فہرست مضامین
روپ
فراق گورکھپوری
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
نکھری نکھری نئی جوانی دمِ صبح
آنکھیں ہیں سکون کی کہانی دمِ صبح
آنگن میں سہاگن اٹھائے ہوئے ہاتھ
تلسی پہ چڑھا رہی ہے پانی دمِ صبح
چڑھتی جمنا کا تیز ریلا ہے کہ زلف
بل کھاتا ہوا سیاہ کوندا ہے کہ زلف
گوکل کی اندھیری رات دیتی ہوئی لو
گھنشیام کی بانسری کا لہرا ہے کہ زلف
تاروں کہ سہانی چھاؤں ، گنگا اشنان
موجوں کی جلو میں رنگ و بو کا طوفان
انگڑائیاں لے رہی ہو جیسے اوشا
یہ شانِ جمال، یہ جوانی کی اٹھان
انسان کے پیکر میں اتر آیا ہے ماہ
قد، یا چڑھتی ندی ہے امرت کی اتھاہ
لہراتے ہوئے بدن پہ پڑ جاتی ہے جب آنکھ
رس کے ساگر میں ڈوب جاتی ہے نگاہ
گنگا وہ بدن کہ جس میں سورج بھی نہائے
جمنا بالوں کی تان بنسی کی اڑائے
سنگم، وہ مکر کا آنکھ اوجھل لہرائے
تہِ آب سرسوتی کی دھارا بل کھائے
یہ رنگ یہ بو یہ بھیگا بھیگا ہوا نور
جھرمٹ میں گیسوؤں کے جیسے رخِ حور
لو دیتا ہے رات کے دھندلکے میں بدن
یا رودِ چمن میں جل رہا ہے کافور
ہے بسملِ ناز عشق نظارہ پرست
خلقت کے پہلے جیسے ہو صبح الست
یہ کہنی تک آستین چڑھانا تیرا
یہ سارے بدن کی بے حجابی سر دست
لرزش میں بدن کی باغِ جنت کی لہک
وجدان سیاہ کار گیسو کی لٹک
ہر عضو کے لوچ کا کچھ ایسا انداز
ست رنگ دھنُش میں جیسے آ جائے لچک
اٹھ اٹھ کے جھکی نگاہِ جاناں کیسی
ہوتی تھی ابھر ابھر کے پنہاں کیسی
فوارۂ خوں کا حال سینے میں نہ پوچھ
دل پر چلتی رہی ہیں چھُریاں کیسی
سوئ ہوئ تقدیر کو بیدار کریں
کھوئ ہوئ دنیا کو خبر دار کریں
جس آنکھ کی مستی ہے جہاں پر چھائ
ممکن ہو تو اس آنکھ کو ہشیار کریں
دل تھا کہ کوئ شمعِ شبستانِ حیات
اندھیرا ہوا بجھتے ہی، کہنے کی ہے بات
دل ہی تھا کہ جس کا ساتھ دینے کے لئے
بیٹھے ہوئے رویا کیے ہم رات کی رات
ہر جلوے سے اک درسِ نمو لیتا ہوں
چھلکے ہوئے صد جام و سبو لیتا ہوں
اے جانِ بہار، تجھ پر پڑتی ہے جب آنکھ
سنگیت کی سرحدوں کو چھو لیتا ہوں
ہونٹوں میں وہ رو کہ جس پہ بھنورا منڈلائے
سانسوں کی وہ سیج، جس پہ خوشبو سو جائے
چہرے کی دمک پہ جیسے شبنم کی ادا
مد آنکھوں کا کام دیو کو جو جھپکائے
گیسو بکھرے ہوئے گھٹائیں بے خود
آنچل لٹکا ہوا، ہوائیں بے خود
پر کیف شباب سے ادائیں بے خود
گاتی ہوئی سانس سے ادائیں بے خود
مکھڑا دیکھیں تو ماہ پارے چھپ جائیں
خورشید کی آنکھ کے شرارے چھپ جائیں
رہ جانا وہ مسکرا کے ترا کل رات
جیسے کچھ جھلملاتے تارے چھپ جائیں
پیکر ہے کہ چلتی ہوئی پچکاری ہے
فوارۂ انوارِ سحر جاری ہے
پڑتی ہے فضا میں سات رنگوں کی پھوار
آکاش نہا اٹھتا ہے، بلہاری ہے
رخسار پہ زلفوں کی گھٹا چھائ ہوئ
آنسو کی لکیر آنکھوں میں لہرائ ہوئ
وہ دل امڈا ہوا، وہ پریمی سے بگاڑ
آواز غم و غصے سے بھرّائ ہوئ
دوشیزۂ فضا میں لہرایا ہوا روپ
آئینۂ صبح میں جھلکتا ہوا روپ
یہ نرم نکھار، یہ سجل دھج، یہ سگندھ
رس میں ہے کنوار پنے کے ڈوبا ہوا روپ
تو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے
دکھ درد زمانے کے مٹا دیتی ہے
سنسار کے تپتے ہوئے ویرانے میں
سکھ شانتی کی گویا تو ہری کھیتی ہے
کس پیار سے دے رہی ہے میٹھی لوری
ہلتی ہے سڈول بانہہ گوری گوری
ماتھے پہ سہاگ، آنکھوں میں رس، ہاتھوں میں
بچے کے ہنڈولے کی چمکتی ڈوری
گل ہیں کہ رخِ گرم کے ہیں انگارے
بالک نین سے ٹوٹتے ہیں تارے
رحمت کا فرشتہ بن کے دیتی ہے سزا
ماں ہی کو پکارے اور ماں ہی مارے
جس درجہ سکوں نما ہیں ابرو کے ہلال
خیر و برکت کے دھَن لٹاتی ہوئی چال
جیون ساتھی کے آگے دیوی بن کر
آتی ہے سہاگنی سجائے ہوئے تھال
پریمی کے ساتھ کھانے کا وہ عالم
پھلکے پہ وہ ہاتھ، جسمِ نازک میں وہ خم
لقمے کے اٹھانے میں کلائی کی لچک
دل کش کتنا ہے منھ کا چلنا کم کم
آنسو سے بھرے بھرے وہ نینا رس کے
ساجن کب اے سکھی تھے اپنے بس کے
یہ چاندنی رات، یہ برہ کی پیڑا
جس طرح پلٹ گئی ہو ناگن ڈس کے
جب جلوہ نما چاند لبِ بام ہوا
جب ساغرِ شب چھلکتا ہوا جام ہوا
تو سامنے آیا کہ مری آنکھوں کو
اس پردۂ دیدار میں الہام ہوا
سنبل کے تر و تازہ چمن ہیں زلفیں
بے صبح کی شب ہائے ختن ہیں زلفیں
خود خضر یہاں آ کے بھٹک جاتے ہیں
ظلمات کے مہکے ہوئے بن ہیں زلفیں
گنگا میں چوڑیوں کے بجنے کا یہ رنگ
یہ راگ، یہ جل ترنگ، یہ رو، یہ امنگ
بھیگی ہوئ ساڑی سے کوندے لپکے
ہر پیکرِ نازنیں میں کھنکتی ہوئ چنگ
چہرے پہ ہوائیاں، نگاہوں میں ہراس
ساجن کے برہ میں روپ کتنا ہے اداس
مکھڑے پہ دھواں دھواں لتاؤں کی طرح
بکھرے ہوئے بال ہیں کہ سیتا بن باس
لہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے
دوشیزۂ صبح گنگنائے جیسے
یہ روپ، یہ لوچ، یہ ترنم، یہ نکھار
بچہ سوتے میں مسکرائے جیسے
چھپتے تارے، سحر کی آہٹ کم کم
سینے میں افق کے کپکپاہٹ کم کم
بستر سے ترا وہ منھ اندھیرے اٹھنا
تازہ پیکر میں لہلہاہٹ کم کم
ساغر کفِ دست میں، صراحی بہ بغل
کاندھے پر گیسوؤں کے کالے بادل
یہ مدھ بھری آنکھ، یہ نگاہیں چنچل
ہے پیکرِ نازنین کہ حافظ کی غزل!
خوشبو سے مشام آنکھوں کے بس جاتے ہیں
غنچے سے فضاؤں کے بکس جاتے ہیں
جھکتی ہے تری آنکھ سرِ خلوتِ ناز
یا کامنی کے پھول برس جاتے ہیں
جوڑے میں سیاہ رات کنڈلی مارے
ماتھے کے عرق میں جھلملاتے تارے
عارض میں سحر کے چھلکے چھلکے ساغر
تھوڑی میں قمر کے جگمگاتے تارے
پنڈلی میں لہکتا ہوا جیسے کوندا
ٹخنے ہیں کہ پر تولے عطارد ہے کھڑا
ہے پاؤں کہ ٹھہری ہوئی بجلی میں ہے لوچ
تلوے ہیں کہ سیماب میں سورج کی ضیا
گنگا اشنان، یہ چمکتے بجرے
ناؤ میں سوار مہ جبینوں کے پرے
سنگم میں لگا کے غوطہ اٹھا ہے کہ کون
موجوں کے بھنور سے جیسے زہرہ ابھرے
چوکے کی سہانی آنچ، مکھڑا روشن
ہے گھر کی لکشمی پکاتی بھوجن
دیتے ہیں کرچھلی کے چلنے کا پتہ
سیتا کی رسوئی کے کھنکتے برتن
٭٭٭
ٹائپنگ، ترتیب و تدوین: اعجاز عبید
روپ
فراق گورکھپوری
نکھری نکھری نئی جوانی دمِ صبح
آنکھیں ہیں سکون کی کہانی دمِ صبح
آنگن میں سہاگن اٹھائے ہوئے ہاتھ
تلسی پہ چڑھا رہی ہے پانی دمِ صبح
چڑھتی جمنا کا تیز ریلا ہے کہ زلف
بل کھاتا ہوا سیاہ کوندا ہے کہ زلف
گوکل کی اندھیری رات دیتی ہوئی لو
گھنشیام کی بانسری کا لہرا ہے کہ زلف
تاروں کہ سہانی چھاؤں ، گنگا اشنان
موجوں کی جلو میں رنگ و بو کا طوفان
انگڑائیاں لے رہی ہو جیسے اوشا
یہ شانِ جمال، یہ جوانی کی اٹھان
انسان کے پیکر میں اتر آیا ہے ماہ
قد، یا چڑھتی ندی ہے امرت کی اتھاہ
لہراتے ہوئے بدن پہ پڑ جاتی ہے جب آنکھ
رس کے ساگر میں ڈوب جاتی ہے نگاہ
گنگا وہ بدن کہ جس میں سورج بھی نہائے
جمنا بالوں کی تان بنسی کی اڑائے
سنگم، وہ مکر کا آنکھ اوجھل لہرائے
تہِ آب سرسوتی کی دھارا بل کھائے
یہ رنگ یہ بو یہ بھیگا بھیگا ہوا نور
جھرمٹ میں گیسوؤں کے جیسے رخِ حور
لو دیتا ہے رات کے دھندلکے میں بدن
یا رودِ چمن میں جل رہا ہے کافور
ہے بسملِ ناز عشق نظارہ پرست
خلقت کے پہلے جیسے ہو صبح الست
یہ کہنی تک آستین چڑھانا تیرا
یہ سارے بدن کی بے حجابی سر دست
لرزش میں بدن کی باغِ جنت کی لہک
وجدان سیاہ کار گیسو کی لٹک
ہر عضو کے لوچ کا کچھ ایسا انداز
ست رنگ دھنُش میں جیسے آ جائے لچک
اٹھ اٹھ کے جھکی نگاہِ جاناں کیسی
ہوتی تھی ابھر ابھر کے پنہاں کیسی
فوارۂ خوں کا حال سینے میں نہ پوچھ
دل پر چلتی رہی ہیں چھُریاں کیسی
سوئ ہوئ تقدیر کو بیدار کریں
کھوئ ہوئ دنیا کو خبر دار کریں
جس آنکھ کی مستی ہے جہاں پر چھائ
ممکن ہو تو اس آنکھ کو ہشیار کریں
دل تھا کہ کوئ شمعِ شبستانِ حیات
اندھیرا ہوا بجھتے ہی، کہنے کی ہے بات
دل ہی تھا کہ جس کا ساتھ دینے کے لئے
بیٹھے ہوئے رویا کیے ہم رات کی رات
ہر جلوے سے اک درسِ نمو لیتا ہوں
چھلکے ہوئے صد جام و سبو لیتا ہوں
اے جانِ بہار، تجھ پر پڑتی ہے جب آنکھ
سنگیت کی سرحدوں کو چھو لیتا ہوں
ہونٹوں میں وہ رو کہ جس پہ بھنورا منڈلائے
سانسوں کی وہ سیج، جس پہ خوشبو سو جائے
چہرے کی دمک پہ جیسے شبنم کی ادا
مد آنکھوں کا کام دیو کو جو جھپکائے
گیسو بکھرے ہوئے گھٹائیں بے خود
آنچل لٹکا ہوا، ہوائیں بے خود
پر کیف شباب سے ادائیں بے خود
گاتی ہوئی سانس سے ادائیں بے خود
مکھڑا دیکھیں تو ماہ پارے چھپ جائیں
خورشید کی آنکھ کے شرارے چھپ جائیں
رہ جانا وہ مسکرا کے ترا کل رات
جیسے کچھ جھلملاتے تارے چھپ جائیں
پیکر ہے کہ چلتی ہوئی پچکاری ہے
فوارۂ انوارِ سحر جاری ہے
پڑتی ہے فضا میں سات رنگوں کی پھوار
آکاش نہا اٹھتا ہے، بلہاری ہے
رخسار پہ زلفوں کی گھٹا چھائ ہوئ
آنسو کی لکیر آنکھوں میں لہرائ ہوئ
وہ دل امڈا ہوا، وہ پریمی سے بگاڑ
آواز غم و غصے سے بھرّائ ہوئ
دوشیزۂ فضا میں لہرایا ہوا روپ
آئینۂ صبح میں جھلکتا ہوا روپ
یہ نرم نکھار، یہ سجل دھج، یہ سگندھ
رس میں ہے کنوار پنے کے ڈوبا ہوا روپ
تو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے
دکھ درد زمانے کے مٹا دیتی ہے
سنسار کے تپتے ہوئے ویرانے میں
سکھ شانتی کی گویا تو ہری کھیتی ہے
کس پیار سے دے رہی ہے میٹھی لوری
ہلتی ہے سڈول بانہہ گوری گوری
ماتھے پہ سہاگ، آنکھوں میں رس، ہاتھوں میں
بچے کے ہنڈولے کی چمکتی ڈوری
گل ہیں کہ رخِ گرم کے ہیں انگارے
بالک نین سے ٹوٹتے ہیں تارے
رحمت کا فرشتہ بن کے دیتی ہے سزا
ماں ہی کو پکارے اور ماں ہی مارے
جس درجہ سکوں نما ہیں ابرو کے ہلال
خیر و برکت کے دھَن لٹاتی ہوئی چال
جیون ساتھی کے آگے دیوی بن کر
آتی ہے سہاگنی سجائے ہوئے تھال
پریمی کے ساتھ کھانے کا وہ عالم
پھلکے پہ وہ ہاتھ، جسمِ نازک میں وہ خم
لقمے کے اٹھانے میں کلائی کی لچک
دل کش کتنا ہے منھ کا چلنا کم کم
آنسو سے بھرے بھرے وہ نینا رس کے
ساجن کب اے سکھی تھے اپنے بس کے
یہ چاندنی رات، یہ برہ کی پیڑا
جس طرح پلٹ گئی ہو ناگن ڈس کے
جب جلوہ نما چاند لبِ بام ہوا
جب ساغرِ شب چھلکتا ہوا جام ہوا
تو سامنے آیا کہ مری آنکھوں کو
اس پردۂ دیدار میں الہام ہوا
سنبل کے تر و تازہ چمن ہیں زلفیں
بے صبح کی شب ہائے ختن ہیں زلفیں
خود خضر یہاں آ کے بھٹک جاتے ہیں
ظلمات کے مہکے ہوئے بن ہیں زلفیں
گنگا میں چوڑیوں کے بجنے کا یہ رنگ
یہ راگ، یہ جل ترنگ، یہ رو، یہ امنگ
بھیگی ہوئ ساڑی سے کوندے لپکے
ہر پیکرِ نازنیں میں کھنکتی ہوئ چنگ
چہرے پہ ہوائیاں، نگاہوں میں ہراس
ساجن کے برہ میں روپ کتنا ہے اداس
مکھڑے پہ دھواں دھواں لتاؤں کی طرح
بکھرے ہوئے بال ہیں کہ سیتا بن باس
لہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے
دوشیزۂ صبح گنگنائے جیسے
یہ روپ، یہ لوچ، یہ ترنم، یہ نکھار
بچہ سوتے میں مسکرائے جیسے
چھپتے تارے، سحر کی آہٹ کم کم
سینے میں افق کے کپکپاہٹ کم کم
بستر سے ترا وہ منھ اندھیرے اٹھنا
تازہ پیکر میں لہلہاہٹ کم کم
ساغر کفِ دست میں، صراحی بہ بغل
کاندھے پر گیسوؤں کے کالے بادل
یہ مدھ بھری آنکھ، یہ نگاہیں چنچل
ہے پیکرِ نازنین کہ حافظ کی غزل!
خوشبو سے مشام آنکھوں کے بس جاتے ہیں
غنچے سے فضاؤں کے بکس جاتے ہیں
جھکتی ہے تری آنکھ سرِ خلوتِ ناز
یا کامنی کے پھول برس جاتے ہیں
جوڑے میں سیاہ رات کنڈلی مارے
ماتھے کے عرق میں جھلملاتے تارے
عارض میں سحر کے چھلکے چھلکے ساغر
تھوڑی میں قمر کے جگمگاتے تارے
پنڈلی میں لہکتا ہوا جیسے کوندا
ٹخنے ہیں کہ پر تولے عطارد ہے کھڑا
ہے پاؤں کہ ٹھہری ہوئی بجلی میں ہے لوچ
تلوے ہیں کہ سیماب میں سورج کی ضیا
گنگا اشنان، یہ چمکتے بجرے
ناؤ میں سوار مہ جبینوں کے پرے
سنگم میں لگا کے غوطہ اٹھا ہے کہ کون
موجوں کے بھنور سے جیسے زہرہ ابھرے
چوکے کی سہانی آنچ، مکھڑا روشن
ہے گھر کی لکشمی پکاتی بھوجن
دیتے ہیں کرچھلی کے چلنے کا پتہ
سیتا کی رسوئی کے کھنکتے برتن
٭٭٭
ٹائپنگ، ترتیب و تدوین: اعجاز عبید