FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

دو  ایکانکی

 

 

               پرویز ید اللہ مہدی

 

مشمولہ ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

 

 

کشش

 

 

               کردار

 

پروفیسر

بیگم

 

مقام:پروفیسر صاحب کا گھر

وقت:صبح یا شام

(جو آپ مناسب تصور فرمائیں)

 

 

 

پہلا ایکٹ

 

 

بیگم    :سنتے ہو جی۔ ۔ ۔ (ادھر سے جواب ندارد) اجی میں نے کہا سنتے ہو۔ ۔ ۔

(پھر بھی ادھر سے کوئی جواب نہیں)

(جھلائے ہوئے لہجے میں) میں نے کہا کیا کانوں میں گھنگنیاں بھر رکھی ہیں یا سیسہ ڈال رکھا ہے۔ کچھ سنا تم نے۔ ۔ ۔

پروفیسر:سن رہا ہوں حضور  بالکل سن رہا ہوں اچھی طرح سن رہا ہوں  اور   صرف آپ ہی کی سن رہا ہوں بلکہ پچھلے پچیس سال سے لگاتار سن رہا ہوں  اور   سنتے سنانے کے اس سلور جبلی سال میں  اور  جو کچھ سنانا ہے سنا دیجئے بے خوف و خطر۔

بیگم    :سنانا کیا ہے خاک۔ گھنٹہ بھر سے برابر آوازیں دے رہی ہوں۔ لیکن آپ کے کا ہیں کہ ایک جوں تک نہیں رینگی ان پرکیا اپنے سارے گھوڑے بیچ کرسو رہے تھے۔

پروفیسر:ہماری ایسی تقدیر کہاں بیگم۔ ۔ ۔ ہمارے نکاح میں تو آپ کے ساتھ آپ کے حصے کے گدھے گھوڑے بھی بہرے ہی آئے ہیں۔

بیگم    :افوہ!پھروہی لیکچر بازی۔ میں کہتی ہوں پروفیسر صاحب آپ لیکچر بازی اپنے کالج تک ہی محدود رکھئے۔ آپ صدر شعبہ اردو ہوں گے تو اپنے کالج کے یہ گھر ہے گھر کیا سمجھے۔

پروفیسر:کون الو کا پٹھا ہے بیگم جو اپنے آپ کو گھر میں بھی پروفیسر سمجھتا ہے  اور   وہ بھی آپ جیسی ہستی بے ہنگام کے آگے حضور یہ ادنیٰ ترین تو صرف ایک ہی شعبہ کا صدر ہے۔ لیکن آپ اللہ غنی، آپ تو صدر  ہر شعبہ ہیں الامان و الحفیظ۔

بیگم    :افوہ!آپ کوتو یہ پروفیسری لے ڈوبی۔ بھیجہ چاٹنے کے علاوہ کچھ  اور   بھی آتا ہے آپ کو۔ برسوں بعد کچھ کہنے کو جی چاہا تھا۔ لیکن۔ ۔ ۔

پروفیسر:کہئے صاحب ضرور کہئے داستان امیر حمزہ تو اس فقیر حمزہ ہی کے حصے میں لکھی ہے۔ آپ بڑے شوق سے سنائیے ہم بڑی لگن سے سنیں گے۔

بیگم    :میں خوب سمجھتی ہوں آپ کے یہ طعنے۔ ۔ ۔ قسم لے لیجئے اب سے اگر کوئی جی کی بات سنانے کو جی چاہے گابھی تو آپ کو نہیں سناؤں گی بلکہ ان بے جان دیواروں کوسنا کر جی ہلکا کر لیا کروں گی۔

پروفیسر:بھئی خون بیگم، کیا بات پیدا کی ہے واللہ۔ آپ کی اس بات نے تو اس مثل کو اس دور میں بھی سچ ثابت کر دیا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔

بیگم    :اللہ میری توبہ، میرے گنا ہوں کی توبہ جانے وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب آپ سے کچھ کہنے کو جی چاہا تھا۔

پروفیسر:ارے بھئی وہ منحوس گھڑی نہیں تھی بلکہ آپ کی زندگی کی سب سے یادگار گھڑی تھی یعنی ہمارے نکاح کی گھڑی جس گھڑی ہم نے آپ کو بہ عوض بیس ہزار مہر معجل سکہ رائج الوقت ہنستے ہنستے قبول کیا تھا۔

بیگم    :لگتا ہے کالج کے چھوکروں نے آپ کا بھیجہ چاٹ چاٹ کر بالکل ہی پلپلا کر ڈالا ہے۔

پروفیسر:آپ فرائی کر دیجئے حضور۔ ۔ ۔

بیگم    :مجھے کیا غرض پڑی ہے۔ یہ نیک کام تو ہمارے پڑوسی ہی کر لیں گے ؟ بلکہ ہمارے پڑوسی تو آپ کے ساتھ ہمارا بھیجہ بھی فرائی کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان دنوں۔

پروفیسر:کیا فرما رہی ہیں آپ۔ کون سے پڑوسی پورب والے کہ پچھم والے اتر والے کہ دکھن والے۔ شمال مغربی یا جنوب مشرقی۔

بیگم    :پھروہی بکو اس کم از کم گھر میں تو اپنی زبان بند رکھئے گھڑی بھرکے لیے  اور  یہ مت بھولیے پروفیسر صاحب کہ یہ گھر ہے گھر، آپ کا کلاس روم نہیں  اور   میں آپ کی منکوحہ ہوں، کوئی طالب علم نہیں۔

پروفیسر:بہت خوب صاحب آپ واقعی ہماری منکوحہ ہیں، طالب علم نہیں، لیکن ہماری طالب ضرور ہیں، علم کی نہیں بلکہ ہر پہلی تاریخ کو تنخواہ کی، یعنی آپ طالب تنخواہ ہیں  اور  وہ بھی کچھ ایسے طلب فرماتی ہیں جیسے کوئی سود خوار پٹھان اپنا قرض وصول کرتا ہے۔ ڈنڈے کے زور سے یا دست و گریباں ہو کر۔

بیگم    :افوہ۔ میں تو جوتیوں سے توبہ کی اب تو خدا ہی سمجھے آپ سے  اور   پھر جب آپ کے پڑوسی آپ کو سمجھنے لگ گئے ہیں تو خدا بھی سمجھ ہی لے گا کسی نہ کسی دن۔

پروفیسر:پھروہی پڑوسی۔ ارے بھئی آج پڑوسیوں کا بھوت کیوں سوار ہو گیا ہے آپ کے سرپر، آخر کون سے پڑوسی، سیدھے ہاتھ والے یا الٹے ہاتھ والے، ناک کی سیدھ والے یا پچھواڑے والے۔

بیگم    :ابھی سے اتنی دور کیوں جاتے ہیں پروفیسر صاحب ابھی تو سب سے قریبی پڑوسی عثمانی صاحب نے بسم اللہ کی ہے۔

پروفیسر:عثمانی صاحب!یعنی وہی عثمانی صاحب تو نہیں جن کی دختر نیک اختر حیدرآباد میں رہتی ہیں  اور  ہمارے فرزند ارجمند کی ہم جماعت بھی ہیں۔

بیگم    :جی ہاں وہی، بالکل وہی عثمانی صاحب۔

پروفیسر:تو گویا اپنے سب سے قریبی پڑوسی عثمانی صاحب یعنی ہماری رگ جاں کے بارے میں کچھ فرما رہی ہیں آپ۔ ۔ ۔

بیگم    :جی ہاں، آپ کی اسی رگ جاں کے بارے میں کہہ رہی ہوں جس کی وجہ سے دیکھ لینا ایک دن جان پر بن آئے گی۔ یہ میری پیش گوئی ہے۔

پروفیسر:کیوں بھئی کیوں آخر کیا کیا عثمانی صاحب نے۔ ؟

بیگم    :اجی یہ پوچھئے کہ کیا نہیں کیا۔ ابھی پرسوں ہی کی بات ہے انھوں نے جو گھنٹی لگائی ہے دروازے پر وہی بجلی کی گھنٹی کیا کہتے ہیں اس کو۔

پروفیسر:کال بیلCall Bell)  )

بیگم    :ہاں ہاں وہی ہوئی موئی ذرا سا دباتے ہی ایسے عجیب و غریب بے سرے راگ الاپتی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔

پروفیسر:تو گویا آپ کی اس گھنٹی کا بے سرا پن کھٹک رہا ہے۔ یعنی اب آپ کی تفریح طبع کی غرض سے کال بیل بھی سر اور  تال میں راگ الاپیں۔ بہت خوب بیگم واللہ آپ کا جواب نہیں۔ اب کوئی آپ کی خاطر اپنی کال بیل میں میاں تان سین یا بیجو باور ا جیسے فن کاروں کو بند کرنے سے تو رہا کہ ادھر بٹن دبایا ادھر درباری یا ٹھمری شروع ہو گئی۔

بیگم    :افوہ!آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے۔ مجھے لوگوں کی گھنٹیوں کی الاپوں سے کیا۔ ۔ ۔ ؟وہ چاہیں تان سین کو اپنی گھنٹی میں بند کر دیں یا اناسین کو۔

پروفیسر:تو آپ نے اس گھنٹی کے مسئلہ فیثا غورث کو چھیڑا ہی کیوں۔

بیگم    :وہ اس لئے کہ آپ کو اپنے گھربار کی، اپنے اطراف و اکناف کی کچھ فکر ہی نہیں رہتی نا۔ میں ہی مفت کی ہاتھ آ گئی ہوں سارے جہان کا درد سمیٹنے کے لیے۔ آپ کی تو وہی مثل ہے۔ دھوبی بیٹے چاند والی۔

پروفیسر:بھئی بیگم آپ کو غلط فہمی کیوں ہو گئی ہے کہ ہم آپ کے اس درد میں برابر کے شریک نہیں ہیں جبکہ ہمارا تو یہ حال ہے بقول امیر:

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

بیگم    :اوئی نوج خنجر چلے ہمارے دشمنوں پر آپ بس یوں ہی شعرو شاعری بگھارئیے۔ میں جنم جلی جوہوں۔ سارے زمانے پر نظر رکھنے کے لیے۔ ابھی اس دن جب عثمانی صاحب نے اپنے دروازے پر گھنٹی لگوائی تھی مجھے تب ہی یہ بات کھٹکی تھی کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔

پروفیسر:کس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ آپ کی یہ نرالی منطق تو اپنی سمجھ میں آنے سے رہی بیگم۔

بیگم    :سمجھ میں آ جائے گی پہلے پوری بات تو سنئے، میں کبھی غلط نتائج نہیں نکالتی۔

پروفیسر:اس میں کیا شک ہے آپ کے نکالے ہوئے ریزلٹ Result   تو ہمیشہ سو فی صد درست ہوتے ہیں۔ پرچے جو آؤٹ کر لیتی ہیں پہلے سے۔

بیگم    :آپ نے پہلے بھی میری کوئی بات مانی ہے !لیکن اب ماننی پڑے گی۔ میں تو اس دن عثمان صاحب کو گھنٹی لگواتے دیکھ کر ہی سمجھ گئی تھی کہ ان کی گھنٹی کا اثر ہماری گھنٹی پر ضرور پڑے گا۔

پروفیسر: (ہنستے ہوئے) واہ!۔ ۔ ۔ یہ بھی خوب رہی بیگم۔

بیگم    :ہنس لیجئے جی بھر کر ہنس لیجئے۔ کیوں کہ یہ جان کر چونک جانا پڑے گا کہ عثمان صاحب کی گھنٹی کے لگتے ہی ہماری گھنٹی کی آواز کم زور پڑ گئی  اور   اب تو دن بدن ماشاء اللہ گھٹتی چلی جا رہی ہے۔ کبھی غور فرمایا ہے آپ نے، اس پر، دونوں گھنٹیوں میں فرق محسوس کیا ہے۔ ان کی گھنٹی کی آواز تو سارے محلے میں گونج اٹھتی ہے  اور  ایک ہماری گھنٹی کی آواز یوں لگتی ہے جیسے کوئی ننھا سا نحیف و ناتواں بچہ گھٹنوں میں سر دبائے کسی کونے کھدرے میں بیٹھا گھٹ گھٹ کر رو رہا ہو۔

پروفیسر:میں نہیں مانتا آپ اس کی بات کو جس کا نہ کوئی سر ہے  اور  نہ کوئی پیر۔

بیگم    :ہاں جی مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا کہ آپ کہاں ماننے والے ہیں۔ لیکن میں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں۔ اس بار آپ کو قائل کرنے کی غرض سے پہلے ہی اس بات کی تصدیق کروا لی ہے۔

پروفیسر:تصدیق کروا لی ہے !وہ کس سے ؟

بیگم    :اپنی کریمن  بوا ہیں نا، وہی جن کا نواسہ الکٹرک کا کام جانتا ہے۔ ارے اس روز اپنی استری بھی تو اسی نے بنائی تھی۔

پروفیسر:اچھا!وہی نیم حکیم خطرۂ جاں میکانک۔

بیگم    :آپ کی نظر میں تو سب ہی نیم حکیم ہیں سوائے اپنے آپ کے۔ خیر اسی کے ذریعہ تصدیق کروانے پر معلوم ہوا کہ عثمانی صاحب کی گھنٹی میں کوئی ایسا آلہ لگا ہوا ہے جو ہماری گھنٹی کی ساری قوت سلب کر لیتا ہے۔

پروفیسر: (ہنستے ہوئے) بھئی خوب، بہت خوب، جواب نہیں بیگم آپ کا۔ تو گویا یہ تصدیق اسی نیم حکیم الکٹریشن نے خود آ کر کی ہے۔

بیگم    :جی ہاں تصدیق تو اس نے کی ہے لیکن خود آ کر نہیں۔ اس بیچارے کو آج کل فرصت نہیں ہے۔ کریمن بوا کے ذریعہ میں نے پچھوایا تھا۔

پروفیسر: (ہنستے ہوئے) تو گویا کریمن  بوا کے ذریعہ تصدیق عمل میں آئی ہے۔ یعنی کریلا  اور   اوپر سے نیم چڑھا۔ بھئی بہت اچھے۔

بیگم    :اب کہئے آپ کیا کہتے ہیں اس سلسلے میں۔

پروفیسر:بھئی میں کیا کہہ سکتا ہوں اس سلسلے میں۔ عثمانی صاحب کا گھر ہے وہ مالک ہیں اپنے گھرکے چاہیں تو گھنٹی کی جگہ گھنٹہ لگوائیں ان کی مرضی۔ ہم ٹانگ اڑانے والے کون ہوتے ہیں۔

بیگم    :توبہ ہے آپ سے ٹانگ اڑانے کے لیے کون کہتا ہے ذرا ان سے مل کر اس جانب توجہ تو دلائیے۔

پروفیسر:بہت خوب گویا آپ یہ چاہتی ہیں کہ پروفیسر سید نثار احمد حسینی صدر شعبہ اردو نہایت ہی بچکانہ انداز میں ہونق کی طرح عثمانی صاحب سے یہ کہیں کہ قبلہ آپ کی شریر گھنٹی ہماری معصوم گھنٹی کی ساری قوت سلب کر لیتی ہے۔ آپ ذرا اپنی گھنٹی کو تنبیہ کریں کہ یوں ہماری گھنٹی کو زد و کوب نہ کرنے۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔

بیگم    :اب رہنے دیجئے یہ باتیں، آپ سے کبھی کچھ ہوا بھی ہے میں خود ہی نپٹ لوں گی ان سے۔

پروفیسر:ارے بھئی ایسا غضب بھی نہ کر بیٹھنا بیگم۔ میں خود بات کرتا ہوں عثمانی صاحب سے آپ مطمئن رہئے۔

 

 

 

      دوسرا  ایکٹ

 

بیگم    :آ گئے آپ۔ ۔ ۔ پہلے یہ بتائیے کہ عثمانی صاحب سے بات ہوئی یا نہیں۔

پروفیسر:افوہ!ابھی ابھی تو گھر میں قدم رکھا ہے، ذرا  چھری تلے دم تو لینے دیجئے۔

بیگم    :نہیں پہلے یہ بتائیے کہ عثمانی صاحب سے بات ہوئی ہے یا نہیں۔ ۔ ۔  جب تک یہ بات نہیں سنوں گی مجھے چین نہیں پڑے گا۔

پروفیسر:نہیں بھئی عثمانی صاحب سے بات نہیں ہوئی البتہ ایک ایسا نکتہ ہاتھ آیا ہے کہ اب عثمانی صاحب سے مل کران کی گھنٹی کے بارے میں کچھ کہنا عجیب سا لگتا ہے۔

بیگم    :ذرا میں بھی توسنوں آخر ایسا کون سا نکتہ آپ کے ہاتھ آ گیا ہے۔

پروفیسر:آج آپ کی خاطر کالج لائبریری میں جا کر گھنٹہ بھر تک سائنس کی کتابوں میں سر کھپانے کے بعد اس بات کا علم ہوا کہ ہر چیز اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے  اور  جب ایک چیز کی کشش دوسری چیز کی کشش پر غالب آ جاتی ہے تو پھر پہلی چیز کی کشش یا تو دوسری چیز کو یا پھر اس کی ساری قوتوں کو اپنے اندر سلب کر لیتی ہے۔

بیگم    : (غصہ کے انداز میں) اہاہاہا کیا کہنے آپ کے اگر ایسا ہوتا تو پھر زمین سورج میں نہ گھس گئی ہوتی۔ چاند زمین میں نہ دھنس گیا ہوتا۔ اب تک، آپ اپنا یہ علم، اپنے یہ نکتے اپنے تک رکھئے پروفیسر صاحب۔ کیا دنیا بھر کی کشش صرف عثمانی صاحب کے گھر اکٹھا ہو گئی ہیں۔ مانا کہ ان کی گھنٹی کی کشش ہماری گھنٹی کی قوتوں کو سلب کر لیتی ہے۔ لیکن اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔ جب سے عثمانی صاحب کے ہاں ریڈیو آیا ہے، ہمارے ریڈیو کی آواز گھٹتی چلی جا رہی ہے۔

پروفیسر۔ :بیگم!یہ تو آپ کا وہم ہے سراسر وہم۔

بیگم    :ہاں جی آپ تو یہی کہیں گے۔ ذرا چھت پرجا کر دیکھئے تو عثمانی صاحب نے اپنے ریڈیو کا ایرئیل ہمارے ایرئیل کے بالکل پاس لگایا ہے۔

پروفیسر: (ہنستے ہوئے) بہت اچھے، گویا آپ نے معائنہ بھی کر ڈالا لیکن میں اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہوں۔ ہو سکتا ہے عثمانی صاحب کا ریڈیو ہمارے ریڈیو سے زیادہ کشش رکھتا ہو۔

بیگم    : (بدستور طعنہ زن ہوتے ہوئے) ہاں جی سارے جہاں کی کشش تو بس عثمانی صاحب کے حصے میں آئی ہیں۔ ان کی گھنٹی ہماری گھنٹی کی قوتوں کو سلب کر لیتی ہے، ان کا ریڈیو ہمارے ریڈیو کی آواز کھینچ لیتا ہے۔

پروفیسر: (بدستور ہنستے ہوئے)بیگم حد ہو گئی توہمات کی۔

بیگم    : (بدستور چڑچڑے لہجہ میں) تو آپ سے اس سلسلے میں کچھ نہیں ہو گا۔ آپ کچھ نہیں کریں گے یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔

پروفیسر: (لا چار لہجہ میں) آخر آپ چاہتی کیا ہیں بیگم۔ کیا میں کوئی ایسا آلہ ایجاد کروں جو عثمانی صاحب کے گھرکی ہر کشش کو اپنی طرف کھینچ لے۔

بیگم    : (طنزیہ لہجے میں) اجی چھوڑئیے اگر آپ سے اتنا ہو سکتا تو پھر رونا کس بات کا تھا۔

 

 

 

تیسرا ایکٹ

 

 

 

(پروفیسر صاحب تیز تیز قدموں سے گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ )

پروفیسر: (مسرت انگیز لہجے میں) میں نے کہا بیگم مبارک ہو۔ ۔ ۔ !

بیگم    :اے ہے، یہ مبارک باد آخر کس سلسلے میں۔ ۔ ۔ ہوا کیا؟

پروفیسر:ارے صاحب بات ہی ایسی ہوئی ہے کہ یہ جو آپ کا سر ہے نا فخر سے جو اونچا ہو گا تو پھر چار مینار کی بلندی بھی شرم سے اپنا سر جھکا لے گی۔

بیگم    :اب کچھ کہیں گے بھی آپ یا یوں ہی بات کو طول دیئے جائیں گے۔

پروفیسر:سنئے صاحب دل تھام کر سنئے۔ وہ جو آپ کو شکایت تھی نا کہ دنیا بھر کی کششیں صرف عثمانی صاحب ہی کے گھرکیوں اکٹھی ہو گئی ہیں، تو اب دیکھئے ان کی ساری کششوں پر ہماری  اور  تمہاری مشترکہ کشش کچھ اس طرح غالب آئی ہے کہ عالم برزخ میں مرزا غالب کی روح بھی خوشی سے جھوم رہی ہو گی۔

بیگم    :صاف صاف بتائیے کیا کوئی ایسا آلہ خرید لائے ہیں جو عثمانی صاحب کی گھنٹی  اور ریڈیو کی ساری کشش۔ ۔

پروفیسر: (مداخلت کرتے ہوئے) خریدنا کیا معنی بیگم۔ ایسا نایاب آلہ کہیں بازار میں ملتا ہے بھلا۔ وہ تو اللہ میاں نے خود ہمیں عطا کر رکھا ہے۔

بیگم    : (حیرانی سے) یعنی!!

پروفیسر:یعنی ہمارے فرزند ارجمند شہزاد میاں۔ ۔ ۔

بیگم    : (بدستور حیرانی سے) یہ کیا بات ہوئی۔

پروفیسر:بات نہیں بتنگڑ کہو بیگم۔ بتنگڑ۔ آج ہی بھائی جان کا خط آیا ہے، لکھا ہے کہ ہمارے صاحب زادے نے اپنی ہی ایک ہم جماعت خوبصورت، خوب سیرت  اور   اعلیٰ خاندان کی لڑکی کو اپنا شریک حیات بنانا پسند کیا ہے  اور  وہ لڑکی بھی ہمارے شہزادے کو پسند کرتی ہے۔

بیگم    : (بوکھلائے ہوئے) میں کہوں، کہیں آپ کی عقل تو نہیں ماری گئی۔ یہ خوشی کا موقعہ ہے یا افسوس کا مقام۔ صاحبزادے نے پیٹ میں سے پاؤں نکال کر اپنی سعادت مندی کا کھلا ثبوت دیا ہے  اور   ایک آپ ہیں کہ۔۔ ۔

پروفیسر: (مداخلت کرتے ہوئے) بیگم پہلے پوری بات تو سنوا گر تمہاری بھی باچھیں نہ کھل جائیں تو پھر کہنا۔ وہ لڑکی ہے ناجو تمہاری بہو بنے گی، جانتی ہو کس کی دختر نیک اختر ہے۔

بیگم    :کس کی۔ ۔ ۔ !

پروفیسر:عثمانی صاحب کی۔

بیگم     :یعنی وہی۔ ۔ ۔ اپنے۔

پروفیسر:جی ہاں وہی عثمانی صاحب یعنی اپنے رگ جاں پڑوسی۔ اب بتاؤ کس کی کشش کی پر غالب آئی ہے۔ اب تو آپ کے سارے گلے شکوے۔ ساری شکایتیں دور ہو گئیں نا۔ فوراً اٹھئے عثمانی صاحب کے ہاں چلنے کی تیاری کیجئے۔

بیگم    :اوئی نوج اب ایسی جلدی بھی کیا ہے۔

(مشترکہ ہنسی)

***

ماخذ: ’’تو تو میں میں‘‘، زندہ دلان حیدرآباد

٭٭٭

 

 

 

سکریٹ ایجنٹ زیرو زیرو زیرو

(عرف بدھو رام جاسوس)

 

۔۔۔ طنزیہ و مزاحیہ۔۔۔

 

               افراد

 

رمیش:ایک جوان العمر مالدار بزنس مین

شانتا:رمیش کی جوان العمر شکی بیوی

مس جھن جھن والا:رمیش کی خوبصورت پرائیویٹ سکریٹری

بدھورام عرف بدھوا:ایک جوان العمر دیہاتی ملازم

 

مقام:رمیش کا فلیٹ

وقت:۹بجے صبح

        (دروازہ کھٹکھٹانے اور پھر دھپا دھپ پیٹنے کی آواز)

 

               ﴿۔۔۔۱۔۔۔ ﴾

 

 

شانتا     :افوہ! کون ’’یم دوت‘‘ کا جوائی ہے جو دروازہ پر بینڈ بجائے چلا جا رہا ہے۔ کہاں مر گئے سب نوکر چاکر۔۔۔ ارے بابا۔۔۔ کون ہے۔۔۔ دو منٹ چھری تلے دم تولو۔ نرا گاؤدی معلوم ہوتا ہے۔

(دروازہ کھلنے کی آواز)

شانتا     :(حیرت سے ) ارے بدھوا تو۔۔۔؟

بدھو     :ہاں مالکن ہم بدھوا رام۔۔۔ پائے لاگی۔۔۔

شانتا     :ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔۔۔ کب آیا تو گاؤں سے۔۔۔ چل اندر آ۔

بدھو     :بس وہیں سے سیدھے چلے آئے رہے ہیں۔

شانتا     :بیٹھ بیٹھ۔۔۔ گاؤں میں تو سب کشل منگل ہے نا؟

بدھو     :سب ٹھیک ہے رام کی کرپا سے۔۔۔

شانتا     :اور سنا کیسے آنا ہوا۔

بدھو     ۔: آپ ہی کے بلاوے پرتو آئے رہے ہیں ہم پار سال جب آپ گاؤں آئی رہیں تب کہا رہا ہم کہ بدھوا تو سہر آ جا صائب کے ہاں کام دلا دوں گی۔ سو بس آپ کی بات گرہ سے باندھ لی اور رام جی کی کرپا ہوتے ہی سیدھے چلے آئے رہے ہیں۔

شانتا     :چل اچھا ہی کیا تو نے۔ بڑے اچھے سمے پر آیا۔۔۔ ان دنوں ترے صاحب کے لچھن بھی کچھ اچھے نہیں جان پڑتے۔سنا ہے ان دنوں کسی پر کٹی کو دفتر میں رکھ چھوڑا ہے۔۔۔ اب تو آ گیا ہے، ان دونوں پر ذرا نظر رکھنا۔

بدھو     : آپ نشچنت ہو جائیے مالکن۔ ہماری نظر اتنی تیج ہے کہ اس پار سے اس پار کے سماچار لے آتی ہے۔

شانتا     :چل اٹھ میں تجھے صاحب سے ملا دوں۔۔۔

(دونوں ایک کشادہ کمرے میں داخل ہوتے ہیں، رمیش ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کر رہا ہے۔)

شانتا     :میں نے کہا جی، دیکھو کون آیا ہے گاؤں سے۔

رمیش   :کون ہے یہ نمونہ۔

بدھو     :پائے لاگی ہجور۔ ہم ’’نمونہ‘‘ نا ہی آپ کے پرانے سیوک ہیں، بدھو رام۔

شانتا     :میرے  میکے سے آیا ہے۔

رمیش   :تبھی اتنی اتاؤلی ہو رہی ہو۔۔۔ کوئی خاص سندیسہ لایا ہے کیا؟

شانتا     :نہیں پچھلے دنوں جب میں میکے گئی تھی تو اس سے وعدہ کر آئی تھی کہ آپ کے ہاں کوئی کام دلوا دوں گی۔

رمیش   :کام۔۔۔ کام کہاں ہے ڈارلنگ۔۔۔ تم تو جانتی ہی ہو۔

شانتا     :نہیں، میں کچھ نہیں جانتی۔۔۔ تمہیں اسے نوکری دینی ہی ہو گی۔ ابھی اس روز تم کہہ رہے تھے کہ تمہیں ایک اردلی کی ضرورت ہے۔ اسے رکھ لو۔۔۔ اس کے پرکھوں نے برسوں ہمارے پریوار کی سیوا کی ہے۔

بدھو     :ہاں ہجور۔۔۔ ہم کھاندانی سیوک ہیں۔ جمانے سے مالکن کے میکے کی چا کری کرتا آیا ہے ہمارا پریوار۔۔۔ بلکہ مائی باپ، اب تو مالکن ہی کا کھون نمک بن کر دوڑ رہا ہے اپنے سریر میں۔

رمیش   :کیا۔۔۔ !

بدھو     :ہمارا مطبل یہ ہے کہ مالکن ہی کا نمک ’’کھون‘‘ بن کر دوڑ رہا ہے ہمارے سریر میں۔

رمیش   :ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔۔۔ کچھ لکھنا پڑھنا بھی جانتے ہویا بالکل ہی انگوٹھا چھاپ ہو۔

بدھو     :یہی تو ایک کھوٹ ہے ہم میں ہجور۔ باپ نے پاٹھ شالہ بھیجا تو تھا لیکن پنڈت جی کے مولا بکس کا ڈر ایسا بیٹھا من میں کہ ہر کالا اکشر سسرا آج بھی بھینس برابر نجر آوے ہے۔

رمیش   :گویا بالکل کورے ہیں جناب۔

شانتا     :میں کہتی ہوں اس سے آپ کو کون سے ’’آڈٹ‘‘ یا انکم ٹیکس کے کام کروانے ہیں۔ جو کام یہ کر سکتا ہے وہی کروائیے۔

بدھو     :ہاں ہجور جھاڑو! برتن سے لے کر چوکیداری تک ہر کام کر سکتے ہیں۔ آجما کر دیکھ لیجئے۔۔۔ !

رمیش   :کہیں دو چار دن کام کر کے بھاگ تو نہیں جائے گا۔

بدھو     :ارے ہجور!ہم کو ہمارے باپ نے مرتے سمے ایک ہی تو کام کی بات بتائی کہ بدھوا کھاتی روٹی پر کبھو لات نہ ماریو۔

رمیش   :اچھا تو ڈارلنگ تم اسے دفتر کا پتہ سمجھا کر بھیج دو۔ آج میں ایک میٹنگ میں ہوتا ہوا دفتر جاؤں گا۔بائی۔

(رمیش کمرے سے باہر چلا جاتا ہے۔)

شانتا     :بدھواتو اس سے پہلے کبھی شہر آیا ہے۔

بدھو     :ہاں مالکن ایک بار آئے تھے ہم۔ جب یہاں کھیتی باڑی کے اوجاروں کی وہ لگی تھی۔۔۔ منائش۔

شانتا     :منائش!۔۔۔ ارے بدھوا منائش نہیں نمائش۔

بدھو     :ہاں ہاں وہی منائش۔

شانتا     :جہاں نمائش لگی تھی نا!اسی میدان میں بہت سارے کھیل تماشے ہوتے رہتے ہیں اسی میدان کے راستے میں ایک بڑی بلڈنگ ہے اسی کے چوتھے مالے پر دفتر ہے تیرے صاحب کا۔۔۔ پتہ سمجھ گیا نا۔

بدھو     :ہاں مالکن سمجھ گئے۔

 

 

 

 

               ﴿۔۔۔ ۲۔۔۔ ﴾

 

 (رمیش کا چھوٹا سا سجا سجایا دفتر)

 

بدھو     :(ہانپتے ہوئے ) سالا سہر میں ایک ہی تو آفت ہے۔ دھنوان لوگ مکان بڑے اونچے اونچے باندھتے ہیں۔ جیسے سیڑھی چڑھ کر آکاس کے تارے نوچتے ہوں۔چوتھے مالے پر تو پہنچ گئے اپنے رام۔۔۔ ہو نہ ہو سامنے والا’’ آپھس‘‘ اپنے صاحب ہی کا ہو گا۔۔۔ چلو اندر چلتے ہیں۔۔۔ وہ سامنے ایک بابو صاحب بھی تو کھڑے ہیں، ذرا ان سے پوچھ دیکھیں۔۔۔ ہم نے کہا۔ بابو صاحب، منٹ بھر کو تنک ادھر دھیان دینا۔

مس جھن جھن والا           :اے دو پاؤں کا مینMan  کیا ہم تم کو بابو صاحب لگتا۔۔۔؟

بدھو     :ارے باپ رے یہ تو مادہ ہے۔ پربھو تیری لیلا پرم پار۔۔۔ ایک ہی سریر میں دونوں روپ۔۔۔ پیچھے سے نر آگے سے مادہ۔ وہ بھی آدھا یہ بھی آدھا۔

مس جھن جھن والا           :یہ تم کیا بولتا مین(Man)  کس سے ملنے کو منگتا۔

بدھو     :یہ ہمارے مالک کی کچہری ہے نا۔۔۔؟

مس جھن جھن والا           :کون مالک۔

بدھو     :ہماری مالکن کے مالک۔

مس جھن جھن والا           :اوہ گاڈ!تم آدمی ہے کہ آٹھواں ونڈرWonder

بدھو     :اے میم صاحب یہ ونڈر۔ بندر کسے کہتی ہو۔۔۔ بندر ہو گی تم کھود۔۔۔ !

مس جھن جھن والا           :کیا۔۔۔؟تم ہم کو بندر بولا!!!

بدھو     :ہاں۔۔۔ پہلے تم نے ہم کو بندر کیوں کہا۔۔۔ !

مس جھن جھن والا           :ہم بولتا ہے مین گیٹ آوٹ۔ چلو نکلو ادھر سے۔۔۔ out !

بدھو     :اے سہر کی چھوکری زیادہ رباب (رعب) نہیں جھاڑنا ادھر کہہ دیتے ہیں ہاں۔۔۔

رمیش   :(مداخلت کرتے ہوئے ) کیا بات ہے مس جھن جھن والا۔

مس جھن جھن والا           :اوہ باس! تم ٹھیک ٹائم پر آ گیا۔ یہ سڑیلا آدمی ہم سے کوئرل Quarrel  کرنے کو مانگتا۔

رمیش   :آخر ہوا کیا۔۔۔؟

بدھو     :ہجور ہم آپ کے اس ’’جھن جھنا‘‘ سے جھگڑا نہیں کئے رہے۔

مس جھن جھن والا           :سنا باس۔ یہ ایڈیٹ ہم کو جھنجھنا بولتا۔

رمیش   :پلیز، مس جھن جھن والا، شانت ہو جاؤ کام ڈاون(Calm down)  پلیز یہ اپنا نیا اردلی ہے۔ گاؤں سے آج ہی ٹپکا ہے۔

بدھو     :ہم ٹپکے نہیں ہجور۔ کیا ہم آم ہیں جو جھاڑ سے ٹپک جائیں۔ ہم تو بھک بھک گاڑی میں بیٹھ کر آئے ہیں۔

رمیش   :ہاں ہاں معلوم ہے۔۔۔ اب بک بک مت کر اور یہاں میرے  کیبن cabin کے باہر اس پر بیٹھ جاؤ۔۔۔ اور سن کوئی مجھ سے ملنا چاہے تو پہلے اس کا کارڈ اندر میرے  پاس پہنچانا سمجھا!

بدھو     :کون سا کارڈ ہجور، پوسٹ آپھیس کا کہ راشن کا۔

مس جھن جھن والا           :سنا باس۔۔۔ یہ ایک دم پٹری سے اتریلا ہے۔

بدھو     :اے جھنجھنا میم صاحب ہم کیا تم کو ریلوے انجن دکھائی دیت ہیں۔

رمیش   :مس جھن جھن والا تم جاؤ اپنا کام کرو۔

(رمیش اپنے کیبن میں چلا جاتا ہے۔)

بدھو     :(اسٹول پر بیٹھتے ہوئے ) عجب توری دنیا ہے مورے راما۔ کوئی یہاں بھانجہ ہے کوئی یہاں ماما۔۔۔

(مس جھن جھن والا فائیل لے کر کیبن کے دروازے پر پہنچتی ہے۔)

بدھو     :اے جھنجھنا میم صاحب اندر کہاں جا رہی ہو، پہلے اپنا کارڈ لاؤ۔۔۔

مس جھن جھن والا           :اوہ ایڈیٹ، سلیIdiot, Silly

بدھو     :سلی بلی کسے کہتی ہو۔۔۔ بلی ہو گی تم خود۔

مس جھن جھن والا           :او یوRascal (you)

بدھو     :انگریزی میں گالی دیت ہو۔ اپنی سکل تو دیکھو سیسے میں۔

مس جھن جھن والا           :باس ذرا ادھر آنے کو منگتا۔ یہ دھوتی ماسٹر ہم کو Enter  ہونے کو نہیں دیتا۔

بدھو     :ہم کو دھوتی ماسٹر کہت ہو۔ ذرا اپنی پھٹ بھرکی لنگوٹی تو دیکھو رام رام رام، نہ لاج نہ سرم۔

(رمیش باہر آتا ہے۔)

رمیش   :اب کیا ہو گیا مس جھن جھن والا۔

مس جھن جھن والا           :باس یہ اسٹوپڈstupid  ہم کو تمہارے پاس آنے کو نہیں دیتا۔

بدھو     :ناہی ہجور، ہم نے کھالی کارڈ مانگا تھا میم صاحب سے۔ آپ نے تو کہا رہا کہ پہلے کارڈ اندر پہنچانا، پھر۔

رمیش   :ارے یہ بدھوا تو سچ مچ بدھو ہے۔ کارڈ، آفس کے لوگوں سے نہیں باہر کے ملنے والوں سے مانگنا سمجھا۔

بدھو     :سمجھ گئے ہجور!۔۔۔

(رمیش اور جھن جھن والا کیبن میں داخل ہو جاتے ہیں۔)

مس جھن جھن والا           :باس یہ نیا اردلی کیسا گھن چکر آدمی ہے۔ ایک دم ہمارا مستک پھرا دیتا۔

رمیش   :ابھی نیا نیا ہے نا ڈارلنگ!آہستہ آہستہ سب کچھ سیکھ جائے گا، تم ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر جی چھوٹا نہ کرو سوئٹی sweety۔

(جھن جھن والا کی مسکراہٹ)

رمیش   :یہ ہوئی نہ بات۔ اس بات پر اس سنڈے کو پھر دیکھیں گے بلو ہاٹ بلو کولڈ Blow Hot blow cold۔

(ہنسی)

 

 

 

               ﴿۔۔۔ ۳۔۔۔ ﴾

 

 (رمیش اپنے کیبن میں بیٹھا ہے کہ مس جھن جھن والا داخل ہوتی ہے۔)

 

جھن جھن والا     :گڈ مارننگ باس۔

رمیش   :گڈ مارننگ سویٹی۔

جھن جھن والا     :باس کل ہم نے تھیٹر کے پاس تمہارا دو کلاک ویٹ wait  کیا بٹ but تم نہیں آیا۔

رمیش   :کیا تم کو میرا مسیج Message  نہیں ملا۔

جھن جھن والا     :نو باس۔

رمش    :تعجب ہے میں نے بدھو کو بھیجا تھا تمہارے گھر۔

جھن جھن والا     :وہ تو ہمارا گھر نہیں آیا باس۔

رمیش   :کام چور کہیں کا۔ابھی دیکھتا ہوں۔۔۔ (زور سے )بدھوا۔۔۔ اوبدھوا

بدھو     :(دور کی آواز) آ رہے ہیں ہجور(اندر داخل ہو کر) حکم ہجور۔

رمیش   :حکم کے بچے !کل تجھے میم صاحب کے گھر جانے کے لیے کہا تھا اور تو۔۔۔

بدھو     :ان کے گھر تو گئے رہے ہم ہجور پر میم صاحب ہی کا پتہ نہیں تھا۔۔۔

جھن جھن والا     :باس یہ جھوٹ بولتا ایک دم جھوٹ۔۔۔ ہی از اے لائرhe is lie

٭٭کانکیامےمرتبہر ’اردوپلے‘ مرتبہr

بدھو     :ناہی ہجور ہم کبھو جھوٹ نہیں بولتے، آپ کی سوگندھ ہم میم صاحب کے ٹھکانے گئے رہے۔۔۔

جھن جھن والا     :او یو بلاڈی۔۔۔

رمیش   :ٹھہرو، ٹھہرو۔۔۔ ہو سکتا ہے اس کے تمہارے گھر پہنچنے تک تم نکل چکی ہو گی۔ یہ تمہارے گھر گیا ضرور لیکن لیٹ گیا۔

بدھو     :ناہی ہجور!ہم ان کے گھر بالکل نہیں لیٹے۔ ہم تو کام کرنے کے سمے کبھو ’’وسرام‘‘ نہیں کرتے۔

رمیش   :یہ کیا بک رہا ہے تو؟

بدھو     :ہم سچ کہہ رہے ہیں ہجور! میم صاحب کے ٹھکانے لیٹنا تو ایک اور ہم نے کمر بھی سیدھی نہیں کی۔

جھن جھن والا     :یہ کیا بولتا باس۔!

رمیش   :اف!میں تو باز آیا اس ’’لٹھ مارکہ ‘‘نمونے سے۔ میں کہہ رہا ہوں لیٹ۔۔۔ اور یہ سمجھ رہا ہے لیٹنا۔۔۔ جا بابا تیرے ہاتھ جوڑے میں نے۔

بدھو     :یہ کیا کرتے ہیں ہجور ہمارا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا۔۔۔ ہم تو آپ کے چرنوں کی تچ دھول ہیں۔۔۔ ماٹی ہیں۔

رمیش   :اچھا اچھا جا بابا جا۔

 

 

 

 

               ﴿۔۔۔ ۴۔۔۔ ﴾

 

 

جھن جھن والا     :(چلاتی ہوئی) باس۔۔۔ بڑا گھپلا ہو گئیلا ہے۔۔۔

رمیش   :اب کیا ہو گیا۔۔۔ مس جھن جھن والا

جھن جھن والا     :اپنا کسٹمر اٹک مل سٹک مل چندی والا۔ وہ اپنے ہاتھ سے نکل گیا باس۔

رمیش   :کیا کہہ رہی ہو تم۔۔۔؟

جھن جھن والا     :ہم ٹھیک بولتا باس۔ ابھی ابھی سیٹھ کا فون آیا تھا۔ وہ گرم لگتا تھا۔ بولا وہ سویرے ادھر فون لگایا ہوتا پن کی کسی نے فون پراس کا بہت انسلٹ insult کیا باس۔۔۔

رمیش   :سویرے سب سے پہلے صرف بدھو ہی یہاں پہنچتا ہے۔۔۔ کہیں اسی نے تو کباڑا نہیں کر دیا(اونچی آواز میں ) بدھوا، اے بدھوا کے بچے۔۔۔ کہاں مر گیا کمبخت۔۔۔

بدھو     :(دور کی آواز) آئے ہجور۔۔۔ حاجر ہوئے (اندر داخل ہو کر) حکم ہجور۔

رمیش   :حکم کے بچے آواز دے دے کر گلا بیٹھ گیا، کیا اب اونچا بھی سننے لگا ہے۔

بدھو     :ناہی ہجور ہم تو آپ کی پہلی پکار پرہی کان دھرے تھے پر جب آپ نے بدھوا کے بچے کی آواز لگائی توہم رک گئے کہ ہجور ہم کو ناہی ہمارے بچے کو بلائے رہے ہیں۔۔۔ لیکن ہجور اس کے لیے آپ کو بہت انتجار کرنا پڑے گا۔ ابھی تو ہماری سگائی بھی ناہی ہوئی۔۔۔

رمیش   :اب چپ بھی کرے گایا یونہی میرا بھیجہ چاٹے جائے گا۔۔۔

بدھو     :شیو، شیو، شیو یہ کیسی بات کہت ہیں ہجور ہم تو شدھ شاکا ہاری ہیں۔ ماس مچھی کو چھوتے تک نہیں، پھر آپ کا بھیجہ کیسے چاٹ سکتے ہیں۔

رمیش   :(گھٹنوں پر ہاتھ مارکر) اوہ مائی گڈنیسOh my goodness

بدھو     :(حیرت سے ) گھٹ نیس! یہ آپ کے گھٹنے کو کیا ہوا ہجور کہیں موچ و وچ تو نہیں آئی گئی۔

رمیش   :ہے بھگوان۔۔۔ !!

بدھو     :ہاں ہجور! بھگوان سب ٹھیک کر دے گا، جرا ہم کو تو دکھانا اپنا گھٹنا۔۔۔

رمیش   :(چلا کر) اے او گھٹنے کی اولاد نکل جا، دور ہو جا میری نظروں سے۔۔۔ مس جھن جھن والا، اس کا حساب صاف کر کے فوراً آفس سے نکال باہر کرو اسے۔۔۔

بدھو     :نکالنے کی جرورت، ناہی ہجور ہم کھود جا رہے ہیں، پر اتنا یاد رکھنا ہجور ہم یہاں سے سیدھے مالکن کے پاس جاویں گے۔

رمیش   :(غصہ سے ) مجھ پردھونس جماتا ہے، بول۔۔۔ بتا۔۔۔ کیا کہے گا مالکن سے۔۔۔

بدھو     :یہی کہ مالکن ہم آپ کا اور  آپ کے پرکھوں کا بہت نمک کھائے رہے ہیں، آپ کی گرہستی کو برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتے، جرا اپنے مالک سے ہسیار رہیں، یہ ادھر آپ کو بھی دارجلنگ دارجلنگ پکارتے ہیں اور ادھر آپھس میں جھنجھنا میم صاحب کو بھی۔

جھن جھن والا     :سنا باس تم نے۔۔۔ یہ دو ٹکے کا آدمی تم کو بلیک میل کرنے کو منگتا، او گاڈ۔۔۔ اب ادھر میں یا توہم رہے گا یہ بلیک میلر۔

بدھو     :ادھر تم ہی رہ لینا جھن جھنا میم صاحب، اپنا تو دانہ پانی اٹھ گیا ادھر سے۔ اچھا ہجور کوئی بھول چوک ہو گئی ہو تو شما کر دینا۔ جئے رام جی کی۔!

(بدھوا جانے کے لئے پلٹتا ہے )

رمیش   :(گڑبڑا کر) اے بدھوا۔۔۔ (پھر چاپلوسی کے لہجے میں ) پیار سے بدھوا، ارے بھئی رک تو سہی تو اتنی سی بات پر خفا ہو گیا۔ مذاق بھی نہیں سمجھتا۔

بدھو     :مجاق۔مطبل یہ کہ آپ ہم سے ’’ٹنکل‘‘ کئے رہے ہجور۔۔۔

رمیش   :ہاں !اورتو ذرا دیر کی ہنسی دل لگی میں برا مان گیا۔

جھن جھن والا     :باس!یہ تم کیا بولتا۔۔۔

رمیش   :یوشٹ اب مس جھن جھنا۔

جھن جھن والا     :جھن جھنا!۔۔۔ باس تم ہمارا انسلٹ کرتا اس بدھورام کا سامنے۔۔۔

رمیش   :پلیز، پلیز جھن جھن والا۔۔۔ مجھے۔ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔ ورنہ، ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔ بدھو یہ نہیں بلکہ بدھو تو میں ہوں میں۔۔۔

جھن جھن والا     :یہ تم کو کیا ہو گئیلا باس۔۔۔

رمیش   :میں بہت دیر میں بات سمجھ پایا مس جھن جھن والا، یہ بدھو دراصل میری پتنی کا جاسوس ہے جاسوس!

جھن جھن والا     :(حیرت سے ) جاسوس!یومین سیکریٹ ایجنٹ۔۔۔ زیرو، زیرو، زیرو

رمیش   :یس۔یس۔ جھن جھنا۔۔۔

جھن جھن والا     :اوہ، نو باس

بدھو     :(مسکراتے ہوئے ) تو پھر ہجور ہم جائیں ڈیوٹی بجانے۔۔۔

رمیش   :ہاں ہاں سرکار آپ تشریف لے جا سکتے ہیں۔

بدھو     :جئے رام جی کی، جئے رام جی کی۔

***

’’توتو میں میں ‘‘، زندہ دلان حیدرآباد، ۳۱!مجردگاہ، معظم جاہی مارکیٹ، حیدرآباد۔۵۰۰۰۰۱(اے پی)

٭٭٭

تشکر: مصنف اور ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے وہ ان پیج فائل فراہم ہوئی جس سے یہ کتاب ترتیب دی گئی۔

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید