چلانا پڑتا تھا، بیاہ کی تیاری بھی کرنی پڑتی تھی، دوپہر کو’ اے آر پی‘ میں کام کرتے تھے، رات کو’ آر ایم ایس‘ میں اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی آنکھیں دھنس گئیں، پیٹھ جھک گئی، رنگ جھلس گیا اور آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑنے لگے۔

جیسے تیسے کر کے بہن کی شادی نبٹائی۔ شادی میں جمنا آئی تھی پر تنّا سے بولی نہیں۔ ایک دالان میں دونوں ملے تو چپ چاپ بیٹھے رہے۔ جمنا ناخن سے فرش کھودتی رہی، تنّا تنکے سے دانت کھودتے رہے۔ یوں تو جمنا نے بہت روپ نکال لیا تھا اور گجراتی جوڑا باندھنے لگی تھی، لیکن یہ کہا  جا چکا ہے کہ تنّا ایماندار آدمی تھے۔ تنّا کا پھلدان چڑھا تو وہ اور بھی سج دھج کے آئی اور اس نے تنّا سے ایک سوال پوچھا، ’’بھابھی کیا بہت خوبصورت ہیں تنّا؟ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘تنّا نے سادہ سے انداز سے بتلا دیا تو روہانسی ہو کر بولی، ’’مجھ سے بھی۔‘‘ تنّا کچھ نہیں بولے، گھبرا کر باہر چلے آئے اور صبح کے لئے لکڑی چیرنے لگے۔

تنّا کی شادی کے بعد جمنا نے بھابھی سے کافی میل جول بڑھا لیا۔ روز صبح شام آتی، تنّا سے بات بھی نہ کرتی۔ دن بھر بھابھی کے پاس بیٹھی رہتی۔ بھابھی بہت پڑھی لکھی تھی، تنّا سے بھی زیادہ اور تھوڑی مغرور بھی تھی۔ بہت جلد میکے چلی گئی تو ایک دن جمنا آئی اور تنّا سے ایسی ایسی باتیں کرنے لگی، جیسی اس نے کبھی نہیں کی تھیں، اس پر تنّا نے اس کے پاؤں چھو کر اسے سمجھایا کہ جمنا، تم کیسی باتیں کرتی ہو؟ تو جمنا کچھ دیر روتی رہی اور پھر سسکتی ہوئی چلی گئی۔

انہی دنوں محلے میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ جس صابن والی لڑکی کا نام مہیسر دلال کے ساتھ لیا جاتا تھا، وہ ایک دن مردہ پائی گئی۔ اس کی لاش بھی غائب کر دی گئی اور مہیسر دلال پولیس کے ڈر کے مارے جا کر سمدھیانے میں رہنے لگے۔

تنّا کی زندگی عجیب سی تھی۔ بیوی اس سے زیادہ پڑھی لکھی تھی، زیادہ امیر گھر کی تھی، زیادہ خوبصورت تھی، ہمیشہ طعنے دیا کرتی تھی، منجھلی بہن گالیاں دیتی رہتی تھی، ’’رام کرے دونوں پیروں میں کیڑے پڑیں۔ ‘‘افسر نے انہیں نکما قرار دے دیا تھا اور انہیں ایسی ڈیوٹی دے دی تھی کہ ہفتے میں چار دن اور چار راتیں ریل کے سفر میں گزرتی تھیں اور باقی دن ہیڈ کوارٹر میں ڈانٹ کھاتے کھاتے۔ ان کی فائل میں بہت ساری شکایتیں لکھی گئی تھیں۔ انہی دنوں ان کے یہاں یونین بنی اور وہ ایماندار ہونے کی وجہ سے اس سے الگ رہے، نتیجہ یہ ہوا کہ افسر بھی ناراض اور ساتھی بھی۔

اسی درمیان جمنا کا بیاہ ہو گیا، مہیسر دلال گزر گئے، پہلا بچہ ہونے میں بیوی مرتے مرتے بچی اور بچنے کے بعد وہ تنّا سے گندی چھپکلی سے بھی زیادہ نفرت کرنے لگی۔ چھوٹی بہن بیاہ کے قابل ہو گئی اور تنّا صرف اتنا کر پائے کہ سوکھ کر کانٹا ہو گئے، کنپٹیوں کے بال سفید ہو گئے، جھک کر چلنے لگے، دل کا دورہ پڑنے لگا، آنکھ سے پانی آنے لگا اور معدہ اتنا کمزور ہو گیا کہ ایک نوالہ بھی ہضم نہیں ہوتا تھا۔

ڈاک لے جاتے ہوئے ایک بار ریل میں نیم سار جاتی ہوئی جمنا ملی۔ ساتھ میں رامدھن تھا۔ جمنا بڑی ممتا سے پاس آ کر بیٹھ گئی، اس کے بچے نے ماما کو نمستے کیا۔ جمنا نے دونوں کو کھانا دیا۔ نوالہ توڑتے ہوئے تنّا کی آنکھ میں آنسو آ گئے۔ جمنا نے کہا بھی کہ کوٹھی ہے، تانگہ ہے، کھلی آب و ہوا ہے، آ کر کچھ دن رہو، تندرست ہو جاؤ گے، پر بیچارے تنّا! اخلاقیات اور ایمانداری بڑی چیز ہوتی ہے۔

لیکن اس سفر سے جو تنّا لوٹے تو پھر پڑ ہی گئے۔ مہینے بھر بخار آیا۔ بیماری کے بارے میں ڈاکٹروں کی الگ الگ رائے تھیں۔ کوئی ہڈی کا بخار بتاتا تھا تو کوئی خون کی کمی، تو کوئی ٹی بی بھی بتا رہا تھا۔ گھر کا یہ حال کہ ایک پیسہ پاس نہیں، بیوی کا سارا زیور لے کر ساس اپنے گھر چلی گئی، چھوٹی بہن پکارا کرے، منجھلی کہے، ’’اب کیا، اب تو کیڑے پڑیں گے۔‘‘ صرف یونین کے کچھ لوگ آ کر اچھے بھلے مشورے دے جاتے تھے، صاف ہوا میں رکھو، پھلوں کا رس دو، بستر روز بدل دینا چاہئے اور بیچارے کرتے ہی کیا!

ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ انہیں دفتر سے نکال دیا گیا، گھر میں فاقے ہونے لگے تو ان کی ساس آ کر اپنی لڑکی کو واپس لے گئی اور بولی کہ جب کمر میں بوتا نہیں تھا تو بھانوریں کیوں پھرائیں تھیں اور پھر یونین کے غنڈے بدمعاش آ کر گھر میں دنگا مچاتے رہتے ہیں۔ تنّا کی بہنیں ان کے سامنے چاہے نکلیں، چاہے ناچے گائیں، ان کی لڑکی یہ پیشہ نہیں کر سکتی۔

ادھر یونین ان کی نوکری کیلئے لڑ رہی تھی اور جب وہ بحال ہو گئے تو لوگوں نے مشورہ دیا، دو ہفتے کیلئے چلے جائیں، باقی لوگ ان کا کام کرا دیا کریں گے اور اس کے بعد پھر چھٹی لے لیں گے۔

انکا جسم ہڈی کا ڈھانچہ بھر رہ گیا تھا۔ چلتے ہوئے آپ نزدیک سے پسلیوں کی کھڑکھڑاہٹ تک سن سکتے تھے۔ کسی طرح ہمت باندھ کر گئے۔ افسر لوگ چڑے ہوئے تھے۔ میل ٹرین پر رات کی ڈیوٹی لگا دی اور وہ بھی عین ہولی کے دن۔ رنگ میں بھیگتے ہوئے بھی تھر  تھر کانپتے ہوئے اسٹیشن گئے۔ سارا بدن جل رہا تھا۔ کام تو ساتھیوں نے مل کر کر دیا، وہ خاموشی سے پڑے رہے۔ اندر ڈبے میں سیلن تھی۔ بدن ٹوٹ رہا تھا، نسیں ڈھیلی پڑ گئی تھیں۔ صبح ہوئی۔ ٹنڈلا اسٹیشن آیا۔ تھوڑی تھوڑی دھوپ نکل آئی تھی۔ وہ جا کر دروازے کے پاس کھڑے ہو گئے۔ گاڑی چل دی۔ پاؤں تھر تھر کانپ رہے تھے، اچانک انجن کے پانی کی ٹنکی کی جھولتی ہوئی بالٹی ان کی کنپٹی میں لگی اور پھر انہیں ہوش نہیں رہا۔

آنکھ کھلی تو ٹنڈلا کے ریلوے ہسپتال میں تھے۔ دونوں پاؤں نہیں تھے۔ آس پاس کوئی نہیں تھا، بے انتہا درد تھا۔ خون اتنا نکل چکا تھا کہ آنکھ سے کچھ ٹھیک سے دکھائی نہیں پڑتا تھا۔ سوچا، کسی کو بلاویں تو منہ سے جمنا کا نام نکلا، پھر اپنے بچے کا، پھر باپو (مہیسر دلال) کا اور پھر خاموش ہو گئے۔

لوگوں نے بہت پوچھا، ’’کسے تار دے دیں، کیا کیا جائے؟‘‘  پر وہ کچھ نہیں بولے۔ صرف مرنے سے پہلے انہوں نے اپنی دونوں کٹی ٹانگیں دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور وہ لائی گئیں تو ٹھیک سے دیکھ نہیں سکے تھے، اس لئے بار بار انہیں چھوتے تھے، دباتے تھے، اٹھانے کی کوشش کرتے تھے، اور ہاتھ کھینچ لیتے تھے اور تھر تھر کانپنے لگتے تھے۔

پتہ نہیں مجھے کیسا لگا کہ میں یہ انجام سننے کا انتظار کئے بغیر خاموشی سے اٹھ کر چلا آیا۔

 

 

متفرقات

 

انتہائی درجے کی اُمس! من کی گہری سے گہری پرت میں ایک عجب سی بے چینی۔ نیند آ بھی رہی ہے اور نہیں بھی آ رہی۔ نیم کی ڈالیاں خاموش ہیں۔ بجلی کی روشنی میں ان کے سائے مکانوں، کھپریلوں، دروازوں اور گلیوں میں سہمے کھڑے ہیں۔

میرے منتشر من میں بے جوڑ خیالوں کا سلسلہ۔

سورگ کا دروازہ۔ روپ، رنگ، سائز کچھ نہیں، جیسا من چاہے اندازہ کر لیں۔ مافوق الفطرت نظمیں جن کے معنی کچھ نہیں، جیسا من چاہے اندازہ کر لیں۔ باہر دروازے پر رامدھن بیٹھا ہے۔ اندر جمنا صاف شفاف، پر سکون، سنجیدہ۔ اس سے بندھی زنجیریں، اس کی بیوگی، پتیوں پر پڑی اوس کی طرح بکھر چکی ہیں، وہ ویسی ہی ہے جیسی تنّا کو پہلا بار ملی تھی۔

دروازے پر گھوڑے کی نالیں جڑی ہیں۔ ایک، دو، ہزارہا! دور دھندلے افق سے ایک پتلا، دھوئیں کی لکیر سا راستہ چلا آ رہا ہے۔ اس پر کوئی دو چیزیں رینگ رہی ہیں۔ راستہ رہ رہ کر کانپ اٹھتا ہے، جیسے تار کا پل۔

بادلوں میں ایک ٹارچ جل اٹھتی ہے۔ راستے پر تنّا چلے آ رہے ہیں۔ آگے آگے تنّا، کٹی ٹانگوں سے گھسٹتے ہوئے، پیچھے پیچھے ان کی دونوں کٹی ٹانگیں لڑکھڑاتی چلی آ رہی ہے۔ ٹانگوں پر آر ایم ایس کے رجسٹر لدے ہیں۔

دروازے پر ٹانگیں رک جاتی ہیں۔ دروازہ کھل جاتا ہے۔ تنّا فائلیں اٹھا کر اندر چلے جاتے ہیں۔ دونوں ٹانگیں باہر چھوٹ جاتی ہیں اور چھپکلی کی کٹی ہوئی دم کی طرح تڑپتی ہیں۔

کوئی بچہ رو رہا ہے۔ وہ تنّا کا بچہ ہے۔ دبی ہوئی آواز، یونین، ایس ایم آر، ایم آر ایس، آر ایم ایس، یونین۔ دونوں کٹی ٹانگیں واپس چل پڑتی ہیں، دھوئیں کا راستہ تار کے پل کی طرح کانپتا ہے۔

دور کسی اسٹیشن سے کوئی ڈاک گاڑی چھوٹتی ہے۔۔۔

***

 

 

 

 

چوتھی دوپہر

 

مالوا کی یُورانی دیو سینا کی کہانی

 

آنکھ لگ جانے کے تھوڑی دیر بعد اچانک اُمس کو چیرتے ہوئے ہوا کا ایک جھونکا آیا اور پھر تو اتنے تیز جھونکے آنے لگے کہ نیم کی شاخیں جھوم اٹھیں۔ تھوڑی دیر میں تاروں کا ایک سیاہ پردہ چھا گیا۔ ہوائیں اپنے ساتھ بادل لے آئی تھیں۔ صبح ہم لوگ بہت دیر تک سوئے، کیونکہ ہوا چل رہی تھی اور دھوپ کا کوئی سوال نہیں تھا۔

پتہ نہیں دیر تک سونے کا نتیجہ تھا یا بادلوں کا، کیونکہ کالی داس نے بھی کہا ہے، ’’رمیانی ویکشیہ مدھرانشچ۔۔۔ ‘‘پر میرا دل بہت اداس سا تھا اور میں لیٹ کر کوئی کتاب پڑھنے لگا، شاید ’’سکند گپت‘‘ جس کے آخر میں ہیروئین دیو سینا، راگ وِہاگ میں ’’آہ ویدنا ملی ودائی ‘‘گاتی ہے اور گھٹنے ٹیک کر رخصت مانگتی ہے۔ اس زندگی کے دیوتا اور اُس جنم کے ممکن الحصول! اور اس کے بعد لامحدود جدائی کے ساتھ پردے گر جاتا ہے۔

اس کو پڑھنے سے میرا دل اور بھی اداس ہو گیا اور میں نے سوچا چلو مانک ملّا کے یہاں ہی چلا جائے۔ میں پہنچا تو دیکھا کہ مانک ملّا خاموشی سے بیٹھے کھڑکی کے راستے بادلوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور کرسی سے لٹکے دونوں پاؤں آہستہ آہستہ ہلا رہے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ مانک ملّا کے من میں کوئی بہت پرانا درد جاگ گیا ہے، کیونکہ یہ علامات اسی بیماری کی ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں عموماً مانک جیسے لوگوں کے دو اقسام کے رد عمل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے جذباتی بات کرے تو وہ فوراً اس کا مذاق اڑائیں گے، جب وہ چپ ہو جائے گا تو آہستہ آہستہ خود ویسی ہی باتیں چھیڑ دیں گے۔ یہی مانک نے بھی کیا۔ جب میں نے ان سے کہا کہ میرا دل بہت اداس ہے تو وہ ہنسے تھے اور میں نے جب کہا کہ کل رات کے خواب نے میرے دل پر بہت اثر ڈالا ہے تو وہ اور بھی ہنسے اور بولے، ’’اس خواب سے تو دو ہی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ‘‘

’’کیا؟ ‘‘میں نے پوچھا۔

’’پہلی تو یہ کہ تمہارا ہاضمہ ٹھیک نہیں ہے، دوسرے یہ کہ تم نے دانتے کی ’’ڈیوائن کامیڈی ‘‘پڑھی ہے، جس میں ہیرو کو جنت میں ہیروئین ملتی ہے اور اس کو خدا کے تخت تک لے جاتی ہے۔ ‘‘جب میں نے جھینپ کر یہ تسلیم کیا کہ دونوں باتیں بالکل سچ ہیں تو پھر وہ خاموش ہو گئے اور اسی طرح کھڑکی کے راستے بادلوں کی طرف دیکھ کر پاؤں ہلانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد بولے، ’’پتہ نہیں تم لوگوں کو کیسا لگتا ہے، مجھے تو بادلوں کو دیکھ کرایسا لگتا ہے، جیسے اُس گھر کو دیکھ کر لگتا ہے جس میں ہم نے اپنا بچپن ہنسی خوشی سے گذارا ہو اور جسے چھوڑ کر ہم پتہ نہیں کہاں کہاں گھومے ہوں اور بھول کر پھر اسی مکان کے سامنے برسوں بعد آ پہنچے ہوں۔ ‘‘جب میں نے قبول کیا کہ میرے من میں بھی یہی احساس ہوتا ہے تو اور بھی جوش میں بھر کر بولے، ’’دیکھو، اگر زندگی میں پھول نہ ہوتے، بادل نہ ہوتے، پاکیزگی نہ ہوتی، روشنی نہ ہوتی، بس اندھیرا ہوتا، کیچڑ ہوتا، گندگی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا! ہم سب اس میں کیڑے کی طرح بلبلاتے اور مر جاتے، کبھی مرتے وقت دل میں کسی طرح کی مایوسی نہ ہوتی۔ لیکن بڑے بدقسمت ہوتا ہے وہ دن، جس دن ہماری روح پاکیزگی کی ایک جھلک پا لیتی ہے، روشنی کی ایک کرن پا لیتی ہے کیونکہ اس کے بعد صدیوں تک اندھیرے میں قید رہنے پر بھی روشنی کی پیاس اس میں سے مر نہیں پاتی، اسے تڑپاتی رہتی ہے۔ وہ اندھیرے سے سمجھوتہ کر بھی لیتا پر اسے چین کبھی نہیں ملتا۔ ‘‘

میں ان کی باتوں سے پوری طرح متفق تھا، پر لکھ چاہے تھوڑا بہت لوں بھی، پر مجھے ان دنوں بہترین ہندی بولنے کی اتنی مشق نہیں تھی، اس لئے ان کی اداسی سے اپنی ہمدردی دکھانے کیلئے میں خاموشی سے منہ لٹکائے بیٹھا رہا تھا۔ بالکل ان کی طرح منہ لٹکائے ہوئے بادلوں کی طرف دیکھتا رہا اور پاؤں ہلاتا رہا۔ مانک ملّا کہتے گئے۔

’’اب یہی محبت کی بات لے لو۔ یہ سچ ہے کہ محبت معاشی حالات سے جڑی ہوتی ہے، لیکن میں نے جو جوش میں کہہ دیا تھا کہ محبت معاشی خود انحصاری کا ہی دوسرا نام ہے، یہ صرف جزوی سچ ہے۔ اسے کوئی رد نہیں کر سکتا کہ محبت۔۔‘‘ یہاں مانک ملّا رک گئے اور میری طرف دیکھ کر بولے، ’’معاف کرنا، تمہارے جیسے ماہرانہ انداز میں کہوں تو اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ محبت روح کی گہرائیوں میں سوئے ہوئے خوبصورتی بھرے گیتوں کو جگا دیتی ہے، ہم میں عجب سی پاکیزگی، اخلاق اور روشنی سے بھر دیتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن۔۔۔‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’لیکن ہم سب روایات، سماجی حالات، جھوٹے بندھنوں میں اس طرح سے جکڑے ہوئے ہیں کہ اسے سماجی سطح پر قبول نہیں کرا پاتے، اس کیلئے جد و جہد نہیں کر پاتے اور بعد میں اپنی بزدلی اور مجبوریوں پر سنہرا پانی پھیر کر اسے چمکانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس رومانی محبت کی اہمیت ہے، پر مصیبت یہ ہے کہ وہ خام ذہن کی محبت ہوتی ہے، اس میں خواب، قوس و قزح اور پھول تو کافی مقدار میں ہوتے ہیں، لیکن وہ جرات اور پختگی نہیں ہوتی، جو ان کے خوابوں اور پھولوں کو صحت مند سماجی تعلقات میں تبدیل سکے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے دن بعد یہ سب من سے اسی طرح غائب ہے جیسے بادل کی چھاؤں۔ آخر ہم ہوا میں تو نہیں رہتے ہیں اور جو جذبہ بھی ہماری سماجی زندگی کی کھاد نہیں بن پاتا، زندگی اسے جھاڑ جھنکاڑ کی طرح اکھاڑ پھینکتی ہے۔‘‘

اونکار، شیام اور پرکاش بھی تب تک آ گئے تھے۔ اور ہم سب لوگ دل ہی دل میں انتظار کر رہے تھے کہ مانک ملّا کب اپنی کہانی شروع کریں، پر ان کی کھوئی ہوئی سی دماغی حالت دیکھ کر ہم لوگوں کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔

اتنے میں مانک ملّا خود ہم لوگوں کے دل کی بات سمجھ گئے اور اچانک اپنے خوابوں کی دنیا سے لوٹتے ہوئے پھیکی ہنسی ہنس کر بولے، ’’آج میں تم لوگوں کو ایک ایسی لڑکی کی کہانی سناؤں گا، جو بادلوں سے بھرے ایسے دنوں میں مجھے بار بار یاد آ جاتی ہے۔ عجب تھی وہ لڑکی۔ ‘‘

اس کے بعد مانک ملّا نے جب کہانی شروع کی تبھی میں نے ٹوکا اور ان کو یاد دہانی کرائی کہ ان کی کہانی میں وقت کا پھیلاؤوسیع تھا، یعنی واقعات کی ترتیب بہت تیزی سے چلتی گئی اور وہ تفصیلات بتانے میں اتنی تیزی سے چلے کہ انفرادی نفسی تجزیہ اور دماغی سوچوں کی درجہ بدرجہ تشریح پر مناسب طریقے سے توجہ نہیں دے پائے۔ مانک ملّا نے پچھلی کہانیوں کی اس کمی کو قبول کیا، لیکن لگتا ہے اندر اندر انہیں کچھ برا لگا، کیونکہ انہوں نے چڑ کر بہت تلخ لہجے میں کہا، ’’اچھا لو، آج کی کہانی کے واقعات کا دورانیہ صرف چوبیس گھنٹے میں ہی محدود رہے گا۔ ۲۹ جولائی، سن انیس سو۔۔۔ کو شام چھ بجے سے ۳۰ جولائی شام چھ بجے تک اور اس کے بعد انہوں نے کہانی شروع کی۔ (کہانی سنانے سے پہلے مجھ سے بولے، ’’اسلوب میں تمہاری جھلک آ جائے تو معاف کر دینا‘‘)

کھڑکی پر جھولتے ہوئے جارجٹ کے ہوا سے بھی ہلکے پردوں کو چومتے ہوئے، شام کے سورج کی اداس پیلی کرنوں نے جھانک کر اس لڑکی کو دیکھا، جو تکیے میں منہ چھپائے سسک رہی تھی۔ اس کی روکھی زلفیں کھارے آنسوؤں سے دھلے گالوں کو چھو کر چپک جاتی تھیں۔ چمپے کی کلیوں سی اس کی لمبی پتلی فنکارانہ انگلیاں، سسکیوں سے کانپ کانپ اٹھنے والا اس کا منحنی سا تن بدن، اس کے گلاب کی خشک پنکھڑیوں سے ہونٹ اور کمرے کا اداس ماحول، پتہ نہیں وہ کون سا درد تھا، جس کی اداس انگلیاں رہ رہ کر اس کی شخصیت کے خوابیدہ جذبوں کی موسیقی کو جھنجھوڑ رہی تھیں۔

تھوڑی دیر بعد وہ اٹھی۔ اس کی آنکھوں کے نیچے ایک ہلکی سی فالسائی چھاؤں تھی جو سوج گئی تھی۔ اس کی چال ہنس کی تھی، پر ایسے ہنس کی، جو مان سروور جھیل سے نہ جانے کتنے دنوں کیلئے رخصت لے رہا ہو۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور لگا جیسے ہواؤں میں زعفران کے ڈورے بکھر گئے ہوں۔ وہ اٹھی اور کھڑکی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ ہواؤں سے جارجٹ کے پردے اٹھ کر اسے گدگدا جاتے تھے، کبھی کانوں کے پاس، کبھی ہونٹوں کے پاس، کبھی۔۔۔ خیر۔ باہر سورج کی آخری کرنیں نیم اور پیپل کے بلندیوں پر سنہری اداسیاں بکھیر رہی تھیں۔ افق کے قریب ایک گہری جامنی پرت جمی تھی، جس پر گلاب بکھرے ہوئے تھے اور اس کے بعد ہلکی پیلی آندھی کی چمک لہرا رہی تھی۔

’’آندھی آنے والی ہے بیٹی! چلو کھانا کھا لو۔‘‘ ماں نے دروازے پر سے کہا۔ لڑکی کچھ نہیں بولی، صرف سر ہلا دیا۔ ماں کچھ نہیں بولی، اصرار بھی نہیں کیا۔ ماں کی اکلوتی لڑکی تھی، گھر بھر میں ماں اور بیٹی ہی تھیں، بیٹی سمجھو تو، بیٹا سمجھو تو! بیٹی کی بات کاٹنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ ماں تھوڑی دیر خاموشی کھڑی رہی، پھر چلی گئی۔ لڑکی سونی سونی آنکھوں سے چپ چاپ، جامنی رنگ کے گھرتے ہوئے بادلوں کو دیکھتی رہی اور ان پر دہکتے ہوئے گلابوں کو اور ان پر گھرتی ہوئی آندھی کو۔

شام نے دھندلکے کا سرمئی دوپٹہ اوڑھ لیا۔ وہ چپ چاپ وہیں بیٹھی رہی، بیلے کے پھولوں سے بنی کسی مورتی کی طرح، نگاہوں میں رہ رہ کر اداس اور کومل نرگس جھوم جاتی تھی۔

’’کہیے جناب۔‘‘ مانک داخل ہوئے تو وہ اٹھی اور خاموشی سے بتی جلا دی۔ مانک ملّا نے اس کی اداس دماغی کیفیت اور اس کی گمبھیر خاموشی دیکھی تو رک گئے اورسنجیدہ ہو کر بولے، ’’کیا ہوا؟ للی! للی۔ ‘‘

’’کچھ نہیں۔‘‘ لڑکی نے ہنسنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، مگر آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور وہ مانک ملّا کے قدموں کے پاس بیٹھ گئی۔

مانک نے اس کے بندوں میں الجھی ایک سوکھی لٹ کو سلجھاتے ہوئے کہا، ’’تو نہیں بتاؤ گی؟ ‘‘

’’ہم کبھی چھپاتے ہیں تم سے کوئی بات۔ ‘‘

’’نہیں، اب تک تو نہیں چھپاتی تھیں، آج سے چھپانے لگی ہو۔ ‘‘

’’نہیں، کوئی بات نہیں۔ سچ مانو۔ ‘‘لڑکی نے، جس کا نام لیلی تھا اور جو للی کے نام سے پکاری جاتی تھی، مانک نے قمیض کے کانچ کے بٹن کھولتے اور بند کرتے ہوئے کہا۔

’’اچھا مت بتاؤ! ہم بھی اب تمہیں کچھ نہیں بتائیں گے۔‘‘ مانک نے اٹھنے کا ارادہ کرتے ہوئے کہا۔

’’تو چلے کہاں۔ ’’وہ مانک کے کندھے پر جھک گئی۔ ‘‘بتاتی تو ہوں۔ ‘‘

’’تو بتاؤ۔ ‘‘

للی تھوڑا جھینپ گئی اور پھر اس نے مانک کی ہتھیلی اپنی سوجی پلکوں پر رکھ کر کہا، ’’ہوا ایسے کہ آج دیو داس دیکھنے گئے تھے۔ کمّو بھی ساتھ تھی۔ خیر، اس کی سمجھ میں آئی نہیں۔ مجھے پتا نہیں کیسا لگنے لگا۔ مانک، کیا ہو گا، بتاؤ؟ ابھی تو ایک دن تم نہیں آتے ہو تو نہ کھانا اچھا لگتا ہے، نہ پڑھنا۔ پھر مہینوں مہینوں تمہیں نہیں دیکھ پائیں گے۔ سچ، ویسے چاہے جتنا ہنستے رہو، بولتے رہو، پر جہاں اس بات کا خیال آیا کہ من کو جیسے پالا مار جاتا ہے۔ ‘‘

مانک کچھ نہیں بولے۔ ان کی آنکھوں میں ایک درد بھری جھلک ابھری اور وہ چپ چاپ بیٹھے رہے۔ آندھی آ گئی تھی اور میز کے نیچے سنیما کے دو آدھے پھٹے ہوئے ٹکٹ آندھی کی وجہ سے سارے کمرے میں زخمی تتلیوں کے جوڑے کی طرح ادھر ادھر اڑتے ہوئے دیواروں سے ٹکرا رہے تھے۔

مانک کے قدموں میں ٹپ سے ایک گرم آنسو گرا تو انہوں نے چونک کر دیکھا، للی کی پلکوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ انہوں نے ہاتھ پکڑ کر للی کو پاس بلایا اور اسے سامنے بٹھا کر، اس کے دونوں ننھے اجلے کبوتر جیسے قدموں پر انگلی سے دھاریاں کھینچتے ہوئے بولے، ’’چھی! یہ سب رونا دھونا ہماری للی کو زیب نہیں دیتا۔ یہ سب کمزوری ہے، من کا موہ اور کچھ نہیں۔ تم جانتی ہو کہ میرے دل میں کبھی تمہارے لئے پیار نہیں رہا، تمہارے من میں مجھ پر کبھی حق جتانے کی چاہ نہیں رہی۔ اگر ہم دونوں زندگی میں ایک دوسرے کے قریب آئے بھی تو اس لئے کہ ہماری ادھوری روحیں ایک دوسرے کو مکمل بنائیں، ایک دوسرے کو تقویت دیں، روشنی دیں، وجدان دیں۔ اور دنیا کی کوئی بھی طاقت کبھی ہم سے ہماری اس پاکیزگی کو چھین نہیں سکتی۔ میں جانتا ہوں کہ پوری زندگی میں جہاں کہیں بھی رہوں گا، جن حالات میں بھی رہوں گا، تمہارا پیار مجھے حوصلہ دیتا رہے گا پھر تم میں اتنی بے اعتباری کیوں نظر آ رہی ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ پتہ نہیں مجھ میں کون سی ایسی کمی ہے کہ تمہیں وہ قوت نہیں دے پا رہا ہوں۔ ‘‘

للی نے آنسوؤں میں ڈوبی پلکیں اٹھائیں اور مانک کی طرف دیکھا جس کا مطلب تھا، ’’ایسا نہ کہو، میری زندگی میں، میری شخصیت میں جو کچھ بھی اچھا ہے، تمہارا ہی تو دیا ہوا ہے۔‘‘ تاہم للی نے یہ لفظوں سے نہیں، نگاہوں سے کہہ دیا۔

مانک نے آہستہ سے اسی کے آنچل سے اس کے آنسو پونچھ دیے اور بولے، ’’جاؤ، منہ دھو آؤ! چلو۔‘‘

للی منہ دھو کر آ گئی۔ مانک بیٹھے ہوئے ریڈیو کی سوئی اس طرح گھما رہے تھے کہ کبھی اچانک سے دہلی بج اٹھتا تھا، کبھی لکھنؤ کی دو ایک پریشاں ترنگیں سنائی دے جاتی تھیں، کبھی ناگپور، کبھی کلکتہ، (الہ آباد میں خوش قسمتی سے اس وقت تک ریڈیو اسٹیشن تھا ہی نہیں!) للی چپ چاپ بیٹھی رہی، پھر اٹھ کر اس نے ریڈیو آف کر دیا اور زور دیتے ہوئے بولی، ’’مانک، کچھ بات کرو! من بہت گھبرا رہا ہے۔ ‘‘

مانک ہنسے تھے اور بولے، ’’اچھا چلو بات کریں، پر ہماری للی جتنی اچھی بات کر لیتی ہے، اتنی میں تھوڑے ہی کر پاتا ہوں۔ لیکن خیر تو تمہاری کمّو کی سمجھ میں پکچر نہیں آئی۔ ‘‘

’’اہوں۔ ‘‘

’’کمّو بڑی کند ذہن ہے، لیکن کوشش ہمیشہ یہی کرتی ہے کہ ہر کام میں ٹانگ اڑائے۔ ‘‘

’’تمہاری جمنا سے تو اچھی ہی ہے۔ ‘‘

جمنا کے ذکر پر مانک کو ہنسی آ گئی اور پھر بہت پیار، انتہائی دلار اور بے حد نشیلے انداز میں للی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے، ’’للی، تم نے سکند گپت ختم کر ڈالی۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’کیسی لگی۔ ‘‘

للی نے سر ہلا کر کہا کہ بہت اچھی لگی۔ مانک نے دھیرے سے للی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اس کی لکیروں پر اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ کو رکھ کر بولے، ’’میں چاہتا ہوں میری للی اتنی ہی پاکیزہ، اتنی ہی عقل مند، اتنی ہی مضبوط بنے جتنی دیو  سینا تھی۔ تو للی ویسی ہی بنے گی نا۔ ‘‘

دیوتاؤں کے سنگیت میں مسرور، کسی بھولی ہرنی کی طرح للی نے ایک لمحے کیلئے مانک کی طرف دیکھا اور ان کی ہتھیلیوں میں منہ چھپا لیا۔

’’واہ! ادھر دیکھو للی۔‘‘ مانک نے دونوں ہاتھوں سے للی کا منہ کنول کے پھول کی طرح اٹھاتے ہوئے کہا۔ باہر گلی کی بجلی پتہ نہیں کیوں جل نہیں رہی تھی، لیکن رہ رہ کر ارغوانی رنگ کی بجلیاں چمک جاتی تھیں۔ طویل اور پتلی گلی، دونوں اطراف بنے پکے مکان، ان کے خالی چبوترے، بند کھڑکیاں، ویران بالا خانے، اداس چھتیں، ان ارغوانی بجلیوں میں کسی جادو کی طرح پراسرارسے لگ رہے تھے۔ بجلی چمکتے ہی اندھیرا چیر کر وہ کھڑکی سے دکھائی دیتے اور پھر اچانک تاریکی میں ضم ہو جاتے اور اس درمیان ایک لمحے میں ان دیواروں پر تڑپتی ہوئی بجلی کی ارغوانی روشنی لپلپاتی رہتی، بالا خانوں کے کناروں سے پانی کی دھاریں گرتی رہتیں، کھمبے اور بجلی کے تار کانپتے رہتے اور ہواؤں میں بوندوں کی جھالریں لہراتی رہتیں۔ سارا ماحول جیسے بجلی کے حملے سے کانپ رہا تھا، ڈول رہا تھا۔

ایک تیز جھونکا آیا اور کھڑکی کے پاس کھڑی للی بوچھاڑ سے بھیگ گئی اور ابرو سے، ماتھے سے قطرے پونچھتی ہوئی ہٹی تو مانک بولے، ’’للی وہیں کھڑی رہو، کھڑکی کے پاس، ہاں بالکل ایسے ہی۔ قطرے مت پونچھو۔ اور للی، یہ ایک لٹ تمہاری جو بھیگ کر جھول گئی ہے کتنی اچھی لگ رہی ہے۔‘‘

للی چپ چاپ لجاتی ہوئی کبھی کھڑکی کے باہر، تو کبھی اندر مانک کی جانب دیکھتی ہوئی بارش میں کھڑی رہی۔ جب بجلیاں چمکتیں تو ایسا لگتا جیسے روشنی کے جھرنے میں کانپتا ہوا کنول۔ پہلے ما تھا بھیگا، للی نے پوچھا، ’’ہٹوں۔‘‘ مانک بولے، ’’نہیں۔‘‘ پیشانی سے پانی گردن پر آیا، قطرے اس کے گلے میں پڑی مالا کو چومتے ہوئے نیچے اترنے لگے، وہ تھرتھرا اٹھی۔

’’سردی لگ رہی ہے؟‘‘ مانک نے پوچھا۔

الھڑ پنے سے للی بولی، ’’نہیں، سردی نہیں لگ رہی ہے! لیکن تم بڑے پاگل ہو۔ ‘‘

’’ہوں تو نہیں، کبھی کبھی ہو جاتا ہوں! للی، ایک انگریزی کی نظم ہے۔ ’’اے للی گرل ناٹ میڈ فار دس ورلڈز پین۔ ‘‘ایک پھول سی لڑکی جو اس دنیا کے دکھ درد کیلئے نہیں بنی۔ للی اس کا شاعر تمہیں جانتا تھا کیا؟ للی تمہارا نام تک لکھ دیا ہے۔ ‘

’’ہوں! ہمیں تو ضرور جانتا تھا۔ تمہیں بھی کوئی نا کوئی نئی بات روز سوجھتی رہتی ہے۔ ‘‘

’’نہیں! دیکھو اس نے یہاں تک تو لکھا ہے، ’’اینڈ لانگنگ آئیز ہاف ویلڈ بائی سلمبرس ٹیئرز، لائک بلویسٹ واٹرز سی تھرو مسٹس آف رین۔‘‘ ارمان بھری نگاہیں، خوابیدہ آنسوؤں میں ڈوبی جیسے پانی کی پھواروں میں دھندلی دکھنے والی نیلی جھیل۔۔۔ ‘‘

اچانک دور کہیں بجلی تڑپ کر گری اور للی چونک کر بھاگی اور بد حواس سی مانک کے پاس آ گری۔ دو پل تک بجلی کی دل دہلا دینے والی آواز گونجتی رہی اور للی سہمی ہوئی چڑیا کی طرح مانک کے بازوؤں کے گھیرے میں کھڑی رہی۔ پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور جھک کر مانک کے قدموں پر دو گرم ہونٹ رکھ دیے۔ مانک کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ باہر بارش دھیمی پڑ گئی تھی۔ صرف چھجوں سے، کھپریلوں سے ٹپ ٹپ کر کے بوندیں گر رہی تھیں۔ ہلکے ہلکے بادل اندھیرے میں اڑے جا رہے تھے۔

صبح للی جاگی، لیکن نہیں، جاگی نہیں، للی کو رات بھر نیند ہی نہیں آئی تھی۔ اسے پتہ نہیں کب ماں نے کھانے کیلئے جگایا، اس نے کب انکار کر دیا، کب اور کس نے اسے پلنگ پر لٹایا، اسے صرف اتنا یاد ہے کہ رات بھر وہ پتہ نہیں کس کے قدموں پر سر رکھ کر روتی رہی۔ تکیہ آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا، آنکھیں سوج گئی تھیں۔

کمّو صبح ہی آ گئی تھی۔ آج للی کو زیور پہنایا جانے والا تھا، شام کو سات بجے لوگ آنے والے تھے، ساس تو تھی ہی نہیں، سسر آنے والے تھے اور کمّو جو للی کی گہری دوست تھی، پر اس گھر کو سجانے کا پورا بوجھ تھا اور للی تھی کہ کمّو کے کندھے پر سر رکھ کر اس طرح بلکتی تھی کہ کچھ پوچھو نہیں!

کمّو بڑی حقیقت پسنداور غیر جذباتی لڑکی تھی۔ اس نے کئی سہیلیوں کی شادیاں ہوتے دیکھی تھیں۔ پر للی کی طرح بغیر بات کے بلک بلک کر روتے، کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ جب رخصت ہونے لگے تو اس وقت تو رونا ٹھیک ہے، ورنہ چار بڑی بوڑھیاں کہنے لگتی ہیں کہ دیکھو! آج کل کی لڑکیوں شرم حیا دھو کر پی گئی ہیں۔ کیسی اونٹ سی گردن اٹھائے سسرال چلی جا رہی ہیں۔ ارے ہم لوگ تھے کہ روتے روتے صبح ہو گئی تھی اور جب ہاتھ پاؤں پکڑ کے بھیا نے ڈولی میں دھکیل دیا تو بیٹھے تھے۔ ایک یہ ہیں! وغیرہ وغیرہ۔

لیکن اس طرح رونے سے کیا فائدہ اور وہ بھی تب جب ماں یا دیگر لوگ سامنے نہ ہوں۔ سامنے روئے تو ایک بات بھی ہے! بہرحال کمّو بگڑتی رہی اور للی کے آنسو تھمتے ہی نہ تھے۔

کمّو نے کام بہت جلد نمٹا لیے، لیکن وہ گھر میں کہہ آئی تھی کہ اب دن بھر وہیں رہے گی۔ کمّو ٹھہری گھومنے پھرنے والی لڑکی۔ اسے خیال آیا کہ اسے ایلنگز جانا ہے، وہاں سے اپنی کڑھائی کی کتابیں وغیرہ واپس لانی ہیں اور پھر اسے ایک پل چین نہیں آیا۔ اس نے للی کی ماں سے پوچھا، فوری طور پر للی کو مار پیٹ کر زبردستی تیار کیا اور دونوں سکھیاں چل پڑیں۔

بادل چھائے ہوئے تھے اور بہت ہی سہانا موسم تھا۔ سڑکوں پر جگہ جگہ پانی جمع تھا، جن میں چڑیاں نہا رہی تھیں۔ ایلنگز میں اپنا کام نمٹا کر دونوں پیدل سیر کو چل دیں۔ تھوڑی ہی دور آگے بند تھا، جس کے نیچے سے ایک پرانی ریل کی لائن گئی تھی، جو اب بند پڑی تھی۔ لائنوں کے درمیان میں گھاس اگ آئی تھی اور بارش کے بعد گھاس میں سرخ ہیروں کی طرح چمکتی ہوئیں، بیر بہوٹیاں رینگ رہی تھیں۔ دونوں سکھیاں وہیں بیٹھ گئیں، ایک بیربہوٹی رہ رہ کر اس زنگ آلود لوہے کی پٹری کو پار کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور بار بار پھسل کر گر جاتی تھی۔ للی تھوڑی دیر اسے دیکھتی رہی اور پھر بہت اداس ہو کر کمّو سے بولی، ’’کمّو رانی! اب اس پنجرے سے چھٹکارہ نہیں ہو گا، کہاں یہ گھومنا پھرنا، جہاں تم۔ ‘‘

کمّو جو ایک گھاس کی ڈنڈی چبا رہی تھی، تنک کر بولی، ’’دیکھو للّی گھوڑی! میرے سامنے یہ آنسو بہانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ سمجھیں! ہمیں یہ سب چونچلا اچھا نہیں لگتا۔ دنیا کی سبھی لڑکیاں تو پیدا ہوکے بیاہ کرتی ہیں، ایک تم کیا الگ پیدا ہوئی ہو کیا؟ اور بیاہ سے پہلے سبھی یہ کہتی ہیں، بیاہ کے بعد بھول بھی جاؤ گی کہ کمّو کم بخت کس کھیت کی مولی تھی۔‘‘

للی کچھ نہیں بولی، کھسیانی سی ہنسی ہنس دی۔ دونوں سکھیاں آگے چلیں۔ للی آہستہ آہستہ بیر بہوٹیاں بٹورنے لگی۔ دفعتاً کمّو نے اسے جھاڑی کے پاس پڑی سانپ کی ایک کینچلی دکھائی، پھر دونوں ایک بہت بڑے امرود کے باغ کے پاس آئیں اور دو تین برساتی امرود توڑ کر کھائے جو کافی گلے ہوئے تھے، اور آخر میں پرانی قبروں اور کھیتوں میں سے ہوتی ہوئیں، وہ ایک بہت بڑے سے تالاب کے پاس آئیں، جہاں دھوبیوں کے پتھر لگے ہوئے تھے۔ کینچلی، بیر بہوٹیوں، امرود اور ہریالی نے للی کے دل کو ایک عجیب سی فرحت دی اور رو رو کر تھک چکے اس کے دل نے کھلنڈرے پن کی ایک کروٹ لی۔ اس نے چپل اتار دی اور بھیگی ہوئی گھاس پر ٹہلنے لگی۔ تھوڑی دیر میں للی بالکل دوسری ہی للی تھی، ہنسی کی ترنگوں پر دھوپ کی طرح جگمگانے والی، اور شام کو پانچ بجے جب دونوں گھر لوٹیں تو ان کی کھلکھلاہٹ سے محلہ ہل اٹھا اور للی کو بہت کس کر بھوک لگ گئی تھی۔

دن بھر گھومنے سے للی کو اتنی زور کی بھوک لگ رہی تھی کہ آتے ہی اس نے ماں سے ناشتہ مانگا اور جب اپنے آپ الماری سے نکالنے لگی تو ماں نے ٹوکا کہ خود کھا جائے گی تو تیرے سسر کیا کھائیں گے تو ہنس کے بولی، ’’ارے انہیں میں بچا کھچا اپنے ہاتھ سے کھلا دوں گی۔ پہلے چکھ تو لوں، نہیں بدنامی ہو بعد میں۔‘‘ اتنے میں معلوم ہوا وہ لوگ آ گئے تو جھٹ سے وہ ناشتا ادھورا چھوڑ کر اندر گئی۔ کمّو نے اسے ساڑی پہنائی، اس سجایا سنوارا، لیکن اسے بھوک اتنی شدید لگی تھی کہ ان لوگوں کے سامنے جانے سے پہلے وہ پھر بیٹھ گئی اور کھانے لگی، یہاں تک کہ کمّو نے زبردستی اس کے سامنے سے طشتری ہٹا لی اور اسے کھینچ کر لے گئی۔

دن بھر کھلی ہوا میں گھومنے سے اور پیٹ بھر کر کھانے سے صبح للی کے چہرے پر جو اداسی چھائی تھی، وہ بالکل غائب ہو گئی تھی اور ان لوگوں کو لڑکی بہت پسند آئی اور گزشتہ دن شام کو اس کی زندگی میں جو طوفان شروع ہوا تھا، وہ دوسرے دن شام کو پر سکون ہو گیا۔

اتنا کہہ کر مانک ملّا بولے، ’’اور پیارے دوستوں! دیکھا تم لوگوں نے! کھلی ہوا میں گھومنے اور غروب آفتاب سے پہلے کھانا کھانے سے تمام تر جسمانی اور ذہنی پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں اس لئے اس سے کیا نتیجہ نکلا؟‘‘

’’کھاؤ، جان بنائیں۔‘‘ ہم لوگوں نے ان کے کمرے میں ٹنگی تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے ایک آواز میں کہا۔

’’لیکن مانک ملّا‘‘ اونکار نے پوچھا، ’’یہ آپ نے نہیں بتایا کہ لڑکی کو آپ کیسے جانتے تھے، کیوں جانتے تھے، کون تھی یہ لڑکی؟‘‘

’’اچھا! آپ لوگ چاہتے ہیں کہ میں کہانی کا دورانیہ بھی چوبیس گھنٹے رکھوں اور اس میں آپ کو ساری مہا بھارت اور انسائیکلوپیڈیا بھی سناؤں! میں کیسے جانتا تھا اس سے آپ کو کیا مطلب؟ ہاں، یہ آپ کو بتا دوں کہ یہ لیلی وہی لڑکی تھی جس کا بیاہ تنّا سے ہوا تھا اور اس دن شام کو مہیسر دلال اسے دیکھنے آنے والے تھے۔ ‘‘

***

 

 

 

 

پانچویں دوپہر

 

کالے دستے کا چاقو

 

 

اگلے دن دوپہر کو جب ہم سب لوگ ملے تو ایک عجب سی دماغی کیفیت تھی ہم لوگوں کی۔ ہم سب اس رنگین رومانی محبت سے اپنا موہ توڑ نہیں پاتے تھے اور دوسری طرف اس پر ہنسی بھی آتی تھی، تیسری طرف ایک عجب سی خلش تھی دلوں میں کہ ہم سب، اور ہمارے یہ نوجوانی کے خواب کتنے مضحکہ خیز ہوتے ہیں اور ان تمام جذبات کا تصادم، ہمیں ایک عجیب سی بے بسی اور جھنجھلاہٹ بلکہ اسے کھسیاہٹ کہنا زیادہ بہتر ہو گا، کی حالت میں چھوڑ گیا تھا۔ لیکن مانک ملّا بالکل معمول کے انداز میں ہم لوگوں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے جا رہے تھے اور الماری اور میز پر سے وہ دھول جھاڑتے جا رہے تھے، جو رات کو آندھی کی وجہ سے جم گئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے آدمی پھٹے پرانے موزوں کو کچرے میں پھینک دیتا ہے، اسی طرح اپنی ان تمام رومانی الجھنوں کو پھینک دیا ہے اور ادھر مڑ کر دیکھنے کا بھی موہ نہیں رکھا۔

اچانک میں نے پوچھا، ’’اس واقعے نے تو آپ کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر ڈالا ہو گا؟ ‘‘

میرے اس سوال سے ان کے چہرے پر دو چار لکیریں ابھر آئیں، لیکن انہوں نے بڑی مہارت سے اپنی اندرونی کیفیت کو چھپاتے ہوئے کہا، ’’ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا، کوئی واقعہ ایسانہیں جو انسان کے شعور پر گہرا تاثر نہ چھوڑ جائے۔‘‘

’’کم از کم اگر میری زندگی میں ایسا ہو، تو میری تو ساری زندگی ہی ایکدم بنجر ہو جائے۔ شاید دنیا کی کوئی چیز میرے من میں کبھی خوشی پیدا نہ کر سکے۔ ‘‘میں نے کہا۔

مانک ملّا میری طرف دیکھ کر ہنسے اور بولے، ’’اس کا یہ مطلب ہے کہ تم نے ابھی تک نہ تو زندگی دیکھی ہے اور نہ ہی اب تک اچھے ناول ہی پڑھے ہیں۔ زیادہ تر ایسا ہی ہوا ہے اور ایسا ہی سنا گیا ہے دوست، کہ اس قسم کی کڑی پرستش کے بعد زندگی میں دوبارہ کوئی دوسری لڑکی آتی ہے، جو عقل و دانش، اخلاق اور اقتصادی اعتبار سے کمتر درجے کی ہوتی ہے، لیکن اس میں زیادہ ایمانداری، زیادہ بہتر کردار، زیادہ وفاداری اور زیادہ قوت ہوتی ہے۔ مثلاً شرت چٹر جی کے دیو داس مکھر جی کو ہی لے لو۔ پارو کے بعد انہیں چندرا ملی۔ اسی طرح کی دیگر کتنی ہی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مانک ملّا کو کیا تم کم سمجھتے ہو؟ مانک ملّا نے للی کے بعد گندھاری کی طرح اپنی آنکھوں پر زندگی بھر کیلئے پٹی باندھ لینے کی قسم کھا لی تھی۔ لیکن اچھا ہوتا کہ پٹی باندھ ہی لیتا کیونکہ للی کے بعد ستّی کی توجہ میرے لئے نیک فال ثابت نہیں ہوئی اور نہ اس کے اپنے لئے۔ لیکن وہ بالکل دوسری قسم کی دھات کی بنی ہوئی تھی، جمنا سے بھی مختلف اور للی سے بھی الگ۔ بڑی عجیب ہے اس کی کہانی بھی۔۔۔ ‘‘

’’لیکن ملّا بھائی! ایک بات میں کہوں گا، اگر تم برا نہ مانو تو۔ ‘‘پرکاش نے بات کاٹ کر کہا، ’’یہ کہانیاں جو تم سناتے ہو، بالکل سیدھی سادی معلومات کی مانند ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ افسانوی رنگ، کچھ اسلوب، کچھ ٹیکنیک بھی تو ہونی چاہئے۔ ‘‘

’’ٹیکنیک! ہاں ٹیکنیک پر زیادہ زور وہی دیتا ہے جو کہیں نہ کہیں سے اناڑی ہوتا ہے، جو مشق کر رہا ہوتا ہے، جسے مناسب ذرائع نہیں مل رہے ہوتے۔ لیکن پھر بھی ٹیکنیک پر توجہ دینا بہت صحت مندانہ رجحان ہے، بشرطیکہ اس کا تناسب کم ہی رہے۔ جہاں تک میرا سوال ہے تو مجھے تو کہانی کہنے کے نقطہ نظر سے فلا بیئر اور موپاساں بہت اچھے لگتے ہیں، کیونکہ ان میں قاری کو اپنے سحرمیں باندھ لینے کی طاقت ہے، ویسے ان کے بعد چیخوف، کہانی کے میدان میں عجیب شخص رہا ہے اور میں اس کا لوہا مانتا ہوں۔ چیخوف نے ایک بار کسی خاتون سے کہا تھا، ’’کہانی کہنا مشکل بات نہیں ہے۔ آپ کوئی چیز میرے سامنے رکھ دیں، یہ شیشے کا گلاس، یہ ایش ٹرے اور کہیں کہ میں اس پر کہانی کہوں۔ تھوڑی دیر میں میرا تخیل بیدار ہو جائے گا اور اس سے ملحق کتنے ہی لوگوں کی زندگیاں مجھے یاد آ جائیں گی اور وہ چیز کہانی کا خوبصورت موضوع بن جائے گی۔ ‘‘

میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً وہ کالے دستے والا چاقو طاق پر سے اٹھایا اور درمیان میں رکھتے ہوئے کہا، ’’اچھا اس کو ستّی کی کہانی کا مرکزی نقطہ بنائیں۔ ‘‘

’’بنائیں کیا۔‘‘ مانک ملّا سنجیدہ ہو کر بولے، ’’یہ تو اس کی کہانی کا مرکزی نقطہ ہے ہی! جب میں یہ چاقو دیکھتا ہوں تو تصور کرتا ہوں کہ اس کے سیاہ دستے پر خوبصورت پھول کی پنکھڑیوں جیسے گلابی ناخنوں والی لمبی پتلی انگلیاں جذبات سے کانپ رہی ہیں، ایک چہرہ جو جذبات سے سرخ ہے، تھوڑی مایوسی سے نیلا ہے اور تھوڑے خوف سے خاکستری ہے! یہ آخری تصویر ہے ستّی کی، جب وہ آخری بار مجھ سے ملی تھی اور میں آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھ بھی نہیں سکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں یہی چاقو تھا۔ ‘‘

اس کے بعد انہوں نے ستّی کی جو کہانی سنائی، اس میں ٹیکنیک کی پاسداری نہیں کرتے ہوئے، میں اختصار میں بتائے دیتا ہوں۔۔۔

مانک ملّا کا کہنا تھا کہ وہ لڑکی اچھی نہیں کہی جا سکتی تھی، کیونکہ اس کے رہن سہن میں ایک عجب سا تصنع جھلکتا تھا، چال ڈھال بھی بہت ترغیب دینے والی تھی، وہ ہر آنے جانے والے، واقف انجان سے بولنے چالنے کے متمنی رہتی تھی، گلیوں میں چلتے چلتے گنگناتی رہتی تھی اور بلا وجہ لوگوں کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا کرتی تھی۔

لیکن مانک ملّا کا کہنا تھا کہ وہ لڑکی بری بھی نہیں کہی جا سکتی تھی، کیونکہ اس کے بارے میں کوئی ایسی ویسی افواہ گرم نہیں تھی اور سبھی لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر کوئی اس کی طرف ایسی ویسی نگاہ سے دیکھتا تو وہ آنکھیں نکال سکتی ہے۔ اس کی کمر میں ایک سیاہ دستے والا چاقو ہمیشہ رہا کرتا تھا۔

لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ اس کا چچا، جس کے ساتھ وہ رہتی تھی، رشتے میں اس کا کوئی نہیں ہے، وہ اصل میں فتح پور کے قریب کے کسی گاؤں کا حجام ہے جو پلٹن میں بھرتی ہو کر کوئٹہ بلوچستان کی جانب گیا تھا اور وہاں کسی گاؤں کے نیست و نابود ہو جانے کے بعد یہ تین چار برس کی لڑکی اسے روتی ہوئی ملی تھی، جسے وہ اٹھا لایا اور پالنے پوسنے لگا تھا۔ بہت دنوں تک وہ لڑکی ادھر ہی رہی اور آخر میں اس حجام کا ایک ہاتھ کٹ جانے کے بعد اس کو پنشن مل گئی اور وہ آ کر یہاں رہنے لگا۔ ایک ہاتھ کٹ جانے کی وجہ سے وہ اپنا آبائی پیشہ تو نہیں کر سکتا تھا، لیکن اس نے یہاں آ کر صابن سازی شروع کر دی تھی اور چمن ٹھا کر کا پہیہ چھاپ صابن نہ صرف محلے میں، بلکہ چوک تک کی دکانوں پر فروخت کیا جاتا تھا۔ چونکہ اس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا، اس لئے سولہ سترہ سال کی خوبصورت ستّی صابن جماتی تھی، اس کے ٹکڑے اسی سیاہ دستے کے چاقو سے کاٹتی تھی، انہیں خریداروں کے یہاں پہنچاتی تھی اور ہر پندرھواڑے کے آخر میں جا کر اس کا دام وصول کر کے لاتی تھی۔ ہر دکاندار اس کے سر پر بندھے رنگ برنگے رومال، اس کے بلوچی کرتے، اس کے چوڑے غر ارے کی طرف ایک ترچھی نگاہ رکھتا اور دوسرے صابنوں کے بجائے پہیہ چھاپ صابن دکان پر رکھتا، گاہکوں سے اس کی سفارش کرتا اور اس کی یہ تمنا رہتی کہ کس طرح ستّی کو پندرھواڑے کے آخر میں زیادہ سے زیادہ آرڈر دے سکے۔

چمن ٹھا کر، کارخانے کے باہر کھاٹ ڈال کر ناریل کا حقہ پیتے رہتے تھے اور ستّی اندر کام کرتی تھی۔ محنت نے ستّی کے بدن میں ایک ایسا گٹھیلا پن، چہرے پر ایک ایسا رعب، باتوں میں ایک ایسی خود اعتمادی پیدا کر دی تھی کہ جب اسے مانک ملّا نے دیکھا تو ان کے من میں موجود للی کا زخم کافی حد تک بھر گیا اور وہ ستّی کی شخصیت سے مسحور ہو گئے۔

ستّی سے ان کی ملّاقات عجیب انداز سے ہوئی۔ فیکٹری کے باہر چمن اور ستّی مل کر گنگا مہاجن کے یہاں کا حساب کتاب کر رہے تھے۔ چمن نے جو کچھ پڑھا لکھا تھا وہ بھول چکے تھے، ستّی نے تھوڑا پڑھا تھا، لیکن یہ حساب کافی پیچیدہ تھا۔ ادھر مانک ملّا دہی لے کر گھر جا رہے تھے کہ دونوں کو حساب پر جھگڑتے دیکھا۔ ستّی سر جھٹکتی تھی تو اس کے کانوں کے دونوں بندے جگمگا اٹھتے تھے اور ہنستی تھی تو موتی سے دانت چمک جاتے تھے، مڑتی تھی تو کنچن سا بدن جھلملا اٹھتا تھا اور سر جھکاتی تھی تو ناگن سی زلفیں جھول جاتی تھیں۔ اب اگر مانک ملّا کے قدم زمین سے چپک ہی گئے تو اس میں مانک ملّا کا کیا قصور؟

اتنے میں چمن ٹھا کر بولے، ’’جے رام جی کی بھیا۔‘‘ اور ان کے کٹے ہوئے دائیں ہاتھ نے جنبش کھائی اور پھر لٹک گیا۔

ستّی ہنس کر بولی، ’’لو ذرا حساب جوڑ دو مانک بابو۔‘‘ اور مانک بابو بھابھی کے لئے دہی لے جانا بھول کر اتنی دیر تک حساب لگاتے رہے کہ بھابھی نے لوٹنے پر خوب ڈانٹا۔ لیکن اس دن سے اکثر ان کے ذمے ستّی کا حساب جوڑنا آتا رہا اور ریاضی میں اچانک ان کی ایسی دلچسپی بڑھ گئی تھی کہ اسے دیکھ کر تعجب ہوتا تھا۔

مانک ملّا کا شمار پتہ نہیں کیوں ستّی اپنے دوستوں میں کرنے لگی۔ ایک ایسا دوست جس پر مکمل اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا دوست جسے تمام صابنوں کے نسخے بلا خوف و خطر بتائے جا سکتے تھے۔ جس کے بارے میں یقین تھا کہ وہ صابن کے نسخوں کو دوسری کمپنی والوں کو نہیں بتائے گا۔ جس پر سارا حساب کتاب چھوڑا جا سکتا تھا، جس سے یہ بھی مشورہ کیا جا سکتا تھا کہ ہردھن اسٹورز کو سامان ادھار دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ مانک کے آتے ہی ستّی سارا کام چھوڑ کر اٹھ آتی، دری بچھا دیتی، جمے ہوئے صابنوں کے تھال اٹھا آتی اور کمر سے سیاہ چاقو نکال کر صابن کی قتلیاں کاٹتی جاتی اور مانک کو دن بھر کا سارا دکھ سکھ بتاتی جاتی۔ کس بنئے نے بے ایمانی کی، کس نے سب سے زیادہ صابن فروخت کیا، کہاں کریانے کی نئی دکان کھلی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

مانک ملّا اس کے پاس بیٹھ کر ایک انوکھی سی بات محسوس کرتے تھے۔ اس محنت کرنے والی خود مختار لڑکی کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا جو نہ پڑھی لکھی پر جوش للی میں تھا اور نہ ان پڑھ جمنا میں۔ اس میں کسی ماں جیسی آرام دہ صحت مند ممتا تھی، جو ہمدردی چاہتی تھی، ہمدردی دیتی تھی۔ جس کی دوستی کا مطلب تھا، ایک دوسرے کے دکھ سکھ، کام کاج اورہنسی مذاق میں ہاتھ بٹانا۔ اس میں کہیں سے کوئی گانٹھ، کوئی الجھن، کوئی خوف، کوئی دباؤ، کوئی کمزوری نہیں تھی، کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس کا دل کھلی دھوپ کی طرح نکھرا تھا۔ اگر اسے للی کی طرح تھوڑی تعلیم بھی ملی ہوتی تو سونے میں سہاگا ہوتا۔ مگر پھر بھی اس میں جو کچھ تھا، وہ مانک ملّا کو خوابوں کے آسمان میں اڑنے کی ترغیب نہیں دیتا تھا، نہ انہیں بگاڑ کی اندھیری خندقوں میں گراتا تھا۔ وہ انہیں زمین پر پر مسرت انسانی جذبوں میں جینے کا حوصلہ دیتا تھا۔ وہ کچھ ایسے جذبات جگاتی تھی جو ایسی ہی کوئی دوست جگا سکتی تھی، جو خود مختار ہو، جو بہادر ہو، جو متوسط طبقے کے نام نہاد اقدار کے شیشوں کے پیچھے سجی ہوئی گڑیا کی طرح بے جان اور کھوکھلی نہ ہو۔ جو تخلیقی عمل اور گھر خاندان کی سماجی زندگی میں حصہ لیتی ہو اور اپنا کردارمناسب طریقے سے نباہتی ہو۔

میرا یہ مطلب نہیں کہ مانک ملّا اس کے پاس بیٹھ کر یہ سب سوچا کرتے تھے۔ نہیں، یہ سب تو ان کی، اس کیفیت پرمیرا اپنا تجزیہ ہے، ویسے مانک ملّا کو تو وہ صرف بہت اچھی لگتی تھی اور ان دنوں مانک ملّا کا دل پڑھنے میں بھی لگنے لگا اور کام کرنے میں بھی۔ ان کا وزن بھی بڑھ گیا اور انہیں بھوک بھی کھل کر لگنے لگی، وہ کالج کے کھیلوں میں بھی حصہ لینے لگے۔

مانک ملّا نے ذرا جھینپتے ہوئے بھی قبول کیا کہ ان کے دل میں ستّی کیلئے بہت لبھاؤنا پن جاگ گیا تھا اور اکثر ستّی کی ہاتھی دانت سی گردن کو چومتے ہوئے اس کے لمبے جھولتے بندوں کو دیکھ کر ان کے ہونٹ کانپنے لگتے تھے اور پیشانی کی رگوں میں گرم خون زور سے سورج کا ساتواں گھوڑا دوڑانے لگتا تھا۔ پر ساری دوستی کے باوجود کبھی ستّی کے رویے میں اسے جمنا سی کوئی بات نہیں دکھائی دی۔ مانک کی نگاہ جب اس کے جھولتے ہوئے بندوں پر پڑتی اور ان کا ما تھا گرم ہو جاتا، تبھی ان کی نگاہ ستّی کی کمر سے جھولتے چاقو پر بھی پڑتی اور ما تھا پھر ٹھنڈا ہو جاتا، کیونکہ ستّی انہیں بتا چکی تھی کہ ایک بار ایک بنئے نے صابن کی سلاخیں رکھواتے ہوئے کہا، ’’صابن تو کیا میں صابن والی کو بھی دکان پر رکھ لوں ’’تو ستّی نے فوراً چاقو کھول کر کہا، ’’مجھے اپنی دکان پر رکھ اور یہ چاقو اپنی چھاتی میں رکھ کمینے۔ ‘‘تو سیٹھ نے ستّی کے پاؤں چھو کر قسم کھائی کہ وہ تو مذاق کر رہا تھا، ورنہ وہ تو اپنی پہلی ہی سیٹھانی نہیں رکھ پایا۔ وہی دربان کے ساتھ چلی گئی، اب بھلا ستّی کو کیا رکھے گا!

اسی واقعہ کو یاد کر مانک ملّا کبھی کچھ نہیں کہتے تھے، پر اندر ہی اندر ایک نامعلوم سی اداسی ان کی روح پر چھا گئی تھی اور ان دنوں وہ کچھ نظمیں بھی لکھنے لگے تھے، جو بہت غمگین ہوتی تھیں، جن میں وہ تصور کر لیتے تھے کہ ستّی ان سے دور کہیں چلی گئی ہے اور پھر وہ ستّی کو یقین دلا رہے ہیں کہ پیاری، تمہارے پیار کا سپنا میرے دل میں پل رہا ہے اور ہمیشہ پلتا رہے گا۔ کبھی کبھی وہ بہت پریشان ہو کر لکھتے تھے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہوتا تھا کہ بادلوں کے سائے میں تو اب مجھ سے پیاسانہیں رہا جاتا، وغیرہ وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ وہ جو کچھ ستّی سے نہیں کہہ پاتے تھے، اسے گیتوں میں باندھ ڈالتے تھے، پر جب کبھی ستّی کے سامنے انہوں نے اسے گنگنانے کی کوشش کی تو ستّی ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتی اور کہتی، ’’تم نے بنّا سنا ہے؟ سانجھی سنی ہے؟ اور پھر وہ محلے میں گائے جانے والے گیت اتنی درد بھری آواز میں گاتی تھی کہ مانک ملّا جذباتی ہو اٹھتے تھے اور اپنے گیت انہیں مصنوعی اور لفاظی بھرے لگنے لگتے تھے۔ ایسی تھی ستّی، ہمیشہ قریب، ہمیشہ دور، خود میں ایک آزاد بجلی، جس کے ساتھ مانک ملّا کے من کو سکون بھی ملتا تھا اور بے سکونی بھی۔

کبھی کبھی وہ سوچتے تھے کہ اپنے جذبات کو خط کے ذریعے لکھ ڈالیں اور وہ کبھی کبھی خط لکھتے بھی تھے، بہت لمبے لمبے اور بہت مدھر، یہاں تک کہ اگر وہ بچے ہوتے تو ان کا موازنہ نپولین اور سیزر کے محبت بھرے خطوط کے ساتھ کیا جاتا، مگر جب اس میں ’’روح کا نور‘‘، ’’چاند کی شہزادی‘‘ وغیرہ وہ لکھ چکتے تو انہیں خیال آتا کہ یہ زبان تو بیچاری ستّی سمجھتی نہیں، اور جو زبان اس کی سمجھ میں آتی تھی، اس کو لکھنے پر، کمر میں لٹکنے والے سیاہ چاقو کی تصویر دماغ میں روشن ہو جاتی تھی۔ اسی لئے انہوں نے وہ سب خطوط پھاڑ ڈالے۔

اسی دوران ستّی کی ممتا، مانک کے تئیں دن دونی رات چوگنی بڑھتی گئی اور جب جب مانک ملّا کہیں جاتے، باہر بیٹھا ہوا چمن ٹھا کر اپنا کٹا ہاتھ ہلا کر انہیں سلام کرتا، ہنستا اور پیٹھ پیچھے انہیں بہت خونی نظروں سے دیکھ کر دانت پیستا اور پاؤں پٹک کر حقے کے انگارے کریدتا۔ ستّی، مانک کے کھانے پینے، کپڑے لتے، رہنے سہنے میں بہت دلچسپی لیتی اور بعد میں اپنی اڑوسن پڑوسن سے بتلاتی کہ مانک بارہویں درجے میں پڑھ رہے ہیں اور اس کے بعد بڑے لاٹ کے دفتر میں انہیں کام مل جائے گا اور ہمیشہ مانک کو یاددہانی کراتی رہتی تھی کہ پڑھنے میں کوتاہی مت کرنا۔

لیکن ایک بات اب اکثر مانک دیکھنے لگے تھے کہ ستّی اب کچھ اداس سی رہنے لگی ہے اور کوئی ایسی بات ہے جو یہ مانک سے چھپاتی ہے۔ مانک نے بہت پوچھا پر اس نے نہیں بتایا۔ وہ اکثر چمن ٹھا کر کو جھڑک دیتی تھی، راستے میں اس کی چلم پڑی رہتی تھی تو اسے ٹھوکر مار دیتی تھی، خود کبھی حساب نہ کر کے اس کے سامنے کاپی اور وصولی کے روپے پھینک دیتی تھی۔ چمن ٹھا کر نے ایک دن مانک سے کہا کہ میں اگر اسے لا کر نہ پالتا پوستا تو اسے چیل اور گدھ نوچ نوچ کر کھا گئے ہوتے اور یہی جب مانک نے ستّی سے کہا تو وہ بولی، ’’چیل اور گدھ کھا گئے ہوتے تو وہ اچھا ہوتا، بجائے اس کے کہ یہ راکشس اسے نوچ کھائے۔‘‘

مانک نے ششدر ہو کر پوچھا تو وہ بہت جھلا کر بولی، ’’یہ میرا چچا بنتا ہے۔ اسی لیے پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ اس کی نگاہ میں کھوٹ آ گیا ہے۔ پر میں ڈرتی نہیں۔ یہ چاقو میرے پاس ہمیشہ رہتا ہے۔ ‘‘اور اس کے بعد انہوں نے ستّی کو پہلی بار روتے دیکھا اور وہ یتیم، محنتی اور تہی دست لڑکی پھوٹ پھوٹ کر روئی اور انہیں بہت سے واقعات بتائے۔ یہ بات سن کر مانک ملّا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہوا، لیکن وہ بہت پریشان ہوئے اور یہ جان کر کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ان کے دل کو بہت دھکا لگا۔ اس دن شام کو ان سے کھانا نہیں کھایا گیا اور یہ سوچ کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھی آ گئے کہ یہ زندگی اتنی غلیظ اور عجیب کیوں ہے۔

اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ستّی اور چمن ٹھا کر میں ترشی بڑھتی ہی گئی، صابن کا روزگار بھی سرد ہوتا گیا اور اکثر مانک کے جانے پر ستّی روتی ہوئی ملتی اور چمن ٹھا کر چیختے چلاتے ہوئے ملتے۔ وہ ریٹائرڈ سولجر تھے اس لئے بات بات پر کہتے تھے، گولی مار کر دوں گا تجھے۔ سنگین سے دو ٹکڑے کر دوں گا۔ تو نے سمجھا کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

ستّی کے چہرے پر تھوڑی خوشی اس دن آئی، جس دن اسے معلوم ہوا کہ مانک بارہویں میں پاس ہو گئے ہیں۔ اس نے اس دن مہینوں بعد پہلی بار چمن ٹھا کر سے جا کر دو روپے مانگے، ایک روپے کی مٹھائی منگائی اور دوسرے کے پھول بتاشے، اور انہیں چنڈی کے چبوترے پر چڑھا آئی۔ لیکن اس دن مانک آئے ہی نہیں۔ جس دن مانک آئے، اس دن اسے یہ جان کر بڑی مایوسی ہوئی کہ مانک ابھی نوکری نہیں کریں گے، بلکہ پڑھیں گے، حالانکہ بھیا بھابھی نے صاف انکار کر دیا ہے کہ اب زمانہ بہت خراب ہے اور وہ مانک کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔ ستّی کی رائے بھیا بھابھی کی موافقت میں تھی، کیونکہ وہ اپنی آنکھ سے مانک کو بڑے لاٹ کے دفتر میں دیکھنا چاہتی تھی، پر جب اس نے مانک کی خواہش پڑھنے کی دیکھی تو کہا، ’’اداس مت ہو۔ اگر میں یہیں رہی تو میں دوں گی تمہیں روپے۔ اگر نہیں رہی تو دیکھا جائے گا۔ ‘‘

مانک ملّا نے گھبرا کر پوچھا کہ ’’کہاں جاؤ گی تم؟ ‘‘تو ستّی نے ایک اورہی بات بتائی، جس سے مانک ساکت رہ گئے۔

مہیسر دلال، یعنی جمنا والے تنّا کا باپ، اکثر آیا کرتا تھا اور چونکہ دلال ہونے کی وجہ سے اس کی سناروں اور صرافوں سے کافی جان پہچان تھی، اس لئے وہ گلٹ کے کڑے اور پازیب پر پالش کرا کر اور چاندی کے زیورات پر نقلی سنہرا پانی چڑھوا کر لاتا تھا اور ستّی کو دینے کی کوشش کرتا تھا۔ جب مانک ملّا نے پوچھا کہ چمن ٹھا کر کچھ نہیں کہتے تو بولی کہ روزگار تو پہلے ہی چوپٹ ہو چکا ہے، چمن گانجا اور دارو خوب پیتا ہے۔ مہیسر دلال اسے روز نئے نوٹ لا کر دیتے ہیں۔ روز اسے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ رات کو وہ پیئے ہوئے آتا ہے اور ایسی ایسی خرافات بکتا ہے کہ ستّی اپنا دروازہ اندر سے بند کر لیتی ہے اور رات بھر ڈر کے مارے اسے نیند نہیں آتی۔ اتنا کہہ کر وہ رو پڑی اور بولی، ’’سوائے مانک کے اس کا اپنا کوئی نہیں ہے اور مانک بھی اسے کوئی راستہ نہیں بتاتے۔ ‘‘

مانک اس دن بہت ہی پریشان ہوئے اور اس دن انہوں نے ایک بہت غمگین نظم لکھی اور اسے لے کر کسی مقامی اخبار میں دینے ہی جا رہے تھے کہ راستے میں ستّی ملی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی اور روتے روتے اس کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ اس نے مانک کو روک کر کہا، ’’تم میرے یہاں مت آنا۔ چمن ٹھا کر تمہارا قتل کرنے پر آمادہ ہے۔ چوبیس گھنٹے شراب میں ڈوبا رہتا ہے۔ تمہیں میری مانگ کی قسم ہے۔ تم فکر نہ کرنا۔ میرے پاس چاقو رہتا ہے اور پھر کوئی موقع آن ہی پڑا تو تم تو ہو ہی۔ جانتے ہو، وہ بوڑھا پوپلا مہیسر ا مجھ سے بیاہ کرنے کو کہہ رہا ہے۔ ‘‘

مانک کا من بہت بے کل رہا۔ کئی بار انہوں نے چاہا کہ ستّی کی طرف جائیں پر سچ بات ہے کہ بدکار چمن کا کیا ٹھکانہ، ایک ہی ہاتھ ہے پر سپاہی کا ہاتھ ٹھہرا۔

اسی دوران ایک بات اور ہوئی۔ یہ سارا قصہ مانک ملّا کے نام کے ساتھ بہت نمک مرچ کے ساتھ پھیل گیا اور محلے کی کئی بوڑھیوں نے آ کر مانک کی بھابھی کو کہانی بتائی اور تاکید کی کہ اس کا بیاہ کر دینا چاہئے، کئیوں نے تو اپنے قرابت داروں کی خوبصورت سلیقہ مند لڑکیوں تک بتا دیں۔ بھابھی نے تھوڑی اپنی طرف سے بھی جوڑ کر بھیا کو سارا قصہ سنایا اور بھیا نے دوسرے دن مانک کو بلا کر سمجھایا کہ انہیں اس پر مکمل اعتماد ہے، لیکن مانک اب بچے نہیں ہیں، انہیں دنیا کو دیکھ کر چلنا چاہئے۔ ان چھوٹے لوگوں کو منہ لگانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سب بہت گندے اور کمینے قسم کے ہوتے ہیں۔ مانک کے خاندان کا اتنا نام ہے۔ مانک اپنے بھیا کے پیار پر بہت روئے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ اب وہ ان لوگوں سے نہیں گھلے ملیں گے۔

دو تین بار ستّی آئی پر مانک ملّا اپنے گھر سے باہر نہیں نکلے اور کہلا دیا کہ نہیں ہیں۔ مانک اکثر جمنا کے یہاں جایا کرتے تھے اور ایک دن جمنا کے دروازے پر ستّی ملی۔ مانک کچھ نہیں بولے تو ستّی رو کر بولی، ’’نصیب روٹھ گیا تو تم نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ کیا غلطی ہو گئی مجھ سے؟‘‘ مانک نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ بھیا کے دفتر سے لوٹنے کا وقت ہو گیا تھا۔ ستّی ان کی گھبراہٹ سمجھ گئی، لمحے بھر کیلئے ان کی طرف بڑی عجب نگاہ سے دیکھتی رہی پھر بولی، ’’گھبراؤ نہیں مانک! ہم جا رہے ہیں۔‘‘ اور آنسو پونچھ کر آہستہ آہستہ چلی گئی۔

انہی دنوں میں بھابھی اور مانک کے درمیان اکثر جھگڑا ہوا کرتا تھا، کیونکہ بھابھی بھیا صاف کہہ چکے تھے کہ مانک کو اب کہیں نوکری کر لینی چاہئے۔ پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پر مانک پڑھنا چاہتے تھے۔ بھابھی نے ایک دن جب بہت جلی کٹی سنائی تو مانک اداس ہو کر ایک باغ میں جا کر برگد کے نیچے بینچ پر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے کہ کیا کرنا چاہئے۔

تھوڑی دیر بعد انہیں کسی نے پکارا، دیکھا توسامنے ستّی ہے۔ ایکدم سپاٹ، مردے کی طرح سفید چہرہ، اداس آنکھیں، آئی اور آ کر قدموں کے پاس زمین پر بیٹھ گئی اور بولی، ’’آخر جو سب چاہتے تھے وہ ہو گیا۔ ‘‘

مانک کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ کل رات کو چمن ٹھا کر کے ساتھ مہیسر دلال آیا۔ دونوں رات گئے تک بیٹھ کر شراب پیتے رہے۔ اچانک مہیسر سے بہت سے روپیوں کی تھیلی لے کر چمن اٹھ کر باہر چلا گیا اور مہیسر آ کر ستّی سے ایسی باتیں کرنے لگا، جسے سن کر ستّی کا تن بدن سلگنے لگا اور ستّی باہر کے دروازے کی طرف بڑھی تو پایا کہ چمن اسے باہر سے بند کر کے چلا گیا ہے۔ ستّی نے فوراً اپنا چاقو نکالا اور مہیسر دلال کو ایک دھکا دیا تو مہیسر دلال لڑھک گیا۔ ایک تو بوڑھا دوسرے شراب میں چور اور ستّی جو چاقو لے کر ان کی گردن پر چڑھ بیٹھی تو اس کا سارا نشہ کافور ہو گیا اور بولا، ’’مار ڈال مجھے، میں اف نہ کروں گا۔ میں تجھ پر ہاتھ نہ اٹھاؤں گا۔ لیکن میں نے نقد پانچ سو روپیہ دیا ہے۔ میں بال بچے دار آدمی مر جاؤں گا۔‘‘ اور اس کے بعد ہچکیاں بھر بھر کر رونے لگا اور پھر اس نے وہ کاغذ دکھایا جس پر چمن ٹھا کر نے پانچ سو پر اس کے ساتھ ستّی کو بھیجنے کی شرط کی تھی اور مہیسر رونے لگا، ستّی کے جیسے کسی نے روح کھینچ لی ہو۔ مہیسر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ پھر مہیسر دلال نے سمجھایا کہ اب تو قانونی کار روائی ہو گئی ہے۔ پھر مہیسر دلال اسے خوش رکھے گا وغیرہ وغیرہ، لیکن ستّی مردے کی طرح پڑی رہی۔ اسے یاد نہیں مہیسر نے کیا کہا، اسے یاد نہیں کیا ہوا۔

ستّی خاموشی سے نگاہیں نیچی کئے ناخنوں سے زمین کھودتی رہی اور پھر مانک کی طرف دیکھ کر بولی، ’’مہیسر نے آج یہ انگوٹھی دی ہے۔‘‘ مانک نے ہاتھ میں لے کر دیکھا تو مسکرانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی، ’’کھری ہے۔‘‘ مانک خاموش ہو گئے۔ ستّی نے تھوڑی دیر بعد پوچھا کہ مانک اداس کیوں ہیں تو مانک نے بتایا کہ بھابھی سے پڑھائی کے بارے میں کہا سنی ہو گئی ہے تو ستّی نے انگوٹھی اتار کر فوراً مانک کے ہاتھ میں رکھ دی اور کہا کہ اس سے وہ فیس جمع کرا دے۔ آگے کی بات ستّی کے ہاتھ میں چھوڑ دے۔ مانک نے اسے قبول نہیں کیا تو لمحے بھر کیلئے ستّی چپ رہی پھر اچانک بولی، ’’میں سمجھ گئی۔ اب تم مجھ سے کچھ نہیں لو گے۔ پر بتاؤ میں کیا کروں؟ مجھے کوئی بھی تو نہیں بتاتا۔ میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ مجھے کوئی راستہ بتاؤ؟ کوئی راستہ، تم جو کہو گے، میں ہر طرح سے تیار ہوں۔‘‘ اورسچ مچ ستّی جو اب تک پتھر کی طرح بے روح بیٹھی تھی، پاؤں پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ مانک گھبرا کر اٹھے پر اس نے قدموں پر سر رکھ دیا اور اتنا روئی اتنا روئی کہ کچھ پوچھو مت۔ لیکن مانک نے کہا کہ اب انہیں دیر ہو رہی ہے۔ تو وہ خاموشی سے اٹھی اور چلی گئی۔

ایک بار پھر وہ ملی اور مانک اس دن بھی اداس تھے، کیونکہ جولائی آ گئی تھی اور ان کے داخلے کا کچھ انتظام نہیں ہو پا رہا تھا۔ ستّی نے بہت اصرار کر کے مانک کو روپے دیے تاکہ ان کا کام نہ رکے اور پھر بہت بلک بلک کر روئی اورکہا کہ اس کی زندگی جہنم ہو گئی ہے۔ اسے کوئی راستہ نہیں بتاتا۔ مانک ملّا نے تسلی کا ایک لفظ بھی نہیں کہا، تو وہ خاموش ہو گئی اور پوچھنے لگی کہ مانک کو اس کی باتیں بری تو نہیں لگتیں، کیونکہ مانک کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے جس سے وہ اپنا دکھ کہہ سکے۔ اور مانک سے نہ جانے کیوں وہ کوئی بات نہیں چھپا پاتی ہے اور ان سے کہہ دینے پر اس کا دل ہلکا ہو جاتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ کم از کم ایک شخص ایسا ہے، جس کے آگے اس کی روح پاک اور مجبور ہے۔

مانک کے سامنے کوئی راستہ نہیں تھا اور سچ تو یہ ہے کہ بھیا کا کہنا بھی انہیں ٹھیک لگتا تھا کہ اس کا اور ان لوگوں کا کیا مقابلہ، دونوں کی سوسائٹی الگ، سوسائٹی میں عزت الگ، پر مانک ملّا، ستّی سے کچھ کہہ بھی نہیں پاتے تھے، کیونکہ انہیں تعلیم بھی جاری رکھنی تھی اور اسی کشمکش کی وجہ سے ان کے گیتوں میں شدید نوع کی مایوسی اور ترشی آتی جا رہی تھی۔

اور پھر ایک رات ایک عجب سا واقعہ ہوا۔ مانک ملّا سو رہے تھے کہ اچانک کسی نے انہیں جگایا اور انہوں نے آنکھ کھولی تو سامنے دیکھا کہ ستّی ہے۔ اس کے ہاتھ میں چاقو تھا، اس کی لمبی پتلی گلابی انگلیوں میں چاقو کانپ رہا تھا، چہرہ جذبات سے سرخ، مایوسی سے نیلا، خوف سے خاکستری تھا۔ اس کی بغل میں ایک چھوٹا سا بیگ تھا، جس میں زیورات اور روپے بھرے تھے۔ ستّی، مانک کے پاؤں پر گر پڑی اور بولی، ’’کسی طرح چمن ٹھا کر سے چھوٹ کر آئی ہوں۔ اب ڈوب مروں گی پر وہاں نہیں لوٹوں گی۔ تم کہیں لے چلو کہیں! میں نوکری کروں گی۔ مزدوری کر لوں گی۔ تمہارے بھروسے چلی آئی ہوں۔ ‘‘

مانک کا یہ حال کہ اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے۔ شاعری کی حد تک تو ٹھیک ہے، پر یہ علت مانک کہاں پالتے اور پھر بھیا ٹھہرے بھیا اور بھابھی ان سے بھی سات قدم آگے۔ مانک کی ساری قسمت بڑی پتلی ڈور پر جھول رہی تھی۔ پر آخر مانک ملّا کادماغ ٹھہرا۔ کھیل ہی تو گیا۔ فوراً بولے، ’’اچھا بیٹھو ستّی! میں ابھی چلوں گا۔ تمہارے ساتھ چلوں گا۔‘‘ اور ادھر پہنچے بھیا کے پاس۔ سرگوشی میں دو جملوں میں ساری صورتحال بتا دی۔ بھیا بولے، ’’اسے بٹھاؤ، میں چمن کو بلا لاؤں۔‘‘ مانک گئے اور ستّی کے اصرار کے باوجود اسے کسی نہ کسی بہانے ٹالتے گئے اور جب ستّی نے چاقو چمکا کر کہا کہ ’’اگر نہیں چلو گے تو آج یا تو میری جان جائے گی یا اور کسی کی۔‘‘ تو مانک کارواں رواں کانپ گیا اور دل ہی دل میں مانک، بھیا کو یاد کرنے لگے۔

ستّی ان سے پوچھتی رہی، ’’کہاں چلو گے؟ کہاں ٹھہرو گے؟ کہاں نوکری دلاؤ گے؟ میں اکیلی نہیں رہوں گی۔‘‘ اتنے میں ایک ہاتھ میں لاٹھی لئے مہیسر اور ایک ہاتھ میں لالٹین لئے چمن ٹھا کر آ پہنچے اور پیچھے پیچھے بھیا اور بھابھی۔ ستّی یہ دیکھتے ہی ناگن کی طرح اچھل کر کونے میں چپک گئی اور لمحے بھر میں صورت حال کو سمجھ کر چاقو کھول کر مانک کی جانب لپکی، ’’دغا باز، کمینہ۔‘‘ پر بھیا نے فوراً مانک کو نکالا، مہیسر نے ستّی کو دبوچا اور بھابھی چیخ کر بھاگیں۔

اس کے بعد کمرے میں خوفناک منظر رہا۔ ستّی قابو میں ہی نہ آتی تھی، لیکن جب چمن ٹھا کر نے اپنے اکلوتے فوجی ہاتھ سے پٹرا اٹھا کر ستّی کو مارا تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑی۔ اسی حالت میں ستّی کا چاقو وہیں چھوٹ گیا اور اس کے زیورات کے بیگ بھی پتہ نہیں کہاں گیا۔ مانک کا اندازہ تھا کہ بھابھی نے اسے حفاظت کے خیال سے لے کر اپنے کوٹھری میں رکھ لیا تھا۔

بیہوش ستّی کو بھیا اور مہیسر اٹھا کر اس کے گھر پہنچا آئے اور مانک ملّا ڈر کے مارے بھیا کے کمرے میں سوئے۔

دوسرے دن چمن ٹھا کر کے گھر میں کافی بھیڑ تھی کیونکہ گھر کھلا پڑا تھا، سامان پھیلا پڑا تھا، چمن ٹھا کر اور ستّی دونوں غائب تھے اور صبح تڑکے اٹھ کر جو بوڑھیاں گنگا اشنان کو جاتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ایک تانگہ ادھر سے گیا تھا، جس پر کچھ سامان لدا تھا، چمن ٹھا کر بیٹھا تھا اور آگے کی سیٹ پر سفید چادر سے ڈھکا کوئی سو رہا تھا جیسے لاش ہو۔

لوگوں کا کہنا تھا کہ چمن اور مہیسر نے مل کر رات کو ستّی کا گلا گھونٹ دیا ہو گا۔

***

 

 

 

 

چھٹی دوپہر

 

گزشتہ سے پیوستہ

 

پچھلی دوپہر سے آگے

 

ستّی کی موت نے مانک ملّا جیسے کچے جذباتی شاعر کے دل پر بہت گہرے نقوش چھوڑے تھے اور نتیجہ یہ ہوا تھا کہ ان کی تخلیقات میں موت کی گونج بار بار سنائی دینے لگی تھی۔

اسی دوران ان کے بھیا کا تبادلہ ہو گیا اور بھابھی ان کے ساتھ چلی گئیں اور گھر مانک کی دیکھ بھال میں چھوڑ دیا گیا۔ مانک کو اکیلے گھر میں بہت ڈر لگتا تھا اور اکثر لگتا تھا کہ جیسے وہ بھوتوں بھرے ویران گھر میں چھوڑ دیے گئے ہوں۔ ان کو پڑھنے کا شوق تھا، تاہم اب پڑھنے میں ان کاجی ذرا بھی نہیں لگتا تھا، ان کی جیب بھی بھیا کے جانے سے بالکل خالی ہو گئی تھی اور وہ کوئی ایسی ملّازمت ڈھونڈ رہے تھے، جس میں وہ کام کے ساتھ ساتھ پڑھائی کاسلسلہ بھی قائم رکھ سکیں، ان تمام حالات و واقعات نے مل کر ان کے دل پر گہری چھاپ چھوڑی تھی اور پتہ نہیں کس پراسرار وجہ سے وہ اپنے آپ کو ستّی کی موت کا ذمہ دار سمجھنے لگے تھے۔ ان کے دل کی آہستہ آہستہ یہ حالت ہو گئی کہ انہیں محلہ چھوڑ کر ویران جگہیں زیادہ بہتر لگنے لگیں، جیسے دور کہیں پرسنسان پیپل کی چھاؤں، خوفناک ویران قبرستان، پرانے مرگھٹ، ٹیلے اور گڑھے وغیرہ۔ انہیں چاندنی میں کفن دکھائی دینے لگے اور دھوپ میں محبوب کی چتا کی آگ۔

اس وقت تک ہم لوگوں کی مانک ملّا سے اتنی جان پہچان نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے اس قسم کی بیٹھکیں نہیں جمتی تھیں اور دن بھر بھٹکنے کے بعد مانک اکثر چائے گھروں میں جا کر بیٹھا کرتے تھے۔ چائے گھروں کی چہل پہل میں تھوڑا سا دل بہل جایا کرتا ہے۔

(لیکن یہ میں بتا دوں کہ مانک ملّا کا یہ خیال بالکل غلط تھا کہ ستّی کی موت واقع ہو گئی تھی، ستّی صرف بیہوش ہو گئی تھی اور اسی حالت میں چمن ٹھاکر اسے تانگے پر لے گئے تھے، کیونکہ بدنامی کے ڈر سے مہیسر دلال نہیں چاہتے تھے کہ وہ لوگ ایک لمحے کیلئے بھی محلے میں رہیں۔ لیکن ستّی کہاں تھی اس کا پتہ بعد میں مانک کو لگا۔)

ادھر مانک نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر اس کی وجہ سے ستّی کی زندگی تباہ ہوئی تو وہ بھی ہر طریقے سے اپنی زندگی تباہ کر کے ہی مانیں گے، جیسے شرت کے دیوداس وغیرہ نے کیا تھا اور اس وجہ سے زندگی تباہ کرنے کے جتنے بھی ذرائع تھے، انہیں وہ کام میں لا رہے تھے۔ ان کی صحت بری طرح گر گئی تھی، ان کا مزاج بہت غیر سماجی، غیر متوازن اور اذیت پسند ہو گیا تھا، لیکن انہیں مکمل اطمینان تھا کیونکہ وہ ستّی کی موت کا کفارہ ادا کر رہے تھے۔ ان کی روح کو، ان کی شخصیت کو اور ان کی صلاحیتوں کو گرہن لگا ہوا تھا اور گرہن کی حالت میں اور ہو ہی کیا سکتا ہے۔

اکثر اوقات ان کے دوستوں نے انہیں سمجھایا کہ انسان کو زندگی سے پیار ہونا چاہئے۔ موت سے اس طرح کا موہ تو صرف بزدلی اور گریز کی نشانیاں ہیں، انہیں اپنی راہ تبدیل کرنی چاہئے۔ لیکن پھر وہ سوچتے کہ اپنی وفاداری نبھانے میں مشغول ہو رہے ہیں۔ اور ان کا فرض تو اس راستے پر ثابت قدمی اور جرات سے گامزن ہوتے رہنا ہے۔ ایسا خیال آتے ہی وہ پھر کچھوے کی طرح خود کو سمیٹ کر مطالعۂ باطن کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ آہستہ آہستہ ان کی حیثیت اس درخت کی مانند ہو گئی، جسے سکھ دکھ، دوست دشمن، روشنی سیاہی، سچ جھوٹ میں کوئی تمیز نہیں معلوم ہوتی، جو وقت اور رفتار کی پابندیوں سے چھٹکارا پا کر زمین پر زندہ اجسام کے درمیان رہتے ہوئے بھی جمادات کی نمائندگی کرتا ہے۔ سماجی زندگی انہیں بار بار اپنے شکنجے میں کسنے کی کوشش کرتی تھی۔ لیکن وہ محبت کے علاوہ تمام چیزوں کو حقیرسمجھتے تھے، پھر چاہے وہ معاشی مسئلہ ہو یا کوئی سیاسی تحریک، موتی ہاری کا قحط ہو، یا کوریا کی جنگ، امن کی اپیل ہو یا ثقافتی آزادی کا منشور۔ صرف محبت سچ ہے، محبت حقیقت ہے، باقی سب مایا ہے۔

اور اس صورت حال سے یہ ظہور پذیر ہوا کہ ان کے گیتوں میں بے انتہایاس، درد اور مایوسی آ گئی اور چونکہ اس نسل کے ہر شخص کے دل میں کہیں نہ کہیں مانک ملّا اور دیوداس دونوں کی آمیزش ہے، اس لئے لوگ جھوم جھوم اٹھتے تھے۔ مگر وہ سب کے سب زیادہ ہوشیار تھے، اداسی بھرے گیتوں کی تعریف کرنے کے بعد اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے تھے۔ لیکن مانک ملّا ضرور ایسا محسوس کرتے تھے کہ جیسے یہ پریمی چکور کے ٹوٹے ہوئے پر ہیں، جو چاند کے پاس پہنچتے پہنچتے ٹوٹ گئے اور بکھر رہے ہیں اور ہوا کے ہر ہلکے جھونکے کی مار سے اپنا راستہ تبدیل کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی نہ کوئی سمت ہے، نہ کوئی منزل، نہ مقصد، نہ کوئی جستجو ہے اور نہ کوئی ترقی، کیونکہ پتوں کے نیچے گرنے کو ترقی تو نہیں کہتے!

اسی وقت مانک ملّا سے میں نے پوچھا کہ آخر ان تمام تر حالات سے کبھی آپ کا جی نہیں گھبراتا تھا؟ وہ بولے (الفاظ میرے ہیں، مفہوم ان کا) کہ ’’گھبراتا کیوں نہیں تھا؟ اکثر میں اُوب جاتا تھا تو کچھ ایسے ایسے کارنامے انجام دیا تھا کہ میں خود بھی چونک اٹھتا تھا اور دوسرے بھی چونک اٹھتے تھے۔ جن سے میں اکثر خود کو ہی یقین دلایا کرتا تھا کہ میں زندہ ہوں، فعال ہوں۔ جیسے کہہ کچھ اور رہا ہوں، کہتے کہتے ہوئے کچھ اور کر گیا ہوں۔ اسے تنگ نظر لوگ جھوٹ بولنا یا دھوکہ دینا بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب صرف دوسروں کو چونکانا بھر تھا، اپنی گھبراہٹ سے بور ہو کر تیکھی باتیں کرنا، ہر نظریے کو اکھاڑ دینے کی کوشش کرنا، یہ سب میرے ذہن کے اس رجحان سے متاثر تھیں، جو میرے اندر کی مجہولیت اور کھوکھلے پن کا نتیجہ تھیں۔ ‘‘

لیکن جب ہم لوگوں نے پوچھا کہ اس میں آخر انہیں اطمینان کیا ملتا تھا تو وہ بولے، ’’میں محسوس کرتا تھا کہ میں دوسرے لوگوں سے کچھ مختلف ہوں، میری شخصیت انوکھی ہے، منفرد ہے اور معاشرہ مجھے سمجھ نہیں سکتا۔ عام لوگ بے حد عام سوچ کے ہیں، میری فطانت، طباعی، ذہانت، ذوق، فطری استعداد یا طبعی میلان کی سطح سے بہت نیچے ہیں، میں انہیں جس طرح چاہوں بہکا سکتا ہوں۔ مجھ میں اپنی شخصیت کو لے ایک نوع کی غیر ضروری فریفتگی، اس کی خرابیوں کو بھی اچھائیوں کا عکس سمجھنے کا وہم اور اپنی مردم بیزاری کو بھی اپنی خصوصیت سمجھنے کا غیر فطری پندار پیدا ہو گیا تھا۔ آہستہ آہستہ میں اپنی ذات سے ہی اتنا پیار کرنے لگا کہ میرے دل و دماغ کے چاروں اطراف اونچی اونچی سنگلاخ فصیلیں کھڑی ہو گئیں اور میں خود اپنے گھمنڈ کا قیدی ہو گیا، لیکن اس کا نشہ مجھ پر اتنا غالب تھا کہ میں کبھی اپنی اصلی کیفیت اور حالت کا ادراک نہیں کر پایا۔‘‘

’’آپ اس ذہنی پراگندگی سے کیسے آزاد ہو سکے؟‘‘

’’اصل میں ایک دن بڑے عجیب انداز میں یہ راز مجھ پر آشکار ہوا کہ ستّی زندہ ہے اور اب اس کے دل میں میرے لئے محبت کی جگہ گہری نفرت ہے۔ اس کا پتہ لگتے ہی میں نے ستّی کی موت کی وجہ سے، بیکار کاجو تانا بانا اپنی شخصیت کے ارد گرد بُن رکھا تھا، وہ منتشر ہو گیا اور میں پھر سے ایک صحت مند اور نارمل شخص کی طرح ہو گیا۔ ‘‘

اس کے بعد انہوں نے وہ واقعہ بتایا۔۔۔

جن چائے گھروں میں وہ جاتے تھے، ان کے ارد گرد اکثر بھکاری گھوما کرتے تھے۔ وہ چائے پی کر باہر نکلے نہیں کہ بھکاری انہیں گھیر لیا کرتے تھے۔

ایک دن انہوں نے ایک نئے بھکاری کو دیکھا۔ ایک چھوٹی سی لکڑی کی گاڑی میں وہ بیٹھا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ کٹا تھا اوراس کے ساتھ موجود ایک عورت گود میں ایک بھنکتا ہوا بچہ لئے گاڑی کھینچتی چلتی آ رہی تھی۔ وہ آ کر مانک کے پاس کھڑی ہو گئی اور پیلے پیلے دانت نکال کر کچھ کہا، اس پر مانک نے حیرت سے دیکھا کہ وہ بھکاری تو چمن ٹھاکر ہے اور عورت ستّی ہے۔ مانک کو نزدیک سے دیکھتے ہی ستّی چونک کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی، فوراً اس کا ہاتھ کمر پر گیا تھا، شاید چاقو کی تلاش میں، پر چاقو نہ پا کر اس نے پھر پیالہ اٹھایا اور خون کی پیاسی نظروں سے مانک کی جانب دیکھتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

یہ دیکھ کر کہ ستّی زندہ اور بال بچوں سمیت خوش ہے، مانک کے دل و دماغ کی ساری مایوسی جاتی رہی اور انہیں نئی زندگی مل گئی اور کچھ دنوں بعد ہی آر ایم ایس میں تنّا کی جگہ خالی ہوئی تو ادبی سرگرمیاں چھوڑ کر انہوں نے نوکری بھی کر لی اور آرام سے رہنے لگے۔ (جیسے مانک ملّا کے اچھے دن لوٹ آئے ویسے رام کرے سب کے لوٹیں۔) انہی سب کے کچھ دنوں بعد ہم لوگوں کی مانک ملّا سے بے تکلّفانہ دوستی ہو گئی اور ان کے یہاں ہم لوگوں کا اڈہ جمنے لگا تھا۔

***

 

 

 

 

متفرقات

 

اگرچہ میرا ہاضمہ بھی درست ہے اور میں نے دانتے کی ڈیوائن کامیڈی بھی نہیں پڑھی ہے، پھر بھی میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں۔

چمنی سے نکلنے والے دھوئیں کی طرح ایک سترنگی دھنک آہستہ آہستہ نمودار ہوئی اور پھر آسمان کے بیچوں بیچ آ کر آویزاں ہو گئی۔

ایک سلگتا ہوا ہونٹ، کانپتا ہوا دائیں طرف سے دھنک کی طرف کھسک رہا ہے۔

دائیں جانب مانک کا ہونٹ، بائیں جانب لیلی کا۔ کھسکتے کھسکتے دھنک کے قریب آ کر دونوں رک جاتے ہیں۔

نیچے زمین پر مہیسر دلال ایک گاڑی کھینچتے ہوئے آتے ہیں۔ گاڑی چمن ٹھا کر کی بھیک مانگنے والی گاڑی ہے۔ اس میں چھوٹے چھوٹے بچے بیٹھے ہیں۔ جمنا کے بچے، تنّا کے بچے، ستّی کے بچے۔ چمن ٹھا کر کا کٹا ہواہاتھ اندھے اژدھے کی طرح آتا ہے۔ بچوں کی گردنوں میں لپٹ جاتا ہے، اور انہیں مروڑنے لگتا ہے۔ ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔

دونوں پیاسے ہونٹ دھنک کے مزید قریب آ جاتے ہیں۔

تنّا کے دونوں کٹے ہوئے پاؤں راکشسوں کی طرح جھومتے ہوئے آتے ہیں۔ ان میں نئے لوہے کی نالیں جڑی ہیں۔ بچے ان سے کچل رہے ہیں۔ برسات کے بعد ہری گھاس پر نکلیں بیر بہوٹیاں، دور دور تک سائیکلوں سے کچلی ہوئی پڑی ہیں۔ ان کا خون سوکھ کر گاڑھا سیاہ رنگ کا ہو گیا ہے۔ دھنک کا عکس سبھی پہاڑوں اور میدانوں میں ترچھا ہو کر پڑ رہا ہے۔

مائیں سسکتی ہیں! جمنا، للی، ستّی۔

دونوں ہونٹ دھنک کے اور قریب کھسکنے لگتے ہیں۔ اور قریب۔ اور قریب۔

ایک سیاہ چاقو دھنک کو مکھن کی طرح کاٹ دیتا ہے۔ دونوں ہونٹ گوشت کے مردہ لوتھڑوں کی طرح گر پڑتے ہیں۔

چیلیں۔۔۔ چیلیں۔۔۔ چیلیں۔۔۔ ٹڈیوں کی طرح ان گنت چیلیں!

***

 

 

 

 

ساتویں دوپہر

 

سورج کا ساتواں گھوڑا

 

یعنی وہ جو خواب بھیجتا ہے!

 

اگلے دن میں گیا اور مانک ملّا کو بتایا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے تو وہ جھلا گئے، ’’دیکھا ہے تو میں کیا کروں؟ جب دیکھو تب خواب دیکھا ہے، خواب دیکھا ہے۔ ارے کون ساشیر، چیتا دیکھا ہے کہ گاتے پھرتے ہو۔‘‘ جب میں خاموش ہو گیا تو مانک ملّا اٹھ کر میرے پاس آئے اور ہمدردی بھرے الفاظ میں بولے، ’’ایسے خواب تم اکثر دیکھتے ہو؟‘‘

میں نے کہا، ’’ہاں۔‘‘

اس پر وہ بولے، ’’اس کا مطلب ہے کہ قدرت نے تمہیں کسی خاص کام کے لئے منتخب کیا ہے! حقائقِ زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو، بہت سی چیزوں کے اندرونی تعلقات کو اور ان کی اہمیت کو تم خواب میں ایک ایسے نقطہ نظر سے دیکھو گے کہ جہاں سے دوسرے نہیں دیکھ پائیں گے اور پھر اپنے خوابوں کو سادہ زبان میں تم سب کے سامنے رکھو گے۔ سمجھے؟‘‘ میں نے سر ہلایا کہ ہاں میں سمجھ گیا تو وہ پھر بولے، ’’اور جانتے ہو یہ خواب سورج کے ساتویں گھوڑے کے بھیجے ہوئے ہیں۔‘‘

جب میں نے پوچھا کہ یہ کیا بلا ہے تو اور لوگ بے چین ہو اٹھے اور بولے، ’’یہ سب میں بعد میں پوچھ لوں‘‘ اور مانک ملّا سے کہانی سنانے کا اصرار کرنے لگے۔

مانک ملّا نے آگے کہانی سنانے سے انکار کیا اور بولے، ’’فی البدیہہ انداز میں اتنی محبت بھری کہانیاں ہی کافی ہیں۔‘‘ سچ تو یہ کہ انہوں نے اتنے لوگوں کی زندگیوں کو لے کر ایک مکمل ناول ہی سنا ڈالا ہے۔ صرف اس کی شکل کہانیوں جیسی رکھی تاکہ ہر دوپہر کو ہم لوگوں کی دلچسپی بدستور قائم رہے اور ہم لوگ بوریت محسوس نہ کریں۔ ورنہ سچ پوچھو تو یہ ناول ہی تھا اور اس طریقے سے سنایا گیا تھا کہ جو لوگ خوشیوں بھرے ناولوں کے پریمی ہیں، وہ جمنا کی خوشگوار ازدواجی زندگی سے مطمئن اور جنت میں تنّا اور جمنا کے ملن پر شاداں ہوں، وہ للی کی شادی پر آسودہ اور ستّی کے چاقو سے مانک ملّا کی جان بچ جانے پرفرحاں ہوں۔ لیکن جو لوگ ٹریجڈی کے پریمی ہیں، وہ ستّی کی بھکاری والی زندگی پر اداس، تنّا کے ریل حادثے میں معذور ہونے پر دکھی اور للی اور مانک ملّا کی کبھی نہ طے ہو سکنے والی دوری پر رنجیدہ ہوں۔ ساتھ ہی مانک ملّا نے ہم لوگوں کو یہ بھی سمجھایا کہ اگرچہ انہیں محبت بھری کہانیاں کہا گیا ہے پر اصل میں یہ ’’نیتی پریم‘‘ کہانیاں ہیں، مطلب جیسے اپنشدوں میں، یہ برہم نہیں ہے، نیتی نیتی کہہ کر برہم کے سوروپ کو سمجھایا گیا ہے، اسی طرح ان کہانیوں میں ’’یہ محبت نہیں تھی، یہ بھی محبت نہیں تھی، یہ بھی محبت نہیں تھی، کہہ کر محبت کی وضاحت اور سماجی زندگی میں اس کے مقام کو سمجھایا گیا تھا۔ ’’سماجی زندگی‘‘ کے لفظ کا استعمال کرتے ہوئے مانک ملّا نے پھر کندھے ہلا کر مجھے نصیحت کرتے ہوئے بولے، ’’تم بہت خواب دیکھنے کے عادی ہو اور تمہیں یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہئے کہ جو محبت معاشرے کے استحکام اور شخصیت کی ترقی میں معاون و مددگار نہیں بن سکتی، وہ بے کار ہے۔ یہی حقیقت ہے۔ اس کے علاوہ محبت کے بارے میں کہانیاں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، نظموں میں جو کچھ منظوم ہوا ہے، رسالوں میں جو چھاپا گیا ہے، وہ سب ایک رنگین جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘ پھر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے سب سے پہلے محبت بھری کہانیاں اسی لئے سنائیں کہ یہ رومانوی سبز باغ اور پیار کے بارے میں بے کار کے مغالطے، ہم لوگوں کے دل و دماغ پر اس طرح بری طرح چھائے ہوئے ہیں کہ اس کے سوا ہم لوگ کچھ بھی سننے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ (بعد میں انہوں نے کہانیوں کے روپ میں ہی دیگر کئی ناول سنائے، جنہیں اگر موقع ملّا تو ضرور تحریری شکل میں لاؤں گا، مگر پہلے اس دوران مانک ملّا کا موقف ان کہانیوں پر جان لوں۔ )

کہانی کے بیانئے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سات دوپہر تک چلنے والا یہ بیانیہ بہت کچھ مذہبی پاٹھ چکروں کی طرح ہے، جن میں کسی ایک سنت کے کلام یا دھرم گرنتھ کا ایک ہفتے تک خلاصہ ہوتا ہے اور روز انہوں نے ہم لوگوں کو ایک کہانی سنائی اور آخر میں نتائج بانٹے (اگرچہ اس میں جزوی سچائی تھا، کیونکہ کہانیوں میں انہوں نے اس کے نتیجے بتلائے ہی نہیں تھے! ) مانک جی کی کہانیوں کا دورانیہ میں، دنوں کی تعداد سات رکھنے کی وجہ بھی شاید بہت کچھ سورج کے سات گھوڑوں پر مبنی تھی۔

آخر میں، میں نے پھر پوچھا کہ سورج کے سات گھوڑوں سے ان کا کیا مطلب تھا اور خواب سورج کے ساتویں گھوڑے سے کس طرح منسلک ہیں، تو وہ بڑی سنجیدگی سے بولے کہ، ’’دیکھو یہ کہانیاں حقیقتاً محبت کی نہیں، بلکہ اس زندگی کی عکاسی کرتی ہیں، جسے آج کا لوئر مڈل کلاس طبقہ جی رہا ہے۔ اس میں محبت سے کہیں زیادہ اہم ہو گئی ہے، آج کی معاشی جد و جہد، شخصی فضیلت، اسی لیے اتنی ناشائستگی، مایوسی، ترشی اور تارک الخیالی متوسط طبقے پر چھا گئی ہے۔ لیکن کوئی نہ کوئی ایسی بات ہے، جس نے ہمیں ہمیشہ اندھیرا چیر کر آگے بڑھنے، معاشرے کے نظام کو تبدیل کرنے اور انسانیت کے سچے اقدار کو دوبارہ مستحکم کرنے کی طاقت اور ترغیب دی ہے۔ چاہے اسے روح کہہ لو چاہے کچھ اور۔ اور ایمان، ہمت، اخلاص پر غیر متزلزل یقین اس نورانی روح کو اسی طرح آگے لے چلتے ہیں، جیسے سات گھوڑے سورج کو آگے بڑھا لے جاتے ہیں۔ کہا بھی گیا ہے، ’’سورج آتما سورگ میں۔ ‘‘

تو اصل میں سورج کے رتھ کو آگے بڑھنا ہی ہے۔ ہوا یہ کہ ہماری بد کرداری، بد اخلاقی، بد عنوانی اور تاریکی بھری زندگی کی گلیوں میں چلنے سے سورج کا رتھ کافی ٹوٹ پھوٹ گیا ہے اور بیچارے گھوڑوں کی تو یہ حالت ہے کہ کسی کی دم کٹ گئی ہے تو کسی کی ٹانگ اکھڑ گئی ہے، تو کوئی سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے، تو کسی کے کھر لہولہان ہو گئے ہیں۔ اب بچا ہے صرف ایک گھوڑا جس کے پنکھ اب بھی سلامت ہیں، جو سینہ تانے، گردن اٹھائے آگے چل رہا ہے۔ وہ گھوڑا ہے مستقبل کا گھوڑا، تنّا، جمنا اور ستّی کے ننھے معصوم بچوں کے گھوڑے، جن کی زندگیاں، ہماری زندگیوں سے کہیں زیادہ امن چین والی ہوں گی، زیادہ پاکیزگی بھری ہوں گی، اس میں زیادہ روشنی ہو گی، زیادہ امرت ہو گا۔ وہی ساتواں گھوڑا ہماری پلکوں میں مستقبل کے خواب اور حال کے نئے تخمینے بھیجتا ہے، تاکہ ہم وہ راستہ بنا سکیں، جن پر ہو کر مستقبل کا گھوڑا آئے گا۔ تاریخ کے وہ نئے اوراق لکھ سکیں، جن پر اشو میدھ (قدیم ہندوستان کا ایک چکرورتی راجا) کا منزلیں مارنے والا گھوڑا دوڑے گا۔ مانک ملّا نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ باقی چھ گھوڑے کمزور، مریل اور معذور ہیں، مگر ساتواں گھوڑا شاندار اور حوصلہ مند ہے اور ہمیں اپنا دھیان اور اعتقاد اسی پر رکھنا چاہئے۔

مانک ملّا نے اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہانیوں کے اس سلسلے کا نام ’’سورج کا ساتواں گھوڑا‘‘ رکھا تھا۔ ممکن ہے یہ نام آپ کو پسند نہ آئے، اسی لئے میں نے یہ اعتراف کیا کہ یہ میرا دیا ہوا نہیں ہے۔

آخر میں، میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس مختصر ناول کی موضوع میں جو کچھ بھی اچھائی برائی ہے، اس کا ذمہ مجھ پر نہیں بلکہ مانک ملّا پر ہی ہے۔ میں نے صرف اپنے اندازسے یہ کہانی آپ کے سامنے پیش کر دی ہے۔ اب آپ مانک ملّا اور ان کی کہانیوں کے بارے میں اپنی رائے دینے کیلئے آزاد ہیں۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

 

ای پب فائل

 

 

کنڈل فائل