سراج کی غزل گوئی
تصنیف حیدر
فن کی نوعیت زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے۔ ہوسکتا ہے آج جس علم اور جس طریقے کا نام ہمارے لیے فن ہے، آنے والے عہد کے لیے وہ تصور ایک ہلکے اور سطحی رویے سے زیادہ اور کچھ نہ ہو۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ با شعور ہوتے گئے ہیں مگر یہ شعور اور یہ ادراک ہی اگر ایک خاص نسل یا قوم کے نزدیک فن کا ناقص اور غلط تصور ہو تو ہماری ساری کوششیں اور خیالات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور ہم دستارِ فن کو الٹ کر اُس نسل کے آگے شناسائی کی بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ ہمارے روایتی یا کلاسیکل شعرا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ تقلید کے عمل سے تو ہمارے ادب کو شاید ہی کہیں چھٹکارا حاصل ہوا ہو۔ کیونکہ ہم فارسی کا غبار دامن سے جھاڑ کر انگریزی کے غاروں میں جا کر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ہمارے پاس اپنا کیا تھا اور جو اپنا تھا اسے ہم نے کسی لائق نہیں سمجھا تھا۔ ایسے خستہ حال اور نامانوس شاعروں کی تو ایک لمبی فہرست ہے جن کے گم ہو جانے سے ان کی اولادوں پر بھی ایسا کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہو گا،ادب تو پھر بھی دور کی بات ہے مگر ہمارے یہاں غازی پور کے ایک سیدزادے کی تربیت نے ترقی کا ایسا شور مچایا کہ فن تو کیا ہمیں اپنے تن اور من پر بھی شبہ ہونے لگا اور ہم نے جب تن اور من دونوں کو ان کے کہنے سے تبدیل کرنے کا ارادہ کر ہی لیا تو پھر فن کا بدلنا کیسے ناممکن ہوتا۔ فن بدلا، فن پارے بدلے۔ غزل کی گلیوں پر راج کرنے والا معشوق، نظم کے چوباروں تک پہنچتے پہنچتے مطعون ہوا، مردود ہوا۔ جب معشوق کا حال ایسا ہوا تو شاعر کی اوقات بساط کیا تھی۔ اُس نے بھی نئے فن کاروں سے گالیاں کھائیں اور روایت کے کھونٹے سے بندھی ہر چیز ایک خاص عہد تک آ کر دم توڑ گئی۔ محبوب کے محل کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔ اس کے ظلم، جبر اور جفا کی اداؤں کو سرمایہ دار اور حکومتِ وقت کے حوالے کر دیا گیا۔ ترقی پسندوں نے تنزل کا الزام لگا کر بے چارے روایتی شاعر کی لاش اٹھا کر وقت کے سرد خانے میں رکھ دی، جس کی وجہ سے وہ سڑنے گلنے سے تو محفوظ رہ گیا مگر اس کی موت اردو ادب کی پیشانی پر سجدے کے داغ کی طرح ثبت ہو گئی۔ ایک علامت ، جو بے حد سیاہ تھی مگر ترقی پسندوں کو اسی سیاہی سے قیامت میں بے انتہا اجالوں کی امید تھی۔ انسان کے اقتصادی، معاشی اور سماجی معاملات سمجھنے کا دور آیا تو فن کے کاسے میں مسائل کے سکے گرنے شروع ہو گئے۔ نصیحت کی ضربیں سہنے والے روایتی شاعر کی آخری سسکیاں رومانوی شاعروں کی سلمیٰ، غزالہ اور عذرا سے کہاں رکنے والی تھیں کہ وہ بے چارہ تو امرد پرست تھا اور اس سزا کی پاداش میں آج اس کی لاش کو ہمارے ادیب گلیوں میں کھینچتے پھر رہے ہیں کہ اس کا چہرہ اتنا مسخ ہو جائے کہ اسے پہچاننے میں بھی آنے والی نسلوں کو دشواری ہو۔ اس لیے نئے اردو ادب کا آغاز قلی قطب شاہ، وجہی، غواصی، فائز اور میر و غالب سے نہیں بلکہ فیض احمد فیض سے ہوتا ہے۔
سراج اورنگ آبادی کی غزل اسی بدلے ہوئے اردو ادب کے پردے میں کہیں چھپی ہوئی ہے۔ میں اس کو ہاتھ لگاتا ہوں تو اس کا سرد جسم مجھے ایک پورے عہد کی موت کا احساس دلاتا ہے۔ نئی نظم کا ناقد چیخ چیخ کر مجھے اس کی جانب بلا رہا ہے۔ اس کا نعرہ ہے کہ وقت کی اس تیز دھار میں الٹی جانب بہنے کی کوشش کرنے والا بہادر نہیں، بے وقوف ہے۔ مجھے اپنی کم عقلی پر کوئی شبہ نہیں، تبھی تو میں نے سراج پر کچھ سطریں لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ سراج اورنگ آبادی،اردو ادب کے بیشتر ناقدین جس کی ایک غزل پر چار باتیں کر کے اپنے آپ کو یہ تسلی دیتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے بھی میر کی طرح سراج کے حق میں کم از کم یہ تو کہہ ہی دیا کہ ’شعر او خالی از مزہ نیست۔ ‘مگر اس جملے کی حقیقت تو خود بے چارے میر کو بھی نہیں معلوم۔ اس نے تو خود سراج کو پڑھنے کے لیے عزلت کا سہارا لیا تھا۔ اگر وہ میری طرح سراج کو پڑھتا تو سراج کے لیے یہ دو ٹکے کا جملہ لکھ کر ہاتھ نہیں جھاڑ لیتا۔
معاف کیجیے گا میر کے لیے میرے اس زہر میں بجھے لہجے کے پیچھے دراصل کلیم الدین احمد کی وہ تنقید ہے جس میں انہوں نے تذکرہ نگاروں کو اٹھک بیٹھک کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کو پڑھ کر مجھے اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ تذکرے تو کیا ہی سراج کا حق ادا کریں گے۔ مگر جب میں آگے بڑھا تو مجھے تصوف کو شاعری کا زیور بتانے والے کچھ ڈھکوسلے باز ناقدین بھی ملے جن کے ہاتھ میں مٹی کا ایک ڈھیلہ تھا اور جو سمجھ رہے تھے کہ استنجہ کرنے کے بعد جب وہ سلطان باہو ؒ کی طرح اس ڈھیلے کو زمین پر دے ماریں گے تو حد نگاہ تک زمین سونے کی ہو جائے گی، مگر نتیجہ تو یہ نکلا کہ زمین بنجر ہو گئی اور ڈھیلہ خاک کی سطح پر گھسٹتا ہوا نہ جانے کتنی زرخیز زمینوں پر اپنی نحوست کے اثرات چھوڑتا گیا۔ اس کے بعد ناقدین کی ایک اور جماعت تھی۔ جس کا طرز ہی نرالا تھا جنہوں نے سراج جیسے شاعروں کو خاک میں ملانے کا ایک دوسرا ہی راستہ ڈھونڈا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہاں آؤ اور ہمارے جادوئی آئینے میں سراج اورنگ آبادی کی شاعری کا چہرہ دیکھو، اس میں تصوف کی ہلکی سی شباہت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کے یہاں صنعت مراعات النظیر ہے، تلمیح ہے، احتجاج بدلیل ہے، تشبیہ ہے اور استعارہ ہے ،اصلی زندگی سے فرار ہے اور خیالی دنیا کی تلاش ہے، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہ دونوں قسم کے ناقدین بھولے بیٹھے تھے کہ صوفی ہو، ولی ہو، فلسفی ہو یا نبی۔ یہ سب بھی بہرحال آدمی ہوتے ہیں، خدا نہیں۔ ان کی ضروریات بھی اتنی ہی زمینی ہوتی ہیں جتنی کہ ایک عام آدمی کی۔ مگر یہ آدمیت کی اسی عمومیت کے بہتے ہوئے دریا میں کچھ خاص لہروں کو پہچان لیتے ہیں۔ اس لیے یہ ولی کہلاتے ہیں، صوفی ہو جاتے ہیں یا پھر یہ کہوں کہ انسان بن جاتے ہیں۔ انسانیت سے ماورا کچھ نہیں ہے، اور اگر ہے تو ملکوتی ہے، خدائی ہے۔ شاعری بھی الہام کے درخت سے پھوٹی ہوئی ایک ایسی شاخ ہے جس میں باطن کے اشتعال کو جتانے کے لیے خارج کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ سہارا عارضی ہو تو تماشہ اور ابدی ہو تو فن بن جاتا ہے۔
اس مضمون کی لائنوں پر آنکھیں گاڑنے سے پہلے ہی میں آپ کو بتا دوں کہ اگر آپ نے اس مضمون کو پڑھتے وقت بھی اپنے زمانے والے ’فن‘ کا مطلب ہی ذہن میں بٹھا رکھا ہے اور آپ حقوقِ انسانی کمیٹی کے کسی ممبر کی طرح انسان کے دکھ درد کا مداوا شاعری میں ڈھونڈنے کے خواہاں ہیں تو میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ اس مضمون کو پڑھ کر اپنا وقت برباد مت کیجیے۔
جب اتنی صاف بات ہو ہی چکی ہے تو یہ بھی سن لیجیے کہ شاعروں میں تقابل اور درجہ بندی کا بھی میں صرف اسی حد تک قائل ہوں جہاں اپنی بات منوانے کے لیے اس طرح کے نمونے پیش کرنا ضروری ہو جائیں۔ سراج کے یہاں مجھے اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ان کی خبر تحیر عشق والی غزل پر تو اتنی تنقید ہو چکی ہے کہ اگر اسے اس وقت میں ذرا دیر کے لیے دیوان سے باہر بھی رکھ دوں تو نہ سراج کو کوئی فرق پڑے گا اور نہ غالباً آپ کو۔ سراج کی غزل گوئی کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ان کی شاعری کا دور کم سے کم پانچ یا زیادہ سے زیادہ چوبیس پچیس سال پر محیط ہے۔ جیسا کہ عبدالقادر سروری لکھتے ہیں:
’’سراج نے 1146یا 1147میں حضرت شاہ عبدالرحمن سے بیعت کی، اور یہی زمانہ ان کی اردو شاعری کے آغاز اور عروج کاہے۔ (الخ)1151یا1152اور 1169کے درمیان ، انہوں نے شعر گوئی ترک کر دی۔ ‘‘
(مقدمۂ عبدالقادر سروری، کلیات سراج اورنگ آبادی، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، صفحات نمبر 48-56)
ان پانچ یا پچیس برسوں میں سراج نے تقریباً پونے دو سو اردو غزلیں لکھیں۔ ان کے احوال و آثار کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جس دور میں انہوں نے شاعری شروع کی وہ ان کی کچی جذباتیت کا دور تھا اور اسی زمانے میں وہ کسی لالہ کے لڑکے پر کچھ اس طرح فدا ہوئے کہ اس کے عشق میں سب کچھ بھلا بیٹھے۔ دورانِ عشق انہوں نے بہت سی مصلحتوں سے بھی کام لیا اور عشق کے وہ سارے پینترے اپنائے جس سے محبوب کے وصل کے مواقع ہاتھ آتے رہیں۔ سراج اورنگ آبادی خود بھی حسین تھے اس لیے تذکرے بتاتے ہیں کہ ان کے گھروں پر امردوں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔ عشق میں سماج اور دل کی جنگ کے درمیان انہیں بہت کچھ جھیلنا پڑا، زنجیروں سے باندھے گئے، جنونی ٹھہرائے گئے ، مذہب اور ایمان کی قسموں سے انہیں مجبور کیا گیا اور ان کی شاعری وصل میں ذاتی لطف اور ہجر میں ذاتی کرب کی عکاس بن کر رہ گئی۔ اس لیے سراج کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت ان کی زندگی کے پہلوؤں پر نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ انہوں نے عشق میں واقعی بہت کچھ جھیلا ہے اور تجربوں کی اس قلمرو میں جذبوں کی املاک کو شعر کی تجوری میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس ذاتی مسئلے سے آگے بڑھ کر وہ کچھ اور زیادہ کہتے اور ایسا کہتے کہ اپنے المیے کے سبب میر کے ہم پلہ قرار پاتے مگر ان کے پیر و مرشد نے انہیں شاعری سے روک دیا۔ جذبات کے دریا میں ابال آنے کا دور تو ان کی شاعری کا حصہ بنا مگر اس دریا پر سکوت طاری ہونے کے بعد سراج خود بھی چپکے ہو کر بیٹھ رہے اور اس طرح ان کی پونے دوسو غزلوں میں ذاتی لطف و انبساط اور کرب کی جھلکیاں تو موجود ہیں مگر جذبات کی کچی آنچ نے بہت سی جگہوں پر اسے آفاقی بننے سے محروم کر دیا ہے۔ پھر بھی اس دور میں فن کے جتنے تقاضے تھے، سراج کی شاعری ان تمام کو پورا کرتی ہے۔
اس زمانے میں مشاہدہ بھی فن کی ایک جہت کے طور پر مقبول ہے۔ اس مشاہدے میں جو بھی چیز شاعر کی نظر میں آتی ہے اسے محبوب کے تصور سے جوڑ کر دیکھنا ان شعرا کی عادت ہے۔ سراج کے یہاں صفت اوروں کے مقابلے میں زیادہ ہے، ایسا کہنا مناسب نہیں،بلکہ ایسے معاملات میں ہمیں خیال کی باریکی پر غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کسی بھی شے کا تعلق محبوب سے ظاہر کرنے کے لیے شاعر جو دلیل فراہم کر رہا ہے وہ کتنی درست، مبہم یا مبتذل ہے۔ مثال کے طور پر سراج کے چند اشعار دیکھیے:
اس لب شیریں سے مگس دور ہے
کیوں نہ ملے ہاتھ وہ افسوس کا
ترے ابرو پہ نقطہ خال کا دیکھ
ہوا معلوم بیت منتخب ہے
خطِ شب رنگ سیں تیرے لب رنگیں کوں قیمت ہے
اگرچہ لعل جو مودار ہے معیوب ہوتا ہے
اور یہ جو لوگوں نے اڑا رکھی ہے کہ ایک خاص دور کے بعد ایہام گوئی ختم ہو گئی اور لوگوں نے شمالی ہند میں ناجی، آبرو اور حاتم کے بعد ایہام کو برتنا بند کر دیا۔ یہ غلط نظریہ ہے اور اس کا ادراک جنوب کے اس شاعر کو پڑھ کر بھی ہوتا ہے جس نے اپنے کلام میں بعض جگہوں پر ایہام کی حد کر دی اور جسے پڑھ کر ایسا بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ یہ شعر وحیِ الہٰی کی طرح سراج اورنگ آبادی پر نازل ہوئے ہونگے بلکہ یہ اُن کی سخت ذہنی مشقت اور صلابت روی کا احساس پڑھنے والے کے ذہن پر طاری کر دیتے ہیں۔ ایہام سراج کے یہاں صرف ایک اتفاق کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ان کی غزلوں کا مطالعہ دو غلط فہمیوں کا ازالہ کرتا ہے۔ اول تو یہ کہ سراج اورنگ آبادی نرے تصوف کے شاعر تھے اور ان کے کلام میں صرف ایسے مضامین ہیں جو تصوف کے پیچیدہ اسرار کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں، میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ ان کے یہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں ہے مگر اس بات سے مجھے اختلاف ہے کہ سراج کی شاعری کے دوسرے رخ پر نظر نہ ڈالی جائے اور فن میں ان کی محنت کو صرف اوپر اوپر سے پڑھ کر نظر انداز کر دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ایہام گوئی شمال کے ساتھ ساتھ جنوب میں بھی ناجی اور آبرو جیسے شعرا کے بعد بھی قائم تھی اور اس بات کے ثبوت میں شمال میں میر اور سودا جیسے شاعر کے علاوہ جنوب میں سراج جیسے شاعر کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے یہاں موجود ایہام گوئی کے رجحان کو ان اشعار کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے
عاشق زار کوں بس چاہ زنخداں تیرا
بوالہوس آرزوئے چشمۂ تسنیم کیا
بھیک منگنے تمہارے ابرو پاس
ماہ نو جام ہے گدائی کا
دل نہیں ہے بلکہ ہے سولی کا پھول
دوسرا منصور کہلانے لگا
پہلے شعر میں چاہ بمعنی محبت اور کنواں اور دوسرے شعر میں جام بمعنی پیالہ اور کٹورا سے فائدہ اٹھایا ہے۔ تیسرے شعر میں ایہام کا لطیف پہلو یہ ہے کہ سولی کے پھول کی رعایت سے منصور کا لفظ استعمال کیا اور لفظ منصور کو اس صورت میں برتا کہ صور کا ایک مطلب ناقوس بھی ہوتا ہے اس لیے من کی آواز یا ایسی آواز جو باخبر کرے اور بیدار کرے سے اس طرف بھی خیال جاتا ہے کہ ایسا من(یہ لفظ آتما کا بھی متبادل ہے) صور کہلانے لگا ہے۔ بوسہ سراج کے یہاں ایک زبردست اظہار کا ذریعہ بنا ہے اور اس جرات کے پیچھے بھی دراصل ان کی وہی جوانی رنگ دکھارہی ہے جو عشق کے مسائل میں زمانے کو اپنی ٹھوکر پر مارتی ہے۔ اس کے لیے ذہن ایک کال کوٹھری ہے اور دل کشادہ، وسیع اور سرسبز میدان جہاں جو جی میں آئے کرتے پھریے۔ نہ کوئی حساب کتاب کرنے والا ہے، نہ کوئی روک ٹوک کرنے والا۔ لیکن بوسے کو اپنی شاعری کی بڑی علامت بنانے کے پیچھے سراج نے صرف اس بے مطلب آزادی کے گن نہیں گائے ہیں بلکہ وہ بوسے کی کیفیت سے بھی خدا اور خدائی دونوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے قاری کو بھی اس لذت سے آشنا کرتے ہیں۔ بوسہ انسان کی ہستی پر جمود طاری کر دیتا ہے، اس کی مدت کم ہوتی ہے، جنس کے دوسرے عوامل کے مقابلے میں تو بہت مختصر مگر یہ ان میں سب سے ارفع مقام رکھتا ہے۔ اول تو اس کا مقام ابتدائی ہے ، اس لیے جو سرشاری اس سے طاری ہوتی ہے وہ انسان کو فریز کر دیتی ہے۔ لمس کا بنیادی اور پہلا احساس۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح انسان دنیا کو پہلی بار اپنی شعور کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور حسن فطرت یا مظاہر سے اس کا تعارف ہوتا ہے۔ بوسہ دراصل اس خوبصورتی کو چھونے، محسوس کرنے اور اس سے حظ حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ بوسہ خود سپردگی سکھاتا ہے۔ سراج کہتے ہیں کہ
کبھی اس دلبرِ یاقوت لب نے منہ لگایا ہے
نہ پوچھو خود بخود آیا ہے رنگِ سرخ پاؤں میں
رنگِ سرخ پاؤں میں آ جانے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے پاؤں میں مہندی لگ گئی ہے ، مگر یہ مہندی وہ سبز مہندی نہیں ہے جس سے چلنا پھرنا محال ہو جائے بلکہ یہ تو مہندی کے رنگ کھلنے اور اس کے خوبصورت نتیجے کے طور میں ظاہر ہوئی ہے۔ یعنی اس کیفیت کو محسوس کرنے والا تھم گیا ہے بلکہ جم گیا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جب حسن کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور اتصال کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ دنیا کے ساتھ ہم سب بھی ایک ایسے ہی بوسے کی کیفیت میں گرفتار ہیں جہاں حسین و غیر حسین کا فرق مٹ گیا ہے۔ بس ایک سرشاری کی کیفیت ہے۔
کیفیت سے یاد آیا کہ یہ بھی شاعری کا ایک وصف ہے اور سراج کے اشعار کی ایک بڑی خصوصیت کیفیت بھی ہے۔ میں فن کی اس خاص اصطلاح کی بات کر رہا ہوں جس کو پڑھتے ہوئے حظ تو اٹھایا جائے مگر جس کی تہوں میں ایسے کوئی فلسفیانہ نکات موجود نہ ہوں جو ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں۔ سراج نے اپنے کلام میں بیشتر جگہوں پر اس طرح کے اشعار سے جو کام لیا ہے اس سے ان کی حس لطیف کا اندازہ صاف طور پر ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ذاتیات کی گتھیوں کو سلجھانے والے آفاقی عشقیہ معاملات کوہی اپنے شعر کا موضوع نہیں بناتے، بلکہ ہنسی مذاق سے تھوڑا آگے جا کر بے ہودہ ٹھٹھول بازی بھی ان کی شاعری میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے جو اکیسویں صدی کے ناقد کی نظر میں ہزار وقت کی بربادی صحیح مگر اٹھارہویں صدی کا ناقد تو اسے فن کے ایک خاص حصے میں شمار کرتا ہے۔ ویسے فن کے معاملے میں کسی بھی طرح کے سماجی، سیاسی اور معاشی فائدے کی بات کرنے والے میرے نزدیک بونے ہیں اور بونوں کی عقل گھٹنوں سے کچھ ہی اوپر ہوتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ سچن تیندولکر کی سینچری سے سماج کا کتنا بھلا ہونے والا ہے؟عاطف اسلم کی آواز کون سی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرتی ہے اور نکولس کیج کی اداکاری کتنے غریبوں کے منہ میں نوالے ٹھونس دیتی ہے۔ مگر اس کے باوجود جب اسپورٹ، گلوکاری اور اداکاری کو سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے تو کلاسیکل شاعری پر فالتو ہونے کا الزام کیوں ہے؟اپنے فنی سرمایے پر بات کرنے سے گھبرانے والے اور اس کی مثالیں دیتے وقت بغلیں جھانکنے والے اردو والوں کے سامنے سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ وہ فن کو سمجھتے بھی ہیں یا نہیں۔ بیداری ایک لت ہے جو انسان کو لگ جائے تو سوالوں کے سانپ اسے ڈس ڈس کر پورے بدن میں احتجاج کا زہر بھر دیتے ہیں۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ ہمارے دور میں لوگ سوال کیوں نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ دور تقلید کا دور ہے۔ اس نسل کے پاس اپنا کچھ نہیں۔ فکر ہو، حکمت ہو یا فلسفہ۔ ہمیں دوسروں کی طرف اس لیے دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ ہم نے اپنے ادیبوں کو جی بھر کر کوسا ہے اور اب ان کے افکار پر لعنت بھیج کر ہماری کم مائیگی کا احساس اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہماری حالت نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن کی سی ہو گئی ہے۔ ٹھیک ہے مان لیتا ہوں کہ پرانی شاعری بڑافلسفہ دینے میں زیادہ تر کامیاب نہیں ہو گی مگر اس دور کا فن ہمارے لیے باعثِ شرم کیوں ہے؟ باعثِ فخر کیوں نہیں۔ ہم ان پرانے بوڑھوں سے اتنا گھبرائے ہوئے کیوں ہیں جن کے اشعار اکثر بادشاہوں کی محفلوں پر سناٹا طاری کر دیتے تھے اور جن کے قصیدوں کے بدلے ہاتھی کے برابر سونا تولا جاتا تھا۔ اب تو دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں یا تو اس دور کے بادشاہ اتنے اجڈ ، جاہل اور گنوار تھے کہ انہیں اپنی تعریف سنتے ہی شاعر کا منہ موتیوں سے بھر دینے کا شوق تھا یا پھر ہمارا معاشرہ ایسے شاعروں سے بھرا پڑا تھا جن کے یہاں فن کا تصور قصیدے اور غزل کے نام پر محبوب یا بادشاہ کی کھوکھلی تعریفیں کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر سچ کہیے یہ بات کہتے ہوئے کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ نے کلاسیکل شاعری کا مطالعہ ڈھنگ سے کیا ہے۔ کیونکہ زبان ہو، بیان ہو، فکر ہو، جمالیات ہو، خیر ہو یا شر ہو۔ ہمارے محققین تو انہیں کھوکھلی سیپیوں سے صدف ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے رہے ہیں اور رفتہ رفتہ جواہرات کا ایک ایسا انبار لگ گیا ہے کہ اگر اردو شاعری میں اٹھارہویں صدی کے بعد کا سارا حصہ راکھ کر دیا جائے تب بھی یہ لوگ اردو کو تا قیامت زندہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خیر کیفیت کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں
بے بو ہوا ہے بس کہ وو زلفوں کی شرم سیں
ہوے کیوں نہ رنگ اصلئ مشکِ ختن سفید
زُلف کالی ہوتی ہے اس رعایت سے اصل مشکِ ختن کے سفید ہونے کی دلیل دی ہے اور رنگ سفید ہونا محاورہ بھی ہے، یعنی زلفوں کی خوشبو سے مشک بھی حیران ہوا جاتا ہے۔ اس حیرانی میں انتشار کا وہ خوبصورت لطف بھی ہے جو حس شامہ کی بدولت شعر میں ایک الگ طرح کی بوباس پیدا کر رہا ہے۔
ہائے رہ گئی دل میں دامنگیریوں کی آرزو
سبزۂ تربت مرا ہے پنجۂ گیرا ہنوز
’پنجہ گیرا‘ ایک قسم کی گھانس جو مٹھی کی شکل کی ہوتی ہے اور پانی میں ڈالنے سے کھلتی ہے۔ اس طرح کے بہت سے مزے مزے کے اشعار مجموعۂ احوال میں جا بجا پڑھنے کو ملتے ہیں۔
غزل میں بیانیہ کے تعلق سے سراج کا فن ایک مخصوص اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے یہاں شعروں میں نت نئے تماشے ہیں۔ وہ اشعار جو لائبریریوں کی الماریوں میں دھول چاٹتے رہتے ہیں، ادب کے طالبِ علم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ کبھی ان سے آشنائے راز ہونے کی کوشش کی جائے۔ یہ اشعار کچھ خاص قسم کے حسین حرکی ، سماعی اور بصری پیکر بناتے ہیں اور ان پیکروں میں الفاظ کے حک و اضافے سے جان پیدا کر دیتے ہیں۔ سراج کے یہاں کبھی کبھی تو شعر پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شعر نہیں پڑھا بلکہ کسی فلم کا کوئی دلفریب سین دیکھ لیا ہے اور یہی سین اس پوری غزل کا حاصل حصول ہوتا ہے۔ دیدۂ بینا چاہیے ورنہ کلاسیکل شاعری کے اس سرمائے میں کیسی کیسی ہنگامہ آرائیاں موجود ہیں ان سے خود ہمیں واقفیت نہیں ہے۔ اردو تنقید سراج کی گنہگار اس لیے بھی ہے کیونکہ اس نے کبھی سراج کے اس خوبصورت پہلو پر بھی غور نہیں کیا۔ اس طرح جب میں غور کرتا ہوں تو یقین جانیے مجھے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس معاملے میں دیکھنے والوں سے زیادہ دکھانے والوں کا قصور ہے۔ ہمارے یہاں تنقید کے طالبِ علم کی بھی ایسی تربیت نہیں ہوئی کہ وہ قدیم شاعروں کی کلیات میں گم ایسے اشعار کو سامنے لاتا اور اس پر سیر حاصل گفتگو کرتا۔ یہ کام نظم کے تربیت یافتہ قارئین کرسکتے تھے مگر ان کو نظم سے ہی فرصت نہیں تھی جیسا کہ میں نے کہا کہ اردو کی نئی پود کی عقل تو بس فیض احمد فیض اور ان کے ہم عصروں کی دہلیز پر سر مارتی رہتی ہے۔ یہاں صرف نمونے کے طور پر سراج کے یہاں سے ایک مثال درج کرتا ہوں۔
قاتل نے ادا کا کیا جب وار اچھل کر
میں نے سپرِ دل کوں کیا اوٹ سنبھل کر
سراج کے یہاں موجود تصوف کے افکار پر بات کرنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ یہ سراج کا ایک خاص وصف ہے مگر یہی ان کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے کیونکہ میرا یہ ماننا ہے کہ تصوف ایک علم ہے اور شاعری اگر کسی مخصوص علم کا آئینہ بن جائے تو ایک حد تک تو لطف دیتی ہے مگر اس کے بعد خیالات کے دوہرانے سے بات بگڑ جاتی ہے اور سراج کے یہاں بھی ایسا معاملہ پیش آیا ہے۔ ایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہ۔ ان کے یہاں بھی دوسرے شاعروں کی طرح اچھے برے شعر دونوں موجود ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ برے شعر زیادہ ہیں اور اچھے شعر کم۔ لیکن برے شعروں کی بھی دوقسمیں ہیں۔ ایک تو برے ہیں اور دوسرے بہت برے۔ ہوسکتا ہے میرے بعد جب کوئی شخص سراج پر تنقید کرنے بیٹھے تو اسے یہ اشعار کسی خاص وجہ سے اچھے معلوم ہوں مگر میرے تنقیدی پیمانے کے حساب سے ان کو میں نہ اچھا سمجھ سکتا ہوں اور نہ ہی سمجھا سکتا ہوں۔ دو ایک مثالیں دے کر سراج کے یہاں موجود تصوف پر باتیں کرتا ہوں۔
آتش میں جدائی کی جلاتا ہے شب و روز
کب لگ میں لکھوں صفحۂ دل پر گلۂ غم
بولتا ہوں جو وہ بلاتا ہے
تن کے پنجرے میں اس کا طوطا ہوں
کسی کی یاد میں جلنے کا مضمون ایسا پست ہے کہ کیا بتایا جائے دوسری بات یہ کہ اس شعر میں ایسا مبالغہ ہے جو کسی طرح کا حسن بیان پیدا نہیں کرتا۔ نہ کوئی ایسی ترکیب استعمال ہوئی ہے جس سے شعر کی اہمیت بڑھ جاتی اور نہ ہی کوئی ایسا لفظ جس کے باندھنے کے لیے مجبور ہو کر سراج کو یہ شعر کہنا پڑا ہو۔ دوسرا شعر بھی خدا کی حاکمیت کو ثابت کرنے کے لیے ایک نامکمل سی کوشش ہے، انسان کی مختاری کو توتے کی قید سے تشبیہ دینا نامناسب ہے۔ اس میں کوئی ایسی سجاوٹ یا بناوٹ بھی نہیں کہ شعر کو اچھا سمجھا جائے۔ ایسے نہ جانے کتنے شعر سراج کے یہاں موجود ہیں۔ مگر ان کی موجودگی سے ان کے اچھے اشعار کو برطرف نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے یہاں موجود تصوف کی جھلکیاں بھی دیکھتے چلیے۔ یاد رکھیے سراج کے تصوف میں ہند ایرانی صوفیانہ تعلیمات کا اثر خاص طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔
ترکِ مقصد عین مقصد ہے اسے
جس کوں دل کا مدعا درکار ہے
ہر اک ناقوس سے آتی ہے آواز
کہ ہے پرکٹ وو ہر ہر ہر کے گھٹ میں
تجلیاتِ الہٰی کا اس میں پرتو ہے
ہوا ہے جب سیں دل آئینہ دارِ گلشنِ حسن
آئینہ سکندریِ دل اگر ملے
ہرگز تلاشِ چینیِ مغفور مت کرو
ان چار اشعار میں تصوف کی تعلیمات کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سراج دل کے مدعا کو حاصل کرنے کے لیے دوسرے اہم صوفیا کی طرح مقصد کی اہمیت سمجھنے پر زور دیتے ہیں اور یکسوئی کے عمل کا یہ طریقہ بتاتے ہیں کہ عرفانِ حقیقی کا واحد راستہ ، ماسوا کو بھول جانے کی منزل سے شروع ہوتا ہے۔ دوسرے شعر سے غالب یاد آتے ہیں کہ انہوں نے بھی یہ بات کہی تھی کہ محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا؍ یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا۔ سراج کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے اس مضمون کو خالص ہندی لبادہ اڑھا کر پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اصلاحِ عمل کے لیے جو صدا بھی لگائی جائے اور جس میں اچھائی کی طرف بلانے کا اشارہ ہو وہ آواز لوگوں کے دلوں کی آواز ہے، دل(گھٹ)خدا کا گھر ہے اور اس طرح یہ صدا کسی اور کی نہیں بلکہ خدا کی ہے۔ تیسرا شعر’ اللہ جمیل ویحب الجمال‘ کی سیدھی سادی تشریح ہے، بس دیکھنے والی نگاہ چاہیے کیونکہ جب دیکھنے کا ہنر آتا ہے تو ہر شے کی حقیقت میں ایک ہی شے نظر آتی ہے بقول میر خورشید میں بھی اس کا ہی ذرہ ظہور تھا اور بقول درد تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا۔ چوتھا شعر تصوف کی اس خاص تعلیم پر مبنی ہے جس میں اپنے دل کو چمکانے پر زور دیا جاتا ہے۔ یعنی باطن کی صفائی،اور یہی تزکیۂ باطن انسان کو عرفان کے اہم مدارج تک لے جانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اسی طرح تصوف کی بہت سی تعلیمات سے سراج اورنگ آبادی کی غزل ’جمال آباد‘ بنی ہوئی ہے۔
روایت کے تعلق سے اردو والوں کا ذہن اتنا صاف نہیں ہے۔ وہ بس کسی بھی طرح پرانی شاعری کو روایت کا لبادہ اڑھا دیتے ہیں۔ اس معاملے پر حسن عسکری نے بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں مغرب اور روایت کے مفہوم کی کشمکش کو بیان کرنے کے بعد مشرق کے یہاں روایت کے جس تصور کی بات کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرق میں روایت دراصل دین سے ملحق ہے اور اسی وجہ سے سماج کی رگوں میں خون بن کر بہنے والی روایت نے ادب اور آرٹ کے دوسرے شعبوں کو بھی رنگین کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’مشرق کی حد تک تو مسئلہ بالکل واضح ہے۔ مسلمان ہوں یا ہندو یا بدھ سب کا اتفاق دو چیزوں پر تو ہے ہی۔ پہلی بات یہ ہے کہ معاشرتی روایت، ادبی روایت، دینی روایت یہ الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک بڑی اور واحد روایت ہے جو سب کی بنیاد ہے اور باقی چھوٹی روایتیں اسی کا حصہ ہیں اور اسی سے نکلی ہیں۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق اس بنیادی روایت کا نام ’’دین ‘‘ہے۔ ثانوی روایتوں میں شامل ہونے کے لیے اس بنیادی روایت میں شامل ہونا لازمی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ بنیادی روایت نکلتی ہے کسی آسمانی یا مقدس کتاب سے‘ پھر اس کی وضاحت کرتے ہیں اس روایت کے مستند نمائندے اور صرف انہیں نمائندوں کا قول استناد کے قابل ہوتا ہے۔ پھر ایک تیسری بات ہے جو ہر زبان میں خود لفظ ’’روایت‘‘ کے مفہوم کا لازمی جز ہے یعنی روایت وہ چیز ہے جو ایک آدمی سے دوسرے آدمی تک پہنچائی جائے۔ ‘‘
(اردو ادب کی روایت کیا ہے، محمد حسن عسکری، مشمولہ مجموعۂ محمد حسن عسکری ، مطبوعہ سنگ میل پبلیکشنز لاہور، صفحہ نمبر645)
میرے نزدیک روایت انسان کے سماجی تجربوں کا رد عمل اور اس کی تقلید محض ہے۔ اسے مانیے تو عقیدہ اور نہ مانیے تو وہم ہے۔ دین پر اس کا اطلاق یوں بھی ہوتا ہے کیونکہ دین کو ما بعدالطبعیات کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ عقل ہر معاملے میں کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ انسان کی روحانی تسلی کے لیے اوہام کی دنیا بسانا اس کی ازلی مجبوری ہے۔ اردو ادب کی روایت بھی ہندوستان اور ایران کے متھ میں گتھی ہوئی ہے۔ یہاں کی دیومالائی روایتیں رفتہ رفتہ دین اور سماج کے رشتوں کو مضبوط کرنے میں کامیاب ثابت ہوئی ہیں۔ تصوف اس رشتے میں قائم اس مضبوط گانٹھ کی طرح ہے جس نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھا ہے۔ دین میں قائم خدا کا مذکر تصور اور سماج میں مرد کے رتبے کی اہمیت بیک وقت قوت، اقتدار ، حفاظت اور جمال کی ایک ملی جلی روایت کو قائم کرتے ہیں جس سے ایک طرف تو دین کا علمبردار علمِ تصوف کنارہ کش نہیں ہوسکتا اور دوسری جانب سماج بھی اس کی عظمت کو آسانی سے نہیں ٹال سکتا۔ سماج پر مرد کے تسلط اور شمولیت کی بنا پر جو روایتیں ایران سے ہندوستان کے شمالی اور جنوبی حصوں میں جڑ پکڑ چکی تھیں اس میں بھی مرد کا تصور عورت پر حاوی تھا۔ دکن بھی اس سے بچا ہوا نہیں تھا۔ یہاں حسن کا تصور یوسف سے، طمانیت کا تصور خدائی کلام سے اور صبر کی انتہا کا تصور حضرت امام حسینؓ سے قائم تھا۔ سراج کے یہاں بھی اسی روایت کا استحکام پایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری ان توہمات یا عقیدوں کی بنیاد پر خود کو رنگین کرنے کا کام کرتی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:
ہیں چاہ میں دو میٹھے لبوں کی مدام ہم
رکھتے نہیں ہیں یوسفِ مصری سے کام ہم
شربت وصل پلا جا، لبِ شیریں کی قسم
جان جاتا ہے مرا سورۂ یٰسیں کی قسم
جاں بلب ہوں تشنگی سیں وصل کا پانی پلا
ہے تجھے حسنین کے تیجے کے شربت کی قسم
دلِ دیوانہ میرا آگیا ہے
ترے زلفوں کے سایے کی جھپٹ میں
گوپی چند نارنگ نے امرد پرستی کا رجحان ہندوستانی شاعری کے زیرِ اثر رفتہ رفتہ معدوم ہو جانے پر اصرار کیا ہے۔ ان کی عبارت بھی دیکھتے چلیے:
’’ہندوستانی آنے کے بعد تصوف میں مظہر پرستی کی روش تو کچھ کچھ باقی رہی لیکن جمالیاتی شعور سے امرد پرستی بڑی حد تک خارج ہو گئی کیونکہ ہندوستانی ذہن جنس کے تصور کو مذموم یا ممنوع قرار نہیں دیتا۔ چنانچہ اردو غزل میں عشق کے جو تصورات کارفرما رہے ہیں ان کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ تصورات خواہ عشق حقیقی کے ہوں خواہ عشق مجازی کے ان کا تعلق امرد پرستی سے بہت کم اور مجازی عشق کی فطری انسانی روش سے زیادہ ہے۔ ‘‘
(اردو غزل اورہندوستانی ذہن و تہذیب، گوپی چند نارنگ، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان صفحہ نمبر 115)
پہلی بات تو یہ کہ امرد پرستی خارج ہو گئی کہنے کا کیا مطلب۔ گوپی چند نارنگ تو اسی جملے سے قاری کے دل پر اس بات کا بالراست یہ اثر بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ حرکت گویا بہت مخربِ اخلاق ہے اور اردو کے کلاسیکل شاعر کے یہاں اول تو امرد پرستی ہے نہیں اور اگر ہے تو بس ایرانی شاعری کے زیرِ اثر ہے یعنی جو گناہ اس بے چارے سے سرزد ہو گیا وہ اتنا بڑا نہیں کہ اس پر دھیان دیا جائے۔ اس بات کی شدید مخالفت کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف کلاسیکل شاعر کے یہاں موجود معشوق کا تصور گمراہ کن طریقے سے امرد سے عورت کے جامے میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور دوسری جانب اس گہرے ہند ایرانی تمدن کو نظر انداز کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے جس کی طرزِ تعمیر، موسیقی ، مصوری اور بیشتر ادبی روایتوں کو تو ہم سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں مگر امرد پرستی کو ایک بدنما داغ سمجھ کر چھپائے پھرتے ہیں۔ ایران نے ہندوستان کو صرف شعری مضامین ہی نہیں دیے بلکہ وہاں کی تہذیب یہاں کی عوامی زندگی سے کچھ ایسے گتھم گتھا ہوئی کہ ایک خاص عہد میں دونوں میں کسی قسم کا افتراق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عہدِ عالمگیری کے بعد اس اختلاط کو پھلنے پھولنے کا موقع صرف شمال میں ہی نہیں ملا بلکہ جنوب میں بھی اس نہال کی زبردست نشوونما ہوئی۔ امرد پرستی کا دور اردو کے ابتدا سے داغ کے عہد تک یعنی کم از کم تین صدیوں پر محیط ہے اور اتنے بڑے عرصے میں اس رجحان کے زیر اثر ہونے والی تمام شاعری کے لیے یہ کہہ دینا کہ ہندوستان آتے ہی تصوف سے امرد پرستی کا رجحان بڑی حد تک خارج ہو گیا ادبی، ثقافتی اور تاریخی غلطی بھی ہے اور بددیانتی بھی۔
ایسے ناقدین سے سراج اورنگ آبادی (جو کہ تصوف اور ادب دونوں ہی معاملات میں دکن کا نمائندہ شخص ہے)کا معشوق یہ سوال کرسکتا ہے کہ اس کی شناخت کو کیونکر گم کیا جا رہا ہے؟سراج کے یہاں موجود امرد کا تصور ان کے شعروں سے بہت زیادہ واضح ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس عہد میں اپنی بات کہنے کے لیے سماج سے کسی طرح کا کوئی کریکٹر سرٹیفیکٹ جاری نہیں کرانا پڑتا تھا۔ تہذیب کے نام پر خود کو چھپانے کا جو رویہ ہم نے اپنایا ہوا ہے وہ دراصل ہماری دوہری زندگی کا ایک ایسا ہالہ بن گیا ہے جس سے چاہ کر بھی ہم کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔ مگرسراج نکلے تھے، ان کے یہاں موجود امرد پرستی کا رجحان وصل کے لیے تڑپتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس رجحان کا ذہنی اور جسمانی نقصان خواہ کتنا ہی ہو مگر شعر میں یہ تڑپ ہمیشہ فائدہ ہی پہنچاتی ہے۔ اردو شاعری نے اس تڑپ سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ سراج کہتے ہیں
مثال ماہئ بے آب تلملاتا ہوں
زلالِ لطف و کرم ایکدم پلا جاناں
یہاں ایک دم کو اس بھولے بھالے قاری کی طرح صرف کسی لحظے، لمحے یا چھن سے عبارت مت کیجیے بلکہ اسے اس تیزی سے تعبیر کیجیے جو جنسیت کی خاص اصطلاح میں وائلڈ سیکس کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وائلڈ سیکس کا رجحان ایک دم سے کسی کو اپنے اندر اتار لینے یا اس کے اندر سماجانے کی ایک ایسی کیفیت کو پروان چڑھاتا ہے جس میں وصل کی مدت بہت کم اور تیزی بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس تیزی میں جو شدت اور کلفت ہے اس کو امرد پرستی میں تو خاص ایک اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہاں تو ویسے ہی وصل کا مکمل تصور ممکن نہیں ہے اور ناقص جنسیت کے نتیجے میں وائلڈ سیکس کا رویہ اور حاوی ہو جاتا ہے اب اس معاملے سے دنیا کو سمجھتے رہیے مگر کیا آپ اس بات کا ہلکا سا بھی اعتراف کیے بغیر یونہی روا روی میں اس شعر سے گزر جائیں گے کہ ہم دنیا کو جس تیزی کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ترقی، قوت، اقتدار اور دولت کو جتنی تیزی سے اپنی جانب گھسیٹتے ہیں کیا اس کا تعلق ہمارے اندر دنیا کے ساتھ قائم اسی جنگلی جنسیت کے رویے کا غالب نظریہ نہیں ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ ہمارے پیش رو ناقدین نے تو ہمیں اس طرح کے اشعار سے بس سرسری گزر جانے کا مشورہ دیا ہے اور ہم نے بھی ذہن میں اتنی استطاعت کب پائی تھی کہ اس پر یہ بوجھ لادنے کی ہمت کر پاتے۔
خیر میں ذکر کر رہا تھا سراج کے یہاں موجود وائلڈ سیکس کے اس نظریے کی جس کو امرد پرستی میں اہمیت حاصل ہے۔ اب ذکر کرتے ہیں سراج کے امرد کا۔ سراج نے اپنی شاعری میں جس امرد کا نقشہ کھینچا ہے اور جس جس طرح سے کھینچا ہے تو مجھے اس کا آدھا دیوان نقل کرنا پڑے گا اور اس کی نہ میں ضرورت سمجھتا ہوں اور نہ ایسے اشعار پیش کر کے اپنے مضمون کے صفحات بڑھانا چاہتا ہوں۔ بس کچھ ضروری شعر پیش کرتا ہوں جس سے آپ کو سراج کے معشوق کا کچھ کچھ سراپایا حلیہ نظر آسکے۔
جبیں اور زلف:
اے آفتابِ زہرہ جبیں عاشقوں کا دل
تجھ زلف نے کیا ہے پریشاں ہزار بار
چہرہ، بھویں اور زلف:
رخ ہے مصحف، بھویں ہیں بسم اللہ
زلف تیری ہے سورۂ اخلاص
آنکھ:
درکار نئیں ہے شیشۂ مے بزم شوق میں
پائے ہیں اس کی چشم کی گردش سیں جام ہم
لب:
کہا ہر جوہری نے لب ترے دیکھ
کہ یہ جوہر ہے اور یاقوت ہے عرض
دہن:
دہن ترا ہے مگر خاتم سلیمانی
ہوئے ہیں دیو و پری جن سب ترے محکوم
پاؤں:
ترے ہے پائے نزاکت میں فرش گل جیوں خار
چمن کی سیر سوں زنہار توں نہ جا، جاناں
چاہوں تو اور بہت سے شعر لکھ سکتا ہوں مگر اتنے کافی ہیں، ان شعروں کے علاوہ بھی جو شعر ہیں ان سے اس لڑکے کا جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ وہ سر پر بڑی خوبصورت پگڑی پہنتا ہے، اچھا لباس زیب تن کرتا ہے، اس کی بھنویں گھنی ہیں، چہرہ صاف یعنی گورا ہے، خط سبز ہے، ہونٹ لال ہیں، آنکھیں سرخ ہیں، ناک ستواں ہے، دہن چھوٹا ہے، گردن صراحی دار ہے، سینہ آئینے کی طرح صاف ہے،کمر بہت پتلی ہے، ساق بہت گوری ہے جس میں شاعر اپنا منہ دیکھ لے اور پاؤں بہت نازک ہیں جو ذرا سا چلنے سے چھل سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو لڑکے کا یہ تصور عربی اور ایرانی تصور غلمان کا ملغوبہ ہے۔ سراج کے یہاں ہندی لڑکے سے بھی پینگیں لڑائی گئی ہیں اور ان کی شاعری میں جس موہن کو پیار کی نظر سے دیکھا گیا ہے اس کی ہندی شناخت یعنی سانولے پن کو بھی ملحوظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر اس لڑکے کی جھلک زیادہ نہیں ہے بلکہ غور کرنے پر معلوم یہ ہوتا ہے کہ جس امرد کو سراج کے تخیل نے تراشا ہے اس کی خارجی صورت چاہے عرب و ایران سے تعلق رکھتی ہو مگر وہ ہندوستانی ریت رواجوں، مذہبی اور غیر مذہبی حکایتوں اور ہندی طرزِ زندگی میں ایسا گھل مل گیا ہے کہ سراج خود اسے دیکھ کر حیرت میں پڑ گئے ہیں۔ یہ ہے سراج کے تخیل کی وہ پری جس نے اپنا خانہ ہندوستان میں آباد کر لیا ہے اور سراج اس آئینہ رو کے سامنے حیرانی سے کھڑے اسے دیکھ رہے اور عش عش کر رہے ہیں۔ اب اس امرد کے سامنے سراج کی تڑپ کروٹیں مارتی ہے تو کیا کیا آواز بلند ہوتی ہے، کیا کیا شعر نکلتے ہیں اور آخر میں سراج اس امرد کے سہارے خود کو تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں جہاں سے اس امرد کا مصرف ختم ہوتا ہے اور ذات میں ذات کو ڈھونڈنے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ تڑپ، جنس کی اعلیٰ ترین منزل ہے۔ وصال سے اشتہا کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھ جاتی ہے اور غیر ممکن وصال کی صورت عشق کا روپ لے لیتی ہے۔ عشق جو کسی خاص شخص سے جنسی تعلق قائم کرنے اور تسکین حاصل کرنے کے لیے اکساتا ہے اور ایسا نہ ہو پانے پر رد عمل کے طور پر عاشق کے ذہن و دل میں آگ لگا دیتا ہے اگر اس میں وصال کی ٹریجڈی یہ ہو کہ ملنے والا مل کر بھی اختلاط کے عمل سے محروم رہے تو اس دشواری سے کیسی حزنیہ کیفیت طاری ہوتی ہے اس کا اندازہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے یہ شاعر ہی لگا سکتے ہیں۔ اس موقع پر تاباںؔ کا ایک شعر یاد آتا ہے
اکثر جو اس زمین کو ہوتا ہے زلزلہ
شاید گڑا ہے جسم کسی بے قرار کا
لیکن معاملہ وہی ہے کہ یہ احساس خالص ہو، سچا ہو بصورتِ دیگر سارا کھیل ہی بگڑ جائے گا اور ہم صرف ایک خاص دور کے شاعروں کو دیکھ کر یہی بتا سکیں گے کہ اس دور کے کتنے شاعر لونڈے باز تھے لیکن یہ کہنا ممکن نہیں ہو گا کہ دیکھو اس سماج میں رہنے والے کتنے لونڈے باز واقعی شاعر تھے۔ سراج نے اس کیفیت کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اس سے اپنے شعری مجسمے کو بہت حد تک تراشنے میں مدد بھی لی ہے۔ سراج کی سب سے بڑی کمزوری ان کی شاعری کا مختصر پیریڈ ہے۔ مجھے ان کی شاعری پڑھ کر یہ احساس بڑی شدت سے ستاتا ہے کہ جس شخص نے اپنے ابتدائی دور میں اس طرح کی شاعری کی ہو اگر اس کو پچیس چھبیس سال کی عمر میں پیر کے کہنے سے شعر و شاعری پر روک نہ لگانی پڑتی تو نہ جانے کتنے اسرافیل حضورِ حق میں اس بندے کی وقت سے پہلے قیامت برپا کر دینے کی شکایت کرتے نظر آتے۔ ایسا نہیں کہ اس مختصر عرصے میں سراج کی شاعری اس زمانے کی معاشرت پر نگاہ نہ دوڑاتی ہو، مانیے نہ مانیے شاعری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ شعرا غیر شعوری طور پر اپنے سماج کو اشاروں میں بیان کر دیتے ہیں۔ جان بوجھ کر ایسا کرنے والے ترقی پسند ہوتے ہیں اور غیر شعوری طور پر ایسا کرنے والے شاعر۔ خیر، سراج نے بھی اپنی غزل میں خود کو معشوق کے مرتبے پر بھی فائز کیا ہے اور جنسیت کی طرف مائل کرتی اس دور کی رس بھری نگاہیں انہیں بہکانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جس کا اعتراف وہ کچھ یوں کرتے ہیں۔
معلوم ہوئے وہ چشم سخن گو سے مجھ کوں رمز
ہرگز چھپی رہی نہیں حراف کی نظر
اس حراف کو اپنے دور میں رائج صرف ایک گالی سمجھ کر نظر انداز مت کر دیجیے بلکہ اس میں دشنام طرازی کا وہ لطیف پہلو ہے جس کے پسِ پشت خود معشوق کی ہوس اور عشق ، دونوں کا راز موجود ہے۔ یہاں دشنام گالی نہیں بلکہ اعزاز ہے بقولِ سراج
عاشقوں کوں ہے لذتِ دشنام
ہر کمینے کو یہ خطاب نہ دے
سراج کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک جانب تو وہ اپنے محبوب کو فارسی تصوف کے غالب رجحان کے سبب امرد کی صورت میں ہی قائم رکھنا چاہتے ہیں
مگر یہاں ان کی ہندویت بالکل معدوم نہیں ہوتی بلکہ ذہن کی چھوٹی چھوٹی درازوں سے اکثر جھانکتی ہے۔ یہاں وہ خود رادھا بن کر اپنے کرشن کی خوبصورتی کے گن گانے لگتے ہیں اور اس کے ثبوت میں گاہ گاہ کسی گوپی کا ذکر بھی کر دیتے ہیں۔ یہاں خارج میں فارسی زدہ لہجہ، اسطور میں عربی حکایت اور اس حکایت کے اندرون میں مسکراتی خالص ہندوی روایت ، تین زبانوں کے دریاؤں کا ایک سنگم قائم کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہو
زلیخا قبر میں سیں سن کر آئی
کہ نور دیدۂ یعقوب ہو تم
سراج کی غزل کا مطالعہ کرنے پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ جہاں پہنچ سکتے تھے وہاں نہیں پہنچے، مگر جہاں وہ پہنچے وہاں تک بہت سوں کی پہنچ ممکن نہیں ہوئی۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ سراج نے شاعری جلدی چھوڑ دی اور اس کا خمیازہ یہ ہوا کہ جو شاعری انہوں نے اردو ادب کو عطا کی اس کا بیشتر حصہ اس فن کو پیش کرتا ہے جسے ترقی کے اس زرق برق عہد میں فن سے تعبیر ہی نہیں کیا جاتا۔ لیکن مکمل طور پر انہیں پڑھنے اور سمجھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شاعر زندگی کا شاعر ہے۔ اس کے یہاں صرف تصوف کی فکری سنجیدگی نہیں بلکہ جوانی کی ہٹ دھرمیاں اور رنگ رلیاں بھی ہیں۔ معاش کی فکر میں لشکر میں شامل ہو جانے کے سبب عسکری علائم بھی اس کی شاعری کا زیور بنے ہیں اور مشاہدے کی عادت نے اسے باغات، جنگلات اور دریاؤں کی بھی سیر کروائی ہے۔ تبھی تو یاقوت، لعل، عقیق، ابرک اور زمرد جیسے پتھروں، ریحان، گلاب، کنول، سمن، لالہ، سنبل، شب رنگ، سولی، عباس، سودا، یاسمن اور ثمن جیسے پھولوں، تیغ، نیمچہ، بھالا، سپر، نیزہ، تیر، کمان، خنجر، برچھی، تیشہ، زرہ اور کٹاری جیسے فوجی سازوسامان اور بلبل، توتا، مینا، ہدہد، قمری، کبوتر، فاختہ، شہباز، شاہین، چکور اور کبک جیسے پرندوں سے ان کا کلام بھرا پڑا ہے۔ ایسی شاعری کے لیے سیاحت بھی ضروری ہے اور ان کو غمِ دل کے رشتے میں پرونے کے لیے سلیقہ بھی۔ شاعری محض کوئی فلسفے کی چوٹی نہیں جس پر پہنچنے کے لیے ذہن میں اتھل پتھل مچانی ضروری ہو بلکہ اس کے لیے اصلی زندگی کے تجربے بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، سراج کا عشق انہی تجربوں کی آگ میں جل کر سونا ہوا تھا۔ سراج کو پہلے ایک ہندو لڑکے سے
انسیت ہوئی بعد میں اپنے ایک دوست عبدالرسول سے محبت۔ اس طرح ان کے یہاں عشق نے ایک سے زائد مرتبہ دستک دی ہے۔ مگر یہ بات کہنا سراسر غلط ہو گی کہ ایک مخصوص عہد کے علاوہ وہ زندگی میں کبھی ایسے جنون کا شکار ہوئے ہوں کہ اس کیفیت میں سب کچھ بھلا بیٹھے ہوں۔ وہ اپنی شاعری میں سماجی، سیاسی اور عدالتی معاملات کا جس طرح ذکر کرتے ہیں اور بہت سے غیر شاعرانہ عوامل سے فائدہ اٹھا کر ان سے ایک نیا عشقیہ مضمون پیدا کر لیتے ہیں یہ ہنر بھی ان کے یہاں کمال کا درجہ اختیار کر گیا ہے پھر بھی سراج کو اپنے زمانے میں بھی ایسی کوئی خاص مقبولیت نہیں ملی تھی ، ان کو خود اس بات کا احساس تھا کہ آج نہیں تو کل ان پر بات ضرور ہو گی اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ اس طرح کیا ہے کہ
شاید کہ بعد مرگ کریں یاد خاص و عام
مشہور نئیں سراج کا شیریں سخن ہنوز
٭٭٭
ماخذ:
http://rekhtaurdupoetry.blogspot.in/2013/09/blog-post_19.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید