فہرست مضامین
- خواب میں دیکھی گئی دنیا
- اوم پربھاکر
- برقی کتاب
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- کب تلک دیوار سے سر ٹیک کر بیٹھے رہیں
- کل تلک تھا جہاں بخوبی صاف
- اس خرابے سے کچھ اٹھا لیتا
- میں نے جب اپنے کپڑے لہو میں بھگو لئے
- جیسے تیسے تھکا ماندا تن لئے
- کہنیاں، گھٹنے موڑ کر سو جا
- کبھی آنگن، کبھی زینہ، کبھی کمرہ مہکتا ہے
- تمہارے بعد بھی یہ زندگی محسوس ہوتی ہے
- بیزار آج کل ہوں پہلے سے کچھ زیادہ
- اڑانوں سے امبر بچا ہی نہیں
- نہ ہو گا جب زمیں پر گھر کا نقشہ
- وہ پہلے سے بہت آگے بڑھا ہے
- خواب میں ہی مگر دیئے ہوتے
- برج و گنبد ہلا رہی ہے ہوا
- بھولا بسرا وقت پھر مہمان ہے
- دنیا دیکھی بہت دنوں کے بعد
- ہماری خلوتوں کی دھن در و دیوار سنتے ہیں
- بھوک کے اور پیاس کے مارے پرندے
- اس زمیں کا کتنا ٹکڑا ہے مرے گھر کے لئے
- شجر ہیں منتظر، آئیں پرندے
- بہت دنوں سے مرے ساتھ ہے وہی دنیا
- مرا یہ وقت مجھے کس طرح سے مارے گا
- یوں ہی گردن جھکائے بیٹھا ہوں
- وہ بد دعا کا ہاتھ ہے یا ہے دعا کا ہاتھ
- تیرگی ہے نہ روشنی آواز
- چند الفاظ، کچھ احوال تھے، اب وہ بھی نہیں
- س بستی میں میرے جیسے بھی ہوں گے دو چار آدمی
- کیا ٹوٹا، کس چیز کے ٹکڑے بکھرے ہیں
- کب تلک بیٹھا رہے گا یہ جہاں در پر مرے
- میں گہری نیند میں تھا جب کہ یہ بھیجی گئی دنیا
- کبھی زمیں سے، کبھی آسماں سے آتے ہیں
- خوشبو کا بھی وہی ہے جو ہے چلن ہوا کا
- ممکن ہے وہ بھی ہو تنہا، یہیں کہیں ہو گا
- چند الفاظ کچھ احوال بچا رکھے ہیں
- کچھ اگر ہونا تھا تو یوں بھی ذرا ہونا تھا
- ہے تو سب کچھ مگر نہیں سا ہے
- صبح گھر سے نکل کے جاتے ہیں
- جتنے رستے وا تھے ہم سب پر گئے
- اوم پربھاکر
خواب میں دیکھی گئی دنیا
اوم پربھاکر
برقی کتاب
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
کب تلک دیوار سے سر ٹیک کر بیٹھے رہیں
چند لفظوں کو ادھیڑیں اور گھر بیٹھے رہیں
کب تلک کچھ لوگ اٹھتے جائیں سورج کی طرح
اور کب تک کچھ کئے نیچی نظر بیٹھے رہیں
اب تو دروازہ ترے مقتل کا کھلنا چاہئیے
کب تلک ہم لے کے ہاتھوں میں یہ سر بیٹھے رہیں
گزرے وقتوں کے وہ لمحے پھر جنم لے کر ملیں
ان پری زادوں کو گھیرے رات بھر بیٹھے رہیں
تو بھی میرے ساتھ ہو اس فکر میں گھلتی ہوئی
کس طرح بے فکر ہو کر عمر بھر بیٹھے رہیں
٭٭٭
کل تلک تھا جہاں بخوبی صاف
اب نہیں ہے نظر میں کچھ بھی صاف
لمحہ در لمحہ بے ہسی طاری
درد اس کو نہ اس کا غم ہی صاف
گر چکے ہیں ستون و بام و در
سارے محراب، دل حویلی صاف
جو بھی حاصل تھا چھٹ گیا سب کچھ
دیکھے دنیا میری ہتھیلی صاف
اور اب آخرش یہ صورت ہے
تو بھی بے شکل زندگی بھی صاف
٭٭٭
اس خرابے سے کچھ اٹھا لیتا
جس کو سینے سے میں لگا لیتا
کہنے سننے کو محبت رہتی
فاصلہ اور کچھ بڑھا لیتا
پھول سارے کسی کو دے دیتا
ایک پتی ہری بچا لیتا
جتنی دھرتی تھی، اتنے گھر بھی تھے
میں کہاں اپنا گھر بنا لیتا
یہ جہاں ہوتا گر تری صورت
اپنے دل میں اسے بسا لیتا
٭٭٭
میں نے جب اپنے کپڑے لہو میں بھگو لئے
یوں ہی بہت سے لوگ میرے ساتھ ہو لئے
جلتا ہوا مکان بھی اپنی گلی میں تھا
جب ہو چکا وہ خاک تو کچھ ہم بھی رو لئے
کچھ اشک تیری یاد کے کاسے میں ڈال کر
باقی سے اپنے دل کے سبھی داغ دھو لئے
خوابوں کے چند ٹکڑے تھے کچھ لفظ نیلگوں
یوں ہی پڑے ہوئے تھے غزل میں پرو لئے
کچھ بات چیت ہو نہ سکی وقت رخصتی
دو تھرتھراتے ہونٹ نظر میں سمو لئے
٭٭٭
جیسے تیسے تھکا ماندا تن لئے
شام آ پہنچی اکیلا پن لئے
پیڑ پودے سیننچتا رہتا ہوں میں
اپنے اندر اک سلگتا بن لئے
اب بھی مجھ کو راس آتی ہے بہت
زندگی ڈھلتا ہوا جوبن لئے
کب تلک بیٹھے رہیں یوں بت بنے
درمیاں چھوٹی سی اک ان بن لئے
تو خزاں ہے تو بھی آئے گی قریب
میں ہوں تیرا منتظر گلشن لئے
گرتے پڑتے تیرے در تک آ گیا
میں عقیدے کا دیا روشن لئے
دیکھ تو گنبد پہ وہ سورج کرن
اپنے ہاتھوں میں ترے کنگن لئے
٭٭٭
کہنیاں، گھٹنے موڑ کر سو جا
اپنی خلوت کو اوڑھ کر سو جا
تھوڑے گزرے ہیں، تھوڑے گزریں گے
ماہوں سالوں کو جوڑ کر سو جا
چاہتیں چھوڑ اور بدل کروٹ
اپنے دل کو سکوڑ کر سو جا
آج بھی تو گزر گیا یوں ہی
کل کی امیدیں چھوڑ کر سو جا
آ گئی رات، کارِ دنیا کی
رسیاں ساری توڑ کر سو جا
کچھ نہیں ہو گا رونے دھونے سے
اپنی پلکیں نچوڑ کر سو جا
٭٭٭
کبھی آنگن، کبھی زینہ، کبھی کمرہ مہکتا ہے
ہمارے درمیاں اک پھول نا دیدہ مہکتا ہے
ٹھٹھک کر رہ گیا جو تیرے سرہانے ابھی آ کر
تیری روشن جبیں وہ دھوپ کا ٹکڑا مہکتا ہے
تو میرے ساتھ ہے، اتنا بہت ہے، صرف اتنے سے
مرے گھر کا ہر اک گوشہ، ہر اک ذرہ مہکنا ہے
نہ جانے کون اس میں جھولتا ہو گا بہت پہلے
وہ رسی ہل رہی ہے اور گہوارہ مہکتا ہے
کھلا صحرا میں میرے دل کی صورت ایک گل تنہا
جھلستا جا رہا پھر بھی وہ بیچارہ مہکتا ہے
بتا سکتی ہو نقشے میں، کہاں ہے وہ نگر جس میں
گلی کے پار در کھلتا ہے گلیارہ مہکتا ہے
٭٭٭
تمہارے بعد بھی یہ زندگی محسوس ہوتی ہے
شب فرقت میں بھی کچھ روشنی محسوس ہوتی ہے
بہت کچھ دور رہتی ہے جو شب میرے شبستاں سے
سحر اس رات کی کافی نئی محسوس ہوتی ہے
وہ زینوں اور کوٹھوں کے برہنہ سرد گوشوں میں
ابھی بھی اک سلگتی تیرگی محسوس ہوتی ہے
کبھی احساس ہوتا ہے کہ میں بیکار زندہ ہوں
تبھی دنیا مجھے مرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
ردائے شرم سر پر ڈال کر وہ چل دیئے، پھر بھی
مجھے بستر پہ اک شرمندگی محسوس ہوتی ہے
گئے سالوں کے صبح و شام کی رنگین سی چڑیا
ابھی بھی جب کبھی اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
یہاں شاید خدا کے نیک بندوں کی رہائش تھی
یہاں آ کر مجھے کچھ تازگی محسوس ہوتی ہے
٭٭٭
بیزار آج کل ہوں پہلے سے کچھ زیادہ
مرنے سے تھوڑا کم کم جینے سے کچھ زیادہ
یوں تو نہیں ہوں ویسا جیسا تھا ساتھ تیرے
پھر بھی بچا کھچا ہوں تھوڑے سے کچھ زیادہ
تم دے گئی تھیں مجھ کو جو پھول کل یا پرسوں
اب بھی مہک رہے ہیں پہلے سے کچھ زیادہ
خوشبو سا اڑ رہا ہے جو درمیان اپنے
مجھ سے بھی ہے سوا کچھ، تم سے بھی کچھ زیادہ
اس گلبدن کو اپنے کچھ فاصلے پہ رکھو
اس کی تپش ہے مجھ کو شعلے سے کچھ زیادہ
کچھ اور بھی ہے تجھ میں چہرے سے خوبصورت
میں اس کو دیکھتا ہوں چہرے سے کچھ زیادہ
٭٭٭
اڑانوں سے امبر بچا ہی نہیں
پرندے کو لیکن ملا ہی نہیں
کسی سے کہوں بھی تو میں کیا کہوں
مرا تو کوئی مدعا ہی نہیں
شبو روز بھٹکے ہے در در ہوا
ہوا کا کہیں گھر بسا ہی نہیں
علاحدہ ہوا ہم سے کس دن خدا
کتابوں میں ہم نے پڑھا ہی نہیں
کہا ماں نے بیٹا، خدا سے ڈرو
وہ ‘ڈر’ زندگی بھر گیا ہی نہیں
٭٭٭
نہ ہو گا جب زمیں پر گھر کا نقشہ
خلا میں ہو گا بام و در کا نقشہ
تری دیوار پر یہ سرخ چھینٹے
ہے ان چھینٹوں میں بال و پر کا نقشہ
گزشتہ شب کوئی چپکا گیا ہے
کواڑوں پر ہمارے، ڈر کا نقشہ
وہ ہاتھوں میں لئے تھا فاختائیں
رکھے تھا جیب میں کھنڈر کا نقشہ
وہ اک پیکر جو کرنیں پھینکتا ہے
ہے اس کی زد میں دنیا بھر کا نقشہ
٭٭٭
وہ پہلے سے بہت آگے بڑھا ہے
حدِ بستی پہ اب تنہا کھڑا ہے
میں عاجز آ گیا ہوں اس خدا سے
جو قامت میں کہیں ترچھا اڑا ہے
وہ میں ہوں یا ہمارا دورِ حاضر
سڑک پر کون وہ اوندھا پڑا ہے؟
مویشی ہیں نہ دانا ہے نہ پانی
کبھی تھے، اس لئے کھونٹا گڑا ہے
یہ عالم عکس ہے میری زباں کا
مرے لفظوں میں آئینہ جڑا ہے
نہ میں نے اور نہ کی امداد تم نے
یہ سورج چرخ پر کیسے چڑھا ہے؟
٭٭٭
خواب میں ہی مگر دیئے ہوتے
بے ٹھکانوں کو گھر دیئے ہوتے
اپنے گلشن کے چار چھ غنچے
نام پت جھر کے کر دیئے ہوتے
میں بھی کہتا کبھی سبحان اللہ!
دو نوالے تو تر دیئے ہوتے
میری بستی کے کچھ درختوں کو
کھانے لائق ثمر دیئے ہوتے
اتنا بے سمت آسماں دے کر
دو سے زائد تو پر دیئے ہوتے
٭٭٭
برج و گنبد ہلا رہی ہے ہوا
کس خرابے سے آ رہی ہے ہوا؟
بانس بن میں بجا رہی سیٹی
مجھ کو شاید بلا رہی ہے ہوا
کیوں ہیں پانی میں اتنے پیچ و خم
کیا ندی میں نہا رہی ہے ہوا؟
وہ جو پربت ندی میں بیٹھا ہے
اس کی کشتی چلا رہی ہے ہوا
اپنے ٹانگوں میں دبا کر بادل
خوب ڈھولک بجا رہی ہے ہوا
٭٭٭
بھولا بسرا وقت پھر مہمان ہے
پھر وہی آنگن، وہی دالان ہے
ایک کمرہ ہے کہیں جس میں نہاں
میرے بچپن کا سر و سامان ہے
بت کدے میں جو بھی ہے، پتھر کا ہے
اور پتھر کا خدا انسان ہے
بے طرح مشکل ہے تجھ کو دیکھنا
سوچنا لیکن بڑا آسان ہے
جل اٹھا کیونکر مرے دل کا چراغ
جب کہ سالوں سے یہ گھر ویران ہے
کب تجھے بھولا، نہیں یاد آ رہا
ہاں، ترے ہونے کا مجھ کو دھیان ہے
٭٭٭
دنیا دیکھی بہت دنوں کے بعد
ٹھیک ہی تھی، بہت دنوں کے بعد
پھر بھی میرے لئے حسیں ٹھہری
شکل تیری بہت دنوں کے بعد
پڑھ ہی لوں گا میں حرف حرف کبھی
تیری چٹھی بہت دنوں کے بعد
ایک تصویر تھی وہ غنچہ لب
ڈھونڈ ہی لی بہت دنوں کے بعد
بات کیا ہے کہ تو مرے نزدیک
آ کے بیٹھی بہت دنوں کے بعد
اب نہ جاؤ کہ پھر خزاؤں میں
تم ملو گی بہت دنوں کے بعد
سب مناظر ہیں لقمۂ ماضی
اور ہم بھی بہت دنوں کے بعد
٭٭٭
ہماری خلوتوں کی دھن در و دیوار سنتے ہیں
چمن میں رنگ و بو کی بندشوں کو خوار سنتے ہیں
ہوا سرگوشیاں کرتی ہیں جو چیڑوں کے کانوں میں
اسے اڑتے ہوئے رنگین گل پردار سنتے ہیں
سبھی سنتے ہیں گھر میں صرف اپنی اپنی دلچسپی
دھسکتے بام و در کی سسکیاں بیمار سنتے ہیں
ہوائیں حادثوں کے جو اشارے لے کے آتی ہیں
انہیں ہم ان سنا کر دیں، مگر اشجار سنتے ہیں
زباں جو دل میں رہتی ہے کبھی لب پر نہیں آتی
اسے کوئی نہیں سنتا مگر فنکار سنتے ہیں
٭٭٭
کتنی خوش لفظ تھی تری آواز
اب سنایے کوئی وہی آواز
ڈھونڈتا ہوں میں آج بھی تجھ میں
کانپتے لب، چھئی مئی آواز
شام کی چھت پہ کتنی روشن تھی
تیری آنکھوں کی سرمئی آواز
جسم پر لمس چاندنی شب کا
لکھتا رہتا تھا مخملی آواز
ایسا سنتے ہیں، پہلے آتی تھی
تیرے ہنسنے میں نقرئی آواز
اب اسی شور کو نچوڑوں گا
میں پیوں گا چھنی ہوئی آواز
٭٭٭
بھوک کے اور پیاس کے مارے پرندے
مر گئے جذبات کے سارے پرندے
کب تلک ڈھوتے ہوا کا بوجھ یوں ہی
آ گئے واپس تھکے ہارے پرندے
شام کو لوٹے ہیں لے کر ایک دانا
اور کیا لاتے یہ بیچارے پرندے
ان کی پروازوں میں صبح و شب نہیں ہے
یہ تصور کے ہیں بنجارے پرندے
کیا ترے آنگن میں گندم سوکھتے ہیں
تیری چھت پر آ پھرے سارے پرندے
٭٭٭
اس زمیں کا کتنا ٹکڑا ہے مرے گھر کے لئے
کتنا امبر ہے مرے بازو مرے پر کے لئے؟
یہ مرا سر ہے کہ جو ہر دور میں کٹتا رہا
اور کتنے دور باقی ہیں مرے سر کے لئے؟
صرف میرا جسم ہی محفوظ رکھے ہے مجھے
ورنہ مجھ پر کیا ہے اس ٹھنڈے دسمبر کے لئے؟
اور جو کچھ تھا، وہ جس کا تھا، اسی کو دے دیا
بس زمیں دو گز رکھی ہے اپنے بستر کے لئے
گھٹنے موڑے، سر جھکائے صبح سے بیٹھا ہوں میں
جسم عادی کر رہا ہوں چھوٹی چادر کے لئے
وہ ہیں میرے نقش پا اور یہ رہا وقتِ سفر
اور کیا حاضر کروں میں اپنے رہبر کے لئے؟
٭٭٭
شجر ہیں منتظر، آئیں پرندے
گلوں کے رنگ و بو گائیں پرندے
دبا کر چونچ میں رنگین تنکے
ہماری چھت پہ رکھ جائیں پرندے
تصور کے میں جب دانے بکھیروں
حسیں لفظوں کے پھنس جائیں پرندے
نظر صیاد کی پڑنے سے پہلے
مرے دل میں اتر جائیں پرندے
کبھی پھل پھول سے شاخوں پہ لٹکیں
کبھی آنچل سے لہرائیں پرندے
بغیچے میں جو آئے شاہ زادی
ہوا میں گھل کے اڑ جائیں پرندے
جو بن کے شام جب سورج کہے تو
پلٹ کر اپنے گھر جائیں پرندے
٭٭٭
بھلی کسی کو، کسی کو ہے جو بری دنیا
بہت دنوں سے مرے ساتھ ہے وہی دنیا
شکستہ خوابوں کے بکھرے ہوئے مناظر سے
کوئی بنائے کسی طور اک نئی دنیا
ملی ہے مجھ کو وراثت میں کیا کروں اس کا
ادھر سے چٹخی، ادھر سے کٹی پھٹی دنیا
ہیں چند ہاتھ یہیں پر کہ جن کی مٹھی میں
نہ جانے کب سے دبی ہے مڑی تڑی دنیا
بکھر گیا تھا سبھی کچھ ترے پلٹتے ہی
پڑی تھی چار طرف اک لٹی پٹی دنیا
اجڑتے وقت میں کیسے سنبھال کر رکھوں
بسی ہے دل میں مرے جو ہری بھری دنیا
٭٭٭
مرا یہ وقت مجھے کس طرح سے مارے گا
زبان کھینچے گا میری کہ سر اتارے گا؟
سراب کی ہے ندی پھر بھی عشق ہے تو ندی
جو اس میں ڈوبا اسے کیا کوئی ابارے گا؟
سحر سے شام تلک ڈھونڈتا پھروں گا اسے
وہ شب کی چھت سے مجھے بے نوا پکارے گا
اسیر زلف تو چوکھٹ پہ آ کے بیٹھ گئے
سوال یہ کہ وہ زلف کب سنوارے گا؟
اگر یہ دنیا ہے اس کی لکھت تو پھر کس دن
وہ آ کے اپنی عبارت کو کچھ سدھارے گا
٭٭٭
یوں ہی گردن جھکائے بیٹھا ہوں
اپنی خلوت بچھائے بیٹھا ہوں
تجھ کو دل میں سمو لیا کب کا
تجھ کو کب سے بھلائے بیٹھا ہوں
کیوں نہیں گرتا ٹوٹ کر امبر
دونوں بازو اٹھائے بیٹھا ہوں؟
کس کو آیا ہوں الوداع کہ کر
کس کو دل سے لگائے بیٹھا ہوں؟
شب کے جنگل میں سوکھی یادوں کی
کب سے دھونی رمائے بیٹھا ہوں؟
٭٭٭
وہ بد دعا کا ہاتھ ہے یا ہے دعا کا ہاتھ
رہتا ہے میرے سر پہ ہمیشہ ہوا کا ہاتھ
صدیوں سے جو دبا ہے کسی پاؤں کے تلے
یا تو ہمارا ہاتھ ہے یا پھر تمہارا ہاتھ
کیا ہے جو میرے دل پہ ہے نا دیدہ بوجھ سا
میرے خیال میں تو وہی ہے خدا کا ہاتھ
برسوں سے ایک سلسلہ جاری ہے صبح و شام
آتا ہے دسترس میں مری اک فسردہ ہاتھ
آنکھوں میں تیرتی ہیں دو آنکھیں بھری بھری
سر پر رکھا ہے میرے کوئی تھرتھراتا ہاتھ
چہرہ بجھا بجھا ہے کوئی کانپتے سے لب
سہلا رہا ہے پیٹھ کوئی روکھا سوکھا ہاتھ
٭٭٭
تیرگی ہے نہ روشنی آواز
ٹوٹے دل کی ہے خامشی آواز
اب بھی ٹھہری ہے دل کے گنبد میں
جانے کس کی یہ گونجتی آواز
سن رہے ہیں پرندے پیڑوں کی
چرمراتی، کراہتی آواز
بڑھتی جاتی ہے روشنی کی ہوس
ہوتی جاتی اندھیری سی آواز
لگ گئے پیٹ جن کی پیٹھوں سے
کیسے دیں گے وہ زور کی آواز؟
٭٭٭
چند الفاظ، کچھ احوال تھے، اب وہ بھی نہیں
تیری یادوں کے خد و خوال تھے، اب وہ بھی نہیں
رات تو رات کبھی دن میں بھی سو لیتے تھے
کیسے اچھے وہ مہ و سال تھے، اب وہ بھی نہیں
کتنے افلاک ہیں، یہ مجھ سے پوچھئے، صاحب
کیا تو بازو و پر و بال تھے، اب وہ بھی نہیں
یاد آتی ہیں گئے وقتوں کی اپنی باتیں
جملے جملے میں سر و تال تھے، اب وہ بھی نہیں
روز و شب یاد تری، کھوج تری، بس یہ ہی
اپنے دو ایک ہی اعمال تھے، اب وہ بھی نہیں
٭٭٭
س بستی میں میرے جیسے بھی ہوں گے دو چار آدمی
جیون سے بیزار آدمی، جینے کو تیار آدمی
میری بس اتنی چاہت ہے ہر گھر میں، ہر آنگن میں
گل مہندی سی عورت مہکے، جھومیں ہرسنگار آدمی
مارے تو سب ہی جائیں گے اس جنگِ سرمایہ میں
اول وہ مارا جائے گا جو ہو گا لاچار آدمی
روز و شب کا بھید نہ مانے، سکھ دکھ سے بے پروا ہو
یا تو کوئی مجنوں ہو گا یا ہو گا بیدار آدمی
اسی شہر میں کہیں چھپا ہے کالا جادوگر، ورنہ
معمولی انساں بن جاتا ہے کیسے خونخوار آدمی؟
٭٭٭
کیا ٹوٹا، کس چیز کے ٹکڑے بکھرے ہیں
پتہ کرو، شیشے کیسے، دل کیسے ہیں؟
برف رات میں بھی شاید تم آ جاؤ
دیا جلے سے آگ جلائے بیٹھے ہیں
زیادہ تر کو پتہ نہیں اپنی منزل
زیادہ تر روز و شب چلتے رہتے ہیں
وہ پربت مجھ میں ہے یا میں پربت میں
بادل میرے کاندھوں پر ہی ٹھہرے ہیں
بارش میں کہسار دیکھ، چھت پر آ کر
تیرا سبز دوپٹہ ہی سب اوڑھے ہیں
٭٭٭
کب تلک بیٹھا رہے گا یہ جہاں در پر مرے
اور کتنے دن رہے گا آسماں سر پر مرے
معجزہ قسمت کا ہے یا ہے یہ ہاتھوں کا ہنر
آ گرا میرا جگر ہی آج نشتر پر مرے
چھٹپٹاتا ہے بیچارہ ریگ زاروں سے گھرا
کوئی تو دستِ کرم ہوتا سمندر پر مرے
جو جہاں پر ہے وہیں پر گھل رہا ہے دن بدن
چھا گئی ہے بے ہسی کی گرد منظر پر مرے
گو کہ رکھتا ہوں میں دشمن سے حفاظت کے لئے
نام تو میرا مگر لکھا ہے خنجر پر مرے
ڈھونڈتا رہتا ہوں اپنا گھر میں شہرِ خواب میں
رات بھر سوتا ہے کوئی اور بستر پر مرے
٭٭٭
میں گہری نیند میں تھا جب کہ یہ بھیجی گئی دنیا
اب استعمال کرنی ہے مجھے دے دی گئی دنیا
بوقتِ صبح لگتا تھا کہ کچھ کچھ دسترس میں ہے
جو آئی شام، ہاتھوں سے مرے لے لی گئی دنیا
پڑی ہے جا بجا ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑوں سی
کسی انجان کھڑکی سے کبھی پھینکی گئی دنیا
میرے در پر نئے دن کو مہکتے پھول کی صورت
سحر جو رکھ گئی تھی شام کو لیتی گئی دنیا
یہ اپنا دیش ہے، آ جائیں گے واپس یہیں، پھر بھی
چلو، ڈھونڈیں اسے جو خواب میں دیکھی گئی دنیا
٭٭٭
کبھی زمیں سے، کبھی آسماں سے آتے ہیں
غزل کے شعر تو دونوں جہاں سے آتے ہیں
وہ چند لفظ دھڑکتے رہے جو دل کی طرح
مری زبان میں تیری زباں سے آتے ہیں
چلے جو در سے تیرے، کھو گئی سبھی سمتیں
بتائیں کیسے کہ اب ہم کہاں سے آتے ہیں؟
جہاں پہنچ کے نہ لوٹیں کبھی فرشتے بھی
وہ خلد ہو کہ نہ ہو، ہم وہاں سے آتے ہیں
وہ ہم سفر کہ جو رہتے ہیں آخری دم تک
بہت پرانی کسی داستاں سے آتے ہیں
٭٭٭
خوشبو کا بھی وہی ہے جو ہے چلن ہوا کا
اس کا بدن ہوا کا، ہے پیرہن ہوا کا
کل رات یاد جاناں یا چاندنی کے باعث
بے حد چمک رہا تھا سیماب تن ہوا کا
صدیوں گیا وہ اس کے پیچھے، حدِ جہاں تک
لیکن نہ ڈھونڈ پایا ملک و وطن ہوا کا
اپنے بدن سے ہٹ کے محسوس کر سکو تو
تم کو دکھائی دے گا عریاں بدن ہوا کا
میرے قریب آئی خوشبو ہوا پہن کر
پلٹی تو بن گئی تھی خود پیرہن ہوا کا
طوفاں کے بعد دیکھا گلشن کے ہر شجر نے
بے دم پڑی تھی خوشبو اوڑھے کفن ہوا کا
٭٭٭
سر پہ دستِ ہوا ہے صدیوں سے
غیب کا آسرا ہے صدیوں سے
چشمِ انساں ہے آج تک پر نم
یہ بھی اک مدعا ہے صدیوں سے
ہے کم و بیش نیلگوں ہر شے
درد کا سلسلہ ہے صدیوں سے
جیسے پانی ہوا ہوا پانی
مجھ میں تو مبتلا ہے صدیوں سے
صرف دو پاؤں اور وسیع زمیں
زندگی آبلہ ہے صدیوں سے
٭٭٭
ممکن ہے وہ بھی ہو تنہا، یہیں کہیں ہو گا
اپنا سب سے عمدہ لمحہ وہیں کہیں ہو گا
یہ کیسی آواز کہیں کچھ ٹوٹا ہے شاید
یہیں کہیں دل ہو گا، صدمہ یہیں کہیں ہو گا
وہ رخصت کا لمحہ، دن میں چاند گہن گویا
اس لمحے کا دھندلا چہرہ یہیں کہیں ہو گا
یہیں بیٹھ کر ہم نے گھنٹوں باتیں کی چپ چاپ
اس چپّی کا گونگا نغمہ یہیں کہیں ہو گا
اسی جگہ بیٹھا تھا وہ، یہ جگہ دھڑکتی ہے
ڈھونڈوں تو، مٹی میں جذبہ یہیں کہیں ہو گا
٭٭٭
چند الفاظ کچھ احوال بچا رکھے ہیں
ہم نے دو ایک ہی اعمال بچا رکھے ہیں
پہلے گاتے تھے، بجاتے تھے ہواؤں کے مزاج
اب تو ٹوٹے ہوئے سر تال بچا رکھے ہیں
اڑ گئے حسن و جوانی کے پرندے کب کے
ہاں، تصور میں خد و خوال بچا رکھے ہیں
بیٹھا کرتا تھا کبھی آ کے جو طائر، اس کے
اک دریچے نے پر و بال بچا رکھے ہیں
ایک نا دیدہ صنم بھی ہے کہیں تیرے سوا
اس کی خاطر یہ مہ و سال بچا رکھے ہیں
٭٭٭
کچھ اگر ہونا تھا تو یوں بھی ذرا ہونا تھا
تیرے جیسا ہی کوئی تیرے سوا ہونا تھا
یہ زمیں گود میں ہونی تھی تیری بچی سی
آسماں آنکھ میں سرمے سا لگا ہونا تھا
تجھ سے مل کر میں زمانے کی طرف سے لوٹا
ٹوپی گرنی تھی، گریبان پھٹا ہونا تھا
تیرے آنے کی خبر سے ترے دیوانوں کے
شہر کے شہر کو چیخوں سے بھرا ہونا تھا
اوڑھ کر شب تو مرے ساتھ سفر میں ہوتی
بوجھ دن کا مرے شانوں پہ رکھا ہونا تھا
٭٭٭
ہے تو سب کچھ مگر نہیں سا ہے
شانے دونوں ہیں، سر نہیں سا ہے
گھر سے نکلا تو ہو گیا بے گھر
اب خدا کا بھی ڈر نہیں سا ہے
چاند ہے تو شفق کی ساعت کا
ہے تو موجود پر نہیں سا ہے
گھر کی چھت پر ہے اک بڑی سی چھت
چھت کے نیچے کا گھر نہیں سا ہے
عشق ایسا مکان ہے جس میں
آنے جانے کا در نہیں سا ہے
٭٭٭
صبح گھر سے نکل کے جاتے ہیں
شام تک سب کو ڈھونڈ لاتے ہیں
جو پہنتے ہیں ریگزاروں کو
وہ ہی بارش کو کھینچ لاتے ہیں
باغ کے سارے برگ و گل مل کر
اوس کی پالکی سجاتے ہیں
بات کرنا تو جانتے ہوں گے
پھر وہ تلوار کیوں اٹھاتے ہیں؟
وقت رہتا ہے آئینے میں کہیں
اپنے چہرے ہمیں بتاتے ہیں
ذکر کرتے ہیں زخمِ دل کا مگر
دل کسی کا کہاں دکھاتے ہیں
٭٭٭
جتنے رستے وا تھے ہم سب پر گئے
پھر کہاں جاتے سو اپنے گھر گئے
جو فرشتے تھے کتابوں میں نہاں
جلد سے باہر ہوئے تو مر گئے
وقت کے بدلاؤ کی سوغات تھے
زخم اپنے آپ سارے بھر گئے
میرے دست و پا تو بے زنجیر تھے
کس طرح الزام میرے سر گئے
لفظ تو دو تھے خدا حافظ، مگر
تم نہ جانے کس طرح کہہ کر گئے
٭٭٭
ماخذ: کوتا کوش ڈاٹ آرگ
رسم الخط کی تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں