سفید آدمی کی دنیا
حسن منظر
ماخذ: ’آج‘ کتاب۔1، مدیر اجمل کمال
اُن دنوں میرے دماغ میں بہت سی باتیں جمع ہو گئی تھیں۔ اب بھی ہیں۔ میرا خیال ہے ہم سب ہی بچوں کے دماغ میں بہت سی باتیں تھیں جنھیں ہم کبھی کبھی آپس میں تو ایک دوسرے سے پوچھ لیتے تھے لیکن بڑوں کے پاس یا تو ہماری باتوں کے لے و وقت نہیں تھا یا اگر وہ ان باتوں کا جواب دیتے بھی تھے تو ممکن ہے وہ خود اپنے جواب سے مطمئن ہو جاتے ہوں لیکن ہم جانتے تھے انھیں اصل جواب کا پتا نہیں ہے۔
مثلاً یہی سوال کہ مرنے کے بعد جب آدمی کو ایک بڑا سا کھڈا کھود کر اس میں رکھ آتے ہیں اور اوپر سے مٹی ڈال دیتے ہیں تو وہاں اس کے پاس کون آتا ہے ؟
فرشتے ؟
لیکن میں جانتا تھا، اول تو فرشتے نہ ہم نے دیکھے ہیں نہ ہی انھوں نے دیکھے تھے، اور پھر جب کسی کو ہر طرف سے بند کر دیں گے اور وہ بھی لکڑی کے ڈبے میں بند کر کے اس پر مٹی ڈال آئیں گے، تو فرشتہ کیسے اندر جائے گا اور اسے کیسے آسمانی باپ کے پاس لے جائے گا؟ یہ سب جھوٹی باتیں ہیں۔
میری بڑی بہن جو پڑھنے کی بہت شوقین ہے، ہر وقت پیٹ کے بل لیٹ کر کہانیوں کی کتابیں پڑھتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی جب ہماری بول چال ایک دوسرے سے بند نہیں ہوتی ہے تو وہ کوئی کہانی مجھے بھی سنا دیتی ہے اور میری چھوٹی بہن کو بھی۔ اس کے پاس کتابوں کی پوری لائبریری ہے۔ اب تو کچھ کتابیں میں نے بھی جمع کر لی ہیں اور جب کبھی ہمارا گھر ہو گا—ممی اور پپا ہمیشہ کہتے ہیں ایک نہ ایک دن تو کہیں گھر بنا کر رہنا ہی ہے —تو میں بھی اپنی لائبریری بناؤں گا۔
میری بہن کی کتابوں میں زیادہ تر ایسے ناول ہیں جن میں جاسوسی کرنے والے بچوں کے کارنامے ہوتے ہیں یا پھر ایسی کہانیاں جن میں چار آدمی مل کر—اور ان میں ایک عورت ضرور ہوتی ہے —کسی مہم پر جاتے ہیں، جیسے انھیں وہ کام کرنے کو کسی نے دیا ہو، کسی حکومت نے، اور وہ آخر میں کسی بڑی سی بلڈنگ یا پل کو ڈائنامائٹ سے اڑا کر واپس اپنے گھر آ جاتے ہیں۔
حکومت کیا ہوتی ہے یہ مجھے اُن دنوں بھی معلوم نہیں تھا اور ابھی بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا ہوں — بس کوئی چیز ہوتی ہے اور وہ بڑے لوگوں سے کام کرواتی ہے، بچوں سے نہیں۔ پپا کا ٹرانسفر بھی حکومت کرتی ہے اور اَور بہت سے کام ہیں جو حکومت کرواتی ہے، لیکن وہ میں بعد میں بتاؤں گا۔
تو بات یہ تھی کہ میری بہن کے پاس بہت سی کتابیں ہیں جن میں سب سے زیادہ اِینڈ بلائیٹن (ENID BLYTON)کی ہیں۔ کبھی کبھی تو اس کی اور ممی کی بحث بھی ہو جاتی ہے، وہ کہتی ہے، اینڈ بلائیٹن سے اچھی کہانیاں کسی نے نہیں لکھیں اور سب سے اچھی کتاب ہائیڈی(HEIDI) ہے، لیکن ممی کہتی ہیں دنیا میں اور بھی بڑے بڑے لکھنے والے ہیں جیسے ٹالسٹائی، ٹامس مان، ڈوسٹوفسکیڈو — اس کا نام مجھے کبھی ٹھیک سے یاد نہیں ہوا—لیکن اس کی ایک کہانی مجھے ممی نے سنائی تھی اور میرا خیال ہے وہ کہانی خاصی اچھی تھی، جس میں ایک بڑھیا کنجوس عورت ہوتی ہے اور ایک پڑھنے والا لڑکا جس کے پاس کھانا کھانے کے لیے اکثر دام نہیں ہوتے تھے اور وہ اس بڑھیا سے اپنی چیزیں بیچ کر دام لیا کرتا تھا۔ پھر وہ اسے پلان بنا کر مار ڈالتا ہے اور کسی کو پتا نہیں چلتا کہ بڑھیا کو کس نے مارا ہے۔ لیکن پھر وہ لڑکا آخر میں خود ہی سب کو بتا دیتا ہے کہ بڑھیا کو میں نے مارا تھا۔ اس کہانی کا نام ہے ’’جرم اور سزا‘‘، اور اس کو سنتے میں مجھے اپنی دادی کی شکل نظر آنے لگی ہے جو جنوبی افریقہ میں پریٹوریا میں رہتی ہے۔
مجھے اس بڑھیا سے نفرت ہے۔ وہ اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہے اور اس کا گھر ایسے علاقے میں ہے جہاں بس بہت امیر آدمی رہ سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہے، ’’اس علاقے میں نہ افریقہ کے لوگ ہیں نہ ایشیا کے —صرف گورے لوگ ہیں۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ مجھے وہ بڑھیا زہر لگتی ہے۔ ویسے بھی اس نے مجھے کبھی کچھ نہیں دیا۔ ایک مرتبہ بہت پہلے جب ہم چھٹیوں میں پریٹوریا گئے تھے تو اس نے مجھے بیٹری سے چلنے والا ایک جیٹ ایرپلین دیا تھا جس میں سے ٹیک آف کے وقت کی آواز نکلتی تھی اور شاید اسٹاربورڈ سائیڈ کے وِنگ میں ہری بتی جلتی تھی اور پورٹ سائیڈ والے میں سرخ—وہ تھوڑی دور تک زمین پر چلتا تھا اور پھر رکنے کی آواز یعنی ایر بریکس لگانے کی آواز کے ساتھ ٹھیر جاتا تھا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں بہت چھوٹا تھا، لیکن جب بھی ہم اس سے ملنے جاتے ہیں آج تک وہ مجھے وہی جیٹ یاد دلاتی ہے اور کہتی ہے "REMEMBER YOUNGMAN, THE BEAUTIFUL JET-PLANE I GAVE YOU? WHERE IS IT NOW? تم نے ٹھیک سے رکھا ہے ؟‘‘
اور پپا کے اشارے پر مجھے سر ہلا کر ’’ہاں ‘‘ کہنا پڑتا ہے، کہ وہ ہوائی جہاز ابھی تک میرے پاس بالکل ٹھیک ٹھاک رکھا ہے، حالانکہ مجھے اب اس کی شکل تک یاد نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہ ہری بتی کس طرف تھی اور سرخ کس طرف۔
بڑھیا میری ماں سے ہمیشہ پوچھتی ہے، ’’تم لوگ بالآخر کہاں سیٹل ہو گے ؟‘‘
سیٹل کا مطلب میں بھی جانتا ہوں : کسی ایک جگہ گھر بنا کر ہمیشہ وہیں رہنا، جیسے بڑھیا خود رہتی ہے۔ وہ پوچھتی ہے، ’’آسٹریلیا میں ؟ کینیڈا کیوں نہیں ؟ ہینک کے لیے تو یونائیٹڈ سٹیٹس میں بھی فوراً جگہ نکل آئے گی۔ ‘‘
ہینک میرے باپ کا نام ہے۔
میرے دادا ڈچ تھے، دادی ایفریکانیر ہے —اور شاید دونوں زندگی بھر ایک دوسرے کے خلاف رہے۔ میں نے سنا ہے میرے دادا نے اپنی عمر کا بڑا حصہ انڈونیشیا میں گزارا تھا تاکہ وہ بڑھیا سے دور رہ سکیں۔ میں نے ممی اور پپا کو کھس پس کرتے اکثر سنا ہے کہ میرے دادا بعد میں کسی ایسی عورت کے ساتھ رہنے لگے تھے جو گوری نہیں تھی—اور یہ بھی ان باتوں میں سے ایک ہے جو میرے دماغ میں اُن دنوں بھری ہوئی تھیں کہ دادا نے ایسا کیوں کیا، اور اگر کیا بھی تھا تو اس میں ہرج ہی کیا تھا۔ میں نے یہ بھی سنا ہے حکومت نے انھیں، یا یہ کہ اس عورت کو، جنوبی افریقہ میں ان کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دی تھی اور ایک بار جب وہ ڈربن میں اس کے ساتھ ٹیکسی میں کہیں جا رہے تھے تو دونوں کو پولیس اسٹیشن پکڑ کر لے جایا گیا کیونکہ دونوں کی رنگت فرق تھی اور اس بات کے حکومت خلاف تھی۔ حالانکہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں نیگرو عورت کے ساتھ کوئی انڈین مرد یا نیگرو مرد کے ساتھ کوئی برٹش عورت جہاں چاہے جا سکتے ہیں، مووی دیکھنے، سرکس میں، یا بانہوں میں بانہیں ڈال کر ٹہلنے ہی، جس طرح ممی اور پپا اکثر شام کو اندھیرا ہونے سے پہلے ٹہلنے جاتے ہیں، اور یہ سین مجھے اچھا لگتا ہے —جیسے وہ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں —اور میں جب بڑا ہو جاؤں گا اور شادی کروں گا تو اسی طرح اپنی بیوی کے ساتھ کبھی کبھی باہر نکلا کروں گا، ممی کی طرح اس کا ہاتھ میری کمر پر لپٹا ہو گا اور میرا ہاتھ اس کی گردن کے پیچھے سے جا کر اس کے دور کے کندھے پر ہو گا، لیکن میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر وہ مجھ سے لمبی ہوئی تو پھر شاید ایسا نہ ہو سکے۔
بہرحال، حکومت ساؤتھ میں بھی ہے —ممی، پپا جنوبی افریقہ کو صرف ساؤتھ کہتے ہیں — اور اس ملک میں بھی ہے جہاں ہم رہتے ہیں۔
ایک دفعہ میں نے دادی کو ہانپتے ہوئے —جیسے وہ اپنا غصہ دبا رہی ہو—پپا سے کہتے ہوئے سنا تھا:
’’مجھے ذرہ برابر بھی یہ فکر نہیں ہے کہ تمھارا باپ کہاں ہے، یا کہاں مرا۔
HE WAS LOW
AND THAT IS WHAT HE PROVED BY LIVING WITH A DARK WOMAN. SIN OR NO SIN, THE THING OF ANY IMPORT IS THAT HE LIVED WITH A DARK WOMAN!’’
(وہ گرا ہوا آدمی تھا اور یہی اس نے ایک اندھیری عورت کے ساتھ رہ کر ثابت کر دکھایا۔ )
ڈارک کا مطلب میری سمجھ میں یہی آتا ہے۔ لوگ اندھیرے سے ڈرتے ہیں اور ہر چیز سے جو اندھیرے کی طرح کالی ہو—اسکول کے پلیز میں میں نے شیطان کو کالے کپڑے پہنے اور منھ پر کالک ملے ہوئے دیکھا ہے۔ جہاں ہم رہتے ہیں، افریقہ میں، اسے بھی پہلے اندھیرا براعظم کہا جاتا تھا۔ میرا خیال ہے لوگ پہلے جب وہ پہاڑوں میں بڑے بڑے کھڈوں میں رہتے تھے اور بجلی وغیرہ نہیں تھی تو رات کو ڈر کے مارے باہر نہیں نکلتے ہوں گے، جیسے آج بھی جس چھوٹے سے شہر میں ہم رہتے ہیں اور جہاں بجلی نہیں ہے، لوگ رات کو باہر نہیں نکلتے ہیں کیونکہ راستے میں سانپ ہوتے ہیں اور اتنے بڑے بچھو کہ میرے دونوں ہاتھوں سے بھی بڑے ہوتے ہیں، اور پھر انھیں اندھیرے میں شیر بھیڑیوں کا بھی ڈر رہتا ہو گا—لیکن خود مجھے اندھیرے سے ڈر نہیں لگتا ہے، اس لیے میں کالے لوگوں سے بھی نہیں ڈرتا ہوں۔
ایک دن میں نے پپاسے، جب ہم صبح صبح ٹہلنے جا رہے تھے اور میری کتیا مِشکا میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھی، پوچھا:
’’ڈیڈ، ہم ساؤتھ میں کیوں نہیں رہتے ہیں ؟‘‘
ڈیڈ نے نیم کے پھل اپنی ٹہلنے کی چھڑی سے میرے لیے جھاڑتے ہوئے کہا:
’’تم وہاں رہنا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے کہا، ’’نہیں، پھر بھی۔ ‘‘
میں خاموشی سے پھل کھانے لگا اور مشکا نبولیوں کو سونگھ کر جھاڑی میں کسی جانور کا پیچھا کرنے لگی — شاید اسے کوئی جنگلی چوہا وہاں نظر آیا ہو گا۔
ایک بار پھر میں نے پوچھا:
’’ڈیڈ، گرینڈپا واقعی گرے ہوئے آدمی ہیں ؟‘‘
’’نو!‘‘ پپا نے ایسے لہجے میں جواب دیا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں دل سے کہہ رہے ہیں۔ ’’تمھارے گرینڈپا گرے ہوئے نہیں، بہت بڑے آدمی تھے۔ ‘‘ وہ کچھ دیر رک کر دوبارہ بولے، ’’تھے، اس لیے کہ وہ اب دنیا سے جا چکے ہیں۔ ‘‘
میری سمجھ میں نہیں آیا ایسے موقعے پر بڑوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے میں ان کے سر کو تھپتھپا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی یہ کہہ سکتا تھا کہ آپ جھکیے تاکہ میں آپ کے سر کو تھپتھپا سکوں جس طرح آپ میرے، ٹینا یا فیونا کے افسردہ ہونے پر کرتے ہیں۔ نہ ہی میں ان سے کہہ سکتا تھا: ’’رنج مت کیجیے۔ ‘‘
صبح بہت اچھی تھی۔ مشکا دوبارہ میرے ساتھ چل رہی تھی اور سورج ہمارے داہنے طرف کی وادی میں کہرے کے پیچھے ابھر آیا تھا۔
یکلخت میں نے پوچھا، ’’ڈیڈ، گرینڈپا کے ساتھ اس دوسری عورت کو ساؤتھ میں رہنے کی اجازت حکومت نے کیوں نہیں دی تھی؟‘‘
ڈیڈ نے جھینپتے ہوئے کہا، ’’شاید اس لیے کہ وہاں جگہ کم ہو گی۔ ‘‘
مجھے معلوم تھا وہ جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ رات کو ممی اکثر اپنا میڈیسن کا رسالہ پڑھتے ہوئے ڈیڈ سے کہتی ہیں :
"HERE IS ANOTHER ONE OF THOSE ADS: EMIGRATING TO SOUTH AFRICA?”
(یہ رہا ایک اور ایڈورٹیزمنٹ: آپ جنوبی افریقہ بسنے کے لیے جا رہے ہیں ؟)
یہ اشتہار جو لنڈن سے آنے والے اس رسالے میں ہمیشہ چھپتا ہے، میں نے بارہا سنا ہے :
’’اگر آپ جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، کینیڈا یا یونائیٹڈ سٹیٹس بسنے کے لیے جا رہے ہیں تو آپ کا سامان پیک کرانے اور وہاں بھیجنے میں ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ ‘‘
ایسا لگتا ہے ساری دنیا کو جنوبی افریقہ میں بسنے کے لیے بلایا جا رہا ہے، صرف میرے دادا اور اس اندھیری عورت کے لیے وہاں جگہ کی تنگی تھی۔
یہ ایک طرح سے ہمارا گھریلو مذاق ہے جیسے ہر گھر میں ایسی دو چار باتیں ہوتی ہیں جن کا ذکر آ جانے پر لوگ ہنس پڑتے ہیں۔
ایسے موقعے پر ممی اور پپا دونوں ہنس پڑتے ہیں اور چھوٹی فیونا بھی حالانکہ وہ بالکل بے وقوف ہے اور اسے دادی سے ملنا بھی یاد نہیں ہے۔ کبھی کبھی ایسے موقعے پر ڈیڈ کے منھ سے ایک لفظ نکلتا ہے : ’’ہپوکریٹ۔ ‘‘
ممی نے پوچھنے پر بتایا تھا، ’ہپو کریٹ ‘ ایسے آدمی کو کہتے ہیں جس کے دل کے اندر کچھ اور ہو اور باتیں وہ کچھ اور کرتا ہو۔
لیکن فیونا ابھی تک ہپوکریٹ کو ’ہپو‘ ہی کی قسم کا کوئی بڑا جانور سمجھتی ہے —بلکہ ہپو سے بھی بڑا — جو یہاں دریاؤں میں عام ہیں اور کبھی کبھی کشتی بھی الٹ دیتے ہیں۔
تو اس صبح جب میں اور پپا اور مشکا سیر سے واپس آ رہے تھے، میں نے اچانک کہا، ’’ڈیڈ، اگر بڑا ہو کر میں کسی نیگرویا اندھیری لڑکی سے شادی کروں تو یہ بری بات ہو گی؟‘‘
پپا نے ہنستے ہوئے کہا، ’’نہیں، یہ بری بات تو نہیں ہو گی۔ تمھیں اندھیری لڑکیاں اچھی لگتی ہیں ؟‘‘
میں نے سر ہلا کر ’ہاں ‘ کیا۔
انھوں نے مجھ سے چھیڑنے والے لہجے میں پوچھا، ’’پھر کب تک ارادہ ہے ؟‘‘
میں نے کہا، ’’ابھی میرا ارادہ نہیں ہے۔ ‘‘
ہم دونوں ہنس پڑے۔
ہم اس شہر یا قصبے میں کب آئے یہ بھی ایک اچھی خاصی کہانی ہے۔ پپا کا ٹرانسفر سیرالیون سے یہاں کا ہوا تھا اور ہم لوگ کچھ عرصہ اس ملک کے کیپیٹل میں ایک ہوٹل میں رہے تھے —ساؤتھ کی طرح اس شہر کو بھی سب لوگ صرف کیپیٹل ہی کہتے ہیں اور پتا چل جاتا ہے کس شہر کی بات ہو رہی ہے۔
پھر جب پپا کو اس قصبے میں آ کر کام کرنے کا حکم حکومت نے دیا تو ہم لوگ کیپیٹل کے ریلوے اسٹیشن پر گئے جو سنسان تھا اور جہاں ایک بڑی سی بگھی، جس میں کسی برٹش بادشاہ یا ملکہ نے اس شہر کی سیر کبھی کی تھی، ویٹنگ لاؤنج کے بیچ میں رکھی ہوئی تھی اور اس کے برابر میں پیتل کی ایک پلیٹ پر کچھ لکھ کر اسے سیمنٹ کے بلاک میں لگایا ہوا تھا۔
ٹینا نے پڑھ کر مجھے بتایا کہ جب یہاں انگریزوں کی حکومت تھی تو اٹھارہ سو کتنے میں کون بادشاہ یا ملکہ بگھی میں بیٹھے تھے۔
میں نے مما کو ڈیڈ سے کہتے سنا:
’’THEY SHOULD DO AWAY WITH THESE MEMORABILIA.‘‘
(انھیں چاہیے ان یادگاروں کو نکال پھینکیں۔ )
ان کا آخری لفظ میری سمجھ میں نہیں آیا اور ہر بات میں ٹینا سے نہیں پوچھنا چاہتا، ورنہ وہ واقعی اپنے کو کچھ سمجھنے لگتی ہے۔
بعد میں جب ہم ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں بیٹھے تو وہاں ایک سفید عورت بھی پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی جس نے ممی کی طرف دیکھ کر اطمینان سے کا سانس لیا اور جو دو مرد اسے ٹرین میں بٹھانے آئے تھے ان سے بولی:
’’خدا کا شکر ہے۔ میرا خیال ہے اب میں اطمینان سے سو سکوں گی۔ ‘‘
ٹینا اپنی کہانیوں کی کتاب سنبھال کر اوپر کی برتھ پر چلی گئی، فیونا اپنی ناک کھڑکی کے شیشے سے رگڑ رگڑ کر باہر دیکھنے لگی اور میں اس انتظار میں تھا کہ ٹرین چلے تو میں ممی یا ڈیڈ سے باتیں شروع کروں، کیونکہ ٹرین کی آواز میں وہ سفید عورت ہماری باتیں نہیں سن سکے گی اور میں کھل کر باتیں کر سکوں گا۔
ٹینا کیا پڑھ رہی تھی مجھے معلوم تھا۔ اس کی پڑھی ہوئی کہانیاں کچھ میں خود اب تک پڑھ چکا ہوں اور کچھ وہ مجھے سنا چکی ہے۔ اس وقت وہ ٹالسٹائی کی کہانیاں پڑھ رہی تھی اور ان میں سے بھی وہ جس میں پاہم ایک کسان ہے جس کے پاس پہلے بہت تھوڑی سی زمین تھی اور وہ خوش تھا۔ پھر وہ امیر بننے کے لیے اَور زیادہ اَور زیادہ زمین لیتا گیا کیونکہ اس کے دل میں لالچ آ گئی تھی۔ آخر میں وہ باشکروں کے ملک میں جاتا ہے جہاں زمین مفت ملتی ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ تھی کہ اسے صبح چل کر سورج ڈوبنے سے پہلے جہاں سے وہ چلا تھا وہیں لوٹ کر آنا ہو گا اور چکر لگانے میں وہ جتنی زمین گھیر لے گا اتنی اس کی ہو جائے گی۔ لیکن شیطان نے اس کے دل میں لالچ بھر دی کہ آج زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کرنا ہے اور وہ دن بھر اتنا چلا کہ شام کو جب وہ واپس باشکروں کے سردار کے پاس پہنچا تو ٹھیک اسی وقت سورج ڈوب گیا اور وہ باشکروں کے سردار کے پاس پہنچ کر زمین پر گر پڑا۔ سردار نے کہا، ’’یہ ہے آدمی—اس نے تو بہت زمین حاصل کر لی۔ ‘‘ لیکن جب پاہم کو اس کے نوکر نے اٹھانا چاہا تو اس کے منھ سے خون بہہ رہا تھا اور پاہم مر چکا تھا۔ پھر اس کے نوکر نے اس کے لیے کھڈا کھودا، اور جس طرح ٹینا کہتی تھی:
’’ سر سے لے کر پیر کی انگلیوں تک صرف چھ فٹ زمین حقیقت میں اسے چاہیے تھی۔ ‘‘
یہ جملہ کہتے وقت ٹینا، ایسا لگتا تھا، چرچ میں پلپٹ (PULPIT) پر کھڑی ہو کر اتوار کی صبح کا وعظ سنا رہی ہے اور میں شاید پاہم کی طرح کے لالچی لوگوں میں سے ہوں اور سر جھکائے اس کے سرمن کو سن رہا ہوں۔ اس کہانی کا نام تھا: ’’ایک آدمی کو کتنی زمین چاہیے۔ ‘‘
یہ فیصلہ میں کب کا کر چکا تھا کہ کہانی سنانے میں ٹینا کچھ گڑبڑ کرتی ہے، یا وہ آگے چل کر چرچ کی زندگی اختیار کرے گی، اور ایک نہ ایک دن یہ کہانی مجھے خود پڑھنی ہے کہ واقعی ایک آدمی کو کتنی زمین چاہیے ہوتی ہے۔
ٹرین چلنے ہی والی تھی کہ ایک ایشین عورت بچے کو گود میں سنبھالے ہوئے تقریباً بھاگتی ہوئی ہمارے کمپارٹمنٹ کی طرف آئی، اس کے پیچھے پیچھے اس کا نیگرو نوکر لڑکا ایک ذرا بڑے بچے کو گود میں سنبھالے ہوئے تھا اور ایک میری ہی عمر کی لڑکی قلی سے باتیں کرتی ہوئی کمپارٹمنٹ میں داخل ہوئی۔
سفید عورت نے اسے قافلے کو دیکھ کر گھبراہٹ سے پہلے تو ’’او، نو!‘‘ کہا تھا لیکن جب وہ ایشین عورت قلی سے انگریزی میں بات کرنے لگی تو سفید عورت کی گھبراہٹ کچھ کم ہو گئی۔
قلی سامان اندر رکھ کر چلا گیا۔ ایک برتھ ایشین عورت اور اس کے بچوں نے سنبھال لی اور اسی برتھ پر ایک کونے میں نیگرو نوکر بیٹھ گیا۔
اب ٹرین نے چلنے کی آخری سیٹی دی۔
سفید عورت نے گھبراہٹ اور غصے کے ملے جلے جذبات سے نیگرو نوکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایشین عورت سے کہا، ’’یہ اس کمپارٹمنٹ میں تو نہیں رہے گا؟‘‘
ایشین عورت نے انگریزی میں کہا، ’’اس کی سیٹ بھی اس کمپارٹمنٹ میں ریزروڈ ہے۔ ‘‘
’’نہیں، یہ اس کمپارٹمنٹ میں سفر نہیں کرے گا، ‘‘ سفید عورت نے سخت لہجے میں کہا اور ٹرین روکنے کے لیے نیگرو گارڈ سے جو ہمارے کمپارٹمنٹ کے سامنے ہی کھڑا ہو کر ہری جھنڈی ہوا میں بلند کر رہا تھا، حکم چلانے والی آواز میں کہا: ’’STOP THE TRAIN—PLEASE!‘‘
نیگرو گارڈ نے ہری جھنڈی فوراً نیچے کر دی، بغل سے لال جھنڈی نکال کر ہوا میں لہرائی اور ہمارے کمپارٹمنٹ کے پاس آ گیا۔
ٹرین روانہ ہونے کی جو چرچراہٹ بوگیز میں پیدا ہوئی تھی ایک دم رک گئی۔ اس کے بعد ایشین عورت اور سفید عورت میں بحث ہونے لگی۔ نیگرو لڑکا بے بسی سے اپنے کونے میں دبکا ہوا تھا اور ریلوے گارڈ بے بس سا لگ رہا تھا۔
ایشین عورت نے کہا، ’’میں بیمار ہوں اور نوکر کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے میں نے اس کا ٹکٹ اسی کلاس کا بنوایا ہے تاکہ وہ بچوں کی دیکھ بھال کر سکے۔ ‘‘
’’نہیں، یہ اس کمپارٹمنٹ میں سفر نہیں کر سکتا، ‘‘ سفید عورت نے اس طرح کہا جیسے وہ اپنے نوکر سے بات کر رہی ہو۔
’’کیوں نہیں ؟‘‘ ایشین عورت نے بھی اسی کے لہجے میں پہلی بار کہا۔
’’اس لیے کہ… اس لیے کہ…‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی اور پھر بولی، ’’اس لیے کہ نوکروں کے لیے درجہ علیحدہ ہوتا ہے۔ ‘‘
حالانکہ مجھے معلوم تھا وہ دراصل کچھ اور کہنا چاہ رہی تھی یعنی ’’اس لیے کہ تمھارا نوکر نیگرو ہے، ‘‘ لیکن یہ بات وہ ایک نیگرو ملک میں رہ کر کیسے کہہ سکتی تھی!
ایشین عورت نے کہا، ’’میڈم، آپ چاہیں تو اپنا کمپارٹمنٹ بدل سکتی ہیں۔ ویسے بھی وہ آپ کی جگہ نہیں لے رہا ہے۔ ‘‘
سفید عورت نے ممی کی طرف دیکھا جیسے وہ چاہتی ہو وہ بھی اس کی طرف سے بولیں، لیکن پپا ایشین عورت کی بچی سے کھیلنے لگے اور ممی نے اپنے پرس میں سے نکال کر مع ایشین عورت کے بچے اور اس نیگرو لڑکے کے سب بچوں کو چاکلیٹ کے ٹکڑے توڑ توڑ کر دینے شروع کر دیے۔
مجھے معلوم تھا ممی کا یہ اس عورت کو ایک خاموش جواب تھا۔
سفید عورت کو رونے کا دورہ سا پڑنے لگا۔
اس کے دونوں ساتھیوں نے جو پلیٹ فارم پر کھڑے تھے، خفگی سے ہماری طرف دیکھا۔ ان میں سے ایک اسے چپ کراتے ہوئے سہارا دے کر نیچے اتارنے لگا اور دوسرے نے اس کا سامان اٹھا لیا۔ میں نے انھیں کہتے ہوئے سنا:
"YOU CAN GO BY AIR MI’DAIRE.” (MY DEAR)
لیکن میرا خیال ہے نیگرو گارڈ نے اس عورت کو کسی اور کمپارٹمنٹ میں جگہ دلوا دی ہو گی کیونکہ بعد میں جب ٹرین چلی تو مجھے وہی دونوں مرد اکیلے پلیٹ فارم سے باہر جاتے ہوئے نظر آئے۔
اس چھوٹے سے واقعے کے بعد ہمارا سفر بہت اچھا گزرا۔ ہم اس قصبے میں پہنچ گئے جہاں نہ بجلی ہے اور نہ ہی پانی نل سے آتا ہے، لیکن ممی، پپا، مجھے، ٹینا اور فیونا سب ہی کو یہ جگہ پسند ہے، کیونکہ ہم جہاں چاہیں اکیلے جا سکتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ قصبے میں سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں — نیگروز، ایشین اور سفید لوگ اور بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کی رنگت چھپکلی کے پیٹ کی طرح پیلی ہوتی ہے اور بال نیگروز والے چھوٹے چھوٹے۔ میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ان کی مائیں نیگرو ہیں لیکن باپ جب یہاں انگریزوں کی حکومت ختم ہوئی تو واپس یوروپ چلے گئے۔
یہ کیسے ممکن ہے ؟ یہ بھی ان ہی باتوں میں سے ہے جو میرے دماغ میں جمع ہو گئی ہیں —ایک باپ کس طرح بچوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا سکتا ہے ؟ ایک دفعہ جب یہی بات میں نے ٹینا سے پوچھی تو اس نے بڑوں کے لہجے میں کہا، ’’ہے نا تعجب کی بات ‘‘!
مجھے معلوم تھا وہ میرے سوال کا جواب دینا نہیں چاہ رہی ہے یا یہ کہ اسے خود بھی اس کا جواب معلوم نہیں تھا۔ وہ مجھ سے بحث طلب باتیں صرف اس وقت کرتی تھی جب اس کے پاس مجھے خاموش کرنے کے لیے کوئی ایسی نئی بات ہوتی تھی جو اس نے کسی کتاب میں کچھ ہی دن پہلے پڑھی ہو اور یہ بات کرتے وقت اس کا لہجہ بڑے آدمیوں کا سا ہو جاتا تھا۔
ایک دن جب پپا ٹور پر گئے تھے اور ممی گھر پر مریضوں کو دیکھ رہی تھیں، ٹینا میرے پاس آئی اور کھسرپھسر والی آواز میں بولی:
’’کسی کو دفن ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے بے صبرے پن سے پوچھا، ’’کون مر گیا ہے ؟ چلو۔ ‘‘
اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش کراتے ہوئے کہا، ’’پپا کی ٹیم کا ایک ڈرائیور۔ ‘‘
’’کون سا؟‘‘ میں نے اسی اشتیاق سے پوچھا۔
’’دیکھ کر پتا چل جائے گا۔ ‘‘ اس نے مجھے پیچھے پیچھے چلے آنے کا اشارہ کیا۔
اس دن ٹینا کے اسکول کی چھٹی تھی۔ فیونا باہر کتیا سے کھیل رہی تھی اور ہمیں خدشہ تھا دونوں ہی ہماری بو سونگھ کر ساتھ چل پڑیں گے۔ لیکن ٹینا کے ذہن میں پورا پلان پہلے سے تیار تھا، اور اس وقت وہ مجھے بہن سے زیادہ انھی مہم والی کہانیوں میں سے ایک لڑکی لگ رہی تھی۔
ہم نے سڑک سے ہٹ کر بھٹے کے کھیتوں میں سے راستہ لیا اور قصبے کے ہسپتال میں بھی، جو ہمارے گھر سے شاید ایک میل دور تھا، باؤنڈری وال کود کر پیچھے سے داخل ہوئے۔
وہ مجھے ہسپتال سے ہٹ کر بنی ہوئی چھوٹی سی سنسان عمارت کے پاس لے گئی جس کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ اس نے ہر کھڑکی میں سے اچک اچک کر اندر جھانکا اور پھر ایک میں سے مجھے اندر جھانکنے کے لیے کہا۔
وہاں اندر سفید ٹائلز لگی ہوئی میز پر پپا کا وہ ڈرائیور لیٹا ہوا تھا جس نے کچھ ہی دن پہلے مجھے پالنے کے لیے ایک بندر لا کر دیا تھا۔
میز پر خون پڑا تھا اور ایسا لگتا تھا اس کے سر کے اوپر کے حصے کو کاٹ کر دوبارہ سوئی دھاگے سے سیا گیا ہے۔
ٹینا نے مجھے بتایا، صبح جب اس کی دونوں بیویاں اسے جگانے گئیں تو ڈرائیور بستر میں مرا ہوا پڑا تھا اور اس نے ممی کو کہتے سنا تھا، اس کی آٹاپسی (AUTOPSY) ہو گی جس کے بعد اسے دفنایا جائے گا۔
میں نے آٹاپسی کے معنی پوچھے، حالانکہ اس کے لیے مجھے اپنی شرم پر قابو پانا پڑا۔
ٹینا نے کہا، ’’یعنی یہ کہ اسے کسی نے زہر تو نہیں دیا تھا کہ وہ سوتے کا سوتا ہی رہ گیا۔ لیکن ممی کا کہنا ہے اسے دل کا دورہ پڑا تھا۔ اور یہ بات اس کے جسم کو چیر کر چیک کی گئی ہے۔ یہی آٹاپسی ہے، اور اس کے بعد اس کے جسم کو دوبارہ سی دیا گیا ہے۔ ‘‘
میں کھڑکی کے پاس سے ہٹ آیا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ ٹینا مجھے ڈرتے ہوئے دیکھے۔ دفنانے میں ابھی کافی دیر تھی اس لیے ہم گھر واپس چلے گئے۔
ایک یا دو گھنٹے کے بعد ٹینا دوبارہ میرے پاس آئی اور بولی، ’’چلو۔ ‘‘
ہم دونوں پھر بھٹے کے کھیتوں میں سے ہوتے ہوئے اس طرف چل پڑے جدھر مسلمانوں کا قبرستان تھا۔
گھنی جھاڑیوں کے پیچھے سے ہم پورا سین دیکھ سکتے تھے۔ میں نے لوگوں کے درمیان پپا کو بھی مغموم کھڑے دیکھا، اور ایک طرح کا اطمینان ہو گیا کہ ہماری یہ چوری پکڑی نہیں جائے گی کیونکہ ہم ممی اور فیونا کو گھر پر سوتا چھوڑ کر آئے تھے اور پپا ہمارے سامنے کھڑے تھے۔
ڈرائیور سفید کپڑے میں لپٹا ہوا ایک تختے پر لیٹا ہوا تھا اور خون اس کپڑے میں سے رس کر باہر آ گیا تھا۔
اس کے پاس ہی دو آدمی زمین کھود رہے تھے۔ سرخ مٹی جو وہ بیلچوں سے نکال کر باہر پھینک رہے تھے، اس کی دو پہاڑیاں اس لمبے سے کھڈے کے دونوں طرف بن گئی تھیں۔ اس کے بعد وہ لوگ ایک لمبی لائن میں کھڑے ہو گئے اور ان میں سے ایک آدمی نے وہ کام کیا جو ٹینا نے مجھے بعد میں بتایا مرنے والے کے لیے آخری سروس تھی— یعنی اس کا جو کچھ بھی مطلب ہو۔
سروس کے وقت پپا اور ان کچھ ساتھی علیحدہ کھڑے رہے اور اس کی جو وجہ ٹینا نے مجھے بتائی وہ میں خود پہلے ہی سے جانتا تھا کہ پپا کرسچین ہیں اور ڈرائیور اور اس کو دفن کرنے والے مسلمان تھے۔
جھاڑیوں میں ہمارے آس پاس گرگٹ پھر رہے تھے لیکن مجھے سرخ چیونٹیوں سے ڈر لگ رہا تھا جو بالکل ہمارے آس پاس پھر رہی تھیں۔
بعد میں ان لوگوں نے ڈرائیور کو مع کپڑے کے اٹھا کر کھڈے میں لٹا دیا اور اس کے اوپر کیلے کے پتے رکھ کر دوبارہ وہی مٹی اس پر ڈالنے لگے جو کھود کر باہر نکالی گئی تھی۔ دم بھر میں دونوں سرخ پہاڑیاں غائب ہو گئیں اور ان کی جگہ ایک لمبی سی قبر نے لے لی جس کے چاروں طرف کھڑے ہوئے لوگ، پپا سمیت، ہاتھ اٹھا کر دعا پڑھ رہے تھے۔
ٹینا نے ایک بار پھر مجھے انھی نظروں سے دیکھا جن سے وہ ہمیشہ یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے جیسے وہ اکیلی دنیابھر کے بھید جانتی ہے، اور آہستہ سے میرے کان میں کہا:
’’چھ فٹ—سر سے لے کر پیر کی انگلیوں تک صرف چھ فٹ زمین حقیقت میں اسے چاہیے تھی۔ ‘‘
یہاں لانے کے لیے میں ٹینا کا شکر گذار تھا لیکن اس کا چرچ کے پلپٹ پر کھڑے ہو کر وعظ سنانے کا یہ انداز اس وقت بھی مجھے ناگوار گزرا۔
اور شام کو میں نے ٹینا کی موجودگی میں ممی سے پوچھا، ’’واقعی ٹالسٹائی بڑا لکھنے والا تھا؟‘‘
ٹینا کے کان ایک دم سرخ ہو گئے۔
ممی نے کہا، ’’ہاں، واقعی میں بہت بڑا لکھنے والا تھا۔ ‘‘
’’جوناس اسپائیری اور اِینڈ بلائیٹن سے بھی بڑا؟‘‘
ممی نے سنجیدگی سے کہا، ’’ابھی تو نہیں، لیکن جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو شاید وہ بھی تمھارے ساتھ ساتھ جوناس اسپائیری اور اینڈ بلائیٹن سے بڑا لکھنے والا بن جائے۔ ‘‘
’’اور جو کچھ اس نے لکھا ہے وہ سچ ہے ؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ہوں اوں !‘‘ ممی نے کہا۔
’’اور یہ بھی سچ ہے آدمی کو صرف چھ فٹ زمین چاہیے ہوتی ہے ؟‘‘
’’ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بھی صحیح ہے، ‘‘ ممی نے کہا۔
میرا خیال ہے ٹینا کو اس وقت پسینے آ رہے تھے، لیکن وہ اپنی جگہ پر جمی بیٹھی رہی۔
’’پھر…‘‘ میں کہتے کہتے رک گیا۔
’’پھر کیا؟‘‘ ممی نے کریدنے والے لہجے میں کہا۔
’’کچھ نہیں، ‘‘ میں نے بات ٹالنی چاہی۔
’’نہیں، کچھ تو ہے، ‘‘ پپا نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا۔
وہ شام سے خاموش تھے۔ ڈرائیور کی اچانک موت نے ظاہر ہے ان پر گہرا اثر کیا تھا۔ ڈرائیور اور وہ لمبے لمبے سفر پر ساتھ جاتے رہے تھے، اور وہ بھی ان جنگلوں میں جہاں اکثر دن میں بھی اندھیرا رہتا ہے جہاں جنگلی جانوروں کا بھی خطرہ ہوتا تھا اور مخالف قبیلے والوں کا بھی جو ڈرائیور کو اس کے چہرے کے نشانوں سے پہچان کر مار ڈالتے۔ ایسے موقعے پر پپا کار خود چلانے لگتے تھے اور ڈرائیور نیچے کار کے فرش پر بیٹھ جاتا تھا۔ کبھی کبھی کھانا ختم ہو جانے پر وہ پپا کے کھانے میں سے بھی کھا لیتا تھا، بشرطیکہ اس میں سؤر کا گوشت نہ ہو، اور اپنا کھانا ختم ہو جانے پر پپا اس کا کھانا کھا لیتے تھے۔
مجھے معلوم ہے میری ہی طرح وہ بھی اداس تھے، کیونکہ شام کو وہ اور میں دونوں ہی ڈرائیور کے دیے ہوئے بندر کی پیٹھ سہلاتے رہے تھے۔
پھر میں ایک دم جیسے پھٹ پڑا۔
’’یہ سب جھوٹ ہے ! سب جھوٹ ہے ‘‘ !
ممی اور پپا ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
’’کیا جھوٹ ہے ؟‘‘ ممی نے رسانیت سے مجھ سے پوچھا۔
’’جو ٹالسٹائی نے لکھا ہے !‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’کوئی خاص بات ہوئی ہے ؟‘‘ ممی نے ٹینا سے پوچھا۔
ٹینا نے اپنا سر جھکا لیا۔
’’اوکے ! اوکے ! ہم کھانے کے بعد بات کریں گے، ‘‘ پپا نے کہا۔
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا میں رو رہا ہوں یا غصے میں ہوں، اور اگر غصے میں ہوں تو ٹالسٹائی پر یا ٹینا پر، اور اگر رو رہا ہوں تو ڈرائیور کی موت پر یا کسی اور بات پر۔
میرے دماغ میں دادی، وہ سفید عورت جس کا ہمارا ساتھ تھوڑی دیر کے لیے ٹرین میں ہوا تھا اور نجانے کتنے ہی دوسرے لوگ آ رہے تھے۔ اتوار کی صبح کے سرمن کے الفاظ اور خاص طور پر وہ باتیں جو پچھلی چھٹیوں میں میں نے رات بھر کے سفر میں پریٹوریا سے ڈربن آتے ہوئے کار میں سنی تھیں، جب ہم دادی سے مل کر واپس آ رہے تھے، اور چلتے وقت دادی نے پپا سے کہا تھا:
’’ہینک، تم جب چاہو یہاں واپس آ سکتے ہو۔ یہ وہ اکیلا ملک ہے دنیا بھر میں جس کے ہر بسانے والے کا آئیڈیل یہ تھا کہ جب وہ اپنے مکان کی سیڑھیوں پر بیٹھے تو اسے اپنے سب سے نزدیک کے پڑوسی کی چمنی سے اٹھتا ہوا دھواں نظر نہ آئے۔ ‘‘
اس رات پپا کا ایک ساتھی کار چلا رہا تھا۔ پپا اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے اور ممی، میں، فیونا اور ٹینا پچھلی پر۔ رات کے اندھیرے میں ایسی سڑک پر جس پر میلوں تک ایک بھی جھٹکا نہ لگے، کس کو نیند نہیں آ جائے گی۔
باہر وہ پہاڑیاں جو دن میں مخمل کی طرح کی ہری گھاس میں لپٹی نظر آتی ہیں، اس وقت اندھیرے میں چھپی ہوئی تھیں اور کار کی ہیڈلائٹس سے کبھی کبھی ان کا کوئی کونا چمک اٹھتا تھا۔
ہم جانے پہچانے شہروں سے گزر رہے تھے —کولیترو، لیڈی اسمتھ، پیٹر میرِٹس برگ — سب شہر خاموش تھے۔
ہر سفید ایفریکانیر کسان کا گھر آس پاس پھیلی ہوئی اس کی میلوں لمبی زمین کے بیچ میں کھڑا چپ چاپ لگ رہا تھا۔ اور کرال کے ایک کونے پر اس کے نیگرو نوکروں کے چھوٹے چھوٹے سے گھر تھے، ایک دوسرے میں گھسے ہوئے۔
میں نے دن میں بھی پیٹر میرٹس برگ کی سڑکوں کو سنسان پایا تھا اور اس وقت تو باوجود اس کے کہ ان میں روشنی تھی، مجھے ان سے ڈر لگ رہا تھا، جیسے یہاں لوگ رہتے ہی نہ ہوں۔
ممی باتوں میں حصہ لیتے لیتے سو گئیں، فیونا سفر کے شروع ہی میں سو گئی تھی اور ٹینا کتاب نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے زیادہ دیر نہیں جاگ سکی۔
صر ف پپا اور ان کا دوست آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے جو میرے لیے بالکل نئی تھیں۔ مثلاً یہ کہ کسی عورت نے اپنی ڈائری میں اس وقت یہ لکھا تھا جب یہ لوگ یہاں آ کر بسنے شروع ہوئے تھے کہ ’’کالوں اور گوروں کی برابری کی پالیسی بائبل کی تعلیم کے خلاف ہے۔ ‘‘
پالیسی کیا ہوتی ہے میں نہیں جانتا، لیکن مجھے معلوم ہے ہمارے یہاں سرمن میں جو کچھ کہا جاتا ہے یہ بات اس کی الٹ تھی۔
ان کی باتوں میں یہ ذکر بھی آیا کہ کالوں اور گوروں کے لیے برابر حقوق خدا کے قانون کے خلاف بات ہے، اور یہ کہ یہاں کہ سفید لوگوں کا یہ پکا یقین تھا کہ زیادہ سے زیادہ زمین کا حاصل کرنا ہر آزاد آدمی کا حق ہے۔
میں ان کی اکثر باتیں پوری طرح نہیں سمجھ رہا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح مجھے پپا کی باتیں سننے میں مزہ آ رہا تھا، اور ان کا دوست بھی ان ہی کی طرح باتیں کر رہا تھا۔
وہ لوگ آسٹریلیا کے پرانے باشندوں کا ذکر کرتے رہے، اور ریڈ انڈینز کا اور یوروپ سے آنے والے اسرائیلیوں کا اور دوسری قسم کے یہودیوں کا جو یوروپین نہیں تھے۔
مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر ملک پر سفید لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے، اور وہ پاہم کی طرح دوڑ رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں، کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ زمین اپنے قبضے میں کر لیں، خواہ اس کے لیے انھیں نیگروز، ریڈ انڈینز اور نجانے کتنے دوسرے قسم کے اندھیرے لوگوں کا خاتمہ کرنا پڑے۔
جب ڈربن پہنچ کر کار رکی اور میں جاگا تو پپا کا دوست صبح کے ہلکے اندھیرے میں ان سے اور ممی سے ہاتھ ملا رہا تھا۔
اس نے چلتے وقت کہا:
"SO HENK, NOT COMING BACK TO THIS GORGEOUSLY BEAUTIFUL SUFFOCATING COUNTRY?”
(’’واپس نہیں آ رہے ہو ہینک، اس خوبصورت ملک میں جہاں سانس گلے میں اٹکتی ہے ‘‘؟)
پپا نے کہا، ’’نو تھینکس۔ تم اپنی حفاظت کرو۔ ‘‘
کچھ عرصے بعد مجھے پتا چلا، پپا کا وہ دوست جیل میں ہے۔
رات کے کھانے کے بعد فیونا کو اوپر بھیج دیا گیا اور پپا اور ممی نے ٹینا سے اس کا چھوٹا سا ایڈونچر سنا جس میں وہ میری لیڈر رہی تھی۔ اس وقت تک میرا غصہ یا رونا، جو کچھ بھی تھا، تھم چکا تھا اور میں اپنے آپ میں تھا۔
’’سو، واٹ از اِٹ، سن؟‘‘ ممی نے مجھ سے پوچھا۔
میں نے کہا، ’’کیا؟‘‘
’’یہی کہ آج کے واقعے کا ٹالسٹائی سے کیا تعلق ہے ؟‘‘
میں نے رک رک کر اس رات کے سفر میں سنی ہوئی باتیں دُہرائیں جو پپا اور ان کے دوست کرتے رہے تھے اور ممی اور پپا مجھے حیرت سے دیکھتے رہے —میرا خیال ہے وہ میری یادداشت پر خوش تھے۔
پھر میں نے ایک دم وہ سوال کیا جو آج دوپہر سے ان سے کرنا چاہ رہا تھا۔
’’ٹھیک ہے، ٹالسٹائی نے اچھی کہانیاں لکھی ہوں گی، لیکن میرا خیال ہے ٹینا جھوٹ بولتی ہے کہ اس نے کہا تھا: ’چھ فٹ، سر سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک حقیقت میں ایک انسان کو زمین چاہیے ہوتی ہے۔ ‘ میرا سوال یہ ہے : ایک سفید آدمی کو کتنی زمین چاہیے ہوتی ہے ؟‘‘
٭٭٭
متن یہاں سے حاصل ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید