فہرست مضامین
خوابوں کے رنگ
سلمیٰ اعوان
مکمل کتاب پڑھنے کے لیے ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
ابّا کے نام
میرے ابّا کیسے تھے ؟ یونانیوں جیسے۔ پر پولیو نے داغ لگا دیا تھا۔ چال پر بھی اور قامت پر بھی۔ کبھی کبھار جو ہنستے محسوس ہوتا جیسے چہرے پر گلاب کا کھیت اُگ آیا ہے۔ پر جونہی بولتے، سُولوں کے نوکیلے سروں کے چُبھنے کا گمان گذرتا۔ جس دن اُنہیں دُنیا سے جانا تھا۔ اپنی واکنگ سٹک سے میری ٹانگوں کی تواضع کی کہ میں اسپتال کے کوریڈور میں اُن سے تیز کیوں چلتی ہوں ؟ ٹسٹوں اور ایکس رے کے بعد اپنے بیڈ پر آ کر اُنہوں نے غصیلے انداز میں مجھے دیکھتے ہوئے اپنی خالی کلائی کی طرف اشارہ کیا اور جب میں اُنہیں گھڑی پہناتی تھی اُنہوں نے آنکھیں بند کی تھیں اور پھر وہ آنکھیں میری کسی اونگی بونگی حرکت پر غُصّے کی اظہار کے لئے نہیں کھُلی تھیں۔
زندگی کیسا تیرا چلن
گئے دنوں کی بات ہے۔ یہی پینتیس چالیس سال پہلے جب زمانے کو ابھی اتنے پر نہیں لگے تھے۔ پرنٹ میڈیا نے بھی خوبصورتی کو گلیمرس کرنا نہیں سیکھا تھا۔ کوٹھوں اور چوباروں کے زینے نہیں چڑھا تھا، الیکٹرونک میڈیا تو ابھی دودھ پیتا رالیں ٹپکاتا بچہ تھا۔ ایسے میں حُسن کو خراج پیش کرنے اور خوبصورتیوں کے موازنوں اور مماثلتوں کے لیے صرف محاوروں اور پڑھی ہوئی چیزوں پر ہی اکتفا کرنا پڑتا تھا۔
ہم نچلے متوسط طبقے کی عام سے خدوخال والی لڑکیاں تو اُس کے انتہا درجے کے فسوں خیز حُسن کو پہلی بار دیکھ کر بھونچکی رہ گئیں۔ پلکیں جھپکنا تو درکنار چند لمحوں کے لیے تو سانس لینا بھی بھول گئیں۔ سچی بات ہے کیا شے تھی وہ۔ ہاتھوں کانوں سے ننگی بُچی تھی۔ ہونٹوں گالوں پر ذرا سی لیپا پوتی نہیں تھی۔ پر وہ جو کہتے ہیں کہ حُسن تو خود ایک فتنہ پرور شے ہے۔ بناؤ سنگھار کے تام جھام نہ بھی ساتھ ہوں تو بھی اکیلا ہی کافی ہوتا ہے۔
پہلی ملاقات بس سٹاپ پر ہوئی تھی۔ کالج میں سارا وقت وقفے وقفے سے بجلی کا کوندا سا لپک کر آنکھوں کے سامنے لہراتا رہا۔ دماغ میں کھلبلی سی مچی ہوئی تھی۔ لٹریچر کی کلاس میں پرڈیٹا The Winter’s Tale کے صفحوں سے نکل کر سامنے آ گئی اور اُس کے چہرے سے اپنا چہرہ ٹکا کر بولی تھی۔
’’لو دیکھو تو ذرا مجھے بھی۔ ‘‘
’’چلو ہٹو۔ اندر جیسے بھنا کر بولا تھا۔ کہاں تمہارا معصوم سا دیہاتی حُسن اور کہاں وہ لشکارے مارتی بجلی۔ ‘‘
ٹکراؤ ہر روز بس سٹاپ پر ہوتا۔ جونہی وہ بصارت کی زد میں آتی میری آنکھوں میں جیسے ایکسرے مشین فٹ ہو جاتی۔ سر سے لے کر پاؤں تک کا جائزہ۔ سنہرے خشک بک میں بھر جانے والی لانبے بالوں کی چوٹی جیسے بین کی دھُن پر رقصاں کسی مست ناگن کی طرح اُس کی کمر پر لہرا رہی ہوتی۔ مخروطی انگلیوں والے اُس کے دودھیا ہاتھ تو مجھے رانی جنداں کے ہاتھوں جیسے لگتے۔ بڑی گھمنڈی تھی۔ خود بینی و خود آرائی کی سان پر چڑھی ہوئی۔ مجال تھی کہ آنکھوں کے زاویوں کا رُخ کبھی کسی چہرے کی طرف کر لیتی۔ گداز گلابی ہونٹ ایک دوسرے سے چپکائے نظریں اسی سمت جمائے رکھتی جدھر سے بس متوقع ہوتی۔ میں بھی کسی گھائل ہوئے عاشق کی طرح ایسی جگہ بیٹھنے کو ترجیح دیتی جہاں اُس کے نظارے میں سہولت ہو۔
جب من کو بھانے کا عمل ایسا زور دار ہو تو پھر جان کاری کے لیے جان پر ہی بن آتی ہے۔ کھوج کاری کی تو نام ذکیہ طور پتہ چلا۔ بی۔ ایس سی لائل پور کے کسی کالج سے کی تھی اور اب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم۔ ایس سی کی سٹوڈنٹ تھی۔ گھر میرے راستے میں تھا۔ بیچارہ ٹوٹا پھوٹا، واویلا کرتا اور مکینوں کا پول کھولتا ہوا۔
’چچ چچ‘ یہ ہیلن آف ٹرائے تو ہماری طرح غریبڑی سی ہے۔ دل تو جیسے بلیوں اُچھلا تھا پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ سب جھوٹ لگ رہا تھا۔ شاید اسی لیے زبان سے بھی نکل گیا۔
’’یار جمیلہ اب سین میں کلائمکس تو پیدا نہ کرو۔ معلومات کے اس منبع یعنی میری کلاس فیلو جمیلہ رزاق نے بہت بُرا منایا۔ ‘‘
’’تُف ہے تم پر۔ گھر آ جانا لے چلوں گی تمہیں اس کے ہاں۔ جانا نہ چاہو تو چھت کے بنیرے سے دیدار کروا دوں گی۔ ‘‘
جمیلہ ایک اور اطلاع کی بھی راوی تھی کہ وہ اپنی پھوپھی کے بیٹے سے منسوب ہے اور اس کا منگیتر لندن میں ہے۔ لندن کا سُن کر میں نے سوچا۔
’’ارے یہ لندن چلی جائے گی۔ اس کا حُسن تو وہاں کی سرد ہواؤں میں اور قیامت بن جائے گا۔ ‘‘
ہاں تو چلیے اب اس کہانی کے دوسرے رُخ پر۔
اُس دن چھٹی ہی تھی جب میرے والد نے میری امّاں سے کہا۔
’’اُٹھو اور میرے لیے چائے پراٹھا بنا دو۔ میں نے ڈاکٹر محمود کے ہاں کام کے لیے جانا ہے۔ ‘‘
امّاں ہفتے کے چھ دن نور پیر کے سمے اُٹھنے کی عادی تھیں۔ ساتویں دن وہ تھوڑی سی عیاشی کے موڈ میں ہوتیں۔ تنک کر بولیں۔
’’کبھی چھٹی کے دن گھر پر بھی ٹک جایا کرو۔ اب سارا دن وہاں گُل کر کے آؤ گے۔ ‘‘
’’میرا جانا تمہارے دیدوں میں کیوں چُبھنے لگا ہے ؟ دوائی کے پیسے دیتے ہوئے تو تمہاری جان نکلنے لگتی ہے۔ ‘‘ ابا کا لہجہ امّاں سے بھی زیادہ کھُردرا اور کڑوا تھا۔
رات کو جب ابا آئے اور باورچی خانے میں ہمارے پاس بیٹھے تو امّاں سے مخاطب ہوئے۔
’’بھئی ڈاکٹر کی بیوی کوئی حسین ہے یقین کرو میں نے ایسی شاندار اور خوبصورت عورت آج تک نہیں دیکھی۔ ‘‘
چولہے میں جلتی لکڑیوں کی زرد روشنی میں مجھے ابا کی آنکھیں اور ان کے چہرے پر پھیلے تاثرات سب حُسن کے سحر میں ڈوبے ہوئے نظر آئے تھے۔
امّاں نے روٹیاں پکا لی تھیں۔ توے کو اُٹھا کر دیوار سے ٹکایا تو اس کی پشت پر ٹمٹماتی ننھی ننھی چنگاریوں کا ایک بڑا سا دائرہ یوں نظر آیا جیسے کسی نے لَو دینے والے موتیوں کو کسی بڑے سے تھال میں چُن دیا ہو۔
ابا نے ڈاکٹر کی بیوی کے حسین ہونے کا ذکر کیا تو دھیرے دھیرے بُجھتے اُن چنگاریوں کے دائرے پر مجھے ذکیہ طور کا چہرہ نظر آیا۔ اندر سے سوال ہوا تھا۔
اُس ذکیہ طور سے بھی زیادہ۔
گھر میں وائرنگ کی تاریں لگانا تھیں۔ مجھے اس نے سب کمرے دکھائے۔ ہدایات دیں اور کہا۔
’’دیکھو مستری کام بہت عمدہ ہونا چاہیے۔ پیسوں کی فکر مت کرنا۔ ہاں کہو ناشتہ واشتہ کرو گے ؟‘‘
میں نے کہا۔
’’جی ناشتہ تو کر چکا ہوں البتہ چائے پئیوں گا اور کام کی تسلی رکھیں۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا گھر ہے اور ڈاکٹر صاحب ہمارے مہربان ہیں۔ ‘‘
کیا بتاؤں کلثوم جب وہ چلتی تھی تو لگتا تھا جیسے کسی جھیل کے نیلے پانیوں پر ہنس راج تمکنت سے تیرتا ہو۔ بات کرتی تھی تو کانوں میں گھنگھرو سے بجنے لگتے تھے۔
امّاں ابا کی ایسی شاعرانہ با توں پر مارے اشتیاق کے بولیں۔
’’سچی ایسی ہے تو مجھے بھی دکھانا‘‘
’’لے چلوں گا تمہیں بھی کسی دن۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا ‘‘
اور واقعی ایک دن امّاں بھی ابا کے ساتھ سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر اس کے دیدار کو چلی گئیں۔ جب واپسی ہوئی تو حُسن کے قصیدے بھی زبان پر تھے۔ دریا دلی کے قصے بھی اور حُسن اخلاق کی باتیں بھی۔
’’قربان جاؤں اس پیدا کرنے والے کے۔ جب کہیں فرصت ملی ہو گی نا تو اس وقت بنایا ہو گا۔ ارے صورت تو اللہ کی دین ہے پر اس کا تو اخلاق بھی ایسا کہ بندے کے کلیجے میں ہی اُتر جائے۔ اور جو بات کرے تو لگے جیسے پھُول جھڑ رہے ہوں۔ اور دل۔
’’ارے اتنا بڑا‘‘ امّاں نے ہاتھوں کو یوں پھیلایا جیسے اس کے دل کی پیمائش ہی تو کر کے آئی ہوں۔ پہلے تو مٹھائی اور بسکٹ کھلائے پھر چائے پلائی۔ اور یہ تم بچوں کے لیے زبردستی ساتھ کیا۔ امّاں نے تھیلے میں سے ڈھیر سارا پھل کنالی میں لڑھکاتے ہوئے کہا۔
’’ارے ‘‘ امّاں پھر بولیں۔
’’ڈاکٹر بھی گھبرو جوان ہے۔ نقش بھی سوہنے اور رنگ بھی کھلتا ہے۔ جوڑی تو جیسے چاند سورج کی ہے۔ ‘‘
امّاں کے ساتھ ابا نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
ڈاکٹر کے دو بچے تھے۔ بیٹا اور بیٹی۔ ہماری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر کی ظاہری پُر کشش شخصیت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر کی کچھ داخلی خوبیوں نے قرب و جوار کے پورے علاقے میں اُسے معروف و مقبول بنا رکھا تھا۔ نرم خو اور ہمدرد جس کے کلینک اور ملحقہ اسپتال کے برآمدوں میں مُفتوں کی بھی لام ڈور موجود ہوتی۔ ڈاکٹروں کے خاندان سے تھا۔ تینوں بڑے بھائی اور ان کے بیٹے سب اس مقدس پیشے کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔
پھر ایک عجیب سا واقعہ ہوا۔ یہ گلابی سے جاڑوں کے دن تھے۔ میں پڑھتے پڑھتے سر شام ہی سو گئی تھی۔ رات کا جانے کو نسا پہر تھا جب اچانک میرے آنکھ کھل گئی۔ بتی بند تھی پر امّاں ابا کی آوازیں قدرے اونچی سرگوشیوں میں جاری تھیں۔ ذکر ڈاکٹر کا تھا۔ کمرے میں کیننڈائل کی کہانیوں جیسا اسرار پھیلا ہوا تھا۔ میری آنکھیں پوری طرح کھل گئی تھیں اور کان چوکس ہو کر اُن سرگوشیوں کو سُننے لگے تھے۔
ابا کا لہجہ عجیب سا محسوس ہوا تھا جب وہ بول رہے تھے۔
’’کل اس نے مجھے اپنے کلینک پر بلوایا اور کہاکہ تم نے گھر جانا ہے بیڈ روم میں تھوڑا سا کام کرنا ہے۔ ‘‘
’’جناب میں اتوار کوہی جا سکوں گا۔ ‘‘
میں نے قدرے تذبذب سے کہا۔ کیونکہ مجھے گاؤں بھی جانا تھا۔ پر ڈاکٹر نے فوراً میری بات کاٹ دی۔
’’ارے نہیں بھئی بیگم کی زبردست تاکید ہے۔ کام نہیں ہوا تو مجھ پر چڑھائی ہو جائے گی۔ ‘‘
اب ایسے بیبے بندے کو مزید انکار تو مشکل تھا نا۔ میں ہنس پڑا ’’چلیے ٹھیک ہے تو پھر ایک دو دن میں کام ہو جائے گا مگر میں تین بجے کے بعد ہی جا سکوں گا۔ ‘‘
آج جب میں وہاں پہنچا۔ شام کے سائے تو ڈھل گئے تھے پر دیواروں اور درختوں پر دھوپ کے رنگ ابھی براجمان تھے۔ کوٹھی کا آہنی گیٹ بند تھا۔ پر چھوٹا دروازہ کھلا تھا۔ میں اور میری سائیکل کا داخلہ اسی راستے سے ہوا۔ پر اندر آ کر مجھے باغ اور گھر پر عجیب سی ویرانی اور سناٹے کا احساس ہوا۔ کوئی انسانی یا حیوانی آواز کوئی شکل کچھ بھی سنائی یا دکھا ئی نہ دیا۔ برآمدے میں ہونقوں کی طرح کھڑا اُلجھن میں گھرا کیا کروں اور کیا نہ جیسے احساسات میں اُلجھا تھوڑی دیر اس صورت حال پر کُڑھتا اور اپنے آپ سے یہ کہتا ہوا کہ بھئی اب مجھے اپنے پھیرے کو ضائع تو نہیں کرنا اور بیڈ روم جس میں مجھے کام کرنا ہے کا پتہ ہے۔ لہٰذا چل کر کام کرتا ہوں۔ پر قدم اُٹھا نے سے پہلے مجھے یاد آیا کہ چلو بیل بجا کر دیکھتا ہوں۔ میں گیٹ کی طرف ہو لیا۔
گھنٹی پر ہاتھ رکھا تو وہ شاید خراب تھی۔ اب اندر جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
میں چلتے چلتے پچھلے برآمدے میں پہنچ چکا تھا۔ بیڈ روم کے ساتھ باتھ روم تھا جس کا دروازہ باہر کو کھلتا تھا۔ میں نے اِسی سے اندر جانے کا سوچا کیونکہ وہ میرے قریب تھا۔ دروازے کو دھکا دیا۔ وہ کھلا تھا۔ میں باتھ روم میں داخل ہوا اور بیڈ روم کا دروازہ کنڈی سے پکڑ کر کھینچا۔ دروازہ کھل گیا پر میرے سامنے جو منظر تھا وہ۔۔۔۔۔ ‘‘
اس اندھیری رات میں میں پوری طرح ہوش و حواس میں آ چکی تھی میرے دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کہ مجھے لگا جیسے کہیں کلاک میرے سینے میں فٹ ہو گیا ہے۔
امّاں نے ہڑ بڑا کر پوچھا۔ ’’کیا دیکھا تم نے ؟‘‘
’’ارے کیا بتاؤں کیا دیکھا؟‘‘ ابا خاموش تھے اور امّاں کی بے کلی عروج پر تھی۔
’’بتاتے کیوں نہیں ؟‘‘
’’اری ڈاکٹر کی بیوی کسی مرد کے ساتھ ہم آغوش تھی۔ ‘‘
’’تو نے ڈھنگ سے نہیں دیکھا ہو گا۔ کیا معلوم وہ ڈاکٹر ہی ہو۔ ‘‘
’’لو اور سنو! وہ تو اپنے کلینک پر بیٹھا تھا۔ میں جاتے ہوئے اُسے بتا کر گیا تھا۔ ‘‘
اور امّاں نے توبہ استغفار کا ورد شروع کر دیا۔
’’بھاگوان میری تو ٹانگیں تھر تھر کانپنے لگی تھیں۔ پاؤں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہو رہی تھی۔ سانس جیسے لوہار کی دھونکنی کی طرح چلنے لگا تھا۔ کانپتے ہاتھوں سے میں نے جیسے دروازہ کھولا تھا ویسے ہی بند کیا اور باہر آ گیا۔ گیٹ کے پاس سے سائیکل اُٹھائی اُس پر چڑھا پر جب پیڈلوں پر پاؤں پڑے تو مجھے یوں لگا جیسے ان میں جان نہ ہو۔ راستہ بھر سوچتا رہا کہ اس کریہہ منظر کے متعلق کیا کروں ؟ ڈاکٹر کو بتاؤں یا خاموش رہوں۔
پہلے میں نے سوچا کہ یہ بڑے لوگوں کا معاملہ ہے مجھے اس میں ٹانگ نہیں اڑانا چاہیے۔ پھر خیال آیا کہ یہ تو صریحاً دھوکہ ہے کسی خیر خواہ کے گھر نقب لگ جائے۔ چور بند دروازے توڑ کر اندر گھس آئیں۔ مکین نمک حرامی پر اُتر آئیں اور غداری کر دیں تو مالک کو خبر تو کرنی چاہیے۔ یہی سوچتے ہوئے میری سائیکل کا رُخ ڈاکٹر کے کلینک کی طرف مُڑ گیا۔ ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ مصروف تھا۔ میں اندر گیا میرا چہرہ یقیناً زرد ہو گا۔ میرے ہونٹ یقیناً سفید ہوں گے۔ میری آنکھوں میں خوف کے سائے ہوں گے۔ کیونکہ میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی ڈاکٹر نے گھبرا کر پوچھا۔ ‘‘
’’کیا بات ہے خیریت تو ہے ؟ ‘‘
اور میں نے کہا ’’جناب بات تنہائی میں کرنے کی ہے ‘‘
ڈاکٹر فوراً اُٹھ کر پچھلے کمرے میں آیا۔ میں نے ساری بات اُسے بتا دی۔ اُسی لمحے وہ کار میں بیٹھا اور گھر چلا گیا۔ میں اپنے گھر آ گیا۔ اب پتہ نہیں اُس نے وہاں کچھ دیکھا یا نہیں۔
ابّاکی اس گفتگو نے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح مجھے رات بھر جگائے رکھا۔ پتہ نہیں کب صبح کے قریب میری آنکھ لگی پر آنکھ کھلی تو ذہن میں پہلی بات رات والی کہانی تھی۔
یقیناً ڈاکٹر نے وہی منظر دیکھ لیا ہو گا کیونکہ چند دنوں بعد سننے میں آیا کہ ڈاکٹر سخت پریشان ہے۔ کلینک کے اوپر کمروں میں رہنے لگا ہے۔ گھر نہیں جاتا۔ میاں بیوی میں ناچاقی ہو گئی ہے۔ بیوی طلاق مانگتی ہے۔ پھر کچھ ماہ بعد سننے میں آیا کہ ڈاکٹر نے طلاق بھی دے دی ہے اور بچے بھی۔
عورت کے متعلق بڑی مشہور سی روایت ہے کہ وہ پیٹ کی بڑی ہلکی ہوتی ہے مگر ہماری امّاں کا ہاضمہ بڑا زبردست نکلا۔ کسی کڑوے کسیلے گھونٹ کی طرح وہ اس واقعے کو پی گئی تھیں۔ ہماری نانی ڈاکٹر کے مستقل زیر علاج تھیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن کلینک جاتی رہتی تھیں۔ پر مجال ہے جو امّاں نے ذرا سی بھنک بھی ان کے کانوں میں ڈالی۔ ڈاکٹر کی ناکام ازدواجی زندگی کے متعلق وہ باتیں اور کہانیاں سُنتی اور لبوں کو سئیے بیٹھی رہتیں۔
اب مثلث کا تیسرا زاویہ بنتا ہے یوں کہ ہمیں سخت قسم کا تپ چڑھ آیا۔ دو تین دن تک کوئی نوٹس نہ لیا گیا پر چوتھے دن جب ہماری حالت خاصی خراب تھی۔ امّاں نے کہا۔
’’اب تمہارا باوا تو گاؤں گیا ہوا ہے۔ وہ تو جانے کب لوٹے تم خود ہی ڈاکٹر کے پاس چلی جاؤ نا۔ اپنے باپ کا نام بتا دینا وہ دوا دے دے گا۔ ‘‘
مجھے اس بات پر سخت غصہ آیا۔ تنک کر میں نے کہا۔
’’امّاں کمال کرتی ہیں کبھی بیمار آدمی بھی اکیلا ڈاکٹر کے پاس گیا ہے ساتھ ایک آدمی تو ہونا چاہیے۔ یوں بھی مجھے تو چکر آتے ہیں۔ کہیں گر گئی تو اور مصیبت پڑ جائے گی۔ ‘‘
’’توبہ اللہ کتنی تھڑ دلی ہو تم۔ ذرا سا بخار چڑھا اور جی ہار کر بیٹھ گئیں۔ کالج پڑھنے بھی تو جاتی ہو۔ دو قدم پر ڈاکٹر کے کلینک نہیں جا سکتی ہو۔ ‘‘
امّاں سے بحث کرنا قطعی بیکار تھا۔ چھوٹے موٹے بخار یا بیماری کو تو وہ کبھی لفٹ نہیں کراتی تھیں۔
چنانچہ میں نے حوصلہ کیا اور کلینک پہنچ گئی۔ برآمدوں اور کمروں میں مریضوں کا ایک اژدہام تھا۔ مگر کوئی مریض ڈاکٹر کے کمرے میں نہیں جا رہا تھا۔ گرمیوں کے دن اور لوگوں کا ہجوم۔ بیٹھنا دوبھر ہو رہا تھا۔ دیر بعد میں نے کمپونڈر سے پوچھا۔
’’کیا بات ہے ڈاکٹر بیٹھے ہیں یا نہیں ؟‘‘
’’بی بی ڈاکٹر صاحب کسی مریض سے بات کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’اچھا!‘‘ میں اپنے آپ سے کہتے ہوئے پھر بیٹھ گئی۔ تقریباً آدھ گھنٹہ پھر گزر گیا اور مریضوں کا ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہونا اور نکلنا شروع نہ ہوا تو میں نے ہمت کی اور ڈاکٹر کے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئی۔
میرے اللہ! کیسا رومان پرور سا خُنکی سے لبا لب بھرا ہوا خواب ناک سا ماحول تھا۔ اندر ائیر کنڈیشنر چل رہا تھا۔ ان دنوں ائیر کنڈیشنر خال خال کسی آدمی کے پاس ہوتا تھا۔ ہم جیسے ماڑے موٹوں کو تو اس کا علم بھی نہیں تھا۔ کمرے کی دیواریں ہلکی نیلی اور پردے گہرے نیلے تھے۔ ریڈیو مدھم سروں میں فلمی گیت الاپ رہا تھا۔ ڈاکٹر کرسی پر بیٹھا چہرے پر اشتیاق و شوق کی دُنیا بکھیرے سامنے دیکھ رہا تھا اور اس کے سامنے کون تھا؟
سامنے صوفے پر ذکیہ طور تھی دوسری طرف کرسی پر جمیلہ رزاق کی بڑی بہن ہاتھ میں کوئی رسالہ پکڑے بیٹھی تھی۔ ذکیہ طور نے میری طرف دیکھا۔ مدھ بھری شربتی آنکھوں میں برہمی کے آثار تھے۔ میں ان کی تنہائی میں مخل جو ہوئی تھی۔ ڈاکٹر کی نگاہوں میں بھی کچھ ایسے ہی احساسات مجھے محسوس ہوئے تھے۔
میں نے فوراً کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب میں مستری محمد علی کی بیٹی ہوں اور مجھے بہت سخت بخار ہے ‘‘
ابا کا نام سنتے ہی اس نے فوراً کہا۔ ’’آؤ آؤ یہاں بیٹھو۔ ‘‘ میں سٹول پر بیٹھ گئی۔ اور جب ڈاکٹر مجھے چیک کر رہا تھا میری نظریں ذکیہ طور کا طواف کر رہی تھیں۔ جمیلہ رزاق کی بہن نے مجھے پہچان لیا تھا اور ذکیہ طور سے کہا تھا۔ جمیلہ کی دوست اور کلاس فیلو ہے۔ میرے خیال میں وہ یقیناً وچولن کا پارٹ ادا کر رہی تھی۔
جب میں نسخہ لے کر باہر آنے والی تھی۔ میرا جی چاہا کہ میں کہہ دوں کہ ڈاکٹر صاحب باہر مریض گرمی میں بے حال آپ کی توجہ کے منتظر ہیں اور آپ ٹھنڈے کمرے میں عشق کے کھیل کھیل رہے ہیں۔ کم از کم عشق کے لیے یہ وقت تو موزوں نہیں۔
پر میں نے زبان کو لگام ڈال دی تھی۔ شاید مجھے خیال آیا تھا کہ اگر ڈاکٹر نے غصہ کر لیا تو یہ دوائی جو مجھے مفت ملنے والی ہے نہیں ملے گی اور میں موقع شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے مصلحت کا تالا منہ پر لگا کر باہر آ گئی۔
اگلے دن جب میں کالج گئی جمیلہ رزاق دیر سے آئی۔ میں نے اپنے ساتھ والی کرسی اس کے لیے خالی رکھ چھوڑی تھی۔ وہ جب آ کر بیٹھ گئی تو میں نے دھیرے سے اس سے کہا۔
’’تم تو بتاتی تھیں کہ ذکیہ طور اپنے پھوپھی زاد سے منسوب ہے پر وہ تو ڈاکٹر محمود کے ساتھ عشق کی پینگیں چڑھا رہی ہے۔ ‘‘
’’کم بخت ذرا دم تو لو کلاس ختم ہونے دو۔ ذکیہ طور تیرے اعصاب پر سوار ہو گئی ہے۔ ‘‘ اس نے قدرے غصیلی آواز میں کہا۔
جب کلاس ختم ہو گئی اور ہم باہر لان میں آ کر بیٹھ گئیں۔ جمیلہ رزاق بولی تھی۔
’’ذکیہ طور رات کو تو ٹھیک ٹھاک سوئی پر جب صبح اُٹھی تو بخار بھی تھا اور جسم میں شدید درد بھی۔ بہن نے فوراً چائے کے ساتھ بخار کی گولی دے دی۔ پر گیارہ بجے بخار کی تیزی کچھ ایسی ہی تھی جیسے اُسے کسی نے دانے بھُننے والی بھٹی میں پھینک دیا ہو۔ آپا اسوقت ان کے گھر میں ہی تھی۔ فوراً دونوں اُسے ڈاکٹر محمود کے پاس لے گئیں۔ ڈاکٹر نے فوری ٹریٹمنٹ دیا اور دو گھنٹوں کے لیے کلینک میں بھی رکھا پر نہ بخار میں کمی ہوئی اور نہ اس کی بے چینی میں۔ ذکیہ کی ابتر حالت کے پیش نظر ڈاکٹر محمود نے اس کی بہن کو مشورہ دیا کہ مریضہ کو خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ چاہے آپ اسے کسی اسپتال میں لے جائیں یا اسی کلینک میں رہنے دیں۔
بہن سخت گھبرائی ہوئی تھی۔ فوراً بولی ڈاکٹر صاحب آپ پر تو ہمیں پورا اعتماد اور بھروسہ ہے۔ میرے بچے چھوٹے ہیں میں کہاں اسپتالوں میں رُکتی پھروں گی؟
انتہائی توجہ کے باوجود جب رات آٹھ بجے تک مریضہ کی حالت میں اُنیس اکیس کا فرق بھی نہ پڑا تو ڈاکٹر محمود نے اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کو بُلا لیا۔
اب تم ذرا اس صورت حال کو تصور میں لاؤ کہ اُس رات ۹بجے لاہور کے قابل ترین چھ ڈاکٹروں کا گروپ مریضہ کے سرہانے پائنتی کھڑا صورت حال پر غور کر رہا تھا۔ اب ایسے میں ذکیہ طور کی بہن کا ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرنے میں زبان کا سوکھنا سمجھ میں آتا ہے۔
یہ کہنا کہ ڈاکٹر ذکیہ طور کے حُسن سے متاثر ہوا کچھ مناسب نہیں۔ ڈاکٹر کی اپنی بیوی بڑی حسین تھی وہ تو حُسن کا زخم خوردہ تھا۔ بس اُسے احساس ہوا تھا کہ یہ نوجوان لڑکی ایک خطرناک وائرس کا شکار ہو گئی ہے۔ اس کا فی الفور علاج بہت ضروری ہے۔ فطرتاً ڈاکٹر حد درجہ مہربان اور نرم خو تھا۔ اس کی بہن کی لامتناہی دعاؤں کے سلسلوں نے مریضہ کو کلینک میں رکھنے اور وی آئی پی ٹریٹمنٹ دینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور اب وہ اُسے مکمل تندرست کر کے بھیجنا چاہتا تھا۔
بقول آپا کے ذکیہ طور ایک طرح موت کو چھو کر لوٹی تھی۔ تین دن بعد کہیں جا کر اُس کا بخار ٹوٹا اور ہفتہ بھر بعد وہ کہیں اُٹھنے کے قابل ہوئی۔
ایک دن یوں ہوا کہ ڈاکٹر شام کے مریضوں سے فارغ ہو کر ذکیہ طور کے کمرے میں آیا تھا۔ اس وقت آپا ہی اس کے پاس تھی۔ اس کی بڑی بہن کو آپا نے گھر بھیج دیا تھا۔ آپا کا خیال تھا کہ میں جو یہاں موجود ہوں تو پھر اس کی کیا ضرورت ہے ؟ یوں بھی ذکیہ آپا کی موجودگی میں زیادہ سکون محسوس کرتی تھی۔
ڈاکٹر جب کمرے میں آیا اس نے ذکیہ کی خیریت دریافت کی۔ مُسکراتے ہوئے ذکیہ نے کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب سچی بات ہے شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ تو خیر بے معنی سے ہیں۔ آپ نے مجھے زندگی دی ہے وگرنہ تو مرنے میں کوئی کسر نہیں تھی‘‘
’’ارے ارے ڈاکٹر شرمسار سا ہوتے ہوئے بولا بچانا اور لے جانا تو اُس اوپر والے کا کام ہے ہم تو بس کوشش کرنے والوں میں سے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر اسوقت تھکا ہوا تھا۔ چائے پینے کے موڈ میں تھا۔ اُس نے ذکیہ سے چائے کے لیے پوچھا اس کے اثبات میں سر ہلانے پر نوکر کو چائے لانے کے لیے کہا گیا۔ آپا، ذکیہ اور ڈاکٹر نے چائے پی۔ جب ذکیہ نے اچانک پوچھا۔
’’ڈاکٹر صاحب اگر آپ میرے اس سوال کو اپنے ذاتی معاملات میں مداخلت نہ سمجھیں تو بتائیں گے کہ آپ گھر بار چھوڑ کر یہاں کیوں آ گئے ہیں ؟‘‘
اور جو کچھ سُنایا گیا اُس میں احساس کی انتہا کو چھونے والا سوز تھا۔ قلب کو تڑپانے والا گداز تھا۔ اس کے ایک ایک لفظ میں درد کا رچاؤ تھا۔ ذکیہ اور آپا دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بس سمجھ لو کہ یہی لمحہ تھا جب ذکیہ طور دل ہار بیٹھی۔
اب ایسی دلکش اور طرحدار لڑکی مریض ہو اور ڈاکٹر بھی بڑا دُکھی ہو تو ایک نیا رشتہ تو جنم لے ہی لیتا ہے۔ صبح ناشتہ بھی ڈاکٹر نے ان کے ساتھ ہی کیا۔ ذکیہ طور اب بہت بہتر محسوس کر رہی تھی۔
ڈاکٹر اور ذکیہ کی عمروں میں کوئی بیس سال کا فرق ہو گا مگر یہ فرق اسی رات مٹ گیا جس شب کھانا کھانے کے بعد وہ دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اچانک ذکیہ نے پوچھا۔
’’ڈاکٹر صاحب آپ کو بچے یاد نہیں آتے۔ ‘‘
اس اچانک سوال پر ڈاکٹر چند لمحوں تک کچھ بول ہی نہ سکا۔ اور جب اُس نے آنکھیں اُٹھا کر ذکیہ کو دیکھا اُسے اُن میں گھائل کر دینے والی کیفیت کا پرتو نظر آیا۔ اور جب وہ بولا تو یوں محسوس ہوا جیسے اس کی زندگی کے ساز کا سب سے دردناک تار بج اٹھا ہو۔
’’ذکیہ آپ تو اُس کرب کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتیں جس میں میں دن رات جلتا ہوں۔ مجھے حیرت ہے کہ میں پاگل کیوں نہیں ہو گیا؟ عورت ذات نے میرے یقین اور اعتماد کو پاش پاش کر دیا ہے۔ مجھے دیکھئیے۔ چھ فٹی قامت پر اچھے نقش و نگار اور صحت و تندرستی نے میرے وجود کو جاذب نظر بنایا ہوا ہے۔ چالیس سال کی عمر میں بھی تیس سال کے نوجوانوں جیسی پھرتی اور طاقت رکھتا ہوں۔ صاحب ثروت لوگوں میں میرا شمار ہوتا ہے۔ پھر کیا وجہ تھی کہ اُس نے حرام کے راستے اپنائے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُس عورت نے میرا سارا اعتماد مجروح کر کے مجھے احساس کمتری کے پاتال میں پھینک دیا ہے۔ ‘‘
ایسی وجیہہ شخصیت کی آنکھوں سے آنسو کیا نکلے ذکیہ طور ہمدردی اور خلوص کے طوفانی ریلے میں بہہ گئی۔ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھی اور ڈاکٹر محمود کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔
’’ڈاکٹر محمود یہ دنیا ہے قدرت نے ہر انسان کو انفرادی خصوصیات کی بنیاد پر پیدا کیا ہے۔ ایک عورت کے قصور وار ہونے سے ساری عورتیں مورد الزام نہیں ٹھہرائی جا سکتیں۔ اپنی سوچوں کو مثبت کیجیے۔ منفی سوچ اور طرز عمل زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ آپ اور آپ کی زندگی دونوں بہت قیمتی ہیں۔ میں ایسے مسیحا کے لیے خود کو پیش کرتی ہوں۔ مجھ پر اعتماد کریں۔ ‘‘
اس کے نرم و نازک و ملائم سے منے منے ہاتھ دیر تک ڈاکٹر کے لمبے چوڑے ہاتھوں کے اوپر پڑے رہے۔ ان ہاتھوں کے لمس کی گرمی سے ڈاکٹر پگھل گیا۔ گلو گیر سے لہجے میں بولا۔
’’میں بہت سادہ دل انسان ہوں۔ آپ نے میرا ہاتھ تھاما ہے اب اس تھامنے کی لاج رکھیے۔ ‘‘
اور یہ کیسی عجیب بات تھی کہ ذکیہ کو اس سمے کچھ بھی یاد نہ رہا۔ اپنا منگیتر، اپنے رشتہ دار، اپنے بہن بھائی جنہوں نے بہر حال اس رشتہ کی مخالفت کرنا تھی۔ وہ تو ہمدردیوں میں اپنی بصارت ہی کھو بیٹھی تھی۔
’’مگر ایک بات کا آپ کو بھی وعدہ کرنا ہو گا۔ ‘‘
’’ایک وعدہ کیا ہزار وعدے نبھاؤں گا۔ زندگی کی مختار کل آپ ہوں گی۔ ‘‘
’’ماضی کو دفن کر دیں۔ اتنا گہرا کہ کبھی کسی حال میں بھی اس کا کوئی رنگ کوئی عکس آپ کے چہرے آنکھوں اور ہونٹوں پر نہ آئے۔ ‘‘
’’وعدہ! ‘‘ ڈاکٹر نے اُس کے نرم و نازک ہاتھوں کو تھپتھپایا۔
دونوں کی آنکھیں مسکرائیں اور ہونٹوں کے گلاب کھلے۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ذکیہ اس درجہ طوفانی عشق کرنے والی لڑکی ثابت ہو گی۔ اس نے ببانگ دہل اعلان کر دیا کہ شادی خالصتاً میرا ذاتی معاملہ ہے اور میں اس میں کسی کی مداخلت کو ہر گز پسند نہیں کروں گی۔ بڑی بہنوں اور باپ نے سمجھایا کہ کچھ تو سوچو تمہاری پھوپھی کیا کہے گی؟
’’کچھ بھی کہے میں نے جو فیصلہ کرنا تھا کر لیا۔ ‘‘
سب سے بڑی بہن بہت غصے میں تھی۔ ’’جانتی ہو تمہاری عمروں میں کتنا فرق ہے۔ تمہارے باپ کی عمر کا ہے وہ۔ ابھی چونکہ تمہاری آنکھوں پر جذبات کی پٹیاں چڑھی ہوئی ہیں اس لیے تمہیں کچھ نظر نہیں آتا پر کل پچھتاؤ گی۔ ‘‘
’’پچھتاوے تو انسانی فطرت کا ایک حصہ ہیں جو چیز اسے نہیں ملتی وہ اس کا پچھتاوا بن جاتا ہے۔ کسک تو کسی نہ کسی چیز کی رہتی ہی ہے۔ مسعود کے ساتھ شادی کر لوں گی تو ڈاکٹر کو چھوڑ دینے کی کسک اور پچھتاوا رہے گا۔ اس لیے پچھتاووں کی باتیں آپ چھوڑ دیں۔ ‘‘
’’اور آج کل ذکیہ طور اور ڈاکٹر محمود کے عشق کا سورج نصف النہار پر چمک رہا ہے۔ ‘‘ جمیلہ رزاق نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’چلو آؤ کینٹین چلتے ہیں کچھ چائے وائے پیتے ہیں۔ ‘‘
اور میں اس کے ساتھ چلتے ہوئے سوچ رہی تھی اس ذکیہ طور کا ہر انداز نرالا ہے۔
میں نے جمیلہ رزاق کو دو تین دن پہلے والا قصہ سُنایا کہ کیسے میں دوائی لینے ڈاکٹر کے پاس گئی اور وہاں ذکیہ طور اور اس کی بڑی بہن کو بیٹھے دیکھا جس پر وہ بولی۔
’’آپا تو دونوں کی یوں کہو کہ مونچھ کا بال بنی ہوئی ہے۔ عشق کے سارے مرحلوں کی وہ راز دار
ہے۔ آج کل بیٹھک کلینک پر جمتی ہے۔ مریض بیچارے باہر سوکھتے رہتے ہیں۔ دیکھ لینا اس کی پریکٹس متاثر ہو گی۔ ‘‘
اور میں نے چائے پیتے ہوئے پوچھا۔
’’عورت کیا اتنی جذباتی ہوتی ہے کہ وہ پل بھر میں عمروں کے سودے کر ڈالے۔ ‘‘
اور جمیلہ رزاق ہنستے ہوئے بولی۔
’’سودے کر بھی لیتی ہے اور توڑ بھی دیتی ہے۔ وفا نباہنے پر آتی ہے تو زندگی کو سولی پر چڑھا دیتی ہے اور بے وفائی پر اُتر آئے تو اچھے بھلے حلال کو چھوڑ کر حرام کے ذائقے چکھتی پھرتی ہے۔ عورت کی بات مت کر۔ کیا شے ہے یہ؟‘‘
اور دو ماہ بعد سننے میں آیا کہ ذکیہ اور ڈاکٹر کی شادی ہو گئی۔ اس کا کوئی رشتہ دار اس شادی میں شامل نہیں ہوا۔ اس کی ایک دوست کے گھر ساری رسمیں ہوئیں اور وہیں سے وہ رخصت ہوئی۔
پھر جمیلہ رزاق کی شادی ہو گئی۔ میں کتابوں کی دُنیا میں گم ہو گئی۔ کتابوں اور ڈگریوں سے فراغت کے بعد شادی اور بچوں کے چکروں میں اُلجھ گئی۔ میکے میں کم کم جانا ہوتا۔ ابا بھی اگلی دنیا میں جا بسے تھے۔ ایسے میں ڈاکٹر اور ذکیہ طور کے بارے میں کچھ سننے کو نہیں ملا۔
لیکن ایک دن عجیب سا اتفاق ہوا۔
مدتوں بعد میں نے ذکیہ طور کو دیکھا۔ وہ بانو بازار میں داخل ہو رہی تھی اور میں نکل رہی تھی میں ٹھٹھکی۔ کہاں سر سبز لچکیلی شاخ پر کھلا تر و تازہ گلاب اور کہاں اب۔ کتاب میں رکھے کسی خشک پھول کی مانند۔ شربتی آنکھوں سے لپکتی روشنی کی جوت بُجھی ہوئی۔ وہ جلال وہ جمال وہ رعنائی وہ زیبائی سب قصۂ پارینہ تھے۔
بے اختیار میں نے اسے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شناسائی کا کوئی رنگ نہیں تھا۔ ہوتا بھی کیسے کبھی بات چیت تو ہوئی نہیں تھی۔
’’میں تمہاری ایک خاموش اور دیرینہ پرستار ہوں جس کے ذہنی افق پر آج بھی تمہارے خوبصورت عکس تھرتھراتے ہیں۔ ‘‘
وہ مسکرائی۔ پر یہ کیسی مسکراہٹ تھی یاس میں ڈوبی ہوئی افسردگی کے بوجھ تلے دبی ہوئی۔ پھر بے اختیار وہ سوال میرے ہونٹوں پر آ گیا۔
’’ڈاکٹر محمود کے ساتھ آپ کی شادی کیسی رہی؟‘‘
’’اچھی رہی۔ ڈاکٹر اچھا انسان ہے۔ مخلص، ہمدرد اور محبت کرنے والا۔ ‘‘
’’پر‘‘
اس ’پر‘ میں اس کی آنکھوں کے اندر تیرتی پھرتی اُداسیوں اور اُس کے چہرے پر پھیلی افسردگیوں کا راز تھا۔
اور اسے میں جاننا چاہتی تھی۔
’’پر کیا؟‘‘
شاید اسی لیے بے اختیار میری زبان سے نکلا تھا۔
ڈاکٹر کی شخصیت کا سارا ڈھانچہ صرف ’ہاں ‘ پر کھڑا ہے۔ ’ نہیں ‘ اس کی زندگی سے منہا ہو گیا ہے۔ اور صرف ’ہاں ‘ کے ساتھ گزارہ کتنا مشکل ہے ؟
میں احمقوں کی طرح پلکیں جھپکتے ہوئے اس کی صورت دیکھتی تھی۔ میرا چہرہ میری کم فہمی اور ہونقوں جیسے احساسات کا عکاس تھا۔ اُس نے میری آنکھوں اور چہرے کی اس زبان کو پڑھا اور میرے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے مدھم ٹھہرے ہوئے اور شگفتہ سے لب و لہجے میں بولی تھی۔
’’بھلا ساری زندگی میٹھے پر گزاری جا سکتی ہے ؟‘‘
وہ آگے بڑھ گئی تھی اور میں ساکت کھڑی اس کی پُشت کو دیکھتی تھی۔
٭٭٭
تیرے آنے سے
جب میری آنکھ کھُلی میرا سانس سینے میں اُتار اور چڑھاؤ کی اُسی کیفیت سے دوچار تھا جو لوہار کے یہاں دھونکنی کی ہوتی ہے۔ کمرے میں گھُپ اندھیرا تھا اور مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں لحد کی خوفناک تنہائی اور مہیب اندھیرے کی چادر میں لپٹی گُم سُم پڑی ہوں۔ گھبرا کر میں نے ہاتھ بڑھایا اور بتی جلائی۔ ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں مجھے اپنا آپ کسی بھوت کی مانند نظر آیا تھا۔ بوائے کٹ بال سلواڑ کے بوٹوں کی مانند کھڑے تھے۔ آنکھیں وحشت زدہ ہرنی کی مانند پھٹی ہوئی تھیں۔ میں نے تپائی پر پڑے پانی کے گلاس کو اُٹھا کر ہونٹوں سے لگایا۔ گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے اسے کوئی بیس منٹ میں خالی کیا۔ لیکن میرے دل کی وحشت ابھی تک اسی طرح تھی۔ میں نے سر بیڈ کے کنارے پر رکھتے ہوئے کراہ کر کہا۔
’’پروردگار ایسے خواب میرے گلے کا ہار کیوں بن گئے ہیں ؟ دنیا سے جانے والے ان لوگوں کا میں نے کیا بگاڑا ہے کہ یہ آئے دن مجھے وحشت زدہ کرنے کے لئے میرے خوابوں میں چلے آتے ہیں۔ ‘‘
در اصل بات یہ ہے کہ میں کوئی نیک اور پارسا خاتون نہیں ہوں کہ کہوں مجھے الہام ہوتا ہے۔ کشف والی بھی کوئی بات نہیں۔ پر واقعہ یہ ہے کہ مجھے سچے خواب آتے ہیں۔ بچپن سے لے کر عمر کے اس حصّے تک کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا علم مجھے کسی نہ کسی انداز میں ضرور ہوتا رہا ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے موت کے ظالم ہاتھوں میں میری ننھیال کھلونا بنی ہوئی ہے۔ مہینوں پہلے پیش آنے والا واقعہ مجھے کسی نہ کسی انداز میں اپنا رخ دکھاتا ہے۔ میں خود فریبی کے جال میں پھنس کر لاکھ کہتی پھروں کہ یہ سب میری سوچوں کا عکس ہیں۔ پر حقیقت چند ماہ بعد خوفناک رُخ میں سامنے آ جاتی ہے۔ اور یقیناً یہی وجہ ہے کہ میں اپنی سوچوں کے ساتھ ساتھ خوابوں سے بھی خوف زدہ ہوں۔
میرے وہ تمام عزیز اور رشتہ دار جو اس دنیا کو چھوڑ کر دوسری دنیاکے شہری بنے ہوئے ہیں۔ اکثر و بیشتر میری نیندیں حرام کرنے کے لئے میرے خوابوں میں آتے رہتے ہیں۔ آنکھ کھُلنے کے بعد رات کا بقیہ حصہ دیکھے ہوئے خواب کا تجزیہ کرنے میں گزر جاتا ہے۔ کبھی کبھی میں زِچ آ کر کہتی ہوں۔
’’خدا کے لئے میرا پیچھا چھوڑ دو۔ کیوں تنگ کرتے ہو مجھے ؟ ‘‘
کبھی زِچ ہو کر، کبھی تلملاتے ہوئے اپنے آپ سے بولے چلی جاتی ہوں۔
’’پروردگار یہ حساس ذہن بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ ‘‘
سچی بات ہے میں نہیں چاہتی کہ خواب میں اپنی عزیز از جان ماں کی صورت دیکھوں۔ باپ کا دیدار کروں۔
جنوری کی خنک ترین اس شب میں میرے ماتھے پرپسینے کی بوندیں تھیں۔ میں نے انہیں صاف کیا۔ قریب پڑے بیٹوں پر نظر ڈالی۔ وہ بچپنے کی نیند میں دھُت پڑے سوتے تھے۔ سر کہیں تھے اور ٹانگیں کہیں۔
آج میں نے خواب میں اُسے دیکھا تھا جو میری چھوٹی خالہ کی عزیز ترین سہیلی تھیں، جن کا نام ثریا تھا۔ جو میرے ننھیال والے گھر کے پچھواڑے رہتی تھیں اور جنہوں نے جوانی میں ہی موت کا جام پی لیا تھا اور اب تو قصّہ پارینہ بنی بیٹھی تھیں۔
آپا جی ثریا جنہیں میرے مرحوم بڑے ماموں جولی آلار کہتے تھے۔ یہ جولی آلار کون تھیں اور آپا جی کس وجہ سے اِس خطاب کی مستحق ٹھہری تھیں۔ بچپنے میں تو خیر کیا سمجھ آتی۔ بڑے ہو کرتاریخ میں جھانکنے اور اُسے کھنگالنے پر بھی میرے پلّے کچھ نہیں پڑا تھا۔ اتنا سا ضرور جانا تھا کہ مشہور فرانسیسی مصّنف دوُدے کی شریک زندگی کا نام تھا یہ۔ پر وہ جولی آلار تو زبردست قسم کی نقّاد اور بہترین لکھاری تھی جو شادی کے بعد مصنف پر ہر جہت سے اثر انداز ہوئی تھی۔ آپا جی کا تو لکھنے لکھانے سے کوئی واسطہ تعلق نہ تھا۔ ہاں البتہ مجھے تو وہ تاریخ کی کتابوں والی نورجہاں کی مانند لگتی تھیں۔
یہ میرے بچپن کا زمانہ تھا۔ جب میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھی تاریخ کو گھوٹا لگانے میں جُتی ہوئی ہوتی۔ وہ اپنی چھت سے مشترکہ دیوار کے سوراخوں میں پاؤں رکھتے ہوئے یوں نمودار ہوتی کہ بس یوں محسوس ہوتا جیسے گھور اندھیری رات میں کوئی بے حد روشن چمکدار ستارہ آسمان کے سینے پر ایکا ایکی نمودار ہو گیا ہو۔ ان کے چہرے پر مہاسے اور کیل بہت نکلتے تھے۔ پر اس کے باوجود ان کی صورت کی دلکشی ذرا ماند نہیں پڑی تھی۔ وہ صحن میں جھانکنے والی دیوار پر اپنی پُونی جیسی مخروطی اُنگلیاں رکھتے ہوئے اک ذرا آنگن میں گردن جھکا کر دیکھتیں اور مجھ سے پوچھتیں۔
’’فاطمی کدھر ہے ؟‘‘ فاطمی میری چھوٹی خالہ کا نِک نیم تھا۔
میں نہایت مؤدب انداز میں اس سرو کے بوٹے کو دیکھتی جو میرے سامنے ایستادہ ہوتا اور جو اب میں کہتی۔
’’آپا جی اپنے کمرے میں ہوں گی۔ ‘‘
گھر کے سارے بچے اُنہیں آپا جی ہی کہتے۔ میرا جواب سُن کر وہ سیڑھیاں اُتر کر نیچے چھوٹی خالہ کے کمرے میں چلی جاتیں۔
ایک طویل عرصے تک مجھے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ان کی کوئی اور بہن بھی ہے ؟ میرے خیال میں وہ اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھیں۔ یہ تو کہیں بعد میں پتہ چلا کہ ایک بڑی بہن بھی ہیں جو ایک ظالم شوہر کے پلّے بندھی ہوئی ہیں اور راولپنڈی میں رہتی ہیں۔ ہمارے گھر میں اُنہیں وہی پیار اور محبت حاصل تھی جو چھوٹی خالہ کو تھی۔ اُونچے اُونچے عہدوں پر فائز میرے دونوں بڑے ماموں اور ان کی کمائیوں پر مان کرتی میری نانی اُنہیں بہت عزیز رکھتی تھیں۔ چھوٹی خالہ اور وہ دونوں کلاس فیلو بھی تھیں اور ایک دوسرے کی دیوانی بھی۔
یہ گرمیوں کی ایک سہانی سی شام تھی۔ سارے دن کی جھُلسا دینے والی گرمی کے بعد شام کو ایکا ایکی تیز ہوائیں چلی تھیں اور موسم نہایت خوشگوار ہو گیا تھا۔ میں نہا کر ابھی باہر ہی آئی تھی۔ جب چھوٹی خالہ نے مجھے کہا۔
’’سنو ! تم ثریا کے ہاں جاؤ۔ رات وہیں رہنا۔ اس کی والدہ کہیں گئی ہوئی ہیں۔ اور وہ گھر میں اکیلی ہے۔ ‘‘
میری باچھیں کھِل گئیں۔ اُن کے گھر جانا اور اُن کے پاس رہنا بھلا اس سے بڑھ کر خوشی کی کیا بات ہو گی ؟ میری تو وہ آئیڈل شخصیت تھیں۔
چھوٹی خالہ کی کسی بات کو رد کرنا یا اُس کی حُکم عدولی کرنا گھر بھر میں کسی کے لئے ممکن نہیں تھا۔ ایک تو وہ بڑے بھائیوں کی لاڈلی چھوٹی بہن دوسرے مزاج کی بھی گرم۔ ہماری امّاں تو یوں بھی بے چاری کسی گنتی شمار میں نہ تھیں۔ بھائیوں اور ماں نے اس کی غربت پر ترس کھا کر اپنے محل نما گھر کا ایک کمرہ اسے دے رکھا تھا۔ ایسے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی کیا مجال تھی کہ وہ مجھے اس نادر شاہی حکم کی بجا آوری سے روک دیتیں۔
میں نے دیوار کے سوراخوں میں پاؤں رکھے اور دھم سے ان کے چھت پر کُود گئی۔ وہ باورچی خانے میں شاید کچھ پکا رہی تھیں۔ میں نے اُن کے قریب جا کر کہا۔
’’السلام علیکم آپا جی! میں آ گئی ہوں۔ ‘‘
انہوں نے شفقت اور محبت سے لبریز آنکھیں اُٹھا کر مجھے دیکھا اور بولیں۔
’’یہاں آؤ میرے پاس!‘‘
میں ان کے قریب چلی گئی۔ باورچی خانے میں موڑھے پڑے تھے ایک کی طرف
اشارے کرتے ہوئے انہوں نے بیٹھنے اور پھر چائے پینے کو کہا۔
اور جب میں چائے پیتی اور بسکٹ کھاتی تھی وہ بولیں۔
’’آج رات میرے پاس رہو گی میں تمہیں کہانی سناؤں گی۔ سسّی اور پُنوں کی۔ ‘‘
میں خوش ہو گئی تھی۔ چائے پی کر ہم دونوں صحن میں آ گئیں۔ اس وقت ہَوا ایسی سُبک خرامی سے چل رہی تھی کہ جی چاہتا تھا انسان آنکھیں بند کر کے اس کی لطافت کو اپنے اندر گھُسیڑ لے۔
دفعتاًسیڑھیوں پر دھپ دھپ کی آوازیں آئیں اور پھر ایک خوبصورت دلکش نوجوان جنگلے کے پاس آ کر رُک گیا۔
عجیب سی بات ہے مجھے اس وقت وہ کہانی یاد آئی تھی جس میں شہزادہ سلیم باغ میں آ نکلتا ہے اور مہرا لنساء کے ہاتھوں میں کبوتر پکڑا تا ہے۔
کہانیاں پڑھ پڑھ کر شہزادوں کے جو بُت تراش لئے جاتے ہیں وہ بس ویسا ہی تھا۔ خوب اُونچا لمبا، گورا چٹا، خوبصورت۔
میں نے ایک نظر آپا جی پر ڈالی تھی۔ اُن کا رنگ تانبے کی مانند سُرخ تھا اور وہ سامنے آسمان کی اس سمت پر نظریں جمائے ہوئے تھیں جہاں سورج اپنے شام کے گھر میں سستانے کے لئے جار ہا تھا۔
پھر شہزادہ سلیم ایک ایک قدم اُٹھاتا عین اس جگہ آ کر رُکا جہاں مہر النساء کھڑی تھی۔ اس نے ایک نظر ان پر ڈالی۔ دوسری آسمان پر اُڑتے پرندوں پر اور پھر بولا۔
’’پھوپھی جان کدھر ہیں ؟‘‘
’’وہ لائل پور گئی ہیں۔ ابی ّجان کے دوست بیمار ہیں۔ دونوں دیر تک گُم سُم ایک دوسرے کے سامنے کھڑے رہے۔ پھر جیسے اُنہیں ہوش آیا اور وہ بولیں۔
’’آپ بیٹھئے میں چائے بناتی ہوں۔ ‘‘
اور وہ خوبصورت رعنا جوان شوخی سے مسکرایا اور بولا۔
’’شکر ہے آپ کو بٹھانے اور چائے پلانے کا خیال تو آیا۔ ‘‘
میں اُس وقت اتنی بُدّھو نہیں تھی کہ ان کی آنکھوں سے جھانکتے وار فتگی کے جذبوں کو سمجھ نہ سکتی۔ چوتھی جماعت سے ہی عشقیہ کہانیاں پڑھ پڑھ کر خاصی سیانی ہو گئی تھی۔
پھر جب اُنہوں نے اُن کے ہاتھوں میں کپ پکڑایا تو وہ بولیں۔
’’میں نے تمہیں پرسوں آنے کا کہا تھا تم آئے نہیں۔ بتاؤ کیوں نہیں آئے ؟ کیا تمہیں مجھے انتظار کی صلیب پر چڑھا کر لُطف ملتا ہے ؟‘‘
اور وہ ہنسا۔ کتنی دلکش ہنسی تھی اس کی۔ میں ہونقوں کی طرح کھڑی اُسے دیکھے چلی جاتی تھی۔
’’میں بھی تو اس صلیب پر چڑھتا ہوں۔ تم فاطمی کے گھر جاتی ہو اور بھول جاتی ہو کہ تمہارا اپنا گھر بھی ہے اور وہاں کوئی بیٹھا سُوکھتا ہے انتظار کی دھُوپ میں۔ ‘‘
اور جب کائنات پر سیاہی مائل اندھیرا چھا رہا تھا۔ وہ جانے کے لئے اُٹھا۔ وہ اُسے خدا حافظ کہنے سیڑھیوں تک گئیں۔ میں نے چور آنکھوں سے دیکھا۔ ایک سیڑھیاں اُترتے اُترتے مڑ مڑ کر دیکھتا تھا اور دوسرا میری طرف پُشت کئے دیوانہ بنا کھڑا تھا۔ بہت دیر بعد وہ جیسے اپنے حواسوں میں آئیں، لوٹیں اور میرے پاس آ کر بولیں۔
’’ہاں تو سلو رانی بتائے کہ وہ کیا کھائے گی؟‘‘
’’آپا جی یہ کون تھے ؟‘‘ میں نے کھانے کے سوال کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’میرے ماموں زاد سلمان حسن ہیں۔ ‘‘
اس رات اُنہوں نے مجھے سسّی پُنوں کی کہانی سنائی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ سسّی اور پُنوں کے رُوپ میں خود ہوں۔
اور جب میں کالج جاتی تھی تب ایک دن مجھے اُن کے بارے میں کچھ یوں سُننے کو ملا۔ میری امّاں کہتی تھیں۔
’’گلاب کا پھول تھی۔ باپ نے سرسوں کا بنانے کا طے کر لیا ہے۔ بیچاری مُرجھا کر رہ گئی ہے۔ ‘‘
دوپہر کے وقت اُن کے گھر گئی۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ بات کیا ہے ؟چھوٹی خالہ اُن دنوں بڑے ماموں کے پاس گلگت گئی ہوئی تھیں۔
اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی مُسکراکر میرا حال احوال پُوچھا۔ کالج کی بعض لیکچرار کے بارے میں دریافت کیا۔ اُنہوں نے بھی اسلامیہ کالج کوپر روڈ سے ہی پڑھا تھا۔
پھر میں نے کہا۔
’’آپا جی آپ پریشان ہیں ؟‘‘ اُنہوں نے ایک لمبی آہ اپنے سینے سے نکالی اور بولی تھیں۔
’’تمہیں کیا بتاؤں ؟ کاش اس وقت میں انہیں بتا سکتی کہ وہ میرے لئے کیا ہیں ؟مجھے ان کی ذات سے کتنا پیار اور کتنی عقیدت ہے ؟‘‘
وہ چھت کو گھُورتے ہوئے جانے کہاں گُم تھیں۔ میری موجودگی بھی جیسے فراموش کر بیٹھی تھیں۔ بہت دیر بعد ہوش میں آئیں۔ اُس وقت اُن کی آنکھیں موتیوں کے خزانوں سے مالامال ہو رہی تھیں۔ رُندھی ہوئی آواز میں اُنہوں نے کہا تھا۔
’’میری جان سلّو تم دعا کرو۔ میرے ابّی جان سلمان کے لئے رضامند نہیں اور میں سلمان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ ‘‘
’’تو یہ بات تھی۔ ‘‘ مجھ سے وہ کتنی دیرسلمان حسن کی باتیں کرتی رہیں اور میں نے بھی اپنے آپ سے کہا تھا کہ ’’جہانگیر کو نور جہاں ضرور ملنی چاہئیے۔ رانجھے کو ہیر نہیں ملے گی تو کہانی بگڑ جائے گی۔ ‘‘
اور کہانی بگڑی نہیں سنور گئی تھی۔ لاڈلی بیٹی باپ کو منوانے میں کامیاب ہوئی۔ نکاح دھُوم دھڑکے سے ہُوا۔ میں اُن کے نکاح میں شامل ہوئی۔ سلمان حسن مغل شہزادہ لگتا تھا۔
چھ ماہ بعد رُخصتی ہوئی۔ وہ دُلہن بن کر صرف ایک رات سُسرال ٹھہریں اور اگلے دن واپس اپنے گھر آ گئیں۔ یہ فریقین کے درمیان طے ہو گیا تھا کہ وہ اپنے والدین کے پاس رہیں گی۔ سلمان حسن گھر داماد ہو گا۔ اُن کے ماموں نے اس شرط پر کوئی تعرض نہیں کیا تھا۔ جانتے تھے کہ بہن کا کوئی بیٹا نہیں۔
یہ اُن کی زندگی کا حسین ترین دور تھا۔ وہ ایسی نکھر گئی تھیں کہ چھوٹی خالہ کبھی کبھی کہتیں۔
’’ثریا تمہیں تو بیاہ بہت پہلے کر لینا چاہئیے تھا۔ ‘‘
پھر چھوٹی خالہ کی شادی ہو گئی۔ آپا جی کے امی ابّو فوت ہو گئے۔ سلمان حسن نے بزنس شروع کیا اور وہ کامیاب ہوا۔
وہ دو بیٹوں کی ماں بن گئی تھیں۔ گول مٹول خوبصورت اُوپر تلے کے بیٹے بابر اور ٹیپو جنہیں وہ بابری اور ٹیپی کہتے نہ تھکتیں۔ میں کبھی کبھی ان کے گھر چلی جاتی ان کی محبت میں اب ممتا کا رُوپ آ گیا تھا۔ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے پیار بھرے انداز میں کہتیں۔
’’کہو سلّو بیٹے، پڑھائی کیسی جار ہی ہے ؟‘‘
ایسا بھی ہوتا کہ میری موجودگی میں سلمان حسن بھی آ جاتے۔ عجیب سی بات تھی کہ اُن کے آنے کے فوراً بعد میں ایک پل وہاں نہ رُکتی۔ وہ لاکھ بھی کہتیں۔
’’ارے رُکو نا۔ سلمان سے کچھ باتیں کرو۔ ‘‘
پر میں تیر کی طرح وہاں سے بھاگ آتی۔ میں اُس بے حد دلکش اور ڈیشنگ شخصیت سے متاثر تھی۔ ایک دن اُنہوں نے مجھے کہا کہ ’’سلمان بہت اچھا ہاتھ دیکھتے ہیں۔ تم اُنہیں اپنا ہاتھ دکھاؤ۔ ‘‘
مستقبل کے آئینے میں جھانکنے کا شوق اور تجسّس ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ میں بھی اس کا شکار تھی۔ پرسلمان حسن کے سامنے بیٹھ کر انہیں اپنا ہاتھ دکھانا مجھے کسی طور بھی منظور نہیں تھا۔
’’ارے چھوڑئیے آپا جی میں ان با توں پر یقین نہیں رکھتی۔ ‘‘ کہتے ہوئے میں اُن کے بیٹے ٹیپو کو اُٹھا لیتی۔
ایک دن جب میں اُن کے گھر گئی۔ وہ خاموش اور آزردہ سی بیٹھی تھیں۔ بیٹوں کے بارے میں پُوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ پھوپھی کے گھر گئے ہیں۔ بیٹی پالنے میں سو رہی تھی۔
میں نے جھُولے کو ٹانگ سے ہلاتے ہوئے ننھی زہرہ کے گال پر پیار بھری چٹکی لی اور بولی۔
’’آپ کس قدرا فسردہ نظر آتی ہیں ؟ کیا سلمان بھائی پھر کسی بیرونی دورے پر ہیں ؟‘‘
اُنہوں نے لمبی سانس بھری۔ میری طرف دیکھا تھا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولیں۔
’’سلّو تم مجھے اتنی ہی عزیز ہو جتنی ماں کے پیٹ سے نکلی ہوئی بہن کا کوئی بچہ۔ فاطمی تو دُکھ سُکھ سُننے کے لئے رہی نہیں۔ ساری باتیں تم سے کر لوں تو ہلکی ہو جاتی ہوں۔ ‘‘
میں اُن کے قریب بیٹھ گئی تھی۔ وہ زہرہ کے پالنے کو ہلاتے ہلاتے اُٹھیں اور الماری سے ایک تصویر نکال کر لائیں۔ ایک حسین و جمیل اور انتہائی ماڈرن لڑکی کی تصویر میرے ہاتھوں میں تھی اور میں ایک نظر اُسے دیکھتی اور دوسری نظر اُن پر ڈالتی تھی۔ اُن کی بولتی آنکھیں مجھ سے کچھ کہتی تھیں۔
’’آپ کی آنکھیں جو کچھ بتا رہی ہیں اُسے زبان دیں تاکہ میں پوری طرح سمجھ سکوں۔ ‘‘
’’یہ سلمان کی دوست ہے، اُس کی محبوبہ ہے۔ اُس کے مراسم کس انداز کے ہیں میں نہیں جانتی۔ بس مجھے تو اتنا معلوم ہوا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دیوانہ ہوا پڑا ہے۔ اس کی شامیں اس کے لئے ہیں۔ ‘‘
اور ساتھ ہی آنکھوں سے رِم جھِم کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
میں نے تیزی سے بہتے ان آنسوؤں کو اپنے ہاتھوں سے پونچھا اور کہا۔
’’ایسی دلکش شخصیت ہو، دولت کی فراوانی ہو، وجاہت اور جوانی ہو، مقابل بھی طرحدار ہوں تو ایمان اپنے پاس کب رہتا ہے ؟‘‘
وہ ٹھنڈی آہیں بھرتی رہیں اور آنکھوں کو پوروں سے بار بار صاف کرتی رہیں۔ پھر وہ کھانسنے لگی تھیں۔ بہت پہلے پلوریسی کا اٹیک ہوا تھا تب وہ کنواری تھیں۔ فوری علاج اور خوراک سے بیماری کنٹرول ہو گئی تھی۔ لیکن اب جب اُوپر تلے بچوں نے جنم لیا اور غم نے آ گھیرا۔ وہ پھر بیمار پڑ گئی تھیں۔ اس بیماری میں دو اور بیٹیاں آ گئیں۔ ڈاکٹر نے بہتیرا کہا۔
’’زندگی چاہتی ہو تو بچے پیدا کرنے اور غم کھانا چھوڑ دو۔ ‘‘
لیکن وہ غم کھانا نہ چھوڑ سکیں۔ اپنی بیماری سے وہ خود آگاہ تھیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھتے ہوئے وہ کہتیں۔
’’ارے میں مر جاؤں گی، سلمان دوسری شادی کر لے گا اور میرے بچے برباد ہو جائیں گے۔ ‘‘
پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہتی۔
’’کیا ایسا نہیں ہو سکتاکہ سلمان شادی نہ کرے۔ شاہ جہاں نے بھی تو ممتاز محل کے بعد بیاہ نہیں کیا تھا۔ اگر عورت بچوں کے لئے پوری زندگی تج سکتی ہے تو مرد ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟‘‘
میں نے دُکھ، تاسف اور ہمدردی سے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہا۔
’’در اصل آپا جی آپ بہت جذباتی ہو رہی ہیں۔ مرد فطرتاً اِن اوصاف کا متحمل ہی نہیں۔ اِکا دُکا مثالوں سے اپنے ذہن کو پراگندہ مت کریں۔ ‘‘
اور جن دنوں میری شادی ہو رہی تھی اُن کی حالت بہت خراب تھی۔ وہ گلاب دیوی ہسپتال میں تین ماہ رہ کر آئی تھیں۔ گھر کی نچلی منزل میں ڈیرے ڈالے بیٹھی تھیں۔ ان کے دونوں پھیپھڑے ناکارہ ہو چکے تھے۔ وہ جانے کس حوصلے اور کس قوّت ارادی پر گاڑی گھسیٹے لئے جا رہی تھیں۔ میں جانتی تھی کہ ڈاکٹروں نے اُنہیں چلنے پھرنے سے منع اور مکمل ریسٹ کے لئے کہہ رکھا ہے اس لئے میں نے اُنہیں رسمی طور پر دعوت نامہ بھیجنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ پر جب شادی کے کچھ عرصہ بعد میں ایک دن اپنے میکے آئی اور مجھے ان سے ملنے کی ہڑک اُٹھی۔ میں اُن کے گھر گئی۔ وہ ہنوز اسی حالت میں تھیں۔ دیکھتے ہی بڑی دُکھی آواز میں بولیں۔
’’تم نے شادی میں ہمیں بُلانے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی۔ ‘‘
میں سخت شرمندہ ہوئی۔
’’در اصل آپاجی آپ کی شدید بیماری۔ مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ ‘‘
’’کمال ہے میں نہ آتی سلمان تو آتے۔ وہ گِلہ کر رہے تھے کہ دیکھو ہمیں پوچھا تک نہیں۔ حقیقت ہے تمہاری شادی میں شرکت کی اُنہیں بڑی خواہش تھی۔ ‘‘
’’مجھے دلی طور پر افسوس ہوا کہ میں نے بڑی حماقت کی۔ کم از کم اصولی طور کارڈ بھیجنا چاہئیے تھا کوئی آتا نہ آتا۔ یہ اُس کی مرضی۔ ‘‘
میں نے اپنی غلطی کی معافی چاہی۔ ایک بار پھر یہ کہا کہ ’’ مجھے ان کے احساسات کا علم نہیں تھا۔ میرے خیال میں اتنے بڑے بزنس میں کے لئے وقت بھی تو مسئلہ ہوتا ہے اور آپ بیمار تھیں۔ ‘‘
میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ اپنی بیماری کے سلسلے میں ان کی دوڑ دھُوپ اور ذہنی پریشانی اُٹھانے پر سلمان کی بہت ممنون تھیں۔ بار بار کہے جاتی تھیں۔
’’دیکھو میں نے اُسے کیا سُکھ دئیے ؟لمبی بیماری اور تفکرات کی چادر میں لپیٹ دیا۔ ‘‘
میں نے کسی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ میری شادی پر چھوٹی خالہ نہیں آئی تھیں وہ امّاں سے کچھ ناراض تھیں۔ اُن کے لہجے میں حسرت تھی جب اُنہوں نے کہا۔
’’اے کاش! فاطمی آ جاتی اور اس بہانے مجھے بھی مل جاتی۔ ‘‘
جب میں اپنے گھر واپس آئی میرا دل بڑا بوجھل سا تھا۔ شاید میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ بیماری کی جس سٹیج پر ہیں وہاں سے تندرستی اور زندگی کی جانب آنے والا ہر راستہ بند ہو گیا ہے۔ شاید مجھے یہ بھی دُکھ تھا کہ تپ دق کوئی کینسرتھوڑی تھا اور جسے یہ بیماری چمٹی ہوئی تھی وہ کوئی غریب عورت تھی۔ خود صاحب جائیداد اور امیر ترین شوہر کی بیوی جو علاج کے لئے اُسے باہر لے جا سکتا تھا۔
کوئی آٹھ ماہ بعد میں نے اُن کی فوتیدگی کی خبر سُنی۔ انجام یہی ہونا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی میرے دل کو دھکا لگا تھا۔
چاہتے ہوئے بھی میں اُن کے گھر نہیں گئی۔ جان سے پیارے ان کے بچوں کو نہیں دیکھا کہ وہ کیسے اور کس حال میں ہیں ؟ سلمان بھائی سے پُرسے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ میں نے کبھی اُن سے کوئی بات نہیں کی تھی۔
یوں ایک کہانی ختم ہو گئی تھی۔
پر کہانی ختم نہیں ہوتی اس ماں کی جو ننھے مُنے بچے پیچھے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ اُن کی وفات کے کوئی ایک سال بعد مجھے پتہ چلا کہ سلمان حسن نے شادی کر لی ہے۔ امّاں نے شاید ان کی دُلہن دیکھی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ اپنی کسی ماڈرن سی دوست کو جن کے ساتھ وہ پیار اور محبت کی پینگیں چڑھاتے تھے، گھر لے آئے ہوں گے۔ پر ایسا نہیں ہوا۔ جو لڑکی اُن کے گھر آئی وہ بقول امّاں کے قد رے زیادہ عمر کی، سانولی، تیکھے نقوش کی مالک، پُر کشش لڑکی تھی۔ پانچ بچوں پر آنا دل گردے کی بات تھی۔ بچے بھی وہ جو کم عمر اور لاڈ پیار میں پلے ہوئے۔
امّاں کے گھر سینکڑوں بار میرا جانا ہوا۔ پر کبھی میں نے دیوار پھاند کر اس گھر میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاید میں اپنے آپ سے خوفزدہ تھی کہ کہیں میرا اندر پھوٹ پھوٹ کر رونے نہ بیٹھ جائے۔ بس امّاں سے کبھی کبھارسُنتی کہ نہایت نیک لڑکی ہے بچوں کو بہت اچھی طرح رکھتی ہے۔
پھر سُننے میں آیا کہ انہوں نے شامی روڈ پر نئی اور عالیشان کوٹھی بنا لی ہے۔ سلمان حسن کا کاروبار بہت عروج پر ہے۔ سارا گھر اس نئی کوٹھی میں شفٹ کر گیا ہے۔
اور جنوری کی اس خنک ترین شب میں مَیں نے انہیں خواب میں دیکھا تھا۔ وہ میرے گھر آئی تھیں۔ میں نے اُنہیں سیڑھیاں چڑھتے دیکھ کر فوراً لپک کر پکڑا۔ ہنستے ہوئے وہ بولیں۔
’’میں نے سوچا میں تمہیں نئے گھر کی مبارکباد دے آؤں اور تم سے مل بھی آؤں۔ ‘‘
میں انہیں ڈائنگ روم میں لے آئی تھی۔ صوفے پر میرے پاس ہی بیٹھ کر انہوں نے محبت بھری نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے پُوچھا تھا۔
’’تم اپنے گھر میں خوش و خرّم ہو نا۔ ‘‘
میں ہنس پڑی تھی۔
’ ’آپا جی آپ کی محبت اور دعائیں ہیں۔ ‘‘
’’اِس وقت میں تمہارے پاس بہت ضروری کام سے آئی ہوں۔ یہ کام تم نے ضرور کرنا ہے !‘‘
’’ حُکم کیجئیے۔ بتایئے میں حاضر ہوں۔ ‘‘ میں ہمہ تن متوجہ ہوئی۔
’’سلمان فہمیدہ سے بہت لڑائی جھگڑا کرتا ہے۔ ‘‘ میں نے فی الفور اُن کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’آپا جی فہمیدہ کون؟‘‘
’’میرے بچوں کی ماں۔ وہ سچ مچ میرے بچوں کی ماں ہے۔ اس نے جس طرح اُنہیں اپنی بانہوں میں سمیٹا۔ جیسے اُن کی پرورش کی میں اس سے باخبر ہوں۔ اس نے میرے بابر اور ٹیپو کو ممتا میں نہلا دیا۔ اُس نے زہرہ کے بہت ناز اُٹھائے اور وہ میرا بھی خیال رکھتی ہے۔ دیکھو تم سلمان کے پاس جاؤ۔ وہ تمہارا بڑا مدّاح ہے۔ تمہاری بات سنے گا۔ اُسے بتاؤ اُسے سمجھاؤ اُس سے مت اُلجھے چھوٹی چھوٹی با توں پر۔ میرے بچوں کو اُس کی ضرورت ہے۔ بیٹیوں کو ابھی بیاہنا ہے۔ میں فہمیدہ سے بُہت خوش ہوں۔ ‘‘
اور اُنہوں نے میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا تھا اور میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی تھیں۔
’’وعدہ کرو۔ جاؤ گی؟ اسے سمجھاؤ گی؟ بچوں سے کہو گی کہ ماں کی عزت کریں ؟‘‘
اور میری آنکھ کھُل گئی تھی۔ میں انہی کیفیات سے دوچار ہوئی جن کا ذکر میں نے شروع میں کیا ہے۔
یہ رات کا آخری پہر تھا۔ دوبارہ آنکھ لگنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
خداوند! وہ میرے پاس کیوں آئیں ؟اس آزمائش کے لئے میں ہی کیوں نظر آئی؟
’’کیا واقعی رُوحیں دنیا میں اپنے پیاروں کے پیچھے آتی ہیں اور ان کے بارے میں مضطرب رہتی ہیں۔ ‘‘میں نے خود سے سوال کیا۔
یہ سچ ہے کہ ایسا ہوتا ہے پر میں اس گھمبیر مسئلہ میں اُلجھ گئی تھی۔ یہ کس قدر مشکل تھا کہ ایک انتہائی کلچرڈ، اُونچی سوسائٹی میں موو کرنے والے حد درجہ وجیہہ مرد کو جا کر یہ کہوں کہ تم اپنی بیوی سے لڑنا جھگڑنا چھوڑ دو۔ تمہاری مرحومہ بیوی بہت مضطرب ہے۔ کتنا مشکل کام تھا۔
پر جانا بھی ضروری تھا کہ پیغام ایک رُوح کا تھا۔
آپا جی کی نند بازار میں ملی ان سے پتہ پوچھا۔ ایڈریس ایک ایسی جگہ کا تھا جہاں سواری کے بغیر جانا بہت مشکل تھا۔ سوچا کہ میاں کے ساتھ گاڑی میں چلی جاؤں پر میاں کے ساتھ جانے میں مجھے سخت اعتراض تھا۔ ذمہ دار پوسٹ پر بیٹھنے والے مرد ضرورت سے زیادہ خود اعتماد ہوتے ہیں اور کسی بھی جگہ، کسی بھی محفل میں بیٹھ کر بیوی باتیں کرے اور وہ خاموش تماشائی بن کر بیٹھیں یہ انہیں گوارہ نہیں۔ میرے میاں بھی اسی مرض کا شکار ہیں۔ لہذا دیور کی موٹر بائیک پر بیٹھی اور رات کی تاریکی میں گھر ڈھونڈتی ہوئی منزل پر پہنچ گئی۔
دروازہ ایک نوجوان لڑکے نے کھولا۔ اندر داخل ہوئی۔ ایک خوبصورت اور جدید آسائشوں سے پُر گھر میرے سامنے تھا۔ ٹی وی لاؤنج میں صوفے پرسلمان حسن نیم دراز تھے۔ پاس ایک سلونی سی دلکش خدوخال والی خاتون بیٹھی تھی۔ خوبصورت سی ایک لڑکی ہو بہو آپا جی کا عکس صوفے کی بیک تھامے کھڑی تھی۔ یہ یقیناً زہرہ تھی۔ دونوں چھوٹی لڑکیاں بھی کتابیں ہاتھوں میں پکڑے قالین پر بیٹھی تھیں۔
ان کے بچے میرے سامنے تھے۔ وہ بچے جنہیں میں جھولے جھُلاتی تھی۔ گود میں کھلاتی تھی۔ خوبصورت اور من موہنے بچے۔ اس وقت میرے کانوں میں وہ آواز گونجی تھی۔ حسرت ویاس سے بھرپور آواز۔
’’ارے سلّو میں نہیں دیکھوں گی تم لوگ دیکھو گی۔ ‘‘
اور میں دیکھ رہی تھی۔ وہ بچے جو ماضی کو نہیں جانتے تھے جو ماضی سے کٹے ہوئے تھے۔
’’میں نے صوفے کی طرف ایک بار پھر دیکھا اور پوچھا۔
’’ آپ نے مجھے پہچانا؟‘‘
’’کیوں نہیں۔ ‘‘ اُن کی آواز خلوص اور اپنائیت کی مہک لئے ہوئے تھی۔ میں ان کے قریب پڑے صوفے پر بیٹھ گئی۔
ماضی کی وہ گلیمرس شخصیت حال کے گرد و غبار میں کچھ کچھ اَٹی ہوئی تھی۔
’’آپ خاصے بدل گئے ہیں۔ ‘‘
وہ ذرا سا مسکرائے اور بولے۔
’’درمیان میں وقت کا بھی تو سوچئیے۔ حالات اپنا اثر دکھائے بغیر تو نہیں ٹلتے۔ ‘‘
کیسی دُشوار گھڑی تھی۔ کیسے وہ پیغام اُنہیں دیتی۔ بہرحال جب اُن کی باتیں ختم ہوئیں تو دبے دبے لفظوں میں اپنے خواب کا ذکر کیا۔ وہ چونکے۔ میری طرف دیکھتے رہے پھر بولے۔
’’خداوند اس عورت ذات کو سمجھنا کس قدر دشوار ہے ؟ جب زندہ تھی تو یہ غم کھاتی تھی کہ میرے مرنے کے بعد تم نے دوسرا بیاہ رَچا لینا ہے اور میرے بچے برباد ہو جائیں گے۔ اور آج وہ سوت کا غم کھاتی ہے کہ میں اس سے اچھا اور احسن سلوک نہیں کرتا۔ ‘‘
پھر مُسکراہٹ اُن کے ہونٹوں پر پھیل گئی اور وہ بولے۔
’’تم بتاؤ۔ عورت کو سمجھنا واقعی بُہت دُشوار ہے نا۔ ‘‘
’’آپ سمجھے نہیں۔ ‘‘
’’عورت پریشان نہیں ہے۔ ممتا پریشان ہے۔ جب زندہ تھی تب بھی اور قبر میں اُتر گئی ہے تب بھی!‘‘
اور یہ کہتے ہوئے میں جانے کے لئے اُٹھ گئی تھی۔
٭٭٭
اپنے اپنے جہنم
امّاں نے سُکھ کا لمبا سانس بھرا تھا۔ بان کی کھری چارپائی پر چوکڑی مار کر بیٹھتے ہوئے انہوں نے گھُوں گھُوں کرتے پنکھے کی ساری ہَوا اپنی چھاتی پر سمیٹی اور اپنے آپ سے بولیں۔
’’مولا تیرا ہزار بار شکر، اس بیٹی کا بوجھ سر سے اُترا۔ ‘‘
انگنائی کا چوتھائی حصّہ پلاسٹک اور اسٹین لیس سٹیل کے برتنوں سے بھرا پڑا تھا۔ ہڈیاں اور جھوٹے چاول اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے۔ سارے میں مکھّیاں بھن بھن کرتی پھر رہی تھیں۔ عام دنوں میں گھر میں ذرا سے گند پر گالیوں اور کوسنوں کا طوفان اُٹھانے والی امّاں اس وقت ہر بات سے بے نیاز ہَوا کھانے اور چھالیاں کاٹنے میں مصروف تھیں۔ عتیقہ اپنے کمرے میں تھی اور بہُو چھوٹے بیٹے کو دُودھ پلا رہی تھی۔
مہمان جا چکے تھے۔
یہ مہمان کوئی غیر نہ تھے امّاں کے رشتے دار تھے۔ قرابت داری بہت نزدیک کی تھی نہ بہت دُور کی۔ بس ڈانڈے کہیں بیچ میں ہی ٹکتے تھے۔ امّاں کو گھر گھر انہ پسند تھا۔ ان کی کوششوں سے منگنی کی رسم ادا ہوئی تھی۔
عتیقہ گھر کی آخری بیٹی تھی۔ اوسط درجے کا گھرانہ جہاں بیٹیاں باعث رحمت نہیں باعث زحمت ہوتی ہیں۔ تین کو خدا خدا کر کے دروازے سے اُٹھایا اب یہ چوتھی تاڑ جتنی لمبی ہو گئی تھی۔ بہت پڑھ لکھ بھی گئی تھی۔ امّاں کو ہر آن ہر سمے ایسا لگتا جیسے چھاتی پر کوئی بھاری پتھر کی سِل دھری ہو۔ بس نہ چلتا تھا کیسے اسے پرے ہٹا دے۔
اور اب یہ پرے ہو گئی تھی۔ سینہ اس وقت بہت ہلکا پھُلکا محسوس ہو رہا تھا۔ پر کہیں ہلکی سی چُبھن بھی تھی۔ عتیقہ نہ منگنی کے لئے رضا مند تھی نہ شادی کے لئے۔ بہت لائق اور ذہین تھی۔ ایم۔ ایس سی میں گولڈ میڈل لیا تھا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے لئے باہر جانے پر بضد تھی۔ پر امّاں باہر بھیجنے کے خیال سے ہی ہول کھائے جاتیں۔ دل کی راز دار ہمسائی جو ماں جائی سے بھی بڑھ کر تھی مشورے دیتی نہ تھکتی۔
’’بُوا دیکھتی کیا ہو؟سیدھے سبھاؤ اپنے گھر چلتا کرو۔ اتنا پڑھ کر کس ٹلّے پر چڑھنا ہے۔ آخر کو بچے جننے ہیں، ہنڈیا، چولہا، چوکا ہی سنبھالنا ہے۔ ‘‘
اور امّاں بھی اُس سے سو فیصد متفق تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے عتیقہ کی دھمکیوں کی پرواہ کی نہ آنسوؤں کی۔ مزے سے منگنی کر دی۔ پر پھر بھی تھوڑا سا ڈرتی تھیں۔ چند بار اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے بولیں۔
’’یونہی ہوتا ہے لڑکیاں ایسے ہی ٹسوے بہاتی ہیں۔ میاں کی چاہت ملے گی، اپنے گھر کا سُکھ ملے گا، تو سب کچھ بھول جائے گی۔ ‘‘
ماں جائی بھی آ گئی تھی۔ امّاں نے چارپائی پر اس کے لئے جگہ بناتے ہوئے کہا۔
’’دو گھڑی آرام کر لیا ہوتا۔ سویرے سے کام میں جُتی تھیں !‘‘
’’خیر ہے، خوشی کے کاموں میں تھکن نہیں محسوس ہوتی۔ ‘‘
بڑی بہُو نے بھی اسی وقت آ کر بتایا کہ عتیقہ کمرے میں رو رہی ہے۔
پل بھر کے لئے امّاں کے چہرے پر فکر مندی کے سائے لہرا گئے پر ماں جائی نے داہنے ہاتھ کو شانے تک لے جا کر لہراتے ہوئے ’’دفع کرو۔ رونے دو۔ ‘‘ جیسے تاثر کو تمثیلی صورت گری دیتے ہوئے منہ زبانی بھی کہا۔
’’ٹھیک ہو جائے گی۔ کوئی چنتا مت کرو۔ ‘‘
پر چنتا تو جیسے امّاں کا مقدّر بن گیا۔ عتیقہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتی اور شام ڈھلے واپس آتی۔ امّاں نے نرمی اور پیار سے سمجھانا چاہا مگر وہ کٹ کنی بلّی کی طرح پنجے جھاڑ کر اُن کے پیچھے پڑ گئی۔
’’امّاں آپ نے مجھے کھلونا سمجھا ہے کہ جب اور جس وقت آپ میری کل دبائیں میں بولنا شروع کر دوں۔ میں آپ کی خواہش کے مطابق نہیں چلوں گی۔ مجھے ہر صورت پڑھنے کے لئے باہر جانا ہے۔ ‘‘
امّاں نے اپنا سر پیٹ لیا۔ اس کی چنگاریاں برساتی آنکھیں اور زہر اُگلتی زبان امّاں کو یہ سمجھا رہے تھے کہ معاملہ ٹیڑھا ہے اور کسی قسم کی بھی سختی اسے ہَو ادے گی۔
ایک دن وہ خاموشی سے سمدھیانے گئیں۔ انگوٹھی اور کپڑوں کا جوڑا دونوں چیزیں انہیں لوٹاتے ہوئے شرمندگی سے بولیں۔
’’بی میں نے تو چاہا تھا کہ بیٹی دے کر پرانی باڑ کو نیا چھاپہ لگاؤں۔ پر لگتا ہے میری یہ خواہش خدا کو منظور نہیں۔ عتیقہ پڑھائی کے لئے باہر جانا چاہتی ہے اور سردست وہ کسی طور پر بھی شادی کے لئے تیار نہیں۔ میں شرمسار ہوں اور تم لوگوں سے معافی چاہتی ہوں۔ ‘‘
امّاں واپس چلی آئیں۔ مگر کیسے شکستہ دل، نڈھال سی۔ عتیقہ اپنی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اسے تو اتنی فرصت ہی نہ تھی کہ وہ یہ دیکھے کہ امّاں کتنے دُکھ اور کرب میں ہیں جو اُس نے اُنہیں اپنی حماقت سے دیا ہے۔ کیسی پیلی پڑ گئی تھیں ؟پر وہ تو ہٹ دھرمی اور سرکشی پر اُتری ہوئی تھی۔
جس دن اُس کا ٹکٹ آ گیا۔ وہ پہلی دفعہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی اپنے کمرے سے نکل کر باورچی خانہ میں امّاں کے پاس آئی اور پیڑھی پر اُن کے پاس بیٹھی۔ امّاں خاموشی سے برتنوں کی دھُلائی میں مصروف رہیں۔
ایک بار بھی اُنہوں نے بیٹی کو نہ دیکھا۔ عتیقہ نے خود ہی امّاں کے داہنے گھٹنے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں تھام لیا اور رقّت بھری آواز میں بولی۔
’’امّاں پلیز مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ کو بہت دُکھ دیا مگر مجبور ہوں۔ میرے پیش نظر صرف پڑھائی ہے۔ ‘‘
اس سمےا مّاں کو یوں لگا جیسے عتیقہ نے محض رسم پوری کرنے کی خانہ پُری کی ہو اور امّاں نے بھی یونہی رسماًہی کہہ دیا ہو۔
’’جاؤ جو چاہتی ہو اس میں کامیابی پاؤ۔ ‘‘
اور دل جو خلوص اور محبت کی لَو سے جگمگاتے ہیں اُن پر دھندلا ہٹ ہی رہی۔
نئی دنیا رنگین اور خوبصورت، اپنوں سے خالی مگر عتیقہ کو اُداسی کا بے نام سا احساس بھی نہ ہوا۔ یہاں معیارِ تعلیم بہت اُونچا تھا۔ گو عتیقہ گولڈ میڈلسٹ تھی مگر پھر بھی اسے کافی دُشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ جان رابرٹ اس کا میجر ایڈوائیزنیک دل اور شریف انسان تھا۔ اُس نے عتیقہ کو کافی سہارا دیا۔
دل لگانے کے بارے میں عتیقہ نے بہت کم سوچا تھا۔ یہ نہیں کہ اس میں نسوانی اور فطری جذبات کی کمی تھی یا وہ خوش شکل نہ تھی۔ عام لڑکیوں کی طرح اُس کے بھی جذبات تھے مگر پہلے وہ زندگی میں کسی بلند مرتبے پر پہنچ جانے کی متمنّی تھی۔ اُسے بہت خوبصورت نہیں کہا جا سکتا تھا پر پُر کشش تھی۔ تیکھے نقوش والا نمکین چہرہ جسے اس نے غازہ وغیرہ سے مزید اچھا بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔
یہ دل والا معاملہ بھی بس ایسے ہی ہو گیا۔ وہ ایک ڈپارٹمنٹل سٹور سے خریداری کر کے نکل رہی تھی۔ اُس کا اُونچی ایڑی کا جُوتا جانے کیسے پھِسلا اور وہ لفافوں سے لدی پھندی دھڑام سے گری اور چار پانچ سیڑھیوں سے قلابازیاں کھاتی نیچے آ رہی۔ آنکھوں کے سامنے تارے سے ناچ گئے۔
اس وقت تو یہ دیکھنے کی فرصت نہیں تھی کہ اُسے بازو سے پکڑ کر سہارا دینے والا کون ہے پر جب وہ چلنے کے لئے کھڑی ہوئی تو اس کی چیخیں نکل گئیں۔ غالباً پاؤں کا گوشت پھٹ گیا تھا یا ہڈی وغیرہ کریک ہو گئی تھی۔
’’گھبرائیے مت۔ میرے ساتھ آئیں۔ میَں آپ کو ہوسپٹل لئے چلتا ہوں۔ ‘‘
اب اس نے پیشکش کرنے والے کو دیکھا تھا۔ بہت دلکش نوجوان نما مرد تھا۔ اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے اس کے شاپنگ کے لفافے اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے۔
اور ساتھ جائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
بمشکل دو قدم چل کر وہ اس کی گاڑی میں بیٹھی۔
راستے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس کا چہرہ تکلیف کی شدت سے سُتا ہوا تھا اور ہونٹ سفید پڑے ہوئے تھے۔ پاؤں کو خفیف سی جھٹک بھی اس کی چیخیں نکال دیتی۔
اسپتال میں پہنچ کر فوری طور پر اس کا ایکسرے لیا گیا۔ ہڈی مضروب تھی۔ پاؤں پر پلاسٹک چڑھا دیا اور اسے ایڈمٹ کر لیا گیا۔ اب اسے پتہ چلا کہ اُسے یہاں تک لانے والا نوجوان نہ صرف مسلمان ہے بلکہ پاکستانی بھی ہے اور اس شہر سے تعلق رکھتا ہے جہاں کی
وہ خود ہے۔ وہ ڈاکٹر تھا اور ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم کے لئے یہاں آیا ہوا تھا اور اسی اسپتال سے منسلک تھا۔
انکشافات حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ خوشگوار بھی تھے۔
کوئی پابندی تھوڑی تھی اس کا جب جی چاہتا اس کی مزاج پرسی کے لئے آ جاتا۔ اس کے پاس بیٹھتا۔ ہلکی پھُلکی گپ شپ لگاتا، چائے کا دوَر چلتا۔ گانوں کا رسیا تھا۔ ایسے ایسے خوبصورت گانوں کا اس کے پاس ریکارڈ تھا کہ عتیقہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کی اب تک کی زندگی کہیں جنگل بیابان میں گزری ہو۔ جہاں رُوح کے تاروں کو چھیڑنے والا کبھی کوئی ساز ہی نہ بجا ہو۔
پندرہ دن بعد جب وہ ٹھیک ہو کر ہوسٹل آئی تو ڈاکٹر ممتاز ہی لے کر آیا تھا۔ گاڑی میں ریکارڈ پلیئر بج رہا تھا اور محمد رفیع نغمہ سرا تھا۔ ڈاکٹر ممتاز نے آواز کو ذرا دھیما کیا اور بولا۔
’’کبھی کبھی گیت انسانی جذبات کی کس قدر صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ ‘‘
عتیقہ خفیف سا مسکرائی اور بولی۔
’’خیال رہے آپ میرے ہوسٹل سے آگے نکل آئے ہیں۔ ‘‘
’’اوہ!‘‘ کہتے ہوئے ڈاکٹر ممتاز نے اُسے دیکھا اور ہنستے ہوئے بولا۔
’’چلئے اوپر سے چکر کاٹ کر آتے ہیں۔ اسی بہانے تھوڑی سی قربت اور سہی۔ ‘‘
گاڑی سے باہر نکل کر اس نے مسکراتی نگاہیں ڈاکٹر پر ڈالیں اور بولی۔
’’میں آپ کو اندر آنے کی دعوت نہیں دے سکتی۔ پندرہ دن میری عدم موجودگی کی وجہ سے کمرہ انتہائی ابتر حالت میں ہو گا۔ ‘‘
’’آنا اُدھار۔ ‘‘ ڈاکٹر ممتاز نے کہتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی۔
اور لفٹ میں داخل ہو کر جب اس نے تیسری منزل کا بٹن دبایا اور پل بھر میں
اپنے کمرہ کے سامنے آ کھڑی ہوئی تب جانے اُسے کیا ہوا؟ اس کا جی واپس بھاگ جانے کو چاہا۔ لفٹ کا کال بٹن دبانے کے لئے اس نے قدم پیچھے کی طرف بڑھائے جب ایکا ایکی کسی نے اندر سے کہا۔
’’پاگل ہو گئی ہو۔ کہاں جانا چاہتی ہو؟ واپس لوٹو!‘‘
اور وہ حواس باختہ سی پلٹ آئی۔
دروازہ کھولا۔ کمرہ میں داخل ہوئی۔ کھڑکیاں کھولیں اور اسی طرح بیڈ پر لیٹ گئی۔ وہ عجیب سے جذبات کا شکار ہو رہی تھی۔
گیارہ بجے وہ اندر آئی تھی اور اب تین بج رہے تھے اور وہ اسی طرح سوچوں میں گم لیٹی ہوئی تھی۔ ان سوچوں میں اگر کبھی سرشاری اور ترنگ کے جذبات اُبھرتے تو یاسیت کے حملے بھی تابڑ توڑ ہوتے۔
’’تو مجھے اُس سے پیار ہو گیا ہے ؟ محبت ہو گئی ہے جو آج تک کسی سے نہیں ہوئی تھی!‘‘
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ دُکھی سے لہجے میں اپنے آپ سے بولی۔
’’یہ اچھا نہیں ہوا۔ میرے توسارے عزائم، زندگی میں کسی اہم مقام کے حصول کی جد و جہدسبھوں پر جھاڑو پھر جائے گا۔ یہ محبت، یہ عشق، یہ تو جی جان کے روگ ہیں۔ انہیں تو وہ پالیں جنہیں کرنے کو کوئی کام نہیں۔ ‘‘
پر چند لمحوں بعد اُسے کچھ یوں لگتا جیسے وہ اب تک بڑی رُوکھی پھیکی زندگی گزارتی آئی ہو۔ جس میں نام کو چاشنی نہ ہو۔ کسی سے پیار، کسی کی محبت کا احساس بھی انسان کو خود اپنی نظروں میں ہی معتبر کر دیتا ہے۔
شام کو ڈاکٹر ممتاز اس سے ملنے آیا۔ اس کے اُترے ہوئے پژمردہ سے چہرے کو
دیکھتے ہوئے اُس نے پُوچھا۔
’’کیا بات ہے ؟تم پریشان سی ہو؟طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ ‘‘
سیٹ کا دروازہ کھول کر وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ مجھے کیا ہو رہا ہے ؟‘‘
’’آخر اپنے بارے میں کچھ تو بتا سکو گی۔ کہیں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ بلڈ پریشر نارمل ہے ؟‘‘
بڑی طنزیہ ہنسی وہ ہنسی۔
’’ڈاکٹر ممتاز میں بڑی سخت جان لڑکی ہوں۔ آج تک میرے سر میں ہلکا سا درد نہیں ہوا۔ بلڈ پریشر وغیرہ تو بڑی دُور کی بات ہے۔ میں نے بڑی صاف سُتھری زندگی گزاری ہے۔ کبھی کسی اُلٹی پلٹی سوچ نے مجھے پریشان نہیں کیا۔ مگر کچھ یوں لگتا ہے جیسے اب سوچیں اور پریشانیاں میرا مقدر بننے والی ہوں۔ ‘‘
’’ارے نہیں عتیقہ چیزوں کا منفی رُخ تم نے کیوں دیکھنا شروع کر دیا ہے ؟‘‘
ڈاکٹر ممتاز نے بہت خُلوس اور اپنائیت سے کہا۔
ٹیمز آ چکا تھا۔ گاڑی پارک کر کے دونوں ایک کشتی میں اُتر گئے۔ پہلا پہر زندہ اور جوان تھا۔ منچلے کشتیوں میں بیٹھے شور مچا رہے تھے۔
سیر سے فارغ ہو کر ایک اطالوی ریسٹورانٹ میں انہوں نے کھانا کھایا۔ جب وہ واپسی کے لئے گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی ہلکی رفتار سے اپنے راستے پر بڑھ رہی تھی۔ اس نے بھاری اور بوجھل آواز میں کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب پر دیس میں اپنائیت کے اس اظہار کے لئے میں آپ کی شکر گزار ہوں مگر میری منزل ابھی بہت دُور ہے اور میرے لئے راستے میں ٹھہراؤ بہت مہلک
ثابت ہو سکتا ہے۔ آپ مجھ سے آئندہ نہیں ملیں گے !‘‘
اور یہ سب کہہ کر اُس نے ڈاکٹر ممتاز کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ چپ چاپ بیٹھی رہی۔ آج ریڈیو نہیں بج رہا تھا۔ مکمل خاموشی تھی۔ ڈاکٹر ممتاز نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ بس وہ گاڑی چلانے میں مصروف تھا۔
اور جب وہ گاڑی سے اُتری۔ سٹیرنگ کی طرف دھیرے دھیرے چلتے ہوئے آئی۔ ہلکا سا جھُکی اور ڈاکٹر ممتاز کو خدا حافظ کہنے کے لئے زبان کھولی۔ وہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ نے عتیقہ کا داہنا ہاتھ پکڑا اور جذبات سے بوجھل آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
’’عتیقہ یہ تو ممکن نہیں کہ میں اب تم سے نہ ملوں۔ انسان اپنی تشنہ کامیوں کی سیرابی لئے نگر نگر پھرتا سہے۔ کہیں اُسے گوہر ملتا ہے تو وہ اسے چھوڑ جائے یہ کیسے ممکن ہے ؟ میں تو یوں بھی محرومیوں کا مارا ہوا ہوں۔ ‘‘
اور کار زن سے آگے بڑھ گئی تھی۔ وہ وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ پریشان سی۔
ڈاکٹر ممتازاُسے اُس کے خول سے باہر نکال لایا تھا۔ کبھی کبھی جب وہ اُلجھی اُلجھی باتیں کرنے لگتی تو وہ رسان سے کہتا۔
’’کیسی احمق لڑکی ہو۔ محبت انسان کو اعتماد دیتی ہے۔ اور تم ہو کہ ذہن کو اُلٹی پُلٹی سوچوں کی چھُریوں سے زخمی کر تی رہتی ہو۔ ‘‘
جو کچھ بھی تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضرور تھا کہ اُس کے شب و روز بہت خوبصورت ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر ممتاز نے اس کی جمالیاتی حِس کو بیدار کیا تھا۔ وہ جو سیدھے سادھے کپڑے پہن کر یونہی منہ اُٹھا کر باہر نکل جاتی تھی۔ اب پہننے اوڑھنے کے معاملات میں محتاط ہو گئی تھی کہ ڈاکٹر اکثر اُسے ٹوکتا۔
’’عورت ہو، بننا سنورنا تمہارا پیدائشی حق ہے۔ اس حق سے اپنے آپ کو محروم کیوں کرتی ہو؟‘‘
ویک اینڈ پر ’’لیک ڈسٹرکٹ ‘‘ جانے کا پروگرام بن گیا۔ عتیقہ نے شروع میں جانے سے معذرت کی مگر ڈاکٹر ممتاز قدرے غصے سے بولا۔
’’کیا ہر وقت نہیں نہیں کی رَٹ لگائے رکھتی ہو۔ ضرور جانا ہے۔ ایسی خوبصورت جگہ ہے کہ انسان قدرت کی صناعیوں پر دنگ رہ جاتا ہے۔ ‘‘
دونوں دوپہر کے وقت چلے۔ ڈاکٹر ممتاز کی ڈرائیونگ بہت اچھی تھی۔ انگلینڈ کی تیز رفتار شاہراہ۔ وہ لُطف اُٹھا رہی تھی۔
کِس قدر دلفریب جگہ تھی۔ فطرت اور عہد سازا نسان، دونوں کی موجودگی نے ماحول کو رنگین بنایا ہوا تھا۔ وڈز ورتھ کو یہاں محسوس کرنا عتیقہ کے لئے بڑا دل خوش کن تجربہ تھا۔ اُس کے پاؤں تھک گئے تھے مگر آنکھیں پیاسی تھیں۔
رات گئے ہوٹل میں آئے۔ دو کمروں کی بُکنگ تھی۔ کھانا کھا کر وہ کمرے میں آ گئے۔ کافی اکٹھے پینے کا پروگرام تھا۔
کافی پی کر کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں اور پھر وہ ہوا جو یقیناً نہیں ہونا چاہیے تھا۔ موردِ الزام کسے ٹھہرایا جاتا یہ ذرا مشکل تھا۔ ماحول، حالات اور دو محبت کرنے والوں کی یکجائی، سبھی قصور وار تھے۔ عتیقہ کی آنکھوں نے ساون بھادوں کی بارش برسا دی تھی اور اس ساری بارش کو ڈاکٹر ممتاز کی چھاتی کے گھنے بالوں نے اپنے اندر جذب کیا تھا۔
وہ روتے نہ تھکتی تھی اور ڈاکٹر ممتاز اسے دلاسا اور تسلیاں دیتے ہوئے نہ تھکتا تھا۔ تفریح کا سارا مزہ غارت ہو گیا۔ تنگ آ کر ڈاکٹر ممتاز نے اُس سے کہا۔
’’خدا کے لئے عتیقہ یہ رونا دھونا بند کرو۔ اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ میں عام مردوں کی
طرح تم سے بے وفائی کروں گا تو اس کی توقع مجھ سے کم از کم مت کرو۔ میں مرد ہوں وہ مرد جو اپنے وعدے اور اپنی بات پر چٹان کی طرح کھڑے رہتے ہیں۔ میں تم سے شادی کروں گا۔ ‘‘
دونوں لندن لوٹ آئے۔
عتیقہ چپ چاپ ہوسٹل کے دروازے کے سامنے اُتر کر تیر کی طرح گیٹ میں داخل ہو گئی۔ اس نے رُک کراُسے دیکھنے یا کوئی بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
پورا ایک ہفتہ وہ غائب رہی۔ ڈاکٹر ممتاز ہر روز آتا اور اُسے پتہ چلتا کہ عتیقہ نہیں ہے۔ جہاں جہاں اس کے ہونے کا امکان تھا۔ وہاں بھی اُس نے چھاپے مارے مگر بے سود۔ وہ بہت پریشان تھا کہ آخر یہ دیوانی لڑکی کہاں غائب ہو گئی؟
برمنگھم میں تیرہ دن گزار کر جب عتیقہ واپس لندن آئی تو کسی حد تک وہ سنبھل گئی تھی۔ اُس نے کسی سے ممتاز کے بارے میں استفسار نہیں کیا۔ لیکن لا شعوری طور پر وہ اُس کی آمد کی منتظر ضرور تھی۔ ایک دن۔ دو دن گزرے کوئی نہیں آیا۔
’’اچھا!‘‘ اُس نے بظاہر خاصی بے اعتنائی سے کہا۔
ہفتہ گزر گیا مگر اس کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ اب وہ پریشان تھی۔ جی چاہتا تھا کہ وہ آئے۔ اس سے ملے۔ اس پر اپنا غصہ جھاڑے۔
ساری انا اور خود داری کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس نے اسپتال فون کیا پتہ چلا کہ وہ تو گذشتہ چار دنوں سے ایک میڈیکل کانفرنس میں شرکت کے لئے جرمنی گیا ہوا ہے اور ابھی ہفتہ بھر سے قبل اُس کی واپسی ممکن نہیں۔ یہ سب جاننے پروہ صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی۔
اُس کے شب و روز میں ایک عجیب سی اُداسی اور یاسیت گھُل گئی تھی۔ اُس دن وہ
بالکونی میں کھڑی باہر دیکھتی تھی۔ مُوسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ اتنی تیز بارش کے باوجود لوگوں کی آمدورفت ذرہ بھر کم نہ تھی۔ سرِشام ہی لندن اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔ یہ اور بات تھی کہ مصنوعی روشنیوں نے اندھیرے کا جگر کاٹ کر دن کا سا اُجالا پھیلا یا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کمرے میں آ گئی۔ بستر پر بیٹھ گئی۔ مضطرب ہو کر پھر اُٹھ بیٹھی۔ چکر کاٹنے لگی۔ کیسا بے قرار تھا دل؟گزشتہ چار دن سے اُس کی طبیعت خراب تھی۔ سامنے کیلنڈر کی تاریخیں اس سے بہت کچھ کہتی تھیں۔
’’اللہ! یہ میرے کس گناہ کی سزا ہے ؟‘‘
کُرسی پر وہ نڈھال سی بیٹھی تھی۔ اُس کا سر چکرا رہا تھا اور کلیجہ جیسے بوٹیوں میں کٹ رہا تھا۔ تین دن سے وہ ٹھنڈے مشروب کے سوا کچھ کھا پی نہ سکی تھی۔
اور عین اُس وقت ڈاکٹر ممتاز کمرے میں داخل ہوا۔ اُس کی بند آنکھیں کھُلیں۔ اُن میں چمک پیدا ہوئی اور پل بھر میں بُجھ گئی۔
’’عتیقہ۔ ‘‘ وہ اُس کے پاس آ کر اس پر جھُکا۔
’’یہ تم نے کیسا حُلیہ بنا لیا ہے ؟ خدا کے لئے میرے حال پر رحم کرو۔ ‘‘
’’ممتاز۔ معاملہ بہت گڑ بڑ ہو گیا ہے۔ ‘‘
اور اُس نے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
’’کیا گڑ بڑ ہو گئی؟ ٹھیک سے بتاؤ۔ میں سمجھانہیں۔ ‘‘ وہ سخت ہراساں ہو رہا تھا۔
’’ڈاکٹر ہو کر سمجھتے نہیں۔ ‘‘ اُس نے جز بز ہوتے ہوئے کہا۔
اور اس کا حیرت سے کھُلا منہ دیکھ کر عتیقہ کے حواس گُم ہو گئے۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھی اور بولی۔
’’اور اب تم بھاگ جاؤ گے۔ اور کبھی اپنا آپ مجھے نہیں دکھاؤ گے۔ ہے نا؟‘‘
اُس نے بہت سہولت اور آرام سے اُسے کُرسی پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’تمہارا اپنا قیاس ہے۔ ‘‘
’’ڈاکٹر نے تصدیق کی ہے۔ یورن کی رپورٹ سامنے دراز میں پڑی ہے۔ ‘‘
یہ اضطراری کیفیت تھی یا وہ جذبات سے مغلوب ہوا یا اس پر پیار کا دوَرہ پڑا۔ عتیقہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ بس اس نے اسے اپنی بانہوں کے دائرے میں بھر لیا تھا۔ اس کے سر پر اپنا چہرہ ٹکا دیا تھا اور اُس کی آنکھوں سے بہت سے آنسو بہے تھے۔ جو اس کی مانگ پر گرے تھے اور جنہوں نے عتیقہ کو اس کا چہرہ دیکھے بغیر بتایا تھا کہ وہ رو رہا ہے۔ دیر بعد وہ بولا۔
’’تمہارا خیال ہے میں تمہیں چھوڑ کر بھاگ جاؤں گا اتنی غلط ریڈنگ ہے تمہاری میرے بارے میں !‘‘
’’مرد بالعموم ایسا ہی کرتے ہیں۔ ‘‘ عتیقہ نے آہستگی سے کہا۔
برستی بارش میں وہ اسی وقت اُسے ایسٹ اینڈ کی مسجد میں لے گیا۔ فون کرنے پر تین دوست بھی گئے۔ اسلامی تبلیغی مشن سے چند لوگ شریک نکاح ہوئے۔
’’مجھے افسوس ہے میں تمہارے لئے عروسی جوڑا اور زیور ات نہیں خرید سکا۔ اصل میں تم شکوک و شبہات کے جال میں بُری طرح پھنس گئی تھیں اس سے نکالنے کا واحد راستہ یہی تھا۔ اگلے ماہ پیرس چلیں گے اور تم۔۔۔ ‘‘
عتیقہ نے فوراً اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’گولی مارو کپڑوں اور زیورات کو۔ اصل مسئلہ تو ابھی بھی سر پر کھڑا ہے۔ ‘‘
’’کونسا مسئلہ؟‘‘ ممتاز کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
’’جو گناہ سرزد ہو گیا ہے اس سے بھی تو نجات حاصل کرنا ہے۔ ‘‘
’’یہ کیا کہا ہے تم نے ؟ نہیں عتیقہ ہرگز نہیں۔ خدا گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ ‘‘
عتیقہ اپنے مقدر پر جتنا بھی رَشک کرتی کم تھا۔ ڈاکٹر ممتاز دیوانگی کی حد تک اُس کا خیال رکھتا تھا۔ اُس کا اصر ار تھا۔ ’’ یونیورسٹی جاؤ مگر پڑھائی کے لئے نہیں۔ کمرے میں لیٹے رہنے کی بجائے گھوم پھر آؤ۔ بس جانے کا یہی پہلو تمہارے سامنے ہونا چاہیے۔ ‘‘
اُسے تپ چڑھتی۔ ’’یہ تم مجھے موم کی گڑیا بنا رہے ہو۔ مستقبل کے لئے میرے تو سارے عزائم اور ارادوں کی منصوبہ بندیاں کاغذ کے پُرزوں کی طرح بکھر گئی ہیں۔ میں کیا سوچتی اور کیا چاہتی تھی اور یہ سب کیا ہو گیا؟‘‘
’’عتیقہ گھبراؤ نہیں تمہاری ڈاکٹریٹ ضرور مکمل ہو گی۔ میرا وعدہ ہے تم سے۔ ‘‘
اُس کی خوراک، اُس کے لباس، اُس کے آرام، ہر بات کی اسے فکر رہتی تھی۔ ایف آر سی ایس کا اُس کا اپنا آخری سال تھا۔ حد درجہ مصروف ہونے کے باوجود وہ عتیقہ سے متعلق ہر معاملے میں بُہت حساس تھا۔
بہت خوبصورت سا بیٹا دُنیا میں آیا۔ خوشی ڈاکٹر ممتاز کی آنکھوں سے پھوٹ رہی تھی۔
’’میری شیر خوارگی کے دنوں کی تصویر دیکھو گی تو یوں سمجھو گی کہ جیسے یہ ممتاز کا دوسرا رُوپ ہے۔ ‘‘
عتیقہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’یہ تمہارا رُوپ ہی تو ہے۔ ‘‘
ایک دن جب موسم بہت اَبر آلود تھا۔ یخ بستہ ہوائیں برچھی کی طرح آر پار ہوئی جاتی تھیں۔ وہ بیٹے کے ساتھ کمرے میں بیٹھی ڈاکٹر ممتاز کی قمیض پر بٹن ٹانک رہی تھی۔
سات ماہ کا بیٹا اپنی عمر سے کہیں زیادہ صحت مند تھا۔ کمرہ خوشگوار حد تک گرم تھا۔ عتیقہ قالین پر بیٹھی تھی جب ڈاکٹر ممتاز آیا۔ بیٹا کھلونے چھوڑ کر ہمک کر باپ کی گود میں
آ بیٹھا۔
’’آج جلدی کیسے آ گئے ؟ آپ کا تو آپریشن ڈے تھا۔ ‘‘
’’صرف دو آپریشن کئے ہیں۔ ‘‘
’’کچھ دیر وہ خاموش بیٹھا رہا۔ ‘‘ عتیقہ نے کچھ محسوس کیا اور بولی۔
’’کیا بات ہے، چُپ کیوں ہیں ؟‘‘
’’تم سے ایک بات کرنا چاہتا تھا۔ ‘‘
’’تو کرو۔ تذبذب اور ہچکچاہٹ کیسی ہے ؟‘‘
’’میں پہلے سے شادی شدہ ہوں۔ ‘‘
عتیقہ کو اپنی سماعت پر دھوکے کا گمان گزرا۔ دیر تک گُم سُم پتھر کی کسی مُورتی کی طرح بیٹھی رہی۔ پھر نرمی سے بولی۔
’’کیا کہا ہے ؟‘‘
’’کہنا تو طویل عرصے سے چاہتا تھا مگر کہہ نہ سکا۔ ‘‘
’’اور اب کیسے کہہ دیا؟‘‘
ڈاکٹر ممتاز نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ قالین پر اوندھے منہ لیٹ گیا۔ عتیقہ کی آنکھوں میں جیسے وحشت سی بھر گئی۔ چیخیں مارنے اور اونچے اونچے رونے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یوں لگا جیسے بس دم گھُٹ جائے گا۔
’’تیسری کب کرو گے ؟‘‘ دیر بعد اس نے نگاہیں اُٹھا کر اُسے دیکھا۔
اور اس طنز پر ڈاکٹر ممتاز نے سر کو اُٹھا کر اک ذرا عتیقہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں غم ویاس کی کیفیات کا کچھ ایسا مد و جزر تھا کہ اسے مزید دیکھنے یا جواب دینے کی
تاب ہی نہ ہوئی۔ سر کو دوبارہ قالین پر پٹخ دیا۔
’’وہ کیا خوبصورت نہیں ہے ؟‘‘
’’بہت ہے۔ ‘‘
’’پڑھی لکھی؟‘‘
’’ایف ایس۔ سی۔ ‘‘
’’بچے کتنے ہیں ؟‘‘
’’کوئی نہیں !‘‘
’’شادی کو کتنے سال ہوئے ؟‘‘
’’نو سال!‘‘
سوال جواب کا یہ سلسلہ کسی عدالت کے وکیل اور موکل کی منظر کشی کر رہا تھا۔ اب اس نے تلخی سے پوچھا۔
’’تو تم نے سارا پاکھنڈ بچے کے لئے پھیلایا؟‘‘
’’میرے پاؤں میں کوئی بیڑیاں تھیں جو مجھے دوسری شادی سے روکتی تھیں۔ پاکھنڈ تو تب پھیلا یا جاتا ہے جب انسان بے بس ہو۔ بچہ میری محرومی ضرور تھی مگر ایسی نہیں کہ میں پاکھنڈ پھیلا تا پھرتا۔ یہ کوئی ضروری ہے کہ حسین چہرے ہی دل کے سنگھا سن پر براجمان ہوں۔ کبھی کسی عام سے ذہین انسان کی کوئی ایسی ادا دل کو بھا جاتی ہے کہ آدمی اس کے بغیر اپنے آپ کو نامکمل محسوس کرتا ہے۔
یوں بھی میں کہنا چاہوں گا کہ اتنے تابڑ توڑ حملوں کی بجائے اگر تم تھوڑی سی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے سُن لو تو شاید میں اتنا قصوروار نظر نہ آؤں۔ صدف میری چچا زاد میرے بڑے بھائی کی پانچ ماہ کی بیاہی دُلہن میری بیوی اُس وقت بنی جب میں ابھی
میڈیکل کے پہلے سال میں تھا۔ مجھ سے سات سال بڑا میرا بھائی ایکسیڈنٹ میں مر گیا تو صرف چھ ماہ بعد میرے ہزار انکار اور ٹکریں مارنے کے باوجود مجھ سے نکاح دی گئی۔ تم اِسے میرے باپ کی ہٹ دھرمی کہہ لو۔ میری بزدلی کو شمار کر لو۔ پر صرف اتنا سوچ لو کہ انسان کبھی کبھی حالات کے جبر میں جکڑا جاتا ہے۔ ‘‘
یہ نہیں کہ ڈاکٹر ممتاز کے پیار میں کوئی کمی آئی یا اس کی چاہت میں کوئی فرق پڑا۔ مگر عتیقہ کا دل جیسے ٹوٹ پھوٹ گیا۔ تخت سے منہ کے بل فرش پر گرنے والی بات تھی۔ کہاں ایک انسان سارا کا سارا اپنا اور کہاں وہ خانوں میں بٹا ہوا۔
مگر دنوں افسردگی اور یاس میں ڈوبے رہنے کے بعد اس نے اپنے آپ کو سمجھایا۔
’’ہم سیدھی سادی سی عورتیں تو یونہی مرد کے وجود اور دل پر اپنے حقوق محفوظ سمجھتی ہیں۔ اس کا جب جی چاہے دل اور جسم کے دروازے وا کر لے۔ نہ ہم کچھ جان سکتی ہیں اور نہ زبردستی کسی کو دل سے نکال پھینکنے پر قادر ہیں !‘‘
اور وہ اس کے ساتھ واپس پاکستان آئی۔ ڈاکٹر ممتاز نے اس سے پوچھا بھی کہ اگر تم چاہتی ہو تو ہم یہیں سیٹ ہو جائیں۔
مگر اُس نے سنجیدگی سے کہا۔
’’نہیں اپنے وطن واپس جانا ہے۔ ہم پر اس کے کچھ حقوق ہیں۔ ‘‘
دونوں نے اپنے گھروں میں اپنی آمد کی اطلاع نہیں کی۔ ڈاکٹر ممتاز نے اپنے بارے میں عتیقہ کو کچھ زیادہ نہیں بتایا ہوا تھا۔ ٹیکسی محل نما گھر میں داخل ہوئی تو وہ حیران رہ گئی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ڈاکٹر ممتاز اس قدر امیر انسان ہو گا۔
نوکروں نے بڑھ کر استقبال کیا۔
گھر میں کوئی عورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ ممتاز نے صدف کے متعلق پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ اپنے کمرے میں ہے۔
تھوڑی دیر بعد ایک دُبلی پتلی عورت اندر آئی۔ ایسی حسین اور خوبصورت کہ عتیقہ کی اسے دیکھ کر سٹی گم ہو گئی۔
لیکن اُس کی آنکھیں۔ اللہ !عتیقہ کا کلیجہ منہ کو آ گیا۔
ان آنکھوں میں ویرانی تھی۔ ایسی ویرانی جو قبرستانوں کا مقدر ہوتی ہے۔ اُس نے عتیقہ کو پیار کیا۔ بچے کو اُٹھایا۔ چھاتی سے لگایا، چُوما۔
ہونٹوں پر خاموشی کے تالے لگائے عتیقہ یہ سب دیکھتی رہی۔ اُس سے جب آنکھیں چار ہوئیں تو جیسے ان آنکھوں نے زبان بن کر کہا۔
’’میرے حُسن کو دیکھتی ہو۔ ایسا حُسن تم نے کہاں دیکھا ہو گا؟میرے جیسے نصیب اور مقدر والی بھی کہیں کم ہی دیکھی ہو گی۔ ‘‘
عتیقہ کو یوں محسوس ہواجیسے وہ اگر اور یہاں ٹھہری تو اُس کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ممتاز غسل کے لئے چلا گیا تھا۔ بچہ ابھی تک اُس کی گود میں تھا۔ جب وہ اُٹھی اور سر پٹ باہر بھاگی۔ راستے اُس کے لئے اجنبی نہ تھے۔ رکشے سے وہ گھر آئی۔ بھابھی اسے یوں دیکھ کر بھونچکی رہ گئی۔
’’اماں، بھابی، امّاں کہاں ہیں ؟‘‘
اور بھابھی نے آنسو بھری آنکھیں دوپٹے کے پَلو سے صاف کیں اور بولی۔
’’امّاں تو کوئی پندرہ دن ہوئے فوت ہو گئی ہیں۔ ‘‘
’’فوت ہو گئی ہیں اور آپ نے نے مجھے اطلاع بھی نہیں دی۔ ‘‘
وہ ویسے ہی مڑی اور دروازے سے باہر نکل گئی۔
بھابھی پیچھے سے آوازیں دیتی رہ گئی۔
’’عتیقہ امّاں کی قبر قبرستان کے آخری سرے پر ہے۔ اُس پر امّاں کے نام کی تختی بھی ہے۔ ‘‘
’’امّاں میں نے تیرا دل دُکھایا تھا۔ بول تو نے مجھے بددعا دی تھی۔ امّاں تیری بدعا مجھے لگ گئی۔ امّاں میرے سارے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔ ‘‘
وہ قبر کے سرہانے بیٹھی گھائل ہو رہی تھی۔ پاگلوں کی طرح خود کلامی میں باتیں کئے چلی جا رہی تھی۔
جب اچانک دو ہاتھ اُس کے شانوں پر آ گئے۔ اپنے سینے سے اُس کا سر ٹکاتے ہوئے ایک درد بھری آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔
’’عتیقہ مجھے قبر کی ڈھیری بننے سے بچا لو۔ بس خشخاش کے دانے جتنی محبت کی ضرورت ہے مجھے۔ ‘‘
عتیقہ نے تڑپ کر سر اُٹھایا۔ اُن اُداس آنکھوں میں پل بھر کو جھانکا اوربرستی آنکھوں اور ہچکیوں کے ساتھ اُس کے سینے میں چہرہ چھپاتے ہوئے اپنی بانہوں کو اُس کے گرد پھیلا دیا۔
٭٭٭
قیمتی چیک
نام تھا احمد یار۔ کیمیکل ٹیکنولوجی میں ایم۔ ایس سی گولڈ میڈلسٹ تھا۔ چار غیر ملکی زبانوں کا ماہر، نہایت ذہین فطین قسم کا نوجوان۔ کیمیکلز بنانے والی ایک بڑی کمپنی میں کیمیکل انجینئر کے طور کام کرتا تھا۔ سن یہی کوئی چالیس کے لگ بھگ ہو گا۔
بڑا کنفرمڈ قسم کا بیچلر تھا۔ قریب یا بعید میں شادی کے امکانات بہت کم تھے۔ صحت اچھی تھی۔ رنگ گندمی اور نقش گوارا۔ خاص بات یہ کہ اِس عمر کے عام لوگوں کے برعکس سر میں ایک پکا بال نہ تھا۔ ساتھیوں میں اکثر مدّت سے گھر بار والے بن گئے تھے اور اُنکی اکثریت بابا، پاپا کہلوانے لگی تھی۔ یار دوست اکثر ٹھٹھا کرتے۔
’’ہاتھ دیکھو اس کا۔ اس میں شادی کی کوئی لکیر بھی ہے۔ ‘‘
بعض شوخی سے اُسے دیکھ کر مسکراتے اور کہتے۔ ’’ارے ابھی تو اپنا احمد بچہ ہے۔ ذرا ہوش سنبھالنے دو اِسے۔ بھئی ہو جائے گی شادی بھی۔ ‘‘
وہ سب کی سنتا رہتا اور اپنے گھمبیر سے چہرے پر سنجیدہ سی مسکراہٹ بکھیرے رکھتا۔ نہ لبوں کو کھولتا اور نہ کچھ کہنے کی ضرورت محسوس کرتا۔
اس کا ایک دوست منصور فضائیہ میں ونگ کمانڈر تھا۔ کئی سال انہوں نے اکٹھے پڑھا تھا۔ وہ جب بھی آتا اُس کے گھر حاضری دینا نہ بھولتا۔ اُس کے بیڈ کی پائنتی پر لیٹ کر ایک زور دار لات اُس کے کولھے پر جماتا اور کہتا۔
’’ویسے تو تم سانڈ نظر آتے ہو پر اندر سے کہیں پھوک تو نہیں ہو۔ ‘‘
وہ مسکراکرصرف اتنا کہتا۔
’’بکواس مت کرو۔ ‘‘
وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا۔ احمد یار کے شانے پر دو ہتڑ جماتا اور اپنا منہ اُس کے کان کے پاس لا کر سرگوشی کے انداز میں کہتا۔
’’یار کہیں گے (Gay) وے کا سلسلہ تو نہیں۔ ‘‘
احمد یار دھاڑتا۔ ’’انسان بنو۔ ‘‘
چند اور بے تکلف دوست تھے جنہیں اُس کے گھر نہ بسنے کا شدید قلق تھا وہ بھی اکثر پوچھتے رہتے۔
’’امّاں یار بتاؤ تو سہی آخر تم کیسی لڑکی چاہتے ہو؟‘‘
جان چھڑانے کے لئے وہ لمبی چوڑی شرائط بیان کر دیتا۔ اس پر یار لوگ قہقہے لگاتے طنز کرتے اور کہتے۔
’’میاں احمد یار کبھی آئینے میں اپنے آپ کو بھی دیکھ لیا کرو۔ ایسی حوریں گلفام شہزادوں کو ملتی ہیں۔ ‘‘
اُس کے دوستوں میں چند ایسے بھی تھے جو اُس کے اندر کارتی رتی حال جانتے تھے۔ وہ جب بھی اکٹھے ہوتے ایک دوسرے سے کہتے۔
یار کوئی ہے جو اسے ’’وکٹر کراو چنکو‘‘ کی ’’I choose freedom‘‘ پڑھائے۔ اس بُزدل بندے میں کچھ جُرات اور حوصلہ پیدا ہو۔ جن ناروا پابندیوں کی زنجیروں میں اس کے باپ نے اسے جکڑا ہوا ہے وہ یہ توڑے۔ بند ہونٹوں کو کھولے۔
ایک دو جوشیلے دوست چلّا کر کہتے۔
’’تم منہ میں گھنگھنیاں ڈالے رکھنا۔ تمہارے باپ کو تمہاری کمائی کی چاٹ لگی ہوئی ہے۔ بینک بیلنس تگڑا کر رہا ہے وہ اپنا۔ یونہی کاٹھ کے اُلّو بنے رہنا۔ ‘‘
بیٹا احمد یار تھا تو باپ غلام مجتبیٰ۔ وہ اسکول ماسٹر تھا۔ پرائمری اسکول ماسٹر کی تنخواہ ہی کتنی ہوتی ہے۔۔ گاؤں میں دو کھیت تھے۔ گھر میں تھوک کے حساب سے بچے، بوڑھے والدین، ایک اپاہج بھائی اور ایک بیوہ بہن۔ غریبی نے اکٹوپس کی طرح غلام مجتبیٰ کے گھرانے کو اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا۔ قناعت نام کی کوئی شے اُس کے وجود میں نہیں تھی۔ طبیعت میں جلال، خمیر میں لالچ۔ ذرا سی بات پر چھوٹے بڑے کو روئی کی طرح دھنک ڈالتا۔
غریبی کو امیری سے بدلنے کی دھُن میں دھواں دھار بولتا۔ گھر والوں کو آنگن میں بٹھا لیتا۔ اور چودہریوں اور نمبرداروں کے خلاف زہر اُگلتا۔ تدبیروں کے گھوڑے دوڑاتا شعلہ بیان تقریروں سے ایک ایک کے ذہن میں یہ ڈالنے کی کوشش کرتا کہ امیر اور کھاتے پیتے لوگ ظالم ہیں۔ تمہیں اپنا حق حاصل کرنا ہے۔ غریبی کی اِس دلدل سے باہر نکلنا ہے۔ معاشرے میں سر اٹھا کر چلنا ہے۔
اُس کا ذہن ہمہ وقت اِسی گھمن گھیری میں اُلجھا رہتا کہ کب اور کہاں اُس نے کو نسا پوائنٹ اپنے موقف کی حمایت میں کہنا ہے۔ اپنے آپ سے قسم کھا بیٹھا تھا کہ اب غریب نہیں رہنا۔ چونکہ تھوڑا بہت پڑھا لکھا تھا اس لئے بیٹوں کو اعلی تعلیم دلانا چاہتا تھا۔ بڑے بیٹے کو انجینئر بنانے کا خواہشمند تھا۔ مگر جب وہ ایف۔ ایس سی میں دوسری مرتبہ فیل ہوا تو اُس نے اُسے اتنا پیٹا کہ وہ گھر سے بھاگ کھڑا ہوا۔ لاہور آیا پھر کراچی پہنچا اور کراچی سے دھکے کھاتا کھاتا لندن پہنچ گیا۔ وہاں پہلے محنت مزدوری کی پھر رفتہ رفتہ پیر جما لئے۔ جب پہلی بار اُس نے باپ کو پندرہ ہزار روپے بھیجے تب ایک مدت بعد وہ کھلکھلا کر ہنسا اور اپنے گھر میں بچوں کے درمیان گھل مل کر بیٹھا۔ یقیناً اُس نے لکشمی دیوی کو اپنے گھر کی دہلیز میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا۔
احمد یار اس وقت دسویں میں تھا۔ باپ اس کی بیٹھ تھپکتے ہوئے بولا۔
’’شہریار نے مجھے بہت مایوس کیا۔ چلو اللہ کو ایسے ہی منظور تھا مگر اب تم خوب پڑھنا۔ ‘‘
شہریار بھی لندن سے لکھتا۔ ’’دیکھو احمد میری طرح نہ کرنا۔ جی لگا کر محنت کرتے رہنا بغیر تعلیم کے مقدر میں مزدوریاں رہ جاتی ہیں۔ کہنے کو میں اب سیٹ ہو گیا ہوں مگر جو شان پڑھے لکھوں کی ہوتی ہے وہ میری نہیں۔ ‘‘
احمد یار بہت حسّاس، کم گو اور محنتی لڑکا تھا۔ دل جمعی سے پڑھتے پڑھتے اُس نے ایم۔ ایس سی کر لی اور مزید خوش قسمتی یہ کہ اچھی ملازمت بھی مل گئی۔
شہریار لندن سے ڈھیروں روپیہ بھیج رہا تھا۔ رشتے دار اور میل ملاپ والے غلام مجتبیٰ کی مالی حیثیت سے متاثر ہو رہے تھے۔ اکثر شہریار کی شادی کا ذکر چھیڑ بیٹھتے۔ کچھ تو یہ کہنے سے بھی نہ چوکتے۔ شادی کر دواُس کی اب۔ کماؤ پوت ہے۔ کسی میم سے دو بول پڑھا لئے تو ہمیشہ کیلئے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
غلام مجتبیٰ بھی انہی گھُمن گھیریوں میں غرق تھا۔ سوچتا تھا کہ شادی کرنے سے گھر میں آتی مایا میں کمی کاڈر تو تھا پر اس کے ساتھ ساتھ یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ کہیں ساری کے چکر میں آدھی سے بھی جائے والی بات نہ ہو جائے۔
شہریار کی شادی وہ اونچے گھرانے کی کسی خوش شکل پڑھی لکھی لڑکی سے کرنے کا خواہشمند تھا۔ برادری سے باہر بھی وہ رشتہ کرنے کے حق میں نہ تھا۔
اِدھر اُدھر تاک جھانک سن گن لیتے لیتے اُس کی نظریں جس امیدوار پر آ کر ٹھہریں وہ آرمی کا رٹیائرڈ میجر تھا۔ تگڑا زمیندار تھا۔ اُس کی کئی لڑکیاں تھیں۔ اطلاع کے مطابق سبھی خوش شکل اور پڑھی لکھی تھیں۔ وہاں رشتہ کرنے پر اُس کا دل ٹھُکا۔ لیکن جب گھر میں بات کی ماں نے کہا۔
’’سوچ لو۔ سنتے ہیں بہت ہوشیار آدمی ہے۔ ‘‘
’’ارے رہنے دو ماں۔ مجھ سے زیادہ بھی ہوشیار ہو سکتا ہے۔ ‘‘اُس نے مونچھوں کو تاؤ دیا اور سینہ پھلایا۔
بہن نے بھی دبی زبان سے کہا ’’غلام مجتبیٰ بہتر تھا کہ تم اپنے ہی جیسے کسی گھر میں رشتہ کرتے۔ امیر گھر کی لڑکی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
اُس نے کوبرا سانپ کی طرح شو کر ماری اور کالی گرگابی کی ایڑی سے آنگن کی مٹی کا سینہ کوٹتے ہوئے بولا۔
’’تم تو دل سے چاہتی ہو کہ ہم سدا غریبی کے جہنم میں ہی سڑتے رہیں۔ ارے پہلے اپنے بہن بھائیوں کو پالتا رہا پھر بیوی کے ہو توں سوتوں کو پالنے میں لگ جائے گا۔ ‘‘
بہن نے منہ پر انگلی رکھ کر لبوں کو بند کر لیا۔ کیا ضرورت تھی بات بڑھانے یا بحث کرنے کی ؟وہ تو بال نوچنے کو پڑتا تھا۔
رشتہ طے پا گیا۔ منگنی دھوم دھام سے ہوئی۔ سارے گاؤں میں واہ واہ ہو گئی۔ میجر نے لڑکے کی تصویر کو ہزار روپے کے نوٹ پہنائے۔
زمانہ سستا تھا۔ سوروپیہ بڑی بات تھی۔ ہزار کے تو کہنے ہی کیا؟
شادی کی تاریخ طے ہوئی۔ لڑکے کو آنے کیلئے لکھا گیا اُس کا جواب آیا۔ میرا آنا مشکل ہے۔ ٹیلیفون پر نکاح کر دیں۔ مجبوری تھی۔ بات مان لی گئی۔
نکاح سے ایک ہفتہ قبل غلام مجتبیٰ گھبرائی ہوئی صورت کے ساتھ بیٹے کی سُسرال گیا۔ تنہائی میں سمدھی کو بتایا کہ وہ دُلہن کے زیورات اور دوسری چیزوں کی خریداری کیلئے شہر گیا تھا۔ جیب میں پچاس ہزار روپیہ تھاجوکسی گرہ کٹ نے اڑا لیا۔ اب پریشانی سی پریشانی ہے۔
سمدھی بیچارہ سوچ میں پڑ گیا۔ سانپ کے منہ میں چھچھوندر والی بات ہو گئی تھی۔ نہ اگلے بنے نہ نگلے۔ بیٹی کے مستقبل کا سوال تھا۔ فیصلہ ہوا کہ جگ ہنسائی کا موقع نہ دیا جائے اور عزت بچائی جائے۔ چنانچہ پیسہ دے دیا گیا البتہ میجر صاحب نے یہ ضرور کہا۔
’’یہ میری اور تمہاری عزت کا سوال ہے۔ قرض کہیں تمہارے اور میرے درمیان دیوار نہ بن جائے۔ ‘‘
’’گھبرائیے نہیں۔ غلام مجتبیٰ نے اُس کا ہاتھ دبایا۔ بس دو تین ماہ کی بات ہے۔ فصل تیار کھڑی ہے۔ کٹائی شروع ہوتے ہی فکر کروں گا۔ میجر صاحب مطمئن ہو گئے۔
شان و شوکت اور دھوم دھڑکے سے نکاح ہوا۔ نکاح کے بعد میجر صاحب توقع کر رہے تھے کہ قرض دی گئی رقم بن مانگے مل جائے گی۔ لیکن دوسری طرف اس کا کچھ ذکر نہ تھا۔ دو ماہ بعد دبی زبان سے پیسے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ لیکن سنی ان سنی کر دی گئی۔ ایک ماہ بعد پھر بات ہوئی اِس بار لہجے میں ذرا تلخی تھا۔ غلام مجتبیٰ چنگاری کی طرح بھڑک اٹھا۔
چیخ کر بولا۔
’’تو لڑکی کا باپ ہو کر غُراتّا ہے۔ میں نے بھی اُسے ساری عمر گھر میں بٹھائے نہ رکھا تو غلام مجتبیٰ نام نہیں۔ ‘‘
لڑکی کے باپ نے بھی سردی گرمی دکھانے کی کوشش کی۔ اُسی دن اُس نے بیٹے کو خط لکھا۔
’’وہ بیٹی کو تین کپڑوں میں رُخصت کرنا چاہتا ہے۔ ذلیل کہیں کا۔ اُس کا خیال ہے داماد لندن میں ہے۔ بیٹی کا جہیز اُس کی سُسرال کو استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اُس نے مجھے ذلیل کیا۔ برادری میں میری ناک کاٹ دی ہے۔ مجھے بات کرنے جوگا نہیں چھوڑا۔ میں چاہتا ہوں تم فوراً اُسے طلاق بھیج دو۔
شہر یار خط پڑھ کر کنگ ساہو گیا۔
’’طلاق ‘‘
اُس نے سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیری اور پھر اپنے آپ سے کہا۔
’’طلاق بھیج دوں مگر کیوں ؟ابھی تو میں نے اُسے دیکھا بھی نہیں۔ اُس نے ہاتھوں پر جو مہندی لگائی ابھی تو اُس کا رنگ بھی پوری طرح نہیں اُترا ہو گا۔ ابھی تو سہاگ کے جوڑے کو اُس نے ایک بار بھی نہیں دھویا ہو گا۔ نہ جانے کیسے کیسے خواب اُس نے دیکھے ہوں گے ؟ اس سے پہلے کہ اِن خوابوں کی اُسے تعبیر ملے میں اس کے ہاتھ میں طلاق نامہ پکڑا دوں۔ یہ کس قدر ظالمانہ بات ہو گی؟ میرے خدا یہ کس قدر ظلم ہو گا؟نہیں نہیں میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا۔ ‘‘
اُس کے باپ نے خطوں کی ڈاک بٹھا دی تھی۔ ’’میری عزت کو اُس نے دو کوڑی کا کر دیا ہے۔ تم کیسے بیٹے ہو جسے میرے وقار کی پروا نہیں۔ ‘‘
ان دیکھی محبت اور فرض میں جنگ شروع ہو گئی تھی۔ ان دیکھی محبت کا پلڑا بھاری رہا۔ فرض غلطی پر تھا۔ ضمیر اس پر مطمئن تھا۔
اُنہی دنوں اُسے اپنے سُسر کا خط ملا ایسا درد ناک جسے پڑھ کر اُس کی آنکھیں گیلی ہو گئیں۔ اُس نے ٹکٹ اور ویزا سُسرال بھیج دیا۔ باپ کو پتہ چلا تو کوئلوں پر لوٹ گیا۔ مگر کیا ہو سکتا تھا؟
احمد یار طبعاً بہت شریف نوجوان تھا۔ اُس کی شادی کے گھر میں جتنی بار بھی چرچے ہوئے وہ محض ایک تماشائی کی حیثیت سے اُن میں شامل ہوا۔ مگر جب امریکہ میں مقیم کسی دور پار رشتے دار جو اپنی دو بیٹیوں کی پاکستان میں شادی کا خواہشمند تھا کے ہاں اس کی اور چھوٹے بھائی احمد سلمان کی بات چیت چلانے کا فیصلہ ہو تو اسنے کہنا ضروری سمجھا۔
’’باہر کے ماحول کی پروردہ لڑکیوں کا یہاں ایڈجسٹ ہونا مشکل ہے۔ بہت زیادہ ماڈرن کی مجھے ضرورت نہیں۔ ‘‘
’’ان کا باپ پاکستان میں ان کی شادی کا خواہاں ہے۔ لڑکیاں اس ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر سکیں گی یا نہیں۔ یہ امر تو اُس سے پوشیدہ نہ ہو گا۔ ظاہر ہے وہ کچھ سوچ سمجھ کر ہی یہاں آیا ہو گا۔ لڑکیاں ضرور خوبصورت ہوں گی۔ صاحب حیثیت لوگ ہیں۔ ہمیں اور کیا چاہیے ؟باپ نے وضاحت کر دی۔
’’ضرور خوبصورت ہوں گی پر آزاد خیال بھی ہوں گی۔ یہ آزاد خیالی بعد میں بہت ستائے گی آپ لوگوں کو۔ ‘‘احمد یار نے یہ کہنا بہت ضروری سمجھا۔
’’ہر بات کا تاریک پہلو مت دیکھو۔ ‘‘احمد سلیمان نے جب یہ کہا۔ احمد یار خاموش ہو گیا۔ پھر سب کی متفقہ رائے سے محمد اقبال کو دعوت طعام دی گئی۔ کافی اہتمام کیا گیا۔ احمد یار سے اس کی خوب باتیں ہوئیں۔ اُس نے دونوں بھائیوں کو پسند کیا۔
’’لڑکے شریف اور بہت لائق ہیں۔ ان کے مستقبل روشن ہیں۔ امریکہ بھی بلایا جا سکتا ہے۔ اپنی برادری ہے اس سے بڑھ کر اچھے لوگ ملیں گے۔ ‘‘اُس نے سوچا اور بات کھل کر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
کھانے کے بعد اُس نے اپنا مدّعا ظاہر کر دیا۔ مغرب میں طویل عرصے سے مقیم ہونے سے وہ تکلفات اور مصنوعی رکھ رکھاؤ کا قائل نہیں تھا۔ اُس نے احمد یار اوراُس کی والدہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں چاہتا ہوں آپ سب لوگ لڑکیاں دیکھ لیں۔ ‘‘
احمد یار کی والدہ نے دھیرے سے کہا۔
’’اللہ کرے یہ رشتہ پروان چڑھے۔ ‘‘
لڑکیاں دکھانے کا انتظام لاہور ہی میں کیا گیا۔ یہ ماڈل ٹاؤن کی ایک شاندار کوٹھی تھی جسمیں محمد اقبال کا دوست رہتا تھا۔ احمد یار اپنے والدین، بھائی اور دونوں بہنوں کو گاؤں سے لے آیا تھا۔
وسیع و عریض جگمگاتے ڈرائینگ روم میں دونوں لڑکیاں زمین کی نہیں آسمان کی مخلوق نظر آئی تھیں۔ یہ میک اپ کی کرشمہ سازی تھی یا اس جگمگاتے ماحول کا اثر تھا یا وہ واقعی ایسی لاجواب تھیں۔ احمد یار کچھ فیصلہ نہ کر سکا۔ بہرحال سب لوگوں نے دل و جان سے لڑکیوں کو پسند کیا تھا۔ کچھ اتنی زیادہ ماڈرن بھی نہ تھیں۔ اس بات کی بھی تسلی ہو گئی تھی۔ باتیں کرنے کا انداز دلنشین تھا۔ چائے کے بعد وہ ان سب کے ساتھ گھل مل کر باتیں کرتی رہیں۔ ساری عمر گاؤں کے ماحول میں گذارنے کے باوجود احمد یار کی والدہ کو لڑکیاں پسند آئیں۔
اُس نے اپنے جی میں کہا تھا۔
’’بیاہ کر لے جاؤں تو سارے گاؤں میں دھوم مچ جائے گی۔ لوگ کہیں گے کہ نچھّو بیگم آسمان سے تارے توڑ لائی ہے۔ ‘‘
گاؤں کا مکان گو پکا تھا پر چھوٹا تھا۔ احمد یار سے چھوٹا لڑکا احمد سلمان ذرا منہ پھٹ قسم کا تھا۔ اُس نے باپ سے کہا۔
’’دوستیاں آپ لوگ ہاتھیوں والوں سے پال رہے ہیں۔ اور دروازے آپ لوگوں کے چھوٹے ہیں، انہیں اونچا کریں وگرنہ سر پھٹ جائیں گے۔ ‘‘
بات خاصی کڑوی تھی مگر سچی تھی۔ گھر کو گرا کر خوبصورت مکان بنایا گیا۔ احمد یار نے پروجیکٹ کی کالونی میں کوٹھی کیلئے درخواست دی جو فی الفور منظور ہو گی۔ یوں شہر میں بھی اچھی رہائش کا بندوبست ہو گیا۔
شادی کے معاملات تیزی سے طے پا رہے تھے۔
جب یہ سانحہ ہوا اور احمد کو ہلا گیا۔
ملگجی سی ایک شام کو اُس نے کینٹ کی ایک کشادہ سڑک پر چھوٹی لڑکی کو دو غیر ملکی لڑکوں کے ساتھ دیکھا۔ احمد یار نے گاڑی کو ایک طرف پارک کیا اور ایک گھنے درخت کی آڑ میں کھڑا ہو کراُس کا تفصیلی جائزہ لینے لگا۔ اُس نے گہری نیلی جینز پر بغیر آستین کا بلاوز پہنا ہوا تھا۔ سڑک سنسان تھی۔ ان کی بوٹل گرین ٹیوٹا پاس کھڑی تھی۔ وہ سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔
اور احمد یار نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔
’’ہم تو چمکتے پیتل پر سونے کا گمان کرتے ہوئے دل ہار بیٹھے۔ اب یہ ہماری حماقت نہیں تو اور کیا تھی کہ ہم نے اُن لڑکیوں سے جن کی آنکھ مغربی معاشرے میں کھلی اور جن کی ساری تربیت وہاں ہوئی اپنے لئے نعمت خداوندی سمجھ بیٹھے۔
اور پھر منگنی توڑ دی گئی۔
یہ سخت گرمیوں کے دن تھے۔ احمد یار پلانٹ کا معائنہ کر کے واپس اپنے کمرے میں آ کر بیٹھا ہی تھا جب اُسے ایک کارڈ ملا۔ ملاقاتی کو اُس نے اندر بلوا لیا۔ آنے والے کے ہاتھ میں ایک بڑا سا پیکٹ تھا۔ پیکٹ اُس نے آفس ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
اسے ونگ کمانڈر منصور نے بھیجا ہے مسز علی کیلئے ہے۔ اور ساتھ ہی جیب سے خط نکال کر اُس کی طرف بڑھا دیا۔ احمد یار نے خط اُس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے اُسے بیٹھنے کیلئے کہا۔ مگر آنے والے نے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بہت جلدی میں ہے اور اُسے کہیں جانا ہے ؟
رقعہ اُس کے دوست ونگ کمانڈر منصور کی طرف سے تھا۔ جس نے لکھا تھا کہ وہ گذشتہ ماہ انگلینڈ گیا تھا۔ اُس کے جگری دوست نے یہ پیکٹ اپنی بہن مسنر تہمینہ علی کیلئے بھیجا ہے۔ مسزتہمینہ علی احمد یار کی ماموں زاد بھائی کی بیوی تھی۔ مگر دونوں خاندان کا آپس میں میل ملاپ بہت کم تھا۔ احمد یار کا ماموں اپنے بہنوئی سے سخت الرجک تھا۔
خط کے آخر میں احمد یار کو تاکید کی گئی تھی کہ فی الفور اس پیکٹ کو لکھے گئے ایڈیس پر پہنچا دے۔
دفتر سے اٹھتے ہوئے اُس نے سوچا ابھی پہنچا آؤں۔ مگر پھر وہ اپنے آپ سے بولا۔
’’چھوڑو یار۔ شام کو جاؤں گا۔ دوپہر بہت گرم ہے۔ اور گھر بھی تلاش کرنا ہے۔ کباڑہ ہو جائے گا۔ ‘‘
پیکٹ اُس نے کار کی عقبی نشست پر رکھا اور گھر آ گیا۔ شام کو ساڑھے پانچ بجے وہ گھر سے نکلا۔
مکان ڈھونڈنے میں تو اتنی دقت نہ ہوئی۔ کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ یہاں دو بار آ چکا تھا۔ مگر کال بیل بجا کر کھڑکے کھڑے سوکھنے والی بات ہو گئی تھی۔ گھر لاک بھی نہیں لگتا تھا۔ آخری بار اُس نے انگشت شہادت بیل پر رکھی اور خود سے بولا۔
’’عجیب لوگ ہیں۔ ‘‘
اور جب قریب تھا کہ وہ واپس مڑے۔ تیزی سے میں گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھلا اور عنابی ڈوپٹے کے ہالے میں ایک کندن ساچہرہ باہر جھانکا۔
’’کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘ آواز بڑی میٹھی اور ملائمت سے بھری ہوئی تھی۔
’’مسز علی گھر پر ہیں ؟‘‘وہ رُک گیا۔
اس کندن کی طرح چمکتے چہرے پر تذبذب جیسی کیفیت طاری ہو گئی۔
وہ گھر پر نہیں ہیں اور دو تین گھنٹوں سے قبل ان کی واپسی بھی ممکن نہیں۔
’’اچھی بات۔ ‘‘اُس نے پیکٹ آگے بڑھایا اور کہا۔
’’یہ انہیں دے دیجئے ‘‘۔ ان کے بھائی نے لندن سے ونگ کمانڈر منصور ہاتھ ان کے لئے بھیجوایا ہے۔ ‘‘
لڑکی نے بغیر کچھ کہے پیکٹ پکڑ لیا اور دروازہ بھی بند کر لیا، پر ہوا یوں کہ صرف چند منٹ بعد ہی وہ مسز تہمینہ علی کے ساتھ گھر میں داخل ہو رہا تھا۔ گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا جب مسز تہمینہ علی آ گئیں۔ علیک سلیک کے بعد اُسے گاڑی سے اُتار کر اندر لے آئیں۔
’’نمّو پلیز مہمان کو کچھ کھلائے پلائے بغیر ہی بھیج دینا تھا۔ ‘‘
وہ گھر میں داخل ہوتے ہی پکاریں۔
’’سوری آپ کو کچھ دیر انتظار کرنا پڑا۔ میں معذرت خواہ ہوں۔ میں در اصل عصر کی نماز ادا کر رہی تھی۔ ‘‘
اور یہ نمّو کمال کی خوبصورت لڑکی تھی۔ چال، ڈھال، لباس اور بولنے کا اندازسبھی بڑے دل نشین سے تھے۔
مسز تہمینہ علی خاصی باتونی عورت تھیں۔ شربت کا دوسرا گلاس ختم ہونے تک وہ نمّو کے بارے میں جان چکا تھا کہ وہ مسز تہمینہ علی کی فسٹ کزن ہیں۔ ملتان کی ذکریا یونیورسٹی سے ایم۔ ایس سی ہے اور اب ایم فل میں داخلے کی خواہشمند ہے۔
ماں باپ شادی کیلئے کوششوں میں ہے اور یہ آگے پڑھائی کیلئے بضد ہے باتوں کی روانی میں اُس نے یہ بھی جان لیا تھا۔
مسزتہمینہ علی کو احمد یار گھرانے سے بھی شدید گلہ تھا کہ وہ آفتاب علی کے اتنے قریبی عزیز ہونے کے باوجود کتنے خشک لوگ ہیں۔ کبھی ملنے کی چاہت ہی نہیں کرتے۔ احمد یار پر بھی اعتراض ہوا کہ وہ تو لاہور میں ہی رہتا ہے کیا کبھی کبھار چکر نہیں لگا سکتا؟
احمد یار بس زیر لب مسکراتا رہا۔ کسی کسی بات کا مختصر ساجواب دیتا رہا۔ پھر ایک عمدہ سی چائے کے بعد اُسے جانے کی اجازت مل گئی۔
گاڑی میں بیٹھ کر اُس نے اپنے آپ سے کہا۔
’’پروردگار ایسی اچھی اور پیاری لڑکیاں کیا ہمارے نصیب میں نہیں۔ کاش یہ لڑکی میری زندگی کی ساتھی ہو۔ ‘‘
احمد یار کے دل میں لڑکی کھُب گئی تھی۔ پر ازلی بزدل تھا۔ ایک دو بار دل میں آیا بھی کہ مسز تہمینہ علی کے پاس جاؤں تو سہی پر پھر رُک گیا۔ بہت دنوں بعد گاؤں گیا۔ وہاں پتہ چلا کہ اُس کی اورسلمان کی بات چیت کا سلسلہ ملتان کے کسی صاحب حیثیت گھر میں چل رہا ہے۔ احمد یار کیلئے جس لڑکی پر نظر ہے وہ ایم۔ ایس سی ہے۔ اور سلمان کیلئے لڑکی ڈاکٹر ہے۔
کہیں یہ وہی تو نہیں۔ دل عجیب سے انداز میں دھڑکا تھا۔ جب ماں اور بڑی بہن اُسے یہ تفصیل بتا رہی تھیں چھوٹی بہن کمرے سے دو تصویریں لے کر آ گئی۔ پوسٹ کارڈ سائز تصویر اس کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولی۔
’’یہ لڑکی ہے تمہارے لئے۔ ‘‘
اُس کی تصویر پر کیا نظر پڑی یوں جیسے زمین اپنے مدار پر بہت تیزی سے گھوم گئی۔ جیسے اُسے چکر آ گیا ہو۔
کندن کی طرح چمکتے چہرے والی لڑکی میٹھی سی نرم مسکراہٹ لئے اُس کے سامنے تھی۔ دعائیں اتنی جلدی قبول ہو سکتی ہیں۔ اور قدرت اتنی فیاض بھی ہو سکتی ہے کہ پل جھپکتے میں خواہش پوری کر دے۔ اُس کا اُسے خاص تجربہ نہ تھا۔ پر اُس لمحے اُس کا مُومُوجیسے سراپا تشّکر بن گیا۔
چونکہ طبعاً متین اور بُردبار طبیعت کا مالک تھا۔ بہنیں بھی پاس تھیں۔ اس لئے تصویر انہیں لوٹاتے ہوئے بولا۔
’’جیسے مناسب سمجھو کرو۔ ‘‘
احمد یار کو جیسے منزل مل گئی تھی۔ وہ مطمئن بھی تھا اور خوش بھی۔ بات تقریباً طے تھی۔ صرف شہریار کی لندن سے آمد کا انتظار تھا۔ خوابوں میں اکثر و بیشتر کندن جیسا چمکتا چہرہ نظر آتا۔ ایک دو بار اُس نے سوچا وہ مسز علی کی طرف جائے۔ پھر خیال آیا۔ نہیں رہنے دو۔ اس انتظار میں جو مزہ ہے اُس کی اپنی چاشنی ہے۔
انہی تصورات میں وہ عیدالفطر کی چھٹیوں میں گھر گیا تو وہاں پانسہ ہی پلٹا ہوا تھا۔ پتہ چلا کہ اُس کی دونوں بہنیں اس کی سُسرال گئی تھیں۔ وہاں کچھ جھگڑا ہو گیا۔ اب وہ اس بات پر تل گئی ہیں سوال ہی نہیں کہ وہاں رشتہ کیا جائے۔ احمد یار بہت پریشان ہوا۔ بہنوں سے معاملہ رفع دفع کرنے کیلئے کہا۔ بڑی کے لہجے میں رعدسی کڑکی۔
’’ اُس کلموہی کی بیٹی کی ڈولی اس آنگن میں اُترے گی ممکن ہی نہیں۔ گھمنڈی عورت جانے کیا سمجھتی ہے خود کو۔ باپ بھی وہیں قریب بیٹھا حقے کے کش بھرتا تھا۔
’’ٹھیک کہتی ہے زینب۔ اپنے آپ کو بہت اعلیٰ و ارفع خیال کرتے ہیں ارے میں کیا سمجھتا ہوں ایسے لوگوں کو۔ میرے بیٹے میرے قیمتی چیک ہیں۔ میں انہیں بہت اونچی جگہ بھُناؤں گا۔
باپ کی ایسی جاہلانہ اور احمقانہ بات کا وہ کیا جواب دیتا؟ایسی فضول باتیں کرنے کا وہ ہمیشہ سے عادی تھا اور احمد یار سننے کا۔
اور جب احمد یار نے تنہائی میں ماں سے بات کی تو اُس نے گلو گیر سے لہجے میں کہا۔
’’ارے بچے اب ان باپ بیٹیوں کو کون سمجھائے ؟ کوئی پوچھے کہ اس میں تلملانے والی کو نسی بات تھی۔ بھلا گھر میں مہمان آ جائیں اور وہ مہمان اگر ضرورت کے تحت اندر بھی آ جائیں تو کیا مضائقہ ہے ؟اور پھر یہ لوگ کونسی پردہ نشین تھیں ؟اب اگر لڑکی کی ماں نے ان کی ایسی اوچھی باتوں پر کہہ دیا کہ بھئی تم لوگ گاؤں میں رہتی ہو۔ کھیتوں پر جاتی ہو۔ یوں بھی رشتہ ناطہ ہو جائے تو پھر پردے کیسے ؟میرے رشتے دار تمہارے اور تمہارے میرے۔ ٹھیک بات تو ہے۔ پر بچہ یہاں کون سچی بات کہے ؟‘‘
زینب بڑی ضدی اور جھگڑالو فطرت کی مالک تھی۔ شادی کے پہلے سال ہی رانڈ بن کر ماں کے دروازے پر آ بیٹھی تھی۔ اب گھر میں اُس کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا تھا۔
رشتے توڑنے اور نئی نئی جگہ جانے اور بیٹوں کو پیش کرنے کا اُس کے باپ کو بھی شاید چسکہ پڑ گیا تھا۔ ماں نے البتہ منتیں کیں۔ برادری میں نکّو بننے کا کہا۔ مگر وہ اڑیل ٹٹو کی طرح اکڑ گیا۔
’’کسی کی مجال ہے جو میری بات کرے۔ میں طاقت ور ہوں۔ پیسے والا ہوں۔ ‘‘
ان کے منہ لگنا احمد یار کے بس کی بات ہی نہ تھی۔ گھر میں عجیب سی ٹینشن تھی۔ وہ تو اگلے ہی دن لاہور آ گیا۔ آنے سے قبل نہ کسی سے ملا اور نہ کوئی بات کی۔ اُس کا خیال تھا کہ سلمان سنگاپور سے آ جائے تو پھر بات ہو۔ وہ اپنی بہن سے بھی بہت خوف زدہ تھا۔ بڑی چنڈال عورت تھی۔
احمد یار کی زندگی بھنور میں پھنسی کِسی کشتی کی مانند ہو گئی تھی۔ روشنی کی وہ کرن جس نے اُس کے اندر باہر اُجالا ساکر دیا تھا ہمیشہ کیلئے ختم ہو رہی تھی۔ ہر سو گھٹا ٹوپ اندھیر پھیل رہا تھا۔ وہ اکثر سوچتا اور خود سے کہتا۔
’’کیا میں بزدل ہوں۔ یا یہ میری سعادت مندی ہے کہ میں اپنی زندگی کے اس اہم مسئلے کو جس کا تعلق خالصتاً میرے مستقبل سے ہے خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھوں اور کچھ نہ بولوں۔ مگر ایک بات ضروری تھی۔ اب وہ خاموش تماشائی نہیں رہنا چاہتا تھا۔ ‘‘
پھر اُس نے ہمت کر کے باپ کو چِٹھی لکھی۔
’’میاں جی جب دو خاندان آپس میں ملتے ہیں تو کچھ چھوٹی موٹی باتوں کا ہونا فطری امر ہے۔ فریقین پر واجب ہے کہ وہ صبر و تحمّل سے ایک دوسرے کی فروگذاشتوں کو برداشت کریں اور جگ ہنسائی کا موقع نہ دیں۔ آپ برادری میں ایک معزز فرد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ شادیاں اور منگنیاں کرنا اور پھر معمولی معمولی باتوں پر انہیں توڑ دینا آپ کو زیب نہیں دیتا۔ مہربانی فرما کر اس مسئلے پر نظر ثانی فرمائیے۔ ‘‘
غلام مجتبیٰ نے سارا خط پڑھا۔ اُس کے پچاس پُرزے کئے۔ چلم میں رکھے۔ حقے کی نے منہ میں رکھی۔ بھڑکتے شعلوں کو غور سے دیکھا اور خود کلامی کے انداز میں بولا۔
’’بے وقوف کہیں کا۔ مجھے پڑھانے چلا ہے۔ مجھے جو اس جیسے ہزار افسروں کو پڑھا دے۔ سچ کہا ہے کسی نے یہ پڑے لکھے لوگ اپنی جگہ سے ذرا سرکے ہوتے ہیں۔ ‘‘
ابھی وہ سلمان کی واپسی کے انتظار میں تھا کہ ایک اور دھماکہ ہوا۔ وہ آفس سے آیا تو باپ بہنیں اور چھوٹا بھائی سب گھر میں موجود تھے۔ اُس کی حیرت زدہ آنکھوں سے ابھی کوئی سوال نکل کر اُس کے ہونٹوں پر نہیں آیا تھا جب اُس کے باپ نے خوشی سے چہکتی آواز میں اُسے ایک بڑے اونچے گھر میں انتہائی خوبصورت لڑکی سے اُس کی منگنی اور شادی کی نوید سُنا دی۔
’’ارے بیٹا دیکھو ایسا گھر گھرانہ ایسی خوبصورت تعلیم یافتہ لڑکی مقدر والوں کو ملتی ہے۔ بس اب ہتھیلی پر سرسوں اُگے گی۔ بات پکی اور شادی کی تاریخ طے۔ ‘‘
وہ تو گم سم حیرت زدہ سا انہیں دیکھتا رہ گیا کہ یہ کہہ کیا رہے ہیں ؟اگلے ہفتے شادی ہے۔ نہ انہیں سلمان کا انتظار تھا نہ انہیں شہریار کے شامل کرنے کا خیال تھا۔
باپ بولے چلے جا رہا تھا۔ اور اُس کی سماعتوں میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ اگلے تین دن انہوں نے خریداریوں میں گزارے اور چوتھے دن اُسے ساتھ لے کر گاؤں روانہ ہو گئے۔
اُس نے بھی جیسے خود کو تقدیر کے حوالے کر دیا تھا۔
بارات کا استقبال انتہائی شاندار تھا۔ پڑھے لکھے لوگ نظر آتے تھے گو دولت اور اس کی نمائش کا بھر پور اظہار تھا پر عامیانہ پن کہیں نظر نہیں آتا تھا۔
اس کی واپسی دلہن کے ساتھ جلدی ہو گئی تھی۔ باپ بہنیں جہیز لانے کیلئے رک گئے تھے۔ گھر میں ماں پھوپھی نے استقبال کیا اور دونوں کو ان کے کمرے میں پہنچا دیا۔
اُس نے دُلہن کو دیکھا تو کنگ سارہ گیا۔ کہاں وہ چاند چہرہ اور کہاں یہ گہنا یا سا رنگ روپ۔ نقش بھی کچھ خاص نہ تھے۔ اور عمر بھی ستائیس اٹھائیس سے ہرگز کم نہ تھی۔
اُس نے لمبی سانس کھنچی اور دل میں کہا۔
’’یہی ہونا تھا۔ ‘‘
اگلی صبح جب وہ آنگن میں آیا۔ ایک نیا منظر اُس کے سامنے تھا۔ اُس کی دونوں بہنیں اور باپ برآمدے میں کبھی چار پائی پر بیٹھتے اور کبھی اُٹھ کر چکر کاٹنے لگتے۔
اُس پر نظر پڑتے ہی اُس کا باپ شعلہ بار نگاہوں سے چلّایا۔
’’اتنا بڑا دھوکہ؟ اتنا فراڈ؟ ارے لڑکی دکھائی کوئی اور بیاہی کوئی۔ اور جہیز دیکھو یہ چند چیزیں۔ نہ میری بیٹیوں کو کوئی کپڑا لتّا نہ زیور کا کوئی چھلّا۔ نہ تمہاری ماں پھوپھی کو کچھ۔ ‘‘
احمد یار کھڑا بٹر بٹر باپ کے پھنکارے مارتے چہرے کو دیکھتا تھا۔ ایکا ایکی وہ اس کی طرف مڑا اور گرجتے ہوئے بولا۔
طلاق دو۔ ابھی طلاق دو۔ میں ان لوگوں کو دھوکہ دینے کا مزہ چکھا دوں گا۔
’’ارے نہیں ابّا جی آپ نے اپنے قیمتی چیک کو کوڑیوں کے عوض بُھنا لیا ہے۔ ‘‘
دل کا راستہ
گاڑی کے ہارن کی چیختی چنگھاڑتی آواز اس بات کا واضح اعلان تھی کہ اُس کا شوہر دفتر سے گھر آ گیا ہے اور بس اب کوئی دم میں اندر آیا چاہتا ہے۔ نوکر نے گیٹ کھول دیا تھا۔ گاڑی پورچ میں آ کر رُک گئی تھی۔ گھر کے عقبی لان میں مخملیں گھاس پر ٹرائی سائیکلوں پر کھیلتے اُس کے تینوں بچے جو ایک دوسرے سے کسی معمولی بات پر آپس میں گتھم گُتھا ہو رہے تھے۔ اس آواز پر اپنا لڑنا جھگڑنا چھوڑ کر ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتے ’’پپّا آ گئے۔ پپّا آ گئے ‘‘ چلاتے شور مچاتے کار پورچ میں آ کر رُک گئے تھے۔ اُن کے ہنستے مسکراتے چہرے، اُن کی مضطرب بانہیں باپ کو خوش آمدید کہنے، اُسے پیار کرنے اور اپنی ننھی منّی بانہوں میں سمیٹنے کو مضطرب تھیں۔
’’ پاپا مجھے اُٹھائیے۔ پپّا مجھے ‘‘جیسی من موہنی آوازوں کی صدا سارے گھر میں پھیل گئی تھی۔ وہ ہشاش بشاش گاڑی سے اُترا۔ اُس کا چہرہ تھکاوٹ کے باوجود کھِلا ہوا تھا۔ گاڑی کا دروازہ بند کر کے وہ اُن کی طرف بڑھا۔ اپنے اوپر کے نصف وجود کو نیم خمیدہ کرتے ہوئے اُس نے تینوں کو اپنے کلاوے میں بھر لیا۔ اُن کے رخساروں اور گردنوں پر پیار بھرے بوسوں کی بارش کرتے ہوئے اُس نے جذبات سے مغلوب آواز میں کہا۔
’’شیطانو، یہ کیا کر رہے تھے تم لوگ؟‘‘
’’پپّا۔ ڈولی مٹی سے کھیل رہی تھی۔ دیکھئے نا اُس نے اپنے کپڑے کتنے گندے کر لئے ہیں ؟‘‘ضائم نے چھوٹی بہن کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکایت کی۔
’’پپّا۔ بھیّا نے مجھے مارا ہے۔ ‘‘ننھی مُنّی ڈولی نے مُنہ بسورا۔
اُس نے اوون کے چوتھے چولھے کو دیا سلائی دکھا کر جلایا اور اُس پر توا چڑھا دیا۔ تینوں چولہوں پر مختلف چیزیں دم پر تھیں۔ توے کو گرم ہونے کا وقت دینے کے لیے وہ خود برآمدے میں باپ بچوں کے ملاپ کے نظارے سے محظوظ ہونے کے لئے آ کھڑی ہوئی تھی۔ ہر روز کم و بیش یہی منظر تھوڑے سے فرق سے دہرایا جاتا۔ بچے شور کرتے ہوئے بھاگتے۔ گاڑی رُکتی، دروازہ کھلتا، وہ ہنستا مسکراتا باہر نکلتا۔ بچے باپ کی ٹانگوں سے لپٹتے یا اُس کی گود میں چڑھنے کے لئے ضد کرتے اور وہ اُنھیں بانہوں میں سمیٹے گردن پر بٹھائے یا اُن کی انگلیاں پکڑے اُن کے آگے پیچھے اندر داخل ہوتا۔ اس منظر میں اتنی آسودگی، اتنی طمانیت اور اتنی خوبصورتی ہوتی کہ بار بار دُہرائے جانے کے باوجود بھی اُس کی چاشنی کم نہ ہوتی۔
آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ باپ کے ساتھ بچے بھی اندر آ گئے تھے۔ اُس نے اُنھیں خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
’’چلو اب ہاتھ دھوؤ۔ کھانا کھاتے ہیں۔ میں تب تک چینج کر آؤں۔ ‘‘
’’پپّا۔ مما نے کباب بنائے ہیں۔ فنگر چپس تلے ہیں۔ ‘‘ ضائم نے چٹخارے لیتے ہوئے کہا۔
’’واہ کیا کہنے ہیں، تمہاری مما کے۔ چلو شاباش ہاتھ منہ دھو کر آ جاؤ تم لوگ۔ ‘‘
’’ہاں پپّا کھیر بھی بنی ہے۔ ‘‘ضائم نے پھر آنکھیں نچائیں۔
’’تو آج بڑا کھانا ہو گا۔ ‘‘وہ ہنستے ہوئے لباس تبدیل کرنے کے لئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اور پھر کھانے کی میز پر عجیب سی بات ہو گئی۔ اُس نے پلکیں جھپکا کر دو تین بار غور سے شوہر کو دیکھا اور بولی۔
’’محسن، آپ کو ایسی باتوں پر توجہ دینے کا خیال کیسے آ گیا؟‘‘
واقعہ یہ تھا کہ وہ لباس تبدیل کرنے کے بعد کچن میں آیا۔ اُس وقت وہ پھُلکے بنا ری تھی۔ برقی انداز میں اُس کے ہاتھ کام کر ہے تھے۔ بھاپ سے پھولے پھولے گول گول سے پھُلکے ہاٹ پوٹ میں رکھتے رکھتے اُس نے رُخ پھیر کر اُسے دیکھا اور کسی قدر گھبرا کر بولی۔
’’آپ میز پر چل کر بیٹھیئے۔ میں بس کھانا لگانے والی ہوں۔ یہاں بہت گرمی ہے۔ ‘‘
’’کیا ہوا؟ تم بھی تو اسی گرمی میں کھڑی ہو۔ ‘‘
وہ و یہیں اُس کے پاس کھڑا رہا۔ بیوی کو اُس نے بغور دیکھا۔ بائیں ہاتھ سے اُس کے رُوکھے اور چمک سے عاری بالوں کی چند بھیگی لٹوں کو چھوا اور بولا۔
’’ثمینہ، تم انھیں شیمپو نہیں کرتیں۔ یہ کیسے عجیب سے ہو رہے ہیں ؟پھیکے اور رُوکھے رُوکھے۔ ‘‘پھر اُس نے اُس کے سراپے پر بھی ایک بھرپور نظر ڈالی۔ خفیف سا مسکرایا اور بولا۔
’’تم اپنے آپ سے اتنی لاپروا کیوں ہوتی جا رہی ہو؟بہت دنوں سے یہی جوڑا میں تمہارے بدن پر دیکھ رہا ہوں۔ لگتا ہے اسے ہی دھو کر پھر پہن لیتی ہو۔
اُس وقت شاید اُس کا ذہن کھانے میں اُلجھا ہو تھا۔
’’چلئیے چلئیے۔ ‘‘کہتے ہوئے اُس نے اُسے اپنے آگے دھکیل دیا۔
میز پر ساری چیزیں نوکر کی مدد سے لگوا کر جب وہ بیٹھی تو جیسے اُس کے ذہن کی بند کھڑکی کھُل جانے والا معاملہ ہوا ہو۔ اُس نے حیرت سے شوہر کو دیکھا اور کسی قدر طنز سے کہا۔
’’آج آپ کو میرے بالوں اور کپڑوں کا خیال کیسے آ گیا؟دل کے کونوں کھدروں میں سوئی ہوئی محبت انگڑائی لے کر بیدار ہوئی ہے یا کوئی اور بات ہے بتائیے ؟‘‘
وہ خفیف سا ہو گیا۔ خجل سی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔
’’بس تم عورتوں کی بھی عجیب عادتیں ہیں۔ خیال کرو تب بھی اعتراض، نہ کرو تب بھی اعتراض۔ بندہ کہاں جائے اور کیا کرے ؟‘‘
’’جب خلاف معمول کو ئی بات ہو تب کُرید تو پیدا ہوتی ہے۔ تجسّس سا جنم لیتا ہے۔ ذہن سوالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ یہ فطری امر ہے۔ ‘‘اُس نے پلیٹ میں نوکر کے لیے کھانا نکالتے ہوئے کہا۔
کھانے کے دوران اور بعد میں اس موضوع پر کوئی بات نہ ہوئی۔ لیکن اُس دن سونے کے وقت تک اُس کے ذہن میں یہ بات برابر کھٹکتی رہی کہ آج محسن کے دل و دماغ میں یہ خیال کیسے آیا؟اُس نے میرے کپڑوں اور بالوں کے بارے میں کیوں کہا؟اندرونی سوچوں سے اُس کی بھنویں سُکڑتی اور پھیلتی رہیں۔
پیشانی پر خفیف سی لکیریں بنتی اور مٹتی رہیں۔ دل میں اُتھل پتھل سی ہوتی رہی۔ کیوں اور کیسے کے زہریلے سپنولیے خواہ مخواہ اپنا زہر ذہن میں بھرتے رہے۔ دماغ کو زہر آلودہ کرتے رہے۔ دل شبہات کی گھمن گھیریوں میں اُلجھا رہا۔ پر رات کو جب وہ بستر پر سونے کے لئے لیٹی تو اُس نے سر جھٹک دیا۔ اپنے آپ سے کہا۔
’’ساتھ رہنے والوں کے کوئی دانت تھوڑی گنتے ہیں۔ وہ تو جانے بوجھے اور سمجھے سمجھاتے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی خیال آ گیا ہو گا۔ میں بھی تو عجیب سی ہوں۔ خود سے اتنی لاپروا ہو گئی ہوں۔ کوئی بھلا ایسے بھی کرتا ہے۔ دنوں نہ نہاؤں۔ دنوں کپڑے نہ بدلوں۔ مجال ہے کہ کبھی ہونٹوں پر لپ اسٹک کا ہلکا ساٹچ بھی دیا ہو۔ مجال ہے کہ کبھی بال نئے انداز سے سنوارے ہوں۔ عورتیں کہیں فیشل کرواتی ہیں، کہیں تھریڈنگ کے لئے بھاگی جا رہی ہیں۔ میں تو گویا دنیا سے کٹی اس چاردیواری میں قید ہو کر رہ گئی ہوں۔
………………………………………………………
کینیا کی آغا خانی زرتاج بیگم اُسے جونک کی طرح چمٹ گئی تھی۔ بن غازی کا سکندر رضا بھی اُس کے ساتھ تھا۔ وہ ہال میں اُس کی عیادت کے لئے آئے تھے۔ زرتاج بیگم کو پچھلے دنوں یرقان ہو گیا تھا۔ کافی دن ہسپتال میں داخل رہی۔
دو تین چکر اُس نے ہسپتال کے بھی لگائے۔ آج یہ جاننے پر کہ وہ ہوسٹل آ گئی ہے، وہ اُسے دیکھنے ہال چلی آئی تھی۔ زرتاج سخت ڈپریشن کا شکار تھی۔ ایک پردیس دوسرے بیماری۔ وہ اُسے اُٹھنے نہیں دے رہی تھی۔
’’ثمینہ ڈارلنگ، اتنی جلدی جا رہی ہو۔ ابھی تو تمہیں آئے گھنٹہ بھی نہیں ہوا۔ دیکھو، میں بہت اُداس ہوں۔ مجھے ہوم سکنس ہو رہی ہے۔
’’جانی، پاکستانی اسٹوڈنٹس فیدریشن کی آج میٹنگ ہے، مجھے اُس میں ضرور شامل ہونا ہے۔ ہماری فیڈریشن کے پریذیڈنٹ نے مجھے تاکید کی تھی۔ اُسے مجھ سے بہت گلہ رہتا ہے کہ میں اپنی کمیونٹی کے لوگوں سے گھلتی ملتی نہیں۔ اُن کے مسائل کو شیئر نہیں کرتی ہوں۔ آج کا اجلاس بہت اہم ہے۔ کچھ نئے پاکستانی آئے ہیں، اُن سے بھی متعارف ہونا ہے۔ میں انشاء اللہ پھر چکر لگاؤں گی۔ ہاں سکندر تمہارے پاس ہے تمہارا دل بہلائے گا۔ ‘‘
اُس نے زرتاج کے دائیں گال پر کسِ کیا۔ لبوں پر مسکراہٹ بکھیری۔ دونوں ہاتھ فضا میں لہرائے اور بولی۔
’’ہماری زرتاج بہت بہادر ہے۔ ‘‘ اور بائی بائی کرتی کمرے سے نکل گئی۔
وہ ہال سے نکل کر بگٹٹ بھاگی۔ ٹی۔ ایس۔ سی سنیٹر میں خاصا رش تھا۔ ہجوم سے بچتی بچاتی وہ ہال کمرے میں داخل ہوئی۔ اجلاس شروع تھا۔ وہ پچھلی نشستوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔ تیز تیز چلنے کی وجہ سے سانس قابو میں نہ تھا۔ سردی کے باوجود چہرہ پسینے سے کسی قدر بھیگا بھیگا سا تھا۔ اُس نے بیگ سے ٹشو پیپر نکال کر پسینہ پونچھا۔ سانس ذرا درست ہوئی تو اُس نے تنقیدی نگاہ دائیں بائیں اور سامنے دوڑائی۔ ڈائس پر چند نئے لوگ نظروں کی زد میں آئے۔ پتا نہیں پاکستان کے کس کس شہر کے تھے شاید کوئی لاہور سے بھی ہو۔ وطن میں رہتے ہوئے وطن کی محبت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ مگر جوں ہی بندہ اس حصار سے باہر نکلتا ہے، سوئی ہوئی محبت انگڑائی لے کر بیدار ہوتی ہے۔ پیار کے سوتے جیسے اُبل پڑتے ہیں۔ دل اُس کے ذرّے ذرّے کے بوسے لینا چاہتا ہے۔ دریا میں طغیانی والا حال ہوتا ہے۔ محبت کاسیلاب شراٹے مارتا کناروں سے باہر بہنے لگتا ہے۔ انسان چھوڑ جانور بھی اچھے لگتے ہیں کہ اُن کی نسبت اگر اس زمین سے ہے۔
ایسوسی ایشن کا صدر پاکستانی اسٹوڈنٹس پر یہ واضح کر رہا تھا کہ وہ اپنے ملک کے سفیر ہیں۔ اُنھیں ہر وہ کام کرنا ہے جس سے ملک کی نیک نامی ہو۔
اور جب سارے لوگ چائے کے لئے جا رہے تھے، نئے طلباء فرداً فرداً اُس کے پاس آئے اور اُس سے متعارف ہوئے۔ اِن نئے لوگوں کے ساتھ اپنے قدم اُٹھاتے اُٹھاتے اُس نے ایک اور نوجوان کو دیکھا۔ یقیناً وہ بھی پاکستانی تھا۔ اسٹیج پر اُسے بھی بُلا کر متعارف کروایا گیا تھا۔ دلکش خدوخال، گندمی رنگ اور اونچا لمبا قد۔ متاثر کُن شخصیت تھی۔ نام محسن ممتاز تھا۔ گوجرانولہ کا رہنے والا اور کیمیکل ٹیکنالوجی میں آنرز کے بعد اب امریکن یونیورسٹی بیروت میں آیا تھا۔
بڑا بد دماغ اور مغرور سا نظر آیا تھا۔ مزے سے چائے پینے اور چیزیں کھانے میں جتا رہا۔ نہ کسی کی طرف توجہ کی اور نہ کسی اشتیاق کا مظاہرہ کیا۔ لڑکوں سے تو پھر بھی بات چیت کرتا رہا۔ پر لڑکیوں کی طرف ذرا سی بھی توجہ نہ کی۔ لڑکیاں تھیں بھی کتنی ؟ تھوڑی سی صرف پانچ۔ زعمیہ جو میڈیکل کر رہی تھی۔ نورین لٹریچر میں آنرز کی اسٹوڈنٹ تھی۔ سعدیہ پاکستانی سفارت خانے کے پریس اتاشی کی بیٹی تھی۔ ایک وہ خود تھی۔ پانچویں لڑکی زہرا پاکستانی نژاد تھی، پر طویل عرصے سے لبنان میں اپنے والدین کے ساتھ مقیم تھی۔ پاکستانی طلباء یہاں ایک خاندان کی طرح رہ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں شریک، ہمدرد اور غمگسار۔
اسکیٹنگ کے لئے جاتے ہوئے اُس کا گزر اُس کے ہال کے سامنے سے ہوتا تو کبھی کبھی ٹکراؤ بھی ہو جاتا۔ شروع شروع میں تو بہت بے نیازی سے آگے بڑھ جاتی۔ مگر پھر آہستہ آہستہ علیک سلیک ہونے لگی بلکہ کسی دن ہلکی پھلکی بات بھی ہو جاتی تب اُسے احساس ہوا کہ وہ مغرور اور بد دماغ نہیں۔ سادہ اور مخلص سا نوجوان ہے۔ پورے کیمپس میں وہ واحد انسان تھاجس کے بال ذرا سا بڑھنے پر باربر کے پاس پہنچنے کے لیے بے تاب ہو جاتے۔ کپڑے بھی بالعموم ایک ہی رنگ کے پہنتا۔ ایک دو بار اُس نے سوچا بھی۔
’’ارے یہ کہیں کلر بلائنڈ تو نہیں۔ ‘‘
مگر یہ شک بھی دُور ہو گیا۔
ہوا یوں کہ وہ بیروت ریڈیو اسٹیشن سے یونیورسٹی پروگرام کر کے نکلی۔ شام بڑی دلکش تھی۔ اس اتنی خوبصورت شام کو سراہتے ہوئے اُس نے سواری کی تلاش میں نظریں سڑک پر اِدھر اُدھر دوڑائیں۔ جب محسن ممتاز ٹیکسی میں بیٹھا اُس کے پاس آ کر رُکا۔ اُس نے دروازہ کھولا اور اُس کے قریب آ کر متانت سے بولا۔
’’ہمارے ایک فیملی فرنیڈ بزنس ٹور پر یہاں آئے ہوئے تھے۔ وہ واپس جا رہے ہیں۔ میں اُن کے ہاتھ اپنی والدہ اور چھوٹے بھائیوں کے لیے کچھ بھیجنا چاہتا ہوں۔ مہربانی ہو گی اگر آپ میرے ساتھ مل کر ان کے لئے شاپنگ کروانے میں میری کچھ مدد کر دیں۔ ‘‘
وہ بغیر کسی پس و پیش کے اُس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ درخواست جس لب و لہجے میں کی گئی تھی، اُس میں اتنی معصومیت اور بھولا پن تھا کہ اُسے بہت اچھا لگا۔ مارکیٹ میں گھومتے پھرتے خریداری کرتے اُسے احساس ہوا تھا کہ چیزوں کی سلیکشن میں اُس کی پسند بہت اچھی ہے۔
دیر تک وہ مارکیٹ میں گھومتے رہے۔ کھانا بھی وہیں کھایا۔ باتیں بھی خوب کیں۔ اُسے محسن ممتاز بہت اچھا لگا۔ اُس کی معیت میں اُس نے اپنے آپ کو اہم سمجھا۔
یوں اُن کے درمیان خفیف سا تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ جسے زبان دینے کو دونوں نے اپنی توہین سمجھا۔
اُس کی آخری ٹرم ختم ہوئی۔ کمپری ہینسوٹیسٹ سے وہ فارغ ہو گئی تھی۔ تھیسس سے بھی نجات مل گئی۔ اور جس دن وہ بیروت ایئرپورٹ پر وطن واپسی کے لئے پی آئی اے کا ٹکٹ حاصل کرنے گئی، اُسے فیروز جان وہاں ویٹنگ لاؤنج میں نظر آیا جس نے اُسے دیکھتے ہی شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ نہیں جانتی کہ محسن ممتاز کو اپنڈیکس کا شدید درد اُٹھا ہے ؟گھنٹہ بھر پہلے اُسے ہسپتال پہنچایا گیا ہے اور اب شاید اُس کا آپریشن ہو رہا ہو۔
وہ تو دھک سے رہ گئی۔ کہاں کا ٹکٹ اور کہاں کی واپسی ؟بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچی۔ آپریشن تھیٹر کے باہر لڑکے اضطراب کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔ وہ ابھی تک اندر ہی تھا۔ کوئی دو گھنٹے بعد اُسے آئی۔ سی۔ یو میں لایا گیا۔ اُس کی بُری حالت تھی۔ چہرے کا رنگ فق اور ہونٹ سفید پڑے تھے۔ آپریشن بہرحال ٹھیک ٹھاک ہو گیا تھا۔ اُس کی تیمار داری کا سارا بوجھ اُس نے اپنے سر پر اُٹھالیا۔
وقت پر دوا وقت پر کھانا۔ پردیس میں مضبوط سے مضبوط اعصاب والا آدمی بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ مگر اُسے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ محسن بہت حوصلے والا آدمی ہے۔ مجاہد قسم کا بڑے دل گردے والا۔ دو ایک بار اُس نے کہا بھی۔
’’میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں۔ شکر گزاری کے یہ الفاظ اور اظہار میرے جذبات کی عکاسی کے لیے بہت ناکافی ہیں۔ در اصل میں بہت کم گو قسم کا انسان ہوں۔ زیادہ باتوں کی عادت نہیں۔ ‘‘
اُس نے بہت گہری نظروں سے اُسے دیکھا۔ شاید وہ چاہتی تھی کہ وہ کچھ اور کہے۔ کوئی ایسی بات جو یہ واضح کرے کہ وہ اُس سے محبت کرتا ہے۔ اُسے اپنی جیون ساتھی بنانے کا خواہشمند ہے۔ مگر وہاں خاموشی تھی۔ آنکھیں کچھ اظہار کرتی تھیں مگر ہونٹ خاموش تھے۔
تب اُس نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’میں کہیں ریت کا گھروندا تو نہیں بنا رہی ہوں۔ ناپائدار جو ایک ہی جھٹکے سے ڈھے جائے۔ ‘‘
اُس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی۔ انگلیوں کی پوروں سے اُس نے اُنھیں خشک کیا اور خود سے کہا۔
’’ضروری نہیں کہ انسان کی ہر آرزو پوری ہو۔ ‘‘
اُس نے پھر رخت سفر باندھا۔ ٹکٹ خریدا اور ایک دن جب وہ تنہا بحیرہ روم کے ساحل پر گھنٹہ بھر گزار کر ہال واپس آئی اور فرنٹ کوریڈور میں چُپ چاپ کھڑی کیمپس کے در و دیوار اُس کی پُر شکوہ عمارات اور گھاس کے سر سبز قطعوں پر دکھ بھری الوداعی نظریں ڈال رہی تھی کہ اُس نے محسن ممتاز کو دیکھا جو ریسپشن روم کے سامنے خاموش کھڑا تھا۔ اُداسی کے رنگ لئیے آنکھوں سے اُسے دیکھتا ہوا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو۔
’’محسن آؤ کیسے ہو؟‘‘وہ آگے بڑھی۔ ہال کے غربی لان میں سنگی بنچ پر بیٹھتے ہوئے اُس نے پہلے فضا کے حُسن کو دیکھا، پھر اُس پر نظریں جمائیں۔
’’ثمینہ سمجھ میں نہیں آتا میں بات کیسے شروع کروں اور کیا کہوں ؟‘‘
ثمینہ کو محسوس ہو رہا تھا کہ اُس کی آواز جذبات سے بوجھل اور اُس میں احساسات کی تپش ہے۔
’’در اصل لڑکیوں سے بات کرنے میں مجھے ہمیشہ کچھ ہچکچاہٹ اور جھجک سی رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میں نے اپنے گھر کے ماحول میں صرف اپنی ماں ہی کو دیکھا۔
میری کوئی بہن نہیں۔ کزن لڑکیوں سے بھی ہمارا بہت کم واسطہ رہا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں ہمارے والدین کبھی ہمیں لے کر نہیں گئے۔ ہماری تعلیم کا اُنھیں ہمیشہ خیال رہا۔ ‘‘
وہ رُک گیا تھا۔ ثمینہ خاموش بیٹھی دھڑکتے دل سے اُس کی باتیں سُن رہی تھی۔ کیا کہنا چاہتا ہے وہ؟ کیا وہ اُسے پسند ہے ؟کیا وہ اُسے اپنانا چاہتا ہے ؟یا اُس کی منگنی وغیرہ کہیں ہو چکی ہے۔ پتا نہیں وہ اُسے کیا بتانا اور کیا سنانے کا متمنی تھا؟
اللہ کیسے جانگسل لمحات ہیں جیسے وہ کسی پُل صراط پر کھڑی ہو۔
’’ثمینہ۔ ‘‘اُس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سلسلہ گفتگو کو دو بارا جوڑا۔
’’ایک چھوٹی سی خواہش کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کی کہیں کوئی وابستگی نہ ہو تو وطن واپس جا کر میرا انتظار کریں۔ ‘‘
سارے سریر میں جیسے جذبات کا بھونچال آ جانے والی بات ہوئی تھی۔ اُس کی پلکیں بھیگ سی گئیں۔ کچھ کہے بغیر اُس نے محسن ممتاز کا ہاتھ پکڑا۔ اپنے دونوں ہاتھوں میں اُسے تھاما، اور بھیگی آواز میں بولی۔
’’محسن، میں تمہارا انتظار زندگی بھر کر سکتی ہوں۔ ‘‘
اُس نے ہاتھ چھوڑ دیے، کھڑی ہوئی اور بغیر اُس کی طرف دیکھے اپنے راستے پر بڑھ گئی۔
محسن کے اس اظہارئیے کو اُس نے تہہ دل سے پسند کیا۔ اُس نے محبت کے لمبے چوڑے دعوے نہیں کیے بلکہ سیدھی سادی بات میں مدعا اُس کے گوش گزار کر دیا۔
اس واقعے کے پورے دوسال بعد محسن ممتاز کے والدین اُس کے گھر آئے۔ یوں وہ اُس کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئی۔ شب عروسی اُس نے شاکی نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بہت عجیب ہو محسن تم۔ کبھی دوپیسے کا خط بھی نہیں لکھا۔ ‘‘
’’میں نے نہیں لکھا تو تم نے کون سالکھ دیا۔ ‘‘وہ ہنسا۔
’’میں کیوں لکھتی؟‘‘ثمینہ غرائی۔
’’اس ملاپ میں زیادہ لطف نہیں۔ ‘‘
’’دوسال کیسے گزارے ؟اُمید و بیم کی پُر پیچ وادیوں میں بھٹکتے ہوئے۔ ‘‘ ثمینہ سِسک اٹھی۔
’’چلو جان معاف کر دو۔ محسن نے اُس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھاما۔ اور بولا۔ ‘‘ عجیب سی فطرت ہے میری۔ جذبات کے اظہار کو زبان دینا مجھے عامیانہ سا لگتا ہے۔ خط لکھنا اور بھی مشکل ہے۔ یہ تھوڑی کہ میں نے تمہیں خط نہیں لکھے۔ بے شمار لکھے پر سب لکھ کر پھاڑ دیے۔ کبھی پوسٹ کرنے چلا بھی جاتا پھرواپس لے آتا۔ بس جیسا بھی ہوں، تمہارے سامنے ہوں۔ ‘‘
عملی زندگی میں داخل ہو کر اُسے احساس ہوا کہ وہ سنجیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ کافی آرام طلب بھی ہے۔ دفتر جانے سے پہلے اُس کی ہر چیز تیار ہونی چاہیے تھی۔ گھر کی کسی ذمے داری سے اُسے کوئی سروکار نہ تھا۔ ملازمت عمدہ اور تنخواہ معقول تھی۔ وہ مناسب حصّہ گھر والوں کو بھیج کر باقی سب کچھ اُسے تھما دیتا۔ وہ بچائے یا ساری خرچ کرے، اُس نے اس بارے میں کبھی کوئی سوال و جواب نہیں کیا تھا۔
ایک دو بار دبے دبے لفظوں میں اُسے کہا بھی کہ آخر اتنے روپے والدین کو بھیجنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہ خاصے متمّول بھی ہیں اور دوسرے کسی لڑکی کی بھی کوئی ذمے داری نہیں۔
اُس نے رسان سے کہا۔ ’’اس مسئلے پر دوبارہ گفتگو ہمارے درمیان تلخی کا باعث بن سکتی ہے۔ جان لو کہ یہ میرا فرض ہے۔ ‘‘
اُس نے ملازمت جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بولا۔
’’دیکھو جان، میں اچھے کھانوں کا بہت دلدادہ ہوں۔ قدرے سُست بھی ہوں۔ دفتری مغز کھپائی اور فلیڈ کے کام کے بعد گھریلو کاموں میں تمہارا ہاتھ نہیں بٹا سکوں گا پھر تمہیں اعتراض ہو گا کہ میں خود غرض اور لاپروا ہوں۔ بس اس سلسلے کو ختم ہی کر دو تو بہتر ہے۔ ‘‘
وہ فطرتاً سادگی پسند تھی۔ شوہر بھی اُسی مزاج کا ملا۔ فوراً ہی ماں بھی بن گئی۔ اوپر تلے بچے بھی ہو گئے۔ طبیعت ایسی درہم برہم ہوئی کہ اچھا پہننے، اوڑھنے کا شوق ہی جاتا رہا۔ دو دو دن کپڑے نہ بدلتی۔ بال تک ڈھنگ سے نہ سنوارتی۔ ارد گرد کے گھروں کی فیشن ایبل موڈرن عورتیں اکثر و بیشتر کہتیں۔
’’بڑی سٹوپڈ ہو، کچھ اپنا خیال رکھا کرو۔ شوہر کے آنے سے پہلے بن سنور کر رہا کرو۔ اپنے آپ سے اتنی لاپروائی اچھی نہیں۔ مرد ذات پر اتنا اندھا بھروسا درست نہیں۔ ‘‘
وہ ہنس دیتی اور پھر اطمینان سے کہتی۔
’’تم لوگ میرے شوہر کو نہیں جانتیں۔ اُسے تام جھام سے چڑ ہے۔ ‘‘
’’کمال ہے یار۔ تم اس صنف کی نفسیات نہیں سمجھتیں۔ ارے باہر رنگ برنگی تتلیاں دیکھتے ہیں۔ گھر آتے ہیں تو بیویاں سرجھاڑ منہ پھاڑ ملتی ہیں۔ دھیرے دھیرے متنفر ہو جاتے ہیں۔ باہر دوستیاں اور یارانے گانٹھ لیتے ہیں۔ یوں بستے رستے گھر اُجڑ جاتے ہیں۔ ‘‘ کوئی جلے دل کے پھپھولے پھوڑتی۔
وہ رات کو ہنس ہنس کر محسن کو یہ سب سُناتی۔ اور وہ کہتا۔
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟محبت ان سہاروں کی محتاج نہیں ہوتی۔ ‘‘
اوپر تلے تین بچے ہو گئے۔ وہ گھرداری میں پوری طرح اُلجھ گئی۔ ذرا سی فراغت ملتی تو باورچی خانے میں گھس جاتی اور پکوان پکانے میں جُت جاتی۔ محسن اُس کی کوکنگ کا مداح تھا لیکن کبھی کبھی اُسے شدت سے احساس ہوتا کہ وہ گھر میں مقید ہو کر رہ گئی ہے۔ زیادہ غصہ آتا تو محسن پر بھی بگڑ بیٹھتی۔ اعتراضات کی بوچھاڑ کر دیتی۔
’’تمہیں کیا؟تمہیں تو صرف اپنے آرام سے مطلب ہے۔ تم نے کبھی پوچھا کہ میرے پاس پہننے کے لیے کپڑے ہیں یا نہیں۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت بھی ہے۔ بس تم اپنے آپ کو پُر سکون رکھنا جانتے ہو۔ ‘‘
وہ ہنس پڑتا۔ اُسے شانوں سے تھام کر اپنے قریب کرتا اور کہتا۔
’’کمال ہے یار، مجھے بتاؤ۔ میرے لیے خریداری کون کرتا ہے ؟تم کرتی ہونا۔ ‘‘وہ اُس کی آنکھوں پر اپنی انگلیوں سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اشارے دیتا۔ ‘‘سلائی کے لیے درزی کو کون دے کر آتا ہے تم نا۔ ‘‘وہ اُس کے کندھے ہلاتا۔
’’میرے لیے جوتے بھی تم لاتی ہونا۔ ‘‘وہ اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھتا۔ اب بتاؤ جب میں اپنے لیے کچھ نہیں کرتا تو تمہارے لیے کیا کروں گا؟اپنے لئے شاپنگ کیوں نہیں کرتی ہو؟کسی نے کبھی تمہیں روکا، کبھی تمہارا ہاتھ پکڑا۔ بولو۔ بتاؤ۔ ‘‘
وہ روکھی ہو جاتی۔ ’’تم ان باتوں کو نہیں سمجھو گے محسن۔ ‘‘
’’اچھا تو چلو، میں تمہارے لیے خریداری کرتا ہوں۔ لیکن پھر نہ کہنا کہ فلاں چیز مہنگی آ گئی ہے۔ یہ رنگ موزوں نہیں ہے۔ جو لاؤں رکھنا پڑے گا، نہیں تو میرے ساتھ چلو۔ ‘‘
وہ چپ ہو جاتی۔ اُس کی طبیعت کو جانتی تھی۔ خرچ کرنے پر آتا تو اگلا پچھلا حساب برابر کر دیتا۔
ایک روز باتوں باتوں میں اُس نے بتایا کہ دفتر میں کچھ لڑکیاں کیمیکل انجینئرز کے طور پر سلیکٹ ہو کر آئی ہیں۔ ہمارے ونگ میں چار لڑکیاں آ گئی ہیں۔ ‘‘
’’چلو تمہاری کچھ جھجک تو دور ہو گی۔ ‘‘وہ خوش دلی سے ہنسی۔ ’’عورت دیکھتے ہو تو دس کوس پرے بھاگ جاتے ہو۔ ‘‘
انہی دنوں فرم کی طرف سے اُسے ایک ماہ کے لیے آسٹریلیا بھیجا جا رہا تھا۔ ثمینہ نے اُسے کچھ متفکر سا پایا تو بولی۔
’’کیا بات ہے جانے کو جی نہیں چاہتا۔ ‘‘
وہ تذبذب میں ڈوبا بولا۔
’’در اصل نئی جگہ اور نئے حالات میں ایڈجسٹمنٹ کا تھوڑا سا مسئلہ تو ہوتا ہے مگر اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مس رفیعہ دُرّانی ساتھ جا رہی ہیں۔ تمہیں تو میری عادت کا علم ہے۔ عورتوں کے معاملے میں نرا گاؤدی ہوں۔ ایٹی کیٹس کا خیال نہیں رہتا۔ ‘‘
’’چلو ہٹو نا حق پریشان ہو رہے ہو۔ تمہیں کیا وہ کھا جائے گی؟‘‘
اُس نے ہنستے مسکراتے اُسے رخصت کیا۔ ’’فون پر ہی نہ ٹرخانا۔ خط بھی لکھنا۔ خط کا ایک اپنا مزہ ہے۔ اور ہاں، پہلے کی طرح نہ کرنا۔ وگرنہ بچوں سمیت تمہارے پاس پہنچ جاؤں گی۔ ‘‘
اُس کی عدم موجودگی کو اُس نے محسوس تو کیا مگر اس حد تک نہیں۔ گھر لاک کر کے وہ والدین کے پاس آ گئی۔ پُرانی سہیلیوں سے ملی۔ عزیزوں رشتے داروں سے جی بھر کر باتیں کیں۔ پُر سکون ہو کر مہمان بنی اور پکا پکایا کھایا۔ گھرداری اور خرچ وغیرہ کے چکروں سے چند دنوں کے لیے آزادی ہو گئی اور یہ آزادی اُسے بہت اچھی لگی۔
پندرہ بیس دن بہت لطف سے گزارے۔ پھر وہ اُداس سی ہو گئی۔ محسن اُسے یاد آنے لگا۔ اس جدائی کی کسک ابھی اپنے عروج پرنہ پہنچی تھی کہ وہ آ گیا۔ ایک ماہ کے لیے تو گیا تھا۔ زندگی پھر روٹین پر شروع ہو گئی۔
اور پھر اُس دن عجیب سی بات ہو گئی۔ اُس نے ثمینہ کے بالوں کی لٹ چھُو کر کہا۔
’’تم انھیں شیمپو نہیں کرتیں۔ یہ کیسے رُوکھے رُوکھے اور عجیب سے ہو رہے ہیں۔ ‘‘
اور ثمینہ کا دل وسوسوں اور اندیشوں کے سمندر میں ڈبکیاں کھاتا رہا۔ اُس کے اندر اُتھل پتھل ہوتی رہی۔ بہت سے اُلٹے سیدھے، خیالات پریشان کرتے رہے۔
ایک دن وہ اُسے بصد اصرار بازار لے گیا۔ کپڑے کی بڑی بڑی دکانوں کا چکر لگاتا رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی خاص کپڑے کا متلاشی ہو۔ کوئی خاص ڈیزائن اُس کے ذہن میں ہو۔
’’کیا بات ہے محسن، تم کیسا کپڑا چاہتے ہو؟ ساری دکانیں تم نے چھان ماری ہیں اور تمہیں کچھ پسند نہیں آ رہا ہے۔ ‘‘وہ جزبز ہو رہی تھی۔
’’ارے گھبراؤ نہیں۔ بس یہ چند دکانیں اور دیکھ لوں۔ ‘‘وہ اُسے گھسیٹ سا رہا تھا۔
پھر وہ ایک دوکان میں گھُسا۔ اور جیسے اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ جیسے اُس نے گوہر نایاب دریافت کر لیا ہو۔ سیلز مین ایک خوبصورت تھان کاونٹر پر کھولے کھڑا تھا۔
’’میں یہی کپڑا چاہتا تھا۔ ‘‘وہ خوشی سے چہکا۔
’’بس یہی۔ دوسوٹ پھاڑ دیں۔ ‘‘
حیرت زدہ سی ثمینہ نے چند لمحوں کیلئے اس صورت حال کو دیکھا۔ پھر جیسے گھپ اندھیرے میں ایکا ایکی بجلی چمک کر پل بھر میں ادر گرد کی چیزوں کو نمایاں کر دے۔ جیسے ذہن میں کہیں ایک جھماکا ہو اور اوپر تلے پڑی یادداشتوں کی پٹاری میں ہلچل مچ جائے اور کڑیاں مل جائیں۔
وہ آگے بڑھی۔ دُکھی نظروں سے اُس نے شوہر کو دیکھا اور کاؤنٹر پر بکھرے کپڑے پر اپنا ہاتھ پھیلا کر متین سے لہجے میں سلیز میں سے جو کپڑے کو اپنی گردن تک لگائے اس کی نمائش میں مصروف تھا کہا۔
’’اسے پھاڑنا مت۔ مجھے یہ پسند نہیں آیا۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ محسن کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل آئی تھی۔
چُپ چاپ چلتے ہوئے وہ گاڑی تک آئے اس میں بیٹھے۔ محسن کے چہرے پر پھیلی خجالت اور شرمندگی کی پر چھائیں سی اُسے محسوس ہوئی تھیں۔ پر وہ خود بھی اندر سے جیسے شکستہ سی ہو رہی تھی۔ گاڑی بھیڑ بھاڑ والے ماحول سے نکل کر جب کشادہ اور صاف ستھری سڑک پر آئی تو اُسے محسن کی مدھم سی آواز جیسے بے چارگی اوریاس میں لُتھڑی ہوئی سنائی دی۔
’’ثمینہ تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
اُسے غصہ تو آیا پر ضبط کرتے ہوئے متانت سے بولی۔
’’گھر گھر ہستی کی ذمہ داریوں میں گوڈے گوڈے دھنس کر میں اپنی انفرادیت، اپنی پہچان اور اپنی ذات کو بھول گئی تھی۔ مرد اور اس کی جبلّی فطرت کے رنگ ذہن سے یکسر فراموش کر بیٹھی تھی۔
پرانے مدرسہ فکر کے مطابق تمہارے دل تک پہنچنے کا راستہ تمہارا معدہ سمجھ بیٹھی تھی۔ تمہیں اچھے کھانے کھلاتے کھلاتے یہ تو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ تم ایک مرد بھی ہو اور تمہاری نظر کی تسکین کیلئے مجھے جاذب نظر رہنا ہے۔ یہ تو اب جانی ہوں کہ دفتر میں جن کے ہمراہ دس گھنٹے گذارتے ہو اب انہیں گھر میں بھی دیکھنے کے آرزو مند ہو۔ ‘‘
٭٭٭
دو اور دو چار
اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ مُشکی رنگ ناز و ادا دکھائے تو محاوروں کی سان پر چڑ ہے اور دودھیا رنگت عشوہ طرازیاں دکھائے تو نزاکت کے زمرے میں آئے۔ اُس کا حسن بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ نزاکت سے بھی چار ہاتھ اوپر کے خانے میں فٹ بیٹھنے والا۔ ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔ ایک انتہا درجے کی خوبصورتی، اوپر سے غرور اور تکبر میں لُتھڑی ہوئی۔ برنارڈ شا کے کہنے کے برعکس ذہین بھی بہت تھی۔ بہترین ادبی ذوق کی حامل ورڈزورتھ، شیلے اور کیٹس کی دیوانی، انگریزی ادب میں ایم۔ اے کی سٹوڈنٹ اور لندن جانے کی شدید خواہش مند۔
اچھے اچھوں کو گھاس نہیں ڈالتی تھی۔ چچیرے، ممیرے اور خلیرے بھائی تو بیچارے کِسی گنتی میں شمار میں ہی نہیں تھے۔ یُوں بھی ابھی کچھ تو پڑھ رہے تھے اور کچھ جو بے چارے نوکریوں پر لگے تھے بس یونہی سے تھے۔ کبھی جو کوئی از راہِ مذاق کسی کا نام لے دیتا تو کومل سے ناک کے نتھنے نخوت بھرے انداز میں سکیڑتے آنکھوں میں جہاں بھر کی حقارت سمیٹتے اور لہجے میں زہر گھولتے ہوئے کہتی۔
’’مذاق کا بھی کوئی معیار ہونا چاہیے۔ اب ایسے ایسے ٹٹ پونجئیے تو راستوں میں ہاتھ باندھے کھڑے ہیں جو یقیناً جوتیاں مارنے کے قابل ہیں۔ کوئی بہت امیر بہت پڑھا لکھا بہت انٹلیکچوئل اور بہت ڈیشنگ قسم کا بندہ ہونا چاہیے۔ ‘‘
’’یہ اتنے بہت سارے کہیں تیرا پٹڑہ نہ کر دیں۔ کوئی منہ پھٹ سی سہیلی یہ کہنے سے باز بھی نہ رہتی۔ ‘‘
لندن جانے کی اس خواہش کی آتش کو تیز کرنے میں نعیمہ جان کا بہت ہاتھ تھا۔ نعیمہ جان جس نے تیرہ سال لندن میں گزارے تھے اور جس کی ہر بات کی تان لندن کے ذکر پر ٹوٹتی تھی۔ وہ انگلینڈ کی خوبصورتیوں اور رعنائیوں کے قصے سمیرا کو سناتی۔ جسے وہ دم سادھے سنا کرتی اور پھر تشنہ سی آرزوؤں میں لپٹا لمبا آزردہ سا سانس کہیں نیچے سے نکال کر خارج کرتے ہوئے کہتی۔
’’نمو جان تم کتنی خوش قسمت ہو۔ ‘‘
’’وہ تو میں ہوں۔ نعیمہ جان آنکھیں نیم وا کرتی اور اپنی ممی کو دو سو صلواتیں سُناتی جو ان لوگوں کو پاکستان لے آئی تھیں۔
میری جان زندگی کا ایک حصہ وہاں گزار کر آئے ہیں۔ یہاں کا ماحول نہ آنکھوں کو بھلا لگتا ہے نہ دل کو جچتا ہے۔ ‘‘
اور سمیرا ایک زور دار دوہتڑاُس کے شانے پر مارتے ہوئے کہتی۔
’’بند کر اپنی بکواس۔ تو نے میرا دماغ خراب کر دینا ہے۔ ‘‘
اور نعیمہ جان آنکھیں مستی میں گھماتی اور کہتی۔
’’میں نے کیا کرنا ہے وہ تو پہلے ہی ہے۔ ‘‘
توقیر سمیرا کا فرسٹ کزن تھا۔ اس کے گھر کے قریب واقع بینک میں سیکنڈ آفیسر تھا۔ اچھی شکل و صورت کا لڑکا تھا۔ یوں بھی بہت محنتی اور ذمہ دار تھا۔ سمیرا کو بہت پسند کرتا تھا۔ اکثر بینک سے چھٹی ہونے پر ان کے گھر کا چکر ضرور لگاتا۔ وہ کبھی برآمدے میں پام کے پودوں کے پاس کبھی باغیچے میں جو ہی کی کلیوں کے پاس اُسے ملتی۔ خوش دلی سے ہنستا اور کہتا۔
’’ارے کامریڈ کیا شعر و شاعری کے چکر میں پڑی رہتی ہو۔ زندگی دو اور دو چار کا نام ہے۔ ‘‘
وہ اُس کے قریب آ کر بیٹھ جاتا۔ پام کے پتوں کو اپنی انگلیوں سے چیرتا اور اسے غور سے دیکھتا۔ وہ اس کی اس حرکت پر تلملا کر رہ جاتی۔ بس نہ چلتا وگرنہ پٹخ کر اس کا سر زمین پر مار کر دو ٹوٹے کر دیتی۔ غصیلی آواز میں چیخ کر کہنے پر ہی اکتفا کرتی۔
’’گنوار کہیں کے۔ بوٹوں کا ناس مت کرو۔ ‘‘
’’تمہیں بوٹوں کے ناس مارے جانے کا فکر ہے۔ انسانوں کا بھی کبھی سوچ لیا کرو۔ تمہاری بے رُخی سے ان کا ستیاناس نہ ہو جائے۔ ‘‘
’’مائی فٹ۔ ‘‘
وہ پیر پٹختی اُٹھ جاتی۔ اور توقیر مسکراتے ہوئے اُسے جاتے دیکھتا رہتا۔
وہ بہت اونچا اُڑنے کی متمنی تھی۔ آسمانوں کی لا محدود وسعتیں اس کے سامنے تھیں۔ نیچے دیکھنا اُسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ ایسے میں توقیر کے پسند آنے کے امکانات تو صفر تھے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بے چارہ بہت کچھ سمجھتے ہوئے بھی اپنے دل کے ہاتھوں مجبور سا تھا۔
جوئندہ یا پائندہ والی بات بالکل نہیں تھی۔ وہ اور نعیمہ جان اس چلچلاتی سہ پہر میں فلم دیکھنے نکلی تھیں۔ سٹیرنگ نعیمہ کے ہاتھوں میں تھا۔ اُس نے موڑ تو مہارت سے کاٹا تھا مگر پھر بھی ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ سڑک بڑ ایک نوجوان گرا پڑا تھا۔ جس کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے لفافے دُور دُور تک بکھر گئے تھے۔
دونوں کے حلق سے خوفناک چیخیں نکلی تھیں۔ دونوں کے رنگ اُڑ گئے تھے۔ اور دونوں اپنے اپنے دروازے کھول کر تیر کی طرح باہر نکلی تھیں۔ دونوں نے مضطرب ہو کر اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کی تھی۔ رش تو نہیں تھا۔ سڑک بھی صاف ہی تھی پھر یہ سب کیسے ہوا؟ سامنے بہت خوبصورت نئے ماڈل کی بوٹل گرین ٹیوٹا کھڑی تھی۔ لباس، شکل و صورت، چہرے پر ٹپکتی وجاہت سبھی اس کے اعلیٰ جینٹری سے تعلق کا پتہ بتا رہے تھے۔ وہ بے ہوش تھا۔ کہیں خون وون بھی نکلا نظر نہیں آیا تھا۔ نعیمہ جان اضطراب اور پریشانی سے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے ان چار پانچ راہگیروں کے چہرے دیکھ رہی تھی جو اُس پر جھکے اندازہ لگا رہے تھے کہ یہ چوٹ کہاں لگی ہے ؟ دوکانیں بھی یہاں نہیں تھیں تو پھر گاڑی روک اس نے کیا خریدا تھا؟سمیرا نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا۔ لفافے سڑک پر بکھرے ہوئے تھے مگر ان میں جو کچھ بھی تھا وہ باہر نہیں نکلا تھا۔ اس نے نظریں ادھر ادھر دوڑائیں۔ کچھ ہی دور اسے وہ چھوٹاسا کھوکھا نظر آ گیا تھا جہاں عمدہ قلمی آم بڑے بڑے نوکروں میں سجا رکھا تھا۔
راہگیروں نے اسے اسپتال پہچانے کے لئے کہا۔ دو تین تنومند قسم کے مردوں نے اُسے اُٹھایا اور کار کی بیک پر آڑا تر چھا لٹا سا دیا۔ دو مردوں کو انہوں نے ساتھ چلنے کے لئے کہا۔ نعیمہ جان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے لگی تو سمیرا نے سرگوشیانہ انداز میں ڈانٹ پلائی۔
’’کمبخت پیچھے ہٹو۔ یہ لندن ہے جو بگٹٹ گاڑی بھگائے جاتی ہو؟‘‘
’’میں نے تو ایسی ذلیل سڑکیں کہیں نہیں دیکھیں۔ ‘‘
’’یہاں تو دیکھ رہی ہو نا۔ ‘‘ سمیرا نے کار سٹارٹ کر دی۔
ایمرجنسی میں داخلہ ہو گیا۔ ڈاکٹر معائنہ کرنے لگا۔ جب اسے یہ خیال آیا۔
اللہ! پتہ نہیں کن کا بیٹا ہے ؟ کہاں رہتا ہے ؟ کہاں جا رہا تھا؟ جیبیں دیکھنی چاہئیں شاید کوئی اتہ پتہ مل جائے۔
’’سنونعیمہ‘‘ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
’’ اس کی جیبیں دیکھیں شاید اس کا کارڈ وارڈ ہو۔ گھر کا پتہ چلے تو اطلاع کریں۔ ‘‘
اور نعیمہ نے تیکھی نظروں سے اسے گھورا۔
’’کروک۔ انہوں نے اُٹھا کر پولیس میں رپٹ لکھوا دی تو بتاؤ پولیس اسٹیشن کے دھکے کھاتی پھرو گی۔ شکر کرو راہگیر سیدھے سادھے سے تھے وگرنہ کوئی تیز طرار ہوتا تو آج پھنس گئے تھے۔ ‘‘
’’تو اب کیا ہونا چاہیے ؟‘‘
’’ذرا صورت حال واضح ہو جائے تو بھاگ چلتے ہیں۔ ‘‘
’’یہ غلط بات ہو گی۔ اس کی نئی نویلی گاڑی وہاں کھڑی ہے۔ چوری ہو سکتی ہے۔ اس کی حالت بھی خطرناک ہو سکتی ہے۔ ایسے میں بھاگ جانا انسانیت کے خلاف ہے۔ ہمت سے صورت حال کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بہتر ہی ہو گا۔ ‘‘
ڈاکٹر نے سوالات کی بھرمار کر دی تھی۔ سمیرا بہت ذہین تھی۔ بات کو خوبی سے نبھا گئی اس کے اس سوال پر کہ معاملہ کچھ خطرناک تو نہیں۔ اس نے کہا۔
’’دیکھئے۔ آپ ذرا یہ دوائیں لے آئیں۔ ‘‘
اس نے نعیمہ کو دوائیں لانے کے لئے دوڑایا۔ اور خود اس کی جیبوں کی تلاشی لینی شروع کی۔ پینٹ کی جیب سے چابی نکل آئی تھی۔ والٹ بھی مل گیاجس میں اس کا کارڈ تھا۔
’’اللہ کرے اب یہ کارڈ اس کا ہی ہو۔ ‘‘
چابی اور والٹ دونوں اُس نے اپنے بیگ میں ڈال لئے۔
نعیمہ دوائیں لے آئی تو اس نے دونوں چیزوں کے بارے میں اُسے بتایا۔ فیصلہ ہوا کہ وہ اس کے ورثاء کو اطلاع دے اور نعیمہ اس کے پاس ہی رہے۔
نعیمہ نے منہ بسورا۔
’’دیکھو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ کسی مصیبت میں نہ گھِر جائیں۔ پلیزسمی ایسی ہمدردی کا کوئی فائدہ نہیں جس میں انسان کسی آفت میں مبتلا ہو جائے۔ ‘‘
مگر سمیرا نے پھر ڈپٹا۔
’’تمہیں یہاں چھوڑنے کا مقصد ہے کہ کسی دوائی کی فوری ضرورت پڑ سکتی ہے۔ مریض کو ہوش آ سکتا ہے۔ ‘‘
یہ کہانی موبائلوں کے دور سے قبل کی ہے۔ اسپتال سے باہر نکل کر اُس کا پہلا کام قریبی میڈیکل سٹور سے کارڈ پر لکھے گئے نمبر پر رابطے کی کوشش تھی۔ ایک لمبی سی ٹون سُننے کو ملی۔ پندرہ بیس منٹ تک اس سعی لا حاصل نے اُسے زچ کر دیا۔ وہ باہر آ گئی۔ سڑک پر رواں دواں انسانوں اور گاڑیوں کے پُر شور ہجوم کو خالی خالی نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچنے لگی۔ اب کیا کِیا جائے ؟
گھر پر پاپا ضرور تھے پر دل کے مریض جنہیں وہ کوئی ایسی خبر سنانے کی روادار نہ تھی۔ مما مسز زبیری گرلز کالج میں تاریخ کی پروفیسر خاصی جی دار اور تیز طرار خاتون پر وہ اس وقت کالج میں تھیں۔ تھوڑی دیر قبل سمیرا نے ہی انہیں کالج کے کسی فنکشن کے سلسلے میں ڈراپ کیا تھا۔ نوید اُس کا بھائی ابھی ایف ایسی سی کا سٹوڈنٹ اور نویرا نوید سے بھی چھوٹی۔
سمیرا جب گھر سے نکلی نوید ٹیوشن کے لئے چلا گیا تھا۔ پل بھر کے لئے اُسے نعیمہ کا بھاگ جانے کا مشورہ معقول لگا۔
’’غلطی کی۔ کِس جھنجھٹ میں پھنس گئے ہیں۔ ‘‘
پر اگلے لمحے ایک بے حد وجیہہ اور دلکش چہرہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ کسی ماں کا بیٹا جو خالصتاً نعیمہ کی لا پرواہی کا شکار ہوا تھا۔ وقت کو تیزی سے آگے بڑھتے دیکھ کر اُس نے فی الفور سر جھٹکا۔ برقی انداز میں کچھ سوچا۔ اپنی گاڑی میں سوار ہونے کی بجائے رکشے میں بیٹھنے کو بہتر جانا۔ راستے میں اُس نے کارڈ کو پرس سے نکال کر ذرا تفصیل اور سکون سے دیکھا۔
’’مجید اشرف۔ ‘‘
’’ارے کیسا پینڈویانہ سا نام ہے ؟ ذرا لگا نہیں کھاتا شخصیت سے۔ ‘‘
حادثے والی جگہ پر گاڑی کھڑی تھی۔ اُس نے چابی لگائی۔ دروازہ کھولا اس میں بیٹھی۔ ایسی شاندار گاڑی دل یوں دھڑکا جیسے ابھی گوشت پوست کو چیرتا ہوا باہر آ جائے گا۔ پیشانی پسینے میں تبر بتر ہوئی۔ سانس رُکتا ہوا محسوس ہوا۔ چند لمحے وہ ساکت بیٹھی رہی۔ خود کو نارمل کرنے کی کوشش میں لگی رہی۔
نچلے متوسط گھرانے کی پروردہ پڑھے لکھے ملازم پیشہ والدین کی بیٹی جن کے پاس گاڑی تو ضرور تھی۔ پر چھوٹی سی اکلوتی بیچاری اُس محنت کش انسان جیسی جو اپنے پریوار میں دو تین کو اگر جوتے لے کر دیتا تو دو تین کپڑوں سے رہ جاتے ہیں۔ گوشت خریدتا ہے تو پھل پر ڈنڈی بج جاتی ہے۔
خود پر قابو پانے کے بعد اُس نے سارے سسٹم کا جائزہ لیا۔ اور پھر اللہ کا نام لے کر سٹارٹ کر دی۔ تھوڑی دیر تک آہستہ آہستہ چلی پھر اعتماد سے فراٹے بھرنے لگی۔
گھر ڈھونڈنے میں زیادہ دشواری نہ ہوئی۔ یہ پوش ایریا تھا۔ یہیں سمیرا کی ایک دوست بھی رہتی تھی۔ کارڈ پر درج نمبر کے عین مطابق جب اُس نے سی تھرو گیٹ سے اندر کا منظر دیکھا تو اُسے ایک بھرپور جھٹکا سا لگا۔ وسیع و عریض لان اور محل نما گھر اُس کے سامنے تھا۔ با وردی گارڈ سے سوال جواب ہوئے اور اُس نے جانا کہ مجید اشرف کے والدین لندن میں، بڑے دونوں بھائی امریکہ اور جاپان میں۔ ان کا لمبا چوڑا بزنس جس کے لئے سبھی باری باری یہاں آتے رہتے ہیں۔ خود مجید اشرف ابھی چار دن پہلے بنکاک سے آیا تھا۔
اُس کے بارے میں ضروری معلومات کے ساتھ اُس نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے نوکر اُس کے گرد اکٹھے ہو گئے تھے۔ وہ اس کے تفتیشی انداز پر پریشان اور اپنے مالک کے بارے میں فکر مند تھے۔ اور جب اُس نے یہ کہا کہ اُن کی مسز تو یہاں ہوں گی اُن سے میری بات کروا دیں۔ اُن میں سے جو نسبتاً زیادہ سمجھدار تھا اُس کی طرف یوں دیکھتے ہوئے جیسے اُس نے کوئی بہت ہی احمقانہ بات کر دی ہو کہا۔
’’لو بیٹا اُس کی بیوی کہاں سے ؟وہ تو ابھی کنوارہ ہے۔ ‘‘
اُس لمحے بس اُسے یوں لگا جیسے موسم اور اس حادثے کی تلخی سبھی انجانی سی راحت میں بدل گئی ہیں اور سینے میں ٹھنڈک سی اُتر گئی ہے۔
چلو مجھے فون کرواؤ اور ہاں ڈرائیور بھی اگر ہے تو بُلوا لیں۔
ایک سمجھدار سا ادھیڑ عمر کا مرد اُسے لان میں چھوٹی سی جھیل نما تالاب پر بنے چوبی پُل سے گزارتا ہوا اندر لے کر داخل ہوا۔ راہداری میں سے گزرتے ہوئے اُس نے چند مزید جھٹکے کھائے۔ فون اُس نے گھر کیا۔ اپنی ماں کو انگریزی میں مختصر اً بتایا کہ وہ تیار ہوں۔ تھوڑی دیر میں وہ انہیں لینے آتی ہے۔
جب وہ ریسیور کانوں سے لگائے ماؤتھ پیس پر باتیں کرتی تھی۔ اُس کی نظریں سامنے والے کمروں کی طرف اُٹھی تھیں جن کے دروازے کھُلے تھے اور اندر جس طرح کا ماحول نظر آتا تھا وہ اُس نے ہالی وڈ کی فلموں میں ہی کہیں دیکھا تھا۔ سحر زدہ اور مبہوت کرنے والا۔ ملازموں کو اس نے ایکسیڈنٹ کے بارے میں بتایا ضرور پر پریشان کرنے والے انداز میں نہیں، یہ بھی کہا کہ وہ تو بس راہگیر تھیں انسانی ہمدردی کے ناطے یہ سب کر رہی ہیں۔ اور یہ تاکید کرنا بھی نہیں بھولی کہ کسی بھی صورت والدین یا بھائیوں کو اطلاع نہیں دینی۔ بلاوجہ پریشان کرنے سے فائدہ۔
عجیب سی بات تھی۔ اُس کا ذہن برق رفتاری سے کام کرنے لگا تھا۔ معاملات کو اُس نے جیسے خود ہینڈل کرنے کا منصوبہ ذہن میں مرتب کر لیا تھا۔ ڈرائیور اُس کی رہنمائی میں پہلے اس کے گھر گیا۔ مسززبیری تیار تھیں۔ انہیں لیا۔ راستے میں اُس نے اپنی ماں کو جس انداز میں اُس کے امارت کی تفصیل اور اُس کے غیر شادی شدہ ہونے کا بتایا وہ اُس کی حسرتوں کا غماز ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ اس احساس کی بھی چُغلی کھاتا تھا کہ انہیں قدرت نے یہ موقع فراہم کیا ہے اور انہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اُسے یہ بھی خدشہ تھا کہ ایسا نہ ہو چوٹ زیادہ گہری ہو۔ خدانخواستہ کوئی سیریس معاملہ نہ ہو جائے اور وہ دھر لی جائیں۔
مسزز بیری بھی کچھ متفکر ہوئیں۔ پھرسامنے دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’گھبراؤ نہیں بہتر ہی ہو گا۔ ‘‘
مسز زبیری کی دوست کا بیٹا اسی اسپتال میں سرجن تھا۔ وہ اس کا معلوم کرنے کے لئے ریسپشن پر رُک گئیں سمیرا سے یہ کہتے ہوئے تم چلو میں توصیف کا معلوم کر کے آتی ہوں۔
نعیمہ سٹول پر بیٹھی تھی اور چہرے پر بارہ بج رہے تھے۔ وہ ابھی تک بے ہوش ہی تھا۔ اُسے تنہا اور پریشان آتے دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر اس کے پاس لپکی۔
’’کچھ بنا؟‘‘
وہ بڑی مایوسی سے ہنس پڑی۔ میں تو گئی تھی نماز بخشوانے اور یہاں روزے بھی گلے پڑ گئے۔ معاملہ بڑا ٹیڑھا ہو گیا ہے۔ اس نے سٹول پر بیٹھ کر ساری بات اس کے
گوش گزار کرتے ہوئے کہا۔
’’ممی میرے ساتھ ہی آئی ہیں۔ چلو اب فکر کی کوئی بات نہیں۔ ‘‘
’’اُف تم کِس پراگے میں پڑ رہی ہو۔ لعنت بھیجو سب پر چلو چلیں۔ ‘‘
’’نعیمہ تمہاری عقل گھاس چرنے تو نہیں چلی گئی۔ کیسے چھوڑ جائیں اُسے ؟‘‘
’’سمیرا چلو پھر مجھے جانے دو میں دوپہر کی گھر سے نکلی ہوئی ہوں۔ ممی پریشان ہو رہی ہوں گی۔ ‘‘
نعیمہ چلی گئی۔ اور اب وہ اس کے پاس بیڈ کے قریب رکھے سٹول پر بیٹھ گئی۔
کسی پرائیوٹ ہسپتال میں لے جانا چاہیے۔ خدا معلوم کتنی گہری چوٹ ہے جو اب تک ہوش نہیں آیا۔
’’ میرے اللہ رحم کر۔ ‘‘ اور رحم ہو گیا تھا کیونکہ اس نے آنکھیں کھولیں اور بے حد حیرت سے اپنے اردگرد دیکھا تھا۔ سمیرا لپک کر اس کے قریب ہوئی۔ اس لمحے اسے یہ احساس نہیں تھا کہ وہ ایک اجنبی ہے۔ شاید جو حادثہ پیش آیا تھا اور اس کی جو حیثیت سامنے آئی تھی اس نے اجنبیت کی ساری دیواروں کو جیسے گرا دیا تھا۔ وہ جیسے سمیرا کی ذمہ داری تھی۔
’’آپ کون ہیں۔ اور میں کہاں ہوں ؟‘‘
’’میں جو بھی کوئی ہوں یہ آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ یہ بتائیے کہ کہیں درد تو نہیں محسوس ہو رہا؟‘‘
’’درد!‘‘اس نے زیر لب دہرایا۔
’’ہاں ہاں !ذرا بازوؤں کو ہلائیں۔ ٹانگوں کو دیکھئیے۔ کہیں تکلیف محسوس ہوتی ہو؟‘‘
اس کے کہنے پر چند لمحے جیسے وہ اپنے سارے وجود کا جائزہ لیتا رہا اور پھر بولا۔
’’سر کے دائیں حصے میں یہاں۔ ‘‘ اس نے کنپٹی کے اوپر ہاتھ رکھ دیا۔
اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں تھیں۔ سمیراکو یوں لگا جیسے دو جلتے چراغ بجھ گئے ہوں۔
’’اللہ میرے ! کس قدر دلآویز شخصیت ہے۔ ‘‘
عین اسی وقت ممی بھی آ گئیں۔ سمیرا نے ہوش میں آنے کی ساری تفصیل ماں کو بتائی۔ مسز زبیدی نے پرائیوٹ ہسپتال لے چلنے کا کہا۔
کوئی گھنٹہ بھر میں ساری شفٹنگ ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے فوری معائنہ کیا پر وہ لوگ ابھی کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھے۔
کوئی بارہ بجے تک وہ اس کے پاس ٹھہرے پھر نوید وہاں رہا۔ ممی اور وہ دونوں گھر چلی آئیں۔
صبح سویرے بغیر ناشتہ کئے وہ پھر کلینک بھاگی۔ وہ جاگ رہا تھا اور نوید سو رہا تھا۔
’’ہیلو۔ صبح بخیر۔ کیسی طبیعت ہے ؟‘‘ وہ اُس کے بیڈ کے قریب آ کر اس پر جھکتے ہوئے بولی۔
سنجیدہ سے چہرے پر کچھ سوال تھے جنہیں اُس نے نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ کھائیں گے ؟‘‘
جواب میں خاموشی تھی۔
اُس نے چائے کپ میں انڈیلی اور آہستگی سے اُس کے سر کو سہارا دے کر اُٹھاتے ہوئے کپ کو اُس کے ہونٹوں سے لگایا۔ چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے ہوئے اُس نے کپ خالی کر دیا۔
اس کی سنجیدگی اور متانت سمیرا کو کھِلی تھی۔ اس کی بہت سی باتوں کے جواب میں اُس کے ہونٹوں پر مدھم سی مسگراہٹ اُبھرتی یا پھر مختصرسا جواب۔ سمیرا جیسی ذہین لڑکی کے لئے یہ کچھ ایسی حوصلہ افزا صورت نہ تھی۔ پر یہ اجنبی اُس کے دل کو بے طرح بھایا تھا۔ سنجیدہ سا۔ اتنی سی عمر میں میں آدھی سے زیادہ دنیا دیکھ چکا تھا۔ کہیں بھی کوئی پہلو کمزور نہیں تھا۔ اُس دن جب وہ اُس کے لئے گھر سے سوپ بنا کر لائی۔ کمرے میں موجود چند غیر ملکی جن کے ساتھ وہ گفتگو میں مصروف تھا۔ کاروباری بات چیت میں اُس نے کوئی دس ملکوں کے حوالے دے ڈالے تھے۔ اُس کی پسندیدگی کے جذبات اس واقعے سے کچھ اور ہوا ہوئے۔ اُسے سوپ کا پیالہ دیتے ہوئے اُس نے کہا۔
’’آپ کو اتنا بولنا نہیں چاہیے تھا۔ ‘‘
’’مجبوری تھی۔ ‘‘ بس اس سے زیادہ اُس کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔
اُس رات اپنے بیڈ پر لیٹتے ہوئے وہ بڑی بد دل سی تھی۔ دھیرے سے اُس نے اپنے آپ سے کہا۔
’’مجھے تو لگتا ہے جیسے میں خواب بننے لگی ہوں۔ ‘‘
پر کہیں ایک چھوٹی سی امید کی کرن بھی تھی۔
اتنے ڈھیروں نوکروں کے باوجود اُس کے کھانے پینے کی سب چیزیں سمیرا کے گھر سے تیار ہو کر آتی تھیں۔ ایک اجنبی نوجوان کی اس درجہ دیکھ بھال پر سمیرا نے پہلے ہی دن اس کے ہوش میں آنے پر اس پر واضح کر دیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی ذمہ دار ہے۔ اسپتال کا بل دینے کی تو اُن میں استطاعت نہیں پر اُس کی خدمت سے وہ اپنی لا پروائی اور غلطی کا کفارہ ادا کرنے کی خواہش مند ہے۔
اُس کی اس وضاحت کے جواب میں اُس کے ہونٹوں پر مدھم سی مسکراہٹ اُبھری تھی اور جواباً اُس نے صرف اتنا کہا تھا۔
’’شاید میری بھی غلطی ہو۔ ‘‘
دو بار زبیری صاحب آئے۔ زبیری صاحب کے ساتھ حالات حاضرہ پر اُس کی خوب باتیں ہوئیں۔ مسززبیری بھی خدمت میں پیش پیش تھیں۔
بس اگر شاکی تھی تو صرف سمیرا۔ جو کسی اشارے، کسی بول، کسی امید بھرے الفاظ کی منتظر تھی۔ پر وہاں خاموشی تھی۔ سناٹا تھا۔ اور کسی آس میں رہنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔
یہ غالباً ساتواں روز تھا جب وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی ہو۔ وہ ہونقوں کی طرح دیکھتی تھی۔ کمرہ خالی تھا۔ وہ ڈسچارج ہونے کے لئے تو گزشتہ دنوں سے بضد تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور یہ پرائیوٹ اسپتال والے بلا و جہ ہی اپنے پیسے بٹورنے کے لئے فضول کے اُلجھاؤ میں اُسے ڈالے ہوئے ہیں۔
سمیرا نے جواب میں نیو روسرجن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بہتر ہے اس کے مشورے کے مطابق چلا جائے۔
اور اس کا لہجہ سمیرا کو حیران کر گیا تھا جب اس نے کہا۔
’’سب ڈھکو سلے اور بکواس ہیں۔ مجھے تو آج تک کبھی ہلکا سا ٹمپریچر تک نہیں ہوا۔ یہ چوٹ جانے کیسے لگ گئی؟ ہمارے پیچھے دعاؤں کے لئے بے شمار ہاتھ ہیں۔ ‘‘
تو وہ پھر چلا گیا اُسے کوئی اطلاع دئیے بغیر۔ کس قدر کم ظرفی کی بات تھی۔ وہ اس کرسی پر بیٹھ گئی جس پر ہمیشہ بیٹھتی تھی۔
حیرت تھی اُسے خود پر۔ اس کا وہ طنطنہ، اس کی پھنکاریں، سب جیسے صابن کے جھاگ کی طرح تھیں، جنہیں امارت اور وجاہت کے پانیوں نے گھول کر رکھ دیا تھا۔ کیسا کٹھوڑ انسان تھا ؟اتنے دن خدمت کی کیا اس قابل بھی نہیں سمجھا گیا کہ جانے کا ہی بتا دیتا۔ اندر جیسے زخمی تھا سمجھ نہیں آر ہی تھی کہ کیسے ان پر پھاہے رکھے ؟
کتنی احمق ہوں میں ؟ سب کچھ تو نظر آتا تھا۔ پاؤں تلے تو ریت ہی ریت تھی۔ میں کیوں نہ سمجھی؟ اسی ریت پر گھروندے بنانے لگ گئی۔ اب ٹوٹنے تو تھے ہی۔ پتہ نہیں کہاں سے جیسے آنسوؤں کا ایک ریلا سا آ گیا۔ ہر چیز دھُندلی سی ہوتی گئی۔ اُس نے سر کرسی کی پشت پر پھینک دیا اور ریلے کے اس تیز بہاؤ کے سامنے کوئی بند لگانے کی کوشش نہ کی۔ دیر بعد جب ہلکی ہوئی تو باتھ روم میں جا کر منہ دھویا۔ باہر نکلی۔ ریسپشن سے پتہ چلا کہ ابھی کوئی گھنٹہ بھر پہلے ڈسچارج ہوئے ہیں۔
کیا تھا تھوڑا سا انتظار کر لیا جاتا۔ فون کر کے اطلاع دے دی جاتی۔ اُسے معلوم بھی تھا کہ میں کم و بیش اسی وقت آتی ہوں۔ یہ سب قصداً کیا گیا کہ میری دل آزاری مطلوب تھی۔ اپنا آپ اسے اس سمے ہواؤں میں اُڑتے کاغذوں جیسا ہلکا محسوس ہوا،
بے وقعت، بے وزن اور بے آبرو جیسا۔ محسوسات کی شدت نے اُس کی آنکھوں میں پھر نمی اُتار دی تھی۔ چلتے چلتے اُس نے کئی بار خود کو لعن طعن کی۔
گھر آئی تو مسز زبیری کہیں گئی ہوئی تھیں، پر باپ موجود تھے۔ جنہوں نے اُسے بتایا کہ مجید اشرف کا فون آیا تھا۔ وہ شکر گزار تھا ہم سب لوگوں کے خلوص اور محبت کا۔ میں نے اُسے کسی دن اپنے گھر آنے کے لئے بھی کہا۔ اُس سے بات چیت کر کے مزہ آتا ہے۔
سمیرا کے چہرے پر عجیب سے یاس بھرے رنگ بکھر گئے۔ تاسف بھرے لہجے میں اُس نے کہا۔
’’ارے پاپا آپ نے کیوں اُسے گھر آنے کی دعوت دی؟ یہ امیر لوگ پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں ؟ہم جیسے لوگ تو شاید انہیں انسان ہی نہیں لگتے۔ ‘‘
اور جب وہ رونکھی سی آواز میں اپنے باپ سے یہ کہتی تھی اُسے قطعی یاد نہیں تھا کہ وہ کب ماڑے موٹے انسانوں کو خاطر میں لاتی تھی؟ اُن کا مذاق اُڑانا اور انہیں حقیر جاننا اس کی سرشت میں داخل تھا۔
ارے نہیں بیٹے وہ تو بڑا منسکر المزاج لگتا ہے۔ دو بار کی ملاقات نے مجھ پر تو اس کا بہت اچھا تاثر چھوڑا ہے۔ فون پر بھی اُس کا لہجہ ملتجی اور متانت میں گھُلا ہوا تھا۔
اُس نے بحث نہیں کی۔ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ اُسے محسوس ہو گیا تھا کہ میں اُسے پسند کرنے لگی ہوں۔ اور یقیناً میں اس کی پسند نہیں تھی۔ سو اُس نے اپنا رد عمل واضح کرتے ہوئے سب کچھ مجھے سمجھا دیا تھا۔ اب میں ہی پاگل بنی رہی۔
مسزز بیری گھر آئیں۔ چائے کی طلب نے گھر میں گھستے ہی انہیں چھوٹی بیٹی نویرا کو پکارنے پر مجبور کر دیا۔ دو تین آوازوں پر بھی کوئی جواب نہ پا کر اُس کے کمرے میں آئیں وہ ٹھٹھک سی گئیں۔ سامنے صوفے پر سمیرا گم سی بیٹھی تھی۔ پژمردہ سی، افسردگی کی چادر میں جیسے لپٹی ہوئی۔
’’کیا بات ہے بیٹے تم اس وقت یہاں کیسے ؟ اسپتال سے کب آئیں ؟‘‘
ماں کے اتنے میٹھے محبت بھرے لہجے میں استفسار پر آنسو ایک قطار کی صورت میں اس کے گالوں پر آ گئے۔ وہ بھی گھبرائیں۔
’’کیا ہوا؟‘‘
مضطرب بھرے لہجے میں پوچھتی پاس ہس بیٹھ گئیں۔
بھر آئے ہوئے لب و لہجے میں اُس نے دل میں حشر برپا کرتے طوفان کے بارے میں مختصراً ماں کو بتایا۔ لڑکا انہیں بھی پسند آیا تھا۔ دل و جان سے چاہتی تھیں کہ ان کی خوبصورت پڑھی لکھی، شائستہ رکھ رکھاؤ والی بیٹی اس لڑکے کے دل میں گھر کر لے۔
اب اپنی طرف سے تو بہتیری کوشش کی۔ رات دن کی مسلسل مشقت اور روپے پیسے کا فراوانی سے خرچ اب اس سے زیادہ وہ کیا کر سکتی تھیں ؟ نچلا متوسط گھرانہ جہاں ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا جیسی صورت ہمہ وقت ہی درپیش رہتی تھی۔
’’چلو چھوڑو بیٹے جو نصیب میں ہوتا ہے وہی ملتا ہے۔ ‘‘
انہوں نے بیٹی کی آزردگی کو کم کرنے کی کوشش کی۔
’’اُف ممی اتنا ہینڈسم، اتنا ڈیشنگ، ایسا انٹلیکچوئل، اتنا امیر، کہیں آپ اُس کا گھر دیکھتیں تو دنگ رہ جاتیں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے کوئی پھولوں پھلوں سے لدا پھندا نخلستان میرا مقدر بننے والا تھا پر کسی نے یکلخت مجھے تپتے ریتلے صحرا میں پھینک دیا ہو۔ جیسے میں حیات بخش شربت کا گلاس منہ کو لگانے والی تھی کہ اُسے مجھ سے چھین لیا گیا۔ ‘‘
بیٹی کی اس حد تک دل گرفتگی پر مسز زبیری کا دل کٹ کٹ جا رہا تھا۔ چند لمحوں بعد انہوں نے کہا۔
’’میرا خیال ہے میں فون کروں۔ ‘‘ انہوں نے اپنی خواہش کیلئے بیٹی کی تائید چاہی۔
پر سمیرا نے نفی میں سر ہلایا۔
’’چھوڑئیے کوئی فائدہ نہیں۔ اُس نے پاپا کو فون پر شکریے کے چند لفظوں سے اپنے حسابوں ہمارے احسان کا بدلہ اُتار دیا ہے۔ ‘‘
با ایں ہمہ مسزز بیری نے اپنے طور پر فون کیا۔ نوکر نے سُنا اور بتایا کہ صاحب اس وقت چند غیر ملکی لوگوں کے ساتھ مصروف ہیں۔ میں آپ کا پیغام دے دوں گا۔
ایک آدھ دن مسز زبیری کو بھی انتظار رہا۔ پھر اُنہیں بھی سمجھ آ گئی کہ وہ ہی لوگ بیوقوف تھے جنہوں نے صرف شکل اور تعلیم کے بل پر اتنا بڑا خواب دیکھ لیا تھا۔ مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کون لگاتا ہے ؟
جلد ہی فائنل امتحان شروع ہو گئے۔ بے دلی سے وہ اس کی تیاری میں اُلجھ گئی۔ پر نہ تو اس اُلجھاؤ نے اور نہ گزرتے دنوں نے اس کی بے کلی کو گھٹایا البتہ بڑھانے کا کام ضرور کیا۔ اُس کے دل سے ایک لمبی سی ہوک اُٹھتی۔ جو آنکھوں کو گیلا کر جاتی۔
پھر ایک دن عجیب سا واقعہ ہوا۔ شام ابھی گہری نہیں ہوئی تھی۔ سمیرا پیپر دے کر گھر آئی۔ گیٹ کے سامنے سیاہ چمچماتی نئی نویلی گاڑی کھڑی تھی۔ اُس کا دل جس انداز میں دھڑکا اُسے محسوس ہوا جیسے گوشت کی تہیں ہٹاتا ابھی پھُدک کر باہر آگرے گا۔
کون آیا ہے ؟ مجید اشرف۔ اس کاسوال خود سے تھا۔ اور جواب بھی اُس نے خود ہی اپنے آپ کو دیا تھا۔
بھلا اُس نے یہاں کیا لینے آنا ہے ؟
تو پھر کون ہو سکتا ہے ؟ شاید کریم صاحب کا کوئی عزیز ہو۔
بائیں طرف کے ہمسائے کریم صاحب کے کینیڈا میں بسنے والے رشتہ داروں کی کبھی کبھار ایسی ہی لمبی گاڑیاں ان کے گھروں کے سامنے کھڑی دیکھنے کو ملتی تھیں۔
وہ اندر داخل ہوئی۔ ڈرائینگ روم سے پاپا کے اُونچے اُونچے باتیں کرنے کی آوازوں نے اُسے بتا دیا تھا کہ مہمان کون ہے ؟
وہ اپنے کمرے میں آ گئی۔ وہ متضاد کیفیات کا شکار تھی۔ جس کی چاہت میں ہلکان ہو رہی تھی اُس کی آمد کا مفہوم آئندہ کسی نوید کا باعث بھی ہو سکتی تھی۔ اس آمد کا کرٹسی کے طور پر بھی امکان تھا۔ اُس نے بیگ تپائی پر رکھا اور لیٹ گئی۔ وہ کمرے کے اندر ضرور تھی پر اُس کے ساری حسیات اور سماعتیں کمرے سے باہر تھیں۔ پھر جیسے اُسے گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔ اور اس آواز کے ساتھ ہی جیسے وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی۔
’’تو کیا وہ چلا گیا مجھ سے ملے بغیر۔ ‘‘
پر اس تلخ سوچ کے منفی اثرات اُس کے اندر باہر پھیلنے سے پہلے ہی اُس کی ماں، بہن اور بھائی کے جگمگاتے گُل رنگ چہروں اور کلکاریاں مارتے قہقہوں نے ختم کر دیئے تھے۔ ابھی مسززبیری اور نویرا میں سے کسی نے بھی اپنے چہروں پر رقصاں بے پایاں خوشی کی توجیہہ کے بارے میں کچھ بتانے کے لئے لب کھولے نہیں تھے کہ زبیری صاحب ایک بڑا اٹیچی کیس دھکیلتے ہوئے اور چہکتی ہوئی آواز میں یہ کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔
’’ارے بھئی ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہماری سمیرا اتنی بخت ور ہو گی۔ ‘‘
’’اس کا نصیب تو کسی مہارانی جیسا دکھتا ہے۔ ‘‘
مسز زبیری بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
’’در اصل وہ تو اگلے دن لندن اپنے والدین کے پاس چلا گیا تھا۔ اُس نے تو کھلے لفظوں میں بتایا ہے کہ سمیرا اور اس کے گھر والے اُسے بہت پسند آئے تھے پر اپنے ماں باپ کی رائے کے بغیر وہ کوئی قدم اُٹھانا نہیں چاہتا تھا۔ اپنی پسند پر اطمینان بھری رائے لے کر وہ ہمارے ہاں آیا ہے۔ ‘‘
اسی دوران نویرا نے اٹیچی کیس کھول لیا تھا۔ اور پورا خاندان اس میں رکھے گئے ہیروں کے چھوٹے بڑے سیٹ اور انتہائی قیمتی کپڑوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا۔
سمیرا کو یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ وہ نکاح اور شادی کی تاریخوں کا تعین بھی خود ہی کر گیا تھا۔ درمیان میں صرف دس گیارہ دن تھے جس میں فوری طور پر اُس کا پاسپورٹ اور ویزا بننا تھا۔ ایک ہفتہ اپنے والدین کے پاس لندن میں قیام کے بعد انہیں پیرس جانا تھا جہاں اس کے بڑے بھائی کی ڈریس ایگزبیشن ہو رہی تھی۔
وہ ایک پھر گم سی بیٹھی تھی۔ قدرت کے اس معجزے پر حیرت زدہ۔ مقدر اس قدر تابناک ہو سکتا ہے ؟ یہ حقیقت ہے یا خواب۔ اُس نے خود سے سوال کئیے تھے۔
اور آنے والے چند دن ایسے ہی تھے کہ جن کے ہر ہر دن پر اُسے خواب کا سا گمان گزرتا۔ وہ ہر ہر مرحلے پر اپنے آپ سے یہی سوال دہراتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹی کے والدین کی حیثیت سے اُس کا خاندان کسی بھی مرحلے پر نہ تو مالی لحاظ سے اور نہ ہی جسمانی لحاظ سے زیر بار ہوا۔ انتظامات انتہائی اعلیٰ پیمانے کے تھے جن میں اُن کی شمولیت ہر فکر اور پریشانی سے مبّرا تھی۔ اُس کے رشتہ دار خصوصاً ً اس کا پھوپھی زاد بھی دنگ تھا۔
اور وہ شادی کے تیسرے دن جہاز میں بیٹھی لندن کی طرف رواں دواں تھی۔ دفعتاً عقبی نشست سے کسی نے غالباً اپنے ساتھی سے کہا تھا۔
’’دیکھو ذرا نیچے ہم شاید لبنان کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔ ‘‘
اُسے جیسے بجلی کا کرنٹ لگا۔ وہ سیدھی ہوئی اور کھڑکی سے نیچے جھانکنے لگی۔ اُسے تو کچھ بھی نظر نہ آیا۔ اُس نے مجید اشرف کے بازو پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’مجّی واپسی پر اگر ہم جبران کے لبنان میں چند دن رُکیں۔ مجھے اس کا دیس دیکھنے کی کتنی حسرت ہے شاید تم اس کا انداز نہ لگا سکو۔ ‘‘
’’بھئی کون جبران؟‘‘اُس کی خوبصورت آنکھوں سے چھلکتی حیرت سمیرا کے لئے حد درجہ استعجاب کا باعث تھی۔ اُس نے ذرا سے نک چڑھے انداز میں کہا۔
’’تم نے جبران کو نہیں پڑھا؟‘‘
’’نہیں ‘‘۔
نارمل سے لہجے میں یہ لفظ کہہ کر اُس نے چند لمحے توقف کے بعد اپنی بات کو آگے بڑھایا تو اُس کے لہجے میں بھرپور اعتماد کی جھلک بھی نمایاں تھی اور طمانیت بھی۔
’’میں نے صرف سا تویں جماعت تک پڑھا ہے۔ ہم لوگ سُنار ہیں۔ اندرون مغلپورہ میں ہمارا پانچ مرلے کا چھوٹا سا گھر تھا۔ بازار میں چھوٹی سی دوکان تھی۔ پھر میرا بڑا بھائی باہر چلا گیا۔ اُس نے سمگلنگ شروع کر دی۔ ‘‘
مجید اشرف نے قصداً رُک کر اُسے دیکھا جو پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
’’ارے بھئی ہیروئن کی نہیں۔ سونے اور ہیروں کی۔ ‘‘
آسمان کی چھت پھٹ گئی تھی اور اس میں سے ہُن برسنا شروع ہو گیا تھا۔
’’پڑھائیاں تو اُڑنچھو ہوئیں اور ہم سب اس میں مصروف ہوئے۔ دھیرے دھیرے ہم نے سب غیر قانونی دھندے ختم کئے۔ کاروبار کو قانونی صورت دی۔ الحمد للہ آج ہمارا ایک پاؤں امریکہ ہے تو دوسراجاپان۔ تیسرا آسٹریلیا اور چوتھا فن لینڈ ‘‘۔
سمیر اکے سر پر جیسے بم پھٹا۔ ہکلاتے ہوئے وہ بولی۔
’’تو تم پڑھے لکھے نہیں ہو۔ تم نے شیلے، کیٹس اور ورڈزورتھ کو نہیں پڑھا۔ ‘‘
’’ہرگز نہیں۔ ‘‘
اُس کے چہرے پر شوخی سے لبریز مسکراہٹ تھی جیسے وہ محظوظ ہو رہا ہو۔
’’نہیں مجّی یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ مذاق مت کرو۔ دیکھو میرا سانس سینے میں اٹک رہا ہے۔ مجھے اختلاج سا ہو رہا ہے۔ تم تو آکسفورڈ کے پوسٹ گریجوایٹ ہو۔ ‘‘
بڑی جارحانہ مسکراہٹ تھی۔ جس سے اُس نے سمیرا کو دیکھا تھا۔ بڑا جارحانہ سا انداز تھا جب اُس نے کہا۔
’’حقیقت یہی ہے جو میں نے تمہیں بتائی ہے۔ ‘‘
اور وہ جیسے پھٹ پڑی۔
’’یہ کتنا بڑا فراڈ ہے ؟ کتنا بڑا دھوکہ ہے ؟‘‘
مجید اشرف کا چہرہ پل جھپکتے میں تانبے جیسا سرخ ہوا۔ اُس کی آنکھوں میں جیسے قہر ٹوٹ پڑا۔ وہ انگریزی میں دھاڑا۔
’’How dare you to say?‘‘
’’ تم اپنے حواسوں میں تو ہو۔ میرے تینوں بھائی انڈر میٹرک اور میری تینوں بھابھیاں دو ڈاکٹر اور ایک سی۔ اے اور وہ بھی لندن کے امیر کبیر پاکستانی خاندانوں کی۔ تم ادھورے ایم۔ اے کے ساتھ بھوکے ننگوں کی بیٹی۔ آئندہ اگر ایسی بکواس کی تو گردن مروڑ دوں گا۔ زندگی شیلے اورکیٹس کو پڑھنے کا نام ہے۔ زندگی دو اور دو چار کا نام ہے۔ سمجھیں۔ ‘‘
وہ پھر دھاڑا۔
’’تمہیں سمجھ آ گئی ہے۔ جواب دو۔ ‘‘
’’سمجھ گئی ہوں۔ ‘‘
پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے سمیرا کی آواز ایسی ہی تھی جیسے کسی گہرے کنوئیں سے کسی حرماں نصیب کی کوئی سسکی اُبھر کر باہر آئی ہو۔ اور جب اس نے پشت سیٹ سے ٹکائی اُسے محسوس ہوا تھا جیسے اُس کے ہنستے کھلکھلاتے وجود کو کسی نے پل بھر میں توڑ پھوڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ اُس کے سارے ارمان کرچیوں کی صورت اُس کے سامنے بکھر گئے ہیں اور اس کے مردہ وجود میں سے ایک آواز نکلی۔
’’ہاں زندگی صرف دو اور دو چار کا نام ہے۔ ‘‘
٭٭٭
اِک معجزہ میری زندگی کا
’گڈ ڈے ‘ ایک ایسا افسانہ تھا جو سراٹے مارتی تیز ہوا کا وہ بلھُّا ثابت ہوا جس نے میری زندگی کے صحرا میں تہہ در تہہ جمے واقعات کے ٹیلے کی بالائی پرتوں کی چند تہیں اُڑا کر ماضی کا ایک اہم باب یادداشتوں کی پٹاری سے نکال کر یوں سامنے کھڑا کر دیا کہ میں نے بھونچکی سی ہو کر دانتوں تلے حیرت و استعجاب سے اُنگلی دبا کر اپنے آپ سے پوچھا تھا کہ میری زندگی کا یہ پہلو کیا اس قابل نہ تھا کہ میں اس پر قلم اُٹھاتی۔ اتنا اہم باب بھلا کیسے نظرانداز ہوا؟
ہاتھ کی لکیریں دیکھنے کا عشق کب شروع ہوا؟ماضی کو کھنگالنے اور اس میں اوپر نیچے دبی گٹھڑیوں میں پھولا پھرولی سے وہ صبح اپنے تمام تر حُسن و جمال کے ساتھ آنکھوں کے سامنے آ گئی تھی، جب موسم کی کافرانہ اداؤں کو دیکھتے ہوئے ہم نصف درجن لفنگی دوستوں کا ٹولہ لٹریچر کی کلاس اٹینڈ کرنے کی بجائے باہر گراؤنڈ میں آ کر بیٹھ گیا۔ صوفیہ ہماری چھٹی دوست کوئی ماہ بھر پہلے ہمارے گروپ میں شامل ہوئی تھی۔
اُس وقت آسمان بادلوں سے لدا پھندا نیم تاریکی کی علامت بنا دلوں میں حشر سا برپا کیے ہوئے تھا۔ ہواؤں کی لطافت اور اُن کا چُلبلا پن دلوں میں گُدگُدی سی پیدا کرتا تھا۔ صوفیہ بار بار آہیں سی بھرتی ہوئی کہے چلی جاتی تھی۔
’’پکوڑوں سے لُطف اندوز ہونے کا اس سے بہتر کوئی موقع ہو سکتا ہے۔ ‘‘
’’چپکی بیٹھو۔ خوامخواہ میں دماغ خراب کر رہی ہو۔ بھلا کالج آ کر کیسے کہیں جا سکتے ہیں۔ جُوتے کھانے ہیں کیا؟‘‘
زمانہ اتنا ایڈوانس نہیں تھا تب۔ لڑکیوں کا یوں شتر بے مہار وں کی طرح گھومنا پھرنا انتہائی ناپسندیدہ تھا۔
مجھے یاد نہیں کیا ہوا تھا۔ شاید کسی بات پر ہاتھ لہرایا ہو گا۔ صوفیہ نے یکدم میرے دائیں ہاتھ کو پکڑ کر آنکھوں کے سامنے کیا اور صرف چند لمحے اُسے بغور دیکھنے کے بعد گویا ہوئی۔
’’کمبخت یہ تُو آئن سٹائن کی ماں کہاں سے پیدا ہو گئی ہے ؟‘‘
اُس کے چہرے کی سنجیدگی اور اُس کے انداز اس درجہ ڈرامائی سے تھے کہ پورا ٹولہ بشمول میرے سنجیدہ ہو کر اُس کا چہرہ تکنے لگا۔ دیکھو! دیکھو! اس کی دماغ کی لکیر۔ اُس نے میری ہتھیلی اُن سب کے سامنے پوری طرح کھول دی۔ کیسے مشرق کی انتہا سے شروع ہو کر مغرب کی انتہا میں گھُس گئی ہے۔ صاف سُتھری گہری اور سُرخی سے بھری ہوئی۔
’’ارے گھُنّی کہیں کی؟ تمہیں ہاتھ دیکھنا آتا ہے۔ بتایا کیوں نہیں اب تک ؟ چیختی آوازوں کے ساتھ ایک کے بعد ایک سبھوں کے ہاتھ میری ہتھیلی پر آ گئے۔ میں نے اپنا ہاتھ نیچے سے نکال کر پھر اوپر کر لیا۔
صوفیہ بڑی تیز طرار لڑکی تھی۔ اس کی ابتدائی سکولنگ جرمنی میں ہوئی تھی جہاں اس کا باپ کونسلر تھا۔
’’کمبختو دم تو لو۔ بھئی میرا چھوٹا چچا اس علم کا بڑا ماہر ہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے کی وجہ سے اکثر و بیشتر مجھے اُن سے تھوڑی بہت جانکاری ملتی رہتی ہے۔ وگرنہ مجھے کچھ اتنا آتا واتا نہیں ہے۔ وہ تو اس کی غیر معمولی دماغی لائن نے میری توجہ کھینچ لی تھی۔ ‘‘
اُس نے سبھوں کے ہاتھ دیکھے۔ کیا کیا بتایا اب مجھے یاد نہیں۔ پر میری دماغی لکیر نے اُسے حیرت میں ڈال دیا تھا۔
’’تم سٹوڈنٹ تو کوئی غیر معمولی نہیں ہو۔ پر ایسی لکیر تو جینئیس 1.25 ملین سیل کے حامل لوگوں کے ہاتھوں پر ہی ہوتی ہے۔ ‘‘
سچی بات ہے اُس نے مجھے میری ذات کے ایک پوشیدہ پہلو سے متعلق تحیّر بھرے انکشاف سے دوچار کر دیا تھا۔ اور یہ کیسی عجیب سی بات تھی کہ جب میں اُٹھی مجھے خود میں ایک انفرادیت نما بڑے پن کا احساس ہوا تھا۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے اس علم کو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔
ایک جوانی، شوریدہ سر جذبوں کی فراوانی، اوپر سے کسی خصوصی ٹیلنٹ کی دریافت، آسمان کو تو تُگلی لگانے کو جی مچلتا تھا۔
اب کتابوں کی تلاش تھی۔ اللہ مارے مُنشی عالم اور مُنشی فاضل کی سان پر چڑھے میرے گھرانے میں کتابوں کی یقیناً کوئی کمی نہ تھی۔ چوبی پیٹیوں میں بند کُتب کے خزینوں میں سے اس موضوع پر ایک آدھ نسخے کا مل جانا کوئی مشکل امر نہ تھا۔ ملا۔ پڑھا۔ اپنے ہاتھوں سے موازنے ہوئے۔ بے تکلف رشتہ داروں اور دوستوں پر طبع آزمائی کی۔
پیاس بڑھی۔ اس مخفی علم کے تھوڑے سے اسرار کھُلنے پر ہل من مزید کا مطالبہ ہوا۔ کیرو کی Language of the Hand کے بعد اس علم کی Lover نوئل جیکوئن کی Palmistry Practical تلاش کی۔ کومٹ کو پڑھا۔ مطالعہ نے مجھے بتا دیا تھا کہ میرا ہاتھ قطعی غیر معمولی نہیں۔ بس فنون لطیفہ کی کسی شاخ میں میں تھوڑا بہت نام کما سکتی ہوں۔ فطین لوگوں کی دماغی لکیر کے ساتھ ساتھ بے شمار دیگر علامات کا ہونا ضروری ہے۔
پر اِس انکشاف نے مجھ پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ مجھے چسکہ لگ گیا تھا۔ میری بچتوں کا ایک حصہ میرے اس شوق کی نذر ہونے لگا تھا۔
پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے دہلا دیا۔
یہ جاتی بہاروں کی ہی ایک شام تھی۔ ہم سب ممیری خلیری چچیری بہنیں اپنے آنگن میں آگ پر ہولیں (کچے چنے کے پودے ) بھونتے تھے۔ جب ہماری امّاں گھر میں داخل ہوئیں۔ بلند آہنگ آواز میں ’’ سبحان اللہ، سبحان اللہ‘‘ کہتے ہوئے وہ تیسری بار پھر سبحان اللہ کے ورد کے ساتھ گویا ہوئیں
’’ مولوی صاحب دُلہن بیاہ کر لائے ہیں۔ مانو جیسے سُلفے کی لاٹ ہے۔ کمرے میں بیٹھی جگمگ جگمگ کرتی ہے۔ ‘‘
سیدھی سادی امّاں کے چہرے پر حسن کے سحر سے فسوں خیزی، حیرت زدگی اور خدا کی حُسن تخلیق پر عش عش کرنے کا واضح رد عمل تھا۔ ہمارے محلے کی مسجد کے ادھیڑ عمر مولوی، صاحب علم، صاحب ایمان اور صاحب کردار انسان تھے۔
میں نے کالک میں لُتھڑے اپنے ہاتھ منہ صاف کیے اور ان کے حجرے کی طرف بھاگی۔ ہمارا گھر ایک ایسے محلے میں تھا جہاں گلیاں دو اطراف سے بند ہوتی تھیں۔ درمیان میں کھُلی جگہ کے اطراف میں ساتھ ساتھ جُڑے ہوئے ایسے چھوٹے بڑے گھر تھے جن کے مکینوں میں محبت، پیار، رشک، حسد، نفرت اور لڑائی جھگڑوں کے جذبات کے ساتھ ساتھ کٹوریوں میں سالن کے لین دین بھی بڑے عام تھے۔ ان کی جوان لڑکیاں کدکڑے لگاتیں ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلفانہ آتی جاتیں۔
دہلیز میں میرے قدم جیسے لوہا بن کر مقناطیس کی کسی باڑ پر پڑے اور وہیں چپک گئے۔
سُرخ اوڑھنی میں اُس کے سنہری بالوں میں جیسے آگ سی لگی ہوئی تھی۔ ایسی نشیلی، ہری کچور شفاف بولتی آنکھیں کہ جن میں ڈوب جانے کو جی چاہے۔ رعب حُسن سے میری بولتی کو اگر سانپ سونگھ گیا تھا تو وہیں میرے دماغ میں بھونچال آیا ہوا تھا۔
بچپن کی پڑھی گئی سب کہانیوں کی شہزادیاں اور انگریزی ناولوں کی خوبصورت ہیروئنیں اور پرنسیز دماغ کے کونے کھدروں سے نکل کر چوکڑیاں بھرتے ہوئے اپنے آپ کو موازنے کے لیے پیش کرنے لگیں۔
میں نے سر جھٹکا اور کچھ جاننے کے لیے پاس بیٹھی۔
’’ دور، دور، پہاڑ اور چترال۔ ‘‘
یہ چند الفاظ تھے جو اس کے لعلین لبوں سے نکلے۔
وہ اور مولوی صاحب چترال سے بھی آگے کوئی ساٹھ میل پرے لٹکوہ وادی کے ایک گاؤں سے تھے۔ تھوڑی سی اور شناسائی ہونے پر میں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اُس نے ابھی ٹوٹا پھوٹا بولنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ لہٰذا خیریت رہی۔ باڈی لینگوئج سے اُس نے کچھ جاننے کی کوشش کی پر میں نے ٹرخا دیا۔ عام سا ہاتھ تھا کوئی خاص بات مجھے محسوس نہیں ہوئی تھی۔
جلد ہی اُس کی اُردو خاصی بہتر ہو گئی۔ ہمہ وقت محلّے کی عورتوں سے ربط میں تھی۔ ایک دن ایک خوبصورت جوان لڑکا وہاں بیٹھے دیکھا جو اُس کا چچیرا بھائی تھا۔
’’ا سکا ہاتھ دیکھو۔ ‘‘
جونہی میں چٹائی پر بیٹھی اُس نے لڑکے کا ہاتھ میرے آگے کر دیا۔ میں اُسوقت بائیس تئیس کے ہیر پھیر میں تھی اور میرا پامسٹری کا شوق جنون میں بدل کر مجھے ہمہ وقت پاگل کیے رکھتا۔
میں نے لڑکے کا ہاتھ پکڑا۔ زندگی کی لکیر تو ٹھیک ٹھاک تھی پر حادثاتی موت کی ایک علامت جسے تھوڑے دن پیشتر میں نے کہیں پڑھا تھا وہاں موجود تھی۔
میں اگر اپنے اُس دور کے شب و روز کا محاسبہ کروں تو یقیناً کہوں گی کہ میں احمق نہیں تھی۔ ماہ وسال کے مطابق ذہنی پختگی بھی تھی۔
تو پھر کیا وجہ تھی کہ میں نے چھوٹتے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کی عمر تھوڑی ہے۔ یقیناً اسوقت میں نیم ملا خطرہ ایمان اور نیم حکیم خطرہ جان کی تفسیر بنی ہوئی تھی اور اپنے اُس محدود سے علم کی خود نمائی کے اظہار کے لیے بے قرار تھی۔ پامسٹری کے بنیادی اُصولوں کو بھول گئی تھی۔ میرے حافظے میں اپنی اس درجہ خوفناک بات یوں بے باکی سے کہہ دینے پر اُن دونوں کے چہروں پر پیدا ہونے والے کسی ردعمل کی کوئی واضح تصویر بھی محفوظ نہیں۔
پھر میرا ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا اور میں وہاں چلی گئی۔ اس شوق کا اظہار وہاں بھی کھُل کر ہوا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ابو سعید چوہدری جو بعد میں بنگلہ دیش کے صدر بھی بنے۔ اُن کا اور شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد دونوں کے ہاتھ میں نے دیکھے تھے۔
جب واپس آئی تو اس پری وش سے ملنے گئی۔ باتیں کرتے کرتے دفعتاً وہ رُکی۔ اُس کے لب و لہجے میں دُکھ اور ملال کا عنصر شامل ہو گیا جب وہ بولی تھی۔
تمہیں یاد ہے میرا وہ بھائی جس کا تم نے ہاتھ دیکھا تھا، مر گیا ہے۔
مجھے محسوس ہوا جیسے میرا سانس رُک گیا ہے۔
’’کیسے ‘‘۔ میں ہکلائی۔
’’بس گاڑی چلا رہا تھا۔ ہمارا حد درجہ دشوار گزار علاقہ جہاں آسمان کو چھوتے پہاڑوں کے ساتھ تنگ کچے راستے نیچے گہری گھاٹیاں۔ رگوں میں خون خشک ہوتا ہے ان پر سفر کرتے ہوئے۔ کہیں لڑھکا اور گاڑی سمیت گہرے کھڈوں میں جا گرا۔ ‘‘
جیسے کہیں بم پھٹ جائے اور انسان کی دھجیاں اُڑ جائیں۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ وہاں سے اُٹھی گھر آئی پر کیسے ؟ سارے میں ہا ہا کار مچی ہوئی تھی۔ وجود جیسے ملامتی فرقہ بن گیا تھا اور ضمیر نے طعن و تشنیع کے تیر و تفنگ کے مورچے سنبھال لیے تھے۔ اس اس انداز میں گولہ باری ہوئی کہ میں دنوں کیا ہفتوں نڈھال رہی۔ میرے شوق و جنوں کے سارے منہ زور جذبوں کو جیسے کسی نے لگام سی ڈال دی۔
پھر انہی دنوں زندگی میں بڑی دلچسپ سی تبدیلی آ گئی۔ پہلے منگنی بعد میں شادی کے ہنگاموں نے اس حادثے کی تلخی کو کم کر دیا۔ ایک عجیب سی بات کہ میں نے اپنے شوہر کا ہاتھ دیکھنے کی بالکل کوشش نہیں کی۔ عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کبھی اگر خواہش مچلتی بھی تو لڑکے کی صورت آنکھوں کے سامنے آ کر اُسے گیلا سا کر دیتی۔
بیٹی کی پیدائش نے شب و روز کو بہت مصروف کر دیا۔ دوسرے مہمان کی آمد آمد تھی جب ملک کے نامور دست شناس جناب ایم۔ اے ملک کی کتاب ’’ہاتھ کی زبان‘‘ مارکیٹ میں آئی۔ ملک صاحب سے میرا عقیدت و محبت اور احترام کا رشتہ تھا۔ ہاتھ ہمارے درمیان مشترکہ دلچسپی کا موجب تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ اور اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں میری اُن سے لمبی نشستیں جمتی تھیں۔ کتاب انہوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے بھجوائی۔ اب بھلا مطالعہ کیسے نہ ہوتا؟تفصیلی ہوا۔
اور ایک خوفناک انکشاف نے مجھے لرزا کر رکھ دیا۔
ملک صاحب نے کتاب میں غیر طبعی موت کی آٹھ یا غالباً دس علامات کا ذکر کیا تھا۔ کافی کا مجھے علم تھا پر دو میں نئی دیکھ رہی تھی۔ یونہی میں نے اپنے ہاتھ پر نگاہ ڈالی۔ پل بھر کے لیے مجھے محسوس ہوا جیسے میرے پاؤں مائینز بچھی کسی زمین پر پڑ گئے ہیں اور زبردست قسم کے ایک جان لیوا دھماکے نے مجھے اُٹھا کر منہ کے بل پھینکا ہو۔
میں نے آنکھیں ملیں ہاتھ کو دوبارہ دیکھا۔ میرے ہاتھوں پر اُن میں سے ایک علامت بڑے واضح انداز میں جگمگا رہی تھی۔ میں باہر تیز روشنی میں بھاگی۔ پھر ہاتھ پر نظریں جمائیں۔ ہاتھ کو دیکھا۔ کتاب پر نظریں دوڑائیں۔ آنکھیں مل مل کر دیکھا۔ پھر بھاگی۔ آٹے کے کنستر میں ہاتھ ڈالے۔ پھونک سے فالتو خشک آٹا اُڑا یا۔ اور ہتھیلیوں کو پوری توانائی سے کھول دیا۔ لکیر اور نمایاں ہو گئی تھی۔
یہ صحت کی لکیر تھی۔ پامسٹری کے مطابق صحت کی لکیر اگر دل و دماغ اور قسمت کی لکیروں کو کاٹتی ہوئی زندگی کی لکیر کو چھوتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے تو جس مقام پر یہ زندگی کی لکیر کو کاٹے گی وہی ڈیتھ پوائنٹ ہو گا۔ بے شک لائف لائن کتنی ہی لمبی، صاف سُتھری، گہری اور شوخ کیوں نہ ہو۔
میرے ہاتھ پر میری صحت کی صاف، گہری، شوخ اور لمبی لکیر جس مقام پر میری لائف لائن کو کاٹ رہی تھی پامسٹری کے تعین کردہ وقت کے مطابق وہ پینتیس چالیس سال کا دورانیہ تھا۔
کتابوں کے انبار میں دبی پڑی کیرو اور نوئل جیکوئن کی Secrets of Hand Reading نکالیں۔ یہ علامت اُن میں موجود تھی اور یہ میرے ہاتھ پر بھی موجود تھی۔
میں حیران تھی یہ علامت اس سے پہلے میری نظروں سے کیوں نہیں گزری؟ مجھے اپنی قابلیت کا کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ پر اب میں اس میں اتنی کمزور بھی نہیں تھی۔ مجھے یاد تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں وی سی ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے کسی فنکشن میں آئے تھے۔ فیکلٹی ممبرز اُن کے ساتھ کھڑے تھے جب میں اُن کے پاس گئی۔ میں نے اُن کا ہاتھ پکڑا اور بنگلہ میں کہا۔
’’سر مجھے آپ کا ہاتھ دیکھنا ہے۔ وقت آپ نے بتانا ہے۔ کب آپ کے پاس آؤں ؟‘‘
انہوں نے قدرے حیرت سے مجھے دیکھا۔ اُس وقت میرے تن پر آبی رنگی ٹنگائیل کی خوبصورت ساڑھی تھی۔ شانوں پر گھنے سیاہ بال پڑے تھے اور سانولی رنگت کے ساتھ میں مکمل ایک بنگالی لڑکی نظر آتی تھی۔ میرے ہیڈ سر نے مُسکراتے ہوئے پہلے مجھے اور پھر وی سی ابو سعید چوہدری کو دیکھا اور میرا تعارف ویسٹ پاکستانی سٹوڈنٹ کی حیثیت سے کروایا۔
یونیورسٹی لیول کے اساتذہ اور سٹوڈنٹس کے درمیان ہونے والی لطیف سی چھیڑ چھاڑ اور جُملہ بازی والے ماحول کے درمیان بالآخر میں نے اُنہیں رضا مند کر ہی لیا۔
اُن کے ہاتھ کے پرنٹ لینے اور اُن کے نتائج کے بارے میں تفصیلی بتانے کے عمل میں انہوں نے غایت دلچسپی اور حیرت سے سب کچھ سُنا اور جواباً مسکراتے ہوئے طنزاً کہا۔
’’جو گزرا ہوا بتایا گیا وہ بہت حد تک درست ہے اور جو کل کے بارے میں خوشخبری منتظر ہے اُس کا ویسٹ پاکستان کے ساتھ رہتے ہوئے تو حصول ممکن نہیں۔ ہاں البتہ اگر آزاد ہوئے تو پھر دیکھیں گے۔
ایسے طنز بھرے جملے سننا اور انہیں دُکھی دل کے ساتھ ہضم کرنا اب میرا معمول بن گیا تھا۔ پر جب وہ بنگلہ دیش کے صدر بنے میرا جی چاہا تھا انہیں تار بھیجوں اور پوچھوں کہ انہیں ایک لمحے کے لیے بھی وہ لڑکی یاد آئی تھی جس نے اُنہیں مستقبل قریب میں کوئی بہت اہم ذمہ داری سنبھالنے کی نوید سنائی تھی۔
مارشل لا بھی تھا اور آرمی انٹیلی جنس کے افسر بھی عام کپڑوں میں ملبوس یونیورسٹی کے نواح میں منڈلاتے رہتے۔ پھر بھی شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد رقیہ ہال میں آ گئی تھی۔ میں نے تو اُسے ایک جپھی ڈال کر ہاتھ دیکھنے کی استدعا کی تھی پر اُس نے مجھے تین چار جپھیاں ڈالیں۔ چار چکر میں نے دھان منڈی اُس کی رہائش گاہ کے لگائے اور اُسے بہت سی باتیں بتائیں جن کی آنے والے وقتوں میں تصدیق بھی ہوئی۔ اور جب اُس کا خاندان کٹا مرا۔ اس پر کسی ملال یا دُکھ کی بجائے مجھے اپنے علم کے سچ ثابت ہونے کی خوشی تھی۔
اب ذرا پل بھر کے لیے اس صورت حال کے قلب میں جھانک کر سوچئیے تو سہی۔
گو زندگی کے دُکھ اور تلخیاں بسا اوقات وقت اور ساعتوں کو بہت بوجھل بنا دیتی ہیں پر اس کی خوبصورتیاں، اس کی رعنائیاں ناڑو کی طرح جُڑے اس کے رشتے، ان کی محبتیں، نفرتیں اس کی گہما گہمیاں سب دامن دل کو کھینچتی ہیں۔ خود کو توپ چیز سمجھنے اور بلندیوں پر کمندیں ڈالنے کے عزائم رکھنے والے کو ایکا ایکی احساس ہو کہ زندگی کا پٹاخہ چل گیا ہے اور سارے منصوبوں اور ارادوں کی ہوا سے بھرا ہوا غبارہ موت کی نوکیلی سُول کے ایک ہی ہلیّ سے پچک کر لجلجی شکل میں باقی ہے۔
دو سالہ پیاری سی بیٹی میرے سامنے تھی۔ پیٹ میں ایک نیا وجود کد کڑے لگاتا تھا۔ میرے سامنے نہ شوہر تھا نہ گھر۔ میرے بچے، ماں کے بغیر بچے، جیسے میرا کلیجہ پھٹا اور آنسو یوں بہے جیسے صحت مند بکرے کی گردن پر پوری طاقت سے چھُری چل جائے اور خون کے فوارے اُبل پڑیں۔
دل کا موسم ہی باہر کے سارے موسموں کی جان ہے اس کا صحیح ادراک ہی اب ہوا تھا۔ آسمان کی نیلاہٹیں، درختوں کے ہرے کچور رنگ، پھولوں کی خوشبوئیں، خلقت کی ہماہمی اور نفسا نفسی سب جیسے گھنیری اُداسیوں میں لپٹ گئے تھے۔ ہر چیز کا حُسن ماند اور سب کچھ بے معنی سا ہو گیا تھا۔
سوچا۔ ایم۔ اے ملک کے پاس جاؤں۔ شاید کہیں کوئی نقطہ، کوئی مربع نما نشان، کوئی مدھم سی مثلث، کوئی ستارہ، کوئی مچھلی کا نشان، کوئی تقویت دیتی لائن جو میری نظر سے اوجھل ہو۔ پر جیسے میرا اندر کسی ایسی موہوم امید پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا، کہ طاقتور مائیکروسکوپ نے ہاتھ کے چہرے کا ایک ایک نقش اُجاگر کر رکھا تھا۔
بایں ہمہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ’’شاید‘‘ آس کی ننھی منی کرن کی صورت میں بھی موجود تھا۔
اُن دنوں ایم۔ اے ملک صاحب نے گڑھی شاہو میو روڈ پر ایک کمرشل بلڈنگ خریدی تھی اور وہ شام کو وہیں بیٹھا کرتے تھے۔ آنسو بھل بھل کرتے میری آنکھوں سے بہنے لگے تھے جب میں نے اُنہیں تفصیل سنائی۔
’’ ارے ارے محبت بھرا دلاسہ تھا۔ چلو دیکھتے ہیں۔ گھبراتی کیوں ہو؟‘‘
انہوں نے ہاتھ کا پرنٹ لیا اور تین دن بعد اپنے یونیورسٹی والے گھر میں ہی آنے کا کہا۔ ساتھ میں بچی کو لانے اور شام کی چائے اُن کے ساتھ پینے کی بھی تاکید ہوئی۔
مقر رہ دن میں نے چادر اوڑھی اور اکیلی بس میں بیٹھ ان کے گھر چل دی۔ یہ دن جیسے سُولی پر کٹے تھے۔ چہرہ دنیاداری والی مسکراہٹ اور اندر گھائل، روتا اور بین ڈالتا ہوا۔
پر جب ان کے گیٹ پر کھڑی بیل پر ہاتھ رکھنے ہی والی تھی، کہیں میرے اندر سے آواز آئی۔
اور اگر انہوں نے تمہارے اس خدشے کی تصدیق کر دی تو کیا کرو گی؟، تمہیں خدا پر بھروسہ نہیں کہ وہ تقدیروں کو بدلنے پر قادر ہے۔
میرے اندر جیسے طوفان سا آ گیا۔ گھنٹی بجانے کی بجائے میں یونیورسٹی کی طرف مُڑ گئی۔ پاؤں میں جیسے پہیے سے لگ گئے۔ کسی تنہا گوشے کی تلاش مجھے اُڑائے لیے جا رہی تھی۔ اُن دنوں آج جیسا رش نہیں تھا۔ رہائشی گھروں اور یونیورسٹی کے درمیان ایک سنسان جگہ پر میں ڈھیر ہو گئی تھی۔ کتنی دیر سجدے کی یہ صورت رہی۔ کتنا آہوں اور آنسوؤں کا طوفان بہا۔ یہ سب یاد نہیں۔ ہاں کچھ اگر یاد ہے تو بس اتنا کہ جب ہوش آیا اور سجدے سے سر اُٹھایا تو سرمئی سا اندھیرا فضا پر چھا رہا تھا۔
میں گھر آ گئی تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرے جلتے زخموں پر کسی نے ٹھنڈے ٹھار پھا ہے رکھ دئیے ہیں۔
تین سال تک میں کانٹوں بھری صلیب پر چڑھی رہی۔
تقدیر اٹل ہے۔ لکھا ہوا نہیں ٹلتا۔ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ جیسے الفاظ کہیں پڑھتی یا سُنتی تو جیسے وحشت یوں طاری ہوتی کہ آگ لگ جاتی۔ کوٹھے کے بنیروں کو چھُوتے شعلے جیسے سب کچھ جلا کر خاکستر کرنے پر مائل ہو جاتے۔ گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا۔ باہر نکل جاتی۔ گھر سے دور کسی ویران سے پارک کے کسی کنج میں بیٹھ جاتی۔ نگاہیں فضائے بسیط کی لا محدود وسعتوں کی جانب اُٹھتیں اور میں شکست خوردہ آواز میں اُس سے مخاطب ہوتی۔
’’ٹُنڈا ہے تو۔ لنگا لولا ہے۔ قلم ٹوٹ گیا ہے تیرا۔ سیاہی خشک ہو گئی ہے۔ اتنا مجبور اتنا بے بس۔ کیسا رب ہے تو۔ ایسے مجبور اور بے بس رب کو میں تو نہیں مانتی۔
پھر جیسے دریا میں طُغیانی آ جائے۔ میری آواز گلو گیر ہو جاتی۔ سارے جہاں کی چاہت اور محبت لہجے میں اُمڈ آتی۔ ارے میرا رب تو جہانوں کا بادشاہ، کائنات کا مالک،
لوح و قلم کا وارث۔ میں اُس کے دروازے سے خالی ہاتھ جاؤں۔ نہیں نہیں یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔ میرا سارا وجود جیسے مجسم نفی ہو جاتا۔ مُو مُو میں سے نہیں نہیں کی آوازیں اُٹھتیں۔ سسکیوں سے جسم لرزتا تڑپتا۔ گھنٹوں گزر جاتے۔ پھر جب اُٹھتی تو یہ ضرور کہتی۔
تو نے اگر مجھے زندگی دان پن نہ کی تو یہ تیرے لیے بھی کس قدر شرمندگی کی بات ہو گی؟ پھر دھیرے دھیرے جیسے اُس کا احساس اُس کا خیال میرے اندر کسی وجود کی طرح حلول کرتا گیا۔ میں محفل میں ہوتی اور پل بھر میں غائب ہو جاتی۔ اُس کے پاس پہنچ جاتی۔ یا اُسے اپنے پاس بٹھا لیتی اور اُس سے باتیں شروع ہو جاتیں۔ اُس نے ایک ایسے محبوب کا روپ دھار لیا تھا۔ جو میرے ہر احساس پر حاوی ہو گیا تھا۔
ٹیگور کے گیت۔ حافظ اور اقبال کی شاعری۔ فلمی گانے سبھوں میں میں اُسے فوکس کر لیتی۔ روٹھے ہو کیوں ؟ تم کو کیسے مناؤں پیا؟ بولو نا۔ ٹپ ٹپ آنسو گرتے اور کپکپاتے ہونٹ دُہراتے۔ بولو نا۔ بولو نا۔
باغوں کے ویران کُنجوں سے اُٹھ کر میں وطن کے دور دراز دشوار گزار حصوں کی طرف دوڑنے لگی تھی۔ لکھنا بھی مقصود تھا اور اُسے دیکھنا بھی۔ جی بھر کر اُسے دیکھا، سراہا، نئی جگہوں پر ما تھا زمین پر رکھا، اور خوب لکھا۔
اور وقت دھیرے دھیرے گزرتا گیا۔ میرے بچے بڑے ہوتے گئے۔ میں زندگی کی طرف پوری توانائی سے لوٹی تھی۔ پامسٹری سے متعلق ساری کتابیں میں نے تلف کر دی تھیں۔ ہاتھ دیکھنا بند تھا اور اس تابوت میں آخری کیل میں نے اُس دن ٹھونکی جب میں ایک تقریب میں جناب ایم۔ اے ملک سے ملی۔ وہ آنکھوں کی ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہو کر مہینوں زیر علاج رہے۔ میں نے اُن سے پوچھا تھا۔
’’ملک صاحب اس بیماری سے متعلق کبھی کوئی لکیر آپ نے اپنے ہاتھوں پر دیکھی ہو۔ ‘‘
وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ سوچتے رہے پھر جیسے مدھم سی آواز میں بولے۔
’’کچھ ایسی خاص مجھے نظر نہیں آئی تھی۔ ہاں البتہ آشوٹوش پنڈت اوجہا کی کتاب پر ایک جگہ میں نے نشان دہی کی تھی کہ مجھے اپنے ہاتھ پر ایسی مدھم سی لکیر کا شائبہ پڑتا ہے۔
میرے پاس پنڈت آشوٹوش کی Palmistry for all تھی اور میں نے اُسے پڑھا تھا۔
مجھے رب العالمین کا صحیح مفہوم اور ادراک کینڈی (سری لنکا) کے Tooth Relic، امرتسر کے گولڈن ٹمپل، اسکدار میں یہودیوں کے سیناگاگ(synagogue)، قاہرہ کے شہرہ آفاق Hanging چرچ اور مسلمانوں کے حرم میں جا کر ہوا۔ رب کو اپنی دنیا کے مختلف النوع مذاہب اور نسلوں کی رنگا رنگی بہت محبوب ہے۔ اس کی مخلوق اپنے اپنے دُکھوں اور پریشانیوں کی گٹھڑیاں اپنے مونڈھوں پر دھرے واویلا کرتی، اُسے پکارتی، دُکھڑے سناتی اور اپنی اپنی تعمیر کردہ عبادت گاہوں میں کس کس انداز میں اُسے یاد کرنے اور منانے میں سر گرداں ہے۔
اور صرف وہی اُن کے بہتے آنسوؤں کو پونچھنے، ان کے رستے زخموں پر پھا ہے رکھنے کی قدرت رکھتا ہے کیونکہ وہ سزا وارِ خدائی ہے۔
اور ہاں کہانی کا معجزاتی انجام بھی تو سُن لیجیے کہ میری وہ صاف سیدھی لمبی اور شوخ سی لکیر پہلے درمیان سے ٹوٹی پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں فاصلہ پیدا ہوا۔ آج وہ مجھے بتاتی ہے کہ خدا دعاؤں کا سننے والا ہے اور تقدیر یں بدلنے پر قادر ہے۔
٭٭٭
مکمل کتاب پڑھنے کے لیے ڈاؤن لوڈ کریں
٭٭٭
تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید