فہرست مضامین
خواجہ احمد عباس کے کچھ افسانے
انتخاب و ترتیب: عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
آشیانہ
مہندی آخر آدمی تھا، جو رات آشیانہ میں لوٹا، رندھیر اس رات کو گھر نہیں آیا تھا، وہ اکثر رات کو گھر نہیں آتا تھا، مہندر نے اندھیرے میں ٹٹول کر بجلی کا بٹن دبایا لیکن روشنی نہیں ہوئی شاید آج پھر فیوز اڑ گیا تھا، آشیانہ میں اندھیرا تھا مہندر نے کسی کو آواز دی اسے معلوم تھا کہ باقی سب چھت پر سوئے ہوں گے، درمیان کے دروازے سے گزر کر وہ اندر کمرے میں چلا گیا، جہاں گلی کے لیمپ پوسٹ کی روشنی آتی تھی، آشیانہ بلڈنگ کا یہ فلیٹ ایک کمرے اور کچن پر مشتمل تھا اور اس میں پانچ نوجوان رہتے تھے مہندر جس وقت بھی مکان کے اندر آتا تھا یہاں کی بے ترتیبی اور سامان کی بھیڑ کو دیکھ کر اسے جگہ کی قلت کی ایک گھٹا ہوا احساس ہوتا تھا چھ مہینے یہاں رہنے کے باوجود یہ احساس زائل نہ ہوا تھا وہ اس کا عادی نہ ہوا تھا۔
گلی سی آتی ہوئی لیمپ پوسٹ کی روشنی میں وہ کپڑے بدلنے لگا کمرے میں ایک ہلکی سی روشنی تھی جس سے سامان کی زیادتی کا احساس ہوتا تھا کواڑوں پر کھونٹیوں پر زمین پر پڑے ہوئے میلے کپڑے بے ترتیبی سے بکھرا ہوا سامان جوتے، کتابیں، ٹرنک، سب اس طرح پھیلے ہوئے تھے جیسے کسی کو ان کی پروہ نہ تھی ایک عجیب سی بے پروائی اس فلیٹ کے رہنے والوں پر چھائی ہوئی تھی، جسے مہندر اب آہستہ آہستہ سمجھنے لگا تھا، اس فلیٹ کے رہنے والے پانچوں نوجوان اپنی زندگی کی بہتری کیلئے ایک بھیانک کشمکش میں مبتلا تھے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بمبئی آئے تھے، اس چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے جو صرف ایک جوڑے کیلئے بنایا گیا تھا، پے در پے ناکامیوں نے انہیں بے پرواہ بنا دیا تھا انہیں ذمہ داری سے نفرت ہو گئی تھی سلیقے سے نفرت ہو گئی تھی انہیں اب نہ صفائی کی چاہ رہی تھی نہ ترتیب کی، مہندر ان لوگوں میں ابھی نیا تھا اور اس ماحول میں ایک گھٹن سی محسوس کرتا تھا وہ ادیب تھا اور فلم میں نوکری کرنے آیا تھا، لیکن پچھلے چھ مہینے کی کوشش کرنے کے باوجود کسی پروڈیوسر نے اسے موقع نہ دیا تھا، آج وہ خوش تھا آج ایک دوست نے اسے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کے لئیے کچھ کرے گا، اور آج اسے ایک لڑکی ملی تھی، کپڑے بدل کر اس نے سوچا کہ اب جا کر اوپر چھت پر سو رہے ہیں، لیکن اس وقت وہ اکیلا رہنا چاہتا تھا، اکیلا رہ کر سوچنا چاہتا تھا، مستقبل کے بے پایاں اندھیرے میں جو ایک چراغ کی لو اٹھی تھی اس سے محفوظ ہونا چاہتا تھا، بستر کو جھاڑ کر اس نے کھڑکی کے سامنے کھینچا اور لیٹ گیا، باہر ناریل کے اونچے اونچے درخت ہوا میں بل رہے تھے، اور ان کے عقب میں آسمان پر ایک ہلکی سی سفیدی پھیلی ہوئی تھی، ناریل کے درختوں کو دیکھ کر اسے خوبصورتی کا احساس ہوا آج اسے کئی ملی تھی۔
شام وہ اداس تھا آشیانے کے دوست باہر گئے ہوئے تھے، وہ اکیلا تھا، تنہائی میں اکثر اس کے دل میں اداسی کا بے ذائقہ تیزاب پھیل جاتا تھا، زندگی کی نا کامرانی ایک مغموم دھند بن کر چھا چکتی تھی، اس وقت وہ اکثر سمندر کے کنارے ٹہلنے چلا جاتا تھا، لیکن جب اداس ہو نہ ہو تو سمندر کی بے چین لہریں خوبصورت ہوتی ہیں، نہ شفق کے زریں حسن میں، وہ جاں بخش تازگی اور سمندری افق پر چھایا ہوا دھند لگا، اسے ایک بے پناہ ویست میں لپیٹ دیتا، اسے محسوس ہوتا کہ تمام کائنات ماتم میں ہے، یہ انسان کی دنیا دکھی ہے، اور رگ و پے میں کرب و اضطراب کی ایک دیر پا لہر دوڑ جاتی، زندگی سے مایوس ہو جاتی۔
شام وہ بہت اداس تھا، یہ کیوں ہوتا ہے کہ انسان ناکامیوں سے ٹکرا کر جان دے دیتا ہے، یہ کیوں ہوتا ہے کہ انہیں زندگی میں کبھی خوشی نہیں ملتی اور مسرت کی ایک کرن دیکھنے سے پہلے موت کے بیکراں اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں؟ یہ زندگی موت سے بد تر ہے نہ روپیہ پاس نہ عورت ہے نہ محبت ہے، نہ خوشی ہے، سمندر کا یہ حسن بیکار ہے، لہروں کا مسلسل شور بے معنی ہے، شفق کی سرخی بیسود ہے اس تہذیب کی دنیا میں روپیہ چاہئیے، روپے کے بغیر خوبصورتی متاثر نہیں ہوتی، حسن اثر نہیں کرتا، یہ چیزیں تمہارے لئے نہیں ہیں، نادار ہو کر تم دنیا کے دکھ کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے، تمام انسانیت کا دکھ تمہارے سینے میں سمٹ آتا ہے، آج وہ بہت اداس تھا اور سوچتا رہا اور اندھیرے کے ذرات فضا میں بھرتے گئے ناریل کے درختوں پر تاریکی چھاتی گئی، اور کمرہ ایک اداس بے مصروف سنسان اندھیرے میں معمور ہوتا گیا۔
اچانک اس نے ایک آواز سنی، کھنہ اسے نیچے گلی میں بلا رہا تھا، مہندر نے جھانک کر بالکنی سے دیکھا، کھنہ کے ساتھ کار میں دو خوبصورت لڑکیاں بیٹھی تھیں، لڑکیوں نے شوخ رنگ کے فراک پہنے ہوئے تھے کھنہ اوپر گیا تھا، اس نے مہندر کو ساتھ چلنے کی دعوت دی۔
وہ یونہی سیر کو جا رہے تھے، یہ لڑکیاں جو ہور پر ملی تھیں ایک بار مسکرائیں دوسری بار کہنے پر کار میں آ بیٹھیں، کھنہ اکیلا تھا لڑکیاں دو تھیں، دو مہندر کا ساتھ چاہتا تھا، مہندر ان کے ساتھ چلا گیا اور آج شام کتنی خوبصورتی سے گزری وہ اداسی نہ جانے کہاں غائب ہو گئی، ایک عورت کے قرب نے دل کی پژمردہ کیفیت کو دور کر دیا تھا، ریشمی کپڑوں کے نیچے اس اس کے جسم کا لمس تھا، اس کے جسم کی حرارت تھی، ملائمت تھی کچھ تھا، جس نے اس کی رگوں میں زندگی مضطرب لہر دوڑا دی تھی، پچھلی سیٹ پر اس کے ساتھ تنہا تھا اور کار باندرہ کے پل پر اڑ رہی تھی سمندر کا نیلا پانی، آسمان کی طرح نیلا تھا، دور ایک کشتی اپنے سفید بادبان پھیلائے جا رہی تھی ہوا اس پریتی کے بار آر رہے تھے، ساحل پر ناریل کے درخت کھڑے دور سے نظر آ رہے تھے جیسے ابھی اپنے بچپن میں ہوں، اور کار باندرہ کے پل پر بھاگی جا رہی تھی، پریتی نے آہستہ سے جھک اس کے کان میں کہا، آئی لو یو، مجھے تم سے عشق ہے، مہندر نے اپنا بازو اس کی کمر کے گرد ڈال دیا، اور پریتی اس کے قریب سمٹ آئی مجھے تم سے عشق ہے، تمہارے اس جسم نے عشق ہے جس کی حرارت میری روح میں جذب ہو رہی ہے، تمہارے اس فقرے سے جسے کہہ کر تم نے میرے سینے میں سوئی ہوئی اس شدت کو جگا دیا اور پریتی کے کمر کے گرد اس کا بازو کا حلقہ تنگ ہو گیا، وہ پریتی پر جھکا اس کے سرخ ہونٹوں کو چوم لینے کیلئے پریتی مسکرائی اور اس نے اپنا چہرہ ہٹا لیا، کار ساحل پر رک گئی، وہ کار سے اتر کر ساحل پر ٹہلنے چلے گئے، آج ساحل پر بھیڑ نہ تھی، سمندر کے وسیع کنارے پر صرف چند آدمی نظر آ رہے تھے، وہ ساحل پر ٹہلتے رہے، سورج غروب ہو چکا تھا، سمندری افق پر ایک ہلکی سی سرخی کا سایہ باقی تھا اور سمندر کی بسیط پر ننھی ننھی کشتیاں اپنے بادباں پھیلائے بہہ رہی تھی، پریتی باتیں کر رہی تھی، وہ باتیں کرتے رہے بے معنی باتیں مہندر کو برا لگا جب پریتی نے کہا یہاں سمندر کے کنارے سیر کرنے میں لطف نہیں۔
وہ کار میں بیٹھ کر سیر کرنا چاہتی تھی، وہ واپس کار میں آ بیٹھے، گھر سے چلتے ہوئے کھنہ نے پیٹرول ڈلوایا تھا، رات میں وہ کار میں بیٹھے سمندر کے کنارے کنارے بمبئی کی سڑکوں پر گھومتے رہے، مہندر خواہش کی آگ میں تپتا رہا اور پریتی نے اسے ہونٹوں کو چومنے کا موقع نہیں دیا، انہوں نے کیفے میں جا کر کھانا کھایا، پریتی اب جانا چاہتی تھی اس نے کہا ہمیں چھوڑ دو جہاں سے لیا تھا، کھنہ نے انہیں جوہو پر اتار دیا، پریتی نے اگلے دن ملنے کا وعدہ کیا اور کار سے اتر پھر مہندر کے کام میں کہا، آئی لو یو اور مسکراتی ہوئی چلی گئی۔
گھر آتے ہوئے کھنہ اور مہندر بحث کرتے رہے، یہ لڑکیاں کون تھیں کس طبقے سے تعلق رکھتی تھیں، بہت پڑھی لکھی نہ تھیں، انگریزی کے انہیں چند فقرے یاد تھے، ہندستانی ٹھیک سے بولتی نہ تھیں، ان کی زبان گجراتی تھی، اپنی زبان سے آگے انہیں کچھ بھی تو نہیں مانگا، پھر کچھ بھی ہو وہ خوبصورت تھیں، ایک شام ان کے ساتھ رہی تھیں، اور شام کا نشہ اب تک ان کے ذہن پر طاری تھا، اگر وہ طوائفیں ہی ہوئیں، مہندر نے بستر پر لیٹتے ہوئے سوچا کہ تو کم از کم اس کے متعلق تو انہوں نے ضرور دھوکا کھایا، وہ کھنہ کی کار پر ریجھ گئیں، لیکن اگر وہ اوپر جاتیں یہاں آ کر اس مکان کو دیکھ لیتیں تو پریتی کے ہونٹوں سے آئی لو یو نہ انہوں نے ضرور دھوکا کھایا، وہ کھنہ کی کار پر ریجھ گئیں لیکن اگر وہ اوپر جاتیں یہاں آ کر اس مکان کو دیکھ لیتیں تو پریتی کے ہونٹو سے آئی لو یو نہیں نکلتا، اگر وہ طوائفیں نہ ہوتیں تب بھی اس مکان کو دیکھ کر بات کرنا گوارہ نہ کرتیں، مہندر نے دوہرایا، ایک انسان جو نظروں میں اٹھا دیتی ہے، ایک کار نہ ہو تو انسان انسان نہیں رہتا، ایک کلرک ایک مزدور ایک سپاہی رہ جاتا ہے، پریتی نے سوچا ہو گا کار کے مالک کھنہ کا دوسر مفلس نہ ہو گا، اسے کیا معلوم کہ آشیانے کا ہر فرد اپنا سرمایہ ختم کر چکا ہے، اچھا ہوا وہ آشیانے میں نہیں آئی، ورنہ اس کا ہاتھ پریتی کے کمرے کے گرد نہ جا سکتا۔
چھ مہینے پہلے مہندر بمبئی میں وارد ہوا تھا تو اسے خواب میں بھی یہ خیال نہ تھا کہ رندیرے کی آشیانہ بلڈنگ مقابل ماہم پوسٹ آفس میں یہ حالت ہو گی، یہاں آ کر دیکھا کہ آشیانہ بلڈنگ میں اس کے پاس ایک کمرہ اور ایک کچن پر مشتمل ایک فلیٹ ہے جس میں پہلے ہی پانچ آدمی رہتے ہیں، وہ چھٹا آدمی تھا جو آشیانے میں رہنے کیلئے آیا۔
آشیانہ ماہم میں واقع ہے، ماہم شہر میں بد نام علاقہ ہے، لوگ کہتے ہیں ماہم کے ہر مکان میں ایک طوائف ضرور رہتی ہے، ان مکانوں میں زیادہ تر عیسائیوں کی آبادی ہے، شروع شروع میں مکانوں کی بالکونی سے لٹکتی ہوئی ہر عورت کی سانولی کالی یا بد صورت شکل دیکھ کر مہندر کو اس پر طوائف ہونے کا شبہ ہوتا، بمبئی آ کر اسے محسوس ہوا تھا جیسے وہ طوائفوں کے شہر میں آ گیا ہے اپنے اس احساس اسے جواز نہ ملتا تھا، وہ خوش تھا، کہ بمبئی نسبتا آزاد خیال شہر ہے، یہاں عورتوں کو گھروں کی چار دیواری میں گھونٹ گھونٹ کر نہیں رکھا جاتا، یہاں عورتیں بھی سمندر کے کنارے سیر کرنے جاتی ہیں، یہاں عورتیں بسوں میں ٹراموں میں، ریلوں میں سفر کتی ہیں، لیکن اکثر کسی عورت کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ طوائف ہے، طوائف کی اس کثیر تعداد کو دیکھ کراسے خیال آتا ہے کہ انسان جتنا زیادہ مہذب ہوتا جاتا ہے، طوائفیں بڑھتی جاتی ہیں، اور یونہی بڑھتی جائیں گی اگر عورت کو مرد اور مرد کو سرمایہ دار کے چنگل سے آزاد نہ کیا گیا۔
آشیانہ بلڈنگ کے ایک عرصے تک مہندر کیلئے ایک طلسم رہی تھی، کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس عمارت میں رہنے والے کیسے رہتے۔
ہیں کیا کرتے ہیں، فرشی منزل پر بائیں طرف ایک گجراتی رہتا ہے، خاموش بعید، مہندر نے آج تک کسی سے بات کرتے نہیں سنا بمبئی کے آدمی، وہ سوچا کرتا ہے ایک مخصوص تاجرانہ ذہنیت کے مالک ہیں وہ انسانی دوستی پر اعتقاد نہیں رکھتے، یہاں دو آدمیوں کے درمیان انسانیت کا رشتہ نہیں، رو پہلی تاروں کا رشتہ ہے، انسان کے جذبات بھی جنس بن گئے ہیں ہر شخص اپنی دھن میں مست ہے ہر شخص کو اپنی پڑی ہے ریلوں میں، بسو میں، ٹرامو میں، گاڑیوں، میں ہر جگہ لوگ اپنے مطلب سے چلے جا رہے ہیں، فرشی منزل پر یہ گجراتی اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ رہتا ہے، چند مرتبہ اس نے گجراتی کی بیوی کو کھڑکی کی سلاخوں سے لگے دیکھا ہے اس کا چہرہ زرد ہے، چہرے پر ایک عجیب بے رونقی چھائی رہتی ہے جیسے اس کی رگوں میں خون کے بجائے تیل بھرا ہوا ہو، شام ہوئے وہ ٹائیلٹ کرتی ہے، نہاتی ہے، شام سے پہلے اس نے گجراتی کی بیوی کو بھی ٹائلٹ کئے ہوئے نہیں دیکھا، دو دن میں جب بھی نظر آئی ایسا معلوم ہوتا جیسے ابھی سو کر اٹھی ہے، عمارت میں کسی اور سے گفتگو کرتے ہوئے بھی مہندر نے اسے کبھی نہیں دیکھا، اکثر اندھیرا ہونے کے بعد اوپر بالکنی میں کھڑا مہندر دیکھتا ہے کوئی کار کبھی وہ ٹیکسی ہوتی، کبھی ذاتی کار، گلی کے موڑ پر رکتی ہے، گجراتی اس میں سے اتر کر گھر آتا ہے، پھر چند منٹ بعد بیوی کار میں آ بیٹھی ہے کار چلی جاتی ہے۔
مہندر نے اکثر یہی ہوتے دیکھا اور ایک تجسس اس کے دل میں جڑ پکڑتا گیا، پھر ایک دن برابر فلیٹ میں رہنے والے پنجابی نوجوان نے بتایا کہ گجراتی کی بیوی طوائف ہے، اور گجراتی؟ وہ اس کا شوہر اور اپنی بیوی کا ایجنٹ بھی، مہندر کو یکلخت یقین نہیں آیا، پھر اسسے یقین آ گیا پھر غصہ آیا پھر رحم آیا۔
اس شخص کی وہ غیرت کہاں گئی، جو اس نے اپنے بزرگوں سے پائی تھی، وہ حمیت کہاں گئی؟ عزت کا وہ احساس کا جہنم میں جھلس گیا، جو انسان بنائے رکھتا، ایک دلال، ایک بھکاری، ایک فقیر بننے سے بچانا ہے، وہ کون سی منحوس ضرورت تھی جس نے سب کچھ نوچ لیا اور ذلت بھر دی مہندر نے سوچا ایک بھیانک حقیقت اس کے دل میں اجاگر ہونے لگی، بھوک، بھوک اور گجراتن کا بے رونق چہرہ اس کے سامنے آ گیا تھا یہ فرشی منزل کا پہلا فلیٹ ہے، اس میں ایک گجراتی رہتا ہے اور اس کی بیوی ان کے ایک بچہ ہے، گجراتی کے فلیٹ کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا ہے، یہ فلیٹ مالک مکان نے اپنے لئیے رکھا ہوا ہے، وہ صرف ہفتے کی شام کو آتا ہے، اس کے ساتھ عورت ہوتی ہے، یہ عورت ہمیشہ نئی ہوتی ہے، لیکن اس کی مسکراہٹ اس کے انداز اس کی روح ہمیشہ ایک ہوتی ہے، عورت مالک مکان کے ساتھ اندر چلی جاتی ہے، مالک مکان کی کار اگلی شام تک باہر کھڑی رہتی ہے اس کار کر کھڑا دیکھ کر مہندر کے دل میں بغاوت اور تشدد کا ایک شدید جذبہ اٹھتا ہے اور وہ بالکنی سے ہٹ کر کمرے کے اندر چلا جاتا ہے۔
دوسری منزل پر پہنچنے سے پہلے ایک کتا بھونکتا ہے، اس کتے کو دوامی خارش ہے، اس کی آنکھوں میں ہمیشہ کیچڑ بھری رہتی ہے آنے جانے والے پر وہ اس طرح بھنکتا ہے جیسے وہ اس کی تنہائی میں مخل ہوا ہو، مہندر نے اس کتے کو دوسری منزل سے ہٹ کر کہیں اور نہیں دیکھا یہ کتا بھونکنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا، چند بار بھونکنے کے بعد خود ہی سرنگوں ہو کر بیٹھ جاتا ہے، اسے دیکھ کے اکثر ایک ہمدردی سی ہوتی ہے، یہ کتا دوسری منزل کے اس عیسائی خاندان کا ہے مہندر کو اکثر خیال آتا ہے کہ یہ لوگ عیسائی نہیں پارسی ہیں، لیکن اسے کبھی کبھی یہ پوچھنے کا موقع نہیں ملا، شوہر بہت جلد اپنے کام پر چلا جاتا ہے اور بہت دیر سے واپس آتا ہے، دو تین مرتبہ کے علاوہ مہندر نے شاذ ہی اسے دیکھا ہو گا، لیکن اس کی وہ چند تصویریں ذہن پر مر قسم ہو گئ، ایک بار مہندر نے دیکھا تھا وہ عیسائی سیڑھیوں پر کھڑا خارش زدہ کتے کو پیار کر رہا تھا، اس کی آنکھوں میں اس وقت غمکساری، ہمدردی کا ایسا جذبہ تھا، کہ مہندر نے آج تک اسے بھول نہ سکا، مہندر کو دیکھ کر اس نے صرف ایک بار اپنی آنکھیں اٹھائیں اور پھر کتے کو پیار کرنے لگا وہ ایک نظر آج تک مہندر کے سینے میں محفوظ ہے جیسے وہ تمام دکھ تمام غم دل میں لئیے ہو۔
عیسائی کے کوٹ اور پتلون کو دیکھ کر ہمیشہ ایک مفلس کا احساس ہوتا تھا، اڑے ہوئے رنگ کی ایک سیاہ ٹائی ہمیشہ اس کے بشاشت سے محروم چہرے کو بے جان بنائے رکھتی ہے، عیسائی کے کئی بچے ہیں لیکن نجانے وہ کس طرح رہتے ہیں، کہ گھر کے اندر سے کوئی آواز نہیں آتی، عیسائی ہمیشہ ٹخنوں تک نیچا ایک فراک پہنچتا ہے اس کی جلد سفید ہے لیکن جسم پر گوشت نام کو نہیں ہے، اس وقت کوئی پاس سے نہ گزرے تو وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں جو اس کے بے گوشت چہرے پر اور بھی بڑی معلوم ہوتی ہیں، اٹھا کر دیکھتی ہے بے مقصد، بے معنی نگاہ اکثر اس کی گود میں ہوتا ہے، یا اس کا سایہ پکڑے پاس کھڑا ہوتا ہے، سبزی والے کی جانے کے دروازہ پھر بند ہو جاتا ہے، اکثر ایسا بھی ہوتا ہے، مہندر کے زینے پر چڑھنے کی آواز سے کر اچانک دروازہ اور اسے دیکھ کر پھر بند ہو جاتا ہے، اس وقت مہندر کو احساس ہوتا ہے جیسے یہ لوگ کسی کا انتظار کر رہے ہیں، کسی ایسے شخص کی جو آ کر اسے نجات دلائے گا، ان کے مقابل کے فلیٹ میں ایک مدراسن رہتی ہے مہندر اور اس کے دوستوں میں سے جو آخر میں باہر جاتا ہے، وہ فلیٹ کی چابی مدراسن کو دے جاتا ہے، مدراسن ایک بیوہ ہے اور اپنی تین جوان لڑکیوں بیٹے اور داماد کے ساتھ رہتی ہے، اکثر زینے پر چڑھتے ہوئے یا اترتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ مدراسن کے گھر میں لڑائی ہو رہی ہے، لیکن جیسے وہ کسی آنے کی آواز سن کر خاموش ہو جاتے ہیں پچھلے مہینے سے مدارس کا بیٹا پاگل ہو گیا ہے، وہ اب اکثر کھڑکی کی سلاخیں پکڑے کھڑا رہتا ہے۔۔۔۔ بے حس بے حرکت اور خلا میں اس طرح تکتا رہتا ہے اس جیسے اس کی نظریں جامد ہو گئیں ہوں، اس دیکھ کر اکثر دل پھر سے ایک موہوم سے ڈر کا سایہ گزر جاتا ہے، مدارس نے کنواری جوان لڑکی کو بھی دیکھ کر ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے، اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ہمیشہ ایک ایسا جذبہ ہوتا ہے یا وہ اپنے آپ آپ کو وجہ سے کمتر خیال کرتی ہے، اس سے زیادہ خاموش لڑکی آشیانے کے دوستوں نے کبھی نہیں دیکھی، اس سے عشق کرنے کا خیال ہی نہیں آتا، معلوم ہوتا ہے گویا اس سے عشق کرنا اسے سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے، آشیانے کا کوئی دوست اسے نظریں بھر کر نہیں دیکھتا مہندر ہری، رندھیر، گورکھ وغیرہ سب اوشا کو پھنسانے پر تلے ہوئے ہیں، اوشامدراس کی تیسری لڑکی ہے اور وہ مدراس میں اپنے خاوند کو چھوڑ کر چلی آئی، اوشا کا شوہر شرابی ہے، وہ خود شراب پیتا ہے اور اسے مارتا ہے اوشاکا اس کے پاس رہنا نہیں چاہتی اس کو اوشاکا سے سخت ہمدردی ہے، آخر یہ کہاں کی انسانیت ہے اک دن مہندر سب کے سامنے کہہ رہا تھا کہ ایک عورت اپنی جوانی کو یوں اجاڑ دینے پر مجبور کر دی جائے اس دن مدراسن کی نگہداشت سے خصوصاً ً بیزار تھا، مدارس اوشاکا کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتی ہے، اسے ایک لمحہ گھر سے باہر اکیلا نہیں رہنے دیتی چابی تک لینے خود آتی اسے اپنی اور بیٹی کی آبرو کا ڈر ہے، مہندر کہتا ہے عورت اس وقت تک دکھ اٹھاتی رہے گی جب تک اقتصادی طور پر سے آزاد نہ ہو جائے گی لیکن اوشاکا اقتصادی طور سے آزاد نہیں ہے وہ اپنے شوہر کے پاس اس سے پٹتی تھی اور اس سے بچنے کیلئے یہاں چلی آئی ہے، مہندر اور دوست کہتے ہیں اس کی زندگی تباہ ہو رہی ہے، اوشاکا کی آنکھوں میں صرف ایک مایوسی کی لکیر ہے۔
یہ مایوسی کی لکیر پریتی کی آنکھوں میں نہ تھی، اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، ایک خود اعتمادی جیسے وہ خود کو کسی کا دوست نگر نہ سمجھتی ہو، جیسے یہ احساس اس کی روح کو کچلنے کو موجود مہندر نے سوچا پریتی کی آنکھوں میں مایوسی کی لکیریں دور نہ ہوئی ابھی پریتی کی آنکھوں میں چمک ہے، اگر آج وہ آج آشیانے میں آ جاتی تو وہ دوبارہ بات کرنا گوارہ نہ کرتی مگر آج وہ آشیانے میں نہیں، کل وہ اسے جو ہو سر کل پر ملے گی، جب تک پریتی کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ وہ قلاش ہے، یہ دوستی قائم رہے گی مہندر اس دوستی کو قائم رکھنا چاہتا تھا لیکن اچانک اسے خیال آیا کہ اس کی جیب میں کل پریتی پر خرچ کرنے کیلئے روپیہ نہیں ہے وہ اس بات کو بھول گیا تھا حالانکہ یہ کانٹا شام اس کی روح میں کھٹکتا رہا، سیر کے دوران میں ہر مرتبہ کھنہ نے خود ہی بل ادا کیا تھا اور ہر بار مہندر نے شرم ساری محسوس کی تھی۔
ہر بستر پر بیٹھا رہا، اب وہ کل کی بات بھول کر آج کی بات سوچ رہا تھا اس کی جیب میں روپیہ نہیں ہے، کل رندھیرے نے کہا تھا کہ اسے کہیں سے روپیہ ملنے کی امید ہے اور اس امید میں کہ رندھیروں اس سے لئے ہوئے روپے ادا کرے گا، اس نے چند دوستوں کے ساتھ اپنی جیب شراب خانے میں خالی کر دی، اب وہ مفلس تھا اور رندھیر رات کو گھر نہیں آیا تھا، اسے رندھیر پر غصہ آیا اور اپنے اوپر کہ اس سے وقت کیا ہو گیا تھا، جب اس نے اپنا سرمایہ بانٹ دیا تھا، اسے اس وقت کیا ہو جاتا ہے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا۔
روپیہ اس کے پاس ہو تو کسی کے مانگنے اس نے انکار نہیں کیا، یہ نہیں کہ وہ کہہ دے نہیں دے سکتا یا اس کے پاس نہیں ہے، جیسے وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں وہ سمجھتا ہو کہ یہ روپیہ صرف اس کی ملکیت نہیں ہے، جیسے اپنی روح کے نہاں خانے میں اسے اس بات کا شبہ ہو کر یہ روپیہ ایک مشترکہ ملکیت ہے لیکن اس وقت وہ مفلس تھا اور اسے غصہ آ رہا تھا کہ رندھیرے رات کو گھر کیوں نہیں آیا اور اب وہ کیا کریں اسے مہندر سے پیسے مانگنے پڑیں گے اس نے سوچا اب اسے مانگنے میں جھجھک نہ ہوتی تھی، وہ شرمندگی کا احساس کئے بغیر مانگ سکتا تھا لیکن چند مہینے پہلے ایسا کرتے ہوئے کوئی چیز اس کا ہاتھ پکڑ لیتی تھی، عزت، خود داری، شرم اس کی اجازت نہ دیتی تھی، اب نہ وہ شرم رہی تھی نہ وہ خود داری نہ وہ اپنی عزت اب وہ جھجھکتا نہ تھا، اب کوئی چیز ہاتھ نہ پکڑتی تھی، اکثر بستر پر جانے کے بعد رات گئے تک وہ آنکھیں بند کئے یہ سوچتا رہتا تھا کہ وہ کانٹا نکل گیا تھا اس کی شرم، عزت اور خود داری کا احساس زائل ہو گیا تھا، اس سے بھی لوگ مانگتے تھے وہ بھی خود کو اس سیلاب میں بہہ جانے سے روک نہ سکا۔
چند مہینے پہلے وہ گھر گیا تھا، اس نے اپنا گھر بیچ دیا تھا اس سے پہلے وہ بمبئی میں زندگی کا لطف اٹھانے آیا تھا، لیکن روپیہ جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا، بہت جلد ختم ہو گیا، ان دنوں وہ ایک وقت کھانا کھاتا تھا، لیکن اس نے کسی سے کچھ نہ کہا ان دنوں دل میں وہ کانٹا تھا جس نے اس سے مانگنے کے بجائے اپنا گھر بیچ دینے پر مجبور کر دیا تھا، وہ کانٹا اب کہاں گیا، وہ غیرت اب کہاں گئی، مکان بیچ کر وہ واپس
آیا تو اس کے پاس تین ہار روپے تھے وہ اس خرچ کرنا چاہتا تھا، اپنے اوپر لیکن دوستوں نے اس سے ادھار مانگا اور وہ انکار نہ کر سکا اور پھر شراب اور طوائفوں کے بستر اور عیاشی وہ روپیہ اب خرچ ہو چکا ہے دوستوں کے پاس ہے جو واپس کرنے کے قابل نہیں ہے، اچانک ہری کو خیال آیا کہ مہندر قرض نہیں دے گا، وہ پہلے بھی کہہ چکا ہے کہ اس کی فضول خرچی کیلئے مہندر کے پاس روپیہ نہیں ہے وہ ہری سے کوئی کام کرنے کو کہتا ہے اور ہری کام نہیں کرتا ہے روپے ساتھ واپس آنے پر مہندر نے اس سے کہا تھا کہ اس موہوم ساڈراس کے تکت الشعور پر تسلط کئے ہوئے تھا، وہ نیند میں دیکھتا کہ کوئی اسے قتل کر رہا ہے، اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے وہ بچاؤن کیلئے گڑ گڑا رہا ہے، وہ پسینوں میں تر بتر پے اٹھ بیٹھتا ہے اور وہ ڈراؤنے خواب ہفتوں سائے کی طرح اس کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔
اپنے دل کی گہرائیوں میں اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ مر رہا ہے مرنے سے پہلے وہ زندگی کی تمام خوشی سمیٹ لینا چاہتا تھا عورتیں شراب ہنگامے اور تضیع یہ ضائع کرنے کی خواہش جو بظاہر خواہش نہیں تھی اس کی ہر حرکت پر حاوی ہے، وہ استعمال کرنے سے زیادہ ضائع کرتا ہے، جیسے تھوڑے عرصے میں چیزوں کی زیادہ سے زیادہ مقدار استعمال کر لینا چاہتا ہو، مہندر اس کی اس عادت سے نالاں ہے ہری یہ جانتا ہے بستر پر بیٹھے ہوئے اسے یقین ہو گیا کہ مہندر روپیہ نہیں دے گا کہہ دے گا کہ اپنی تاہ اندیشی کو خمیازہ بھگتو ہر کو لوگوں کا یہ رور اندیشی کا فلسفہ کھوکھلا معلوم ہوتا ہے وہ حال میں زندہ رہنا چاہتا ہے، اسے مستقبل پر یقین نہیں ہے، وہ کہتا ہے چند روز عیش میں جی لینا سال ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے سے بہتر ہے اسے زندگی میں صرف ایک خواہش رہ گئی ہے، وہ زندگی میں زندہ لوگوں کی طرح جینا چاہتا ہے۔
لیکن اپنی زندگی میں وہ کبھی بھی تو زندہ نہیں رہا، زندہ رہنے کیلئے کبھی اس کے پاس کافی روپیہ نہ تھا، اور روپے کے بغیر زندہ رہنا ممکن ہے، ایک نیم مفلسی کی حالت میں وہ جوان ہوا تھا، پھر ایک خاندان کا بوجھ اس کے کندھوں پر آ پڑا، وہ زندگی میں بڑے بڑے ارادے لے کر آیا تھا لیکن سب دیکھتے دیکھتے ایک خواب کی طرح پریشان ہو گئے، اس کی صحت ایک کھنڈر ہو گئی تھی اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ زندگی کے کنارے پر آ گیا ہے اور آگے موت کے سیاہ تاریکی ہے، وہ مر جائے گا اور زندگی ختم ہو جائے گی، دل کی دھڑکن رک جائے گی، وہ خود کو موت کے اندھیرے میں کھودے گا، اور یہ سب کچھ اسے زندگی کو دیکھنے سے پہلے ہو جائے گا، اسے یہ معلوم کہ مسرت اور خوشی اور آرام کیا ہوتا ہے، عورت کے ہونٹوں کا شہد اس کے سانسوں کی خوشبو اس کے جسم کی حرارت کیا ہوتی ہے، وہ مر جائے گا، ان چیزوں کو جانے بغیر، اس گھر میں جہاں کوئی کبھی زندگی سے ہم آغوش نہیں ہو سکتا جہاں موت ایک بھیانک بیل کی طرح اس کے رگ و پے میں سرایت کرتی جا رہی ہے، اس نے یہ گھر چھوڑ دیا، اس گھر سے دور بمبئی آ گیا تھا، یہاں وہ زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا، اور آشیانے کے دوست کہتے تھے، وہ کوئی کام کیوں نہیں کرتا، اکثر تنہائی میں وہ خود سوچتا ہے کہ وہ کام کیوں نہیں کرتا اکثر تنہائی میں وہ بیٹھ کر وہ آئندہ زندگی کیلئے پلان بناتا ہے، سوچتا ہے کہ زندگی کو سنوار کر ٹھیک راہ پر لے آئے، مگر یہ ہوتا نہیں، وہ کام کرنے سے بھاگتا ہے جسے یہ خیال ہو کہ جب زندگی باقی رہے تھوڑی ہے تو کام سے کیا فائدہ جیسے اسے کام کی بے مصرفی کا یقین ہو گیا ہو، روپیہ اب اس کے پاس ختم ہو گیا ہے یا مقروض دوستوں کے پاس ہے اس پھانسی کیلئے اسے کو ہی رسی بننی پڑے گی، اکثر بالکونی میں کھڑا ہوا ڈر کر پیچھے ہٹ جاتا ہے کہ کہیں وہ خود کو نیچے نہ گرا دے پچھلے کچھ دنوں سے خیال بار بار اسے خوفزدہ کرنے لگا کہ وہ خود کشی کر لے گا، دل ہی دل میں وہ دوبارہ اس روح کو قبض کرنے والی کشمکش میں جانے سے کانپتا ہے جس سے بھاگ کر آیا ہے، وہ رندھیرے پر کھولتا ہوا بستر پر بیٹھا رہا جو رات گھر نہیں آیا تھا، اسے پھر مہندر سے پیسے مانگنے پڑیں گے۔
مہندر کی آنکھ کھل گئی تو آنکھ کھلتے ہی اس کا پہلا خیال پریتی تھی، پھر اس نے ہری کو دیکھا جو بستر پر بیٹھا تھا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ روپے کیلئے ہری سے استفار کرے، برابر کے فلیٹ میں رہنے والا پنجابی نوجوان آ گیا پھر اور سب جاگ گئے اور صبح کی مجلس شروع ہوئی صبح کی مجلس رات کی مجلس یا جس وقت بھی یہ جمع ہوتے ہیں، مطلب ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتا تھا، ایک دوسرے پر فقرے کسے جاتے تھے، ایک دوسرے کے نشتر چبھوئے جاتے تھے اور اس میں انہیں ایک مخصوص سا اذیت پرستانہ لطف محسوس ہوتا تھا، یا پھر گفتگو کا یاک وعسر پہلو تھا جس میں پارسی لڑکیوں کی پنڈلیاں مرہٹی عورتوں کی چھاتیاں اور ایک دوسرے کی شکل و صورت پر حملے ہوتے تھے جسے مذاق کہا جاتا تھا، مذاق کی یہ قسم مہندر سے شروع ہوتی تھی اور وہ خود خوش شکل تھا، اور دوسروں کے کم خوبصورت چہروں کو مسخ کرنے میں اسے ایک طفلانہ خوشی محسوس ہوتی ہے، اکثر اپنی اس خوشی پر وہ راز دارانہ طور پر شرمندہ ہو جاتا ہے، لیکن مذاق کی یہ قسم جو چل نکلی تھی ختم ہونے میں نہ آئی تھی۔
سامنے کے فلیٹ میں رہنے والے پنجابی نوجوان کو اس چشمک سیکھنے میں مزہ آتا تھا، دفتر جانے سے پہلے اپنا وقت وہ آشیانے میں
گزرتا ہوا ہے، صرف پیڑ جی ایک ایسا شخص ہے جو اس ہنگامے میں ایک خاموش تماشائی کی حیثیت رکھتا تھا وہ کسی سے کچھ نہ کہتا تھا کوئی باریک سا نشتر چبھ جائے تو مسکرا کر چپ ہو جاتا ہے اس مسکراہٹ میں غم کی ایک گہری لکیر ہوتی ہے جو اکثر دیر تک دل پر کھینچی رہتی ہے، نشتروں کا سب سے بڑا نشانہ گور مکھ ہوتا ہے، گورمکھ سردار ہے اور اپنے بال کٹوا چکا ہے، وہ اب خود کو سردار کہلانا نہیں چاہتا، مگر سب زبردستی اسے سردار کہتے ہیں، آشیانے کے دوستوں کو سردار کی جو بات سب سے زیادہ ناگوار تھی اس کی کی خود مرضی ہے اور اس کا حقارت آمیز رویہ۔
مہندر نے دیکھا کہ ہری آج معمول سے زیادہ خاموش ہے اسے شبہ اور یہ ڈر کہ شاید آج اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، اس نے ہری کو اکثر اسی وقت اداس دیکھا تھا، جب اس کی جیب خالی ہوتی تھی، آج وہ خاموش ہے تھا، مہندر کو ڈر سا ہو گیا، اسے ہری سے پیسے لینے تھے، سر دار نے کہا، میں تنگ آ گیا ہوں تم لوگ اس آشیانے میں جانوروں کی طرح رہتے ہو، تو نکل جاؤ یہاں سے بھیڑ کم ہو جائے گی، ہری نے جل کر کہا، کہا جائے بے چارہ سر رک پر سائے گا کیا، مہندر نے لقمہ دیا سردار کو جلانے میں اسے خاصہ مزا آتا تھا، جہاں جی چاہے سوئے، ہری نے کہا پہلے بھی تو گورو دوارے میں سوتا تھا، نشتر سردار کے دل میں اتر گیا لیکن مہندر نے دیکھا کہ ہری آج خلاف معمول اپنی فتح پر مسکرا یا نہیں، ضرور اس وقت مفلس ہے، مہندر نے سوچا ہر کہ رہا تھا، نالی میں رہ کر امیر زادوں کی سی باتیں کرتے ہو، جیسے ہمیشہ محلوں میں ہی رہے ہوں اس کی تلخی میں آج مذاق کا شائبہ نہ تھا، سردار سن کر چپ نہیں ہوا، وہ کبھی جپ نہیں ہوتا تھا، بولے گیا، لیکن بات ختم ہو چکی تھی زہر اثر کر چکا تھا باقی دوستوں کو ایک پر لطف تسکین کا مزہ آیا تھا دنیا سے پائی ہوئی ساری ناکامی، ساری شکست ساری مایوسی کا وہ اس طرح ایک دوسرے کو مطعون کر کے انتقام لیتے تھے، جیسے دوسرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ کر وہ بارو کرانا چاہتے ہوں، کہ صرف ہم ہی دکھی نہیں ہیں ہم ہی زخمی نہیں ہیں، تم بھی اس کشتی میں سوار ہو۔
دیر تک یہ چشمک یونہی جاری رہی، مہندر نے کل کی داستان سنائی اور کس کو یقین نہ آیا، جیسے ایک لڑکی کا مہندر سے ملنا ممکن ہو، ایک معجزہ ہوا اور یہ معجزہ پر یقین کرنے کا زمانہ نہیں ہے، اتنے عرصے، بلکہ ہمیشہ عورت سے محروم رہنے کے بعد انہیں غیر شعوری طور پر یقین ہو گیا تھا کہ ایک عورت کا ملنا یا نا ملنا ممکن ہے انہیں مہندر کی داستان قابل یقین معلوم نہ ہوئی، جب انہیں یقین آیا تو سب نے ایک زبان ہو کر کہا وہ طوائف ہو گی، مہندر کے چہرہ پر ایک مسکراہٹ آئی جسے کوئی نہیں دیکھ سکا، جسے وہ خود بھی نہیں دیکھ سکا، پنجابی نوجوان کے دفتر جانے کا وقت ہو گیا تھا وہ اٹھ کر چلا گیا، پھر محفل برخاست ہو گئی اور بستروں پر بیٹھی ہوئی لاشیں اپنی ضروریات سے فارغ ہونے میں مصروف ہو گئیں۔
مہندر کو اتنی دیر میں یقین ہو گیا تھا کہ ہری کے پاس روپیہ نہیں ہے لیکن کسی دوسرے سے مانگنے سے پہلے وہ ہری سے پوچھنا چاہتا تھا، ہری اس کا مقروض تھا کتنے روپے ہیں تمہارے پاس؟ اس نے پوچھا ایک بھی نہیں ہری جواب دیا رندھیر نے کہا تھا وہ دے گا مگر وہ آیا ہی نہیں رات کو تم دو روپے مجھے میں تم سے مانگ رہا ہوں مجھے شام کو پریتی سے ملنا ہے، رندھیر نے آج لا دئیے تو تم مجھے سے لے لینا ہری نے کہا مہندر جانتا تھا کہ اگر اسے مل گئے تو ہری ضرور دے گا، اس نے خود کو امید دلائی کہ رندھیر روپے لے آئے گا لیکن پھر بھی روپے اسے رات سے پہلے نہیں ملیں گے، رندھیر رات سے پہلے نہیں آئے اور اس نے پریتی سے شام کو ملنے کا وعدہ کیا ہے، وہ شام کو پریتی سے مل سکے گا مگر اس کی جیب میں روپے نہ ہوں گے اور روپے کے بغیر کٹی سے ملنا بے معنی ہے، اور اگر شام کو پریتی سے نہ ملے کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا تو یہ بھی ممکن ہے کہ پریتی آ کر لوٹ جائے اور اس کے بعد پھر اس سے کبھی ملاقات نہ ہو، یا اس وقت ہو جب وہ اسے بھول چکی ہو، اس شام کی یاد اس کے ذہن میں چھٹ چکی ہو، مہندر نے سوچا کہ وہ شام کو پریتی سے ملے گا اتنا کہنے لیے آج وہ بہت مصروف ہے اور شام اس کے ساتھ گزارسکتا ہے، وہ پریتی سے ملنے کو کہے گا، رندھیر رات کو پیسہ لے کر آئیے گا کل پریتی پر خرچ کر سکے گا۔
مہندر نے فیصلہ کر لیا تھا، ایک عجیب سی یاس وافر اس کے دل و دماغ میں پھل گئی، روپیہ جو نہیں ہے، روپیہ جو چاہئیے، روپیہ جس کے بغیر ہر کام بند ہے، روپیہ جو دوستوں کے درمیان تنہا رشتہ رہ گیا، در اصل پریتی نے ملنے سے زیادہ اس وقت اس کے دل میں اس یاس و افسردگی کی وجہ یہی تھی، ابھی چند لمحے پہلے ہری سے روپیہ نے ملنے پر دفعتاً اسے افسوس ہوا تھا کہ اس کے دل میں سے دوستی اور برادری کا جذبہ تفریق ہو گیا ہے، اور نا پسندیدگی اور نفرت رہ گئی ہے اپنے دل میں خود کو قصور وار سمجھتا تھا، اور وہ شام کو پریتی سے نہیں مل سکے گا، وہ شام کو کسی سے نہیں ملے گا۔
مہندر انتظار کر کے لوٹ آیا، پریتی نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا، وہ ملنے نہ آئی تھی، آشیانے کے دوستوں کو راز دارانہ طور پر ایک خوشی ہوئی، لیکن اس کی یہ خوشی مہندر کیلئے راز نہ رہ سکی، وہ اس خوشی کو جو انسان کے دانی ترین جذبات سے پھولتی ہے چھپا نہ سکے، انہوں نے مہندر کے ہتھیار اسی پر استعمال کئے، مہندر چپ رہا، وہ ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا جو اس کی شکست پر مسرور تھے اگر یہ اس کی اپنی شکست نہ ہوتی تو ان لوگوں پر رحم آتا، لیکن یہ اس کی اپنی شکست تھی، اور اسے ان لوگوں پر غصہ آیا، وہ غصے کو مذاق میں ٹال گیا، اور اسے بار پھر خیال آیا کہ یہ سب لوگ کمینے ہیں، یہ خیال اسے پہلے بھی کئی مرتبہ آیا تھا، لیکن ہر بار وہ اس بات پر محمول کر کے در گزر کر جاتا تھا، کہ یہ لوگ حالات کا شکار ہیں کہ محرومیت انسان کو ذلیل، حاسد اور کمینہ بنا دیتی ہے، یہ حسد کا جذبہ اس میں بھی ہے یہ کمینہ پن وہ خود بھی کرتا ہے، اسے بھی جاہل لوگوں کو کاروں میں عیش کرتے دیکھ کر آگ لگ جاتی ہے، وہ ابھی ایک بد صورت امیر کے پہلو میں ایک حسین لڑکی کو دیکھ کر جل گیا، اگر چہ یہ حسد ہے تو قدرتی ہے، اگر یہ کمینہ پن ہے تو ٹھیک ہے، لیکن آج ان لوگوں کو اپنی ناکامی پر خوش دیکھ کر وہ جذباتی علیحدگی سے فیصلہ نہ کر سکا، یہ لوگ کمینے ہیں کمینے آج چھت پر نہیں گئے تھے، یہیں کمرے میں بستر بچھا لیا، آج پھر شام سے ابر ہو گیا تھا، باہر ناریل کا درختوں اور ان سے پرے نظر آتے ہوئے گرجا گھر بادل چھائے ہوئے تھے، ممکن ہے پریتی بارش کے ڈر سے نہ آئی ہو، مہندر نے سوچا مگر شام کا ابرو اتنا زیادہ تو نہ تھا، یا ممکن ہے اسے کوئی اور مل گیا ہو اور کسی اور کار کا مالک، آج اس کمر کے گرد کسی اور کا بازو ہو گا، آج کسی اور کے کان میں جھک کر کہہ رہی ہو گی کہ مجھے تم سے عشق ہے، یہ عشق اس کے دل میں کہاں ہو گا، اس جذبے کو تو پیدا ہوتے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے، یہ جذبہ تو اسی دن اپنی تاریک قبر میں دفن ہو گیا، جب اس نے پہلی بار روپیہ قبول کیا ہو گا، وہ یہ محض تصور ہے، اس نے سوچا طوائف کے بھی دل ہوتا ہے، طوائف بھی محبت کر سکتی ہے، یہ محض دل کوش گن سوچ ہے، اس نے تردید کی لیکن وہ اس خیال کو ملتوی نہ کر سکا اور طوائف کی محبت ایک بیوی کی محبت سے بہتر ہے، اس نے سوچا طوائف روپے کیلئے محبت نہیں کرتی، وہ جب محبت کرتی ہے تو بدلے میں روپیہ نہیں چاہتی، ایک بیوی کی محبت ہمیشہ قیمت ہوتی ہے مہندر کو طوائفوں سے ہمدردی تھی، اتنی ہی جتنی اسے طوائف سے نفرت تھی اور پرستی کے نہ ملنے کے بعد اسے محسوس ہوا کہ چنگاری جو بجھ گئی تھی روشن ہو اٹھی ہے، وہ اب بھی کئی لبوں پر لب رکھنا چاہتا ہے، اس کے جسم میں جذب کرنا چاہتا تھا، اپنے جسم کو اس کے جسم میں کھونا چاہتا تھا، لیکن آج اس خواہش کا رنگ نیا تھا، آپ پریتی کے جسم کی غیر حاضری اس کیلئے ایک روحانی عذاب بن گئی تھی، پریتی کے جسم کا قرب اس کیلئے ایک روحانی راحت بن جائے گی، وہ پھر سے جی اٹھے گا، اس نے یہ بات سوچا آشیانے کے دوستوں میں نہیں کہے گا ورنہ انہیں مذاق اور نشتر اندازی کا ایک اور موقعہ مل جائے گا، یہ لوگ ایک دوسرے کے جذبات کو دکھانے میں پوری بے دردی کا ثبوت دیتے ہیں، منہ سے ایک بار کوئی بات نکل جائے تو منہ چھپانا مشکل ہو جاتا ہے، زہر کے ڈنک ہمیشہ تیار رہتے ہیں، اور پھر مہندر ان کے سامنے جذباتی اعتبار سے ننگا ہونا نہ چاہتا تھا، وہ چپ رہا، اب ٹھنڈی سانس بھر کر سو جاؤں، ہری نے بستر پر جاتے ہوئے کہا، یونہی مر جاؤ گے تم اور کوئی لڑکی نہیں ملے گی، کیوں خواہ مخواہ امید لگائے بیٹھے ہو، گورمکھ بولا، چیٹرجی ہمیشہ کی طرح خاموش رہا، وہ کچھ اور سوچ رہا تھا، لیکن مہندر خاموش نہیں رہ سکا، اندر جل کر اور باہر سے مسکراتے ہوئے بولا، جب تم جیسے کھٹ بڑھئی کی شکل کے آدمی امید کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہ کروں۔
سردار کچھ جواب دینا چاہتا تھا، لیکن زینے سے عیسائی کے کتے کی بھونکنے کی آواز آ رہی تھی، اور اس زینے پر ٹھوکر لگی اور یہ عیسائی کا کتا مجھے آتے جاتے بھونکتا ہے اس نے کہا، کتا اب بھی بھونک رہا ہے، رندھیرے چڑھتا رہا، وہ نشے میں تھا، رم کے پانچ پیک اس کے خون میں گھل چکے تھے، دارو ہار سے وہ ناکام ایکٹروں کے ساتھ شراب پی کر آیا تھا، آج اس نے بل خود ادا کیا تھا، چپ رہو عیسائی کے کتے اس نے سرگوشی میں کہا سونے والے جاگ جائیں گے اس نے دروازہ کھول دینے سونے والے جاگے ہوئے تھے، روپے لائے سالے؟ ہری نے داخل ہوتے ہی سوال کیا، زندگی چاندنی عورت کے سوا کچھ نہیں، رندھیر نے جواب دیا، وہ اتنا نشے میں نہیں تھا جتنا ہن رہا تھا، تمہارے چچا نے بھی دیکھی ہے عورت، گورمکھ بستر پر اٹھ بیٹھا تھا، چیڑ جی جو بیٹھا تھا، تھک کر لیٹنے لگا تھا، مہندر گالیاں دے رہا تھا، سب رندھیر کی اس عورت سے نالاں تھے، وہ اکثر رات کو کہیں نہ کہیں شراب پی کر آتا تھا، پھر آ کر سب کو جگا دیتا تھا، اتنے زور زور سے سرگوشیوں میں بات کرتا تھا، کہ برابر کے فلیٹ میں پنجابی نوجوان کی بیوی اپنے شوہر سے شکایت کرتی تھی، رندھیر صبح معافی مانگتا تھا، اگلی رات کو پھر یہ ہی کرتا، اگلی رات کو پھر یہی ہوتا تھا، اس نے گورمکھ کی بات نہیں سنی نہ مہندر کی گالیاں، وہ گنگناتا ہوا کپڑے اتار رہا تھا، کپڑے اتار اتار کر اس نے کمرے کے چاروں طرف پھینک دئیے جیسےہ انہیں پر نہیں پہنے گا، اور بالکل ننگا ہو کر بید کی کرسی پر بیٹھ گیا، وہ یوں بھی گھر میں انڈروئیر کے علاوہ اور کچھ نہیں پہنتا تھا، اور شراب پینے کے بعد تو اسے کپڑے اتار دینے کا خبط تھا، کپڑے اتار کر وہ سارے گھر میں پھرتا تھا۔
روپے جو اسے کل ملے تھے، اب اس کے پاس نہ تھے، سب شراب جانے میں ختم ہو گئے تھے، صبح اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہری کو بتایا کہ وہ روپے خرچ ہو گئے ہیں، کل شام اسے بچپن کا ایک دوست مل گیا تھا، وہ شملہ کی خوبصورت پہاڑیوں پر ساتھ کھیلتے تھے، مدتوں کے بعد آج اسے وہ بمبئی میں ملا تھا، اس نے اس کی خاطر کی تھی اور روپے ہوٹل کل بم اور شراب میں ختم ہو گئے تھے، ہری نے رندھیر کو گالیاں دیں، کہ میں بھوکا مر رہا ہوں اور تم لوگوں کو شرابیں پلا رہے ہو تمہیں شرم نہیں آتی ہے، اس نے اپنے اوپر قرض کے بوجھ کو سنجیدگی سے محوس کرنا چھوڑ دیا ہے قرض اس کیلئے ایک معمول سا ہو گیا ہے، اچھی طرح سوچ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ وہ شرم کو پامال نہیں کر سکتا، وہ اپنے ہر ایک واقف کار کا قرض دار تھا، کس کس کے سامنے شرم کرے، شروع شروع میں وہ شرمندہ ہوا تھا، شرم آتی تھی کہ وہ کا قرض دار ہے، لیکن پھر بھی وہ اس احساس سے باغی ہو گیا تھا، یہ اس کی زندگی اور موت کا سوال تھا، وہ قرض کے بغیر فاقوں سے مر جائے گا، یہ شرم بھی اسے زندہ نہیں رہنے دے گی، اور اس نے قرض لے کر اسے بھول جانا شروع کر دیا تھا، وہ قرض ادا کرنا چاہتا تھا، روپیہ اس کے ہاتھوں میں آتے ہی خرچ ہو جاتا تھا، جیسے وہ دوڑتا ہو کہ پیسہ اگر اس کے پاس رہا تو کوئی مانگ لے گا، اور اسے دینا پڑ جائے گا، خود خرچ کرنے کی اپنی عمیق ترین خواہش کے سامنے اسے ٹھوکریں کھانی ہیں، زلت کا احساس کرایا ہے، وہ کیا کرے اس شرافت کو لے کر اسے شرافت سے نفرت ہو گئی تھی، اب وہ نفرت بھی نہیں رہے ہے اب ہو بے پرواہ ہے۔
رندھیر بمبئی کے فلمی شہر میں ہیروں بننے کیلئے آیا تھا، وہ اپنا سارا وقت بمبئی کے نگار خانوں میں گزارتا تھا، اس نے ضمیر کا گلا گھوٹ کر پروڈیوسر کی خوشامد کی تھی اپنی روح کو ذبح کر کے ڈائریکٹروں کے آگے دست پھیلایا تھا، کہ زندگی کو ایک شاہراہ مل جائے وہ بہت اچھا ایکڑ تھا، لیکن کسی نے اسے موقع نہیں دیا، لوگوں نے اس سے وعدے کئیے اور اپنے وعدے وفا نے کئے، کسی نے کہا اس کا قد چھوٹا ہے، کسی نے کہا اس کی ناک لمبی ہے، یہ سب چھوٹ تھا، یہ سب بہانے تھے، وہ گوہر لال کے گنجے سر سر اچھا تھا، وہ الیاس کے ساہوکاری جسم سے بہتر تھا، وہ مدھوک کھور کے چوبی چہرے سے خوبصورت تھا، لیکن بزدل لوگ جن میں سے ہر ایک احساس کمتری کا شکار تھا، ایک نئے آدمی کو موقع نہ دینا چاہتے تھے رندھیرا ایکٹر نہ بن سکا، کسی نے اس کو کہا تم مکالمے لکھ سکتے ہو، رندھیر نے کہا میں ڈرامے لکھتا ہوں، اب کبھی کوئی اسے ایک گیت لکھنے کو دے دیا ہے، کبھی وہ فلم کے مکالمے کھلنے میں مدد کرتا ہے، لیکن کوئی اس سے یہ نہیں پوچھتا کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو رندھیر نے اٹھارہ برس کی عمر میں گھر چھوڑا تھا، اس نے اسٹیج کی خاک چھانی تھی، ریڈیو پر ٹھوکر کھائی تھی، لیکن کسی نے اس کے خواب کو نہیں پہچانا تھا، انسان کی صحیح قدر کب پہچانی جاتی ہے، وہ سوچتا ہے، یہ کب ہو گا، کیسے ہو گا، اسے اپنے تکمیل کا موقعہ ملے گا، یہ رات ختم ہو گی کب افق پر صبح کی سرخی نمودار ہو گی، لیکن رندھیر اب بھی نا امید نہیں تھا، ابھی نظروں کو افق پر وہ ستارہ جشن ہے، جس کے سہارے وہ اب تک جیتا رہا ہے، لیکن ان ٹھوکروں نے ان پے در پے اداسیوں نے پست خیال کر دیا تھا، اب وہ لوگوں کو خوش کرنا چاہتا تھا، وہ ایک مسخرہ بن گیا ہے، شروع شروع میں لوگوں کو اس سے لطف آتا تھا، رندھیر ایسی حرکات کرتا تھا، جن سے خواہ مخواہ ہسنی آئے، رندھیر شرابی کا پاٹ ادا کرتا تھا، رندھیر نے چارلی چپلن کی نقل کرہا تھا، رندھیر بس میں بیٹھی ہوئی کسی لڑکی سے اپنے ناکام معاشقے کا مزاحیہ انداز میں ذکر کرہا ہے اور ہاہاہاہاہی ہی ہی لوگ خوش ہوتے تھے اور کسی کو اس تماشے کے عقب میں اس ٹریجڈی کی جھلک نظر نہ آئی تھی لیکن اب لوگوں نے اس کے تماشے سے بھی محظوظ ہونا چھوڑ دیا ہے، رندھیر کا جوکروں والا رویہ ان کے اعصاب پر سوانے ہونے لگتا ہے۔
شارد گھوش رندھیر کیلے ایک محبوبہ ہے، ایک ماں ایک سرپرست ہے، شاردا گھوش کی بوتل سے شراب پیتا ہے، جب گھر نہیں آتا ہے تو ڈرائنگ روم میں اس کے صوفے پر سو جاتا ہے، ٹیلیفون پر پیغام وصول کرتا ہے، اور شاردا گھوش کی میز پر کھانا کھاتا ہے، کبھی اس میں اسے ایک فخر محسوس ہوتا ہے، کبھی ذلت، تحقیر شرمساری، لیکن وہ شارو گھوش کے آنچل کو چھوڑ نہیں سکتا، اسے شاردا گھوش سے عشق ہے اسے شاردا گوش سے امید ہے شاردا نے اسے مایوسی کے عمیق تاریک غار میں گرنے سے بچا لیا ہے، شاردا کی سفارش سے اس نے کسی فلم میں ایک گیت لکھا تھا، اس گیت کا کل اسے معاوضہ ملا تھا، وہ روپیہ کل ہی شراب خانے میں ختم ہو گیا تھا، گھر آتے وقت اس کی جیب میں ایک روپیہ چار آنے تھے، روپیہ اس نے صبح ہری کو دے دیا، اسے معلوم تھا کہ چار آنے میں وہ دن بھر گزارہ نہیں کر سکے گا، اپنے دل کے اندر اسے خود قصور وار ہونے کا احساس تھا، روپیہ اس نے ہری کو دے دیا، وہ خود کسی اور سے مانگ لے گا، مہندر سے مانگنا بیکار ہے، اس نے سوچا اسے غصہ آ رہا ہے اس کے پاس ہوئے بھی تو نہیں دے گا، مہندر کے پاس پیسے نہیں تھے، ہوتے بھی تو وہ اس وقت رندھیر کو نہیں دیتا، اس کا جی چاہ رہا تھا کہ رندھیر کو جی بھر کر گالیاں دے اس سے پہلے بھی وہ رندھیر کو اثر گالیاں دے چکا تھا، لیکن رندھیر نے ہمیشہ ہنس کر ٹال دیا تھا، یہ ہنسی ہنسی نہ تھی، مہندر کو احساس ہوتا تھا، جب احساس عزت مر جاتا ہے، اور خود داری مٹ جاتی ہے، ضمیر مردہ ہو جاتا ہے، تو اس کے مدفن سے یہ ہنسی پھوٹتی ہے، یہ ہنسی نہیں ہوتی، موت ہوتی ہے، اس ہنسی کو دیکھ کر مہندر ہمیشہ خاموش ہو جاتا تھا، آج بھی وہ خاموش ہو کر رہ گیا تھا، لیکن خلاف معمول آج بھی ایک غصہ اس کے دل میں کھولتا رہا، اگر رندھیر آج روپے ضائع نہ کرتا تو آج وہ پریتی سے مل سکتا تھا، وہ کل نہیں آئی تھی، ممکن ہے آج آئے، شاید وہ آج آئے گی اور اس کے پاس پھر روپیہ نہیں ہے، روپیہ اور کہیں سے نہیں مل سکتا، چیٹر جی خود کو ایک وقت کھانا کھاتا ہے، اس سے مانگنا بیجا ہے، سردار شاہد دے سکتا ہے مگر وہ سردار مانگنا نہیں چاہتا، اسے سردار سے نفرت ہے گورمکھ کے متعلق اس کے دل میں ایک ناپسندیدگی کا جذبہ جڑ پکڑ گیا ہے کئی بار اس نے اس جذبے کے زیر تحت اس نے گورمکھ کیساتی زیادتی بھی کی تھی، اپنی ان زیادتیوں پر وہ بعد میں شرمندہ بھی ہوا تھا لیکن گورمکھ سے نفرت اسی طرح موجود تھی، مگر وہ گورمکھ کا ممنون ہونا نہ چاہتا تھا، لیکن اور کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس نے سوچا اس سے مانگ کر دیکھوں شاید دیے دے، مگر جب جذبات کے ساتھ اسے مانگ رہا ہوں یہ کمینہ پن ہو گا، اس خیال آیا لیکن خود کو کمینے کے سپرد کر دیا، اس کے پاس دوسروں کو عیاشی کرانے کیلئے فالتو روپیہ نہیں ہے، اس نے سوچا تھا اور کہہ دیا تھا روپے کی ضرورت ہوتی ہے تو مجھ سے مانگتے ہیں، اس نے دفتر جاتے ہوئے زینے پر اسے اترتے ہوئے سوچا جیسے ہمیشہ میرے اور احسان ہی کرتے رہے ہیں گورمکھ لوگوں کی مہر بانیوں کو بھول کر ان کی زیادتیوں کو یاد رکھتا ہے، اسے لوگوں کی مہربانی اور ہمدردی سے نفرت ہے اور ان کی نا مہربانیاں اس کے دل میں نقش ہو جاتی ہے، اس اچھی طرح یاد ہے کہ پچھلے دنوں جب وہ خسرہ میں مبتلا تھا تو کوئی اس کے پاس نہ آتا تھا، کسی نے اس سے یہ تک نہ پوچھا تھا تم اٹھ کر پانی پی سکتے ہو یا نہیں، خود مہندر نے جو انسانیت چلاتا تھا اس کے ماتے پر ہاتھ رکھ کر یہ نہ پوچھا تھا کہ بخار کتنا ہے، اسے مہندر سے نفرت ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ مہندر کو اس سے نفرت ہے اور اسے قرض دینے سے انکار کر کے گورمکھ دفتر چلا آیا تھا، یہ محض اس کے دل میں ایک بہانہ تھا، در اصل وہ کسی کی مدد کرنا نہیں چاہتا، حسد نے اس کے تمام جذبات کو مغلوب کر لیا ہے۔
وہ خوش نہیں اور دوسروں کو خوش دیکھ کر جل اٹھتا ہے، وہ کسی کی خوشی حاصل کرنے میں مدد نہیں کر سکتا، وہ اب تک اپنی کوشش میں ناکام رہا اور انہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا کامیاب ہو، گورمکھ لاہور سے ناکام ہو کر بمبئی آیا، لاہور سے بی اے پاس کرنے کے بعد اس نے کوشش کی تھی کہ کوئی اچھی نوکری مل جائے زندگی میں الشان تمنائیں نہ تھیں، بس ایک خوبصورت ساگھر ہو، ایک خوبصورت سی بیوی اور اطمینان ہو، لیکن لاہور میں اسے یہ سب نہ مل سکا، دو سال کی کوشش کرنے کے بعد اسے محسوس ہوا تھا کہ لاہور میں اچھی نوکریاں زمیندار فرقے کو ملتی ہیں، گورمکھ نے کئی سال کوشش کی تھی لیکن ہمیشہ ناکامی نے اس کے چہرے پر طمانچے مارے تھے، لاہور سے مایوس ہو کر بمبئی والوں کو ملتی ہیں، گورمکھ بمبئی والا نہ تھا وہ پنجاب میں زمیندار تھا، بمبئی کا باشندہ نہ تھا، اسے غصہ آتا تھا کہ بمبئی اور پنجاب کی بیہودہ تمیز کیوں ہے، زمیندار اور بے گھر کی غیر منصفانہ تفریق کیوں ہے، وہ کہاں جائے وہ کیا کرے؟
شکست کھا کر وہ یہاں ایک آرڈینس ڈپو میں نوکر ہو گیا تھا، یہاں وہ صبح آٹھ بجے گھر سے جاتا ہے اور شام چھ بجے واپس آتا ہے، اور تین روپے اسے معاوضہ ملتا ہے، وہ خوبصورت مکان جواس نے اپنے سپنے میں بنایا تھا مگر گیا، وہ حیسن لڑکی جو اس کے خوابوں میں ئی تھی مر گئی ہے اور گورمکھ سب کا دشن ہو گیا ہے، شام کو دفتر سے آنے پر وہ صرف کھانا کھانے تک کیلئے ہوٹل میں جاتا اور پھر واپس آ جاتا ہے، اس کی زندگی صرف ڈپو اور آشیانے میں بٹ گی ہے، آشیانے کے دوستوں کو تعجب ہوتا ہے کہ گورمکھ زندہ کس طرح ہوتا ہے، اسے سنیما کا شوق ہے نہ سیر کا، اسے کسی چیز سے دلچسپی نہیں رہی ہے وہ تو گھر میں اکیلا بستر پر لیٹا رہتا ہے یا ڈپو میں کام کرتا ہے، گورمکھ نے خود کو تفریح سے انتقاما علیحدہ کر لیا ہے، جو شے اسے مکمل طور پر نہیں ملتی ہے، اس کے ایک حصے سے فائدہ نہ اٹھا کر اپنے اوپر تکلیف انڈیل کر وہ دنیا سے انتقام لیتا ہے، آشیانے کے دوست اس کی خود غرضی سے تنگ ہیں کہ وہ کسی کے کام نہیں آتا ہے، جب وہ آسانی سے مدد کر سکتا ہے تب بھی نہیں کرتا، آشیانے سے اسے نفرت کرتا ہے، اس لئے وہ اور سب کو ناپسند ہے گورمکھ کے پاس بھی اب صرف نفرت رہ گئی ہے اور تلخی وہ بھی سب سے جلتا ہے اور مہندر کو قرض دینے سے انکار کر کے چلا آیا تھا، اس سے امید ہی یہ تھی، وہ کیوں مہندر نے سوچا پھر اسے جھنجھلاہٹ ہوئی کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ نہیں دیگا، اس نے گورمکھ سے کیوں مانگا تھا وہ کیوں اتنا گر گیا تھا، کہ اپنے دل میں دوستی کے کسی جذبے کو محسوس کئے بغیر اس نے گورمکھ سے فائدہ اٹھانا چاہا تھا، یہ خیال گورمکھ کے انکار کرنے کے بعد اس چبھ رہا تھا، پہلے اس نے اس اسے ایک طرف ہٹا دیا تھا، لیکن اب وہ اس کیلئے ندامت محسوس کرہا تھا، اچانک اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کے جذبات پر ایک اور کی ملمع ہے اور اس کے نیچے وہ کمینہ ہے اور اسے خود غصہ آ رہا تھا، یہ بات اس کے ضمیر میں کھٹک رہی تھی، اس نے خو کو تسلی دی کہ ابھی ضمیر مردہ نہیں ہوا ہے اتنے عرصے سے واہ اسے بچاتا رہا ہے، لیکن آخر یہ ضمیر مردہ ہو جائے گا اور یہ قدرت بات ہو گی وہ حسب معمول سوچنے لگا، خیالات کے مطابق ڈھال لیتا ہے، کہ کمینہ پن، ذلت اور نائیٹ بنیادی طور پر انسان کی فطرت میں نہیں ہیں، اور حالات سنور جائیں تو انسان کی فطرت ان سے مبرا ہو جائے گی، وہ یہ سوچتا رہا اور اپنے قصور کا احساس اس کے ذہن سے دور ہوتا گیا، یہ نظام بدل جائے تو ابھی انسان کیلئے امید ہے، انسان پھر ایماندار، نیک اور امن پسند ہو سکتا ہے، دنیا پر ہر آن لرزتا ہوا یہ جنگ کا خطرہ ہو سکتا ہے طوائفیں پھر عورتیں بن سکتی ہیں اور پریتی۔۔۔۔ ۔۔؟
لیکن ابھی یہ نظام یونہی ہے ابھی پریتی کی محبت سکوں سے خریدی جائے گی اسے پریتی سے محبت ہے چاہے وہ سکوں کے ہی ذریعے کیوں نہ ہو اور اسے اپنانا چاہتا ہے اور وہ پریتی کو اپنا نہیں سکتا، شاید وہ شام کو نہیں جا سکتا، وہ شام کو نہیں جا سکتا، اب شام گزر چکی تھی کمرے میں روشنی کم ہو رہی تھی، اندھیرا بڑھ رہا تھا، آشیانے کے دوست باہر گئے ہوئے تھے، مہندر کو ایک رہائی کا احساس ہو رہا تھا، اس شکست کی حالت میں اس میں ہمت نہ تھی کہ ان نشتروں کو برداشت کر سکے آج اس کا جی چاہ رہا تھا کہ آشیانے کو چھوڑ کر چلا جائے، بمبئی کو چھوڑ دے، یہ خیال نیا نہ تھا، پہلے بھی کئی بار رہا آیا تھا، ناکام ہو کر گئی مرتبہ دل میں فرار کا جذبہ پیدا ہوا تھا، ناکام ہو کر گئی مرتبہ دل میں فرار کا جذبہ پیدا ہوتا تھا، ہمیشہ سے وہ اس ایک بزدلانہ قسم کی جذباتیات پر محمول کر کے مسکرادیا تھا، لیکن آج وہ مسکراہٹ ناپید تھی، آج وہ اس جگہ کو چھوڑنا چاہتا تھا اور در اصل یہاں سے جانانہ چاہتا تھا، ایک زیر نفسی ضد نے اسے بیزار کر دیا تھا، وہ نیم تاریک کمرے میں بستر پر نیم دراز پڑا رہا، مجھے تم سے عشق ہے، ممکن یہ سچ ہو، مگر وہ خالی جیب اس کے پاس نہیں جا سکتا تھا شاید اس حالت میں وہ پریتی کی نظر میں ایک بھکاری بن جائ ایک عاشق نہ رہے، وہ بیٹھا رہا اور وقت گزرتا گیا، پھر کسی نے دروازہ کھولا چیڑ جی اندر آ گیا، ابھی کیسے آئے مہندر نے مسکرا کر پوچھا، چیڑ جی اس کے ہاتھ میں دس دس روپے کے دو نوٹ گھما دئیے، یہ کیا ہے؟ مہندر سمجھ نہ سکا چیڑ جی ایک وقت کھانا کھاتا تھا، تمہیں روپے کی ضرورت ہے نا۔
مگر یہ تمہارے پاس روپے تھے؟ نہیں میں نے اپنی انگوٹھی گروی کر دی ہے، چیٹر جی نے مسکرر کر کہا، اس کی مسکراہٹ میں غم کی وہ پہلی لے کر تھی، جو دیر تک مہندر کے دل پر کھینچتی رہی، وہ انگوٹھی میں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا، مجھے ہوٹل والے کا بل دیتا تھا، وہ دونوں نوٹ اب تک مہندر کے ہاتھ میں لرز رہے تھے، اچانک مہندر کو محسوس ہوا کہ یہ نوٹ دو موتی ہیں، دو آنسو ہیں، خون کے دو قطرے ہیں اس نے نوٹ واپس چیٹر جی کے ہاتھ میں دے دیے، اس نے چاہا کہ چیٹر جی کو سینے سے لگائے مگر ایک عجیب سے حجاب کا احساس کر کے وہ یہ کر نہ سکا، اس نے صرف چیٹر کے کندھے پر ہاتھ رکھ دئیے تھے، مجھے ان کی ضرورت نہیں، اس نے مکسرانے کی کوشش میں کہا، انہیں تم اپنے پاس رکھوں تمہیں ضرورت ہو گی، اور چیٹر جی کو چھوڑ کر وہ بالکنی میں جا کھڑا ہوا، اب تک وہ چیٹر جی پر صرف رحم کرتا رہا تھا، آج اس کیلئے مہندر کے دل میں آنسوؤں سے ڈھلی ہوئی محبت پیدا ہو گئی، وہ جانتا ہے کہ چیٹر جی ہمیشہ زندگی کے درد میں شریک رہا ہے، اس نے خود خوشی کبھی نہیں دیکھی، کبھی راحت نہ اٹھائی چیڑ جی جواس کے بھائی نے فوٹو گرافی کا کام سکھایا تھا، بنگلا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اس کی دکان تھی، چیٹر جی اس قصبے کی دکان پر کام نہ کرنا چاہتا تھا، وہ زندگی میں عزت آرام اور خوشی چاہتا تھا، بمبئی کے ایک نگار خانے میں وہ کئی سال کا سیکھتا رہا اور سکی نے اسے کام نہیں سکھایا، وہ بنگالی تھا، یہاں گجراتی بنگالیوں سے نفرت کرتے تھے، مراہٹی گجراتیوں سے نفرت کرتے تھے، پنجابیوں سے نفرت کرتے تھے، یہ نفرت کی دنیا تھی، یہاں انسانی محبت نابود تھی چیٹرجی لیبارٹری کی بالٹیاں منجھونی یہ جاتی تھیں، اس سے قیلوں کی طرح کام لیا جاتا تھا، اور کوئی کچھ نہ بتاتا تھا، لیکن چیٹر جی نے ایک کتے کی طرح صبر سے کام لیا ایک جونک کی طرح غلاظت سے چمٹا رہا، لیکن اب کام سیکھنے کے بعد بھی اسے کوئی نہیں دیتا، کوئی اس کے کپڑے دیکھ کر بھوئیں چڑھا لیتا کوئی اسے بنگالی ہونے کی وجہ سے پاس نہیں آنے دیتا، چیٹر جی نے ٹھوکریں سہنا سیکھ لیا ہے اور وہ ہر ذلت ہر توہین ظلم برداشت کر لیتا ہے، وہ ایک وقت کھانا کھاتا ہے اور ہر ہفتے اس کا وزن کم ہو جاتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود اس کے دم میں یہ حسن کیسے رہ گیا، مہندر سوچ کیسے اس نے اپنے دل میں اس انسانیت کو بچا لیا، اس کا یہ فعل ہر اس شے کا حامل تھا جو انسان میں خوبصورت ہے، لیکن چیٹرجی کے روپے نہ لے سکتا تھا، وہ پریتی پر روپے صرف کرنا چاہتا تھا۔
روپوں کو پریتی پر صرف کر کے وہ ہمیشہ خود کو مجرم سمجھتا رہے گا، یہ نہیں ہو گا اور اس کے پاس روپیہ نہیں ہے، وہ پریتی سے نہیں ملے گا، اور اس کے دل میں پھر وہی غیر محدود گہرا اندھیرا چھا جائے گا، بالکنی میں کھڑا ہوا اور وہ سوچتا رہا، باہر اندھیرا ہوا گیا تھا، اور بوندیں پڑ رہی تھیں، لیمپ پوسٹ کی دھیمی روشنی میں گل بے رونق پڑی تھی اور بارش کی بوندیں متواتر گیلی زمین پر پڑ رہی تھیں، کیچڑ کی چھینٹیں اڑاتی ہوئی مالک مکان کی کار گلی میں داخل ہوئی اور آشیانے کے آگے رک گئی، آج ہفتے کی رات تھی، مالک مکان کار سے اترا پر اس نے عورت کو ہاتھ پکڑ کر نیچے اتارا یہ پریتی تھی۔۔۔۔ ایک لمحے کیلئے مہندر کو یقین نہیں آیا، یہ عورت جو مالک مکان کا ہاتھ پکڑ کر کار سے اتری تھی؟ پھر اسے یقین آ گیا، پریتی مالک مکان کے ساتھ اندر چلی گئی، مہندر بالکنی میں کھڑا رہا، کار سڑک پر کھڑی رہی، ایک پیہم تسلسل سے بارش کی بوندیں نیلی کار پر پڑ رہی تھیں، جیسے آنسو برس رہے ہوں۔
٭٭٭
پسماندگان
اس کا نام تو رحیم خان تھا مگر اس جیسا ظالم بھی شاید ہی کوئی ہو۔ گاؤں بھر اس کے نام سے کانپتا تھا۔ نہ آدمی پر ترس کھائے نہ جانور پر۔ ایک دن راہو کہار کے بچے نے اس کے بیل کی دم میں کانٹے باندھ دیے تو مارتے مارتے اس کو ادھ مُوا کر دیا۔ اگلے دن ذیلدار کی گھوڑی اس کے کھیت میں گھس آئی۔ لاٹھی لے کر اتنا مارا کہ لہولہان کر دیا۔ لوگ کہتے تھے کہ کم بخت کو خدا کا خوف بھی تو نہیں ہے، معصوم بچوں اور بے زبان جانوروں تک کو معاف نہیں کرتا۔ یہ ضرور جہنم میں جلے گا۔ مگر یہ سب اس کی پیٹھ کے پیچھے کہا جاتا، سامنے زبان ہلانے کی ہمت کوئی نہیں کرتا تھا۔
ایک دن بندو کی جو شامت آئی تو کہہ دیا ’’اے بھئی رحیم خان! تو کیوں بچوں کو مارتا ہے؟‘‘
رحیم نے بس اس غریب کی وہ درگت بنائی کہ اس دن سے لوگوں نے اس سے بات کرنی بھی چھوڑ دی کہ معلوم نہیں، کس بات پر بگڑ پڑے۔ بعض کا خیال تھا کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، اسے پاگل خانے بھیجنا چاہیے۔ کوئی کہتا تھا، اب کے کسی کو مارے تو تھانے میں رپٹ لکھوا دو۔ مگر کس کی مجال تھی کہ اس کے خلاف گواہی دے کر اس سے دشمنی مول لیتا۔
گاؤں بھر نے اس سے بات کرنی چھوڑ دی مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صبح سویرے وہ ہل کندھے پر دھرے اپنے کھیت کی طرف جاتا دکھائی دیتا۔ راستے میں کسی سے نہ بولتا، کھیت میں جا کر بیلوں سے آدمیوں کی طرح باتیں کرتا۔ اس نے دونوں کے نام رکھے ہوئے تھے۔ ایک کو کہتا نتھو، دوسرے کو چھدو۔ ہل چلاتے ہوئے بولتا جاتا۔ ’’کیوں بے نتھو! تو سیدھا نہیں چلتا؟ یہ کھیت آج تیرا باپ پورا کرے گا؟‘‘
یا ’’ابے چھدو! تیری بھی شامت آئی ہے کیا؟‘‘ اور پھر ان غریبوں کی شامت ہی آ جاتی۔ سوت کی رسی کی مار کے باعث دونوں بیلوں کی کمر پر زخم پڑ گئے تھے۔
شام کو گھر آتا تو وہاں اپنے بیوی بچوں پر غصہ اتارتا۔ دال یا ساگ میں نمک زیادہ ہے، تو بیوی کو ادھیڑ ڈالا۔ کوئی بچہ شرارت کر رہا ہے، اسے الٹا لٹکا کر بیلوں والی رسی سے مارتے مارتے بے ہوش کر دیا۔ غرض ہر روز ایک آفت بپا رہتی تھی۔ آس پاس کے جھونپڑوں والے روز رات کو رحیم خان کی گالیوں اور اس کی بیوی اور بچوں کی مار کھانے اور رونے کی آواز سنتے مگر بے چارے کیا کر سکتے تھے۔ اگر کوئی منع کرنے جائے تو وہ بھی مار کھائے۔
مار کھاتے کھاتے بیوی غریب تو ادھ موئی ہو گئی تھی۔ چالیس برس کی عمر میں ساٹھ کی معلوم ہوتی تھی۔ بچے جب چھوٹے چھوٹے تھے تو پٹتے رہے۔ بڑا جب بارہ برس کا ہوا، تو ایک دن مار کھا کر جو بھاگا تو واپس نہ لوٹا۔ قریب کے گاؤں میں رشتے کا ایک چچا رہتا تھا، اس نے اپنے پاس رکھ لیا۔
بیوی نے ایک دن ڈرتے ڈرتے کہا ’’بلاس پور کی طرف جاؤ‘ تو ذرا انور کو لیتے آنا۔‘‘
بس پھر کیا تھا‘ آگ بگولا ہو گیا۔ بولا ’’میں اس بدمعاش کو لینے جاؤں؟ اب وہ خود بھی آیا تو ٹانگیں چیر کر پھینک دوں گا۔‘‘
ظاہر ہے وہ بدمعاش کیوں موت کے منہ میں واپس آنے لگا تھا؟ دو سال بعد چھوٹا لڑکا بندو بھی بھاگ گیا اور بھائی کے پاس رہنے لگا۔
رحیم خان کے پاس غصہ اتارنے کے لیے فقط بیوی رہ گئی تھی، سو وہ غریب اتنی پٹ چکی تھی کہ اب عادی ہو چلی تھی۔ مگر ایک دن اس کو اتنا مارا کہ اس سے بھی نہ رہا گیا اور موقع پا کر جب رحیم خان کھیت پر گیا ہوا تھا، وہ اپنے بھائی کو بلا کر اس کے ساتھ اپنی ماں کے ہاں چلی گئی۔ ہمسائے کی عورت سے کہہ گئی ’’آئیں تو کہہ دینا کہ میں چند روز کے لیے اپنی ماں کے پاس رام نگر جا رہی ہوں۔‘‘
شام کو رحیم خان بیلوں کو لیے واپس آیا‘ تو پڑوسن نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ اس کی بیوی اپنی ماں کے ہاں چند روز کے لیے گئی ہے۔ رحیم خان نے خلاف معمول خاموشی سے بات سنی اور بیل باندھنے چلا گیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی بیوی اب کبھی نہیں آئے گی۔
احاطے میں بیل باندھ کر جھونپڑے کے اندر گیا تو ایک بلی میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔ کوئی اور نظر نہ آیا تو اس کی دم پکڑ کر دروازے سے باہر پھینک دیا۔ چولھا جا کر دیکھا تو ٹھنڈا پڑا ہوا تھا۔ آگ جلا کر روٹی کون ڈالتا؟ کچھ کھائے پیے بغیر ہی پڑ کر سو رہا۔
اگلے دن رحیم خان جب سو کر اٹھا تو دن چڑھ چکا تھا لیکن آج اسے کھیت پر جانے کی جلدی نہیں تھی۔ بکریوں کا دودھ دھو کر پیا اور حقہ بھر کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔ اب جھونپڑے میں دھوپ بھر آئی تھی۔ ایک کونے میں دیکھا تو جالے لگے ہوئے تھے۔ سوچا کہ لاؤ صفائی ہی کر ڈالوں۔ ایک بانس میں کپڑا باندھ کر جالے اتار رہا تھا کہ کھپریل میں ابابیلوں کا ایک گھونسلا نظر آیا۔ دو ابابیلیں کبھی اندر جاتی، کبھی باہر آتی تھیں۔
پہلے اس نے ارادہ کیا کہ بانس سے گھونسلا توڑ ڈالے، پھر معلوم نہیں کیا سوچا، ایک گھڑونچی لا کر اس پر چڑھا اور گھونسلے میں جھانک کر دیکھا۔ اندر لال بوٹی سے دو بچے پڑے چوں چوں کر رہے تھے اور ان کے ماں باپ اپنی اولاد کی حفاظت کے لیے اس کے سر پر منڈلا رہے تھے۔ گھونسلے کی طرف اس نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ مادہ ابابیل چونچ سے اس پر حملہ آور ہوئی۔
’’اری، آنکھ پھوڑے گی۔‘‘ اس نے خوفناک قہقہہ لگایا اور گھڑونچی سے اتر آیا۔ ابابیلوں کا گھونسلا سلامت رہا۔
اگلے دن سے وہ پھر کھیت جانے لگا۔ گاؤں والوں میں سے اب کوئی اس سے بات نہ کرتا۔ وہ دن بھر ہل چلاتا، پانی دیتا یا کھیتی کاٹتا لیکن شام کو سورج چھپنے سے کچھ پہلے ہی گھر آ جاتا۔ حقہ بھر کر پلنگ کے پاس لیٹ کر ابابیلوں کے گھونسلے کی طرف دیکھتا رہتا۔ اب دونوں بچے بھی اڑنے کے قابل ہو گئے تھے۔ اس نے ان دونوں کے نام اپنے بچوں کے نام پر نورو اور بندو رکھ دیے تھے۔ اب دنیا میں اس کے دوست یہ چار ابابیل ہی رہ گئے تھے لیکن لوگوں کو یہ حیرت ضرور تھی کہ مدت سے کبھی کسی نے اسے اپنے بیلوں کو مارتے نہیں دیکھا تھا۔ نتھو اور چھدو بھی خوش تھے۔ ان کی کمروں سے زخموں کے نشان بھی تقریباً غائب ہو گئے تھے۔
رحیم خاں ایک دن کھیت سے ذرا سویرے چلا آ رہا تھا کہ چند بچے سڑک پر کبڈی کھیلتے ہوئے ملے۔ اسے دیکھنا تھا کہ سب اپنے جوتے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہ کہتا ہی رہا ’’ارے میں کوئی مارتا تھوڑا ہی ہوں۔‘‘
آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ وہ جلدی جلدی بیلوں کو ہنکاتا ہوا گھر لایا۔ ابھی انہیں باندھا ہی تھا کہ بادل زور سے گرجا اور بارش شروع ہو گئی۔
اندر آ کر کواڑ بند کیے، چراغ جلا کر اجالا کیا اور حسب معمول باسی روٹی کے ٹکڑے کر کے ابابیلوں کے گھونسلے کے قریب ایک طاق میں ڈال دیے۔
’’ارے بندو! ارے بندو!‘‘ اس نے پکار کر کہا مگر وہ نہ نکلے۔ گھونسلے میں جو جھانکا تو چاروں اپنے پروں میں سر دیے بیٹھے تھے۔ عین جس جگہ چھت میں گھونسلا تھا، وہاں ایک سوراخ تھا اور بارش کا پانی ٹپک رہا تھا، اگر کچھ دیر یہ پانی اسی طرح آتا رہا، تو گھونسلا تباہ ہو جائے گا اور ابابیلیں بے چاری بے گھر ہو جائیں گی۔ یہ سوچ کر اس نے کواڑ کھولے اور موسلا دھار بارش میں سیڑھی لگا کر چھت پر چڑھ گیا۔
جب تک مٹی ڈال کر سوراخ بند کر کے وہ اترا، پانی میں شرابور ہو چکا تھا۔ پلنگ پر جا کر بیٹھا تو کئی چھینکیں آئیں مگر اس نے پروا نہ کی اور گیلے کپڑے نچوڑ چادر اوڑھ کر سو گیا۔ اگلے دن صبح اٹھا تو تمام بدن میں درد اور سخت بخار تھا۔ کون حال پوچھتا اور کون دوا لاتا؟ دو دن اسی حالت میں پڑا رہا۔
جب دو دن اسے کھیت پر جاتے ہوئے نہ دیکھا تو گاؤں والوں کو تشویش ہوئی۔ کالو ذیلدار اور کئی کسان شام کو اسے جھونپڑے میں دیکھنے آئے۔ جھانک کر دیکھا تو وہ پلنگ پر پڑا آپ ہی آپ باتیں کر رہا تھا۔ ’’ارے بندو! ارے نورو! کہاں مر گئے؟ آج کون کھانا دے گا۔‘‘
انہوں نے دیکھا کہ چند ابابیلیں کمرے میں پھڑپھڑا رہی تھیں۔
’’بے چارہ پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ کالو ذیل دار نے سر ہلا کر کہا۔ ’’صبح شفا خانے والوں کو پتہ دیں گے کہ پاگل خانے بھجوا دیں۔‘‘
اگلے دن صبح جب اس کے پڑوسی شفا خانے والوں کو لے کر آئے اور اس کے جھونپڑے کا دروازہ کھولا تو وہ مر چکا تھا۔ اس کے پائنتی پر چار ابابیلیں سر جھکائے خاموش بیٹھی تھیں۔
٭٭٭
ابابیل
اس کا نام تو رحیم خاں تھا مگر اس جیسا ظالم بھی شاید ہی کوئی ہو۔ گاؤں بھر اس کے نام سے کانپتا تھا۔ نہ آدمی پر ترس کھائے نہ جانور پر۔ ایک دن رامو لوہار کے بچے نے اس کے بیل کی دم میں کانٹے باندھ دیئے تھے تو مارتے مارتے اس کو ادھ موا کر دیا۔ اگلے دن ذیلدار کی گھوڑی اس کے کھیت میں گھس آئی تو لاٹھی لے کر اتنا مارا کہ لہولہان کر دیا۔ لوگ کہتے تھے کہ کمبخت کو خدا کا خوف بھی تو نہیں ہے۔ معصوم بچوں اور بے زبان جانوروں تک کو معاف نہیں کرتا۔ یہ ضرور جہنم میں جلے گا۔ مگر یہ سب اس کی پیٹھ کے پیچھے کہا جاتا تھا۔ سامنے کسی کی ہمت زبان ہلانے کی نہ ہوتی تھی۔ ایک دن بندو کی جو شامت آئی تو اس نے کہہ دیا، ’’ارے بھئی رحیم خاں تو کیوں بچوں کو مارتا ہے۔‘‘ بس اس غریب کی وہ درگت بنائی کہ اس دن سے لوگوں نے بات بھی کرنی چھوڑ دی کہ معلوم نہیں کس بات پر بگڑ پڑے۔ بعض کا خیال تھا کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ اس کو پاگل خانے بھیجنا چاہیئے۔ کوئی کہتا تھا اب کے کسی کو مارے تو تھانے میں رپٹ لکھوا دو۔ مگر کس کی مجال تھی کہ اس کے خلاف گواہی دے کر اس سے دشمنی مول لیتا۔
گاؤں بھرنے اس سے بات کرنی چھوڑ دی۔ مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صبح سویرے وہ ہل کاندھے پر دھرے اپنے کھیت کی طرف جاتا دکھائی دیتا تھا۔ راستے میں کسی سے نہ بولتا۔ کھیت میں جا کر بیلوں سے آدمیوں کی طرح باتیں کرتا۔ اس نے دونوں کے نام رکھے ہوئے تھے۔ ایک کو کہتا تھا نتھو، دوسرے کو چھدو۔ ہل چلاتے ہوئے بولتا جاتا، ’’کیوں بے ’نتھو‘ تو سیدھا نہیں چلتا۔ یہ کھیت آج تیرا باپ پورے کرے گا۔ اور ابے چھدو تیری بھی شامت آئی ہے کیا۔‘‘ اور پھر ان غریبوں کی شامت آ ہی جاتی۔ سوت کی رسی کی مار۔ دونوں بیلوں کی کمر پر زخم پڑ گئے تھے۔
شام کو گھر آتا تو وہاں اپنے بیوی بچوں پر غصہ اتارتا۔ دال یا ساگ میں نمک ہے، بیوی کو ادھیڑ ڈالا۔ کوئی بچہ شرارت کر رہا ہے، اس کو الٹا لٹکا کر بیلوں والی رسی سے مارتے مارتے بے ہوش کر دیا۔ غرض ہر روز ایک آفت بپا رہتی تھی۔ آس پاس کے جھونپڑوں والے روز رات کو رحیم خاں کی گالیوں، اس کے بیوی اور بچوں کے مار کھانے اور رونے کی آواز سنتے مگر بے چارے کیا کر سکتے تھے اگر کوئی منع کرنے جائے تو وہ بھی مار کھائے۔ مار کھاتے کھاتے بیوی غریب تو ادھ موئی ہو گئی تھی۔ چالیس برس کی عمر میں ساٹھ سال کی معلوم ہوتی تھی۔ بچے جب چھوٹے چھوٹے تھے تو پٹتے رہے۔ بڑا جب بارہ برس کا ہوا تو ایک دن مار کھا کر جو بھاگا تو پھر واپس نہ لوٹا۔ قریب کے گاؤں میں ایک رشتہ کا چچا رہتا تھا۔ اس نے اپنے پاس رکھ لیا۔ بیوی نے ایک دن ڈرتے ڈرتے کہا، ’’بلاس پور کی طرف جاؤ ذرا، نورو کو لیتے آنا۔‘‘ بس پھر کیا تھا آگ بگولہ ہو گیا۔ ’’میں اس بدمعاش کو لینے جاؤں۔ اب وہ خود بھی آیا تو ٹانگیں چیر کر پھینک دوں گا۔‘‘
وہ بدمعاش کیوں موت کے منہ میں واپس آنے لگا تھا۔ دو سال کے بعد چھوٹا لڑکا بندو بھی بھاگ گیا اور بھائی کے پاس رہنے لگا۔ رحیم خاں کو غصہ اتار نے کے لئے فقط بیوی رہ گئی تھی سو وہ غریب اتنی پٹ چکی تھی کہ اب عادی ہو چلی تھی۔ مگر ایک دن اس کو اتنا مارا کہ اس سے بھی نہ رہا گیا۔ اور موقع پا کر جب رحیم خاں کھیت پر گیا ہوا تھا وہ اپنے بھائی کو بلا کر اس کے ساتھ اپنی ماں کے ہاں چلی گئی۔ ہمسایہ کی عورت سے کہہ گئی کہ آئیں تو کہہ دینا کہ میں چند روز کے لئے اپنی ماں کے پاس رام نگر جا رہی ہوں۔
شام کو رحیم خاں بیلوں کو لئے واپس آیا تو پڑوسن نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ اس کی بیوی اپنی ماں کے ہاں چند روز کے لئے گئی ہے۔ رحیم خاں نے خلاف معمول خاموشی سے بات سنی اور بیل باندھنے چلا گیا۔ اس کو یقین تھا کہ اس کی بیوی اب کبھی نہ آئے گی۔
احاطے میں بیل باندھ کر جھونپڑے کے اندر گیا تو ایک بلی میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔ کوئی اور نظر نہ آیا تو اس کی ہی دم پکڑ کر دروازے سے باہر پھینک دیا۔ چولھے کو جا کر دیکھا تو ٹھنڈا پڑا ہوا تھا۔ آگ جلا کر روٹی کون ڈالتا۔ بغیر کچھ کھائے پئے ہی پڑ کر سو رہا۔
اگلے دن رحیم خاں جب سو کر اٹھا تو دن چڑھ چکا تھا۔ لیکن آج اسے کھیت پر جانے کی جلدی نہ تھی۔ بکریوں کا دودھ دوہ کر پیا اور حقہ بھر کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔ اب جھونپڑے میں دھوپ بھر آئی تھی۔ ایک کونے میں دیکھا تو جالے لگے ہوئے تھے۔ سوچا کہ لاؤ صفائی ہی کر ڈالوں۔ ایک بانس میں کپڑا باندھ کر جالے اتار رہا تھا کہ کھپریل میں ابابیلوں کا ایک گھونسلہ نظر آیا۔ دو ابابیلیں کبھی اندر جاتی تھیں کبھی باہر آتی تھیں۔ پہلے اس نے ارادہ کیا کہ بانس سے گھونسلہ توڑ ڈالے۔ پھر معلوم نہیں کیا سوچا۔ ایک گھڑونچی لا کر اس پر چڑھا اور گھونسلے میں جھانک کر دیکھا۔ اندر دو لال بوٹی سے بچے پڑے چوں چوں کر رہے تھے۔ اور ان کے ماں باپ اپنی اولاد کی حفاظت کے لئے اس کے سر پر منڈ لا رہے تھے۔ گھونسلے کی طرف اس نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ مادہ ابابیل اپنی چونچ سے اس پر حملہ آور ہوئی۔
’’اری، آنکھ پھوڑے گی‘‘ اس نے اپنا خوفناک قہقہہ مار کر کہا۔ اور گھڑونچی پر سے اتر آیا۔ ابابیلوں کا گھونسلہ سلامت رہا۔
اگلے دن سے اس نے پھر کھیت پر جانا شروع کر دیا۔ گاؤں والوں میں سے اب بھی کوئی اس سے بات نہ کرتا تھا۔ دن بھر ہل چلاتا، پانی دیتا یا کھیتی کاٹتا۔ لیکن شام کو سورج چھپنے سے کچھ پہلے ہی گھر آ جاتا۔ حقہ بھر کر پلنگ کے پاس لیٹ کر ابابیلوں کے گھونسلے کی سیر دیکھتا رہتا۔ اب دونوں بچے بھی اڑنے کے قابل ہو گئے تھے۔ اس نے ان دونوں کے نام اپنے بچوں کے نام پر نورو اور بندو رکھ دئیے تھے۔ اب دنیا میں اس کے دوست یہ چار ابابیل ہی رہ گئے تھے۔ لیکن ان کو یہ حیرت ضرور تھی کہ مدت سے کسی نے اس کو اپنے بیلوں کو مارتے نہ دیکھا تھا۔ نتھو اور چھدو خوش تھے۔ ان کی کمروں پر سے زخموں کے نشان بھی تقریباً غائب ہو گئے تھے۔
رحیم خاں ایک دن کھیت سے ذرا سویرے چلا آ رہا تھا کہ چند بچے سڑک پر کبڈی کھیلتے ہوئے ملے۔ اس کو دیکھنا تھا کہ سب اپنے جوتے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہ کہتا ہی رہا۔ ’’ارے میں کوئی مارتا تھوڑا ہی ہوں۔‘‘ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ جلدی جلدی بیلوں کو ہانکتا ہوا گھر لایا۔ ان کو باندھا ہی تھا کہ بادل زور سے گرجا اور اور بارش شروع ہو گئی۔
اندر آ کر کواڑ بند کئے اور چراغ جلا کر اجالا کیا۔ حسب معمول باسی روٹی کے ٹکڑے کر کے ابابیلوں کے گھونسلے کے قریب ایک طاق میں ڈال دئیے۔ ’’ارے او بندو۔ ارے او نورو‘‘ پکارا مگر وہ نہ نکلے۔ گھونسلے میں جو جھانکا تو چاروں اپنے پروں میں سردئیے سہمے بیٹھے تھے۔ عین جس جگہ چھت میں گھونسلہ تھا وہاں ایک سوراخ تھا اور بارش کا پانی ٹپک رہا تھا۔ اگر کچھ دیر یہ پانی اس طرح ہی آتا رہا تو گھونسلہ تباہ ہو جائے گا اور ابابیلیں بے چاری بے گھر ہو جائیں گی۔ یہ سوچ کر اس نے کواڑ کھولے اور موسلا دھار بارش میں سیڑھی لگا کر چھت پر چڑھ گیا۔ جب تک مٹی ڈال کر سوراخ کو بند کر کے وہ اترا تو شرابور تھا۔ پلنگ پر جا کر بیٹھا تو کئی چھینکیں آئیں۔ مگر اس نے پرواہ نہ کی اور گیلے کپڑوں کو نچوڑ چادر اوڑھ کر سو گیا۔ اگلے دن صبح کو اٹھا تو تمام بدن میں درد اور سخت بخار تھا۔ کون حال پوچھتا اور کون دوا لاتا۔ دو دن اسی حالت میں پڑا رہا۔
جب دو دن اس کو کھیت پر جاتے ہوئے نہ دیکھا تو گاؤں والو کو تشویش ہوئی۔ کالو ذیلدار اور کئی کسان شام کو اس کے جھونپڑے میں دیکھنے آئے۔ جھانک کر دیکھا تو پلنگ پر پڑا آپ ہی آپ باتیں کر رہا تھا۔ ’’ارے بندو۔ ارے نورو۔ کہاں مر گئے۔ آج تمہیں کون کھانا دے گا۔‘‘ چند ابابیلیں کمرے میں پھڑ پھڑا رہی تھیں۔
’’بے چارہ پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ کالو زمیندار نے سر ہلا کر کہا۔ ’’صبح کو شفا خانہ والوں کو پتہ دیں گے کہ پاگل خانہ بھجوا دیں۔‘‘
اگلے دن صبح کو جب اس کے پڑوسی شفا خانہ والوں کو لے کر آئے اور اس کے جھونپڑے کا دروازہ کھولا تو وہ مر چکا تھا۔ اس کی پائنتی چار ابابیلیں سر جھکائے خاموش بیٹھی تھیں۔
٭٭٭
کھدر کا کفن
تیس برس کی بات ہے جب میں بالکل بچّہ تھا۔ ہمارے پڑوس میں ایک غریب بوڑھی رہتی تھی۔ اس کا نام تو حکیمن تھا مگر لوگ اُسے حکّو کہہ کر پُکارتے تھے۔ اس وقت شاید ساٹھ برس کی عمر ہو گی، جوانی میں ہی ودھوا ہو گئی تھی اور عمر بھر اپنے ہاتھ سے کام کر کے اپنے بچوں کو پالا تھا۔ بوڑھی ہو کر بھی وہ سورج نکلنے سے پہلے اٹھتی تھی۔ گرمی ہو یا جاڑا۔ ابھی ہم اپنے اپنے لحافوں میں دبکے پڑے ہوتے کہ اس کے گھر سے چکّی کی آواز آنی شروع ہو جاتی۔ دن بھر جھاڑو دیتی، چرخہ کاتتی، کپڑا بنتی، کھانا پکاتی، اپنے لڑکے لڑکیوں، پوتے نواسوں کے کپڑے دھوتی۔ اس کا گھر بہت ہی چھوٹا تھا۔ ہمارے اتنے بڑے آنگن والے گھر کے مقابلے میں وہ جوتے کے ڈبّے جیسا لگتا تھا۔ دو کوٹھریاں، ایک پتلا سا دالان اور نام کے واسطے دو تین گز لمبا چوڑا صحن مگر اتنا صاف ستھرا اور ایسا لِپا پُتا رکھتی تھی کہ سارے محلے میں مشہور تھا کہ حکّو کے گھر کے فرش پر کھیلیں بکھیر کر کھاسکتے ہیں۔ صبح سویرے سے لے کر رات گئے تک وہ کام کرتی تھی پھر بھی جب کبھی حکّو ہمارے گھر آتی ہم اسے ہشّاش ہی پاتے۔ بڑی ہنس مکھ تھی وہ۔ مجھے اس کی صورت اب تک یاد ہے۔ گہرا سانولا رنگ جس پر اُس کے سفید بگلا سے بال خوب کھلتے تھے۔ اس کی کاٹھی بڑی مضبوط تھی۔ اس کی کمر مرتے دم تک نہیں جھکی۔ آخر دنوں میں کئی دانت ٹوٹ گئے تھے جس سے بولنے میں پوپلے پن کا انداز آ گیا تھا۔ بڑے مزے کی باتیں کرتی تھی اور جب ہم بچّے اسے گھیر لیتے تو کبھی تین شہزادوں، کبھی سات شہزادوں، کبھی جِنوں اور پریوں کی کہانی سناتی………… وہ پردہ نہیں کرتی تھی۔ اپنا سارا کاروبار خود چلاتی تھی۔ حکّو پڑھی لکھی بالکل نہیں تھی، نہ اُس نے عورتوں مردوں کی برابری کا اصول سنا تھا، نہ جمہوریت نہ اشتراکیت کا، پھر بھی حکّو نہ کسی مرد سے ڈرتی تھی نہ کسی امیر، رئیس، افسر اور داروغہ سے ڈرتی تھی۔ حکّو نے عمر بھر محنت کر کے اپنے بال بچّوں کے لیے بہت پیسے جمع کیے تھے۔ بے چاری نے بینک کا تو نام نہ سنا تھا۔ اس کی ساری پونجی (جو شاید سو دو سو روپے ہو، ) چاندی کے گہنوں کی شکل میں اس کے کانوں، گلے اور ہاتھوں میں پڑی ہوئی تھی۔ چاندی کی بالیوں سے اُس کے جھکے ہوئے کان مجھے اب تک یاد ہیں۔ ان گہنوں کو وہ جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتی تھی۔ کیوں کہ یہ ہی اُس کے بڑھاپے کا سہارا تھے۔ مگر ایک دن سب محلے والوں نے دیکھا نہ حکّو کے کان میں بالیاں ہیں، نہ اُس کے گلے میں ہنسلی، نہ اُس کے ہاتھوں میں کڑے اور چوڑیاں پھر بھی اُس کے چہرے پر وہی پرانی مسکراہٹ تھی اور کمر میں نام کو بھی خم نہیں۔ ہوا یہ کہ ان دنوں مہاتما گاندھی، علی برادران کے ساتھ پانی پت آئے۔ ہمارے نانا کے مکان میں انھوں نے تقریریں کیں۔ ترکِ موالات اور سوراج کے بارے میں حکو بھی ایک کونے میں بیٹھی ہوئی سنتی رہی۔ بعد میں چندہ جمع کیا تو اس نے اپنا سارا زیور اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیا اور اس کی دیکھا دیکھی اور عورتوں نے بھی اپنے اپنے زیور اتار کر چندے میں دے دیے۔ اس دن سے حکّو ’’خلافتی‘‘ ہو گئی۔ ہمارے ہاں آ کر نانا ابّا سے خبریں سنا کرتی اور اکثر پوچھتی…………. یہ انگریزوں کا راج کب ختم ہو گا؟‘‘ خلافت یا کانگریس کے جلسے ہوتے تو ان میں بڑے چاؤ سے جاتی اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق سیاسی تحریک کو سمجھنے کی کوشش کرتی……… مگر عمر بھر کی محنت سے اس کا جسم کھوکھلا ہو چکا تھا۔ پہلے آنکھوں نے جواب دیا، پھر ہاتھ پاؤں نے حکّو نے گھر سے نکلنا بند کر دیا مگر چرخہ کاتنا نہ چھوڑا۔ عمر بھر کی مشق کے سہارے آنکھوں بغیر بھی کپڑا بُن لیتی۔ بیٹوں، پوتوں نے منع کیا تو اس نے کہا کہ وہ یہ کھدّر اپنے کفن کے لیے بُن رہی ہے۔ پھر حکّو مر گئی۔ اس کی آخری وصیت یہ تھی کہ ’’مجھے میرے بنے ہوئے کھدر کا کفن دینا۔ اگر انگریزی کپڑے کا دیا تو میری روح کو کبھی چین نصیب نہ ہو گا۔‘‘ ان دنوں کفن لٹھّے کے دیے جاتے تھے کھدّر کا پہلا کفن حکو کو ہی ملا۔ اس کا جنازہ اٹھا تو اس کے چند رشتے دار اور دو تین پڑوسی تھے۔ نہ جلوس نہ پھول نہ جھنڈے بس ایک کھدّر کا کفن۔
٭٭٭
نیلی ساڑی
بمبئی: چونتیس کم عمر لڑکیاں تین قحبہ خانوں میں سے پچھلے ہفتے برآمد کی گئیں۔ ان میں سے تین کے چہرے کو ایذا پہچانے کے لیے تیزاب سے جلا دیا گیا تھا۔ پولیس نے پانچ عورتوں کو رنڈی خانوں کو چلانے اور طوائفوں کی آمدنی پر رہنے کے جرم میں گرفتار کر لیا ہے۔ (ایک خبر)
حضور۔ میں سچ کہوں گی، سب سچ کہوں گی اور سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گی۔ مگر وقت ہے آپ کے پاس اور آپ کے سماج کے پاس میری باتیں سننے کے لیے؟
میر انام سلیمہ ہے۔ میرے والد کا نام۔ خدا ان کی مغفرت کرے کریم بخش تھا۔ میرے والد کیا کرتے تھے۔ سچی بات یہ حضور کہ وہ کچھ نہیں کرتے تھے۔ کسی زمانے میں زمیندار تھے۔ بعد میں جب زمینوں پر سیلنگ لگی تو ان کے بدلے میں جو معاوضے کے کاغذات ملے ان کو بیچ کر کھاتے رہے۔
میری جائے پیدائش شکوہ آباد کی ہے۔
شکوہ آباد یوپی کا ایک قصبہ ہے۔ آگرے کا قصبہ کیا ہے پرانے کھنڈر جیسے مکانوں کا ایک مجموعہ ہے۔
انہیں میں سے ایک کھنڈر جیسے مکان میں میرا جنم ہوا تھا۔
میری ماں میری پیدائش کا بوجھ برداشت نہ کر سکیں۔ میرے پیدا ہوتے ہی مر گئیں بیچاری۔ پھر میرے والد نے دوسری شادی کر لی۔
میری سوتیلی ماں کا نام کریمن تھا۔ وہ ذات کی نائن تھی۔ مگر شکل و صورت کی ذرا اچھی تھی۔ جب ہی تو میرے والد نے بیوی کے مرنے کے دو مہینے بعد ہی اس سے نکاح پڑھوا لیا۔ محلے والے یہ بھی کہتے تھے کہ ان کا معاملہ کریمن کے ساتھ پہلے سے چل رہا تھا۔
کریمن میری سوتیلی ماں ضرور تھی مگر ایمان کی بات یہ ہے حضور کہ اس نے کبھی سوتیلی ماں جیسا سلوک نہیں کیا مجھ سے۔ اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس لیے مجھے اسکول پڑھنے بھیجا۔ وہ مجھے ہمیشہ سنیما ساتھ لے جاتی تھی اور ہر طرح کے ناز اٹھاتی تھی۔
جب تک میں پندرہ برس کی ہوئی تو سنیما کی پکی شوقین بن چکی تھی۔ سچ بات یہ ہے کہ شکوہ آباد جیسے مردہ قصبے میں اور کوئی تفریح کی جگہ بھی تو نہیں تھی۔ جب تک میں کوئی فلم دیکھتی رہتی تو ایسا لگتا کہ میں دوسری دنیا میں ہوں۔ ایک حسین رومانی دنیا جس میں سب مرد خوبصورت تھے۔ نہ صرف ہیرو بلکہ ویلن بھی۔۔۔ اور سب عورتیں اور لڑکیاں حسین تھیں اور سب نے اچھے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ فلموں سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ حضور مگر خاص طور سے یہ سیکھا کہ اپنی زندگی کی کٹھنائیوں اور محرومیوں سے سنیما کے اندھیرے میں کیسے بچا جا سکتا ہے اور کچھ بھی سیکھا۔ مثلاً ہیروئن کی طرح کپڑے پہننا۔ ان کے جیسے بال بنوانا یا کٹوانا۔ اس زمانے میں میرا ما تھا بھی بڑا تھا اور فرنج یعنی کٹے ہوئے بالوں کی جھالر میرے چہرے پربھی اچھی لگتی تھی۔
اگلے دن ہی میرے خالہ زاد بھائی محمود علی نے جو مجھ سے عمر میں پانچ چھ برس بڑے ہوں گے، پہلی ہی جھلک میں پہچان لیا کہ میں نے ’’لو ان شملہ‘‘ دیکھ کر ہی اپنے بال کاٹے ہیں۔ اس لیے وہ ہلکے سے مذاق میں کہنے لگے ’’کیوں سلیمہ ’ لو ان شملہ‘ تو دیکھا ’لو ان شکوہ آباد‘ کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘ اتنی بے شرمی کی بات سن کر میرا سارا چہرہ گلابی ہو گیا۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دوں؟ میں جلدی سے وہاں سے بھاگ گئی۔ محمود بھائی بھی دو چار پھبتیاں کس کر وہاں سے چلے گئے۔ ہاں جاتے جاتے اتنا کہہ گئے کہ وہ دو دن کے بعد علی گڑھ جا رہے ہیں۔ کسی کو سنیما چلنا ہو تو ان کے ساتھ وہ کل چل سکتا ہے۔ میں نے اماں سے پوچھا۔ میں کریمن کو اماں کہتی تھی ’’چلو گی اماں؟‘‘اماں نے کوئی بہانہ کر دیا۔ ابا تو سنیما جانے کو تیار نہیں تھے۔ اماں نے کہا ’’اپنے گھر کاہی تو لڑکا ہے تو اس کے ساتھ چلی جا۔ برقع اوڑھ کے‘‘۔
اگلے دن میں محمود بھائی کے ساتھ سنیما ہو لی۔ رات کا وقت تھا۔ وہ بھی آخری دسمبر کی رات۔ کڑاکے کی سردی تھی۔ تانگے میں بیٹھی تو محمود بھائی پاس بیٹھے تھے۔ ان کا ہاتھ نہ جانے کس طرح میرے برقعے کے اندر آ گیا۔ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بولے ’’افو تمہارے ہاتھ تو بالکل ٹھنڈے ہو رہے ہیں ‘ اور اپنے ہاتھوں کی گرمی مجھے پہنچاتے رہے۔ تھوڑی دیر میں میرے ہاتھ بھی ان کے ہاتھوں کی طرح جلنے لگے۔
سنیما آ گیا تو وہ تانگے والے کو پیسے دے کر مجھے اندر ہال میں لے چلے۔ میں حیران رہ گئی۔ جب میں نے دیکھا انہوں نے ایک باکس ریزرو کر رکھا تھا۔ یہاں ہم دونوں اکیلے تھے۔ اس لیے فلم شروع ہونے پر محمود بھائی نے میرا برقع اتار دیا اور آہستہ آہستہ ان کا بازو میرے گرد حمائل ہو گیا۔ فلم کافی بکواس تھی مگر ہیرو ہیروئن کی محبت کے بہت سین تھے جو میرے لیے کافی دلچسپی رکھتے تھے۔
جو نکتے میری سمجھ میں نہیں آتے تھے، محمود بھائی کا ہاتھ میری تربیت کرتا رہا۔ ایک سین تھا جس میں ہیروئن گر پڑتی ہے۔ ہیرو گھبرا کر بھاگتا ہے اور زمین پر بیٹھ کر پوچھتا ہے۔
’’چوٹ لگی ہے؟‘‘
ہیروئن منہ بنا کر کہتی ہے ’’بہت لگی ہے‘‘۔
’’کہاں‘‘ ہیرو پوچھتا ہے۔
’’یہاں‘‘ وہ ٹخنے کی طرف اشارہ کر کے جواب دیتی ہے۔ وہ ٹخنہ دبانے لگتا ہے۔
پھر وہ کہتی ہے ’’یہاں‘‘ اور گھٹنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
وہ گھٹنا دبانے لگتا ہے۔
پھر وہ کہتی ہے ’’نہیں۔ وہاں نہیں۔۔۔ یہاں‘‘
’’کہاں‘‘ وہ پوچھتا ہے۔
وہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے جواب دیتی ہے ’’یہاں‘‘۔
ہیرو کے ہاتھ بے اختیار سینے کی طرف بڑھتے ہیں۔۔۔ بڑھتے ہیں پھر ایک دم رک جاتے ہیں۔ مگر محمود بھائی کا ہاتھ نہیں رکا اور میں نے بھی لذت بھرے درد کو محسوس کر کے اپنی آنکھیں زور سے بھینچ لیں۔
اگلے دن تو محمود بھائی علی گڑھ چلے گئے اور میں ان کی یاد کو سینے سے لگائے اسکول چلی گئی۔ اسکول سے لوٹی تو دروازے پر ہی میں نے برقع اتارا اور اندر گھس رہی تھی کہ بندو سقے سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ وہ اندر سے خالی مشک کندھے پر لٹکائے باہر نکل رہا تھا اور میں اندر جا رہی تھی۔ ہم دونوں کا معانقہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ دو پل کے لیے ہم ایک دوسرے کے مقابل ٹھٹھک کر رہ گئے۔ میں نے دیکھا کہ سقے کا لونڈا مجھ سے ذرا ہی بڑا تھا اور جس کے ابھی مونچھیں بھی نہ نکلی تھیں، منہ پھاڑے میری طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے۔ میں بھلا سقے کے لونڈے کو کب خاطر میں لانے لگی تھی۔ پھر بھی گھبراہٹ میں اس کو دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ پھر چوکنی ہو کر اندر چلی گئی اور یہ واقعہ دوپہر کے سناٹے میں کھویا رہا۔ کسی نے ہم کو دیکھا نہیں تھا لیکن نشہ حسن میں ڈوبی ہوئی میری خوشی کا کیا ٹھکانہ کہ کل محمود بھائی جس صورت پر مر مٹے تھے، آج اس صورت کو دیکھ کر ایک سانولا سلونا سقے کا لونڈا گھن چکر ہو گیا تھا۔
سقے کے لونڈے کو میں کب منہ لگانے والی تھی مگر مجھے یہ اچھا لگتا تھا کہ میرے حسن کے پجاریوں میں ایک کا اور اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد جب بھی مجھے موقع ملتا میں کسی نہ کسی بہانے سے بندو کے سامنے آ جاتی یا اسے اپنی ایک جھلک دکھا کر فوراً پردہ کر لیتی جیسے غلطی سے سامنا ہو گیا ہو۔ وہ بے چارہ تو یہ امید ہی کبھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ معاملہ آگے بڑھے گا۔ ایک شریف زادی سے چھیڑ چھاڑ کی پاداش میں ابا اسے مار مار کے ادھ موا نہ کر ڈالتے۔ مگر اس آنا کانی میں مجھے بڑا مزہ آتا۔ وہ مرے یا جیے مجھے کیا غرض؟
گرمیوں کی چھٹی میں محمود بھائی پھر شکوہ آباد آئے۔
کبھی خالہ اماں کے گھر جانے کے بہانے ہم ان کے ہاں ملتے۔ کبھی کچھ نہ کچھ بہانہ نکال کر وہ ہمارے ہاں آ جاتے۔ کبھی سنیما ہم اماں کو ساتھ لے کر چلے جاتے اور کبھی کبھی ہم خود ہی سنیما چلے جاتے۔ اس دن میں نیلی ساڑی پہنی، نیلا میرا محبوب رنگ تھا اور محمود کو بھی بے حد پسند تھا اور تب ’’باکس‘‘ میں بیٹھ کر ہی پکچر دیکھتے۔ بلکہ پکچر برائے نام ہی دیکھی جاتی۔
ایک بار وہ سقے کا لونڈا بندو ہمیں وہاں مل گیا اور میں نے محمود بھائی سے کہہ دیا کہ وہ بیچارہ میرا شکار ہو گیا ہے۔
’’بہت خوب‘‘ محمود بھائی بولے ’’تو شادی کر ڈالو‘‘۔
’’اس سے شادی کرے میری جوتی‘‘۔
’’پھرکس سے شادی کرو گی؟‘‘
’’آپ کو معلوم ہے‘‘۔ میں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بالکل ہیروئن والے انداز میں کہا۔
’’پھر تو اماں سے بات کرنی ہی پڑے گی‘‘۔ وہ ہنس کر بولے۔
اور میں نے ان کے بازو میں گھس کر کچھ کھسرپھسر کی۔
’’سچ! پھر تو دیر نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
’’ہاں محمود۔ ورنہ میں مر جاؤں گی‘‘۔
’’ارے مریں تمہارے دشمن‘‘۔
اس سے تیسرے دن محمود ہمارے گھر آیا اور ابا کو بیٹھک میں دیکھ کر اور اماں کو سوتا پا کر مجھ سے آہستہ سے بولے ’’اماں انکار کر رہی ہیں‘‘۔
’’کیوں؟ مجھ میں کیا برائی ہے؟‘‘
’’تم میں کچھ برائی نہیں ہے۔ مگر اماں کہتی ہیں خالہ کریمن نائی خاندان سے ہیں۔ سقے نائیوں میں پٹھان لوگ شادی کرنا نہیں چاہتے‘‘۔
’’سقے نائیوں کا ذکر کیوں کیا؟‘‘
’’آہستہ بولو! اماں اٹھ جائیں گی۔ سقوں میں شادی کرنے کے تم بھی خلاف ہو۔ ہونا؟‘‘
’’ہائے اللہ اب کیا ہو گا؟ مجھے تو ابھی سے ابکائیاں آنے لگی ہیں۔ نہ جانے کب بھانڈا پھوٹ جائے‘‘۔
’’فکر کیوں کرتی ہو میری جان؟ ہم تو ابھی نہیں مرے۔ بس دو چار دن انتظار کرو۔ پھر میں کوئی ترکیب نکالتا ہوں‘‘۔
اور وہ چلا گیا۔
اس کے بعد میں اس سے کبھی نہیں ملی تین دن بعد جب بندو پانی کی مشک ڈالنے آیا تو نظر بچا کر ایک لفافہ میرے پاس سے گزرتے ہوئے ڈال گیا۔ اس کی یہ ہمت؟ میں نے سوچا۔ مگر خط کے اوپر پتا محمود کی لکھائی میں تھا۔
میں نے اپنے کمرے میں دروازہ بند کر کے لفافہ کھولا۔ اندر بس تین سطریں تھیں۔
’’جان من۔ آج تم آدھی رات کے بعد کسی ٹرین سے آگرہ آ جاؤ‘‘۔
میں وہاں تمہیں ملوں گا۔ وہاں میں نے قاضی کا انتظام کر رکھا ہے۔
تمہارا محمود
نوٹ: ’’نیلی ساری پہننا‘‘
میں نے خط کو کئی بار پڑھا۔ بالکل ’’مسلم سوشل‘‘ کی فلمی سچویشن تھی۔ میں نے بھی ویسی ہی تیاری کی جیسی مسلم سوشل فلم کی ہیروئن کرتی ہے۔
دو تین جوڑے کپڑے نکالے جو میرے پاس بہترین تھے۔ کاٹن کی نیلی ساری رات کو پہننے کے لیے نکالی۔ جو زیور بھی میرے پاس تھے ان کو اٹیچی میں رکھا اور سردرد کا بہانہ کر کے سویرے ہی سے لیٹ رہی۔
گرمی کی راتیں تھیں اور چبوترے پر میرے والد اور والدہ سورہے تھے۔ میں نیچے صحن میں اپنے پلنگ پر پڑی تھی۔ پاس ہی بوڑھیا فتو اپنی کھاٹ پر بے ہوش پڑی تھی۔ ہوش میں ہوتی بھی تو کیا کرتی۔ بیچاری بہری تھی اور آنکھوں میں موتیا بند اترا ہوا تھا۔ سو جب رات کے بارہ بجے تو میں چپکے سے اٹھی۔ کوٹھری میں جا کر نیلی ساری پہنی۔ برقع اوڑھا۔ اٹیچی کیس ہاتھ میں لیا اور (ننگے پاؤں جوتیاں ہاتھ میں اٹھائے ہوئے تھے) باہر نکل گئی۔
گلی کے موڑ پر پہنچی تھی کہ سامنے بندو کھڑا دکھائی دیا۔ یہ کمبخت یہاں اس وقت کیا کر رہا تھا؟ پاس گئی تو دیکھا کہ وہ تو میرے راستے میں اڑا کھڑا ہے۔ ’’بی بی جی۔ آپ اس وقت کہاں جا رہی ہیں؟‘‘
’’تم کون ہوتے ہو مجھ سے سوال جواب کرنے والے؟‘‘
’’یہ سمجھ لیجئے کہ آپ کے خاندان کا نمک کھایا ہے۔ اس نمک کا حق پورا کر رہا ہوں۔ بی بی جی واپس چلی جائیے‘‘۔
میں برقع میں سے منہ نکالے دراتی ہوئی سیدھی چلی گئی۔ آخر وقت پر وہ راستے سے ہٹ گیا۔۔۔
’’بی بی جی۔۔۔ مت‘‘۔ وہ وہیں کھڑا تھا اس لیے اس کی آواز پوری نہ آئی۔۔۔
’’بی بی جی۔۔۔‘‘
’’بی بی۔۔۔‘‘
پھر وہ آواز جو شاید میرے ہی ضمیر کی آواز تھی۔ آنا بند ہو گئی۔
اسٹیشن پہنچ کر میں نے دو بجے والی گاڑی سے آگرہ کا ٹکٹ خریدا اور ایک زنانہ درجے میں بیٹھ گئی۔
آگرہ پر حسب وعدہ محمود میرا انتظار کر رہا ہو گا۔ انتظار کی گھڑیاں بھی کتنی دلچسپ ہوتی ہیں، وہاں وہ میرے انتظار میں اسٹیشن کی گھڑی دیکھ رہا ہو گا کہ چار بجیں اور گاڑی وہاں پہنچے۔ اور یہاں میں بھی اسی انتظار کا شکار ہوں اور چلتی ہوئی ٹرین کے بند شیشے میں سے مستقبل کی جھلکیاں مجھے نظر آ رہی تھیں۔
گاڑی آگرہ اسٹیشن پر پہنچتی ہے۔
چلتی ہی گاڑی میں سے میری نظریں دراز قامت محمود کو ڈھونڈھ نکالتی ہیں۔
’’محمود‘‘ میں آواز دیتی ہوں۔
وہ ہلکی ہوتی ہوئی ٹرین کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگتا ہے۔ ڈنڈا پکڑ کر درجے میں گھس آتا ہے۔ سب لوگوں کے سامنے بھینچ کر مجھے گلے لگا لیتا ہے۔
’’سلیمہ! میری اچھی سلیمہ! تم آ گئیں نا؟‘‘
اس کی ایک دن کی بڑھی ہوئی داڑھی مجھے اپنے گالوں پر اچھی لگتی ہے۔
گاڑی ٹھہر جاتی ہے۔
وہ میرا اٹیچی کیس سنبھالتا ہے۔ مجھے پلیٹ فارم پر اتارتا ہے۔ گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے کان میں کہتا ہے ’’قاضی جی۔ ہمارا بے چینی سے انتظار کر رہے ہوں گے۔ پورے سو روپے کا وعدہ کیا ہے ان کو دوں گا اس بے وقت کی شادی کا‘‘۔
ہم ٹیکسی میں بیٹھے اور ٹیکسی گھڑ گھڑ کرتی ہوئی روانہ ہو گئی۔
رات کے دھندلکے میں شہر کی روشنیاں عجیب عجیب لگ رہی تھیں اور ٹیکسی ایسی چلتی ہے جیسے ریل چل رہی ہو۔ کیا لوہے کے پہیے لگے ہیں اس میں۔
ارے یہ سب تو میرا تخیل تھا۔ ابھی تو میں ٹرین ہی میں تھی اوراس کی گھڑگھڑاہٹ میرے کانوں میں۔ باہر آگے کے شہر کی دھندلی روشنیاں ہلکی ہوتی ہوئی ٹرین میں سے دکھائی دے رہی تھیں۔ اس بار ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ ٹھہر گئی۔
میں نے نیچے اترنے کے بعد پہلے جھانک کر دیکھا۔ مسافروں کی بھیڑ بھاڑ میں کوئی ترکی ٹوپی پہنے ہوئے دوسرے سروں کے اوپر سے جھانکتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔ اترنے والے مسافر، چڑھنے والے مسافر، خونچے والے ریلوے بابو گھمسان کا عالم تھا۔ کوئی تعجب نہیں کہ اس بھیڑ میں کوئی کھو جائے۔
میں جان کر کھلے دروازے میں کھڑی رہی تاکہ میں خود بھیڑ میں نہ کھو جاؤں اور محمود کو دور سے دیکھ کر پہچان جاؤں۔ مگر ٹرین چلنے لگی اور محمود نہ آیا۔ میں چلتی گاڑی سے اتر گئی۔ اب پلیٹ فارم تقریباً خالی ہو چکا تھا۔
دور دور تک مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔۔۔
سوائے ایک پستہ قد آدمی کے جو مجھے گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ جو شاید اسی طرح ہر اکیلی لڑکی کو گھور کر دیکھتا ہو گا۔ میں جلدی جلدی قدم بڑھاتی ہوئی زنانہ ویٹنگ روم میں داخل ہو گئی۔ سوچا محمود کو بھی شاید کہیں دیر لگ گئی ہو گی۔ چند منٹ میں آتا ہو گا۔ تب تک میں منہ ہاتھ دھو کرتا زہ دم ہو جاؤں۔
ویٹنگ روم سے باہر نکلی تو اسی پستہ قد آدمی کو گھورتے دیکھا۔ وہ میلی سی پتلون پر ایک دھاری دار بش شرٹ پہنے تھا۔ اب وہ میری طرف بڑھا۔
میں ادھر ادھر دیکھ کر واپس جانے والی تھی کہ وہ آدمی بولا ’’سنیے‘‘ میں ٹھٹھک کر رک گئی۔ سوچا شاید محمود نے اسے مجھے لانے کے لیے بھیجا ہو۔
’’آپ کسی کا انتظار کر رہی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں‘‘
’’کس کا؟‘‘
’’محمود علی صاحب کا۔ آپ انہیں جانتے ہیں؟‘‘
’’نہیں تو۔ میں انہیں نہیں جانتا۔ میں تو بومبے فلم کمپنی سے ادھر فلم اسٹار کے قابل لڑکے اور لڑکیاں کھوجنے آیا ہوں۔۔۔ آپ دیکھنے میں قبول صورت دکھائی دیتی ہیں۔ میں نے سوچا شاید آپ کو دلچسپی ہو؟‘‘
’’جی نہیں۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے سوائے محمود علی صاحب سے ملنے سے۔ اگر کوئی لمبے سے صاحب کسی لڑکی کو ڈھونڈنے آئیں تو آپ مہربانی کر کے انہیں ادھر بھیج دیجئے‘‘ یہ کہا اور میں اندر چلی گئی۔
وہ آدمی سگریٹ جلا کر سامنے ٹہلنے لگا۔
میں نے کہنے کو تو کہہ دیا کہ مجھے کوئی دلچسپی نہیں مگر فلم اسٹار بننے میں کسے دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے سوچا ممکن ہے یہ آدمی جھوٹا ہو۔۔۔ یا ممکن ہے سچ بولتا ہو۔ محمود آئے گا تواس سے مشورہ کروں گی۔ مگر صبح سے شام ہوئی اور محمود نہیں آیا۔
میں نے وہیں کھانا منگوا کر کھایا۔
اب میں نے سوچا کسی وجہ سے علی گڑھ جانا پڑا ہو گا محمود کو۔ ممکن ہے یونیورسٹی کھل گئی ہو۔ سو میں رات کی گاڑی سے علی گڑھ کے لیے روانہ ہو گئی۔
مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا۔ یا شاید نہیں ہوا کہ وہ پستہ قد آدمی بھی اسی گاڑی میں سوار ہوا۔ مگر پھر اس نے مجھ سے کوئی بات کرنے کی جرات نہیں کی۔ علی گڑھ کے اسٹیشن پر میں اتری۔ مجھے تعجب ہوا، یا شاید نہیں ہوا کہ وہ آدمی بھی اترا۔ رات کا وقت تھا۔ میں ویٹنگ روم میں جا کر بیٹھ گئی اور صبح کا انتظار کرنے لگی۔ محمود کے ہوسٹل کا پتہ میرے پاس موجود تھا۔ صبح ہوتے ہی میں ایک سائیکل رکشہ پر سوار ہو کر وہاں پہنچی۔ یونیورسٹی سنسان پڑی تھی۔ اس کے کمرے میں اکثر کمروں کی طرح قفل لگا ہوا تھا۔
مگر برابر کا کمرہ کھلا ہوا تھا۔
اس میں سے چک ہٹا کر ایک نوجوان باہر نکلا۔ مجھے دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں۔
’’آپ کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں شاید؟‘‘
’’ہاں اپنے کزن محمود علی خاں صاحب کو‘‘۔
’’محمود کی کزن ہیں آپ؟ پڑوسی ہونے کے ناطے میرا فرض ہے آپ کی سیوا کروں۔ وہ تو ابھی واپس نہیں آیا۔ میں ہی اکیلا ہوسٹل میں ہوں۔ میرا کمرہ حاضر ہے۔ رکشا والے کو رخصت کیے دیتا ہوں‘‘۔
نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں کی چمک مجھے اچھی نہیں لگی اور میں ’’جی نہیں شکریہ‘‘ کہہ کر برآمدے سے اتر کر رکشا میں آ کر بیٹھ گئی۔
’’چلو واپس، اسٹیشن‘‘۔
جب واپس پہنچی تو اس پستہ قد آدمی کو ٹہلتے ہوئے پایا۔ شام کر ٹرین سے میں شکوہ آباد چلی آئی۔ رات کو پہنچی۔ وہ آدمی بھی اسی ٹرین میں سوار ہوا۔ مگر اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔
رات کو شکوہ آباد پہنچ کرتا نگے پر سوار ہو کر میں نے گلی کے نکڑ پر تانگہ کو رکوایا کیونکہ اب پیسے میرے پاس ختم ہو گئے تھے۔
سوچا گھر جا کر ماں باپ سے کہوں گی۔ کسی سہیلی کے ہاں گئی تھی اور ان سے تانگے کا کرایہ دلوا دوں گی۔ مگر ڈیوڑھی تک ہی پہنچی تھی کہ ارادہ بدل گیا۔
اندر سے ابا اور کریمن بوا کی آوازیں آ رہی تھیں۔
’’اس لڑکی کو کبھی سوتیلی بیٹی نہیں سمجھا۔ اپنی بیٹی سے بڑھ کر پالا اور یہ ہمارے خاندان کی ناک کٹوا کر بمبئی چلی گئی فلم اسٹار بننے‘‘۔
’’ہاں بھئی۔ تو میں سنیما دیکھنے کو اسی لیے منع کرتا تھا۔ محمود کہتا تھا کہ کب سے اس کے پیچھے پڑی ہوئی تھی۔ اس سے کہتی تھی دونوں ساتھ چلیں گے۔ تم ہیرو بننا۔ میں ہیروئن بنوں گی۔ مگر وہ شریف کا بچہ ہے۔ اس نے منع کر دیا تو کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی ہے اب!‘‘
’’دو چار مہینوں میں ٹھوکریں کھا کر آ جائے گی، اپنے چہیتے باپ کے پاس‘‘۔
’’کیا منہ لے کر آئے گی۔ اب آئی تو میں ٹانگیں توڑ دوں گا اس کی۔۔۔‘‘
میں یہیں تک سن پائی تھی کہ مجھے فوراً تانگے کا خیال آیا۔ دبے پیروں وہاں سے لوٹی۔
’’واپس اسٹیشن چلو‘‘ تانگے والے سے کہا۔
مگر راستے بھر سوچتی گئی کہ پیسا کیسے ادا کروں گی۔ شاید کوئی زیور گروی رکھنا پڑے۔ مگر اس وقت رات کو گروی کون رکھے گا؟
مجھے تعجب ہو۔۔۔ یا شاید نہیں ہوا۔۔۔ کہ پستہ قد آدمی اسٹیشن کے باہر ہی ٹہل رہا تھا۔ اس نے تانگہ رکتے ہیں اس کا کرایہ چکا دیا۔
’’آپ نے اچھا کیا وقت پر آ گئیں۔ متھرا کی گاڑی آنے والی ہے۔ وہاں سے فرنٹیئر میل پکڑنی ہے ہمیں‘‘۔
اس نے میرا ٹکٹ نہیں خریدا۔ اس کے پاس میرا ٹکٹ پہلے سے موجود تھا۔ گاڑی آنے سے پہلے صرف اتنا کہا ’’آپ مجھ پر بھروسہ رکھیے۔ آپ کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔ زنانے ڈبے میں آپ سفر کریں گی۔ آپ کو کمپنی والوں کے سپرد کرتے ہی میں تو کلکتہ چلا جاؤں گا۔۔۔ کچھ بنگالی چہرے بھی لانے ہیں‘‘۔
وہ اپنے قول کا پکا نکلا۔
مجھے زنانے درجے میں سوار کرا کے خود مردانے درجے میں بیٹھ گیا۔ جب گاڑی کسی بڑے اسٹیشن پر رکتی تھی تو چائے اور کھانے کو پوچھنے آ جاتا تھا۔
اور ہاں ایک بار بہت سے فلمی پرچے مجھے دے گیا اور کہنے لگا ’’اب دیکھیے، اگلے مہینے ان سب میں آپ کی تصویریں چھپیں گی‘‘۔ اور میں نے سوچا محمود ان سب پرچوں کو پڑھتا ہے دیکھ کر کتنا جلے گا۔
میں نے اٹیچی کیس کو تکیہ بنا کر برقع رات کو اوڑھ لیا۔ لیکن بمبئی پہنچتے پہنچتے اب وہ غیر ضروری ہو گیا تھا۔ اس لیے میں نے اسے وہیں ٹرین کے ڈبے میں چھوڑ دیا۔
بمبئی پہنچ کر اس نے مجھے ٹیکسی میں بٹھایا۔ خود ڈرائیور کے پاس بیٹھا اور کہا ’’میرین ڈرائیو چلو‘‘۔
’’کیا کمپنی کا دفتر وہاں ہے؟‘‘
’’ہاں یہی سمجھو۔ اسٹوڈیو تو ہمارا دادر میں ہے۔ یہ سیٹھانی جی کا فلیٹ ہے۔ وہ تمہیں اپنے پاس ہی رکھنا چاہتی ہیں ’’۔
’’تمہاری کمپنی کی مالکن عورت ہے؟‘‘
’’ہاں۔ جب ہی تو ہم جب کسی لڑکی کو لے کر آتے ہیں توراستے بھر اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے‘‘۔
’’کیا نام ہے تمہاری سیٹھانی کا؟‘‘
’’مس للیتا کماری۔ پہلے وہ بھی ہیروئن ہوتی تھیں مگر کسی اور نام سے کام کرتی تھیں۔ اب ذرا موٹی ہو گئی ہیں، سوکمپنی کھول لی ہے‘‘۔
فلیٹ کے دروازے پر بورڈ لگا ہوا تھا ’’مس للیتا کماری۔ فلم پروڈیوسر‘‘۔
مگر میں نے دیکھا ایک جنگلہ بھی لگا ہوا ہے۔ دروازے کے باہر گیلری میں جسے ایک چوکیدار نے کھولا اور پھر بند کر دیا۔ قفل لگا دیا۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب تو ہوا مگر میرے پستہ قد ساتھی نے اطمینان دلا دیا۔ ’’سیٹھانی جی بہت وہمی ہیں۔ ہمیشہ چوروں سے ڈرتی ہیں۔ کوئی ان کے ہیرے جواہرات چرا کر نہ لے جائے‘‘۔
ایک بڑھیا روم میں لے جا کر بٹھا یا گیا۔
پستہ قد آدمی برابر کے کمرے میں چلا گیا۔ دروازہ بند کر لیا۔
نہ جانے کیوں مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔ پرکھ رہا ہے۔ مگر کمرہ خالی تھا کوئی بھی نہیں تھا۔ شاید یہ میرا وہم تھا۔
کچھ ہی دیر بعد دروازہ پھر کھلا اور وہی پستہ قد آدمی ایک موٹی عورت کے ساتھ داخل ہوا جو کسی زمانے میں بہت خوبصورت رہی ہو گی۔
’’اچھا نیلی ساری‘‘۔
’’جی۔ اچھا گڈ بائی اور گڈ لک‘‘۔
اور یہ کہہ کر وہ آدمی چلا گیا۔
اور سیٹھانی میری طرف آئیں۔ مجھے بڑے غور سے دیکھا۔ پھر ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
بڑے پیار سے میرے سر کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ’’ابھی تو تم تھکی ہوئی ہو کچھ کھا پی کر آرام کرو۔ رات کو تمہارا ٹیسٹ لیں گے۔ مجھے یقین ہے تم کامیاب ہو گی اور للیتا کماری کا نام روشن کرو گی‘‘۔
یہ کہہ کر انہوں نے تالی بجائی۔
ایک نوکرانی ایک ٹرے میں کچھ مٹھائی اور دودھ کا گلاس لے کر آئی۔
’’کھاؤ پیو‘‘۔
’’آپ نہیں کھائیں گی؟‘‘
’’نہیں۔ میں ابھی کھا پی کر اٹھی ہوں۔ یہ سب تمہارے لیے ہے‘‘۔
یہ کہہ کر انہوں نے مٹھائی کی ایک ڈلی میرے منہ میں ڈال دی۔ کہنے لگیں کہ یہ شگون کی مٹھائی ہے۔ مٹھائی کا مزہ تو اچھا تھا مگر اس میں کچھ کڑواہٹ ملی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا پستہ و بادام شاید کڑوا ہو گا۔
پھر انہوں نے دودھ کا گلاس میری طرف بڑھایا۔
’’پیو میری جان‘‘ انہوں نے بڑے پیارسے دودھ اپنے ہاتھ سے پلایا۔ دودھ خوشبو دار تھا۔ گلاب کی سی خوشبو تھی۔ مگر ساتھ میں ہلکی سی کڑواہٹ بھی تھی۔ سیٹھانی نے اپنا ہاتھ نہ ہٹایا جب تک میں نے دودھ کا گلاس ختم کر لیا اور پھر ان کی آواز ایک دوسری دنیا سے آئی ’’اور بھول جاؤ سب کچھ۔ اب تمہاری نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔۔۔‘‘
ایک لامتناہی رات میں ایک ڈراؤنا خواب دیکھتی رہی۔
دیکھتی ہوں کہ ایک ہاتھ میرے باپ نے پکڑا ہوا ہے۔ دوسرا ہاتھ میری سوتیلی ماں نے۔
ایک ٹانگ محمود نے پکڑی ہوئی ہے۔
دوسری ٹانگ اس پستہ قد آدمی نے جو مجھے بمبئی لایا تھا۔
اور سیٹھانی کی نگرانی میں میرے بدن میں یہ لمبے لمبے آگ کے سوئے گھپوئے جا رہے ہیں۔
اور میرے بدن میں سے سارا خون پانی بن کر نکل رہا ہے۔
نہ جانے کتنی دیر یہ خواب دیکھتی رہی۔
اس کے بعد جب ہوش آیا تو میں ایک گدے دار پلنگ پر پڑی تھی۔
میرے سرکے نیچے ایک مخملی تکیہ تھا۔
جب میں نے اپنی ٹھوڑی کھجانے کے لیے اپنا ہاتھ ہلانا چاہا تو معلوم ہوا کہ ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ دونوں ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ٹانگ سکوڑنی چاہی تو ٹانگ بھی پائے سے بندھی ہوئی ہے۔ دوسری ٹانگ بھی۔ سربھی۔ اسی طرح کسی چین سے باندھا گیا ہے کہ میں صرف سامنے سے دیکھ سکتی ہوں اور پیراہن کے بغیر آرام دہ سولی پر چڑھا دی گئی ہوں۔
اتنے میں سیٹھانی میرے سامنے کھڑی تھی۔
کہنے لگی ’’عیش و آرام کرو گی یا تکلیف اٹھاؤ گئی اس کا فیصلہ تم پر ہے؟ دیر یا سویر سب رام ہو جاتی ہیں۔ تم بھی ہو جاؤ گی۔ مگر ابھی یا کچھ اور دیر کے بعد؟‘‘
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی؟‘‘
’’میں چاہتی ہوں اس خوبصورت بدن کو انسانیت کو آرام پہچانے کے لیے استعمال کرو۔ جو مجرد ہیں ان کے لیے ایک رات کی بیوی بنو۔ جو اپنی بیویوں کی بدصورتی سے بھاگے ہوئے ہیں ان کے بدن کو تسکین پہنچاؤ۔ جو سیاسی، سماجی، اقتصادی ذمہ داریوں میں دبے ہوئے ہیں ان کا دل بہلا کر ان کو اس قابل بناؤ کہ وہ ہمارے سماج کی ذمہ داریاں اٹھا سکیں‘‘۔
’’تم چاہتی ہو کہ میں رنڈی بن جاؤں‘‘۔ میں نے سوال سیٹھانی سے کیا اور اپنے آپ سے بھی ’’ارے میں ماں بننے والی ہوں۔ ماں!‘‘
’’تم کبھی نہیں بنو گی۔ اس بار بھی نہیں۔ کسی بار بھی نہیں۔ دیکھنا چاہتی ہو یہ آپریشن کس نے کیا ہے؟ اور بغیر کسی لوہے کے آلے کے؟‘‘
اتنے میں اس کے اشارے پر ایک کے بعد ایک آدمی آتا گیا اور میرے پائنتی کھڑا ہو کر میری نگاہ کے دائرے سے اوجھل ہوتا گیا۔
ہندو، مسلمان، سکھ، کرسچین، پوربی بھیا، مدراسی۔
نہ جانے کہاں کہاں سے یہ مسٹنڈے اکٹھے کیے گئے تھے۔۔۔
اب مجھ میں چیخنے چلانے کی طاقت نہیں تھی۔ میرا کلیجہ منہ کو آیا اور ایک ابکائی کے بعد میں نے قے کر دی اور بے ہوش ہو گئی۔
جب پھر ہوش آیا تو میری باقاعدہ ٹریننگ شروع ہوئی۔
ایک بار حکم کی خلاف ورزی کی سزا میں کوڑے پڑے تھے اور کھانا بند۔
دو بار حکم کی خلاف ورزی کی سزا میں منہ کالا کرانا تھا۔
تین بار حکم کی خلاف ورزی کی سزا ایسڈ منہ پر پھینکنا تھا۔ اس کا مظاہرہ میرے سامنے ایک معصوم بلی پر کر دیا گیا تھا جو ایسڈ سے جل کر لوٹ پوٹ کر وہیں میرے سامنے ڈھیر ہو گئی۔
میں نے ایک درخواست کی کہ مجھے یہ بتا دو کہ اس پستہ قد آدمی نے مجھے پہچانا کیسے کہ یہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی ہے۔ جواب ملا ’’تمہاری نیلی ساری سے۔ تمہارے عاشق نے دو سو روپے لے کر یہ اطلاع دی تھی کہ اس ٹرین سے تم آؤ گی اور یہ کپڑے پہنے ہو گی‘‘۔
یہ سننے کے بعد میں تیار ہو گئی۔ اب رہ ہی کیا گیا تھا۔
اگر میں بتاؤں کہ اگلے چھ برس تک کیا ہوا تو ایک کتاب تیار ہو جائے گی۔
میرے گاہکوں میں کون نہیں تھا؟
افسر، بڑے بڑے بیوپاری، راجا، مہاراجا، نواب، فلم اسٹار، فلم پروڈیوسر، پہلے میرے ساتھ ایک آدمی جایا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ مجھ پر بھروسا ہونے لگا۔ پھر مجھے جو روپیہ ملتا تھا اس میں سے ایک تہائی اپنے پاس رکھنے کی اجازت مل گئی۔
میں اپنا پرانا نام بھول گئی۔ نیا نام ہی کافی تھا۔ ’’نیلی ساری‘‘ میرے پاس ہر شیڈ کی نیلی ساریاں تھیں۔ شیفون کی نیلی ساری۔ کنجی ورم کی نیلی ساری۔ جارجٹ کی نیلی ساری۔۔۔ اور سوٹ کیس کے سب سے نیچے کاٹن کی نیلی ساری۔
ایک دن مجھے چھٹی تھی۔ (جمعہ کو یہ چھٹی میں ضرور لیا کرتی تھی)
اس دن نہ جانے کیا ہوا کہ مجھے جوہو جانے کی سوجھی اور نہ جانے کیوں میں نے وہی پرانی کاٹن کی نیلی ساری پہنی۔ جوہو پہنچ کر میں نے ناریل کا پانی پیا۔ بھیل پوری کھائی۔ کوئی مجھے جانتا نہیں تھا اور میں اپنی گمنامی کا فائدہ اٹھا رہی تھی۔ ادھر ادھر گھومتی رہی۔
ایک جگہ ایک آدمی ریت کے پتلے بنا رہا تھا۔ میں نے بھی اس کی پھیلی ہوئی چادر میں بیس پیسے پھینک دئیے۔ اس کے آگے کو بڑھی تو کیا دیکھتی ہوں کہ زمین سے دو الٹی ٹانگیں اگ آئی ہیں۔ معلوم ہوا کہ کسی بے چارے کو الٹا زمین میں گاڑا گیا ہے۔ پاس ہی چادر پھیلائے ایک آدمی پیسے اکٹھا کر رہا ہے۔ میں نے اسے ایک روپیہ دیا اور پوچھا یہ آدمی کب نکلے گا۔ اس نے کہا سورج چھپتے اسے یہاں سے نکالوں گا۔ ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی پر برسوں تپسیا کی ہے تب جا کر یہ کمال حاصل کر پایا ہے کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سردے کر دن بھر الٹا لٹکا رہتا ہے۔
مجھے نہ جانے کیا سوجھی کہ سورج جب سمندرمیں ڈوبنے لگا تو پھر وہاں پہنچ گئی۔
وہ ڈھونگی ڈھول بجا رہا تھا۔ کہہ رہا تھا، ’’دیکھو، دیکھو دنیا کا سب سے بڑا کمال۔ بارہ گھنٹے ریت میں دفن رہ کر آدمی زندہ ہو رہا ہے۔۔۔‘‘
ٹانگوں میں حرکت پیدا ہو رہی تھی اور پھر وہ آدمی جو ایک نیکر پہنے ہوئے تھا۔ نکل آیا اور میں اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ تو اپنی آنکھوں میں سے ریت نکال رہا تھا۔ لوگ تالیاں بجا رہے تھے۔ پیسے کھنا کھن گر رہے تھے۔ اور میں منہ پھاڑے دیکھ رہی تھی۔ جیسے سچ مچ کوئی مردہ زندہ ہو گیا ہو اور میں ایک معجزہ دیکھ رہی ہوں کیونکہ میرے سامنے شکوہ آباد کا وہ سقے کا لونڈا کھڑا تھا، بندو۔
تالیاں بجنی بند ہو گئیں۔
لوگ امڈتے ہوئے اندھیرے میں غائب ہو گئے۔ بندو اور اس کا ساتھی پیسے بٹورنے لگے۔ آدھے اس آدمی نے لیے آدھے بندو نے۔ پھراس آدمی نے کہا ’’اچھا بے میں چلتا ہوں۔ کل یہ تماشا چوپاٹی پر جمائیں گے‘‘۔
یہ کہا اور وہ چلتا بنا۔
اور میں وہیں کھڑی بندو کو دیکھتی رہی۔ وہ بھی مجھے دیکھ رہا تھا۔
پھر وہ آگے بڑھ کر میری طرف دیکھتا رہا۔
میں نے کہا ’’بندو‘‘۔
اس نے کہا ’’جی بی بی جی‘‘۔
’’تم شکوہ آباد سے کب آئے؟‘‘
’’چھ سال ہو گئے‘‘۔
’’سب خیریت ہے؟‘‘
اس کے چہرے سے پتا چلتا تھا کہ سب خیریت نہیں ہے۔
’’ابا تو خیریت سے ہیں؟‘‘ میں نے کرید کر پوچھا۔
’’ابا تو جنت کو سدھارے‘‘۔
میں نے دل ہی دل میں انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا۔
’’یہاں کہاں رہتا ہے؟‘‘
اس نے کہا ’’مہا لکشمی کے پاس ایک جھونپڑی میں‘‘۔
’’مجھے وہاں لے جا سکتا ہے؟‘‘
’’بی بی جی۔۔۔‘‘ اس کا چہرہ خوشی اور تعجب سے پھٹا کا پھٹا رہ گیا۔
’’تمہاری بی بی ساتھ رہتی ہے کیا؟‘‘
’’بی بی جی میری شادی نہیں ہوئی‘‘۔
’’پھر تو ٹھیک ہے۔۔۔ میں تمہارے ساتھ رہ سکتی ہوں‘‘۔
اس کا حال تو یہ تھا کہ شادی مرگ نہ ہو جائے۔
’’چلیے بی بی جی‘‘۔
’’چلو‘‘
سوہم مہا لکشمی والی جھونپڑی میں آ گئے۔ جھونپڑی ان پائیوں سے اچھی تھی جو سڑک کنارے پھیلے ہوئے تھے اور جن میں بے گھر لوگ آباد ہو گئے تھے۔ اور وہ لوگ ان سے اچھے تھے جو سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر سونے کے لیے مجبور تھے۔ جھونپڑی میں ایک ٹوٹی پھوٹی کھٹیا تھی۔ میں اس پر ایسی سوئی جیسے دنیا کی خبر نہ ہو۔ چھ سال کے بعد میں سچ مچ کی چھٹی منا رہی تھی۔
صبح کو میں نے دیکھا بندو جھونپڑی کے باہر سورہا تھا۔
میں نے اسے اٹھایا۔
اندر آیا پوچھا ’’مجھے تو بہت اچھی نیند آئی۔ تم بھی اندر کیوں نہیں آ گئے؟‘‘
’’بی بی جی۔ اندر توا یک ہی چارپائی تھی اور آپ اس پر ایسی تھکی ہاری سورہی تھیں جیسے ایک بچہ سورہا ہو‘‘۔
’’مجھے تو ساتھ سونے کی عادت ہے۔ تم ہی آ جاتے‘‘۔
’’بی بی جی۔‘‘
’’نام بتاؤں دو چار کے؟ اور میں بتانے ہی لگی تھی۔ مگر اس نے اتنی لجاجت سے ’’بی بی جی‘‘ کہا کہ میں چپ رہ گئی۔
پھر وہ کہنے لگا۔ ’’قاضی جی جب نکاح پڑھا دیں گے تب ٹھیک ہے‘‘۔
’’قاضی جی!‘‘ مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔
’’قاضی جی!‘‘ میں ہنستی رہی۔
اس کے چہرے پر ایسا بھولا پن تھا کہ مجھے اس پر غصہ بھی آ رہا تھا اور ہنسی بھی آ رہی تھی۔
’’کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں پچھلے چھ برس سے کیا کرتی رہی ہوں؟‘‘
’’بی بی جی۔ میں نہیں جاننا چاہتا‘‘۔
’’۔۔۔ کہ ایک ایک رات میں۔۔۔‘‘
’’بی بی جی۔ خدا کے لیے چپ رہیے۔ میں نہیں جاننا چاہتا۔۔۔ قاضی جی نکاح پڑھا دیں گے پھر جو جی چاہے مجھے بتا دینا‘‘۔
’’قاضی جی‘‘ اور مجھے پھر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور میرے منہ سے نکل گیا ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ میں ایک سقے کے لونڈے سے بیاہ کروں گی؟‘‘
یہ سن کر وہ چپ ہو گیا اور باہر چلا گیا۔
دو گھنٹے کے بعد کھانے کی چیزیں لے کر آیا اور میرے سامنے رکھ دیں۔ بغیر ایک لفظ کہے اپنا کھانا باہر لے گیا اور وہاں ہی کھایا۔
میراجی تو اکیلے کھانے کو نہیں چاہتا تھا۔ پھر بھی جب بھوک لگی تو زہر مار کر لیا۔ سپہر کو وہ آیا اور کہنے لگا ’’میں جا رہا ہوں۔ تم جھونپڑی کا دروازہ اندر سے بند کر لینا۔ میرے آنے تک کسی کے لیے نہ کھولنا‘‘۔
’’تم کہاں جاؤ گے؟‘‘
’’روزی کمانے‘‘۔
’’سر ریت میں دے کر الٹے لٹکنے کو تم روزی کمانا کہتے ہو‘‘۔
میں جانتی تھی وہ کیا جواب دے گا۔ میں اس جواب کو سننا چاہتی تھی کہ وہ کہے کہ ہر آدمی کو اپنے اپنے ڈھنگ سے روزی کمانا پڑتی ہے۔ کوئی ریت میں سر دیتا ہے کوئی۔۔۔ مگر اس نے کچھ نہیں کہا اور چلا گیا۔
میں نے دروازہ اندر سے بند کر لیا اور کھٹیا پر لیٹی رہی۔
تھوڑی دیر میں باہر سے سیٹیاں سنائی دینے لگیں۔
میں نے ایسی سیٹیاں پچھلے چھ برس میں بہت سنی تھیں۔ میں ان کا مطلب خوب سمجھتی تھی۔ دو ایک نے دروازے پر ٹھک ٹھک بھی کی لیکن کسی کو ہمت نہ ہوئی تھی کہ وہ پرانی لکڑی کا دروازہ جو رسی سے بندھا ہوا تھا لات مار کر توڑ دے اور اندر چلا آئے۔ غریب بھی برائی کرتے ہیں اور امیر بھی۔ مگر غریب کی برائی میں امیروں کی سی بے حیائی نہیں ہوتی۔
وہ رات کو دیر میں آیا اور کچھ کھانا ساتھ لایا۔
میں نے کہا ’’کیا ہوا؟‘‘
اس نے کہا ’’وہی جو تم نے دیکھا تھا۔ شاید تمہارے آنے کی برکت ہے‘‘۔
’’برکت!‘‘ میرے جی میں آیا کہ کہوں کچوکے کیوں دیتے ہو۔ مگر اس نے ایسے بھولے پن سے کہا تھا کہ میں چپ رہی۔
اس رات میں سوچتی رہی کہ میں یہ کیا کر رہی ہوں۔ پھر میں نے سوچا کہ کیا کر رہی ہوں۔ چھٹی پر ہوں چھ برس ہو گئے محنت کرتے کرتے کچھ دن تو چھٹی کروں۔۔۔ یہاں جھونپڑی میں کون مجھے ڈھونڈنے آئے گا؟
بندو روز دو تین بجے جاتا اور رات گئے آتا۔
نہ میں اس سے پوچھتی کیا ہوا؟
نہ وہ مجھ سے پوچھتا کہ میں نے کیا کیا۔
نہ ہی اس نے پہلے دن کے بعد کبھی قاضی جی کی بات چھیڑی۔
وہ اپنے میلے کچیلے بسترکاڈھیر لیتا اور باہر جا کر بچھا دیتا۔ مگر وہ میرے لیے نئی دری، نئی چادر، نیا تکیہ لے آیا تھا۔ کھٹیا کو بھی ٹھوک پیٹ کر ٹھیک کر لیا تھا۔
میں اس کھٹیا پر اکیلی سوتی تھی۔
وہ باہر فٹ پاتھ پر اکیلا سوتا تھا۔
اس طرح تین ہفتے بیت گئے۔
میری پڑوس میں دو تین عورتوں سے دوستی ہو گئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا اور میں بمبئی میں نوکری ڈھونڈنے آئی تھی۔ یہاں آ کر بندو سقے سے ملاقات ہو گئی تھی۔ جس نے اپنی جھونپڑی میں پناہ دی تھی۔ جھوٹ بولنے کی مجھے عادت ہو گئی تھی۔
پھر ایک دن اسے آنے میں دیر ہوئی تو میں نے سوچا کہ ’’آج اس سے کہوں گی کہ تم یہ کام چھوڑ دو‘‘۔ وہ کہے گا ’’روزی کمانے کا ایک ہی ذریعہ آتا ہے مجھے‘‘۔
میں کہوں گی ’’مجھے بھی روزی کمانے کا ایک ہی ذریعہ آتا ہے۔ مگر میں چھوڑنے کو تیار ہوں‘‘۔
پھر وہ کہے گا ’’قاضی جی کو بلا لاؤں‘‘۔
مگر وہ اس رات نہ آیا۔
اگلے دن نہ آیا۔
تیسرے دن نہ آیا۔
میں نے پڑوسی عورتوں سے کہا۔ انہوں نے اپنے مردوں سے کہا۔ انہوں نے کہا وہ معلوم کریں گے۔ اس آدمی سے پوچھیں گے جس کے ساتھ وہ کام کرتا ہے۔
رات کو ایک آدمی ان میں سے آیا اور کہنے لگا،
’’بندو تو جیل میں ہے‘‘۔
’’جیل میں! کیوں کیا کیا اس نے؟‘‘
’’ریت میں دفن ہونا خود کشی کے برابر ہے۔ سپاہی کو ہفتہ نہیں کھلایا اس لیے وہ آتم ہتیا کے جرم میں پکڑ لے گیا۔ دوسرا آدمی بھاگ گیا۔ اب بندو جیل میں ہے۔ ضمانت پر ہی باہر آ سکتا ہے‘‘۔
’’کتنی ضمانت دینی ہو گئی؟‘‘
’’دو ہزار روپے‘‘۔ اس آدمی نے کہا جیسے دو لاکھ روپے ہوں۔ مگر میں نے سوچا۔ اس سے کہیں زیادہ تو میں نے بچا کر رکھے ہیں۔ شاید پانچ چھ ہزار تو ہوں گے۔ مگر وہ تو پیڈر روڈ والے فلیٹ میں ہیں۔ (ہماری جائے رہائش بدلتی رہتی تھی)
میں اسی شام کو پیڈر روڈ والے فلیٹ میں پہنچی۔ مجھے دیکھتے ہی للیتا کماری آگ بگولہ ہو گئی۔
’’میں تو سمجھی تھی تو مر گئی یا کوئی بھگا کر لے گیا تجھے‘‘۔
میں نے آواز کو قابو میں کرتے ہوئے کہا ’’میں جا رہی ہوں۔ اپنا روپیہ لینے آئی ہوں‘‘۔
یہ کہہ کر میں اندر اپنے کمرے میں گئی اور اپنا سوٹ کیس کھول کر روپے اور اپنا زیور نکالا۔ یہ کر ہی رہی تھی کہ اچانک میں نے دیکھا کہ ایک مسٹنڈا پیچھے کھڑا ہے ہاتھوں پر لمبے لمبے کالے ربڑ کے دستانے چڑھائے ہوئے۔ ہاتھ میں ایک بوتل ہے جس میں مجھے معلوم تھا تیزاب رہتا ہے۔
’’کیا کر رہی ہے حرام زادی؟‘‘
چھ سال کے بعد آج نہ جانے کہاں سے مجھ میں ہمت آ گئی۔ میں بولی ’’اپنا روپیہ اور زیور لے جا رہی ہوں اور دیکھتی ہوں، کون مجھے روکتا ہے؟‘‘
اس بدمعاش نے اپنے سڑے ہوئے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا ’’تو جاؤ میری جان‘‘۔
اور جب میں اس کے پاس سے گزرنے لگی تو اس نے میرے منہ پر تیزاب کا وار کیا۔
جانتی تھی تیزاب کا اثر کیا ہو گا۔ میں دو ایک عورتوں کو دیکھ چکی تھی جو اپنا گلا سڑا چہرہ لیے اپنی زندگی کے آخری دن اس چکلے میں گزار رہی تھیں کیونکہ کہیں اور وہ اپنا منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ گئی تھیں، مگر میں تو مرنے کے لیے ہی تیار تھی کیوں نہ اس ظالم کو بھی ساتھ لیتی جاؤں۔ میں نے اپنے چہرے کی ناقابل برداشت اذیت کے باوجود اس کے ہاتھ سے بوتل چھین کر اس کے سرپر دے ماری۔ بوتل ٹوٹ گئی اور آدھا تیزاب جو اس میں تھا وہ اس آدمی کے چہرے پر گر پڑا۔ ایک غضب کی چیخ اس کے منہ سے نکلی اور اس چیخ کا نکلنا تھا کہ اس کے کھلے ہوئے منہ میں بھی تیزاب گر گیا اور وہ آدمی پھر نہ چیخ سکا۔
میرا منہ جل رہا تھا۔ پھنک رہا تھا۔ مگر وہ روپیہ اور زیورات بھی میرے ہاتھ میں تھا۔ اسے لے کر میں باہر آئی تو دیکھا کہ پولیس کی ریڈ ہوئی ہے۔ للیتا کماری بڑے ٹھسے سے صوفے پر بیٹھی پولیس انسپکٹر سے بات کر رہی تھی۔ ’’انسپکٹر صاحب میری تو ڈانس کلاس کی ابھی چھٹی ہے۔ اس لیے لڑکیاں اپنے اپنے گھر جا رہی ہیں۔۔۔ آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ کیا منگاؤں آپ کے لیے۔۔۔ ٹھنڈا یا گرم۔۔۔؟
’’انسپکٹر صاحب‘‘۔
اب میں ان کے سامنے کھڑی تھی اور تیزاب میرے منہ پر بہہ رہا تھا اور میرے گوشت کے لوتھڑے لٹک رہے تھے۔ ’’اس سے پہلے کہ میں بے ہوش ہو جاؤں۔۔۔ یا شاید مر جاؤں۔ میں ایک بیان دینا چاہتی ہوں‘‘۔
بس حضور یہی سب کہا تھا اس بیان میں میں نے۔ میرا چہرہ جس پر پٹیاں بندھی ہیں اب اس قابل نہیں ہے کہ آپ دیکھیں لیکن ایک زمانہ تھا لوگ اس چہرے کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ بس مجھے یہی کہنا ہے آپ سے۔۔۔ اب اجازت دیجئے۔
بندو میرا انتظار کر رہا ہے۔
وہی ایک آدمی ہے جو انسان کا چہرہ نہیں دیکھتا۔ اس چہرے کے پیچھے جو روح ہے اس کو دیکھتا ہے اور اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مجھے اس کے پاس جانا ہے کیونکہ قاضی صاحب ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں