فہرست مضامین
- خزاں میرا موسم
- فریاد آذر
- لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسلسل قیامت میں ہیں !
- وسعتِ صحرا کے آگے آسماں چھوٹا لگا
- اُدھر دعا کی سماعتوں کا روایتی آسمان بھی چپ
- یم بہ یم صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا ہوا
- کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں
- اُس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے مجھے
- دل تو بس اپنی امیدوں کا سبب جانتا ہے
- حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا
- صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
- گرمیِ پرواز سے جلتا ہوا پر دیکھتا
- سُراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے
- خدا کا بھی امتحان لینے کی ضد عجب تھی
- کچھ عجب وسعتِ تقدیر نظر آنے لگی
- ہوا کے حکم کی تعمیل ہونے والی ہے
- اس کا حصارِ زیست بھی سادہ ہی کچھ لگا
- صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی
- اپنے ہی معنیٰ کا لفظوں پر اثر کوئی نہیں ہے
- عجیب عزمِ سفر مختصر سی جان میں ہے
- وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
- اک عجب تمثیل کے کردار ہو کر رہ گئے
- گر یہی حال رہا دہر میں زہریلوں کا
- ہوائے شہر یہاں کس طرح چلی بابا
- جبیں پر جس کے میرا نام ہے وہ گھر نہیں پایا
- سیاہ لفظوں بھری داستان کیا دے گا
- نکل بھی جائے وہ اعدا کی گھات سے بچ کر
- جہاں اک خواب تھا لا منظری کا
- نہ جانے شہرِ حقائق نے کیا دکھایا ہے
- محبتوں کا سنہرا جمال دینا تھا
- نہ جانے آگ لگا کر کدھر گئے اپنے
- اب نگاہوں سے شفق منظر جدا ہونے کو ہے
- شرر ذخیرۂ بارود تک پہنچنے کو ہے
- ذہن میں اس کے کھڑکیاں تھیں بہت
- سُنا سُنا کے بہاروں کی داستاں لمحے
- میں جب مصیبت میں برگزیدہ کتا ب دیکھوں
- کہیں لب پہ دعاؤں کا اجارہ ہو نہ جائے
- یوں ہی سہی چلو کوئی رشتہ بنا رہا
- تصورات کی منزل تو دو قدم پر تھی
- شدید غم سے میرا کوئی سلسلہ نہیں ملا
- تپتے صحرا میں سمندر نہیں آنے والا
- دشمنوں میں بھی ادائے دوستانہ ڈھونڈتے ہیں
- حسین شہر کا منظر اُسے بلاتا رہا
- لہجے میں آسمان کی اونچائیاں بھی تھیں
- وہ زندگی کی آخری تسکین لے گئی
- نہ روک پائی مری آستین کی خوشبو
- عظمتِ آدمی کو سمجھا کر
- تھا موم دل تو لوگ ستاتے رہے مجھے
- نگاہِ تشنہ کو تسکینِ اضطراب تو دے
- چھپا رہا تھا مری وحشتوں سے گھر مجھ کو
- اس کی مخالفت کا تو میدان صاف تھا
- بتوں کے شہر میں ایمان لے کے آئی تھی
- شہر آتے ہی وہ بے جھجھک بک گیا
- فریاد آذر
خزاں میرا موسم
فریاد آذر
٭
لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسلسل قیامت میں ہیں !
ہم ازل سے چمکتی ہوئی خواہشوں کی طلسمی حراست میں ہیں
اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت عکس ہے
اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں ہیں یا کہ جنت میں ہیں
تجھ سے بچھڑے تو آغوشِ مادر میں ،پھر پانووں پر ،پھر سفر در سفر
دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت میں ہیں
بس ذرا سا فرشتوں کو بھی سمتِ ممنوعہ کی خواہشیں بخش دے
اور پھر دیکھ یہ تیرے بے لوث بندے بھی کتنی اطاعت میں ہیں
اُس طرف سارے بے فکر اوراق خوش ہیں کہ بس حرفِ آخر ہیں ہم
اِس طرف جانے کتنے مفاہیم پوشیدہ اک ایک آیت میں ہیں
منتظر ہے وہ لمحہ ہمارا، ہمارے سب اعمال نامے لیے
اور ہم بسترِ زندگی پر بڑے ناز سے خوابِ غفلت میں ہیں
٭
پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی ’’مرثیہ میرا‘‘
کہ میرے بعد بھلا اور کون تھا میرا
عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
یہی کہ سانس بھی لینے نہ دے گی اب مجھ کو
زیادہ اور بگاڑے گی کیا ہوا میرا
میں اپنی روح لیے دربدر بھٹکتا رہا
بدن سے دور مکمل وجود تھا میرا
مرے سفر کو تو صدیاں گزر گئیں لیکن
فلک پہ اب بھی ہے قائم نشانِ پا میرا
بس ایک بار ملا تھا مجھے کہیں آزرؔ
بنا گیا وہ مجھی کو مجسمہ میرا
٭
وسعتِ صحرا کے آگے آسماں چھوٹا لگا
دھوپ ایسی تھی کہ سر کو سائباں چھوٹا لگا
لوگ خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے تھے فطرتاً
اور یوں ! قد میرا اُن کے درمیاں چھوٹا لگا
یاس، محرومی، محبت، کرب، خوش فہمی، انا
اتنے ساماں تھے، مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا
جی رہا ہے وعدۂ فردا پہ تیرے اے خدا
ورنہ اس بندے کو تیرا یہ جہاں چھوٹا لگا
ایک اک لمحے کا جب مانگا گیا مجھ سے حساب
جانے کیوں ذہنِ شہنشاہِ زماں چھوٹا لگا
دور سے قطرہ بھی اک دریا نظر آیا مجھے
قربتوں کی زد میں بحرِ بیکراں چھوٹا لگا
٭
اُدھر دعا کی سماعتوں کا روایتی آسمان بھی چپ
اِدھر سسکتے ہوئے لبوں کا برہنہ طرزِ بیان بھی چپ
نہ جانے کن خواہشوں کی شدت کا شور کمرے میں گونجتا تھا
نہ جانے کیا کہہ گئی ہوا، ہو گیا وہ خالی مکان بھی چپ
نئی رُتوں نے ہوا کی رَو سے نہ جانے کیا ساز باز کر لی
کہ سبز صدیوں سے گونجتی آ رہی ندائے اذان بھی چپ
کہیں کوئی سر پھری ندا پردۂ سماعت بھی نوچ ڈالے
مگر کہیں دہشتِ سماعت سے احتجاجی زبان بھی چپ
پکارتا تھا پناہ لے لے کوئی بھی سائے میں میرے آزرؔ
تھی دھوپ ایسی ہمارے سر پر کہ ہو گیا سائباں بھی چپ
٭
یم بہ یم صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا ہوا
آتشِ نمرود میں سارا جہاں جلتا ہوا
پانو کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتا ہوا
نوح ؑ کی امت ہے کاغذ کی سبک کشتی میں اور
خواہشوں کا ایک بحرِ بیکراں جلتا ہوا
ایک جانب یاس کی سرحد سے لپٹا شہرِ کفر
دوسری جانب امیدوں کا جہاں جلتا ہوا
سارے منظر ایک پس منظر میں گم ہوتے ہوئے
سبز لمحوں کا سنہرا کارواں جلتا ہوا
جسم سے باہر سنہرے موسموں کا سبز لمس
روح کے اندر کوئی آتش فشاں جلتا ہوا
٭
کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں
مگر وہ بول پڑا تھا خدا کے لہجے میں
زمین پھر اسی مرکز پہ جلد آ جائے
ندائے ’’کُن‘‘ میں سنوں ابتدا کے لہجے میں
پرندے لوہے کے، کنکر بموں کے پھینکتے ہیں
عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہہ کے لہجے میں
قدم ادھر ہی اٹھے جا رہے ہیں جس جانب
سموم بول رہی ہے صبا کے لہجے میں
کشش تو چاند سے کچھ کم نہیں ہے اس میں بھی
مگر وہ ملتا ہے اکثر خلا کے لہجے میں
نئی ہواؤں کی یلغار سے نمٹنے کو۔!
میں زہر پینے لگا ہوں دوا کے لہجے میں
٭
اُس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے مجھے
دھوپ خود ساختہ دیوار کا سایہ ہے مجھے
پہلے مٹی کو ہواؤں کے کرم پر چھوڑا۔!
اور پھر آگ کے دریا میں گرایا ہے مجھے
کیوں مری روح ہوئی جاتی ہے چھلنی چھلنی
کس لئے کربِ فلسطین بنایا ہے مجھے
مجھ کو بپھرے ہوئے دریاؤں کی لہروں میں نہ ڈھونڈ
مجھ سے ٹھہرے ہوئے پانی نے چرا یا ہے مجھے
بارہا بہکے مرے کردہ ثوابوں کے قدم
بارہا میرے گناہوں نے بچایا ہے مجھے
پھر ہواؤں پہ وہی نقشِ صدا ہے آزرؔ
پھر سرابوں کے سمندر نے بلایا ہے مجھے
٭
دل تو بس اپنی امیدوں کا سبب جانتا ہے
ذہن کو کیسے میں سمجھاؤں کہ سب جانتا ہے
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا۔!
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
وہ یہاں ندیاں بہا سکتا ہے لیکن خوں کی
اُس کو ہر رنگ میں صحرائے عرب جانتا ہے
بے بسی سے مِری، بے حِس نہ سمجھ لینا مجھے
دل میں وہ لاوا اُبلتا ہے کہ رب جانتا ہے
شاخ ہلنے پہ بھی کوئی نہ اُڑا پیڑوں سے
وہ پرندوں سے ملاقات کے ڈھب جانتا ہے
ہم نے نقاد کی اس درجہ پذیرائی کی
آج وہ خود کو مسیحائے ادب جانتا ہے
٭
حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا
میں وہ زمین جس کا کوئی آسماں نہ تھا
سب میں کرائے داروں کے پائے گیے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
بچپن کے ساتھ ہو گیے بوڑھے تمام ذہن
ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا
چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر
خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا
لذت نہ مل سکی مری تخئیل کو کبھی
ورنہ مرے گناہ کا موسم کہاں نہ تھا
سب اُس کو پڑھ سکیں یہ ضروری نہ تھا مگر
تھا کون جسم جس کی اداؤں میں ہاں نہ تھا
ہر زاویے سے بول چکے تھے مرے بزرگ
باقی مرے لیے کوئی طرزِ بیاں نہ تھا
ان خواہشوں کی چھاؤں میں گزری تمام عمر
جن خواہشوں کے سر پہ کوئی سائباں نہ تھا
٭
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
ایک لمحہ بھی ٹھہرتا نہیں لمحہ کوئی
پیش منظر پسِ منظر میں بدل جاتا ہے
نقش ابھرتا ہے امیدوں کا فلک پر کوئی
اور پھر دھند کی چادر میں بدل جاتا ہے
بند ہو جاتا ہے کوزے میں کبھی دریا بھی
اور کبھی قطرہ سمندر میں بدل جاتا ہے
اپنے مفہوم پہ پڑتی نظر جب اس کی
لفظ اچانک بتِ ششدر میں بدل جاتا ہے
٭
گرمیِ پرواز سے جلتا ہوا پر دیکھتا
گر فرشتہ رفعتِ انساں تک اڑ کر دیکھتا
سب کی آنکھیں رکھّی تھیں گِروی، مرے دشمن کے پاس
کون میرے گھر کی بربادی کا منظر دیکھتا
زہر کا رنگ اس کے بھی ہو جاتا حیرت سے سفید
گر کبھی نیلا سراپا میرا، شنکر دیکھتا
لے ہی آئی کھینچ کر آدم کو شہروں کی کشش
آخرش کب تک کوئی صحرا سمندر دیکھتا
اجنبی آندھی مجھے ساحل سے لے کر اُڑ گئی
ورنہ میں بھی آگ کے دریا میں جل کر دیکھتا
کیوں ترے لب پر قصیدے ہیں مرے کردار کے
میری خواہش تھی ترے ہاتھوں میں پتھر دیکھتا
٭
سُراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے
یہ کون چھپ گیا صحراؤں میں بُلا کے مجھے
میں اس کی باتوں میں غم اپنا بھُول جاتا مگر
وہ شخص رونے لگا خود ہنسا ہنسا کے مجھے
اسے یقین کہ میں جان دے نہ پاؤں گا
مجھے یہ خوف کہ روئے گا آزما کے مجھے
جو اپنے لوگوں میں میری ہنسی اڑاتا رہا
قریب آیا تو رویا گلے لگا کے مجھے
میں اپنی قبر میں محوِ عذاب تھا لیکن
زمانہ خوش ہوا دیواروں پر سجا کے مجھے
یہاں کسی کو کوئی پوچھتا نہیں آزرؔ
کہاں پہ لائی ہے اندھی ہوا اڑا کے مجھے
٭
خدا کا بھی امتحان لینے کی ضد عجب تھی
بچھڑ کے اس سے دعا کے لہجے کی ضد عجب تھی
ہوائے شفقت چھُری بھی والد سے چھین لیتی
پہ سبز موسم کے ایک بیٹے کی ضد عجب تھی
کھلونا ایسا جو گھر کے بوڑھوں کے کام آئے
نئی نظر کے غریب بچے کی ضد عجب تھی
یوں کوئی شاید مزاج ہی پوچھ لے ہمارا
مسرتوں میں اداس رہنے کی ضد عجب تھی
میں جس کی خاطر نماز پڑھتا رہا ہمیشہ
اُسے دعاؤں میں بھول جانے کی ضد عجب تھی
بس ایک لمحے کی مَوت اچھی بھلی تھی آزرؔ
مگر تجھے قسط قسط مرنے کی ضد عجب تھی
٭
کچھ عجب وسعتِ تقدیر نظر آنے لگی
خواب سے پہلے ہی تعبیر نظر آنے لگی
پھر میں سچ بولنے والا ہوں یزیدوں کے خلاف
پھر مرے سر پہ وہ شمشیر نظر آنے لگی
پھر مجھے رقص کے احکام ملیں گے شاید
پھر مرے پاؤں میں زنجیر نظر آنے لگی
ناؤ کاغذ کی لیے کود پڑے اہلِ جنوں
آگ دریا میں وہ تحریر نظر آنے لگی
تجھ سے بچھڑے تو عجب حال ہوا دل کا مگر
شخصیت اور ہمہ گیر نظر آنے لگی
جانے کس سمت سے آئی تھی ہوائے سازش
آگ میں وادیِ کشمیر نظر آنے لگی
٭
ہوا کے حکم کی تعمیل ہونے والی ہے
گل احتجاج کی قندیل ہونے والی ہے
زمیں پہ آمدِ جبریل ختم ہو بھی چکی
ندائے صورِ سرافیل ہونے والی ہے
ہزاروں ابرہہ لشکر سجا رہے ہیں تو کیا
ہوائے سبز ابابیل ہونے والی ہے
میں تھک چکا بھی ہوں اور آخری صدا میری
انہیں خلاؤں میں تحلیل ہونے والی ہے
اِک ایک کر کے گرے جا رہے ہیں سارے درخت
دعا سے خالی یہ زنبیل ہونے والی ہے
ذرا سی دیر میں دیوارِ قہقہہ آزرؔ
فصیل گریہ میں تبدیل ہونے والی ہے
٭
اس کا حصارِ زیست بھی سادہ ہی کچھ لگا
وہ شخص مجھ سے اور زیادہ ہی کچھ لگا
شہرِ جدید دل کو بھلا پوچھتا ہے کب
ہاں ذہن اس کا سب کو کشادہ ہی کچھ لگا
بس اس لیے سفر میں رہا میں تمام عمر
منزل سے پرکشش مجھے جادہ ہی کچھ لگا
سب لوگ خوش تھے حبس کی مدت گزر گئی
لیکن ہوا کا اور ارادہ ہی کچھ لگا
سب اُس کو بے وقوف سمجھتے رہے مگر
وہ عقل مند مجھ کو زیادہ ہی کچھ لگا
ہر چند گام بعد اترنا پڑا اُسے
وہ شہسوار ہم کو پیادہ ہی کچھ لگا
٭
صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی
تنہا ئی اتہاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی دنیا چھینی جائے گی ہم سے
مجبوری سنیاس لکھے گی اب کے برس بھی
آس کے سورج کو لمحہ لمحہ ڈھونڈیں گے
اور تاریکی یاس لکھے گی اب کے برس بھی
پہلے بھی دریا دریا برسی تھی برکھا
صحرا صحرا پیاس لکھے گی اب کے برس بھی
جس میں وِش کا واس ہوا کرتا ہے آزرؔ
جان وہی وِشواس لکھے گی اب کے برس بھی
٭
اپنے ہی معنیٰ کا لفظوں پر اثر کوئی نہیں ہے
مستند کتنے بھی ہوں اب معتبر کوئی نہیں ہے
کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا
سب سفر میں ہیں ، کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے
آخرش کب تک مکانوں میں مجھے رہنا پڑے گا
کیا مرے ہاتھوں کی ریکھاؤں میں گھر کوئی نہیں ہے
کس کی خاطر اوڑھ رکّھی ہے ردائے انتظاراں
اس نئی رُت میں کسی کا منتَظر کوئی نہیں ہے
گل نظر آتا نہیں تو نرگسِ بے نور ہے کیا
اہلِ دیدہ ہیں یہاں سب، دیدہ ور کوئی نہیں ہے
صبر کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے آزرؔ وگرنہ
ان درختوں پر مری خاطر ثمر کوئی نہیں ہے
٭
عجیب عزمِ سفر مختصر سی جان میں ہے
لہولہان ہے پنچھی مگر اڑان میں ہے
بچاؤں لاکھ مگر بھیگ بھیگ سا جائے
وہ ایک عکس جو پلکوں کے سائبان میں ہے
چراغِ آرزو بجھنے بھی تو نہیں دیتا
وہ ایک آس کا پنچھی جو آسمان میں ہے
نحیف پھولوں میں باقی ہے رس ابھی شاید
کہ تتلیوں کا ٹھکانا ابھی بھی لان میں ہے
ذرا سا لمس اُسے چُور چُور کر دے گا
وہ ایک شیشہ بدن مرمریں مکان میں ہے
اب اس جبیں کو سند ہائے کامیابی دے
ازل سے بیکراں سجدوں کے امتحان میں ہے
٭
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں
تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
تمام قرض ادا کر کے ’ساہُکاروں‘ کا
بچا ہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں
ہر ایک شخص سناتا ہے نت نئے ڈھب سے
بدل نہ جائے مری داستان قسطوں میں
ہم ایک ساتھ نہیں کرتے گھر کی آرائش
ہم ایسے لوگ بڑھاتے ہیں شان قسطوں میں
بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں
بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں
ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف
مٹا رہے ہیں سنہری زبان قسطوں میں
یہ کیا ہوا کہ بڑھاپا اچانک آ پہنچا
ہمارے بچے ہوئے تھے جوان قسطوں میں
اگر ہماری یہی بے حسی رہی آزرؔ
مٹا ہی دے گا وہ نام و نشان قسطوں میں
٭
اب مناظر جنگلوں کے بھی ڈسیلے ہو گئے
مبتلا جدت پرستی میں قبیلے ہو گئے
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
خواب کی راہوں میں حائل تھیں ہوا کی سرحدیں
راستے لیکن خلاؤں کے وسیلے ہو گئے
یہ قیامت کی علامت ہے یا کوئی انقلاب
سبز پیڑوں کے ہرے پتے بھی نیلے ہو گئے
جانے اس کے جسم میں کن موسموں کا زہر تھا
جس کو چھوتے ہی ہوا کے ہاتھ نیلے ہو گئے
ورنہ وہ تو میرے دامن سے لپٹ جانے کو تھا
وہ تو کہئے کچھ نئے حالات، حیلے ہو گئے
٭
اک عجب تمثیل کے کردار ہو کر رہ گئے
ہم خود اپنی راہ کی دیوار ہو کر رہ گئے
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اُس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے
کربلائے وقت کے میدان سے مفرور لوگ
خاندانی غازیِ گفتار ہو کر رہ گئے
دوریاں نزدیکیوں میں ہو گئیں تبدیل جب
جس قدر مشتاق تھے بیزار ہو کر رہ گئے
جیتنے نکلے تھے آزرؔ دشمنِ امت کا دل
دشمنوں کے ہاتھ کی تلوار ہو کر رہ گئے
٭
بند دریا سے بھی برداشت کہاں تک ہو گا
اب کے سیلاب جو آیا تو بھیانک ہو گا
وہ وفادارِ وطن ہے یہ سبھی مانتے ہیں
بے وفائی بھی کرے گا تو کسے شک ہو گا
اُس کے سینے میں سلگتی ہوئی نفرت ہو گی
اُس کے ہونٹوں پہ مگر عید مبارک ہو گا
پہلے چن چن کے جلا دیں گے ہمیں فرقہ پرست
دیر تک شہر میں پھر امن کا ناٹک ہو گا
ہم سے ہمدردیاں کی جائیں گی دن بھر آزرؔ
اور پھر ہم پہ ہی شب خون اچانک ہو گا
٭
گر یہی حال رہا دہر میں زہریلوں کا
پھر اتر آئے گا لشکر بھی ابابیلوں کا
ایک چنگاری فضاؤں کو خلا کر دے گی
خشک ہونے کو ہے پانی بھی ہَوا جھیلوں کا
سبز لمحات سے جب ہو گی ملاقات اُس کی
خود پہ روئے گا بہت عہد مِزائیلوں کا
کوئی ہابیل صفت شخص نہ بچنے پائے
یہ ہے اعلان مرے شہر کے قابیلوں کا
کیوں بلائیں مرا گھر چھوڑ کے جاتی ہی نہیں
ختم کیوں ہوتا نہیں سلسلہ تاویلوں کا
٭
’’خزاں محور‘‘ سے ہٹتا جا رہا ہوں
میں شاید خود سے کٹتا جا رہا ہوں
صدی بننے کی خواہش کا بُرا ہو
میں لمحوں میں سمٹتا جا رہا ہوں
سبھی وارث ہیں دعوے دار میرے
میں اب حصوں میں بٹتا جا رہا ہوں
مری توقیر بڑھتی جا رہی ہے
مگر میں ہوں کہ گھٹتا جا رہا ہوں
تعاقب میں مرے ،سورج ہے اور میں
اندھیروں سے لپٹتا جا رہا ہوں
٭
ہوائے شہر یہاں کس طرح چلی بابا
کہ گانو جلنے لگا ہے گلی گلی بابا!
درخت کیوں ہیں سراسیمگی کے عالم میں
مچی ہے کیسی پرندوں میں کھلبلی بابا
نہ جانے کیسا بچھا یا تھا جال چوروں نے
کہ آج پھنس گیا سِم سِم میں خود علی بابا
یہ رات یوں بھی ہمیں جاگ کر گزارنی ہے
کہانی کوئی سناؤ بری بھلی بابا
یہاں تو سر ہی نہیں سارا شہر زد میں ہے
ہے کیسی فرقہ پرستی کی اوکھلی بابا
حنائی روح چتاؤں کے پاس گھومتی ہے
یہ کس کا جسم جلا آج صندلی بابا
٭
جبیں پر جس کے میرا نام ہے وہ گھر نہیں پایا
مری آنکھوں نے اب تک خواب کا منظر نہیں پایا
سبھی کو زہر اپنے اپنے حصے کا پڑا پینا
نئی تہذیب نے شاید کوئی شنکر نہیں پایا
شگفتہ جسم سے اُس نے بجھا لی پیاس اندھیرے میں
جب اس کا ہاتھ شانے تک گیا تو سر نہیں پایا
ابھی سے جانے کیوں شاہین گھبرانے لگا مجھ سے
مری پرواز نے اب تک کوئی شہپر نہیں پایا
تمہاری بے حسی سے روٹھ کر سوچا تھا مر جاؤں
میں شرمندہ بہت ہوں شاید اب تک مر نہیں پایا
بہت اکتا کے آیا تھا وہ خالی پن سے اندر کے
جو دیکھا غور سے اس نے تو کچھ باہر نہیں پایا
وگرنہ تم مرے ہمدردوں میں شامل نہیں ہوتے
تمہارے ہاتھ نے شاید کوئی پتھر نہیں پایا
یہاں کے پتھروں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے
تمہارے شہر نے شاید کوئی آزرؔ نہیں پایا
٭
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا
نہ جانے کون سی ادا بُری لگی تھی روح کو
بدن کا پھر تمام کھیل کود ختم ہو گیا
معاہدے ضمیر سے تو کر لئے گیے مگر
مسرتوں کا دورۂ وفود ختم ہو گیا
بدن کی آستین میں یہ روح سانپ بن گئی
وجود کا یقیں ہوا، وجود ختم ہو گیا
بس اک نگاہ ڈال کر میں چھپ گیا خلاؤں میں
پھر اس کے بعد برف کا جمود ختم ہو گیا
مجاز کا سنہرا حُسن چھا گیا نگاہ پر
کھلی جو آنکھ جلوۂ شہود ختم ہو گیا
٭
سیاہ لفظوں بھری داستان کیا دے گا
مرے خلاف وہ مجھ سا بیان کیا دے گا
ہے طاری سینے میں تاریخی مسجدوں کا سکوت
یہاں پہ کوئی مسافر اذان کیا دے گا
مرے گناہوں پہ رحم آ ہی جائے گا اس کو
عذاب وہ مرے شایانِ شان کیا دے گا
جو خود محل سے نہ نکلے محافظوں کے بغیر
وہ سارے شہر کو امن و امان کیا دے گا
مجھے یقین ہے زندہ رہے گا آزرؔ بھی
کوئی کسی کی محبت میں جان کیا دے گا
٭
نکل بھی جائے وہ اعدا کی گھات سے بچ کر
نہ جا سکے گا کہیں اپنی ذات سے بچ کر
یہاں فرار کی راہیں تو ہیں مگر مسدود
کہاں کو جائے کوئی کائنات سے بچ کر
تمام عمر بس اپنے بدن میں قید رہے
عجب ملال رہا حادثات سے بچ کر
عذاب راہوں سے بچنا یہاں نہیں ممکن
کہاں ہم آ گئے شہرِ نجات سے بچ کر
ہمیشہ مشکلیں رہتیں مرے تعاقب میں
میں بھاگ جاتا اگر مشکلات سے بچ کر
٭
جہاں اک خواب تھا لا منظری کا
ہر اک منظر ملا لا منظری کا
مناظر کم نگاہی کے ہیں شاکی
نگاہوں کو گِلہ لا منظری کا
کوئی منظر نہیں اس روشنی میں
بجھا دو یہ دیا لا منظری کا
مری آنکھیں تحیّر ڈھونڈتی ہیں
کوئی منظر دکھا لا منظری کا
نظر مجھ پر کوئی ٹھہرے تو کیوں کر
مجھے چہرہ ملا لا منظری کا
اسے سب دیکھ کر حیران کیوں ہیں
یہ ہے ہی آئینہ لا منظری کا
٭
نہ جانے شہرِ حقائق نے کیا دکھایا ہے
وہ پھر سے خواب جزیرے پہ لوٹ آیا ہے
وہ مر نہ جائے گناہوں کے بوجھ سے دب کر
تمام نیکیاں دریا میں ڈال آیا ہے
ہوا وجود مٹا دے گی ایک لمحے میں
یہ کس نے پھوس کے گھر میں دیا جلایا ہے
نہ جانے کس کے تصور میں جی رہی ہو گی
خدا نے جس کو مرے واسطے بنایا ہے
درخت اس نے سبھی کاٹ تو دیے لیکن
مرے بدن پہ ابھی میرے سرکا سایہ ہے
اسی غرور میں ہم بھی بہک گیے آزرؔ
کہ اپنے آگے فرشتوں نے سر جھکایا ہے
٭
محبتوں کا سنہرا جمال دینا تھا
ہمارے عہد کو ماضی سا حال دینا تھا
یہ کیا کِیا کہ فقط آسماں سے پھینک دیا
ہمیں عروج کی حد تک زوال دینا تھا
تری طرح میں اکیلا تو رہ نہیں سکتا
مجھے جہاں میں کوئی ہم خیال دینا تھا
فریب دیتا رہا ہے جو لفظ صدیوں سے
اُسے لغات سے باہر نکال دینا تھا
تمام عمر انہیں خواہشوں کے ساتھ رہے
کہ جن کو وقت کے ہمراہ ٹال دینا تھا
جو ساری نیکیاں دریا میں ڈال آئے ہو
تو پھر گناہ سمندر میں ڈال دینا تھا
٭
نہ جانے آگ لگا کر کدھر گئے اپنے
لگے بجھانے کہ ہمسایے ڈر گیے اپنے
میں اپنی لاش کو تنہا ہی دفن کر لوں گا
کہ تم بھی جاؤ، سبھی لوگ گھر گیے اپنے
زمانے والے اِسے خود کشی سمجھتے رہے
مری چھُری سے مرا قتل کر گیے اپنے
نئے زمانے کے بچے بڑوں سے کہنے لگے
خوشی مناؤ تمہیں ، دن گزر گیے اپنے
یہ روزگار کی آندھی عجیب آندھی ہے
ذرا سی تیز ہوئی تھی بکھر گیے اپنے
نہ کوئی دوست، نہ ساتھی نہ کوئی رشتہ دار
غریب کیا ہوئے سب لوگ مر گیے اپنے
٭
(پاکستانی ادب دوست سفارت کار محبوبؔ ظفر کی ہندوستان سے رخصتی پر)
اب نگاہوں سے شفق منظر جدا ہونے کو ہے
شانۂ جاں سے ہمارے، سر جدا ہونے کو ہے
پھر ہمارے شہر پر آنے کو ہے شاید عذاب
امن کا اک اور پیغمبر جدا ہونے کو ہے
اب تمازت دھوپ فوجوں کی جلا دے گی ہمیں
سبز سایوں کا حسیں لشکر جدا ہونے کو ہے
اب تو بس اپنے بدن ہی میں رہیں گے قید ہم
اب فصیلِ دوستاں سے در جدا ہونے کو ہے
ذوقؔ اب دلّی کی گلیوں میں بھلا رکّھا ہے کیا
شہر سے وہ دلربا پیکر جدا ہونے کو ہے
جو دلوں میں گھر بنا لیتا ہے بس اک آن میں
ہم سے اب وہ شوخ جادوگر جدا ہونے کو ہے
کس قدر گم سم ہیں آزرؔ ساری شاخیں اور طیور
اک پرندہ پیڑ سے اڑ کر جدا ہونے کو ہے
٭
شرر ذخیرۂ بارود تک پہنچنے کو ہے
اب آگ خانۂ نمرود تک پہنچنے کو ہے
ہے جس پہ لکّھا ہوا لا الٰہ الا اللہ
وہ ہاتھ گردنِ مردود تک پہنچنے کو ہے
جو رِستا رہتا ہے ناسورِ جسمِ فردا سے
وہ زہر لمحۂ موجود تک پہنچنے کو ہے
جہاں سے کوئی کہیں راستہ نہیں جاتا
دل ایسی وادیِ مسدود تک پہنچنے کو ہے
گناہ لمحوں کے چہرے بتا رہے ہیں کہ اب
یہ دنیا ’’نیست سے نابود‘‘ تک پہنچنے کو ہے
اگر نہ بیچ میں حائل ہوئے مرے اعمال
تو پھر دعا مرے معبود تک پہنچنے کو ہے
٭
اُس سے نالاں تھے ’’فرشتے‘‘ وہ خفا کس سے تھا
اختلاف اس کا خداؤں کے سوا کس سے تھا
یوں تو محفوظ رہے ذہن میں لاکھوں الفاظ
یا د آیا نہیں دروازہ کھلا کس سے تھا
میرے بارے میں بڑی رائے غلط تھی اُس کی
جانے وہ میرے تصور میں ملا کس سے تھا
جانے تا عمر اُسے کس نے اکیلا رکھا
جانے اس شخص کا پیمانِ وفا کس سے تھا
وہ اگر دور تھا مجھ سے، تو تھی قربت کس سے
وہ مرے پاس اگر تھا تو جدا کس سے تھا
لاکھ شکوہ ہو سماعت کو صدا سے آزرؔ
روکتا کو ن کسے، کوئی رُکا کس سے تھا
٭
ذہن میں اس کے کھڑکیاں تھیں بہت
پر فضاؤں میں آندھیاں تھیں بہت
وہ کسی طور بھی نہ کھُل پایا۔
میری باتوں میں چابیاں تھیں بہت
مسکراتی تھیں ساری دیواریں
اور گھر میں اداسیاں تھیں بہت
تیری سیرت پسند تھی ورنہ
تیری صورت کی لڑکیاں تھیں بہت
خامشی اس کی جان لیوا تھی
اور باتوں میں تلخیاں تھیں بہت
بس نگاہوں سے گر گیا آزرؔ
ورنہ اُس میں بھی خوبیاں تھیں بہت
٭
سُنا سُنا کے بہاروں کی داستاں لمحے
مرے وجود میں حل ہو گئے خزاں لمحے
میں آفتاب کی صورت چمک اٹھا ورنہ
چراغ لے کے مجھے ڈھونڈتے کہاں لمحے
وہ میری روح کی تہہ میں نماز پڑھتا رہا
اور اس کے جسم میں دیتے رہے اذاں لمحے
مجھے زمیں کی کشش نے کہیں نہ جانے دیا
صدائیں دیتے رہے لاکھ آسماں لمحے
تمام عمر چراتے رہے نظر مجھ سے
مرے مزاج کے صحرا میں سائباں لمحے
٭
میں جب مصیبت میں برگزیدہ کتا ب دیکھوں
تو اپنی ہی زندگی کا بدلا نصاب دیکھوں
مرے خدا میں کبھی نہ پھر ایسا خواب دیکھوں
کہ ننّھی کلیوں کی پنکھڑی بے حجاب دیکھوں
نظر بچاؤں تو اور بھی بد نما ہو منظر
نظر اٹھاؤں تو چاروں جانب عذاب دیکھوں
الٰہی میرے قلم کو وہ قوّتیں عطا کر
کہ میں فلک پر سوال لکّھوں ، جواب دیکھوں
کبھی تو مظلومیت کو بھی کچھ ملے سہارا
کبھی تو ان ظالموں کا خانہ خراب دیکھوں
٭
کہیں لب پہ دعاؤں کا اجارہ ہو نہ جائے
مجھے ڈر ہے علامت استعارہ ہو نہ جائے
فضاؤں میں دھوئیں کے گیند کھیلے جا رہے ہیں
اسی بازی میں گم ماحول سارا ہو نہ جائے
وگرنہ جنگ کا یہ لطف بھی جاتا رہے گا
اِکائی دشمنوں کی پارہ پارہ ہو نہ جائے
ابھی تو دیکھنا ہے سارا پس منظر خلا کا
نگاہِ جستجو صرفِ نظارہ ہو نہ جائے
وہی اک بات جو اس کو بتانا چاہتا ہوں
وہی اک بات اس پر آشکارا ہو نہ جائے
اجل کا سامنا تو کیسے کر پائے گا آزرؔ
تجھے یہ زندگی یوں ہی گوارہ ہو نہ جائے
٭
یوں ہی سہی چلو کوئی رشتہ بنا رہا
قائم تمام عمر اگر فاصلہ رہا
سب اپنی اپنی منزلِ مقصود پا گئے
کربِ انا لیے میں فقط سوچتا رہا
پھر یوں ہوا کہ میں نے اسے بھی پناہ دی
صدیوں جو میری جان کا دشمن بنا رہا
اک سِلسلہ بنا رہا یوں ہی تمام عمر
جو لمحہ میرے ساتھ رہا سانحہ رہا
میں بھی نکل نہ پایا تکلف کے دور سے
وہ بھی بڑے ادب سے مجھے چاہتا رہا
٭
تصورات کی منزل تو دو قدم پر تھی
مری انا ہی مرے راستے کا پتھر تھی
کسے خبر تھی نہیں ہے کوئی وجود اس کا
وہ ایک شے جو مری جستجو کا محور تھی
خدا ہی جانے وہ منزل تھی یا سراب کوئی
تمام عمر مسافت مرا مقدر تھی
نہ جانے کیوں میں سناتا تھا بار بار اُسے
وہ ایک بات جو اس کی سمجھ سے باہر تھی
مرے کلام نے آخر جھنجھوڑ ڈالا اُسے
مری غزل ہی مرا آخری پیمبر تھی
خموش، اُداس بلا کی حسیں مگر بے حس
وہ بنتِ حوّا تھی یا شاہکارِ آزرؔ تھی
٭
پھر مفاہیم میں الفاظ کے وسعت آ جائے
کاش ایسا ہو کہ پھر عہدِ رسالت آ جائے
فاصلہ ساتھ نبھانے کو ہے لازم ورنہ
سورج آ جائے زمیں پر تو قیامت آ جائے
پھر نہیں خوف کوئی دونوں بڑے دیووں سے
سبز گلفاموں کو گر تھوڑی سیاست آ جائے
اتنے شل ہیں کہ نہیں اٹھتے دعاؤں کے لیے
کچھ تو یا رب مرے ہاتھوں میں حرارت آ جائے
علم کے بدلے جو کچھ سیکھ رہے ہیں بچے
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ پھر عہدِ جہالت آ جائے
٭
شدید غم سے میرا کوئی سلسلہ نہیں ملا
یہی سبب ہے غالباً مجھے خدا نہیں ملا
پیمبرانِ شاعری کی صف میں ہم بھی ہیں مگر
یہ اور بات ہے کہ کوئی معجزہ نہیں ملا
کہاں سے دیکھتا میں تیرے خوبرو جہان کو
ہزار خواہشیں تھیں کوئی زاویہ نہیں ملا
زمین گھر چکی تھی سرد آگ کی لپیٹ میں
جہاں سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا
سماعتوں پہ اپنی سب کو اعتماد تھا مگر
کسی کو اجنبی صدا کا نقشِ پا نہیں ملا
حصارِ کائنات سے نکل کے ڈھونڈتے تجھے
مگر خلا سے آگے کوئی راستہ نہیں ملا
٭
تپتے صحرا میں سمندر نہیں آنے والا
اب یہاں کوئی پیمبر نہیں آنے والا
اپنی آنکھوں کو رکھو پشت کی جانب اپنی
سامنے سے کوئی خنجر نہیں آنے والا
زہر پینا ہی پڑے گا ہمیں اپنا اپنا
اب کوئی دوسرا شنکر نہیں آنے والا
لاکھ دہرائے یہ تاریخ خود اپنے کو مگر
وہ حسیں دور پلٹ کر نہیں آنے والا
ہم تو یک طرفہ محبت کے ہیں قائل آزرؔ
چاند تو یوں بھی زمیں پر نہیں آنے والا
٭
دشمنوں میں بھی ادائے دوستانہ ڈھونڈتے ہیں
ہم سے بزدل یوں بھی جینے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں
اے زمیں تیری کشش کیوں اس قدر کم ہو گئی ہے
دوسرے سیاروں پر ہم آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں
جو حدِ امکان سے بھی دور ہوتا جا رہا ہے
ہم وہی کھویا ہوا زرّیں زمانہ ڈھونڈتے ہیں
بے حسی سی ہر گھڑی کیوں ہم پہ ہو جاتی ہے طاری
ہر گھڑی کیوں وقت کا اک تازیانہ ڈھونڈتے ہیں
جب کوئی چہرہ ہمارے خواب میں آیا نہیں تھا
اپنی تنہائی کا وہ رنگیں زمانہ ڈھونڈتے ہیں
٭
حسین شہر کا منظر اُسے بلاتا رہا
مگر وہ شخص ہرے جنگلوں میں کھویا رہا
وہ باڑھ آئی کہ بہنے لگا مرا چھپر
میں جس پہ بیٹھا مناظر کا لطف لیتا رہا
گزشتہ دور کی بو باس لے کے آئی تھی
میں رات سبز ہوا سے لپٹ کے روتا رہا
یہ سوچ کر کہ کبھی فاختہ تو آئے گی
وہ گِدّھ شاخ پہ زیتون کی ہی بیٹھا رہا
پکارے گا ہی کوئی سنگِ نا تراشیدہ
اسی امید پہ آزرؔ ہمیشہ تنہا رہا
٭
وہ دست رس سے دعاؤ ں کی،دور تھا کتنا؟
یہ مرحلہ تھا مگر صبر آزما کتنا!
مجھے پھر اس سے تعلق بحال کرنا پڑا
وہ شخص مجھ سے بچھڑ کر اداس تھا کتنا!
اس انتشار کی اک حد بھی تو معیّن ہو
مجھے اب اور بکھیرے گی یہ ہوا کتنا!
مری نگاہ اٹھی جب کسی بدن کی طرف
مرا ضمیر ہوا بے سبب خفا کتنا !
میں دور تھا تو کشش کھینچ لے گئی آزرؔ
قریب پہنچا تو منظر بدل گیا کتنا
٭
لہجے میں آسمان کی اونچائیاں بھی تھیں
اس کی غزل میں فکر کی گہرائیاں بھی تھیں
ورنہ مرا وجود مجھے مار ڈالتا
شامل مرے مزاج میں خوش فہمیاں بھی تھیں
وہ میرا ہم خیال بھی بالکل نہ تھا مگر
اس کو مرے خیال سے دلچسپیاں بھی تھیں
کچھ اُس کو دیوتا کی طرح مانتا بھی تھا
کچھ اِس میں میری اپنی ادا کاریاں بھی تھیں
جس کو بھی دیکھ لے وہ مریض اس کا ہو گیا
آنکھوں میں اس کی چھوت کی بیماریاں بھی تھیں
٭
وہ زندگی کی آخری تسکین لے گئی
خوش فہمیاں بھی مجھ سے مری چھین لے گئی
گزرے گی بے اصول مری زندگی تمام
اک لڑکی میرے جینے کا آئین لے گئی
حدِّ نگاہ تک ہے خلاؤں کا سلسلہ
وہ مجھ سے سارے انجم و پروین لے گئی
اب زندگی سے موت لڑے گی تمام عمر
ہونٹوں سے جان سورۂ یٰسین لے گئی
ڈھیلا ذرا ہوا تھا مرے ہاتھ سے لگام
آندھی سَمے کی عہدِ سلاطین لے گئی
اب پتھروں کے شہر میں رہنے سے فائدہ؟
آزرؔ جب اپنا فن ہی زمیں چھین لے گئی
٭
نہ روک پائی مری آستین کی خوشبو
اسے بھی لے گئی بہلا کے بین کی خوشبو
گلاب اگے تھے مرے شہر کے ہر آنگن میں
مگر فضا میں تھی رقصاں مشین کی خوشبو
مرے وجود کا مجھ کو دلا گئی احساس
مرے گمان سے لپٹی یقین کی خوشبو
نہ جانے کون سی مٹی پڑی تھی گملوں میں
گلاب دینے لگے یاسمین کی خوشبو
میں آسمان پہ پہنچا مگر ستانے لگی
مرے وجود سے لپٹی زمین کی خوشبو
بس ایک آن میں سارے جہاں میں پھیل گئی
بتوں کے شہر سے اٹّھی جو دین کی خوشبو
٭
عظمتِ آدمی کو سمجھا کر
میری دیوانگی کو سجدہ کر
مجھ سے پتھر یہ کہہ کے بچنے لگے
تم نہ سنبھلو گے ٹھوکریں کھا کر
مدتوں سے مرا ہوا ہوں میں
مجھ کو پھر ایک بار زندہ کر
یا حقیقت کا رنگ دے اس کو
یا مرے خواب میں نہ آیا کر!
توڑنے والا جب ملا نہ کوئی
رہ گئے پھول کتنے مرجھا کر
اب خلا کے بدن پہ آنکھوں سے
اپنے آزرؔ کا نام لکھا کر
٭
تھا موم دل تو لوگ ستاتے رہے مجھے
پتھر بنا تو مجھ کو سبھی پوجنے لگے
میرے قریب رہ کے اگر ہو اداس تم
پھر مجھ سے دور جا کے بھی خوش رہ نہ پاؤ گے
دہرا گیا وہ شخص مری بات اس طرح
دینے لگے تھے لفظ بھی معنیٰ نئے نئے
نزدیکیوں نے سارا بھرم دور کر دیا
کچھ لوگ صرف دور سے اچھے لگے مجھے
اکثر نگاہِ ذہنِ رسا نے بچا لیا
ہم جب بھی دل کے ساتھ کہیں ڈوبنے لگے
٭
نگاہِ تشنہ کو تسکینِ اضطراب تو دے
وہ آب دے کہ نہ دے منظرِ سراب تو دے
مری نگاہوں سے اس کو نہ پھر گلہ ہو گا
وہ اپنے چہرے سے اچھی کوئی کتاب تو دے
جہاں کھلے ہوں مسرت کے پھول بھی دوچار
دلِ حزیں کو اب اُن موسموں کا باب تو دے
ہے اعتماد، حقیقت کا روپ دیدوں گا
مری نگاہ کو خوش فہمیوں کا خواب تو دے گا
تجھے بھی جاوداں کر دے تری غزل آزرؔ
جہانِ شعر کو اک ایسا انتخاب تو دے
٭
چھپا رہا تھا مری وحشتوں سے گھر مجھ کو
اڑا ہی لے گیا صحراؤں کا سفر مجھ کو
کہیں میں بھول نہ جاؤں تجھے بھی میرے خدا
خوشی کا زعم ہٹا اور اداس کر مجھ کو
کہیں وجود مٹا دے نہ آفتاب آ کر
بلا رہی ہے کوئی شبنمِ سحر مجھ کو
تو میرے سایے میں آنے کی آرزو مت کر
بنا گیا ہے کوئی آگ کا شجر مجھ کو
اسے خبر تھی کہ میں اس کو توڑ ڈالوں گا
پکارتا ہی رہا آئینہ مگر مجھ کو
مرے شعور نے مجھ کو بلا لیا واپس
لگا دیا تھا مرے دل نے داؤ پر مجھ کو
٭
اس کی مخالفت کا تو میدان صاف تھا
لیکن خود اس سے، اس کا بہت اختلاف تھا
الزام کیا میں دیتا وبھیشن کی ذات کو
مجھ سے ہی جب لہو کا مرے انحراف تھا
اندھا نہ تھا کوئی بھی مرے شہر میں مگر
اک بے حسی کا سب کی نظر پر غلاف تھا
یوں لمحہ لمحہ ختم ہوا جا رہا تھا وہ
جیسے کہ اس کی روح میں کوئی شگاف تھا
آزرؔ کی بت تراشی سے واقف تھے سب مگر
آزرؔ غزل تراش ہے یہ انکشاف تھا
٭
بتوں کے شہر میں ایمان لے کے آئی تھی
وہ حسنِ سورۂ رحمن لے کے آئی تھی
بڑا عجیب تھا مصنوعی موسموں کا سفر
بہار کاغذی گلدان لے کے آئی تھی
گئی تو پھر نہ ملا بیسویں صدی کا سراغ
نیا زمانہ، نئی شان لے کے آئی تھی
یہ اور بات ہمیں کم شناس تھے ورنہ
وہ ایک عہد کی پہچان لے کے آئی تھی
کل اُس سے عہدِ وفا میں ہی لے نہیں پایا
وہ اپنے ہاتھوں میں قرآن لے کے آئی تھی
پھر اس کے بعد بنی شاہکارِ آزرؔ وہ
جو اپنے جسم کی چٹان لے کے آئی تھی
٭
شہر آتے ہی وہ بے جھجھک بک گیا
صبح کا آدمی شام تک بک گیا
کیا سویمبر رچائے دھنک بک گئی
آج سیتا کی خاطر جنک بک گیا
چند چاول کے دانوں نے دکھلایا رنگ
اور دھرتی کے ہاتھوں فلک بک گیا
شام کو ہی خریدا تھا خود کو مگر
پھر ضرورت پڑی صبح تک بک گیا
جس کے ہاتھوں کی مہندی خریدی گئی
اس کے اجداد کا گھر تلک بک گیا
جانے کیا شے خریدی ہے اس نے ابھی
اس کے چہرے کا آزرؔ نمک بک گیا
٭٭٭
مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید