فہرست مضامین
سفر وادیِ سوات کا
محمد یونس
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
انتساب
ہر اُس با شعور انسان کے نام
جو عبادات اور معاملات کے ساتھ ساتھ تخلیقِ کائنات میں غور و فکر کرتا ہے
’’بے شک آسمان اور زمین کے بنانے اور رات اور دن کے آنے جانے میں البتہ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ وہ جو الله کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں (کہتے ہیں ) اے ہمارے رب تو نے یہ بےفائدہ نہیں بنایا توسب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ‘‘
آلِ عمران 190-191
اظہار تشکر
شکریہ ادا کرتا ہوں میں :
اللہ تعالیٰ کا، کہ جس کی توفیق ہمیشہ میرے شاملِ حال رہی۔
ان دوستوں کا، کہ جنہوں نے مجھے یہ کچھ یادیں اور باتیں لکھنے پر اکسایا۔
اپنے گھر والوں کا، کہ جن کے حصے کا وقت میں نے اس کام میں صرف کر دیا۔
اور
بجلی کا، کہ جس نے رات ایک بجے کے بعد مجھے کام نہیں کرنے دیا، تاکہ میری صحت بھی برقرار رہے !
آغازِ سفر
یہ 28اگست2013 کی روشن صبح تھی۔۔۔
سی این جی اسٹیشن کے دفتر کے باہر کرسیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے کچھ لوگ باقی ساتھیوں کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔وقفے وقفے سے ایک آدھ مزید ساتھی ہاتھ میں بیگ اٹھائے نمودار ہوتا اور رسمی سلام دعا کے بعد ان انتظار کرنے والوں میں شامل ہو جاتا۔ پروگرام کے مطابق سب کو چھ بجے صبح یہاں پہنچنا تھا لیکن اب ساڑھے سات بجے تک بھی کورم پورا نہیں ہوا تھا۔۔۔ وادیِ سوات کی سیر کے لئے جلدی تو سب کو تھی، لیکن وقت پر گھر سے نکلناشایدسب کے لئے مشکل ترین گیاآ گ گیامرحلہ رہا ہو گا ! بہرحال۔ کچھ ہی دیر میں استاد جمیل اپنے ٹویوٹا ہائی ایس ’’شراٹا ٹائم‘‘ کے ساتھ نمودار ہوا۔ رفتہ رفتہ باقی ساتھی بھی آ گئے۔اور گاڑی کے سلنڈر فُل ہونے تک سامان رکھے جانے کا مرحلہ مکمل ہو چکا تھا۔
قریباً ساڑھے آٹھ بجے دعائے خیر کے ساتھ سفر کا آغاز ہوا۔
اگر آپ کو صوبہ سرحد(اب خیبر پختون خواہ)، میں کبھی پبلک ٹرانسپورٹ کے سفر کا تجربہ ہوا ہو تو آپ کو یاد ہو گا کہ ڈرائیور سیٹ پر براجمان ہوتے ہی’’ دعائے خیر اوکا‘‘ یعنی ’’دعائے خیر کر لیجئے‘‘ پکارتا ہے۔ اور اس سے پہلے کہ آپ ہاتھ اٹھا کرمسنون دعائے سفر کے الفاظ ادا کرنے لگیں ، ڈرائیور اپنی دعا مکمل کرنے کے بعد، ہاتھوں کو منہ پر پھیر کے ،گاڑی اسٹارٹ کر کے ،اسے گیئر میں ڈال کے ، اسٹیئرنگ سنبھال چکا ہوتا ہے!
سفر کے دوران نماز کے معاملے میں بھی پختون بھائی خاصے تیز واقع ہوئے ہیں (یا پھر ہم پنجابی بہت ہی سست ہیں !)،دورانِ سفر نماز کا وقت ہونے پر گاڑی سڑک کنارے روکی، نماز کا اعلان کیا ، ندی چشمے وغیرہ پر گئے، وضو کیا، قصر کی نیت باندھی، نماز شروع کی، اور اگلے ہی لمحے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کے بعد جوتے پہنتے ہوئے پکار رہے ہوتے ہیں ’’ بھائی جلدی کرو بہت دیر ہو گیا‘‘ یقین مانئے ہمارے جیسے اس وقت تک بمشکل جائے نماز تک ہی پہنچتے ہیں۔ بلکہ زیادہ تر تو ابھی وضو کے آخری مراحل طے کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔
ہماری دعا اس قدر برق رفتار بہرحال نہیں تھی، جو بھی کسی کو یاد تھا، آرام سے پڑھ لیا گیا۔
دھرتی پنج دریاواں دی
ہمارا سفربذریعہ جی ٹی روڈ شروع ہو چکا تھا اور اب ہم دریائے راوی سے گزر رہے تھے۔ دریائے راوی کا قدیم نام ہندو ویدوں کے مطابق دریائے ایراوتی تھا، اس کا منبع بھارت میں ہماچل پردیش کے ضلع چمبہ میں واقع ہے۔وہاں سے ایک لمبا سفر کرتے ہوئے امرتسر اور پھر پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ گزرتے ہوئے یہ دریا لاہور میں داخل ہو جاتا ہے۔سنا ہے لاہور میں راوی کبھی بہتا بھی تھا ! اور اس کی لہروں کا جوش و خروش دیدنی ہوا کرتا تھا مگر آج کل تو بے بسی سے لاہور کے قریب سے رینگتا ہوا گزر جاتا ہے۔اب کے برس ذرا انگڑائی لی تو لاہور کے گرد و نواح زیرِ آب آ گئے تھے۔ اس لئے جیسے بھی چلتا ہے،ٹھیک ہے !
لاہور سے نکل کر آگے بڑھتا ہوا کمالیہ کے قریب قدرے خم کھا کر احمد پور سیال کے جنوب میں دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے۔یوں اس کا کل سفر تقریباً 720کلو میٹر بنتا ہے۔ چلتے چلتے یہ بھی جان لیجئے کہ اس دریا میں کل 2294 میگاواٹ بجلی (ہائیڈرو پاور) پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اور بھارت میں اس پر بند باندھ کراب تک 198میگاواٹ،540میگاواٹ، 600میگاواٹ، اور 300میگاواٹ۔ یعنی کل 1638 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔۔۔ ذراسوچئے ہم کس مقام پر کھڑے ہیں ؟!
خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
پُل سے گزرتے ہوئے بائیں طرف نیچے دریا کے درمیان میں ایک جزیرہ سا نظر آتا ہے۔ اس میں مغلوں کے دور میں لاہور میں بنائی جانے والی سب سے پہلی عمارت کامران کی بارہ دری واقع ہے۔ اسے مغل بادشاہ ہمایوں کے بھائی اور اس وقت کے لاہور کے حکمران مرزا کامران نے پندرہ سو تیس عیسوی میں ایک باغ کے وسط میں تعمیر کروایا تھا۔ تب راوی آج کل کے مینار پاکستان کے بالکل قریب سے گزرتا تھا اور یہ باغ لاہور سے باہر راوی کے اُس پار تھا۔ باغ تو راوی کی تند و تیز لہروں کی نذر ہو گیا مگر بارہ دری کو معمولی نقصان ہی پہنچ سکا۔ اسی بارہ دری میں مغل شہنشاہ جہانگیر کے خلاف اس دور میں ہونے والی بغاوت کے سرغنہ اس کے بیٹے خسرو ، اور اس کے تین سو ساتھیوں کو زنجیروں میں جکڑ کر پیش کیا گیا تو شہنشاہ جہانگیر نے باغیوں کوسزائے موت سنائی تھی ، اور اپنے بیٹے کی آنکھیں نکال دینے کا حکم صادر فرمایا تھا۔
۔۔۔ اور اس موقع پر یہ تاریخی جملہ بھی کہا تھا کہ ’’بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا !‘‘۔
دو تین دہائیاں پیشتر ایل ڈی اے نے کامران بارہ دری کی مرمت وغیرہ کروائی اور اسے سیاحت کے نقطہ نظر سے موزوں بنایا۔
تقریباً کامونکی سے گزرنے پر گاڑی میں طاری سکوت ٹوٹ چکا تھا اور اب اس کے مسافروں کے درمیان ہلکی پھلکی گپ شپ کی ابتداء ہو چکی تھی۔ گوجرانوالہ پہنچ کر اچانک استاد جمیل نے گاڑی سڑک کے کنارے روکی اورسڑک کے اُس پار جا کر ایک خاتون کے پاس کھڑا ہو گیا۔ گاڑی میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ اپیی کسی عزیزہ سے ملنے گیا ہے۔ واپس لوٹا تو ہاتھوں میں کوک، سپرائیٹ کی چندجمبوسائز بوتلیں ، ڈسپوزیبل گلاس اور نمکو، بسکٹ وغیرہ کے پیک تھے۔ پتہ چلا کہ ملنے والی کوئی عزیزہ نہیں بلکہ اس کی عزیز از جاں رفیقۂ حیات تھی۔ اور اس نے ہماری مہمان نوازی کے طور پر یہ اشیاء بھجوائی تھیں۔ یہ اندازِ مہمان نوازی بہت بھلا لگا !
گوجرانوالہ سے نکل کراب رچنا دوآب کا آخری حصہ شروع ہو چکا تھا۔ دوآب، دو دریاؤں کے درمیانی علاقہ کو کہا جاتا ہے۔ بیاس اور راوی دو دریاؤں کا درمیانی علاقہ (بیاس کی ’با‘ اور راوی کی ’ری‘ ) باری دوآب کہلاتا ہے۔یہ مرکزی پنجاب کا خطہ ہے۔اوراس خطہ کی پرانی آبادیاں ما جھہ کے نام سے جانی جاتی ہیں ان میں بھارتی پنجاب سے امرتسر، گرداس پور اور ترن تارن، جبکہ ہماری طرف سے لاہور، قصور،اوکاڑہ،ساہیوال، خانے وال اور ملتان شامل ہیں۔اسی طرح لاہور کی طرف سے راوی پار کرنے کے بعد دریائے چناب تک (راوی کی ’ر، اور چناب کی ’چنا‘ ) رچنا دوآب کا علاقہ ہے۔اس میں نارووال،سیالکوٹ،گوجرانوالہ، شیخوپورہ، فیصل آباد شامل ہیں۔ اور اب ہم رچنا کی سرحدیعنی دریائے چناب عبور کر رہے تھے۔ اس دریا کا نام دو الفاظ ’چن‘ بمعنی چاند اور’ آب‘ بمعنی پانی پر مشتمل ہے۔ قدیم زبانوں میں اس کا نام ’اسکمتی‘ ہندو ویدوں کے مطابق اور ’آچے سائنز ‘یونانیوں کے حوالے سے ملتا ہے۔ اس کے پانیوں کا ماخذ بھی راوی کی طرح ہماچل پردیش ہے اور یہ جموں کے علاقے سے بہتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ضلع جھنگ میں تریموں کے مقام پر دریائے جہلم سے ملتا ہوا اور پھر راوی کو ساتھ ملاتا ہوا اوچ شریف کے مقام پر دریائے ستلج کے ساتھ پنجند بناتا ہے۔پھر مٹھن کوٹ کے مقام پر یہ دریا سندھ میں شامل ہو جاتے ہیں۔یوں اسکی کل لمبائی960 کلومیٹر کے قریب بنتی ہے۔
دریائے چناب کے کناروں کے ساتھ پنجابی زبان و ادب کی دو اہم لازوال لوک رومانوی داستانیں ’ہیر رانجھا، اور’سوہنی مہینوال، بھی وابستہ ہیں۔ اسی کے سبزہ زاروں میں اچھے اچھے شرفاء گھرانوں کے سپوتوں میاں مراد بخش دھیدو رانجھا اور مرزا عزت بیگ مہینوال نے عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھینسیں چَرائیں ، اسی دریا کی گزر گاہ کے قریب جھنگ میں ہیر آسودۂ خاک ہوئی اور اسی چناب کی لہروں نے سوہنی کو اپنی آغوش میں ابدی نیند سلایا۔۔۔
چناب پار کرنے کے بعد اب ہم ایک نئے دوآب میں داخل ہو چکے تھے۔ چناب کی ’چ‘ اور جہلم کی ’ج‘ ملا کراس خطے کا نام ’جچُ یا ’چج‘ دوآب رکھا گیا۔یہ گجرات،سرگودھا، منڈی بہاؤالدین، ملکوال، شاہ پور، پھالیہ،سرائے عالمگیر اور کھاریاں پر محیط ہے۔ پھالیہ کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس کا نام سکندر اعظم کے محبوب گھوڑے ’بیوسی فالس، کے نام پر رکھا گیا تھا۔جو یہاں آ کر مر گیا تھا اور اس کی یاد میں یہاں ایک یادگار تعمیر کی گئی تھی۔ بیوسی فالس کے نام کا ایک حصہ فالس مقامی زبان میں ڈھل کر پھالیہ ہو گیا۔ اسی خطے میں 326قبل مسیح میں سکندراعظم اور راجہ پورس کی فوجیں ٹکرائیں تھی۔پورس بڑی بے جگری سے لڑا لیکن شکست کھائی۔اور اسے قید کر کے سکندر اعظم کے سامنے پیش کیا گیا۔اس موقعہ پر ان کے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیا۔
۔۔۔ مفتوح راجہ پورس، فاتح سکندر کے دربار میں قیدی بنا کھڑا تھا۔
فاتح نے رعونت آمیز لہجے میں پوچھا :
’اب بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟‘
’وہی جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں !‘
اسی لہجے میں جواب دیا گیا۔۔۔
کہتے ہیں سکندر اس برجستہ جواب سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اسے با عزت رہا کر دیا !
۔۔۔ اور سکندر کی فوجیں اس خطے سے آگے پیش قدمی بھی نہیں کر پائیں۔
ہمارا اگلا پڑاؤ لالہ موسیٰ کے مقام پر ہوا۔ یہاں رکنے کی بنیادی وجہ یہ ہوئی کہ کولڈڈرنکس کی باقی ماندہ جمبو بوتلیں اب ’کولڈ، نہیں رہی تھیں ،لہٰذا پروگرام یہ بنا کہ ایک عدد واٹر کولر خریدا جائے۔جس میں برف بھر لی جائے۔ اور جہاں ’دل مانگے اور۔۔۔ ‘ وہیں ’چِل‘ کر لیا جائے۔ سو میاں بشارت اور کچھ ساتھی اس کام کے لئے، کچھ استاد جمیل کے ہمراہ گاڑی کے آڈیو ویڈیو سسٹم کے لئے فلیش ڈرائیو فُل کروانے نکل کھڑے ہوئے، اور کچھ وہیں گاڑی کے پاس سستانے لگے۔ جب کولر میں برف ، اور فلیش میں موسیقی، اچھی طرح سے بھر لی گئی تو پھر سے سفر شروع ہوا۔
چلتے چلتے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے میاں بشارت نے ہانک لگائی ’ ہاں بھئی۔۔۔ لیگ پِیس آؤن؟!‘ سارے حیران کہ میاں صاحب نے لیگ پیس کہاں چھپا رکھے تھے ،جو اب کھلانے لگے ہیں۔۔۔ اور پھر یوں ہوا کہ بُھنے ہوئے چنوں کا ایک ڈبہ فرنٹ سیٹ سے درجہ بہ درجہ پیچھے کی طرف پہنچا دیا گیا۔۔۔ اور میاں صاحب گویا ہوئے ’ہم اپنے دفتر میں انہیں لیگ پِیس کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔۔۔ ‘
کھاریاں ، سرائے عالمگیر سے گزرتے ہوئے اب ہم دریائے جہلم پر سے گزر رہے تھے۔ دریائے جہلم، پانچ دریاؤں کی سرزمین کا مغربی سمت کا آخری مگر سب سے بڑا دریا ہے۔یہ مقبوضہ کشمیر میں سری نگر کے قریب چشمہ ویری ناگ سے نکلتا ہے،اور وولر جھیل میں سے گزرتا ہوا ڈومل، مظفر آباد پہنچتا ہے جہاں اس میں اس کا سب سے بڑا معاون دریا نیلم شامل ہو جاتا ہے۔یہاں سے میر پور سے گزرتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں یہ دریا ’جچ دوآب، اور’سندھ ساگر دوآب،کو باہم تقسیم کرتا ہے۔پھر تریمو کے مقام پر دریائے چناب میں جا گرتا ہے۔اس کی لمبائی قریباً 813کلومیٹر ہے۔ یاد رہے دریائے ستلج، راوی اور جہلم تینوں بنیادی طور پر چناب کے معاون دریا ہیں۔جبکہ بیاس، ستلج کا معاون ہے اور بھارتی پنجاب میں اس سے مل جاتا ہے۔
پنجاب، انہی پانچ دریاؤں بیاس ، ستلج، راوی، چناب اور جہلم، کے دم سے ’دھرتی پنج دریاواں دی‘ کہلاتا ہے۔
پہلا پڑاؤ
اب وہ وقت آن پہنچا تھا کہ مہر عقیل کے گھر سے آئے ہوئے آلو والے پراٹھوں کی طرف توجہ کی جائے، سو طے یہ پایا کہ سڑک کنارے کوئی مناسب چارپائی ہوٹل ڈھونڈا جائے۔جہاں پراٹھوں کے لئے دہی و دیگر لوازمات مل سکیں اورباسہولت کھانا چائے وغیرہ کا کورس مکمل ہو سکے۔ ہماری یہ تلاش اور جستجو کہیں روات جا کر رنگ لائی۔گاڑی سے اتر کر ہوٹل کی چارپائیوں پر براجمان ہوئے۔میاں بشارت اچار کا ایک ڈبہ بھی ساتھ لائے تھے۔ پراٹھے، دہی، اچار، سلاد،دال ماش، روٹیاں ، چائے، اچھا خاصا مینو ہو گیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر نمازِ ظہر پڑھی۔ اور کچھ دیر سستانے لگے۔
اسی دوران جمیل گاڑی کے ارد گرد چکر لگا کر اپنے طریقۂ کار کے مطابق گاڑی کو چیک کرنے لگا۔
راستے میں پٹرول ڈلواتے وقت استاد جمیل کو ہر کوئی کہہ رہا تھا ’ ٹینکی کا خیال رکھنا،۔ کہیں پٹرول کی بو محسوس ہوئی تو ہر طرف سے یہی آواز آئی ’ٹینکی کا خیال رکھنا،۔ باتوں کے دوران کوئی خاموشی کا وقفہ آیا تو۔۔۔ ’ٹینکی کا خیال رکھنا،۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر تھی۔۔۔ اور پھر کھانا کھانے کے بعد جب جمیل سچ مچ گاڑی کے پٹرول ٹینک کی طرف گیا تو تجسس مزید بڑھ گیا ، ہم سے رہا نہیں گیا اور آخر ہم نے پوچھ ہی لیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ پتہ چلا کہ پچھلے ٹور کے دوران راستے میں جب حفظِ ماتقدم کے طور پر پٹرول ٹینک فُل کروایا گیا تھا تو پہاڑی علاقہ شروع ہونے سے ذرا پہلے، جہاں اس کی اصل ضرورت تھی، ٹینک لیک ہونے کی وجہ سے خالی ہو چکا تھا۔۔۔ اور ساراپٹرول راستے میں سڑک پر بہایا جا چکا تھا !
ایک صاحب کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔جنازہ ، جناز گاہ کی طرف جا رہا تھا کہ چارپائی اُٹھانے والوں کی غلطی سے راستے میں بجلی کے ایک کھمبے سے ٹکرا گیا۔میّت چانک ہڑ بڑا اُٹھی، مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ یہ سب کیا ہے؟پتہ چلا کہ موصوفہ پر سکتہ طاری ہوا تھا، موت نہیں ۔خیر خوشی خوشی(یا بادل نخواستہ!) اسے گھر واپس لے آئے۔ ازدواجی زندگی کا پھر سے آغاز ہوا۔۔۔ کچھ عرصہ بعد موصوفہ کا ایک بار پھر انتقال ہو گیا۔ اب کے شوہر بیچارہ جنازہ لے کے جانے والوں کو پکار پکار کر کہہ رہا تھا ’کھمبے سے بچا کے بھئی۔۔۔ کھمبے سے بچا کے!‘
بہر حال اس دفعہ واقعی کھمبے سے بچ گئے تھے، یعنی استاد جمیل نے پٹرول ٹینک کو چیک کر کے اطمینان کر لیا تھا۔۔۔ اور اس کے بعد سب لوگ ایک با ر پھرجس ترتیب سے گاڑی سے اترے تھے۔ اسی ترتیب سے بیٹھ گئے اور سفر کا اگلا مرحلہ شروع ہو گیا۔
کھانا کھانے کے بعد ہر ایک پر بقدرِ ظرف خُمارِ گندم کا اثر طاری رہاسوائے استاد جمیل کے۔وہ نہایت ذمہ داری سے ڈرائیونگ میں مصروف رہا۔نیند اور بیداری کی ملی جلی کیفیت میں ہم ٹیکسلا اور حسن ابدال سے گزر گئے۔اب سندھ ساگر دوآب اور صوبہ پنجاب کے تقریباً آخری علاقے میں تھے۔سامنے دریائے سندھ دکھائی پڑ رہا تھا۔دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا اور بر اعظم ایشیا کا ایک اہم دریا ہے۔اس کا منبع سطح مرتفع تبت کی ایک جھیل مانسرور کے قریب واقع ہے۔ سطح مرتفع تبت،تبت اور چین کے صوبہ چنگھائی اور کشمیر کے علاقے لداخ تک پھیلا ہوا مشرقی ایشیا کا عظیم ترین، بلکہ دنیا بھرمیں سب سے بڑاسطح مرتفع ہے۔ اسے ’دنیا کی چھت‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی اوسط اونچائی4500میٹر ہے۔اور رقبہ پچیس لاکھ مربع کلو میٹر۔۔۔
ہمارا دریائے سندھ، دنیا کی اسی چھت سے نکلتا ہے۔
دریائے سندھ کے کئی نام ہیں۔جہاں سے نکلتا ہے، وہاں اسے ’شیر دریا، کہا جاتا ہے۔عربی میں ’نہرالسند‘ کہتے ہیں۔ فارسی میں ’رودِ سند‘کہلاتا ہے۔ ترکی میں اس کا نام نیلاب‘ ہے۔ ہندی میں ’سندھو ندی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور پشتو میں اسے کہتے ہیں ’ اباسین، یعنی دریاؤں کا باپ! دریائے سندھ لداخ، گلگت اور بلتستان سے گزرتا ہے اورپاکستان بھرمیں جنوب کی سمت اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے کراچی کے قریب بحر ہند میں جا گرتا ہے۔ یوں اس کی لمبائی3180کلومیٹر بنتی ہے اور یہ پاکستان کا سب سے لمبا دریا بھی ہے۔
دریائے سندھ پار کرتے ہوئے ہم اب اٹک کے پل پر سے گزر رہے تھے۔اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں داخل ہو رہے تھے۔
اٹک کے پل کی وجہ تسمیہ اس کا ’اٹک ،کے علاقے میں واقع ہونا ہے۔اٹک کے نام کے بارے میں کچھ روایات کے مطابق اکبر اعظم نے یہ نام اس لئے رکھا کہ وہ خود یہاں سے دریائے سندھ کو بمشکل عبور کر پایا تھا۔یعنی اس کی فوجیں یہاں ’اٹک ‘کر رہ گئی تھیں۔ ویسے مقامی آبادی خود اس علاقے کو اٹک کے نام سے پکارتی تھی کیونکہ یہاں اُس دور میں چند کشتیاں جوڑ کر پُل بنایا جاتا تھا اور جب پہاڑوں کی برف پگھلنے سے دریا میں طغیانی کا سماں ہوتا تو یہ پُل ٹوٹ جاتا اور اِدھر کی آبادی اِدھر اور اُدھر کی اُدھر اٹک کر رہ جاتی۔تب فوجی اور انتظامی نقطۂ نظر سے یہ مقام نہایت اہمیت کا حامل تھا۔کیونکہ افغانستان کی طرف سے آنے والے اس راستے کے علاوہ اور کہیں سے گزر نہیں سکتے تھے۔اسی اہمیت کے پیش نظر یہاں ’قلعہ اٹک‘ اکبر اعظم کے دورِ حکومت میں خواجہ شمس الدین خوافی کے زیرِنگرانی1581ءسے1583ء کے دوران دریا کے بائیں کنارے پر تعمیر کیا گیا تاکہ دریائے سندھ پار کر کے اِس طرف آنے والوں پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔ اور بوقت ضرورت مکمل دفاع کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اسی مقام پر شاہراہ کے دوسری طرف ایک اور’ قلعہ خیر آباد ،بھی بنایا گیا جو اکبر اعظم یا شاید نادر شاہ کا تعمیر کردہ ہے۔
کامرہ ائیربیس کے سامنے واقع ’شمس آباد، شمس الدین خوافی ہی کا بسایا ہوا قصبہ ہے۔اور اُسی دور میں بسایا گیا تھا۔
اٹک سے آگے نکل کر جہانگیرہ اور اکوڑہ خٹک کے بعد نوشہرہ پہنچے۔یہاں آ کر کولڈ ڈرنک کا نیا اسٹاک لیا گیا۔ استاد جمیل ایک چوک میں گاڑی روک کر ڈیوٹی پر موجود ٹریفک پولیس سارجنٹ سے راستہ پوچھنے لگا تھا کہ اُس ظالم نے جھٹ چالان بک نکال لی اور ڈھیروں منت سماجت کے باوجود چالان کر دیا کہ گاڑی یہاں کیوں روکی؟ خیراُسی کو چالان کی ادائیگی کی،اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔اب پتہ نہیں کس نے سارجنٹ صاحب سے ان کا نام پوچھ لیا۔ موصوف کا پارہ ایک بار پھر انتہائی حدوں کو چھونے لگا۔نہ جانے یہ اُن کی کوئی دُکھتی رگ تھی، یا پھر دُم پر کسی کا پاؤں آ گیا تھا ! خدا خدا کر کے اُن سے جان چھڑوائی اور آگے کو روانہ ہوئے۔اب ہمیں مردان بائی پاس سے گزرتے ہوئے تخت بھائی کی طرف جانا تھا۔یہاں بائی پاس کے قریب ایک با ر پھر وہی غلطی دہرائی گئی۔۔۔ یعنی چوک میں گاڑی روک کر ڈیوٹی آفیسر سے راستہ پوچھا گیا۔ نتیجہ پھر و ہی ایکشن ری پلے ! چالان !
ایک سردار جی کسی کام کے سلسلے میں جلدی جلدی اپنے گھر سے باہر نکلے تو قریب ہی راستے میں کیلے کا چھلکا گِرا پڑا دکھائی دیا۔بے دھیانی میں چلتے چلتے اس پر سے پاؤں پھسلا اور دھڑام سے گر گئے۔ کپڑے جھاڑتے اور جوڑ سہلاتے ہوئے اُٹھے۔مگر لباس کی حالت زیادہ خراب ہو چکی تھی،سو واپس گھر گئے، لباس تبدیل کیا، اور پھرسے سفر پر نکلے۔ لیکن دیر بھی بہت ہو گئی ،مزا بھی کرکرا ہو گیا،اور سارا دن جسم درد الگ۔اگلے دن پھر اچانک کوئی ضروری کام پڑ گیا۔ تیار ہو کر گھر سے نکلے تو راستے میں پھر ایک کیلے کا چھلکا نظر آگیا۔پہلے چھلکے کی طرف دیکھا اور پھر اپنے صاف ستھرے لباس کی طرف دیکھتے ہوئے بے بسی سے گویا ہوئے ’’ لگدا اے اج فیر ڈِگنا پَؤ ‘‘۔۔۔۔ !
۔۔۔ یہاں ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا تھا !
تخت بھائی پہنچ کر رات کا کھانا کھانے کی فکر دامن گیر ہوئی۔ سنا تھا یہاں کے چپلی کباب نہایت عمدہ ہوتے ہیں۔سو چپلی کباب ہی کھائے۔ ہمیں تو کچھ جلے جلے سے لگ رہے تھے ، لیکن شاید وہاں ایسے ہی پسند کئے جاتے ہوں۔۔۔ ویسے بھی کہتے ہیں :
When in Rome, do as the Romans do.
کھانا کھانے کے بعد شیر گڑھ، سخا کوٹ، درگئی،بٹ خیلہ،چک درہ،باری کوٹ کے راستے کچھ سوئے اور کچھ جاگتے سفر جاری رہا۔ یہاں تک کہ یہ سفر جو آج صبح سے جاری و ساری تھا،آخر کار اپنے منطقی انجام کو پہنچا اور ہم الحمدللہ بخیر و عافیت مینگورہ پہنچ گئے۔
وادیِ سوات
مینگورہ،مینگاورہ، یا منگورہ ضلع سوات کا دریائے سوات کے کنارے واقع سب سے بڑا شہر اور ایک زمانے میں بہت بڑاسیاحتی مقام تھا۔ ، ملکہ الزبتھ نے اسے اس دور کی اپنی سلطنت کے سوئٹزرلینڈ کا نام دیا تھا۔ آج بھی اس کے ارد گرد کی برف پوش چوٹیاں ، سرسبز باغات، قدرتی چشمے، دریائے سوات کا صاف شفاف ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی، حد نگاہ تک سبزے سے ڈھکے پہاڑ،وسیع و عریض وادیاں سب کو دعوت نظارہ دیتی ہیں اور لوگ کشاں کشاں ادھر چلے آتے ہیں۔ہم بھی اسی قدرتی حسن کے نظارے کے لئے اپنا گھر بار، کاروبار چھوڑ چھاڑ کر ہفتہ بھر کے لئے ان وادیوں میں ڈیرہ جمانے کو آ گئے تھے۔ کہ اُس مالک الملک،خالق کائنات کی صناعی کو جی بھر کر دیکھیں۔ جو کہتا ہے:
’کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ اونٹ کو کیونکر تخلیق کیا گیا؟اور آسمان کو کس طرح بلند کیا گیا؟اور زمین کو کیسے ہموار بنایا گیا؟‘
’کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟اور پہاڑوں کو اس کی میخیں ‘
’اور بادلوں میں سے زور دار پانی برسایا تاکہ ہم اس(زمین)میں سے اناج اور سبزہ،اور گھنے باغات اگائیں ‘
ہم یہی کچھ دیکھنے آئے تھے، وادیِ سوات کی سیر کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔۔۔
یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلا کام اب یہی تھا کہ شب بسری کے لئے کچھ انتظام ہو جائے۔سو بس اڈے کے قریب ہی ایک مناسب ہوٹل مل گیا۔سوات میں ان دنوں ڈینگی کا بڑا چرچا تھا۔سو میاں بشارت کہیں سے مچھر مار کوائل لے کر آئے اوراسے لائٹر سے جلا کر خود ہر کمرے میں جا کر لگایا،ہوٹل کے کمرے مناسب طور پر ہوادار تھے۔ اس سے رات کو موسم خوشگوار ہو گیا تھا، ہم جو سارا دن گرمی میں سفر کرتے رہے تھے۔اب خاصا سکون محسوس کر رہے تھے۔ کھانے کی طلب تو اب تھی نہیں ، کچھ پھل وغیرہ کھائے،صبح کے لئے پروگرام کا خاکہ بنایا اور بستروں پر دراز ہو گئے۔ نیند تو جیسے اسی بات کی منتظر تھی،جلد ہی سب کو اپنی آغوش میں لے لیا۔۔۔
پے خاور، پے خاور،پشورے،پشورے،پشورے، چکدرئے، چکدرئے،۔۔۔
۔۔۔ رات کے آخری پہر میں گہری نیند سوتے ہوئے کانوں میں اس نوعیت کی کچھ عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں ، جو پرندوں کی بولیاں تو بہرحال نہیں تھیں۔۔۔ ! ہم پریشان سے ہو گئے، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟یہ کس قسم کی آوازیں ہیں ؟ کیا بولیاں ہیں ؟ کیا ہو رہا ہے؟ ہم کہاں ہیں ؟ذرا آنکھیں کھلیں ،اوسان بحال ہوئے تو پتہ چلا کہ مینگورہ کے ہوٹل میں ہیں اور اس ہوٹل کے بالکل سامنے لاری اڈا ہے۔ اور صبح کاذب کے وقت ہی بسوں ویگنوں کی آمدورفت شروع ہو جاتی ہے !
خیر،کچھ دیر مزید بستر میں ہی لیٹے لیٹے اذان کا انتظار کرتے رہے۔ کمرے میں ہی نماز پڑھی۔اور پھر تیاریاں شروع ہو گئیں۔سب واش روم مصروف ہو گئے، ادھر ایک نہا نے کے لئے تولیہ صابن ہاتھ میں لئے پھر رہا ہے ، تو دوسراشیو بنانے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔میاں بشارت کو اور کچھ نہ سوجھا توساجد کو آئینہ پکڑا کر سامنے کھڑا کر لیا اور شیو بنانے لگے! اس دوران جوان مراحل سے فارغ ہو چکے تھے ،اپنے اپنے کیمرے چیک کر رہے تھے۔ کسی کی شیو بناتے ہوئے تصویر،کسی کی آنکھیں ملتے ہوئے تصویر،کسی کی تصویر اس طرح کہ پس منظر میں لاری اڈا بھی آئے ،مسجد بھی آئے،اور پہاڑ بھی!غرض یہ کہ تصویر، تصویر، اور تصویر۔۔۔
تیاری مکمل ہونے کے بعد اب ہینڈی کیم کے لئےDV کیسٹ ،اور اپنے لئے ناشتے کی تلاش کا مرحلہ تھا ، لہٰذا مینگورہ شہر میں گھومنے لگے، جلد ہی کیسٹ بھی مل گئی۔اور ناشتے کے لئے ایک سواتی چنے والا ہوٹل بھی۔چنے خاصے لذیذ تھے ،اور ساتھ گرم گرم خمیری روٹیاں ، دل لگا کے ناشتہ کیا۔واپس ہوٹل آئے۔سامان کو گاڑی میں ڈالا گیا، اور گاڑی کو بحرین روڈ پر ڈال دیا گیا۔پروگرام یہ تھا کہ راستے کے قابلِ دید مقامات دیکھتے ہوئے آج شام تک کالام پہنچ جایا جائے۔ اور رات گزارنے کے بعد صبح جھیل مہوڈنڈ کی سیر کی جائے۔
اس راہ میں پہلا قابلِ دید مقام ،بحرین روڈ پر مینگورہ شہر سے نکلتے ہی چار پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے سوات کے کنارے ’ٖفضاگٹ پارک‘ ہے۔یہ خوبصورت مناظرِ فطرت اور دریائے سوات سے نکلی ہوئی ندیوں میں تین اطراف سے گھرا ہوا ہے۔فضا گٹ کا پرانا نام’ قضا گٹ، تھا۔ پشتو میں ’ قضا‘ موت کو اور ’گٹ‘ چٹان کو کہتے ہیں ، یعنی موت کی چٹان۔ ان دنوں دریائے سوات کے کنارے باقاعدہ سڑک نہیں تھی۔اور بالائی سوات سے منگورہ آنے جانے والوں کو دریا کے ساتھ ہی واقع بلند پہاڑ کی چوٹی پر سے پُر پیچ اور تنگ راستے سے سفر کر نا پڑتا تھا اور پاؤں کی معمولی لغزش سے آدمی سینکڑوں فٹ کی بلندی سے نیچے گر کر دریائے سوات کی تند و تیز لہروں کا شکار ہو جاتا تھا۔اس لئے اس مقام کا نام قضا گٹ پڑ گیا۔خیر،اب حالات بہت مختلف ہیں۔ فضاگٹ کو باقاعدہ پارک کی شکل 1984میں دی گئی۔یہاں ، اس سیر کے دوران پہلی مرتبہ، ہم نے مختلف زاویوں سے اپنے اپنے ذوق اوردلچسپی کے مطابق تصویریں بنائیں اور بنوائیں۔ اور مناظرِ فطرت کو اپنے کیمروں میں سمونے کی بھرپور کوشش کی۔
ہماری اگلی منزل مالم جبہ تھی۔۔۔
مالم جبہ
مالم جبہ ، مینگورہ سے کوئی 42 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، مینگلور پل کے قریب اس کا راستہ، مدین اور بحرین کے راستے سے الگ ہو جاتا ہے۔اس کی سڑک کے ایک طرف سرسبز پہاڑ، درخت اور دوسری طرف ایک چھوٹی سی ندی بہتی ہے۔جس میں پڑے ہوئے بڑے بڑے دیو ہیکل پتھر جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔مالم اور جبہ دو الگ الگ مقامات ہیں ، مگر اتنے قریب کہ ’مالم جبہ ، ایک ہی جگہ کو کہا جاتا ہے۔یہ مری کی طرح پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔سطح سمندر سے اس کی بلندی 9500فٹ، اور رقبہ250ایکڑ پر محیط ہے۔کہیں کہیں سڑک خاصی پُر پیچ، دشوار گزار اورمسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔مالم جبہ دسمبر سے مارچ تک برف پوش رہتا ہے۔اس عرصہ میں یہاں بارہ سے سولہ فٹ تک برف پڑتی ہے۔سردیوں میں درجۂ حرارت منفی دس ڈگری تک جبکہ گرمیوں میں دس سے پچیس ڈگری رہتا ہے۔ سرسبز پہاڑوں ، اور دلکش مناظر کی وجہ سے مالم جبہ نہایت پر فضا مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے قرب و جوار میں جنگلات وسیعقطعہ اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں۔جگہ جگہ مختلف النوع، رنگ برنگے اور خوبصورت پھول کھلے ہوئے ہیں۔مالم جبہ مجموعی طور پر اُوپر تلے ڈھلانوں پر مشتمل ہے۔ڈھلانوں اور برف کی وجہ سے یہ پاکستان کا واحد سکی انگ ٹریک بھی ہے۔ اس ٹریک کی لمبائی آٹھ سو میٹر ہے۔اسے حکومت آسٹریاکے تعاون سے رولر سکیٹنگ ، آئس سکیٹنگ ، سکی انگ پلیٹ فارم، چیئرلفٹ ، اور برف ہٹانے کے لئے جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا تھا۔ یہاں پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کا خوبصورت ہوٹل بھی موجود تھا لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں ہم نے بہت کچھ کھو دیا، وہیں اس ہوٹل اور دیگر سہولیات کی قربانی بھی دینا پڑی۔
ہم جب مالم جبہ پہنچے تو وہاں کا موسم خاصا خنک تھا۔ٹھنڈی ٹھنڈی ،مدہوش کن،معطر ہوائیں ہما رے استقبال کو موجود تھیں۔چشموں کا ٹھنڈا یخ اور میٹھا پانی پینے کو ملا۔کچھ دیر اِدھر اُدھر چل پھر کر تصویریں وغیرہ بناتے رہے۔پھر وہاں ہمیں ایک بزعم خود گائیڈ بھی ملا۔ جس نے ہماری کچھ تصویریں اور ویڈیو بنا کر،کچھ دیر اونچے نیچے راستوں پر خوار کروا کرمِس گائیڈ کرنے کا حق ادا کر دیا !پہلے یہیں کھانا کھانے کا پروگرام بھی بنا لیکن پھر گائیڈ والے تجربے ، ہوٹل والوں کی چرب زبانی، اور کھانے کی چیزوں کی قیمتوں کی وجہ سے ارادہ بدل دیا گیا اور نیچے شہر میں جا کر کھانا طے پایا۔مالم جبہ میں ابھی کچھ دیر مزید گھومنے کو دل چاہ رہا تھا۔ مگر یہاں دیر کرنے کا مطلب تھا کہ کالام کا سفر جو سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے پہلے ہی خطرناک ہے، خطرناک تر ہو جائے گا۔ سو ہم نے بادلِ ناخواستہ واپسی کی ٹھانی۔
واپس مینگلور پُل پہنچ کر بحرین روڈ پر چلتے ہوئے چار باغ کے راستے خوازہ خیلہ پہنچے۔یہاں کھانے کے لئے ہوٹل ڈھونڈنا مشکل نہیں تھا،لیکن کھانوں کا انداز اور ذائقہ ہم لاہوریوں کے لئے ذرابس یونہی سا تھا۔ چکن کڑاہی بنوائی گئی تو۔۔۔۔۔، خیر ! اندازِ میزبانی میں کھانے کے آخر میں تھوڑا تھوڑا شہد،بالائی، مکھن،میوہ وغیرہ پیش کیا جانا اچھا لگا۔ کھانے کے بعد حسب روایت چائے تھی۔خوازہ خیلہ میں چائے پیتے ہوئے زبان ایک نئے ذائقے سے آشنا ہوئی ! ہم لاہوریئے عام طور پر اچھی چائے ’دودھ پتی‘ کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ کہیں کہیں چائے کی دستاربندی کا رواج بھی ہے۔۔۔ میری مراد ’ پگ والی چاء’ سے ہے۔ چائے کے کپ کے اوپر گاڑھی گاڑھی سفید ’ ملائی‘ چائے کا ظاہری اور باطنیحسن دوبالا کر دیتی ہے۔ اس پَگ کا ایک اور ہم معنی لفظ اس وقت سننے میں آیا جب ایک ہوٹل پر دودھ پتی کا آرڈر دیا تو وہ ظالم چائے کپ میں ڈالنے کے بعد گویا ہوا ’بھاء جی لینٹر وی پاء دیاں ؟، ہم حیران تھے کہ یہاں چائے کے کپ کے اوپر کونسی چھت اور کہاں کا لینٹر ! لیکن اس کے مسکراتے ہوئے ملائی کی طرف اشارہ کرنے سے بات سمجھ میں آ ہی گئی۔۔۔ ویسے یہ گئے زمانوں کی باتیں ہیں۔ اب خالص ملائی ایک تو ملتی نہیں دوسرے ڈاکٹر حضرات کو اس بیچاری سے خدا واسطے کا بیر ہے !اس سے کولیسٹرول اور کیلوریز میں ممکنہ اضافے ، اس کے نقصانات اور مضرتوں کے بیان کرنے میں یہ لوگ کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان بھلے مانسوں کوکیسے بتائیں کہ جب لوگ دودھ ملائی وغیرہ کا استعمال زیادہ کرتے تھے تو بیماریاں کم اور عمریں لمبی ہوا کرتی تھیں۔۔۔ مگر۔۔۔ ہماری کوئی سنتا ہی کب ہے!
بات ہو رہی تھی خوازہ خیلہ کی چائے کی۔ اس میں نیا ذائقہ(اچھے بُرے کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں !) جو وہاں چکھنے کو ملا، کوکونٹ یعنی ناریل کا تھا۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے چائے پر ناریل کے برادے کا لنٹر ڈال رکھا تھا !
خوازہ خیلہ سے ایک بار پھر سفر شروع ہوا۔ مدین اور بحرین کے راستے وادیِ کالام کا سفر، ٹوٹا پھوٹا ناہموار راستہ، ایک طرف اونچے پہاڑ، دوسری طرف نیچے گہرائی میں دریائے سوات کا ٹھاٹھیں مارتا پانی، ایسی بلندی ایسی پستی ! پھر ٹویوٹاوین اور اس میں سامان کے علاوہ گیارہ نفوس، تھوڑی دیر کے بعد گاڑی ہانپتے ہانپتے رک جاتی، اور آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے لڑھکنے لگتی، کچھ لوگ اس میں سے جلدی جلدی نیچے اترتے، ٹائروں کے پیچھے پتھر رکھتے، اور آ گے بڑھنے میں ’شراٹا ٹائم،کی مدد کرنے کے لئے دھکا لگاتے!استاد جمیل اس صورتحال پر خاصا پریشان دکھائی دے رہا تھا کہ الیکٹرانک فیول انجیکشنEFI سسٹم لگوانے کے باوجود ایسا کیوں ہو رہا ہے؟اور پھر جلد ہی اس کاذہنِ رسا معاملے کی تہ تک پہنچ گیا،کہ انجن کی ائیر اِن لیٹ Air Inletکی ایڈجسٹمنٹ درست نہیں ہے۔ اس نے ایڈجسٹمنٹ درست کی، اور گاڑی بھرپور انداز میں طاقت لگاتے ہوئے سفر طے کرنے لگی۔رستے کی ناہمواری ، جگہ جگہ چھوٹے بڑے پتھر،اور پھر اب رات کا سماں ، گاڑی کی ہیڈلائٹس کے علاوہ ارد گرد کہیں روشنی نہیں ،لگ رہا تھا کہ وادیِ کالام زبانِ حال سے یہ کہہ رہی ہے
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آؤ،
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے!
سفر تو جیسے تیسے ختم ہو گیا لیکن ہم استاد جمیل کی مشاقانہ ڈرائیونگ کے قائل ہو گئے !
کالام
وادیِ کالام میں پہنچے، تو یہاں قیام کے لئے جو ہوٹل پسند آیا ، اس کا نام ’بنگش پیلس‘ تھا۔صاف ستھرے کشادہ کمرے اور نہائیت مناسب کرایہ، معاملات طے کرنے کے بعد سامان کمروں میں شفٹ کیا۔اور کھانا کھانے کے لئے چل دیئے۔ایک لاہوری ہوٹل اس کام کے لئے منتخب ہوا۔ذائقہ اچھا تھا ، سو پسند آیا۔کھانا کھا کر بستر پر پڑے، اور سو گئے۔ صبح اٹھتے ہی ناشتے سے پہلے کی فوٹوگرافی کا راؤنڈ مکمل کیا، پھر رات والے ہوٹل میں ہی ناشتہ کیا۔ اور جھیل مہوڈنڈ کے سفر کے لئے کمربستہ ہوئے۔ یہاں بنگش پیلس والوں نے ایک صائب مشورہ دیا کہ مہو ڈنڈ جانے کے لئے آپ کی ٹویوٹا وین مناسب نہیں ، آپ کو 4WDگاڑی لینی چاہئیے۔سوانہی ہوٹل والوں کی ایک لینڈ کروزرمناسب کرائے پر بمعہ ڈرائیور لے لی گئی۔اور اگلی منزل جھیل مہوڈنڈ جانے کے لئے وادیِ کالام سے روانہ ہوئے۔
کالام اپنی آبشاروں ، جھیلوں ،سرسبز و شاداب پہاڑوں ، دل موہ لینے والے قدرتی مناظر ، اور جدید سہولیات کی وجہ سے ایک سیاحتی مقام کے طور پر بہت مشہور ہے۔مینگورہ سے اس کا فاصلہ تقریباً 94کلومیٹر ہے۔سطح سمندر سے کوئی 6800فٹ بلند اس وسیع وادی کے ارد گرد نہائیت بلند و بالا پہاڑ موجود ہیں۔کالام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں خیال کیا جا تا ہے کہ ہزاروں سال قبل یہاں ایک خاندان آباد تھا ،جس کا نام’ کال‘ بیان کیا جاتا ہے۔کوہستانی زبان میں ’لام ،گاؤں کو کہتے ہیں۔اس وجہ سے اس علاقے کا نام ’کالام‘ یعنی ’کا ل کا گاؤں ‘ رکھا گیا۔کال کی نسل کے لوگ آج بھی کالام میں موجود ہیں اور ’کال خیل‘کہلاتے ہیں۔کالام کی سرحدیں دیر، چترال، گلگت ، تانگیر اورانڈس کوہستان سے ملتی ہیں۔یہاں کی بلند ترین چوٹی ’فلک سیر، ہے۔ جس کی بلندی چوبیس ہزار فٹ ہے۔یہ بلند پہاڑ ایک طرح سے سوات اور چترال کے درمیان قدرتی حد بندی بھی ہے۔دریائے سوات کے کنارے، میدانوں کی شادابی، مسحور کن فضا اور دیدہ زیب فطری مناظر کی وجہ سے اس وادی کو کشمیرِ ثانی کہا جائے تو بے جا نہیں۔وادیِ کالام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ بالائی وادی اور زیریں وادی۔
زیریں وادی دریا کے دائیں طرف واقع ہے ، جہاں کالام کا قدیم گاؤں آباد ہے۔کچے پکے مکان اور ان میں نمایاں طور پر لکڑی کا کام، قدیم و جدید کا حسین امتزاج پیس کرتے ہیں۔یہاں دریا کے کنارے لکڑی کی بنی ہوئی کم از کم تین صدیاں پرانی ایک مسجد ہے۔ جس میں کوئی سوفٹ لمبے دیو ہیکل شہتیراستعمال کئے گئے ہیں۔بھاری بھرکم دروازے، شہتیر، لکڑی پر کندہ کاری کا خوبصورت کام، اور پہلی منزل پر صرف ایک درمیانی ستون پر ٹھہرائی گئی لکڑی کی نقش و نگار سے مزین خوبصورت چھت، دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اُس زمانے میں ، ایسے دورافتادہ گاؤں میں یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟۔منفرد طرزِ تعمیر اور قدامت کی وجہ سے یہ مسجد ہمیشہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔ہم نے بھی مسجد کو بہت دلچسپی سے گھوم پھر کر دیکھا،تصویریں بنائیں اور وہاں موجود ایک بزرگ سے اس مسجد کی تاریخی حیثیت کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
بالائی کالام، دریا کے بائیں طرف واقع ہے۔اس کو ’کس، کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔یہ وادی، زیریں وادی کینسبت خاصی جدید ہے اور تقریباً تمام جدید تعمیرات، سرکاری محکمہ جات کے دفاتر، پی ٹی ڈی سی موٹل،کئی ہوٹل اور مین بازار اس طرف موجود ہیں۔بالائی کالام سے زیریں کالام کا نظارہ نہایت دلفریب،پر کیف، دلکش اور جاذب نظر ہے۔
وادیِ کالام سے جھیل مہوڈنڈ کے راستے میں پہلے آنے والا مقام ’اوشو،ہے۔قریباً دس کلومیٹر کی مسافت پر۔یہ وادی بھی قدرتی حسن و جمال کا ایک دلنشین منظر پیش کرتی ہے۔دریا کے عین کنارے پر ’اوشو ہوٹل، اور رسیوں اور لکڑی کے تختوں سے بنا ہوا پل، اس منظر کی دلکشی مں ن مزید اضافہ کرتے ہیں۔ یہاں کولڈڈرنکس کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے ایک اچھوتی تکنیک دیکھنے میں آئی کہ پہاڑوں سے آنے والے چشموں کا ٹھنڈا پانی پائپوں کے ذریعے ترتیب سے سجائی گئی بوتلوں پر فواروں کی شکل میں گرایا جاتا ہے۔جس سے بوتلیں یخ بستہ رہتی ہیں۔
اوشو سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر’ مٹلتان‘ واقع ہے۔یہ چاروں طرف سے آسمان سے سرگوشیاں کرتے ہوئے سر سبز و شاداب پہاڑوں میں گھری، دلکش و حسین، مہکتی ہوئی وادی ہے۔برف سے ڈھکے پہاڑ، اور ان کی چوٹیوں پر اُڑنے والے سفید و سیاہ بادل، ایک طلسماتی منظر تخلیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مٹلتان کی وجہ تسمیہ بھی کافی دلچسپ ہے۔’ مٹل،کوہستانی زبان میں سفید مٹی کو کہتے ہیں۔ اور یہاں اس مٹی کی بہتات ہے۔اس لئے اسے مٹلتان کہا جاتا ہے۔یہاں سردیوں کے موسم میں آتش دانوں میں آگ مسلسل جلتی رہتی ہے جس سے مکانوں کی دیواریں سیاہ ہو جاتی ہیں۔ اس مٹل کا ایک کام چونے کی شکل میں گھروں کو اُجلا رکھنا بھی ہے۔مٹلتان کے ایک طرف دریائے اوشو بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتا ہوا اپنا جلال دکھا رہا ہے تو دوسری جانب اُچھلتی کودتی ایک ندی اِس سے ملنے کو بے قرار ہے۔یہیں ان دونوں کا سنگم ہوتا ہے اور پھر یہ کالام پہنچ کر دریائے سوات سے جا ملتے ہیں۔
مٹلتان کے قریب ہی ایک آبشار ہے، جہاں پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتا ہوا پانی آن گرتا ہے،اتنی بلندی سے ایک منحنی سی دھار کی شکل میں بہتا پانی نیچے آتے آتے ایک طاقتور جھرنے کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ پتھروں سے اٹھکیلیاں کرتی یہ آبشار ماحول کو ایک نئی خوبصورتی عطا کرتے ہوئے نیچے دریا میں شامل ہو جاتی ہے۔ان تمام مقامات پر کچھ وقت گزارتے ہوئے، اپنے کیمروں میں انکے خوبصورت مناظر محفوظ کرتے ہوئے، ہم جھیل مہوڈنڈ کی جانب گامزن تھے۔جو ابھی یہاں مٹلتان سے بیس کلو میٹر دور تھی۔
جھیل مہوڈنڈ
مہوڈنڈ پہنچے توسب سے پہلے ٹھنڈی ہوا نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ یہ چھوٹا سا قطعہ اراضی اپنے موسم، محل وقوع، جھیل اور کیتت کے رُومانوی مناظر کی وجہ سے حقیقتاًسراپاحُسن ہے۔ جھیل کا نام ’مہو‘ بمعنی مچھلی اور ’ڈنڈ‘بمعنی جھیل سے مرکب ہے۔ یعنی مچھلیوں والی جھیل۔اس جھیل میں ٹراؤٹ مچھلی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ٹراؤٹ عمومی طور پر شفاف، اور دس سے سولہ ڈگری سینٹی گریڈ تک کے ٹھنڈے چشموں اور جھیلوں میں رہنا پسند کرتی ہے۔ پانی کے بہاؤ کے خلاف سفر کرنے والی یہ نازک اندام مگر طاقتور مچھلی جب دریا کی تہہ میں پتھروں پر جلوہ فگن ہوتی ہے توایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شہسوار گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر بیٹھا ہو !
آج سے بیسیوں سال پہلے یہ مچھلی یورپ سے کشمیر لائی گئی پھر کشمیر سے اس کی افزائش نسل کاغان میں کی گئی۔ابدوسرے پہاڑی علاقوں میں بھی اس کی پرورش کی جا رہی ہے۔یہ مچھلی تقریباً دس سے سولہ انچ لمبی ہوتی ہے۔اس کے منہ میں تیز دانت ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ دیگر مچھلیوں کے علاوہ چھوٹی ٹراؤٹ مچھلیوں کو بھی ہڑپ کر جاتی ہے۔ اسے قدرت نے کیموفلاج یابھیس بدلنے جیسی خوبی سے بھی نواز رکھا ہے یعنی شفاف چشموں اور جھیلوں میں سفید و سیاہ چتکبرے پتھروں کے درمیان رہنے والی ٹراؤٹ کا رنگ و روپ عموماً اسی طرح کاچتکبرا ، جبکہ سمندر یا فارم میں پلنے والی ٹراؤٹ کا رنگ نقرئی،سلیٹی اور سیاہی مائل ہوتا ہے۔ اگر چشموں کی چتکبری ٹراؤٹ کوفارم میں لا کر رکھا جائے تو اس کا رنگ حیرت انگیز طور پر آہستہ آہستہ بدل کر نقرئی، سلیٹی اور سیاہی مائل ہو جاتا ہے۔ یہ مچھلی ،ذائقے اور لذت کے اعتبار سے دنیا کی چند مشہور مچھلیوں میں شمار کی جاتی ہے۔اور دنیا بھر میں انسانوں کے علاوہ بھورے ریچھ، اور عقاب جیسے شکاری پرندے اسے بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔
سرسبزپہاڑوں میں گھری ایک حسین سی وادی، اس وادی میں خوبصورت سی جھیل ،اور اس جھیل میں کشتی کا سفر، کس قدر سہانا تخیل ہے ! سو ہم نے دو کشتیاں بک کروائیں۔آدھے ایک میں سوار ہوئے، آدھے دوسری میں ، اور پھر کشتیاں جھیل میں اُتر گئیں۔ جھیل کا پانی نہایت شفاف اور حیرت انگیز حد تک ٹھنڈا تھا،ذرا دیر کو اس میں ہاتھ ڈالا تو انگلیاں سُن ہو کر رہ گئیں۔ہمارے حصے میں آنے والی کشتی میں کوئی فنی خرابی تھی۔بڑی مشکل سے اسٹارٹ ہوتی، کچھ دیر رینگتی اور پھر بند ہو جاتی۔دوسری کشتی والے ساتھیوں کے مذاق کا نشانہ تو بنے، مگر دل یہی چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ وقت جھیل کے اندر گزرے۔ ویسے بھی بقول جذبیؔ :
جب کشتی ثابت و سالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے !
خنک موسم اور جھیل میں کشتی کی سیر کے بعد اب طلب ہو رہی تھی اچھی سی چائے کی!۔چائے کی چسکیوں اور گپ شپ کے بعد شائد موسم کی ادا دیکھتے ہوئے میاں بشارت کچھ گُنگنانے کے موڈ میں لگ رہے تھے۔ساجد موقع شناس نکلا،جھٹ سے بولا ’پرات لاؤں ؟، کہنے لگے نہیں میز ہی ٹھیک ہے (شاید پہلے طبلہ کے طور پر’پرات‘لازمی استعمال ہوتی ہو گی !)۔اور پھر اپنے ہاتھوں سے میز بجاتے ہوئے گانے لگے:
گھائل من کا پاگل پنچھی، اُڑنے کو بے قرار
پنکھ ہیں کومل، آنکھ ہے دھندلی، جانا ہے ساگر پار
اب تو ہی اسے سمجھا، کہ آئیں کون دِشا سے ہم
تو پیار کا ساگر ہے، تیری اِک بوند کے پیاسے ہم
لوٹا جو دیا تو نے، چلے جائیں گے جہاں سے ہم !
کہتے ہیں رونا اور گانا سب کو آتا ہے۔ ایک ہم ہیں جنہیں گانا تو کیا آتا،ڈھنگ سے رونا بھی نہیں آ سکا۔ کبھی دل ٹوٹا کبھی توڑ دیا گیا،کبھی خود کو بہت تکلیف پہنچی،کبھی کسی کی زبان کے گہرے زخم کھائے،کبھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے۔۔۔ مگر پلکیں تک نہیں بھیگیں۔۔۔ اور کبھی با ترجمہ قرآنِ کریم پڑھتے وقت ،کبھی تاریخی واقعات کے مطالعہ کے دوران ،کبھی درد بھری غزلیں سنتے ہوئے، کبھی اُداس شاعری پڑھتے ہوئے،کبھی معاشرتی اونچ نیچ پر،اور کبھی بالکل عام سی باتوں پربھی اپنے آنسو ضبط نہ کر پائے !
حقیقت یہ ہے کہ میاں بشارت کونہ صرف گانا بہت اچھا آتا تھا، بلکہ ذوقِ انتخاب بھی نہایت عمدہ تھا۔
جھیل مہوڈنڈ کو الوداع کہتے ہوئے اب ہمارا واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ ٹراؤٹ کھانے کا پروگرام تو وہیں بن رہا تھا لیکن پھر صرف چائے پر اکتفا کیا گیا۔اور یہ طے پایا کہ اوشو پہنچ کر ٹراؤٹ کھائی جائے۔ اوشو ہوٹل والوں سے ٹراؤٹ کا معاملہ ٹھیک سے طے نہ ہوسکا اور پھر چکن پر ہی گزارا کیا گیا۔اوشو سے کھانا کھا کر کالام سے کچھ پہلے اُس جگہ پہنچے جہاں ہمیں بتایا گیا تھا کہ درختوں کے اُگنے کی ایک خاص ترتیب کی وجہ سے اسم مبارک ’اللہ‘ لکھا ہوا ہے۔ وہاں کچھ دیر کو رُکے اور مختلف پہلوؤں سے منظر کی تصویر کشی کی۔
مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ ہم اس بات کے منتظر کیوں ہوتے ہیں کہ ہمیں خود اُس کا نامِ پاک قدرتی طور پر کہیں لکھا ہوا ملے۔اور ہم بڑے اہتمام سے اسکی تصویریں بنا کردوسروں کو دکھائیں۔۔۔ کیا ہمیں ہر ہر قدم پر اللہ کی قدرت ،اُس کی صناعی،اُس کی تخلیق، دکھائی نہیں دیتی۔یا پھر شاید ہم دن رات یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اِن میں اُس ذات کا عکس ہمیں دکھائی ہی نہیں دیتا، ہمیں لگتا ہی نہیں کہ یہ تخلیقات کوئی معجزہ ہیں ،حالانکہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ پُکار پُکار کر اپنے خالق کی حمد و ثنا بیان کر رہا ہے ! درخت کو ہی دیکھ لیں۔ایک معمولی بیج میں سے ایک ننھی سی، نازک سی، کونپل کا بیج کو پھاڑ کر نکلنا۔پھراس کی مدد کے لئے زمین کے اندرونی تمام وسائل، نمکیات وغیرہ کا باہم اشتراک، پھراس کا زمین کی مٹی میں سے باہر آنا۔یہاں اس کے لئے آب و ہوا،موسم اور دیگر قدرتی عوامل کا مدد کے لئے ہر دم کارفرما ہونا، اس کا پودے کی شکل اختیار کرنا، جڑوں کے ذریعے زمینی نمکیات اور پانی کاسورج کی روشنی سے مل جُل کر نہایت پیچیدہ انداز میں ،مگر نہایت احسن طریقے سے بلند و بالا درخت کی چوٹی تک کے ہر ہر پتے میں پہنچنا، کیا یہ سب یونہی ہو گیا ؟بلکہ ہزارہا سال سے اسی طرح بغیر کسی غلطی کے ہوتا چلا آ رہا ہے،اس کے پیچھے جو نادیدہ قوت کارفرما ہے، ہم اس کا ادراک کیوں نہیں کر پاتے؟اللہ تعالیٰ ہمیں غور و فکر کی توفیق عطا فرمائے۔
آج رات ہمیں پھر کالام میں ٹھہرنا تھا، اور صبح ناشتہ کے بعد واپسی کا سفر جاری رکھنا تھا۔ یہاں آتے ہوئے تو رات کا سماں تھا اس لئے ارد گرد ٹھیک سے دیکھ نہیں پائے۔واپسی پرراستہ تو وہی ناہموار اور ٹوٹا پھوٹا تھا ،لیکن مناظرِ فطرت ہمیں بار بار گاڑی روک کر تصویر کشی پر مجبور کرتے رہے۔ایک جگہ آڑوؤں کا باغ نظر آیا۔ اس کے اندر جا کر پودوں کے ساتھ کھڑے ہو ہو کر، آڑوؤں کو پکڑ پکڑ کر تصویریں بنوائی گئیں۔۔۔ یوں بھی دن کا یہ سفر، خراب سڑک کے باوجود،رات کی نسبت اتنا خطرناک نہیں لگ رہا تھا۔ اور ویسے بھی اب ہم اترائی کی طرف ہی جا رہے تھے۔
۔۔۔ اور ہماری اگلی منزل مدین کا ٹراؤٹ پارک ٹھہری تھی۔
ٹراؤٹ پارک
کالام سے واپسی کے سفر میں بحرین سے گزرتے ہوئے تقریباً بیالیس کلومیٹر طے کر لینے کے بعد اب ہم مدین کے مقام پر تھے جہاں سے بائیں طرف جانے والی سٹرک پر محض ایک کلو میٹر کے فاصلے پرٹراؤٹ فش فارم واقع ہے۔یہاں فشریز ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کے دفاتر ، ٹریننگ سنٹر ،ایک بڑا سا فش فارم اور ہیچری، اس سے ملحق خوبصورت’ ٹراؤٹ پارک ،اور ایک ریسٹورنٹ موجود ہیں۔فارم،پارک اور ریسٹورنٹ سڑک کے بائیں طرف نیچے ایک خاصی بڑی ندی کے بالکل کنارے پر بنائے گئے ہیں جس سے پارک کا حسن نکھر کر سامنے آتا ہے۔
یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے ٹراؤٹ مچھلی پسند کر کے تیار کرنے کا آرڈر دیا گیا۔اس دوران ہلکی پھلکی فوٹوگرافی جاری رہی۔یہاں واش روم کی طرف جاتے ہوئے ایک چھوٹی سی بچی نے ٹوکا ’ماما ! کسان دی پہ کےٍ‘ مطلب یہ کہ ماموں ادھر مت جائیں ، واش روم میں کوئی ہے۔ یہ اندازِ تخاطب بہت اچھا لگا۔ پختون ثقافت میں والدین کے ہم عمر مردوں کو عموماً ماما کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ کوئی آپ کو اپنی ماں کے بھائی کے طور پر مخاطب کرے ، تواس میں اپنائیت کی ایک خاص جھلک نظر آتی ہے۔ ہمارے یہاں لاہوری سٹائل میں تومیہ خوبصورت رشتہ باقاعدہ ایک گالی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔کراچی میں بھی ’ماموں بنانا‘ کسی کو دھوکہ دینے اور بیوقوف بنانے کا مترادف ہے۔ہمیں اس پاکیزہ رشتے کی توہین سے اجتناب برتنا چاہئے۔
بات کدھر سے کدھر نکل گئی۔ ذکر ہو رہا تھا ٹراؤٹ کا۔ جو اَب ہمارے سامنے پلیٹوں میں سمٹی سمٹی سی، بل کھائی ہوئی پڑی تھی۔کچھ اس کا سائز ویسے ہی چھوٹا تھا اور کچھ فرائی ہونے سے سکڑ گئی۔ لیکن بہرحال ذائقہ میں لذیذ تھی۔ کھانا کھانے کے بعد مزید کچھ تصاویر ندی کے بیچوں بیچ پتھروں پر کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر بنائی اور بنوائی گئیں۔
یہاں سے چلے تو میاندم جا ٹھہرے۔
میاندم
میاندم، مینگورہ سے بتیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک سحر انگیز اور گل رنگ وادی ہے، سطح سمندر سے چھ ہزار فٹ بلند اس وادی کی غیر معمولی دلکشی اس کے ارد گرد ایستاد ہ برف پوش پہاڑوں ، گھنے جنگلات، معتدل موسم،معطر فضا اور صحت بخش آب و ہوا کی مرہونِ منت ہے۔اس کے نام کے بارے میں مشہور ہے کہ پہلے پہل اس علاقے میں میاندم نام کی کوئی جگہ موجود نہیں تھی۔جو مقام اب میاندم کہلاتا ہے، وہ یہاں کے دو دیہات ’گوجر کلے، اور’سواتی کلے،کے درمیان حدِ فاصل تھا۔ایک بار یہاں سید خاندان کے ایک بزرگ تشریف لائے اور موجودہ بس اڈے کے قریب رہائش پذیر ہو گئے۔وہ مختلف تکالیف اور بیماریوں کا علاج قرآنی دم کے ذریعے کرتے تھے۔ان کا نام تو میاں عثمان تھا لیکن علاقے کے لوگ انہیں احتراماً میاں جی کہا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ میاں جی کے دم کی شہرت ہر طرف پھیل گئی اور اس علاقے کو ہی ’میاں دم‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔یہاں تک کہ اس علاقے کے دوسرے مشہور مقامات بشمول ’گوجر کلے‘ اور’سواتی کلے‘ بھی’ میاندم‘ کی مرکزی شناخت میں ضم ہو کر رہ گئے۔ میاندم میں خالص سواتی شہد اور مختلف موسمی پھل از قسم املوک، جاپانی پھل(جسے یہاں ’بڑا املوک ،کہا جاتا ہے)، ناشپاتی ،آڑو،اخروٹ، انجیر وغیرہ بکثرت پائے جاتے ہیں۔آلو، مکئی،اور مشروم یعنی کھمبی یہاں کی خاص پیداوار ہے اور مختلف قیمتی،نادر و نایاب جڑی بوٹیوں کے لئے بھی میاندم خاص شہرت رکھتا ہے۔ بلکہ اس مقصد کے لئے ورلڈ وائڈ فنڈ(WWF)کی جانب سے اسے باقاعدہ طور پر دوائیوں میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں کی فارمنگ کے لئے موزوں خطہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
ہم میاندم پہنچے تو شام کا سماں تھا،ہوٹل کی تلاش کے لئے کچھ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ سامنے ہی نظر آنے والا ہوٹل میاندم پیلس بہت مناسب لگا۔سامان کمروں میں رکھ کر ہم لوگ بازار کی طرف چل دئیے۔ اب مشورہ یہ ہونے لگا تھا کہ یہاں بازار سے سامان خرید کر ہوٹل لے جایا جائے۔ گیس سلنڈر، چولھا، دیگچی وغیرہ پہلے سے گاڑی میں موجود تھا۔ اور حکیم شفیق ، رانا اسد اور ساجد اسے پکانے کی خدمت سرانجام دیں کہ یہ تینوں اس معاملے میں خاصے تجربہ کار تھے۔ اگلا سوال یہ تھا کہ کیا پکایا جائے۔لے دے کے بات انڈوں کے آملیٹ پر ختم ہوئی۔ گھی، مرچ مصالحے وغیرہ خریدے جا رہے تھے کہ خیال آیا کہ اتنا سامان لے کر اگر صرف ایک دفعہ ہی کوکنگ کرنی ہے تو۔۔۔۔۔ کھانا بازار سے ہی کھا لیا جائے ! چنانچہ اب اُسی دکان کے برابر والے ریسٹورنٹ کی طرف نظر گئی۔ پتہ چلا کہ رات ہونے کہ وجہ سے بند ہو چکا ہے لیکن اگر آپ چاہیں تو متعلقہ افراد کو گھر سے بلوا کر ہمارے لئے کھانا پکوانے کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ اس قدر پر خلوص اور فراخ دلانہ پیشکش کو ہم ٹھکرا ہی نہیں سکے۔ اورریسٹورنٹ والوں کو چکن کڑاہی کا آرڈر دے کر خود گپ شپ کے لئے بیٹھ گئے۔دفعتاً کسی نے یاد دلا دیا کہ گذشتہ روز میاں بشارت کا گلا کچھ ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ عنائت حسین بھٹی کے گیت نہیں سنا سکے تھے لہٰذا’ اب ہو جائے‘۔ سو میاں بشارت ایک با ر پھر میز بجاتے ہوئے شروع ہو گئے۔
تک دلبریاں دلبر دیاں ، اینویں پج پا کے رُس بیہنا،۔۔۔ اور جب طبیعت میں روانی آ گئی تو پھر۔۔۔ ہم نے جفا نہ سیکھی ان کو وفا نہ آئی، تو پیار کا ساگر ہے، آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا،
اِدھر میز پر یہ محفل جاری تھی اور اُدھر چولھے پر کڑاہی تیاری کے آخری مراحل میں تھی۔اور رانا اسداور حکیم شفیق پکانے والے کو اپنے قیمتی مشوروں ے نواز رہے تھے۔ان کے کھڑے کھڑے اس شریف آدمی نے اس میں گلاس بھر پانی ڈال دیا۔ اور یہ سب ایک دوسرے کا منہ تکتے ہی رہ گئے !اُس نے دلاسہ دیا کہ فکر نہ کرو چکن بہت اچھا بنے گا،۔۔۔۔ اور واقعی کڑاہی تو نہیں البتہ شوربے والا اچھا سالن بنا !کھانا کھایا، اللہ کا شکر اور بنانے والے کا شکریہ ادا کیا۔ ہوٹل جا کر کیمرہ کے کارڈوں کی تصویریں لیپ ٹاپ میں منتقل کیں۔اور سو رہے۔۔۔
صبح تیار ہو کر ہوٹل سے نکلے۔ رات والے ریسٹورنٹ سے چنے ،آملیٹ وغیرہ کا ناشتہ کیا۔اور سیر کے لئے چل دئیے۔پہلے پی ٹی ڈی سی موٹل دیکھا، کچھ تصویریں بنائیں۔پھر ایک ندی کی طرف جانے والے راستے پر گام زن ہوئے۔ راستے میں ناشپاتیوں کے درخت دیکھ کر کئی ساتھیوں کے منہ میں پانی بھر آیا، ان سے رہا نہیں گیا، اور اُچک اُچک کر ناشپاتیاں توڑ کر کھانے لگے۔ جلد ہی ندی نظر آ گئی، یہاں کی منظر کشی پر کچھ وقت صرف کیا۔ کچھ دیر مزید اِدھر اُدھر گھومتے رہے۔پتہ چلا کہ یہاں ایک ’عقلمند لوہار، بھی ہے ! ثبوت کے طورپر اس کی دکان کی تصویر بھی لے لی گئی۔۔۔
۔۔۔ اور پھر واپسی کے لئے ’شراٹا ٹائم‘ میں جا بیٹھے۔
واپسی
میاندم سے واپسی، دراصل گھر کی جانب واپسی تھی۔۔۔ اللہ کا نام لیکر سفر شروع ہو چکا تھا۔خوازہ خیلہ، مینگورہ بائی پاس،سے ہوتے ہوئے جا رہے تھے کہ کوٹہ ، نواں کلے سے گزرتے ہوئے آڑوؤں کا ایک باغ دکھائی پڑا۔ کھانے کے لئے کچھ خریدنے کا پرو گرام بنا۔ اور پھر فیصلہ کیا گیا کہ سوغات کے طور پر یہ آڑو گھروں کے لئے بھی لے لئے جائیں۔ سوحسب ضرورت ڈبے خرید کر گاڑی کی چھت پر باندھ لئے۔یہاں سے اب نان سٹاپ سفر شروع ہو گیا یعنی سی این جی یا نماز کے علاوہ گاڑی کہیں نہیں روکی گئی۔
بٹ خیلہ سے کچھ پہلے دریائے سوات کا ساتھ چھوٹ گیا۔۔۔ وہ دریا جس نے جاتے ہوئے مینگورہ سے کالام اور مہوڈنڈ تک ہمارا سا تھ دیا تھا۔اور ہم اس کی محبت میں ایسے ایسے دشوار راستوں سے گزرے تھے کہ جوڑ جوڑ دکھنے لگ گیا تھا
رستے بڑے دشوار اور کوس کڑے تھے،
لیکن تیری آواز پر ہم دوڑ پڑے تھے !
واپسی کا سفر بھی انہی رستوں پر رہا، دریا کبھی کبھی نظروں سے اوجھل ضرور ہوا مگراس نے ہمارا، اور ہم نے اس کا ساتھ نہ چھوڑا۔دریائے سوات کا منبع کو ہِ ہندوکُش میں ہے۔وہاں سے جھیل مہوڈنڈ،وادیِ کالام سے ہوتا ہوا ضلع سوات میں آتا ہے۔ اس کے بعد بٹ خیلہ کے قریب سے رُخ بدلتے ہوئے ضلع لوئر دیر سے گزرتا ہے۔اور ضلع چارسدہ کے قریب جا کر دریائے کابل میں شامل ہو جاتا ہے۔ قدیم تاریخ کے حوالے سے اس کا ذکر ہندوؤں کی مقدس کتاب’ رگ وید‘ میں آتا ہے۔جس میں اس کا نام ’سواستو‘ ملتا ہے۔
۔۔۔ اب ہماری اور دریائے سوات کی راہیں جدا ہو چکی تھیں !
مالا کنڈ کی پہاڑیوں کو دیکھ کر آخری بار پھر ان مناظر کو کیمرے میں محفوظ کرنے کا خیال آیا۔ سو ایک مناسب جگہ رک کر سورج غروب ہونے سے قبل تصاویر بنا لی گئیں۔اس کے بعد پھر چل دئیے۔اور اگلا پڑاؤ راولپنڈی قرار پایا، کھانا کھانے کئےس۔۔۔ اس دوران کچھ ساتھیوں کی طرف سے مری کی سیر کا مشورہ پیش کیا گیا ، سو طے یہ پایا کہ کھانے کی میز پر ووٹنگ کی جائے گی۔ اور’ خالص جمہوری عمل‘سے فیصلہ کیا جائے گا۔کھانے کی تلاش میں پیرودھائی اور فیض آباد گھومے، مگرپسند کا کھانا نظر نہیں آیا۔لہٰذا سیور فوڈز گورڈن کالج روڈسے بریانی کھائی اور بس ! ’جمہوری عمل‘ بھی رہ گیا۔۔۔ شاید ہم سب میں واپس گھر جانے کی تمنا ہر بات پر حاوی ہو چکی تھی۔بالکل اسی طرح جیسے وطنِ عزیز میں حکمران اپنے گھربار، اپنے اقتدار، اپنی انا کی خاطر جمہوریت کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ اور جمہوری عمل، جس کے لیے دن رات تقاریر کرتے نہیں تھکتے، یکسر بھول جاتے ہیں۔۔۔
رات آدھی بیت چکی تھی۔ نیند کا وقت بھی تھا، اور خمارِ گندم بھی، راولپنڈی کے بعد زیادہ تر ساتھی وقتاً فوقتاً نیند کی وادی کی سیر کرتے رہے، صرف استاد جمیل تھا جو پوری لگن سے اپنے کام میں جُتا رہا۔واپسی پرنہ جانے کیوں جھیل مہوڈنڈ کا منظر میری چشم تصور میں ابھر آیا۔ جب میاں بشارت کی آواز اس خوبصورت فضا میں مسحور کن نغمے بکھیر رہی تھی۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ اس گیت کے بولوں میں کس قدر سچائی ہے
اِدھر جھوم کے گائے زندگی، اُدھر ہے موت کھڑی
کوئی کیا جانے کہاں ہے سیما، اُلجھن آن پڑی
ایک طرف زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں ، رنگینیوں اور امنگوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے اور دوسری طرف موت کا مہیب سناٹا اور ہولناک خاموشی۔کوئی نہیں جانتا کہ ان کے درمیان حد فاصل، وہ لکیر کون سی ہے۔کہ جس کے بعد موت کی عمل داری شروع ہو جاتی ہے؟ وہ کونسی سانس ہے کہ جس کے بعد سانسوں کی ڈوری ٹوٹ جاتی ہے؟ وہ کونسی دھڑکن ہے کہ جس کے بعد دھڑکن رُک جاتی ہیں ؟ زندگی کے اختتام اور موت کی ابتدا کا نقطہ نامعلوم ہے، اور نامعلوم رہے گا۔
یہی اس کائنات کاسب سے بڑاسچ ہے !
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید