فہرست مضامین
وجوب العمل بالسنۃ النبویۃ وکفر من أ نکرھا
سنتِ نبوی پر عمل واجب اور اُس کا انکار کفر ہے
سماحۃ الشیخ
عبد العزیز بن باز
رحمہ اللہ
ترجمہ
شیخ غلام مصطفیٰ حسن
زیر نگرانی
رئاسۃ ادارۃ البحوث العلمیۃ والافتاء
ریاض۔ مملکت سعودی عرب
(آج کل باطل دعووں کے ذریعے سنت نبوی کا انکار پر طعن و تشنیع کا بازار گرم ہے، اس لیے ہم نے خیال کیا کہ اس رسالے کو شائع کر کے سنت پر عمل کے وجوب اور اس کے انکار پر کفر کو واضح کیا جائے، تاکہ عامۃ الناس گناہوں سے بچ جائیں )
اسلام کی اساسیں
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور عاقبت متقی اور پرہیزگار لوگوں کے لیے، اور صلاۃ و سلام ہوں اس کے بندے اور اس کے رسول اور ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اور آپ کو وجود مسعود تمام بندوں پر حجت ہے، اور صلاۃ و سلام ہوں آپ کی آل، آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ان کے بعد آنے والے لوگوں پر جنہوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہایت امانت اور عمدگی کے ساتھ ان کے الفاظ و معانی کی مکمل حفاظت کے ساتھ دوسروں تک پہنچایا،
رضی اللہ عنھم وارضاھم و جعلنا من اتباعھم باحسان۔
علمائے متقدمین اور متاخرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ احکام کے ثابت کرنے اور حلال و حرام کی توضیح کے لیے اصول معتبرہ چار ہیں۔
اولاً : کتاب اللہ العزیز (قرآن پاک) جس کے نہ آگے سے باطل آ سکتا ہے نہ ہی پیچھے سے۔
ثانیاً :سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم، کیونکہ وہ اپنی نفسانی خواہش سے باتیں نہیں بتاتے ہیں، ان کا ارشاد وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔
ثالثاً : اجماع علمائے امت۔
رابعاً :قیاس : اگرچہ بعض علماء نے قیاس کے حجت ہونے میں اختلاف کیا ہے لیکن جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ جب قیاس میں تمام ضروری شرائط پائی جائیں تو وہ حجت ہے چنانچہ اس اصول پر بیشمار دلائل ہیں اور اتنے مشہور ہیں کہ ان کے ذکر کی ضرورت نہیں۔
( اور موضوع بحث بھی قیاس نہیں ہے بلکہ سنت ہے ) (مترجم)
پہلی اساس (اصل) کتاب اللہ العزیز ہے
پروردگار عالم کے کلام قرآن پاک کی بہت سی آیات اس کتاب کی اتباع اور تمسک کے وجوب و فرضیت اور اس کی حدود کے پاس وقوف اور رک جانے پر دلالت کرتی ہیں۔ چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَیْکُم مِّن رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِہِ أَوْلِیَاءَ ۗ قَلِیلًا مَّا تَذَکَّرُونَ ﴿۳﴾
تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو (3) سورۃ الاعراف
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَہَٰذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ﴿۱۵۵﴾
ور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیر و برکت والی، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو (155) سورۃ الانعام
اور دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قَدْ جَاءَکُم مِّنَ اللَّہِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُّبِینٌ ﴿۱۵﴾ یَہْدِی بِہِ اللَّہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلَامِ وَیُخْرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیہِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ﴿۱۶﴾سورۃ المائدۃ
تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آ چکی ہے (15) جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے درپے ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے اور اپنی توفیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہبری کرتا ہے (16)
اور اللہ کا ارشاد گرامی ہے :
إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَاءَہُمْ ۖ وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیزٌ ﴿۴۱﴾لَّا یَأْتِیہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ ۖ تَنزِیلٌ مِّنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ ﴿۴۲﴾سورۃ فصلت
جن لوگوں نے اپنے پاس قرآن پہنچ جانے کے باوجود اس سے کفر کیا، (وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ) یہ بڑی با وقعت کتاب ہے (41) جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے (42)
اور اللہ کریم فرماتے ہیں :
وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ ۚ ( 19 سورۃ الأنعام )
اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعے سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں ۔
اور فرمان الٰہی ہے کہ :
ہَٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنذَرُوا بِہِ ﴿۵۲﴾ سورۃ ابراہیم
یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے وہ ہوشیار کر دیے جائیں۔
قرآن کریم میں اس معنی اور مفہوم کی بہت سی آیات ہیں، علاوہ ازیں بہت سی صحیح احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہیں۔ جن میں قرآن پاک کی اتباع اور تمسک کا حکم دیا گیا ہے اور جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس نے قرآنی احکام پر عمل کیا وہ ہدایت یافتہ ہوا اور جس نے ان احکام سے منہ موڑا وہ گمراہ ہوا۔
اور اُن احادیث میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہیں وہ خطبہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر دیا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
إنی تارکٌ فیکم ما لن تضلوا إن اعتصمتم بہ ؛ کتابَ اللہِ ( رواہ مسلم )
میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم اس پر عامل رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔
اور صحیح مسلم ہی میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے دوسری روایت مروی ہے :
عن زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال:
إنی تارکٌ فیکم ثقلَینِ : أولُہما کتابُ اللہِ فیہ الہدى والنورُ فخذوا بکتاب اللہِ۔ واستمسِکوا بہ وأہلُ بیتی۔ أُذکِّرُکم اللہَ فی أہلِ بیتی۔ أُذَکِّرُکم اللہَ فی أہلِ بیتی۔ أُذکِّرُکم اللہَ فی أہلِ بیتی ”
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کی میں تمہارے درمیان دو قیمتی اور نفیس چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان دونوں میں سے پہلی کتاب اللہ ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے، پس تم کتاب اللہ کو پکڑ لو اور اس پر مضبوطی سے عمل کرو اور دوسری میرے اہل بیت، میں تمہیں اپنے اہل بہت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے اہل بہت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ”فی القرآن ” اور وہ اللہ کی رسی ہے، جس نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا، ہدایت یافتہ ہوا، اور جس نے اسے چھوڑ دیا گمراہ ہوا۔
اس موضوع پر احادیث بہت زیادہ ہیں، اور اس سلسلے میں ان دلائل کو طوالت سے ذکر کرنے کے مقابلے میں جو قرآن پر عمل کے وجوب کو ثابت کرتے ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے لے کر آج تک کے اہل علم اور اہل ایمان کاس بات پر اجماع کافی و شافی ہے کی نہ صرف کتاب اللہ پر عمل واجب ہے بلکہ تمام امورمیں کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ سنت رسول اللہ سلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے فیصلے ہوں گے اور حاصل کیے جائیں گے اور کتاب سنت کی حکمرانی ہو گی۔
دوسری اساس (اصل) سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے
تین متفق علیہ اصولوں میں سے دوسری اصل اور بنیاد وہ ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ کے اقوال یا افعال یا تقریر کی شکل میں صحیح طریقے سے ثابت ہے، اسی کا نام ” حدیث ” ہے اور اسے ہی سنت کہا جاتا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لے کر آج تک تمام اہل علم نہ صرف اس اصل اصیل پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ وہ اسے حجت تسلیم کرتے ہیں اور امت کو اس کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور انہوں نے اس فن میں بہت سی کتابیں تالیف کی ہیں اور اسول فقہ اور مصطلح الحدیث کی کتابوں میں اسی کی وضاحت کی گئی ہے۔
سنت کے حجت ہونے پر اس قدر دلائل ہیں کہ ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔ بعض دلائل وہ ہیں جن کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے، جن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اور پیروی کا حکم ہے اور یہ حکم آپ کے ہم عصر اور آپ کے بعد آنے والے سبھی لوگوں کے لیے ہے، اس لیے کی آپ سبھی کے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) ہیں اور قیامت تک کے تمام لوگ آپ کی اتباع اور پیروی کرنے کے پابند ہیں اور اس لیے کہ آپ اپنے اقوال، افعال اور تقریر کے ذریعے سے کتاب اللہ کے مفسر اور بیان کرنے والے ہیں۔
اگر سنت نہ ہوتی تو لوگوں کو نماز کی رکعات اور اس کے اوصاف و واجبات کا علم نہ ہوتا اور روزہ، زکوٰۃ اور حج کے احکام کی تفصیل معلوم نہ کر پاتے اور نہ ہی انہیں جہاد، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احکام کا پتہ چلتا اور نہ ہی معاملات و محرمات سے آگاہ ہوتے اور نہ ہی انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حدود و عقوبات میں جو امور ضروری ہیں، ان کا علم ہوتا۔
اس سلسلے میں قرآن پاک کی بہت سی آیات ہیں جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور پیروی کے وجوب کو ثابت کرتی ہیں۔ چنانچہ
سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَأَطِیعُوا اللَّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ﴿۱۳۲﴾ سورۃ آل عمران
اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (132)
اور سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَى اللَّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا ﴿۵۹﴾ سورۃ النساء
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ (59)
نیز سورۃ النساء ہی میں فرمان باری تعالیٰ ہے :
مَّن یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیظًا ﴿۸۰﴾ سورۃ النساء
اس رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منھ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا (80)
اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کیسے ممکن ہے ؟اور متنازع فیہ امور کو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کس طرح لوٹایا جا سکتا ہے ؟اگر سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم حجت نہ ہو یا پوری کی پوری غیر محفوظ ہو۔
اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسی چیز کا حکم دیاجس کا وجود ہی نہیں اور یہ باطل ہے اور اللہ کی ذات سے بہت بڑے کفر کے مترادف ہے اور اس سے بد ظنی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں ارشاد فرمایا :
وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ﴿۴۴﴾ سورۃ النحل
یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں (44)
اور سورۃ النحل ہی میں ارشاد ہے :
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ إِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوا فِیہِ ۙ وَہُدًى وَرَحْمَۃ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ﴿۶۴﴾ سورۃ النحل
اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لیے اتارا ہے کہ آپ ان کے لیے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان والوں کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے (64)
پس کیسے اللہ تعالیٰ منزل الیہم (قرآن پاک) کی تبیین (تفسیر و تشریح) کا کام نبی پاک کے سپرد کر رہے ہیں ؟اگر آپ کی سنت کا وجود ہی نہیں اور وہ حجت نہیں۔
اور سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ کا اسی طرح فرمان ہے :
قُلْ أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِیعُوہُ تَہْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِینُ ﴿۵۴﴾ سورۃ النور
کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مانو، رسول اللہ کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کر دیا گیا ہے اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو۔ سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے (54)
اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ النور میں ارشاد فرمایا :
وَأَقِیمُوا الصَّلَاۃ وَآتُوا الزَّکَاۃ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ﴿۵۶﴾ سورۃ النور
نماز کی پابندی کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرمانبرداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (56)
اور سورۃ الاعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللَّہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ یُحْیِی وَیُمِیتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ الَّذِی یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَکَلِمَاتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ ﴿۱۵۸﴾ سورۃ الأعراف
آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راہ پر آ جاؤ (158)
یہ آیات اس بات پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ہدایت اور رحمت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور پیروی میں ہے۔ اور ہدایت اور رحمت کا حصول آپ کی اتباع اور پیروی کے بغیر کیسے ممکن ہے ؟ یا یوں کہ کر کہ سنت صحیح نہیں ہے، یا سرے سے قابل اعتماد ہی نہیں ہے، انسان کیونکر ہدایت اور رحمت الٰہی کا مستحق ہو سکتا ہے ؟َ
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور میں ارشاد فرمایا :
فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃ أَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ﴿۶۳﴾
سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے (63) سورۃ النور
اور سورۃ الحشر مین حکم ربانی ہے :
وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّہَ ۖ إِنَّ اللَّہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ ﴿۷﴾ سورۃ الحشر
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے (7)
اوراس معنی کی بہت سی آیتیں ہیں اور سب کی سب نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع و فرمانبرداری اور جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں، اس کی پیروی کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں، جیسا کی کتاب اللہ (قرآن پاک) اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل کے وجوب اور اس کی اتباع اور پیروی کے فرض ہونے پر دلائل بیان ہو چکے ہیں۔
کتاب سنت دونوں ایسی اساس اور اصل ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، جس نے ان میں سے کسی ایک کا انکار کیا اس نے دوسری کو بھی انکار کیا اور اسے جھٹلایا اور یہ کفرو ضلال اور گمراہی ہے اور با جماع جملہ اہل علم و ایمان دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
( بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ قرآن مجید کا کتاب اللہ ہونا بھی ثابت نہیں ہو سکتاکہ سنت کو حجت تسلیم نہ کیا جائے۔ آخر کس نے بتایا کی قرآن پاک اللہ کی کتاب ہے ؟ جواب ہو گا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا۔ اگر ان کی حدیث اورسنت قابل اعتماد اور قابل حجت نہ ہو گی تو العیاذ باللہ قرآن کریم کا کتاب اللہ ہونا ثابت نہ ہو سکے گا ) ( مترجم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع و فرمانبرداری اور جو کچھ آپ لے کر آئے اس پر عمل کا واجب ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کا حرام ہونا، احادیث متواترہ سے ثابت ہے، اور یہ سبھی لوگوں کے لیے ہے چاہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ہون یا قیامت تک آپ کے بعد آنے والے ہوں۔ ان احادیث میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ أن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال:
«مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَى اللَّہَ (متفق علیہ)
”سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ”
اور صحیح بخاری میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
کل أمتی یدخلون الجنۃ إلا من أبى، قیل ومن یأبى یا رسول اللہ؟! قال: من أطاعنی دخل الجنۃ، ومن عصانی فقد أبى (متفق علیہ)
میری تمام امت جنت میں داخل ہو گی مگر جس نے انکار کیا، تو پوچھا گیا، یا رسول اللہ ! وہ کون ہے جو انکار کرے گا؟ تو فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت مین داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے جنت میں جانے سےانکار کر دیا۔
احمد، ابو داؤد اور حاکم نے صحیح اسناد کے ساتھ مندرجہ ذیل حدیث بیان کی ہے لکھتے ہیں :
عن المقدام بن معدی کرب عن رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم أنہ قال :
ألا إنی أوتیت الکتاب ومثلہ معہ ألا یوشک رجل شبعان على أریکتہ یقول علیکم بہذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فأحلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ ))
سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
بیشک مجھے کتاب دی گئی ہے اور کتاب کے ساتھ اس کی مثل (حدیث کیونکہ وہ بھی وحی الٰہی ہے )
خبردار! قریب ہے کہ ایک شکم سیر آدمی اپنے گاؤ تکیے پر بیٹھا ہوا کہے گا کہ تم قرآن کو اپنے لیے ضروری سمجھو جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو کچھ حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔
( یعنی ایسے لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد پیدا ہوں گے جو صرف ” قران کافی ہے ” کا نعرہ لگا کر حدیث نبوی کا انکار کریں گے، جیسا کی پاکستان میں عبداللہ چکڑالوی اور پھر اس کی معنوی اولاد غلام احمد پرویز اور ڈاکٹر فضل الرحمن وغیرہ نے یہ نعرہ لگا کر حدیث و سنت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار کیا۔ ) (مترجم)
ابو داؤد اور ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ مندرجہ ذیل روایت نقل کی ہے :
عن أبی رافع رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم :
لا أُلفّین أحدکم متکئاً على أریکتہ یأتیہ الأمر من أمری مما أمرت بہ أو نہیت عنہُ، فیقول : لا أدری ما وجدناہ فی کتاب اللہ اتبعناہ "۔
سیدنا ابی رافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
میں نہیں پاؤں تم میں سے ایک کو جو اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو گا، اور اس کے پاس میرے احکام میں سے ایک حکم آئے گا کہ میں نے اسے کرنے کا حکم دیا ہو گا یا کرنے سے روکا ہو گا تو وہ کہے گا، ہم نہیں جانتے (کیونکہ)جو ہم کتاب اللہ میں پائیں گے، اس کی پیروی کریں گے۔
ایک دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے جسے حسن بن جابر نے سیدنا مقدام بن یکرب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ :
إن النبی صلی اللہ علیہ و سلم حرم أشیاء یوم خیبر منھا الحمار الأھلی
وغیرہ، ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم : (( یوشک أن یقعد الرجل على أریکتہ یحدث بحدیثی
فیقول : بینی وبینکم کتاب اللہ فما وجدنا فیہ حلالا استحللناہ، وما وجدنا فیہ حراما حرمناہ
ألا وان ما حرم رسول اللہ مثل ما حرم اللہ ))۔
” فتح خیبر کے دن نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا، پھر آپ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ تم میں سے ایک مجھے جھٹلائے اس حال میں کہ وہ ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا ہو کہ میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو کہے گا: کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ موجود ہے ہم اس میں جو حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور جو حرام پائیں گے اسے حرام جانیں گے، خبردار! جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے حرام کیا ہے وہ بھی اسی طرح حرام ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ آپ اپنے خطبے میں صحابہ کرام کو وصیت فرماتے تھے کہ ” حاضر غائب کو پہنچا دے ” اور انہیں فرماتے تھے کہ ” بہت سے سننے والے پہچانے والے کے مقابلے میں زیادہ یاد کرنے والے اور سمجھدار ہوتے ہیں ”
جیسا کی صحیحین میں ہے کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یوم عرفہ اور یوم نحر کو حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ :
"فلیبلغ الشاہد الغائب فرب مبلغ أوعى لہ ممن سمعہ”
حاضر غائب کو پہنچا دے کیونکہ بہت سے سننے والے، پہچانے والے کے مقابلے میں زیادہ یاد کرنے والے ہوتے ہیں ”
پس اگر آپ کی سنت سننے والے پر یا اس شخص پر جسے وہ پہنچی ہے، حجت نہ ہوتی اور اگر آپ کی سنت قیامت تک باقی رہنے والی نہ ہوتی تو آپ اس کی تبلیغ کا حکم نہ دیتے۔ اس سے ثابت ہواسنت کے ذریعہ اس شخص پر حجت قائم ہے، جس نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے سُنا اور اس شخص پر بھی جس کو یہ سنت صحیح اسناد سے پہنچی ہو۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قولی اور فعلی سنت کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ اسے اپنے بعد تابعین تک پہنچایا اور انہوں نے اپنے بعد آنے والوں کو یہ امانت سپرد کی۔ حتیٰ کہ ثقہ علماء قرناً بعد قرن اور نسلاً بعد نسل اس امانت کو ایک دوسرے تک منتقل کرتے چلے آئے اور ثقہ علماء نے سنت اور احادیث کی کتابوں کو جمع کیا۔ صحیح کو ضعیف سے الگ کیا، پھر صحیح اور ضعیف احادیث کی پہچان کے لیے ضابطے اور قوانین وضع کیے۔
( اصول حدیث یعنی مصطلع الحدیث اسماء الرجال کے مستقل فنون معرض وجود میں آئے اور ان پر کتابیں لکھی گئیں، حتیٰ کہ بعض محدثین نے ضعیف اور موضوع احادیث پر کتابیں لکھیں )(مترجم)
اہل علم میں بخاری شریف اور مسلم شریف کے علاوہ حدیث کی دوسری کتابیں متداول ہوئیں اور انہوں نے سنت کی یوں حفاظت کی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز کی ملحدوں کے الحاد، باطل پرستوں کی تحریف اور دین سے کھیلنے والوں کے کھیل سے حفاظت فرمائی
جیسا کہ اس امر کی پختگی پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد دلالت کرتا ہے :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ ﴿۹﴾ سورۃ الحجر
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں (9)
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کی سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھی وحی منزل( اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ) ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی حفاظت کی ہے، جس طرح سے اس نے اپنی کتاب کی حفاظت فرمائی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے علماء کرام کی ایک جماعت کو توفیق بخشی کی وہ ایک نقاد کی حیثیت سے باطل پرستوں کی تحریف اور جاہلوں کی تاویلات فاسدہ کی تردید کریں اور ان تمام روایات کو جو جاہل اور جھوٹے لوگوں اور ملحدین نے سنت میں شامل کر دی تھیں، الگ کر دیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب مبارک کی تفسیر بنایا ہے اور نہ ان احکام کی جو مجمل ہیں تشریح ہے، جب کہ ایسے احکام کو بھی شامل ہے جن کا قرآن پاک میں ذکر نہیں ہوا ہے جیسا کہ دودھ پلانے کی احکام، میراث کے احکام، بیوی اور اس کی پھوپھی کو نکاح میں جمع کرنے کے حرام ہونے کا حکم، اسی طرح بیوی کے ساتھ اس کی خالہ کو نکاح میں جمع کرنے کے حرام ہونے کا حکم۔
اس کے علاوہ اور بہت سے احکام ہیں جن کا سنت صحیحہ میں تذکرہ ملتا ہے، جب کہ وہ قرآن پاک میں مذکور نہیں ہیں۔
صحابہ کرام، تابعین اور اُن کے بعد اہل علم کے نزدیک سنت کی عظمت اور اس پر عمل کا وجوب
”صحیحین میں سید نا ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہو گئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور عرب کے بعض قبیلے مرتد ہو گئے، اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ میں اس شخص سے جہاد کروں گا جس نے نماز اور زکوۃ کے درمیان تفریق ڈالی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ لوگوں سے کس طرح جنگ کریں گے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کہیں جس نے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کہا اس نے مجھ سے اپنا جان و مال بچا لیا مگر کسی حق کے عوض اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا زکوۃ اس کے (کلمہ کے ) حق میں نہیں ہے ؟ واللہ اگر انہوں نے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں دیتے تھے تو اس کے نہ دینے سے میں ان سے جنگ کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واللہ اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا۔ تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔ ”
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اس پر ان کی پیروی کی اور مرتدین کے خلاف جہاد کیا۔ یہاں تک کہ انہیں دوبارہ اسلام میں داخل کیا اور جن لوگوں نے اپنے ارتداد پر اصرار کیا انہیں قتل کر دیا۔
اس قصے میں سنت کی تعظیم اور اس پر عمل کے واجب ہونے کی روشن اور واضح دلیل ہے۔
ایک ” دادی” سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی میراث کے بارے میں سوال کرتی ہے، آپ نے فرمایا کہ کتاب اللہ میں تو اس سلسلے میں کچھ وضاحت نہیں، اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کے لیے کسی چیز کا فیصلہ کیا ہو، اور میں لوگوں سے اس بارے میں سوال کروں گا۔ چنانچہ آپ نے صحابہ کرام سے سوال کیا تو بعض صحابہ نے اس بات کی شہادت دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دادی کو چھٹا حصہ دیا تھا تو آپ نے اس کے مطابق فیصلہ فرما دیا۔
سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے عاملوں کو وصیت فرمایا کرتے تھے کہ وہ لوگوں کے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کریں، اگر کوئی معاملہ کتاب اللہ میں نہ پائیں تو پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے فیصلہ کیا جائے۔
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عورت کے املاص (عورت کا اپنے پیٹ کے بچے کو کسی تعدی یا زیادتی کی وجہ سے گرا دینا)کے حکم کے بارے میں اشکال پیدا ہوا تو آپ نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا تو آپ کے پاس محمد بن سلمہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنھما نے شہادت دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس معاملے میں ایک غلام یا باندی آزاد کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کے مطابق فیصلہ دیا۔
جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے خاوند کی وفات کے بعد عورت کے اپنے گھر میں عدت گزارنے کا مسئلہ پیش ہوا اور انہیں اس مسئلے میں اشکال پیش آیا تو انہیں فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنھا نے جو ابو سعید رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں، خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے خاوند کی وفات کے بعد انہیں حکم دیا تھا کی وہ اپنے خاوند کے گھر ٹھری رہیں یہاں تک کہ مقر رہ عدت اپنی میعاد کو پہنچ جائے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے کے مطابق فیصلہ دیا۔
اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ولید بن عقبہ کے شراب پینے پر سنت کے مطابق حد کے نفاذ کا فیصلہ صادر فرمایا۔
جب سیدناعلی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ متعۃ الحج (تمتع) سے منع فرماتے ہیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا اور ارشاد فرمایا کہ میں لوگوں میں سے کسی ایک ادمی کے قول کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو ترک نہیں کروں گا۔
اور جب کچھ لوگوں نے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنھما کے قول کی بنیاد پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کے سامنے تمتع کے مقابلے میں حج افراد کے افضل ہونے پر دلیل دی تو سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ارشاد فرمایا کہ ” قریب ہے تم پرآسمان سے پتھر برسیں میں کہتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنھما) نے یہ بات کہی ہے ”، اگر کسی شخص نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے قول پر عمل کرتے ہوئے سنت کی مخالفت کی اور اس پر اللہ کے عذاب کا خطرہ محسوس کیا جانے لگا، تو پھر اس شخص کا کیا حال ہو گاجس نے ان دونوں جلیل القدر صحابہ سے کم درجہ کے کسی آدمی کے قول یا محض اپنی رائے اور اجتہاد سے سنت کی مخالفت کی ہو؟
اور جب بعض لوگوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے بعض سنتوں کے مقابلے میں تنازع کیا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما نے ارشاد فرمایا کی کیا ہم عمر (رضی اللہ عنہ) کی اتباع کے پابند ہیں !اور جب ایک آدمی نے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے عرض کیا آپ ہمیں کتاب اللہ بیان کیجئے اور وہ اس وقت حدیث (رسول صلی اللہ علیہ و سلم )بیان فرما رہے تھے، تو آپ یہ بات سن کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کی سنت رسول اللہ کتاب اللہ کی تفسیر ہے، اگر سنت نہ ہوتی تو ہم نہ جانتے کہ ظہر کی چار رکعات، مغرب کی تین رکعات اور فجر کے دو فرض ہیں، اسی طرح سے دوسرے وہ تمام مسائل جن کی تفصیل سنت میں آئی ہے ان سے بے خبر رہتے !
سنت کی تعظیم۔ اس کے وجوب اور اس کی مخالفت پر وعید و تحذیر کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بہت ہی زیادہ قضایا اور واقعات ہیں۔
انہی میں سے ایک واقعہ ہے کہ جس وقت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان کیا کہ ” اللہ کی بندیوں (عورتوں ) کو مسجد میں آنے سے مت روکو”! تو آپ کے کسی بیٹے نے کہا کہ”اللہ کی قسم !ہم انہیں ضرور روکیں گے ” تو سیدنا بن عمر رضی اللہ عنھما ناراض ہوئے اور اسے سخت ڈانٹ پلائی اور فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ ” نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے اور تو کہتا ہے کہ ہم ضرور روکیں گے ”
اور جب عبد اللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ ہیں اپنے ایک رشتہ دار کو دیکھا کہ وہ (گوپھن، غلیل یا ہاتھ سے )کنکری پھینک رہا ہے تو اسے منع فرمایا کہ : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کنکری پھینکنے سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ نہ تو شکار کو لگتی ہے نہ ہی دشمن کو زخمی کرتی ہے لیکن یہ دانت توڑ دیتی ہے یا آنکھ پھوڑ دیتی ہے ”۔
پھر اس کے بعد اسے کنکری پھینکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ” اللہ کی قسم ! میں تجھ سے کبھی بھی بات نہیں کروں گا کیونکہ میں تجھے بتاتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کنکری پھینکے سے منع کیا، تم (یہ بات سن کر ) پھر یہ کام کرتے ہو ”۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے جلیل القدر تابعی ایوب سختیانی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب تم کسی کے سامنے سنت بیان کرو اور وہ کہے کہ ” اسے چھوڑو اور ہمیں (صرف)قرآن پاک سے (کوئی )خبر دو” تو جان لو کہ وہ گمراہ ہے۔
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ سنت کتاب اللہ پر فیصلہ کرنے والی ہے ( مطلب اس کا یہ ہے کہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کتاب اللہ کے اجمال کا بیان (تفصیل) ہے )، مطلق احکام کو مقید کرنے والی ہے یا ان احکام کو بیان کرتی ہے جن کا ذکر کتاب اللہ میں موجود نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ ﴿۴۴﴾ سورۃ النحل
یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں (44)
اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول اس سے پہلے گزر چکا کہ :
”مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی(یعنی سنت)”
امام بیہقی رحمہ اللہ نے عامر شعبی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بعض لوگوں سے فرمایا کہ ” جس وقت تم نے آثار کو چھوڑ دیا اس وقت تم ہلاک ہو گئے (یعنی صحیح احادیث)
اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام اوزاعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بعض اصحاب سے فرمایا ”
جب تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی حدیث پہنچے تو تجھے کوئی دوسری بات کرنے سے ڈرنا چاہیئے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کی طرف سے مبلغ تھے ”۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے الامام الجلیل سفیان ثوری رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ” پورے کا پورا علم آثار کا علم ہی ہے ”۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ہم میں سے ہر ایک رد کرنے والا ہے یا اس کی بات اس پر رد کی گئی ہے مگر اس قبر والے کی کوئی بات بھی رد نہیں کی جا سکتی ” اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر کی طرف اشارہ فرمایا۔ ۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے کوئی حدیث آ جائے تو وہ ہمارے سر آنکھوں پر ہو گی۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی حدیث بیان کی جائے اور میں اسے نہ لوں تو میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میری عقل چلی گئی(میں اس وقت دیوانہ ہو گیا ہوں گا)۔
اور آپ نے یہ بھی فرمایا کی جب میں کوئی بات کہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث اس کے خلاف ہو تو میرے قول کو دیوار پر مار دو۔
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بعض اصحاب سے فرمایا کہ ” تم میری تقلید نہ کرو نہ امام مالک (رحمہ اللہ) کی نہ امام شافعی (رحمہ اللہ) کی بلکہ جہاں سے ہم نے لیا تم بھی وہاں سے لو”۔
اور آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ”مجھے اس قوم پر تعجب ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اسناد اور اُن کی صحت سے باخبر ہیں، پھر بھی وہ سفیان ثوری کی رائے کی طرف جاتے ہیں
حالانکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃ أَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ﴿۶۳﴾
سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے (63) سورۃ النور
پھر امام صاحب نے فرمایا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ خرابی (فتنہ)کیا ہے ؟ فتنہ شرک ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی قول کو رد کیا جائے تو انسان کے دل میں زیغ (کجی) پیدا ہو جائے اور وہ اسے ہلاک کر دے۔
امام بیہقی(رحمہ اللہ) ہی نے حضرت مجاہد(رحمہ اللہ) سے جو جلیل القدر تابعی ہیں نقل کیا ہے
کہ اللہ تعالیٰ کا قول :
( فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَى اللَّہِ وَالرَّسُولِ )
میں الرد الی اللہ سے مراد کتاب اللہ (قرآن مجید) کی طرف رجوع ہے اور الرد الی الرسول سے سنت کی طرف رجوع ہے۔
اور امام بیہقی (رحمہ اللہ) نے حضرت امام زہری (رحمہ اللہ) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ” ہمارے پہلے بزرگ علماء فرمایا کرتے تھے کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے ہی میں نجات ہے ”
علامہ موفق الدین ابن قدامہ نے اپنی کتاب ” روضۃ الناظر فی بیان اصول الاحکام میں تحریر کیا ہے کہ ”
ادلۃ کی دوسری اصل سنت رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) ہے ”
معجزہ (یعنی قرآن پاک) کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کی صداقت پر دلالت کرنے کی وجہ سے آپ کی اطاعت پر اللہ تعالیٰ کے حکم، اور آپ کی نافرمانی پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور وعید کی وجہ سے آپ کا قول حجت ہے
علامہ ابن کثیر (رحمہ اللہ) نے اپنی تفسیر میں آیت :
فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃ أَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ
کے تحت لکھا ہے کہ امر الرسول (صلی اللہ علیہ و سلم )سے مراد آپ کا راستہ، منہاج، طریقہ، سنت اور شریعت ہے، پس تمام اقوال و اعمال نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و اعمال سے جانچے اور پرکھے جائیں گے جو آپ کے اقوال و اعمال کے مطابق ہوں گے، قبول کیے جائیں گے ورنہ اس کے کہنے یا کرنے والے پر رد کر دیے جائیں گے خواہ اس کی شخصیت کتنی بڑی کیوں نہ ہو۔
جیسا کہ صحیح بخاری اور مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
” مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرنَا فَہُوَ رَدٌّ ”
جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے، پس وہ عمل مردود ہے۔
یعنی اسے ڈرنا اور بچنا چاہیئے جو شخص کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کی باطن اور ظاہر میں مخالفت کرتا ہے کہ ” تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃ ” کہ وہ فتنے میں مبتلا ہوں یعنی ان کے دلوں میں کفر، نفاق یا بدعت ہو (أَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ) یا انہیں دردناک عذاب یعنی دنیا میں قتل، حد یا قید وغیرہ ہے۔
جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ سیدنا ابوھریرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ :
”میری اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ روشن کی، جب اس آگ نے اپنے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو پتنگے اور وہ جانور(پروانے ) جو اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیتے ہیں، اس میں اپنے آپ کو گرانے لگے، اس نے ان کو روکنا شروع کیا وہ اس پر غالب آ جاتے اور خود کو آگ میں ڈال دیتے، آپ نے فرمایا کی میری اور تمہاری مثال بھی ایسی ہے۔ میں تمہیں آگ روکنا شروع کیا ہے کی آگ سے بچو ! مگر تم مجھ پر غالب آتے ہو اور اپنے آپ کو اس میں گراتے ہو”۔
علامہ سیوطی نے اپنی کتاب ” مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنۃ ” میں لکھا ہے کہ :
” اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ! جان لو کہ وہ حدیث جو اصول حدیث کے مطابق صحیح ثابت ہو، چاہے وہ قولی ہو یا فعلی، اگر کسی شخص نے اس کے حجت ہونے سےانکار کیا تو وہ کافر ہو گیا اور دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا اس کا حشرو نشر یہود نصاریٰ کے ساتھ ہو گا یا پھر کافر فرقوں میں سے جس کا ساتھ اللہ کرنا چاہیں گے ”۔
سنت کی تعظیم، اور اس پر عمل کے وجوب اور اس کی مخالفت کی تحذیر کے سلسلے میں، صحابہ کرام اور تابعین کے بہت سے آثار منقول ہیں، جب کہ ان کے بعد کے اہل علم و فضل کے بھی اس سلسلے میں بہت سے اقوال ملتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ مجھے امید ہے کی ہم نے جو آیات، احادیث اور آثار و اقوال نقل کیے ہیں، یہ کافی اور شافی ہوں گے، اور حق کے طلبگار کے لیے اطمینان قلب کا باعث ہوں گے۔
ہم اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے ان کاموں کی توفیق کا سوال کرتے ہیں جو اسے راضی کرنے والے ہیں اس کے اسباب غضب سے بچانے والے ہیں، اور اس بات کو سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور سب کو سیدھے راستے پر چلائے، بیشک وہ سننے والا اور قریب ہے۔
٭٭٭
ماخذ: اردو مجلس فورم
کمپوزنگ: آزاد
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید