FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

سربکف

 

                شمارہ ۵

مارچ اپریل ۲۰۱۶ء

 

 

                مجلسِ مشاورت

 

مفتی آرزومند سعد

مولانا ساجد خان نقشبندی

مفتی محمد آصف

عباس خان

جاوید خان صافی

جواد خان

نعمان اقبال

 

مدیر:شکیب احمد

 

 

 

 

 

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ  

 

پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ (سورہ ۹۶، العلق:۱)

 

دو رنگی چھوڑ دے ۔ ۔ ۔

 

                مدیر

 

 

ایک بلند ٹیلہ تھا۔ تمام لوگ نیچے تھے، اور "وہ” اوپر تھا۔ زمانے کی آنکھ نے رشک سے اس ٹیلے کو دیکھا جس پر اس کے مبارک قدم ٹکے ہوئے تھے، لوگوں نے اسے اس بلند ٹیلے پر چڑھ کر ایک پیش گوئی کرتے سنا، ایک سچی پیش گوئی۔ ۔ ۔ جسے دنیا نہ اس وقت جھٹلا پائی، نہ قیامت تک جھٹلا سکے گی۔

"کیا تم اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں ؟ میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔ "(صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم:۳۵۹۷)

"وہ”   وہی تھا جسے بلندی دو جہان کے خالق نے عطا کی تھی۔

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ   (سورہ ۹۴، الانشراح:۴)

ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا۔

اور جس نے قیامت تک کے لیے اپنے راستے پر چلنے والوں کو رفعت و معراج، کامرانی وسربلندی کا مژدۂ جانفزا سنایا تھا۔

وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ(سورہ ۳، آل عمران:۱۳۹)

تم ہی سربلند ہو گے۔

رفعت والے نبیﷺ   کی چشمِ نبوت نے فتنوں کو بارش کے پانی کی طرح برستے دیکھا۔ اور جو ہماری نظر سے پوشیدہ تھا، وہ ہمیں بتلا دیا گیا۔

إِنِّی أَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُیُوتِکُمْ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ

” میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔ ”

اللہ اکبر!کیسی سچی پیش گوئی ہے ! پتہ نہیں اُن پیارے لوگوں کے وقت ان فتنوں کا کوئی تصور ہو گا بھی یا نہیں۔

پہلے زمانے میں تھیٹر ہوا کرتے تھے۔ اس وقت تھیٹر دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدنا ہوتا تھا، قطار لگانی ہوتی تھی، لیکن آج نہ وہ تھیٹر ہے نہ تھیٹر کے باہر کی قطار ہے۔ سب کچھ جیب میں موبائل کی صورت میں سماچکا ہے۔

اس وقت ساری دنیا کے سامنے ظاہر تھا کہ یہ شخص آج تھیٹر دیکھ رہا ہے، چھپ نہیں سکتے، بچ نہیں سکتے، کوئی پہچان والا دیکھ سکتا تھا۔ اور اب ساری دنیا بے خبر ہے ۔ ۔ ۔   لحاف کے اندر چھپا تھیٹر ہے، باتھ روم و بیت الخلاء کے اندر تھیٹر ہے۔

پھر اس تھیٹر میں کیا ہوتا ہو گا؟ کچھ مار دھاڑ ہوتی ہو گی۔ کچھ ایکشن ہوتا ہو گا۔ کچھ جاسوسی اور سسپنس (Suspense)ہوتا ہو گا، کچھ رومانس ہوتا ہو گا، کچھ عریانیت بھی ہوتی ہو گی۔

اور اس موبائل میں ۔ ۔ ۔ فحاشی اور بے حیائی کا وہ سیلاب ہے جو ساری شرم و حیا بہا کے لے جائے ۔ ۔ ۔   شیطان جن سے شرمانے لگے۔

آج، خداوندِ قدوس کی عزت و جلالت کی قسم، فتنوں کو بارش کی طرح برستے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دیکھ لو دن بدن نت نئے فتنوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے، کمی کہیں نہیں ہے، انصاف رسوا ہے، قانون بکاؤ ہے، انسانی زندگی کھیل تماشا ہے، ننگا ناچ ایک آرٹ ہے، عریانیت اور فحاشی ایک فیشن ہے، فضا گناہوں سے آلودہ ہے،   ہر گھر میں ناچ گانے کی آواز ہے، ، ہر سو بے حیائی کا شیطانی رقص ہے، ہر سمت موسیقی کی جھنکار ہے، ہر آن شیطان کے قہقہے ہیں۔

فتنوں کی اس دھواں دھار بارش میں ۔ ۔ ۔

کچھ لوگ اکھڑ جاتے ہیں۔

کچھ لوگ فتنوں کے خلاف ثابت قدم "نظر آتے ہیں "۔

کچھ لوگ ان فتنوں کے مقابل ثابت قدم ہوتے ہیں۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی دو اقسام بتائی ہیں :

ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ (سورہ ۶۴، التغابن: ۲)

وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کچھ انکار کرنے والے ہیں، اور کچھ ایمان لانے والے ہیں۔

یوں مجموعی طور پر انسان دو اقسام میں بٹ جاتا ہے۔

۱۔ ماننے والے

۲۔ نہ ماننے والے

یہ ماننے اور نہ ماننے والے، اعمال کی بنیاد پر چار طرح کی زندگی گزارتے ہیں۔

۱۔ قالب کی زندگی

قالب جسم کو کہتے ہیں۔ ان لوگوں کی زندگی صرف اپنے جسم کے لیے ہوتی ہے۔ ان کی ساری کارکردگی کا لب لباب اپنے بدن کو لذت پہنچانا ہوتا ہے۔ چنانچہ کافر کی ساری زندگی صرف کھانا، پینا اور اپنی شہوات کو پورا کرنا، اسی کے گرد ختم ہو جاتی ہے۔ ان کا اس کے سوا اور کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔ ان کے بارے میں اللہ نے کہا:

اُولٰۗىِٕکَ کَالْاَنْعَامِ

وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں

بَلْ ہُمْ اَضَلُّ(سورہ ۷، الاعراف:۱۷۹)

بلکہ جانوروں سے بھی بدتر(بھٹکے ہوئے ) ہیں۔

کیونکہ جانوروں کی زندگی میں بھی صرف یہی کام ہیں۔ یا تو کھائے گا، پیے گا، یا پھر جماع کرے گا۔ اور یہ بھی انہیں کاموں میں مگن ہے۔

جانوروں کو عقل نہیں ہوتی، یہ سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ اللہ نے آگے ترقی کر کے کہا:

بَلْ ہُمْ اَضَلُّ- یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کر دیتے ہیں، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ (تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر آیتِ مذکورہ)

۲۔ قلب کی زندگی

یہ لوگ ایمان والے ہوتے ہیں۔ اور دین کے بنیادی احکام پر عمل بھی کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ سارے کفار و مشرکین والے کام بھی انجام دیتے ہیں۔ فیشن اور ٹپ ٹاپ میں رہنا انہیں پسند ہوتا ہے۔ مغربی طرزِ زندگی سے انسیت ہوتی ہے اور انہیں کے طریقے پسند ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ

جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ انہیں میں سے ہو گا۔

چنانچہ ان کے دوست احباب بھی اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ مجالس بھی اسی طرز کی ہوتی ہیں۔ اور ان کا اٹھنا بیٹھنا اسی روش پر ہوتا ہے۔ یہ پیٹ اور مال کے پجاری ہوتے ہیں، اور صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں۔ موت سے انہیں خوف آتا ہے۔

۳۔ ایمان کی زندگی

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نماز کے پابند ہوتے ہیں۔   ان کا لباس سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ چہرہ نبی پاکﷺ کی سنت یعنی داڑھی سے مزین ہوتا ہے۔ دین داروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ نشست و برخاست دین داروں کے ساتھ ہوتی ہے۔   دین کی محنتیں کرتے ہیں۔   اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔ دین کے کام میں دوڑ دوڑ کے حصہ لیتے ہیں۔ خوب وقت لگاتے ہیں۔ ذکر و تسبیح کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ دین کے سمجھنے اور جاننے والے ہوتے ہیں۔

اور تو اور ، دین کی بات کرتے ہیں، دعوت دیتے ہیں۔ لوگوں کو دین کے مطابق زندگی گزارنے پر ابھارتے ہیں۔ وعظ و نصیحت بھی کرتے ہیں۔ تصنیف و تالیف بھی کرتے ہیں۔

لیکن جب انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو گناہ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ شیطان ان کو ذرا سا پُش Push کرے تو فوراً اس کے پیچھے چلنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ جلوت میں متقی اور خلوت میں گناہ گار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ چھُپ کر گناہ کرتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے مولانا ہوتے ہیں۔ لوگ انہیں متقی اور پرہیزگار سمجھتے ہیں۔ علم بھی انہیں خوب ہوتا ہے۔ ان کی نیکیاں کثیر تعداد میں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اوپر سے لا الٰہ ہوتے ہیں اور اندر سے کالی بلا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس لیے گناہ سے بچتے ہیں کہ "لوگ دیکھ رہے ہیں ” یعنی اللہ کے ڈر کی وجہ سے گناہوں سے نہیں بچتے، بلکہ لوگوں کے ڈر سے بچتے ہیں۔

انہیں گناہ کرنے کا احساس بھی ہوتا ہے، اور یہ گناہ سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ رب تعالیٰ کے سامنے روتے بھی ہیں۔ لیکن جونہی انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو فوراً شیطان کے پیچھے ہولیتے ہیں۔ یعنی کلیتاً ان کا تزکیہ نہیں ہوا ہوتا۔ ۔ ۔   ۱۰۰ گناہوں میں سے ۹۵ نہیں کرتے البتہ ۵ ضرور کرتے ہیں۔ کبھی ۹۸ نہیں کرتے لیکن ایک دو گناہ ایسے ضرور ہوتے ہیں جس میں یہ لگے رہتے ہیں۔

چنانچہ یہ اعلانیہ طور پر تو خدا پرست ہوتے ہیں، البتہ خفیہ طور پر نفس پرست اور ہویٰ پرست ہوتے ہیں۔

بقول مرشدی پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم:

"یاد رکھیں !زن پرستی، زر پرستی، شہوت پرستی، نفس پرستی۔ ۔ ۔ یہ سب کی سب بت پرستی ہی کی اقسام ہیں ۔ ۔ ۔ خدا پرستی کوئی اور چیز ہے !”

(جاری۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔)

فقیر شکیبؔ احمدعفی عنہٗ

۲۱ نومبر، بروز سنیچر، ۱٠:۵۰جے صبح

 

 

 

 

 

قرآن پاک کی آیات کے حوالے کے متعلق ایک معیار کا تعین ضروری تھا۔ اس کے لیے عموماً انگریزی میں کولون کے بائیں طرف سورہ نمبر، اور دائیں جانب آیت نمبر لکھا جاتا ہے (مثلاً 1:3 یعنی پہلی سورہ کی تیسری آیت)۔ البتہ اس ترتیب کو اردو میں کرنے پر سورہ نمبر دائیں طرف اور آیت نمبر بائیں طرف کیا جاتا ہے (مثلاً ۳:۱ ) لیکن انگریزی کے اس فارمیٹ سے مانوس ہونے کے سبب ہم اسے الٹا (یعنی ۱:۳)پڑھ بیٹھتے ہیں۔ اور اگر اسے انگریزی ہی سے ہم آہنگ کر کے ۱:۳ لکھیں گے تو اردو میں لکھا ہوا ہونے کے سبب ہوسکتا ہے بعض احباب اسے بھی الٹا پڑھ لیں۔ اس کے علاوہ اس طرز پر سورہ کا نام بھی آنا ضروری ہوتا ہے، بعض لوگوں کو اس میں سہولت ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی آیت نمبر کو الفاتحہ: ۳ کے طرز پر لکھتے ہیں۔ اس فارمیٹ کی خامی یہ ہے کہ اس میں سورہ نمبر نہ لکھا ہونے کی وجہ سے قرآن کی ساری فہرست میں مطلوبہ سورہ ڈھونڈنی پڑتی ہے اور اس کے بعد آیت نمبر کی باری آتی ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے قرآنی آیات کا Standard Format چنا ہے وہ یوں ہے۔ سورہ ۱، الفاتحہ:۳۔ اس میں بغیر کسی ابہام کے حو آلہ بھی مکمل دستیاب ہوتا ہے اور تمام جزئیات بھی سمٹ جاتی ہیں۔ مضمون نگاروں سے گزارش ہے کہ حوالوں کے لیے اپنی آئندہ تحریر میں اس فارمیٹ کا استعمال کریں تاکہ مجلہ پروفیشنل ٹچ سے مزید قریب ہوسکے۔ (مدیر)

 

 

 

 

فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ

 

لہذا قرآن کے ذریعے ہر اس شخص کو نصیحت کرتے رہو جو میری وعید سے ڈرتا ہو۔ (سورہ ۵۰، ق:۴۵)

 

دعا اور اللہ مجیب الدعوات

 

                حافظ عماد الدین ابو الفداء ابنِ کثیر ﷫

 

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِیْبٌ ۭ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ   ۱٨٦؁

اور (اے پیغمبر) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ( آپ ان سے کہہ دیجیے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ لہذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں، اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پر آ جائیں۔ (آسان ترجمہ قرآن- سورہ ۲، البقرہ: ۱٨٦)

ایک اعرابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! کیا ہمارا رب قریب ہے ؟ اگر قریب ہو تو ہم اس سے سرگوشیاں کر لیں یا دور ہے ؟ اگر دور ہو تو ہم اونچی اونچی آوازوں سے اسے پکاریں، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم)

ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال پر کہ ہمارا رب کہاں ہے ؟یہ آیت اتری (ابن جریر) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جب آیت (ادعونی استجب لکم) نازل ہوئی یعنی مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا رہوں گا تو لوگوں نے پوچھا کہ دعا کس وقت کرنی چاہئے ؟ اس پر یہ آیت اتری (ابن جریج)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر وادی میں اترتے وقت بلند آوازوں سے تکبیر کہتے جا رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس آ کر فرمانے لگے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی کم سننے والے یا دور والے کو نہیں پکار رہے بلکہ جسے تم پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری سواریوں کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس ! سن لو! جنت کا خزانہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہے (مسند احمد) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا عقیدہ رکھتا ہے میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے میں اس کے قریب ہی ہوتا ہوں (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں ہلتے ہیں میں اس کے قریب ہوتا ہوں اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اس مضمون کی آیت کلام پاک میں بھی ہے فرمان ہے آیت (ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ہم محسنون ) جو تقویٰ واحسان و خلوص والے لوگ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے، حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا جاتا ہے آیت (انی معکما اسمع واری) میں تم دونوں کے ساتھ ہوں اور دیکھ رہا ہوں، مقصود یہ ہے کہ باری تعالیٰ دعا کرنے والوں کی دعا کو ضائع نہیں کرتا نہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس دعا سے غافل رہے یا نہ سنے اس نے دعا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس کے ضائع نہ ہونے کا وعدہ کیا ہے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بندہ جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتا ہے تو وہ ارحم الراحمین اس کے ہاتھوں کو خالی پھیرتے ہوئے شرماتا ہے (مسند احمد)

حضرت ابو سعید خدر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں نہ گناہ ہو نہ رشتے ناتے ٹوٹتے ہوں تو اسے اللہ تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے :

1۔ یا تو اس کی دعا اسی وقت قبول فرما کر اس کی منہ مانگی مراد پوری کرتا ہے

2۔ یا اسے ذخیرہ کر کے رکھ چھوڑتا ہے اور آخرت میں عطا فرماتا ہے

3۔ یا اس کی وجہ سے کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو ٹال دیتا ہے

لوگوں نے یہ سن کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر تو ہم بکثرت دعا مانگا کریں گے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر اللہ کے ہاں کیا کمی ہے ؟ (مسند احمد)

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ روئے زمین کا جو مسلمان اللہ عزوجل سے دعا مانگے اسے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے یا تو اسے اس کی منہ مانگی مراد ملتی ہے یا ویسی ہی برائی ٹلتی ہے جب تک کہ گناہ کی اور رشتہ داری کے کٹنے کی دعا نہ ہو (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :جب تک کوئی شخص دعا میں جلدی نہ کرے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ جلدی کرنا یہ ہے کہ کہنے لگے میں تو ہر چند دعا مانگی لیکن اللہ قبول نہیں کرتا (موطا امام مالک) بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اسے ثواب میں جنت عطا فرماتا ہے، صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ نامقبولیت کا خیال کر کے وہ نا امیدی کے ساتھ دعا مانگنا ترک کرے دے یہ جلدی کرنا ہے۔ ابو جعفر طبری کی تفسیر میں یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان کیا گیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ دل مثل برتنوں کے ہیں بعض بعض سے زیادہ نگرانی کرنے والے ہوتے ہیں، اے لوگوں تم جب اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرو تو قبولیت کا یقین رکھا کرو، سنو غفلت والے دل کی دعا اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ بھی قبول نہیں فرماتا (مسند احمد)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے دعا کی کہ الہ العالمین! عائشہ کے اس سوال کا کیا جواب ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے مراد اس سے وہ شخص ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہو اور سچی نیت اور نیک دلی کے ساتھ مجھے پکارے تو میں لبیک کہہ کر اس کی حاجت ضرور پوری کر دیتا ہوں (ابن مردویہ) یہ حدیث اسناد کی رو سے غریب ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اے اللہ تو نے دعا کا حکم دیا ہے اور اجابت کا وعدہ فرمایا ہے میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں اے لاشریک اللہ میں حاضر ہوں حمد و نعمت اور ملک تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں میری گواہی ہے کہ تو نرالا یکتا بے مثل اور ایک ہی ہے تو پاک ہے، بیوی بچوں سے دور ہے تیرا ہم پلہ کوئی نہیں تیری کفو کا کوئی نہیں تجھ جیسا کوئی نہیں میری گواہی کہ تیرا وعدہ سچا تیری ملاقات حق جنت و دوزخ قیامت اور دوبارہ جینا یہ سب برحق امر ہیں (ابن مردویہ)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے اے ابن آدم! ایک چیز تو تیری ہے ایک میری ہے اور ایک مجھ اور تجھ میں مشترک ہے خالص میرا حق تو یہ ہے کہ ایک میری ہی عبادت کرے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ گویا میرے لیے مخصوص یہ ہے کہ تیرے ہر ہر عمل کا پورا پورا بدلہ میں تجھے ضرور دوں گا کسی نیکی کو ضائع نہ کروں گا مشترک چیز یہ ہے کہ تو دعا کر اور میں قبول کروں تیرا کام دعا کرنا اور میرا کام قبول کرنا (بزار)

دعا کی اس آیت کو روزوں کے احکام کی آیتوں کے درمیان ٭ وارد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ روزے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو دعا کی ترغیب ہو بلکہ روزہ افطار کے وقت وہ بکثرت دعائیں کیا کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ روزے دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ افطار کے وقت اپنے گھر والوں کو اور بچوں کو سب کو بلا لیتے اور دعائیں کیا کرتے تھے (ابوداود طیالسی)

ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے اور اس میں صحابی کی یہ دعا منقول ہے :

اللہم انی اسألک برحمتک اللتی وسعت کل شئی ان تغفرلی

یعنی اے اللہ میں تیری اس رحمت کو تجھے یاد دلا کر جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ معاف فرما دے اور حدیث میں تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی عادل بادشاہ، روزے دار اور مظلوم اسے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بلند کرے گا مظلوم کی بددعا کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا گو دیر سے کروں (مسند، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ )٭

 

 

 

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ   ۚ

 

جس نے رسول کی اطاعت کی، حقیقت میں اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (سورہ ۴، النساء:۸۰)

 

الاحادیث المنتخبہ

 

                پیش کش: مدیر

 

اگرچہ ایک ہی آیت ہو

 

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِیُّ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِیَّۃَ عَنْ أَبِی کَبْشَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بَلِّغُوا عَنِّی وَلَوْ آیَۃً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَلَا حَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ

ابو عاصم ضحاک بن مخلد اوزاعی حسان بن عطیہ ابوکبشہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: میری بات دوسرے لوگوں کو پہنچا دو اگرچہ وہ ایک ہی آیت ہو۔ اور بنی اسرائیل کے واقعات (اگر تم چاہو تو) بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور جس شخص نے مجھ پر قصداً جھوٹ بولا تو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے۔

(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 718 )

ادارتی نوٹ: اس حدیث کے تینوں ٹکڑے عام طور پر الگ الگ مواقع پر مستعمل ہیں۔ البتہ حدیث کے مطابق چونکہ تینوں یکجا ہیں، سو تینوں ٹکڑوں کو الگ الگ عنوانات کے تحت نہ لاتے ہوئے ایک ہی جگہ درج کیا گیا ہے۔

مکررات: ٭ جامع ترمذی:جلد دوم، حدیث نمبر 578٭سنن دارمی:جلد اول، حدیث نمبر 541٭ مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1974، 1983، 2087، 2379، 2496

 

ہدایت دینے والا میں ہوں

 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَابْنُ أَبِی عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ عَنْ یَزِیدَ وَہُوَ ابْنُ کَیْسَانَ عَنْ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَمِّہِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ أَشْہَدُ لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللَّہُ إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ الْآیَۃَ

محمد بن عباد، ابن ابی عمر، مروان، یزید یعنی ابن کیسان، ابوکیسان، ابوحازم، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے چچا سے ان کی موت کے وقت فرمایا لا اِلٰہ اِلا اللہ کہہ دو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دے دوں گا ابوطالب نے انکار کر دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَا ءُ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ)سورہ 28، القصص : 56) نازل فرمائی یعنی بے شک تو ہدایت نہیں کرسکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔

(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 137)

مکررات: ٭ صحیح بخاری:جلد اول، حدیث نمبر 1298 ٭صحیح بخاری:جلد دوم، حدیث نمبر 1117 ٭صحیح بخاری:جلد دوم، حدیث نمبر 1859 ٭صحیح بخاری:جلد دوم، حدیث نمبر 1975

٭٭٭

 

 

 

 

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ ۭ

 

اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ (سورہ ۱۶، النحل:۱۲۵)

 

بھائی شمیم احمد سے ایک ملاقات

 

                شمیم احمد / سنیل کمار

 

 

احمد اوّاہ:السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

شمیم احمد:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

س:شمیم بھائی آپ دہلی کب اور کہاں سے آئے ہیں ؟

ج:میں دہلی پرسوں آیا تھا، میں اصل میں جماعت میں چارمہینے لگا کر لوٹاہوں، ہماری جماعت نے بہارمونگیرضلع میں چارمہینے لگائے ہیں، حضرت سے فون پرپہلے بات ہو گئی تھی کہ ۱۳ ؍تاریخ کی شام کودہلی میں ملاقات ہو جائے گی، اس لئے مرکزمیں رک گیا تھا، آج گھرجانے کا ارادہ ہے۔

س:جماعت کہاں کی تھی اور امیرصاحب کہاں کے تھے ؟

ج:جماعت میں الگ الگ جگہ سے لوگ تھے، پانچ لوگ میرٹھ کے تھے، دوپانی پت ہریانہ کے، امیرصاحب غازی پورکے ایک قاری صاحب تھے جومرکزکے ایک مدرسہ میں پڑھاتے ہیں، دوہم، میں اور میرے چھوٹے بھائی نسیم احمد، جماعت میں سبھی ساتھی بہت اچھے تھے بس میرٹھ کے ایک بڑے میاں بہت ہی گرم مزاج کے تھے، مگرامیرصاحب بہت ہی نرم سوبھاؤکے تھے، ذراسی دیرمیں منالیتے تھے۔

س:جماعت کی کچھ خاص باتیں بتائیے ؟

ج:ہم گاؤں کے لوگ وہ بھی ہریانہ کے، خاص بات کیابتائیں ؟بس ایک بات چارمہینے تک دل ودماغ پرچھائی رہی، مرکزنظام الدین میں حضرت مولانا ابراہیم دیولاصاحب کے بیان میں آخرت اور جنت ودوزخ کاذکرسنا تھا، اس طرح انھوں نے بیان کیاجس طرح دیکھنے والاکمنٹری بیان کرتا ہے، رات کوسویاتوخواب میں دیکھاکہ حشر کے میدان میں ہوں اور حساب کتاب ہورہا ہے، ایساہولناک منظرہے کہ بس تصوربھی نہیں کیاجا سکتا، گناہ گاروں کاحال ایسابرا ہے کہ بس اللہ بچائے، دوزخ بھی سامنے دکھائی دے رہی تھی، اور جنت بھی، میراحال ڈھل مل ہے کبھی لگتا ہے جہنم میں ڈالاجائے گاکبھی ہوتا ہے کہ نہیں جان بچ گئی، آنکھ کھلی تومجھ پراس قدرخوف طاری ہواکہ نینداڑگئی، اگلے روزسفرتھا، ٹرین میں بھی نیندنہ آئی، رات میں فضائل اعمال کی تعلیم ہوئی تواوربھی نقشہ سامنے آ گیا، ایک ہفتہ تک مجھے ایک منٹ کونیندنہیں آئی، کئی ڈاکٹروں کودکھایا، امیرصاحب نے سرکی مالش کرائی ساتھیوں نے پاؤں بھی دبائے، ساتھیوں کامشورہ ہواکہ اس کوواپس گھربھیج دیاجائے، مگرمیں نے صاف منع کر دیاکہ اللہ کے راستہ میں موت آجائے گی توآجائے، چارمہینے سے ایک دن پہلے میری میت بھی نہ لے جائی جائے۔

امیرصاحب بہت پریشان تھے مگران کی عادت تھی کہ ہرمشکل میں دورکعت صلوٰ ۃالحاجۃ پڑھ کراللہ سے فریادکرتے تھے، ایک رات انھوں نے ساتھیوں کومیری مالش اور خدمت وغیرہ کے لئے لگایا اور خودمسجدکے ایک کونے میں

جا کردعاشروع کی، الحمدللہ مجھے نیندآ گئی، میں نے سوتے میں خواب دیکھا، میں محشرکے میدان میں ہوں اور بہت ڈررہاہوں، کہ میراحساب کس طرح ہو گا؟

میں نے دیکھاکہ لوگوں میں شورہونے لگا، ہمارے نبیﷺ تشریف لارہے ہیں، میں شورکی طرف کوبڑھاتواللہ کے رسولﷺ ایک خوب صورت چادراوڑھے ہوئے ہیں، اور آپ نے دورسے اتنی بھیڑمیں مجھے آوازلگائی، میں جلدی جھپٹا، بھیڑکوادھرادھرکرتے ہوئے آپ کے پاس پہنچا، آپ نے اپنی چادرکا ایک حصہ میرے سرپرڈال دیا، اور مجھے ایسالگاجیسے میں کسی رحمت کے سایہ میں آ گیاہوں، اس کے بعدمیری آنکھ کھل گئی، نیندنہ آنے کی شکایت تودورہو گئی مگردل ودماغ پرہروقت آخرت کامنظراورجنت ودوزخ جیسے بالکل ہی آنکھوں کے سامنے ہوں، میراحال جماعت میں یہ رہاکہ امیرصاحب اکثرمجھ سے ہی بات کرواتے تھے، اور میراحال یہ تھاکہ مجھے بس موت کے بعدکی زندگی دنیامیں ہی دکھائی دیتی تھی، اس لئے بس موت کے بعد، میدان حشر، جنت ودوزخ کی باتیں کرتا تھا، میرے ساتھی کہنے لگے کہ تم توجنت ودوزخ کاذکرایسے کرتے ہو جیسے سامنے ہو، امیرصاحب کہنے لگے کہ تمھارے ساتھ وقت لگا کرپوری جماعت کا ایمان، ایمان ہو گیا ہے۔

س:ماشاءاللہ بہت قابل رشک حال ہے، یہ حال توصحابہ کاہوتا تھا، کہ وہ کہتے تھے اگرہم جنت اور جہنم کودیکھ لیں توہمارے ایمان میں کوئی اضافہ نہ ہو!

ج:صحابہ کے ایمان کی توکیابات ہے، میراحال توبس مولانا ابراہیم صاحب کے بیان کی برکت سے، اس کا ایک قطرہ اس گندہ کومیرے اللہ نے دکھادیا، میرے لئے یہ بھی بڑی نعمت ہے کہ اللہ تعالی بس اس کوباقی رکھیں اور موت کے وقت کام آجائے، مگریہ بات ضرورہے کہ موت کے بعدکی زندگی کایہ خیال انسان کی زندگی کوبدل دیتا ہے، اتنی احتیاط جیون میں آجاتی ہے، اصل یہ ہے کہ اس حقیقت کے سامنے آنے کے بعدزندگی ہی الگ ہے، انسان بالکل انسان بن جاتا ہے، ایک بارمیں دہلی میں حضرت کی گاڑی میں سونی پت گیاتوحضرت کے ایک خادم حافظ شہاب الدین ساتھ تھے، حضرت پنجاب جا رہے تھے، گاڑی میں جگہ تھی، حضرت نے کہاکہ سونی پت تک ساتھ چلو، بات بھی ہو جائے گی اور تم وہاں سے نکل جانا، راستہ بھرحافظ شہاب الدین حضرت سے بس جنت کی بات کرتے رہے، کبھی کہتے حضرت جنت میں توجب آپ کاقافلہ چلا کرے گاتوپوری دنیاکے اتنے سارے لوگ ہوں گے، وہاں توجام نہیں ملے گا؟کبھی کہتے وہاں ٹریفک پولیس کی ضرورت تونہیں ہو گی، کبھی کہتے حضرت وہاں آپ کے ساتھ ذکرکی مجلس بھی ہو گی ؟کبھی کہتے حضرت جنت میں خودآپ کے ساتھ دنیاجڑجائے گی، ایسانہ ہوکہ ہم دیہاتیوں کوآپ سے ملنے بھی نہ دیاجائے، حضرت بھی ان کی اس طرح کی دیوانگی کی باتوں سے بہت خوش ہورہے تھے اور مزے لے رہے تھے، میں یہ سوچ رہا تھاکہ یہ حافظ جی کیسی نشہ والوں کی طرح دیوانگی کی باتیں کررہے ہیں، اور حضرت بھی ان کی ہربات کاجواب دے رہے ہیں، اس بارجماعت میں میرے اللہ نے بس ایک خواب دکھادیاتوآنکھیں کھل گئیں، ایسالگاجیسے کسی سوتے کوخواب دیکھتے ہوئے کوئی جگادے، پہلے مجھے حافظ جی کی بات خواب اور نشہ دکھائی دے رہی تھی مگراب لگتا ہے کہ میں خواب اور نشہ میں تھا اب جاگاہوں، اور جھوٹ کانشہ اترا ہے، اور سچ میرے اللہ نے مجھے دکھادیا ہے، بس میرے اللہ میرے اس حال کوباقی رکھے، میرے نبیﷺنے کتنی سچی بات فرمائی کہ ہوشیاروہ ہے جوآخرت کی حقیقی اور ہمیشہ کی زندگی کویادرکھے اور فانی دنیاکی طرف نظرنہ لگائے۔

س:آپ نے واقعی بڑے پتہ کی بات کہی، آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

ج:میں ہریانہ کے ضلع بھوانی کے ایک لالہ خاندان میں ۲ ؍اپریل ۱۹۶۹ ءمیں پیداہوا، میرے پتاجی نے میرانام سنیل کماررکھا، میرے ایک بڑے بھائی اور تین بہنیں تھیں، دومجھ سے بڑی اور ایک چھوٹی تھیں، میرے پتاجی گاؤں میں مٹھائی کی دوکان کرتے تھے، سنہ ۱۹۴۷ ءمیں دیش کے بٹوارہ کے وقت مین روڈپرایک چھوٹی سی مسجدمیں، جومسلمانوں کے مارے جانے اور پاکستان جانے کی وجہ سے ویران ہو گئی تھی، اس کی ایک دوکان اور ایک مکان مسجدسے لگاہوا تھاجوامام کے لئے بنایا گیا تھا، پتاجی نے اس دوکان میں اپنی دوکان کر لی تھی، وہاں جاتے اور مٹھائی سموسے وغیرہ بنا کربیچتے تھے، وہ اچھی چلی اور بعدمیں انھوں نے وہاں ریسٹورینٹ کر لیا تھا۔

س:مسجدکی جگہ میں ریسٹورنٹ بنالیا تھا؟

ج:نہیں، پتاجی جب تک زندہ رہے وہ مسجدکابہت ادب کرتے تھے صبح اندھیرے اندھیرے مسجدمیں جھاڑوخودلگاتے تھے۔ اور وہاں منبرپرایک قرآن شریف رکھا تھا اس کولوبان اور دھوپ بتی کی دھونی دیتے، اور اس کاسنسکارکرتے، بہت لوگوں نے چاہاکہ مسجدمیں مورتی رکھ کراسے مندربنالیاجائے مگرپتاجی نے کبھی ایسانہ کرنے دیا اسی کی وجہ سے کئی بارپتاجی کوماربھی کھانی پڑی، وہ کہتے تھے کہ جب تم لوگ شیومندرمیں شیوجی کوہٹا کرہنومان کونہیں رکھتے تواللہ کے مندرمیں دوسروں کوکیسے رکھنے کوکہتے ہو، ۲۰۰۷ ءمیں میرے پتاجی کادیہانت (انتقال )ہو گیا، میں اور میرے بڑے بھائی دونوں ریسٹورنٹ کرتے تھے، اور سب سے بڑے بھائی گاؤں کی دوکان میں کرانہ کی دوکان کرتے تھے، اب میں نے ریسٹورنٹ چھوڑدیا ہے اور ایک دوکان روہتک میں بہت اچھی جگہ لے لی ہے، مگراب جماعت کے بعدمیں نے ارادہ کیا ہے کہ بس اب تواصل کاروبارآخرت کا کرنا ہے، ابھی ارمغان ملا، اس پرماجددیوبندی کاشعرپڑھنے کوملا:

کاروبارِ دعوتِ اسلام بڑھتا ہے سدا

کیا خبر اس کو کہ جس نے یہ تجارت کی نہیں

یہ پوری دنیا اچھے سے اور اچھے کی طرف بڑھ رہی ہے کوئی گاؤں میں کام کرتا ہے، اسے شہرمیں کوئی اچھی دوکان مل جائے توایک آن میں سب کچھ چھوڑکرگھرباربیچ کرشہرمیں آجاتا ہے، سنا ہے ایک ہزارخاندان روزانہ دہلی آ کربس جاتے ہیں، اس لئے کہ انھیں وہاں اپنے گاؤں اور شہروں سے زیادہ اچھاکاروباراوررہناسہنادکھائی دے رہا ہے، جس کاروبارمیں انسان کومعلوم ہو جائے کہ نفع زیادہ ہورہا ہے توآدمی ساری پونجی بیچ کراپناسب کچھ کاروبارمیں لگادیتا ہے، بلکہ قرض تک لے کر لگادیتا ہے، اگردنیاوی زندگی دھوکہ ہے اور فانی ہے اور اس میں کیاشک ہے جب دنیابنانے والے رب نے ہی اسے متاع الغروربتایا ہے اور آخرت ہمیشہ کے لئے ہے، وہاں کانفع اصل نفع اور وہاں کاگھاٹا اصل گھاٹا ہے، توآخرت کی تجارت کے لحاظ سے دعوت سے بڑاکوئی دھندہ نہیں، اس لئے بھائی اگراس سے زیادہ نفع کاکوئی دھندہ اور بزنس ہوتاتواس دنیاکے سب سے ہوشیارلوگ نبی اور رسول وہی کام کرتے۔

ہمارے حضرت خوب پتہ کی بات کہتے ہیں، اس دھندہ میں محنت بھی کم اور پونجی بھی کم لگتی ہے، لوگ کمائیں اور ہمارے کھاتے میں جمع کرتے جائیں، ایک آدمی ایمان میں آ گیا اس کے قبول ایمان کا اور زندگی بھرجونیکیاں نماز، روزہ، ذکروتلاوت، صدقہ اور دعوت جوبھی وہ نیک کام کرے گا اس کے تمام اعمال کامقبول اجرایمان کی دعوت دینے والے کوملتارہے گا، اور اس کی نسلوں میں قیامت تک جتنے لوگ ایمان میں آئیں گے، ان کے ایمان اور اعمال کا اجرذریعہ بننے والے کے کھاتہ میں جمع ہوتارہے گا، گویایہ دھندہ ایسا ہے کہ دعوت کے تاجرکاہرگاہک اس کارٹیلراورتجارتی نمائندہ بھی بنتاجاتا ہے، اس لئے ماجدصاحب کایہ شعربالکل سچالگاکہ یہ تجارت مسلسل بڑھتی ہی رہتی ہے، اس میں خسارہ کاسوال ہی نہیں۔ تومیں نے اپنے وقت اور صلاحیت کوجومیری سچی پونجی ہے روہتک کی دوکان چھوڑکراس بڑے بزنس میں لگادینے کا ارادہ کر لیا ہے۔

س:پھرآپ نے روزگارکے لئے کیاسوچا؟

ج:مولانا احمد!آپ اپنے ماتحتوں کوکچھ بانٹ رہے ہوں اور ایک آدمی اس وقت آپ کے کسی کام میں مشغول ہوتوکیاآپ اس کونہیں دیں گے ؟آپ یقیناًاس کاحصہ اور وں سے زیادہ محفوظ کریں گے، یہ توہمارادھوکہ ہے کہ ہم کماتے ہیں، رزّ اق تواللہ کی ذات ہے اگراس کے دین کے لئے اپنے کووقف کر دیں گے تووہ دوسروں سے اچھاکھلائیں پلائیں گے، میراتوپکایقین ہے۔

س:اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیں ؟

ج:پتاجی کے دیہانت کے بعدتین سال تک میں اور میرے بڑے بھائی مسجدکی صفائی کرتے اور صبح وشام قرآن مجیدکودھوپ بتی کی دھونی دیتے اور دن چھپتے ہی مسجدمیں چراغ جلاتے کام ٹھیک چل رہا تھا، میرے مالک کواپنے گھرکی خدمت کابدلہ مجھے دینا تھا اس لئے میرے گھرایک شیطان کوبھیجا، میرے بھتیجے کی شادی ہوئی، پھرتے پھرتے جس پنڈت جی کوبلایاوہ ہمارے ریسٹورنٹ کے پاس والے گاؤں کے تھے، انھوں نے شادی کے بعدمجھے گھرآ کرملنے کے لئے کہا اور بتایاکہ میں نے پترے میں تمھارے بھوشیہ

(مستقبل )کے بارے میں ایک بات دیکھی ہے، وہ بتانی ہے، بات کچھ اس طرح کہی کہ میں بے چین ہو گیا، اور شادی کے تیسرے دن پنڈت جی کے گھرپہنچا، پنڈت جی نے پہلے تواپنے جیوتش وگیان کامجھ پررعب جمایا، فلاں منتری کومیں نے اتنے دن پہلے بتادیا تھاوہ ہارگیا، فلاں جیت گیا، اس نے بتانے سے فیکٹری کھولی کروڑپتی بن گیا، پھرمجھ سے کہامجھے شیوجی کی طرف سے آدیش ہوا ہے کہ تمھارے پتاجی بڑے بھگت تھے اس لئے میں تمھارے ریسٹورنٹ پرکچھ دن تک آ کرجاپ کروں اور آرتی اتاروں، ورنہ آپ کے کاروباراورجان پرشنی کاسایہ پڑجائے گا، میں آپ سے اس کے لئے کوئی خرچ بھی نہ لوں گابس کوئی جگہ مجھے تنہائی میں جاپ کرنے کی چاہئے، میں نے بھائی سے مشورہ کیاتوانھوں نے اجازت دے دی، مسجدکے صحن میں ایک جگہ ان کودے دی گئی، جہاں انھوں نے آرتی کرتے کرتے مورتی رکھ لی، وہ روڈپرجگہ تھی وہاں ان کی خوب دوکان جم گئی، وہ مجھے اور میرے بھائی کوسمجھاتے رہے اور ہمیں تیارکرکے قرآن مجیدوہاں سے اٹھوا کرمحراب میں مورتی رکھوادی، وہ توکہہ رہے تھے کہ اس قرآن کوباندھ کرکسی کنویں میں ڈال دیں، مگرہم نے پتاجی کی یادگارسمجھ کرگھرمیں لا کررکھ لیا، جس روزمورتی رکھی گئی، ریسٹورنٹ میں گیس سلنڈرمیں آگ لگ گئی، جس سے ہم لوگ کسی طرح بچ گئے، تین دن کے بعدمیرے بڑے بھائی موٹرسائیکل سے گرے اور ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی، ہم نے ماں سے مشورہ کیا، ماں نے کہاوہ پنڈت جی تمھارے ساتھ راکشش (شیطان )لگ گیا، سارے جیون سے مالک کے گھرکاسنسکارکرتے تھے چین سے جی رہے تھے، اب اس کے چکرمیں پڑکرتم دکھی ہو گئے ہو، ہم دونوں بھائیوں نے پنڈت جی کووہاں سے چلتا کرنے کی سوچی، مگرایک سال میں ان کابہت میدان بن گیا تھا، ایک دن ایسے ہی میں نے پنڈت جی سے کہاآپ نے مالک کے مندرمیں شیوجی کی مورتی رکھ دی ہے اس سے اوپروالامالک بہت ناراض ہے، آپ سے ہم سے بھی زیادہ ناراض ہے اگرآپ یہاں سے جگہ چھوڑکرنہ گئے، توایک ہفتہ میں آپ کی پتنی یابچے مرجائیں گے، مجھے پتاجی نے سپنے میں بتایا ہے۔

س:آپ کوایساسپنادکھائی دیا تھاکیا؟

ج:نہیں، میں نے ایسے ہی ڈرانے کے لئے کہا تھا، کہ زبردستی اس سے کرنامشکل تھی، سوچا تھاشایدڈرجائے اور ہماراکام بن جائے۔

س:توپھرکیا ہو                 ا؟

ج:پنڈت جی کواپنے دھندے کے لئے ایسی مین روڈکی جگہ کہاں ملتی، وہ جگہ چھوڑنے کوتیارنہ ہوئے، مالک کا کرنا ایک رات پنڈت جی اپنی بیوی کے ساتھ سوئے، بیوی پہلے اٹھتی تھی، مگرصبح کوپنڈت جی اٹھے توپتنی کوسوتے ہوئے پایا، اٹھایاتومعلوم ہواکہ ہمیشہ کے لئے سوچکی ہے، پنڈت جی کاحال خراب ہو گیا، مجھے معلوم ہواتومجھے دکھ بھی ہواکہ بیچارے کے ساتھ حادثہ ہوا، مگرخوشی زیادہ ہوئی کہ میراتیراندھیرے میں لگ گیا، تین دن کے بعدمیں نے بات ذرا اور پکی کی، کہ پنڈت جی میں نے ایک سپنا اور دیکھا ہے کہ کل تک پنڈت جی یہ مورتی یہاں سے ہٹا کرنہ جائیں گے توان کے تینوں بچے مرجائیں گے، پنڈت جی ڈرے ہوئے تھے انھوں نے وہ مورتی وہاں سے اٹھائی اور اپنابستربھی وہاں سے ہٹالیا، میں نے قرآن شریف لا کروہیں رکھ دیا، جب سے ہم نے مورتی وہاں رکھی تھی ہمارے ریسٹورنٹ کوبھی جیسے کسی نے باندھ دیاہو، جیسے ہی قرآن وہاں واپس رکھا، دوبارہ کاروباراچھی طرح چلنے لگا، ایک روزظفرنام کے ایک ڈاڑھی والے صاحب میرے پاس آئے اور بولے میں پہلے ہندوتھا اب مسلمان ہو گیاہوں، میں یہاں فیکٹری میں کام کرتاہوں یہاں کئی مسلمان رہتے ہیں، ان کونمازکی بہت پریشانی ہے، آپ مالک کے گھرکوصاف کرتے ہیں، یہاں پرچراغ جلاتے ہیں مالک کی پوجاکے لئے یہ مسجدکسی نے بنائی ہو گی، آپ یہ مسجدمسلمانوں کے سپردکر دو، اور ہم تمھیں اس کے بدلہ میں پیسے بھی دے دیں گے، دوتین بعدوہ دولوگوں کولے کرآئے، اور ڈھائی لاکھ ان سے لے کران کوسُپردکرنے کی بات ہو گئی، مگران پیسوں کے آنے سے میرے بیوپارکی برکت ہی اڑگئی، اور ریسٹورنٹ بالکل ٹھنڈاپڑا گیا، مسجدبہت موقع کی تھی نمازی بڑھتے گئے، جمعہ کے دن دورسڑک تک صفیں بن جاتیں، ایک روزظفرصاحب ممبئی کے ایک حاجی صاحب کولے کرمیرے پاس آئے اور بولے کہ آپ اس ریسٹورنٹ اور گھرکومسجدکوبڑھانے کے لئے دے دیں اور آپ روہتک میں کوئی جگہ لے کروہاں دوکان کر لیں، آپ کاریسٹورنٹ یہاں چل بھی نہیں رہا ہے، ہم نے ماں سے مشورہ کیا، ماں نے کہاٹھیک ہے کر لو، ساڑھے سات لاکھ روپئے میں بات طے ہو گئی، چارمہینوں کاوقت پیسوں کے لئے طے ہوا، چارمہینوں میں پیسوں کا انتظام نہ ہوسکاتوظفرصاحب کوکسی نے مولانامحمدکلیم صاحب کاپتہ اور فون نمبردیا، وہ دہلی گئے، حضرت سے ملے، حضرت نے مجھ سے فون پربات کی اور دومہینے اور بڑھانے کوکہا، میں نے دودن بعددومہینے وقت اور بڑھادیا، ظفرصاحب نے ڈیڑھ مہینہ میں پیسے لا کرمجھے دے دئیے، میں نے ایفی یوڈبنا کر دے دیا، اور اپناسامان اٹھالیا، اس کے بعداگلے جمعہ کوظفرصاحب نے حضرت کووہاں آ کرجمعہ پڑھانے کوکہا، حضرت نے وقت دے دیا، ظفرصاحب نے کہابڑے مولاناصاحب ہمارے دھرم گروآرہے ہیں آپ دونوں بھائی ان سے ضرورمل کران سے دعا اور آشیروادلے لیں، جمعہ سے پہلی رات میں نے خواب دیکھاکہ دس بڑے سانپ ہیں، وہ مسجدسے نکلے اور ہمارے گھرکی طرف دوڑرہے ہیں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ دسوں تمھارے گھروالوں اور تمھارے کاروبارکوکھالیں گے، میری آنکھ کھلی تومیں بہت ڈراہوا تھا، ڈرکی وجہ سے میں صبح دس بجے مسجدپہنچ گیا، میرے بڑے بھائی ساتھ تھے، حضرت ۱۲ ؍کے بعدآئے، ہم نے ان کے ساتھ ناشتہ کیا اور حضرت سے میں نے اپنے خواب کے بارے میں بتایا، کہ ڈھائی لاکھ مسجدکے اور ساڑھے سات لاکھ گھراورریسٹورنٹ کے ہوئے، دس لاکھ روپئے اس مسجدکے میں نے لئے ہیں، حضرت نے کہایہ مالک کاگھرہے، اور ہم سب مالک کے بندے ہیں، فرمانبردارغلام اور بندے بن کرہمیں خودمسجدمیں پیسہ لگانا اور اپنے اکیلے مالک کی عبادت کرنی چاہئے، آپ نے پیسے لے کریہ مسجدخالی کی ہے یہ آپ کے لئے حلال نہیں، اور ہمارے نبیﷺ نے بتایا ہے کہ حرام مال کوگنجے سانپ کی شکل میں دوزخ میں لایاجائے گاتوحرام کھانے والے کوڈسے گا، حضرت کے ساتھ حاجی شکیل صاحب بھی تھے، حضرت نے مجھے اور میرے بھائی کوالگ مولاناکے حجرہ میں بات کرنے کے لئے بھیج دیا، حاجی صاحب نے ہمیں بہت محبت سے سمجھایا اور اسلام کی دعوت دی، زندگی کے حالات میں خودہم لوگ اندرسے اسلام کے قریب تھے، رات کے خواب کا اثرتازہ تھا، ہم دونوں نے کلمہ پڑھ لیا، حضرت نے کلمہ پڑھوایا، حضرت نے میرے بھائی کانام محمدشکیل اور میرانام محمدشمیم رکھا، ہمیں وضوکرائی اور ہم نے حضرت کے ساتھ پہلی جمعہ کی نمازپڑھی نمازکے بعدہم نے حضرت سے وعدہ کیاکہ دس لاکھ روپئے ہم دونوں بھائی جلدی یاتوروہتک کی دوکان بیچ کریاکسی طرح انتظام کرکے لوٹادیں گے، حضرت نے کہاٹھیک ہے، آپ نیت پکی رکھواللہ تعالی سہولت سے جب انتظام کرادیں لوٹادینا، اس سے اس مسجدکی دوبارہ بڑی عمارت بناناشروع کریں گے، بھائی ظفرستمبرمیں جماعت میں چلّے کوجا رہے تھے، انھوں نے حضرت سے فون پربات کرائی، حضرت نے ہمیں مشورہ دیاکہ آپ دونوں بھائی جماعت میں چالیس روزضرورلگالیں، پہلے ایک بھائی چلے جائیں اس کے بعددوسرے بھائی چلے جائیں، ماں سے مشورہ کیا، کون پہلے جائے، ماں نے کہادھرم کے کام میں دیرنہیں کرنی چاہئے تم دونوں ساتھ چلے جاؤ، ظفربھائی کے ساتھ ہم نے پہلاچلہ ستمبر۲۰۱۱ ءمیں لگایا، واپس آ کرہم نے پہلے ماں کوآ کرپوری جماعت کی کارگذاری سنائی، وہ الحمدللہ بہت آسانی سے اسلام قبول کرنے کوتیارہو گئیں، اس کے بعدہمارے بچے اور گھروالیاں بھی تھوڑی تھوڑی کوشش سے ایمان میں آ گئیں۔

س:مسجدکے وہ دس لاکھ روپئے واپس ہو گئے ؟

ج:اللہ نے نیت کی برکت سے بالکل آسانی سے کام کرادیاہم لوگوں نے ایک نئی آبادی میں ایک پلاٹ ابھی کچھ روزپہلے دولاکھ روپئے کاخریدا تھا، اچانک اس علاقہ کے پاس ایک ہائی وے روڈنکل گیا، مٹی ڈالتے ہی زمین کے بھاؤدس گنے بڑھ گئے، یہ پلاٹ بیس لاکھ روپئے کابک گیا، ہم نے دس لاکھ روپئے ظفربھائی کودئیے، دونوں بھائیوں کی طرف سے پچاس پچاس ہزارروپئے مزیدمسجدبنوانے کے لئے اپنی طرف سے دئیے، اور نولاکھ روپئے کی ایک دوکان روہتک میں خریدلی، بیس فددوکان ہے۔ الحمدللہ ریسٹورنٹ کے لئے بہت اچھی جگہ پرہے، بڑے بھائی اس میں بیٹھ رہے ہیں۔

س:آپ نے اپنے گھروالوں کے دین سیکھنے کاکچھ انتظام کیا؟

ج:ہمارے یہاں ایک قاری صاحب ہیں جوہانسوٹ گجرات میں پڑھے میران سے ہم سب گھروالے قرآن شریف اردواوردینیات پڑھ رہے ہیں۔

س:دعوت کے لئے کیا کررہے ہیں آپ ؟

ج:الحمدللہ علاقہ کے جماعت کے کام میں جڑتے ہیں۔ ۱۲ء میں اور ۱۳ء میں چلہ لگایا، اس سال چارمہینے بھی اللہ نے لگوادئیے، اور الحمدللہ نے وہ پنڈت جی جنھوں نے مسجدمیں مورتی رکھی تھی وہ بھی ایمان میں آ گئے ہیں، کچھ لوگ توشوق سے مانتے ہیں، کچھ لوگوں کوخوف سے مانناپڑتا ہے، پنڈت جی ایک کے بعدایک حادثہ سے ڈرکراسلام میں آئے ہیں۔

س:ان کے بارے میں بتائیے ؟

ج:اب مجھے جانا ہے، ہماری گاڑی کاوقت ہے، میں ان کولے کرآؤں گا، ان کی کہانی ان سے ہی سنوادوں گا۔

س:ارمغان پڑھنے والوں کوکچھ پیغام دیجئے ؟

ج:دنیاکے کسی افسرمنتری کے گھریا اس کی پارٹی کاکچھ کام کوئی کر دے، تووہ اس کوضرورنوازتا ہے، سارے حاکموں کے حاکم، کن کے اشارے سے ساری کائنات کوبنانے والے کے گھرمسجدمیں اس کے دین کی ذراخدمت کرکے تودیکھے کیسے نوازتے ہیں میرے مالک! میرے پتاجی نے ذراسی جھاڑواس کے گھرمیں لگائی، اس کے کلام کاسنسکارکیا، ہمارے پورے خاندان کودین سے اجڑے دیارہریانہ میں اور اس کے بھی بھوانی کے ویران ترین علاقہ میں کس طرح ہدایت سے نوازا، ہرایک اس کاتجربہ کرکے دیکھ لے۔

س:واقعی بہت کام کی بات آپ نے کہی۔ جزاکم اللہ۔ فی امان اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ

ج:وعلیکم السلام دعاؤں میں ضروریادرکھیں۔ ٭

 

فکری امانت

"سربکف” مجلہ آپ کو کیسا لگا؟ کیا "سربکف” آپ کے ذوق پر کھرا اترتا ہے ؟ اس کی تحریروں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟

اور۔ ۔ ۔ اس کی بہتری کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں ؟

اسے پڑھ کر آپ کے ذہن میں جو خیالات آتے ہیں وہ ہم سب کی امانت ہے۔ آپ اسے ہم تک پہنچائیں، ہم ان شاء اللہ اسے بہتر اندازمیں سربکف کے قارئین تک پہنچا دیں گے۔

اپنی رائے دینے کے لیے اس صفحے پر جائیں (کلک ): http://sarbakaf.blogspot.com/p/feedback.html

یا اس ای میل پر روانہ کریں : SarbakafMagazine@gmail.com

 

ذیلی زمرہ: جہاد

معذرت!

بعض وجوہات کی بناپراس موضوع کے عنوانات و مضامین یہاں پر شائع نہیں کیے جائیں گے۔ اگر آپ اسے پڑھنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی پی ڈی ایف فائل یہاں سے حاصل کریں۔ پی ڈی ایف فائلس میں تمام مواد موجود ہوتا ہے۔

بقیہ تمام مضامین و عنوانات بلاگ پر دستیاب ہیں۔ آپ تمام زمرہ جات ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ شکریہ!

تکلیف کے لیے ایک مرتبہ پھر ہم معذرت خواہ ہیں۔

فقط

دوماہی آن لائن "سربکف” مجلہ

 

 

 

 

 

 

 

کیا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو شیطان اغوا کر لیتا تھا؟

محسن اقبال

ایک شیعہ نے تاریخ طبری سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا ہے کہ سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بعض اوقات شیطان اغواء کر لیتا تھا۔

تاریخ طبری کی یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ اس کی مکمل سند درج ذیل ہے۔

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمِّی، قَالَ : حَدَّثَنَا سَیْفٌ، وَحَدَّثَنِی السَّرِیُّ بْنُ یَحْیَى، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعَیْبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ سَیْفِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِی ضَمْرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَدِیٍّ،

اس روایت کا ایک راوی سیف بن عمر سخت ضعیف ہے۔ اس کی تحقیق درج ذیل ہے۔

أہل السنۃ والجماعۃ:

1۔ إمام أہل الجرح یحیى بن معین المتوفى (232 أو 233 ہـ ) ۔ قال عن سیف : ( فَلْس خیر منہ ) ۔لکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی ج4 ص507 رقم 851، تہذیب الکمال ج10 ص326 ۔)

2۔ محمد بن عبداللہ بن نُمَیْر الہمْدانی المتوفى (234 ہـ): سیف الضبی تمیمی، وکان جُمَیْع یقول : حدثنی رجل من بنی تمیم، وکان سیف یضع الحدیث، وکان قد اتہم بالزندقۃ )۔ المجروحین لابن حبان ج1 ص345 – 346، المیزان للذہبی ج3 ص353 رقم 3642 )

3۔ أبو زرعۃ الرازی المتوفى (246ہـ) قال : ( ضعیف الحدیث )۔تہذیب الکمال ج12 ص327

4۔ قال أبو داوود المتوفى (246ہـ) صاحب السنن فی سیف : ( لیس بشیء )۔سؤالات الآجری لأبی داود ج1 ص214 رقم 216)

5۔ أبو حاتم الرازی المتوفى (277ہـ) قال عنہ : ( متروک الحدیث ).الجرح والتعدیل ج4 ص278 رقم 1189)

6۔ أورد النسائی المتوفى (303ہـ) صاحب السنن فی کتابہ ( الضعفاء والمتروکین ) وقال عنہ : ( سیف بن عمر الضبی : ضعیف ).الضعفاء والمتروکین للنسائی رقم 256)

7۔ الإمام عبدالرحمن بن أبی حاتم الرازی المتوفى (327ہـ) صاحب کتاب الجرح والتعدیل قال فی سیف : ( وسیف متروک الحدیث ).الجرح والتعدیل ج7 ص136 رقم762)

8-وقال ابن حبان المتوفى (354 ہـ) ذکر سیف بن عمر فی المجروحین فقال : ( یروی الموضوعات عن الاثبات، وقالوا : سیف یضع الحدیث وکان قد اتہم بالزندقۃ ).کتاب المجروحین لابن حبان ج1 ص 345 – 346

9-الحاکم النیسابوری المتوفى (405 ہـ) صاحب المستدرک قال فی سیف : ( اتہم بالزندقۃ وہو فی الروایۃ ساقط )تہذیب التہذیب ج4 ص296

10۔ وذکرہ ابن الجوزی المتوفى (571 ہـ) فی الضعفاء، وقال أیضاً : ( وہذا حدیث موضوع بلا إشکال وفیہ جماعۃ مجروحین، وأشدہم فی ذلک سیف وسعد، وکلاہما متہم بوضع الحدیث ).الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص362 رقم 444۔

11۔ الذہبی المتوفى (847 ہـ ) قال عن سیف : ( متروک باتفاق ) .المغنی ج1 ص460 رقم 2716)

12۔ جلال الدین السیوطی المتوفى (911 ہـ) قال عن سیف : بعد أن عقب على حدیث ہو فی سندہ فقال : ( موضوع، فیہ ضعفاء أشدہم سیف ). اللئالی المصنوعۃ للسیوطی ج1 ص392۔

13۔ وقال علی بن أبی بکر الہیثمی المتوفى (807 ہـ) فی حدیث ضعفہ لأجل سیف قال : ( وفیہ سیف بن عمر متروک ) فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی ج1 ص460۔

14۔ محمد بن علی الشوکانی المتوفى (1250 ہـ) قال عن سیف : فی سند ہو فیہ : ( وفی إسنادہ سیف بن عمر، وہو وضاع ). الفوائد المجموعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ ص 491

15۔ قال الشیخ المحدث محمد العربی التبانی توفی نحو (1390 ہـ ) فی کتابہ القیم ( تحذیر العبقری من محاضرات الخضری ) . (1/275) ( سیف بن عمر الوضاع المتہم بالزندقۃ المتفق على أنہ لا یروی إلا عن المجہولین )

الشیعۃ:

۔ 1، قال الخوئی المتوفى ( 1413ہـ) : ( سیف بن عمر الوضاع الکذاب ).معجم رجال الحدیث ج11 ص 207)

۔ 2۔ قال الأمینی المتوفى (1390 ہـ) عن سیف :” راوی الموضوعات، المتروک، الساقط، المتسالم على ضعفہ، المتہم بالزندقۃ” .ونقل العلامۃ الأمینی أقوال أہل الجرح والتعدیل فیہ. (الغدیر ج8 ص 84 – 85 و 140 – 141 و 327 و 351)

سیف بن عمر کو شیعہ علماء نے بھی ضعیف اور متروک کہا ہے۔

شیعہ عالم الامینی کا یہ قول ایران سے شیعہ عالم سیستانی کے مکتب سے شایع کی گئی کتاب السلف الصالح میں بھی پیش کیا گیا ہے کہ سیف بن عمر متروک اور ضعیف ہے۔

اس کے علاوہ شیعہ کا اصل اعتراض اس روایت کے لفظ اغوینّھم پہ تھا اور شیعہ کا استدلال تھا کہ

قرآن کی آیت یہ ہے : قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ ﴿۳٩﴾ إِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِینَ ﴿٤٠﴾

اس نے کہا کہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا,علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنا لیا ہے۔

یہاں پر اغوینّھم کا لفظ ہے، یعنی میں انہیں اغوا کروں گا۔

ابوبکر کہتا ہے کہ مجھے کبھی کبھا شیطان اغوا کر لیتا ہے جبکہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ شیطان اللہ تعالی کے خالص بندوں کو اغوا نہیں کر پائیگا۔ تو ابوبکر کیسے خلیفہ تھے جو کہتے ہیں کہ مجھے شیطان اغوا کر لیتا ہے۔ ماننا پڑیگا کہ ابوبکر مومن نہیں تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام زین العابدین ؒ نے بھی اپنے لئے انہی الفاظ کا استعمال کیا ہے جس کا ذکر شیعہ کتب میں موجود ہے۔

روایت یہ ہے

یقول الإمام زین العابدین فی مناجاتہ : «إلہی إلیک أشکو نفسا بالسوء أمارۃ، وإلى الخطیئۃ مبادرۃ، وبمعاصیک مولعۃ، ولسخطک متعرضۃ، تسلک بی مسالک المہالک، وتجعلنی عندک أہون ہالک، کثیرۃ العلل، طویلۃ الامل، إن مسہا الشر تجزع، وإن مسہا الخیر تمنع، میالۃ إلى اللعب واللہو، مملوء‌ۃ بالغفلۃ والسہو، تسرع بی إلى الحوبۃ وتسوفنی بالتوبۃ. إلہی أشکو إلیک عدوا یضلنی، وشیطانا یغوینی، قد ملأ بالوسواس صدری، وأحاطت ہواجسہ بقلبی، یعاضد لی الہوى، ویزین لی حب الدنیا، ویحول بینی وبین الطاعۃ والزلفى. إلہی إلیک أشکو قلبا قاسیا، مع الوسواس متقلبا، وبالرین والطبع متلبسا، وعینا عن البکاء من خوفک جامدۃ، وإلى ما یسرہا طامحۃ. إلہی لا حول ولا قوۃ إلا بقدرتک، ولا نجاۃ لی من مکارہ الدنیا إلا بعصمتک. فأسألک ببلاغۃ حکمتک، ونفاذ مشیتک، أن لا تجعلنی لغیر جودک متعرضا، ولا تصیرنی للفتن غرضا، وکن لی على الأعداء ناصرا، وعلى المخازی والعیوب ساترا، ومن البلایا واقیا، وعن المعاصی عاصما، برأفتک ورحمتک یا أرحم الراحمین.

(الصحیفۃ السجادیۃ ص 236.)

اب شیعہ کو چائیے کہ یہ لفظ بیان کرنے پہ جو فتوی وہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پہ لگاتے ہیں وہی فتوی امام زین العابدین پہ لگائیں کہ کیا امام زین العابدینؒ کو بھی شیطان نے اغوا کر لیا تھا؟؟؟

اگر ان کے نزدیک یہ لفظ بیان کرنے سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مومن نہیں ہیں تو پھر یہی لفظ بیان کرنے سے امام زین العابدینؒ بھی مومن نہیں ہو سکتے۔

غلامِ خاتم النبیینﷺ

محسن اقبال

٭٭٭

قانونی آگاہی

اسمِ مجلہ

سنِ آغاز

مدتِ اشاعت

مدیر

اوسط تعداد

میدانِ اشاعت

زمرہ   سربکف

2015(جولائی)

دو ماہی (Two Monthly)

شکیب ؔاحمد

لا تعداد

آن لائن(برقی مجلہ) E-publish, Online

اسلامی

تمام مضامین و تحاریر کی مکمل ذمہ داری مضمون نگار یا مراسلہ نویس کی ہوتی ہے۔ کسی بھی مضمون یا مراسلہ میں موجود ہر بات سے مدیر اور مجلسِ مشاورت کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ نیز مدیر یا مجلسِ مشاورت پر کسی قسم کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔

مجلہ کے کسی بھی حصے سے متن کاپی اور پیسٹ کیے جانے کی صورت میں حو آلہ دیا جانا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر یہ شرعی، اخلاقی و قانونی جرم قرار پائے گا۔

اس برقی کتاب کو کسی بھی صورت میں قیمتاً فروخت کرنا سخت منع ہے، خواہ قیمت کتنی ہی قلیل ہو۔

 

ردِّقادیانیت کورس

( قسط۔ ۱)

منظور احمد چنیوٹی عفا اﷲ عنہ

 

 

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

 

الحمدﷲ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ،

اما بعد:

دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سندھ سے فراغت کے بعد ملتان میں امیر شریعت سید عطا اﷲ شاہ صاحب بخاری ؒ کے قائم کردہ ختم نبوت مدرسہ میں رد قادیانیت کی تربیت حاصل کرنے کیلئے 1951ء میں بندہ ناچیز داخل ہوا، فاتح قادیان استاذ محترم حضرت مولانا محمد حیات صاحب ؒ سے تربیت حاصل کی، ہم کل چار ؍پانچ ساتھی تھے۔ 1952 کے اوائل میں فارغ ہوا اور اس کے بعد مدرسہ دارالہدی ٰ چوکیرہ ضلع سرگودہا میں تدریس کی خدمت پر مامور ہو گیا، درسی کتب پڑھانے کے ساتھ ساتھ طلبا ء کو رد قادیانیت کی تربیت دینا بھی شروع کر دی، وہاں سے 1954ء میں اپنے آبائی شہر چنیوٹ آ کر جامعہ عربیہ کی بنیاد رکھی، اور حسب معمول طلباء کی تربیت جاری رہی، پھر میرے مربی اور شفیق استاد حضرت علامہ مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کے حکم پر شعبان کی تعطیلات میں کراچی میں ان کے جامعہ علوم الاسلامیہ میں مدت تک یہی خدمت سرانجام دینے کی سعادت حاصل کرتا رہا، اسی طرح تنظیم اہل سنت کے زیر اہتمام ملتان میں بھی حضرت علامہ دوست محمد قریشی ؒ اور حضرت علامہ عبدالستار تونسوی مدظلہ کے حکم پر دس ؍پندرہ روزہ تربیتی کورس کراتا رہا۔ اپنی کاپی جو راقم نے اپنے استاد مرحوم فاتح قادیان سے دوران تربیت لکھی تھی اس سے ضروری حو آلہ جات طلبا ء کو

لکھواتا تھا اور بندہ نے اپنے تجربہ کی روشنی میں ایک نئی ترتیب دیدی جس میں استاد محترم کی تربیت کے برعکس پہلا موضوع بجائے ’’حیات عیسی علیہ السلام‘‘ کے ’’ مرزا قادیانی کے صدق وکذب ‘‘ کواصل موضوع قرار دیا اور قادیانیوں سے موضوع گفتگو طے کرنے کیلئے عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا کہ اصل موضوع مدعی نبوت کی ذات اور کردار ہے۔ اگر وہ ایک سچا اور شریف النفس انسان بھی ثابت ہو جائے تو ہمیں دوسری بحثوں ’’حیات مسیح علیہ السلام ‘‘ اور ’’ختم نبوت‘‘ کے موضوعات پرگفتگو کرنے اور فریقین کا وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں، ہم بغیر کسی قسم کی بحث کئے اسے اپنے تمام دعاوی میں سچا مان لیں گے اور اگر وہ اپنی تحریرات سے شریف اور سچا انسان ہی ثابت نہ ہو بلکہ پرلے درجہ کا کذاب، بدزبان، بدکردار، بداخلاق، شرابی اور زانی، انگریز کا ٹاؤٹ ثابت ہورہا ہو تو پھر دوسری بحثوں میں پڑنا فریقین کا وقت ضائع کرنا ہے جیسا کہ مرزا قادیانی اور اس کے دونوں جانشینوں نے خود اس بات کا فیصلہ دے دیا ہے اس لئے میری ترتیب میں پہلا عنوان ’’تعین موضوع‘‘ ہے اور یہی اصل موضوع ہے جس پر راقم نے عقلی، نقلی دلائل پیش کئے ہیں اس موضوع کو طے کر لینے کے بعدحدیث رسول کریمﷺ کی مطابق قادیانی کے کذاب ودجال ہونے پر چند دلائل دیے گئے ہیں اس کے بعد ’’ حیات مسیح‘‘ پھر ’’ ختم نبوت‘‘کا موضوع پیش کیا گیا ہے۔

جامعہ علوم اسلامیہ اور دفتر تنظیم اہلسنت میں تیاری کراتے ہوئے شریک درس طلباء سے نوٹس تیار کرنے کیلئے کہا، ان نوٹس کی جانچ پڑتال کرکے ایک کاپی تیار کی۔ آئندہ ہرسال اسی کاپی کی فوٹو سٹیٹ اپنے طلبہ میں تقسیم کر دی جاتی۔ اس طرح ان نوٹس سے طلبا ء کا وقت بھی بچا اور دوران تحریروہ عجیب غریب غلطیوں ے بھی بچ گئے۔ دوران کورس قادیانی کتب سے حو آلہ جات دکھا دیے جاتے تاکہ انہیں عین الیقین ہو جائے اور حو آلہ جات کی مزید تشریح زبانی کر دی جاتی۔

اسی کاپی کی مدد سے مسجد نبوی شریف میں کئی سال مغرب اور عشاء کے درمیان یونیورسٹی کے طلبہ کوعربی میں پڑھاتا رہا۔ ۱۹۸۵ء میں مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر نے شاہ فہد کی خصوصی اجازت سے سرکاری طور پر اس حقیر کو دعو ت دی توبندہ یونیورسٹی میں طلبا ء کو عصر سے مغرب تک اسی کاپی کی مدد سے تیاری کراتارہا۔ ایشیاکی عظیم اسلامی یونیورسٹی اور ہماری مادر علمی دارلعلوم دیوبند کے منتظمین نے 1990ء میں دارالعلوم میں ایک تربیتی کیمپ کا انتظام کیا، پورے ہندوستان سے منتخب علما ء کو جمع کیا گیا اور دارالعلوم سے فارغ ہونے والے طلبا ء کی ایک کثیر تعداد اس کے علاوہ تھی۔

بندہ نے ان نوٹس کی ایک کاپی وہاں ارسال کی کہ اس کی فوٹو سٹیٹ کروالیں تاکہ حاضرین کورس میں تقسیم کی جا سکے۔ چونکہ حاضرین کی تعداد زیادہ تھی اسلئے انہوں نے دو ہزار کے قریب اسی کاپی کو چھپوا لیا۔

چونکہ قلمی کاپی کی نسبت پرنٹ کاپی کے صفحات کی تعداد کم تھی نیز اکابرین علماء دیوبند کی خواہش تھی کہ اس کاپی کو کتابی شکل میں بھی شائع کیا جائے، اگرچہ راقم اس رائے سے کچھ زیادہ متفق نہیں تھا کیونکہ اس کا کامل فائدہ باضابطہ پڑھنے سے ہی ہوتا ہے، لیکن اکابر کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے بندہ ناچیز نے اس کی اجازت دے دی۔ چنانچہ میرے مشورہ اور رائے سے اس میں چند مفید اضافے کرکے اور کچھ ترتیب درست کرکے عزیز محترم مولانا سلمان منصور پوری اطال اﷲ عمرہ نائب مفتی واستاذ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد، نواسہ حضرت شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے اسے کتابی شکل میں ترتیب دیدیا۔ میری نظر ثانی اور چند ضروری اضافہ جات کے بعد اب یہی کتاب ’’ رد مرزائیت کے سنہری اصول‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں تقریباً اڑھائی سو صفحات پر مشتمل کتاب دارالعلوم دیوبند کی کل ہندمجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام چھپ چکی ہے اور وہاں سے دستیاب ہوسکتی ہے۔

اس تمام وضاحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ کوئی باضابطہ تصنیف نہیں ہے بلکہ میرے ضروری نوٹس ہیں۔ اگرچہ ہر اردو پڑھا لکھا عالم، غیر عالم اپنی استعداد کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتا ہے مگر اس سے مکمل استفادہ وہی کرسکتا ہے جو شریک دورہ ہو کر باضابطہ طور پر پڑھے اور سمجھے کیونکہ دوران تدریس ان حو آلہ جات کی تشریح میں اور کئی مفید با تیں بھی آجاتی ہیں جو اس پندرہ روزہ کورس میں درج نہیں یا جو صرف دوران سبق ہی بتائی اور سمجھائی جا سکتی ہیں۔

اﷲتعالیٰ راقم موصوف کی اس کاوش اور محنت کو قبول فرمائیں اور گم گشتہ راہ قادیانیوں کے لئے ذریعہ ہدایت بنائیں۔

بندہ نے اس میں مزید اضافہ کرکے اسے ایک مستقل کتاب ’’ردّمرزائیت کے زرّیں اصول ‘‘ کے عنوان سے ترتیب دے دیا ہے۔ جو کہ ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد چنیوٹ سے دستیاب ہے۔

تمام حضرات سے درخواست ہے دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ میری اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشیں۔ آمین

احقر

منظور احمد چنیوٹی عفا اﷲ عنہ

﴿باب اول ﴾

مرزا غلام احمد قادیانی کا مختصر تعارف

خاندانی پس منظر:

’’ میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ (برطانیہ) کا پکا خیر خواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفاداراور خیر خواہ آدمی تھا جن کودربارگورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھکر سرکار انگریزی کومدد دی تھی یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریز ی کی امداد میں دیے تھے ان خدمات کی وجہ سے جو چھٹیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں مگر تین چھٹیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا اور جب تیموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔ پھر میں اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تھا تاہم سترہ برس سے سرکار انگریزی کی امداد اور تائید میں اپنی قلم سے کام لیتا ہوں۔ ‘‘

(کتاب البریہ مندرجہ روحانی خزائن جلد ۱۳ ص۴ تا ۶(

 

نام و نسب:

’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد کا نام غلام مرتضی اور دادا صاحب کا نام عطاء محمد اور میرے پرداد اصاحب کا نام گل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اَب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے۔ ‘‘

(کتاب البریہ ص۱۴۴ بر حاشیہ روحانی خزائن ص ۱۶۲، ۶۳ ج ۱۳، مثلہ سیرۃ المہدی حصہ اول ج۱ ص۱۱۶(

 

تاریخ ومقام پیدائش:

مرزا غلام احمد قادیانی بھارت کے مشرقی پنجاب ضلع گورداسپور تحصیل بٹالہ قصبہ قادیان میں پیدا ہوا۔ اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں اس نے یہ وضاحت کی ہے :

’’ اب میرے ذاتی سوانح یہ ہیں کہ میری پیدائش۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں ۱۸۵۷ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا۔ ‘‘

(کتاب البریہ ص۱۵۹ حاشیہ روحانی خزائن ص۱۷۷ ج۱۳(

 

ابتدائی تعلیم :

مرزا قادیانی نے قادیان ہی میں رہ کر متعدد اساتذہ سے تعلیم حاصل کی جس کی تفصیل خوداس کی زبانی حسب ذیل ہے :

’’ بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کیلئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدائے تعالی کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ’ فضل‘ ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرَف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو اِن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نا م گل علی شاہ تھا ان کو بھی میرے والد نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کیلئے مقرر کیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالی نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔ ‘‘

(کتاب البریہ بر حاشیہ۶۱ ۱تا۱۶۳۔ روحانی خزائن ج ۱۳ ص ۱۷۹ تا ۱۸۱(

 

جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ

’’ تمام نفوس قدسیہ انبیاء کو بغیر کسی استاد یا اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیم کا نشان ظاہر فرمایا۔ ‘‘

(دیباچہ براھین احمدیہ ص ۷، روحانی خزائن ص۱۶ج۱(

 

ملازمت:

مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا لکھتا ہے :

’’ بیان کیامجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان آنے کے باہر لے گیا اور ادھر اؑدھر پھراتا رہا پھر اتارہاپھر جب آپ نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔ ‘ ‘

(سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۴۳ روایت نمبر ۴۹، مصنفہ صاحبزادہ بشیر احمد صاحب قادیانی )

واضح رہے کہ پنشن کی یہ رقم سات صد روپیہ تھی۔

(سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۱۳۱ روایت نمبر ۱۲۲(

 

منکوحات مرزا :

مرزا غلام احمد قادیانی کی تین بیویاں تھیں، پہلی بیوی جس کو ’ پھجے کی ماں ‘ کہا جاتا ہے اور اس کا نام حرمت بی بی تھا اس سے ۱۸۵۲ء یا ۱۸۵۳ ء میں شادی ہوئی۔

دوسری بیوی جس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے اس سے نکاح ۱۸۸۴ء میں ہوا۔ اس کی ایک اور بیوی بھی تھی جس کے ساتھ بقول اس کے اس کا نکاح آسمانوں پر ہوا تھا، جس کا نام محمدی بیگم تھامگر اس کے ساتھ اس کی شادی ساری زندگی نہ ہوسکی اس کا مفصل تذکرہ آئندہ پیش گوئی نمبر۶ کے ذیل میں آئے گا۔

 

اولاد :

۱۔ مرزا سلطان احمد

۲۔ مرزا فضل احمد

یہ دونوں مرزا پر ایمان نہ لائے تھے میرزا فضل احمد مرزا قادیانی کی زندگی میں مر گیا لیکن مرزا نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔

( روزنامہ الفضل قادیان ۷ جولائی۱۹۴۳ء ص ۳ )

جبکہ مرزا سلطان احمدکو مرزا نے عاق کر دیا تھا۔

مرزا کی دوسری بیوی سے درج ذیل اولاد ہوئی :

لڑکے ﴾مرزا محمود احمد۔ مرزا شوکت احمد۔ مرزا بشیر احمداول۔ مرز اشریف احمد۔ مبارک احمد۔ بشیر احمد ایم اے۔

لڑکیاں ﴾مبارکہ بیگم۔ امۃالنصیر۔ امۃ الحفیظ بیگم۔ عصمت

ان میں سے فضل احمد، بشیر اول، شوکت احمد، مبارک احمد، عصمت اور امۃ النصیرکا مرزا کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا تھا جبکہ باقی اولاد( سلطان احمد، محمود احمد، بشیر احمد، شریف احمد، مبارک بیگم، امۃ الحفیظ بیگم ) مرزا قادیانی کی موت کے بعد بھی زندہ رہی۔

(دیکھئے نسب نامہ مرزا، سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۱۱۶ روایت ۱۱۶(

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مرزا کے ہاں دونوں بیویوں سے آٹھ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں۔ چارلڑکے اور دو لڑکیاں مرزا کی زندگی میں انتقال کر گئیں جبکہ چار لڑکے اور دو لڑکیاں زندہ رہیں۔ ٭

(جاری ہے ۔ ۔ ۔)

 

 

مرض الموت میں حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری نے اپنی چارپائی اٹھوائی اور دارالعلوم دیوبند کی مسجد کے محراب کے پاس رکھوا کر آخری وصیت ارشاد فرمائی ہے کہ:

’’ اس امت کیلئے اب تک قادیانیت سے بڑھکر فتنہ وجود میں نہیں آیا۔ مسلمانوں کے ایمان کو اس فتنۂ ارتداد سے بچا ؤ اور اپنی ساری قوتیں اس میں صرف کر ڈالو۔ یہ ایسا جہاد ہے جس کا بدلہ جنت ہے، میں اس بدلے کا ضامن بنتاہوں ‘‘

یہ روایت حضرت علامہ مولانا شمس الحق افغانی رحمۃ اﷲ علیہ نے بیان فرمائی جسے نقل کرکے ان کے تصدیقی دستخط کروالئے گئے حضر ت افغانی نے فرمایاکہ حضرت شاہ صاحب کی یہ روایت مجھے مولانا محمد صدیق صاحب جو حاضر مجلس تھے کی وساطت سے پہنچی تھی، انہوں نے فارسی میں خط لکھا جس کا ایک جملہ یہ تھا:

’’ دریں بارہ کلام پر اثر نمودکہ سنگ خار ہ موم مے کرد‘‘

 

 

 

 

 

فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْن

میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سُنت تم پر لازم ہے۔ (سنن ابی داؤدج۲ص۲۹۰باب فی لزوم السنۃ)

 

جھوٹے اہل حدیث

(تیسری اور آخری قسط )

مفتی آرزومند سعد

 

 

جھوٹ نمبر ٨:

ابو اقبال سلفی اپنی کتاب مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف نامی کتاب میں لکھتا ہے۔

حنفیہ سفر کے رخصت والی آیات کو نہیں مانتے۔ ص ۲۳۔

الجواب:یہ بھی اس کا صریح جھوٹ ہے۔ فقہ حنفی کے تمام کتابوں میں یہ مسئلہ درج ہے کہ مسافر کے لئے نماز قصر ہے اور روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے۔ فقہ حنفی کے ہر کتاب میں اس کے لئے الگ باب قائم ہے۔ مثلا کنز الحقائق کی شرح البحر الرائق میں ہے۔

البحر الرائق شرح کنز الدقائق ـ مشکول – (5 / 82)

بَابُ الْمُسَافِرِ ) أَیْ بَابُ صَلَاۃِ الْمُسَافِرِ۔

اس طرح ہر کتاب میں یہ باب قائم ہے۔ لیکن تعصب اور ضد میں آ کر اس غیر مقلد نے احناف پر اتنا بڑا جھوٹ بول دیا کہ ایک عام آدمی بھی اس کے جھوٹ کو جان سکتا ہے۔

جھوٹ نمبر ٩:

ص ۳۶ پر ایک اور جھوٹ لکھا ہے کہ رفع الیدین کو نقل کرنے والے پچاس صحابہؓ ہیں۔

الجواب: یہ بھی صریح جھوٹ ہے جو انکے بڑوں سے متواتر چلا آرہا ہے۔ غیر مقلدین کے لئے ہمارا کھلا چیلنج ہے کہ آپ پچاس کے بجائے صرف پچیس صحابہ کرامؓ سے اپنی رفع یدین ثابت کر دیں۔ یعنی چار رکعت والی نماز میں دس جگہ ہمیشہ کرنے اور نہ اٹھارہ جگہ نہ کرنے کی۔ ہم ان کو فی صحیح روایت انعام دینے کو تیار ہیں۔

جھوٹ نمبر ۱٠:

ص ۳۷ پر لکھا ہے کہ احناف آمین کی احادیث کونہیں مانتے۔

الجواب: یہ بھی سفید جھوٹ ہے۔ احناف کے اردو، عربی، فارسی بلکہ ہر زبان کی نماز سے متعلق کتاب اٹھا کر دیکھا جا سکتا ہے کہ احناف کے نزدیک آمین کی کیا حیثیت ہے۔ ایک ان پڑھ شخص بھی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ اللہ کا بندہ کتنا جھوٹ بولتا ہے۔ (فلعنۃ اللہ علی الکاذبین)

اسی صفحہ پر لکھا ہے کہ صحیح احادیث سے آمین کا بالجہر کہنا ثابت ہے۔ حالانکہ صفت صلوۃ النبیﷺ میں غیر مقلدین کے شیخ البانی نے لکھا ہے کہ مقتدی کے اونچی آواز میں آمین کہنے پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔

جھوٹ نمبر ۱۱:

ص ۴۴ پر تو حد کر دی۔ کہتا ہے کہ صبح کی نماز کے قائم ہونے کے بعد والی احادیث کو نہ ماننے والا کب مسلمان رہ سکتا ہے۔ لیکن اسلام کے علاوہ ایک حنفی مذہب ہے جو اس کی اجازت دیتا ہے۔

الجواب: قارئین کرام اس جھوٹ پر تبصرہ کرنے کے بجائے آپ ان احادیث کا مشاہدہ کریں جن میں صحابہ کرامؓ سے نماز صبح کے قائم ہوتے ہوئے صبح کی سنتیں پڑھنا منقول ہیں۔

٭حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے صبح کی جماعت کھڑی ہونے کے بعد دورکعت سنت پڑھی(مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲ ص ۲۵۱)

٭طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن ابی موسی ؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نماز پڑھا رہے تھے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ستونے کے پاس کھڑے ہو کر اس کو ادا کیا۔

٭حضرت ابو درداءؓ کا عمل منقول ہے کہ آپ مسجد میں داخل ہوئے دیکھا کہ لوگو نما ز صبح باجماعت ادا ء کر رہے ہیں پھر بھی آپ نے صبح کی سنتیں پڑھ کر جماعت میں شرکت کی۔

٭حضرت ابو عثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم عمر بن الخطابؓ کے پاس آتے اس حال میں کہ ہم نے صبح کی سنتیں اداء نہ کی ہوتی تو ہم مسجد کے آخر میں سنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہو جاتے۔ طحاوی جلد ۱ ص ۲۵۲۔

الغرض ابو اقبال صاحب کا یہ کہنا کہ صرف احناف ہی اس کے قائل ہیں یہ نرا جھوٹ ہے اور اس نے اس فتوی کے ذریعہ جن صحابہ کرام کو دین اسلام سے خارج کر دیا ہے اس کا حساب اللہ تعالی خود لے گا۔

ص ۴۹ پر لکھا ہے کہ احناف جمع بین الصلوتین کی احادیث کو نہیں مانتے۔ ٭

الجواب:یہ بھی اس کا جھوٹ ہے احناف کے ہاں جس سفر یا کسی سخت مجبوری کی وجہ سے جمع صوری کی احادیث پر عمل کرنا جائز ہے۔ جسکا طریقہ احادیث کیا کتابوں میں اس طرح منقول ہے کہ ظہر کو موخر کرکے اخیر وقت میں اداء کیا جائے اور عصر کو مقدم کرکے ابتدائے وقت میں ادا کیا جائے اس طرح مغرب کی نماز کو موخر کرکے اخیر وقت میں ادا کیا جائے اور عشاء کی نماز کو مقدم کرکے اول وقت میں پڑھا جائے۔ اس کو جمع صوری کہا جاتا ہے اور اس کا انکار کسی حنفی نے نہیں کیا۔ چنانچہ فقہ حنفی کے معتبر کتاب تبیین الحقائق میں ہے۔

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق – (1 / 423)

احْتَرَزَ بِقَوْلِہِ فِی وَقْتٍ عَنْ الْجَمْعِ بَیْنَہُمَا فِعْلًا بِأَنْ صَلَّى کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا فِی وَقْتِہَا بِأَنْ یُصَلِّیَ الْأُولَى فِی آخِرِ وَقْتِہَا وَالثَّانِیَۃَ فِی أَوَّلِ وَقْتِہَا فَإِنَّہُ جَمْعٌ فِی حَقِّ الْفِعْلِ

اس طرح فتاوی شامی میں ہے۔

حاشیۃ رد المختار على الدر المختار – (1 / 382)

ما رواہ مما یدل على التأخیر محمول على الجمع فعلا لا وقتا أی فعل الأولى فی آخر وقتہا والثانیۃ فی أول وقتہ

ناظرین احناف کا مسئلہ بالکل وہی ہے جو حدیث میں ہے۔ اس لئے یہ صاف جھوٹ ہے کہ احناف ان احادیث کو نہیں مانتے، البتہ آج کل کے غیر مقلدین جو جمع حقیقی کرتے ہیں کہ ظہر کے وقت میں عصر اور ظہر دونوں پڑھ لیتے ہیں اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھ لیتے ہیں یہ شیعہ کا مسلک ہے۔ اہل سنت میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔

ص ۵۱ پر لکھا ہے کہ احناف سبحان اللہ والی احادیث کو نہیں مانتے۔ ٭

الجواب :احناف کے فقہ کے معتبر کتابوں میں یہ مسئلہ مذکور ہے کہ جب امام سے کوئی غلطی ہو جائے تو مقتدی سبحان اللہ کہہ کر امام کو لقمہ دے سکتا ہے۔ مثلا عنایہ، مبسوط اور بدائع یہ مسئلہ اس طرح ہے۔

العنایۃ شرح الہدایۃ – (2 / 142)

إذَا نَابَتْ أَحَدَکُمْ نَائِبَۃٌ فِی الصَّلَاۃِ فَلْیُسَبِّحْ فَإِنَّ التَّسْبِیحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِیقَ لِلنِّسَاءِ

المبسوط للسرخسی ـ مشکول – (2 / 74)

وَإِذَا مَرَّتْ الْخَادِمُ بَیْنَ یَدَیْ الْمُصَلِّی فَقَالَ : سُبْحَانَ اللَّہِ أَوْ أَوْمَأَ بِیَدِہِ لِیَصْرِفَہَا لَمْ تُقْطَعْ صَلَاتُہُ ) لِمَا رَوَیْنَا { أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشَارَ عَلَى زَیْنَبَ فَلَمْ تَقِفْ وَقَالَ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا نَابَتْ أَحَدَکُمْ نَائِبَۃٌ فَلْیُسَبِّحْ، فَإِنَّ التَّسْبِیحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِیقَ لِلنِّسَاءِ

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع – (2 / 445)

وَلَوْ دَفَعَ الْمَارَّ بِالتَّسْبِیحِ أَوْ بِالْإِشَارَۃِ أَوْ أَخَذَ طَرَفَ ثَوْبِہِ مِنْ غَیْرِ مَشْیٍ وَلَا عِلَاجٍ لَا تَفْسُدُ صَلَاتُہُ لِقَوْلِہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ { فَادْرَءُوا مَا اسْتَطَعْتُمْ }، وَقَوْلِہِ { إذَا نَابَتْ أَحَدَکُمْ نَائِبَۃٌ فِی الصَّلَاۃِ فَلْیُسَبِّحْ فَإِنَّ التَّسْبِیحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِیقَ لِلنِّسَاءِ }

ناظریں کرام یہ فقہ حنفی کا مسئلہ بالکل واضح ہے اور احادیث کے مطابق ہے لیکن کیا کیا جائے تعصب کا کہ ابو الاقبال سلفی صاحب اس جھوٹ کو احناف کے ماتھے تھوپ کر لعنت کے مستحق بن گئے۔

ابو اقبال صاحب اور کے ہمنوا جماعت کا یہ شیوہ رہا ہے کہ جھوٹ بول کر اپنے مسلک کو فروغ دینا چاہتے ہیں ہم عوام سے یہی عرض کرتے ہیں کہ جو شخص ۱۰۰ صفحات کے ایک رسالہ میں اتنے جھوٹ بولتا ہے اس پر دین کے بارے میں اعتماد کرنا نادانی ہے۔ اللہ تعالی امت کو اس فتنہ کے شرور سے محفوظ کرے۔ آمین۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

عقائد علماء اہلحدیث

(تیسری اور آخری قسط)

عباس خان

 

 

 

عقیدہ نمبر 31

اگر امام کی نماز فاسد ہو جائے تو فقط امام نماز لوٹائے مقتدی نہیں۔

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب فرماتے ہیں :

امام حالت جنابت یا بغیر وضو کے نماز پڑھا دے یا کسی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو جائے تو فقط امام اپنی نماز لوٹائے مقتدیوں کو لوٹانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی امام کا ذمہ ہے کہ وہ مقتدیوں کو یہ بتائے کہ میں نے اس حالت میں نماز پڑھا دی ہے۔ (نزل الابرار ج 1 ص 101)

جبکہ نبی کریمﷺ نے امام کو ضامن قرار دیا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی نماز صحیح ہو گی تو مقتدیوں کی بھی صحیح ہو گی اور اگر اس کی نماز فاسد ہو گی تو مقتدیوں کی بھی فاسد ہو گی۔

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا امام ضامن ہوتا ہے اور مؤذن امانت دار ہوتا ہے۔

(مسند احمد ج 9 ح 4341)

 

عقیدہ نمبر 32

نا پاک اور پلید کپڑوں میں نماز بلکل صحیح ہے۔

نواب نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں :

ناپاک کپڑوں (جن پر پیشاب، پا خانہ وغیرہ گند لگا ہو) میں نماز صحیح ہے۔ (عرف الجادی ص 21)

نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں :

"نمازی کے جسم پر نجاست (پیشاب، پا خانہ) لگا ہوا ہوا ہو تو بھی نماز باطل نہیں "۔ (بدور الاہلہ ص 38)

 

عقیدہ نمبر 33

گدھی کتیا سورنی سب کا دودھ اہلحدیث کے ہاں پاک ہے۔

مجدد اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں

” گدھی کتیا، سورنی سب کا دودھ پاک ہے "۔ (بدور الاہلہ ص 18)

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں :

"کتے اور خنزیر کا جواٹا پانی، دودھ وغیرہ بھی پاک ہے "۔ (نزل الابرار فقہ نبی المختار ج 1 ص 30)

 

 

عقیدہ نمبر 34

توسل شرک اور ناجائز ہے۔

مولوی محمد احمد غیرمقلد صاحب لکھتے ہیں :

وسیلہ کا یہی وہ غیر مشروط طریقہ ہے جو انسان کو شرک میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (فتاویٰ صراط مستقیم ص 75)

طالب الرحمٰن زیدی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں :

کسی فوت شدہ نبی یا وی کا وسیلہ دینا جائز نہیں۔ (آئیے عقیدہ سیکھئے ص 159)

جبکہ حدیث میں ہے کہ

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانے میں قحط پڑتا تو حضرت عمرؓ حضرت عباسؓ کے وسیلے سے اس طرح دعا کرتے

«اللَّہُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِینَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا» (بخاری ج1 ص 137)

ایک اور حدیث میں ہے

حَدَّثَنَا طَاہِرُ بْنُ عِیسَى بْنِ قَیْرَسَ المُقْرِی الْمِصْرِیُّ التَّمِیمِیُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ وَہْبٍ، عَنْ شَبِیبِ بْنِ سَعِیدٍ الْمَکِّیِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْخَطْمِیِّ الْمَدَنِیِّ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، عَنْ عَمِّہِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ ” أَنَّ رَجُلًا کَانَ یَخْتَلِفُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی حَاجَۃٍ لَہُ , فَکَانَ عُثْمَانُ لَا یَلْتَفِتُ إِلَیْہِ , وَلَا یَنْظُرُ فِی حَاجَتِہِ , فَلَقِیَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِیفٍ , فَشَکَا ذَلِکَ إِلَیْہِ , فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِیفٍ: ائْتِ الْمِیضَأَۃَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّہُمَّ , إِنِّی أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ و آلہ وَسَلَّمَ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ إِنِّی أَتَوَجَّہُ بِکَ إِلَى رَبِّکَ عَزَّ وَجَلَّ فَیَقْضِی لِی حَاجَتِی , وَتَذْکُرُ حَاجَتَکَ , وَرُحْ إِلَیَّ حَتَّى أَرُوحَ مَعَکَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ مَا قَالَ لَہُ عُثْمَانُ , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ , فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّى أَخَذَ بِیَدِہِ , فَأَدْخَلَہُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَأَجْلَسَہُ مَعَہُ عَلَى الطِّنْفِسَۃِ , وَقَالَ: حَاجَتُکَ؟ فَذَکَرَ حَاجَتَہُ , فَقَضَاہَا لَہُ , ثُمَّ قَالَ لَہُ: مَا ذَکَرْتَ حَاجَتَکَ حَتَّى کَانَتْ ہَذِہِ السَّاعَۃُ , وَقَالَ: مَا کَانَتْ لَکَ مِنْ حَاجَۃٍ , فَأْتِنَا , ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ , فَلَقِیَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ , فَقَالَ: لَہُ جَزَاکَ اللَّہُ خَیْرًا , مَا کَانَ یَنْظُرُ فِی حَاجَتِی , وَلَا یَلْتَفِتُ إِلَیَّ حَتَّى کَلَّمْتَہُ

حضرت عثمانؓ بن حنیفؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عثمانؓ کے پاس ضرورت کیلئے آیا جایا کرتا تھا اور حضرت عثمان (غالباً مصروفیت کی وجہ سے ) اس کی طرف توجہ نہ فرماتے وہ شخص حضرت عثمان بن حنیفؓ سے ملا اور اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا کہ وضو کرکے مسجد میں جا کر دو رکعات نماز پڑھو اور پھر کہو اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپکی طرف متوجہ ہوتا ہوں ہمارے پیارے نبیﷺ کے وسیلے سے۔

(معجم الصغیر ج 1 ص 183-184 صحیح )

 

عقیدہ نمبر 35

عیسائیوں کا قبضہ بھی دارلاسلام ہوتا ہے۔

وکیل اہلحدیث محمد حسین بٹالوی صاحب لکھتے ہیں :

ہندوستان باوجود یہ کہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے۔ ٭(الاقتصاد فی مسائل اجہاد ص 25)

 

عقیدہ نمبر 36

حضرت عیسیٰؑ کے والد کا اثبات۔ العیاذ باللہ

مشہور غیرمقلد عالم عنایت اللہ اثری صاحب لکھتے ہیں :

عیسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ تو اپنا شوہر اور اس کا باپ بتا رہی ہے اور باپ بیٹا بھی دونوں اسے تسلیم فرما رہے ہیں مگر صدیوں بعد لوگوں نے انہیں بے پدر بتایا اور آپ کی والدہ کو بے شوہر بتایا کیا خوب ہے۔ (عیون زمزم ص 40)

نوٹ:

اس عقیدہ میں حضرت عیسیؑ کے لئے والد ثابت کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے قرآن یہی بتاتا ہے۔

 

عقیدہ نمبر 37

مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھنا

مولوی عبد العزیز صاحب سیکرٹری جمعیہ مرکزیہ اہلحدیث ہند لاہور صاحب، غیرمقلد ثناء اللہ امرتسری صاحب (جو کہ فرقہ اہلحدیث کے ہاں شیخ الاسلام ہیں )کے بارے میں لکھتے ہیں۔

"آپ (ثناء اللہ امرتسری صاحب) نے لاہوری مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھی”۔

"آپ نے فتویٰ دیا کہ مرزئیوں کے پیچھے نماز جائز ہے ”

"آپ نے مرزئیوں کو عدالت میں مرزئی وکیل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مرزئیوں کو مسلمان مانا”۔

العیاذ باللہ

(فیصلہ مکہ ص 36)

 

 

عقیدہ نمبر 38

جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں۔

چنانچہ نواب نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں :

ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی تو خیر ہے کھاتے وقت پڑھ لے۔ (عرف الجادی 239)

 

عقیدہ نمبر 39

کپڑوں پر اگر حلال جانوروں کا پیشاب پا خانہ لگا ہوا ہو تو اس میں پڑھنی درست ہے۔

چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے عالم لکھتے ہیں :

"اور جس کپڑے پر وہ (حلال جانوروں کا پیشاب پا خانہ) لگا ہوا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے "۔ ٭

(فتاویٰ ستاریہ ج 1 ص 105)

 

عقیدہ نمبر 40

نماز کی طرف دعوت دینا درست نہیں۔

فرقہ اہلحدیث کے بڑے عالم طالب الرحمن صاحب کی ایک بڑی حماقت لکھتے ہیں :

"کیا لوگوں کو نماز کی دعوت دینا اسوۂ رسولﷺ ہے۔ اگر نہیں تو پھر نبیﷺ کے طریقے کو کیوں نہیں اپنایا جاتا”۔ (یعنی نماز کی دعوت نہ دی جائے )٭

(تبلیغی جماعت عقائد و نظریات ص 10)

 

عقیدہ نمبر 41

کتا پاک ہے اور اس کا پا خانہ بھی نجس نہیں۔

فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے عالم جنہیں فرقہ اہلحدیث امام شوکانی کے نام سے جانتی ہے لکھتے ہیں :

حدیث کی وجہ سے صرف کتے کا لعاب نجس ہے علاوہ ازیں اس کی بقیہ مکمل ذات یعنی گوشت، ہڈیاں، خون بال وغیرہ پاک ہے کیونکہ اصل طہات ہے اور اس کی ذات کی نجاست کے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں "۔

(فقہ الحدیث ص 147)

کتے کا پا خانہ بھی پاک ہے۔

چنانچہ امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں :

اور لوگوں (غیرمقلدین) کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتے کا پا خانہ نجس ہے یا نہیں لیکن حق بات یہ ہے کہ اس کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں "۔ (نزل الابرار ص 50)

نواب نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں :

کتے اور خنزیر کے پلید ہونے کا دعویٰ ٹھیک نہیں۔ (عرف الجادی ص 10)

عقیدہ نمبر 42

صحابہ کرامؓ میں سے بعض لوگ فاسق تھے العیاذ باللہ

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں :

"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے جو فاسق تھے جیسے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہایے ہی   معاویہ رضی اللہ عنہ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، مغیر بن شیبہ رضی اللہ عنہاور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہکے متعلق۔

(نزل الابرار ج 3 ص 94)

نعوذ باللہ من ذالک

 

عقیدہ نمبر 43

رام چندر اور لکشمن نبی ہیں اور انہیں نبی ماننا واجب ہے۔

فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں۔

ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم دیگر انبیاء کی نبوت کا انکار کریں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نہیں کیا اور کافروں میں تواتر کے ساتھ وہ معروف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نیک انبیاء تھے جیسے رام چندر لچھمن کرشن جی جو ہندؤں میں ہے اور زراتشت جو فارسیوں میں ہیں اور کنفیوس اور مہاتما بدھ جو چین اور جاپان میں ہے اور سقراط جو یو نان میں ہیں ہم پر واجب ہے کہ ہم یوں کہیں ہم ان تمام انبیاء پر ایمان لائے اور ان میں کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے اور ہم سب کے فرمان بردار ہیں۔ (ہدایۃ المہدی ص 85)

حافظ عبد القادر صاحب روپڑی غیرمقلد اس کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں بعض انبیاء کا ذکر آیا ہے اور بعض کا نہیں آیا۔ ۔ ۔ ۔ آگے فرماتے ہیں۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے عرب کے سوا اور نبیوں کا ذکر نہیں کیا جیسے ہندوستان، چین، یونان، فارس، یورپ افریقہ، امریکہ جاپان اور برما وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔   اس لئے ان نبیوں کی نبوت سے انکار کرنا جائز نہیں۔ ۔ ۔ ۔ (آگے امام اہلحدیث وحید الزمان صاحب کا حو آلہ دے کر لکھتے ہیں۔ ) پس ہم پر واجب ہے کہ ہم کل انبیاء پر ایمان لاویں اور ان میں سکی میں تفریق نہ کریں۔ ٭

(فتوحات اہلحدیث ص 148)

اگر قران پاک میں سب انبیاء کا ذکر نہیں آیا تو اس کا کیا مطلب ہے کہ کہیں سے بھی پکڑ پکڑ کے انبیاءٰ کی تعداد کو پورا کیا جائے ؟ اور انہیں نبی ماننے کو واجب قرار دے دیا جائے ؟ اور واجب کا انکاری گنہگار ہوتا ہے لیکن غیرمقلدین کے ہاں واجب اور فرض ایک ہی ہیں لہذا   ان کے عقیدے کے مطابق رام چندر وغیرہ کو نبی نہ ماننے والا کافر ہوا؟

 

عقیدہ نمبر 44

نبی کریمﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔

مشہور اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں :

"چنانچہ حضور اکرمﷺ نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اسلئے نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھے اور آپﷺ کی اس حاضری سے غافل نہ ہو”۔

(مسک الختام فی شرح بلوغ المرام ص 259-260)

 

عقیدہ نمبر 45

غیر اللہ سے مدد

غیرمقلد عالم غلام رسول صاحب نبیﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

رحم یا نبی اللہ ترحم

یعنی رحم کر اے اللہ کے نبی رحم کر

چونکہ جاہل غیرمقلدین کے ہاں کفر و شرک کے کوئی اصول متعین نہیں اسلئے ان کا جہاں جی چاہتا ہے کفر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب فرماتے ہیں :

قبلۂ دیں مددی، کعبۂ ایماں مددی

ابن قیم مددی قاضئ شوکاں مددی

ترجمہ:

اے میرے دین کے قبلہ مدد کر اے میرے ایمان کے کعبہ مدد کر اے ابن قیم مدد کر اے قاضی شوکانی مدد کر۔

(ہدیۃ المہدی صفحہ 23)

نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں :

یا سیدی یا عروتی و وسیلتی

و یا عدتی فی شدۃ ورخائی

قد جئت بابک ضارعا متضرعا

متاوھا بتفنس الصد بتنفس الصعداء

مالکی ورائک مستغاث فارحمن

یا رحمۃ للعالمین بکائی

ترجمہ:

اے میرے آقا اے میرے سہارے اور اے میرے وسیلے اور اے خوشحالی و بدحالی میں میری متاع میں روتا گڑ گڑاتا اور ٹھنڈی آہیں بھرتا۔ آپ کے درپہ آیا ہوں آپ کے علاوہ میرا کوئی فریاد رس نہیں ۔ سو اے رحمۃ للعالمین میری گریہ وزاری پر رحم فرما۔ (ماثر صدیقی ج 2 ص 30- 31)

غیرمقلدین سے سوال ہے کہ کیا ان کے یہ علماء مشرک ہوئے یا نہیں ؟

چونکہ غیرمقلدین کے ہاں کسی پر کوئی فتوی دینا یا اس کی تکفیر کرنے کوئی احتیاط نہیں اسلئے غیرمقلدین کے ان علماء کا مشرک ہونا لازم آتا ہے۔

 

عقیدہ نمبر 46

زیادہ بھوک لگتی ہو تو روزہ معاف

نوب نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں :

روزہ رکھنے کیلئے استطاعت شرط ہے اس لئے جس کو بہت بھوک پیاس لگتی ہو یا جس کو بہت بھوک لگتی ہو اس کو روزہ رکھنا واجب نہیں۔

(عرف الجادی ص 80)

 

عقیدہ نمبر 47

عام عورتوں کو پردہ کرنے کی ضرورت نہیں

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں :

عورتوں کو جائز ہے کہ غیر مردوں کو دیکھیں البتہ ازواج مطہرات کو یہ منع تھا۔ (نزل الابرار ج 3 ص 74)

مجدد اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں :

پردہ کی آیات خاص ازواج مطہرات ہی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں امت کی عورتوں کے واسطے نہیں ہیں۔

(البیان المرصوص ص 168)

نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں :

وہ آیت جن میں پردہ کرنے کا حکم ہے وہ صرف رسول خداﷺ کی بیویوں کے ساتھ مختص ہے۔

(عرف الجادی ص 52)

 

عقیدہ نمبر 48

ماں بہن بیٹی وغیرہ کی قبل و دبر کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔

نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں :

ماں بہن بیٹی وغیر ہ کی قبل و دبر (یعنی اگلی پچھلی شرمگاہ) کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔ (عرف الجادی ص 52)

 

عقیدہ نمبر 49

کافر کے پیچھے نماز جائز

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں :

ولو اخبر بعد الصلوۃ بانہ کافر فلا یعیدون

نماز پڑھانے کے بعد کافر نے بتلایا کہ وہ کافر ہے تو بھی مقتدی اپنی نماز کو نہیں دہرائیں گے۔ (کنز الحقائق ص 24)

غیرمقلدین کا اس پر عمل:

خود غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے (فیصلہ مکہ ص 36)

 

عقیدہ نمبر 50

قضا نمازیں معاف

نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں

اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو نماز بلا عذر شرعی چھوڑ دی گئی ہو اس کی قضا واجب ہے۔ (عرف الجاد ی ص 35)

 

علماء اہل حدیث اور ان کی تربیت کردہ انکی نجس عوام کے چند عقائد و نظریات جو ان میں پائے جاتے ہیں اور کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

1۔ کرامت صاحب کرامت کے اختیار میں ہوتی ہے اللہ کے نہیں۔

2۔ فقہاء سب گمراہ تھے۔

3۔ نماز میں آہستہ آمین کہنے والا یہودی ہے۔

جبکہ خود یہ لوگ صرف فرض نماز میں دو جگہ اونچی آمین کہتے ہیں اور بقیہ 22 جگہ پر یہودیوں کی طرح کھڑے رہتے ہیں اور عورتین تو ان کی ہر وقت ہی یہودیوں کی طرح نماز پڑھتی ہیں۔

4۔ اجماعی اور غیر اجتہادی مسائل میں اجتہاد کا کرنا

5۔ قرآنی تعویذ لٹکنا بھی شرک ہے۔

6۔ جہاں اللہ اب موجود ہے وہاں مخولوقات کو پیدا کرنے سے پہلے موجود نہ تھا

7۔ قبر میں جسم عذاب و ثواب سے بری ہوتا ہے۔

8۔ تین طلاق تین نہیں۔

9۔ قبر میں روح کے لوٹنے کا انکار

جبکہ قبر میں روح کا لوٹنا صحیح صریح حدیث سے بھی ثابت ہے۔

” حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ کیلئے نکلے اور قبرستان میں پہنچے لیکن ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی آپﷺ بھی وہاں جلوہ افروز ہوئے اور ہم بھی آپﷺ کے پاس ہی بیٹھ گئے آپ نے (ایک طویل حدیث میں ) مومن اور کافر کی وفات کا تذکرہ فرمایا اس میں مومن کے بارے میں یہ ارشاد مذکور ہے کہ :

"مومن کی روح کو پھر (مرنے کے بعد) ساتوں آسمان پر پہنچا دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے کا نام علیین میں درج کر دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے ان کو زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں ان کو لوٹاؤنگا اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالوں گا پس اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں "من ربک” تمہارا رب کون ہے۔ ۔ ۔ الخ”

اور اسی حدیث میں کافر کے بارے میں یہ الفاظ مذکور ہیں کہ

"آسمانوں کے دروازے اس کیلئے نہیں کھلتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی کارگذاری اور نام وغیرہ سجین میں لکھ دو جو ساتویں زمین میں ہے پھر اس کی روح وہاں سے پھینکی جاتی ہے پھر آپؐ نے ارشاد خدا وندی پڑھا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے پس گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اس کو پرندے اچک کر لے گئے یا ہوا نے گہرے گڑھے میں ڈال دیا۔ اور پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں "من ربک” تیرا رب کون ہے۔ ۔ ۔ الخ”

امام حاکمؒ اس روایت کی متعدد اسانید نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

«ہَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ، فَقَدِ احْتَجَّا جَمِیعًا بِالْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو وَزَاذَانَ أَبِی عُمَرَ الْکِنْدِیِّ، وَفِی ہَذَا الْحَدِیثِ فَوَائِدُ کَثِیرَۃٌ لِأَہْلِ السُّنَّۃِ وَقَمْعٌ لِلْمُبْتَدِعَۃِ وَلَمْ یُخَرِّجَاہُ بِطُولِہِ، وَلَہُ شَوَاہِدُ عَلَى شَرْطِہِمَا یُسْتَدَلُّ بِہَا عَلَى صِحَّتِہِ» .

"یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ (اگے فرماتے ہیں ) اس حدیث میں اہل سنت کے لئے کئی فوائد اور اہل بدعت کے عقائد کے قلع قمع کا خاصا ثبوت موجود ہے "۔

[المستدرک على الصحیحین : کتاب الإیمان :أَمَا حَدِیثُ مَعْمَر]

10۔ اللہ کی صفت حاضر ناظر کا انکار

11۔ بدعی طلاق کو واقع نہ کرنے فتویٰ دینا

12۔ سلف احناف پر لعن طعن کرنا۔

13۔ بزرگ گان دین کے اشعار اور صوفیا کی عبارات میں سے من پسند عقیدہ اخذ کرکے اس کی تکفیر کر لینا۔

14۔ اولی الامر سے فقیہ مراد لینے کو غلط کہنا

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ” اس آیت (أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ہیں کہ أُولِی الْفِقْہِ وَالْخَیْر”اولی الامر سے مراد فقہ والے ہیں ” یعنی کہ فقہاء کرام ہیں۔ امام حاکمؒ اس کو حدیث کونقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ہَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ "یہ حدیث صحیح ہے "۔ (مستدرک علی الصحیحین جلد۱ص۲۱۱:صحیح)

محدثین کے قاعدے کے مطابق صحابی کی تفسیر مسند اور مرفوع ہوتی ہے یعنی آنحضرتﷺ کا فرمان ہوتی ہے اور اس کی طرح حجت ہوتی ہے۔

★امام حاکم ؒ فرماتے ہیں :

” تَفْسِیرَ الصَّحَابِیِّ حَدِیثٌ مُسْنَدٌ”۔ (المستدرک على الصحیحین ج۱ صفحہ ۷۲۶)

"صحابی کی تفسیر مسند ہوتی ہے "۔ (یعنی آنحضرتﷺ کا فرمان ہوتی ہے )

15۔ ائمہ اربعہؒ کے اجتہادی اختلافات کو قرآن سنت کی طرح لوٹانے کا دعویٰ کرکے خود عقائد میں بھی ایک دوسرے سے اختلاف کر لینا۔

16۔ ائمہ کے اجتہادی اختلافات کو گمراہی قرار دینا اور اپنے فروعی و اصولی دونوں اختلافات کو حق قرار دینا۔

17۔ فقہ کے متعلق بدگمانیاں پھیلانا۔

18۔ فقیہ کے کسی غیر شرعی فعل پر کوئی شرعی حکم بتانے کو غلط کہنا۔

19۔ قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کا دعویٰ کرنا اور گند اور کچرہ جمع کرنا۔

20۔ اپنے آپ کو فقہاء سے زیادہ حدیث کے سمجھنے والا کہنا۔

21۔ قرآن و حدیث کے ظاہری معنی پر اکتفاء کر لینا اور تفقہ حاصل نہ کرنا۔

22۔ سماع موتیٰ کو شرک قرار دینا

جبکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں :

«وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، إِنَّہُ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِہِمْ حِینَ یُوَلُّونَ عَنْہُ»[ المستدرک على الصحیحین (ج/1ص/536) سندہ صحیح]

” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ (مردہ) اسوقت جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ سنتا ہے جب لوگ اس سے واپس ہوتے ہیں "۔

امام حاکمؒ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ہَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ یعنی یہ حدیث صحیح ہے مسلم کی شرط پر۔

اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ مردہ دفن کے بعد قبر میں قبر سے واپس ہونے والے لوگوں کی جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ اور آواز سنتا ہے اور جب یہ سنتا ہے تو انسانوں کی آواز بطریق اولیٰ سنتا ہے۔ لیکن اس کے سننے سے یہ بات نہیں کہ وہ سن کر کسی کی کوئی مدد بھی کر سکتا ہے جیسا آج کل جاہل مشرکین کا خیال ہوتا ہے اور یہ بھی نہیں کہ ان مشرکین کے ڈر سے بندہ نبیﷺ کی حدیث کا ہی انکار کر دے۔

23۔ غیر مدخولہ کو ایک لفظ سے تین طلاق دینے کو واقع نہ سمجھنا۔

24۔ علماء سلف کی عبارات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا اور ان کی طرف جھوٹ منسوب کر دینا۔

25۔ فقہاء کرام پر کافروں والی آیات فٹ کرنا۔

26۔ حدیث کے معنی میں صحابی کو بھی چھوڑنا تابعی کو بھی چھوڑنا اور ان کے خلاف اپنا من گھڑت معنی بیان کرنا۔

27۔ اللہ کی ذات جہاں مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے تھی اب وہاں نہیں ہے۔

28۔ عرش اور اللہ کی ذات کے درمیان بھی ایک فاصلہ غیر اللہ یعنی مخلوق ہے۔

29۔ تین طلاق کو تین ماننا گمراہی ہے۔

30۔ حدیث اور سنت میں کوئی فرق نہیں۔

31۔ عورتیں بھی مردوں کی طرح ٹانگیں چوڑی کرکے نماز پڑھیں

32۔ جماعت اہلسنت حنفی شافعی مالکی حنبلی کے مقابلے میں شیعوں اور مرزئیوں کے عقائد و مسائل کو ترجیح دینا

33۔ فاتحہ کے قرات ہونے کا انکار

34۔ تواتر کا انکار

35۔ قرآن حدیث کو جان چھڑانے کا ذریعہ بنانا۔

36۔ ضعیف اور موضوع حدیث میں کوئی فرق نہ کرنا۔

37۔ اپنی ذاتی تحقیق سے فقہ لکھ کر اسے نبیﷺمعصوم کی طرف منسوب کر دینا۔

38۔ نبیﷺ کی قبر اطہر کے پاس یہ عقیدہ رکھ کر صلاۃ سلام پیش کرنا ہے کہ نبیﷺ یہ نہیں سن رہے

39۔ اپنی ہر غلطی کو اجتہادی خطا کا نام دے دینا

40۔ اللہ کی صفات متاشابہات کو لغت سے سمجھنا۔

41۔ امام ابو حنیفہؒ پر لعن طعن کرنا۔

42۔ بلا دلیل بات کی پیروی کو اتباع کہنا غلط ہے۔

43۔ طلاق کی دل میں نیت سے بھی نکاح نہیں ہو گا بلکہ زنا ہو گا

44۔ حد نہیں کا مطلب جائز ہونا ہوتا ہے۔

غیرمقلدین کے کئی جاہل علماء نے فقہ کے خلاف اپنی کتب اور تقاریر میں ایسا کہا ہے اور کہتے ہیں اور انکی عوام بھی یہی کہتی ہے۔

اب ذرہ یہ لوگ ایک سوال کا جواب دیں کہ

پیشاب پینے پر کتنی حد ہے ؟

اگر حد ہے تو حد دکھائیں اگر نہیں ہے تو پی کر دکھائیں۔

٭٭٭

 

 

عقیدہ وحدت الوجود

جاوید خان صافی

اہل حدث عرف وکٹورین علماء دیوبند پر بھتان لگاتے ہیں کہ علماء دیوبند وحدتُ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں جوکہ ایک کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے ۰ یہ بتاون فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل چند جہلاء نے پھیلایا ہوا ہے اور اپنی طرف سے عوام کواس مطلب بتلاتے ہیں پھران سے کہتے ہیں یہ علماء دیوبند کا عقیدہ ہے، اس باب میں ایک مختصر مگرجامع مضمون لکھنا چاہتا ہوں۔

1۔ علماء حق علماء دیوبند پر ایک بہتان چند جہلاء ونام نہاد اہل حدیث کی طرف سے یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے لئے حُلول واتحاد کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کو ” وحدتُ الوجود ” کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب ومفہوم یہ لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ( معاذاللہ ) اللہ تعالی تمام کائنات کے اجزا مثلا حیوانات جمادات نباتات وغیرہ ہر چیز میں حلول کیا ہوا ہے یعنی مخلوق بعینہ خالق بن گیا اور جتنی بھی مشاہدات ومحسوسات ہیں وہ بعینہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ )معاذاللہ ثم معاذاللہ وتعالی اللہ عن ذالک علوا کبیرا (

ناحق بہتان والزام لگانے والے جہال ومتعصبین کا منہ کوئی بند نہیں کرسکتا اور نہ کوئی مقرب جماعت علماء اس سے محفوظ رہ سکتی ہے اور ہرزمانے میں کمینے اور جاہل لوگوں نے علماء ربانیین کی مخالفت وعداوت کی ہے، لہذا جولوگ اپنی طرف سے ” وحدتُ الوجود ” کا یہ معنی کرکے اس کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں یقینا ایسے لوگ اللہ تعالی کے پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے علماء دیوبند اور دیگر صوفیہ کرام ” وحدتُ الوجود ” کے اس کفریہ معنی ومفہوم سے بری ہیں۔ واضح رہے کہ کچھ بدبخت لوگ اس بیان وتصریح کے بعد بھی یہ بہتان لگاتے رہیں گے کیونکہ ان کا مقصد حق بات کو قبول کرنا اور اس پرعمل کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد وحید توابلیس کی پیروی کرتے ہوئے علماء حق علماء دیوبند کی مخالفت وعداوت ہی ہے چاہے علماء دیوبند ہزار باریہ کہیں کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے ہماری نصیحت تو ایسے عام ناواقف لوگوں کے لئے ہے جوایسے جھوٹے اور جاہل لوگوں کی سنی سنائی باتوں کی اندھی تقلید کرکے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ اور اس بارے میں امام شعرانی شافعی رحمہ اللہ کے یہ نصیحت آمیز کلمات ذہن میں رکھیں قسم اٹھا کرفرماتے ہیں کہ:

جب بتوں کے پجاریوں کو یہ جراءت نہیں ہوئی کہ اپنے معبودان باطلہ کو عین اللہ تعالی کی ذات تصور کریں بلکہ انہوں نے بھی یہ کہا جیسا کہ قرآن میں ہے

مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّہِ ( سورہ ۳٩، الزمر: 3 )

یعنی ہم ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں تو اولیاء اللہ کے متعلق یہ بہتان لگانا کہ وہ، حلول واتحاد، کا عقیدہ رکھتے تھے سراسر بہتان اور جھوٹ ہے اور ان کے حق میں ایک محال وناممکن دعوی ہے جس کو جاہل واحمق ہی قبول کریگا۔

2۔ جن صوفیہ کرام اور بزرگان دین کے کلام میں ” وحدتُ الوجود ” کا کلمہ موجود ہے اور ایسے لوگوں کی فضل وعلم تقوی و ورع کی شہادت کے ساتھ ان کی پوری زندگی اتباع شرع میں گذری ہے تو اس حالت میں ان کے اس کلام کی اچھی تاویل کی جائے گی جیسا کہ علماء محققین کا طریقہ ہے اس قسم کے امور میں۔ اور وہ تاویل اس طرح کہ ایسے حضرات کی مراد ” وحدتُ الوجود ” سے وہ نہیں ہے جو ملحد و زندیق لوگوں نے مراد لیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اس کلمہ اور اس طرح کے دیگر کلمات جو صوفیہ کرام کی کتب میں وارد ہوئے ہیں جو بظا ہر خلاف شرع معلوم ہوتے ہیں ان کی مثال اس اعرابی کی طرح ہے جس کی دفاع خود آپﷺ نے کی ہے صحیح بخاری ومسلم کی روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جنگل بیابان میں اپنی سواری پر سفر کر رہا تھا اس پر اس کا کھانا پینا بھی تھا لہذا وہ تھکاوٹ کی وجہ سے آرام کے کے لئے ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گیا جب اٹھا تو دیکھا کہ سواری سامان سمیت غائب ہے وہ اس کو تلاش کرنے کے لئے گیا لیکن اس کو نہیں ملا لہذا پھر اس درخت کے نیچے مایوس ہو کر لوٹ آیا اور موت کے انتظار میں سو گیا پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری بھی موجود ہے اور کھانا پینا بھی وہ اتنا خوش ہوا بلکہ خوشی وفرحت کے اس انتہا پہنچا کہ اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے

ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﻧﺖَ ﻋﺒﺪﯼ ﻭﺍﻧﺎ ﺭﺑُﮏ

یعنی اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب، اسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی بندہ کی توبہ سے اِس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔

جاء فی الحدیث الذی رواہ الإمام مسلم للہ أشد فرحاً بتوبۃ عبدہ حین یتوب إلیہ من أحدکم کان على راحلتہ بأرض فلاۃ فانفلتت منہ وعلیھا طعامہ وشرابہ فأیس منھا فأتى شجرۃ فاضطجع فی ظلھا وقد أیس من راحلتہ فبینما ھو کذلک إذ ھو بھا قائمۃ عندہ بخطامھا، ثم قال من شدۃ الفرح : اللھم أنت عبدی وأنا ربک ! أخطأ من شدۃ الفرح

اوکما قال النبیﷺ

اب اس حدیث میں اس آدمی کا قول اے اللہ تو میرابندہ میں تیرا رب کیا ان ظاہری الفاظ کو دیکھ کر نام نہاد اہل حدیث وہی حکم لگا ئیں گے جو دیگر اولیاء وعلماء کے ظاہری الفاظ کو لے کر اپنی طرف سے معنی کرکے حکم لگاتے ہیں ؟ یا حدیث کے ان ظاہری الفاظ کی تاویل کریں گے ؟خوب یاد رکھیں کہ ” وحدتُ الوجود ” کا مسئلہ نہ ہمارے عقائد میں سے ہے نہ ضروریات دین میں سے ہے، نہ ضروریات اہل سنت میں سے، نہ احکام کا مسئلہ ہے کہ فرض واجب سنت مستحب مباح کہا جائے بلکہ صوفیہ کرام کے یہاں یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے اور یہ صوفیہ کرام کے یہاں محض احوال کا مسئلہ ہے فقط اور اس سے وہ صحیح معنی ومفہوم مراد لیتے ہیں۔

٭٭٭

Direct Jump!

‘سر بکف’ کی برقی کتاب یعنی پی ڈی ایف فائل (PDF file) اور اوپر لکھے صفحہ نمبر (Page number)مطابق کر دیے گئے ہیں۔ اب آپ کسی بھی صفحے پر براہِ راست جا سکتے ہیں۔

جملہ حقوق محفوظ©دوماہی "سربکف” مجلہ

 

 

 

 

 

 

 

 

نام نہاد اہل حدیث کے پچاس سوالات کے جوابات

عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری

 

 

 

 

 

(1) تقلید کسے کہتے ہیں ؟

جواب: غیر منصوص مسائل میں مجتہد کے قول کو تسلیم کر لینے یا بالفاظ دیگر دلیل کی تحقیق اور مطالبہ کے بغیر محض اس حسن ظن پر کسی کا قول مان لینے کو تقلید کہتے ہیں کہ وہ دلیل کے موافق ہی بتائے گا۔

(2)تقلید ضروری کیوں ہے ؟

جواب: اس لئے کہ ہرفرد شریعت کا مکلف ہے، اور اس کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے، اور ہرکس وناکس براہ راست قرآن وحدیث سے مسائل کا استنباط واستخراج نہیں کرسکتا، اس لئے غیر مجتہد کے لئے تقلید ضروری ہے۔

(3)تقلید کس کی ضروری ہے ؟

جواب: مجتہد، اہل الذکر، اولوا الامر اور منیب الی اللہ کی۔

(4)کیوں میں حنفی ہوں ؟

(5)کیوں میں مالکی ہوں ؟

(6)کیوں میں شافعی ہوں ؟

(7)کیوں میں حنبلی ہوں ؟

جواب: آپ کچھ بھی نہیں ہیں، آپ کی تو دنیا ہی الگ ہے، ہاں جولوگ ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کو مجتہد ومنیب الی اللہ سمجھ کر ان کے اجتہادی فیصلوں پر عمل کرتے ہیں، اور غیر منصوص مسائل میں ان کی اتباع اور تقلید کرتے ہیں، وہ اسی اتباع اور تقلید کی وجہ سے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کہلاتے ہیں۔

(8)کیا تقلید کرنا فرض ہے ؟

جواب: تقلید فرض نہیں بلکہ واجب لغیرہ ہے، اور وہ غیر شریعت کی پاسداری ہے۔

(9)تقلید کب تک کرنا ضروری ہے ؟

جواب: جب تک مکلف کے اندر اجتہادی اور استنباطی واستخراجی صلاحیت نہ ہو جائے۔

(10)جب عیسی علیہ السلام دنیا میں پھر سے نازل ہونگے تو ان چار اماموں میں سے کس کی تقلید کریں گے ؟

جواب: کسی کی بھی نہیں، بلکہ وہ خود مجتہد ہوں گے، اور مجتہد کے لئے اجتہاد واجب اور تقلید حرام ہے۔

(11)عیسی علیہ السلام جس امام کی تقلید کریں گے وہ حق پر ہو گا کیوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ؟

جواب: کسی امام کی تقلید کریں گے ہی نہیں، پھر حق وناحق کا مسئلہ کیسا؟

(12)چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنے کا حکم کس نے دیا؟ اللہ نے ؟ رسول نے ؟ خود ان اماموں نے ؟ یا آج کے مولویوں نے ؟

جواب: سب نے دیا ہے، اللہ نے بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی، اور خود ائمہ اور علماء نے بھی،

اس لئے کہ سب نے قرآن وسنت پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، اور یہ غیر مجتہد کے لئے اجتہادی مسائل میں کسی مجتہد کے اجتہادی فیصلے کو تسلیم کئے بغیر ہو ہی نہیں سکتا، اور اسی کا نام تقلید ہے۔

(13)اسلام میں صرف چار طرح کا حکم ہے، فرض، واجب، سنت اور نفل، تو پھر ان چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا کیا ہے، فرض، واجب، سنت یا نفل؟

جواب: واجب لغیرہ ہے، اور وہ غیر جس کی وجہ سے تقلید واجب ہوئی احکام شرعیہ کی پاسداری ہے

اگر نفل ہے تو پھر آپ کے لئے فرض کیسے بن گئی؟

جواب: کس نے کہا کہ فرض ہے ؟

جب ہم نے نہ نفل کا دعوی کیا نہ فرض کا، تو نفل کا اثبات اور فرض کا استفہامیہ انکار چہ معنی دارد؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب تک جو تقلید آپ کے یہاں حرام، شرک، ناجائز اور نہ جانے کیا کیا تھی، وہ اب نفل ہو گئی؟

(14)صحابہ کون تھے ؟ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی؟

جواب: صحابہ کس کی قرآت پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے ؟ اور حدیث کی کونسی کتاب پڑھتے تھے ؟ بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابوداؤد یا ابن ماجہ؟

جس طرح قراء سبعہ اور ائمہ محدثین سے پہلے صحابہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے اور حدیث پڑھتے پڑھاتے تھے، اسی طرح فقہ ائمہ اربعہ کی تدوین سے پہلے احکام شرعیہ پر عمل بھی کرتے تھے۔

(15)کیا صحابہ میں کوئی ایک صحابی اس قابل نہیں تھا کہ ان کو اپنا امام بنادیا جائے ؟

جواب: کیا صحابہ میں کوئی اس قابل نہیں تھا کہ اس کی قرآت پر قرآن کریم کی تلاوت کیجائے اور اس کی کتاب پڑھی پڑھائی جائے اور اسی کو اپنا مستدل بنایا جائے ؟

(16)صحابہ کا درجہ بڑا ہے یا بعد والے امتیوں کا؟ پھر ان میں سے کوئی امام کیوں نہیں بنا؟

جواب: صحابہ کا درجہ بڑا ہے یا بعد والے امتیوں کا؟ پھر ان کی قرآت اور کتاب کیوں نہیں پڑھی پڑھائی جاتی؟

(17)ہم تو چار امام کو مانتے ہیں، لیکن شیعہ تو بارہ امام کو مانتے ہیں، تو پھر ہم ان کو گمراہ کیوں کہتے ہیں ؟

جواب: ائمہ کی تعداد گمراہی کا سبب نہیں، اور نہ ہم اس وجہ سے انہیں گمراہ کہتے ہیں، ورنہ تو آپ کو شیعوں سے بھی بڑھ کر گمراہ سمجھتے۔

بلکہ گمراہی کا سبب فساد عقیدہ ہے، ہم ائمہ اربعہ کو اولوا الامر، اہل ذکر، مجتہد ومنیب، قانون دان، شارح اور غیر معصوم سمجھتے ہیں، جب کہ شیعہ اپنے بارہ ائمہ کو قانون ساز، شریعت ساز اور معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں، جو یقینا گمراہی ہے۔

(18)کیا ان چار اماموں میں سے کسی ایک امام کا نام قرآن وحدیث میں آیا ہے ؟

جواب: جس طرح شریعت پر عمل کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں آیا ہے، لیکن ائمہ محدثین اور قراء سبعہ کا نام نہیں آیا۔ اسی طرح احکام شرعیہ کی پاسداری کا حکم تو قرآن وحدیث میں آیا ہے، لیکن ائمہ اربعہ کا نام نہیں آیا۔

(19)جو لوگ ان چار اماموں کے پیدا ہونے سے پہلے مرچکے ان کا کیا ہو گا ؟

جواب: ان کی فکر چھوڑیے، پہلے آپ اپنی فکر کیجئے کہ مرنے کے بعد آپ کا کیا ہو گا؟ اس لئے کہ ائمہ اربعہ سے پہلے کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ تھا، لوگوں کے اندر تدین، تقوی، خوف آخرت، خشیت الہی اور اتباع شریعت کا غلبہ تھا، وہ آپ کی طرح خواہش پرست اور ہوا وہوس کے دلدادہ نہیں تھے کہ۔ ۔ ۔..

میٹھا میٹھا ہپ ہپ

کڑوا کڑوا تھو تھو

(20)ان چار اماموں کے والدین کس امام کی تقلید کرتے تھے ؟

جواب: قراء سبعہ اور ائمہ محدثین کے والدین کس کی قرآت پر قرآن اور کس کی حدیث کی کتاب پڑھتے تھے ؟

(21)امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد (رحمہم اللہ) کونسے امام کو مانتے تھے ؟

جواب: سارے ائمہ کو مانتے تھے، البتہ کسی امام کی تقلید نہیں کرتے تھے، اس لئے کہ وہ خود مجتہد ومستنبط تھے، اور مجتہد کے لئے اجتہاد واجب ہے۔

(22)اگر میں ایک امام کو مانتا ہوں تو کیا باقی امام حق پر نہیں ؟

جواب: ہم تو سارے ائمہ کی امامت تسلیم کرتے بلکہ برحق مانتے ہیں، ہاں اگر ماننے کا مطلب اس کے فیصلہ کے مطابق شریعت پر عمل کرنا ہو، تو یہ بتادیں کہ اگر آپ ایک نبی کو مانتے ہیں اور ایک قاری کی قرات پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، تو کیا باقی انبیاء اور قراء حق پر نہیں ؟

(23)اگر سب امام حق پر ہیں تو پھر میں ایک ہی امام کے پیچھے کیوں ؟

جواب: اس لئے کہ آپ خواہش پرست اور ہوا وہوس کے دلدادہ ہیں، اور شریعت خواہش پرستی سے منع کرتی ہے۔

(24)امام ایک دوسرے کے استاذ شاگرد تھے تو پھر ان کی فقہ الگ الگ کیوں ؟

جواب: جس طرح ائمہ محدثین کی کتابیں ایک دوسرے کا شاگرد ہونے کے باوجود الگ الگ ہیں، اسی طرح ائمہ کی فقہ بھی الگ الگ ہو گئی۔

(25)اگر سب امام حق پر ہیں تو پھر ان کے اندر آپس میں اختلاف کیوں ؟

جواب: جس طرح سارے صحابہ اور سارے قراء کا حق پر ہونے کے باوجود آپس میں اختلاف ہے، اسی طرح ائمہ کا بھی اختلاف ہے، اس لئے کہ کسی بھی امام کا کوئی ایسا قول نہیں جو کسی صحابی سے ثابت نہ ہو۔

(26)ان چار اماموں میں سے باقی تین اماموں کی اپنی لکھی ہوئی کتاب آج بھی موجود ہے، لیکن ابوحنیفہ کی لکھی ہوئی کتاب کا نام کیا ہے ؟ یہ کتاب حنفی مسجدوں میں کیوں نہیں پڑھائی جاتی؟

جواب: اگر اطاعت وفرماں برداری یا تقلید واتباع کے لئے مطاع ومتبوع کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب کا ہونا ضروری ہے، تو یہ بتائیے کہ امام الائمہ بلکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک یا صحابہ کرام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کونسی کتاب دنیائے اہل حدیث میں موجود ہے، جسے آپ لوگ اپنی مساجد میں پڑھ پڑھا کر عمل کرتے ہیں ؟

(27)اگر امام کو نہ ماننا گناہ ہے، تو ایک امام کو ماننے سے دوسرے تین امام چھوٹ جاتے ہیں، اس کا گناہ میرے سر پر کیوں ؟

جواب: جس طرح ایک نبی اور ایک قاری کو ماننے سے باقی انبیاء اور قراء نہیں چھوٹتے، اسی طرح ایک امام کو ماننے سے دوسرے ائمہ بھی نہیں چھوٹتے، اس لئے کہ سب کی تعلیم ہے کہ شریعت پر عمل کرو اور خواہشات کی اتباع نہ کرو، اور یہ ایک امام کی مان کر ہی ہوسکتا ہے، آپ گناہ کی بالکل فکر نہ کریں۔

(28)جب اماموں نے اپنے آپ کو حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی جیسی نسبتوں سے نہیں جوڑا، تو پھر میں کیوں اپنے آپ کو ایسی نسبتوں سے جوڑتا/جوڑتی ہوں ؟

جواب: جب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آپ کو محمدی، اہل حدیث، اہل اثر اور سلفی اثری وغیرہ نسبتوں سے نہیں جوڑا، تو پھر آپ کیوں آپ آپ کو ان نسبتوں سے جوڑتے /جوڑتی ہیں ؟ اور ان ناموں سے متعارف کراتے /کراتی ہیں ؟

(29)کیا ہمارے امام نے ہم سے کہا ہے کہ صرف میری ہی تقلید کرنا، اور میرے علاوہ کسی کی بھی تقلید نہ کرنا؟

جواب: امام نے یہ کہا ہے کہ قرآن وسنت پر عمل کرنا اور خواہشات کی پیروی مت کرنا، اور یہ ایک امام کی ہی تقلید سے ہوسکتا ہے، جیسا کہ علماء امت نے صراحت کی ہے۔

(30)کیا میرا منہج وہی ہے جو ہمارے امام کا تھا ؟

جواب: جی ہاں ہمارا منہج تو وہی ہے جو ہمارے امام کا ہے، البتہ چونکہ آپ کا کوئی امام ہی نہیں اس لئے آپ لامنہج اور لامذہب ضرور ہیں

(31)میں اپنے امام کے بارے میں کتنا جانتا ہوں ؟

جواب: جب آپ کا کوئی امام ہی نہیں، تو آپ کیا جانیں گے، البتہ اتنا ضرور بتادیجئے کہ جس نبی کا آپ کلمہ پڑھے ہیں، اور جن کی امامت اور رسالت ونبوت کا اقرار جزو ایمان ہے، ان کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں ؟

(32)کتنی کتاب اب تک میں نے یا میرے گھر والوں نے اپنے امام کی پڑھی ہے ؟

جواب: جب آپ اور آپ کے گھر والوں کا کوئی امام ہی نہیں، تو اس کی کتاب کیا پڑھیں گے ؟ ہاں یہ ضرور بتادیجئے کہ آپ یا آپ کے گھر والوں نے اب تک امام الائمہ بلکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی اب تک کتنی کتابیں پڑھی ہیں ؟

(33)قبر میں فرشتے کیا مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ بتا تیرا امام کون ہے ؟

جواب: یہ تو نہیں پوچھیں گے، البتہ جو سوال کریں گے ان کا جواب ان ائمہ کی تقلید کے بغیر مشکل ہے۔

(34)قیامت کے دن کیا مجھ سے یہ سوال کیا جائے گا کہ بتا تیرا امام کون تھا؟ اور تو اس کی تقلید کرتا تھا؟

جواب: یہ پوچھا جائے گا کہ بتا تو نے شریعت کے احکامات پر عمل کیا یا نہیں ؟ اور شریعت کے غیر منصوص احکام پر غیر مجتہد کے لئے کسی مجتہد کی تقلید کے بغیر عمل کرنا دشوار ہے۔

(35)قبر میں یا قیامت کے دن باقی تین اماموں کے بارے میں کیا جواب دوں گا ؟

جواب: آپ اگر کسی ایک کی مان کر احکام شرعیہ پر عمل کر لئے تو باقی ائمہ کے بارے میں آپ سے پوچھا ہی نہیں جائے گا، تو جواب کی تیاری کیسی؟

ہاں اگر عامی اور جاہل ہونے کے باوجود کسی کی نہیں سنے، تو آپ کی جہالت آپ کو نہیں بچا سکے گی، اور یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ جب معلوم نہیں تھا تو اپنی خواہش پرستی ونفس پرستی کے مقابلے میں کسی اولوا الامر اور اہل ذکر سے پوچھ کر عمل کیوں نہیں کیا ؟

(36)اگر میں نے اپنے امام کا نام بتا بھی دیا، اور اگر مجھ سے یہ سوال ہو گیا کہ صرف اس امام ( مثلا امام شافعی) کی ہی تقلید کو کیوں چنا؟ تو اس کا میں کیا جواب دوں گا ؟؟

جواب: ایسی صورت میں کسی اور کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا، اس لئے کہ کسی ایک امام کی تقلید سے مقصود اصلی (احکام شرعیہ پر عمل) حاصل ہو جاتا ہے۔

(37)کیا میری یا میرے والدین کی یا میرے علماؤوں ٭کی اتنی حیثیت ہے کہ کس امام کو مانا جائے اور کس کو چھوڑا جائے ؟

جواب: حیثیت نہیں، بلکہ بتوفیق الہی صحیح اور غلط، اور حق وباطل کی تمیز اور صحیح راستے کی رہنمائی ہے، جسے توفیق خداوندی اور ارائۃ الطریق کہا جاتا ہے، اور یہی ارائۃ الطریق کا فریضہ ہم آپ کے ساتھ بھی انجام دے رہے ہیں،

اللہ ہماری اور آپ کی راہ راست کی رہنمائی فرمائے، اور تاحیات اس پر قائم رکھے۔

(38)کیا یہ لوگ امام سے زیادہ تقوی والے اور علم والے ہیں ؟

جواب: امام سے زیادہ تو نہیں، البتہ آپ، آپ کے علماء اور والدین سے علم وتقوی میں زیادہ ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لئے کہ آپ کے علماء (جو درحقیقت جہلاء ہیں ) خود دین حق سے جاہل اور غلط راستے پر ہیں، تو پھر ان کے شانہ بشانہ چلنے والے آپ اور آپ کے والدین کے پاس کہاں سے علم اور تقوی آئے گا۔

(39)اور ایک خاص سوال یہ ہے کہ جب یہ امام نہیں تھے تو مسلمان کس کی تقلید کرتے تھے ؟

جواب: جس طرح قراء سبعہ اور ائمہ محدثین سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت اور حدیث پڑھی پڑھائی جاتی تھی، اسی طرح غیر منصوص مسائل پر عمل بھی ہوتا تھا۔

٭بھائیو! اگر آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں، تو معاف کرنا، آپ نہ حنفی ہیں، نہ مالکی اور نہ حنبلی

جواب: سارے سوالات کے جوات بحمد اللہ ہیں، بلکہ دے بھی دیئے، اور یقینا ہم مسلکا حنفی ہیں، والحمد للہ علی ذلک

٭اور شاید آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ آپ کیا ہیں ؟؟

جواب: ہمیں تو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم دینا مسلم، مسلکا حنفی اور نسبتا دیوبندی ہیں، البتہ آپ کیا ہیں ؟ اس کی وضاحت ضرور فرمادیں۔

اور کچھ سوالات:

جواب: جی! فرمائیں، ہم بھی خدمت کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

(40)وہ کونسا امام ہو گا جو اللہ کے آگے ہماری سفارش کے لئے سجدہ میں جائے گا ؟

جواب: خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کے لائے ہوئے دین پر عمل کرنے کے لئے ہم نے ائمہ کی تقلید اختیار کیا ہے۔

(41)وہ کونسا امام ہو گا جس کی سفارش ہمارے حق میں اللہ قبول کرے گا ؟

جواب: امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور دیگر مقبول بارگاہ خداوندی، جنہیں خاص اجازت حاصل ہو گی۔

(42)وہ کونسا امام ہو گا جو حوض کوثر پر کھڑا ہو گا ؟

جواب: خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہونگے، اور اپنے لائے ہوئے دین میں تبدیلی کرنے والوں کو سحقا سحقا لمن بدل دینی کہہ کر حوض سے دور بھگائیں۔

 

(43)وہ کونسا امام ہو گا جس کے بارے میں ہم سے قبر میں سوال ہو گا ؟

جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کی شریعت پر عمل کرنے کے لئے ہم نے ائمہ مجتہدین کے دامن کو پکڑا ہے۔

(44)وہ کونسا امام ہے جس کی اطاعت اللہ کی اطاعت اور جس کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے ؟

جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور اسی اطاعت کے جذبہ اور نافرمانی سے بچنے کے لئے ہم نے ائمہ مجتہدین کی تقلید اختیار کیا ہے۔

(45)وہ کونسا امام ہے جس کا کلمہ ہم نے پڑھا ہے ؟

(46)وہ کونسا امام ہے جو اپنی امت کی خاطر رویا ہے ؟

(47)وہ کونسا امام ہے جس کے لائے ہوئے دین پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے ؟

جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کے لائے ہوئے دین اور شریعت پر عمل کرنے اور خواہش پرستی سے بچنے کے لئے ہم نے ائمہ کی تقلید کی ہے۔

(48)سوچئے ! کیا ہم اتنے غافل ہیں اسلام سے ؟

جواب: اگر ہم اسلام سے غافل ہوتے، تو اس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے کسی اولوا الامر اور اہل ذکر کی تقلید ہی کیوں کرتے ؟ آپ کی طرح مادر پدر آزاد گھومتے پھرتے نہیں ؟؟

(49)کیا تقلید کی وجہ سے یہ امت فرقوں میں نہیں تی ؟

جواب: نہیں، اس لئے کہ مقلدین کا باہمی جو اختلاف ہے وہ وہی ہے جس میں صحابہ وتابعین باہم مختلف تھے، اور یہ کوئی معیوب نہیں !

البتہ اس سے شاید کسی بھی عقلمند کو انکار نہ ہو کہ جب تک ہند وپاک میں تقلید پر اتفاق رہا، سارے مسلمان باہم شیر وشکر تھے، کسی کے اندر اسلام کی طرف غلط نگاہ بھی اٹھانے کی ہمت نہیں تھی، لیکن افسوس! کہ جب آپ کے آباؤ واجداد نے ترک تقلید اور مادر پدر آزادی کا نعرہ لگایا، اسی وقت سے آج تک امت ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوسکی، اور وہ مسلمان جو اب تک شیر وشکر تھے، باہم دست وگریباں ہونے لگے، اور آج اس کے نتیجہ میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے،

یہ کوئی لفاظی نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جنہیں آپ کے بڑوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔

(50)اگر اختلاف اس امت کے لئے رحمت ہے تو پھر ہم اور زیادہ اختلاف کریں ؟

جواب: ہند وپاک میں آپ کے جنم لئے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے، اور ان ایام میں آپ نے جمہور امت ( جو ائمہ اربعہ کی تقلید پر متفق تھی) سے قادیانیت، نیچریت، انکار حدیث، مودودیت اور نہ جانے کتنے فرقے اپنی کوکھ سے جنم دیئے، اب باقی کیا رہ گیا ہے، جو اور کریں گے۔

خدا را امت کو اب اور فرقوں میں مت تقسیم کیجئے، بہت ہو گیا، اختلاف کا جو مقصد تھا وہ بھی آپ کو حاصل ہو گیا، جاگیریں اور جائیدادیں بھی ملیں، انگریز ملک چھوڑنے کے باوجود اب تک آپ کے احسانوں کو فراموش نہیں کرسکا،

فی الحال اسلام پر ہرچہار جانب سے حملے ہورہے ہیں، سب کا نشانہ واحد اسلام ہے، سب کی نگاہیں اسلام کی طرف اٹھی ہوئی ہیں، ہر ایک موقع کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھا ہے، ایسے وقت میں امت مسلمہ کے اتحاد کی سخت ضرورت ہے،

خدا را! خدا را! امت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرو، اور جو ایک ہیں ان میں انتشار نہ پیدا کرو۔

اللہ ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے اور باطل وگمراہ راستے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہم اھدنا الصراط المستقیم

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔

٭٭٭

 

عورتوں کی امامت کا مسئلہ اور غیر مقلد علماء کا جھوٹ، خیانت اور دھوکہ

حافظ محمود احمد(عرف عبد الباری محمود)

قارئین کرام! علمائے اہلحدیث (غیر مقلدین علماء) کو احناف اور فقہ حنفی سے اس قدر چڑھ ہے کہ وہ جہل، جھوٹ، خیانت اور بد دیانتی کا سہارا لیکر آے ٔ دن فقہ حنفی اور احناف کو بدنام کرتے رہتے ہیں جس کا ایک نمونہ یہاں پیش کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔

فرقہ اہلحدیث کے ایک بہت بڑے عالم جنکا نام ابوالاقبال سلفی ہے، اپنی کتاب "اصلی اسلام کیا ہے ؟ اور جعلی اسلام کیا؟” میں جگہ جگہ جھوٹ، خیانت اور بد دیانتی کا مظاہرہ کیا ہے، (تفصیل جاننے کیلئے دیکھئے : مولانا مرتضیٰ حسن صاحب سدھارتھ نگری کی کتاب "ضدی ابلیس” اور "پردہ اُٹھ رہا ہے ")

اس کتاب کے صفحہ۴۷۹/پر عورتوں کی امامت سے متعلق دو روایتیں نقل کرتے ہیں :

عَنْ اُمِّ وَرَقَۃَ اَمَرَھَا اَنْ تَؤُمَّ اَھْلَ دَارِھَا. (ابوداؤد باب امامت النساء)

رسول اللہﷺ نے (حضرت، ناقل) ام ورقہ(رضی اللہ عنہا، ناقل) کو اپنے گھر والوں کی امامت کرانے کا حکم دیا۔

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّھَا تَؤُمُّ النِّسَاءَ وَتَقُوْمُ وَسْطَھُنَّ. (مستدرک حاکم باب امامت المرأۃ)

حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا صف کے بیچ میں کھڑی ہو کر عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔ ”

پھر لکھتے ہیں :

"دونوں حدیثیں بالکل صاف اور واضح ہیں۔ ایک میں رسول کا حکم ہے ۔ ۔ ۔ دوسری میں زوجۂ رسولؐ کا اس پر عمل ہے۔ لیکن حنفی مذہب اللہ کے رسول کے اس حکم کو نہیں مانتا۔ نہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کے اس حکم (یہاں سلفی صاحب نے اپنی جہالت سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے "عمل” کو "حکم” بنا دیا ہے، ناقل) پرعمل کرنے کو پسند کرتا ہے۔ بلکہ اپنی طرف سے گڑھ کر فتوی دیتا ہے۔ اور اس حکم رسولؐ کی مخالفت کرتا ہے۔ ”

یہی سلفی صاحب اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں :

"ناظرین یہ ہیں صحیح احادیث جن سے صاف طور پر ثابت ہے کہ عورتیں عورتوں کی امامت کرسکتی ہیں۔ لیکن حقانی اور حنفیہ ان تمام صحیح حدیثوں کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ عورت عورتوں کی امامت نہیں کرا سکتی۔ یہ امت حنفیہ ہے اس لئے اسلام کے رسول کا حکم یہ کیوں کر مان سکتی ہے۔ ” (مذہبِ حنفی کا دینِ اسلام سے اختلاف، صفحہ ۴۵)

اس فرقہ کے ایک اور بڑے عالم حکیم صادق سیالکوٹی اپنی کتاب "سبیل الرسول” میں لکھتے ہیں :

"حنفی بھائیو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو صرف عورتوں کو بھی جماعت سے نماز پڑھنے کی اجازت دیں۔ عورت کی امامت عورت کے لئے روا رکھی، لیکن فقہ میں یہ کام منع قرار پائے کہ حدیث کی برابری کتنی بری چیز ہے ” (صفحہ ۱۵۷)

اسی فرقہ کے ایک اور مشہور غیر مقلد عالم فاروق الرحمٰن صاحب یزدانی حضرت عائشہؓ کی مستدرک حاکم اور ابوداؤد کے حو آلہ سے روایت مع ترجمہ نقل کرکے لکھتے ہیں :

"اس روایت سے کس قدر واضح ہے کہ عورت عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے۔ ابوداؤد شریف کی روایت میں ام ورقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود جماعت کرانے کا حکم دیا ہے اور مستدرک حاکم کی روایت میں فرض نماز کا بھی ذکر ہے کہ وہ امامت فرض نماز کی ہوتی تھی۔ مگر کیا کیا جائے اس رائے و قیاس کے مرض کا کہ حدیث پیغمر صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت اس نے اپنا شعار بنالیا ہے چناچہ فقہ حنفی میں لکھا ہے :

ویکرہ للنساء ان یصلین وحدھن الجماعۃ [ہدایہ ج۱، ص۱۲۵، کتاب الصلوٰۃ، باب الامامۃ، شرح وقایہ ۱۷۶/۱، قدوری ص۴۴]

یعنی مکروہ سمجھا گیا ہے کہ عورتیں علیحدہ جماعت سے نماز پڑھیں۔ یعنی مردوں کی جماعت کے علاوہ جماعت کرائیں۔ ”

مزید لکھتے ہیں :

"قارئین اوپر آپ نے حدیث پڑھی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ام ورقہؓ کو جماعت کرانے کا حکم دیا ہے مگر یہ فقہ حنفی ہے کہ اسے مکروہ سمجھ رہی ہے۔ تو گویا جس کام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کرنے کا مشورہ ہی نہیں بلکہ کرنے کا حکم دیں لیکن فقاہت کا تقاضہ ہے کہ اس کو نا پسند کیا جائے۔ یہ حال ہے امت کے دعویداروں کا۔ ” (احناف کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اختلاف، صفحہ ۳۱۸ و ۳۱۹)

***الجواب***

قارئین کرام! نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دے رکھی تھی کہ اگر عورتیں اپنی جماعت کریں تو ان کی نماز باطل نہیں ہو گی بلکہ جائز ہو گی لیکن ابوالاقبال سلفی، حکیم صادق سیالکوٹی اور فاروق الرحمٰن یزدانی نے اس کو ایسا بیان کیا ہے کہ گویا صحابہ کرام اور اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں اس پر برابر عمل ہوتا رہا ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں استمرار کے ساتھ اس پر عمل نہیں تھا (جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا)

لیکن ابوالاقبال سلفی، حکیم صادق سیالکوٹی اور فاروق الرحمٰن یزدانی کو چونکہ فقہ حنفی کو بدنام کرنا تھا اس لئے ایسا بیان کیا۔

قارئین کرام! ابوالاقبال سلفی اور صادق سیالکوٹی نے ہدایہ کو حدیث کے خلاف بتانے کے لئے ایک عبارت تو نقل کر دی لیکن وہ عبارت اڑا دی جس سے کہ حدیث کے خلاف نہیں بلکہ اس کے موافق ہو رہی تھی. دیکھئے ہدایہ میں صاف لکھا ہے :

وان فعلن قامۃ الامام وسطہن

یعنی عورتیں اگر خود جماعت کریں تو جو عورت امام ہو ان کے بیچ میں کھڑی ہو. (دلیلیں آگے آرہی ہیں )

قارئین! ہدایہ کی یہ عبارت کتنی صاف ہے کہ اگر عورتیں ایسا کریں تو ان کی نماز درست ہو گی اور انکی جماعت کا طریقہ بھی بتلادیا مگر اقبال سلفی اور صادق سیالکوٹی نے از راہ خیانت اس عبارت کو گول کر دیا اور جھوٹ بولتے ہوئے یہ بتلایا کہ فقہ حنفی میں عورتوں کی جماعت منع ہے . (لعنت اللہ علی الکٰذبین)

قارئین! رہا مسئلہ فقہ حنفی میں عورتوں کی جماعت کے مکروہ ہونے کا، ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں خود اس کو نا پسند کیا گیا ہے۔ دیکھئے عورتوں کی جماعت سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :

"لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او فی جنازۃ قتیل

یعنی عورتوں کی جماعت میں کوئ بھلائی نہیں ہے الا یہ کہ مسجد میں یا مقتول کے جنازہ میں ”

(رواہ احمد والطبرانی فی الاوسط بحو آلہ اعلاء السنن جلد۴ صفحہ ۲۴۲)

اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کی جماعت میں خیریت (یعنی بھلائی) کی نفی فرمائی ہے جو اس کے کراہیت کی کافی دلیل ہے۔

اور خلیفۂ راشد حضرت علی فرماتے ہیں :

"لا تؤم المرأۃ ۔ یعنی عورت امامت نہ کرے ” (المدونۃ الکبریٰ جلد ۱ صفحہ ۸۶)

*مرد و عورت کی امامت کی جائے قیام میں فرق کی دلیل*

مرد امامت میں آگے کھڑا ہو گا اس لئے کہ حضرت سمرہ بن جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ جب ہم تین (آدمی) ہوں (اور با جماعت نماز پڑھنے لگیں ) تو ہم میں ایک آگے ہو جایا کرے۔ (ترمذی شریف جلد ۱، باب ماجاء فی الرجل یصلی مع الرجلین)

اور حضرت جابرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اس سلسلہ کا اپنا واقعہ یوں بیان کیا ہے ایک موقع پر:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر مجھے اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا، اتنے میں (حضرت) جبار بن صخرؓ بھی وضو کرکے آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا (اب ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم سے آگے )۔ دیکھیے : صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق)

جبکہ عورت امام کی جائے قیام کے بارے میں درج ذیل روایتیں آئی ہیں۔

(۱) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ: "تؤم المرأۃ النساء تقوم فی وسطھن

یعنی عورت (اگر) عورتوں کی امام بنے تو ان کے درمیان کھڑی ہو” (مصنف عبدالرزاق جلد ۳ صفحہ ۱۴۰)

(۲) حضرت ریطہ حنفیہؓ روایت کرتی ہیں :

(ایک دفعہ) حضرت عائشہؓ نے فرض نماز میں عورتوں کی امامت کرائیں تو ان کے درمیان کھڑی ہوئیں۔ (مصنف عبدالرزاق، جلد ۳ صفحہ۱۴۱)

(۳) یحیٰ بن سعید خبر دیتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نفل نماز میں عورتوں کی امامت کراتی تھیں تو ان کے صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔ (حو آلہ سابق)

(۴) حضرت عائشہؓ ماہ رمضان میں عورتوں کی امامت کرتی تھیں تو بیچ میں کھڑی ہوتی تھیں۔

(کتاب الآثار، باب المرأۃ النساء۔ ۔ ۔)

(۵) نصب الرایہ کتاب الصلاۃ میں ہے کہ:

عن ام الحسن انھا رأت ام سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ و سلم تؤم النساء فتقوم معھن فی صفھن

یعنی حضرت ام حسن سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی حضرت ام سلمہؓ کو دیکھا کہ وہ عورتوں کی امامت کرتی تھیں تو ان کے ساتھ ان کے صف میں کھڑی ہوتی تھیں .

 

فائدہ: ان احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ مرد امامت میں صف میں آگے کھڑا ہو گا، جبکہ عورت امامت میں صف کے آگے نہیں، بلکہ درمیانِ صف کھڑی ہو گی۔ اور یہ بھی صاف معلوم ہوا کہ عورتوں کی اپنی جماعت فی نفسہ جائز ہے لہذا اگر وہ اپنی جماعت کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ بہتر و پسندیدہ بھی نہیں ہے جیساکہ اوپر میں گزرچکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں خیریت (یعنی بھلائی) کی نفی کی ہے جو "لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او فی جنازۃ قتیل” سے واضح ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زمانہ خیر القرون میں اس کا رواج نہ تھا۔ حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ نے جو امامت کرائ ہیں تو یہ ابتداء اسلام میں تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا۔ چنانچہ ابوداؤد کی شرح بذل المجہود میں ہے :

الا ﺍﻥ ﺟﻤﺎﻋﺘﮭﻦ ﻣﮑﺮﻭھۃ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﻭ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﯽ مستحبۃ ﮐﺠﻤﺎعۃ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﻭ ﯾﺮﻭﯼ ﻓﯽ ﺫﻟﮏ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻟﮑﻦ ﺗﻠﮏ ﮐﺎﻧﺖ ﻓﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺛﻢ ﻧﺴﺨﺖ ۔ ۔ ۔

"یعنی ہمارے نزدیک عورتوں کی جماعت مکروہ ہے امام شافعیؒ کے نزدیک مستحب ہے جیسے مرد کی جماعت اور یہ کہ جو روایت کی گئی ہے عورتیں امامت کرواتی تھیں تو یہ ابتداء اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہو گیا” (جلد ۴ صفحہ ۲۰۹)

اسی طرح مولانا عبدالحئ لکھنویؒ فرماتے ہیں :

ﻓﺎین ﺫﺍﻟﻚ ﻣﻦ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﻻﺳﻼﻡ

ﻟﻜﻦ یمکن ﺍﻥ یقال ﺍﻧﻪ ﻣﻨﺴﻮﺥ

"یعنی تو ایسا ہے کہ یہ ابتداء اسلام سے، لیکن ممکن ہے کہ اسے منسوخ کہا جائے ” دیکھئے : (حاشیۂ ہدایہ)

لہذا خلاصہ کلام یہ کہ:

عورتوں کی اپنی جماعت فی نفسہ جائز ہے لہذا اگر وہ اپنی جماعت کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ بہتر و پسندیدہ بھی نہیں ہے۔

اللہ پاک ہم کو صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

 

حضرت گنگوہیؒ پر تکذیب رب العزت کا بہتان اور اس کا جواب

مولانا ساجد خان نقشبندی

 

 

 

 

مولوی احمد رضا خان اپنی تکفیری دستاویز ’’حسام الحرمین‘‘ پر مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ :

پھر تو ظلم و گمراہی میں اس کا حال یہاں تک بڑھا کہ اپنے ایک فتوے میں جو اس کا مہری دستخطی میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے بمبئی وغیرہ میں بارہا مع رد کے چھپا صاف لکھ دیا کہ جو اللہ سبحانہ و تعالی کو بالفعل جھوٹا مانے اور تصریح کر دے کہ معاذ اللہ اللہ تعالی نے جھوٹ بولا اور یہ عیب اس سے صادر ہو چکا تو اسے کفر بالائے طاق، گمراہی درکنار، فاسق بھی نہ کہو اس لئے کہ بہت سے امام ایسا کہہ چکے ہیں جیسا اس نے کہا بس نہایت کار یہ ہے کہ اس نے تاویل میں خطا کی۔ ۔ ۔ یہی وہ ہیں جنھیں اللہ تعالی نے بہر ا کیا اور اس کی آنکھیں آندھی کر دیں (حسام الحرمین مع تمہید ایمان ص 71مکتبۃ المدینہ)

قارئین کرام حضرت گنگوہی ؒ کی طرف کسی ایسے فتوے کی نسبت کرنا سراسر افتراء اور بہتان ہے حسام الحرمین کی اس سے پہلی والی بحث یعنی تحذیر الناس میں تو مولوی احمد رضا خان نے تحذیر الناس کی متفرق عبارتیں جوڑ کر کفر کی مسل تیار بھی کر لی تھی یہاں تو یہ بھی ناممکن ہے۔ بحمد اللہ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مرحوم کے کسی فتوے میں یہ الفاظ مرقوم نہیں ہیں نہ ہی کسی فتوے کا یہ مضمون ہے۔ بلکہ درحقیقت یہ صرف خان صاحب یا ان کے کسی دوسرے ہم پیشہ بزرگ کا افتراء اور بہتان ہے۔ بفضلہ تعالی ہمارے اکابر اس شخص کو کافر، مرتد، ملعون سمجھتے ہیں جو خداوند تعالی کی طرف جھوٹ کی نسبت کرے اور اس سے بالفعل صدور کذب کا قائل ہو بلکہ جو بد نصیب اس کے کفر میں شک کرے ہم اس کو بھی خارج از اسلام سمجھتے ہیں۔ حضرت مولانا رشید احمد صاحب ؒ جن پر خان صاحب نے یہ ناپاک اور شیطانی بہتان لگایا خود انہی کے مطبوعہ فتا وی میں یہ فتوی موجود ہے :

ذات پاک حق تعالی جل جلالہ کی پاک و منزہ ہے اس سے کہ متصف بوصف کذب کیا جائے۔ معاذ اللہ تعالی اس کے کلام میں ہرگز ہرگز شائبہ کذب کا نہیں قال اللہ تعالی: و من اصدق من اللہ قیلا(فتاوی رشیدیہ جلد اول ص118وتالیفات رشیدیہ ص96(

جو شخص اللہ تعالی کی نسبت یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے کہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے وہ قطعا کافر و ملعون ہے اور مخالف قرآن و حدیث کا اور اجما ع امت کا ہے۔ و ہ ہرگز مومن نہیں تعالی اللہ عما یقول الظلمون علوا کبیرا(ایضا)۔

ناظرین انصاف فرمائیں کہ اس صریح اور چھپے ہوئے فتوے کے ہوتے ہوئے حضرت ممدوح پر یہ افتراء کرنا کہ معاذ اللہ وہ خدا کو کاذب بالفعل مانتے ہیں یا ایسا بکنے والے کو مسلمان کہتے ہیں کس قدر شرمناک کاروائی ہے۔ ؟؟الحساب یو م الحساب۔

شرم۔ ۔ ۔ شرم۔ ۔ ۔ شرم۔ ۔ ۔

رہا مولوی رضا خان صاحب کا یہ لکھنا کہ ’’میں نے ان کا وہ فتوی مع مہر و دستخط بچشم خود دیکھا‘‘اس کے جواب میں ہم صرف اتنا عرض کریں گے جب اس چودہویں صدی کا ایک عالم و مفتی ایک چھپی ہوئی کثیر الاشاعت کتاب (تحذیر الناس)کی عبارتوں میں قطع و برید کرکے ص3,14,28کی عبارتوں میں تحریف کرکے ایک کفریہ مضمون گھڑ کے تحذیر الناس کی طرف منسوب کرسکتا ہے تو کسی جعلساز کیلئے کسی کے مہر و دستخط بنا لینا کیا مشکل ہے ؟ (آپ حضرات اکثر سنتے ہونگے اخبارات و ٹی وی میں کہ فلاں جگہ سے جعلساز پکڑے گئے جن سے جعلی سرکاری مہریں برآمد ہوئی ہیں جو پاسپورٹ پر لگانے کے کام آتی تھی وغیرہ وغیرہ )کیا دنیا میں جعلی سکے جعلی نوٹ جعلی دستاویز تیار کروانے والے موجود نہیں ؟مشہور ہے کہ بریلی اور اس کے گرد و نواح میں اس فن کے بڑے بڑے ماہر رہتے ہیں جنکا ذریعہ معاش ہی یہی ہے۔

بہرحال مولوی احمد رضا خان نے حضرت گنگوہی ؒ کے جس فتوے کا ذکر کیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں فتاوی رشیدیہ جو تین جلدوں میں چھپ کر آچکی ہے (اس وقت یہ مجموعہ تالیفات رشیدیہ کے ساتھ بھی چھپ چکا ہے جس میں حضرت گنگوہی ؒ کی تمام تصانیف کو جمع کر دیا گیا ہے )وہ بھی ا س کے ذکرسے خالی ہے۔ بلکہ اس میں تو اس کے خلا ف چند فتوے موجود ہیں جن میں سے ایک اوپر نقل بھی کیا جاچکا ہے۔ اور اگر فی الواقع خان صاحب نے ا س قسم کا کوئی فتوی دیکھا ہے تو وہ یقیناًان کے کسی ہم پیشہ بزرگ یا ان کے کسی پیشرو کی جعلسازی اور دسیسہ کاریوں کا نتیجہ ہے۔

حضرات علمائے کرام و مشائخ کرام رحمھم اللہ کی عزت و عظمت کو مٹانے کیلئے حاسدوں نے اس سے پہلے بھی اس قسم کی کاروائیاں کی ہیں۔ اس سلسلے کے چند عبرت آموز واقعات ہم یہاں عرض کر دیتے ہیں :

٭ امت کے جلیل القدر فقیہ اور محدث اعظم اما م احمد حنبل ؒ اس دنیا سے کوچ فرمارہے ہیں کہ اور کوئی بد نصیب حاسد عین اسی وقت تکیہ کے نیچے لکھے ہوئے کاغذات رکھ جاتا ہے جن میں خالص ملحدانہ عقائد اور زندیقانہ خیالات بھرے ہوئے ہیں۔ کیوں ؟صرف اس لئے کہ لوگ ان تحریرات کو امام احمد بن حنبل ؒ ہی کی کاوش دماغی کا نتیجہ سمجھیں گے اور جب ان کے مضامین تعلیمات اسلامی کے خلاف پائیں گے تو ان سے بد ظن ہو جائیں گے اور لوگوں ک دلوں سے ان کی عظمت نکل جائے گی۔ پھر ہماری دکان جو امام کے فیض عام سے پھیکی پڑ چکی تھی چمک اٹھے گی۔

٭ امام لغت علامہ فیروز آبادی صاحب قاموس ؒ زندہ تھے مشہور امام و مرجع خواص و عام تھے حافظ حجر عسقلانی ؒ نے ان کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی۔ حاسدین نے ان کی اس غیر معمولی مقبولیت کو دیکھ کر ان کی اس عظمت کو بڑ لگانے کیلئے ایک پوری کتاب حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی مطاعن میں تصنیف کر ڈالی جس میں خوب زور و شور سے امام اعظم ؒ کی تکفیر بھی کی اور یہ جعلی کتاب ان کی طرف منسوب کرکے دور دراز تک شائع کروادی۔ حنفی دنیا میں علامہ فیرو ز آبادی ؒ کے خلا ف نہایت زبردست ہیجان پیدا ہو گیا لیکن بیچارے علامہ ؒ کو اس کی خبر بھی نہ تھی یہاں تک جب وہ کتاب ابو بکر الخیاط البغوی الیمانی کے پاس پہنچی تو انھوں نے علامہ فیروز آبادی کو خط لکھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟علامہ موصوف اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ :

اگر وہ کتاب جو افتراء میں میری طرف منسوب کر دی گئی ہے آپ کے پاس ہوتو فورا اس کو نذر آتش کر دیں خدا کی پناہ !میں اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی تکفیرو انا اعظم المعتقدین فی امام ابی حنفیہ۔ اس کے بعد ایک ضخیم کتاب امام ابو حنیفہ ؒ کے مناقب میں لکھی۔

٭ امام مصطفی کرمانی حنفی ؒ نے نہایت جانکاہی سے ’’ مقدمہ ابو اللیث سمرقندی‘‘کی مبسوط شرح لکھی جب ختم کرچکے تو مصر کے علما ء کو دکھلانے کے بعد اس کی اشاعت کا ارداہ کیا۔ تصنیف الحمد اللہ کامیاب تھی۔ بعض حاسدوں کی نظر میں کھٹک گئی انھوں نے سمجھ لیا کہ اس کی اشاعت سے ہماری دکانیں پھیکی پڑجائیں گی اور تو کچھ نہ کرسکے البتہ یہ خباثت کی کہ اس کے ’’باب آداب الخلاء‘‘کے اس مسئلہ کے حاجت کے وقت آفتاب وماہتاب کی طرف رخ نہ کرے۔ اپنی دسیسہ کاری سے اتنا اضافہ کر دیا کہ ’’چونکہ ابراہیم ؑ ان دونوں کی عبادت کرتے تھے ‘‘معاذ اللہ۔ علامہ کرمانی ؒ کو اس شرارت کی کیا خبر تھی انھوں نے لا علمی میں وہ کتاب مصر کے علماء کے سامنے پیش کر دی جب ان کی نظر ا س دلیل پر پڑی تو سخت برہم ہوئے اور تمام مصر میں علامہ ؒ کے خلاف ہنگامہ کھڑ ا ہو گیا قاضی مصر نے واجب القتل قرار دے دیا۔ بیچارے راتوں رات جان بچا کر مصر سے بھاگ گئے ورنہ سر دئے بغیر چھوٹنا مشکل تھا۔

یہ گنتی کے چند واقعات تھے ورنہ تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو حاسدوں کی ان شرارتوں سے تاریخ کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔

پس اگر بالفرض فاضل بریلوی اپنے اس بیان میں سچے ہیں کہ انھوں نے اس مضمون کا کوئی فتوی دیکھا ہے تو یقیناًوہ اسی قبیل سے ہے۔ لیکن پھر بھی فاضل بریلوی کو اس بنا پر کفر کا فتوی دینا ہرگز جائز نہ تھا جب تک کہ وہ خود خوب تحقیق نہ کر لیتے کہ یہ فتوی حضرت مولانا کا ہی ہے یا نہیں ؟فقہ کا مسلم اور مشہور مسئلہ ہے کہ ’’الخط یشبہ الخط‘‘یعنی ایک انسان کا خط دوسرے انسان سے مل جاتا ہے اور خود خان صاحب بھی اس کی تصریح فرماتے ہیں کہ :

تمام کتابوں میں تصریح ہے کہ الخط یشبہ الخط، الخط لا یعمل بہ (ملفوظات حصہ دوم ص170فرید بک اسٹال لاہور)۔

رہے وہ دلائل جو خان صاحب نے اس فتوے کے صحیح ہونے کیلئے اپنی کتاب تمہیدایمان میں لکھے تو وہ نہایت لچر اور تار عنکبوت سے زیادہ کمزور ہیں قارئین کرام ذرا ان کو بھی خود دیکھ لیں اور جانچ لیں :

یہ تکذیب خدا کا ناپاک فتوے اٹھارہ برس ہوئے 1308ھ میں رسالہ صیانۃ الناس کے ساتھ مطبع حدیقۃ العلوم میرٹھ میں مع رد کے شائع ہو چکا ہے۔ پھر 1318ھ میں مطبع گلزار حسینی بمبئی میں اس کا مفصل رد چھپا پھر 1320ھ میں پٹنہ عظیم آباد میں اس کا ایک قاہرہ رد چھپا اور فتوی دینے والا جمادی الاخر ۱۳۲۳ ھ میں مرا اور مرتے دم تک ساکت رہا نہ یہ کہا کہ وہ فتوی میرا نہیں حالانکہ خود چھپائی ہوئی کتابوں سے اس کا انکار کر دینا سہل تھا نہ یہی بتلایا کہ وہ مطلب نہیں جو علمائے اہلسنت بتلارہے ہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے۔ نہ کفر صریح کی نسبت کوئی سہل بات تھی جس پر التفات نہ کیا۔ (تمہید ایمان ص 49)

حشو و زائد کو حذف کر دینے کے بعد خان صاحب کی اس دلیل کا صرف حاصل یہ ہے کہ :

(۱) یہ فتوی مع رد کے مولانا ممدوح ؒ کی زندگی میں تین دفعہ چھپا۔

(۲) انھوں نے تازیست اس فتوے سے انکار نہیں کیا نہ اس کا کوئی مطلب بتلایا۔

(۳) اور چونکہ معاملہ سنگین تھا اس لئے خاموشی کو عد م التفات پر بھی محمو ل نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ثابت ہو گیا کہ یہ فتوے انہی کا ہے اور اسی بنا پر ہم نے ان کی تکفیر کی اور تکفیر بھی ایسی کہ من شک فی کفرہ فقد کفر۔

اگرچہ خان صاحب کے ان دلائل کا لچر پوچ و مہمل ہونا ہمارے نقد تبصرے کا محتاج نہیں۔ ہر معمولی سی عقل رکھنے والا بھی تھوڑے سے غور و فکر کے بعد اس کو لغویت سمجھے گا تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہر ہر جز پر تھوڑی سی روشنی ڈال دیجائے تاکہ آپ سے خان صاحب کے علم و مجددیت کی کچھ داد دلوادیجائے۔

خان صاحب کی پہلی دلیل کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ:

یہ فتوے مولانا کی حیات میں تین دفعہ چھپے۔

اس مقدمے میں سے اتنا تو معلوم ہو گیا کہ یہ فتوے مولانا کے مخالفین نے چھاپے۔ مولانایا آپ کے متوسلین کی طرف سے کبھی اس کی اشاعت نہیں ہوئی (خیر اس راز کو تو اہل بصیرت ہی سمجھ سکتے ہیں )ہم کو تو اس کے متعلق صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ اگر خان صاحب کے بیان کو صحیح سمجھ لیا جائے کہ یہ فتوی متعدد بار بمع رد کے حضرت گنگوہی ؒ کی حیات میں شائع ہوا جب بھی لازم نہیں آتا کہ حضرت کے پاس بھی پہنچا ہو یا ان کو اس کی اطلاع بھی ہوئی ہو۔ اگر ان کے پاس بھیجا گیا تو سوال یہ ہے کہ ذریعہ قطعی تھا یا غیر قطعی؟پھر کیا خان صاحب کو اس کی وصولیابی کی اطلاع ہوئی ؟اگر ہوئی تو وہ ذریعہ قطعی تھا یا ظنی؟ بحث کے پہلوؤں سے چشم پوشی کرکے کفر کا قطعی فتوی دینا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے ؟۔ بہرحال جب تک قطعی طور پر ثابت نہ ہو جائے کہ فی الواقع حضرت گنگوہی ؒ نے کوئی ایسا فتوی لکھا تھا جس کا قطعی اور متعین مطلب وہی تھا جو مولوی احمد رضا خان نے لکھا اس وقت تک ان تخمینی بنیادوں پر تکفیر قطعا ناروا بلکہ معصیت ہے۔ حضرت مولانا ممدوح ؒ تو ایک گوشہ نشین عارف باللہ تھے جن کا حال بلا مبالغہ یہ تھا

بسو دائے جانان زجان مشتغل

بذکر حبیب از جہاں مشتغل

خان صاحب کے دوسرے مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ:

مولانا ؒ نے اس فتوے کا انکار نہیں کیا نہ ا س کی تاویل کی۔

اس کے متعلق تو پہلی گزارش یہی ہے کہ جب اطلاع ہی ثابت نہیں تو انکار کس چیز کا اور تاویل کس بات کی ؟اور فرض کر لیجئے کہ ان کو اطلاع ہوئی لیکن انھوں نے ناخد ا ترس مفتریوں کی اس ناپاک حرکت کو ناقابل توجہ سمجھا ان کو بحو آلہ خدا کرکے سکوت فرمایا۔

رہا یہ کہ کفر کی نسبت کوئی معمولی بات نہ تھی جس کی طرف التفات نہ کیا جائے۔ تو اول تو یہ ضروری نہیں کہ دوسرے بھی آپ کے نظریہ سے متفق ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اس کے انکار کی ضرورت نہ سمجھی ہو۔ کہ ایمان والے خود ہی اس ناپاک افتراء کی تکذیب کر دیں گے۔ یا انھوں نے یہ خیال کیا ہو کہ اس گند کو اچھالنے والے علمی اور مذہبی دنیا میں کوئی مقام نہیں رکھتے لہٰذا ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔ بہرحال سکوت کیلئے یہ وجوہ بھی ہوسکتی ہیں۔ پھر قطع نظر ان تمام باتوں سے یہ کہنا ہی غلط ہے کہ کفر کا معاملہ سنگین تھا بے شک خان صاحب کی ’’مجددیت ‘‘ کے دور سے پہلے تکفیر ایسی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی لیکن خان صاحب کی روح اور ان کی موجودہ ذریت مجھے معاف فرمائے کہ جس دن سے افتاء کا قلمدان خان صاحب کے بے باک ہاتھوں میں گیا ہے اس روز سے تو کفر اتنا سستا ہو گیا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ندوۃ العلماء والے کافر جو نہ مانے کافر، اہلحدیث کافر جو نہ مانے کافر، دیوبندی کافر جو نہ مانے کافر، مولانا عبد الباری فرنگی صاحب کافراور تو اور تحریک خلاف میں شرکت کے جرم اپنے برادران طریقت عبدالماجد صاحب بدایوانی، عبد القادر بد ایوانی کافر اس کو بھی چھوڑو مصلی رسولﷺ پرکھڑا ہونے والا شخص آئمہ اسلام سب کافر۔ کفر کی وہ بے پناہ مشین گن چلی کہ الٰہی توبہ! بریلی کے ڈھائی نفر انسانوں کے سوا کوئی مسلمان نہ رہا۔ پس ہوسکتا ہے کہ خان صاحب کسی اللہ والے کو کافر کہیں اور وہ اللہ والا اس کو نباح الکلا ب (کتوں کا بھونکنا)سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کرے۔

اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مولانا مرحوم ؒ کو اس فتوے کی اطلاع ہوئی اور مولانا ؒ نے انکار بھی کیا ہو مگر خانصاحب کواس کی اطلاع نہ ہوئی پھر عدم اطلاع سے عدم انکار کیوں سمجھا جا سکتا ہے ؟کیا عدم علم عدم الشئی کو مستلزم ہے ؟۔ اہل علم اور ارباب عقل و دانش غور فرمائیں کہ کیا اتنے احتمالات کے ہوتے ہوئے بھی تکفیر جائز ہوسکتی ہے ؟دعوی تو یہ تھا کہ :

ایسی عظیم احتیاط والے (یعنی خود بدولت جناب خانصاحب)نے ہر گز ان دشنامیوں (حضرت گنگوہی ؒ وغیرہ)کو کافر نہ کہا جب تک یقینی، قطعی واضح، روشن، جلی طور سے ان کا صریح کفر آفتاب سے زیادہ روشن نہ ہو گیا۔ جس میں اصلا اصلا ہر گز کوئی گنجائش کوئی تاویل نہ نکل سکے۔ (تمہید ایمان ص 55)

اور دلیل اس قدر لچر کے یقین کیا ظن کو بھی مفید نہیں۔ اور اگر ایسی ہی دلیلوں سے کفر ثابت ہوتا ہے تو پھر تو اسلام اور مسلمانوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کوئی جاہل اور دیوانہ کسی با خدا کو کافر کہے اور وہ اس کو ناقابل خطاب سمجھتے ہوئے اعراض کرے اور ا سکے لئے اپنی صفائی پیش نہ کرے بس خان صاحب کی دلیل سے کافر ہو گیا۔ چہ خوش۔

گر ہمیں مفتی و ہمیں فتوی

کار ایماں تمام خواہد شد

ادھر فقہاء کی یہ تصریحات کہ ۹۹ احتمالات کفر کے ہوں صرف ایک احتمال اسلام کا پھر بھی تکفیر جائز نہیں ادھر یہ مجدد کہ محض خیالی و وہمی مقدمے جوڑ کر کہتا ہے کہ من شک فی کفرہ فقد کفر۔ اللہ کی پناہ۔

یہی وہ خیالات و واقعات ہیں جسکی بنیاد پر ہم سمجھتے ہیں کہ خان صاحب نے فتاوی کفر کسی غلط فہمی یا علمی لغزش پر جاری نہ کئے تھے بلکہ درحقیقت اس کی تہ میں صرف حسد و جاہ پرستی اور نفس پرستی کا بے پناہ جذبہ کارفرما تھا۔

٭٭٭

 

 

 

"سر بکف” کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

بلاگ پر رائے دیں       یا      یہاں ای میل کریں : SarbakafMagazine@gmail.com

 

 

اِنَّ مِنْ الشِّعْرِ حِکْمَۃً

بلا شبہ کتنی ہی شاعری حکمت و دانائی سے لبریز ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری، جلد سوم:حدیث نمبر ۱۰۹۸ )

گریۂ خوں

عارف باللہ حضرت شاہ حکیم محمداختر صاحب ﷫

جب کبھی دل سے آہ کرتا ہوں

منزلیں پیشِ راہ کرتا ہوں

عشق کی نامراد وادی میں

اپنے غم سے نباہ کرتا ہوں

ساری خلقت سے دور ہو کے کبھی

دشت کو خواب گاہ کرتا ہوں

صبر کو شکوہ و گلہ کیوں ہے

ضبطِ غم بے پناہ کرتا ہوں

گریۂ اشک عشق میں کیا ہے

گریۂ خوں بھی گاہ کرتا ہوں

دردِ دل جب شدید ہوتا ہے

یاد میں اُن کی آہ کرتا ہوں

لذتِ ذکر کیا کہوں اخترؔ

جھوم کر واہ واہ کرتا ہوں

 

دل کی لگی

خواجہ مجذوبؒ ؒؒؒ

یہ دنیا اہلِ دنیا کو بسی معلوم ہوتی ہے

نظر والوں کو یہ اجڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے

یہ کس نے کر دیا سب دوستوں سے مجھ کو بیگانہ

مجھے اب دوستی بھی دشمنی معلوم ہوتی ہے

طلب کرتے ہو دادِ حسن تم، پھر وہ بھی غیروں سے !

مجھے تو سن کے بھی اک عار سی معلوم ہوتی ہے

میں رونا اپنا روتا ہوں تو وہ ہنس ہنس کے سنتے ہیں

انہیں دل کی لگی، اک دل لگی معلوم ہوتی ہے

نہ جائیں میری اس خندہ لبی پر دیکھنے والے

کہ لب پر زخم کے بھی تو ہنسی معلوم ہوتی ہے

اگر ہمت کرے پھر کیا نہیں انسان کے بس میں

یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے

 

 

قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنْ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ

جبریل ؑ نے پوچھا احسان کی حقیقت بتائیے ؟ رسولﷺ نے فرمایا : احسان کی حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو (تو کم از کم) اتنا یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہا ہے۔ (صحیح مسلم، جلد اول:حدیث نمبر ۹۶)

 

 

حُسنِ ادب اور اُس کی اہمیت

(قسط۔ ۱)

حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی ﷫

 

 

 

 

بڑوں کا ادب واحترام، اساتذہ وشیوخ کا اکرام وخدمت گزاری اور اُن کا پاس ولحاظ ہمیشہ سے اکابر دین علماء سلف کا امتیازی وصف رہا ہے مگر آج آزادی کے غلط تصور اور مغرب زدگی کے اثر سے یہ چیزیں رفتہ رفتہ ختم ہورہی ہیں۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے ہمارے دینی مدارس کے طلبہ میں جو شائستگی وتہذیب جو متانت وسنجیدگی اور جو ادب واحترام پایا جاتا تھا آج اُس کی جھلک بھی کہیں مشکل ہی سے نظر آتی ہے، یہ کمی بڑی افسوسناک کمی ہے۔ علومِ دینیہ کے حاملین کو اسلامی تہذیب، اسلامی آداب، اور اسلامی اخلاق کا حامل ہونا چاہیے۔ ہمارے لیے ہمارے اکابر واسلاف کی روش قابل تقلید ہے اسی میں ہماری عزت وسربلندی ہے اور اسلاف کی مستحسن روش ہی پر چل کر ہم اسلام کے تقاضے کو پورا کرسکتے ہیں۔ ہمارے مذہب نے جس طرح عقائد وعبادات اور معاملات واخلاق کے سبق ہم کو بتائے ہیں اسی طرح اُس نے ہم کو آداب بھی سکھائے ہیں، نیک روش، اچھے چال چلن اور عمدہ طور طریق کی تعلیم بھی دی ہے اور دوسرے امور دین کے ساتھ ساتھ ادب ووقار سیکھنے اور سکھانے کی تاکید بھی کی ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ان الھدی الصالح والسمت الصالح والاقتصاد جزء من خمسۃ وعشرین جزء من النبوۃ۔ رواہ احمد۔

(عمدہ روش، اچھے انداز اور میانہ روی نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جزء ہے یعنی یہ چیزیں انبیاء علیھم السلام کے عادات وفضائل میں سے ہیں ) اسی لیے علماء نے فرمایا :یسن ان یتعلم الادب والسمت والفضل والحیاء وحسن السیرۃ شرعا و عرفا (الآداب الشرعیہ ۱/٤٧۲)یعنی ادب ووقار، فضل وحیا اور حسن سیرت سیکھنا شرعاً وعرفاً مسنون ہے۔

نیز حدیث نبوی میں وارد ہے : لان یؤدب الرجل ولدہ خیرلہ من ان یتصدق بصاع۔ (ترمذی ) آدمی اپنی اولادکو ادب سکھائے تو یہ ایک صاع خیرات کرنے سے بہتر ہے اور فرمایا :مانحل والد ولدا من نحلۃ افضل من ادب حسن۔ کسی باپ نے اپنی اولاد کو عمدہ ادب سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دیا، اور ا رشاد ہے کہ بیٹے کا ایک حق باپ پر یہ بھی ہے کہ اس کو اچھا ادب سکھائے (عوارف)۔ ایک اور حدیث میں ہے : تعلموا العلم، وتعلموا للعلم السکینۃ والو قار وتواضعوا لمن تعلمون منہ۔ (طبرانی ) علم سیکھو اور علم کے لیے سکون وقار سیکھو، اور جس سے استفادہ کرواس کے لیے تواضع کرو۔ اس مضمون کا ایک اثر بھی حضرت عمر سے مروی ہے۔ (الآداب الشرعیۃ ۲/٥۱ و ۱/۲٥٤)۔ حضرت عمر سے یہ بھی مروی ہے تأدبوا ثم تعلموا (الآداب الشرعیہ ٥٥٧۳) ادب سیکھو پھر علم سیکھو۔ ابو عبداللہ بلخی نے فرمایا ادب العلم اکثر من العلم علم کا ادب علم سے زیادہ ہے۔ امام ابن المبارک نے فرمایا کہ آدمی کسی قسم کے علم سے باعظمت نہیں ہو سکتا جب تک اپنے علم کو ادب سے مزین نہ کرے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آیت کریمہ : قوا انفسکم واھلیکم ناراً کی تفسیر ادبوھم وعلموھم سے فرماتے تھے یعنی اپنے اہل واولاد کو آگ سے بچانے کا مطلب یہ بیان فرماتے تھے کہ ان کو ادب سکھاؤ اور تعلیم دو۔ عبداللہ ابن المبارک فرماتے ہیں کہ مجھ سے مخلدبن الحسین نے فرمایا کہ ہم بہت ساری حدیثوں کے سننے اور پڑھنے سے زیادہ محتاج ادب سیکھنے کے ہیں۔ (الآداب شرعیۃ ۳/٥٥٨)

حضرت حبیب ابن الشہید (جوامام ابن سیرین کے شاگردہیں ) اپنے لڑکے سے کہا کرتے تھے کہ بیٹے ! فقہاء وعلماء کی مجلسوں میں بیٹھ کر ان سے ادب سیکھو یہ چیزمیرے نزدیک بہت ساری حدیثوں کے جاننے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض نے بعض طلبہ حدیث کی کچھ خفیف حرکتیں دیکھیں تو فرمایا کہ اے وارثانِ انبیاء ! تم ایسے رہو گے ؟ حضرت وکیع نے بعض طلّاب کی کچھ نازیبا باتیں اور حرکتیں سنیں اور دیکھیں تو فرمایا کہ کیا حرکت ہے، تم پروقار لازم ہے۔ (آداب شرعیۃ ۱/۲٤۳) ایک بار عبداللہ بن المبارک سفر کررہے تھے لوگوں نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے ؟ فرمایا بصرہ جا رہا ہوں، لوگوں نے کہا، اب وہاں کون رہ گیا ہے جس سے آپ حدیث نہ سن چکے ہوں، فرمایا ابن عون کی خدمت میں حاضری کا ارادہ ہے، ان کے اخلاق اور ان کے آداب سیکھوں گا۔ عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ ہم بعض علماء کی خدمت میں علم حاصل کرنے نہیں جاتے تھے بلکہ صرف اس مقصد سے حاضری دیتے تھے کہ ان کی نیک روش ان کا طرز وانداز سیکھیں گے۔ علی ابن المدینی وغیرہ متعددائمہ حدیث یحیٰ ابن سعید قطان کے پاس بعض اوقات صرف اس لیے حاضر ہوتے تھے کہ ان کی روش وانداز دیکھیں۔ اعمش کہتے ہیں کہ طالبین علم فقیہ ( استاذ) سے ہرچیز سیکھتے تھے حتی کہ اُسی کی سی پوشاک اور جوتے پہننا سیکھتے تھے (آداب)۔ حضرت امام احمد کی مجلس میں پانچ ہزار سے زائد آدمی شریک ہوتے تھے جن میں سے صرف پانچ سو کے قریب آدمی تواُن سے حدیثیں سن کر لکھتے تھے اور باقی سب لوگ ان سے حسن ادب اور وقار ومتانت سیکھتے تھے۔ (آداب ۲/۱۳)

ادب سیکھنے اور سکھانے کی اس اہمیت کو واضح کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عالم کا حق، اور ان کے اجلال واحترام کے احکام بھی ذکر کردئیے جائیں۔

اُستاذ کامرتبہ :

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتادیا میں اُس کا غلام ہوں، وہ چاہے مجھے بیچے یا آزاد کر دے یا غلام بنائے رکھے۔ امام زرنوجی نے اس کو ذکرکرنے کے بعد خود فرمایا ہے :

رأیت احق الحق حق المعلم

و اوجبہ حفظا علی کل مسلم

سب سے زیادہ واجب الرعایۃ اور ضروری حق ہر مسلمان کے ذمہ معلم (اُستاذ) کا حق میں نے پایا

لقد حق ان یھدی الیہ کرامۃ

لتعلیم حرف واحد الف درھم

وہ اس لائق ہے کہ ایک حرف بتانے کی قدر دانی میں اس کوا یک ہزار درہم ہدیہ پیش کیاجائے

”شرح الطریقۃ المحمدیۃ ” میں ایک حدیث بھی بایں الفاظ مذکور ہے : من علم عبد اآیۃ من کتاب اللّٰہ فھو مولاہ، لاینبغی ان یخذ لہ ولا یستأثر علیہ احدا یعنی کسی قرآن پاک کی ایک آیت سکھا دے وہ اس کا آقا ہے اس کو کبھی اس کی مدد نہ چھوڑنی چاہیے، نہ اس پر کسی کو ترجیح دینی چاہیے۔ ناچیز کہتا ہے کہ اس حدیث کی اسنادعوارف المعارف میں یوں مذکور ہے :

اخبرنا الشیخ الثقۃ ابوالفتح محمد بن سلیمان قال اما ابو الفضل حمید قال انا الحافظ ابو نعیم قال ثناسلیمان بن احمد قال ثنا انس بن اسلم قال ثنا عتبۃ بن رزین عن ابی امامۃ الباھلی عن رسول اللّٰہﷺ۔ (عوارف علی ھامش الاحیاء ٧٤/۱)

اورمجمع الزوائد میں ہے کہ اس حدیث کو طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے۔ (۱/۱۲٨)

شرح الطریقۃ المحمدیۃ میں یہ بھی مذکور ہے کہ استاذ کا حق ادا کرنے کو ماں باپ کا حق ادا کرنے پر مقدم جانے، اس کے بعد یہ واقعہ لکھا ہے کہ جس وقت امام حلوانی بخارا چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے تو امام زرنجری کے علاوہ ان کے سب شاگرد سفر کرکے ان کی زیارت کو گئے، امام زرنجری ماں کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے نہ جا سکے، مدت کے بعد جب ملاقات ہوئی توانھوں نے غیر حاضری پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے یہی معذرت پیش کی، امام حلوانی نے فرمایا کہ خیر تم کو عمر تو ضرور نصیب ہو گی مگر درس نصیب نہ ہو گا یعنی درس میں برکت اور بکثرت لوگوں کا ان کے درس سے فائد ہ اُٹھانا نصیب نہ ہو گاچنانچہ ایساہی ہوا اور ان کا حلقۂ درس کبھی نہ جما۔ الآداب الشرعیہ میں ہے :وذ کر بعض الشافعیۃ فی کتابہ فاتحۃ العلم ان حقہ آکد من حق الوالد (ا/٤٩٦) یعنی بعض شوافع نے اپنی کتاب فاتحۃ العلم میں لکھا ہے کہ معلم کا حق باپ کے حق سے زیادہ مؤکدہے۔

اُستاذ اور ہر عالم کے حقوق :

امام خیر اخری نے فرمایا کہ عالم کا حق جاہل پر اور اُستاذ کا حق شاگرد کے ذمہ یکساں ہی ہے اور وہ یہ ہے (۱) بے علم یا شاگرد عالم یا استاذ سے پہلے بات شروع نہ کرے (۲) اس کی جگہ پر نہ بیٹھے (۳) اس کی بات غلط بھی ہوتو رد نہ کرے ٭ (٤)اس کے آگے نہ چلے۔

تعلیم المتعلم میں ہے کہ اُستاذ کی تعلیم وتوقیر میں یہ بھی داخل ہے کہ (۱) اُس کے پاس مباح گفتگو بھی زیادہ نہ کرے (۲) جس وقت وہ تھکا ماندہ ہواُس وقت اُس سے کوئی سوال نہ کرے (۳) لوگوں کو مسائل بتانے یا تعلیم دینے کا کوئی وقت اُس کے یہاں مقرر ہے تو اُس وقت کا انتظار کرے (٤) اس کے دروازے پر جا کر دردازے نہ کھٹکھٹائے بلکہ صبروسکون کے ساتھ اُس کے ازخود برآمد ہونے کا انتظارکرے۔

شرح الطریقۃ المحمدیہ میں بھی منقول ہے کہ استاد کا ہاتھ چومنا بھی داخل تعظیم ہے اور ابن الجوزی نے مناقب اصحاب الحدیث میں لکھا ہے :   ینبغی للطالب ان یبالغ فی التواضع للعالم ویذل نفسہ لہ ومن التواضع للعالم تقبیل یدہ۔ یعنی طالب علم کے لیے زیبا ہے کہ عالم کے لیے تواضع میں مبالغہ کرے اور اپنے نفس کو اس کے لیے ذلیل کر دے اور عالم کے لیے تواضع کی ایک صورت اس کا ہاتھ چومنا بھی ہے۔ (آداب شرعیہ ۲/۲٧۲)

استاذ کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کے آنے جانے کے وقت شاگرد کھڑا ہو جائے 1٭۔ استاد عالم کے لیے قیام کا جواز بلکہ استحباب آداب شرعیہ میں بھی مذکور ہے اور اس باب میں امام نووی کا ایک مستقل رسالہ ہے۔ شرح الطریقۃ میں یہ بھی ہے کہ استاد کی کوئی رائے یا تحقیق شاگرد کو غلط معلوم ہوتی ہو2٭ تو بھی اس کی پیروی کرے جیسا کہ حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کے قصہ سے ثابت ہے۔ استاذ کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کے سامنے تواضع سے پیش آئے، چاپلوسی کرے، اس کی خدمت کرے، اس کی مددکرے اور علانیہ وخفیہ اس کے لیے دعاء کرتا رہے۔ (شرح الطریقہ)

امام غزالی نے احیاء العلوم میں یہ فرمایا ہے :ینبغی ان یتواضع للمعلم ویطلب الثواب والشرف بخدمتہ (۱/۳٨) چاہیے کہ معلم کے لیے تواضع کرے اور اس کی خدمت کرکے شرف وثواب کمائے، اس کے بعد ایک حدیث نقل کی ہے۔ لیس من اخلاق المومن التملق الا فی طلب العلم یعنی مؤمن کے اخلاق میں تملق (چاپلوسی ) کی کوئی جگہ نہیں ہے مگر طلب علم کی راہ میں (رواہ ابن عدی من حدیث معاذ وابی امامۃ باسنادین ضعفین)۔

تعلیم المتعلم (ص٧) میں ہے کہ استاذ کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کی اولاد اور متعلقین کی توقیر کرے ترغیب وترہیب منذری میں حدیث مرفوع ہے تواضعوا لمن تعلمون منہ یعنی جس سے علم حاصل کرو اس کے لیے تواضع کرو۔ فردوس دیلمی کے حو آلہ سے ایک حدیث نبوی منقول ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: بڑوں کے آگے چلنا کبائر میں سے ہے، بڑوں کے آگے کوئی ملعون ہی چل سکتا ہے، پوچھا گیا یارسول اللہ! بڑوں سے کون مراد ہیں، فرمایا علماء اور صلحاء۔ مراد یہ ہے کہ ان کی عظمت ومنزلت کا لحاظ نہ کرکے استخفافاًآگے چلنامذموم وقابلِ نکیر ہے۔ شرح الطریقۃ المحمدیہ میں ہے کہ علم زوال کا ایک سبب معلم کے حقوق کی رعایت نہ کرنا بھی ہے اور فرمایا کہ استادکو جس شاگرد سے تکلیف پہنچے گی وہ علم کی برکت سے محروم رہ جائے گا۔

کسی اور عالم کا قول ہے کہ جو شاگرد اپنے استاذ کو نا مشروع امر کا ارتکاب کرتے دیکھ کر اگر اعتراض وبے ادبی سے کیوں کہدے گا وہ فلاح نہ پائے گا، یعنی نامشروع پر ٹوکنے کے لیے بے ادبی مباح نہیں ہے۔ دوسرے سے تنبیہ کرائے یا خود ادب واحترام کے ساتھ استفسار کی صورت میں کہے یا اس طرح کہے کہ نصیحۃ مسلم معلوم ہو۔

اجلال علم وعلماء :

ابوداؤد میں مروی ہے آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بوڑھے مسلمان اور عالم وحافظ قرآن اور بادشاہ عادل کی عزت کرنا خدا کی تعظیم میں داخل ہے۔ الآداب الشرعیہ میں بروایت ابی امامہ یہ حدیث مرفوع منقول ہے کہ تین باتیں خدا کی تعظیم کی فرع ہیں اسلام میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے والے کی توقیر اور کتاب اللہ کے حامل کا احترام اور صاحب علم کا اکرام خواہ چھوٹاہویابڑا(۱/۲٥٦)۔ اسی کتاب میں حضرت طاؤس سے مروی ہے من السنۃ ان یوقر اربعۃ العالم وذوالشیبۃ والسلطان والوالد یعنی عالم اور بوڑھے اور بادشاہ اور باپ کی توقیر سنت ہے۔ ایک اور حدیث مرفوع میں اہل علم کے استخفاف کومنافق کا کام بتایا گیا ہے۔ (مجمع الزوائد ۱/۱٤٧)

ایک اور حدیث میں ہے کہ جوہم میں کے بڑے کی عزت نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت سے نہیں ہے۔ ابن حزم نے لکھا ہے (اتفقوا علی ایجاب توقیر اھل القرآن والاسلام والنبیﷺ وکذلک الخلیفۃ والفاضل والعالم ) یعنی حاملین قرآن واسلام اور نبیﷺ اسی طرح خلیفۂ وقت اور فاضل، عالم کی توقیر کو واجب قرار دینے پر اجماع ہے۔ (الآداب الشرعیہ ۱/٤٩٥)

امام مالک فرماتے ہیں کہ ہارون رشید نے میرے پاس آدمی بھیج کر سماعِ حدیث کی خواہش ظاہر کی میں نے کہلا بھیجا کہ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔ رشید یہ جواب پا کر خود آئے اور آ کر میرے پاس دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے میں نے کہا : یا امیر المومنین ! ان من اجلال اللّٰہ اجلال ذی الشیبۃ المسلم یعنی خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان کا احترام کیاجائے۔ ہارون کھڑے ہو گئے پھر میرے سامنے شاگردانہ انداز سے بیٹھے ایک مدت کے بعدپھر ملاقات ہوئی تو کہا یا اباعبداللّٰہ تواضعنا لعلمک فانتفعنا بہ ہم نے آپ کے علم کے لیے تواضع کیا تو ہم نے اس سے نفع اُٹھایا۔ (آداب شرعیہ ۲/٥٥)

امام بیہقی نے روایت کی ہے کہ خلیفہ مہدی جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور امام مالک ان کے سلام کو گئے تومہدی نے اپنے دونوں لڑکوں ہادی اور رشید کو امام مالک سے حدیث سننے کا حکم دیا، جب شہزادوں نے امام مالک کو طلب کیا توانھوں نے آنے سے انکار کر دیا۔ مہدی کواس کی خبر ہوئی اور اس نے ناراضی ظاہر کی تو ا مام نے فرمایا کہ العلم اھل ان یوقرویؤتی اھلہ یعنی علم اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی توقیر کی جائے اور اس کے اہل کے پاس آیاجائے۔ اب مہدی نے خود لڑکوں کو امام صاحب کے پاس بھیجا، جب وہ وہاں پہنچے تو شہزادوں کے اتالیق نے امام سے خواہش ظاہر کی کہ آپ خود پڑھ کرسنادیں، امام نے فرمایا کہ جس طرح بچے پڑھتے ہیں اور معلم سنتا ہے اسی طرح اس شہر کے لوگ محدث کے پاس حدیثیں پڑھتے ہیں جہاں خطا ہوتی ہے محدث ٹوک دیتا ہے۔ مہدی کو اس کی خبر پہنچائی گئی اور اس نے اس پربھی اظہار عتاب کیا، توامام مالک نے مدینہ کے ائمہ سبعہ کانام لے کر فرمایا کہ ان تمام حضرات کے یہاں یہی معمول تھا کہ شاگرد پڑھتے تھے اور وہ حضرات سنتے تھے۔ یہ سن کر مہدی نے کہا کہ تو انہیں کی اقتداء ہونی چاہیے اور لڑکوں کو حکم دیا کہ جاؤ تم خود پڑھو، لڑکوں نے ایسا ہی کیا۔ (آداب شرعیہ ۲/٥٥) ایک مرتبہ امام احمد کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اثنائے گفتگو میں ابراہیم بن طہمان کا ذکر نکل آیا انکا نام سنتے ہی امام احمد سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ ناز یبا بات ہو گی کہ نیک لوگوں کا ذکر ہو اور ہم ٹیک لگائے رہیں۔ (آداب شرعیہ ۲/۲٦)

اُستاذ کا لحاظ پہلے لوگوں میں :

امام شعبی کا بیان ہے کہ حضرت زید بن ثابت سوار ہونے لگتے تو حضرت ابن عباس رکاب تھام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ علماء کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہیے اسی طرح حضرت ابن عمر (صحابی ) نے مجاہد( تابعی) کی رکاب تھامی۔ امام لیث بن سعد امام زہری کی رکاب تھامتے تھے۔ مغیرہ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی کی ہیبت ہم پر ایسی تھی جیسی بادشاہ کی ہوتی ہے اور یہی حال امام مالک کے شاگردوں کا امام مالک کے ساتھ تھا۔ ربیع کہتے ہیں کہ امام شافعی کی نظر کے سامنے ان کی ہیبت کی وجہ سے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی۔ (الآدب الشرعیہ ۱/۲٥٦)

(۲) ثابت بنانی حضرت انس کے شاگرد اور تابعی ہیں یہ جب حضرت انس کی خدمت میں جاتے تو ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے اس لیے حضرت انس اپنی لونڈی سے کہا کرتے تھے کہ ذرا میرے ہاتھوں میں خوشبو لگا دے وہ آئے گا توبے ہاتھ چومے نہ مانے گا۔ (مجمع الزوائد ۱/۱۳٠)٭

(جاری ہے )

 

Stay In Touch!

http://Sarbakaf.blogspot.com

 

 

 

 

 

 

 

قرآنِ پاک کی ترتیب و تفہیم

نور سعدیہ شیخ 

انسانی احساسات جُوں جُوں پروان چڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے زندگی میں آنے والے نشیب و فراز سوالات کی پٹاری کھولے زندگی کو سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں۔ یہ سوال ہماری زندگی کا مقصد متعین کرتے ہیں کہ ان جوابات کی روشنی میں زندگی گزارنا ہی بطریقِ احسن ہے۔

لفظ میرا سرمایہ ہے۔ مجھے جینے کا طریقہ لفظوں نے سکھایا ہے۔ میری زندگی میں پہلا لفظ اس ہستی کے لیے نکلا، جس نے مجھے تخلیق کیا۔   احساس نے مجھے ”ماں ” اور ”اللہ ” دو الفاظ سکھائے اور میری جستجوِ لفظ نے سوالات کا انبار میرے سامنے رکھ دیا ہے۔ زندگی میں انسان خود سے بہت زیادہ سولات کرتا ہے۔ جب سوالات کا جواب تشفی بخش نہیں ملتا تو تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ میں نے ایک حدیث کی تحقیق کے لیے اصحاب و تابعین کو ایک بر اعظم کونے سے دوسرے کونے میں سفر کرتے ہوئے پڑھا تو حیرت نہیں ہوئی کہ اسلام کا حکم یہی کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ . لفظ میرا سرمایہ ہیں … کبھی کبھی دل کرتا ہے ان لفظوں کو چوموں جو حقِ باری تعالی کا کلام ہیں … نوری کلام جو انسان کے قلم کی پیداوار نہیں ہے۔

مجھ تک قرانِ پاک الفاظ سے پہنچا۔ میں جب بھی یہ الفاظ سنتی تھی مجھ پر سحر طاری ہو جاتا اور ہر دفعہ میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے اس کو سمجھ کر پڑھا نہیں ہے مگر اس کے اندر پھر بھی اتنی تاثیر ہے۔ اس احساس نے مجھے قرانِ پاک کا ترجمہ پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ ٭ جب ترجمہ پڑھا تو مجھ پر انکشافات ہوئے، سوالات کے جوابات کو پا کر مزید خود کو تشنہ پایا کہ قرانِ پاک ایسی کتاب ہے کہ اس کے ہر ہر لفظ کے گیارہ گیارہ پرتیں ہیں، جانے کب یہ اسرار کھلے، جانے کب میں اس کلام پر عبور حاصل کر پاؤں۔ مجھے یہ احساس، یہ احساس رُلاتا ہے کہ میں نے عمر گنوادی مگر نوری کلام دل میں سما نہ پایا۔ خود پر بہت ملامت محسوس ہوئی۔ اس ملامت کے نتیجے میں میں جو لکھ رہی ہوں۔ وہ آپ کے سامنے ہے۔ میرے لفظ، میرے احساس سے اور میرا احساس سوالات کی مرہون منت ہے۔ زندگی میں سوال کے جواب پانا مرا مقصدِ حیات ہے۔

قرانِ پاک میں اخفاء کیا ہے ؟ اور کیا ظاہر ہے ؟ اس کا اسرار بے چین رکھتا ہے اور میری جستجو ساری عمر جاری رہے گی جب تک کہ اسرار سے پردہ اٹھا کر جان نہ لوں۔ قران پاک کی کتابت اور تدوین جناب سیدنا حضرت عثمان   کے دور میں ہوئی اور احادیث کی تدوین جناب حضرت عمر بن عبد العزیز ﷫کے دور میں ہوئی۔ مزید کچھ لکھنے سے پہلے کچھ نقاط ذہن میں ہیں۔ اسلامی قوانین کے بنیادی ماخذ درج ذیل ہیں۔ قوانین کو دو پرائمری اور سیکنڈری ماخد میں تقسیم کیا گیا ہے۔

بنیادی ماخذ

1:قرانِ پاک

کلامِ الہی ہے۔ اس میں کمی و بیشی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ چودہ سو سال سے آج تک یہ جُوں کا تُوں ہے۔

2: سنت

کلامِ الہی کے ہر حکم پر عمل پیرا ہو کے ایک ہستی چلتا پھرتا قران بن گئی جن کو دنیا پیارے پیارے محمد صلی علیہ و آلہ و سلم کے نام سے جانتی ہے۔

حدیث اور سنت، دونوں ماخذ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس سے منسلک ہیں۔ سنت وہ ہے جس کی حضور پاک صلی علیہ و آلہ و سلم نے عمل کی ذریعے ترغیب دی جبکہ حدیث وہ الفاظ ہیں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اقوال یا حرکات و سکنات مراد لی جاتی ہیں۔

ثانوی ماخذ

1۔ رواج:

عربوں میں کچھ رواج جو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جاری رکھے اوور کچھ کے احکامات بطور ممانعت نازل ہوئے۔ مثال کے طور پر شراب جائز سمجھی جاتی جب تک کہ شراب سے متعلق احکامات جاری نہ ہو گئے۔ اسی طرح خواتین کا پردہ اسلام کے پھیل جانے کے بعد بطور رواج روایت میں شامل نہیں تھا جب تک کہ اس کے احکامات نازل نہ ہو گئے۔ ان معاملات پر حضرت عمر رض کی رائے بطور سند لی گئ کہ ان کی رائے اللہ تعالیٰ کو پسند آیا کرتی تھی۔ اسی وجہ سے ان کو صاحب الرائے کہا جاتا ہے۔

 

2۔ اجماع (consensus of opinion):

قرانِ پاک اور احادیث کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی قانون سازی کی گئی۔ اسلام قانون سازی کا سب سے بڑا ماخذ قرانِ پاک اور پھر حضور پاک صلی علیہ و آلہ و سلم کی ذات اقدس ہے۔ ”اجماع” کو ”قیاس” بھی کہا جاتا ہے۔ ۱٭ عہدِ وقت کے تمام علماء کا اسلام کے قانون کے ماخذ میں سے ایک پر اکتفا کرتے ہوئے رضامند ہو جانا ایک نیا قانون سامنے لے کر آتا تھا۔ یہ قانون اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک علماء حیات ہوتے تھے، اس کے بعد نئے آنے والے علماء اجماع کے ذریعے نیا قانون بناتے تھے۔ اجماع کی بنیاد سب سے پہلے جناب امام ابو حنفیہ ﷫نے رکھی اور اس کے بعد امام مالک ﷫، امام شافعی، امام احمد حنبل اور اصولی مسلک سے تعلق رکھنے والوں اس کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوانین کو شدت سے عملی جامہ بھی پہنایا گیا۔ ۲٭

کچھ ماخذ پر اختلافات کی وجہ سے صرف نام لکھنے پر ہی اکتفا کروں گی۔ ان میں قیاس، فقہی صوابدید یا استحصان، استدلال وغیرہ شامل ہیں۔ بعض کی نسبت بعض نے ان پر شدت سے اکتفاء کیا۔

قرانِ پاک ہم عجمیوں کی زبان نہیں ہے اس لیے ا سمیں چھپپے اسرار اور مخفی علوم کو ہم حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے برصغیر میں جس ہستی نے کام کیا وہ حضرت شاہ ولی اللہ ﷫ ہیں۔ جنہوں نے ایک بڑے پیمانے پر ایک مدرسہ قائم کرنے کے بعد قرانِ پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ جبکہ ان بیٹے شاہ عبد القادر نے قرانِ پاک کا اُردومیں ترجمہ کرکے قرانی تعلیمات کو عام کیا۔ اس طرح قرانِ پاک عربی سے لشکری زبان اور فارسی زبان میں پھیلتا چلا گیا۔ اس کے پھیلنے کے بعد، ترجمہ پڑھ لینے کے بعد ہمارے اعمال، احکام کے مطابق نہ ہوپائیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے قرانِ پاک کو ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں۔

قرانِ پاک کی ترتیب

قرانِ پاک کی ترتیب کے دو طرز ہیں۔

1۔ ترتیبِ نزولی

2۔ کتابی ترتیب

قرانِ پاک کی کتابت کا کام حضڑت عثمان   نے کیا تھا۔ اس پیاری کتاب کے احکامات کو سمجھنے کے لیے نزولی ترتیب کو سمجھا جاتا ہے۔ قرانِ پاک کے احکامات ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کا دور اور اسلامی ریاست کا دور۔ ۔ قیامِ مکہ کا عرصہ وہ دور تھا جس میں عزت مآب حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام کو پھیلانے کے تمام کوششیں بروئے کار لائیں۔ ہجرت کے بعد وہ آیات یا نشانیاں نازل ہوئیں جن کے براہِ راست احکام انسانی زندگی، معاشرت، نظامِ حکومت اور سیاست سے متعلق تھے۔ اس لیے اس کے نزولی ترتیب اس کے احکامات کی سمجھنے میں درست سمت عطا کرتے ہوئے کلام الہی کو سمجھنے میں مدد دے گی۔ اکثر ایک حکم کی کئی نشانیاں موجود ہیں۔ اگر ان نشانیوں یا آیات کو اکٹھا کیا جائے تو مزید احکامات سے پردہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہی قرانِ پاک کو درست سمجھنے کا طریقہ ہے۔ اس سے ہی ہماری زندگیاں سنور سکتی ہیں کہ انسان دنیا میں آیا ہی ایک امتحان دینے ہے۔ اس(امتحان) کو پاس ہم ان احکامات کی روشنی میں کرسکتے ہیں۔

قرانِ پاک کی تعلیمات کے علاوہ اس کی ایک اور بڑی خوبی اس کی ترتیل ہے، قران پاک کے ابتدائی احکامات میں اس کے پڑھنے پر زور دیا گیا ہے اور اس کے لیے سورۃ مزمل میں لفظ ترتیل استعمال کیا گیا جس سے مراد ہے کہ اس کو اس انداز سے پڑھا جائے جس سے آواز میں موسیقیت پیدا ہو جائے۔ ۱٭ قرانِ پاک کے لفظ ایک خاص قسم کے پچ اور حیطہ رکھتے ہیں اور یہ پچ اور حیطہ تقریبا پورے قرانِ پاک میں ایک جیسا ہے، اس لیے جب یہ کلام نازل ہوا تو عرب، جو کہ خود کو فصاحت میں ید طولیٰ رکھتے تھے، کہہ دیا کہ انسانی کلام ایسا نہیں ہو سکتا۔ قرانِ پاک میں احکامات کے ساتھ دو باتوں پر خاص طور پر زور دیا گیا۔ ایک زُبان، اس زبان میں نازل ہو جو زبان عربیوں کی ہے اور دوسرا عربوں میں فصیح و بلیغ وہی کہلاتا تھا جس کا کلام بہترین شاعری کی صورت لیے ہوئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے احکامات کے ساتھ عربیوں کو مانوس رکھنے کے لئے قران پاک کو بصورت شاعری ۲٭اتارا کہ لوگ اس حکمت بھری کتاب میں شاعری کے اسرار و رموز سمجھتے ہوئے اس کو ترتیل سے پڑھیں۔ اس کو ترتیل سے پڑھنے سے تلاوت دلوں پر اثر کرتی ہے کہ جس طرح موسیقی کا اثر دلوں پر ہوتا ہے۔ ٭ اس لیے ہم جو قرانِ پاک کا علم نہیں رکھتے جب یہ کلام سنتے ہیں تو دل مسحور ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے جو کہ انسانی کمالات کی حد سے پرے ہے۔

ترتیب نزولی کے لحاظ سے پہلی قرانِ پاک کی سورۃ :العلق

بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ (3) الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (5) کَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَیَطْغَى (6) أَنْ رَآہُ اسْتَغْنَى (7) إِنَّ إِلَى رَبِّکَ الرُّجْعَى(8) أَرَأَیْتَ الَّذِی یَنْہَى (9) عَبْدًا إِذَا صَلَّى (10) أَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ عَلَى الْہُدَى (11) أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى (12) أَرَأَیْتَ إِنْ کَذَّبَ وَتَوَلَّى (13) أَلَمْ یَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّہَ یَرَى (14) کَلَّا لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِیَۃِ (15) نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ (16) فَلْیَدْعُ نَادِیَہُ (17) سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ (18) کَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (19(

ترجمہ

پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو !تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ(علم)سکھایا جو نہ جانتا تھا۔ ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا ہے۔ اس پر کہ اپنے آپ کو غنی (بے نیاز) سمجھ لیا، بیشک تمہارے رب ہی کی طرف پھرنا یا لوٹنا ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے جبکہ وہ نماز پڑھتا ہو ؟ بھلا دیکھو تو اگر وہ (بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو ؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو ) جھٹلاتا ہو اور منہ موڑتا ہو ؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟ ہر گز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اُس کی پیشانی کے بال پکڑ کو اُس کو کھینچیں گے، اس پیشانی کو جو سخت جھوٹی اور خطا کار ہے۔

میں نے قران پاک کی پہلی نشانی اُٹھائی اور لفظ ”اقراء” پر غور کرنا شروع کیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ میرا دماغ مفلوج ہو گیا۔ تین دن میرا ذہن لفظ ”اقراء” میں پھنسا رہا ہے۔ اس بات نے مجھے بے قرار رکھا کہ میں اکثر ایک دو نظر سبق پڑھ کر اپنے آپ کو پاس کروالیتی ہوں۔ زندگی کا ایک بڑا امتحان میرے سامنے ہے۔ میں پہلے لفظ میں کھوئی ہوئی ہوں۔ میری رفتار کیا ہے ؟ میں بہت کُند ذہن ہوں۔ میں نے اللہ کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا کہ مالک میرا سجدہ قبول فرما لے، میری گریہ قبول فرمالے۔ میرا لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا مشکل امتحان ہے کہ جس میں قدم قدم پر آزمائش شرط ہے۔ جہاں جستجو ہو، وہاں دُعا رائیگاں نہیں جاتی۔ چار دن بعد میری نظر لفظ ”اقراء” سے ہوتی ہوئی ”العلق” پر گئی ہے۔ اقراء کا مطلب ”پڑھ ” ہے مگر اس کا عنوان ”العلق ” ہے۔ اس کشمکش نے مجھے بہت رُلایا ہے۔ بہت غور و فکر کے بعد میں اک نتیجے پر پہنچی ہوں۔ ۔ اس سورۃ نے کائنات کی تفسیر بیان کر دی ہے۔ اگر یہ کائنات کی تفسیر ہے تو پورا قرانِ پاک کیا ہو گا۔ ۔ ۔ ہائے ! میرا احساس ندامت !!! احساس! میری غفلت کا ہے، میری سرکشی کا ہے، میری نافرمانی کا ہے۔

”العلق” کیا ہے ؟ کیا ایک انسان ہے ؟ ایک انسان کے دو حصے ہیں ؟ حیوانات کے دو حصے ہیں ؟ نباتات کے دو حصے ہیں ؟ آخر کیا ہے ؟ حیوانات و نباتات کی ابتدا ”جوڑوں ” کی بصورت مذکر و مونث سے ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ہر شے جو تخلیق کی صلاحیت رکھتی ہے اس کے جوڑے مختص کر دیے ہیں۔ العلق کا لفظ جاندار نوع کی ابتدا کی تفسیر ہے۔ بالخصوص اس سورۃ میں انسان کی بات کی گئی ہے۔ انسان کی ابتدا کیسے ہوئی ہے۔ انسان بڑا کثیف ہے۔ ہائے ! اس کی کثافت اس کو گُناہ کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ کثافت لطافت میں کیسے بدلی جائے ؟ انسان کی نجات کیا ہے ؟ میں ! میری ابتدا کہاں سے ہوئی ہے مجھے بتا دیا گیا ہے مگر انتہا کیا ہے ؟

اس بات سے پہلی دفعہ میرے دل میں سچا خوف پیدا ہوا ہے۔ اس سے پہلے میں سوچا کرتی تھی کہ میں اللہ سے محبت کروں گی کہ خوف نہ کھاؤں گی۔ مجھے جنت اور دوذخ نہیں چاہیے۔ خیر ! یہ تو بچپن کی سوچ ہے اور بچپن تو ہوتا ہے معصوم ہے۔ جہاں میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے ایک گناہ کیا ہے اور معافی مانگ لی ہے اور میں پاک ہو گئی ہوں۔ مجھے کیا پتا تھا میں جب بڑی ہو جاؤں گی مجھے خود کو کتنی دفعہ ”سفل ” کہنا ہو گا کہ میں نے اکثر ایسا کہا ہے۔ ۔ اس میں دُکھ تھا کہ میری روح بڑی ناپاک ہے اور روح ناپاک ہے کہ میں جھوٹ بولوں، میں منافق بن جاؤں، میں دھوکا دوں، میں اللہ کا خیال نماز میں نہ لاؤں اور ٹکر مارتی جاؤں۔ بہت سے ایسے گناہوں جن کو میں کبیرہ اور صغیرہ کہتی ہوں میں نے اپنی زندگی میں کیے ہیں۔ ۔ ۔ ان گُناہوں نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں لکھوں کہ شاید ہدایت پاجاؤں۔ شاید میرا نامہ اعمال کی سیاہ کاریاں کم ہو جائیں۔ ۔ !!!

اب کہ ”العلق” سے خیال میرا براہِ راست "اقراء’ کی طرف آیا۔ ۔ اس میں تو ” پڑھ ” کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ میں نے آج تک بہت کتابیں پڑھ ڈالیں مگر مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ میرا من خالی ہےِ ؟ جانے یہ دل میخانہ کیوں نہ بنا ؟ جانے یہ دل کب میخانہ بنے گا؟ یہ سوال تو بڑا تڑپاتا ہے !!! میں جب پہلی دفعہ اسکول میں داخل ہوئی تو اس میں سب سے پہلے مجھے حروفِ تہجی سکھائی گئی اور پھر مجھے لکھنا سکھایا گیا جب میں نے لکھنا سیکھ لیا تو میرا امتحان لیا گیا۔ میرا امتحان مجھے اگلے درجے میں پہنچا گیا۔ اس کا ادراک مجھے پہلی دفعہ یہ سورۃ پڑھتے ہوئے کہ اس سورۃ کی تفسیر تو میری زندگی کی تعمیر و تخریب کی کہانی سناتی ہے کہ میں جو چاہوں راستہ اختیار کر لوں۔ میں نے قران پاک پڑھا۔ ۔ ارے ! میں پڑھ رہی ہوں مگر مجھے دو لفظوں کی مار نے ایسا رُلایا کہ میں اتنا کبھی نہیں روئی۔ میں اس بے قراری کو کیا کہوں۔ ۔ ۔ ؟ اگر اس طرح میں نے پورا قران پاک پڑھا تو کیا میں میرا عمل خالی رہ جائے گا؟

بات سمجھ کی آ گئی۔ ۔ ۔ میں نے پڑھا اور اس کو سمجھا !! اس کے بعد میں نے عمل کو لکھا۔ کیسے ! اس سوچ میں ہوں کہ ایک لکھنا تو وہ ہے کہ مجھے بات سمجھ آ گئی اور میں نے جو سمجھا لکھا ؟ سب سے پہلے اس کو دماغ کی سلیٹ پر لکھا ہے۔ اس کے بعد اس سلیٹ سے میں نے کاغذ پر لکھنا شروع کر دیا۔ اب جو میں نے لکھا ہے اس کو میں نے اچھا جانا ہے تو میں عمل اچھا کروں گی اور اگر اس کو سمجھ کر بھی میں اس پر عمل نہ کرسکی تو؟ اس سوالیہ کے نشان پر مجھے ناکامی کا احساس یاد آیا ہے کہ زندگی میں خواب ٹوٹ جائیں تو ناکامی بڑا ستاتی ہے۔ ناکامی نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے نہ دیتی ہے۔ ۔ ہائے ناکامی۔ ۔ وائے کامیابی۔ ۔ ۔ وائے کامیابی۔ ۔ کیسے اس کامیابی کو حاصل کیا جائے ؟ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ میں نے محنت شروع کرکے اعمال سنوارنے کی کوشش کی ؟ یا میں نے پیغام سمجھ لینے کے بعد اَن سُنی کر دی۔

کچھ طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اور بعض اوقات وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ تو زندگی کے امتحان ہوتے ہیں، اس اندرونی انتشار کا سامنا ہم کو آخری امتحان روزِ محشر نہ ہو۔ ورنہ میں اور آپ تو بڑے پھنس جائیں گے۔ ناکام کی کی جگہ اس دنیا میں کم ہوتی ہے دنیا کامیابی کے پیچھے بھاگتی ہے . اس طرح آخرت کی طرف دوڑنے والے کامیاب ہو جائیں گے . سب سے بڑا استاد خالق ہے اور اس کے شاگرد اس کو چیلنج کریں تو کیا اس کی غیرت یہ گنوارا کرے گی ؟ وہ بہت رحیم و رحمان ہے . فضل و کرم ان پر کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کو سزا دیتا ہے جن کے دل قفل لگ جانے کی وجہ سے گرد سے اٹ جاتے ہیں . گرد تالے کے اوپر جمع ہو جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ تالا یا قفل زنگ آلود ہو جاتا ہے، پرانے تالوں پر چابیاں کام کرنا چھوڑ جاتی ہے . اللہ تعالیٰ کا کلام چابی ہے . یہ کلام ہر روح پر کارگر ہے، ہر روح پر اسرار اس کلام کے ذریعے کھلتے ہیں . مگر جن کی عقل کام کرنا چھوڑ دے، جن کا دل و نگاہیں بصیرت و بصارت کھودیں، جن کے آنکھیں حقائق کو دیکھ کر ماننے سے انکار کر دیں ان کے دل پر تالے ہیں . ان کے تالے کیسے کھلیں کہ عرصہ گزر جانے کے بعد رحمانی کلام کی چابی سے دل کے قفل نہیں کھولے گئے . کہاں جائیں گے وہ لوگ؟ کہاں جائیں گے َ ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہو گاَ؟ ان کے حصے میں ناکامی ہے ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہو گا؟

 

اس بات سے مجھے اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آ گیا . جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ تارخ کے لے دُعا کی . بعض مورخین کے نزدیک ان کے والد کا نام آذر تھا جبکہ ان کے چاچا کا نام تارخ تھا . آپ نے اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا مانگی . ایک شخص جس کی ساری زندگی انکار میں گزری ہو اور وہ روح پر قفل لگائے جہاں فانی سے کوچ کر جائے تو اس کا کیا ٹھکانہ ہوسکتا ہے ؟ اس کا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ نے خود بتادیا . ایک پیغمبر جو خلیل اللہ تھے ان کی بات قبول نہ کی . اس بات سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ محشر میں قرابت و رشتہ داری کام نہ آئے گا .اگر کام آئے گا تو ایک سچا رشتہ جو مجھے اللہ سے جوڑے اور خالق سے نکلے جتنے رشتے ۔ ۔ ۔ان رشتوں سے اگر میں محبت کر سکی تو .. میں اس قابل ہو جاؤں گی اپنی پناہ کی التجا کر سکوں . ورنہ مجھے ڈر ہے .. مجھے اپنی آخرت کا ڈر ہے .. مجھے روزِ محشر سے ڈر لگتا ہے، مجھے عالم برزخ سے ڈر لگتا ہے جس کا دروازہ مجھ پر کھلے تو وہ جنت کی ٹھنڈی چھاؤں بھی ہوسکتا ہے اور دوذخ کی گرم ہوا بھی ۔ ۔ ۔ اور مجھے سچ میں بہت ڈر لگا ۔ ۔ ۔ یوں لگا میرے آگے اندھیرا چھا گیا ہے .. اس سے آگے کا تصور میں کر نہیں سکی ۔ ۔ ۔ کیا کروں ۔ ۔ ۔ ڈر لگتا ہے ۔ ۔ ۔ بہت ڈر لگتا ہے ۔ ۔ ۔ مجھے اس کا نافرمان نہیں بننا ۔ ۔ ۔. مجھے کوشش کرنی ہے کہ میں اللہ کے راستے پر چل سکوں۔

اس خیال کے آتے ہیں مجھے خیال آیا کہ اس صورت کے بھی چار حصے ہیں ۔ ۔ ۔.

.1. انسان کی مادی تخلیق و ارتقاء

.2. انسان کی روحانی تخلیق و ارتقاء

.3. جبرو قدر کا فلسفہ ۔ ۔ ۔اختیار و مرضی کا تعلق

.4. برائی کا انجام ۔ ۔ ۔جہنم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ۔ ۔ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ ۔ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ۔ ۔ الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ ۔ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔

یہ انسان کی روحانی تربیت کے بارے میں بتاتا ہے۔ انسان کی روحانی تربیت پڑھنے سے شروع ہوتی ہے۔ اور پڑھنے کے بعد اس کی سمجھ نمو پاتی ہے اس کے ساتھ ہی دوسری آیت میں انسان کی ابتدا کے بارے میں بتایا گیا۔ انسان کی ابتدا کثافت سے ہوئی مگر اس کی کثافت، روح کی لطافت بڑھانے سے کم ہوسکتی ہے۔ روح کو لطافت پڑھنے سے ملتی ہے۔ جو جتنا پڑھتا جائے گا اس کی لطافت کثافت کو ختم کرتی جائے گی۔ پیغمبروں کو اس لیے معصوم کہا جاتا ہے کہ ان میں لطافت لطافت ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جناب حضرت محمدﷺ لطافت طائف کے سفر میں لہولہان ہو جانے کے باوجود بد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا نہ سکے مگر وہ پیارے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے۔ اس روحانی تربیت کی مثال کہاں ملے گی کہ اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کو دعا دیے جا رہے تھے۔ ہم پیارے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے گناہوں سے پا ک ہو کر روح کو بلند مقام کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ہمیں پڑھنا اور سمجھنا ہی نہیں ہے، ان اعمال کو لکھنا ہے، عمل کرنا ہے، اچھائی کی طرف جانا ہے، قلم ہمارا متحرک رہے، ہمارا دماغ اچھے کو قبول کرکے اچھے کی طرف آمادہ کرے۔ ۔ ۔ یہاں دو طرح کا لکھنا ہے ایک وہ قلم جس سے کاغذ پر لکھا جاتا ہے اور ایک وہ قلم ہے جس کو دماغ لکھتا ہے، اس قلم سے عمل بنتا ہے۔ قلم جب چلتی ہے، دماغ جب چلتا ہے تو انسان وہ علم سیکھتا ہے جن علوم کو وہ جانتا ہی نہیں۔ اب ہم کس حد تک اس قلم یعنی دماغ کو چلا کے روح کی تربیت کرکے مرشد کامل کے راستے پر چلتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

 

کَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَیَطْغَى Aya-6 أَنْ رَآَہُ اسْتَغْنَى Aya-7. إِنَّ إِلَى رَبِّکَ الرُّجْعَى Aya-8. أَرَأَیْتَ الَّذِی یَنْہَى Aya-9. عَبْدًاِ ذَا صَلَّى Aya-10.

جبرو قدر کا فلسفہ سورۃ کے اس حصے میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کی سرشت میں سرکشی ہے اور اپنے آپ کو روحانی تربیت سے بے نیاز کرکے حق کی طرف رجعت سے انکار کر دیتا ہے۔ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے۔ اس عارضی ٹھکانے میں کب تک رہے گا؟ آخر کو اس دنیا سے کوچ کرکے موت کی طرف جائے گا۔ اس بات کا بالخصوص ذکر سورۃ ”ق’ ‘ میں ذکر ہے۔ انسان کی ہڈیاں کھا لی جائیں گی۔ اس کے اعضاء ریشہ ریشہ ہو جائیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس بکھرے ہوئے حصوں کو مجتمع کر لیں گے۔ اور اس میں روح ڈال کر اس سے حساب لیں گے۔ اس کے بعد اس کی سرکشی کس کام کی َ ؟ کہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے۔ ۔ ۔ ”اریت” کے معنی دیکھنا۔ ۔ ” ینہی” بمعنی منع کرنا۔ ۔ ۔ کسی چیز سے منع کرنا۔ ۔ "عبد”۔ ۔ بندے کو۔ ”۔ صلیََ ”۔ ۔ ۔ نماز و عبادت کرے۔ ۔ وہ بندہ جو سرکش ہے۔ تاریخی حو آلہ تو جناب پیارے حضور پاکﷺ اور ابو جہل سے متعلق ہے۔ مگر یہاں یہ ہر اس انسان پر لاگو ہے جو حق راہ پر چلنے والوں کا راستہ روکے اور عبادت میٰں رخنہ ڈالیں۔ ۔ ان کا ٹھکانہ کیا ہو گا۔ ۔ ۔ جو اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں وہ اس کے بندے ہوتے ہیں اور جو اس کے محبوب بندوں کو تنگ کریں وہ کس راہ پر ہوں گے ؟ سوچیے نا! وہ جو اس محبوب بندوں کو ایک سیدھی راہ پرچلنے دیں کہ ان کے دل تاکے کھاچکے ہیں مگر اپنے ساتھ نقصان تو یہ لوگ کرتے ہی ہیں، ساتھ ساتھ اللہ کے نیک بندوں کے درمیاں رخنہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عبادت میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ ایسے بندوں کے لیے سخت وعید ہے۔

أَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ عَلَى الْہُدَى Aya-11.أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى Aya-12. أَرَأَیْتَ إِنْ کَذَّبَ وَتَوَلَّى Aya-13.أَلَمْ یَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّہَ یَرَى Aya-14. کَلَّا لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِیَۃِ Aya-15. نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ Aya-16.فَلْیَدْعُ نَادِیَہُ Aya-17. سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ Aya-18. کَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ Aya-19.

”ارایت” بمعنی دیکھنے کے۔ ۔ ” کان ”بے شک۔ ۔ ”علی”۔ ۔ اوپر یا کی جانب۔ ۔ کیا ہدایت پاجانے والے بندے کو نہیں دیکھا۔ ۔ بے شک حضرت محمدﷺ کی طرف اشارہ ہے اور ساتھ ساتھ ہر اس شخص کے لیے اشارہ ہے، جو نبیﷺ کا پیرو کار ہے کہ وہ ہدایت پر ہیں۔ ۔ امر۔ ۔ بمعنی حکم کے۔ ۔ پیرہیزگاری کے حکم کو اپنائے ہوئے ہے یا اس کو تقوی پر استوار کر دیا گیا ہے۔ اس شخص کو جو اللہ تعالیٰ کی راہ ہر ہے اس کو اگر اس کو فتنہ ساز تنگ کرے گا تو کیا ہو گا؟ کذب۔ ۔ جھوٹا اور ”تولی”۔ ۔ ۔ بمعنی حق سے رو گردانی کرنا ہے۔ ۔ ۔   کہ یہ فتنہ ساز جھوٹے اور حق سے روگرادنی کرنے والے ہیں۔ ۔ ۔ "الم ”۔ ۔ ۔ کیا نہیں، ”یعلم”۔ ۔ جانتا۔ ۔ ” یری ”۔ ۔ دیکھنے کے روپ میں۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ کیا نہیں دیکھ رہا کہ جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ اور جب اللہ جانے تو اس کا کیا سلوک ہو گا۔ بے شک یہ ایک وعید ہے، ایک تنبیہ ہے۔ کہ ان کو پیشانیوں کے بل کھینچا جائے گا۔ ۔ ۔ پیشانی وہ جگہ جو دماغ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دماغ جب اندھا ہو جائے تو اس کو اس کی پیشانی سے پکڑ کر جہنم واصل کیا جائے اور تب اس کے ساتھی اس کے کام نہیں آنے والے۔ ۔ اور جو لوگ پرہیز گار ہیں۔ ۔ ۔ جو عبادت کرتے ہیں۔ ۔ ۔ اس کو سنا دیا گیا کہ ان سے ڈرو مت۔ ۔ ۔ تم حق پر ڈٹے رہو۔ ۔ ۔ تاکہ۔ ۔ ۔ اللہ کا قرب حاصل ہو۔

 

 

 

٭٭٭

 

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّــقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ   42؀

یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں۔ (سورہ ۳۹، الزمر: ۴۲)

 

سوشل نیٹ ورک کی عفریت

فیضان الحق معراجی

ہم تفریح طبع کے لئے سوشل نٹے ورک پر کیسے کیسے مباحث میں مصروف رہتے ہیں کہیں اسلامی مسئلہ، کہیں مسلکی مسئلہ، کہیں سیاسی تو کہیں نظریاتی الغرض ہم میں سے ہر ایک خواہ وہ عقل پر لٹھ کے بجائے سینک لے کر گھوم رہا ہو مگر اختلافی موضوعات میں نوے فی صد حصہ لے رہا ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ اختلافی موضوعات کس قسم کے ہیں۔

مگر سوشل نٹ ورک(عفریت) کے صارفین ان چھوٹی چھوٹی تفریحوں کے فوائد و نقصانات کا اندازہ جب لگتا ہے جب ہم ان کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں چنانچہ ہم میں سے کوئی بھی جب اپنا اکاؤنٹ بناتا ہے اس وقت مالکان سوشل نٹورک ہم سے کچھ ایسے معاہدے کرواتے ہیں کہ اگر ہم ان کو بغور پڑھیں اور ان کی گہرائی کو سمجھیں تو شاید کسی سائٹ پر اکاؤنٹ بناتے ہوئے ہم سب کا کلیجہ منہ سے باہر گر جائے۔

وہاں ان کے معاہدے کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ آپ کی محفوظ کردہ دستاویز کو مالکان کسی بھی صورت استعمال کرنے کا جواز رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اب اس ضمن میں دیکھا جائے تو ابھی کچھ ہی روز کا معائینہ تھا کہ خود ہمارے ملک "ہندوستان” میں کسی خبر سے بدامنی پھیلانے کے لئے صرف "دس منٹ” کا وقت صرف ہونا ہے۔

اسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنی کالا بازاری اور پروجکٹ کی کامیابی کے لئے کون سا علاقہ زیادہ موزوں ہے اس کے لئے وہ سب سے پہلے سوشل نٹورک مالکان سے رابطہ کرتے ہیں کہ ان کا یہ پروجکٹ کس علاقہ میں کس حد تک نفع کما سکتا ہے ؟ اور چونکہ ہم اس معاہدے کے تحت ہیں اس لئے مالکان سوشل نٹورک ہماری رائے ان کو بلا جھجھک فروخت کرتے ہیں اور اس طرح وہ ہماری اس چیز کو جو ہم صرف تفریح طبع کے لئے استعمال کررہے ہیں اس کو وہ اپنے مفاد کے لئے بلا عوض استعمال کررہے ہیں۔ اور یہیں پر بس نہیں بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مذہبی، مسلکی، سیاسی نظریات میں کون کون کس کس طرح کے رویہ کا خوگر ہے اور کس علاقہ کے سرکردہ اور غیر سرکردہ لوگ اس مسئلہ میں کس نظریہ کے حامی ہیں ان تمام باتوں کو باقاعدہ طور سے سوشل نٹورک سے حاصل کیا جاتا ہے اور یہ بیش قیمت معلومات دینے کے لئے ہم بھولی عوام جانتے بوجھتے ہوئے خود کا نظریہ بلا عوض ان تک پہونچاتے ہی نہیں بلکہ اس پر خود کے قیمتی اوقات کے ساتھ اپنی خطیر رقم بھی اس پر شوق سے گنوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور وہ اسی کو بڑی بڑی رقم میں دوسروں کو فروخت کرتے ہیں۔

بات صرف فروختگی تک محدود ہو تو تسکین خاطر ہو جائے اور صبر کر لیا جائے تاہم یہاں بات صرف فروختگی کی نہیں ہے۔ ۔ ۔

بلکہ بات یہاں ان دشمنان انسانیت کی ہے جن کو صرف اپنی بالا دستی اور لیڈر شپ کے لئے رذیل سے رذیل پروپگنڈوں کو انسانیت کے انہدام کے لئے استعمال کرنے کی ہے اور خود کی حکمرانی اور تانا شاہی کی برقراری کی ہے لہذا ضروری ہے کہ ہم سے ہر ایک ایسے مباحث میں بہت محتاط انداز سے محض اصلاحی فکر کا جذبہ کار فرما رکھ کر اس سوشل نٹورک کا استعمال کرے۔

اور جہاں جہاں برساتی مینڈھک بیٹھے بیٹھے ٹرٹر کررہے ہیں ان کو بہت ہی خوش اسلوبی سے سمجھائے اگر وہ وار کرتے ہیں تو اس انداز سے دفاع ہو کہ وہاں ہم سب کا نظریہ ہار اور جیت بالکل نہ ہو بلکہ ہمارا نظریہ سمجھنا اور سمجھانے کے ساتھ متلاشی حق اور اصلاحی ہو اس طرح اس سوشل نٹورک سے نفع اٹھا کر ہم ہی پر وار کرنے والوں کے منحوس اذہان کو شکست اور ان کے ناپاک پروپگنڈوں کا قلع قمع بھی کیا جا سکتا ہے اور ساتھ میں بے جا الزامات اور کذب بیانی کرنے والوں کے گلے میں پھندا بھی ڈالا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

عالمی تبلیغی مرکز نظام الدین کی حاضری

مزمل اختر

اللہ کی قدرت :

جس کے ناموں کی نہیں ہے انتہا

ابتدا کرتا ہوں   اس کے   نام سے

 

بڑی مشکل سے مجھے اللہ نے چلہ کے لیے قبول کیا، بات تو یہی ہے کہ اصل اللہ ہی قبول کرتا ہے ورنہ ہماری کیا بساط کہ ہم اس کے راستے میں نکلیں۔ وہ جسے چا تا ہے بلاتا ہے، (13/04/12 ) بروز جمعہ مسجد وارث پورہ میں بعد نماز مغرب بیان کے   بعد تشکیل ہوئی تب عاجز (مزمل اختر غفرلہُ)کو معلوم ہوا ضمیر بھائی (اللہ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائیں اور آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں کہ آپ ہی عاجز کے نظام الدین جانے کا ذریعہ بنے ) چلہ کے لیے جا رہے ہیں ہم نے تب نام نہ لکھایا دوسرے دن (13/04/13) بروز سنیچر کو ہمارا سعید نگر مسجد میں گشت ہوتا ہے تو بی بی کالونی کے کچھ حضرات آتے ہیں ان میں عمران بھائی (پولس والے ) بھی تھے انھوں نے عاجز کی تشکیل کی اور ہمت افزائی کی عاجز تیار ہو گیا اور (13/04/16) بروز منگل عاجز اور ضمیر بھائی صبح 07:15 بجے کی ٹرین سے کامٹی اسٹیشن سے چھتیس گڑھ (میندرگڑھ) کے لیے روانہ ہوئے .اللہ کے فضل سے پورا چلہ عافیت سے لگایا-( بحمدللہ)

چلہ میں تقریباً 15 دن بعد سے نظام الدین کا معاملہ شروع ہوا وہاں ایک حضرت تھے عبدالحق صاحب (انکی طبیعت تھوڑی خراب رہتی ہے ان کے لیے بھی دعاء کریں بہت اللہ ان سے بھی بہت کام لے رہا ہے اللہ آگے بھی لے ) انھیں کی وجہ سے عاجز کا آدھا کام آسان ہو گیا۔ کامٹی کے شوریٰ حضرات سے انہیں نے شفارش کی تھی، کہا عاجز کو اپنی خدمت کے لیے لے جا رہے ہیں (مگر اس نالائق نے انکی ذرا بھی خدمت نہ کی بلکہ نظام الدین کے نورانی ماحول میں کھو گیا )

عاجز کی گزارش ہے اس کام کو سمجھنے کے لیے نظام الدین کا سفر ضرور کریں اور اپنی فکروں میں اضافہ کریں سچ کہتا ہوں وہ منظر وہ کیفیت کیسے بیان کروں یہ تو وہی سمجھ سکتا ہے جو وہاں ہو یا وہاں گیا ہو۔ جب ضمیر بھائی نے بتایا حضرت جی مولانا یوسف صاحب ﷫حیاۃ الصحابہ یہاں بیٹھ کر لکھا کر تے تھے یہاں اس حجرے میں جو کہ پہلے الیاس صاحب اور بعد میں یوسف صاحب رحمہما اللہ کا حجرہ تھا یہاں پر   مشورہ ہوتا ہے اور پہلے یہاں ہوتا تھا واہ کیا منظر تھا عاجز وہیں کھڑا تھا۔ وہ کیفیت وہ سکون اسے لکھا نہیں جا سکتا اسے وہاں جا کر صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

زیرِ نظر تحریر میں وہاں کی کچھ عجیب باتیں جو فقیر نے محسوس کیں، کچھ اکابرین کے ملفوظات اور کئی اور چیزیں قارئین کے فائدے کے تحت لکھنے کا ارادہ ہے۔ جن حضرات کا فائدہ ہو خصوصی و عمومی دعاؤں میں عاجز (مزمل اختر غفرلہُ )اور ( ضمیر بھائی، عبدالحق صاحب، عمران بھائی، ہمارے حضرت جی مرشدی مولانا صلاح الدین سیفی صاحب دامت برکاتہم ) ان تمام حضرات کے لیے خوب دعا ئیں کریں اور خاص دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مزید کی توفیق دیں اور اس مبارک کام کے لیے قبول فرمائیں۔

اور ایک خاص بات جو عاجز نے محسوس کی ہمارے کام کرنے والے حضرات اکابرین کے نام لیتے ہیں تو کچھ ادھورا ادھورا سا لگتا ہے دیکھیے اکابر علماء دیوبند کا ایک مقام ہے بس ہم چاہتے ہیں وہ مقام باقی رہے۔ ہمارے علماءحضرات کو دیکھیے انھیں حضرات کے نام کتنے پیار سے لیتے ہیں ہمارے اکابرین نے اس دین کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، کیا ہم ان کا صحیح طریقے سے پوراپورا نام بھی نہیں لے سکتے ؟ ہمارے ساتھی کہتے ہیں :

” مولانا سعد صاحب فرماتے ہیں۔ ۔ ۔ ”

اسی کو اس طرح کہا جائے تو کایہی اچھا ہو:

"حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ ”

آپ کہہ کر دیکھیں، آپ کو خود اپنی بات(مذاکرہ ) میں فرق نظر آئے گا۔   دلیل کے لیے، کچھ ہفتے پہلے اسلم صاحب کے فرزند مولوی عبدللہ صاحب دامت برکاتہم نے مرکز وارث پورہ کامٹی میں بیان کیا تھا انہوں نے ہر مرتبہ ایسے ہی ہر اکابر حضرات کا نام لیا تووہ کہتے تھے :

"حضرت شیخ مولوی محمد یوسف صاحب ﷫فرمایا کرتے تھے۔ ۔ ۔ ”

اسی طرح عاجز نے بارہا حضرت مفتی اسحاق صاحب دامت برکاتہم سے اکابرین کے نام اس طریقے سے لیتے ہوئے سنا ہے۔ دیکھیے یہ دین علماء حضرات سے ہم تک آیا ہے، یہ لوگ حضورﷺ کے وارث ہیں، ہمارا فرض ہے ہم انھیں سے ہر چیزیں سیکھیں اور انکی بہت عزت کریں۔ جزاک اللہ۔

دعا جو ودعا گو

مزمل اختر غفرلہُ

پہلی نشست (13/05/25) بروز سنیچر

حضرت مولانا یعقوب صاحب دامت برکاتہم                                                       بعد نماز مغرب

وقت:-08:03 pm سے 08:57 pm

1)آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے جب تمھیں تکلیفیں دی جائیں تو میری تکلیفوں اور مصیبتوں کو یاد کرنا تم اپنی تکلیفوں کو بھول جاؤ گے۔

2) دیکھو دین اجتماع   سے نہیں پھیلے گا – اجتماع کے تین بڑے نقصان ہوتے ہیں۔

الف) نقد جماعتیں ادھار ہو جاتی ہیں

ب) خرچ زیادہ ہوتا ہے ( عوام کی نظریں اللہ کی بجائے مالداروں کے جیب پر آجاتی ہے )

ت)جماعتوں کو امیر نہیں ملتے (زیادہ جماعتوں کے بننے کی وجہ سے ہر جماعت کو مناسب امیر ملنا آج کے دور میں تھوڑا مشکل ہے )

3) حضرت نے تین سے چار مرتبہ کہا ہر ایک کو اپنا سمیں نن۔   پہلے عداوت آئے گی پھر دوستی ہو جائے گی۔

4) ہم اسلئے یہاں آتے ہیں تاکہ ہماری فکریں ایک ہو جائیں۔

 

نشست دوم (2013/05/26) اتوار

حضرت مولانا ابراہیم دولا صاحب دامت برکاتہم                                 بعد نماز فجر

وقت: – pm05:23 سے 06:50 pm

1) کام کی حفاظت کریں۔   اس کام کی حفاظت کریں گے تو اس کا اثر نظر آئے گا۔

(بقول موجودہ حضرت جی کہ یہ کام تعارف کی سطح سے ا وپر چلا گیا ہے ہر کوئی جانتا ہے کام کیا ہے تم لاکھ اس کام کے خلاف پرچے چھاپ لو قسم خداکی اس کام کو ذرہ برابر نقصان نہیں پہچا سکتے اب کام کو نقصان غیر وں سے نہیں بلکہ کام کو نقصان کام کے کرنے والوں سے ہے ) اس لیے حضرت کہہ رہے اس کام کی حفاظت کام کرنے والے کریں۔

2)ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو کام کے تابع کریں، نہ کہ کام کو اپنے تابع کریں۔

ورنہ پھر اس کام کے کرنے کا دل چاہے گا کریں گے نہ چاہے گا تو نہ کریں گے۔

جو شخص اپنے آپ کو نماز کا پابند کرے گا تو نماز کا اثر ہو گا، وہ برائی سے رکے گا یہ نہیں کہ نماز کو اپنا پابند کر لیا کہ دل چاہا پڑھ لی نا ہوانہ پڑھی – اپنی نماز کو مؤمن والی نماز بناؤ نماز کے پابند ہو جاؤ گے۔ ٭

3)دین کا کام ہماری ذمہ داری ہے ترقی اسی کو ہو گی جو ذمہ داری پوری کرے گا۔

4)اس کام کی برکت سے اللہ کا تعلق پیدا ہو گا۔ اس لیے اس کام سے لگے رہیں۔

مولانا یوسف صاحب ﷫ فرمایا کرتے تھے (اس کام سے لگے رہو ) اخلاص آئے گا۔

5) حق کی ابتدا دشواریوں سے ہوتی ہے اور اس کی انتہاء کامیابیوں سے ہوتی ہے۔

6) اپنے آپ کو ہم کام سے گزاریں، اپنے آپ سے کام کو لیں۔

7) اپنے کاموں کی فہرست میں دین کی بھی محنت کو لاؤ۔

8) ا اپنے دین کا بھلا چاہو اور دین والوں کا بھلا چاہو دوسروں کا بھلا چاہنا یہ دین کا ایک اہم جز ہے۔

9) دین کی محنت میں اخلاق کا ظہور ہوتا ہے۔

10) اس محنت کا اثر یہ ہے کہ تمہارے دشمن تمہارے ساتھ ہو جائے گا۔

(ہمارے ایک ساتھی کہہ رہے تھے یہ کام ایسا ہے اگر ہم استقبال میں کڑ ے ہوں اور ہمارا کوئ دشمن بھی آئے تو اسے بھی گلے لگانے کو کہتا ہے )

11 )کوئی غلطی بتائے تو تبلیغ کا مخالف۔ ۔ ۔.؟؟نہیں بلکہ وہ توہمارا خیر خواہ ہے۔ جیسے نماز میں کوئی لقمہ دے تو نماز کا مخالف نہیں۔ اس نے تو ہماری نماز صحیح کی ہے اس لیے اس کا احسان مانیں، تسلیم اور تصحیح ہر عمل میں شامل ہے۔

12) تجارت ایسے کرو کہ جو اپنے سے اوپر ہے اس سے دین لو اور جو اپنے سے نیچے ہے اسے دین دو۔

13) نیچے جاؤ تو راستے کھلتے ہیں۔ آپﷺ اوپر سے بہت ساری چیزیں لاتے اور پھر نیچے گئے چھوٹوں کے ساتھ (غریبوں کے ساتھ) رہے ۔

14) سرمہ پتھر تھا اس کی پٹائی ہوئی، پسائی ہوئی، تو کیا مقام ملا۔ ۔ ۔.!!!!! آنکھوں تک پہنچ گیا۔ ہم بھی اپنی پٹائی اور پسائی کروائیں۔

15) انصار کے اندر یہ خوبی تھی کہ مشکل کام اپنے ذمہ لیتے تھے۔

16) ایسے عمل کرو جس میں اللہ کے لیے اخلاص ہو اور مخلوق کے لیے اخلاق ہو۔

 

تیسری نتس (13/05/26) بروز اتوار

حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم

وقت: – 10:10 سے 12:19 تک

ہمار ے یہاں کے بڑے ذمہ داروں میں ایک اہم شخصیت ہے جنہیں عموما لوگ اسلم صاحب کے نام سے جانتے ہیں۔ کافی کم عمر سے حضرت کام سے لگے اور اللہ نے ان سے بہت کام لیا اور ابھی بھی لے رہے ہیں۔ حضرت اس زمانے کے ہیں آپ لوگ خود ہی سوچ سکتے ہیں کتنی مشتیں ا اٹھائی ہوں گی۔ اس پر بھی ایک مرتبہ حضرت فرمارہے تھے جو کہ ہم نے کسی معتبر شخص سے سنا، حضرت کہہ رہے تھے :

” جب پہلی مرتبہ حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم ( اسلم صاحب کا پتہ نہیں، مگر ہم سے جنھوں نے کہا انھوں نے دامت برکاتہم نہیں کہا تھا۔ ۔ ۔ اللہ توفیق دیں ) سو جب انھوں نے پرانوں کے مجمع میں بات کی تو مجھے ایسا لگا کہ ہم نے اب تک کوئی کام ہی نہیں کیا ۔ ”

1) کارگزاری کمیت کی نہیں ہے کہ اتنے اتنے نکلے، بلکہ کارگزاری تو کفیتا کی ہے۔

2) حضرت نے فرمایا مفتی زین العابدین صاحب جب بھی یہاں (مطلب نظام الدین) آتے تو تمام چیزیں لکھ کر لے جاتے اور دوسروں کو دکھاتے۔

3) سمجھ میں آئے نہ آئے کرنا وہ ہے جو ہم کہہ رہے ہیں۔

4) جتنی ترقی ہمار ی صحابہ پر نظر رکھنے سے ہو گی اتنی کہیں نہیں ہو سکتی، اپنے کاموں کو سنتوں پر لائیں، دعوت کا کوئ ایک جز ایسا نہیں ہے جس کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ ہو اور صحابہ سے عملی طور پر کروایا نہ ہو۔

5) متحرک وہ ہے جن کے سالانہ چلہ لگ رہے ہوں۔

6) اپنے مجمع کو شروع سے اللہ کے راستے کے خروج کی اہمیت بتائیں۔

7) مجمع کیوں نکلے یہ بات سامنے آنی چاہیے۔ صحابہ سے ایک سال کا خروج چھوٹنے کی وجہ سے اللہ اور نبیﷺ کی ناراضگی کے واقعات پیش کریں۔

8) جب تک اللہ کے راستے کے خروج کو نہ بتائیں گے تب تک مجمع متحرک نہ ہو گا۔

9) حضرت فرماتے تھے، ہمارے مجمع کا جمع ہونا بکھرحنے کے لیے ہے۔ ٭

10) لوگوں سے کہیں کہ 5 اعمال آپ عملی طور پر کر کے دکھلادیں تب عام مجمع اس کام پر آئے گا۔

11) جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ہی علاقوں میں چلاؤ نئے لوگوں کو مسجد وار جماعت سے جوڑو تاکہ ان کے اندر فکر آئے اور پرانوں کو شب گزاری سے جوڑو۔

12) جماعت کو لمبے خروج کے لیے تیار کرو صحابہ کی قربانیوں کے ذریعہ سمجھاؤ(نکلنا کیوں ضروری ہے نہ نکلنے کا کیا نقصان ہے )

13)(اپنے علاقوں میں گھروں کی تعلیم کو خوب عام کریں اور اس کو خوب مضبوط کریں ہماری بسیج میں کوئی ایسا گھر نہ بچے جہاں تعلیم نہ ہوتی ہو ) حضرت نے فرمایا حضرت ( حضرت شیخ مولوی محمد یوسف صاحب ﷫) نے مسجد میں حیاۃ الصحابہ کی تعلیم کی۔ پھر گھر گئے حالت کافی خراب تھی تعلیم شروع کی تو گھر والوں نے کہا آپ کی حالت ٹھیک نہیں ہے آپ نے مسجد میں تعلیم کی ہم نے سن لی (کیونکہ آپ کا حجرہ مسجد سے متصل تھا ) آپ نے کہا تم لوگوں نے سنا ہو گا لیکن وہ میری مسجد کی تعلیم تھی یہ میرے گھر کی تعلیم ہے۔

14) 6 نمبر کے مذاکرے کا مقصد یہ ہے کہ گھروں میں مستورات کے اندر فکر آئے۔

15) طلبہ بھی مسجد کی جماعت کے ساتھی ہیں، اگر ان کا مشورہ الگ ہو گا تو وہ اپنے آپ کو الگ سمجھیں گے۔ مشورہ سے یہ محسوس نہ ہو کہ یہ عمل اس طبقہ کا ہے۔

16) روزآنہ کی فکروں میں طلبہ نہیں رہیں گے تو طلبہ بے فکر ہو جائیں گے۔

17) ہم تو چاہتے ہیں کہ طلبہ میں پورے عالم کی فکر ہو اسلئے ہر عمل میں طلبہ کو بھی شریک کریں۔

18) منتخب احادیث کی تعلیم کو عام کرو تاکہ عام سے عام آدمی کو حدیث کی روشنی میں چھ نمبر بولناآجاٰئے ۔

19) اس کام کی وجہ بصیرت اور استقامت آئے گی۔

20) جب وہ دیکھتا ہے میری نماز ٹھیک ہو گئی، دین ٹھیک ہو گیا تو اب میں کیوں نکلوں ؟ اسلئے لوگوں کے سامنے خروج کی اہمیت بتائیں اور تشکیل کریں۔

 

چوتھی نشست(26/05/13)بروز اتوار

پروفیسر عبدالعلیم صاحب.                                                 بعد نماز مغرب

وقت: -08:05 سے 09:03

1) دیکھو دو رخ ہیں اس کام کے (الف) نقل و حرکت. (ب) مقام پر رہ کر کام کرنا

2) خروج کا بدل اور کوئی عمل نہیں ہے۔ مقامی کام اس کی بھٹکنے سے حفاظت کرتا ہے۔

جتنا مقامی کام مضبوط ہو گا اتنی ہی نقل وحرکت مضبوط ہو گی۔ نفس پر سب سے بھاری مقامی کام ہوتا ہے۔

3) مقامی کام کے لیے مسجد ہونا شرط نہیں ہے۔ فرانس میں درخت کے نیچے کام کیا اور چار ماہ کی جماعت نکالی۔

4) عمومی گشت ریڑھ کی ہڈی ہے۔ بہت سی روحانی بیماریوں کا علاج ہی عمومی گشت ہے۔

5) اگر کوئی عالم کمزوری بتائے تو اسے فوراً قبول کریں دلیل پیش نہ کرے نہ ہی صفائی پیش کریں۔

6) ایک مرتبہ کسی نے کہہ دیا دوبارہ میرے پاس نہ آنا تو پھر اس کے پاس جانا(اور بار بار جانا) اور اس کے پاس جانا نہ چھوڑنا یہ سوچیں کہ وہ آپﷺ کا امتی ہے، اس وجہ سے اس کے پاس جانا۔ دل تو اللہ کے قبضہ میں ہے جب چاہے بدل دے۔

7) 70 برس کی دادی اماں ہے اس سے بھی مذاکرہ کرائیں تاکہ وہ بھی اللہ سے ہونے کے بول کو بولتے ہوئے اللہ کے پاس جائے

8) شیر خوار بچہ بھی ہے تو ماں اس کو ساتھ لے کر بیٹھے حالاں کہ وہ سمجھ نہیں رہا ہے مگر تعلیم کا نور اس کے اندر داخل ہوتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اذان دی جاتی ہے نا ؟ وہ سمجھ نہیں رہا ہوتا ہے مگر اذان دی جاتی ہے۔

 

پانچویں نشست (26/05/13)بروز اتوار

حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم               عشاء بعد حیات الصحابہ

وقت: -11:10 سے 11:26

( حضرت عشاء پڑھا کر اپنے حجرے میں چلے جاتے ہیں جس کا دروازہ مسجد کی تقریباً چوتھی صف میں ہے۔ پھر نمازوں سے فارغ ہو کر آتے ہیں۔ ان کے پیچھے ان کے تینوں بیٹے فرمانبردار بیٹوں کی طرح نہایت ہی ادب سے حضرت کے پیچھے چلتے ہیں اور حضرت کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور آپ بیٹے بھی وہی آس پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کے پاس کتاب ہوتی ہے۔ مولوی سعد صاحب دامت برکاتہم کتاب پڑھتے ہیں اور دونوں بیٹے کتاب کھول کر سنتے ہیں اور پورا مجمع اس منظر کو خوشدلی کے ساتھ دیکھتا ہے اور اور تعلیم سنتا ہے تعلیم سے پہلے حضرت کچھ اہم بات کرتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں )

1) اس راستے میں آنے والی مشکلوں کو صحابہ کی زندگی میں تلاش کرو ۔ جو یہ نہ کرے اس کے اندر استقامت نہیں ہو گی۔

2) لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کام استقبال سے شروع ہوں۔ جو لوگ کام کرنے کے لیے حالات کے بدلنے کا انتظار کریں گے تو حالات ان کے لیے کبھی نہیں بدلیں گے۔

(اس کے بعد حضرت نے کتاب پڑھنی شروع کی )

(جاری ہے ……)

باطل قوتوں کا مقابلہ علمی ہتھیاروں سے لیس ہو کر کیجیے۔

سربکف کو خود تک محدود نہ رکھیے، دوسروں تک پہنچائیے۔ مفت آن لائن مجلہ- سربکف پڑھیے اور پڑھائیے۔

نیک خواہشات کے ساتھ: Sarbakaf’s Web Partner: www.DawatIlallah.com

 

فکریے

ابنِ غوری، حیدر آباد، ہند

جنوں ۔ ۔ ۔خرد:

مولوی رام ولاس پاس وان، مولوی رام کرشنا بیگڑے، مولوی اندر کمار گجرال۔ ۔ ۔ واہ واہ!

مسٹر……الدین۔ مسٹر……شریف۔ مسٹر……خان……آہ!

٭سمجھے نا آپ!۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔وہ تو باریش اور یہ بے ریش۔

 

دو نعمتیں :

اللہ نے ہوا کی نعمت کو اتنا عام کیا ہے کہ کوئی اس سے بچنا چاہے تو بچ نہیں سکتا۔

٭خیر امت کو، دعوت کی محنت اتنی عام کرنا چاہیے کہ کوئی اس سے بچنا چاہے تو نہ بچ سکے۔

 

منہ کی کھائیں گے :

مکان کی تعمیر میں /بیٹے کی تعلیم میں /بیٹی کی شادی میں /……رکاوٹ معلوم ہوتی ہے ……آپ دور کر دیتے ہیں، ما شاء اللہ!

٭دین پر چلنے میں رکاوٹ معلوم ہوتی ہے ……آپ خاموش رہتے ہیں ……انا للہ……

 

 

 

کوالٹی:

ماہر ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا آپ نے استعمال کی لیکن صحت نہیں ہوئی۔ پتا چلا کہ دوا کی کوالٹی ٹھیک نہیں ہے۔

٭آپ عرصۂ دراز سے نمازی اور روزے دار ہیں لیکن آپ میں تقوی پیدا نہیں ہوا! ذرا دیکھیں کہیں آپ کی عبادت کی کوالٹی تو خراب نہیں ہے ؟

 

ندامت بھی نادم:

بم باری جاری تھی کہ اذان ہو گئی۔ مقامی لوگ مسجد کو جانے لگے لیکن بعض لوگ چائے اور سگریٹ نوشی میں مست تھے حالاں کہ وہ پناہ گزیں تھے، اور اور خشوع خضوع سے منتظر تھے اللہ کی مدد کے !

ع

اس بے حسی پہ کون نہ چلائے اے خدا!

Cell: 9392460130

 

 

 

 

 

 

 

 

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰى   26؀

بلاشبہ اس میں نصیحت کا سامان ہے، ان کے لیے جو (اللہ سے )ڈرتے ہیں۔ (سورہ ۷۹، النازعات:۲۶)

 

 

دبئی میں اس سال تقریباً ڈیڑھ ہزار کا قبول اسلام

دبئی(ایجنسی، ماہنامہ اللہ کی پکار) متحدہ عرب امارات میں امسال اسلام قبول کرنے والوں کی مجموعی تعداد 1460 رہی۔ اسلام قبول کرنے والے افراد کا تعلق مختلف ممالک سے ہے۔ دبئی کی حکومت کے ذریعے چلائی جانے والی دارالبر سوسائٹی کے اسلامی معلومات مرکزنے اس سلسلے میں جان کاری فراہم کی ہے۔   اطلاع کے مطابق رمظان کے مقدس مہینے میں اسلامی مرکزکے ذریعے سینکڑوں مختلف مقامات پر اجتماعی افطار و عشائیہ کا نظم کیا گیا، جب کہ اس سے متعلق 17 تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور غیر مسلموں میں ہزاروں کتابچے تقسیم کیے گئے۔ اس کا نتیجہ تھا کہ غیر مسلموں نے اس سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ اسلامی مرکز نے اسلام قبول کرنے والوں کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئی بتایا کہ اس سال 1460 افراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اسلامی مرکز کے منیجر راشد جنینی نے کہا کہ سوسائٹی نے کامیابی کے ساتھ سیکڑوں لیکچروں کے ذرییعے غیر مسلموں میں اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کرنے کی سعی کی، جب کہ حق کے متلاشی سیکڑوں افراد یومیہ کی بنیاد پر اسلامی مرکز کا دورہ کرتے رہے۔ سیکڑوں نومسلموں کا تبدیلی مذہب کا سرٹی فیکٹ بھی جاری کیا گیا ہے جبکہ مرکز ایسے افراد کی شادی کا بھی انتظام کررہا ہے جو کسی مسلم یا مسلمہ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے متمنی ہیں۔

دبئی میں دار البر کے نام سے 20 سال قبل سوسائٹی قائم کی گئی تھی جس کی کوششوں سے اب تک 20 ہزار سے زائد افراد مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں۔ سوسائٹی کے مطابق 2013ء میں 2115 افراد نے اسلام قبول کیا تھا۔

تبصرہ نگار:آج کل ہر ایک تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ صحیح کام کر رہی ہے، جبکہ کون کیا کر رہا ہے اور صحیح کر رہا ہے یا غلط، اس کا فیصلہ اللہ عنقریب ہو جائے گا۔

"پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ "(سورہ 31، لقمان: 15)

پیرس حملوں نے شامی صدر پر مغرب کا نظریہ تبدیل کر دیا، پیوٹن

منیلا/ماسکو(جنگ نیوز)روس صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ پیرس حملوں نے شامی صدر کے معاملے پر مغرب کا نظریہ تبدیل کر دیاجبکہ امریکی صدر بارک اوباما کا کہنا ہے کہ شام میں امن کے قیام کے لیے داعش اور اسد کا خاتمہ ضروری ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ ماسکو اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے، شامی صدر بشارالاسدکے بناء شام میں ا من ممکن نہیں اور اس کے علاوہ تنازع کے حل کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، دوسری جانب امریکی صدر بارک اوباما نے منیلا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور روس داعش کے ایک بڑاخطرہ تسلیم کرچکے ہیں لیکن شام میں روسی سرگرمیاں اسد کو مزید مضبوط بنانے کے مترادف ہیں، شا م میں باغیوں اور فوج کے مابین روزہ جنگ بندی کے لیے دمشق کے نزدیک مذاکرات کیے گئے ہیں، تفصیلات کے مطابق روس صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ پیرس حملوں نے شامی صدر کے معاملے پر مغرب کا نظریہ تبدیل کر دیا، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ ماسکو اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے، شامی صدر بشارالاسدکے بناء شام میں ا من ممکن نہیں اور اس کے علاوہ تنازع کے حل کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، دوسری جانب امریکی صدر بارک اوباما نے منیلا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور روس داعش کے ایک بڑاخطرہ تسلیم کرچکے ہیں لیکن شام میں روسی سرگرمیاں اسد کو مزید مضبوط بنانے کے مترادف ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ پیرس حملوں کے بعد گونتامابے کو بند کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کے دباؤ کا سامنا ہے، انہوں نے یہ اپنے دورہ ملائیشیا کے دوران کولالمپور میں جمہوریت کے فروغ پر زور دیا۔ ادھرشا م میں باغیوں اور فوج کے مابین روزہ جنگ بندی کے لیے دمشق کے نزدیک مذاکرات کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں کینیڈا کے نئے وزیراعظم جسٹن ٹرُوڈو نے کہا ہے کہ ہم عراق اور شام میں داعش کے خلاف جاری مہم کا اہم حصہ ہیں۔

تبصرہ نگار: فرانس کے حملوں کے بعد ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نئی دشواری کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ صحافت کے میدان میں باقاعدہ سروے شروع ہیں کہ آیا یہ حملوں کو مسلمانوں کے لیے ایک اور نائن ایلیون ثابت ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ جنگ رپورٹر سید شہزاد عالم کا کہنا ہے پیرس حملوں کا ملبہ جلد یا بدیر مشرق وسطیٰ اور یورپ کے مسلمانوں پر ہی گرے گا جو یورپ اور امریکہ میں مسلمان ہونے کے باعث پہلے ہی مختلف مسائل کا شکار ہیں اور اب ان حملوں کے بہانے مزید پابندیوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔

٭٭٭

تشکر: مدیر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید