FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ذوالقرنین

 

 

 

                محمد انور ایوبی

 

 

 

 

ترجمان القرآن جلد چہارم، صفحہ ۴۳۱

از : مولانا ابو الکلام آزاد

سورہ الکہف میں تیسرا واقعہ جو بیان کیا گیا ہے وہ ذوالقرنین کا ہے۔ یہ سوال یہودیوں کی جانب سے مشرکین مکہ کی زبانی ہوا۔

قرآن نے ذوالقرنین کی نسبت جو کچھ بیان کیا ہے اس پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے تو حسب ذیل امور سامنے آ جاتے ہیں۔

اولاً: جس شخصیت کی نسبت پوچھا گیا ہے وہ یہودیوں میں ذوالقرنین کے نام سے مشہور تھی۔ یعنی ذوالقرنین کا لقب خود قرآن نے تجویز نہیں کیا ہے ، پوچھنے والوں کا مجوزہ ہے۔ کیونکہ فرمایا ’’ویسئلولک عن ذوالقرنین ‘‘۔

ثانیاً : اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اسے حکمرانی عطا فرمائی تھی اور ہر طرح کا ساز و سامان جو ایک حکمراں کے لئے ہوسکتا تھا اس کے لئے فراہم ہو گیا تھا۔

ثالثاً : اس کی بڑی مہمیں تین تھیں۔ پہلے مغربی ممالک فتح کئے ، پھر مشرقی پھر ایک ایسے مقام تک فتح کرتا ہوا چلا گیا جہاں پہاڑی درہ تھا اور اس کی دوسری طرف سے یاجوج و ماجوج آ کر لوٹ مار مچایا کرتے تھے۔

رابعاً: اس نے وہاں ایک نہایت محکم سد تعمیر کر دی اور یاجوج و ماجوج کی راہ بند ہو گئی۔

خامساً : وہ ایک عادل حکمراں تھا۔ جب وہ مغرب کی طرف فتح کرتا ہوا دور تک چلا گیا تو ایک قوم ملی جس نے خیال کیا کہ دنیا کے تمام بادشاہوں کی طرح ذوالقرنین بھی ظلم و تشدد کرے گا، لیکن ذوالقرنین نے اعلان کیا کہ بے گناہوں کے لئے کوئی اندیشہ نہیں۔ جو لوگ نیک عملی کی راہ چلیں گے ان کے لئے ویسا ہی اجر بھی ہو گا۔ البتہ ڈرنا انہیں چاہیئے جو جرم و بد عملی کا ارتکاب کرتے ہیں۔

سادساً: وہ خدا پرست اور راست باز انسان تھا۔ اور آخرت کی زندگی پر یقین رکھتا تھا۔

سابعاً : وہ نفس پرست بادشاہوں کی طرح طامع اور حریص نہ تھا۔ جب ایک قوم نے کہا یاجوج و ماجوج ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں ، آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک سد تعمیر کر دیں ، ہم خراج دیں گے۔ تو اس نے کہا جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہی میرے لئے بہتر ہے۔ میں تمہارے خراج کا طامع نہیں ، یعنی میں خراج کی طمع سے یہ کام نہیں کروں گا۔ اپنا فرض سمجھ کر انجام دوں گا۔

تاریخ قدیم کی جس شخصیت میں یہ تمام اوصاف و اعمال پائے جاتے ہیں وہی ذوالقرنین ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون شخص تھا۔

سب سے پہلا حل طلب مسئلہ جو مفسرین کے سامنے آیا وہ اس کے لقب کا تھا۔ عربی میں بھی اور عبرانی میں بھی ’’قرن ‘‘ کے صاف معنی سینگ کے ہیں۔ بس ’’ذوالقرنین ‘‘ کا مطلب ہوا دو سینگوں والا، لیکن چوں کہ تاریخ میں کسی ایسے بادشاہ کا سراغ نہیں ملا جس کا ایسا لقب رہا ہو۔ اس لئے مجبوراً ’’قرن ‘‘ کے معنی میں طرح طرح کے تکلفات کرنے پڑے ، پھر چوں کہ فتوحات کی وسعت اور مغرب و مشرق کی حکمرانی کے لحاظ سے سکندر مقدونی کی شخصیت سب سے زیادہ مشہور رہی ہے ، اس لئے متاخرین کی نظریں اسی کی طرف اٹھ گئیں۔

چنانچہ امام رازی نے سکندر ہی کو ’’ ذوالقرنین ‘‘ قرار دیا ہے۔ اور اگر چہ حسب عادت وہ تمام اعتراضات نقل کر دیئے ہیں جو اس تفسیر پر وارد ہوتے ہیں ، لیکن پھر حسب عادت ان کے بے محل جوابات پر مطمئن بھی ہو گئے ہیں۔ حالانکہ کسی اعتبار سے بھی قرآن کا ’’ذوالقرنین ‘‘ سکندر مقدونی نہیں ہوسکتا، نہ تو وہ خدا پرست تھا نہ عادل، نہ مفتوح قوموں کے لئے فیاض تھا اور نہ ہی اس نے کوئی سد بنائی۔

بہر حال مفسرین ذوالقرنین کی شخصیت کا سراغ نہ لگا سکے۔

اگر ذوالقرنین کے مفہوم کا کوئی سراغ ملتا تھا تو وہ صرف ایک دور کا اشارہ تھا جو حضرت دانیال کی کتاب میں ملتا ہے۔ یعنی ایک خواب جس کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے بابل کی اسیری کے زمانے میں دیکھا تھا۔ (دانیال۔ ۸ ؍:، ۱؍ تا ۱۰ ؍(یہاں مولانا نے توریت میں دانیال کے باب نمبر ۸ ؍کو مختصر بیان کیا ہے مگر میرے پاس موجود ’توریت ‘ سے میں باب نمبر ۸ ؍ کا۱ ؍ سے ۲۱ ؍تک کا بیان پورا لکھ رہا ہوں۔ )

دانی ایل باب ۸

’’ بیلشضر بادشاہ کی سلطنت کے تیسرے سال میں مجھ کو ہاں مجھ دانی ایل ؔ کو ایک رویا نظر آئی یعنی میری پہلی رویا کے بعد اور میں نے عالم رویا میں دیکھا اور جس وقت میں نے دیکھا ایسا معلوم ہو ا کہ میں قصر سوسن میں تھا جو صوبۂ عیلام میں ہے ، پھر میں نے عالم رویا میں ہی دیکھا کہ میں دریا ئے اولائی کے کنارہ پر ہوں تب میں نے آنکھ اٹھا کر نظر کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ دریا کے پاس ایک مینڈھا کھڑا ہے جس کے دو سینگ ہیں۔ دونوں سینگ اونچے تھے لیکن ایک دوسرے سے بڑا تھا اور بڑا دوسرے کے بعد نکلا تھا۔ میں نے اس مینڈھے کو دیکھا کہ مغرب و شمال و جنوب کی طرف سینگ مارتا ہے ، یہاں تک کہ نہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا ہوسکا نہ کوئی اس سے چھڑا سکا۔ پر وہ جو کچھ چاہتا تھا کرتا تھا، یہاں تک کہ وہ بہت بڑا ہو گیا۔ اور میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بکرا مغرب کی طرف سے آ کر تمام روئے زمین ایسا پھرا کہ زمین کو بھی نہ چھوا اور اس بکرے کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک عجیب سینگ تھا اور وہ اس دو سینگ والے مینڈھے کے پاس جسے میں نے دریا کے کنارے کھڑا دیکھا، آیا اور اپنے زور کے قہر سے اس پر حملہ آور ہوا اور میں   نے دیکھا کہ وہ مینڈھے کے قریب پہنچا اور اس کا غضب اس پر بھڑکا اور اس نے مینڈھے کو مارا اور اس کے دونوں سینگ توڑ ڈالے اور مینڈھے میں کے مقابلے کی تاب نہ تھی پس اس نے اسے زمین پر پٹک دیا اور اسے لتاڑا اور کوئی نہ تھا کہ مینڈھے کو اس سے چھڑا سکے اور وہ بکرا نہایت بزرگ ہوا اور جب وہ نہایت زور آور ہوا تو اس کاسینگ ٹوٹ گیا اور کی جگہ چار عجیب سینگ آسمان کی چاروں ہواؤں کی طرف نکلے اور ان میں سے ایک سے ایک چھوٹا سینگ نکلا، جو جنوب اور مشرق اور جلالی ملک کی طرف بے انتہا بڑھ گیا اور وہ بڑھ کر اجرام فلکی تک پہنچا اور اس نے بعض اجرام فلک اور ستاروں کو زمین پر گرا دیا اور ان کو لتاڑا بلکہ اس نے اجرام کے فرمانروا تک اپنے آپ کو بلند کیا اور اس سے دائمی قربانی کو چھین لیا اور اس کا مقدس گرا دیا اور اجرام خطا کاری کے سبب سے دائمی قربانی سمیت اس کے حوالے کئے گئے اور اس نے سچائی کو زمین پر پٹک دیا اور وہ کامیابی کے ساتھ یوں ہی کرتا رہا۔ تب میں نے ایک قدسی کو کلام کرتے ہوئے سنا اور دوسرے قدسی نے اسی قدسی سے جو کلام کرتا تھا پوچھا کہ دائمی قربانی اور ویران کرنے والی خطا کاری کی رویا جس میں مقدس اور اجرام پائمال ہوتے ہیں کب تک رہے گی ؟ اور اس نے مجھ سے کہا کہ دو ہزار تین سو صبح و شام تک اس کے بعد مقدس پاک کیا جائے گا۔

پھر یوں ہوا کہ جب میں دانی ایل نے یہ رویا دیکھی اور اس کی تعبیر کی فکر میں تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے کوئی انسان صورت کھڑا ہے اور میں نے اولائی میں سے آدمی کی آواز سنی، جس نے بلند آواز سے کہا کہ اے جبرائیل ! اس شخص کو اس رویا کے معنی سمجھادے ، چنانچہ وہ جہاں میں کھڑا تھا نزدیک آیا اور اس کے آنے سے میں ڈر گیا اور منہ کے بل گرا، پر اس نے مجھ سے کہا اے آدم زاد ! سمجھ لے کہ رویا آخری زمانہ کی بابت ہے۔ اور جب وہ مجھ سے بات کر رہا تھا میں گہری نیند میں منہ کے بل زمین پر پڑا تھا لیکن اس نے مجھے پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا اور کہا کہ دیکھ میں تجھے سمجھاؤں گا کہ قہر کے آخر میں کیا ہو گا۔ کیونکہ امر آخری مقررہ وقت کی بابت ہے جو مینڈھا تو نے دیکھا اس کے دونوں سینگ مادی اور فارس کے بادشاہ ہیں۔ اور وہ جسیم بکرا یونان کا بادشاہ ہے اور اس کی آنکھوں کے درمیان کا بڑا سینگ پہلا بادشاہ ہے۔ ‘‘

اس بیان سے معلوم ہوا کہ مادہ (میڈیا MEDIA) اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہہ دی گئی تھی اور چونکہ یہ دونوں مملکتیں مل کر ایک شہنشاہی بننے والی تھیں اس لئے شہنشاہ مادہ و فارس کو دو سینگوں والے مینڈھے کی شکل میں ظاہر کیا گیا۔ پھر اس مینڈھے کو جس نے شکست دی وہ یونان کے بکرے کا پہلا سینگ تھا یعنی سکندر مقدونی تھا جس نے فارس پر حملہ کیا اور کیانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

اس خواب میں بنی اسرائیل کے لئے بشارت یہ تھی کہ ان کی آزادی و خوش حالی نیا دور اس دو سینگوں والی شہنشاہی کے ظہور سے وابستہ تھا۔ یعنی شہنشاہ فارس بابل پر حملہ کر کے فتح مند ہونے والا تھا اور پھر اسی کے ذریعے بیت المقدس کی از سر نو تعمیر اور یہودی قومیت کی دوبارہ شیرازہ بندی ہونے والی تھی۔ چنانچہ چند برسون کے بعد سائرس (Cyrus)کا ظہور ہوا اس نے میڈیا اور فارس کی مملکتیں ملا کر ایک عظیم الشان شہنشاہی قائم کر دی اور پھر بابل کو بھی مسخر کر لیا۔

چونکہ اس خواب میں میڈیا اور فارس کی مملکتوں و دو سینگوں سے تشبیہہ دی گئی تھی، یعنی دو سینگوں والی شہنشاہی اور وہ اسے اس لقب سے پکارتے ہوں ، تاہم یہ محض ایک قیاس تھا، اس کی تائید میں کوئی تاریخی شہادت موجود نہ تھی۔

لیکن اب سنہ ۱۸۳۸ء کے ایک انکشاف نے جس کے نتائج بہت عرصے کے بعد منظر عام پر آئے ، اس قیاس کو ایک تاریخی حیثیت ثابت کر دیا اور معلوم ہو گیا کہ فی الحقیقت شہنشاہ سائرس کا لقب ’’ ذوالقرنین ‘‘ تھا اور یہ محض یہودیوں کا کوئی مذہبی تخیل نہ تھا بلکہ خودسا ئرس کا یا باشندگان فارس کا مجوزہ اور پسندیدہ نام تھا۔

اس انکشاف نے شک و تخمین کے تمام پردے اٹھا دیئے۔ یہ خود سائرس کی ایک سنگی تمثال ہے جو اصطخر (Pasargadae)کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی۔ اس میں سائرس کا جسم اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس کے دونوں طرف عقاب کی طرح پر نکلے ہوئے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں۔ اوپر خط میخی میں جو کتبہ کندہ ہے وہ اس کے لئے کافی ہے کہ تمثال کی شخصیت واضح ہو جائے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ مادہ اور فارس کی مملکتوں و دو سینگوں سے تشبیہہ دینے کا تخیل ایک مقبول اور عام تخیل تھا۔ اور یقیناًسائرس کو ’’ ذوالقرنین ‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔

اس حقیقت کی وضاحت کے بعد جب سائرس کے ان حالات پر نظر ڈالی جاتی ہے جو یونانی مورخوں کی زبانی ہم تک پہنچے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے بیان کی ہو بہو تصویر ہے اور دونوں بیان اس درجہ باہم مطابقت رکھتے ہیں کہ ممکن نہیں کسی دوسری شخصیت کا وہم و گمان بھی کیا جا سکے۔

زمانہ حال کے محققین تاریخ نے فارس کی تاریخ کو تین عہدوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا عہد سکندر س پہلے کا ہے۔ دوسرا پارتھوی یا ملوک الطوائف کا۔ تیسرا ساسانی سلاطین کا۔ فارسی شہنشاہی کی عظمت کا اصل عہد وہی ہے جو حملہ سکندر سے پہلے گزر ا اور جس کی تاریخ سائرس کے ظہور سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اس عہد کے حالات معلوم کرنے کے براہ راست ذرائع مفقود ہو گئے ہیں۔ جس قدر بھی حالات روشنی میں آئے ہیں ، تمام تر یونانی تحریروں سے ماخوذ ہیں۔ ان میں زیادہ معتمد تین مورخ ہیں ، ہیرو ڈوٹس Herodotus) (Ctesies سی ٹیساز اور زینوفن (Xenophon)۔

فتح ایران کے بعد جب عرب مورخین نے ایران کی تاریخ مرتب کرنی چاہی تو انہیں جس قدر مواد ہاتھ آیا، وہ تمام تر پارسیوں کی قومی روایات پر مشتمل تھا۔ ان روایات میں حملہ سکندر سے پہلے کا زمانہ اسی طرح کے قومی افسانوں کی حیثیت رکھتا ہے جس طرح ہندوستان میں پرانوں کے افسانے یا مہابھارت اور رامائن کے قصے ہیں۔ البتہ پچھلے دو عہدوں کی روایتیں تاریخی بنیادوں پر مبنی تھیں ، جب دقیقی اور فردوسی نے شاہنامہ نظم کرنا چاہا تو انہیں عربی میں یہی مواد ملا اور اسی کو انہوں نے نظم کا جامہ پہنا دیا۔ پس یہ تمام ذخیرہ قبل از سکندر عہد کے لئے کچھ سود مند نہیں ہے اور سائرس کے حالات کے لئے ہمیں تمام تر یونانی مورخین کی شہادت ہی پر اعتماد کرنا ہے۔

۵۵۹ قبل از مسیح میں ایک غیر معمولی شخصیت غیر معمولی حالات کے اندر ابھری اور اچانک تمام دنیا کی نگاہیں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ یہ پارس کے ایک می نیز خاندان کا ایک نوجوان گورش تھا جسے یونانیوں نے سائرس، عبرانیوں نے خورس اور عربوں نے فوروش اور غیارشا یا کیارشا یا کے خسرو کے نام سے پکارا۔ اسے پہلے پارس کے تمام امیروں نے اپنا فرماں روا تسلیم کر لیا۔ پھر بغیر کسی خوں ریزی کے میڈیا کی مملکت پر فرماں روا ہو گیا اور اس طرح دونوں مملکتوں نے مل کر ایران کی ایک عظیم الشان شہنشاہی کی صورت اختیار کر لی۔

پھر اس کے فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ فتوحات نہیں جو ظلم و قہر کی خوں ریزیوں کے ذریعے حاصل کی جاتی تھیں۔ بلکہ انسانیت و عدالت کی فتوحات جو تمام تر اس لئے تھیں کہ مظلوم قوموں کی داد رسی اور پامال ملکوں کی دست گیری ہو۔ چنانچہ بارہ برس کی مدت بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ بحر اسود سے لے کر بکٹریا (Bactria) (باختر ) تک ایشیا ء کی تمام عظیم الشان مملکتیں اس کے آگے سر بسجود ہو چکی تھیں۔

دنیا کی تمام غیر معمولی شخصیتوں کی طرح سائرس کے ابتدائی حالات نے بھی ایک پر اسرار افسانے کی نوعیت اختیار کر لی ہے۔ اور ہمیں اس کی جھلک شاہنامہ کے افسانوں میں صاف صاف نظر آ جاتی ہے۔ اس کا اٹھان زندگی کے عام اور غیر معمولی حالات میں نہیں ہوا۔ بلکہ ایسے عجیب حالات میں جو ہمیشہ ہمیش نہیں آتے اور جب کبھی پیش آتے ہیں تو یہ قدرت کی ایک غیر معمولی کرشمہ سنجی ہوتی ہے۔ قبل اس کے کہ وہ پیدا ہو اس کے نانا اسٹیاگیس (Astyages)نے اس کی موت کا سامان پیدا کر دیا تھا، لیکن وہ ایک حیرت انگیز طریقے پر بچا لیا جاتا ہے اور ا س کی ابتدائی زندگی جنگلوں اور پہاڑوں میں بسر ہوتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس کی غیر معمولی قابلیتیں   اور اعلیٰ اخلاق و خصائل اسے ملک میں نمایاں کرتے ہیں اور اس کی خاندانی شخصیت پہچان لی جاتی ہے۔ اس اسے پورا موقع حاصل تھا کہ اپنے دشمنوں سے انتقام لے۔ لیکن اسے ایک لمحے کے لئے اس کا خیال نہیں گزرتا، حتیٰ کہ خود اسٹاگیس کی زندگی بھی اس کے ہاتھوں محفوظ رہتی ہے۔

تخت نشینی کے بعد سب سے پہلی جنگ جو اسے پیش آئی وہ لیڈیا (Lydia) کے بادشاہ کروئسس (Croesus)سے تھی۔ لیکن تمام مورخین متفق ہیں کہ حملہ کروئسس کی طرف کی طرف سے ہوا تھا۔ اور اس نے سائرس کو دفاع پر مجبور کر دیا تھا۔ لیڈیا سے مقصود ایشیا کوچک کا مغربی اور شمالی حصہ ہے جو یونانی تمدن کا ایشیائی مرکز بن گیا تھا اور اس کی حکومت بھی اپنے تمام خصائص میں ایک یونانی حکومت تھی۔ جنگ میں سائرس فتح یاب ہوا۔ لیکن رعایا کے ساتھ کسی طرح بدسلوکی نہ کی گئی۔ انہیں محسوس بھی نہیں ہوا کہ ملک ایک انقلاب جنگ کی حالت سے گذر رہا ہے البتہ کروئسس کی نسبت یونانی روایات یہ ہے کہ اس کے عزم و ہمت کی آزمائش کے لئے سائرس نے حکم دیا تھا : چتا تیار کی جائے اور اسے جلا دیا جائے لیکن جب اس نے دیکھا وہ مردانہ وار چتا پر بیٹھ گیا ہے تو فوراً اس کی جان بخشی کر دی اور اس نے بقیہ زندگی عزت و احترام کے ساتھ بسر کی۔

اس جنگ کے بعد اسے مشرق کی طرف متوجہ ہونا پڑا، کیونکہ گیٹر روسیا (مکران ) اور بکٹریا (باختر) کے وحشی قبائل نے سرکشی تھی۔ یہ ہم سنہ ۵۴۰۔ ۵۴۵ قبل مسیح کے درمیانی مدت میں واقع ہوئی ہو گی۔ تقریباً یہی زمانہ ہے جب باشندگان بابل نے اس سے درخواست کی ہے کہ بیل شازار (Belshazzar) کے مظالم سے انہیں نجات دلائے۔

تمام مورخین اس بات سے متفق ہیں کہ اس عہد میں بابل سے زیادہ مستحکم اور ناقابل فتح شہر کوئی نہ تھا۔ اس کی چار دیواری اتنی تہہ در تہہ اور اونچی تھی کہ اسے مسخر کرنے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یا ایں ہمہ سائرس نے باشندگان بابل کی فریاد پر لبیک کہا اور دو آبہ کا تمام علاقہ فتح کرتا ہوا شہر کے سامنے نمودار ہو گیا۔ چونکہ خود باشندگان شہر بیل شازار کے مظالم سے تنگ آ گئے تھے اور سائرس کے لئے چشم براہ تھے۔ اس لئے انہوں نے ہر طرح کا ساتھ دیا۔، خود بابلی مملکت کا ایک سابق گورنر گوب ریاس (Gobryas) اس کی فوج کے ساتھ تھا۔ ھیرو ڈوٹس کا بیان ہے کہ اس شخص نے دریا میں نہریں کاٹ کر اس کا بہاؤ دوسری طرف ڈال دیا اور دریا کی جانب سے فوج شہر میں داخل ہو گئی۔ قبل اس کے خود سائرس شہر میں پہنچے شہر فتح ہو چکا تھا۔

بابل کی فتح کے بعد سائرس کی عظمت تمام مغربی ایشیاء میں مسلم ہو گئی۔ ۵۳۹ ق۔ م میں صرف اسی کی تنہا شخصیت عظمت و حکمرانی کے عالم گیر تحت پر نمایاں نظر آتی ہے۔ بارہ برس پہلے وہ پارس کے پہاڑوں کا ایک گم نام انسان تھا۔ لیکن اب تمام مملکتوں کا تنہا فرماں روا ہے جو صدیوں تک قوموں کی ابتدائی عظمتوں اور فتح مندیوں کا مرکز رہ چکی ہیں۔ فتح بابل کے بعد وہ تقریباً دس برس تک زندہ رہا۔ اور ۵۲۹ ق۔ م میں انتقال کر گیا۔

اب قبل اس کے کہ قرآن کے بیان کردہ حالات پر نظر ڈالی جائے اس بات پر غور کر لینا چاہئے کہ یہودیوں کے اعتقاد میں انبیاء بنی اسرائیل کی پیشن گوئیاں اس شخصیت کے بارے میں کیا تھیں اور کس طرح وہ حرف بحرف پوری ہوئیں ؟

اس سلسلے میں سب سے پہلی پیشین گوئی سیعیا ء نبی کی کتاب میں ہے جن کا ظہور سائرس کی فتح بابل سے ایک سو ساٹھ برس پہلے ہوا تھا انہوں نے پہلے بیت المقدس کی تباہی کی خبر دی ہے کہ بابل کے ہاتھوں ظہور میں آئے گی اس کے بعد اس کی دوبارہ تعمیر کی بشارت دی ہے اور اس سلسلہ میں (خورس ) سائرس کے ظہور کا ذکر کیا ’’ خداوند تیرا نجات دینے والا یوں فرماتا ہے کہ …یروشلم پھر آباد کیا جائے گا۔ یہودا کے شہر بنائے جائیں گے۔ میں اس کے ویران مکانوں کو تعمیر کروں گا۔ میں خورس کے حق میں کہتا ہوں کہ وہ میرا چرواہا ہے۔ وہ میری ساری مرضی پوری کرے گا۔ خداوند اپنے مسیح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ میں نے اس کا دھنا ہاتھ پکڑا، تاکہ قوموں کو اس کے قابو میں کر دوں اور بادشاہوں کی کریں کھلوا دوں اور دھرے دروازے اس کے لئے کھول دوں ہاں میں تیرے آگے چلوں گا میں ٹیڑھی جگہوں کو سیدھا کروں گا۔ میں پیتل کے دروازوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔ میں گڑے ہوئے خزانے اور چھپے ہوئے مکانوں کے گنج تجھے عطا کروں گا اور یہ سب کچھ اس لئے کروں تاکہ تو جان لے کہ میں خداوند اسرائیل کا خدا ہوں جس نے اپنی برگزیدہ قوم اسرائیل کے لئے مجھے تیرا نام صاف صاف لے کر بلایا ہے۔ ‘‘ (یسیعیا ء ۱۱:۲۸۔ ۴۵ :، ۲ )

اس پیشن گوئی میں خدا کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ خورس (سائرس ) میرا چرواہا ہو گا اور میں   اسے اس لئے پکارا ہے کہ بنی اسرائیل کو بابلیوں کے ظلم سے نجات دلائے نیز اسے ’خدا کا مسیح ‘ کہا ہے۔

اس طرح برمیاہ نبی نے ساٹھ برس پہلے اس کی بھی پیشن گوئی کر دی تھی کہ ستر برس تک یہودی بابل میں قید رہیں گے اور اس کے بعد بیت المقدس کی نئی تعمیر ہو گی ’’خداوند کہتا ہے : جب بابل میں ستر برس گذر چکے ہوں گے تو میں تمہاری خبر لینے آؤں گا۔ تب تم مجھے پکارو گے اور میں جواب دوں گا۔ تم مجھے ڈھونڈو گے اور مجھے پالو گے میں تمہاری اسیری ختم کر دوں گا تمہیں تمہارے مکانوں میں واپس لے آؤں گا۔ ‘‘ (۲۹: ۱۰ )

اس پیشن گوئی میں خدا نے اپنی رحمت کی واپسی کو فتح بابل کے واقع سے وابستہ کر دیا ہے۔ گویا سائرس کا ظہور اس کی رحمت کا ظہور ہو گا جو بنی اسرائیل پر پھر لوٹ آئے گی۔

زمانہ حال کے نقاد ان پیشن گوئیوں کی اصلیت پر مطمئن نہیں ہیں۔ جرمن نقادوں نے یسیعاء کی کتاب کے دو حصے کر دیئے ہیں۔ پہلا حصہ آیت ۵۰ پر ختم ہو جاتا ہے۔ دوسرا آیت ۱ سے شروع ہوتا ہے۔ پہلے کی نسبت کہا جاتا ہے کہ یہ اسی یسیعاء کا نوشتہ ہو گا جو فتح بابل سے ایک سو ساٹھ سال پہلے پیدا ہوا تھا۔ دوسرے کی نسبت یقین کیا جاتا ہے کہ یہ حملہ بابل ہی کے زمانے میں لکھا گیا ہے اور اس کی زبان اور اسلوب بیان بھی پہلے حصہ سے مختلف ہے۔ پہلے حصہ کو وہ یسیعاء اول اور دوسرے کو یسیعاء دوم کے نام سے پکارتے ہیں۔ لیکن بہر حال ہمیں یہاں یہ نہیں دیکھنا ہے کہ عہد عتیق کے نوشتوں کی تاریخی حیثیت کیا ہے ہمیں صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ یہودیوں کا عام عقیدہ اس بارے میں کیا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہودیوں کا عام اعتقاد برابر یہی رہا کہ سائرس کا ظہور نبیوں کی پیشن گوئی کے مطابق ہوا تھا اور وہ خدا کی ایک پسندیدہ ہستی تھی جو اسی لئے پیدا کی گئی تھی کہ مظلوموں کی داد رسی ہو اور بابلیوں کے ظلم و شرارت سے قوموں کو نجات ملے۔

اب غور کرو !    قرآن کی تصریحات نے جو جامہ تیا ر یا ہے وہ کس طرح ٹھیک ٹھیک صرف سائرس کے جسم پر راست آتا ہے ؟ ہم نے اس مبحث کے آغاز میں تصریحات قرآنی کا خلاصہ دے دیا ہے جو سات دفعات پر مشتمل ہے ان پر پھر ایک نظر ڈال لو۔

سب سے پہلے اس بات پر غور کرو کہ ذوالقرنین کی نسبت سوال بالاتفاق یہودیوں کی جانب سے ہوا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ اگر کسی غیر یہودی بادشاہ کی شخصیت یہودیوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھی جا سکتی تھی تو وہ صرف سائرس ہی کی تھی نبیوں کی پیشن گوئیوں کا مصداق، دانیال نبی کے خواب کا ظہور، رحمت الٰہی کی واپسی کی بشارت، بنی اسرائیل کا نجات دہندہ، خدا کا فرستادہ چرواہا اور مسیح، یروشلم کی تعمیر ثانی کا وسیلہ، پس اس سے زیادہ قدرتی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کی نسبت ان کا سوال ہو؟

سدی کی ایک روایت میں بھی جو قرطبی وغیرہ نے نقل کی ہے ! اس طرف صریح اشارہ ملتا ہے۔ یعنی یہودیوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا : اس نبی کی نسبت ہمیں خبر دیجئے جس کا نام توریت میں صرف ایک ہی مقام پر آیا ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا : وہ کون ؟ کہا ذوالقرنین۔ چونکہ سائرس کے ذوالقرنین کا اشارہ صرف دانیال نبی کے خواب ہی میں آیا ہے اس لئے یہودیوں کا یہ بیان ٹھیک ٹھیک اس طرف اشارہ تھا۔

علاوہ برایں سائرس کے تمثال کے انکشاف نے قطعی طور پر یہ بات آشکارا کر دی ہے کہ اس کے ست پر دو سینگوں کا تاج رکھا گیا تھا اور یہ فارس اور مادہ کی مملکتوں کے اجتماع و اتحاد کی علامت تھی۔

اس کے بعد قرآن کی تصریحات سامنے لاؤ۔ سب سے پہلا وصف جو اس کا بیان کیا ہے یہ ہے کہ ’’ ہم نے اسے زمین میں قدرت دی تھی اور ہر طرح کا ساز و سامان مہیا کر دیا تھا۔ ‘‘ قرآن جب کبھی انسان کی کسی کامرانی و خوش حالی کو براہ راست خدا کی طرف منسوب کر کے کہتا ہے جیسا کہ یہاں کہا ہے اس سے مقصود عموماً کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو عام حالات کے خلاف محض اس کے فضل و کرم سے ظہور میں آتی ہے۔ مثلاً حضرت یوسف کی نسبت فرمایا ’’ اس طرح ہم نے سرزمین مصر میں یوسف کا قدم جما دیا۔ ‘‘ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ حضرت یوسف کو ہر طرح کے نا موافق حالات میں محض فضل الٰہی سے ایک غیر معمولی بات حاصل ہو گئی تھی۔ یہ بات نہ تھی کہ عام حالات کے مطابق ظہور میں آئی ہو۔ بس ضروری ہے کہ ذوالقرنین کو بھی حکمرانی کا قیام ایسے ہی حالات میں ملا ہو جو بالکل غیر معمولی قسم کے ہوں اور انہیں محض ’’ توفیق الٰہی ‘‘ کی کرشمہ سازی سمجھا جا سکے کیوں کہ اس کے ’’ تمکن فی الارض ‘‘ کو براہ راست خدا کی طرف نسبت دی ہے۔

لیکن اس اعتبار سے سائرس کی زندگی ٹھیک ٹھیک اس آیت کی تصویر ہے۔ اس کی ابتدائی زندگی ایسے حالات میں بسر ہوئی جنہیں حیرت انگیز حوادث نے ایک افسانے کی شکل دے دی ہے۔ قبل اس کے کہ پیدا ہو خود اس کا نانا اس کی موت کا مند ہو گیا تھا۔ ایک وفا دار آدمی اس کی زندگی بچا تا ہے اور وہ شاہی خاندان سے بالکل الگ ہو کر ایک گم نام گڈریئے کی طرح پہاڑوں میں زندگی بسر کرتا ہے۔ پھر اچانک نمایاں ہوتا ہے اور بغیر کسی جنگ و مقابلے کے میڈیا کا تخت اس کے لئے خالی ہو جاتا ہے۔ یقیناً یہ صورت حال واقعات و حوادث کی عام رفتار نہیں ہے جو ہمیشہ پیش آتی ہو۔ نوادر ہستی کی ایک غیر معمولی عجائب آفرینی ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ قدرت کا مخفی ہاتھ کسی خاص مقصد سے ایک خاص ہستی تیار کر رہا ہے اور زمانے کی عام رفتار تھم گئی ہے تاکہ اس کی راہ صاف ہو جائے۔

اس کے بعد اس کی تین بڑی مہموں کا ذکر آتا ہے۔ ایک ’’مغرب الشمس ‘‘ کی طرف یعنی پچھم کی طرف، ایک ’’مطلع الشمس ‘‘ کی طرف، یعنی پورب کی طرف۔ تیسری ایک ایسے مقام تک جہاں کوئی وحشی قوم آباد تھی اور یاجوج و ماجوج وہاں آ کر لوٹ مار مچایا کرتے تھے۔ اب دیکھو ! یہ تمام تفصیلات کس طرح ٹھیک ٹھیک سائرس کی فتوحات پر منطبق ہوتی ہیں ؟

ایشیائے کوچک کی بادشاہت جو میڈیا کے نا م سے مشہور ہوئی پچھلی صدی کے اندر ابھری تھی۔ اس کا دارالحکومت سارڈیس (Sardis) تھا۔ سائرس کی تخت نشینی سے پہلے میڈیا اور لیڈیا میں کئی جنگیں ہو چکی تھیں۔ بالآخر کروئس کے باپ نے سائرس کے نانا اسٹیا گس (Astyages) کے باپ سے صلح کر لی اور باہمی اتحاد کے استحکام کے لئے باہمی ازدواج کا رشتہ بھی قائم ہو گیا۔

لیکن کروئس نے یہ تمام عہد و پیمان اور باہمی علائق بھلا دیئے۔ وہ سائرس کی یہ کامرانی برداشت نہ کر سکا کہ فارس اور میڈیا کی مملکتیں متحد ہو کر ایک عظیم مملکت کی حیثیت اختیار ک ررہی ہیں۔ اس نے پہلے بابل، مصر اور امسپارٹا کی مملکتوں کو اس کے خلاف ابھارا اور پھر اچانک حملہ کر کے سرحدی شہر پٹیریا (Pteria) پر قبضہ کر لیا۔

اب سائرس مجبور ہو گیا کہ بلا توقف اس حملے کا مقابلہ کرے۔ وہ میڈیا کے دارالحکومت ھسگ متانہ سے (جو اب ہمدان کے نام سے پکارا جاتا ہے )نکلا اور تیزی کے ساتھ بڑھا کہ صرف دو جنگوں کے بعد جو پٹیریا اور سارڈیس کے قریب واقع ہوئی تھیں ، لیڈیا کی تمام مملکت پر قابض ہو گیا۔

اب تمام ایشیائے کوچک بحر شام سے لے کر اسود تک اس کے زیر نگیں تھا۔ وہ برابر بڑھتا گیا یہاں تک کہ مغربی ساحل تک پہنچ گیا۔ قدرتی طور پر اس کے قدم یہاں پہنچ کر اسی طرح رک گئے جس طرح بارہ سو سال بعد موسیٰ بن نصیر کے قدم افریقہ کے شمالی ساحل پر رک جانے والے تھے۔ اس کے فتح مند قدموں کے لئے صحراؤں کی وسعتیں اور پہاڑوں کی بلندیاں روک نہ سکیں۔ اس نے فارس سے لے کر لیڈیا (Lydia) تک چودہ سو میل کا فاصلہ طے کر لیا تھا۔ لیکن سمندر کی موجوں پر چلنے کے لئے اس کے پاس کوئی سواری نہ تھی۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حد نظر تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا۔ اور سورج اس کی لہروں میں ڈوب رہا تھا۔

یہ لشکر کشی جو اسے پیش آئی صریح مغرب کی لشکر کشی تھی، کیوں کہ وہ ایران سے مغرب کی طرف چلا اور خشکی کے مغربی کنارے تک پہنچ گیا۔ یہ اس کے لئے ’’ مغرب الشمس ‘‘ کی آخری حد تھی۔

ایشیائے کوچک کا مغربی ساحل نقشے میں نکالو، تم دیکھو گے تمام ساحل اس طرح واقع ہوا ہے کہ چھوٹے چھوٹے خلیج پیدا ہو گئے ہیں۔ اور سمرۃ (Samyrana) کے قریب اس طرح کے جزیرے نکل آئے ہیں۔ جنہوں نے ساحل کو ایک جھیل یا حوض کی شکل دے دی ہے۔ لیڈیا کا دارالحکومت سارڈیس مغربی ساحل کے قریب تھا اور اس کا محل موجودہ سمرنا سے بہت زیادہ فاصلہ پر تھا۔ بس جب سائرس سارڈیس کی تسخیر کے بعد آگے بڑھا ہو گا تو یقیناً بحر ایجین(Agean Sea)کے اسی ساحل پر پہنچا ہو گا جو سمرنا کے قرب و جوار میں واقع ہے۔ یہاں اس نے دیکھا ہو گا کہ سمندر نے ایک جھیل کی شکل اختیار کر لی ہے ، ساحل کی کیچڑ سے پانی گدلا ہو رہا ہے اور شام کے وقت اسی میں سورج ڈوبتا دکھائی دیتا ہے اسی صورت حال کو قرآن نے بیان کیا ہے ’’ اسے ایسا دکھائی دیا کہ سورج ایک گدلے حوض میں ڈوب رہا ہے۔ ‘‘

یہ ظاہر ہے کہ سورج کسی مقام میں بھی ڈوبتا نہیں لیکن ہم سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ ایک سنہری تھالی آہستہ آہستہ سمندر میں ڈوب رہی ہے۔

دوسری لشکر کشی مشرق کی طرف تھی چنانچہ ھیروڈوٹس اور ٹی سیاز دونوں اس کی مشرقی لشکر کشی کا ذکر کرتے ہیں جو لیڈیا کی فتح کے بعد اور بابل کی فتح سے پہلے پیش آئی تھی اور دونوں نے تصریح کی ہے کہ مشرق کے بعض وحشی اور صحرا نشیں قبائل کی سر کشی اس کا باعث ہوئی تھی۔ یہ ٹھیک ٹھیک قرآن کے اس اشارے کی تصدیق ہے کہ ’’ جب وہ مشرق کی طرف پہنچا تو اسے ایسی قوم ملی جو سورج کے لئے کوئی آڑ نہیں رکھتی تھی، یعنی خانہ بدوش قبائل تھے۔ ‘‘

یہ خانہ بدوش قبائل کون تھے ؟ ان مورخین کی صراحت کے مطابق بکٹریا (Bactria) یعنی بلخ کے علاقے کے قبائل تھے۔ نقشے پر اگر نظر ڈالو گے تو صاف نظر آ جائے گا کہ بکٹریا ٹھیک ٹھیک ایران کے لئے مشرق اقصیٰ کا حکم رکھتا ہے کیونکہ اس کے آگے پہاڑ ہیں اور انہوں نے راہ روک دی ہے اس کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ گیدڑ وسیا کے وحشی قبیلوں نے اس کی مشرقی سرحد میں بد امنی پھیلائی تھی۔ اور ان کی گوش مالی ک ے لئے نکلنا پڑا۔ گیدڑ و سیا سے مقصود وہی علاقہ ہے جو آج کل مکران کہلاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہندوستان کی طرف ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ اس لئے قیاس کہتا ہے کہ مکران سے نیچے اس کے قدم نہیں اترے ہوں گے اور اگر اترے ہوں گے تو دریائے سندھ سے آگے نہیں بڑھے ہوں گے کیونکہ دارا کے زمانے میں ہی اس کی جنوب مشرقی سرحد دریائے سندھ ہی تک معلوم ہوتی ہے۔

تیسری لشکر کشی اس نے ایسے علاقہ تک کی جہاں یاجوج و ماجوج ک حملے ہوا کرتے تھے۔ یہ یقیناً اس کی شمالی مہم تھی۔ جس میں وہ بحر خزر (Caspean Sea)کودہنی طرف چھوڑتا ہوا کاکیشیا (Caueasus) کے سلسلہ کوہ تک پہنچ گیا تھا۔ اور وہاں اسے ایک درہ ملا تھا جو دو پہاڑی دیواروں کے درمیان تھا۔ اسی راہ سے یاجوج و ماجوج آ کر اس طرف کے علاقے میں تاخت و تاراج کیا کرتے تھے اور یہیں اس نے سد تعمیر کی۔

قرآن نے اس مہم کا حال ان لفظوں میں بیان کیا ہے ’’یہاں تک کہ وہ دو (پہاڑی) دیواروں کے درمیان پہنچ گیا۔ ان کے اس اطراف اسے ایک قوم ملی جو کوئی بات بھی سمجھ نہیں سکتی تھی۔ ‘‘ بس صاف معلوم ہوتا ہے ’’سدین ‘‘ سے مقصود کاکیشیا پہاڑی کا وہ درہ ہے کیونکہ اس کے دہنی طرف بحر اسودہے جو شمال مغرب کے لئے قدرتی روک ہے۔ بائیں جانب بحر اسود ہے جو شمال مغرب کے لئے قدرتی روک ہے۔ درمیانی علاقہ میں اس کا سر بفلک سلسلہ کوہ ایک قدرتی دیوار کا کام دے رہا ہے۔ بس اگر شمالی قبائل ک حملوں کے لئے کوئی راہ باقی رہی تھی تو وہ صرف اس سلسلہ کوہ کا ایک عریض درہ یا وسطی وادی تھی اور یقیناً وہیں سے یاجوج و ماجوج کو دوسری طرف پہنچنے کا موقع ملتا تھا۔ اس راہ کے بند ہو جانے کے بعد نہ صرف بحر خزر سے لے کر بحر اسود تک کا علاقہ محفوظ ہو گیا بلکہ سمندروں اور پہاڑوں کی ایک ملی جلی ایسی دیوار قائم ہو گئی جس نے تمام مغربی ایشیا کو اپنی پاسبانی میں لے لیا۔ اور شمال کی طرف سے حملے کا کوئی خطرہ باقی نہ رہا۔ اب ایران، شام، عراق، عرب، ایشیائے کوچک، بلکہ مصر بھی شمال کی طرف سے با لکل محفوظ ہو گیا تھا۔

نقشے میں یہ مقام دیکھو ! تمام مغربی ایشیا نیچے ہے ، اوپر شمال میں بحر خزر ہے ، اس سے بائیں جانب مشرق کی طرف بحر اسود ہے۔ درمیان میں بحر خزر کے مغربی ساحل سے بحر اسود کے مشرقی ساحل تک کاکیشیا کا سلسلہ کوہ چلا گیا ہے۔ ان دو سمندروں اور درمیان کے سلسلہ کوہ نے مل کر سینکڑوں میلوں تک ایک قدرتی روک پیدا کر دی ہے۔ اب اس روک میں اگر کوئی شگاف رہ گیا تھا جہاں سے شمالی اقوام کے قدم اس روک کو لانگ سکتے تھے تو وہ صرف یہی دو پہاڑوں کے درمیان کا درہ تھا۔ ذوالقرنین نے اسے بھی بند کر دیا۔ اور اس طرح شمال اور مغربی ایشیا کا یہ درمیانی پھاٹک پوری طرح مقفل ہو گیا۔

باقی رہا یہ سوال کہ وہاں جو قوم ذوالقرنین کو ملی تھی اور جو بالکل ناسمجھ تھی، وہ کون سی قوم تھی ؟ تو اس سلسلے میں دو قومیں نمایاں ہوتی ہیں اور دونوں کا اس زمانے میں وہاں قریب قریب آباد ہونا تاریخ کی روشنی میں آ چکا ہے۔ پہلی قوم وہ ہے جو بحر خزر کے مشرقی ساحل پر آباد تھی۔ اسے یونانی مورخوں نے ’’کاسپین ‘‘(Caspean) کے نام سے پکارا ہے اور اسی کے نام سے بحر خزر کا نام بھی ’’کاسپین ‘‘ پڑ گیا ہے۔ دوسری قوم وہ ہے جو اس مقام سے آگے بڑھ کر عین کاکیشیا کے دامن میں آباد تھی۔ یونانیوں نے اسے ’’ گول چی ‘‘ یا ’’ گولشی ‘‘(Colchians) کے نام سے پکارا ہے۔ اور دارا کے کتبہ اصطخر میں اس کا نام ’’ کوشیہ ‘‘ آیا ہے۔ انہیں دو قوموں میں سے کسی نے یا دونوں   قوموں نے ذوالقرنین سے یاجوج ماجوج کی شکایت کی ہو گی اور چونکہ یہ غیر متمدن قومیں تھیں اس لئے ان کی نسبت فرمایا ’’ لا یکا دون یفقھون قول۔ ‘‘

اس کے بعد ذوالقرنین کا جو وصف سامنے آتا ہے وہ اس کی عدالت گستری اور خدمت انسانی کی فیاضانہ سرگرمی ہے اور یہ اوصاف سائرس کی تاریخی سیرت کی اس درجہ آشکارا حقیقتیں ہیں کہ مورخ کی نگاہ کسی دوسری طرف اٹھ نہیں سکتی۔

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے مغرب میں جو قوم ملی تھی اس کی نسبت حکم الٰہی ہوا تھا ’’ یعنی یہ قوم اب تیرے بس میں ہے ، جس طرح چاہے تو ان کے ساتھ سلوک کر سکتا ہے خواہ سزا دے خواہ انہیں اپنا دوست بنا لے۔ ‘‘ یقیناً یہ لیڈیا کی یونانی قوم تھی اس کے بادشاہ کروئسس نے تمام عہد و پیمان اور باہمی رشتہ داریاں بھلا کر بلا وجہ سائرس پر حملہ کر دیا تھا۔ اور صرف خود ہی حملہ آور نہیں   ہوا تھا بلکہ وقت کی تمام طاقت اور حکومتوں کو بھی اس کے خلاف ابھار کر اپنے ساتھ کر لیا تھا۔ اب جب تائید الٰہی نے اپنا کرشمہ دکھایا اور تمام لیڈیا مسخر ہو گیا تو حکم الٰہی ہو ا ’’ یہ لو گ بالکل تیرے رحم پر ہیں تو جو چاہے ان کے ساتھ کر سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ اپنے ظلم و شرارت کی وجہ سے ہر طرح سزا کے مستحق ہیں۔ ‘‘مطلب یہ تھا کہ تائید الٰہی نے تیرا ساتھ دیا۔ دشمنوں کو مسخر کر دیا اب وہ بالکل تیرے اختیار میں ہیں۔ لیکن تجھے بدلہ نہیں لینا چاہئے۔ وہی کرنا چاہئے جو نیکی و فیاضی کا مقتضا ہے۔ چنانچہ ذو القرنین نے ایسا ہی کیا۔ اس نے اعلان کیا کہ میں پچھلے جرم کی بنا پر کسی کو سزا نہیں دینا چاہتا۔ میری جانب سے عام بخشش کا اعلان ہے۔ البتہ آئندہ جو کوئی برائی کرے گا بلا شبہ اسے سزا دوں گا۔ پھر اس دنیا اور آخرت کا عذاب سخت جھیلنا ہے۔ اور جو لوگ میرے احکام مانیں گے اور نیک کردار ثابت ہوں گے تو ان کے لئے ویسا ہی بہتر اجر بھی ہو گا اور وہ میرے احکام بھی آسان پائیں گے۔ میں بندگان خدا پر سختی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ ہو بہو اس طرز عمل کی تعبیر ہے جس کی ہمیں یونانی تاریخوں کے صفحات میں ملتی ہے اور جسے زمانہ حال کے تمام محققین تاریخ نے ایک مسلمہ تاریخی حقیقت تسلیم کر لیا ہے۔

تمام یونانی مورخ بالاتفاق شہادت دیتے ہیں کہ سائرس نے فتح کے بعد باشندگان لیڈیا کے ساتھ جو سلوک کیا وہ صرف منصفانہ ہی نہ تھا، وہ اس سے بھی زیادہ تھا۔ وہ فیاضانہ تھا وہ اگر اپنے دشمنوں کے ساتھ سختی کرتا تو یہ انصاف ہوتا، کیونکہ زیادتی انہیں کی تھی، لیکن وہ صرف منصف ہونے پر قانع نہیں ہوا، اس نے رحم و بخشش کا شیوہ اختیار کیا، ھیرو ڈوٹس لکھتا ہے کہ سائرس نے اپنی فوج کو حکم دے دیا تھا کہ دشمن کی فوج کے سوا اور کسی انسان پر ہتھیار نہ اٹھائیں اور دشمن کی فوج میں سے بھی جو کوئی نیزہ جھکا دے اسے ہر گز قتل نہ کیا جائے۔ کوئسس شاہ لیڈیا کی نسبت صریح حکم تھا کہ کسی حال میں بھی اسے گزند نہ پہنچائی جائے۔ اگر وہ مقابلہ کرے جب بھی اس پر تلوار نہیں اٹھانی چاہئے۔ اس حکم کی فوج نے اس دیانت داری کے ساتھ تعمیل کی کہ باشندوں کو جنگ کی مصیبت ذرا بھی محسوس نہ ہوئی۔ یہ گویا محض فرماں روا خاندان کا ایک شخص انقلاب تھا کہ کروئسس کی جگہ سائرس نے لے لی۔ اس سے زیادہ کوئی انقلاب ملک و قوم کو محسوس ہی نہیں ہوا۔

یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سائرس کی فتح یونانی دیوتاؤں کی شکست تھی کیونکہ وہ اس مصیبت سے اپنے پرستار کروئسس (Croesus) کو نہ بچا سکے۔ حالانکہ حملے سے پہلے اس نے مندروں کے ہاتف سے استصواب کر لیا تھا اور ڈلفی (Delphi) کے ہاتف نے فتح و کامرانی کی بشارت دی تھی۔ بس قدرتی طور پر واقعات کی یہ رفتار یونانیوں کے لئے خوشگوار نہ ہوسکی۔ اور اس امر کی کوشش شروع ہو گئی کہ اس شکست میں بھی اخلاق اور مذہبی فتح مندی کی شان پید ا کر دی جائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کروئسس کا معاملہ اچانک ایک پراسرار افسانے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اور یونانی دیوتا اپنے سارے معجزوں کے ساتھ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ ھیروڈوٹس لیڈیا کے باشندوں کی یہ روایت نقل کرتا ہے کہ ڈلفی کے ہاتف کا جو اب غلط نہ تھا مگر کروئسس نے جنگ کے جو ش طلب میں اس کا صحیح مطلب نہیں سمجھا۔ ہاتف نے کہا تھا ’’ اگر اس نے پارسیوں پر حملہ کیا تو وہ ایک بڑی مملکت تباہ کر دے گا۔ ‘‘یعنی خود اپنی مملکت تباہ کر دے گا۔ مگر اس نے خیال یا بڑی مملکت سے مقصود پارسیوں کی ہے۔ نیز وہ کہتا ہے : پہلے سائرس نے حکم دیا تھا کہ لکڑیوں کی چتا تیا ر کی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آگ لگا دی گئی۔ لیکن پھر کروئسس کی بعض باتیں سنیں بے حد متاثر ہوا اور آگ بجھانے کا حکم دیا لیکن اب آگ پوری طرح مشتعل ہو گئی تھی۔ ممکن نہ تھا کہ اسے فوراً بجھا دیا جائے۔ یہ حال دیکھ کر کروئسس نے اپالو (Apollo)دیوتا کو پکا را اور باوجود یکہ آسمان بالکل صاف تھا، اچانک بارش شروع ہو گئی اور اس طرح اس معجزے نے بروقت ظاہر ہو کر اس کی جان بچا لی۔

لیکن خود ھیروڈوٹس اور زینو فن کی تصریحات سے جو حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ سائرس یا تو کروئسس کے عزم و صبر کا امتحان لینا چاہتا تھا یا یہ بات آشکارا کر دینا چاہتا تھا کہ یونانیوں کے خود ساختہ دیوتا اپنے عبادت گزاروں کی کچھ مدد نہیں کر سکتے۔ اور جن دیوتاؤں کی فرعونہ بشارت پر اعتماد کر کے جنگ کی گئی تھی۔ ان میں اتنی بھی طاقت نہیں کہ اپنے پرستار کو زندہ جلنے کے عذاب سے بچا لیں۔ یعنی مقصود یہ تھا کہ پہلے اسے چتا پر بٹھا دیا جائے ، آگ بھی لگا دی جائے لیکن جب وہ خود اور تمام لوگ دیکھ لیں کہ دیوتاؤں کا کوئی معجزہ ظاہر نہیں ہوا تو پھر اسے بخش دے اور عزت و احترام کے ساتھ اپنے ہمراہ لے جائے ، دوسری علت قوی معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ خود ھیروڈوٹس کی روایت میں اس کی جھلک موجود ہے۔ اور یونانی افسانے میں اپالو کے معجزے کی نمود بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ سائرس نے اپنے عمل سے جو حقیقت آشکارا کر دی تھی، یونانی افسانے نے اسی کا توڑ کرنے کے لئے اپالو کا معجزہ گھڑ لیا۔

قرآن نے ذوالقرنین کا یہ اعلان نقل کیا ہے کہ آئندہ جو ظلم کرے گا، سزا پائے گا جو حکم مانے گا اور نیک عمل ہو گا، اسے انعام ملے گا۔ بعینہٖ زینو فن کی بھی ایسی ہی روایت ہے۔ قرآن میں ہے کہ ’’ اگر لوگوں نے نیک عملی اختیار کی تو دیکھ لیں گے میرے احکام و قوانین میں ان کے لئے سختی نہ ہو گی۔ ‘‘ تمام مورخ بالاتفاق شہادت دیتے ہیں کہ اس کے احکام و قوانین ایسے ہی تھے۔ وہ مفتوحہ ممالک کے باشندوں کے لئے سرتا سر شفقت و رحمت تھا۔ اس نے ان تمام بوجھل ٹیکسوں اور خراجوں سے رعایا کو نجات دے دی جو اس عہد کے تمام حکمراں وصول کیا کرتے تھے۔ اس نے جس قدر احکام و فرامین نافذ کئے وہ زیادہ سے زیادہ نرم اور زیادہ سے زیادہ ہلکے تھے۔

یہ تو صرف اس کی مغربی فتح مندی کی سرگذشت تھی۔ اب دیکھنا چاہئے کہ اس کے اعمال کی عام رفتار کیسی رہی اور قرآن کا بیان کردہ وصف کہاں تک اس پر راست آتا ہے ؟

لیکن قبل اس کے کہ ہم یونانی مورخوں کی شہادتوں پر متوجہ ہوں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یونانی مورخ سائرس کے ہم قوم نہیں تھے۔ ہم وطن نہیں تھے ، ہم مذہب نہیں تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دوست بھی نہیں تھے۔ سائرس نے لیڈیا کو شکست دی تھی اور لیڈیا کی شکست یونانی قومیت، یونانی تہذیب اور سب سے زیادہ یونانی مذہب کی شکست تھی۔ پھر سائرس کے جانشینوں نے براہ راست یونانیوں کو زیر کیا تھا اور ہمیشہ کے لئے دونوں قومیں ایک دوسرے کی حریف ہو گئی تھیں۔ ایسی حالت میں قدرتی طور پر یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ یونانی دماغ اپنے حریف کی مدحت سرائی کا شاؤ ہو گا۔ تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر مورخ اس کی غیر معمولی عظمتوں اور ملکوتی صفتوں کی مدحت سرائی میں رطب اللسان ہے۔ اور اس لئے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کے محاسن نے ایک ایسے عالمگیر اعتراف و نازکی نوعیت اختیار کر لی تھی کہ دوست و دشمن کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہا تھا۔ سب کے دلوں میں ان کا اعتقاد پیدا ہو گیا تھا۔ سب کی زبانوں پر ان کی مدحت سرائی تھی اور محاسن وہی ہیں جن کی حریفوں کو بھی شہادت دینی پڑی۔

زینوفن لکھتا ہے ’’سائرس ایک نہایت دانشمند، سنجیدہ اور ساتھ ہی رحم دل فرماں روا تھا۔ اس کی شخصیت ہر طرح کے شاہی اوصاف اور حکیمانہ فضائل کا ایک اعلیٰ ترین نمونہ تھی۔ یہ بات عام طور پر تسلیم کر لی گئی ہے کہ اس کی شوکت و حشمت سے کہیں زیادہ اس کی عالی حوصلگی اور سیر چشمی تھی اور اس کی فیاضی اور رحمدلی اپنی کوئی دوسری مثال نہیں رکھتی۔ انسان کی خدمت اور ہمدردی اس کی شاہانہ طبیعت کا سب سے بڑا جوہر تھا۔ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ مصیبت زدہ انسانوں کی خبر گیری کرے۔ مظلوموں کو ظلم سے نجات دلائے ، درماندہ انسانوں کا ہاتھ پکڑے ، غم زدوں کے دکھ درد میں شریک ہو، پھر ان تمام عالی صفتوں کے ساتھ عاجزی و انکساری اس کے حسن و کمال کا سب سے بڑا زیور تھی۔ اس نے ایک ایسے تخت پر بیٹھ کر جس کے آگے تمام قوموں کے سر جھک گئے تھے اور ایک ایسے خزانے کا مالک ہو کر جس میں تمام دنیا کی دولت سمٹ آئی تھی، کبھی گورہ نہیں کیا کہ فخر و غرور کو اپنے دماغ میں جگہ دے۔

ہیرو ڈوٹس لکھتا ہے ـ: وہ ایک نہایت ہی مخیر بادشاہ تھا۔ اسے دنیا کے تمام بادشاہوں کی طرح دولت جمع کرنے کی حرص نہیں تھی۔ بلکہ جو دو سخاوت کا جوش تھا وہ کہتا تھا : سب سے بڑی دولت یہ ہے کہ نوع انسانی بھلائی کا موقع ملے اور مظلوموں کی داد رسی ہو۔

ٹی سیاز لکھتا ہے : اس کا عقیدہ یہ تھا کہ دولت بادشاہوں کے ذاتی عیش و آرام کے لئے نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ رفاہ عام کے کاموں میں خرچ کی جائے اور ماتحتوں کو اس سے فیض پہنچے ، چنانچہ اس کی اسی فیض انسانی نے اس کی تمام رعایا کے دل اس کے ہاتھوں میں دے دیئے تھے ، وہ اس کے لئے خوشی خوشی اپنی گردنیں کٹوا دیتے تھے۔

سب سے زیادہ نمایاں   بات جو ان تمام مورخوں کے صفحات پر ملتی ہے ، وہ سائرس کی شخصیت کی غیر معمولی نمود ہے۔ سب کہتے ہیں کہ وہ جس عہد میں پیدا ہوا اس کی مخلوق نہیں تھا۔ ایک بالاتر شخصیت تھی جسے قدرت نے اپنا کرشمہ دکھانے کے لئے نمودار کر دیا تھا۔ دنیا کے کسی حکیم نے اس کی تربیت نہیں کی وقت کے متمدن ملکوں میں سے کسی ملک میں اس کی پرورش نہیں ہوئی وہ محض قدرت کا پروردہ تھا اور قدرت ہی کے ہاتھوں نے اسے اٹھا یا تھا۔ اس کی تمام ابتدائی زندگی صحراؤں کی گود اور پہاڑوں کی آغوش میں بسر ہوئی۔ وہ فارس کے مشرقی پہاڑوں کا چرواہا تھا۔ تاہم یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یہی چرواہا جب دنیا کے سامنے آیا تو حکمرانی کا سب سے بڑا جلوہ، دانش کا سب سے بڑا پیکر، فضیلت کا سب سے بڑا نمونہ تھا۔

سکندر اعظم کو ارسطو کی تعلیم و تربیت نے تیار کیا تھا۔ بلا شبہ وہ بہت بڑا فاتح نکلا لیکن کیا انسانیت و اخلاق کا بھی کوئی گوشہ فتح کر سکا ؟ سائرس کے لئے ہمیں کوئی ارسطو نہیں ملتا۔ اس نے انسانی حکمت کی درسگاہ کی جگہ قدرت کو درسگاہ میں پرورش پائی تھی۔ تاہم اس نے سکندر کی طرح صرف ملکوں ہی کو نہیں بلکہ انسانیت و فضائل کی مملکتوں کو بھی فتح کر لیا تھا۔

سکندر کی تمام فتوحات کی عمر اس سے زیادہ نہ تھی جتنی خود اس کی عمر تھی۔ لیکن سائرس کی فتوحات نے جو اینٹیں چن دی تھیں وہ دوسو برسوں تک نہی ہل سکیں۔ سکندر کے دم توڑتے ہی اس کی مملکت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے لیکن سائرس نے جب دنیا چھوڑی تو اس کی مملکت روز بروز وسیع و مستحکم ہونے والی تھی۔ اس کی فتوحات میں صرف مصر کا خانہ خالی رہ گیا تھا۔ اس کے فرزند نے اسے بھی بھر دیا۔ اور پھر چند برسوں کے بعد دنیا کی وہ عالم گیر سلطنت ظہور میں آ گئی جو ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے اٹھائیس ملکوں میں پھیلتی ہوئی تھی اور اس پر سائرس کا جانشیں دارا یوش (Darius) تن تنہا حکمراں تھا۔

سکندر کی فتوحات صرف جسم کی فتوحات تھیں جنہیں قہر و طاقت نے سر کیا تھا۔ لیکن سائرس کی فتوحات روح و دل کی فتوحات تھیں جنہیں انسانیت و فضیلت نے سر کیا تھا۔ پہلی سر اٹھاتی ہے لیکن ٹک نہیں سکتی، دوسری ٹک جاتی ہے اور پھر ٹلتی نہیں۔

سائرس فتح بابل کے بعد دس برس تک زندہ رہا، اب اس کی حکومت عرب سے لے کر بحر اسود تک اور ایشیاء کوچک سے بلخ تک پھیلی ہوئی تھی اور ایشیاء کی تمام قومیں اس کے ماتحت آ چکی تھیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس تمام عرصے میں بغاوت اور سرکشی کا ایک حادثہ بھی نہیں ہوا۔ کیونکہ زینو فن کے لفظوں میں ’’ وہ صرف بادشاہ ہی نہ تھا بلکہ انسانوں کا شفیق مربی اور قوموں کا رحیم باپ بھی تھا۔ ‘‘ اور رعایا سخت گیر حکمرانوں سے بغاوت کر سکتی ہے لیکن اولاد اپنے شفیق باپ سے باغی نہیں ہوسکتی۔ موجودہ زمانے کے تمام مورخ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک حیرت انگیز خصوصیت تھی۔ یہ ایسی خصوصیت تھی جو آگے چل کر رومن امپائر کو بھی نصیب نہ ہوئی۔

سب متفقہ شہادت دیتے ہیں کہ اس عہد کے بادشاہوں کی سخت گیری، قساوت قلبی اور ہیبت انگیز طریق تعذیب کی چھوٹی سے چھوٹی مثال بھی سائرس کے عہد میں نہیں ملتی۔

یاد رہے کہ یہ محض قدیم یونانی مورخوں کی روایات ہی نہیں ہیں بلکہ موجودہ زمانے کے تمام محققین تاریخ کی تاریخی مسلمات ہیں۔ بالاتفاق یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ سائرس تاریخ قدیم کی سب سے بڑی شخصیت ہے جس میں بیک وقت فتوحات کی وسعت، فرماں روائی عظمت اور اخلاق و انسانیت کی فضیلت جمع ہو گئی تھی اور وہ جس عہد میں ظاہر ہوا۔ اس عہد میں اس کی شخصیت ہر اعتبار سے انسانیت کا ایک پیام اور قوموں کی نجات تھی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جیبی گرنڈی (G.B. Grundy) جو موجودہ زمانے میں تاریخ قدیم کے ایک مستند ماہر ہیں اور جن کی کتاب ’’گریٹ پرشین وار ‘‘(Great Persian War ) نہایت مقبول ہو چکی ہے ، لکھتے ہیں ’’یہ حقیقت بالکل آشکارا ہے کہ سائرس کی شخصیت اپنے عہد کی ایک غیر معمولی شخصیت تھی، اس نے اپنی تمام معاصر قوموں کے دلوں پر اپنا حیرت انگیز تاثر نقش کر دیا تھا۔ اس کی ابتدائی نشو و نما بالائی فارس کے غیر آباد اور دور دراز گوشوں میں ہوئی جس کی سر گزشت نے ایک افسانے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اس کی ابتدائی تربیت کی روایتیں اس سے ڈیڑھ سو برس بعد زینو فن نے مدون کیں ، جو سقراط کا شاگرد تھا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام روایتوں میں اس کے فضائل انسانیت کا جوہر عام طور پر نمایاں ہے۔ خواہ ہم ان روایتوں کو اہمیت دیں ، خواہ نہ دیں ، تاہم یہ حقیقت ہر حال میں غیر متزلزل رہتی ہے کہ اس کی تدبیر و سیاست کا دامن اس کی انسانیت و فضیلت کے جوہر سے بندھا ہوا تھا۔ اور جب یہ خصوصیت آشوری اور بابلی شہنشاہوں کی بد عملیوں کے مقابلے میں لائی جاتی ہے تو اس کی شریفانہ نمود اور زیادہ درخشندہ ہو جاتی ہے۔ ‘‘

پھر آگے چل کر لکھتے ہیں :

’’یہ فی الحقیقت ایک حیرت انگیز کامیابی تھی، بارہ برس پہلے وہ ایک چھوٹی سی ریاست انشان (Anshan) کا ایک گم نام رئیس تھا۔ اور اب ایشیاء کی وہ تمام مملکتیں اس کے زیر فرمان تھیں جہاں پچھلی قوموں کی بڑی بڑی عظمتیں ظہور میں آ چکی تھیں۔ ان تمام بادشاہوں میں جنہوں نے زمین کے مالک ہونے کے دعوے کئے ایک بادشاہت بھی ایسی نہ تھی جو اب اپنی ہستی کا کوئی موثر ظہور رکھتی ہو، اکادی (Akkadian)مملکت کے نیم اصنامی سرگون (Sargon)سے لے کر بنو خد نضر (بخت نصر ) تک سب کی مملکتیں اس کے آگے سر بسجود ہو گئی تھیں۔ …وہ صرف ایک بڑا فاتح ہی نہیں تھا، وہ ایک بڑا حکمراں تھا۔ قوموں نے یہ نیا دور صرف قبول ہی نہیں کیا، بلکہ اس کا استقبال کیا، ان دس برسوں میں جو فتح بابل کے بعد گذرے ، اس کی تمام وسیع مملکت میں ایک بغاوت کا واقعہ بھی نظر میں آتا۔ بلاشبہ اس کی رعایا پر اس کی طاقت کا رعب چھایا ہوا تھا لیکن وہ کوئی وجہ نہیں رکھتی تھی کہ اس کی سخت گیری سے ہراساں ہو۔ اس کی حکومت قتل و سلب کی سزاؤں سے بالکل ناآشنا رہی۔ اب تازیانوں سے مجرموں کو نہیں پیٹا جاتا تھا اب قتل عام کے احکام صادر نہیں ہوتے تھے اب قوموں اور قبیلوں کو جلا وطن نہیں کیا جاتا تھا، برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے آشوری اور بابلی بادشاہوں کے تمام مظالم کے اثرات یک قلم محو کر دیئے۔ جلا وطن قومیں اپنے وطنوں میں لوٹائی گئیں ، ان کے معبد اور معبود انہیں واپس دے دیئے گئے۔ قدیم رسمون اور عبادتوں کے خلاف کوئی جبر و تشدد باقی نہیں رہا، ہر قوم کے ساتھ پوری طرح داد رسی کی گئی، ہر مذہب کے پیروؤں کو پوری پوری مذہبی آزادی دی گئی، دنیا کے گذشتہ عالم گیر دہشت ناکی کی جگہ ایک عالم گیر رواداری اور عفو و بخشش کا مبارک دور شروع ہو گیا۔

غور کرو ! قرآن نے چند لفظوں کے اندر جو اشارات دیئے ہیں ، آج تاریخ کا داستان سرا کس طرح اس کے ایک ایک حرف کی شرح و تفصیل سنا رہا ہے۔

اب چند لمحوں کے لئے ان تصریحات پر غور کرو جو تورات کے صحائف میں مندرج ہیں ، کس طرح وہ سائرس کی شخصیت کی سب سے بڑی خصوصیت واضح کر رہے ہیں اور کس طرح قرآن کے اشارات بھی ٹھیک ٹھی ان کی تصدیق ہیں ! یسیعیا نبی کی کتاب میں ہے کہ ’’ خداوند کہتا ہے ! خورس میرا چرواہا ہے۔ ‘‘ اور پھر بعد میں کہا ہے کہ ’’ وہ میرا مسیح ہے۔ ‘‘ اور برمیاہ نبی کا بیان اوپر گز چکا ہے کہ وہ بابلیوں کے ظلم سے نجات دلائے گا۔ اب دیکھو ! اس کی شخصیت ٹھیک ٹھیک ایک موعود اور منتظر نجات دہندہ کی شخصیت تھی یا نہ تھی۔

جب ہم اس عہد کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں ار پھر سائرس کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو اول نظر یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ اس کا ظہور ٹھیک ٹھیک ایک ایسی شخصیت کا ظہور تھا جس کے لئے وقت کی تمام قوتیں چشم براہ ہوں۔ قوموں کا انتظار ان کی زبانوں پر نہیں ہوتا۔ ان کے حالات کے قدرتی تقاضے میں ہوتا ہے۔ غور کرو! اس عہد کی رفتار زمانہ کا قدرتی تقاضہ کیا تھا۔ یہ تاریخ کی صبح تمدن کی نمود تھی۔ جس کی روشنی میں ہم انسانی حکمرانی کی ساری تاریکیاں پھیلی ہوئی دیکھتے ہیں۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس وقت تک انسانی فرمانروائی کی عظمت صرف قہر و غضب ہی کے نقاب میں رونما ہوتی تھی۔ اور سب سے بڑا حکمراں وہی سمجھا جاتا تھا جو سب سے زیادہ انسانوں کے لئے خوف ناک ہو۔ آشور بنی پال (Ashurbanipal) نینویٰ کا سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ بابل کی نشاۃ الثانیہ میں بنو خد نصر سب سے بڑا فاتح تھا۔ اس لئے قوموں کی ہلاکت اور مملکتوں کی ویرانی میں سب سے زیادہ قہر مان تھا مصریوں ، اکادیوں ، ایلامیوں ، آشوریوں اور بابلیوں سب میں   انسانی حکومت و عظمت کے مظاہر خوف ناکی اور دہشت انگیزی کے مظاہر تھے اور ان کی شخصیتوں نے دیوتائی الوہیت کی تقدیس سے مل کر انسانوں کے قتل و تعذیب کی ہولناک استحقاق حاصل کر لیا تھا۔ سائرس کے ظہور سے پچاس برس پہلے بنو خد نصر کی شہنشاہی کا ظہور ہوا اور ہمیں معلوم ہے کہ اس نے بیت المقدس پر پیہم تین حملے کر کے نہ صرف دنیا کا سب سے بڑا زرخیز علاقہ تاراج و ویران کر دیا، بلکہ فلسطین کی پوری آبادی کو اس طرح نکال کر بابل لے گیا کہ جو زلفیں (Josephus)کے لفظوں میں ’’ کوئی سخت سے سخت بے رحم قصائی بھی اس وحشت و خونخواری کے ساتھ بھیڑوں کو مذبح میں نہیں لے جاتا۔ پھر کیا ان حالات کا قدرتی تقاضا یہ نہ تھا کہ دنیا ایک نئی شخصیت کے لئے چشم براہ ہو ؟ قومیں ایک نجات دہندہ کی راہ تک رہی ہوں ؟ ایک ایسے نجات دہندہ کی جو انسانوں کے گلے کے لئے خدا کا بھیجا ہوا ’’ چرواہا ‘‘ ہو۔ جو ان کی بیڑیاں کاٹے اور ان کے سروں کا بوجھ ہلکا کر دے جو دنیا کو اس ربانی صداقت کا سبق دے دے کہ انسانی حکم رانی نوع انسانی کی خدمت کے لئے ہونی چاہئے۔ دہشت انگیزی اور خوف ناکی کے لئے نہیں۔

دنیا بادشاہوں کے ہاتھوں سے تنگ آ چکی تھی۔ اب وہ ایک ’’ چرواہے ‘‘ کے لئے مضطرب تھی اور یسیعاء نبی کے لفظوں میں ’’ خدا کا وہ فرستادہ چرواہا ‘‘ نمودار ہو گیا۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قوموں نے اسے قبول ہی نہیں کیا بلکہ ا س کے استقبال کے لئے بے اختیار لیکن کیونکہ وہ وقت کی جستجو کا قدرتی سراغ اور زمانے کی طلب کا قدرتی جواب تھا۔ اور اگر رات کی تاریکی کے بعد صبح کی روشنی کا خیر مقدم کیا جاتا ہے تو ممکن نہ تھا کہ انسانی شقاوت کی اس طولانی تاریکی کے بعد صبح سعادت کی اس جہاں تابی کا استقبال نہ کیا جاتا !

غور کرو ! سیعیاء نبی کا یہ جملہ صورت حال کی کیسی ہو بہو تصویر ہے کہ ’’ وہ میرا چرواہا ہو گا۔ وہ میری ساری مرضی پوری کرے گا۔ میں اس کا دہنا ہاتھ پکڑ کے قوموں کو اس کے قابو میں دے دوں گا اور بادشاہوں کی کریں اس کے آگے کھلوا ڈالوں گا۔ میں اس کے آگے چلوں گا، میں ٹیڑھے راستے اس کے لئے سیدھے کر دوں گا۔ ‘‘ سارے مورخ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ایک چرواہے کی طرح آیا اور اس نے بندگان خدا کی رکھوالی کی۔ سب کہہ رہے ہیں کہ اس نے جس ملک کا رخ کیا اس کی شقاوت ختم ہو گئی۔ وہ جس قوم کی طرف بڑھا اس کی بیڑیاں کٹ گئیں۔ اس کے جس گروہ کے سر پر ہاتھ رکھا اس کے سارے بوجھ ہلکے ہو گئے۔ وہ صرف بنی اسرائیل ہی کا نہیں بلکہ تمام قوم کا نجات دہندہ تھا۔

یاد رہے کہ سیعیا ء نبی کی اسی پیشن گوئی میں اسے ’’ خدا کا مسیح ‘‘ بھی کہا ہے۔ اور تورات کی اصطلاح ’’مسیح ‘‘وہ ہوتا ہے جسے خدا اپنی برکتوں کے ظہور کے لئے برگزیدہ کر لے اور قوموں کی نجات کے لئے اس کا ظہور ہو۔ چنانچہ حضرت داؤد کی نسبت بھی آیا ہے کہ ’’ مسیح ‘‘ تھے۔ سائرس کی نسبت بھی یہی کہا ہے اور اسی طرح بنی اسرائیل کی نجات کے لئے ایک آخری ’’ مسیح ‘‘ کی بھی پیشن گوئیاں موجود ہیں۔

سائرس کو ’’ مسیح ‘‘ کہنا اس میں شک نہیں کہ اس کے تقدیس اور الٰہی برگزیدگی کی سب سے زیادہ واضح اور قطعی اسرائیلی شہادت ہے۔

اس سلسلے میں آخری وصف جو ذوالقرنین کا سامنے آتا ہے وہ اس کا ایمان باللہ ہے۔ قرآن کی آیتیں اس بارے میں ظاہر و قطعی ہیں کہ وہ ایک خدا پرست انسان تھا۔ آخرت پر یقین رکھتا تھا۔ احکام الٰہی کے مطابق عمل کرتا تھا اور اپنی تمام کامرانیوں کو اللہ کا فضل و کرم سمجھتا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سائرس کا بھی ایسا ہی اعتقاد و عمل تھا ؟ لیکن تمام پچھلی تفصیلات پڑھنے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ نہیں تھا ؟

یہودیوں کے صحائف کی واضح شہادت موجود ہے کہ وہ خدا کا اپنا فرستادہ اور ’’ مسیح ‘‘ تھا اور وہ نبیوں کا موعود و منتظر تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی ہستی خدا کی نافرمان ہستی نہیں ہوسکتی جس کا ’’ دہنا ہاتھ خدا نے پکڑا ہو۔ ‘‘ اور جس کی ’’ ٹیڑھی راہیں وہ درست کرتا جائے ‘‘۔ یقیناً وہ خدا کا ناپسندیدہ بندہ نہیں ہوسکتا۔

آج کل کے اصحاب نقد و نظر سیعیا ء نبی کی اس پیشن گوئی کو مشتبہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ سائرس سے ڈیڑھ سو برس پہلے کی گئی تھی۔ لیکن اگر اس سے قطع نظر کر لی جائے ، جب بھی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ خود سائرس کے عہد میں جو اسرائیلی نبی موجود تھے ان کی شہادتیں موجود ہیں اور وہ صاف کہہ رہے ہیں کہ یہودیوں کا عام اعتقاد یہی تھا اور اسی حیثیت سے اس کا استقبال کیا تھا۔ حزقیل اور دانیال سائرس کے معاصر تھے۔ اور دانیال کی نسبت یہودیوں کا اعتقاد ہے کہ دارا کے عہد تک زندہ رہے۔ ان دونوں کی تصریحات سائرس کی نسبت موجود ہیں۔ پھر دارا کے زمانے میں حجی اور زکریا ہ کے صحیفے مرتب ہوئے اور زرکسیز (Xerxes)( ارد شیریا ارتخششت ) کے عہد میں عزرا اور تحمیاہ کا ظہور ہوا۔ ان سب کی شہادتیں بھی موجود ہیں اور ان سب سے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سائرس کو بنی اسرائیل نے ایک موعود ہستی اور برگزیدہ انسان تسلیم کر لیا تھا۔

اگر یہودیوں کا عام اعتقاد یہ تھا تو کیا ایک لمحے کے لئے بھی یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک بت پرست انسان کی نسبت ایسا اعتقاد رکھنے کی جرات کرے ! تسلیم کر لیا جائے کہ یہ تمام پیشن گوئیاں سائرس کے ظہور کے بعد بنائی گئیں ، لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہودیوں ہی نے بنائیں اور یہودیوں ی میں پھیلیں۔ حتیٰ کہ ان کی مقدس کتاب میں داخل ہو گئیں۔ پھر کیا ممکن تھا کہ ایک بت پرست کو اسرائیلی وحی کا ممدوح اور اسرائیلی نبیوں کا موعود بنا دیا جاتا ؟

یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اجنبیوں اور غیر اسرائیلیوں کے خلاف یہودیوں کا تعصب بہت ہی سخت تھا۔ ان کے نسلی غرور پر اس سے زیادہ اور کوئی بات شاق نہیں گزرتی تھی کہ کسی غیر اسرائیلی انسان کی بزرگی کا اعتراف کریں۔ ظہور اسلام کے وقت بھی یہی عصبیت انہیں اعتراف حق سے روکتی تھی۔ تاہم وہ سائرس کی فضیلت کے آگے جھک گئے جو ان کے لئے ہر اعتبار سے اجنبی تھا۔ اور نہ صرف اس کی بزرگی ہی کا اعتراف کیا، بلکہ نبیوں کا موعود اور خدا کا برگزیدہ تسلیم کر لیا۔ یہ صورت حال اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ سائرس کی شخصیت ان کے لئے بڑی ہی محبوب شخصیت تھی اور اس کی فضیلتیں ایسی قطعی اور آشکارا تھیں کہ ان کے اعتراف میں نسلی عصبیت کا جذبہ بھی حائل نہ ہوسکا۔ ظاہر ہے کہ ایک بت پرست انسان کے لئے جو اجنبی بھی ہو، یہودیوں میں ایسی محبوبیت نہیں پیدا ہوسکتی تھی۔ اگر ایک بت پرست بادشاہ نے انہیں نجات دلائی تھی تو وہ اس کی شاہانہ عظمتوں کی مداحی کرتے ، مگر خدا کامسیح اور برگزیدہ کبھی نہ سمجھتے۔ ضروری ہے کہ اس کی فضیلتیں مذہبی ہوں۔ ضروری ہے کہ مذہبی حیثیت سے بھی عقائد کا توافق موجود ہے۔ یہ یہودیوں کی پوری تاریخ میں غیر اسرائیلی فضیلت کے اعتراف کا تنہا واقعہ ہے اور ممکن نہیں کہ ایک ایسے انسان ک ے لئے ہو جسے وہ مذہبی حیثیت سے محترم نہ سمجھتے ہوں۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائرس کے دینی عقائد کے بارے میں ہماری معلومات کیا ہے ؟

تاریخی حیثیت سے یہ قطعی ہے کہ سائرس زرتشت کا پیرو تھا۔ جسے یونانیوں نے زارا دسترو کے نام سے پکارا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ غالباً اسی کی شخصیت ہے جو اس نئی دعوت کے تبلیغ و عروج کا ذریعہ ہوئی۔ اس نے فارس اور میڈیا میں نئی شہنشاہی کی بنیاد ہی نہیں رکھی تھی بلکہ قدیم مجوسی دین کی جگہ نئے زرتشتی دین کی بھی تخم ریزی کی تھی۔ وہ ایران میں نئی شہنشاہی اور نئے دین دونوں کا بانی تھا۔

زرتشت کا سال وفات تقریباً ۵۵۰ ق۔ م سے لے کر ۵۸۳ ق۔ م تک ہونا چاہئے اور سائرس کی تخت نشینی بالاتفاق ۵۵۰ ق۔ م میں ہوئی۔ یعنی زرتشت کی وفات کے تیس سال بعد یا عین اسی سال۔

لیکن اگر سائرس زرتشت کا معاصر تھا تو کیا کوئی براہ راست تاریخی شہادت موجود ہے جس سے اس کا دین زرتشتی قبول کرنا ثابت ہو؟ نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ تمام قرائن جمع کئے جائیں جو خود تاریخ کی روشنی نے مہیا کر دیئے ہیں تو یقیناً ایک با لواسطہ شہادت نمایاں ہو جاتی ہے اور اس میں کچھ شبہ باقی نہیں رہتا کہ سائرس نہ صرف دین زرتشتی پر عامل تھا بلکہ اس کا پہلا حکمراں داعی تھا اور اس نے یہ ورثہ اپنے جانشینوں کے لئے چھوڑا جو دو سو برس تک بلا استثنا ء دین زرتشتی پر عمل پیرا رہے۔

اس سلسلے میں سب سے زیادہ روشنی جن واقعات سے پڑتی ہے ، وہ دو ہیں اور دونوں کی تاریخی نوعیت مسلم ہے : پہلا واقعہ ’’ گوماتہ ‘‘ (Gaumata) کی بغاوت کاہے جو سائرس کی وفات کے آٹھ برس بعد ظہور میں آئی۔ دوسرے دارا کے کنبے ہیں جن سے اس کے دینی عقائد کی نوعیت آشکارا ہو گئی ہے۔

سائرس کا بالاتفاق ۵۲۹ ق۔ م میں انتقال ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا کم بی سیز (Cambiyses) ( کمبوجیہ یا کیقباد )تخت نشین ہوا۔ اس نے ۵۲۵ ق۔ م میں مصر فتح کیا لیکن ابھی مصر ہی میں تھا کہ معلوم ہوا کہ ایران میں بغاوت ہو گئی ہے اور ایک شخص ’’ گوماتہ‘‘ نامی اپنے آپ کو سائرس کا دوسرا بیٹا سمر ڈیز (Smerdis)(فارسی : بردیہ ) مشہور کر دیا ہے جو بہت پہلے مر چکا تھا یا مار ڈالا گیا تھا۔ یہ خبر سن کر وہ مصر سے لوٹا، لیکن ابھی شام میں تھا کہ ۵۲۲ ق۔ م میں اچانک انتقال کر گیا۔ اب چونکہ سائرس کی براہ راست نسل سے کوئی شہزادہ موجود نہیں تھا اس لئے اس عم زاد بھائی دارا بن گشتاسپ تخت نشین ہو گیا۔ دارا نے بغاوت فرو کی، گوماتہ کو قتل کیا اور نئی مملکت کو اس کے عروج و کال تک پہنچا دیا۔ دارا کی تخت نشینی بالاتفاق ۵۲۱ ق۔ م میں ہوئی ہے۔ بس اس کا عہد سائرس کے انتقال سے آٹھ برس بعد شروع ہو گیا تھا۔

اب غور کرو ! ان واقعات کا لازمی نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ سائرس کے بعد کم بی سیز اور دارا نے کئی نئی دعوت قبول نہیں کی تھی اور دارا دین زرتشتی پر عمل پیرا تھا تو کیا اس سے ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ دارا اور کم بی سیز سے پہلے زرتشتی دین خاندان میں آ چکا ہے۔ اگر سائرس کی وفات کے چند سال بعد قدیم مذہب کے پیرو اس لئے بغاوت کرتے ہیں کہ کیوں ایک نیا مذہب قبول کر لیا ہے تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ سائرس نیا مذہب قبول کر چکا تھا اور تبدیلیِ مذہب کا معاملہ نیا نیا پیش آیا تھا۔ پھر اگر زرتشت سائرس کا معاصر تھا تو کیا یہ اس بات کا مزید ثبوت نہیں ہے کہ سب سے پہلے سائرس ہی نے یہ دعوت قبول کی تھی اور وہ فارس اور میڈیا کا نیا شہنشاہ بھی تھا اور نئی دعوت کا پہلا حکمراں بھی؟

اتنا ہی نہیں اگر ہم غور کرتے ہیں تو اس زنجیر کی کڑیاں اور آگے تک بڑھتی جاتی ہیں۔ البتہ ہم اسے ایک قیاس سے زیادہ کہنے کی جرات نہیں کریں گے۔ اگر سائرس زرتشت کا معاصر تھا اور سائرس کا ابتدائی زمانہ خاندان سے الگ اور گم نامی میں بسر ہوا تو کیا اسی زمانے میں دونوں شخصیتیں ایک دوسرے کے قریب نہیں پہنچ جاتیں ؟اور کیا ایسا نہیں سمجھا جا سکتا کہ اسی زمانہ میں سائرس زرتشت کی تعلیم و صحبت سے بہرہ مند ہو ا ؟ سائرس کی ابتدائی زندگی کی سر گذشت تاریخ کی ایک گم شدہ داستان ہے۔ پھر کیا اس داستان کا سراغ ہمیں ان دونوں شخصیتوں کی معاصرت کے واقعے میں نہیں مل جاتا؟

مورخ زینو فن نے سائرس کی ابتدائی زندگی کا افسانہ سنایا ہے۔ اس افسانے میں ایک پر اسرار شخص کی پرچھائیں صاف نظر آ رہی ہے جو دہشت و حیل کے اس پروردۂ قدرت کو آنے والے کارناموں کے لئے تیار کر رہا تھا۔ کیا اس پرچھائیں میں ہم خود زرتشت کی مقدس شخصیت کی نمو نہیں دیکھ رہے ؟ اگر زرتشت کا ظہور شمال مغربی ایران میں ہوا تھا اور اگر سائرس کی ابتدائی گم نامی کا زمانہ بھی شمالی کوہستان میں بسر ہوا تو کیوں یہ دونوں کڑیاں   باہم مل کر ایک گم شدہ داستان کا سراغ نہ بن جائیں ؟

سائرس کی شخصیت وقت کے تمام ذہنی اور اخلاقی رجحانات ک ے برخلاف ایک انقلاب انگیز شخصیت تھی۔ ایسی شخصیت کی انقلاب انگیز داعی کی دعوت ہی سے پیدا ہوسکتی ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ داعی شخصیت زرتشت ہی کی تھی۔

بہر حال سائرس نے اپنی ابتدائی گم نامی کے عہد میں نئی دعوت قبول کی ہو، یا تخت نشینی کے بعد، لیکن یہ قطعی ہے کہ وہ دین زرتشتی پر عامل تھا۔

لیکن اگر ذوالقرنین دین زرتشتی پر عامل تھا اور قرآن ذوالقرنین کے ’’ ایمان باللہ ‘‘اور ایمان بالآخرت کا اثبات کرتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسے ’’ ملیھم من اللہ ‘‘ قرار دیتا ہے۔ تو کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ زرتشت کی تعلیم دین حق کی تعلیم تھی ؟ یقیناً لازم آتا ہے۔ لیکن کوئی وجہ نہیں کہ اس لزوم سے بچنے کی ہم کوشش کریں ، کیونکہ یہ حقیقت اب پوری طرح روشنی میں آ چکی ہے کہ زرتشت کی تعلیم سرتاسر خدا پرستی اور نیک عملی کی تعلیم تھی اور آتش پرستی اور ثنویت کا اعتقاد اس کا پیدا کیا ہوا اعتقاد نہیں ہے۔ بلکہ قدیم میدوی مجوسیت کا رد عمل ہے۔

جس طرح روم کی مسیحت قدیم رومی بت پرستی کے رد عمل سے محفوظ نہیں رہ سکی اسی طرح زرتشت کی خالص خدا پرستانہ تعلیم بھی قدیم مجوسیت کے رد عمل سے بچ نہ سکی۔ خصوصاً ساسانی عہد میں جب وہ از سر نو مدون ہوئی تو اصل بالکل مختلف چیز بن چکی تھی۔

موجودہ عہد کے تمام محققین تاریخ متفق ہیں کہ زرتشت کی تعلیم نے انسان کے اخلاق اور فکری ارتقاء میں نہایت موثر حصہ لیا ہے۔ اس نے پانچ سو برس قبل مسیح ایرانیوں کو اخلاقی پاکیزگی کی ایک ایسی سطح پر پہنچا دیا تھا جہاں سے ان کے معاصر یونانیوں اور رومیوں کی زندگی بہت ہی پست دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسا مذہب جس کی تعلیم کا رخ سر تا سر انفرادی زندگی کی پاکیزگی کی طرف تھا اور جو اپنے پیروؤں کی اخلاقی روش کے لئے نہایت بلند مطالبے رکھتا تھا، ضروری تھا کہ اعمال و خصائل کے بہتر سانچے ڈھال دے اور تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ اس نے ڈھال دیئے تھے۔ یہ شہادت کن لوگوں کی قلم سے نکلی ہے ؟ ان لوگوں کے قلم سے جو کسی طرح بھی ایرانیوں کے دوست نہیں سمجھے جا سکتے ، پانچویں اور چوتھی صدی قبل مسیح کا تمام زمانہ ایرانیوں اور یونانیوں کی مسلسل آویزش کا زمانہ رہا ہے اور ھیروڈوٹس اور زینو فن نے جب تاریخیں لکھی ہیں تو یونانیوں کے حریفانہ جذبات پوری طرح ابھرے ہوئے تھے تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایرانیوں کے اخلاقی فضیلت سے انکار نہیں کر سکتے۔ انہیں ماننا پڑتا ہے کہ ان میں بعض ایسی عظیم فضیلتیں ہیں جو یونانیوں میں نہیں پائی جاتیں۔ ہم یہاں پر فیسر گرنڈی کے الفاظ پھر مستعار لیں گے ’’ایرانی سچائی اور دیانت کی ایسی فضیلتیں رکھتے تھے جو اس عہد کی قوموں میں عام طور پر دکھائی نہیں دیتیں۔ ‘‘

ان کی راست بازی، رحم دلی، شجاعت اور بلند نظری کا سب اعتراف کرتے ہیں اور یقیناً یہ زر تشت کی تعلیم کے لازمی نتائج تھے۔

دارا اول کا زمانہ اس مذہب کی بلند آہنگی کا شاندار زمانہ ہے۔ اس کے کتبوں میں ہمیں زرتشتی تعلیم کی صدائیں صاف سنائی دے رہی ہیں اور ان سے ہم حقیقت حال معلوم کر سکتے ہیں۔ بہستون (Bahistun)کا کتبہ ڈھائی ہزار سال پیشتر کی یہ منادی آج تک بلند کر رہا ہے :’’خدائے برتر ! آھورمزدہ ہے ، اسی نے زمین پیدا کی، اسی نے آسمان بنایا، اسی نے انسان کی سعادت بنائی اور وہی ہے جس نے دارا کو بہتوں کا تنہا حکمراں اور آئین ساز بنایا۔ ‘‘

دارا اعلان کرتا ہے کہ اھورمزدہ نے اپنے فضل سے مجھے بادشاہت دی اور اسی کے فضل سے میں نے زمین میں امن و امان قائم کیا، میں اھورمژدہ سے دعا کرتا ہوں مجھے ، میرے خاندان کو اور تمام ملکوں کو محفوظ رکھے ، اے اھورمزدہ ! میری دعا قبول کر۔

اے انسان ! اھورمژدہ کا تیرے لئے حکم یہ ہے کہ برائی کا دھیان نہ کر، صراط مستقیم کو نہ چھوڑ، گناہ سے بچتا رہ۔ ‘‘

یاد رہے کہ دارا سائرس کا ہم عصر تھا اور اس کی وفات سے صرف آٹھ برس بعد تخت نشین ہوا۔ بس دارا کی صداؤں میں ہم خود سائرس کی صدا سن رہے ہیں۔ اس کا بار بار اپنی کامرانیوں کو اھورمزدہ کے فضل و کرم سے منسوب کرنا ٹھیک ٹھیک ذوالقرنین کے اس طریق خطاب کی تصدیق ہے ’’ ھذا رحمۃ من ربی۔ ‘‘

لیکن ’’ زرتشت کا مقدس صحیفہ ’’ اوستا ‘‘ جو بارہ ہزار بیلوں کی مدبوغ کھالوں پر آب زر سے لکھا ہوا تھا سکندر اعظم مقدونی کے حملۂ اصطخرا میں جل کر راکھ ہو گیا۔

 

                کیا ذوالقرنین نبی تھا ؟

 

ایک اہم سوال اور باقی رہ گیا ہے ، قرآن میں ہے ’’ ہم نے کہا ! اے ذوالقرنین ‘‘ اس خطاب کا مطلب کیا ہے ؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین براہ راست وحی الٰہی سے مخاطب تھا ؟ مفسرین نے اس پر طبع آزمائی کی ہیں اور چوں کہ امام رازی سکندر مقدونی کو ذوالقرنین بنانا چاہتے ہیں اور وہ بنتا نہیں ، اس لئے مجبور ہوئے کہ یہاں ’’قلنا ‘‘ کے منطوق پر اس کو ترجیح دیں۔

اس میں شک نہیں کہ ’’قلنا ‘‘کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بالواسطہ خطاب ہو یعنی اس عہد کے کسی پیغمبر کے ذریعے ذوالقرنین کو مخاطب کیا گیا ہو جیسا کہ ’’ مقلنا اضربو یعضھا ‘‘ (۲: ۸۳ ) میں ہے یا خطاب قولی نہ ہو، تکوینی ہو، جیسا کہ ’’ وَقِیْلَ یٰاَرْضُ ابْلَعیِ صَآءَ کِ وَ یٰسَمَآ ءُ اَقْلِعِیْ ‘‘(۱۱۔ ۴۴ ) اور قُلْنَا یٰنَا رْکُونِی برَداً وَّ سَلٰماً عَلیٰ ابْرَاھِیْم ( ۲۱ ا۔ ۶۹ ) وغیرہا آیات میں ہے لیکن اس طرح کا مطلب جب ہی قرار دینا چاہئے کہ اس کے لئے قوی وجوہ موجود ہوں اور یہاں کوئی وجہ موجود نہیں۔ آیت کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ ذوالقرنین کو اللہ نے براہ راست مخاطب کیا اور اس پر اللہ کی وحی نازل ہوئی تھی باقی رہی یہ بات کہ یہ وحی نبوت کی وحی تھی یا اس طرح کی وحی تھی جیسی حضرت موسیٰ کی والدہ کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ ’’ وَاَو حَینآ اِلیٓ اُمِّ مُوْسیٰ اَن اَرضِعیہِ ( ۲۸۔ ۷) تو صحیفہ یوسف سے جو تفسیر منقول ہے وہ یہی ہے کہ ذوالقرنین نبی تھا اور متاخرین میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن کثیر بھی اسی تفسیر کی تائید کرتے ہیں۔

اور غور کرو قرآن کا بیان سائرس کی شخصیت پر کس طرح ٹھیک ٹھیک منطبق ہو رہا ہے ؟ تاریخ اس کی پیغمبرانہ شخصیت کی شہادت دے رہی ہے۔ اور عہد عتیق کے انبیاء اسے صریح خدا کا برگزیدہ اس کا مسیح اور اس کی مرضی پوری کرنے والا کہہ رہے ہیں۔ عزرانی کی کتاب میں ا س کا جو فرمان تعمیر بیت المقدس کے لئے نقل کیا گیا ہے اس میں وہ خود اعلان کرتا ہے ’’ خدا نے مجھے حکم دیا ہے۔ ‘‘ ٹھیک ٹھیک ’’ قلنا یذا القرنین ‘‘ کی تصدیق ہے۔ ہم اس سے پہلے اس کی خدا پرستی کے اثبات میں جو کچھ لکھ چکے ہیں ، اس میں سے ہر بات ٹھیک ٹھیک اس کی نبوت کے ثبوت میں بھی کہی جا سکتی ہے۔

(ذوالقرنین کے عہد میں یاجوج ماجوج کی تفصیل کے لئے مولف کی کتاب کو ن ہیں یاجوج و ماجوج ؟ کہاں ہے سد ذوالقرنین ؟ ملاحظہ فرمائیں۔ )

 

                سکندر رومی ذوالقرنین ہے ؟

 

اسلامی انسائیکلو پیڈیا صفحہ ۳۲۶

مشہور ابن الجمہور نام ان کا سکندر ہے اور بقول اکثر اہل تفسیر و سیر اسکندر رومی ہیں۔ مگر بعض کہتے ہیں کہ سکندر رومی کے سوا کوئی سکندر نہیں ہوا۔ ان کی پیغمبری میں اختلاف ہے۔ معالم التزیل میں لکھا ہے کہ سکندر ذوالقرنین بادشاہ تھا، عادل و صالح مگر مدارک میں ہے کہ اگر ذوالقرنین نبی تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی ’’کماقال وقلنا یا ذالقرنین ‘‘ اور جو نبی نہ تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے نبی کو وحی بھیجی اور اس نے ذوالقرنین کو حکم دیا۔ جیسا کہ ان کی پیغمبری میں اختلاف ہے ویسے ہی ان کی وجہ تسمیہ میں بھی اختلاف ہے۔

وہب ابن منبہ بیان کرتے ہیں کہ زمین کے دونوں قران یعنی شرق و غرب کا بادشاہ ہوا تھا اسی وجہ سے نام ذوالقرنین ہوا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ نور و ظلمت میں پہنچا۔ اس سبب سے یہ لقب ہوا۔ مفصل حال ان کا یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کو جس کا لقب ذوالقرنین تھا سکندر ہو یا کوئی اور پہلے زمین کا مالک کیا اور بخوبی دسترس عطا فرمائی اور ہر ایک چیز سے اسے مستغنی کیا اور علم سیاست مدن ایسا دیا کہ دوسرے کو اس کے وقت میں ہر گز نہ تھا۔ اور نور و ظلمت میں چلنا پھرنا اس کو برابر تھا۔ ایک دن روم سے سوار ہو کر مصر میں گیا اور مصر کو فتح کرتا زنگیوں کو ہزیمت دیتا مغرب کی طرف گیا۔ اس قصد پر کہ دیکھے دنیا کہاں   تک بستی ہے۔ چلتے چلتے ایسی جگہ جا پہنچا جہاں آفتاب کے غروب ہونے کا مقام تھا تو اس کو آفتاب ایسا دکھائی دیا جیسے وہ کالی کالی کیچڑ کے کنڈ میں ڈوبتا ہے اور دیکھا کہ اس کنڈ کے قریب ایک قوم بھی آباد ہے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ذوالقرنین ! تم بادشاہ ہو اور دونوں اختیار رکھتے ہو چاہے ان لوگوں کو عذاب دو یا ان کے بارے میں حسن سلوک کا شیوہ اختیار کرو۔ تو ذوالقرنین نے کہا جو ان میں سے سر کشی کرے گا اس کو تو ہم سزا دیں گے اور جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو ہم اس کے لئے آسانی کر دیں گے۔

اس کے بعد سکندر نے مغرب مشرق کی تیاری کی اور چلتے چلتے آفتاب کے نکلنے کی جگہ پہنچا تو اس کو ایسا معلوم ہوا کہ آفتاب کچھ لوگوں پر طلوع کرتا ہے جن کے لئے آفتاب ادھر کوئی آڑ نہیں۔ یعنی وہ لوگ وحشی تھے ، گھر بنانے کا سلیقہ نہیں رکھتے تھے اور دھوپ سے بچنے کے لئے ان کے پاس کوئی پناہ نہ تھی۔ بعد ازاں اس نے ایک ایک اور سفر کا ارادہ کیا اور چلتے چلتے ایک پہاڑ کی گھاٹی کے دو کناروں کے بیچ پہنچا تو دیکھا کہ کناروں کے ادھر ایک قوم آباد ہے اور وہ ایسے وحشی ہیں کہ بات کے سمجھنے کے پاس تک نہیں پھٹکتے۔ ان لوگوں نے اپنی بولی میں عرض کیا کہ اے ذوالقرنین اس گھاٹی کے ادھر یاجوج ماجوج کی قوم ہے اور وہ لوگ ہمارے ملک میں آ کر فساد کرتے ہیں۔ آپ کی مرضی ہو تو ہم آپ کے لئے چندہ جمع کر دیں۔ بشرطیکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی روک بنا دیں۔ ذوالقرنین نے کہا وہ مال جس میں میرے پروردگار نے مجھے پورا اختیار دے رکھا ہے کافی ہے۔ تم ہاتھ پاؤں کے زور سے میری مدد کرو۔ میں تم لوگوں میں اور ان لوگوں کے درمیان ایک دیوار کھینچ دوں گا۔ اب کہیں سے لوہے کی سلیں ہم کو لادو۔ چنانچہ وہ سلیں لائے اور ضروری کاروائی ہوتی رہی۔ جب دونوں کناروں کے بیچ کشادگی برابر ہو گئی تو حکم دیا ا ب اس کو دھونکو۔ یہاں   تک کہ جب دیوار کو لال انگار کر دیا تو کہا اب ہم کو تانبا لادو کہ اس کو پگھلا کر اس دیوار میں انڈیل دیں۔ غرض اس تدبیر سے ایسی اونچی اور مضبوط دیوار تیار ہو گئی کہ یاجوج ماجوج نہ تو اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں سوراخ کر سکتے تھے۔

قیامت کے قریب یاجوج ماجوج اس سد کو توڑ کر ادھر کے رہنے والوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور سب گڈ مڈ ہو جائیں گے۔

سکندر جب دیوار سے فارغ ہوا تو جانب مشرق آیا اور چند عالموں کو طلب کر کے مستفسر ہوا کہ تم نے کسی کتاب میں درازی عمر کی بھی دوا دیکھی ہے۔ ان میں سے ایک حکیم نے التماس کی کہ میں نے وصیت نامہ آدم علیہ السلام میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک چشمہ کوہ قاف کے نیچے پیدا کیا ہے اور اس مقام میں نہایت اندھیرا ہے اور اس چشمہ کا پانی دودھ سے سفید اور برف سے زیادہ سرد اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور مشک سے زیادہ خوشبو دار ہے۔ جو کوئی اس کا پانی نوش کرے حیات ابدی سے سرفراز ہو اور موت اس کو نہ آوے جب تک وہ خود موت کی خواہش نہ کرے۔ ذوالقرنین نے کہا تم لوگ میرے ہمراہ چلو۔ بولے ہم زمین کے قطب ہیں۔ اگر یہاں   سے حرکت کریں تو آفت برپا ہو گی۔ ذوالقرنین نے کہا تب بھی کچھ نہ کچھ لوگ میرے ہمراہ چلو۔ چنانچہ چند عالم و حکیم ساتھ ہوئے اور خضر علیہ السلام کہ پیغمبر تھے ، مقدمہ لشکر قرار دیئے گئے۔ اور جواہر شب افروز کے باعث اندھیرے سے راحت ملے حضرت خضر علیہ السلام کے تفویض کئے گئے اور ذوالقرنین نے تاج و تخت ایک مرد صاحب تقویٰ کے سپرد کیا اور وصاء فرمائے اور بارہ برس کی میعاد واسطے آمد و رفت کے مقرر کی اور روانہ ہوئے جب جبل قاف سے گزرا تو راہ بھول گیا۔ اور ایک برس تک پھرتا رہا۔ اور مقدمہ لشکر کہ خضر علیہ السلام تھے ظلمات میں جا پڑے چونکہ جواہر مضیہ ان کے ہاتھ میں تھے سو انہوں نے اسی کو روشنی میں اس راہ کو طے کیا اور چشمۂ حیات پایا۔ اس میں نہائے اور پانی پی کر شکر ادا کیا اور آگے بڑھے تو لشکر ذوالقرنین پریشاں و سر گرداں نظر آیا۔ بعض لوگوں نے حضرت خضرؑ کو پہچانا اور حال اپنا بیان کیا۔ آنجناب نے بھی جو کچھ گزرا تھا کہہ دیا۔ پھر ذوالقرنین سے ملاقات ہوئی۔ اس کو سمجھایا کہ تیری قسمت میں آب حیات نہیں ہے ناحق سرگرداں ہے۔

بالجملہ بعد ان سب معاملات کے ذوالقرنین عبادت حق میں مشغول ہو ا۔ یہاں تک کہ وفات پائی۔ اس کی مدت سلطنت میں اختلاف ہے۔ بعض ۱۴۰ برس بتاتے ہیں اور بعض ۶۰۰ برس اور عمر کا حال تحقیق معلوم نہیں۔

 

                کیا ذوالقرنین نبی تھے ؟

 

معارف القرآن جلد نمبر۵، صفحہ نمبر ۶۲۷

از : حضرت مولانا محمد شفیع صاحبؒ

ذوالقرنین کا پہلا سفر : (خلاصۂ تفسیر )

آپ سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں (اس پوچھنے کی وجہ یہ لکھی ہے کہ ان کی تاریخ قریب قریب گم تھی اوراسی لئے اس قصہ کے جو امور قرآن میں مذکور نہیں کہ وہ اصل قصہ سے زائد تھے ، ان امور کے متعلق آج تک اہل تاریخ میں اختلاف شدید پائے جاتے ہیں ، اسی وجہ سے قریش مکہ نے بمشورہ یہودِ مدینہ اس قصہ کا سوال کے لئے انتخاب کیا تھا۔ اس لئے اس قصہ کی تفصیلات جو قرآن میں مذکور ہیں وہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کی واضح دلیل ہے۔ )

آپ ؐ فرما دیجئے کہ میں اس کا ذکر ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں (آگے حق تعالیٰ کی طرف سے اس کی حکایت شروع ہوئی کہ ذوالقرنین ایک ایسے جلیل القدر بادشاہ گذرے ہیں کہ ہم نے ان کو روئے زمین پر حکومت دی تھی اور ہم نے انکو ہر قسم کاسامان (کافی ) دیا تھا جس سے وہ اپنے شاہی منصوبوں کو پورا کر سکیں ) چنانچہ وہ (با ارادۂ ملک ِ مغرب ) ایک راہ پر ہو لئے (اور سفر شروع کیا ) یہاں تک کہ جب ( سفر کرتے کرتے درمیانی شہروں کو فتح کرتے ہوئے )غروب آفتاب کے موقع (یعنی جانب مغرب میں انتہائی آبادی ) پر پہنچے تو آفتاب ان کو ایک سیاہ پانی میں ڈوبتا ہوا دکھائی دیا (مراد اس سے غالباً سمندر ہے کہ اس کا پانی اکثر جگہ سیاہ نظر آتا ہے ) اور اگرچہ آفتاب حقیقتاً سمندر میں غروب نہیں ہوتا مگر سمندر سے آگے نگاہ نہ جاتی ہو تو سمندر ہی میں ڈوبتا ہوا معلوم ہو گا۔ اس موقع پر انہوں نے ایک قوم دیکھی ( جن کے کافر ہونے پر اگلی آیت ’’اِنَّا مِنْ ظَلَم ‘‘ دلالت کرتی ہے ) ہم نے (بصورت الہام یا اس زمانے کے پیغمبر کے واسطے سے ) یہ کہا کہ اے ذوالقرنین (اس قوم کے بارے میں دو اختیار ہیں ) خواہ ( ان کو ابتدا ہی سے قتل وغیرہ کے ذریعے )سزا دو، خواہ ان کے بارے میں نرمی کا معاملہ اختیار کرو (یعنی ان کو ایمان کی دعوت دو پھر نہ مانیں تو قتل کر دو، بغیر تبلیغ و دعوت کے ابتداءً ہی قتل کا اختیار شاید اس لئے دیا گیا ہو کہ ان کو اس سے پہلے کسی ذریعہ سے دعوت ایمان پہنچ چکی ہو گی۔ لیکن دوسری صورت یعنی پہلے دعوت پھر قتل کا بہتر ہونا اشارہ سے بیان کر دیا کہ اس دوسری صورت اختیار کر کے پہلے ان کو دعوت ایمان دوں گا ) لیکن (دعوت ایمان کے بعد ) جو ظالم (یعنی کافر ) رہے گا سو اس کو تو ہم لوگ (قتل وغیرہ کی ) سزا دیں گے ( اور یہ سزا تو دنیا ہی میں ہو گی ) پھر وہ (مرنے کے بعد ) اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچا دیا جائے گا پھر وہ اس کو (دوزخ کی )سخت سزا د ے گا اور جو شخص (دعوت ایمان کے بعد ) ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا اس کے لئے (آخرت میں بھی ) بدلے میں بھلائی ملے گی اور ہم بھی (دنیا میں ) اپنے برتاؤ میں اس کو آسان (اور نرم ) بات کہیں گے (یعنی ان پر کوئی عملی سختی تو کیا کی جاتی زبانی اور قولی کوئی سختی نہیں کی جائے گی۔ )

معارف وسائل :

یَسْئَلُوْنَکَ (یعنی وہ لوگ آپ ؐ سوال کرتے ہیں ) یہ لوگ سوال کرنے والے کون ہیں۔ روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قریش مکہ تھے ، جن کو یہودیوں نے رسول ﷺ کی نبوت اور حقانیت کا امتحان کرنے کے لئے تین سوال بتلائے تھے ، روح کے متعلق اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں یہ تیسرا سوال ہے کہ ذوالقرنین کون تھا اور اس کو کیا حالات پیش آئے (بحر محیط )

ذوالقرنین کون تھے ؟ کس زمانے اور کس ملک میں تھے ؟ اور ان کو ذوالقرنین کہنے کہ وجہ ؟

ذوالقرنین کا نام ذوالقرنین کیوں ہوا اس کی وجہ میں بے شمار اقوال اور سخت اختلافات ہیں۔ بعض نے کہا کہ دو زلفیں تھیں ، اس لئے ذوالقرنین کہلائے ، بعض نے کہا کہ مشرق و مغرب کے ممالک پر حکمراں ہوئے اس لئے ذوالقرنین نام رکھا گیا، کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے سر پر کچھ ایسے نشانات تھے جیسے سینگ کے ہوتے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ ان کے سر پر دونوں جانب چوٹ کے نشانات تھے اس لئے ذوالقرنین کہا گیا، واللہ اعلم، مگر اتنی بات متعین ہے کہ قرآن نے ان کا نام ذوالقرنین نہیں رکھا، بلکہ یہ نام یہود نے بتلایا ان کے یہاں اس نام سے ان کی شہرت ہو گی، واقعہ ذوالقرنین کا جتنا حصہ قرآن کریم ن بتلایا ہے وہ صرف اتنا ہے۔

’’ وہ ایک صالح بادشاہ تھے جو مشرق و مغرب میں پہنچے اور ان کے ممالک کو فتح کیا اور ان میں عدل و انصاف کی حکمرانی کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ہر طرح کے سامان اپنے مقاصد پورا کرنے کے لئے عطا کر دیئے گئے تھے انہوں نے فتوحات کرتے ہوئے تین اطراف میں سفر کئے، مغرب اقصیٰ تک اور مشرق اقصیٰ تک، پھر جانب شمال میں کوہستانی سلسلے تک، اسی جگہ انہوں نے دو پہاڑوں کے درمیانی درے کو ایک عظیم الشان آہنی دیوار کے ذریعے بند کر دیا جس سے یاجوج ماجوج کی تاخت و تاراج سے اس علاقہ کے لوگ محفوظ ہو گئے۔ ‘‘

یہود نے جو سوال رسول ﷺ کی حقانیت اور نبوت کا امتحان کرنے کے لئے کیا تھا وہ اس جواب سے مطمئن ہو گئے۔ انہوں نے مزید سوالات نہیں کئے ، کہ ان کا نام ذوالقرنین کیوں تھا، یہ کس ملک میں اور کس زمانے میں تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالات کو خود یہود نے بھی غیر ضروری اور فضول سمجھا، اور یہ ظاہر ہے کہ قرآن کریم تاریخ و قصص کا صرف اتنا حصہ ذکر کرتا ہے جس سے کوئی فائدہ دین یا دنیا کا متعلق ہو، یا جس پر کسی ضروری چیز کا سمجھنا موقوف ہو۔ اس لئے نہ قرآن نے ان چیزوں کو بتلایا اور نہ کسی صحیح حدیث میں ا س کی یہ تفصیلات بیان کی گئیں اور نہ قرآن مجید کی کسی آیت کا سمجھنا ان چیزوں کے علم پر موقوف ہے۔ اسی لئے سلف صالحین، صحابہ و تابعین نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

اب معاملہ صرف تاریخی روایات کا یا موجودہ تورات او انجیل کا رہ گیا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ موجودہ تورات و انجیل کو بھی مسلسل تحریفات نے ایک آسمانی کتاب میں نہیں چھوڑا ان کا مقام بھی اب زیادہ سے زیادہ ایک تاریخ ہی کا ہو سکتا ہے اور زمانہ قدیم کی تاریخی روایات زیادہ تر اسرائیلی قصوں کہانیوں سے ہی پُر ہیں۔ جن کی نہ کوئی سند ہے نہ وہ کسی زمانے کے عقلا و حکما کے نزدیک قابل اعتماد پائی گئی ہیں۔ حضرات مفسرین نے بھی اس معاملے میں جو کچھ لکھا وہ سب انہی تاریخی روایات کا مجموعہ ہے اسی لئے ان میں اختلاف بے شمار ہیں ، اہل یورپ نے اس زمانے میں تاریخ کو بڑی اہمیت دی، اس پر تحقیق و تفتیش میں بلا شبہ بڑی محنت و کاوش سے کام لیا۔ آثار قدیمہ کی کھدائی اور وہاں کے کتبات وغیرہ کو جمع کر کے ان کے ذریعے قدیم کی حقیقت تک پہنچنے میں وہ کام انجام دیئے اس سے پہلے زمانہ میں نظر نہیں آتے ، لیکن آثار قدیمہ اور ان کے کتبات سے کسی واقعہ کی تائید میں مدد تو مل سکتی ہے مگر خود ان سے کوئی واقعہ پورا نہیں پڑھا جا سکتا۔ اس کے لئے تو تاریخی روایات ہی بنیاد بن گئی ہیں اور ان معاملات میں زمانہ قدیم کی تاریخی روایات کا حال بھی معلوم ہو چکا ہے ، کہ ایک کہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں ، قدیم و جدید علمأ تفسیر نے بھی اپنی کتابوں میں یہ روایات ایک تاریخی حیثیت ہی سے نقل کی ہیں ، جن کی صحت پر کوئی قرآنی مقصد موقوف نہیں ، یہاں بھی اسی حیثیت سے بقدر ضرورت لکھا جاتا ہے ، اس واقعہ کی پوری تفتیش و تحقیق مولانا حفظ الرحمٰن صاحبؒ نے اپنی کتاب قصص القرآن میں لکھی ہے ، تاریخی ذوق رکھنے والے حضرات اس کو دیکھ سکتے ہیں ( مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ کی تحقیق بھی انشا اللہ اگلے صفحات پر پیش کی جا رہی ہے۔ مولف )

بعض روایات میں ہے کہ پوری دنیا پر سلطنت و حکومت کرنے والے چار بادشاہ ہوئے ہیں۔ دو مومن اور دو کافر۔ مومن بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ذوالقرنین ہیں۔ اور کافر نمرود اور بخت نصر ہیں۔

ذوالقرنین کے معاملہ میں عجیب اتفاق ہے کہ اس نام سے دنیا میں متعدد آدمی مشہور ہوئے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہر زمانہ کے ذوالقرنین کے ساتھ لقب سکندر بھی شامل ہے۔

حضرت مسیح علیہ السلام سے تین سو سال پہلے ایک بادشاہ سکندر کے نام سے معروف و مشہور ہے۔ جس کو سکندر یونانی، مقدونی، رومی وغیرہ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے جس کا وزیر ارسطو تھا۔ اور جس کی جنگ دارا سے ہوئی اور اسے قتل کر کے اس کا ملک فتح کیا۔ سکندر کے نام سے دنیا میں معروف ہونے والا آخری شخص یہی تھا۔ اس کے قصے دنیا میں زیادہ مشہور ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کو بھی قرآن میں مذکور ذوالقرنین کہہ دیا۔ یہ سراسر غلط ہے ، کیونکہ یہ شخص آتش پرست مشرک تھا۔ قرآن کریم نے جس ذوالقرنین کا ذکر کیا ہے ، ان کے نبی ہونے میں تو علماء کا اختلاف ہے ، مگر مومن صالح ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور خود قرآن کی نصوص اس پر شاہد ہیں۔

حافظ ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں بحوالہ عساکر اس کا پورا نسب نامہ لکھا ہے جو اوپر جا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملتا ہے اور فرمایا کہ یہی وہ سکندر ہے جو یونانی مصری مقدونی کے ناموں سے معروف ہے جس نے اپنے نام پر اسکندریا آباد کیا اور روم کی تاریخ اسی کے زمانے سے چلتی ہے اور یہ سکندر ذوالقرنین اول سے ایک طویل زمانے کے بعد ہوا ہے۔ جو دو ہزار سال سے زائد بتلایا جاتا ہے۔ اسی نے دارا کو قتل کیا اور شاہان فارس کو مغلوب کر کے ان کا ملک فتح کیا، مگر یہ شخص مشرک تھا اس کو قرآن میں مذکور ذوالقرنین قرار دینا سراسر غلطی ہے۔

حدیث و تاریخ کے امام ابن کثیر کی اس تحقیق سے ایک تو یہ مغالطہ رفع ہوا کہ یہ اسکندر جو حضرت مسیح علیہ السلام سے تین سو سال پہلے گذرا ہے اور جس کی جنگ دارا اور ملوک فارس سے ہوئی اور بانی اسکندریہ ہے ، یہ وہ ذوالقرنین نہیں جس کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے ، یہ مغالطہ بعض اکابر مفسرین کو بھی لگا ہے۔ ابو حیان نے بحر محیط میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اسی کو ذوالقرنین مذکور فی القرآن کہہ دیا ہے۔

دوسری بات وَ اِنَّہ کَا نَ نبِیًّا کے جملے سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابن کثیر کے نزدیک ان کا نبی ہونا راجح ہے ، اگر جمہور کے نزدیک راجح وہ قول ہے جو خود ابن کثیر نے بروایت ابی الطفیل حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیا ہے کہ نہ وہ نبی تھے نہ فرشتہ بلکہ ایک نیک صالح مسلمان تھے اسی لئے بعض علماء نے یہ توجیہہ کی کہ اِنَّہ کَانَ کی ضمیر ذوالقرنین کی طرف نہیں خضر علیہ السلام کی طرف راجح ہے۔ (و ہوالاقرب)

اب مسئلہ یہ رہتا ہے کہ پھر وہ ذوالقرنین جن کا ذکر قرآن میں ہے کون ہیں اور کس زمانے میں ہوئے ہیں۔ اس کے متعلق بھی علماء کے اقوال بہت مختلف ہیں۔ ابن کثیر کے نزدیک ان کا زمانہ اسکندر یونانی مقدونی سے دو ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰہ و السلام کا زمانہ ہے اور ان کے وزیر حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں سلف صالحین سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ذوالقرنین پیادہ پا حج کے لئے پہنچے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے آنے کا علم ہوا تو مکہ سے باہر نکل کر استقبال یا اور حضرت خلیل علیہ السلام نے ان کے لئے دعا بھی کی اور کچھ وصیتیں اور نصیحتیں بھی ان کو فرمائیں۔ (البدایہ ص ج ۲۰ ) اور تفسیر ابن کثیر میں بحوالۂ اذرقی نقل کیا ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ طواف، پھر قربانی دی۔

ابو ریحان بیرونی نے اپنی کتاب ’’ الآثار الباقیہ عن القرون الخالیۃ ‘‘ میں کیا ہے کہ یہ ذوالقرنین جن کا ذکر قرآن میں ہے ابو بکر بن سمّی بن عمر بن افریقس حمیری ہے جس نے زمین کے مشارق و مغارب کو فتح کیا اور تبّع حمیری یمنی نے اپنے اشعار میں اس پر فخر کیا ہے کہ میرے دادا ذوالقرنین مسلمان تھے۔ ان کے اشعار یہ ہیں    ؎

قد کان ذوالقرنین جد مسلماً

بَلخ الْمشَارِقَ وَالمغَارِبَ یَبْغِیْ

ملکاّعلافی الارض غیر مبعَّہ

اَسْبَابَ مّلْک مَنْ کَرِیْمر سَیِّدِ

یہ روایت بحر محیط میں ابو حیان نے نقل کی ہے۔ ابن کثیر نے بھی البدایہ والنہایہ میں اس کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ ذوالقرنین تَبابعۂ یمن میں سب سے پہلا تبّع ہے اور یہی وہ شخص ہے جس نے بیر سبع کے بارے میں حضرت ابراہیمؑ کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ (البدایہ ص ۱۰۵ ج ۲ ) ان تمام روایات میں ان کی شخصیت اور نام و نسب کے بارے میں اختلاف ہونے کے باوجود ان کا زمانہ حضرت ابراہیمؑ کا زمانہ بتلایا گیا ہے۔

اور مولانا حفظ الرحمٰن صاحبؒ نے اپنی کتاب قصص القرآن میں جو ذوالقرنین کے متعلق بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ذوالقرنین مذکور فی القرآن فارس کا وہ بادشاہ ہے جس کو یہودی خورس، یونانی سائرس، فارسی گورش اور عرب کیخسرو کہتے ہیں جس کا زمانہ ابراہیمؑ سے بہت پہلے بعد انبیا بنی اسرائیل میں سے دانیالؑ کا زمانہ بتلایا گیا ہے۔ جو سکندر مقدونی قاتل دارا کے زمانے کے قریب قریب ہو جاتا ہے ، مگر مولانا موصوف نے بھی ابن کثیر وغیرہ کی طرح اس کا شدت سے انکار یا ہے کہ ذوالقرنین وہ سکندر مقدونی جس کا وزیر ارسطو تھا وہ نہیں ہوسکتا۔ وہ مشرک و آتش پرست تھا، یہ مومن صالح تھے۔

مولانا موصوف کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی سورہ بنی اسرائیل میں جو دو مرتبہ بنی اسرائیل شر و فساد میں مبتلا ہونے اور دونوں مرتبہ سزا کا ذکر تفصیل سے آیا ہے اس میں بنی اسرائیل کے پہلے فساد کے موقع پر جو قرآن کریم نے فرمایا ہے بَفَتْنَا عَلَیکُم عِبَاداًلّنَا اوْبیٔ باَسٍ شَدِیْدٍ فَجَا سُو خِلٰلَ الدّیَارِ (یعنی تمہارے فساد کی سزا میں ہم مسلط کر دیں گے تم پر اپنے کچھ ایسے بندے جو بڑی قوت و شوکت والے ہوں گے۔ وہ تمہارے گھروں میں گھس پڑیں گے ) اس میں یہ قوت و شوکت والے لوگ بخت نصر اور اعوان ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں چالیس ہزار اور بعض روایات میں ستر ہزار بنی اسرائیل کو قتل کیا، اور ایک لاکھ سے زیادہ بنی اسرائیل کو قید کر کے بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکار بابل لے گیا اور اس کے بعد جو قرآن کریم نے فرمایا ’’ ثّمَّ رَدَدْنَا لَکُم الکرَّۃَ عَلَیْھِمْ ‘‘ (یعنی ہم نے پھر لوٹا دیا تمہارے غلبہ کو ان پر ) یہ واقعہ اسی کیخسرو خورس بادشاہ کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوا۔ یہ مومن صالح تھا۔ اس نے بخت نصر کا مقابلہ کر کے اس کے قیدی بنی اسرائیل کو اس کے قبضہ سے نکالا اور دوبارہ فلسطین میں آباد کیا۔ بیت المقدس کو جو ویران کر دیا تھا، اس کو بھی دوبارہ آباد کیا، اور بیت المقدس کے کے خزائن اور اہم سامان جو بخت نصر یہاں سے لے گیا تھا وہ سب واپس بنی اسرائیل کے قبضہ میں دیئے ، اس لئے یہ شخص بنی اسرائیل (یہود ) کا نجات دہندہ ثابت ہوا۔

یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہود مدینہ نے جو امتحان نبوت کے لئے قریش مکہ کے واسطے سوالات متعین کئے ان میں ذوالقرنین کے سوال کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ یہود اس کو اپنا نجات دہندہ مان کر اس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔

مولانا حفظ الرحمٰن صاحبؒ نے اپنی اس تحقیق پر موجودہ تورات کے حوالہ سے انبیأ بنی اسرائیل کی پیش گوئیوں سے پھر تاریخی روایات سے اس پر کافی شواہد پیش کئے ہیں۔ جو صاحب مزید تحقیق کے درپے ہوں وہ اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں ، میرا مقصد ان تمام روایات کے نقل کرنے کا صرف اتنا تھا کہ ذوالقرنین کی شخصیت اور ان کے زمانے کے بارے میں علماء امت اور ائمہ تاریخ و تفسیر کے اقوال سامنے آ جائیں۔ ان میں سے راجح کس کا قول ہے یہ میرے مقصد کا جز نہیں ، کیونکہ جن امور کا نہ قرآن نے دعویٰ کیا نہ حدیث نے ان کو بیان کیا، ان کے معین و مبین کرنے کی ذمہ داری بھی ہم پر نہیں۔ اور ان میں جو قول بھی راجح اور صحیح قرار پائے مقصد قرآنی ہر حال میں حاصل ہے ، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ آگے آیات کی تفسیر دیکھئے :

’’ قل ساتلو علیکم منہ ذکرا ‘‘ اس میں یہ قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ ذکرہ کا مختصر لفظ چھوڑ کر منہ ذکرا کے دو کلمے کیوں اختیار کئے۔ غور کیجئے تو ان دو کلموں میں اشارہ اس طرف کیا گیا ہے کہ قرآن نے ذوالقرنین ا پورا قصہ اور اس کی تاریخ ذکر کرنے کا وعدہ نہیں کیا، بلکہ اس کے ذکر کا ایک حصہ بیان کرنے کے لئے فرمایا جس پر حرف مِن اور ذکراً کی تنوین بقواعد عربیت شاہد ہے۔ اوپر جو تاریخ بحث ذوالقرنین کے نام و نسب اور زمانے وغیرہ کی لکھی گئی ہے قرآن کریم نے اس کو غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دینے کا پہلے ہی اظہار فرما دیا ہے۔

وآتینہ من کل شی سببا لفظ سبب عربی لغت میں ہر اس چیز کے لئے بولا جاتا ہے جس سے اپنے مقصد حاصل کرنے میں مدد لی جاتی ہے۔ جس میں آلات و وسائل مادیہ بھی شامل ہیں اور علم و بصیرت و تجربہ بھی (بحر محیط) اور من کل شی سے مراد وہ تمام امور ہیں جن کی ضرورت نظام سلطنت کے لئے ایک بادشاہ اور حکمراں کو پیش آتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کو اپنی عدل گستری اور امن عالم کے قیام اور فتوحات ممالک کے لئے جس جس سامان کی ضرورت اس زمانے میں تھی وہ سب کے سب ان کو عطا کر دیئے گئے تھے۔

فاتبع سببا مراد یہ ہے کہ سامان تو ہر قسم کے اور دنیا کے ہر خطے میں پہنچنے کے ان کو دے دیئے گئے تھے انہوں   نے سب سے پہلے جانب مغرب سفر کے سامان سے کام لیا۔

حتی اذا بلغ مغرب الشمس مراد یہ ہے کہ جانب مغرب میں اس حد تک پہنچ گئے جس سے آگے کوئی آبادی نہیں تھی۔

فی عین حمۃ لفظ حمۃ کے لغوی معنی سیاہ دلدل یا کیچڑ کے ہیں ، مراد اس سے وہ پانی ہے جس کے نیچے سیاہ کیچڑ ہو جس سے پانی کا رنگ بھی سیاہ دکھائی دیتا ہو۔ اور آفتاب کو ایسے چشمے میں ڈوبتے ہوئے دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والے کو یہ محسوس ہو تا تھا کہ آفتاب اس چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ آگے آبادی یا کوئی خشکی سامنے نہیں تھی، جیسے آپ سی ایسے میدان میں غروب کے وقت ہوں   جہاں دور تک جانب مغرب میں کوئی پہاڑ، درخت عمارت نہ ہو تو دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آفتاب زمین کے اندر گھس رہا ہے۔

دو جد عندھا قوما یعنی اس سیاہ چشمے کے پاس ذوالقرنین نے ایک قوم کو پایا۔ آیت کے اگلے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم کافر تھی اس لئے اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو اختیار دے دیا کہ آپ چاہیں تو سب کو پہلے ان کے کفر کی سزا دیں اور چاہیں تو ان سے احسان کا معاملہ کریں ، کہ پہلے دعوت و تبلیغ اور وعظ و پند سے ان کو اسلام و ایمان قبول کرنے پر آمادہ کریں۔ پھر ماننے والوں کو اس کی جزاء اور نہ ماننے والوں کو سزا دیں۔ جس کے جواب میں ذوالقرنین نے دوسری ہی صورت کو تجویز کیا، کہ اول ان کو وعظ و نصیحت سے صراط مستقیم پر لانے کی کوشش کریں گے ، پھر جو کفر پر قائم رہے ان و سزا دیں گے ، اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو اس کو اچھا بدلہ دیں گے۔

قلنا یا ذوالقرنین اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین کو حق تعالیٰ نے خود خطاب کر کے یہ ارشاد فرمایا ہے اگر ذوالقرنین کو نبی قرار دیا جائے تب تو اس میں کوئی اشکال ہی نہیں کہ بذریعہ وحی ان سے کہہ دیا گیا اور اگر ان کی نبوت تسلیم نہ کی جائے تو پھر قلنا اور یا ذوالقرنین کے خطاب کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کسی پیغمبر کے واسطہ سے یہ خطاب ذوالقرنین کو کیا گیا ہے۔ جیسا کہ روایات میں حضرت خضرؑ کا ان کے ساتھ ہونا مذکور ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ وحی نبوت و رسالت نہ ہو۔ ایسی لغوی وحی ہو جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے لئے قرآن میں دَادَ حَیْناَ کے الفاظ آئے ہیں ، حالانکہ ان کے نبی یا رسول ہونے کا کوئی احتمال نہیں مگر ابو حیان نے بحر محیط میں فرمایا کہ ذوالقرنین کو جو یہاں حکم دیا گیا ہے وہ اس قوم کے قتل و سزا کا حکم ہے اس طرح کا کوئی حکم بغیر وحی نبوت کے نہیں دیا جا سکتا۔ یہ کام نہ کشف و الہام سے ہوسکتا نہ بغیر وحی نبوت کے کسی اور ذریعہ سے۔ اس لئے اس کے سوا کوئی احتمال صحیح نہیں کہ یا تو ذوالقرنین کو خود نبی مانا جائے یا پھر کوئی نبی ان کے زمانے میں موجود ہوں ان کے ذریعے ان کو خطاب ہوتا ہو۔ واللہ اعلم۔

ذوالقرنین نے مشرق کی جانب جو آبادی پائی اس کا یہ حال تو قرآن کریم نے ذکر فرمایا کہ وہ دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی سامان، مکان خیمہ، لباس وغیرہ کے لئے نہ کرتے تھے لیکن ان کے مذہب و اعمال کا کوئی ذکر نہیں فرمایا، اور نہ یہ کہ ذوالقرنین نے ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو مغربی قوم کے ساتھ اوپر مذکور ہو چکا ہے۔ مگر اس کے بیان کرنے کی یہاں اس لئے ضرورت نہیں سمجھی کہ پچھلے واقعہ پر قیاس کر کے اس کا بھی علم ہوسکتا ہے (کذافی بحر المحیط عن ابن عطیہ )

پھر وہ (مغرب و مشرق فتح کر کے ) ایک اور راہ پر ہو لئے (قرآن میں اس سمت کا نام نہیں لیا مگر آبادی زیادہ جانب شمال ہی ہے اس لئے مفسرین نے اس سفر کو شمالی ممالک کا سفر قرار دیا تاریخی شہادتیں بھی اس کی موئد ہیں ) یہاں تک کہ جب ایسے مقام پر جو دو پہاڑوں کے درمیان تھا پہنچے تو ان پہاڑوں سے اس طرف ایک قوم کو دیکھا جو (زبان اور لغت سے ناواقف وحشیانہ زندگی کی وجہ سے ) کوئی بات سمجھنے کے قریب بھی نہیں پہنچے تھے (ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف زبان سے ناواقفیت نہ تھی بلکہ سمجھ بوجھ ہو تو غیر زبان والے کی باتیں بھی کچھ اشارے کنارے سے سمجھی جا سکتی ہیں ، بلکہ وحشیانہ زندگی نے سمجھ بوجھ سے بھی دور رکھا تھا مگر پھر شاید کسی ترجمان کے واسطے سے )انہوں نے عرض کیا اے ذوالقرنین ! قوم یاجوج و ماجوج ( جو اس گھاٹی کے اس طرف رہتے ہیں ہماری ) اس سرزمین میں (کبھی کبھی آ کر ) بڑا فساد مچاتے ہیں (یعنی قتل و غارت گری کرتے ہیں اور ہم میں ان کے مقابلے کی طاقت نہیں ) سو کیا ہم لوگ آپ لئے چندہ جمع کر کے کچھ رقم جمع کر دیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی روک بنا دیں   (کہ وہ اس طرف نہ آنے پائیں ) ذوالقرنین نے جواب دیا کہ جس مال میں میرے رب نے مجھ کو (تصرف کرنے کا ) اختیار دیا ہے وہ بہت کچھ ہے (اس لئے چندہ جمع کرنے اور مال دینے کی ضرورت نہیں ، البتہ ہاتھ پاؤں کی طاقت (یعنی محنت مزدوری ) سے میری مدد کرو تو میں تمہارے اور ان کے درمیان خوب مضبوط دیوار بنا دوں گا، تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ (قیمت ہم دیں گے ) ظاہر یہ ہے کہ اس آہنی دیوا ر بنانے کے لئے اور بھی ضرورت کی چیزیں منگوانی ہوں گی، مگر یہاں وحشی ملک میں سب سے زیادہ کم یاب چیز لوہے کی چادریں تھیں ، اس لئے ان کے ذکر کرنے پر اکتفا کیا گیا، سب سامان جمع ہو جانے پر دونوں پہاڑوں   کے درمیان آہنی دیوار کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا، یہاں تک کہ جب ( اس دیوار کے درے ملاتے ملاتے ) ان (دونوں پہاڑوں ) کے دونوں سروان کے بیچ ( کے خلا) کو (پہاڑوں کے ) برابر کر دیا تو حکم دیا کہ دھونکو (دھونکنا شروع ہو گیا ) یہاں تک کہ جب (دھونکتے دھونکتے ) اس کو لال انگارہ کر دیا تو حکم دیا کہ اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبہ لایا گیا اور آلات کے ذریعے اوپر سے چھوڑ دیا گیا کہ دیوار کے تمام دروازوں میں گھس کر پوری دیوار ایک ذات ہو جائے اس کا طول و عرض خدا کو معلوم ہے ) تو ( اس کی بلندی اور چناہٹ کے سبب نہ تو یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ سکتے ہیں اور نہ اس میں (غایت استحکام کے سبب کوئی نقب لگا سکتے تھے ، ذوالقرنین نے ( جب اس دیوار کو تیار دیکھا جس کا تیار ہونا کوئی آسان کام نہ تھا تو بطور شکر کے ) یہ میرے رب کی ایک رحمت ہے (مجھ پر بھی کہ میرے ہاتھوں یہ کام ہو گیا اور اس قوم کے لئے بھی جن کو یاجوج و ماجوج ستاتے تھے ) پھر جس وقت رب کا وعدہ آئے گا (یعنی اس ی فنا کا وقت آئے گا ) تو اس کو ڈھا کر (زمین کے ) برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے (اپنے وقت پر ضرور واقع ہوتا ہے )

 

                یاجوج و ماجوج کے متعلق احادیث کا خلاصہ

 

۱)۔ یاجوج و ماجو عام انسانوں کی طرح انسان حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ جمہور محدثین و مورخین ان کو یافث بن نوحؑ کی اولاد قرار دیتے ہیں ، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یافث ابن نوح کی اولاد نوح علیہ السلام کے زمانے سے ذوالقرنین کے زمانے سے دور دور تک مختلف قبائل اور مختلف قوموں اور مختلف آبادیوں میں پھیل چکی تھی۔ یاجوج و ماجوج جن قوموں کا نام ہے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب سد ذوالقرنین کے پیچھے ہی محصور ہو گئے ہوں ، ان کے کچھ قبائل اور قومیں سد ذوالقرنین کے اس طرف بھی ہوں گے ، البتہ ان میں سے جو قتل و غارت گری کرنے والے وحشی لوگ تھے وہ سد ذوالقرنین کے ذریعے رو دیئے گئے …مورخین عام طور سے ان و ترک یا مغول یا منگولین لکھتے ہیں مگر ان میں سے یاجوج ماجوج نام … صرف ان وحشی غیر متمدن خونخوار ظالم لوگوں کا ہے جو تمدن سے آشنا نہیں ہوئے ، انہی کی برادری کے مغل اور ترک یا منگولین متمدن ہو گئے وہ اس نام سے خارج ہیں۔

۲)۔ یاجوج ماجوج کی تعداد پوری دنیا کے انسانوں کی تعداد سے بدرجہا زائد کم از کم ایک اور دس کی نسبت سے ہے۔

۳)۔ یاجوج ماجوج کی جو قومیں اور قبائل سد ذوالقرنین کے ذریعے اس طرف آنے سے روک دیئے گئے ہیں ہو قیامت کے بالکل قریب تک اسی طرح محصور رہیں گے ، ان کے نکلنے کا وقت مقدر ظہور مہدی علیہ السلام پھر خروج دجال کے بعد وہ ہو گا جبکہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو کر دجال کو قتل کر چکیں گے۔

۴)۔ یاجوج ماجوج کے نکلنے کے وقت سد ذوالقرنین منہدم ہو کر زمین کے برابر ہو جائے گی (آیات قرآن )اس وقت یہ یاجوج ماجوج کی بے پناہ قومیں بیک وقت پہاڑوں کی بلندیوں سے اترتی ہوئی سرعت رفتار کے سبب ایسی معلوم ہوں گی گویا یہ پھسل پھسل کر گر رہے ہیں اور یہ لاتعداد وحشی انسان عام انسانی آبادی اور پوری زمین پر ٹوٹ پڑیں گے اور ان کے قتل غارت گری کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا، اللہ رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی با مر الٰہی اپنے ساتھ مسلمان ساتھی کو لے کر کوئی طور پر پناہ لیں گے اور عام دنیا کی آبادیوں میں جہاں کچھ قلعے یا محفوظ مقامات ہیں وہ ان میں بند ہو کر اپنی جانیں بچائیں گے ، کھانے پینے کا سامان ختم ہو جانے کے بعد ضروریات زندگی انتہائی گراں ہو جائے گی باقی انسانی آبادی کو یہ وحشی قومیں ختم کر ڈالیں گی ان کے دریاؤں کو چاٹ جائیں گی۔

۵)۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کی دعا سے پھر ٹڈی دل قسم کی بے شمار قومیں بیک وقت ہلاک کر دی جائیں گی۔ ان کی لاشوں سے ساری زمین پٹ جائے گی۔ ان کی بد بو کی وجہ سے زمین پر بسنا مشکل ہو جائے گا۔

۶)۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء ہی کی دعا سے ان کی لاشیں دریا بُرد یا غائب کر دی جائیں گی اور عالم گیر بارش کے ذریعے پوری زمین کو دھوکر پاک صاف کر دیا جائے گا۔

۷)۔ اس کے بعد تقریباً چالیس سال امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔ زمین اپنی پوری برکات اگل دے گی، کوئی مفلس محتاج نہ رہے گا کوئی کسی کو نہ ستائے گا، سکون و اطمینان آرام و راحت عام ہو گی۔

 

                ذوالقرنین کے سر پر تانبے کی دو سینگیں تھیں

 

تفسیر میں اسرائیلی روایات

از : مولانا نظام الدین اسیردروی

وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنْ ذِی الْقَرِنَیْنِ قُلْ سَاَ تْلُوْ عَلَیْکُمْ مِّنْہُ ذِکْراً اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فیِ الْارْضِ وَ اٰتَیْنَا ہُ کُلِّ شَیِْ سَبَبً فاً تْبَعَ سَبَبا۔

قرآن میں ایک شخص کا ذکر کیا گیا ہے جسے ذوالقرنین کہا گیا ہے جو اس کا عالم بلکہ اسم صفت یا لقب معلوم ہوتا ہے۔ اس کا اصلی نام کیا ہے ، قرآن میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ اکثر علماء نے اس کا نام سکندر بتایا ہے۔ تاریخ میں ا س نام کا ایک بادشاہ اور گزرا ہے اس لئے دونوں شخصیتوں کے کارناموں میں اکثر یہ دھوکہ ہوا ہے کہ ایک سکندر کے کارنامے کو دوسرے سکندر کا کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ ذوالقرنین کون تھے ؟ ان کا زمانہ کون سا ہے ؟ ان کو ذوالقرنین کیوں کیا گیا ؟ ان امور میں مفسرنین کی رائیں بہت مختلف ہیں۔

روایات: ابن جریر نے اپنی تفسیر میں وہب بن منبہ کی روایت لکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذوالقرنین روم کے ایک شخص کا نام ہے۔ وہ شہر کی ایک بوڑھی عورت کا اکلوتا لڑکا تھا۔ اس عورت کے اور دوسرے لڑکے نہیں تھے۔ اس کا نام سکندر تھا۔ اس کا نام ذوالقرنین اس لئے رکھ دیا گیا تھا کہ اس کے سر کے دونوں طرف تانبے ی دو سینگیں تھیں۔ وہ نیک اور صالح شخص تھا۔ جب وہ سن شعور کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا ذوالقرنین ! میں تم کو اقوام عالم کی طرف بھیجنا چاہتا ہوں۔ یہ ہو لوگ ہیں جن کی زبانیں مختلف ہیں اور یہ ساری سطح ارضی پر بسنے والے ہیں ان کی دو امتوں کے درمیان پوری سطح زمین کی لمبائی ہے اور اس کی دوسری امتوں کے درمیان پوری زمین کی چوڑائی ہے۔ ان چاروں کے بیچ میں جو وسط ارض ہے اس میں جن و انس بھی ہیں اور یاجوج ماجوج بھی۔

پھر اس کے بعد روایت میں ذوالقرنین کے اوصاف اور اس کو جو علم و حکمت دیا گیا اور ان تمام قوموں کے حالات جن کا سکندر سے مقابلہ ہوا بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

حدیث مرفوع : علامہ ابن جریر طبری نے اس سلسلہ میں ایک حدیث مرفوع بھی نقل کی ہے وہ یہ ہے ’’حدثنا ابو کریب قال حدثنا زید ابن خباب عن ابی لھیہ قال حدثنی عبدالرحمٰن بن زید بن انعم عن شیخین من نجیب الخ ‘‘ یعنی دونوں شیخ عقبہ ابن عامر کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ہم لوگ آپ کے پاس آئے ہیں تاہ آپ ہم کو حضور ﷺ کی کوئی حدیث سنائیں ، عقبہ نے کہا کہ ایک دن میں حضور ﷺ کی خدمت کر رہا تھا اور میں کسی ضرورت سے حضور ﷺ کے پاس سے باہر آیا تو مجھے کچھ اہل کتاب ملے۔ ان لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ہم لوگ حضور ﷺ سے کچھ دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ذرا ان سے اجازت لے لیجئے ، میں لوٹ کر پھر اندر گیا اور ان لوگوں ی درخواست دربار نبوی میں پیش کر دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا وضو کے لئے پانی لاؤ، میں پانی لے آیا آپ ﷺ نے وضو کیا اور نماز پڑھی جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر مسرت کے آثار ظاہر ہوئے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ان گولوں کو اندر لے آؤ۔ اور ان لوگوں کو بھی بلا لو جو میرے اصحاب میں سے نظر آ جائیں۔ وہ لوگ آئے اور حضورﷺ کے آگے کھڑے ہو گئے۔ اگر تم لوگ چاہو تو تمہارے سوالوں کا وہ جواب دوں جو تمہاری کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں اور اگر چاہو تو میں تمہیں وہ باتیں بتاؤں جس کا علم مجھے دیا گیا ہے۔ ان لوگوں نے کہا آپ ؐ کو جو خبر ملی ہے وہی بیان فرمایئے۔ آپ ؐ نے فرمایا تم لوگ ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرنے آئے ہو۔ اور تمہاری کتابوں میں جو ذکر ہے اس کو جاننا چاہتے ہو۔ ذوالقرنین روم کا ایک نوجوان تھا۔ اسکندریہ شہر اسی کا آباد کیا ہوا ہے۔ جب وہ اس شہر کو آباد کر چکا تو ایک فرشتہ آیا اور اس کو بلندی پر لے گیا اور پوچھا تم کو کچھ نظر آ رہا ہے ؟ اس نے کہا میں اپنا شہر دیکھ رہا ہوں۔ اور شہر مدائن کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر کچھ اونچائی پر لے گیا اور پھر پوچھا اب کیا نظر آ رہا ہے ؟ اس نے میں اپنا ہی شہر دیکھ رہا ہوں۔ پھر فرشتہ نے کچھ اور بلندی پر لے جا کر اس سے پوچھا اب کیا دیکھ رہے ہو؟ اس نے کہا صرف سطح زمین نظر آ رہی ہے۔ فرشتہ نے کہا یہ سمندر ہے جو ساری دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم جاہلوں کو تعلیم دو اور اہل علم کو مضبوط کرو۔ پھر اس کو دیوار کے پاس لے آیا۔ وہ دو چکنے پہاڑ ہیں۔ ہر چیز اس سے پھسل کر نیچے گر جاتی ہے۔ پھر فرشتہ اس سے آگے لے گیا اور یاجوج ماجوج سے گزر کر دوسری امتوں تک پہنچا۔ اس سرزمین میں بسنے والوں کے چہرے کتوں جیسے تھے اور وہ یاجوج ماجوج سے لڑتے تھے۔ فرشتہ پھر وہاں سے آگے بڑھا اور ایک دوسری امت پر اس کا گزر ہوا۔ یہ ان لوگوں سے لڑتے رہتے تھے جن کے چہرے توں جیسے تھے۔ پھر فرشتہ وہاں سے بھی آگے لے گیا۔ اور دوسری امتوں سے ملاتا چلا گیا۔ (بحوالہ روح المعانی ج ۱۶، ص ۲۴ )

تنقید و تبصرہ : علامہ آلوسی نے روایت کے ابتدائی حصہ کو نقل کر کے اپنی رائے لکھی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ’’لم تثبت حجۃ ھذالخبر (روح المعانی ج ۱۶، ص ۲۴ ) انہوں نے مزید لکھا ہے کہ تاریخی اعتبار سے ذوالقرنین کی شخصیت کو قطعی طور پر متعین کرنا اور اس کے عہد کی صحیح نشاندہی کرنا انتہائی مشکل ہے۔ قرآن نے جتنے حصے کو بیان کیا ہے وہی اس کی زندگی کے حقیقی اور واقعی حالات ہیں۔ اس کے علاوہ اس پر جو اضافہ کیا گیا ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں اور خوامخواہ اس کو ایک افسانوی کردار بنا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

ذوالقرنین کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں آلوسی نے گیارہ اقوال نقل کئے ہیں اور لکھا ہے کہ اگر تلاش کی جائے تو شاید اس سے بھی زیادہ وجوہ تسمیہ مل جائیں اور جتنی وجوہ بیان کی گئی ہیں وہ بذات خود اس واقعی شخصیت اور حقیقی وجود و طلسماتی اور توہماتی وجود بتاتی ہے ، نیز اس کو سکندر اعظم تسلیم کر کے دو سکندروں کی شخصیتوں اور کارناموں کو گڈ مڈ کر دیا گیا ہے ، سکندر رومی اور سکندر یونانی کی شخصیتوں اور ان کے کارناموں میں جو خط امتیاز کھینچنا خود ایک عقدہ لاینحل اور معمہ ہو گیا ہے ، کسی نے ایرانی بادشاہوں میں سے ایک کو ذوالقرنین ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، کسی نے سلابین حمیر میں سے ایک کو ذوالقرنین بتایا ہے۔

یہ ساری تفصیل آلوسی کی تفسیر کے سات بڑے صفحوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ (روح المعانی ج ۱۶، ص ۲۴ تا ۳۰ ) ان تمام تفصیلات کے باوجود قرآن نے جتنے حقائق بیان کر دیئے ہیں اس سے زیادہ ایک لفظ بھی اپنی قطعی صداقت کے ساتھ نہیں آیا ہے اور نہ آ سکتا ہے     ؎

چوں ندید ند حقیقت      رہ افسانہ زدند

یہ سب اسرائیلی داستانیں ہیں۔ ان افسانوں اور اہل کتاب کی کہانیوں کو افترا اور بہتان کے طور پر حضور ﷺ کی جانب منسوب کر دیا گیا ہے۔ حدیث مرفوع جو ابن جریر کے حوالے سے اوپر نقل کی گئی ہے اس کا ایک راوی ابن لھیہ حدیث میں ضعیف ہے۔ روایت میں جو بات حضور ﷺ کی طر ف منسوب کر کے کہی جا رہی ہے تاریخ اسے یقینی طور پر جھٹلاتی ہے۔ ذوالقرنین رومی نہیں تھا، روم کا یہ بادشاہ اسکندر ثانی کہلاتا ہے۔ اس کے باپ کا نام فیلبس مقدونی ہے اور اس کے وزیر کا نام ارسطاطالیس تھا۔ اس بادشاہ سکندر ثانی نے اسکندر شہر آباد کیا ہے۔ جسے مذکورہ روایت میں ذوالقرنین کا آباد کردہ بتایا گیا ہے۔ قرآن پاک میں اس سکندر کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ذوالقرنین کی شخصیت دوسری ہے۔ سکندر ثانی یا اسکندر یہ توحید پرست نہیں تھا۔ ذوالقرنین ایک مرد مومن تھا۔ سارے مشرق و مغرب کو اس نے طے کیا تھا۔ قرآن نے اجمالی طور پر اس کے واقعات کو بیان کیا ہے۔ اس کا نام یا تھا ؟ کہاں کا رہنے والا تھا ؟ کس زمانے میں تھا ؟ یہ باتیں قرآن پاک میں نہیں بیان کی گئی ہیں۔ اور ان احادیث صحیحہ میں ان کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس لئے صرف انہیں باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے جتنی قرآن نے ہمیں بتائی ہیں۔

علامہ حافظ ابن کثیر نے اس روایت کی صحت پر انکار کیا ہے بلکہ روایت کرنے والوں کو ملامت بھی کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو حضور ﷺ کی طرف منسوب کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ روایت میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ سب اخبار بنی اسرائیل ہیں جن کا کوئی اعتبار اور وزن نہیں ہے۔

 

تفہیم القرآن

جلد سوم صفحہ ۴۲

از : مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ’’ ذوالقرنین ‘‘ جس کا بیان ذکر ہو رہا ہے کون تھا ؟ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا۔ لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گی ہے وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرمانروا خورس (خسرو یا سائرس ) کی طرف ہے۔ اور یہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے ، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت و اس کا مصداق نہیں ٹھہرا یا جا سکتا۔

قرآن مجید جس طرح اس کا تذکرہ کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں :

(۱) اس کا لقب ذوالقرنین (لغوی معنی ’’ دو سینگوں والا‘‘)کم از یہودیوں میں ، جن کے اشارے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی ﷺ سے سوال کیا تھا، ضرور معروف ہونا چاہئے ، اس لئے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے اسرائیل لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ’’ دو سینگوں والے ‘‘ کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔

(۲) وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہئے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں ، ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہو گی۔

(۳) اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہئے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لئے کسی پہاڑی درے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس علامت کی تحقیق کے لئے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہو گا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کون سی قومیں ہیں۔ اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ان کے علاقے سے متصل کون سی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے۔

(۴) اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ بھی خصوصیات پائی جانی چاہئے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔

ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خود اس پر چسپاں کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ بائبل کے صحیفہ دانی ایل میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل لیڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک مینڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے ، یہودیوں میں اس ’’ دو سینگوں والے ‘‘ کا بڑا چرچا تھا۔ کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی۔

دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بلاشبہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں باختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے ، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے ، تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے۔ کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کاکیشیا (قفقاز ) تک وسیع تھی۔

تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری، منگولی اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں ، نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لئے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور داریال کے استحکامات تعمیر کئے گئے تھے ، لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ خورس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کئے تھے۔

آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جا سکتی ہے تو وہ خورس ہی ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائبل کی کتاب عزرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خداترس بادشاہ تھا۔ جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لئے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔

اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتح عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ’’ ذوالقرنین ‘‘ کی علامت زیادہ پائی جاتی ہیں لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ’’ذوالقرنین ‘‘ قرار دے دینے کے لئے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے۔ تاہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں جتنا خورس ہے۔ تاریخی بیان کے لئے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا۔ جس کا عروج ۵۴۹ ق م کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال ) اور لیڈیا (ایشیائے کوچک ) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد ۵۳۹ ق م میں بابل کو بھی فتح کر لیا۔ اس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستے میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اورصغد (موجودہ ترکستان ) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہو گیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا ) اور خوازم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت تک کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔

وہ مغرب کی جانب ملک پر فتح کرتا ہوا خشکی کے آخری سرے تک پہنچ گیا جس کے آگے سمندر تھا وہاں غروب کے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سورج سمندر کے سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ اگر فی الواقع ذوالقرنین سے مراد خورس ہی ہو تو یہ ایشیائے کوچک کا مغربی ساحل ہو گا جہاں بحر ابچین چھوٹی چھوٹی خلیجوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے اس قیاس کی تائید یہ بات بھی کرتی ہے کہ قرآن یہاں بحر کی بجائے عین کا لفظ استعمال کرتا ہے جو سمندر کی بجائے جھیل یا خلیج ہی پر زیادہ صحت کے ساتھ بولا جا سکتا ہے۔

وہاں اسے ایک قوم ملی ذوالقرنین اس وقت فتح یاب ہو کر اس علاقے پر قابض ہو چکا تھا، مفتوح قوم اس کے بس میں تھی۔ اللہ نے اس صورت حال میں اس کے ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھ دیا کہ یہ تیرے امتحان کا وقت ہے۔ یہ قوم تیرے آگے بے بس ہے تو ظلم کرنا چاہے تو یہ بھی تیرے اختیار میں ہے۔

پھر وہ ممالک فتح کرتا ہوا مشرق کی جانب ایسے علاقے تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا کی سرحد ختم ہو گئی تھی اور آگے ایسی وحشی قوموں کا علاقہ تھا جو عمارتیں بنانا تو درکنار خیمے بنانا تک نہیں جانتی تھی۔

آگے یاجوج ماجوج کے فتنہ سے بچنے کے لئے دیوار بنانے کا ذکر ہے جو کاکیشیا کے اطراف بسنے والی قوموں پر ظلم ڈھاتے تھے اور جہاں آہنی سد قائم کرنے کے بعد ذوالقرنین نے کیا کہ یہ لازوال نہیں ہے جب تک اللہ مرضی وہ قائم رہے گی اور جب وہ وقت آئے گا جو اللہ نے اس کی تباہی کے لئے مقدر کر رکھا ہے تو پھر اس کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی چیز نہ بچا سکے گی۔

 

’’سد ذوالقرنین ‘‘ صفحہ ۷۷۱

ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق بعض لوگوں میں یہ غلط خیال پایا جاتا ہے کہ اس سے مراد مشہور دیوار چین ہے ، حالانکہ دراصل یہ دیوار قفقاز (Caucasus)کے علاقہ داغستان میں دربند اور درہ داریال (Darid)کے درمیان بنائی گئی تھی۔ قفقاز اس ملک کو کہتے ہیں جو بحر اسود (Black Sea)اور بحر خزر (Caspian Sea)کے درمیان واقع ہے۔ اس ملک میں بحر اسود سے داریال تک تو نہایت بلند پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان اتنے تنگ درے ہیں کہ ان سے کوئی بڑی حملہ آور فوج نہیں گزر سکتی البتہ دربند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ بھی زیادہ بلند نہیں ہیں اور کوہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔ قدیم زمانے میں شمال کی وحشی قومیں اسی طرف سے جنوب کی طرف غارت گرانہ حملے کرتی تھیں اور ایرانی فرمانرواؤں کو اسی طرف سے اپنی مملکت پر شمالی حملوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا انہی حملوں کو روکنے کے لئے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی گئی تھی جو ۵۰ میل لمبی ۲۹۰ فٹ بلند اور دس فٹ چوڑی تھی۔ ابھی تک تاریخی طور پر یہ تحقیق نہیں ہوسکا ہے کہ یہ دیوار ابتداءً کب کس نے بنائی تھی۔ مگر مسلمان مورخین اور جغرافیہ نویس اسی کو ’’سد ذوالقرنین ‘‘ قرار دیتے ہیں اور اس کی تعمیر کی جو کیفیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے اس کے آثار اب بھی وہاں پائے جاتے ہیں۔

ابن جریر طبری اور ابن کثیر نے اپنی تاریخوں میں یہ واقع لکھا ہے اور یاقوت نے بھی معج البلدان میں اس کا حوالہ دیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے آذر بائجان فتح کے بعد ۲۲ ہجری میں سراقہ بن عمر کو باب الابواب (دربند ) کی مہم پر روانہ کیا اور سراقہ نے عبدالرحمٰن بن ربیعہ کو اپنے مقدمۃالجیش کا افسر بنا کر آگے بھیجا۔ عبدالرحمٰن جب ارمینیہ کے علاقے میں داخل ہوئے تو وہاں فرمانروا شہر براز نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کر لی۔ اس کے بعد انہوں نے باب الابواب کی طرف پیش قدمی کا ارادہ کیا اس موقع پر شہر براز نے ان سے کہاکہ میں نے اپنے ایک آدمی کو ’’سد ذوالقرنین ‘‘ کا مشاہدہ اور اس علاقے کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ وہ آپ کو تفصیلات سے آگاہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے عبدالرحمٰن کے سامنے اس آدمی کو پیش کر دیا۔ (طبری ج ۳ ص ۲۲۵ تا ۲۲۹، البدایہ والنہایہ ج ۷ ص ۱۲۲ تا ۱۲۵، معجم البلدان ذکر باب الابواب )

اس واقعہ کے دو سوبرس بعد خلیفہ واثق (۲۲۷، ۲۳۳ ہجری ) نے سد ذوالقرنین کا مشاہدہ کرنے کے لئے سلام ترجمان کی قیادت میں ۵۰ آدمیوں کی ایک مہم روانہ کی جس کے حالات یاقوت نے معجم البلدان میں اور ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ یہ وفد سامرہ (سُرّمَنْ رَا یَٔ ) سے تفلیس، وہاں سے السّریر وہاں سے افیلان شاہ کے علاقے میں پہنچا پھر خزر کے ملک میں داخل ہوا اور اس کے بعد دربند پہنچ کر اس نے سد کا مشاہدہ کیا (البدایہ والنہایہ ج ۲ ص ۱۱۱، جلد ۷ ص ۱۲۲ تا ۱۲۵، معجم البلدان باب الابواب ) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں بھی مسلمان عام طور پر قفقاز کی اس دیوار کو ’’سد ذوالقرنین ‘‘ سمجھتے تھے۔

یاقوت نے معجم البلدان میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی اسی امر کی تصریح کی ہے خزر کے زیر عنوان وہ لکھتا ہے کہ ’’ھی جلاد الترک خلف باب الابواب المعروف بالدربند قریب من سد ذوالقرنین ‘‘ یہ ترکوں کا علاوہ ہے جو سد ذوالقرنین کے قریب باب الابواب کے پیچھے واقع ہے جسے دربند بھی کہتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں وہ خلیفہ المقتدر باللہ کے سفیر، احمد بن فضلان کی ایک رپورٹ نقل کرتا ہے جس میں مملکت خزر کی تفصیلی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خزر ایک مملکت کا نام ہے جس کا صدر مقام ’’اتل ‘‘ ہے۔ دریائے اِتِل اس شہر کے درمیان سے گزرتا ہے اور یہ دریا روس اور بلغار سے آ کر بحر خزر میں گرتا ہے۔

باب الابواب کے زیر عنوان لکھتا ہے کہ اس کو الباب اور دربند بھی کہتے ہیں۔ یہ بحر خزر کے کنارے واقع ہے۔ بلاد کفر سے بلاد مسلمین کی طر ف آنے والوں کے لئے یہ راستہ انتہائی دشوار گذار ہے۔ ایک زمانہ میں یہ نو شیرواں کی مملکت میں شامل تھا اور شاہان ایران اس سر حد کی حفاظت کو غایت درجہ اہمیت دیتے تھے۔

٭٭٭

تشکر: ڈاکٹر سیف قاضی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید