دوہا درپن
فراغ روہوی
جب سے آیا دیکھئے دوہا درپن ہاتھ
خسروؔ اور کبیرؔ ہیں دونوں میرے ساتھ
سوانحی کوائف
نام : محمد علی صدیقی
قلمی نام : فراغ روہوی
والد : جناب محمد انعام الحق صدیقی(مرحوم)
ولادت : ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۶ء، بمقام موضع : روہ، ضلع : نوادہ، بہار
تعلیم : بی۔ کام پارٹ – I
شغل : تجارت
آغاز شاعری : ۱۹۸۵ء
شرف تلمذ : حضرت قیصر شمیم
تصانیف : (۱) چھیاں چھیاں (ماہیے ) ۱۹۹۹ء
(۲) ذرا انتظار کر (غزلیں ) ۲۔ ۔ ۲ء
(۳) مرا آئینہ مدینہ (نعتیہ کلام) ۲۔ ۔ ۳ء
(۴) جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے (شاعری برائے اطفال) ۲۰۰۴ء
(۵) ہم بچے ہیں پڑھنے والے ( نظمیں برائے اطفال) ۲۰۱۲ء
(۶) جنوں خواب (رباعیات) ۲۰۱۳ء
(۷) درِ خواب پہ دستک (غزلیں ) ۲۰۱۵ء
(۸) دوہا درپن (دوہا) ۲۰۱۵ء
(۹) بوجھ سکھی ری بوجھ (کہہ مکرنیاں ) زیر ترتیب
انعامات : ’’چھیاں چھیاں ‘‘ پر اُتر پردیش اور مغربی بنگال اُردو اکاڈمیوں کے انعامات برائے ۱۹۹۹ء
’’ذرا انتظار کر ‘‘ پر مغربی بنگال اُردو اکا ڈمی کا انعام برائے ۲۰۰۲ء
’’جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے ‘‘ پر اُتر پردیش اور بہار اُردو اکاڈمیوں کے انعامات برائے ۲۰۰۴ء
’’ہم بچے ہیں پڑھنے والے ‘‘ پر بہار اُردو اکا ڈمی کا انعام برائے ۲۰۱۳ء
’’جنوں خواب ‘‘ پر اُتر پردیش اُردو اکا ڈمی کا انعام برائے ۲۰۱۳ء
قدر شناسی : ہوڑہ رائٹرزایسوسی ایشن ایوارڈ برائے ۲۰۰۸ء
دلیپ کمار فینس کلب،کلکتہ کا ’’دلیپ کمار ایوارڈ‘‘ برائے ۲۰۱۲ء
فنکار اکاڈمی،کلکتہ کا ’’ساحر لدھیانوی ایوارڈ‘‘ برائے ۲۰۱۳ء
انتخاب : کئی نظمیں نصابی کتب میں شامل ہیں
ادارت : سہ ماہی ’’ترکش‘‘ کلکتہ، دو ماہی ’’دستخط‘‘ بارک پور، ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ کلکتہ اور ماہنامہ ’’کلید خزانہ‘‘ کلکتہ
وابستگی : ممبر ، دی فلم رائٹرزایسوسی ایشن،ممبئی
لائف ممبر ، دی انڈین پرفارمنگ رائٹ سوسائٹی لمیٹیڈ،ممبئی
سکریٹری، ادارہ ’’ہم نوا‘‘ کلکتہ
سکریٹری ، ادارہ ’’دیارِ ادب‘‘ کلکتہ
آبائی وطن : صدیقی ہاؤس، محلہ خلیفہ ٹولہ، موضع : روہ، ضلع : نوادہ، بہار805110-
موجودہ رہائش : -67مولانا شوکت علی اسٹریٹ(کولوٹولہ اسٹریٹ)، کلکتہ700 073-
موبائل : 9831775593 / 9830616464
ای-میل : E-mail: faraghrohvi@gmail.com
٭٭٭
انتساب
ماں کے نام
حمدیہ دوہے
کچھ کہنے سے پیشتر کہئے بسم اللہ
کھل جائے گی آپ ہی برکت والی راہ
شروع اُسی کے نام سے جو ہے راحت کار
کام نیا درپیش ہے ، مشکل اور دشوار
ہر اچھے آغاز کا اچھا ہے انجام
منزل چل کر آئے گی رب کا جپ لو نام
اُسی کی ایسی ذات ہے ، اُسی کی ایسی شان
بن دیکھے اللہ کو ہم لائے ایمان
چاہے بھگون بولئے یا کہئے غفار
اُس کی تنہا ذات ہے ، اُس کے نام ہزار
امبر سے پاتال تک سب کا مالک ایک
ہم بندوں نے رکھ دئیے اُس کے نام انیک
دنیا میں تیرے سوا کوئی نہیں معبود
تیری ہستی بے کراں ، ہم ٹھہرے محدود
تیرے آگے کچھ نہیں بندوں کی اوقات
تو لافانی ہے خدا، فانی سب کی ذات
نوری اُس کی ذات ہے ، نوری اُس کا روپ
دیکھ اُسے شرمائے ہے تیکھی میٹھی دھوپ
اُس کا رہنا ٹھیک ہے ہر پل پردہ پوش
ورنہ کیسے سامنے رہیں سلامت ہوش
لافانی رہ جائے گی اُس کی ذاتِ پاک
ہو جائے گا ایک دن سارا عالم خاک
ہم جنمے ہیں خون سے ، ہم ٹھہرے ناپاک
تو نورانی ذات ہے ، تیری ہستی پاک
پیر، پیمبر، اولیاء کرتے ہیں اقرار
تو ہی پالن ہار ہے ، کون کرے ان کار
چاہے دھرتی ہو تری یا نیلا آکاش
پھیلا چاروں اور ہے تیرا ہی پرکاش
جگنو ہو یا چاندنی، اِندر دھنش یا دھوپ
سب میں میرے سائیاں ، جھلکے تیرا روپ
ایک اشارے پر ترے دنیا کا ہر کام
دن انگڑائی لے کہیں ، اور کہیں پر شام
وہی ہے ذرّے کا خدا، اُس کا کوہِ طور
سب پہ چھڑکتا رہتا ہے سائیں اپنا نور
دھرتی سے آکاش تک ، سانجھ ہو یا کہ بھور
ڈنکا تیرے نام کا بجتا ہے ہر اور
تو نے ہر مخلوق پر ایسی چھوڑی چھاپ
جھنڈا تیرے نام کا لہرائے گا آپ
پھر بھی یہ بندے ترے ہو گئے تم سے دور
تم کتنے بلوان ہو، ہم کتنے مجبور
مدحت سے قاصر زباں اور قلم لاچار
تیرے سب وردان کا ممکن نہیں شمار
دوڑتے رہنا چاہیے اک مالک کی اور
پیچھے بھاگے چاند کے جیسے ایک چکور
جب چاہے جس چیز کی لے چٹکی میں جان
اُس کی مرضی سے اُٹھے ساگر میں طوفان
دیکھ رہا تھا دیر سے ظالم کا ہر کھیل
بے دردی کے ساتھ پھر اُس کی کسی نکیل
خدا بڑا رحمان ہے ، رحمت اُس کی شان
کرے اُسی سے منتیں بخشش کی انسان
آنسو یا مسکان دے جو تجھ کو منظور
داتا، تیرے سامنے ہم بندے مجبور
تو قادر ہر بات پر، تیری ذات عظیم
پاپ ہمارے بخش دے ، تو ہے بڑا رحیم
تیرے ہوتے کیوں چبھیں ان تلووں میں خار
تیری لیلا نے کیا آتش کو گلزار
کب تک پھانکوں سائیاں ،درگاہوں کی دھول
مورے انگناں بھی کھلیں کومل کومل پھول
اے داتا، اس بانجھ کی عرضی کرو قبول
میرے آنگن میں کھلیں ننھے منے پھول
مولا، اس سنسار میں تیرا نہیں جواب
ایک اشارے پر ترے سچ ہوں سارے خواب
کیوں ترسے بندہ ترا، سن لے مری پکار
کھول دے میرے واسطے رحمت کا بھنڈار
چھپی نہیں تجھ سے کبھی میرے من کی بات
بن مانگے مجھ پر رہی رحمت کی برسات
مجھ کو بھی محفوظ رکھ اے میرے اللہ
اُسے ملی ہیں راحتیں ، دی ہے جسے پناہ
رہبر کوئی بھی نہیں اے میرے اللہ
بھٹکا میرا قافلہ اسے دِکھا دے راہ
تجھ سے پوشیدہ نہیں ہم بندوں کا حال
علم کی دولت دان کر، کر دے مالا مال
اور بلندی تک ہمیں کرنی ہے پرواز
یارب، میری زندگی کر دے ذرا دراز
میری ساری مشکلیں کر دے تو آسان
دوہا کہنے کی للک رکھتا ہوں بھگوان
تو لکھوائے تو لکھوں روز انوکھی بات
کہنے کو تو ساتھ ہیں کاغذ، قلم، دوات
تیرے آگے ہے یہی یارب، ایک سوال
مجھے اچھوتا سا کوئی کر دے عطا خیال
سن لی جب بھگوان نے میرے من کی بات
کاغذ پر ہونے لگی دوہوں کی برسات
کرنے بیٹھو گے بیاں رب کی اگر صفات
کم پڑ جائیں گے میاں ، کاغذ، قلم، دوات
بنتے ہیں سنسار میں جس سے سب کے کام
ہر پل لیتے کیوں نہیں اُس مالک کا نام
٭٭٭
نعتیہ دوہے
یارب، کس سے ہو سکے آقاؐ کی تعریف
تو ہی دے توفیق تو کوئی کرے توصیف
اللہ رے ! سرکارؐ نے پائی رفعت خوب
نبیوں میں ٹھہرے وہی نبیوں کے محبوب
رعب دکھا کر مٹ گئے سب کے تخت و تاج
دل پر اُس کا راج ہے ، جسے ملی معراج
چپ کے سے معراج کا جب آیا سندیس
پلک جھپکتے ہی نبیؐ پہنچے رب کے دیس
دھرتی سے آکاش تک پھیلا تھا اک نور
مولا سے جب عرش پر ملنے گئے حضورؐ
٭٭٭
منقبتی دوہے
آپ خدا کے ہیں ولی اجمیری سرکار
ہمیں وسیلہ آپ کا بے شک ہے درکار
بھیڑ فقیروں کی لگی رہتی ہے دن رات
ولیوں کے دربار میں بٹتی ہے خیرات
رو رو کر جب منتیں کرتے ہیں مجبور
ولیوں کے دربار میں دکھ ہوتے ہیں دور
آیا جو بھی مانگنے گیا نہ خالی ہاتھ
ولیوں کے اکرام کی کیسی ہے برسات
ولیوں کے دربار میں سب کے بنے ہیں کام
روشن ہوتے ہیں وہاں بے ناموں کے نام
ولیوں کے در پر ہوئی سب کی دعا قبول
دور کرے ہے ہر مرض اُن کے در کی دھول
کام جو کر پاتے نہیں راجا اور امیر
کر دیتے ہیں کام وہ صوفی، سنت، فقیر
٭٭٭
دھنک رنگ دوہے
کتنے خانوں میں تجھے بانٹ رہا انسان
مندر، مسجد سے ذرا باہر آ بھگوان
مسجد، مندر، چرچ کو ہم کر کے تعمیر
بانٹ دیا بھگوان کو جیسے ہو جاگیر
سب کی منزل ایک ہے ، الگ الگ ہے چھور
مسجد جائے مولوی، پنڈت مندر اور
اے بندھو، جب ایک ہیں اللہ اور بھگوان
مسجد میں ہو کیرتن، مندر بیچ اذان
چاہے کعبہ جائیے یا کاشی کی اور
لے جاتی ہے کھینچ کے شردھا کی اک ڈور
وید پڑھاتے مولوی، پنڈت جی قرآن
دیکھ کے اس کو آ گیا غصے میں شیطان
مطلب رکھے نام سے ، اور نہ دیکھے روپ
پھیل گئی اک آن میں آنگن آنگن دھوپ
پنچھی رکھتے ہیں کہاں کبھی کسی سے بیر
مندر، مسجد ہر جگہ کرنے جائیں سیر
یہ دھرتی اک منچ ہے اس کے ہم کردار
بیٹھا ہے آکاش پر ایک ہدایت کار
ڈور کسی کے ہاتھ میں ، اور کسی کا راج
ہم کٹھ پتلی کی طرح ناچ رہے ہیں آج
بیٹھے ہیں سب یاتری، پتا نہیں ہے چھور
آئے ہیں کس اور سے ، جائیں گے کس اور
وہ دنیا کیا چیز ہے ، ملتی نہیں مثال
یاں پھولوں کی سیج پر رہ کر بھی بے حال
جانے کیسا دیس ہے ، وہاں کا کیسا بھیس
چٹھی پتری کچھ نہیں ، نا کوئی سندیس
پار کروں گی جس گھڑی بابل کی دہلیز
منہ تکتی رہ جائے گی گھر کی اک اک چیز
آ کر اس سنسار میں ہمیں ملا یہ گیان
جیون ہے اک چاکری اور مالک بھگوان
جیون کاغذ ناؤ میں ماٹی کے انسان
سمے سمندر بیچ ہے خطرے میں ہر جان
جیون ساحل پر کھڑا بے بس ہے انسان
من ساگر میں درد کا اُٹھا ہے طوفان
قدرت اور تقدیر کا دیکھ انوکھا کھیل
جیون دیپک جل رہا بن باتی، بن تیل
دونوں کے تیور عجب، اور عجب ہیں رنگ
روشن جیون دیپ ہے طوفانوں کے سنگ
پہلے جیسے ہیں کہاں اب اس کے انداز
ایسے جیون کا بھلا کون اُٹھائے ناز
چپ سے پنچھی کی طرح پھُر سے جو اُڑ جائے
ایسے جیون پر کوئی کا ہے کو اِترائے
چھوٹا ہوتے دیکھ کر جیون کا وستار
ہنسنا، گانا، کھیلنا بھول گئے ہم یار
خود کو تم دیکھا کرو آئینے کی اور
جیون ایک پتنگ ہے ، سانسیں اس کی ڈور
اب جا کر حاصل ہوا مجھ کو بھی یہ گیان
جینا مشکل ہے بہت، مر جانا آسان
پتھر برسائے کبھی یا برسائے پھول
جو تحفہ دے زندگی ہنس کے کرو قبول
یار، کسی بھی موڑ پر اَڑنا تھا بے کار
سمجھوتہ کرتے رہے جیون سے ہر بار
بات پتے کی ہے اسے کیسے جائیں بھول
دو کوڑی کا بھی نہیں جیون بنا اصول
کیا ایسے ماحول میں چھیڑوں جیون راگ
میرے چاروں اور ہیں کالے کالے ناگ
کس کو میں اپنا کہوں ، کس کو سمجھوں غیر
اوپر اوپر دوستی، اندر اندر بیر
کس کا پیچھا ہم کریں ، دوڑیں کس کی اور
چوری کر کے آپ ہی چور مچائے شور
پتہ نہیں جس کی ہمیں کوئی اور نہ چھور
قدم بڑھائیں جوش میں کا ہے کو اُس اور
جنھیں نہیں معلوم تھی جس کی کوئی چھور
کھینچ اُنھیں بھی لے گئی مجبوری کی ڈور
آگے بھی دیوار ہے ، پیچھے بھی دیوار
جائیں بھی توکس طرح دیواروں کے پار
اتنا بڑھتا جائے ہے جتنا آگے جاؤ
کون بھلا آکاش کا ماپ سکا پھیلاؤ
کوئی آخر کس طرح انساں کے ہاتھ آئے
ہاتھ لگے جب آسماں ، دھرتی گم ہو جائے
یارو، دیکھو تو ذرا قدرت کا قانون
ٹکا ہوا ہے آسماں کیسے بنا ستون
کرے اسی سے آدمی حاصل کچھ پرکاش
سینہ تانے ہے کھڑا بن کھونٹا آکاش
ناتا جانے کیا جڑا ہے دونوں کے سنگ
نیلا نیلا آسماں ، نیلا ساگر رنگ
مرغا بھی دیتا نہیں دیر گئے تک بانگ
آنکھ دِکھائے آسماں ، دھرتی کھینچے ٹانگ
آنے کو تو آ گئے ہم ساگر کے پاس
لیکن کیوں بجھتی نہیں ، کیسی اپنی پیاس
کون سوا بھگوان کے اسے بجھانے پائے
جتنی میری پیاس ہے ساگر کم پڑ جائے
ندی سے رکھو رابطہ، اُسی سے رکھو آس
بجھا نہ پایا ہے کبھی ساگر کوئی پیاس
کھڑے ہو آخر کس لئے تم ساگر کے پاس
کھارے پانی سے کہیں بجھ پاتی ہے پیاس
ایسی میری پیاس ہے ، کیا بتلاؤں یار
دریا کی دریا دلی جس سے جائے ہار
پھل کرموں کا بولئے یا کہیے سنجوگ
پیاسے کے پیاسے رہے بیچ ندی ہم لوگ
تم ساگر میں گھول دو چینی کا انبار
پھر بھی کھارا پاؤ گے اس کا کاروبار
کچھ تو سیکھو دیکھ کر قدرت کا یہ کھیل
ساگر سے جا کر ہوا دریاؤں کا میل
انساں ندیوں کی طرح سنگت کو اپنائے
ساگر سے مل کر ندی خود ساگر بن جائے
ٹھیک نہیں لگتے ہیں اب ندیوں کے کردار
ریت پہ رکھ کر بھول جا کشتی اور پتوار
پھیلی ہیں خاموشیاں ساحل کی ہر اور
ساگر کی تہہ میں مگر ہے طوفانی شور
سمجھے گا اس بات کو کیا کوئی نادان
قطرہ قطرہ میں چھپا ہوتا ہے طوفان
شور مچاتی موج سے نہیں کوئی نقصان
ساگر کی خاموشیاں لاتی ہیں طوفان
کیا جانے چنگاریاں کب جائیں پھر جاگ
اوپر اوپر راکھ ہے ، اندر اندر آگ
میں ہی اکیلا رہ گیا، حالت ہوئی عجیب
گھر میں کچھ بھی ہے کہاں جس کو دوں ترتیب
دیواروں میں قید ہیں صدیوں کی تاریخ
آخر کب تک ہم سہیں سناٹوں کی چیخ
جاں لیوا تنہائیاں بن کے مرا نصیب
کل بھی میرے پاس تھیں ، اب بھی مرے قریب
مدھم مدھم سا کبھی اور کبھی پُر زور
جنگل میں احساس کے درد بھرا ہے شور
کھویا دل کا چین بھی، سپنے بھی بسرائے
قسمت میں ہے جاگنا، نیند کہاں سے آئے
کب آیا پوری طرح کچھ بھی میرے ہاتھ
ٹکڑے ٹکڑے دن ملے ، دھجی دھجی رات
تنہائی ڈسنے لگی، کس سے کیجے بات
السائے سے دن مرے ، السائی سی رات
تنہائی کیسے کٹے ، کون کرے اب بات
مجھ سے تو دن کی طرح منہ پھیرے ہے رات
جس سے کرتے تھے کبھی دکھ سکھ کا اظہار
بیٹھ گئی منہ پھیر کر آج وہی دیوار
اک اک لمحہ ہے صدی، اُس پر عجب عذاب
بنجر جیسی آنکھ میں آنسو ہیں نا خواب
بادل برسے ہر طرف، مجھ کو کرے اُداس
صحرا جیسے ہونٹ پر ناچ رہی ہے پیاس
چہرہ پت جھڑ کی طرح، آنکھیں بھی سنسان
ہونٹوں پر فالج زدہ رہتی ہے مسکان
مدھم مدھم چاندنی، گم صم گم صم رات
سسک رہا ہے چاند بھی کچھ تاروں کے ساتھ
کون بتائے کس لئے اتنی تھی غمگین
روئی ایسی چاندنی جل تھل ہوئی زمیں
یہ کہہ کر ہر یار سے پچھتائے ہر بار
تم ہو جگری یار تو دے دو نیند اُدھار
ایک یہی تو چیز ہے اب مجھ کو درکار
پھولو، تم ہی اب مجھے دے دو ہنسی اُدھار
آنکھیں کریں سوال تو کیا دیں اُنھیں جواب
ملی نہیں تعبیر کچھ، شرمندہ ہیں خواب
کہنے والے کہہ گئے کیسی سچی بات
سایہ بھی دیتا نہیں اندھیارے میں ساتھ
چھوٹے ہوتے ہیں بہت خوشیوں کے لمحات
کاٹے کٹتی ہی نہیں دکھ کی لمبی رات
پوری کب ہو پائے گی میرے من کی بات
جتنی لمبی ہے کتھا، اتنی چھوٹی رات
قسمت مجھ کو دے رہی بڑھ کر کچھ سوغات
جانے کیوں لیتے ہوئے کانپ رہے ہیں ہاتھ
تب ہوتا کچھ کام کا یہ تحفہ سرکار
اُن کو دیتے ہاتھ بھی، جن کو دیا ستار
دیکھو تو دریا دلی، اُس ظالم نے یار
اُنگلی میری کاٹ لی دے کر ایک ستار
کتنا بھی ماہر رہے کوئی بھی فنکار
بجا نہ پائے گا مگر اُنگلی بنا ستار
تم بھی کر کے دیکھ لو پاگل پن اک بار
چھید بنا بھی بانسری کہیں بجی ہے یار
چھیڑو تو اک آن میں بج اُٹھتے ہیں ساز
دل ٹوٹے تو گونجتی کہاں کوئی آواز
کاش! کبھی یہ سوچ کر اُن کو ہوتا کھید
شبدوں کے ہی تیر تو دل دیتے ہیں چھید
چوٹ کہاں دل پر لگی، جگر ہوا کب چاک
کیا جانے کیوں ہو گئی آنکھ مری نمناک
رکا کہاں تھا، آنکھ سے جاری تھا سیلاب
نمک چھڑکنے آ گئے زخموں پر احباب
کھیل رہے ہیں جوش میں وہی پرانا کھیل
جسے نہیں تھا جھیلنا اُسے رہے ہیں جھیل
آ پہنچے اُس موڑ پر ہم سادھارن لوگ
جسے نہیں تھا بھوگنا اُسے رہے ہیں بھوگ
کب تک آخر کھیلتے ہم بے مطلب کھیل
دیپک بھی جلتا نہیں بن باتی، بن تیل
چھوٹی سی یہ زندگی دیکھے کیا کیا خواب
انسانوں کو آسرے رکھتے ہیں بے تاب
دیتے بھی کیا ہم بھلا اُسے دیا دھتکار
ہاتھ پسارے زندگی ہمیں ملی ہر بار
تھامے رہے گی کب تلک مرے تمھارے ہاتھ
یہ ہرجائی زندگی کل تج دے گی ساتھ
قطرہ قطرہ کر دیا اِس کے اُس کے نام
مجھ کو تو نے زندگی، دیا نہیں اک جام
مرے گلے میں پڑ گئی جیسے کوئی پھانس
اُکتائی سی زندگی، اُکتائی سی سانس
تیرے پیچھے میں پڑوں کا ہے کو دن رات
دو دن کی تو زندگی، کیا تیری اوقات
عجب عجب انداز سے دھارے ہے یہ روپ
سایہ والی زندگی، بانٹ رہی ہے دھوپ
کیوں سوچیں یہ زندگی سایہ ہے یا دھوپ
ہمیں پڑیں گے جھیلنے اس کے دونوں روپ
کتنے بھاگم بھاگ میں گزری صبح و شام
تھکی تھکی سی زندگی ڈھونڈے ہے آرام
جگا رہی ہے زندگی بن کر ایک عذاب
کیسے دیکھیں بولئے نیند بنا ہم خواب
قسمت نے رکھا جنھیں خوشیوں سے محروم
کیا ہوتی ہے زندگی اُن کو ہے معلوم
ہم حیراں ہیں دیکھ کر قسمت کا یہ کھیل
ساتھ ہے جیون اس طرح ہوتا نہیں ہے میل
ہونٹوں پر جو تھی سجی، کہاں گئی مسکان
ٹوٹا ٹوٹا سا لگے اب تو ہر انسان
جس کی جو اوقات ہے اتنا تھامے بھار
دکھ کی گٹھری دیکھ کر بانٹے ٹھیکے دار
جانے کیسا سانحہ گزرا کس کے ساتھ
اک انجانی چیخ نے جگا دیا کل رات
کوئی سنتا ہی نہیں درد بھری آواز
زخموں پر مرہم رکھے کوئی چارہ ساز
اپنوں سے عزت ملی، غیروں سے سمان
تیری لیلا دیکھ کر حیراں ہوں بھگوان
بھول گئے ہر واقعہ، بس اتنا ہے یاد
مال وہ زر پر تھی کھڑی رشتوں کی بنیاد
یاروں کی اک بھیڑ ہے یوں تو مرے قریب
تنہائی مٹتی نہیں دیکھو مرا نصیب
جانے کیوں اُٹھنے لگا من میں اب یہ شور
خود غرضوں کی بھیڑ ہے میرے چاروں اور
روز ستاتی ہے ہمیں جانے کیوں یہ بات
کون ہمارے ساتھ ہے ، ہم ہیں کس کے ساتھ
آنکھ کھلی اک موڑ پر تبھی کھلی یہ بات
بھاگ رہے تھے ہم کسی پرچھائیں کے ساتھ
یاد مجھے ہے اُس گھڑی ٹوٹا مرا غرور
جب اپنی پرچھائیں تک ہوئی نظر سے دور
سر پر تھا وشواس کا میرے بہت جنون
لیکن اس وشواس کا ہوا ہمیشہ خون
میں پتھر بنیاد کا، تم ٹھہرے دیوار
کھڑے رہو گے کس طرح اگر نہ تھاموں بھار
اُڑتی ہے یہ دیکھ کر کچھ چہروں پر دھول
ہم کانٹوں کے بیچ بھی رہے مثالی پھول
قطرے کی اوقات کیا، قطرہ لے یہ جان
دریاؤں کا بھی نہیں ہم لیتے احسان
یار، پرانی ہی سہی اپنی یہ تلوار
تیز بہت ہی ہے مگر اب بھی اس کی دھار
مٹھی میں تھا آسماں ، قدموں تلے زمین
اک دن ہم بھی شاہ تھے ، ہو گا کسے یقین
ایک ہمیں ٹھہرے نہیں سیپی کے بھی یوگ
موتی ساگر کوکھ سے ڈھونڈ نکالے لوگ
آپ تو ٹھہرے آسماں ، آپ کی کیا ہے بات
کیسے پہنچیں آپ تک میرے چھوٹے ہاتھ
اُس کے تیور ہیں الگ، اُس کی ادا عجیب
وہ اتنا ہی دور ہے ، جتنا مرے قریب
اُس لمحہ ہم رہ گئے مَل کر اپنے ہاتھ
آتے آتے رہ گئی لب پر کوئی بات
ہم جیسے کیا ہو گئے پڑھ کر چار کتاب
چھوٹی چھوٹی آنکھ میں بڑے بڑے ہیں خواب
مانا رکھتے ہیں بہت ہم کو یہ بیتاب
پھر بھی ہمیں عزیز ہیں چھوٹے چھوٹے خواب
سپنوں کی سودا گری بھولے سے مت چھوڑ
دِکھلا کر سپنے نئے ٹوٹے دل کو جوڑ
کا ہے کو یہ سوچنا کیا ہو گا انجام
ہم سپنے دیکھا کریں یارو، صبح و شام
بچا سکے اپنے لئے کچھ لمحے کب یار
ہم نے سارا وقت تو جگ پر کیا نثار
سمے گیا آگے نکل پکڑ نہ پائے یار
ہم سے بھی کچھ تیز تھی لمحوں کی رفتار
روکے سے رکتا نہیں ، کیسے آئے ہاتھ
بھاگ رہا ہے وقت اب کس تیزی کے ساتھ
کل کی جانب دیکھئے نا کل کے اُس پار
یہ جو دن ہے آج کا، اپنا دن ہے یار
کٹتا ہے کچھ اس طرح اپنا سارا وقت
جیسے سایا بانٹ کے جلتا رہے درخت
ہم جیسوں کے بھاگ میں لکھا ہے بس کام
مر جانے کے بعد ہی شاید ہے وِسرام
سچ مچ بالکل گول ہے دنیا کا آکار
چاروں جانب گھوم کے دیکھ لیا سنسار
تنہا ہر دکھ جھیلنا پڑتا ہے اے یار
یہ سارا سنسار ہے سکھ کا ساجھے دار
کاش! کہ مل جاتے ہمیں فرصت کے لمحات
ہم بھی اپنے آپ سے کر لیتے کچھ بات
ایسے میں چوکھا لگے تنہائی کا رنگ
دن بھر لوگوں بیچ تھے ، اب ہیں اپنے سنگ
کس میں اپنی جیت ہے ، کس میں اپنی مات
ہم سادھارن لوگ ہیں کیا سمجھیں یہ بات
جیتی بازی ہار کے میں نے دی ہے مات
دنیا جو ناراض تھی، اب ہے میرے ساتھ
رہ کر ساتھ امیر کے یہی ہوا احساس
اتنا رکھنا فاصلہ جتنا رہنا پاس
یوں بہلاتے ہی رہے بچوں کو ہر بار
سستے ہوں سامان تو ہم جائیں بازار
ہم بھی کھاتے تھے کبھی مرغ مسلم، نان
اب لکھا ہے بھاگ میں پرہیزی پکوان
دنگ ندی ہے دیکھ کر قطرے کی اوقات
ساگر سے کرنے لگا ابے تبے سے بات
دور یہ کیسا آ گیا جگ میں خدا پناہ
ساگر دے دے راستہ، نالا روکے راہ
کوئی چاہے ہے بھلا، کوئی کرے بگاڑ
ندی بنائے راستہ، روکے مگر پہاڑ
دیدہ ور یہ دیکھ کر شرما کے رہ جائے
اک اندھا جب راستہ اندھے کو دکھلائے
آپ اسے سچ مانئے یا کہیے افواہ
جگنو دکھلانے چلا سورج کو بھی راہ
ننھے سے اک دیپ نے شور مچایا خوب
راج چلے گا اب مرا، سورج ہوا غروب
دیکھ کے اپنی روشنی شرما کے رہ جائے
جو ہے کام چراغ کا جگنو کب کر پائے
سورج، اتنا مت اکڑ، بہت بری ہے بات
تیور دیکھ چراغ کا جب ہو کالی رات
چاند اُگا گہنا گیا، تارے بھی بے نور
جن کے پیچھے میڈیا وہی ہوئے مشہور
چاہے جتنا سینچئے مرجھا کر رہ جائے
اونچے پیڑوں کے تلے پودا پنپ نہ پائے
سوکھی ماٹی چاک پر رکھ کر اک کمہار
سوچ رہا ہے دیر سے کیسے دے آکار
بھگوانوں کے روپ کو دیتا ہے آکار
یوگ کہاں سمان کا ٹھہرا یہ فنکار
سوچے گا سب سے الگ تخلیقی فنکار
مطلب اُس کی بات میں ہوں گے ایک ہزار
ندی کنارے بیٹھ کر کیا کرتے تحریر
ہم بیٹھے بن کیمرہ کھینچ رہے تصویر
آگ، دھواں ہے ہر طرف، حالت ہے سنگین
چتر بنائیں کس طرح سندر اور رنگین
جاری تو ہر حال میں رکھے گا پرواز
رکا نہیں پر تول کر کوئی بھی شہباز
تم ٹھہرے تاجر مگر ہم شاعر کی ذات
ہم سے تو ہوتی نہیں کاروباری بات
قیمت کوئی مت لگا، پیسے سے مت تول
فن پارے فنکار کے ہوتے ہیں انمول
دھن کے تو لوبھی نہیں ، ہم جیسے فنکار
بک جاتے ہیں پیار پر، قیمت اپنی پیار
ایسے بھی تو ہیں نہیں برے مرے حالات
جا کر خود کو بیچ دوں نا اہلوں کے ہاتھ
آپ تو ساہوکار ہیں ، ہم ٹھہرے فن کار
ہم دونوں کی دوستی نہیں لگے گی پار
کھوٹے سارے پارکھی، کھوٹے سارے نین
فرق ہے کس میں کس قدر کیا ہیں عین و غین
ناقدری کے دور میں کہاں کوئی ججمان
بھول گئے سب پارکھی ہیرے کی پہچان
مجھ کو پرکھے گا وہی جو ہے گہر شناس
کانچ برابر ہی لگے مورکھ کو الماس
اُس کی آب و تاب پر کبھی نہ آئی آنچ
ہیرا ہیرا ہی رہا، کانچ ہمیشہ کانچ
سونا ماٹی بیچ بھی سونا ہی کہلائے
پیتل پیتل ہی رہے چاہے سر چڑھ جائے
بچا نہیں کیا ایک بھی قد آور انسان
دنیا نکلی بانٹنے بونے کو سمان
کہاں کسی کو گیان ہے ، کس کا کیا استھان
ہر کوئی دینے لگا جس تس کو سمان
جہاں کہیں بھی نیچ کو ملتا ہے سمان
اِس سے اُس سمان کا ہوتا ہے اپمان
لمبائی سے تو نہیں ہوتا کوئی مہان
قد آور کردار سے ہوتے ہیں انسان
کون یہاں بے عیب ہے ہم کو یہ بتلائے
عیب نہیں جس میں کوئی وہ درپن دکھلائے
عقل خدا نے سونپ کر کیسا کیا مہان
آسانی سے حل کرے ہر گتھی انسان
انسانوں نے دیکھئے کیسا کیا کمال
اک دن پہنچا چاند پر، چھو آیا پاتال
نا ممکن کچھ بھی نہیں ، جگ ظاہر یہ بات
چاند ستارے چھو چکے انسانوں کے ہاتھ
چھو کر تم آکاش کو مت بھولو یہ بات
رشتہ رہے زمین سے مضبوطی کے ساتھ
ایسا کوئی راستہ کر لیں گے ایجاد
دیکھنا اک دن چاند پر ہم ہوں گے آباد
کہاں رہا اب فاصلہ، چھوٹا ہوا جہان
کاش! دلوں کی دوریاں پاٹ سکے انسان
کاغذ، قلم، دوات کا کہاں رہا اب کام
دنیا میں ای میل سے جاتے ہیں پیغام
دیکھ رہی ہے آنکھ اب ہر جانب یہ سین
کل پرزوں میں بندھ گیا، انساں بنا مشین
سوچ رہے ہیں رات دن کاروباری یار
پلک جھپکتے لاکھ سے کر لیں لاکھ ہزار
کچھ بن جانے کی ہوس دن دیکھے نا رین
غارت ہوا سکون تو اُڑا ہمارا چین
اک دن میں ہوتا نہیں پورا کوئی خواب
قطرہ سے دریا بنو دریا سے سیلاب
بے شرمی کو کس قدر آج رہے ہیں بھوگ
نئی نئی تہذیب کے مارے ہیں ہم لوگ
مسجد بھی خالی ملی ، مندر بھی سنسان
ناچ گھروں میں بھیڑ تھی ، دیکھ ہوئے حیران
خود اپنی ہی موت کا لئے ہوئے سامان
ٹیلے پر بارود کے بیٹھا ہے انسان
گھٹناؤں کے بیچ میں گھری ہوئی ہے جان
جیون پاتے ہیں نیا ہر دن ہم انسان
آندھی اور طوفان میں کون ہوا برباد
آؤ دیکھیں بیٹھ کے ٹی وی پر سمواد
ہم کو بتلائے کوئی کس سے ہوئی یہ بھول
چہرہ چہرہ گرد ہے ، درپن درپن دھول
چاروں جانب بھور سے پھیلی ہے وہ دھوپ
پار کروں دہلیز تو کجلا جائے روپ
اس کے نیچے تو جلے سر سے لے کر پاؤں
ننگا کوئی پیڑ بھی کب دیتا ہے چھاؤں
اور ٹھکانہ ڈھونڈیئے جہاں پساریں پاؤں
آگ لگے اُس پیڑ کو جس میں پھل نا چھاؤں
کیوں آئے ہم چھوڑ کے اپنا پیارا گاؤں
شہر میں روٹی ڈھونڈتے تھک جاتے ہیں پاؤں
دیکھ رہے ہیں گاؤں کا بدلا بدلا روپ
کہاں گئی وہ چاندنی، کہاں گئی وہ دھوپ
پرکھوں کے اُس گاؤں میں ملا نہیں وہ گاؤں
کھیل جہاں پر کھیلتے ، پنگھٹ، پیپل، چھاؤں
بچپن میں دیکھا کہاں اس کے سوا جہان
آنگن ہی اسکول تھا، آنگن ہی میدان
بچپن میں بھگوان سے کہتے تھے یہ بات
سورج نکلے رات کو چندا جی کے ساتھ
اُس کا چلنا رات بھر دیکھ ہوئے ہم دنگ
بھور تلک چلتا رہا چاند ہمارے سنگ
ہم کتنے انجان تھے ، ہم کتنے معصوم
یہ دنیا ہے مطلبی، کسے نہیں معلوم
دنیا سے مت آس رکھ، یہ ہے بڑی مہین
جو بھی تیرے پاس ہے وہ بھی لے گی چھین
دنیا لینے کے لئے رہتی ہے تیار
اس سے جب کچھ مانگئے دیتی ہے دھتکار
خالی ہے جذبات سے ، پتھر جیسی سرد
دنیا جانے گی بھلا کیسے دل کا درد
شہرت ملتے ہی تجھے دنیا لے گی گھیر
ورنہ اکثر دیکھ کر منہ لیتی ہے پھیر
دنیا سر چڑھ جائے گی اس سے مت رکھ میل
کستے رہنا ٹھیک سے اس کی سدا نکیل
جھوٹی اُس کی دوستی، جھوٹا اُس کا پیار
دنیا ہے اک فاحشہ اُس کے یار ہزار
قسمت میں تھا بھوگنا خوب رہے ہیں بھوگ
جیسی یہ دنیا ہوئی، ویسے اس کے لوگ
یہ تو دنیا ہے یہاں ، غم کے رنگ ہزار
ہر منزل پر کیجئے اس سے آنکھیں چار
کبھی ہمارے ساتھ تھی، کبھی تمھارے ساتھ
پالے بدلتی ہے یہاں دولت را توں رات
دولت ایسی چیز ہے ، مت بنئے گا داس
جتنی ٹھکرائی گئی، اتنی آئی پاس
بڑھ جائے نا فاصلہ، رکھئے اس کا دھیان
نئی نئی ہے دوستی، نئی نئی پہچان
دنیا ہے دیکھی ہوئی، رہئے گا ہشیار
لمحہ بھر کی دوستی، پھر اس سے تکرار
نئی نہیں یہ دشمنی، نیا نہیں الگاؤ
وہی پرانی چوٹ ہے ، وہی پرانے گھاؤ
گرا دے اب نفرت بھری بن کھڑکی دیوار
گھٹ گھٹ کر جینا بڑا ہوتا ہے دشوار
نفرت کے سنسار میں کھیلیں اب یہ کھیل
اک اک انساں جوڑ کے بن جائیں ہم ریل
نفرت کے ماحول میں چھیڑیں وہ سنگیت
جو رس گھولے کان میں ، ہردے کو لے جیت
جھگڑے سے جھگڑا مٹے نا ممکن یہ بات
سمجھوتہ کر دیکھئے بدلیں گے حالات
سب کو خوشیاں بانٹئے ، سب سے کیجے پیار
دنیا ہو گی جیب میں ، مٹھی میں سنسار
دو دن کی ہے زندگی، دو دن کا سنسار
جب تک زندہ ہم رہیں سب کو بانٹیں پیار
بات پتے کی کہہ گئے صوفی، سنت، ملنگ
نشہ اگر ہے جیت کا لڑئیے اپنے سنگ
ہر پل اپنے نفس سے جاری رکھئے جنگ
جب لڑنا مقصود ہے لڑئیے اپنے سنگ
خود پر قابو چاہئے جب آ جائے جوش
ایسی حالت میں کبھی مت کھو دینا ہوش
دل سے اپنے دور کر رنجش اور تناؤ
بھر جائیں گے آپ ہی نئے پرانے گھاؤ
خوشبو پھیلے پھول سے ، بچے بانٹیں پیار
ملتے جلتے ہیں بہت دونوں کے کردار
ان سے ہی کچھ ایکتا سیکھیں ہم انسان
ہم سے تو پنچھی بھلے مل کر بھریں اُڑان
ہندو مسلم ایکتا چڑھ جائے پروان
اک دوجے کے درد کو سمجھیں ایک سمان
بھاری پڑتی ہے بہت اک دوجے پر یار
باہر کی تکرار سے ، اندر کی تکرار
اپنوں کے سنگ کیجئے بھیا مرے نباہ
پتے گر کر پیڑ سے ہوتے ہیں بے راہ
جانے کیسے لوگ ہیں ، جانے کیسا دور
رہا کسی میں بھی نہیں پہلے جیسا طور
کیا جانے انسان کب سمجھے گا یہ بات
اونچا رہتا ہے سدا دینے والا ہاتھ
ہمدردی کوئی کرے آخر کتنی بار
اک دن تو ہمدرد بھی تھک جاتے ہیں یار
کس کے آنسو پونچھئے یا کم کیجے درد
رنج و غم سے چور ہے دنیا کا ہر فرد
خوبی اپنے دیش کی کیا گنوائیں یار
دھرتی ممتا سے بھری، ماٹی خوشبو دار
دشمن کا بل دیکھ کر مت ڈالو ہتھیار
وقت پڑے تو ملک پر کر دو جان نثار
آزادی کے بعد کی روشن ہے تصویر
کل جو ذرا امیر تھے اب ہیں بڑے امیر
حالت سدھری ہے کہاں ، ہم تو رہے غریب
چمک رہے ہیں آپ کے پل پل مگر نصیب
ایک طرف نیتا کھڑے ، ایک طرف ہیں چور
دورا ہے پر آدمی، جائے تو کس اور
باقی تھا جو دیکھنا، دیکھ رہے ہیں آج
چور اُچکے دیش پر اب کرتے ہیں راج
سب شامل ہیں لوٹ میں ، نئی کہاں یہ بات
بہتی گنگا میں سبھی دھو لیتے ہیں ہاتھ
ہار نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی ہر ریس
جو بوئیں گے منتری وہ کاٹے گا دیس
ایسے میں کیا فائدہ اگر مچاؤں شور
سوئے پہرے دار ہیں ، جاگ رہے ہیں چور
ظالم، ترے خلاف اب بولے بھی تو کون
ہونٹوں پر انسان کے راج کرے ہے مون
ہر پاپی کا پاپیو، برا ہوا انجام
راون رستے مت چلو، پرکٹ ہوں گے رام
خنجر میرے یار کا کیوں پیاسا رہ جائے
مرے لہو کا ذائقہ ہر قاتل کو بھائے
جتنی اونچی کیجئے سرحد کی دیوار
پنچھی تو اِس پار سے جائیں گے اُس پار
غالبؔ سا بھی ہو کوئی اک شاعر تہدار
اُس کے اک اک شعر میں معنی ایک ہزار
سارے ہی فنکار کے اک جیسے انداز
چونکاتی ہے اب کہاں کوئی بھی آواز
کیسے شاعر بن گیا معمولی انسان
ہاتھ کی ریکھائیں مری خود بھی ہیں حیران
ہم کچھ کہتے ہیں کہاں ، کیا اپنی اوقات
کہلاتا ہے غیب سے مالک ہر اک بات
غزل جگت میں تھا کہاں اپنا نام، نشان
بنتے بنتے بن گئی اپنی بھی پہچان
فضل فراغؔ اللہ کا مجھ پر ہے بھر پور
دوہا کاری میں مرا نام ہوا مشہور
فعلن فعلن فاعلن، فعلن فعلن فعل
فن یہ مشکل تو نہیں ، مگر نہیں ہے کھیل
پیاسا کا ہے کو رہے اپنا یہ سنسار
گاگر میں ساگر لئے آیا دوہا کار
میں نے کی جو شاعری کاغذ پر تحریر
یہی کمائی ہے مری، یہی مری جاگیر
دولت مندوں سے بڑی اپنی ہے تقدیر
کاغذ، قلم، دوات ہی اپنی ہے جاگیر
سیدھے سادے شبد کا کرتا ہوں چھڑکاؤ
میری بانی میں نہیں کوئی بھی اُلجھاؤ
چھوکر لب سے دیکھئے ، ہوتے نہیں ہیں سرد
میرے گیتوں میں سدا جگے رہیں گے درد
پہلے دن سے آج تک مندا ہے بازار
کیوں شبدوں کا آپ نے کیا ہے کاروبار
کتنے بے معنی ہوئے ، کتنے معنی دار
کہنے کو تو کہہ دئیے دوہے کئی ہزار
ہم دوہا کہتے سمے یہ نہیں جاتے بھول
خسروؔ اور کبیرؔ کے چرنوں کی ہیں دھول
ہم بھی دوہا کار ہیں ، یہ مت جانا بھول
خسروؔ اور کبیرؔ کے باغوں کے ہیں پھول
جب سے آیا دیکھئے دوہا درپن ہاتھ
خسروؔ اور کبیرؔ ہیں دونوں میرے ساتھ
خسروؔ اور کبیرؔ جو کہتے آئے یار
بات وہی دہرائیں گے آج کے دوہا کار
لکھنا تھا جو لکھ چکے سارے دوہا کار
سوچ رہے ہیں ہم ابھی کیا لکھیں اس بار
میں نے بھی سب سے الگ اپنایا انداز
دور تلک اک دن مری گونجے گی آواز
داد نہ دیں گے ، آس پر پانی دیں گے پھیر
ناقدروں کے سامنے کون سنائے شعر
لاکھ خفا ہو آسماں ، ڈر کی کیا ہے بات
باتیں کروں زمین کی دوہے میں دن رات
میں ٹھہرا کب ناقدو، خسروؔ اور کبیرؔ
رکھئے آپ کمان میں اپنے سارے تیر
جو دیکھا ہے وہ لکھا سچائی کے ساتھ
شاید دنیا کو لگے کڑوی میری بات
کوچہ یا بازار ہو یا کوئی دربار
سچ بولیں گے ہر جگہ ہم سچے فنکار
جو کہنا ہے بے دھڑک، ظالم سے کہہ جائے
میرے اندر کا کوی کیسے چپ رہ پائے
جب تک ہم ہیں دوستو، تم سب کے نزدیک
بات کریں گے کام کی سمجھ سکو تو ٹھیک
تم تو ٹھہرے دوستو، سوداگر کی ذات
سمجھ سکو گے تم کہاں ہم کویوں کی بات
دنیا سمجھے گی مجھے چیز کوئی بے کار
کون خریدے گا مجھے مت لے جا بازار
خوب لگیں گی بولیاں ، خوب بڑھیں گے دام
جب ڈھونڈیں گاہک مجھے تب کرنا نیلام
ہم کوئی یوسف نہ تھے جو ہوتے نیلام
بیچ دیا بازار میں خود کو سستے دام
گونگوں کے بازار میں میرے پیارے بول
بکنے کو تو بک گئے ، ملا نہ واجب مول
فنکاری کی راہ میں جب ہے کوئی کمال
اوروں سے ہٹ کر کوئی اپنی راہ نکال
دھیان لگاتا ہی نہیں دیر تلک انسان
سوچ پرندہ کس طرح اونچی بھرے اُڑان
سوچ سبھی کی ہے الگ، الگ سبھی کی بات
سب انساں رکھتے نہیں اک جیسے جذبات
خود ہی ہو گا دیکھنا روشن مرا کمال
میرے ساکت ذہن میں آئے ذرا اُبال
ڈفلی کی دھُن پر یہی گاتا پھرے فقیر
دل روئے پر آنکھ سے بہے نہ ہرگز نیر
ڈھونڈے چھوٹے خواب کی چھوٹی سی تعبیر
ہر دروازے پر صدا دیتا چلے فقیر
صبح کہیں پر کاٹ لی، اور کہیں پر شام
ایک جگہ کرتے نہیں ہم جو گی وِسرام
اپنا کوئی گھر نہیں ، پھٹا پرانا بھیس
رمتا جو گی نام ہے ، گھوموں دیس بدیس
دیکھ کے ریکھا ہاتھ کی بولا ایک فقیر
بالک، تیرے بھاگ میں لکھی ہے جاگیر
ہنس کر گزرو گے اگر تم کانٹوں سے آج
ہاتھ تمھارے آئے گا کل پھولوں کا تاج
بھو گیں گے ہر سکھ وہی، وہی کریں گے راج
جنھیں سمے کا دیوتا پہنائے گا تاج
گونجے بول اذان کے ، سنکھ بجا ہر اور
نیند سے اپنی جاگئے ہونے کو ہے بھور
صوفی، سنت، فقیر نے خوب کہی یہ بات
کیا لائے ہیں ساتھ جو، لے جائیں گے ساتھ
سب کچھ ہے بھگوان کا کیا جیون، کیا مال
ہاتھ لگے گا کچھ نہیں ، سب ہے مایا جال
آپا دھاپی کس لئے ، سب جائے گا چھوٹ
ڈوری تیری سانس کی جب جائے گی ٹوٹ
ریشم کی پوشاک ہو یا نو لکھا ہار
دو دن جینے کے لئے اتنے شوق سنگار
چھوڑو بھی یہ ریشمی، کم خوابی پوشاک
اک دن ہونا ہے ہمیں ماٹی کی خوراک
اُوپر والے نے دیا جگ کو یہ پیغام
جس کو میرا ڈر نہیں کھائے مال حرام
کھولے گا بھگوان جب پوتھی اور کتاب
ہر نیکی، ہر پاپ کا ہو گا خوب حساب
تجھے لگیں یہ جھوٹ تو آپ مٹا کر دیکھ
ہرگز مٹ سکتے نہیں لیکھک جی کے لیکھ
اُس حاکم کے سامنے کون مچائے شور
وہی بنائے سنتری، وہی بنائے چور
اُس کی مرضی کے نکٹ کون بہائے نیر
وہی کھلائے چورما، وہی کھلائے کھیر
سمے بڑا بلوان ہے ، چلے اسی کا زور
اس سے ڈرتے ہیں سبھی ، کیا سادھو، کیا چور
بدھی چوپٹ ہو گئی اس دنیا کی یار
سادھو کو ڈھونگی کہے ، ڈھونگی کو اوتار
ہرگز ہو سکتے نہیں دونوں ایک سمان
بنیا سوچے فائدہ اور سادھو نقصان
کھلی ہوئی یہ بات ہے ، رہی نہیں یہ بھید
ڈوبے گی کشتی وہی جس میں ہو گا چھید
جب بندے کے سامنے بھگون ہوں دس بیس
پھر ایسے ماحول میں کون نوائے سیس
ہر مذہب، ہر دین کا ایک یہی پیغام
سچائی کی راہ پر چلئے صبح و شام
گزرے ہیں سنسار میں ایسے بھی سمراٹ
بھیا، جن کے پاس تھا نا بستر نا کھاٹ
کل تک جو انسان تھے دنیا میں مقبول
آج اُنھی کے ہاتھ میں دیکھا ہے کشکول
ساتھ سدا دیتی کہاں کوشش اور تدبیر
مٹی بھی سونا بنے ساتھ جو دے تقدیر
اونچائی کو دیکھ کر کا ہے کو شرمائیں
پربت کے بھی سامنے ہم پربت بن جائیں
تو ٹھہرا تیراک تو ساگر بھیتر تیر
برساتی مینڈک کرے اوپر اوپر سیر
مونگا موتی کا ابھی پڑا نہیں ہے کال
اے مورکھ انسان، جا ساگر ذرا کھنگال
ہم لوگوں کے واسطے لجا کی ہے بات
دھرتی گھائل ہو گئی انسانوں کے ہاتھ
کوئی کسی کے واسطے بنتا نہیں معمار
انساں خود ہی بھیڑ میں راہ کرے ہموار
کیا ہرنی، کیا لومڑی سبھی منائیں خیر
جنگل میں جب شیرنی کرنے نکلے سیر
سارے پنچھی تو نہیں اُڑتے ایک سمان
جس میں جتنا حوصلہ اتنی بھرے اُڑان
اُڑنے کا گن سیکھ لے پنچھی سے نادان
جو موسم کو دیکھ کر اونچی بھرے اُڑان
پتھر سے ہو سامنا تب اُس سے ٹکراؤ
آئینے کے روبرو آئینہ بن جاؤ
ایک یہی پہچان ہے مُردوں کی پہچان
مرنے سے پہلے بھلا کیوں اکڑے انسان
کیا ملتے ہو جسم پر صابن خوشبو دار!
پہلے من کے گندھ کو دور تو کر لو یار
اک گنگا اشنان سے دھل جائیں گے پاپ؟
کب تک اپنے آپ کو بہلائیں گے آپ
چاہے ناٹک کیجئے یا بھرئیے بہروپ
وہی کہے گا آئینہ جو بولے گا روپ
آئینوں کے سامنے سوچ سمجھ کر بول
ورنہ کھلتے ہی زباں کھل جائے گا پول
تیز بہت ثابت ہوئی سچائی کی دھار
ہوتی آئی جھوٹ کی ہر حالت میں ہار
سارے جال فریب کے خود جاتے ہیں ٹوٹ
سچائی کے سامنے کب ٹھہرا ہے جھوٹ
ہم نے تو دیکھا یہی سورج ہو یا چاند
اپنے اپنے وقت پر پڑ جاتا ہے ماند
جب سورج کی روشنی پڑ جاتی ہے ماند
لے کر اپنی چاندنی آ جاتا ہے چاند
بے مطلب کا بولنا کرتا ہے نقصان
کہنے کو اک منہ ملا، سننے کو دو کان
جا کر اُٹھئے بیٹھئے داناؤں کے پاس
نادانوں کی دوستی کب آتی ہے راس
بات پتے کی کہہ گئے بڑے بڑے ودوان
جیون پستک بانچئے حاصل ہو گا گیان
نردھن ہو کر بھی ملے اُس کو یہ پہچان
پڑھا لکھا انسان ہی کہلائے دھنوان
جب دولت کے زور پر مورکھ پائے گیان
بن پوتھی پنڈت بنے پھر تو ہر دھنوان
عیب نہیں ہے مفلسی، شرط یہی ہے یار
مفلس رہ کر آدمی سدا رہے خوددار
بنجر دھرتی سینچئے بن کے کھیت مجور
سارے دکھ پھر آپ کے ہو جائیں گے دور
مالک ہی کی بات کیا، سب کو پیارا کام
محنت ہی کے نام پر ملتا ہے انعام
شہرت ہو گی آپ کی، دنیا دے گی داد
پھولوں سے کر دیجئے صحرا کو آباد
آسانی سے آپ کا روشن ہو گا نام
دنیا کو چونکائیے کر کے انوکھا کام
دنیا جس کی خوبیاں کرتی ہے تسلیم
صرف اُسی انسان کی ہوتی ہے تعظیم
ہرگز ہو سکتی نہیں اس سے اچھی بات
آگے بڑھئے وقت کے ہاتھ میں دے کے ہاتھ
کوئل کالی ہی سہی، دل لیتی ہے جیت
صورت پر مت جائیے ، سنئے اُس کے گیت
توتا مینا جو ملے پال سکے تو پال
گھر میں جو پھدکا کرے اُسے بھی دانے ڈال
چاہو تو آتا نہیں اک قطرہ بھی ہاتھ
ہوتی رہتی ہے مگر بن بادل برسات
بادل برسے وقت پر جب ہے کوئی بات
کس کو بھاتی ہے بھلا بے موسم برسات
دکھ میں روئیں کس لئے آخر ہم انسان
جیون کے دو رنگ ہیں آنسو اور مسکان
اس کو کھلنے دے یہیں مت لے جا بازار
کنول اُگے ہیں اس لئے پانی کرے سنگار
کچھ تو چتورائی دکھا، دنیا ٹھہری گھاگ
تری پرانی بانسری، وہی پرانا راگ
راگ وہی چھیڑا کرو جو دنیا دُہرائے
گونج اُٹھے جو دور تک، کوئی نہیں بسرائے
سناٹوں کے بیچ کیوں ذہن رہے بے نور
شبدوں سے لے روشنی، اندھیارا کر دور
حاصل ہے جن کو یہاں شبدوں کا بھنڈار
ہو گا اُن کے پاس ہی دوہوں کا انبار
لب پر دوہا کار کے یہی دعا ہے یار
آنے والے سال میں سپنے ہوں ساکار
خوشیوں کے سُر سے ملے خوشیوں کا ہر تال
خدا کرے ہر سال سے اچھا ہو یہ سال
ہر دن اور ہر شام کا اچھا ہو آغاز
سال گرہ کے دن خدا جیون کرے دراز
ماں کعبہ ہے پیار کا، آگے پیچھے گھوم
جنت جن کے پاؤں میں اُن قدموں کو چوم
جیون کی ہر راہ میں ماں ہوتی ہے چھاؤں
ہم بیٹوں کو چاہئے چومیں اُس کے پاؤں
خوشیوں کی برسات ہو چاہے غم کی دھوپ
ہر رُت میں کومل لگے ہم کو ماں کا روپ
اور کسی میں ہے کہاں ایسی انوکھی بات
شہد سے بھی بڑھ کر لگے میٹھی ماں کی ذات
ہوتی ہے اولاد سے ہر دن کوئی بھول
پھر بھی جھڑتا ہی رہے ماں کے منہ سے پھول
کم ہے جو بھی کیجئے ممتا کی تعریف
دے کر ہم کو ہر خوشی آپ سہے تکلیف
لاکھ ٹکے کی بات ہے ، یاد رہے یہ بات
دنیا میں کوئی نہیں ماں سے پیاری ذات
ماں کی ممتا ہے بڑی بیٹے کی جاگیر
وقت پڑے تو ڈھال سے بن جائے شمشیر
ماں کا آنچل سائباں ، شیتل چھاؤں سمان
سکھ ہی سکھ جس کے تلے پائے ہے سنتان
تجھ کو تیری یہ ادا رکھے گی مسرور
ماں کی ممتا اوڑھ لے ، سب دکھ ہوں گے دور
دنیا میں کوئی نہیں ماں کی جیسی ذات
ممتا کی برسات ہے بچوں پر دن رات
کس کے آنچل میں رہا اشکوں کا انبار
بچوں کو ہر حال میں ماں کرتی ہے پیار
ماں جیسی دیکھی نہیں ہم نے کوئی ڈھال
سر پر آنچل ڈال کے ہر سنکٹ دے ٹال
ماں کا رتبہ ہے بڑا، ماں کی ذات مہان
جیتے جی دیتے رہیں ماں کو ہم سمان
اپنی ہی اولاد جب من کا چینا کھوئے
بے کل بچہ دیکھ کر ممتا کیسے سوئے
سب کی مائیں ایک سی، بانٹیں اپنا پیار
ماں کے قدموں میں بھلا جھکے نہ کیوں سنسار
بٹوارے نے کر دیئے پیدا کیا حالات
اک کونے میں رہ گئی سمٹی ماں کی ذات
کل جگ کی سنتان ہے اس سے کیسی آس
بیٹا کھائے رابڑی، ماں رکھے اُپواس
گن پائے ماں باپ کے جو سارے احسان
ایسا تو کوئی نہیں دنیا میں انسان
بے شک بیٹے آپ کے ہو جائیں گے داس
اک اک پیسہ جوڑ کے رکھئے اپنے پاس
جان نچھاور کیجئے پر رکھئے گا یاد
بیٹا بن سکتا نہیں کبھی کوئی داماد
راکھی میں شکتی بڑی، بندھن کرے کمال
بھائی بہنوں کے لئے بن جاتی ہے ڈھال
من کومل ہر نار کا، شیتل اس کا پیار
ہم پر یہ مسکان کی کرے سدا بوچھار
روکر دل کو دے ہلا، ہنس کر چھیڑے گیت
عورت کی اک اک ادا من بھاون، من جیت
عورت جب ہو طیش میں ، مچ جائے کہرام
مشکل ہے پھر اُس گھڑی اُس کو کرنا رام
اوپر والے بھیج دے ڈولی اور کہار
کورے کورے نین کے سپنے ہوں ساکار
کنیا آنکھیں موند کر سوچے ساری رات
مر جانے کے بعد کیا پیلے ہوں گے ہاتھ
جیتے جی روٹی نہ دی دنیا نے بھگوان
پر مرتے ہی دے گئی کپڑا اور مکان
ودھوا جیسی ہو گئی کر کے تیاگ سنگار
کل تک دِکھتی تھی یہی چھیل چھبیلی نار
کمسن ودھوا کی سدا آنکھیں کریں سوال
میرے سونے روپ پر ڈالے کون گلال
عشق نہ مانے قاعدہ، نا کوئی قانون
یہ تو ہے دیوانگی، اس کا نام جنون
کیسی کیسی بولیاں ، جملے ، شبد انیک
دنیا بھر میں ہے مگر پیار کی بھاشا ایک
کوئی بنائے آدمی، کوئی کرے مردود
پیار کی سیما ہے بڑی، نفرت کی محدود
پیار ہی اپنی جان ہے ، پیار ہی اپنا میت
میٹھے اس کے بول ہیں ، میٹھے اس کے گیت
پیار سریلا ساز ہے اس پر گاؤ گیت
اک دوجے کے بیچ میں اور بڑھے گی پریت
ہر دل میں جادو جگا، کانوں میں رس گھول
پیار سریلا راگ ہے ، پیار کی بھاشا بول
دل جب نکلا ہاتھ سے مجھے ہوا یہ گیان
حسن عجب بنگال کا، جادو کرے مہان
اک انگلی سے جس طرح بجتا نہیں ستار
اُسی طرح ہوتا نہیں ایک اکیلے پیار
میں دھرتی آکاش تو، قسمت کا ہے کھیل
جب ہے اتنا فاصلہ، کیسے ہو پھر میل
کیسے اپنے پیار کے سپنے ہوں ساکار
تیرے میرے بیچ ہے مذہب کی دیوار
کیا سندھیا، کیا دوپہر کھینچے اپنی اور
سجنی تیرے پیار کی کیسی ہے یہ ڈور
سجنا، تیرا راستہ دیکھوں صبح و شام
بن تیرے جو حال ہے میں جانوں یا رام
بھر دیتے جو مانگ میں چٹکی بھر سندور
اک دوجے سے ساجنا، کب ہوتے ہم دور
کھینچ رہا ہے تو مجھے پل پل اپنی اور
جیسے تو اک چاند ہے ، میں ہوں ایک چکور
ہر پل رہتی ہیں تری یادیں میرے سنگ
گہرا ہوتا ہی نہیں تنہائی کا رنگ
ایک تو میرا پیار ہے میرے من کا روگ
دوجے میری جان کے بیری ہیں سب لوگ
سجنا، دل کے ساتھ ہی بے کل ہیں اب نین
بن تیرے برسات کی کیسے کاٹوں رین
ایک تو جاڑا خوب ہے ، دوجے لمبی رات
داتا، ایسے وقت میں سجنا کا ہو ساتھ
کس کس سے اب ہم کہیں کیسے ہیں حالات
سرد ہوئی وہ آنکھ کیا، ٹھٹر گئے جذبات
دیکھو تو تقدیر نے کیسا کیا کمال
رہنا تھا کس حال میں اور ہوا کیا حال
عید کا نکلا چاند پھر، خوش ہے سارا شہر
دور ہیں ہم تم ساجنا، کیسا ہے یہ قہر
آنے سے اے ساجنا، مت کرنا ان کار
عید کا چندا دیکھ کر دیکھوں خواب ہزار
پہنوں اُتاروں رات دن اپنا جوڑا لال
عید میں آ کر ساجنا، کر دے مجھے نہال
عید آئی تو ڈال لیا تن پر جوڑا لال
لیکن سجنا کے بنا پھیکا رہا جمال
سجنا، اُن کے واسطے ہر دن ہے تہوار
جن کی قسمت میں رہے دو بانہوں کا ہار
عید، محرم ایک سے اپنے ہیں سرکار
جن کو کوئی غم نہ ہو اُن کا ہے تہوار
پیار کی بھاشا بولنا نہیں بہت آسان
آنکھ کرے گی گفتگو، ہو گی بند زبان
کام نہ آئے پیار میں کاغذ، قلم، دوات
آنکھوں آنکھوں میں ہوئی دل سے دل کی بات
گھائل ہیں پر آج تک کھلا نہیں یہ بھید
کن نینوں کے بان سے ہوئے جگر میں چھید
دل دینے سے پیشتر کیا نہیں یہ غور
اُس کی بھاشا اور تھی، میری بھاشا اور
گھاٹے کا کرتے نہیں سودا ساہوکار
کرتے آئے ہیں سدا دل والے ہی پیار
دل کے بدلے دل لیا، پیار کے بدلے پیار
گھاٹے میں ہوتا نہیں اپنا کاروبار
جو گی مت رکھنا کبھی ناتا ناری سنگ
یہ تو بن کے مینکاؔ کرے تپسیا بھنگ
ہرگز مت کریو کبھی گوری ہم سے پریت
گھر کے ہیں نا گھاٹ کے ، جو گی کس کے میت
گوری جس دن دیکھنا چولی ہو گی تنگ
تجھ کو بھی آ جائیں گے شرمانے کے ڈھنگ
لے کر کندن سا بدن مت جانا بازار
لپک پڑیں گے جان کر سونا تجھے سنار
جگ سے بازی جان کر ہار گئے ہم یار
ورنہ دنیا جیت کر تجھ کو جاتے ہار
کس ساعت میں آپ سے ہوئی مری پہچان
دنیا دشمن بن گئی، جوکھم میں ہے جان
اک دن بھی تو آپ نے کیا نہیں یہ غور
تن پر قابض آپ ہیں ، من پر کوئی اور
وہ بھی کچھ مجبور تھے ، ہم بھی کچھ مجبور
جدا ہوئے اک موڑ پر چل کر تھوڑی دور
پیار کا بندھن توڑ کے تجھے ہوا ہے کھید
بھیگے نینوں نے ترے کھول دئیے سب بھید
میری مت ماری گئی، دیکھ مرا انجام
میں پگلی میراؔ بنی، وہ رادھےؔ کا شیام
کیوں ایسی برسات میں مکھ پر اُڑتی دھول
ساجن ہوتے پاس تو کھلتے من کے پھول
ہر دن بانٹے ڈاکیہ اوروں کو سندیس
دیکھ مجھے مسکائے تو من کو لاگے ٹھیس
جنگل جنگل بانورا ڈھونڈے میری باس
ساگر ساگر اے سکھی، بھٹکے میری پیاس
ہولی لے کر آ گئی اِندر دھنش کے رنگ
مستی میں لہرائیے اک دوجے کے سنگ
ہولی کھیلوں گی سکھی اُس نٹ کھٹ کے سنگ
پریم کے پکے رنگ سے جو کایا دے رنگ
اُس بیری کے سامنے آج گئی میں ہار
سدھ بدھ میری چھین لی چھیڑ کے من کے تار
پیا ملن کے واسطے باقی ہیں دن چار
من میں لڈو پھوٹنے لگے ابھی سے یار
جاگ اُٹھی جب بانوری پیا ملن کی آس
ہرگز یہ مت سوچنا کیسی ہو گی ساس
گونج اُٹھیں شہنائیاں ، کر لے ہار سنگار
ہونے کو ہے باؤلی ہر سپنا ساکار
جیون کی پونجی سبھی ہو گی وہیں نویس
گوری سب کو چھوڑ کر چلی پیا کے دیس
مانا دامن گیر ہے گھر کی اک اک چیز
خوشی خوشی تو پار کر بابل کی دہلیز
میکے کی دہلیز سے مت کر اتنا پیار
دیکھ رہا ہے راستہ تیرا گھر سنسار
جا تجھ کو سسرال میں خوشیاں آئیں راس
جھانک رہی ہے آنکھ سے پیا ملن کی آس
گھونگھٹ کو سرکائے کے گوری پہلی رات
پیا نہاریں گے تجھے بے تابی کے ساتھ
جب پھولوں کی سیج پر ساجن ہوں گے سنگ
تھرک اُٹھے گا دیکھنا تیرا اک اک انگ
گوری چہرے کا ترے کھل اُٹھے گا رنگ
جب سجنا کے انگ سے ٹکرائے گا انگ
پیا ملن کا اس طرح گوری کرے بکھان
ندیا ساگر سے ملی، ساگر سے طوفان
جس دن سے مجھ کو ملا سجنا تیرا ساتھ
سونا میرے دن ہوئے ، چاندی میری رات
کیا آئے ہو مصر سے ، دامن کیوں ہے چاک
سیاں سے کیا کہہ دیا ، میرے منہ میں خاک
سیاں سے لگ کر گلے جیت گئی میں جنگ
لگی نہ ہلدی پھٹکری چوکھا آیا رنگ
جنگ کسی پرکار کی میں جاؤں گی جیت
دنیا اب جس اُور ہو، میری طرف من میت
٭٭٭
تشکر: افتخار راغب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید