فہرست مضامین
سلسلۂ روز و شب
ابو یحییٰ
قرآن مجید کا مطلوب انسان
سورہ ممتحنہ کا ایک اہم مقام
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اس انسان کا نقشہ کھینچا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ یہ نقشہ دراصل وہ سانچہ جس میں وہ اپنے بندوں کو ڈھلا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پس منظر میں قرآن کے دو درجن کے قریب مقامات پر اہل ایمان کی کچھ ایسی خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو آخری درجے میں مطلوب ہیں۔ انہی میں سے ایک مقام سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 12 ہے۔ آج انشاء اللہ اس آیت کی اور اس میں بیان ہونے والے مطالبات کی تفصیل کرنا پیش نظر ہے۔ پہلے آیات کا ترجمہ ملاحظہ فرمایئے۔ پھر ان آیات میں بیان کردہ احکام میں سے ایک ایک کو لے کر اس پر گفتگو کی جائے گی۔
’’اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زناکاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے درمیان گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تمھاری نافرمانی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کر لیا کریں، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ ‘‘
(سورہ ممتحنۃ 60۔ آیت 12)
ایمان و ہجرت کے تقاضے
سورہ ممتحنہ کا مرکزی خیال لوگوں پر ایمان کے تقاضے واضح کرنا ہے۔ یہ سورت اصلاً ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی جو مدینہ کے دارالاسلام میں جو اس وقت تک دار الامن بن چکا تھا ہجرت کر کے آرہے تھے، مگر ایمان کو ایک گروہ سے دوسرے گروہ شامل ہونے کا معاملہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح ہجرت کر کے آنے والے بہت سے لوگوں کے کچھ دنیوی مفادات ہوتے تھے جو ایمان سے زیادہ اہم تھے۔ جبکہ ایمان درحقیقت کچھ تقاضوں کی تکمیل کا نام ہے جن کے بغیر کوئی گروہی وابستگی اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ہوسکتی نہ ہجرت جیسا اعلیٰ عمل ہی نجات دلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں ہجرت کر کے مدینہ آنے والی خواتین پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ کیا تقاضے ہیں جو ایمان لا کر انہیں پورا کرنے ہوں گے۔ وہ کیا چیزیں ہیں جن سے بچنے کا انہیں عہد کرنا ہو گا اور اس کے بعد ہی اسلام میں ان کا داخلہ معتبر ہو گا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا و استغفار کی حقدار بنیں گی۔
یہ واضح رہے کہ یہاں تمام دینی مطالبات بیان کرنا مقصود نہیں نہ یہ قرآن کا طریقہ ہے کہ ہر مقام پر تمام مطالبات کی لسٹ ہاتھ میں تھما دی جائے۔ یہاں جو احکام آئے ہیں وہ ایک خاص موقع محل کے ہیں۔ دراصل صلح حدیبیہ کے بعد جاہلیت کی گود میں پلی بڑھی خواتین کی بڑی تعداد مدینہ آنا شروع ہو گئی تھی۔ تربیت نہ ہونے کی بنا پر ان میں زمانہ جاہلیت کے منکرات بکثرت پائے جاتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے نمایاں ترین چیزوں کو لے کر خاص طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ عالمگیر نوعیت کے امراض ہیں اور آج بھی ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں حقیقی دینی اور اخلاقی شعور کی بہت کمی ہے اور جہالت کا دور دورہ ہے ان میں سے بہت سی چیزیں عام پائی جاتی ہیں۔
شرک
قرآن مجید کی دعوت کی بنیاد لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں۔ آج ہم لوگ اس اعتبار سے بہت خوش نصیب ہیں کہ مسلمانوں کے گھرو ں میں پیدا ہوتے ہیں اور پتھروں اور مورتیوں کو نہیں پوجتے۔ مگر بعض ایسے توہمات اور تصورات کا کثرت سے شکار ہیں جن میں شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ خاص کر خواتین تو فکری پہلو کے بجائے توہمات کے ذریعے سے شرک میں مبتلا ہوتی ہیں۔ انہیں ان توہمات سے بچنے کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ احادیث میں عرب میں رائج ان توہمات کا بہت ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح ان چیزوں کا بھی ذکر ہوا ہے جو بظاہر شرک نہیں مگر شرک کے قریب کر دیتی ہیں۔ ان میں سے کچھ چند احادیث درج ذیل ہیں۔
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک رات تارا ٹوٹا تو آپ نے دریافت فرمایا: زمانۂ جاہلیت میں تم اِن کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم سمجھتے تھے کہ جب کوئی بڑا شخص مر جاتا ہے یا پیدا ہوتا ہے تو تارے ٹوٹتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں، کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے تارے نہیں ٹوٹتے، (مسلم، رقم 5819)
ابن عمر ؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند کسی کے مرنے یا جینے سے نہیں گہناتے، یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہذا انھیں دیکھو تو نماز پڑھو، (بخاری، رقم 1042)
’’جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی، اس نے شرک کا ارتکاب کیا‘‘۔ (ابوداؤد، رقم 3251)
’’(ارشادِ باری تعالٰی) میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرکت سے بےنیاز ہوں، لہذا جس نے اپنے کسی کام میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا، میں اس سے الگ ہوں اور وہ اسی کا ہے جس کو اس نے میرا شریک بنایا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ، رقم 4202)
’’سیدنا عمر کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری شان میں اس طرح مبالغہ نہ کرو، جس طرح نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کی شان میں کیا ہے۔ میں تو بس خدا کا بندہ ہوں، اس لیے مجھے خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو‘‘۔ (بخاری، رقم 3445)
چوری
قرآن مجید اکثر رب کے بعد بندوں کے حقوق کا ذکر کرتا ہے۔ یہاں یہ حق مالی لحاظ سے بیان کیا گیا ہے کہ چوری نہ کی جائے۔ چوری اتنا بڑا جرم ہے کہ اس پر ’’قطع ید ‘‘یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ اتنی سخت سزا کی وجہ یہ ہے کہ بظاہر ایک چھوٹی سمجھی جانے والی یہ چیز جب عام ہو جاتی ہے تو بحیثیت مجموعی پورا معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں بھی غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔ پھر یہی چوری آگے بڑھ کر قتل اور زنا بالجبر کے دروازے بھی کھول دیتی ہے۔ چنانچہ پہلے ہی مرحلے پر اسے ایک بہت بڑی اخلاقی برائی کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور چوری چکاری سے روکا گیا ہے۔ تاکہ خواتین چھوٹی موٹی قسم کی چوری سے بھی بچیں جو وہ اپنے یا پاس پڑوس کے گھروں میں کر لیا کرتی ہیں۔
زنا
زنا ایک بہت بڑا جرم ہے۔ یہ ایک دو طرفہ گناہ ہے جس میں مرد کے ساتھ خواتین بھی شریک ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری سمجھا گیا کہ خواتین کو خاص طور پر توجہ دلائی گئی کہ ان کی فطری حیا کا یہ تقاضہ ہے کہ وہ بدرجہ اولیٰ اس بہت بڑی برائی سے دور رہیں۔ قرآن مجید میں کئی جگہ خاص کر سورہ نور میں مردوں کے ساتھ خواتین کو خاص طور پر یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ زنا سے بچنے کے لیے اپنی نسوانیت اور زیبائش کو چھپا کر رکھیں۔ کیونکہ ان کی نمائش زنا کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
قتل اولاد
عربوں میں کئی وجوہات کی بنا پر بچوں کا قتل کر دیا جاتا تھا۔ مثلاً مفلسی کے خوف سے یا پھر بچیوں کے پیدا ہونے کو باعث عار خیال کر کے انہیں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ قرآن کے اس مقام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ظلم میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی پوری طرح شریک ہوتی تھیں۔ ایسا مفلسی کے خوف یا توہمات کے تحت ہوتا تھا۔ تاہم انسانی جان کی حرمت اتنی بڑی ہے کہ اس کا ارتکاب بدترین جرم ہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک مسلمان کا قتل وہ جرم ہے جس کی سزاہمیشہ کی جہنم، اللہ کا غضب، اس کی لعنت اور عذاب عظیم ہے، (نسا93:4)۔ ضمنی طور پر یہ قتل اولاد اس سختی قلب کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جو بعض لوگوں کے دلوں میں اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ بچوں پر شفقت کرنے کے بجائے انہیں قتل کرنے لگتے ہیں۔
تہمت
جس طرح زنا بڑا جرم ہے اسی طرح اس کا جھوٹا الزام لگانا ایک بدترین جرم ہے۔ اس آیت میں اپنے ہاتھ پاؤں کے بیچ کوئی بہتان نہ تراشنے سے یہی مراد ہے۔ ’’ہاتھ پاؤں کے درمیان ‘‘ کا کنایہ جنسی اعضا کو بیان کرنے کا ایک شائستہ طریقہ ہے کہ یہ اعضا ہاتھ اور پاؤں کے بیچ میں ہوتے ہیں۔ نیز اس اسلوب کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ زنا کے ساتھ اس سے ہلکے نوعیت کے جنسی معاملات مثلاً تقبیل اور ملامست وغیرہ کے حوالے سے تہمت لگانا بھی شامل ہو گئی۔
یہاں واضح رہے کہ بہتان تو کسی بھی قسم کا ہو بہت بڑا جرم ہے، مگر جنسی امور سے متعلق بہتان اس لیے سنگین ہوتا ہے کہ ایک تو اس مرد یا عورت کی اخلاقی حیثیت ختم کر دیتا ہے جس پر یہ لگایا گیا ہے دوسرے یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور لوگ مزے لے کر آگے بیان کرتے ہیں۔ نیز رشتوں میں دراڑیں اور خاندانوں میں دشمنیاں پیدا کر دینے کا سبب بن جاتا ہے۔
رسول کی اطاعت
اس سے قبل جن برائیوں کا ذکر تھا وہ خالق اور مخلوق کے حوالے سے نمائندہ برائیاں تھیں۔ یعنی شرک ایمان کے ضمن کی سب سے بڑی برائی تھا جبکہ بندوں کے حقوق کے معاملے میں ان کے مال، جان اور آبرو کے لحاظ سے چوری، قتل اور زنا و بہتان کا ذکر تھا۔ ان نمایاں ترین منکرات کے بعد تمام معروف چیزوں کو ایک جملے میں اس طرح جمع کر دیا گیا ہے کہ بھلائی کے کسی کام میں تمھاری نافرمانی نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ رسول معاذ اللہ برائی کا حکم دے سکتا ہے دراصل اس سے مراد ذاتی معاملات کو الگ کرنا ہے جس میں انسان اپنی مرضی سے معاملہ کرنے میں آزاد ہے۔ مثلاً کپڑے کس رنگ کے پہننے اور شادی کس شکل و صورت کی خاتون سے کرنی ہے، یہ دین کا مسئلہ نہیں۔
باقی وہ ساری بھلائیاں جن کا تعلق ایمان و اخلاق سے ہے اور معاشرہ جنہیں بھلائی کی حیثیت سے جانتا ہے رسول انہی کی طرف بلانے آتے ہیں اور اس حیثیت میں ان کی اطاعت لازمی ہے۔ رسول کا حکم اللہ کا حکم ہوتا ہے جس سے روگردانی کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی۔
٭٭٭
کیا الله اور خدا، دو الگ وجود ہیں ؟
پچھلے دنوں ایک صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ گفتگو کے دوران میں انہوں نے یہ بیان کیا کہ میری کتابیں جب وہ بعض لوگوں کو دیتے ہیں تو وہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کتابوں میں الله تعالیٰ کے لیے خدا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ الله تعالیٰ کے لیے لفظ خدا کا استعمال اس کی توہین کے مترادف ہے، اس لیے وہ میری کتابوں اور تحریروں کو مفید سمجھنے کے باوجود دوسروں تک نہیں پہنچا سکتے۔ یہ صرف ایک ہی واقعہ نہیں ہے۔ بہت سے لوگ مجھ سے لفظ خدا کے استعمال کے بارے میں ایسی ہی رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اس اہم مسئلے پر تفصیل سے بات کی جائے۔
قرآن کا فیصلہ
الله تعالیٰ کا کیا نام درست ہے اور کیا نہیں۔ کس نام کو اس کی طرف نسبت دی جا سکتی ہے اور کس کو نہیں، اس کا فیصلہ نزول قرآن کے وقت ہی ہو گیا تھا۔ قرآن کریم میں الله تعالیٰ کا ایک نام ’الرحمن‘ بیان ہوا ہے۔ الرحمن کا لفظ عربی زبان کا معروف لفظ تھا جس سے مشرکین عرب واقف تھے۔ تاہم ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے وہ الله کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ جبکہ الله تعالیٰ کے نام کے طور پر الرحمن کا لفظ زیادہ تر اہل کتاب میں استعمال ہوتا تھا۔ قرآن کریم نے بھی بعض مقامات پر اس نام کو الله تعالیٰ کے ذاتی نام کے طور پر استعمال کیا۔ مثلاًسورہ الرحمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’الرحمن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ ‘‘ (الرحمٰن 55: 1-2)
جب قرآن نے لفظ الرحمن کو استعمال کیا تو مشرکین عرب جو مخالفت پر تلے بیٹھے تھے، انہوں نے اس بات کو اچھالنا شروع کر دیا۔ قرآن کریم میں مشرکین کے رد عمل کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الرحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں : الرحمن کیا ہے؟ کیا ہم اس چیز کو سجدہ کریں جس کا تم ہمیں حکم دیتے ہو؟ اور یہ چیز ان کی نفرت کو اور بڑھا تی ہے۔ ‘‘، (الفرقان 25 :60)
یہ چونکہ توحید کا مسئلہ تھا، جس کی وضاحت قرآن کا بنیادی موضوع ہے، اس لیے الله تعالیٰ نے ان کی یہ غلط فہمی دور کر دی کہ اللہ کے سوا کسی اور نام سے ذات باری تعالیٰ کو پکارنا غلط ہے۔ فرمایا:
’’اے نبی! انہیں بتا دو تم الله کہہ کر پکارو یا الرحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔ ‘‘، (سورہ بنی اسرائیل 17 :110)
یہ آیت ٹھیک اس مسئلے کے بارے میں بھی ایک قطعی فیصلہ دے دیتی ہے جو لفظ خد اکے حوالے سے آج درپیش ہے۔ یہ نص قطعی ہے جو صاف بیان کر رہی ہے کہ الله تعالیٰ کو نہ صرف الرحمن کہہ کر پکارنا درست ہے بلکہ ہر وہ اچھا نام جو الله تعالیٰ کی ہستی کے لیے کسی زبان، علاقے یا قوم میں رائج ہے، اس نام سے الله تعالیٰ کو پکارنا بالکل جائز ہے۔ اس لیے کہ الله تعالیٰ کسی خاص قوم یا علاقے کے رب نہیں، بلکہ رب العالمین ہیں۔ ان کا تصور ہر گروہ اور ہر زمانے میں پایا جاتا رہا ہے۔ لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں ﷲ تعالیٰ کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مگر ان سب ناموں سے مراد ایک ہی ہستی ہوتی ہے۔ جسے اہل عرب نزول قرآن کے وقت الله کہتے تھے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے زمین کا تصور ہر قوم، گروہ اور علاقے میں پایا جاتا ہے۔ مگر اہل عرب اسے ارض، انگریز ارتھ اور ہم لوگ زمین کہتے ہیں۔ کیا ان تین مختلف ناموں سے زمین کے تصور میں تبدیلی آ گئی؟ یہی بات الله تعالیٰ نے اس آیت میں واضح کی ہے۔ اب صرف ایک سوال کا جواب باقی ہے کہ کیا ہماری زبان میں ’خدا ‘ کوئی اچھا لفظ ہے یا نہیں۔ اس کا جواب ہمیں لغت میں مل جاتا ہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کی شائع کردہ اردو زبان کی سب سے بڑی اور مستند لغت میں خدا کے لفظ کے تحت لکھا ہے۔
’’بندے کے مقابل، خالق کائنات کا ذاتی نام اور خود اس کی ذات جس کے صفاتی نام ننانوے ہیں اورجو اپنی ذات و صفات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، وہ یکتا ہے اور اس کا مثل کوئی نہیں۔ ‘‘ 460/8
کیا اس وضاحت کے بعد لفظ خدا کے استعمال کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی رہ جاتا ہے؟ اردو لغت والوں نے لفظ خدا کے یہ معنی گھر بیٹھے تخلیق نہیں کیے ہیں۔ اہل زبان جب کبھی لفظ خدا کو زبان سے ادا کرتے ہیں، وہ جب خدا کی قسم کھاتے ہیں، وہ جب گواہ بناتے ہیں ان کے ذہن میں الله کے سوا کسی اور کا تصور تک نہیں ہوتا۔ کسی زبان کی اصل سند اس کے اساتذہ کا کلام ہوتا ہے۔ دیکھیے کہ اردو زبان کے ائمہ کس طرح خدا کے لفظ کو الله تعالیٰ ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میر کا شعر ہے:
اب تو جاتے ہیں بتکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
غالب کہتے ہیں :
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اقبال کہتے ہیں :
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنو ں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں ا س کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
دور حاضر کے معروف نعت ثنا خواں شاعر مظفر وارثی کی حمد کا یہ شعر تو بچے بچے کو یاد ہے:
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے وہی خدا ہے
یہ اشعار جب سنے جاتے ہیں تو ذہن میں سوائے الله تعالیٰ کے، کسی اور کا تصور تک نہیں ہوتا۔
انبیا کا طریقہ
سورہ بنی اسرائیل کی آیت اس بحث میں فیصلہ کن ہے۔ مگر ذرا اور آگے چلئے اور دیکھئے کہ انبیا کا کیا طریقہ تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا۔ یہ لفظ دو اجزا سے مرکب ہے۔ اِسر اور اِیل۔ قدیم عبرانی زبان میں الله تعالیٰ کو ’اِیل‘ کے لفظ سے پکارا جاتا تھا۔ جبکہ اِسر کے معنی بندے کے ہیں۔ سو ان کے لقب اسرائیل کا مطلب ہوا ’ایل‘ یعنی الله کا بندہ۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان عبرانی تھی۔ 86 برس کی عمر میں ان کی دعا کے جواب میں جب الله تعالیٰ نے ان کو بیٹا عطا فرمایا تو آپ نے ان کا نام اسماعیل رکھا۔ اس نام کا مطلب ہے کہ ’اِیل‘ یعنی الله تعالیٰ نے سنا۔
الله تعالیٰ نے نہ صرف ان انبیا کے زمانے میں اس بات پر کوئی ممانعت نہیں کی بلکہ قرآن میں ان دونوں ناموں کو ذکر کر کے قیامت تک اس حقیقت پر مہر صداقت ثبت کر دی کہ کسی زبان میں الله تعالیٰ کے لیے جو لفظ بھی رائج ہے، الله تعالیٰ کو وہ قبول ہے۔ چاہے وہ عربی لفظ ہو یا عبرانی، ہندی ہو یا یونانی، اردو ہو یا فارسی۔ الله کی کوئی زبان نہیں۔ ساری زبانیں اسی کی ہیں۔ اسی سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ الله تعالیٰ کو اپنے لیے عربی کے علاوہ کسی اور زبان کے لفظ کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے وگرنہ لازماً قرآن ان پیغمبروں کے نام بدل کر استعمال کرتا یا انہی پیغمبروں کے زمانے میں ان کے ناموں کی تصحیح کرا دیتا۔
لفظ خدا کے مبینہ عیوب
عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ لفظ خدا میں بڑی شرعی قباحتیں ہیں۔ مثلاً یہ غیر الله کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس کی جمع بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ فارسی میں بدی کی طاقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
آئیے لفظ خدا پر ان اعتراضات کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں لفظ ’خدا ‘جب تنہا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہی ہستی ہوتی ہے جسے الله تعالیٰ کہتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ہم نے اردو زبان میں خدا کے معنی کے تحت بیان کیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ بدی کی طاقت کے لیے فارسی زبان میں لفظ اہرمن استعمال ہوتا ہے نہ کہ خدا کا لفظ۔ خدا کا لفظ تنہا جب کبھی آتا ہے اس کے معنی کبھی بدی کے خدا کے نہیں ہوتے۔ تاہم اردو اور فارسی زبان میں لفظ خدا مالک، بادشاہ اور آقا کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں لفظ خدا کے ساتھ کوئی اور لفظ ملتا ہے اور غیر الله کے لیے استعمال ہو جاتا ہے۔ جیسے فارسی میں بدی کی طاقت کو خدائے اہرمن کہتے ہیں۔ اسی طرح اردو زبان میں میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ خدا کے لفظ کی جمع بھی اردو زبان میں مستعمل ہے۔
مگر کیا ان وجوہات کی بنا پر لفظ خدا کا استعمال غلط ہو گیا؟ ہر گز نہیں۔ قرآن میں الله تعالیٰ کے لیے عربی کا ایک ایسا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے، جس میں نہ صرف یہ سارے شرعی عیب پائے جاتے ہیں، بلکہ کچھ مزید عیب ہیں جو لفظ خدا میں نہیں ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کیا لفظ ہے۔
قرآن میں جگہ جگہ الله تعالیٰ کو رب کہا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں منقول بےشمار دعائیں اس لفظ سے شروع ہوتی ہیں۔ مگر یہ لفظ انسان کے لیے عربی میں عام استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم نے بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً سورہ یوسف میں ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام سے دو قیدیوں نے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے تعبیر دیتے وقت ان کے آقا کے لیے جو لفظ کہا، قرآن نے اس کے لیے ’رب‘ کا لفظ استعمال کیا۔
’’اما احد کما فیسقی ربہ خمراَ‘‘ (یوسف 41:12)
’’تم میں ایک اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔ ‘‘
اسی آیت سے ذرا قبل ہی اس لفظ کی جمع ’’ارباب‘‘، اہل مصر کے ان دیوی دیوتاؤں کے لیے استعمال کی گئی، جنہیں اہل مصر پوجتے تھے۔
"أرباب متفرقون خیر ام الله الواحد القھارََ” (یوسف (39:12)
’’کیا بہت سے جدا جدا رب بہتر ہیں یا وہ ایک الله جو سب پر غالب ہے۔ ‘‘
جمع کے علاوہ اس لفظ کی مونث بھی عربی میں مستعمل ہے جبکہ لفظ خدا کم از کم اس عیب سے تو بری ہے۔ ایک بہت مشہور حدیث جسے حدیثِ جبریل کہا جاتا ہے، اس کے الفاظ ہیں۔
ان تلد الامۃ ربتھا (مسلم رقم 8)
’’( قیامت کی ایک نشانی یہ ہے) کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی۔ ‘‘
جب اس سب کے باوجود قرآن نے بلا جھجک اس لفظ کو الله تعالیٰ کے لیے استعمال کیا ہے تو خدا کے لفظ کو الله تعالیٰ کے لیے استعمال کرنے میں کیا چیز مانع ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ اردو زبان میں یہ لفظ اب الله تعالیٰ کے لیے خاص ہو چکا ہے۔ جسے اس بات میں شبہ ہو وہ اپنے استاد، دفتر یا دکان کے مالک یا صدر مملکت کو اس لفظ سے پکارے اور دیکھے کہ اردگرد کے لوگ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
مسئلہ دعوتِ دین کا ہے
ہمارے ہاں بغیر کسی معقول اور روشن دلیل کے یہ نقطہ نظر قائم کر لیا جاتا ہے کہ الله تعالیٰ کے لیے الله کے سوا کوئی اور لفظ استعمال کرنا غلط ہے۔ ہمارے نزدیک اس قسم کا نقطہ نظر الله تعالیٰ کو اپنا قومی معبود قرار دینے کے ہم معنی ہے۔ جس کے نتیجے میں اسلامی دعوت کو زبردست نقصان پہنچے گا۔ اس کے بعد ایک مسلمان جب دعوت دین کے لیے اٹھے گا تو وہ کسی انگریز عیسائی کو یہ بتائے گا کہ تم جس ہستی کو God کہتے ہو بالکل غلط ہے۔ تمہیں میرے الله کی عبادت کرنی چاہیے۔ اسی طرح وہ ایک ہندو سے کہے گا کہ تم ایشور (سنسکرت میں الله تعالیٰ کا نام) کے ماننے والے ہو جبکہ تمہیں الله کو ماننا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں دوسرا فریق یہ سمجھے گا کہ مجھے میرے معبود سے ہٹا کر کسی اور معبود کی طرف لایا جا رہا ہے۔ پھر اس کے دل میں ایک اجنبیت اور وحشت پیدا ہو گی اور عین ممکن ہے کہ یہی اجنبیت قبول حق کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔
یہی سبب ہے کہ انبیا کا طریقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ کبھی نام پر بحث نہیں کرتے، شرک پر بحث کرتے ہیں۔ ان صفات پر بحث کرتے ہیں جو الله سے منسوب کر دی جاتی ہیں۔ آپ قرآن میں کبھی اس گفتگو کو پڑھیے جو انبیا و رسل اور ان کی اقوام کے بیچ میں ہوئی ہے۔ اس میں سارا زور توحید کو منوانے پر ہے۔ قرآن بیان کرتا ہے کہ تمام رسول اپنی قوم کی زبان ہی بولتے تھے (ابراہیم 4:14)۔ ان رسولوں کی اقوام اپنی زبان میں یقیناً الله تعالیٰ کو کسی نہ کسی نام سے پکارتی ہوں گی۔ وہ رسول بھی اسی نام سے الله کو پکارتے تھے۔ مگر وہ کہتے تھے کہ تم جسے رب العالمین مانتے ہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ تنہا اسی کی عبادت کرو۔
آج ہمارے لیے بھی یہی طریقہ آئیڈیل ہے۔ اور ہم اس طریقے پر تب ہی عمل کرسکتے ہیں جب ہم ظواہر پرستی سے باہر نکل کر یہ جان سکیں کہ الله ایک ہے اور سارے اچھے نام اسی کے ہیں۔ پھر یہ ممکن ہو گا کہ ایک امریکی کو ہم یہ بتا سکیں گے کہ تم God کی عبادت کرتے رہو، لیکن اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ۔ کسی کو اس کا بیٹا اور بیوی نہ قرار دو۔ ایک ہندو کو ہم بتا سکیں گے کہ یہ ٹھیک ہے کہ خالق کائنات ایشور ہی ہے مگر دیکھو اس کے ساتھ کسی دیوی دیوتا یا اوتار کو معبود نہ مانو۔
اس کے بعد وہ شخص جب اسلام قبول کر کے نماز پڑھے گا، قرآن پڑھے گا، دین کے مقرر کردہ دیگر اعمال ادا کرے گا تو وہاں وہ الله ہی کا نام لے گا۔ مگر یہ حق کسی کو نہیں کہ وہ اس کی زبان بدلوانے کی کوشش کرے۔ اسے اجازت ملنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان میں الله کو جو چاہے کہہ کر پکارے۔ کیوں کہ سارے اچھے نام الله ہی کے لیے ہیں۔ یہ حق اسے ﷲ تعالیٰ نے دیا ہے اور کوئی اس سے اس کا یہ حق نہیں چھین سکتا۔
٭٭٭
سلسلہ روز و شب
شہید کی حقیقت، انسان کی آزمائش
میری کتاب "جب زندگی شروع ہو گی” کو اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی قبولیت عطا فرمائی ہے وہ بلاشبہ اس کی مہربانی اور کرم فرمائی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے سے آخرت کے بارے میں قرآن و حدیث کے بیانات کی ایک واضح اور روشن تشریح لوگوں کے سامنے گئی ہے اور الحمد للہ روز حشر پر لوگوں کا ایمان بہت پختہ ہوا ہے۔
تاہم اس ضمن میں لوگوں کے ذہن میں پیدا ہونے والے کچھ سوالات مجھ تک آتے ہیں اور میں ان کے جواب دیتا ہوں۔ ایسے ہی کچھ سوالات کے جواب میں میں آج افادہ عام کے لیے قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
شہید کون ہے؟
ایک سوال شہید کے تصور کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ سوال کرنے والے دوست مبشر حنیف صاحب کے الفاظ میں یہ سوال کچھ اس طرح ہے۔
” ایک بات اگر آپ مناسب سمجھیں تو ذکر کیجئے گا کہ آپ نے ماشاءاللہ جنت میں جیسے صدیق، انبیاء وغیرہ کا انعامات کے حوالے سے جب زندگی شروع ہو گی میں کافی کرداروں کا تذکرہ کیا ہے لیکن شہداء کا ذکر نہیں ملتا جو فی سبیل اللہ قتال میں شہید ہوئے۔ اس کی کوئی خاص وجہ ہے یا محض اتفاق ہے یا ہو سکتا ہے کہ میں ہی مِس کر گیا ہوں۔ ”
اس حوالے سے میرا جواب درج ذیل ہے۔
لفظ شہید قرآن مجید میں تقریباً ساٹھ مقامات پر مختلف شکلوں میں آیا ہے۔ یہ لفظ ہر موقع پر اپنے لفظی مفہوم یعنی شاہد یا گواہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے سوائے ایک موقع کے جہاں یہ اطلاقی مفہوم میں استعمال ہوا ہے اورجس کا ذکر آگے ا ٓرہا ہے۔ قرآن مجید میں اصطلاحی طور پر اس کا مطلب حق کی گواہی دینے والے لوگ ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں چونکہ قرآن مجید ایک اجنبی چیز ہے اس لیے لوگ سرے سے اس بات سے واقف ہی نہیں کہ لفظ شہید کی حقیقت کیا ہے۔ ورنہ یہی وہ منصب ہے جس پر صحابہ کرام کو فائز کیا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر گواہ ہوں اور وہ لوگوں پر(الحج 78:22)۔ یہی وہ کام ہے جو روزمرہ زندگی میں تمام اہل ایمان کو کرنا ہے، (نسائ 135:4)۔ یہی منصب ہے جو جنت کے چار کامیاب گروہوں میں سے تیسرا ہو گا یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔ (نسائ 69:4)۔
ہمارے ہاں یہ لفظ جن معنوں میں معروف ہے یعنی مقتول فی سبیل اللہ وہ قرآن مجید میں ایک جگہ اطلاقی طور پر استعمال ہوا ہے یعنی سورہ آلِ عمران آیت 140 میں یہ بیان ہوا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جان دے کر بھی حق کی گواہی دی۔ یعنی اس لفظ کا اصل مطلب حق کی شہادت ہے اور جو لوگ یہ کام کرتے ہوئے اپنی جان بھی نچھاور کر دیں گویا کہ ان کے شہید (حق کے گواہ) ہونے میں اب کوئی شک اور گنجائش نہیں رہی۔ یہی وہ مفہوم ہے جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے اور جو ہمارے ہاں عوامی سطح پر زیادہ مشہور ہو چکا ہے۔ ورنہ دین پر تحقیقی نظر رکھنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ لفظ شہید کی اصل کیا ہے، قرآن کریم میں یہ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ احادیث میں یہ لفظ صرف مقتول فی سبیل اللہ کے لیے استعمال ہوا ہے بلکہ متعدد روایات میں یہ اپنے اصل مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ جیسے روایت میں آتا ہے کہ "انتم شہداء اللہ فی الارض”، (صحیح الجامع رقم، 6728 ,1490)۔ یعنی تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔
میں نے اپنے ناول میں مرکزی کردار کو اسی حیثیت میں پیش کیا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں کہ اس میں کسی شہید یا اس کے مقام کا ذکر نہیں ہے۔ رہا یہ سوال کہ میں نے خاص طور پر کسی مقتول فی سبیل اللہ کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا تو یہ تاثر اس پہلو سے درست نہیں کہ میں ایک مقام پر ایسے لوگوں کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ وہ بھی بڑے اعلیٰ اجر کے حقدار ہوئے ہیں، (صفحہ210)۔ اسی طرح دوسرے ناول "قسم اس وقت کی” میں میں سیدنا یاسر اور سیدہ سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شہادت اور ان کی عظمت کا بیان ہے۔
ویسے بھی یہ شہداُ (مقتول فی سبیل اللہ) دراصل ان شہدا کے ذیل میں ہی آ جاتے ہیں جو سورہ نساء میں بیان ہوئے ہیں۔ آپ غور فرمائیے کہ میں نے تو قرآن مجید کے اس طریقے کو اختیار کیا ہے جس میں مقتول فی سبیل اللہ کو بھی شہید کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس ناول کی تالیف کا اصل مقصد ہر ہر قسم کے نیکوکاروں کا تفصیلی بیان نہیں ہے۔ کئی قسم کے اعلیٰ درجے کے جنتی ہیں جن کا میں نے ذکر نہیں کیا مثلاً اس میں نفلی روزے داروں کا ذکر نہیں جن کے لیے ایک حدیث کے مطابق جنت کا ایک خاص دروازہ یعنی ریان وقف ہے، (بخاری رقم 1896)۔ اس کے علاوہ بھی روزے داروں کے غیر معمولی فضائل بیان ہوئے ہیں جیسے "الصوم لی و انا اجزی بہ بخاری” (رقم 1894 مسلم2707)۔ یعنی روزہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی عطا کروں گا۔ اعتراض کرنے والا ذہن تو اس پر بھی اعتراض کرسکتا ہے کہ ایسی عظیم فضیلت کے باوجود روزہ داروں کا خصوصی ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ لیکن ہر معقول آدمی سمجھ سکتا ہے کہ میرے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ہر قسم کی نیکی کرنے والوں کا ایک کہانی میں احاطہ کیا جائے۔
میرا اصل مقصد حشر کی منظر کشی تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اہل جنت کی تمام اقسام کو گنوا دیا جائے اور ان کے تفصیلی معاملات بیان کیے جائیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ لوگوں نے اس اصل مقصد کو سمجھا اور ہزاروں لوگوں کی اللہ نے زندگیاں بدل دیں اور لاکھوں لوگوں تک اسلام کی بنیادی دعوت کا پیغام پہنچ گیا۔
٭٭٭
رمضان تنہائی کی عبادت ہے
[حال ہی میں ابو یحییٰ کے کیے ہوئے خلاصہ قرآن کی تقاریر کو جو کچھ برس قبل رمضان المبارک میں کی گئی تھیں، رسالے کی ویب سائٹ پر پیش کیا گیا۔ سامعین کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان تقاریر کو سنا اور پسند کیا۔ اس خدمت کو سرانجام دینے کے بعد ابو یحییٰ نے ایک مضمون لکھا تھا جو اس مناسبت سے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ ]
اس دفعہ رمضان میں مجھے تراویح کے بعد قرآن کریم کے ترجمہ و مختصر تفسیر کی خدمت بھی سرانجام دینی پڑی۔ رمضان مبارک کے حوالے سے میرا اپنا رجحان یہ ہے کہ اس مہینے میں انسان کی توجہ تنہائی کی عبادت کی طرف زیادہ ہونی چاہیے۔ مگر اب ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہو چکا ہے کہ سال بھر مساجد اور عبادت سے دور رہنے والے لوگ اسی مہینے میں ان کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسے میں قرآن کریم کی دعوت لوگوں تک پہنچانے کا ایک آسان ذریعہ بہرحال رمضان میں حاصل ہو جاتا ہے۔ یو ں معاشرے میں نماز تراویح اور دیگر نمازو ں کے ساتھ درس قرآن و حدیث وغیرہ کا بکثرت اہتمام کیا جاتا ہے۔ مگر میں ذاتی طور پر رمضان المبارک میں پبلک خطابات سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں۔ تاہم اس دفعہ بعض دوستوں کے زیر اہتمام ہونے والی تراویح میں اصل مقرر کی غیر موجودگی کی بنا پر ان دوستوں اور بزرگوں کے اصرار پر مجھے رمضان کریم میں اس بھاری ذمہ داری کو اٹھانا پڑا۔
تاہم میں ہمیشہ لوگوں اور خاص کر اہل علم کی توجہ اس طرف دلاتا ہوں کہ رمضان کا مہینہ تقریریں کرنے کا نہیں دراصل تنہائی میں اپنے رب سے لو لگانے کا مہینہ ہے۔ یہ لوگوں کو کچھ دینے کا نہیں خود رب سے پانے کا مہینہ ہے۔ یہی سیرت طیبہ کا اصل درس ہے۔ اوراسی لیے اعتکاف کی وہ عبادت اس ماہ مقدسہ میں مشروع کی گئی جو دنیا بھر سے کاٹ کر انسان کو خدا سے جوڑ دیتی ہے۔ چنانچہ جس شخص کے لیے ممکن ہو اُسے چاہیے کہ اس مہینے میں دنیا سے کٹ کر اپنے رب سے لو لگائے۔
مائیکروفون کا کرشمہ
رمضان سے تقریباً ایک ماہ قبل مجھے ایک مسئلہ پیش آ گیا تھا جس نے پورے رمضان میرے لیے انتہائی تکلیف دہ صورتحال پیدا کیے رکھی۔ وہ یہ کہ میرے گلے اور بولنے کے نظام سے متعلق بعض عضلات میں کچھ تکلیف پیدا ہونے کی بنا پر میرے لیے گفتگو کرنا بہت مشکل ہو گیا۔ میں نے متعدد اسپیشلسٹ کو دکھایا۔ حتیٰ کہ Endoscopy تک کرانے کی نوبت پیش آ گئی۔ مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ حالانکہ اس تکلیف سے نجات پانے کے لیے میں روزانہ تقریباً درجن بھر گولیاں کھاتا رہا تھا۔
خیر اسی حال میں رمضان مبارک شروع ہو گیا۔ میرے لیے تو بولنا ناممکن تھا، روزانہ ایک گھنٹے تقریر کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میرا خیال یہی تھا کہ میں ایک آدھ دن تک کسی نہ کسی طرح تقریر کر لوں گا، مگر اس کے بعد لازماً مجھے رکنا پڑے گا۔ اس اندیشے کے باوجود میں نے اللہ کا نام لے کر اس کام کا آغاز کیا اور اس کی عنایت سے یہ ممکن ہو گیا کہ پورے رمضان میں قرآن مجید کا ترجمہ و خلاصہ لوگوں کے سامنے میں بیان کرسکا۔ عالم اسباب میں، تاہم، اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو اس ناممکن واقعے کو ظہور میں لانے کا ذریعہ بنایا وہ مائیکروفون سسٹم تھا۔ میرے زیر استعمال جو سسٹم تھا وہ انتہائی جدید اور معیاری تھا۔ جس کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ اسٹینڈ کے سہارے مائیک میرے منہ کے قریب رہتا اور میں بمشکل سرگوشی کے انداز میں گفتگو کرتا۔ یہ سرگوشی اتنی ہلکی ہوتی کہ میرے برابر بیٹھا ہوا شخص بھی اس کو نہیں سن سکتا تھا۔ مگر مائیکروفون سسٹم میری اس سرگوشی کو ایک بھرپور اور زوردار آواز بنا کر سامعین تک پہنچا دیتا۔ یوں لوگ میری بات اطمینان کے ساتھ سنتے رہے۔ گو اس طرح سرگوشی کرنے کے نتیجے میں میرے گلے کی تکلیف بہت بڑھ جاتی۔ بلکہ دوران تقریر ہر روز صورتحال یہ رہی کہ میری نوے فیصد طاقت اور توانائی آواز کو گلے سے باہر نکالنے پر خرچ ہو رہی تھی اور بمشکل دس فیصد توانائی اور توجہ خلاصے، ترجمے، الفاظ و جملوں کی درست ادائیگی اور خیالات کے تسلسل پر مرکوز تھی۔ گرچہ اس فقیر پر یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے کہ حاضرین کے فیڈ بیک کے مطابق یہ فقیر اللہ کے کلام کا اصل پیغام اپنی تمام تر لاچاری کے باوجود بھی پہچانے میں کسی نہ کسی درجے میں کامیاب رہا۔ گو اس کی قیمت یہ دینی پڑی کہ اس تقریر کے علاوہ باقی وقت میں خاموش رہتا اور گھر والوں سے بھی اشارے کنائے میں بات کرتا۔ تاہم الحمدللہ جو ذمہ داری تفویض کی گئی تھی اسے میں پورا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
اعراف اور اصحاب اعراف
محترم قارئین! آج کی اس گفتگو میں مجھے مقام اعراف اور اصحاب اعراف کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنا ہیں۔ اپنی کتاب ’’جب زندگی شروع ہو گی‘‘ میں میں نے اعراف اور اصحاب اعراف پر تفصیل سے گفتگو کی ہے جس سے بعض قارئین کے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ وہ سوالات مجھ سے وقفے وقفے سے کرتے رہتے ہیں اور میں انفرادی طور پر انہیں جواب دیتا رہتا ہوں۔ ایسے ہی ایک سوال کا جواب قارئین کی خدمت میں پیش ہے تاکہ کسی اور کے ذہن میں بھی یہ سوال ہو تو وہ اس کا جواب جان سکیں۔
اعراف کیا ہے؟
عربی زبان میں اعراف کا استعمال بلند جگہ کی تعبیر کے لیے ہوتا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں سورہ اعراف کی تفسیر میں آیت نمبر ۴۷ کے تحت بیان ہوا ہے:
‘قال ابن جریر: والاعراف جمع عُرف، وکل مرتفع من الارض عند العرب یسمی عرفاً، وانما قیل لعرف الدیک عرفاً لارتفایہ۔ ۔ ۔ وفی روایۃ عن عباس: الاعراف: تل بین الجنۃ و النار۔ ’
یعنی ابن جریر کہتے ہیں کہ اعراف عرف کی جمع ہے۔ اہل عرب کے نزدیک زمین سے بلند ہر جگہ کو اعراف کا نام دیا جاتا ہے۔ مرغ کی کلغی کو بھی اس کے بلند ہونے کی وجہ سے عرف کہا جاتا ہے۔ جبکہ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اعراف جنت اور جہنم کے بیچ کا ایک ٹیلہ ہے۔
قرآن مجید میں سورۃ الاعراف آیات ۴۷ تا ۴۹ اہل اعراف کا ذکر آیا ہے۔ اس میں ان کے جو مکالمات اہل جنت اور اہل جہنم سے نقل ہوئے ہیں وہ اس طرح ہیں :
’’اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو ان کی صورتوں سے پہچان لیں گے۔ تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ لوگ ابھی بہشت میں داخل تو نہیں ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے۔ اور جب ان کی نگاہیں پلٹ کر اہل دوزخ کی طرف جائیں گی تو عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کیجیو۔ اور اہل اعراف (کافر) لوگوں کو جنہیں ان کی صورتوں سے شناخت کرتے ہوں گے پکاریں گے اور کہیں گے (کہ آج) نہ تو تمہاری جماعت ہی تمہارے کچھ کام آئی اور نہ تمہارا تکبّر (ہی سودمند ہوا) (پھر مومنوں کی طرف اشارہ کر کے کہیں گے) کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھایا کرتے تھے کہ اللہ اپنی رحمت سے ان کی دستگیری نہیں کرے گا (تو مومنو) تم بہشت میں داخل ہو جاؤ تمہیں کچھ خوف نہیں اور نہ تم کو کچھ رنج و اندوہ ہو گا۔ ‘‘
یہ اہل اعراف کون ہیں اس کے بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال بیان ہوئے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کا رجحان اس رائے کی طرف ہے جس کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جن کے نیک و بد اعمال برابر تھے۔ یہ رائے چونکہ ایک مرفوع روایت میں بیان ہو گئی ہے شاید اسی لیے اس کی شہرت ہو گئی۔ تاہم خود ابن کثیر نے اسے غریب قرار دیا ہے جبکہ امام ناصر الدین البانی نے اسے منکر کہا ہے، (السلسلۃ الضعیفہ، رقم6030)۔ محدثین کے اس تبصرے کے بعد اس کی حیثیت صرف ایک قول کی رہ جاتی ہے اور اسی حیثیت سے اسے دیکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے حوالے سے کئی اور تفاسیر بیان ہوئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ماں باپ کی اجازت کے بغیر جہاد میں حصہ لیا۔ یہ موقف بھی بعض ضعیف روایات میں آیا ہے، (ضعیف الجامع، رقم 884، البیھقی، 1/290، السلسلۃالضعیفہ، رقم 2791)۔ جبکہ ایک قول یہ ہے کہ فرشتے ہیں۔ آخری قول مجاہد تابعی کے حوالے سے یہ بیان ہوتا ہے کہ یہ علماء اور فقہا کا گروہ ہے۔ ان اقوال کی تفصیل علامہ ابن کثیر کی تفسیر القرآن الکریم میں دیکھی جا سکتی ہے۔
قرآن مجید کی اصحاب اعراف کے بارے میں واحد تصریح ان کے وہ مکالمات ہیں جو اوپر نقل کئے گئے ہیں یا پھر ان کا اعراف کی بلند چوٹیوں پر موجود ہونا۔ پہلے ان کے اس مقام کو لیجیے۔ بلند جگہ پر کسی شخص یا گروہ کو کھڑا کرنے کا ایک ہی مقصد سمجھ میں آتا ہے۔ وہ یہ کہ ان لوگوں کو نمایاں کر کے دوسروں کے سامنے پیش کیا جائے۔ کسی بلند مقام پر نیک و بد اعمال کے یکساں ہونے والے لوگوں کو کھڑا کر کے نمایاں کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ہاں یہ مقام اگر انبیا اور صلحا کو عطا کیا جائے تو ان کی عزت افزائی کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔
اس سے زیادہ صریح چیز ان کی گفتگو ہے۔ کافروں سے ان کے مکالمات پکار پکار کر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ الفاظ ایسے لوگوں کی زبان سے نہیں نکل سکتے جن کا ابھی جنت میں جانے کا فیصلہ نہ ہوا ہو۔ غور کیجیے کہ جس طرح یہ لوگ کفار کو لتاڑ رہے ہیں، یہ کام کوئی ایسا شخص کیسے کرسکتا ہے جس کے گناہ بھی زندگی میں اتنے ہی ہیں جتنی اس کی نیکیاں۔ جن کی نجات کا فیصلہ ہی ابھی نہ ہوا ہو۔ اس طرح بیچ میں لٹکنے والے لوگ روز حشر وہ ہمت اور اخلاقی برتری کہاں سے لا سکتے ہیں کہ کفار کو اس طرح شرمندہ کریں۔
غور کیجیے تو یہ الفاظ صرف انہی صلحاء کو زیب دیتے ہیں جن کی زندگی شہادت حق کے کام میں گزری، جن کی نجات کا فیصلہ ہو چکا ہو اور جن کی شہادت پر لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا گیا ہو۔ یہی انبیا و صلحا اس قابل ہیں کہ ایسی گفتگو کرسکیں۔ صاحب تدبر قرآن نے بہت تفصیل کے ساتھ اس پورے معاملے پر اپنی تفسیر میں گفتگو کی ہے جسے آپ سورہ اعراف کے اس مقام کی تفسیر میں دیکھ سکتی ہیں۔
البتہ ایک سوال پھر بھی رہ جاتا ہے اور غالباً اسی وجہ سے اصحاب اعراف کے بارے میں یہ رائے قائم کی گئی کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو نیک و بد اعمال کے برابر ہونے کی بنا پر روک لیا گیا تھا۔ وہ یہ کہ ان آیات میں ان لوگوں کے لیے یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے لیکن اس کے امیدوار ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ انبیا و شہدا کے لیے یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ باقی لوگ جنت میں ہوں اور وہ ابھی جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں۔ ان کو تو سب سے پہلے جنت میں ہونا چاہیے۔
میں نے اپنے ناول میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ یہ کہ یہ مکالمات جو آیت نمبر ۴۴ سے شروع ہو رہے ہیں جنت اور جہنم میں داخل ہونے کے بعد کے نہیں بلکہ میدان حشر کے ہیں۔ یعنی اس وقت کے جب روز حشر کا اختتام ہو رہا تھا اور تمام لوگوں کا فیصلہ سنایا جا چکا تھا۔ اس کے بعد لوگوں کے گروہ در گروہ جنت میں جانے کا مرحلہ شروع ہونا تھا۔ اس وقت جنت اور جہنم کو بالکل قریب کر کے لوگوں کو دکھایا جا رہا تھا اور ہر شخص کو اپنا انجام اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آ رہا تھا، (وازلفت الجنۃ للمتقین غیر بعید)۔ یہ ساری تفصیل سورۃ ق میں بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے الفاظ بھی یہ ہرگز نہیں کہ انہیں جنت میں داخلے سے روک دیا گیا بلکہ یہ ہیں کہ یہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے۔
یہی وہ آخری وقت ہو گا جب شہادت حق کا فریضہ سر انجام دینے والوں کی کامیابی کا باضابطہ اور رسمی اعلان کیا جائے گا۔ گرچہ وہ دیگر اہل جنت کے ساتھ پہلے ہی عرش کے سائے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور رحمتوں میں موجود ہوں گے۔ چنانچہ اس عاجز کی یہ تاویل پیش نظر رہے تو ’’لم یدخلوھا و ہم یطمعون‘‘ یعنی وہ جنت میں ابھی داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر اس کے امیدوار ہوں گے اور ’’ادخلوالجنۃ‘‘ یعنی جنت میں داخل ہو جاؤ جیسے الفاظ کا موقع محل بالکل واضح ہو جاتا ہے۔
اس گناہگار نے اپنے ناول میں واقعات حشر بیان کرنے کی جو جسارت کی ہے اس میں خدمت کا پہلو یہی ہے کہ تمام واقعات جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں ان کا موقع محل بھی واضح ہو جائے۔ میری بیان کردہ اضافی باتوں کو اگر اس پہلو سے دیکھیے تو یہ گویا قرآن و حدیث کی شرح ہے۔ اس میں سے جو بات صحیح ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے۔ کوئی بات اگر غلط ہے تو وہ میری اپنی کمزوری اور خطا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ صحیح باتوں پر ہمارا ایمان راسخ کر دے اور ہر غلط بات کو دل و دماغ سے محو فرما دے۔ آمین۔
کیا جنت موجود ہے یا بنائی جائے گی
ایک بہن نے یہ سوال بھی کیا ہے کہ جنت تو پہلے ہی سے موجود ہے جبکہ میں نے اپنے ناول میں یہ بیان کیا ہے کہ اسے قیامت کے بعد بنایا جائے گا۔ انہوں نے بطور دلیل یہ بات بھی فرمائی کہ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جنت اور اہل جہنم کا مشاہدہ فرمایا تھا۔ اس کا جو جواب میں نے دیا وہ درج ذیل ہے۔
’’یہ بات کہ جنت پہلے سے موجود ہے یا قیامت کے دن بنائی جائے گی ہمارے اہل علم کے درمیان ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ موجود ہے اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ قیامت کے دن بنائی جائے گی۔ قرآن و حدیث کے بیانات کی روشنی میں میرا اطمینان دوسرے نقطہ نظر پر ہے کہ یہ قیامت کے بعد بنائی جائے گی اور جنت و جہنم میں لوگوں کا داخلہ اس کے بعد ہی ہو گا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل خود قرآن کریم میں سورہ زمر کے آخر میں بیان ہوئی ہے کہ حساب کتاب کے بعد لوگوں کو گروہ در گروہ جنت اور جہنم میں لے جایا جائے گا اور ان دروازوں سے گزر کر اور فرشتوں سے مکالمے کے بعد جنت و جہنم کا عذاب و ثواب شروع ہو گا۔
اس کی ایک اور وضاحت سورہ انبیا اور سورہ زمر کے دو مقامات پر ملتی ہے۔ سورہ انبیا میں کہا گیا ہے:
’’اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ اس میں عبادت گزار بندوں کے لیے یقیناً ایک کی ہرگز ہرگز یہ منشا نہیں تھی۔ قرآن مجید نے نہ لوگوں کو لونڈی غلام بنانے کی اجازت دی اور نہ ایسا کوئی حکم کبھی دیا گیا۔ ہم پھر اس بات کو دہرانا چاہیں گے کہ قرآن مجید نے نہ لوگوں کو لونڈی غلام بنانے کی اجازت دی اور نہ ایسا کوئی حکم کبھی دیا گیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ غلامی کی لعنت ہزاروں برس سے انسانی معاشروں میں موجود تھی۔ قرآن مجید قطعی طور پر اس لعنت کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ مگر اس مقصد کے لیے اسلام نے انقلابی طریقہ اختیار نہیں کیا کہ ایک حکم سے ساری لونڈی غلاموں کو آزاد قرار دے دیا جائے۔
انقلابی تبدیلیوں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جہاں ایک برائی کو ختم کرتی ہیں وہاں دس نئی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے برائیوں کے خاتمے کے لئے بالعموم انقلاب (Revolution) کی بجائے تدریجی اصلاح (Evolution) کا طریقہ اختیار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں غلاموں کی حیثیت بالکل آج کے زمانے کے ملازمین کی تھی جن پر پوری معیشت کا دارومدار تھا۔ غلامی کے خاتمے کی حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے اگر درج ذیل مثال پر غور کیا جائے تو بات کو سمجھنا بہت آسان ہو گا۔ خیال رہے کہ ہم اس مثال میں ملازمت کو غلامی جیسی برائی قرار نہیں دے رہے، بلکہ حکمت عملی کے پہلو سے ایک ایسی مثال پیش کر رہے ہیں جسے آج کا انسان باآسانی سمجھ سکتا ہے۔
مکی نسبت یہ کہنا کہ یہ بعینہ وہی کتاب ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی درست نہیں۔
تاہم جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ قرآن اصل میں حفظ کے ذریعے محفوظ ہوا ہے۔ اور مذکورہ بالا ان چھ عوامل کی بنا پر جو ہم نے شروع میں گنوائے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ یہ وہی قرآن ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اگر کوئی اس کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ اس کا بھی انکار کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نام کی کوئی ہستی عرب میں مبعوث ہوئی۔ انھیں اپنی قوم پر پورا غلبہ حاصل ہوا۔ ان کے ساتھ 20 برس تک ہزاروں افراد دن رات رہ کر دین سیکھتے رہے۔ ان لوگوں کو دنیا پر اقتدار حاصل ہوا اور آج کے دن تک ان کے ماننے والے دنیا میں موجود رہے۔ اگر ان تمام مسلّمات کا انکار نہیں ہو سکتا تو پھر اس حقیقت کا انکار بھی نہیں ہو سکتا کہ جو قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ آپ کی زندگی میں محفوظ کر لیا گیا اور آپ کے ساتھیوں نے وہ پورے اہتمام سے باقی دنیا تک اور پھر ہر دور میں آپ کے پیروکاروں نے اسے پورے اہتمام سے محفوظ کیا ہے اور آج کے دن تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
جو شخص اس حقیقت کا منکر ہو اسے یہ سوچنا چاہیے کہ آج کے گئے گزرے دور میں جب پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد حفظ قرآن ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے، لاکھوں مسلمان پورا قرآن حفظ کرتے ہیں تو زمانہ نبوت اور خلافت راشدہ کے دور میں یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام نے اس فریضے میں کوئی کوتاہی برتی ہو گی۔ اس لیے یہ بات ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہزاروں اور آپ کے بعد لاکھوں لوگ قرآن کو پورا یاد کرتے رہے اور یہی قرآن آج ہمارے پاس موجود ہے۔
اسلاف کی رائے
قرآن کی طرح ٹھیک یہی معاملہ دین کے عملی ڈھانچے کا ہے جو عبادت، معاشرت اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی سے اگر لاکھوں لوگ قرآن کو نمازوں میں پڑھ رہے تھے تو اس کے ساتھ وہ نماز بھی پڑھ رہے تھے، روزہ بھی رکھتے تھے، حج بھی کرتے تھے، زکوٰۃ بھی دیتے تھے، نکاح و طلاق، معیشت و معاشرت، رسوم و آداب میں ہر جگہ لوگ اسلام کے احکام پر عمل پیرا تھے۔ ایک پوری قوم کے ایمان لانے، تربیت یافتہ ہونے، مسلسل موجود ہونے کا کوئی دوسرا نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا۔ اس کا انکار تاریخی مسلمے کا انکار ہے۔ جس طرح قرآن مجید پر خلافت راشدہ کے لکھے ہوئے قرآن کی گواہی طلب کرنا ایک غیر علمی بات ہے، اسی طرح اس عملی ڈھانچے کو کسی روایت پر موقوف سمجھنا ہر اعتبار سے ایک غیر علمی رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کام لاکھوں لوگ کر رہے ہوں اور علما کی پوری روایت اس کی نگرانی کر رہی ہو وہ اپنی ذات میں خود ایک مسلمہ بن جاتی ہے۔ اس پر خارج سے کوئی ثبوت طلب نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر ہمارے اسلاف اور متقدمین دین کی حجیت ثابت کرتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں کے عظیم امام شافی اپنی کتاب الرسالہ میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔
ہذا مما کلف العباد أن يعقلوہ ويعملوہ ويعطوہ من أنفسہم وأموالہم وأن يکفوا عنہ ما حرم عليہ منہ وہذا الصنف کلہ من العلم موجودا نصا في کتاب اللہ وموجودا عاما عند أہل الاسلام ينقلہ عوامہم عن من مضی من عوامہم يحکونہ عن رسول اللہ ولا يتنازعون في حکايتہ ولا وجود بہ عليہم وہذا العلم العام الذي لا يمکن فيہ الغلط من الخبر ولا التأويل ولا يجوز فيہ التنازع (1/358)
اس کا مفہوم درج ذیل ہے :
یہ وہ احکام ہیں جنہیں سمجھنا، ان پر عمل کرنا، اپنے جان و مال کے ذریعے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا اور حرام کئے گئے کاموں سے بچنا ہر شخص پر لازم ہے۔ یہ تمام احکام اللہ کی کتاب، واضح نص میں بیان کئے گئے ہیں اور مسلمانوں میں ان پر عام طور پر عمل کیا جاتا ہے۔ لوگ انہیں نسل در نسل منتقل کرتے ہیں اور یہ سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے چلا آ رہا ہے۔ ان احکام کے منتقل کرنے یا ان کی فرضیت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ وہ علم ہے جس سے متعلق معلومات اور اس کی تشریح ہر طرح کی غلطیوں سے پاک ہے۔ اس میں کسی قسم کا اختلاف کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
اس کا آخری جملہ پھر پڑھیے کہ کس طرح یہ علم ہر غلطی اور اختلاف سے پاک ہے۔ پھر یہی بات ایک علم حدیث کے ایک اور بہت بڑے امام حافظ ابن عبد البر(463ھ) اپنی کتاب جامع بیان العلم و فضلہ میں اس طرح لکھتے ہیں :
علم کی دو بنیادیں ہیں۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ سنت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جسے تمام لوگ تمام لوگوں تک (نقل کافہ عن کافہ) منتقل کرتے ہیں۔ یہ وہ حجت قاطع ہے جس میں کسی قسم کا اختلاف ثابت نہیں اور اس کا انکار نصوص الہی کے انکار کے مترادف ہے۔ ‘‘، (ص 625)
دین کی تاریخی حجیت ثابت کرنے کا یہ وہ طریقہ تھا جو ہمارے متقدمین نے اختیار کیا تھا۔ اس طریقے میں دینی تعلیمات وہ مسلمہ بن جاتی ہیں، جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ایک ناقابل انکار حقیقت بن جاتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دنیا کے کسی دوسرے دین کو حاصل نہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ مسلمانوں نے اس کے علاوہ اپنے نبی کے قول، علم اور تقریر کی حفاظت کا بھی حتی الوسع بہت اہتمام کیا ہے۔ یہ بڑا قیمتی اور اہم ذخیرہ ہے جس کے ذریعے سے دین کو سمجھنے، عمل کرنے اور نئے پیش آنے والے مسائل میں اجتہاد کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ لیکن ہم اسے یہاں اس لیے زیر بحث نہیں لائے کہ یہ ذخیرہ ہم مسلمانوں کے نزدیک تو حجت بن سکتا ہے، غیرمسلموں کے لیے تاریخی حجت اگر کوئی چیز بن سکتی ہے تو وہی تواتر کے ساتھ ملا ہوا دین ہے اور جس کا انکار کرنا علم تاریخ کی بنیاد پر ناممکن ہے۔
خلاصہ بحث
یہ بحث ذرا طویل ہو گئی، مگر یہ اتنی غیر معمولی اہمیت کی بات ہے کہ اسے پوری طرح سمجھنا ضروری ہے۔ ایک ایسے دور میں جب انٹر نیٹ کی وجہ سے جب غیر مسلموں کے تمام اعتراضات ہمارے گھر گھر میں پہنچ رہے ہیں، ہم پر لازم ہے کہ اپنے دین کی حقانیت کے دلائل علم کے ان مسلمات کی بنیاد پر لوگوں کے سامنے پیش کریں جن کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لینا یا پھر کمزور جگہ سے اسلام کا دفاع کرنا ایک خطرناک رجحان ہے۔ اس طرح ہم اپنے دین کا مقدمہ خود کمزور کر دیں گے۔
٭٭٭
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبور میں پیش گوئی
محترم قارئین! قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے متعدد دلائل بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل جو بار بار دہرائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے صحیفوں میں آپ کی آمد کی متعدد پیش گوئیاں بیان ہوئی ہیں اور بلاشبہ آپ ان صحیفوں میں بیان کردہ انبیا علیہم السلام کی پیش گوئیوں کا واحد مصداق ہیں۔
حضرت داؤد اور حج بیت اللہ
مسلمان اہل علم پچھلی کتابوں کا مطالعہ کر کے ان پیش گوئیوں کی تفصیل بیان کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک پیش گوئی اس طرح بیان کی جاتی ہے جو انجیل میں حضرت عیسی علیہ السلام کے الفاظ میں کتاب متی ( باب44-42:21) میں اس طرح بیان ہوتی ہے :-
جس پتھر کو معماروں نے رد کیا
وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا
یہ خداوند کی طرف سے ہوا
اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔
اس پیش گوئی کا پورا مطلب ہم مضمون کے آخر میں بیان کریں گے۔ سردست یہ بات سمجھ لیں کہ یہ پیش گوئی اصل میں حضرت عیسیٰ کی نہیں ہے۔ بلکہ یہ پہلے ہی سے یہود کی کتب میں لکھی ہوئی موجود تھی۔ چنانچہ اس پیش گوئی سے پہلے سیدنا مسیح یہودی علماء اور سرداروں سے فرماتے ہیں :
’’کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا۔ ۔ ۔ ‘‘
ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ پیش گوئی کتاب مقدس میں حضرت عیسیٰ کے آنے سے پہلے ہی کر دی گئی تھی اور اس کی اہمیت کی بنا پر حضرت عیسیٰ نے اس کو نہ صرف دہرایا بلکہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس میں اضافہ بھی کیا۔ یعنی اصل میں یہ آنجناب کی پیش گوئی نہیں بلکہ کسی اور ہستی کے الفاظ ہیں جنھیں آپ نے دہرایا اور مزید وضاحت کی ہے۔
قدیم صحف سماوی پر گہری نظر رکھنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ یہ پیش گوئی دراصل حضرت داؤد علیہ السلام کی ہے اور یہ زبور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کی جانے والی اہم ترین پیش گوئی ہے۔ تاہم اس پیش گوئی کو جب انجیل سے لیا جاتا ہے تو اس میں استعمال ہونے والی تشبیہ و تمثیل یعنی پتھر اور کونے کا پتھر کی اصل معنویت کسی کو سمجھ میں نہیں آ سکتیں جب تک کہ یہ حقیقت معلوم نہ ہو کہ یہ پیش گوئی حضرت داؤد نے حج ادا کرتے ہوئے حرم پاک کے سامنے کی تھی۔
حضرت داؤد کے حالات زندگی
قارئین کو شاید یہ بات کچھ عجیب لگے کہ حضرت داؤد نے حج کب ادا کیا لیکن ان کی اپنی کتاب زبور میں اللہ کی حمد کے جو مزمور(گیت) انھوں نے گائے ہیں نیز دیگر تاریخی حقائق بھی یہ واضح کرتے ہیں کہ حضرت داؤد نے نہ صرف یہ سعادت حاصل کی تھی بلکہ اپنی یہ مشہور پیش گوئی بھی اسی وقت کی تھی۔ یہ پیش گوئی یہودیوں میں اتنی معروف تھی کہ سیدنا مسیح نے بغیر کسی خاص حوالے کے بے تکلف اسے ان کے سامنے بیان کر دیا۔
حضرت داؤد کے متعلق تاریخی طور پر مسلمانوں کو بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ حالانکہ وہ سلسلہ نبوت و رسالت کے اہم ترین لوگوں میں سے ایک ہیں، زبور جیسی مشہور آسمانی کتاب ان پر اتری اور قرآن کریم میں جا بجا ان کا ذکر آیا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس پیش گوئی پر کچھ بات کرنے سے قبل حضرت داؤد کا کچھ ذکر کر دیا جائے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ان کے حالات زندگی کو سمجھے بغیر یہ پیش گوئی سمجھ میں بھی نہیں آ سکتی۔
سیدنا داؤد کا زمانہ ہزار قبل مسیح کا بیان کیا جاتا ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم کے ایک ہزار برس بعد اور مسیح سے ہزار برس پہلے کا زمانہ۔ حضرت داؤد سے تقریباً پانچ سو برس قبل حضرت موسیٰ کی زیر قیادت بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات مل گئی تھی۔ آپ کے بعد بنی اسرائیل نے اپنے جانشین یوشع بن نون کی زیر قیادت فلسطین کو فتح کر لیا۔ مگر اس کے بعد انھوں نے ایک منظم ریاست قائم نہیں کی۔ بنی اسرائیل مختلف ٹولیوں میں بٹ کراس مفتوحہ علاقے میں بکھر گئے۔ اس کے بعد آنے والی صدیوں میں بنی اسرائیل اردگرد موجود مشرک قبائل کا اثر قبول کر کے مختلف انحرافات اور گمراہیوں کا شکار ہوتے چلے گئے۔ جس کے نتیجے میں بطور سزا اردگرد کی مشرک اقوام کو ان پر غلبہ دے دیا گیا۔ ان کا مقدس تابوت جسے تابوت سکینہ کہا جاتا تھا اور جو ان کے مذہبی اعمال کی ادائیگی میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا وہ بھی ان سے چھین لیا گیا۔
یہی وہ زمانہ تھا جس میں حضرت داؤد کی پیدائش ہوئی۔ ایسے میں یہود نے اپنے پیغمبر شیموئل (یا سیموئل) سے اپنی قوم کے لیے ایک بادشاہ بنانے کی دعا کی تاکہ اس کے تحت جنگ کر کے وہ مشرکین کے خلاف فتح حاصل کریں اور اپنا مقدس تابوت اور مفتوحہ علاقے واپس لے سکیں۔ قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کو بیان کیا ہے کہ بنی اسرائیل کے اصرار پر طالوت (ساؤل) کو ان کا بادشاہ بنایا گیا۔ اور ان کی تقرری من جانب اللہ ہونے کی نشانی یہ مقرر کی گئی کہ ان کے دور میں تابوت سکینہ یہود کو واپس مل گیا۔ پھر ان کی زیر قیادت یہود نے جالوت کی مشرک فوج کو شکست دے کر فلسطین پر مکمل قبضہ کر لیا۔ اس جنگ میں حضرت داؤد نے جالوت کو قتل کیا اور بادشاہ نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے کر دی۔
تاہم بعد میں ان کی مقبولیت اور بحیثیت ایک فوجی جرنل ان کی کامیابیوں سے بادشاہ ان سے خائف ہو گیا اور ان کی جان کے درپے ہو گیا۔ چنانچہ وہ جان بچانے کے لیے محل سے نکل گئے۔ اس کے بعد بادشاہ کے ہرکارے ان کے تعاقب میں رہے اور وہ جان بچانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں کی جانے والی مناجات اور حمدیہ گیتوں سے زبور کا آغاز ہوتا ہے۔ ساؤل یعنی طالوت کی وفات کے بعد آپ فلسطین کے بادشاہ بنے اور آخر کار پورے فلسطین کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔
حضرت داؤد کا سفر حجاز
جس زمانے میں حضرت داؤد ساؤل بادشاہ سے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے، ان کے سرپرست سیموئیل نبی کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد فلسطین ان کے لیے بالکل غیر محفوظ ہو گیا۔ چنانچہ یہی وہ دور ہے جس میں وہ فلسطین سے ہجرت کر کے دشت فاران تشریف لے گئے، (کتاب سموئل 25:1)۔ فاران کے نام سے بائبل میں دو علاقوں کا ذکر آیا ہے۔ ایک مصر کے صحرائے سینا کا وہ علاقہ جس میں حضرت موسیٰ کی قوم فرعون کی غرقابی کے بعد پہنچی تھی۔ دوسرے سرزمین عرب کا شہر مکہ جہاں خود بائبل کے مطابق حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو آباد کیا تھا، (کتاب پیدائش 21-17:21)۔ حضرت داؤد چونکہ فلسطین کے بادشاہ اور وہاں کی دیگر مشرک اقوام کی پہنچ سے دور نکلنا چاہتے تھے، اس لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ فلسطین کے علاقے صحرائے سینا گئے ہوں۔ بلکہ قرین قیاس یہی ہے کہ وہ مکہ ہی تشریف لائے ہوں گے جو صحرا کے دور دراز سفر کی وجہ سے اہل فسلطین کی پہنچ سے دور ایک محفوظ پناہ گاہ تھی۔
یہی وہ وقت ہے جب آپ نے حج بیت اللہ ادا کیا۔ اس روح پرور قیام کی یاد تازیست آ پ کو اس طرح ستاتی رہی کہ بعد میں پورے فلسطین کا بادشاہ بننے کے بعد بھی آپ اسے یاد کرتے رہے اور زبور کا ایک پورا مزمور (زبور:84) اسی سفر حج کی یادوں پر ہے جس میں وہ مکہ کا ذکر اس کے قدیم نام ’’بکہ ‘‘ سے کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ قرآن مجید میں بھی یہود سے مکالمہ کرتے وقت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبور میں پیش گوئی
محترم قارئین! پچھلے ماہ زبور میں حضرت داؤد کی اس پیش گوئی کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنا شروع کی تھیں جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کی تھی۔ یہی پیش گوئی تھی جس کی اہمیت کی بنا پر سیدنا مسیح نے اسے انجیل میں دہرایا تھا۔ اس پیش گوئی کے بیان سے قبل میں نے حضرت داؤد کی زندگی کے کچھ حالات بیان کیے تھے۔ نیز یہ بھی بتایا تھا کہ کس طرح زبور کے ایک مزمور میں وہ حرم پاک کی یادوں کو تازہ کرتے اور مکہ کو بکہ کے اس نام سے یاد کرتے ہیں جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔
زبور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی
تاہم جس پیش گوئی کا میں نے ذکر کیا ہے وہ زبور کے ایک دوسرے مزمور (زبور :118) میں آئی ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ مزمور عین حالت حج میں کہا گیا ہے۔ قارئین کی سہولت کے لیے اس مزمور کو پورا نقل کر رہا ہوں۔ کیونکہ اس سے نہ صرف پوری بات سمجھ میں آئے گی بلکہ یہ واضح کرنے میں بھی سہولت رہے گی کہ یہود و نصاریٰ اس پیش گوئی کا رخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موڑ کر کس طرح دوسروں کی طرف کر دیتے ہیں۔ پھر اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ یہ مزمور ریکارڈ پر آ جائے گا کیوں کہ یہود و نصاریٰ کا دستور ہے کہ وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ کسی مسلمان نے ان کی کتاب سے نبی عربی کی صداقت کا کوئی ثبوت پیش کر دیا ہے تو وہ فوراً اس ترجمے کو متروک قرار دے کر ایک ایسا نیا ترجمہ کرتے ہیں جس میں اصل بات غائب کر دی جاتی ہے۔
یہ مزمور نقل کرنے سے قبل یہ بھی واضح کر دوں کہ دیگر الہامی کتب کی طرح زبور بھی ترجمہ در ترجمہ کے عمل سے گزری ہے۔ اس کے نتیجے میں اس میں اب وہ تاثیر محسوس نہیں ہو گی جو قرآن مجید نے بیان کی ہے کہ پہاڑ اور پرندے بھی حضرت داؤد کے ساتھ حمد و تسبیح کرتے تھے۔ مگر بہرحال وہ معنویت موجود ہے جس کی بنا پر قرآن مجید نے بار بار ان کتابوں کا حوالہ دے کر یہ کہا تھا کہ ہمارے نبی کا تذکرہ تم ان کتابوں میں لکھا ہوا پاتے ہو (اعراف 157: 7)۔
حضرت داؤد کا مزمور
اس مزمور کے کئی حصے ہیں۔ میں ذیل میں مزمور نقل کر رہا ہوں اور ساتھ ساتھ اہم باتوں کی وضاحت بھی کرتا جاؤں گا۔
خداوند کا شکر کرو کیونکہ وہ بھلا ہے
اور اس کی شفقت ابدی ہے
اسرائیل اب کہے
اس کی شفقت ابدی ہے
ہارون کا گھرانہ اب کہے
اس کی شفقت ابدی ہے
خداوند سے ڈرنے والے اب کہیں
اس کی شفقت ابدی ہے
یہ ابتدائی آیات یعنی 1 تا 4 اللہ کی حمد پر مشتمل ہیں۔ جبکہ آخری آیت یعنی 29 میں بھی یہی حمدیہ مضمون دہرایا گیا ہے۔ یہی حمدیہ انداز زبور کی وجہ شہرت بھی ہے۔ پھر آیت 5 سے 18 تک وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ان کے دشمنوں نے ان کو گھیر لیا تھا اور فلسطین کی تمام قومیں ان کے خلاف ہو گئی تھیں مگر انھوں نے اللہ سے مدد مانگی اور اسی پر بھروسہ رکھا تو اللہ نے انھیں ان دشمنوں سے نجات عطا فرما دی۔ پھر وہ اپنے لیے اس مزمور میں ایک عظیم پیش گوئی کرتے ہیں کہ وہ اپنے تمام دشمنوں کو شکست دیں گے اور ان کو مارنے والوں کی تمام تر کوششوں کے برخلاف وہ زندہ رہیں گے اور اللہ کی حمد کرتے رہیں گے۔ کس طرح وہ ایک سخت آزمائش سے تو گزرے مگر آخر کار اللہ نے انھیں بچا لیا۔ فرماتے ہیں :
میں نے مصیبت میں خداوند سے دعا کی
خداوند نے مجھے جواب دیا اور کشادگی بخشی
خداوند میری طرف ہے میں ڈرنے کا نہیں
انسان میرا کیا کر سکتا ہے ؟
خداوند میری طرف میرے مددگاروں میں ہے
اس لیے میں اپنے عداوت رکھنے والوں کو دیکھ لوں گا
خداوند پر توکل رکھنا
انسان پر بھروسا رکھنے سے بہتر ہے
خداوند پر توکل رکھنا
امراء پر بھروسا رکھنے سے بہتر ہے
سب قوموں نے مجھے گھیر لیا
میں خداوند کے نام سے ان کو کاٹ ڈالوں گا
انہوں نے مجھے گھیر لیا۔ بیشک گھیر لیا
میں خداوند کے نام سے ان کو کاٹ ڈالوں گا
انہوں نے شہد کی مکھیوں کی طرح مجھے گھیر لیا۔ وہ کانٹوں کی آگ کی طرح بجھ گئے
میں خداوند کے نام سے ان کو کاٹ ڈالوں گا
تو نے مجھے زور سے دھکیل دیا کہ گر پڑوں
لیکن خداوند نے میری مدد کی
خداوند میری قوت اور میرا گیت ہے
وہی میری نجات ہوا
صادقوں کے خیموں میں شادمانی اور نجات کی راگنی ہے
خداوند کا داہنا ہاتھ دلاوری کرتا ہے
خداوند کا داہنا ہاتھ بلند ہوا ہے
خداوند کا داہنا ہاتھ دلاوری کرتا ہے
میں مروں گا نہیں بلکہ جیتا رہوں گا
اور خداوند کے کاموں کو بیان کروں گا
خداوند نے مجھے سخت تنبیہ تو کی ہے
لیکن موت کے حوالہ نہیں کیا
آیت 19 سے وہ سلسلہ کلام ہے جس میں وہ حرم میں داخل ہوتے ہوئے وہ مشہور پیش گوئی کرتے ہیں جس کا شروع میں ذکر ہوا۔ انداز سے صاف ظاہر ہے کہ اس سے قبل کی آیات وہ راستے میں پڑھ رہے تھے، مگر اب وہ حرم میں داخل ہو رہے ہیں اور حرم کو سامنے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو براہ راست مخاطب ہو کر گفتگو کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں :
صداقت کے پھاٹکوں کو میرے لیے کھول دو
میں ان سے داخل ہو کر خداوند کا شکر کروں گا
خداوند کا پھاٹک یہی ہے
صادق اس سے داخل ہوں گے
میں تیرا شکر کروں گا کیونکہ تو نے مجھے جواب دیا
اور خود میری نجات بنا ہے
اب اس کے بعد حرم کے سامنے کھڑ ے ہو کر حجر اسود کو دیکھ کر فرماتے ہیں۔ یہ وہی پیش گوئی ہے جس کا ذکر سیدنا مسیح نے کیا ہے۔
جس پتھر کو معماروں نے رد کیا
وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا
یہ خداوند کی طرف سے ہوا
اور ہماری نظر میں عجیب ہے
یہ وہی دن ہے جسے خداوند نے مقرر کیا
ہم اس میں شادمان ہوں گے اور خوشی منائیں گے
آہ! اے خداوند! بچا لے
آہ! اے خداوند! خوشحالی بخش
اس کے بعد سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیش گوئی اس طرح کرتے ہیں :
مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے
ہم نے تم کو خداوند کے گھر سے دعا دی ہے
یہ وہی خدا ہے اور اسی نے ہم کو نور بخشا ہے
قربانی کو مذبح کے سینگوں سے رسیوں سے باندھو
تو میرا خدا ہے۔ میں تیرا شکر کروں گا
تو میرا خدا ہے۔ میں تیری تمجید کروں گا
خداوند کا شکر کرو کیونکہ وہ بھلا ہے
اور اس کی شفقت ابدی ہے
اوپر لکھے ہوئے الفاظ پر پھر غور کیجیے۔
مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے، (آیت 26)۔
ہر قرینہ اس بات کا گواہ ہے کہ آنے والی ہستی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہے۔ اور یہ الفاظ حرم مکہ میں ادا کیے جا رہے ہیں۔ اس کا سب سے بنیادی قرینہ یہ ہے کہ حضرت داؤد کے زمانے میں ابھی ہیکل سلیمانی کی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ یہود کی کوئی مرکزی عبادت گاہ نہیں تھی۔ مگر دیکھیے کہ اس مزمور میں خداوند کا پھاٹک یہی ہے (آیت 20) اور ہم نے تم کو خداوند کے گھر سے دعا دی ہے، (آیت 26) کے الفاظ آتے ہیں۔ خداوند کا گھر دراصل بیت اللہ کا ترجمہ ہے۔ حضرت داؤد کے زمانے میں بیت اللہ کہلانے والی عمارت دنیا کے نقشے پر ایک ہی تھی اور و ہ حرم کعبہ تھا۔ مزید اس مزمور میں وہ قربانی اور قربانی گاہ یعنی مذبح کا ذکر کرتے ہیں، (آیت27)۔ کیا یہ بات مسلمانوں کو بتانے کی کوئی ضرورت ہے کہ حج کے موقع پر حرم مکہ میں قربان گاہ اور قربانی کا زیارت سے کیا تعلق ہوتا ہے ؟
پھر جو پیش گوئی کونے کے پتھر کے تعلق سے بیان ہوئی ہے وہ واضح رہے کہ بنی اسماعیل کے حوالے سے ہے کہ آج اس قوم کو دنیا نے فراموش اور رد کر رکھا ہے مگر کل یہ حرم پاک کے کونے کے پتھر یعنی حجر اسود کی طرح مقدس اور محترم ہو جائے گی۔ ہمیں یہ بات آج عجیب لگتی ہے، مگر یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ چنانچہ اس کے بعد وہ بنی اسماعیل کو عافیت اور خوشحالی کی دعا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تم کو خداوند کے گھر سے دعا دی ہے۔
تحریف و تاویل
یہود و نصاریٰ نے بڑی کوششیں کی ہیں کسی طرح اس پیش گوئی کا مصداق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ قرار پائیں۔ چنانچہ یہود نے اس معاملے میں یہ کام کیا کہ اس مزمور پر سے حضرت داؤد کا نام ہٹادیا (خیال رہے کہ موجودہ زبور میں بعض مزامیر بعد میں آنے والوں کے بھی ہیں )۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری کے بمصداق جب حضرت داؤد کی نسبت ہی نہیں رہی تو یہ پیش گوئی اپنی اہمیت کھو بیٹھے گی۔ مگر اس پیش گوئی کو حضرت عیسیٰ نے انجیل میں دہرا کر اس کی اہمیت کو اتنا نمایاں کر دیا کہ ایسی کوئی کوشش اب موثر نہیں ہو سکتی۔
ایک دوسری تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہ حضرت داؤد کا کلام اس لیے نہیں ہو سکتا کہ اس میں بیت اللہ یا خداوند کے گھر اور قربانی اور قربان گاہ کا ذکر آیا ہے۔ جیسا کہ پیچھے بیان ہوا کہ ہیکل سلیمانی تو حضرت داؤد کے بعد حضرت سلیمان نے بنوایا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں کے نزدیک یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’’۔ ۔ خداوند کے گھر ‘‘ جیسے کسی الفاظ کا کوئی مسمیٰ حضرت داؤد کے زمانے میں موجود ہی نہیں تھا، اس نے ان آیات کی یہ تاویل کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ مزمور حضرت داؤد کا ہے ہی نہیں بلکہ اس زمانے کا ہے جب یہود بابل کی اسیری سے واپس یروشلم لوٹ رہے تھے۔ یعنی بخت نصر یروشلم کو تباہ کر کے انھیں ساتھ بابل لے گیا تھا تو کم و بیش ایک صدی کی غلامی کے بعد سائرس یا ذو القرنین نے انھیں اس غلامی سے نجات دلا کر دوبارہ یروشلم لوٹنے کی اجازت دی تھی۔ ایسے میں کسی نامعلوم شخص نے یروشلم میں داخل ہوتے وقت ہیکل سلیمانی کو دیکھ کر یہ مزمور پڑھا تھا۔
تاہم اس مزمور کا ابتدائی حصہ اس تاویل کی مکمل طور پر نفی کر دیتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پیچھے بیان کیا کہ حضرت داؤد بادشاہ وقت کے مسلسل عتاب کا نشانہ بنے رہے اور مستقل اپنی جان بچانے کی جدو جہد کرتے رہے اور آخرکار اپنے تمام دشمنوں پر اللہ کی مدد سے غالب آئے۔ اس کی پوری داستان بائبل میں موجود ہے۔ اس مزمور میں یہی داستان بہت اختصار سے بیان ہوئی ہے۔ اس داستان کا بابل سے لوٹنے والے لوگوں سے بالکل کوئی تعلق نہیں۔ وہ تو خود مغلوب ہو کر عراقیوں کی قید میں تھے جبکہ یہاں داؤد علیہ السلام یہ کھلی ہوئی پیش گوئی کر رہے ہیں :
’’سب قوموں نے مجھے گھیر لیا۔ میں خداوند کے نام سے ان کو کاٹ ڈالوں گا۔ انہوں نے مجھے گھیر لیا۔ بیشک گھیر لیا۔ میں خداوند کے نام سے ان کو کاٹ ڈالوں گا۔ انہوں نے شہد کی مکھیوں کی طرح مجھے گھیر لیا۔ وہ کانٹوں کی آگ کی طرح بجھ گئے۔ میں خداوند کے نام سے ان کو کاٹ ڈالوں گا۔ ‘‘، (آیت 12-10)
یہ دشمنوں میں گھرے ہوئے شخص کی للکار ہے کہ آج میں بہت مشکل میں ہوں لیکن کل میں کس طرح ان دشمنوں کا صفایا کر دوں گا۔ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ میں کوئی دوسری شخصیت نہیں ہے جس کے خلاف اس طرح ساری قومیں اور قبائل اٹھ کھڑے ہوئے ہوں اور وہ تنہا اللہ کی مدد سے غالب آ گیا ہو۔ اس لیے یہ مزمور پڑھنے والی شخصیت سوائے حضرت داؤد کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔
مسیحی حضرات کی تاویل
مسیحی حضرات اس کی وہی تاویل کرتے ہیں جو آسمانی صحائف میں موجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر پیش گوئیوں کی کرتے ہیں۔ یعنی ا ن کا مصداق حضرت عیسیٰ ہیں، نہ کہ نبی آخر الزماں۔ لیکن اول تو یہی بات کہ یہ پیش گوئی حرم مکہ میں کی گئی ہے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ جس آنے والے کا ذکر ہے وہ نبی عربی کے علاوہ کوئی اور ہو۔ مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انجیل میں اس پیش گوئی کو نقل کرنے کے بعد اس کی جو شرح خود مسیح نے کی ہے اس کے مطابق ان کی اپنی زندگی اور ان کی قوم کسی طور پر اس پیش گوئی کا مصداق نہیں بن سکتیں۔ مسیحی حضرات کہتے ہیں کہ اس پیش گوئی کا مصداق مسیح ہیں۔ جبکہ اکا دکا وہ مسلمان اہل علم جنھوں نے اس پیش گوئی کو موضوع بنایا ہے یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہمارے نبی ہیں۔ میں یہ نقطہ نظر پیش کر رہا ہوں کہ ’’کونے کے پتھر‘‘ کا مصداق کوئی فرد نہیں بلکہ قوم ہے۔ یہی بات حضرت داؤد نے زبور میں بیان کی تھی اور یہی چیز انجیل میں سیدنا مسیح نے بالکل کھول کر رکھ دی ہے۔ تاہم اس کے لیے انجیل کے بیان کو سمجھنا ہو گا۔
انجیل کی کتاب متی باب 21 کی آیت 23 سے یہ واقعہ بیان ہونا شروع ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ہیکل سلیمانی میں کھڑے ہو کر دعوت دے رہے تھے کہ یہود سردار اور کاہن ان کے اردگرد جمع ہو گئے اور ان پر اعتراض کرنے لگے کہ تم یہ کام کس اختیار کے تحت کر رہے ہو۔ اس پر حضرت عیسیٰ نے پہلے ان کے کفر پر ان کو تنبیہ کی اور پھر ایک تمثیل کی زبان میں انھیں بتایا کہ اللہ کا عذاب ان پر آیا چاہتا ہے اور اب انھیں فارغ کر کے ایک دوسری قوم کو یہ منصب دے دیا جائے گا۔ ا س کے بعد انھوں نے حضرت داؤد کی زیر بحث پیش گوئی بیان کی اور ساتھ میں خود اس کی شرح اس طرح کرتے ہوئے فرمایا:
اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔ اور جو اس پتھر پر گرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔ اور جب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے اس کی تمثیلیں سنیں تو سمجھ گئے کہ ہمارے حق میں کہتا ہے۔ اور وہ اسے پکڑنے کی کوشش میں تھے لیکن لوگوں سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ اسے نبی جانتے تھے، (متی 46-43:21 )۔
حضرت عیسیٰ نے صاف واضح کر دیا ہے کہ یہاں زیر بحث قوم ہے کوئی فرد نہیں۔ یعنی بنی اسرائیل کو اللہ کا عذاب دے کر جب منصب امامت سے فارغ کر دیا جائے گا تو وہ پتھر یعنی بنی اسماعیل جنھیں یہود بے وقعت سمجھتے تھے، کونے کے سرے کا پتھر ہو جائے گا۔ اب اگر یہ بات ذہن میں رہے کہ پیش گوئی کرنے والے نبی داؤد اگر حرم میں کھڑے ہوئے ہیں تو کونے کا پتھر کیا ہو سکتا ہے۔ یہ بلاشبہ حجر اسود کی طرف اشارہ ہے جو حرم کی عمارت کا اہم ترین حصہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بنی اسماعیل کی قوم جو سب سے غیر اہم تھی وہ عنقریب دنیا میں سب سے زیادہ اہم ہو جائے گی۔ اور پھر مسیح اس کی شرح کرتے ہیں کہ اس قوم کو وہ غلبہ و قوت اور اقتدار ملے گا کہ یہ دنیا کی جس قوم سے ٹکرائے گی اسے پاش پاش کر ڈالے گی۔
کون نہیں جانتا کہ داؤد اور مسیح علیھما السلام کی یہ پیش گوئیاں کس طرح حرف بحرف درست ثابت ہوئی ہیں۔ وہ عرب جنھیں یہود حقارت سے اُمی کہتے تھے اور ساری دنیا جنھیں غیر متمدن سمجھتی تھی جب ایمان لے آئے تو کس طرح بقول حضرت داؤد کے عجیب طریقے پر دنیا کی سپر پاورز کے پرخچے اڑا دیے اور جو قوم ان سے ٹکرائی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئی۔ اس کے برعکس حضرت عیسیٰ کے اپنے پیروکاروں کا معاملہ یہ تھا کہ ابتدائی کئی صدیوں میں ان کے پیروکاروں پر بدترین ظلم و ستم ہوتے رہے۔ وہ کسی قوم کو کیا پیستے، دوسری قومیں انھیں پیستی رہیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ یا ان کی قوم سرے سے اس پیش گوئی کا مصداق ہوہی نہیں سکتے۔ مسیحی حضرات لاکھ زور لگا لیں، خود سیدنا مسیح اس پیش گوئی کی جو شرح کر کے گئے ہیں وہ ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بلاشبہ اس پیش گوئی کا مصداق اگر کوئی ہے تو سرکار دو عالم کی ہستی ہے اور آپ کی قوم یعنی صحابہ کرام ہیں۔ اللہ ان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین۔
٭٭٭
قرآن میں گرامر کی غلطیاں
انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ اب کم و بیش ان تمام اعتراضات سے واقف ہوتا چلا جا رہا ہے جو قدیم مستشرقین اور جدید مغربی مفکرین اللہ تعالیٰ کی ہستی، اسلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن مجید اور خود نفس مذہب پر کرتے رہے ہیں۔ اس کا ایک علاج ہماری قوم نے یہ ڈھونڈھا ہے کہ ایسی سائٹ کو بلاک کرا دیا جائے۔ ہمارے نزدیک یہ کوئی علاج نہیں۔ یہ شتر مرغ کی طرح طوفان کی آمد پر ریت میں سر چھپانے کا عمل ہے۔
ہمیں بہرحال اپنے دین کی تعلیمات پر یہ اعتماد ہے کہ وہ کسی بھی چیلنج کا جواب دے سکتی ہیں۔ چنانچہ ہم یہ خدمت اپنی حقیر حیثیت میں کرتے رہتے ہیں۔ اس ماہ میں میں Intelligent Design کے نام سے قارئین نے جو مضمون رسالے کی ابتدا میں ملاحظہ کیا ہے وہ فیس بک پر لگے ہوئے ایسے ہی کچھ اعتراضات کا جواب تھا۔ الحمدللہ قارئین اس مضمون میں دیکھ سکتے ہیں کہ کہ کس طرح اعتراض کی کمزوری کو واضح کر دیا گیا ہے۔
آج اس کالم میں میرے پیش نظر ایسی ہی ایک خط و کتابت کو پیش کرنا ہے جس میں قرآن مجید پر اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ اس طرح کی چیزوں کو پیش کرنے کا اصل مقصد پڑھنے والوں میں یہ اعتماد پیدا کرنا ہے کہ کوئی اعتراض سامنے آئے تو گھبرائیں نہیں۔ آ پ کا مذہب اللہ کا دین ہے۔ یہ فکری طور پر اتنا مضبوط ہے کہ اس کی کسی بات کو غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
اس تمہید کے بعد آپ یہ خط و کتابت ملاحظہ فرمائیے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
السلام علیکم
میں نے مستشرقین کی ایک کتاب پڑھی تھی۔ قرآن اور اسرائیلیت۔ اس میں انہوں نے قرآن پاک کی فصاحت اور بلاغت میں ہزاروں کی تعداد میں ہوئی غلطیاں ثابت کی ہیں۔ وہ قرآن و اسلام کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یہ سب کیسے ممکن ہے ؟ برائے کرم جواب عنایت فرمائیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
السلام علیکم
میں نے اس مسئلہ کو تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’قسم اس وقت کی‘‘ میں بیان کیا ہے۔ یہاں اس کا اقتباس پیش ہے۔ لیکن میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ پوری کتاب کو پڑھیے اس میں اور بھی بہت سے الزامات کے جواب ہیں۔
’’قسم اس وقت کی ‘‘ سے اقتباس :
’’ قرآن کے ذکر پر کرن نے برا سا منہ بنا کر جواب دیا:
قرآن کا ذکر تو آپ بالکل نہ کیجیے۔ ساری مذہبی کتابوں کی طرح اس میں بھی بڑی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔
فاریہ جو کرن کی یہ بات پہلے بھی کئی دفعہ سن چکی تھی، وضاحت کرتے ہوئے بولی:
کرن کا کہنا ہے کہ قرآن میں زبان و بیان اور گرامر کی بہت سی غلطیاں ہیں۔ اس لیے یہ اللہ کا کلام نہیں ہو سکتا۔
فاریہ کی اس بات پر عبداللہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور ہنستے ہوئے کہا:
کرن صاحبہ تو اللہ تعالیٰ کو بھی نہیں مانتیں۔ اس لیے قرآن کا اللہ کی طرف سے ہونا نہ ہونا ویسے بھی ان کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ مگر میں بتاتا ہوں کہ یہ دراصل کس کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ درحقیقت اسلام مخالف مستشرقین کا ہے جو اللہ کو تو مانتے ہیں، مگر قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانتے۔ مگر ایسی باتوں کی کمزوری تو دو منٹ میں واضح ہو سکتی ہے۔
وہ کیسے ؟، فاریہ نے اشتیاق کے ساتھ کہا۔
دیکھیے قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے، یہ ثابت کرنا سب سے زیادہ قرآن مجید کے پہلے مخاطبین مشرکین عرب کے لیے اہم تھا۔ یہ کام سب سے زیادہ آسانی سے وہی کر بھی سکتے تھے۔ کیونکہ و ہ شعر و خطابت اور ادب و بلاغت کے بادشاہ تھے۔ انہیں یہ کوشش بھی ضرور کرنی چاہیے تھی کیونکہ وہ اسلام کے بدترین دشمن تھے۔ اس دشمنی میں انہوں نے ہر حربہ اختیار کیا، مگر کبھی یہ نہیں کہا کہ قرآن میں گرامر یا زبان کی کوئی غلطی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن میں کوئی غلطی وہ لوگ دریافت نہیں کرسکے تو پھر سیکڑوں سال بعد پیدا ہونے والے لوگ کیسے قرآن کی غلطی نکال سکتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے اردو یا فارسی زبان بولنے والا کوئی شخص گرامر کی کتابوں سے انگریزی سیکھے اور پھر دنیا کو یہ بتائے کہ اس نے شیکسپیر کے کلام میں غلطیاں نکال لی ہیں یا پھر کوئی انگریز اردو سیکھ کر دنیا کو بتائے کہ کلام غالب میں فلاں غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ یاد رکھیے کلاسیکل لٹریچر سے زبان کے قواعد وجود میں آتے ہیں۔ قواعد کی بنیاد پر ان کو پرکھنا سطحی انداز فکر کی دلیل ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو غلطیاں مستشرقین قرآن میں نکالتے ہیں وہ کسی ناواقف شخص کو تو کچھ متاثر کرسکتی ہیں، لیکن زبان و بیان کا اچھا ذوق رکھنے والا کوئی شخص ان سے پہلے کبھی متاثر ہوا ہے نہ آئندہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ سارے اعتراضات بچکانہ نوعیت کے ہیں۔
پھر اس نے ایک اور آسان مثال سے اپنی بات کی وضاحت کی:
عربی گرامر کی بنیاد پر قرآن میں غلطیاں نکالنا ایسا ہی ہے جیسے میڈیکل کی کسی کتاب میں کسی انسانی عضو کے کچھ فنکشنز لکھے ہوں۔ پھر تحقیق سے معلوم ہو کہ یہ عضو ایک اور کام بھی کرتا ہے۔ اب صحیح رویہ تو یہ ہو گا کہ اس عمل یا فنکشن کو میڈیکل کی کتاب میں لکھ دیا جائے، نہ کہ میڈیکل کی کتاب کو بنیاد بنا کر یہ کہا جائے کہ فلاں عضو میں ایک غلطی دریافت ہو گئی۔ ‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شکریہ ابو یحییٰ صاحب۔ آپ نے میرے کمنٹ کو جواب کے قابل سمجھا۔ میں نے آپ کی کتاب پڑھی۔ لیکن مستشرقین کہتے ہیں کہ للکار خداوندی پر عرب کے لوگوں نے قرآن کے مقابلے کا کلام پیش کیا تھا لیکن مسلمانوں نے دبا دیا۔ اور ہمیں اس کے ثبوت ملے ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بھائی ان سے کوئی پوچھے کہ مسلمان قرآن کے کسی جواب کو اسی وقت دبا سکتے تھے جب وہ طاقتور ہوتے۔ معمولی علم رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ مکہ میں جب یہ چیلنج دیا گیا تھا تو مسلمان بہت تھوڑے، کمزور اور مغلوب تھے۔ اگر ایسے میں قریش مکہ کی طرف سے کوئی مناسب جواب دیا جاتا تو مسلمانوں کی اخلاقی حیثیت مکمل طور پر ختم ہو جاتی۔ کمزور کا کل سہارا اس کی اخلاقی حیثیت ہوتی ہے۔ وہ ختم ہو جائے تو کیسے ممکن تھا کہ لوگ اسلام کی اخلاقی تعلیم سے متاثر ہو کرایمان لاتے اور ہر طرح کا ظلم و ستم برداشت کرتے۔ مزید یہ کہ تاریخ میں قرآن کے جس جواب کا ذکر ملتا ہے وہ نبوت کے جھوٹے مدعیوں نے آخری وقت میں دیا تھا جب مسلمانوں کا اقتدار قائم ہو چکا تھا۔ مگر اس جواب کو بھی مسلمانوں نے نہیں دبایا بلکہ وہ پورا کا پورا بغیر تبدیلی کے آج کے دن تک تاریخ کی کتابوں میں مل جاتا ہے۔ قریش کے عربوں نے جن کو یہ چیلنج دیا گیا تھا کبھی کوئی جواب دینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہت شکریہ سر آپ نے میرے وسوسے کو دور کر دیا۔ خدا آپ کو اپنی رحمت اور نوازش سے مالا مال فرمائے۔ ویسے اگر ان ملحدین کو ایک سوال کا جواب دیا جائے تو یہ دس سوال مزید اٹھا لاتے ہیں۔ ان کا کوئی علاج نہیں سمجھ میں آتا۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ہر آدمی کو حق تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جی آپ نے درست فرمایا ہے ہر جواب کے بعد دس سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ اسی لیے میں نے ’’قسم اس وقت کی‘‘ میں یہ اہتمام کیا ہے کہ مثبت بنیادوں پر ایک ایسے استدلال سے آخرت، خدا اور رسالت کو ثابت کروں جس کا جواب دینا ممکن ہی نہیں۔ ہو سکے تو اس پہلو سے ’’قسم اس وقت کی‘‘ کو دوبارہ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ قرآن اپنی بات کو کیسے معجزانہ طریقے پر ثابت کرتا ہے۔
٭٭٭
رمضان اور ہمارے اخلاقی معاملات
رمضان مبارک کی مقدس ساعتیں ہم پر سایہ فگن ہو رہی ہیں۔ قمری اور شمسی مہینوں کے فرق کی بنا پر اب کئی برس تک رمضان کا مہینہ موسم گرما میں آیا کرے گا۔ تاہم ایک طویل عرصے سے کی جانے والی مذہبی سرگرمیوں کے نتیجے میں مسلمان عبادات کے بارے میں اب کافی حساس ہو گئے ہیں۔ لہٰذا امید ہے کہ انشاء اللہ سخت ترین گرمی کے موسم میں بھی مسلمانوں کی غالب اکثریت موسم کی شدت اور روزے کی طوالت کے باوجود اس عظیم عبادت کو پوری ہمت اور یکسوئی کے ساتھ ادا کرے گی۔ تاہم اس کے ساتھ سابقہ تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ روزے کے ساتھ وہ ساری اخلاقی خرابیاں جوں کی توں جاری و ساری رہیں گی جنھوں نے ہمارے معاشرے کو ظلم و فساد سے بھر دیا ہے۔
ہمارے ہاں کے ایک مذہبی انسان کا تصور
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی انسان کا جو تصور ہے وہ کچھ ظاہری چیزوں اور عبادات کے ظاہری ڈھانچے تک محدود ہے۔ عبادات بلاشبہ دین کا اہم ترین اور بنیادی دینی مطالبہ ہے۔ لیکن جس طرح قلبی ایمان کے بغیر کلمہ پڑھ لینا ایک بے فائدہ عمل ہے، اسی طرح اپنی اصل روح کے بغیر یہ عبادات حقیقی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ یہ بات کوئی ہم نہیں کہہ رہے دین دینے والی ہستی نے اس حقیقت کو مختلف پہلوؤں سے کھولا ہے۔ خود روزہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص نے (روزہ رکھ کر) جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اللہ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ ‘‘، (صحیح بخاری، رقم 1804)
یہ روایت صاف بیان کرتی ہے کہ روزہ اطاعت کی جس اسپرٹ اور تقویٰ کے جس مقصد کے لیے رکھا جاتا ہے وہ مقصد اگر پورا نہیں کیا جا رہا تو پھر صرف بھوکا پیاسا رہنا وہ عمل نہیں جو اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے مقصود ہو۔
قرآن کا مطلوب انسان
مزید یہ کہ عبادات کے ساتھ دین کے بہت سے اہم اخلاقی مطالبات ہیں جن سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے۔ ان میں سے چند اہم مقامات کو میں نے اپنی کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان‘‘ میں جمع کر دیا ہے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دین آخرت کی نجات اور دنیا میں اعلیٰ شخصیت کے پیدا ہونے کی ضمانت انہی مطالبات کی بنا پر دیتا ہے۔ ان کو نظر انداز کر کے کوئی شخص کبھی بھی حقیقی دیندار نہیں بن سکتا۔ نہ ان کے بغیر آخرت کی فلاح ممکن ہے نہ دنیا ہی میں اعلیٰ انسان پیدا ہو سکتے ہیں جو کسی معاشرے کو عدل و انصاف اور نتیجے کے طور پر اللہ کی رحمتوں سے بھر دیتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں یہ سانحہ ہے کہ ہمارے دینی فکر میں یہ اخلاقی مطالبات غیر اہم ہیں۔ تاہم اگر دین کے اصل ماخذ کو پڑھا جائے تو اس معاملے میں کسی قسم کی غلط فہمی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔
خود روزے کی عبادت کی تفصیل جس طرح قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے اس سے یہ حقیقت صاف واضح ہو جاتی ہے یہ اخلاقی مطالبات عبادات جتنے ہی اہم ہیں بلکہ عبادات اور خاص کر روزے کی عبادت کے بیان کے ضمن میں اس حقیقت کو بالکل کھول دیا گیا ہے کہ اس عظیم عبادت کا مقصد ہی لوگوں کو ان اخلاقی مطالبات کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا ہے۔
رمضان اور اخلاقی رویے
روزہ کا حکم قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں دیا گیا ہے۔ یہ کئی پہلوؤں سے قرآن مجید کی اہم ترین سورت ہے۔ اس سورت کے آغاز میں بنی اسرائیل کو ان کے جرائم اور خاص کر بے خوفی (عدم تقویٰ) کی نفسیات کی بنا پر امامت عالم کے منصب سے فارغ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ایک نئی امت یعنی امت مسلمہ کو اس منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ جس کے بعد نئی امت کو ایمان و اخلاق کی بہترین حالت میں لانے کے لیے ہدایات اور خاص کر اپنی سب سے بڑی نعمت یعنی شریعت عطا کی گئی ہے۔
روزوں کا حکم شریعت کے قوانین کے اسی سلسلہ بیان میں رکھا گیا ہے۔ مگر وہ جس طرح اور جس ترتیب سے بیان کیا گیا ہے اس کا سمجھنا بہت اہم ہے۔ روزہ سے قبل اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے قصاص کا حکم دیا (آیت 177-179)۔ یعنی قاتل کو اس جرم میں سزائے موت دی جائے۔ اس کی طاقت اور سماجی حیثیت سے قطع نظر قاتل جو بھی ہو اسے بہرحال سزا ضرور ملنی چاہیے۔ پھر جان کے بعد مال کی حرمت کے حوالے سے احکام شروع ہوتے ہیں (آیت 181-182)۔ عرب میں طاقتور وارث کمزوروں کو وراثت کے مال سے محروم کر دیتے تھے۔ چنانچہ اس ظلم کو روکنے کے لیے ایک ابتدائی حکم یہ دیا گیا کہ مرنے والا اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں جب موت قریب ہو تو یہ معاملہ طے کر کے جائے۔
دونوں احکام کے ضمن میں تقویٰ کا ذکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جان کا معاملہ ہو یا مال کا، انسان ایک دفعہ بے خوفی کی نفسیات میں مبتلا ہو جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے دوسروں پر ظلم و تعدی سے نہیں روک سکتی۔ اللہ کا طریقہ تو یہ ہے نہیں کہ وہ دنیا میں ہاتھ پکڑ کر لوگوں کو ظلم و زیادتی سے روکے۔ رہے انسان تو ان میں سے جو طاقتور ہو گا وہ اپنی من مانی کر لے گا۔ جہاں موقع ملے گا وہ لوگوں کی جان اور مال پر ظلم ڈھائے گا۔ ایسے میں صرف عدل پر مبنی احکام اور تقوی کی نفسیات ہے جو معاشرے کو اس ظلم سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو انتہائی منصفانہ احکام دیے گئے اور دوسرے طرف تقویٰ کی اہمیت کو بیان کیا گیا۔
مگر تقویٰ کی اہمیت کے ساتھ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ یہ پیدا کیسے ہو گا۔ چنانچہ اسی مقصد کے لیے یہ اہتمام کیا گیا کہ مال سے متعلق احکام ابھی ختم نہیں ہوئے کہ تقویٰ کی اس کیفیت کو پیدا کرنے کے لیے بیچ ہی میں آیات 183 تا 187 میں روزہ کی وہ عظیم عبادت فرض کی گئی جس کا مقصد ہی تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا۔
’’ ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔ (البقرہ183:2)
یہ روزہ سے متعلق پہلی آیت ہے اور اس سلسلہ کلام کی آخری آیت کے الفاظ یہ ہیں۔
اللہ اسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ (البقرہ187:2)
یعنی بات تقوی سے شروع ہوئی اور تقوی پر ہی ختم ہوئی۔ یہی تقوی یا خدا خوفی جو ہر سرد و گرم میں انسان کو اطاعت پر آمادہ کرتی ہے روزے کا اصل مقصود ہے۔ پھر روزہ کے بعد بغیر کسی وقفے کے وہی حرمت مال کا موضوع پھر اٹھا لیا جس پر پہلے گفتگو ہو رہی تھی۔ ارشاد فرمایا:
اور اپنے مال باہمی طور پر باطل طریقے سے مت کھاؤ۔ (البقرہ188:2)
اس طریقے کی حکمت
احکام کی یہ ترتیب اس بات کا صاف اعلان ہے کہ معاشرے میں اگر ظلم ہو رہا ہے، قاتل آزاد ہیں بے لگام ہیں، قصاص نہیں لیا جا رہا، انسانی جان کی حرمت ہر روز پامال ہو رہی ہے، معصوموں کو قتل کیا جا رہا ہے اور مجرم دندناتے پھر رہے ہیں، دہشت گردی اور خوف کی فضا عام ہے، مجرموں کو تحفظ دیا جا رہا ہے، طاقت ور طاقت کے زور پر اور اہل علم قلم اور زبان کی طاقت پر قاتلوں کا تحفظ کر رہے ہیں، عدالتوں میں عدل نہیں ہو رہا بلکہ وہیں پر بے گناہوں کو سنگسار کیا جا رہا ہے۔
لوگوں کا مال اگر باطل طریقے پر کھایا جا رہا ہے، ان کی زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں، بھتہ اور تاوان وصول کیا جا رہا ہے، ملاوٹ عام ہے، ظالمانہ منافع خوری، رشوت، لوٹ مار، کرپشن کا کلچر اگر عام ہے، تو اطمینان رکھیے اس معاشرے کے لوگ کتنے ہی روزے رکھ لیں۔ اللہ کے ہاں کوئی روزہ قبول نہیں ہو رہا۔ کچھ کا اس لیے کہ وہ روزہ رکھ کر اس ظلم میں حصہ دار ہیں اور کچھ کا اس لیے کہ وہ اس ظلم کے خلاف خاموش ہیں۔ روزہ صرف اس محدود اقلیت کا قبول ہو گا جن کے دل میں صرف خدا کا خوف ہو گا اور ہر دوسرے خوف سے بلند ہو کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔
وہ دہشت گردی کو دہشت گردی کہیں گے۔ وہ ظلم کو ظلم کہیں گے۔ قتل کو قتل کہیں گے۔ بھتہ و تاوان کو بھتہ کہیں گے۔ کرپشن کو کرپشن کہیں گے۔ زمینوں پر قبضہ کو حرام کہیں گے۔ ظالمانہ منافع خوری، رشوت، کرپشن کے خلاف سینہ سپر ہو کر کھڑے رہیں گے۔
باقی جو لوگ یہ سب کام کرتے ہیں اور عین رمضان میں اس ظلم و ستم کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ اطمینان رکھیں۔ روزہ کا نتیجہ اس دنیا میں تقوی ہے۔ اگر وہ نہیں نکل رہا تو آخرت والا نتیجہ بھی نہیں نکلے گا۔ وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ ان کا انجام جہنم کی آگ ہے۔ کیونکہ انھوں نے میرے آقا کے فرمان کے مطابق روزہ تو رکھ لیا، مگر روزہ رکھ کر جھوٹ، ظلم، نا انصافی کو نہیں چھوڑا۔ وہ دنیا میں نافرمانی سے نہیں بچے تو آخرت میں جہنم سے بھی نہیں بچ سکتے۔ وہ اپنے آپ کو کچھ بھی کہتے رہیں اور کچھ بھی سمجھتے رہیں۔ یہی ان کا انجام ہے۔
٭٭٭
سر اور دھڑ
محترم قارئین! ایک طویل عرصے سے میں نے پاکستان کے سیاسی معاملات پر کچھ لکھنا چھوڑ رکھا ہے۔ تاہم پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں جب کہ تبدیلی حکومت بذریعہ دھرنا کی سوچ عام ہے، بعض احباب کا یہ تقاضہ شدت سے سامنے آیا کہ مجھے کچھ نہ کچھ اس حوالے سے لوگوں کی رہنمائی کے لیے لکھنا چاہیے۔
میرا معاملہ یہ ہے کہ میرا نشانہ فرد کی اصلاح ہے۔ اس کے آگے بڑھ کر بس سماج میرا موضوع رہتا ہے۔ سیاسی امور پر لکھنے کے لیے ویسے بھی بہت اچھے لوگ موجود ہیں۔ تاہم احباب کے اصرار پر میں آج ایک اصولی بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس کے ذیل میں موجودہ سیاسی حالات کی کچھ جھلک بھی آپ دیکھ سکیں گے۔ حالات تو بدلتے رہتے ہیں، لیکن اصول نہیں بدلنے چاہییں ا ور اسی بات پر توجہ دلانا مقصود ہے۔
سماج اور اقتدار
انسان ایک سماجی وجود ہے۔ وہ تنہا نہیں رہتا بلکہ لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے۔ انسانوں نے جب افراد سے آگے بڑھ کر گروہوں کی شکل میں مل جل کر ساتھ رہنے کا چلن اختیار کیا تو اپنے باہمی تنازعات کو سلجھانے اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک ریاست کی شکل اختیار کر لی۔ اس ریاست کی سربراہی کے لیے انسانیت نے اپنی تاریخ میں دو ہی طریقے اختیار کیے ہیں۔ ایک یہ کہ جس کے پاس طاقت ہو وہ اقتدار پر قبضہ کر لے۔ دوسرا یہ کہ جس شخص کو لوگوں کا اعتماد اور عصبیت حاصل ہو اسے اقتدار دے دیا جائے۔
اقتدار ملنے کا ایک تیسرا طریقہ بھی رہا ہے۔ اس طریقے میں اللہ تعالیٰ خود ہی حکمران کا فیصلہ کر دیا کرتے تھے۔ وہ طالوت کی طرح کوئی عام انسان بھی ہو سکتا تھا اور حضرت موسیٰ، حضرت داؤد اور سرکار دو عالم علیھم السلام اجمعین کی طرح نبی بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن ختم نبوت کے بعد اب چونکہ اس کے ظہور میں آنے کا کوئی امکان نہیں اس لیے اس کا ذکر ہم جانے دیتے ہیں۔
پرامن انتقال اقتدار
پاکستان کے عوام نے اپنے لیے انسانی تاریخ کے ان دو طریقوں یعنی بالجبر اقتدار پر قبضہ اور عوام کی مرضی سے حکمران کے انتخاب میں سے دوسرے طریقے کا انتخاب کیا ہے۔ اس ملک کے بانیان، سیاستدانوں، دانشوروں اور ممتاز ترین علمائے کرام اور معاشرے کے تمام نمائندہ طبقات نے متفقہ طور پر اسی طریقے کو ریاست کا دستور بنایا ہے۔
اس طریقے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں کسی کو حکمران بنانے سے بڑھ کر اسے اقتدار سے پرامن طور پر ہٹانے کا طریقہ ہمیشہ کے لیے طے کر دیا جاتا ہے۔ جو لوگ تاریخ کے علم سے ادنیٰ سی واقفیت بھی رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے والے فرد، گروپ یا خاندان کو اقتدار سے ہٹانے کی ہر کوشش میں خواہ وہ کوشش کامیاب ہو یا ناکام، ہمیشہ بہت بڑے پیمانے پر خونریزی، بدامنی اور فساد برپا ہوتا ہے۔ اس کی قیمت عام لوگ ادا کرتے ہیں جن کی پرسکون زندگی کو سیاست کا یہ ہنگامہ برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ یہ کبھی نہ بھی ہو تب بھی زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے والے لوگ ہر قیمت پر اپنا اقتدار برقرار رکھنے کی کوشش میں معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں بار بار طاقت کے زور پر اقتدار کو تبدیل کیا جاتا رہا اور اس کی قیمت معاشرہ ادا کرتا رہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید یہ صورتحال تبدیل ہو جائے، مگر ایک دفعہ پھر ملک میں دھرنوں اور احتجاج کے ذریعے سے اقتدار پر قبضے اور حکمرانوں کی تبدیلی کی بات ہو رہی ہے۔ یہ کام کرنے والے خواہ اپنے موقف کے حق میں کتنے ہی دلائل دے دیں، اگر ان کا طریقہ کار ہی غلط ہے تو پھر کسی صورت اس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔
ہمارے نظام کی خرابیاں
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ نظام میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔ عوامی شکایات کے ازالے اور ضروریات کو پورا کرنے کا نظام بہت کمزور ہے۔ حکمرانوں کے حوالے سے کی جانے والی بہت سی شکایات درست ہیں۔ پچھلے انتخابات میں کچھ نہ کچھ دھاندلی بھی ہوئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر کسی غیر اخلاقی، غیر دینی اور غیر قانونی طریقے سے موجودہ حکومت کو ختم کرنا جائز ہے تو پھر فرض کر لیجیے کہ عمران خان صاحب یا طاہر القادری صاحب اقتدار میں آ جائیں تو ان کی حکومت کو ایسی ہی شکایات کر کے اور ایسے احتجاج اور دھرنوں سے ختم کرنا کیو ں جائز نہ ہو گا؟ یہ راستہ اگر کھل گیا تو پھر کسی کے لیے حکومت کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ جو شخص دو پانچ لاکھ لوگ جمع کرسکتا ہے وہ ملک کا نظم ونسق برباد کر کے رکھ دے گا۔ اس لیے کوئی با شعور شخص اس طریقے کی تائید نہیں کرسکتا۔
مستبقل کو چھوڑیے اگر پختون خواہ کی موجودہ حکومت کو وہاں کی سابقہ حکمران پارٹی یعنی اے این پی اپنی شکست کے بعد ٹھیک ایسی ہی شکایات کر کے اور ایسے ہی دھرنوں سے ختم کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہو تو وہ کیسے غلط ہوں گے ؟
اس طرح کی بے اصولی کا جو لوگ مظاہرہ کر رہے ہیں، ان سے اس کی توقع کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر کسی اصول و ضابطے کی کوئی پروا کریں گے۔ ہاں اگر کسی پرامن طریقے پر احتجاج کا مقصد سسٹم کو بہتر بنانا ہے، اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس ملک کے کسی انتخاب میں کوئی دھاندلی نہ ہو، حکمرانوں پر دباؤ بڑھانا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کریں تو یقینا اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ بلکہ سب لوگوں کو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ لیکن احتجاج اگر سسٹم ہی کو ختم کر دے، معاشرے کو مفلوج کر دے، اصل مسائل سے توجہ ہٹا دے، عام لوگوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دے تو اس کی تائید کیسے کی جا سکتی ہے۔
ہمارے نزدیک موجودہ سیاسی کشمکش میں ایک بڑا مثبت امکان یہ چھپا ہوا ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ کشمکش نظام کو مفلوج یا معطل کر دے، یہ نظام میں بہتری لانے کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہر طرح کی دھاندلی سے محفوظ بائیو میٹرک سسٹم کا نظام رائج کیا جائے۔ انڈیا میں یہ ہو چکا ہے اور ہمارے ہاں نادرا جیسے ادارے کی موجودگی میں جس کے پاس ملک کے تمام لوگوں کو ڈیٹا اور فنگر پرنٹ موجود ہے، اس کا نفاذ کوئی مشکل نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہماری اسمبلیاں عام طور پر پانچ برسوں کے لیے منتخب ہوتی ہیں۔ اس کے بعد منتخب لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہ عوام سے کیا وعدے کر کے آئے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اسمبلیوں سے منتخب ہونے والو ں کو پانچ کے بجائے چار سال بعد دوبارہ عوام کے پاس جانا چاہیے۔ فوری طور پر اگر یہ دو تبدیلیاں ہی کر دی جائیں تو عوامی احتساب بتدریج صورتحال کو بہتر کرتا چلا جائے گا۔
سماج کی مچھلی کا دھڑ اہم ہے
آخر میں ہم اس حقیقت پر بھی توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں خرابی کی بڑی وجہ اشرافیہ اور سیاستدانوں کا رویہ ہے، مگر معاشرے کے دیگر طبقات بھی اپنے اپنے دائرے میں اسی نوعیت کی خرابیاں پیدا کر رہے ہیں۔ یہ سوچنا محض ایک نادانی ہے کہ اوپر کا سسٹم بدل دیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ چینی کہاوت ہے کہ مچھلی سر سے گلتی ہے یعنی معاشرہ اشرافیہ کی خرابی سے خراب ہوتا ہے۔ مگر ہمارے آقا نبی کریم علیہ السلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ مچھلی اگر سر سے گل جائے تو گلے ہوئے سر کو زبردستی ٹھیک کرنے کے بجائے باقی جسم کو سڑنے سے بچانے میں لگ جانا چاہیے۔ کیونکہ معاشرہ وہ مچھلی ہے جس کا دھڑ ٹھیک رہے تو گلے ہوئے سر کی جگہ نیا سر پیدا ہو جاتا ہے، مگر دھڑ ہی سڑ جائے تو پھر مکمل تباہی کے علاوہ کوئی امکان نہیں بچتا۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کہ اہل دانش اپنے آقا کا یہ فرمان بھول کر گلے ہوئے سر کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ یہاں تک کہ اب دھڑ ہی سڑنے لگا ہے۔ مگر اب بھی وقت ہے۔ کچھ لوگ سر کے بجائے دھڑ کو نشانہ بنا لیں تو ایک نسل میں صورتحال بدل جائے گی۔ ورنہ ایسے انقلابی دھرنے، تحریکیں اور انقلاب ہم نے بہت دیکھے ہیں۔ ان سے تباہی زیادہ ہوتی ہے اور خیر کم نکلتا ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید