FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

داستانِ آزاد

 

 

مولانا محمد اسمٰعیل آزاد کی سوانح

 

                محمد خلیل الرحمٰن

 

 

 

 

مولانا محمد اسمٰعیل آزاد کی سوانح۔ ان کی زندگی کے ایسے محیر العقل واقعات جنہیں پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ اسلام کو ہر دور میں خاموش مجاہدین اور جفا کش کارکنوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اسلام کا چودہ سو سالہ شکوہ اور علمی رعب اور وقار ان ہی خاموش کارکنوں کی محنت اور جفا کشی کا صلہ ہے۔ آزاد صاحب ان ہی گم نام کارکنوں میں سے ایک تھے، جن کی خدمات عشروں پر پھیلی ہوئی ہیں اور جن کے نتائج و ثمرات سے بہت سے حوالوں سے ہم آج بھی متمتع ہو رہے ہیں۔

 

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دیباچہ: اور ابا جان چلے گئے

 

ابا جان ایک مردِ قلندر کی شان کے ساتھ اس دنیا میں رہے اور قلندرانہ شان ہی کے ساتھ ایک صبح چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

سوگ کے ان تین دنوں میں فیس بک Face Book پر بچوں کے خیالات پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ اتنے گہرے احساسات، اتنے معنی خیز، اتنے نازک اور اتنے مضبوط و مربوط۔۔

ایک پوتے نے لکھا۔’’ آج فضا مسموم ہو گئی ہے، ایک نسل چلی گئی۔۔۔۔۔۔ اے کاش کوئی ہمیں بکھرنے سے بچا لے۔۔۔ آج تو ہماری چیخیں بہرے کانوں سے ٹکرا کر واپس آ رہی ہیں۔‘‘

ایک اور پوتے نے لکھا۔’’ آج میں پھر سے یتیم ہو گیا۔‘‘

ایک بہو نے لکھا۔’’ آج میرا ایک اور سائبان کھو گیا۔‘‘

ایک پوتی نے کینیڈا سے لکھا۔’’ میرے ویلینٹائن، میرے دادا ابّا۔‘‘

ایک بچی نے لکھا ’’ لوگ اس دنیا سے جا سکتے ہیں، لیکن ہمارے دلوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

ایک اور بچی نے لکھا۔’’ جانے والے ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں رہیں گے۔ ریسٹ ان پیس دادا ابا۔‘‘

ایک اور بچی کہتی ہے’’ اے کاش میں گزرے ہوئے وقت کو واپس لا سکتی۔‘‘

یہ محبت نامے اور یہ عشقیہ ڈائیلاگ دراصل اس فاتحِ عالم محبت کا جواب ہیں جو ابا جان نے ہمیشہ ان بچوں کے ساتھ روا رکھی۔

میرے مرحوم بھائی نے ایک دن ہنس کر ابا جان سے کہا تھا، ’’ ابا جان آپ ہم سے زیادہ ہمارے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ سچ ہے، سود اصل سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔‘‘

لاہور سے سرور چچا نے جو بوجوہ ضعیفی اور ناسازی طبیعت کراچی تشریف نہیں لا سکے، فون پر مجھ سے کہا، ’’ ہم سب انھیں چھوٹے بھائی کہتے تھے لیکن وہ چھوٹے نہیں تھے، وہ تو بہت بڑے تھے۔‘‘

ابا جان کا نام محمد اسمٰعیل اور تخلص آزاد، والد کا نام شیخ احمد تھا، ۱۹۲۴ میں سی پی برار کی ایک تحصیل باسم ( ضلع آکولا) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم باسم ہی میں حاصل کی، وہیں ایک دینی استاد مولانا غفور محمد حضرت سے تعلق پیدا ہوا جو دیو بندی عقیدے کے سیدھے سادے عالم تھے، جنھوں نے انھیں ساری زندگی کے لیے ایک پختہ عقیدہ اور لائحہ عمل عطا کیا۔ اللہ تب العزت کی وحدانیت اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت، ختمِ رسالت، حرمت اور معصومیت پر پختہ یقین اور بدعات سے بریت، اس عقیدے کے خاص جزو تھے۔ نوجوانی میں حیدرآباد آ گئے، اور ایک پیر صاحب کی مریدی اختیار کی۔ دینی استاد کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ پیر صاحب کا سات سالہ ساتھ بھی انھیں اس عقیدے سے متزلزل نہیں کرسکا۔ اس عقیدے کا شاخسانہ سرسید احمد خان کے خیالات سے ہم آہنگی اور مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی ہمدردی تھا جو مرتے دم تک ان کے ساتھ رہا۔ صوبہ سرحد میں وقتاً فوقتاً قیام کے دوران تبلیغ کے ساتھ ساتھ تحریک ِ پاکستان کا کام بھی مستقل بنیادوں پر کیا۔

اللہ رب العزت پر یقین کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی انسان( جس میں ان کی اولاد بھی شامل ہے) کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ جو ملا صبر و شکر کے ساتھ کھایا، نہیں ملا تو بھوکے رہے۔ ایامِ طفولیت میں راقم الحروف کے ٹائیفائڈ جیسے موذی مرض میں بھی ایک خیراتی شفا خانے سے دوا لیتے وقت جب کمپاؤنڈر نے یہ کہا کہ یہ دوا فلاں جماعت کی طرف سے ہے تو اسی وقت دوا زمین پر انڈیل دی اور چلے آئے۔

اک طرفہ تماشا تھی حضرت کی طبیعت بھی

انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں اور خصوصاً شمال مغربی سرحدی صوبے میں ان گنت تبلیغی دورے کیے اور بے شمار جلسوں اور مناظروں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کو مسلمان کیا۔

اردو کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی، سنسکرت، پشتو، بریل Braille اور مرہٹی پر عبور حاصل تھا، گویا ہفت زبان تھے۔ شاعری بھی کی اور اس ناطے شعری ذوق بھی بدرجہ اتم موجود تھا۔ طبیعت میں شوخی و شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا اظہار اکثر ہوتا۔

خود ہی سناتے تھے کہ بازار میں چلتے ہوئے کسی شخص کی ہئیت کذائی دیکھ کر بے اختیار ہنسی آ گئی، اگلے ہی لمحے زمین پر پڑے ہوئے کیلے کے چھلکے سے پھسلے تو چاروں خانے چت، زمین پر پڑے تھے۔ فوراً ہی اٹھے اور بھرے بازار میں کان پکڑ کر تین دفعہ اٹھک بیٹھک کی، اللہ رب العزت سے توبہ کی اور سکون سے آگے چل دئیے۔

۱۹۴۸ میں سقوطِ حیدرآباد کے موقعے پر ایک ہندو غنڈے نانا پٹیل عرف پتری سرکار کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ بیس ماہ کی جیل کاٹ کر ہندوستان کی جیل سے رہا ہوئے تو پاکستان کی جستجو کی۔ اونٹ پر سوار ہو کر سرحد پار کی اور میر پور خاص پہنچے۔ پاکستان آ کر پشاور میں سکونت اختیار کی لیکن بے قرار طبیعت نے چین سے بیٹھنے نہ دیا تو یہاں سے بھی صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں کے کئی یادگار دورے کیے۔ ۱۹۵۰ میں پاکستان آتے ہی پیر صاحب اور پھر ۱۹۵۴ میں کراچی آ کر تبلیغی کام دونوں کو خیر باد کہہ کر پرانی نمائش پر نابیناؤں کے ایک اسکول IDA REU میں استاد ہو گئے۔ ۱۹۶۰ میں معلمی چھوڑ کر نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفئیر آف دی بلائینڈ میں بریل پریس کے مینیجر کے طور پر ذمہ داری سنبھالی اور خوب سنبھالی۔ نمایاں کارناموں میں معیاری اردو بریل کا قاعدہ اور بریل میں قرآن شریف کی طباعت شامل ہیں۔ اس سے پہلے اردن اور سعودی عرب سے بریل قرآن شائع ہو چکا تھا لیکن اردن والے نسخے میں Punctuations انگلش والے استعمال ہوئے تھے اور سعودی نسخے میں سرے سے اعراب ہی نہیں تھے، جبکہ ابا جان والے نسخے میں اردو بریل کے اعراب استعمال کیے گئے۔ ۱۹۷۰ میں بریل قرآن مکمل کر چکے تھے جسکی تصحیح مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب نے فرمائی۔ تقریباً بیس سال نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفئیر آف دی بلائینڈ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد ۱۹۷۹ میں نیشنل بک فاونڈیشن میں بریل پریس کے مینیجر مقرر ہوئے۔

کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا۔ مطالعے کا شوق جنون کی حد تک تھا، جسکی ابتدا اپنے ماموں کی ذاتی لائبریری سے ہوئی اور پھر قیامِ حیدرآباد کے دنوں میں وہاں کی مشہور پبلک لائبریریوں سے خاطر خواہ اکتساب کیا۔ وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل، سامنے والے پڑوسی نے ایک رات تقریباً ڈھائی بجے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بلا کر کھڑکی سے دکھایا، ابا جان بڑے مزے سے اپنے بستر پر بیٹھے، دنیا و مافیہا سے بے خبر، کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے اور نوٹس بنا رہے تھے۔ ہمارے لیے یہ نظارہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں سے تھا۔ کئی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں جن میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی کتاب ’’ خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ( جو بعد میں ماہنامہ تعمیرِ افکار کے سیرت نمبر میں بھی شایع ہوئی، ’’ اسلامی معاشرہ اور نابینا افراد‘‘، ’’ حضرت ابوزر غفاری‘‘ اور مذاہبِ عالم کے تقابلی مطالعے پر کئی قابلِ ذکر مضامین ( جو شش ماہی جریدہ السیرہ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے) شامل ہیں۔

ابا جان نے ایک اسلامی عالم، داعی حق، بہترین مقرر، بہترین استاد، مضمون نگار اور comparative religion کے طالب علم کی حیثیت سے ایک بھر پور زندگی گزاری، وہ اقبال کے شعر

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم

جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

کی عملی تشریح و تفسیر بن کر رہے اور نسیمِ صبح کے ایک تازہ جھونکے کی طرح ہمارے درمیان سے گزر گئے، جسکی خوشبو، تازگی اور صباحت مدتوں ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی، رلاتی رہے گی اور تڑپاتی رہے گی۔

حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا

٭٭٭

 

 

 

باب اول۔بچپن کے دن

 

ابا جان اپنے ماں باپ کی تیسری اولاد تھے۔ابا جان کا نام محمد اسمٰعیل اور تخلص آزاد، والد کا نام شیخ احمد تھا، ۱۹۲۴ ء میں سی پی برار کی ایک تحصیل باسم( ضلع آکولا) میں پیدا ہوئے۔ ان سے پہلے ۱۹۲۰ء میں ایک بہن پیدا ہو کر بچپن ہی میں انتقال فرما چکی تھیں اور اس کے علاوہ ایک بڑے بھائی تھے جو۱۹۲۲ء میں پیدا ہوئے اور بھائی میاں کہلائے۔ ابا جان رنگ روپ، عقل و دانش وغیرہ میں منفرد اور ممتاز تھے۔بڑے خوش مزاج بچے تھے ا ور اپنی شرارتوں اور خوش مزاجی کی وجہ سے اپنے دادا، چچاؤں اور ابا کے منظورِ نظر تھے۔ برار میں یہ رواج تھا کہ سب سے بڑا بیٹا بھائی میاں کہلاتا تھا اور منجھلا بیٹا چھوٹے بھائی کہلاتا تھا لہٰذا یہ بھی چھوٹے بھائی کہلائے۔ یوں بھی چونکہ ان کا قد شروع میں بہت چھوٹا تھا، اس لیے سب چھوٹوں اور بڑوں میں چھوٹے کے نام سے مشہور ہوئے۔جہاں ابا جان قد میں چھوٹے تھے وہیں بھائی میاں کا قد حد سے نکلتا ہوا تھا۔ابا جان چونکہ شروع ہی سے عقل مند اور ذکی الحس تھے لہٰذا اسی مناسبت سے گھر میں اور باہر اپنا کردار ادا کیا، دوسری طرف بھائی میاں بس میاں ہی تھے۔ ابا جان بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے اور کام کاج میں سب سے آگے تھے، گھر میں اماں جان کو بیٹی نہ ہونے کے سبب گھر کا سارا کام خود کرنا پڑتا تھا، لہٰذا ہوش سنبھالتے ہی ابا جان نے باقاعدہ پلان کے تحت ان کا خاصا کام آپس میں بھائیوں کے ساتھ بانٹ لیا اور اس طرح یہ لوگ برتن دھونا، گھر میں جھاڑو دینا اور کپڑے دھونا جیسے کام ایک نظام ِ عمل کے تحت خود کرنے لگے۔اماں جان کے ذمے صرف کھانا پکانا رہ گیا اور گایوں بکریوں کا دودھ دوہنا بھی ابا جان نے آپس میں بھائیوں میں بانٹ لیا۔ اس طرح ابا جان کی حکمت ِ عملی کی وجہ سے ان کا گھرانا دودھ دہی مکھن اور چھاچھ وغیرہ میں بھی خود کفیل ہو گیا۔ بکریوں کا دودھ کھانے پینے میں استعمال ہو جاتا اور گایوں کا دودھ دہی بنانے، مکھن نکالنے اور اس سے گھی بنانے کے لیے مخصوص کر دیا گیا تھا۔

فٹبال ابا جان کا پسندیدہ ترین کھیل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں ایک مرتبہ ابا جان مجھے لے کر لیاری فٹبال گراؤنڈ میں ایک مقامی میچ دیکھنے گئے تھے۔اپنے بچپن میں ابا جان فٹبال کے ایک بہت اچھے کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ قد چونکہ کسی قدر چھوٹا تھا لہٰذا علاقے میں ’’ چھوٹے ‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ابا جان کے بڑے بھائی یعنی بھائی میاں بھی فٹبال میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ان کا قد کسی قدر نکلتا ہوا تھا، لہٰذا اپنے قد کا خوب فائدہ اٹھاتے۔ جب بھی کسی مد مقابل کھلاڑی کا سامنا ہوتا، گیند کو اوپر اچھال دیتے، پھر بقول ابا جان کے ’ہوپ‘ کر کے اچھلتے اور پھر اس کے سر کے اوپر اپنی ٹانگ لے جا کر گیند کو اپنے قبضے میں کر لیتے۔ اسی طرح جوں ہی گیند ابا جان کے قبضے میں آتی، پورا مجمع ’’چھوٹے، چھوٹے ‘‘کے نعرے مارتا اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا، اور ابا جان دوسرے کھلاڑیوں کے درمیان سے گیند نکالتے ہوئے گول کی جانب بڑھتے چلے جاتے یا پھر اپنے کسی ایسے کھلاڑی کو پاس دے دیتے جو گول کرنے کی پوزیشن میں ہوتا۔

اسکول سے گھر پہنچتے تو کھانا وغیرہ کھا کر واپس اپنے دوستوں میں پہنچنے کی جلدی ہوتی تاکہ جلد از جلد فٹبال کا میچ شروع ہوسکے۔ اسی اثناء میں اگر گاؤں کے کسی بڑے بوڑھے کی نظر ان پر پڑ جاتی تو ان کی طرف سے فوراً ایک پیسے دو پیسے کا گانجا ( ایک نشہ آور شے)خرید کر لے آنے کی فرمائش ہو جاتی اور پھر ابا جان پھنس جاتے۔ پہلے ان بزرگوار کی فرمائش پوری کرتے اور پھر دوڑتے ہوئے دوستوں کی محفل میں پہنچتے۔ خاص فٹبال کے لیے گھر سے نکلے پر کباڑی کاکا، یا کسی اور بزرگ کی نظر کرم انھیں بری طرح کھل جاتی لیکن گاؤں کا سیدھا سادا ماحول انھیں گاؤں کے کسی بھی بزرگ کی حکم عدولی سے منع کرتا تھا، لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا ان کا حکم ماننا پڑتا۔

اسکول کے ہیڈماسٹر دیش پانڈے جو اپنے اسکول کے بچوں کو اپنے بچے سمجھتے تھے۔بہت سخت ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے بچوں کے لیے بہت نرم مزاج بھی تھے۔ علاقے کی پولیس کی مجال نہیں تھی کہ ان کے اسکول میں داخل بھی ہوسکتی۔اپنے بچوں کو اس کچی عمر میں پولیس کے چکروں سے بچانے کی خاطر وہ ایک چٹان کی طرح کھڑے ہو جاتے۔ لیکن ان اس رویے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ بچوں میں کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں کو برداشت بھی کرسکتے۔ البتہ بچوں کی معصوم شرارتیں جاری رہتیں اور انھیں بے جا تنگ کرنے کے لیے کوئی نہ آسکتا۔ ابا جان اپنے محلے کے دوستوں کے ساتھ قسم قسم کی مہمات میں اکثر حصہ لیتے رہتے، جن میں ویران مندروں سے کھانے پینے کی چیزیں لے کر کھا جانا اور دیگر چڑھاوے شرارتاً اٹھا کر لے آنا وغیرہ شامل تھیں۔

بچپن ہی میں ابا جان نے عبد الغفور محمد حضت سے قرآن پڑھ لیا۔ مولوی عبد الغفور محمد حضت جو دیوبندی عقیدے کے عالم تھے، دراصل گورکھا رجمنٹ کے ایک ریٹائرڈ پینشن یافتہ جمعدار تھے۔انھوں نے بھائی میاں، ابا جان اور چھوٹے بھائی ہاشم کو نہ صرف قرآن پڑھایا بلکہ دیگر دینی تعلیم بھی دی۔عبد الغفور محمد حضت کی تعلیم کی وجہ سے ابا جان بدعات اور رسومات بد سے دور ہوئے اور بعد کی زندگی میں ایک خاص لائحہ عمل کو اپنے لیے اختیار کیا۔

ابا جان کے ایک ماموں اپنے خاندان کے پہلے پڑھے لکھے بچے تھے اور انھوں پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر میں بہت اچھی اچھی کتابیں شوق سے جمع کیں۔ ان کے حیدرآباد دکن کوچ کر جانے کی وجہ سے ان کی تمام کتابیں ایک بڑے صندوق میں ابا جان کے گھر پہنچا دی گئیں جن سے ابا جان نے جی بھر کر فائدہ اٹھایا اور ان تمام ادبی کتابوں کو شوق سے چاٹ گئے۔ ان کتابوں میں اس وقت کے کچھ بہترین رسالے، جن میں مولوی رسالہ، پیشوا رسالہ وغیرہ شامل تھے، پڑھ ڈالے۔ ان کے علاوہ الف لیلہ، داستانِ امیر حمزہ، فسانہ آزاد، تمدنِ عتیق، کوچک باختر، بالا باختر، حکایاتِ شیریں، جس میں ہندوستان کی تمام مروجہ ضرب الامثال وغیرہ موجود تھیں۔گویا آٹھویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی ابا جان ادب ِ عالیہ کو اچھی طرح پڑھ چکے تھے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ابا جان کی نانی نے انھیں کسی کام سے کوٹ پلی اپنی بہن کے پاس بھیجنے کا عندیہ دیا۔ ان کی اماں جان نے بھی اس پروگرام کو سراہا اور انھیں کہا کہ وہ نانی کے بھائی سے بھی ملتے ہوئے آئیں جنھوں نے حال ہی میں ابا جان کی خالہ سے دوسری شادی کی تھی۔

سرکاری خرچ پر جانا تھا، یعنی بس کے ٹکٹ کے پیسے نانی ہی دے رہی تھیں لہٰذا کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ ابا جان نے حامی بھر لی اور جانے کی تیاری کر لی۔ کوٹ پلی وہاں سے کوئی دس میل کے فاصلے پر ایک بستی تھی۔

ابا جان چلے تو چھوٹے عبدالغنی کو بھی ان کے ساتھ کر دیا گیا۔ گھر سے نکلے اور لاری اڈے پر پہنچے تو ابا جان کے کمپیوٹر نے بھی اپنا کام شروع کر دیا۔ اگر وہ دونوں بس میں سفر کرنے کی بجائے پیدل ہی روانہ ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں ہو گا۔ گھنٹہ دو گھنٹہ میں وہ دونوں کوٹ پلی پہنچ ہی جائیں گے۔ دس میل کوئی اتنا زیادہ فاصلہ تو ہے نہیں۔ اور پھر ٹکٹ کے پیسے بھی مفت میں بچیں گے۔ وارے نیارے ہو جائیں گے۔یہ سوچ کر انھوں نے لاری اڈے سے اپنا رخ کوٹ پلی کی طرف کر لیا اور پیدل ہی چل پڑے۔ کچھ دور گئے ہوں گے تو سامنے ایک جنگل نظر آیا، سڑک وہاں سے ایک طرف کو مڑ جاتی تھی۔ گویا یہ ایک شارٹ کٹ تھا جو ابا جان کو نظر آ گیا۔ اگر وہ سڑک کے ساتھ ساتھ چلنے کے بجائے، جو یقیناً لمبا راستہ ہے، اس جنگل میں داخل ہو کر کوٹ پلی کی سمت اپنا سفر جاری رکھیں تو ضرور جلد ہی کوٹ پلی پہنچ جائیں گے۔ یہ سوچتے ہی انھوں نے سڑک کو چھوڑ دیا اور اپنا راستہ تبدیل کر کے جنگل میں گھس پڑے۔

جنگل جو شروع میں اتنا گھنا نظر نہیں آ رہا تھا، اندر جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد گھنے جنگل میں تبدیل ہو گیا۔ہر طرف لمبے لمبے اونچے اونچے درخت کھڑے تھے جن کا گھیر کوئی دس پندرہ گز سے زیادہ تھا۔جنگل میں ابا جان کو ایک چھوٹی سے پگڈنڈی ابا جان کو مل گئی تھی جس پر وہ دونوں بلا تکان چلے جا رہے تھے۔ کوئی گھنٹہ بھر چلے ہوں گے کہ ابا جان کو اندازہ ہوا کہ شاید وہ راستہ بھٹک گئے ہیں۔ اب تو جنگل میں کسی کسی جگہ جنگلی جانور بھی نظر آنے لگے تھے۔ دونوں اللہ توکل آگے بڑھتے ہی رہے۔ کچھ دور اور چلے تو یہ بھول گئے کہ وہ کس طرف سے آ رہے ہیں اور کس طرف کو جائیں کہ کوٹ پلی پہنچ جائیں۔ رک کر ارد گرد کے ماحول سے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ انھیں کس سمت میں جانا چاہیے۔ اتنی دیر میں کچھ عجیب و غریب سی سڑی ہوئی بو ان کے نتھنوں سے ٹکرائی تو چونک کر ایک طرف دیکھا۔دو جانوروں کی سڑی ہوئی، ادھ کھائی ہوئی، نچی ہوئی لاشیں وہاں پڑی ہوئی تھیں۔ اب تو دونوں بہت گھبرائے اور زیادہ غور سے ادھر ادھر دیکھا تو اپنی زندگی کا سب سے خوفناک نظارہ ان کے سامنے تھا۔ ان ادھ کھائے جانوروں کے قریب ہی ایک عدد شیر پڑا سورہا تھا۔ دونوں نے دور سے اسے دیکھا اور ایک دوسرے کو خاموشی کا اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے کھسکے۔ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے جب وہ شیر کی کچھار سے دور نکل آئے تو بدحواسی میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایک طرف کو بھاگ کھڑے ہوئے۔

تقریباً آدھا گھنٹہ بھاگنے کے بعد وہ ایک جگہ رکے اور کافی دیر تک اپنا سانس درست کرتے رہے۔ سانس بحال ہوئی تو جان میں جان آئی۔ آج قسمت نے ان کا ساتھ دیا تھا اور وہ زندہ سلامت شیر کی کچھار سے نکل آئے تھے۔ لیکن ایک بات اب واضح تھی۔ وہ یقیناً اپنا راستہ بھول چکے تھے۔ اب کیا کریں۔

ادھر ادھر دیکھا تو قریب ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی نظر ّئی۔ اس پہاڑی کی طرف چلے اور اس پر چڑھ کر چاروں طرف نظر دوڑانے لگے، اس امید پر کہ کہیں سے کوٹ پلی نظر آ جائے تو دوڑ کر اس تک پہنچ جائیں۔ ہر طرف جنگل ہی جنگل نظر آیا تو بہت مایوسی ہوئی لیکن ہمت نہ ہاری اور زور زور سے غالب کی غزل گانے لگے۔آواز چاروں طرف گونج کر پھیلی تو انھیں بہت اچھا محسوس ہوا۔

ادھر خدا کی کرنی، ان کی آواز پھیلی تو محکمہ جنگلات والوں نے بھی سنی اور جلد ہی ان کی سیٹیوں اور ڈھول کی آواز سے سارا جنگل گونج اٹھا۔ ابا جان اور عبدالغنی کی جان میں جان آئی اور وہ اس آواز کی طرف چلے اور تھوڑی ہی دیر میں محکمہ جنگلات کے کیمپ آفس کے سامنے پہنچ گئے، جہاں پر محکمہ جنگلات کا چاق و چوبند عملہ ان کا منتظر تھا۔ عملہ نے ان سے ان کا حال پوچھا اور انھیں بہت برا بھلا کہا کہ وہ کیوں اس گھنے جنگل میں آوارہ گردی کر رہے ہیں۔

دونوں نے بتایا کہ وہ کوٹ پلی جا رہے تھے کہ راستہ بھٹک گئے اور ادھر آ نکلے۔ محکمہ جنگلات کے افسران نے ایک سپاہی ان کی رہنمائی کے لیے ان کے ساتھ کر دیا جو انھیں پیدل کوٹ پلی کی طرف لے چلا۔ قصبے کے قریب پہنچ کر جب دونوں نے کوٹ پلی کو پہچان لیا تو اس سپاہی نے انھیں چھوڑ دیا اور واپس لوٹ گیا۔ اس طرح دونوں کوٹ پلی پہنچے اور قریب ہی ایک مسجد دیکھ کر اس میں گھس گئے۔ دس میل چلنے کے ارادے سے گھر سے نکلے تھے اور راستہ بھٹک کر تقریباًچالیس میل چلنا پڑ گیا، تھکن سے چور تو تھے ہی، مسجد میں صف بچھی ہوئی پائی تو فوراً لم لیٹ ہو گئے۔ لیٹے تو فوراً ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے اور دنیا و مافیہا سے بے خبر، بے سدھ ہو گئے۔ ادھر تھوڑی دیر بعد ابا جان کے ایک ماموں مسجد پہنچے اور ان بچوں کو دیکھا تو ان کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ تو اپنے ہی بچے لگتے ہیں۔ بات کچھ سمجھ میں نہ آئی تو دوڑے دوڑے گھر گئے اور نانا کو بلا کر لے آئے۔ وہ فوراً پہچان گئے کہ یہ تو چھوٹا ہے، چھوٹی ماں کا بیٹا اسمٰعیل ہے۔انھیں اٹھایا اور گھر لے گئے۔گھر پر دونوں تھکے ماندے مہمانوں کی مالش وغیرہ کی گئی، گرم پانی سے نہلایا گیا تو دونوں کو آرام آیا۔ کوٹ پلی میں ابا جان اور عبدالغنی ہفتہ دس دن ٹھہرے جہاں پر ان دونوں کی خوب خاطر تواضع کی گئی اور دونوں خوب اپنی تھکن اتار کر واپس گھر آئے۔

چوتھی جماعت پاس کر کے جب پانچویں جماعت میں پہنچے تو اپنے ابا کا ہاتھ بٹانے کی غرض سے نوکری بھی شروع کی۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب دوم۔ مافوق الفطرت عناصر اور ابا جان

 

ابا جان کے بچپن میں ایک دن کا واقعہ ہے کہ ابا جان سارا دن اسکول اور پھر اس کے بعد کھیل کود میں مصروف رہے اور مغرب کی نماز کے بعد گھر میں داخل ہوئے۔ تھوڑی ہی دیر میں چاروں طرف گھپ اندھیرا چھا گیا اور رات کا سناٹا اپنا جادو جگانے لگا۔ ابا جان نے گھر والوں کے ساتھ کھانا کھایا اور ٹہلنے کے لیے گھر کے آنگن میں پہنچ گئے۔ چاند ابھی نکلا نہیں تھا اور کمروں کے دروازوں پر پڑی چلمنوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی ہلکی ہلکی روشنی ماحول پر ایک عجیب سا تاثر ڈال رہی تھی۔ ابا جان ٹہلتے ہوئے گھر کی بیرونی دیوار تک پہنچے تو آنگن میں موجود ایک بڑے درخت کے ساتھ باہر کی دیوار پر انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے عجیب نظارہ دیکھا۔ رات کے اندھیرے میں دیوار پر ان کے چھوٹے چچا جھانک رہے تھے۔ ان کا چہرہ عجیب انداز میں مسخ شدہ لگ رہا تھا اور اندھیرے میں چمک بھی رہا تھا۔ جونہی ابا جان کی نظر اپنے چھوٹے چچا کے چہرے پر ٹھہری انھوں نے خوفناک انداز میں ہنستے ہوئے ابا جان کی طرف دیکھ کر منہ چڑا دیا۔

ابا جان کو چھوٹے چچا کی اس گندی حرکت پر بہت غصہ آیا اور انھوں نے فوراً چچا کو سبق دینے کی ٹھانی۔ انھوں نے اسی وقت اپنی اماں جان کو آواز لگائی۔

’’ اما ں جان! دیکھو چھوٹے چچا درخت پر چڑھے ہوئے بیٹھے ہیں اور مجھے منہ چڑا رہے ہیں اور بری بری شکلیں بنا رہے ہیں۔ ‘‘

کچھ دیر کے لیے گویا ماحول پر چھایا ہوا سناٹا اور زیادہ گہرا ہو گیا تھا۔ درخت پر موجود ہیولیٰ اپنی ہیبت ناک شکل کے ساتھ ابا جان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں ابا جان کی دادی اماں لپکتی ہوئی باہر نکلیں اور ابا جان کا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف لے چلیں۔ساتھ ہی وہ ابا جان کو بہلانے کے لیے کہتی جا رہی تھیں۔

’’ اچھا اچھا! اسے ڈانٹ دیں گے۔ اب کمرے میں آ جاؤ رات بہت ہو گئی ہے۔‘‘

انھوں نے ابا جان کو ان کے بستر تک پہنچایا اور انھیں لٹاتے ہوئے کہا۔’’ چلو اب سوجاؤ۔‘‘

ابا جان بستر پر لیٹ گئے اور سونے کی خاطر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ تقریباً دس پندرہ منٹ تک اسی طرح لیٹے رہنے کے باوجود نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اسی اثناء میں انھیں دادی اماں کی غصہ بھری آواز سنائی دی جو اماں جان کے لتے لے رہی تھیں۔

’’ بچوں کا خیال نہیں کرتی ہو اور انھیں باہر اندھیرے میں اکیلے بھیج دیتی ہو۔ اب اسے درخت پر چھوٹا نظر آ رہا ہے جبکہ چھوٹا تو بہت دیر سے اندر سورہا ہے۔ بچوں کو ہرگز باہر اندھیرے میں مت بھیجا کرو۔جانے کون کون سے بھوت پریت اس وقت وہاں موجود ہوتے ہیں۔‘‘

ابا جان نے آنکھیں بند کیے ہوئے یہ سنا تو ان کی سٹی گم ہو گئی۔ کیا وہ چھوٹے چچا نہیں تھے؟ یہی روح فرسا خیال انھیں اس رات بہت دیر تک تنگ کرتا رہا اور وہ جاگتے رہے۔ بار بار ان کی نگاہ باہر کے دروازے کی طرف اٹھ جاتی اور وہ گھبرا کر نظر پھیر لیتے۔ جانے کب تک وہ جاگتے رہے اور جانے کب وہ سوئے لیکن صبح جب وہ اٹھے تو سارا جسم بخار سے تپ رہا تھا۔ کئی دن تک اس بخار میں پھنکنے کے بعد ہی ابا جان کو اس بیماری سے نجات ملی اور اس طرح ابا جان نے اپنی زندگی میں پہلی اور غالباً آخری مرتبہ کسی مافوق الفطرت ہیولے کو اپنے روبرو دیکھا۔

گو اس موقعے پر ابا جان بہت ڈر گئے تھے اور نتیجتاً کئی دن تک بخار کی کیفیت میں مبتلا رہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ آئندہ کبھی بھی ابا جان جن بھوت وغیرہ سے نہیں ڈرے اور نہ ہی انھیں اپنی زندگی میں کسی قسم کی اہمیت دی۔ حالانکہ ان کا ارد گرد کا ماحول وہی دقیانوسی قسم کا ماحول تھا جس میں پل بڑھ کر گاؤں کے سیدھے سادھے ضعیف الاعتقاد لوگ بھوت پریت وغیرہ اور ان کی کارستانیوں پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر ان کے جھوٹے سچے چنگلوں میں بھی پھنسے ہوتے ہیں۔

ابا جان اپنے لڑکپن میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مہم جوئی پر نکلتے تو ان کا پہلا نشانہ گھنے جنگلوں میں موجود ہندوؤں کے مندر ہوتے جہاں پر ان لڑکوں کو کھانے کے لیے بہترین کھانوں اور پھلوں کی اچھی خاصی مقدار مل جاتی جو ہندو ان مندروں میں چڑھاوے کے طور پر چڑھایا کرتے تھے۔ گروہ کے تمام لڑکے ان پھلوں اور دیگر نعمتوں پر پل پڑتے اور پلک جھپکتے میں انھیں چٹ کر جاتے۔اس وقت نہ انھیں بھوت پریت کا کوئی ڈر ہوتا اور نہ ہی ہندوؤں کی ان بری ارواح کا جوان سنسان مندروں اور شمشان گھاٹوں میں منڈلایا کرتی ہوں گی۔اس طرح گویا ابا جان نے گاؤں کے ماحول میں آنکھ کھولنے کے باوجود راسخ العقیدہ مسلمان کے طور پر جن بھوت پریت اور اس قسم کی تمام مخلوقات کے انسان پر حاوی ہونے کے تصور کو مکمل طور پر رد کیا۔

ابا جان کے پہلے روحانی استاد جناب عبد الغفور محمد حضت( حضرت) کی تعلیمات کا اثر ابا جان پر ساری عمر رہا اور اپنے تمام تر بنیادی خیالات، تصورات، اعتقادات و ایمانیات ابا جان نے انھی سے اخذ کیں اور ساری زندگی انھی پر اپنے پورے پختہ یقین کے ساتھ عمل پیرا رہے۔ دینی استاد مولانا غفور محمد حضرت جو دیوبندی عقیدے کے سیدھے سادے عالم تھے، انھوں نے ابا جان کو ساری زندگی کے لیے ایک پختہ عقیدہ اور لائحہ عمل عطا کیا۔اللہ رب العزت کی وحدانیت اور اس کے آخری رسول ﷺ کی بشریت، ختم ِرسالت، حُرمت اور معصومیت پر پختہ یقین اور بدعات سے بریت اس عقیدے کے خاص جزو تھے۔

اپنے لڑکپن میں ابا جان نے جن لوگوں سے اثر لیا ان میں ایک صاحب گڑبڑ شاہ بھی تھے جو ایک راجپوت ہندو کے گھر پیدا ہوئے، اللہ نے ان پر کرم کیا اور انھیں اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی۔فوج میں ایک سپاہی کے طور پر اپنی خدمات پیش کر چکے تھے اور پھیر پٹے اور ڈنڈے بازی، تلوار بازی اور لٹھ بازی اور اس قسم کے دیگر فنون سے بخوبی واقف تھے۔ لوگوں کو نہ صرف ان فنون میں مہارت بہم پہنچاتے بلکہ انھیں جن بھوت و دیگر توہمات سے دور رہنے کی تلقین کرتے اور یقین دلاتے کہ حضرتِ انسان خود ان بھوت پریت وغیرہ سے زیادہ طاقتور ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے۔ لہذا انسانوں کو چاہئیے کہ وہ اپنی صحت بہتر بنانے پر خاص توجہ دیں، دوسروں کی مدد کریں، ہنر سیکھیں اور کوشش کر کے حلال روزی کمائیں۔محرم کے جلوسوں اور عرس وغیرہ میں شریک ہوتے، میلاد پڑھتے اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے، چندہ کرتے اور مسجدیں بنواتے یا ان کی مرمت کا بندوبست کرتے۔چندہ جمع کرنے کے لیے ہر وقت ہاتھ میں کوڑا ہوتا، اگر کوئی چندہ دینے میں پس و پیش کرتا تو بقول اکبر چچا پہلے تو اس کوڑے سے اپنے آپ کو پیٹتے اور پھر اسی سے چندہ نہ دینے والے کی تواضع فرماتے۔

ایک مرتبہ ابا جان اور ان کے گروہ کے لڑکے ان حضرت کے ساتھ بازار میں گشت کر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک پیر صاحب پر پڑی جو ایک عورت پر آئے ہوئے جن کو اتارنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جسے وہ آزادانہ طور پر اس عورت پراستعمال کر رہے تھے اور کہتے جاتے تھے۔

’’ نکل یہاں سے۔ خبردار جو اب اس عور ت پر حاوی ہونے کی کوشش کی۔ نکل یہاں سے مردود۔‘‘

اُدھر وہ مردود کافی ڈھیٹ واقع ہوا تھا اور پیر صاحب کی ان تمام کوششوں کے باوجود اس عورت کے جسم پر قبضہ کیے بیٹھا تھا۔ادھر وہ بیچاری عورت مار کھاتی جاتی تھی اور تکلیف اور بے عزتی کے دکھ کے مارے روتی اور چیختی جاتی تھی۔گڑبڑ شاہ صاحب ایک لمحہ کو وہاں رکے، صورتحال کا جائزہ لیا اور پھر آؤ دیکھا نا تاؤ اور اس جعلی پیر پر پل پڑے اور اسی کی چھڑی سے مار مار کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ کافی پیٹنے کے بعد اسے اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ بھاگ سکے۔ پھر اس عورت کے شوہر پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اسے پیٹتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔

’’ نکل یہاں سے۔ خبردار جو اب اس عور ت پر حاوی ہونے کی کوشش کی۔ نکل یہاں سے مردود۔‘‘

بہت پیٹ چکے تو اسے لعنت ملامت کی کہ کیوں اس بھرے بازار میں اپنی عورت کی عزت لٹانے پر تلا ہوا تھا۔اسے بھی اپنی عورت سمیت بھگا کر لاری میں بیٹھے اور گاؤں سے روانہ ہوئے۔

ادھر ابا جان اس قضیئے سے فارغ ہو کر گھر پہنچے ہی تھے کہ گھر پر پولیس وارد ہو گئی اور ابا جان کا نام لے کر انھیں گھر کے اندر سے بلایا تو دادا جان حیرت سے دنگ رہ گئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ گھر پر پولیس آئی تھی۔ کس قدر بے عزتی اور بدنامی کا موقع تھا۔ اس کی وجہ وہ ابا جان کو قرار دے رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ آخر ابا جان نے کون سا ایسا بد نامِ زمانہ کام کیا ہے کہ پولیس گھر پر آئی ہے۔

ادھر ابا جان حیران تھے اور کہہ رہے تھے کہ انھوں نے تو کچھ بھی نہیں کیا، انھوں نے تو کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ پولیس ان کے پیچھے آئے۔ آخر جب پولیس نے اپنے سوالات شروع کیے تو یہ عقدہ کھلا۔ وہ انھی گڑبڑ شاہ کی تلاش میں آئی تھی جنھوں نے آج بازار میں کچھ لوگوں کو مارا پیٹا تھا۔ ابا جان اور ان کے دیگر ساتھیوں نے پولیس کو بتایا کہ گڑبڑ شاہ تو گاؤں چھوڑ چکے اور کسی نامعلوم منزل کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔

محرم، بقول ابا جان کے، جس اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ باسم میں منائے جاتے تھے شاید ہی کسی اور علاقے میں منائے جاتے ہوں۔ محرم کا چاند نظر آتے ہی گویا گھروں کے باورچی خانوں کو تالا لگ جاتا اور سب گھر والے باہر لنگروں اور محرم کے احترام اور منت کے بنائے ہوئے کھانے کھاتے، جو انھیں باصرار اور با منت و سماجت کھلائے جاتے۔’’ ارے ادھر آرے بیٹے، ذرا دو نوالے تو کھا لے۔‘‘

محرم شروع ہونے سے کئی دن پہلے خواتین منت کے میٹھے بنانا شرو ع کرتیں تاکہ محرم شروع ہونے سے پہلے ان کے پکوان مکمل ہو جائیں۔ جنھیں باقاعدہ فاتحہ دلوا کر یومِ عاشور کو لوگوں کو کھلایا جانا ہوتا۔ ایسے ہی ایک محرم میں دادی اماں نے اہتمام کے ساتھ کمرہ کی لیپا پوتی مکمل کی اور میٹھا آٹا گوندھ کر رات کو چولھا جلا کر اس پر کڑھائی میں گھی کڑکڑایا اور روٹ تلنے شروع کیے۔ اِدھر ابا جان فٹبال کے میچ سے تھک کر فارغ ہو کر چپکے سے کمرے میں آئے اور سردی سے بچنے کے لیے قریب ہی سر سے پاؤں تک چادر اوڑھ کر لیٹ گئے اور آنکھیں بند کر کے چولھے کی گرماہٹ کے مزے لینے لگے۔ ادھر دادی اماں نے تلے ہوئے روٹ ایک جگہ ترتیب سے جمانے شروع کیے اور ان کی میٹھی میٹھی خوشبو ابا جان کی ناک میں پہنچی تو وہ نیند وغیرہ سب بھول کے اس مٹھاس کے مزے لینے لگے۔ اشتہاء انگیز خوشبو سے بھوک اور زیادہ چمک اٹھی تو ابا جان نے ہاتھ بڑھایا اور چار چھ روٹ اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیے اور مزے لے لے کر کھانے لگے۔

دو تین دفعہ دادی اماں نے گمان کیا کہ شاید بلی اندر گھس آئی ہے لہٰذا انھوں نے ہش ہش کر کے اس خیالی بلی کو بھگایا۔پھر بھی جب کٹر کٹر کی آواز ختم نہ ہوئی تو انھوں نے چور پکڑ لیا۔ یکبارگی جو چادر پکڑ کر کھینچی ہے تو دیکھا کہ ابا جان مزے سے روٹ اپنے سینے پر رکھے کھا رہے ہیں۔ محرم کے یہ روٹ یومِ عاشور کو فاتحہ کے بعد کھائے جانے تھے۔ دادی ماں نے ان کی بے حرمتی ہوتے دیکھی تو کلیجا تھام لیا اور ’’ ہائے اما م حسین‘‘ کہہ کر ابا جان کے ہاتھ سے باقی ماندہ روٹ چھینے اور ماتم کرنے لگیں کہ ہائے اب کیا ہو گا۔ ابا جان نے سمجھایا کہ کچھ نہیں ہو گا لیکن دادی اماں کی حالت دیکھ کر ان کے سامنے اعلان کیا کہ اب یہ روٹ ان کے لیے حرام ہیں اور وہ ان کو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا اور سارا محرم دادی ان سے التجاء کرتی رہیں کہ وہ یہ فاتحہ کے روٹ چکھ لیں لیکن ابا جان نے پھر وہ روٹ نہ چکھے۔ دادی اماں نے یہ حال اور ابا جان کا تیقن دیکھا تو ان فاتحہ وغیرہ کی رسموں پر سے ان کا بھی اعتقاد جاتا رہا۔

محرم کے جلوس بھی بڑی دھوم دھام سے نکالے جاتے۔ ڈھول تاشوں اور باجوں گاجوں کے ساتھ شہدائے کربلاء کی سواریاں نکالی جاتیں۔ ان سواریوں کو اس شان اور اہتمام سے بنایا جاتا کہ دور سے دیکھنے پر یوں لگتا گویا کوئی سر اور ہاتھ کٹا شہسوار ہے جو شان سے چلا جاتا ہے۔ اس ڈھول تاشے کی محفل میں کئی ایک بڑے بوڑھوں کو حال آ جاتا، گویا شہداء کی روح ان میں سما جاتی۔ پھر بڑے احترام و اہتمام کے ساتھ ان حال آنے والے حضرت پر سوار کو کسا جاتا اور اس طرح سے جلوس اپنی منزل کی طرف گامزن ہوتا۔ چھوٹی سواریوں کو لے جا کر بڑی سواری سے ملاقات کروائی جاتی اور اس طرح جلوس آگے بڑھتا۔ اکثر حال آئے لوگوں کو قابو کرنا مشکل ہوتا تو کئی ہٹے کٹے لوگوں کی ڈیوٹی لگائی جاتی کہ وہ ان کو سنبھال کر منزل مقصود کی طرف گامزن رکھیں۔

ایک دفعہ محرم میں شبِ عاشور کو کسی بڑے بزرگ کو حال نہیں آیا، ابھی شرکائے جلوس اس شش و پنچ میں تھے کہ کیا کریں، اتنے میں ابا جان کے ایک ساتھی شاہ نور کو حال آ گیا۔ فوری طور پر چاروں طرف لوگوں کا گھیرا ڈال کر اسے قابو کیا گیا۔ ادھر گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے دیکھا کہ اس دفعہ ایک لڑکے کو حال آیا ہے تو انھوں نے فوراً اس کے تمام ہم عمر ساتھیوں کو بلایا جن میں ابا جان بھی شامل تھے، اور انھیں ہدایت کی کہ اب اس حال آئے ہوئے شاہ نور کو سنبھالنا تمہارا کام ہے۔ لہٰذا سب لڑکوں نے اس کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ دو نے اسے بغلوں سے سہارہ دیا، اس کی کمر پر شہسوار کسا گیا اور یوں وہ جلوس لے چلنے کے لیے تیا ر کیا گیا۔ جلوس روانہ ہوا، اس شان کے ساتھ کہ اس دفعہ حال ایک لڑکے پر آیا تھا اور وہی سواری بنا ہوا تھا۔ کچھ دیر کے لیے ابا جان کی بھی باری آئی اور انھوں نے ایک طرف سے شاہ نور کی بغل میں ہاتھ ڈال اسے سہارہ دیا اور چل پڑے۔ خود بتاتے تھے کہ اس روز اس کا زور اتنا تھا کہ سنبھالا نہ جاتا تھا۔ حال آنے کی وجہ سے اس کی جوتیاں ادھر ادھر ہو گئی تھیں اور وہ ننگے پیر چل رہا تھا جبکہ دونوں اطراف دونوں لڑکے چپلیں پہنے ہوئے تھے۔ یک بارگی کسی کا پیر اس کے پیر پر آیا تو اس نے فوراً دونوں ساتھیوں کو ہلکی آواز میں گالی دے کر احتیاط سے چلنے کو کہا۔ ابا جان اور دوسرا ساتھی چونک پڑے۔ حال کی حقیقت ان پر آشکارا ہو چکی تھی۔ اب تو دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کیے اور ایکشن کے لیے تیار ہو گئے۔ اب جو انھوں نے شاہ نور کو لے کر بھاگنا شروع کیا ہے تو اس کی تو میا ہی مر گئی، وہ تھک کر چور ہو گیا لیکن دونوں نے باز نہ آنا تھا اور وہ نہ آئے اور اسے لے کر بھاگتے ہی رہے۔ لوگوں نے مارے حیرت کے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں، واقعی اس مرتبہ تو اس لڑکے پر بڑا زبردست حال آیا تھا۔ آخر خدا خدا کر کے وہ رکے اور وہ بھی اس طرح کہ چاروں طرف سے معتقدین کے ہجوم نے انھیں روکا اور مارے عقیدت کے بھر پور نعرے بازی کی۔ وہ محرم باسم کا ایک یاد گار محرم بن گیا۔

وقت گزرتا رہا، دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے رہے، ان حالات و واقعات اور ان جیسے بے شمار دیگر دلچسپ واقعات نے بچپن ہی میں ابا جان کی کردار سازی میں بھرپور حصہ لیا اور یوں اپنی زندگی کے اوائل ہی میں وہ ایک پختہ اور غیر متزلزل کردار کے مالک بن چکے تھے۔ مطالعہ کی عادت جو گاؤں کے مڈل اسکول نے ڈالی، زندگی بھر ان کے محبوب ترین مشغلہ کے طور پر ساتھ رہی۔ بچپن میں بڑے ماموں کی کتابوں کا ذخیرہ ہاتھ آیا اور اس پر خوب فیاضی کے ساتھ ہاتھ صاف کیا۔ علم، ادب، دیومالا، شاعری غرض ہر قسم کی کتابیں پڑھیں۔ لڑکپن میں جب گھر سے رخصت ہو کر تبلیغ دین کے لیے اس تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور حیدرآباد پہنچے تو جامعہ عثمانیہ کی عثمانیہ لائبریری اور حیدرآباد کی دیگر پبلک لائیبریریوں سے استفادہ کیا اور خوب کیا۔

ایک رات اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گھر آ رہے تھے۔ رات کا سناٹا پھیل چکا تھا اور گھروں میں چراغ اور دئیے بھی بجھ چکے تھے جس کے باعث اندھیرا اور بڑھ گیا تھا۔ گھر کے قریب پہنچے تو سناٹے میں ایک جانب سے گھنگروؤں کی آواز ابھری اور قریب آتی چلی گئی۔

یہ بات لوگوں مین مشہور تھی کہ یہاں رات کو گھنگرو بجنے کی آواز آتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہاں کوئی چڑیل ہے۔ اسلئے لوگ رات کو یہاں سے گزرنے سے گریز کرتے تھے۔ گھنگروؤں کی آواز سن کر دونوں بھائیوں کے دل میں خیال چڑیل ہی کا آیا۔ تایا تو بہت گھبرائے۔کہنے لگے، ’’ اسماعیل آج غلط پھنس گئے، بس بھاگ چلو!‘‘

لیکن ابا جان کے ذہن میں اس وقت ڈر یا خوف کا نام و نشان تک نہ تھا۔ابا جان نے اس ہیبت ناک ماحول میں ا س نئی بپتا کو کس طرح برداشت کیا اور ان کا پہلا رد عمل کیا تھا؟ خود کہتے تھے کہ یہ آواز سنتے ہی انھوں نے جھٹ اپنی تلوار نکال لی اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کر لیا۔ آواز قریب آتی چلی گئی اور پھر اچانک ایک درخت کے پیچھے سے ایک عورت پیروں میں گھنگرو پہنے چھن چھن کرتی ہوئی نمودار ہوئی تو ابا جان نے تلوار سونت لی اور تلوار اس کے پیٹ کی طرف کر کے دوڑے تاکہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیں لیکن نشانہ خطا ہوا اور وہ عورت بہت تھوڑے سے فرق سے بچ گئی۔ قریب پہنچ کر جب اس چڑیل پر نظر پڑی تو ابا جان سناٹے میں آ گئے۔ وہ عورت کوئی چڑیل نہیں بلکہ گاؤں کی ایک پاگل عورت عظیم دیوانی تھی جو گھنگرو باندھے گھوما کرتی تھی۔ابا جان اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اس دن ان کا نشانہ خطا ہو گیا اور وہ دیوانی عورت ان کے وار سے بچ گئی۔

ذرا غور کیجیے، ایک چڑیل کا مقابلہ کسی وظیفے سے نہیں بلکہ اپنی تلوار سے۔ یہ وہ رویہ تھا جو ابا جان نے ساری زندگی مافوق الفطرت کے بارے میں روا رکھا، جس میں ان کی اپنی زندگی کے حالات و واقعات کے علاوہ تاریخ اسلامی کا بھی اسی انداز سے مطالعہ شامل تھا۔سال ہا سال بعد جیل کے اندر ایک تعویذ بنا کر جیلر کو دیا ضرور تھا اور اس تعویذ نے اپنا اثر بھی دکھلایا تھا، لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ کن حالات میں، کس ذہنی کیفیت میں اورکس موڈ میں انھوں نے یہ تعویذ بنایا تھا، کیونکہ وہ تعویذ گنڈوں، جن بھوتوں، چڑیلوں، عملیات و کرامات اور معجزات میں یقین نہیں رکھتے تھے۔مر ض الموت میں ایک مرتبہ بھائی نے ان سے اجازت چاہی کہ وہ ایک بزرگ سے ابا جان کا روحانی علاج کرواس کے۔ ابا جان نے صاف انکار کر دیا۔

ان سب کے باوجود ابا جان کی زندگی ایسے محیر العقل کارناموں سے بھری پڑی ہے جو ایک عام انسان کے بس میں نہیں۔ایک مرتبہ دریائے سندھ عبور کرتے ہوئے دوسرے کنارے پر موجود لوگوں نے نجانے کیا سوچ کر ابا جان کو آواز دے کر پوچھا تھا کہ وہ آدمی ہیں یا جن ہیں۔ تھے تووہ انسان ہی، اسلئے کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے مگر وہ ایک ایسے گوہر کی طرح تھے جو اپنی تمام تر خوبصورتی سمیت اپنے سیپ میں چھپا رہتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب سوم۔جوانی دیوانی

 

 

ابا جان نے آٹھویں جماعت پاس کی اور اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے حیدرآباد جانے کا قصد کیا ہی تھا کہ حیدرآباد سے ایک تبلیغی جماعت کے کچھ اصحاب باسم پہنچے اور وہاں پر جلسہ کیا اور اس میں تقریریں کیں۔اس وفد کے سربراہ مولانا قاسم علی عرف تایا تھے جنھوں نے ابا جان سے بات کی تو ان کے خیالات اور علمیت سے خاصے متاثر ہوئے اور ان کے اباسے درخواست کی کہ اللہ کے نام پر وہ اس بچے کو تبلیغ ِ اسلام کے لیے وقف کر دیں اور انھیں اس بچے کو اپنے ساتھ حیدرآباد لے جانے کی اجازت دیں۔دادا نے بخوشی اجازت دے دی۔گاؤں میں ایک دکان دار ابراہیم بھائی جو ابا جان سے کچھ سال بڑے تھے اور ان کے بہت اچھے دوست تھے، وہ بھی ابا جان کے ساتھ حیدرآباد جا کر دین کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہو گئے، اس طرح ابا جان سولہ سال کی عمر میں اپنے ماں باپ سے رخصت ہو کر، ابراہیم بھائی کے ساتھ دین کی خدمت اور ا اللہ کا کام کرنے کی نیت سے حیدرآباد پہنچ گئے اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔یہ وہ موقع تھا جس نے ابا جان کے طرز زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا اور وہ باسم کے ایک کھلنڈرے لڑکے سے ایک نوجوان مبلغ میں تبدیل ہو گئے جس کا کام علم حاصل کرنا، دین کی اشاعت اور اللہ کے نام کو پھیلانے کی غرض سے ہندوستان کے طول و عرض میں دورے کرنا اور تقریروں اور مناظروں کے ذریعے اسلام پھیلانا تھا۔

حیدرآباد پہنچ کر ابا جان نے وہاں کی بڑی بڑی لائبریریوں میں جانا اور وہاں سے اچھی کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا، حیدرآباد کے ایک علاقے نام پلی میں یوسف شریف صاحب کی درگاہ سے ملحق ایک بڑی اور بہت اچھی لائبریری تھی۔اور وہاں پر ہر قسم کی علمی اور ادبی کتابیں دستیاب تھیں۔ اسی طرح جامعہ عثمانیہ کی آصفیہ لائبریری۔ابا جان نے اپنا زیادہ وقت ان لائبریریوں میں گزارنا شروع کر دیا اور مطالعے کو اپنی عادت ثانیہ بنا لیا۔

اس مطالعے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ابا جان نے اپنے پیر صاحب کے معمولی قسم کے خیالات کو اپنے ذہن میں بالکل جگہ نہ دی اور نہ ہی ان خیالات کو اپنی تقریروں کا حصہ بنایا۔جہاں پیر صاحب اور ان کے دیگر مرید جنھیں پڑھنے لکھنے سے قطعاً کوئی لگاؤ نہیں تھا، ایک خود ساختہ فلسفے پر یقین رکھتے تھے جس کی بنیاد چند اوٹ پٹانگ قسم کی پیشن گوئیوں پر تھی جن کے مصداق، عنقریب ہندوستان تمام مسلمان ہونے والا تھا اور ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں کے نیچے گڑے ہوئے سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کے خزانے مسلمان مجاہدوں کے ہاتھ آنے والے تھے۔ شاید ان خزانوں کا چکر ہی اس لیے چلایا گیا تھا کہ مریدان ان کے گرد اکٹھے رہیں اور اس وقت کے انتظار میں چندہ کر کے اپنا وقت گزارتے رہیں جب انھیں ان خزانوں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت میں سے ایک بڑا حصہ حاصل ہو جانا تھا۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں ان پیشن گوئیوں کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو بقول پیر صاحب کے، آٹھ سو سال قبل بزرگانِ اہلِ ہنود نے کی تھیں اور ان میں پیش کردہ چن بسویشور دراصل خود یہی پیر صاحب ہیں۔لہٰذا پیر صاحب اپنے تئیں چن بسویشور کہلاتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اس جنم میں مسلمان پیر بن کر وارد ہوئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پیر صاحب کے ماننے والے آوا گون میں یقین رکھتے تھے، اور اس معاملے میں عام مسلمانوں کے ذہن میں پیدا ہونے والے شبہات کو دور کر نا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب گجرات کے ایک تاجر نجمی نے ابا جان کے ساتھی سے اس بارے میں رہنمائی چاہی تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور آخر کار ابا جان ہی نے جو آوا گون کی اس خرافات کو عین خلاف ِ اسلام سمجھتے تھے، ان سے بات کی اور انھیں قائل کیا کہ اسلام ہی دینِ فطرت ہے جس میں آواگون جیسی خرافات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ قصہ تفصیل کے ساتھ باب ہشتم ’’ سوئے منزل چلے‘‘ میں آئے گا۔اب پڑھئے بشارات:۔

۱۔ آگے چن بسویشور جگت پاک کریں گے، چھ مذاہب اور ایک سو ایک ذات کے اختلافات مٹا کر ایک ہی مذہب وکرم ویر شیو قائم کریں گے۔

۲۔ کلیوگ سے پاپ دھویا جائے گا۔ چن بسویشور بارہ لاکھ فوج سے لیس ہو کر آئے گا۔ شری چندی گری( ترپتی کا مندر) خان خانوں کے ساتھ مل کر چلے گا۔ شری گری ( ترپتی کے مندر) میں خزانہ نکالے گا۔ والی کا خزانہ نکالنے کا وقت آئے گا۔ وقت آنے پر فوراً خزانہ نکال لیں گے۔

۳۔ اس وقت شہر بنگلور چار میناروں تک پھیل جائے گا۔ اور برباد ہو جائے گا۔ ترک ترپتی کے دیو استھان میں گھسیں گے۔ مسلمانوں کو دولت مل کر تین گھڑی میں بڑے بڑے گنبد اور مقبرے بنائیں گے۔

۴۔ شری گرو چن بسویشور ایک پدم سے تین پدم تک دولت والی بھنڈار سے نکالیں گے۔ وہ بھنڈار یعنی خزانہ نکال کر گدک میں سیوراج پٹن بنائیں گے۔

۵۔ اسی ہزار گھوڑے سوار، مست پٹھان بڑی ندی پار ہو کر کرناٹک میں داخل ہوں گے۔ہری ہر دیول کی مورتیاں توڑ دیں گے۔ مسلمانوں کی فوج بلند آواز سے نعرے مارتی ہوئی لڑے گی، ان کے مقابلے کی تاب کسی کو نہ ہو گی۔ اور ان گنت بے شمار مسلمانوں کی فوج ترپتی میں داخل ہو گی۔ شری وینکٹش کی دیول میں گھس کر نذر مانا ہوا خزانہ پھوڑیں گے۔وغیرہ وغیرہ۔

ان پرانی بشارات کو بنیاد بناتے ہوئے پیر صاحب کو غیب سے یہ الہام ہو چکا تھا کہ ہندوستان تمام مسلمان ہونے والا ہے اور وہی دراصل چن بسویشور ہیں جو اس نئے جنم میں مسلمان بن کر پیدا ہوئے ہیں، جن کے ہاتھ پر تمام ہندوستان مسلمان ہو گا۔ ادھر ان کے ساتھ رہنے والے مبلغین اور مجاہدین پر ہمپی کا والی بھنڈار اور ترپتی مندر اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں گے۔پیسہ ہی پیسہ۔دولت ہی دولت۔

ادھر دوسری طرف ابا جان ان خرافات پر ذرہ برابر بھی کان نہ دھرتے تھے۔ ابا جان کا اندازِ تقریر بڑا سادہ مگر پر اثر تھا۔ وہ اگرچہ اپنے پیر بھائیوں کی طرح پیر صاحب کے اوٹ پٹانگ فلسفے کو بیان نہ کرتے۔ ان کی تقریروں کا مآخذ مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی لکھی ہوئی سیرت النبی کے علاوہ مولانا مناظراحسن گیلانی اور ڈاکٹر حمید اللہ کے وہ لیکچر ہوتے تھے جنہیں ابا جان بڑے شوق سے سنتے تھے اور ان سے حاصل کردہ معلومات ان کے ذہن کے کمپیوٹر میں محفوظ ہو جاتی تھیں۔ وہ سادہ، علمی قسم کی گفتگو کرتے اور ہر مرتبہ ایک نئے انداز سے ایک نئے موضوع کو لے کر چلتے۔ نوجوان سامع حضرات ان کے اس انداز کو بہت پسند کیا کرتے تھے۔ ان کے جلسوں میں طالبانِ علم باقاعدہ کاپی پینسل لے کر بیٹھا کرتے تھے اور ان کے بیانیہ کے دوران نوٹس لیا کرتے۔

دوسال حیدرآباد میں گزارنے کے بعد پہلی مرتبہ گھر لوٹے، اس دوران دونوں چھوٹے بھائی اکبر اور سرور ان کو تقریباً بھول چکے تھے، وہ اس چھوٹی سی داڑھی والے اس نوجوان مبلغ کو یوں بے دھڑک گھر میں گھستے ہوئے دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے اور دور جا کر چھپ گئے۔ ماں باپ نے گلے سے لگا لیا، گاؤں میں خوب واہ وا ہو گئی۔بارے داڑھی کا کچھ بیاں ہو جائے۔ نوجوانی میں ابا جان اس تبلیغی جماعت میں شمولیت کر کے باقاعدہ اسلامی مبلغ اور عالم بن گئے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کی ابھی داڑھی نہیں نکل پائی تھی۔ ساتھیوں کے مشورے سے دونوں گالوں اور

ٹھوڑی پر ایک خاص پودے کے پتوں کو لے کر ملا اوراس قسم کی کوششیں رنگ لائیں اور ابا جان ایک عدد چھوٹی سی خشخشی داڑھی کے مالک بن گئے۔

انھی دنوں گاؤں میں سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا تو ان نوجوان مولانا کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ ابا جان کے ساتھ ان کے دادا، تایا، ابا اور تین چچا بھی اس جلسے کی کارروائی سننے کے لیے جلسہ گاہ پہنچے۔ ابا جان کو جلسہ کے آغاز سے پہلے اسٹیج پر بیٹھنے کی دعوت دی گئی جسے انھوں نے شکریے کے ساتھ نامنظور کیا۔ ان کے بقول ان کے خاندان کی اتنی بڑی بڑی ہستیاں اس وقت جلسہ گاہ میں نیچے دری پر بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کی موجودگی میں وہ اسٹیج پر چڑھ کر بیٹھنے کو ان بزرگوں سے بے ادبی تصور کرتے ہوئے نیچے ہی بیٹھنا چاہتے تھے۔ جب ان کی باری آئے گی وہ اس وقت اسٹیج پر پہنچ جائیں گے تاکہ تقریر کرسکیں۔

ابا جان کی باری آئی اور ان کا نام پکارا گیا تو وہ انتہائی سادگی کے ساتھ اٹھے اور اسٹیج پر جا کر اپنی تقریر شروع کی۔ گاؤں والوں اور خاندان والوں کے نزدیک وہ وہی چھوٹے تھے لیکن جب ابا جان نے اپنی تقریر شروع کی تو پورے پنڈال میں سناٹا چھا گیا۔ ابا جان نے اپنی سادہ مگر پر اثر تقریر سے نہ صرف اپنے خاندان والوں بلکہ پورے گاؤں والوں کے دل جیت لیے۔سب لوگ باری باری اسٹیج پر آئے اور ان سے مصافحہ کیا۔ بڑوں نے انھیں گلے سے لگا لیا۔ خاص طور پر ان کے اسکول کے اساتذہ خان سر اور صدیقی سر نے ان کی تقریر کے انداز اور گفتگو کے فن کو خوب سراہا۔ یہ خان سروہی استاد تھے جنھوں نے انھیں اس تبلیغی جماعت میں شامل ہونے سے منع کیا تھا کہ یہ لوگ فراڈ لگتے ہیں تو ان میں جا کر شامل نہ ہو اور ابا جان کے یہ کہنے پر کہ یہ ان کے ابا کا حکم ہے کہ وہ اس جماعت میں شامل ہو کر اسلام کی خدمت کریں لہٰذا وہ اپنے باپ کا حکم نہیں ٹال سکتے، انھیں مارا بھی تھا۔ انھوں نے ابا جان کی تقریر سنی تو باقاعدہ رو دئیے۔انھوں نے ابا جان کو ڈھیر ساری دعائیں بھی دیں۔ گو وہ انھیں علیگڑھ بھیجنا چاہتے تھے مگر ابا جان کی علم دوستی اور علمیت کو دیکھ کر وہ خاصے متاثر ہوئے اور دعاگو ہوئے کہ اللہ تیری حفاظت فرمائے۔

ادھر گاؤں والے اس جلسے کی کامیابی کا جشن منا رہے تھے، ادھر ابا جان کے دوستوں نے انھیں گھیر لیا اور اطلاع دی کہ گلاب نانا صاحب گاؤں سے دور ایک ویرانے میں قبرستان والی مسجد میں چلہ کاٹ رہے ہیں تاکہ جنوں کو قابو کر سکیں۔ ابا جان فوراً ان دوستوں کے ساتھ روانہ ہو گئے اور جنوں کی اس جماعت نے اس قبرستان پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا۔ چاروں طرف سناٹا تھا اور ہو کا عالم۔نہ آدم نہ آدم زاد۔ کسی طرف کوئی ذی ہوش نظر نہ آتا تھا۔ساون کا مہینہ اور برسات کے دن تھے۔ زمین پر ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔بادل چھائے ہوئے تھے۔ ذرا دیر میں اندھیرا چھا گیا۔ ان دوستوں نے سفید کورے لٹھے کے لمبے لمبے جبے اور لمبی لمبی ٹوپیاں پہلے ہی سے سی کر تیار رکھے ہوئے تھے۔سب دوست فورا ہی اپنے لباس تبدیل کر کے ایکشن کے لیے تیار ہو گئے۔ عشاء کا وقت ہوا تو گلاب نانا نے اپنا وظیفہ چھوڑا، خود ہی کھڑے ہو کر اس ویرانے میں اذان دی، اقامت کہی اور جنوں کے امام بن کر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ دوستوں نے ایک عدد مہتابی کا پہلے ہی سے بندوبست کر رکھا تھا۔ پانچ لڑکے تو فوراً ہی امام صاحب کے پیچھے صف بنا کر کھڑے ہو گئے۔ چھٹے نے کچھ دیر بعد مہتابی روشن کی اور اسے ایک طرف رکھ کر خود بھی نیت باندھ کر نماز میں شامل ہو گیا۔روشنی ہوتے ہی گلاب نانا نے پہلے تو کنکھیوں سے پیچھے کی جانب دیکھا اور پھر چونک کر مڑے۔ اصلی جنوں کو دیکھتے ہی ان کی سٹی گم ہو گئی۔ نماز بھول کر یا علی کا ایک نعرہ مستانہ لگایا اور بے ہوش ہو کر زمین پر لڑھک گئے۔

مقتدی جنوں نے فوراًسے پیشتر سفید کورے لٹھے کے چوغے اتار پھینکے اور بھاگے تو گاؤں واپس پہنچ کر ہی دم لیا۔ ادھر دو ساتھی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت گاؤں کے بڑے بوڑھوں کے پاس پہنچے اور گلاب نانا کے قبرستان کی مسجد میں بے ہوش پڑے ہونے کی اطلاع دی۔ ان کی خبر کے مطابق وہ دادا کی قبر پر فاتحہ پڑھنے قبرستان گئے تھے کہ وہاں پر مسجد میں گلاب نانا کو دیکھا۔ گاؤں والے بھاگتے ہوئے گئے اور گلاب نانا کو چارپائی پر ڈال کر واپس لیتے آئے۔چہرے پر پانی چھڑکا گیا تو ہوش میں آ گئے پر اس دن کے بعد پھر گلاب نانا نے جنوں کو قابو کرنے کا نام تک نہ لیا۔ ابا جان گاؤں سے واپس حیدرآباد آ گئے۔یہ دورہ ابا جان کا اپنے آبائی گاؤں باسم کا آخری دورہ ثابت ہوا

ابا جان کی اپنے گھر میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابا جان کے حیدرآباد منتقل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد جب ہندو مسلم کشیدگی بڑھی تو سارا گھرانا باسم ( سی پی برار ) سے حیدرآباد منتقل ہو گیا اور پیر صاحب کے کمپاؤنڈ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک گھر کرائے پر لے کر وہاں پر رہائش اختیار کر لی۔۔یہ وہ زمانہ تھا جب ۵۳۹۱ء کے پہلے جداگانہ انتخابات کے نتیجے میں کانگریس کو ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی تھی اور آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی تھی۔ نتیجہ کے طور پر کانگریس کھل کھیلی اور اس کا مسلم دشمن رویہ سب کے سامنے آ گیا۔ اس سے پہلے تمام علاقوں میں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے تھے۔ابا جان کا گاؤں باسم جو ہندو اکثریت کا علاقہ تھا، وہاں پر بھی ہندو مسلمان مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ وہ کباڑی کاکا ہوں یا ہندو نانی یا مسلمان بزر گ ہو ں وہ سب چھوٹوں کو چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو اپنے بچے سمجھتے تھے۔کوئی بھی بزرگ کسی بھی بچے کو کسی بھی وقت کوئی بھی کام کہہ سکتا تھا، اور اس بچے کی مجال نہیں تھی کہ وہ اس بزرگ کو اس کام کے لیے انکار کر دے۔ یہ تھا ۱۹۳۵ء سے پہلے کا ہندوستانی معاشرہ۔ جب اس سال جداگانہ انتخابات کا ایکٹ منظور ہوا اور کانگریس اقتدار میں آئی تو تمام علاقوں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔فضاء مکدر ہو گئی۔ ہندو اپنے ڈھول تاشے والے جلوس نکالتے اور ان کا اصرار ہوتا کہ عین مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر ڈھول پیٹیں گے۔ مسلمان اپنی مسجدوں کی یہ توہین برداشت نہ کرسکتے لیکن کچھ نہ کہہ سکتے۔ ان کی طرف سے جوابی اقدام کے طور پر مسجد کے صحن میں ایک گائے کو لا کر کھڑا کر دیا جاتا اور اسے ذبح کرنے تیاریاں ہونے لگتیں۔ یہ دیکھ کر ہندوؤں میں اشتعال پھیل جاتا اور یوں فسادات پھوٹ پڑتے۔

ادھر ابا جان کی تبلیغ اور ہندوؤں کے ساتھ ان کے مقابلوں کی خبریں پھیل چکی تھیں اور ہندو خاص طور پر مرہٹے ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ اس لیے گھر والوں نے ابا جان کو منع کر دیا کہ وہ گاؤں نہ آئیں۔جب صورتحال اور بگڑی تو ابا جان کا تمام گھرانا باسم سے حیدرآباد دکن ہجرت کر گیا۔ابا جان حیدرآباد میں ہوتے تو تینوں چھوٹے بھائی، یعنی ہاشم چچا، سرور چچا اور اکبر چچا جو ابا جان سے بہت زیادہ گہرا لگاؤ رکھتے تھے، یہ تینوں ان کے ہی گرد منڈلایا کرتے۔ خاص طور پر نماز میں ابا جان کے ہمراہ ہوتے۔

اسی دور میں ابا جان نے اپنے کئی ساتھی بنا لیے جو ان کے ارد گرد ہی رہتے اور ان کی شوخیِ طبع اور مزاج کی رنگینی کے شایق و گرویدہ تھے۔ ان کے یہ جاں نثار ساتھی ان کے ایک اشارے پر کٹ مرنے تک کے لیے تیار رہتے تھے، ان میں سر فہرست سیف اللہ تھے۔ پیر صاحب کی پہلی بیوی کے چھوٹے بھائی ننھے ماموں بھی ابا جان کے اس گروہ میں شامل تھے۔یہ تمام ساتھی فارغ وقت میں ابا جان کے ساتھ مل کر تلوار کے داو پیچ اور کرتب سیکھا کرتے تھے۔ابا جان کا شعری ذوق بہت اچھا تھا اور کبھی کبھی خود بھی شعر کہا کرتے تھے، لہٰذا کبھی کبھار شعر و شاعری کی محفلیں بھی سجا کرتیں۔ ابا جان ہی کی طرح یہ لوگ بھی چائے اور پان وغیرہ کے شوقین تھے۔ چائے پینے اور پان کھانے کے لیے اپنے کمپاؤنڈ سے دور ایک ہوٹل تک جایا کرتے اور وہاں پر اپنے مشاغل سے فارغ ہو کر عشاء کی نماز کے لیے یا محفل کے لیے مسجد پہنچتے تو پہلے خوب اچھی طرح کلی وغیرہ کر لیتے تاکہ پان کا رنگ ان کے ہونٹوں یا زبان سے ظاہر نہ ہو۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے، یہ لوگ چائے پینے کے لیے ہوٹل پہنچے تو ہوٹل والے نے جو غمگین بیٹھا ہوا تھا ان لوگوں سے چاؤشوں کی شکایت کی۔ چاؤش دراصل نسلاً عرب تھے جو شاید صدیوں پہلے ہندوستان آئے تھے اور یہیں کے ہو رہے تھے۔ انھوں نے علاقے میں اپنی دہشت پھیلا رکھی تھی۔ تاڑی ( ایک قسم کا نشہ) پینے میں ماہر تھے۔ نشے میں، لوگوں کو وقتاً فوقتاً لوٹ لیا کرتے، یا ان سے بدتمیزی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ہوٹل والے نے بتایا کہ وہ لوگ اس کے پاس کھانا کھانے آئے تھے اور اس کے پیسے مانگنے پر اسے مارا پیٹا تھا اور پیسے دیے بغیر ہی چلے گئے تھے۔ ابا جان اور ان کے ساتھیوں کو تو یہ موقع خدا نے دیا تھا۔ ایک مظلوم کی داد رسی ان کا فرضِ اولین تھا۔ ان سب نے اپنی تلواریں سونت لیں اور دندناتے ہوئے چاؤشوں کے ڈیرے پر پہنچ گئے اور انھیں باہر بلا کر پہلے تو خوب مارا پیٹا اور آخر کار ان سے ہوٹل والے کے پیسے لے کر لوٹے۔

اگلے دن چاؤشوں کا گروپ پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے ابا جان اور ان کے گروہ کی شکایت کی۔ بات نکلی تو بات کھل گئی۔ چاؤش اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہوئے اور خود ہی معافی مانگ کر وہاں سے رخصت ہوئے۔یہ وہ دن تھا کہ اطراف میں ابا جان کے ساتھیوں کی دہشت اس علاقے میں پھیل گئی اور وہاں کے غنڈے بھی ان اللہ والوں سے ڈرنے لگے۔

جہاں دوسرے مرید اپنے تبلیغی دوروں میں چندہ مانگنا اپنا دینی اور دنیاوی فریضہ سمجھتے تھے وہیں ابا جان کا وطیرہ یہ تھا کہ جو مل گیا صبر و شکر کے ساتھ کھا لیا، کبھی کچھ نہ ملا تو بھوکے سو گئے۔ انھوں نے زندگی بھر کسی بھی انسان کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔دراصل پیر صاحب نے دیگر مریدوں کے ساتھ یہ سلسلہ رکھا تھا کہ مرید کے لائے ہوئے چندے کے تین حصے کیے جاتے، ایک حصہ اس مرید کو لوٹا دیا جاتا، دوسرا حصہ پیر صاحب کی جیب مبارک میں جاتا اور تیسرا حصہ بیت المال میں جمع کر دیا جاتا۔ ابا جان جیسے سرپھرے مبلغ، زیادہ نہیں پر دوچار تو تھے ہی، وہ جب چندہ نہ لاتے تو انھیں اسی بیت المال سے ایک معمولی سی رقم جیب خرچ کے لیے دے دی جاتی جس سے وہ اپنا گھر بمشکل چلا پاتے تھے۔

ہمارے نانا جناب عبد الشکور صاحب بنگلور کے ایک متمول آدمی تھے اور ان کے خاندان کے دیگر لوگوں کی طرح ان کے اپنے بھی کافی اور الائچی کے کئی باغات تھے جہاں سے ماہانہ لاکھوں روپے کی آمدنی ہوتی۔شادی بھی ایک متمول گھرانے میں ہوئی۔ آدمی سیدھے سادے تھے۔ جب ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی دعوت پہنچی تو فوراً راضی ہو گئے اور اپنا گھر اور باغ اونے پونے بیچ کر تمام روپیہ لیا بیوی بچوں کو ہمراہ لیا اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ سارا روپیہ پیسہ پیر صاحب کے قدموں میں ڈال دیا اور اللہ کے دین کی خدمت میں مگن ہو گئے۔ اللہ نے بیٹیاں ہی بیٹیاں دی تھیں، جن کا بچپن امیری میں گزرا تھا۔ بیوی اور بچے بھی صبر و شکر کے ساتھ وہیں پیر صاحب کے احاطے میں ملے ہوئے ایک معمولی گھر میں رہنے لگے۔ نانا بھی دیگر مریدوں کی طرح دوروں پر جاتے، اللہ کے دین کو پھیلاتے، چندہ کرتے اور لا کر پیر صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے، جیسا کہ وہاں کا دستور تھا۔ پیر صاحب حسبِ معمول ایک تہائی حصہ انھیں لوٹا دیتے اور یوں ان کی زندگی کی گاڑی آگے بڑھنے لگی۔

(چند سال پہلے چھوٹا بھائی ریاض اپنی سسرال بنگلور ہندوستان پہنچا تو رشتہ داروں نے نانا کی چھوڑی ہوئی حویلی دکھائی جو اب بھی اپنی عظمتِ رفتہ کی کہانیاں سنارہی تھی)۔وہیں پیر صاحب کے مریدوں میں سے ایک صاحب کے ساتھ نانا نے اپنی بڑی بیٹی کا نکاح کر دیا۔ اماں دوسرے نمبر کی بیٹی تھیں لہٰذا ان کے بعد نانا اماں کے لیے ایک مناسب بر کی تلاش میں تھے۔

ابا جان جہاں بھی گئے تقریروں میں انھوں نے بقول اکبر چچا اپنی ہی بات کی، کسی دوسرے کے خیالات مستعار نہیں لیے۔ اپنے پیر صاحب یا پیر بھائیوں کے فلسفے کو نہیں بیان کیا۔ سیرت پر اتنا اچھا بولتے تھے، اتنا ڈوب کر اور اس قدر پیار اور محبت سے بولتے تھے کہ لوگ ان کی تقریروں سے بڑے متاثر ہوتے۔ مدراس میں ابا جان کی ان تقریروں کی وجہ سے خاکسار ان کے دوست بن گئے اور اپنے ہر جلسے میں ابا جان کو مدعو کرنے لگے۔وہاں پر جب سیرت کانفرنس ہوئی تو لوگوں ابا جان کو سننا شروع کیا اور بہت مقبول ہوئے۔ یہاں تک کہ ایک ایسا موقعہ آیا کہ لوگوں نے حیدرآباد کے مقامی علماء کو سننے سے انکار کر دیا۔اس بات سے مقامی مولوی حضرات بڑے ناراض ہوئے۔

اسی طرح کے جلسوں میں ہندو بھی موجود ہوتے اور ابا جان کی تقریریں بڑے شوق سے سنتے، حالانکہ مدراس بڑا پر تعصب شہر سمجھا جاتا تھا جہاں پر لوگ صرف انگریزی یا تامل بولنا چاہتے تھے، اردو بولنے یا سننے کے لیے تیار نہ ہوتے، لیکن ابا جان کی اردو زبان میں کی ہوئی تقریریں یہی لوگ بہت شوق و انہماک سے سنتے تھے۔اسی طرح اندور میں ابا جان کے جلسوں کو بڑی پذیرائی ملی۔ مہاراجہ اندور ان کی تقریریں سن کر بہت متاثر ہوا۔ وہ انھیں ہر سال جلسے میں مدعو کیا کرتا تھا۔

انھی جلسوں میں نانا اور خالو ابا نے ابا جان کو دیکھا اور ان کی تقریریں سنیں تو ان سے بہت متاثر ہوئے اور دونوں نے آپس کے مشورے کے بعد طے کیا کہ ابا جان اور اماں کی شادی کی بات چلائی جائے۔ حیدرآباد پہنچے تو یہی بات پیر صاحب کے گوش گزار کی جنہوں نے اس تجویز کو پسند کیا اور خود ابا جان سے بات کی اور انھیں شادی پر آمادہ کر لیا۔

وقتِ مقررہ پر ابا جان کو نکاح کے لیے بٹھایا گیا، مسجد میں سب مریدان موجود تھے۔ ابا جان سے ایجاب و قبول کا مرحلہ شروع ہوا۔ پیر صاحب نے ایک مرتبہ ابا جان سے پوچھا کہ وہ مولوی عبد الشکور صاحب کی صاحبزادی کو ان کے نکاح میں دے رہے ہیں، کیا انھوں نے قبول کیا؟ ابا جان خاموش رہے۔ پیر صاحب نے پھر اپنا سوال دہرایا تو ابا جان پھر بھی خاموش رہے۔ پیر صاحب نے تیسری مرتبہ یہی بات دہرا کر ابا جان سوال کیا تو انھوں نے کہا۔’’ پھر اور کس لیے میں یہاں آ کر بیٹھا ہوا ہوں۔‘‘

نکاح ہو گیا اور یوں اماں ابا جان کے عقد میں آئیں اور اپنے گھر سے رخصت ہو کر ابا جان کے گھر پہنچیں۔ شادی سے پہلے تک ابا جان مسجد ہی میں قیام پذیر ہوتے تھے، کیونکہ گھر صرف شادی شدہ لوگوں ہی کو الاٹ ہوتے تھے۔ ابا جان کی شادی ہوئی تو ہنگامی طور پر انھیں ایک گھر الاٹ کر دیا گیا اور یوں ابا جان اور اماں کی شادی شدہ زندگی کا آغاز ہوا۔

شادی ہو گئی۔ گھر کا بھی انتظام ہو گیا، لیکن اب سوال یہ تھا کہ اب گھر کا خرچہ کیسے چلے۔ چندہ ایک طرف، ابا جان نے کبھی کسی سے کچھ بھی نہیں مانگا تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہی پیر صاحب نے شاید بیت المال قائم کیا ہوا تھا، لہٰذا ابا جان کے اس مختصر سے خاندان کے لیے بھی وظیفہ مقرر ہو گیا جو ابا جان نے تو کبھی وصول نہیں کیا اس لیے کہ شادی کے بعد بھی وہ ٹک کر حیدرآباد میں نہیں رہے، بلکہ ایک آدھ ہفتہ گھر پر گزارنے کے بعد دور دراز کے علاقوں کے دورو ں پر نکل جاتے اور مہینوں شکل نہ دکھاتے۔ اس پر فتن دور میں یہی معمولی سا وظیفہ اماں اور بعد میں بڑے بھائی کی گزر بسر کے لیے کافی ہوتا۔اس تنگدستی میں زندگی گزارنا اور وہ بھی اس حال میں کہ شوہر کو گھر کی کوئی پرواہ نہ ہو، وہ دنیا میں اللہ کا پیغام پھیلانے میں مصروف ہو، جان جوکھوں کا کام تھا۔ نازوں کی پالی اماں صبر و استقامت سے اس صورتحال کو سہتی رہیں اور اف تک نہ کی۔ نانا کا گھر اسی کمپاؤنڈ میں ہونے کے باوجود اماں نہ کبھی ابا جان کی غیر موجودگی میں اپنا گھر چھوڑ کر وہاں گئیں اور نہ ہی ان سے کوئی مالی مدد وغیرہ قبول کی۔ شوہر کی عزت کی خاطر اپنے گھر کے قلعے کو سنبھالے ہوئے اسی تنگدستی میں گزارہ کرتی رہیں مگر مجال ہے جو باہر کسی کو پتہ بھی چلا ہو یا چہرے پر کوئی رنگ بھی آیا ہو۔ وہ واقعی صبر و استقامت کی پتلی تھیں۔

اسی اثناء میں بڑے بھائی حبیب الرحمٰن پیدا ہوئے اور اپنی پیدائش کے کئی ماہ بعد تک باپ کی شکل کو ترستے رہے۔ کئی ماہ بعد جب ابا جان سرحد کے دورے سے واپس آئے تو بیٹے سے ملاقات کی اور اسے سینے سے لگایا۔

٭٭٭

 

 

 

باب چہارم۔ میدانِ عمل میں

 

 

 

ابا جان تبلیغ کے لیے نکلے تو اپنا سب کچھ بھول کر ایک اللہ کے نام کو متعارف کروانے اور اسے گھر گھر، بستی بستی، قریہ قریہ عام کرنے کے لیے اپنی ہستی کو مٹا دیا، اپنی ذات کو بھول گئے اور اپنے نفس امارہ کو مار کر صرف ایک بات کو یاد رکھا کہ وہ ذاتِ باری، وہ ہستی جس نے انھیں پیدا کیا اور اس بات کا شعور اور اعزاز بخشا کہ وہ اسے پہچان کر اس کا نام اس دنیا میں پھیلا سکیں وہی اس دنیا کی واحد حقیقت ہے اور باقی سب دھوکے کی ٹٹی اور ایک ڈھکوسلہ ہے۔ جب وہ دورے کے لیے نکلتے تو نہ انھیں اپنی بھوک اورپیاس یاد رہتی اور نہ سفر کی طوالت ہی ان کے قدم ڈگمگا سکتی۔ صرف ایک اللہ اور اس کے رسول کے دین کا پرچار کرتے ہوئے چلتے تو نہ تو وہ خود باقی رہتے، نہ ان کی ذات، نہ ان کی بھوک پیاس اورسفر کی صعوبتیں اور نہ دوست یار، احباب اور گھر والے۔سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے تھا، جب لاد چلے تھا بنجارہ۔رہے نام اللہ کا۔

ایسے ہی ایک سفرکے آغاز میں جب ڈیڑھ دوسو کلو میٹر دور ماہور کے قلعے کا قصد کیا تو نہ منزل مقصود کی دوری، نہ راستے کی تھکن اور نہ گھنے جنگلات اور ان میں موجود وحشی درندوں کا خیال ہی انھیں اپنے اس تنہا طویل سفر سے باز رکھ سکا اور وہ اللہ کا نام لے کر یکبارگی اٹھے اور روانہ ہو گئے۔زادِ سفر قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں کے امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ اور مصر کے گورنر حضرت سعیدبن عامرؓ کے نقشِ قدم پر انتہائی مختصر تھا۔

رات اور دن کی فکر نہ کرتے ہوئے، منزلیں طے کرتے، میدان مارتے ہوئے، درخت اور سبزہ زاروں کو پار کرتے، گھنے جنگل بیابان میں سے راستہ بناتے ہوئے، بستیوں اور ویرانوں کی سیر کرتے ہوئے، کبھی کچھ میسر آ گیا تو کھا لیتے ورنہ فاقہ کرتے ہوئے، ابا جان چلے تو فاصلے سمٹتے چلے گئے۔ گز، فرلانگ اور میل طے ہوتے چلے گئے اور ابا جان اپنی منزلِ مقصود سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔

راستے میں ماہور کے قلعے سے نیچے، قلعے کی دیوار کے ساتھ ساتھ، پہاڑ کی ترائی میں ایک گاؤں تھا۔ ابا جان شام کے وقت اس گاؤں میں پہنچ گئے۔ابا جان کے سر میں قلعے کا سودا سمایا ہوا تھا، ادھر گاؤں والوں نے بھی ابا جان کو کوئی ایسی خاص لفٹ نہیں کروائی، لہٰذا ابا جان نے زیادہ وقت اس گاؤں میں گزارنے کی بجائے جلد از جلد اس گاؤں سے فارغ ہو کر قلعہ تک پہنچنے کی ٹھانی۔ اس گاؤں سے قلعے کے پھاٹک تک جانے کے لیے کئی کلومیٹر لمبا ایک راستہ تھا، جہاں سے قلعے کے اندر جانے کا راستہ نکلتا تھا۔ادھر یہ صورتحال تھی کہ قلعہ کی دیوار بالکل گاؤں کے ساتھ ایک گھنے جنگل میں سے ہو کر گزرتی تھی۔ابا جان نے کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پھاٹک تک پہنچنے کی بجائے، جنگل سے گزر کر دیوار تک پہنچنے اور پھر دیوار پھلانگنے کا پروگرام بنایا اور مسجد میں لوگوں سے الوداعی ملاقات کر کے آگے جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔

جنگل میں سے گزرتے ہوئے ابا جان کو اس رات بارہا اس چڑیل کا خیال آیا جسے انھوں نے ایسی ہی ایک رات میں اپنے آبائی گاؤں کے قریب کے جنگل میں چٹکی ہوئی چاندنی میں چھم چھم کرتے چلتے ہوئے دیکھا تھا۔ گو قریب آنے پر وہ گاؤں کی ایک پاگل عورت نکلی تھی، لیکن کچھ دیر کے لیے تو اس نے اس پراسرار انداز میں چھم چھم کرتی پایل پہنے چلتے ہوئے ابا جان کو پریشان کر دیا تھا اور انھوں نے حفظ ِ ماتقدم کے طور پر اپنی تلوار بھی نکال لی تھی۔یہ جنگل نسبتاً خاموش تھا اور اس میں ابا جان کی کسی چڑیل، بھوت پریت یا کسی وحشی جانور سے بھی ملاقات نہیں ہوئی اور وہ زندہ سلامت جنگل سے گزر کر قلعے کی دیوار تک پہنچ گئے۔

انھیں اپنی آسانی کے لیے دیوار کے قریب ایک برگد کا درخت بھی نظر آ گیا جس پر چڑھ کر وہ بآسانی دیوار پھلانگ سکتے تھے۔ بچپن کا سیکھا ہوا درخت پر چڑھنا ان کے کام آیا اور وہ اس درخت پر چڑھ کر’’ کودا ترے آنگن میں کوئی یوں دھم سے نہ ہو گا‘‘ کے مصداق دوسری طرف چھت پر پہنچے اور وہاں سے نیچے کود گئے۔

نیچے ایک صاف دالان نظر آیا تو ابا جان نے وہیں ایک اینٹ کو سر کے نیچے رکھ کر تکیہ بنایا اور اپنے رومال کو کندھے سے اتار کر اوڑھ لیا اور لیٹ گئے۔ تھکے ہوئے تو تھے ہی، تھکن کے مارے جو آنکھیں بند کی ہیں تو جلد ہی نیند نے ان پر مکمل غلبہ حاصل کر لیا اور وہ اور لمبی تان کر سوگئے۔

صبح اذان کے وقت کچھ شور سنا، ہڑ بڑا کر اٹھے تو دیکھا کہ دائیں اور بائیں دونوں طرف سے دو ہٹے کٹے ’’ مشٹنڈے ‘‘ قسم کے آدمیوں نے انھیں دونوں بازوؤں سے پکڑ ا ہوا ہے اور کشاں کشاں ایک طرف کو لے چلے ہیں۔ یہ چھت دراصل ایک مندر کی تھی، ابا جان اس مندر میں کود پڑے تھے اور اب پکڑے ہوئے اس مندر کے پجاری کے سامنے پیش ہونے کے لیے لے جائے جا رہے تھے۔

اس دالان کے دوسری طرف ایک تخت پر گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے پجاری صاحب نیم دراز تھے، ابا جان جو یوں پکڑ کر ان کے سامنے پیش کیے گئے تو وہ بھی مارے حیرت کے اٹھ بیٹھے اور اپنے سامنے فرش پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھا، پھر ابا جان کی طرف دیکھ کر گالی دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ابا جان نے کڑک کر کہا۔

’’ گالی نہیں دینا مہاراج‘‘

’’ ابے تو سالے چور، اچکے، ڈاکو! تجھے اور کیا کہوں ؟‘‘ پجاری کے ساتھ ساتھ اس کے چیلے بھی ابا جان کی اس دیدہ دلیری پر حیران رہ گئے۔

’’میں چور ڈاکو نہیں ہوں مہاراج‘‘

’’ تو پھر کیا بھیک مانگنے آیا ہے؟‘‘

’’ نہیں مہاراج، بھیک مانگنے نہیں بلکہ بھیک دینے آیا ہوں۔‘‘

ابا جان کے اس حیرت انگیز انکشاف پر نہ صرف پجاری بلکہ اس کے چیلے اور دیگر حاضرین بھی اس قدر حیرت زدہ ہوئے کہ ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

سب سے پہلے پجاری نے اپنے آپ پر قابو پایا اور کہنے لگے۔

’’ ابے تو میرے پوترے (پوتے)کے برابر ہے لونڈے۔ تو مجھے بھیک دے گا؟‘‘

’’جی مہاراج۔‘‘

’’ اچھا تو پھر چل ٹھیک ہے۔ دے، مجھے بھیک دے۔‘‘ پجاری نے گویا ہار مانتے ہوئے کہا۔

ابا جان نے نہایت اطمینان کے ساتھ دونوں اشخاص سے اپنے بازو چھڑوائے اور اسی اطمینان کے ساتھ چل کر پجاری کے ساتھ تخت پر بیٹھ گئے۔ اب تو سب لوگ بہت سٹپٹائے، دو تین تو اٹھے اور ابا جان کی طرف بڑھے تاکہ انہیں تخت سے اتار کر نیچے پھینک دیں، لیکن پجاری نے ہاتھ اٹھا کر انھیں اس حرکت سے باز رکھا اور ابا جان کی طرف متوجہ ہو گئے۔

ابا جان نے تلاوت کے سے انداز میں ہاتھ باندھے، آنکھیں نیم وا کیں اور چند ساعتوں کی خاموشی کے بعد سنسکرت میں مہابھارت اور راماین سے کچھ اشلوک پڑھنا شروع کر دیے۔ یہ سننا تھا کہ پجاری سمیت تمام حاضرینِ محفل نے ہاتھ جوڑ دیے اور ہمہ تن گوش ہو گئے۔

پوری محفل پر سناٹا چھایا ہوا تھا، غالباً کوئی پندرہ بیس منٹ تک ابا جان یہ اشلوک پڑھتے رہے اور حاضرین جھومتے رہے۔ ابا جان نے پڑھنا ختم کیا تو کافی دیر تک محفل پر سناٹاچھایا رہا، آخر کچھ دیر بعد پجاری جی نے ابا جان کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے اور کہنے لگے۔

’’ دھنہ باد سادھو جی! بہت اچھے۔پر اب مجھے بھیک دے۔‘‘

اب ابا جان نے اللہ کا نام لے کر اپنی تقریر شروع کی اور اپنا موقف خوب دل کھول کر بیان کیا۔

ابا جان کی تقریر ختم ہوئی تو محفل کا سناٹا برقرار تھا۔ تمام لوگوں پر ایک سکوت طاری تھا۔ بالآخر پجاری نے اس سکوت کو توڑا اور یوں گویا ہوئے۔

’’ بات تو تیری سولہ آنے ٹھیک ہے۔ جس طرح تو نے بیان کیا ہے، درحقیقت اسلام ہی وہ دین ہے جو اس وقت انسانوں کے مسائل کا حل بتلاتا ہے۔ میں تیری باتوں سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، لیکن مسلمان ہونا اس وقت میرے بس میں نہیں ہے۔اس وقت میں اس وسیع علاقے کے ہندوؤں کا مذہبی نمائندہ اور سب سے بڑا پجاری ہوں اور اس حیثیت کو نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘

اسی اثناء میں علاقے کا ڈاکیا جو اس محفل میں موجود تھا، اجازت لے کر آگے بڑھا اور علاقے کے مختلف لوگوں کی جانب سے پجاری کو بھیجے گئے منی آرڈر کا کاغذ بصد احترام پجاری صاحب کی خدمت میں پیش کر کے ان کے دستخط حاصل کیے اور جیب سے کئی ہزار کے نوٹ نکال کر پجاری کی خدمت میں پیش کر دئیے۔

پجاری نے جو اس وقت تک ابا جان کی شخصیت و کردار اور ان کے فن تقریر سے بے حد متاثر ہو چکے تھے، وہ تمام روپے اٹھا کر ابا جان کی گود میں ڈال دئیے اور کہا۔

’’ اتنا ضرور میں کرسکتا ہوں کہ تجھے خوش کر دوں۔ لے یہ رکھ لے۔‘‘

ابا جان نے فوراً ہی وہ ہزاروں روپے واپس اٹھا کر پجاری کی جھولی میں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’مہاراج ! مجھے یہ روپے دے کر شرمندہ نہ کریں اور نہ ہی مجھے اس اعزاز سے محروم کریں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے اپنے دین کا پرچار کر کے حاصل کیا ہے۔‘‘

’’تو مجھے پاگل لگتا ہے۔‘‘ پجاری ہنس پڑے اور اٹھ کر ابا جان کو گلے لگا لیا، اپنے ساتھ ناشتہ کروایا اور پھر ابا جان کے اجازت مانگنے پر انھیں ساتھ لے کر پھاٹک تک چھوڑنے کے لیے گئے۔ اس طرح ابا جان پجاری صاحب کے ساتھ اس ملاقات سے فارغ ہو کر روانہ ہوئے اور واپس اسی گاؤں کی طرف بڑھے۔

اِدھر اُس ڈاکیے نے جو مسلمان تھا اور ابا جان سے پہلے وہاں سے نکل آیا تھا، فوراً اپنی سائیکل سنبھالی اور تیز تیز پیڈل مارتا ہوا وہاں سے روانہ ہوا۔ گاؤں میں پہنچتے ہی اس نے سب گاؤں والوں کو جمع کر کے ابا جان کی تعریفوں کے پل باندھ دیے کہ کمال کے مولوی صاحب ہیں، ہزاروں روپے ٹھکرا دئیے اور ہندو پجاری کو اپنی تقریر اور اپنے طرزِ عمل سے اس قدر زیادہ متاثر کر دیا کہ اس نے انھیں گلے لگا لیا ا ور پھاٹک تک انھیں چھوڑنے کے لیے آیا۔

ابا جان گاؤں پہنچے تو گاؤں والوں نے ایک جلوس کی شکل میں ان کا استقبال، اعزاز و اکرام کیا۔ اس دن ان کی نظروں میں ابا جان کی قدر و منزلت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص انھیں اپنا مہمان بنانا چاہتا تھا۔ ان کی ہر روز کی دعوتیں شروع ہوئیں جو ختم ہونے میں نہ آتی تھیں۔ جس دن بھی ابا جان واپسی کا قصد کرتے، لوگ رو رو کر ان سے درخواست کرتے کہ آپ نے ہمارے گھر تو ابھی کھانا کھایا ہی نہیں۔ ہمیں بھی اپنی مہمانی کا شرف بخشیے۔ اسطرح ابا جان کوئی پندرہ بیس دن اس گاؤں میں رہے اور جب تک سب گاؤں والوں کے ہاں دعوت نہ کھا لی ان کی جان بخشی نہیں ہوئی۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ابا جان کے ایک پیر بھائی اپنے دورے کے دوران ایک علاقے میں پہنچے تو وہاں ایک عجیب منظر دیکھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے سیرت کانفرنس کے نام سے ابا جان کے لیکچرز کا ایک سلسلہ جاری تھا۔ قبلہ نے فوراً منتظمینِ جلسہ سے رابطہ قائم کیا اور فرمائش کی کہ جلسے میں پہلے ان کی تقریر رکھی جائے ورنہ آزاد جو ابھی بچے ہیں کہیں معاملہ کو بگاڑ نہ دیں۔ جلسہ شروع ہوا تو جوق در جوق لوگ چاروں طرف سے امڈے چلے آتے تھے۔ قبلہ بہت خوش ہوئے اور اپنی تقریر کا اعلان ہونے سے پہلے ہی اسٹیج پر پہنچ گئے۔ ادھر لوگوں نے ابا جان کے بجائے کسی اور مقرر کو دیکھا تو کھسکنے لگے، مگر منتظمین نے فوراً اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ آج پہلے مہمان مقرر تقریر فرمائیں گے اور اس کے بعد حسب ِ معمول مولانا اسمٰعیل آزاد صاحب کی تقریر ہو گی۔

ان صاحب کی تقریر شروع ہوئی تو لوگ جو پچھلے کئی دنوں سے ابا جان کی علمی تقریر سننے کے لیے جمع ہو رہے تھے بڑی مشکل سے اس جذباتی قسم کی بے معنی اور بے سر و پا تقریر کو برداشت کیا اور اپنے تاثرات سے مقرر کو یہ احساس دلاتے رہے کہ ان کی تقریر۔۔۔۔جوں ہی انھوں نے اپنی ’’تقریر ‘‘ ختم کی اور ابا جان اسٹیج پر پہنچے، مجمع میں گویا زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی، انھوں نے اپنی اپنی ڈائریاں سنبھال لیں اور نوٹس لینے کے لیے تیار ہو گئے۔

قبلہ پیر بھائی کے لئے یہ ایک انوکھا موقعہ تھا جب لوگ ایک مقرر کی تقریر سننے کے لیے اپنے اپنے قلم اور نوٹ بک وغیرہ سنبھال کر بیٹھے تھے۔ابا جان نے اپنی تقریر شروع کی جس میں سیرت نبوی ﷺ کے پہلوؤں سے منطقی استد لال کیا گیا تھا۔ ایک گھنٹے کی انتہائی دلچسپ اور معلوماتی تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جو تقریباً آدھے گھنٹے تک جاری رہا، جس میں سامعین کے سوالات جس علمیت کا تقاضا کرتے، ابا جان کے جوابات بھی اسی علمیت کے حامل ہوتے۔

اگلے دن حضرت نے صبح سویرے ناشتے کے بعد اپنی رسید بک سنبھالی اور بازار کی طرف چلے۔ ایک سیٹھ صاحب سے ملاقات ہوئی تو اپنا مدعا بیان کیا کہ مجاہدوں کی تربیت و تیاری اور جہاد کے لیے چندہ درکار ہے۔ ان سیٹھ صاحب نے فرمایا کہ’’ آپ ہی کی پارٹی سے ایک مولوی اسمٰعیل آزاد پچھلے کئی دنوں سے یہاں مقیم ہے اور سیرت نبوی ﷺ پر جلسے کر رہا ہے اور اس نے اپنی سیرحاصل گفتگو سے سب کو متاثر کیا ہے، اس نے تو آج تک ایسی کوئی بات نہیں کی ‘‘ ( یعنی کوئی چندہ وغیرہ نہیں مانگا)

حضرت نے فرمایا، ’’ اسمٰعیل ابھی بچہ ہے اور اسے ابھی کام کی نوعیت سے متعلق زیادہ معلومات وغیرہ نہیں ہیں۔‘‘

سیٹھ صاحب بولے۔’’ حضرت جی! آج میری اس تجوری میں کئی ہزار روپے موجود ہیں۔ آپ آزاد کو ساتھ لے آئیے۔ وہ اگر مجھ سے سارے روپے بھی مانگ لے تو میں بلا تامل اسے دے دوں گا۔‘‘

’’ سچ؟‘‘

’’ جی بالکل‘‘

حضرت جی خوش ہو گئے۔ ابا جان کو وہاں لانا کیا مشکل تھا۔ میں ابھی جاؤں گا اور لے آؤں گا، انھوں نے سوچا اور لپکے تاکہ جلد از جلد ابا جان کو لے کر وہاں پہنچیں اور ہزاروں روپے کا چندہ وصول کر لیں۔ مسجد پہنچے تو ابا جان لیٹے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے، غالباً رات کی تقریر کی تیاری کر رہے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی انھوں نے ابا جان کو اٹھاتے ہوئے کہا۔

’’ اسمٰعیل بھائی اٹھو چلو!‘‘

’’لیکن کہاں بھائی؟‘‘

’’سیٹھ۔۔کے ہاں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم کہو تو وہ اپنی تجوری سے کئی ہزار روپے نکال کر ہمیں چندہ دے دے گا۔بس ابھی چلو تاکہ وہ ہمیں پیسے دے دے‘‘

’’لیکن میں اس کے پاس مانگنے نہیں جاؤں گا۔ اگر اس کا خیال اچھے مقصد کے لیے چندہ دینا ہے تو وہ یوں ہی آپ کو دے دیتا۔ میری اس کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

خیر صاحب ! انھوں نے لاکھ ابا جان کی منتیں کیں لیکن ابا جان نے نہ جانا تھا اور وہ نہیں گئے اور یوں حضرت کا ہزاروں روپے کا چندہ ابا جان کی ’’ہٹ دھرمی ‘‘کی نظر ہو گیا۔جب وہ دوبارہ اکیلے سیٹھ صاحب کے ہاں پہنچے تو سیٹھ صاحب نے انھیں چودہ آنے چندہ دیکر اپنی جان چھڑائی۔

شہر آکولا میں جلسے کی روداد قاضی فیاض علی صاحب اور ابا جان کے لیکچر کا واقعہ اکبر چچا کی زبانی سنیے۔

’’۱۹۴۰ء کے دور میں شہر آکولا میں بغرض تبلیغی دورے کے موقع پر سی پی کے کانگریسی لیڈر نے ان مبلغین کو دعوت دی کہ وہ دو دنوں میں اپنا موقف بیان کریں اور سامعین کے سوالات کے جواب دیں جسے انھوں نے بصد شکریہ منظور کر لیا اور طے پایا کہ پہلے دن قاضی فیاض علی ایڈووکیٹ اپنے جوشِ خطابت کے جوہر دکھائیں گے اور دوسرے دن مولانا محمد اسمٰعیل آزاد خطاب کریں گے۔ قاضی صاحب لوگوں کو متوجہ نہ کرسکے بلکہ انھوں نے جو مشکل اور گھمبیر اندازِ تقریر اختیار کیا وہ لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر گیا۔ انھوں نے اتحادِ بین المذاہب اور اسلام کو قبول کرنے کی دعوت ایک ساتھ دے ڈالی اس کے متعلق جو سوالات ہوئے وہ ان کا بھی سامنا نہ کرسکے۔ بالخصوص اتحاد کے ساتھ ساتھ اسلام قبول کرنے کی کیا تک ہے۔

شہر کے مسلمانوں کو اس پر بڑی خفت اٹھانی پڑی۔ دوسرے دن آزاد صاحب کا لیکچر تھا لیکن وہ سارا دن معمول کی تفریحی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ دوپہر کو جب وہ فٹبال کا میچ دیکھنے میں مصروف تھے، شہر کے چند بزرگ گھبرا کران کے پاس پہنچے اور لیکچر کی تیاری کرنے کی درخواست کی۔انھوں نے اطمینان دلایا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا، فکر نہ کریں اور فی الوقت بیٹھ کر مغل محمڈن کو فتح حاصل کرتا ہوا دیکھیں۔

مقررہ وقت پر مولانا محمد اسمٰعیل آزاد صاحب کا لیکچر شروع ہوا۔ انھوں نے مذہب کی تاریخ بیان کی اور بتلایا کہ مذہبی رہنماؤں نے معاشی اور اخلاقی اصول مرتب کیے، اور اخلاقی ضابطے جاری کیے۔ ہندوستانی مذہب کے رہنماؤں نے پنر جنم اور چار طبقاتی نظام پر مشتمل مذہب ایجاد کیا۔ اس کی اچھائی اور برائی سے قطع نظر، اس مذہبی بندھن نے ہندوستانی عوام کو منظم ہونے اور رہنے کا موقع دیا۔ہندوستانی تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت، زراعت اور رسم و رواج نے دنیا سے خراج تحسین وصول کیا۔دنیا والے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کا نام دیتے تھے۔

یہودیت اور عیسائیت نے عرب ممالک میں جنم لیا، ان الہامی مذاہب نے انسان کو روحانی اور مادی خوشحالی عطا کی۔ عیسائیت کو رومی شہنشاہوں نے قبول کیا اور عالم گیر مذہب بنا دیا۔

یہ تمام مذاہب مخصوص علاقوں، قبیلوں اور برادریوں کے لیے مبعوث ہوئے۔لیکن حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی کے طور پر سارے عالم اور رہتی دنیا تک کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپ ﷺ کو اللہ کا آخری کلام قرآن شریف دیا گیا۔ یہ کتاب بنی نوع انسان کے لیے سرچشمہ ہدایت قرار دی گئی۔ ختم الرسل ﷺ اور آپ پر نازل کی ہوئی کتاب کا ماننا ہر مرد و عورت پر فرض قرار دیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ نے تعلیم دی کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی اور برابر ہیں۔ گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت اسی کو حاصل ہے جو تقویٰ میں سب سے برتر ہو۔ اسلام نے دیگر مذاہب کو موجود رہنے کی ضمانت دی۔ اور مذاہب کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا۔ ایک ہزار سالہ اسلامی دور میں عربی زبان میں ہر مذہب اور تہذیب کے مفکروں کی تصانیف ترجمہ کی گئیں اور اسلامی دنیا سے تمام عالم میں ان کے ترجمے بھجوائے گئے۔ ذمیوں کو بھی شہری حقوق برابری کی بنیاد پر دیے گئے۔

ادھر نئی تہذیب نے دیگر مہذب ملکوں کو فتح کر کے نو آبادی بنا لیا، اور انھیں تہذیب سکھانا اپنا احسان بھی قرار دیا۔ نوآبادیوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا۔ ان کی تہذیب، تمدن اور ثقافت کو ناکارہ قرار دیا۔ ادھر جمہوریت کے نام پر صرف اپنے عوام کو حقوق دئیے۔ رد عمل میں کمیونزم اور سوشلزم کے نظام پیدا ہوئے۔ کمیونسٹ ریاست سویٹ یونین بھی اپنا دعویٰ پورا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ ادھر اسلام نے سود اور دوسرے کی محنت پر قبضہ کرنے کی ممانعت کی۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا عدل و انصاف کو ریاست کا پہلا فرض قرار دیا۔

یہ لیکچر دو گھنٹے جاری رہا اور اس میں بڑی محنت اور تفصیل سے اپنا موقف بیان کیا گیا۔ تقریر ختم ہوئی تو صدر محفل نے سوال کا تقاضا کرتے ہوئے ’’ کوئی سوال، کوئی سوال؟‘‘ کے الفاظ بار بار دہرائے لیکن کسی طرف سے کوئی سوال نہیں آیا، جس کے بعد صدرِ محفل نے بھائی صاحب کو مبارکباد دی کہ انھوں نے اپنا موقف بڑی محنت سے بیان کیا اور سامعین نے اس کی افادیت تسلیم کی۔

آکولا شہر کے مسلمان اس لیکچر کی کامیابی اور بھائی صاحب کی اس عزت افزائی اور پذیرائی سے بہت خوش ہوئے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

باب پنجم۔فتنہ قادیانیت اور ابا جان کی جد و جہد

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ابا جان موجودہ ہزارہ ڈویژن کی کسی تحصیل میں موجود تھے اور ایک جلسہ گاہ میں تقریر کے لیے ان کا نام پکارا جا چکا تھا اور وہ اسٹیج پر جا کر کھڑے ہوئے ہی تھے کہ اسٹیج کے سامنے ایک لحیم شحیم بزرگ کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہنے لگے۔

’’ حضرات! تقریر کی دعوت دینے سے پہلے ذرا اس سے یہ تو پوچھ لیجئے کہ یہ مرزا کو کیا سمجھتا ہے۔‘‘

اس سے پہلے کہ صدرِ محفل دخل اندازی فرماتے، ابا جان نے برملا ان صاحب کو مخاطب کر کے کہا۔

’’ قبلہ ! کون مرزا؟ میرے خاندان میں تو اس نام کا کوئی نہیں ہے۔ کیا یہ آپ کا کوئی رشتہ دار ہے؟‘‘

’’حضرات! یہ لونڈا میرے پوتے کی عمر کا ہے۔ میں نے دس سال منطق پڑھائی ہے، یہ مجھے منطق پڑھا رہا ہے۔ اس سے پوچھیے کہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کیا سمجھتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہ قادیانیوں کی ہم خیال جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں اس کی تقریر نہیں سننی ہے۔‘‘

’’جناب آپ سے درخواست ہے کہ اس سوال کا سیدھا سا جواب دے کر اپنی تقریر شروع کیجیے۔‘‘ صدرِ محفل نے معاملے کو نمٹاتے ہوئے کہا۔‘‘

’’ حضراتِ گرامی! اگرچہ اس سوال کا میری آج کی تقریر سے کوئی تعلق تو نہیں بنتا، اسلیے کہ میری آج کی تقریر سیرتِ نبویﷺ سے متعلق ہے۔ پھر بھی اگر آپ کا اصرار ہے تو میں یہ برملا، اللہ کو حاضرو ناضر جان کر کہے دیتا ہوں کہ میں مسمی محمد اسمٰعیل آزاد مرزا غلام ا حمد قادیانی کو کافر، کاذب اور دجال سمجھتا ہوں اور اس کو نبی ماننے والے کو پکا کافر گردانتا ہوں۔ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول تھے اور نہ ان کے بعد کوئی نبی آیا ہے اور نہ قیامت تک کوئی اور نبی آسکے گا۔اب حضرات میں اس مسئلے کو ایک طرف چھوڑ کر اپنی آج کی تقریر کی طرف آتا ہوں۔ میری آج کی تقریر کا عنوان ہے۔۔۔۔‘‘

لیکن اتنے میں سوال کرنے والے صاحب جو اسٹیج پر چڑھ چکے تھے اور دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے ابا جان کی طرف بڑھ رہے تھے، ابا جان کے قریب پہنچ گئے اور انھیں فرطِ محبت سے لپٹا لیا اور آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہنے لگے۔‘‘

’’معاف کیجیے گا حضرت، آپ تو میرے بھائی ہیں۔ میں آپ کو غلط فہمی میں اللہ جانے کیا سمجھتا تھا۔ ‘‘

ابا جان نے بھی ان سے معانقہ کیا اور انھیں اپنے سے لپٹائے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ ان صاحب نے ابا جان کی داڑھی کو فرطِ عقیدت سے اپنے دونوں ہاتھوں سے چھوا اور اطمینان کے ساتھ اسٹیج سے نیچے اتر گئے۔ان کی تسلی ہو چکی تھی اور اب وہ نہایت مطمئن انداز میں بیٹھے ابا جان کی تقریر سن رہے تھے۔

در اصل ابا جان کے پیر صاحب جو بزعمِ خود اپنے آپ کو مامور من اللہ سمجھتے تھے اور من جانب اللہ کشف و الہام سے نوازے جانے کا دعویٰ کرتے تھے ( و اللہ اعلم بالصواب)، مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی وغیرہ تو نہیں البتہ مامور من اللہ ضرور سمجھتے تھے اور اسی لئے ان کی اور ان کی جماعت کی جانب لوگوں کا گمان ِ غالب یہی تھا کہ وہ قادیانی ہیں۔ ادھر ابا جان بچپن اور لڑکپن ہی سے کسی اور ہی راہ پر لگ چکے تھے، پھر پیر صاحب اور دیگر مریدوں کے برعکس بے انتہاء مطالعے کی عادت نے ان کو اس علمی مرتبہ پر پہنچا دیا تھا کہ خود پیر صاحب بھی علمی محاذ اور علمی میدان میں ان کے معتقد و معترف تھے، لہٰذا ابا جان دینی اعتقادات و مسائل اور فلسفہ میں اپنا ایک منفرد انداز اور طور طریقہ رکھتے تھے جو دیگر لوگوں کے غیر علمی انداز سے بالکل مختلف تھا۔ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی ختم رسالت پر پختہ یقین رکھنے اور دیگر بدعات سے بریت کے با وصف ان خرافات سے کوسوں دور تھے۔

جلسے کے فوراً بعد ابا جان کے ایک ساتھی نے انھیں الگ لے جا کر راز دارانہ انداز میں پوچھا کہ یہ کیا آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کو واقعی کافر، کاذب اور دجال کہا ہے؟ ابا جان کے ہاں کہنے پر وہ دوبارہ پوچھنے لگے کہ کیا واقعی آپ نے شرح ِ صدر کے ساتھ یہ کہا ہے یا وقتی مصلحت کے تحت ایسا کہا ہے۔ ابا جان نے مسکراتے ہوئے انھیں بتایا کہ انھوں نے پورے شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہی ہے۔

پھر کیا تھا، ابا جان کے ان ساتھی کی بدولت یہ خبر ان کے پیر صاحب تک پہنچی

کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں۔

انھوں نے ابا جان کے حیدرآباد آنے پر ان کی سرزنش کا پرو گرام بنا لیا۔ جب ابا جان اپنا دورہ مکمل کر کے حیدرآباد واپس پہنچے تو حسب توقع ان سے پیر صاحب نے وہی سوال کیا جو جلسے کے بعد ان کے ساتھی نے کیا تھا۔ ابا جان کا جواب اب بھی وہی تھا کہ انھوں نے شرح صدر کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر، کاذب اور دجال کہا تھا۔

صورتحال کافی سنگین تھی لہٰذا اس مسئلے پر غور کے لیے کئی بزرگ اصحاب پر مشتمل ایک کمٹی( کمیٹی) بنا دی گئی۔ اس کمٹی نے پہلے تو آپس میں اس مسئلے پر غور و خوض کیا لیکن جب کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تو اس نے ایک مناظرہ کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس مناظرے میں ایک طرف تو پیر صاحب اور ان کے بزرگ اصحاب وغیرہ شامل تھے تو دوسری جانب ابا جان اور ان کے چند سرپھرے دوست شامل تھے۔

مناظرہ شروع ہوا تو کئی روز تک چلا۔ ہر روز نمازِ عشاء کے بعد مناظرہ شروع ہوتا اور رات گئے تک جاری رہتا۔ ابا جان کی علمیت اور دینیت کا معاملہ تھا، وہ کیسے ہار جاتے۔ آج انھوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر بھی یہ بازی جیت لی تو یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہو گا۔انھوں نے اپنے یقین اور ایمان کے سہارے اپنی علمیت کو ٹٹولا اور وہ تمام دلائل و براہین نکال لائے جن کی انھیں اس وقت جتنی شدید ضرورت تھی شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ ہزارہ میں تو یقین کے ساتھ اقرار کے دو جملے کافی تھے لیکن یہاں ان ڈھلمل یقین لوگوں میں ابا جان کو ٹھوس ثبوت و شواہد اور بین نشانیاں چاہئیے تھیں جو اللہ رب العزت نے ان کے ذہنِ رسا کو اس وقت عطا کیں۔ انھوں نے اللہ کی مدد کے سہارے اپنی بحث شروع کی اور کئی دن تک جاری رہنے کے بعد ایک عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے دلائل کو سمیٹا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا تھا۔ حق آ چکا تھا اور باطل مٹ چکا تھا اور بے شک باطل مٹنے ہی کے لیے تھا۔ پیر صاحب بمع حاضرین محفل، اس بات کے قائل ہو گئے کہ غلام احمد قادیانی کذاب کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔نہ وہ نعوذ باللہ نبی ہے اور نہ ہی وہ نعوذ باللہ مامور من اللہ ہے۔ وہ کافر کاذب اور دجال ہے۔ طے پایا کہ اگلے روز نمازِ فجر کے بعد پیر صاحب اس بات کا باقاعدہ اعلان فرمائیں گے۔

اگلے دن صبح فجر کی نماز ادا کی گئی اور اس کے بعد ابا جان اور ان کے باغی گروپ کی توقعات کے عین خلاف پیر صاحب نے اعلان کیا کہ رات انھیں خواب میں کشف ہوا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر کہنا درست نہیں، لہٰذا وہ اپنے رات کے فیصلے سے رجوع کرتے ہیں۔

اس کے جواب میں ابا جان نے بھی نہایت سخت موقف اختیار کیا اور صاف صاف لفظوں میں پیر صاحب پر واضح کر دیا کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کافر ہے۔ پیر صاحب کا کشف ان کے ساتھ، اگر ابا جان پر اس قسم کا کشف ہوتا ہے تو وہ بھی اس سلسلے میں غور کریں گے، تب تک وہ مرزا کو کافر کہتے، سمجھتے اور لکھتے رہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب ششم۔او غافل افغان

 

 

موجودہ پاکستان اور افغانستان کے قبائلی علاقے یاغستان، باجوڑ، ڈبر اور خار وغیرہ ابا جان کے لیے ایک دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں پر ابا جان نے ۱۹۴۰ء سے جانا شروع کیا اور ۱۹۵۵ء تک جاتے رہے۔ ۱۹۵۰ء میں ہندوستان سے پاکستان پہنچے اور پشاور میں قیام کیا تو یہاں سے بھی علاقہ غیر کے کئی چکر لگائے۔یاغستان، ڈبر اور خار میں تو یہ وہاں کے سرداروں، نوابوں اور خانوں کے خاص مہمان بن کر رہتے تھے۔

گو ہندوستان پر مسلمانوں کاسب سے پہلا حملہ اور آمد تو محمد بن قاسم نے سندھ کی طرف سے کیا تھا لیکن اس کے بعد کے تمام حملوں میں مسلمان حملہ آور بادشاہوں یا اسلام کی تبلیغ کے لیے آنے والے صوفیوں اور دیگر بزرگانِ دین کا واحدراستہ افغانستان ہی رہا، لہٰذا مغلوں کی شکست اور انگریزوں کی آمد کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد امید افغانستان کی طرف سے آنے والے مسلمانوں سے بندھی رہی تاکہ وہ آ کر انھیں ان انگریزوں اور ہندوؤں سے نجات دلا سکیں۔ ابا جان کے پیر صاحب نے بھی کچھ پیشن گوئیاں کر رکھی تھیں اور ان پیشن گوئیوں کے مطابق اس بار بھی ہندوستان کو فتح کرنے والا لشکر افغانستان کی جانب ہی سے آنے والا تھا، جسکی کمانڈ پیر صاحب ہی کرنے والے تھے، اور نتیجتاً تمام ہندوستان مسلمان ہونے والا تھا۔مسلمانوں اور خاص طور پر اسلامی مجاہدوں کو ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں سے دستیاب ہونے والاسارا سونا اور دیگر قیمتی نوادرات مالِ غنیمت میں ملنے والے تھے، لہٰذا ان کے تمام مریدوں کی خاص توجہ کا مرکز یہ سرحدی علاقہ ہی تھا جہاں سے مجاہدوں کی آمد متوقع تھی۔ وہ اس علاقے میں پہنچ کر لوگوں کو خوابِ غفلت سے جگانا اور جہاد کے لیے تیار کرنا اپنا فرضِ عین تصور کرتے تھے۔اکثر و بیشتر ان مبلغین کی جماعت حیدرآباد سے ان علاقوں میں پہنچی ہوئی ہوتی تھی اور ان سوئے ہوئے افغانوں کو جگانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی تھی۔

ابا جان باسم سے پیر صاحب کے پاس حیدرآباد پہنچے اور وہاں رہائش اختیار کی تو ان کے والدین اس وقت باسم ہی میں تھے لہٰذا ابا جان کے لیے حیدرآباد میں قیام یا ہندوستان کے کسی اور علاقے میں قیام ایک ہی بات تھی۔انھیں سرحد کچھ اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اس علاقے کے بہتیرے چکر لگائے اور ہر مرتبہ کئی کئی ماہ وہاں قیام کیا۔ وہاں قیام کے دوران انھوں نے نہ صرف پشتو سیکھی اور اس میں بول چال میں مہارت حاصل کی بلکہ ان کا رہن سہن اور کپڑے پہننے کا انداز بھی اپنا لیا اور دیگر یہ کہ ان علاقوں کے علماء کے ساتھ بیٹھ کر ان کی شاگردی اختیار کی اور نہ صرف دینی مسائل اور علومِ دینیہ میں مہارت حاصل کی بلکہ اسی اثناء میں ان استادوں سے بہترین عربی اور فارسی بھی سیکھ لی۔

علاقائی زبان سیکھنے اور وہاں کی بول چال، رہن سہن اور طور طریقے اختیار کرنے اور پٹھانوں کی نفسیات کا قریب سے مطالعہ کرنے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں پر ابا جان نے بہت سے دوست بنا لیے اور ان میں گھل مل گئے۔ابا جان کے ان قابلِ قدر دوستوں میں مولوی امیر الدین صاحب، میرا جان سیال صاحب، ڈبر کے نواب صاحب اور خار کے نواب صاحب خاص طور پر شامل ہیں۔

بھابی ( زوجہ امین بھائی مرحوم ) فرماتی ہیں کہ ایک دن ابا جان نے انھیں اس علاقے میں اپنے ساتھ گزرا ہوا ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا۔ کہنے لگے۔

’’ بہو بیگم! اس علاقے میں ایک مرتبہ میرے ساتھ ایک بہت عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میں اپنے بنائے ہوے ان نئے پٹھان دوستوں میں سے ایک کے ساتھ بیٹھا تھا ا ور اس علاقے کے پہاڑوں اور اس میں سے نکلنے والے قیمتی پتھروں عقیق یاقوت اور لاجورد وغیرہ کے متعلق بات چیت ہو رہی تھی۔ یہ شخص جو کچھ مخبوط الحواس سا دکھائی دیتا تھا، گاؤں والوں میں لیونئی ( یعنی دیوانہ) کے نام سے مشہور تھا۔ ا س شخص نے دورانِ گفتگو ایک موقعے پر اپنا ذہن بناتے ہوئے کچھ سوچا اور پھر اچانک مجھے مخاطب کیا اور کہنے لگا کہ وہ مجھے ایک نرالی شے دکھانا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اپنے گھر کی جانب چل دیا، کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر سے واپس پہنچا تو اس کے ہاتھوں میں ایک گٹھری تھی جسے اس نے میرے سامنے بہت احتیاط سے کھولا تو اس میں قیمتی یاقوت کے کئی بڑے بڑے ٹکڑے موجود تھے۔ اب اس نے ان ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنا شروع کیا۔ جب وہ انھیں جوڑ چکا تو اس نے یہ شاہکار میرے سامنے کر دیا۔ میں اس پتھر کو دیکھ کر حیران رہ گیا جو دراصل ایک نوزائیدہ بچے کی لاش تھی جو ہزاروں سال پتھروں میں دبے رہنے کی وجہ سے خود بھی نادر الوجود قیمتی یاقوت میں تبدیل ہو گئی تھی۔‘‘

ابا جان نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس لاش کے ٹکڑے دراصل مکمل انسانی اعضاء تھے جس طرح سائنسی ماڈل میں ہوتے ہیں اور اس بچے کے جسم میں اسی طرح فٹ ہو رہے تھے۔جب ابا جان اچھی طرح اس لاش کو دیکھ چکے تو اس مخبوط الحواس شخص نے اطمینان کے ساتھ اپنی گٹھری کو سمیٹا اور گویا سلسلہ گفتگو ختم کرتے ہوئے وہاں سے اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ یہ ایک ایسا نظارہ تھا جسے دیکھ کر ابا جان حیران رہ گئے اور کچھ لمحوں کے لیے حواس باختہ ہو کر اس شخص کو جاتے ہوئے دیکھا کیے جو ان کی حیرت سے بے نیاز وہاں سے جا چکا تھا۔

یہ علاقے ان دنوں سرحدی گاندھی جناب عبدالغفار خان صاحب کے زیر اثر انڈین نیشنل کانگریس کا گڑھ سمجھے جاتے تھے اور وہاں پر آل انڈیا مسلم لیگ کی دال گلنی مشکل تھی۔وہاں پر ہر طرف پختونستان کا بول بالا تھا۔ ادھر ابا جان اپنے خیالات کے اعتبار سے پکے مسلم لیگی تھے اور جہاں اسلام کی تبلیغ اپنی زندگی کا نصب العین بنائے ہوئے تھے وہیں تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس سلسلے میں سرحد کے جس علاقے میں بھی جاتے، تحریکِ پاکستان کے لیے اپنے طور پر کام کرنے سے نہ چوکتے۔ گو انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار تو نہیں کی، لیکن قائدِ اعظم کے ایک ادنیٰ کارکن کے طور پر کام کرنے کو ہمیشہ باعثِ افتخار سمجھا۔

چونکہ ان علاقوں میں ابا جان کے اسلامی تشخص اور علمی و دینی لحاظ سے ان کے اعلیٰ مرتبے کی وجہ سے ان کی بڑی عزت کی جاتی اور کہیں بھی جانے پر پابندی یا روک ٹوک نہیں تھی، بلکہ ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور علاقے کے نوابوں کے مہمان خانے میں قیام ہوتا، لہٰذا تبلیغ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے کام کرنا بھی ان کے لیے نسبتاً آسان ہوتا۔مہمان خانے میں ان کے علاوہ اور بھی مہمان ٹھہرتے تھے جن سے ابا جان کی ملاقات رہتی اور ابا جان چپکے چپکے ان لوگوں تک مسلم لیگ کا پیغام پہنچاتے رہتے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے، ابا جان اپنے اسی قسم کے ایک دورے میں پچھلے کئی ماہ سے ریاست خار کے نواب صاحب کے مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اپنا تبلیغی مشن جاری رکھے ہوئے تھے کہ ایک دن انھیں مہمان خانے میں کچھ خاص قسم کی ہلچل کا اندازہ ہوا۔ یکبارگی بہت سارے مہمانانِ گرامی تشریف لے آئے۔ پتہ چلا کہ علاقے میں انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر جرگہ بلایا گیا ہے۔ابا جان خاموشی کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھتے رہے اور اس دوران میں انھوں نے سب سے معمر مہمان کو تاڑ لیا۔رات آئی تو ابا جان نے انھی بزرگ مہمان کے بستر کے ساتھ ڈیرہ جما لیا اور ان حضرت کے ساتھ علیک سلیک کے بعد باتیں شروع کیں۔

ابا جان ساری رات ان بزرگ کے ساتھ کھسر پسر کرتے رہے اور اس دوران میں انھوں نے ان بزرگوار پر واضح کر دیا کہ انڈین نیشنل کانگریس کتنی ہی اچھی جماعت سہی مگر اس کے کرتا دھرتا گاندھی جی ہیں اور گاندھی جی ایک متعصب قسم کے ہندو ہیں جب کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سب سے بڑے اور مرکزی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جو کتنے ہی برے سہی مگر ایک مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ایک ہندو سے لاکھ درجے بہتر ہوتا ہے، لہٰذا تمام ہندوستان کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک ہندو کو ایک مسلمان پر ترجیح نہ دیں بلکہ ایک ہندو کے مقابلے میں ایک مسلمان کا ساتھ دیں۔ بات سمجھ میں آنے والی تھی لہٰذا انھوں نے اسے تسلیم کیا۔ ادھر انھیں پکا کرنے کے بعد ہی ابا جان سوئے، لیکن سکون کی نیند کہاں۔ انھیں تو اس تمام کارروائی اور نفسیاتی طور پر ان بزرگ کی برین واشنگ کے باوجود ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ جانے کل کیا ہو۔ پاکستان مسلم لیگ اور خود پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا ایسے میں انھیں سکون کی نیند بھلا کیسے آتی۔ وہ رات انھوں نے خدا خدا کر کے آنکھوں میں کاٹ دی۔ صبح ہوئی اور فجر کی نماز کے بعد جرگہ کی کارروائی شروع ہوئی تو ابا جان بھی دور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے۔ بھس میں چنگاری تو وہ لگا ہی چکے تھے، اب انھیں نتیجے کا انتظار تھا۔ تقریریں شروع ہوئیں تو یکے بعد دیگرے کئی سرداروں اور سربرآوردہ اشخاص نے اپنی تقریروں میں کھل کر انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت میں بیان دئیے۔

آخر میں ان بزرگ کی باری آئی۔ بڑی مشکل سے وہ کھڑے ہوئے اور ایک نہایت دھیمی آواز اور پر اثر انداز میں یوں گویا ہوئے۔

’’ گاندھی مسلمان ہے یا ہندو ہے؟‘‘ لوگوں نے جواباً کہا کہ وہ ہندو ہے۔ آپ پھر یوں گویا ہوئے۔

’’ محمد علی جناح مسلمان ہے یا ہندو ہے؟‘‘ لوگوں نے جو ان کے اس اندازِ تخاطب سے بہت کچھ سمجھ چکے تھے، مجبوراً جوب دیا کہ وہ ایک مسلمان ہیں۔

’’ تو پھر ایک مسلمان ایک ہندو سے لاکھ درجے بہتر ہے اور ہم ایک مسلمان کے مقابلے میں ایک ہندو کی کبھی بھی حمایت نہیں کر سکتے۔‘‘

اس مختصر تقریر کے بعد وہ بیٹھ گئے۔دیگر لوگوں کی کئی گھنٹوں پر مشتمل تقریروں کا اثر منٹوں میں زائل ہو چکا تھا۔ اس معمر ترین بزرگ کی مخالفت کرنے کی ہمت کسی میں نہ تھی۔گو محفل پر سناٹا چھایا ہوا تھا لیکن لوگوں کے دلوں میں ایک طوفان برپا تھا۔ابا جان کی اس چھوٹی سی شرارت نے انتہائی سوچ بچار کے بعد بلائے ہوئے اس جرگے کا ستیاناس کر دیا تھا۔

ادھر نواب صاحب خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے۔ کس شخص میں اتنی جرات اور اتنی سمجھ تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر ان بزرگ کے ذہن میں یہ باتیں ڈال سکتا تھا۔ انھوں نے ابا جان کو بلایا اور مختصر انداز میں اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یوں کیا۔

’’ مولوی صاحب آپ نے یہ اچھا نہیں کیا‘‘۔

بعد میں کھانے پر نواب صاحب نے ابا جان کو مدعو نہیں کیا اور اس طرح گویا اپنی انتہائی ناراضگی کا بھی بر ملا اظہار بھی کر دیا۔ ایک مہمان کی اس سے زیادہ بے عزتی ممکن نہیں ہوتی کہ میزبان اسے اپنے دستر خوان پر نہ بلائے۔ ابا جان نے اپنا بوریا بستر سنبھالا اور بغیر میزبان سے ملاقات کیے وہاں سے نکل آئے، کبھی نہ واپس لوٹنے کے لیے۔ اس واقعے کے بعد ابا جان نے زندگی بھر خار کے نواب صاحب سے ملاقات نہیں کی۔

مولوی امیر الدین صاحب بھی ابا جان کے روحانی استادوں میں سے تھے جن سے ابا جان نے اکتسابِ علم کیا۔ مولوی صاحب ان تبلیغیوں کی جد و جہد میں بھی ان کے ہم خیال تھے اور وقتاً فوقتاً انھیں اپنے مفید و قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ ادھر صورتحال یہ نظر آ رہی تھی کہ ایک طرف تو انگریز بہادر سے چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل نظر آ رہا تھا اور دوسری طرف ہندو جو مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت کا ڈسا ہوا تھا اور اب پورے ہندوستان پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتا تھا۔

پٹھان بھی اپنے طور پر کچھ تیاریوں میں مصروف تھے اور انھوں نے امیر الدین صاحب کے مشورے سے علاقے کے عمائدین اور سرداروں کا ایک وفد ترتیب دیا جو ہندوستان بھر میں دورے کر کے جہاد کے لئے روپے پیسے اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ ابا جان چونکہ پشتو بھی بہت اچھی طرح بول اور سمجھ سکتے تھے لہٰذا ریاست حیدرآباد کے سفر میں ترجمان کا کام ان کے سپرد کیا گیا۔

وفد ہندوستان کی ریاست حیدرآباد پہنچا اور اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان صاحب سے ملاقات کی ٹھہری۔ ملاقات کے لیے پہلے سے وقت لیا گیا اور اس طرح ریاست حیدرآباد کے آخری فرمانروا میر عثمان علی خان نے شمال مغربی سرحدی صوبہ سے آئے ہوئے اس وفد کو شرفِ باریابی بخشا۔ وفد کو نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خانصاحب کے ڈرائینگ روم میں بٹھایا گیا اور انھوں نے ادب سے بیٹھ کر اعلیٰ حضرت کا انتظار شروع کیا۔ڈرائینگ روم پرانے دور کے فرنیچر سے بھرا ہوا تھا جو آصف جاہی جاہ حشمت اور عظمت کے منہ بولتے ثبوت کے طور پر آج بھی موجود تھا لیکن اس وقت اس فرنیچر پر منوں ٹنوں دھول مٹی جمع تھے اور یہ حال سرحد سے آئے ہوئے وفد نے بھی دیکھا اور ناک بھوں چڑھائی۔

اعلیٰ حضرت ڈرائینگ روم میں جلوہ افروز ہوئے تو اس حال میں کہ انتہائی سادہ لباس زیبَ تن کیا ہوا تھا۔ ویسے بھی اعلیٰ حضرت کی کنجوسی مشہور تھی اور ان کی یہ شہرت وفد کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی۔ جب سب حاضرین محفل اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تو باقاعدہ بات چیت شروع کرنے سے پہلے وفد کے سربراہ نے پشتو میں ابا جان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حالات کے پیشِ نظر انھیں تو یہ لگتا ہے کہ اس ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ یہ بڈھا انھیں کوئی دیالو قسم کا نہیں لگتا۔

اعلیٰ حضرت جنھیں پشتو نہیں آتی تھی انھوں نے دلچسپی لیتے ہوئے وفد کے سربراہ کی طرف دیکھا تاکہ معلوم کریں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ادھر ابا جان نے فوراً بات بنائی اور سردار کی طرف سے اچھی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

اعلیٰ حضرت نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔سربراہ نے اب اپنی تقریر شروع کی اور موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاد کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں اپنے محدود وسائل کا حال بیان کیا اور اعلیٰ حضرت سے مالی امداد کی درخواست کی۔ ابا جان نے فوراً کسی ماہر ترجمان کی طرح اس پشتو تقریر کا اردو ترجمہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پیش کر دیا۔

اعلیٰ حضرت نے جواب میں کہا کہ اگرچہ موجودہ حالات میں خود ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں تاہم اس وہ اس درخواست کو رد بھی نہیں کرسکتے اس لیے کہ ان کے یہ مہمان بڑی دور سے چل کر ان کے پاس پہنچے ہیں، لہٰذا سردست وہ انھیں صرف ایک لاکھ روپے ہی دے سکتے ہیں۔قارئین کرام کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ یہ آج سے کوئی لگ بھگ ستر سال پہلے کا واقعہ ہے جس وقت ایک لاکھ روپے خاصی اہمیت رکھتے تھے۔

یہ سننا تھا کہ وفد کے سربراہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انھوں نے فرطِ جذبات میں اعلیٰ حضرت کے ہاتھ چوم لیے اور معافی کے طلبگار ہوئے کہ ملاقات کے شروع میں انھوں نے کچھ گستاخانہ کلمات کہے۔ابا جان نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت کا شکریہ ادا کیا اور ان کی بہتر صحت کے دعا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اعلیٰ حضرت نے ان حضرات کی تشریف آوری کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا اور اس طرح سے یہ ملاقات اپنے انجام کو پہنچی۔

ادھر پٹھان گروپ تو میر عثمان علی خان سے خوش و خرم واپس روانہ ہوا ادھر ابا جان اور ان کے گروہ نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ ان کی جماعت کا اصل مقصدہندوستان کے تمام ہندوؤں کو مسلمان کرنا تھا اور اس کے دو طریقے نظر آتے تھے۔ ایک تو تبلیغ کے اس کام کے ذریعے سے جو ابا جان اور ان کے ساتھیوں نے ایک عرصے سے جاری رکھا ہوا تھا اور دوسرا جہاد کا راستہ تھا۔ قومی اور بین الاقوامی حالات کو دیکھ کر یہی اندازہ ہو رہا تھا کہ جہاد کا وقت قریب سے قریب تر آتا چلا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ایک طرف تو مسلمانوں یعنی بر صغیر کے مسلمانوں کو عمومی طور پر اور افغانوں کو خاص طور پر خوابِ غفلت سے جگانا، انھیں جذبہ جہاد سے سرشار کرنا اور ایک لشکرِ عظیم تیار کرنا تھا جو ایک طرف تو انگریزوں کا مقابلہ کرسکے اور دوسری طرف ہندوؤں کو مات دے کر پورے ہندوستان میں غلبہ اسلام کی راہ ہموار کرسکے۔اس کے علاوہ اس عظیم لشکر کی تیاری اور اس کے لیے اسلحہ کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جو اس وقت ان مجاہدوں کو درپیش تھا۔ ابا جان نے مولوی امیر الدین صاحب کے ساتھ مل کراس سرحدی علاقے میں اسلحے کا ایک کارخانہ لگانے کا پلان بنایا۔مولوی امیر الدین کے ذہنِ رسا کا بنایا ہوا یہ پلان بہت خوب تھا لیکن اس میں ایک معمولی سا سقم تھا۔ اس بڑے پیمانے پر اسلحہ کے کارخانے کے لیے ایک اچھی خاصی رقم درکار تھی اور رقم اس وقت ان کے پاس نہیں تھی۔

ابا جان کے ذہنِ رسا نے بھی اس وقت اپنا کام دکھایا اور وہ بہت دور کی کوڑی لائے۔ پیر صاحب اور ابا جان کی جماعت کے دیگر ساتھی ایک عرصے سے جہاد کی تیاری کے لیے چندہ مانگ رہے تھے اور اب تک پیر صاحب کے پاس ایک اچھی خاصی رقم جمع ہو چکی ہو گی۔ انھوں نے فنڈز کی فراہمی کا کام اپنے ذمے لے لیا اور اسی وقت بیٹھ کر پیر صاحب کو ایک لمبا چوڑا خط لکھا اور اس میں اسلحہ کی فراہمی کی شدید ضرورت کے پیش نظر قبائلی علاقے میں اسلحہ کی فیکٹری کے قیام پر زور دیتے ہوئے اس کے لیے رقم کی ضرورت کا تذکرہ کیا اور پیر صاحب پر زور دیا کہ اس مد میں جمع کیے ہوئے روپے کسی ساتھی کے ہمراہ وہاں بھجوا دیے جائیں تاکہ اس عظیم کام کی ابتداء کی جا سکے۔

یہ خط لکھ کر ابا جان نے اپنے ایک تحریکی ساتھی کو چنا اور ان کی معرفت پیر صاحب تک وہ انتہائی اہم خط بھجوا دیا اور خود اس عرصے میں انتظار اور دیگر کاموں کی تیاری میں لگ گئے۔ ان کی خیال میں پیر صاحب جو خود اپنی کی ہوئی پیشن گوئیوں کے مطابق تمام ہندوستان کے مسلمان ہونے اور اپنے ہاتھوں فتح ہونے کے ایک عرصے سے انتظار میں تھے یہ سنہری موقع دیکھتے ہی خوشی سے جھوم اٹھیں گے اور فورا ً ہی فنڈز بھجوا کر اسلحہ کے اس کارخانے کی پہلی کھیپ کا انتظار کریں گے۔

پیر صاحب کا جواب آنے میں کافی تاخیر ہوئی تو ابا جان کا ماتھا ٹھنکا لیکن پھر بھی انھوں نے حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے اسے معمول کی انتظامی تاخیر سمجھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔آخر کار کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے اور کوئی ڈھائی تین ماہ بعد ابا جان کے ایک ساتھی پیر صاحب کا جواب لے کر حیدرآباد سے واپس پہنچ گئے۔

ابا جان نے فوراً ان صاحب سے حال احوال پوچھا تو انھوں نے پیر صاحب کی تازہ چھپی ہوئی کتاب ’’ امام الجہاد‘‘ کی کئی کاپیاں ابا جان کی خدمت میں پیش کیں اور ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے کہ جہاد کے لئے جمع کیے ہوئے پیسوں سے پیر صاحب کی اسی مقصد سے لکھی ہوئی کتاب کی اشاعت ممکن ہوپائی ہے لہٰذا انھوں نے سردست اس معرکۃ الآراء کتاب کی چند کاپیاں اور چھ سو روپے بھجوائے ہیں اور ہدایت کی ہے کہ اس کتاب کی مدد سے مقامی لوگوں کو خوابِ غفلت سے جگا کر ان سے چندہ وصول کیا جائے تاکہ وہ اس مد میں استعمال ہوسکے۔

ابا جان کے تو سر سے لگی ہے اور تلوؤں سے بجھی۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا۔ انھوں نے انتہائی غصے کی حالت میں وہ چھ سو روپے اٹھا کر پھینک دئیے جو ان کے ساتھی نے موقع غنیمت جان کر فوراً اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیے۔پھر ابا جان نے اسی وقت پیر صاحب کو ایک خط لکھا اور ان کو ’’ کاغذی امام الجہاد ‘‘ قرار دیتے ہوئے انھیں آگاہ کیا کہ تیر و تلوار سے جہاد ان کے بس کی بات نہیں ہے اور ان سے استدعا کی کہ وہ جہاد وغیرہ کا خیال دل سے بالکل نکال دیں۔آخر میں دعا کی کہ اللہ ان کے اور ابا جان کے حال پر رحم فرمائے۔

کہتے ہیں کہ جب یہ خط ان کے پیر صاحب کو ملا تو انھوں نے یہ خاص طور پر اپنے مریدوں کو پڑھوایا کہ دیکھئے ایسے بھی مرید ہوتے ہیں جو اپنے پیر کو کاغذی امام الجہاد لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔انھوں نے یہ خط انتہائی احتیاط سے اپنی دراز میں سنبھال کر رکھ لیا تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

بہرحال قادیانیت کے مسئلے کے بعد اس واقعے سے ایک طرف تو ابا جان پر اپنے پیر کی مزید کرامات ظاہر ہوئیں اور دوسری طرف پیر صاحب کے تئیں خود ان کے اس خیال کو بھی مزید تقویت ملی کہ ابا جان چونکہ گاؤں کے رہنے والے ایک لٹھ مار قسم کے انسان ہیں لہذا ان کا سدھرنا ناممکن ہے۔

بہر حال اس طرح ابا جان کا اسلحے کی تیاری اور اسمگلنگ کا خواب ادھورا ہی رہ گیا اور وہ وہاں سے بے نیل و مرام واپس لوٹے، مزید یہ کہ اس کے بعد نہ تو قبائل سے کوئی لشکرِ جرار دشمن کی سر کوبی کے لیے ہندوستان کی جانب روانہ ہوسکا اور نہ پیر صاحب کی پیشن گوئی کے مطابق پوراہندوستان ہی مسلمان ہوسکا۔ابا جان جو اس سے پہلے کئی خزانوں اور دولت کے انبار کو ٹھکرا چکے تھے انھوں نے کبھی ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں میں چھپے خزانوں کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا، ہاں البتہ باقی مریدوں کے لیے اس خزانے کا نہ ملنا ایک بہت بڑا نقصان تھا۔

ابا جان سمجھتے تھے کہ ان علاقوں میں ابھی ان کا کام مکمل نہیں ہوا ہے، وہ علامہ اقبال کے بقول ’’ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ پر یقین رکھتے تھے اور ان لوگوں سے ابھی مایوس نہیں ہوئے تھے۔ وہ مزید کچھ عرصہ اس علاقے میں رہے اور اپنا کام کرتے رہے۔ ان کا دودھاری مشن اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ اس علاقے کے مزید دورے کریں اور آنے والے دنوں نے ثابت کیا کہ نہ صرف دینی لحاظ سے بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی انھوں نے اس علاقے میں کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔

۱۹۵۰ء میں پاکستان آنے کے بعد بھی ابا جان نے اس علاقے کے کئی چکر لگائے جن کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔پاکستان بننے سے پہلے آخری دورہ انھوں نے ۱۹۴۷ء میں کیا اور جون میں میرا جان سیال صاحب کے گھر میں انھوں نے ۳ جون کا تاریخی اعلان سنا اور وہاں سے بوریا بستر سمیٹ کر حیدرآباد روانہ ہوئے تاکہ اس نئی صورتحال کے مقابلے کے لیے خود کو تیار کرسکیں۔

٭٭٭

 

 

 

باب ہفتم۔بجھا جو روزنِ زنداں

 

موجودہ پاکستان اور افغانستان کے قبائلی علاقے یاغستان، باجوڑ، ڈبر اور خار وغیرہ ابا جان کے لیے ایک دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں وہ تبلیغ کے لیے ہر چند ماہ بعد پہنچے ہوے ہوتے تھے اور جم کر کئی ماہ قیام کے بعد واپس حیدر آباد پہنچتے اور پیر صاحب کے پاس حاضری دیتے۔ جون ۷۴۹۱ء میں وہ ایسے ہی ایک دورے پر اس علاقے میں موجود تھے اور میرا جان سیال کے ہاں قیام تھا۔ سیال صاحب خود تو پختونستان کے حامی تھے لیکن ابا جان سے دوستی اور ان کی بے پناہ عزت کرنے کے ناتے، ابا جان کے مسلم لیگی خیالات کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ علاقے میں ایک ہی ریڈیو تھا جو سیال صاحب کے گھر پر ایک اونچی جگہ پر موجود ہوتا تھا۔ایک گھنٹہ کی نشریات سننے کے لیے کم از کم دو گھنٹے ڈاینامو کا پہیہ چلا کر بیٹری کو چارج کرنا پڑتا۔ اہم نشریات کے پیشِ نظر سیال صاحب نے ابا جان کو خاص اجازت مرحمت فرمائی تھی کہ وہ علاقے کے لڑکوں کو پکڑ کر ان سے بلا جھجک ڈائنامو کا پہیہ چلوائیں اور وقت پر خبریں سنیں۔ آخر کار ۳ جون ۷۴۹۱ء کا تاریخ ساز دن بھی آیا جس دن قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنی پہلی اور آخری تقریر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔پہلے متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی آخری نشری تقریر میں ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا، پھر کانگریس کی طرف سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے تقریر کی اور سب سے آخر میں مسلم لیگ کی جانب سے مسلم لیگ کے صدر، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں پاکستان کے قیام کا اعلان کیا اور پاکستان زندہ باد کے ایک نعرہ مستانہ پر اپنی تقریر ختم کی۔

ابا جان نے شوق اور عقیدت کے ساتھ قائد اعظم کی تقریر سنی اور اور فوراً ہی واپسی کا قصد کر لیا اور سیال صاحب کے لاکھ روکنے پر بھی مزید رکنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو چکا تھا، حیدر آباد ریاست کی تقدیر ہندوستان اور انگلستان کے لیڈروں کے رحم و کرم پر تھی اور اب عمل کا وقت آ گیا تھا۔ پاکستان جس کے لیے ابا جان نے ان پٹھان علاقوں میں اپنے زورِ بیان سے جادو جگایا تھا، اب اللہ کے فضل و کرم سے ایک حقیقت بننے جا رہا تھا۔ اب ابا جان کے لیے حیدرآباد میدانِ عمل بن چکا تھا اور میدانِ عمل سے زیادہ دور رہنا اب ان کے لیے ناممکن تھا۔

وہاں سے واپسی پر ابا جان نے حالات کے پیشِ نظر دو عدد رائفلیں بھی خریدیں اور انھیں لے کر کشاں کشاں حیدرآباد پہنچے اور وہاں پر پہنچ کر باقاعدہ جہاد کی تیاری شروع کی۔ سب سے پہلا مرحلہ ساتھیوں کی ٹریننگ کا تھا جسے بلا تاخیر شروع کروایا گیا۔اب تک تو ساتھی پرانے ہتھیاروں یعنی تلواروں پر ٹریننگ پاتے تھے اور اب اس نسبتاً نئے ہتھیار ’رائفل ‘ کی ٹریننگ بھی شروع کرنی پڑی تاکہ وقت پڑنے پر وہ اس کے استعمال کے لیے بھی تیار ہوں۔

ہتھیاروں کی لوکل سپلائی کے لیے ایک مقامی لوہار کی خدمات حاصل کی گئیں اور اسے سرحد سے درآمد شدہ رائفل دکھا کر اسی نوع کی رائفل تیار کرنے کا کہا گیا۔ اس چیلنج کو اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ قبول کیا۔اس نے پہلی رائفل بنائی اور اسے ٹسٹ کرنے کی خاطر پہلا فائر کیا تو اس کی نالی پھٹ کر خود اسے بری طرح زخمی کر گئی۔

غرض جہاد کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں کہ انھی دنوں خبر ملی کہ حیدرآباد کے سرحدی علاقوں میں ایک ہندو غنڈے نانا پٹیل عرف پتری سرکار نے اندرونِ ریاستِ حیدر آباد دکن میں کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ مسلمان اس کی آئے دن کی لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے عاجز تھے۔ ابا جان اور ان کے جانثاروں کے گروہ نے طے کیا کہ اس علاقے میں جا کر قسمت آزمائی کی جائے۔ شاید قسمت ساتھ دے اور اس غنڈے کے ساتھ زور آزمائی اور ہاتھا پائی کی نوبت آ ہی جائے۔

ان سب نے اپنی تلواریں تیز کیں، اپنی رائفلوں کی نالیوں کو صاف کر کے ان میں تیل وغیرہ ڈالا، کارتوس سنبھالے اور ابا جان کی سربراہی میں رات کی تاریکی میں منزلیں مارتے ہوئے روانہ ہوئے۔اس علاقے میں ان دنوں جاوید جبار صاحب کے والد عبدالجبار صاحب حیدرآباد کے ضلع بیڑ کے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز تھے جو حیدرآباد کی سرحد پر ہندوستان کے ساتھ واقع تھا، اور ہندوؤں کے ان غنڈہ گردی کے واقعات سے حقیقتاً پریشان تھے۔ ابا جان کا گروہ جب جا کر ان سے ملا اور اس غنڈے نانا پٹیل کی سرکوبی کے لیے اپنی خفیہ خدمات پیش کیں تو ان کی باچھیں کھل گئیں۔ان سب کو اپنے گھر میں بٹھایا، ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر ان سے تفصیلی گفتگو کی اور ایک باقاعدہ پلان بنا کر اگلی رات انھیں گھر سے رخصت کیا۔ رات میں پہاڑی راستے کا سفر اور اس پر طرہ یہ کہ لوگوں اور بستیوں سے بچ کر چلنا، کوئی مشکل سی مشکل تھی، لیکن ان اصحاب نے ہمت نہ ہاری اور تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس غنڈے کے گاؤں میں داخل ہوئے۔

ایک ساتھی نے تنہا جا کر محلے کی دکانوں سے اس کے گھرکا پتہ دریافت کیا اور پھر سب نے مل کر اس کے گھر پر ہلہ بول دیا۔وہ اس پہاڑی گھر کا گھیراؤ کر کے جب اس کے اندر داخل ہوئے تو گھر بھر میں سناٹا تھا۔ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے پورا گھر چھان مارا۔ گھر میں

ایک لڑکی کے سوا کوئی نہ تھا۔یہ نوجوان لڑکی ابھی ابھی زچگی کے مرحلے سے گزری تھی، اس عورت کی گود میں ایک بچہ تھا جو رو رہا تھا۔وہ بیچاری رو رو کر اپنی جان کی بھیک مانگنے لگی۔ابا جان نے بچے کو گود میں لے کر چمکارا اور اس کے ساتھ ہی اس نوجوان عورت کو بھی بڑی مشکل سے چپ کرایا اور یہ یقین دلایا کہ’’ ہمیں عورتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں صرف نانا پٹیل سے غرض ہے، ہمیں اس کے بارے میں بتاؤ۔ تم میری بہن ہو اور تم دونوں محفوظ ہو۔ سچ بولو گی تو تمہاری جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ہمیں صرف یہ بتا دو کہ نانا پٹیل یہاں آیا تھا؟‘‘

اس لڑکی نے کہا، ’’ ہاں ! آیا تھا۔‘‘

’’ کہاں گیا؟‘‘ابا جان نے پوچھا۔

’’ میں اس حالت میں کہاں جا سکتی تھی کہ مجھے علم ہوتا۔ بس اتنا جانتی ہوں کہ اسے تم لوگوں کے آنے کی خبر ہو چکی تھی، اس لیے وہ نکل گیا۔‘‘

گویا کہ اسے سرِ شام ہی مشکوک لوگوں کی نقل و حرکت کا پتہ چل گیا تھا اور اس نے ان لوگوں کو گھیرنے کا پلان بنایا تھا۔دکانوں پر جو لوگ نظر آئے تھے اب وہ بھی وہاں نہیں ہوں گے اور پورا علاقہ سنسان ہو گا۔ باہر جھانک کر دیکھا تو واقعی ایسا ہی تھا۔ گویا یہ لوگ نانا پٹیل کے جال میں بری طرح پھنس چکے تھے۔

اس لڑکی سے تعارض کرنا بیکار تھا، اس لیے اس سے یہ کہ کر کہ ’’ تو نے سچ بولا ہے اس لیے ہم تجھے کچھ نہیں کہیں گے‘‘ سب باہر نکلے۔ابا جان اور ان کے ساتھیوں نے پلان بنایا کہ اب پھنس تو چکے ہی ہیں، کیوں نہ چھا پا مار کارروائی کے ذریعے اچانک حملہ کرتے ہوئے نکلنے کی کوشش کی جائے۔

چوری چھپے باہر نکلنے کا پلان یوں ناکام ہوا کہ جوں ہی پہلا ساتھی گھر سے باہر نکلا، پہاڑی پر سے ایک بہت بھاری پتھر آ کر ان کے عین سامنے گرا اور فوراً بعد ہی ایک شخص کا جسم لہراتا ہوا گرا۔ وہ شخص جو یقیناً ایک ہندو تھا اور اس پتھر کو گرا چکا تھا، زمیں پر گرتے ہی ایک لمحے کو تڑپا اور ٹھنڈا ہو گیا۔ اوپر سے ابا جان کے ایک ساتھی سیف اللہ صاحب نے جو گھر کی چھت پر نگرانی کے لیے چھپے تھے، اوپر سے جھانک کر پہلے تو دانت نکال کر باقی ساتھیوں کو کچھ موٹی موٹی گالیاں عنایت فرمائیں اور پھر احتیاط کا تقاضا کرتے ہوئے دوبارہ اپنی پوزیشن پر ڈٹ گئے۔اس ہندو کو پتھر گراتا دیکھ کر انھوں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اسے ٹانگ سے پکڑ کر نیچے پھینک دیا تھا۔

گھر سے نکلے تو دیکھا کہ وہ چاروں طرف سے گھیر لیے گئے ہیں۔ ہر طرف پہاڑیوں پر لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے، جن میں سے اکثر کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ موجود تھا۔گاؤں سے نکلنے والے واحد راستے پر وہی غنڈہ یعنی نانا پٹیل مبینہ طور پر اپنے ساتھیوں سمیت موجود تھا۔عبدالغنی صاحب نے رائفل کندھے پر رکھی، نشانہ لیا اور ایک فائر داغ دیا۔ گولی تو اللہ جانے کدھر گئی لیکن عبدالغنی صاحب فوراً پلٹے اور ساتھیوں پر برس پڑے۔’’ یہ مجھے دھکا کس نے دیا؟‘‘

ان سب نے بیک وقت نشانہ لے کر اس طرف فائرنگ شروع کی اور لاشیں گراتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔دشمنوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنے لیڈر سمیت کئی لاشیں چھوڑ کر بھاگے تو اِن لوگوں نے بخیر و عافیت اس علاقے سے نکل جانے ہی میں بہتری سمجھی اور واپس ڈپٹی کمشنر عبدالجبار صاحب کے بنگلے پر آ کر ہی دم لیا۔

اگلی صبح ناشتے پر ڈپٹی کمشنر صاحب اور ان کی بیگم خورشید صاحبہ مہمانوں کی خاطر تواضع میں مصروف تھے کہ ملازم نے سرحد پار علاقے کے ہندو وفد کی آمد کی اطلاع دی۔ انھیں اس کمرے میں چھوڑ کر ڈپٹی کمشنر صاحب اس وفد سے ملاقات کے لیے ڈرائینگ روم میں تشریف لے گئے۔

ہندو وفد کے افراد نے جو ملحقہ ہندوستانی ضلع کے ڈپٹی کمشنر صاحب کی معیت میں آئے تھے، نہایت پر اثر انداز میں تقریریں کیں اور مسلمان غنڈوں کی اس کارروائی سے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کیا جس میں اس گاؤں کے کئی معزز افراد بشمول نانا پٹیل نامی ایک شخص ہلاک و متعدد زخمی ہوئے تھے۔ عبدالجبار صاحب نے کہا، ’’ تبلیغی جماعت کے لوگ ادھر نہیں آتے۔ جو حلیہ آپ نے بتایا ہے، وہ مجھے ان سکھ شرنارتھیوں کا لگتا ہے جنھیں حکومتِ ہند نے اس علاقے میں آباد کیا ہے۔ یہ وہی لوگ ہو سکتے ہیں۔ بہر حال میں تحقیقات کروں گا۔‘‘

اس طرح ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان لوگوں کو یقین دلایا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائے گی اور ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لے کر قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ ادھر یہ باتیں ہو رہی تھیں اور ا دھر دوسرے کمرے میں محترمہ خورشید پلو اٹھا اٹھا کر ابا جان اور ان کے ساتھیوں کو دعائیں دے رہی تھیں۔ بقول ان کے ہر مرتبہ ان ہندوؤں کی حرکتوں سے تنگ آئے ہوئے مسلمان ان کے خلاف شکایت لے آتے تھے۔

آج پہلی مرتبہ یہ ہندو مسلمانوں کی شکایت لے کر آئے تھے۔

ادھر ہندو وفد رخصت ہوا اور ادھر ابا جان اور ان کے ساتھیوں نے دونوں اشکبار میاں بیوی سے اجازت لی اور ڈھیروں دعائیں اپنے دامن میں سمیٹے حیدرآباد روانہ ہوئے۔

خاکسار تحریک کے کئی اصحاب ابا جان کے گہرے دوست تھے اور ان کی دل سے عزت کرتے تھے۔ وہ انھیں اپنے جلسوں میں خاص طور پر تقریر کے لیے دعوت دیا کرتے تھے۔ خاکساروں کے ایک جلسے میں ابا جان نے حیدر آباد کی موجودہ حکومت کو بوجوہ آڑے ہاتھوں لیا اور وزیر اعظم صاحب جناب میر لائق علی کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوے کہا’’ میر لائق علی ! تم لائق نہیں ہو بلکہ نالائق ہو‘‘

جلسے سے فارغ ہو کر ابھی گھر بھی نہ پہنچنے پائے تھے کہ ’ گرفتار ہم ہوئے ‘کے مصداق دھر لیے گئے۔ پولیس نے فوراً پکڑ کر نقضِ امن کے الزام میں جیل پہنچا دیا۔

جیل میں اس سیاسی قیدی کو اے کلاس دینے کے بجائے سی کلاس دی گئی اور اخلاقی قیدیوں کی طرح قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ گھر سے کھانا منگوانے یا ملاقات جیسی تمام سہولیات سے محروم رکھا گیا۔ جیل میں پہنچتے ہی انھوں نے جو کپڑے زیب تن کیے ہوے تھے اتروا کر جیل کے کپڑے پہنا دیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام سامان بحقِ سرکار ضبط کر لیا گیا، یہاں تک کہ گردوں کی تکلیف سے بچنے کے لیے ابا جاننے جو چمڑے کی بیلٹ پہنی ہوئی تھی اسے بھی اتروا لیا گیا کہ اجازت نہیں ہے۔

جیلر حیران تھا، اس نے کئی بار ابا جان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں۔ کیا وہ کوئی بڑے سیاسی لیڈر ہیں جو انہیں اس قدر سخت قسم کی قیدِ تنہائی کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ جواب نفی میں ملنے کے باوجود وہ حکم کا بندہ، اوپر سے ملے ہوئے احکامات بجا لایا اور یوں ابا جان کی قیدِ تنہائی کا آغاز ہوا۔

ابا جان نے مطالعے کے لیے کچھ کتابوں کا مطالبہ کیا لیکن وہ بھی مسترد کر دیا گیا۔ یہ سیاسی قیدی اس قدر خطرناک تھا کہ اسے ہر قسم کی سہولیات سے محروم رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔

جیلر نے ابا جان کا صبر و استقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کرنا دیکھا تو اسے یقین ہو گیا کہ ہو نہ ہو، یہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ اسی اثناء میں ایک دن اسے انتہائی شدید سر درد ہوا تو اس نے ابا جان سے اس کا ذکر کیا۔ ابا جان نے فوراً اسے اپنے دستِ خاص سے ایک مجرب و تیر بہدف تعویذ لکھ کر دیا۔ اللہ کی کرنی اس جیلر کا سر درد ختم ہو گیا اور وہ اسی وقت سے ابا جان کا مرید اور بے دام کا غلام ہوا۔ پھر کیا تھا۔ جیلر کے گھر سے جو کھانا آیا کرتا تھا وہ اسے باصرار ابا جان کو کھلاتا اور ان کے لئے آنے والے جیل کے کھانے کو خود زہر مار کرتا۔

اس جیلر نے ایک اور کام یہ کیا کہ ابا جان سے ان کتابوں کے نام لکھوا لیے جو انھیں چاہیے تھیں اور ایک سپاہی کو خاص طور پر ان کے گھر بھیج کر کتابیں منگوا کر ابا جان کو مہیا کیں۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ ابا جان کو تنہائی میں کھانے کا آرام ہو ا اور کتابیں میسر آئیں تو انھوں نے اس صورتِ حال سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور اپنی من پسند کتابوں کا سکون سے مطالعہ کیا اور نوٹ بنایا کئے۔

میر لائق علی کی وزارت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی اور ہندوستان و ریاست حیدر آباد کی آزادی کے تقریباً ایک ہی سال بعد یعنی ۸۱ ستمبر۱۹۴۸ء کو سردار والا بھائی پٹیل کی نگرانی میں پولیس ایکشن کے نام پر ہندوستان کی باقاعدہ فوج ’’آپریشن پولو‘‘ کرتی ہوئی حیدر آباد میں داخل ہو گئی۔رات کے تقریباً دس بجے ہوں گے کہ جیلر گھبرایا ہوا ابا جان کے سیل میں داخل ہوا اور ابا جان سے کہنے لگا۔

’’ مولوی صاحب! آپ ابھی فوراً یہاں سے چلے جائیے۔ آپ کی رہائی کے احکامات آ چکے ہیں۔‘‘

ابا جان نے کہا۔’’ اس وقت رات کو میں کہاں جاؤں گا۔ اس وقت رہنے دیجئے ‘‘

’’لیکن آپ کی رہائی کے احکامات آ چکے ہیں اور اب میں آپ کو یہاں پر مزید نہیں رکھ سکتا۔‘‘

لیکن اس وقت آدھی رات کوتو میں کہیں بھی نہیں جا رہا ہوں۔‘‘

اچھا تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ رات بھر یہاں رہئیے اور صبح روانہ ہو جائیے۔‘‘

صبح ایک اور مسئلہ درپیش ہوا۔ ابا جان نے ناشتہ کیے بغیر وہاں سے جانے سے صاف انکار کر دیا۔ بے چارے جیلر نے ابا جان کے گھر ایک آدمی بھیج کر ناشتہ منگوایا اور یوں ابا جان نے سکون سے ڈٹ کر ناشتہ کیا، اپنا سامان وصول کیا اور جیل سے رہا ہو کر باہر نکلے۔

باہر عجب حال تھا، ہر شخص ڈرا ڈرا سہماسہما سا نظر آیا۔ کوئی بھی آنکھیں ملا کر بات کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔ یہ صورت ریاستِ حیدرآباد کے لیے نئی تھی۔ وہ شہر جہاں ہر شخص تلوار لگائے گھوما کرتا تھا، آج کسی شخص کی کمر میں تلوار نظر نہیں آ رہی تھی۔ لوگوں کا لباس تک بدل گیا تھا، شیروانی اور ٹوپی غائب تھی۔ لوگ ابا جان کی کمر سے لٹکتی ہوئی تلوار کو کنکھیوں سے چوری چوری دیکھ کر فوراً ہی نظر ہٹا لیتے۔ ابا جان نے کئی رکشا والوں کو روکا لیکن وہ کنی کترا گئے۔ جو رکے انھوں نے ابا جان کی تلوار کو دیکھتے ہی جانے سے صاف انکار کر دیا۔ بالآخر ایک رکشے والے کو زبردستی پکڑ کر ابا جان گھر کے قریب اترے اور قریبی پان کی دکان پر پہنچے تو اصل صورتِ حال کا پتا چلا۔ ہندوستان سرکار نے راتوں رات حیدرآباد ریاست پر فوج کشی کی تھی اور آن کی آن میں پورے حیدرآباد پر قبضہ جما کر اسے اپنے اندر ضم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ہرچند کہ نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خان اور تمام رضاکار ریاست حیدر آباد کا پاکستان سے الحاق یا کم از کم حیدرآباد کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن ان کی ایک نہ چلی اور حیدرآباد جو 1724ء سے ایک آزاد آصف جاہی ریاست کے طور پر موجود تھا ہندوستان کے توسیع پسندانہ عزائم کا بالآخر شکار ہو گیا۔

ابا جان پیر صاحب کے کمپاؤنڈ میں اپنے گھر پہنچے۔ ایک دن پہلے تک وہ ایک قیدی تھے، آج وہ ایک غلام ریاست کے نام نہاد ’آزاد‘ شہری تھے۔ ابا جان کے والدین کمپاؤنڈ کے باہر ایک گھر میں رہتے تھے۔ابا جان نے اپنے والدین سے ملاقات کی اور پھر کمپاؤنڈ میں اپنے گھر چلے آئے۔ دونوں چھوٹے بھائی سرور اور ہاشم، کمپاؤنڈ میں موجود مسجد ہی میں نماز پڑھنے آیا کرتے تھے۔ ابا جان سے ملاقات کے بعد دونوں رات کو واپس اپنے گھر چلے گئے، اس امید پر کہ کل صبح پھر وہ چھوٹے بھائی کو دیکھ سکیں گے۔

اگلے دن ابا جان فجر کی نماز کے لیے اٹھے تو فضاء اور ہی تھی۔ کمپاؤنڈ کو چاروں طرف سے فوج نے گھیر لیا تھا۔ وہ خوش ہوئے کہ سرور اور ہاشم رات ہی کو واپس چلے گئے تھے، لیکن ان کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور سرور اور ہاشم دونوں دوڑتے ہوئے کمپاؤنڈ کے اندر داخل ہوئے۔ ابا جان کے پوچھنے پر کہنے لگے۔

’’ باہر فوجی ہمیں اندر آنے سے روک رہے تھے۔ ہم نے انھیں کہہ دیا کہ مسجد میں نماز پڑھنا ہمارا حق ہے اور وہ ہمیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔ ‘‘

’’پھر انھوں نے کیا کہا؟‘‘

’’وہ ہمیں اندر آنے سے نہیں روک سکے، اور کیا۔‘‘

نماز کے بعد گرفتاریاں شروع ہوئیں اور تمام لوگوں کو پکڑ کر جیل پہنچا دیا گیا۔اور یوں ابا جان کی بیس ماہ طویل قید کا آغاز ہوا۔ قید میں ابا جان کے ساتھ تمام اصحاب، ریاست حیدرآباد کے دسیوں رضاکار اور دونوں چھوٹے بھائی بھی شامل تھے۔ اس مرتبہ سب لوگوں کو ایک ہی کھلے وارڈ میں رکھا گیا تھا۔ یہ قید ایک انتہائی دلچسپ اور شرارتوں بھری قید ثابت ہوئی جس کا احوال قاری کو درج ذیل تفصیل سے معلوم ہو گا۔

ابا جان کے پیر بھائیوں میں سے چار سو مرد گرفتار ہوئے۔ ان سب کو ایک ہی وارڈ میں رکھا گیا تھا، اور یہ خاص رعایت دی گئی کہ اس ایک وارڈ کے تمام قیدی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل سکتے تھے، انھیں اپنے سیل ہی تک محدود نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ وارڈ جیل کی سی کلاس میں تھا۔ صرف چند لوگوں کو اے کلاس دی گئی تھی جن میں ان کے پیر صاحب یا وہ حضرات جو بی اے پاس تھے وغیرہ شامل تھے جو تعداد میں تقریباً دس تھے۔ ابا جان کے ساتھ ان کے تحریکی ساتھیوں کے علاوہ دو ہزار کے لگ بھگ رضاکار بھی تھے۔ مذہبی لوگ ہونے کے ناطے ان سے جیل کی کوئی مشقت وغیرہ بھی نہ لی گئی اور نہ انھیں قیدِ تنہائی جیسی عقوبتیں دی گئیں۔

شروع شروع میں جو پہلا جیلر انھیں ملا وہ ذرا سخت قسم کا تھا۔جیل کا جو پہلا وارڈ انھیں نصیب ہوا، اس میں روشنی کا مناسب انتظام نہیں تھا، بہت کم بلب لگے ہوئے تھے اور ان کے فیوز ہو جانے پر تبدیل بھی نہ کیے جاتے۔ پڑھنے لکھنے کی آزادی حاصل نہیں تھی۔ یہ وارڈ جیل کے صدر دروازے کے قریب تھا اور یہاں کی کھڑکیوں سے صدر دروازہ نظر آتا تھا۔ ساتھیوں نے اس بد تمیز جیلر سے انتقام لینے کی ٹھانی۔ جوں ہی وہ بے چارہ جیلر اپنی ڈیوٹی ختم کر کے گھر جانے کے لیے صدر دروازے سے باہر نکلتا، سب ساتھی کھڑکیوں پر جمع ہو جاتے اور اس پر جی بھر کر آوازے کستے، لعن طعن کرتے اور اسے گالیوں سے نوازتے۔کچھ دن تو وہ یہ ہیئت کذائی برداشت کرتا رہا، آخر کار جب نہ رہا گیا تو اس نے سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ان تمام شرارتی قیدیوں کا تبادلہ ایک دوسرے وارڈ میں کر دیا گیا۔

قیدی بھی اس صورتحال کے لیے تیار تھے۔ انھوں نے نئے وارڈ میں پہنچتے ہی وہاں کے دو کے علاوہ تمام اچھے بلب نکال کر ایک سوکھے گٹر میں چھپا دیے اور رات ہوتے ہی ہنگامہ کر دیا کہ روشنی ہی نہیں ہے۔ اگلی صبح اس وارڈ میں کچھ نئے بلب لگا دئے گئے۔ ایک دن اس طرح گزرا۔ اگلے دن انھوں نے دو اچھے بلبوں کی جگہ دو خراب بلب لگا دیے۔ اسی طرح کرتے کرتے ان لوگوں کے خفیہ خزانے میں کئی اچھے بلب جمع ہو گئے۔ اب یوں ہوتا کہ دن کے وقت تو کسی بھی معائنے کے پیشِ نظر خراب بلب لگے ہوئے ہوتے اور رات کو جب وارڈ کو تالا لگا دیا جا تا تو ان لوگوں کی کارروائیاں شروع ہوتیں، خراب بلبوں کی جگہ اچھے بلب خفیہ خزانے سے نکال کر لگا دئیے جاتے اور وارڈ میں گویا دن نکل آتا۔ اب ان کی ادبی اور تہذیبی سرگومیاں شروع ہوتیں۔ کہیں شطرنج اور چوسرکی محفل جمتی تو کہیں ادبی و سیاسی گفتگو کی بیٹھک ہوتی۔ ابا جان چونکہ عربی، فارسی اور انگریزی سمیت کئی زبانوں کے عالم تھے، انھوں نے زبان دانی اور درسِ قرآن کے سبق دینے شروع کر دئیے جن میں ان کے دونوں چھوٹے بھائیوں سرور ا ور ہاشم کے علاوہ کئی اور شاگرد موجود ہوتے۔ رفتہ رفتہ شاگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اوردرس و تدریس کا یہ سلسلہ ایک مستقل مدرسے کی شکل اختیار کر گیا۔

ادھر دن کے وقت ان قیدیوں نے ’بیکار مباش کچھ کیا کر‘ کے مصداق، کمپاؤنڈ میں کھیتی باڑی کا پروگرام بنایا اور آپس میں مختلف قطعے تقسیم کر کے ان میں سبزی اور دیگر اشیاء اور پھول دار بوٹے کاشت کرنے شروع کر دئیے۔ آپس میں بہتر سبزی کاشت کرنے کا مقابلہ ہوتا اور اس کام کے لیے مختلف قسم کی ترکیبیں لڑائی جاتیں۔

سب سے بڑا مسئلہ کھاد کی عدم دستیابی کی صورت میں سامنے آیا۔پانی تو بہر طور دور سے بالٹیوں کے ذریعے لالا کر ڈالا جا سکتا تھا۔ ہر چند کہ سبزیوں اور پھولوں کی نہ صرف خاطر خواہ دیکھ بھال کی جاتی بلکہ ان کی نشو و نما کے لیے دیگر جتن بھی کیے جاتے مگر کچھ خاطر خواہ نتیجہ نکلتا ہوا نظر نہ آیا۔ جیلر سے کھاد کی درخواست کی گئی لیکن یہ درخواست کسی گونگی بہری بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ثابت ہوئی تو قیدی کونسل کا اجلاس بلایا گیا کھاد کی پیداوار اور دستیابی کے لیے متبادل ذرائع اختیار کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا گیا۔لیکن کوئی نتیجہ خیز بات پھر بھی سامنے نہ آسکی۔

رات آئی تو ابا جان کے ایک بزرگ قسم کے ساتھی نے اپنے تئیں ایک فیصلہ کر لیا اور رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باہر سے مٹی کا ایک ٹھیکرا اٹھا کر لائے، منہ اور ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ کر اس کے اوپر ٹاٹ کی تھیلی چڑھائی اور ایکشن کے لیے تیار ہو گئے۔لیٹرین کے اندر پہنچے اور مٹی کے ٹھیکرے کو بھر کر کیاریوں تک پہنچایا ہی چاہتے تھے تھا کہ بدبو نے ارد گرد کے ساتھوں کا ناک میں دم کر دیا اورساتھیوں کے شور مچانے پر انھیں اپنا مشن ادھورا ہی چھوڑ کر باتھ روم بھاگنا پڑا۔ ہاتھ منہ دھوکر معصومانہ انداز میں باہر نکلے گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا، لیکن ایک اور ساتھی روشن دین یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے انھوں نے بھرے بازار میں گویا بھانڈا پھوڑ دیا۔

’’ حضرات ! ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیے۔‘‘ اُنھوں نے ان بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت بلند آواز میں کہنا شروع کیا ہی تھا کہ وہ بزرگوار ان کا عندیہ سمجھ گئے اور لٹھ لے کر ان کے پیچھے دوڑے۔ باقی لوگ جو بدبو سے ویسے ہی پریشان تھے یہ منظر دیکھ کر خوب محظوظ ہوئے لیکن بزرگوار کا غصہ کئی دن بعد ان کی سمجھ میں آیا جب روشن دین صاحب نے پٹتے ہوئے ان کا راز فاش کر دیا۔

بزرگ ساتھی نے، گو روشن دین کو خوب پیٹا، جی بھر کر پیٹا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالی لیکن ان کا پول کھل چکا تھا، اور یہ واقعہ آنے والے کئی دنوں تک ساتھیوں کے لئے دل لگی کا باعث بنا رہا۔

انھی دنوں قیدیوں کی طرف سے چوہوں کی اکثر شکایات سننے میں آ رہی تھیں۔ لہٰذا ایک تیر سے دو شکار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔دن ہی دن میں وارڈ کی تمام آبی گزر گاہوں اور دیگر سوراخوں کا جائزہ لیا گیا اور ان کے لئے مناسب رکاوٹیں تلاش کر کے رکھ لی گئیں۔ رات ہوتے ہی ان تمام سوراخوں کو نہایت احتیاط کے ساتھ بند کر دیا گیا۔تمام مجبور و مقہور قیدیوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے، لکڑی کے ٹکڑے اور جوتے چپل وغیرہ سنبھال لیے اور پھر اسی احتیاط کے ساتھ ایک سوراخ کو کھولا گیا اور تمام لوگ الرٹ ہو گئے۔

کچھ ہی دیر میں ایک چوہا باہر سے اندر آیا، ادھر ادھر گھوما کیا اور کچھ دیر بعد باہر چلا گیا۔ شکاری دم سادھے ہوے تیار کھڑے تھے لیکن ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت اس اکیلے چوہے کو کچھ نہ کہا گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ چوہا دلیرانہ انداز میں دوبارہ اس سوراخ سے اندر داخل ہوا، اب اس چوہے کے پیچھے دوسرے چوہوں کی ایک لمبی قطار نظر آئی۔ان سب چوہوں کو بھی اندر آنے سے نہ روکا گیا۔جب ایک اچھی خاصی تعداد ان بد نصیب چوہوں کی اندر داخل ہو چکی تو اس واحد سوراخ کو بند کر دیا گیا اور شکاری اپنے اپنے ہتھیار سنبھالے ان چوہوں پر پل پڑے۔ اب کیا تھا۔ مار مار کر ان چوہوں کا بھرکس نکال دیا گیا اور ان سب چوہوں کی لاشیں پودوں کی کھاد میں استعمال کرنے کے لیے سنبھال لی گئیں۔اس رات وارڈ میں وہ دھما چوکڑی مچی کہ الامان و الحفیظ۔ اگلے دن صبح ہوتے ہی گارڈ فوراً اندر داخل ہوئے اور ایک ایک قیدی کا بغور معائنہ کرنے لگے۔ ان کے خیال میں رات اچھی خاصی سر پھٹول ہوئی تھی اور اس وقت وہ زخمیوں کو جمع کرنے کے لیے آئے تھے۔ وہ زخمی قیدیوں کے بجائے مردہ چوہوں کی ایک اچھی خاصی بڑی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئے اور بغیر کچھ کہے واپس چلے گئے۔

وہ دن ان قیدیوں کے لیے ایک بہت مصروف دن تھا۔ سارا دن سب مل کر کیاریوں کو کھودا کیے اور چوہوں کو دبایا کیے۔لگتا تھا کہ وہ ساری زندگی مالی کا کام ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ دن ڈھلا تو کیاریاں ایک بار پھر سے صاف ستھری ہو چکی تھیں اور ان میں دور سے بالٹیوں کے ذریعے پانی بھی لا کر ڈالا گیا تھا۔

ان کی محنت رنگ لائی اور کچھ ہی دنوں میں کیاریاں رنگ برنگے پھولوں اور مزے مزے کی سبزیوں سے سج گئیں۔ جنگل میں منگل کا سا سماں تھا۔ جیلر اور گارڈز نے ساری زندگی قاتلوں چوروں اور عادی مجرموں کو ان وارڈوں میں اپنی قید کے دن گن گن کر گزارتے دیکھا تھا، کب اس طرح کے خوبصورت مناظر دیکھے تھے۔وہ اس باد بہاری سے ناآشنا تھے۔انھیں یہ سب کچھ بہت اچھا لگا۔ رفتہ رفتہ ان قیدیوں کی طرف سے انھیں اطمینان ہوتا چلا گیا کہ یہ لوگ عادی مجرم ہرگز نہیں ہیں بلکہ سیاسی حالات کے پلٹا کھانے کی وجہ سے ان کال کوٹھریوں میں آن پڑے ہیں۔ انھیں ان سیدھے سادھے مذہبی لوگوں پر ترس آنے لگا اور یوں ان کی جیل کی زندگی نسبتاً آسان ہوتی چلی گئی۔

انھی دنوں انسپکٹر جیل خانہ جات اس جیل کے معائنے کے لئے تشریف لائے۔ہر وارڈ سے ایک ایک شخص کو چنا گیا تاکہ انسپکٹر صاحب اس سے انٹرویو کرسکیں۔ اس وارڈ سے’ قرعہ فال بنامِ منِ دیوانہ  زدند‘ یعنی ساتھیوں کے مشورے کے ساتھ ابا جان کے نام نکلا۔ابا جان نے پہلے ہی سے اپنے تمام ساتھیوں کو اسپیشل ہدایات دے دیں تاکہ معائنے کے وقت کام آوے اور خود کشاں کشاں ایک گارڈ کی معیت میں انسپکٹر صاحب کے حضور میں پہنچے۔

انسپکٹر نے سلام کلام کے بعد طبیعت پوچھی اور پھر اس رسمی گفتگو کے بعد بر سرِ مطلب آیا اور ابا جان سے ان کے اور ان کے حوالاتی ساتھیوں کے ماضی سے متعلق سوالات کرنے شروع کیے۔ جوابات پہلے ہی سے تیار تھے۔ ابا جان نے اپنے تبلیغی مشن کو دل کھول کر بیان کیا اور بڑھ چڑھ کر اس کی وکالت کی۔ اسلحہ کی نمائش، تخریب کاری، ہلڑ بازی، قتل و غارت گری ؟ایں چہ معنی دارد؟ بقول شاعر

عشق کی بات بیسوا جانیں

ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں

ابا جان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ سب لوگ ایک اسلامی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا کام لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینا ہے۔ بس اور کیا۔

معائنے کے لیے انسپکٹر کے ساتھ اپنے وارڈ میں پہنچے جہاں پر ایک طرف کچھ ساتھی شطرنج اور چوسر کی بازی لگائے ہوئے تھے تو کچھ لوگ دوسری طرف فرشی نشستوں پر بیٹھے، موٹی موٹی کتابیں درمیان میں رکھے ہوئے، دینی و تہذیبی قسم کے مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ اُدھر تیسری طرف ابا جان کا لگایا ہوا مدرسہ اپنی آن بان کے ساتھ جاری و ساری تھا۔

انسپکٹر اس مظاہرے سے بہت مرعوب ہوا، ادھر وہ ان قیدیوں کے لگائے ہوئے باغ، خوشنماسبزیوں اور رنگ برنگے پھولوں سے لدی ہوئی کیاریوں کو بھی دیکھ چکا تھا۔ اس نے خاطر خواہ اپنی سفارشات مرتب کیں اور ان میں لکھا کہ یہ سب سیدھے سادھے قسم کے، مذہبی جنونی لوگ ہیں جن کا بادی النظر میں اخلاقی جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہی ارد گرد کے علاقوں کی یہ شکایات کی یہ لوگ ان پر حملوں میں ملوث ہیں تو اس بارے میں پولیس کی تفتیش جاری ہے اور اس کے مکمل ہونے پر ہی کوئی کارروائی کی جائے گی۔اس اثناء میں یہ لوگ شریف قسم کے پر امن شہری ثابت ہو رہے ہیں، جن کے بارے میں حکومت کی طرف سے نرم رویہ اختیار کیا جانا چاہئیے۔

ان سفارشات کو بالآخر جسٹس پنٹو نے درخور اعتناء جانا اور ان قیدیوں کے متعلق فیصلہ سنایا کہ ان کے اچھے رویہ کے نتیجے کے طور پر ان لوگوں کے ساتھ بہتر برتاؤ کیا جائے، انھیں کھانے پینے رہنے اور مطالعہ وغیرہ کے لئے بہتر ماحول مہیا کیا جائے۔ ساٹھ سال کی عمر تک کے قیدیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ ان کے علاوہ جن قیدیوں پر فوجداری مقدمات نہیں ہیں انھیں بھی جلد از جلد رہا کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔

جسٹس پنٹو کے احکامات پر فی الفور عمل کیا گیا اور نتیجتاً قیدیوں کو کھانے کے لئے بہتر انتظام کیا گیا۔ انھیں مفت چائے کی پتی، خشک دودھ اور چینی وغیرہ فراہم کی گئیں تاکہ وہ اپنی بیرک ہی میں چائے بنا سکیں۔ پڑھنے کے لیے قیدیوں کو کتابیں فراہم کی گئیں اور ان کی کھیتی باڑی کے کھاد بھی مہیا کی گئی۔ یہاں تک کہ ان قیدیوں کو اپنی اگائی ہوئی سبزیاں پکانے اور کھانے کی بھی اجازت دے دی گئی۔ادھر قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی بھی شروع ہوئی۔

ابا جان اور ان کے ساتھیوں پر سرحدی علاقے میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا مقدمہ قائم تھا، لہذا ان کی رہائی خارج از امکان تھی۔ انھی دنوں پولیس نے ان قیدیوں کی شناختی پریڈ کروائی۔نانا پٹیل کے گاؤں میں حملے کے وقت گھر میں موجود ایک مرہٹی لڑکی نے ان ڈاکوؤں کو بہت اچھی طرح سے دیکھا تھا اور وہ ہی انھیں پہچان سکتی تھی، لہٰذا اس گاؤں سے اس لڑکی کو بلا کر ان قیدیوں کا سامنا کروایا گیا۔

یہ وقت بہت اضطراب کا تھا۔ ابا جان کو یقین تھا کہ وہ لڑکی انھیں ضرور پہچان لے گی۔ جب آمنا سامنا ہوا تو اس کی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک بھی نمایاں تھی۔ اس نے انھیں پہچان لیا تھا اور عین اس وقت جب ابا جان کو یقین ہو گیا کہ اب وہ انھیں پہچان لینے کا اعلان کرے گی، اس نے پیچھے مڑ کر کہا۔

’’ نہیں ! یہ وہ نہیں ہیں ‘‘

تین مرتبہ شناختی پریڈ ہوئی اور تینوں مرتبہ اس نے ابا جان کو پہچاننے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ یقیناً اس احسان کا بدلہ تھا جو ابا جان نے اس اس کی جان بخشی کرتے ہوئے اس پر کیا تھا۔اس لڑکی نے یقیناًاحسان کا پاس رکھا تھا، وہ کیسے کہہ دیتی کہ اس رات اس کا بھائی اس کے گھر آیا تھا اور اس کی اور اس کے بچے کی جان بخشی کرتے ہوئے انھیں تسلیاں دی تھیں۔انھیں دلاسا دیا تھا کہ وہ محفوظ ہیں اور انھیں کچھ نہیں ہو گا۔کس طرح وہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے بھائی کو موت کے منہ میں دھکیل دیتی۔ اس نے وہی کیا جو اسے کرنا تھا۔ اس نے صاف صاف جھوٹ بول کر اپنے احسان کا بدلہ چکا دیا۔ابا جان اور ان کے ساتھی موت کے منہ سے نکل آئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب ہشتم۔سوئے منزل چلے

 

 

(نوٹ: یہ باب وہ واحد داستان ہے جو ہم ابا جان کی زندگی میں لکھ کر انھیں سنا چکے تھے۔ ان کی ڈانٹ اب بھی یاد ہے کہ’’ ابے! اپنے باپ کو اس قدر بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے‘‘۔ان کی وفات کے بعد اس میں رد و بدل کرنے کا دل نہ چاہا تو اسے من و عن ہی رہنے دیا۔)

ابا جان کو سرور چچا کی چھوٹی بیٹی کے امتحان میں اول آنے کی خبر سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ مسرور لہجے میں کہنے لگے۔

’’ سرور کے دل میں بھی پڑھائی کا شوق میں نے ہی ڈالا۔ جیل میں جب وقت نہ گزرتا تو میں نے اپنی افتادِ طبع سے مجبور ہو کر ساتھیوں کو عربی پڑھانی شروع کر دی، رفتہ رفتہ میرے گرد پندرہ بیس نوجوان طالب علم جمع ہو گئے اور روز عربی کے سبق لینے لگے۔ گردانیں طویل ہوتی چلی گئیں، اور یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا۔ دونوں چھوٹے یعنی سرور اور ہاشم بھی جیل میں میرے ساتھ تھے، لہٰذا دونوں ہی شوق سے روزانہ سبق لینے لگے۔‘‘

یہ قصہ ہے سقوط ِ حیدرآباد کا اور اس کے بعد ابا جان کے جیل کاٹنے اور نتیجے کے طور پر رہا ہو کر پاکستان پہنچنے کا۔ لیکن ابا جان کے دیگر محیر العقل کارہائے نمایاں کی طرح یہ بھی حیرت انگیز واقعات سے پر ہے۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ سچا واقعہ ہے یا کسی حیرت انگیز ناول کا کوئی دلچسپ باب، جس میں ہر صفحے پر نت نئے سنسنی خیز واقعات بھرے پڑے ہوں۔

ابا جان کے جیل پہنچنے اور وہاں پر انتہائی دلچسپ بیس ماہ گزارنے کا تذکرہ پھر کبھی بیان کروں گا۔ آج کا قصہ ان کے آزادی کا پروانہ ملنے کے بعد کے واقعات سے متعلق ہے۔ آزادی کا پروانہ ملتے ہی ضروری کپڑے اور ایک ایک کمبل قیدیوں میں بانٹے گئے، ابا جان اور دونوں چھوٹے بھائیوں نے کمال ہوشیاری سے ایک ایک کمبل اور ہتھیا لیا اور انھی کمبلوں نے نہ صرف راستے میں بلکہ اگلے کئی مہینوں تک ان کا ساتھ دیا اور انھیں ٹھٹھرتی ہوئی سردی سے محفوظ رکھا۔ تقریباً اٹھارہ بیس ساتھیوں کا یہ قافلہ حیدرآباد جیل سے نکلا اور ٹرین میں بیٹھ کر برار کی طرف روانہ ہوا۔ آکولا اسٹیشن پہنچ کر سب ساتھیوں نے اپنے اپنے سامان ِ سفر کو سمیٹ کر تینوں بھائیوں کی مدد سے اسے پٹریوں کے پار ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم اور دوسرے پلیٹ فارم سے تیسرے پلیٹ فارم تک پہنچایا اور پھر نہایت گرم جوشی سے رخصت ہوئے تو یہ تینوں بھائی اس وسیع و عریض سرزمین پر یکہ و تنہا حسرت و یاس کی تصویر بنے کھڑے رہ گئے۔ابا جان نے سب سے پہلے خود کو سنبھالا اور دونوں چھوٹے بھائیوں کو تسلی دی جو ان رخصت ہونے والے جیل کے ساتھیوں کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ لو یہ بھی گئے۔ابا جان نے ملکِ خدا تنگ نیست و پائے گدا لنگ نیست کے مصداق قدم بڑھائے کہ لو، اب ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘۔ ان بنجاروں کے پاس شاید ان دوہری کمبلوں اور چند کپڑوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا اور نہ ہی ہندوستان کی اس وسیع و عریض سرزمین پر سر چھپانے کے لیے کوئی ٹھکانہ۔ واپس باسم جانے کا تصور ہی لرزہ خیز تھا، جہاں پر خونخوار ہندو انہیں جان سے مارنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ صرف ایک نام تھا، ڈاکٹر عمر خان صاحب ڈینٹسٹ کا، جو اس شہرِ غدار میں ان کا کچھ سہارہ بن سکتا تھا، لہٰذا ابا جان نے ڈاکٹر عمر خان صاحب کی تلاش کا قصد کیا۔ دل میں ٹھان لی تھی کہ ہار نہیں مانیں گے۔ جس اللہ کی وحدانیت کے گن گاتے پھرتے تھے، اس اللہ نے انہیں موت کے پنجے سے یوں نکالا تھا کہ ان کا بال تک بیکا نہیں ہوا تھا۔

ہزاروں ہندوؤں کے گھیرے کو اپنے زورِ بازو کے بل بوتے پر توڑ کر نکل آنا ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اور اب جیل کے تھکا دینے والے بیس ماہ بھی اپنے اختتام کو پہنچے تھے اور ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہونے کے باوجود بھارت سرکار نے انہیں حیدر آباد کے لیے ممکنہ خطرہ سمجھتے ہوئے چوبیس گھنٹوں میں ریاست حیدرآباد سے بے دخل ہونے کا حکم سنایا تھا۔

آکولا اسٹیشن سے باہر نکلے تو سناٹے میں ایک طرف ایک سرائے کے سامنے باسم جانے والی لاری کھڑی تھی جو صبح سویرے روانہ ہونے والی تھی۔ اس لاری کا کلینر یعقوب سر ائے کی ایک چارپائی پر لحاف اوڑھے لیٹا ہوا تھا، انہیں دیکھتے ہی آواز لگائی، ’’ ہے کوئی مسافر، باسم نان اسٹاپ۔‘‘

ابا جان نے اسے پہچانتے ہوئے فوراً بلند آواز میں کہا۔

’’ کیوں رے! یعقوب کیا ارادے ہیں ؟‘‘

’’ اسمٰعیل بھائی ؟ ‘‘ یعقوب لپکا اور ابا جان سے بغلگیر ہو گیا۔

ابا جان نے علیک سلیک کے بعد مختصراً اسے اپنے حالات سے آگاہ کیا اور کہا۔

’’ میں ذرا ڈاکٹر عمر خاں صاحب کی تلاش میں جا رہا ہوں۔ تم ان دونوں بچوں کا خیال رکھو۔‘‘

یعقوب نے سرور چچا اور ہاشم چچا کو گلے سے لگا لیا اور بولا۔

’’ تم ان کی فکر نہ کر و۔ میں انہیں اپنے بستر پر ساتھ سلا لیتا ہوں اتنے تم ڈاکٹر صاحب کی تلاش کر آؤ۔‘‘

اس نے دونوں کو چار پائی پر لٹا کر اچھی طرح لحاف اڑھا دیا اور ابا جان رات کی تاریکی میں ڈاکٹر عمر خان کی حویلی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔آخرِ کار تھوڑی سی تگ و دو کے بعد ان کی حویلی نظر آ گئی۔ قریب پہنچ کر ابا جان نے آواز دی۔

’’ ڈاکٹر عمر خان صاحب ہوت۔‘‘

’’ کون ہے رے؟‘‘ کافی دیر کی سمع خراشی کے بعد اوپر سے ایک کرخت آواز نے جوب دیا۔

’’ ڈاکٹر عمر خان صاحب ہیں ؟‘‘

’’ یہاں کوئی ڈاکٹر عمر خاں نہیں رہتے۔‘‘

بھائی! پہلے تو یہیں رہتے تھے۔‘‘

’’رہتے تو تھے مگر اب نہیں رہتے۔‘‘

کچھ اتا پتا ہے ان کا؟‘‘

ہاں شاید، ۔۔۔ حویلی میں منتقل ہو گئے تھے۔‘‘

شکریہ بھائی! رات کے وقت تمہیں تنگ کرنے پر معذرت۔‘‘

ابا جان۔۔۔ حویلی کی تلاش میں نکلے۔ابا جان، بقول خود انکے، ’’رات کے اندھے‘‘، اور رات تین بجے کا اتھاہ سناٹا اپنی تاریکی سمیت چاروں طرف چھایا ہوا، ایسے میں جائیں تو جائیں کہاں ؟ لیکن کہتے ہیں کہ ڈھونڈنے والے کو خدا بھی مل جاتا ہے، پھر یہ۔۔۔

حویلی بھلا کیا چیز تھی۔ ایک گھنٹے تک تاریکیوں میں بھٹکنے کے بعد گویا نورِ سحر کی طرح ملی۔ صبحِ صادق ہونے والی تھی۔ حویلی پر پہنچ کر پھر آواز لگائی۔

’’ ڈاکٹر عمر خاں بھائی ہوت۔‘‘

اوپر سے لالٹین ہاتھ میں لیے ڈاکٹر صاحب نے جھانکا۔

’’کون ہو بھائی؟‘‘

’’ جی میں اسمٰعیل ہوں۔ حیدرآباد سے آیا ہوں۔‘‘

’’ اچھا میں ابھی حاضر ہوتا ہوں۔‘‘

لٹھ اور لالٹین ہاتھ میں سنبھالے ہوئے نیچے اترے اور سوال کیا۔

’’ سامان وغیرہ کہاں ہے؟‘‘

ابا جان نے جواب دیا۔’’ اسٹیشن پر بچوں کے ساتھ ہے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے قریب ہی کھڑے ہوے ایک تانگے کے کوچوان کو نیند سے اٹھایا، تانگا حرکت میں آیا اور ڈاکٹر عمر خان ابا جان کے ساتھ اسٹیشن پہنچے، دونوں بچوں کو اٹھایا اور واپس حویلی پہنچ کر والد کو ایک کمرہ دکھانے کے لیے لالٹین اوپر اٹھائی تو حیران رہ گیے۔

’’ ارے ! اسمٰعیل تم؟‘‘

’’ کیا واقعی ! آپ نے پہلے پہچانا نہیں تھا؟‘‘

’’ نہیں۔ ہم تو یہاں حیدرآباد سے آنے والے مسلمانوں کی آمد کے منتظر رہتے ہیں تاکہ انھیں مناسب سہولیات فراہم کر سکیں۔‘‘

اپنا بستر اور اپنا کمرہ ملا تو تینوں بھائی فوراً ہی بستر پر ڈھیر ہو گیے اور یوں انٹا غفیل ہو کر سوئے کہ اگلے دن سہہ پہر کی خبر لائے۔

کمرہ یوں بند ہوا کہ جب اگلے دن دوپہر تک بھی نہ کھلا تو دیگر اصحاب کو سخت تشویش لاحق ہوئی کہ کہیں ہندوؤں نے انھیں زہر کھلا کر تو نہیں بھیجا تھا؟ طے یہ ہوا کہ اگر اگلے ایک گھنٹے میں بھی دروازہ نہ کھلا تو پھر دروازہ توڑنا پڑے گا۔

دروازہ توڑنے کی نوبت تو نہ آئی اور یوں ابا جان کو سر چھپانے کی جگہ میسر آ گئی تو ابا جان کو فکر ِ معاش لاحق ہوئی۔ ڈاکٹر عمر خان کے کلینک کے ایک کونے میں اپنا ایک میز کا دفتر بنایا اور لگے نت نئی اسکیمیں بنانے۔ انھیں دنوں اتفاق سے بارش کے باعث ایک پریس کی دیوار گری تو ابا جان اور ان کے ساتھی وہاں سے جا کر پریس کا پتھر چرا لائے اور یوں ہاتھ سے کتابت اور اشاعت کے مراحل طے کر کے ہفت روزہ ’امن‘ کا پہلا شمارہ چھپ کر مدیر صاحب کی سائیکل پر پہنچا جہاں سے وہ اسے سارے شہر میں بیچا کیے۔ پہلے ہی شمارے میں ابا جان کا لکھا ہوا اداریہ ’’گاندھی جی اور دیہی پنچایتیں ‘‘ اپنی مقبولیت کی تمام حدیں عبور کر گیا۔

ادھر ہفت روزہ ’امن‘ نے اپنی اشاعت کا ’باقاعدہ‘ آغاز کیا ادھر سامنے ایک درزی نے ہاشم چچا کو دیکھا تو آواز دیکر فوراً بلایا۔

’’ ارے ادھر آ رے لڑکے‘‘

’’ جی فرمائیے؟‘‘

’’ تو ہاشم ہے نا؟‘‘

’’ جی ہاں ‘‘

’’ تو پھر یہ نوجوان شخص اسمٰعیل بھائی ہیں ؟‘‘

’’ جی ہاں ! لیکن آپ کو یہ سب کیسے پتا چلا؟‘‘

’’ ارے ! میں تمہارے بڑے بھائی میاں کا شاگرد ہوں۔ سلائی میں نے انہیں سے سیکھی ہے۔ ‘‘

یوں ہاشم چچا اس دکان پر ملازم ہوئے اور آدھوں آدھ اجرت پر روز آنہ چار چھ روپے گھر لانے لگے۔ روز بازار سے کلیجی لا کر، اسے تل کر بازار کی روٹی کے ساتھ کھا لیا جاتا۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا جاتا۔

اسی اثناء میں ہز ہائی نس مہاراجہ پلس گڑھ کے پرنسپل سکریٹری نے ابا جان کو دیکھا تو ٹھٹھک گیا، پوچھا۔

’’ ان صاحب کا تعلق اسی جماعت کے لوگوں سے تو نہیں ہے جو تقریر کرتے پھرتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں؟‘‘

جواب اثبات میں پایا تو باچھیں کھِل گئیں۔’’ ارے! انہیں کو تو میں ڈھونڈ رہا تھا۔ مہاراجہ صاحب نے حکم دیا ہے کہ انہیں پکڑ لاؤ، ایک ہندو مسلم مناظرہ منعقد کریں گے۔‘‘

ابا جان کو باقاعدہ پلس گڑھ آنے کی دعوت اور فرسٹ کلاس ٹرین کے ٹکٹ کے پیسے ( ساٹھ روپے نقد سکہِ رائج الوقت) پیش کیے گئے جسے انہوں نے شکریے کے ساتھ قبول فرمایا۔ چون روپے ہاشم چچا کو کھانے کے خرچ کے لیے دیے اور چھ روپے کا ٹرین ٹکٹ خرید کر تھرڈ کلاس میں پلس گڑھ ریلوے اسٹیشن پر اترے۔ انہیں رسیو کرنے کوئی نہیں آیا تھا۔

ابا جان نے رومال کندھے پر رکھا اور تیز تیز چلتے ہوئے اسٹیشن سے باہر کی جانب جانے لگے۔ فرسٹ کلاس کے ڈبے کے سامنے مہاراجہ کے پرنسپل سکریٹری بمع ہز ہائی نس راجکمار اور مسٹر بنر جی، انتظار میں کھڑے تھے۔ گورنر شکلا کی صاحبزادی بھی ان کے ہمراہ معزز مہمان کے لیے چشمِ براہ تھیں۔ سلام علیک کے بعد رسمی خوشگوار جملوں کا تبادلہ ہوا اور یوں یہ شاہی قافلہ اپنی منزلِ مقصود کی جانب عازمِ سفر ہوا۔

ہندوستان کے راجے مہاراجے اپنی جاگیریں کھو چکے تھے اور بھارت سرکار سے سالانہ وظیفہ پاتے تھے۔ مہاراجہ پلس گڑھ کو بھی حکومتِ ہندوستان کی جانب سے بیس لاکھ روپے سالانہ وظیفہ ملتا تھا جو بقول خود مہاراجہ صاحب کے، ان کے ہاتھیوں کی غذا کے لیے ہی تقریباً کافی ہوتا تھا۔ جاگیریں گئیں لیکن شاہی آن بان نہ گئی۔ راجہ کا دربار اسی شان و شوکت کے ساتھ لگا کرتا جو پرکھوں کی روایت تھی۔

اُدھر مسلمانوں کی بھی غیر مسلم بادشاہوں کے دربار میں حاضری کی ایک عجیب و غریب اور عظیم الشان روایت رہی ہے جس کی امامت شاید حضرت جعفر طیار ؓ فرماتے ہیں۔ابا جان بھی ایک اسی درویشانہ شان کے ساتھ اُس دربار میں حاضر ہوئے۔

مہاراجہ نے پر تپاک انداز میں ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں اپنے پہلو میں جگہ دی۔ قیام و طعام کا بند و بست فرمایا اور ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد آرام کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اگلے روز ناشتے سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے۔

’’ آ جاد (آزاد)! آج مہاراجہ۔۔۔ نے بلایا ہے۔ کیوں نہ تم ان کے سامنے چل کر اپنی تقریر کرو۔‘‘

مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ابا جان ان کے ساتھ چل دیے۔ پہلی گاڑی میں مہاراجہ کے ساتھ والد صاحب کو جگہ ملی۔ سامنے کی سیٹ پر پرنسپل سکریٹری براجمان تھے۔ ان معزز ہستیوں کو لے کر گاڑی کشاں کشاں بلو پیلس پہنچی، جہاں کی ہر چیز بلو یعنی نیلی تھی۔نیلا فرنیچر، نیلا قالین، نیلے جھاڑفانوس، نیلی کراکری، چائے کے برتن وغیرہ، نیلی دیواریں اور ان پر سجی ہوئی نیلی تصویریں، غرضیکہ ایک نیلی دنیا تھی۔ ایک نیلگوں سمندر تھا جو چار سو پھیلا ہوا تھا۔

ابھی تعارف سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مشہور ہندو مذہبی پیشوا مہارشی ٹکرو جی مہاراج اپنے دس چیلوں کے ساتھ دربار میں جلوہ افروز ہوئے۔ ان کا محفل میں پدھارنا تھا کہ محفل میں ایک جان سی پڑ گئی۔ ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھنا اب اس مسلے کی کیا گت بنتی ہے۔ ٹکرو جی مہاراج ہندو مسلم مناظروں میں ایک خاص شہرت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ آل انڈیا ریڈیو سی پی سے گیتا کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ان کو دیکھتے ہی ابا جان کے تو گویا جسم میں جان ہی نہ ہی۔مذہبی مناظروں میں ٹکرو جی مہاراج کا نام ہی ہیبت طاری کرنے کے لیے کافی تھا جبکہ ابا جان نہ ان کی موجودگی کی توقع کر رہے تھے اور نہ ہی اس موقع کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ایسی صورتحال میں ایک مسلمان مدد کے لیے جس ہستی کو پکارتا ہے ابا جان نے بھی اسی سے رجوع کیا اور انہیں جتنی بھی دعائیں یاد تھیں، انہوں نے دل ہی دل میں دہرانی شروع کر دیں کہ بار الٰہ ! آج ان ہندوؤں کے سامنے اپنے اس عاجز بندے کی لاج رکھ لیجو۔

ابا جان کہتے ہیں کہ جتنی جلد دعائیں اس دن قبول ہوتے ہوئے دیکھیں، شاید ہی کسی اور موقع پر دیکھی ہوں۔ تقریر کے لیے پہلے ابا جان کو دعوت دی گئی۔ وہ کھڑے ہوئے اور نہایت دھیمے انداز میں متانت کے ساتھ بولنا شروع کیا۔

’’ معزز حاضرینِ محفل! انسان اور انسان میں برابری ممکن ہے۔ انسان اور انسان آپس میں برابر ہوسکتے ہیں لیکن انسان اور جانور میں برابری ناممکن ہے۔ انسان اور جانور آپس میں برابر نہیں ہوسکتے۔ انسانوں کی آپس کی اس برابری کا ادراک اگرکسی دین و مذہب یا دھرم نے کیا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام ہی نے انسانوں کی آپس کی برابری کا ببانگِ دہل اعلان کیا ہے۔ جبکہ دیگر تمام مذاہبِ عالم انسانوں کو آپس میں تقسیم کرنے اور انہیں بڑا چھوٹا بنانے میں مصروف تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ہندو دھرم جو در اصل آریا دھرم ہے، اس نے آریاؤں کو بڑا، پوتر اور پاک بنا کر اوپر چڑھا دیا اور شودروں کو ناپاک، ملیچھ اور ذلیل بنا کر بدنامی اور گمنامی کے اس عمیق غار میں دھکیل دیا جہاں سے وہ ابد لاآباد تک نہیں نکل سکتے۔ ہاں صرف اسلام ہی انہیں عزت اور نیک نامی اور دیگر انسانوں کے ساتھ برابری کا ایک نیا راستہ دکھاتا ہے۔

اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو تمام انسانوں کے لیے اور تمام زمانوں کے لیے آیا ہے اور اس کا یہی دعویٰ ہے جبکہ کسی اور دھرم کا ایسا دعویٰ ہرگز نہیں ہے۔ ‘‘

ابا جان بولتے جاتے تھے اور ان کی آواز بلند ہوتی جاتی تھی، یہاں تک کہ وہ ایک ایسی گھن گرج میں تبدیل ہو گئی جس میں مصلحوں کی شفقت، مجاہدوں کا جوش و ولولہ اور وحدانیت پرستوں کا تیقن شامل تھا۔ خیالات کا ایک دریا تھا کہ بہا چلا آتا تھا اور الفاظ تھے کہ ایک نظم، ترتیب اور تسلسل کے ساتھ منہ سے اس طرح نکل رہے تھے گویا مقرر نے گھنٹوں ان خیالات کو مربوط کیا ہو۔

ابا جان نے دو گھنٹے کی ایک طویل تقریر میں نہایت مدلل انداز سے یہ ثابت کر دیا کہ فی الحقیقت اسلام ہی وہ واحد راستہ ہے جو انسانیت کے تمام دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے۔ اور کھوجنے والوں کے ذہنوں کے تمام سوالات کے حل اسلام ہی میں موجود ہیں اور دیگر مذاہب و ادیان اپنی تمام تر ذات پات اور دیگر تقسیموں کے ساتھ انسانیت کو درپیش مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

ابا جان کی تقریر کے بعد جب مہارشی کی باری آئی تو انھوں نے ہاتھ جوڑ کر معذرت کر لی اور کہا کہ آج میں صرف سننے کے لیے آیا ہوں۔

واپسی کا سفر شروع ہوا تو گاڑیاں آنی شروع ہوئیں اور لوگ بیٹھنے لگے۔ اس افراتفری میں ابا جان کو دوسری گاڑی میں جگہ ملی جس میں مسٹر بنر جی ان کے ہمسفر بنے۔ گاڑی چلتے ہی وہ یوں گویا ہوئے۔

’’ واہ مولیٰنا ! کیا تقریر کی ہے۔ ایمان تازہ کر دیا۔‘‘

’’ہیں ! تو کیا آپ مسلمان۔۔۔۔۔۔؟‘‘ابا جان حیرت زدہ رہ گئے۔

’’ ابے مولوی کے بچے! کیا مجھے کافر سمجھاہے؟۔ میرا نام حبیب بنر جی ہے۔ میرے دادا نے اسلام قبول کیا تھا۔‘‘

’’ ماشاء اللہ۔‘‘   ابا جان نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی انہیں گلے لگا لیا۔

الوداعی ملاقات میں راجہ صاحب ابا جان کے سر ہو گئے۔

’’ اب تم یہیں رہو اور چھتیس گڑھ کے گھنے جنگلات اور دیگر علاقوں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے رہو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ادھر پولیس اور فوج بھی تمہارا بال تک بیکا نہیں کر پائے گی۔ رہی ہماری غرض سو وہ اس طرح پوری ہو گی کہ تمہاری تقریروں میں آریائی موقف اور سماج کی نفی ہوتی ہے جو ہمارے مقصد کے عین مطابق ہے۔‘‘

ابا جان نے اس پیشکش کو شکریے کے ساتھ ٹھکراتے ہوئے بتایا کہ اب وہ صرف پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی راجہ صاحب نے نہایت شگفتہ انداز میں ابا جان کو کئی موٹی موٹی گالیاں مرحمت فرمائیں کہ وہ بزدل اور بھگوڑے ہیں اور ڈر کر یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔

ابا جان نے انھیں سمجھایا کہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ وہ بیس ماہ کی طویل جیل کاٹ کر تھک گئے ہیں اور اب کچھ عرصہ پاکستان جا کر اس دارالامان میں سکون سے رہ کر آرام کرنا چاہتے ہیں تاکہ پھر تازہ دم ہو کر اسلام کی خدمت کر سکیں۔

راجہ صاحب نے باصرار انہیں واپسی کا کرایہ اور دو سو روپے عنایت فرمائے یہ کہتے ہوئے کہ وہ اب صرف نام کے راجہ رہ گئے ہیں جنہیں حکومتِ ہندوستان کی جانب سے گزارہ الاونس ملتا ہے، لہٰذا اندریں حالات وہ کچھ زیادہ تو نہیں کرسکتے۔ البتہ انھوں نے کمال شفقت سے ایک پوسٹ کارڈ پر اپنا پتہ لکھ کر ابا جان کے حوالے کیا کہ ویسے تو تم مجھے بہت خوددار نظر آتے ہو، مگر زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں پیسوں کی مجبوری ہو تو بلا تکلف مجھے یہ کارڈ بھجوا دینا، میں تمہیں اپنے لندن کے بنک اکاؤنٹ سے پیسے بھجوا دوں گا۔

ابا جان نے حویلی سے نکلتے ہی پوسٹ کارڈ کو پھاڑ کر پھینک دیا لیکن ان سنہری یادوں کو کلیجے سے لگائے آگے بڑھ گئے۔

ڈاکٹر عمر خان صاحب کی بیٹھک کیا تھی، احبابِ علم و ادب کا گویا ایک پرسکون ٹھکانا تھی، جہاں پر وقتاً فوقتاً ان کی ادبی محفلیں سجا کرتیں اور مشاعرے منعقد ہوا کرتے۔ ایسے ہی ایک آل انڈیا مشاعرے میں ابا جان کی ملاقات سورت سے آئے ہوے ایک شاعر نجمی سے ہوئی۔ بر سبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ ابا جان ا یک ا سلامی عالم، داعی حق، بہترین مقرر، مضمون نگار، comparative religion کے طالب علم ہونے اور عربی فارسی اردو پشتو اور انگریزی میں یکساں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ طرز شاعر بھی ہیں ( یا اپنی جوانی میں ہوا کرتے تھے) اور اس ناطے شعر گوئی اور شعر فہمی میں طاق ہیں۔ گو ابا جان نے اس مشاعرے میں اپنی نظم یا غزل تو نہ پڑھی لیکن دورانِ گفتگو اپنی علمی قابلیت سے نجمی صاحب کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ ان کے گرویدہ ہو گئے، کہنے لگے۔

’’مولوی صاحب! میری ایک درخواست ہے۔‘‘

’’فرمائیے؟‘‘

’’ مجھے اس مشاعرے کے بعد کچھ وقت عنایت فرمائیے۔‘‘

’’ میں حاضر ہوں۔‘‘

خیر صاحب! رات گئے جب تمام شاعروں کے بعد صدر نشین نے بھی اپنی باری پوری کر لی بلکہ بدرجہ اتم پوری کر لی یعنی کئی قطعوں، ایک دو غزلہ اور کئی طویل غزلوں کے مترنم اظہار کے بعد شمعِ محفل کو اپنے سامنے سے ہٹانے کی اجازت مرحمت فرمائی تو اس کے بعد ہی ابا جان اور نجمی صاحب اکھٹے ہوسکے۔

’’ جی اب فرمائیے‘‘

نجمی صاحب جو سورت کے ایک گجراتی مسلمان تھے، یوں گویا ہوئے۔

’’مولوی صاحب! یوں تو میں مسلمان ہوں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اسلام اور ایمان سے متعلق کچھ بہت گھمبیر قسم کے خیالات و خدشات میرے ذہن میں پرورش پا رہے ہیں۔خاص طور پر آوا گون کا مسئلہ۔ انھی کے بارے میں آپ کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو چاہتا ہوں۔‘‘

گفتگو شروع ہوئی تو رات بھیگ چلی تھی اور گفتگو اختتام پذیر ہوئی تو سپیدہ سحری نمودار ہوا چاہتا تھا۔ابا جان نے پہلے تو بہت اطمینان اور صبر کے ساتھ نجمی کے اعتراضات سنے اور پھر اسی اطمینان اور صبر کے ساتھ انہیں سمجھانا شروع کیا۔ ایک ایک کر کے ان کے سارے اعتراضات و خدشات کا مدلل اور بھر پور جواب دینے لگے۔ یہاں تک کہ اِدھر موذن نے اللہ کی تکبیر بیان کرنا شروع کی تو اُدھر نجمی نے خوش ہو کر کہا۔

’’ الحمد للہ کہ میں مسلمان ہوں اور مولوی صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ نے آج مجھے کافر ہونے سے بچا لیا۔آج آپ سے بات نہ ہو پاتی تو میں تو اسلام جیسی نعمت سے پھر چلا تھا۔‘‘

احسان مندی کے احساس سے زیر بار ہوتے ہوئے نجمی نے ابا جان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے اور فرطِ جذبات سے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا

’’ مولوی صاحب ! اب فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔‘‘

ابا جان خوش ہوئے اور فوراً ہی جواب دیا۔

’’ بھائی ! میں نے کوئی بڑا تیر نہیں مارا۔ ہاں البتہ اپنے مسلمان بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچانا میرا فرض تھا، سو وہ میں نے پورا کیا۔ اب اگر اللہ نے آپ کو یہ توفیق بخشی کہ آپ اپنے وسوسوں اور شیطانی خیالات کو اپنے ذہن سے نوچ کر باہر پھینک سکے تو اس میں میرا تو کوئی کمال نہیں۔ اللہ کا شکر ادا کیجیے۔‘‘

’’ اللہ کا شکر پہلے اور آپ کا شکریہ اس کے بعد۔۔۔‘‘

نجمی نے بے حد اصرار کیا تو نماز کے لیے اٹھنے سے پہلے ابا جان نے اپنی دلی خواہش کا اظہار کر دیا۔

’’ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان جا سکوں۔ اگر آپ مجھے پاکستان بھجوانے کا کوئی بند و بست کرسکیں تو یہ آپ کا احسان ہو گا مجھ پر۔‘‘

نجمی خوشی کے مارے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابا جان کو گلے لگاتے ہوئے کہنے لگے۔

’’ سمجھ لیجے کہ آپ پاکستان پہنچ گئے۔ آج ہی آپ میری چمڑے کی کھیپ کے ساتھ روانہ ہو جائیے، آگے اللہ مالک ہے۔‘‘

حبیب بن وحید کو والد صاحب کے پروگرام کا علم ہوا تو وہ بھی ابا جان کے سر ہو گئے۔

’’ اسمٰعیل بھائی! میں بھی تمہارے ساتھ پاکستان جاؤں گا۔ ‘‘

الغرض نجمی نے اس وعدے کے ساتھ کہ وہ بچوں کو جلد، راستے کھلتے ہی بذریعہ ٹرین روانہ کر دیں گے ابا جان اور حبیب بن وحید کو سورت پہنچایا، پھر وہ دونوں احمد آباد اور پھر وہاں سے اونٹوں کے ایک قافلے کے ساتھ راجستھان کے سرحدی علاقوں کی جانب روانہ ہوئے۔اونٹوں کی سواری اور پھر چمڑے کی کھیپ سمیت کاروباری نوعیت کا یہ قافلے کا سفر، گھنٹوں کا سفر دنوں میں طے کرتے ہوئے یہ لوگ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور پھر وہاں سے تیسرے گاؤں کی طرف رواں دواں تھے۔ میرِ قافلہ نے ابا جان سے کہا۔

’’ مولوی صاحب ! آپ ہمارے منشی ہیں، یہ حساب کتاب کا کھاتا سنبھالیے، اور کھالوں کی اس لین دین کا حساب رکھیے۔‘‘

اونٹ کا شمار دنیا کے عجیب و غریب ترین جانوروں میں سے کیا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں، ’’اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کل سیدھی۔‘‘ اور پھراس ٹیڑھی کل والے جانور کی سواری؟ اللہ غنی۔ گھوڑے، گدھے، خچر اور ہاتھی کی سواری ایک طرف تو اونٹ کی سواری دوسری طرف۔ شاید مولیٰنا محمد حسین آزاد کبھی خود اونٹ پر نہیں بیٹھے، ورنہ وہ اونٹ کی کچھ یوں تعریف نہ کرتے۔

’’ دیکھنا !   سانڈنی سوار جاتا ہے۔ کیا عمدہ سانڈنی ہے۔ کیسی بے تکان جا رہی ہے۔ گردن تو دیکھو کیسی پیچھے کو جھکی ہوئی ہے! واہ وا! جیسے مور ناچتا چلا جاتا ہے۔ سانڈنی کی کیا بات ہے!‘‘

اونٹ کی سواری کا حال تو کوئی ابا جان سے پوچھے۔ وہ زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار اونٹ کی سواری کر رہے تھے۔ اونٹ ایک قدم آگے بڑھاتا تو ابا جان آگے اور حبیب بن وحید پیچھے کی طرف جھک جاتے اور اونٹ کے اگلے قدم کے منتظر رہتے تاکہ وہ اپنی ہئیت تبدیل کرسکیں۔ اونٹ پر بیٹھے ہوئے اپنی دونوں ٹانگیں ایک دوسر ی سے اس قدر فاصلے پر رکھنی پڑتی تھیں کہ رانوں میں مستقل درد رہنے لگا تھا۔ اور پھر یہ اونٹ شاید اس قافلے کاسست ترین اور خبیث ترین اونٹ تھا جو ہر قدم اس سست روی کے ساتھ اٹھاتا تھا گویا انتہائی ناگواری کی حالت میں ایسا کر رہا ہو۔شاید اسے اپنے ان دونوں سواروں کی دلی کیفیت کا بالکل احساس نہ تھا جن کے لیے یہ سفر عقیدت کا سفر تھا۔ کافرستان سے پاکستان کی جانب۔جسے انھوں نے اور ان کے عظیم قائد، قائدِ اعظم نے بڑی جدو جہد اور قربانیوں سے حاصل کیا تھا۔ آج ابا جان کو تین جون سنہ انیس سو چالیس کا وہ دن یاد آ رہا تھا جب انھوں نے میرا جان سیال کے ہاں دو گھنٹے مشین چلوا کر ایک گھنٹے کی آل انڈیا ریڈیو کی نشریات میں خبروں کے دوران وزیرِ اعظم انگلستان کی تقریر سنی تھی اور اس میں وزیرِ اعظم کی زبانی یہ سن کر سجدئہ شکر بجا لائے تھے کہ’ وہ نہایت افسوس کے ساتھ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کرتے ہیں ‘۔آج انہیں ان کے تین جون سنہ انیس سو چالیس کو دیکھے ہوے خواب کی تعبیر ملنے والی تھی۔آج وہ اپنے پاک وطن پاکستان جا رہے تھے جو اپنی جغرافیائی حدوں کی وجہ سے ایک ملک نہیں کہلایا جاتا تھا بلکہ اس کا حدود اربعہ یہ تھا کہ وہ بر صغیر ہند وستان کے مسلمانوں کا وطن تھا۔

ابا جان اور حبیب بن وحید کو ایک ایک قمچی تھما دی گئی تھی کہ وہ گاہے بگاہے اس کا استعمال کرتے رہیں تاکہ اونٹ اس میانہ روی سے بالکل ہی بیزار ہو کر از خود ہی زمیں پرنہ بیٹھ جائے۔اونٹ کی سست رفتاری کو دیکھ کر حبیب بن وحید کو یکلخت جو غصہ آیا تو انہوں نے اپنی قمچی ہوا میں لہرائی اور شائیں کی آواز کے ساتھ پوری قوت سے اسے اونٹ کے سر پر دے مارا۔ اگلے کئی لمحوں تک دونوں کو بالکل ہوش نہ رہا کہ کیا ہو رہا ہے، کیونکہ یکبارگی اونٹ بلند آواز میں بلبلایا اور دوڑ پڑا۔جن لوگوں نے اونٹ کو خراماں خراماں چہل قدمی کرتے دیکھا ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اونٹ بالکل نہیں بھاگ سکتا، یہ جان کر ضرور حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ اونٹ ضرورت پڑنے پر انتہائی تیز رفتار سے دوڑ بھی سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ساربان حضرات یہ حقیقت خوب جانتے ہیں کہ اونٹ کو تیز چلانے کے لیے اس کے جسم پر تو قمچی رسید کی جا سکتی ہے لیکن اس کے سر پر جو اس کے جسم کے نازک ترین حصوں میں سے ایک ہے کبھی نہیں مار نا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اونٹ کو ناقابلِ برداشت تکلیف ہوتی ہے اور وہ گویا پاگل سا ہو جاتا ہے۔

قمچی کی مار پڑتے ہی اونٹ کو اپنی نانی یاد آ گئی اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اور بے تحاشا ایک طرف کو دوڑ پڑا۔ نیز اس کی بدتمیزی ملاحظہ فرمائیے کہ دوڑتے وقت ارد گرد کی خار دار جھاڑیوں کا بھی خیال نہیں کیا اور بلا جھجک ان گھستا چلا گیا اور کئی میل تک دوڑا کیا۔ نتیجتاً ابا جان اور حبیب بن وحید ان خار دار جھاڑیوں سے بری طرح زخمی ہوئے۔

بے وفا اونٹ کا وفا دار ساربان یہ ماجرہ دیکھ کر اونٹ کی جانب دوڑا اور پھر دوڑتا ہی چلا گیا، کیوں کہ اونٹ کی رفتار خاصی تیز تھی۔

اگلے آدھے گھنٹے تک دونوں اشخاص اپنی جانِ عزیز کو سنبھالے اونٹ کے جسم سے چمٹے رہے جو اس وقت انتہائی تیز رفتار سے دوڑا جا رہا تھا اور اس کا ساربان اس بھاگتے بھوت کا پیچھا کرتے ہوئے اسے چمکارتا اور للکارتا جاتا تھا۔ بالآخر اونٹ ایک جگہ جا کر رک گیا، ساربان کی چمکاریں رنگ لائی تھیں یا پھر شاید اونٹ ہی بھاگتے بھاگتے تھک گیا تھا۔

بعد میں قافلے کے ایک ساتھی نے سمجھایا کہ اونٹ کے سر پر کبھی نہیں مارنا چاہیے، تو ابا جان اور حبیب بن وحید دونوں نے یہ عہد کیا کہ وہ آئندہ کبھی کسی اونٹ کے سر پر نہیں ماریں گے۔آدھے گھنٹے تک ایک وحشیانہ انداز میں دوڑتے ہوئے اونٹ کی پیٹھ پر موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنا اور اونٹ کو روکنے اور قابو میں کرنے کے لئے قافلہ والوں کی تگ و دو ایک انتہائی سبق آموز صورتحال کے طور پر ان کے سامنے تھی۔

الغرض سفر جاری رہا اور ایک رات جبکہ اس وسیع و عریض ریگستان میں چاندنی چٹکی ہوئی تھی اور ابا جان اور حبیب بن وحید گاؤں گاؤں چمڑے کی رسیدیں کاٹتے کاٹتے بیزار ہو چکے تھے، وہ سرحدی گاؤں واوڑی میں سرحد پر لگی خار دار تار تک پہنچ گئے۔

’’ مولوی صاحب ! اب آپ لوگ اس درخت پر چڑھ کر باڑھ کی دوسری جانب پاکستان میں کود جائیے۔

ابا جان اور حبیب بن وحید اپنے ساتھیوں سے گلے ملے اور الوداع کہہ کر اپنے تھیلے سنبھالتے ہوئے اونٹ کے اوپر چڑھ کر درخت کی بلند شاخ پر پہنچ گئے۔ وہاں سے پہلے اپنے تھیلے دوسری طرف پھینکے اور پھر خود بھی تھلوں کے پیچھے باڑھ کے دوسری طرف کود گئے۔ ابا جان پاکستان پہنچ چکے تھے۔

سرحدی پولیس نے ان دونوں مولویوں کو سرحدی علاقے میں آوارہ گردی کرتے ہوئے پایا تو فوراً گرفتار کر کے اپنے افسر کے سامنے پیش کر دیا۔ افسر نے کہا۔’’ اگر میں چاہوں تو تم کو فوراً سزا سنا سکتا ہوں لیکن چونکہ میں نے (میرے آدمیوں نے) ہی تم کو سرحد پار کرتے ہوئے گرفتار کیا ہے لہٰذا میں تمہیں میر پور خاص مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کروں گا۔‘‘

اس نے جمعدار عبدالعزیز کو حکم دیا کہ وہ دونوں مجرموں کو لے کر فوراً میر پور خاص روانہ ہو جائے اور مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں پیش کرے۔جمعدار عبدالعزیز دونوں مجرموں کو لے کر چلا تو اس شان سے کہ راستے کے ہر ریسٹورنٹ (عرفِ عام میں ہوٹل) پر رُکتا اور ہوٹل والے کو حکم دیتا کہ یہ دونوں سرکاری مہمان ہیں، لہٰذا ان کی خاطر خواہ، خاطر مدارات کی جائے۔

میر پور خاص پہنچے تو اس نے دونوں کو ایک ہوٹل میں انھی اسپیشل ہدایات کے ساتھ ٹھہرایا کہ ’’ یہ دونوں سرکاری مہمان ہیں لہٰذا یہ جو کھانا چاہیں انھیں پکا کر کھلایا جائے۔‘‘ اور ابا جان اور حبیب بن وحید سے کہنے لگا۔’’مولوی صاحب ! آپ لوگ یہاں اطمینان کے ساتھ ٹھہرئیے، میں ایک آدھ دن میں پیشی کی تاریخ لے کر آتا ہوں۔‘‘ اور وہاں سے چلتا بنا۔

دونوں سرکاری مہمان ٹھاٹھ سے اس ہوٹل میں رہا کیے اور ان کی خاطر خواہ مدارات ہوتی رہیں، لیکن عبدالعزیز نے نہ آنا تھا اور وہ نہ آیا، یہاں تک کہ ایک ہفتہ گزر گیا۔ ایک ہفتے بعد جب جمعدار عبدالعزیز نے اپنی شکل دکھائی تو ابا جان نے شکوہ کیا۔

’’ بھائی عبدالعزیز ! ہم تو یہاں ہوٹل میں انتظار کرتے کرتے بیزار ہو گئے ہیں۔جلد ہی تاریخ لے کر ہمیں عدالت میں پیش کرو۔‘‘

مولوی صاحب! تم دونوں بھی بس کاٹھ کے الو ہو۔‘‘ عبدالعزیز ہنس پڑا۔پر جب دیکھا کہ یہ دونوں بھاگنے کی بجائے عدالت میں حاضر ہونے پر مصر ہیں تو خوشخبری سنائی کہ کل صبح تم دونوں کی پیشی ہے۔اگلے دن دوپہر تک دونوں کی پیشی ممکن ہوسکی۔ مجسٹریٹ نے جمعدار عبدالعزیز سے ان کا کیس سننے کے بعد دونوں کو صفائی کا موقعہ دیا اور ان کے بیانات سننے کے بعد، ان دونوں کو گھور کر دیکھتے ہوئے عدالت کا فیصلہ سنا دیا۔

’’ محمد اسمٰعیل آزاد اور حبیب بن وحید! تم دونوں نے سرحد پار کر کے پاکستان آنے کا جو جرم کیا ہے، اس جرم کے لیے تم دونوں کو تا برخواستِ عدالت قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔‘‘

یہ فیصلہ سناتے ہی مجسٹریٹ نے عدالت برخواست کر دی اور یوں ابا جان پاکستان کے آزاد اور با عزت شہری بن گئے۔

٭٭٭

 

 

 

باب نہم:پھر جس نے اللہ اور اُس کے رسول کے لیے ہجرت کی

 

ابا جان پاکستان پہنچ گئے اور یہاں پر انھوں نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ زادِ سفر جیل سے ملا ہوا ایک کمبل تھا۔ بیوی بچے اور ماں باپ بھائی بہن وغیرہ ابھی ہندوستان ہی میں تھے، لیکن راستے کھل گئے تھے اور لوگ باقاعدہ راستوں سے پاکستان آنے لگے تھے۔ ایک بھائی بھارت سے چلے تو لاہور پہنچ گئے اور وہیں اپنا ڈیرہ جما لیا۔ باقی بہن بھائی اماں جان کے ساتھ بذریعہ ریل کراچی پہنچے اور یہاں رہائش اختیار کر لی۔ والد صاحب نے بڑے بھئی میاں کے ساتھ حیدرآباد ہی میں رہنا منظور کیا۔راقم الحروف کی اماں اور بڑے بھائی حبیب الرحمٰن ابا جان کے ایک بہت اچھے دوست جناب روشن دین صاحب اور ان کے خاندان کے ساتھ پشاور پہنچے۔اسی طرح ساس سسر وغیرہ بھی وہاں سے چلے تو سیدھے پشاور پہنچے اور وہیں کلیم میں ایک بلڈنگ لے کر اس میں رہائش اختیار کی تو راقم الحروف کی اماں اور بڑے بھائی بھی وہیں نانا نانی کے پاس پہنچ گئے اور ان کے ساتھ رہنے لگے۔ ابا جان میر پور خاص سے چلے اور منزلیں مارتے ہوئے کراچی پہنچے۔

ابا جان کراچی پہنچے تو سب سے پہلا اور سب سے بڑا مسئلہ سر چھپانے کا تھا۔کراچی میں ہندوؤں کی خالی کی ہوئی بہت سے عمارات ویران پڑی تھیں۔ ابا جان اور ان کے ساتھی نے ان ہی میں سے ایک عمارت میں جو لارنس روڈ پر واقع تھی ایک فلیٹ کو تاک لیا اور کئی دوسری مہاجرین کے ساتھ اس عمارت میں ڈیرہ ڈال دیا۔

یوں گویا دارالسلام میں پہلی مرتبہ ابا جان کو ایک ٹھکانا میسر آیا تو سکون کی نیند نصیب ہوئی۔ ارد گرد رہنے والے مہاجرین سے علیک سلیک ہوئی اور ان کی کہانیاں سن کر ان کے دکھ درد میں شریک ہوئے۔اسی بلڈنگ میں ان کے ساتھ ایک پولیس افسر بھی رہتا تھا۔ ان لوگوں نے شروع شروع میں اس سے بھی اچھے تعلقات استوار کرنے کی سعی کر ڈالی لیکن اس کے سرد رویے کی بناء پر گویا

آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے

صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

ادھر سونے پر سہاگہ یہ کہ اسی اثناء میں کسی ساتھی نے خبر دی کہ اس پولیس افسر کا چال چلن بھی مشکوک ہے، لہٰذا سب ساتھیوں نے مل کر اس کے فلیٹ کی نگرانی کرنے کا پروگرام بنا ڈالا تاکہ اس افواہ کی بھی تحقیق ہو جائے۔

مختلف لوگوں کی مختلف اوقات میں ڈیوٹیاں لگائی گئیں اور اس طرح چوبیس گھنٹے اس پولیس افسر کے فلیٹ کا پہرہ دیا گیا تو نتائج بھی جلد ہی سامنے آ گئے۔ نتائج گو بہت اچھے نہ تھے۔ پہرے داروں نے خبر دی کہ ہر روز رات کے وقت اس افسر کے گھر میں ایک مشکوک عورت داخل ہوتی ہے اور صبح تک رہتی ہے۔ بہت سنگین معاملہ تھا۔ دارالسلام میں اس قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ عمارت جس کو ان لوگوں نے اپنا گھر بنانے کی سعی کی تھی، ان کے لیے سکون کا منبع تھا۔ یہ کوئی چکلا نہ تھا کہ یہ لوگ یہاں پر اس قسم کی حرکتوں کو برداشت کر پاتے۔ اس قسم کی صورتحال اِن امن پسند اور سکون کے متلاشی لوگوں کو ہرگز پسند نہ تھی۔ انھوں نے بہت سوچا کہ اس بارے میں کیا کیا جائے۔ آخر بہت سوچ بچار کے بعد ایک لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔ وہ رات تمام ساتھیوں نے جاگ کر آنکھوں میں کاٹ دی۔ عمارت کے صدر دروازے پر کئی ساتھوں کا سخت پہرہ بٹھا دیا گیا کہ آج تو اس خبیث جوڑے کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیں گے لیکن جب صبح تک کوئی حرکت سامنے نہ آئی تو ان سب کو بڑی تشویش ہوئی۔ اچانک کسی ساتھی کو خیال آیا تو اس نے جا کر پچھلے دروازے کی طرف نظر کی تو سارامعاملہ ان کی سمجھ میں آ گیا۔ دونوں بدمعاش رات ہی کو پچھلے دروازے سے فرار ہو چکے تھے۔

خیر صاحب، وہ جو کہتے ہیں کہ رات گئی اور بات گئی، رات تو بہر حال چلی گئی لیکن بات کیسے جاتی۔ اب تو معاملہ اور زیادہ سنگین ہو گیا تھا۔ وہ بدمعاش جسے ان لوگو ں نے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا پروگرام بنایا تھا، انہیں مات دے کر اس وقت تو وہاں سے فرار ہو گیا تھا۔اب ان لوگوں کے پاس کوئی عینی شہادت موجود نہیں تھی اور نہ ہی رنگ رلیاں مناتے ہوئے اس جوڑے کو رنگے ہاتھوں پکڑنے میں کامیاب ہو پائے تھے۔ اب ایک طرف یہ نہتے، مجبور اور کمزور افراد تھے اور دوسری طرف ایک بدمعاش پولیس افسر جس کے ساتھ قانون نافذ کرنے والا ادارہ تھا، یعنی قانون کی پوری طاقت اس کی مٹھی میں تھی۔ ان لوگوں کے ساتھ جو کچھ نہ ہوتا کم تھا۔ انھوں نے پھر ایک ہنگامی اجلاس بلایا اور اس میں اس تمام صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

اس ہنگامی اجلاس میں جتنے منہ اتنی باتیں، غرض ہر شخص نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بہت دیر گزرنے پر بھی وہ اس ناگہانی سے بچاؤ کے لیے کوئی صورت تجویز نہ کرسکے۔ آخر کار ایک صاحب بہت دور کی کوڑی لائے۔ کیوں نہ گورنر صاحب کی خدمت میں جا کر یہ معاملہ ان کے گوش گزار کیا جائے اور ان سے اس سلسلے میں مدد کی اور پناہ کی درخواست کی جائے۔ تجویز معقول تھی، ہر چند کہ بعید از قیاس تھی۔ سب لوگوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ اب سوال یہ تھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ کون جا کر گورنر صاحب سے مدد کی درخواستکرے گا۔

جب کافی بحث و تمحیص کے بعد بھی وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو یہ طے پایا کہ کیوں نہ سب مل کر جائیں، اور گورنر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کریں۔چنانچہ وہ سب افراد ایک وفد کی شکل بنا کر گورنر ہاؤس پہنچے اور گورنر صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔

چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ ایک لٹے پٹے مہاجرین کا گروہ اور گورنر صاحب سے ملاقات کی خواہش؟ ناممکن۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد ایک صاحب گیٹ پر پہنچے اور ان خانماں بربادوں سے کیفیت دریافت کی۔ انھوں نے ساری صورتحال ان صاحب کے گوش گزار کی۔

’’ اب آپ کیا چاہتے ہیں ؟‘‘ ان صاحب نے دریافت کیا۔’’ اور گورنر صاحب سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’ جناب۔ اس بدمعاش پولیس افسر کو ہم نے چھیڑ دیا ہے لیکن اس سے ہمیں اب کون بچائے گا؟‘‘

’’ٹھیک ہے اس کا انتظام کر دیا جائے گا۔ اب آپ لوگ جائیے۔‘‘

’’ہم گورنر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں تاکہ ان سے مل کر انھیں اس صورتحال سے آگاہ کرسکیں۔‘‘

’’ گورنر صاحب فی الحال مصروف ہیں اور آپ سے نہیں مل سکتے۔‘‘

’’بہتر ہے۔ ہم انتظار کیے لیتے ہیں۔‘‘

خیر صاحب ان لوگوں نے انتظار کرنا شروع کیا۔ انتظار کی گھڑیاں لمبی ہوتی چلی گئیں اور دن ڈھل گیا، شام آئی اور چلی گئی۔ گورنر صاحب نہ نکلے۔ان لوگوں نے بھی ٹھان لی تھی کہ گورنر صاحب سے مل کر ہی جائیں گے۔ اس پولیس افسر کا کیا بھروسا، کب اٹھوا لے اور کب یہ شریف لوگ تھانے پہنچا دئیے جائیں۔ آدھی رات تک بھی جب یہ لوگ نہ ٹلے اور گیٹ پر دھرنا دئیے بیٹھے رہے تو رات بارہ بجے گورنر صاحب تنتناتے ہوئے باہر نکلے اور ان لوگوں پر برس پڑے۔

’’کون ہو بھئی تم لوگ؟‘‘

ان ’’لوگوں ‘‘نے بڑی جرات اور ثابت قدمی سے گورنر صاحب کو اپنی گزارشات پیش کیں۔ انھوں نے سنا تو کچھ ٹھنڈے ہوئے، بولے،

’’ تو اب کیا چاہتے ہو‘‘۔

جنابِ عالی آپ سے گزارش ہے کہ اس افسر کو خاص حکم جاری کیا جائے کہ وہ ہم لوگوں کو کسی جھوٹی صورتحال میں نہ پھنسائے۔‘‘

ہو جائے گا بابا، اب تم لوگ جاؤ۔‘‘

’’بہتر جناب۔‘‘ اور یہ لوگ وہاں سے چلے آئے۔

٭٭٭

 

 

 

باب دہم۔تربیلا جھیل سے پہلے

 

یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب تربیلا ڈیم ابھی بنا نہیں تھا۔پہاڑ کی ترائی میں ایک گاؤں تھا جس کا نام ستھانہ تھا۔تربیلا ڈیم بنا تو یہ علاقہ اس کی جھیل میں آ گیا اور منوں ٹنوں پانی میں ڈوب گیا۔ ابا جان اپنے معمول کے تبلیغی دوروں میں اس علاقے کا چکر لگا یا کرتے تھے اور وہاں پر قیام کیا کرتے۔وہاں تک پہنچنے کا راستہ انتہائی دشوار گزار اورسنسان تھا۔ اس وادی کے ایک سرے پر دریائے سندھ اپنی پر جوش لہروں کے ساتھ گزرتا تھا۔ ستھانہ تک پہنچنے کے لیے اس جگہ سے دریا کو عبور کرنا پڑتا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد ایک مرتبہ ابا جان کی طبیعت نے انھیں بے چین کیا اور انھیں اپنے دوستوں کی یاد ستائی تو وہ بوریا بستر باندھ کر ایک مرتبہ پھر اس علاقے کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔سہ پہر کا وقت تھا جب ابا جان کا دریا تک پہنچنا ممکن ہوسکا۔سورج غروب ہونے میں ابھی کئی گھنٹے تھے اور ابا جان سورج غروب ہونے سے پہلے اس سنسان علاقے سے نکل کر دریا عبور کر جانا چاہتے تھے۔

ہر طرف سناٹا اور ہو کا عالم تھا۔نہ آدم نہ آدم زاد۔ اچانک ابا جان نے دیکھا کہ کئی لمبے لمبے گرگٹ ان کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ ان گرگٹوں کی لمبائی کوئی تین تین فٹ تو ضرور تھی۔ ان گرگٹوں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر ابا جان کو خوف محسوس ہوا اور وہ ان سے بچنے کی تدبیر سوچ ہی رہے تھے کی وہ گرگٹ ابا جان سے کچھ قدم دور ایک ٹیلے کے پیچھے غائب ہو گئے اور یوں ابا جان کی جان میں جان آئی۔ یہ گرگٹ دراصل اس ویرانے میں ایک انسان کو دیکھ کر خود خوفزدہ ہو گئے تھے اور چھپنے کے لیے اپنے بلوں کی طرف لپک رہے تھے۔

ابھی ابا جان اس جان لیوا صورتحال سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ خوش قسمتی سے انھیں دریا پار کچھ افراد نظر آ گئے۔ ابا جان نے ان اشخاص کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے آوازیں دینی شروع کیں تو وہ چونک گئے اور پکار کر پشتو میں ابا جان سے پوچھا۔

’’ تم آدمی ہو یا جن ہو؟‘‘

’’میں بالکل ایک آدمی ہی ہوں اور دریا کے اس پار آنا چاہتا ہوں۔‘‘ابا جان نے پشتو ہی میں جواب دیا۔

دراصل اس ویرانے میں وہ لوگ ایک اجنبی کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اور ابا جان کو یکے از جنات تصور کر رہے تھے۔خیر صاحب، انھوں نے ایک کشتی ابا جان کے لیے بھیجی اور یوں ابا جان دریا کے اُس پار اتر سکے۔اس طرح گو ان لوگوں نے دیکھ لیا کہ ابا جان جن نہیں بلکہ ایک ان ہی جیسے انسان تھے، لیکن میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ ان لوگوں کا مشاہدہ درست تھا یا نہیں۔

دریا پار پہنچ کر ابا جان نے مغرب کی نماز ادا کی اور پھر ستھانہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔

تھوڑا ہی آگے گئے ہوں گے کہ ’’ ہالٹ !ہو کمس دیر! (( Halt! who comes there‘‘کی ایک گرج دار آواز کے ساتھ ایک فوجی ہاتھ میں اپنی گن سنبھالے ہوئے سامنے آ گیا۔ اس نے ابا جان کو اپنے افسر کے سامنے پیش کر دیا۔ اس فوجی افسر کے ساتھ ابا جان کے دوست جبار شاہ صاحب بھی موجود تھے ابا جان انھیں وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھوں نے ابا جان اور اس فوجی افسر کا آپس میں تعارف کرایا۔ وہ افسر جناب کرنل احیاء الدین صاحب تھے۔ جبار شاہ صاحب نے ابا جان کو بتایا کہ ستھانہ کا محاصرہ ہو چکا ہے اور کچھ ہی وقت جاتا ہے کہ اس علاقہ پر فوج کی پیش قدمی ہونے والی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ علاقہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت اہم تھا اور علاقہ کے لوگ مسلم لیگ اورپاکستان کے خلاف ہونے اور انڈین نیشنل کانگریس سے سیاسی ہمدردی رکھنے کی وجہ سے ہندوستان میں ضم ہونے کا اعلان کرنے والے تھے۔

ابا جان نے ان فوجی افسر سے ایک دن کی مہلت مانگی تاکہ وہ اس علاقہ میں جا کر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکیں اوراس خون ریزی کو روک کر امن و آشتی اور سکون کے ساتھ اس مسئلے کو حل کروا سکیں۔وہ جو رزمِ حق و باطل میں فولاد ہونے کے باوجود حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم تھے، یہ کس طرح برداشت کرسکتے تھے کہ اللہ کے نام لیوا بھولے بھالے مسلمانوں پر توپ و تفنگ کے دھانے کھول دیے جائیں۔ ابا جان نے اسی وقت اللہ سے دعا کی کہ یہ جنرل انھیں ایک موقع دینے کے لیے تیار ہو جائے۔قبولیت کی گھڑی تھی، ان کی دعائیں رنگ لائیں اور کرنل احیاء الدین نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا۔

’’ اچھا مولوی صاحب ! ہم تمہیں ایک دن کی مہلت دیتے ہیں۔ جاؤ اور جا کر اس مسئلے کو حل کرو، ورنہ ہم فوجی ایکشن کے لیے تیار ہیں۔‘‘

ابا جان نے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اور تیز تیز قدموں کے ساتھ گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ گاؤں میں پہنچے تو ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ علاقے کے افراد جو اپنی روایتی مہمان نوازی میں مشہور تھے، آج کوئی انہیں گرم جوشی کے ساتھ ریسیو کرنے والا نہیں تھا۔ ابا جان جو علاقے میں اپنی مسلم لیگ دوستی کی وجہ سے مشہور تھے، آج اس علاقے میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے۔ بہر حال وہ مسجد میں پہنچے تو کوئی بھی ان سے ملاقات کے لیے نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے ان سے کھانے کا پوچھا اور اس طرح ابا جان نے وہ رات بھوکے رہ کر اس مسجد میں گزاری۔ صبح ہوئی تو انھوں نے ایک بار پھر علاقے کے عمائدین سے ملاقات اور بات چیت کی کوشش کی۔ ابا جان عجب مشکل میں تھے۔ اس صورتحال کی سنگینی کو جس طرح وہ سمجھتے تھے اس طرح اس علاقے میں کوئی اسے سمجھتا نہیں تھا۔ اور مزید یہ کہ ابا جان اس پوزیشن میں بھی نہیں تھے کہ ان لوگوں کو صورتحال کا صحیح ادراک کروا سکتے۔کوئی مشکل سی مشکل تھی۔گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔

بہر حال ابا جان نے ہمت نہ ہاری اور سارا دن اس کوشش میں گزار دی کہ کسی طرح وہ علاقے کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کر کے انھیں اس بے جا ضد سے باز رکھ سکیں۔دن گزرا اور سہ پہر آ گئی۔ ابا جان نے عصر پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرتے ہوئے اس علاقے سے نکل آئے۔وہ بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے ستھانہ سے دور ہوتے جا رہے تھے جہاں پر کچھ ہی گھنٹوں بعد خون کی ہولی کھیلی جانی تھی۔وہ بہت زیادہ پریشان تھے اور اپنی ناکامی پر بہت مایوس بھی۔

راستے میں، آبادی سے دور ابا جان کو تبلیغی جماعت کا ایک گروہ ملا جو اپنے مشن پر رواں دواں تھا۔ ابا جان کو دیکھتے ہی انھوں نے اپنا مطالبہ دہرا دیا۔’’ کلمہ پڑھ دیجئے۔‘‘

ابا جان کی حالت اس وقت عجیب سی ہو رہی تھی۔ انھوں نے نہایت اطمینان کے ساتھ ایک سنسکرت اشلوک پڑھنا شروع کر دیا۔

’’لا حول و لا قوة‘‘ وہ لوگ حیران رہ گئے۔

ابا جان نے اب انھیں بہت برا بھلا کہا کہ چند قدم کے فاصلے پر انسانی جانوں پر بنی ہوئی ہے۔ اگر وہ لوگ اللہ کی، اس کے دین کی اور انسانیت کی کچھ خدمت کرنا ہی چاہتے ہیں تو جائیں اور اس صورتحال سے انھیں نکالنے کی کوشش کریں۔ جس پر انھوں نے معذرت کی کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتے تو ابا جان ان سے سلام کر کے آگے روانہ ہو گئے۔

فوجی بیس کیمپ پہنچے اور کرنل صاحب کو پیغام پہنچا دیا کہ وہ اپنے مشن میں ناکام رہے ہیں اور اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئے۔ صبح تک نیند تو کیا خاک آتی، البتہ کروٹیں بدلتے رہے اور پریشان ہوتے رہے۔

صبح آٹھ بجے تک ابا جان ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو چکے تھے اور وہاں سے روانگی کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ عین اسی وقت کرنل صاحب کے اردلی نے انھیں کرنل صاحب کا سلام پہنچایا۔ ابا جان نے سوچا چلو اچھا ہے، چلتے وقت انھیں سلام بھی کر لیں اور اس کارروائی پر ان سے جی بھر کر شکوہ بھی کر لیں۔ شاید دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے۔

وہاں پہنچے تو ایک ہشاش بشاش کرنل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ابا جان حیران تھے کہ کیا فوج میں اپنے مشن کی کامیابی اتنی اہم ہوتی ہے جس میں بے قصور انسانی جانوں کے زیاں پر ذرا برابر بھی دکھ نہیں ہوتا؟ انھوں نے کرنل صاحب کے سامنے اپنے ان جذبات اور غصے کا بھر پور اظہار بھی کیا۔انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ کل جن لوگوں سے وہ مل کر آ رہے تھے ان میں سے بیشتر آج صبح لقمہ اجل بن چکے ہیں۔اور ادھراس کٹھور دل کرنل کو اس کا ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہے۔

انھوں نے نہایت ہی کڑوے لہجے میں کرنل صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’ رہنے دیجیے کرنل صاحب! آپ اپنی جیت کا جشن منائیں۔ آپ کو اس سے کیا سروکارکہ کتنے مسلمانوں کی جان گئی اور کتنے زخمی ہو کر بے کار ہوئے۔‘‘

کرنل صاحب ہنس پڑے۔’’ارے مولوی! یقین کر کہ اس معرکے میں ہم نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر کامیابی حاصل کی ہے۔ ‘‘

’’ ہیں۔ کیا واقعی؟‘‘ ابا جان حیران رہ گئے۔

’’ جی اور کیا‘‘

’’ لیکن کیسے؟‘‘ ابا جان نے استفسارکیا۔

’’ وہ ایسے کہ۔۔۔۔‘‘

کرنل صاحب نے بتانا شروع کیا، وہ واقعات سناتے جاتے تھے اور ابا جان کے چہرے کی سختی نرمی میں تبدیل ہوتی جاتی تھی اور جب وہ اختتام تک پہنچے تو ابا جان بھی ان کے ساتھ دل کھول کر ہنس رہے تھے اور اس طرح یہ محفل زعفران زار ہو گئی۔

ہوا یوں کہ اس گاؤں میں کسی گھر میں رفع حاجت کے لئے لیٹرین کا انتظام نہیں تھا اور گاؤں کے لوگ صبح سویرے فجر سے پہلے رفع حاجت کے لیے گاؤں کے باہر اس ویرانے میں آیا کرتے تھے۔ فوج نے یہاں پہرہ لگا کر رفع حاجت کے لیے آنے والے ہر شخص کو فراغت کے بعد پہرے میں بٹھا لیا اور اس طرح جب گاؤں کے تمام مرد لوگ یہاں پر آ کر جمع ہو گئے تو گاؤں کی خواتین کو فکر لاحق ہوئی کہ ان کے مرد سارے کہاں چلے گئے۔ جب ان میں سے کچھ عورتیں اپنے مردوں کی تلاش میں یہاں تک پہنچیں تو فوجیوں نے انھیں اصل صورتحال سے آگاہ کیا اور مطالبہ کیا کہ جب تک وہ ہر گھر سے سارا اسلحہ لا کر یہاں جمع نہیں کرا دیتیں، ان کے مرد یہاں پر قید رہیں گے۔ اسطرح جب گاؤں کا سارا اسلحہ فوجیوں کے پاس جمع ہو گیا تو انھوں نے سارے مردوں کو آزاد کر دیا اور یوں خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اس مہم میں کامیابی حاصل کر لی گئی۔

اور یوں اپنی مہم میں ناکامی کے باوجود ایک پر مسرت و شاداں و فرحاں ابا جان وہاں سے رخصت ہوئے اور آگے کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔

ریاست ڈبر کے پاکستان میں شامل ہونے کی کہانی، خود اکبر چچا کی زبانی سنیے۔

’’چھوٹے بھائی1950ء میں کراچی پہنچے اور 1951ء میں صوبہ سرحدگئے۔ یاغستان پہنچ کر مولیٰنا امیر الدین شنکر گل، ان کے خاندان اور پورے قبیلے سے ملے۔ مولانا شنکر گل نے کہا کہ تمہیں نواب صاحب ڈبر نے بلایا ہے۔ حضرت وہاں پہنچے، نواب صاحب نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

رات گئے خصوصی اجلاس ہوا جس میں نواب صاحب نے بھائی صاحب سے مشورہ لیا کہ پاکستان کیا ہے، اس کا مستقبل کیا ہے، یہ کیوں بنا اور اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ حضرت بھائی صاحب نے پاکستان کے اغراض و مقاصد، جد و جہد اور تشکیل کی تاریخ بیان کی اور کہا کہ پاکستانقیامت تک قائم رہے گا، اس میں ترقی ہو گی، کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔ اور یہ دنیا کا پہلا ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اسلام کا سنہری دور واپس لانا پاکستانی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ جسے وہ پورا کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ریاست ڈبر کو فوری طور پر پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کر دینا چاہیے۔ قبائلی عوام کو انگریز کی نگرانی سے نجات ملے گی۔ قبائلی فطری سپاہی ہیں، انھوں نے کشمیر کو مکمل غلام بننے سے بچایا ہے۔ قبائلی محنت کش بھی ہیں وہ کراچی، حیدر آباد، ، راولپنڈی، لاہور، ڈھاکہ اور چٹاگانگ وغیرہ میں تعمیری کام کریں گے، مستقبل میں قائم ہونے والی صنعتوں میں ملازم ہوں گے۔ قبائلی وادیوں میں مورچوں کے بجائے سڑکیں، ڈاک خانے، ہسپتال تار گھر اور ٹیلیفون ایکسچینج قائم ہوں گے، ریل چلائی جائے گی۔ انھوں نے جب شب قدر جیسے مبارک دن پاکستان کی تشکیل کا واقعہ سنایا تو قاضی صاحب سمیت پوری مجلس خوشی سے سرشار ہو گئی۔

اتنے میں نواب صاحب کے خادم خاص نے حاضر ہو کر بتلایا کہ چھوٹی بچی کی طبیعت ناساز ہے اور اسے ڈاکٹر صاحب کے پاس پشاور لے جانا ضروری ہے۔ نواب صاحب نے با دلِ ناخواستہ مجلس برخواست کی، بھائی صاحب کو واپسی تک رکنے کی ہدایت کی اور ماتحت عملہ کو مہمان کا خاص خیال رکھنے کے حکم کے ساتھ وہ رخصت ہوئے۔

ادھر ڈبر میں متعلقین نواب صاحب کی بچی کی صحت یابی اور ریاست ڈبر کے اچھے مستقبل کے لیے دعا کرتے رہے اور اس طرح رات گزری اور صبح ہوئی۔ دوسرے دن صبح آٹھ بجے کی خبریں ریڈیو پر نشر ہوئیں تو ان میں ریاست ڈبر کی پاکستان میں شمولیت کی خبر کو نمایاں طور پر جگہ دی گئی۔ ساتھ ہی گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی دعوت اور نواب صاحب کی تقریر کا کچھ حصہ بھی سنایا گیا۔ فکر مند لوگ خوشی سے سرشار ہو گئے۔ پورے علاقے میں جشن کا سا سماں تھا۔

نواب صاحب واپس تشریف لائے تو بھائی صاحب کے بے حد شکر گزار ہوئے۔ ریاست ڈبر کی پاکستان میں شمولیت بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی، اس کے بعد پورا قبائلی علاقہ اور حکمران حضرات نے پاکستان سے وابستگی کا اعلان کیا اور پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ بھائی صاحب کی ایک ایک بات پوری ہو کر رہی۔ اس علاقے کی دس فیصد آبادی کراچی اور حیدر آباد میں آباد ہو گئی۔ ان لوگوں نے محیر العقل تعمیراتی کارنامے انجام دئیے۔ شہر کراچی کو اس کے کارخانوں، سڑکوں، بجلی اور اونچی اونچی عمارتوں کی تعمیر سے نیویارک بنا دیا۔ پاکستان ٹیکسٹائل کنگ بن گیا۔

بھائی صاحب کا مشن پورا ہو چکا تھا۔ نواب صاحب اور علاقے کے سرداروں کے روکنے کے باوجود بھائی صاحب پشاور واپس آ گئے۔ بھابی جان صاحبہ اور ننھا حبیب الرحمان بھی اپنے نانا، نانی خالو اور خالاؤں کے ساتھ پشاور آ چکے تھے۔ بھائی صاحب کی یہاں سے متعلق واقفیت کام آئی اور شہر کی ایک بلڈنگ ان مبلغین کے نام الاٹ ہو گئی جس میں ان خانماں آبادوں کو سر چھپانے جگہ میسر آئی۔

اچانک ایک دن بھائی صاحب کو پولیس نے گرفتار کر لیا، اور انھیں گورنر جنرل پاکستان، وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ کی تشویش سے آگاہ کیا جس میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ سی آئی ڈی کے علم میں لائے بغیر مولانا کو قبائلی ریاستوں سے متعلق اتنی اہم ذمہ داری کس نے دی تھی۔مذکورہ اتھارٹیوں نے گھبرا کر اس کی انکوائری کر کے فوری رپورٹ کا حکم دیا تھا۔ اس دوران بھائی صاحب کے دوست مولانا عبدالجبار شاہ صاحب بھی حوالات پہنچ گئے اور بھائی صاحب سے متعلق تفتیشی کمیٹی کو تفصیلی بیان دیا اور یوں بھائی صاحب کی گلو خلاصی ممکن ہوسکی۔ اب تو حکام نے بھائی صاحب پر زور دیا کہ وہ سی آئی ڈی پشاور کی ملازمت اختیار کر لیں، انہیں اچھے عہدے کی بھی پیشکش کی گئی لیکن انھوں نے اس سے معذرت کر لی اور افسران کا شکریہ ادا کر کے واپس چلے آئے۔ مقامی افسر نے اس تمام سرگرمی کو اپنا کارنامہ قرار دیا اور فائل بند کر دی۔ اگر حضرت چھوٹے بھائی صاحب قبلہ یہ ملازمت قبول کر لیتے تو ہم لوگ آج زیادہ ترقی یافتہ حالت میں ہوتے۔‘‘

سرحدی علاقوں میں ابا جان کا مشن مکمل ہو چکا تھا لہٰذا انھوں نے بوریا بستر سمیٹا، پشاور سے بیوی بچوں کو لیا اور وہاں سے روانہ ہو کر کراچی پہنچے۔ وہ علامہ اقبال کے شعر

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

کے مصداق کہیں پر بھی اپنی خودی کو بیچنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے۔ پیر صاحب کی پیری کا ڈھونگ، ان کے نام نہاد کشف و کرامات اور الہام کی اصل حقیقت کا راز اُن پر ظاہر ہو چکا تھا۔پیر صاحب نے ہندوستان ہی میں جیل کے حالات سے گھبرا کر خودکشی فرما لی تھی۔ادھر اس سے پہلے ہی قادیانیت کی بحث اور اس کے بعد جہاد کے لیے جمع کیے ہوئے پیسے سے اپنی کتاب چھاپنے کے واقعے سے بھی ابا جان پیر صاحب کی طرف سے خاصے مایوس ہوئے تھے۔انھوں نے نہ صرف پیر صاحب اور ان کی جماعت کو الوداع کہا بلکہ اس مایوسی میں تبلیغی کام سے بھی دست بردار ہو گئے۔

کراچی پہنچے تو علم کی پیاس اور کتابوں کی تلاش انھیں کشاں کشاں یہاں کے مشہور و معروف کتب خانوں تک لے گئی اور علامہ محمد طاسین صاحبؒ اور جناب خالد اسحاق ایڈوکیٹ صاحب اور ان کی لائبریریوں میں کھنچ کر آنے والے اکابرین و دیگر علم دوست ہستیوں سے ان کی ملاقات ہوئی۔ علامہ محمد طاسین مرحوم کی یاد میں لکھے ہوئے ایک مضمون میں حضرت لکھتے ہیں۔

’’ تقسیمِ ہند کے وقت کراچی شہر ڈھائی لاکھ کی آبادی والا شہر تھا۔ اور یہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ کوئی بڑا دینی مدرسہ یا کتب خانہ یہاں نہیں تھا۔ ملک کے دار الخلافے کراچی میں دینی کتب خانے کے قیام کا کام مشیتِ الٰہی نے مولانا محمد میاں صاحب اور برادران سے لیا۔ یہ مولانا انور شاہ کشمیری کے شاگرد اور بڑے تاجر تھے اور دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل بڑے علماء میں سے تھے۔ ان کے مالی تعاونسے مجلسِ علمی کا کتب خانہ قائم ہوا، اور کچھ دنوں کے بعد حضرت مولانا یوسف بنوری کے مشورے سے مولانا طاسین اس کے مہتمم مقرر ہوئے اور اسی حیثیت سے آپ نے وفات پائی۔

اس کتب خانے میں تفسیر، حدیث، فقہ، احادیث کی شرحیں، فقہ کے تمام علوم، سیرت و تاریخ اور تصوف پر مشتمل ذخیرہ تھا۔ اور الحمد للہ اب تک ہے۔ جب اسلامی دستور کی تدوین ہو رہی تھی اس وقت بھی اراکین نے اس کتب خانے سے اپنے مباحث کے لیے فائدہ اٹھایا۔خاص طور پر اس وقت مولانا اکرم خان صاحب کتب خانے میں تشریف لایا کرتے تھے۔ 56ء کے دستور میں قرآن و سنت کی بالا دستی کی منظوری ہوئی تو مولانا اکرم خان نے بہ نفسِ نفیس تشریف لا کر مولانا طاسین کو تمام کارروائی سنائی۔‘‘

آگے مزید لکھتے ہیں۔

’’ مصنفین اور محققین آپ کے کتب خانے مجلس علمی میں آتے رہتے اور کتابوں سے استفادہ کرتے۔ ہم نے مولانا عبداللہ المسدوسی، مولانا محمود احمد عباسی، مولانا ماہر القادری، کو مولانا سے ملاقات کے لئے آنے والوں میں دیکھا ہے۔ مفتی سیاح الدین کاکاخیل اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے، وہ مولانا کے پاس تشریف لاتے اور فقہی مسائل پر گفتگو ہوتی۔ انتہاء یہ ہے کہ بعض لوگ فون پر مولانا سے حوالہ جات پوچھتے اور مولانا اپنا کام ترک کر کے حوالہ جات سائل کو کتابوں سے لکھواتے۔ کراچی میں ملک کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری کے مالک خالد اسحاق ایڈوکیٹ سے مولانا کی گہری دوستی تھی، اور ان کے یہاں کی علمی محفلوں میں مولانا شریک ہوتے تھے اور مولانا کے علاوہ حضرت جعفر شاہ پھلواروی اور مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی صاحب کی موجودگی میں یہ محفل علم و تحقیق کا نادر مرقع ہوتی۔‘‘

(از ’’ دیو بند کی کہکشاں کا درخشاں ستارہ‘‘ از مولانا محمد اسمٰعیل آزاد صفحہ ۲۴۸، ماہنامہ تعمیرِ افکار۔ اشاعتِ خاص بیادِ علامہ محمد طاسین از زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، جون جولائی اگست ۲۰۰۶ء )

اسی طرح ایک اور مضمون’’ نبی کریم ﷺ کے احوال و اوصاف‘‘ میں ایک ہستی ’ بابا خلیل داس‘ کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’ البتہ غیر منقسم ہندوستان کی ایک شخصیت بابا خلیل داس چترویدی گزری ہے، انھوں نے ۸۴۹۱ء میں بنارس میں وفات پائی۔ اللہ کی توحید، نبی اکرم ﷺ کی رسالت پر اور اسلام کی تبلیغ میں یہ سب سے بڑا نام تھا۔ لیکن ان سے کوئی کتاب ہم تک نہیں پہنچی۔ یہ امرتسر کے مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے والدین کی وفات کے بعد بچپن میں سردی کے زمانے میں گھر سے بھاگے اور ریل میں سوار ہوئے۔ بنارساترے، سردی میں ٹھٹھر رہے تھے کہ ایک ہندو مہنت جو لا ولد تھے، اس بچے کو اٹھا کر گھر لے گئے، پالا پوسا، اور چاروں ویدوں کا قاری اور عالم بنایا۔ بچے کو بچپن کی یادوں نے اسلام یاد دلایا۔ مہنت جی اور ان کی پتنی نے اس گود لیے ہوئے بچے کو ہی اپنا بیٹا بنا لیا۔ صرف اس کا داخلہ رسوئی میں بند تھا۔ راقم الحروف نے مولانا جعفر شاہ پھلواروی، غلام محمد بٹ مرحوم، شاگرد مولانا ثناء اللہ امرتسری، ماسٹر کریم بخش، خالد ایم اسحاق ایڈوکیٹ مرحوم کے پرائمری کے استاد اور ان کی لائبریری کے لائبریرین سے بابا خلیل داس چترویدی کی یہ داستان سنی تھی۔ ممکن ہے بنارس کے کسی اہل قلم کے ذریعے نبی کریم ﷺ کے نام کی تبلیغ کرنے والے اس محقق کے علم سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملے‘‘۔

(نبی کریم ﷺ کے احوال و اوصاف، اقوامِ عالم کی مذہبی کتب میں، از مولانا محمد اسمعیٰل آزاد، ششماہی عالمی السیرہ شمارہ نمبر ۱۴، رمضان المبارک۱۴۲۶ھ مطابق اکتوبر ۲۰۰۵ء )

ان دونوں اقتباسات کو بین السطور پڑھیے تو اندازہ ہو گا کہ ابا جان کی کسرِ نفسی اور خود داری انھیں یہ لکھنے سے مانع ہے کہ یہ پیاری پیاری ہستیاں جن کا تذکرہ ابا جان ان سطور میں کر رہے ہیں، ابا جان کے گہرے دوست بن گئے اور ان علمی بحثوں میں نہ صرف ابا جان شرکت کرتے رہے بلکہ عملی طور پر بھی ان مباحث میں شریک ہوا کرتے۔ادھر خالد اسحاق صاحب نے ابا جان کو یہ خصوصی اجازت دے رکھی تھی کہ وہ کسی بھی وقت ان کی لائبریری سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔کوئی نئی کتاب خریدتے تو سب سے پہلے ابا جان کو دکھاتے اور ان سے اس بارے میں رائے طلب کرتے۔دراصل ابا جان کی شخصیت فقر اور خود داری کا حسین امتزاج تھی۔ وہ علامہ اقبال کے تصور خودی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ اس داستان کا ایک حصہ’’ سوئے منزل چلے‘‘ راقم الحروف ابا جان کی زندگی ہی میں مکمل کر چکا تھا۔ مرض الموت میں جب انھیں پڑھ کر سنایا تو خاصے ناراض ہوئے تھے کہ ’’ ابے اپنے باپ کو خواہ مخواہ اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔‘‘ لیکن واقعاتی طور پر صرف ایک دو غلطیوں کی نشاندہی کی تھی۔

اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ابا جان بابا خلیل داس کو غالباً پہلے سے جانتے تھے۔ ہم نے اپنے بچپن میں ابا جان اور چچاؤں کو بابا خلیل داس چترویدی کا نام لیتے ہوئے سناہے۔و للہ اعلم بالصواب۔

کراچی آ کر آوارہ طبیعت کو قرار نصیب ہوا تو بیوی بچوں کے ساتھ گھریلو زندگی اختیار کی۔ اس نئی زندگی کے تقاضوں سے مجبور ہو کر ملازمت کی تلاش میں سڑکوں کی خاک چھانی۔انھی دنوں راقم الحروف ٹائیفایڈ جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہوا۔اِدھر اماں اس بیمار اور بے چین بچے کو گود میں لے کر رات رات بھر بیٹھی رہتیں کہ شاید اس طرح بچے کو کچھ دیر کے لیے قرار آ جائے، اُدھر ابا جان کو میری دوا کی فکر لاحق ہوئی تو وہ فوراً لالو کھیت (لیاقت آباد) میں واقع ایک خیراتی شفا خانے پہنچے اور لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ جب ان کی باری آئی تو انھوں نے بچے کی طبیعت کا حال بتایا اور دوائی کے طلبگار ہوئے۔ کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے کمپاؤنڈر صاحب نے انتہائی سکون کے ساتھ دوا بنائی، اور اس کے ساتھ ایک مذہبی سیاسی تنظیم کا پمفلٹ بھی ابا جان کو تھمایا اور یہ مژدہ سنا یا کہ یہ دوائی اس خاص جماعت کی جانب سے بطور ہمدردی عطا فرمائی جا رہی ہے ( تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے)۔

یہ سننا تھا کہ ابا جان نے اسی وقت دوائی زمین پر انڈیل دی اور پمفلٹ شکرئیے کے ساتھ کمپاؤنڈر صاحب کو واپس کیا اور سکون کے ساتھچلتے ہوئے ٹینٹ سے باہر آ گئے۔دوائی پھینکتے وقت ابا جان نے سوچا۔’’ کوئی بات نہیں۔ بچہ مرتا ہے تو مر جائے لیکن میں اللہ کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام کی دوا اپنے بچے کو ہر گز نہیں پلاؤں گا۔‘‘

گھر کی طرف چلے ہیں تو پریشانی اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔ یہ میں نے کیا کر دیا۔ اب بچے کی دوائی کا کیا ہو گا۔ بچے کی بیماری کیسے ختم ہو گی۔ یا اللہ، یا مالک و مختارِ کل، تو ہی کچھ بند و بست فرما دے۔ گھر پر بیمار بچہ تڑپ رہا ہے اور جیب میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔ دنیا والے اپنا احسان جتانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ یا اللہ مجھے ا ن کا احسان نہیں چاہئیے، مجھے صرف تیری رضا اور تیری مدد چاہئیے۔

قبولیتِ دعا کی گھڑی تھی، گھر پہنچے تو اللہ کی مدد آ چکی تھی۔ ابا جان کے ایک دوست جنہیں ہم آج بھی کمپاؤنڈر صاحب کے نام سے یاد کرتے ہیں گھر کے سامنے موجود تھے اور ابا جان کا انتظار کر رہے تھے۔ آئے تو ابا جان سے ملنے کے لیے تھے لیکن بچے کی بیماری کا سنا تو ذرا دیر کو بیٹھے بھی نہیں، فوراً بیمار کا معاینہ کیا اور دوا لینے کے لیے نکل گئے اوراس دن کے بعدسے میری صحت یابی تک روزانہ دوائی لا کر دیتے رہے۔ابا جان حیرت کیا کرتے تھے کہ آخر اس دن کمپاؤنڈر صاحب کو ہمارے گھر کس نے بھیجا تھا۔یہ ایک ایسا معمہ ہے جو آج تک حل نہ ہوسکا۔

٭٭٭

 

 

 

باب یازدہم۔ خدا کے بندوں سے پیار

 

اللہ کی مدد نہ صرف بچے کے لیے دوا کی شکل میں آئی بلکہ ابا جان کے لئے اندھوں کے ایک اسکول میں استادی کا مژدہ بھی لے کر آئی۔ اب تک تو ابا جان اللہ کے سپاہی تھے اور اس کے لئے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑاتے پھر رہے تھے، اب اس طرز حیات کو چھوڑا تو اس کے بندوں کی خدمت ان کے حصے میں آئی۔ خدا کے بندوں سے پیار تو تھا ہی اور اب تک کی جد و جہد اس لیے تھی کہ ان کی عاقبت سنور جائے۔ اب معاشرے کے معذوروں کی خدمت کا موقع ملا۔پرانی نمائش پر گونگے بہروں اور اندھوں کا اسکول، جو اب بھی IDA REU کے نام سے موجود ہے وہاں پر ابا جان کو انٹرویو کے لیے بلا یا گیا اور ان کی علمی قابلیت اور انسان دوستی سے متاثر ہو کر انھیں اندھوں کے استاد کے طور پر نوکری کی پیشکش کی گئی۔

اب تک ابا جان اردو، انگریزی، عربی، فارسی، پشتو، سنسکرت ہندی اور مرہٹی تو جانتے ہی تھے گویا ہفت زبان تو تھے ہی، اب انہیں ایک اور زبان سکھانے کی پیشکش کی گئی تو انھوں نے اس پیشکش کو بھی فراخ دلی کے ساتھ قبول کیا اور اس طرح پہلے انھوں نے اسکول میں رہتے ہوئے ہی اندھوں کے پڑھنے کے لیے استعما ل ہونے والی خاص زبان بریلBRAILLEبھی سیکھ لی اور اس میں بھی مہارت بہم پہنچائی اور پھر فوراً نا بینا افراد کو پڑھانا شروع کر دیا۔اور یوں نا بینا افراد کے ساتھ ابا جان کی ایک لمبی دوستی اوراس محبت بھرے رشتے کا آغاز ہوا جو انھیں ساری زندگی سب سے پیارا رہا۔وہاں پران کی پرنسپل حبیب اللہ صاحب سے دوستی ہوئی جو حبیب اللہ صاحب کی وفات تک ایک گہری دوستی کی شکل میں باقی رہی۔ ایک لمبے عرصے تک ہمیں جب بھی کبھی اپنی تعلیمی دستاویزات کی تصدیق کی ضرورت پڑی ہم حبیب اللہ صاحب کے پاس ہی جاتے رہے۔مجھے جب کالج میں داخلے کے لیے تصدیق کی ضرورت پڑی تو میں حبیب اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے نہ صرف میری دستاویزات کی تصدیق کی بلکہ اپنی طرف سے ایک تعریفی خط بھی لکھ دیا جس میں میرے کردار کی تصدیقی سند کے علاوہ خاصی تعریف بھی کی گئی تھی۔ یہ خط آج بھی میرے دستاویزات کے خزانے میں موجود ہے۔

انھی دنوں ابا جان کے ماموں سسر جناب ڈاکٹر صمد شاہین نے جو تین سال کی ڈیپوٹیشن پر ترکی جا رہے تھے، انھیں اس عرصہ میں بندر روڈ پلازہ پر واقع گپتا مینشن میں اپنے فلیٹ میں رہنے کی دعوت دی جسے ابا جان نے بخوشی قبول کیا۔ڈاکٹر صمد شاہین اور ان کی بیگم مشہور و معروف افسانہ نگار اور نقاد محترمہ ممتاز شیریں صاحبہ، جو تقسیم سے پہلے بنگلور سے اردو کا مشہور ماہنامہ ’’ نیا دور‘‘ نکالا کرتے تھے، پاکستان آئے تو یہ رسالہ بھی اپنے ساتھ لے آئے اور کراچی سے اس کا اجراء کیا۔ دونوں میاں بیوی ابا جان کی علمیت اور علم دوستی کی وجہ سے ان کی بہت عزت کرتے تھے، ادھر ابا جان بھی صمد شاہین صاحب کی علمی قابلیت کے اتنے ہی معترف تھے۔ ماموں جان کی ابا جان کو اس حد تک چاہنے اور پسند کرنے کی ایک اور بڑی وجہ ابا جان کی قناعت پسندی اور فقیرانہ انداز بھی تھا۔ ماموں جان جب تک کراچی میں رہے ابا جان کی خراب مالی حالت کو دیکھ کر ان کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں ابا جان کی طبیعت کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ امداد قبول نہیں کریں گے لہٰذا اپنے دونوں لڑکوں پرویز بھائی اور گلریز بھائی کو پڑھانے کی درخواست کی جسے ابا جان نے قبول کیا اور ایک عرصہ تک دونوں بھائیوں کو ٹیوشن پڑھاتے رہے۔

ماموں جان کو کتابوں کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ کسی نے ان کے متعلق لکھا تھا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے جب وہ اپنے علاقے سے بنگلور جاتے تھے تو ڈھیروں کتابیں اس طرح خرید کر لاد لے آتے تھے جس طرح جہیز۔ ممتاز شیریں صاحبہ اردو کی صاحب طرز افسانہ نگار ہونے کے علاوہ مشہور نقاد بھی تھیں۔ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے جن میں اپنی نگریا اور میگھ ملہار وغیرہ شامل ہیں شایع ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی کتابوں میں ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے، JOHN STIENBECK کے ایک انگریزی ناولTHE PEARLکا اردو ترجمہ ’’در شہوار‘‘ کے نام سے، جس میں ناول کی صنف سے متعلق ان کا ایک قابل قدر تنقیدی مضمون بھی شامل تھا، فسادات پر ان کا جمع کیا ہوا افسانوں کا مجموعہ ’’ ظلمتِ نیم روز‘‘، منٹو کی افسانہ نگاری سے متعلق مضامین کا مجموعہ ’’ منٹو نوری نہ ناری‘‘( جو ان کی وفات کے بہت سال بعد شائع ہوا)، وغیرہ شامل ہیں۔کراچی میں ماموں جان کا چار کمروں کا فلیٹ کیا تھا، گویا ایک بہت بڑی اور قابلِ قدر لائبریری تھی، جس میں ہزاروں قیمتی اور اعلیٰ درجے کی اردو اور انگلش کتابیں بھری ہوئی تھیں۔ اس فلیٹ میں اپنے پانچ سالہ قیام کے دوران ابا جان نے ماموں جان کے گھر کے سامان، فرنیچر اور کراکری وغیرہ کو تو نہ چھیڑا، البتہ وہاں پر موجود کتابوں سے خوب استفادہ کیا۔ایک مرتبہ خالو جان ہمارے گھر تشریف لائے تو ان کی تواضع میں گھر میں استعمال ہونے وا لی کراکری استعمال کی گئی اور انھوں نے الماریوں میں سجی ہوئی قیمتی کراکری کو دیکھا تو ابا جان کے فقیرانہ انداز اور امانت داری کو بہت سراہا۔

تقریباً پانچ چھ سال بعد جب دوبارہ ماموں جان کو اپنے فلیٹ کی ضرورت پڑی اور انھوں نے اس سلسلے میں ابا جان سے رجوع کیا تو ابا جان نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر فلیٹ خالی کرنے کی حامی بھر لی اور چند دن کے اندر ہی فلیٹ خالی کر دیا، اونٹ گاڑی پر اپنا گھر کا سارا سامان لادا اور خاموش کالونی کے ایک کرائے کے مکان کی طرف چل پڑے۔ماموں جان جو اس سے پہلے اپنا ایک گھر اور کچھ اور اثاثہ اسی طرح لوگوں کو عاریتاً دے کر گنوا چکے تھے، ان کے لیے یہ ایک انوکھا واقعہ تھا۔

ایک عرصہ نابینا افراد کو پڑھانے کے بعد ابا جان کو نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفئر آف دی بلائنڈ کی جانب سے بریل پریس کے مینجر کے طور پر نوکری کی پیشکش ہوئی تو انھوں نے اسے بخوشی قبول کیا۔

تھک کر بیٹھنے، تبلیغ کا کام چھوڑنے اور نوکری اختیار کرنے کے سالہا سال بعد جب ابا جان اپنے آفس کے دوستوں تجمل صاحب، ائر مارشل(ائر مین)نور محمد صاحب، نابینا رحمان گل بھا ئی، نابینا غلام محمد بھائی اور نابینا معین بھائی وغیرہ کے سامنے اپنی زندگی کے گزرے ہوئے عجیب و غریب واقعات کو دہرا رہے ہوتے، تو ان حضرات کو ابا جان کے ان محیر العقل واقعات پر یقین نہ آتا۔ مولوی صاحب یہ واقعات اپنی طرف سے گھڑ کر سناتے ہیں، شاید کبھی کبھی تووہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہوں گے۔اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے دفتر والوں کی نظر میں ابا جان کے وقار اور عزت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ انھیں پتا چل گیا کہ ابا جان کے سنائے ہوئے واقعات کا ایک ایک لفظ سچا اور حقیقت پر مبنی ہے۔ اس واقعے کے بعد تو ابا جان کی زبان سے نکلے ہوئے ہر ہر لفظ پر ان کے ان تمام دوستوں کا آمنا اور صدقنا کہنا لازمی ہو جاتا تھا۔تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے۔

غالباً ابا جان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا بریل میں نابینا افراد کے لیے قرآن شریف کی تیاری اور بریل پریس سے طباعت تھا۔ اس سے پہلے اردن اور سعودی عرب سے بریل قرآن شائع ہو چکا تھا لیکن اردن والے نسخے میں Punctuations انگلش والے استعمال ہوئے تھے اور سعودی نسخے میں سرے سے اعراب ہی نہیں تھے جبکہ ابا جان والے نسخے میں اردو بریل کے اعراب استعمال کیے گئے۔ ۱۹۷۰ء میں ابا جان بریل قرآن مکمل کر چکے تھے جسکی تصحیح مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب نے فرمائی تھی۔ چونکہ بریل قرآن شریف کی طباعت خود نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفئر آف دی بلائنڈ کے لیے بھی ایک بہت بڑا اعزاز تھا لہٰذا ادارے والے اکثر ہی اس کوشش میں لگے رہتے کہ کسی بڑی شخصیت کو بلا کر اس نادر اور مقدس نسخے کا دیدار کروایا جائے۔

اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن بیگم جسٹس طیب جی اور بیگم نرگس جیونجی گھبرائی ہوئی آفس میں داخل ہوئیں اور اعلان کیا کہ کچھ ہی دیر میں پاک فوج سے ایک معزز مہمان، جناب میجر جنرل احیاء الدین صاحب دفتر کا معائنہ کرنے اور نابینا افراد کے لیے بنائے ہوئے بریلBraille قرآن کا مشاہدہ کرنے کے لیے بنفسِ نفیس تشریف لانے والے ہیں۔

آفس اور ملحقہ پریس کی خاطر خواہ صفائی کروائی گئی اور سب لوگ اس معائنہ کے لیے تیار ہو کر بیٹھ گئے۔ بریل قرآن شریف کی کاپیاں، پریس سے شائع شدہ دیگر بریل کی کتابوں کے ساتھ سامنے میز پر سجادی گئیں۔ رحمان گل بھائی اور معین بھائی ان میزوں کے پیچھے ادب سے کھڑے ہو گئے کہ معزز مہمان کو یہ کتابیں پڑھ کر سنا سکیں۔ انتظار کی گھڑیاں جو عام طور پر لمبی ہوتی ہیں، اس روز کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئیں اور صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو تھا کہ معزز مہمان، بیگم جسٹس طیب جی اور بیگم نرگس جیونجی کی معیت میں تشریف لے آئے۔

معائنہ شروع ہوا۔بریل میں شائع شدہ قرآن اور دیگر کتابیں مہمان کو دکھائی گئیں۔ دونوں نابینا افراد نے فوراً ان کتابوں سے پڑھ کر معزز مہمان کو سنایا۔بعد میں مہمان نے بریل پریس ملاحظہ فرمایا اور نا بینا افراد کو اس پر کام کرتے ہوئے دیکھا۔مہمانِ گرامی نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفئر آف دی بلائینڈ کی نا بینا افراد کے لیے ان کاوشوں کو دیکھ کر خاطر خواہ متاثر ہوئے اور جی بھر کر اس کارِ خیر کی تعریف کی۔ اسی اثناء میں ابا جان نے جو اپنی جگہ پر با ادب کھڑے ہوئے تھے، اپنی افسر، بیگم جسٹس طیب جی سے آہستہ سے کہا۔

’’ بیگم صاحبہ! براہِ کرم ان مہمان سے میرا تعارف کروائیے۔ یہ مجھے جانتے ہیں۔‘‘

’’ یعنی آپ ان کو جانتے ہیں۔‘‘

’’ بیگم صاحبہ! یہ مجھے جانتے ہیں۔‘‘

بیگم صاحبہ نے معزز مہمان سے ان کے کان میں عرض کی کہ ہمارے بریل پریس کے مینجر صاحب آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔جنرل صاحب نے ابا جان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔’’ضرور ‘‘ اور رسمی طور پر ابا جان سے دوبارہ مصافحہ کیا۔

’’ جی میرا نام محمد اسمٰعیل آزاد ہے۔‘‘ ابا جان نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اور خاموش ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔

’’ ماشاء اللہ۔ جی فرمائیے؟‘‘

’’میں آپ سے پہلے بھی مل چکا ہوں۔‘‘

’’ ضرور ملے ہوں گے۔ نابینا افراد کے لیے آپ کی خدمات یقیناً قابل قدر ہیں۔‘‘

’’ جناب! میری اور آپ کی ملاقات اب سے کئی سال پہلے ستھانہ نامی ایک گاؤں میں ہوئی تھی، جہاں پر آپ کے حملے سے پہلے میں نے آپ سے ایک دن کی مہلت لی تھی۔‘‘ابا جان نے کچھ خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

ایک لمحے کو جنرل صاحب چونکے اور پھر نہایت بے تکلفی اور گر م جوشی کے ساتھ ابا جان سے لپٹ گئے۔

’’ ابے مولوی تم؟‘‘

پھر انھوں نے دونوں خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’ اُس دن اِس مولوی نے مجھے بہت گالیاں دی تھیں۔اس کے خیال میں میں نے بہت سے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔‘‘

پھر انھوں نے مختصراً سارا واقعہ سنایاکہ کس طرح پاکستانی افواج نے ستھانہ کا گھیراؤ کیا ہوا تھا کہ اچانک اس وقت ابا جان نے اس منظر نامہ میں دخل در معقولات کرتے ہوئے انھیں پیشکش کی کہ وہ اس صورتحال کو بغیرکسی خون ریزی کے حل کروا سکتے ہیں۔پھر انھوں نے ابا جان کا اس گاؤں میں جانا اور ان لوگوں کی جان بچانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرنا بیان کیا اور آخر میں پاک فوج کی کارروائی وغیرہ اور یوں اس انتہائی رسمی قسم کی محفل میں گویا جان سی پڑ گئی۔سب لوگ خوش تھے اور ہنس رہے تھے۔اس دن ابا جان کے آفس کے دوستوں کو اندازہ ہوا کہ اس قلندر آدمی نے کتنی عجیب و غریب زندگی گزاری ہے اور اپنی زندگی میں کتنے محیر العقل کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ابا جان کی بے پناہ عزت تو وہ پہلے بھی کرتے تھے، اس دن ان کی نظروں میں ابا جان کی عزت و وقار کچھ اور ہی بڑھ گئے۔

میجر جنرل احیاء الدین صاحب اس کے کئی سال بعد قاہرہ میں پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ستھانہ گاؤں آج کئی ہزار فٹ پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور تربیلا جھیل کا ایک حصہ ہے۔لیکن ابا جان کے کارنامے آج بھی زندۂ جاوید ہیں۔

ابا جان کے اس قابل فخر کارنامے یعنی بریل قرآن شریف کا معائنہ کرنے کی سعادت حاصل کرنے والوں میں ملکہ افغانستان، شاہ ظاہر شاہ کی بیگم صاحبہ بھی شامل تھیں۔

ابا جان کے دوست عبدالصمد سراج الدین صاحب ہر سال تھیو سو فیکل ہال بالمقابل ریڈیو پاکستان کراچی، سیرت کانفرنس منعقد کیا کرتے اور خاص مقرر کے طور پر ابا جان کو تقریر کی دعوت دیا کرتے تھے۔ان کے سیرت کانفرنس کے بڑے بڑے پوسٹر آج بھی راقم الحروف کی یادداشت میں محفوظ ہیں۔

ابا جان کو نوکری کا سکون ہوا اور تو طبیعت کا انوکھا پن اور تخلیق کی جدت انھیں تقریر سے تحریر کی طرف لے گئے اور انھوں نے تنقیدی اور تحقیقی مضامین لکھنا شروع کیے۔ اس وقت تک اردو میں بریل کا کوئی قاعدہ موجود نہیں تھا لہٰذا سب سے پہلے ابا جان نے اردو میں بریل کے قاعدے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ’’ معیاری اردو بریل کا قاعدہ ‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ ترتیب دیا جو ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ غالباً یہ کتابچہ یونیسکو کے ذخیرے میں بھی شامل ہے جو نابیناؤں پر لکھے گئے مواد پر مشتمل ہے۔

ابا جان نے اپنی زندگی کے اس نئے موڑ پر ان حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک لوگوں کی نفسیات کا بغور مطالعہ کیا اور انھیں پڑھاتے ہوئے یا ان سے معاملات کرتے ہوئے انھیں معذور نہیں جانا اور ان کے ساتھ وہی سلوک اور برتاؤ کیا جو وہ دیگر لوگوں کے ساتھ روا رکھتے تھے۔ اس برتاؤ میں ابا جان کی ان کے ساتھ کی ہوئی وہ تمام شرارتیں بھی شامل ہیں جو وہ ان کے ساتھ کیا کرتے اور ساری محفل کو زعفران زار بنا دیتے جن میں وہ نابینا افراد بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے۔نابیناؤں کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کر نے کے ساتھ ساتھ ابا جان نے اسلامی تاریخ کو اس حوالے سے ٹٹولا تو ایک اور معرکۃ الآراء مقالہ ’’ اسلامی معاشرہ اور نابینا افراد‘‘ وجود میں آیا جس میں ابا جان نے معذوروں، خاص طور پر نابیناؤں کی طرف اسلام کے خاص اور محبت آمیز سلوک کو اجاگر کیا۔بعد میں ادبی رسالہ نقوش نے اپنے سیرت نمبر میں اس کتابچے کو شامل کیا۔ان نابینا افراد کی غیر معمولی صلاحیتوں کا ادراک ہم بھائیوں نے بھی اکثر کیا۔ جب کبھی یہ ہمیں کہیں راستے میں یا بازار میں مل جاتے تو ہمارے تعارف کروانے سے پہلے ہی السلام علیکم کہنے کے انداز اور ہمارے ہاتھوں کے لمس سے ہمیں پہچان جاتے، گرم جوشی کے ساتھ ملتے اور نام لے لے کر تمام بھائیوں کی خیریت دریافت کیا کرتے۔غلام محمد بھائی، رحمان گل بھائی سرفراز بھائی وغیرہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتے اور ابا جان کے علاوہ گھنٹوں ہم بچوں سے باتیں کرتے رہتے۔ ہم انھیں بریل کے قلم اور سلیٹ سے ۔سرفراز بھائی بی اے کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے اور ہم لوگوں سے تاریخ کی کتابیں پڑھوا کر سنا کرتے تھے۔ ہم بچے ان سے اور ’ ’معیاری اردو بریل کا قاعدہ ‘‘ سے مدد لے کر بریل کی تختی، اسٹینسل اور قلم سے بریل لکھنے کی مشق کیا کرتے، انھیں بریل لکھ کر دکھاتے تو وہ بہت خوش ہوتے۔کیا اچھے دن تھے وہ بھی۔

ایک دن حسبِ معمول دفتر میں بیٹھے ہوئے ابا جان نے نابینا رحمان گل بھائی سے پوچھا کہ وہ دوپہر کے کھانے کے لیے گھر سے کیا لائے ہیں۔ انھوں نے فورا ً اپنے خالص پشتو لہجے میں اعلان کیا کہ وہ’’ آلاو ‘‘لائے ہیں۔پھر ابا جان نے اپنی کارروائی کا آغاز کیا اور چپکے سے رحمان گل بھائی کا توشہ چیک کیا۔ وہ آلو گوشت کا سالن لائے تھے۔ابا جان نے ان کے گھر سے آئے ہوئے سالن سے گوشت نکال کر چپکے سے کھا لیا۔ رحمان گل بھائی کھانے کے لیے بیٹھے اور پہلا ہی نوالہ لیا تھا کہ گھبرا کر اپنی پلیٹ ٹٹولنے لگے اور جب پلیٹ میں چاروں طرف ہاتھ مار کر بھی گوشت نہ پایا تو بہت جز بز ہوئے اور فوراً سمجھ گئے کہ ہو نہ ہو یہ ابا جان ہی کی شرارت ہے۔ ابا جان لاکھ انہیں سمجھاتے رہے کہ ’’ ابے تو اپنے گھر سے آلو ہی لایا ہو گا جیسا کہ تو نے سب کے سامنے اعلان کیا تھا، اب یہ گوشت کا کیا قصہ ہے۔ تیری بیوی نے تجھے آلو کے علاوہ اور کیا دیا ہو گا، ہیں ؟ ‘‘

مگر انہیں یقین تھا کہ ان کی بیگم نے انھیں گوشت کا سالن دیا تھا جس میں سے مولوی صاحب نے گوشت نکال کر ہضم کر لیا ہے۔بعد میں جب دفتر والوں کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا تو تجمل صاحب، ائر مارشل نور محمد صاحب معین بھائی اور غلام محمد بھائی وغیرہ پر مشتمل گرینڈ جیوری نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ رحمان گل بھائی کی بیوی نے انھیں آلو کی ترکاری ہی پکا کر توشہ میں دی ہو گی ورنہ ابا جان بھلا اس قسم کی حرکت کرسکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔اور پھر جبکہ دفتر میں اتنے سارے لوگ موجود ہیں، رحمان گل نے ابا جان ہی پر کیوں شبہ ظاہر کیا ہے۔خبر دار!آید ہ اس قسم کی حرکت ہرگز نہ ہونے پائے۔ بیچارے رحمان گل بھائی جو خود جھوٹ بول کر دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہے تھے، اپنی بیچارگی میں سوائے کھسیانی سی ہنسی ہنسنے کے اور کیا کر سکتے تھے۔ اس قسم کی پریکٹیکل شرارتیں ابا جان ہی کا خاصہ تھیں جو سب دفتر والوں کے محظوظ ہونے کا سامان مہیا کرتی تھیں۔

انھی دنوں ابا جان نے اسلامیات میں ایم اے کا امتحان دیا اور فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کی۔بقول ڈاکٹر مولاناسیدعزیز الرحمٰن صاحب،

’’علم تعلیم و تعلم، کتاب اور ’’ اہلِ کتاب‘‘، یہی ان کی زندگی تھی، یہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کیا، پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے، آپ نے موضوع بڑا ٹیڑھا منتخب کیا، بر اعظم کی الہامی تحریکیں، ان تحریکوں میں آپ نے قادیانیت، بہائیت اور ذکریوں کو بھی شامل کیا تھا۔ اس وقت جامعہ کراچی میں اسلامیات کے صدرِ شعبہ ڈاکٹر مفتی محمد مظہر بقا تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر آزاد صاحب کا پی ایچ ڈی کا داخلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آزاد صاحب کا مقصد بھی ان تحریکوں کی تردید کرنا ہی تھا، مگر ان کا راستہ ٹیڑھا تھا۔ وہ مفتی صاحب کو قائل نہ کرسکے۔ مفتی صاحب آزاد صاحب سے واقف نہیں تھے، اس لیے ’’ اسلوبِ آزاد‘‘ میں کہی گئی بات وہ قبول نہ کرسکے، یوں یہ معرکہ آغاز سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔‘‘

(از روشن چہرے، اجلے لوگ۔ مولانا آزاد از مولانا سید عزیز الرحمٰن۔ ماہنامہ تعمیرِ افکار کراچی اپریل ۲۰۱۰ء )

انھی دنوں امین بھائی کی شادی کے سلسلے میں ابا جان بارات لے کر ہمارے خالو جان جناب احسان الحق صاحب کے گھر پشاور پہنچے۔ احسان صاحب انھیں اپنے ایک دوست کے پاس ملوانے کے لیے پہنچے۔ یہ صاحب جو قاضی حسین احمد صاحب کے بڑے بھائی تھے اور اس وقت پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، ابا جان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ باتوں باتوں میں ابا جان نے اپنے پی ایچ ڈی کی خواہش اور مقالے کے بارے میں بتلایا۔ انھوں نے استفسار کیا کہ اس سلسلے میں ابا جان کے پاس حوالہ جات وغیرہ موجود ہیں اور ابا جان نے انھیں اس سلسلے میں اپنے جمع کیے ہوئے حوالہ جات کے متعلق انھیں آگاہ کیا تو حضرت پھڑک گئے اور اسی وقت ابا جان کو پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کی پیشکش کر ڈالی۔ ابا جان نے نہایت ادب سے کراچی چھوڑنے سے معذوری ظاہر کی۔

ابا جان کے دیگر تحریری کارناموں میں ’’ خلیفہ بلا فصل حضرت ابوبکر الصدیق ؓ ‘‘ اور’’ حضرت ابوذر غفاری ؓ ‘‘ کے علاوہ اور کئی صحابہ سے متعلق کتابچے اور ایک بڑے کام کی صورت میں سیرت النبی ﷺ پر ان کی کتاب ’’ سیرتِ خیر البشر ﷺ‘‘ شامل ہے۔

جنرل ایوب خان نے پاکستان کی لولی لنگڑی جمہوریت کا گلہ گھونٹ کر پاکستان پر قبضہ کیا تو اس کے سخت خلاف ہو گئے اور نظریاتی طور پر اگلے انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے ہمدرد رہے۔

ابا جان کو گھر کے لیے کوئی بھی خریداری کرنی ہوتی تو وہ اپنے دوست جناب’’ ائر مارشل ‘‘ نور محمد صاحب کو ضرور اپنے ساتھ رکھتے اور ان کے مشورے اور رائے کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یہ خریداری کی جاتی۔ اپنے گھر کا پہلا مرفیMORPHY ریڈیو ابا جان نے انھی کے ساتھ جا کر خریدا۔ اس ریڈیو نے ہمیں آواز کی ایک انوکھی دنیا سے متعارف کروایا۔ ہر ہفتے کی رات نو بجے اسٹوڈیو نمبر نو کے ڈرامے، اتوار کی صبح ’’ حامد میاں کے ہاں ‘‘ پھر دس بجے بچوں کا پروگرام اور پھر سارا دن ’’آپکی فرمائش‘‘۔یہ وہ آوازیں ہیں جنھیں سن کر ہم بڑے ہوئے اور جو آج بھی ہماری یادوں کو گرماتی ہیں۔

اسی زمانے میں جب ایوب خان کے دس سالہ’ ’سنہری دور‘ ‘ کا جشن منایا جا رہا تھا، راقم الحروف نے ایوب خان کی تعریف میں ایک نظم لکھی اور ابا جان کو دکھائی تو انھوں نے باوجود ایوب خان سے سخت نفرت کرنے کے، میری نظم کو بغور دیکھا، اس کی تصحیح کی اور پیار سے میرا مذاق اڑایا کہ میں ایوب خان کا چمچہ ہوں۔ میں نے ریڈیوپاکستان پر بچوں کے پروگرام میں شرکت کے لیے آڈیشن دیا اور اپنی نظم پیش کرنے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ اس زمانے میں ریڈیو سے ظفر صدیقی صاحب (بھائی جان) اور منی باجی بچوں کا پروگرام کیا کرتے تھے۔ پروگرام ہر اتوار کے روز صبح دس بجے پیش کیا جاتا تھا۔ ہم بھی اس روز بڑے ٹھسے کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن پہنچے اور پروگرام میں ’’ بچوں کا تعارف ‘‘میں بلوائے گئے اور ایوب خان کی تعریف میں اپنی نظم پیش کی جسے بہت سراہا گیا۔ اس دن کے بعد سے ابا جان اپنے دوستوں سے میرا تعارف اس طرح کروایا کرتے تھے۔

’’ یہ دیکھیے جناب !یہ میرا بیٹا خلیل ہے جو ایوب خان کا خاص الخاص چمچہ ہے۔‘‘ دوست بھی اس صورتحال سے خوب محظوظ ہوتے۔

اسی دور میں ایک نظریاتی تحریک کا اجراء کیا جس کا نام تحریکِ احیائے نظریہ ِ پاکستان تھا۔ ہمارے گھر میں ہر ماہ اس تحریک کا اجلاس ہوا کرتا جس میں نظریہ پاکستان سے متعلق دلچسپ قسم کی بحثیں ہوا کرتیں اور ہم چھوٹے نہایت غور اور دلچسپی کے ساتھ ان بحثوں کو سنا کرتے۔ ان اجلاسوں کی ساری کارروائی اگرچہ ہمارے لیے ناقابلِ فہم ہوتی لیکن خاصی دلچسپی کا باعث ہوا کرتی۔ اس تحریک کے تحت ممبروں نے ایک سوالنامہ بھی ترتیب دیا جو پاکستان کے قابل قدر سیاست دانوں اور دیگر سیاسی، سماجی اور دیگر مذہبی لیڈروں کو بھجوائے گئے اور جواب کی استدعا کی گئی لیکن جواب ندارد۔ اس دور کے ابا جان کے دوستوں میں خاص طور پر غلام محمد بٹ صاحب ( بٹ جی) بھی شامل تھے۔ غلام محمد بٹ صاحب کراچی سے اردو کا ایک اعلیٰ پائے کا ماہنامہ ادبِ لطیف نکالا کرتے تھے۔ بڑے بھائی سناتے ہیں کہ انھیں آج بھی ۱۹۷۰ء کے الیکشن سے پہلے ابا جان، بٹ صاحب، اختر مسلم صاحب اور تحریکِ احیائے نظریہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے دیگر اراکین کے ساتھ ۷۰ کلفٹن جا کر بھٹو صاحب سے ملاقات، ان سے حالات ِ حاضرہ پر ہلکی پھلکی بات چیت اور انھیں اپنا یہ سوالنامہ پیش کرنے کے واقعات یاد ہیں۔ بھٹو صاحب نے اسی وقت معراج محمد خان کو بلا کر یہ دستاویز لینے اور اسے دیکھنے کی ہدایت کی تھی۔

انھی دنوں کی بات ہے، کسی نے ابا جان کا تعارف کرنل محمدی کے والد جناب شاکر محمدی سے کروایا۔ شاکر محمدی نابینا تھے اور کسی صاحب کی تلاش میں تھے جو انھیں کتابیں پڑھ کر سنا سکیں۔ انھوں نے ابا جان کو اس کی پیشکش کی جسے ابا جان نے بخوشی قبول کر لیا اور یوں کئی سال تک ابا جان اس ٹیوشن پر جاتے رہے۔ وہ صاحب ایک انٹلیکچول آدمی تھے اور ادھر ابا جان بھی کچھ کم نہ تھے لہٰذا یہ جوڑی خوب جمی اور کئی سال تک ابا جان جا کر انھیں کتابیں پڑھ کر سنایا کیے۔ اکثر کرنل صاحب کی زوجہ محترمہ کوئی خالص حیدرآبادی ڈش تیار کرتیں تو ابا جان سے خاص طور پر کھانے پر رکنے کی فرمائش کرتیں۔کتابوں کے پڑھنے کے دوران جہاں کوئی جملہ معترضہ آیا دونوں بزرگوں میں ایک علمی بحث چھڑ جاتی اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ شاکر محمدی مسلکً اہل تشیع سے تعلق رکھتے تھے۔جب کبھی موقع آتا دونوں ایک دوسرے پر اس سلسلے میں ہلکی پھلی پھبتیاں بھی کستے اور بات آئی گئی ہو جاتی۔ ایک دن معاملہ بڑھ گیا۔کسی معاملے پر ابا جان اور شاکر محمدی دونوں نے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کر لیا اور اسی دوران شاکر صاحب نے ابا جان پر بھپتی کسی کہ یہ بات ابا جان نہیں بلکہ ان کے اندر کا مولوی کہہ رہا ہے، ابا جان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ’’شاکر صاحب یہ باتیں بھی آپ نہیں بلکہ آپ کے اندر کا چھپا ہوا شیعہ بول رہا ہے۔ آپ کتنے بھی آزاد خیال کیوں نہ ہو جائیں اندر سے بنیادی طور پر ایک کٹر شیعہ ہیں اور رہیں گے۔‘‘ اس ڈائیلاگ کے بعد ابا جان نے سلام کیا اور گھر سے باہر نکل گئے، کبھی نہ واپس لوٹنے کے لیے۔

تقریباً بیس سال نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیر آف دی بلائینڈ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد ۱۹۷۹ءمیں نیشنل بک فاؤنڈیشن میں بریل پریس کے مینیجر مقرر ہوئے۔۔ایک مرتبہ پریس کے لیے کاغذ کا آرڈر بھیجا، باہر سے جواب آیا کہ کک بیک Kick Backکے لیے بینک اکاؤنٹ بھجوایا جائے۔ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیا چیز ہے۔ ادھر ادھر لوگوں سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ یہ اس آرڈر کے بھیجنے کا انعام ہے جو کسی بھی بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروایا جا سکتا ہے۔ بیرونی کمپنی کو اطلاع بھجوائی کہ اس پیسے سے بھی اضافی کاغذ ہی بھیج دیں۔

کاغذ کی کھیپ پاکستان پہنچی تو مطلوبہ کاغذ سے زیادہ کاغذ ملنے پر آفیسروں کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ کمپنی کو لکھا تو پتا چلا کہ کک بیک کی رقم کے بھی کاغذ بھجوائے گئے ہیں۔ یہ بات اس سے پہلے کبھی دیکھی نہ سنی۔کوئی خواہ مخواہ ان کمپنیوں کی عادت کیوں خراب کرے۔ آفیسروں نے ابا جان کو سخت تنبیہ کی کہ آئندہ سے آپ آرڈر نہیں بھجوائیں گے۔ جو آپ کی ضرورت ہو بتا دیجیے، منگوا کر دے دیا جائے گا۔انھی دنوں ایک صاحب نے صدرِ پاکستان کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا کہ نیشنل بک فاونڈیشن کے موجودہ مینیجر بریل پریس ( محمد اسمٰعیل آزاد صاحب)پاکستان پیپلز پارٹی کے آدمی ہیں، جس پر ان کے ڈائریکٹر صاحب کو حکومت وقت کی جانب سے ایک محبت نامہ وصول ہوا اور اس امر کی وضاحت طلب کی گئی۔ اس واقعہ کی تفصیل آگے چھوٹے بھائی حفیظ الرحمٰن کے لکھے ہوئے باب میں آ رہی ہے۔خیر صاحب، ابا جان نے جلد ہی سرکاری محکمہ جاتی کارروائیوں، سرخ فیتہ کی کارستانیوں اور بد عنوانیوں سے تنگ آ کر نوکری چھوڑ دی اور مستقل طور پر مطالعہ اور لکھنے لکھانے سے وابستہ ہو گئے۔اس ادارے کی نوکری میں ابا جان کی ملاقات ذہین عالم صاحب سے ہوئی جو ابا جان کے گہرے دوست بن گئے۔

کچھ سال پہلے ابا جان کی ملاقات ڈاکڑمولاناسید عزیز الرحمٰن صاحب سے ہوئی جنھوں نے ابا جان کی تحریری کاوشوں کو قابلِ قدر نگاہوں سے دیکھا اور انھیں پیشکش کی کہ وہ ان کے تحقیقی رسالوں ششماہی السیرہ اور ماہنامہ تعمیر افکار کے لیے کچھ لکھیں اوریوں Comparative Religionجیسے اہم موضوع پرپر ابا جان کے اس بڑے کام کا آغاز ہوا جو گزشتہ کئی سالوں سے مختلف عنوانات کے تحت مضامین کی شکل میں ششماہی السیرہ میں چھپتا رہا ہے۔ اس کی روداد خود مولانا عزیز الرحمٰن صاحب کی زبانی سنئے۔

’’ آزاد صاحب عرصے سے لکھنے پر آمادہ نہیں تھے، میں نے کوشش کر کے السیرہ کے لیے لکھنے پر آمادہ کیا، ان کا معرکۃ الآراء مضمون السیرہ کے شمارہ ۴۱ میں شائع ہوا، جو مذاہبِ عالم میں رسول اکرم ﷺ کی بابت پیشین گوئیوں سے متعلق تھا۔ اس تحریک میں ہمارے ساتھ برادرم محترم ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری بھی شریک تھے۔ انھیں جب علم ہوا کہ یہ مضمون السیرہ میں شائع ہو گیا ہے تو انھوں نے آزاد صاحب کو، ایک زوردار خط لکھا، جس میں ان کی اس کاوش پر انھیں بھرپور مبارکباد دی۔ حقانی صاحب ویسے بھی مبالغے میں یدِ طولیٰ کے حامل ہیں۔ اس واقعے کے بعد ایک روز میں آزاد صاحب کے پا س گیا تو دیکھا افسردہ بیٹھے ہیں، میں پریشان ہوا، پوچھا تو بولے حقانی کو کیا ہو گیا ہے، اسے سمجھاؤ، میں سمجھا، تفریح میں شاید حقانی صاحب نے کوئی ایسی بات لکھ دی ہے جو آزاد صاحب کی آزردہ خاطری کا باعث بنی ہے۔ میں نے تفصیل پوچھی تو خط میرے آگے رکھ دیا، اس میں صرف یہ تحریر تھا کہ آپ کا مضمون بہت عمدہ ہے اور یہ سلسلہ جاری رکھیے، ایسے مضمون روز روز نہیں لکھے جاتے، الفاظ کچھ اور تھے، مفہوم یہی تھا۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ اس میں ایسی کیا بات ہے ؟ بولے، دیکھو یہ میری اتنی تعریف لکھی ہے، میں عمر کی آخری منزل میں ہوں، خدا جانے کب بلاوا آ جائے، ساری عمر اپنے ایمان کی حفاظت کی، اگر عمر کے اس حصے میں یہ خیال آ گیا کہ ہم بھی کچھ ہیں، ہم نے بھی کچھ کیا ہے تو سب ہی کچھ اکارت نہیں چلا جائے گا؟میں پھر ساتھ لے کر کیا جاؤں گا؟ خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ اللہ اکبر۔‘‘

(از روشن چہرے، اجلے لوگ۔ مولانا آزاد از مولانا سید عزیز الرحمٰن۔ ماہنامہ تعمیرِ افکار کراچی اپریل ۲۰۱۰ء )

سیرت النبی ﷺ پر لکھی ہوئی ابا جان کی کتاب ’’ سیرتِ خیر البشر ﷺ‘‘ ماہنامہ تعمیرِ افکار کے سیرت نمبر میں بھی شاملِ اشاعت ہوئی اور اس طرح اسے اور زیادہ پذیرائی ملی۔

۲۰۰۹ء میں کراچی میں ایک دو روزہ مذاکرہ منعقد کیا گیا جس کا عنوان ’’ اتحاد بین المذاہب اور مذہبی یگانگت‘‘ تھا۔اس مذاکرے میں ابا جان کے علاوہ دیگر مقررین میں پروفیسر عبد الجبار شاکر، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن، مفتی منیب الرحمٰن وغیرہ شامل تھے۔ اس مذاکرے میں ابا جان کا دیا ہوا لیکچر، جو ان کی زندگی کا آخری لیکچر تھا، جہاں ان کے مذہبی خیالات اور Comparative Religionپر ان کی تحقیق اور گرفت کا مظہر ہے وہیں اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ اتحاد بین المذاہب اور مذہبی یگانگت ایک ایسا موضوع ہے جسے اگر مسلمانوں کے درمیان پیش کرنے کی بجائے یورپ اور غیر مسلم معاشرے میں پیش کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ انھوں نے کہا۔

مذاہبِ عالم کو عام مروجہ تاریخوں میں دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

۱۔ سامی مذاہب ۲۔ آریائی مذاہب

سامی مذاہب کو ابراہیمی مذاہب بھی کہا جاتا ہے یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔ یہ تمام مذاہب حضرت ابراہیم کو موحدِ اعظم قرار دیتے ہیں اور انھی سے ان کا سلسلہ چلتا ہے۔ ان مذاہب کے درمیان موجود رفاقت یا رقابت کے جذبات کو سمجھنے اور ان میں باہمی قربت پیدا کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم سے تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ سامی مذاہب کیسے وجود میں آئے۔ اس سلسلے میں تاریخی دستاویز عام طور پر تورات کو تسلیم کیا جاتا ہے، جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوئی تھی اور ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ حضرت ابراہیم سے کوئی چار سو سال بعد تشریف لائے۔

حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو عرب میں آباد کیا، خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور خدا کے حکم کے مطابق حج کے طریقے، قربانی طواف سعی کے طریقے تعلیم کیے۔ اس مذہب کو ملت ابراہیم کہا گیا ہے، جو دو تین صدیوں کی دوری اور علیحدگی کی وجہ سے اسرائیلی روایات میں بیان نہیں ہوئیں۔ اس لحاظ سے ابراہیمی مذاہب تین نہیں چار تھے۔

۱۔ حضرت ابراہیم کا مذہب ملتِ ابراہیم ۲۔ حضرت موسیٰ کا مذہب

۳۔ حضرت عیسیٰ کا مذہب ۴۔ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا دین جس کو ملتِ ابراہیم کہا گیا ہے۔

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ’’ میں اللہ پر ایمان لایا، اور اس کے فرشتوں پر، اور تمام کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پراور اچھی بری تقدیر پر، کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر۔‘‘

اسلام نے یہودیوں اور عیسائیوں کو اہلِ کتاب کے لقب سے یاد فرمایا۔ یعنی یہ ایک ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں جن کے پاس اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب یعنی تورات اور انجیل ہے۔ اسلام کی ان دونوں ابراہیمی مذاہب کے ساتھ یگانگت کی اس سے بڑھ کر اور کیا صورت ہو گی کہ ایک شخص ایمان لانے کے بعد بھی اگر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا انکار کرے تو تو وہ مسلمان ہی نہیں رہ سکتا۔

بین المذاہب یگانگت کے لیے اسلام کا یہ اصول اور اس پر مسلمانوں کا عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ تو رات اور انجیل کے ماننے والے نیکی کا بدلہ نیکی سے دیں اور دونوں قومیں نبی کریم ﷺ کے احترام و تقدیس کو اسی طرح اپنے اعمال میں شامل کریں، جیسا مسلمان حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے لیے کرتے ہیں، اور حضرت موسیٰ اور عیسیٰ اسلام کے پیغمبروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

یہ گویا ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ تھا جو خود تو اپنے ملعونوں کی شیطانی حرکتوں کو جائز اور آزادیِ رائے قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کو رواداری کا درس دیتے ہیں۔

یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد ابا جان نے نبی اکرم ﷺ کی آمد سے متعلق پیشن گوئیاں پڑھ کر سنائیں اور استدلال کیا کہ چونکہ سب ابراہیمی مذاہب میں نبی اکرم ﷺ کی آمد سے متعلق پیشن گوئیاں موجود ہیں، لہٰذا بین المذاہب یگانگت کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ تمام مذاہب والے اپنی پیشن گوئیوں کے مطابق نبی اکرم ﷺ کو آخری نبی مان کر اسلام کے دائرے میں آ جائیں۔

جنید صاحب ابا جان کے ایک بہت گہرے دوست اور بڑے سیدھے سادے انسان تھے۔پچھلے کئی سال سے ابا جان کا معمول تھا کہ ہفتہ یا اتوار کے دن امین بھائی (مرحوم) کو بلاتے اور ان کے ساتھ سب سے پہلے جناب عزیز الرحمٰن صاحب کے گھر جاتے، وہاں کچھ دیر بیٹھتے اور پھر وہاں سے سیدھے ڈاکٹر حبیب الرحمٰن صاحب کے گھر پہنچتے جہاں پر جنید صاحب پہلے سے موجود ہوتے۔ کچھ دیر یہاں پر محفل جمتی جس دوران سعدیہ باجی( دخترِ نیک اختر ڈاکٹر حبیب الرحمٰن صاحب) میزبانی کے فرائض بطریقِ احسن سرانجام دیتیں۔ یہاں سے واپس چلتے تو پہلے جنید صاحب کو ان کے گھر چھوڑا جاتا اور پھر امین بھائی ابا جان کو واپس گھر لے آتے۔۲۰۰۸ء میں کمپنی نے امین بھائی کو نئی ٹویوٹا کرولا موٹر کار دے دی تو امین بھائی اس گاڑی میں ابا جان کو لینے کے لیے آنے لگے۔ابا جان کی طبیعت میں سادگی اور فقیرانہ پن کچھ اس قدر زیادہ تھا کہ انھیں اس بڑی گاڑی میں بیٹھنا کچھ اچھا نہ لگتا۔ اکثر امین بھائی سے کہتے کہ ’’ ابے تو یہ بڑی گاڑی نہ لایا کر‘‘۔ امین بھائی کے انتقال کے بعد کچھ ماہ یہ خوشگوار ڈیوٹی مجھے بھی سرانجام دینے کا موقع ملا۔

بڑے بھائی حبیب الرحمٰن کئی سال سعودی عرب میں نوکری کرتے رہے اور وہاں سے ابا جان کو حج اور عمرے کے لیے دعوت دیتے رہے جسے ابا جان نے درخور اعتناء نہیں جانا اور مختلف بہانے کرتے رہے۔ البتہ وفات سے چند سال قبل جب جنید صاحب نے ان سے عمرے پر ساتھ چلنے فرمائش کی تو فوراً تیار ہو گئے۔

دونوں عمر رسیدہ بزرگ، ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے، ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہوئے، بالآخر عمرے کے لیے سعودی عرب پہنچ ہی گئے اور ’کامیابی‘ کے ساتھ وہاں پر عمرے کی ادائیگی کی۔ طواف کے دوران ایک مرتبہ ایسا زبردست دھکا لگا کہ دونوں ہی لڑکھڑا کر نماز کے لیے بیٹھی ہوئی عورتوں پر جا گرے۔ فوراً ہی اٹھ کر اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر طواف میں یوں مشغول ہو گئے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ بعد میں گھر پہنچے تو خوب ہنس ہنس کر یہ واقعہ گھر والوں کو سنایا کیے۔

عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ پہنچے اور مسجد نبوی میں حاضری کے بعد جب فارغ ہو گئے تو سیرت نبی ﷺ کے تعلق سے مدینہ کی سیر کی اور اس کے گرد و نواح کا مطالعاتی دورہ کیا، مدینے میں ایک صاحب کی تلاش ہوئی جو مدرسہ صولتیہ میں ہوتے ہیں، کافی تلاش کے بعد مدرسہ ملا تو بہت خوش ہوئے اور ان مولوی صاحب سے ملاقات کی اور کافی دیر تک باتیں کرتے رہے، اور ان سے سیرت اور مدینہ کے جغرافیہ سے متعلق سوالات کیے۔یہ عمرہ ابا جان کی زندگی کا یاد گار سفر بن گیا۔ سیرت نبوی پر پڑھتے اور لکھتے ہوئے جن مقامات کا تذکرہ آتا تھا، انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا تو انھیں بہت لطف آیا۔

۴ جنوری ۲۰۰۹ء کو بریل زبان اور رسم الخط کے بانی لوئی بریل Louis Brailleکی دو سو ویں سالگرہ کی تقریبات سے سلسلے میں پاکستان ڈسیبلڈ فورم Pakistan Disabled Forumنے اردو اور عربی بریل کی ترویج و ترقی کے سلسلے میں ابا جان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ایک شیلڈ پیش کی جو کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کی طرف سے ان کی خدمات کے اعتراف کا پہلا واقعہ تھا۔کوئی اور ہوتا تو فخر سے پھولا نہ سماتا اور جا کر یہ شیلڈ وصول کرتا، ابا جان نے جو اس قسم کی تعریف سے دور ہی رہتے تھے، منتظمین حضرات سے اپنی طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کرتے ہوئے تقریب سے غیر حاضری کی اجازت چاہی اور یوں یہ ایوارڈ کسی اور صاحب نے وصول کیا اور ابا جان کی خدمت میں ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

باب دوازدہم۔شگفتہ مزاجی

 

ابا جان کے مزاج میں شگفتہ مزاجی، بذلہ سنجی، شوخی و چنچل پن کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ سنجیدہ سے سنجیدہ ماحول اور حالات میں بھی انھوں نے اپنی شوخی طبع سے ایسے ایسے شگفتہ چٹکلے چھوڑے ہیں کہ خود ان کی زبانی ان لطیفوں کی روداد سن کر مزہ آ جاتا تھا۔ بچپن میں بھی اپنی اس شوخ طبیعت کے سبب نہ صرف گھر والوں بلکہ اپنے ہم عمر دوستوں سمیت سارے گاؤں والوں کے ہر دل عزیز تھے۔ حیدرآباد پہنچے تو اپنی اسی طبعیت کی وجہ سے قبولیت عام کا درجہ حاصل کیا۔ پیر صاحب کی بڑی بیگم صاحبہ کو اس قدر پیارے ہوئے کہ انھوں نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ جب تک ان کے گھر میں رہتے، چھوٹے بچوں کو سنبھالنے سے لے کر پانی بھرنے اور گھر کے دیگر کام سرانجام دینے میں مصروف رہتے۔ پیرانی ماں کے ایک چھوٹے بھائی تھے، ننھے ماموں، جو ابا جان کے گہرے دوست بن گئے اور اسی طرح پیر صاحب کے نوجوان مریدوں کا ایک گروپ بھی ابا جان کے گرد جمع ہو گیا اور ان نوجوان دوستوں کے گروہ نے ہر زمانے کی نئی نسل کی طرح اپنا ایک الگ ڈھنگ نکالا اور ہنسی خوشی وقت گزارنے میں ملکہ حاصل کیا۔ان کی شرارتوں کے حالات آپ گزشتہ صفحات میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ رات کو پیر صاحب کی محفلِ درس سے پہلے قریب کے چائے خانے میں اپنی محفل جماتے تھے۔ چائے، کافی، پان وغیرہ سے شغف رہتا اور پھر جوں ہی عشاء کی نماز کا وقت ہوتا کلی وغیرہ کر کے پان کے اثرات ہونٹوں سے مٹا کر فوراً بھاگتے اور اگلی صفوں میں جا موجود ہوتے۔

ایک دن ابا جان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھنے والوں میں ایک اہلحدیث حضرت بھی موجود تھے جو اپنی ٹانگیں چوڑی کر کے اپنے پنجے سے برابر والے کے پنجے کو چھونا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔ ابا جان ان کے پھیلاؤ کو دیکھ کر سمٹے تو انھوں نے اپنے پیر اور زیادہ پھیلا لیے۔ ابا جان اور سمٹے تو وہ حضرت اور زیادہ پھیل گئے۔ اب تو ابا جان نے انھیں سبق دینے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اور موقعہ پا کر اپنا پنجا ان کے پیر پر مضبوطی کے ساتھ رکھ دیا تاکہ ان کی پیش قدمی کو روک سکیں۔اس حرکت پر وہ صاحب بہت جزبز ہوئے اور اپنی مزید پیش قدمی سے باز رہے۔

ایک مرتبہ ایک دوست نے اپنی بیماری کا حال بتلایا کہ گردوں میں پتھری ہو گئی ہے تو خوب ہنسے اور ان صاحب پر حسبِ حال بھپتی کسی کہ وہ اندرونی طور پر سنگسار ہو رہے ہیں۔

ابا جان ناس لیا کرتے تھے۔ ناس خریدنے کے لیے صدر میں ایمپریس مارکیٹ کے قریب جہانگیر پارک کے عین سامنے ایک دکان مخصوص تھی۔ایک مرتبہ ناس لینے کے لیے صدر میں ایک بس سے اترے اور آگے بڑھا چاہتے تھے کہ سامنے سے آتے ہوئے ایک شخص پر نظر پڑی تو اس کی ہئیت کذائی دیکھ کر بے اختیار ہنس پڑے۔خدا کی کرنی، اگلے ہی لمحے سامنے پڑے ہوئے کیلے کے چھلکے کو نہ دیکھ سکے اور اس پر سے جو پیر پھسلا ہے تو بازار میں سڑک پر چاروں خانے چت پڑے تھے۔چند لمحوں کے لیے تو سمجھ ہی میں نہ آیا کہ کہاں ہیں اور کیا ہوا ہے۔ جب ذرا حواس بحال ہوئے تو سوچا ’’اللہ کی مخلوق کا مذاق اڑایا تھا، لہٰذا اسے یہ بات بری لگی ہے، توبہ کرنی چاہیے ‘‘ یہ سوچ کر فوراً سنبھل کر اٹھے اور اٹھتے ہی بھرے بازار میں کان پکڑ کر تین مرتبہ اٹھک بیٹھک کی، ا للہ سے توبہ کی اور نہایت اطمینان کے ساتھ آگے روانہ ہو گئے۔ دیکھنے والے حیرت سے دیکھا کیے، لیکن ابا جان نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا تھا، اور نہ دیکھا۔ بعد میں خود خوب مزے لے لے کر یہ قصہ سنایا کرتے اور خوب ہنستے۔

اپنے بچپن میں ایک دن راقم الحروف رات کے وقت کچی نیند سے بیدار ہوا اور اپنی نیند کی جھونک میں نہایت اطمینان کےساتھ مندرجہ ذیل سطریں بآوازِ بلند روانی کے ساتھ ادا کیں۔

لنگڑ دین بھائی لنگڑ دین

سالن تھوڑا روٹی تین

بجاؤ بین

اور پھر سوگیا۔ ابا جان حسبِ معمول مطالعہ میں مصروف تھے۔ اس وقت تو یہ واقعہ خاموشی کے ساتھ دیکھا کیے۔بعد میں اکثرسنایا کرتے، خوب ہنستے اور لطف لیتے۔

ابا جان کی بڑی سالی یعنی ہماری خالہ اماں جو آج کل پیرانہ سالی کے باعث بستر پکڑ کر لیٹی ہوئی ہیں، خاصی پھرتیلی واقع ہوئی تھیں، ان دنوں سارے شہر میں اکیلی دوڑتی پھرتیں، لیکن ادھر کچھ دنوں سے ان کی ٹانگوں میں درد رہنے لگا تھا جس کی وہ اکثر شکایت بھی کیا کرتی تھیں۔ ابا جان نے فوراً ان کا نام لنگڑ دین رکھ دیا اور بعد میں جیسے ہی وہ ہمارے گھر میں داخل ہوا کرتیں، ابا جان ایک ٹانگ چھوٹی کر کے لنگڑاتے ہوئے کمرے کا ایک چکر لگاتے اور اس کے بعد ہی ’’آپا جان‘‘ کو ادب سے سلام کیا کرتے اور ان کی خیریت دریافت کرتے۔ خالہ اماں یہ دیکھ کر خوب ہنستیں۔ابا جان کے چڑانے کا انھوں نے کبھی برا نہ منایا بلکہ ہمیشہ ابا جان کا ادب و احترام کیا اور اس صورتحال سے لطف اٹھایا۔دیگر سالیاں چونکہ ابا جان کی شادی کے وقت بہت چھوٹی تھیں لہٰذا ان کے ساتھ ابا جان کا پیار کا رشتہ ہمیشہ رہا۔ بی خالہ جن کا اصل نام سعیدہ اختر ہے، ابا جان کے لیے ’’اکوماں ‘‘ تھیں اور ابا جان کی سمدھن بننے کے باوجود وہ ’’ اکوماں ہی رہیں ‘‘۔

تجمل صاحب، نور محمد صاحب اور دیگر حضرات سے ابا جان کی گہری دوستی کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جس دن ابا جان نے نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفئیر آف دی بلائینڈز کی نوکری قبول کی تھی۔ایک دن جیسے ہی ابا جان کو علم ہوا کہ نور محمد صاحب پاکستان ائر فورس میں ائر مین کے طور پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے تھے، ابا جان نے ان کا نام ائر مارشل رکھ دیا۔ نور محمد صاحب کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ دست شفقت دراز رکھا۔غلام محمد بھائی نے تو ابا جان کے ساتھ ہی یہ ادارہ چھوڑ کر نیشنل بک فاؤنڈیشن میں نوکری کر لی تھی، اور اسی میں رہتے ہوئے ان کا انتقال ہوا۔ناظم آباد میں ہمارا گھر عید گاہ سے کچھ فاصلے پر تھا اور تجمل صاحب کا گھر عین عید گاہ کے سامنے واقع تھا۔ ہر عید پر ہمارا معمول تھا کہ عید کی نماز سے فارغ ہو کر سیدھے تجمل صاحب کے گھر پہنچتے، عید ملنے کے بعد ان کے گھر پر ہماری خاطر مدارات کی جاتی اور اس کے بعد ہی ہم اپنے گھر کی طرف روانہ ہوسکتے۔ ایک مرتبہ عید گاہ سے تجمل صاحب کے گھر پہنچے تو وہ قمیص پہنتے ہوئے برآمد ہوئے۔ ابا جان نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ انھوں نے عید کی نماز ہی نہیں پڑھی بلکہ غسل خانے سے سیدھے ابھی نکل کر ہم سے عید ملنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔وہ لاکھ کہتے رہے کہ انھوں نے نماز پڑھ لی ہے مگر ابا جان نہ مانے۔اس دن کے بعد سے ہر عید پر نماز کے بعد تجمل صاحب سے ملتے تو یہ شبہ ضرور ظاہر کرتے کہ کہیں تجمل صاحب نے نماز گول تو نہیں کر دی اور غسل خانے سے عید کے لیے تیار ہو کر نکلتے ہی عید ملنا شروع تو نہیں ہو گئے۔

آج جب ہم تجمل صاحب کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہیں تو وہ بے تحاشا یاد آتے ہیں، لیکن ان کے گھر جانے کی ہمت ہم میں نہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے تجمل صاحب فالج کے زیر اثر صاحب فراش ہیں۔ ان کے گھر والوں نے انھیں ان کے جگری دوست ابا جان کی رحلت کے بارے میں نہیں بتایا ہے۔ ہمیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ ان کا سامنا ہوتے ہی انھوں نے ابا جان کی خیریت دریافت کر لی تو ہم کیا جواب دیں گے۔کہتے ہیں کہ ان کے گھر والوں نے انھیں ان کے بڑے بیٹے کی حادثاتی موت کے بارے میں بھی نہیں بتایا تھا۔ گھر کے سامنے کی مسجد سے جب لاؤڈ اسپیکر پر اس کی موت کا اعلان ہوا تو تجمل صاحب نے بھی یہ اعلان سن لیا۔

ابا جان کے پیارے پیارے نابینا شاگرد اور ساتھی بھی ابا جان کی شرارتوں سے کسی طور بچے ہوئے نہیں تھے۔ ایک مزیدار واقعہ تو آپ باب ’ خدا کے بندوں سے پیار‘ میں پڑھ چکے ہیں، اس طرح کے بے شمار واقعات ابا جان کی زندگی میں بھرے پڑے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

باب سیز دہم۔ سیاسی و مذہبی تحریکات

 

ابا جان تحریکی آدمی تھے۔ جہاں بھی رہے، کسی تحریک کو جنم دیا یا خود کسی انقلابی تحریک کا حصہ بن کر فعال کردار ادا کیا۔ بچپن میں گھر کا نظام چلانا ہو یا دیگر لڑکوں کے ساتھ مل کر فٹبال میچ کی پلاننگ یا کسی شرارت کی تیاری، سب اسی ذہنی اپج کا نتیجہ تھے۔ لڑکپن میں اپنے فطری رجحان اور والد صاحب کی خواہش کے مطابق ایک پیر صاحب کی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور جو کار ہائے نمایاں سر انجام دئیے ان کا احوال آپ گزشتہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ، سر سید احمد خان، قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کے کٹر حامی تھے۔ اور اس سلسلے میں تحریک پاکستان میں فعال کردار بھی ادا کیا جس کی روداد بھی گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ اس دوران انگریز سرکار کے خلاف کچھ خفیہ کام بھی کیے جن کی تفصیلات اگرچہ راقم الحروف کے ذہن سے محو ہو گئی ہیں، لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ ایک مرتبہ ابا جان ایک خفیہ خط لے کر بس میں کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں پولیس کا چھاپا پڑا اور ہر ہر مسافر سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ابا جان نے معصومیت کے ساتھ ٹھیٹھ پشتو میں جواباً کہا’’ زے استا مطلب نہ پوئے گم‘‘ یعنی کہ وہ نہیں سمجھ سکتے کہ کیا پوچھا جا رہا ہے۔۔ پولیس والے نے انہیں بھی ایک پٹھان سمجھا اور پھر ان سے اور کچھ نہیں پوچھا اور آگے بڑھ گیا۔ اگر اس وقت ابا جان کی تلاشی لی جاتی تو وہ خفیہ خط ان کی قمیص کی اندرونی جیب میں موجود تھا۔ اسی طرح ایک اور مرتبہ جب ابا جان مقامی لباس میں ایک قہوہ کانے میں اپنے ایک پٹھان دوست کے ساتھ قہوہ پی رہے تھے اور پشتو میں کسی بحث میں مصروف تھے کہ اچانک بقول ابا جان گررر کی آواز کے ساتھ پولیٹیکل ایجنٹ اور پولیس کی جیپیں آ کر قہوہ خانے کے سامنے رکیں سپاہی اترے، اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کا بغور جائزہ لیا لیکن کسی غیر مقامی فرد کو وہاں نہ پا کر وہ مایوس اور ناکام و نامراد واپس چلے گئے۔ بہر حال یہ وہ واقعات ہیں جن کی کوئی تفصیل فی الوقت ہمارے پاس نہیں۔ مولانا ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’ سید احمد شہید کی تحریک المجاہدین کی باقیات سے بھی وابستہ رہے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد جب اسے حکومت ِ پاکستان نے اپنی’ تحویل‘ میں لے لیا اور نہایت بے سر وسامانی کے عالم میں چلنے والی غریبوں کی اس تحریک کے اخلاف کو روزینہ ملنے لگا تو نہایت خاموشی کے ساتھ اس سے الگ ہو گئے۔ نہ اظہار، نہ دعویٰ، نہ ملال، نہ استحقاق، کچھ بھی نہیں۔ جب بھی بات نکلی تو اس بات پر افسوس کیا کہ غداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کی زبان سے یہ کبھی نہ سنا کہ ہم چناں تھے، ہم چنیں تھے، ہمارا یہ حق تھا، ہمیں کسی نے نہ پوچھا۔ ایسا کوئی جملہ کبھی سننے میں نہ آیا، کبھی نہیں۔ ایسی باتوں سے کوسوں نہیں برسوں دور تھے۔‘‘

(از روشن چہرے، اجلے لوگ۔ مولانا آزاد از مولانا سید عزیز الرحمٰن۔ ماہنامہ تعمیرِ افکار کراچی۔ اپریل ۲۰۱۰)

ابا جان اول و آخر ایک مسلم لیگی تھے۔ مسلم لیگ اور اس کے لیڈروں اور قیامِ پاکستان اور اس کی غرض و غائت سے متعلق ان کے جذبات و احساسات ان کے ایک مضمون سے واضح ہیں جو انہوں نے جسونت سنگھ کی کتابJINNAH: India – Partition_ Independence پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔

’’ آزاد بھارت کے پہلے وزیرِ تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے مشہور مورخ آر سی موجمدار کو آزادی ہند کی تاریخ لکھنے کا کام سونپا۔ موجمدار صاحب دوسال کے بعد کتاب مکمل کر کے لائے۔ مولانا نے اسے پڑھنے کے بعد حکومتِ ہند کی طرف سے شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ وہ ہسٹری آف فریڈم موومنٹ آف انڈیا کی بجائے ہسٹری آف فریڈم موومنٹ آف پاکستان لکھ کر لائے ہیں۔ آگے چل کر کلکتہ پبلشنگ ہاؤس نے چار جلدوں پر مشتمل اس کتاب کو شائع کیا موجمدار صاحب نے ان چار جلدوں میں تاریخی مواد اور دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلم دو الگ الگ قوموں کی حیثیت سے آباد ہیں۔ اور یہی نکتہ ۱۹۴۶ کے الیکشن کا ماحصل ہے، جس کی بنیاد پر ہندوستان تقسیم ہوا۔

ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو ایک ہزار سال گزر گئے۔ لیکن اس سارے عرصے میں ہر لحاظ سے مسلمان اور ہند عوام ایک دوسرے سے الگ رہے۔ مذہب میں، زبان میں، لباس میں، غذاؤں میں، عدم میل جول کے باعث یہ مل کر متحدہ قومیت کی شکل اختیار نہ کرسکے۔ اس علیحدگی کی ابتداء ہندوؤں کی طرف سے ہوئی کہ ان کے پنڈتوں نے مسلمانوں کو بھی اچھوت اور ناپاک قرار دے دیا، جن کے چھو لینے سے ان کی غذا اور پانی ناپاک ہو جاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح سے دونوں قومیں الگ الگ ہی رہ سکتی تھیں۔ صرف سیاست میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا عملی اتحاد ناممکن تھا۔ کس طرح متحدہ جماعت بنتی۔ یہ علیحدگی کا اقدام ہندوؤں کی طرف سے ہوا اور آج تک جاری ہے۔ اس کے باوجود کانگریس کے نام سے ہندو مسلم متحدہ جماعت کا قیام مسلمانوں کے ساتھ ایک فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔یہ فریب مسلمانوں پر اس وقت ظاہر ہوا جب انگریزی حکومت نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کے دو صوبے بنائے۔ اس کے نتیجے میں مشرقی بنگال میں مسلم اکثریت ہو گئی۔ کانگریس نے اس کے خلاف مسلسل پانچ سال احتجاجی تحریک منظم کی تاآنکہ تقسیمِ بنگال منسوخ ہوئی۔

حال ہی میں بی جے پی کے لیڈر اور سابق ہندوستانی وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ کی کتاب منظرِ عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے تقسیمِ ہند اور قائدِ اعظم کے موضوع پر قلم اُٹھایا ہے۔ جسونت سنگھ جی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ انگریز کی سازش تھی کہ الگ صوبے کی وجہ سے علیحدہ مسلم قومیت پیدا ہو گی، لیکن دوسری طرف مسلمانوں نے اس کو کانگریس کی مسلم دشمنی قرار دیا۔ اس طرح ہندو مسلم اختلاف یہاں بھی باقی رہا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تقسیم بنگال کی تنسیخ کروا کر کانگریس نے تقسیمِ ملک کے لیے راہ ہموار کی۔

ہندو مسلم تعلقات کی ایک ہزار سالہ تاریخ کے سلسلے مین پروفیسر عزیز احمد رقم طراز ہیں : ’ہندوؤں کے مسلمانوں کے ساتھ تنفر کا اظہار ان کی ابتدائی تحریروں سے ہوتا ہے۔ البیرونی بھی، جس کا نقطہ نظر ہندو تہذیب کی جانب فی الواقع معقول اور مفاہمانہ تھا، اس بات کا شاکی ہے کہ ان کی عصبیت اور تشدد کا پورا رخ ان لوگوں کی طرف رہتا ہے جو ان کے نہیں ہوتے، غیر ملکی ہوتے ہیں۔ وہ انہیں ملیچھ، ناپاک سمجھتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ کسی نوع کے تعلق سے منع کرتے ہیں۔ خواہ وہ باہمی مناکحت ہو، یا کسی قسم کا ربط ضبط، مثلاً ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، خورد و نوش وغیرہ۔ کیوں کہ ان کے خیال میں وہ اس طرح ناپاک ہو جاتے ہیں۔

اس قسم کے ماحول میں جہاں دو تہذیبیں ایک دوسرے سے اتنی الگ ہوں، اور ایک ساتھ رہ رہی ہوں، کسی قسم کی متحدہ سیاسی جماعت کا خیال محض نادانی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ جب بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، اس کے باوجود ان کو صوبائی حکومت کا حق نہ دینا ایک قسم کا سیاسی ظلم تھا اور کانگریس کی مسلم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ہندو ذہنیت کی مسلم دشمنی کا اظہار چودھویں صدی میں دکن اور بنگال میں ہندوؤں میں پیدا ہونے والی بھگتی تحریک سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ کرشن بھگتی یا رام بھگتی کے نام سے جلوس نکالتے، گاتے بجاتے، سارا مجمع شہری آبادی سے گزرتا، مرشد آباد کے قاضی نے اس جلوس پر پابندی لگائی تو جلوس نے قاضی کی عدالت کو آگ لگا دی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندو قوم نے مسلم حکام کے خلاف مذہبی بنیاد پر اتحاد پیدا کیا۔ جس طرح مسلمانوں میں حضرت مجدد الفِ ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ اور سید احمد بریلوی جیسے بزرگوں نے مسلمانوں کی رہبری کی اسی طرح یہ کام چودھویں صدی سے ہندوؤں میں چانکیہ اور رامانج جیسے بھگتی تحریک کے بزرگوں نے ہندوؤں کے لیے کیا۔ یہاں تک کہ سترہ سو عیسوی میں یہ رہنمائی سیواجی اور رام داس بوا اور سنت تکا رام جیسے ہندوؤں نے کی۔ مسلمان اسلام پر متحد ہوئے اور ہندو اپنے دھرم پر آل انڈیا کانگریس کے نام سے متحد ہوئے۔

بہر حال یہ حقیقت ہے کہ تقسیمِ ہند ہندو کانگریس کی جانب سے مسلمانوں کو حقوق نہ دینے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ورنہ قائد اعظم کے چودہ نکات تو متحدہ ہندوستان کے لیے تھے۔ جب ہندوؤں نے مسلمانوں کے حقوق تسلیم نہ کیے تو قائد اعظم نے مجبور ہو کر علیحدہ پاکستان کی بات کی۔‘‘

(جسونت سنگھ کے الزامات یا اعترافات از محمد اسماعیل آزاد، ماہنامہ تعمیرِ افکار، اکتوبر ۲۰۰۹)

ادھر ان ہی دنوں جب ابا جان اپنے بیوی بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کی تلاش میں کراچی کی سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے تھے، بعض دوسرے حضرات کی طرح ابا جان کو بھی مذہب تبدیل کر لینے کی انتہائی حسین و دلفریب پیش کش بھی کی گئی۔ یعنی بقول شاعر

جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے

چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے

لیکن ابا جان نے بصد شکریہ اس پیش کش کو بھی ایک اندازِ بے اعتنائی کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ ہر داغ تھا اس دل پہ بجز داغِ ندامت۔ انہوں نے اتنی عمر اس دشت کی سیاحی میں اس لیے نہیں گزاری تھی کہ دنیوی فائدہ لوٹ کر بیٹھ جائیں۔ اور باقی ماندہ زندگی عیش کریں۔وہ تو اللہ سے بھلائی چاہنے والے فقیر تھے۔

انسانوں کا طریق رہا ہے کہ جہاں سے ان کی روزی روٹی کا سلسلہ بندھتا ہے، وہاں سے ان کا تعلق کچھ اسی قدر ہی ہوتا ہے۔ وہ اسے اپنی زندگی کا نصب العین نہیں بنا لیتے۔ ادھر ابا جان کا رویہ کچھ اس کے برعکس تھا۔ انہوں نے نابینا افراد کے اداروں کے ساتھ اپنے تعلق کو بھی ایک تحریک سے تعلق سمجھا اور اسے اسی انداز میں نبھایا۔ اس سلسلے مین ان کا تحقیقی مقالہ ’’اسلامی معاشرہ اور نابینا افراد‘‘ ہو یا ان کا لکھا ہوا ’’معیاری اردو بریل کا قاعدہ‘‘ یا پھر ان کی زندگی کا سب سے بڑا اور عظیم کام بریل قرآن شریف کی طباعت، سب اسی تحریکی ذہن کے ساتھ، ایک خاص لگاؤ اور DEDICATION کے ساتھ سر انجام دئیے ہوئے کارہائے نمایاں ہیں۔

ایوب خان کے مارشل لاء کے زمانے میں گو فوج اور مارشل لا ء کے خلاف رہے اور الیکشن میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے حامی رہے، لیکن عملی طور پر اس تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ البتہ جب ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلی تو ابا جان نے بھی دوستوں کے ساتھ مل کر تحریک احیائے نظریۂ پاکستان کی بنیاد دالی۔ اور اس سلسلے مین نظریاتی گتھیوں کو سلجھانے کی سعی کی۔ اس تحریک کے اجلاس جو ہمارے گھر پر بھی منعقد ہوتے، ہم بچوں کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث ہوا کرتے، جس کی بحثیں، جو ہماری سمجھ میں تو نہ آتیں، لیکن گرما گرم بحثیں اور اصحابِ اجلاس کے اندازِ گفتگو ہمیں بہت بھاتے۔ اس تحریک میں ابا جان کے دوست غلام محمد بٹ مدیر ماہنامہ ادب بھی شامل تھے۔

بٹ صاحب جوبلی سنیما کے قریب ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اور ابا جان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ ان کا مائل بہ فربہی جسم، اور گول مٹول چہرہ اب بھی راقم الحروف کی نظروں میں گھومتا ہے۔ اکثر قمیص اور تہہ بند میں ملبوس نظر آتے اور بحثوں میں اپنے ٹھیٹھ پنجابی لہجے اور جذباتی انداز میں بات کرتے تو سننے والے کو مزہ آ جاتا۔

ماہنامہ ادب ایک اعلیٰ پائے کا ادبی رسالہ تھا جو غلام محمد بٹ صاحب ( شاگرد رشید جناب انور شاہ کشمیری) کی زیرِ ادارت کراچی سے نکلا کرتا تھا۔ اس زمانے کے ادبی رسالوں میں ادب، ادبِ لطیف، نیا دور، ماہ نو، نقوش، سیپ اور نصرت وغیرہ شامل تھے۔ اسی دوران ابا جان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات اور حنیف رامے کے رسالے ماہنامہ نصرت میں اسلامی مساوات کے موضوع پر لکھنا شروع کیا۔ اسلامی مساوات کے حق میں اور سرمایہ داری کے خلاف اسلامی تصور سے متعلق کئی مضامین ان رسالوں کی زینت بنے۔ اور آج بھی ابا جان کی گہری اور اجتہاد اور تحقیق پسندانہ سوچ کے آئینہ دار ہیں۔ اسی حوالے سے ابا جان کی ملاقات مولانا کوثر نیازی، صاحب سے بھی رہی۔ دیگر لوگوں میں خاص طور پر این ڈی خانسے بھی ملاقات رہی۔ ابا جان ایک دو مرتبہ کراچی میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے بھی ملنے گئے۔ اس تحریک میں ابا جان کی شمولیت صرف بعض نظریات کی حد تک رہی۔ ویسے بھٹو ساحب کو بے حد پسند کرتے تھے اور ان کی بعض پالیسیوں سے مکمل اتفاق کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو ضیاء الحق کے بے حد خلاف ہو گئے۔

ضیاء الحق نے ۱۹۸۵ میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا تو ابا جان بھی عملی طور پر میدان میں آ گئے۔ تمام دوستوں کے مشورے سے شاہ بلیغ الدین صاحب کو قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کھڑا کیا گیا۔ اور ان کے قریبی دوست ہونے کے ناطے ابا جان نے بھی ان کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا اور سیاسی انداز میں انتخابی مہم کے ہر قسم کے سرد و گرم حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر اپنے امیدوار کو جتوا کر ہی دم لیا۔

الیکشن میں شاہ صاحب اس حلقے سے کھڑے کیے گئے تھے جو ایک اسلامی سیاسی جماعت کا خاص حلقہ تھا۔ اور اس حلقے میں انہیں للکارنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ ابا جان اور ان جیسے دیگر بے خوف کارکنان نے اس مہم کو بخوبی نبھایا۔ مہم کے دوران ایک مرتبہ یہ شکایت سامنے آئی کہ شاہ بلیغ الدین صاحب کے تمام بینر کسی نے کاٹ کر پھینک دئیے ہیں۔ کٹے ہوئے بینر بھی مفقود الخبر تھے۔ خیر صاحب ابا جان اور ان کے دوستوں نے اپنے ذرائع سے تحقیقات کروائیں تو پتہ چلا کہ یہ کام خفیہ طور پر اسی جماعت نے کروایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ایک سوزوکی جس میں ڈنڈوں پر درانتی لگائے ہوئے دو غنڈے کھڑے تھے، ساری رات علاقے کی گلیوں میں پھرتی رہی تھی۔ جس گلی سے وہ سوزوکی گزر جاتی اس گلی کے بینر کٹ کر اسی سوزوکی میں آ گرتے۔ صبح تک ہر گلی سے شاہ بلیغ الدین صاحب کے بینر اتار لیے گئے تھے۔ اور اس طرح ان کا مشن مکمل ہو چکا تھا۔ اور علاقے مین ہر طرف اس جماعت کے ہی بینر نظر آ رہے تھے۔ پھر کیا تھا، ابا جان نے بعض دوستوں کی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس بلوایا اور باہم مشورے سے ان میں سے ایک گروہ کو اس کام پر لگا یا کہ راتوں رات اس جماعت کے بھی تمام بینر اتار دئیے جائیں۔ چنانچہ یہی ہوا اور اگلے روز صبح ہونے سے پہلے پہلے اس جماعت کے تمام بینر غائب کر دئیے گئے۔

صبح ہوئی اور اس تبدیل شدہ صورت حال سامنے آئی تو اس جماعت کے افراد ایک وفد کی شکل میں شاہ صاحب کے انتخابی دفتر پہنچے اور شکایت کا دفتر کھولا ہی تھا کہ ابا جان کی باتیں سننی پڑ گئیں۔ ابا جان نے لگی لپٹی رکھے بغیر انہیں کھری کھری اور بے نقط سنائیں۔ اور صاف صاف کہہ دیا کہ اگر انہیں انتخابات کے لیے صاف ستھرا ماحول چاہیے تو انہیں بھی اسی CODE OF CONDUCT پر عمل کرنا ہو گا۔ ویسے اگر وہ FOUL PLAY چاہتے ہیں تو ابا جان اور ان کے ساتھی اس قسم کی صورتِ حال کے لیے بھی تیار ہیں۔ مخالفوں کو اپنے کیے کی سزا مل چکی تھی، لہٰذا انہوں نے اسی کو غنیمت جانا کہ امن کا سمجھوتا کر لیا جائے اور باقی مدت کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو۔ یہی ہوا اور سیاسی مخالفین پر شاہ صاحب کے گروپ کی دھاک بیٹھ گئی۔۔ نتیجتاً انتخابات کے روز تک کسی قسم کے ناخوش گوار واقعے کی اطلاع نہیں آئی اور اور شاہ بلیغ الدین صاحب اس حلقے سے بھاری تعداد میں ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ الیکشن کے بعد بھی ابا جان نے شاہ صاحب کو ہر قسم کے مفید مشوروں سے نوازا اور ان کے ساتھ دوستی نبھائی۔ اسمبلی مین مختلف موقعوں پر تقریر کی تیاری کے لیے بھی شاہ صاحب اپنے دوستوں سے رجوع کرتے اور ابا جان سمیت تمام دوستوں کے مشورے سے ہی اپنے لیے ایک لائحۂ عمل ترتیب دیتے۔

اسی طرح دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سال گزر گئے، غیر جماعتی اسمبلی کا راج ختم ہوا اور لوگ اگلے انتخابات کے لیے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب دیکھنے لگے۔ اور سیاست میں تشدد کا عنصر در آیا تو ابا جان شاہ بلیغ الدین صاحب اور اپنے دیگر دوستوں کے ہمراہ عملی سیاست سے دست بردار ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

 

باب چہار دہم: مریضِ محبت

 

بیماری اور ابا جان کا چولی دامن کا ساتھ تھا لیکن انہوں نے کبھی بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے انہوں نے پہلی مرتبہ جیل پہنچنے کا واقعہ سنایا تو یہ بات خاص طور پر ذکر کی تھی کہ ان سے باقی تمام سہولتیں چھینتے وقت، ان کی کمر کے گرد کسی ہوئی وہ چمڑے کی بیلٹ بھی اُتروا لی گئی جو وہ گردوں کے درد سے بچاؤ کے لیے پہنا کرتے تھے۔ یہ واقعہ ان کی جوانی کا ہے۔ اس وقت کس نے ان کے مرض کی تشخیص کی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ انہیں گردوں کی تکلیف ہے، یہ واضح نہیں۔ میرا اپنا گمان یہ ہے کہ یہ خود ان کی اپنی تشخیص تھی اور وہ پہلو کے اس درد کو کم کرنے کی خاطر وہ یہ بیلٹ باندھا کرتے تھے۔ بہت بعد میں، جب میں انہیں لے کر ایس آئی یو ٹی، ڈاکٹر ادیب رضوی کے ہاں گیا تو یہ عقدہ کھلا کہ انہیں مثانے کا کینسر ہے۔ یہ بات ۸۰ کی دہائی کی ہے۔

اپنے کالج کے زمانے میں راقم الحروف نے ابا جان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی تکلیف کا باقاعدہ علاج کروائیں، لہٰذا طے ہوا کہ انہیں ایس آئی یو ٹی لے جا کر دکھایا جائے۔ ان ہی دنوں میرا ایک کلاس فیلو ڈاؤ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں رہتا تھا، اس سے تذکرہ کیا تو اس نے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی اور اپنے روم میٹ سے سفید گاؤن ادھار لے کر پہن لیا اور ایک اسٹیتھو اسکوپ بھی ہاتھ میں پکڑ لیا، اس طرح ہم ایک جعلی نوجوان ڈاکٹر کی معیت میں ۱۴ نمبر کی او پی ڈی پہنچے اور اپنی باری آنے پر ابا جان کو دکھایا۔ اس کے بعد ابا جان کے چکر لگتے رہے۔ ۱۹۸۳ میں میں کراچی سے باہر چلا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ابا جان کو ایس آئی یوٹی کی جانب سے جناح ہسپتال بھیجا گیا جہاں پر ابا جان کو ریڈیائی شعاعیں بھی دی گئیں۔ ۱۹۹۰ میں کراچی آ کر مین نے پھر اپنی ڈیوٹی سنبھال لی اور ابا جان کو لے کر ایس آئی یو ٹی کے چکر لگانے شروع کر دیتے۔ اسی اثناء میں سالے صاحب ڈاکٹر یعقوب نے ابا جان کی فائل دیکھی اور ہمیں اطلاع دی کہ ابا جان کو مثانے کا کینسر ہے۔ کینسر کی گلٹی مثانے کے اندر اور باہر دونوں جانب تھی۔ باہر کی گلٹی کو چھیڑا نہ جا سکتا تھا، البتہ مثانے کے اندر کے اضافے کو ہر سال انڈو اسکوپی کے ذریعے کھرچ دیا جاتا تھا۔ یہ سلسہ اسی طرح چلتا رہا اور ابا جان کی یہ بیماری اسی طرح قابو مین رہی۔

ابا جان اور یہ موذی مرض، دونوں مدتوں آپس میں دست و گریباں رہے اور میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آخر میں فتح ابا جان ہی کی ہوئی اور جس مرض الموت میں مبتلا ہو کر وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے وہ کینسر نہیں بلکہ دل کا عارضہ تھا۔ بہر حال کینسر ہو یا عارضۂ قلب، دونوں ان کے نزدیک محبت کے مرض تھے اور بقول شاعر:

مریضِ محبت انہی کا فسانہ

سناتا رہا دم نکلتے نکلتے

اللہ اور اس کے رسول کی سچی محبت ان کے دل و دماغ میں اور رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی۔ یہ بیماری بھی اللہ ہی کی طرف سے ایک آزمائش تھی، جسے انہوں نے ہنس کھیل کر، خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔کبھی اس تکلیف کی شکایت نہیں کی۔ کینسر ہویا سردرد، کسی بھی بیماری کی کبھی کسی سے شکایت نہ کی اور نہ کبھی گھبرائے۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ نے پیروں میں درد کی شکایت کی اور بتایا کہ کوئی دوا کارگر نہیں ہو رہی ہے، تو ان پر برس پڑے کہ’’ بڑے میاں ! کیا اللہ تعالیٰ صرف تمہارے لیے اپنے قانون کو توڑے گا؟ وقت کے ساتھ ساتھ قویٰ مضمحل ہوتے جاتے ہیں۔ بڑھاپا اور یہ تکلیفیں فطری عمل ہیں۔ ‘‘

یہی کیفیت اپنی بیماری کے دوران بھی رہتی۔ صرف اتنا کرتے کہ اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر حبیب الرحمٰن صاحب کے پاس دوڑے دوڑے جاتے، ان کی دی ہوئی دوا کھاتے اور ان ہی کے بتائے ہوئے پرہیز پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہتے۔ تقریباً دوسال پہلے ڈاکٹروں نے انڈوسکوپی سے پہلے فٹنس ٹسٹ تجویز کیا اور اس سلسلے میں دل کا ای سی جی اور ایکو ٹسٹ لیا گیا تو پتا چلا کہ ابا جن کو پہلے ہی دل کا ایک دورہ پڑ چکا ہے۔ ابا جان سے پوچھا گیا تو انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ یہ بات جہاں ہمارے لیے حیران کن تھی، وہیں خود اُن کے لیے بھی نئی تھی۔ یعنی دل کا دورہ بھی ہنس کھیل کر برداشت کیا تھا جیسے کوئی پھانس چبھ گئی ہو۔ خیر صاحب، پھر اس کے بعد سے کوئی انڈواسکوپی مکمل بے ہوشی کی حالت میں نہیں ہوئی۔ جسم کا کچھ حصہ مقامی طور پر بے حس کر دیا جاتا اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔

پچھلے سال ہم گھر والوں پر اور خاص طور پر ابا جان پر قیامت گزر گئی۔ بڑے بھائی امین الرحمٰن جو ابا جان کے دوسرے نمبر کے بیٹے تھے اور ہم بھائیوں میں عادت و اخلاق اور کردار کے اعتبار سے سب سے افضل اور بہتر تھے اور ہنس مکھ، چاق و چوبند اور شرارتی ہونے کے ناطے سب بچوں اور بڑوں کی آنکھ کا تارہ تھے اور یکساں مقبول تھے، اچانک ایک مختصر علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔

ہوا یوں کہ ایک دن صبح راقم الحروف کو آلکسی نے آ گھیرا تو بندہ وقت پر دفتر روانہ نہ ہوسکا۔ ابھی چائے کا آخری گھونٹ حلق سے اتارا ہی تھا اور چاہتا تھا دفتر روانگی ٹالی جائے، اتنے میں بھابی کا ٹیلیفون آ گیا۔ خلیل بھائی امین صبح فجر کے وقت سے بے چین ہیں اور انہیں کسی کل چین نہیں آ رہا ہے۔

میں نے بھائی کے گھر پہنچ کر صورتِ حال کا ادراک کیا تو اندازہ ہوا کہ سینے کی جلن جو ناقابلِ برداشت حد تک بڑھی ہوئی ہے، اس بات کی متقاضی ہے کہ فوراً امراضِ قلب کے ہسپتال سے رجوع کیا جائے۔ انہیں لے کر امراضِ قلب کے قومی ادارے پہنچا۔ مجھے یقین تھا کہ ابتدائی معائنے کے بعد بھائی کی طبیعت کو بد ہضمی کا شاخسانہ قرار دے کر ہمیں گھر بھیج دیا جائے گا۔لیکن راقم الحروف کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور ڈاکٹروں نے فوراً انجیو گرافی کرنے کا کہا۔ انجیو گرافی ہوئی تو فوری طور پر دل کا آپریشن تجویز ہوا۔

اگلے روز بھائی آپریشن ٹیبل پر جانبر نہ ہوسکے اور ان کا بے جان لاشہ ہمارے حوالے کر دیا گیا۔ ابا جان کو بھائی کی ناگہانی موت کی اطلاع دینے کی ذمہ داری مجھ بدنصیب کے حوالے ہوئی تو میں نے ٹیلیفون پر انہیں اس قیامت خیز سانحے سے آگاہ کیا۔ پہلے تو وہ ایک لمحے خاموش ہو گئے۔ میں نے ہیلو کہا تو اللہ جانے کیا سوچ کر باتیں شروع کیں اور بھائی کی تدفین سے متعلق ہدایات دینے لگے۔

اس دن سب روئے لیکن ابا جان جس صبر اور حوصلے کے ساتھ پرسہ دینے والوں سے ملے اس کی سوچ آج بھی میرا دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ نہ روئے، نہ چیخے، نہ کسی سے گلہ کیا، دل ہی دل میں بہت چیخ چیخ کر روتے ہوں گے، لیکن بظاہر خاموش تھے۔ بہت بڑا سانحہ تھا جو ہم سب پر گزر گیا۔ ہم سب دم بخود تھے کہ آن کی آن میں یہ کیا ہو گیا۔ لیکن ابا جان کی شکل دیکھ کر تو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ اللہ اللہ کیا دن تھے جو گزر گئے۔ رفتہ رفتہ وقت نے ہمارے ان زخموں پر مرہم رکھ دیا اور ہم نارمل ہو گئے۔ لیکن ابا جان اس نقصان کو برداشت نہ کرسکے اور اندر ہی اندر گھلنے لگے۔ ایک دن سیڑھیوں سے گرے تو ٹانگ پر چوٹ لگی اور آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گئے۔ چلتے تو تھے لیکن رُک رُک کر اور تکلیف کے ساتھ۔ تکلیف چہرے سے ظاہر ہوتی لیکن زبان تک کبھی نہ آئی۔اٹھتے، بیٹھتے یا لیٹتے وقت تکلیف کا اظہار صرف دو لفظ ہوتے، ’’ اللہ رے!‘‘ اور بس۔

اسی اثناء میں ہم بھائیوں نے ابا جان کے مشورے کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ امین بھائی کے بیٹے شہریار عرف شیری کی شادی بالکل اسی طرح انہی تاریخوں میں اور اسی انتظام کے ساتھ کی جائے جس کا اہتمام امین بھائی اپنی زندگی ہی میں کر چکے تھے۔ کارڈ بانٹنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو جہاں سب نے اپنے حصے کے کارڈ سنبھالے وہیں ابا جان نے بھی اپنے دوستوں کو کارڈ تقسیم کرنے کا کام خود اپنے ذمے لے لیا۔ مجھے ہمیشہ یاد رہے کہ کس طرح میں ابا جان کو لے کر ان کے دوستوں کے پاس پہنچا اور اور کس صبر اور حوصلے کے ساتھابا جان نے اپنے کارڈ تقسیم کیے۔ ہاں البتہ جب حکیم ایس ایم اقبال صاحب کے مطب پہنچے اور حکیم صاحب انہیں دیکھ کر اپنی کرسی سے اُٹھے اور مطب کے دروازے پر آ کر استقبال کیا تو ابا جان کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ سے گئے اور وہ یکبارگی رو پڑے اور حکیم صاحب سے کہنے لگے۔’’ امین الرحمٰن ہی چلا گیا۔ اب کیا کرنا ہے؟‘‘

یہ میری زندگی کا پہلا اور آخری موقع تھا جب میں نے ابا جان کو روتے ہوئے دیکھا۔ فوراً ہی حکیم صاحب نے مصافحہ، معانقہ وغیرہ کیا تو ابا جان سنبھل گئے اور اپنے آپ کو قابو میں کر لیا۔ حکیم صاحب نے ابا جان کو اپنی صحت کا خیال رکھنے کی تلقین کی، ایک معجون اور شہد کی ایک شیشی ابا جان کے لیے مجھے پکڑائی اور اس طرح ہم ان سے پانچ سات منٹ کی ملاقات کے بعد رخصت ہوئے۔

انہی دنوں ایس آئی یو ٹی کے چکر لگنے شروع ہوئے۔ نئے سرے سے ٹسٹ تجویز ہوئے اور ان ٹسٹوں کے لیے ہر دوسے تیسرے روز ہسپتال جانا پڑا۔ کئی مرتبہ اس ترتیب میں خلل پڑا، وجہ کبھی میری آفس کی مصروفیات ہوتیں اور کبھی ابا جان کی طبیعت۔ بہر حال ابتدائی ٹسٹ مکمل ہوئے لیکن میرا سنگاپور کا سفر اور چھوٹے بھائی کا ساؤتھ افریقہ کا سفر آڑے آیا اور ابا جان نے طے کیا کہ ہماری واپسی تک اینڈواسکوپی کو موخر کر دیا جائے۔ میں سفر کی تیاری مین مصروف ہو گیا۔

ہفتہ ۹ جنوری کو شام کے وقت میں ٹیکسی لے کر ائر پورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں چھوٹی بھابی ( مرحوم امین الرحمٰن بھائی کی زوجہ) محترمہ) کا ٹیلیفون آ گیا اور پتہ چلا کہ بڑے بھائی ابا جان کو لے کر ہسپتال روانہ ہوئے ہیں۔ کافی دیر تک کوشش کرنے کے بعد ہی بڑے بھائی سے رابطہ قائم ہوسکا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر معائنہ کر رہے ہیں ویسے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ سامان جمع اور بورڈنگ پاس لینے تک ابھی کچھ دیر ہے۔ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہے تو وہ فوراً بتائیں تاکہ میں اپنا پروگرام کینسل کرسکوں۔

کچھ دیر بعد بھائی سے پھر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ ابا جان خیریت سے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ ’’ خلیل سے کہو کہ وہ اپنے سفر پر روانہ ہو جائے اور فکر نہ کرے۔ سب ٹھیک ہے‘‘۔

یہ سنا تو میری جان میں جان آئی۔ اور میں اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ اسی دن چھوٹے بھائی کا بھی ساؤتھ افریقہ جانے کا پروگرام تھا، لہٰذا اسے بھی ابا جان کی طبیعت کا علم نہ ہوسکا۔

بعد میں پتہ چلا کہ ابا جان نے سب گھر والوں کو سختی کے ساتھ منع کیا تھا کہ ہم دونوں بھائیوں کو ان کی طبیعت سے متعلق کچھ نہ بتایا جائے۔ چھوٹی بھابی تک یہ بات نہ پہنچ سکی تھی لہٰذا انہوں نے پریشانی میں مجھے فون کر دیا۔ واپسی پر پتہ چلا کہ ابا جان ایک ہفتہ ہسپتال میں رہ کر آئے ہیں۔ اس دوران ان کی کیفیت کا پتہ چلا نے کے لیے ایک خاص ٹسٹ کروایا گیا تو تصدیق ہوئی کہ پھر دل کا دورہ پڑا تھا۔ یہ دوسرا دورہ تھا جسے چپ چپاتے برداشت کر گئے۔ اس کے بعد بہت زیادہ کمزور ہو گئے اور زیادہ وقت گھر پر صرف آرام میں گزرنے لگا۔ اس دوران ان کا محبوب مشغلہ یعنی مطالعہ بھی چھوٹ گیا۔ کبھی کبھی ہم لوگوں سے کچھ مختصر سی بات کر لیا کرتے اور بس۔ اس دوران اپنے دوستوں مولانا عزیز الرحمٰن صاحب اور مولانا طاہر مکی صاحب کے فون ملواتے اور ان سے مختصر بات کر لیا کرتے۔

یہی وہ وقت تھا جب ابا جان نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ ایک دن اپنی بڑی بہو سے کہنے لگے، ’’ بہو رانی! لگتا ہے اب میرا آخری وقت قریب آ گیا ہے۔‘‘ پوچھا، ’’کیوں ؟‘‘۔

تو بتایا، ’’ اب کھانا کھانے کو دل نہیں کرتا۔ اب لگتا ہے کہ بڑے میاں نے مجھے بلانے کا پروگرام بنا لیا ہے۔‘‘ اسی طرح میری بیگم سے کہنے لگے، ’’ ارے بیٹے، ان بڑے میاں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، کب بلا لیں۔ بس اب چل چلاؤ ہی ہے۔‘‘

اسی دوران ان کے بتائے ہوئے ایک نکتے پر ایک مضمون لکھا اور انہیں جا کر سنایا تو بہت خوش ہوئے۔ اور دوستوں کو فون کر کے اس کے متعلق بتایا۔ فروری کتے پہلے ہفتے مین پھر پھر طبیعت خراب ہوئی تو ایک ہفتہ مزید ہسپتال مین رہے۔ اسی دوران راقم کو بھی تیمار داری میں اپنا حصہ بٹانے کا موقع ملا۔ اس مرتبہ پھر وہی عجیب و غریب واقعہ دہرایا گیا۔ خاص ٹسٹ (TROPI) نے ظاہر کیا کہ دل کا شدید دورہ پڑا تھا۔ اب تو دل اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ خدا کی پناہ۔

ہسپتال سے واپسی پر خاکسار نے کئی مرتبہ درخواست کی کہ کسی ماہر قلب کو دکھا لیں مگر ہر دفعہ کوئی نہ کوئی بات آڑے آ جاتی۔ کبھی ابا جان کی طبیعت، کبھی ان کا موڈ اور کبھی کچھ اور۔ بہر حال ہم صرف ابا جان کی فائل لے جا کر عباسی شہید ہسپتال کے شعبۂ دل کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرشید صاحب کو دکھا سکے۔ ڈاکٹر صاحب نے ابا جان کی فائل دیکھی تو کہا۔

’’خلیل ! میں نے ان کی فائل دیکھ لی۔ اب تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘

میں نے عرض کی’’ اب آپ ابا جان کو اپنے زیرِ علاج لے لیجیے اور ان کی دیکھ بھال شروع کر دیں ‘‘۔

کہنے لگے’’ ان کا دل اب بہت زیادہ کمزور ہو گیا ہے۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس بارے میں کوئی انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ جب تک حضرت کی زندگی ہے، کوئی بیماری بھی ان کا بال تک بیکا نہیں کرسکتی۔ البتہ ہم دواؤں کے ذریعے ان کی زندگی کی کوالٹی کو بہتر بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں، جو ہمارا فرض ہے۔‘‘

بات معقول تھی، اور ہم چاہتے تھے کہ ان کا علاج شروع کروا دیا جائے۔ لیکن اللہ کی مشیت دیکھیے کہ اس کی بھی نوبت نہ آسکی اور اگلے ہی ہفتے، بروز اتوار ۱۴ فروری ۲۰۱۰ کو راقم گہری نیند میں تھا کہ ٹیلیفون کی مسلسل گھنٹیوں نے یہ سلسہ توڑ دیا۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ بات شروع کی۔ چھوٹے بھائی نے بتایا کہ ابا جان کی طبیعت خراب ہو گئی ہے، لہٰذا انہیں لے کر ہسپتال جا رہے ہیں۔ ہسپتال پہنچا تو ابا جان اپنی جان جان جانِ آفریں کے سپرد کر چکے تھے۔ انا للہِ و انا الیہِ راجعون۔ ایک دور کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو۔ اور میں ہوا مین معلق ہو گیا ہوں۔ یہی کیفیت آج تک ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کیفیت کو کیا نام دوں ؟

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید