FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

روشنی کے سنگ

               شبانہ یوسف

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

کھو جائے تو کہاں، کبھی خطرہ نہیں گیا

دل سے مرے جدائی کا دھڑکا نہیں گیا

آئے تھے کتنے خواب سنورکرپلک پلک

اشکوں کی بھیڑ میں کوئی دیکھا نہیں گیا

کچھ اس طرح سے بکھرے سخن کے نگر میں ہم

خود کو کسی غزل میں سمیٹا نہیں گیا

یو ں تو تھا اعتماد بہت ہم کلامی پر

اُس سے ہوا جو سامنابولا نہیں گیا

اُس سے کبھی نہ ملنے کا دل میں خیال تھا

دیکھا اُسے تو راستہ بدلا نہیں گیا

تھی آرزو چلوں کبھی تو روشنی کے سنگ

پاؤں طویل شب سے نکالا نہیں گیا

رہ رہ کے زخمی دل کو کرے اک خیال یہ

کہ وقتِ ہجر کیوں مجھے روکا نہیں گیا

احساں ہے دوستوں کا عنایت وفا کی ہے

دل سے غموں کا بوجھ اُتارا نہیں گیا

٭٭٭

 

بدن میں برف بوتی جا رہی ہے

یہ چاہت سرد ہوتی جا رہی ہے

مری تنہائی کی پلکوں پہ جگنو

کوئی نفرت پروتی جا رہی ہے

سہے گی آرزو کی بیل کیسے

 ہوا بے درد ہوتی جا رہی ہے

حسیں سرمائی شاموں کی اُداسی

کسک من میں بسوتی جا رہی ہے

ہرے پیڑوں کی بانہوں میں سمٹ کر

سنہری دھوپ، سوتی جا رہی ہے

کبھی جو تھی گلابوں سی رفاقت

وہ اب کانٹے چبھوتی جا رہی ہے

یہ بے منزل مسافت میرے دل کی

تھکن گہری سموتی جا رہی ہے

کسی بچھڑے ہوئے کی یاد کب سے

مرے کمرے میں روتی جا رہی ہے

چھلکنے دو ابھی آنکھیں شبانہؔ

یہ بارش زخم دھوتی جا رہی ہے

٭٭٭

 

چپ ہیں پاؤں تو رہ گزر خاموش

وقت کی ہیر کا سفر خاموش

ہجر کی بد نصیب گلیوں میں

چاند پھرتا ہے رات بھر خاموش

کون نکلا ہے عرصۂ دل سے

کچھ دنوں سے ہیں بام و در خاموش

کوئی ہنگامہ بولتا ہی نہیں

شام کے لب پہ چپ سحر خاموش

اُس کی بابت کسی سے کچھ نہ کہوں

رہتی ہوں اس کی منتظر خاموش

یاد کے پُر ملال موسم میں

پھول، خوشبو، ہوا شجر خاموش

ایک کھڑکی سے اجنبی آنکھیں

گفتگو کرتی ہیں مگر خاموش

تم شبانہ تلاش میں کس کی

پھر رہی ہو نگر نگر خاموش

٭٭٭

 

ہر اک بات پر یونہی اُلجھوں، لڑوں میں

کسی کو ترے ساتھ کب تک سہوں میں

ہُوا ہے کٹھن روکنا آنسوؤں کو

بہانہ کوئی تو ملے، رو سکوں مَیں

اگر وہ مرا ہے تو پھر کیوں کسی سے

وہ منسوب ہو، اور اُسے قرض لوں مَیں

گھنے پیڑ سے لپٹی ہوں بیل جیسی

ہوا سانس بھی لے تو لرزوں، ڈروں میں

کسی دسترس میں ہوں گڑیا کی مانند

کہے تو چلوں، وہ کہے تو رکوں میں

بدن کی گلی میں ہے اتنی خموشی

صدا ٹوٹتے پتّے کی بھی سنوں میں

وہ دریا نہیں ہے تو پھر کیوں شبانہ

ندی کی طرح اُس کی جانب بہوں میں

٭٭٭

 

اک مہکتے گلاب جیسا ہے

خوبصورت سے خواب جیسا ہے

میں اُسے پڑھتی ہوں محبت سے

اُس کا چہرہ کتاب جیسا ہے

بے یقینی ہی بے یقینی ہے

ہر سمندر سراب جیسا ہے

میں بھٹکتی ہوں کیوں اندھیروں میں

وہ اگر آفتاب جیسا ہے

میں حقائق بیان کر دوں گی

یہ گنہ بھی ثواب جیسا ہے

چین ملتا ہے اُس سے مل کے مگر

چین بھی اضطراب جیسا ہے

اب شبانہ مرے لیے وہ شخص

ایک بھولے نصاب جیسا ہے

٭٭٭

 

کسی کے واسطے اس طرح گھر لکھا میں نے

کہ خود تو دھوپ رہی اور شجر لکھا میں نے

میں کیسے روکتی بڑھتے ہوئے قدم اپنے

مرے نصیب میں تھا یہ سفر لکھا میں نے

یہ شاعری تو مرے دل کی اک بغاوت ہے

مجھے ہر ایک نے روکا مگر لکھا میں نے

کسی طرف بھی کنارا نظر نہیں آ یا

جدائیوں کو سمندر، اگر لکھا میں نے

بھٹک رہی ہوں نجانے تلاش میں کس کی

نہیں خبر کسے شام و سحر لکھا میں نے

اسے مٹایا کئی بار خوفِ دنیا سے

کبھی جو نام ترا ہاتھ پر لکھا میں نے

مرا یہ جرم، زمانے کے ساتھ چل نہ سکی

کہ پتھروں کی فصیلوں پہ در لکھا میں نے

شبانہ اس پہ بھی جھپٹے عقاب دنیا کے

جو کاغذوں کے کبوتر پہ پَر لکھا میں نے

٭٭٭

 

شہرِ طلب میں

نیندوں کے جنگل سے ہم نے

خوابوں کی ساری بیلیں کاٹ دی ہیں

پہلے پہلے خواہش کا آنچل تھامے

چلتے رہنا اچھا لگتا تھا

چھاؤں سے ہاتھ چھڑا کر دھوپ میں

 جلتے رہنا اچھا لگتا تھا

اک سچے جذبے کی کھوج میں

دھڑکن دھڑکن سنگ ہوا کے بہنا

اچھا لگتا تھا

اور ہوا کب یہ سوچے

کس قریہ جانا ہے

کن گلیوں سے دامن کو بچانا ہے

پیڑوں سے ٹوٹے پیلے پتّوں کی صورت

جب ہم بکھرے تو یہ جانا ہے

کہ بے چہرہ زیست کی کوئی صورت نہ بن پائے گی

خوابوں کے چہرے کتنے بھی دل آویز بنا لیں

زخم ستم کی خو کب چھوڑیں گے

وقت کا مرہم بھی ان پر لاکھ لا لیں

اب تو سانسوں کی آمد سے

یہ بے آباد بدن دُکھتا ہے

شہرِ طلب میں کوئی خواہش ہو یا جذبہ

خاروں کی صورت چبھتا ہے

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید