فہرست مضامین
- سرحدِ ادراک سے آگے
- ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ
- حرفِ دعا
- بلا وا نہ ہو تو…
- کارِ جہاں دراز ہے
- ماضی، مستقبل کا ہمسایہ
- الفاظ کی مسیحا نفسی
- تماشائے ہست و بود
- دینِ حنیف
- اللہ اکبر اللہ اکبر
- زندگی تیری عطا ہے
- پاکستانی حکومت کا زائرین کے ساتھ حسنِ سلوک
- اک مسافر کہ جسے تیری طلب ہے
- جائے پناہ
- لبیک اللھم عمرۃ
- میری روح خاکِ حجاز میں
- میرے نبیوں کی دعاؤں میں بسائے ہوئے شہر
- شبِ روشن میں جمالِ کعبہ
- واد یِ شو ق میں وارفتۂ رفتار ہیں ہم
- زیا راتِ مکہ کے گائیڈ ابو حماد عبد الغفار محمد مدنی
- غارِ حرا، خارِ رہ کو ترے ہم، مہر گیا کہتے ہیں
- پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
- ایک عمرہ اور …
- ایک سو عمرے
- سرحدِ ادراک سے آگے
- غارِ ثور، میرے شوق کی بلندی
- دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر…
- انوکھی خود غرضی
- اے بسا آرزو …
- جنت المعلیٰ
- وقتِ رخصت وہ چپ رہے…
- ایک اور شاہد محمود
- مدینے کیوں نہ چلو ں حسرت
- حاجی اور صرف حاجی
- اصطلاحِ شوق بسیار است
- پہلی آواز محبت کی سنائی دی ہے
- ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں
- اے قافلے والو
- رنگ و خوشبو کے …
- ان کی دہلیز چھو کر
- سخن سنج و سخن فہم
- زیاراتِ مدینہ
- لذت عشقم ز فیضِ بے نوائی حاصل است
- سوچا ہے کہ اب شہرِ رسالت میں رہیں گے
- عثمان لائبریری
- جنت البقیع
- خوش نصیبی درِ ذات پہ دستک دیتی تھی
- کانوں میں رس گھولتا سرائیکی لہجہ
- خلشِ دل کی قدر کر ناداں
- میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
- تو جہنم کو کیا دیا تو نے
- مکہ تو مجھے عزیز ہے…
- شکریہ مکہ کے مہربان میزبانو…
- اماں حوا کا شہر
- ابو ظہبی، شیشوں کا شہر
- برج العرب اور چائے کی ایک پیالی
- شارجہ کورنیش، مقامِ طعام
- پام آئی لینڈ
- ڈریگن مارٹ، شیطان کی آنت
- سانجھے دکھ سکھ
- ایک مرتبہ پھر، جمیرا بیچ
- سلاد کے سو رنگ
- عجمان بیچ … بپھرا سمندر، پر شور ساحل اور چودھویں رات
- ممزر بیچ پر کشتی رانی اور مچھلی کا شکار
- ابنِ بطوطہ مال کا حال احوال
- ہائے ہائیپر مال
- میرے نصیب میں وہی ساحل، وہی سمندر
- حوالہ جات
- سوانحی خاکہ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ
سرحدِ ادراک سے آگے
( تاثراتِ عمرہ)
ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ
بنامِ شاہدِ نازک خیالاں
رائم کے نام
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
حرفِ دعا
بہت سی خواہشات غیر محسوس طریقے سے انسان کے لہو میں گردش کر جاتی ہیں، کچھ خواہشات کو وہ شعوری طور پر اپنے دل میں جگہ دیتا ہے۔ پہلی مرتبہ حج پر گئے، ان آرزوؤں کی کیفیت یہ تھی کہ محسوس ہوتا تھا صدیوں سے جسم کا رواں رواں دیارِ حبیب اور حرمِ کعبہ کی دید کا متمنی ہے۔ جب وہاں سے ہو آئے تو حالت یہ تھی کہ ہم کیوں آ گئے، دوبارہ کب جائیں گے۔ یہ خواہش شعوری تھی کہ مجھے سرزمینِ حجاز کی طرف پھر جانا ہے۔ مولانا غلام قادر گرامی نے کہا تھا:… میراجسم ظلمتِ ہند میں، میری روح خاکِ حجاز میں … تو مجھے بھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں اپنا سب کچھ تو وہیں چھوڑ آئی ہوں … اور پھر وہ لمحہ آگیا کہ اللہ بزرگ و برتر نے میری اس آرزو کی تکمیل کی۔ میرے نزدیک اظہارِ تشکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میں اپنے تجربے میں دوسروں کو بھی شریک کروں، بہت ممکن ہے کہ ذرہ برابر ہی سہی کوئی اس سے مستفید ہو جائے، جیسا کہ ’’ دسترس میں آسمان‘‘کے متعلق سنتی ہوں … ’’ہم حج پر آپ کی کتاب لے گئے تھے، ہمیں بہت سہولت رہی اس کی وجہ سے‘‘ تو بہت طمانیت کا احساس ہوتا ہے کہ میں تو دیارِ حبیب ایک مرتبہ ہی گئی اور یہ بار بار ہو آئی۔ اب ’’ سرحد ادراک سے آگے ‘‘ آپ کے سامنے ہے ، میری درخواست ہے کہ اس کا موازنہ ’’ دسترس میں آسمان سے نہ کیا جائے، اس کے مطالعے سے خود آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ پہلی ملاقات کا معاملہ ہی مختلف ہوتا ہے، دوسری ملاقات میں، انسان گھاگ بھی ہو جاتا ہے اور مزاج میں کچھ بے نیاز ی بھی آ جاتی ہے۔ بہر حال لکھتی میں اس لیے بھی ہوں کہ اگر لکھی ہوئی چیز نہ ہو تو اسے بھولنے میں میں بہت مشاق ہوں اور یہ سفر ایسا نہیں کہ میں اس کا ایک لمحہ بھی یادداشت کی چادر سے دھلا ہوا دیکھنا چاہوں۔ اللہ کا مجھ پر کتنا کرم ہے اس کا سوچتے ہوئے بھی خوف زدہ ہو جاتی ہوں۔ صرف یہی احساس غالب رہتا کہ جو سانس بھی احساسِ شکر گزاری کے بغیر لی، رائگاں گئی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو بار بار وہاں جانے کی توفیق عطا فرمائے اوراس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی سعادت بھی بخشے۔ شاہد صاحب ساتھ ہوں تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ راہ کے سارے خارِ ببول پھول ہو جاتے ہیں بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ دنیا سے منفی چلن کی نفی ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں بار بار حضوری کے ساتھ حاضری کا موقع عطا ہو، اس ہمیں میں دانش، سرمد، فارد، آمنہ اور رائم کے علاوہ اور بھی بہت سے پیارے شامل ہیں۔ گستاخی اور غلطی انسان کی سرشت میں ہے۔ مجھے میری کوتاہیوں کا احساس دلائیے، تاکہ آئندہ ان سے گریز کر سکوں۔
قرۃالعین طاہرہ
۸۱۱جی۱۰۔ ۴
اسلام آباد
۲۶ مئی ۲۰۱۰ء
بلا وا نہ ہو تو…
۱۲ جون۲۰۰۶ ء، شاہد عشاء کی نماز پڑھ کر، اپنے مقررہ وقت سے کوئی بیس منٹ دیر سے گھر آئے، بعض اوقات کسی ایسے نمازی سے ملاقات ہو جاتی ہے کہ جس سے حال احوال پو چھنے میں وقت گزر جاتا ہے، گھر آتے ہی انھوں نے ایک سوال کیا۔
سب کچھ طے ہو گیا ہے، صرف حتمی تاریخ بتانی ہے، جون کا آخری ہفتہ یا جولائی کا پہلا ہفتہ؟
’’ فارد کے امتحان انھی دنوں ‘‘
ابھی میں نے جملہ ختم بھی نہیں کیا تھا کہ بات ختم ہو گئی۔ شاہد نے بھی نہ کہا کہ جب حج پر گئے تھے تب بھی تو سرمد، فارد کے سالانہ امتحانات تھے اور ہم بغیر سوچے سمجھے نکل گئے تھے۔ مزید ستم یہ کہ فارد کے امتحان جولائی کے پہلے ہفتے سے آگے بڑھتے بڑھتے اگست میں جا کر ہوئے تھے۔ میں ہمہ وقت یہی سوچتی رہی کہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ شاہد نے کہیں چلنے کے لیے کہا ہو اور میں سوچ میں پڑی ہوں، میں تو فوراً تیار ہو جاتی ہوں، اس مرتبہ مجھے کیا ہوا۔ حالانکہ میں جو اللہ میاں کو ٹائم ٹیبل دے کر آئی تھی اور جس پر سبھی ہنستے تھے کہ اللہ میاں کو وقت کیوں دے رہی ہو کہ مجھے چار سال بعد بلانا، یہی کہو کہ بار بار بلائے، تو اب ان چار سالوں کو گزرے بھی مدت ہو رہی ہے، اس عرصے میں بلکہ چار سال گزرنے سے پہلے بھی میں شاہد کو یاد دلاتی رہتی تھی کہ ہمیں حج پر ضرور جانا ہے اور پہلی فرصت میں جانا ہے اور شاہد ہر مرتبہ میری درخواست رد کر دیتے تھے۔
’’ نہیں حج نہیں، عمرے پہ چلیں گے۔ ‘‘
’’ اصل مزا تو حج کا ہے، عمرہ تو مختصر عبادت ہے، ائرپورٹ سے احرام باندھا، جدہ سے مکہ روانہ ہوئے اور مکہ پہنچ کر حرم پاک کا طواف و سعی کی، حلق کرایا اور عمرہ ختم، اصل سواد تو حج کا ہے، میں حج پر ہی جاؤں گی۔ ‘‘
’’ اچھا تو پھر اگر عمرے کا پروگرام بنا تو تم تو نہیں جاؤ گی۔ ‘‘
’’ نہیں خیر ایسا بھی نہیں ہے، بلاوا ہوا تو عمرے پر ضرور جاؤں گی اور جا کر دعا کروں گی کہ اگلا بلاوا حج کا ہو۔ ‘‘
اور اب عمرے کا پروگرام بنتے بنتے رہ گیا، نتیجہ یہی نکلا کہ ابھی بلاوا نہ تھا۔
میں دل ہی دل میں شرمندہ ہوتی رہی کہ میرے منہ سے کیوں ایسا جملہ نکلا کہ بات ہی ختم ہو گئی، شاہد نے بھی آگے کیوں نہ بات کی، ہو سکتا ہے اس موضوع پر دو ایک جملے بولے جاتے اور ہمارا پروگرام بن جاتا… اب یہی ارادہ کیا کہ آئندہ شاہد جب بھی کہیں گے میں اسی لمحے حج یا عمرے کے سارے پروگرام کو حتمی شکل دے دوں گی۔
کارِ جہاں دراز ہے
اس بات کو کتنا ہی عرصہ گزر گیا، میں تو اکثر کہتی رہتی، لیکن شاہد کی مصروفیت بے انتہا تھی۔ اکتوبر کا مہینا تھا، ا یک روز دفتر سے آئے تو کہنے لگے بلال سے دبئی بات ہوئی ہے، وہ بہت بلا رہا ہے کہ شاہد ماموں دبئی کا ا یک چکر لگ لیں، اسے میں نے کہہ دیا ہے کہ اگلے سال فروری میں آؤں گا، تم لوگ بھی تیار رہنا۔ میں یہاں سے عمرے کے ویزے کا بندو بست کر کے آؤں گا، پھر اکھٹے عمرے پر چلیں گے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ میں اپنے کا لج، یونیورسٹی اور گھر کی لا متناہی مصروفیات میں گم، مرنے کی بھی فرصت نہیں۔
خون ہو کے جگر، آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے
حالانکہ جب وہ آئے گی تو نہ میری فرصت کا انتظار کرے گی نہ آرزو کا … پھر دانش کی شادی کا سلسلہ بھی شروع تھا، اس لیے اس بارے میں ابھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا، شاہد کی دفتری مصروفیت، الحفیظ و الامان۔ پھر دیگر لامتناہی کام … اک عمر کی مہلت نہیں کافی …میں دانش کی شادی جون جولائی کی چھٹیوں میں کرنا چاہتی تھی لیکن سب ہی گرمی کے ہاتھوں، اس پروگرام سے زیادہ خوش نہ تھے، پھر دانش کا دفتر کی جانب سے جولائی اگست میں لندن جانے کا پروگرام بنا تو اس نے مارچ میں ہی اپنی شادی کی تاریخ ۲۷ دسمبر دے دی تھی، میں نے بھی سوچا کہ اس کی شادی کے سارے فیصلے ہمارے تھے اور یہ بچہ جو مزاجِ امی ابو میں آئے کہہ کر سرجھکا دیتا تھا، تو اب میں اس کی بات مان لیتی ہوں۔ پندرہ دسمبر سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، ۲۷دسمبر کا مبارک … نہیں ہولناک دن آیا اور عین اس وقت جب دولہا کی گاڑی سج کر گھر پہنچی اور ساری بارات اکٹھی ہو رہی تھی، بے نظیر کے حادثے نے جہاں عوام کو ایک بڑے صدمے سے دوچار کیا وہیں پورے ملک میں دہشت گردی کی وہ لہر اٹھی کہ جس نے اس ملک کو، جسے بنے ساٹھ سال ہوئے تھے، صدیوں پیچھے پہنچا دیا۔ خیر کیسے بارات ہوٹل پہنچی۔ کیسے دلہن کو صرف ایک بھائی اور کزن کی موجودگی میں کہ وہ بیوٹی پارلر سے ہوٹل پہنچ چکے تھے، بغیر ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب کے، خود ہی ماں باپ بن کر رخصت کیا خود ہی وصول کیا اور خوف و دہشت کے سائے میں گھر لے آئے۔ ستم بالائے ستم کہ اگلے روز ولیمے پر بھی اس کے ماں باپ اور دیگر مہمان جو پورے ملک سے آئے ہوئے تھے، پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیو کے فاصلے پر نہ پہنچ پائے، کہ جب بھی گھر سے نکلتے نامعلوم دہشت گرد اسلحے کی نوک پر انھیں واپس جانے پر مجبور کر دیتے ……خیر یہ جملہ ہائے معترضہ تھے۔
جنوری فروری اسی مصروفیت میں گزر گئے البتہ یہ ہوا کہ اٹھارہ جنوری کو شاہد نے کہا کہ اب پاسپورٹ بنوا لینے چاہیے اور ہم نے اسی دن یہ کام بھی کر لیا۔ میں حیران تھی کہ ایسے عالم میں ہمارا عمرے کا پروگرام کیسے بن سکتا ہے لیکن شاہد کے ذہن میں یہ بات موجود تھی کہ ہمیں فروری میں دبئی اور پھر سعودیہ جانا ہے۔ بلال سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس نے پرانی جاب چھوڑ دی ہے اور نئی ملازمت کی آفر قبول تو کر لی ہے لیکن دفتری کاروائی میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ اس لیے ا س کا عمرے کا پروگرام نہ بن سکے گا۔
ماضی، مستقبل کا ہمسایہ
شاہد اسی حج و عمرہ ایجنسی سے رابطے میں تھے، جس سے سال، ڈیڑھ سال پہلے عشاء کے وقت سارا پروگرام طے کر کے آئے تھے۔ ہمارا ارادہ حج کے فوراً بعد جانے کا تھا اور اب حج کو گزرے مہینا ہو رہا تھا۔ ہم خالی مطاف میں طواف کرنا چاہتے تھے۔ ہر شوط میں حجرِ اسود کو بو سہ دینا چاہتے تھے۔ ہم حرم کعبہ کے ایک ایک گوشے میں نماز ادا کر نا چاہتے تھے، مجھے یہ احسا س بہت زیادہ تھا کہ حج کے موقع پر میں کسی طرف نگاہ کیے بغیر صرف اور صرف عبادت کرنا چاہتی تھی، مجھے شاہد کبھی زبر دستی بتا دیتے یہ دارِ ارقم ہے، ہماری پہلی مجلسِ مشاورت۔ یہاں حضرت امِ ہانی کا گھر تھا کہ جہاں سے حضورﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے، وغیرہ وغیرہ، میں اپنی دھن میں مگن تھی، مجھے زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی ہے، مجھے ہر لمحہ ذکر و اذکار میں مصروف رہنا ہے۔ اس مقدس مقام پر مجھے ایک سیکنڈ بھی ضائع نہیں کرنا ہے۔ واپس آ کر مجھے احساس ہوتا رہا کہ میں نے تو شاید کسی مقام کو بھی سکون سے دلجمعی کے ساتھ نہ دیکھا تھا، وہاں کسی سے بات نہ کی تھی کہ کہیں میرا وقت ضائع نہ ہو جائے، تو اب میں حج نہ سہی عمرے پر ہی سہی، جاؤں گی تو جی بھر کر، سارے مقامات کا جائزہ لوں گی، پھر شاہد نے بھی بار بار اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ ہم عمرے پر اس لیے جا رہے ہیں کہ تمام اہم مقامات کی زیارت بھی کر سکیں۔ حج کی مصروفیت اور ہجوم کی بنا پر ہم جہاں نہ جا سکے تھے وہاں بھی ہو کر آئیں گے۔ مجھے یاد تھا پچھلی مرتبہ ہم غارِ حرا اور غارِ ثور بھی جانا چاہتے تھے، سبھی نے منع کیا کہ حج سے پہلے ہی ہم خود کو نہ تھکا لیں، میرا بھی یہی خیال تھا کہ ہم حج کے بعد ان مقامات پر جائیں گے لیکن، ایسے لگا کہ ادھر مناسکِ حج پورے ہوئے اور اُدھر ہما ری واپسی کا وقت آگیا۔
اب میں راضی بہ رضا تھی اور عمرے پر جانے کی تیاری کرتی تھی۔ تیاری کیا تھی، کالج، فیڈرل ڈائریکٹوریٹ اور میرے درمیان تحریری سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ پاسپورٹ ہمارے تیار تھے۔ اب صرف سعودی حکومت کی طرف سے ویزا پالیسی کا انتظار تھا، خیال تھا د و چا ر دن میں وہ مرحلہ بھی طے ہو جائے گا۔ مجھے ڈیڑھ ماہ کی چھٹی درکار تھی۔ ہمیں عمرے سے واپسی پر دبئی میں قیام کر کے مشتاق عطیہ اور فرح و بلال کے دیرینہ مطالبے کو پورا کر نا تھا کہ ایک مرتبہ دبئی آ تو جائیں، پھر ہمیں بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، خود ہی بندھے کھنچے چلے آئیں گے، تو اس سلسلے میں اے جی پی آر کے لیے فارم، این او سی فارم اور نہ جانے کیا کیا۔ ۲۵ فروری سے چھٹی کی درخواست دی، یہ تاریخ آئی اور گزر گئی، معلوم ہوا کہ سعودی حکومت تو ویزے جاری کرتی ہی یکم ربیع ا لاول سے ہے، دو سری درخواست اس حساب سے تیار کی اور تمام مقامات پر پہنچا دی۔ کچھ دن بعد معلوم ہوا کہ نہیں ابھی نہیں۔ سعودی حکومت ابھی ویزے جاری نہیں کر سکتی۔ وجہ … ر بیع الاول میں پاکستانی وہاں جا کر نعتیہ محفلیں منعقد کراتے ہیں، اس لیے ابھی ویزے جاری نہیں کیے جا سکتے، اعتراض نہایت بودا محسوس ہوا بلکہ خیال آیا کہ کسی دل جلے کی ذہنی اختراع ہے۔ میں ٹی وی پر باقاعدگی سے مکہ معظمہ سے براہِ راست مغرب و عشاء کی نماز با جماعت دیکھا کرتی تھی۔ مارچ کے مہینے میں ترک زائرین کا ازدحام نظر آتا تھا، پاکستانی کوئی دکھائی نہ دیتا تھا۔ شاہد اپنے محلے میں قائم اسی ٹور آپریٹر ایجنسی سے مسلسل رابطے میں تھے اور وہ بھی تسلی دیتے تھے کہ جیسے ہی ویزا پالیسی کا اعلان ہوا، ہمارے پہلے ویزا پانے والے آپ ہی ہوں گے۔ شاہد انھیں بتاتے کہ مجھے واپسی پر دبئی بھی جانا ہے، کون سی پرواز مناسب رہے گی، کیا جاتے ہوئے ہم سیدھے سعودیہ، بغیر دبئی میں ٹھہرے جا سکتے ہیں اور واپسی پر دبئی رک جائیں، ہر سوال کا جواب میں پوچھ کر بتاؤں گا… ہوتا تھا۔ جوں جوں دیر ہوتی جا تی تھی میں شاہد سے کہتی تھی کہ کسی اور ٹور آپریٹر سے پتا کرائیں، وہ مجھے تسلی دیتے کہ سب سے معلومات لے رہا ہوں۔ آخر ایک دن میری تسلی کے لیے مجھے بھی بلیو ایریا لے گئے، معلوم ہوا کہ ویزے ابھی نہیں لگنے شروع ہوئے دو چار دن بعد لگیں گے، بلو ایریا، اسلام آباد کا ہر دوسرا دفتر معلوم ہوتا تھا یہی کاروبار کر رہا ہے۔ دو دن بعد ہم نے پھر ارادہ باندھا۔
دانش کہنے لگا۔
’’ابو، جب میں لندن گیا تھا تو الھدیٰ ٹریولز نے سارا کام بہت ا چھے طریقے سے کیا تھا، آپ ان سے رابطہ کیوں نہیں کرتے۔ ‘‘
شاہد کا خیال تھا کہ جہاں جان پہچان آ جائے وہاں بہت سے فیصلے مرضی سے نہیں مروّت سے کرنے پڑتے ہیں۔
الفاظ کی مسیحا نفسی
میرا خیال تھا کہ ایک چکر لگا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ دو چار دن بعد پھر ہم بلو ایریا میں تھے۔ الھدیٰ کا دفتر سامنے تھا، ہم ادھر چلے گئے، ضیا اللہ رحمانی صاحب نے کہا تھا وہاں توقیر صاحب سے مل لیجیے گا۔ شاہد، دانش کے لندن جانے کے سلسلے میں ان سے پہلے بھی مل چکے تھے۔ بہت اچھی طرح ہمارا سارا پروگرام سنا، مکہ میں رہائش کیسی ہو گی ؟ہم بلا شرکتِ غیرے کمرہ لینا چاہتے ہیں، غسل خانہ ساتھ ہو نا چاہیے۔ حرم سے فاصلہ کتنا ہو گا؟ چونکہ واپسی پر ہمیں دبئی رکنا ہے، ہمارے لیے کون سی ایر ویز مناسب رہے گی ؟کس کا کرایہ مناسب ہو گا؟ جاتے ہوئے ہمیں دبئی ائرپورٹ پر کتنا رکنا ہو گا؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم سعودیہ جاتے ہوئے سیدھے جائیں، واپسی پر دبئی ٹھہر جائیں وغیرہ وغیرہ۔
اسی وقت ہمارے سارے سوالات کے جوابات ملتے گئے، ان کا کہنا تھا کہ تین روز بعد ویزا پالیسی کا اعلان ہو گا، ہم ویزے کے لیے درخواست سعودیہ بھیجیں گے۔ وہا ں سے منظور ہونے کے بعد کراچی بھیجا جائے گا اور پھر ہمارے ویزے کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ آپ ۱۸ اپریل کے بعد کسی بھی وقت پرواز کر سکتے ہیں، میں نے کہا کہ اتنے روز، ہم تو بہت لیٹ ہوتے جا رہے ہیں۔ کہنے لگے میں غلط بیانی کیو ں کروں کہ آپ کو چار دن بعد ہی بھجوا دوں گا جبکہ مجھے معلوم ہے کہ سترہ اٹھارہ تاریخ سے پہلے ویزے کا عمل مکمل ہونا مشکل ہے۔ آپ تین دن بعد پاسپورٹ دے جائیں تب تک سعودی حکومت کی طرف سے اعلان ہو جائے گا۔ ہم شکریہ کہہ کر باہر آ گئے۔ بہت زور کی بھوک لگی ہوئی تھی، وہیں ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا، شاہد کہنے لگے میں کئی حج و عمرہ ایجنسیوں کے کارکنان سے ملا ہوں لیکن جتنا وزن مجھے ان کی باتوں میں نظر آیا ہے، کسی اور کے ہاں نہیں، شاہد کہنے لگے کہ میں اپنے محلے کے جس آپریٹر سے کئی مہینوں سے رابطے میں ہوں، وہ اسی ہوٹل کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ذرا تنگ گلی میں ہے، ا س کا لاؤنج مختصر ہے، جس وقت کوئی پرواز پہنچتی ہے تو بہت بھرا ہوا ہوتا ہے اور شاہد انھیں یہی کہتے رہے تھے کہ کوئی بات نہیں۔ شاہد نے کہا کہ اب دل یہاں ٹھہر گیا ہے تو ابھی پاسپورٹ دے دیتے ہیں۔ کھانے کے بعد ہم دوبارہ گئے اور پاسپورٹ ان کے حوالے کیے۔ اطمینان ہوا کہ ایک مرحلہ تو طے ہوا۔ حیرت بھی ہوئی کہ سال دو سال سے ہمارا کسی اور کمپنی کے ساتھ جانے کا پختہ پروگرام تھا اور اچانک کسی اور کے ساتھ ارادہ بن گیا ہے۔ شاید اسے ہی الفاظ کی مسیحا نفسی کہتے ہیں۔
تماشائے ہست و بود
میں ٹی وی پر حرم کعبہ سے عصر اور مغرب کی نمازیں باقاعدگی سے دیکھ رہی تھی۔ اتنا ہجوم، میں دہلتی رہتی تھی۔
’’ اتنی بھیڑ تو طوافِ زیارت پر ہو تی ہے، یہ دیکھیں، یہ دیکھیں نماز ادا ہو رہی ہے اور عورتیں سیدھی کھڑی ہیں، انھیں رکوع و سجود کی جگہ بھی نہیں مل رہی، بالکل ایسا ہی نظارہ حج پر طوافِ زیارت کے دوران میں ہوا تھا، مطاف کے آخری سروں پر خواتین کھڑی تھیں اور انھیں سجدہ کی جگہ نہیں مل رہی تھی، ہم حج کے بجائے عمرے پر اس لیے جا رہے تھے کہ مطاف کھلا ملے گا۔ ساری آرزوئیں پوری ہوں گی، کیا مزا جانے کا جب بندہ طواف ہی نہ کر سکے، آپ دیکھیں تو ایک متنفس کی جگہ ہے کوئی …‘‘
شاہد تسلی دیتے تمہارے لیے جگہ بن جائے گی، فکر نہ کرو۔ دو دن بعد توقیر صاحب کا فون آگیا کہ آپ کی نشست پکی ہو گئی ہے، اتحاد ایر ویز سے آپ ۱۹ اپریل رات نو بجے ابو ظہبی کے لیے پرواز کریں گے اور گیارہ بارہ بجے پہنچیں گے، ۲۰ اپریل دن کے دو بجے آپ کو اتحاد ہی کی پرواز جدہ لے جائے گی جہاں آپ شام پانچ بجے پہنچیں گے۔
شاہد مجھے یہ اطلاع دیتے ہوئے کہنے لگے۔
’’ اتنا طویل وقفہ، ہم اتنا وقت کیسے گزاریں گے اگر شارجہ سے مشتاق اور بلال وغیرہ آ بھی جائیں تو ہمیں ائرپورٹ پر ہی سہی ان سے ملنے کی اجازت بھی نہ ہو گی۔ ‘‘
’’ کوئی بات نہیں۔ آپ کو یاد ہو گا جب ہم حج پر گئے تھے، تو سال بھر تک صرف حج سے متعلق کتابیں پڑھتے رہے تھے۔ ہر وقت تسبیحات ہمارے لبوں پر ہوتی تھیں، اب ہم اتنے مصروف ہیں کہ ایک مرتبہ بھی لبیک اللھم لبیک کہنے کی مہلت نہیں پاتے۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں ا تنی فرصت دی کہ ہم اس دنیا کے علائق سے کٹ کر جب دوسری دنیا میں قدم رکھیں گے تو کچھ اگلے امتحان کی تیاری کی گنجائش بن جائے گی۔ ابو ظہبی ائرپورٹ میرے لیے تو عالمِ برزخ ہو گا۔ ایک حدیث کے مطابق آپ دل کی گہرائیوں سے ایک مرتبہ لبیک پکارتے ہیں تو ایک حج کا ثواب آپ کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جا تا ہے۔ ، دعائے یونس کی تسبیح جو ہر وقت میرے لبوں پر ہوتی تھی۔ نا جانے کتنی مدت سے میں نہیں پڑھ سکی، مجھے تو بہت اچھا لگ رہا ہے کہ ہمیں اپنے رب سے تعلق قائم کر نے کا کچھ وقت مل جائے گا۔ ہمارے پاس تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ ہم کالج، یونی ورسٹی اور دفتر کے ساتھ ساتھ گھر کے کا م بھی سمیٹ رہے ہیں۔ عبادت کی طرف وہ توجہ ہی نہیں دے پا ر ہے جو ضروری ہے۔ ‘‘
دینِ حنیف
حج پر جانے سے پہلے جو کیفیت تھی، کچھ خوف، کچھ ڈر، کچھ سرخوشی، بہت کچھ پا لینے کی لگن، زندگی بھر کی آرزوؤں کی تکمیل، شوق و وارفتگی کے بے شمار رنگ اپنے اندر اترتے دیکھے تھے، بہت سے وسوسے … ہم پہنچ بھی پائیں گے یا راستہ کھوٹا ہو جائے گا، جب جسم و جاں کی پرورش میں شک، شبہ، خدشہ، تشکیک، تذبذب نے نمایاں کردار ادا کیا ہو تو ایمان کے مضبوط سائبان پر شیطان کی جانب سے پتھر تو برسیں گے ہی۔ کیا ہمارے نصیب ہمیں اس دینِ حنیف کا اعلان کرنے والے ہمارے جد کی طرف لے جاتے ہیں، جنھوں نے آتشِ نمرود میں قدم رکھ دیا تھا … جنھیں اللہ کی ذات پر خود سے کہیں زیادہ بھروسا رہا۔ انھوں نے دعا کی:
’’ جب ابراہیم نے کہا، اے پروردگار ! تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہا ں کے باشندوں کو جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں، پھلوں کی روزیاں دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں کافروں کو بھی تھوڑا فائدہ دوں گا، پھر انھیں آگ کے عذاب کی طرف بے بس کر دوں گا، یہ پہنچنے کی جگہ بری ہے۔ ‘‘ ۱ ؎
ربِ کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تمام دعائیں قبول فرمائیں مکہ مکرمہ جائے پناہ بھی ہے اور بنجر و صحرائی علاقہ ہونے کے باوجود دنیا جہان کے ہر موسم کے پھل یہاں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعا کو بھی شرف قبولیت بخشا جس کے بارے میں حضور پاک نے ارشاد فرمایا :
’’ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔ ‘‘۲؎
میں حضرت ابراہیم بحیثیت والد کا مطالعہ کر رہی تھی مصنف نے کیا کیا نقاط پیش کیے ہیں، اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے:
’’۱۔ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ دعا اور اس سلسلے میں انھوں نے بیٹے کی ولادت سے پہلے دعا شروع کی۔
۲۔ حکمِ الٰہی کو اولاد کی محبت پر فوقیت دی۔
۳۔ اولاد کی دینی مصلحتوں کو ان کے دنیوی مفادات پر ترجیح دی۔
۴۔ اولاد کی دنیاوی مصالح کو بھی نظر انداز نہ کیا۔
۵۔ اپنی اولاد کو صالح ماحول میں بسایا۔
۶۔ اولاد کے لیے عملی نمونہ پیش کیا۔
۷۔ نیکی کے کام میں بیٹے کو شریک کیا۔
۸۔ شکوہ کرنے والی بے صبر بہو کو بیٹے سے جدا کر دیا۔
۹۔ شکر گزار بہو کو اپنے پاس رکھنے کا بیٹے کو حکم دیا۔
ِِ۱۰۔ بیٹے اور اہلِ خانہ کی خبر گیری۔
۱۱۔ بیٹے کو حکم دینے سے پہلے اس سے مشورہ کیا۔
۱۲۔ اولاد کے بڑے ہو جانے کے باوجود انھیں وعظ و نصیحت جاری رکھا۔
۱۳۔ اپنی موت تک اولاد کو وعظ اور نصیحت کرتے رہے۔
۱۴۔ اپنی نسل میں سے ایک ایسے رسول کی بعثت کی اللہ تعالیٰ سے التجا کی جو ان پر آیاتِ کریمہ کی تلاوت کرے، انھیں کتاب و سنت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔ ‘‘ ۳؎
جب حضرت جبرائیل سے در یافت کیا گیا کہ کیا کبھی آپ کو اپنے رب کے احکام کی تکمیل میں کبھی کوئی دشواری پیش آئی تو انھوں نے فرمایا تھا کہ ہاں چار مرتبہ ایسا ہوا تھا ایک مرتبہ جب نمرود نے اس کے پیارے رسول کو دہکتی آگ میں ڈالنے کا حکم دیا تو رب نے مجھے حکم دیا تھا کہ میرے اس بندے کو بچاؤ، اس لمحے اس حکم کی تکمیل مجھے اتنی تیزی سے کرنا پڑی کہ لمحہ بھر اوپر ہو جاتا تو شاید کہانی کچھ اور ہو جاتی، دوسری مرتبہ جب اسی رسولِ خدا نے اللہ کے حکم سے اپنے بیٹے کی قربانی کی نیت کر لی اور فرماں بردار بیٹا، آنکھوں پر پٹی باندھے منتظر ہے کہ وہ جلد از جلد اللہ کی جانب سے آنے والی آزمائش پر پورا اترے اور اللہ تعالیٰ کو باپ بیٹے دونوں کی ادا پسند آئی اور اس نے ان کی قربانی قبول کی اس انداز میں کہ مجھے حکم ملا کہ فور ی طور پر، اس سے پہلے کہ چھری، بچے کو چھو سکے جنت سے دنبہ لا کر اس کی جگہ رکھ دو۔ تیسری مرتبہ مجھے اس حکم کی تکمیل میں برق رفتاری سے کام لینا پڑا جب حضرت یوسف کو ان کے بھائیوں نے اندھے کنوئیں میں پھینک دیا تھا اور مجھے ان کے پانی میں ڈوبنے سے پہلے وہاں ڈول پہنچانا تھا۔ چوتھی مرتبہ جب جنگ احد کے موقع پر حضور کے دندان مبارک شہید ہوئے، آپ زخمی تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جبریل اس سے پہلے کہ لہو کا قطرہ ز مین پر گرے اسے چلو میں تھام لے ورنہ اس دنیا میں وہ خوں ریزی ہو گی جس سے پنا ہ ملنی ممکن نہ ہو گی۔ چوتھی مرتبہ جب جنگ بدر کے موقع پر حضور کے دندان مبارک شہید ہوئے، آپ زخمی تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جبریل اس سے پہلے کہ لہو کا قطرہ ز مین پر گرے اسے چلو میں تھام لے ورنہ اس دنیا میں وہ خوں ریزی ہو گی جس سے پنا ہ ملنی ممکن نہ ہو گی۔ مرتبہ مجھے اس حکم کی تکمیل میں برق رفتاری سے کام لینا پڑا جب حضرت یوسف کو ان کے بھائیوں نے اندھے کنوئیں میں پھینک دیا تھا اور مجھے ان کے پانی میں ڈوبنے سے پہلے وہاں ڈول پہنچانا تھا۔
اللہ اکبر اللہ اکبر
مجھے یاد ہے حج پر جاتے ہوئے مجھے دیارِ حبیب اور حرمِ کعبہ کے علاوہ کچھ اور سوجھتا ہی نہ تھا، میں نے زندگی میں نہ جانے کتنی مرتبہ قرآنِ پاک ختم کیا ہو گا، لیکن مکمل قرآنِ پاک تر جمے کے ساتھ پڑھنے کی کبھی توفیق نہ ہوئی تھی۔ حج پر جانے سے پہلے میں نے خود پر یہ پابندی لگا لی تھی کہ ترجمہ مکمل کر کے ہی جاؤں گی تو ترجمے میں جہاں جہاں حرم پاِ ک کا، حج کا، دیارِ نبی کا ذکر آتا میں وہ حصہ بہت شوق سے پڑھتی… اور اب عمرہ پر جاتے ہوئے پروگرام اتنا اچانک… تو خیر نہیں کہ گذشتہ سات سالوں سے ہم اس لمحے کے منتظر تھے، پھر بھی اتنی مصروفیت کے عالم میں بنا کہ ہم جسمانی طور پر تو تیار تھے روحانی تیاری ناقص محسوس ہوتی تھی۔ میں نے سرمد سے کہا۔
’’بیٹا وہ نعت ہی لگا دو چلتے پھرتے، کام کاج کرتے سنتی رہوں، کچھ تو احساس بیدار ہو کہ ہم اللہ کے گھر جا رہے ہیں۔‘‘
کہنے لگا۔
’’امی کون سی نعت۔ ‘‘
’’ کعبے کی رونق کعبے کا منظر، اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘
’’امی وہ نعت نہیں ہے، حمد ہے حمد۔ ‘‘
سرمد میری غلطیاں نکال کر بہت خوش ہوتا ہے اور میں اسے یہ موقع اکثر و پیشتر فراہم کرتی رہتی ہوں۔ صبیح رحمانی کی اس حمد میں ایک زائر کے جذبہ و احساس کا کس قدر خوبصورت انداز میں اظہار کیا گیا ہے کہ اگر کعبۃ اللہ کسی نے نہیں دیکھا تو اس کی دید کی تمنا شدت سے جاگتی ہے۔ کعبۃ اللہ کے ایک ایک مقام کا تعارف اتنے سلیقے اور وفور جذبات کے ساتھ کرایا گیا ہے کہ لگتا ہے سامع اس سفر میں ان کے ہمراہ ہے۔ میں یہ حمد سنتی تھی اور میرا دل، میری آنکھیں حتیٰ کہ میرے بدن کے رونگٹے بھی اس سے اثر پذیر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔
زندگی تیری عطا ہے
میں نے مہینا بھر پہلے سے ضروری اشیا کی فہرست تیار کر لی ہے۔ اپنی الماری کا ایک خانہ مختص کر لیا ہے، سفرِ عمرہ اور دبئی سے متعلق ہر چیز اس میں رکھتی جا تی ہوں۔ عینک بھی ایک اور بنوا لی ہے۔ شاہد حسبِ معمول کم سے کم سا مان لے جانے کے حق میں ہیں، ہمیں تقریباً ایک ماہ سعودیہ اور دس پندرہ دن دبئی رہنا ہے، سامان تو کچھ اٹھانا ہی پڑے گا، میں آٹھ سوٹ سعودیہ اور چھ دبئی کے لیے رکھنا چاہتی ہوں۔ شاہد کہتے ہیں کہ ان کے لیے ایک احرام، چلو اگر تمھیں بہت اصرار ہے تو دو احرام اور دونوں جگہ کے لیے چار سوٹ کافی ہیں۔ میں اپنی مرضی سے ان کے کپڑے بھی رکھ رہی ہوں۔ ابھی تو ہماری روانگی میں چار پانچ رو ز باقی ہیں، کتنے پروگرام بدلتے ہیں۔ کیا لے جانا ہے، کیا چھوڑنا ہے، اسی شش و پنج میں میں سو گئی۔ کروٹ بدلی تو آنکھ کھل گئی۔ لائٹ آ چکی تھی، کیونکہ پنکھا چل رہا تھا، ڈرائنگ روم سے ہلکی روشنی آ رہی تھی۔
کتنے نکمے بچے ہیں۔ مینٹل گیس بند کیے بغیر اوپر سونے کے لیے چلے گئے ہیں۔ اب مجھے ہی اٹھنا پڑے گا۔ میں اٹھی، مجھے معلوم ہی نہ تھا کہاں سے کھولتے بند کر تے ہیں، میں نے سوچا کہ نیچے سے ہی بند کر دیتی ہوں جب کل جلانے لگیں گے تو پہلے نیچے سے کھول لیں گے۔ پیاس لگ رہی تھی۔ فرج کھول کر پانی پیا، ایک عجیب سی سرسراہٹ محسوس ہوئی جیسے پیپسی کی بوتل کھلنے سے پیدا ہوتی ہے، مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پر سرکہ کی نئی بوتل پڑی تھی میں نے سوچا کہ شاید اس میں سے ہوا لیک ہو رہی ہے۔ وہ مہر بند تھی دو مرتبہ اسے چیک کیا پھر کمرے میں جا کر سو گئی۔ صبح آنکھ کھلی تو شاہد سے کہا آج کی رات تو پتا ہی نہ چلا کیسے گزر گئی۔ ورنہ میں تو ہر کروٹ پر جاگ جاتی ہوں۔
شاہد نے کہا کہ اچھی بات ہے گہری نیندسوئیں۔
صبح کے سارے کام حسبِ معمول انتہائی تیز رفتاری سے کیے۔ اپنے اپنے کاموں کے لیے نکلے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی سرمد نے کہا :’’ آپ کو پتا ہے رات کیا ہوا تھا۔ ‘‘
’’نہیں ‘‘
’’ ہم لوگ یعنی میں اور فارد جامع مسجد G-9/1، محفلِ نعت میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ مدثر لوگ بھی ساتھ تھے۔ آپ کو تو پتا ہی ہے کہ اے آر وائی کی محفل تو ساری رات ہی جاری رہتی ہے، عموماً فجر کے وقت ختم ہوتی ہے۔ اس دن پتا نہیں کیا ہوا شاید اس مسجد میں کوئی تعمیراتی کام ہو رہا تھا اس لیے محفل جلد ختم ہو گئی۔ مسجد کمیٹی نے کھانے کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا ہمیں بھی بہت کہا لیکن پتا نہیں کیوں ہم میں سے کوئی بھی نہ رکا۔ ہم گھر آ گئے اور گلی میں دوستوں کے ساتھ کھڑے ہو کر گپیں مارنے کے بجائے جیسے ہی دروازہ کھولا، گیس کی بو کے ایک تیز بھبکے نے استقبال کیا۔ جلدی سے ڈرائنگ روم پہنچے۔ گیس لائن کا والو آف کیا۔ بو اتنی شدید تھی کہ فوری طور پر ہم بجلی بھی نہ جلا سکتے تھے نہ ہی ایگزاسٹ فین آن کر سکتے تھے، جلدی جلدی تمام دروازے کھولے، اوپر گئے اور بھائی کو جگایا، بو تیسری منزل تک بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ پہنچی، ہمیں بھائی کو کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہ پڑی، بھائی بھی دو دو چار چار سیڑھیاں پھلانگ کر نیچے آئے اور آتے ہی، ہماری طر ح پہلے امی جی کے کمرے میں گئے انھیں اور پھر آپ لو گوں کو دیکھا۔ ہم کا فی دیر آپ لوگوں کے سرہانے بیٹھے رہے۔ بھائی نے آمنہ باجی کی خوب کلاس لی کہ سب سے آخر میں تم آئی تھیں تم نے کس طرح مینٹل بند کرنے کی بجائے ہیٹر کا والو کھول دیا کہ گیس لیک ہوتی رہی اور وہ مسلسل یہی کہتی رہیں کہ میں منٹل بند کر نے کے لیے کر سی پر چڑھی ضرور تھی لیکن مجھے پتا نہیں چل رہا تھا کہ کیسے بند کرنا ہے، میں بند کیے بغیر اتر آئی تھی، آپ کو آ کر بتایا بھی تھا کہ میں کھلا چھوڑ آئی ہو ں، لیکن بھائی یہی کہتے رہے کہ تمھاری چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے آج بہت بڑی تباہی آنے والی تھی۔ ‘‘
اب مجھے رات کا منظر یاد آگیا، کس طرح میں جا گی اور کس طرح میں نے مینٹل آف کیا اور پھر مجھے ہلکی سی سرسراہٹ سنائی دیتی رہی اور میں سوچتی رہی کہ جیسے کسی نے پیپسی کی بوتل کھولی ہو اور پھر میں نے سرکہ کی بوتل بھی جانچی تھی کہ شاید اس میں سے گیس لیک ہو رہی ہو۔
اب میں نے رات کی ساری روداد انھیں کہہ سنائی، شاہد ایک دم کہنے لگے۔ ’’جو والو تم نے کھول دیا اس سے تو گیس پر نالے کی طرح لیک ہو رہی ہو گی، اس مرتبہ بل آئے گا تو پتا چلے گا۔ ‘‘
میں نے کہا۔
’’ یہ صحیح ہے، جان بچ گئی اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے آپ بل کی بات کر رہے ہیں ‘‘
کالج پہنچنے تک میرا کیا کیا مذاق بنا، وہ الگ کہانی ہے۔ بہرحال شاہد کو بھی دھیان رکھنا چاہیے تھا کہ جب انھوں نے اس واقعے سے کچھ پہلے ضیا صاحب کو وہاں لگا ہیٹر اتار کر دیا تھا تو اسی وقت اسے بند کر دیتے تاکہ ہم جیسا انجان کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے تو کم از کم عمرے کی بچت تو ہو جائے۔ جی ہاں جب میں ساری کہانی سرمد کی زبانی سن رہی تھی تو مجھے صرف یہی خیال آ رہا تھا کہ ہمارے عمرے کا کیا ہوتا… اتنے شوق سے ہم تیاری کر رہے تھے، اب تو ٹکٹ بھی لے چکے تھے… ہمارے تو ٹکٹ بھی ضائع جاتے … اتحاد ایر لائنز والے تو پیسے بھی واپس نہیں کرتے۔
بہر حال شکر ادا کیا کہ ہم سب خیریت سے ہیں اور کارو بارِ دنیا ویسا ہی چل رہا ہے۔ کالج میں قصہ سنایا سب نے کہا شکر ہے تم لوگ بچ گئے ورنہ آمنہ کی شامت آئی رہتی۔ میں نے کہا شکر ہے خالہ جی کو کچھ نہ ہوا، ورنہ قیامت آ جاتی۔ چونکہ سب خیریت تھی اس لیے ہنسی مذاق سوجھ رہا تھا۔
پاکستانی حکومت کا زائرین کے ساتھ حسنِ سلوک
سولہ تاریخ کو نئے سرے سے کالج میں بارہ فارم بھرے اور فیڈرل ڈائریکٹوریٹ اور اے جی پی آر وغیرہ بھجوائے، اسی دوران میں پروفیسر نبیلہ سے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگیں پروفیسرسعیدہ جدون کی آج کی فلائٹ ہے گھر پر سبھی عزیز انھیں رخصت کرنے آئے ہوئے ہیں۔ نبیلہ کے ہاتھ میں ’’تاریخِ مدینہ منورہ‘‘ تھی، میں نے کہا کہ میں دیکھنا چاہتی ہوں، انھوں نے کہا کہ کسی نے سعیدہ کے لیے دی ہے، جلدی سے دیکھ کر بھجوا دینا، میں نے کتاب ان سے لے تو لی، لیکن دفتری کاروائیوں میں سارا وقت گزر گیا اور نا چاہتے ہوئے بھی مجھے کتاب بغیر کھولے واپس کر نا پڑی۔ اب یہ آگے چل کر بتاؤں گی کہ مجھے وہاں کس مقام پر یہ کتاب مل گئی، کالج سے واپسی پر ہمیں الھدیٰ جانا تھا۔ شاہد نوے ہزار دے چکے تھے، کوئی تیئس ہزار مزید دیے، یو ں ہمیں عمرہ جمع دبئی کا فی کس خرچا چھپن ہزار سے ذرا زیادہ پڑا۔ توقیر صاحب کہنے لگے۔
’’آپ بہترین وقت میں جا رہے ہیں، ذرا مئی جون آنے دیں کرایہ یوں ایک دم بڑھے گا کہ سبھی پریشان ہو کر رہ جائیں گے۔ ‘‘
ان کی بات سچی تھی یہی ہوا جیسے ہی ہم دبئی سے واپس آئے، ٹی وی پر سلائیڈ آ رہی تھی کہ پی آئی اے نے حج کے کرائے میں چالیس ہزار کا اضافہ کر دیا ہے۔ بہت پریشانی ہوئی کہ جنھوں نے بمشکل یہ کرایہ جمع کیا ہو گا انھیں چالیس ہزار مزید جمع کرتے سالوں لگ جائیں گے۔
اب ایک ماہ بعد معلوم ہوا ہے کہ چا لیس نہیں پینسٹھ ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور جب حج کے دن قریب آئے تو حج پر جانے والے احباب حکومت کی لوٹ کھسوٹ کی اور کہانیاں سناتے رہے، سوائے دل دکھانے کے اور ہم کیا کر سکتے تھے۔
شاہد، توقیر صاحب سے یہی کہتے رہے کہ تقریباً ایک ماہ کا پیکج جس میں رہائش کے علاوہ مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ آمد و رفت بھی شامل ہے اور دونوں مقامات کی زیارتیں بھی … اگر ان سفری کرایوں کی مد میں سے رقم منہا کر لی جائے تو آپ کے پاس تو فی کس گیارہ ہزار بھی نہیں بچتا، جس میں آپ پورے مہینے کی رہائش فرج، ٹی وی، فون، مکمل کارپٹڈ مہیا کر رہے ہیں، یعنی اگر ہم اسلام آباد میں کوئی معمولی سا کمرہ، جس کے ساتھ غسل خانے کی سہولت بھی موجود ہو، تو تین سو روپے یومیہ پر اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، توقیر صاحب کہنے لگے کہ اس پر بھی ہمیں وہ باتیں سننا پڑتی ہیں کہ جس کی حد نہیں، … بارش ہو گئی تھی تو گلی میں پانی کھڑا ہو گیا تھا، بالکل اچھا انتظام نہیں تھا وغیرہ وغیرہ۔ میں آپ کو بھی بتا رہا ہوں کہ وہاں کچھ مسائل سامنے آسکتے ہیں۔ یہ پہلے ٹور آپریٹر تھے جو ہر چیز بہترین ملے گی، کا دعویٰ نہ کرتے تھے۔
اک مسافر کہ جسے تیری طلب ہے
ا نیس ا پریل رات نو بجے ہماری روانگی تھی، ہمیں کہا گیا تھا کہ عصر کے فوراً بعد آپ ائرپورٹ پہنچ جائیں۔ صبح ہی سے اپنے پیارے رخصت کرانے کے لیے آرہے تھے، آج کی مصروف دنیا میں اگر کوئی اپنے تمام کام چھوڑ کر آپ سے ملنے کے لیے آتا ہے تو یہ آپ کی خوش نصیبی ہے کہ ابھی آپ سے محبت کرنے والے موجود ہیں، ظہر کی نماز کے بعد جب مہلت ملتی رہی، نوافل ادا کر تی رہی، عصر کے بعد چونکہ نوافل کی ادائگی نہیں کی جا تی، اس لیے گھر سے نکلتے ہوئے نماز سے پہلے دو نفل پڑھے، پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دو سری میں سورۃ ا لاخلاص پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے، بعد نماز سورۃ القدر اور سورۃ القریش پڑھنی مستحب ہے۔ گھر سے نکلتے ہوئے صدقہ دینا بھی مستحسن عمل ہے۔ عصر کی نماز ادا کی۔ سبھی کو الوداع کہا۔ گھر سے نکلتے وقت کی دعا
بسم اللہ توکلت علی اللہ لا قوۃ الا با اللہ
پڑھی۔ دانش، آمنہ، سرمد اور فارد ہمراہ تھے۔ انھیں کہا کہ جب ہمیں بورڈنگ کارڈ مل جائیں گے، تمھیں فون کر دیں گے۔ تب تک یہیں انتظار کر نا۔ اب بچے بڑے ہو گئے ہیں، پچھلی مرتبہ بچے چھوٹے تھے، دانش بھی پشاور تھا، دونوں چھوٹوں کو گھر پر اکیلے رہنا تھا، لیکن حج کا جوش و خروش اتنا تھا کہ یہ سب باتیں فروعی لگتی تھیں۔ اب بھی گھر بچے، سبھی معاملے حسبِ معمول اللہ کے حوالے کیے اور نکل کھڑے ہوئے۔ دس منٹوں میں ساری کاروائیوں سے فارغ ہو کر بچوں کو گھر جانے کے لیے کہہ دیا تھا۔ مغرب کی اذان ہو چکی تھی، گھر پر ہی ارادہ کر لیا تھا کہ یہاں صلوۃ التسبیح پڑھنے کے بجائے ائرپورٹ پر سکون سے پڑھ لوں گی، چنانچہ نمازِ مغرب کے بعد صلوۃ التسبیح ادا کی، آٹھ بجے حکم ہوا کہ ابو ظہبی پرواز کے تمام مسافر آ جائیں۔ جہاز میں بیٹھتے ہی سب سے پہلے ٹریول سک نیس کی گولی کھائی۔ ٹھیک نو بجے جہاز نے اڑان بھری، کافی انتظا ر کے بعد کھانے کا آغاز ہوا۔ پہلے مینیو پکڑا یا گیا اور جب ٹرالی ہم تک آئی تو معلوم ہوا کہ جس کھانے کی آپ کو طلب ہے، وہی نہیں ملے گا۔ بہر حال ان کی مرضی کا کھانا کھایا۔ خاص بات یہ ہوئی کہ کھانا کھایا گیا، ورنہ، جہاز کے سفرمیں میرے لیے کھانا پینا ناممکن ہوتا ہے اور اگر کچھ کھا لوں یا نہ بھی کھاؤں تو طبعیت اتنی بیزار ہوتی ہے کہ جی چاہتا ہے جہاز کا دروازہ کھول کر اتر جاؤں۔ شبہ طراز نے اس سفر کے لیے دو دوائیاں بتائی تھیں وہ منگوا بھی لی تھیں لیکن کھائی نہ تھیں۔ ڈاکٹر قیصر کھوکھر کو دن میں کوئی بارہ بجے فون کر کے پوچھا تھا کہ یہ دوائیاں منگوا تو لی ہیں، کیا ان کی وجہ سے میرا سفر آسان ہو جائے گا، کہنے لگے بالکل ٹھیک … آپ سفر سے تین چار دن پہلے دن میں تین قطرے تین مرتبہ پی لیں۔ میں نے کہا کہ میں تو آج رات نو بجے جا رہی ہوں، کہنے لگے:دونوں دوائیوں کے تین تین قطرے ہر گھنٹے بعد آلٹر نیٹ پی لیں۔ میں نے کہا کہ کیا میں ایلو پیتھی دوا بھی لے سکتی ہوں، اس سوال کا جواب بھی اثبات میں تھا اور اب ان دواؤں کی بدولت میرا سفر انتہائی شاندار گزر رہا تھا۔ ہمارے لیے یہ ایک مقدس سفر تھا لیکن دوسروں کے لیے شاید ایک عمومی سفر تھا، شاید کوئی بھی عمرے کا زائر نہ تھا۔ یہاں کسی نے بھی احرام نہ باندھے تھے، ہم نے بھی نہیں، کہ ہمیں بھی جدہ کی پرواز کے لیے ابو ظہبی بارہ، چودہ گھنٹے انتظار کرنا تھا۔ کھانے کے بعد کافی، چائے کا دور چلا، کافی کے دو گھونٹ بھرے، حالانکہ میں ٹرکش تلخ کافی بھی پی لیتی ہوں لیکن اس کا مزہ نہ آیا۔ درود شریف اور لبیک اللھم لبیک کی تسبیحات زیرِ لب جاری تھیں۔
سفر آرام دہ تھا کچھ دیر سوئی بھی۔ ایک بجے کے لگ بھگ ہم ابو ظہبی کے ائرپورٹ پر تھے۔ کاغذی کا روائیوں کے بعد ہمیں ائرپورٹ کے لاؤنج پہنچا دیا گیا، اب ہمارے ہاتھ میں دو کوپن تھے۔
جائے پناہ
ہم ائرپورٹ مسجد کی طرف چلے، دایاں حصہ مردوں کے لیے اور بایاں خواتین کے لیے مختص تھا، وضو کر کے آرام سے عشا ء پڑھی، کچھ دیر لبیک اور دیگر تسبیحات کیں۔ تہجد پڑھ کر سونے کی کوشش کی، کچھ اور خواتین بھی آ جا رہی تھیں، کچھ ہم سے پہلے کی گہری نیند سوئی ہوئی تھیں۔ فجر سے کچھ پہلے آنکھ لگی، کہ اتنے میں آواز سنائی دی۔
’’ڈاکٹر طاہرہ، آپ کو باہر بلا رہے ہیں۔ ‘‘
ایک سیاہ فام خاتون نے کچھ زبان اور کچھ اشاروں کی مدد سے سمجھایا۔ باہر آئی، شاہد کہنے لگے کہ فجر کا وقت ہو چکا ہے، میں واپس ہوئی اور وضو کیا، نمازِ فجر ادا کی۔ نماز کے بعد ہم مسجد سے باہر آئے۔ رات ائرپورٹ کا سرسری جائزہ لے چکے تھے، اب ذرا تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا، ایک وسیع و عریض گنبد نما عمارت، جہاں صرف اتحاد، ان کی قو می ایر لائن کی پروازیں آ تی ہیں، مہندی اور نیلے رنگ کا دلکش کمبی نیشن، بے شمار دکانیں، سب سے نمایاں جیولری اور گھڑیوں کا ڈسپلے کہ لوگ خریدے تو ہوں گے لیکن زیادہ تر ہماری طرح صرف دیکھتے ہیں، فرق یہ ہے کہ ہم نے دور دور سے ہی دیکھا کہ جب کچھ لینا نہیں تو وقت کیوں ضائع کریں، بعض خواتین و حضرات پر شوق نگاہوں سے دیکھتے اور بھاؤ تاؤ کر رہے تھے لیکن لیا کچھ بھی نہیں۔ اگلے سٹال کی طرف بڑھے، چاکلیٹ، ٹافیاں کھجوریں اور دیگر میوہ جات انتہائی خوشنما پیکنگ میں اور ساری قیمت پیکنگ کی ہی معلوم ہوتی تھی، پھر کپڑوں سے بنے کھلونوں کی دکانیں اپنی جانب متوجہ کرتے تھے۔ سی ڈیز، ملبوسات، خوشبویات اور دیگر سٹال بھی جگمگاتے تھے۔ اب ہم اوپر کی منزل کے لیے ایکسلیٹر استعمال کر رہے تھے، رات یہیں سے گزرے تھے لیکن اس وقت صرف ان مختصر کمروں کی طرف گئے تھے جہاں ائرپورٹ کاروائی کے لیے جانا لازم تھا۔ اب ہم آزادی سے گھومتے پھرتے تھے، بے شمار مسافر کرسیوں پر نہایت بے آرامی کی حالت میں سوئے ہوئے تھے یا سو نے کی کوشش کرتے تھے۔ ان پر ترس بھی آیا کہ ہم ایک پر سکون رات گزار کر آئے ہیں، سکون سے عبادت بھی کی اور کچھ آرام بھی کیا۔ ہر چند مسجد عبادت کے لیے ہے آرام کے لیے نہیں، لیکن نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے، بہت سی خواتین سو رہی تھیں اور مسجدکی منتظمہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد آ کر صدا لگا جاتی تھی کہ مسجد سو نے کے لیے نہیں ہے۔ ناشتے کا وقت ہو گیا تھا، ریسٹورنٹ گئے، نکما سا ناشتہ کیا، یعنی سینڈوچ اور جوس لیا، مسجد آ کر نمازِ اشراق ادا کی۔ پھر اوپر گئے، وہاں پندرہ بیس کمپوٹر آن تھے، جن سے مسافر، اپنے اپنے کام لے رہے تھے، میں نے اور شاہد نے بچوں کو، بلال، طلال اور عطیہ کو ای میلز کیں۔ عطیہ کو لکھا کہ تمہارے دیار میں بارہ چودہ گھنٹے گزار نے ہیں اور تم سے ملے بغیر گزارنے ہیں، پھر مسجد آ گئے۔ جنھیں سوتا چھوڑ گئے تھے اب وہ جاگ چکے تھے اور مغربی گوشے اور جنوبی گوشے میں مقیم خواتین کے درمیان مکالمہ ہو رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ مشرقی گوشے والی خاتون الشفا، میڈیکل کالج کی طالبہ ہے اور اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ عمرے کے لیے جا رہی ہے، ماں اور بھائی کل صبح کے کوئٹہ سے چلے ہوئے ہیں، بہن کو اسلام آباد ائرپورٹ سے سفر میں شامل کیا ہے۔ جنوبی گوشے والی خاتون بھی اپنی والدہ اور میاں کے ساتھ عمرہ پر جا رہی تھیں اور کینڈا سے پہنچی تھیں اور وہ بھی ڈاکٹر تھیں۔ دو ایک باتوں کے بعد کہنے لگیں میڈم آپ اب بھی ایف سکس کالج میں ہی ہیں۔ میں نے کہا نہیں اب میں ایف جی کالج، ایف سیون ٹومیں ہوں، لیکن تمھیں کیسے پتا، کہنے لگیں میڈم فرسٹ اور سیکنڈ ایر میں آپ نے مجھے پڑھایا ہے، میرا نام مہ وش ہے، آپ نے مجھے پہچانا نہیں، اب اسے کیا بتاؤں کہ حافظہ کہاں کہاں دھوکا دیتا ہے۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ ایک مختصر سی چھت کے نیچے تین ڈاکٹر اکھٹے تھے۔ کچھ عبادت کی، کچھ باتیں کیں۔
لبیک اللھم عمرۃ
اسی اثنا میں ظہر کا وقت قریب آگیا، شاہد نے باہر بلایا اور کہا کہ اب احرام کی تیاری کر لو، ظہر کی نماز کے بعد وقت نہ ہو گا، فوراً ہی بلاوا آ جائے گا۔ چنانچہ وضو کیا، نماز ظہر کے بعد احرام باندھا جو ایک تکون رومال کی صورت میں تھا اس کے بعد احرام کے نوافل ادا کیے۔ پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری میں سورۃ اخلاص پڑھی۔ عمرہ کی نیت کی:
’’ اے اللہ میں عمرہ کی نیت کر تی ہوں تو اسے میرے لیے آسان کر دے اور مجھ سے قبول فرما۔ نیت کی میں نے عمرے کی اور احرام باندھا، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے ‘‘
اب تلبیہ یعنی اللہ کے حضور، پیش ہونے کا اقرار کرنا :
’’ میں تیرے لیے، تیری رضا کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ کر نکل آیا ہوں۔ تو جو وحدہٗ لا شریک ہے، تو جو تمام جہانوں کی تعریفوں کے لائق ہے، ساری نعمتیں بھی تیری ہیں اور ساری کائنات بھی تیری عطا ہے، میں اپنا نفس اپنی خواہشیں سبھی کچھ چھوڑ کر تیرے سامنے حاضر ہونے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوں، میں حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں۔ ‘‘
اس حاضری کے اقرار کے لیے ضروری ہے کہ تلبیہ کے الفاظ زبان سے ادا کیے جائیں، عورتیں دھیمی آواز میں کہیں کہ خود سن سکیں، دل میں کہا تو تلبیہ ادا نہ ہو گا، اب یہی تلبیہ ہمارے ساتھ ساتھ ہو گا جب تک کہ ہم مطاف میں، حجرِ اسود کے سامنے نہ پہنچ جائیں۔ اب ہم آپس میں بات نہ کرتے تھے اب ہمارا رابطہ اللہ سے تھا۔ کاش کہ اس حاضری میں حضوری کی کیفیت بھی پیدا ہو جائے، دل میں سوز و گداز، آنکھوں میں نمی ہی آ جائے۔ یہ کیفیت نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔ ابھی تلبیہ کا ورد جاری تھا، ابھی عمرے کی قبولیت اور آسانی کی دعا کی جا ری تھی کہ جہاز کی روانگی کی اطلاع آئی، ساتھیوں کو الوداع کہا، قسمت میں ہوا تو مکے، مدینے، کہیں ملاقات ہو جائے گی۔ مسجد سے باہر آئی شاہد منتظر تھے، جہاز تک پہنچے۔ بیٹھتے ہی ایک گولی کھا لی۔ دو بج کر پانچ منٹ پر سفر کا آغاز ہوا، کچھ دیر بعد وہی مینیو ہمیں پکڑائے گئے اور آدھ پون گھنٹے کے انتظار کے بعد جب ٹرالی سمیت، ایر ہوسٹس ہم تک پہنچی تو ہمارا مطلوبہ کھانا موجود نہ تھا۔ شاہد نے تو جو انھوں نے دیا لے لیا، میں نے کہا کہ پہلی فلائیٹ پر بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک اور اب پھر وہی بات کہ یہ کھانا ختم ہو گیا ہے، خاتون نے ٹرالی وہیں چھوڑی اور مجھے میری خواہش کے مطابق، گرم گرم بریانی کا پیک پکڑا گئی۔ کھانے کے بعد میں نے گرم چاکلیٹ کا کہا وہ بھی فوراً ہی مل گئی۔ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ میں جہاز پر کچھ کھا رہی ہوں اور میرا سفر انتہائی زبر دست گزر رہا ہے، اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے، کھانے کے بعد کچھ چہل پہل ختم ہوئی، آپ چاہیں تو تسبیح و تہلیل میں وقت گزاریں چاہیں تو ٹی وی پر اپنا پسندیدہ، پروگرام لگا لیں، میں نے وہ چینل لگایا جو ہمیں ہماری پرواز کے ہر ہر لمحے سے آگاہ کرتا تھا، اب ہم کہاں سے گزر رہے ہیں، ہماری منزل کتنی مسافت پر ہے۔ درود شریف اور تلبیہ جاری ہے، کیا واقعی ہم اس سر زمین کے قریب ہوتے جا رہے ہیں جس کے لیے سات سال پہلے اسلام آباد ائرپورٹ سے اترتے ہی دعا مانگی تھی اور جوں جوں دن گزرتے جاتے تھے اس دعا میں شدت پیدا ہوتی جاتی تھی، طلب بڑھتی جاتی تھی۔ سات سال پہلے حرمِِ پاک سے جدا ہوتے ہوئے یہی دعا سب دعاؤں پر حاوی ہوتی جاتی تھی، میں پھر آؤں، بچوں سمیت آؤں اور آج میں پھر جا رہی ہوں لیکن بچوں کا بلاوا نہ تھا، سرمد نے فوری پاسپورٹ تیار کرایا کہ آپ کے ساتھ میں بھی چلتا ہوں، میں بھی خوش ہو گئی، ہر سال وہ محلے والوں سے مبارکبادیں وصول کرتا اور شرمندہ ہوتا رہتا تھا کہ ہر گرمیوں میں سرپر استرا پھروا لیتا اور جب مسجد نماز کے لیے جاتا تو تمام نمازی اسے عمرے کی مبارک دیتے۔ میں نے کہا کہ سرمد اب کے سچی مبارک باد وصول کرو گے، لیکن ہمارے ویزے ملنے میں دیر ہوتی گئی اور وہ وقت جو اس نے عمرے کے لیے منتخب کیا تھا، نکل گیا۔
’’ امی بالکل انھی دنوں ٹوفل، جی آر ای اور این ٹی ایس کے ٹیسٹ آگے پیچھے آ گئے ہیں، فیسیں بھی بھر چکا ہوں، میرا خیال تھا کہ جب تک ان ٹیسٹوں کا وقت آئے گا ہم عمرہ کر کے آ چکیں گے۔ ‘‘اور پھر یہی فیصلہ ہوا کہ آئندہ سہی۔ دانش کے امتحان انھی دنوں تھے۔ فارد کی یو بی ایل میں ملازمت کے بالکل ابتدائی دن تھے، اسے بھی اپنی جگہ سے ہٹانا اچھا نہ لگا کہ خوش نصیبی سے ایسی ملازمت ملتی ہے۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ ہم تو اسے نویں دسویں کا طالب علم سمجھ رہے تھے … بہرحال ہم دونوں ہی جاتے تھے اور خوش تھے کہ ہمیں یہ موقع ملا اور دعا کرتے تھے کہ سبھی کے دل میں یہاں آنے کی تڑپ پیدا کر اور اس تڑپ کو پورا کرنے کا کوئی وسیلہ بنا۔
میری روح خاکِ حجاز میں
شا م پانچ بجے ہمارے جہاز نے سر زمینِ حجاز کو چھوا، پندرہ منٹ ہمیں جہاز سے با ہر آنے میں لگے ہوں گے۔ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ہمیں کس طرف جانا ہے، سب مسافر بکھر چکے تھے، ہم نے چند مسافروں کو ایک کاؤنٹر کی طرف جاتے دیکھا۔ ہم بھی اسی قطار میں شامل ہو گئے، وہاں دو تین کاؤنٹر اور دو تین قطاریں تھیں۔ یہی خیال آیا کہ ایسا نہ ہو کہ ہمیں دوسری قطار میں کھڑا ہونا ہو اور ہم یہاں آ کر کھڑے ہو گئے ہیں، ابھی یہ بات ذہن میں آئی ہی تھی کہ ائرپورٹ کا ایک کارکن دوڑتا ہوا آیا اور اس نے ہمیں کہا کہ آپ ادھر آ جائیں۔ ہمارے ساتھ کچھ اور احرام میں ملبوس خواتین و حضرات بھی تھے، لیکن وہ ہم دونوں کو لے کر ایک بڑے ہال میں پہنچا۔ وہاں کاؤنٹر پر موجود کارکن کے حوالے کیا، اگلے ہی منٹ میں ہم فارغ تھے، دوسرے ہی لمحے سامان ہمارے ہاتھ میں تھا، اور ہم ائرپورٹ سے باہر نکلتے تھے۔ ابھی ہمیں یہ سوچنے کی بھی مہلت نہ ملی تھی کہ اس دیار غیر میں ہمیں کوئی وصول بھی کرے گا یا نہیں، اچھا ہوا کہ سوچنے کی فرصت نہ ملی کہ یہ دیارِ غیر نہ تھا، ہم اللہ کے مہمان تھے۔ دیارِ حبیب کا قصد کر کے نکلے تھے۔ یہ وہ سر زمین حجاز تھی کہ جہاں پہنچنے کے لیے روح کی بیتابی کبھی کم نہ ہوتی تھی۔ لاؤنج سے باہر نہ نکلے تھے کہ مختلف لوگوں کے نام کی تختیاں اٹھائے ان کے میز بان منتظر نظر آئے۔ ان تک نہ پہنچے تھے کہ ایک شخص نے آگے بڑھ کر عربی میں کوئی سوال کیا، ابھی ہم سوال سمجھنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ اس نے کسی کو آواز دی۔ ایک شخص تیزی سے ہمارے قریب آیا اور پھر عربی میں کچھ کہا اور پاسپورٹ مانگے۔ شاہد کو تا مل ہوا کہ ابھی ہم ائرپورٹ کے اندر ہی ہیں اور نہ جانے کون لوگ ہیں جو اپنا تعارف کرانے کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں اور ہم سے پاسپورٹ مانگتے ہیں۔ میں نے جلدی سے وہ کاغذ نکالا، جو توقیر صاحب نے دیا تھا اس پر وہی نام لکھا تھا جو وہ عربی لہجے میں بتاتے تھے، پاسپورٹ ان کے حوا لے کیے ہی تھے کہ انھیں تو پہیے لگ گئے۔ انھیں راضی کیا کہ عصر کی اذان ہو گئی ہے، ہمیں وضو کر کے نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں، انھوں نے غسل خانے اور مسجد کی طرف رہنمائی کی۔ نماز پڑھ کر ابھی فارغ ہی ہوئی تھی کہ ایک خاتون نے پوچھا۔
’’ عمرے کے لیے آئے ہو۔ ‘‘
جواب اثبات میں سن کر کہنے لگیں۔
’’ہمارا اپنا مطبخ ہے ہم حاجیوں کو کھانا سپلائی کرتے ہیں، بہترین گھر کا کھانا، کھانے کو جی چاہے تو اس فون نمبر پر رابطہ کریں۔ ‘‘
مجھے باہر جانے کی جلدی تھی کہ میزبان ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا، اسے انتظار کی زحمت نہ ہو، باہر آئی۔ شاہد نظر نہ آئے، ابھی ہمارے موبائیل کام نہ کرتے تھے، اگر کچھ دیر وہ نظر نہ آئے تو… لیکن وہ فوراً ہی نظر آ گئے۔ اب ہم اس شخص کی رہنمائی میں تیز تیز قدم اٹھاتے کار پارکنگ کی طرف آئے۔ کوسٹر کھڑی تھی، اس میں چند زائر اور بھی بیٹھے تھے۔ اس بدرقہ نے ہمیں ڈرائیور کے حوالے کیا اور خود رخصت ہوا معلوم ہوا کہ ابھی کچھ اور مسافر آنے ہیں، کنڈیکٹر نے ہمارا سامان اوپر باندھا۔ اس اثنا میں، میں نے احتیاطاً ایک گولی اور کھا لی کہ کوسٹر میں کہیں طبعیت خراب نہ ہو، ہمارا بدرقہ دو تین اور مسافروں کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ کیا آ پ یقین کریں گے کہ پانچ بجے ہم جہاز میں تھے اور اب اتنے سارے کام انجام دے لینے کے بعد جب ہم سوئے حرم جاتے تھے تو وقت ساڑھے پانچ کا تھا، اتنی برق رفتاری سے سارے کام ہونے پر ہم خوش تھے اور رب کا شکر ادا کرتے تھے اور مجھے توقیر صاحب سے ہو نے والی گفتگو یاد آتی تھی۔
’’ یہ حج کا موقع تو ہے نہیں کہ ہم سارے حاجی اکھٹے جا رہے ہیں، جدہ میں ہمارا معلم ہمیں وصول کر کے مکہ میں ہوٹل میں پہنچا دے گا۔ یہاں تو شاید ہم دو ہی اس ابو ظہبی والی فلائیٹ پر عمرے کے مسافر ہوں گے، اگر ہمیں وہاں ائرپورٹ پر کوئی لینے نہ آیا تو ہم کیا کریں گے۔ ‘‘
ہنستے ہوئے کہنے لگے۔
’’نہ آیا تو آپ کچھ نہیں کریں گے، بس بیٹھ کر دو گھنٹے انتظار کریں گے، پھر سعودی حکومت کے کارکن آئیں گے، و ہ آپ کو بہت عزت کے ساتھ مکہ لے جائیں گے، فور سٹار میں ٹھہرائیں گے اور آپ کو عمرہ کروائیں گے۔ دو دن بعد بل کے ہمراہ وہ ہمیں اطلاع دیں گے کہ آپ کے مہمان ہمارے پاس ہیں، آ کر لے جائیں۔ تو ہم وہ بل خوشی سے بھر نہیں سکتے اس لیے اس کی آپ فکر نہ کریں کہ آپ کو کوئی لینے کے لیے پہنچتا ہے یا نہیں، یہ ہمارا مسئلہ ہے آپ کو وہاں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کسی اور قریبی پرواز سے کچھ اور زائر آرہے ہوں تو آپ کو ان کا انتظار کر نا پڑ جائے، کہ بعض اوقات ڈرائیور دوسرا پھیرا لگانے سے بچنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
ہم ائرپورٹ کے اردگرد پچھلی مرتبہ کی طرح چکر لگا رہے تھے۔ شاہد کا کہنا تھا کہ ائرپورٹ ہی اتنا بڑا ہے کہ لگتا ہے ہم اسی کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اللہ اللہ کر کے اس حد سے باہر نکلے، لیکن اب ایک اور تماشا شروع ہوا، ڈرائیور نے ایک پٹرول پمپ پرکوسٹرروکی۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید پٹرول ڈلوانا ہو گا، لیکن وہ ایک قریبی دکان میں گھس گیا، وہاں سے نکلا تو پھر کوسٹر سے اپنی سینڈل اٹھائی اور سامنے بیٹھے موچی کے حوالے کی، کچھ دیر ادھر ادھر گھوما کیا۔ پھر ایک کئی منزلہ بلڈنگ میں روپوش ہو گیا۔ ہاں وقفے وقفے سے وہ موبائیل پر گفتگو کر تا رہا تھا۔ ہم کنڈیکٹر سے کچھ بھی پوچھتے وہ جواب میں اشارے سے کہہ دیتا کہ مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ ہم صبر کر کے بیٹھ رہے کہ جب اس کی سیننڈل جڑے گی، موچی سے لے گا پھر چلے گا، وہ اوپر کی منزل سے آتا دکھائی دیا تو شکر ادا کیا، اس نے موچی کے پاس جانے کے بجائے گاڑی سٹارٹ کی ہم نے مزید شکر ادا کیا۔ پٹرول پمپ سے نکلے، اس کی پچھلی طرف سے اس نے ایک بڑی سڑک کی طرف رخ کیا، لیکن یہ کیا گاڑی کا رخ مکہ کے بجائے واپس ائرپورٹ کی طرف، کوئی ایک فرلانگ جا کر اس نے پھر گاڑی پٹرول پمپ کی طرف موڑی، وہاں پہنچ کر اس نے پھر وہی روٹ پکڑا، اس نے کم از کم چار چکر لگائے، ہم سبھی شور کرتے رہے کہ ہم حرم پاک کے طواف کا شوق اور نیت لے کر آئے ہیں، یہاں طواف کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے، لیکن وہ ہماری کب سنتا تھا، وہ تو موبائیل پر ہی بات کرتا اور سنتا تھا، اب اس نے پٹرول پمپ کے پیچھے گاڑی پارک کی، اتنے میں ایک دوسری ویگن آ کر رکی، اس میں سے تین چار مسافر اترے، ان کے ساتھ سامان بھی کافی تھا، انھیں کس طرح اس وین میں منتقل کیا یہ الگ داستان ہے۔ یہ البتہ ہوا کہ ہمارے مسافروں کی ایک چھوٹی بچی پیاس سے نڈھال ہو رہی تھی۔ انھوں نے درخواست کی کہ جب تک آپ سامان لادتے ہیں میں قریبی دکان سے پانی لے آتا ہوں تو اس نے انھیں منع کر دیا۔ کنڈیکٹر کو بھیجا جو پانی کی دو تین بوتلیں خرید لایا۔ اب ہمارا سفر شروع ہوا، سبھی لبیک کا ورد کر تے تھے اور خوابوں، خوشیوں اور خوشبوؤں کی سرزمین کی طرف جاتے تھے۔ مسافروں میں کچھ ایسے افراد بھی شامل تھے جو چار دن دبئی رک کر آئے تھے اور وہاں کا خمار ابھی سر چڑھ کر بولتا تھا، وہ دبئی کو یاد کر تے تھے اور پھر انھیں یاد آ جاتا تھا وہ اس مقدس سفر پر نکلے ہیں، دین کے ساتھ ساتھ دنیا بھی، کے مصداق انھوں نے دبئی دیکھ لیا ہے تو وہ بھی اللہ کی مہربانی تھی کہ اس کا حکم ہے کہ دنیا کو گھوم پھر کر دیکھو، لیکن اب اس کے حرم کی طرف جاتے ہو تو وہاں حاضر ہونے کا نعرہ بھی بلند کر تے جا ؤ۔ بلد الامین سے رسول الامین کا رشتہ سبھی کے علم میں ہے کہ وہ مکہ کو کتنا عزیز جانتے تھے۔
میرے نبیوں کی دعاؤں میں بسائے ہوئے شہر
ام القریٰ کی جانب، سڑکوں پر گاڑیاں انتہائی تیزی سے رواں دواں تھیں۔ مغرب کی نمازراستے ہی میں ایک مسجد میں ادا کی۔ حدودِ حرم میں داخل ہوتے ہوئے آپ کو خود پر فخر ہونے لگتا ہے۔ آپ مسلمان ہیں اس لیے آپ کو یہاں داخلے کی اجازت ہے، ورنہ کوئی غیر مسلم یہاں آنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ حدودِ حرم میں داخلے کی پہلی شرط ہی پاکیزگی ہے، غیر مسلم اس صفت سے محروم ہیں۔ ان کی یہاں موجودگی کی سزا گردن زدنی ہے۔ ہم اس سرزمین کی جانب سفر کرتے تھے جس کی زیارت اور ادائیگیِ مناسک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کر دی ہے، جو قبولیتِ دعا کا مرکز بھی ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں اس شہر کی دو مرتبہ قسم کھائی ہے۔ یہ وہ شہر جسے ابد تک حرمت والا قرار دیا جا چکا ہے۔ شکار تو ایک طرف، کانٹا توڑنا یا گھاس تک کاٹنا منع ہے۔ گری پڑی چیز اٹھانے کی بھی اجازت نہیں، جو ام القریٰ ہے، یعنی قدیم ترین بستی، ودسری بستیوں کے مقابلے میں اسے ماں کا درجہ حاصل ہے، ایک مفہوم اس کا ارادہ کرنا اور رخ کرنا کے بھی ہیں تو تمام اقصائے عالم کے نمازی عبادت کے لیے اسی کی طرف رخ کرتے ہیں۔
جب ہم اپنے ہوٹل پہنچے، عشاء کی اذانیں ہو چکی تھیں، سبھی مسافر اپنا سامان اٹھا کر اس گلی میں لے جاتے تھے، جسے توقیر صاحب نے تنگ گلی بتایا تھا۔ گلی تو تنگ ہی تھی لیکن ہمیں تو وہاں سے گزرنا ہی تھا اس لیے، گھٹن یا تنگی کا احساس نہ ہوا۔ ہوٹل اشواق کا لاؤنج واقعی مختصرسا تھا لیکن چند منٹوں بعد ہم اپنے کمرے میں چلے جاتے، پھر کیا فرق پڑتا کہ تنگ ہے یا کھلا ہے۔
سامان لاؤنج میں رکھا۔ شاہد نے مجھے کہا کہ تم یہیں بیٹھو میں ضیا صاحب کا پتہ کرتا ہوں، شاید ملاقات ہو جائے، شاہد نے کاؤنٹر پر موجود صاحب سے ان کا پوچھا تو انھوں نے ایک خوش لباس شخص کی طرف ا شارہ کیا کہ وہ موبائیل پر بات کرتے باہر جا رہے ہیں۔ شاہد کہتے ہیں کہ میں ان کے پیچھے چلا، چونکہ وہ موبائیل پر بات کر رہے تھے اس لیے میں نے انھیں آواز دینا، مناسب خیال نہ کیا، اتنے میں ہماری ہی کوسٹر کا ایک مسافر بھاری سامان کے ساتھ احرام سنبھالتا آتا دکھائی دیا، ضیا صاحب نے فوراً موبائیل بند کیا، لپک کر اس سے اس کا سامان لیا اور واپس ہوٹل کی طرف آنے لگے۔ شاہد کہتے ہیں کہ اس لمحے بھر کے منظر نے مجھے یقین دلا دیا کہ ہم کسی معمولی ٹور آپریٹر کے ہتھے نہیں چڑھے بلکہ اللہ نے ہم پر خصوصی کرم کیا ہے، ضیا صاحب ایک مہربان شخصیت کے روپ میں تعارف سے پہلے ہی اپنی شناخت کر وا چکے تھے۔ میں ان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ اب میں نے اپنا نام بتایا تو کہنے لگے۔
’’ شاہد صاحب ہم تو کل سے آپ کا انتظار کر رہے تھے، پھر معلوم ہوا کہ آ پ کا ابو ظہبی میں پڑاؤ تھا، آپ کا سامان کہاں ہے۔ ‘‘
شاہد نے سامان کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے فوراً ہی فون ملایا بات کی اور پھر کہنے لگے۔
’’میں آپ کو ہی دیکھنے باہر جا رہا تھا، ہم نے آپ کا انتظام یہاں نہیں بلکہ قصرِ جمعہ میں کیا ہے۔ ابھی دو بندے آئیں گے و ہ آ پ کو قصرِ جمعہ پہنچا دیں گے۔ ابھی بات ہو ہی رہی تھی کہ وہ دونوں آ گئے، ہمارا سا مان اٹھایا اور بڑی سڑک پار کر کے دو ایک موڑ مڑنے کے بعد، ہم ایک اور ہوٹل کے سامنے کھڑے تھے، اس ہوٹل کا لاؤنج کافی کشادہ تھا۔ وہاں جاتے ہی ہمیں کمرہ نمبر ۲۰۸ دے دیا گیا۔
مجھے یاد آیا، اسلام آباد میں توقیر صاحب نے جب ہمارے کاغذات وغیرہ تیار کیے تھے اور ہم اپنی رہائش گاہ کے متعلق بات کرتے تھے تو قصرِ جمعہ کا بھی ذکر ہوا تھا، جو حرم سے اور قریب تھا، ہم اپنی ساری ادائیگی کر چکے تھے۔ نہ جانے کیوں میرے منہ سے نکلا کہ وہ قریب تھا تو ہمیں وہ ہوٹل دیتے، لیکن مجھے خود ہی احساس ہو گیا کہ غلط بات منہ سے نکل گئی ہے، ہم نے کیٹگری ۲ کے لیے رقم جمع کرائی تھی تو انھوں نے ہمیں وہی دینا تھی۔ دراصل یہی سوچا تھا کہ ہم پیدل چلنے کے شوقین ہیں، فاصلے میں انیس بیس کا فرق ہو تو کوئی بات نہیں … اور وہ جملہ جس کے ان جانے طور پر منہ سے نکل جانے پر میں شرمندہ ہوئی تھی، اللہ کے کرم سے اسی ہوٹل کا بہترین کمرہ ہمارا منتظر تھا۔
جو شخص ہمارا سامان کمرے تک لایا، میں نے اسے کہا کہ پانی کا ایک گھونٹ مل جائے گا۔ کہنے لگا، نہیں پانی تو یہاں نہیں ہے، میں نے کہا کہ میں زم زم نہیں مانگ رہی سادہ پانی مل جائے گا، اگر نہیں تو کوئی بات نہیں۔ اسے گئے ذرا ہی دیر ہوئی تھی کہ دستک ہوئی ایک نوجوان شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی اور کہا۔
’’ میرا نام عتیق ہے، میں ضیا صاحب کا بیٹا ہوں۔ ابو کہہ رہے ہیں کہ آپ ابھی تھکے ہوئے پہنچے ہیں فوراً ہی عمرہ کرنے نہ نکل جائیں، عشاء کی جماعت تو نکل چکی ہے، تھوڑا آرام کریں، تازہ دم ہو لیں پھر جائیں۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ رخصت ہوئے اور دو منٹ نہ گزرے تھے کہ وہی صاحب جنھوں نے کہا تھا کہ پینے کے لیے پانی نہیں ہے، ایک بڑا سا شاپر تھامے داخل ہوئے جس میں مختلف قسم کے جو سز اور دیگر ماکولات شامل تھے، آئے فرج کھول کر سبھی کچھ اس میں رکھا، شاہد تازہ دم ہو چکے تھے اور جب میں غسل خانے سے باہر آئی تو پھر دستک ہوئی۔ معلوم ہوا کہ عتیق، البیک کے دو بڑے ڈنر پیک لیے کھڑے ہیں کہ آپ کھانا کھا کر عمرہ کرنے جائیں۔
مجھے یاد آیا توقیر صاحب نے البیک کی بہت تعریف کی تھی اور کہا تھا ایمرٹس کے بجائے اگر آپ اتحاد پر جائیں تو اتنی بچت ہو جائے گی کہ آپ روز البیک کھا سکیں گے اور ہمیں یہاں پہلا کھانا ہی البیک ملا، نرم ذائقہ دار بند، حالانکہ بند ڈبل روٹی کھانا پڑے تو میری آنکھ میں آنسو آ جاتے ہیں، لیکن وہ بے حد مزے دار تھے، چکن تو تھا ہی بہت خوب، اصل مزے کی چیز وہ لہسن اور مایونیز قسم کی سفید ساس تھی، جو یقیناً صحت کے لیے بھی بہت مفید تھی، کھانا رغبت سے کھایا، اور ناشتے کے لیے بھی سنبھال لیا۔ اب ہم عمرے کے لیے جاتے تھے۔ لبیک اللھم لبیک ہمارے خون میں گردش کرتا تھا اور ہمارے ہونٹ ہلتے تھے، حرم میں کبھی رات نہیں ہوتی، ہم بلڈنگ سے نکلے۔ میں نے شاہد سے پوچھا حرمِ پاک کتنی دور ہے تو کہنے لگے، ہوٹل اشواق، ہمارے حج کے موقع کی رہائش کے مقابلے میں حرم سے نصف قریب تھا۔ قصر جمعہ آ جانے سے فا صلہ مزید آدھا رہ گیا ہے۔
شبِ روشن میں جمالِ کعبہ
رات کا وقت، فضا میں خنکی، سڑکیں روشن، پر جوش لوگ، شوقِ فراواں لیے، تمتماتے چہروں کے ساتھ احرام و بغیر احرام کے، تیز تیر قدم اٹھاتے، اس ذاتِ اقدس کے حضور حرفِ تشکر پیش کر نے جاتے تھے جس نے انھیں سیکڑوں ہزاروں میل دور سے بلایا اور اپنا مہمان بنایا۔ گلیوں، سڑکوں سے گزرتے ہوئے ذرا اجنبیت کا احساس نہ ہوا، سات سال سمٹ کر سات لمحوں میں محدود ہو چکے تھے۔ ابھی کل کی بات تھی کہ ہم انھی گلیوں میں لبیک اللھم ا لبیک کہتے تھے۔ بارہ بجے ہم بابِ عبدالعزیز کے سامنے تھے، اللہ تعالیٰ آپ کی چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کو بھی پورا کرتا ہے۔ میں جب سے حج کر کے آئی تھی ہر ایک سے یہی کہتی تھی کہ خانۂ کعبہ کا حسن دیکھنا ہے تو رات کے وقت دیکھو۔ دن میں تو وہ ایک عام سی عمارت نظر آتی ہے لیکن رات کے وقت اس کا جاہ و جلال و جمال درجۂ کمال کو پہنچا ہوتا ہے، کوشش کرو کہ پہلی مرتبہ دیکھنا ہو تو اسے رات کو دیکھو اور خود اپنی ہی بات کو رد کر دیتی تھی، عمرے کے لیے کوئی صبح آٹھ دس بجے پہنچے تو کیا رات کے انتظار میں حرم سے باہر بیٹھا رہے گا اور اب میں خانۂ کعبہ پر پہلی نگاہ ڈالنے جاتی تھی اور رات کے بارہ بجے تھے، ہم گھوم کر باب صفا پر آئے اور کوشش کی کہ نگاہیں نیچی رہیں، اس کے قریب اور قریب پہنچیں پھر دیدار کریں۔ پہلی نظر کی دعا کون سی مانگنی ہے، سب کچھ گڈمڈ ہو رہا تھا، پہلی نظر کی دعا اب کے بھی وہی تھی جو حج پر کی تھی یا اللہ مجھے مستجا ب الدعا بنا، میری ہر جائز دعا قبول فرما، یا اللہ میری لغزشوں کو معاف فرما، اپنی اور اپنے محبوب کی محبت والی زندگی عطا فرما، یا اللہ میں اپنی زندگی میں کسی کے لیے باعث زحمت نہ بنوں، مجھے مختصر زندگی دے لیکن وہ زندگی جو تیری رضا کے مطابق ہو …
حضورِ پاک ﷺ کی دعا نے جسم و جاں کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا:
’’ اے میرے رب میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کسل اور سستی سے، بڑھاپے کی مشقت سے اور آفت سے۔ اے میرے رب میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں عذابِ نار اور عذابِ قبر سے۔ ‘‘ ۴؎
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر لا ا لہٰ الا اللہ واللہ اکبر
یہاں پہنچے تو ایسا لگا کہ ہم صدیوں سے یہیں تھے اجنبیت یا نئے پن کا کوئی احساس نہ تھا۔ عالم سرمستی و سرشاری اور اضطراب و حیرت کے بجائے ایسی کیفیت طاری تھی جیسے یہ ہمارا روز کا معمول ہے۔ ہم یہاں آتے رہتے ہیں بلکہ یہیں رہتے ہیں۔
مجھے وقت پر بات کم ہی یاد رہتی ہے، اس مرتبہ میں نے یہ کیا کہ اللہ میاں سے یہ بات طے کر لی کہ مجھے یقین تھا کہ میں ہر مرتبہ یاد نہ رکھ پاؤں گی کہ اے اللہ میں جب بھی حرم میں داخل ہوں تو میری اعتکاف کی نیت قبول فرما، حرم میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ بتایا جاتا ہے، آپ د ن میں مسجد میں دو تین بار داخل ہوتے ہیں اور ہر مرتبہ اعتکاف کی نیت کرتے ہیں کہ میں جب تک حرم میں ہوں، اعتکاف سے ہوں تو آپ کو دو تین لاکھ نیکیوں کا ثواب مل جاتا ہے تو ہم گنہگار جو خود میں نیکی کی توفیق نہیں پاتے، اللہ تعالیٰ سے ایسے وعدے لیتے رہتے ہیں۔
واد یِ شو ق میں وارفتۂ رفتار ہیں ہم
مطاف پروانوں سے بھرا ہوا تھا سبھی والہانہ انداز میں سرجھکائے، چلتے تھے۔ کچھ قدم تیز اور کچھ دھیمے دھیمے اٹھتے تھے۔ ہر ایک اپنے اپنے انداز میں محوِ حمد و ثنا تھا، کیا دعا مانگی کچھ یاد نہیں، کب مطاف میں اترے ؟کب اس سیلِ عاشقاں کا حصہ بنے ؟ کب تلبیہ ترک کیا؟ کب طواف کی نیت کی؟
’’ اے ا للہ میں نیت کرتا ہوں طواف کرنے کی تیرے پاک گھر کا تو اسے آسان فرما دے مجھ پر اور میری طرف سے قبول فرما ان سات چکروں کو جو محض تیری رضا کے لیے ہیں۔ ‘‘
ہوش اس وقت آیا جب ہمارے ہاتھ، خانۂ کعبہ کے غلاف کو مس کرتے تھے۔ ہم حطیم کی دیوار کے ساتھ ساتھ طواف کر تے تھے اور یہ احساس بیدار ہوتا جاتا تھا کہ ہم بیت العتیق کے گھر کے طواف کے لیے کتنے مضطرب تھے۔ کسی کو حج یا عمرے کی مبارک دیتے تو دل میں ہوک سی اٹھتی، حسرت آتی ہے کہ پیچھے میں رہا جاتا ہوں … پھر جلد ہی اس کیفیت کو جھٹک کر جانے والوں کی خوشیوں میں شریک ہونے کی کوشش کی جاتی، میں ہمیشہ خود کو سمجھاتی کہ بھئی تم ایک مرتبہ ہو تو آئی ہو اب دوسروں کو خوشی سے رخصت کرو اور آج میں اللہ کے بلاوے پر اس کے حرم کے سامنے تھی، اب اس اضطراب پرسکون و طمانیت کا احسا س غالب تھا۔
قطرے کو جیسے سمندر سمیٹے مجھ کو مطاف اپنے اندر سمیٹے
جیسے سمیٹے آغوشِ مادر ………اللہ اکبر اللہ اکبر
حجر اسود کو بوسہ دینا تو ممکن نہیں ہوتا۔ استلام کرتے وقت، بسم اللہ اللہ اکبر وللہ الحمد کہنا ہے اور دورانِ طواف تسبیحِ ملائکہ، سبحان اللہ والحمد للہ، ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
اس مرتبہ میرے پاس سات دانوں والی تسبیح بھی نہ تھی۔ شا ہد کی موجودگی میں ایسی کسی شے کی ضرورت بھی نہیں رہتی کہ ان کا حساب کتاب کا طریقہ بہت اچھا ہے۔ پہلے چھ چکروں میں چھ کلمے ترتیب کے ساتھ اور آخری طواف میں آیت الکرسی یا درود شریف …یا سات قرآنی دعائیں … یا سات قرآنی سورتیں۔ میں ان کے ساتھ ساتھ تھی، لیکن اپنی دعائیں پڑھتی تھی۔ ہر شوط پر رکن یمانی پہنچ کر ربناء اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنتہ وقنا عذاب النار … رکن یمانی سے حجر اسود تک آپ جتنی مرتبہ یہ دعا پڑھتے ہیں، ستر ہزار فرشتے آ مین کہتے ہیں۔ ہم اس بات سے اکثر بہت خوش ہوتے ہیں کہ بھیڑ کم تھی۔ ہمارا طواف تو پندرہ منٹ میں مکمل ہوا اور رکن یمانی پر ا یک مرتبہ ہی یہ دعا پڑھی جاتی اور حجر اسود تک پہنچ جاتے۔ آج بھی ایسا ہی کچھ ہوا …طواف مکمل ہوا۔ یہ خیال نہ آیا کہ ستر ہزار فرشتو ں کی آمین سے نہ جانے کتنی مرتبہ محروم رہے۔ انسان اشرف الخلوقات ہے۔ فرشتے نوری مخلوق ہیں، ستر ہزار فرشتے روزانہ بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں، ان کی باری دوبارہ نہیں آتی، انسان خطا کا پتلا ہے لیکن اللہ کا لاڈلا بھی ہے کہ ایک دن میں ہی چاہے تو دس، بیس، تیس طواف کر لیتا اور دامن میں اس کی ان گنت نعمتیں سمیٹتا ہے۔
مجھے بہت احساس تھا کہ پچھلی مرتبہ، صرف ایک مرتبہ مقامِ ابراہیم کی زیارت کی تھی حالانکہ پچاس سے زائد طواف کیے ہوں گے، اب پہلے ہی شوط میں میں اس کے قریب سے گزرتی تھی اور شیشے میں قدوم سے سجے با برکت گھر کو دیکھتی تھی۔
جس پر نبی کے قدم کو سجایا، اپنی نشانی کہہ کر بتایا
محفوظ رکھا رب نے وہ پتھر… اللہ اکبر اللہ اکبر
اب ہم آبِ زم زم پینے جاتے تھے، حج کے فوراً بعد سے ہی سن رہے تھے کہ مطاف وسیع کرنے کے خیال سے آبِ زم زم کا تہ خانہ بند کر دیا گیا ہے۔ اب اوپر ہی بے شمار نل لگا دیے گئے ہیں جتنا جی چاہے پیجیے اور اپنے جسم پر ڈالیے۔ پچھلا بہترین وقت یاد کرتے ہوئے زم زم پیا۔
اللھم انی اسئلک علماًنا فعاً و رزقاً واسعاً و شفاءِ من کل داء
آبِ زمزم جنت کے چشموں میں سے ہے، یہ پانی کبھی پرانا نہیں ہوتا، اس کا ذائقہ بدلتا ہے نہ پرانا ہونے کی ناپسندیدہ مہک پیدا ہوتی ہے۔ بیماریوں کے لیے شفا ہے اور جس مقصد کے لیے پیا جائے خدا کے کرم سے پورا ہوتا ہے۔ اس کا پینا، جسم پر انڈیلنا، باعثِ برکت ہے۔ پانچ ہزار سال سے جاری، دنیا کے قدیم ترین چشموں میں سے ایک ہے۔ مسجدِ نبوی تک اسے پہنچایا جا تا ہے۔ زائرین کے علاوہ، قرب و جوار کے رہائشی، منرل واٹر کے بجائے اسے ہی ہر ہفتے گاڑیاں بھر کر لے جاتے ہیں۔ میں نے ا یک مگ اور شاہد نے نہ جانے کتنے ہی مگ اپنے اندر انڈیلے، میں شاہد سے کہتی ہوں کہ کہا جاتا ہے کہ آبِ زم زم ایمان والے ہی پی سکتے ہیں، کاش میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں۔
مقام ابراہیم پر دو رکعت واجب الطواف ادا کیے۔ اب ہم سعی کے لیے روانہ ہوئے، خانۂ کعبہ کے اندر اور باہر تعمیراتی کام عروج پر ہے۔ ہمیں صفا پر جانے کے لیے خانۂ کعبہ کی عمارت کی ایک راہداری سے گزرنا پڑا۔ اب سعی کا برآمدہ ہمارے سامنے ہے لیکن صفا پر جانے کے لیے ہمیں آدھا برآمدہ طے کرنا پڑے گا، صفا پہنچے، آدھی رات ہونے کو آئی لیکن رونق بے انتہا ہے۔
دیکھا صفا بھی، مروہ بھی دیکھا رب کے کرم کا جلوہ بھی دیکھا
دیکھا رواں اک سروں کا سمندر، …… اللہ اکبر اللہ اکبر
تیز تیز چلتے قدم، جذب و وارفتگی سے بھر پور چہرے، کسی چہرے پر تھکن کی اذیت یا بے آرامی کی کیفیت نہیں۔ صرف ایک دھن ہے کہ سعی کا رکن بھی اللہ کے کرم سے مکمل ہو جائے۔
شاہد کو طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کرتے ہوئے تیز چلنا تھا اور اب سعی کرتے ہوئے میلین اخضرین کے در میان دوڑ کر گزرنا تھا کہ یہی بی بی ہاجرہ کی سنت ہے اور میں ان پر نگاہ رکھتی تھی کہ کہیں نظروں سے اوجھل نہ ہو جائیں، پہلی ہی سعی میں احساس ہو گیا تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے، بہترین فرش پر چلنا مشکل لگ رہا تھا۔ بی بی ہاجرہ کا تصور کیجیے، صحرا کی تپتی ریت، آگ برساتا سورج، بے آب و گیاہ وادی میں ماں کا اضطراب، اللہ کو اتنا پسند آیا کہ رہتی دنیا تک ان کی سنت پر عمل لازم قرار پایا، علی شریعتی بجا کہتے ہیں کہ حج ہاجرہ ہے۔ محدثہ ملائکہ یعنی آپ سے فرشتے بھی باتیں کرتے تھے، آپ کو جدۃ النبی بھی کہا جاتا ہے اور مکہ معظمہ کی بانیہ بھی۔
ہاجرہ کے معنی ہیں ہجرت کرنے والی، تاریخِ اسلام کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کا لقب آجر بھی ہے:
’’ ان کا نام عبرانی میں ( ہاغار ) ہے اور جب فرعونِ مصر نے سیدہ سارہ کی کرامت کو دیکھ کر سیدہ ہاجرہ کو سیدہ سارہ کے ساتھ کر دیا تھا، تب ان کا نام آجر ٹھہرا، یعنی یہ اس مصیبت کا اجر ہیں جو سارہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بادشاہ کے ظلم سے اٹھانی پڑی، پھر جب انھوں نے ہجرت الی اللہ کی اور آ کر مکہ میں اس لیے آباد ہوئیں کہ ان کی اولاد بیت الحرام کی آبادی اور توحید کی منادی کرے تب ان کا نام ہاجرہ ٹھہرا۔ ‘‘ ۵؎
حضرت ہاجرہ کے متعلق ایک خیال یہ بھی تھا کہ وہ لونڈی تھیں۔ مسلمان ہوں یا یہودی و عیسائی، سبھی کا بیان ہے کہ فرعونِ مصر نے حضرت سارہ کی کرامت دیکھ کر انھیں حضرت ہاجرہ ہبہ کر دی تھیں۔ جب کہ تحقیق بتاتی ہے :
ِِ’’ وہ فرعون کی بیٹی تھی جب فرعون نے کرامات کو دیکھا تو کہا جو بوجہ سارہ واقع ہوئی تھیں تو کہا کہ میری بیٹی کا اس کے گھر میں خادمہ ہو کر رہنا دوسرے گھر میں ملکہ ہو کر رہنے سے بہتر ہے۔ ‘‘ ۶؎
بھیڑ بڑھتی جاتی تھی آخری دو چکروں کے لیے اوپر کی منزل کا ارادہ کیا، وہاں بھی تعمیراتی کام کے اثرات موجود ہیں، لیکن پہلی منزل والا رش یا گھٹن کا احساس نہیں پھر سعی کرتے ہوئے آپ نیچے جھانکتے جائیے۔ بہت مستعدی سے سیکڑوں کارکن بھاری مشنری کے ذریعے اپنے فرائض انجام دیتے نظر آتے ہیں، شدید محنت و مشقت اور موسم کی سختی پر ذمہ داری کا احساس غالب ہے۔ اس کا م پر وہ کار کن ہی نہیں ان کی نسلیں بھی فخر کریں گی اور تمام امت مسلمہ ان کی شکر گزار رہے گی:
’’ کتاب ( الحرم الشریف ) میں یہ پڑھ کر مسرت ہوتی ہے کہ تعمیرِ حرم کی بے بہا نیکی میں کچھ حصہ پاکستانی قوم کو بھی ملا، کتاب میں پاکستانی انجینئروں خواجہ عظیم الدین اور ایسوسی ایٹیڈ کنسلٹنگ انجینیئرز آف پاکستان کا ذکر موجود ہے اور لکھا ہے کہ نقشے محمد نواز شاہ الباکستانی نے بنائے۔ ‘‘ ۷ ؎
پاکستانی قوم کو اگر ان کے لیڈر فخر کرنے کے قابل چھوڑیں تو یہ مٹی واقعی بڑی زرخیز ہے۔
سعی کے بعد میں نے ایک پور برابر بال کٹوائے اور احرام کی پابندی سے آزاد ہوئی۔
’’ میں حلق کرانے جا رہا ہوں، تم چاہو تو یہیں میرا انتظار کرو ورنہ بابِ عبدالعزیز پر پہنچ جاؤ، میں وہیں آ جاؤں گا۔ ‘‘
میں نے بابِ عبد ا لعزیز کے سامنے جا نے کو ترجیح دی، مطاف میں نمازِ عشاء ادا کی کہ جب حرم میں داخل ہوئے تھے نماز کو مؤخر کیا تھا کہ جماعت تو کب کی ہو چکی تھی۔ رات کے دو ڈھائی بج چکے تھے۔ اب خانۂ کعبہ میرے بالکل سامنے تھا۔
زندگی سامنے آ بیٹھی تھی
اور میں خود سے چھپا پھرتا تھا
نماز مکمل کی ہی تھی کہ شاہد حلق کر وا کر آ گئے کہنے لگے پہلے جو بازار مروہ کے ساتھ ہی تھا، دو منٹ میں حجام تک پہنچ جایا کر تے تھے، اب مجھے پتا نہیں کون سے محلے میں جا کر سر منڈانا پڑا ہے۔ میں نے شاہد سے کہا کہ آپ نماز پڑھ لیں مجھے ایک طواف فوری طور پر کر نا ہے میں وہ کر لوں، اس فوری طواف کی تفصیل آگے کسی مقام پر …
میں خانہ کعبہ کا حسن و جمال دیکھتی، حجر اسود کی طرف جاتی تھی، وہ کتنے نصیب والے ہوں گے جنھوں نے کعبہ کو اندر سے دیکھا ہے مجھے یہ تو معلوم تھا کہ کعبے کے اندرونی حصے میں تین ستون ہیں۔ کعبے کے سیدھے ہاتھ ایک زینہ ہے جو چھت پر جاتا ہے، جس پر شیشے کا دروازہ ہے جس سے کعبے کے اندر بھی روشنی آتی رہتی ہے، نو ذی الحجہ کو اسی زینے سے اوپر جا کر غلافِ کعبہ تبدیل کیا جاتا ہے۔ اندرونی دیواروں پر سبز پردے موجود ہیں۔ کعبے میں جس طرف چاہیں رخ کر کے نماز پڑھی جا سکتی ہے، اس لیے جس خوش نصیب کو اندر جانے کا موقع ملتا ہے، وہ چاروں سمتوں میں نماز ادا کر کے احساسِ طمانیت حاصل کرتا ہے۔ بعد میں مجھے ڈاکٹر محمد الیاس کی تاریخِ مکہ مکرمہ کے مطالعے سے علم ہوا کہ وہاں ایک صندوق بھی موجود ہے جس میں کعبہ کے ہدایا محفوظ ہیں۔ اب مجھے ان ہدایا کی تفصیل کی جاننے کی جستجو ہے، کون سے ہدایا، حضرت مطلب کو کھدائی کے دوران جو ا شیا ملی تھیں وہ بھی ان میں شامل ہیں یا صرف بعد میں آنے والے تحائف … اور وہ کون تھے جن کے تحائف کو یہ قدر و منزلت ملی۔ تارڑ سے بات ہوئی کہ سلجوق کو تو خانۂ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت ملی تھی، اس نے تو صندوق کے بارے میں ذکر نہیں کیا، کہنے لگے۔
’’ جب خانۂ کعبہ کے اندر جانے کا موقع نصیب ہوتا ہے تو انسان میں حشر پرپا ہوتا ہے اسے گرد و پیش کی کوئی ہوش نہیں رہتی، وہ ایک ایک لمحے کے معاملے میں حریص ہو جاتا ہے، وہ لمحہ بھر میں سبھی عنایتیں، سبھی نعمتیں لوٹ لینا چاہتا ہے۔ جتنی توبہ، استغفار کر سکتا ہے کر لینا چاہتا ہے اور اس حالت میں کہ وہ سانس لینا بھی بھول چکا ہوتا ہے، سلجوق نے مجھے ایک ایک لمحے کی تفصیل، جتنا بھی اس کے حواسوں نے کام کیا، مجھے بتا دی تھی، میں نے سبھی کچھ لکھ لیا تھا، لیکن اس نے صندوق کا ذکر نہ کیا تھا۔ اب آپ کا یہ سوال کہ اس صندوق میں ہدایا کی تفصیل تو ظاہر ہے میں نہیں جانتا، ممکن ہے ہمارے خلفا اور ٹرکش خلفا کی طرف سے آئے ہوئے تحائف محفوظ ہوں۔ ہاں روضۂ رسول میں موجود صندوق کا اس نے ذکر کیا تھا، جس میں سنا ہے کہ اربوں مالیت کے تحائف موجود ہیں۔ ‘‘
اب مجھے جستجو ہوئی کہ صندوق موجود ہے یا نہیں۔ میرے لیے سہل ترین طریقہ یہی تھا کہ نیٹ کھول لوں اور میں نے ایسا ہی کیا، اندرونِ کعبہ تین ستون ہیں۔ پہلے ستون کے ساتھ ایک سفید رنگ کا صندوق موجود ہے جو لکڑی کا بھی ہو سکتا ہے اور سنگِ مر مر یا کسی دھات کا، میرے اندازے کے مطابق اس کی اونچائی تین فٹ اور لمبائی دو فٹ ہو گی۔
دورانِ طواف خالہ جی، ثروت باجی، صبیحہ باجی، اختر باجی، طاہر، نزہت، قدسیہ، دانش، آمنہ، سرمد، فارد اور سبھی رشتہ داروں، اہل محلہ اور کالج کے ساتھیوں کے د ین و ایمان کی سلامتی اور صحت و تندرستی کے لیے دعائیں کیں۔ حمیر ا اور سمیرا تو ویسے ہی ہر لمحے میرے ساتھ ہوتی ہیں۔
قصرِ جمعہ پہنچتے پہنچتے تین ساڑھے تین ہو چکے تھے۔ الارم لگا کر سونے کی کوشش کرتے رہے، شاید کچھ سوئے بھی۔
نمازِ فجر حرم میں ادا کی اور واپس آ گئے، میں کتنی بھی کوشش کر لوں دن میں مجھے نیند کم ہی آتی ہے۔ دس بجے حرم پاک گئے، طواف ایک سرمدی کیفیت کا نام ہے جو اس کیف و سرور کو پالے، اس کی خوش نصیبی کا کیا ٹھکانہ، فارد کے پرنسپل معصومی صاحب کو ہدیہ کرنے کے لیے طواف کی نیت میں نے سالوں پہلے سے کر لی تھی آج کا پہلا طواف انھی کے نام معنون کیا۔ یہ ارادہ تو پہلے ہی کر لیا تھا کہ ہر طواف یا عمرے کی نیت میں سب سے پہلے حضور پاکﷺ کا نام ہونا چاہیے اور پھر ان کے ساتھ جتنے جی چاہے ان کے امتیوں کے نام شامل کرتے جائیے۔ جو لذت طواف میں ہے، وہ کسی اور عبادت میں نہیں۔
نمازِ ظہر کے بعد کھانے کے لیے نکلے، اس مرتبہ ایک بنگالی ہوٹل سے مٹن قورمہ لیا، کھانے کے بعد ارادہ کیا کہ آئندہ کسی اور کو آزمائیں گے۔ قصرِ جمعہ بنگالیوں کے محلے میں تھا اس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ اس ہوٹل کے سامنے کوئی بیس تیس گز جگہ ہو گی اور پھر ساتھ ہی راستہ شروع ہو جاتا تھا تو اتنی سی جگہ میں چار پان والے رات گئے تک ا پنے خوانچے لگائے بیٹھے رہتے تھے، ہر وقت ان کا ہنسی مذاق چلتا رہتا تھا، کئی مرتبہ جی چاہا کہ ان سے پان کا ایک سادہ انچ بھر کا ٹکڑا لے کر کھاؤں لیکن وہ تو پان کا پورا پتہ اس پر سارے مسالے ڈال کر پیش کیا کرتے تھے، رات گئے تک ان کے بچے اس مختصر سی جگہ پر فٹ بال کھیلا کرتے تھے، ایک روز فجر کی نماز کے لیے باہر نکلے تو بے شمار بچے، کھیل رہے تھے پوچھا، تم لوگ ساری رات جاگتے رہتے ہو گھر نہیں جاتے تو ایک بچے نے جواب دیا، ایک لڑکے کی شادی ہے، اس خوشی میں ہم ساری رات سے جاگ رہے ہیں۔
ہمیں مکہ پہنچے دو تین دن ہو چکے تھے۔ نمازِ فجر کے بعد ارادہ تھا کہ غارِ ۱ حرا ہو آئیں گے۔ نماز کے بعد باہر نکلے۔ دو ایک لوگوں سے بس کا پوچھا، ہر ایک نے اپنی سمجھ کے مطابق مشورہ د یا۔
’’ بس اِدھر سے نہیں اُدھر سے ملے گی۔ ‘‘
’’وین بابِ فہد کے سامنے سے ملے گی دو ریال میں پہنچا دے گی۔ ‘‘
آخر نتیجہ یہ نکلا کہ، مسجد عائشہ، مدینہ یا جدہ جانے کو تو سبھی تیار ہیں غارِ حرا کے لیے کوئی راضی نہیں، ہوٹل واپس آئے اور انتظامیہ سے کل کے لیے زیارتوں کے پروگرام کی بکنگ کرائی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ سب سے آخر میں جبل نور لے کر جاتے ہیں ہم نے سو چا کہ وہاں اتر جائیں گے اور واپسی پر ٹیکسی لے لیں گے۔
عشاء کے بعد حرم سے واپسی پر کھانے کا انتخاب بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے، اس مرتبہ ہم سبھی کو آزما رہے تھے۔ ایک رات ارادہ کیا کہ بنگالی ہوٹل سے انڈا رول لیتے ہیں، گرم توے پر دو انڈوں کا نمک مرچ، اور ہرا مسالا ڈا ل کر بنایا گیا ملغوبہ ڈالا جاتا ہے اور اس کے اوپر روٹی اور پھر ا س طرح چاروں طرف سے چوکور لپیٹ کر فرائی کیا جاتا ہے کہ کوئی رخ کچا نہ رہنے پائے، پھر توے سے اتار کر اس کے ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں اور پیک کر کے آپ کو تھما دیا جاتا ہے۔ ہم بغور ان تمام مراحل کا جائزہ لیتے تھے کہ شستہ لہجے میں السلام علیکم کی آواز نے متوجہ کیا، یہ وہی ماں، مستقبل کی ڈاکٹر بیٹی اور بھائی تھے، جو ابو ظہبی ائرپورٹ پر ہمارے ہمراہ تھے۔ پہلے عمرے کے دوران میں سعی کے اختتام پر بھی ان سے ملاقات ہوئی تھی۔
زیا راتِ مکہ کے گائیڈ ابو حماد عبد الغفار محمد مدنی
۲۳ اپریل کی صبح زیارات کے لیے روا نہ ہوئے۔ بس کی پہلی نشست ہمارے لیے مخصوص تھی۔ ہمارے گائیڈ ہمیں تمام مقامات کی اہمیت سے آگا ہ کر تے جاتے تھے۔ پرانا مکہ اور نیا مکہ، دونوں رخ ساتھ ساتھ دیکھتے تھے۔ سرخ اینٹوں سے بنے مکانات اور جدید طرز کے مکان اور سب سے بڑھ کر بلند و بالا فلیٹس، پھر کئی عالی شان عمارات اور ہوٹل، جن پر ترکی پرچم لہراتا تھا، معلوم ہوا کہ یہ حکومتِ ترکی نے اپنے حاجیوں کے لیے مختص کر رکھے ہیں۔ سنگلاخ چٹانیں اور پہاڑ ہر عمارت کے پیچھے سے اپنی جھلک دکھلاتے تھے۔ مقامی آبادی مجھے یہاں بھی کم ہی نظر آئی، تمام اہم مساجد بس میں بیٹھے بیٹھے ہی دکھا دی گئیں کہ یہ تمام، ظہر کی نماز کے وقت کھلیں گی۔
پچھلی مرتبہ نہرِ زبیدہ کی باقیات دیکھی تو ہوں گی لیکن ذہن کی سلیٹ اس بارے میں بالکل صاف تھی۔ اب بس میں بیٹھے بیٹھے اس کی بھی زیارت کی۔ ملکہ زبیدہ نے اہلِ مکہ اور حاجیوں کے لیے طائف کے چشموں سے نہر نکلوائی، شکستہ دیواریں ماہرینِ تعمیرات کی صدیوں قبل کی گئی فنکاری کی روداد کہتی ہیں۔
جبلِ رحمت پر بس روکی گئی۔ پچھلی مرتبہ ہم جبلِ رحمت پر گئے تھے تو ویگن دوسری طرف روکی گئی تھی اور ہم اسی طرف سے اوپر چڑھ گئے تھے۔ یہ خیال نہ کیا کہ ذرا سا چکر لگا لیں اور سیڑھیوں سے، آسانی کے ساتھ اوپر چلے جائیں۔ اب سامنے ۱۶۸ چوڑی سیڑھیاں تھیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اتابک زنگی کے ایک وزیر جمال الدین جاوید نے بنوا ئی ہیں۔ جبل رحمت کی کشادہ اور ہموار سطح پر نوافل پڑھے۔ کافی خلقت تھی، تسبیحات، اور نوادرات بیچنے والوں نے اپنی دکانیں سجا کر جگہ کو تنگ کر دیا ہے۔ آٹھ مربع میٹر بلند مربع سفید ستون دور سے نظر آتا ہے۔ مسجد نمرہ کا دیدار بھی دور سے ہی کرا یا گیا کہ یہ صرف حج کے دنوں میں کھولی جاتی ہے۔ جبل رحمت سے ڈیڑھ کلو میٹر دور نمرہ پہاڑی کی نسبت سے اس کا نام مسجدِ نمرہ مشہور ہوا، عرفہ کے روز آپ ﷺ نے اسی مقام پر ایک خیمے میں قیام فرمایا، وادی ء عرفہ میں مسلمانوں کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا جو خطبۂ حجۃ الوداع کے نام سے جانا گیا۔ نماز کی امامت فرمائی اور پھر دیر تک اپنی امت کی بخشش کے لیے دعا کرتے رہے۔ غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ روانہ ہوئے۔ وہ مقام کہ جہاں آپ نے نماز ادا کی تھی دوسری صدی ہجری میں وہاں مسجد تعمیر کر دی گئی، اب اس دو منزلہ مسجد میں، جسے مسجدِ ابراہیم بھی کہا جاتا ہے ساڑھے تین لاکھ نمازیوں سے زیادہ کی گنجائش ہے اور اس سے ملحقہ میدانِ عرفات میں تیس چالیس لاکھ فرزندانِ توحید مناسکِ حج ادا کرتے ہیں۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک ہال موجود ہے کہ جہاں سے دنیا بھر میں عرفہ کے روز خطبہ، نماز اور دیگر مناسک براہ راست نشر کیے جاتے ہیں۔ اس کے ارد گرد بے شمار فوارے نصب ہیں جو شدید گرمی میں زائرین کو اپنی ٹھنڈی پھوار سے احساسِ طمانیت بخشتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں حج کا رکن عظیم ادا کیا جاتا ہے۔ عرفہ کا قیام خواہ لمحہ بھر ہی کا کیوں نہ ہو، اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔
جبلِ ثور پر بس روکی گئی لیکن جبل ثور کے راستے سے کافی فاصلے پر۔ ایک چار دیواری تھی دور سے غارِ ثور کی زیارت کر وا دی گئی، جب لیڈر صاحب سے کہا گیا کہ بس راستے سے اتنی دور کیوں کھڑی کی گئی ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت اوپر جانا ممکن نہیں ہے، لیکن ہم قریب سے تو دیکھ لیتے، لیڈر صاحب عربی حکومت کے پروردہ تھے اور ان ہی کی زبان بولتے تھے اور شرک اور بدعت کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے تھے، ان کا کہنا تھا۔
’’ آپ کے لیے ضروری ہے کہ حرم میں وقت گزارا جائے، ان مقامات کی تو کوئی اہمیت نہیں ہے، کہیں سے ثابت نہیں ہے کہ یہاں عبادت کی جائے، نوافل ادا کیے جائیں۔ پھر یہاں آ کر کیوں وقت ضائع کیا جائے، ہمارے کچھ زائر مسجد علی تلاش کرتے رہتے ہیں اور حرم پاک کے بجائے وہا ں نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں تو ایسی صور ت میں کیا کیا جائے۔ ‘‘
بات ان کی بھی غلط نہ تھی اور ہم بھی درست تھے۔ ہم ان مقامات کی زیارت کو جاتے ہیں اور شکرانے کے نوافل اپنی اس توفیق پر اپنے رب کے حضور ادا کرتے ہیں۔ ہم کیسے مان لیں کہ غارِ حرا اور غارِ ثور کی اہمیت نہیں ہے ہمارے لیے تو یہ مقامات بھی متبرک و مقدس ہیں کہ جہاں حضور ﷺ کے قدم مبارک پڑے تھے جہاں ان کے پسینے کی مشک بو بوندیں گری تھیں۔ جبلِ نور پہ بھی ان کا یہی روّیہ رہا، اس وقت نو بج رہے تھے، شاہد نے کہا کہ ہم یہیں اتر جاتے ہیں۔ ہوٹل سے ہمارا یہی پروگرام تھا کہ جبلِ نور پر اتر جائیں گے، غارِ حرا تک جائیں گے اور ٹیکسی لے کر ظہر سے پہلے حرم پہنچ جائیں گے۔ معلوم ہوا کہ اس نے بس غارِ حرا کے راستے سے کافی دور روکی ہے۔ دھوپ بھی کافی تھی۔ میں نے فیصلہ شاہد پر چھوڑا، بس والے بھی یہی کہتے رہے کہ بہت مشکل چڑھائی ہے اور گرمی بھی کافی ہو گئی ہے۔ شاہد نے یہی سوچا کہ کسی دن فجر پڑھتے ہی خاموشی سے غارِ حرا کے لیے نکل آئیں گے، چنانچہ بس میں آ بیٹھے۔ ظہر سے بہت پہلے حرم پہنچ گئے۔ غارِ حرا تک جانے کا پروگرام پورا نہ ہو سکا تھا۔ اب نمازِ ظہر کے بعد عمرے کی نیت کی …
اس عمرے کی نیت میں نے تین چار سال پہلے اچانک ہی کر لی تھی۔ گروپ کیپٹن برادرم جناب مختار احمد کا فون آیا تھا۔ انھوں نے دو خوشخبریاں ایک ساتھ سنائی تھیں، ایک اپنی ترقی کی اور دوسری دانش سے متعلق، میرے منہ سے اسی لمحے نکلا تھا کہ جزا دینے والا تو اللہ ہے میں جب بھی موقع ملا ایک عمرے کا ہدیہ ضرور آپ کی خدمت میں پیش کروں گی، ا ن شا اللہ… اللہ کی رضا سے وہ اور ہمارے دوسرے محسن، انور صاحب دوسرے سال ہی حج پر چلے گئے۔ دو سال پہلے طاہر حج پر گیا تو میں نے کہا میری باری نہ جانے کب آئے گی مجھے مختار صاحب کو عمرے کا ہدیہ دینا ہے میری طرف سے تم یہ کام کر آؤ۔ زندگی کا کوئی بھروسا بھی تو نہیں ہے۔ میں بہت سی باتیں، ایسی کرتی رہتی ہوں جن کے متعلق شاید علمائے کرام کچھ اعتراض کریں، لیکن میرا دل اسے تسلیم کرتا ہے تو میں کر گزرتی ہوں … یہی بات کہ زندہ لوگوں کے لیے طواف اور عمرہ نہیں کیا جا سکتا… لیکن جب ہم ان کے لیے دعا کر سکتے ہیں تو انھیں عمرے یا طواف کی خوشبو سے مہکتے پھول کیوں نہیں پیش کر سکتے۔
احرام تھا مے ہم بس سٹاپ کی طرف آئے، اتفاق سے مسجدِ عائشہ جانے والی بس تیار کھڑی تھی۔ بیس منٹوں میں مسجدِ عائشہ پہنچے، احرام و نوافل کی ادائگی کے بعد باہر نکلے تو وین والے صدائیں لگا کر زائرین کو متوجہ ہی نہ کرتے تھے بلکہ زبر دستی بھی کرتے تھے، ہم وین میں بیٹھے ہی تھے کہ کنڈیکٹر دو بزرگوں کو گھیرے ہوئے لا رہا تھا، خاتون نے اسے کہا کہ یہ وہیل چیئر بھی اندر رکھنی ہے تو وہ آگ بگولا ہو گیا کہ اندر جگہ نہیں ہے، اسے کہا کہ چھت کے اوپر رکھوا دو تو اس نے انتہائی بے رخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ خود ہی رکھو، اب وہ صاحب جو کسی یونی ورسٹی کے ریٹائر ڈ پرو فیسر معلوم ہوتے تھے اور وہیل چیئر استعمال کرتے تھے، ان کے لیے اسے ویگن کی چھت پر رکھنا کتنا مشکل تھا۔ آخر مسافروں کی مدد سے ہی رکھوائی اور بعد ازاں اتروائی بھی۔ حرمِ پاک پہنچے۔ حسبِ معمول کافی بھیڑ تھی، خصوصاً سعی کا مرحلہ اتنا آسان نہیں ہوتا، ایک دو چکروں کے بعد اوپر وا لی منزل میں چلے جاتے ہیں تو نسبتاً ہجوم کا گرمی کا اور گھٹن کا احساس کم ہو جاتا ہے۔ ہم جب بھی حیرت کا اظہار کرتے کہ عمرے کے موقع پر اتنی بھیڑ تو ہمیں بتایا جاتا کہ آپ کی خوش قسمتی سے اب تو لوگ آدھے رہ گئے ہیں، یہاں سعودیہ میں سکول کالج کی دس روز کے لیے چھٹیاں تھیں، تو سبھی یہاں آئے ہوئے تھے، تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ اسلام آباد میں ٹی وی پر میں یہ مناظر دیکھ چکی تھی۔
جمعرات کا سورج طلوع ہوا۔ نمازِ فجر کے بعد ساڑھے پانچ بجے سے ساڑھے آٹھ بجے تک پانچ طواف کیے، ان کا ثواب جاوید بھائی، ثروت باجی، حمید بھائی، صبیحہ باجی، خالد، مدیحہ، سہیل، شکیل، ندیم عالی اور ان کے بیوی بچوں کو ہدیہ کیا۔ نمازِ فجر کے فوراً بعد جو طواف کیا جاتا ہے اس میں عموماً چالیس منٹ لگ جاتے ہیں، چوتھے طواف کے بعد صفائی والی ٹیم آتی دکھائی دی، میں نے ان کے سربراہ سے درخواست کی کہ میں بھی حجرِاسود کو بوسہ دینا چاہتی ہوں، کہنے لگے حجرِ اسود کے قریب جا کر کھڑی ہو جائیں، میں وہاں جا کر کھڑی ہوئی لیکن وہ ٹیم ابھی نہیں پہنچی۔ خیال آیا کہ اتنی دیر میں تو میں پانچویں طواف کے ایک دو شوط ہی لگا لیتی، یہ سوچ کر میں نے حجرِ اسود کی سیدھ میں جا کر استلام کیا، طواف کی نیت کی اور ابھی ایک چکر ہی لگایا تھا کہ میں نے دیکھا صفائی والی ٹیم نے حجرِ اسود کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ میں تیزی سے گھیرے کے قریب پہنچی، انھی صاحب کو تلاش کیا، انھوں نے کہا کہ آپ کہاں چلی گئی تھیں۔ میں آپ کو دیکھتا رہا، آپ نظر ہی نہیں آئیں، میں نے کہا کہ رسی ذرا ڈھیلی کریں اور مجھے بھی اس حلقے میں شامل کر لیں۔ کہنے لگے کہ اب یہ ممکن نہیں، لیکن جس طرح وہ کہہ رہے تھے، مجھے محسوس ہو تا تھا کہ میرا کام بن جائے گا، ہماری یہ گفتگو، قریب ہی کھڑے ان کے انچارج سن رہے تھے، انھوں نے اشارہ کیا کہ اسے بھی گھیرے میں شامل کر لو۔ پھر دو تین شرطیاں بھی قریب کھڑی تھیں، انھوں نے بھی مدد کی میں بغیر کسی مشکل کے حجر اسود تک پہنچ گئی انتہائی سکون کے ساتھ تین مرتبہ بوسہ دیا اور باہر نکل آئی۔ حج کے موقع پر بھی یہ سعادت نصیب ہوئی تھی لیکن اب کے جو اطمینان و سکون کے ساتھ یہ مرحلہ طے ہوا، پچھلی مرتبہ ایسا نہ ہوا تھا، میں ایک بوسہ دیتے ہی بہت تیزی کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔
خانۂ کعبہ میں اصل ازدحام تو جمعرات کے روز ہوتا ہے۔ ظہر کے بعد سے ہی دور و نزدیک کے زائر عمرے کی سعادت حاصل کرنے یکے بعد دیگرے آتے رہتے ہیں اور آتے ہی چلے جاتے ہیں، اب خانۂ کعبہ میں نماز کے لیے جگہ تلاش کرنا آسان نہیں …
میں نیچے تہ خانے میں عصر کی نماز کے لیے اتری ہوں، ابھی نماز میں کچھ وقت ہے، ایک خاتون اپنے پانچ بچوں کے ساتھ موجود ہیں، جن میں سب سے بڑی بیٹی کی عمر کوئی نو دس برس ہو گی، بچے سیڑھیوں سے اترتے اور چڑھتے کھیل میں مشغول ہیں۔ کبھی کبھی دور بھی نکل جاتے ہیں۔ بڑی بیٹی ڈھونڈ کر لاتی ہے، سب سے چھوٹا بیٹا دو سال کا ہو گا، اس کے ہاتھ میں کالے ربن نما کوئی دو ڈھائی گز لمبی دھجی بندھی ہے، اس بچی نے تنگ آ کر اسے ماں کی ٹانگ کے ساتھ باندھ دیا، اب ماں کی گفتگو سننے کے قابل ہے، ’’اے ہے تو اسے گھوڑا سمجھتی ہے، اس بے چا رے کو کیوں باندھ دیا، ‘‘ ماں نے بچے کو کھولا، پیار سے گود میں لٹایا اتنے میں جماعت کھڑی ہو گئی۔ اب ماں نے اسی دھجی سے بچے کو اپنے بازو سے باندھا اور نماز کی نیت کر لی۔
وہاں بے شمار ایسے لوگ آتے ہیں جن کے ساتھ دو چار، دو مہینے سے لے کر دس بارہ پندرہ سال کے بچے ہوتے ہیں، میں ہمیشہ خوف ردہ رہتی ہوں کہ ادھر ماں نے نماز کی نیت کی ادھر پیچھے سے بچہ، گھٹنوں یا قدم قدم چلنا شروع کر دے۔ ان چار رکعتوں میں تو وہ کہیں کا کہیں پہنچ جائے گا، کیا ایسا کبھی نہیں ہوا، کیا بچے ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ سوال تو پیدا نہیں ہوتا کہ پہلے ماں بچے کو سنبھالے اور باپ نماز پڑھ لے اور بعد میں ماں پڑھ لے، کیونکہ سبھی با جماعت نماز ادا کر نا چاہتے ہیں۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں نے ایسا کوئی شور نہ سنا کہ کبھی کوئی بچہ کھو گیا ہو، یہ البتہ ہوتا ہے کہ میاں اور بیوی الگ الگ نماز پڑھ رہے تھے جب مسجد سے نکلنے لگے تو ایک دوسرے کی تلاش میں کافی وقت صرف ہوا۔
فجر کی نماز کے بعد گھر آ گئے تھے کچھ دیر آرام کیا پھر ناشتے کے بعد حرمِ پاک کے لیے روانہ ہوئے۔ میری نگاہ میں طواف کے لیے بہترین وقت یہی ہوتا ہے جبکہ شاہد کا یہ خیال ہے کہ طواف کے لیے کسی مخصوص وقت کے متعلق رائے نہیں دی جا سکتی کہ اس وقت آسانی سے ہو جائے گا، کچھ خبر نہیں کہ آپ خالی مطاف دیکھ کر اتریں اور دوسرے ہی شوط میں کوئی انڈونیشی، ترکی یا سوڈانی گروہ آ جائے تو کیا آپ گھبرا جائیں گے، آپ سکون سے طواف مکمل کریں گے کہ ان کا حق بھی اتنا ہی ہے جتنا آپ کا۔ حسبِ توفیق طواف کیے۔ مطاف سے باہر کی طرف آرہے تھے کہ ایک صاحب نے سات دانوں والی تسبیح عطا کی، ظہر کی نماز ادا کی، کھانے کے لیے حرم سے نکلے، اب کے ایک اور پاکستانی ہوٹل سے کہ جس سے پچھلی مرتبہ کبھی کبھی کھانا لیا کرتے تھے وہاں گئے۔ عصر سے پہلے حرمِ پاک پہنچے اور رات گئے تک وہیں رہے، ازدحام میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے حرم کی پہلی منزل میں نماز کی ادائگی آسان نہیں، اگر آپ بالکل اذان کے وقت طواف سے فارغ ہو کر یا گھر سے آرہے ہیں، تو جگہ ملنی مشکل ہے۔ خواتین کے لیے مقامات مخصوص کر دیے گئے ہیں، میں اکثر طواف کے بعد نماز کے لیے مطاف سے باہر نکلتی، تو شرطیاں مجھے دھکیلتی کہاں سے کہاں پہنچا دیتیں، میں واپس آ کر شاہد کو بتاتی کہ میں کون سے کونے میں پہنچا دی گئی تھی تو ہمیشہ یہی کہتے کہ اگر یہاں ایسے انتظامات نہ کیے جائیں تو کیا ہنگامی کیفیت ہو، وہ جو کچھ کر رہی ہیں ہماری سہولت کے لیے ہی کر رہی ہیں، خواتین والے حصے میں اتنی بھیڑ ہوتی کہ اکثر سکون سے سجدہ بھی نہ کیا جا سکتا، اس کا حل یہ نکالا کہ جیسے ہی طواف سے فارغ ہوتے شاہد اوپر ہال میں ہی نماز ادا کرتے اور میں نیچے تہ خانے میں چلی جاتی۔ جہاں نسبتاً کم بھیڑ ہوتی اور ٹھنڈک بھی کافی ہوتی۔
ا گلے روز نمازِ فجر کے بعد ناشتے کے لیے گھر آئے، شاہد کم سے کم سامان رکھنے کے قائل ہیں، جب میں نے سامان میں گلاس رکھے تو انھوں نے کہا کہ وہاں سے سب کچھ مل جاتا ہے، گلاس نکال دو، میں نے کہا کہ نہیں ان کی کہیں بھی ضرورت پڑسکتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے میرا گلاس نکال دو، اب جب ناشتہ کر کے برتن اٹھانے لگے تو وہ اکلوتا گلاس میرے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا، شاہد نے کرچیاں سمیٹ دیں لیکن کوئی ایک انتہائی باریک کرچی ان کے پاؤں میں چبھ گئی، اب وہ مجھے کہتے ہیں کہ اسے نکال دو اور مجھے نظر نہیں آتی، خود انھوں نے بھی کوشش کی لیکن بری طرح محسوس ہوتی تھی، دکھائی نہ دیتی تھی، بلکہ سوئی سے کھرچ کھرچ کر پاؤں کو اور اذیت دے لی تھی لیکن شاہد کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے، کوئی بات نہیں اگر شیشہ پاؤں میں پیوست ہے، حرمِِ پاک تو جانا ہے، گئے بھی اور حسبِ توفیق طواف بھی کیے۔ نمازِ ظہر کے بعد کھانے کے لیے باہر نکلے، حج کے موقع پر جس پاکستانی ہوٹل سے کھانا کھاتے تھے، اس کے متعلق بڑ ی اچھی یادیں تھیں، اس مرتبہ ہماری رہائش اس راستے پر نہ تھی دوسرے وہاں اتنی اکھاڑ پچھاڑ ہو چکی تھی کہ ہر مقام نے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا تھا، بلند و بالا عمارتوں کی جگہ بلڈوزر چلتے ہوئے نظر آئے، ہمیں وہ پاکستانی ہوٹل دو ایک روز پہلے زیارتوں پر جاتے ہوئے، بس کی کھڑکی سے دکھائی دیا تھا، اب ہم اس کی جانب چلتے تھے اور پھر ہم وہاں پہنچ چکے تھے، تمام چہرے ناآشنا تھے، کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے کو بتایا کہ ہم سات سال پہلے یہیں کھانا کھایا کرتے تھے آج دوبارہ آئے ہیں، اس نے بہت اچھی طرح خوش آمدید کہا، ایک نوجوان لڑکا جو شا ید ہوٹل کا مالک تھا اس نے بھی بڑی دلچسپی سے ہماری بات سنی، ہم نے مٹر قیمے کا آرڈر دیا، پیسے ہمیں ایک الگ کاؤنٹر پر دینے تھے اور وہیں سے روٹی ملنی تھی۔ وہاں گئے شاہد نے پیسے دیے۔ روٹی لیتے ہوئے میں نے کہا کہ چار روٹیاں دے رہے ہیں، کہنے لگے، کیوں چار کیوں تین روٹیاں ملتی ہیں میں نے کہا کہ پہلے تو آپ کہا کرتے تھے حاجی صاحب فکر ہی نہ کرو جتنی روٹی چاہیے، منگواتے جاؤ، وہ صاحب تو غصے میں آ گئے جی ایسا کبھی اس ہوٹل میں نہیں ہوا، خیر میں تو فوراً خاموش ہو گئی۔ بقایا کے انتظار میں کھڑے تھے کہ اوپر کی منزل سے ایک گاہک کھانا کھا کر تشریف لائے اور بل پوچھا، انھوں نے کھانے کے حساب سے بل بتا دیا اور ساتھ ہی کہا آپ نے کیا پانی نہیں پیا تھا، انھوں نے اثبات میں جواب دیا تو کہنے لگے حاجی صاحب ایک ریال اور نکالیں، انھوں نے ریال نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا کہ اب کیا آپ پانی کے پیسے بھی لیں گے، ان صاحب نے جواب دیا، تو کیا چھوڑ دوں گا، گلے سے نکلوا لوں گا۔
پچھلی مر تبہ اس ہوٹل کے بارے میں میرا جتنا خوبصورت تصور قائم ہوا تھا، سب چکنا چور ہو گیا اور آئندہ کے لیے ارادہ کیا کہ اس ہوٹل میں نہیں جائیں گے۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ شخص سات سال پہلے اسی ہوٹل میں ویٹر تھا اور آئیے حاجی صاحب، کچھ اور چاہیے حاجی صاحب کی گردان کرتا رہتا تھا، لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ لب و لہجہ سبھی کچھ بدل چکا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ہمارے پاکستانی بھائی اپنے روّیے سے، اپنے کام میں دیانت داری اور خلوص سے اپنی شناخت کروائیں۔
بے مزا ہو کر رہائش گاہ پہنچے کھانے کا بھی کچھ مزا نہ آیا۔ عصر سے کافی پہلے حرم جانے کے لیے نیچے اترے۔ کاؤنٹر پر موجود شاہد صاحب سے، شاہد نے پوچھا۔
’’ آپ گذشتہ کئی سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں، آپ کو یہاں کے خاص خاص مقامات کا علم ہو گا۔ ‘‘ انھوں نے دیگر مقامات کے علاوہ کسویٰ کعبہ، مکہ میوزیم کا بطور خاص ذکر کیا کہ دیکھنے والی جگہ ہے۔ ٹیکسی سے جانا ہو گا، پچیس تیس ریال لے گا اور آپ ایک ایسی جگہ سے ہو کر آئیں کہ جہاں آپ کو چودہ سو سال پہلے کی اشیا بھی محفوظ ملیں گی، حضور پاک جس کٹورے میں پانی پیا کرتے تھے اور آپ ﷺ کے استعمال کی دیگر اشیا، پھر بیت القرآن میں قرآ نِ پاک کے قدیم ترین مختلف خطوں میں لکھے نسخے، مخطوطات، خطاطی کے اعلیٰ نمونے، تلواریں اور دیگر اوزار و ہتھیار۔ غرض الحیات میوزیم جا کر آپ اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار سے باآسانی آگاہی حاصل کر سکتے ہیں، الحیات دو منزلوں اور دس ہالوں پر مشتمل ہے۔ اس مقام پر کچھ لوگ تو گھنٹا بھر میں ہی واپس آ جاتے ہیں، لیکن آپ کے لیے، وہاں کا ایک ایک منظر قابل مطالعہ ہو گا۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ اس کا انتظام کیوں نہیں کرتے کہ آپ کے ہاں جو لوگ مقیم ہیں، ان کے لیے وین کا بندو بست کیا جائے اور سب لوگ وہاں سے ہو آئیں، اس سال میری دوست فریدہ پراچہ، حج پر آئی تھیں تو انھیں ان کی ٹور کمپنی نے اس میوزیم کی زیارت بھی کروائی تھی۔ شاہد نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ بعد میں کہنے لگے جس ٹور کمپنی کا تم ذکر کر رہی تھیں، تمھیں معلوم ہے نا عابد پراچہ نے کتنی ادائگی کی تھی۔
اب کسویٰ میوزیم دیکھنا بھی ہمارے پروگرام میں شامل ہو گیا، کہ جہاں غلافِ کعبہ نے کتنے روپ بدلے، کس زمانے میں کون سا غلاف کس حکمران نے بھجوایا، سبھی تاریخی حوالے موجود تھے، حضرت عمر کے دور میں پہلی مرتبہ پرانے غلافِ کعبہ کو ٹکڑوں میں منقسم کیا گیا، اور اسے وہاں آئے ہوئے حاجیوں میں تقسیم کیا جنھوں نے اسے ا پنے سروں پر چھتری کی طرح رکھ کر شدید دھوپ سے نجات حاصل کر لی۔
غارِ حرا، خارِ رہ کو ترے ہم، مہر گیا کہتے ہیں
دن پر لگا کر اڑتے جا رہے تھے۔ اگلے روز نمازِ فجر کے لیے نکلے تو یہ ارادہ کر چکے تھے کہ آج ہمیں غارِ حرا کی زیارت کے لیے نکلنا ہے، رات سیخ کباب اور نان لے کر رکھ لیے تھے، وہ تھیلے میں ڈالے، ساتھ ہی انگور اور جو س کی بڑی بوتل رکھ لی اور شاہد اپنے اسی پاؤں کے ساتھ کہ جہاں شیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا تھا، چل کھڑے ہوئے۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی حرمِ پاک کے بابِ فہد سے باہر نکلے، سڑ ک پر بے شما ر ویگنیں اور ٹیکسیاں جدہ، مسجدِ عائشہ اور مدینہ کے لیے تیار کھڑی تھیں۔ کچھ تگ و دو کے بعد ہم بھی ایک ٹیکسی ڈرائیور کو جبلِ نور، غارِ حرا لے جانے کے لیے رضا مند کر چکے تھے، اب اس کی کوشش یہ تھی کہ کوئی اور جوڑا مل جائے یا کم از کم ایک فر دہی سہی۔ آخر اس کی آزرو پوری ہوئی اسے ایک نفر ملا جس نے اسی راستے میں کسی چوک پر اتر جانا تھا۔ ہم چھ بجے غارِ حرا کے دامن میں پہنچ چکے تھے۔ کئی ایک دکانیں نظر آئیں کہ جہاں پانی، مشروبات و ماکولات اور چھڑیاں فروخت ہو رہی تھیں، میں نے شاہد سے کہا کہ ایک واکنگ سٹک لے لیتے ہیں، کیا پتہ اوپر جاتے ہوئے یاد آئے کہ لے لینی چاہیے تھی، شاہد کا جواب مجھے معلوم تھا۔
’’کیا ضرورت ہے فالتو بوجھ اٹھانے کی۔ ‘‘
’’ ہوسکتا ہے کہ اوپر جاتے یا نیچے آتے ہوئے اس کی ضرورت پڑ جائے۔ ‘‘
’’میرا خیال ہے کہ ضرورت نہیں پڑے گی۔ ‘‘
ایک، دو، تین دکانیں گزر گئیں۔ شاہد کا ارادہ نہیں تھا واکنگ سٹک لینے کا، اب تو دکانیں بھی ختم ہو گئی ہیں اور ایک بات میرے ذہن میں اٹکی ہوئی ہے۔ ذرا سا اور آگے گئے تو ایک ٹرکش گرو ہ نظر آیا جو سستانے کی نیت سے ذرا دیر کو ٹھہر گیا تھا۔ ایک کافی صحت مند خاتون جو زمین پر بیٹھی سانس درست کرتی تھیں، کے قریب مجھے وہ چھڑی نظر آئی، سلام دعا کے بعد میں نے چھڑی کی طرف اشارہ کیا انھوں نے کہا لے لو، میں نے تین ریال ان کی نذر کیے جو انھوں نے نہایت خوش دلی سے لیے اور میں نے چھڑی اٹھا لی اور تشکر ایدرم کہتے ہوئے اپنی راہ لی۔ شاہد مجھے کہنے لگے۔
’’ تم جانتی تھیں کہ اس کی قیمت پانچ ریال ہے پھر تم نے انھیں تین کیوں دیے۔ ‘‘
’’ اس لیے کہ وہ استعمال کر چکی تھیں اور ان کی نیت مجھے مفت دینے کی تھی جو مجھے اچھا معلوم نہ ہوتا اس لیے میں نے تین ریال دے دیے۔ ‘‘
شاہد میری سودا بازی کے قائل ہوئے، اب ہم نے اللہ کا نام لے کر چڑھنا شروع کیا۔ وقت دیکھا ٹھیک ساڑھے چھ ہوئے تھے۔
’’ غار حرا کی چڑھائی بہت خطر ناک ہے، راستہ تو بالکل نہیں ہے، لوگوں کی آمد و رفت سے کچھ پگڈنڈیاں سی بن گئی ہیں، اگر آپ کا پاؤں ذرا سے پھسلے تو آپ گہری کھائی میں گر سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘
غارِ حرا کی چڑھائی کے متعلق بہت باتیں سن رکھی تھیں، لیکن جب ابتدا کی تو کچھ محسوس نہ ہوا، سوائے اس کے کہ قدموں تلے ریت پھسلتی تھی، جب آپ اونچائی پر قدم رکھتے ہیں یا سیڑھیاں چڑھتے ہیں تو اس وقت اللہ اکبر کا ورد مسنون ہے، چونکہ سٹک کی عادت نہ تھی اور ضرورت بھی نہ پڑی اس لیے اسے ہاتھوں میں اٹھا کر چلتی تھی اور شاہد سے کہہ بھی نہیں سکتی تھے کہ اسے آپ پکڑ لیں، یوں ایک اضافی بوجھ کے ہمراہ اوپر جاتی تھی۔ ہاں شاہد کے ساتھ ساتھ ایک اور نہ تھکنے والا ننھا منا ساتھی تھا جو پہلے قدم سے ہی ان کے ہمراہ تھا، شاہد اس سے باتیں کرتے چلتے تھے۔
ابھی ہم نے سفر کا آغاز ہی کیا ہو گا کہ اوپر سے ترک خواتین و حضرات مختلف ٹولیوں میں انتہائی خوش اترتے دکھائی دیے۔ وہ یقیناً رات سے یہاں تھے کیونکہ ہم نمازِ فجر ادا کرتے ہی نکل آئے تھے اور غارِ حرا پہنچنے والے غالباً ہم ہی سب سے پہلے تھے، تو وہ رات کو آئے ہوں گے، رات بھر انھوں نے حضور کی مہک محسوس کی ہو گی۔ وہ اپنی زندگی کی کتاب میں ایک انمول باب تحریر کرتے اترتے تھے اور ہمیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور پاکستانی، پاکستانی کا نعرہ بلند کر تے تھے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ تہجد کے وقت یہاں آئے ہوں کہ اکثر ترکیوں سے یہی سنا تھا کہ وہ رات کے پچھلے پہر غارِ حرا جاتے ہیں اور ہجوم کے پہنچنے سے پہلے غارِ حرا میں نوافل ادا کرتے ہیں، ترک عہدِ حکومت کی یاد گار مسجد میں کہ اب جس کا صحن ہی باقی رہ گیا ہے نمازِ فجر ادا کر تے ہیں اور اشراق پڑھ کر اتر آتے ہیں۔ ابھی چار قدم اور چلے ہوں گے کہ ایک ترک باشندہ تیزی سے اترتا دکھائی دیا، ہمیں دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور نہایت ہی اہانت بھرے لہجے میں کہنے لگا۔
’’ پاکستانی… پاکستانی اور ہندوستانی ہی اوپر جاتے ہیں، اوپر کیا ہے، صرف ایک غار، حرم میں جاؤ یہاں کیوں آتے ہو۔‘‘
ایک اور ترکی بھائی قریب سے گزرے، کہنے لگے، وہابی ہے اس کی باتوں کا برا نہ ماننا۔
میرے ذہن میں صرف یہ خیال آ رہا تھا کہ پھر وہ خود وہاں کیا کرنے گیا تھا۔ وجودیت پر یقین رکھنے والوں کا نظریہ یاد آیا کہ، اللہ کی ذات کے منکر ہوتے ہیں، ہر اچھے برے عمل کی ذمہ داری خود اٹھاتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ہم اپنی ہستی کا فیصلہ اور اپنے کاموں کا تعین خود کرتے ہیں اس لیے بے چارگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا …ان وجودیوں کا خیال تھا کہ یہ روّیہ ان میں خود اعتمادی بھر دے گا لیکن ہوا یہ کہ وہ ایک بڑے روحانی سہارے سے محروم ہو کر انتہائی بے بسی اور مایوسی کا شکار ہوئے۔ ہم اللہ سے کوئی بھی دعا مانگتے ہیں تو اول و آخر حضورِ پاکﷺ پر درود بھیجتے ہیں کہ ہمارا ایمان ہے کہ اس کے بغیر دعا زمین و آسمان کے در میا ن معلق رہے گی اور یہ جدید دنیا کے باسی، نئے نئے عقیدے اور نظریے تراشنے والے……
بھئی میں کس موقع پرکس سوچ میں پڑ گئی، خود کو سر زنش کی۔ اللہ اکبر اللہ اکبر، ہم بغیر تھکے چلتے جاتے تھے۔
آدھا سفر طے کیا ہو گا، اب ہمارے قدموں تلے شکستہ سیڑھیاں تھیں جن کی تعداد تین یا چار تھی، وہاں ایک پاکستانی بھائی ریت، سیمنٹ اور تیسی کانڈی لیے بیٹھے تھے جو گذشتہ تین یا پانچ سات برسوں سے انھی ایک دو سیڑھیوں کو بنانے میں مصروف تھے اور جن کے متعلق ہر غارِ حرا جانے والے سے بے شمار کہانیاں سن چکے تھے، ان تین چار سیڑھیوں کے بعد پھر پہاڑی رستہ، دو چار منٹ کی چڑھائی کے بعد پھر دو تین شکستہ سیڑھیاں اور پاکستانی بھائی اپنے سازو سامان سمیت اور غارِ حرا پہنچنے تک ایسے پانچ سات اور بھائیوں سے ملاقات ہوئی، ہم گرد و پیش کا نظارہ بھی کرتے جاتے تھے، حضور پاکﷺ کی ہمت و شجاعت کو سلام بھی پیش کرتے تھے اور چڑھتے چلے جاتے تھے، شاہد اپنے ساتھی کے ساتھ چلتے جا رہے تھے، اب ہمیں کچھ اور لوگ بھی غارِ حرا کے اس سفر میں آتے دکھائی دینے لگے تھے جن میں تین پاکستانی حضرات بھی تھے اور خوش تھے کہ اور پاکستانی بھی اس سفر میں شریک ہیں۔ ہمیں پتا بھی نہ چلا اور ہم غارِ حرا پہنچ چکے تھے کہ وہاں ایک چھپر ہوٹل کی شکستہ دیوار پر یہی نام لکھا تھا، اب ہمیں نسبتاً تنگ دس پندرہ سیڑھیاں اترنا تھیں، ابھی چند قدم ہی اترے ہوں گے کہ ہمیں غارِ حرا کا مختصر صحن نظر آنے لگا، دروازے پر منتظر لوگ موجود تھے۔ سیڑھیاں اترنے کے بعد اب ہمارے سامنے بڑی بڑی چٹانیں موجود تھیں جو ہمارا راستہ رو کتی تھیں، ان چٹانی پتھروں کے درمیان بالشت بھر یا ایک فٹ جگہ ہو گی اور وہ بھی اس مقام پر کہ جہاں ایک انسان کی کمر یا پیٹ ہوتا ہے۔ میں نے اس مقام سے گزرنے کی کوشش کی، شاہد ایک اور جگہ سے جانا چاہ رہے تھے، مجھے محسوس ہوا کہ میرا اس تنگ مقام سے جانا ممکن نہیں، کیوں نہ میں بھی وہاں سے گزر نے کی کوشش کروں جہاں شاہد ہیں، یہ سوچ کر میں پیچھے ہوئی اور پھر نہ جانے کیا خیال آیا کہ اسی جگہ سے نکلنے کی کوشش تو کی جائے اور میں نے دیکھا کہ میں انتہائی سہولت کے ساتھ وہاں سے نکل آئی اور پھر ایک بہت صحت مند ترک بھائی جو راستہ تلاش کرتے تھے انھیں بھی اشارہ کیا کہ یہیں سے آ جائیں اور وہ بھی آسانی کے ساتھ اس ۶۰ سنٹی میٹر جگہ سے نکل آئے، شاہد نے بھی اسی مختصر سرنگ کو پار کیا۔ اب غارِ حرا ہمارے سامنے تھا اور ہم اس کے …… مختصر صحن میں اور اپنی باری کا انتظار کرتے تھے، شاہد سب کو جوس پیش کرتے تھے اور میں لائن میں لگ چکی تھی اور غار کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتی تھی، میرے آگے ایک فربہ اندام ترک صاحب اپنی وسیع و عریض بیگم کو اپنے حصار میں لیے کھڑے تھے اس لیے اندر کا منظر کم کم دکھائی دیتا تھا، کچھ ہی دیر بعد میرے پیچھے ایک پاکستانی خاتون آ کھڑی ہوئیں جس سے مجھے امید بندھی کہ شاید باری آ جائے، انھوں نے اس ترک مرد کو عورتوں کی قطار میں کھڑے ہونے پر سرزنش کی، جو اس نے سنی ان سنی کر دی، اصولاً تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ایک دفعہ مرد اور ایک مرتبہ خاتون اندر جا کر دونوافل ادا کر تے، لیکن جب مجھ سے پچھلی خاتون نے معاملہ یہ دیکھا کہ خواتین کی باری تو آ ہی نہیں رہی تو انھوں نے مجھے پیچھے کیا اور تیزی سے اس جگہ پر کہ جہاں کوئی اور صاحب نماز کے لیے کھڑا ہو نا چاہتے تھے۔ پہنچ کر نیت باندھ لی اب میں اس فکر میں تھی کہ جیسے ہی وہ وہاں سے ہٹیں گی میں کھڑی ہو جاؤں گی، لیکن ایک اور صاحب تیز نکلے، غارِ حرا میں ایک فرد باآسانی نماز ادا کر سکتا ہے کہ اگر دوسرا ادا کرنا چاہے تو غار میں ہی چار پانچ انچ اونچی جگہ ہے کہ جہاں دوسرافرد بیٹھ کر نماز ادا کر سکتا ہے، ان دونوں ترک میاں بیوی نے اسی طرح نماز پڑھی تھی…ابھی وہ صاحب نماز سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ میں نے اپنا مصلیٰ سامنے رکھ دیا اور جیسے ہی وہ اٹھے، میں نے ا سی تہ شدہ جانماز پر دو نفل نماز کی نیت کر لی۔ میں جانتی تھی کہ اندر مجھے نیت کرنے کا موقع نہ ملے گا، میں نے باہر ہی کھڑے ہو کر دو نفل برائے ایصالِ ثواب، صلوۃ اشراق، حاجت، توبہ، شکرانہ، مغفرت سبھی کی نیت ایک ساتھ کر لی تھی، اب میں نہایت سکون کے ساتھ نفل پڑھتی تھی، ایسے جیسے میں اپنے گھر میں ہوں اور ایک ایسے گھر میں کہ جہاں کوئی فون کی گھنٹی یا کوئی اور آواز میرے ارتکاز میں خلل نہیں ڈال رہی۔ نماز سے فراغت کے بعد میں نے تیزی سے غار کا جائزہ لیا سامنے ایک فٹ لمبی درز نظر آتی تھی، مستنصر حسین تارڑ نے یقیناً اسی درز کے بارے میں لکھا تھا کہ یہاں سے خانۂ کعبہ کا ایک مینار نظر آتا ہے، مجھے بھی دیکھنا چاہیے، لیکن میرے غارِ حرا سے نکلنے کے منتظر لوگ… نہیں مجھے اب جگہ خالی کرنی ہے اور میں خانۂ کعبہ کو دیکھنے کی حسرت لیے باہر نکل آئی اور بہت آسانی سے نکل آئی کہ میرا رخ مردوں کی قطار کی طرف ہو گیا تھا اور انھوں نے فوراً جگہ بنا دی، ایک دو منٹوں کے بعد مجھے شاہد بھی نظر آ گئے اور وہ پاکستانی حضرات بھی جو ہمارے ساتھ ساتھ ہی پہنچے تھے اور اب غار کی چھت سے اترتے تھے، مجھے باہر دیکھ کر کہنے لگے، بہت بھیڑ تھی ہم تو چھت پر نفل پڑھ آئے ہیں کہ یہاں تو باری ملنا بہت مشکل ہے، میں نے بتایا کہ میں تو دو نفل ادا کر آئی ہوں تو بہت خوش ہوئے کہ پاکستان کے لیے تو وہاں دعا ہو گئی اور ہم سب اس میں شامل ہیں۔ اب شاہد مجھے چھت پر لے کر چلے ان کا ننھا ساتھی ہمراہ تھا۔ اوپر پہنچ کر انھوں نے کہا آؤ میں تمھیں ایک منظر دکھاؤں اور انھوں نے دور بہت دور اشارہ کیا، خانۂ کعبہ میری نگاہوں کے سامنے تھا اس کا حجم بالکل اتنا ہی معلوم ہو رہا تھا جتنا میرے مہمان خانے میں طاق پر دھرے حرمِ پاک کے نمونے کا تھا۔ میں نے شاہد سے کہا کہ میری بڑی خواہش تھی کہ میں اس درز سے خانۂ کعبہ کا دیدار کروں لیکن لوگوں کے ڈر سے ایسا نہ کیا تو اللہ نے میری یہ خواہش بھی پوری کی۔
سطح سمندر سے۲۸۱ میٹر بلند غارِ حرا کی چھت پر سکون سے نوافل ادا کیے۔ آپ میلوں دور ہوں اور پھر بھی کعبہ آپ کے سامنے ہو تو اسے سوائے اس کی عطا کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ اب ہم اس منڈیر پر بیٹھے تھے۔ جو اس مختصر مسجد کی باقیات میں سے تھی کہ جسے ترکوں کے عہد میں تعمیر کیا گیا تھا اور بعد ازاں مسمار کر دیا گیا تھا کہ عرب حکمرانوں کے نزدیک اس مقام کی کوئی شرعی اہمیت نہ تھی۔ لوگ حرم چھوڑ کر خواہ مخواہ ادھر کا رخ کرتے تھے، اوپر کے صحن میں ہم نے اور بے شمار عاشقانِ رسول نے نوافل ادا کیے۔ ہم نے جوس کا گھونٹ بھرا، وہ پیارا سا ساتھی اب ہمارے بالکل قریب تھا، شاہد کہنے لگے اسے تمھارے سیخ کبابوں کی مہک نے پریشان کیا ہوا ہے … یہ بلی بھی حرمِ پاک و مدینہ منورہ خصوصاً غارِ ۱ حرا کی یادگار تصاویر کا اہم حصہ ہے۔ کعبے کے کبوتروں کی اہمیت اپنی جگہ، ابو ہریرہ کی یادگار بلیاں بھی بے شمار ہیں۔
شاہد بتانے لگے کہ جب میں اوپر غار کی چھت پر آگیا تو ہمارے پاکستانی بھائی بھی غار پر ہجوم دیکھ کر میرے ساتھ ہی اوپر آ گئے تھے، مجھے کہنے لگے۔
’’ آپ اوپر کیوں آ گئے ہیں، آپ کو ان کی مدد کے لیے نیچے ہی رہنا چاہیے تھا۔ ‘‘
میں نے انھیں جواب دیا۔
’’ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس کی کون مدد کر رہا ہے۔ ‘‘
میں نے کہا۔
’’ ہاں جب میں نے انھیں بتایا تھا کہ میں تو بہت سکون سے دو نفل ادا کر آئی ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے تھے۔ ‘‘
شاہد کا ارادہ غارِ حرا میں نفل پڑھنے کا نہ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں خود میں اتنی جرا ت نہیں پاتا تھا۔ مسجدِ نبوی میں آپﷺ کی امامت کی جگہ جب صدیقِ اکبر جیسا جانشین کھڑا ہونے کی جرات نہ کر سکا اور انھوں نے مصلیٰ رسول ﷺ کی تعظیم و تکریم برقرار رکھنے کے لیے صرف اس مقام کو چھوڑ کر کہ جہاں آپ کے قد مین مبارک ہوا کرتے تھے، باقی جگہ دیوار چنوا دی یو ں اب کوئی محراب نبوی پر نماز کی سعادت حاصل کرتا ہے تو اس کا سجدہ آپ کے قدموں کی جگہ ہوتا ہے۔
تو شاہد نے ارد گرد کے مقامات پر نوافل ادا کیے، صرف غار حرا کی زیارت پر اکتفا کیا میں نے سوچا کہ حضور پاک ﷺ بھی تمام وقت غار میں ہی تو عبادت نہ کرتے ہوں گے کبھی باہر بھی آ کر یادِ الٰہی میں مصروف ہوتے ہوں گے تو شاہد صاحب اگر ہم نے حضور پاک کی جائے سجدہ پر سجدے کیے ہیں تو آپ بھی انھی پتھروں پر نماز ادا کرتے رہے ہیں، جہاں حضور کے قدم پہنچے ہوں گے، جہاں ان کی جبیں خالقِ حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہوئی ہو گی۔
رسول حق کے قدموں میں مکاں بھی لا مکاں بھی ہے
چمن بھی، دشت و در بھی ہیں، زمیں بھی آسماں بھی ہے
… اختر ہوشیار پوری
شاہد کی نماز میں زیادہ ارتکاز، زیادہ یکسوئی، زیادہ خلوص ہوتا ہے، میں، جس نے غارِ حرا میں نماز ادا کی، میں اپنی شکستہ نماز کو بھی قبولیت کے درجے پر دیکھنے کی متمنی ہوں۔
آٹھ بجے ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ اترائی میں پاؤں زیادہ جما کر رکھنا پڑتا تھا، واکنگ سٹک غیر ضروری شے ہی معلوم ہو رہی تھی کہ اگر کبھی اسے زمین پر رکھنے کی کوشش کرتی تو ایسے لگتا کہ ریت اس کے نیچے سے پھسل رہی ہے، پہلے اسے جماؤں پھر قدم جماؤں، ا س سے بہتر ہے کہ میں اسے اوپر اٹھا لوں اور آرام سے اترتی چلی جاؤں۔ تیس منٹ میں ہم نیچے تھے۔ حرم جانے کے لیے ٹیکسی لی اور پونے نو بجے اس نے ہمیں بابِ فہد کے قریب اتار دیا۔ تعمیرات کا کام زور شور سے جاری ہے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ٹیکسی والے سے بابِ فہد کے بجائے اپنے ہوٹل کے قریب اترنے کا طے کرتے، کیونکہ مجھے لگ رہا تھے کہ ہم غارِ حرا سے بابِ فہد تک بہت ہشاش بشاش تھے، لیکن اب گرمی، گرد اور فاصلہ اکتاہٹ پیدا کرتے تھے۔ پندرہ منٹ چلنے کے بعد ہم اپنے کمرے میں تھے اور حیران ہوتے تھے کہ تین گھنٹوں میں ہم اتنے سکون سے ہو بھی آئے۔ میں آج تک سوچتی ہوں کہ مجھے تو ایک قدم پر بھی احساس نہ ہوا کہ چڑھائی خطرناک ہے، نیچے دیکھیں تو ڈر لگتا ہے۔ گہری کھائیاں ہیں، پاؤں پھسلے تو بندے کا پتہ نہ چلے۔ مجھے تو ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہ آیا کہ ہم کوئی مشکل کام کر رہے ہیں۔ ا ب غارِ حرا کو، نمازِ مغرب کے وقت براہ راست ٹی وی پر دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا کہ واقعی چڑھائی تو بہت خطرناک محسوس ہو رہی ہے۔
نمازِ ظہر کے لیے حرمِ پاک گئے اور عشاء کے بعد واپسی ہوئی۔ شاہد را ت ذکر کر رہے تھے کہ حج کے موقع پر شاید ہجوم کی بنا پر گلا پکڑا جاتا ہے، کھانسی زکام بہت ستاتا ہے، اس مرتبہ ہر چند کہ کافی ہجوم ہے، سارے مرحلے آسانی سے طے ہو رہے ہیں اور جب صبح جاگے تو کھانسی کے ساتھ ساتھ بخار بھی تھا۔ نمازِ فجر کے بعد حرم سے واپس آ گئے۔ ناشتے کے بعد بخار کے لیے گولی کھانے کی کوشش کی تو وہ سانس کی نالی میں چلی گئی جس سے تکلیف بڑھ گئی، مجھے بار بار خیال آتا رہا کہ اگر حرم پاک میں آپ کوئی نیکی کرتے ہیں تو اس کا سات سو گنا ثواب ملتا ہے اور اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کا بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے۔ کچھ دیر آرام کیا پھر ظہر سے بہت پہلے حرم پہنچ گئے اور طواف میں مشغول ہو گئے۔ وہاں خدام سے جناب ٹکا خان کے متعلق دریافت کیا، وہی ٹکا خان جن کی مدد سے حج کے موقع پر ہم نے حجرِِ اسود کو بوسہ دیا تھا، معلوم ہوا کہ ان کی ریٹائر منٹ کو گیارہ روز ہوئے ہیں اور اب وہ پاکستان روانہ ہو چکے ہیں۔
دنیا کتنی مختصر ہے، حمیرا کی دوست ’’ دسترس میں آسمان‘‘ پڑھنے کے لیے لے گئی۔ جب کتاب واپس کی تو کہنے لگی، ٹکا خان ہمارے قریبی عزیز ہیں، کہوٹہ سے تعلق ہے، ریٹائر ہونے والے ہیں۔ حمید بھائی نے کتاب پڑھی تو کہا، اس میں جن رنگ الہٰی صاحب کا ذکر ہے وہ چاچا جی یعنی میرے ابا جی کے دوست ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ عام نام نہیں ہے۔ انھوں نے منسٹری آف فوڈ اینڈ ایگری کلچر سے رابطہ کیا اور ان کا فون نمبر اور گھر کا پتا لے لیا۔ ظاہر ہے انھیں بھی ریٹائر ہوئے عرصہ ہو گیا تھا۔ حمید بھائی نے ان سے رابطہ کیا تو بہت خوش ہوئے اور پھر ایک شام میں، شاہد اور حمید بھائی ان کے گھر ’’ دسترس میں آسمان ‘‘ لے کر حاضر ہوئے۔ دیر تک اباجی کی باتیں کرتے رہے۔ حج کے بعد ایف پی ایس سی سے سلیکشن ہونے کے بعد میں ماڈل کالج سے ایف جی انتظامیہ میں آ گئی۔ اسی طرح کیمسٹری میں، حمیرا جبیں ماڈل سیٹ اپ سے ایف جی میں آ گئیں اور ہم دونوں کی تقرری ایف۔ جی کالج، ایف سیون میں ہو گئی، دونوں چونکہ نئے تھے، مضامین کے اختلاف کے باوجود اچھی دوستی ہو گئی۔ ایک دن وہ کتاب پڑھنے کے لیے لے گئی۔ دوسرے دن کہنے لگی، امی نے پوری پڑھ لی ان کی بھی وہی فلائیٹ تھی۔ جس میں آپ گئے تھے اور محلہ اور بلڈنگ بھی وہی تھی، وہ کہتی ہیں کہ میں قرۃالعین سے ضرور ملوں گی، ہو سکتا ہے کہ ہم نے وہاں ایک دوسرے کو آتے جاتے دیکھا ہو۔
مکہ میں قصر جمعہ اور ہوٹل اشواق کی جانب سے گائیڈ کے فرائض انجام دینے کی ذمہ داری ابو حماد عبد الغفار، مدنی کی ہے، یہ وہی گائیڈ ہیں کہ جن کے ساتھ ہم مکہ کے اہم مقامات کی زیارت کو گئے تھے اور نظریاتی اختلاف کے باعث کچھ بحث و تکرار بھی ہوئی تھی۔ انھوں نے ’’دسترس میں آسمان‘‘ پڑھی، اسلوب کی تعریف کی لیکن جن باتوں سے ہمیں امید تھی کہ ان کا اختلاف کرنا لازمی ہے، اس پر بات کرتے رہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ موجودہ شاہ کی تصویر چوراہے ہوں یا ٹی وی، اس کا نمایاں ہونا ضروری ہے، عربی خبریں دیکھیں، جتنی مرتبہ شا ہ کا نام آئے گا اتنی مرتبہ، شاہ کے تمام القاب و آداب کے ساتھ آئے گا لیکن جو ہمارے اکابرینِ اسلام گزر چکے ہیں، ان کی کوئی نشانی باقی نہیں، ہم تاج محل کی حفاظت کر سکتے ہیں، لیکن ہماری امہات المومنین کہاں کہاں آرام فرما ہیں، ہم نہیں جانتے، اس بات کا احساس شورش کاشمیری ہوں یا کوئی عام مسلمان سبھی کو شدت سے ہے۔
قصرِ جمعہ کے ریسپشنسٹ شاہد صاحب بھی بہت دھیان رکھتے تھے۔ انھیں جو نئی کتاب ملتی، فوراً شاہد صاحب کو دیتے، چنانچہ کئی دعاؤں کی کتابیں اور دیگر اسلامی موضوعات پر برو شر اور کتب ہمیں ملتی رہتی تھیں۔ سعودیہ آنے سے چند ایک روز پہلے میں کالج میں نبیلہ سے تھوڑی دیر کے لیے ’’تاریخ مدینہ ‘‘ لینا چاہتی تھی۔ انھوں نے مجھے دی بھی لیکن میں اپنی مصروفیت کے سبب دیکھ نہ پا ئی اور انھیں واپس کر دی۔ آج شاہد کمرے میں آئے تو ان کے ہاتھ میں وہی کتاب تھی۔ اللہ آپ کی تمام آرزوؤں سے آگاہ ہے۔ شاہد نے مد ینہ جانے سے پیشتر ہی اس کتاب کا غائر مطالعہ کر لیا تھا، میرے لیے یہ تسلی ہی کافی تھی کہ کتاب موجود ہے، جب موقع ملے گا پڑھ لوں گی۔
ہمارے میزبان ضیا الرحمٰن اور ان کے بیٹے عتیق نے جس طرح حقِ میز بانی عطا کیا وہ انھی کا حصہ ہے، نمازِ فجر کے بعد ناشتے کے لیے ہوٹل آئے، عتیق آئے اور اطلاع دی کہ دبئی سے آپ کا ویزا آگیا ہے، عتیق کا خالی ہاتھ آنا ممکن نہیں، کیلے اور سیب ہمراہ تھے کہ ابو نے بھجوائے ہیں، اس مرتبہ ہمیں جوسز اور پھل بازار سے کم ہی لینے پڑے کہ یہ ذمہ داری، ضیا صاحب نے سنبھالی ہوئی ہے۔
پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
میرا دل چاہتا تھا کہ تقریباً ہر روز ایک عمرہ کیا جائے لیکن شاہد طواف کی اہمیت کے پیشِ نظر زیادہ سے زیادہ طواف کرنا چاہتے تھے۔ پھر بھی میں عمرہ کی فرمائش کر دیتی تھی ہر چند کہ اس مرتبہ مجھے بھی سعی کچھ اتنی آسان معلوم نہ ہوتی تھی۔ ایک تو تعمیراتی کام کے سبب، مجھے ایسے لگتا تھا کہ صفا تک پہنچنے اور پھر مروہ سے واپس مطاف تک آنے میں ایک چکر زائد لگانا پڑ جاتا تھا، بھیڑ بھی کافی ہوتی تھی، لیکن میں پھر بھی عمرہ کرنا چاہتی تھی کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ پے بہ پے حج و عمرے کرتے رہو، طواف کے متعلق بھی میری یہی خواہش تھی کہ صرف نماز کے لیے یہ سلسلہ رکے ورنہ طواف کرتے ہی چلے جائیں، لیکن وہ بھی ممکن نہ ہوا کہ کبھی نماز سے کافی پہلے ہی شرطے شور مچا دیتے کہ نماز کا وقت ہونے والا ہے، زنانہ باہر آ جائیں۔ کبھی خیال ر ہتا کہ نماز میں آدھ گھنٹا ہے ایک طواف کیا جا سکتا ہے، شرطے شاہد کو تو جانے دیتے اور مجھے روک لیتے کہ نسا نہیں، نماز کا وقت ہو رہا ہے، کبھی ہجوم سے گھبرا کر پہلی منزل پر چلے جاتے کہ خواتین کے لیے نماز کی جگہ ملنا کافی مشکل ہے یا تو وہ نماز سے گھنٹا بھر پہلے ہی خواتین کے لیے بنائے گئے گوشے میں پہنچ جائیں۔ عین وقت پر پہنچیں تو شرطیاں دھکیل دھکیل کر دور دراز مقام تک لے جاتی ہیں اور جب جگہ ملتی ہے تو وہاں سجدہ کرنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی، تو اس تکلیف دہ صورت حال سے بچنے کے لیے طواف کے بعد یا ہوٹل سے آتے ہوئے اوپر چلے جاتے، ہوٹل سے آتے ہوئے اوپر جاتے تو ایسکلیٹر استعمال کرتے لیکن جب طواف کے بعد اوپر جانا ہوتا تو شاہد سیڑھیوں سے ہی لے جاتے میں شور مچا تی ر ہ جاتی، لیکن وہ کہتے کہ جتنی دیر میں ہم باہر جا کر ایسکلیٹر تک پہنچیں گے، ہم سیڑھیوں سے ہی چلے جاتے ہیں، ایک مرتبہ ہم اوپر جا رہے تھے کہ ایک نیلے رنگ کا چھوٹا سا بیگ، جس میں سے اینٹی بائیوٹک گولیوں کے پتے جھانکتے تھے، سیڑھیوں پر موجود پایا، یہی خیال کیا کہ اس کا مالک نماز یا طواف کے لیے گیا ہو گا اور ابھی تک واپس نہیں آیا، عصر کی نماز کے بعد طواف کے لیے اترے تو وہ بیگ بالکل اسی صورت میں موجود تھا عشاء تک آتے جاتے دیکھتے رہے، پتا نہیں اس کا مالک کیوں واپس نہ آیا۔ دوسرے دن بھی یہی صورتِ حال رہی، پریشانی ہوئی کہ بیگ اپنی جگہ سے ہلا ہوا بھی نہ ہوتا تھا اسی طرح ادویات جھانکتی تھیں، تیسرا دن بھی گزر گیا۔ شاہد بے چین ہونے لگے تھے، صفائی والی ٹیم تو ہر وقت آتی جاتی رہتی ہے، انھیں بھی کیوں یہ احساس نہیں ہو رہا کہ ایک بندہ موجود نہیں ہے، وہ اس کی اطلاع انتظامیہ کو کیوں نہیں دیتے، ارد گرد سے صفائی کر کے چلے جاتے ہیں، میرا ذہن بھی کئی کہانیاں بننے لگ گیا تھا، وہ کون ہے، کہاں کا ہے، کب آیا تھا… کیا اسے یہاں کا عمومی مرض کھانسی زکام تھا یا خدا ناخواستہ کوئی شدید بیماری تھی… کیا اسے اسپتال جانا پڑ گیا تھا … کیا وہ وہاں سے ہی اپنے کام پر چلا گیا… اللہ کرے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو خیریت سے ہو، ہم اس کا کھلا ہوا بیگ دیکھتے ہیں تو کوئی کارکن کیوں نہیں اس کے متعلق معلومات کے لیے اسے اٹھا کر دیکھتا، یقیناً کوئی نہ کوئی نشان تو مل ہی جاتا۔ چوتھے روز وہ بیگ موجود نہ تھا، شکر کا سانس لیا کہ اس کا مالک آ کر لے گیا ہو گا، لیکن جب طواف کے لیے مطاف جانے کے لیے سیڑھیاں اترے تو وہی بیگ دیوار پر رکھا نظر آیا۔ کئی کہانیوں کا انجام معلوم نہیں ہو پاتا، ادھورا ہی رہتا ہے کبھی قاری کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ میں اس کا انجام خوشی و مسرت سے لبریز دیکھنا چاہتی ہوں، خواہ شواہد کوئی اور رخ ہی کیوں نہ دکھاتے ہوں۔
ایک عمرہ اور …
بات ہو رہی تھی عمرے اور طواف کی۔ میں نے نمازِ فجر کے بعد ہی شاہد سے فرمائش کر دی تھی کہ آج عمرہ کریں گے، ان کا جواب اثبات میں تھا، میں کون سا روز عمرے کے لیے کہہ رہی تھی، ہم عمرہ نمازِ ظہر کے فوراً بعد کیا کر تے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ عصر سے پہلے عمرے کے تمام مراحل طے کر لیے جائیں۔ نماز پڑھ کر باہر نکلے، وین اور بس دونوں کا کرایہ دو ریال ہوتا ہے، شاہد بس کو پسند کرتے ہیں کہ گھٹن کا احساس نہیں ہوتا، اتفاق سے ہمیں بس مل گئی اور ہم مسجدِ عائشہ پہنچے۔
یہ مسجد شمال کی جانب، شاہراہِ مدینہ پر حرمِ کعبہ سے ساڑھے سات کلو میٹر دور ہے، لیکن حدودِ حرم میں سب سے قریب حدِ حرم یہی ہے۔ حضرت عائشہ نے اس جگہ احرام کی نیت کی تھی۔ بعد میں محمد علی شافع نے یہاں مسجد تعمیر کرا دی۔ عصرِ موجود میں ۸۴۵۰۰ مربع میٹر پر قائم اس مسجد میں پندرہ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔
مسجدِ عائشہ اتنی پرسکون جگہ پر ہے کہ یہاں رہ جانے کو جی چاہتا ہے لیکن جب بھی عمرے کے لیے آتے ہیں تو اتنی تیزی سے کہ گرد و پیش میں دیکھنے کا ہوش ہی نہیں ہوتا، ایک عبادت گاہ کو کیسا ہونا چاہیے اس کا جواب دینا بے حد مشکل ہے، حرم پاک، مسجدِ نبوی، بیت المقدس، مسجد قرطبہ، مسجدِ ابو ایوب انصاری ترکی، مسجد قبا، میرا خیال ہے کہ کتاب تمام ہو جائے لیکن مساجد کو شمار نہ کیا جا سکے، تو مجھے مسجدِ عائشہ اور مسجدِ قبا اپنے دل کے بہت قریب محسوس ہوتی ہیں، ہاں جب میں حضرت سلیمان علیہ السلام پر کام کر رہی تھی اور بیت المقدس والے باب پر پہنچی تو میرا بس نہ چلتا تھا کہ میں لکھنا چھوڑوں اور بیت المقدس دیکھ کر آؤں، بیت المقدس مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے یکساں متبرک مقام ہو گا لیکن جو حق مسلمانو ں کا ہے وہ کسی اور کا نہیں ہوسکتا اور مسلمان اپنے تمام حقوق، دوسروں کو دیتے آئے ہیں اور کبھی اپنا حق چھیننے کی کوشش بھی کی ہے تو ناقص حکمتِ عملی کے سبب ناکام رہے ہیں۔ کیا میری زندگی میں کبھی ایسا ہو سکے گا کہ قبلۂ اول یہودیوں کے بجائے مسلمانوں کی تحویل میں ہو، صرف مرحوم قدرت اللہ شہاب جیسے رتبے اور عہدے کا مالک ہی نہیں، کوئی عام مسلمان بھی وہاں جانا چاہے تو جا سکے۔
ایک سو عمرے
مسجدِعائشہ میں احرام و عمرہ کی نیت کے نوافل ادا کیے، اس مرتبہ نچلی منزل ہی میں موقع ملتا رہا، ممکن ہے کہ حج کے دنوں میں ہی اوپر والی منزل کھولی جاتی ہو، مسجد سے باہر آئی شاہد ابھی مسجد کے اندر ہی تھے مجھے پیاس لگ رہی تھی۔ سامنے ہی نلکوں کی قطار دکھائی دی، پانی پیا تو آبِ خنک نے جسم و جاں میں تازگی کی ایک لہر دوڑا دی، شاہد آئے تو میں اصرار کرتی رہی یہ پانی ضرور پیئیں۔ کہنے لگے مجھے پیاس نہیں، میں نے کہا کہ پھر بھی پی لیں، واقعی وہ پانی آبِ زم زم سے قطع نظر کسی بھی مشروب سے زیادہ طاقت و طمانیت دینے والا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ وہاں بھی آبِ زم زم ہی ہو۔
میں نے سنا تھا کہ جعرانہ کی مسجد کا پانی اپنی شیرینی میں ضرب المثل ہے۔ جعرانہ مکہ سے ۲۴ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں قائم مسجد سے عمرے کا احرام باندھتے ہیں اور بس یا ٹیکسی ڈرائیور چھوٹا عمرہ، مسجدِ عائشہ کے لیے اور بڑا عمرہ مسجدِ جعرانہ کے لیے اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، چھوٹے، بڑے میں فرق صرف فاصلے کا ہے، ثواب کا نہیں۔
شاہد کو بس کھڑی نظر آئی تو اس کی جانب چلے میں نے کہا کہ وہ خالی نظر آ رہی ہے، اس کے بھرنے میں نہ جانے کتنی دیر لگے گی، وین سے ہی چلتے ہیں، لیکن شاہد بس تک پہنچ چکے تھے اس کا ڈرائیور درخت کے نیچے بیٹھا تھا اور کہتا تھا کہ آپ چل کر بیٹھیں بس چلنے ہی والی ہے، مجھے تقریباً خالی بس میں بیٹھنے میں تامل تھا، ایک صاحب نے بس سے سر نکال کر کہا آ جائیے، اس بس کا وقت مقرر ہے، بے شک کتنی ہی خالی کیوں نہ ہو، یہ ٹھیک اب سے تین منٹ بعد چل دے گی۔ ان کی یقین دہانی پر ہم بس میں آ گئے۔ وہ ہمارے برابر والی سیٹ پر آ بیٹھے، گفتگو کے شوقین بھی تھے اور بات کرنے کا ڈھنگ بھی جانتے تھے، کہنے لگے:
’’ میرا تعلق کراچی سے ہے، سال میں دو تین چکر لگا لیتا ہوں۔ اس مرتبہ مجھے آئے ہوئے دسواں دن ہے۔ میں روز کے پانچ عمرے کرتا ہوں، ایک فجر کے بعد، دو ظہر سے پہلے ایک عصر کے بعد اور ایک عشاء کے بعد، ہر عمرے میں لگ بھگ دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یہ میرا اڑتالیسواں عمرہ ہے۔ حدیث شریف ہے کہ جو شخص امت کی بخشش کی نیت سے سو عمرے کرے تو بارگاہ رب العزت میں امت محمدیہ کی بخشش کے لیے اس کی دعا شرف قبولیت پاتی ہے۔ میں اسی نیت سے عمرے کر رہا ہوں، ان شاء اللہ میں سو عمرے کر کے اس میں کامیاب ہوں گا۔ میں نے یہاں آتے ہی بس کا پاس بنوا لیا تھا جس کے مجھے سو ریال دینے پڑے، یہ ایک ماہ تک کار آمد ہے، میں دن میں پانچ عمرے کرتا ہوں یعنی دس چکر، روز کے بیس ر یال۔ وہ مجھے بہت مہنگا پڑتا، اب میں آرام سے ان بسوں میں سفر کرتا ہوں، سبھی مجھے جانتے ہیں۔ ‘‘
میں ان کی باتیں سن کر حیران ہوتی تھی اور شاہد کی طرف دیکھتی تھی کہ میں تو صرف دس عمروں کی نیت کر کے آئی تھی اور انھوں نے کہہ دیا تھا کہ طواف پر توجہ دیں گے کہ عمرے میں وقت اور مشقت زیادہ ہے جب کہ طواف کی فضیلت زیادہ ہے۔
میں اس درمیانی جسامت اور درمیانی عمر کے انسان کے جذبے سے متاثر تھی اور اسے اللہ کا کرم گردانتی تھی کہ وہ جسے چاہے، جس کام پر لگا دے، ان کا نام پوچھا۔
’’ میرا نام محمد دلنواز ہے، ماں باپ نے کلمہ سکھایا تھا لاالہ الاللہ محمدرسول اللہ… یہاں آ کر سیکھا …لاالہ الاللہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم … اس کی ایک تسبیح روزانہ پڑھ لیا کریں، دیکھیں کیسے سارے مسئلے حل ہوتے ہیں۔ اب تک میں ایک ہزار سے زائد عمرے کر چکا ہوں۔ ‘‘
شاہد نے پوچھا آپ کی رہائش کہاں ہے۔ کہنے لگے۔
’’میرا سارا وقت حرم میں ہی گزرتا ہے، ا یک جوڑا اور ایک احرام ہے، جو ایک شاپر میں رکھا رہتا ہے، میرا کل اثاثہ اسی پاؤچ میں ہے جو میری کمر کے گرد بندھا ہے، حرم کے سبھی خدا م مجھ سے واقف ہیں، رات میں جو وقت ملتا ہے وہیں گزار لیتا ہوں، د ن میں تو نماز و عمرے سے کھانا کھانے کی فراغت مل جائے تو بہت ہے۔ ‘‘
ہم سے پچھلی نشست پر ایک ماں بیٹی بیٹھی ہماری باتیں غور سے سنتی تھیں، انھوں نے بھی عمرے سے متعلق چند سوال پوچھے۔
بے شک بعد میں سننے والوں نے کہا کہ ایسے عمروں کا کیا فائدہ جو صرف بھاگ دو ڑ پر ہی مشتمل ہو، ایک عمرہ کر کے آئے اور دوسرے کی فکر میں لگ گئے۔ تو اس کا جواب یہی ہے کہ اللہ نیتیں دیکھتا ہے، کیا پتا ہماری ساری عبادتیں اور ریاضتیں آخر میں صرف کھوکھلے الفاظ اور ورزشیں ہی رہ جائیں۔ تو کیا یہ سوچ کر ہم اس میں کمی کر دیں یا ترک ہی کر دیں۔ اللہ سے ہمیشہ نیک گمان رکھنا چاہیے اور ہمیں اپنے گمان کے مطابق ہی صلہ ملتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ دلنواز صاحب کی کاوش کو ان کی عظیم نیت کے مطابق شرف قبولیت بخشے اور اس سے ساری ملت مسلمہ کو ان کے گمان کے مطابق فائدہ پہنچے۔
ہم طواف وسعی کے درمیان انھیں دیکھتے رہے لیکن وہ کہیں نظر نہ آئے، ظاہر ہے انھوں نے سارے مرحلے تیزی سے نبٹائے ہوں گے۔ ہم تو سچی بات ہے کہ ایک عمرے کے بعد ہی سمجھتے ہیں کہ آج بہت بڑا کام کیا۔ بیس اپریل کو ہم پہنچے تھے اور آج اس ماہ کے اختتام تک ہم نے صرف تین عمرے کیے ہیں۔ شاہد کا گلا خراب، کھانسی بخار ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ میں جو کچھ دنوں سے سوچ رہی تھی کہ میرے تجربے اور مشاہدے میں آیا ہے کہ مرد حضرات کی نسبت خواتین میں عمرہ کرنے کی زیادہ خواہش، شوق لگن اور ہمت و حوصلہ ہوتا ہے۔ اس کا جواب دل نواز سے ملاقات میں مل چکا تھا کہ ایسا نہیں ہے، لیکن میں دیکھتی تھی کہ عمرے کی طرف عورتوں کا رجحان زیادہ ہے۔ چند سال پہلے میری دوست انیسہ مظفر عمرہ کرنے گئی تھیں، وہ بتا رہی تھیں کہ میں نے تو نو دس عمرے کیے، تمھارے بھائی صاحب تو دو چار عمروں کے بعد ہی بس ہو گئے۔ لیکن مجھے عمرے کے احرام کے لیے روزانہ مسجدِ عائشہ لے جاتے رہے۔ مسجدِ عائشہ سے واپسی پر کئی ممالک کے زائر احرام میں ملبوس ہوتے اور یہ اپنے عام لباس میں، تو وہ حیران ہو کر پوچھتے کہ آپ نے احرام کیوں نہیں باندھا۔ یہ بھی اشاروں میں جواب دیتے کہ میری بیوی کو عمرے کا شوق ہے، اس کی وجہ سے آیا ہوں تو جواب سن کر کبھی وہ ہنسنے لگتے اور کبھی افسوس کرنے لگتے۔ اسلام آباد آ کر حج اور عمرے کے سفرنامے پڑھتی رہی تو بھی یہی نتیجہ اخذ کیا کہ عورتوں کو زیادہ شوق ہے۔ ایسا ہی ایک سفر نامہ پڑھا تو اس میں مصنفہ اکیلے ہی مسجد عائشہ جاتیں اور تمام مناسک اکیلے ہی ادا کرتیں اور بہت خوش تھیں۔ میں سوچتی رہی، مجھے کیوں یہ بات نہ سوجھی ؟ اچھا ہی ہوا، نہ مجھ میں ہمت تھی نہ شاہد جانے دیتے۔
سرحدِ ادراک سے آگے
لغوی معنوں میں ’’ معجزہ‘‘ وہ خرقِ عادت امر، جو جو صرف نبیوں یا خود اللہ تعالیٰ کی ذاتِ با صفات سے منسو ب ہو، لیکن ہم بلا تکلف، اسے ہر غیر معمولی بات پر منطبق کر لیتے ہیں۔
خانۂ کعبہ ہو یا حرمِ نبوی آپ وہاں کا قصد کرتے ہیں، قیام کرتے ہیں اور بار ہا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں کسی چیز کی خواہش ابھری، ابھی آپ اس بات کو اپنے ہونٹوں تک بھی نہیں لائے اور وہ پوری ہو گئی۔ پیاس لگی ہے اٹھنا چاہ رہے ہیں ابھی اٹھے نہیں اور کوئی آپ کو آب زم زم پکڑا گیا ہے۔ بھوک لگی ہے، خود بخود کھجور، پھل، برگر کچھ بھی آپ کے لیے حاضر ہو گیا ہے۔ تسبیح کھو گئی ہے۔ بالکل نئی تسبیح آپ کے لیے مہیا کر دی گئی ہے۔ ایسے چھو ٹے بڑے بے شمار واقعات رونما ہو کر آپ کو اللہ کی موجودگی کا ہر لمحے احساس دلاتے رہتے ہیں، نہ صرف موجودگی کا بلکہ اس کے احسان و اکرام کی بارش کا جو آپ پر برس رہی ہے، اس کا پتا دیتے ہیں۔ جب سے حج اور پھر عمرہ کیا ہے، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرا محدود حلقۂ احباب مزید مختصر ہوتا جا رہا ہے، لیکن جیسے ہی کسی کے حج یا عمرے سے واپسی کی خبر ملتی ہے، جی چاہتا ہے فوراً پہنچوں اور رودادِ سفرِ شوق سنوں۔ عشقِ جنوں خیز کی ایک داستان آپ بھی سنیے۔
کچھ خواہشیں دل میں جنم لیتی ہیں اور پوری ہو جاتی ہیں، کچھ جنم لینے سے پہلے ہی پوری ہو جاتی ہیں۔
اکنامکس افیر ڈویژن کے نذیر احمد نعیم کا ۲۰۰۷ء میں خدام الحجاج کے قافلے کا رکن ہو جانا، اس کے لیے کتنا اہم تھا کتنا دل خوش کن تھا، وہ کس قدر مسرور تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دیرینہ آرزو یوں پوری کی، اپنی قسمت پر ناز ہونا کسے کہتے ہیں، اسے اب معلوم ہوا۔ اہلِ خانہ ہی نہیں، اہلِ خاندان، اہلِ محلہ، دفتر کے ساتھی، سبھی نے مبارکبادوں کے ساتھ ساتھ، دعاؤں کے پھولوں سے بھی لاد دیا۔ کتنی تیاری … روحانی بھی اور مادی بھی… مکمل کر لی گئی لیکن اسے یہی احساس رہا کہ کسر رہ گئی ہے۔ ’’ ابھی تو مجھے قلب و نظر کے صدق و صفا کے کئی مراحل طے کرنے ہیں۔ ‘‘ بازار اور مسجد کے چکر ساتھ ساتھ لگ رہے ہیں … اب صرف دو روز باقی رہ گئے ہیں یہ وقت کاٹے نہیں کٹ رہا … یہ وقت کتنا تیز بھاگ رہا ہے۔ متضاد کیفیات … اور پھر
’’ نذیر ہمیں افسوس ہے تم نہیں جا سکتے۔ کسی اور کا بلاوا تھا … ہمیں اسے بھیجنا پڑ رہا ہے … ہماری مجبوری تم سمجھتے ہو نا … ہو سکتا ہے تمھارا بلاوا آئندہ برس ہو … ہمیں افسوس ہے …‘‘
دل پر کیا گزری اس کا ذکر لاحاصل …
آئندہ برس ایامِ حج اس کے لیے نوید لے کر آئے کہ اس مرتبہ تمھارا بلاوا ہے … نذیر کہتے ہیں کہ میں جو تمام سال اس پشیمانی میں رہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ اپنے گھر بلاتا، اپنا مہمان بناتا، میں وہاں جا کر سجدۂ شکر ادا کرتا، میں درِ حبیب ﷺ پر دستک دیتا، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ پر میرے سجدے کے نشان ثبت ہوتے، میں روضے کی جالیوں کے ساتھ لگا درود و سلام پڑھتا۔ میں دل میں چھپی ساری آرزوئیں ان کے سامنے بیان کر دیتا … اب میں اپنے دل سے پشیمانی کے تمام داغوں کو دھوتا تھا۔ اللہ کا کتنا کرم ہے مجھ پر، اس نے ا گلے برس ہی بلاوا بھیج دیا ہے۔ مختصر یہ کہ میں مکہ پہنچ گیا، گلے شکوے سبھی بھول گیا۔ یاد رہیں تو اس کی نعمتیں اور انعامات، اس کی کس کس نعمت کا شکر ادا کیا جائے اس کے لیے تو ایک عمر ناکافی ہے۔ مجھے طواف میں بہت لطف آتا تھا، سر جھکا کر تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے، آنکھوں سے لحظہ بہ لحظہ بڑھتی نمی کی دھند کو صاف کرتے ہوئے، اردو عربی میں دعائیں مانگتے ہوئے … جی چاہتا، لمحہ بھر کے لیے بھی میرے قدم نہ رکیں لیکن ذمہ داری کا احساس غالب رہتا۔ مجھے اللہ کے گھر حاجیوں کی خدمت کا خوش گوار فریضہ سونپا گیا ہے …ہم سو کے لگ بھگ لوگ تھے جو خدام الحجاج کے طور پر حاجیوں کے لیے سہولتیں فراہم کرنے میں مدد دے رہے تھے … میں جیسے ہی فارغ ہوتا طواف کے لیے حاضر ہو جاتا۔ ایک روز بھائی شفیق الرحمٰن کہنے لگے۔
’’ حجرِ اسود کو بوسہ دے لیا ہے۔ ‘‘
میں نے کہا۔
’’نہیں ابھی نصیب نہیں ہوا۔ وہاں اتنی بھیڑ ہے کہ ابھی سو چا نہیں جا سکتا۔ ‘‘
’’ایسی کیا بات ہے، آؤ میرے ساتھ۔ ‘‘
…اور واقعی انھیں کوئی ترکیب معلوم تھی، تھوڑی دیر بعد ہم اس سعادت سے بہرہ مند ہو چکے تھے۔ حجر اسود کو جیسے ہی بوسہ دے کر باہر کی طرف نکلے۔ نائیجیرین باشندوں کا ایک گروہ اتنا اچانک نمودار ہوا کہ سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا، میں گرتے گرتے بچا، اسی ہنگامے میں ایک پرس بھی میرے سامنے آ گرا۔ بمشکل تمام میں نے اسے اٹھایا کہ نہ جانے کس کا ہو گا اور ٹھوکروں سے نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔ پتا دیکھنے کی نیت سے پرس کھولا تو شناختی کارڈ پر ’’نوا نگر، انبالے‘‘ کا پتا درج تھا، جس سے اندازہ ہوا کہ کسی ہندوستانی کا پرس ہے۔ ابھی میں کارڈ دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ میرا پرس ہے۔ میں نے کہا کہ میں یہی دیکھ رہا تھا کہ کوئی نشانی ملے تو مالک کو پہنچاؤں۔ میں جان چکا تھا کہ ان کا تعلق ہندوستان سے ہے پھر بھی بات بڑھانے کی غرض سے پوچھا۔
’’ کیا آپ پاکستان سے آئے ہیں ؟‘‘
’’ نہیں میرا تعلق ہندوستان کے شہر انبالے سے ہے۔ ‘‘
ایک موہوم سی خواہش کے زیرِ اثر میں نے ان سے پوچھا۔
’’کیا آپ مجھے پندرہ منٹ دے سکتے ہیں۔ ‘‘
’’ کیوں نہیں۔ ‘‘
اور وہ مجھے اس جانب لے چلے جہاں ان کا پورا گروپ بیٹھا ہوا تھا، سلام دعا ہوئی، تعارف ہوا، ان کے والد، والدہ، بیگم صاحبہ اور چند دیگر اصحاب۔ مجھ سے پوچھا گیا آپ پاکستا ن کے کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ فی الحال تو میں اسلام آباد سے آیا ہوں ویسے، لاہور کے ایک قصبے چونیاں، جو اب تحصیل قصور میں شامل ہو گیا ہے، میں آبائی گھر ہے۔
ایک خاتون کہنے لگی تم چونیاں میں کسی کو جانتے ہو؟ میں نے کہا۔ ’’ باجی آپ کسی کا نام لیں۔ ‘‘
اس خاتون کی ساس کہنے لگیں۔
’’ کیا تم چونیاں کے ایک ایک بندے کو جانتے ہو جو یہ کہہ رہے ہو کہ کسی کا نام لیں۔ ‘‘
میں نے کہا کہ آپ نام تو لیں۔ بہو نے نام لینے شروع کیے۔
’’ بشیر احمد… جنت بی بی … عبد العزیز…‘‘
میں نے اب خاتون سے پوچھا۔ ’’باجی آپ کا کیا نام ہے ؟‘‘
’’سلیمن‘‘
میں نے کہا ’’ اگر آپ برا نہ منائیں تو جو نام آپ نے لیے ہیں وہ ایک مرتبہ پھر دہرا دیں۔ ‘‘
انھوں نے وہ سارے نام دہرا دیے۔ ساس صاحبہ کہنے لگیں۔
’’ بھئی چائے کی طلب ہو رہی ہے۔ ‘‘
میں نے شفیق بھائی کو بھیجا کہ چائے لے آئیں۔ چائے آئی اور وہ سب پینے لگے … اسی دوران میں، میں ذرا اٹھ کھڑا ہوا، اسلام آباد گھر فون کیا اور بیگم سے پوچھا کہ اباجی جس باجی کا ذکر کرتے رہتے تھے، ان کا نام کیا ہے۔ بیگم نے نام بتا دیا، اب میں نے لاہور بھائی کو فون ملایا اور یہی سوال دہرایا، کہنے لگے یار بہن تمھاری بھی ہے اور نام مجھ سے پوچھتے ہو۔ بہرحال نام سن کر میں نے فون بند کر دیا وہ پوچھتے ہی رہ گئے کہ کیا ماجرا ہے؟ … جب کہ میرے اندر جو بھونچال برپا تھا میں اس سے لڑ رہا تھا کیوں کہ میرے سامنے سینتالیس کے فسادات میں بچھڑی بہن پوری سچائی اور پہچان کے ساتھ موجود تھی…جی ہاں باسٹھ سال کے بعد اللہ کے گھر میں …میں نے کہا باجی ایک مرتبہ پھر میری خاطر یہ تینوں نام دہرا دیں … آپ نام لیں میں ان سے اپنا تعلق بتاؤں گا۔
باجی نے نام لینے شروع کیے۔
’’ بشیر احمد‘‘
میں نے کہا
’’میرے اباجی‘‘
’’جنت بی بی ‘‘
میں نے کہا
’’میری اماں جی‘‘
’’عبدالعزیز‘‘
میں نے کہا
’’میرے تایا جی‘‘
اب جو اس خاتون کی حالت تھی اور جو حشر مجھ میں بپا تھا… سب باہر آ چکا تھا… ہمارے بے اختیار رونے سے، ہماری چیخوں سے سارا خانۂ خدا گونج رہا تھا، ہم بھول چکے تھے ہم کس مقامِ ادب پر بیٹھے ہیں۔ جہاں سانس بھی آہستہ لیا جاتا ہے … یہ انعام ہماری برداشت اور ظرف سے بہت بلند تھا… ایک ہجوم تھا جو ہمارے گرد اکٹھا ہوتا جا رہا تھا… انڈینز بھی اور پاکستانی بھی، سبھی پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا، کسی کا انتقال ہو گیا ہے۔ کیا مسئلہ ہے اور ہمارے ساتھی انھیں بتا رہے تھے کہ یہاں تو ماجرا ہی کچھ اور ہے… گھنٹوں باجی مجھے لپٹا کر روتی رہیں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ امی اباجی اس دنیا میں نہیں رہے۔ ڈھائی سال پہلے بڑی باجی بھی ہمیں اکیلا کر گئیں تو انھوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا کہ ابھی میں زندہ ہوں، تو فکر نہ کر…
… تو کیا یہ معجزہ نہیں کہ ۱۹۴۷ء کے فسادات میں بچھڑنے والی بہن ۲۰۰۸ء میں مطاف میں گرنے والے پرس کی بدولت بھائی کو مل جاتی ہے۔ اس بھائی کو جسے اس نے دیکھا تک نہ تھا… نذیر صاحب۵۲ کی پیدائش ہیں اور بہن ۱۹۴۷ء میں دس بارہ سال کی ہوں گی۔ جب فسادات کا سلسلہ شروع ہوا انبالہ بھی اس کی زد میں آیا اور سکھوں کے ایک جتھے نے گاؤں کی لڑکیوں کو اٹھایا اور کرپانیں لہراتے فرار ہو گئے۔ مسلمان گھروں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ اباجی تین چار مرتبہ ان سکھوں کے ہاں گئے بہت ترلے منتیں کیں، لیکن سکھوں پر خون سوار تھا، اباجی کا اصرار بڑھا تو کہنے لگے، جا اندر بیٹھی ہے۔ اگر جاتی ہے تو لے جا، لیکن یاد رکھ دونوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا مگر جانے نہ دوں گا… اباجی واپس ہوئے، کس دل سے آئے ہوں گے یہ تو وہ جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے … پاکستان آ کر بھی باجی کو وہ لمحہ بھر کے لیے نہ بھلا پائے۔ ہم اکثر ان کے منہ سے یہ زخم زخم داستان سنتے اور آہ بھر کر رہ جاتے۔
میرے چہرے پر ان گنت سوال لکھے تھے… اگر سب کچھ ایسے ہی گزرا تھا تو جو سامنے ہے وہ کیا ہے؟
ابھی میں ذہن میں سوال ترتیب دے ہی رہا تھا کہ ایک بزرگ اٹھے اور میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے اور کہا بیٹا تم سب کا گنہگار میں ہوں، میں ہی وہ بد بخت ہوں جو ہر مرتبہ تمھارے والد کو کہتا تھا کہ جا اندر بیٹھی ہے ہمت ہے تو لے جا …میں تم دونوں کے ٹکڑے کر دوں گا … اور میں اسے اندر بھی جانے نہ دیتا تھا۔ بیٹا مجھے معاف کر دو …
ہدایت پانے کے بعد میں نے تم لوگوں کو کہاں کہاں نہ ڈھونڈا، ہم ہر سال عرس پر داتا دربار بھی جاتے رہے۔ پاکستان سے اجمیر شریف آنے والوں سے بھی پتا پوچھتے رہے۔ کچھ سن گن ملی کہ آپ لوگ چونیاں میں ہیں، لیکن ہمارا ویزہ صرف لاہور تک کا ہوتا تھا۔ بیٹا میں تمھارا مجرم ہوں میں نے کہا بابا جی … جو تقدیر میں لکھا ہوتا ہے ہو کر رہتا ہے۔ آپ مجھے گنہگار نہ کریں، تو کہنے لگے۔
’’ میں مرنے سے پہلے معافی مانگنا چاہتا تھا، میری خواہش تھی کہ اس کے خاندان کا کوئی فرد مل جائے تو میں اس کے آگے ہاتھ جوڑ دوں، اس کے سامنے رو رو کر اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگوں۔ ‘‘
جب تک انھوں نے مجھ سے باقاعدہ کہلوا نہ لیا کہ بابا جی میں نے معاف کیا، وہ اسی طرح ہاتھ جوڑے روتے رہے۔
اب باقی کڑیاں انھوں نے یوں ملائیں …
’’ ہم نے بچی رکھ تو لی، لیکن ہمارے لیے یہ بڑا امتحان ثابت ہوئی۔ اسے ہم نے بہت مارا پیٹا۔ بے پناہ تشدد کیا۔ اسے سکھوں کے طور طریقے سکھانے چاہے، لیکن یہ ہر وقت کلمے کا ورد کرتی رہتی۔ محلے میں ایک مسلمان خاتون تھی… زینت … اس کے ہاں سے کتاب ( قرآنِ پاک)اٹھا لائی تھی۔ اور ہر وقت اسے پڑھتی رہتی تھی۔ مار پیٹ اس پر کچھ اثر نہ کرتی تھی۔ تنگ آ کر ہم اسی مسلمان خاتون کے پاس گئے کہ یہ کیسی لڑکی ہے، نماز، کتاب سے کسی لمحے غافل نہیں ہوتی، ہم تو مار مار کر بھی تھک گئے ہیں تو اس خاتون نے کہا کہ آپ نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس لڑکی کو اٹھانا نہیں چاہیے تھا۔ جو زیادتیاں کر لیں سو کر لیں آئندہ کے لیے دھیان رکھو، اگر تمھاری مار کی وجہ سے اس لڑکی کے ہاتھ سے قرآنِ پاک گر گیا تو تو تم سب تباہ و برباد ہو جاؤ گے، اس لڑکی کو اس کے حال پر چھوڑ دو…
نہ جانے اس خاتون کے لہجے میں کیا اثر تھا، واقعی ہم سب اس بچی اور اس کی کتاب کی عزت کرنے لگ گئے، عزت ہی نہ کرنے لگے بلکہ آہستہ آہستہ اس کی طرف مائل بھی ہونے لگے، وہ بچی ا خلاق و عادات میں بے مثل تھی، اس کا کردار اس کی خدمت گزاری ہمیں کسی اور ہی منزل کی طرف لے جا رہی تھی …
اور پھر ایک روز خاندان کے سبھی مرد مقامی مسجد گئے اور مولوی صاحب سے کہا کہ ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں مولوی صاحب نے ہمارے بے تحاشا بڑھے ہوئے کیس دیکھے۔ وہ جانتے تھے کہ سکھ کبھی قینچی کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ انھوں نے کہا کہ جاؤ پہلے، سارے بال کتروا کر پاک صاف ہو کر آؤ۔ شاید وہ آزمانا چاہتے تھے کہ ہم بال کٹواتے ہیں یا نہیں۔ ہم واقعی مسلمان ہونا چاہتے ہیں یا کسی وقتی جذبے کے زیرِ اثر یہاں آ گئے ہیں۔
ہم واپس آئے اور بال کٹوا کر پاک صاف ہو کر ان کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے… پھر میری اس بہو کی کرامت دیکھیے کہ ہماری برادری کے پچاس خاندانوں نے اسلام قبول کیا۔ نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ ارکانِ اسلام کی ادائیگی میں کوشاں رہے، نماز روزہ زکواۃ حج، سبھی ارکان ادا کرتے رہے۔ یہاں آپ جتنے افراد دیکھ رہے ہیں، ان سب کا آٹھواں یا نواں حج ہے۔ داتا دربار جو خواہش لے کر جاتے تھے وہ اس سب سے بڑے دربار میں پوری ہونا تھی۔ یہ کرم یہیں ہونا تھا۔ یہ انعام آج ہونا تھا۔
میں نے کہا۔
’’ پچھلے سال میرا حج کا پروگرام تھا جو روانگی سے صرف دو رو ز پہلے ملتوی ہو گیا مجھے کتنا غم ہوا تھا، بتا نہیں سکتا۔ ‘‘
باجی کہنے لگیں …
’’تمھیں اس سال مجھ سے ملنا تھا، پچھلے برس تم آ ہی نہیں سکتے تھے ‘‘۔
ہماری ملاقات، گردو پیش میں جتنے بھی حاجی تھے، سبھی کے لیے حیرت و مسرت کا باعث تھی، جو سنتا ہمیں ملنے چلا آتا، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور، جناب حامدسعید کاظمی، کے علم میں یہ بات آئی تو وہ بھی مبارک باد دینے کے لیے آئے۔ پھر ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ بلکہ ابھی کچھ عرصہ پہلے وہ ایک دھماکے میں زخمی ہوئے میں ان کی خیریت پوچھنے گیا تو مجھے دیکھتے ہیں انھوں نے بہن کا حال احوال دریافت کیا۔
ہم مکہ معظمہ میں ۲۵ دسمبر سے ۳۱ دسمبر تک روزانہ ملتے رہے۔ میں وفاقی حکومت کا ملازم ہوں اس لیے مجھے یہی مشورہ دیا گیا کہ تم ابھی انھیں فون کرو گے نہ خط لکھو گے، کاغذی کاروائیاں ہو رہی ہیں، کچھ وقت لگے گا پھر میری بہن پاکستان آسکے گی۔ یہاں میرے خاندان کے سبھی افراد بے چینی سے ان کے منتظر ہیں۔
جب سے پاکستان آیا ہوں اپنے بھی اور غیر بھی ملنے آتے ہیں … پہلے بہن کے ملنے کی مبارک دیتے ہیں بعد میں حج کی…
…اور آج اس داستان کا انتہائی دل خوش کن اور سر کو فخر سے بلند کر دینے والا انجام دیکھنے کے لیے بے شک ماں باپ دونوں ہی موجود نہیں، مگر اپنی بیٹی کی ایمان افروز زندگی سے یقیناً شاداں اور مسرور ہوں گے… ہم بھائیوں بلکہ سبھی مسلمانوں کے لیے اس سے بڑی خوشی اور فخر کی اور کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔
حرمِ پاک کا رکھوالا اپنے بندوں پر کس کس طرح کرم کرتا ہے، اس کا ادراک ممکن نہیں۔
غارِ ثور، میرے شوق کی بلندی
یکم مئی، نمازِ فجر کے بعد شاہد سے کہا کہ کیا خیال ہے غارِ ثور نہ ہو آئیں۔ دراصل مجھے احساس تھا کہ کل میرے کہنے پر وہ عمرے کے لیے راضی ہوئے تھے، تو وہ جو اس نیت سے آئے تھے کہ عمرے کے موقع پر ہم تمام زیارتیں سہولت کے ساتھ کر سکیں گے۔ سر زمینِ مکہ و مدینہ کی تمام یادگاروں کو دیکھ سکیں گے، حج پر یہ ممکن نہیں ہوتا تو آج ہم ایک اہم زیارت گاہ، غارِ ثور ہی ہو آئیں۔ غارِ حرا اور غار ثور جانے کی میری بھی شدید خواہش تھی۔ اب ہم صحنِ حرم سے باہر نکلتے تھے اور سوچتے تھے کہ اس کے لیے بس یا ٹیکسی کہاں سے ملے گی۔ شاہد کہنے لگے کہ ہوٹل چلتے ہیں پھر فیصلہ کریں گے۔ میرا بھی خیال تھا کہ ہمیں ہوٹل جانا پڑے گا تا کہ ہم کچھ زادِ راہ ہی لے لیں، ناشتہ بھی کر لیں۔ ہم ہوٹل آئے اور راستے سے ناشتہ لیتے آئے، لیکن ناشتے کو دل نہ کیا، کچھ دیر بعد یہی فیصلہ ہوا کہ غارِ ثور چلتے ہیں۔ اب میں نے ناشتہ اور ایک بوتل پانی اور دو مشروبات کے دو سو ملی لیٹر والے کین بیگ میں ڈالے اور ہم نکل کھڑے ہوئے۔ ذرا سی تگ و دو کے بعد ایک ٹیکسی والا ہمیں لے جانے پر رضا مند ہو گیا اور اس نے ہمیں غارِ ثور کے قدموں میں اتار دیا۔ زیارتوں کے لیے جب ہم آئے تھے تو ہمیں بہت دور سے دکھا دیا گیا تھا۔ اب ہم بالکل وہاں کھڑے تھے جہا ں سے ہمیں اپنے سفر کا آغا ز کرنا تھا۔ راستہ کشادہ تھا۔ کئی ایک دکانیں بھی موجود تھیں اور کچھ پرانے گھر بھی جہاں گھروں کے باہر ڈربے بھی بنے ہوئے تھے اور جن میں موجود مرغیاں اور چوزے کسی پاکستانی قصبے کی یاد دلاتے تھے۔ وہاں بھی سعودی حکومت کی طرف سے بورڈ لگائے گئے تھے کہ ان مقامات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہاں نماز پڑھنے کی کوئی فضیلت نہیں۔ یعنی آپ اپنا وقت ضائع نہ کریں، اب سعودی حکومت کو یہ پتا نہیں کہ عشق سو د و زیاں سے بالا تر ہو تا ہے۔ حضور پاکﷺ کی ذات اقدس سے ہٹ کر بھی سوچا جائے کہ وہ تو نبی تھے، آخری رسول تھے، اگر ہمارے خلفائے راشدین ہماری نسل نو کے آئیڈیل ہو جائیں تو امتِ مسلمہ کے سوفیصدسائل حل ہو جائیں تو پھر حضورِ پُر نور کی شان کا کیا ذکر۔
اسلام کی اولیں ہجرت، ہجرتِ حبشہ انتہائی نامساعد حالات میں ہوئی۔ قریش کے مظالم انتہا سے بڑھے تو آپ ﷺ نے بارہ مردوں اور چار عورتوں کو حبش کی طرف، ہجرت کی اجازت دے دی:
’’ اس مختصر قافلے کے سردار حضرت عثمان بن عفان تھے سیدہ رقیہ (بنت النبی) ان کے ساتھ تھیں نبیﷺ نے فرمایا لوط علیہ السلام اور ا براہیم علیہ السلام کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جنھوں نے راہِ خدا میں ہجرت کی ہے۔ ‘‘ ۸ ؎
عشق اور صدیق مترادف ہیں کہ جب آپ ﷺ نے رسالت کا اعلان کیا تو بغیر کسی خوف یا سوچ بچار کے آپ ایمان لے آئے۔ غلاموں نے اسلام قبول کیا تو ان کے کافر و مشرک آقا ان پر ظلم کی انتہا کرنے لگے، یہ صدیق ہی تھے کہ جنھوں نے ان بے کسوں کو منہ مانگی قیمت دے کر ظالم آقاؤں کی قید سے رہا کر وایا۔ جسمانی معراج کی گواہی کا وقت آیا تو سب سے پہلے صدیق نے کہا کہ میرے حضور سچے ہیں، جب حضور نے جہاد کے لیے سامانِ کی کمی کا اندیشہ ظاہر کیا تو گھر کا تمام اثاثہ اٹھا لائے، یہ اعزاز انھیں ہی حاصل ہوا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جتنا فائدہ مجھے ابو بکر کے مال نے پہنچایا اتنا کسی اور کے مال نے نہیں پہنچایا۔ جب حضرت خدیجہ انتقال کر جاتی ہیں تو اپنی کم سن بیٹی حضور کے عقد میں دے دیتے ہیں۔ جب ہجرت کا وقت آیا تو اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے آپ کا ساتھ دیتے ہیں، نابینا والد اور بچوں کو اللہ کے آسرے پر چھوڑ کر چل نکلے، والد فکر مند ہوئے تو پوتی اسما تھیلی میں کنکر بھر کر سامنے کر دیتی ہیں کہ لیجیے ہاتھ پھیر کر دیکھ لیں، ابو بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں، جب ہجرت کا وقت آتا ہے تو اپنی پلی پلائی اونٹنیاں آپ کی نذر کرتے ہیں، جو آپ ﷺ قیمتاً خرید لیتے ہیں، ہجرت کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں۔ قریش آپ دونوں کی گرفتاری کے لیے منہ مانگا انعام مقرر کرتے ہیں۔ متلاشی دوڑتے گھوڑے آپ کا پیچھا کرتے ہیں۔ ایک مقام پر دو آدمیوں کے قدموں کے نشان ایک میں بدل جاتے ہیں۔ ایک نے کیا راستے میں ہی ہار مان لی، کیا وہ تھک کر واپس ہوا، اگر واپس ہوا تو اس کے قدموں کے واپسی کے نشانات کہاں ہیں اور آگے جا کر دونوں قدموں کے نشانات غائب کیوں ہو گئے۔ ان سوالوں کے جواب انھیں نہیں ملتے کہ جب اس بلند و بالا پہاڑ کی چڑھائی کے دوران میں صدیقؓ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ ﷺ تھک گئے ہیں تو وہ انھیں اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اور جب قدموں کے نشانات غائب ہو جاتے ہیں تو صدیق اکبر کے فر زند عبد الرحمن اور ایک خادم بکریاں چرانے کے بہانے آپ سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں تو بکریوں کا ریوڑ نشانات مٹا دیتا ہے۔ جب آپ ﷺ جائے پناہ کے لیے اس غار کا انتخاب کرتے ہیں تو صدیق ہی اس کی صفائی کرتے اور کپڑے کی دھجیوں سے اس کے سو راخ بند کرتے ہیں اور جب کپڑا ختم ہو جاتا ہے تو، اپنا پاؤں درز پر رکھ دیتے ہیں کہ کوئی زہریلا حشرات آپ ﷺ کو نقصان نہ پہنچائے اور جب آپ کو سانپ کاٹ لیتا ہے تو پاؤں ہلاتے تک نہیں کہ زانو پہ حضور اقدس کا سر مبارک رکھا ہے کہیں نیند میں خلل نہ ہو اور جب حضور کی آنکھ کھلتی ہے تو صدیق کو تکلیف میں پا کر آپﷺ اپنا لعابِ دہن لگا کر زہر کا اثر زائل کر دیتے ہیں۔ یقیناً یہی وجہ ہے کہ آپ کا رتبہ تمام صحابہ میں بلند ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ کسی شخص کو پرکھنا ہو تو اس کے ساتھ سفر کیا جائے، تو آپ حضور کے ایک بہترین ہم سفر ثابت ہوتے ہیں۔
’’ حضرت ابو بکر صدیق کے لیے یہ ایک بہت بڑی نوید اور خوشخبری تھی کہ ان کے نصیب میں رفاقتِ نبوی ہو گی، اس نویدِ جاں فزا کے سننے پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے آنسو نکل آئے اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے دوبارہ فرمایا۔ ’’ اے ابو بکر تم حوضِ کوثر پر بھی میرے ساتھی ہو گے اور غار میں بھی رفیق ہو گے۔ ‘‘ ۹؎
رسول اللہﷺ کی علالت کے دوران نیابت اور امامت کا دورِ عظیم حضرت ابو بکر صدیق کو ہی ودیعت ہوا۔ پھر غزوۂ بدر کا مشہور معرکہ:
’’ حق و باطل کی اس پہلی باضابطہ جنگِ بدر میں دیگر صحابہ کرام کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق کا کردار اور حصہ خاصا اہم تھا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس جنگِ بدر میں مسلمانوں کے تمام دفاعی اور جنگی منصوبوں میں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنی بہترین تجاویز اور جنگی بصیرت سے حضور ﷺ کی بھرپور معاونت کی، پھر حضور ﷺ کے لیے جو سائبان بنایا گیا، اس میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کا مشورہ اور مدد حاصل رہی۔ یہ سائبان قدرے بلندی پر اس نقطۂ نظر سے بنایا گیا تھا کہ اس مقام سے پورا میدانِ بدر سامنے رہتا تھا اور یہ مقام ایک طرح سے مسلمانوں کے لیے عہدِ جدید کے ہیڈ کوارٹر کا درجہ رکھتا تھا اور اس ہیڈ کوارٹر کے تحفظ اور بہترین مشاورت کے لیے حضرت ابو بکر صدیق نے اہم کردار ادا کیا۔ ‘‘ ۱۰؎
ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک رسول اللہ ہمیں اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جائیں۔ دین محمدیﷺ پر آنچ آئے اس کا دفاع بھی ہر قیمت پر کیا جانا لازم ٹھہرا۔
’’ ایک طرف حضرت ابو بکر صدیق تھے۔ ان کے مقابل لشکر میں ان کے بیٹے تھے۔ جنگ کے بعد ان کے بیٹے نے جتلایا’ ’ ابو جان ! میدانِ جنگ میں آپ میری تلوار کی زد میں آئے تھے، لیکن میں نے یہ سوچ کر ہاتھ ہٹا لیا کہ آپ میرے والد گرامی ہیں۔ ‘‘ حضرت ابو بکر صدیق کا جواب بیٹے کے لیے غیر متوقع تھا۔ ِ بیٹے یہ صلۂ رحمی کا معاملہ نہیں، اسلام اور کفر کا معاملہ تھا۔ تم کفر کی طرف سے آئے تھے۔ اسی طرح تم میری تلوار کی زد میں آتے تو میں قطعی پروا نہ کرتا کہ تم میرے بیٹے ہو اور کفر کی قوت توڑنے کے لیے بھر پور وار کرتا اور یہ نہ دیکھتا کہ مقابل میں میرا اپنا خون ہے۔ ‘‘ ۱۱ ؎
پھر قرآن کو یکجا کتابت کرانے کے سلسلے میں ان کی خدمات سے صرفِ نظر ممکن نہیں :
’’ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں قرآن کے جتنے نسخے لکھے گئے تھے ان کی کیفیت یہ تھی کہ یا تو وہ متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے، کوئی آیت چمڑے پر، کوئی درخت کے پتے پر، کوئی ہڈی پر یا وہ مکمل نسخے نہیں تھے کسی صحابی کے پاس ایک سورت لکھی ہوئی تھی، کسی کے پاس دس پانچ سورتیں اور کسی کے پاس صرف چند آیات … اس بنا پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں یہ ضروری سمجھا کہ قرآنِ کریم کے ان منتشر حصوں کو یکجا کر کے محفوظ کر دیا جائے …
اس کی تفصیل حضرت زید بن ثابت نے یہ بیان فر مائی ہے کہ جنگِ یمامہ کے فوراً بعد حضرت ابوبکر نے ایک روز مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، میں ان کے پاس پہنچا تو وہاں حضرت عمر بھی موجود تھے۔ حضرت ابوبکر نے مجھ سے فرمایا کہ عمر نے ابھی آ کر مجھ سے یہ بات کہی ہے کہ جنگِ یمامہ میں قرآنِ کریم کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت شہید ہو گئی ا ور اگر مختلف مقامات پر قرآنِ کریم کے حفاظ اسی طرح شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآنِ کریم کا ایک بڑا حصہ ناپید نہ ہو جائے، لہٰذا قرآنِ کریم کو جمع کرانے کا کام شروع کر دیں … حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم، اگر یہ حضرات مجھے کوئی پہاڑ ڈھونے کا حکم دیتے تو مجھ پر اس کا اتنا بوجھ نہ ہوتا جتنا قرآن جمع کرنے کا ہوا میں نے ان سے کہا کہ آپ وہ کام کیسے کر رہے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ ا سی رائے کے لیے کھول دیا جو حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ کی رائے تھی چنانچہ میں نے قرآنی آیات کو تلاش کرنا شروع کیا اور کھجور کی شاخوں، پتھر کی تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کریم کو جمع کیا۔ حضرت ابو بکر کے لکھوائے ہوئے یہ صحیفے آپ کی حیات میں آپ کے پاس رہے پھر حضرت عمر کے پاس رہے۔ حضرت عمر کی شہادت کے بعد انھیں ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس منتقل کر دیا گیا، پھر حفصہؓ کی وفات کے بعد مروان بن الحکم نے اسے اس خیال سے نذرِ آتش کر دیا کہ اس وقت حضرت عثمانؓ کے تیار کرائے ہوئے مصاحف تیار ہو چکے تھے۔ ‘‘ ۱۲؎
اور ان کی یہ نیکی رہتی دنیا تک کے لیے باعثِ برکت ہے دنیا میں کیا کسی اور کتاب کو یہ سعادت حاصل ہے۔ دنیا کے ہر مقام سے اربوں کی تعداد میں شائع ہونے والی اس کتاب کے جملہ حقوق بحق تعالیٰ محفوظ ہیں اور یہ واحد کتاب ہے کہ جس میں پروف کی کمترین غلطی بھی قابلِ برداشت نہیں ہے:
’’ خادم الحرمین شاہ فہد بن عبد العزیز نے چاہا کہ قرآن مجید کی نفیس ترین طباعت اور اعلیٰ اشاعت کے لیے ایک کمپلکس تیار کیا جائے۔ دینی اہمیت کے اس گراں قدر منصوبے کے لیے ان کی نظرِ انتخاب مدینہ منورہ پر پڑی جو مدینۃ الرسول کے ساتھ ساتھ مدینۃ الوحی اور مدینۃ القرآن ہے۔ یہیں قرآن مجید ( ایک حصہ) حضور رسالتِ مآب پر نازل ہوا۔ یہیں حضور ﷺ نے اور پھر حضرت ابوبکرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں اور فاروقِ اعظم کے مشورے سے قرآن مجید کو جمع اور مدون کیا حضرت عثمان غنی نے اس کے صحیح نسخے تیار کروا کر پورے عالمِ اسلام میں پھیلا دیے۔ ‘‘ ۱۳؎
یوں حضرت ابو بکر کو قرآن پاک مجتمع کرانے کے کام میں بھی اولیت حاصل رہی۔
خود حضور پاک ﷺ آپ کی لا تعداد خوبیوں اور شاندار اسلامی خدمات میں کے معترف تھے آپ کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’میری امت میں ابو بکر سب سے زیادہ رحمدل ہیں۔ ‘‘
’’ کسی نے ہم پر احسان کیا اور ہم نے اس کا بدلہ اسے دے دیا سوائے ابو بکر کے، اس کے احسانات کا بدلہ قیامت کے دن اسے اللہ تعالیٰ دے گا۔ ‘‘
’ ’ ابو بکر بدن میں کمزور ہے لیکن دین میں بہت مضبوط ہے۔ ‘‘
’’ معراج کی رات میں جس آسمان پر بھی پہنچا، وہاں اپنا نام محمد رسول اللہ اور اس کے بعد ابو بکر صدیق لکھا پایا۔ ‘‘
’’ اللہ تعالی ٰ عرشِ اعلیٰ پر اس بات کو ناپسند فرماتا ہے کہ ابو بکر سے کسی غلطی کا ارتکاب کرائے۔ ‘‘
اسلام میں ۹ھ میں حج فرض ہوا، حضورِ اکرم ﷺ اسی سال حضرت ابو بکر صدیقؓ کو امیر الحج مقرر کر کے مکہ معظمہ روانہ کرتے ہیں تاکہ آپ سب مسلمانوں کو حج کرائیں، اسی دوران میں سورہ توبہ کی ابتدائی چالیس آیات نازل ہوئیں، جن میں مشرکین کو ناپاک قرار دے کر انھیں بیت اللہ سے دور رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
دینِ اسلام کا بد ترین دشمن ولیم میور بھی اس اعتراف پر خود کو مجبور پاتا ہے :
’’ اگرچہ صدیق اکبر کا دور قلیل مدت کا ہے لیکن آنحضرت ﷺ کے بعد دین کی سربلندی آپ کی کے سبب ہے۔ آپ نے نو زائدہ اسلام کو ختم ہونے سے بچا لیا۔ ‘‘
امام رازی نے ثانی اثنین کی کیا خوبصورت تشریح کی ہے کہ آپ کئی دینی معاملات و مناصب میں آپ ﷺ کے ثانی تھے مثلاً آپ دعوت دینِ اسلام میں آپ ﷺ کے ثانی تھے۔ آپ غزوات میں آپ ﷺ کے ثانی تھے، آپ مجلس میں حضور ﷺ کے ثانی تھے، آپ مرض کی حالت میں آپ ﷺ کے ثانی تھے، حیات فانی کے بعد حضور کے قرب میں جگہ پائی یوں رہتی دنیا تک حضور ﷺ کے ثانی ٹھہرے۔
ہمت او کشتِ ملت ر ا چو ابر
ثانیء اسلام و غار و بدر و قبر
علامہ اقبال
’’ بعض کے نزدیک، حضرت ابو بکرؓ کو ثالثِ ثلاثہ یعنی تین کے گروہ کا تیسرا فرد ( اول دو خدائے تعالیٰ اور رسالت مآب ہوئے) بھی کہا جا سکتا ہے، اس لیے کہ ان اللہ معنا سے تو یہ واضح ہے کہ خدا بھی وہاں تھا جہاں انسانی تاریخ کے یہ دو جلیل القدر قائد عزلت گزین ہوئے تھے، حضرت ابو بکر کی تادیب اور تربیت اور آپ کی شخصیت کے ارتقا میں خود قرآن نے دلچسپی لی تھی۔ ‘‘ ۱۴؎
رسول اللہﷺ کی علالت کے دوران نیابت اور امامت کا دورِ عظیم حضرت ابو بکر صدیق کو ہی ودیعت ہوا، تو ایسے میں ہر مسلمان، جو غارِ ثورکی زیارت کو جا نا چاہتا ہے، اس مقام کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے جہاں حضور ﷺ اپنے یار غا رکے ہمرا ہ تین رو ز قیام پذیر رہے، تو کیا وہ غلط کرتا ہے ہم لا تعداد کتابوں میں یہ تاریخ بہت بچپن سے پڑھتے آئے ہیں، تو کیا ہم ان تاریخی آثار کو دیکھ کر اپنا ماضی اور زیادہ اچھی طرح نہیں جان سکتے کہ مطالعہ اور چیز ہے اور خود جا کر وہا ں کا تجربہ اور مشاہدہ کرنا اور بات ہے، پچھلے سال میں حضرت اسماؓ پر کام کر رہی تھی عظیم باپ کی عظیم بیٹی۔ بہت سی باتوں کا علم ہوا، تخلیقی مراحل کے آخری دنوں میں بیشتر عورتیں آرام و سہولت چاہتی ہیں لیکن ذات النطاقین اسماؓ بنت ابی بکر آپ دونوں کے لیے کھانا پہنچانے غارِ ثور جاتی ہیں، تو میں غارِ حرا کو بھی خود جا کر دیکھنا چاہتی تھی اور غارِ ثور کو بھی جس کی بلندی غارِ حرا سے تین گنا ہے … اور میں اسی غار تک جاتی تھی اور ہر قدم پہ کہتی تھی حضور ﷺ اور صدیقِ اکبرؓ تو اونٹنیوں پر آئے ہوں گے، پیدل آنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں ہے، پھر کہتی کہ اگر اونٹنیوں پر آئے تھے تو جب قریش کے آدمی آپ کی تلاش میں غار تک پہنچ گئے تھے اور غار پر مکڑی نے جالا تان دیا تھا، ایک درخت اگ آیا تھا، کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیے تھے۔ کفار آپ دونوں کی تلاش میں غار تک پہنچ جاتے ہیں۔ صدیقِ اکبرؓ کو اپنی نہیں حضور پاک کی جان کی فکر ہوتی ہے آپ ﷺ تسلی دیتے ہیں اے ابو بکر ان دو کی نسبت تمھارا کیا خیال ہے کہ جن کا تیسرا اﷲ تعالیٰ ہو۔ تو ان حالات میں آپ اگر وہاں تک اونٹنیوں پر آئے تھے تو اونٹنیاں کہاں تھیں جو انھیں نظر نہ آئیں۔ پھر وہ دو انسانوں کے قدموں کے نشان جو بعد میں ایک میں بدل گئے تھے … میں پہاڑ پر چڑھتی جاتی تھی خود ہی سوال کرتی۔ خود ہی جواب دیتی اور خود ہی رد کر دیتی:
’’ جبلِ ثور نہایت پر پیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے، یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں جن سے رسول اللہ ﷺ کے دونوں پاؤں زخمی ہو گئے تھے۔ آپ قدموں کے نشانات چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے۔ پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر حضرت ابو بکر سے آپ کی حالت دیکھی نہ گئی اور انھوں نے آپ کو کندھوں پر اٹھا لیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس پہنچے جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گیا، اسے غارِ ثور کہتے ہیں۔ ‘‘ ۱۵؎
میں سوچتی جاتی ہوں حضور پاک تین دن اور تین راتیں وہاں قیام کرتے ہیں، وہ کوئی سپاٹ میدان نہیں ہے۔ روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہے، خطر ناک چڑھائی والے پہاڑ پر آپ کیسے گھپ اندھیرے میں غار سے باہر نکلتے ہوں گے، اس کا جواب بھی مجھے مل گیا۔
’’ام المومنین سے مروی ہے کہ آپ رسول اکرم نبی معظم رات کی تاریکی میں اس طرح دیکھتے تھے جس طرح دن کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ ‘‘ ۱۶؎
ایک طویل راستہ ہے، کافی چوڑا، سیڑھیاں سی بنی ہوئی ہیں۔ شاہد کا خیال ہے کہ یہ راستہ بہت پرانے دور میں بنا ہو گا۔ ممکن ہے سلطنت عثمانیہ کے عہد میں یا اس سے بھی پہلے کہ تمام امتی وہ مقام دیکھنا چاہتے ہوں گے، جہاں حضور پاکﷺ نے قیام کیا۔ میں آگے آگے چلتی جاتی تھی، شاہد پیچھے تھے۔ وہ ہر دو چار موڑوں پر رکتے، مناظر کا جائزہ لیتے کس طرف مکہ، کس جانب مدینہ، تبوک، جدہ، وغیرہ وغیرہ ہو گا۔ یہاں سے مکہ کی کون کون سی سمت نظر آرہی ہے، کیا حضور بھی بالکل اسی راستے سے آئے ہوں گے جس راہ سے ہم گزرتے تھے، میں صرف گزر رہی تھی اور وہ تاریخ کے ساتھ ساتھ تمام احساسات لے کر چلتے تھے۔ ہاں ہمارے ساتھ کچھ اور ہمراہی بھی تھے۔ جب ہم نے وادی سے اپنے سفر کا آغاز کیا تو ایک ویگن ہمارے سامنے آ کر رکی۔
اس میں سے چند لڑکے اترے، انھوں نے گاڑی سے سامان اتارنا شروع کیا، ایک بڑا پتیلا، برگروں کا ایک بڑا تھیلا، روٹیاں، کولر پانی کے بیس لٹر والے کین، آئس باکس اور نہ جانے کیا کیا اب وہ لڑکے اس سارے سامان کے ساتھ کبھی ہمارے آگے اور کبھی پیچھے چلتے تھے۔ ابھی غارِ ثور کا دور دور پتا نہ تھا میرا اندازہ ہے کہ ایک تہائی فاصلہ طے کرنے تک میں پیچھے مڑ کر مختلف اوقات میں تین مرتبہ شاہد سے پوچھ چکی تھی کیا خیال ہے، غار تک پہنچ جائیں گے یا یہیں سے واپسی کا راستہ دیکھیں اور شاہد کو ئی جواب دیے بغیر چلتے جاتے اور میں ایک نئے جذبے کے ساتھ قدم بڑھاتی، د و ایک مرتبہ شاہد نے کہا کہ ان بچوں کو آگے نکل جانے دیتے ہیں، لیکن میں نے کہا کہ نہیں ان کے ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں، رونق بھی رہتی ہے اور حوصلہ بھی، ہم تو خالی ہاتھ تھے۔ ذرا سا ناشتہ اور ایک آدھ لٹر پانی کی بوتل، جبکہ انھوں نے بیس بیس کلو وزن اٹھایا ہوا تھا اور کبھی سانس لینے کو ہم رکتے اور کبھی وہ۔ راستے میں کئی مقامات پر انھوں نے ہمیں پانی پینے کی بھی پیش کش کی، لیکن ہمارے پاس پانی موجود تھا۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ غار اتنی بلندی پر ہو گا، میرا دوسرا اندازہ بھی غلط ثابت ہوا، میں سنتی آئی تھی کہ چڑھائی بہت مشکل ہے، اس بنا پر میرا خیال تھا کہ چڑھائی بالکل عمودی ہو گی، چٹانوں پر چڑھنا ایک کٹھن مرحلہ ہو گا، پتھروں سے پاؤں پھسل پھسل جائے گا، کہیں ریت اور چھوٹے چھوٹے پتھر پاؤں جمنے نہ دیں گے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اتنی کھلی سیڑھیاں ہمیں اتنی آسانی کے ساتھ پہنچا دیں گی، آسانی ان معنوں میں کہ خطرے کے بغیر … ورنہ سفر اتنا آسان بھی نہ تھا اور جب آپ ﷺ گئے ہوں گے تو یہ آسانیاں بھی نہ تھیں۔ میں سراقہ بن حشم کے بارے میں سوچتی آ گے بڑھتی جاتی تھی جب اس نے مدینہ کے راستے میں انعام کے لالچ میں آپ تک پہنچنے کی کوشش کی تو اس کا گھوڑا ز مین میں دھنس دھنس جاتا تھا۔ مجھے وہ چرواہی بھی یاد آئی جس نے اسی پہاڑ پر ان دو افراد کی نشان دہی کی جن کی تلاش میں قریش پاگل ہو رہے تھے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ پتھر ہو گئی تھی۔ غارِ ثور کے قریب اس چرواہی کا بت چند سال پہلے تک موجود تھا، جب ہم حج پر گئے تھے، معلوم ہوا، اسی سال سعودی حکومت نے اسے گرا دیا ہے، وہی بات میں دہراؤں گی کہ وہ تو رہتی دنیا تک کے لیے عبرت کا نشان تھا اس سے تو بوئے شرک نہ آتی تھی۔ ان لڑکوں کے علاوہ چند اور لوگ بھی آتے تھے، چند ایک اترتے ہوئے بھی دکھائی دیے، لیکن کم کم۔ مجھے دانش یاد آتا رہا، وہ پچھلی مر تبہ پامیر جسے دنیا کی چھت کہتے ہیں، سے ہو کر آیا تھا، میں اسے بتانا چاہتی تھی کہ ہم بھی ایک طویل ہائکنگ کر ر ہے ہیں، ہم وہ جگہ دیکھ کر آئیں گے کہ جہاں تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل آتش والی کیفیت ہے، ہم د ہلیزِ مصطفیٰ پر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوں گے کہ جس کے محبوب نے اپنی امت کے لیے کیا کیا نہ تکلیفیں جھیلیں۔
ہم نے سات بجے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، ابھی دھوپ تیز نہ تھی، لیکن اپنا آپ دکھاتی تھی، اگر ہم نمازِ فجر کے بعد کچھ دیر کے لیے گھر نہ جاتے، سیدھے یہا ں کے لیے نکلتے تو زیادہ بہتر تھا۔ شاہد کی عادت ہے کہ کہیں کا پروگرام بنانے سے پہلے بہت سوچتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں، معلومات حاصل کرتے ہیں، غارِ ثور جانے سے ایک رو ز پہلے وہ حرم میں ایک خادم سے اس کے بارے میں معلوم کر رہے تھے۔ وہ صاحب کہنے لگے۔
’’ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس کا خیال چھوڑ دیں کیونکہ چڑھائی بہت ہے، درخت یا سبزے کا نام و نشان نہیں، دھوپ بھی شدت کی ہے اور غارِ ثور اتنی بلندی پر ہے کہ وہاں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے، سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ بڑا مشکل سفر ہے۔ ‘‘
شاہد نے مجھے دیکھا، میں نے اشارے سے ہی بتا دیا کہ کوئی پروا نہیں۔ دوسرے روز ہم جاتے تھے، دھوپ تھی لیکن بدن کو کاٹتی نہ تھی، چڑھائی تھی لیکن تکلیف دہ نہ تھی اور جب غارِ ثور کی صرف پانچ منٹ کی مسافت باقی رہ گئی تو ایک بہت بڑا غار دکھائی دیا …، نہیں یہ نہیں ہوسکتا ایک تو یہ بالکل راستے کے ساتھ ہے، دوسرے وہ غار تو چوٹی پر ہونا چاہیے، لیکن ہم ابھی چوٹی پر نہیں پہنچے، پھر چلنا شروع کیا۔ ذرا ہی دیر بعد ایک کمرہ نما بلکہ برآمدہ نما کھلی جگہ دکھا ئی دی، شاید چودہ بائی اٹھارہ ہو گی۔ راستے سے اتنی اونچی کہ انسان پاؤں لٹکا کر بیٹھے تو یہی لگے کہ اپنے گھر میں پلنگ پر بیٹھا ہے، چنانچہ میں بھی اس مقام پر بیٹھ گئی اور یہی ارادہ کیا کہ شاہد آ لیں تو ان کے ساتھ ہی غارِ ثور میں داخل ہوں گی، مجھے حرم پاک کے وہ خادم یاد آئے جنھوں نے کہا تھا کہ اتنی بلندی پر آکسیجن کم ہو جاتی ہے، سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے۔ یہاں کا موسم بالکل ایسا تھا کہ جیسے آپ ایوبیہ، خانسپور میں بیٹھے ہوں، ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکے آپ کی ساری تھکن دور کرتے تھے، حرمِ پاک کے سامنے بننے والی بلند عمارتیں دکھائی دیتی تھیں۔ میں نے چند منٹ انتظار کیا پھر میں اوپر چلتی چلی گئی اور ایک دم غارِ ثور سامنے تھا۔ دو تین ترک حضرات وہاں تصویر کشی کرتے تھے۔ میں کچھ دیر منتظر رہی، پھر مجھے کسی نے کہا کہ اوپر سے گھوم کر آ جائیں۔ میں پتھریلی چٹانوں پر چڑھ کر دوسری طرف چلی گئی۔ یہ بھی میرے علم میں نہ تھا کہ غار کے دو را ستے ہیں، میں تو اسے بالکل غارِ حرا کی مانند سمجھ رہی تھی کہ جہاں کا ایک تنگ دروازہ ہو گا، جہاں مکڑی نے جا لا تانا تھا، جہاں درخت اگا تھا اور جس کی در زیں بند کرنے کے لیے صدیقِ اکبر نے اپنی چادر پھاڑ دی تھی، لیکن یہاں تو اس کی دونوں اطراف شرقاً غرباً کھلی تھیں :
’’ اس غار کے دو دہانے ہیں۔ ایک مغربی سمت میں ہے جس سے رسول اللہ ﷺ داخل ہوئے تھے۔ اس دروازے سے لیٹ کر ہی اندر جایا جا سکتا تھا، نویں صدی ہجری کے آغاز سے تیرھویں صدی ہجری تک اس دہانے کو مرحلہ وار وسیع کیا جاتا رہا۔ اب اس کی اونچائی نیچے والی سیڑھی کو ملا کر تقریباً ایک میٹر ہے، دوسرا دروازہ مشرقی سمت میں ہے جو مغربی دہانے سے زیادہ کشادہ ہے اور بعد میں بنایا گیا ہے تا کہ لوگوں کو غار میں داخل ہونے اور نکلنے میں سہولت ہو۔ ان دونوں دروازوں کا درمیانی فاصلہ ۵، ۳ میٹر ہے اس غار تک پہنچنا دشوار ہے، عموماً غار تک پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹا صرف ہوتا ہے غار کا محلِ وقوع غار کی چوٹی سے ذرا نیچے ہے۔ ‘‘ ۱۷؎
میں نے دوسری طرف سے داخل ہو کر نوافل کی نیت کر لی، یہاں غار حرا کی مانند ہجوم نہ تھا۔ غار بھی غارِ حرا کی نسبت کچھ بڑا تھا، ہوا دار تھا۔ میرا خیال ہے کہ اونچائی میں کم تھا مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں نے بیٹھ کر نوافل ادا کیے تھے۔ نفل پڑھ کر باہر آ گئی کہ اور لوگ بھی منتظر تھے۔ شاہد سا منے سے آتے دکھائی دیے و ہ ایک ایک موڑ سے ساری وادی کا جائزہ لیتے اور کبھی کبھی کوئی زاویہ اچھا لگتا تو تصویر کھنچتے آرہے تھے۔ انھیں کسی کام کی بھی جلدی نہیں ہوتی۔ میں نے کہا کہ میں نفل ادا کر چکی ہوں، اب انھوں نے نفل پڑھنے شروع کیے اور میں نیچے وادی کا اور گرد و پیش کا جائزہ لینے لگی، بڑی بڑی چٹانوں کا ایک سلسلہ ہے، کہیں کہیں یہ چٹانیں بالکل اس طرح موجود ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی صحن میں یا کھلی چھت پر ہیں۔
مکہ معظمہ سے چار کلو میٹر بعض جگہ چھ میل لکھا ہے، کے فاصلے پر سطح زمین سے ۴۵۸ میٹر بلند اس مقدس پہاڑ پر ہونا زندگی کے اہم ترین اور خوشگوار ترین لمحات میں سے ہے۔ بہت ہائکنگ کی ہے اور آپ نے اگر ناگا پربت بھی سر کر لیا ہے لیکن غارِ حرا یا ثور پر نہیں گئے تو آپ کی ساری ریاضت بے کار ہے، میں یہی بات دانش سے کہنا چاہتی تھی، فون اس کے بجائے سرمد نے اٹھایا، غارِ حرا سے بھی انھیں فون کیا تھا، اب یہاں سے فون کیا اور بتایا کہ ہم کہاں ہیں اور تم سب کے لیے دعا کرتے ہیں کہ حج پر، عمرے پر آؤ تو ان مقامات کی زیارت بھی کرو … اس فون کے بعد جتنے دن بھی ہم مکہ مدینہ میں رہے، بچے حال احوال پوچھنے کے بعد یہی کہتے تھے خوب سیر سپاٹے ہو رہے ہیں اور میں کہتی تھی :’’بیٹا ہم عبادت کے لیے آئے ہیں سیر و تفریح کے لیے نہیں۔ ‘‘تو جواب ملتا تھا، ہمیں سب معلوم ہے۔
شاہد نفل ادا کر کے آئے تو کہنے لگے کہ اب کوئی مشروب لے لو، میں نے کہا کہ اس دکان سے نہیں لیتے، وہ جو ہمارے ساتھ ساتھ اتنی مشکل سے اتنا سامان لے کر آئے ہیں ان سے خریدیں گے، شاہد نے پوچھا ’’وہ لو گ کہاں ہیں ؟‘‘
’’ ابھی اس سامنے وا لے پہاڑ پر جو چھت نما جگہ ہے یہاں سامان رکھ رہے تھے پھر شاید ان کے کسی ساتھی نے کوئی اور جگہ پسند کر لی تو سارا سامان اٹھا کر وہاں چلے گئے، لیکن اس وقت ان کے ساتھ آٹھ آٹھ دس دس برس کے کئی اور لڑکے بھی تھے جو ہم نے راستے بھر نہیں دیکھے۔ شاید ان لڑکوں سے پہلے بھی گاڑی نے ایک ٹرپ لگایا ہو اور وہ بڑے لڑکے جو ہمارے ساتھ ساتھ آئے تھے، دوسرے ٹرپ کے ہوں۔ ‘‘
یہ باتیں کرتے ہم ان کی تلاش میں کچھ نیچے آئے تو دیکھا کہ وہی کھلا برآمدہ نما کمرہ ہے کہ جہا ں میں نے کچھ دیر بیٹھ کر ایوبیہ اور خانسپور کی خوشگوار ہوا کو یاد کیا تھا، لیکن اب منظر بدل چکا تھا۔ ہوا تو تھی لیکن اب اس مقام پر ہم تنہا نہ تھے، بیس پچیس مختلف عمر کے لڑکوں کے پر جوش تمتماتے چہرے دیکھتے تھے۔
ہمیں دیکھتے ہی ان لڑکوں نے پانی کے گلاس بھر کر پکڑائے ابھی ایک ختم نہ ہوا تھا کہ دوسرا اور پھر تیسرا حاضر، معلوم ہوا کہ یہ کوئی سٹال لگانے نہیں آئے بلکہ یکم مئی کی چھٹی یعنی پکنک منانے آئے ہیں، شام تک یہاں رہیں گے، مغرب کی نماز پڑھ کر نیچے اترنا شروع ہوں گے۔ اس مقام پر قالینوں اور کشنز وغیرہ کا ہو نا تو سمجھ میں آتا تھا لیکن وہاں بھاری صوفہ سیٹ کیسے آیا، میں آج تک نہ سمجھ پائی ابھی پندرہ بیس منٹ پہلے ہی تو میں نے یہاں تنہا چند منٹ گزارے تھے اس وقت تو یہاں کو ئی چیز موجود نہ تھی، ان کا اصرار تھا کہ ہم ان کے ساتھ کھانا کھائیں، جو ہمارے لیے ممکن نہ تھا کہ ہم ظہر کی نماز حرم میں ادا کرنا چاہتے تھے۔ ویسے بھی ہم ان کی پکنک کا مزا ادھورا نہ کرتے۔ ان میں سے ایک دو لڑکے انگریزی اور ایک دو اردو جانتے تھے، ان سے کافی باتیں ہوئیں۔ تصویریں بھی کھنچیں۔ ان کے اصرار کے باوجود ہم نیچے اترنے لگے، ابھی چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ انھوں نے پھر آوازیں دینا شروع کر دیں۔ ہم سمجھے کہ رکنے کے لیے کہہ رہے ہوں گے اس لیے دیکھے بغیر ہاتھ ہلاتے ہم چلتے رہے۔ ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا کہ وہ جو دکان کے پاس صاحب کھڑے ہیں وہ بلاتے ہیں۔ اتنے میں وہ لڑکا بھی قریب آگیا، معلوم ہوا کہ وہ ہمیں تسبیحات کا ہدیہ دینا چاہتا تھا۔ پینتیس پینتیس دانوں کی یہ خوبصورت تسبیحات غارِ ثور کی یادگار میرے پاس محفوظ ہیں، اس جانماز کی طرح جس نے جبلِ نور، جبلِ رحمت، جبلِ ثور، مسجدِ قبا، حرم پاک اور مسجد نبوی کے ایک ایک مقام کو مس کیا ہے۔
اسلام آباد آ کر مستنصرحسین تارڑ سے بات ہو رہی تھی، میں نے انھیں بتایا کہ غارِ حرا، غارِ ثور ہر مقام پر آپ کا ذکر رہا۔ کہنے لگے۔
’’غارِ حرا تو میں رات رہ آیا تھا لیکن غارِ ثور اس زمانے میں جانے کی اجازت نہ تھی ورنہ میرا جانے کا پکا ارادہ تھا۔ ‘‘ تارڑ کا جواب سن کر مجھے ایک اور گفتگو یاد آئی۔
’’ دو روز قبل ایک صاحب سے میں نے اسی خواہش کا اظہار کیا، لیکن مذکورہ صاحب نے شنید بتائی کہ غارِ ثور پر آج کل جانے کی ممانعت ہے۔
’’ لازم نہیں ہے’’ یہ حافظ ارشد صاحب تھے جو آیتِ قرآنی کے حوالوں، علامہ اقبال کے برمحل اشعار، پر لطف گفتگو اور اپنے قہقہوں سے محفل کو اکثر لوٹ لیا کرتے تھے۔ اب بھی انھوں نے ایک چھکا لگایا اور کہنے لگے …’’ لازم نہیں ہے سب کو ملے ایک سا جواب۔ آؤ نا ہم بھی سیر کریں غارِ ثور کی۔ ‘‘ ۱۸؎
یہ اور بات کہ مصنف اور اس کے ہمراہی مثبت جواب کی توقع میں غار ثور کی وادی تک تو پہنچ گئے لیکن اوپر جانے کا اذن نامہ جاری نہ ہوا کہ چند روز قبل کچھ انڈونیشی زائرین اوپر گئے تھے ایک خاتون کا پاؤں پھسلا اور وہ سنبھل نہ پائی ہزاروں فٹ نیچے کھائی میں گرنے سے سر پر شدید چوٹ آئی اور جان کی بازی ہار گئی۔ اس لیے اب اوپر جانے کی سختی سے ممانعت ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں راستہ طویل تو بہت محسوس ہوا لیکن، بہت آرام دہ، کھلی کھلی سیڑھیاں۔ ہاں اگر چوٹی پر پہنچ کر پاؤں رپٹ جائے تو ایسی صورت حال ہوسکتی ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ بغیر کسی خوف و خدشے کے ہم اوپر چڑھتے گئے اور خیریت کے ساتھ واپس ہوئے۔
حرم جانے کے لیے ٹیکسی کے متلاشی تھے اور ہر ڈرائیور منہ مانگے داموں پر لے جانے کو تیار تھا لیکن ہم تیا ر نہ ہوتے تھے۔ آخر ایک ملتان کا رہائشی ٹیکسی ڈرائیور تیار ہوا لیکن اس شرط کہ ایک اور بزرگ میاں بیوی بھی ہمارے ساتھ جائیں گے۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا، یہ میاں بیوی بھی کسی زیارات پر جانے والی بس کے ہمراہ آئے تھے اور اس بات پر بہت ناراض تھے۔
’’ ہمیں بس نے بہت دور اُتار دیا تھا، وہاں سے ہم پیدل چلتے ہوئے غارِ ثور تک پہنچے اور وہ بھی اس راستے سے جو ہمیں سامنے نظر آیا ہم چڑھتے چلے گئے، وہ راستہ ایسا بنا ہوا راستہ نہ تھا جس پر ہم واپسی میں آئے ہیں، وہاں تو کوئی پگ ڈنڈی تک نہ تھی، عمودی چٹانیں تھیں جن پر ہم بمشکل قدم جماتے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ ہم ایک قدم بڑھاتے ہیں تو دو قدم پیچھے آتے ہیں، بہت ہی خطر ناک راستے سے ہم گئے تھے، واپسی کا راستہ تو ہم نے دوڑتے ہوئے بڑے آرام سے طے کر لیا۔ ‘‘
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر…
خاتون کوئی پچاس پچپن اور میاں ساٹھ برس کے ہوں گے، اندازہ ہو رہا تھا کہ ان کا بیٹا یہاں وافر مقدار میں ریال کما رہا ہے، اس کے پاس عمرے کی نیت سے آئے ہوں گے اور زیاراتِ مقدسہ کا شوق انھیں یہاں لے آیا ہے، اتنی تگ و دو کے باوجود تھکن کے آثار واضح نہ تھے، خاتون کافی زندہ دل تھیں، ابھی ہم غارِ ثور سے جبل ثور کی وادی تک پہنچے ہی تھے۔ یہ میا ں بیوی ہمارے پیچھے پیچھے آرہے تھے، ایک اور خاندان اوپر جانے کے لیے پر تول رہا تھا اور تصویر کشی میں مصروف تھا، انھوں نے ان سے بھی فرمائش کی کہ ہماری تصویر بھی بنائیں جو انھوں نے بخوشی پوری کر دی، حالانکہ تصویر انھیں کہاں ملنی تھی۔ ٹیکسی میں بیٹھتے ہی انھوں نے ہمیں اور ڈرائیور کو وہ تصویر دکھائی جو غارِ ثور پر پولو رائیڈ کیمرے سے کھینچی گئی تھی، پھر انھوں نے وہ انگوٹھیاں اور تسبیحیں بھی دکھائیں جو انھوں نے اپنے رشتہ داروں وغیرہ کے لیے لی تھیں۔
شاہد اس بات سے خوش تھے کہ ہمیں کوئی تو پاکستانی ڈرائیور ملا جو اردو میں بات کر تا تھا، انھوں نے اس سے ان مقامات کے بارے میں پوچھا جن کی طرف عمومی توجہ نہیں ہے لیکن وہ اہم مقامات ہیں، اس نے بھی کسویٰ کعبہ میوزیم کا ذکر کیا اور اس کا انتہائی تفصیلی تعارف کرایا، چونکہ کسویٰ کعبہ میوزیم دیکھنا ہمارے پروگرام میں شامل تھا۔ شاہد نے اسے کہا کہ وہ اپنا فون نمبر دے دے، ہمیں جب جانا ہو گا، آپ کو بلا لیں گے، لیکن وہ اس بات کو ٹالتا تھا، اس نے کہا کہ بیس بیس ریال حرم تک طے ہوئے ہیں۔ تیس اور دیں تو میں ابھی لے جاتا ہوں، شاہد اس وقت جانے کے حق میں نہ تھے، انھوں نے کہا کہ ہماری ظہر کی نماز کا وقت نکل جائے گا۔ کہنے لگا۔
’’ آپ فکر ہی نہ کریں جی، وہاں کی مسجد دیکھنے سننے والی ہے، مکمل ایر کنڈیشن۔ بہترین غسل خانے پھر کھانے کے لیے بہترین ریسٹورنٹ۔ وہاں کے باغات دیکھ کر ہی آپ خوش ہو جاؤ گے، عجائب گھر ایسا کہ حضور پاک ﷺ کے زمانے کے کنویں تک محفوظ کر لیے ہیں، میں نے محسوس کیا کہ شاہد اس وقت جانے کے موڈ میں نہ تھے، وہ خاتون کہنے لگیں یہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے ابھی چلے چلتے ہیں، کرایہ بھی آدھا آدھا ہو جائے گا اور ایک کام بھی ہو جائے گا، ورنہ پھر کہیں رہ ہی نہ جائے۔
ہم دس بج کر بیس منٹ پر غارِ ثور سے نیچے اترے تھے، ٹیکسی لیتے لیتے گیارہ بج رہے تھے۔ اب ہم حرم پاک کے قریب، بابِ فہد کے سامنے سے گزرتے تھے، میں اور شاہد اب بھی چاہتے ہیں کہ ٹیکسی والے کو فارغ کریں اور یہیں اتر جائیں، اس وقت بھیڑ کا عالم، خدا کی پناہ گاڑی چلتی نہ تھی رینگتی تھی، ہمیں حرم کے سامنے ہی کوئی بیس پچیس منٹ لگ گئے میں نے کہا کہ مجھے شدید پیاس لگی ہے۔ کہنے لگا۔
’’جی وہاں کا پانی اتنا ٹھنڈا ہے کہ پیتے چلے جاؤ، جی نہ بھرے۔ ‘‘
ہمیں حرم کی نماز کے چھوٹنے کا قلق تھا اور دو دلی کی کیفیت یوں پیدا ہور ہی تھی کہ ایک کام ختم ہو جائے گا۔ خدا حذا کر کے کھلی سڑک پر چڑھے، اب گاڑی فراٹے بھرتی تھی ہم مکہ کے آخری سرے پر پہنچ چکے تھے ہمیں ایک شاندار مسجد دکھائی گئی جہاں ہمیں نمازِ ظہر ادا کرنا تھی اور گاڑی کسویٰ کعبہ میو زیم کے سامنے رک چکی تھی۔ گیٹ بند تھے بہت ہارن دیے کوئی در بان سامنے نہ آیا۔ دوسرے گیٹ پر گئے وہاں بھی کوئی نہ تھا۔ ڈرائیور نے اتر کر کسی کو بلانے کی بہت کو شش کی آخر ایک کار کن نے بمشکل تمام دروازے میں سے جھانکا، معلوم ہوا کہ آج یکم مئی کی چھٹی کے سبب میوزیم بند ہے، اس ڈرائیور نے کیا کیا جتن نہ کیے کہ کسی طرح گیٹ کھول دیا جائے، اس نے اس ورکر کو دینے دلانے کی کوشش بھی کی، لیکن جب میوزیم ہی بند ہو، چھٹی کا دن ہو تو اسے کیسے کھولا جا سکتا ہے، شاہد نے اسے کہا کہ مزید وقت ضائع نہ کرو اور ہمیں حرم پہنچاؤ ہماری جماعت تو نہ نکلے، اس نے کہا کہ اس کی فکر نہ کریں، میں پہنچا دوں گا، سارے رستے بولتا آیا کہ آج خواہ مخواہ میں نے ادھر آنے کا ارادہ کر لیا، اتنا وقت ضائع ہوا، اس سے تو بہتر تھا کہ میں غارِ ثور کے چار چکر لگا لیتا، حرم پاک سے پہلے ہی ہم نے اسے جو ریال بنتے تھے، اس کے ہاتھ میں تھما دیے۔ ان خاتون نے بھی یہی کیا، حرم آتے ہی ہم تیزی سے اترے، اترتے ہی اذان شروع ہو گئی، غسل خانے پہنچتے وضو کرتے اتنا وقت ہو گیا کہ میں جب اوپر والی منزل تک پہنچی تو اقامت ہو رہی تھی، آج تک ایسا نہ ہوا تھا کہ مجھے سنت ادا کرنے کی مہلت نہ ملی ہو جماعت کے ساتھ فرض پڑھ لیے۔ اب کیا کروں شاہد تو آگے مردوں میں نماز پڑھ رہے ہیں، ان کے آنے کا انتظار کروں، اتنے میں ایک خادم وہاں سے گزرا، اسے بتایا کہ میں سنتیں نہیں پڑھ سکی تھی اب کیا مکمل نماز کرنے کے بعد پڑھوں تو اس نے کہا کہ ایسا کریں پہلے چار سنتیں پڑھ لیں پھر باقی نماز ادا کر لیں، میں نے ایسا ہی کیا۔
عصر تک حرم میں ہی رہے، طواف و صلوۃ التسبیح وغیرہ میں مصروف رہے پھر کچھ دیر کے لیے ہوٹل آئے، کھانا کھایا، ذرا سا آرام کیا اور مغرب کی نماز کے لیے حرم آئے اور پھر عشاء کے بعد واپسی ہوئی۔ راستے میں شاہد نے بتایا کہ جب صبح تم نے نمازِ فجر کے بعد بابِ عبدالعزیز سے باہر نکلتے ہوئے کہا تھا کہ کیا خیال ہے آج غارِ ثور نہ ہو آئیں تو اس وقت اینٹی بائیوٹک کھانے کی وجہ سے مجھے شدید کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور ابھی بخار بھی نہ اترا تھا، میں نے اسی لیے کہا کہ ہوٹل چلتے ہیں، پھر فیصلہ کریں گے۔ وہاں آ کر بھی یہی فیصلہ ہوا کہ آج ہی چلتے ہیں تو میں نے کہا کہ اللہ کا نام لے کر سفر کا آغاز کر ہی دینا چاہیے، جب ہم لفٹ سے نیچے آرہے تھے اس وقت بھی میں شدید کمزوری محسوس کر رہا تھا لیکن دیکھو اللہ نے کتنی طاقت اور ہمت دی کہ سارے مراحل طے ہو گئے اور پاؤں میں چبھے شیشے کی بھی اب تو مجھے عادت ہو گئی ہے۔
مجھے افسوس ہوا کہ میں نے یہ سوچے بغیر کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، غارِ ثور کا ذکر کیوں کیا۔ ہم حج پر گئے یا اب عمرہ کرنے آئے ہیں، تو ہمارا شروع سے ہی روّیہ یہ رہا ہے کہ اگر ایک نے آدھی رات کے وقت بھی کہہ دیا ہے کہ طواف کو جا نا ہے تو دوسرا ایک لمحہ سوچے بغیر تیار ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ آپ بتا ہی دیتے کہ طبیعت ٹھیک نہیں تو ہم آج نہ جاتے، دو دن ٹھہر کر چلے جاتے، کہنے لگے، اچھا ہو گیا، ایک خواہش پوری ہوئی۔ دو ایک روز میں مدینہ بھی جانا ہے تو یہ بہتر ہو گیا کہ ہم نے یہ کام بھی کر لیا۔
انوکھی خود غرضی
یہاں مجھے ایک بات اور یاد آئی، جب ہم حج پر گئے تھے تو ہمارا گروپ دو افراد پر مشتمل تھا۔ یعنی میں اور شاہد اور اس کی ہمیں یہ سہولت تھی کہ حرم جانا ہو یا عمرے کا پروگرام ہو یا کوئی بھی کام، لمحہ بھر میں پروگرام بنتا اور دوسرے لمحے اس پر عمل بھی ہو جاتا، ہر چند کہ ہمارے ساتھیوں میں جناب و بیگم راحت منیر اور جناب و بیگم عابد پراچہ بھی تھے ان کے ساتھ بھی بہت جگہ آنا جانا ہوا اور بہت اچھا ساتھ رہا، لیکن بنیادی طور پر ہمارا گروپ ہم دو افراد پر ہی مشتمل تھا، جب ایف پی ایس سی سے سلیکشن کے نتیجے میں میرا ایف جی کالج آنا ہوا تو ایک روز عدیلہ راشد شعبۂ اردو میں بیٹھی نجیبہ عارف سے کوئی بات کر رہی تھیں۔ میں کمرے میں داخل ہوئی تو، مجھے محسوس ہوا کہ عدیلہ راشد حج پر جا رہی ہیں اور اسی موضوع پر بات ہو رہی ہے، میں نے حج نیا نیا کیا تھا اور مجھے حج سے متعلق گفتگو کرنے اور سننے کا بہت شوق تھا۔ میں نے ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
’’عدیلہ میری بھی ایک بات سن لو، تمھارے گروپ میں صرف دو افراد ہیں تم اور راشد بھائی۔ اس کے علاوہ کوئی اور نہیں، پھر تم دیکھنا کہ کتنی سہولت رہتی ہے، جہاں جانا ہوا لمحہ بھر میں دونوں نکل گئے۔ ‘‘
مجھے محسوس ہوا کہ میں شاید غلط بات کہہ گئی ہوں، دونوں نے اس مفت کے مشورے کو اچھی نظر سے نہ دیکھا، میں بھی چپ کر کے واپس لائبریری چلی گئی اور خود کو سمجھایا بھی کہ کوئی اگر تم سے کچھ پوچھے تو بتایا کرو، خواہ مخواہ دخل در معقولات کی ضرورت نہیں۔ اس بات کو کوئی ڈیڑھ دو ماہ ہو گئے۔ حاجی واپس آنا شروع ہوئے۔ عدیلہ بھی حج کر کے آ گئی مبارک باد دی، کہنے لگی مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے میں ڈپارٹمنٹ آؤں گی۔ دو ایک مرتبہ اس نے راہداری میں روک کر یہی بات کہی کہ ایک ضروری بات کرنی ہے اور دو ایک روز میں ضروری بات کرنے کا موقع مل گیا، کہنے لگی۔
’’ آپ کو یاد ہو گا حج پر جانے سے پہلے، ایک روز آپ نے مجھے کہا تھا کہ عدیلہ ایک بات یاد رکھنا، تمھارے گروپ میں صرف تم اور راشد ہو گے، جب جی چاہے گا ایک منٹ میں تیار ہو کر کہیں بھی چلے گئے۔ ‘‘ میں نے کہا کہ ہاں مجھے یاد ہے اور اس پر مجھے شرمندگی بھی ہوئی تھی۔ کہنے لگی۔
’’ میں نے وہاں آپ کو ہر قدم پر یاد کیا، میں ہر مرتبہ راشد سے کہتی تھی کہ میری دوست نے کتنی صحیح بات کہی تھی۔ اس وقت تو مجھے اس میں خود غرضی کی بو آئی تھی کہ ہم ایک نیک مقصد کے لیے جا رہے ہیں اگر ہم کسی کے کام آ جائیں تو ا س میں برائی کیا ہے، اس وقت واقعی آپ کی بات اچھی نہ لگی تھی اور جب ہم مکہ پہنچے، ہمارے کمرے میں ایک میاں بیوی اور بھی تھے، دونوں بزرگ تھے۔ اگر میں ان خاتون کی تیاری میں مدد کر دیتی تو میں سمجھتی کہ کوئی بات نہیں، لیکن انھوں نے تو ہمارے ساتھ وہ کیا کہ شروع میں تو ہم سمجھ ہی نہ سکے۔ میاں صاحب عمر تو ان کی بھی ساٹھ سال ہو گی لیکن نہایت چاق چوبند، جب حرم جانا ہوتا ایک سیکنڈ میں غائب ہو جاتے کہ تم اپنی خالہ کو لیتے آنا، اب ہم انھیں تیار کروا رہے ہیں۔ انھیں ساتھ لے کر جا رہے ہیں۔ حرم میں ان کا دھیان رکھ رہے ہیں اور وہ صاحب بڑے اطمینان سے طواف و عمرے کر رہے ہیں … میں تو ہر دم یہی کہتی رہی کہ قرۃ العین نے کیا زبردست بات کہی تھی، ہم اس پر عمل کر لیتے تو کتنا سکون ہوتا۔
تو اب بھی میرا حج پر جانے والوں کو یہی مشورہ ہوتا ہے کہ مدد کرنا بہت اچھا ہے مگر آپ کی مدد کا مستحق ہونا بھی تو اہم ہے… آپ اپنا گروپ جتنا مختصر رکھیں گے اتنی ہی سہولت رہے گی۔
اے بسا آرزو …
دو سرے دن جمعہ تھا۔ فجر کی نماز کے بعد ہوٹل آ گئے، مجھے دن میں نیند نہیں آتی، ناشتے کے بعد میں نے شاہد سے کہا کہ میں حرم جا رہی ہوں آپ کچھ دیر آرام کر لیں پھر آ جائیں۔ میں حرم پہنچی اور طواف کے لیے مطاف میں اتری اور حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے خیال سے کوئی گھنٹا بھر حجرِ اسود کے قریب کھڑی رہی، لیکن نصیب نہ ہوا، پھر طواف کیے، جمعے کے روز بھیڑ بہت ہوتی ہے، اگر نماز کے وقت پر آئیں تو جگہ باہر صحن بلکہ سڑک پر ملتی ہے۔ شاہد بھی آ گئے، مطاف میں ہی ان سے ملاقات ہوئی۔ نماز جمعہ کے بعد میں نے ان سے کہا کہ کل تو ہمیں مدینہ چلے جانا ہے کیوں نہ ایک عمرہ اور کر لیا جائے۔ اب ہم ہوٹل گئے، کھانا کھایا اور احرام لے کر بس سٹاپ کی طرف چلے۔ کیا سماں تھا، بے شمار بسیں قطار اندر قطار کھڑی تھیں۔ میں جب بھی کسی بس کی طرف جانا چاہتی کہ اس سے پوچھ لیتے ہیں کہ مسجدِ عائشہ جا رہی ہے تو شاہد بتاتے کہ دیکھو ان پر ترکی کا پرچم لگا ہے یہ اپنے زائرین کو واپس لے کر جا رہی ہیں، جو عمرے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اسی طرح کئی ممالک کی بسیں آتی رہیں لیکن مسجدِ عائشہ جانے والی کوئی بس، کوئی وین نظر نہ آئی۔ جس بھی وین والے کی طرف جاتے وہ جدہ جدہ کے آوازے لگا رہے ہوتے، ظاہر ہے کہ آج انھیں دور کی سواریاں مل رہی تھیں تو وہ مسجدِ عائشہ کیوں جاتے۔ مجھے بہت پیاس لگ رہی تھی اور میں ایک لمحے کے لیے بھی سامنے دکان تک جانے کے لیے تیار نہ تھی کہ کہیں اسی اثنا میں بس نہ نکل جائے۔ بے شمار زائرین ہماری طرح بس کے منتظر تھے، جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی تھی، شاہد جا کر جوس لے آئے اور ہم نے ایک عمارت کے سائے میں بیٹھ کر حلق تر کیا، اس عمارت کے اوپر بے شمار کبوتر بیٹھے تھے اور نیچے بیٹھے زائرین کے کپڑے خراب کر تے تھے۔ کوئی ڈھائی بجے تک انتظار کیا اور اور دل میں ایک خلش رہی وہ جو صبح حجر اسود کو بوسہ دینے کے انتظار کے دوران بھی بے چین کرتی تھی کہ اتنی دیر میں کتنے ہی طواف نہ ہو جاتے۔ میں نے شاہد سے کہا کہ آج کا دن کچھ ایسا ہی ہے، صبح حجر اسود کو بو سہ نہ دے سکی، اب عمرے پر جانے کا ارادہ کیا تو بات نہیں بن رہی۔ شاہد کہنے لگے کوئی بات نہیں، مدینہ سے واپسی پر ایک لازمی عمرہ ہو جائے گا۔ ہم حرم آ گئے اور طواف میں مصروف ہو گئے، اب بھیڑ میں بہت کمی آ چکی تھی۔ آسانی سے کئی طواف کیے۔
جنت المعلیٰ
عصر کے بعد میں نے شاہد سے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے اجداد کی قبور پر فاتحہ خوانی کے لیے جنت معلی جانا تھا اور ہم اب تک زیارات سے آتے جاتے دور دور سے ہی فاتحہ کہتے رہے ہیں، تو آج ہم جنتِ معلیٰ ہی ہو آتے ہیں، اب ہم جنت معلی جاتے تھے، مروہ سے نکلے، تعمیراتی کام زور شور سے جاری ہے، مولد نبی ﷺ اب صحن حرم میں آگیا ہے، یہاں ہارون الرشید کی والدہ خیزران نے مسجد تعمیر کرائی تھی۔ پھر ۱۹۵۰ ء میں اسے لائبریری کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مروہ کے مقابل، اس مکتبہ کو ہم نے کبھی کھلا نہ پایا، یہ دکھ سانجھا ہے جو بھی مولدِ نبی دیکھتا ہے، اسے بے حد افسوس ہوتا ہے کہ دائیں بائیں عظیم الشان محلات اور ان کے در میان ایک انتہائی غیر متاثر کن مکان، جہاں سے توحیدِ رسالت کا آفتاب طلوع ہوا تھا۔ اب اس توجیہہ سے دل مطمئن کیا جاتا ہے کہ مکین اہم ہوتا ہے مکان نہیں … مقامِ ولادت اور یہی مقامِ ہجرت جہاں سے آپ ہجرت کے لیے رات کو نکلتے ہیں تو حضرت علی آپ کے بستر پر لیٹتے ہیں۔ قریش آپ کی تاک میں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ ان پر غفلت طاری کر دیتے ہیں اور آپ مٹھی بھر خاک ان کی طرف اچھال کر بڑے آرام سے سفرِ ہجرت اختیار کرتے ہیں۔
آگے چلتے چلے گئے۔ مجھے راستہ بھولنے میں کمال حاصل ہے، میں شاہد سے کہتی رہی کہ کسی سے راستہ پوچھ لیں ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ایسا نہ ہو ہم کہیں دور نکل جائیں اور مغرب تک واپس نہ پہنچ پائیں، لیکن شاہد صاحب چلتے رہے، راستے میں دکانوں پر کیا کیا نعمتیں سجی دیکھیں۔ پاکستانی مٹھائیوں کی دکان پر برفی، جلیبی، آلو والے اور قیمے والے سموسے اور ہر وہ شے موجود تھی جو انسان کا دل للچا دے، ہم نے واپسی پر خریداری کا ارادہ کیا اور آگے چلتے گئے آخر وہ چار دیواری نظر آ گئی، جس میں امہات المومنین اور ہمارے اکابرین آسودۂ خاک ہیں، عصر کی نماز پڑھے اگرچہ کافی دیر ہو چکی تھی لیکن دھوپ میں تمازت ابھی باقی تھی، جنت المعلیٰ میں داخل ہوئے تو برآمدہ نما ہال میں اے سی کی ٹھنڈک نے احساسِ طمانیت بخشا۔ ظاہر ہے مجھے وہیں بیٹھ کر فاتحہ کہنی تھی۔ شاہد اندر چلے گئے مجھے احساس تھا کہ وہ جلد واپس نہ آئیں گے۔
میں بہت سکون سے تسبیحات پڑھتی رہی اور نظر بچا کر جا لیوں میں سے اس مبارک خطۂ پاک کو ایک نگاہ دیکھ بھی آتی تھی، جہاں ہمارے اسلاف محوِ آرام ہیں۔ ام المومنین حضرت خدیجہ کے علاوہ یہاں ا ن گنت مقتدر صحابۂ کرام، آپ ﷺ کی اولادِ پاک، تابعین، تبع تابعین، محدثین و مفسرین اور اللہ کے نیک و برگزیدہ بندے یہاں ابدی نیند سو رہے ہیں :
’’ حضرت خدیجہ کی قبرِ مبارک پر جانے سے پہلے، یوں کہہ لیں کہ ان کی دہلیز پر ایک چھوٹے سے احاطے میں دو کچی قبریں ہیں، ان میں سے ایک حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسری ولی کامل قطبِ وقت مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمت اللہ علیہ کی ہے۔ مولانا کیرانوی ۱۱۴ سال پہلے ہندوستان سے مکہ معظمہ پہنچے۔ اس وقت پورے جزیرۃ العرب میں کوئی مدرسہ نہیں تھا، درس و تدریس کا بہت پرانا نظام اور سلیبس تھا، کوئی باقاعدہ درس گاہ نہ تھی۔ اس زمانے میں چاہِ زم زم کے قریب ایک عمارت ہوتی تھی، جسے کتب خانۂ حرم کہتے تھے۔ ترکوں کے عہدِ خلافت میں حرم شریف کے اس حصے کو گرایا گیا تو یہ مقدس ملبہ حضرت کیرانوی نے خرید لیا اور صولت النساء بیگم مرحومہ کی امداد سے پورے جزیرۃ العرب کے پہلے مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ مدرسہ صولتیہ جو اب حرم شریف کے بابِ عمرہ کے پڑوس میں ہے اس وقت حرم شریف سے اتنا دور لگتا تھا کہ مقامی آبادی کا کہنا تھا کہ مدرسہ اجاڑ میں بنا لیا ہے… شاید انھی خدمات کے بدلے میں مولانا کیرانوی کو سیدہ خدیجہ کی دہلیز پر ابدی نیند کے لیے جگہ ملی ہے۔ ‘‘ ۱۹؎
ٹھنڈے پانی کے گلاس بے شمار ڈبوں میں بند ہیں، جو زائر آتا ہے پہلے پانی پی کر اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ زائرین میں زیادہ تعداد ایرانیوں کی ہے، ترکی بھی کافی تعداد میں ہیں۔ باہر دروازے پر خواتین بھیک مانگتی نظر آئیں چونکہ مکمل سیاہ پوش تھیں اس لیے اندازہ نہ ہو سکا کہ ان کا تعلق کس ملک سے ہے۔
راستے میں مسجد جن کی بھی زیارت کی، بازار میں گہما گہمی تھی ایک کتابوں کی دکان بھی نظر آئی، جہاں اردو کتب بھی موجود تھیں، میں نے شاہد سے کہا کہ اگر میرے پاس ’’دسترس میں آسمان‘‘ کی کچھ کاپیاں ہوتیں تو میں یہاں رکھوا دیتی۔ کم از کم لوگوں کی نگاہ سے تو گزرتی رہتی، شاہد کہنے لگے اور وہ چند کاپیاں دو رو ز میں ہی فروخت ہو جاتیں اور پیسے دکان دار کی جیب میں چلے جاتے، تمھیں کیا فائدہ ہوتا، تمھاری کتابیں یہاں کسی لائبریری میں رکھوا دیں گے۔ بعد میں مسجد نبوی کی لائبریری کے حالات دیکھ کر یہ ارادہ بھی ملتوی ہوا۔ حرم پہنچے تو مغرب کی اذان ہو رہی تھی، عشاء کے بعد واپسی ہوئی۔
وقتِ رخصت وہ چپ رہے…
آج ہفتہ تین مئی ہمیں مدینہ کے لیے روانہ ہونا ہے۔ نماز فجر کے بعد طواف وداع کیا، میں نے شاہد سے کہا کہ مجھے صلوۃ التسبیح پڑھنی ہے، میں نمازِ اشراق کے بعد وہ پڑھوں گی اور سات بجے تک ان شا اللہ ہوٹل پہنچ جاؤ ں گی، واپسی پر اسی بنگالی ہوٹل سے انڈے پراٹھے لیتی آؤں گی۔ شاہد نے کہا ٹھیک ہے، میں چلتا ہوں۔ مجھے مکہ معظمہ آئے بارہ تیرہ روز ہو چکے تھے میں اس بات سے بہت پریشان تھی کہ جس لگن اور تڑپ کے ساتھ ہم سات سال کے انتظار کے بعد پہنچے ہیں، یہاں آ کر محبت کا، عقیدت کا وہ احساس پیدا نہیں ہو رہا، اب جب خانہ کعبہ کے بالکل سامنے مطاف میں بیٹھی تھی اور اسے دیکھے جا رہی تھی اور یہ احساس کہ آج ہمیں یہاں سے رخصت ہونا ہے۔ د ل گرفتگی پیدا کرتا تھا۔ کیا مجھے ابھی یہاں سے رخصت ہونا ہے، اتنی جلد، ابھی تو میں نے کوئی عبادت بھی نہیں کی۔ اس مرتبہ تو ایسے لگتا ہے کہ میں نے تسبیحات کی طرف سے بھی غفلت برتی ہے، درود شریف، استغفار، پہلا کلمہ، تیسرا کلمہ، چوتھا کلمہ، لا اللہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین، سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم، رب زدنی علما، میں تو بہت کچھ پڑھنا چاہتی تھی، میں جانتی تھی کہ یہاں ایک تسبیح کا ثواب ایک لاکھ تسبیح کے برابر ہے، میں تو ابھی کچھ بھی نہیں سمیٹ پائی، میں تو بہت کچھ اپنے رب سے کہنا چاہتی تھی، کچھ بھی نہ کہہ پائی، ابھی تو کوئی دعا بھی نہیں مانگی اور ہم جا رہے ہیں، بے شک مدینہ سے واپسی پر ہمیں پھر آنا ہے، لیکن تب تو ہمارے پاس بہت کم دن ہوں گے … اب مجھے اٹھ کر نماز پڑھ لینا چاہیے، مجھے سات بجے گھر پہنچنا ہے، میں نے مطاف میں ہی نماز ادا کرنے کا ارادہ کیا، لیکن مجھے خیال آیا کہ کہیں شرطے آ کر اٹھانا نہ شروع کر دیں۔ اندر آئی تو وہاں صفائی کا کام شروع ہو چکا تھا، قالین لپیٹے جا رہے تھے۔ اب میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ ر ہ گیا تھا کہ میں اوپر والی منزل میں چلی جاؤں اور وہیں نماز ادا کروں جو میرا ڈیرہ تھا، میں اوپر آئی تو پوری مسجد خالی تھی، ا یک بھی فرد موجود نہ تھا، میں جو کچھ دیر پہلے یہ خیال کرتی تھی کہ مجھے یکسوئی سے عبادت کرنے کی توفیق نہ ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ نے میرے لیے پوری مسجد خالی کرا دی تھی اب بھی اگر میری نماز میں وہ ارتکاز، وہ توجہ پیدا نہیں ہوتی تو ظاہر ہے یہ میرا قصور تھا۔ میں نے نماز شروع کی، آج مجھے یہاں سے جانا تھا اور میرا جانے کو جی نہ چاہتا تھا، خاموشی تھی، تنہائی تھی، جدائی کا احساس تھا، عبادت میں بہت دل لگ رہا تھا، نماز کے بعد بھی جی چاہتا تھا اور پڑھوں، صلوۃ توبہ، حاجت، شکرانہ اور بھی نوافل ادا کرتی چلی جاؤں، لیکن میں شاہد کو سات بجے پہنچنے کا کہہ چکی ہوں مجھے اب روانہ ہونا چاہیے۔ میں دل ہی دل میں نہ جانے کتنی باتیں، نہ جانے کس سے کیے جاتی تھی …
با دلِ ناخواستہ اٹھی اور سیڑھیوں کی طرف جانے کے بجائے خانۂ کعبہ کو ایک مرتبہ اور دیکھنے کی نیت سے گیلری کی طرف چل دی۔ میں نے سوچا کہ اگر خانۂ کعبہ اور حطیم کا سکیچ بنایا جائے اس کی شکل ایک بہت بڑے تالے کی سی معلوم ہو گی۔ تالا جو ہم اپنی قیمتی اشیا کی حفاظت کے لیے لگانا ضروری خیال کرتے ہیں۔ یہاں آ کر ہم دنیاوی آلائشوں سے پاک ہو کر خود کو مکمل طور پر اللہ کی تحویل میں دینے میں کامیاب ہو جائیں، زندگی کا مقصد پورا ہو جائے۔
میں ٹھیک سات بجے اپنے محلے میں تھی۔ ناشتہ ملنے میں کچھ دیر لگی کہ ہجوم بہت تھا اور میں پہلی مرتبہ اکیلے’’ شاپنگ ‘‘ کر رہی تھی۔ ہوٹل پہنچی شاہد منتظر تھے۔ ناشتہ کیا، اب ہمیں اپنا سامان لے کر نیچے اترنا تھا، ایک بیگ ہم یہیں چھوڑ کر جا رہے تھے وہ نیچے کاؤنٹر پر رکھوایا، ہوٹل اشواق کی جانب چلے کیو نکہ ہمیں وہاں سے اپنی ای میل چیک کرنا تھیں اور ضیا صاحب کی میز بانی کا شکریہ ادا کرنا تھا۔
پچھلی مرتبہ حج کے موقع پر سارا پروگرام معلم کے ایما پر بنتا تھا وہ معلم جسے ہم نے دیکھا تک نہ تھا۔ اس مرتبہ سارے اختیارات ہمارے اپنے ہاتھ میں تھے، میں نے شاہد سے کہا تھا:
’’ ہمیں پچھلی مرتبہ خوش قسمتی سے دو جمعے مدینے میں مل گئے تھے، اس مرتبہ بھی ہم کچھ ایسا پروگرام بناتے ہیں کہ دو جمعے مدینے میں گزار سکیں۔ ‘‘
ایک اور شاہد محمود
چنانچہ طے پایا کہ ہم جمعرات کو روانہ ہوں گے اور اگلے ہفتے کو واپس آئیں گے، ابھی جمعرات آنے میں دو تین روز باقی تھے تو خیال آیا کہ مدینے کی تڑپ اپنی جگہ، لیکن تمام خلقت تو جمعہ کی نماز کی ادائگی کے لیے حرمِ کعبہ کی جانب دوڑتی ہے اور ہم آئے ہوئے بھی یہاں سے جانا چاہ رہے ہیں، جبکہ رسولِ پاک ﷺ نے بھی اس مسجد میں نماز کی فضیلت ایک لاکھ گنا بتائی ہے۔ اب پروگرام تبدیل ہوا، ہفتہ کی صبح ہم مدینہ شریف کے لیے روانہ ہوں گے۔ آج تین مئی صبح نو بجے ہم اپنے قصرِ جمعہ سے نکل کر ہوٹل اشواق کی جانب چلتے تھے۔ دو بیگ زادِ راہ کے طور پر ساتھ تھے۔ ہوٹل اشواق پہنچے، ابھی بسیں نہ آئی تھیں، ہم کچھ دیر پہلے اس لیے چلے آئے تھے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہمیں کچھ ای، میلز دیکھنی تھیں۔ دبئی سے بلال نے ویزے کی کنفر میشن بھیجی تھی۔ ہم کمرے میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ضیا صاحب موجود نہیں۔ شاہد صاحب نے کمپیوٹر کھو لنا چاہا تو پاس ورڈ معلوم نہ ہونے کے سبب کمپیوٹر کھل نہ سکا۔ کمرے کے پارٹیشن کے دوسری جانب جو صاحب سوئے ہوئے تھے، انھیں بمشکل تمام جگایا، لیکن انھوں نے معذرت کر لی کہ وہ کمپیوٹر نہیں جانتے۔ مجھے محسوس تو بہت ہوا کہ اتنا بڑا دفتر چلا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ کمپیوٹر سے نا واقف ہیں۔ کا فی انتظار کے بعد وہ صاحب آئے جو پاس ورڈ جانتے تھے، کمپیوٹر کھلا، اتنے میں وہ صاحب جنھوں نے کمپیوٹر کھولنے سے معذرت کی تھی۔ پوچھنے لگے ’’آپ کا نام…؟‘‘
شاہد نے نام بتایا، انھوں نے پورا نام پوچھا۔
’’ شاہد محمود‘‘
’’صرف شاہد محمود‘‘
’’ جی ‘‘
میں تو آپ کو کئی دن سے تلاش کر رہا تھا، میں جب بھی اپنا ای، میل چیک کرتا تھا تو دبئی سے کبھی ویزا تو کبھی کوئی اور پیغام میرے لیے موجود ہو تا تھا، جو میرے لیے انجانا تھا۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ و ہ شاہد محمود انور ہیں جو اس عمرہ پیکیج کے سعودیہ میں منتظم اعلی ہیں … جب ہم بلیو ایریا، اسلام آباد الھدیٰ کے دفتر میں بیٹھے سفری معاملات طے کر رہے تھے تو ان کا بار بار ذکر ہو رہا تھا کہ وہ بھی پاکستان آئے ہوئے ہیں اور اسلام آباد پہنچنے والے ہیں، خواہش کے باوجود ان سے ملاقات نہ ہو پائی تھی۔ شاہد کہنے لگے کہ میں تو خود آپ سے ملنا چاہتا تھا لیکن آج کی یہ ملاقات کچھ بہتر انداز میں نہیں ہوئی۔ جس پر وہ بھی معذرت خواہ ہوئے۔ اتنے میں اطلاع آئی کہ بسیں آ گئی ہیں۔ شاہد محمود صاحب نے شاہد کو چٹ پر ایک نام لکھ کر دیا کہ آپ مدینہ میں ان سے مل کر میرا بتا دیں، میں بھی انھیں ابھی فون بھی کیے دیتا ہوں۔ آپ کو مدینہ میں کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔
مدینے کیوں نہ چلو ں حسرت
بلائیں جو خود تاجدارِ مدینہ
بس تک پہنچے، ہمیں خوشی تھی کہ سارا سفر دن کا ہو گا، سر زمینِ حجاز کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، جس کا انتظار ساری زندگی کیا، ہماری فرمائش پر بس کی اگلی نشستیں ہماری منتظر تھیں کہ ہمیں صرف سفرِ مدینہ ہی نہیں کرنا تھا بلکہ چپے چپے کو دیکھنا بھی تھا۔ دس بجے بس روانہ ہوئی۔ چھ گھنٹے کا سفر تھا، ایک روز پہلے ایک خاتون قصرِ جمعہ کے کاؤنٹر پر کھڑی گلہ کر رہی تھیں کہ ہم مدینہ سے مکہ گیارہ گھنٹے میں پہنچے ہیں۔ جو میر ے مولا کو منظور کہہ کر ہم اپنے سفر کا آغاز کر چکے تھے۔ سفر کی دعا پڑھی گئی اور ہم مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے۔
بس کا ڈرائیور اور اس کا ساتھی دونو ں مکہ کے اصل باشندے معلوم ہوتے تھے۔ وہی تکبر، وہی خشونت بھرا انداز، ہمارے دونوں بیگ، جن میں سے ایک میں کپڑے اور دوسرے میں کھانے پینے کا سامان تھا، کنڈیکٹر نے نیچے رکھوا دیے تھے۔ شاہد کا گلا خراب تھا، انھیں کھانسی ہوئی تو انھوں نے کنڈکٹر سے کہا کہ ایک گھونٹ پانی پلا دو۔ اس کے قدموں میں دو لٹر والا پانی کا کین پڑا تھا اس کے علاوہ بھی وہ ڈیش بورڈ کے ساتھ موجود فریزر سے پانی نکال کر پیتے رہے تھے، اس نے ترنت انکار کیا۔ ’’ کوئی پانی نہیں ہے‘‘
اور جب اسے کہا جاتا کہ ہمیں ہمارے بیگ ہی نکال دو کہ ہم دیگر مشروبات کے علاوہ زم زم بھی لے کر چلے تھے تو بھی صاف انکار کر دیا جاتا ایک پٹرول پمپ پر بس رکی، وہ دونوں نیچے اتر گئے۔ ہمارے ساتھ والی اگلی نشست پر بیٹھے صاحب نے خود پانی پینے سے پہلے ایک بوتل شاہد کے حوالے کی۔ شاہد ابھی پانی پی ہی رہے تھے کہ کنڈیکٹر بس پر چڑھا۔ شاہد کے ہاتھ میں پانی دیکھ کر کھول ہی تو گیا کہ بوتل، فریزر سے اس کی اجازت کے بغیر نکالی گئی ہے، جب شاہد نے بتایا کہ یہ تمہارے فریزر کی نہیں مجھے ان صاحب نے دی ہے تو اسے اطمینان ہوا، ان صاحب کو کسی معاملے کا پتا ہی نہ تھا وہ بہت حیران ہوئے۔
’’ آپ پہلے بتا دیتے، میں آپ کو اسی وقت پانی دے دیتا اور ان مکہ والوں کی تو بات ہی نہ کیجیے، یہ نسل در نسل اسی طرح بے درد اور ظالم رہیں گے۔ ‘‘
بس انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی۔ بس میں بیٹھے ہوئے آپ کو یہی لگتا ہے کہ وہ پچاس ساٹھ کلو میٹر کی رفتار سے رواں ہو گی لیکن جب آپ میٹر پر نگاہ کرتے ہیں تو وہ اس سے دوگنی سے بھی زیادہ رفتار دکھا رہا ہوتا ہے۔
حاجی اور صرف حاجی
مجھے حج کے دوران میں بھی اور اب جب کہ ہم عمرے کی ادائگی کے لیے آئے تھا، ایک بات پر شدید حیرت ہوتی تھی، سعودی عرب میں لوگ نہیں ہوتے، صرف حاجی ہو تے ہیں، یہاں کے مقامی باشندے کہاں رہتے ہیں، نہ بچے سکول جاتے نظر آتے ہیں، نہ کھیلتے دکھائی دیتے ہیں، نہ بڑے کالجوں یونی ورسٹی، دفاتر یا کارخانوں میں کام پر جاتے معلوم ہوتے ہیں۔ مکہ سے نکلنے کے بعد تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کچھ بستیاں دکھائی دے جاتی تھیں، ور نہ وہی بے آب و گیاہ بغیر انسانوں کے پتھریلی سنگلاخ چٹانیں، جو ایک ہی مقام پر کئی کئی رنگ کی ہوتی تھیں۔ رنگ بدلتی ریت، خاموشی کی چادر اوڑھے لیٹی تھی اور ہم خوش تھے کیونکہ یہ جانتے تھے کہ جب یہ ذرا بپھر جائے تو کیا کیا قیامت ڈھاتی ہے، راستے میں کڑی دھوپ میں کئی مقامات پر بسیں کسی خربی کے باعث کھڑی نظر آئیں۔ فوراً وہ خاتون یاد آ جاتیں جو ایک روز پہلے بتا چکی تھیں کہ گیارہ گھنٹے میں سفر طے ہوا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے کہ ہمیں اس موسم میں کسی بھی آزمائش سے بچانا۔
بس ڈرائیور کسی کی بھی پروا کیے بغیر بس اڑاتا جا رہا تھا۔ ہاں صرف ایک مرتبہ کچھ دیر کے لیے رکا، جب اس کی کمپنی کی ایک اور بس کھڑی نظر آئی، لیکن فورا ہی واپس آگیا کہ ان کے لیے دوسری بس پہنچنے ہی والی ہے۔ ابھی مدینے کا آدھے سے کچھ ہی زیادہ سفر طے ہوا ہو گا کہ اچانک اسی نا مہربان کنڈیکٹر نے بکمالِ مہر بانی ہمیں مخاطب کیا، وہ ہمیں ان بندروں کی طرف متوجہ کر رہا تھا جو سڑک کے دائیں طرف، درجنوں کی تعداد میں موجود تھے۔ ڈرائیور نے بس کی رفتار ہلکی کر دی سبھی مسافروں نے اپنے موبائیل کیمرے سنبھالے اور تصویر کشی کرنے لگے، ہر عمر کے بندر چھوٹے بھی اور گھاگ بھی، کئی گاڑیوں والے بھی کھڑے تھا جن کے گرد ان بندروں نے گھیرا ڈالا ہوا تھا، کیلے، کھجوریں، برگر اور نہ جانے کیا کیا، ان کی دعوت کا اہتمام ہو رہا تھا اور وہ اس سے پوری طرح فیض یاب ہو رہے تھے۔ ہم سمیت سبھی حیران تھے کہ یہاں شدید دھو پ ہے، پانی کا نام و نشان نہیں، سایہ دار د رخت تو در کنار کوئی ایک چھوٹی موٹی جھاڑی بھی نہیں، تو یہ بے شمار بندر یہاں زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔ ہم شاید بھول جاتے ہیں کہ وہ خالق و مالک پتھر میں کیڑے کو رزق فراہم کرتا ہے تو اس نے ان کے لیے بھی کوئی نہ کوئی سبب بنا دیا ہو گا اور کئی دن بعد جب جدہ میں اپنے میزبانوں کے سامنے ان بندروں کا بے آب و گیاہ وادی میں زندگی گزارنے کا ذکر آیا تو فوزیہ خالد نے بتایا کہ ایک مرتبہ ہم مدینہ جا رہے تھے ہمارے آگے آگے ایک بڑی جیپ تھی، ایک مقا م پر پہنچ کر ڈرائیور نے جیپ روکی اور اس نے سامان اتارنا شروع کیا، کیلے، سیب، آلو بخارے، کھجوریں، روٹیاں اور برگر۔ ہم گاڑی روک کر دیکھتے رہے، بندرو ں کا ایک ہجوم تھا جو اپنا اپنا حصہ سمیٹنے میں محو تھا۔ دس منٹ بعد وہ جیپ والا اپنے سفر پر روانہ ہو گیا تب ہمیں علم ہوا کہ ان بندروں کی خوراک صرف چند دانے مونگ پھلی یا روٹی کے دو چار ٹکڑے نہیں جو ہم مسافروں کے بچے تماشا دیکھنے کی نیت سے ان کے آ گے پھینک دیتے ہیں، بلکہ کچھ اہلِ دل ان کی بھوک پیاس مٹانے پر مامور بھی ہیں۔
ظہر کا وقت ہو چکا تھا، سبھی ڈرائیور کی طرف دیکھتے تھے۔ آخر پڑاؤ کیا گیا، اس ہوٹل پر کہ جو مکہ مدینہ کے مسافروں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا۔ سب سے پہلے سبھی نے نمازِ ظہر کی ادائگی کے لیے اس چھوٹی سی مسجد کا رخ کیا زیادہ تر ساتھیوں نے دو فرض ادا کیے اور باہر نکل آئے اور جو نماز پڑھ رہے تھے انھیں ان کی غلطی کاحساس دلانا شروع کر دیا کہ سفر میں قصر ضروری ہے۔ میں نے اطمینان سے چار سنتیں، دو فرض، دو سنتیں، اور دو نفل پڑھے، بلکہ اس سے پہلے دو نفل تحیۃ المسجد کے بھی پڑھے، مجھے پتا تھا کہ یہی خواتین ہوٹل میں جب کھانے کھانے اور چائے قہوہ پینے بیٹھیں گی تو سب کچھ بھول جائیں گی اور یہی ہوا، کھانے کے بعد جب سب بسوں میں بیٹھ گئے تو یہ چار خواتین و حضرات بمشکل تمام باہر آئے۔
ہوٹل ظاہر ہے کہ ہوا دار تھا حدِ نگاہ تک کوئی دوسری عمارت دکھائی نہ دیتی تھی، ہا ں ہوٹل کے اطراف و جوانب چھوٹے چھوٹے ہٹ بنا دیے گئے تھے جہاں ریت سے اٹے قالین بھی پڑے تھے، بچوں کے لیے کچھ جھولے بھی لگے ہوئے تھے۔ ہوٹل کا کھانا بہت اچھا تھا اور مناسب قیمت، ہم نے ایک پلیٹ بخاری اور آدھا چکن لیا۔ ساتھ میں پیاز کے چند ٹکڑے اور آدھا لیموں، سلاد کے نام پر، بھوک بھی خوب لگی ہوئی تھی۔ پیٹ بھر کر کھایا، بس روانہ ہوئی، مجھے بار بار احساس ہوتا رہا کہ مدینے کا سفر تو بالکل خاموش ہو کر با ادب، درود شریف پڑھتے ہوئے طے ہونا چاہیے، ہماری توجہ اکثر و بیشتر، کہیں سے کہیں بھٹکتی رہی ہے، ایسی ملامت میں راستے میں کئی مرتبہ خود کو کر چکی تھی۔ اب پختہ ارادہ کیا کہ درود شریف کا ورد لمحے بھر کے لیے نہ رکے لیکن راستے کے پتھر، ریت کے ٹیلے، اجڑے مکان جن کے مکین، بجلی کا، سڑکوں کا، پلوں کا یا کوئی اور منصوبہ مکمل ہونے کے بعد کہیں اور جا چکے تھے، توجہ بھٹکاتے تھے۔ شہر شروع ہوا، کچھ بچے فٹ بال کھیلتے نظر آئے، درود شریف پڑھنے کی صدائیں بلند ہوئیں، شکر ہے اس فلیٹ کے باہر کوئی بندہ تو نظر آیا، خدایا یہاں کے لوگ کہاں چھپ کے رہتے ہیں، ہماری کراچی کمپنی کے پاس سے ہی گزر جاؤ بچے برسات کی کھمبیوں کی طرح سر اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
اصطلاحِ شوق بسیار است
قبلہ خوانم یا پیمبر یا خدا یا کعبہ است
اصطلاحِ شوق بسیار است و من دیوانہ ام
مدینہ منورہ قریب آنے والا ہے۔ تھوڑی دیر میں آپ کو مینار نظر آنے لگیں گے، درود شریف کا ورد… کافی دیر ہو گئی مینار نظر نہیں آئے … شاید اس موڑ کے بعد … اور پھر وہ مینار دکھائی دیے، جنھیں سات سال پہلے میں جب دیکھا کرتی تھی تو چلتے چلتے دیکھتی ہی جاتی تھی اس بات کی پروا کیے بغیر کہ میں کسی سے ٹکرا نہ جاؤں، چمکتی روشنیوں سے لبریز یہ بلند و بالا مینار خدا کی قدرت دکھاتے تھے جو اس نے ذہنِ انسانی میں منتقل کی اور جسے انسانی ہاتھوں نے بنایا تو وہ قدرت کا ایک عجوبہ ہی لگتے تھے۔ پچاس میٹر چوڑی بنیادوں پر استوار، بانوے میٹر بلند آٹھوں مینار ایک ہی سانچے میں ڈھلے معلوم ہوتے ہیں۔
اب جو مینار نظر آئے وہ روشنیوں سے نہائے ہوئے بھی نہ تھے اور نہ ہی بلند و بالا دکھتے تھے… ابھی شام کے ساڑھے چار بجے تھے اور ہم مسجد نبوی سے کافی فاصلے پر تھے، بس ڈرائیور مختلف موڑ کاٹتا ہمیں ایک ہوٹل پر لے آیا، لیکن ہمیں ابھی اترنے کا حکم نہیں ملا تھا، ہوٹل سے جو صاحب برآمد ہوئے۔ شاہد نے ان سے ان صاحب کا پوچھا جن کا نام شاہد محمود صاحب نے بتایا تھا … معلوم ہوا ہے کہ یہی صاحب ہیں، مسافروں کی گنتی اندراج کے بعد کچھ مسافروں کو انھوں نے اسی ہوٹل میں داخل کیا۔ ہمیں اور چند ایک مہمانوں کو لے کر ذرا ہی سے فاصلے پر موجود دوسرے ہوٹل ابو خالد چلے، دورانِ سفر شاہد صاحب اور ضیا صاحب کے فون آ تے رہے تھے کہ آپ کو کمرہ نمبر ۲۱۱ دے دیا گیا ہے آپ کاؤنٹر پر کھڑے ہو کر انتظار نہ کریں بلکہ کمرہ نمبر۲۱۱ کی چابی لے کر سیدھے اپنے کمرے میں چلے جائیں۔
ہم اپنے کمرے میں پہنچے، غسل کیا اور نماز عصر کی ادائگی کے لیے مسجدِ نبوی روانہ ہوئے ہوٹل والوں نے اپنے ہوٹل کے کارڈ ہمیں دیے کہ کبھی راہ بھول جائیں تو ان سے مدد لی جا سکے۔
میں ذہن نشین کرتی گئی، اس ہوٹل کی ایک نشانی تو حضرت ابو ذر غؑفاری مسجد ہے، جو اس کے بالکل قریب ہے۔ ذرا آگے جائیں تو مد ینتہ الکریم کی بہت بڑی اور خوبصورت، شیشوں سے بنی عمارت ہے۔ سڑک پار کریں تو بازار و دفاتر جنھیں عبور کرنے میں دو منٹ سے زیادہ کا وقت درکار نہیں اور سامنے مسجدِ نبوی۔
حج کے دوران میں ہم اس سے بالکل مخالف سمت میں تھے، اس لیے راستے کا علم نہ تھا۔ اندازے سے چلتے رہے اور سات آٹھ منٹ میں مسجدِ نبوی پہنچ گئے۔ پچھلی مر تبہ جنت البقیع کے ساتھ والے دروازے سے ہم مسجد میں داخل ہوتے تھے۔ سامنے انتہائی کھلا صاف شفاف شیشے کی مانند دمکتا صحن اور نگاہ اٹھاؤ تو روضۂ رسول ﷺ سامنے۔ دل کیوں نہ فدا ہو جائے لیکن اب کے کچھ ایسا نہ ہوا، ایک تنگ سے گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ ابھی صحنِ مسجد آدھا بھی طے نہ کیا تھا کہ شرطوں نے شاہد کو آگے کی راہ دکھائی کہ یہ النسا کے لیے ہے۔ ابھی تو کچھ طے بھی نہ کیا تھا کہ الگ ہونا پڑا، خیر اطمینان تھا کہ موبائیل پاس ہے، رابطہ کر لیں گے۔
پہلی آواز محبت کی سنائی دی ہے
پہنچتے ہی اذان کا وقت ہو گیا مسجدِ نبوی کی اذان اللہ اللہ … مسجد میں داخلے کے وقت دایاں پاؤ ں پہلے رکھنا ہے۔ تحیۃ المسجد کے بعد عصر کی نماز ادا کی۔ عورتوں کے حصے کو لکڑی کی جالی نما دیوار بنا کر الگ کر دیا گیا ہے۔ کشادگی کا احساس ناپید ہے، اسی راستے سے باہر نکلی تو معلوم ہوا کہ روضۂ رسول پر جانے کی تمام راہیں مسدود ہیں، قیافہ لگایا، بابِ عثمان کے بجائے بابِ علی سے جاؤں تو پہنچ جاؤں گی، میں واپس ہوئی اور بابِ علی کی جانب چلی۔ وہاں سے گزر کر ایک پتلی سی گلی پار کر کے اب میں اس صحن میں پہنچ چکی تھی جو خوابوں میں بستا تھا۔ خواب کی بات آئی تو مجھے اپنا ایک پرانا خواب یاد آگیا۔
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں
۱۴ مارچ ۲۰۰۴ ء خواب میں دیکھا تھا کہ میں اپنے پرانے کالج، آئی ایم سی جی، گئی ہوں وہاں نوٹس بورڈ کے قریب کھڑی ہوں کہ جہاں اتنے سال گزر جانے کے بعد آج بھی میری تصویر لگی ہوئی ہے۔ اتنے میں مجھے میڈم فہمیدہ فردوس دکھائی دیتی ہیں جن کے ساتھ گئے وقتوں میں ہم جیوگرافی لیب مقفل کر کے ہر جمعہ صلوۃ التسبیح پڑھا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ، میں جیوگرافی لیب پہنچی۔ فہمیدہ کا کچھ دیر انتظار کیا، ان کی بس بھی آ چکی تھی اور وہ نہیں پہنچی تھیں، یہ سوچ کر کہ آج وہ نہیں آئیں گی میں نے نماز پڑھ لی۔ ابھی جائے نماز تہ کر کے رکھا ہی تھا کہ وہ بہت تیزی سے آئیں۔ کہنے لگیں مجھے ابو کو لے کرہسپتال جانا تھا، اس لیے میں نے چھٹی کر لی تھی۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ آج جمعہ ہے، آپ صلوۃ التسبیح کے لیے انتظار کر رہی ہوں گی، ابو سے کہا کالج سے ہو کر آتی ہوں پھر چلیں گے، ٹیکسی لی اور پندرہ منٹ میں کالج پہنچ گئی … اب میرے لیے ممکن نہ تھا کہ میں انھیں بتاتی کہ میں تو نماز پڑھ چکی ہوں، یوں اس جمعے کو مجھے دو مرتبہ یہ سعادت حاصل ہوئی۔
آپ کے زمانے میں فہمیدہ جیسے دوست ہو تے ہیں ؟ میرے زمانے میں تو ہوتے تھے۔ بقول میرے بچوں کے امی کے زمانے میں تو بجلی بھی نہیں ہوتی تھی، پتھر کا زمانہ تھا نا اس لیے… ذکر ہو رہا تھا خواب کا، میں تیزی کے ساتھ فہمیدہ کی طرف بڑھتی ہوں، مجھے وہ انتہائی خوب صورت اور تر و تازہ گلاب کی مانند دکھائی دیتی ہیں، میں انھیں پوچھتی ہوں کہ کیا وہ عمرہ کر کے آئی ہیں جو چہرے پر اتنا نکھار، اتنا روپ آیا ہوا ہے۔ ابھی وہ مجھے جواب دینے بھی نہ پائی تھیں کہ ایک اور ٹیچر، جن سے میں زیادہ واقف نہ تھی، تیزی سے میری جانب لپکتی ہیں اور کہتی ہیں۔
’’ ہم عمرہ کرنے گئے تھے۔ میں نے آپ کو روضۂ رسول پر دیکھا، میں روضۂ رسول سے پچاس قدم کے فا صلے پر تھی کہ میں نے آپ کو وہاں موجود پایا۔ ‘‘
کچھ ایسا تاثر قائم ہوا کہ میں یہاں اسلام آباد میں ہوں اور انھوں نے مجھے روضۂ رسول پر دیکھا۔ پھر میں نے تصور میں دیکھا کہ میں روضۂ رسول پر ہوں، شاید جاگنے کے بعد یا شاید سوتے میں …
اے قافلے والو
اے قافلے والو کہیں وہ گنبدِ خضریٰ
پھر آئے نظر ہم کو کہ تم کو بھی دکھائیں
…حسرت موہانی
اب وہ گنبدِ خضریٰ سامنے تھا۔ مجھے اپنا خواب یاد آیا جو حج سے واپسی کے ٹھیک تین سال بعد ۱۴ مارچ کو میں نے دیکھا تھا شاید یہ یاد دلانے کہ تم دعا کر کے آئیں تھیں کہ تین یا چار سال بعد میں دوبارہ آؤں، لیکن اس کے لیے کوشش کوئی نہیں کی جا رہی… اب میں روضۂ رسول پر ہوں اور سوچتی ہوں کہ پچاس قدم کے فاصلے پر میں کہاں کھڑی ہوں گی یا وہ ٹیچر پچاس قدم کے فاصلے پر تھیں تو مجھے انھوں نے کس مقام پر دیکھا۔ اسی کیفیت میں تھی کہ شرطوں نے چونکا دیا میں اپنی حدود سے تجاوز کر رہی تھی، اسلام نے مرد و عورت کو برابر کے حقوق دیے ہیں، اسے وہ عزت دی ہے جو کسی اور معاشرے اور مذہب میں نہیں دی جاتی۔ اس کا متضاد عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو حرمِ پاک اور مسجدِ نبوی میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے، جہاں شرطے زنانہ زنانہ کہہ کر خواتین کو ہانک رہے ہوتے ہیں، چنانچہ اب میں ان کی زد میں تھی انھوں نے مجھے گنبدِ خضریٰ سے حتیٰ ا لامکان دور کیا، لیکن میری نظر سے وہ دور نہ تھا گنبد خضریٰ پر نگاہ پڑی، وہ نگاہ جو نہ جانے کتنے ز مانوں سے منتظر تھی اور پلک جھپکائے بغیر اسے دیکھتی تھی۔ درود و سلام کا سلسلہ جاری تھا۔ اتنے میں شاہد آ گئے وہ بے انتہا خوش تھے کہ مجھے بابِ جبریل، روضۂ رسول میں منبر کے ساتھ نماز کے لیے جگہ مل گئی تھی میں جو اب تک حج اور اس عمرہ کا تقابل کر رہی تھی، بول اٹھی کہ بھئی ہماری طرف کا تو سارا نقشہ ہی بدلا ہوا ہے۔ چھت، ستون اور دیواریں تو وہی ہیں لیکن اندر اس طرح پارٹیشن کر دیے گئے ہیں، کہ کچھ معلوم نہیں ہو پاتا کہ حج کے موقع پر اتنی ساری خواتین کیسے اتنی سی جگہ سما سکتی ہوں گی۔ مجھے تو کہیں بھی کشادگی کا احساس نہ ہوا، صحن بھی مجھے مختصر سا لگا ہے، پھر بابِ عثمان سے داخل ہوں تو عورتوں کا حصہ پھر پارٹیشن اور اب ان خواتین کے لیے جگہ مختص ہے جن کے ہمراہ بچے نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بابِ فہد وغیرہ کی اطراف میں بھی اسی طرح خواتین کے لیے جگہ مقرر کی گئی ہو۔ مجھے بہت مختصر جگہ لگی، حج کے موقع پر آئے تھے تو ایسے لگتا تھا کہ ہم نہ جانے کتنا عرصہ چلتے رہتے ہیں اور مسجد کے اندر، دوسرے کونے تک نہیں پہنچ سکتے۔
ہم جنت البقیع کی طرف بھی گئے لیکن معلوم ہوا کہ دیر ہو چکی ہے اب نمازِ فجر کے بعد اجازت ہو گی۔ مغرب ہونے والی تھی۔ یہی طے کیا کہ عشا ء کی نماز کے بعد بابِ النسا ء کے باہر شاہد میرا انتظار کریں گے۔ کچھ وقت دعاؤں میں کچھ تسبیحات میں کچھ ادھر ادھر دیکھتے گزارا۔ عشاء کے بعد باہر آئی شاہد کا انتظار کیا۔ علم ہو ا کہ انھیں پھر ریا ض الجنۃ میں اچھی جگہ مل گئی تھی چنانچہ نوافل ادا کر تے رہے۔ پھر رشک آیا۔ اب مرحلہ کھانے کا تھا، ابو خالد ہوٹل میں خالی ڈائننگ ہال تو شیشوں سے اپنی جھلک دکھاتا تھا، لیکن ابھی وہاں کھانا پیش کرنے کا انتظام نہیں ہوا تھا۔ سامنے ہی چند ایک پاکستانی ریستوران موجود تھے۔ ہم نے ایک کا انتخاب کیا، وہاں کافی بھیڑ تھی بہت سے لوگ کھانا کھا رہے تھے، اتنی گھٹن میں بیٹھنے کی ہمت نہ ہوئی، ویسے بھی اس مرتبہ مکہ مکرمہ میں بھی ہم کھانا پیک کروا کے گھر ہی لے جاتے رہے تھے۔ کوفتے، تین نان اور وہاں بڑے بڑے ٹب سلاد کے بھی نظر آئے، میں نے کہا کہ ہمیں بھی سلاد چاہیے تو اس نے کہا کہ کاؤ نٹر سے مل جائے گی۔ چنانچہ آ ٹھ ریال میں سلاد، رائیتہ اور پلاسٹک کے دسترخوان سمیت ہم کھانا لے کر اپنے کمرے میں آئے۔ کھانا بہت اچھا تھا۔ سلاد میں بند گوبھی کے لمبائی میں کٹے دو تین ٹکڑے، دوچار کھیرے کے پیس اور چند پتے، کچھ تلخ سا ذائقہ مولی کے پتوں سے ذرا تیز، سرسوں کے ساگ کی مانند، لیکن شکل قدرے مختلف۔ بہرحال سلاد نے بھی بہت مزا دیا۔ رات جلد ہی سو گئے۔ نیچے کا ؤ نٹر پر ٹرکش گروپ کے لیڈر نے اپنے دیگر پروگرام کے علاوہ نمازوں کے اوقات بھی لکھ رکھے تھے۔ وہ ہم نے دیکھ لیے تھے۔ مجھے بے انتہا حیرت ہوتی ہے کہ خانۂ کعبہ میں قدم قدم پر گھڑیاں لگی ہوئی ہیں جہاں سے آپ نہ صرف موجودہ وقت معلوم کر سکتے ہیں بلکہ ایک سلائیڈ چلتی رہتی ہے جو آپ کو فجر، اشراق، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کے اوقات بتاتی رہتی ہے، مسجدِ نبوی میں ایسا کوئی اہتمام نہیں اگر آپ کے پاس مو بائیل نہیں ہے تو آپ وقت معلوم کرنے بابِ عثمان پہ جائیں گے، وہاں کی گھڑیاں اتنا واضح وقت نہیں بتاتیں کہ آپ دور سے ہی وقت دیکھ لیں۔ آپ کو بہت قریب جانا پڑتا ہے۔ بابِ عثمان کے تین دروازے، چوبیس، پچیس اور چھبیس خواتین کے لیے کھلے ہیں، وہاں موجود شرطیاں، شرطہ کی مونث یہی ہوئی نا، بہت ایمان داری اور محنت سے اپنے معتین کردہ فرائض نبھا رہی ہیں۔ جیسے ہی آپ اندر داخل ہونا چاہتے ہوں، وہ لائن بنوانے کی ناکام کوشش کریں گی، اس کے بعد آپ کے بیگ، تھیلے چیک کریں گی، کھانے پینے کی کوئی چیز پائیں گی تو آپ اندر نہیں جا سکیں گے اور سب سے ضروری یہ بات کہ اگر آپ کے پاس کیمرے والا موبائیل ہے تو آپ کسی صورت اندر نہیں جا سکتیں۔ اللہ جو کر تا ہے بہتر کر تا ہے۔ اسلام آباد میں میں، فارد سے مسلسل کہتی رہی تھی کہ میں تمھارا موبائیل لے کر جاؤں گی اورڈھیر ساری تصاویر کھینچوں گی، جواب میں مجھے یہ سن کر حیرت ہوتی تھی کہ وہ ہمیشہ یہ کہہ دیتا ہے کہ ابو کے پاس موبائیل ہے نا، وہ کھنچ لیں گے تصویریں، مجھے الجھن بھی ہوتی تھی کہ فارد تو میری کسی بات سے کبھی انکار نہیں کرتا … اور پھر ایسا ہوا کہ شاہد کا نیا موبائیل پانی میں گر کر ناکارہ ہو گیا، فوری طور پر انھیں فارد کا ہی موبائیل مستعار لینا پڑا۔ یہاں آ کر میں سوچتی رہی کہ کتنا اچھا ہوا کہ میرے پاس کیمرے والا موبائیل نہ تھا ورنہ مجھے مشکل ہوتی۔ مردانے میں ایسی کوئی سختی نہ تھی۔ شاہد نے ایسے ایسے مقامات کی اتنی واضح اور روشن تصاویر کھنچی ہیں کہ جنھیں دیکھ کر طبیعت خوش ہو جا تی ہے۔
تہجد کی نماز ادا کی اور فجر کے لیے مسجدِ نبوی کی طرف چلے۔ وہاں ساری رات لائٹیں جلتی رہتی ہیں، موسم میں صبح کی خوش گواری شامل تھی، درود شریف پڑھتے ہوئے ہم تیز تیز قدم بڑھاتے تھے۔ اطراف و جانب سے لوگوں کا خاموش ازدحام اس مرکزی دھارے میں شامل ہوتا جاتا تھا، جن کی منزل ایک تھی۔ میں خواتین کے اس حصے کی جانب گئی کہ جہاں انساء بدون اطفال کا بورڈ لگا تھا۔ نماز کی ادائگی کے بعد یہی طے پایا تھا کہ واپس ہوٹل جائیں گے۔ کچھ دیر آرام کریں گے اور پھر مسجد نبوی آ جائیں گے، چنانچہ واپس آ کر کچھ دیر آرام کیا مجھے ایک مرتبہ جاگنے کے بعد دوبارہ نیند نہیں آتی، کچھ سورتیں پڑھیں، نمازِ اشراق کے بعد کمرے کی حالت درست کی، ناشتہ کیا اور مسجد روانہ ہوئے۔ صلوۃ التسبیح ادا کی، کچھ وقت درود و اذکار میں گزارا، کچھ ا رد گرد کا جائزہ لیا، اونچے اونچے شیلف نما پارٹیشنر میں سے دوسری طرف جھانکنے کی کوشش کی کہ شاید اس طرف سے وہ راستہ نظر آ جائے جو ہمیں دیارِ نبی تک لے جائے گا، شاید اصحابِ صفہ کا چبوترہ ہی نظر آ جائے، بے شک تحقیق کہتی ہے کہ یہ اصحابِ صفہ کا چبوترہ نہیں ہے، بلکہ یہ ترکوں کے زمانے میں روضۂ رسول کی خصوصی حفاظت کے لیے متعین نگہبانوں کے بیٹھنے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن ان درزوں سے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ اسی اثنا میں اذانِ ظہر ہوئی۔ اب مسجد بھرنا شروع ہوئی اور شرطیوں کی ذمہ داری میں اضافہ ہوا، صفیں سیدھی کی جا رہی ہیں۔ خواتین جہاں بیٹھی ہیں و ہیں نماز کے لیے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ آگے بے شک صفوں میں کتنی ہی جگہ کیوں نہ ہو۔
رنگ و خوشبو کے …
رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
فیض احمد فیض
’’نماز ظہر کے بعد پاکستانی، بنگلہ دیشی اور انڈین بہنیں اس طرف آ جائیں۔ ‘‘ابھی میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ شائستہ اور شستہ لہجے میں ایک درخواست میری سماعت تک پہنچی، دعا نے درود شریف کا روپ دھارا اور میں اسی لمحے متلاشی نگاہوں کے ساتھ آواز کی جانب چلی، ایک ہندوستانی بہن نے کہا، انڈینز کہاں بیٹھے ہیں، میں نے کہا کہ میں بھی پاکستانی گروپ کی تلاش میں ہوں اور ایک منٹ بھی نہ گزرا تھا کہ ہم نے اپنی منزل پا لی۔ ایک کم عمر لڑکی بڑے مجمع کو قابو میں رکھنے کے لیے اپنی تمام تقریری صلاحیتیں آزما رہی تھی، صبر و برداشت اور نظم و ضبط برقرار رکھنے کی استدعا کر رہی تھی اور یقین دلا رہی تھی کہ ہم سب کو وہاں نوافل ادا کرنے کا موقع ملے گا، آپ کو ایک اچھا پاکستانی ہونے کا ثبوت دینا ہے، آپ سب لوگ بیٹھ جائیں۔ جلد ہی ہماری باری بھی آ جائے گی، درود شریف کا ورد جاری رکھیں۔ وہاں کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے بدعت یا شرک کی بو آتی ہو، ستونوں کو چومنے کے بجائے نوافل پر توجہ دیں۔
اتنے میں ایک مضطرب آواز نے سبھی کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔
’’ ارے رشیدہ آپا کہاں چلی گئیں، نماز توہم نے اکھٹے ہی پڑھی تھی‘‘
’’ان کی یہی مصیبت ہے۔ لمحے بھر میں غائب ہو جاتی ہیں۔ ‘‘
’’ انھوں نے کالا سکارف باندھا ہوا تھا، دیکھو یہیں کہیں بیٹھی ہوں گی۔ ‘‘
’’ ارے کالا سکارف تو وہ دھو کر میرے کمرے میں سوکھنے کو ڈال آئی ہیں۔ ‘‘
’’ یاد آیا، آج انھوں نے سفید چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ ‘‘
ایک آواز مسلسل التجا کر رہی ہے کہ تمام بہنیں با ادب خاموش بیٹھیں لیکن ان دونوں کو اپنی گمشدہ ساتھی کی پریشانی ہے۔ خود کلامی کے انداز میں میرے منہ سے ایک جملہ نکل گیا ’’ انھیں معلوم نہیں کہ یہ کس مقام پر ہیں، جہاں کے لیے ہدایت کی گئی ہے کہ اپنی آواز نبی ﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو، ذ را خیال ہی کر لیں۔ ‘‘
’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ کہ تمھارا کیا دھرا سب غارت ہو جائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔ ‘‘ ۲۰؎
ان کی آواز سے اونچی نہ ہو کوئی آواز
مالک الملک نہ فرماتے تو فرماتا کون
…افتخار عارف
مدینہ آگیا ہے اے ساتھیو خموش رہو
انھی فضاؤں میں گونجی ہے گفتگو ء رسول
… سید ہاشم رضا
میرے برابر سے ایک دھیمی سی آواز ابھری’’ علم کی کمی ہے اور کوئی بات نہیں ‘‘ ساتھ ہی ایک خدشے کا اظہار بھی… ’’میں رات بھی آئی تھی گھنٹا بھر بیٹھی رہی، ہماری باری ہی نہیں آئی، کیا آپ نے زیارت کر لی ہے؟ ‘‘
’’نہیں ہم کل ہی پہنچے ہیں۔ عشاء کے بعد واپس چلے گئے تھے۔ آج ان شاء اللہ موقع مل جائے گا۔ ‘‘
’’ آپ کا نام ‘‘
اس غیر متوقع سوال پر میں نے نا چاہتے ہوئے بھی اپنا نام بتایا۔
’’آپ عطیہ کی بہن ہیں نا ‘‘
میری حیرت میں مزید اضافہ ہوا۔ میرے منہ سے کچھ سوالیہ انداز میں ’’جی‘‘ کا لفظ نکلا۔
’’عطیہ، آپ کی بہن، جو دبئی میں رہتی ہیں، میں صدف ہوں۔ عطیہ کی دوست، آپ کا لہجہ اور آواز بالکل عطیہ جیسی ہے، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں عطیہ سے باتیں کر رہی ہوں، میرے پاس آپ کے حج کا سفر نامہ ’’دسترس میں آسمان‘‘ بھی ہے، بہت اچھا لکھا ہے۔ ‘‘
کہاں لمحہ بھر پہلے میں سوچ رہی تھی کہ ہم کیا خوامخواہ سرگوشیوں میں مصروف ہو گئے ہیں، بجائے درود شریف پڑھنے کے، اب مجھے اس کا بات کرنا اچھا لگ رہا تھا، وہ کہنے لگی۔
’’طاہرہ باجی، ایک بات سمجھ میں نہیں آ رہی، ہم ایک روز مکہ مکرمہ میں گزار کے آئے ہیں، بہت اچھا عمرہ ہو گیا لیکن نہ جانے کیا بات ہے، وہاں اس طرح دل نہیں لگتا، اتنی اپنائیت کا احساس نہیں ہوتا جتنا یہاں، ایسے لگتا ہے کہ صدیوں کا بچھڑا کوئی اپنے گھر آگیا ہے۔ ‘‘
اچانک ایک نورانی مسکراتا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے آگیا، میں نے ان کے لیے صحت و تندرستی اور سکونِ قلب کی دعا کرتے ہوئے سرگوشی کی، ’’ ابھی نہیں باہر جا کر اس سوال کا جواب دوں گی۔ ‘‘
اب ہماری ساری توجہ درود و سلام کی جانب تھی، مجھے صبح ہی سے خدشہ تھا کہ جب روضۂ رسول پر جانے کا وقت ہو گا اس وقت افراتفری کا سماں ہو گا، سب کچھ گڈ مڈ ہو جائے گا۔ اس لیے میں ابھی سے وہ کچھ پڑھ لوں جو مجھے روضۂ رسول پر حضورِ اقدس کی خدمت میں اور ان کے یارانِ دلنواز کی خدمت میں پیش کرنا ہے …اور یوں صبح سے ہی میں کبھی زبانی اور کبھی کتاب کھول کر آپ کی اور آپ کے دونوں پیارے دوستوں کی خدمت میں ہدیۂ درود و سلام پیش کرتی رہی تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ جو شخص حضور انور ﷺ کے روضۂ مبارک کے پاس کھڑے ہو کر پہلے آیت: ان اللہ و ملاکتہ یصلون علی النبی الآیتہ اور اس کے بعد ستر مرتبہ کہے صلی اللہ علیک یا محمد تو ایک فرشتہ کہتا ہے اے شخص اللہ تعالیٰ تجھ پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کی ہر حاجت پوری کی جاتی ہے۔
وہی سلسلہ پھر سے جوڑا اور اپنی پوری توجہ اسی ایک ذات کی طرف مرتکز کرنے کی کوشش کی جو رحمتِ عالم بھی ہے اور محبوبِ خدا بھی۔
ان کی دہلیز چھو کر
کچھ دیر بعد ہماری رہنما نے ہمیں مژدہ سنایا کہ اب ہماری باری آ گئی ہے۔ اس لیے تمام بہنیں بہت آرام کے ساتھ بغیر کسی کو دھکا دیے، روضۂ رسول کی جانب چلیں لیکن ابھی اور صبر آزمانا مقصود تھا۔ ہمیں صحن مسجدِ نبوی میں بٹھایا گیا، جہاں کھلی چھتریاں ہمیں دھوپ سے بچاتی تھیں۔ کچھ دیر مزید انتظار کھینچا، ہم درود شریف کا ورد کر رہے تھے اور صدف نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کہ اگر ہم بچھڑ گئے تو تلاش کر نا مشکل ہو گا۔ جیسے ہی اشارہ ہوا، سبھی نہایت تیزی کے ساتھ چلے۔ پچھلی مرتبہ روضۂ رسول پر سفید قالین بچھے تھے، اس مرتبہ سبز قالین بقیہ مقام سے اسے ممتاز کرتے تھے لیکن پتا نہیں کیوں میرے ذہن میں وہی قالین دمکتے تھے۔ وہی اچھے لگتے تھے لیکن جلد ہی ا جنبیت کے احساس پر اس سوچ کا غلبہ ہوا کہ جب سفید گنبد پر دو سو سال پہلے سبز رنگ بلکہ گہرا ہرا رنگ کیا گیا ہو گا تو لوگو ں کو نا مانوس لگا ہو گا اور اب یہی گنبدِ خضریٰ ان کی نس نس میں بستا ہے، دوسری اہم بات یہ تھی کہ اب مسجدِ نبو ی کی انتظامیہ نے اس ہجومِ کثیر کو بہتر اندار میں ریاض الجنۃ لے جانے کے لیے یہ تدبیر کی ہے کہ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی بہنیں الگ، مصر و شام کی الگ، انڈونیشیا، ، ملائیشیا، کے الگ گروپ، غرض مختلف زبانیں بولنے والوں کو مختلف گرہوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، ہم سے پہلے ایرانی بہنیں اندر گئی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد ترکی اور اب ہماری باری آ گئی تھی۔ جیسے ہی ایک ستون تک میری رسائی ہوئی، میں نے ذرا سی جگہ پائی تو نفل نماز ادا کرنے کا ارادہ کیا، وہاں ایک نو عمر لڑکی دعا مانگ رہی تھی اس نے فورا ہی جگہ خالی کر دی، میرا خیال تھا کہ میں دو نفل پڑھ لوں گی تو اپنی جگہ صدف کو دے دوں گی لیکن صدف کو بھی انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اسے میرے برابر ہی جگہ مل گئی اور اس نے بھی نوافل کی ادائگی شروع کر دی۔ ان کی دہلیز چھو کر، وہاں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر انسان خود کو بھول جاتا ہے، یاد رہتا ہے تو وہ پروردگار جس نے کائنات تخلیق کی یا وہ بندۂ با صفات، جس کے لیے کائنات تخلیق کی گئی۔ میں اسی در پہ تھی اور دعاؤں کی کثرت میرے ہمراہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی کوئی حد تھی نہ حساب اور ا پنی لغزشوں اور کوتاہیوں کا کچھ شمار نہ تھا، اس کے محبوب کے امتی ہونے کے سبب آج بھی اس کی عطا کے اور عفو کے طلبگار تھے۔ مجھے یاد ہے جب میں حج پر آئی تھی تو سب سے زیادہ دعا دانش کے لیے کرتی تھی اور اب میری دعاؤں کا مرکز دانش کا بیٹا رائم تھا کہ جس نے میرے عمرے سے آنے کے پانچ ماہ بعد دنیا میں آنکھ کھولی اور سب کی آنکھوں کا تارہ بنا۔
روضۂ رسول سے باہر نکلتے ہی میں نے صدف سے کہا، اب تمھارے اس سوال کا، کہ دیار نبی میں جتنا دل لگتا ہے حرم کعبہ میں نہیں، کا جواب کشفی صاحب کی زبانی دوں گی۔ ان سے ایک مکالمے کے دوران میں، میں نے ایک سوال کیا تھا کہ آپ نے بائیس، چوبیس اسفارِ مکہ و مدینہ کیے، کیا آپ کا جواب بھی مولانا حسرت موہانی والا ہی ہو گا کہ میں تو اپنے جد کو سلام پیش کرنے جا تا ہوں راستے میں مکہ آ جاتا ہے تو حج بھی کر لیتا ہوں … تو جواب میں کشفی صاحب کہنے لگے، یہ حقیقت ہے کہ میرا دل مدینے میں خوب لگتا ہے، ایسے ہی ایک مرتبہ میں روضۂ رسول ﷺ کے قریب بیٹھا ہوا تھا تھا اور میرا مدینہ منورہ میں آخری روز تھا، مکہ مکرمہ روانگی کا وقت قریب آتا جا رہا تھا، اور میری یہ کیفیت کہ میں دیارِ نبی سے ہلنا ہی نہیں چاہتا۔ اپنا ہی ایک شعر ذہن و دل کو گرفت میں لیے رہا۔
افلاک کو جھکتے ہوئے دیکھا ہے نظر نے
ہے خواب گہ شاہِ مدینہ مرے آگے
یہ خیال بھی ذہن میں آیا کہ کسی طرح کوئی ایسا سبب بن جائے کہ مکہ جانا ملتوی ہو جائے، میں کچھ دیر اور، یہیں بیٹھا رہوں اور یہ کچھ دیر ساری زندگی پر محیط ہو جائے۔ میں انھی سوچوں میں غرق تھا کہ اچانک، احساس ہوا کہ میں تو طوافِ کعبہ کے لیے عمرہ و حج کی نیت سے آیا ہوں اور اب میرا دل وہیں جانے سے انکار کر ر ہا ہے، ندامت کی ایک شدید لہر نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں استغفار کا ورد کرنے لگا، اتنے میں میرے دوست مجھے لینے آ گئے، نعیم حامد علی نے میری اس دگرگوں کیفیت کی وجہ پوچھی، میں نے بتا دیا … کہنے لگے۔ ’’ کشفی صاحب اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے … آدمی کا دل آدمی ہی سے لگتا ہے۔ ‘‘ تو صدف یہی ہے تمھاری بات کا جواب، یہ جملہ سن کر میرے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔
ابو الخیر کشفی کے لیے کہا گیا ایک جملہ سنو:
’’ان کے قریبی عزیز سبھی جانتے ہیں کہ وہ ہر سال مکہ جاتے اور مدینہ میں رہتے ہیں۔ ‘‘ ۲۱؎
جملہ غور طلب ہے کہ جاتے مکہ ہیں اور رہتے مدینہ میں ہیں ……
۲۶ مئی… عمرہ سے واپس آئے دوسرا ہی دن تھا کہ جناب منصور عاقل کا فون آگیا، عمرے کی مبارک باد دیتے ہوئے الاقرباء کی کامیابیوں کی روداد سناتے رہے۔ دورانِ گفتگو کہنے لگے کہ آپ نے کشفی صاحب پر ایک تحریر مجھے بھیجی تھی میں اسے تلاش کرتا رہا، میں نے کہا کہ وہ ایک مکالمہ تھا، لیکن آپ نے ا س کی اشاعت سے معذرت کر لی تھی جب میں نے بتایا تھا کہ یہ کراچی کے ایک پرچے میں شائع ہو چکا ہے۔
’’ ہاں، میں اسے دیکھنا چاہتا تھا، کشفی صاحب سے متعلق میں آئندہ شمارے میں کچھ شائع کرنا چاہتا ہوں، حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ ‘‘
’’آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ‘‘
’’کیا آپ کے علم میں نہیں، انھیں تو رخصت ہوئے کتنے ہی دن ہو گئے ہیں۔ ‘‘
میرے ذہن میں روضۂ رسول پر ہونے والی گفتگو گردش کرنے لگی۔ ہو سکتا ہے وہ ان کی زندگی کا آخری دن ہو، جانا تو سبھی کو ہے، لیکن کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کا جانا پیچھے رہ جانے والے ان گنت لوگوں کے لیے ذاتی سانحہ کی کیفیت لیے ہو تا ہے اور کشفی صاحب میرے لیے ایک مینارۂ نور ہی نہ تھے، بلکہ محبت کا ایک ایسا چھتنار تھے جو تپش سے محفوظ رکھتا ہے بارش کی ایسی مدھم رم جھم تھے جو پورے وجود کو ٹھنڈ ک بخشتا ہے۔
تعزیت کے لیے کراچی نسیم محمود کو فون کیا، کہنے لگیں۔
’’ سب کچھ اچانک ہی ہو گیا، وہ تو عمرہ پر جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے، ویزا بھی لگ چکا تھا، لیکن جس عزیز نے ان کے ساتھ جانا تھا ان کے ویزہ لگنے میں دیر ہوتی جا رہی تھی اور کشفی صاحب کی بے قراری دیدنی تھی اور اسی انتظار میں طبعیت خراب ہوئی اور وہ رخصت ہو گئے۔ ‘‘
صدف نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا کہ کہیں ہم بچھڑ نہ جائیں، اب ہم بہت سی باتیں کرنا چاہتے تھے، لیکن وقت محدود تھا، کچھ وعدے کیے گئے کہ جب ہم دبئی عطیہ کے ہاں جائیں گے تو آپ سے ضرور را بطہ کریں گے۔ صدف کی کل صبح روانگی تھی وہ صرف تین دنوں کے لیے عمرہ کی نیت سے آئی تھی اور یہ بات تو عیاں ہے کہ انسان حرمِ کعبہ جائے اور مسجدِ نبوی سے صرف نظر کر جائے، یہ ممکن نہیں، مجبوری کی بات اور ہے۔ کل اسے اپنے کچھ عزیزوں سے ملاقات کے لیے جدہ جانا تھا اور پھر دبئی کہ جہاں چھوٹے چھوٹے بچے اس کا انتظار کرتے تھے۔
سخن سنج و سخن فہم
میں نے شاہد کو بتا دیا تھا کہ مجھے روضۂ رسول پر کچھ وقت لگ سکتا ہے اس لیے میں ظہر کے بجائے عصر کے بعد باہر آؤں گی نماز کے بعد صدف کو خدا حافظ کہا۔ باہر آ کر اسی مقام پر آ بیٹھی جہاں انگریزی حروف میں کار پارکنگ کی نشان دہی کی گئی تھی صحنِ مسجد سے ہی راستہ کار پارکنگ کی طرف جاتا ہے۔ زیرِ زمین کار پارکنگ کا رستہ ارد گرد کی سڑکوں کو بھی ملاتا ہے۔ دو منزلہ کار پارکنگ مسجد کے شمال مغربی اور جنوبی صحنوں کے نیچے واقع ہے۔ ۰۰۰، ۲۹۰ مربع میٹر کے رقبے پر محیط اس میں ۴۰۰۰ہزار گاڑیوں کو پارک کرنے کی سہولت موجود ہے، کیمروں کا انتظام بھی کیا گیا ہے، جس سے آنے والی گاڑیوں کی رہنمائی بھی کی جاتی ہے کہ ان کے لیے کون سی جگہ مناسب رہے گی۔ داخل اور خارج ہونے والی گاڑیوں کے اعداد و شمار کا بھی حساب رکھا جاتا ہے۔ پولیس اور طبی عملہ بھی ہمہ وقت موجود ہے۔ آمد و رفت کے لیے تین تین راستے بنائے گئے ہیں۔ پیدل چلنے والوں کو معلوم بھی نہیں ہو پاتا کہ ان کے قدموں کے نیچے گاڑیوں کی کھیپ موجود ہے۔ ۵۸ عمومی اور ۱۱۶ برقی زینے زائرین کو صحنِ مسجد تک پہنچاتے رہتے ہیں۔
شاہد کو فون کیا کہ اب آ جائیں، اس انتظار کے دوران میں نے شکیل کو کراچی فون کیا۔ بات نہ ہو پائی دوسرے ہی لمحے اس کا فون آگیا، سب کی خیریت معلوم کی، اسے بتایا کہ تم سب کے لیے خصوصاً جاوید، سہیل، عالی، سمیرا، مدیحہ، یونس اور طاہر کے لیے ریاض الجنۃ میں دعا کرنے کا موقع ملا ہے، اللہ قبول کرے۔ پھر عارفہ طارق کے بھائی زاہد امین کو فون ملایا، معلوم ہوا کہ نمبر درست نہیں ہے۔ اب میں نے موبائیل نمبر کے بجائے گھر کا نمبر ملایا۔ دوسری جانب سے ایک خاتون مخاطب تھیں۔ اپنا تعارف کرایا، کہنے لگیں۔
’’ ہم تو کئی دنوں سے آپ کا انتظار کر رہے تھے۔ عارفہ روز فون پر آ پ کا پوچھتی تھی کہ پہنچے یا نہیں۔ ‘‘
میں نے کہا کہ ہم کل ہی پہنچے ہیں۔ یہ آٹھ دن پلک جھپکتے گزر جائیں گے، اس لیے سوچا کہ پہلی فرصت میں آپ کو فون کر لوں۔ کہنے لگیں آپ ا پنے ہوٹل کا پتا اور فون نمبر بتا دیں۔ اتفاق سے ہوٹل کا کارڈ بھی میرے بیگ میں پڑا تھا میں نے بتا دیا اور انھوں نے رات عشاء کی نماز کے بعد ہمیں ہوٹل میں ہی انتظار کے لیے کہا۔
عشاء کے بعد ہم ہوٹل کی جانب چلے اور ہم اب کھانے کی نیت سے اسی پاکستانی ریستوران کی جانب جاتے تھے۔ وہاں جہنمی مرغی … دراصل سالم مرغی کو کھال سمیت سیخوں میں پر و کر سٹیم روسٹ کیا جاتا ہے شیشوں میں سے نیچے دہکتی آگ اور اوپر گھومتی ہوئی مرغی۔ بچوں نے اس کا نام جہنمی مرغی رکھا ہوا ہے… کا آرڈر دیا اور ساتھ ہی کل کے انڈہ کوفتہ کی تعریف بھی کر دی کہنے لگا کہ یہ شاید آپ کو اتنا پسند نہ آئے کیوں کہ اس میں نمک، مرچ اندر تک نہیں پہنچتا، آپ کو پھیکا لگے گا، خیر کھانا گھر لے کر آئے اور ہمیں آج کا کھانا بھی اپنے لوازمات سمیت بہت اچھا لگا تھا، کھانا لے کر جب ہم اپنے ہوٹل کی طرف آرہے تھے تو ایک سوزوکی وین کے ساتھ، کچھ بیچا جا رہا تھا اور با آواز بلند دکان دار لوگوں کو متوجہ کر رہا تھا۔ کچھ لوگ اس کے گرد جمع تھے، جھانکا تو معلوم ہوا کہ کھیروں کا کوئی ڈیڑھ دو کلو کا تھیلا، تین ریال میں، میں نے شاہد سے کہا کہ یہ لے لیتے ہیں۔ کہنے لگے اتنے کھیروں کا کیا کرو گی میں نے کہا کہ مکہ میں بھی تو روز ایک ریال کے تین کھیرے، جو ایک ڈیڑھ انگلی کے برابر ہوتے تھے لیا کر تے تھے، ابھی پورا ہفتہ ہمیں یہیں رہنا ہے فرج میں رکھ دیں گے۔ کھیرے لیے۔ تو اس نے ایک اور آفر دی، پودینہ ایک ریال کا تین گڈی۔ ا س پودینے میں، جس کا عربی نام نہ جانے کیا تھا، اس قدر اچھی خوشبو تھی اور اتنا تازہ کہ جیسے ابھی ابھی توڑا گیا ہو، شاہد نے کہا کہ اسے لے کر ہم کیا کریں گے۔ ہمارے پاس چٹنی بنانے کا سامان نہیں ہے … بعد میں پتہ چلا کہ لوگ خاص طور سے یہاں کا پودینہ اپنے ملک لے جاتے ہیں تازہ نہ لے جا سکیں تو سکھا کر محفوظ کر لیتے ہیں۔
کھانا کھا کر اٹھے ہی تھے کہ دستک ہوئی۔ زاہد بھائی اور افشا ں بھابی حسبِ وعدہ موجود تھے۔ انھیں رو داد سنائی کہ عارفہ سے میں نے کہا تھا کہ بھائی کا فون نمبر دے دینا، لیکن مدینے میں اتنی فرصت نہیں ہوتی، ساری توجہ عبادت کی طرف ہوتی ہے، اگر موقع ملا تو فون کر لیں گے۔ اس نے مجھے آپ کا موبائیل نمبر د ے دیا تھا۔
… ۱۹ اپریل رات سوا نو بجے متحدہ عرب امارات کی قومی ائر لائن، اتحاد ائر ویز سے ہماری روانگی تھی، جیسے ہی فضائی میزبان نے کہا کہ آپ اپنے موبائیل بند کر دیں۔ میں نے شاہد سے کہا۔
ِِ’’ میرا کون سا فو ن آتا ہے، ، میرا موبائیل تو اوپر بیگ میں پڑا ہے اب کون اسے نکالے اور بند کرے۔ ‘‘
شاہد نے اپنا موبائیل آف کیا مجھے خیال آیا کہ جب ان لوگوں نے کہا ہے تو مجھے بھی موبائیل آف کروا دینا چاہیے۔
’’بھئی میرا موبائیل بھی آف کر ہی دیں۔ ‘ ‘
شاہد اٹھے، بیگ اتارا، موبائیل نکال کر بند کر نے کے لیے انگلی اس پر رکھی ہی تھی کہ اچانک گھنٹی بجی، عارفہ کا فون تھا، کہنے لگی۔
’’ جلدی سے ایک نمبر نوٹ کریں، بھائی نے کہا ہے کہ موبائیل کبھی مصروف ہوتا ہے کبھی نمبر نہیں لگتا، اس لیے گھر کا نمبر بھی لکھ لیں۔ ‘‘
میں نے جلدی سے نمبر لکھا اور اسے بتایا کہ اگر تم آدھ سکینڈبعد فون کرتیں تو تم سے بات نہ ہو سکتی، چونکہ زاہد بھائی اور افشاں بھابی سے ملاقات نصیب میں تھی اس لیے یہ سبب بنتے گئے۔ پہلی ملاقات میں ہی زاہد بھائی کی شخصیت کے سارے اوصاف کھل کر سامنے آنے لگے۔ شاہد کہنے لگے کہ یہ ذکر تو کرتی رہتی تھی کہ میری دوست کے بھائی مدینہ میں ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ ماشا ء اللہ وہ ایک قد آور ادبی شخصیت بھی ہیں، سخن فہم و سخن سنج خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ م۔ حسن لطیفی کی بے نیازی ورثہ میں پائی ہے۔ انھوں نے باتوں باتوں میں اپنے چند ایک اشعار بھی سنائے جو کسی کو بھی متاثر کر نے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ وہی زاہد امین جن کی تخلیقات احمد ندیم قاسمی فنون میں بہت محبت اور اصرار کے ساتھ شائع کرتے ہیں۔ عارفہ اور ان کے بھائی کی مشترکہ صفت اپنے کلام کی اشاعت سے عدم توجہی ہے۔ دونوں بہترین شعر کہتے ہیں۔ عارفہ تو شاید اپنے آپ کو بھی نہیں سناتی، زاہد بھائی اپنے مخصوص حلقے میں پڑھ لیتے ہوں گے۔ یہی حال افشاں بھابی کا ہے۔ انھیں بہت تاؤ دلایا کہ پاکستان میں ایسے شاعر اور شاعرات بھی ہیں جن کے سال میں درجن بھر سے زائد مجموعے شائع ہو جاتے ہیں، لیکن نہ عارفہ پر کبھی اثر ہوا اور نہ ہی ان پر۔
کل رات عشاء کے بعد آنے کا کہہ کر وہ رخصت ہوئے کہ ہم آپ کو اپنے گھر لے جائیں گے اور ہم ایک خوش گوار ملاقات کا تاثر لیے سو گئے۔
زیاراتِ مدینہ
پیر کی صبح نمازِ فجر ادا کر کے لوٹے۔ راستے میں شاہد نے کہا کہ آج میدانِ احد نہ دیکھ آئیں اور ابھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ بس، ملے گی تو کہاں سے، ٹیکسی سے جائیں یا پیدل ہو آئیں کہ اتنے میں ہوٹل آگیا۔ استقبالیہ سے معلوم ہوا کہ زیا رات پر جانے کی بات ہو رہی ہے، یوں ہمارا زیارات پر جانے کا اچانک پروگرام بنا۔ انتظامیہ سے کہا کہ اگر ممکن ہو تو آج ہی ورنہ کل کے لیے ہمارا نام نوٹ کر لیں۔ انھوں نے کہا کہ آپ کمرے میں آرام کریں اگر ممکن ہوا تو آپ کو بلا لیں گے اور آدھ گھنٹے کے بعد ہم بس میں تھے۔ اس مرتبہ بھی خاموشی کے ساتھ ہمارے لیے بس کی اگلی نشستیں مخصوص کر دی گئی تھیں۔ ہمارے رہنما ایک صاحبِ علم شخصیت تھے اور مکہ معظمہ کی زیارات کے دوران، نظریات کے اختلاف کے سبب جو بدمزگی پیدا ہوئی تھی، اس کا ازالہ کرتے تھے۔ ابھی بڑی سڑک تک پہنچے ہی تھے کہ بس رک گئی معلوم ہوا کہ دوسری بلڈنگ سے زائرین لینے ہیں۔ ان کے انتظار میں بس رکی رہی۔ شاہد نے بتایا کے دائیں ہاتھ جو باغیچہ ہے۔ دراصل یہ مقام سقیفہ بنی ساعدہ ہے، جہاں صحابہ کرام نے حضرت ابو بکر کو پہلا خلیفہ منتخب کیا تھا۔ یہ مسجدِ نبوی کے بالکل ساتھ ہی تھا اور مجھے تو بس میں بیٹھے ہوئے مسجدِ نبوی کے احاطے میں ہی محسوس ہو رہا تھا۔
مسجد اجابہ، وہ مسجد ہے کہ جہاں آپ نے صحابہ کرام کے ہمراہ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد طویل دعا فرمائی تھی۔ تین دعاؤں میں سے دو کو اللہ نے شرفِ قبولیت بخشا تھا یعنی ا متِ مسلمہ کو قحط کے عذاب سے دور رکھنا، امت کو غرقابیِ آب سے بچانا، تیسری دعا جو بار یاب نہ ہوئی، وہ یہ تھی کہ میری امت باہمی نزاع سے محفوظ رہے۔ اس کے اثرات اسلام کے ابتدائی دور سے آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسجدِ ابی ذر میں حضور پاک نے دو رکعت نماز ادا کی تھی، طویل سجدے نے صحابہ کو پریشان کر دیا تھا، آپ ﷺ نے بتایا کہ حضرت جبرئیل نے نوید سنائی تھی کہ جو آپ پر سلام و درود پاک بھیجے گا، اللہ اس پر صلوۃ و سلام بھیجیں گے، اس شکرانے پر میں نے اللہ کے حضور طویل سجدہ کیا۔ مسجدِ غمامہ چھوٹی سی، بہت خوب صورت، مسجدِ نبوی سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ مسجد نبوی کے ہوتے ہوئے کہ جہاں ایک نماز کی ادائگی کا ثواب دوسری مساجد میں پچاس ہزار نماز ادا کر نے سے زیادہ ہے اور جس کے متعلق حضورِ پاک نے فرمایا کہ میری مسجد کو بڑھاتے بڑھاتے اگر صنعاء یمن تک بھی پہنچا دیا جائے، تب بھی وہ میری مسجد ہو گی، ان مساجد میں کون جاتا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی رونقیں رمضان اور حج کے دنوں میں بڑھ جاتی ہیں کہ دور دراز سے آئے ہوئے عشاق کے لیے مقامی لوگ، ایثار سے کام لے کر مسجدِ نبوی ان کے لیے خالی کر دیتے ہیں اور خود دیگر مساجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔ سنا ہے مسجدِ غمامہ بند ہی رہتی ہے۔ مسجدِبلال، مسجد جمعہ، مسجدِ رائیہ، مسجدِ مسترا ح وغیرہ بھی گئے، جو دور سے ہی دکھا دی گئیں، کہ یہ صرف نماز کے اوقات میں کھلتی ہیں۔
مسجدِ قبا پہنچے کہ جس کی بنیاد یں کھودنے اور دیواریں اٹھانے میں خود حضورﷺ کا پسینہ بہا، جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی۔ جس کی محراب پر یہ حدیث کندہ ہے ’’ جو شخص گھر سے پاک صاف ہو کر نکلا، اس مسجد میں حاضر ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی اسے عمرہ یعنی حجِ اصغر کی طرح ثواب ہو گا۔ ‘‘
ہمیں کہا گیا کہ دس منٹ میں سب واپس آ جائیں۔ اس مرتبہ نچلی منزل میں ہی نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ انڈونیشیا کی خواتین سے کمرہ بھرا ہوا تھا، بہر حال میں نے جگہ بنا کر نوافل شروع کیے، بارہ نفل پڑھے اور تیزی سے باہر آئی، کہ میری وجہ سے سبھی پریشان ہو رہے ہوں گے، لیکن کوئی دکھائی نہ دیا، حتیٰ کہ بس بھی نظر نہ آئی، شاہد کو فو ن کیا تو انھوں نے فون نہ اٹھایا۔ پھر خود ہی بس کی تلاش میں نکلی۔ احساس ہو رہا تھا کہ میں مخالف سمت میں جا رہی ہوں شاہد کو ایک مرتبہ پھر فون کیا، لیکن بات نہ ہو سکی۔ اتنے میں شاہد سامنے سے آتے دکھائی دیے۔ کہنے لگے کیا بات ہے۔ میں نماز پڑھ رہا تھا، تمھارے فون بار بار آرہے تھے، خیر تو ہے، میں نے کہا کہ میں سمجھی کہ سب لوگ بس میں بیٹھ کر میرا انتظار کر رہے ہوں گے، اس لیے جلدی سے آ گئی، اب نہ لوگ مل رہے ہیں اور نہ ہی بس دکھائی دے رہی ہے۔ شاہد مجھے بس کی جانب لے چلے، بس موجود مگر ایک مسافر بھی واپس نہ پہنچا تھا۔ اتنی ندامت ہوئی کہ یہ میں نے کیا کیا۔ میں اتنی دیر میں دس بیس اور نوافل ادا کر سکتی تھی۔ اب بس کا ڈرائیور اور شاہد مجھے دوبارہ جانے سے منع کر ر ہے ہیں۔ اپنی تسلی کے لیے مسجدِ قبا کے باغ میں میں نے دو نفل ادا کیے اور واپس آ گئی۔ لوگ ابھی تک نہ آئے تھے معلوم ہوا کہ شاپنگ ہو رہی ہے، ہم بھی کچھ خریدنا چاہ رہے تھے۔
مسجد قبا کے ساتھ دیگر یادوں کے علاوہ وہاں کی یخ بستہ میٹھی کھجوریں بھی تھیں۔ ڈرائیور سے کہا کہ ہم سامنے سے کھجوریں لے کر ابھی آتے ہیں تو اس نے کہا کہ یہاں سے رہنے دیں آپ کو فیکٹری بھی لے کر جائیں گے وہاں سے لے لیں، اسے بتایا کہ ہم تھوڑی سی ٹھنڈی کھجوریں کھانے کے لیے لینا چاہتے ہیں۔ کھجوریں لے کر واپس آئے۔ جیکٹس، گرم مسالے، کاجو، کھلونے، جوتے، اور نہ جانے کیا کیا، دکانیں سجی تھیں اور کرنسی ایک جیب سے دوسری جیب میں منتقل ہو رہی تھی۔ لدے پھندے لوگ بس میں داخل ہو رہے تھے۔ ہمارے شاپر میں چند کھجوریں، ٹھنڈک کا احساس بخشتی تھیں، وہی ہمراہیوں کو پیش کیں۔
مسجدِ قبلتین گئے تو میرا ارادہ تھا کہ میں اب آرام سے نفل پڑھوں گی۔ چنانچہ بہت سکون کے سا تھ نوافل ادا کیے پھر بھی میں دیگر مسافروں کے مقابلے میں پہلے آ گئی۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارا گائیڈ اوربس کا ڈرائیور بہت صابر انسان تھے، ڈرائیور کی طبیعت کھانسی زکام کے سبب خاصی خراب معلوم ہو تی تھی، لیکن وہ دھیمے مزاج کا پاکستانی تھا۔ تحمل سے سبھی کچھ دیکھتا تھا اور جلدی کرو کی گردان نہیں الاپتا تھا۔
واپسی پر ہمیں کھجوروں کی فیکٹری لے جایا گیا، جہاں مختلف اقسام کی کھجوریں خوبصورت اور محفوظ طریقے سے مناسب قیمت پر دستیاب تھیں، وہاں چند ایک کے سوا سبھی نے خریداری کی۔ ہم نے بھی مختلف اقسام کی تقریبًا بارہ کلو کھجوریں خریدیں، فیکٹری میں پیک کھجوروں کے ساتھ ہی ایک ڈبا کھلا رکھا ہوا تھا تا کہ خریدار کو چکھ کر فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ شاہد کو وزن کی فکر تھی اور مجھے علم تھا کہ ابھی تقریباً اتنی ہی کھجوریں ہمیں اور خریدنی ہوں گی پھر کہیں جا کر دوست احباب کو تبرکات دیے جا سکیں گے۔
مسجد نبوی پہنچے، صلوۃ التسبیح کا وقت نہ تھا۔ یہی ارادہ کیا کہ ظہر کے بعد پڑھ لوں گی، جتنی دیر میں پاکستانی گروپ اکٹھا ہو گا۔ روضۂ رسول پر جانے کی باری آئے گی، میں صلوۃ التسبیح سے فارغ ہو جاؤں گی۔ یہی ہوا، میرے نماز مکمل کرنے تک ابھی سب انتظار میں تھے کہ کب پاکستانی گروپ کو اذنِ حاضری ملتا ہے۔ نوافل کی ادائگی کے بعد ہوٹل آئے کھانا کھایا اور کچھ دیر آرام کے بعد پھر مسجدِ نبوی پہنچے۔ وہاں حیدر آبادی انڈین خاتون اور ان کی بیٹی سے ملاقات ہوئی۔ خاتون بہت انہماک سے پنج سورۃ پڑھ رہی تھیں۔ تلاوت ختم کر نے کے بعد انھوں نے بتایا کہ یہ پاکستانی پنج سورۃ ہے۔ پنج سورۃ کے سر ورق پر پاکستانی پنج سورۃ نمایاں حروف میں رقم تھا۔ کہنے لگیں کہ یہ ہندوستان میں بہت مقبول ہے، اس میں اہم سورتوں کے علاوہ، ہر موقع کی مناسبت سے دعائیں، ذکر وا ذکار اور درود شریف بھی موجود ہیں، کچھ دیر ہندوستان کے معاشی حالات پر بات ہوئی، مجھے تو زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا، پھر سرگودھا سے آئی ہو ئی دو خواتین نے اپنی جانب توجہ مبذول کرا لی۔ عصر کی اذان ہوئی، خواتین نے چار سنت نماز ادا کی۔ تھوڑی دیر بعد اقامت ہوئی۔ جماعت کے لیے خواتین اٹھیں تو سرگودھا سے آئی ہوئی بزرگ خاتون اپنی ساتھی سے کہنے لگیں کہ اب یہ کیا ہو رہا ہے، انھیں بتایا گیا کہ اب فرض جماعت کے ساتھ پڑھے جائیں گے۔
’’ وہ تو میں پڑھ چکی۔ ‘‘
’’ جی چاہے تو دوبارہ پڑھ لیں ورنہ آرام کریں۔ ‘‘
اور انھوں نے آرام کرنے کو ترجیح دی۔
بالکل یہی کیفیت، اسی رات نمازِ عشاء کے وقت ترکی خاتون کی تھی۔ پہلی نماز میں خواتین کے ساتھ کبھی کبھار ایسا مسئلہ ہو جاتا ہے کیونکہ انھیں مسجد میں با جماعت نماز کی ادائگی کے طریقے کا علم نہیں ہوتا۔
لذت عشقم ز فیضِ بے نوائی حاصل است
عشاء کے بعد ہوٹل پہنچے اور اسی وقت زاہد بھائی لینے آ گئے۔ معلوم ہوا کہ بھابی اور مدیحہ گاڑی میں انتظار کر رہی ہیں۔ ان سے دس منٹ کی اجازت چاہی، تیزی سے تیار ہو کر نیچے آئی، آج ان کا باہر کھانا کھلانے کا پروگرام تھا کہ اسی بہانے مدینے کی سیر بھی ہو جائے گی، وہ ہمیں اپنے دفتر کے قریب واقع پاکستانی ریستوران لے کر چلے کہ بہت اچھا کھانا ملتا ہے اور میں کئی سالوں سے یہاں آ رہا ہوں۔ دوسری منزل پر خواتین کے لیے انتظام تھا۔ سیڑھیاں کافی مخدوش حا لت میں تھیں۔ ہم سنبھل سنبھل کر چلتے تھے، لیکن وہ عادی تھے، کھانے میں انھوں نے ہر بہترین چیز ہمارے نہ نہ کرنے کے باوجود منگوا لی۔ بھوک بھی لگی ہوئی تھی کھانا گرم بھی تھا اور مزے دار بھی پیٹ بھر کر کھایا، افشاں بھابی اور مدیحہ نے کم کھایا، معلوم ہوا کہ مدیحہ کی خوراک ہی اتنی ہے اور بھابی جی کا روزہ تھا، وہ کھانا کھا کر آئی ہیں، روزے کی بات چلی تو میں اپنا دکھ چھپا نہ سکی۔
’’ میں پاکستان سے چلی تھی تو میرا مصمم ارادہ تھا کہ ایک روزہ، پیر کا روزہ مسجد نبوی میں ضرور رکھوں گی، کہ حرم کعبہ میں ایک نماز کا اور حرمِ نبوی میں ایک روزے کا ثواب لاکھ گنا ہے۔ پیر کا دن آیا تہجد کے وقت اٹھی بھی لیکن، چونکہ رات کو ارادہ کر کے نہ سوئی تھی، شاید یہ خوف تھا کہ میرے لیے روزہ مشکل ہو جائے گا، عبادت نہ کر سکوں گی، رات کو سحری کے لیے کچھ انتظام بھی نہ کیا تھا۔ اس لیے یہ خیال کہ میں تو پاکستان سے پیر کو روزہ رکھنے کی نیت ساتھ لے کر چلی تھی، کہیں پس منظر میں چلا گیا، دن انتہائی مصروفیت میں گزرا تو، کبھی ندامت کی کوئی لہر اٹھتی بھی تو خود کو تسلی دے لیتی اگر روزہ ہوتا تو میں اتنی محنت کیسے کر سکتی، لیکن عصر کے بعد جوں جوں شام ہوتی گئی میری ہر تاویل مجھے بے معنی معلوم ہونے لگی۔
عصر کے بعد سے ہی مسجد نبوی کی رونق میں کئی گنا اضافہ ہونے لگا، وہ شرطیاں جو ہمیں ایک کیلا تک اندر لانے کی اجازت دینے کی روا دار نہ تھیں۔ اب ا ن کے سامنے سے بڑے بڑے ڈبے ٹرالیوں میں لدے اگلی صفوں میں پہنچنے لگے۔ ایک دو نہیں مختلف ٹکڑیوں میں کئی طویل و مختصر دسترخوان بچھنے لگے۔ کاغذی گلاسوں اور پلیٹوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ گردش کرنے لگا، دسترخوان کے دونوں جانب خواتین نے نشستیں سنبھال لیں اور اذانِ مغرب کا انتظار کیے بغیر بہتوں نے ان نعمتوں سے فیض یاب ہونا شروع کر دیا جو انواع و اقسام کی کھجوروں، بندوں، برگر، روٹی، کیک پیس، دہی، لسی، جوسز، پھل اور آبِ زم زم پر مشتمل تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ روزہ بمشکل دو فیصد خواتین کا تھا، یہ نعمتیں مجھے بھی اپنی جانب کھنچتی تھیں لیکن ندامت مجھے آنکھیں جھکا لینے پر مجبور کرتی تھی۔ جو خواتین ان بچھے ہوئے دستر خوانوں سے دور تھیں۔ وہ بھی جا کر اپنا حصہ لے آئی تھیں یا انھیں خود منتظمین نے وہیں دے دیا تھا، میں اپنے خول میں سمٹی بیٹھی رہی کہ جب میں نے ارادے کے باوجود روزہ نہیں رکھا تو میرا ان نعمتوں پر کوئی حق نہیں۔ ‘‘
میری روداد سن کر تینوں کہنے لگے ایسی کوئی بات نہیں، یہاں اکثر لوگ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں، اس لیے بہت سے صاحبِ دل روزہ افطار کروانے کے حصولِ ثواب کے لیے، بہت کچھ بھیج دیتے ہیں۔ روزہ خواہ دس پندرہ لوگوں کا ہی کیوں نہ ہو، ان کے ساتھ افطار کا ثواب لینے سبھی شامل ہو جا تے ہیں، آپ کو بھی شامل ہو جانا چاہیے تھا۔ افسوس کی کوئی بات نہیں، جمعرات کا روزہ رکھ لیں۔
کھا نے کے بعد انھوں نے مدینہ کی سیر کروائی۔ ترک ریلوے سٹیشن کا بہت شہرہ سنا ہوا تھا، اب ہم مخدوش ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سے گزرتے تھے۔ حکومتِ ترکیہ نے عربوں کی فلاح و بہبود کے بے شمار کام کیے تھے، اکثر ایسے کہ جنھیں دیکھ کر عقلِ انسانی دنگ رہ جائے، لیکن جیسا کہ مسلمانوں کا شیوہ رہا ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی سارے جاری منصوبے لغو قرار دے کر منسوخ کر دیے جاتے ہیں بلکہ جو کچھ چکا ہو اسے بھی تباہ کر دیا جاتا ہے۔ شکر ہے کہ حرمین شریفین میں کیے جانے والے کاموں کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ زاہد بھائی بتانے لگے کہ اس ریلوے سٹیشن کو اب ایک چار دیواری میں مقید کر دیا گیا ہے، ترک چوری چھپے دیوار پھاند کر اندر داخل ہوتے اور اپنے آبا ؤ اجداد کے کارناموں کا یہ حشر دیکھ کر زار و قطار روتے ہیں۔ ترکوں کے عہد میں مدینہ سے جرمنی تک اس کی رسائی تھی لیکن اب پورے عرب میں ریلوے کے نام پر کچھ بھی نہیں۔ قریب ہی ترکوں کے عہد کی سیاہ پتھروں سے بنی عظیم الشان مسجد آج بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
ترکوں پر مجھے ایک بات یاد آئی۔
’’ مجھے خانۂ کعبہ میں بے شمار ترک نظر آئے، پاکستان میں ویزوں کا اجرا وسط اپریل سے کیا گیا تھا، جبکہ میں ٹی وی پر فجر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے وقت دیکھا کرتی تھی کہ ترک مرد و ز ن بڑی تعداد میں موجود ہیں، پھر میں نے یہاں آ کر بھی دیکھا، پاکستانی تو اکا دکا ہی تھے لیکن ترکوں کا ایک جمِ غفیر تھا، ایرانی بھی مجھے وہاں بہت کم نظر آئے۔ جو نظر آئے وہ بھی عموماً ایک گروپ بنا کر ہر نماز کے بعد بیٹھ جاتے۔ ایک عمامے والا شخص تقریر شروع کر دیتا باقی سب دھاڑیں ما ر مار کر رونا شروع کر دیتے۔ لیکن مدینہ میں مجھے ترک کم اور ایرانی بہت زیادہ نظر آئے جن کا بیشتر وقت جنت البقیع کے دروازے کھلنے کے انتظار میں گزرتا اور یہاں بھی گریہ و زاری کی وہی کیفیت ہوتی۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ایرانی قوم بہت ہی جذباتی قوم ہے شاید یہی وجہ ہے کہ سر زمینِ فارس نے بہترین کلاسیکی شاعر دنیا کو دیے ہیں۔ ‘‘
’’آپ صحیح کہہ رہی ہیں، ایرانیوں کے عقیدے کی جڑیں مکہ کی نسبت مدینے میں زیادہ گہری پیوست ہیں۔ ‘‘
’’جانے سے پہلے ایک مرتبہ ملاقات اور ہونی چاہیے ‘‘ زاہد بھائی اور بھابی ہمیں ہوٹل پر خدا حافظ کہتے ہوئے وعدہ لے رہے تھے۔ ‘‘
’’ ان شا اﷲ‘‘
سوچا ہے کہ اب شہرِ رسالت میں رہیں گے
تہجد کے وقت آنکھ کھلی، تہجد کی ادائگی کے بعد مسجد روانہ ہوئے۔ نماز ادا کی اور ہوٹل آئے۔ میرا ارادہ تھا کہ فجر کے بعد اگر ممکن ہوا تو ہر روز مسجدِ قبا جایا کریں گے، لیکن وہ ارادہ پورا نہ ہوا۔ پیر کو ہم زیارتوں پر گئے ضرور لیکن تشنگی لیے ہوئے لوٹے۔ ساڑھے آٹھ بجے گھر سے نکلے۔ دکان داروں سے، راہ گیروں سے پوچھا کیے کہ مسجدِ قبا جانے کے لیے بس کہاں سے ملے گی۔ پچھلی مرتبہ ہم بس پر ہی گئے تھے اور پیدل آئے تھے۔ ا ب کے بھی ہمارا یہی پروگرام تھا، ان کے بتائے ہوئے راستوں پر کافی دیر چلے، زیارتوں پر لے جانے والی ویگنیں تو ملیں لیکن ہمیں صرف مسجدِ قبا جانا تھا۔ کافی وقت ضائع ہو چکا تھا۔ ہم نے پیدل جانے کا ارادہ کر لیا۔ اب کے صرف اتنی مشقت زیادہ کرنا تھی کہ پچھلی مرتبہ ہم نے فوراً ہی مسجدِ قبا جانے والی بس پکڑ لی تھی۔ اب ایک تو ہم بس کی تلاش کے سبب اکتا چکے تھے، دوسرا یہ کہ اب ہمیں پوری مسجدِ نبوی عبور کر کے اس پل تک پہنچنا تھا جو ہمیں اس سڑک تک پہنچاتا جو ہمیں مسجد قبا تک لے جاتی۔ مسجد کے بلند مینار میلوں دور سے ہی اپنی جھلک دکھاتے تھے، کھجور کے لمبے لمبے درخت منظر کو حسن بخشتے تھے اور اس اکتاہٹ کو زائل کرتے تھے جو صبح سے سواری کی تلاش میں ہوئی تھی۔ نو بجے ہم نے پیدل چلنے کا ارادہ کیا اوردس بجے ہم مدینہ کی گلیاں بازار اور مکانات دیکھتے، مسجد قبا پہنچ چکے تھے۔ راستے میں چند ایک قدیم عہد کے دروازے دکھائی دیے، کچھ بے حد پرانے مکانات بھی جدید مکانات اور دکانوں کے درمیان تھے، جن کے قدیم دروازوں پر زنگ آلود قفل پڑے تھے۔ سڑک پر یک طرفہ ٹریفک رواں تھی، پھر بھی گنجان اور تنگ محسوس ہوتی تھی، جیسے ہی مسجد کا احاطہ شروع ہوا ایک خوش گواری کا احساس جاگا۔ گھاس کے سرسبز قطعات نے آنکھوں کو طراوت بخشی اور درختوں کے سائے جائے پناہ کا احساس دیتے تھے۔ مدینہ محبوبِ خدا کا محبوب شہر، تمام شہر اسلحے کے زور پر فتح ہوتے ہیں، اسے آپ کی محبت نے فتح کیا، اسے اللہ کے کلام نے مسخر کیا۔ مدینہ کے تقریباً ایک ہزار نام ہیں مدینہ، طیبہ اور طابہ مشہور ہیں۔ مدینے کا پرانا نام آپ ﷺ کا نا پسندیدہ ہے۔ آپ ﷺ نے ملامت و حزن کے مفاہیم رکھنے والے اس شہر کا نام مدینہ رکھا جو دین سے مشتق ہے اور جس کے معنی اطاعت کے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ مدینہ قبۂ ا سلام اور دارِ ایمان ہے۔ ‘‘
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ مدینہ کی مٹی میں ہر بیماری کے لیے شفا ہے۔ ‘‘
آپ ﷺ نے دعا فرمائی :
’’ اے اللہ بے شک تو نے مجھے میرے محبوب ترین شہر سے نکالا تو اب ے مجھے اپنے محبوب ترین شہر میں بسا۔ ‘‘
’’ اے اللہ جتنی برکتیں مکہ میں تو نے رکھی ہیں اس سے دوگنی برکتیں مدینہ منورہ میں رکھ دے۔ ‘‘
یہ واحد شہر ہے کہ جہاں موت کی آرزو پسندیدہ ہے۔ کاش کہ یہ دار الشفا، میرا اپنا شہر ہوتا۔ دل نے سمجھایا، اپنا ہی تو ہے۔ یہ فاصلے تو محبت اور طلب بڑھانے کا وسیلہ ہیں۔
مسجدِ قبا میں داخل ہوئی۔ نچلی منزل میں دس پندرہ خواتین عبادت میں مشغول تھیں۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں نگہبان خاتون سے اوپر کی منزل میں جانے کی اجازت طلب کی، اس نے بھی سر ہلا کر اجازت دے دی۔ دراصل جن دنوں میں رش کم ہو، اکثر مساجد کی اوپر والی منزل کو مقفل کر دیا جاتا ہے۔ مجھے یہی خدشہ یہاں تھا لیکن اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہاں ایسی پا بندی نہ تھی۔ میں اوپر پہنچی تو جی خوش ہو گیا، وہاں میں بالکل اکیلی تھی۔ سب سے پہلے میں نے صلوۃ التسبیح نہایت سکون سے ادا کی۔ پھر اس کے بعد قلم کاغذ لے کر بیٹھ گئی کہ میں بجائے ہر مرتبہ نیت کرنے میں اور اس سے پہلے سوچنے میں وقت لگاؤ ں گی۔ اس کا پہلے ہی حساب کتاب کر کے رکھ لوں۔ دو نفل ادا کرنے سے ایک عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔ میں مکہ مکرمہ دس عمروں کی نیت کر کے آئی تھی، لیکن ممکن نہ ہوا اب میں نے کاغذ قلم سنبھالا اور پندرہ تک گنتی لکھی کہ میرا ارادہ تیس نفل یعنی پندرہ عمروں کی ادائگی تھی۔ میں کس کس کے لیے عمرہ کرنا چاہتی تھی میں نے فہرست بنا لی، تا کہ مجھے ہر دو نفل ادا کرنے کے بعد بار بار سوچنا نہ پڑے۔ اب میں نے نہایت سکون کے ساتھ نوافل ادا کر نے شروع کیے اور ہر دو نوافل کے بعد فہرست پر نشان لگا لیتی۔ یوں میں گیارہ بجے کے بعد عبادت سے فارغ ہوئی۔ مجھے ہمیشہ سے خود سے گلہ ہے کہ مجھے دعا مانگنی نہیں آتی، بہر حال یہ ذمہ داری بھی اسی خدائے بزرگ و برترپہ ڈالی تو جانتا ہے میری تمام دینی و دنیاوی تمناؤں کو، جو میرے لیے بھلا ہو مجھے عطا کر۔ سو اگیارہ بجے باہر نکلی شاہد بھی باہر آ چکے تھے۔ میں پیدل چلنے کی ہمت رکھتی تھی لیکن شاہد نے ٹیکسی رکوا لی، یوں ہم دس منٹ میں حرم پہنچ گئے۔ خواتین کے حصے میں وہی شرطیوں کی چیکنگ، پارٹیشینز کو دیکھتے ہی مسجد کے تنگ ہونے کا احساس، میں حسبِ معمول اس سے اگلے حصہ میں چلی گئی، جہاں انسا ء بد ون اطفال کا بورڈ لگا تھا۔ نماز ظہر میں ابھی وقت تھا میں نے دعاؤ ں کی کتاب نکالی اور دعائیں پڑھنا شروع کیں۔ مجھے احساس ہوا کہ اندھیرا ہے۔ حیرت ہوئی کہ انتظامیہ کو اس بات کا خیال کیوں نہیں آیا کہ خواتین کو تلاوت میں مشکل ہو سکتی ہے۔ ابھی میری یہ سوچ مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ گنبد سرکے اور مسجدِ نبوی، روشنی اور دھوپ سے بھر گئی۔ دھوپ بھی ایسی تھی جو جسم کو چبھتی نہ تھی کیونکہ وہاں موجود خواتین آرام سے بیٹھی رہیں، انھوں نے فوراً ہی جگہ نہیں بدلی۔ مجھے یقین ہے کہ میں تعمیرات کے کام کی بنا پر اور خواتین کے پارٹیشنر کی وجہ سے وہ کشادگی اور وسعت محسوس نہیں کر رہی جو میرے دل کی طلب تھی، تو کوئی بات نہیں، ان شا اللہ میں اگلی مرتبہ آؤں گی تو میں جس سمت بھی نگاہ کروں گی لامحدود حسن و جمال مجھے اپنی پناہ میں لے لے گا۔
عثمان لائبریری
مغرب کے وقت شاہد کا فون آیا :
’’ میں یہاں مسجد نبوی کی لائبریری اور نوادرات دیکھ کر آ رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ خواتین کے حصے میں بھی بابِ عثمانِ ۲۲ نمبر پر لائبریری موجود ہے۔ تم فوراً ادھر کا چکر لگا لو۔ ‘‘
میں بابِ عثمان کی جانب چلی ذرا سی تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ لائبریری اوپر ہے۔ سرخ قالین سے مزین سیڑھیاں چڑھنے کے بعد میں لائبریری میں موجود تھی، جہاں عربی کتب زیادہ تھیں، کچھ کتابیں اردو کی بھی تھیں۔ اس مختصر سی لائبریری میں چند ایک خواتین مطالعے میں مصروف نظر آئیں۔ منتظمہ سے کوئی بات پوچھنے کی کوشش کی تو بات سمجھنے کے بجائے فوراً کہہ دیا کہ اردو نہیں جانتیں، بالکل شرطیوں والا روّ یہ تھا۔ میں نے دو ایک کتابیں دیکھیں۔ میرا خیال تھا کہ کتب خانے میں میرا بہت دل لگے گا، ایسا نہ ہوا میں جلد ہی باہر آ گئی، اچھا ہی ہوا، مجھے تسبیحات اور نوافل کا موقع مل گیا۔
عشاء کے بعد شاہد آئے۔ وہ مردانے حصے میں واقع بابِ عمرؓ کے اوپر لائبریری اور نوادرات نہ صرف دیکھ کر آئے تھے بلکہ انھوں نے اپنے موبائیل کیمرے سے نایاب و نادر مخطوطات کی تصاویر بھی لیں تھیں جو اتنی واضح ہیں کہ عبارت بھی صاف پڑھی جاتی ہے۔ انھوں نے مسجد نبوی کی بڑی لائبریری میں بھی کچھ وقت گذارا قرآن، حدیث، فقہ کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان کتابو ں کی بھی تھی جو تاریخِ مدینہ اور مسجدِ نبوی کے بارے میں تھیں، با تصویر کیٹلاگ آپ کوشہر مدینہ اور مسجد نبوی کے ہر اس دور کی جھلک دکھلاتے ہیں، جس کو آپ دیکھنا چاہیں۔ انھوں نے اپنے موبائل سے ان صفحات کی بھی بے شمار تصاویر اتاریں ہیں جو کمپیوٹر پر فوٹو کاپی نہیں اصلی معلوم ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ تصاویر اس شک کے ساتھ اتاریں تھیں کہ پتہ نہیں ان کا کیسا ریزلٹ آتا ہے، مگر کمپیوٹر پران تصاویر کو دیکھ کر اب بہت سی تصاویر نہ بنانے کا افسوس ہے۔ لائبریری کے مہتمم سے عربی زبان کے علاوہ کتابوں بالخصوص اردو سیکشن کے نہ ہونے کی بات کی تو انہوں نے اردو کی بے شمار کتب دکھلا دیں جو لائبریری کے لیے آئیں مگر منظوری نہ ملنے کی وجہ سے شیلف پر جگہ نہ پا سکیں۔ دوسرے ان کتابوں کو شیلف کرنے کے لیے کیٹلاگنگ کی جو محنت درکار ہے اس سے جان چھڑانا بھی صاف محسوس ہوا۔ کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا یہ روّیہ پاکستان میں بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے جو ان کے تعلیمی انحطاط کا باعث ہے۔
جنت البقیع
جنت البقیع نمازِ فجر کے بعد کھلتا ہے، نمازِ فجر کے بعد میں اور شاہد جنت البقیع کی جانب گئے۔ ایرانیوں کا جمِ غفیر تھا جو در وا زہ کھلنے کا منتظر تھا۔ ہم بھی اس سیلابِ بیکراں میں شامل ہو گئے، لیکن اس طرح کہ اس کا حصہ نہ بن سکے۔ سبھی ہمیں اجنبی نگاہوں سے تکتے تھے اور میں حیرت سے انھیں دیکھتی تھی۔ زائرین کے ان گنت بڑے بڑے گروپ تھے، جو اپنے اپنے اپنے علم کے تحت منظم انداز میں منتظر تھے۔ یہ علم انھیں ان کے سفری منتظمین نے عطا کیے تھے۔ میں ان کے نام پڑھتی جا تی تھی اور ان کے ذوق کو سراہتی تھی، جو چند ایک نام میر ے ذہن میں محفوظ رہ گئے کچھ یوں تھے، بوئے پیراہنِ یوسف، نسیمِ سحر، عنقا، لالہ گرگان، نگاہِ نور، طریقِ صالحین، صا حب الزماں، زم زم سیرِ کاشان، گلِ نرگسِ حجاز، مشتاقانِ نورِ خراسان، انوارِ النبی، نخلِ نور، راہِ صفا۔
جنت البقیع جانے کا اذن ہوا، سبھی چلے، شاہد آگے تھے انھیں کچھ نہ کہا اور میں دو قدم پیچھے تھی مجھے روک لیا کہ عورتیں عصر کے بعد جا سکیں گی۔ ایرانی مرد و زن سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جا رہے تھے، شاہد نے کہا کہ تم یہیں رکو میں ابھی فاتحہ پڑھ کر آ جا تا ہوں، میں نے کہا میں روضۂ رسول کی طرف جا رہی ہوں۔ میں نے سوچا کہ مجھے جنت البقیع نہیں جانے دے رہے تو میں روضۂ رسول ہی جا کر درود شریف پڑھ لیتی ہو ں۔ وہیں سے حضرت عثمانؓ اور دیگر مرحومین کے لیے د عا کہہ لوں گی۔ جنت البقیع کی سرزمین دنیا کا عظیم خزینہ سمیٹے ہوئے ہے۔ شیخ ابو عبداللہ، ابنِ بطوطہ اپنے سفرنامے میں لکھتے ہیں :
’’بقیع الغرقد مدینہ منورہ کی مشرقی جانب واقع ہے۔ یہاں کے زائرین جس دروازہ سے نکلتے ہیں، اس کا نام بابِ بقیع ہے، اس دروازے کے بائیں طرف صفیہ بنتِ عبد المطلب کا مزار مبارک ملتا ہے۔ اس مزار کے سامنے امام المدینہ عبد المالک بن انسؓ کا مزارِ مبارک ہے اس مزار کے سامنے خلاصۂ خاندانِ مقدسِ نبوی یعنی، حضرت ابراہیم رسول اللہ ﷺ کے صاحب زادے کا مزارِ مبارک ہے، اس پر سفید رنگ کا ایک قبہ بنا ہوا ہے۔ قبہ کے دا ہنی جانب عبدالرحمن ابنِ عمر ابنِ خطاب کا مزار ہے۔ اس کے مقابل عقیل ابنِ ابی طالب مزارات ہیں۔ یہ گنبد بہت بلند اور نہایت مستحکم بنا ہوا ہے ان دو حضرات کے مزارات زمین سے بہت بلند اور وسیع بنے ہوئے ہیں اور ان پر نہایت خوبی سے تختے جڑے ہیں اور ان پر پیتل کے پتر چڑھائے ہیں، جن پر نہایت نادر کام کیا ہوا ہے۔ نیز بقیع میں مہاجرین و انصار اور کل صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے مزارات ہیں امیر المومنین عثمان ابنِ عفان کا مزار ہے اس پر ایک بہت بڑا قبہ بنا ہوا ہے۔ اس کے قریب، فاطمہ بنت اسد، حضرت علی کی والدہ کا مزار مبارک ہے۔ ‘‘ ۲۲؎
ابنِ بطوطہ ہمارے دور میں ہوتے تو دیکھتے کہ جنت البقیع، جنت المعلیٰ کی مانند ایک سپاٹ میدان کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ہم اہرامِ مصر اور ابو الہول تو آج بھی دیکھ سکتے ہیں نہیں دیکھ سکتے تو اپنے ہی آثار نہیں دیکھ سکتے۔
میں بابِ جبرئیل کے سامنے پہنچی، شرطوں نے رسیاں لگا کر درِ نبی سے کافی فاصلے پر خواتین کو رکنے پر مجبور کیا ہوا تھا، میں صحن کے ٹھنڈک پہنچاتے شفاف فرش پر بیٹھ گئی، یاسین شریف پڑھی اور منزل کی تلاوت کے بعد درود شریف پڑھنا شروع کیا۔ ثمینہ رحیم، میری دوست، سبھی اس کے عشقِ رسول کی شدت و گہرائی سے آگاہ ہیں۔ ہر ربیع ا لاول میں سوا لاکھ درود شریف اس کا بر سوں کا طریقہ رہا ہے، کئی مرتبہ زیارتِ رسول ﷺسے بھی مشرف ہو چکی ہے۔ میں نے اس کی جانب سے سو مرتبہ درود شریف پڑھنے کا ارادہ کیا، کو شش میری یہ تھی کہ لمحہ بھر کے لیے بھی میری نگاہ، روضۂ پاک سے نہ ہٹے، میں درود پڑھتی جاتی تھی اور یہ خیال بھی ذہن میں موجود تھا کہ شاہد نے بہت دیر لگا دی لیکن چونکہ میں ان کی قدیم آثار میں دلچسپی اور تاریخی مطالعے سے آگاہ تھی اس لیے مطمئن تھی کہ وہ ایک ایک پتھر، ایک ایک مقام کو دیکھ رہے ہوں گے۔ سو مرتبہ درود شریف ختم کر چکی تو میرے قریب سے شاہد مجھے تلاش کرتے ہوئے گزر گئے، شاید میں نے سلمانی ٹو پی پہن رکھی تھی؟ …میں نے بھی جانے دیا۔ ایک دوسرے کو ڈھونڈھنے کی خواری کا مزہ بھی تو لینا تھا، جو اس دن لے لیا کیونکہ صبح جلدی میں شاہد اپناموبائل قیام گاہ چھوڑ آئے تھے …خیر ناشتے کے لیے ہوٹل گئے۔ مجھے یہ لالچ ہوتا تھا کہ اشراق کے بعد روضۂ رسول کھولا جاتا ہے جو دس گیارہ بجے تک کھلا رہتا ہے تو اگر ہم نمازِ فجر کے بعد ہوٹل آ بھی جاتے ہیں تو بجائے ظہر کے وقت جانے کے، ہم نو دس بجے واپس حرم آ جایا کریں، چنانچہ ناشتے کے بعد ہم پھر حرم آ گئے۔
خوش نصیبی درِ ذات پہ دستک دیتی تھی
روضۂ رسول پہنچی آج بغیر انتظار کے اندر جانے کا موقع مل گیا کیونکہ پاکستانی گروپ اس وقت ریاض الجنۃ میں مو جود تھا، میں نے سوچا کہ دو چار نفل پڑھنے کا موقع بھی مل گیا تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔ میرے نصیب جاگے ہوئے تھے، مجھے ستون عائشہ کے قریب چودہ سے زائد نفل ادا کرنے کا موقع مل گیا، ستونِ عائشہ اور دیگر ستون، خواتین کی دسترس میں نہیں ہیں، ہم انھیں پارٹیشنز کے پیچھے سے گردن اونچی کر کر کے دیکھتے تھے اور ان کے قریب جگہ مل جانے کو سعادت جانتے تھے اور جانتے ہیں۔ مجھے اپنے جاگتے نصیبوں پر بے حد خوشی تھی لیکن عرقِ ندامت بھی میری پیشانی کو بھگوتا تھا۔ میں جو ذرۂ خاک ہوں، اپنی قسمت پر نازاں ہوں کہ دیارِ حبیب پر بار بار حاضر ہو رہی ہوں۔ کیا میں آدابِ حاضری سے آگاہ ہوں۔ مجھے علامہ اقبال یاد آئے، کیا علامہ اقبال کا کسی بھی شخصیت سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے، بے شک آپ کا جواب اثبات میں ہو، میں اسے تسلیم نہیں کرتی۔ اقبال کے دل میں سرزمینِ حجاز چھونے کی، وہاں سجدہ ریز ہونے کی تمنا کتنی شدید تھی، عشقِ رسول ﷺ کس طرح ان کے جسم و جاں کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا، دیارِ حبیب حاضر ہونے کی کتنی تڑپ تھی، سب ان کے کلام سے ہویدا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ علامہ اقبال کو موقع نہیں ملا، دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے وہ لاہور سے ۸ستمبر۱۹۳۱ء کو روانہ ہوتے ہیں، ۱۲ نومبر تک لندن میں قیام کرتے ہیں، اٹلی ہوتے ہوئے ۲۹ نومبر کو بحری جہاز ’’وکٹوریا ‘‘ سے مصر روانہ ہوئے، پانچ دن مصر اور نو دن فلسطین میں قیام رہا، بیت المقدس میں نماز پڑھنے اور اہم مقامات کی زیارات کے کئی مواقع نصیب ہوئے۔ واپسی کا سفر حجاز کے راستے کیا جا سکتا تھا۔ دیرینہ آرزو کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا بہترین موقع تھا۔ لیکن یہاں کوئی عام مسلمان نہیں بلکہ عاشقِ رسول علامہ اقبال تھے جو آداب عشق کے تمام قرینے نبھانے جانتے تھے۔ اقبال لکھتے ہیں :
’’ مدینۃ النبی کی زیارت کا قصد تھا مگر میرے دل میں یہ خیال جا گزیں ہو گیا کہ دنیوی مقاصد کے لیے سفر کرنے کے ضمن میں حرمِ نبوی کی زیارت سوئے ادب ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامی احباب سے وعدہ تھا کہ جب حرم کی زیارت کے لیے جاؤں گا تو وہ میرے ہم عناں ہوں گے۔ ان دونوں خیالوں نے مجھے باز رکھا، ورنہ کچھ مشکل امر نہ تھا یروشلم سے سفر کرنا آسان ہے۔ ‘‘ ۲۳ ؎
اس کے علاوہ نذیر نیازی سے بھی تذکرہ ہوا تو یہی فرمایا :’’ اس بات سے شرم آتی تھی کہ گویا میں ضمناً دربارِ رسول ﷺ میں حاضر ہوں۔ ‘ ‘ ۲۴ ؎
انھی سوچوں میں تھی کہ عصر کے بعد زاہد بھائی کا فون آگیا کہ آج رات ہمارے ساتھ کھانا کھائیے، میں عشاء کے بعد لینے آ جاؤں گا، دعوت رد کرنا اور وہ بھی اس نبی ﷺ کے شہر میں جس نے فرمایا ہے کہ دعوت خوش دلی سے قبول کرو خواہ اس میں سرکہ اور پیاز ہی پیش کیا جائے۔ ہم ان کی جانب سے ایک پر تکلف دعوت، بے تکلف انداز میں لے چکے تھے اس لیے جھجک ہوتی تھی، بہت معذرت کی لیکن انھوں نے کہا کہ میں عشاء کے بعد لینے آ رہا ہوں تیار رہیے گا۔ مغرب کی نماز کے بعد افشاں بھابی کا بھی فون آگیا کہ میں آپ کو یاد دلا دوں کہ آپ آج رات ہمارے ہا ں آرہے ہیں، شاہد مردانے حصہ میں تھے۔ ہم لوگ انتہائی ضرورت کے وقت ہی فون کرتے۔ ایک تو فون کی گھنٹی آدابِ مسجد کے خلاف معلوم ہوتی دوسرے یہ احتمال کہ ممکن ہے مخاطب عبادت میں مصروف ہو، یہی خیال رہا کہ شاہد نمازِ عشاء کے بعد آ ہی جائیں گے تو ہم انتہائی تیزی کے ساتھ گھر آ کر تیار ہو جائیں گے، عشاء پڑھتے ہی میں باہر مقررہ مقام پر آ کر کھڑی ہو گئی۔ کافی دیر گزر گئی، فون کیا تو فون نہ اٹھایا۔ چند منٹ بعد دوبارہ کیا، جواب ندارد، اب مجھے پریشانی کے ساتھ ساتھ اپنی حماقت کا بھی احساس ہوا کہ مجھے عصر کے وقت ہی فون کر دینا چاہیے تھا کہ آج زاہد بھائی ہمیں عشاء کے بعد لینے آرہے ہیں، خیر اتنے میں شاہد آتے ہوئے دکھائی دیے، جان میں جان آئی۔ شاہد بہت خوش تھے۔ کہنے لگے اس وقت مجھے منبرِرسول پر نوافل ادا کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ بہت سکون سے نوافل ادا کر رہا تھا، تمھاری پریشانی کے خیال سے آ گیا ہوں، میں نے انھیں کہا کہ جلدی چلیے۔ زاہد بھا ئی کا فون آیا تھا، وہ ہمیں لینے کے لیے ہوٹل پہنچ گئے ہوں گے۔ ابھی ہوٹل کے دروازے پر پہنچے نہیں تھے کہ زاہد بھائی کا فو ن آگیا کہ میں سڑک پر کھڑا آپ کا منتظر ہوں، شاہد تو فوراً ہی چلے گئے میں نے پانچ دس منٹ کی مہلت مانگی۔ میرے نیچے آنے تک ادبی و سیاسی گفتگو کئی رخ بدل چکی تھی۔
اب ہم ان کے گھر جاتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ قریب ہی ہو گا، لیکن ایسا نہ تھا، گاڑی کئی موڑ کاٹ کر ان کے گھر پہنچی، زاہد بھائی کا کہنا تھا کہ گھر دور نہیں ہے ٹریفک کی زیادتی کے سبب ایسا محسوس ہو رہا ہے۔ گھر پہنچے۔ ایک نفیس اور با ذوق خاندان کا گھر ایسا ہی ہو نا چاہیے تھا۔ مدیحہ اور افشاں بھابی نے کافی اہتمام کیا ہوا تھا اور حسبِ توقع بہت مزے دار بھی۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔ میں چائے نہیں پیتی، اس لیے عربی مٹھائی کے مختلف ذائقے چکھتی رہی۔ مختلف شخصیات کا تذکرہ ہوتا رہا۔ سید ضمیر جعفری، عطا الحق قاسمی، منور ہاشمی، امجد اسلام امجد، نسیم سحر، طلعت نورین عروبہ وغیرہ، جو عرب کی فضا کو اردو شعر و ادب سے مہکاتے رہتے اور وہاں کے تارکِ وطن باسیوں کو اپنی مٹی سے قریب ہو نے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ زاہد بھائی کے دوست عمر صاحب اور ان کی بیگم آ گئے۔ زاہد بھائی ان سے اجازت لے کر ہمیں چھوڑنے کے لیے نکلے۔ ہم کہتے ہی رہے کہ ہم ٹیکسی سے چلے جائیں گے۔
اگلے روز جمعرات تھی۔ یعنی پیر کو روزہ نہ رکھ سکی تھی، اب مجھے جمعرات کو رو زہ رکھنا تھا، لیکن میں تو اس وقت سونا چاہتی تھی، سحری کے لیے کچھ ہے یا نہیں، ابھی کچھ سوچنے کا موڈ نہ تھا۔ صبح تہجد کے وقت جاگی، فرج میں برگر، دودھ، پھل سبھی کچھ تھا لیکن، روٹی سالن تو نہ تھا، اس کے بغیر کیسے روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ میں نے تہجد کے نوافل پڑھے اور مسجد جانے کی تیاری کی، نمازِ فجر کے بعد ہوٹل آ گئے، نو بجے دوبارہ حرمِ پاک پہنچی تا کہ روضۂ رسول پر نوافل ادا کرنے کا موقع مل جائے۔ پارٹیشن کھول دیا گیا تھا۔ پاکستانی گروپ چھتریوں والے صحن میں اپنی باری کا منتظر بیٹھا تھا۔ میں بھی ان میں شامل ہو گئی۔ ابھی بیٹھے ہوئے دو منٹ بھی نہ ہوئے ہوں گے کہ ایک شنا سا چہرے پر نگاہ پڑی۔ میں انتہائی تیزی سے اس کی طرف لپکی اور پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اسی اثنا میں یہ خیال بھی آیا کہ میں نے ایک جھلک دیکھی تھی اگر یہ کوئی اور ہوئیں تو… لیکن اب میں ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ چکی تھی۔ انھوں نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور حیران رہ گئیں، کہنے لگیں۔
’’میرا تو خیال تھا کہ اب آپ سے ملاقات ممکن نہیں، میں تو سمجھی تھی کہ آپ تو آ کر مکہ واپس جا چکی ہوں گی۔ ‘‘
جی ہاں سعیدہ جدون سے ملاقات بھی روضۂ رسول پر ہی لکھی تھی۔
میں کالج میں پرنسل ڈاکٹر طیبہ صدیقی کے پاس اپنی ڈیڑھ ماہ کی چھٹیوں کے لیے چند دنوں سے چکر لگا رہی تھی۔ مجھے دبئی بھی جانا تھا اور عمرہ کے لیے سعودیہ بھی اور اسی سلسلے میں، میں اکثرپرنسپل کے پاس آ جا رہی تھی اور وہ مجھے صائب مشورے دے رہی تھیں۔ ایک روز میں ان کے پاس گئی تو انھوں نے دستخط کرتے ہوئے کہا:
’’ جلدی سے جاؤ، ابھی ابھی میں نے سعیدہ جدون کی عمرے کی درخواست پر دستخط کیے ہیں وہ اے جی پی آر جا رہی ہے، وہاں سے دستخط کروا کے فیڈرل ڈ ایر یکٹوریٹ جانا ہو گا، درخواست جمع کروانے، تو تم دونوں ایک ساتھ ہی اپنا کام کر والو، جلدی بھاگو۔ ‘‘
لیکن میرا بھاگنا کام نہ آیا وہ جا چکی تھی، بہر حال دو منٹ بعد میں بھی پہنچ گئی، سعیدہ اور نبیلہ اے جی پی آر کے دفتر میں موجود تھیں، سن کر بہت خوش ہوئیں کہ میں بھی عمرہ پر جا رہی ہوں، ہم دونوں نے اندازے سے تاریخ لکھ دی تھی، حتمی تاریخ ویزہ ملنے کے بعد ہی بتائی جا سکتی تھی۔ ہم آنے والے خوش گوار دنوں کی باتیں کرتے رہے اور ماضی کے تذکرے ہمارے شوق میں اضافہ کرتے تھے، میں ایک مرتبہ اور سعیدہ تین مرتبہ وہاں جا چکی تھیں اور ہر مرتبہ پہلے سے کہیں زیادہ تڑپ لے کر لوٹتی تھیں۔ باتوں میں پتا بھی نہ چلا اور ہمارے ہاتھ میں اجازت نامہ آگیا۔ دفتری وقت ختم ہو رہا تھا اس لیے ڈائریکٹوریٹ کا کام آئندہ پر چھوڑا اور گھر آ گئے۔ اب کالج میں جب بھی ملاقات ہوتی، استفہامیہ بات چیت ہوتی:
’’ویزے کب ملنا شروع ہوں گے ؟ کس سفری ادارے سے رابطہ کیا ہے ؟۔ کون سی درجہ بندی کے کتنے پیسے لے رہے ہیں ؟ سنا ہے کہ ربیع الاول کے پہلے ہفتے سے ویزے لگنے شروع ہوں گے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ اب تو ربیع الاول ختم ہونے والا ہے۔ ابھی تک سعودی سفارت خانے نے ویزا حکمتِ عملی کا اعلان نہیں کیا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ پاکستانیوں کے لیے اعلان نہیں ہوا کیونکہ وہ ربیع الاول میں وہاں جا کر نعتیہ محفلیں منعقد کراتے ہیں۔ ‘‘
غرض جیسے جیسے ویزے لگنے میں دیر ہو رہی تھی عجیب و غریب باتیں سننے میں آ رہی تھیں اور میں ہر بات کے جواب میں یہی ایک سوال سوچ کر چپ ہو جا تی تھی کہ میری بار اتنی دیر کیوں کری؟ جس بھی ٹریولنگ ایجنسی کے پاس جاتے وہ تین چار روز انتظار کا کہہ دیتے اور ابھی تک ہمارا دل بھی نہیں ٹھہرا تھا اور جب وقت آیا تو پھر دل ٹھہرنے میں لمحہ بھر نہیں لگا۔ ہماری ایجنسی نے سترہ اٹھارہ کے بعد کی تاریخ دے دی اور میڈم سعیدہ جدون کو سولہ تاریخ کا عندیہ ملا۔ پرائیویٹ ٹور آپٹرز کے خوار کر دینے والے قصے بہت سن رکھے تھے، لیکن کوئی اور چارہ بھی نہ تھا۔ سعیدہ سولہ کو نہ جا سکی کہ ابھی سیٹ نہیں ملی پھر اس کی وہ کزن جو گذشتہ مقدس اسفار میں اس کے ہمراہ رہی تھی اسی روز دنیا سے سفرِ آخرت باندھ چکی تھی۔ سعیدہ اس کی آخری رسومات میں شریک تھی۔ ہمیں ۱۹ تاریخ کی نشستیں ملیں اور ۱۹ اپریل کی صبح میں کالج گئی تو سعیدہ موجود تھی۔ کہنے لگی وہاں جا کر دعا کرنا۔ اللہ میرا سبب بھی جلد بن جائے۔ مکہ پہنچ کر ہر طواف کے وقت نا صرف دعا کرتی بلکہ میری نگاہیں اسے ڈھونڈتی بھی رہتیں۔ اے اللہ مجھے یہیں کہیں وہ دور سے ہی سہی طواف کرتی نظر آ جائے، بے شک میں اس سے مل بھی نہ سکوں، بس مجھے پتا چل جائے کہ وہ پہنچ گئی ہے … اور اب اس سے ملاقات ہوئی تو کہاں جب ہم صحنِ روضۂ رسول میں بیٹھے ہیں۔ اسے کل ہی واپس جانا ہے۔ اب ہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں کہ بچھڑ نہ جائیں۔ سعیدہ کی خواہش تھی کہ اسے ستونِ عائشہ کے قریب نفل ادا کرنے ہیں۔ بڑی مشکل سے اسے صفِ اول میں جگہ ملی۔ میں اس سے دو صف پیچھے تھی۔ ہم دونوں نے نوافل کی ادائگی شروع کی، کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ سعیدہ وہاں موجود نہیں ہیں، مجھے بھی ستونِ عائشہ کے قریب جگہ مل گئی اور میں نے ان گنت نوافل اپنے پیاروں کے لیے دعا کر تے ہوئے، بڑے اطمینان سے پڑھ لیے اور جب وقت ختم ہونے کا اعلان ہونے لگا تو نظر دوڑاتی ہوئی باہر آئی۔ صحنِ رسول، پھر وہ راستہ جہاں سے ہم جایا کرتے تھے، انساء بدون اطفال، اس کے باہر کا حصہ، پھر صحن مسجد، کچھ پتا نہ چلا کہ سعیدہ کہاں گئی … یہی خیال آیا کہ میں صرف اسے دیکھنا چاہتی تھی، اللہ نے ملاقات بھی کر وا دی یہی اس کا احسان ہے میں اپنی مخصوص جگہ پر لوٹ آئی لیکن رات گئے تک میری نگاہیں متلاشی رہیں۔
دن میں بھی ایک خلش بہت ستاتی رہی، کہ میں پیر کو روزہ نہ رکھ سکی تھی تو دل کو تسلی دے لی تھی کہ جمعرات کو روزہ رکھ لوں گی اور نہایت بیکار وجوہات کی بنا پر نہ رکھا جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا ندامت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، میں تو خود کو بہت مضبوط سمجھتی رہی ہوں، کیا میں بھوک سے ڈر گئی۔ کیا میں اس بات سے خوف زدہ ہو گئی کہ روزہ رکھ کر میں عبادت نہیں کر سکوں گی۔ یہاں تو صرف نماز پڑھنی ہوتی ہے، طواف، سعی وغیرہ تو نہیں کر نی ہوتی۔ غرض شرمندگی مجھے سر اٹھانے نہیں دے رہی تھی۔ عصر کے وقت غیر ارادی طور پر قرآن پاک کھولا اور پہلے پارے کی تلاوت شروع کر دی، یہاں اپنی ایک اور کوتاہی کا اعتراف کر تی چلوں، میں پارہ بہت دیر میں ختم کرتی ہوں، عموماً چالیس منٹ لگ جاتے ہیں۔ حج کے موقع پر تو پھر ایک قرآن پاک ختم کر لیا تھا جو میں گھر سے شروع کر کے گئی، ورنہ مکہ معظمہ میں میری ساری توجہ طواف یا تسبیحات پر رہی تھی یا مخصوص سورتوں کی تلاوت کرتی رہی تھی اوراس مرتبہ تو پتا نہیں کیا ہوا تھا کہ قرآن پاک کی تلاوت نہیں کر سکی تھی، الگ الگ سورتیں ہی پڑھتی رہی تھی۔ ا ب ایک مکمل پارہ پڑھا تو بہت ا چھا لگا کہ کم از کم دل کو یہ تسلی تو ر ہے گی کہ میں نے قرآن پاک مسجدِ نبوی میں شرو ع کیا، ختم تو ظاہر ہے پاکستان جا کر ہی ہو گا۔
پارہ پڑھ کر نگاہ اٹھائی تو وہی پیر والا منظر دکھائی دیا۔ بڑی بڑی ٹرالیاں، بند، برگر، پھل، جوس، دہی، لسی، انواع و اقسام کی کھجوریں اور پتا نہیں کیا کیا، کئی ٹکڑیوں میں پلاسٹک کی چادریں بچھا ئی جا چکی ہیں۔ ان کے گرد خواتین بیٹھی ہیں، مغرب میں ابھی کا فی دیر ہے لیکن دستر خوان سجتے جا رہے ہیں۔
’’مجھے اس طرف دیکھنا بھی نہیں ہے ‘‘… لیکن زاہد بھائی نے کہا۔
’’ آپ روزہ داروں کے ساتھ شریک ہونے کے ثواب سے کیوں محروم رہنا چاہتی ہیں، آپ کو ضرور شامل ہونا چاہیے تھا، آپ نبی اکرم ﷺ کے مہمان تھے۔ آپ کیوں ان کے دستر خوان سے خالی اٹھ آئے؟ ‘‘
میں تھکے تھکے قدموں سے پہلی صف کی جانب چلی اور خاموشی سے جا کر بیٹھ گئی۔ وہاں کیا کیا نعمتیں موجود تھیں، ترکی، انڈونیشیا، عرب، مصر، پاکستان و ہندوستان غرض سبھی لوگ اس دسترخوان سے فیض اٹھا رہے تھے۔ کئی خواتین بڑے بڑے تھیلوں یا ٹوکریوں میں دیے جانے والے جوسز اور بند وغیرہ ڈال رہی تھیں۔ کچھ خواتین کے پاس کوئی شاپر نہ تھا اور سامان اتنا تھا کہ ایک وقت میں کھانا ممکن نہ تھا، ایک خاتون آئیں، ان کے پاس درجنوں شاپر ز تھے، جن خواتین کو ضرورت تھی انھوں نے ہاتھ بڑھا کر لے لیے، مسجد نبوی میں آپ کو کوئی مسئلہ ہو اور وہ حل نہ ہو پائے یہ کیسے ممکن ہے۔
کانوں میں رس گھولتا سرائیکی لہجہ
میرے ساتھ ملتان کے علاقے کی ایک خاتون بیٹھی تھیں، سرایئکی لہجہ کانوں میں رس گھولتا ہے، میں نے سنا تو تھا تجربہ نہ ہوا تھا، معلوم ہوا گذشتہ پانچ سالوں سے یہاں مقیم ہیں، میاں کی لانڈری ہے، اچھی گزر اوقات ہو جا تی ہے۔ میں نے پوچھا۔
’’ کیا پاکستان یاد نہیں آتا، عزیز رشتہ داروں سے ملنے کو دل تو چاہتا ہو گا۔ ‘‘
وطن تو وطن ہوتا ہے، رہی بات عزیزوں کی تو تقریباً سارے ادھر ہی ہو تے ہیں۔ ‘‘
’’پھر تو آنا جانا لگا رہتا ہو گا۔ ‘‘
’’نہیں جی، اتنی فرصت کہاں، ہم عورتیں سارا دن گھر میں ہی رہتی ہیں۔ کام کر لیں یا آرام کر لیں۔ مرد کام پر نکل جاتے ہیں۔ ہاں جمعرات کے جمعرات ہمیں عصر کے بعد مسجدِ نبوی چھوڑ جاتے ہیں اور عشاء کے بعد لے لیتے ہیں، عبادت بھی ہو جاتی ہے اور دیورانیوں، جٹھانیوں اور کزنو ں سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے، باجی میرے لیے بھی دعا کرنا باقی سب کے توبچے ہیں ا ن کا دن تو مصروف گزر جاتا ہے، میں سارا سارا دن خالی گھر میں کام ہی ڈھونڈتی رہتی ہوں۔ ‘‘
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ان کی کوئی رشتہ دار آ گئیں، دونوں نے گھریلو معاملات و مسائل پر گفتگو شروع کر دی، انھوں نے وہیں موجود کھجوروں وغیرہ سے ان کی تواضع کی کچھ دیر بعد وہ رخصت ہو گئیں۔ میں نے محسوس کیا کہ دونوں اپنے طرزِ زندگی سے، مطمئن تھیں، کوئی گلہ شکوہ نہیں کہ تم میرے گھر کیوں نہیں آئیں۔
مجھے پروفیسر عبد الرحمٰن کی بات یاد آئی، جو انھوں نے حرم کعبہ کے حوالے سے لکھی ہے:
’’ حرم میں جمعہ کی نماز ادا کی تو میں جنوبی حصے کی جانب چلا جب بابِ بلال، بابِ حنین اور بابِ اسماعیل سے داخل ہوں تو ان کے درمیان حرم کشادہ اور مسقف ہے۔ ان دنوں یہاں ضلع ملتان خانیوال سے تعلق رکھنے والے وہ جوان اور بزرگ غیر رسمی طور پر جمع ہوتے ہیں، جن میں سے بیشتر روز گار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم تھے یا حج و عمرہ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ان میں جو جو حرم میں نمازِ جمعہ ادا کرتے وہ فوراً بعد بالالتزام یہاں جمع ہو جاتے اور احباب اور عزیز و اقربا سے سب کی ملاقات ہو جاتی۔ ‘‘ ۲۵ ؎
میرے سامنے بھی بند، برگر، کھجور اور دہی سبھی کچھ پڑا تھا۔ اپنا احساسِ ندامت لبوں پر آ ہی گیا، میں نے کہا کہ اب ان شا اللہ کل جمعہ کا روزہ ضرور رکھوں گی۔ وہ کہنے لگیں۔
’’ روزہ تو پیر یا جمعرات کا رکھا جاتا ہے، جمعے کو تو نہیں رکھتے۔ ‘‘
میرا اس وقت بحث کا موڈ نہ تھا۔ پاکستان میں بھی میں اکثر سردیوں میں جمعے کے روز، قضا روزہ رکھ لیا کرتی تھی اور کو شش ہوتی تھی کہ کسی کو پتا نہ چلے، ورنہ اس قسم کے اعتراض آتے رہتے۔ روزہ تو پیر یا جمعرات کو رکھنا چاہیے … ایک رو زہ نہیں رکھنا چاہیے، اکھٹے دو روزے رکھنے ضروری ہیں … اب میں کیا جواب دوں کہ مجھے بھی علم ہے کہ پیر و جمعرات کو روزہ سنت ہے، لیکن مجھے جمعہ کو سہولت ہے۔ اکٹھے دو روزے نو اور دس محرم کے رکھنے مستحب ہیں۔ باقی نفلی رو زوں کے لیے تو کوئی قید نہیں۔
اذانِ مغرب ہوئی، روزہ کھولا گیا۔ کچھ کھایا اور کچھ میں نے بھی اپنے بیگ میں ڈال لیا ورنہ سبھی کوڑے کے ڈرم میں چلے جانا تھا۔ عشاء کے بعد ہوٹل واپسی پر میں نے شاہد سے کہا کہ اگر میں کل صبح بھی روزہ نہ رکھ پائی تو ہفتے کو ہماری مکہ معظمہ روانگی ہے، یہ آخری موقع ہے، اگر یہ نکل گیا تو میں پاکستان میں سکون سے نہ رہ سکوں گی جب تک کہ میں دوبارہ مدینہ آ کر روزہ نہ رکھ لوں۔ صبح سحری کے لیے بھی کچھ لے لیجیے گا۔
دوپہر میں ہم نے اسی پاکستانی ہوٹل کا رخ کیا تھا لیکن وہاں بھیڑ زیادہ تھی اسی کے برابر میں ایک اور پاکستانی ہو ٹل تھا، ادھر گئے، وہاں کا بنگالی ویٹر بہت اصرار سے بلایا کرتا تھا، بلکہ ان دونوں ہوٹل کے ویٹروں کی نوک جھونک، ایک بنگالی لہجے میں اور دوسرا گوجرانوالہ کے پنجابی لہجے میں رات گئے تک جا ری رہتی تھی، دونوں اپنے کھانے کو بہترین کہہ کر گاہکوں کو اپنے ہوٹل کی طرف زور شور سے متوجہ کر تے رہتے اور ان کی پھبتیاں کھانے کے منتظر لوگوں کے لیے امان ا اللہ اور سہیل احمد کی جگتوں سے بڑھ کر لطف دیتیں، اب جو دوپہر میں اس برابر والے ہوٹل سے پہلی مرتبہ کھانا لیا تو احساس ہو گیا کہ یہاں بھیڑ کیوں نہیں ہوتی۔ اب سٹیم روسٹ لینے کا ارادہ تھا۔ معلوم ہوا کہ جتنا نظر آ رہا ہے، سارا بک چکا ہے اور تیزی سے اس کی پیکنگ کی جا رہی تھی، دوسرے پاکستانی ہوٹل کے شیشے کے اوون سے جھانکتی بے شمار مرغیاں اور ان کا بنگالی ویٹر ہمیں بلاتے تھے لیکن ہم جان چکے تھے کہ ایک ہوٹل سے ساری مرغیاں بک جانے اور دوسرے میں ساری موجود ہونے کا کیا مطلب ہے۔ ہم کسی تیسرے ریستوران کی تلاش میں نکلے کچھ دیر ادھر ادھر پھرا کیے لیکن مجھے آج سیخوں میں پروئی سلگتی مرغی، ہی کھانی تھی۔ شاہد مجھے اسی پاکستانی ہوٹل لے آئے کہ مٹن کڑاہی بہت اچھی ہوتی ہے وہ لیتے ہیں، انھیں ہمیشہ ہی مٹن کڑاہی پر اصرار ہتا تھا اور واقعی کھانے کا مزا آ جاتا تھا۔ جیسے ہی ہم اس ہوٹل کی جانب مڑے پنجابی ویٹر نے ہمیں آوازیں دینا شروع کر دیں۔ ’’ جی میں نے آپ کے لیے ایک مرغی بچا لی، باتیں تو مجھے بہت سننا پڑیں لیکن میں نے آخری مرغی دینے سے انکار کیا۔ ‘‘
یہ مرغی نامہ سنانے کا ارادہ اس لیے کیا کہ آپ دیارِ نبی میں کوئی خواہش کریں اور وہ پوری نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ میں نے سحری کے لیے کچھ مرغی اور نان سنبھالا اور سو گئی۔ صبح الارم سے آنکھ کھلی۔ بہت اہتمام سے سحری کی، دودھ، دہی اور کھجوریں سبھی کچھ پیٹ بھر کر کھایا۔ شاہد کو بھی آہستہ آہستہ آوازیں دیتی رہی کہ فجر کی اذان ہونے والی ہے۔ وہ اپنے الارم کی آواز سے ہی جاگے۔ وضو کیا، اتنے میں ہمارے حرم جانے کا وقت ہو گیا۔ ابھی مسجد پہنچے ہی تھے کہ اذان ہو گئی۔ نما زِ فجر کے بعد کچھ دیر آرام کی نیت سے واپس آئے۔ مجھے چونکہ دن میں نیند نہیں آتی۔ آٹھ بجے شاہد سے کہا کہ میں حرم جا رہی ہوں۔ فرج میں سب کچھ رکھا ہے، آپ ناشتہ کر لیں۔ میں تو اب عشاء کے بعد ہی آؤں گی۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے تھیلے میں وہ سوٹ رکھا، جو مسجد نبوی میں دینے کی نیت سے لا ئی تھی۔ پچھلی مرتبہ تو میرا یہ معاملہ اللہ کی طرف سے ہی حل ہو گیا تھا کہ جس دن ہمیں مدینہ چھوڑنا تھا، میں اپنے تھیلے میں ایک سوٹ ڈال کر لے گئی تھی اور اچانک ایک خاتون میرے پاس آئیں کہ جی وہ سو ٹ دے دیں۔ میرے ساتھی حیران رہ گئے تھے کہ اسے کیسے پتا چلا کہ آپ ایک سوٹ دینے کی نیت سے لے کر آئی ہیں۔
آج نہ جانے مجھے کسی ضرورت مند کی تلاش میں کتنا وقت لگتا ہے۔ مجھے علم تھا کہ آج جمعہ ہے، آج تو روزہ کھلوانے کا کوئی اہتمام نہ ہو گا، شرطیوں کی نگاہ بچا کر ایک سیب اور کھجوریں وغیرہ افطار کے لیے ساتھ لے گئی تھی۔ بابِ نسا کی طرف جاتے ہوئے، مسجد نبوی کے دروازے پر ایک خاتون زمین پر کپڑا بچھائے دستِ سوال دراز کرتی تھیں، میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ میرا کام تو فوراً ہی ہو گیا، لیکن اسے جب معلوم ہوا کہ میں نقد نذرانہ پیش کرنے کے بجائے کپڑے دینا چاہتی ہوں تو اس نے انتہائی رکھائی سے انکار کر دیا۔ میں اپنا سا منہ لے کر واپس ہوئی، مسجدِ نبوی میں اپنے مخصوص کونے میں صلوۃ التسبیح کی ادائگی کے لیے پہنچی، نماز کے بعد ا یک پارہ پڑھا۔ اسلام آباد آ کر ایک سفر نامۂ حج کے مطالعے کا موقع ملا۔ مصنفہ ایک وقت میں سوا گھنٹے میں پانچ پارے پڑھا کر تی تھیں، کبھی سات بھی پڑھ لیتی تھیں، بے حد رشک آیا۔ ظہر کی نماز کے بعد روضۂ رسول پر حاضری دینے کے لیے اپنے مخصوص گوشے سے باہر نکلی اور اپنا تھیلا جس ریک پر رکھتی تھی وہاں ایک سیا ہ فام خادمہ نے بہت اچھی طرح کچھ اشاروں کی، کچھ زبان کی مدد سے بات کی۔ پاکستان کا حال احوال پوچھا، خدام الحرمین شریفین خواہ مرد ہوں یا خواتین، بہت سخت مزاج ہوتے ہیں اور کسی حاجی کو خاطر میں نہیں لاتے، میں اس سے سلام دعا کر کے آگے بڑھی تو مجھے خیال آیا کہ اسے ہی کیوں نے وہ سوٹ دے دوں، میں واپس ہوئی، تھیلے سے سوٹ نکال کر ڈرتے ڈرتے پیش کیا جو اس نے خوش دلی سے قبول کیا، مجھے بھی خوشی ہوئی۔
روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کے اس نئے انتظام کی بنا پر کافی سہولت ہو گئی ہے۔ پہلے چار چھ نوافل اد ا کر لیتے تھے تو لگتا تھا کہ کوئی بڑا معرکہ سر کیا ہے۔ اب بے شمار نفل پڑھ لیتے ہیں، جب تک کہ آپ کو موقع ملتا رہے۔ دو بجے سے تین بجے تک لگاتار نوافل کی ادائگی میں مصروف رہی، آج مسجدِ نبوی میں آخری دن ہے کیونکہ کل فجر کی نماز کے بعد تو ہمیں مکہ روانہ ہونا ہے۔ کل کیا پتا ریاض الجنۃ آنے کا موقع ملے یا نہ ملے۔ روضۂ رسول سے با ہر آئی توپسینے سے بھیگی ہوئی تھی اور ٹشو پیپر لانا بھول گئی تھی۔ ابھی سبز قالینوں سے قدم باہر ہی رکھا تھا کہ ایک خاتون نے ٹشو پیپر کا بکس سامنے کر دیا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب آپ کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں یوں غیر محسوس طریقے سے پوری ہوتی رہیں۔
اب میں پھر اپنے مخصوص کو نے میں آئی۔ یہ کونا کوئی آٹھ فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا ہو گا۔ ریک رکھ کر بنایا گیا یہ گوشہ، پر سکون محسوس ہو تا تھا۔ ابھی میں جا کر بیٹھی ہی تھی کہ ایک خاتون غالباً مصری، ایک ہاتھ سے پرس جھلاتی، دوسرے میں ٹشو پیپرز کا پیکٹ تھامے، بڑی سی چادر اوڑھے نمودار ہوئیں اور آتے ہی اس گوشۂ عافیت میں لیٹ گئیں۔ اب ان کا اور ان کی چادر کا کھیل شروع ہوا۔ ہر چند کہ چادر بڑی تھی لیکن وہ خود اس سے بھی وسیع و عریض تھیں یا چادر انھیں ستاتی تھی، ان کے ساتھ شرارت کے موڈ میں تھی، کبھی سر کھل جا تا تو کبھی پاؤں، بالکل پاکستان کے عوام کی معیشت کا سا حال تھا، لیکن جو کچھ اس چادر کے اندر کا احوال تھا میرا خیال ہے کہ میں اس کا نقشہ نہ کھینچ پاؤں گی۔ اس کے لیے تارڑ کا قلم درکار ہے۔ موصوفہ کے ہاتھ پاؤں پر مہندی سے نقش و نگار بنے تھے لیکن جب مہندی پھیکی پڑ رہی ہو تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے جسم حشرات کی زد میں ہو، کھلا بنیان نما ٹخنوں تک لبادہ، جس سے ان کے ماس چھوڑتے، موٹے موٹے بازو جھلک دکھاتے تھے، پھر کسی کروٹ چین نہیں، چادر کے ایک حصے کو گول کر کے تکیے کی طلب بھی پوری کرنی ہو، اور سر سے پاؤں تک وجود بھی ڈھکنا ہو، وجود بھی وہ جس پر انگڑائی لیتی وہیل کا گماں ہو اور زکام زدہ بھی ہو، جہاں ذرا چین آئے وہیں چھینک بے چین کر دے۔ ٹشو کا پیکٹ ایسے تیزی سے ختم ہو رہا تھا جیسے غریب کی جیب سے پیسے۔
میں تسبیح پڑھ رہی ہوں یا مخلوقِ خدا کے نظارے، اب مجھے پوری توجہ سے قرآنِ پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔ قرآن پا ک پڑھنا ہی شروع کیا تھا کہ ایک شیریں، مترنم اور نغمگی سے بھرپور آواز سنائی دی در خواست کس لہجے میں اور کتنی شائستگی سے کی جاتی ہے، یہ آواز سکھاتی تھی۔ ’’یک بار الحمد اللہ برائے من می خواند۔ متشکرم‘‘ وہ دراز قامت، صبا رفتار ایرانی خاتون ذرا ہی دیر میں پوری مسجد میں پھر گئی اور یقیناً سبھی نے ایک ایک مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھی ہو گی۔ ایک پارہ پڑھ کر اٹھی تو عصر کا وقت ہو رہا تھا۔
خلشِ دل کی قدر کر ناداں
میرا کونہ جسے میں اپنا کمرہ تصور کر تی تھی اب خواتین سے بھر چکا تھا۔ مصری خاتون بیزاری سے اٹھیں اور بے نیازی سے چل دیں۔ اذان کے بعد سنتیں ادا کیں اب ہمیں یہ آخری کونہ چھوڑ کر فرض نماز کے لیے آگے صفوں میں جانا تھا، لیکن خواتین جہاں بیٹھی ہیں، وہیں نماز پڑھنے کو تر جیح دیتی ہیں انتظامیہ خواہ کتنا ہی زور لگاتی رہے کہ آگے کی صفیں مکمل کر لیں، نماز کے بعد کافی دیر تک تسبیحات وغیرہ کر تی رہی، اس مرتبہ نہ جانے کیا بات ہے جس طرح حج کے موقع پر میں نے تسبیحات کا بھی شیڈول سا بنایا ہوا تھا ابھی تک وہ تسلسل قائم نہیں ہو سکا ہے، پہلے تو میرا راستے میں، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، غرض کوئی لمحہ تسبیح کے بغیر نہ گزرتا تھا اب نہ جانے کیا ہو گیا ہے، مجھے تسبیح کر نے کے لیے کوشش کرنا پڑ تی ہے۔ اچانک مجھے خیال آیا میں ابھی تک جنت البقیع نہیں جا سکی ہوں، دربانوں نے عصر کے بعد آنے کے لیے کہا تھا، صبح تو ہمیں چلے جانا ہے، میں تیزی سے اٹھی، بابِ علی سے باہر آئی اور جنت البقیع کے دروازے تک پہنچی، بے شمار مخلوقِ خدا آ جا رہی تھی، میں آگے بڑھی تو اس خدائی فوجدار نے نہایت خشونت سے مجھے جانے سے روکا:
’’ وقت ختم ہو گیا ہے۔ ‘‘
مجھے اتنا غصہ آیا کہ اگر میں دیا رِ نبی پر نہ ہو تی تو شاید اس شرطے کو خوب سنا دیتی۔ باہر ہی کھڑے ہو کر دعا پڑھی اور واپس اپنے گوشۂ عافیت کی جانب چلی۔ ابھی جا کر بیٹھی تھی کہ ایک خاتون برگر پکڑا گئیں۔ میں نے اپنے بیگ سے افطار کے لیے کھجور اور سیب نکالا ہی تھا کہ دہی اور لسی کے پیکٹ بھی مل گئے۔ آثار ذرا نہ تھے کہ آج روزے کے لیے کوئی اہتمام ہو گا لیکن اللہ نے میری ضرورت پوری کر دی۔ اذانِ مغرب ہوئی روزہ کھولا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے یہ روز ہ رکھنے کی توفیق بخشی، اپنے ساتھ بیٹھی ترک خواتین کو افطار میں شرکت کی دعوت دی۔ سب کچھ صحیح ہو گیا تھا لیکن اس پشیمانی کا کیا کروں، جو مجھے دھیرے دھیرے اپنے حصار میں لیے جا رہی تھی۔ اگر میں پیر کو روزہ رکھ لیتی تو یقیناً دیارِ نبی میں تین چار روزے تو ضرور ہو جاتے، میں خواہ مخواہ ہی خوف زدہ تھی اتنا آسان روزہ، آئندہ ان شاء ا للہ زیادہ روزے رکھوں گی۔ مغرب کی نماز کے بعد نوافل ادا کر رہی تھی کہ شاہد کا فو ن آ گیا۔ سلام پھیر کر رابطہ کیا کہنے لگے ہوٹل چلتے ہیں، میں نے کہا کہ میں تو رو زہ کھول چکی ہوں، اب بالکل بھی بھوک نہیں ہے، عشاء کے بعد ہی جائیں گے، لیکن ان کے اصرار پر باہر آ گئی۔ راستے میں کہنے لگے کہ کھانے میں کیا لوں، میں نے کہا کہ کھانا عشاء کے بعد کھائیں گے۔ کہنے لگے کہ پھر آئی کیوں ہو۔ میں نے کہا، آپ نے کہا تھا اس لیے۔ انھی باتوں میں ہم ہوٹل پہنچ گئے، فرج کھولا تو اس میں سبھی چیزیں ویسے ہی پڑی تھیں۔
’’آپ نے صبح ناشتہ نہیں کیا، دوپہر میں کیا کھایا تھا۔ ‘‘
’’ میرا روزہ تھا ‘‘
’’ لیکن صبح سحری تو میں نے اکیلے کی تھی۔ ‘‘
’’ میں نے وضو سے پہلے پانی پی لیا تھا۔ ‘‘
’’اللہ اکبر… صبح میں آپ کو جگاتی رہی تھی سحری کرتے ہوئے کہ میرے ساتھ ویسے ہی آپ کچھ کھا لیں … اب بھی روزہ کھولا ہے یا نہیں۔ ‘‘
’’ ہاں آبِ زم زم پی لیا تھا۔ ‘‘
’’ چلیں، جلدی سے کھانا لے کر آئیں۔ ‘‘
’’ نہیں، اب عشاء کا وقت ہو نے والا ہے۔ ‘ ‘
’’آپ مجھے وہیں بتا دیتے، میرے بیگ میں کھانے کے لیے بہت کچھ تھا۔ ‘‘
میں نے جلدی سے بیگ اور فر ج میں سے جو کچھ موجود تھا، دستر خوان پر رکھا، جلدی جلدی تھوڑا بہت کھایا اور پھر حرم کی جانب چلے۔
راستے بھر میں ا پنے افعال و احساست کا تجزیہ کرتی رہی، ہم جو رسول اکرم کے امتی ہونے کے دعوے دار ہیں، ان کے احکامات پر کتنا عمل کرتے ہیں :
’’ بیہقی رحمت اللہ علیہ نے ایک جگہ نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ کو ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ دن میں دو مرتبہ کھانا تناول فرمایا تو ارشاد فرمایا۔ اے عائشہ کیا تمھیں یہ پسند ہے کہ تمھارا شغل صرف کھانا ہی رہ جائے۔ ‘‘ ۲۴ ؎
اسلام آباد آ کر میں دیار نبیﷺ جانے والوں سے خصوصاً ذکر کرتی ہوں کہ مسجدِ نبوی میں روزہ رکھنا بہت سہل ہے، بالکل نہ گھبرائیں۔
عشاء کے بعد واپسی ہوئی۔ شاہد نے کہا کہ میں کھانا لے کر آتا ہوں، تم چلو۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئے، کہنے لگے بتاؤ :’’میں کس سے مل کر آ رہا ہوں۔ ‘‘ بیس سوالوں میں نہ بوجھ سکی۔ پتا چلا ہمارے عزیز خالد جہانگیر اپنی بیگم اور خوش دامن کے ساتھ ہمارے سامنے والے کمرے میں ٹھہرے ہوئے ہیں، دنیا واقعی مختصر ہے، دوسرے دن ہمیں مدینے سے رخصت ہونا تھا اس لیے ان سے دو بارہ ملاقات نہ ہوسکی۔
ہفتہ دس مئی مکہ معظمہ روانگی تھی۔ نمازِ فجر کے بعد ہمیں ہوٹل واپس آنا تھا۔ میں نے شاہد سے کہا۔
’’ صلوۃِ التسبیح کے لیے مجھے دوبارہ آنا ہی ہو گا تو میں ابھی رک جا تی ہوں اشراق کے بعد صلوۃ التسبیح پڑھ کر آ جاؤں گی۔ ہو سکتا ہے دو بارہ آنے کی مہلت نہ ملے۔ ‘‘
شاہد نے کہا۔
’’ ٹھیک ہے اگر کچھ مسئلہ ہوا تو میں فون کر لوں گا، ویسے امید ہے کہ نو دس بج ہی جائیں گے نکلتے ہوئے۔ ‘‘
شاہد کے جانے کے بعد میں نے ایک پارہ پڑھا، اتنے میں اشراق کا وقت ہو گیا۔ ساتھ ہی صلوۃ التسبیح پڑھی، ابھی مکمل ہی کی تھی کہ پاکستانی بہنوں کے لیے دیارِ نبی سے بلاوے آنے لگے۔ آج ہمیں انتظار نہیں کرنا پڑا، ورنہ ایسے لگتا تھا کہ جیسے ہماری باری آخر میں آتی ہو، آج یوں لگا کہ سب سے پہلے انھوں نے ہمیں ہی بلا لیا ہو۔ میرے ذہن میں تھا کہ میں سات بجے تک ہوٹل پہنچ جاؤں گی
لیکن سات بج چکے تھے اور ہم چھتریوں والے صحن میں تھے کسی بھی وقت ہمیں بلایا جا سکتا تھا۔ میرا جی نہ چاہا کہ دو چار ہاتھ جب لبِ بام رہ گیا ہو میں اس وقت، وقت سے ہار مان لوں۔ میں نے شاہد کو فون کیا۔
’’ میں روضۂ رسول کے سامنے ہوں کسی بھی وقت ہمیں نوافل کی ادائگی کے لیے بلایا جا سکتا ہے، میں کچھ دیر انتظار کر لوں یا فو راً واپس آؤں۔ ‘‘
’’ابھی بسوں کے کوئی آثار نہیں ہیں، تم ریا ض الجنۃ میں نفل پڑھ لو۔ ‘‘
ذرا سی دیر بعد ہم ریا ض الجنۃ میں تھے۔ آج سبھی راستے خود بخود بن رہے تھے۔ شاید زیادہ بھیڑ نہ تھی۔ میں نے نوافل کی ادائگی شروع کی، جلد ہی مجھے ستون عائشہ کے قریب جگہ مل گئی۔ اتنے سکون سے نفل اد ا کیے جیسے اپنے گھر میں ہوں اور اس وقت تک نوافل پڑھتی رہی، جب تک یہ خیال نہ آگیا کہ کہیں میری وجہ سے سب بسوں میں نہ منتظر بیٹھے ہوں، اگر کوئی ایسا مسئلہ ہوتا تو شاہد فون کر دیتے لیکن مجھے اب چلنا چاہیے، سامان کی پیکنگ بے شک رات کو کر لی تھی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ رہ ہی جا تا ہے۔ بڑی مشکل سے خود کو اٹھنے پر آمادہ کیا۔ دعا مانگی کہ پھر اذنِ حاضری عطا ہو اور بار بار ہو، سبھی عزیزو اقارب کے بلاوے کے لیے ایک مرتبہ پھر دعا کی اور درود شریف پڑھتی باہر آئی، کیا دل گرفتہ ہم تیری محفل سے آئے ہیں، لیکن اس دل گرفتگی پر اطمینان غالب تھا۔ تشکر کے جذبات موجزن تھے جو ایک بار بلا سکتا ہے وہ با ر بار کیوں نہ بلائے گا۔
ہوٹل پہنچی، شاہد کمرے میں ہی تھے۔ معلوم ہوا ابھی بسوں کا کچھ پتا نہیں کہ کب آئیں، انتظار میں یہ تکلیف دہ خیال بھی شامل تھا کہ ہر روز تو آوازیں پڑا کرتی تھیں کہ پاکستانی بہنوں کا وقت ختم ہو گیا ہے، جلد باہر نکلیں اور آج کوئی باہر بلانے کے لیے اصرار بھی نہیں کر رہا تھا اور میں خواہ مخواہ اتنی جلد نکل آئی، اسلام آباد صبیحہ باجی کو شادی کی سالگرہ مبارک کا فون کیا۔ دس بجے بسیں آئیں اور گیارہ بجے کے بعد چلیں۔ دیر کیوں لگی، ہمارے بھائیوں کی بد نظمی کے سبب، انتظامیہ مسلسل کہہ رہی تھی کہ جب آپ کو بلایا جائے تب کمروں سے باہر آئیں، لیکن ہمارے ساتھی بس کے آتے ہی بس میں سامان رکھنے لگے … اتنا سامان، اتنی شاپنگ، بڑے بڑے ڈبے، ہم نے کھجور فیکٹری سے دس بارہ کلو کھجوریں لی تھیں، بس ہماری یہ کل شاپنگ تھی مدینہ سے، اس پر بھی شاہد صاحب کو بار بار یہی خیال ستاتا تھا کہ وزن زیادہ ہو جائے گا۔ مہندی سے رنگی داڑھی والے صاحب مسلسل دہائی دے رہے تھے۔
’’ میرے کارٹن کو حفاظت سے رکھنا۔ شیشے کا سامان ہے اس میں۔ ‘ ‘
بیشتر مسافر بسوں میں بیٹھ چکے ہیں، جو نیچے ہیں، وہ زور آزمائی کر رہے ہیں کہ ان کا بقیہ سامان بھی کسی طرح سما جائے، انتظامیہ کی کوئی شنوائی نہیں، آخر دو بسیں اور آئیں، مسافروں اور ان کے ٹھنسے ہوئے سامان کو باہر نکالا گیا اور دوسری بسوں میں بٹھایا گیا۔ ۔ صرف اتنی سی بات مان لی جاتی کہ آپ کو کمروں سے جب بلایا جائے تبھی باہر آئیں تو ذرا بھی کوفت نہ ہوتی۔
ڈرائیور اور کنڈیکٹر، دونوں نہایت کم عمر تھے، بمشکل اٹھارہ برس کے دکھائی دیتے تھے، اپنے کام میں ماہر ہوں گے تبھی اتنی بڑی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ بارہ بجے مسجدِ ذو الحلیفہ پہنچے، کہ جسے ابیارِ علی بھی کہا جاتا۔ مکہ سے ۴۱۰ کلو میٹر دور مدینہ سے مکہ جانے والوں کے لیے یہ میقات ہے۔ بہت خوب صورت اور بڑی مسجد ہے کہ جس میں پانچ ہزار نمازی عبادت کر سکتے ہیں۔
نہا کر احرام باندھا اور احرام کی نیت کے نوافل ادا کیے۔ بس کی طرف آئی تو خشک میوہ جات کی دکان نظر آئی، وہاں سے بیج اور مشروبات خریدے۔ ہمارے چند ساتھی بس میں آنا نہیں چاہتے تھے کہ پندرہ منٹ میں ظہر کی جماعت کھڑی ہو جائے گی، اس لیے نماز پڑھ کر ہی چلنا چاہیے۔ ڈرائیور نے انھیں رضا مند کر ہی لیا کہ آپ کو اگلی مسجد میں با جماعت نماز مل جائے گی۔
تھوڑی ہی دیر بعد ہم ایک خوب صورت سی مسجد میں نمازِ ظہر ادا کر تے تھے، سفر جا ری ہوا اندازہ کیا گیا کہ مغرب سے پہلے مکہ معظمہ پہنچ جائیں گے۔ دن کا سفر ہو، اس مرتبہ بھی بس کی پہلی سیٹ ہمارے لیے مختص ہو تو پھر سارے ہی نظارے نگاہ کے ذریعے ذہن و دل میں اپنی جگہ بناتے رہے۔ اتنی کم آبادی والا ملک، پورے راستے میں کوئی خاص شہر یا قصبہ نظر نہیں آتا اور اگر کچھ آبادی ہے بھی تو سڑک سے دور اپنی جھلک دکھا تی ہے۔ عصر اور دوپہر کے کھانے کے لیے اسی ہوٹل میں رکے۔ مسجد میں نماز ادا کی۔ ہوٹل کی جانب چلی تو محسوس ہوا کے کچھ کمی سی ہے، یاد آیا وضو کرتے ہوئے بیگ، غسل خانے کے باہر بنے ہوئے بنچ پر رکھا تھا، وہاں سے اٹھانا بھول گئی تھی اب تو کتنی ہی دیر ہو گئی ہے، پتہ نہیں وہاں ہو گا بھی یا نہیں۔ تیزی سے وہاں پہنچی، بیگ میرا انتظار کررہا تھا، ہوٹل پہنچی، وہی چاول، وہی مرغ روسٹ اور وہی سلاد یعنی دو ٹکڑے پیاز اور آدھا لیموں، آج کھانا اتنے مزے کا محسوس نہ ہوا جتنا پہلے دن تھا۔ شام کی نماز سے پہلے مکہ پہنچ گئے۔ سامان کمرے میں رکھا۔ عتیق نے حسبِ معمول، فرج مختلف قسم کے جوسز سے بھر دیا۔ حرمِ پاک پہنچے، کافی بھیڑ تھی۔ نماز عشاء کے بعد عمرہ کا پروگرام بنایا، سعی کے دو چکر نچلی منزل میں کیے، پھر اوپر چلے گئے ……… رات دس بجے عمرہ مکمل کر کے ہوٹل پہنچے راستے سے کھانا لے لیا تھا، عتیق نے کہا کہ میں آپ کا انتظار کر رہا تھا، کہ آپ آئیں گے تو کھانا لاؤ ں گا، اس کا شکریہ ادا کیا۔
میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
اتوار گیارہ مئی، طارق کی برسی کا دن، آج کے طواف ا س کے نام، نماز فجر کے بعد ایک طواف کیا، پینتیس منٹ لگے، نمازِ فجر کے بعد طواف کرنا ہو تو اس کا یہ طریقہ ہو نا چاہیے کہ نماز کے بعد آپ ایک ڈیڑھ پارہ پڑھیں، اتنے میں اشراق کا وقت ہو جائے گا نمازِ اشراق کی ادائگی کے بعد مطاف میں قدم رکھیں، مطاف بہت کھلا کھلا سا محسوس ہو گا، پندرہ منٹ میں طواف مکمل، اب آپ دو تین چار طواف کر لیں اتنے میں صفائی والی ٹیم آ جائے گی، آپ توجہ رکھیے، اور جیسے ہی گھیرا تنگ ہو نے لگے آپ رسی کے اندر آ جائیں، اب حجرِ ا سود کو بوسہ دینا، آپ کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے، ویسے کبھی کبھی نہیں بھی لکھا ہوتا۔ پریشان نہ ہوں، راضی بہ رضا رہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہوا ساڑھے آٹھ بجے سے صفائی والی ٹیم پر نگاہ رکھی ہوئی تھی، اگلا طواف بھی شروع نہ کیا کہ کہیں میں گھیرے سے باہر نہ رہ جاؤں، حجرِ اسود کے پاس کھڑی ہوں اس کے گرد، بے انتہا بھیڑ ہے۔ میں انتظار کرتی ہوں۔ سوچتی ہوں، صفائی والے، حطیم کے پاس تھے، اب تک تو انھیں آ جانا چاہیے تھا، آخر آئے، لیکن دور دور سے ہی صفائی کرتے گزر گئے۔ میں کبھی ملتزم کو پکڑ کر دعا کرتی رہی، کبھی غلافِ کعبہ کی طلائی خطاطی دیکھتی رہی، ۱۵ کلو سونے کے تاروں سے قرآنی آیات کی خطاطی اور کڑھائی جن بہترین اور مبارک ہاتھوں نے سال بھر کی محنت کے بعد کی ہو ان کی خوش نصیبی پر خود نصیب بھی ناز کرتا ہو گا، غلاف کعبہ تیار کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں کہ جنھیں اس مقدس فریضے کی ادائگی میں تیس تیس سال ہو گئے ہیں، غلاف کعبہ چھ سو ستر کلو گرام خالص سیاہ ریشم سے تیار ہوتا ہے جو خانۂ کعبہ کے چھ سو اٹھاون مربع میٹر کو ڈھانپ لیتا ہے۔ یہ کپڑے کے سینتالیس ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے، ہر ٹکڑا چودہ میٹر طویل اور ایک سو ایک سینٹی میٹر چوڑا ہے۔ کسویٰ کو تانبے کے مضبوط چھلوں کے ساتھ خانۂ کعبہ کی زمین بلکہ منڈیر کے ساتھ باندھا گیا ہے پہلے غلافِ کعبہ پر ہاتھ سے خطاطی کی جاتی تھی اب کمپیوٹر کی مدد سے کی جاتی ہے۔
خانۂ کعبہ کو اتنے قریب سے جی بھر کر دیکھا، نیچے کونے میں خادم حرمین شریفین کا اسم شریف عبد اللہ، شجرے کے ساتھ سنہری تاروں سے کڑھا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ حجرِ اسود کے اتنا قریب بھی ہو گئی کہ اس کا حلقہ میری دسترس میں تھا لیکن ایک ہی دھکے نے مجھے بہت پیچھے پہنچا دیا، اب میں پھر صفائی والی ٹیم کا انتظار کر تی تھی اور دل ہی دل میں پشیمان ہو تی تھی کہ اتنی دیر میں، میں چار طواف کر سکتی تھی… اور پھر صفائی والی ٹیم آ گئی گھرا تنگ کیا اور مجھے لگا کہ میرا انتظار مجھے ایک بڑی نعمت سے نوازنے والا ہے۔ حج کے موقع پر میں صرف ایک مرتبہ بوسہ دے سکی تھی، اس عمرے پر مجھے دوسری مرتبہ یہ سعادت ملنے والی ہے… اور ایک بلند آواز نے سبھی کچھ ریزہ ریزہ کر دیا، ’’ آج بہت بھیڑ ہے، واپس آ جائیں، کل صفائی کریں گے۔ ‘‘
میں حجرِ اسود کی سیدھ میں پہنچی اور سرجھکا کر طواف میں مصروف ہو گئی۔
تو ایسا کبھی کبھی ہو جاتا ہے، آپ کی کوششیں بار آور نہیں ہوتیں، لیکن بظاہر یہ ناکام سعی آپ کے لیے کتنے انعامات رکھتی ہے، اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ آج فجر کے بعد ایک اور ظہر سے پہلے تین طواف کیے، گرمی بے انتہا تھی، نمازِظہر کے بعد صلوۃ التسبیح ادا کی اور گھر کی طرف چلے۔ راستے سے کھانا اور آئس کریم لی۔ آج کھانا ایک نئے ہوٹل سے لیا۔ چار ریال میں اس نے دال اور دو نان دیے۔ ایک نان کا پیڑہ اتنا بڑا تھا کہ بقول شاہد کے، ایک چھوٹا خاندان اتنے آٹے میں گھر بھر کے لیے روٹیاں تیار کر لے۔ میں نے چوتھائی نان کھا یا، شاہد نے بھی بمشکل آدھا نان لیا۔ آج ہم نے مکہ میں کھانا لینے سے پہلے، پہلی مرتبہ شاپنگ کی اور دوست احباب کے لیے کچھ تحائف خریدے، دراصل اس مرتبہ یہی ارادہ تھا کہ صرف عمرہ کرنا ہے، حج پر اس کے برعکس صورت حال تھی کہ حج اپنی جگہ، لیکن سب عزیز و اقارب کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر جانا ہے اور تب بھی ہم خاص طور سے شاپنگ کے لیے نہ نکلتے تھے، نمازِ عشاء کے بعد نوافل ادا کرتے، کچھ دیر بعد، حرم سے نکلتے، رش کم ہو چکا ہوتا، دکان دار فارغ ہوتے اور ہم ایک ہی دکان سے درجنوں کے حساب سے چیز خرید لیتے، اگلے روز کسی اور دکان کا رخ کرتے۔ اس مرتبہ ارادہ نہ ہونے کے باوجود کچھ نہ کچھ لے لیا اور بہت اچھا کیا بلکہ زیادہ لینا چاہیے تھا، بس یہ بات ذہن میں رہے کہ آبِ زم زم کے علاوہ چائنا نے ہر چیز بنا لی ہے، جو چیز آپ وہاں ریالوں میں خرید رہے ہیں اور اپنے مقررہ وزن میں اضافہ کر رہے ہیں بالکل وہی چیز آپ کو اپنے ملک میں نکڑ والی دکان پر مل جائے گی۔ چائنا کی کیا بات ہے اس نے پچھلے چندبرسوں سے حج کے موقع پر لاکھوں کی تعداد میں دنبے سعودیہ کو سپلائی کر نے شروع کر دیے ہیں۔
اگلے روز خانہِ کعبہ سے میڈم رخسانہ کو فون کیا، معلوم ہوا کہ اقصیٰ کی طبعیت پھر خراب ہو گئی تھی، پہلے بھی طواف کرتے ہوئے سبھی یاد رہتے تھے، اس مرتبہ خاص اقصیٰ کی صحت یابی کی دعا کے لیے طواف کیا۔ ظہر تک چھ طواف کر لیے تھے، اب عمرہ کا ارادہ کیا۔ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد عمرے کے لیے نکلے۔ خوش قسمتی سے فوراً ہی بس مل گئی، مسجدِ عائشہ جا کر احرام باندھا، نوافل ادا کیے، مسجدِ عائشہ میں ایک خاتون گہری نیند سو رہی تھیں۔ نہ جانے ان کا کیا پروگرام تھا۔ واپسی پر ویگن ملی، کرایہ دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے، بس میں گھٹن کا احساس نہیں ہوتا، اس لیے بس کا سفر اچھا لگتا ہے۔ حرم پہنچے، تھوڑی دیر بعد اذان ہو گئی۔ بابِ فہدسے داخل ہوئے اور وہیں نماز ادا کی، مغرب سے پہلے عمرہ مکمل ہو گیا، مروہ پر میں نے شاہد کو قینچی دی کہ میرے پور برابر بال کاٹ دیں۔ قینچی کا سامنے آنا تھا کہ ہر طرف سے فرمائشیں آنے لگیں، کئی خواتین کو احرام کی پابندیوں سے آزاد کرایا، اب شاہد کے پاس فرمائشی پروگرام شروع ہوا، شاہد نے کہا میں بال کاٹ تو دیتا ہوں لیکن بہتر یہ ہے کہ آپ حجام کے پاس جا کر پورے سر کے بال کتروائیں۔ شاہد اس معاملے میں بہت حساس تھے۔ خانۂ کعبہ کی توسیع کے سبب اب حجام کی دکان دور پڑتی ہے، لیکن وہ وہیں جا کر حلق کرواتے۔
عشاء کی نماز کے بعد ہوٹل آئے۔ بنگالی کو پیسے دے آئے تھے کہ ہمارے لیے کالے چنے سنبھال کر رکھے لیکن وہ پھر بھی بھول گیا۔ چکن کا سالن لیا اور تین نانوں کے ساتھ میں نے ایک پلیٹ ابلے ہوئے چاول بھی لے لیے۔ ان چاولوں کے ساتھ دال کا سوپ مفت، اور سلاد الگ سے ملتی تھی، اگر کوئی بنگالی پیٹ بھرنا چاہے تو ایک ریا ل میں دال چاول سلاد لے سکتا ہے، ہمارا چونکہ ذائقہ مختلف ہے، تو ہم ناگواری کا احساس کر سکتے ہیں لیکن جن کا یہ روایتی کھانا ہے ان کے لیے تو نعمت ہے۔ اس ہوٹل پر ہمیشہ ہی بھیڑ دیکھی۔ آج کھانا مزے کا محسوس نہ ہوا، فرج میں پھل اور جوسز موجود تھے، کھا پی کر سو گئے۔
تو جہنم کو کیا دیا تو نے
ظہر کے بعد طواف کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ فرح اور بلال سے فون پر بات ہو گئی، دونوں نے عرش مان کے لیے خاص طور سے دعا کے لیے کہا، انھیں بتایا تم سب ہر طواف میں میرے ساتھ ہوتے ہو، کوئی بھی بھولا نہیں ہے اور عرش مان کے لیے تو میں خاص طور سے دعا کر رہی ہوں، جیسے ہی فون پر رابطہ ختم ہوا۔ حجر اسود پر آ کر طواف کی نیت برائے خصوصی دعا عرش مان کی اور میں جو اتنے دنوں سے اپنی کیفیت کچھ عجیب سی محسوس کر رہی تھی، ذوق و شوق ہونا اور بات ہے دل میں سوز و گداز کا پیدا ہونا، ایک الگ چیز ہے اور اس مرتبہ مجھے دونوں میں وہ شدت محسوس نہ ہوتی تھی، وہ رقت طاری نہ ہوتی تھی جو قبولیتِ دعا کے لیے ضروری خیال کی جاتی ہے، پھر مجھے ہمیشہ سے اس کمی کا احساس ہے کہ مجھے دعا مانگنی نہیں آتی، اس کا تدارک اس طرح کرتی ہوں کہ دعا کی جگہ بھی درود ہی پڑھتی رہتی ہوں، اب عرش مان کی صحت کے لیے دعا کی، وہ اتنا پیارا اور اتنی محبت والا بچہ ہے کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے اسے اس بے مہر دنیا میں محبت کے خزانے لٹانے کے لیے بھیجا گیا ہے، جب ملے گا یوں لپٹ کر ملے گا کہ آپ دنیا جہان کو بھول جائیں۔ اب جب میں نے اس کے نام کا طواف شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ محبت اللہ سے ہو یا اس کی مخلوق سے، اس کی تپش سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا وہ ہرکسی کو کسی بھی مقام پر اپنی گرفت میں لے سکتی ہے … اور یہ کیسی گرفت کیسا حصار ہے کہ جس کی خود آرزو کی جائے اور میری یہ آرزو آج پوری ہو رہی ہے جب میری روانگی میں چند ایک روز ہی باقی رہ گئے ہیں، میں طواف کر رہی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ اب تک میں نہ اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کر سکی تھی نہ اس کی رحمتوں اور نعمتوں کا جس طرح شکر ادا کرنا چاہیے تھا، شکر ادا کر سکی تھی۔ ظہر کے بعد کا سورج اپنی تپش دکھاتا تھا لیکن میرے حق میں بہتر تھا کہ مجھے حطیم میں جگہ مل گئی، غلافِ کعبہ میرے ہاتھ میں تھا، اپنی خطائیں اپنی نافرمانیاں، اپنی دعائیں، اپنی آرزوئیں سبھی کچھ اشکوں کے سیلاب میں ربِ جلیل کے حضور پہنچنے لگیں۔
یاد آ گئیں جب اپنی خطائیں، اشکوں میں ڈھلنے لگیں التجائیں
رویا غلافِ کعبہ پکڑ کر …… اللہ اکبر اللہ اکبر
مانگی ہیں جتنی دعائیں منظور ہوں گی مقبول ہوں گی،
میزابِ رحمت ہے میرے سر پر…… اللہ اکبر اللہ اکبر
نہ جانے کتنے طواف کیے اور حطیم میں ان گنت نافل ادا کیے۔ مجھے یہی دھڑکا لگا ہوا تھا کہ میں حطیم میں نوافل کی ادائگی کے لیے وقت نہیں نکال پا رہی، ایسا نہ ہو کہ ہماری رخصت کی گھڑی آ پہنچے اور میں جی بھر کے نوافل کی ادائگی کی حسرت لیے واپس چلی جاؤں، بجائے تھکن، تپش یا بھوک پیاس کے احساس کے، میں خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی اور عرش مان کی احسان مند تھی کہ جس نے میرے دل میں اپنی محبت کا دیا جلا کر اس مہر نیم روز میں، انوارِ محبت کی بارش برسا کر میرے تشنہ جسم و جاں کو سیراب کر دیا ہے۔ مجھے میرے رب سے قریب کر دیا ہے۔ اپنی کم مائگی کا حساب اوراس کی عطا کا شمار کیا نہ جا سکتا تھا۔ اللہ نے کتنا نوازا ہے کبھی کبھی تو اپنی ہی نظر سے خوف آنے لگتا ہے۔ داغ دہلوی کو ناقدینِ فن جو چاہے کہتے رہیں۔ ان کی بخشش کا سبب ربِ کریم کی جناب میں کہی گئی انیس اشعار پر مشتمل مختصر بحر کی وہ حمدیہ غزل بھی ہوسکتی ہے جو میری روح کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہے۔
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے
لاکھ دینے کا ایک دینا ہے
دلِ بے مد عا دیا تو نے
بے طلب جو ملا، ملا مجھ کو
بے غرض جو دیا، دیا تو نے
عمرِ جاوید خضر کو بخشی
آبِ حیواں پلا دیا تو نے
نارِ نمرود کو کیا گلزار
دوست کو یوں بچا دیا تو نے
کہیں مشتاق سے حجاب ہوا
کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے
مٹ گئے دل سے نقشِ باطل سب
نقشہ اپنا جما دیا تو نے
مجھ گنہ گار کو جو بخش دیا
تو جہنم کو کیا دیا تو نے
داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے
یہ وہی داغ ہیں جنھیں فسق و فجور اور عیش و عشرت کا دلدادہ جانا جاتا ہے۔ ان کا ایک شعر اور یاد آتا رہا۔
قمر کو پردۂ شب اور بصر کو پردۂ چشم
کئی لباس ترے نور کو سیاہ ملے
مکہ تو مجھے عزیز ہے…
عصر کی اذان ہونے میں ابھی وقت ہے۔ لیکن شرطے نسا باہر، زنانہ باہر کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اب شرطوں کے ساتھ ساتھ براؤن لبادے میں ملبوس، انتظامیہ کے ارکان بھی عورتوں کو باہر نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ عصر کی نماز کے لیے ا پنے پرسکون مقام یعنی دوسری منزل پر پہنچے۔ دانش، سرمد، فارد، آمنہ، مدیحہ، ورع، عطیہ، قدسیہ، ثروت باجی، صبیحہ باجی، کالج، یونی ورسٹی کے ساتھی، اہلِ محلہ غرض سبھی کے لیے دعا کی۔ عشاء تک یہیں رہے۔ مکہ میں چونکہ ہمارے آخری دن ہیں، اب جو بھی طواف کر رہے ہیں، طوافِ وداع کی نیت سے کر رہے ہیں، خالد سے رابطہ ہو تو جا تا ہے لیکن وہ بہت مصروف ہے، شاید ہماری ملاقات ہو جائے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہم سیدھے جدہ ائرپورٹ پہنچیں اور وہاں سے دبئی کے لیے نکل جائیں۔ شاہد نے احتیاطاً عتیق کو کہہ دیا ہے کہ چودہ مئی کی رات ہمیں جدہ ائرپورٹ پہنچا دیا جائے۔ آج نمازِ فجر کے بعد ایک طواف کیا، ناشتے کے بعد کچھ پیکنگ کی پھر طواف کی نیت سے حرم پہنچے، ابھی تیسرا طواف ہی کر رہے تھے کہ خالد کا فون آگیا۔
’’ میں عصر کے بعد آپ کو لینے آ رہا ہوں۔ ‘‘
بے شک ہم ہر طواف، طوافِ وداع کی نیت سے ہی کر رہے تھے، لیکن کیا واقعی جدائی کا وقت آن پہنچا ہے، اللہ نے اس مرتبہ انتہائی مصروفیت کے عالم میں ہمیں اپنا مہمان بنایا، کہ ہم خود بھی اور ہمارے گرد و پیش میں رہنے والے بھی، یقین نہیں کر پا رہے تھے، لیکن بلاوا تھا، ہم آئے اور اب جا بھی رہے تھے سبھی حیران ہوتے تھے کہ عموماً چودہ دن کا پیکج لیا جاتا ہے آپ ایک ماہ کے لیے جا رہے ہیں، تو ساری بات بلاوے کی ہے، وہ جتنے دن چاہے اپنے ہاں ہمیں رکھے اور ہمارا خیال تھا کہ ہم ابھی ایک روز اور رہیں گے، شاید ایک عمرہ اور کر لیں، نہیں تو آٹھ دس طواف تو کہیں نہیں گئے۔ ہم پورا ایک دن جدہ رہ کر کیا کریں گے، خالد آج کے بجائے کل عصر کے وقت ہمیں لینے آ جائے، رات ایک بجے تک ہم اس کے گھر رہیں، اسی دوران میں جدہ کا جائزہ بھی لے لیا جائے۔ میں نے اپنے دل میں پیدا ہوتی خواہشوں سے شاہد کو آگاہ کیا، خالد کل آ جائیں تو… لیکن شاہد نے کہا اس نے نہ جانے کتنی مشکل سے آج کا پروگرام طے کیا ہو گا، اس لیے، اب اسے نہ بدلو۔ نماز ظہر کے بعد گھر چلیں گے اور جلد از جلد پیکنگ کریں گے۔ جو دعائیں یاد آتی گئیں مانگتی رہی لیکن یہی احساس غالب رہا کہ ایسا لگتا ہے ابھی تو ہمارا عمرہ شروع بھی نہ ہوا تھا، ابھی تو عبادت کے لیے جس خشوع و خضوع کی ضرورت ہوتی ہے، وہ پیدا ہی نہ ہوا تھا، پچھلی مرتبہ تو میرا کوئی سانس تسبیح کے بغیر نہ آتا تھا، ابھی تو شاید میں نے ایک بھی تسبیح ڈھنگ سے نہ کی تھی، ابھی وہ سو ز وہ گداز وہ کیفیت جو دعا کے لیے ضروری ہے وہ اثر، وہ آہِ رسا، سبھی مفقود تھا، وجہ کیا ہوئی اس نے بلایا بہترین میزبانی کی، پھر یہ احساس کیوں غالب ہے کہ کسر رہ گئی، اس کی میزبانی میں نہیں، ہمارے حرفِ تشکر میں، ہماری عبادت میں وہ ارتکاز نہیں تھا جو اس کی مہربانی اور محبت میں تھا اس کی عناییتں ا س کی نظرِ کرم ہم پر تھی… دل کو تسلی دی کہ جب یہ یقین ہے کہ وہ ہماری تمام عبادتوں کو قبول کرتا ہے، پھر وسوسے بننے کا کیا فائدہ، ہاں اگر یہ تمنا ہے کہ ہمیں پھر سے اپنے دوارے بلائے، تو یہ الٹے سیدھے بہانے بنانے کی کیا ضرورت ہے کہ کسر رہ گئی ہے اب اگلی دفعہ، کسر نکالنے کے لیے بلا لے۔ مجھے یاد آیا پچھلی مرتبہ حج کے بعد و قتِ رخصت نہ جانے کتنی مرتبہ طوافِ وداع کر چکے تھے، جب بس میں بیٹھے، جب ائرپورٹ پہنچے، جب اسلام آباد آ گئے اور جب سات سال گزر بھی گئے مجھے یہی احتمال رہا کہ مجھے ایک طواف اور کرنا تھا، جو میں نہیں کر سکی اور مجھے اس طواف کے لیے جو مجھے کرنا تھا، اس در پہ ضرور جا نا ہے، بلکہ اپنے دو ایک عزیزوں سے جو حج کے لیے جا رہے تھے نا چاہتے ہوئے کہا بھی کہ ایک طواف میری جانب سے ضرور کرنا، کہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں … تو میں نے پہلے عمرے کے رو ز ہی جب شاہد حلق کروا کے آئے تھے تو میں نے انھیں کہا تھا آپ عشاء کی نما ز پڑھ لیں، میں اتنی دیر میں ایک طواف کر لوں یہ وہی طواف تھا جو سات سالوں سے مجھے آمادہ کرتا تھا کہ اس سر زمین پر دو بارہ قدم رکھوں کہ طواف واحد عبادت ہے جو حرمِ پاک سے مخصوص ہے، ورنہ نماز روزہ قرآن پاک کی تلاوت کہیں بھی کی جا سکتی ہے … تو شاید یہ کیفیت اسی لیے ہے کہ میں دوبارہ آؤں اور جی بھر کے خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کروں، ربِ جلیل کی تسبیح بیان کروں اس کے پیارے حبیب ﷺ پر درود و سلام کے موتی بکھیروں۔
شکریہ مکہ کے مہربان میزبانو…
میں دس عمر ے کرنے کی خواہش کے ساتھ آئی تھی، شاہد کا کہنا تھا کہ طواف افضل ہے، حضورِ پاک نے بھی طواف کثرت سے کرنے کا کہا ہے، پھر عمرے میں اتنی مشقت ہے کہ اس رو ز طواف زیادہ نہیں کیے جا سکتے، مسجدِ عائشہ آنے اور جانے میں بھی ایک ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے اور اتنا ہی وقت طواف و سعی میں گزر جاتا ہے، اتنی دیر میں کتنے ہی طواف کیے جا سکتے ہیں، تو اب میں دس کے بجائے صرف پانچ عمرے کر سکی تھی۔ طواف البتہ جی بھر کر کیے۔ ظہر کی نماز ادا کرتے ہی ہوٹل پہنچے، شاہد نے عتیق کو اپنی روانگی کے بارے میں بتایا کہ کل کے بجائے ہم آج ہی نماز عصر کے بعد جدہ جا رہے ہیں، وہ حیران رہ گیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا، آپ جب سے مدینہ سے آئے ہیں ابو کہہ رہے ہیں کہ ایک کھانا اکٹھے کھائیں گے اور آپ ہمیں موقع ہی نہیں دے رہے، آج تو آپ نہیں جا سکتے میں خود کل نمازِ عشاء کے بعد آپ کو جدہ چھوڑ کر آؤں گا، یہی پروگرام طے پایا تھا، اسے اپنی مجبوری بتائی کہ خالد اتنی مصروفیت کے باوجود ہمیں لینے آ رہا ہے، ہم انکار نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے کمرے میں آئے، برائے نام شاپنگ کی تھی پھر بھی شاہد کا خیال تھا کہ سامان زیادہ ہو گیا ہے، خصوصاً کھجوروں کے وزن کی طرف سے فکر مند تھے۔ عصر کی نماز حرم پاک میں ادا کرنے کے بعد ضیا صاحب سے ملاقات کے لیے ہوٹل اشواق گئے، وہ بے حد مصروف تھے، انھوں نے کہا کہ مجھے عتیق نے آپ کے تبدیل شدہ کے بارے میں بتایا، میں آپ کی طرف آ ہی رہا تھا، کہ یہ کچھ ضروری کام آگیا، آج آپ نہیں جا سکتے، آج رات ہم اکٹھے کھانا کھائیں گے کل آپ کو خود جدہ چھوڑ کر آئیں گے، انھیں بتایا کہ خالد ہمیں لینے کے لیے جدہ سے نکل چکے ہیں اور اب وہ مکہ کے قریب پہنچنے والے ہوں گے، اس لیے ہمارا آج جانا ناگزیر ہے۔ کہنے لگے۔
’’ تو پھر ٹھیک ہے، آپ عشاء کی نماز پڑھ کر کھانا کھا کر چلے جائیں، آ پ کے مہمان ہمارے مہمان ہیں۔ ‘‘
’’ بہت مشکل ہے کہ ان کے اس اتنا وقت ہو۔ ‘‘
’’ آپ ان سے میری بات تو کرائیں۔ ‘‘
شاہد نے نمبر ملا دیا ضیا صاحب نے بات کی۔
’’ شاہد صاحب مغرب و عشاء کی نماز حرم میں ادا کرنا چاہتے ہیں، آپ ایسا کریں کہ رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیے، پھر اپنے مہمانوں کو بے شک لے جائیے۔ ‘‘
خالد صاحب نے جواب میں اپنے دفتری فرائض کا ایسا نقشہ کھنچا کہ ہم جو آدھ گھنٹے سے انھیں بتانے کی کوششِ ناکام کر رہے تھے کہ ہم رک نہ سکیں گے، خالد بھائی کے دو جملوں سے انھوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ خالد نے بتایا کہ وہ مکہ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ شاہد نے مجھے کہا۔
’’ میں نے ان کی گاڑی کا نمبر، رنگ اور ماڈل معلوم کر لیا ہے اور انھیں کہہ دیا ہے کہ حرم سے پہلے چوک پر میں شاہ کی تصویر کے نیچے کھڑا ہوں گا، یہاں پارکنگ کی بہت مشکل ہے۔ تم سامان لے کر شاہ کی تصویر کے سامنے آ جانا، اب جلدی کرو۔ ‘‘
ضیا صاحب نے عتیق کو فون کر دیا کہ دو بندے بلواؤ جو شاہد صاحب کا سامان باہر لے آئیں، عتیق سے ہم زم زم کے دو کین لینے کے متعلق بھی ہم کہہ چکے تھے، وہ بھی اٹھوانے تھے۔ جلدی سے ہوٹل پہنچی، سارا سامان نیچے اتارا گیا، دو بنگالی بلوائے جا چکے تھے، انھوں نے سارا سامان سڑک تک پہنچایا، شاہد شاہ کی تصویر کے نیچے نظر نہ آئے، فون کرنے کی کوشش کی، بات نہ ہو سکی، ضیا صاحب، عتیق اور میں باری باری کوشش کرتے رہے۔ آخر ایک سلور کلر کی کیمری کار میں شاہد اور خالد دونوں آ گئے۔ شرطے تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، ان کی موجود گی ہی میں انتہائی تیزی کے ساتھ سامان گاڑی کے ٹرنک میں رکھا، عتیق نے زم زم کے کین بطور ہدیہ پیش کیے۔ اس کا اور ضیا صاحب کا شکریہ بھی ڈھنگ سے نہ ادا کر سکے، اب یہاں پاکستان میں جو بھی سنتا ہے کہ کن لوگوں نے ہماری میزبانی کی اور کس انداز میں، تو ان کا جی چا ہتا ہے کہ فوراً سے پیشتر رختِ سفر باندھے، کیونکہ یہاں پاکستان میں، ٹریولنگ ایجنسیاں کس کس طرح، عازمینِ حج و عمرہ کو خراب کرتی ہیں، ان واقعات کے گواہ تو ہم بھی ہیں کہ کس طرح ہمارے عزیز و اقارب ٹریول ایجنٹس کی بے نیازی، اکھڑ پن اور بد نظمی کی شکایت کرتے رہے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہم بھی خوف زدہ تھے کہ نہ جانے ہمارے نصیب میں کون سے ٹور آپریٹرز لکھے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ لیکن اللہ کا ایسا کرم ہوا کہ الھدیٰ سے منسلک تمام افراد چاہے وہ اسلام آباد کے توقیر صاحب، افتخار صاحب ہوں یا سعودیہ کے ضیا صاحب، عتیق صاحب اور شاہد محمود انور صاحب سبھی نے اس طرح دھیان رکھا کہ شاید وہ اپنے انتہائی قریبی عزیزوں کا بھی نہ رکھ پاتے ہوں، ان سب کے لیے دل سے دعائیں نکلتی رہیں، اور اس حسنِ سلوک کا ہمیں یہ فائدہ بھی ہوا کہ ابھی ہم وہیں تھے اور ہم ذہنی طور پر آئندہ حج و عمرہ کا پروگرام انھی کے ساتھ بناتے رہے۔ اب ہمارے کراچی کے عزیز ہو یا اسلام آباد کے سبھی انھی کے ساتھ مناسک حج و عمرہ کی ادائگی چا ہتے ہیں۔
اماں حوا کا شہر
خالد کے ساتھ ہم جدہ کی جانب رواں ہیں، اسلام آباد سے نکلتے ہوئے اس مرتبہ میں نے فارد سے کہا کہ مجھے ایوامین کی پانچ گولیاں لا دو، جہاز اور بس کے سفرمیں میری بہت طبیعت خراب ہوتی ہے، اس نے بارہ گولیاں پکڑا دیں میں نے کہا کہ بیٹا پانچ کہیں تھیں کہنے لگا، امی دس روپے کی تھیں میں پورا پتا ہی لے آیا، اب اس پورے سفر کے دوران فارد کے لیے کیا کیا نہ دعائیں دل سے نکلتی رہیں۔ جہاز پر بیٹھتے ہی ایک گولی کھائی تھی، جہاز میں کچھ بھی کھانا پینا میرے لیے ممکن نہیں ہوتا، لیکن میں نے اس مرتبہ ہر چیز رغبت سے پیٹ بھر کر کھائی، اسی طرح بقیہ اسفار، مکہ، مدینہ، ابو ظہبی، دبئی، شارجہ، عجمان، حتیٰ کہ زیارتوں پر جانے سے قبل بھی ایک گولی کھا لیتی تھی اور صحیح معنوں میں، میں نے اس مرتبہ ہی تمام اسفار سے بہت لطف اٹھایا، ورنہ میری طبیعت اتنی خراب ہوتی ہے کہ میں آئندہ سفر سے توبہ کر لیتی ہوں، مجھے خود پر تعجب بھی ہوا کہ جب میں ہر مرتبہ نیت کرتی تھی کہ ٹریول سک نیس کی گولیاں کھا کر سفر کروں گی تو پھر اس پر عمل کیوں نہ کیا۔ اس مرتبہ اللہ کے فضل سے سارے ہی تجربات اتنے خوشگوار رہے تھے کہ اسلام آباد ائرپورٹ سے گھر آ تے ہوئے میں نے سرمد سے کہا کہ اب چین کا پروگرام بنا نا چاہیے، کہنے لگا۔ ’’امی گھر تو پہنچ لیں۔ ‘‘
تو اب ہم جدہ کی جانب رواں تھے، پچھلی مرتبہ ایسی حالت تھی کہ کچھ بھی دیکھنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ خالد بھائی کے برادر بزرگ ناصر بھائی ہمیں جدہ کا ایک ایک گوشہ دکھا رہے تھے، اس مرتبہ ناصر بھائی سے ملاقات نہ ہوسکی کہ وہ ریاض منتقل ہو چکے ہیں۔ اب خالد بھائی ایک ایک جگہ کا تعارف کراتے جا رہے تھے۔ مجھے ہر منظر دلکش معلوم ہوتا تھا۔ مکہ سے نکلے تو سورج پہاڑیوں کے پیچھے غروب ہونے کو تھا، شاہد کے موبائیل نکالنے تک غروب ہو چکا تھا، اس کا سفر ا تنا تیز ہوتا ہے اندازہ نہ تھا۔ خالد کہنے لگے کہ یہ ریتیلا علاقہ، یہ صحرائی میدان، یہ خشک چٹانیں، اللہ کی مصلحت ہمیں ہر مقام پر نظر آتی ہے، اگر یہاں اس کی جگہ جنگلات ہوتے، چشمے رواں ہوتے، تو تخریب کا ر عناصر کے لیے یہ بہترین پناہ گاہ ہو سکتی تھی۔ چور ڈاکو بہت فائدہ اٹھا سکتے تھے کہ ہر حاجی کو ان راستوں سے گزرنا ہی ہوتا ہے، یہاں کا موسم، جغرافیائی حالات، اس قسم کے ہیں کہ کوئی بھی یہاں چھپ نہیں سکتا۔ سعودیہ اور پاکستانی سیاست و معیشت پر بات ہوتی رہی، پاکستانی حالات بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی اتنے ہی تشویش ناک ہیں جتنے کہ ہمارے لیے۔ جرائم کے حوالے سے بھی بات ہوتی رہی کہ پاکستان میں ہر چینل ہر وقت ہی خوف ناک اور دہشت ناک سلائیڈز دکھاتے رہتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک پہ کسی عفریت کا سایہ ہے۔
معلوم ہوا کہ سعودیہ میں بھی جرائم ہوتے ہیں لیکن انھیں اچھالا نہیں جا تا۔ البتہ مجرم کو قرارِ واقعی سزا ملتی ہے۔ حدود حرم سے نکلتے ہی مغرب کی اذان ہو گئی، رحل نما پل نے وداع کیا۔ وہاں کی مساجد میں یہ خوبی ہے کہ خواہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، خواتین کے لیے جگہ مختص ہوتی ہے۔ اب دھندلکا پھیلنے لگا ہے۔ میں اپنی عادت سے مجبور آبادی تلاش کرتی رہتی ہوں۔ شہر قصبے محلے، کہیں سے بھی گزریں انسان دکھائی نہیں دیتا۔ جدہ شہر کی صفائی سراہتے ہم آٹھ بجے گھر پہنچ گئے، فوزیہ اور دونوں بچیاں ماہین اور نمرہ منتظر تھیں۔ فوزیہ کہنے لگی کہ بچے آپ کا بہت شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ پہلا سوال یہی تھا کہ آنٹی سے ساتھ بے بی ہو گا کہ نہیں۔ بچیاں سکول سے آ کر سارا دن اکیلی ہوتی ہیں اس لیے انھیں کسی کے آنے کی خبر مل جائے تو بہت خوش ہو جاتی ہیں، راستے میں خالد سے بات ہو رہی تھی کہ خواتین اپنا وقت کیسے گزارتی ہیں، تو وہ بتا رہے تھے کہ سارا وقت گھر پر ہوتی ہیں، میاں رات گئے کام سے واپس آتا ہے تو اس میں اتنی سکت نہیں ہو تی کہ ہ بیوی بچوں کو وقت دے سکے، ایسے میں عورتیں ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں کہ پاکستان میں وہ اول تو تنہا نہیں ہوتیں، پھر دوست عزیز، رشتہ دار ہوتے ہیں جن کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں یا فارغ ہوئے تو ویسے ہی ملنے ملانے چلے گئے، پھر شاپنگ کے لیے بھی ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور کچھ نہیں تو محلے والوں سے ہی گپ شپ ہوتی رہتی ہے، یہاں ایسا کچھ نہیں۔ امی آتی ہیں تو مہینے بھر میں ہی اکتا جاتی ہیں، فوزیہ عادی ہو چکی ہے۔ پھر میں گھر آ کر ان لوگوں سے گپ شپ بھی لگاتا ہوں۔ فوزیہ کی دن بھر کی روداد سنتا اور اپنی سناتا ہو ں، ویک اینڈ پر کارنیش جانا بچوں کو اچھا لگتا ہے تو ہم وہاں چلے جاتے ہیں۔
شاہد اور خالد نماز پڑھ کر آئے تو کھانا لگایا گیا، بریانی، قیمہ، مٹن قورمہ، اور مایونیز والی رشین سلاد، بریانی بہت عمدہ تھی، خوب مزے سے کھانا کھایا اور یاد کر تی رہی کہ پچھلی مرتبہ گاڑی میں میری اتنی طبعیت بیزار رہی کہ میں گھر آ کر ثمرین بھابی سے یہی کہتی رہی کہ مجھے صرف ایک بستر چاہیے، مجھے کھانے کے لیے بالکل نہ کہیں اور اب میں یہاں بہت رغبت سے ہر چیز کھا رہی تھی۔ رات گئے تک عمرے کی باتیں ہوتی رہیں۔ ر ات آرام سے سوئے۔ صبح خالد آفس چلے گئے۔ شاہد مطالعہ کرتے رہے اور جدہ کو جاننے کے لیے قرب و جوار کا چکر بھی لگاتے رہے، قریبی مسجد میں جا کر ظہر کی نماز ادا کی اور اپنے اس تجربے کا احوال سناتے رہے۔
دوپہر میں خالد گھر آ گئے، عصر کی نماز کے بعد، ابھی دھوپ میں تمازت تھی کہ ہم جدہ کی سیر کے لیے نکلے۔ جدہ میں ہماری جدِ امجد اماں حوا کی قبر بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۹۲۸ء تک مقبرہ موجود تھا، بعد ازاں سعودی حکومت نے اسے مسمار کرا دیا۔ دنیا جہاں کے فن پارے مانو منٹس کے نام پر ہر چوک پر استادہ ہیں، لیکن آثار اب کوئی باقی نہیں، جو باقی ہیں، ان کی میعاد کا بھی کچھ پتا نہیں۔ دنیا کے آغاز و انجام کی باتیں کرتے، شہر دیکھتے جاتے تھے۔ جدہ کے شمال مغرب کی جانب ساحلی جھیل ہے۔ ہم جدہ کے معروف اور عمومی تلفظ جَدہ سے ہی آگاہ ہیں معلوم ہوا کہ:
’’ جدہ کے تین تلفظ مشہور ہیں، یعنی جَدہ زبر کے ساتھ، مقامی لوگ جِدہ کہتے ہیں یعنی زیر کے ساتھ، جُدہ، مضموم کے ساتھ، اس کا مفہوم سڑک ہے اور یہی اس کا صحیح تلفظ ہے، جَدہ یا جِدہ بمعنی دادی درست نہیں ہے۔ ‘‘ ۲۵ ؎
ہم سب کا پسندیدہ مقام ساحلِ سمندر ہے۔ بچیوں کے ووٹ بھی کارنیش کی طرف تھے، گھومتے پھرتے، جب ساحلِ سمندر پر پہنچے تو مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں، اتنے میں عالی ندیم کا فون آگیا، صائمہ سے بھی بات ہوئی اسے بتایا کہ اس کی امی کی صحت یابی کے لیے خاص طور پر بار بار دعا کی ہے اور تمھارے بلاوے کے لیے بھی بہت دعا کی ہے۔
ایک خوبصورت چھوٹی سی مسجد لبِ سڑک، مختصر سی چڑھائی کے بعد، نماز کی دعوت دیتی تھی۔ نماز کی ادائگی کے بعد سمندر کا نظارہ کیا، فوارے کا جھاگ اڑاتا پانی ہر زاویے سے دیکھا، پچھلی مرتبہ والے مانو منٹس نظر نہ آئے۔ رات گئے گھر آئے، راستے سے خالد نے البیک کے تین چار بڑے پیک لیے۔ کھانا پسندیدہ تھا، سب نے شوق سے کھایا، شاہد کو سامان کے وزن کی فکر تھی، مکہ میں ضیا صاحب نے بھی بہت تسلی دی تھی کہ یہ سامان تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اب خالد اور فوزیہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ہمارے ہاں جو بھی حاجی آتے ہیں ان کے ساتھ اتنا سامان ہوتا ہے کہ ہمارا ٹی وی لاؤنج بھر جاتا ہے، پھر بھی وزن کیا گیا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ بیس کلو وزن کی اجازت ہے یا تیس کلو کی، خالد نے پتا کرایا تو معلوم ہوا کہ تیس کلو لے جا سکتے ہیں، شاہد کا خیال تھا کہ صبح پانچ بجے ہماری فلائیٹ ہے، دو بجے ہمیں ائرپورٹ پہنچنا ہے۔ خالد سے با ت کی کہ آپ ہماری وجہ سے اپنی نیند نہ خراب کریں۔ آپ ہمیں ابھی ائرپورٹ چھوڑ آئیں اور گھر آ کر آرام سے سو جائیں۔ خالد اور فوزیہ نے انکار کیا، کہ نہیں آپ ڈیڑھ دو گھنٹے آرام کر لیں، ہم الارم لگا کر سو رہے ہیں، آپ کو جگا دیں گے اور سامان تو آپ کا پیک ہی ہے وقت پر ائرپورٹ پہنچا دیں گے۔
فوزیہ اور خالد کی مہمان نوازی کے لیے شکریے کا لفظ ادا کرنا بہت معمولی تھا، انھوں نے تحائف کے انبارِ گراں سے بھی لاد دیا، جو لیے بغیر چارہ نہ تھا۔ رات دو بجے ائرپورٹ کے لیے نکلے۔ زرد روشنی سے جگمگاتی سڑکیں نسبتاًخالی تھیں۔ فاصلہ کا فی تھا، گاڑیوں کے شو روم فارد کی یا د دلاتے رہے۔ اسے بے شعوری کی عمر سے ہی گاڑیوں کا ایسا شعور رہا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، ہم ائرپورٹ پہنچے۔ خالد نے کہا کہ میں باہر منتظر رہوں گا آپ چیک ان ہو جائیں، بورڈنگ کارڈ مل جائے تو مجھے فون کر دیجیے گا۔ تو ابھی ہم ائرپورٹ میں داخل ہوئے ہی تھے کہ خالد انفارمیشن بورڈ کی طرف گئے۔ معلوم ہوا کہ ہماری فلائٹ کا وقت آٹھ بجے لکھا ہے، ہم نے کہا کہ اب تو ہم پہنچ گئے ہیں، بورڈنگ کارڈ لے کر مسجد میں جا کر آرام کریں گے۔ ہم اندر لاؤ نج میں داخل ہوئے اور لمحہ بھر میں ہی ضروری کاروائیوں سے فارغ ہو کر خالد کو اطلاع دی۔ ائرپورٹ کے شاپنگ ایر یا کا جائزہ لیتے مسجد کی طرف چلے۔ تہجد کے نوافل ادا کیے، کچھ تلاوت کی، ابھی اذانِ فجر میں وقت تھا کچھ دیر سونے کی ناکام کوشش کی، میری نیند بہت لاڈلی ہے۔ اندھیرا کمرہ، بہت خاموشی اور سکون ہو تو آئے گی۔ مجھے معلوم تھا کہ میں سو نہ سکوں گی پھر بھی کچھ دیر کے لیے لیٹ گئی۔ شاہد بھی دو ایک مرتبہ چکر لگا گئے۔ یہی خیال تھا کہ ہماری فلائٹ تو آٹھ بجے ہے، آرام سے بیٹھتے ہیں۔ دیگر جہازوں کی روانگی کے اعلانات ہوتے رہے۔ فجر کی اذان ہوئی۔ وضو کے لیے باتھ روم گئی۔ بڑے اطمینان سے وضو کیا۔ اتحاد ایر ویز کی ابو ظہبی فلائٹ کے اعلانات ہوتے رہے، میں نے دل میں کہا کہ ہماری تو آٹھ بجے فلائٹ ہے، اس لیے توجہ نہ دی۔ ایک مرتبہ خیال آیا بھی کہ اتنے کم وقفے سے ایک ہی مقام پر دو فلائٹسں تو نہیں جا سکتیں۔ بہر حال وضو کر کے آئی تو شاہد منتظر کھڑے تھے کہ ابو ظہبی کی فلائٹ کا اعلان ہو رہا ہے، میں نے کہا، ہاں میں نے بھی سنا ہے لیکن یہ ہماری فلائٹ کا ٹائم تو نہیں اور پھر فلائٹ نمبر بھی میرا خیال ہے کہ کچھ اور بتا رہے تھے، شاہد کہنے لگے کہ میں سامان سمیت لاؤنج میں جا رہا ہوں، تم نماز پڑھ کر فوراً ادھر ہی آ جانا۔ میں نے نہایت سکون سے نماز پڑھی، ابو ظہبی کی فلائٹ کے اعلانات ہو تے رہے۔ مفتی اکمل صاحب نے بتایا تھا کہ اگر آیت الکرسی میں ولا یؤدہ حفظھما گیارہ مرتبہ پڑھ کر آیت لکرسی اس طرح ختم کی جائے کہ آنکھوں پر انگلیاں رکھی ہوں اور اس ورد کی عادت بنا لی جائے تو آنکھوں کے مسائل نہیں پیدا ہوتے، تو جناب جلدی کے خیال سے میں جائے نماز سے اٹھ کھڑی ہوئی لیکن آنکھیں بند کر کے اس دعا میں مصروف تھی کہ قریب سے ایک آدمی کی تیز گھبرائی ہو ئی آواز سنائی دی۔ پا کستانی … اتحاد … ابو ظہبی۔ میں نے سر ہلایا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے کھینچتا ہوا لے جائے میں نے اطمینان سے پو چھا کیا ہوا، اس نے عربی میں جواب دیا، فوراً چلو اور مجھے بھگاتا کاؤنٹر کے پاس لے آیا۔ شاہد پہلے ہی وہاں کھڑے تھے اور انھیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ آپ کے بورڈ پر آٹھ بجے کا وقت تحریر تھا لیکن وہ کچھ سننے کو تیار نہ تھے۔ او کے اوکے کیے جا رہے تھے اور ہمیں باہر کی طرف دھکیلے جا رہے تھے۔ باہر بس کھڑی تھی جس میں ایک دو مسافر موجود تھے۔ ہمیں تیزی سے بس میں بٹھایا گیا اور انتہائی تیزی سے جہاز تک پہنچایا گیا۔ ہم اپنی سیٹوں تک پہنچے ہی تھے کہ ٹیک آف کا اعلان ہوا۔ شاہد کہنے لگے آج تو تم نے فلائٹ نکلوا ہی دی تھی۔ میں جب نماز کے بعد ٹہلتا ہوا وہاں پہنچا تو دو پاکستانیوں کی ڈھنڈیا مچی ہوئی تھی، مجھے وہ زبردستی بس میں بٹھا رہے تھے۔ میں نے کہا کہ میں اپنے دوسرے مسافر کو تو لے آؤں، وہ مسجد میں ہے تو انھوں نے سختی سے ا نکار کیا اور کہا آپ یہیں کھڑے رہیں اور فوراً ہی فون پر بات کی اور یوں وہ شخص تمھیں تلاش کر کے لے آیا۔ میں نے کہا ہا ں، ہمیں شاید انفارمیشن بورڈ پڑھنے میں غلطی لگی ہو گی لیکن وہ ہمیں لیے بغیر جا ہی نہیں سکتے تھے، ہمارا سامان جہاز میں لوڈ کیا چکا تھا۔ بہر حال اللہ کا شکر ادا کیا، جہاز میں بیٹھتے ہی ایوامین کی ایک گولی کھائی اور کچھ دیر بعد ناشتہ کیا۔ کچھ سوئی کچھ جاگی، سفر آرام سے گزر گیا۔
ابو ظہبی، شیشوں کا شہر
ہمیں ساڑھے آٹھ بجے نوید دی گئی کہ ہم ابو ظہبی ائرپورٹ پر اترنے والے ہیں۔ د س پندرہ منٹ بعد ہم ایر پور ٹ پر تھے اور ہمیں دبئی جانا تھا، ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمارے ویزے ہمیں ابوظہبی ائرپورٹ سے ہی مل جائیں گے۔ مطلوبہ کاؤنٹر تک پہنچنے میں کچھ وقت لگا۔ ویزے حاصل کیے شاہد کہنے لگے تم کلیرئنس کروا لو، میں اتنی دیر میں سامان کا پتا کر کے آتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ شاہد کی موجودگی بھی ضروری ہے کہ آنکھ کی تصویر لی جائے گی۔ شاہد آئے، یہاں سے فراغت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ ہمارا سامان نیچے پہنچ گیا ہے۔ ہم نے سامان وصول کیا، کاؤنٹر سے اتحاد کی کچھ سوئٹس اٹھائیں اور اب مرحلہ تھا بس کی تلاش کا، ہمیں ایک راستہ دکھایا گیا۔ ابھی ہم ائرپورٹ کی عمارت سے باہر نکلے ہی تھے کہ ہمیں ایک بہت خوب صورت، آرام دہ بس میں بٹھا دیا گیا۔ بس بالکل خالی تھی۔ میں نے سوچا کہ نہ جانے کب بس بھرے گی؟ ہم کب چلیں گے ؟کب پہنچیں گے ؟ سنا تھا کہ لاہور اسلام آباد جتنا فاصلہ ہے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ ڈیڑھ دو گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔ بس میں بیٹھتے ہی ہمیں ایک کپڑے کے چھوٹے سے بیگ میں لپٹی ٹھنڈے پانی کی بوتلیں پکڑا دی گئیں، ہم اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر نہایت سلجھے ہوئے شائستہ انسان تھے۔ ہم نے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ نہ جانے بس کب چلے گی، کہنے لگے ٹھیک ساڑھے نو بجے … اور واقعی ایک طویل لگژری بس ہم دو مسافروں کو لے کر وقت پر روانہ ہوئی۔ میں نے بس میں بیٹھتے ہی آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے نیند آ رہی تھی اور میں اس لاڈلی بچی کی فرمائش رد نہ کر سکتی تھی۔
شاہد مجھے ابو ظہبی دکھانا چاہتے تھے۔ کو ئی خاص نظارہ آتا مجھے ہلا دیتے، میں دیکھ کر پھر آنکھیں بند کر لیتی، شاید میں دبئی تازہ دم پہنچنا چاہتی تھی اور اس آرام دہ بس میں مکمل آرام کر نا چاہتی تھی لیکن اس آنکھ مچولی کی کیفیت میں ابو ظہبی کے جو بھی نظارے کیے وہ اس گلاس سٹی کا بہترین تعارف تھے۔ متحدہ عرب امارات کا دار الحکومت، جو مشرق وسطیٰ کا عروس البلاد کہلاتا ہے اور اپنی بلند ترین اور عالی شان عمارات کے سبب اسے مشرقِ وسطیٰ کا نیو یارک کہا جاتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ اب نیو یارک کو پوچھنے والے کم رہ گئے ہیں، بات تعطیلات گزارنے کی ہو یا کارو بار کی، ملازمت کی ہو یا تجارت کی، سب کی نظر ابو ظہبی، دبئی، العین وغیرہ وغیرہ پر ہی ٹھہرتی ہے۔ میں ابو ظہبی کے نظارے نیم وا آنکھوں سے کرتی تھی اور شاہد مکمل چوکس حالت میں تھے۔ ہر چند کہ موبائل کیمرہ کے ریزلٹ نہ جانتے تھے مگر کلک کیے جا رہے تھے، جو بعد میں نہایت عمدہ یادگار بنے۔ ایسی تصاویر اس موبائل کیمرہ نے تیار کیں جن کو دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہر دوسرے لمحے ان کے منہ سے تعریفی کلمات نکل جاتے تھے، ظاہر ہے ایک طرف انتہائی خو ب صورت عمارات ہوں جو انسانی ہاتھوں اور ذہنوں کی خلاقی کا منہ بولتا ثبوت ہوں، دوسری جانب، شفاف نیلا سمندر اور ساحل کے ساتھ ساتھ تفریح کے لیے آنے والوں کے آرام کے واسطے تمام سہولیات بھی موجود ہوں تو دل سے کیوں نہ سبحان اللہ کی صدا بلند ہو، میرا خیال تھا کہ میں ایک صحرائی علاقے کا سفر کر نے جا رہی ہوں، جہاں ہر وقت ریت اڑتی رہتی ہے، جہاں سبزے کا نام و نشان بھی نہ ہو گا، بس کھجور کے درخت نگاہ کی تھکن اتارنے کے لیے کبھی کبھی نظر آ جاتے ہوں گے، بالکل ایسا ہی میں نے حج کے موقع پر سوچا تھا کہ عرفات میں قیامت کی گرمی ہو گی اور لو گ چھتریاں لیے بیٹھے ہوں گے، لیکن وہاں نوخیز درخت لہلہاتے تھے جو معلوم ہوا کہ صدرِ پاکستان ضیا ا لحق نے لگوائے تھے، شاید انھوں نے اپنی زندگی میں یہی ایک بڑا کا م کیا تھا۔ اب یہی صورت یہاں نظر آئی کہ درخت ہی نہیں سڑک کے ساتھ ساتھ میلوں لمبے گھاس کے قطعات اور وہ بھی اس طرح کہ کہیں بھی درختوں یا گھاس میں بے ترتیبی یا بد نظمی کا شائبہ نہیں۔ بس ایک مقررہ رفتار سے چلتی چلی جا تی تھی۔ شاہد نے مجھ سے پوچھا کہ اس وقت بس کی کیا رفتار ہو گی میں نے کہا یہی کوئی پچاس ساٹھ کلو میٹر۔ کہنے لگے ایک سو بیس کلو میٹر۔ مجال ہے کہ اس پورے سفر کے دوران ایک ہلکا سا جھٹکا بھی لگا ہو، مجھے سڑکیں خالی خالی نظر آئیں، کہیں یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم کسی کو یا کوئی ہمیں اور ٹیک کر رہا ہے۔
وہ چیز جس نے شاہد کی مکمل توجہ اپنی جانب مرتکز رکھی اور وہ بار بار مجھے بھی دکھاتے رہے وہ ایک پل جو مسلسل شاہراہ کے متوازی زیر تعمیر تھا۔ یہ پل دبئی میں بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ تیس چالیس کلومیٹر تو ہم نے بھی دیکھا جس کا بعد میں پتہ چلا کہ دبئی ریلوے ٹریک کے لیے سطع زمین سے پچیس تیس فٹ بلند یہ پل تعمیر ہو رہا ہے تا کہ ریلوے ٹریک آبادی سے اور نہ ہی آبادی ٹریک سے متاثر ہو۔ ہمارے لیے تو یہ ایک حیران کن نظارہ تھا۔
میں نے شاہد سے کہا کہ بلال کو فون کر دیں کہ ہمیں لینے وقت پر پہنچ جائے۔ کہنے لگے کہ بلال سے تو بات نہیں ہو پا رہی، صبح مشتاق کو فو ن کر دیا تھا کہ ہم بس میں بیٹھ رہے ہیں، ڈیڑھ دو گھنٹوں میں پہنچ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ بلال کو فون کر نے کی ایک مرتبہ پھر کوشش کر لیں۔ یہ نہ ہو کہ ہم پہنچ جائیں اور وہ ابھی نہ آئے ہوں، شاہد نے فون ملایا اس سے بات ہو گئی، اسے بتایا۔
’’ ہم ابو ظہبی پہنچنے والے ہیں آدھ گھنٹے میں اتحاد کے آفس پر ہوں گے۔ ‘‘
تو کنڈیکٹر نے تصحیح کی۔
’’ دس منٹ میں ہم وہاں ہوں گے۔ ‘‘
بلال کہنے لگا :’’اتنی جلدی، میں تو ابھی آفس میں ہو ں، میرا خیال تھا آپ ڈھائی بجے پہنچیں گے، ا چھا میں پہنچ رہا ہوں۔ ‘‘
ہم دس منٹ میں دبئی اتحاد آفس کے سامنے کھڑے تھے کھجور کے درختوں کے چھدرے سائے میں دھوپ پریشان تو کرتی تھی لیکن ہم اتحاد آفس کے کارکنوں کے پر زور اصرار کے باوجود ان کے آفس میں جانے کے بجائے سڑک کنارے کھڑے ہو کر انتظار کر نا چاہتے تھے۔
’’بچہ ہمیں ڈھونڈتا ہی نہ رہ جائے۔ ‘‘
آخر ان کا پورٹر ہمارا سامان سڑک سے ذرا ہٹ کر جو ان کا ویٹنگ روم تھا وہاں تک لے ہی گیا اور جیسے ہی ہم اندر گئے بلال آ پہنچا۔ باہر اسے بس ڈرائیور نے بتایا کہ ابھی اندر گئے ہیں۔ اندر چین تو ہمیں بھی نہیں آرہا تھا۔ باہر نکلے تو دائیں جانب سے مشتاق آتا دکھائی دیا، دونوں حیرت زدہ تھے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ آپ پو نے نو بجے ابو ظہبی میں جہاز سے اتریں اور گیارہ بجے دبئی ہوں۔ اس سے کہیں زیادہ وقت تو دبئی ائرپورٹ سے باہر نکلتے نکلتے لگ جاتا ہے۔ مشتاق نے عطیہ سے بات کروائی۔
عطیہ حیران رہ گئی کہ ہم دبئی پہنچ چکے ہیں اور اگلے آدھ ایک گھنٹے میں اس کے پاس ہوں گے، کہنے لگی۔
’’ ہم نے تو ابھی کھانا بھی تیار نہیں کیا۔ ‘‘
میں نے کہا کوئی بات نہیں ہم آ کر خود کھانا بنا لیں گے، مشتاق کو واپس آفس پہنچنا تھا وہ راستے سے الگ ہو گئے۔ ہم دبئی کی بلند و بالا عمارات اور تعمیراتی کام دیکھتے اور ان کا تاریخ و جغرافیہ سنتے جا رہے تھے، سڑکوں کا بالکل وہی حال تھا جو ہم اسلام آباد میں چھوڑ آئے تھے، برابر کی ساری سڑکیں اکھڑی ہوئی نظر آتی تھیں۔ یہاں ہر جگہ کار کن مصروفِ عمل تھے۔ کھدائیاں اور بھرتیاں سارے کام چل رہے تھے۔ بلال نے دنیا کی بلند ترین عمارت بھی دکھائی جو دور سے ایک سیخ کی سی لگتی تھی، اس کی بالائی پانچ سات منزلوں کی فینشنگ باقی تھی معلوم ہوا کہ وہاں کوئی مزدور کسی قیمت پر کام کرنے کے لیے تیار نہیں کہ وہاں پہنچتے ہی ایسی گھبراہٹ شروع ہوتی ہے جو قابلِ ِ برداشت نہیں۔ اس لیے یہ حصہ ابھی تک نامکمل ہے۔ اب ابو ظہبی والا حال نہ تھا۔ ٹریفک کا سلسلہ رک رک کر چلتا تھا، گاڑیوں کا ایک سمندر تھا جو دھیرے دھیرے بہتا تھا، گاڑیاں نئی نکور تھیں۔ کیا ٹیکسیاں اور کیا ذاتی گاڑیاں سب ہی بڑی بڑی تھیں۔ ایک بھی سو زوکی طرز کی گاڑی دکھائی نہ دی۔ ایک طرف بلند و بالا عمارات کا سلسلہ اور دو سری طرف سمندر کہ جہاں بہت بڑی بڑی کشتیاں اور جہاز۔ ساحل پر لوگوں سے زیادہ سامان کے بڑے بڑے بنڈل منظر کو مختصر کرتے اور تنگی کا احساس بخشتے تھے، میں نے بلال سے طلال کے متعلق پو چھا، کہنے لگا۔
’’وہ آفس میں ہے، اس سے شام کو ہی ملاقات ہو سکتی ہے، ویسے میں کوشش کرتا ہوں۔ ‘‘
اس نے موبائیل پر طلال سے بات کی۔ اس کا دفتر اسی سڑک پر تھا جہاں سے لمحہ بھر بعد ہمیں گزرنا تھا اور طلال دفتر سے تیزی سے باہر آتا دکھائی دیا، بلال نے تیزی سے گاڑی گلی میں موڑتے ہوئے کونے پر روکی۔ طلال نے اس سے بھی کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ سلام دعا کی اور بلال یہی کہتا رہا، یار جلدی کر کہیں کوئی ٹریفک سارجنٹ نہ دیکھ لے۔ معلوم ہوا کہ وہاں موقع پر چالان کرنے کا رواج نہیں جب آپ سال کے اختتام پرٹیکس بھرنے جاتے ہیں تو آپ کا سارا کچا چھٹا کھول کر آپ کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے کہ کہاں آپ نے اور اسپیڈ، کہاں انڈر سپیڈ کی، کہاں غلط پارکنگ کی اور کہاں دیگر قوانین کو توڑا۔
ایک ڈیڑھ بجے شارجہ، گھر پہنچے، ہمیں راستہ کا فی محسوس ہوا جبکہ بلال کا خیال تھا کہ دفتری اوقات نہ ہونے کے سبب ہم بہت جلد پہنچ گئے ہیں ورنہ دو ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ بلال نے کہا کہ میں کار پارک کر کے آتا ہوں آپ یہیں انتظار کریں، پھر آپ کو لے جاؤں گا ہم ابھی گاڑی سے اترے ہی تھے کہ سامنے سے فرح اور عرش مان گیٹ سے نکلتے دکھائی دیے۔ بلال نے کہا کہ آپ کا گائیڈ آگیا ہے، یہ آپا کے ہی جا رہے ہیں، آپ اس کے ساتھ چلے جائیں، عطیہ کے پہنچے۔ محسن اور شعیب کے سالانہ امتحان ہو رہے تھے۔ ذوہیب اور عطیہ صبح سے مصروف تھے۔ معلوم ہوا کہ گھر کا تقریباً سارا فرنیچر بدلا ہے۔ صرف ایک الماری ہی بدلنی ہو تو کیا کیا کھلار مچتا ہے، یہاں تو سارا ہی سامان بدلا گیا تھا۔ بہر حال کھانا تیار تھا، بہت مزے کا اور وافر مقدار میں تھا، پیٹ بھر کر کھایا، پاکستان، مکہ، مدینہ اور جدہ کی باتیں ہوتی رہیں، یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ اس طرح پروگرام ترتیب پایا تھا کہ ان نو دس روز کے قیام میں دو دفعہ ویک اینڈ آتا تھا۔ آج جمعرات کا دن تھا۔ کھانے کے بعد مختلف آراء سامنے آتی رہیں، قناۃ القصبہ پر اتفاق ہوا۔ طلال بھی دفتر سے آگیا تھا۔ مغرب کی نماز پڑھتے ہی گھر سے نکلے، قناۃ القصبہ کا فاصلہ زیادہ نہ تھا، چند ہی منٹو ں میں پہنچ گئے، ملک ملک کی دستکار یا ں اور ہنر مندیاں دیکھیں، چائنا ہر جگہ چھایا ہوا ہے۔ کپڑا ہو یا جیولری مصنوعی پھولوں کے حیرت زدہ کر دینے والے ذخیرے ہوں یا مشینری، ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے تھا، پھر ہندوستان نے وہاں کی معیشت کو گرفت میں لیا ہو ا ہے۔ آپ باہر کسی بھی ملک میں جائیں، قدم قدم پر غیر ارادی طور پر ا پنے ملک سے موازنہ کر تے جاتے اور دکھوں میں ڈوبتے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہترین خام مال دستیاب ہے، ہمارے ہنر مند خواتین ہوں یا مرد، دنیا میں مستند مانے جاتے ہیں اور بے انتہا محنتی بھی، بس ان سے کام لینے کا سلیقہ ہونا چاہیے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے سر کردہ وزیر و عہدے داران جو ’’سب سے پہلے میں‘‘ کے نعرے پر عمل کرتے ہیں، انھیں ان امور سے رتی بھر دلچسپی نہیں ہے، لوگ آگے کی طرف بڑھتے ہیں۔ ترقی ء معکوس ہمارا شعار ہے۔
ابھی پل عبور کر کے دوسری جانب گئے، زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ اذانِ عشاء ہو گئی، نماز کے لیے پھر پل عبور کیا، کیا خوب صورت مساجد ہیں ایک ہی شکل و صورت، رنگ اور سائز کی تین چار مساجد اسی علاقے میں موجود ہیں، نماز کے لیے داخل ہو جاؤ تو نکلنے کے لیے دل ہی نہ چاہے۔ ان کے غسل خانے، ان کے برآمدے اور ہال۔ اگر کہیں دھول کا کوئی ذرہ یا کسی کاغذ کا کوئی ٹکڑا یا شاپر نظر آ جائے تو وہ یقیناً متحدہ عرب امارات نہیں ہو گا۔ نماز کی ادائگی کے بعد باہر آئے۔ ایک اور ہی نظارہ تھا، زیرِ زمین فوارے جاری وساری تھے۔ پانی، ایک بٹی ہوئی موٹی رسی کی شکل میں اچانک ز مین سے بلند ہوتا اور چار فٹ کی بلندی کے بعد ایک کمان کی شکل میں پھر ز مین پر گرتا۔ یوں چالیس پچاس فٹ جگہ پر کوئی پچیس تیس فوارے اور بہت سے بچے جوان و بوڑھے تیزی سے اس کمان کے نیچے سے یوں گزرنے کی کوشش کرتے کہ پانی کا ایک قطرہ بھی انھیں گیلا نہ کر سکے، لیکن اپنی اس کوشش میں بہت کم کامیاب ہوتے کہ چند ہی لمحوں میں کمان کا پریشر کم ہو جاتا اور وہ زمیں بوس ہوتے ہوئے سبھی کو بھگو دیتی، کبھی یوں بھی ہوتا کہ آپ بہت بچ بچا کے کھڑے ہیں اور پانی کا فوارہ آپ کے ا پنے قدموں تلے اچانک بلند ہو کر آپ کو اچھلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
کافی دیر بچے بڑے سبھی پانی سے کھیلتے رہے۔ اب کھانے کی یاد ستاتی تھی۔ بلال ہمیں اپنے پسندیدہ ریستوران چکن کنگز لے گیا۔ وہاں کا فی بھیڑ تھی، پھر ہم بھی کافی لوگ تھے۔ جگہ ملنے میں کچھ وقت لگا، چکن نگٹس چپس کے فیملی پیکج کا آرڈر دیا سلاد، پوریاں، ڈرنکس بھی منگوائے، بلال نے خاص طور سے بیگن کی و ہی ڈش منگوائی جو مدینہ میں افشاں بھابھی نے بنائی تھی، بیگن کا بھرتہ کہہ لیں لیکن وہ اس کریم یا مایونیز میں بنے ہوئے تھے جو اسے سفید رنگت عطا کرتی تھی۔ ذائقہ اچھا تھا، سبھی نے شوق سے کھایا۔
دوسرے دن جمعہ تھا۔ نمازِ جمعہ کے بعد طلال کا پزا کھلانے کا پروگرام تھا، نمازِ جمعہ کے فوراً بعد ہم سب دو گاڑیوں میں لد پھند کر طلال کے آفس کے نزدیک سپینگز پہنچے جہاں قصر پزا میں اس نے ایک ڈیل کے تحت ہمیں پزا کھلانا تھا، اس کے دفتر میں اس ریسٹورنٹ کے نمائندے آئے تھے، سو درہم میں ایک سال کے لیے ایک بروشر دے گئے تھے کہ ایک پزا لینے پر دوسرا مفت ملے گا، چنانچہ اس نے کنگ سائز دو پزے خریدے اور دو مفت حاصل کیے۔ مجھے پہلی مرتبہ پزا کھانے کا اتنا مزا آیا۔
برج العرب اور چائے کی ایک پیالی
آج ہمیں جمیرا بیچ تین جانا تھا۔ مجھے یاد ہے جب پہلی مرتبہ ثروت باجی اور جاوید بھائی اپنے بیٹے بلال سے ملنے دبئی جا رہے تھے تو میں نے اسلام آباد سے فون کر کے انھیں کہا تھا کہ اور کہیں جائیں یا نہ جائیں برج العرب ضرور جائیں۔ ماشا ء اللہ آپ کا بیٹا بہت اچھی پوسٹ پر ہے کوئی فرق نہیں پڑتا ایک مرتبہ ہو آئیں۔ اب ہم جمیرا بیچ جاتے تھے اور ساحل پر پہنچ کر انھوں نے مجھے دور سے دکھا دیا کہ وہ رہا برج العرب، میں نے کہا کہ اتنی دور سے ہی دکھاؤ گے۔ کہنے لگے۔
’’ نہیں ابھی ہم یہاں سے فارغ ہو کر مڈی نیٹ جائیں گے وہاں سے ایک اور زاویے سے اور قریب سے آپ کو دکھا دیں گے۔ ‘‘
پانی ہو اور ہم اس سے دور رہیں یہ ممکن نہیں۔ پُر شور لہریں اپنی طرف بلاتی تھیں اور ہم سب ایک لمحہ توقف کیے بغیر پانی میں تھے۔ فرح کو اس بنا پر مشکل کا سامنا تھا کہ عرش مان سمندر سے خوف زدہ تھا وہ اس کے قریب بھی جانا نہیں چاہتا، معلوم ہوا کہ جب ا س کے دادا ابو، آئے تھے اورحسبِ معمول پانی دیکھ کر اس میں کود پڑے تھے اور عرش مان کو بھی پانی میں اچھال دیا تھا تو وہ چھوٹا سا بچہ اس اچانک صورتِ حال کے لیے تیار نہ تھا اور ایک دم گھبرا گیا تھا۔ اب وہ دن اور آج کا دن تین چار ماہ ہونے کو آئے تھے وہ پانی کو قریب دیکھ کر رونا شروع کر دیتا تھا۔ یہ بات ہمارے لیے قابل قبول نہ تھی کہ ہمارے خاندان کا بچہ اور پانی سے خوف زدہ ہو، اب ہم آہستہ آہستہ اس کا خوف اتارتے تھے اور اس میں کامیاب بھی ہو رہے تھے۔ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ پانی کا خوف اچھی بات ہے کہ ڈوبتا وہی ہے جسے تیرنا آتا ہو جسے تیرنا نہ آتا ہو وہ پانی کے خوف سے اس کے قریب نہ جائے گا تو ڈوبے گا کیسے، کہا جاتا ہے کہ آگ اور پانی کی موت سب سے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ہم اس وقت موت کو بھول کر خدا کی قدرت کے نظارے کرتے تھے۔ دو گھنٹے تک پانی میں کھیلتے رہے۔ مجھے کئی لوگوں نے کہا تھا کہ عمرے سے پہلے دبئی جاؤ تو بہتر ہے ورنہ سارا عمرہ ساحل سمندر کے پانیوں میں دھل جاتا ہے۔ اب احساس ہو رہا ہے کہ انھوں نے درست کہا تھا۔ سمندر کا کنارا ہو، برج العرب کے زیر سایہ ہو، تو توبہ شکن نظارے تو دکھائی دیں گے ہی، لیکن و ہاں کسی کو کوئی پروا نہیں، سب اپنی اپنی دھن میں لگے ہیں، بلال نے کہا کہ یہاں سکیورٹی کا کوئی انتظام نظر نہیں آتا، کہیں کوئی چیکنگ نہیں ہو تی، کوئی آپ کو روک کر پریشان نہیں کرتا، لیکن سادہ لباس میں ملبوس سکیورٹی کے اہل کار اتنے غیر محسوس طریقے سے آپ کے گرد گھومتے پھرتے ہیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اول تو کوئی قانون شکنی کرتا نہیں اور اگر وہ اس کا مرتکب ہو بھی جائے تو اتنے ہجوم سے اسے نہایت خاموشی سے نکال کر لے جاتے ہیں۔ سمندر میں نہانے کے بعد ساحل سمندر پر ریت میں اٹے نہ جانے کتنی دیر بیٹھے ارد گرد کے نظارے کرتے رہے، وہاں واکنگ ٹریک بھی بنے ہوئے ہیں جن پر چلتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ہمارے قدموں تلے سانس لیتا ہے۔ یہاں بیچ شاورز موجود ہیں کہ آپ اپنے کپڑوں اور جسم سے ریت دھو لیں پھر ان صاف شفاف غسل خانوں میں جانے کے قابل ہو سکیں گے جو جمیرا بیچ پر بنائے گئے ہیں۔
اب ہم مڈی نیٹ جمیرا جاتے تھے۔ یہاں کے مکانات، ہوٹل، بازار، ریسٹور نٹ سبھی قدیم زمانے کے مٹی کے گھروں کی مانند ڈیزائن کیے گئے تھے۔ یہ جگہ بھی دیکھنے کا قابل تھی۔ مڈی نیٹ جمیرا میں دنیا کے کیا کیا عجائبات نہیں رکھے۔ ہندوستان سے برآمد کیے ہوئے پیتل اور تانبے کے برتنوں کے علاوہ بڑے بڑے شیر، ہاتھی، خرگوش، مینڈک اور نہ جانے کون کون سے جانوروں کی شبیہیں، دیوی دیوتاؤں کے مجسمے، بے شمار اقسام کے برتن، پھر فرنیچر اس طرح کہ پورا پورا شو روم، بیڈ روم، ڈرائنگ روم کا سجا سجایا نقشہ پیش کر تا، پھولوں کی دکان ہے تو انواع واقسام کے پھول، جن پر اصلی ہونے کا گمان ہوتا ہے یہاں لکھا تھا تصویر کھنچوانا منع ہے، واقعی وہ شو روم ایسا تھا کہ ہر ایک کا جی چاہے گا کہ اس کی تصویر ضرور اتاری جائے، پھر مجھے یہ بھی خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے اس لیے منع کیا ہو کہ ان کے ہنر کی کاپی نہ کی جا سکے۔ مڈی نیٹ جمیرا دنیا کے بہترین متاثر کن اور مصروف ترین شاپنگ سنٹرز میں سے ایک ہے، جسے ایک قدیم با زار کے روپ میں تشکیل دیا گیا ہے، جو سیاحوں کے لیے قدیم و جدید دبئی کا ایک مکمل تعارف پیش کر تا ہے، وہاں سے باہر نکلے تو سامنے تالاب تھا جس میں پانی ہی کے رنگ کی سلیٹی ایک ایک، دو دو کلو کی مچھلیاں بہت ہی پرُ سکون انداز میں تیرتی تھیں۔ ارد گرد میزیں کرسیاں بلکہ صوفے لگے ہوئے تھے جن پر شوقین مزاج شیشہ پی رہے تھے۔ کھانے پینے کا سلسلہ جاری تھا، درختوں کے جھنڈ کے پیچھے سے برج العرب ایک نئے زاویے سے اپنا آپ دکھلاتا تھا، میں نے بچوں سے بہت کہا کہ اپنے شاہد ماموں سے فرمائش کریں وہاں صرف ایک ایک پیالی چائے پلا دیں اور میں تو چائے بھی نہیں پیتی اس لیے میں صرف اندر سے ہی دیکھ لوں گی۔ لیکن بچے نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے، ہمیشہ طرح دے جاتے، نہیں بس یہیں سے دیکھ لیں، ادھر سے ہی ٹھیک ہے بس اس سے زیادہ اور قریب بھی نہیں جا سکتے۔
’’کیا بات ہے بلال نئے ماڈل کی بہترین گا ڑی میں بیٹھے ہو اور تم اس کے قریب سے نہیں گزر سکتے، ایک پیالی چائے نہیں پی سکتے۔ ‘‘
’’ طاہرہ آنٹی، اگر آپ کو ایک چکر وہاں کا لگوا دیتا ہوں تو آپ یہ سمجھیں کہ آپ کے پورے دبئی کے ٹرپ کا سارا خرچہ ایک ہی دن میں ہو گیا۔ اس لیے اسے جتنا دیکھ لیا ہے اتنا ہی کافی ہے۔ یہ ہیلی پیڈ دیکھیں، یہاں شیوخ لینڈ کرتے ہیں۔ ‘‘
آسمان کو چھوتا ہیلی پیڈ ایک کھلونا سا دکھائی دیتا تھا، اب برج العرب نے رنگ بدلے شروع کیے کبھی مکمل طور پر نیل گوں ہو جاتا تو کبھی جامنی رنگ میں ڈھل جاتا، میں نے بلال سے کہا۔
’’ گرگٹ صفت لوگوں سے ملنا ہماری لغت میں نہیں ہے، اچھا ہوا ہم برج العرب نہیں گئے۔ ‘‘
شارجہ کورنیش، مقامِ طعام
ہمیں گھر پہنچنے کی جلدی تھی کہ آج رات ہی شارجہ کورنیش پر تکہ پارٹی کا پروگرام تھا، یہ بلال و مشتاق ہی نہیں بلکہ وہاں کے مقامی و غیر مقامی لوگوں کی پسندیدہ تفریح گاہ، بلکہ مقامِ طعام ہے۔ عشاء کے بعد اس ساحل کی رونقیں بڑھنے لگتی ہیں، سبزہ زاروں پر دریاں بچھ جاتی ہیں کھجور کے درخت لیمپ پوسٹوں کی روشنی میں ایک اور ہی سماں دکھاتے ہیں۔ مشتاق نے وافر مقدار میں چکن تکہ اور سیخ کبابوں کا بند و بست کیا ہوا تھا، اب مرد حضرات انگیٹھی سلگانے میں مشغول ہوئے، وہ تو جماعت سے نماز پڑھ آئے تھے، خواتین نے سبز مخمل کی مانند نرم گھاس پر جائے نماز بچھائے، نمازِ عشاء سے فراغت کے بعد میں، فرح اور عطیہ ساحل کے ساتھ ساتھ میل ڈیڑھ میل واک کر آئے، اتنے میں کھانا تیار تھا، سیخ کباب بنانا ایک ایسا فن ہے کہ جس میں ہر کوئی کامیاب نہیں ہوسکتا، چکن تکہ تو تھا ہی اچھا لیکن سیخ کبابوں نے تو انتہا کر دی۔ سب دن بھر کی آوارہ گردی کے بعد بے حد بھوکے ہو رہے تھے، خوب سیر ہو کر کھایا۔ رات دو بجے بھی نہ نیند کا پتہ تھا نہ تھکن کا احساس اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اگلے روز ہفتہ تھا یعنی چھٹی کا دن … اس لیے سب خوش تھے اور کھانے کے بعد شیشیہ پیتے یا واک کرتے یا فٹ بال کھیلتے تھے۔
پام آئی لینڈ
پام آئی لینڈ قدرت کا معجزہ لگتا ہے، لیکن معجزہ تو صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے نبیوں سے منسوب ہے، ہم جب بھی دبئی کا جائزہ لینے باہر نکلتے۔ ہمیں بہت بھاری مشنری حرکت میں دکھائی دیتی، شاہد کو چونکہ فنِ تعمیرات سے بہت دلچسپی ہے، وہ کوئی ایسا منظر دیکھتے تو خصوصی طور پر مجھے اس کی طرف متوجہ کرتے، سمندر کے بیچوں بیچ دیو ہیکل ٹگ گن کے آہنی پنجے نیچے گہرائی سے ریت نکالتے اور اٹھا کر اسے مکسنگ مشین کے پیٹ میں اتارتے جہاں پہلے سے ہی بائنڈنگ مواد، سیمنٹ کہہ لیجیے، موجود ہوتا اور پھر چند منٹوں کے بعد یہ آمیختہ وہی آہنی ہاتھ نیچے سمندر میں پھینک دیتا اور یہ مسالا سمندر کی تہ میں نہ ٹوٹنے والے کنکریٹ کی شکل اختیار کر لیتا، یہاں تک کہ تہ سے لے کر اب وہ سطح سمندر سے کئی فٹ اوپرنظر آنے لگتا۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات تخلیق کی، انسان کو نائب بنایا اور زمین وآسمان کے خزانے مسخر کر نے کے لیے اسے شوق و جستجو کی دولت بخشی، اس نے پاتال کی گہرا ئیوں سے لے کر آسمان تک کمندیں ڈالنے کا فن سیکھ لیا ہے اور اب ہم سمندر کی اتھاہ گہرائیو ں سے طلوع ہوتا شہر دیکھتے تھے۔ میں نے شاہد سے کہا، متحدہ عرب امارات کا اتنا علاقہ ویران پڑا ہے، یہ کیوں اپنا وقت اور پیسہ بر باد کر رہے ہیں، وہاں جا کر گھر بنائیں اور سکون سے زندگی گزاریں۔ شاہد کہنے لگے کہ صحرا میں گھر کوئی بنانا نہیں چاہتا، یہ عجائب مالداروں کے مال کازبردست استعمال ہیں۔ اسے دبئی کی دولت سے دنیا کی دولت کھینچنے کا فن کہہ لو۔
شیوخ کو اپنی دولت کا کوئی تو مصرف اور وقت گزارنے کا کوئی تو مشغلہ چاہیے، چنانچہ جمیرا، جبل علی اور ڈیرہ، دبئی کے ساحل پرانسانی ہاتھوں سے بنائے گئے وہ خوب صورت و دلکش جزائر ہیں، جو دنیا میں سب سے بڑے تسلیم کیے جاتے ہیں، جگہ جگہ نک حیل ڈویلپرز کے سائن بورڈ لگے ہیں، جس کے کارکن ان شاندار تعمیرات میں دن رات مصروف ہیں، جن میں بیشتر پاکستانی افراد ہیں، پاکستانیوں کو کام کرتے دیکھنا ہو تو سعودیہ یا متحدہ عرب امارات میں ہی دیکھیں، یہاں اسلام آباد میں بھی بہت فلائی اوور بن رہے ہیں، سڑکیں کھدی پڑی ہیں اور سالوں سے یہاں کے باشندے نامکمل کام کے ثمرات سے بہرہ ور ہو رہے ہیں، یہاں ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ ایک دو میل نہیں کوئی ایک سو بیس میل کی پٹی پر کام ہو رہا ہے جہاں پر تعیش رہائشی مکانات اور کاروباری مراکز قائم ہوں گے، جہاں مکینوں کے لیے درس و تدریس، مساجد، کھیل کے میدان اور تیراکی کے تالاب بھی میسر ہوں گے۔ کھجور کے درخت کی شکل کے تعمیر شدہ ان جز ایر کو اگر د نیا کا آٹھواں عجوبہ شمار کیا جاتا ہے تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ پام آئی لینڈ کا دبئی کی بلند و بالا عمارات سے نظارہ کی ایک تحیر کی فضا پیدا کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عرب شیوخ ہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے رئیس بھی یہاں تعمیر ہونے والے ولاز، کاروباری مراکز اور ہوٹلز وغیرہ کے خریداروں میں سے ہیں اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ دنیا کا مہنگا ترین علاقہ ہے۔ امرا اب امریکہ یا سوئٹزر لینڈ جانے کے بجائے متحدہ عرب امارات میں تعطیلات گزارنا پسند کرتے ہیں بلکہ پیسہ بھی یہیں لگانا چاہتے ہیں۔ یہ الگ قصہ ہے کہ پاکستان واپسی کے ساتھ ہی بلکہ اس سے پہلے ہی جس عالمی معاشی بحران نے سپر پاور سمیت ساری دنیا کو متزلزل کیا، متحدہ عرب امارات بھی اس سے شدید طور پر متاثر ہوا۔
ہفتے کو بلال، طلال اور مشتاق کو ا پنے دفاتر سے چھٹی ہوتی ہے، صبح یعنی گیارہ بارہ بجے میں اور عطیہ رامض شاپنگ مال گئے، رامض شاپنگ مال ایک بڑا شاپنگ سنٹر ہے جہاں ہر ضرورت کی شے دستیاب ہے، تحائف کی خریداری بھی یہاں سے کی جا سکتی ہے۔ ہم نے خریداری تو کم ہی کی لیکن گھومے پھرے زیادہ، مجھے یہی خیال تھا کہ شاہد یہی کہیں گے کہ ہر چیز پاکستان میں مل جاتی ہے۔ پہلے ہی ہمارے پاس وزن زیادہ ہو رہا ہے، اس لیے میں خریداری کم کم کرتی تھی۔ چائنا کے برتن بہت تھے۔ میں نے کئی ایک الگ کیے بھی لیکن ان کا وزن ہی آٹھ دس کلو معلوم ہوا تو واپس رکھ دیے۔ بس نہ ملنا تھا تو وہ قالین نمادستر خوان صفریٰ نہ ملا جو ہم خالد کے گھر جدہ میں دیکھ کر آئے تھے اور جو ہم نے یہاں اسلام آباد میں خالد کی امی کے گھر بھی دیکھا تھا۔ جدہ سے اسی خوف سے نہ لیا کہ مبادا وزن بڑھ جائے۔ ایک بج رہا تھا جب ہم رامض سے نکلے اتنے میں دو تین خواتین بڑے بڑے خوبصورت شاپنگ بیگز جن پر چائنا ٹاؤن کی مہر لگی تھی، لیے ہوئے اندر داخل ہوئیں۔ معلوم ہوا کہ رامض اور شوبرا کے ساتھ ہی ایک اور شاپنگ مال کا افتتاح ہونے والا تھا، وہ آج ہو گیا ہے، عطیہ کہنے لگی کہ وہاں چلتے ہیں، گئے تو معلوم ہوا کہ ایک سے چار بجے تک بند رہے گا۔ ہم گھر آ گئے، کس طرح آئے، عطیہ اور فرح کی رہائش اور ان شاپنگ مالز کے درمیان ایک بے حد مصروف دو رویہ سڑک ہے، کچھ ہی عرصہ ہوا کہ وہاں کی انتظامیہ نے کوئی تین تین فٹ کی کنکریٹ کی دیوار بنانے کے بعد قدِ آدم گرل لگا دی ہے، اب بے شک سامنے ہی شاپنگ سنٹر ہے لیکن اسے کافی دور جا کر اوور ہیڈ برج کے ذریعے عبور کر کے ان تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ہمارے دلیر پاکستانیوں بلکہ بنگلہ دیشیوں نے جو اس علاقے میں بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں اور کئی ایک تو ان مالز میں کام کرتے ہیں، انھوں نے وہی کام کیا جو ہمیں یہاں پاکستان میں ہر جگہ نظر آتا ہے یعنی، دو دو تین تین فٹ گرل خاص خاص مقامات سے غائب کر دی ہے، ہم نے بھی اسی جگہ سے فائدہ اٹھایا اور پھلانگ کر دو منٹوں میں گھر آ گئے۔
ڈریگن مارٹ، شیطان کی آنت
دوپہر کے کھانے کے بعد بلال، طلال، فرح اور عرش مان ہمیں چائنا ٹاؤن، ڈریگن مارٹ دکھانے لے گئے۔ عطیہ کے دونوں بچوں، شعیب اور محسن کا پیر کو پر چہ تھا انھیں کہا کہ تم لوگ کچھ دیر سکون سے تیاری کر سکوگے۔ اپنے نام کی طرح یہ ڈریگن مارٹ شیطان کی آنت کی مانند ہے۔ یہاں دنیا کی ہر شے موجود ہے اور بہترین ڈسپلے کے ساتھ۔ سنیٹری کا سامان ہو یا بجلی کا۔ بنے بنائے دروازے ہوں یا فرنیچر۔ شاہد نے لکڑی کے کام کا خصوصی جائزہ لیا۔ تیار دروازوں کا پوچھا جو انھی دنوں اسلام آباد سے اپنے گھر کے لیے تھے۔ ان کا کہنا تھا بالکل وہی لکڑی، وہی ڈیزائن، اسی فیکٹری کی مہر، یہاں درہموں میں دس گنا مہنگا ہے۔ انھوں نے باتھ رومز فٹنگ کا بھی جائزہ لیا اور کہا کہ اپنے پاکستان میں یہ سب کچھ ملتا ہے اور اس کے مقابلے میں بہت کم قیمت میں۔ مکئی کے دانوں کی مہک نے سارے ڈریگن مارٹ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ ہم نے بھی دس درہم کے مسالے والے چیز میں تیار کیے ہوئے دانوں کا ایک گلاس خریدا۔ اگر قیمت نہ دیکھی جائے تو دانے بہت مزے کے تھے۔ وہاں سے چند ایک تحائف اور بچوں کے کپڑے خریدے۔ زیورات، موتی، پھول، بچوں کے کپڑے، خواتین و حضرات کے ملبوسات، کھلونے نہ جانے کیا کیا کچھ، امی کی ایک دوست یاد آئیں ’’کسی دکان پر نوٹوں کی بھی سیل لگی ہونی چاہیے۔ ‘‘ بہت کھلے ہال، جہاں کی سجاوٹ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ڈریگن مارٹ کا رقبہ اتنا زیادہ ہے کہ ہم عصرپڑھ کر گئے اور رات گیارہ بارہ بجے جب ان کے ہال کی بتیاں بجھنے لگیں تب ہم وہاں سے واپس ہوئے، ہاں انسان تھک جائے تو اسے آرام پہنچانے کا مکمل بندو بست ہے وہاں صوفے موجود ہیں آپ ان پر بیٹھ جائیے، وہ آپ کی ٹانگوں اور کندھوں کو اپنی گرفت میں لے لے گا، بائیں طرف کے بازو میں ایک مشین فکس ہے دو درہم کا سکہ ڈالیے اور وہ مقررہ وقت تک آپ کے جسم کا اس طرح مساج کرے گی کہ تھکن نام کو نہ رہے۔ بلال، طلال اور فرح بہت خوش تھے کہ دبئی آنے والوں میں آپ پہلے ہیں جو ہر چیز کا لطف لے رہے ہیں ورنہ جو بھی آتا ہے، اسے زبردستی سب کچھ دکھانا پڑتا ہے کہ اب آئے ہو تو کچھ دیکھ ہی جاؤ اور ڈریگن مارٹ تو ہم نے بھی آج تک پورا نہ دیکھا تھا، جس کے ساتھ بھی آئے، وہ پہلے ہی گھنٹے میں تھک جاتا تھا، یہاں کی مسجد اور غسل خانے لاجواب تھے۔ رات گئے واپس ہوئے۔ راستے سے ہمیں چکن، پراٹھا رول کھلایا گیا کہ جب گھر میں کچھ پکانے کو جی نہ چاہے تو ہم یہاں آ کر کھانا کھا لیتے ہیں، اسی کے برابر میں ایک اور ریستوران تھا بلال کہنے لگا، فرح کو یہاں کے سینڈوچ مزے کے نہیں لگتے لیکن ہم بہت شوق سے کھاتے ہیں، جب تک طلال مطلوبہ کھانا لے کر ساتھ والے ریسٹورنٹ سے نکلا ہم مفت کی سلاد والے ریسٹورنٹ کے مناظر دیکھتے رہے، وہاں ایک گاہک کھڑے تھے جنھوں نے سینڈوچ تو شاید گھر لے جانا تھا ان کے ہاتھ تیزی سے منہ تک جاتے دکھائی دیتے تھے، سلاد کی مختلف اقسام شیشے کے شو کیس میں سجی تھیں اور وہ وہاں سے اٹھا اٹھا کر پیٹ کے دوزخ میں ڈالتے جاتے تھے۔ ہم نے وہیں گاڑی میں بیٹھ کر ہی کھانا کھایا۔ وہ صاحب ابھی تک مصروفِ کار تھے، بلال کہنے لگا:
’’زیادہ حیران نہ ہوں۔ مال مفت، دلِ بے رحم والی کیفیت ہم پر بھی طاری ہو جاتی ہے، جب ہم یہاں آتے ہیں۔ ‘‘
ذرا سی مزید ڈرائیو کے بعد ہم گھر پہنچ گئے اب اس پزا سے دو دو ہاتھ کرنے تھے جو کل ڈیل کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا۔ گرم کیا تو اتنا ہی تازہ تھا، رات گئے، عطیہ کے گھر پہنچے۔
سانجھے دکھ سکھ
آج عطیہ کی سہیلیوں نے بلایا ہے کہ سبھی سے ایک جگہ ملاقات ہو جائے، اب ہم عرشیلہ کے گھر جاتے تھے۔ انھوں نے نیا نیا گھر سیٹ کیا ہے اور بہت خوش ہیں، صدف چونکہ دبئی میں رہتی ہے اور بہت مصروف بھی ہے اس لیے وہ نہ آسکی۔ باقی سہیلیاں گھریلو خواتین ہیں اس لیے سبھی اپنے اپنے فن کے جوہر دکھانا چاہتی ہیں، صاحبِ خانہ نے بلیک فارسٹ کیک بنایا تھا جو بالکل بھی گھر کا بنا ہوا نہ لگتا تھا۔ تبسم جو فزکس میں ایم ایس سی ہیں اور اس قد ر سادہ خاتون ہیں کہ کوئی گمان ہی نہیں کر سکتا کہ یہ خاتون اپنے مضمون پر کس قدر مہارت رکھتی ہیں، وہ بہترین حلیم بنا کر لا ئی تھیں۔ اسی طرح نوڈلز، سینڈوچ، عربی مٹھائیاں اور نہ جانے کیا کیا، ہر شے ذائقے میں لاجواب تھی۔ مجھے تو حلیم بہت ہی مزے کی لگی، دوپہر کا کھانا ہو گیا۔ کھانے کے دوران میں، تہمینہ، سعدیہ اور دیگر دوستوں سے ان کے گھریلو حالات پر بھی بات ہوتی رہی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اپنے وطن سے دور ہیں، پھر بھی مطمئن زندگی گزار رہی ہیں۔ مہنگائی کا مسئلہ یہاں بھی ہے بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ ہے۔ مکانوں کے کرائے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، پھر بچوں کے تعلیمی اخراجات بسا اوقات ناقابلِ برداشت معلوم ہوتے ہیں، ایک صاحب نے مہنگائی سے پریشان ہو کر بیوی بچوں کو پاکستان بھجوا دیا، اب ان خاتون کو کراچی میں گھر بھی کرائے پر لینا تھا۔ بچوں کو سکول کالج میں داخلہ بھی کروانا تھا۔ بڑھتی عمر کے بچوں کے لیے باپ کی سر پر موجودگی بھی ضروری ہوتی ہے، ادھر باپ نے شارجہ میں رہنا ہے تو گھر کا کرایہ بھی دینا ہے، کھانا پکانے، کپڑے دھلوانے اور دیگر گھریلو کام اب کون کرے، غرض بیوی کو پاکستان بھجوا کر انھیں افسوس ہے کہ کسی طرح یہیں تنگی ترشی میں کچھ سال اور گزار لیتے پھر بیٹے ہاتھ بٹانے کی عمر کو آ جاتے۔
عطیہ نے میری کتاب ’’ دسترس میں آسمان ‘‘ نیشنل بک فاؤنڈیشن کراچی سے منگا کر اپنی چند سہلیوں کو دی تھی، اس پر بات ہوتی رہی۔ دوپہر کو گھر آئے تو شعیب اور محسن گھر پر ہی تھے، جلدی سے انھیں کھانا کھلایا، نماز کے بعد کچھ دیر آرام کیا۔ آج ہمیں سفیر مال اور ون ٹو فائیو جا نا ہے۔ میرا خیال تھا کہ پیدل چلیں گے جب سے سعودیہ سے آئے تھے پیدل چلنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ میں نے سڑک پار کرتے کرتے عطیہ کو پیدل چلنے کے کئی فوائد بتائے۔ وہ خاموشی سے سنتی رہی اور ہر گزرتی ٹیکسی کو اشارہ کرتی رہی، لیکن انھیں شاید کہیں اور جانا تھا۔ وہ رکے بغیر گزر جاتی تھیں اور میں بھی رکے بغیر پیدل چلنے پر زور دیتے ہوئے آگے بڑھتی جاتی تھی، ابھی تین چار منٹ نہ گزرے ہوں گے کہ ایک ٹیکسی رکی۔ عطیہ نے دروازہ کھولا اور بغیر کوئی بات کیے بیٹھ گئی۔ بیٹھنے کے بعد سفیر مال کا بتایا۔ اس نے میٹر گھمایا اور دوچار منٹوں میں ہم اپنے مطلوبہ مقام پر تھے۔ میں حیران تھی کہ کوئی بھاؤ تاؤ نہیں ہوا، اس نے کس مقام پر جانا ہے، کا سوال نہیں کیا۔ یہاں پاکستان میں ٹیکسی کا سفر، ایک امتحان سے گزرنا ہے، اگر ٹیکسی ڈرائیور نے آپ کو جہاں جانا ہے، وہاں لے جا نے کی منظوری دے بھی دی تو اب وہ کرایہ اپنی مرضی کا چاہے گا، اگر آپ کو وقت پر پہنچنا ہے تو اس کی بات مان لیجیے، ورنہ اگلی ٹیکسی کا انتظار اس خدشے کے ساتھ کیجیے کہ اگر اس نے دس بیس مزید مانگ لیے تو کیا آپ دینے کو تیار ہوں گے۔ پونے چار درہم کرایہ بنا۔ ہم ٹیکسی سے اتر کر زمین دوز سیڑھیوں کے ذریعے سفیر مال پہنچے اور وہاں پہنچتے ہی میں نے کہا عطیہ اللہ کا شکر ہے کہ تم نے میری بات نہ مانی اور ہم پیدل نہ آئے۔ میں تو یہ چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ہی یہاں بیٹھنے کے لیے جگہ تلاش کر رہی ہوں۔ سفیر مال مردانہ اور بچوں کے ملبوسات کے لیے بہترین شاپنگ مال ہے، برابر میں ہی ون ٹو فائیو ہے جہاں سے آپ گھریلو ضروریات کے علاوہ تحائف بھی خرید سکتے ہیں، کراکری، جیولری، ڈیکوریشن پیسز، بچوں کے ہرقسم کے کھلونے، اِن ڈور پودے، گلدان، بچوں اور بڑوں کے لباس، سکارف، میک اپ کی اشیا۔ آپ شمار نہیں کر سکتے کہ کتنی انواع و اقسام کی چیزیں یہاں موجود تھیں۔ لدے پھندے گھر پہنچے، مشتاق نے تو دیکھتے ہی کہہ دیا کہ اتنے نازک گلدان جو آپ لے آئی ہیں ان کا صحیح سلامت اسلام آباد پہنچنا ممکن نہیں، میں نے کہا فکر نہ کرو شاہد صاحب ہیں نا، انھیں سامان پیک کرنے میں اتنی مہارت ہے کہ یہ بڑے آرام سے پہنچ جائیں گے اور یہی ہوا تمام تحائف بغیر کسی شکستگی کے پہنچ گئے۔
مشتاق اور عطیہ کا بس نہ چلتا تھا کہ ہمیں کیا کیا نہ بنا کر کھلائیں۔ ہم بہت کہتے رہتے تھے کہ تم لوگ ہمارے ساتھ گھومنے پھرنے میں بھی اتنا وقت لگا رہے ہو، بچوں کے امتحانات ہو رہے ہیں جو تھوڑا وقت ملتا ہے کچن میں گزارنے کے بجائے بچوں کو دو، لیکن وہ باز نہ آتے عطیہ کو قابو کرتی تو مشتاق کچن میں گھس جاتے، ہمارے ہاں کے مرد بھی بہترین کھانا بناتے ہیں، یوں انھوں نے پاکستانی، چائنیز اور دبئی کے مخصوص کھانے سبھی بنا کر کھلائے۔
ایک مرتبہ پھر، جمیرا بیچ
بلال کا دفتر سے فو ن آیا کہ آج رات مجھے آفیشل ڈنر پر جانا ہے، میں نے بات کر لی ہے کہ میں سات بجے وہاں پہنچ جاؤں گا۔ میں پانچ بجے سے پہلے دفتر سے نکلوں گا، طلال کو میں لیتا آؤں گا، آپ لوگ تیار رہیں پھر جہاں آپ کہیں گے وہاں آپ کو اتار دوں گا اور واپسی پر دس بجے لے لوں گا۔ اس کے آنے پر ہم سب تیار تھے۔ پسندیدہ جگہ ظاہر ہے کوئی شاپنگ مال نہیں بلکہ ساحل سمندر تھا، شاہد، ذوہیب اور طلال تو فوراً ہی پانی میں اتر گئے، ہمیں عرش مان کا موڈ بنانے میں چند ایک منٹ لگے۔ اب ہم سب پانی میں تھے اور گھنٹوں کے حساب سے ہم پانی میں رہے اور بہت خوش رہے۔ ساحل پر موجود کافی شاپ سے چائے پی گئی۔ پینے والوں نے چائے کی بہت تعریف کی۔ میں خشک میوہ جات کھاتی اور ٹھنڈے مشروب سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ رات گئے، جب بلال ہمیں لینے آیا تو میں اور فرح اس وقت پانی سے باہر، ساحل کی میلوں لمبی پٹی پر چہل قدمی کر تے کرتے بہت دور نکل گئے تھے۔ نیم تاریکی خوف پیدا نہیں کرتی تھی لیکن یہ احساس تھا کہ ہم بہت دور نکل آئے ہیں اور موبائیل بھی وہیں چھوڑ آئے ہیں، کہیں ان لوگوں کو ہمیں بلانے میں پریشانی نہ ہو۔ ہمارے ایک ہاتھ پر سمندر اور دوسرے پر بیوروکریٹس اور شیوخ کے بنگلے تھے۔ بے نظیر کی کو ٹھی بھی کہیں بہت پیچھے رہ گئی تھی، دل آگے اور آگے جانے کی خواہش کرتا تھا اور ڈانٹ کا خوف ہمیں واپس جانے پر مجبور کرتا تھا۔ ہم واپس ہوئے تو ذوہیب اور طلال ہمیں بلانے آتے تھے۔ رات گئے گھر پہنچے فرح نے فریزیر سے نہاری نکال کر گرم کی۔ نان راستے سے لے لیے گئے تھے۔ میں کچھ بھی کھانے کے بجائے سونا چاہتی تھی۔ جب ہم عطیہ کے گھر پہنچے تو بڑے سوئے ہوئے تھے اور بچے جاگتے تھے۔
سلاد کے سو رنگ
دوسرے دن صبح جاگے تو شعیب پرچہ دینے جا چکا تھا۔ مشتاق بھی آفس کے لیے نکل چکے تھے، عطیہ، ذوہیب شاہد اور میں شاپنگ کے لیے نکلے، میرا دل تھا کہ شاہد صرف سا حل سمندر ہی نہ دیکھیں بلکہ کم از کم قریبی شاپنگ مال ہی دیکھ لیں۔ دوسرے یہ بات بھی ذہن میں تھی کہ میں جو چیز بھی خرید تی، یہی خیال رہتا کہ شاہد یہ نہ کہہ دیں کہ وزن کا مسئلہ ہو جائے گا، اب شاہد ساتھ تھے اور وہ بھی وزن بھول کر کھلے دل سے خریداری کرتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو، وہیں ایک بڑے ہال میں بنے ہوئے کے ایف سی ریسٹورنٹ میں بے شمار میزکرسیوں کے درمیان پہنچے، جلد ہی ہمیں ایک خالی میز مل گئی۔ طے ہوا کہ کھانا شاہد کی پسند کا اور سلاد عطیہ کی پسند کی، شاہد اور ذوہیب کھانے کا آرڈر دیتے تھے اور میں دور بیٹھی عطیہ کا جائزہ لیتی تھی۔ اس نے کوئی نو بائی چھ سائز کی ٹرے پکڑی اور سلاد والے شو کیس کی طرف بڑھی اب وہ ہر ٹرے سے کچھ نہ کچھ ڈالتی جاتی تھی اور ڈالتی ہی جاتی تھی۔ کافی دیر بعد جب وہ میز تک پہنچی تو دونوں ہاتھوں سے اس پر ہجوم ہال میں آتے جاتے لوگوں سے اور لبا لب بھری ٹرے کو اپنی ہی جنبشِ بے جا سے بچاتی، اپنی کامیابی پر خوش ہوتی تھی کہ یہاں سلاد کی اس ٹرے کے گیارہ درہم دے دیے جاتے ہیں اور یہ آپ کی مرضی ہے کہ کون سا کتنا سلاد آپ لینا چاہتے ہیں، تو دیکھیں میں آپ کے لیے سلاد کے سارے ہی ذائقے اور اقسام اس ٹرے میں لے آئی ہوں، اب اس میں ایک ذرہ اور ڈالنے کی گنجائش نہ تھی، میں نے کہا ذرا کوشش تو کرتیں شاید پیندے میں کچھ جگہ نکل آتی، سلاد کے سارے ذائقے گڈ مڈ ہو رہے تھے لیکن تھے بہت ہی مزے کے، کھانے میں بھی بہت کچھ تھا، لیکن سلاد کی رونق اپنی جگہ تھی۔ خیال تھا کہ محسن اور شعیب کے لیے پیک کر وا لیں گے لیکن عطیہ نے کہا کہ یہ چیزیں تازہ ہی اچھی لگتی ہیں، گھر کے بالکل قریب بھی یہی کچھ ملتا ہے، وہاں سے لے لیں گے اور واقعی وہ اپنی بیکری سے وہی کچھ لے کر آئے خصوصاً فرنچ فرائز بہترین تھے۔ عطیہ کی بلڈنگ کے نیچے ہی جو دکان ہے، اس کا ان سب کو بہت آرام ہے، جس چیز کی ضرورت ہے فون کر دیا جاتا ہے اور دوسرے ہی منٹ وہ چیز لے کر دکان دار کا کارندہ پہنچ جاتا ہے۔ ایک روز ہم نے وہاں سے کچھ پھل جوسز اور ناریل وغیرہ خریدے، محسن وہاں سے نمکین غالباً سورج مکھی کے بیج لایا کرتا تھا جو ہم سب بہت شوق سے کھاتے۔ اس کے بہت چھوٹے چھوٹے پیکٹ نظر آئے، قیمت پوچھی، جواب ملا آٹھ آنے، آپ دبئی میں کبھی زبان کے مسئلے سے دوچار نہیں ہوتے کہ وہا ں موجود دکاندار، ٹیکسی والے، ویٹر اور دیگر کارکن پاکستانی، بنگلہ دیشی یا ہندوستانی ہیں اور جو مقامی ہیں وہ بھی اردو سمجھ لیتے ہیں، ضرورت کے مطابق بول بھی لیتے ہیں۔ مکہ والا حشر نہیں کہ اگر وہ کچھ سمجھ رہے ہوں گے تب بھی یہی ظاہر کریں گے کہ کچھ پلے نہیں پڑ رہا اور آپ پھر بھی اپنی بات سمجھانے پر مصر ہیں تو جھنجھلا کر یلیٰ معافی کا نعرہ بلند کریں گے۔
رامض اور شوبرا کے ہمسائے میں چائنہ ٹاؤن کا افتتاح ہو چکا ہے اور ہم اب تک نہیں جا سکے، ایک دن دوپہر کے کھانے سے پہلے وہاں کا پروگرام بنایا، بہت کچھ تھا لیکن ہم جوتوں والے سیکشن میں زیادہ رہے اور جب ہم واپس ہوئے تو سینڈل اور جوتوں سے بھرے بے شمار پیکٹ ہمارے ہاتھ میں تھے اور اسی طرح لدے پھندے ہم نے سڑک کے درمیان بنی باؤڈری وال اچک کر پار کی۔
مشتاق جانتا تھا کہ مجھے جھینگے بہت پسند ہیں اس نے وہ بھی لا کر رکھے ہوئے تھے۔ عطیہ بچے کو پڑھانے بیٹھی تو میں نے جھینگے مزید صاف کیے اور ان کی بریانی بنانے کا ارادہ کیا، یہ کچن کا واحد کام تھا جو شاید اس ڈیڑھ ماہ میں، میں نے کیا، رات کو مشتاق آئے تو گھر بریانی کی خوشبو سے مہک رہا تھا، اللہ نے عزت رکھ لی، آج بھی وہ سب اس بریانی کو یاد کرتے ہیں۔
عجمان بیچ … بپھرا سمندر، پر شور ساحل اور چودھویں رات
عشاء کے بعد مشتاق اور بلال نے عجمان بیچ دکھانے کا پروگرام بنایا۔ اپنی اپنی گاڑیوں میں اکٹھے ہی نکلے لیکن کبھی وہ کھو جاتے اور کبھی ہم، اللہ بھلا کرے اس ایجاد کا، کہ جس سے رابطے کی بنا پر ہم پھر ایک دوسرے سے آن ملتے۔ مجھے دس سال پہلے کا پکنک ٹرپ یاد آیا، ہم اسلام آباد میں سملی ڈیم جاتے تھے، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا قافلہ ایک ساتھ نکلا تھا، نہ جانے کس مقام پر مشتاق اور رضوان الگ ہو گئے، دونوں کے لیے اسلام آبا د نیا تھا کہ ایک کراچی سے اور دوسرا، دبئی سے آیا تھا، کافی انتظار کے بعد بلکہ کافی خوار ہونے کے بعد کسی دکان سے گھر فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بہت دیر ہمیں تلاش کرتے رہے، تنگ آ کر گھر آ گئے، انھیں پھر سے راستہ سمجھا کر گھر سے بلایا گیا، آدھا دن اسی میں گزر گیا تھا … تو اب ہم عجمان بیچ جاتے تھے، سمندر جمیرا کارنیش کی طرح پرسکون نہ تھا، بلکہ بہت پر شور اور بپھرا ہوا تھا اور ساحل پر رکھی صوفہ نما بنچوں کو دور دھکیلتا تھا۔ ہم بہادر بننے کے شوق میں بعض اوقات بہت جذباتی فیصلے کر لیتے ہیں جو شدید پچھتاوے بھی دے جاتے ہیں، اس ساحل پر بھی لوگ تھے لیکن، جمیرا کارنیش جتنے نہیں اور رات بھی کافی ہو چکی تھی۔ چاند کی کشش، موجوں کو مضطرب کرتی تھی اور وہ اسے چھونے کی چاہ میں اور بلند ہوتی جاتی تھیں۔ یہ بدھ کا روز تھا، کل کا پروگرام بھی طے کیا جا رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ آج بلال کے پیٹ میں شدید درد تھا۔ وہ سارا دن باتھ روم جاتا رہا تھا اور اپنے باس سے کہہ آیا تھا کہ شاید میں کل نہ آ پاؤں، بالکل یہی صورتِ حال طلال کی تھی، چنانچہ اب صبح ان لوگوں نے ہمیں ممزر پارک کے عقب میں واقع اس ساحل پر لے جانا تھا کہ جہاں وہ مچھلی کا شکار اور کشتی رانی ساتھ ساتھ کرتے تھے، ۔ نمازِ فجر کے بعد ہماری گاڑی میں سامان کی ایک کھیپ تھی جو لادی جاتی تھی۔ آدھ پون گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے کہ ابھی دفتری اوقات میں کچھ دیر تھی۔
ممزر بیچ پر کشتی رانی اور مچھلی کا شکار
صبح کے دھند لکے میں ممزر بیچ پر قدم دھرتے تھے اور وہ جو ہمیں کہا جاتا تھا کہ مئی کے آخر تک تو گرمی کی وہ انتہا ہو جاتی ہے کہ آپ گھر سے قدم باہر رکھتے ہیں تو گاڑی کے اے سی کے کام کرنے تک جو دو منٹ لگتے ہیں اس میں آپ جہنم کی گرمی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے تو ہوا کے خوش گوار جھونکے ہمارا استقبال کرتے تھے اور چند منٹوں میں یہی ہوا کے جھونکے ہم پر کپکپی طاری کرتے تھے، ہم نے کشتی چپو، ہوا بھرنے کے آلات، دریاں، کھانے پینے کی چیزیں سبھی کچھ اہتمام سے رکھا تھا، لیکن کوئی گرم شال وغیرہ رکھنے کا خیال ہمارے خواب میں بھی نہ آ سکتا تھا نہ آیا اور اب میں اور عرشمان با قاعدہ ٹھٹھرتے تھے۔ کوئی اوٹ، کوئی درخت کا تنا تک نہ تھا اور سامنے ساحل کی دوسری جانب ممزر پارک کے لہلہاتے درخت اور سبزہ ایک مصورانہ تاثر قائم کرتا تھا۔ سورج کے نکلتے نکلتے ہوا میں موجود خنکی اعتدال پر آتی جا رہی تھی۔ شاہد، بلال اور طلال کشتی تیار کر چکے تھے۔ انھوں نے لائف جیکٹس پہنیں۔ بلال اور شاہد ان لہروں میں اتر گئے، جن کے تھپیڑے ساحل سے ٹکراتے اور سمندر میں ایک بھرپور ارتعاش پیدا کرتے۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ ہم دو سال سے اس سمندر میں کشتی رانی اور ماہی گیری کر رہے ہیں، لیکن اتنا اتار چڑھاؤ کبھی نہیں دیکھا۔ بلال اور شاہد باری باری چپو چلاتے مر مز پارک کو ہاتھ لگا آئے تھے، میں نے کہا کہ آپ وہیں اتر جاتے اسی طرح باری باری ہم سب مرمز پارک پہنچ جاتے۔ بلال کہنے لگا
’’وہاں آپ کو کل لے کر جائیں گے۔ وہاں کی پارکنگ فیس پینتیس درہم ہے، اس لیے ارد گرد سے وہاں پہنچنے کا کوئی را ستہ نہیں ہے۔ ‘‘
ساحل پر بیٹھے بیٹھے ہم دبئی ائرپورٹ پر اترتے جہازوں کا جائزہ لیتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ ہر دوسرے تیسرے منٹ میں کوئی نہ کوئی جہاز اترتا چڑھتا ہے، کشتی رانی میں کافی مشقت تھی مجھے اس کا اندازہ ہوا جب طلال نے میرے ہاتھ میں چپو پکڑائے۔ شاہد لائف جیکٹ پہنے پانی میں آرام سے لیٹے تھے اور جہاں لہریں لے جاتیں پانی کے بہاؤ پر بہتے چلے جاتے اور ان کا یہ شغل لگا تار چار گھنٹے جاری رہا۔ ہم اس دو ران میں اور بہت سے کار نامے سرانجام دیتے رہے۔ پورا ساحل مچھلیوں کے گروہوں سے بھرا پڑا تھا اکا دکا مچھلی کبھی نظر نہ آئی اور اس گروہ میں بلا شبہ کوئی، سو سو مچھلیاں تو ضرور ہوں گی۔ اب میری یہ حالت کہ میں انھیں پکڑنا چاہتی ہوں انھوں نے مجھے وہ نیٹ پکڑا دیا جسے وہ مچھلی کانٹے میں پھنسنے کے بعد اسے کانٹے سے نکالنے کے لیے استعمال کرتے تھے کہ کہیں پھسل کر پھر پانی میں نہ جا گرے، اب میں گھنٹوں تک پانی چھاننے کے اس اہم کام میں مشغول رہی کہ وہ مچھلیاں اتنی چالاک تھیں کہ میری ڈانٹ کھانے کے باوجود قابو میں نہ آتی تھیں۔ کون کون سے پینترے نہیں بدلے، کون کون سے زاویوں سے جال ان کی خدمت میں پیش کیے لیکن وہ ہر بار طرح دے جاتیں، میں جھنجھلا تی اور باز میں بھی نہ آتی، فرح اور عرش مان نظارے کرتے تھے۔ بلال اور طلال اپنی جدید فشنگ راڈ کے ذریعے مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھے اور ہوا کی شدت سے تنگ تھے کہ ڈور پھینکتے کس طرف ہیں اور وہ جاتی کسی اور ہے، بہت مرتبہ تو چٹانی پتھروں میں اٹک اٹک جاتی تھی۔ یہ پتھر بے حد خطر ناک ہیں اگر ان در زوں میں آپ کی چپل، عینک، انگوٹھی، گاڑی کی چابی یا کوئی اور ضروری چیز گر جاتی ہے تو آپ اب اس سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے کہ اسے نکالنا ممکن نہیں ہے۔ بلال اور طلال نے تین انتہائی خوب صورت مچھلیوں کا شکار کر لیا ہے میں ان کا وزن اور لمبائی چوڑائی کا ذکر نہیں کروں گی، آخر میں نے بھی تو ان مچھلیوں کا حدود اربعہ نہیں بتایا جن کا شکار میں کرنا چاہتی تھی اور جو ہمیشہ طرح دے جاتی تھیں اور اگر کوئی قابو آ بھی جاتی تو نیٹ کے سوراخوں سے جل دے جاتی، ہم نے انتہائی احتیاط سے اپنے شکار کو سمیٹا اب دھوپ کے علاوہ بھوک بھی ستاتی تھی۔ بلال ہمیں اس ریسورنٹ کی طرف لے جاتا تھا جہاں کے چھولے پوریاں، لسی اور حلوہ بہت مشہور اور پسندیدہ ہیں۔ ہم ایک طویل راستہ طے کر کے پہنچے اور اب مٹھائیوں سے سجے نرالے ریسٹورنٹ کی اوپر والی منزل میں بیٹھ کر ناشتہ کرتے تھے۔
ابنِ بطوطہ مال کا حال احوال
اب ہمیں گھر جانے کی جلدی تھی کہ ہمیں دوپہر کے بعد ابنِ بطوطہ ما ل جانا تھا، جس کی تعریف پہلے دن سے ہی سن رہے تھے۔ آتے ہی کچھ دیر آرام کی غرض سے عطیہ کے گھر پہنچے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ دونوں گھر برابر برابر ہیں، ورنہ کتنی مشکل ہوتی، عطیہ کپڑے دھونے اور بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھی۔ اس کی منت کی کہ ہم نے بارہ بجے اتنا بھاری ناشتہ کیا ہے ہم اب دوپہر میں کچھ نہیں کھا سکتے۔ اس لیے کچھ نہ بناؤ، جب بھوک لگے گی تو جھینگا بریانی کھالیں گے۔ چنانچہ کچھ دیر آرام کیا پھر کھانا کھایا اور عصر کے فوراً بعد ہم ابنِ بطوطہ مال کے لیے جاتے تھے۔
راستہ خاصا طویل تھا، سڑکیں کشادہ تھیں اور گاڑی بھاگتی چلی جاتی تھی۔
پچھلے دنوں میں نے’’ اردو ادب میں سفر ناموں کی روایت ‘‘ پر کام کا آغاز کیا تو اندازہ ہوا کہ اس کام کو سمیٹنا آسان نہیں کہ ہم یہ تو بہت سہل انداز میں کہہ گزرتے ہیں کہ اردو ادب میں سفر نامے کو با قاعدہ ایک صنف کی حیثیت دینے میں بیگم اختر ریاض ا لدین یا بعد ازاں تارڑ کے سفر نا مے پیش کیے جا سکتے ہیں، اس سے پہلے اردو ادب کا دامن تہی نظر آتا ہے توہم جانتے ہیں تھوڑا آگے چل کر ہم خود اپنی ہی بات کی نفی کر دیں گے۔ اردو سفر ناموں کے جائزہ میں عربی اور فارسی سفر ناموں کا بھی مختصر سا احوال درج کر نا ضروری ہو جاتا ہے تا کہ پس منظر واضح ہو سکے۔ ابنِ بطوطہ سیاح کی حیثیت سے کسی کے لیے بھی اجنبی نہیں تھا، لیکن سوائے اس کے کہ اس نے اپنی ساری زندگی، سفر کرنے میں بتا دی، ہم اس کے بارے میں زیادہ نہ جانتے تھے، ابنِ بطوطہ مال، فرح، بلال اور طلال کی پسندیدہ جگہ تھی اس لیے وہ پہلے روز سے لے کر اب تک ہمیں اس سے متعارف کر وائے جا رہے تھے، میں چونکہ ابنِ بطوطہ کے متعلق تا زہ تازہ پڑھ کر گئی تھی اس لیے میں اس کے بارے میں بات کرتی تھی جو یہ سب شوق اور حیرت سے سنتے تھے اور بعض اوقات ان کے منہ سے ناقابلِ یقین قسم کے الفاظ بھی نکل جاتے تھے۔ مراکش کی پیدائش ابنِ بطوطہ، بایئس برس کی عمر میں ۱۳۲۵ ء میں سفر حج کے لیے جب گھر سے روانہ ہوتا ہے تو ا س کا مقصد صرف اپنے اس مذہبی جذبے کی تسکین تھا جو اسے اس رکنِ اعظم کی تکمیل کے باعث ہونا تھی کہ وہ بچپن سے ہی مذہب کی طرف متوجہ تھا، اس کے علم، زہد و تقویٰ سے متاثر ہو کر اہل قافلہ نے اسے اپنا امیر مقرر کر لیا۔ قافلے کو سکندریہ و قاہرہ سے ہوتا ہوا مکہ مکرمہ پہنچنا تھا۔ سکندریہ پہنچے تو وہاں ابن ۱ بطوطہ کی ملاقات برہان الدین سے ہوئی، جس نے چین و ہندوستان کی باتیں سنا سنا کر اس کے دل میں ان مقامات کو دیکھنے کا شوق پیدا کر دیا۔ فریضۂ حج کی ادائگی کے بعد اس کی زندگی کا وہ دور شروع ہوا جس نے اسے لا زوال شہرت بخشی، اب وہ سر زمینِ عراق کی طرف جاتا تھا کہ جہاں کا چپہ چپہ تاریخی و مذہبی اعتبار سے بے مثل ہے، جہاں تمام نبیوں کی کوئی نہ کوئی نشانی موجود ہے، بابل و نینوا کے حقائق ہوں جو اب داستانی روپ دھارتے معلوم ہو تے ہیں یا بابل کے معلق باغات۔ چاہِ بابل کا تذکرہ ہو یا عہدِ سمیری کی اساطیر کا، عراق کی سر زمین میں جستجو رکھنے والے ذہنوں کے لیے اور بہت کچھ ہے۔ عراق سے وہ شعر و ادب کے گہوارے فارس کی طرف گیا اور زمانۂ حج میں مکہ کی طرف روانہ ہوا اور حج کے بعد یمن، اردن، جنوبی افریقہ، عباسیہ اور عمان وغیرہ سے ہوتا ہوا تیسرا حج کرنے کے بعد مصر، شام و ترکی گیا، قسطنطنیہ، موجودہ استنبول، کے بعد خوارز، بخارا اور خراسان ہوتا ہوا ہندوستان آیا تو محمد تغلق نے اسے قاضی مقرر کیا۔ ہندوستان میں ایک سیاح کے لیے پر کشش مقامات کی بہتات ہے، پھر سیاح ابنِ بطوطہ کی مانند ہو تو ا س کے لیے تو چپے چپے پر ایک جہانِ تازہ موجود ہے جو اسے ہر لمحے دریافت کے خوش کن مرحلے سے گزرنے پر مجبور کرتا ہے، لنکا، بنگال سلہٹ اور کمبوڈیا ہوتے ہوئے پیکنگ، موجودہ بیجنگ اور کینٹین بھی گیا۔ اہم بات یہ تھی کہ ا س کی لیاقت و فراست نے ہر مقام پر اس کا ساتھ دیا۔ ہر مقام پر اسے عزت کی نگاہ ے دیکھا گیا، قیام کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو اسے ہمیشہ اسے شاہی مہمان کا درجہ یا قاضی یا مفتی کا عہدہ دیا جاتا رہا۔
سماٹرا، مالا بار عمان و بغداد سے پھر چوتھی بار حج کے لیے مکہ گیا تو معلوم ہوا کہ اس کے والد کو دنیا سے رخصت ہوئے پندرہ برس ہو گئے ہیں اب ماں کی یاد نے بے قرار کیا اور چو بیس برس بعد والدہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
’’ بڑا اچھا سیاح تھا، باپ بیٹے کے غم میں دنیا سے رخصت ہوا، ماں بے چاری ساری زندگی اس کی راہ دیکھتی رہی اور اسے دنیا دیکھنے کا لپکا تھا۔ کیا فائدہ اس علم و فراست کا جو انسان کو یہ عقل نہ دے کہ ماں باپ کی بھی کچھ اہمیت ہوتی ہے۔ انھیں پتا نہیں اس نے ایک بار بھی اپنے زندہ ہونے کی اطلاع دی کہ نہیں۔ ‘‘ بلال جو شاید تاریخ جغرافیہ سنتے سنتے بور ہو چکا تھا، ابنِ بطوطہ کے خلاف ہی بول سکتا تھا۔
’’بھئی وہ ۱۳۴۹ء میں اپنے وطن طنجہ پہنچا تھا، چوتھا اور آخری طویل سفر اس نے تین سال کے مسلسل قیام کے بعد ۱۳۵۲ ء میں شروع کیا اور تیونس، ا لجزائر، ٹمبکٹو، مالی اور نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتا واپس مراکش پہنچ گیا۔ ‘‘
’’چلو اب تو تم نے بھی اس سے خاک چھنوا دی ہے اب باہر کی طرف دیکھو، کیا کیا مناظر گزرتے جا رہے ہیں۔ ‘‘
شاہد جو ابنِ بطوطہ کے بارے میں یقیناً مجھ سے کہیں زیادہ جانتے ہیں، بالآخر بول ہی اٹھے۔
’’آپ کا کیا خیال ہے میں باہر نہیں دیکھ رہی۔ مجھے یہاں کی شاہراہوں نے بھی متاثر کیا اور اب جو ہم اتنی دیر سے تنگ گلیوں میں، گھوم رہے ہیں جیسے ہمیں کسی بڑے مال میں نہیں کسی عزیز کے گھر جانا ہے تو میں یہ بھی دیکھ رہی ہوں، لوہے کا جتنا استعمال یہاں ہو رہا ہے شاید دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں، ہر طرف پلوں کے جال بچھتے جا رہے ہیں۔ افوہ کتنا کنکریٹ اور لوہا استعمال ہو رہا ہے، اگر اس کا ایک چوتھا ئی بھی کراچی میں ہمارے ناظم صاحب استعمال کر وا دیتے تو خوفناک حادثات سے بچا جا سکتا تھا۔ ‘‘
بلال نے بتایا کہ ہم میڈیا سٹی پہنچ چکے ہیں۔ اب شاید وہ بدلہ لینا چاہتا تھا، کہنے لگا۔
’’ ۲۰۰۰ء میں قائم ہونے والا میڈیا سٹی وہ پہلا فری زون علاقہ ہے کہ جہاں دنیا بھر کے سمعی و بصری اور تحریری ذرائع ابلاغ کے دفاتر موجود ہیں اور وہ جو کہا جاتا ہے کہ اب جنگ ہتھیاروں سے نہیں چینلز سے جیتی جاتی ہے تو یہاں بلند و بالا عمارتوں میں تقریباً ہر ملک کے کئی کئی چینلز کام کر رہے ہیں۔ نو سو سے زائد کمپنیاں اور کوئی چھ ہزار سے زیادہ کار کن دنیا بھر کو جدید ترین معلومات اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرے و تجزیے پیش کر تے ہیں اور حکومتوں کی تعمیر و تخریب میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے کئی بڑے نام دبئی انٹر نیٹ سٹی کو اعتبار بخشتے ہیں، طاہرہ آنٹی پاکستان کی تاریخ کے بننے بگڑنے میں اس مقام کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ ‘‘
ابن بطوطہ مال جاتے ہوئے بہت سے مانوس اور نامانوس چینلز کے تعارفی بورڈ عمارتوں کی پیشانی پر جگمگاتے تھے لیکن، ان میں سادگی نمایاں تھی، یہاں بہت سی مقامی آئی ٹی فرمز بھی مصروف کار ہیں اور اپنے وطن کی ترقی کے لیے د ن رات کوشاں ہیں۔
مجھے جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ کہ بڑی بڑی عمارتوں کے ساتھ جو پارکنگ ایریا بنے ہوئے ہیں وہاں لمبی لمبی گاڑیوں کے ساتھ کشتیاں بھی پارک کی گئی ہیں، درمیانی جسامت کے کھجور کے درخت شاہراہوں، پارکوں اور گھروں کو دلکشی عطا کرتے ہیں۔
پیلے سے رنگ کے فلیٹس کا ایک طویل سلسلہ بھی دکھائی دیا، معلوم ہوتا تھا کہ یہ فلیٹ عمومی نہیں ہیں، ان کا اندازِ تعمیر ہی بتاتا تھا کہ یہاں ہما شما کا گزر نہیں پھر بھی میں نے بلال سے کہا۔
’’ ہم جو ایک لمحے میں یہاں سے گزر رہے ہیں، میرا جی چاہتا ہے کہ ایک پورا دن میرے پاس ہو اور یہ پرستان کی طرح جو علاقہ ہے اس کا ایک ایک کونہ دیکھوں اور یہاں کے رہنے والے لوگوں سے ملوں۔ ‘‘
’’آپ اتنا کم وقت لے کر آئی ہیں، یہاں میرے دو تین دوست رہتے ہیں، ہم ان کے گھرجا سکتے تھے۔ ‘‘
’’ بیٹا میں کم وقت لے کر نہیں آئی، یہ تمھارے شاہد ماموں کا سارا پروگرام ہے۔ ‘‘ شاہد نے دیکھا کہ گفتگو نازک موڑ میں داخل ہونے لگی ہے تو انھوں نے فوری توجہ اس پارکنگ کی طرف کرائی کہ جہاں دس پندرہ کشتیاں پارک کی گئی تھیں۔ ساتھ کہا کہ پروگرام کوئی بھی ہو دو دن یا دس دن، بالآخر ختم ہو جاتا ہے۔
کچھ دیر بعد ہم اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گئے تھے ایک وسیع و عریض علاقے کے درمیان ہلکی گلا بی رنگت لیے ایک عمارت دکھائی دی، جسے دیکھ کر خیال آتا تھا کہ کچھ میوزیم نما چیز ہو گی، لیکن بلال، طلال نے تو بہت کچھ بتایا ہوا تھا۔ اس عمارت کے اندر داخل ہوتے ہوئے جو سب سے پہلی چیز نظر آئی وہ ہیوی بائیک تھی، جسے دیکھ کر بچوں کی ہی نہیں ان کے ماموں کی آنکھوں میں ایک ناقابلِ بیان قسم کی چمک دکھائی دی۔ مجھے اور عرشمان کو پتھر کا ایک شیر اپنی جانب متوجہ کرتا تھا جو ہمارے استقبال کے لیے وہاں موجود تھا، فرح کہنے لگی ابنِ بطوطہ مال کا آغاز چائنا سے ہوتا ہے، یہاں ایک اوپن ایر ریستوران کا سماں تھا جہاں چوکور چوکور قطعات پر نازک میز کرسیاں دعوت دیتی تھیں، درمیان سے شفاف پانی کی نالیاں عبور کر نا پڑتی تھیں اور بانس کے درخت اور قسم قسم کی جھاڑیاں ماحول کو بہار یہ احساس بخشتی تھیں۔
اس تعارفی دیباچے سے گزرے تو نسخۂ کائنات کے ایک ایک ورق پر بابِ طلسمات تحریر تھا، چونکہ تازہ تازہ ابنِ بطوطہ کو یاد کر تے آئے تھے اس جہانِ با کمال میں لگتا تھا کہ ہم بھی ابنِ بطوطہ کے ہمراہ ہیں، اس نے تو ایک جہان کو اپنے زیرِ قدم رکھا تھا یہاں اس کے پسندیدہ اور اہم مقامات کا انتخاب کیا گیا تھا، جب ہم ایک بہت بڑے ہال میں داخل ہوتے ہیں تو اس کے دائیں بائیں ہر قدم پر راستے نکلتے چلے جاتے ہیں۔ ان راہداریوں، غلام گردشوں اور چوراہوں کے اوپر اب جو آسمان دمکتا تھا، وہ ہندوستان کا تھا، جیسے ہی ہم ہند کے علاقے میں داخل ہوئے، ایک گھنٹے کی آواز نے ہمیں چونکا دیا، معلوم ہوا کہ سامنے جو آسمان سے باتیں کرتا ہاتھی ہے، وہ صرف ہاتھی نہیں ہے یہ عہدِ قدیم میں کسی مسلمان سائنس دان نے گھڑی بنائی تھی، اس ہاتھی پر ایک مہاوٹ بیٹھا تھا اور اس فیل بان کے پیچھے کجاوہ بھی تھا اور اس محمل کے پیچھے ایک سائے بان بھی تھا۔ وہ ایک لوہے کی گیند تھی، جس کے ہاتھی کی سونڈھ میں آنے سے لے کر اوپر جانے میں پورا آدھ گھنٹہ صرف ہوتا تھا اور ہر آدھ گھنٹے کے گزرنے کا اعلان اسی ٹن کی آواز سے ہوتا تھا جو ہم نے داخل ہوتے ہی سنی، ہم اس گھڑی کی جزئیات دیکھنے میں محو تھے اور بلال کہتا تھا ساری محنت ہم مسلمانوں کی، جس پر انڈیا اتراتا ہے، میں نے کہا اس کا حق ہے، مجھے بتاؤ یہاں کہیں کسی کونے کھدرے میں پاکستان کا نام موجود ہے تو ا س نے تا سف سے سر ہلا دیا۔
طلال کہنے لگا کہ مغرب کی اذان ہو گئی ہے پہلے نماز نہ پڑھ لیں۔ اس استفہامِ انکاری کا جواب اقرار میں تھا۔ میں نے کہا میرا تو وضو ہے۔ فرح کہنے لگی، باتھ روم دیکھ کر آپ کا دوبارہ بلکہ بار بار وضو کرنے کو جی چاہے گا۔ بات سو فیصد درست تھی ہمارے ہاں ایسے غسل خانے کیا نہیں ہوسکتے۔ ایسی مساجد نہیں ہو سکتیں، ہم ٹونٹی چور اور جوتی چور ہی مشہور رہیں گے۔ دیارِ غیر میں آپ کو ہر ہر لمحے پاکستان یاد آتا ہے اور ننانوے فیصد منفی تاثر کے ساتھ یاد آتا ہے، لیکن وہ بات بھی بھولنے والی نہیں ہے کہ جو مزا چھجو دے چوبارے اوہ بلخ نہ بخارے … جیسے ہی مسجد سے نماز پڑھ کر نکلے ٹن کی آواز نے احساس دلایا کہ ہم یہاں آدھ گھنٹا گزار بھی چکے ہیں۔
سرزمینِ ہند سے نکلے تو ارضِ فارس نے استقبال کیا۔ ہم نیلے اور آسمانی پتھروں کے اس جہان میں آ گئے تھے جو ایرانی فنِ تعمیر سے مخصوص ہے۔ فنِ نقاشی جس میں آرائشِ کتب بھی شامل ہے اور زیبائشِ تعمیرات بھی اور یہاں ہم ایرانی عمارتی نقش و نگار، جو اب تک تصاویر میں دیکھتے آئے تھے یا ٹی وی پر، براہ راست دیکھتے اور داد دیتے تھے، فارس، پارس کی معر ب یعنی عربی زدہ شکل ہے جس کی اصل پرسا ہے جو خوزستان، اصفہان، کرمان، اور خلیج فارس پر مشتمل ہے اور جس کے اہم شہروں میں شیراز، بو شہر، لار، کازرون فیروز آباد وغیرہ ہیں۔
سب سے پہلے ہمارا استقبال وہاں بھی اس گھڑی نے کیا، جس کے متعلق بچپن میں پڑھتے آئے تھے کہ کس طرح مسلمان سائنس دانوں نے شیشے کی تنگ منہ والی بوتلوں میں ریت بھر کر انھیں ایک دوسرے پر الٹا رکھ دیا تھا اور جب ریت ایک جار سے دوسرے جار میں منتقل ہو جا تی تو بارہ گھنٹے گزرنے کا پتہ دیتے، پھر اہلِ فارس علمِِ نجوم کے بھی ماہر تھے۔ اسٹرانومی و پیشن گوئیوں کے مختلف طریقے رائج تھے، ان کا تفصیلی تعارف کرایا گیا تھا۔ چوراہے پر نصب اس سٹال سے برآمد ہوئے تو ایران کی گلیاں ہمیں اپنی جانب بلاتی تھیں، جیولری، موتی، پھول، بچوں، بڑوں کے لباس، چشمے، گھڑیاں، برتن اور دیگر مشینی آلات ہر شے دامنِ د ل و نگاہ کھنچتی تھی۔ ہم آنکھوں کی بات بھی مانتے رہے اور دل کی بھی لیکن شاہد صاحب کا ہاتھ جیب کی طرف جانے سے کتراتا رہا، ہاں کھانے پینے کی فرمائش پوری کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار، ان کا ایک ہی کہنا ہوتا ہے، ہر چیز اپنے محلے میں مل جاتی ہے تو پھر بوجھ کیوں بڑھا نا، ہاں میرا پرس کبھی کبھی کھلتا بند ہوتا رہا، کہ اسلام آباد میں اتنے سارے اپنے موجود ہیں، ان کے لیے کچھ نہ کچھ تو لے کر جانا ہو گا۔
ارضِ مصر میں داخل ہوئے تو منظر اور ماحول ایک دم تبدیل ہو گیا اب نیلگوں فضا کے بجائے کچھ نیم تاریکی کا احساس ہوا، ایران میں فن تعمیر میں پتھروں کا کام حاوی تھا اب ہم لکڑی کا کام دیکھتے تھے۔ کھڑکیاں اور چوبارے، دروازے اور طاقچے، گہرے براؤن رنگ کے اور ان پر جو گل کاری کی گئی تھی، جو ترشے ہوئے نقوش ابھارے گئے تھے اور جو پچی کاری تھی، سبھی قابل دید تھی۔ چھت پر البتہ پتھر استعمال ہوا ہے ستونوں پر مانگ دار کمانیاں اور کمانچے مقرنس تزئین، کہ جس کی گولائیاں تعمیر کرنے والوں کی مہارت کا ثبوت دیتی ہیں۔
ہم تھک چکے تھے لیکن کسی منظر سے صرف نظر کرنا نہیں چاہتے تھے، آخر ابنِ بطوطہ نے جو اسفار اٹھائیس برسوں میں کیے اور مجموعی طور پر ۷۵ ہزار میل کا سفر کیا تو اس کی کچھ نہ کچھ تھکن کا اثر ہم پر بھی ہونا ہی تھا۔
مصر سے نکلے تو تیونسیا کی طرف چلے۔ کھجوروں کے درخت نیلے آسمان تلے ا پنی بہار دکھاتے تھے۔ گلیاں نسبتاً تنگ تھیں، لیکن اوپر کھلا آسمان جس پر سفید بادل تیرتے پھرتے تھے، کشادگی کا احساس پیدا کرتے تھے، دیواری تزئین و سجاوٹ، مرقع کشی اور گچ کا کام اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔
تیونسیا، ایک قدیم اسلامی ملک ہے جو قرونِ وسطیٰ میں افریقہ کہلاتا رہا ہے، اس علاقے پر نو سو برس بر بر حکومت کرتے رہے عرب حملہ آور کوئی پچاس برس تک یہاں مصروفِ پیکار رہے اور اس سر زمین کے نصیب میں مسلسل نبرد آز ماوی کی کیفیت لکھی گئی، کیا فرانس اور کیا برطانیہ سبھی اس کے لیے حالتِ جنگ میں رہے، پہلی جنگِ عظیم کے دوران میں دس ہزاتیونسیوں نے فرانس کی خاطر جان دی۔ ۱۹۵۵ ء میں آزاد ہونے والی اس ریاست کو غلامی سے نجات دلانے والے رہنما حبیب بو رقیبا کو عوام نے اپنا صدر منتخب کیا اور یوں ایک آزاد و خود مختار اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔
ہائے ہائیپر مال
بھوک پیاس تو مجھے بھی لگ رہی تھی ابھی تک ہم نے سوائے پاپ کارن کے کچھ نہ کھایا تھا، فرح بلال اور طلال بھی کچھ کھانا تو چاہتے تھے اور شاہد جب بھی کسی ریسٹورنٹ یا سٹال پر کچھ لینے کے لیے رکتے، بلال فوراً منع کر دیتا، یہاں سے نہیں لینا، ہائیپر مال سے کچھ لے لیں گے، جب ہمیں گھومتے کا فی دیر ہو گئی۔ اس دوران میں عشاء کی نماز بھی پڑھ چکے تھے اور فیل بان نہ جانے کتنے آدھ گھنٹوں کے گزرنے کا اعلان کر چکا تھا۔ آخر بلال کہنے لگا آپ لوگ یہیں رکیں، میں کچھ کھانے پینے کے لیے لے کر آتا ہوں تو میں نے کہا۔
’’ کیا ہائیپر مال بہت دور ہے، ہم نہیں جا سکتے۔ ‘‘
میرا خیال تھا کہ اسے واپس جا کر گاڑی نکالنا ہو گی، پھر پتا نہیں کہاں جا کر کس مارکیٹ سے کھانے پینے کی چیزیں آئیں گی۔ میں کچھ دیر پہلے فرح سے دو ایک مرتبہ کہہ چکی تھی کہ ا یسا لگتا ہے، پینا ڈال لینا پڑے گی ہر چند میں دوائیوں سے بہت بچتی ہوں۔ جسم ٹوٹتا محسوس ہوتا تھا لیکن میں ہائپر مال جانے کے لیے بالکل تیار تھی، بلال کہنے لگا یہ سامنے ہی تو ہے اور اب ہمارا قافلہ ہائپر مال جاتا تھا، یہ ایک ایسا بازار تھا جہاں کھانے پینے کی اور گھریلو استعمال کی اور آرائش کی اور شوق کی، غرض ہر شے دستیاب تھی، مال میں داخل ہوتے ہی شاہد نے ٹوکری میں مشروبات ڈالنے شروع کر دیے اور ابھی ہم بیٹھ کر پینے کی جگہ دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک کاؤنٹر پر ایک بی بی صدا لگاتی پائی گئیں، جو رہ نوردانِ شوق کو نہایت شائستگی سے ا س مشروب کی طرف متوجہ کرتی تھیں جو ان کی کمپنی نے نیا نیا متعارف کرایا تھا، ہم سب اس آواز دلنشیں کی طرف لپکے جو آبِ شیریں کی سبیل لگائے ہوئے تھیں، ہم پانچوں نے بوتلیں پکڑ لیں اور عرشمان اپنی پرام میں بیٹھا ہمیں دیکھتا تھا۔ جلدی سے اسے بھی بوتل پکڑائی اور لمحہ بھر میں خالی بوتلوں کا ڈھیر اس کے کاؤنٹر پر لگ گیا، مہمان نوازی کا دل ہی دل میں شکریہ ادا کرتے آگے بڑھے تو ایک بسکٹ کی فرم اپنے کریمی کنگ سائز بسکٹ پیش کرتی تھی، وہ کھائے تو ایک دم ایسا لگا کہ بہت کچھ کھا لیا ہے۔
اب ہمیں ایک کافی شاپ پر مدعو کیا جا رہا ہے۔ بہت خوبصورت چھوٹے چھوٹے کاغذی گلاسوں میں کافی پیش کی جا رہی ہے، میں نے بلال سے کہا کہ مجھے کافی پینی ہے لیکن ان دونوں بھائیوں کو نہ جانے کیا ہوا کہ ضد کر نے لگ گئے، نہیں … یہ کا فی نہیں پینی، معلوم ہوا کہ کچھ روز پہلے کہیں اور انھوں نے اسی طرح مفت کی انتہائی تلخ کافی کا ایک گھونٹ بھرا تھا جس کی کڑواہٹ وہ اب تک محسوس کرتے تھے۔
’’ آپ کو میں ایک اور اچھی کافی شاپ ہے، وہاں سے کافی پلا دوں گا یہ نہ لیں … بالکل اسی طرح انھوں نے بھی تین تھرمس رکھے ہوئے تھے کہ جس میں سے آپ چاہیں، آپ کو کا فی ڈال دی جائے گی۔ ‘‘
لیکن میں کافی پینا چاہتی تھی اور ابھی پینا چاہتی تھی، میں نے درمیان وا لے تھرمس پر ہاتھ رکھا، اس نے ننھے منے گلاس کو آدھا بھر دیا۔ میں نے اتنی عمدہ لیکن اتنی کم کافی پہلے کبھی نہ پی تھی، فرح نے میرے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا لیا تھا اس نے بھی پی، بلکہ ہم نے دو دو بار پی۔ میں جو کچھ دیر پہلے فرح سے کہہ رہی تھی کہ لگتا ہے ڈسپرین لینا پڑے گی ایک دم ہشاش بشاش ہو گئی۔
پھل، سبزیاں آئس کریم، خشک میوہ جات کے سٹال دیکھتے آگے بڑھ رہے تھے، شاہد کو مالٹوں کی تازگی اور خوشبو نے متوجہ کیا، وہ ان کی خریداری میں مصروف تھے اور ایک بیکری ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی تھی کہ جہاں پائن ایپک، بلیک فاریسٹ اور چاکلیٹ کیک کے ننھے منے پیسز سجائے خواتین بلاتی تھیں، کیا ذائقہ تھا، میں خود بھی بہت اچھا کیک بیک کرتی ہوں، لیکن اس وقت تو بازار میں کھڑے ہوں اور بلا قیمت آپ کی تواضع کی جا رہی ہو تو آپ اندازہ کر ہی سکتے ہیں کہ کتنا لطف آ رہا ہو گا۔
بلا ل اور طلال کو وہ سٹال نظر آ گیا کہ جہاں سے انھوں نے پچھلی مر تبہ گٹار خریدا تھا وہ تو اپنے ماموں سمیت وہاں پہنچ گئے اور اپنے ہنر کا کمال دکھانے لگے، وہاں بھی ایک اچھا خاصا شو ہو گیا۔ میں اور فرح دیگر سٹالز کا جائزہ لینے لگے۔ ہال کے بیچوں بیچ ایک سٹیج ساتھا جہاں بینڈ کا بھی انتظام تھا اور کمپئیر تھوڑی تھوڑی دیر بعد آسان سا سوال پوچھتا اور درست جواب دینے والے کو کسی کمپنی کی جانب سے انعام دیا جاتا ہم بھی کچھ دیر یہ تماشا دیکھتے رہے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ کسی بھی فرم کی جانب سے اپنی مصنوعات کی ایک کھیپ سامنے کی جاتی کہ دس منٹ کے اندر اندر اگر آپ یہ چیز خرید لیں تو آپ کو آدھی سے بھی کم قیمت میں ملے گی۔ چنانچہ دہی کی دو بالٹیاں ہم نے بھی خریدیں۔
اب بلال اور طلال اپنا میوزک شو ختم کر کے ہماری طرف آتے تھے۔ کمپئیر پوچھ رہا تھا دنیا کی سب سے بڑی مسجد کون سی ہے، قریب کھڑے لڑکے نے فوراً جواب دے کر انعام حاصل کر لیا۔ بلال کہنے لگا میں ایک منٹ پہلے آ جاتا تو جواب دے کر میں انعام حاصل کر لیتا، اب ہم ہائپر مال سے واپس ہوتے تھے، ہمارے ساتھ وہ ٹوکری بھی تھی جسے شاہد نے ہائیپر مال داخل ہوتے ہی مختلف مشروبات سے بھر دیا تھا اور جسے پینے کی مہلت اب تک نہ ملی تھی۔ اب ہم نے وہ گرم ہو چکے مشروبات واپس رکھے اور ان کی جگہ ٹھنڈے مشروبات لیے، ہم یہ کام کر رہے تھے کہ بلال طلال کو ایک جینز کی قیمت میں دو والی ڈیل نظر آ گئی اور تھوڑی دیر بعد وہ وہاں سے لدے پھندے نکلے۔ اب ہائیپر مال کی آخری بات اور وہ یہ کہ ایسے تماشے روز نہیں ہوتے آج ان کی سالگرہ تھی اس لیے وہ اتنے مہربان تھے۔
وہاں سے نکلے تو اب چائنیر انکلیو کی طرف پہنچے، جدید ترین مشنری، بائیک اور نہ جانے کیا کیا، اصل منظر ابنِ بطوطہ کے دور کے شکستہ جہاز کا تھا کہ جسے طوفانی لہروں نے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا، اس دیو پیکر جہاز کے ٹوٹے ہوئے حصے میں قدم رکھتے ہی آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ بھی اسی جہاز کے مسافر ہیں، جہاں آپ کے قریب سے بڑی بڑی مچھلیاں گزر رہی ہیں، سکرین پر یہ مناظر نہیں چل رہے بلکہ آپ خود ان مقامات سے گزر رہے ہیں، ہم یہاں کافی دیر تک رہے۔ چینی سیاح لڑکے لڑکیاں ہر زاویے سے تصاویر بناتے رہے۔ رات کافی ہو گئی تھی ابھی بہت کچھ اور دیکھا جا سکتا تھا، لیکن اب ہم نے واپسی کا ارادہ کیا اور دبئی کی پھنسی پھنسی ٹریفک میں خدا خدا کر کے گھر پہنچے، فرح نے کھانا گرم کیا۔ کھانا کھایا اور ہم عطیہ کے گھر داخل ہوئے اور کل کے پروگرام کو حتمی شکل دیتے رہے۔
میرے نصیب میں وہی ساحل، وہی سمندر
کبھی کبھی پروگرام کچھ بنتا ہے اور عمل کسی اور پر ہو جاتا ہے، صبح حلوہ پوری کا ناشتہ کرنے کے بعد میں اور عطیہ تو رامض چلے گئے اور دوپہر کو جب آئے تو مشتاق نگٹس، برگر، چپس سوپ اور پتا نہیں کیا کیا تیار کر چکے تھے، کھانے کے بعد شاہد صاحب کے پسندیدہ ساحلی مقام جمیرا بیچ پہنچے۔ ہم کئی مرتبہ ان راستوں سے گزر چکے تھے لیکن ہر مرتبہ کوئی نیا زاویہ منظر کو ان دیکھا کر دیتا تھا۔
دبئی سے پینتیس میل کے فاصلے پر جنوب مغرب میں جبلِ علی دنیا کا طویل ترین ہاربر ہے یہ مشرقِ وسطیٰ کی مصروف ترین بند گاہ ہے اور صرف بندر گاہ ہی نہیں یہاں کا صنعتی علاقہ بھی لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی کا بندوبست کر رہا ہے اور دبئی کے رہائشیوں کی ضروریات کے سامان تیار کرنے میں دن رات مصروفِ عمل بھی۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ دبئی میں ہر چیز امریکہ، چین یا بھارت سے ہی برآمد کی جاتی ہے، درست نہیں۔
آج عطیہ، مشتاق، محسن، ذوہیب، شعیب، او بلال طلال فرح، عرش مان، ماشاللہ سارے ہی افراد اس قافلے میں شامل تھے۔ جب سے دبئی آئے تھے۔ کوشش تو یہی ہوتی تھی کہ سارے اکٹھے نکلیں لیکن کبھی مشتاق مصروف تو کبھی بلال، لیکن ان دونوں نے ہمیں کبھی بیکار نہ رہنے دیا، ہم ہمہ وقت تیار رہتے اور جو ہمیں جہاں لے جانا چاہتا فوراً اٹھ بیٹھتے، بلکہ عطیہ کے ساتھ تو اکثر ایسا ہوا کہ وہ ابھی کھانا کھا رہی ہے، ظاہر ہے میزبان کو کھانے کے لیے بیٹھتے بیٹھتے دیر ہو ہی جاتی ہے اور میں کھا چکی ہوں تو میں عطیہ سے کہتی ہوں۔
’’ چلو جلدی اٹھو، ذرا الفلاح کا ایک چکر لگا آئیں۔ ‘‘
’’ باجی میں کھانا تو کھالوں۔ ‘‘
’’ چھوڑو کل کھا لینا۔ ‘‘
اسی طرح ایک رات میرا کھانے کے بعد جی چاہا کہ شوبرا کا چکر لگا لیتے ہیں۔ عطیہ مشتاق سے کہنے لگی۔
’’ باجی کو باتوں میں لگائیں۔ میں جلدی سے نماز پڑھ آؤں۔ ان کا کوئی پتا نہیں، کہیں گی، کل پڑھ لینا۔ ‘‘
آج ساحل سمندر پر ہم سبھی نے لائف جیکٹس پہنی ہوئی تھیں اس لیے خوب تیرے اور دور دور تک تیرے، شاید اتنی تفریح کبھی زندگی میں نہ کی ہو گی، میں شاہد سے کہنے لگی اب عمرہ دھل چکا ہے۔ ا س لیے باہر نکل آئیں۔
الوداع دبئی
آج دبئی میں ہمارا آخری دن ہے۔ ناشتے کے بعد بلال کی طرف گئے، عرش مان سویا ہوا تھا، ذرا سا ہلایا تو جاگ گیا اور اس طرح لپٹ کر ملا جیسے اسے احساس ہو گیا ہو کہ یہ مجھے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ فرح نے کھانا بنایا اور طلال نے شکار کی ہوئی مچھلی تلی، واقعی اس کا ذائقہ لاجواب تھا۔ کھانے کے بعد مشتاق اور بلال ہمیں نہ جانے کہاں کہاں لے گئے۔ آئی کے ای اے، آپ فرنیچر پسند کرنا چاہیں یا برتن، کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں، بس جیب بھری ہونا چاہیے۔ آپ گرمیوں میں برفباری سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں بلکہ ٹھٹھرنا چاہتے ہیں اہلِ دبئی نے اس کا بندو بست بھی کیا ہوا ہے۔ آئس مال چلے جائیں … اگر آپ کی جیب ٹکٹ خریدنے کی اجازت دیتی ہے تو …
پتا نہیں کہاں کہاں گھومے پھرے، شاہد سنیٹری مارکیٹ بھی گئے معلوم ہوا ہر چیز اسلام آباد میں ملتی ہے اور اس سے زیادہ مناسب قیمت پر، ہم ڈسکاؤنٹ سنٹر بھی گئے جہاں ڈسکاؤنٹ نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ بہرحال گھر پہنچے تو نہ نہ کر تے بھی وزن میں خاصا اضافہ کر چکے تھے۔ شاہد نے پیکنگ کا کام آخری لمحے میں کر نا ہوتا ہے، بے شک کتنا ہی کہتے بلکہ پریشان ہوتے رہیں، وہ اپنی مرضی سے ہی اٹھیں گے۔
’’ مجھے پتا ہے جیسے ہی سامان پیک کر کے اٹھوں گا تمھیں کسی چیز کی اشد ضرورت پڑ جائے گی، اس لیے میں آ خر وقت میں ہی پیکنگ کرو ں گا۔ ‘‘
مشتاق کا کمال یہ تھا کہ میں سوچتی کہ بچوں کے لیے نگٹس، ساسجز، پائن ایپل، چاکلیٹ۔ کاجو، بیج، پاپ کارن لے جاؤں گی۔ ادھر جس چیز کے متعلق میں سوچتی، اسی رو ز مشتاق دفتر سے آتے ہوئے وہ لے آتے، یہاں تک کہ ان کے فرج اور فریزر میں جگہ نہ رہی اور عطیہ نے میرا سا مان اپنے برابر والوں کے ہاں رکھوایا۔ فرح نے میک اپ کی اشیا کا ذمہ لیا ہوا تھا۔ سچی بات ہے پاکستان میں یہ چیزیں لیتے ہوئے انسان ٹال مٹول کر جاتا ہے۔
ہمیں رات دو بجے اتحاد کے دبئی آفس پہنچنا تھا۔ رات کے کھانے کے بعد میں فرح اور عطیہ ایک مرتبہ پھر شاپنگ کے لیے نکلے۔ وزن بڑھ جانے کے خوف سے بہت کم چیزیں لیں اور یہ کہہ کر کہ سب کچھ وہاں نکڑ والی دکان سے مل جاتا ہے، واپس ہوئے۔ کل کی تیراکی کے سبب عطیہ کے پاؤں میں درد تھا لیکن وہ کسی چیز کی پروا نہ کرتی تھی۔
اس مرتبہ شاہد نے تحائف کے نام پر جتنی بھی شاپنگ کروائی ساری ہی شیشے کی تھی۔ مختلف قسم کے گلاس، گلدان، اور دیگر آرائشی اشیا۔ مشتاق عطیہ سے د بے لفظوں میں کہتے رہے، ان میں سے کسی چیز کا سلامت پہنچ جانا ممکن نہیں ہے اور میں کہتی رہی۔
’’ پیکنگ شاہد صاحب کر ر ہے ہیں ان شا اللہ سبھی چیزیں سلامت رہیں گی۔ ‘‘ اور یہی ہوا سارا سامان بحفاظت پہنچ گیا۔
سارے سفر کے دوران میں بلکہ سفر کے آغاز سے پہلے ہی مجھے جس بات کی پریشانی تھی وہ یہ کہ عطیہ کو دونوں بچوں کے امتحان بالکل انھی دنوں شروع ہو رہے ہیں، جب ہم دبئی پہنچیں گے۔ شاہد کہتے تھے تمھیں اتنی پریشانی ہے تو نہیں جاتے، اگلے سال چلے جائیں گے، تو میں سوچتی تھی کہ اب پروگرام رہ گیا تو پھر دس سال اور آگے چلا جائے گا۔ پتا نہیں کتنے عرصے سے بلال اور مشتاق بلا رہے ہیں … اور ہم اللہ کا نام لے کر چلے گئے، غلاف کعبہ پکڑ کر بھی دعا کرتے رہے کہ اللہ ہمیں شرمندگی سے بچا لینا اور پھر اسلام آباد آ نے کے کچھ عرصہ بعد اللہ نے اس فخر سے آشنا کیا جو ہمیں ان کا نتیجہ معلوم کر کے ہوا۔
پروگرام یہ طے پایا کہ دو گھنٹے آرام کر لیا جائے، رات دو بجے بلال آ جائے گا اور ہمیں مشتاق اور بلال اتحاد آفس چھوڑ آئیں گے اور وہیں سے ہمیں چیک ان کر لیا جائے گا اور اگر خدا نخواستہ وزن کا کوئی مسئلہ ہوا تو بلال اور مشتاق تو وہیں ہوں گے کچھ سامان واپس کر دیں گے لیکن سب کا خیال تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ کچھ عرصہ پہلے دبئی ائرپورٹ پر ثروت باجی اور پھر حمیرا کے ساتھ وزن کا معاملہ احسن طریقے سے نبٹ نہ سکا تھا اور انھیں بہت بے ترتیبی سے ائرپورٹ پر کچھ سامان نکالنا پڑا تھا۔
ہمارے سامان میں آبِ زم زم کے دو کین، پھر ایک بیگ جس میں جاتے ہوئے شاہد کے کپڑے تھے اب اس میں آب زم زم کی چار، دو، ایک لٹر والی کئی بوتلیں تھیں جن کا مجموعی وزن بیس کلو تھا، یہ انھوں نے ہینڈ کیری کرنا تھا، اس کے علاوہ دوسرا بیگ جس میں مشتاق نے اپنا بلکہ اپنے ہمسایوں کا بھی فرج خالی کیا تھا۔ میرے ہاتھ میں دبئی سے خریدے گئے پودے، کچھ کتابیں رسالے، دورانِ سفر کام آنے والے کاغذات ٹکٹ وغیرہ اور کچھ تحائف جو پیک ہونے سے رہ گئے تھے۔ رات تین بجے بلال، مشتاق، عطیہ اور فرح ہمیں چھوڑنے جاتے تھے، یہ سڑکیں جن سے ہم دن اور رات میں کئی کئی مرتبہ گزرے تھے، اب رات کے پچھلے پہر زرد روشنی میں نہائی اداس اور تنہا تنہا سی محسوس ہوتی تھیں۔
جدائی کا درد گہرا ہوتا ہے، ہم جو اتنے دنوں سے ساری دنیا فراموش کر کے بس اپنے ان پیاروں کے ہمراہ جیتے تھے اور خوش تھے کہ اللہ نے انھیں زندگی کو اچھے طریقے سے بسر کرنے کی تو فیق دی ہے، اب جاتے ہوئے کہتے تھے کہ بس بہت ہو گیا پاکستان واپس آ جاؤ، حالانکہ پاکستان کے سیاسی، معاشی، تعلیمی اور اخلاقی حالات و اقدار بد قسمتی سے اور ہماری ہی عاقبت نا اندیشی کے سبب دگرگوں ہو چکے ہیں۔
اتحاد آفس پہنچے منٹوں میں ہمارا سامان تولا گیا، کچھ زیادہ تھا شاہد نے خود ہی کہا کہ سامان تو ذرا زیادہ ہو گیا ہے، انھوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں اب میں شاہد کو اشارے کر رہی ہوں کہ ہینڈ کیری میں آبِ زم زم والا بیگ بھی جمع کر وا دیں اور وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے ہیں کہ چپ رہو۔
مجھے ڈر تھا کہ اگر دستی سامان میں دس دس کلو سے زیادہ نہ لے جانے دیا تو ابوظہبی ائرپورٹ پر بہت کچھ چھوڑنا پڑ جائے گا۔
ہم فارغ ہوئے تو بلال اور مشتاق سے کہا کہ اب آپ لوگ جائیں صبح چار بجے ہمیں بس یہاں سے ابو ظہبی لے جائے گی۔ نمازِ فجر کے فوراً بعد بس میں سوار ہوئے اب بھی ہمارے علاوہ صرف ایک لڑکا تھا، جو اس بس میں سوار تھا، اس مرتبہ بھی پہلی نشست پر ہم تھے اور میں چادر اوڑھ کر سونے کی ناکام کوشش کرتی تھی۔ چھ بجے ہم ابو ظہبی پہنچے، ائرپورٹ پر ہمیں تھوڑی دیر اِدھر اُدھر بھٹکایا گیا، لیکن جب انھیں بتایا کہ ہم دبئی سے چیک ان ہو چکے ہیں تو ہمیں لاؤنج میں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ہم پھر وہیں تھے جہاں سے کچھ رو ز پہلے گزرے تھے۔ ہر چیز دیکھی بھالی محسوس ہوتی تھی ایسا لگا کہ جیسے ہم تو یہاں آتے جاتے رہتے ہیں، اسی مسجد میں پڑاؤ کیا اور آٹھ بجے شاہد نے کہا کہ اب باہر آ جاؤ، سارے مسافر جہاز کی طرف روانہ ہو چکے ہیں، میں جیسے ہی باہر آئی شاہد تیز تیر قدموں سے چلتے چلے گئے جب بالکل ایگزسٹ ٹنل کے پاس پہنچ گئے تو میں نے کہا کہ آپ کچھ سنتے تو ہیں نہیں، مجھے وضو کرنا ہے، میں واش روم سے ہو کر آتی ہوں اور میں ان کا جواب سنے بغیر مسجد کی طرف چلی آئی۔
مجھے پتا تھا کہ جہاز جدہ سے میرے بغیر نہیں اُڑا تھا تو یہاں بھی وہ میرا انتظار کر لے گا۔
٭٭
حوالہ جات
۱۔ ’’سورۃ البقرہ‘‘:۱۲۶
۲۔ ’’قرآن کریم‘‘، شاہ فہد قرآنِ کریم پرنٹنگ کمپلکس، ص ۵۱
۳۔ فضل الٰہی، پروفسیر ڈاکٹر ’’ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام بحیثیت والد‘‘، ص۱۲۳
۴۔ جوزی، امام عبد الرحمن، ’’الوفا‘‘’، ص ۵۹۳
۵۔ محمد سلیمان، قاضی ’’رحمت اللعالمین‘‘، جلد دوم، ص۳۷
۶۔ ایضاً، ص۳۹
۷۔ عبد الرحمٰن عبد، ’’ حرم عرفات‘‘، ص ۱۶
۸۔ محمد سلیمان، قاضی، ’’رحمت اللعالمین‘‘، ص۶۵
۹۔ عطا، شاہ حسین، ’’حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق‘‘، ص۳۹
۱۰۔ چراغ، محمد علی، ’’حضرت ابو بکر صدیق ‘‘، ص۵۴۔ ۵۳
۱۱۔ عبد، عبد الرحمان، ’’حرمِ مدینہ ‘‘، ص۳۵۔ ۳۶
۱۲۔ مفتی محمد شفیع، ’’معارف القرآن، جلد اول‘‘، ص ۳۷۔ ۳۸۔ ۴۰
۱۳۔ عبد، عبد الرحمٰن، ’’ حرمِ مدینہ‘‘ ص ۳۳
۱۴۔ عطا، شاہ حسن، ’’حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق‘‘، ص۲۵
۱۵۔ ڈسکوی، جاوید جمال، ’’میرے حضورﷺ کے دیس میں ‘‘، ص ۵۴
۱۶۔ جوزی، امام عبد الرحمن، ’’الوفا‘‘، ص ۳۶۹
۱۷۔ ڈاکٹر محمد الیاس، ’’تاریخِ مکہ مکرمہ‘‘، ۔ ص ۱۴۶
۱۸۔ عبد، عبد الرحمٰن، ’’حرمِ عرفات‘‘، ص ۲۵
۱۹۔ ڈسکوی، جاوید جمال، ’’ میرے حضور ﷺ کے دیس میں ‘‘، ص۲۷
۲۰۔ ’’سورۃالحجرات ‘‘:۲۰
۲۱۔ وسیم، عذرا، ’’بھائی جان، کشفی صاحب آپ کے لیے‘‘، ص، ۷۰
۲۲۔ خالد، محمد متین، مرتب: ’’بارگاہِ رسالت میں ‘‘، ص ۴۰
۲۳۔ ہاشمی، رفیع الدین، ۲۰۰۸ء’’ علامہ اقبال، شخصیت اور فن ‘‘ص ۱۶۵۔ ۱۷۸
۲۴۔ ایضاً ص۱۷۸
۲۷۔ عبد، عبدالرحمن، ’’ حرمِ عرفات ‘‘، ص ۸۱
۲۸۔ شفیع، مولانا محمد، ’’ معارف القرآن، جلد سوم‘‘ ص۵۴۶
۲۹۔ عبد المالک، ’’کعبۃ اللہ کے سامنے ‘‘، ص ۱۰۳
فہرست اسناد محولہ
آفتاب عظیم، سید، ۲۰۰۸ء ’’کتاب الحج‘‘، کراچی، افروز ٹیکسٹائل انڈسٹریز لمیٹڈ۔
ابنِ بطوطہ، شیخ ابو محمد، ۱۹۶۱ء، لاہور، ’’ سفرنامہ ابنِ بطوطہ ‘‘ مترجم محمد حیات الحسن اشاعتِ دوم۔
اعجاز اشرف انجم ۲۰۰۲ء، جہلم، ’’ سنہری جالیوں کے پیچھے‘‘، ادارۂ فکر و رضا۔
امتیاز احمد، ستمبر ۲۰۰۱ء، مدینہ منورہ مدینہ منورہ، ’’ مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات‘‘، مطبع الرشید۔
ایچ۔ بی۔ خان، ۱۹۸۶ء، ’’اسلام سے عصرِ جدید تک، کراچی سے گبندِ خضریٰ تک‘‘، کراچی، الحمد اکادمی۔
جوزی، امام عبد الرحمن، مترجم علامہ محمد اشرف سیالوی، سن ندارد، ’’ الوفا‘‘ احوالِ مصطفیٰﷺ‘‘ لاہور، فرید بکسٹال۔
چراغ، محمد علی، ۱۹۹۴ء’’ حضرت ابو بکر صدیق ‘‘، لاہور، نذیرسنز۔
خالد، محمد متین ۱۹۹۸ء ’’ بارگاہِ رسالت میں ‘‘ تعمیرِ انسانیت، لاہور۔
خان، ایچ۔ بی، ۱۹۸۶ء، ’’اسلام سے عصرِ جدید تک، کراچی سے گبندِ خضریٰ تک‘‘، کراچی، الحمد اکادمی۔
ڈسکوی، جاویدجمال، ۱۹۹۰ء، ’’ میرے حضور کے دیس میں ‘‘، کراچی، جنگ پبلشرز۔
صدیقی، نعیم، ۱۹۸۵ء، ’’ محسنِ انسانیت ‘‘ ، لاہور، اسلامک پبلیکیشنز۔
کاشمیری، شورش، ، ۲۰۰۰ء’’ شب جائے کہ من بودم‘‘، لاہور، مطبوعاتِ چٹان۔
فضل الٰہی، پروفسیر ڈاکٹر، ۲۰۰۱ء’’ ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام بحیثیت والد‘‘، لاہور، مکتبۂ قدسیہ۔
عبدعبد الرحمٰن، ۱۹۹۱ء’’ آنحضور ﷺ کے نقشِ قدم پر (۴) حرم نبوی۔ (۱) ‘‘ کراچی، جنگ پبلشرز۔
عبد، عبد الرحمٰن ۱۹۹۱ء ’’آنحضور ﷺ کے نقشِ قدم پر (۴) حرم عرفات‘‘ کراچی، جنگ پبلشرز۔
عبد، عبد الرحمٰن ۱۹۹۱ء ’’آنحضور ﷺ کے نقشِ قدم پر (۲)۔ حرم مدینہ‘‘، کراچی، جنگ پبلشرز۔
عبد، عبد الرحمٰن ۱۹۹۱ء ’’آنحضور ﷺ کے نقشِ قدم پر(۱)حرمِ نبوی ‘‘ کراچی، جنگ پبلشرز۔
عبد المالک، ۲۰۰۰ء، ’’ کعبتہ اللہ کے سامنے‘‘، ملتان۔
عطا، شاہ حسین، مترجم، ۱۹۷۹ء، ’’ حضرت ابو بکر صدیق اور فاروقِ اعظم ‘‘، کراچی، نفیس اکیڈمی۔
قاسم محمود، سید مرتب: ۱۹۷۵ء’’ شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا‘‘، لاہور، مکتبۂ شاہکار۔
محمد الیاس، عبد الغنی ڈاکٹر، ۲۰۰۲، ’’تاریخ مکہ مکرمہ‘‘، مدینہ منورہ، الرشید۔
محمد شفیع، مولانا مفتی، ۲۰۰۱ء، ’’ معارف القرآن، جلد اول‘‘ راولپنڈی، سروسز کلب۔
محمد شفیع، مولانا مفتی، ۲۰۰۳ء، ’’ معارف القرآن، جلدسوم‘‘، راولپنڈی، سروسز کلب۔
منصور پوری، قاضی محمد سلیمان، ۲۰۰۶ء ’’ رحمت اللعالمین‘‘، مکتبۂ اسلامیہ۔
وزارتِ اطلاعات و نشریات، ۱۹۹۸ء ’’حرمین شریفین‘‘، اسلام آباد۔
٭٭٭
سوانحی خاکہ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ
ذاتی کوائف
٭ قرۃالعین طاہرہ …مسلمان … پاکستانی…مکان نمبر ۸۱۱۔ جی ۴/۱۰، اسلام آباد … فون نمبر۵۷۱۰۸۰۴۔ ۰۵۱…
٭ شوہر:شاہد محمود، ڈائریکٹر، ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد
تعلیمی کوائف
میٹرک : گورنمنٹ برازیل سکول پی ای سی ایچ ایس کراچی، ایف اےپی ای سی ایچ ایس کالج کراچی
بی اے : جامعہ کراچی
ایم اے(اردو): جامعہ کراچی( فرسٹ ڈویژن۔ سکینڈ پوزیشن with distinction))
پی ایچ ڈی(اردو): جامعہ پنجاب لاہور، ۱۹۹۹ء … عنوان۔ حفیظ ہوشیارپوری، شخصیت اور فن۔ (نگران ڈاکٹر سہیل احمد خان، صدر شعبۂ اردو ، یونیورسٹی اوریئنٹل کالج، لاہور۔ )
تدریسی کوائف
گذشتہ بیس سال سے تدریس کے شعبہ سے منسلک
٭ ۱۶ جنوری ۱۹۹۰ء سے ۹ فروری ۲۰۰۲ ء تک اسلام آباد ماڈل کالج برائے طالبات ایف ۲/۶، اسلام آباد میں بطور لیکچرر خدمات انجام دیں۔
٭ ۹فروری ۲۰۰۲ ء سے ۲ مارچ ۲۰۰۹ ء تک ایف جی کالج برائے طالبات ایف ۲/۷ میں بطور اسسٹنٹ پرو فیسر خدمات انجام دیں۔
٭ ۲ مارچ ۲۰۰۹ء سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بطور اسسٹنٹ پرو فیسر وابستگی
٭ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ایم فل اور پی ایچ۔ ڈی کی سپروائیزر۔
ـ٭ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی ورکشاپس میں ریسورس پرسن ( لیکچرز)۔
٭ منصف فروغ ادب برائے اطفال … نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد۔
٭ سبجیکٹ سپیشلشٹ، فیڈرل ڈائرکٹریٹ سلیکشن بورڈ برائے لیکچررز۔
٭ رکن مجلس نصاب سازی, وفاقی ادارہ نصاب اسلام آباد۔
مطبوعہ کتب
٭ ’’ دسترس میں آسمان‘‘ ( تاثرات حج ) نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد ۲۰۰۲ ء، ص۱۶۸
(نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقدہ مقابلہ، بہترین اسلامی ادب ۲۰۰۲ء سے ایوارڈ یافتہ)
٭ ترکی کے ممتاز دانشور اور اسلامی مفکر سعید نور سی کے افکار و خیالات کے اردو میں راقمہ کے نظر ثانی شدہ تراجم کی متعدد کتب۔
٭ حضرت سلیمان علیہ السلام، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد۔ ۲۰۰۶ء، ص۹۰
٭ چالیس کے عدد کی کرشمہ سازیاں، بچوں کا ادب، فارد پبلیکیشنز، اسلام آباد ۲۰۰۶ء، ص۴۶
٭ بے زبانی زباں نہ ہو جائے … حفیظ ہوشیار پوری، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی۔ ۲۰۰۸ ئ۔ ص۶۲۸
٭ ’’ سرحدِ ادراک سے آگے‘‘ (تاثراتِ عمرہ) رومیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، راولپنڈی، ۲۰۱۰ء، ص۲۲۲
٭ ’’ صہبا اختر، شخصیت اور فن‘‘ اکادمی ادبیات پاکستان ، اسلام آباد ۲۰۱۰ء، ص۲۰۶
٭ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام، رومیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، راولپنڈی، ۲۰۱۱ء، ص۱۱۲
٭ شیخ عبد القادر ’’ شخصیت اور فن‘‘ اکادمی ادبیات پاکستان ، اسلام آباد ۲۰۱۲ء، ص ۲۳۴
ـ٭ ’’عجب اک سلسلہ ہے ‘‘( سفر ریاست ہائے متحدہ عرب امارات اور عمرہ کے تاثرات) فارد پبلی کیشنز اسلام آباد، ۲۱۰۴ء، ص ۱۹۳
زیر طبع اور زیر ترتیب کتب
٭ ’’ سخن زیر لب‘‘ ( باقیات حفیظ ) جی سی یو لاہور
٭ ’’ سلسلے تکلم کے‘‘ (معروف افسانہ نگاروں، شاعروں اور دانشوروں سے انٹرویوز) سنگِ میل لاہور
٭ کلیات حفیظ ہوشیار پوری، ترتیب و تدوین، سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور
٭ تحقیق و تنقید ( مضامین)
٭ ہمعصر شعرا، فکر و فن۔ ایک تجزیہ
٭ حضرت اسما بنت ابو بکرؓ :جرأت و حق گوئی کی ایک بہترین مثال
٭٭٭
تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
An interesting and informative book with beautiful words.
Thanks for MS Qurrat ul ain Tahira and جزاك الله خيرا.
Great book…
very touching and informative book; especially the incident, from which the name of the book has been derived.