فہرست مضامین
رضو باجی
اور دوسرے افسانے
قاضی عبد الستار
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
رضو باجی
اور دوسرے افسانے
قاضی عبد الستار
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ٹھاکر دوارہ
بڑے باغ کے دھورے پر ڈھول تو سانجھ سے بج رہے تھے لیکن اب ان کی گدے کھائی آواز میں لیزم کی تولی گوٹ بھی ٹانکی جانے لگی۔ پتمبر پاسی نے چلم منہ سے نکال کر کان کھڑے کیے اور کہز لی۔ اب گدے کھائی آواز پر لگی تو گوٹ کے اوپر مدرا پاسی کی چہچہاتی آواز کے گول گول ٹھپے بھی پڑنے لگے تھے۔ پتمبر نے چلم مانچی پاس ہی دھری نیائی میں جھونک دی اور اپنے بھاری گھٹنوں پر جو جہازی پلنگ کے تیل پلائے پایوں کی طرح ٹھوس تھے، دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوا تو اس کے سر کا مریٹھا چھپر کے بانس سے لڑ گیا۔
ساتھ ہی تدواری سے بڑ کؤ کی مہتاری نکلی جو اونچے ٹھاٹھ اور چوڑے ہاڑ کی ہٹی کٹی ادھیڑ عورت تھی۔ اس کے پیروں میں کالے پرمٹے کا لہنگا اور سر پر تول کا لمبا چوڑا اوڑھنا لہریں لے رہا تھا اور دونوں کالے ہاتھوں پر پیتل کی تھالی دھری تھی۔ تھالی میں دھرے پیتل کے ڈھکے لوٹے کے پاس ہی مٹی کا چراغ جل رہا تھا اور تلچوری کے ڈھیر پر گڑ کی سنہری ڈلیاں چمک رہی تھیں اور اس کے دونوں کندھوں سے لگی دونوں بہویں چل رہی تھیں جو لال پیلی دھوتیوں میں سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی تھیں لیکن ان کے چاروں ہاتھ باہر تھے۔ چاندی اور لاکھ سے جڑے ہوئے ہاتھوں کے ایک جوڑے پر کمان اور پانچ تیر رکھے تھے اور دوسرا جوڑا مٹی کی ایک مٹکی سنبھالے ہوئے تھا۔
پتمبر سر نہوڑا کر چھپر سے نکلا اور بیچوں بیچ آنگن کھڑا ہو گیا۔ بڑکؤ کی مہتاری نے تھالی اس کے چہرے کے سامنے تین بار نچا کر روک لی۔ پتمبر نے گڑ کی ڈلی اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ بڑکؤ کی مہتاری نے پتل ہٹا کر لوٹے سے رنگ کا ایک چلو بھرا اور پتمبر کے نئے لنکلاٹ کے چوبندے پر چھڑک دیا اور وہ اس طرح سرخ ہو گیا جیسے اس نے اپنے تیر سے شکار کیے ہوئے زخمی بڑیلے کو دونوں بازوؤں میں بھر کر داب لیا ہو اور خونم خون ہو گیا۔ پتمبر نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چندرماں سر کے اوپر آ چکا تھا۔ اس نے بڑی بہو کے ہاتھ سے کمان لے کر ماتھے سے لگائی۔ چھوٹی بہو کی ہتھیلی سے ایک تیر اٹھا کر ہونٹوں سے چوما اور دونوں ہاتھوں سے مٹکی اٹھا کر منہ میں انڈیل لی اور وہ تینوں عورتیں مٹی کی ڈھلی مورتیوں کی طرح کھڑی گھٹ گھٹ کی آوازیں سنتی رہیں۔ جب مٹکی خالی ہو گئی اور چھوٹی بہو نے سنبھال لی تو بڑکؤ مہتاری نے پتمبر کے چارپائی جیسے چوڑے چکلے سینے پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
’’اب کی ہولی ہم کا دے دیو‘‘
’’دیا‘‘
اور دونوں بہوؤں کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور دوسرے تروا ہے میں کھڑے ہوئے ہل کی مٹھیا پکڑ کر پرنام کیا۔ چار جوڑے لمبے چوڑے بیلوں کے کندھے پر تھپکیاں دیں۔ ہاتھی ایسی بندھی ہوئی مندرائی بھینس کے این پر انگلیاں پھیریں اور باہری دروازے کے کپاٹ سے لگا لوہے سے منڈھا اور تیل سے سینچا ہوا سات ہاتھ کا لٹھ اٹھا کر چوما اور کندھے پر رکھ کر باہر نکلا۔ دہلیز سے اترا تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ اپنے پاؤں پرائے معلوم ہونے لگے اورکھوپڑی میں آندھی چلنے لگی۔ دور پاس سے پالاگن اور جے جے کارکی آوازیں سبیرا کرتی چڑیوں کی چہکار بن گئیں اور وہ جھومتا جھامتا بڑے باغ کی دانتی پر آ گیا جہاں اس کے بھائی بھتیجے جانے بوجھے سچے یاردوست اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس نے جاتے ہی ایک لونڈے کے ہاتھ سے مشعل چھین لی اور نئی پرانی اور سوکھی تازی لکڑیوں کی چھوٹی سی پہاڑی میں جھونک کر نعرہ لگایا، ’’جے ہولکا رانی کی‘‘
اور لمبے چوڑے ڈیل ڈول پر لال دھوتی اور چمرودھے جوتے پہنے مدورا لٹو کی طرح ناچنے لگا اور ڈھول تاشے اور لیزم اور جھانجھ سب ایک ساتھ مل کر آوازیں انڈیلنے لگے۔ جیسے ساون بھادوں میں ہتھیا نکھت برس رہا ہو اور وہ گردن گردن پانی میں کھڑا ہو اور پانی بڑھتا جا رہا ہو اور ہاتھ پاؤں جواب دیتے جا رہے ہوں۔ جب وہ ’’ہوری‘‘ گاتے گاتے ڈوبنے لگا تو ہاتھوں کے چپو اسے بہا لے گئے۔ نکال کر لے گئے اور اسے نہیں معلوم پھر کیا ہوا۔ جب آنکھ کھلی تو وہ اپنی تدواری کے پلنگ پر لیٹا تھا اور سارے آنگن میں کڑی دھوپ چھائی تھی اور اس کے نیچے چھپروں میں اور ترواہوں میں نرا آدمی اچھل رہا تھا۔ نری عورتیں اچھل رہی تھیں۔ نرے لڑکے کود پھاند رہے تھے اور معاملہ رنگ سے اترکر کیچڑ اور گوبر پر آ چکا تھا۔
ابھی وہ اپنے اندر کے بھاری پن سے جوجھ رہا تھا کہ ایک طرف سے درگا نکلا اور دارو کا ادھ سیرا کلہڑ اس کے منہ سے لگا دیا۔ اور پھر وہ لیپ دیا گیا۔ پوت دیا گیا۔ نہلا دیا گیا۔ پھر کندھوں پر اٹھا لیا گیا اور گاؤں کے گلیاروں کو چھان دیا گیا اور گھروں کو متھلیا گیا اور جب دوپہر ڈھلنے لگی تو اپنے دوارے سے پہنچا۔ کنویں پر منجھلؤ اور چھٹکؤ نہا رہے تھے اور صابن بہا رہے تھے اور دروازہ اندر سے بند تھا۔ وہ چھپر کے نیچے کھٹیا پر ڈھیر ہو گیا۔ بڑی دیر کے بعد کسی نے اس کا انگوٹھا پکڑ کر ہلا دیا۔ اس نے دھواں دھار آنکھیں کھول دیں۔ سامنے بڑکؤ کی مہتاری کھڑی تھی۔ لال لال اوڑھنی لال کرتی لال لہنگا بالوں میں تیل آنکھوں میں کاجل دانتوں میں مسی اور ہونٹوں پر ہنسی۔ اس نے امس کر ایک بار دیکھا۔ ہنسی باچھوں سے نکل کر کانوں تک پہنچ گئی تھی۔
’’چلو پانی دھرا ہے نہا لیو‘‘ وہ کھٹیا سے اس طرح جیسے ہاتھی بیٹھ کر اٹھتا ہے۔ ایک ایک جوڑ کو سہج سہج سنبھال سنبھال کر چلا اور کنویں کی جگت پر بیٹھ گیا۔ سانجھ ہو رہی تھی لیکن دھوپ میں دھار باقی تھی۔ آدھی دھوتی باندھ کر اور آدھی لپیٹ کر اٹھا۔ دروازے پر بڑکؤ کی مہتاری راہ دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑا کر تدواری کے پیچھے لے گئی، ’’آج یادھوتی باندھو۔ کرتا پہنو۔۔۔ چادر باندھو۔۔۔ ایک کندھے پر دھنئی (کمان) اور ایک پر تیر سجاؤ اور ہم کا لئے کے دوارے چلو۔ تم تال دیو ہم ناچیں۔‘‘
’’دوارے‘‘ جیسے کمان کو کان تک کھینچ کر چھوڑ دیا گیا ہو۔
’’ہاں۔۔۔ مالک کے دوارے ٹھاکر دوارے۔‘‘اور جیسے پوری کوٹھری کی فضا برچھی کی نوک پر تل گئی۔
’’بھاگیہ وان۔۔۔ مالک کو مریں پانچ برس ہوئے گئیں۔‘‘
’’ہاں ہمار گھر ماں بھی پانچ موتیں ہوئے گئیں۔‘‘
’’پانچ موتیں؟‘‘
ہاں۔۔۔ پانچ موتیں۔۔۔ بڑی بھینس مری پہلے۔ پھر لال جوڑ کر بڑی بدھیا مری۔ پھر بڑکؤ مرے۔۔۔ پھر سنجھلؤ مرے۔۔۔ پھر منجھلؤ کی دلہن مری پانچ ہوئے گئیں۔‘‘
’’مالک کا پورا دوارہ کرائے پر اٹھ گوا۔ کہوں گودام ہے۔ کہوں ہسپتال ہے۔ کہوں دپھتر ہے۔‘‘
’’مل دوارہ تو ہے۔۔۔ او تو کوؤ نائیں اٹھائے لئے گوا۔۔۔‘‘
’’واجگہ تو ہے جہاں دادا پر دادا ناچت رہیں۔ تیج تہوار کے دن سب اپنی جگہ پر آوت ہیں۔۔۔ سب پھیر کرت ہیں۔ سنو۔۔۔ بڑکؤ مر گئے، مل ہمرے لیے جندہ ہیں۔ تمرے لیے جندہ ہیں۔۔۔ تم ہم کا بڑکؤ کی مہتاری کاہے کہت ہو۔‘‘
’’مل بڑکؤ کی مہتاری یو نائیں ہوئے سکت۔۔۔ یونائیں ہو سکت۔‘‘ اور وہ باہر جانے کے لیے مڑنے لگا تو بڑکؤ کی مہتاری نے اس کی دھوتی پکڑ لی۔ ’’بڑے پاسی کے پوت ہو۔ رات کا بچن دیت ہو اور سبیرے چھین لیت ہو۔‘‘ تدواری سے گزرتے ہوئے یہ جملہ لاٹھی کی طرح اس کے کان پر لگا۔ وہ لڑکھڑا گیا۔ لیکن پھر سنبھل کر پورے قدموں سے زینے کی طرف چلا چھپر میں دونوں بہوئیں گھونگھٹ کاڑھے کھڑی تھیں۔ اس نے ان کی طرف دیکھے بغیر کہا، ’’کوئی آوے تو کہہ دینا نائیں ہیں۔۔۔ کہوں ہولی ملے گئے‘‘
زینے کا دروازہ اتنے زور سے بند کیا جیسے بڑکؤ کی مہتاری کے منہ پر لٹھ مار دیا ہو۔ تینوں عورتیں کھڑی اس کے پیروں سے دھچکتی سیڑھیاں گنتی رہیں۔ وہ بنگلے میں برے جہازی پلنگ پر ڈھیر ہو گیا۔ بڑکؤ کی مہتاری نے پھر اس کے کان میں کاٹ لیا۔
’’پاسی کے پوت۔‘‘
’’ہنھ۔۔۔ کوئی ٹھاکر کہہ کے دیکھے تو سینے پر چڑھ کے نٹی سے خون پی لیوں۔‘‘ وہ ابلتا رہا۔ کھولتا رہا۔ لمبے لمبے سانس بھرتا رہا۔ جب بے چینی اس کے تلووں سے ٹپکنے لگی تو وہ منڈیر کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ نیچے سارا دریا پور بچھا تھا۔ دانا پور راج کا تخت گاؤں۔ راج باسیوں کا کھرا گاؤں جو ایک ہی چاچا بابا کی اولاد میں تھے۔ دن میں نوکری کے نام پر دانا پور راج کی طرف لاٹھیاں اٹھاتے اور کمانیں کڑکاتے اور رات میں رہزنی کرتے اور ڈاکے ڈالتے۔ جب پکڑ ہی لیے جاتے تو دانا پور راج ان کی ضمانت کرتا اور مقدمے لڑاتا۔ اگر سزا ہو جاتی تو ان کی بیوی بچوں کی ایسی رکھوالی کرتا جیسے وہ گھر میں نہیں سسرال میں ہوں۔ کیسا دن تھا وہ بھی۔ سبیرے جمینداری فیل ہونے کی ڈگی بجی اور سانجھ ہوتے ہوتے ’’بابا‘‘ مار ڈالے گئے۔ ابھی پولیس کی ہاہاکار مچ رہی تھی کہ ٹھاکر نواب علی کی سواری آ گئی۔ ہاتھی سے اترتے ہی مقتول دلاور اسی کے بیٹے پتمبر پاسی کی طلبی ہوئی۔ وہ جیسے ہی پاؤں چھونے کو جھکا اسے کندھوں سے پکڑ لیا۔
’’پتمبر‘‘
’’مالک‘‘
’’تمہارے مقتول باپ کا مقدمہ ہمارا ہے۔ یہ کٹھار تمہارا ہے۔ بڑا باغ تمہارا ہے۔ دریا پور کی سرکاری آراضی تمہاری ہے۔ تمہارے باپ کی جگہ ہمارے پلنگ کا پہرہ بھی تمہارا ہے۔‘‘ اتنی بہت سی چیزیں ایک ساتھ پا کر وہ بوکھلانے بھی نہیں پایا تھا کہ ٹھاکر کھڑی سواری سدھار گئے۔ اور اس شام جب وہ دریا پور کا پردھان چن لیا گیا تو بندوق چھوڑتے اور گولے داغتے ہجوم کے ساتھ سرکار کو سلام کرنے دوارے پہنچا۔ دالان پر پہرہ کھڑا ہو چکا تھا لیکن ’’ہال‘‘ کے پردوں سے آواز آئی کہ پتمبر کو اندر بھیج دو۔
ٹھاکر کے سامنے خالی گلاس اور بھری بوتل رکھی تھی۔
’’مبارک ہو‘‘
’’سرکار‘‘ اس کے منھ سے اور کچھ نکلا ہی نہیں۔
’’آج سے تمہاری پہرے داری موقوف۔‘‘
’’سرکار‘‘
’’پلنگ کا پہرے دار گاؤں کی پردھانتا نہیں کر سکتا۔‘‘
’’سرکار‘‘
’’اور تم پردھانتا چھوڑ بھی نہیں سکتے کہ اگر ہم پر اس سے بھی برا وقت آ گیا تو کم از کم ایک پردھان تو ہمارے ساتھ ہو گا۔‘‘
’’شراب پیتے ہو؟‘‘ انہوں نے گلاس بھر لیا۔
’’مالک‘‘
’’مت پیا کرو شراب سوت برداشت نہیں کرتی۔ ہم اس لیے پیتے ہیں کہ ہمیں اس کی سوت نہیں لانا ہے۔ شادی اس لیے نہیں کی کہ بچے پیدا ہوں گے اور جیسے جیسے بڑھتے جائیں گے نشہ گھٹتا چلا جائے گا اور شراب بوڑھی ہوتی چلی جائے گی۔ تم جا سکتے ہو۔‘‘
’’مالک‘‘
’’دانا پور راج میں ٹھاکر نواب علی کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ تمہارا پہرہ ایک رسم تھا۔ بہت سی رسموں کی طرح آج یہ رسم بھی اٹھا دی گئی۔‘‘
’’سپاہی‘‘
’’دریا پور کے پردھان پتمبر جی کو باہر لے جاؤ۔ مٹھائی کھلاؤ حقہ پلاؤ اور رخصت کر دو۔‘‘
وہ کھڑا کانپ رہا تھا کہ ایک مضبوط ہاتھ نے اسے شانے سے پکڑ کر کمرے سے باہر کر دیا۔ اس نے کڑوی مٹھائی کھائی اور میٹھا حقہ پی لیا اور معلوم نہیں کیسے اپنے گھر پہنچ گیا اور پھر پردھانتا کی پہلی ہولی آئی۔ سورج بیٹھتے بیٹھتے وہ اپنے پریوار کے ساتھ گرہی پہنچ گیا۔ بہت سے سوانگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے۔ جب سب چلے گئے تو اس کی عورتوں کو اندر اور مردوں کو باہر بلایا گیا اور پان حقے کی تواضع کی گئی اور جب رات ادھیانے لگی تو سرکار برآمد ہوئے۔
’’پردھان پتمبر۔۔۔ تمہارا اور تمہاری عورتوں کا یہ ناچ ہم کو پسند نہیں رہا۔ دنیا سنے گی تمہارے خلاف ہو جائے گی۔ تم کو ووٹ نہیں دے گی۔ تم کو پردھانتا سے اتار دے گی۔‘‘
’’ناچ تو پرکھوں سے ہوتا آیا ہے۔۔۔ پردھانتا تو آج آئی ہے۔۔۔ پردھان چنے جاتے ہیں پتمبر پیدا ہوتا ہے۔‘‘
وہ سر جھکائے بیٹھے رہے۔ سٹک کے گھونٹ لیتے رہے اور تالی کی ٹھیک دیتا رہا اور عورتیں ناچتی رہیں اور پچھلے برسوں سے زیادہ دیر تک اور مستی سے ناچتی رہیں۔ اس نے اپنے گالوں پر نمی محسوس کی۔ آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ سارا گاؤں سو چکا تھا۔ پتمبر جاگ چکا تھا۔ جس تیزی سے سیڑھیوں پر چڑھا اسی تیزی سے اترا۔ آنگن میں تینوں عورتیں ایک ہی پلنگ پر سر جوڑے بیٹھی تھیں۔ وہ اندر گیا۔ لال کناری کی نئی دھوتی باندھی۔ ململ کا کرتا پہنا۔ بھاگلپوری چادر کمر میں لپیٹی اور لال انگوچھے کا مریٹھا سر پر کس لیا۔ دونوں ہاتھوں سے کمان اٹھا کر چڑھائی اور چوم کر داہنے بازو پر لگائی۔ باپ کے بنائے تیروں کا ترکش پشت پر سجایا اور نری کا جوتا پہن کر چرمر کرتا باہر نکلا۔
’’اٹھو بڑکؤ کی مہتاری دوارے چلو۔‘‘ وہ کوک بھرے کھلونے کی طرح اس کے ساتھ ہولیں۔ دروازے نکلتے نکلتے اس نے بہوؤں کو منع کیا لیکن وہ نہ مانیں۔ کسی کو دروازہ بند کرنے کی تاکید کر کے وہ سڑک پر ہولیا۔
چار جوڑ پیروں میں پہیے لگے تھے اور سڑک اس کی یادوں کی طرح گھٹتی جا رہی تھی۔ پھر دانا پور آ گیا۔ گڑھی آ گئی۔ اس کے سواگت کے لیے پھاٹک اپنے دونوں پٹ کھولے کھڑا تھا۔ محل سرائے اور دیوان خانے کے بیچ کا پختہ فرش خالی پڑا تھا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح سیڑھیوں پر چڑھنے سے پہلے جوتے اتار دیے۔ دیوان خانے کے دروازے کے جاگتے شیشوں کے پیچھے ہسپتال کے ساز و سامان نے اس کا سلام کیا۔ پھر وہ الٹے پیروں گھوما اور ترچھا ہو کر دونوں پیر کھول دیے اور کمر میں خم دے کر تالی بجائی اور عورتیں ناچنے لگیں۔ ناچتی رہیں۔ جب ہوش آیا تو ان کے چاروں طرف بھیڑ جمع تھی اور سورج کی کرن پھوٹ رہی تھی۔
٭٭٭
گرم لہو میں غلطاں
ان کے طباق ایسے چوڑے چکلے زرد چہرے پر چھوٹی بڑی شکنوں کا گھنا ڈھیلا جلال پڑا ہوا تھا جیسے کوری مارکین کا ٹکڑا نچوڑ کر سکھا دیا گیا ہو۔ دھندلی دھندلی آنکھوں سے میلا میلا پانی رس رہا تھا جسے ان کے سیاہ گندے ناخونوں والی موٹی موٹی انگلیاں کاندھے پر جھولتے میلے چکٹ آنچل سے بار بار پونچھ رہی تھیں اور سامنے رکھے بڑے سے طوق کے ڈھانچے کو برابر نہارے جا رہی تھی جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کا سونا دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ پھر انہوں نے پاس رکھے ہوئے خمیدہ نے اور مٹی کے پیندے والے حقے کو جھکا کر بانس کی سرمئی نے موٹے موٹے لرزتے ہونٹوں میں دبا لی اور ایک پھسپھسا کش لیا اور میرا سارا حافظہ جھنجھنا گیا۔
شادی کا بھرا پرا گھر مہمان عورتوں اور ندیدے بچوں کی پر شور آواز کے تھپیڑوں سے ہل رہا تھا اور میں ڈولتا ہوا ان کے قریب سے گزرا جا رہا تھا۔ میں نے جاتے جاتے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا جیسے مارکین کے ٹکڑے پر بجھتے کوئلوں کا عکس لپک گیا اور انہوں نے بیٹھی ہوئی آواز میں کہا، ’’تم نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘ اور میری آنکھوں کے سامنے یادوں کے ورق اڑنے لگے۔ ابھی نہ ہندوستان آزاد ہوا تھا اور نہ پاکستان پیدا ہوا تھا۔ نہ زمینداری ختم ہوئی تھی اور نہ آم کی فصلیں روزی کا وسیلہ بنی تھیں۔ سب کچھ اسی طرح موجود تھا جس طرح صدیوں سے چلا آ رہا تھا۔ انگریز خدا اپنے گدھوں کو سونے کے توبڑوں میں خشکہ نہیں بریانی کھلا رہا تھا اور اس سال آم کی فصل اس طرح ٹوٹ کر آئی تھی کہ گلی کوچے پھلوں سے سڑنے لگے تھے۔ تخمی باغوں کے باغبانوں کی لین ڈوری پھاٹک سے ڈیوڑھی تک سروں پر چنیدہ آموں کے جھوے لادے کھڑی رہتی۔ تیسرے درجے کے مسافروں کی طرح انہیں کوئی نہ پوچھتا۔ ہاں قلعی باغوں کے باغبان فرسٹ کلاس کے مسافروں کی طرح فضیلت سے نوازے جاتے اور ان کے آم ہاتھ کے ہاتھ گنا لیے جاتے۔
دور تک پھیلے ہوئے اونچی چھتوں اور موٹے ستونوں والے لق و دق دالانوں میں کچے پکے آموں کی جازم بچھی رہتی۔ بوڑھی بدصورت اور کٹکھنی عورتیں ہاتھوں میں لمبی لمبی لکڑیاں لیے ندیدے لڑکوں اور ہتھ لکی عورتوں کو گالیاں اور کوسنے بانٹا کرتیں۔ اس روز اندر سے باہر تک جیسے ساری فضا بدلی ہوئی تھی، دھلی دھلائی سی لگ رہی تھی۔ ڈیوڑھی میں نہ جھوے، نہ کدالیں، نہ کھرپے اور نہ وہ مانوس بھناٹا، صاف صفیلا آنگن، اندرونی دالان کے چوکے اور گاؤ تکیے صندوق سے نکلے، تخت پوش اور غلاف پہنے میاں پوت بنے بیٹھے تھے۔ ماہی پشت والے نواڑی پلنگوں پر آدھے آدھے سوتی قالین پڑے تھے۔ پان خوروں کے منہ کی طرح لال لال اگالدان انگریزوں کے منھ کی طرح صاف صاف رکھے تھے۔ مراد آبادی پاندان اور لوٹے اور سر پوش سب اجلے اجلے کپڑے پہنے سلیقے سے اپنی جگہ کھڑے بیٹھے تھے۔ چھت میں جھولتے بھاری پنکھے تک کو دھلا جوڑا پہنا دیا گیا تھا۔
بالکل عید بقر عید کا سا ماحول تھا، لیکن بقر عید کا سا شور نہ ہنگامہ۔ کمرے کے پانچوں دروازوں پر پڑے ہوئے خس کے موٹے موٹے بد وضع پردوں کے نیچے پانی کے چھوٹے چھوٹے سے تھالے بن گئے تھے۔ اندر چھت کے دوہرے پنکھوں کی اکلوتی رسی لوہے کی گراری پر تیز تیز چل رہی تھی جیسے چڑیوں کے کئی جوڑے ایک ساتھ چوں چوں کر رہے ہوں۔ میں نے ذرا جھجک کر پردا اٹھایا تو محسوس ہوا جیسے یہاں سے وہاں تک سارا کمرہ ان کی روشنی سے جھم جھما رہا ہے۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا جیسے امام باڑے میں رکھا ہوا چاندی کا تعزیہ دیکھا جاتا ہے جیسے دسہرے کی جھانکی دیکھی جاتی ہے۔
کسی آواز نے ٹھونکا دیا تو میں بیدار ہوا۔ اپنی کم عمری کے باوجود مجھے خوشی ہوئی کہ وہ مجھ سے مخاطب تھیں اور جان کر رنج ہوا کہ وہ بول لیتی ہیں کہ میں نے کبھی تعزیہ اور جھانکیوں کو بولتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن میں خاموش رہا کہ میرے حواس مبہوت ہو چکے تھے۔ سن ہو چکے تھے۔ جب وہ کھانے کے لیے دوسرے کمرے میں جانے کو اٹھیں تو میرا سارا وجود میری آنکھوں میں سمٹ آیا تھا۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا۔ گھور رہا تھا۔ ان کے بدن کے ایک ایک حصے اپنی کمسن آنکھوں کی چھوٹی چھوٹی بانہوں میں سمیٹ رہا تھا۔ ان کی بھاری بھرکم اور بلند و بالا شخصیت کی وجاہت اور شکوہ اور غرور اور تمکنت کے سامنے حسن کے تمام مروجہ معیار اور میزان ہیچ تھے کہ حسن بدن کے اعداد و شمار کی قید اور خدوخال کے تناسب کی تعریف کی پابندی سے آزاد بھی ہوتا ہے، بلند بھی ہوتا ہے۔
وہ ململ کا کامدار کرتا اور فرشی پائجامہ پہنے اس طرح چل رہی تھیں جیسے مٹی کے کھلونوں کی دوکان میں کوئی رانی بھٹک کر آ گئی ہو۔ کوئی عورت ان کے ہاتھ دھلا رہی تھی اور قاش میں ان کے ہاتھوں سے گرتا ہوا پانی گلابی معلوم ہو رہا تھا۔ میں دسترخوان پر بیٹھا ہوا تھا لیکن نہ کھانے کی خواہش تھی اور نہ کھانے میں مزہ۔ وہ سر کو دوپٹے سے ڈھانکے ایک زانو پر بیٹھی کھانا نہیں کھا رہی تھیں کھانے کو قبولیت سے مشرف کر رہی تھیں۔
اندھیارے باغ کے کچے کنویں کی گراری میں رسی سے بندھی منتخب آموں کی جھال جو صبح سے پڑی تھی نکالی گئی اور برف کے چورے سے بھری ہوئی لگنوں میں آم لگائے گئے۔ بھائی جان نے درجنوں تخمی باغوں کا سب سے نفیس آم انھیں پیش کیا۔ انھوں نے ڈنٹھل توڑ کر ملائم کیا اور صرف ایک بار منہ لگا کر چھلکوں کے طباق میں ڈال دیا۔ چند دانوں کے بعد بھائی جان نے قلمی آم پیش کیے۔ بڑے اصرار اور تکلف کے بعد ایک لنگڑا اٹھایا۔ آم کے درمیان چاقو سے حلقہ بنا کر اوپری نصف ڈھکن کی طرح اتار لیا بقیہ نصف میں جمی ہوئی گٹھلی کھینچ کر پھینک دی اور دونوں حصوں کے ننھے ننھے سبز و شاداب آبخوروں کو چمچہ سے نکال کر کھا لیا۔ میں مسحور سا بیٹھا ہوا تھا۔
جب خاصدان پیش ہوا تو انہوں نے سرسری لہجے میں اپنی عورتوں سے کہا کہ وہ بھائی جان سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہیں اور بھابی جان بھی انہیں کے ساتھ کچھ احکام دیتی باہر چلی گئیں۔ میں اپنی جگہ پر جما ہوا تھا کہ بھائی جان نے مجھے گھور کر دیکھا اور میں بھی اپنے پیروں پر اپنا بوجھ لادے باہر نکل آیا۔ لیکن ڈیوڑھی تک پہنچتے پہنچتے انھیں دیکھنے کے شوق نے پانو پکڑ لیے۔ تھوڑی دیر کھڑا سوچتا رہا۔ پھر پورے آنگن کا چکر کاٹ کر دوسری سمت کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ پردے کی جھری سے دیکھا وہ میری طرف پشت کیے بیٹھی تھیں۔ کرسی پر بیٹھے ہوئے بھائی جان کے صرف پیر نظر آ رہے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھیں۔ ان کی آواز تازہ پھلوں کی چادر کی طرح میری سماعت پر بچھی جا رہی تھیں، ’’تم میاں کی فکر مت کرو۔۔۔ میاں کل شام کو لکھنؤ کے لیے سوار ہو گئے اور ان کو معلوم ہے کہ میں صبح مقبول میاں کی زیارت کے لیے خیر آباد جا رہی ہوں۔ میں نے صرف اتنا کیا کہ رات ہی میں سوار ہو گئی اور راستے میں دولہن کی عیادت کے لیے تمہارے گھر اتر گئی۔ سب جانتے ہیں کہ زینب اپنے کمرے میں سو رہی ہو گی۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’اگر تم کوئی خطرہ محسوس کر رہے ہو تو اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ میں واپس۔‘‘
’’آپ کیا فرما رہی ہیں۔۔۔ میں تو آپ کے متعلق‘‘
’’لاش ہے کہاں؟‘‘
’’میرے بستر بند میں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ آپ مطمئن رہیں۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
اور جیسے خاموشی ہو گئی۔ میں کچھ سمجھ گیا کچھ نہیں سمجھ سکا لیکن ڈر بہت گیا اور پھر اچانک جیسے پیٹ میں درد ہونے لگا اور بڑھتا گیا۔ پھر میں باہر جا کر پڑ رہ۔ پھر چورن کی تلاش میں اندر گیا، بھابی جان پاندان کھولے بیٹھی تھیں اور پاس کھڑی ہوئی عورتوں کو رات کے کھانے کے متعلق ہدایات دے رہی تھیں۔ میں ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک طرف سے وہ آ گئیں اور میں سر سے پاؤں تک جھنجھنا گیا۔ ان کے داہنے ہاتھ پر ایک ساری پڑی تھی اور بائیں ہاتھ میں رنگے ہوئے چنے ہوئے دوپٹے کا گولہ تھا۔ انہوں نے ساری بھابی جان کی طرف بڑھائی اور بھابی جان نے سلام کر کے جیسے ہی دوپٹے کا گولہ ہاتھ میں پکڑا وہ بچوں کی طرح چیخ کر بولیں، ’’فراموش دس ہزار۔‘‘
بھابی جان نے ہنستے ہوئے دوپٹہ کھولا تو اندر سے سندوری رنگ کا فراموش ٹپک پڑا۔ ابھی سب ہنس رہے تھے کہ بھائی جان آ گئے اور وہ چمک کر چہکیں، ’’میں پورے دس ہزار آم لوں گی گنے ہوئے اور چنے ہوئے۔‘‘
’’جی ہاں۔ دس ہی ہزار آم پیش کیے جائیں گے۔ گنے ہوئے اور چنے ہوئے۔‘‘
رات کے کھانے کے بعد دوسری منزل کے صحن میں ان کے سفید بستر کے سامنے جب حقہ لگا اور انہوں نے بالکل بھائی جان کی طرح کڑکڑا کش لیا تو پہلی بار مجھے ان سے ڈر لگا۔ وہ ڈر بھی کچھ عجیب سا تھا۔ جیسے کوئی شخص آدھی رات کے وقت تن تنہا تاج محل میں کھڑا ہوا۔ میری آنکھوں میں دور دور تک نیند کا نام نہ تھا لیکن میں وہاں ٹھہر نہ سکا۔ نیچے کا پورا صحن خالی پڑا تھا۔ پورے چبوترے پر صرف ایک بھائی جان کا بستر باہر سے لا کر لگا دیا گیا تھا اور ان کے کتے اس کے ارد گرد بیٹھے ہانپ رہے تھے میں اسی پر لیٹ گیا اور مچھر دانی کے پردے ڈال لیے۔ پھر ڈیوڑھی کا دروازہ کھلنے کی مایوس آواز آئی۔ پھر آموں کے جھوے آنے لگے اور چبوترے کے نیچے ڈھیر ہونے لگے۔ میں چپ چاپ لیٹا رہا۔ سوچتا رہا۔ ڈرتا رہا۔ پھر آوازیں بجھنے لگیں اور خاموشی طلوع ہونے لگی۔ میں جاگتے جاگتے تھکنے لگا۔ ڈیوڑھی کا دروازہ پھر آہستہ سے بولا۔ بھائی جان اندر آئے۔ چبوترے پر چڑھتے ہی ٹھٹک گئے۔ میرے پلنگ کی پٹی کے پاس کھڑے ہوئے۔ مجھے آہستہ سے پکارا لیکن میں گبر بنا لیٹا رہا۔ انہوں نے پردہ ہٹا کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر آواز دی۔ کئی آدمی اندر آ گئے۔ میں سب کو جانتا تھا پہچانتا تھا۔
بھائی جان نے جیب سے کنجی نکال کر ایک کو پکڑا دی۔ اس نے دالان کی بغلی کوٹھری میں پڑے ہوئے پنسیری بھرکے تالے کو کھولا۔ دوسرے آدمی نے لالٹین کی بتی اونچی کی۔ وہ کوٹھی سے نکلا تو چمڑے کا سیاہ بھاری ہولڈال اس کے ہاتھوں میں لٹکا ہوا تھا۔ دالان کے بیچوں بیچ رکھ کر ایک آدمی نے اس کے دونوں تالے مروڑ دیے اور وہ بریف کیس کی طرح کھل گیا۔ اس نے جھک کر ایک لڑکی نکال کر زمین پر رکھ دی۔ اس کے دونوں ہاتھوں کی بند مٹھیاں گردن کے پاس رکھی تھیں۔ مڑے ہوئے گھٹنے پیٹ سے لگے تھے۔ اس کا چہرہ میری طرف۔ گول گول صاف صاف بند آنکھوں کی سیاہ لانبی کمان دور تک کھنچی ہوئی تھی۔
میں نے اس کے بولنے رونے اور چیخنے کا انتظار کیا لیکن جب اس کو آم کے خالی بورے میں داب کر بھر دیا گیا اور اس کے باوجود وہ خاموش رہی تو میں نے چیخنا چاہا لیکن میرے منھ سے بھی آواز نہ نکلی اور میں ہانپنے لگا اور جب بورا اٹھا کر آدمی چلے گئے اور وہ تابوت نما ہولڈال بھی رخصت ہو گیا اور بھائی جان کی آواز آئی کہ یوڑھی بند کر لو تو اچانک جیسے میری آواز پر پڑا ہوا پنسیری بھر کا تالا کھل گیا اور میں اتنے زور سے چیخا کہ خود مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے اور پھر آناً فاناً سب میرے پلنگ کے ارد گرد جمع ہو گئے اور میں نے انھیں آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ گلے میں بیلے کے ہار، ہاتھوں میں گجرے اور کانوں میں پھولوں کے جھمکے پہنے مجھے گھور رہی تھیں۔ میں نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور میں نے جب آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ان کے بدن کی بے کار مٹی کے ڈھیر کے نیچے وہی لڑکی کھڑی ہوئی ہے۔ اس کے ہاتھ اور پیر کھلے ہوئے ہیں، بالوں کی چوٹیاں گندھی ہوئی ہیں آنکھوں میں ڈھیروں کاجل لگا ہے اور اس کی مسکراتی نظریں ان کی بجھتی ہوئی چلم کو گھور رہی ہیں۔
٭٭٭
لالہ امام بخش
رموا پور کے لالہ دیبی بخش جب مچھر ہٹہ پہنچے تو دیکھا کہ ان کا ’’موکل‘‘ ملو بھر جی لائی کا تعزیہ بنا رہا تھا۔ ہندو بھرجی کو مسلمانوں کے کرم کرتے دیکھا تو جل کر رہ گئے۔ چنے کی طرح چٹختی آواز میں مقدمے کی پیروی کو بقایا کا تقاضہ کر دیا۔ ملو بے چارہ للو چپو کرنے لگا۔ اور بتلاتے بتلاتے وہ منت بھی بتلا گیا جو اس نے امام حسین سے مانگی تھی اور پائی تھی۔ لالہ لاٹھی کی مٹھیا پر ٹھڈی رکھے کھڑے سنتے رہے اور سنتے سنتے اپنی سوکھی ماری للائن کی ہری گود کے مہکتے سپنوں میں کھو گئے۔ جب جاگے تو چوکے میں تھالی پروسی دھری تھی اور للائن بدن کی اکلوتی دھوتی کے پلو سے مکھیاں اڑا رہی تھیں۔ پہلے وہ جھوٹ موٹ منھ چھوتی رہیں پھر پھیل گئیں اور لالہ کو ملو بھرجی کا حال بتانا پڑا۔ للائن نے چپ سادھ لی۔ وہی چپ جس کے جادو سے چاندی ایسی دلہن مٹی کے مادھو سے نکاح قبول کر لیتی ہے۔
جب سوچتے سوچتے لالہ دیبی بخش کی کھوپڑی تڑخ گئی، آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور مچھر ہٹہ میں بجتے ہوئے محرمی باجوں کی دھمک ان کے سنسان آنگن میں منڈلانے لگی تب لالہ دیبی بخش اپنی کھٹیا سے اٹھے۔ چراغ کی ٹھنڈی پیلی روشنی میں جھاویں سے مل مل کر خوب نہائے اور دھوبی کا دھلا ہوا جوڑا پہنا جسے ڈٹ کر مسرکھ اور سیتا پور کی کچہریوں میں وہ ٹکے ٹکے پر مقدمے لڑاتے ہیں۔ دروازے سے نکلتے نکلتے للائن کو جتا گئے کہ میں رات کے گئے لوٹوں گا۔ جیسے جیسے مچھر ہٹہ قریب آتا جاتا اور باجوں کی گھن گرج نزدیک ہوتی جاتی ویسے ویسے ان کے دل کی دھیرج بڑھتی جاتی۔ جو گی اپنے چوک پر رکھی ہوئی ضریح کے آگے اچھل اچھل کر ماتم کر رہے تھے اور مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ گلستاں بوستاں چا ٹے ہوئے لالہ دیبی بخش نے آدمیوں کی دیوار میں اپنا راستہ بنایا اور کھڑے پگھلتے رہے۔ نیم سار کے مندر میں درگا میا کی مورتی کی طرح سامنے ضریح مبارک رکھی تھی۔ لالہ نے کانپتے ہاتھوں کو سنبھال کر جوڑا اور آنکھیں بند کر لیں۔ جب وہ وہاں سے ٹلے تو چاندنی سنولانے لگی تھی، سڑکیں ننگی پڑی تھیں روشنیوں کی آنکھیں جھپکنے لگی تھیں۔ باجے سو گئے تھے۔ دوکانوں نے پلکیں موند لی تھیں۔ اور وہ خود دیر تک سو کر اٹھے ہوئے بچے کی طرح ہلکے پھلکے اور چونچال ہو گئے تھے۔
پھر ان کے تعزیہ نے بھی ملو بھرجی کی کہانی دہرا دی۔ گھر کے اکلوتے کمرے کی کنڈی میں پانی بھرنے والی رسی میں پرویا ہوا جھوا جھولنے لگا جس میں ایک گل گوتھنا بچہ آنکھوں میں کاجل بھرے ہاتھ پیروں میں کالے تاگے پہنے اور ڈھیروں گنڈے تعویز لادے ہمک رہا تھا۔ لالہ کو بھائی برادری کے خوف نے بہت دہلایا لیکن وہ مانے نہیں اور اپنے سپوت کا نام لالہ امام بخش رکھ ہی دیا۔ یہ چھوٹے سے لالہ امام بخش پہلے امامی لالہ ہوئے پھر ممو لالہ بنے اور آخر میں ممواں لالہ ہو کر رہ گئے۔
لالہ نے ممواں لالہ کو پھول پان کی طرح رکھا۔ ان کے پاس زمینداری یا کاشتکاری جو کچھ بھی تھی تیس بیگھے زمین تھی جسے وہ جوتتے بوتے تھے لیکن اس طرح کہ جیتے جی نہ کبھی ہل کی مٹھیا پر ہاتھ رکھا اور نہ بیل بدھیا پالنے کا جھگڑا مول لیا۔ لیکن کھلیان اٹھاتے تھے کہ گھر بھر جاتا تھا۔ کرتے یہ تھے کہ ایسے ایسوں کو مقدمے کی پیروی کے جال میں پھانس لیتے تھے جو بل بھی چلاتے اور پانی بھی لگاتے۔ لالہ کی کھیتی ہری رہتی اور جیب بھری۔ ممواں لالہ بڑھتا گیا اور لالہ کا آنگن پاس پڑوس کے الاہنوں سے بھرتا گیا۔ کسی کو گالی دے دی، کسی کا بیل بدھیا کھول دیا کسی کا کھیت نوچ لیا، کسی کا باغ کھسوٹ لیا۔ لالہ دیبی بخش سب کے ہاتھ پاؤں جوڑتے، بیگار بھگتتے، پیسے کوڑی سے بھرنا بھرتے لیکن لاڈلے کو پھول کی چھڑی بھی نہ چھلاتے۔
جب ممواں چہارم میں تین مرتبہ لڑھک گیا تو لالہ اسے مقدمہ بازی سکھانے لگے۔ تحصیل یا صدر جاتے تو ممواں کو ٹانگ سے باندھ لیتے۔ لیکن ممواں کے لچھن ہی اور تھے۔ دیوانی فوجداری کی الف ب بھی نہ پڑھ پایا تھا کہ لالہ دیبی بخش چلتے بنے۔ ان کا کریا کرم کر کے للائن ایسا تھکیں کہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ اب تو ممواں کے سچ مچ پر نکل آئے۔ ہاتھ پیروں میں نہیں، زبان میں۔ ایسی ایسی اڑاتا کہ سننے والے سناٹے میں رہ جاتے، اپنا جی جلاتے پرائے بغلیں بجاتے۔
وہ کام دھام سے منہ چرائے باپ کا بوند جوڑا جمع جتھا دونوں ہاتھوں سے اڑانے لگا۔ پھر گھر کا الابلا پاس پڑوس میں پہنچ گیا۔ تیس بیگھے زمینداری کے شوق میں کھٹیا بتاشے کی طرح ادھیا پربٹ گئی۔ اب ممواں اپنے بھائی بندوں کو جنھوں نے اس کی زمین جوت لی تھی ’’اسامی‘‘ کہنے لگا۔ گھر کے دھلے کپڑے پہن کر بانس کی چھڑی ہاتھ میں لے کر خالص زمیندارانہ انداز میں کھیتوں کا معائنہ کرنے نکلتا۔ چھیڑ چھیڑ کر الجھتا۔ چھڑی چمکاتا اور گالیاں بکتا۔ زمانے کے سرد و گرم جھیلے ہوئے اور گرجتے برستے زمینداروں کا تیہہ دیکھے ہوئے ٹھنڈے کسان سنی کو ان سنی کرتے رہے اس لیے اور بھی کہ ان کو لالہ دیبی بخش کا چلن یاد تھا۔ ممواں لالہ دھیرے دھیرے پتنگ کی طرح اونچا ہوتا گیا۔ گاؤں کے ٹیڑھے ترچھے جوان ممواں کو سنجیدگی سے منہ نہ لگاتے کیونکہ نہ اس کی بانہوں میں بل تھا نہ باتوں میں رس، نہ کھوپڑی میں مت اور جیب میں جس۔ بڑے بوڑھوں کے پاس وہ خود نہ بھٹکتا اس لیے کہ وہ بات بے بات نصیحتوں کے حقے گڑگڑانے لگتے جن کی کڑواہٹ سے ممواں کا دم الجھنے لگتا۔
جس دن قرب و جوار میں کہیں کوئی واردات ہو جاتی اس دن ممواں کا نصیب کھل جاتا۔ جھٹ اجلے کپڑے ٹیڑھی ٹوپی اور تیل پلایا نری کا جوتا پہن کر ایک ہاتھ میں بیڑی دوسری میں چھڑی داب کر پہنچ لیتا۔ ہر جملے میں سرکار، حضور، غریب پرور، آپ کا اقبال سلامت آپ کا دشمن رو سیاہ وغیرہ کے پیوند لگاتا رہتا۔ اگر کوئی نام پوچھتا تو اکڑ کر کہتا لالہ امام بخش۔ تھانے کے منشی، تحصیل کے گرو اور نہر کے پترول اس کی باتوں پر رپٹ جاتے۔ جہاں بھاری بھاری کاشتکار دم سادھے کھڑے رہتے وہاں ممواں پلنگ پر چڑھتا اور دم پر دم بیڑی دھونکے جاتا۔ مسلمان اہلکار اس کا نام ہی سن کر ریجھ جاتے۔ رہے ہندو تو وہ بھی چکنے چپڑے ہاتھ پاؤں اجلا پہناوا اور توم تڑاق دیکھ کر کچھ نہ کچھ ملائم ہو ہی جاتے۔ پھر رموا پور گاؤں بھی اپنے علاقے میں نرالا تھا۔ زمین بھی معمولی تھی اور کاشتکاروں کے پاس تھی بھی تھوڑی تھوڑی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی کو روٹی دال کے چکر سے نکلنے کی فرصت بھی نہ تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ممواں کو میدان صاف ملا۔
پھر ایک ڈگی بجی اور زمینداریاں پرانی چٹائیوں کی طرح لپیٹ کر کونے میں کھڑی کر دی گئیں۔ ممواں لالہ کی تیس بیگھے زمین بھی جس پر بھائی بندوں کی روٹی کا سہارا تھا جھگڑے میں پڑ گئی۔ دلارے اہیر کے مرتے ہی رموا پور کی پردھانتا بھی خالی ہو گئی۔ گاؤں والوں نے ممواں سے معاملے کی بات کی اور صاف صاف کہہ دیا کہ اگر وہ زمین سے ہاتھ دھو لے تو پردھان کی پگڑی سرپر باندھ دیں گے نہیں تو زمین کو گیا جانو اور پردھانی مرتے مرتے نصیب نہیں ہونے کی۔ کام کا چور اور بات کا راجہ ممواں پہلے تو بہت اچھلا کودا پھر گردن ڈال دی۔ پردھانی نے اس کی زبان پر ایسی باڑھ رکھ دی کہ کاٹے نہ کٹتی تھی۔ گاؤں میں جو کچھ بھی ہو لیکن باہر تو وہ رموا پور کا پردھان ہی تھا۔ اچھے اچھے مان دان کرنے لگے اور وہ ہر گھڑی دو بوتل کے نشے میں رہنے لگا۔ تحصیل تھانہ اس کے ہاتھوں میں آیا۔ دیکھ کر اکڑتے براتے جوان اور ٹھنڈے مضبوط بوڑھے ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔
ساون کا مہینہ اور چیت کی گروی فصل کا نشہ تھا۔ حافظے کے کچے کسان ہنیوت کے وہ دن بھول چکے تھے جب دو وقت کھانے کے بجائے ایک وقت کی روٹی مٹھی بھر چنے میں تبدیل ہو کر رہ گئی تھی۔ کوٹھیوں میں غلہ اور جیبوں میں پیسہ بھرا تھا۔ زمیندار کی بے گار تھی نہ اہلکار کی تو تکار۔ چھکے ہوئے جانور رسیاں تڑاتے تھے۔ چڑچڑے آدمی برہے گاتے اور ٹھٹھول کرتے تھے۔ کٹکھنی عورتیں لڑنے والی باتوں پر ٹھٹھے لگاتی تھیں۔ ہری پتاور کے جھولے اور گھنگھنیوں کے تحفے گھر گھر پڑے تھے، لال لال چنریوں کے لہریے اور پاجی گیتوں کے کالے سارے گاؤں میں لہراتے پھرتے تھے۔ آسمان پر کالے بادل دودھاری بھینسوں کے ریوڑ کی طرح چر رہے تھے۔ یہاں سے وہاں تک دھان کے کھیتوں کا فرش بچھا تھا جن میں نکائی کرتے پتھریلے جسموں اور موہنی صورتوں کے گلدستے لگے تھے۔
ممواں اپنے ڈھنڈھار گھر کے سونے بروٹھے کے تخت پر ننانوے کے پھیر میں کھویا ہوا تھا۔ رموا پور کا بازار نیلام ہوا تھا۔ ٹھیکیدار چہارم کی رقم گنا گنایا تھا جس سے جیب چھنچھنا رہی تھی۔ وہ بھی گاؤں والوں کی طرح اپنے دلدر گھورے پر ڈال آیا تھا اور سکھ کی چادر اوڑھے بیٹھا تھا۔ ابھی کل ہی جاج پور کا ناؤ سندیسہ لایا تھا کہ جاج پور کے لالہ ہرنرائن اسے اپنی بٹیا دینے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ ادھر تھوڑے دنوں سے اپنے ہاتھ کی سینکی روٹی کروانے لگی تھی۔ دن تو جیسے تیسے کٹ جاتا لیکن بوندیوں کی تال پر ناچتی راتیں پہاڑ ہو جاتیں۔ گھڑیال کی طرح ننگی چارپائی منھ پھاڑے پڑی رہتی اور وہ خیالوں کے سدا بہار باغوں کے کنجوں میں بیٹھا گھٹنوں پر سر رکھے الم غلم سوچا کرتا، پھر پاس پڑوس کے سنسناتے جھولوں سے برستے ہولناک گیت اسے جھنجھوڑ ڈالتے اور وہ چاہنے لگتا کہ کسی ایسی کو بارہ کہاروں کی پالکی پر بٹھا کر لے آتا جس کے مہندی سے لال ہاتھوں میں لاکھ کی لال چوڑیا گنگناتیں اور چوڑے کی مست خوشبو میں بسے ہوئے بدن پر سرخ چنری سرسراتی اور وہ خود کیسری جامے پر صافہ باندھے گھوڑے پر سوار کہاروں کی باق کے تال سم پر قدم قدم چلا آتا۔ یہاں تک آتے آتے اس کے کلیجے پر گھونسہ لگتا اور وہ خیال بانٹنے لگتا۔
اس حوالدار کے لیے ۱۰۹کی شہادت ڈھونڈنے لگتا کہ اسی گھڑی کسی کے بیربہوٹی ایسے پیروں کے کھنکتے جھنکتے بچھوے ڈنک مار کر چلے جاتے۔ اس کا منھ اکرانے لگتا۔ دل پھٹنے لگتا اور خالی مکان کاٹنے لگتا۔ اچانک ایک آواز نے اسے ٹھوکا مار کر کھڑا کر دیا۔ چھٹکؤ چوکیدار خالی کوٹ پہنے پیٹی کندھے پر ڈالے لال صافہ لپیٹتا لاٹھی کڑھلاتا ننگے پاؤں دھم دھم بھاگتا چلا جا رہا تھا۔ اس کا راستہ کاٹ کر جگنو پاسی نکلا اور ہانک لگائی، ’’گردھاری مہاراج مار ڈالے گئے۔‘‘
ممواں کو جیسے برات کھانے کا نیوتہ مل گیا۔ اس نے جھٹ اشنان کر کے بالوں میں تیل چپر کر جوڑا پہنا۔ ٹوپی چپکائی اور بیڑی سلگاتا باہر نکلا۔ دوارے دوچار آدمی جمع ہو گئے تھے ایک آدمی بانچنے لگا، ’’گردھاری مہاراج قرضہ بانٹنے گئے تھے کہ ابھی ابھی خون لتھڑا ہوا ٹٹوا آیا اور گہار مچ گئی۔‘‘
گردھاری مہاراج وہی تھے جنہوں نے پچھلے سال تالاب کی نیلامی میں ٹانگ اڑائی تھی اور ممواں کی بھانجی ماری تھی۔ اس پر تکرار بھی ہو گئی تھی۔ لاٹھیاں بھی نکل آئی تھیں لیکن بڑے بوڑھوں نے بیچ میں پڑ کر ممواں کی آبرو بچائی تھی۔ وہ ان سب کو لے کر گرام پنچایت کی پکی عمارت کی طرف چلا۔
رموا پور اور جاج پور کے بیچ یہ پہلا قتل تھا جو بیس برس میں ہوا تھا۔ اس کی ہیبت نے ممواں کو سن کر دیا تھا۔ گردھاری کی لاش کی بھیانک خیالی صورت اس کی آنکھوں میں گھوم رہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ گردھاری کو کون قتل کر سکتا ہے۔ چار چار گاؤں کے ہیکڑ آدمیوں کی صورتیں اس کے سامنے سے گزر گئیں لیکن کسی پر دل نہ جما۔ اس کو یقین تھا کہ پولس والے سراغ رسی میں اس کا مشورہ مانگیں گے۔ وہ چاہتا تھا کہ مشتبہ آدمیوں کی فہرست اپنے ذہن میں رکھ لے لیکن ایک نام بھی نہ ملا۔ اس نے سوچا کہ اگر بہت دباؤ ڈالا گیا تو وہ ان لوگوں کو لکھوا دے گا جن سے اس کی ان بن رہتی ہے۔ لیکن اب ممواں کو ضمیر نے جھنجھوڑ ڈالا۔ قتل کے جرم میں کسی بے گناہ کے پھنسنے کا مطلب جانتے ہو؟ ممواں لالہ! پھانسی یا عمر قید۔ ممواں کانپ اٹھا۔ پنچات گھر میں بھیڑ لگی تھی۔ سب ایک ساتھ بول رہے تھے اور صرف اپنی آواز سن رہے تھے۔ ممواں لالہ کو دیکھ کر ذرا شور کم ہوا، بیڑیاں سلگانے کے بعد کسی شوخ لڑکے نے پوری آواز میں للکارا۔
’’سال بھر نائیں بتیا اور ممواں لالہ نے اپنا چکتاوا کر لیا۔‘‘
کسی نے ٹھٹھہ لگایا، بہتوں نے سنگت کی اور ممواں لالہ کا منہ دیکھا جو بند تھا آنکھیں کہیں اور تھیں۔ ایک دوسرے آدمی نے بات آگے بڑھائی۔
’’کاغذ کی ناؤ ہمیشہ تھوڑی چلت ہے بھائی۔‘‘
’’کھبو گاڑی ناؤ پر اور کھبو ناؤ گاڑی پر۔۔۔ وخت وخت کی بات ہے۔‘‘
ممواں ٹس سے مس نہ ہوا۔
’’اوں ہوں سو سنار کی ایک لہار کی۔‘‘
’’کا سر جو کاکا تم کو بتائیے دیں۔ انڈیا بھر کی پولس لے آویں۔ مل لاس ناہیں ملت۔‘‘
’’اور کا لالہ امام بخش کچی گولی نہیں کھیلتے ہیں۔‘‘
’’ممواں لالہ خفا نہ ہوئیں تو ہم بتائے دیں۔‘‘
اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ ممواں لالہ نے بیڑی پھینک کر آنکھیں چمکائیں اور جیسے پوری سبھا جگمگا اٹھی۔
’’بتاؤ۔‘‘
’’گردھاری مہاراج کٹیا کے جنگل میں کٹے پڑے ہیں۔‘‘
ایک دبلے پتلے لڑکے نے اس جملے کی بندوق داغ تو دی لیکن خود بھی اس دھماکے سے سمٹ کر رہ گیا۔ تھوڑی دیر کے لیے سب سنسنا کر رہ گئے۔ ممواں چپکے سے ہنس دیا جیسے گرو کسی چیلے کی ایسی ویسی بات پر مسکرا دے۔
’’اور کریب (قریب) آئے جائی؟‘‘ وہی لڑکا ڈھٹائی سے بولا
’’آئے جاؤ‘‘ممواں اسی طرح سر نیچا کیے بولا۔
’’آئیے جائی؟‘‘ اس نے چھان پٹھک کرتی آواز میں پوچھا
’’اب آئے بھی چکو۔‘‘
اور اس نے لال بجھکڑ کے لہجے میں تڑ سے کہا، ’’تو پھر سن رکھو ممواں لالہ گردھاری مہاراج دھندھاری کے پل کے نیچے لیٹے ہیں۔ ‘‘ ممواں نے گردن جھکا لی۔ نئی بیڑی سلگا کر دھواں سینے پر چھوڑا۔ گردن ہلائی کچھ کہنا چاہا کہ جاج پور کے آدمی آ گئے بات آئی گئی ہو گئی۔
سورج بیٹھتے بیٹھتے جاج پور میں پولس آ گئی۔ ممواں لالہ پہلے ہی سے پہنچا ہوا تھا۔ تھانیدار کی گھوڑی دیکھتے ہی پلنگ ڈلوانے اور قالین بچھوانے لگا۔ حقے پانی کی فکر کر کے کھانے دانے کا بندوبست کرنے لگا۔ جاج پور کا پردھان نچنت بیٹھا رہا۔ بوڑھے گدھ کے مانند سیاہ رات جاج پور پر اتر آئی تھی۔ سارا گاؤں پھٹی آنکھوں، لٹکے ہوئے لمبے چہروں اور بھنچے ہوئے ہونٹوں کا چلتا پھرتا قبرستان ہو کر رہ گیا تھا۔ کوئی گھر ایسا نہ تھا جس کا ایک آدھ آدمی پولس کی پوچھ گچھ کے چکر میں نہ آ گیا ہو۔ بس ایک لالہ ہرنرائن تھے جو اپنا دروازہ بند کیے بیٹھے تھے اس لیے کہ ہونے والا داماد ممواں لالہ پولس دھر پٹک میں سپاہیوں سے زیادہ جوش دکھلا رہا تھا۔ رات کے بارہ بجے کے قریب تھانیدار نے پونم کہار کو کھانا پروسنے کا حکم دیا۔ وردی پہنے پہنے جب وہ کھانے پر بیٹھا تو ایک اور کھانا منگوالیا اور ممواں لالہ کاکندھا پکڑ کر اپنے سامنے بیٹھا لیا۔ ممواں نے اپنا یہ مرتبہ دیکھا تو تھوڑی دیر کے لیے کھوپڑی بھک سے اڑ گئی۔
دور گیس کی مٹیالی روشنی میں لرزتے سائے اپنے پیاروں کی خیر خبر لینے آئے تھے۔ ممواں نے ان جاندار پرچھائیوں کو اپنی بڑائی بتانے کے لیے پوری آواز میں باتیں شروع کر دیں۔ کھانا کھا کر تھانیدار نے ممواں کو اپنی ڈبیا سے سگریٹ نکال کر پکڑا دی۔ ممواں مٹھی میں دبا کر لمبے لمبے دم لینے لگا تھا۔ بڑی دیر تک وہ تھانیدار کی شکر گزاری میں بیٹھا رہا۔ جب جماہیاں آنے لگیں تو تھانیدار کی گردن اٹھنے کا انتظار کیا جو رجسٹر کھولے لکھتا جا رہا تھا۔ آخرکار ممواں پلنگ سے اٹھ پڑا۔ نگاہ ملتے ہی اس نے سینے پر ہاتھ جوڑ لیے۔ شین قاف سے درست اردو میں بولا، ’’غریب پرور اب حکم دیجیے۔ صبح سورج نکلتے حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘
تھانیدار نے رجسٹر بند کیا۔ سگریٹ جوتے سے مسلی دونوں ہاتھ کرسی پر پھیلا کر زہریلے لہجے میں بولا، ’’دھندھاری پل کے نیچے سے گردھاری کی لاش نکال لی گئی اس کو بھی دیکھتے جاؤ امام بخش!‘‘
’’کا غریب پرور!‘‘
وہ کچھ اور کہتا کہ پیچھے کھڑے حوالدار نے اس کے چکنے چپڑے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔
٭٭٭
نازو
’’چھن چھن۔‘‘
آواز نے کانوں کو چور چور کر دیا جیسے اس کے سامنے اس کی نازو نے سرخ چوڑیوں سے بھرے ہوئے دونوں ہاتھ دہلیز پر پٹخ دیے ہوں۔ دونوں سفید تندرست کلائیاں خون کی چھوٹی چھوٹی مہین لکیروں سے لالوں لال ہو گئیں۔ کتنی شدت سے جی چاہا تھا کہ اس جیتے جاگتے خون پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ آج پھر اس کی زبان نمکین ہو گئی۔ آنکھیں چیخ پڑیں۔ دونوں زخمی کلائیاں دو بچوں کی لاشوں کی طرح اس کے پہلو میں جھول رہی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو ابل رہے تھے۔ دھاروں دھار ہونٹ کانپ رہے تھے۔ عذابوں کی بد دعائیں دے رہے تھے۔ اسے یقین نہ آ رہا تھا کہ یہ وہی عورت ہے، اس کی وہی بیوی ہے جس کی بے مزہ قربت کی چکی میں سیکڑوں راتیں پس کر نابود ہو گئیں۔ طلاق کی چلمن کے پیچھے سے وہ کتنی پراسرار اور زرنگار لگ رہی تھی۔
ٹریکٹر پھر چلنے لگا۔ تھوڑا سا کھیت باقی رہ گیا تھا۔ گیہوں کی پوری فصل کٹی پڑی تھی۔ کہیں کہیں بڑے انبار لگے تھے۔ کہیں چھوٹے چھوٹے ڈھیر۔ جیسے بیتے ہوئے سال اور مہینے۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے ڈھیر کو اپنی چھڑی سے الٹ دیا، سنہرے تنکوں اور ڈنٹھلوں کے ہجوم سے کچھ دانے نکل آئے، زندہ چمک دار جیسے گزرے دنوں کے ان گنت لمحوں کے بھوسے میں کچھ یادیں چمک رہی ہوں۔۔۔ یادیں ہماری بوئی ہوئی فصلوں کے دانے۔ ابھی نہ دھوپ تیز ہوئی تھی اور نہ ہوا گرم۔ لیکن وہ اپنے ادھیڑ جسم کے ساتھ ٹیوب ویل کے پانی سے لبریز پختہ نالی کے کنارے کنارے چلتا ہوا ڈامر کی سڑک پر آ گیا۔
اب انجمنوں کی آوازیں دور اور دلکش ہونے لگی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف اسکولوں کی زرد عمارتوں میں امتحانوں کے پڑاؤ پڑے تھے اور شرارتوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں کھو گئی تھیں۔ بلاک کے دفتر پر بھیڑ لگی تھی۔ تقاوی اور بیسارے کے کاغذات بن رہے تھے۔ اب وہ بھیڑ سے ڈرنے لگا تھا۔ ان کی بے ادب نظروں سے کچلے جانے کے خوف نے اسے ایک گلی میں موڑ دیا، جو کھری اور شاداب آوازوں سے چھلک رہی تھی۔ شور مچاتے زیوروں اور بھڑکدار کپڑوں سے چمک رہی تھی اور ان سب میں شرابور ہوتا اپنے مکان تک گیا جو اس کے آبائی مکان کا حصہ تھا۔ دوسرے حصوں میں ہسپتال، ڈاک خانہ اور گورنمنٹ اسٹور تھا۔ اس نے دروازے پر ہلکی سی تھپکی دی کہ ہسپتال میں انتظار کرتے مریضوں میں سے کوئی جان پہچان والا وقت گزارنے اس کے پاس نہ آ جائے۔
پورا گھر جیسے بھونسلے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ اس نے لانبے پتلے کمرے میں داخل ہو کر پنکھے کا سوئچ آن کیا جو وہاں اجنبی لگ رہا تھا۔ دروازے پر کسی نے آواز دی، ’’مہردین۔‘‘
اور جب نازو طلاق کے کفن میں لپٹی ہوئی زخمی کلائیوں سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے رخصت ہونے کے ادھے میں سوار ہوئی تو وہ لڑکھڑاتے ہوئے اس کے قریب گیا، ’’میں تمہارا تمہارے بھائی کو ادا کر دوں گا۔‘‘ جواب ملا، ’’وہ اپنی ہونے والی کو میری طرف سے منہ دکھائی میں دے دیجیے گا۔‘‘ ایک سناٹا سا چھا گیا۔ وجود کے اندر سے باہر تک سب کچھ سنسان ہو گیا۔ نئی دلہن کے خواب میں بال تو اسی وقت پڑ گیا تھا جب اس نے نازو کو آنسوؤں میں نہاتے ہوئے دیکھا تھا، اس جملے سے چٹخ گیا تھا اور جب اس کی اچانک موت کی اطلاع آئی تو ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
آج پھر دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا لیا۔ نازو کے جہیز کی اونچی مسہری کے تکیے کا سہارا لے کر بیٹھ گیا کہ کہیں گر نہ پڑوں اور جب ہاتھ ہٹایا تو بائیں کان کا در دامن میں پڑا تھا۔ سونے کے در میں بیضاوی موتی دمک رہا تھا۔ وہ اسے دیکھتا رہا اور داہنا ہاتھ ہمیشہ کی طرح داہنے کان پر لرزتا رہا۔ اس لو میں بھی سوراخ تھا اور اس میں بھی بائیں کان کی طرح در چمکا کرتا تھا۔ جس رات وہ کھو گیا تھا۔ کان کی لو کا سوراخ دل میں منتقل ہو گیا۔ ماں نے منت کے ذر اس لیے پہنائے تھے کہ بیٹے نہ جیتے تھے۔ بچپن لڑکیوں کی طرح برتا گیا۔ دوپٹے اوڑھائے گئے۔ گھروندے بنائے گئے۔ ہنڈ کلیاں بنائی گئیں۔ گڑیوں کی شادی رچائی گئیں۔ اور سب کچھ تو بھول گیا، چھوٹ گیا، لیکن کانوں کے در شخصیت کا حصہ بن گئے۔ خدوخال کی طرح وجود میں شامل ہو گئے۔ وہ نوجوانی میں بھی شوق سے پہنتا رہا۔ پھر دروازے پر شور سا مچ گیا۔ باورچی خانے سے بوڑھی عورت نے کوے کی طرح کون کون کی رٹ لگا دی۔۔۔ وہ اطمینان سے سوچنے کے لیے خود باہر نکلا۔ دروازے پر مندر کھڑی تھی۔ ادھیڑ عمر کی گوری چٹی مندر! جس کی جوان رانوں میں انہوں نے اپنے بوسوں کے چراغ جلائے تھے۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’میاں! آج برات آئے رہی ہے آپ کی بیٹوا کی۔‘‘
’’ہاں ہاں پھر۔‘‘
’’سب انتجام آپ کے ری دعا سے پکا ہے۔۔۔ مل مسند نائن مل رہی ہے۔‘‘
’’مسند ہے تو۔۔۔ لیکن معلوم نہیں کہاں ہے۔ جب وہ گئیں نہ ضرورت پڑی نہ تلاش کی گئی۔ تم باہر سے کسی کو بھیجو میں ڈھونڈوا دوں۔‘‘ مندر کے جانے کے بعد اس کے تصور نے فراغت کا سانس لیا۔
برنا پور کی شادی تھی اور اس کی نوجوانی۔ باپ کی موت کے بعد پہلی بار کسی تقریب میں شرکت کو نکلا تھا۔ آدھی رات کو کھانا ہوا۔ اور پچھیارے سے دولہا اندر آیا۔ تلچوری چلی اور ہنگامہ ہوا۔ بوڑھی بوڑھی کٹکھنی عورتیں جو بولتے جلووں پر بھی کاڑھے بیٹھی تھیں ایک ہی ریلے میں بہہ گئیں۔ روشنیاں جو دن رہے سے جل رہی تھیں اب سونے لگی تھیں۔ یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی عمارت کے کئی حصے تاریک ہو چکے تھے۔ وہ کوئی چیز لینے اپنے کمرے میں آیا جو اندرونی اور بیرونی عمارتوں کے درمیان دوہرے دالانوں میں چھپا کھڑا تھا۔ وہ دیا سلائی کی روشنی میں لیمپ ڈھونڈ رہا تھا کہ اندرونی عمارت کی صحنچی میں ایک چہرہ چمک اٹھا اور اس طرح کہ دیا سلائی نے اسے جلا دیا۔ وہ اتنا روشن تھا کہ اگر تھوڑا سا اور قریب آ جاتا تو اس کے اپنے کمرے میں روشنی کی ضرورت نہ رہتی۔ وہ اسی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ جیسے جادو کے زور سے کھنچا ہوا چلا گیا۔ گھاس کے تختوں پر ڈھیر سامان سے بچتا ہوا صحنچی کے سامنے دالان کی سیڑھیوں پر پہنچ گیا۔
’’میاں سامنے والی کوٹھری میں تو مسند ہے نہیں۔ کاجی جی صاحب کا بڑا بکس کھولیں؟‘‘
’’ہاں‘‘
صحنچی اس کے نور سے سنگ مرمر کی بن گئی تھی۔۔۔ سانس پھولنے لگا تھا۔ پہلوؤں میں درد کے نشتر اتر گئے۔ اریبی پائجامے کی چوڑیاں پسینے سے بھر گئیں کہ ایک آواز طلوع ہوئی۔
’’آپ؟‘‘
اور جیسے ہی وہ آگے بڑھا۔ روشنی، نور اور رنگ کا ایک پیکر، ایک ہیولیٰ اس سے ٹکرا گیا، اس پر بکھر گیا۔ داہنے کان پر کنول کا تازہ پھول لرز گیا اور اس کا کان اس کے سینے کی طرح خالی ہو گیا اور وہ ایک چھلاوے کی طرح اس کی بانہوں سے نکل گئی اور جب وہ جاگتی آنکھوں کے خواب سے بیدار ہوا تو کمرے میں سپاہی لیمپ جلا رہا تھا۔
’’میاں آپ کے داہنے کان کا در۔‘‘
پھر بہت سی روشنیاں صحنچی دالان اور صحن میں در ڈھونڈتی پھریں اور بہت دنوں بعد کسی بنت عم نے اس کے حال پر ترس کھا کر بتلا دیا کہ دیبی پور کی بٹیا نازو سے بیاہ کر لیا۔ لیکن دیبی پور کی بٹیا نازو نے دلہن بن کر ساری ساری تفتیش کے جواب میں صرف اتنا کہا کہ میں نے تو وہ صحنچی دیکھی بھی نہیں اور اسی گھڑی نازو اس کی نگاہ سے گر گئی۔ خواب جتنا سنگین ہوتا گیا، زندہ موجود اور معصوم نازو کی حقیقت اتنی ہی پگھلتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ آسودگی اور فراغت سے خواب دیکھنے کی آرزو اور تعبیر کو دوبارہ پا لینے کی جستجو میں نازو کو طلاق دے دی گئی۔
’’میاں! بکس کھل گیا۔‘‘ میاں چونک کر اٹھے اور خواب میں چلنے لگے۔ لکڑی کا بڑا سا مٹیالا بکس کھلا پڑا تھا، ’’اسے کیوں کھول دیا کمبختوں؟‘‘
’’جی؟‘‘
’’اب کھول ڈالا ہے تو ڈھونڈو۔‘‘
جازم، پردے، توشک، لحاف، رضائیاں اور دوشالے نکل نکل کر پھیل گئے، مگر مسند نہ ملی۔ پھر ایک چھوٹا سا صندوقچہ نکلا جس میں بڑا سا تالا پڑا تھا۔ سامان رکھوا کر وہ اپنے کمرے میں آ گئے۔ صندوقچہ کھولا تو چاندی کے چھوٹے چھوٹے زیور کنمنا کر جاگ اٹھے۔ گڑیوں کے ننھے منے کپڑے جگر جگر کرنے لگے۔ سونے کی ٹوٹی ہوئی بالیاں ملیں، جن میں ایک سیس پھول پھنسا ہوا تھا۔ معلوم نہیں کتنے دنوں بعد وہ پہلی بار تنہائی میں مسکرایا۔ نازو اور حسین اور قاتل ہو گئی۔ پھر چور خانے سے سونے کا ایک در برآمد ہوا۔ جس میں بیضوی موتی پڑا تھا۔ ہاتھ کانپنے لگے۔ آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا۔ وہ اگر کھڑے ہوتے تو گر پڑتے۔ سنبھل کر بیٹھے تو ہاتھ نے کان سے در کھینچ لیا اور اس طرح کہ سارے میں ننھے ننھے خون کے نگینے جڑ گئے۔ وہ دونوں کو ایک ہتھیلی پر رکھے دیکھتے رہے، دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ سن ہو گئے۔
٭٭٭
ماڈل ٹاؤن
کانٹے دار تاروں کی گھنی باڑھ دیکھ کر راستہ بھول جانے کا احساس ہوا۔ اس نے مڑ کر دیکھا ’’ڈی بلاک‘‘ کی یکساں یک رنگ چہار منزلہ عمارتوں کا جنگل کھڑا تھا۔ دروازوں دریچوں اور بالکنیوں میں کھڑے ہوئے بچے دور سے رنگ برنگ پھولوں کے گچھوں کے مانند نظر آ رہے تھے۔ وہ آدھی عمارت کا چکر کاٹ کر سڑک پر آ گیا۔ بس اسٹینڈ پر کھڑی ہوئی مسافروں کی لمبی قطار دیکھ کر اس نے اپنے آپ پر لعنت بھیجی کہ دو مہینے ہو گئے سڑک ناپتے ہوئے لیکن راستوں کا سبق یاد نہ ہوا۔
بس نظر آتے ہی ٹیڑھی میڑھی لکیر اکہری دوہری اور پھر تہری ہو گئی۔ انسانوں کا ایک سیلاب اترنے والوں کو دھکیلتا ہوا دروازے میں دھنسنے لگا۔ اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ مٹھیاں بند ہو گئیں اور ہونٹ بھنچ گئے۔ جب ہوش آیا تو وہ بس کے اندر تھا۔ نگاہ سیٹ کی تلاش میں جھپٹ رہی تھی کہ کسی نے اس کا بازو پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ قلم اور چشمے سے مطمئن ہو کر پہلو میں بیٹھے ہوئے آدمی کو دیکھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ انجن کے شور سے پس منظر میں اس نے اپنی آواز سنی۔ ارے آپ؟۔۔۔ ریاض بھائی۔ اور سڑک پر بھاگتی ہوئی بسوں کی طرح اس کے ذہن میں خیالات اڑنے لگے۔ وہ اپنی ہونے والی بیوی غزالہ کو دیکھ کر اور پسند کر کے واپس آ رہا تھا کہ کسی نے اس کے کان میں کہا، ’’غزالہ کی شادی اس کے ماموں اعجاز صاحب ایم۔ پی سے کر رہے ہیں۔‘‘
’’تو آپ نے پہچان ہی لیا۔۔۔ ورنہ‘‘
اور جہیز میں تم کو چار سو روپے کی نوکری دے رہے ہیں اور یہ پاپڑ وہ اس لیے بیل رہے ہیں کہ غزالہ ان کے گھر میں رہتی ہے جوان کی بیوہ بہن کی بیٹی اور ضدی بیٹے ریاض کی محبوبہ ہے۔ غزالہ اکیلی ڈولی میں سوار نہ ہو گی۔
’’دلی میں تو لوگ آنکھوں سے پہچان لیتے ہیں لیکن زبان سے اجنبی بن جاتے ہیں۔‘‘
غزالہ کے ساتھ اس کی ماں کے سر کا پہاڑ اور اعجاز صاحب کے دل کا بوجھ بھی کوٹھی سے نکل کر ڈولی میں بیٹھ جائے گا۔
’’آپ کب تشریف لائے؟‘‘
اور ریاض کی شادی کے راستے پر کھڑا ہوا آہنی پھاٹک آپ ہی آپ کھل جائے گا۔ اس نے بھاری بھرکم اور گوری چٹی غزالہ کو گھور کر دیکھا تو اس کے گالوں پر ریاض بھائی کے ہونٹوں کی مہریں لو دینے لگیں۔ کمر پر ریاض بھائی کی بانہوں کے نشان ابھر آئے۔
’’میں تو کئی روز سے یہاں ہوں۔‘‘
لیکن جیب کی بیماری سے نجات پانے کے لیے اس نے غزالہ کو قبول کر لیا۔ مسلسل بے کاری سے نجات پانے کے لیے اس نے شادی کر لی۔ کڑوی کسیلی دوا کا لبریز پیالہ آنکھیں بند کر کے نگل گیا۔
’’کہاں قیام ہے آپ کا؟‘‘
پھر اعجاز صاحب کی سفارش نے اسے دو کمروں کا فلیٹ بھی دلا دیا۔ جس دن اس کو فلیٹ ملا اسی کے چند روز بعد غزالہ کو لے آیا۔
’’یہیں ماڈل ٹاؤن میں!‘‘
پورے دو مہینے بھی نہیں ہوئے غزالہ کو دہلی آئے اور
’’اچھا‘‘
اور ریاض بھائی بے قرار ہو گئے۔ بے چین ہو گئے۔
’’شام کو پانچ بجے آپ ریگل کے سامنے مل رہے ہیں؟‘‘
’’جی‘‘
ایک دھچکے کے ساتھ بس رک گئی۔ ریاض بھائی کھڑے ہو گئے اور مسافروں کی رینگتی ہوئی قطار میں گم ہوتے ہوتے چیخے، ’’آج پانچ بجے ریگل کے سامنے۔‘‘
آفس سے نکلتے ہوئے اس نے تیواری سے دس روپے قرض مانگ لیے۔ دس بارہ اس کی جیب میں پہلے سے پڑے تھے۔ وہ آسودہ قدم اٹھاتا ہوا ریگل ٹاکیز کے سامنے آ گیا۔ گھڑی پر نگاہ کی، پانچ بج رہے تھے۔ سارے منظر پر دھندکا باریک نقاب پڑا تھا۔ تیز ہوا کی ٹھنڈک کپڑوں سے چھنتی ہوئی ہڈیوں میں پیوست ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے اپنے نئے گرم کوٹ کا کالر کھڑا کر لیا، کلائیوں تک ہاتھ جیبوں میں ڈبو لیے۔ سامنے آدمیوں کا چو مکھا دریا بہہ رہا تھا۔ سب اسی طرح آگے پیچھے بھاگ رہے تھے جیسے سب کو آخری گاڑی پکڑنا ہو اور دیر ہو چکی ہو جیسے شکاریوں کو دیکھ کر سرمائی پرندے کے پرے جھیل پر اترنے کا ارادہ ملتوی کر دیں اور سنسناتے ہوئے نکل جائیں۔ اینٹیں ڈھونے والے ٹھیلوں کی طرح زندگیوں سے بھری ہوئی بسیں گزرتی رہیں۔ ریل گاڑی کے ڈبوں کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے موٹروں کی قطاروں کے درمیان سے لوگ ایسے نکل رہے تھے جیسے ہاکی کا کھلاڑی دشمن ٹیم کو ڈاج دیتا ہوا گول تک پہنچتا ہے۔
اس نے ایک بار پھر گھڑی دیکھی اور چونک پڑا۔ چھ بج چکے تھے اور آوازوں کا سناٹا گہرا ہو گیا تھا۔ روشنیوں کا سیلاب چڑھ آیا تھا اور وہ ریاض بھائی کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ اس نے سوچا ریاض بھائی سنیما دیکھنا چاہتے ہوں گے ورنہ ریگل کی شرط کیوں لگاتے۔ اگر اس نے ٹکٹ نہ خریدا تو ریاض بھائی اس کو۔۔۔ غزالہ کے شوہر کو مفلس خیال کریں گے۔ کنجوس سمجھیں گے۔ یہ خیال آتے ہی وہ لپکتا ہوا بکنگ ونڈو کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اس شو کا آخری ٹکٹ خریدا اور فلم شروع ہونے کے بعد ہال میں داخل ہوا۔
’’جن من گن‘‘ کے شروع ہوتے ہی وہ ہال کے باہر آ گیا۔ آسمانی سوٹ کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ڈھونڈتا رہا۔ جب تیسرے شو کی گھنٹی بج گئی تب وہ ریگل کے باہرنکلا۔ دھند کے بھاری نقاب کے پیچھے ٹمٹماتی روشنیاں کتنی اداس اور بیمار نظر آ رہی تھیں۔ سماعت کے چیتھڑے اڑا ڈالنے والے شور میں کیسی دلدوز خاموشی پنہاں تھی۔ اور اس وقت اس کے چلو سے قطرہ قطرہ ٹپکے جا رہا تھا اور بس اسٹینڈ کی طرف بھاگ رہا تھا۔
بس آ گئی ’’کیو ٹوٹ کر ڈبلیو‘‘ بن گیا۔ اس نے بھی اپنے آپ کو بھیڑ میں دھانس دیا۔ پائدان پر پاؤں رکھتے ہی احتیاط کے طور پر کنڈکٹر سے پوچھا، ’’یہ کس نمبر کی بس ہے؟‘‘
’’آپ کو کہاں جانا ہے؟‘‘ کنڈکٹر نے سوال پر سوال جڑ دیا۔
’’ماڈل ٹاؤن۔‘‘
’’تو پیسے نکالو۔‘‘
اس نے پانچ کا نوٹ پکڑا دیا۔
کنڈکٹر نے بہت سی ریزگاری کے بوجھ سے چرمرایا ہوا ٹکٹ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس نے مٹھی کو سنبھال کر کوٹ کی اندرونی جیب میں الٹ دیا اور پیچھے سے دھکا کھا کر بغیر ارادے کے آگے بڑھ گیا۔ پھر گوشت کی دیواروں میں پھنس گیا۔ بس چلتی رہی۔ بڑی دیر تک چلتی رہی۔ جتنے مسافر اترے ان سے زیادہ چڑھتے رہے اور وہ گھڑی کے پنڈولم کی طرح آگے پیچھے ہوتا رہا۔ پھر کنڈکٹر نے صدا لگائی جس کے انتظار میں وہ بوڑھا ہوا جا رہا تھا۔
’’ماڈل ٹاؤن۔‘‘
وہ دھکے کھاتا اور کھلاتا ہوا نیچے اتر آیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے وہ کہر کے سمندر میں پھاند پڑا۔ سفید دھواں سا انگڑائیاں لے رہا تھا اور کچھ نظر نہ آ رہا تھا۔ سڑک کی روشنیاں پکڑے ہوئے جگنوؤں کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ وہ بھی دوسرے مسافروں کے ساتھ کڑھلتا ہوا آگے بڑھا۔ اپنے اطمینان کے لیے ایک شخص سے پوچھنے لگا، ’’بھائی صاحب یہ ماڈل ٹاؤن ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں آپ کو کہاں جانا ہے‘‘
’’ڈی بلاک‘‘
’’تو آگے جا کر داہنے ہاتھ گھوم جائیں۔‘‘
وہ خوش ہو کر کہرے کے سمندر میں تیرنے لگا۔ پھر وہ پٹرول کی ٹنکی آ گئی جس کی پشت سے اس کے بلاک کو راستہ جاتا تھا۔ پھر لوہے کا پھاٹک بھی آ گیا۔ اب دھند کی چادر مہین ہو گئی تھی آب رواں کے مانند۔ اور وہ چہار منزلہ عمارت کے صحن میں تھا۔ اس نے پہلا زینہ چھوڑ دیا۔ دوسرا زینہ آیا اس کے پاس ہی سفیدی کا ڈرم پڑا تھا۔ وہ گھر پہنچنے کی خوشی سے چھلک اٹھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر تیسری منزل پر پہنچ گیا۔ چوتھے دروازے پر استھانہ صاحب کی نیم پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ اپنے دروازے کے سامنے پہنچتے ہی اس پر جیسے بجلی گر پڑی۔
ایک پٹ آدھے سے زیادہ کھلا ہوا تھا۔ برآمدے کا بلب روشن تھا۔ اور نل کے نیچے ریاض بھائی کھڑے تھے۔ آسمانی سوٹ پہنے اس کی طرف پشت کیے ہاتھ دھو رہے تھے۔ پاس ہی کچن میں غزالہ اسٹو کے سامنے کھڑی تھی۔ سرخ شال کے دونوں کنارے اس کی پیٹھ پر برابر سے پڑے تھے۔ آٹا پیسنے والے انجن کی طرح اسٹو دھڑ دھڑا رہا تھا اور غزالہ کا سفید تندرست ہاتھ فرائی پان میں چمچہ چلا رہا تھا۔ لاہی رنگ کی اسی ساری میں وہ صبح چھوڑ گیا تھا۔ اور جیسے اس کے پیروں میں کسی نے کیلیں ٹھونک دیں۔ وہ جم کر رہ گیا۔ پھر ریاض بھائی نے نل پر پڑی ہوئی نیلی تولیہ اٹھائی اور منھ پونچھنے کچن میں گئے اور غزالہ کے بھاری کولہے پر ایک دھپ لگا دی۔ اب وہ برداشت نہ کر سکا اور تیز تیز قدم رکھتا ہوا زینے پر آ گیا۔
’’تو یہ ہیں۔۔۔ ریاض بھائی۔۔۔ سستے رومانی ناولوں کے ہیرو۔۔۔ مجھے ریگل بلا لیا تاکہ میں دفتر سے گھر نہ آ سکوں۔ ان کا انتظار کرتے کرتے فلم دیکھنے لگوں اور وہ فلم کے ہیرو کا پاٹ ادا کریں۔‘‘
’’اور غزالہ؟‘‘
’’غزالہ بھی ہیروئن ہوئی۔۔۔ تو گویا کہ میں رقیب ہوں۔‘‘
’’بچپن کی محبت پتھر کی لکیر ہوتی ہے میرے بھائی۔۔۔ تم تو غزالہ کے قانونی داشتہ ہو۔ تمہارے ہونٹوں پر چار سو روپے ماہوار کی مہر لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’لیکن یہ دروازہ؟‘‘
’’جرم کا بھانڈا تو آخر کسی طرح پھوٹنا ہی چاہیے تھا۔‘‘
’’یا جھوٹی گندی معصومیت کے لنگڑے اظہار کے لیے اب کھول دیا ہو۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘
اس نے اپنی باقاعدہ تلاشی لی۔ لیکن اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ ہاتھ کی چھڑی تک نہ تھی۔ اگر چاقو مجھے مل جاتا تو اس ڈرامے کو انجام تک پہنچا دیتا۔
’’اب میں کیا کروں؟‘‘
’’کیا کر سکتا ہوں آخر؟‘‘
’’تم یہیں کھڑے رہو وہ اسی طرف آئے گا۔ اس کو زینے پر سے دھکا دے سکتے ہو۔‘‘ پھر اس نے دیکھا کہ ریاض بھائی کا سر پھٹ گیا ہو اور وہ خون میں لت پت فرش پر ڈھیر ہوں۔ اس نے اپنے دل کے زخم میں ٹھنڈک محسوس کی۔ پھر زینے پر قدموں کی چاپ ہوئی، کوئی سیڑھیاں چڑھتا اسی طرف آ رہا تھا۔ اس نے سانس روک لی اور پرچھائیں کی طرح دیوار سے چمٹ گیا۔ آنے والا پہلے ٹھٹکا پھر اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
’’کون؟‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘
’’جی۔۔۔ م۔۔۔ میں۔‘‘
موٹے موٹے رسوں کی طرح دو بانہیں اس کی کمر سے لپٹ گئیں۔ پھر جیسے دیواریں توڑ کر آدمی نکل آئے، کھڑکیوں اور دروازوں سے انسان ابلنے لگے اور وہ آوازوں کے زہریلے آبشار میں شرابور ہو گیا۔ دھار دار آوازوں کے زخموں سے لہولہان ہو گیا۔ اب وہ روشنی کی چادر کے نیچے کھڑا تھا۔ کئی جوڑ آنکھیں اسے گھور رہی تھیں۔ آوازیں اپنی گزشتہ چوریوں کی تفصیل سنا رہی تھیں، آوازیں اس کو شناخت کرنے کا دعویٰ کر رہی تھیں اور آوازیں ایک ساتھ اس سے متضاد سوالات کر رہی تھیں۔ پھر اس نے اپنی گڑگڑاتی ہوئی آواز سنی۔
’’یہ۳/۱۱ فلیٹ میرا ہے۔۔۔ اس میں میری بیوی موجود ہے۔‘‘
’’ابے پاگل ہو گیا ہے۔۔۔ اس میں تو میں رہتا ہوں۔‘‘
اس نے تڑپ کر دیکھا ایک آدمی آسمانی سوٹ پہنے گالیاں برساتی آنکھیں کھولے اس کو سارا سموچا نگل جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور مردوں کے غول کے پیچھے ایک بھاری بھرکم گوری چٹی عورت لاہی رنگ کی ساری باندھے اور سرخ شال اوڑھے پلکیں جھپکا رہی تھی۔ تحیر اور بے بسی کا فوارہ اس کے منہ سے پھوٹ پڑا۔
’’یہ ماڈل ٹاؤن نہیں ہے؟‘‘
’’ہے‘‘
’’لیکن کون سا ماڈل ٹاؤن؟‘‘
’’ماڈل ٹاؤن کیمپ!‘‘
’’نہیں یہ ماڈل ٹاؤن کینٹ ہے۔‘‘
اس نے گڑگڑا کر اپنا آفس بیگ اس بوڑھے آدمی کے قدموں میں ڈال دیا جس کی آواز مہربانی کے صیقل سے روشن تھی۔
٭٭٭
دیوالی
پورب کا تمام آسمان گلابی روشنی میں جگمگا رہا تھا جیسے دیوالی کے چراغوں کی سیکڑوں چادریں ایک ساتھ لہلہا رہی ہوں۔ اس نے السا کر چٹائی سے اپنے آپ کو اٹھایا۔ پتلے مٹیالے تکیے کے نیچے سے بجھی ہوئی بیڑی نکالی اور پاس ہی رکھی ہوئی مٹی کی نیائی میں دبی اپلے کی آگ سلگائی۔ جلدی جلدی دو دم لگائے۔ جیسے ہی وہ چڑچڑا کر بھڑ کی اس نے منہ سے تھوک دی اور دور سے آتی ہوئی آواز کو غور سے سننے کی کوشش کی جیسے رات میں چوکیدار قدموں کی چاپ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب وہ مالک کی آواز میں غصے سے بھنے ہوئے لفظوں کے پٹاخے سننے لگا۔
’’میکوا!‘‘
’’ابے میکوا کے بچے!‘‘
’’کیا سانپ سونگھ گیا؟‘‘
وہ مانگے کی جلدی میں ہڑبڑا کر اٹھا اور لال اینٹوں کے بنے ہوئے اس کٹھار کی طرف چلا جو ہرے بھرے فارم کی بیچوں بیچ اکڑوں بیٹھا تھا جیسے دھان کے کھیت میں حفاظت کے لیے لکڑی کے پتلے پر چنری لپیٹ دی گئی ہو۔ دھارے کی سیڑھیوں پر پاؤں رکھتے ہی بالکل اس کے کان کے پاس پٹاخوں کی ایک لڑاس طرح داغ گئی تو اس کے کانوں کی جلد بارود سے جھلس گئی۔
’’اتنی دیر سے گہرائے جا رہے ہو۔۔۔ لیکن کانوں میں تیل ڈالے پڑے اینڈ رہے ہو۔۔۔ سنائی نہیں پڑتا بالکل۔ کہا تھا کہ آج دیوالی کے دن تو ذرا بھوراہر سے اٹھ پڑتے اپنے آپ۔ یہ ساری صفائی ستھری کرنے تمہارا باپ آوے گا گنگا جی سے۔‘‘
’’مالک‘‘
’’مالک کے بچے۔۔۔ یہ بانس اٹھا۔۔۔ اس میں جھاڑو باندھ کے جالے چھڑا۔ مالک۔۔۔ ہنھ۔‘‘
اس نے زمین پر لیٹے ہوئے ہرے ہرے بانس کی گانٹھوں کو نہارتے ہوئے اس کی پھننگ میں ایک پرانی سی جھاڑو پروئی اور سامنے کے کمرے میں گھس گیا۔ جالے جھاڑتے جھاڑتے سامنے کی دیوار کے بیچوں بیچ بڑے سے طاق میں سجی ہوئی لکشمی جی کی تصویر پر نگاہ پڑی تو اس نے جلدی سے بانس کاندھے سے لگا کر ہاتھ جوڑ لیے۔ جب آنکھ کھولی تو جیسے دیوار ایک طرف سے پھٹ گئی اور اس کی اپنی لکشمی لال لال دھوتی باندھے دونوں ہاتھوں میں تھالی سنبھالے گھونگھٹ میں چراغ جلائے کھڑی تھی۔ وہ بڑی دیر تک اسی طرح پتھر کا بناگھورتا رہا اور جب ریڑھ کی ہڈی میں چیونٹیاں رینگنے لگیں تو وہ جیسے جاگ پڑا۔ کاندھے سے بانس اٹھا کر وہ پھر مشین کی طرح شروع ہو گیا۔
ایک ایک کمرہ چندن ہو گیا۔ ایک ایک اینٹ اجلی ہو گئی۔ ایک ایک انگل زمین دیو استھان کی طرح جیسے پلکوں کی جھاڑو سے جھاڑ دی گئی۔ اور وہ جب ٹیوب ویل کے پاس سے گزرا تو اس کا جی چاہا کہ لمبے چوڑے سے حوض میں گرتی ہوئی پانی کی موٹی سی دھار کے نیچے اپنے آپ کو ڈال دے اور تھوڑی دیر چپی سادھے پڑا رہے۔
لیکن مالک؟
اور وہ اپنی ناک سے جالوں کے بال جھاڑتا ہوا ٹیوب ویل کے انجن کی طرف چلا اور اس کے پہیوں پر جمے ہوئے مٹی لوندے چھڑانے لگا اور جب آٹا پیسنے والے اور دھان کوٹنے والے انجن تک نہادھوکر نئے کپڑے پہن کر کھڑے ہو گئے اور تھکن اس کی ہڈیوں کے گودے میں سرسرانے لگی تو اس نے باہر نکل کر آسمان کو دیکھا جو دکھوں کے گٹھر باندھ باندھ کر دکھیوں کی کھوپڑیوں پر لادا کرتا ہے۔ نگاہ زمین پر اتری تو اپنی لمبی سی پرچھائیں پر ٹھٹک گئی۔ شام کا سنہرا رتھ آسمان کے پچھم کی رو سے گزر رہا تھا۔ وہ وہیں اسی جگہ دھپ سے زمین پر بیٹھ گیا اور مالک کے طاق میں رکھے کھلے بنڈل سے چرائی ہوئی دوسری بیڑی سلگانے کے لیے ادھر ادھر دیکھنے لگا تو چنی مہیتا نظر آئے۔
’’پائیں لاگن مہاراج۔‘‘
’’تم کا آشیرواد دئیی یا شراپ۔ رہو تم کشل منگل۔‘‘
چنی مہیتا کے ہونٹوں پر چھائی ہوئی مونچھوں کی چھپریا سے بول اس طرح ابل پڑے جیسے اولتی سے پانی برستا ہے۔ مہیتا نے اپنے کرتے کی پتلی پتلی آستین کہنیوں پر الٹ لیں اور ہاتھوں کے بالوں کے کھچڑی کے چاول گلابی دھوپ میں دمک اٹھے۔
’’بیڑی سے چھٹکارا پاؤ تو ہماری بات بھی سن لیو۔‘‘
’’دھنیہ ہو مہاراج۔۔۔ سبیر سے سانجھ ہوئے رہی ہے، پھٹکی بھر گڑ کے علاوہ ایک کھیل تک اڑکے پیٹ میں نائیں گئی۔ بیل بدھیا تک سویرے سے جوتے جاتے ہیں تو دوپہر ہوتے ہوتے کھول دیے جاتے ہیں۔ دانہ کھلی اگر نہیں ملتا ہے تو گھنٹہ دو گھنٹہ چارا بھونسہ کھاتے ہیں۔ جم کے سستاتے تب سانجھ کو گٹھری کے لیے جوتے جاتے ہیں اور ایک ہم ہیں، وہی ہم سے اچھے۔‘‘
’’کون سے نیتا کا بھاشن سنے رہے۔ جبان ہے کہ بالکل طوفان میل۔ ٹیسن پر ٹیسن چھوڑتی چلتی جائے رہی ہے۔ ایں۔‘‘
’’تیج تیوہار کیا کوئی روج روج آتے ہیں پھر پکی خوراک اور مٹھائی اور پرسادانی سب کا پیڑن مان لگت ہیں کہ توڑ توڑ تھارے منہ میں ڈال دیں جائیں۔‘‘
’’تو اب ساتھ ہی ساتھ مہاراج لہو بانچ دیو کا حکم ہے۔‘‘
’’حکم دے والے تو گئے ہیں سیر کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ۔ ہم سے بتائے کہہ گئے ہیں کہ ان کے لوٹنے تک سب کام کاج فٹ کر کے چھوڑیں۔ تو بھین جلدی سے سیڑھی لگاؤ۔ دیا بتی ہم سب تیار کرائے لیا ہے تم رکھنا شروع کرو۔‘‘
’’پار سال تو مہاراج یو کام سورج ڈوبتے ڈوبتے ہوا رہے۔‘‘
’’اوہوں۔ پار سال آدمی تو رہین درجن بھر۔‘‘
’’تو آج اوئی سب آدمی کہاں کھوئے گئے۔‘‘
’’کھوئے کہاں جاتے۔ ہیں سب اپنی اپنی جگہ۔ مل ان کی مجدوری ہوئے گئی ہے دگنی۔‘‘
’’اور مالک کا آلو بکا ہے ادھیا پر۔‘‘
’’سو بوری دیوالی دکھیا میکو کے متھے بہت گئی۔‘‘
’’دکھیا میکو ہوویں چاہے مکھیا، میکو اپنی کتھا اٹھائے رکھیں کونوں اور دن کے لیے اورپھرتی سے سیڑھی لگائے لیں۔‘‘
چنی مہیتا نے پیٹھ گھما لی اور اوسارے کی طرف چلے۔ جہاں بھاری بھاری نہائی دھوئی بھینسیں اجلی اجلی گھنٹیاں پہنے پتلی پتلی مونچھوں سے موٹی موٹی مکھیاں اڑا رہی تھیں۔ وہ تھوڑی دیر اکڑوں بیٹھا رہا پھر اپنے پورے بدن پر ایک نگاہ ڈالی جیسے پہلوان اکھاڑے میں اترنے سے پہلے اپنے اوپر نرم نرم تازی مٹی ڈالتے ہیں اور جب گڑھ جیت کر وہ سیڑھی سے اترا اور چنی مہاراج نے چمرودھے جوتے سے پاؤں نکال کر ڈنڈے پر رکھا۔ اس وقت تک سانجھ جیسے ایکا ایکی جوان ہو چکی تھی۔ وہ اپنی پنڈلیوں پر اپنا آپ گھسیٹتا ہوا حوض پر آیا اور بلا کچھ سوچے سمجھے جھم سے پھاند پڑا۔
بیساکھ کی دھوپ میں تھکن سے بلبلاتے ہوئے بھینسے کی طرح گردن ڈالے دم سادھے دیر تک کھڑا رہا اور منڈیروں پر جلتے ہوئے دیو کی تھرتھراتی ہوئی لوؤں کا تماشہ دیکھتا رہا۔ جادو کی سی روشنی کا یہ تماشا دیکھتے دیکھتے اسے اپنی چھاتی میں ہونکے ہوئے سنسان اندھیرے کا سرا مل گیا جہاں دور دور تک وہاں تک جہاں نگاہ پہنچ سکتی ہے کوئی چراغ نہ تھا، کوئی جگنو نہ تھا کوئی چنگاری نہ تھی۔ اگر کچھ تھا تو ایک عورت کے چہرے کی مسکان تھی جس کی گرمی جیسے دل کی دھڑکن ابھی زندہ تھی۔ سلگتے ہوئے اپلے کی طرح بھربھری راکھ میں دبی ہوئی مدھم سی آگ تھی جو زیادہ سے زیادہ سینے کی دھونکنی کے سہارے ایک بیڑی سلگا سکتی تھی اور کچھ بھی نہیں۔
’’مکھیا میکو‘‘
’’چنی مہاراج کی آواز کا جوتا بھڑ سے اس کے کان پر پڑا۔‘‘
’’نہائے چکن مہاراج؟‘‘
وہ چھپر چھپر کرتا باہر نکلا اور اس کوٹھری کی طرف چلا جس کے ایک دروازے اور ساڑھے تین دیواروں پر ٹین کی پتلی سی چھت بہت سی اینٹوں کے نیچے کچلی ہوئی رکھی تھی۔ کونے میں دھرے گھڑے سے اپنی اکلوتی قمیص اور دھوتی جو تیوہاروں پر دھیرویر کی طرح نکلتی نکالی اور بھیگے انگوچھے سے مہینوں کے بالوں سے ٹپکتے پانی کو پونچھنے لگا۔ پھر سج بن کر نکلا۔ پورا کٹھار پوجا کی تھالی کی طرح چراغوں سے جگمگا رہا تھا اور مالک کا بڑا لڑکا ایک نوکر کے ساتھ بھینسوں کے پاس کھڑا مہتاب چھڑا رہا تھا۔ اس نے سیڑھیاں چڑھنے کے لیے پاؤں اٹھایا تو معلوم ہوا کہ پاؤں اس کا پاؤں نہیں ہے، کسی نے جان چھڑانے کے لیے منگنی میں دے دیا ہے۔ وہ ذرا سا جھول گیا پھر سنبھل کر دالان میں آرام کرسی پر ڈھیر مالک کے سامنے آیا۔ اس نے جھک کر پاؤں چھو لیے۔ پھر ایک کمہار اندر سے آیا اور ایک بڑا سا پتل اس کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں ڈال دیا۔ پوریوں اور کچوریوں کی ڈھیریوں کے بیچ میں تھوڑی سی مٹھائی نگینوں کی طرح رکھی تھی وہ اسے لے کر اپنی کوٹھری کی طرف چلا کہ چنی مہاراج کی آواز نے بریک لگا دیا۔
’’پرساد تو لیتے جاؤ میکو مکھیا۔‘‘
اس نے چمک کر ایک دھوتی میں لپٹے ہوئے سارے سموچے مہاراج کو دیکھا اور ڈھاک کے تازہ ملائم پتل کی چھوٹی سی پڑیا رکھ لی۔ کوٹھری کا اندھیرا سیکڑوں چراغوں کی لہر میں لپٹی روشنی میں ذرا مدھم ہو گیا تھا۔ اس مدھم روشنی میں اس نے ایک پوری میں ترکاری لپیٹ کر منہ میں رکھی تو اس کے ذائقے سے کوٹھری میں دیوالی کے کئی چراغ چمک اٹھے۔ اس نے دو پوریوں کے ساتھ پوری مٹھائی اور پرساد کا دونا بنا لیا اور ایک پتل ڈھک کر سینکوں سے سی لیا اور جو کچھ بچا اسے اپنے پیٹ میں انڈیل لیا اور لوٹا بھر پانی پی کر بیڑی ڈھونڈنے لگا کہ باہر سے ایک آواز اس کے پاس آئی اور گردن پکڑ کر لے گئی۔ مالک حکم دے رہے تھے۔
’’آج رات ذرا احتیاط سے سونا ہاں۔‘‘
اور ساتھ ہی مالکن نے ایک بول کا پرساد دیا۔
’’اگر بھوکا رہ گیا ہے تو کہار سے دال بھات مانگ لے اچھا۔‘‘
اس نے نگاہ بھر کر مالکن کو دیکھا جو کپڑوں اور گہنوں میں بنی سنوری دیوی کی مدرا میں کھڑی تھیں اور پھر کبھی ایسا ہوا کہ جہاں دیوی کھڑی تھی اسی جگہ اس مدرا میں اس کی لچھمی آکھڑی ہو گئی اور اس کا جی چاہا کہ عبیر اور چندن اور گلابی کے اس ڈھیر کو اپنے آپ میں سمیٹ لے لیکن دوارے سے جیپ کا انجن بھینس کی طرح ڈکرا رہا تھا۔ اس نے آنکھیں گڑو گڑو کر ہر طرف دیکھا لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ وہ لکڑی کے پیروں پر گھسٹتا ہوا دالان میں پہنچا۔ مالک کی کرسی کے نیچے سگریٹ کا بڑا سا ٹرا پڑا تھا۔ ایک چراغ سے سلگا کر ایک دم لگایا تو جیسے جی ہلکا ہو گیا۔ دکھ کی تمام چڑیاں اڑ گئیں۔ وہ وہیں کھمبے سے لگ کر بیٹھ گیا۔ جب آنکھ کھلی تو اس کا بازو پکڑے چنی مہاراج کھڑے تھے۔
’’کا سوئے گوا رے؟‘‘
’’نائیں تو۔ آپ بیٹھ جاؤ۔ ایک بات ہے۔‘‘
’’آج ہم کا چار گھنٹے کی چھٹی دے دو آپ۔ گھنٹہ بھر جانے کا گھنٹہ بھر آنے۔ او دو گھنٹے درسن کا اور پھر گھڑی دیکھ لیو۔‘‘
’’کہاں جاوے گارے؟‘‘
’’سیتا پور‘‘
’’بھانگ کھائے گوا ہے۔ سیتا پور کوئی یہاں دھرا ہے۔ دس کوس ڈاٹ کے ہے۔‘‘
’’ہوا کرے۔ تمری سائیکل پر دس کوس جمین میکوا کے لیے گھنٹہ بھر کی ہے۔‘‘
’’تیل باتی کا انتظام؟‘‘
’’دیکھو مہاراج ای منگل کا چار مہینہ ہوئے درسن کا۔‘‘
چنی مہاراج نے اپنی گردن کندھوں سے آگے نکال دی۔
’’اور مالک؟‘‘
’’اب مالک تم ہو ہمرے اور ہم ہیں دکھیا۔‘‘ اور اس نے مہاراج کے دونوں پاؤں پکڑ لیے۔
’’آج چھٹی دے دیو پھر جون حکم دینا پورا ہوئی۔‘‘
’’بولے تو سانچ ہے مل آج کی رات آدمی کون ملی۔ آج کی رات چور چگار اپنا گن جگاتے ہیں اور جیسے بنے ویسے کر لیو مل۔‘‘
’’تو اگر تم تیار ہو تو دس پانچ روپیہ کھرچ کر کے کوئی بندوبست کریں۔‘‘
’’دس پانچ روپیہ؟‘‘
’’ناہیں بھائی۔ تم جب گہیوں بوا جائے تو رات میں ہل چلانے دیو دوچار داؤ۔‘‘ اس نے سیدھی انگلی سے دوچار لکیریں بنائیں اور حکمی آواز میں بولا، ’’منجور مہاراج ہم چار راتیں چلاوے پر تیار پکی بات ہے۔‘‘
’’ایک بات اور‘‘
’’وہو بول دیو‘‘
’’مالک کا پتہ نہ چلے نہیں تو۔۔۔‘‘
’’کانوں کان پتہ نہ چلی کوئی کا۔‘‘
’’تو پھر منجور۔ اٹھو اور ایک داؤں دیا بتی کا دیکھ لیو۔ جانے کے لیے وہ اس طرح اٹھا جیسے ابھی ابھی جیل کا پھاٹک کھلا ہے۔‘‘
بارہ بجنے میں دیر تھی لیکن وہ چنی مہاراج کی سائیکل بغل میں مار کر اوکھ کے سائے سائے چراغوں کی اندھرائی آنکھوں سے راستہ ٹٹولتا نہر کی پٹری پر آ گیا اور لچھمی کا دھیان کر کے سائیکل پر سوار ہو کر پیڈل اوٹنے لگا۔ جب تھکن چڑھنے لگتی تو وہ دیکھتا کہ لچھمی دوارے سے آرتی لیے چراغ جلائے، پھول مٹھائی اور پان لیے اس کی راہ دیکھ رہی ہے اور پھر جیسے اس کی بیٹری چارج ہو جاتی۔ لیکن جب سائیکل کے اگلے پہیے نے لچھمی کے دوارے سے ٹکر ماری تو لچھمی کے بجائے ویرانی اندھیرے کی آرتی میں تنہائی کا چراغ جلائے اس کے سواگت میں کھڑی تھی۔ اس نے دوبارہ ہاتھ سے دستک دی۔ لچھمی کی ماں کی کھانستی آواز نے کون کون کی رٹ لگا دی۔ دروازہ کھلا تو اس نے اپنی چندھی آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا لیکن وہ اسے راستے سے ہٹاتا ہوا سائیکل سمیت گھر میں داخل ہو گیا۔
’’لچھمی کہاں ہے دائی؟‘‘
اور لچھمی کی ماں نے پھونک مار کر اس کے بدن کے تمام جلتے چراغ بجھا دیے، ’’وا تو بڑی دیر کی گئی ہے تمرے گاؤں۔‘‘
’’ہمرے گاؤں؟‘‘
’’ہاں آج سبیرے سے انتظام کر رہی تھی۔ دوپہر میں روٹی کھانے بھی نہیں آئی۔ سانجھ کو جب آئی تو رونے لگی کہ مالک چھٹی نائن دے رہے ہیں ہم سے رونا نائن دیکھا گیا توہم نے بھیلی سے کہا رات کی خدمت پر تم چلی جاؤ۔‘‘
’’بھیلی؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’بھیلی جانے پر تیار نائن رہے، کاہے سے کہ او کا گونا آنے والا ہے مل ہم بڑی کھوسامد کیا۔ تب رووت دھووت وا گئی اور لچھمی منہ جھٹال کی ساری پوری مٹھائی باندھ کے۔‘‘
وہ دھپ سے اسی جگہ بیٹھ گیا۔ گردن سے انگوچھا اتار کر دونا کھولنے لگا تو معلوم ہوا مانو اس کی انگلیاں جھڑ گئی ہیں۔ پاؤں گر گئے ہیں اور کندھوں پر کاٹھ کی ہنڈیا رکھی ہے۔ اس نے لکڑی کی زبان کو بڑی محنت سے ہلایا، ’’بھیلی کے سسرال والے اگر جان گئے تو؟‘‘
’’بندھوا مزدور کی لڑکی کے پاس بیٹا چھپانے کو ہوت کاہے جو چرانے چھپانے کی فکر کی جائے۔‘‘
اور جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے لچھمی دیو استھان سے گری اور لڑھکتی ہوئی گھوڑے میں ڈھیر ہو گئی۔
٭٭٭
نومی
وہ عجیب تھی۔ جسم دیکھیے تو ایک لڑکی سی معلوم ہوتی، چہرے پر نظر ڈالیے تو بالکل بچی سی دکھائی دیتی اور اگر آنکھوں میں اتر جائیے تو ساری سموچی عورت انگڑائیاں لیتی ملتی۔ وہ سرخ اونچا سا فراک اور سیاہ سلیکس پہنے جگمگا رہی تھی اور سیاہ گھنگھرالے بالوں کو جھٹک جھٹک کر ’’جیپ‘‘ میں اپنے سامان کا شمار کر رہی تھی اور میرے سامنے ایک دوپہر کھلی پڑی تھی۔ اس نے آنگن میں قدم رکھتے ہی اپنی ممی سے بھیا کے لیے پوچھا تھا۔ اونچے بغیر آستین کے بلاؤز اور نیچی چھپی ہوئی ساڑی میں کسی بندھی آنٹی نے، جنھیں ابھی اپنے بدن پر ناز تھا چمک کر بھیا کو مخاطب کیا، ’’نومی پوچھ رہی ہے کہ تم کون ہو؟‘‘
بھیا نے اداس چہرے پر سلیقے سے رکھی ہوئی رنجور آنکھیں چشمے کے اندر گھمائیں۔ روکھے سوکھے بالوں پر دبلا پتلا گندمی سا ہاتھ پھیرا۔ انکل نے بڑے سے بیگ کو تخت پر پٹکا۔ پیک تھوکنے کے لیے اگلدان پر جھکے اور بھیا بھاری آواز میں بولے۔ بھیا کی آواز ان کی شخصیت کو اور منفرد بنا دیتی ہے۔ غم میں بسی ہوئی کھوجدار آواز سے ہلکا ہلکا دھواں سا اٹھتا رہتا ہے اور جسے سن کر اجنبیت احساس کمتری بن جاتی ہے اور خواہ مخواہ متعارف ہونے کو جی چاہتا ہے، ’’بہت چھوٹی سی تھی جب دیکھا تھا اس نے‘‘
اور نومی کو اس طرح دیکھا جیسے کیلنڈر کو دیکھ رہے ہوں۔ جواب اس طرح دیا جیسے آنٹی سے کہہ رہے ہوں اسے بکس میں رکھ لیجیے ورنہ خراب ہو جائے گا دیہات میں، اور نومی بے چاری بھیا کی آواز میں شرابور کھڑی تھی۔ اس کی نظریں بھیا کے چہرے میں پیوست ہو چکی تھیں۔ انکل پکا گانا گانے والوں کی طرح کھنکار کر بولے، ’’بیٹی۔۔۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ وہاں گاؤں میں جہاں تم شادی میں جا رہی ہو تمہارے ایک کزن ہیں جو بہت سی کتابوں کے ’’آتھر ہیں۔۔۔ وہی تو ہیں یہ۔‘‘
بھابی جو نند کی شادی میں بھیا سے زیادہ اپنا آپا کھوئے بیٹھی تھیں ایک طرف سے بڑبڑاتی نکلیں اور بھیا کو لیے دوسری طرف چلی گئیں اور بھیا نے بے خیالی میں بھی، نومی کی نگاہیں بھی اپنے ساتھ ہی لیے چلے گئے۔ اور وہ بے چاری خالی خالی آنکھیں لیے گم سم کھڑی رہی، ’’جلدی کیجیے۔۔۔ پانی لدا کھڑا ہے۔‘‘ پھاٹک سے کسی نے ہانک لگائی۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ سارے میں سیاہ جامنی بادل چھائے ہوئے تھے اور اندھیرا پھیلا ہوا تھا جیسے سورج کی بجلی فیل ہو گئی ہو۔ اس دن بھی ایسا ہی دل مسوس ڈالنے والا موسم تھا۔
ابھی بارات آنے میں کئی دن باقی تھے لیکن مکان کا کونا کونا مہمانوں سے چھلک پڑا تھا۔ نہ کہیں تل رکھنے کی جگہ تھی اور نہ کسی کو دم مارنے کی مہلت۔ ایک تو برسات کی شادی وہ بھی دیہات میں اور دیہات بھی ایسا کہ سڑک پر ’’جیپ‘‘ دھنسی کھڑی ہے اور نکالنے کے لیے بیلوں کی جوڑیاں بھیجی جا رہی ہیں۔ کام تو جیسے آسمان سے پانی کی طرح برس رہا تھا اور بھیا کا یہ حال تھا کہ پاویں تو اپنی کھال تک اتار کر اپنی بہن کے جہیز میں دے ڈالیں۔ ابھی جوڑے نہار رہے ہیں۔ ابھی ’’تخت وار‘‘ دیکھ رہے ہیں۔ ابھی شامیانے کے قناتوں کے انجام پر سوچ رہے ہیں۔ میں پیڈ اور قلم لیے موجود رہتی۔ خطوط پرچے اور یادداشتیں لکھنے کو حاضر رہتی۔ دالان میں یہاں سے وہاں تک چوکا لگا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی بیبیاں سالخوردہ کپڑوں کے بجھے رنگوں میں اپنا بھرم بنائے خاموشی سے کھانا کھا رہی تھیں۔ چمچے پلیٹوں سے ٹکراتے، خاموشی کھنک اٹھتی تو عجیب سا لگتا۔ کہ بھیا باہر سے آ گئے۔
’’ارے یہ ہماری نومی جی جی کھڑی کیوں ہے۔‘‘
نومی ایک ایک ستون کے پہلو میں کھڑی پلیٹ میں چمچا گھما رہی تھی۔ اس نے مڑ کر بھیا کو دیکھا۔ بھیا کے بالکل پیچھے آ کر اس کی پلیٹ میں جھانکنے لگے اور نومی جاگ اٹھی۔ کھل گئی۔ لو دینے لگی۔ گردن پیچھے جھکا کر اپنے ڈھیروں بال بھیا کے سینے پر انڈیل دیے اور آنکھوں میں آنکھیں رکھ دیں۔ بھیا بچوں کی طرح پلکیں جھپکانے لگے اور نومی کی آنکھوں کو اپنی کھوئی ہوئی نظریں مل گئیں۔ کسی نے بھیا سے کھانے کو پوچھا تو کہیں دور سے آواز آئی، ’’نہیں باہر تو نہیں کھایا میں نے۔‘‘
اور نومی بیسیوں کی صف چیر کر ایک پلیٹ میں الم غلم بھر لائی اور ایک چمچہ ان کے منہ کی طرف بڑھایا۔ بیسیوں کے وجود پر منڈھی ہوئی نیستی کی چادریں مسک گئیں۔ ہونٹوں کی بھولی بسری مسکراہٹیں یاد آنے لگیں۔ بھابی نے یہ تماشا دیکھا تو ایک کرسی لا کر رکھ دی۔ نومی نے ٹھنک کرکہا، ’’نئیں نئیں۔۔۔ میں اپنے بھیا کو بوفے کھلاؤں گی۔‘‘ اور بھیا سچ مچ سعید بچوں کی طرح کھاتے رہے۔ دکھوں کے دلدل میں گردن گردن تک دھنسی ہوئی زندگیاں جو خوشی کے بہانوں کے انتظار میں بوڑھی ہو گئی تھیں، اس معمولی سے مذاق پر خوب ہنسیں۔ آنٹی کے تو اچھو لگ گیا۔ بھیا قہقہوں میں بھیگ گئے۔
اب رخصت ہونے والوں اور رخصت کرنے والوں کی بھیڑ چھوٹے سے جلوس کے مانند ڈیوڑھی سے نکل رہی تھی۔ گوری چٹی، گول مٹول آنٹی جیسے پھوٹی پڑ رہی ہوں بھیا ان کو پہلو میں لیے آ رہے تھے جیسے پگھلے جا رہے تھے اور نومی بغیر کسی مصروفیت کے مصروف لگ رہی تھی۔ دور سے آتی ہوئی باتوں کی پھوار سے اپنا آپ بچائے پھر رہی تھی اور اس کی آنکھیں جن میں بڑے بڑے ہاتھی ڈوب جاتے اور گہری ہو گئی تھیں اور میری یادوں کی فلم میں نئی ریل لگ گئی تھی۔
رات چڑھ چکی تھی۔ باہر سے گانے بجانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لڑکوں کے قہقہے سارے میں پھیلے ہوئے تھے۔ گاؤں کی عورتیں شوخ رنگ کے کڑھے ہوئے پیٹی کوٹ اور سنتھٹک ساڑیاں پہنے گہرا اور بھدا میک اپ کیے اپنے بدنما زیوروں اور خوشنما جسموں کی پریڈ کر رہی تھیں۔ ان کی آوازیں ’’سیلزمین‘‘ کی مصنوعی مسکراہٹ کی طرح شوخیوں سے سجی ہوئی تھیں۔ ’’مایوں‘‘ بیٹھی ہوئی آپا کی صحنچی کے سامنے ان کا ایک گروہ پچمیل آواز میں گیت گا رہا تھا اور میں سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ صحن میں پلنگوں کی قطاریں بچھی تھیں۔ کونے کے تخت پر پچیسی ہو رہی تھی اور اودھم مچا ہوا تھا۔ نومی کے قہقہے دھنک میں سرخی کی طرح نمایاں تھے۔ بھابی اپنے بچوں کو سلانے کے لیے لاٹھی چارج کر رہی تھیں کہ بھیا آئے اور سر جھکائے ہوئے زینے کی طرف جانے لگے کہ آنٹی نے آواز دی۔
’’رشن!۔۔۔ شطرنج کھیلو گے۔‘‘
بھیا جہاں تھے وہیں جم گئے۔ آنٹی کے اٹھتے ہی شور ہوا۔ لڑکیاں بھرا مار کر زینے کی طرف دوڑیں جیسے شطرنج نہیں مجرا ہونے جا رہا ہے۔ بھیا کے کمرے میں جہاں بھابی تک بغیر اجازت اور ضرورت کے داخل نہ ہوتی تھیں، طوفان مچ گیا۔ تخت پر بھیا اور آنٹی شطرنج لے کر بیٹھ گئے اور لڑکیاں جہاں تہاں سماں گئیں۔ بھیا کی پشت پر دیوار تھی۔ داہنی طرف گاؤ۔ بائیں طرف نومی۔ دیوار میں لگے لیمپ کی گلابی روشنی میں سب کچھ پراسرار سا معلوم ہو رہا تھا ہر مہرے کے پٹنے پر مات کی طرح شور مچتا۔ نومی، چونچال نومی آہستہ آہستہ جگہ بنا رہی تھی اور پاؤں پھیلا رہی تھی۔ بھیا نے چونک کر دیکھا، ان کے زانو پر نومی کے بال ڈھیر تھے۔ پھر بھیا کا ہاتھ بالوں پر لرزنے لگا جیسے وہ نومی کے نہیں خود انھیں کے بال ہوں۔ پھر اچانک بھیا نے ہاتھ کھینچ لیا اور جگہ ڈھونڈ کر تخت پر رکھ دیا۔ نومی نے پھر کروٹ لی اور نوکیلے سرخ ناخنوں سے سجی ہوئی انگلیاں بھیا کے ہاتھ کی ابھری رگوں پر لرزنے لگیں جیسے تھکے ہوئے سرخاب جھیل میں تیر رہے ہوں۔ پھر لیمپ بھبک کر گل ہو گیا۔ سب ہڑبڑا گئے۔ جب روشنی ہوئی تو دوہ گھٹنوں پر کھڑی بھیا کے بائیں شانے سے لگی ہوئی تھی اور بھیا کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ آنکھیں بساط پر لیکن نگاہیں کہیں اور تھیں۔ آنٹی نے تالی بجا کر شور مچایا۔ بھیا وہ بازی بھی ہار گئے تھے۔
’’تم آج بھی میری ہار پر اس طرح خوش ہو سکتی ہو یہ معلوم نہ تھا ورنہ بہت پہلے ہار چکا ہوتا۔‘‘ بھیا نے پہلی بار آنٹی کو تم کہا تھا۔ آنٹی بجھ گئی تھیں اور ان کی نظریں معافی مانگ رہی تھیں اور بھیا کے ہونٹوں نے جلدی سے اپنی پرانی مصنوعی مسکراہٹ پہن لی تھی۔
جلوس جیپ کے گرد آ کر منتشر ہو گیا تھا۔ میں سب سے الگ کھڑی سب کے چہروں سے دلوں کے مضمون پڑھ رہی تھی۔ انکل نے اسٹیرنگ سنبھال لیا۔ انجن غرانے لگا۔ آنٹی بھیا کے پہلو سے پھسل کر انکل کے پاس بیٹھ گئیں۔ بھیا نے جھک کر ان کی ساڑی کا فال ہک سے چھڑا دیا۔ آنٹی اور گلابی ہو گئیں اور پرس سے گاگلز نکال کر جلدی سے آنکھیں جھپکا لیں۔ نومی بیتی رات کے باسی آنسوؤں سے چمچماتی آنکھیں سب کے چہروں میں چھپاتی گھوم رہی تھی لیکن بھیا کے پاس اس طرح گزر جاتی جیسے وہ بھیا نہیں کوئی اجنبی ہوں اور بھیا تو اس کے لیے اجنبیوں سے بھی بدتر ہو گئے تھے۔
اس رات پانی آفت مچائے تھا اور میراثنیں قیامت ڈھائے تھیں۔ پرنالوں اور گیتوں کے شور میں نہ کچھ سنتے بنتا تھا اور نہ سوچتے۔ میری نگاہ اوپر اٹھ گئی۔ بھیا کے کمرے میں تیز روشنی ہو رہی تھی۔ معلوم نہیں وہ کس وقت باہر سے آ گئے تھے۔ میں بھیگتی بھاگتی اوپر پہنچی تو دیکھا نومی بھیا کی مسہری پر دونوں تکیے پشت سے لگائے کتابیں اور رسالے پھیلائے بھیا ہی کی طرح نیم دراز ہے۔ مجھے دیکھتے ہی گھبرا گئی جیسے چوری کرتے پکڑی گئی ہو۔ بھیا کا البم پھینک کر کھڑی ہو گئی۔
’’آپا۔۔۔ آئیے۔‘‘
میں نے اسے مسہری پر بٹھا دیا اور خود نیچی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اور اسے دیکھنے لگی جو شفق کی طرح شوخ اور شاداب تھی۔ سرمے کی لکیریں لپ سٹک کی تازگی، روز کا غبار، بغیر شمیز کے کلف لگے کرتے کی استری، جلد بدن بنایا ہوا پائجامہ، گلے میں سرخ دوپٹے کا مفلر، بالوں میں پھول کی طرح کھلی ہوئی سرخ ربن کی گرہ۔ وہ سر سے پاؤں تک بے پناہ تھی۔
’’آپا۔۔۔ میں بھیا کی کتابیں پڑھتی ہوں لیکن سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘
اتنے میں بھیگے ہوئے بھیا آ گئے۔
’’ارے تم لوگ ابھی تک جاگ رہی ہو بھائی۔‘‘ انہوں نے کھونٹی سے سلیپنگ سوٹ اتار لیا۔
’’آپ کو نیند آ رہی ہے؟‘‘ بھیا نے جواب میں مڑ کر نومی کو دیکھا اور میں نے انھیں، آنکھیں اسی طرح رنجور اور معصوم اور نگاہ اسی طرح بے نیاز۔
’’نہیں تو۔۔۔ لیکن کیوں؟‘‘ اور وہ پردے کے پیچھے کپڑے بدلنے چلے گئے۔
’’میں آپ سے پڑھوں گی۔‘‘
’’کیا پڑھو گی بھائی؟‘‘
’’آپ ہی کو پڑھوں گی۔‘‘
وہ اس طرح جواب دے رہی تھی جیسے وہ بھیا سے نہیں اپنی ہمجولی سے مخاطب ہو۔
’’اور جو نیند آئی تو۔۔۔؟‘‘
’’تو۔۔۔ یہیں سو جاؤں گی، اسی تخت پر۔‘‘
بھیا پردے سے باہر نکل آئے تھے۔ ہونٹوں پر اسی غمناک مسکراہٹ کی مہر لگی تھی۔
’’اور آنٹی کہیں گی میری بیٹی کو تخت پر لٹا کر اکڑا دیا۔‘‘
’’میں صرف آپ کی آنٹی کی بیٹی نہیں ہوں۔۔۔ نومی بھی ہوں۔‘‘
میں سن ہو کر رہ گئی۔ پھر میں نے سنا۔ نیچے سے کوئی مجھے چیخ چیخ کر پکار رہا تھا، میں اٹھی تو بھیا نے حکم دیا۔
’’جی جی! تم بھی یہیں لیٹنا آ کر۔‘‘
جب میں واپس آئی تو دیکھا لیمپ جل رہا ہے۔ شیڈ بھیا کی طرف ہے۔ تخت پر نومی سو رہی ہے اور اس کے بدن کی قیامت جاگ رہی ہے۔ میں نے اس کا کرتا نیچے کھینچ دیا اور کرسی کا گدا سرہانے رکھ کر اسی کے پاس لیٹ رہی۔ آنکھیں بند کیے مردوں کی طرح پڑی رہی۔ پھر نہ جانے کیوں خراٹے لینے لگی جن کی شکایت آج بھی نومی نے کی تھی۔ میں آپ ہی آپ مسکرا دی پھر چہرے پر بازو موڑ لیا۔ ایک آنکھ کھول کر دیکھا۔ بھیا اسی طرح دیوار کی طرف منہ کیے چپ چاپ پڑے تھے۔ پھر اچانک نومی نے مجھے جھنجھوڑا۔
’’آپا۔۔۔ اے آپا۔‘‘
میں اسی طرح خراٹے لیتی رہی۔ وہ چھلاوے کی طرح اٹھی اور بھیا کی مسہری پر۔ بھیا اٹھے، چشمہ لگایا اور اب نومی ان کے گلے میں بانہیں ڈال چکی تھی، ’’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ وہ بھیا کے گریبان سے بولی۔ اس کے گھونگھرالے بالوں پر بھیا کا ہاتھ آہستہ سے لرزا۔ میں اتنی دور سے بھی ان کے ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس کر رہی تھی۔ پھر بھیا نے مجھے پکارا۔ میں سوتی بنی رہی۔
’’نومی جی جی!۔۔۔ اٹھ کر بیٹھو۔۔۔ مجھ سے باتیں کرو۔‘‘ وہ تھوڑی دیر مچلتی رہی۔ پھر ان کی گود میں پھیل گئی۔ بھیا نے اسے بستر پر رکھ دیا۔ لیمپ کا شیڈ گھمایا۔
’’نومی جی جی!‘‘ اس نے آنکھیں کھول دیں۔۔۔ جیسے کہہ رہی ہو جی! اور میں حیرتوں میں ڈوب گئی۔ وہ آنسوؤں سے تربتر تھیں۔
’’تمہارے ڈیڈی مجھ سے چند سال بڑے ہیں لیکن تمہاری ممی مجھ سے کئی سال چھوٹی ہیں۔‘‘
اس نے آنکھیں بند کر لیں جیسے کہہ رہے ہوں شٹ اپ!
’’تم نومی ہو جس نے کلکتہ کے ایک مشہور کانونٹ سے کیمبرج پاس کیا ہے۔ جو اپنے میگزین میں کہانیاں لکھتی ہے۔ جو راک اینڈ رول جانتی ہے۔ لیکن میں اس نومی کو نہیں جانتا۔ میں تو ایک ہی نومی کو جانتا ہوں، جو میری بہت پیاری بہت ہی پیاری آنٹی کی سب سے بڑی اور سب سے دلاری بیٹی ہے۔ یہ جو جی جی لیٹی ہے یہ بھی مجھے تمہاری طرح عزیز ہے اور یہ بالکل سو رہی ہے۔ تم باتیں کرو۔‘‘
’’کچھ بولو۔۔۔ نومی بیٹی۔‘‘
وہ آندھی کی طرح اٹھی اور دھم سے تخت پر گر پڑی۔
’’نومی تم بھیا سے رخصت نہیں ہوئیں۔‘‘ آنٹی کی دور سے چل کر آتی ہوئی آواز کوند گئی۔ وہ ایک طرف سے شعلے کی طرح لپکتی آئی، ’’آپ کو آپ کی بہت پیاری، بہت ہی پیاری آنٹی نے تو رخصت کر دیا۔‘‘
وہ اس ایک جملے کی گولی داغ کر مڑ گئی کہ اگر کھڑی رہتی تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی اور پھر جیپ پر اس طرح سوار ہوئی جیسے جوکی گھوڑے چڑھتے ہیں۔ گرد کا ایک بادل اڑا کر جیپ چلی گئی۔ بھیا اسی طرح کھڑے رہے رنجور خاموش اور کھوئے ہوئے۔ میں اس بادل کے متعلق سوچتی رہی جو بھابی کی بھری پری زندگی پر منڈلا گیا تھا اور جسے بھیا نے سگریٹ کے دھوئیں کی طرح اڑا دیا تھا اور جس کا علم تک بھابی کو نہ تھا۔ میں راز کے اس بوجھ کے نیچے کانپ سی گئی اور پھر میں بھیا کے متعلق سوچنے لگی کہ وہ کس کے لیے کیا سوچ رہے ہوں گے۔
٭٭٭
نیا قانون
لکھنو کے سر پر اختر نگر کا تاج رکھا تھا جس کے ہیرے کمہلانے اور موتی سنولانے لگے تھے۔ آہستہ خرام گومتی امام باڑہ آصفی کے چرن چھوکر آگے بڑھی تو ریزیڈنسی کے سامنے جیسے ٹھٹک کر کھڑی ہو گئی۔ موجوں نے بے قراری سے سر اٹھا اٹھا کر دیکھا لیکن پہچاننے سے عاجز رہیں کہ ریزیڈنسی نواب ریزیڈنٹ بہادر کی کوٹھی کے بجائے انگریزوں کی چھاونی معلوم ہو رہی تھی۔ تمام برجوں اور فرازوں پر توپیں چڑھیں ہوئی تھیں۔ راؤٹیوں اور گمزیوں کا پورا جنگل لہلہا رہا تھا۔ حصار پر انگریز سواروں اور پیدلوں کا ہجوم تھا۔ دونوں پھاٹکوں کے دونوں دروں پر بندوقیں تنی ہوئی تھیں۔
پھر راہ چلتوں نے دیکھا کہ قیصر باغ کی طرف سے آنے والی سڑک حیدری پلٹن کے سواروں سے جگمگانے لگی جن کی وردیاں دولہا کے لباسوں کی طرح بھڑکدار اور ہتھیار دولہن کے زیوروں کی طرح چمکدار تھے۔ ریزیڈنسی کے جنوبی پھاٹک پر چھلبل کرتے سواروں کے پردے سے وزیر اعظم نواب علی نقی خاں اور وکیل السلطنت موتمن الدولہ کے بوچے برآمد ہوئے جن کے درمیان دس پندرہ سواروں کے اردل کا حجاب تھا اور سامنے انگریز سپاہیوں کے ہتھیاروں کی دیواریں کھڑی تھیں۔ دیر کے انتظار کے بعد افسر التشریفات نے آ کر ان سواریوں سے اتارا اور اپنے اردل کے حلقے میں پیادہ پیش دامان تک لے گیا جس کی سیڑھیوں پر سر سے پاؤں تک اپچی بنے ہوئے گارڈز کا دستہ کھڑا تھا جیسے زینت کے لیے مجسمے نصب کر دیے گئے ہوں۔
کشتی دار تکیوں کی آبنوسی کرسی پر وہ دونوں پڑے سوکھتے رہے۔ اپنے ذاتی محافظ رسالے کے متعلق سوچتے رہے جو پھاٹک پر روک لیا گیا تھا اور مغربی دروازے سے داخل ہونے والی توپوں کی گڑگڑاہٹ سنتے رہے۔ پھر فوجی افسروں کے جھرمٹ میں وہ ریزیڈنٹ کی اسٹڈی میں باریاب ہوئے۔ ریزیڈنٹ بہادر اسی طرح کرسی پر پڑے رہے۔ ابرو کے اشارے پر وزیر اعظم اور وکیل السلطنت اس طرح بیٹھ گئے جیسے وہ ریزیڈنٹ کی اسٹڈی میں نہیں واجد علی شاہ کے دربار میں کرسی نشینی سے سرفراز کیے گئے ہوں۔ تامل کے بعد صاحب بہادر نے اپنے پہلو میں کھڑے ہوئے میر منشی صلابت علی کو سرکی جنبش سے اشارہ کیا اور میر منشی ایک خریطہ کھول کر پڑھنے لگا اور جب اس کے منھ سے یہ فقرہ ادا ہوا، ’’کمپنی بہادر نے پچاس لاکھ سالانہ کے وظیفے کے عوض میں سلطنت کا الحاق کر لیا۔‘‘ تو وکیل السلطنت کہ سپاہی بچہ تھا ہرچند کہ سپہ گری کے سبق بھول چکا تھا تاہم نیزے کی طرح تن کر کھڑا ہو گیا۔
’’یہ نا ممکن ہے۔‘‘
ریزیڈنٹ نے کھڑے ہو کر اسے گھورا۔ ایک ایک لفظ کو توڑ کر ادا کیا، ’’یہ گورنر جنرل بہادر کا حکم ہے اور ٹم کو اس دستاویز پر دستخط کرنا ہیں۔‘‘ ریزیڈنٹ کا لہجہ جلاد کی تلوار کی طرح بے امان تھا اور اس کے لفظوں میں بارود کے بگولوں کا اشتعال تھا۔
’’یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔‘‘ دونوں کے منھ سے ایک ساتھ نکلا۔ جواب میں صاحب بہادر نے کمر سے کرچ کھول کر میز پر ڈال دی۔ وکیل السلطنت نے اس بھانڈ وزیر اعظم کو دیکھا جس کی انگلیاں طبلے کی سنگت کی عادت کی جگالی کر رہی تھیں اور اس نے خود اپنی آواز سنی۔ اس کا فیصلہ تو آج سے بہت پہلے بکسر کے میدان میں ہو چکا ہے تاہم اتنے بڑے حکم کی تعمیل کے لیے کم از کم دس دن کی مہلت۔
’’نائیں ممکن نائیں۔‘‘
’’تین ہی دن بخش دیے جائیں۔‘‘
’’نائیں۔۔۔ چوبیس گھنٹے کے بعد عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔‘‘
اور وکیل السلطنت کا تھر تھراتا ہوا ہاتھ قلمدان کی طرف بڑھنے لگا۔
وزیر اعظم نے قیصر باغ کے شمالی پھاٹک کی طرف مڑتے ہوئے سواری کے آئینے میں دیکھ لیا کہ موتمن الدولہ کا بوچہ روشن الدولہ کی کوٹھی کی طرف مڑ رہا ہے۔ نوبت خانے پر دوسری نوبت بج رہی تھی اور لال بارہ دری کے باب عالی پر چتر طوغ کھڑا جہاں پناہ کی موجودگی کا اعلان کر رہا تھا۔ وزیر اعظم نے دوسری ڈیوڑھی پر خان ساماں داروغہ معتبر علی خاں کی کمر سے تلوار کھول کر ہاتھ میں لے لی اور تیسری ڈیوڑھی کے گھونگھٹ پر گلے میں پہن لی اور حاضر دربار ہو کر ہاتھ باندھ لیے۔ بادشاہ پنچ گوشیہ تاج پہنے جواہرات میں ڈھکا ہوا سونے کے تخت پر بیٹھا تھا اور مشہور زمانہ سازندوں کے فن کار ہاتھوں سے غنا کے بادل برس رہے تھے اور سدھے ہوئے، سجے ہوئے، کڑھے ہوئے گوشت پوست کی زندہ بجلیاں تڑپ رہی تھیں۔ ایک بار نگاہ اٹھی تو وزیر اعظم تسلیمات پیش کر رہا تھا۔ چلتے ہوئے ہاتھ کے برابر تلوار جھول رہی تھی۔ بادشاہ کا ہاتھ اٹھا اور سازوں اور مضرابوں اور گھنگھروؤں تک کی سانس رک گئی اور دوسری جنبش پر سارا ہال خالی ہو گیا جیسے صبح کا آسمان۔
’’کیا ہے؟‘‘
غلام نواب ریزیڈنٹ بہادر کی کوٹھی سے آ رہا ہے۔
شاہ منزل کی پہلی سیڑھی پر قیصری پلٹن کے رسالدار کے ہاتھ سے بندوق لے لی۔ معائنہ کرتے رہے پھر نواب علی نقی خاں وزیر اعظم کو اس طرح دیکھا کہ نگاہیں اس کے پار ہو گئیں۔ یہ بندوق جلد بھرنے اور فیر کرنے میں انگریز کی بندوق سے بدرجہا بہتر ہے لیکن اس کے چلانے والے کندھے غدار اور انگلیاں نمک حرام ہیں اور ایک ایک سیڑھی اس طرح چڑھی جیسے ایک ایک دنیا پیچھے چھوڑ آئے ہوں۔
چاندی کے ستونوں پر لاجوردی زربفت کا شامیانہ کھڑا تھا۔ اس کے وسط میں مرصع نمگیرے کے سائے میں چھتر شاہی کے نیچے تخت سلطانی کے بائیں جانب موتمن الدولہ سلطنت کے دوسرے دولاؤں کے ساتھ مغرور بے نیازی سے کھڑا تھا۔ تحت کے قریب پہنچنے پر ریزیڈنٹ نے اس طرح سلامی دی جیسے بازاری آدمی اترے کوتوال کو سلام کرتے ہیں۔ اس کے سرخ کوٹ کے شانوں پر زری کے جھبے جھول رہے تھے۔ پتلے جھبے کے سفید اونچے گول ہیٹ میں جڑاؤ کلفی لگی تھی اور کمر میں لگی لانبی سیدھی تلوار سرخ چرمی ساق پوش کے تھپکیاں دے رہی تھی، بادشاہ نے تخت پر بیٹھے ہی ریزیڈنٹ کو مخاطب کیا۔
’’اب ریزیڈنٹ بہادر کو ایسی لڑائی دکھلائیں گے جس کی نظیر دنیا کا کوئی دربار پیش نہیں کر سکتا۔‘‘
اشارہ ملتے ہی سیمیں کٹہرے کے بازوؤں پر کھڑے ہوئے چوبداروں نے جھنڈے ہلا دیے اور نیچے دریا کے اس پار منوں باغوں اور جنگلوں کے پورے علاقے میں ہلچل سی مچ گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں شمالی اور جنوبی گوشوں سے ڈھولوں کے پٹنے، ہانکنے والوں کے للکار نے، سیکڑوں برچھیوں کے کڑکنے کا طوفان مچ گیا۔ لوہے کی جالیوں اور تول کے پردوں کے عظیم الجثہ مستطیل کٹھرے کے شمالی دروازے پر ایک دیو پیکر چھکڑا ڈھکیلتا ہوا لایا گیا۔ دروازہ کھلتے ہی ایک غیر معمولی طور پر سفید اونچا اور بھاری گھوڑا انتہائی غضبناکی سے ہنہناتا ہوا داخل ہوا۔ کبھی ہاتھوں سے زمین کھرچتا کبھی پیروں پر کھڑا ہو کر پورے جسم سے تڑپتا۔ اس کی کنوتیوں سے چنگاریاں اور نتھنوں سے شعلے نکل رہے تھے اور اس کی جولانیوں کی مار سے پورا کٹہرہ ہل رہا تھا مگر جنوبی دروازہ بھی کھل گیا اور دوسرے چھکڑے سے ایک شیر اندر داخل ہوا۔ گرجتا دہاڑتا کٹہرے کے وسط تک جا کر تھما۔ ساتھ ہی یکساں آوازوں کا یکمشت گولہ اس پر گر پڑا اور وہ بھڑک کر اٹھا اور ستے ہوئے بدن سے اڑ کر گھوڑے پر گرا۔
گھوڑے نے پوری مشاقی سے اپنے اگلے بدن کو سمیٹ کر اتنا کاری وار کیا کہ شیر کا چہرہ بگڑ گیا۔ پورا کٹہرہ اس عجیب و غریب اور بھیاونی لڑائی سے اتھل پتھل تھا اور گرد و باد کے بادلوں میں ڈوبتے اور ابھرتے جانور ایک دوسرے کی قضا کی طرح ایک دوسرے پر مسلط تھے کہ ہزاروں آنکھوں کے سامنے شیر نے پیٹھ دکھائی اور اپنے چھکڑے سے پناہ مانگی اور فاتح گھوڑا کاوے کاٹ رہا تھا۔ چیخ چیخ کر اپنی فتح کا اعلان کر رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے مٹی اڑا رہا تھا کہ بہت سے برچھیت اپنے برچھوں میں دھڑدھڑاتی مشعلیں جلائے اور کمند اندازوں کا دستہ اپنی کمندیں کھولے لپکا اور گھوڑے کو گرفتار کرنے کے جتن کرنے لگا۔
بادشاہ ابھی ریزیڈنٹ کا چہرہ پڑھ رہا تھا کہ عقب کا پردہ اٹھا۔ زہرہ بدن اور ثریا لباس کنیزیں نقل کی کشتیاں اور شراب کی صراحیاں اٹھائے نرت کرتی حاضر ہوئیں۔ ریزیڈنٹ کا سر ابھی داد میں ہل رہا تھا۔ اس کی (ایک؟) آنکھ سے حیرت اور دوسری سے بے اعتباری ٹپک رہی تھی کہ بادشاہ نے مخاطب کیا۔
’’جانوروں میں شیر بادشاہ ہوتا ہے اور گھوڑا تاجر۔۔۔ مشاہدہ ہے کہ شیروں کے مصاحب لکڑ بگھے اور بھیڑیے تک گھوڑوں کا شکار کر لیتے ہیں لیکن جب دنیا پرانی ہو جاتی ہے تو نئی دنیا کے لیے نئے قانون وضع ہوتے ہیں اور اب زمانہ آ گیا ہے کہ تاجر گھوڑا بادشاہ شیروں پر غالب ہوتا جائے گا کہ آج یہی قانون قدرت ہے۔‘‘
اور ریزیڈنٹ نے اپنا گلاس اٹھا لیا۔
٭٭٭
رضو باجی
سیتا پور میں تحصیل سدھولی اپنی جھیلوں اور شکاریوں کے لئے مشہور تھی۔ اب جھیلوں میں دھان بویا جاتا ہے۔ بندوقیں بیچ کر چکّیاں لگائی گئی ہیں، اور لائسنس پر ملے ہوئے کارتوس ’’بلیک‘‘ کر کے شیروانیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قصبوں کا زنجیرا پھیلا ہوا تھا، جن میں شیوخ آباد تھے جو اپنے مفرور ماضی کی یاد میں ناموں کے آگے خان لگاتے تھے اور ہر قسم کے شکار کے لیے غنڈے، کتے اور شکرے پالتے تھے۔ ان میں سارن پور کے بڑے بھیا، رکھو چچا اور چھوٹے بھیا، پاچو چچا بہت ممتاز تھے۔
میں نے رکھو چچا کا بڑھاپا دیکھا ہے۔ ان کے سفید ابروؤں کے نیچے تڑپتی آنکھوں سے چنگاریاں اور آواز سے لپٹیں نکلتی تھیں۔ رضو باجی انہی رکھو چچا کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ میں نے لڑکپن میں رضو باجی کے حسن اور اس جہیز کے افسانے سنے تھے، جسے ان کی دو سوتیلی صاحب جائداد مائیں جوڑ جوڑ کر مر گئی تھیں۔ شادی بیاہ کی محفلوں میں میراثنیں اتنے لقلقے سے ان کا ذکر کرتیں کہ ٹیڑھے بینچے لوگ بھی ان کی ڈیوڑھی پر منڈلانے لگتے۔ جب رضو باجی کی ماں مر گئیں اور رکھو چچا پر فالج گرا تو انھوں نے مجبور ہو کر ایک رشتہ قبول کر لیا۔ مگر رضو باجی پر عین منگنی کے دن جنات آ گئے اور رضو باجی کی ڈیوڑھی سے رشتے کے ’’کاگا‘‘ ہمیشہ کے لئے اڑ گئے۔ جب رکھو چچا مر گئے تو پاچو چچا ان کے ساتھ تمام ہندستان کی درگاہوں کا پیکرمہ کرتے رہے لیکن جناتوں کو نہ جانا تھا، نہ گئے۔ پھر رضو باجی کی عمر ایسا پیمانہ بن گئی، جس کے قریب پہنچنے کے خوف سے سوکھی ہوئی کنواریاں لرز اٹھتیں۔
جب بھی رضو باجی کا ذکر ہوتا، میرے وجود میں ایک ٹوٹا ہوا کانٹا کھٹکنے لگتا اور میں اپنے یادوں کے کارواں کو کسی فرضی مصروفیت کے صحرا میں دھکیل دیتا۔ رضو باجی کا جب رجسٹری لفافہ مجھے ملا تو میں ایسا بد حواس ہوا کہ خط پھاڑ دیا۔ لکھا تھا کہ وہ حج کرنے جا رہی ہیں اور میں فوراً سارنگ پور پہنچ جاؤں، لیکن اس طرح کہ گویا میں ان سے نہیں پاچو چچا سے ملنے آیا ہوں، اور یہ بھی کہ میں خط پڑھنے کے بعد فوراً جلا دوں۔ میں نے رضو باجی کے ایک حکم کی فوری تعمیل کر دی۔ خط کے شعلوں کے اس پار ایک دن چمک رہا تھا۔ پندرہ سال پہلے کا ایک دن جب میں بی اے میں پڑھتا تھا اور محرّم کرنے گھر آیا ہوا تھا۔
محرّم کی کوئی تاریخ تھی اور سارنگ پور کا سپاہی خبر لایا تھا کہ دوسرے دن مسرکھ اسٹیشن پر شام کی گاڑی سے سواریاں اتریں گی۔ ہماری بستی کے محرّم سارے ضلع میں مشہور تھے۔ یہ مشہور محرّم ہمارے گھر سے وابستہ تھے۔ اور دور دور سے عزیز و اقارب محرّم دیکھنے آیا کرتے تھے۔ ہمارا گھر شادی کے گھروں کی طرح گھم گھمانے لگتا تھا۔ اس خبر نے میرے وجود میں قمقمے جلا دیے۔ میں رضو باجی کو، جن کی کہانیوں سے میرا تخئیل آباد تھا، پہلی بار دیکھنے والا تھا۔ عید کی چاند رات کے مانند وہ رات بڑی مشکل سے گزری اور صبح ہوتے ہی میں انتظامات میں مصروف ہو گیا۔ چھوٹے چھوٹے ادھے جن کو پھرک اور لہڑو بھی کہتے ہیں، سنوارے گئے۔ بیل صابن سے نہلائے گئے۔ ان کو نئی اندھیریاں، سنگوٹیاں اور ہمیلیں پہنائی گئیں۔ دھراؤ جھولیں اور پردے نکالے گئے۔ گھوڑے کے ایال تراشے گئے۔ زین پر پالش کی گئی اور سیاہ اطلس کا پھٹّا باندھا گیا، جواس کے سفید جسم پر پھوٹ نکلا۔ ساتھ جانے والے آدمیوں میں اپنی نئی قمیصیں بانٹ دیں اور جیب خرچ سے دھوتیاں خرید دیں اور دوپہر ہی سے کلف لگی برجس پر لانگ بوٹ پہن کر تیار ہو گیا، اور دو بجتے بجتے سوار ہو گیا، جب کہ چھ میل کا راستہ میرے گھوڑے کے لیے چالیس منٹ سے کسی طرح زیادہ نہ تھا۔
اسٹیشن ماسٹر کو، جو ہمارے تحائف سے زیر بار رہتا تھا، اطلاع دی کہ ہمارے خاص مہمان آنے والے ہیں اور مسافر خانے کے پورے کمرے پر قبضہ جما لیا۔ گاڑی وقت پر آئی، لیکن ایسی خوشی ہوئی جیسے کئی دن کے انتظار کے بعد آئی ہو۔ فرسٹ کلاس کے دروازے میں سارنگ پور کا مونو گرام لگائے ایک بوڑھا سپاہی کھڑا تھا۔ ڈبّے سے مسافر خانہ تک قناتیں لگا دی گئیں، آگے آگے پھوپھی جان تھیں۔ ایک رشتے سے رکھو چچا ہمارے چچا تھے اور دوسرے رشتے سے ان کی بیوی ہماری پھوپھی تھیں، ان کے پیچھے رضو باجی، پھر عورتیں تھرماس اور پان دان اور صندوقچے اٹھائے ہوئے آ رہی تھیں، چائے کا انتظام تھا، لیکن پھوپھی جان نے میری بلائیں لے کر انکار کر دیا اور فوراً اس ادھے پر سوار ہو گئیں جو تابوت کی طرح پردوں سے ڈھکا ہوا تھا۔
رضو باجی بھی اسی میں غروب ہو گئیں جن کے ہاتھ سیاہ برقعوں پر شعلوں کی طرح تڑپ رہے تھے۔ دوسرے ادھوں پر عورتوں کو سامان کے ساتھ چڑھا دیا گیا۔
کٹھنا دیس کے پھڑکتے ہوئے سیاہ بیلوں پر میرا چھوٹا سا ادھا خالی اڑ رہا تھا اور میں پھوپھی جان کے ادھے کے پہلو میں چھل بل دکھاتے ہوئے گھوڑے پر بھاگ رہا تھا۔ میں جو کبھی ہوائی بندوق ہاتھ میں لے کر نہ چلا تھا۔ آج بارہ بور کی پنج فیری اس امید پر لادے ہوئے تھا کہ اگر اڑتا ہوا طاؤس گرا لیا تو رضو باجی ضرور متاثر ہو جائیں گی۔ کچی سڑک کے دونوں طرف پھیلے ہوئے دھندہاری کے جنگل پر میری نگاہیں منڈلا رہی تھیں اور میں دعا مانگ رہا تھا کہ دور کسی جھاڑی سے کوئی طاؤس اٹھے اور اتنے قریب سے گزرے کہ میں شکار کر لوں کہ پھوپھی جان کا ادھا رک گیا۔ میں گھوڑا چمکا کر قریب پہنچا۔ آج سے زیادہ کسی جانور کے نخرے بھلے نہ لگے تھے۔
’’میرا تو اس تابوت میں دم گھٹا جا رہا ہے۔‘‘ رضو باجی کی آواز تھی۔ جاڑوں کی صبح کی طرح صاف اور چمک دار!
’’تو آپ میرے ادّھے پر آ جایئے۔‘‘
’’مگر اس پر پردہ کہاں ہے؟‘‘
’’میں ابھی بندھواتا ہوں۔‘‘
پردہ بندھ رہا تھا کہ پھوپھی جان نے حکم دیا، ’’کسی بوڑھے آدمی سے کہو ان کا ادّھا ہانکے اور کسی عورت کو بٹھال دو۔‘‘
’’ادّھا تو میں خود ہانکوں گا۔‘‘
’’ارے تو! ادّھا ہانکے گا؟‘‘
انھوں نے چھوٹا سا قہقہہ لگایا اور میں گھوڑے سے پھاند پڑا۔ ساتھ ہی کسی سپاہی نے میری تائید کی، ’’ایسا ویسا ہانکت ہیں بھیا! بیلن کی جان نکال لیت ہیں۔‘‘ چاروں اور صافوں کا پردہ باندھ دیا گیا۔ رضو باجی سوار ہوئیں اور بولیں، ’’اس پر اتنی جگہ کہاں ہے کہ بوا بھی دھانس لی جائیں۔‘‘
قبل اس کے کہ بوا اپنے ادّھے سے اتریں میں نے بیل جڑوا دیے اور پینٹھ لے کر جور پر بیٹھ گیا اور بڑھنے کا اشارہ کر دیا۔ پھوپھی جان نے کچھ کہا لیکن پانچ جوڑ بیلوں کے گھنے گھنگھروؤں کی تند جھنکار میں ان کی بات ڈوب گئی۔ جب حواس کچھ درست ہوئے اور دماغ کچھ سوچنے پر رضا مند ہوا تو جیسے رضو باجی نے اپنے آپ سے کہا، ’’امی کے ادّھے کی ساری دھول ہمیں کو پھانکنا ہے۔‘‘
میں نے فوراً لیکھ بدلی۔ آدمی نے راسیں کھینچ کر مجھے نکل جانے دیا۔ ظالم بیلوں کو دوبارہ لیکھ پر لانے کے لیے میں نے ایک کے پینٹھ اور دوسرے کے ٹھوکر ماردی اور میری مہمیز اس کی ران میں چبھ گئی۔ وہ تڑپا اور قابو سے نکل گیا، اور اچانک رضو باجی کے ہاتھ میری کمر کے گرد آ گئے اور میرا بایاں شانہ ان کے چہرے کے لمس سے سلگ رہا تھا اور اعصاب میں پھل جھڑیاں چھوٹ رہی تھیں۔
’’روکو۔‘‘ انھوں نے پہلی بار مجھے حکم دیا۔ میں نے سینے تک راسیں کھینچ لیں۔ بیل دلکی چلنے لگے۔ میں نے جھانک کر دیکھا۔ سانپ کی طرح رینگتی ہوئی سڑک پر دور تک درختوں کے سنتری کھڑے تھے اور ایک سپاہی میرے گھوڑے پر سوار سائے کے مانند میرے پیچھے لگا تھا۔ رضو باجی نے برقع کا اوپری حصہ اتار دیا تھا، اور وہ سرخ بال جن پر ان کے حسن کی شہرت کا دار و مدار تھا، چہرے کے گرد پڑے دہک رہے تھے اور وہ ایک طرف کا پردہ جھکا کر جنگل کی بہار دیکھ رہی تھیں۔ ان کے ہاتھوں کی قاتل گرفت نے ایک بار پھر میرے چٹکی لی اور میں نے بیلوں کو چھیڑ دیا، اور ایک بار پھر ان کے سفید ریشمی ہاتھ میری کمر کو نصیب ہو گئے لیکن اب وہ مجھے ڈانٹ رہی تھیں اور میں بیلوں کو پھٹکار رہا تھا۔ ان کا سر میری پشت پر رکھا تھا، اور میں اڑتی ہوئی ریشمی لپٹوں کو دیکھ سکتا تھا۔
پھر وہ باغ نظر آنے لگا جن کے سائے سے آبادی شروع ہو جاتی ہے۔ مسرکھ سے میرے گھر کا راستہ کبھی اتنی جلدی نہیں ختم ہوا، اتنا دل کش نہیں معلوم ہوا۔ میں نے ادّھا روکا، پردہ برابر کیا۔ سپاہی کو جور پر بٹھا کر خود گھوڑے پر سوار ہوا۔ بستی میں بیل ہانکتے ہوئے داخل ہونا شایان شان نہ تھا۔ رضو باجی مجھے دیکھ رہی تھیں اور مسکرا رہی تھیں۔ جب وہ اتر کر ڈیوڑ ہی میں داخل ہوئیں تو میں نے پہلی بار ان کا سراپا دیکھا اور ان کے سامنے مراثنوں کی تمام کہانیاں ہیچ معلوم ہوئیں۔ وہ مجھ سے تھوڑے دنوں بڑی تھیں، لیکن جب انھوں نے میری پیٹھ پر سر رکھا اور ٹھنک کر کہا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنی بھابی جان اور میری اماں سے مرمت کرائیں گی تو وہ مجھے بہت چھوٹی سی معلوم ہوئیں۔ جیسے میں نے ان کی گڑیاں نوچ کر پھینک دی ہوں اور وہ مجھے دھمکیاں دے رہی ہوں۔
میں جو محرّم میں سارا سارا دن اور اور آدھی آدھی رات باہر گزارا کرتا تھا اس سال باہر جانے کا نام نہ لیتا تھا اور بہانے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اندر منڈلایا کرتا تھا۔ نویں کی رات سال بھر میں واحد رات ہوتی تھی، جب ہمارے گھر کی بیبیاں بستی میں زیارت کو نکلتی تھیں۔ پورا اہتمام کیا جاتا تھا کہ وہ پہچانی نہ جائیں۔ برقعوں کے بجائے وہ موٹی موٹی چادر اوڑھ کر نکلتی تھیں، لیکن دور چلتے سپاہیوں کو دیکھ کر لوگ جان جاتے تھے اور عورتیں تک راستہ چھوڑ دیتی تھیں۔ جب رات ڈھلنے لگی اور سب لوگ سوتی چادریں اوڑھ کر یعنی بھیس بدل کر جانے کو تیار ہوئے تو پتا چلا کہ رضو باجی سو گئی ہیں۔ کسی نے جگایا تو پتا چلا کہ سر میں درد ہے اور میں اٹھ کر باہر چلا آیا۔ جب بیبیوں کے پیچھے چلتے ہوئے سپاہیوں کی لاٹھیاں اور لالٹینیں پھاٹک سے نکلنے والی سڑک پر کھو گئیں تب میں اندر آیا۔ وہ دالان میں سیاہ کا مدانی کے دوپٹے کا پلو سر پر ڈالے سو رہی تھیں۔ ایک عورت پنکھا جھل رہی تھی دوسری ان کی پائنتی پڑے کھٹولے پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔ میں نے ان کی سفید گداز کلائی پر میٹھی سی چٹکی لی۔ انھوں نے منہ کھول دیا۔
’’چلئے آپ کو تعزیے دکھا لائیں۔‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا جسے انھوں نے عورتوں کو دیکھ کر جلدی سے چھڑا لیا اور کھڑی ہو گئیں۔
’’میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘
’’زیارت کی برکت سے دور ہو جائے گا۔‘‘ میں نے بڑے جذبے سے کہا، انھوں نے کپڑوں پر نگاہ ڈالی۔
’’اگر ان سے خراب کپڑے آپ کے پاس ہوں تو پہن لیجیے۔‘‘ اور میں نے ان کے پلنگ سے چکن کی چادر اٹھا کر ان کے شانوں پر ڈال دی۔
اپنے تعزیے کے پاس بیٹھی ہوئی بھیڑ سے چند پاسی منتخب کیے۔ ان کو بندوق اور ٹارچ لینے کی ہدایت کی اور رضو باجی کو لیے ہوئے سڑک پر آ گیا۔ مجھے بیبیوں کے راستے معلوم تھے جو محرّم کے جلوس کی طرح مقرر تھے اور میں مخالف سمت میں چل رہا تھا۔ کٹا ہوا چاند تہائی آسمان پر روشن تھا اور ہم بستی کے باہر نکل آئے تھے اور میں خود اپنے منصوبے سے لرز رہا تھا۔ پھر وہ تالاب آ گیا جس کے پاس ٹیلے پر مندر کھڑا تھا اور سامنے املیوں کے دائرے میں لکھوری اینٹوں کا کنواں تھا، میں نے اپنے رو مال سے پختہ جگت صاف کی۔ نو خیز پاسیوں کو حکم دیا کہ وہ مندر کے اندر جا کر بیٹھ جائیں۔ اب حد نگاہ تک دمکتے پانی اور آبادی کے دھندلے خطوط کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ہمارے چاروں طرف املی کے درختوں کا گھنا سایہ پہرہ دے رہا تھا۔ میں نے اپنا گلا صاف کیا۔ ان کی پاس بیٹھ کر پہلی بار ان کو مخاطب کیا۔
’’یہ کنواں دیکھ رہی ہیں آپ؟‘‘ مجھے خود اپنی آواز بھیانک معلوم ہوئی۔ ’’یہ جناتوں کا کنواں ہے۔‘‘ انھوں نے پوری شربتی آنکھوں کو کانوں تک کھول دیا اور میری طرف ذرا سا سرک آئیں۔
’’اس میں جنّات رہتے ہیں۔‘‘
وہ میرے اور قریب آ گئیں۔ ان کا زانو میرے جسم سے مس کرنے لگا، میں بھاٹوں کی طرح لاتعلق لہجے میں کہ رہا تھا، ’’یہ جنات میرے ایک دادا کے شاگرد تھے۔ جب دادا میاں اس کنوئیں میں ڈوب کر مر گئے تو جناتوں نے یہاں اپنا بسیرا کر لیا۔‘‘ انھوں نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، چادر ان کے شانوں سے ڈھلک گئی۔ گھٹی گھٹی آواز میں بڑے کرب سے بولیں، ’’چلو! یہاں سے بھاگ چلو۔‘‘
اور ان کا سر میرے شانے پر ڈھلک آیا اور میں نے سرخ بالوں کی ریشمی لپٹوں میں اپنے ہاتھ جلا لیے جن کے داغ آج بھی جلد کے نیچے محفوظ ہیں۔
”محرّم کی اس رات کے آخری حصے میں جو شخص اس کنوئیں سے اپنے دل کی ایک مراد مانگتا ہے وہ پوری ہوتی ہے۔ “
وہ مجھ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھیں، اور میں اس دنیا میں تھا جو پہلی بار میرے حواس نے دریافت کی تھی۔
’’آپ ذرا دیر کے لئے چھوڑ دیجیے میں ایک دعا مانگ لوں۔۔۔ آج کے بعد پھر کبھی اس کنوئیں میں کوئی دعا نہ مانگوں گا۔‘‘
وہ تڑپ کر اٹھیں اور مجھ کو تقریباً گھسیٹتی ہوئی چلیں۔ جب پاسی کھڑے ہو گئے تب وہ مجھ سے الگ ہوئیں۔ سڑک پر آ کر مچل گئیں کہ گھر جاؤں گی مگر میں ان کو بہلاتا ہوا امام باڑے کی طرف چلا۔ یہ امام باڑہ نواب نقی علی کی اس بہن نے بنوایا تھا، جو واجد علی شاہ کی محل تھی۔ آج بھی اس کی اولاد موجود ہے جو امام باڑے والیوں کے نام سے مشہور ہے اور یہ عمارت انہی کے عمل میں ہے۔
یہاں کربلائے معلّیٰ سے لائی ہوئی ضریح رکھی ہے۔ عورتیں اپنے بالوں کی ایک لٹ باندھ کر مراد مانگتی ہیں جب پوری ہو جاتی ہے، تو اپنی لٹ کھول لے جاتی ہیں۔ ایک پاسی نے دوڑ کر امام باڑہ مردوں سے خالی کرا دیا۔ پھاٹک میں عورتوں کا ہجوم کھڑا تھا۔ بستی کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ میرے گھر کا کوئی فرد کسی عورت کے ساتھ محرّم دیکھنے نکلا ہو۔ زیارت کرنے نکلا ہو۔ دالان کے پاس ایک گدبدی سی لڑکی میرے جوتے کھولنے آئی۔ میں نے رضو باجی کی طرف اشارہ کر دیا۔ وہ ان کے سینڈل کھولنے لگی۔ جب میں اس ہال میں داخل ہونے لگا جس میں سونے کے پانی کی ضریح رکھی تھی تو وہی لڑکی بھاگتی ہوئی آئی اور بولی، ’’بٹیا صاحب کہ رہی ہیں کہ آپ باہر ہی رہیں۔‘‘ میں باہر ہی کھڑا رہا۔ جب میں ان کے ساتھ امام باڑے سے نکل رہا تھا ان گنت مرد مجھے کنکھیوں سے گھور رہے تھے۔ عورتیں گھونگھٹ سے جھانک رہی تھیں اور میرے اعصاب کی کمان کھنچی ہوئی تھی کہ ایک عورت نے دوسری عورت سے پوچھا۔
’’کون ہیں؟‘‘
’’بڑے بھیا کی دلھن ہیں۔‘‘
اور میں لڑکھڑا گیا۔ رضو باجی کے سر سے چادر کا جھونپا ڈھلک گیا۔ جب سڑک ویران ہو گئی تو میں نے دیکھا کہ رضو باجی کا چہرہ لمبی چوڑی مسکراہٹ سے روشن ہے۔ میں ان کے بالکل قریب ہو گیا۔
’’آپ بہت خوش ہیں۔‘‘
’’اوں۔۔۔ ہاں! نہ مانگتے دیر، نہ ملتے دیر۔‘‘ اور میں اس جملے کے معانی سوچتا رہا۔
پھر ہمارے مقدر میں کوئی ایسی رات نہ لکھی گئی جو ان کے قرب سے مہک سکتی۔ ایک آدھ بار ان کی صورت دیکھنے کو ملی بھی تو اس طرح جیسے کوئی چاند دیکھ لے اور جب میں سارنگ پور کی ڈیوڑھی پر یکے سے اترا تو دیر تک کسی آدمی کی تلاش میں کھڑارہا، دن دہاڑے وہاں ایسا سنّاٹا تھا، جیسے اس شان دار بوسیدہ عمارت میں آدمیوں کے بجائے، روحیں آباد ہوں۔ میں دہری ڈیوڑھی کے اندرونی دروازے پر جا کر کھڑا ہو گیا اور آواز دی، ’’میں اندر آ جاؤں۔‘‘
ایک بوڑھی پھٹی ہوئی آواز نے پوچھا، ’’آپ کون ہیں؟‘‘
’’میں چترہٹہ کا اجنّ ہوں۔‘‘
’’ارے۔۔۔ آئیے۔۔۔ بھیا آ جائیے۔‘‘
بھاری پختہ صحن پر میرے جوتے گونج رہے تھے۔ بارہ دروں کے دہرے دالان کی اسپینی محرابوں کے پیچھے لانبے کمروں کے اونچے اونچے دروازے کھلے تھے اور دوسری طرف کی عمارت نظر آ رہی تھی۔ کمرے میں قدم رکھتے ہی میں چونک پڑا، یا ڈر گیا۔ دور تک پھیلے ہوئے سفید چوکے پر سفید کپڑے پہنے ہوئے بھاری بھر کم رضو باجی کھڑی تھیں، چنا ہوا سفید دپٹا ان کے شانوں پر پڑا تھا اور سرخ و سفید بال ان کی پیٹھ پر ڈھیر تھے۔ وہ گردن گھمائے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ اترتی ہوئی شام کی مدھم روشنی میں ان کے زرد چہرے کی سیاہ شکنیں صاف نظر آ رہی تھیں، وہ کانوں میں بیلے کے پھول اور ہاتھوں میں صرف گجرے پہنے تھیں۔ میں ان کی نگاہ کی ویرانی سے کانپ اٹھا۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ دیکھتے رہے۔ صدیاں گزر گئیں۔ کسی میں نہ پلک جھپکنے کی طاقت تھی، نہ زبان کھولنے کا حوصلہ پھر جیسے وہ اپنی آواز کا سہارا لے کر تخت پر ڈھے گئیں۔
’’تم ایسے ہو گئے! اجّن؟ بیٹھ جاؤ۔‘‘ میں چوکے کے کونے پر ٹک گیا۔
’’مجھے اس طرح کیا دیکھ رہے ہو؟ مجھ پر جو گزری وہ اگر پتھروں پر گزرتی تو چور چور ہو جاتے۔ لیکن تم کو کیا ہو گیا؟ کیسے کالے دبلے کھپٹا سے ہو گئے ہو۔ نوکر ہونا۔۔۔ اچھی بھلی تن خواہ پاتے ہو۔ زاہدہ جیسی بیوی ہے، پھول ایسے بچے ہیں، نہ قرض ہے نہ مقدمے بازی، تم بولتے کیوں نہیں؟ کیا چپ کا روزہ رکھ لیا۔‘‘
میں نے دل میں سوچا جناتوں کا سایہ ہے نا ان پر۔
’’آپ نے پندرہ برس بعد روزہ توڑنے کو کہا بھی تو اس وقت، کہ زبان ذائقہ بھول چکی اور معدہ قبول کرنے کی صلاحیت کھو چکا۔‘‘ انھوں نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے میرے سرپر سینگ نکل آئے ہوں۔ وہ بوڑھی عورت میرے سوٹ کیس کو نیچے سے لیے ہوئے چلی آ رہی تھی، پھر پاچو چچا آ گئے۔
دبلے پتلے سے پاچو چچا جن کے شکار کی ایک زمانے میں دھوم تھی۔ رات کا کھانا کھا کر دیر تک باتیں ہوتی رہیں، جب رضو باجی اٹھ گئیں تو چچی جان نے سرگوشی میں کہا ’’آج نوچندی جمعرات ہے۔ بٹیا پر جن کا سایہ ہے وہ آنے والے ہیں۔ تمھارا بستر اپنی طرف لگوایا تھا، لیکن بٹیا نے اٹھوا لیا، اگر ڈرنا تو آواز دے لینا یا چلے آنا، بیچ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔‘‘
جمعرات کا نام سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے مگر خاموش رہا۔ ان کے ہاتھ سے گلوریاں لے کر منہ میں دبائیں اور کھڑا ہو گیا۔ وہ اپنے سب سے چھوٹے بچے کو تھپکتی رہیں۔ پاچو چچا مجھے بھیجنے آئے۔ دالان میں دو بستر لگے تھے۔ ان کے درمیان ایک کھٹولا پڑا تھا، جس پر رضو باجی کی بوا ڈھیر تھیں۔ پاچو چچا مجھے صحن میں چھوڑ کر لالٹین لیے ہوئے رخصت ہو گئے۔ ایک کالا جھبرا کتا ایک طرف سے نکلا اور مجھے سونگھتا ہوا چلا گیا۔ پھر ایک دروازے سے رضو باجی نکلیں اور سارے میں مشک کی خوش بو پھیل گئی۔ ان کے کپڑے نئے اور پھول تازے تھے۔ صحن میں اکتوبر کی چاندنی کا فرش بچھا ہوا تھا۔ برساتی میں کرسیوں پر ہم بیٹھے ٹھنڈی سفید گاڑھی کافی پی رہے تھے، گفتگو کے لئے الفاظ پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’یہ جناتوں کا کیا قصہ ہے رضو باجی؟‘‘ مجھے اپنی آواز پر حیرت ہوئی۔ میں نے یہ گولی کس طرح داغ دی تھی۔ انھوں نے پیالی رکھ دی مسکرائیں۔ وہ پہلی مسکراہٹ عمر بھر کے غموں سے زیادہ غم زدہ تھی۔
’’میں نے تم کو اسی لیے بلایا ہے۔‘‘
’’کاش آپ نے اس سے پہلے بلایا ہوتا۔‘‘
’’بیاہ کی طرح بے حیائی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے اجّن! دس برس پہلے کیا یہ ممکن تھا کہ تم اس طرح کھلے خزانے آدھی رات کو مجھ سے باتیں کر رہے ہوتے؟ آج تم گھر بار والے ہو۔ میں کھوسٹ ہو گئی ہوں اور چچی جان کا باورچی خانہ میری جائداد سے روشن ہے۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو میں حج کرنے جا رہی ہوں اور حج کرنے والے ہر اس شخص سے معافی مانگتے ہیں جس کے ساتھ انھوں نے کوئی زیادتی کی ہو۔ تم کو معلوم ہے مجھ پر جنات کب آئے؟ آج سے دس سال پہلے اور تم کو معلوم ہے تمھاری شادی کو کتنے برس ہوئے؟ دس سال! تم کو ان دونوں باتوں میں کوئی رشتہ نہیں معلوم ہوتا؟
تم نے چتر ہٹہ کے سفر میں کیا کیا؟ تم محرّم کی نویں تاریخ مجھے کہاں کہاں گھسیٹتے پھرے؟ تم اس بھیانک کنوئیں سے میرے سامنے کیا مانگنا چاہتے تھے۔ تم نے عباس علم کو بوسہ دے کر مجھے کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے کسے پانے کی آرزو کی تھی؟ جاؤ اپنے امام باڑے کی ضریح کو غور سے دیکھو۔ میرے بالوں کی سرخ لٹ آج بھی بندھی نظر آئے گی۔ اگر کھچڑی نہ ہو گئی ہو۔ کیا میں نے امام حسین سے صرف ایک عدد شوہر مانگنے کے لئے یہ جتن کئے تھے؟ سارنگ پور کی نائنوں اور میراثنوں سے پوچھو کہ وہ رشتے لاتے لاتے تھک گئیں، لیکن میں انکار کرتے نہ تھکتی۔ کیا مجھ سے تم یہ چاہتے تھے کہ میں سارنگ پور سے ستو باندھ کر چلوں اور چتر ہٹہ کی ڈیوڑھی پر دھونی رما کر بیٹھ جاؤں اور جب تم برآمد ہو تو اپنا آنچل پھیلا کر کہوں کہ حضور مجھ کو اپنے نکاح میں قبول کر لیں کہ زندگی سوارت ہو جائے۔ تم نے رکھو میاں کی بیٹی سے وہ بات چاہی جو رکھو میاں کی طوائفوں سے بھی ممکن نہ تھی۔‘‘
’’لیکن رضو باجی۔‘‘
’’مجھ پر جنات نہیں آتے ہیں اجّن میاں! میں جناتوں کو خود بلا لاتی ہوں۔ اگر جنات نہ آتے تو کوئی دولھا آ چکا ہوتا اور تب اگر جناتوں کا کنواں، عباسی علم اور ضریح مبارک تینوں میرے دامن کو ایک مراد سے بھر دینے کی خواہش کرتے تو میں کیا کرتی؟ کس منہ سے کیا کہتی۔ اس لئے میں نے یہ کھیل کھیلا تھا۔ اسی طرح جس طرح چترہٹے میں تم مجھ سے کھیل رہے تھے۔ نہ اس میں تمہارے لئے کوئی حقیقت تھی اور نہ اس میں رضو کے لئے کوئی سچائی ہے۔ یہ حج میں اپنے باپ کے لیے کرنے جا رہی ہوں، جو میرے بوجھ سے کچل کر مرگئے جنھوں نے مرتے وقت بھی اپنی عقبیٰ کے لئے نہیں، میری دنیا کے لئے دعا کی۔ اس لئے میں نے تم کو معاف کیا۔ اگر تم زاہدہ کو مجھ پر سوت بنا کر لے آتے تو بھی معاف کر دیتی۔‘‘
وہ نرکل کے درخت کی طرح لرز رہی تھیں۔ ان کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا ہوا تھا۔ دو رنگی شال شانوں سے ڈھلک گئی تھی۔ سرخ بالوں میں برابر سے پروئے ہوئے چاندی کے تار جگمگا رہے تھے، اور مجھے محسوس ہو رہا تھا، جیسے زندگی رائگاں چلی گئی جیسے میری بیوی نے مجھے اطلاع دی ہو کہ میرے بچے، میرے بچے نہیں ہیں۔
٭٭٭
پیتل کا گھنٹہ
آٹھویں مرتبہ ہم سب مسافروں نے لاری کو دھکا دیا اور ڈھکیلتے ہوئے خاصی دور تک چلے گئے لیکن انجن گنگناتا تک نہیں۔ ڈرائیور گردن ہلاتا ہوا اتر پڑا۔ کنڈکٹر سڑک کے کنارے ایک درخت کی جڑ پر بیٹھ کر بیڑی سلگانے لگا۔ مسافروں کی نظریں گالیاں دینے لگیں اور ہونٹ بڑبڑانے لگے میں بھی سڑک کے کنارے سوچتے ہوئے دوسرے پیڑ کی جڑ پر بیٹھ کر سگریٹ بنانے لگا۔ ایک بار نگاہ اٹھی تو سامنے دو درختوں کی چوٹیوں پر مسجد کے مینار کھڑے تھے۔ میں ابھی سگریٹ سلگا ہی رہا تھا کہ ایک مضبوط کھردرے دیہاتی ہاتھ نے میری چٹکیوں سے آدھی جلی ہوئی تیلی نکال لی۔ میں اس کی بے تکلفی پر ناگواری کے ساتھ چونک پڑا۔ مگر وہ اطمینان سے اپنی بیڑی جلا رہا تھا وہ میرے پاس ہی بیٹھ کر بیڑی پینے لگا یا بیڑی کھانے لگا۔
یہ کون گاؤں ہے میں نے مینار کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
یو _______ یو بھسول ہے۔
بھسول کا نام سنتے ہی مجھے اپنی شادی یاد آ گئی۔ میں اندر سلام کرنے جا رہا تھا کہ ایک بزرگ نے ٹوک کر روک دیا۔ وہ کلاسکی کاٹ کی بانات کی اچکن اور پورے پائچے کا پاجامہ اور فرکی ٹوپی پہنے میرے سامنے کھڑے تھے۔ میں نے سر اٹھا کر ان کی سفید پوری مونچھیں اور حکومت سے سینچی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔ انہوں نے سامنے کھڑے ہوئے خدمت گاروں کے ہاتھوں سے پھولوں کی بدھیا لے لیں اور مجھے پہنانے لگے۔ میں نے بل کھا کر اپنی بنارسی زری پوت کی جھلملاتی ہوئی شیروانی کی طرف اشارہ کر کے تلخی سے کہا۔ کیا یہ کافی نہیں تھی وہ میری بات پی گئے۔ بدھیا برابر کیں۔ پھر میرے ننگے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر کہا اب تشریف لے جایئے۔ میں نے ڈیوڑھی پر کسی سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ تھے۔ بتایا گیا کہ یہ بھسول کے قاضی انعام حسین ہیں۔
بھسول کے قاضی انعام حسین، جن کی حکومت اور دولت کے افسانے میں اپنے گھرمیں سن چکا تھا۔ میرے بزرگوں سے ان کے جو مراسم تھے مجھے معلوم تھے۔ میں اپنی گستاخ نگاہوں پر شرمندہ تھا۔ میں نے اندر سے آ کر کئی بار موقع ڈھونڈھ کر ان کی چھوٹی موٹی خدمتیں انجام دیں۔ جب میں چلنے لگا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دی، مجھے بھسول آنے کی دعوت دیاور کہا کہ اس رشتے سے پہلے بھی تم میرے بہت کچھ تھے لیکن اب تو داماد ہو گئے ہو۔ اس قسم کے رسمی جملے سبھی کہتے ہیں لیکن اس وقت ان کے لہجے میں خلوص کی ایسی گرمی تھی کہ کسی نے یہ جملے میرے دل پر لکھ دیے۔
میں تھوڑی دیر کھڑا بگڑی بس کو دیکھتے رہا۔ پھر اپنا بیگ جھلاتا ہوا جتے ہوئے کھیتوں میں اٹھلاتی ہوئی پگڈنڈی پر چلنے لگا۔ سامنے وہ شاندار مسجد کھڑی تھی، جسے قاضی انعام حسین نے اپنی جوانی میں بنوایا تھا۔ مسجد کے سامنے میدان کے دونوں طرف ٹوٹے پھوٹے مکان کا سلسلہ تھا، جن میں شاید کبھی بھسول کے جانور رہتے ہوں گے، ڈیوڑھی کے بالکل سامنے دو اونچے آم کے درخت ٹرانک کے سپاہی کی طرح چھتری لگائے کھڑے تھے۔ ان کے تنے جل گئے تھے۔ جگہ جگہ مٹی بھری تھی۔ ڈیوڑھی کے دونوں طرف عمارتوں کے بجائے عمارتوں کا ملبہ پڑا تھا۔ دن کے تین بجے تھے۔ وہاں اس وقت نہ کوئی آدم تھا نہ آدم زاد کہ ڈیوڑھی سے قاضی صاحب نکلے۔ لمبے قد کے جھکے ہوئے، ڈوریے کی قمیض، میلا پائجامہ اور موٹر ٹائر کے تلوؤں کا پرانا پمپ پہنے ہوئے، ماتھے پر ہتھیلی کا چھجہ بنائے مجھے گھور رہے تھے میں نے سلام کیا۔ جواب دینے کے بجائے وہ میرے قریب آئے اور جیسے ایک دم کھل گئے۔ میرے ہاتھ سے میرا بیگ چھین لیا اور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے ڈیوڑھی میں گھس گئے۔
ہم اس چکر دار ڈیوڑھی سے گزر رہے تھے جس کی اندھیری چھت کمان کی طرح جھکی ہوئی تھی۔ دھنیوں کو گھنے ہوئے بد صورت شہتیر رو کے ہوئے تھے۔
وہ ڈیوڑھی سے چلائے۔ ارے سنتی ہو دیکھ تو کون آیا ہے۔ میں نے کہا اگر صندوق وندوق کھولی بیٹھی ہو تو بند کر لو جلدی سے۔ لیکن دادی تو سامنے ہی کھڑی تھیں، دھلے ہوئے گھڑوں گھڑونچی کے پاس دادا ان کو دیکھ کر سٹپٹا گئے۔ وہ بھی شرمندہ کھڑی تھیں پھر انہوں نے لپک کر الگنی پر پڑی مارکین کی دھلی چادر گھسیٹ لی اور ڈوپٹہ کی طرح اوڑھ لی۔ چادر کے ایک سرے کو اتنا لمبا کر دیا کہ کرتے کے دامن میں لگا دوسرے کپڑے کا چمکتا پیوند چھپ جائے۔
اس اہتمام کے بعد وہ میرے پاس آئیں۔ کانپتے ہاتھوں سے بلائیں لیں۔ سکھ اور دکھ کی گنگا جمنی آواز میں دعائیں دیں دادی کانون سے میری بات سن رہی تھیں لیکن ہاتھوں سے جن کی جھریاں بھری کھال جھول گئی گئی تھی دالان کے اکلوتے ثابت پلنگ کو صاف کر رہیں تھیں۔ جس پر میلے کپڑے، کتھے چونے کی کلیاں اور پان کی ڈلیاں ڈھیر تھیں اور آنکھوں سے کچھ اور سوچ رہی تھیں۔ مجھے پلنگ پر بٹھا کر دوسرے جھولا جیسی پلنگ کے نیچے سے وہ پنکھا اٹھا لائیں جس کے چاروں طرف کالے کپڑوں کی گوٹ لگی تھی اور کھڑی ہوئی میرے اس وقت تک جھلتی رہیں جب تک میں نے چھین نہ لیا۔ پھر وہ باورچی خانے میں چلی گئیں۔ وہ ایک تین دروں کا دالان تھا۔ بیچ میں مٹی کا چولہا بنا تھا۔ المونیم کی چند میلی پتیلیاں کچھ پیپے اور کچھ ڈبے کچھ شیشے بوتل اور دو چار اسی قسم کی چھوٹی موٹی چیزوں کے علاوہ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ وہ میری طرف پیٹھ کئے چولہے کے سامنے بیٹھی تھیں۔ دادا نے کونے میں کھڑے ہوئے پرانے حقہ سے بے رنگ چلم اتاری اور باورچی خانہ میں گھس گئے۔ میں ان دونوں کی گھن گھن سرگوشیاں سنتا رہا۔ دادا کئی بار جلدی جلدی باہر گئے اور آئے۔ میں نے اپنی شیروانی اتاری۔ ادھر ادھر دیکھ کر چھ دروازوں والے کمروں کے کواڑ پر پر ٹانگ دی۔ نقشین کواڑ کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ ایک جگہ لوہے کی پتی لگی تھی لیکن بیچوں بیچ گول دائرے میں ہاتھی دانت کا کام، کتھے اور تیل کے دھبوں میں جگمگا رہا تھا۔ بیگ کھول کر میں نے چپل نکالے اور اور جب تک میں دوڑوں دادا گھڑونچی سے گھڑا اٹھا کر اس لمبے کمرے میں رکھ آئے جس میں ایک بھی کیواڑ نہ تھا۔ صرف گھیرے لگے کھڑے تھے۔ جب میں نہانے گیا تو دادا المونیم کا لوٹا میرے ہاتھوں میں پکڑا کر مجرم کی طرح بولے۔ تم بیٹے اطمینان سے نہاؤ۔ ادھر کوئی نہیں آئے گا۔ پردے تو میں ڈال دوں لیکن اندھیرا ہوتے ہی چمگادڑ گھس آئے گی اور تم کو دق کرے گی۔
میں گھڑے کو ایک کونے میں اٹھا لے گیا۔ وہاں دیوار سے لگا، اچھی خاصی سینی کے برابر پیتل کا گھنٹہ کھڑا تھا۔ میں نے جھک کر دیکھا۔ گھنٹے میں مونگریوں کی مار سے داغ پڑ گئے تھے۔ دو انگل کا حاشیہ چھوڑ کر جو سوراخ تھا اس میں سوت کی کالی رسی بندھی تھی۔ اس سوراخ کے برابر ایک بڑا سا چاند تھا اس کے اوپر سات پہل کا ستارہ تھا۔ میں نے تولیہ کے کونے سے جھاڑ کر دیکھا تو وہ چاند تارا بھسول اسٹیٹ کا مونو گرام تھا۔ عربی رسم الخط میں قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ کھدا ہوا تھا۔ یہی وہ گھنٹہ تھا جو بھسول کی ڈیوڑھی پر اعلان ریاست کے طور پر تقریباً ایک صدی سے بجتا چلا آ رہا تھا۔ میں نے اسے روشنی میں دیکھنے کے لئے اٹھانا چاہا لیکن ایک ہاتھ سے نہ اٹھ سکا۔ دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر دیکھتا رہا۔ میں دیر تک نہاتا رہا۔ جب باہر نکلا تو آنگن میں قاضی انعام حسین پلنگ بچھا رہے تھے۔ قاضی انعام حسین جن کی گدی نشینی ہوئی تھی۔ جن کے لئے بندوقوں کا لائسنس لینا ضروری نہیں تھا۔ جنہیں ہر عدالت طلب نہیں کر سکتی تھی۔ دونوں ہاتھوں پر خدمت گاروں کی طرح طباق اٹھائے ہوئے آئے۔ جس میں الگ الگ رنگوں کی دو پیالیاں لب سوزچائے سے لبریز رکھی تھیں ایک بڑی سی پلیٹ میں دو ابلے ہوئے انڈے کاٹ کر پھیلا دئے گئے تھے۔ شروع اکتوبر کی خوشگوار ہوا کے جھونکوں میں ہم لوگ بیٹھے نمک پڑی ہوئی چائے کی چسکیاں لے رہے تھے کہ دروازے پر کسی بوڑھی نے ہانک لگائی۔
مالک
کون
مہتر ہے آپ کا _______ صاحب جی کا بلابے آئے ہے۔
دادا نے گھبرا کر احتیاط سے اپنی پیالی طباق میں رکھ دی اور جوتے پہنتے ہوئے باہر چلے گئے۔ اپنے بھلے دنوں میں اس طرح شاید وہ کمشنر کے آنے کی خبر سن کر بھی نہ نکلے ہوں گے۔
میں ایک لمبی ٹہل لگا کر جب واپس آیا تو ڈیوڑھی میں مٹی کے تیل کی ڈبیا جل رہی تھی۔ دادا باورچی خانے میں بیٹھے چولھے کی روشنی میں لالٹین کی چمنی جوڑ رہے تھے میں ڈیوڑھی سے ڈبیا اٹھا لایا اور اصرار کر کے ان سے چمنی لے کر جوڑنے لگا۔
ہاتھ بھر لمبی لالٹین کی تیز گلابی روشنی میں ہم لوگ دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ دادا میرے بزرگوں سے اپنے تعلقات بتاتے رہے۔ اپنی جوانی کے قصے سناتے رہے۔ کوئی آدھی رات کے قریب دادی نے زمین پر چٹائی بچھائی اور دستر خوان لگایا۔ بہت سی ان میل بے جوڑ اصلی چینی کی پلیٹوں میں بہت سی قسموں کا کھانا چنا تھا۔ شاید میں نے آج تک اتنا نفیس کھانا نہیں کھا یا۔ صبح میں دیر سے اٹھا۔ یہاں سے وہاں تک پلنگ پر ناشتہ چنا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ دادی نے رات بھر ناشتہ پکایا ہے۔ _____جب میں اپنا جوتا پہننے لگا تو رات کی طرح اس وقت بھی دادی نے مجھے آنسو بھری آواز سے روکا۔ مین معافی مانگتا رہا دادی خاموش کھڑی رہیں۔ جب میں شیروانی پہن چکا دروازے پر یکہ آ گیا، تب دادی نے کانپتے ہاتھوں سے میرے بازو پر امام ضامن باندھا، ان کے چہرے پر چونا پتا ہوا تھا۔ آنکھیں آنسوؤں سے چھلک رہی تھیں۔ انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا یہ اکاون روپے تمہاری مٹھائی کے ہیں اور دس کرائے کے۔
ارے __ ارے دادی __ آپ کیا کر رہی ہیں اپنی جیب میں جاتے ہوئے روپیوں کو میں نے پکڑ لیے۔
چپ رہو تم ____ تمہاری دادی سے اچھے تو ایسے ویسے لوگ ہیں جو جس کا حق ہوتا ہے وہ دے تو دیتے ہیں غضب خدا کا تم زندگی میں پہلی بار میرے گھر آؤ میں تم کو جوڑے کے نام پر ایک چٹ بھی نہ دے سکوں _____ میں _____ بھیا __ تیری دادی تو بھکارن ہو گئی۔
معلوم نہیں کہاں کہاں کا زخم کھل گیا۔ وہ دھاروں دھاروں رو رہی تھیں۔ دادا میری طرف پشت کئے کھڑے تھے اور جلدی جلدی حقہ پی رہے تھے۔ مجھے رخصت کرنے دادی ڈیوڑھی تک آئیں لیکن منھ سے کچھ نہ بولیں۔ میری پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اور گردن ہلا کر رخصت کر دیا۔
دادا قاضی انعام حسین تعلقدار بھسول تھوڑی دیر تک یکہ کے ساتھ چلتے رہے لیکن نہ مجھ سے آنکھ ملائی نہ مجھ سے خدا حافظ کہا ایک بار نگاہ اٹھا کر دیکھا اور میرے سلام کے جواب میں گردن ہلا دی۔
سدھولی جہاں سے سیتا پور کے لئے مجھے بس ملتی ابھی دور تھا۔ میں اپنے خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ میرے یکہ کو سڑک پر کھڑی ہوئی سواری نے روک لیا۔ جب میں ہوش میں آیا تو میرا یکہ والا ہاتھ جوڑے مجھ سے کہہ رہا تھا ____ میاں ____ الی شاہ بھسول کے ساہوکار ہیں ان کے یکہ کا بم ٹوٹ گیا ہے، آپ برا نہ مانو تو الی شاہ بیٹھ جائیں۔
میری اجازت پا کر اس نے شاہ جی کو آواز دی۔ شاہ جی ریشمی کرتا اور مہین دھوتی پہنے آئے اور میرے برابر بیٹھ گئے اور یکہ والے نے میرے اور ان کے سامنے پیتل کا گھنٹہ دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر رکھ دیا۔ گھنٹے کے پیٹ میں مونگری کی چوٹ کا داغ بنا تھا۔ دو انگل کے حاشئے پر سوراخ میں سوت کی رسی پڑی تھی۔ اس کے سامنے قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ کا چاند اور ستارے کا مونو گرام بنا ہوا تھا۔ میں اسے دیکھ رہا تھا اور شاہ جی مجھے دیکھ رہے تھے اور یکے والا ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ یکے والے سے رہا نہ گیا۔ اس نے پوچھ ہی لیا۔
کا شاہ جی گھنٹہ بھی خرید لایو؟
ہاں کل شام معلوم نائی کا وقت پڑا ہے میاں پر کہ گھنٹہ دے دین بلائے کے ای
ہاں وقت وقت کی بات ہے ____ شاہ جی ناہیں تو ای گھنٹہ
اے گھوڑے کی دم راستہ دیکھ کے چل یہ کہ کر اس نے چابک جھاڑا۔
میں _____ میاں کا برا وقت ___ چوروں کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔
مجھے معلوم ہوا کہ یہ چابک گھوڑے کے نہیں میری پیٹھ پر پڑا ہے۔
٭٭٭
آنکھیں
طاؤس کی غمناک موسیقی چند لمحوں کے بعد رک جاتی ہے۔
’’سبحان اللہ۔۔۔ جہاں پناہ۔۔۔ سبحان اللہ۔‘‘
’’بیگم‘‘ (بھاری اور رنجور آواز میں)
’’جہاں پناہ۔۔۔ اگر ہندوستان کے شہنشاہ نہ ہوتے تو ایک عظیم مصنف، عظیم شاعر، عظیم مصور اور عظیم موسیقار ہوتے۔‘‘
’’یہ تعریف ہے یا غمگساری۔۔۔ بہرحال جو بھی ہے ما بدولت کے بے قرار دل کو قرار عطا کرنے کی جسارت کرتی ہے۔‘‘
’’جہاں پناہ کی آنکھوں نے آج پھر نیند کو باریابی سے محروم رکھا؟‘‘
’’بیگم‘‘
’’نصیب دشمناں۔۔۔ کیا مزاج عالم پناہی۔‘‘
’’ہندوستان کے تخت پر جلوس کرنا آسان ہے لیکن سچ بولنا دشوار ہے۔ دشوار تر۔‘‘
’’نور جہاں بیگم کے سامنے بھی عالم پناہ!‘‘
’’بیگم‘‘
’’ظل الٰہی کو جو ارشاد فرمانا ہے وہ ارشاد فرما دیا جائے۔۔۔ پھر جلاد کو حکم دیا جائے کہ ہمارے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال کر الفاظ پر مہریں لگا دے۔‘‘
’’خوب۔۔۔ جوانی آنکھیں قبول کر چکی۔۔۔ بڑھاپا سماعت کو سولی چڑھا دے۔‘‘
’’کنیز کچھ سمجھنے سے قاصر ہے۔‘‘
’’آپ کے نام کا سکہ روئے زمین کی سب سے شاندار سلطنت کے بازار کا چلن ہے۔ ہندوستان کی مہر حکومت آپ کی انگشت مبارک کی زینت ہے۔ زمانہ جانتا ہے کہ جہانگیر ایک جام کے عوض تاج ہندوستان آپ کو عطا کر چکا۔۔۔ لیکن یہ کون جانتا ہے کہ جہانگیر آج بھی اپنی محبت کی تکمیل کا محتاج ہے۔‘‘
’’ظل اللہ۔‘‘
’’پوری کائنات کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لینے والی محبت اس ایک چھوٹے سے لمحے کی محتاج ہوتی ہے جب عاشق اپنے سینے کا آخری راز محبوب کے سینے میں منتقل کر دیتا ہے۔۔۔ آج کون سی رات ہے بیگم۔‘‘
’’شوال کی چودھویں عالم پناہ۔‘‘
’’بہت خوب۔۔۔ آج کی رات آسمان سے اس لیے اتاری گئی کہ ما بدولت آپ کے سر پر تکمیل کی محبت کا تاج رکھ دیں۔‘‘
’’ظل الٰہی۔۔۔ کیا روئے زمین پر کوئی عورت ہے جس کے ہاتھ میں خاتم سلیمانی ہو اور سرپر محبت کا تاج؟‘‘
’’نور جہاں بیگم۔۔۔ رام رنگی کا ایک جام بنائیے اور اس طرح ہونٹوں سے لگا دیجیے کہ جام ما بدولت کی آنکھوں سے دور رہے۔۔۔ ایک عمر ہونے کو آئی کہ جام میں آنکھیں نظر آ رہی ہیں۔۔۔ وہی آنکھیں۔۔۔۔ وہ بے پناہ آنکھیں۔‘‘
’’جہاں پناہ طبیب شاہی کی مقرر کی ہوئی مقدار شراب۔۔۔‘‘
’’نوش فرما چکے! یہ کیسی شہنشاہی ہے کہ ایک ایک جام کو ترستی ہے۔۔۔؟‘‘
’’بیگم۔۔۔ ہماری محبت کے جشن تاجپوشی کے تصدق میں ایک جام عطا کر دیجیے۔‘‘
’’اتنی عزت نہ دیجیے جہاں پناہ کہ نور جہاں اس بار عظیم کی متحمل نہ ہو سکے۔‘‘
(شراب ڈھالتی ہے۔۔۔ ایک ہی سانس میں جام خالی ہو جاتا ہے)
’’بیگم!‘‘
’’کنیز ہمہ تن گوش ہے عالم پناہ۔‘‘
’’ایک مدت ہوئی کہ ما بدولت زندہ تھے۔‘‘
’’ظل اللہ۔‘‘
’’جی ہاں بیگم۔۔۔ زندگی کا صرف ایک نام ہے۔ جوانی۔۔۔ اور سلیم کی جوانی دولت مغلیہ کے اولین صاحب عالم کی جوانی۔۔۔ فردوس مکانی بابر بارہ برس کی عمر میں بادشاہ ہو گئے۔ جنت مکانی ہمایوں میدان جنگ میں تلوار چلاتے ہوئے جوان ہوئے۔ عرش آشیانی (اکبر) اپنے دادا جان کی طرح بارہ برس کی عمر میں تخت نشین ہوئے اور اکبر اعظم کی ولی عہدی سلیم کا مقدر ہوئی۔۔۔ عرش آشیانی نے جب شراب پر پہرے بٹھا دیے تو ما بدولت کے جاں نثار اپنی بندوقوں کی نالیوں میں شراب بھر کر لاتے اور پیمانے لبریز کر دیتے اور نظام ہضم بارود سے سینچی ہوئی شراب اس طرح ہضم کر لیتا جس طرح آج دوا کا پیالہ ہضم نہیں ہوتا۔ اس بے پناہ جوانی اور بے محابہ شہزادگی کا اثر تاجداری پر طاری رہا۔۔۔ بیگم۔‘‘
’’عالم پناہ۔‘‘
’’یہ پردہ ہٹا دیجیے۔۔۔ سنگ مرمر کی زیبائی چاندنی سے ہوتی ہے۔ آج کی رات کی چاندنی میں اگر ما بدولت جوان ہوتے تو ساری رات آپ کے ہاتھوں سے پیمانے قبول کرتے رہتے۔‘‘
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’ہاں بیگم۔۔۔ دوسرا سال جلوس تھا۔ ما بدولت مینا بازار میں جلوہ افروز تھے کہ ایک لڑکی نے پان پیش کیے۔ گلوریوں کی نزاکت اور نفاست پسند خاطر ہوئی۔ ہاتھوں پر نظر پڑی تو اور ہی عالم نظر آیا جیسے نو رکے سانچے میں ڈھال دے گئے ہوں۔ نگاہ بلند ہوئی۔ معصوم وحشی آنکھوں میں ڈوب گئی اور محسوس ہوا جیسے اندر کہیں کوئی چیز ٹوٹ گئی۔ جب ہوش آیا تو وہ نگاہ نیچے کئے لرز رہی تھی اور دونوں ہاتھوں میں طشت کانپ رہا تھا۔ ما بدولت گردن سے ہار اتار رہے تھے کہ اس کی آواز طلوع ہوئی جیسے کشمیر کے برف پوش پہاڑوں پر سورج کی کرن تڑپتی ہے۔‘‘
’’تحفہ درویش کی قیمت کیا عالم پناہ۔‘‘
’’بے شک تحفہ درویش قیمت سے بلند ہوتا ہے۔ یہ موتی اس نفاست اور نزاکت کی داد ہیں جو ان گلوریوں میں مجسم کر دی گئی۔ ہم آگے بڑھے تو عرفان ہوا کہ ہم پیچھے رہ گئے۔ پہلی بار معلی ویران معلوم ہوا۔۔۔ اکبر اعظم کے جانشین کی بارگاہ خالی محسوس ہوئی۔ پہلی بار ما بدولت کو غربت کا تجربہ ہوا۔ ایسی غربت جو دل کو مٹھی میں دبوچ کر ایک ایک قطرہ لہو نچوڑ لیتی ہے اور جب ہم نے چاہا کہ دل کی ویرانی کو شراب سے شاداب کر لیں تو پہلی بار انکشاف ہوا کہ شراب نشے سے عاری ہو چکی۔ دیر تک شیشے خالی ہوتے رہے لیکن دل کا خلا پر نہ ہو سکا۔‘‘
’’جہاں پناہ! کنیز نے اپنی کم فہمی کی بنا پر قیاس کیا تھا کہ ظل الٰہی کا راز شاہزادہ خرم اور شاہزادہ شہریار کی آویزش سے متعلق ہو گا لیکن۔‘‘
’’خرم اور شہریار کی آویزش مغل تاجداروں کی روایت ہے۔ مغل سلطنت اس کا مقدر ہوتی ہے جس کی تقدیر کامگار اور شمشیر آبدار ہوتی ہے۔ جب خسرو نے ما بدولت کے منہ پر تلوار کھینچ لی تو خرم اور شہریار بہرحال۔‘‘
’’پھر جہاں پناہ۔‘‘
’’پھر ما بدولت کے ہاتھ نے گھنٹہ بجا دیا۔ چوبدار کے بجائے محرم خاں کورنش ادا کر رہا تھا۔ ابھی اس کی بے ادب حاضری پر غور فرما تھے کہ معروض ہوا، ’’پان پیش کرنے والی صاحبزادی کا نام صائمہ خاتون ہے جو بخارا کے شیخ الاسلام کی پوتی اور جلوہ دار شیخ عرب کی بیٹی ہیں۔ ان کا مکان عرب کی سرائے ہے۔‘‘
’’محرم خان۔‘‘
’’ظل الٰہی‘‘
’’یہ قیمتی معلومات کس کے حکم سے فراہم کی گئیں۔‘‘
’’زبان مبارک سے نازل ہونے والے احکامات کی تکمیل ہر بندہ درگاہ کا فرض ہے۔ لیکن محرم خاں جیسے مقرب بارگاہ کے منصب حق ہے کہ وہ عالم پناہ کے چشم و ابرو زبان سمجھنے کی قدرت رکھتا ہو۔‘‘
’’جہانگیری چشم و ابرو کی زبان سمجھنا ایک نادر علم ہے لیکن اس کا اظہار اس سے زیادہ نادر ہنر اور اس ہنر کا غلط استعمال بیداد کا مستوجب۔‘‘
’’خداوند۔‘‘
’’ما بدولت نے تمہارا قصور معاف کیا اور حکم دیا کہ خلعت ہفت پارچہ مع زرد جواہر کے ساتھ نواب صائمہ بیگم کی خدمت میں حاضر ہو اور پیام دو کہ جشن سالگرہ میں شریک ہونے کی سعادت حاصل کریں۔‘‘
’’ہرچند کہ ابھی رات کی زلف کہیں تک بھی نہ پہنچی تھی تاہم بے طرح انتظار فرما ہو چکے تھے۔‘‘
’’کتنی خوش نصیب تھی صائمہ بیگم کہ عالم پناہ اس کے منتظر تھے۔ کتنی بدنصیب تھی صائمہ بیگم کہ جہاں پناہ کی حضوری سے محروم تھی۔‘‘
’’تمام رات وہ آنکھیں ہماری آنکھوں کے سامنے مجریٰ کرتی رہیں جن کی سیاہی میں ابد الآباد تک کے تمام مہجور عاشقوں کی سیہ بختی کا جوہر کھینچ کر انڈیل دیا گیا تھا۔ جن کی تاب کے سامنے تمام سمندروں کے تمام موتیوں کی آب پانی پانی تھی۔‘‘
’’سبحان اللہ۔۔۔ اگر ملک الشعراء اس تشبیہ کو سن لیتا تو خجالت سے ڈوب ڈوب جاتا۔‘‘
’’وہ رات زندگانی کی سب سے بھاری رات تھی۔‘‘
’’کیا اس رات سے بھی بھاری جہاں پناہ۔۔۔ جس کی صبح اکبر اعظم کی تلوار طلوع ہونے والی تھی۔‘‘
’’ہاں بیگم۔۔۔ اس رات کی دلداری کے لیے پچاس ہزار تلواریں سلیم کی رکاب میں تڑپ رہی تھیں اور صاحب عالم کے منہ سے نکلا ہوا ایک فقرہ اکبری تلوار کو غلاف کر سکتا تھا لیکن اس رات کی غمگساری کے لیے نورالدین محمد جہانگیر کے پاس ایک دامن و آستین کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘
’’کاش۔۔۔ اس رات کی خدمت گزاری کنیز کا مقدر ہوئی ہوتی۔‘‘
’’پھر سورج کی کرنیں سلام کو پیش ہوئیں۔۔۔ ما بدولت درشن کے پرنزول اجلال کے اہتمام میں مصروف تھے کہ فریادی نے زنجیر ہلا دی۔‘‘
’’صائمہ بیگم اس طرح باریاب ہوئی گویا وہ کشور ہندوستان کی قلعہ معلیٰ میں نہیں کسی غریب عزیز کے گھر میں قدم رنجہ فرما رہی۔ نقاب کے اٹھتے ہی محسوس ہوا جیسے داروغۂ چاندنی خانہ نے قلعہ معلیٰ کی تمام روشنیاں ایک شاہ برج میں انڈیل دی ہوں۔ استفسار پر اس طرح مخاطب ہوئی جیسے وہ جہانگیر سے نہیں اپنی ڈیوڑھی پر کھڑے ہوئے سوالی سے مخاطب ہے۔۔۔ اس کی خطابت نے یقین دلا دیا کہ ما بدولت نے محرم خاں کو سفیر بنا کر غلطی کا ارتکاب نہیں جرم سرزد فرمایا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ بھری دوپہر پر رات غالب آ گئی ہے۔ وہ جا چکی تھی۔۔۔ اس کے غروب ہوتے ہی محرم خاں باریاب ہوا۔۔۔ عرض کیا گیا کہ خلعت نا مقبول اور دعوت نا منظور ہوئی۔‘‘
نجابت اور شرافت پر اتنا غرور۔۔۔ ایسا تبحّر۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔ ایک جام اور عنایت کہ زبان خشک ہونے لگی ہے۔ (شراب ڈھالتی ہے۔۔۔ اور ایک ہی سانس میں آبگینہ ختم ہو جاتا ہے)
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’گوش گزار کیا گیا کہ ارم آشیانی علیہ حضرت مریم زمانی ورود مسعود فرما رہی ہیں۔۔۔ سلام کے جواب میں ارشاد ہوا کہ شیخو بابا کو اس مغرور لڑکی میں کیا نظر آ گیا کہ مغل جبروت و جلال کی بازی لگا دی گئی۔۔۔ ما بدولت سکوت فرما رہے۔۔۔ جب سکوت حد ادب سے گزرنے لگا تو علیہ حضرت نے سنا کہ صائمہ بیگم سر سے پاؤں تک کرشمہ الٰہی ہے لیکن آنکھوں کی بے پناہی زمین و آسمان کے درمیان اپنی مثال نہیں رکھتی۔۔۔ سورج شاہ برج سے رخصت ہو کر اجازت مانگ رہا تھا کہ علیہا حضرت ثانی کا غلغلہ بلند ہوا۔ خوش خبری سنائی گئی کہ سفارش خاص پر نواب صائمہ بیگم رات کے کسی پہر قلعہ مبارک میں جلوس فرمائیں گی۔‘‘
’’ظل الٰہی نے اس خبر کو کس طرح قبول فرمایا۔‘‘
’’ما بدولت نے غسل فرمایا۔۔۔ نیا لباس زیب تن کیا۔۔۔ نئے جواہر سے آراستہ ہوئے۔۔۔ اور خاصہ تناول فرمایا۔۔۔ داروغۂ چاندنی خانہ کو حکم ہوا کہ ارک معلیٰ کا چپہ چپہ روشنی میں غرق کر دے۔‘‘
’’داروغۂ بیوتات کو فرمان ملا کہ ذرہ ذرہ مشک و عنبر سے معطر کر دے اور داروغۂ جواہر خانہ کو پروانہ پہنچا کہ شاہ برج کے طاق جواہرات سے لبریز کر دے۔ قلعہ دار کو مطلع کیا گیا کہ نواب صائمہ بہادر کی سواری کو نوبت خانے کی سیڑھیوں تک آنے کی اجازت عطا ہو۔ احکامات کی تعمیل ہو چکی تھی اور ما بدولت انتظار کے تخت پر جلوہ افروز تھے۔‘‘
’’ظل اللہ کے دہن مبارک سے انتظار کا لفظ عطا ہو کر کنیز کی سماعت پر اس طرح گرتا ہے جیسے طاؤس پر عقاب۔‘‘
’’مقربین بارگاہ نے تہنیت دی کہ حضرت نواب صائمہ بیگم بہادر کی سواری نوبت خانے کی سیڑھیوں پر لگا دی گئی۔۔۔ چوبداروں کی آوازوں پر ملاحظہ فرمایا کہ وہ سیاہ سوتی برقعہ پر بھاری نقاب ڈالے، دونوں بازوؤں پر عورتوں کا سہارا لیے ہاتھوں میں ایک سرخ پیالہ سنبھالے آہستہ آہستہ آ رہی ہے۔ نقیب خاص کی آواز پر عورتوں نے اس کے بازو چھوڑ دیے اور وہ کورنش ادا کرنے کے بجائے گھٹنوں پر گر پڑی، کانپتے ہاتھوں سے دراز ہو کر پیالہ تخت کی طرف بڑھا دیا۔۔۔ ما بدولت تخت سے اتر پڑے دستگیری عطا کرنے کے بجائے اس کی نذر قبول کی۔۔۔ پیالہ ہاتھ میں آیا تو بیگم۔۔۔ جیسے آنکھوں سے بصارت چلی گئی۔‘‘
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’پیالے میں اس کی آنکھیں تڑپ رہی تھیں۔‘‘
’’ظل الٰہی۔‘‘
’’ہاں بیگم اس کی آنکھوں کے دیدے پیالے میں رکھے تھے۔۔۔ شہنشاہ کی پوری عمر میں آداب شہنشاہی کبھی اتنے بھاری نہ معلوم ہوئے۔۔۔ تاہم انہوں نے اس کا نقاب اٹھا دیا۔۔۔ آنکھوں کی جگہ دو سوراخ تھے جن سے خون رس رہا تھا۔ زرد سنگ مرمر سے تراشا ہوا چہرہ ساکت تھا۔ پائے مبارک میں جیسے کسی نے زنجیریں ڈال دیں۔‘‘
’’نصیب دشمناں۔‘‘
’’صرف اس قدر ادا ہو سکا کہ نواب صائمہ بیگم بہادر نے یہ کیا کر لیا۔‘‘
آواز آئی
’’شہنشاہوں کی پسند غریبوں کو زیب نہیں دیتی۔ ناچیز کی آنکھیں جہاں پناہ کو پسند آ گئیں۔۔۔ نذر میں گزار دی گئیں۔۔۔ کل کی گلوریوں کی طرح قبول فرما لیجیے۔‘‘ سر سے پاؤں تک آنسوؤں میں پروٹی ہوئی ہماری اجنبی آواز ایک ایک طبیب کا دامن سماعت پکڑ کر فریادی ہوئی۔۔۔۔ لیکن بیگم۔‘‘
’’ظل الٰہی۔‘‘
’’جب بھی تنہائی باریاب ہوتی ہے۔۔۔ جہانگیر کی پیٹھ پر اس آواز کے تازیانے برسنے لگتے ہیں۔۔۔ آنکھوں میں وہ زندہ دیدے انگاروں کی طرح دہکنے لگتے ہیں۔۔۔ کاش وہ زندہ رہتی تو جہانگیری محل اس کو تفویض کر دیا جاتا، اس کی دلداری اور دلآسائی کی جاتی تو شاید اس چوٹ کی تڑپ کم ہو جاتی بیگم۔‘‘
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’ایک جام اور عطا کر دیجیے کہ سماعت جلنے لگی ہے اور بصارت دمکنے لگی ہے۔‘‘
٭٭٭
ماخذ:
https://salamurdu.com/category/urdu-writings/urdu-afsanay/qazi-abdulsattar
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
oooo
ڈاؤن لوڈ کریں