FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

دنیا بھر سے کہانیاں

نا معلوم

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

چیونٹی اور ہاتھی

(مہابس دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ ایک ٹیم کمبل کے نیچے اپنا ہاتھوں کو رکھتی ہے ٹیم کے ساتھیوں کی ہتھیلیوں میں ایک انگوٹھی کو چھپاتی ہے۔ پھر وہ دوسری ٹیم کو اپنی بند مٹھی دکھاتے ہیں۔ دوسری ٹیم کو اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ انگوٹھی کس ہاتھ میں چھپی ہوئی ہے )

ایک چیونٹی اور ایک ہاتھی بہت اچھے دوست تھے اور جب بھی موقع ملتا دونوں ساتھ مل کر کھیلتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ، ہاتھی کے والد بہت سخت قسم کے تھے اور انہیں ہوم ورک کرنے یا اس کی والدہ کو چھوٹے چھوٹے کام میں مدد کی ضرورت ہونے کے وقت اپنے بیٹے کا کھیلنا پسند نہیں تھا، اور انہیں پسند نہیں تھا کہ ان کا بیٹا اپنے دوست چیونٹی کے ساتھ کھیلے جب کہ اسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ کھیلنے پر ناز ہونا چاہئے۔

چھوٹا ہاتھی اپنے والد سے کافی ڈرا ہوا تھا اور ان کا غصہ ہونا اسے بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ لیکن چیونٹی بہت بہادر چیونٹی تھی اور تند مزاج بزرگ والد سے خوفزدہ نہیں تھی۔

ایک دن، دونوں دوست مہابس کا کھیل رہے تھے کہ تبھی انہیں غصہ میں بھرے ہوئے والد کے آنے کی آہٹ سنائی دی۔ زمین دھمک سے ہل رہی تھی اور وہ درختوں کو توڑتا پھوڑتا آ رہا تھا۔

’’ارے نہیں، یہ میرے والد ہیں!‘‘ نوجوان ہاتھی چلایا، اس کے چہرے پر خوف چھا گیا۔ ’’میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘

چھوٹی چیونٹی نے اپنی چھاتی پھلائی اور اپنے پورے قد سے کھڑی ہو گئی۔ ’’فکر نہ کرو، میرے دوست، تم میرے پیچھے چھپ سکتے ہو اور تمہارے والد تمہیں تلاش نہیں کر سکیں گے‘‘

٭٭٭

اسکول جانے والی بس

انگلینڈ کے بارے میں جوکوئن کو سب سے زیادہ پسند آنے والی چیز بس تھی۔ وہ اور اس کی ماں جوکوئن کے نئے اسکول جانے کے لیے ہر روز بس لیتے تھے۔ اسے مختلف مسافروں کو ادھر ادھر دیکھنا اچھا لگا۔

زیادہ تر نشستوں پر کام پر جانے والے لوگ بیٹھے ہوتے تھے۔ وہ اسمارٹ کپڑے پہنے ہوئے ہوتے تھے اور بیگ اور بریف کیس اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ دوسری نشستیں جوکوئن جیسے اسکول کے بچے لے لیتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر بڑے اور مماثل یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔

جوکوئن کے پسندیدہ مسافروں میں سے ایک سفید بالوں والی خاتون تھی۔ اس نے اپنے بیگ میں ایک چھوٹا بھورا کتا اٹھایا ہوا تھا۔ خاتون نے کہا کہ کتا گھبرا گیا ہے۔ جوکوئن نے اس بات کو ہمیشہ یقینی بنانا کہ وہ اس کو آہستہ سے تھپکی دے۔

جوکوئن زیادہ انگریزی نہیں جانتا تھا، لیکن اس کی ماں کافی جانتی تھی۔ جب وہ بس پر چڑھتے تو وہ کرایہ پوچھتی۔ بس ڈرائیور ان کے ٹکٹ پرنٹ کرتا۔

ہر صبح وہ کہتی، ’’بلیک فرایئرز کے لیے دو واپسی کے ٹکٹ‘‘۔ جب وہ بس سے اترتے، تو وہ جوکوئن کو کہتی کہ ’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ الفاظ غیر مانوس لگے، لیکن اسے مشق کے ساتھ ان کا تلفظ کرنے کی عادت پڑ گئی۔

جوکوئن کے اسکول میں زیادہ تر طلباء انگریزی بولنے والے تھے۔ وہ اکثر کلاس روم کے پہلو میں اکیلا بیٹھا رہتا تھا۔ اس کا استاد دوستانہ تھا، لیکن جوکوئن شرمیلا تھا۔ اس نے ایک لفظی جواب دیا اور ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اسے انگریزی میں کچھ غلط کہنے کی فکر ہوئی۔ وہ اپنی گرامر کو ملانا یا کسی چیز کا غلط تلفظ کرنا ناپسند کرتا تھا۔ جوکوئن اپنی انگریزی بولنے سے پہلے اسے کامل کرنا چاہتا تھا، لیکن اس نے کبھی بھی مشق کرنے کا موقع حاصل نہیں کیا تھا۔

دسمبر کے شروع میں، جوکوئن کی ماں کو زکام ہو گیا۔ اس نے اپنے آپ کو اور جوکوئن کو موٹے کپڑوں میں ملبوس کیا۔ اس نے لمبا اسکارف گلے میں لپیٹ لیا۔ جوکوئن کو پہلے ہی زکام ہو چکا تھا، لیکن برطانوی سردیاں تلخ اور سیاہ تھیں۔

ہوا نے اس کی انگلیوں کی پوروں کو چھوا۔ جیسے ہی وہ بس اسٹاپ پر چلے گئے، اس کی ماں کانپنے اور کھانسنے لگی۔ جوکوئن نے اپنی ٹھنڈی انگلیاں مضبوطی سے پکڑ لیں۔

بس آ گئی، اور وہ دوسرے مسافروں کے سوار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جوکوئن کی ماں نے دوبارہ کھانستے ہوئے کہا، ’’جوکوئن کرایہ کے لیے پوچھو۔‘‘

جوکوئن نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس نے بس میں قدم رکھا اور ادھر ادھر دیکھا۔ ہمیشہ کی طرح، وہاں بہت سے لوگ تھے۔ وہ اپنے فون یا کتابوں میں مشغول تھے۔ بوڑھی عورت اور اس کا کتا ہی اوپر دیکھ رہے تھے۔ خاتون جوکوئن کو دیکھ کر مسکرائی۔

تھوڑے اعتماد کے ساتھ، جوکوئن نے بس ڈرائیور کی طرف دیکھا اور اپنی انتہائی شائستہ آواز میں کہا، ’’بلیک فرائز کے دو ٹکٹ‘‘

بس ڈرائیور نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا، ’’بلیک فرائز؟‘‘

جوکوئن نے محسوس کیا کہ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا ہے، ’’بلیک فرائز کے لیے۔ میرا اسکول بلیک فرائز میں ہے۔‘‘

’’کیا تمہارا مطلب بلیک فرایئرز ہے؟‘‘

’’جی ہاں‘‘ جوکوئن نے سر ہلایا۔

کچھ دوسرے مسافروں نے اپنے فونوں سے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ وہ جوکوئن کی وجہ سے ہونے والی تاخیر سے ناراض دکھائی دے رہے تھے۔ ایک دفعہ جب جوکوئن کی والدہ نے اپنی ٹکٹوں کی ادائیگی کر لی تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنا چہرہ چھپا لیا۔

جوکوئن کو شرم محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی ماں کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہا۔ ناک کو بار بار سڑکتے ہوئے، جوکوئن باقی سفر میں فرش کی طرف دیکھتا رہا۔ جب وہ بس سے اترے، تو جوکوئن نے بس ڈرائیور کو ’’شکریہ‘‘ نہیں کہا جیسا کہ وہ عام طور پر کرتا تھا۔ اس کی ماں کو خود ڈرائیور کا شکریہ ادا کرنا پڑا۔

باقی دن کے لیے جوکوئن معمول سے زیادہ خاموش تھا۔ اس نے اپنے استاد سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ اس نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ خود کو بولنے پر اکسا نہیں سکتا تھا اس صورت میں کہ اس سے کوئی اور غلطی ہو جائے۔

جب جوکوئن کی ماں نے اسے اسکول سے لیا تو وہ اس صبح سے بہتر محسوس کر رہی تھیں۔

وہ جوکوئن کو گلے لگاتے ہوئے مسکرائی، ’’کیا تمہارا دن اچھا گزرا؟‘‘

جوکوئن نے جواب نہیں دیا۔

اس کی ماں نے اس کے پاس گھٹنے ٹیک دیے اور اس کے بالوں میں آہستہ سے ہاتھ پھیرا، ’’جوکوئن، کیا ہوا؟‘‘

’’میں اپنی انگریزی کے بارے میں سارا دن شرمیلا اور پریشان رہتا ہوں۔ میں نے آپ کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن میں ایسا نہیں کر سکا۔ میں چاہتا ہوں کہ میری انگریزی کامل ہو، لیکن مجھے بولنے میں ڈر لگتا ہے۔ یہ بہت آسان ہو گا اگر انگلینڈ میں ہر کوئی ہسپانوی بولے یا کوئی ایسی چیز جو میں سمجھ سکتا ہوں۔ یہ بہت مشکل ہے ۔ میں گھر جانا چاہتا ہوں‘‘

جوکوئن کی ماں نے غور سے سنا۔

جب جوکوئن اپنے آنسو پونچھنے کے لیے رکا تو اس نے کہا، ’’کوئی بات نہیں، میرے پیارے۔ نئی چیزیں سیکھنے میں وقت لگتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں۔ تم میری مدد کرنے کے لیے اچھے لڑکے ہو۔ شکریہ۔‘‘

اس نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا، ’’تمہیں کامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بھی مکمل نہیں۔ تم کو بس پُر اعتماد ہونے کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ مسکرائی، ’’تم بہت اچھا کر رہے ہو، اور مجھے تم پر فخر ہے۔ ہمت نہ ہارو، جوکوئن۔‘‘

جوکوئن نے سر ہلایا۔

بس اسٹاپ پر جاتے ہوئے، اس نے اپنی ماں کی باتوں کے بارے میں سوچا اور محسوس کیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ بہترین لوگ بھی کبھی کبھی گڑبڑ کرتے ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں۔ جوکوئن نے سوچا کہ جس چیز نے انہیں بہترین بنایا وہ یہ تھا کہ وہ اٹھے اور اگلے دن دوبارہ کوشش کی۔ اگر وہ پر اعتماد ہو اور اپنا سر اونچا رکھے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

بس انہیں گھر پہچانے کیلئے پہنچی۔ بس پھر سے بھری ہوئی تھی، اور جوکوئن نے لوگوں کو سوٹ میں، اسکول کے بچوں اور کتوں والی خواتین کو دیکھا، یہ سب ایک دوسرے سے یا اپنے فون پر بات کر رہے تھے۔ وہ اعتماد کے ساتھ بات کرتے تھے، اور اگر وہ غلطی کرتے ہیں، تو وہ اسے ہنسی میں اڑا دیں گے۔

جب وہ اپنے اسٹاپ پر پہنچے تو جوکوئن اور اس کی والدہ بس سے اترے، اور جوکوئن ایک روشن، پراعتماد انداز میں بس ڈرائیور کی طرف مڑا ’’شکریہ!‘‘

بس ڈرائیور نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔ جیسے ہی جوکوئن اور اس کی ماں گھر گئے، اس نے فیصلہ کیا کہ غلطیاں اتنی بری نہیں تھیں۔

٭٭٭

آننسی کی آٹھ پتلی ٹانگیں کیوں ہیں

ایک اکان کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آننسی نام کا ایک مکڑا رہتا تھا۔ اگرچہ آننسی کی بیوی بہت اچھی خانساماں تھی، لیکن لالچی مکڑے کو دوسرے لوگوں کے کھانے چکھنے کے علاوہ اور کچھ پسند نہیں تھا۔

ایک دن، آننسی اپنے دوست خرگوش سے ملنے کے لیے رک گیا۔

’’ہمم!‘‘ لالچی مکڑے نے کچن میں داخل ہوتے ہی کہا۔ ’’یہ واقعی مزے دار سبزیاں ہیں جنہیں تم پکا رہے ہو، خرگوش۔‘‘

’’تم رات کے کھانے پر کیوں نہیں ٹھہرتے؟‘‘ دوستانہ خرگوش نے جواب دیا۔ ’’ابھی تک سبزیاں نہیں پکیں، لیکن وہ جلد ہی تیار ہو جائیں گی۔‘‘

آننسی جانتا تھا کہ اگر وہ کھانا پکانے کے دوران ٹھہرے گا تو خرگوش اسے کام کاج ضرور دے گا، اور لالچی مکڑا کام کاج کرنے کے لیے اپنے دوست کے پاس نہیں آیا تھا۔

تو آننسی نے خرگوش سے کہا،

’’براہ کرم مجھے معاف کر دو پیارے دوست، لیکن میرے پاس کچھ کام ہیں جو مجھے ابھی کرنا ہوں گے۔ کیوں نہ میں جال کی لمبائی گھماؤں اور ایک سرے کو اپنی ٹانگ کے گرد اور دوسرا سرا آپ کے برتن کے گرد باندھوں؟ اس طرح آپ جال کو کھینچ سکتے ہیں جب سبزیاں پک جائیں گی اور میں رات کے کھانے کے لیے بھاگ کر واپس آؤں گا۔‘‘

خرگوش نے اتفاق کیا کہ یہ بہت اچھا خیال ہے، اور اس لیے اس نے آننسی کا جالا اپنے برتن سے باندھا اور اپنے دوست کو الوداع کیا۔

چند لمحوں بعد، لالچی مکڑے نے خود کو اپنے اچھے دوست، بندر کے گھر سے گزرتے ہوئے پایا۔ اور ایسا ہی ہوا کہ بندر بھی اپنے کھانے کی تیاری میں مصروف تھا۔

’’ہمم!‘‘ لالچی مکڑے نے کچن میں داخل ہوتے ہی کہا۔ ’’یہ پھلیاں اور شہد کا ایک مزیدار کھانا ہے جو تم پکا رہے ہو بندر۔‘‘

دوستانہ بندر نے جواب دیا، ’’آپ ان کے پکنے تک انتظار کیوں نہیں کرتے اور پھر رات کے کھانے کے لیے ٹھہرتے ہیں؟‘‘

ایک بار پھر، آننسی کو معلوم تھا کہ اگر وہ کھانا پکانے کے دوران ٹھہرے تو بندر اسے ضرور کام کرنے کو دے گا، اور لالچی مکڑے کو کام کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔

تو آننسی نے بندر سے کہا،

’’میں بہت معذرت خواہ ہوں، پیارے دوست، لیکن میرے پاس کچھ چیزیں ہیں جو مجھے ابھی کرنا ہوں گی۔ کیوں نہ میں جال کی لمبائی گھماؤں اور ایک سرے کو اپنی ٹانگ کے گرد اور دوسرا سرا آپ کے برتن کے گرد باندھوں؟ اس طرح آپ جال کو کھینچ سکتے ہیں جب پھلیاں اور شہد پک جائیں گی اور میں رات کے کھانے کے لیے بھاگ کر واپس آؤں گا۔‘‘

بندر نے اتفاق کیا کہ یہ ایک بہترین خیال ہے، اور اس لیے اس نے آننسی کا جالا اپنے برتن سے باندھا اور اپنے دوست کو الوداع کیا۔

*

گھر جاتے ہوئے، آننسی نے چھ اور دوستوں سے ملاقات کی، جو سبھی اپنے شام کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھے۔

اس نے کچھوے، خرگوش، گلہری، چوہے، لومڑی سے ملاقات کی اور سب سے آخر میں اس نے اپنے اچھے دوست، سور سے ملاقات کی۔

اور ہر ملاقات پر آننسی نے وہی پرانی کہانی سنائی۔ اور ہر دوست کے لیے اس نے ان کے کھانا پکانے کے برتن کے لیے ایک لمبا جالا کاتا۔

اور یوں ہوا کہ آننسی کی تمام آٹھ ٹانگیں لمبے لمبے جالے کے ذریعے مختلف برتنوں سے جڑی ہوئی تھیں۔

لالچی مکڑا اپنے ہر دوست کو دھوکہ دینے میں آسانی سے مزاحمت نہیں کر سکتا تھا تاکہ وہ راستے میں کسی بھی کام سے گریز کرتے ہوئے ہر برتن سے کھا لے۔

آننسی تمام کھانوں کا بے حد انتظار کر رہا تھا، خاص طور پر سور کی شکر قندی اور شہد کی ڈش جو ہمیشہ کمال کی پکتی تھی۔

’’میں نے اس بار واقعی اپنے آپ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے‘‘ لالچی مکڑے نے سوچا۔ ’’کھانے کے لیے اتنا مزے دار کھانا اور میں نے بدلے میں کوئی کام کرنے سے بھی گریز کیا! میں سوچتا ہوں کہ کھانے کا کون سا برتن پہلے تیار ہو گا؟‘‘

*

عین اس وقت، آننسی نے اپنی ٹانگ پر جال کے کھنچاؤ کو محسوس کیا۔

لالچی مکڑے نے سوچا، ’’وہ خرگوش ہی ہو گا جس کی سبزی کی لذیذ ڈش ہے۔‘‘

لیکن پھر آننسی کی ایک اور ٹانگ نے جال کے کھنچاؤ کو محسوس کیا۔

’’اوہ پیارے!‘‘ اس نے بلند آواز میں کہا۔ ’’یہ وہ بندر ہی ہو گا جس کے برتن میں پھلیاں اور شہد ہیں۔‘‘

پھر ایک اور ٹانگ کھینچی گئی! اور دوسری! اور تیسری! یہاں تک کہ آننسی کی تمام آٹھ ٹانگیں ایک ساتھ مختلف سمتوں میں کھینچی جا رہی تھیں!

آننسی خود کو گھسیٹ کر دریا کی طرف لے گیا اور پانی میں چھلانگ لگا دی تاکہ اس کی ٹانگوں سے اس کے سارے جالے دھل جائیں۔

ایک ایک کر کے جالوں نے اس کی ٹانگوں پر اپنی گرفت چھوڑ دی یہاں تک کہ لالچی مکڑا آخر کار واپس دریا کے کنارے پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔

جب آنتسی صحت یاب ہوا اور خود کو خشک کرنے میں کامیاب ہوا تو اس نے ایک بہت ہی عجیب چیز دیکھی۔

اس کی تمام آٹھ ٹانگیں پھیلی ہوئی تھیں۔

جہاں پہلے چھوٹی اور چوڑی تھیں اب پتلی اور لمبی ہو گئی ہیں!

’’اوہ میں اتنا لالچی کیسے ہو سکتا تھا؟‘‘ آننسی نے سوچا۔ ’’اب دیکھو میرا کیا حال ہو گیا ہے۔ نہ صرف میری آٹھ پتلی ٹانگیں ہیں، بلکہ اب مجھے اپنا کھانا بھی خود بنانا ہو گا!‘‘

اور یہی وجہ ہے کہ آننسی کی آٹھ پتلی ٹانگیں ہیں۔

٭٭٭

الفریڈو

چیونٹیوں کے نہ کان ہوتے ہیں نہ ناک، اور منہ ہونے کے باوجود وہ بول نہیں سکتیں۔ اس کے بجائے، ان کے سر پر دو لمبے محسوس کرنے والے اعضاء ہوتے ہیں جنہیں اینٹینا کہتے ہیں۔ یہ اینٹینا لاجواب چھوٹے اوزار ہیں جو چیونٹی کی روزمرہ کی زندگی میں بہت اہم ہیں۔ چیونٹیاں ان کا استعمال بو محسوس کرنے، زمین کے ذریعے ارتعاش محسوس کرنے اور دوسروں سے بات چیت کرنے کے لیے کرتی ہیں۔

چیونٹیاں شاید ہی سوتی ہوں۔ اس کے بجائے، ان کے پاس تھوڑے وقت کی ’’پاور نیپس یعنی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے مختصر نیند کی جھپکیاں‘‘ ہوتی ہیں جو ایک وقت میں صرف چند منٹ تک رہتی ہیں۔

یہ تھوڑے سے وقت کے آرام کے اوقات الفریڈو کے لیے دن کا بہترین حصہ تھے۔ یہ اس کی جھپکی کے دوران ہی تھا کہ اس نے کام کے بارے میں فکر کیے بغیر، واقعی پر سکون محسوس کیا۔

الفریڈو آٹھ سال کا تھا۔ اس کی عمر آٹھ سال، چار ماہ اور 13 دن تھی۔ اگرچہ آپ اور میرے لیے آٹھ سال، چار مہینے اور 13 دن جوان لگتے ہیں، الفریڈو ایک درمیانی عمر کی چیونٹی تھی۔ ’’ادھیڑ عمر‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ الفریڈو اپنی زندگی کا آدھا راستہ طے کر چکی تھی۔

الفریڈو ایک پیرو کار چیونٹی تھی۔ اس کی کالونی میں تقریباً ہر کوئی پیرو کار چیونٹی تھی، اور اس لیے اسے لگا کہ وہ کچھ خاص نہیں ہے۔

چیونٹیوں کے بارے میں آپ کو کچھ اہم جاننے کی ضرورت ہے: ہر گھونسلے میں ایک ملکہ چیونٹی ہوتی ہے، تلاش کرنے والی چیونٹیاں ہوتی ہیں اور پیرو کار چیونٹیاں ہوتی ہیں۔

تلاش کرنے والی چیونٹیاں مختلف کھانے تلاش کرتی ہیں، اور وہ ایسی پگڈنڈیاں بنا سکتی ہیں جن میں بہت مضبوط اور طاقتور بو ہوتی ہے۔ اس کے بعد پیروکار چیونٹیاں خوراک کی کٹائی کے لیے اپنے اینٹینا کا استعمال سونگھنے کے راستے پر چلتی ہیں۔ انہیں جو بھی خوراک ملتی ہے اسے جمع کر کے گھونسلے میں واپس لایا جاتا ہے۔

یہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ تلاش کرنے والی چیونٹی کبھی نہیں جانتی ہے کہ کھانا جمع کرتے وقت اسے کیا ملے گا۔ خوراک کا سائز، وزن اور مقام بالکل بے ترتیب ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ الفریڈو کو بہت پیدل چلنا پڑا۔ عام طور پر ایک دن میں تقریباً 5000 میٹر۔ یہ ایک انسان کے تین میراتھن دوڑنے کے برابر ہے – ہر ایک دن!

الفریڈو کے گھونسلے میں تلاش کرنے والی چیونٹیاں مشہور تھیں۔ ان کی شاندار شہرت کا مطلب یہ تھا کہ پیرو کاران جیسا بننا چاہتے ہیں۔ تلاش کرنے والوں کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا جاتا تھا۔ انہیں آرام کرنے کے لیے مزید وقت دیا جاتا اور کھانے کے لیے بہتر کھانا دیا جاتا۔ اس تمام اضافی خوراک کا مطلب یہ تھا کہ تلاش کرنے والے پیروکاروں کے مقابلے میں بہت بڑے اور مضبوط ہوئے۔ بعض اوقات یہ برا ہوتا تھا کیونکہ اس نے تلاش کرنے والوں کو انتہائی حاکمانہ فطرت کا بنا دیا تھا۔ اکثر، وہ سوچتے تھے کہ وہ سب سے بہتر ہیں اور جو چاہیں کر سکتے ہیں۔

اس کے باوجود، الفریڈو وہ چیونٹی بننا چاہتا تھا جسے کھانے کے سب سے بڑے اور رسیلے ٹکڑے ملیں۔ اس نے ایک تازہ اور پکا ہوا سرخ سیب ملنے کا خواب دیکھا، جسے کسی بھی چیز نے یا کسی نے چھوا نہ ہو۔ اس نے خواب دیکھا کہ اس کے جبڑے اس سیب میں کھب گئے ہیں اور صرف اس وقت کھانا بند کرتا ہے جب اس کا پیٹ پھٹنے والا ہوتا ہے۔

سیب الفریڈو کا پسندیدہ کھانا تھا۔ وہ پسند کرتا تھا کہ وہ رسیلی، کرچی، مزیدار اور میٹھی چینی سے بھرے ہوئے ہیں۔ سیب کھانے سے اسے ہمیشہ ایک اضافی توانائی ملتی تھی۔

الفریڈو دن میں بہت خواب دیکھتا تھا۔ وہ کالونی میں سب سے کامیاب اور مشہور تلاش کرنے والا ہونے کے بارے میں دن میں خواب دیکھتا تھا۔ وہ خواب دیکھتا تھا کہ جبڑے 20 گنا بڑے ہوں گے تاکہ وہ ایک بڑے لقمے میں پانچ یا چھ منہ میں پانی بھرنے والے سیبوں کو چبا سکے۔ صرف اکیلے خیال سے وہ کانوں سے کانوں تک مسکرا دیا۔ اسے ان خیالات اور نظریات سے اتنا پیار تھا کہ وہ ان آرام دہ وقتوں کے بارے میں بھی دن میں خواب دیکھتا تھا جس میں وہ دن میں خواب دیکھ سکتا تھا!

ایک دن، اپنی ایک تھکاوٹ دور کرنے کے لئے مختصر نیند کی جھپکی کے دوران، الفریڈو نے ایک خواب دیکھا جس نے اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا تھا۔ یہ واقعی ایک جادوئی، لیکن خوفناک خیال تھا۔

الفریڈو کے لیے کالونی اس کی دنیا تھی۔ یہ وہ واحد زندگی تھی جسے وہ آٹھ سال، چار مہینے اور 13 دنوں سے جانتا تھا۔ لیکن اچانک، الفریڈو کو ایک اہم احساس ہوا۔

’’میری اپنی چھوٹی سی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس پر بہت توجہ مرکوز کر چکا ہوں‘‘ اس نے سوچا۔ ’’میں باقی باہر کی دنیا کے بارے میں بالکل بھول گیا تھا۔‘‘

اپنی پوری زندگی کے لیے، الفریڈو کا مقصد دوسری چیونٹیوں کو خوش کرنا تھا۔ ملکہ اور تلاش کرنے والے اپنا پیٹ اس کھانے سے بھرتے تھے جو پیروکار گھونسلے میں واپس لے جاتے تھے، اور الفریڈو کے لیے صرف ٹکڑا رہ جاتا تھا۔

’’کس نے کہا کہ ایسا ہونا چاہیے؟‘‘ الفریڈو نے سوچا۔ ’’اگر میں سب سے بڑا، سب سے کرچی، سب سے زیادہ رسیلا سیب تلاش کرنا چاہتا ہوں، تو میں ایسا کیوں نہ کروں؟‘‘

اس کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب اسے احساس ہوا کہ اس کی خوشی پہلے آنی چاہیے۔ وہ اپنی زندگی کے آدھے راستے پر تھا، اور اگر اس نے ابھی عمل نہیں کیا، تو وہ صرف دکھی اور بور ہو کر وقت ضائع کر رہا ہو گا۔ الفریڈو گھونسلے کو پیچھے چھوڑ کر اپنے خواب کی پیروی کرنے کے لیے پر عزم تھا۔

لہٰذا، جوش و خروش سے گونجتے ہوئے اور عجیب طرح کی گھبراہٹ کے ساتھ، الفریڈو اپنی مہم جوئی پر روانہ ہوا۔ وہ گھونسلے کے دروازے سے ایسے نکلا جیسے وہ کام پر جا رہا ہو۔ ایک پگڈنڈی کی پیروی کرنے کے بجائے، جیسا کہ وہ کام پر ہوتا، الفریڈو نے سمت بدل دی۔ تلاش کرنے والی چیونٹی کے برعکس، اس نے اپنے پیچھے کوئی پگڈنڈی نہیں چھوڑی۔

’’میں پاگل ہوں گا!‘‘ الفریڈو نے سوچا۔ پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر وہ دور درختوں کے جھرمٹ کی طرف بڑھ گیا۔ الفریڈو نے محسوس کیا کہ خوشی کی تلاش ہی وہ چیز ہے جو زندگی کو جینے کے قابل بناتی ہے۔

٭٭٭

اکیلے نہیں

ایک فلپائنی کہانی

جب ڈیلیسے صرف آٹھ سال کی تھی تو اس کی ماں نے اسے بتایا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر انگلینڈ چلے جائیں گے۔

ڈیلیسے کی والدہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کے والد کو کام تلاش کرنا چاہیے تاکہ ہم آپ کے دادا دادی اور آپ کی آنٹی کی کفالت کے لیے رقم بھیج سکیں۔‘‘

نوجوان لڑکی منیلا میں اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتی تھی جو کہ فلپائن کا ایک بہت بڑا شہر ہے اور جب اس کی والدہ نے اسے یہ خبر سنائی تو اسے بہت دکھ ہوا۔

’’لیکن میرے تمام دوستوں کا کیا ہو گا؟’ ڈیلیسے نے پوچھا۔ ’’میں انگلینڈ میں کسی کو نہیں جانتی اور میں اکیلی ہوں گی۔‘‘

اس کی والدہ نے ڈیلیسے کو یقین دلایا کہ یہ ان تینوں کے لیے ایک دلچسپ مہم جوئی والی بات ہونے والی ہے اور جب وہ انگلینڈ میں اسکول شروع کرے گی تو ڈیلیسے بہت سے نئے دوستوں سے ملے گی۔ ڈیلیسے کو اپنی ماں کے مہربان الفاظ پر یقین نہیں آیا۔ اسے اپنا گھر پسند تھا اور وہ اسکول جانا پسند کرتی تھی جہاں وہ تمام اساتذہ کو جانتی تھی اور اس کے بہت سے دوست پہلے سے ہی تھے۔

’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمیں انگلینڈ کیوں جانا پڑے گا‘‘

ڈیلیسے نے ایک رات پہلے سوچا جب خاندان نے جانا تھا۔ ’’میں انگلینڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے انگریزی بھی زیادہ نہیں آتی اور میں بالکل اکیلی ہو جاؤں گی!‘‘

اس آخری احساس نے نوجوان لڑکی کو مزید اداس کر دیا اور اس نے دل سے خواہش کی کہ وہ منیلا میں اپنی آنٹی یا اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ سکے۔

سفر بہت لمبا تھا اور ڈیلیسے بڑے ہوائی جہاز اور ہوائی اڈے پر بھاگنے والے تمام لوگوں سے مغلوب تھی۔

جب خاندان آخر کار انگلینڈ پہنچا تو سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا اور اسے یقین تھا کہ ہر کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ برمنگھم کے شہر کی عمارتیں بڑی اور سرمئی تھیں اور ڈیلیسے کو گھر جیسا بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔

پہلا مہینہ اچانک گزر گیا جب خاندان کو رہنے کے لیے ایک گھر مل گیا اور ڈیلیسے کے والد کام کی تلاش میں باہر گئے تاکہ وہ فلپائن میں باقی خاندان کو پیسے واپس بھیج سکیں۔

نوجوان لڑکی بہت اکیلی تھی، اور اگرچہ اس کی ماں اس کے ساتھ کھیل کھیلتی تھی اور اسے ادھر ادھر گھمانے کے لیے باہر لے جاتی تھی، ڈیلیسے اپنے دوستوں کو بہت یاد کرتی تھی اور یہ محسوس کرنے میں اپنے آپ کو نہیں روک سکتی تھی کہ وہ نئے شہر میں بالکل اکیلی ہے۔ رات کو وہ اپنے بستر پر روتی رہتی تھی اور وہ اکثر خواب دیکھتی تھی کہ اگلے دن اس کے والد اسے جگائیں گے اور بتائیں گے کہ وہ گھر لوٹنے والے ہیں۔ لیکن ہر صبح ڈیلیسے بیدار ہوئی اور اسے احساس ہوتا کہ شاید وہ پھر کبھی گھر واپس نہیں جائے گی۔

ایک صبح، جب وہ دودھ کے ساتھ اناج کا عجیب سا ناشتہ کھا رہی تھی – سینانگگ کے اس کے معمول کے ناشتے کی طرح کچھ بھی نہیں جو مزیدار انڈوں سے بنے چاول تھے، ڈیلیسے کو معلوم ہوا کہ وہ اسکول جانے والی ہے۔

اس کی ماں نے کہا، ’’یہ آپ کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور نئے دوستوں سے ملنا بہت اچھا ہو گا۔‘‘

لیکن ڈیلیسے یہ خبر سن کر خوش نہیں ہوئی۔ اسے گھر واپسی پر اپنے دوستوں کی یاد آتی تھی، اور اگرچہ وہ گھر سے زیادہ باہر نکلنا چاہتی تھی، لیکن وہ اسکول جانے سے ڈرتی تھی کیونکہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی۔ ڈیلیسے نے بہت سارے بچوں کو دیکھا تھا جب اس نے اور اس کی والدہ نے برمنگھم شہر کی سیر کی تھی، لیکن کسی نے بھی اس سے بات نہیں کی تھی اور وہ زیادہ انگریزی نہیں بولتی تھی جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ اسے اسکول میں مشکل پیش آئے گی۔

جب صبح ہوئی، ڈیلیسے نے یہ بہانہ کرنے کی کوشش کی کہ اسے بخار ہے اور وہ اسکول کے لیے بہت بیمار ہے، لیکن اس کی ماں ہمیشہ بتا سکتی تھی کہ ڈیلیسے کب ڈرامہ کر رہی تھی اور اس لیے اسے کپڑے پہننے اور اپنا ناشتہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ڈیلیسے اور اس کی ماں اسکول کے دروازے تک ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتی رہیں جہاں ان کی ملاقات مسز مری نامی ایک استانی سے ہوئی۔ استانی بہت ملنسار تھی اور اس نے ڈیلیسے کا اسکول میں خیرمقدم کیا اور اس کی والدہ کو بتایا کہ وہ تین بجے دوبارہ آ کر اپنی بیٹی کو واپس لے سکتی ہیں۔

صبح ایک دھندلے انداز میں گزری جب ڈیلیسے کا تعارف مزید اساتذہ اور بہت سارے بچوں سے ہوا جنہوں نے مسکرا کر ہیلو کہا۔ ڈیلیسے کو بہت کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا کہا گیا لیکن یہ سمجھایا گیا کہ دوپہر کو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی کلاس میں جائے گی جو پوری دنیا سے انگلینڈ منتقل ہوئے تھے۔

جب ڈیلیسے بعد میں اس دوپہر کو کلاس روم میں پہنچی تو اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر چلی گئی۔ اجنبیوں سے ملنے کے اتنے لمبے دن سے وہ بہت نروس تھی اور بہت تھک بھی گئی تھی۔ لیکن جب وہ اندر آئی تو مسز محمود نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیا جو پاکستان سے تھیں۔

دوستانہ بنے چاول تھے نے کہا، ’’ڈیلیسے اندر آؤ۔  آج ہم ایک کتاب پڑھ رہے ہیں جس کا نام پُس اِن بوٹس ہے اور بعد میں ہم کچھ گیمز کھیلیں گے اور پینٹنگ کریں گے۔‘‘

نوجوان لڑکی نے دیکھا کہ کلاس روم میں موجود تمام بچے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ ایک لڑکا زمبابوے سے اور دو لڑکیاں پولینڈ سے تھیں۔ البانیہ کی ایک بڑی لڑکی تھی اور ایک لڑکا جو ڈیلیسے سے بھی چھوٹا تھا جس نے کہا کہ وہ ایران سے ہے۔ اور اسے حیران کرنے کی بات یہ ہے کہ کلاس روم کے پچھلے حصے میں پُس اِن بوٹس کی ایک کاپی ہاتھ میں پکڑے کالیا نامی ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، جو کہ فلپائن کی تھی!

’’یہاں آؤ اور میرے پاس بیٹھو!’ کالیا نے کہا، جو ڈیلیسے کی طرح حیران تھی۔

دونوں لڑکیاں فوری دوست بن گئیں کیونکہ کالیا نے پُس اِن بوٹس کی کہانی کے بارے میں اور بتایا کہ انہوں نے مسز محمود کے ساتھ اپنی انگلش کو کیسے بہتر بنانا سیکھا جو پوری دنیا کی بہترین ٹیچر تھیں۔

اس دوپہر، ڈیلیسے نے کلاس میں ہر ایک بچے سے بات کی، اور اگرچہ وہ ہر دفعہ یہ نہیں سمجھ پاتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن وہ ایک بات یقینی طور پر جانتی تھی: تمام بچے نئی زندگی شروع کرنے کے لیے انگلینڈ آئے تھے، اور اگرچہ کبھی کبھی کسی نئی جگہ پر ہونا خوفناک ہوتا تھا جہاں آپ زبان نہیں بولتے تھے، وہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی آس پاس ہوتا جو مدد کرتا۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ دنیا میں کہاں گئے ہیں، آپ کو ہمیشہ ایک دوست ملے گا۔ ڈیلیسے کو تب احساس ہوا کہ وہ کبھی تنہا نہیں ہو گی۔ انگلینڈ اس کا نیا گھر تھا اور وہ اس سے بہترین فائدہ اٹھانے والی تھی۔

٭٭٭

بندر اور مگرمچھ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بندر ندی کے کنارے ایک درخت پر رہتا تھا۔ بندر اکیلا تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست یا خاندان نہیں تھا لیکن وہ خوش اور مطمئن تھا۔ درخت نے اسے کھانے کے لیے کافی میٹھا جامن کا پھل دیا۔ اس نے اسے دھوپ سے سایہ اور بارش سے پناہ بھی دی۔

ایک دن ایک مگرمچھ دریا میں تیر رہا تھا۔ وہ بندر کے درخت کے نیچے آرام کرنے کے لیے کنارے پر چڑھ گیا۔

’’ہیلو‘‘ بندر نے پکارا، جو ایک دوستانہ برتاؤ کرنے والا جانور تھا۔

’’ہیلو‘‘ مگرمچھ نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا۔ ’’کیا تم جانتے ہو کہ مجھے کھانا کہاں سے مل سکتا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔  ’’میں نے سارا دن کچھ نہیں کھایا اور میں بھوکا ہوں۔‘‘ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مگرمچھ بندر کو کھا جانا چاہے گا، لیکن یہ بڑا ہی شفیق اور شریف مگرمچھ تھا اور یہ خیال کبھی اس کے دماغ میں نہیں آیا۔

’’میرے درخت میں بہت پھل ہیں۔ کیا آپ کچھ کھانا چاہیں گے‘‘ بندر نے کہا، جو خود بھی بہت مہربان تھا۔

اس نے جامن کا کچھ پھل مگرمچھ کی طرف نیچے پھینک دیا۔ مگرمچھ اتنا بھوکا تھا کہ اس نے تمام جامن کھا لیے حالانکہ مگرمچھ عام طور پر پھل نہیں کھاتے تھے۔ اسے میٹھا میٹھا پھل بہت پسند تھا اور گلابی گودے نے اس کی زبان کو جامنی بنا دیا۔

جب مگرمچھ اپنی مرضی کے مطابق کھا چکا تھا تو بندر نے کہا، ’’جب بھی آپ مزید پھل چاہیں واپس آ جائیں’۔

جلد ہی مگرمچھ ہر روز بندر کے پاس آتا تھا۔ دونوں جانور اچھے دوست بن گئے۔ وہ باتیں کرتے، ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے اور بہت سے میٹھے جامن ایک ساتھ کھاتے۔

ایک دن مگرمچھ نے بندر کو اپنی بیوی اور خاندان کے بارے میں بتایا۔

بندر نے کہا، ’’آج واپس جاتے وقت اپنی بیوی کے لیے بھی کچھ پھل لے جانا‘‘

مگرمچھ کی بیوی کو جامن بہت پسند آئے۔ اس نے پہلے کبھی اتنی میٹھی چیز نہیں کھائی تھی لیکن وہ اپنے شوہر کی طرح مہربان اور نرم مزاج نہیں تھی۔

اس نے اپنے شوہر سے کہا، ’’تصور کیجیے کہ بندر جب یہ جامن روزانہ کھاتا ہے تو اس کا ذائقہ کتنا میٹھا ہو گا‘‘۔

مہربان مگرمچھ نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بندر کو نہیں کھا سکتا۔

’’وہ میرا سب سے اچھا دوست ہے‘‘ اس نے کہا۔

مگرمچھ کی لالچی بیوی نہ مانی۔ اپنے شوہر سے وہ کام کروانے کے لیے جو وہ چاہتی تھی، اس نے بیمار ہونے کا بہانہ کیا۔

’’میں مر رہی ہوں اور صرف ایک پیارے بندر کا دل ہی مجھے ٹھیک کر سکتا ہے!‘‘ اس نے اپنے شوہر کو پکارا۔  ’’اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو تم اپنے دوست بندر کو پکڑو گے اور مجھے اس کا دل کھانے دو گے۔‘‘

بیچارے مگرمچھ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ وہ اپنے دوست کو کھانا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ اپنی بیوی کو مرنے نہیں دے سکتا تھا۔

آخر کار، اس نے فیصلہ کیا کہ اسے کیا کرنا ہے اور اگلی بار جب وہ بندر کے پاس گیا تو اس نے اس سے کہا کہ وہ اس کی بیوی سے ملنے آئے کیونکہ وہ جامن کے خوبصورت پھل کے لیے ذاتی طور پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔

بندر خوش ہوا لیکن کہا کہ وہ نہیں جا سکتا کیونکہ وہ تیرنا نہیں جانتا تھا۔

’’اس کی فکر نہ کرو‘‘ مگرمچھ نے کہا۔ ’’میں تمہیں اپنی پیٹھ پر لے کر جاؤں گا۔‘‘

بندر راضی ہو گیا اور مگرمچھ کی پیٹھ پر کود کر بیٹھ گیا۔

چنانچہ دونوں دوست گہرے چوڑے دریا میں چلے گئے۔

جب وہ کنارے اور جامن کے درخت سے بہت دور پہنچے تو مگرمچھ نے کہا، ’’مجھے بہت افسوس ہے لیکن میری بیوی بہت بیمار ہے اور کہتی ہے کہ بندر کا دل ہی اس کا علاج ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ مجھے تمہیں مارنا پڑے گا، حالانکہ میں ہماری باتوں کو یاد کروں گا۔‘‘

بندر نے جلدی سے سوچا اور کہا ؔ’’پیارے دوست، مجھے تمہاری بیوی کی بیماری کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس کی مدد کر سکوں گا لیکن میں نے اپنا دل جامن کے درخت میں چھوڑ دیا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم واپس جا سکتے ہیں تاکہ میں اسے لا سکوں؟‘‘

مگرمچھ نے بندر کی بات مان لی۔ وہ مڑا اور تیزی سے تیر کر جامن کے درخت کی طرف گیا۔ بندر اس کی پیٹھ سے چھلانگ لگا کر اپنے درخت کی حفاظت میں چڑھ گیا۔

’’میں نے سوچا کہ آپ میرے دوست ہیں‘‘  اس نے پکارا۔ ’’کیا تم نہیں جانتے کہ ہم اپنے دل کو اپنے اندر رکھتے ہیں؟ میں پھر کبھی تم پر بھروسہ نہیں کروں گا اور نہ ہی تمہیں اپنے درخت کا پھل دوں گا۔ چلے جاؤ اور واپس نہ آنا۔‘‘

مگرمچھ نے اپنے آپ کو بہت بے وقوف محسوس کیا۔ اس نے ایک دوست اور اچھے میٹھے پھل کی فراہمی کھو دی تھی۔ بندر نے خود کو بچا لیا تھا کیونکہ اس نے جلدی سوچ لیا تھا۔ اس دن سے اس نے پھر کبھی مگرمچھوں پر بھروسہ نہیں کیا۔

٭٭٭

بندر بادشاہ اور بھوت

ایک گھنے جنگل میں بندروں کا ایک گروہ رہتا تھا۔ بندروں کا بادشاہ بہت عقلمند تھا۔ ایک دن اس نے اپنے گروہ کو اکٹھے بلایا۔

’’میرے پیارے بندرو ہم خوش قسمت ہیں کہ اس خوبصورت جنگل میں رہتے ہیں لیکن خبردار! درخت اور پودے ہرے بھرے اور سرسبز ہو سکتے ہیں لیکن ان میں بہت سے زہریلے پھل ہوتے ہیں۔ تالاب صاف، چمکتا ہوا پانی ہو سکتے ہیں لیکن ان میں سے ایک میں بھوت رہتا ہے۔ اس لیے پہلے مجھ سے پوچھے بغیر کچھ نہ کھاؤ اور نہ پیو۔‘‘

اگلے دن ایک بندر کو پیاس لگی۔ اسے بادشاہ کی بات یاد آئی اور وہ اس سے بات کرنے چلا گیا۔

’’بچے فکر نہ کرو!‘‘ بادشاہ نے کہا۔ ’’میں تالاب کی چھان بین کروں گا کہ یہ محفوظ ہے ۔‘‘

جب وہ تالاب کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بڑے بڑے قدم اندر جا رہے ہیں لیکن باہر نہیں آ رہے ہیں۔ بادشاہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بھوت چھپا ہوا تھا۔ سب بندر رونے لگے، اس فکر میں کہ وہ پانی کیسے پئیں گے۔ بادشاہ نے انہیں تسلی دی اور بھوت کا مقابلہ کرنے چلا گیا۔

بھوت نے قہقہہ لگایا، ’’تم بڑے مخمصے میں ہو، بندر بادشاہ! اگر تمھارے بندر تالاب میں آئے تو میں انہیں کھا لوں گا۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ پیاس سے مر جائیں گے!‘‘

بادشاہ نے سوچا، ’’مجھے کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔‘‘

اس نے اپنے بندروں سے بانس کے ٹکڑے جمع کرنے کو کہا۔ کھوکھلی بانس کی چھڑیوں کو آپس میں جوڑ کر اس نے ایک بڑا پائپ بنایا جو تالاب کا پانی چوستا تھا۔ بندر اپنے دل کی خواہش کے مطابق پینے کے قابل تھے۔

’’سب کی طرف سے بندر بادشاہ کو سلام!‘‘ بندروں نے نعرے لگائے۔

وہ بھوت جسے بندر بادشاہ نے اپنی سمجھداری سے شکست دے دی تھی وہ اداس چہرے کے ساتھ تالاب میں واپس چلا گیا!

جب چیزیں مشکل لگیں تو کبھی ہمت نہ ہاریں، بندر بادشاہ کی طرح با صبر اور ہوشیار رہیں!

٭٭٭

تین مینڈھے

ایک وقت کی بات ہے سبز وادی کے ایک میدان میں تین مینڈھے رہتے تھے، چھوٹا مینڈھا، درمیانی مینڈھا اور بڑا مینڈھا۔ انہیں وہاں کی میٹھی گھاس کھانا بہت پسند تھا، لیکن بدقسمتی سے ان کا میدان سوکھ کر بنجر ہو گیا تھا کیونکہ یہ مینڈھے بہت پیٹو تھے اور انہوں نے گھاس کی آخری پتی تک کو کھا لیا تھا۔ لیکن وہ اب بھی بھوکے تھے۔ کچھ دوری پر انہیں ایک میدان نظر آ رہا تھا جو کہ ہری بھری میٹھی مزیدار گھاس سے بھری ہوئی تھی، لیکن افسوس کہ وہاں جانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا – جو ندی کے اوپر ایک جھولتا ہوا پل تھا۔ لیکن پل کے نیچے ایک انتہائی خوفناک دیو رہتا تھا جس کا نام ٹریور تھا۔  وہ بھی ہمیشہ بھوکا رہتا تھا۔ اور اسے کھانے کے لیے رس بھرے مزیدار مینڈھے بہت پسند تھے۔ سب سے پہلے چھوٹا مینڈھا پل پر پہنچا۔ اس نے پل پر ڈرتے ڈرتے اپنا ایک کھر رکھا پھر دوسرا کیونکہ وہ بہت زیادہ ہلتا تھا، اس نے بڑی محنت کی اور لکڑی کے تختوں پر وہ سنبھل سنبھل کر اپنے کھروں کو رکھتا ہوا ٹرپ ٹریپ، ٹرپ ٹریپ کرتا ہوا جا رہا تھا۔

اچانک اسے تیز دہاڑ سنائی دی۔ ’’میرے پل پر ٹرپ ٹریپ کر کے کون چل رہا ہے؟‘‘ اور پھر پل کے نیچے سے دیو نکلا۔

اپنے تھرتھراتے ہوئے کھروں کے ساتھ، چھوٹا مینڈھا منمناتے ہوئے بولا ’’یہ میں ہوں۔ میں کھانے کے لیے گھاس کی تلاش میں جا رہا ہوں۔‘‘

’’اوہ نہیں تم نہیں جاؤ گے! میں تمہیں اپنے ناشتے، لنچ اور چائے میں کھانے جا رہا ہوں!‘‘

’’اوہ نہیں!‘‘، خوفزدہ چھوٹے مینڈھے نے کہا۔ ’’میں تو ایک بہت چھوٹا سا مینڈھا ہوں۔ تم میرے بھائی کا انتظار کیوں نہیں کرتے؟ وہ مجھ سے بڑا اور زیادہ مزیدار ہے۔‘‘

 پر لالچی دیو نے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا اور چھوٹا مینڈھا پل پار کر گیا اور دوسری طرف تازہ ہری گھاس کھانے لگا۔ دوسرے مینڈھے نے چھوٹے مینڈھے کو تازہ ہری گھاس کھاتے دیکھا اور اسے جلن ہونے لگی کیونکہ وہ بھی اسے کھانا چاہتا تھا۔ اس لیے درمیانی جسامت کا مینڈھا پل کے پاس گیا اور ندی پار کرنا شروع کیا۔ وہ اپنے درمیانے جسامت کے کھر کو ٹرپ، ٹریپ، ٹرپ، ٹریپ کرتا ہوا جانے لگا۔ ایک بار پھر پل کے نیچے سے دیو باہر نکلا۔

’’میرے پل پر ٹرپ ٹریپ کر کے کون چل رہا ہے؟‘‘ وہ دہاڑا۔

اپنے تھرتھراتے ہوئے کھروں کے ساتھ، درمیانی جسامت کے مینڈھے نے اپنا لہجہ نرم کرتے ہوئے کہا ’’میں ہوں۔ میں اپنے بھائی، چھوٹے مینڈھے کا پیچھا کر رہا ہوں، تاکہ میں میٹھی گھاس کھا سکوں۔‘‘

’’اوہ نہیں تم نہیں جاؤ گے! میں تمہیں ناشتے، لنچ اور چائے میں کھانے جا رہا ہوں!‘‘

’’اوہ نہیں، مسٹر دیو، تم مجھے کھانا نہیں چاہو گے۔ میں اتنا بڑا نہیں ہوں کہ تمہارا پیٹ بھر سکے۔ میرے بڑے بھائی کے آنے تک انتظار کرو – وہ مجھ سے بھی زیادہ مزیدار ہے۔‘‘

’’اوہ ٹھیک ہے‘‘ دیو نے کہا اور درمیانی جسامت کا مینڈھا تیزی سے پل سے نکل گیا اور چھوٹے مینڈھے کے ساتھ ہری میٹھی گھاس کھانے لگا۔

بڑے دلیر مینڈھے کو جلن ہونے لگی تھی اور وہ پل پار کر کے اپنے بھائیوں کے ساتھ شامل ہونے کے لیے مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے ہمت کر کے، اس نے پل پر اپنا کھر رکھا۔ ٹرپ، ٹریپ، ٹرپ، ٹریپ۔ اچانک ہی پل کے نیچے سے دیو باہر نکلا۔

’’میرے پل پر ٹرپ ٹریپ کر کے کون چل رہا ہے؟‘‘ اس نے تیز آواز میں پوچھا۔

میں ہوں۔ بڑا مینڈھا۔ تمہارے خیال میں تم کون ہو؟

’’میں دیو ہوں اور میں تمہیں ناشتے، لنچ اور چائے پر کھانے جا رہا ہوں!‘‘

’’اوہ نہیں تم ایسا نہیں کرو گے‘‘

’’اوہ ہاں میں کروں گا – تم دیکھ لو گے!‘‘

پھر دیو بڑے مینڈھے کے پاس پہنچا، لیکن اس نے اپنا سر نیچے جھکایا اور بہادری سے دیو کو ٹکر ماری، اور اسے اپنے سینگوں میں پھنسا کر نیچے ندی میں پھینک دیا۔ دیو بہتے ہوئے پانی میں غائب ہو گیا، پھر دوبارہ کبھی نظر نہیں آیا۔ اب کوئی بھی اس پل سے بغیر خطرے کے جا سکتا تھا اور تینوں بکروں کے ساتھ میٹھی ہری گھاس کا مزہ لے سکتا تھا۔

٭٭٭

تین چھوٹے سور

مسز پگ بہت تھکی ہوئی تھی: ’’اوہ پیارو‘‘ اس نے اپنے تین چھوٹے سؤروں سے کہا، ’’میں یہ کام مزید نہیں کر سکتی، مجھے ڈر ہے کہ تمہیں گھر چھوڑ کر دنیا میں اپنا راستہ بنانا پڑے گا۔‘‘  چنانچہ تین چھوٹے سور چلے گئے۔

پہلا چھوٹا سور ایک آدمی سے ملا جس نے بھوسے کا ایک بنڈل اٹھایا ہوا تھا۔

’’معاف کرنا‘‘ پہلے چھوٹے سور نے شائستگی سے کہا۔

’’کیا آپ اپنا کچھ بھوسا بیچ دیں گے تاکہ میں گھر بنا سکوں؟‘‘

آدمی آسانی سے راضی ہو گیا اور پہلا چھوٹا سور اپنا گھر بنانے کے لیے اچھی جگہ تلاش کرنے چلا گیا۔

دوسرے چھوٹے سؤر سڑک پر چلتے رہے اور جلد ہی ان کی ملاقات ایک آدمی سے ہوئی جو چھڑیوں کا بنڈل اٹھائے ہوئے تھا۔

’’معاف کیجئے گا‘‘  چھوٹے سور نے شائستگی سے کہا۔ ’’کیا آپ مجھے کچھ چھڑیاں بیچیں گے تاکہ میں گھر بنا سکوں؟‘‘

آدمی آسانی سے راضی ہو گیا اور چھوٹے سور نے اپنے بھائی کو الوداع کہا۔

تیسرے چھوٹے سور نے ان کے خیالات کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا:

’’معاف کرنا‘‘  تیسرے چھوٹے سور نے اتنی ہی شائستگی سے کہا جیسے اس کی ماں نے اسے سکھایا تھا۔ ’’براہ کرم کیا آپ مجھے کچھ اینٹیں بیچ سکتے ہیں تاکہ میں گھر بنا سکوں؟‘‘

’’بالکل‘‘  آدمی نے کہا۔ ’’آپ کہاں چاہتے ہیں کہ میں ان کو اتاروں؟‘‘

تیسرے چھوٹے سور نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور اسے ایک درخت کے نیچے زمین کا ایک اچھا ٹکڑا نظر آیا۔

’’وہاں‘‘  اس نے اشارہ کیا۔

وہ سب کام میں لگ گئے اور رات ہوتے ہی بھوسے کا گھر اور چھڑیوں کا گھر بن گیا لیکن اینٹوں کا گھر ابھی زمین سے اوپر اٹھنا شروع ہوا تھا۔ پہلا اور دوسرا چھوٹا سور ہنس پڑا، ان کا خیال تھا کہ ان کا بھائی واقعی بے وقوف ہے جب وہ ختم کر چکے ہیں تو اسے اتنی محنت کرنا پڑ رہی ہے۔

 تاہم، کچھ دنوں بعد اینٹوں کا گھر مکمل ہوا اور یہ چمکدار کھڑکیوں، ایک صاف ستھری چمنی اور دروازے پر ایک چمکدار دستک کے ساتھ بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔

ایک ستاروں بھری رات، ان کے اندر بسنے کے فوراً بعد، ایک بھیڑیا کھانے کی تلاش میں باہر نکلا۔ چاند کی روشنی سے اس نے پہلے چھوٹے سؤر کے بھوسے کے گھر کا پتہ لگایا اور دروازے پر چڑھ کر پکارا:

’’چھوٹا سور، چھوٹا سور، مجھے اندر آنے دو۔‘‘

’’نہیں، نہیں، میری ٹھوڑی کے بالوں سے بھی نہیں!’‘‘ چھوٹے سور نے جواب دیا۔

’’پھر میں ہف کروں گا اور میں پف کروں گا اور میں آپ کے گھر کو اڑا دوں گا!‘‘ بھیڑیے نے کہا جو بہت بڑا، برا اور لالچی قسم کا بھیڑیا تھا۔

 اور اس نے ہانپ کی، اور اس نے پھونک مار کر گھر کو اڑا دیا۔ لیکن چھوٹا سور جتنی تیزی سے اس کے پاؤں اسے لے جا سکتے تھے بھاگا اور چھپنے کے لیے دوسرے چھوٹے سور کے گھر چلا گیا۔

اگلی رات بھیڑیا اور بھی بھوکا تھا اور اس نے چھڑیوں کا گھر دیکھا۔ وہ دروازے کی طرف لپکا اور پکارا:

’’چھوٹا سور، چھوٹا سور، مجھے اندر آنے دو۔‘‘

‘اوہ نہیں، میری ٹھوڑی کے بالوں سے بھی نہیں!’ دوسرے چھوٹے سور نے کہا، جیسا کہ پہلا چھوٹا سور سیڑھیوں کے نیچے کانپتا ہوا چھپا ہوا تھا۔

‘پھر میں ہف کروں گا اور میں پف کروں گا اور میں آپ کے گھر کو اڑا دوں گا!’ بھیڑیے نے کہا۔

اور اس نے لمبی سانس لی، اور اس نے پھونک ماری اور اس نے گھر کو اڑا دیا۔ لیکن چھوٹے سؤر اتنی تیزی سے بھاگے جتنی تیزی سے ان کے پاؤں انہیں لے جا سکتے تھے اور چھپنے کے لیے تیسرے چھوٹے سور کے گھر گئے۔

‘میں نے کیا بتایا تھا تمہیں؟’ تیسرے چھوٹے سور نے کہا۔ ‘گھروں کو صحیح طریقے سے بنانا ضروری ہے۔ ‘ لیکن اُس نے اُن کا استقبال کیا اور وہ سب باقی کی رات آرام سے ہو گئے۔

اگلی رات بھیڑیا پہلے سے کہیں زیادہ بھوکا اور بڑا اور بدتر محسوس کر رہا تھا۔

ادھر ادھر گھومتا ہوا وہ تیسرے چھوٹے سور کے گھر پہنچا۔ وہ دروازے کی طرف لپکا اور پکارا:

‘چھوٹا سور، چھوٹا سور، مجھے اندر آنے دو۔ ‘

’’اوہ نہیں، میری ٹھوڑی کے بالوں سے بھی نہیں!‘‘ تیسرے چھوٹے سور نے کہا، جبکہ پہلا اور دوسرا چھوٹا سور سیڑھیوں کے نیچے کانپتے ہوئے چھپ گئے۔

’’پھر میں ہف کروں گا اور میں پف کروں گا اور میں آپ کے گھر کو اڑا دوں گا!؟‘‘ بھیڑیے نے کہا۔

 اور اس نے پھونک ماری، پھونک ماری اور پھونک ماری لیکن کچھ نہیں ہوا۔ تو اس نے پھونک ماری اور اس نے پھونک ماری اور اس نے دوبارہ پھونک ماری، اور بھی زور سے، لیکن پھر بھی کچھ نہیں ہوا۔ اینٹوں کا گھر مضبوط کھڑا تھا۔

بھیڑیا بہت غصے میں تھا اور لمحہ بہ لمحہ بڑا اور بدتر ہوتا جا رہا تھا۔

’’میں تم سب کو کھا جاؤں گا‘‘ وہ بولا، ’’بس تم انتظار کرو اور دیکھو۔‘‘

وہ گھر کے چاروں طرف چہل قدمی کرتا ہوا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ چھوٹے سؤروں نے اس کی بڑی بڑی آنکھوں کو کھڑکی سے جھانکتے دیکھا تو کانپ اٹھے۔ پھر انہوں نے ایک گھمبیر آواز سنی۔

’’جلدی، جلدی!‘‘  تیسرے چھوٹے سور نے کہا۔ ’’وہ درخت پر چڑھ رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ چمنی سے نیچے آنے والا ہے۔‘‘

تین چھوٹے سؤروں نے سب سے بڑا برتن لیا، اور اس میں پانی بھرا اور ابالنے کے لیے آگ پر رکھ دیا۔ سارے وقت میں وہ بھیڑیے کے درخت پر چڑھنے اور پھر چھت کے اوپر چلنے کی آواز سن سکتے تھے۔

چھوٹے سوروں نے سانس روک لی۔ بھیڑیا چمنی سے نیچے آ رہا تھا۔ وہ قریب سے قریب آیا یہاں تک کہ ایک زبردست چھڑکاؤ کے ساتھ وہ پانی کے برتن میں اتر گیا۔

’’ یووییی!‘‘ اس نے چیخ ماری، اور چمنی سے فوراً واپس چلا گیا یہ سوچتے ہوئے کہ اس کی دم میں آگ لگی ہے۔

 آخری دفعہ تین چھوٹے سوروں نے بڑے بڑے بھیڑیے کو دیکھا تھا کہ وہ درخت کی چوٹیوں پر اپنی دردناک دم کو پکڑ کر ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔

لہذا، تینوں چھوٹے سور اینٹوں کے اپنے بہت اچھے لگنے والے گھروں میں خوشی سے ایک ساتھ رہتے تھے۔

٭٭٭

جادُوئی پینٹ برش

اک بار کی بات ہے اک جوان آدمی جس کا نام ما۔ ئے ںگ تھا بڑا غریب اور بھلا آدمی تھا۔ اس کو رنگنے یعنی پینٹنگ کا بڑا شوق ہوا کرتا تھا اور ہر جگہ پینٹنگ کرتا پھرتا۔ ایک رات وہ خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ اک بڈھا آدمی اس کو اک جادوئی پینٹ برش دیے کر کہنے لگا کہ تم اس کو غریبوں کی مدد کے لیے استعمال کیا کرنا، جب ما-ئے نگ کی صبح آنکھ کھلی تو اس نے پینٹ برش کو اپنی میز پر پایا۔

اس دن کہ بعد سے جب بھی کوئی غریب پریشان ہوتا یا اس کو مدد کی ضرورت ہوتی ما-یے نگ اس کی پینٹ برش کے ذریعہ مدد کرتا۔ جب وہ دیکھتا پانی نہیں ہے اور لوگ پانی کی قلت سے پریشان ہیں۔ ان کے کھیت کھلیانوں کو پنپنے کے لیے پانی چاہیے تو وہ پینٹ برش کی مدد سے ندی بناتا اور ندی سچ میں وجود میں آ جاتی اور ایسے غریب آدمی اپنے کھیتوں کو ندی کی مدد سے پانی پہنچا پاتا۔ ایسے ہی جب وہ دیکھتا کہ غریب کسان اپنے گھر والوں کا کھانا نہیں پُورا کر پا رہا ہے تو ما-یے نگ اپنے پینٹ برش سے کھانے پینے کے سامان بنا کر انہیں دے دیتا۔ وہ لوگ کھانا کھا کر بڑے خوش ہوتے۔ اسی طرح وہ سب کی مدد کرتا اور دیکھتے دیکھتے ہر جگہ ما-یے نگ چاروں طرف مشہور ہو گیا۔

اسی جگہ اک امیر اور مطلبی آدمی بھی رہتا تھا۔ جب اس کو ما-یے نگ کہ جادوئی پینٹ برش کہ بارے میں پتا چلا تو اس نے سوچا کیوں نہ وہ اس پینٹ برش کو چرا کر، بہت سی دولت پینٹ کر کے اور بھی زیادہ امیر اور مالدار بن جائے۔ اس امیر آدمی نے ما-یے نگ کا پینٹ برش چرانے کی نیت سے اپنے اک نوکر کو ما-ینگ کے گھر بھیجا۔

جب اس امیر آدمی کو وہ پینٹ برش ہاتھ لگا تو وہ خوشی سے ناچ اٹھا اور اپنے ساتھیوں کو بلوا لیا تاکہ ان سب کو اپنا نیا قیمتی سامان دکھا سکے۔ امیر آدمی نے اس پینٹ برش سے بہت ساری تصاویر اور چیزیں بنائیں لیکن کوئ بھی چیز وجود میں نہ آئی، اب امیر آدمی کو بہت غصہ آنے لگا اور اس نے ما-یے نگ کو بلوا لیا۔

جب ما-یے نگ امیر آدمی کے پاس لایا گیا تو امیر آدمی بولا ’’اگر تو مجھے میری کہی ہوئی تصویر بنا دے تو میں تجھے آزاد کر  دوں گا۔‘‘ ما-ینگ اسے برے آدمی کی مدد نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن کچھ سوچنے کہ بعد وہ بولا ٹھیک ہے بتاؤ تمہیں کیا بنوانا ہے؟

امیر آدمی بولا کہ: ’’ میرے لیے اک سونے کا پہاڑ بناؤ، تاکہ میں اس پہاڑ سے بہت سارا سونا حاصل کر سکوں ’’۔ ما-ینگ نے پہلے اک ندی بنائی۔ یہ دیکھ کر امیر آدمی غصہ سے چلانے لگا؛ ’’یہ کیا کیا تم نے، ندی کیوں بنائی میں نے تم سے سونے کا پہاڑ بنانے کو کہا تھا، چلو اب سونے کا پہاڑ بناؤ۔‘‘

ما-ینگ نے ندی سے بہت دور پہاڑ بھی بنا دیا۔ امیر آدمی سب دیکھ کر کچھ پریشان ہو کر بولا  ’’لیکن اب میں وہاں کیسے جاؤں گا، چلو اب اک کشتی بناؤ تاکہ میں اس پہاڑ تک پہنچ سکوں‘‘  ما-ینگ مسکرایا اور ندی میں اک کشتی بھی بنا دی۔ امیر آدمی جلدی سے اس کشتی میں بیٹھ گیا اور جب وہ کشتی بیچ ندی میں پہنچی تو ما-ینگ نے جلدی سے پانی کی ایک بہت تیز لہر بنا دی جس سے کشتی ڈوب گئی اور امیر آدمی بھی کہیں بہہ گیا اور کبھی نظر نہیں آیا۔

آخر کار ما-ینگ اپنے گھر والوں اور تمام گاؤں والوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا اور جیسے اس کو خواب میں بڑے آدمی نے کہا تھا ویسے ہی ہر غریب اور پریشان حال کی مدد کرتا۔ ما۔ ینگ اور جادوئی برش کو سب بہت پسند اور پیار کرتے۔

٭٭٭

جوھا اور اس کا گدھا

ایک دن جوھا اپنا گدھا چرانے  کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ بازار کا سفر شروع کیا۔

جب وہ دونوں ریل کی پٹڑی کے قریب پہنچ گئے۔ تو  کچھ لوگوں نے  دونوں کی تنقید کی۔

انہوں نے جوھا سے پوچھا:

’’جوھا! تم اتنے اچھے کیسے ہو سکتے ہو؟ تم گدھے کے اوپر ہے اور تمہارا بیٹا سڑک پر پیدل چل رہا ہے؟‘‘

جب جوھا  نے یہ  لفظ سنے تو اس نے نیچے اتر کر اپنے بیٹے کو گدھے پر اٹھایا۔

جوھا اور اس کے بیٹے نے اپنا سفر جاری رکھا۔

ایک میل کے بعد جوھا ایک عور توں کے گروہ میں ایک کنویں کے پاس تھا۔

جب عورتوں نے جوھا کو دیکھا وہ حیران ہوئیں۔ ایک نے پوچھا:

’’ یہ کیسے ٹھیک ہے؟ ایک بڑا اپنے پیروں  پر چل رہا ہے اور اس کا جوان بیٹا ایک گدھے پر سفر کر رہا ہے؟ یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے!‘‘

جوھا ان کی بات سن کر گدھے پر چڑھا۔ اب دونوں باپ بیٹے گدھے پر تھے۔

کچھ وقت اور گزر گیا اور دوپہر ہو گئی۔ بہت گرمی تھی اور سورج بہت تیز تھا لیکن جوھا اور اس کے بیٹے کا سفر جاری رہا۔

گدھا بہت سست تھا کیوں کہ دونوں کا وزن بہت بھاری تھا۔ جب وہ بازار پہونچ گئے، کچھ لوگ انگلی اٹھا کر کہنے لگے :

’’آپ اتنے چھوٹے گدھے پر کیوں سفر کر رہے ہیں؟ یہ بہت چھوٹا ہے اور آپ کا وزن نہیں سنبھال سکتا!‘‘

جوھا نے یہ سن کر کہا:

’’مجھے لگتا ہے کہ ہم دونوں کو پیدل جانا چاہیئے تا کہ کوئی ہمارا مذاق نہیں اڑا سکے‘‘’

دونوں نیچے اتر کر گدھے کی رسی پکڑ کر چلنے لگے ۔

جب وہ بازار میں پہنچے تو سب نے پھر ان کا مذاق اڑایا اور بہت ہنسے ۔ سب نے کہا:

’’یہ کیسے بیوقوف ہیں! گدھا  رکھتے ہوئے پیدل سفر کر رہے ہیں؟‘‘

جوھا غصہ نہیں ہوا کیوں کہ اس نے سمجھ لیا کہ سب کو خوش کرنا ممکن نہیں ہے۔ شاید وہ اپنے زندگی کے فیصلے اپنے آپ کرنا چاہئے اور اپنے خوشی کے بارے میں خود سوچنا چاہیئے۔

٭٭٭

دھوبی کا گدھا

ہارون ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جو کراچی (پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور بندر گاہ)کے بیرونی علاقے کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ ہارون اپنے گاؤں کے چھوٹے سے پرائمری سکول میں پڑھنے جایا کرتا تھا جو کہ اس کے گھر سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ اس کی جماعت کا کمرہ بہت کشادہ تھا جس میں پٹ سن کی بنی ہوئی بہت لمبی لمبی چٹائیاں فرش پر لمبی اور سیدھی قطاروں میں بچھی ہوتی تھیں۔ بچے ّ ان چٹا ئیوں پر تختہ سیاہ اور استاد کی طرف منہ کر کے بیٹھتے تھے۔ بچوّں کے لئے کوئی میز اور کرسیاں نہیں تھیں۔ صرف ایک ڈیسک کمرے میں سب کے سامنے کی طرف تھا جو کہ صرف استاد کے استعمال میں تھا۔ وہاں ایک طرف ایک الماری بھی تھی جس میں بچوّں کی کاپیاں اور کتابیں وغیرہ رکھی ہوئی ہوتی تھیں۔ ان چند چیزوں کے علاوہ اس کمرے میں کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ ان دنوں میں گاؤں کے چھوٹے سکولوں میں عام طور پر یہی طریقہ ہوتا تھا۔

ہارون ایک اچھا لڑکا تھا جو کہ اپنے بڑے بزرگوں، اپنے والدین اور اپنے استاد کی عزّت کیا کرتا تھا۔ وہ روزانہ بہت صبح سویرے اٹھتا تاکہ وقت پر تیار ہو کر ناشتہ کرے، اور پھر وہ گھر سے نکل کر کھیتوں کے درمیان سے گزرتا ہوا لمبا سفر طے کر کے سکول میں وقت سے پہلے پہنچ جائے۔ وہ بہت محنت کرتا اور ہمیشہ اپنا سکول کا کام ختم کرتا۔ وہ ہمیشہ اپنے والدین کی اس نصیحت پر عمل کرتا کہ آج کا کام کبھی کل پر مت چھوڑو۔

سکول میں تفریح کے وقت ہارون اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں کبڈّی کھیلا کرتا تھا۔ یہ کھیل پاکستان کے دیہاتی علاقوں کے نو جوانوں کے درمیان بہت مقبول ہے، اور ہارون کو بھی یہ کھیل کھیلنا بہت پسند تھا۔

ہارون کے ہمسائے میں ایک دھوبی بھی رہا کرتا تھا جس کا نام تاجوُ تھا۔ تاجوُ کے پاس ایک مر یل سا گدھا تھا جس پر سوار ہو کر وہ ہر ہفتے قریب کے ایک قصبے میں جاتا اور وہاں کے لوگوں سے میلے کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کر کے لاتا۔ پھر وہ گدھے پر سوار ہو کر کپڑوں کے ساتھ دریا پر جاتا اور وہاں پر وہ کپڑے دھو کر لاتا۔

تاجوُ کی ایک بری عادت تھی کہ جب وہ گدھے پر سوار ہوتا تو وہ بچارے گدھے کی ٹانگوں پر زور زور سے چھڑی مارتا جاتا تھا، تب وہ گدھا ایک بھیانک سی آواز نکالتا تھا۔ ’’ ڈھینچوں، ڈھینچوں‘‘ اور ساتھ ہی تاجوُ اپنا اور بھاری گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے ہوتا تھا۔ پھر شام کو وہ گدھے پر سوار دھلے ہوئے کپڑوں کی گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے اس کی ٹانگوں پر چھڑی مارتا ہوا واپس آتا تھا۔ جب دھوبی پاس سے گزرتا تو ہارون اکثر گدھے کی یہ بھیانک اور غمزدہ آواز سنتا، اور گدھے کے بارے میں پریشانی کی وجہ سے وہ بچہ رات کو سو نہ سکتا۔

دوسرے دن صبح کے وقت بھی سکول جاتے ہوئے ہارون دھوبی کو گدھے پر دھلے ہوئے کپڑوں کے ساتھ سوار شہر کی طرف جاتے ہوئے دیکھتا، جو ہمیشہ کی طرح گدھے کو لمبی چھڑی کے ساتھ پیٹتا جاتا تھا۔ بچارہ چھوٹا سا لڑکا اکثر بہت غور و فکر سے دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہتا کہ کس طرح اس گدھے کو تاجوُ کی مار پیٹ سے بچایا جائے۔ مگر کبھی بھی کوئی منصوبہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔

یہ سب کچھ عرصے تک جاری رہا، گدھا کمزور اور بوڑھا ہو گیا۔ تاجوُ خود بھی اپنے گدھے کی طرح بوڑھا اور کمزور ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دھوبی شہر سے اتنے زیادہ کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کر کے دھونے کے لئے نہیں لا سکتا تھا۔ اس وجہ سے وہ اب زیادہ غریب ہو گیا تھا، اور اس کو اپنے گدھے کی دیکھ بھال پہلے سے زیادہ مشکل لگتی تھی۔ اب تاجوُ نے گدھے کو تازہ سبز گھاس کی بجائے بچا کھچا کھانا دینا شروع کر دیا۔ لیکن اس کی گدھے کو پیٹنے کی عادت نہیں بدلی۔

پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ہارون نے اپنے پرائمری سکول کے فائنل امتحان کو اپنی جماعت میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کر کے پاس کر لیا۔ ہیڈ ماسٹر نے اس کے سرٹیفِکیٹ کے ساتھ اسے ایک خاص انعام بھی دیا، ہارون گاؤں بھر میں بہت مشہور ہو گیا۔ اس کے والدین انتہائی خوش ہوئے اور اپنے بیٹے کی کامیابی پر ناز کرنے لگے۔ اس کی محنت اور کامیابی کی خوشی مناتے ہوئے ہارون کے والدین نے اس سے وعدہ کیا، کہ وہ اسے اس کی مرضی کی جو چیز بھی وہ پسند کرے گا، اسے وہی تحفے میں خرید کر دیں گے۔

اسی رات کو جب وہ چھوٹا سا لڑکا اپنے کمرے میں سونے کے لئے گیا، اس کے کمرے کی کھڑکی کھلی تھی اور اسے اس بچارے گدھے کی غمزدہ آواز تھوڑے فاصلے سے سنائی دے رہی تھی ’’ ڈھینچوں، ڈھینچوں‘‘۔ ہارون نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے والد سے تاجوُ کا گدھا خریدنے کے لئے کہے گا۔ اسے یقین تھا کہ اس کے ابا جان اس سے تعاون کریں گے مگر اسے ڈر تھا کہ بوڑھا تاجوُ شاید نہ مانے۔

دوسرے دن جب ہارون نے درخواست کی کہ کیا وہ تاجوُ کا گدھا خرید سکتا ہے؟ تو اس کے والد اس کی غیر متوقع درخواست پر بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے کہا ’’بیٹے! تاجوُ کے گدھے میں کیا خاص بات ہے؟ تم کوئی دوسرا جانور بھی پال سکتے ہو‘‘۔ لیکن ہارون نے کہا ’’نہیں ابا جان! میں تاجو کا گدھا ہی حاصل کرنا بہتر سمجھتا ہوں‘‘۔ تب اس چھوٹے سے لڑکے نے اپنے والد کے سامنے تمام کہانی بیان کی کہ کس طرح تاجوُ اپنے گدھے کو ایک لمبی چھڑی سے مارتا ہے اور کس طرح وہ اپنے گدھے سے کپڑوں کی بھاری گٹھڑیاں اٹھواتا ہے اور اسے کھانے کے لئے تازہ گھاس کی بجائے بچا کھچا کھانا اس کے آگے ڈال دیتا ہے۔ ہارون نے اپنے والد کو وضاحت کر کے بتایا کہ کس طرح وہ عرصے سے بچارے گدھے کو اس سخت ظلم سے بچانے کی خواہش رکھے ہوئے تھا۔ اس کی داستان سننے کے بعد اس کے والد اپنے بیٹے کے لئے اس بوڑھے گدھے کو خریدنے پر راضی ہو گئے۔

اس طرح دوسرے روز صبح ہارون اور اس کے والد تاجوُ سے ملنے گئے اور انہوں نے دھوبی سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا گدھا خرید سکتے ہیں؟ تاجوُ کو اس درخواست پر بہت تعجب ہوا، تب وہ سوچنے لگا کہ اس کا گدھا کتنا بوڑھا اور کمزور ہو چکا ہے، اور اسے کھلانا پلانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا اب کافی مشکل ہو گیا تھا۔ پھر تاجوُ اچھی قیمت حاصل کرنے کے لئے کچھ دیر بحث کرنے کے بعد اپنے بوڑھے گدھے کو باپ بیٹے کے ہاتھ بیچنے پر راضی ہو گیا۔

ہارون اور ابا جان گدھے کو اپنے ساتھ ہی گھر لے آئے اور اسے اپنے گھر کے پیچھے بہت بڑے صحن میں آزاد چھوڑ دیا۔ انہوں نے بوڑھے گدھے کو کھانے کیلئے تازہ گھاس بھی دی۔ اور انہوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ اسے کبھی بھی کپڑوں کی بھاری گٹھڑیاں نہیں اٹھانی پڑیں گی، اور نہ ہی کسی لمبی چھڑی سے مار کھانی پڑے گی۔

ہارون نے ہمیشہ گدھے کی دیکھ بھال کی پوری کوشش کی، اور باوجود اس کے کہ وہ گدھا بہت ہی بوڑھا تھا مگر وہ جلد ہی طاقتور اور صحت مند ہو گیا۔ وہ چھوٹا سا لڑکا بہت خوش تھا کیوں کہ وہ یہ دیکھ سکتا تھا کہ گدھا اپنے نئے گھر میں کتنا خوش تھا۔ اور اب ہارون کو کبھی بھی اس کی وہ انتہائی غمزدہ آواز یں نہیں سننا پڑیں گی۔ کبھی نہیں

٭٭٭

ست رنگی سانپ

کافی عرصہ پہلے ڈریم ٹائم میں قبائلیوں کا ایک گروپ شکار کے لیے نکلا۔ کئی گھنٹوں بعد، وہ کافی تھک گئے اور انہوں نے آرام کرنے کا فیصلہ کیا اور آس پاس بیٹھ گئے، کہانی کہنے اور آگ سے اپنا ہاتھ گرم کرنے لگے، اس میں سے ایک نے اوپر دیکھا۔ افق پر ایک خوبصورت کئی رنگوں والا محراب نما قوس قزح موجود تھا۔ لیکن قدیم باشندوں نے سوچا کہ یہ ایک سانپ ہے جو ایک جل گڑھے سے نکل کر دوسرے میں جا رہا ہے اور وہ خوفزدہ ہو گئے کیونکہ نہیں چاہتے تھے کہ اتنا بڑا چمکدار- رنگوں والا سانپ ان کے کیمپ کے نزدیک والے جل گڑھے میں نکلے۔ لیکن وہ شکر گزار تھے کہ وہ ان کے اپنے جل گڑھے کے پاس حرکت کرتا ہوا محسوس نہیں ہوا۔

ایک نوجوان آدمی، قوس قزح نما سانپ کے بارے میں مزید جاننا چاہتا تھا اس لیے جب وہ واپس گھر آیا، تو اس نے اپنے قبیلے کے بزرگ آدمی کو بتایا کہ شکاری کیوں قوس قزح نما سانپ سے ڈر گئے تھے۔

 بزرگ آدمی نے کہا کہ قوس قزح نما سانپ ڈریم ٹائم کی مخلوق ہے جس نے زمین کو شکل بخشی۔ شروع میں زمین سپاٹ تھی۔ اور قوس قزح نما سانپ نے زمین تک اپنا راستہ بنایا، اس کے جسم کی حرکت سے پہاڑ اور وادیاں وجود میں آئیں جہاں ندیاں رہتی ہیں۔ وہ خوابوں کی سرزمین پر سب سے بڑا تھا اور اس کی قوت سے خوابوں کی سرزمین کی تمام مخلوق ڈرتی تھی۔

آخر کار، زمین کو شکل دینے کی کوشش کرتے کرتے تھک کر، قوس قزح نما سانپ جل گڑھے میں رینگ کر چلا گیا جہاں وہ ٹھنڈے پانی میں لیٹ گیا جس سے اسے سکون ملا اور اس کے جسم کے چمکیلے رنگ نرم ہو گئے۔ ہر بار جب جانور جل گڑھے کی طرف جاتے، وہ پانی میں ہلچل پیدا کرنے سے ہوشیار رہتے، حالانکہ وہ اسے نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ وہ وہاں ہے۔ وہ صرف بھاری طوفانی بارش میں ہی باہر آتا جب اس کے جل گڑھے میں ہلچل ہوتی ہے اور جب دھوپ اس کے رنگین جسم کو چھوتی۔

تب وہ جل گڑھے سے باہر آتا اور درختوں کے اوپر سے، بادلوں اور دوسرے جل گڑھے کے میدان تک سفر کرتا۔ لوگ خوفزدہ ہو گئے تھے کہ وہ غصہ میں تھا اور وہ دوبارہ زمین کو متھ سکتا ہے اس لیے اس کے نئے گھر میں جانے تک سبھی لوگ بالکل خاموش رہتے۔ وہاں پہنچنے پر وہ ایک بار پھر پانی کے نیچے غائب ہو گیا اور دکھائی نہیں دیا۔

اس لیے قدیم باشندے قوس قزح نما سانپ کو پریشان نہ کرنے کے معاملے میں محتاط رہتے ہیں، کیونکہ انہوں نے اسے آسمان میں ایک جل گڑھے سے دوسرے میں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔

٭٭٭

سورج اور چاند آسمان میں کیوں رہتے ہیں

کئی سال پہلے، سورج اور پانی بہت اچھے دوست تھے، اور وہ دونوں زمین پر ایک ساتھ رہتے تھے۔ سورج اکثر پانی کے پاس آیا کرتا تھا، لیکن پانی کبھی سورج کو ملنے نہیں گیا۔

آخر کار سورج نے پانی سے پوچھا کہ وہ کبھی کیوں نہیں آیا۔ پانی نے جواب دیا کہ سورج کا گھر اتنا بڑا نہیں ہے اور اگر وہ اپنے تمام لوگوں کے ساتھ آئے تو سورج کو اس کے گھر سے نکال دے گا۔

پانی نے پھر کہا، ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ سے ملوں تو آپ کو ایک بڑا گھر بنانا پڑے گا۔ لیکن میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ یہ بہت بڑا ہونا چاہیے، کیونکہ میرے بہت سے رشتہ دار اور دوست ہیں اور ہمیں بہت زیادہ جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

سورج نے ایک بہت بڑا گھر بنانے کا وعدہ کیا، اور جلد ہی وہ اپنی بیوی، چاند کے پاس گھر واپس آیا، جس نے ایک وسیع مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔

سورج نے چاند کو بتایا کہ اس نے پانی کے ساتھ کیا وعدہ کیا تھا، اور اگلے دن انہوں نے پانی اور اس کے تمام کنبے اور دوستوں کی تفریح کے لیے ایک بڑا گھر بنانا شروع کیا۔ جب وہ مکمل ہوا تو سورج نے پانی سے کہا کہ وہ آ کر اس کو دیکھے۔

جب پانی آیا تو اس نے سورج کو پکارا اور اس سے پوچھا کہ کیا اس کے گھر والوں اور دوستوں کا داخل ہونا محفوظ رہے گا، سورج نے جواب دیا، ’’ہاں، تم سب اندر آ سکتے ہو۔‘‘

پانی اندر آنے لگا، اس کے بعد مچھلیاں اور دیگر تمام آبی جانور آئے۔

بہت جلد گھر میں گھٹنوں تک پانی بھر گیا تو پانی نے سورج سے پوچھا کہ کیا اب بھی محفوظ ہے تو سورج نے پھر کہا  ’’ہاں، مہربانی کر کے میرے گھر تشریف لاؤ‘‘۔ چنانچہ پانی اور اس کے سارے گھر والے اندر آتے رہے۔

جب پانی آدمی کے سر کی سطح کے برابر تھا تو پانی نے سورج سے کہا، ’’کیا تم اب بھی چاہتے ہو کہ میری قوم کے اور لوگ آئیں؟‘‘

سورج اور چاند دونوں نے کچھ بہتر نہ جانتے ہوئے کہا، ’’ہاں، جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی بہتر ہے‘‘۔

چنانچہ پانی کے زیادہ سے زیادہ لوگ اندر آتے گئے، یہاں تک کہ سورج اور چاند کو چھت کے اوپر بیٹھنا پڑا۔ جب پانی چھت کے اوپر سے بہہ گیا تو سورج اور چاند آسمان پر جانے پر مجبور ہو گئے ۔ ۔ ۔

… اور وہ تب سے وہاں موجود ہیں۔

٭٭٭

علی انگوٹھا

ترکی کی ایک کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جوڑے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جسے وہ علی کہتے تھے۔

بچہ اپنے والدین کے لیے خلاف توقع تھا، کیونکہ جب وہ پیدا ہوا تو وہ انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا!

ماں اور باپ دونوں شروع میں بہت پریشان تھے، لیکن پھر انہوں نے خود سوچا،

’’’ یہی ہمارے لیے خدا کی دین ہے، اور ایک دن ہمارا بیٹا بڑا، مضبوط لڑکا بنے گا۔‘‘

لیکن سال گزرتے گئے اور علی بالکل نہیں بڑھا۔ وہ انگوٹھے کی طرح چھوٹا رہ گیا۔

ہر شام رات کے کھانے پر ماں اپنے بیٹے کے لیے میز پر جگہ رکھ دیتی۔

وہ اس کے سامنے ایک چھوٹی سی پلیٹ رکھ دیتی اور اس میں ایک چائے کا چمچ سوپ سے بھرتی۔

علی کے پاس ایک چھوٹا سا پیالہ بھی تھا جسے اس کی ماں پانی کے ایک قطرے سے بھر دیا کرتی تھی۔

گھر والے جب گھر پر ہوتے تھے تو سب ٹھیک تھا لیکن ماں باپ اپنے بیٹے کی وجہ سے شرمندہ تھے تھی، یہ سوچ کر کہ اگر کسی نے اسے دیکھا تو وہ نوجوان لڑکے کو چھیڑیں گے۔ اس لیے انہوں نے اسے گھر کے اندر ہمیشہ نظروں سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔

مزید کئی سال گزر گئے اور بالآخر علی نے اپنی بیسویں سالگرہ منائی۔

وہ ابھی بھی انگوٹھے کی طرح چھوٹا تھا، لیکن اس کی آواز بہت گہری اور بہت بلند ہو چکی تھی۔

 در حقیقت اگر کبھی کوئی ان کے بیٹے کو بولتے ہوئے سنتا تو وہ سمجھتا کہ یہ کسی بڑے آدمی کی آواز ہے۔

علی ایک بہت اداس نوجوان تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے اپنا سارا وقت اپنے والدین کے گھر کے اندر چھپ کر گزارنا پڑتا تھا۔

ایک دن علی کے والد اگلے قصبے میں بازار جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ بوڑھے آدمی نے رات ہوٹل میں گزارنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ رات ہونے سے پہلے وہاں تک کا اور واپسی کا سفر نہیں کر سکتے تھے۔

علی نے اپنے والد سے التجا کی کہ اسے سفر میں ساتھ لے جائیں، لیکن اس کے والد اس خیال سے بہت پریشان نظر آئے۔

اس نے کہا، ’’ہم نے آج تک آپ کو کبھی باہر نہیں نکالا اور مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اب ایسا کر سکتا ہوں۔‘‘

’’میں آپ کی حفاظت کیسے کر سکتا ہوں اور آپ کو دوسرے لوگوں سے کیسے چھپا سکتا ہوں؟‘‘

’’یہ آسان ہو جائے گا‘‘  علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں جواب دیا۔ ’’آپ مجھے اپنی جیب میں رکھ سکتے ہیں اور کوئی نہیں جان سکے گا کہ میں وہاں ہوں۔ آپ کپڑے میں تھوڑا سا سوراخ کر سکتے ہیں تاکہ میں سانس لے سکوں اور میں دیکھ سکوں کہ کیا ہو رہا ہے اور دنیا کے تمام نئے نظاروں سے لطف اندوز ہو سکوں۔‘‘

علی کے والد نے محسوس کیا کہ علی گھر سے نکلنے کے خیال سے کتنا پر جوش تھا، اور اس وجہ سے اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نہ کہنا نا ممکن پایا۔

بوڑھے آدمی نے اپنی قمیض کی جیب میں ایک بہت چھوٹا سوراخ کیا اور علی کو اندر چڑھنے میں مدد کی۔

ماں نے سفر کے لیے تھیلے حوالے کیے اور دونوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پھر علی اور اس کے والد پڑوسی شہر کے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔

سارا دن سفر کرنے کے بعد علی اور اس کے والد سڑک کے کنارے ہوٹل پہنچے۔

والد نے کہا، ’’ہم یہاں رات کے لیے ایک کمرہ حاصل کر لیں گے، اور کل ہم گھر واپس جانے سے پہلے صبح سویرے بازار جائیں گے‘‘

’’میں یقین نہیں کر سکتا کہ مجھے ہوٹل میں ٹھہرنا پڑے گا!‘‘ علی نے کہا۔

نوجوان بہت پر جوش تھا کیونکہ اس نے اپنے سفر میں بہت کچھ دیکھا تھا اور وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں نہیں سویا تھا۔

علی کے والد نے ایک کمرے کے لیے ادائیگی کی اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے اپنا بیگ سیڑھیوں سے اوپر لے گئے۔

بوڑھے آدمی کے سامان کھولنے اور نہانے کے بعد، اور علی کو ابھی تک اپنی جیب میں چھپا کر، وہ اس امید کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا کہ شاید وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بھی کچھ کھانے کا سامان لے آئے۔

پھر کچھ بہت غیر متوقع ہوا۔ جیسے ہی تمام مہمان رات کے کھانے پر بیٹھے چوروں کا ایک گروہ ہوٹل میں داخل ہوا۔

بے رحم دکھائی دینے والے مردوں نے، جو کہ تین تھے، بندوقیں اٹھائیں اور حکم دیا کہ ہر مرد اور عورت اپنی رقم اور جو بھی قیمتی سامان ان کے پاس ہے، وہ حوالے کر دیں۔

تمام مہمان بہت خوفزدہ تھے جن میں علی کے والد بھی شامل تھے، لیکن انہوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ انہیں کہا گیا تھا، اور اپنے بٹوے اور زیورات کو چوروں کو دینے کے لیے میزوں پر رکھنے لگے۔

اچانک کہیں سے ایک بہت تیز اور بہت گہری آواز آئی۔

’’اپنی بندوقیں نیچے کرو!‘‘ آواز نے حکم دیا۔ ’’میں وہاں آ رہا ہوں اور میں تمہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے جا رہا ہوں۔‘‘

کوئی نہیں جانتا تھا کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ چوروں نے کھانے کے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی شخص تلاش نہ کر سکے۔

پھر آواز آئی، اس بار پہلے سے بھی اونچی آواز میں۔ ’’میں تم سے تمہاری شرارتوں کا بدلہ لوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ تم کئی سال جیل میں گزارو۔‘‘

چونکہ چور یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے، اس لیے انہوں نے خود کو باور کرایا کہ اس کا تعلق کسی بھوت سے ہے۔

اور اگر چوروں کو پولیس سے بھی زیادہ کسی چیز سے ڈر لگتا تھا تو وہ بھوت تھے۔

اچانک، چور اپنی بندوقیں چھوڑ کر ہوٹل سے بھاگے اور اندھیرے میں غائب ہو گئے۔

اگرچہ مہمان خوش تھے کہ ڈاکو بھاگ گئے ہیں لیکن وہ بھی بھوتوں سے ڈر کر اپنے کمروں میں بھاگ کر چھپ جانا چاہتے تھے۔

’’فکر نہ کرو‘‘  علی کے والد نے کہا۔ ’’یہ کوئی بھوت نہیں ہے جو بات کر رہا ہے۔ یہ میرا بیٹا ہے۔‘‘

اور اس کے ساتھ ہی بوڑھے آدمی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ علی اس کے ہاتھ پر چڑھ جائے۔ پھر اس نے علی کو آہستہ سے میز پر بٹھایا تاکہ تمام مہمان ہیلو کہہ سکیں۔

’’مجھے یقین ہے کہ ڈاکو واپس نہیں آئیں گے‘‘  علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں کہا، اس کے چہرے پر ان تمام مہم جوئیوں کی وجہ سے ایک بڑی مسکراہٹ تھی۔

مہمان ایک ایسے لڑکے سے ملنے کے لیے بہت حیران اور بہت متجسس تھے جو انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا۔

لیکن سب سے بڑھ کر، وہ سب علی کے بہت شکر گزار تھے کہ اس نے انہیں چوروں سے بچا لیا، اور انہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے ہاتھ ملایا اور اس کے والد سے کہا کہ انہیں اتنا بہادر بیٹا ملنے پر کتنا فخر ہو گا۔

صبح جب وہ بازار کے لیے ہوٹل سے نکلے تو علی کے والد نے اپنے چھوٹے بیٹے کو جیب سے نکال کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔

ساری صبح بازار میں، اور پھر گھر جاتے ہوئے، بوڑھے آدمی کو راہگیروں سے علی کا تعارف کرانے کے لیے کئی بار رکنا پڑا۔ اور اس نے بہت فخر محسوس کیا اور سب کو بتایا کہ کس طرح اس کے بیٹے نے تینوں چوروں سے سب کو بچایا تھا۔

اس شام جب باپ بیٹا گھر پہنچے تو علی کی ماں بہت پریشان نظر آئیں کہ علی ان کے شوہر کے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔

’’کیا ہو گا اگر کوئی اسے دیکھ لے؟‘‘ اس نے اپنے شوہر سے پوچھا۔

لیکن بوڑھا آدمی مسکرایا اور اپنی بیوی کو سمجھایا کہ ان دونوں نے ہوٹل میں کس مہم جوئی کا تجربہ کیا تھا، اور علی نے کس طرح سب کو بچایا اور چوروں کو ڈرایا۔

’’اپنے بیٹے سے شرمندہ ہونا بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ ہمیں اتنے سالوں تک اسے گھر میں چھپا کر نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ ہمیں علی اور ان تمام چیزوں پر فخر کرنا چاہیے جو وہ کرنے کے قابل ہے۔‘‘

علی کی ماں کو واقعی بہت فخر ہوا جب اس نے اپنے بیٹے کی بہادری کی داستان سنی، اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کبھی نہیں چھپائے گی یا پھر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرے گی۔

اس دن کے بعد سے، علی انگوٹھے نے ہمیشہ اپنے والدین کے کندھوں پر سفر کیا ہے، وہ جہاں بھی جاتے ہیں، اور اس نے بہت سے کام دیکھے اور کیے ہیں اور بہت سی مہم جوئیاں کی ہیں۔

٭٭٭

لعنت

ایک پرتگالی کہانی

بہت عرصہ پہلے بڑے جنگل کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ یہ زیادہ تر وقت پرامن گاؤں تھا، لیکن گاؤں کے لوگ لوبیزون کے خوف میں رہتے تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ جنگل کے اندر رہتے تھے۔ لوبیزون تاریک مخلوق تھے، آدھا آدمی اور آدھا بھیڑیا، اور ہر پورے چاند کی تاریخ پر کہا جاتا تھا کہ یہ مخلوق انسانی گوشت کی تلاش میں جنگل سے باہر نکل آتی تھی۔

لیکن ایسی مخلوق کیسے وجود میں آئی؟ یہ سادہ بات ہے: کسی بھی خاندان میں پیدا ہونے والے ساتویں بیٹے پر لعنت۔ لعنت کسی بیٹی پر نہیں پڑے گی لیکن اگر ایک ماں نے سات بیٹوں کو جنم دیا تو ان بیٹوں میں سے آخری ضرور لوبیزون بنے گا۔

جب فلپ پیدا ہوا تو اس کی ماں خوفزدہ تھی۔ اسے بیٹی کی امید تھی، ساتویں بیٹے کی نہیں۔ لیکن فلپ کی ماں مہربان اور پیار کرنے والی تھی اور وہ اپنے بچے سے پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ گاؤں والے اس لعنت کے بارے میں کچھ بھی کہیں۔

کئی سال سکون میں گزر گئے۔ فلپ ایک مضبوط لڑکا بن گیا جسے اس کی ماں اور باپ اور چھ بھائی بہت پسند کرتے تھے۔ لیکن فلپ یہ یہ نوٹس کرنے سے نہیں رہ سکا کہ اس کے ساتھ اس کے بھائیوں سے مختلف سلوک کیا گیا تھا۔ وہ اسکول نہیں گیا کیونکہ استاد اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ مناسب نہیں تھا کیونکہ نوجوان لڑکا نئی چیزیں سیکھنا پسند کرتا تھا اور شدت سے دوسرے بچوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا تھا۔

اگر کبھی فلپ کو اس کی ماں نے روٹی لینے کے لیے بھیجا تو گاؤں کے لوگ کبھی بھی اس کے راستے میں نہیں آتے تھے اور ہمیشہ اس کی طرف خوف اور ناراضگی کے امتزاج سے دیکھتے جس نے نوجوان لڑکے کو بے چین کر دیا۔ دوسرے بچے اس کے ساتھ نہیں کھیلتے تھے اور جب پورا چاند ہوتا تھا تو اسے کبھی باغ میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ آخری نقطہ شاید ان سب میں سب سے برا تھا کیونکہ فلپ کو چاند سے بہت پیار تھا، اس کے بارے میں کچھ – خاص طور پر جب وہ رات کے آسمان میں بھرا ہوا اور گول تھا – نے فلپ سے بات کی اور اس کی روح کو جگایا اور اسے گانے، ناچنے اور بھاگنے پر مجبور کیا۔

زندگی پرامن ہونے کے باوجود خوشی سے بہت دور تھی۔ فلپ نے ہر گزرتے سال کے ساتھ خود کو زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ پایا۔ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے کبھی بھی دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ کبھی کبھی وہ ان کی ہنسی سنتا اور تصور کرتا کہ وہ کیا کھیل کھیل رہے ہیں اور وہ سب کتنا مزہ کر رہے ہیں۔ فلپ نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی ماں اور اس کے بھائی بھی اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔

’’میرے ساتھ اتنا برا کیا ہے؟‘‘ فلپ اکثر اپنے آپ سے پوچھتا تھا۔ ’’میں اتنا برا لڑکا نہیں ہوں۔ میں اپنے کام کاج کرتا ہوں اور میں ‘تقریباً کبھی بدتمیزی نہیں کرتا۔ میرے ساتھ دوسرے بچوں سے اتنا مختلف سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟‘‘

جیسے ہی وہ اپنی پندرہویں سالگرہ کے قریب پہنچا، فلپ پہلے سے کہیں زیادہ اداس تھا۔ اس کی ماں اسے شاذ و نادر ہی گھر سے باہر جانے دیتی تھی اور وہ اکثر اس کی صحبت میں مشتعل نظر آتی تھی۔ کم عمر بچے اگر کبھی اسے اپنے گھر کے پاس خود کھیلتے ہوئے دیکھتے تو اس پر پتھر پھینک دیتے، لیکن جب وہ ان کو للکارنے کے لیے مڑتا تو وہ چیختے ہوئے بھاگ جاتے جیسے وہ کوئی عفریت ہو۔ کبھی کبھی فلپ بڑے جنگل میں پناہ ڈھونڈنے اور کبھی واپس نہ آنے کی خواہش کرتا تھا۔

ایک دن اس کی ماں نے اسے بٹھایا اور اس کی پریشانی کی وجہ بتائی۔ ’’تم میرے ساتویں بیٹے ہو‘‘  اس نے کہا، ’’اور میرے بچے، تم پر لعنت ہے‘‘۔

فلپ بہت پریشان تھا۔ ’’کیسی لعنت؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’اپنی پندرہویں سالگرہ پر آپ ایک لوبیزون بن جائیں گے، ایک ایسی مخلوق جو آدھا انسان اور آدھا بھیڑیا ہے۔‘‘

فلپ اپنی کتابوں سے لوبیزون کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا اور ان کہانیوں سے جو اس کے بھائیوں نے رات کو شیئر کی تھیں جب بھی انہیں لگتا تھا کہ وہ اپنے بستر پر سو رہا ہے۔ لیکن انہوں نے فلپ کو کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ اس طرح ملعون ہے۔ وہ لوبیزون نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ شیطانی یا ظالم نہیں بننا چاہتا تھا، اور اسے اپنے پورے جسم پر لمبے پنجوں اور موٹی کھال ہونے کے خیال کے بارے میں بالکل بھی یقین نہیں تھا۔

اپنی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر، نوجوان فلپ اپنی پوری زندگی میں اس سے زیادہ اداس تھا جتنا وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ وہ اندھیرے میں بستر پر بیٹھ کر اپنے آپ سے رونے لگا۔ ’’میں ہمیشہ اکیلا رہا ہوں‘‘  اس نے سوچا۔

’’میرے ساتھ ہمیشہ مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ اور اب میں لوبیزون بننے پر لعنت شدہ ہوں۔ میں کیا کروں؟ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ ہر ایک کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے۔ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ دوستوں کے ساتھ جنگل میں کھیلوں اور رات کو خوبصورت چاند کی تعریف کروں۔‘‘

اسی وقت فلپ نے اپنے بیڈروم کی کھڑکی سے باہر دیکھا اور دیکھا کہ چاند ستاروں سے بھرے گہرے نیلے آسمان میں طلوع ہو رہا تھا۔ یہ ایک بڑا خوبصورت پورا چاند تھا اور اس نے اس کا دل خوشی سے بھر دیا۔ پھر کچھ بہت ہی عجیب ہوا: فلپ نے اپنے پیٹ میں ہلچل محسوس کی اور اپنی جلد پر خارش محسوس کی۔ اس کے سینے سے چیخنے کی آواز آئی اور اس نے چاند کی طرف سر اٹھا کر اسے پکارا جیسا اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس کے جسم پر اچانک کھال پھوٹ آئی اور اس کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن ہاتھی دانت کے رنگ کے لمبے پنجوں میں بدل گئے۔ اس کے کپڑے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور اس کے قدموں میں فرش پر گر گئے۔ اور جب فلپ نے آئینے میں دیکھا تو اس نے ایک لمبے بھیڑیے والے لڑکے کا عکس دیکھا جو اس کے پورے جسم پر موٹی کھال کے ساتھ اسے گھور رہا تھا اور جنگلی سرخ آنکھیں جو اندھیرے میں چمکتی دکھائی دے رہی تھیں۔

’’ تو میں ایک لوبیزون ہوں!‘‘ اس نے چونک کر کہا۔

فلپ نے چاند اور جنگل کی پکار کو محسوس کیا اور وہ جانتا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنی پرانی زندگی سے منہ موڑ لے اور اپنی تقدیر کو گلے لگائے۔

نوجوان بھیڑیے والے لڑکے نے اپنے بیڈروم کی کھڑکی کھول دی۔ رات کو باہر چھلانگ لگانے سے پہلے وہ رک گیا اور اپنے پرانے بیڈروم کے ارد گرد ایک آخری نظر ڈالی اور اپنی ماں اور باپ اور اپنے چھ بھائیوں کے بارے میں سوچا۔ ’’میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا، میرے پیارے خاندان، لیکن اب مجھے قبول کرنا چاہیے کہ میں کون ہوں اور نئی زندگی کا آغاز کروں گا۔‘‘

پھر وہ اپنے سونے کے کمرے کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر جنگل کی طرف بھاگا، ہر وقت چاند پر چیختا رہتا، اس کا دل مستقبل کے لیے عجیب نئی امید سے بھرا رہتا تھا۔

جب فلپ بڑے گہرے جنگل کے اندر تھا، تو اس نے ایک خوبصورت جگہ پر رک کر قدیم درختوں اور آسمان میں بلندی پر موجود خوبصورت چاند کو دیکھا۔ وہ چیختا اور چیختا اور چھلانگ لگاتا اور ناچتا اور ہنستا۔ ۔ ۔  اور جب آخر کار اس نے چیخنا اور ناچنا بند کر دیا تو اس نے اردگرد دیکھا اور دیکھا کہ دیگر لوبیزون جنگل کے خالی حصے میں جمع تھے۔ کچھ فلپ کی طرح جوان تھے، کچھ بوڑھے تھے۔

وہ فلپ کے قریب پہنچے اور اس کا استقبال کیا۔

’’تم اب گھر میں ہو، دوستوں کے درمیان بڑے جنگل میں‘‘  ایک نے نرم اور شفیق لہجے میں کہا۔ اور یہ تب ہی تھا جب فلپ کو احساس ہوا کہ وہ بالکل بھی لعنتی نہیں ہے۔

’’میں ایک لوبیزون ہوں اور میں گھر میں ہوں!‘‘ اس نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا جب اس نے پورے چاند تک اپنا سر اٹھایا اور پوری طاقت سے چیخا۔ دوسرے لوبیزون سب نے اس میں شمولیت اختیار کی اور چاند کے اعزاز میں رات کے آسمان پر ایک زبردست گروپ میں گانا گایا۔

کئی میل دور، فلپ کی ماں اپنے باغ میں اپنے نائٹ گاؤن میں ملبوس کھڑی تھی اور بڑے جنگل کے اندر سے ہلکی ہوا کے جھونکے پر بہتی ہوئی لوبیزون کی آواز سن رہی تھی۔ بوڑھی عورت اپنے آپ سے مسکرائی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے ساتویں بیٹے نے آخرکار اپنے آپ کیلئے ایک ایسا گھر ڈھونڈ لیا ہے جہاں اس کا استقبال کیا جائے گا اور جہاں اس کے بہت سے دوست ہوں گے اور وہ لمبی اور خوشگوار زندگی گزاریں گے۔

٭٭٭

پتھر کا سوپ

بہت عرصہ پہلے، ایک گاؤں میں جو ندی سے زیادہ دور نہیں تھا، ایک مہربان سپاہی دھول بھری گلی سے نیچے جا رہا تھا۔ اس کی حرکت سست تھی کیونکہ وہ سارے دن سے چل رہا تھا۔ اسے ایک اچھا، گرم کھانا کھانے کے علاوہ اور کچھ پسند نہیں تھا۔ جب وہ سڑک کے کنارے ایک عجیب و غریب گھر پر پہنچا تو اس نے اپنے آپ میں سوچا،  ’’یہاں رہنے والے کے پاس میرے جیسے بھوکے مسافر کے ساتھ بانٹنے کے لیے کچھ اضافی کھانا ضرور ہو گا۔ میرا خیال ہے میں جا کر پوچھوں گا‘‘

اور یوں سپاہی گوبھیوں، آلوؤں، پیازوں اور گاجروں سے بھرے باغ سے گزرتے ہوئے لکڑی کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ گھر کے سامنے پہنچ کر جیسے ہی دستک دینے کے لئے اس نے ہاتھ بڑھایا تب دروازہ اچانک کھل گیا۔ دوسری طرف ایک بوڑھا آدمی کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ کولہوں پر تھے اور اس نے تیوری چڑھائی ہوئی تھی۔

’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ بوڑھے نے بدتمیزی سے کہا۔ پھر بھی سپاہی اسے دیکھ کر مسکرایا۔

’’ہیلو، میں ایک گاؤں کا سپاہی ہوں جو یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ میں آپ کے پاس یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ کے پاس کوئی کھانا ہے جو آپ دے سکتے ہیں۔‘‘

بوڑھے نے سپاہی کو اوپر نیچے دیکھا اور بہت دو ٹوک جواب دیا۔’’نہیں ۔  اب چلے جاؤ۔‘‘

سپاہی اس سے باز نہ آیا – اس نے ایک بار پھر مسکرا کر سر ہلایا۔ ’’میں دیکھ رہا ہوں، میں صرف اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میرے پاس اپنے پتھر کے سوپ کے لیے کچھ اور اجزاء ہوں گے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ مجھے یہ سادہ ہی کھانا پڑے گا۔ اگرچہ اتنا ہی مزیدار!‘‘

بوڑھے نے بھنویں اچکا لیں۔ ’’پتھر کا سوپ؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’جی جناب‘‘  سپاہی نے جواب دیا، ’’اب اگر آپ مجھے جانے کی اجازت دیں گے ۔ ۔ ۔‘‘

سپاہی راستے کے بیچ میں چلا گیا اور اپنے سامان میں سے ایک لوہے کی دیگچی نکالی۔ ایک بار جب اس نے پانی سے بھر لیا تو اس کے نیچے آگ لگانے لگا۔ پھر بڑے اہتمام کے ساتھ اس نے ریشم کے تھیلے سے ایک عام سا نظر آنے والا پتھر نکالا اور آہستہ سے اسے پانی میں گرا دیا۔

بوڑھا حیرانی سے اپنی کھڑکی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔

’’پتھر کا سوپ؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔ ’’یقیناً ایسی کوئی چیز نہیں ہے!‘‘

اور تھوڑی دیر بعد سپاہی کو ایک چھوٹی سی چھڑی سے پانی ہلاتے دیکھ کر، بوڑھا آدمی باہر نکلا اور سپاہی سے پوچھا، ’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘

سپاہی نے اپنے برتن سے نکلنے والی بھاپ کی سونگھ لی اور اپنے ہونٹوں کو چاٹتے ہوئے کہا، ’’آہ، مجھے پتھر کے سوپ سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں ہے۔‘‘  اس نے پھر بوڑھے کی طرف دیکھا اور کہا، ’’یقیناً۔ تھوڑے سے نمک اور کالی مرچ کے ساتھ پتھر کے سوپ سے کم ہی چیزیں بہتر ہیں۔‘‘

ہچکچاتے ہوئے، بوڑھا اندر گیا اور نمک اور کالی مرچ لے کر آہستہ آہستہ سپاہی کے حوالے کر دیا۔

’’بالکل!‘‘ سپاہی نے پکارا جب اس نے انہیں برتن میں چھڑک دیا۔ اس نے ایک بار پھر بوڑھے آدمی کی طرف دیکھنے سے پہلے اسے ہلایا، ’’لیکن آپ جانتے ہیں، میں نے ایک بار گوبھی کے ساتھ پتھر کے اس حیرت انگیز سوپ کا مزہ چکھا تھا۔‘‘

اس کے بعد بوڑھا آدمی اپنے گوبھی کے پودوں کے پاس پہنچا اور سب سے پکی ہوئی گوبھی اٹھا کر سپاہی کو دے دی۔

’’اوہ، کتنی شاندار ہے!‘‘ سپاہی نے گوبھی کو کاٹ کر برتن میں ڈالتے ہوئے کہا۔

اس نے برتن کو ایک گہری سانس لے کر سونگھا اور بوڑھے سے کہا، ’’تم جانتے ہو، یہ چند گاجروں کے ساتھ بادشاہ کے لیے سوپ ہو گا۔‘‘

بوڑھے نے سوچتے ہوئے کہا، ’’مجھے لگتا ہے کہ میں کچھ گاجر لا سکتا ہوں‘‘  اور وہ گاجروں کے پاس گیا اور مٹھی بھر توڑ لایا۔

جب اسے گاجریں پیش کی گئیں تو سپاہی بہت خوش ہوا۔ اس نے انہیں کاٹ کر ایک بار پھر برتن کو ہلایا۔

اور یوں چلتا رہا۔ بوڑھا آدمی برتن کی خوشبو سے خوش ہونے لگا جب وہ پیاز، آلو، گائے کا گوشت وغیرہ لے کر آیا۔ سپاہی نے خود بھی اپنے تھیلے میں مشروم اور جو جیسی چیزیں شامل کیں، یہاں تک کہ اس نے اعلان کیا کہ سوپ تیار ہے۔

بوڑھا آدمی سپاہی کی طرف دیکھ کر مسکرایا جب اس نے آدھا سوپ اسے پیش کیا۔

’’آپ اندر کیوں نہیں آتے؟ میرے پاس آج صبح بیکری سے سیدھی لائی گئی تازہ ڈبل روٹی ہے جو پتھر کے سوپ کے ساتھ مزیدار ہو گی۔‘‘ اس نے شفقت سے کہا۔

اور اس طرح بوڑھے آدمی اور سپاہی نے مل کر ایک شاندار کھانا کھایا۔ سپاہی نے اپنے تھیلے سے دودھ کا ایک ڈبہ نکالا اور وہ بھی شیئر کیا۔ بوڑھے آدمی نے سپاہی سے اتفاق کیا کہ سوپ اس سے بہتر تھا جو اس نے پہلے کبھی چکھا تھا۔

یہ اس وقت تک نہیں ہوا تھا جب تک کہ سپاہی نے اسے ریشم کا تھیلا نہیں دیا تھا جس میں پتھر تھا بوڑھے کو حقیقت معلوم ہو گئی۔۔ یہ وہ پتھر کبھی نہیں تھا جس نے مزیدار سوپ بنایا ہو۔ بلکہ، مل کر کام کرنے اور فراخدلی سے، وہ اور سپاہی دونوں ایک ایسا لذیذ کھانا بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے جسے وہ اپنے درمیان شیئر کر سکتے تھے۔

٭٭٭

کچھوا اور خرگوش

ایک زمانے کی بات ہے، آپ کے قریب ہی ایک میدان میں ایک چست اور خوش مزاج خرگوش اور ایک سست کچھوا رہتا تھا۔

خوش مزاج خرگوش کا نام نوئیل تھا اور سست کچھوے کا نام آرکیباڈ تھا۔ آرکیباڈ کچھوے کو بیٹھے رہنا اور اپنا کھانا دھیرے دھیرے کھانا پسند تھا، جب کہ نوئیل خرگوش اپنا کھانا چٹ کر جاتا تھا اور تھک جانے تک آرکیباڈ کے چاروں طرف چکر لگاتا رہتا تھا۔

ایک دن، ان کے بیچ جھگڑا ہو گیا…

نوئیل نے شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ، ’’میں پوری دنیا کا سب سے تیز ترین جانور ہوں۔‘‘

’’میں چیکی چیتا، ککنگ کنگارو اور ریسنگ ریبیٹ سے بھی تیز ہوں۔‘‘

’’اوہ خاموش رہو‘‘ آرکیباڈ نے کہا۔ ’’تم بہت مغرور ہو! اگر تم نے ڈینگیں مارنی نہیں چھوڑی تو کہیں پھنسو گے …‘‘

’’کیوں پھنسوں گا‘‘ نوئیل نے پوچھا۔ ’’میں ثابت کر سکتا ہوں؟‘‘

آرکیباڈ نے اپنی آنکھیں گھمائی اور کاہو کے کچھ مزیدار پتے چبانے لگا۔

’’اوہ تم دونوں جھگڑنا بند کرو‘‘ کوئل نے کہا جو پاس سے ہی اڑ رہی تھی۔

’’نہیں، ہم سنجیدہ ہیں‘‘ نوئیل خرگوش نے کہا۔ ’’میں تم سبھی کو ثابت کر دوں گا کہ میں پوری دنیا کا سب سے تیز ترین جانور ہوں!‘‘

’’ٹھیک ہے‘‘ آرکیباڈ کچھوے نے کہا۔ ’’تو پھر میں تم سے دوڑ میں مقابلہ کروں گا!‘‘

نوئیل خرگوش اس کی بات پر ہنسا۔

’’تم انتظار کرو اور دیکھو‘‘ آرکیباڈ نے کہا۔ ’’ہماری دوڑ کا انتظام کرنے کے لیے عقلمند بزرگ الو ویلیس کو لینا چاہوں گا…‘‘

عقلمند بزرگ الو نے اگلے دن کے دوڑ کا انتظام کیا۔ میدان میں سبھی جانور اپنے بہترین لباس میں ائے، اپنی کھالوں کو سنوارا، اور لہرانے کے لیے جھنڈا لیا اور کچھوے اور خرگوش کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔

’’اپنے نشانات پر… تیار ہو جاؤ… جاؤ!‘‘ ویلیس نے کہا… اور دوڑ شروع ہو گئی!

دھیرے دھیرے آرکیباڈ کچھوا رفتار پکڑنے لگا اور نوئیل خرگوش تیز، تیز دوڑنے لگا اور جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ در اصل، وہ اس سے کافی دور چلا گیا، جب اس نے واپس مڑ کر دیکھا، آرکیباڈ کچھوا کہیں بھی نظر نہیں آیا۔

’’بخدا‘‘ نوئیل نے سوچا۔ ’’میں نے پہلے ہی تقریباً جیت لیا ہے! میرے خیال میں مجھے اس پیڑ کے نیچے تھوڑی جھپکی لے لینی چاہئے، آج کا دن بہت گرم ہے۔‘‘ نوئیل خرگوش جلد ہی گہری نیند سو گیا۔

اس دوران، آرکیباڈ کچھوا اپنی خول پر دھوپ کے مزے لیتا ہوا اور وقت وقت پر گھاس کترتے ہوئے آرام آرام سے چلتا ہوا جا رہا تھا۔ بس وہ محنت کر کے آگے، اور آگے بڑھتا رہا۔ وہ رینگتے ہوئے بلوط کے درخت سے گزرا، اس نے رینگتے ہوئے پل پار کیا، اس نے رینگتے ہوئے گوشالہ کو پار کیا، اس نے رینگتے ہوئے نوئیل خرگوش کو بھی پار کر لیا جو ابھی بھی پیڑ کے نیچے سو رہا تھا۔ وہ جیت کی لکیر پر پہنچنے تک رینگتا رہا جہاں عقلمند بزرگ الو اور دوسرے جانور اکٹھا تھے۔ سبھی جانور آرکیباڈ کے گرد جھنڈ بنا کر اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور چلانے لگے:

’’شاباش! شاباش! تم فاتح ہو!‘‘

اس شور سے نوئیل خرگوش کی آنکھ کھل گئی۔

’’او میرے خدا، میرے خدا، یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ شور کیسا ہے؟ فکر نہ کرو۔ بہتر ہے کہ میں دوڑ ختم کر لوں پھر میں دوپہر کے کھانے کے لیے جا سکتا ہوں‘‘ اس نے سوچا۔

نوئیل خرگوش جیت کی لکیر کی جانب پہاڑی سے نیچی دوڑ لگائی۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچا، وہ حیرت زدہ رہ گیا، اس نے آرکیباڈ کے گلے میں جیتنے والا گولڈ میڈل دیکھا۔

’’یہ صحیح نہیں ہو سکتا! اس نے ضرور دھوکہ دیا ہو گا‘‘ نوئیل خرگوش چلایا۔ ’’ہر کوئی جانتا ہے کہ میں اس سے تیز ہوں!‘‘

’’آرکیباڈ کچھوے نے دھوکہ بازی نہیں کی‘‘ عقلمند بزرگ الو نے کہا۔ ’’وہ منصفانہ اور ایماندارانہ طور پر جیتا ہے۔ سست رفتاری سے اور یقینی طور پر، ہار نہ مانتے ہوئے، آرکیباڈ پہلے جیت کی لکیر تک پہنچ گیا۔ معاف کرنا پرانے چیمپئین نوئیل، لیکن تم اس دوڑ میں ہار گئے۔ اس سے تمہیں یہ سبق ملا کہ- آہستہ لیکن لگاتار محنت کرنے والا کامیاب ہوتا ہے!‘‘

نوئیل خرگوش کافی ناراض اور اداس لگ رہا تھا۔ آرکیباڈ خرگوش کو اس کے لیے افسوس ہوا اور اس کی حوصلہ افزائی کی کوشش کرنے لگا…

’’خوشی مناؤ نوئیل، یہ صرف ایک دوڑ تھی‘‘ آرکیباڈ نے کہا، ’’مجھے یقین ہے کہ تم اگلی بار جیتو گے۔ اور ہم جب تک دوست رہیں گے سورج کی روشنی کے نیچے ہر ریس جیتیں گے۔‘‘

اور اس دن کے بعد سے وہ بہترین دوست ہو گئے اور نوئیل خرگوش نے کبھی بھی شیخی نہیں بگھاری۔

٭٭٭

ماخذ:

http://worldstories.org.uk

اصلاح، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل