FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: غزوۂ احد سے واقعۂ افک تک

 

 

 

 

حیات محمدﷺ حصہ دوئم کے کچھ باب

 

                محمد حسین ہیکل

 

 

 

 

 

غزوۂ احد

 

قریش کے دلوں پر غزوہ سویق نے تو کوئی اثر نہ چھوڑا لیکن بدر کا چرکا ان کے صفحہ قلب سے مندمل نہ ہو سکا، نہ زید بن حارثہؓ کی اس تاخت کا صدمہ مٹ سکا جس کے اثر سے ان کی جدید تجارتی راہ بھی مسدود ہو گئی جو انہوں نے بحیرۂ احمر کے ساحل کو چھوڑ کر عراق کی گزرگاہ پر تجویز کی۔ قریش حادثہ بدر اور اپنی اس راہ کی ناکہ بندی دونوں کے انتقام و مداوا کے لیے آتش زیر پا تھے۔

بدر انہیں فراموش بھی کیسے ہو سکتا تھا جس میں ان کے منتخب روزگار اور سرکردہ (اشخاص) تہ تیغ ہوئے جن کی یادوں میں قریش کی عورتیں ہر لمحہ مصروف گریہ تھیں ؟ کوئی اپنے لخت جگر کو بیٹھ کر روتی، کسی کے دل سے اپنے ماں جائے کا ناسور رس رہا تھا، کوئی باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے سے شکستہ خاطر، کسی کا سرتاج مفقود اور کسی کا کوئی دوسرا قرابت دار نابود ہو گیا تھا۔ جن پر رونا اور سینہ کوبی قریش کی عورتوں کا مقدر بن گیا اور وہ اپنے نصیبے کو بھگت رہی تھیں۔ ان کا نوحہ ایسی رقت اور سوز سے بھرا ہوتا جسے قریش سنتے اور مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے حواس باختہ انسانوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ تکنے لگتے۔

 

جنگ احد کے ابتدائی مراحل

ادھر (مکہ میں ) ابو سفیان کا وہ قافلہ شام سے لوٹ کر آ پہنچا جو غزوۂ بدر کا محرک تھا ادھر معرکہ بدر کے بقیۃ السیف مفرورین قریش شہر میں وارد ہوئے اور قریش کے اکابر میں مندرجہ ذیل پانچ ارکان : جبیر بن مطعم، صفوان (بن امیہ)، عکرمہ بن ابوجہل، حارث بن ہشام اور حویطب بن عبدالعزیز کے مشورہ سے قرار پایا کہ اس رقم سے سامان جنگ خرید کر (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لیا جائے، جس کی قوت سے اپنی فوج کی تعداد بڑھائی جائے گی، اور قرار پایا کہ قبائل عرب کو بھی قریش کے مقتولین کا بدلہ لینے کے مشتعل کیا جائے۔ اس کے لیے قریش کی ا یک ٹولی قبائل میں گشت کے لیے روانہ ہوئی، جس میں ابو عزہ شاعر بھی تھا جو اسیران بدر میں گرفتار ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے احساناً آزاد فرما دیا۔ اس اہتمام میں انہوں نے اپنی کمک کے لیے اپنے حبشی غلاموں کا ایک دستہ بھی ہمراہ لے لیا۔

 

احد کے لیے قریش کی عورتوں کی طرف سے پیش کش

جوش انتقام میں مبہوت قرشی عورتیں بھی ہمراہ جانے کے لیے مصر ہوئیں ، جس پر ایک شخص نے مجلس مشاورت میں یہ رائے پیش کی ہم لوگ سر سے کفن باندھ کر جا رہے ہیں اگر اپنے مقتولین کا بدلہ نہ لے سکے تو زندہ واپس نہ لوٹیں گے۔ عورتوں کی معیت ہمارے لیے مفید ثابت ہو گی۔ یہ ہمارے جذبات غضب کو اشتعال دلائیں گی اور ہمیں بدر کے واقعات یاد دلا کر آگے بڑھائیں گی۔ دوسرے نے کہا عورتیں ہماری آبرو ہیں۔ اگر ہمیں شکست ہوئی تو ان کی بے حرمتی سے ہمارا ناموس خاک میں مل جائے گا۔ اس موقع پر ہندہ (زوجہ ابو سفیان) بھی موجود تھی اس نے (اپنی تقریر میں ) کہا: حاضرین مجلس! اس سے نہ گھبرائیں کہ آپ زندہ بچ کر نہ آ سکیں گے۔ آخر آپ لوگ بدر سے بھی بچ ہی نکلے اور اپنی عورتوں کو بھی آ کر دیکھ لیا! پھر آپ لوگ ہمیں شرکت سے منع کرنے والے ہی کون ہیں ، جب کہ یہی غلطی بدر میں ہوئی جب آپ لوگوں نے اپنی ان جوان لڑکیوں کو حجفہ (مقام) سے واپس لوٹا دیا جو معرکہ کے وقت موجود ہوتیں تو آپ لوگوں کو غیرت دلا کر آگے بڑھاتیں۔ آہ! بدر جس میں ہمارے عزیز ترین مرد دشمن کے ہاتھ سے مارے گئے۔

 

قریش کا مدینہ پر خروج

اور قریش اپنے ہمراہ ایک جرار لشکر لے کر مکہ سے باہر جمع ہوئے جس کے ساتھ وہ عورتیں بھی تھیں جن کے عزیز و خویش بدر میں قتل ہوئے تھے۔ اس لشکر میں بنو ثقیف (ساکنان طائف) کے دو سو شمشیر زن سپاہیوں کے سوا مکہ میں سے اٹھائیس سو شمشیر زن نکلے، جن میں اشراف و سادات قریش کے قبائلی حلیف بھی تھے اور احابیش کا بھی ایک دستہ مع بے شمار سامان رسد و آلات کے بہ تفصیل ذیل ہمراہ تھا:

الف۔ تین علم تے جن میں سب سے بڑا جھنڈا طلحہ بن ابو طلحہ کے ہاتھ میں تھا۔ یہ علم دار الندوہ میں بیٹھ کر بنائے گئے۔

ب۔ گھوڑے دو سو

ج۔ تین ہزار اونٹ

د۔ سات سو زرہیں

ہ۔ اسلحہ حساب و شمار سے فزوں تر

اور لشکر مدینہ کے رخ پر بہہ نکلا۔

 

سیدنا عباسؓ کی خبر رسانی

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے عم مکرم سیدنا عباسؓ (بن عبدالمطلب) جو ابھی تک اپنے جدی مذہب پر قائم اور مکہ میں تشریف فرما تھے، قریش کی ہر سازش، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوتی، نظر غائر سے مطالعہ فرماتے۔ اس کی دو وجوہات تھیں :

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری اور

2۔  اپنے برادر زادہ کا حسن کردار! جس میں جناب عباسؓ کے ساتھ مسلمانوں کا وہ حسن سلوک بھی شامل ہو گیا جو ان کے اسیر بدر ہونے کے دوران میں ان کے ساتھ ہوا۔

جناب عباسؓ کا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدائیت کا ایک وقت پہلے بھی آ چکا ہے، ہجرت سے قبل اوس و خزرج کی بیعت کے موقع پر جو بیعت شب کی تاریکی میں ہوئی اور عقبۃ الکبریٰ کے عنوان سے ملقب ہے، جس کے لیے شب کے وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دولت خانہ سے نکلے تو جان نثار عم کریم سے اپنے برادر زادہ کا اہل مدینہ سے تنہا معاملہ طے کرنے پر ضبط نہ ہو سکا۔ سائے کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ محل بیعت (عقبۃ الکبریٰ) میں رہے اور مبایعین اوس و خزرج سے مخاطب ہو کر فرمایا:

آپ لوگ میرے برادر زادہ کو تو اپنے ہاں لے جا رہے ہیں مگر اپنی عورتوں اور بچوں کی طرح ان کی پاسداری ہو سکے تو انہیں شوق سے مدینہ لے جائیے، ورنہ انہیں ان قبیلہ میں ہی رہنے دیجئے۔ جس طرح بنو ہاشم نے پہلے ان کی حفاظت میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لی تھی آئندہ بھی انہیں اس سے انکار نہیں ہو سکتا۔

آج حضرت عباسؓ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت داری، آپ کے حسن و کردار اور اسیر بدر ہونے کے دوران میں خود پر حسن مراعات کی وجہ سے ایک خط میں اطلاع دی جس میں قریش کا تازہ جنون، ان کے لشکر کی تعداد اور سامان جنگ کی پوری تفصیل قلم بند فرما کر ایک غفاری ہرکارہ کے ہاتھ مدینہ بھیجی جو مکہ سے چل کر تیسرے روز مدینہ جا پہنچا۔

 

قریش کی بربریت

کفار کا لشکر مقام ابوا پر آ پہنچا (جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا مزار ہے) تو جوش انتقام میں بھرے ہوئے قریش کے چند کوتاہ اندیش نوجوان جناب آمنہ کے مزار کی بے حرمتی پر آمادہ ہو گئے۔ انہیں ان کے سربراہوں نے یہ کہہ کر روک دیا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو اس سے عرب میں ایک وبا پیدا ہو جائے گی۔ بنو بکر اور بنو خزاعہ موقع پا کر ہمارے مردوں کی قبریں کھود کر رکھ دیں گے۔ اس پر وہ لوگ اپنے ارادے سے دستبردار ہو گئے۔

 

قریش کا احد میں پڑاؤ

قریش ابوا سے کوچ کرتے ہوئے (مقام) عقیق میں آ پہنچے اور احد پہاڑی کے دامن میں ایک ہموار میدان میں پڑاؤ ڈال کر جم گئے۔ یہ مقام مدینہ سے پانچ میل کی مسافت پر ہے۔

 

حضرت عباسؓ کی ہرکارہ کی باریابی

ادھر سیدنا عباسؓ کا غفاری ہرکارہ مدینہ میں آ پہنچا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد قبا میں دروازہ پر اپنے مرکب پر سوار ہونے کو تھے (قبا مدینہ سے چھ میل باہر ایک ملحقہ بستی ہے:م) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خط کعب بن مالک سے پڑھوا کر سنا اور اس سے راز داری کی تاکید فرما کر خود (مدینہ میں ) سعد بن ربیع کے ہاں تشریف لائے۔ انہیں خط کے مضمون سے آگاہ کیا اور ان سے بھی راز داری کی تاکید فرمائی لیکن سعد کی اہلیہ نے بالا خانہ میں بیٹھے ہوئے سن لیا اور ضبط نہ کر سکیں۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر مندی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب انس و مونس (ابنائے فضالہ) کو قریش کی جاسوسی کے لیے بھیجا اور ان کی واپسی پر حباب بن منذرؓ (بن الجموح) کو پہلے دونوں بھائیوں نے قریش کے گھوڑے اور شتر مدینہ کے کھیتوں میں چرتے ہوئے دیکھنے کی اطلاع پیش کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر جناب عباسؓ کے خط کی تصدیق سے انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے۔

اسی طرح دشمن کا جائزہ لینے کے لیے حضرت سلمہ بن سلامہؓ نکلے اور قریش کے ایک دستہ کو شہر سے اس قدر قریب دیکھا جیسے ذرا دیر بعد شہر کے اندر داخل ہونے کو ہیں۔ سلمہ بھاگے ہوئے آئے اور مسلمانوں کو ان کے کوائف سے آگاہ کیا۔ ان خبروں سے قبیلہ اوس و خزرج کے مسلمان اور دوسرے لوگ آنے والی جنگ سے بے حد متاثر ہوئے کہ عرب کی تاریخ میں آج تک کسی جنگ کے لیے ایسی تیاری سننے میں نہ آئی تھی۔ قریش پوری قوت اور لشکر جرار لے کر حملہ آور ہونے کو ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے بے شمار مسلح مسلمان مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں رات بھر پہرے پر رہے اور مسلمانوں کا ایک دستہ تمام شب شہر کی حفاظت کرتا رہا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسروں سے مشاورت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح ہوتے ہی مسلمانوں کے ساتھ ان لوگوں کے اہل الرائے کو بھی طلب کر لیا جو خود کو مسلمان ظاہر کرتے اور قرآن انہیں انہی باتوں کی وجہ سے منافق سے نامزد کرتا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ دشمن کی مدافعت کے لیے ایک متفقہ رائے قائم کر لی جائے اور سب سے پہلے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے بیان فرمائی کہ

1۔ مہاجرین قریش شہر سے باہر نگرانی کریں۔

2۔ اہل مدینہ شہر میں قلعہ بند ہو کر موقع کے منتظر رہیں تاکہ دشمن کے حملہ پر مدافعت کی جا سکے۔

 

راس المنافقین عبداللہ کی رائے

عبداللہ (بن ابی سلول) نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیشہ سے اس شہر کے رہنے والوں نے مدینہ کی حفاظت اس طریق سے کی ہے:

الف۔ عورتوں اور بچوں کو کسی محفوظ قلعہ میں بند کر کے ان کے چاروں طرف پتھروں کے ٹکڑے جمع کر دئیے۔

ب۔ شہر کے باہر فصیل کھڑی کر کے نگرانی کے لیے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چوکیاں تعمیر کر دیں۔

ج۔ اگر دشمن نے ہلہ ہی بول دیا ہے تو ادھر عورتیں اور بچے پتھراؤ کرنے لگے اور

د۔ ادھر سے مراد تلواریں سونت کر پل پڑے۔

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مدینہ کی مثال اس زن باکرہ کی سی ہے جس کی بکارت کبھی زائل نہ ہوئی۔ آج تک کسی دشمن نے ہم پر فتح حاصل نہیں کی لیکن ہم لوگ جب بھی شہر میں رہ کر دشمن کے مقابلہ پر آئے کبھی ناکام نہیں ہوئے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حملہ آوروں کو ان کے حال پر چھوڑ کر میری تجاویز پر عمل کیجئے۔ مدینہ کی حفاظت کے یہ داؤں مجھے اپنے بزرگوں سے ترکہ میں ملے ہیں اور میرے دور کے داناؤں نے بھی مجھے یہی بتایا ہے۔

3۔ مہاجرین و انصار بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رائے سے متفق تھے کہ شہر میں بند رہ کر دشمن کی مدافعت کی جائے۔

4۔ جو گروہ کھلے میدان میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے بے قرار تھا اس میں دو قسم کے لوگ تھے۔

الف۔ وہ نوجوان جو بدر کی شوکت سے محروم رہ گئے تھے اور اب موقع غنیمت سمجھ کر داد شجاعت دینے کے لیے سرگرم تھے۔

ب۔ وہ شیر بیشہ دلاور جنہیں بدر میں بھی شرکت کا موقع مل چکا تھا اور معرکہ کار زار میں ذات باری کی بر وقت نصرت نے جن کے حوالے پہلے سے بڑھا رکھے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ دنیا کی کوئی قوت ان پر غالب نہیں آ سکتی۔ یہ حضرات شہر میں بند ہونے کو بزدلی پر محمول کرتے کہ اس سے دشمن کو ہماری بزدلی کا یقین ہو جائے گا۔ اس گروہ کا خیال تھا کہ بدر کے موقع پر اپنے شہر سے دور ہونے کے باوجود ہم نے قریش پر فتح حاصل کر لی اور آ ج تو ہم اپنے شہر سے قریب تر ہیں۔ احد ہمارے شہر کا سوانا ہی تو ہے۔ اس کے نشیب و فراز ہمارے دیکھے بھالے ہیں نہ کہ دشمنوں کے!

اور اس گروہ کے ایک نوجوان نے اپنی تقریر میں عرض کیا:

مجھے یہ گوارا نہیں کہ وہ (قریش) یہاں سے واپس لوٹ کر کہیں کہ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ڈر کر یثرب اور اس کے قلعوں میں دبک گئے۔ شہر میں ہمارے بند ہو جانے سے دشمن کی جرأت اور بھی زیادہ ہو جائے گی۔

دوستو! جن دشمنوں نے ہمارے کھیت اور پھل اور پودے تاراج کر دئیے ہیں اگر ہم نے انہیں اپنے باغات کی بربادی سے نہ روکا تو ان درختوں کا پھل ہمیں کیسے نصیب ہو گا؟

ہمارا دشمن بدر کی شکست کے بعد ایک سال تک دوڑ بھاگ میں لگا رہا تب جا کر مٹھی بھر عرب اور ان حبشی غلاموں کو اپنے ہمراہ لانے میں کامیاب ہوا۔ قریش کی یہ جرأت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے اسپ اور شتر ہمارے شہر کے سوانے میں لے آئے!

آپ لوگوں کو پسند ہے کہ وہ ہمیں شہر اور قلعوں میں بند کر کے خود زخم کھائے بغیر واپس لوٹ جائے اور یہ بات مشہور کرے کہ ہم نے مسلمانوں کو قلعوں میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہمارے خلاف دشمن کے حوصلے کس قدر بڑھ جائیں گے؟ وہ آئے دن اسی طرح ہمارے سرسبز و شاداب کھیت برباد کرتے رہیں گے۔ کبھی کسی طرف سے ہمیں نرغہ میں لینے کی کوشش کریں گے، کبھی کسی جانب سے آ کر ہمیں گھیر لیں گے۔ ان کے جاسوس انہیں ہر وقت ہماری خبریں پہنچایا کریں گے اور ہمارا شہر ان کی گھات سے کبھی محفوظ نہ رہے گا۔ حتیٰ کہ ایک نہ ایک دن قریش ہم پر غالب آ جائیں گے۔

اس تقریر نے مسلمانوں کی ہمت اور ولولہ شہادت کو از سر نو بیدار کر دیا۔ ہر شخص کی زبان پر یہی نعرہ تھا۔ جو حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع تھے، جن کے دل اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار تھے، خدا کی کتاب اور حساب آخرت پر یقین تھا، جنہیں اپنے اس کینہ توز جفا پیشہ دشمن کی ناکامی کا پورا بھروسہ تھا کہ ہماری تلواریں دشمن کی تکا بوٹی اڑا دیں گی اور اگر ان میں سے دس پانچ سلامت رہ گئے تو ہماری ہیبت سے تتر بتر ہو جائیں گے اور ہم میں سے جو مسلمان شہید ہو گا اسے جنت ملے گی جس کا وعدہ ایسے لوگوں کو دیا گیا ہے۔

ان الذین قالو ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکۃ الا تخافو ولا تحزنو وابشرو بالجنۃ النتی کنتم توعدون نحن اولو کم فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ ولکم فیھا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون1؎ (31-30:41)

بے شک جن لوگوں نے اللہ کی وحدانیت کا زبان سے اقرار کیا اور اس پر سدا قائم رہے، رحمت الٰہی کے فرشتے ان کے پاس یہ پیغام لے کر آتے ہیں کہ اب تمہیں کوئی خوف و ہراس نہ ہو گا بلکہ تمہارے لیے اس جنت کی بشارت ہے، جس کا تم سے ایمان لانے کے بدلے میں وعدہ کیا گیا تھا (اللہ کی طرف سے یہ انعام بھی ہے) کہ دنیا اور عقبیٰ میں ہم تمہارے ولی ہیں اور اس جنت میں تمہاری ہر خواہش پوری ہو گی۔

ان نوجوانوں کے دلوں میں یہ خیال بھی گدگدا رہا تھا کہ آج کے شہیدوں کی جنت میں اپنے ان بھائیوں سے بھی ملاقات ہو گی جو کل بدر میں دشمن کے ہاتھ سے جام شہادت پی کر ابدی نیند سو گئے۔ یہ ملاقات اس جنت میں ہو گی جہاں :

لا یسمعون فیھا لغواً ولا تاثیماً الا قلیلا سلما سلما (26-25:56)

جس (جنت میں ) ایک دوسرے کے متعلق سلامت باشید کے سوا بے سود اور گناہ کی بات زبان پر آئے ہی گی نہیں۔

 

مرد معمر خیثمہ کی تقریر

عسی اللہ ان یظفرنا بھم او تکون الاخریٰ الشھادۃ لقد اخطاتنی وقفۃ بدروکنت علیھا حریصاً حتیٰ بلغ من حرصی علیھا ان ساھمت ائنی فی الخروج فخرج سھمہ فارزق الشھادۃ وقدرایت ابنی البارحۃ فی النوم وھو یقول الحق بنا تر افقنا فی الجنۃ فقد و جدت ما وعدنی ربی حقا وقدو اللہ یا رسول اللہ اصبحت مشتاقا الی امرافقۃ فی الجنہ وقد کبرت سنی ورق عظمی واحییت لقاء ربی۔

امید ہے کہ اللہ ہمیں فتح یاب کرے۔ یا شہادت ہی نصیب ہو، جس شہادت سے میں بدر میں محروم رہ گیا ہوا ہوں۔ میں بدر میں شرکت سے دستبردار ہونے پر راضی نہ تھا۔ اور میرا فرزند (سعد) بھی اس پر مصر تھا۔ آخر دونوں نے قرعہ اندازی کی۔ میری فرزندت کی قسمت بیدار ہو گئی اور وہ اس معرکہ میں شہید ہو گیا۔

1؎م: مصنف علام نے آیات کے مضمون کو بڑے دل کش انداز میں سمو دیا ہے مگر جہاں بھی مشاہدہ حق کی گفتگو چل نکلے بادہ و ساغر کی حکایت کے بغیر سرور نہیں بڑھتا اس لیے راقم نے ترجمہ کی بجائے آیت سے محفل کو گرمانا چاہا۔

اسی شب رویا میں اس نے مجھ سے کہا خدا نے ہمارے ساتھ جو وعدے کیے تھے ہم نے سب پورے ہوتے دیکھ لیے آپ بھی ہمارے ساتھ آ کر جنگ میں رہیے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بخدا! میں اسی لمحہ سے اپنے فرزند کے ساتھ جنت میں رہنے کے اشتیاق میں بیٹھا ہوں۔ یوں بھی بوڑھا ہو گیا ہوں ، میری ہڈیوں میں دم نہیں رہا۔ اب میں اپنے رب سے ملاقات کو زیادہ پسند کرتا ہوں (اور حضرت خیشمہ احد میں فائز بہ شہادت ہوئے) (اصابہ نمبر:230-4:م)

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان میں مقابلہ کرنے والوں کی اکثریت دیکھ کر اپنی اسی رائے کو پھر دہرایا کہ مجھے تمہاری شکست کا خطرہ ہے لیکن اس پر بھی لوگوں کا اصرار کم نہ ہو سکا جس کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثریت کی رائے پر عمل ضروری سمجھا کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نظام حیات مربوط رکھنے کے لیے شوریٰ کے فیصلہ پر توجہ کرنا زیادہ پسند فرماتے، الا اس صورت میں کہ خدا کی طرف سے وحی نازل ہو جس پر عمل کرنے میں صرف اپنی رائے کو سب پر ترجیح دیتے۔

 

احد کی تیاری

جمعہ کا دن تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز (جمعہ) پڑھ کر فرمایا مسلمانو! اگر تم نے صبر و استقامت کا ثبوت دیا تو تمہاری ہی فتح ہو گی اور مسلمانوں کے لیے تیاری کا فرمان صادر فرمایا۔ نماز عصر ادا کرنے کے بعد اپنے ہمراہ ابوبکرؓ اور عمرؓ دونوں کو لے کر دولت خانہ پر تشریف لائے، ان دونوں حضرت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمامہ باندھنے میں (آپ کی) مدد کی، زرہ پہنوائی اور تلوار حمائل کی اور جب تک رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم دولت خانہ میں رہے مسلمان قلعہ بندی یا میدان میں مقابلہ دونوں امور پر گفتگو کرتے رہے۔ اسید بن حضیرؓ اور سعد بن معاذؓ نے جو قلعہ بندی کے حامی تھے دوسرے گروہ سے کہا:

آپ لو گ دیکھ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قلعہ بندی چاہتے ہیں۔ پھر بھی آپ حضرات کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میدان میں نکلنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مقدم سمجھی جائے اور جو کچھ حکم فرمائیں آپ بلا عذر اس کی اطاعت کریں۔

قلعہ بندی کا خلاف گروہ بہت پریشان تھا۔ انہیں سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ مبادا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے جرم میں ان کے خلاف کوئی آیت نازل ہو۔ جونہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زدہ پہن کر باہر تشریف لائے ان لوگوں نے آگے بڑھ کر عرض کیا:

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارا مقصود آپ کی مخالفت کرنا نہیں۔ آپ قلعہ بند رہ کر مدافعت پر کاربند ہوں یا میدان میں صف آرائی کا حکم فرمائیں ، ہم اطاعت کے لیے حاضر ہیں۔ خدا کے بعد آپ کا فرمان ہمارے لیے واجب العمل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! جب میں نے آپ لوگوں کو مشورہ دیا تو انکار کر دیا گیا لیکن کسی نبی کے شایاں نہیں کہ زرہ پہن لینے کے بعد دشمن کا مقابلہ کیے بغیر زرہ بدن سے اتارے۔ اب تم میرے حکم پر عمل کرو کہ اگر تم نے صبر و استقامت کا ثبوت دیا تو تمہاری ہی فتح ہو گی۔

اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شوریٰ کی بنیاد رکھی جس پر نظام کی تعمیر کا انحصار ہے کہ جس مسئلہ کو بحث و تمحیص کے بعد طے کر لیا جائے اسے کسی رائے کے خلاف ہونے کی بناء پر مسترد نہیں کیا جا سکتا، بلکہ طے شدہ مشورہ پر عمل کیا جائے، اس کے نفاذ میں تعجیل اور اس کے نتیجہ کا انتظار مد نظر ہو۔

 

روانگی اور جنگ میں غیر مسلم گروہ کا امداد سے انکار

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقاء کو ہمراہ لے کر دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے احد کی طرف کوچ فرمایا۔ مقام شیخین پر پہنچے تو وہاں ایک دستہ پہلے سے پڑاؤ ڈالے پڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ لوگ ابن ابی (منافق) اور یہود کے حلیف ہیں جو مسلمانوں کی نصرت کے لیے نکلے ہیں ، فرمایا:

لا یستنصر باھل الشرک علی اہل الشرک مالم یسلموا۔

مشرکوں کے ایک گروہ کے خلاف جنگ میں اسلام کی رو سے دوسری قسم کے مشرکوں کی امداد کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک ایسے لوگ تہ دل سے مسلمان نہ ہو جائیں۔

یہود کا یہ دستہ مدینہ واپس لوٹ گیا۔ راستے میں انہیں ابن ابی اور اس کا دستہ ملا۔ انہوں نے ابن ابی سے گلہ کیا: کہ آپ نے تو انہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلوات اللہ علیہ) بہتر مشورہ دیا، اپنے بزرگوں کی رائے بتا دی۔ پہلے وہ آپ کی رائے سے متفق ہو گئے، لیکن بعد میں اپنے نا تجربہ کار نوجوان کی بات مان کر ان کے ہمراہ میدان میں جا پہنچے۔ ابن ابی نے کہا آپ لوگ صحیح کہتے ہیں میں ہی جا کر کیا کروں گا! اور اپنا دستہ واپس لے آیا۔

اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف خالص مومنین رہ گئے۔ ان کی تعداد سات سو تھی اور وہ مکہ کے ان تین ہزار کینہ توز قریشیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ جو بدر میں انہی لوگوں سے شکست کھا کر فرار ہوئے اور آج نئے سرے سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے میدان میں اتر آئے۔

 

فریقین کی صف آرائی

مسلمان قدم بڑھاتے ہوئے احد میں آ پہنچے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف صف آرائی فرمائی کہ فوج کی پشت پہاڑ کے اس سمت میں رہے جس سمت میں درہ ہے، مبادا دشمن عقب سے حملہ آور ہو۔ اس درہ پر پچاس تیر اندازوں کا دستہ متعین کرنے کے بعد انہیں یہ ہدایات فرمائیں : مبادا دشمن ادھر سے حملہ آور ہو، آپ لوگ ان کے ساتھ جو برتاؤ کریں اسی موقع پر متعین رہتے ہوئے کیجئے۔ اگر ہم دشمن کے قدم اکھاڑ دیں تب بھی آپ محاذ نہ چھوڑیں۔ اگر دشمن ہمیں پامال کرتا ہوا نظر آئے تو بھی ہماری نصرت کے لیے آنے کی بجائے یہیں سے ان کے گھوڑوں پر تیر برساتے رہیے۔ گھوڑے تیروں کے سامنے نہیں جمتے۔ اس کے بعد آپ صفوں کی طرف لوٹے اور انہیں صرف ایک تاکید فرمائی جب تک میں حکم نہ دوں کوئی شخص اپنا حربہ استعمال نہ کرے۔

 

قریش کی صف آرائی میں عورتوں کا حصہ

اہل مکہ نے اپنی صفیں اس طرح بنائیں میمنہ پر خالد بن ولید کو مقرر کیا، میسرہ پر عکرمہ بن ابوجہل کو متعین کیا۔ لشکر کا علم عبد العزیٰ طلحہ بن ابو طلحہ کی سپردگی میں دیا اور سب سے بڑے مورچے کی کمان عورتوں کے ہاتھ میں ہے جن میں سے کسی کے ہاتھ میں دف ہے کوئی طبل لیے ہوئے ہے۔ ہر ایک عورت سولہ سنگھار کیے ہوئے اٹھلاتی، کبھی اس قطار کے آگے اور کبھی اس صف کے پیچھے۔ ان کی سپہ سالار اعظم ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ ہے۔ قریش کے زنانہ لشکر کا اسلحہ رجزیہ اشعار تھے جس کا ایک بند یہ ہے:

وبھا بنی عبدالدار

ویھا حماۃ الادبار

ضرباً بکل بتار

ان تقبلوا نعائق

ونفرش النمارق

او تدبروا نفارق

فراق غیر وامق

ہماری طرف دیکھو۔ ہم زہرہ اور مشتری کی کوکھ سے پیدا ہونے والیاں ہیں۔ نرم قالینوں پر ناز و نزاکت سے اٹھلانے والی! آج اگر تم نے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کیا تو کل ہم تمہیں اپنے سینے سے چمٹا لیں گی اور اگر تم پیچھے ہٹ گئے تو ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہ رہے گا۔

اسی طرح فریقین کے اکابر و اعاظم اپنے اپنے لشکروں کے دل بڑھاتے قریش بدر کی شکست کے حزنیہ اور اپنے چودہریوں کے قتل کے المیہ سے لشکر کو ابھارتے مگر مسلمانوں کے دلوں میں صرف خدا کی محبت اور نصرت کا سہارا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو خطبہ دیا اس میں بھی یہی فرمایا کہ اگر تم نے صبر و استقامت کا ثبوت دیا تو فتح تمہاری ہی ہے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار پیش فرمائی

اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار میان سے نکال کر آگے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا: مسلمانو! تم میں سے کون بہادر اس تلوار کا حق ادا کر سکتا ہے؟ کئی مسلمان آگے بڑھے مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کی درخواست منظور نہ فرمائی۔

ابو دجانہ (سماک بن خرخشہ) عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس تلوار کا کیا حق ہے؟

فرمایا اس تلوار کا حق یہ ہے کہ دشمن کے ٹکڑے بکھیرتی ہوئی خم کھا جائے۔

مرد شجاع ابو دجانہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر ہی سے سر پر وہ سرخ پٹی باندھ کر نکلے (جسے عرب میں موت کا تسمہ کہا جاتا ہے) انہوں نے ایک ہاتھ تلوار کے قبضے پر رکھا دوسرے ہاتھ سے سر کی پٹی کو مضبوطی سے کس لیا اور فاخرانہ چال سے قدم اٹھاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی چال پر فرمایا ایسے موقع کے سوا یہ انداز خدا کو قطعاً نا پسند ہے۔

 

احد میں قریش کا پہلا مبارز

مدینہ کا رہنے والا قبیلہ اوس کا فرد ابو عامر (عبد عمرو بن صیفی الاوسی) اسی غرض سے چل کر مدینہ سے مکہ پہنچا کہ آؤ سب مل کر (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں۔ وہ بدر کے معرکہ میں شریک نہ ہوا تھا۔ اس کی کمان میں اپنے قبیلہ (اوس) کے پندرہ شمشیر زن تھے اور اہل مکہ کے چند غلام۔ ابوعامر نے یہ گرہ باندھ رکھی تھی کہ جونہی وہ میدان میں آ کر مسلمانوں کو مبارزت کرے گا، لشکر اسلام سے اس کے قبیلہ داران اوس لپک کر اس کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے اور سب مل کر قریش کو فتح یاب کر دیں گے۔

ابو عامر نے بآواز بلند پکارا اے برادران اوس! دیکھو میں تمہارا بھائی ابو عامر ہوں۔

 

اوس کا جواب

ارے بد اطوار! ہم تجھے خوب پہچانتے ہیں۔ خدا تیری مدد نہیں کرے گا! اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے کہ (لشکر کفار کے) میسرہ پر تھے اپنے غلاموں کا دستہ لے کر مسلمانوں کے ہر اول (مقدمۃ الجیش) پر حملہ کیا، جسے کلمہ گویان توحید نے صرف پتھراؤ سے ناکام بنا دیا۔ عکرمہ کے ساتھ ابو عامر (مذکور) بھی پیٹھ دکھا کر لوٹ گیا۔

شید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب شیر ببر کی طرح گرجتے ہوئے رن میں نکلے کہ

جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے

اور لشکر کفار کے قلب میں شگاف کرتے ہوئے کئی کافروں کو فی النار کر کے دم لیا۔ ادھر طلحہ بن ابو طلحہ نے مبارزت کی ڈینگ ماری۔ علی بن ابی طالبؓ بڑھے۔ کچھ دیر دونوں ایک دوسرے پر وار کرتے اور بچاتے رہے۔ علیؓ کے آخری حملہ نے طلحہ کی کھوپڑی میں شگاف ڈال دیا۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند نعرۂ اللہ اکبر بلند کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے ساتھ مسلمانوں نے اپنی آواز ملا کر سعادت دارین حاصل کی جس سے مسلمانوں کے قدم مضبوط ہو گئے۔

 

ابو دجانہؓ کی شجاعت

اتنے میں ابو دجانہؓ نکلے۔ ہاتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ شمشیر اور سر پر موت کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ کافروں میں سے جو زد میں آ گیا زمین پر لوٹنے لگا۔ (ابو دجانہؓ) مشرکین کو قتل کرتے ہوئے ان کے قلب میں در آئے۔ اتفاق سے ایک ایسے انسان پر نظر پڑی جو دوسرے انسان کے اعضاء قطع کر رہا تھا۔ ابو دجانہؓ نے تلوار اٹھائی ہی تھی کہ بے رحم قاتل نے واویلا شروع کر دیا۔ غور سے دیکھا تو ابو سفیان کی بیوی ہندہ (بنت عتبہ) ہیں۔ ابو دجانہ اس خیال سے واپس لوٹ آئے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کو عورتوں پر آزمانا زیبا نہیں۔

قریش مکہ کے تمام سرغنے بدر کی بھینٹ ہو چکے تھے۔ آج انہوں نے خدا کے نبی کے ساتھ ایک اور جنگ چھیڑ دی۔ (واضح رہے) کہ بدر کی طرح اس جنگ میں بھی طرفین کی تعداد و سامان میں کوئی توازن تھا نہ دونوں کے مقاصد میں یکسانیت۔ ایک گروہ جذبہ انتقام سے مشتعل اور دوسرا فریق اپنے ایمان و اعتقاد کے لیے دشمنوں کی مدافعت اور وطن کی حفاظت کے لئے سربکف۔ انتقام کے دیوانے مسلمانوں کے مقابلہ میں قوت اور تعداد ہر ایک میں فائق، جن کے اس وصف کا مقابلہ کرنے کی مسلمانوں میں ذرہ برابر سکت نہ تھی۔ کہ اہل مکہ کے ہمراہ لولیان قریش سولہ سنگھار کیے ہوئے ہیجان انگیز نغمہ و سرود سے اپنے لشکر کو ابھار رہی تھیں اور ان میں کئی ایک نے اپنے غلاموں سے انعام و اکرام کے وعدے کر رکھے تھے۔ قریش کی انہی مہ و شوں میں کسی نے اپنا حقیقی بھائی بدر کی بھٹی میں جھونک دیا تھا، کسی کا خاوند اس لاوے میں بہہ چکا تھا، کسی کا باپ اس چتا میں بھسم ہو گیا تھا اور بدر میں جن مسلمانوں کی شمشیر خارا شگاف قریش کے اکابر کے قلب و جگر میں پیوست ہو کر ان کی ہلاکت کا سبب ثابت ہوئی ان (مسلمانوں ) میں عرب کے سب سے بڑے دلاور حمزہ بن عبد المطلبؓ ہیں جن کی ضربت سے ان مہ لقاؤں کی سردار ابو سفیان کی اہلیہ ہندہ کا باپ عتبہ مارا گیا۔ عتبہ کے ساتھ ہی ہندہ کا ایک بھائی اور چند عزیز بھی اپنی اپنی کرنی کا پھل بھوگ کر اوندھے منہ قلیب بدر میں پڑے ہوئے تھے۔

حمزہؓ، اسد اللہ و سیف اللہ، آج احد میں اپنی ہاشمیانہ ہیبت کے سائے میں دشمنوں کو موت کے پہلو میں دھکیل رہے تھے کفار کا مشہور شمشیر زن ارطاۃ بن عبد شرجیل بھی حمزہؓ کے ہاتھ سے ختم ہوا۔ سباع بن عبد العزیٰ (الغبشانی) انہی کی تلوار سے کیفر کردار کو پہنچا۔ جس کافر پر حمزہؓ کی تلوار کا سایہ پڑتا اس کی روح جواب دے کر ایک طرف چلی جاتی۔

 

سید الشہداء حمزہ بن عبد المطلبؓ کی شہادت

بدر یں جبیر بن مطعم قرشی کے چچا اور ہندہ زوجہ ابوسفیان کے باپ انہی حمزہؓ کے ہاتھ سے قتل ہوئے تھے۔ جبیر نے اپنے حبشی غلام سے جس کا نام وحشی تھا معاملہ کیا کہ اگر تم حمزہؓ کو قتل کر دو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔ اسی وحشی سے دوسری معاملت ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ نے جن کا باپ بدر ہی میں حضرت حمزہؓ کے ہاتھ سے مارا گیا تھا کہ اگر تم حمزہؓ کو قتل کر دو تو میں تمہیں سیم و زر سے لاد دوں گی۔ سید الشہداء حمزہؓ اسی وحشی (غلام حبشی) کے ہاتھوں شہید ہوئے جس کی داستان بدنصیب وحشی نے (اسلام لے آنے کے بعد) یوں بیان کی ہے:

 

سید الشہداء کے قتل کی داستان وحشی کی زبانی

مجھے بھی احد میں قریش کے ساتھ خروج کرنا پڑا۔ میں حبشیوں کے مشہور حربہ (نیزہ) کا استعمال اس طریق سے جانتا تھا کہ میرا نشانہ کبھی خطا نہ کرتا۔

جب احد میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تب میں بھی اپنے شکار کی تاک میں نکل آیا۔ حمزہؓ کی رنگت گندم گوں تھی۔ میں نے بھیڑ میں بھی انہیں شناخت کر لیا۔ اس وقت (وہ) قریش کے قلب میں دراتے ہوئے ہر طرف کشتوں کے پشتے لگا رہے تھے۔ میں نے اپنا نیزہ تول کر ان کی طرف پھینکا جو ان کی ناف میں پیوست ہو کر پار ہو گیا۔ حمزہؓ نے مجھے دیکھ لیا وہ میری طرف بڑھے مگر گر پڑے۔ میں نے ان کے ٹھنڈے جسم سے اپنا نیزہ کھینچ لیا اور ان کی موت کا یقین آ جانے پر اپنے پڑاؤ میں آ کر بیٹھ گیا۔ میری شرکت کا مقصد حمزہؓ ہی کو قتل کرنا تھا جس کے بعد مجھ پر کوئی ذمہ داری نہ رہی۔ یہ بھی میں نے اپنی آزادی کے لیے کیا اور جب ہم واپس مکہ پہنچے تو مجھے آزاد کر دیا گیا۔

 

قزمان منافق کی وطن سے مدافعت

ادھر وطن پر سے حملہ کی مدافعت کرنے والوں میں ایک شخص قزمان نام جو منافق تھا اور صرف ظاہری طور پر اسلام کا اقرار کرتامسلمانوں کے ساتھ نہ آیا تھا۔ جب اس دن کی صبح ہوئی تو عورتوں نے قزمان سے کہا شرم نہیں آتی۔ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ گئے اور قوم کے دوسرے حضرات رزم گاہ میں جا پہنچے!

قزمان عورتوں کی طعن و تشنیع سے پیچ و تاب کھا کر گھر میں داخل ہوا اور اپنے تیر و ترکش اور تلوار لے کر نکلتے ہی بنی۔ مرد دلیر تھا۔ احد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف بندی میں مصروف تھے قزمان آنکھ بچاتا ہوا صفیں چیر کر پہلی صف میں جا پہنچا اور سب سے پہلے قریش پر اسی نے تیر پھینکا۔ قزمان کے تیروں کے پھل نیزہ کی انی کی مانند دشمنوں کے جسم میں پیوست ہو جاتے اور جان کے سات باہر نکلتے۔ دوپہر تک اس نے کافروں کے کئی آدمی قتل کر دئیے لیکن تیسرے پہر ایک لمحہ میں دشمن کے ساتھ آدمیوں کو ڈھیر کرنے کے بعد قزمان نے خود کشی کر لی۔ جس وقت وہ موت کے سکرات میں مبتلا تو ابو الغیداق ادھر سے گزرے اور قزمان کو شہادت کی مبارک باد پیش کی۔ قزمان نے جواب دیا اے دوست! میری موت دین کی حمایت کی وجہ سے نہیں جو آپ مجھے اس فراخ دلی سے شہادت پر مبارک دے رہے ہیں۔ میں صرف اس جذبہ سے بے قرار ہو کر گھر سے نکلا کہ مبادا قریش ہمارے کھیت برباد کر دیں یا ہماری عورتیں ان کے ہاتھوں ذلیل ہوں ، بخدا! میں صرف قومی عصبیت سے لڑنے کے لیے خود کو نثار کر رہا ہوں۔ اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو میں گھر سے کبھی نہ نکلتا۔

 

مسلمانوں کا ثبات قدم

مخلص مومنین احد میں سات سو سے زائد نہ تھے۔ پھر بھی یہ اقلیت اپنے سے چار گنا زیادہ تعداد کے مقابل میں صف آرا تھی۔ قریش کی اکثریت و ہمت ور فوج کے مقابلہ میں حمزہؓ و ابو دجانہؓ نے جس ثبات قدم کا ثبوت دیا اس سے مسلمانوں کی معنوی قوت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ان کے سامنے قوی ہیکل دشمن کی صفیں بید کی طرح لچک اٹھیں۔ وہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق گھما رہے تھے۔ ان قریش کو جن کی شجاعت و دلاوری کے سامنے تمام عرب تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ان کی ہمت و جان نثاری کا اس سے اندازہ کر لیجئے کہ ان میں جونہی کسی کے ہاتھ سے علم گرنے کو ہوتا دوسرا بہادر لپک کر اس سے لے لیتا۔ قریش کا یہ قومی جھنڈا سب سے پہلے طلحہ بن ابو طلحہ پکڑے ہوئے تھا۔ جب علی ابن ابی طالبؓ نے اسے ٹھکانے لگا دیا تو فوراً عثمان بن ابو طلحہ نے اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ یہ (عثمان) حمزہ بن عبد المطلبؓ کے ہاتھوں کیفر کردار کو پہنچا تو ابو طلحہ مقتول مذکور کا نا خلف ابو سعد بڑھا اور علم ہاتھوں میں لیتے ہی فخر و غرور سے مسلمانوں کو پیغام مبارزت دیا۔

ابو سعد قرشی کی تقریر: کیا تم اس گھمنڈ میں ہمارا مقابلہ کر رہے ہو کہ تمہارے قتیل جنت نشین ہوں گے اور ہمارے مردے دوزخ کا کندہ بنیں گے؟ بخدا تم غلطی پر ہو۔ اگر تمہارا یہ گمان صحیح ہے تو آؤ! تم میں سے کون مجھے قتل کر سکتا ہے۔

ابو سعد (قرشی) کے اس متکبرانہ بول پر ادھر سے سعد بن ابی وقاص بڑھے اور ایک ہی وار سے اس کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے کر کے اسے ڈھیر کر دیا۔ ابو سعد کے بعد قبیلہ عبدالدار کے نو شجاعت پیشہ یکے بعد دیگرے علم لہراتے ہوئے مقابلے پر ڈٹے رہے جن کا آخری شمشیر زن اسی قبیلہ کا حبشی غلام صواب نامی تھا۔ جب اس کا دایاں ہاتھ قزمان کی ضربت سے قلم ہو گیا تو اس نے علم بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ قزمان نے اس کا یہ ہاتھ بھی القط کر دیا تو صواب نے اپنی دونوں کہنیوں کے سہارے اسے سنبھالے رکھا۔ وہ زخموں کی شدت سے نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑا مگر اس حالت میں بھی اپنے علم کی حرمت قائم رکھنے کے لیے اسے پشت کے نیچے دبائے پڑا رہا۔ مرتے ہوئے اس کی زبان سے یہ کلمہ نکلا اے بنو عبد الدار! صواب قزمان یا سعد بن ابی وقاص کی ضربت سے قتل ہوا ہے۔

 

قریش کی شکست

جب قریش میں کوئی علم اٹھانے والا آگے نہ بڑھا تو وہ شکست خوردہ ہو کر بھاگ نکلے۔ اس بھگڈر میں انہیں اپنی ان ماہ پارہ نازنینوں کا خیال بھی نہ رہا جو مکہ سے ان کے ساتھ (اپنے لشکر کو) معرکہ کار زار میں اپنے حسن و جمال کی گرمی سے مشتعل کرنے کے لیے آئی تھیں ، جنہیں مسلمانوں نے اپنے نرغے میں لیا۔ اور تو اور وہ قریش اس تباہ حالی میں ان مہ پاروں کو بھی اپنے ہمراہ نہ لے جا سکے۔

 

قریش اپنے صنم کو بچانا بھول گئے

اہل مکہ جنگ میں جس معبود کی برکت حاصل کرنے کے لیے اسے کعبہ سے اٹھا لائے تھے اور وہ تنہا ایک ہودج میں براجمان تھا، آہ! قریش کا یہ بے بس پروردگار بھی اس افراتفری میں اپنے نشیمن سے اوندھے منہ زمین پر آ گرا اور دوست و دشمن دونوں کی روند سے پامال ہوتا رہا۔

 

احد میں مسلمانوں کی فتح پر تبصرہ

غزوۂ احد میں مسلمانوں کی پہلی فتح ان کی حربی قابلیت کا وہ ناقابل انکار معجزہ ہے جسے بعض اہل نظر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی مہارت سے تعبیر کرتے ہیں ، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ایسے دستہ کو درہ کے ناکہ پر متعین فرما دیا جس کا ایک ایک فرد قدر اندازی میں بے مثل تھا۔ بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حربی مہارت اسی درجہ کی تھی۔ یوں اگر اس ناکہ بنددستہ پر دو یا تین سو دشمن مل کر ہلہ بول دیتے تو ان کا ثابت قدم رہنا ممکن نہ تھا۔ لیکن کثرت کے مقابلہ میں جو قوت سب سے بڑی طاقت ہے، جس کے اجزاء میں فکر صحیح ہے، عقیدہ ہے اور خدائے برحق و برتر پر ایمان۔ ایسے لوگوں کی قلیل سے قلیل تعداد پر غالب آنا محال ہے۔ بشرطیکہ ان کا مقصد محض خدا طلبی ہو۔ یہی وجہ ہے جس کی بناء پر قریش کے تین ہزار شمشیر زن بہادروں نے سات سو مسلمانوں کے مقابلہ سے منہ پھیر لیا۔ نرغے میں آئی ہوئی قریش کی عورتوں کو باقاعدہ گرفتاری میں لانے کے لیے مسلمان تل ہی رہے تھے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ بھاگتے ہوئے دشمن کے تعاقب میں انہیں دور تک پہنچا آیا، مگر یہی دستہ واپس لوٹ کر غنیمت سمیٹنے میں لگ گیا جیسا کہ لشکریوں کی عادت ہے۔ گویا اس معاملہ میں مسلمان دشمن کی گھات سے بے فکر ہو کر دنیا کے لالچ میں مبتلا ہو گئے۔

 

اور لڑائی نے اپنا رخ بدل لیا

درہ کی ناکہ بندی پر جو دستہ متعین تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاکید فرما رکھی تھی کہ اگر دشمن ہمیں قتل بھی کر رہا ہو تو آپ لوگ اپنے مورچہ سے قدم نہ ہٹائیں۔ مگر درہ والوں نے جب یہ دیکھا کہ دوسرے مسلمان غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو ان کے دلوں میں بھی دنیا کی محبت عود کر آئی۔ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے دغنیمت لوٹ رہے ہیں۔ چلو ہم بھی ان کے ساتھ مل کر دشمنوں کا متروکہ مال جمع کریں۔ اس معاملہ میں دوسری رائے بھی تھی۔ دوسرے گروہ نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تاکید نہیں فرمائی کہ اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ ہوتا ہوا بھی دیکھیں تو یہاں سے قدم نہ ہٹائیں ؟ پہلے گروہ نے جواب دیا! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا نہ تھا کہ مشرکین کی شکست ہو جانے کے باوجود ہم اس جگہ کو نہ چھوڑیں۔

ہر شخص کی اپنی اپنی رائے تھی۔ آخر دستہ کے امیر جناب عبداللہ بن جبیرؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی روا نہیں اس پر بھی دس سے کم حضرات کے سوا بقیہ لشکری مورچہ چھوڑ کر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ غنیمت سمیٹنے میں مصروف ہو گئے۔

 

مسلمان دشمن کے نرغہ میں

مشرکین کے سپہ سالار خالد بن ولید نے دیکھا کہ درہ پر متعین دستہ کے اکثر سپاہی مورچہ سے ہٹ کر غنیمت کشی میں لگے ہوئے ہیں۔ خالد نے پہلے تو ان مسلمانوں کا صفایا کیا جو عبداللہ بن جبیر کے ہمراہ درہ کے ناکہ پر رہ گئے تھے اور دیکھا کہ غنیمت سمیٹنے والے مسلمانوں کی نظر خالد کے حملہ پر پڑی ہی نہیں تو ان پر بھی ہلہ بول دیا۔ جب ایک ایک مسلمان کے ہاتھ سے غنیمت کی ہر چیز رکھوا لی گئی تو قریش کو اس انداز سے بلایا جیسے اس نے مسلمانوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ مشرکوں نے بھی یہی سمجھا اور شکست خوردہ فوج غافل مسلمانوں پر پل پڑی۔ اب فتح یاب مسلمان دشمن کے نرغے میں تھے۔ ہر چند انہوں نے مال غنیمت پھینک کر تلواریں سونت لیں لیکن وقت گزر چکا تھا اور صف بندی ختم ہو چکی تھی اور مٹھی بھر مسلمانوں کو کفار کے اتنے بڑے لشکر نے گھیر لیا۔ افسوس یہ ہے کہ جو مسلمان ذرا دیر پہلے کلمۃ اللہ کی سرفرازی اور عقیدہ کی حفاظت کے لیے صف بندی اور ترتیب کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے ذرا دیر بعد ان کی صفیں تسبیح کے دانوں کی مانند بکھر گئیں۔ وہ موت کی دلدل میں پھنس گئے اور بربادی و ہلاکت کے چنگل میں آ کر دم توڑنے لگے۔ جو سپاہی ابھی ابھی ایک دور اندیش اور حوصلہ مند کی نگرانی اور ہدایت کے مطابق دشمنوں کے ساتھ نبرد آزمائی میں مصروف تھے۔ اس لمحہ میں انہیں اپنے قائد لشکر کی اتنی خبر نہ تھی کہ وہ کس جگہ پر ہیں۔ اس افراتفری میں خود مسلمان مسلمانوں پر وار کرنے لگے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ

ناگہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی آواز سننے میں آئی، مسلمانوں کے دل بیٹھ گئے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ اب فوج کا کوئی امیر نہیں رہا۔ فوج میں پہلے ہی سے انتشار تھا۔ مصیبتوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اگرچہ دشمن کا مقابلہ کیا جا رہا تھا لیکن سردار لشکر کی سربراہی کے بغیر۔ اس عجلت و ہراس میں مسلمانوں سے وہی کچھ ہوا جس کی توقع کی جا سکتی تھی، حتیٰ کہ مہاجرین کے ہاتھ سے ان کے ہم وطن حذیفہ کے والد حسیل (بن جابر) شہید ہو گئے جنہیں حملہ کے وقت شناخت نہ کیا جا سکا۔ ایسا نازک وقت آ پہنچا کہ چند مسلمانوں کے سوا جن میں علی بن ابی طالبؓ اور ان جیسے کچھ اور لوگ تھے ہر مسلمان کو اپنی جان بچانے کی فکر دامن گیر ہو گئی۔ جونہی قریش کے کانوں میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی آواز پڑی اس مقام کی طرف سیلاب کی مانند امنڈ کر جا پہنچے جہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوج کی نگرانی فرما رہے تھے۔ کفار مکہ کا ارادہ یہ تھا کہ فخر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش و بینی قطع کر کے دوسروں پر انہیں فخر حاصل ہو۔

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے گھیرے میں

جب کافروں کا لشکر امنڈ کر آ پہنچا تو قریب کے مسلمان دائرہ بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد کھڑے ہو گئے۔ ایمان از سر نو لوٹ کر ان کے روئیں روئیں میں بس گیا۔ اسی موت سے انہیں محبت ہو گئی جس کے خوف سے وہ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ دنیا کی اس زندگی کی ہوس ان کے دل سے نکل گئی جس کے لیے وہ ذرا دیر پہلے دم توڑ رہے تھے۔ اور جب مسلمانوں نے دیکھا کہ قریش کے پھینکے ہوئے پتھروں سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی ہو کر دو دندان مبارک شہید ہو گئے ہیں۔ لبوں پر زخم آ گیا ہے اور خود کے دو حلقے رخساروں میں دھنس گئے ہیں تو مسلمان کی نظر میں دنیا اور بھی حقیر ہو گئی۔ ان کی قوت ایمان ہزار گنا بڑھ گئی۔ ہر شخص نڈر دلیر کی طرح موت کے ساتھ کھیلنے کے لیے آمادہ تھا۔  (یہ پتھر عتبہ بن ابی وقاص نے پھینکا تھا) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سے ہٹ جانا گوارا کر لیا اور جو مسلمان آپ کو حصار میں لیے ہوئے تھے ان کے ہمراہ وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ ذرا اور چل کر اس کھائی میں گر پڑے جو ابو عامر نے مسلمانوں کی ہلاکت کے لیے کھود کر گھاس سے ڈھانک رکھی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرنے پر علی ابن ابی طالب نے فوراً ہاتھ پکڑ کر آپ کو سنبھال لیا اور طلحہ بن عبید اللہ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر کھائی سے باہر نکال لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ احد پر تشریف لے گئے جہاں دشمنوں کے تعاقب سے قدرتی طور پر حفاظت حاصل تھی۔

 

مسلمانوں کی سر فروشی

جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے ہتھیلی پر سر رکھ لیا تھا اور کسی حالت میں انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف گوارا نہ تھی (انہوں نے) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حصار میں لے لیا۔

 

ام عمارہؓ کی بہادری

یہ نیک نہاد بی بی انصار کے خاندان سے تھیں۔ دوپہر تک ان کا یہ مشغلہ تھا کہ اپنے مشکیزہ میں پانی بھر کر زخمی سپاہیوں کو پلاتی رہیں۔ یہ سماں (دوپہر کے بعد) دیکھا کہ مسلمان کفار کے نرغے میں آ جانے کی وجہ سے اس حالت تک آ پہنچے ہیں تو مشکیزہ پھینک کر تلوار سونت لی اور قریش پر ٹوٹ پڑیں۔ تیر اندازی کا موقع آیا تو ان کے پاس کمان اور ترکش میں تیر بھی تھے۔ تیروں سے کفار کی تواضع فرمانے لگیں۔ اس طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو دشمنوں سے بچاتی ہوئی زخمی ہو کے گر پڑیں م: لیکن اللہ نے ان کی زندگی ایک اور غزوہ کی شرکت کے لیے باقی رہنے دی حتیٰ کہ مسلیمہ کذاب کے غزہ میں شہید ہوئیں۔ 1؎

 

ابو دجانہ کی پشت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سپر بن گئی

حضرت ابو دجانہؓ کی محبت قابل دید ہے۔ بلا انتظار اپنا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ جو تیر سرور کائنات کی طرف آتا وہ اسے اپنی پشت پر روک لیتے۔

 

اے سعد تجھ پر میرے ماں باپ نثار

جناب سعد بن ابی وقاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے ہوئے دشمنوں پر تیر برسا رہے تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے انہیں تیر عنایت فرماتے اور زبان مبارک سے ارم فداک ابی و امی! فرماتے کہ اے سعد! تجھ پر میرے ماں باپ نثار ہوں۔ یہ لو تیر اور کافروں پر چلاؤ!

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیر اندازی

سعد بن ابی وقاص کے یہاں پہنچنے سے پہلے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شدت سے کافروں پر تیر پھینکے کہ کمان کا چلہ بھی ٹوٹ گیا۔ مسلمانوں میں سے جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید ہونے کا یقین ہو گیا ان میں ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی تھے۔ جب یہ افواہ ان کے کانوں میں پہنچی تو گھبرا کر ایک طرف پہاڑ کے کنارے جا بیٹھے۔ یہاں انہیں حضرت انس بن نضرؓ نے دیکھا اور یوں بیٹھ رہنے کا سبب پوچھا تو جناب ابوبکرؓ و عمرؓ نے جواب دیا ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر حیران ہیں۔ انس نے کہا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے ہیں تو آپ لوگ زندہ رہ کر کیا کریں گے؟اٹھئے جس مقصد کی غرض سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جان دی ہے آپ لوگ بھی اس مقصد کے لیے زندگی نثار کر دیجئے۔ اس کے بعد ہرسہ حضرات دشمنوں پر پل پڑے۔ انس بن نضرؓ دشمنوں کے ڈھیر میں در آئے اور داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ مقتل میں ان کا سا واسطہ کسی کو نہ پڑا ہو گا۔ زخموں کی کثرت کی وجہ سے (انہیں ) شناخت کرنا دشوار ہو گیا۔ آخر ان کی حقیقی بہن تشریف لائیں تو اپنے بھائی کی انگشت پر ایک نشان کی وجہ سے انہیں شناخت فرمایا۔

1؎ اصابہ ابن حجر کتاب النساء:م

 

قریش کی دم بازی

دشمنوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی افواہ سے کس قدر خوشی حاصل ہوئی! ابو سفیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود گرامی کو مقتولین میں تلاش کرنے لگا۔ اس کے ہوا خواہوں کو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا یقین اس لیے بھی ہو گیا کہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسی آواز کانوں تک نہ پہنچ سکی جس سے وفات کی تکذیب ہوتی ہو۔ لیکن مسلمانوں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی وجہ سے آپ کی زندگی کی اطلاع نہ کی۔ دوسرے یہ کہ اس اطلاع سے کافر ہم پر ٹوٹ پڑیں گے اور ہمیں مغلوب ہونا پڑے گا۔ اتفاق سے حضرت کعب بن مالکؓ جب ابو دجانہؓ کے دستہ کی طرف سے آگے بڑھے تو ایک چہرۂ گرامی پر نظر پڑی جس پر خود کے نیچے دونوں آنکھیں نور برسا رہی تھیں۔ کعب نے پہچان لیا اور دفعتہً نعرہ لگایا۔

یا معشر المسلمین! ھذا رسول اللہ

اے مسلمانو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو زندہ تشریف فرما ہیں۔

کعب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر بھی ضبط نہ کر سکے۔ مسلمانوں میں جس کے کان میں یہ آوازپڑی چشم زدن میں کعب کی آواز کی جگہ پر آ پہنچا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما سے یہاں سے ہٹ کر ایک پہاڑی گھراؤ میں چلے آئے۔ اس مقام پر جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حصار میں رکھا ان میں دوسرے حضرات کے سوا جناب ابوبکرؓ و عمرؓ و علیؓ اور زبیر بن العوامؓ بھی تھے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابی بن خلف کی مبارزت

قریش کو پہلے سے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا پورا یقین نہ تھا بلکہ وہ اسے مسلمانوں کی چال سمجھتے تاکہ ان کے طرف دار جان کی بازی لڑا دیں۔ قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لیے موت کا پیش خیمہ سمجھتے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر دھاوا بول دیا۔ ا ن کے اس دستہ کے سپہ سالار ابی بن خلف (قرشی) تھے۔ وہ اپنے ہاتھ میں چھوٹی برچھی لے کر نکلے اور کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے کرو۔ اگر انہیں اپنا نجات دہندہ مطلوب ہے تو ان کی یہ تمنا میں پوری کر دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جناب) حارث بن الصمہؒ کے ہاتھ سے ان کا حربہ (نیزہ) لے کر ابی کی طرف پھینکا جس کی ضرب سے ابی گھوڑے کی زین ہی پر اوندھا ہو گیا۔ اس کا گھوڑا جس طرف سے آیا تھا خود بخود اسی راہ پر چل نکلا تاکہ ابی راستے میں بے یار و مددگار زندگی سے نجات حاصل کر سکے۔ اور ایسا ہی ہوا۔

 

دندان مبارک

ادھر علی ابن ابی طالبؓ اپنی ڈھال میں پانی بھر لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخساروں کا زخم دھویا۔ بقیہ پانی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک تر کیا۔ ابو عبیدہ الجراحؓ نے رخساروں سے خود کے حلقے کھینچ کر نکالے جن کے ساتھ سامنے کے دو دانت مبارک خود بخود اکھڑ آئے۔

 

قریش کا ایک اور حملہ

مسلمانوں کو اس طرح مصروف پا کر خالد بن ولید نے ایک اور حملہ کیا جس کا رخ حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو ملا کر پھیر دیا مگر مسلمان یہاں سے ہٹنے پر بھی مجبور ہو گئے۔ اب وہ احد کے ایک بلند ٹیلے پر جا پہنچے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخموں کی شدت سے بیٹھ کر نماز ادا کرنے پر مجبور ہوئے اور مسلمانوں نے بھی آپ کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز ادا کی۔

 

ابوسفیان کا نعرہ

قریش اپنی فتح کے نشے میں اس طرح بدمست ہو گئے جیسے انہوں نے معرکہ بدر کا انتقام لے لیا ہو۔ اسی جوش میں ابوسفیان نے نعرہ لگایا۔

یوم بیوم والموعد العام المقبل

آج بدر کا انتقام لے لیا گیا ہے اگلے سال ایک میدان اور ہو گا۔

 

ہندہ زوجہ ابو سفیان کی درندگی (مسلمان نعشوں کا مثلہ)

ابوسفیان کی اہلیہ (ہندہ) نے نہ تو فتح پر ہی قناعت کی نہ اپنے باپ کے قاتل (سیدہ حمزہؓ) کی شہادت سے اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا۔ اس نے اپنی آتش غیظ بجھانے کے لیے جاہلیت کی بہیمانہ خصلت سے کام لیا۔ اس نے مسلمانوں کی لاشوں سے ایک ایک کے کان اور ناک کٹوائے۔ ان سے گلے کا ہار گوندھا۔ باقی اپنے کرن پھول میں پروئے، ا لامان! اس پر بھی غضب کم نہ ہوا۔

 

عم رسولؓ کا کلیجہ چبانا

جناب حمزہؓ کی لاش ڈھونڈوائی اور ان کا کلیجہ نکال کر چبایا مگر نگلا نہ جا سکا، اگلنا پڑا۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ (ہندہ نے) اپنی سولہ سہیلیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لاشوں کی توہین میں بھی بہت کچھ کیا۔

اور یہ سعادت قریش کی عورتوں ہی کے لیے مقدر نہ تھی، ان کے مردوں نے بھی جی کھول کر ارمان نکالے۔ البتہ ابوسفیان نے اس سے اپنا دامن بچائے رکھا۔ بایں ہمہ اس نے کہا نہ تو انہیں میری طرف سے یہ ترغیب دی گئی اور نہ مجھے ان کا یہ فعل ناگوار گزرا۔ حتیٰ کہ ابو سفیان نے ایک مسلمان کے بالمواجہہ یہ بھی کہہ دیا کہ تمہاری لاشوں کے مثلہ کرنے میں خوش ہوں نہ بیزار۔ نہ میں نے اپنے ساتھیوں کو یہ حکم دیا اور نہ اس سے انہیں منع کیا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار غم

قریش اپنے مردے دفن کر کے مکہ واپس لوٹ گئے تو مسلمان اپنے شہیدوں کی لاشیں جمع کرنے کے لیے میدان میں آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عم بزرگوار کی لاش ڈھونڈ رہے تھے۔ جونہی ان کا پیٹ چاک اور مثلہ دیکھا کلیجہ پکڑ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خدا نہ کرے دوبارہ ایسی مصیبت دیکھوں۔ آج تک میں ایسے صدمے سے دوچار نہ ہوا تھا! اور فرمایا اگر خدا نے مجھے ان پر غلبہ دیا تو میں ان کی لاشوں کا ایسا مثلہ کروں گا جو عرب کے لیے مثال بن جائے! اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین واصبر وما صبرک الا باللہ ولا تحزن علیھم ولا تک فی ضیق مما یمکرون (127-126:16)

(او مسلمانو!) دین کی بحث میں مخالفین کے ساتھ سختی بھی کرو تو ویسی ہی سختی کرو جیسی تمہارے ساتھ کی گئی۔ اور اگر (لوگوں کی ایذاؤں پر) صبر کرو تو بہرحال صبر کرنے والوں کے حق میں صبر بہتر ہے اور (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! تم مخالفوں کی ایذاؤں پر) صبر کرو اور خدا کی توفیق کے بدوں تم صبر کر بھی نہیں سکتے اور ان (مخالفوں کے حال پر) افسوس نہ کرو اور یہ لوگ جو تمہاری مخالفت میں تدبیریں بھی کیا کرتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہو۔

جس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ارادہ ترک فرما دیا اور مسلمانوں کو بھی متنبہ فرما دیا کہ کبھی کسی کا مثلہ نہ کریں۔

 

شہدائے احد کی تدفین

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہؓ کے کفن میں اپنی رداء مبارک استعمال فرمائی۔ ان پر نماز جنازہ پڑھی۔ اتنے میں سیدہ صفیہ (بنت عبدالمطلب) کہ سیدنا حمزہؓ کی ہمشیر اپنے بھائی کے شہید ہونے کی خبر سن کر تشریف لے آئیں۔ وہ بھی انہیں اس حالت میں دیکھ کر ہکا بکا رہ گئیں۔ آخر دعائے مغفرت کرنے کے بعد حمزہؓ کو دفن کر دیا گیا اور اسی طرح مسلمانوں کے دوسرے شہیدوں کو بھی مقتل ہی میں دفن کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو ہمراہ لے کر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ (احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے)

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تشویش

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دولت خانہ میں تشریف لائے اور مختلف تصورات میں ڈوب گئے۔ کبھی خیال گزرتا کہ مدینہ کے یہود و منافق اور مشرکین کو ہماری شکست سے بہت خوشی ہوئی ہو گی۔ کبھی یہ کہ کل تک یثرب میں کوئی شخص مسلمانوں کے سامنے سرتابی نہ کر سکتا تھا اور یہ کہ عبداللہ بن ابی سلول اپنی جماعت کو اس لیے احد سے واپس لوٹا لایا کہ میں نے اس کی رائے پر عمل کیوں نہیں کیا کہ مدینہ ہی میں بند ہو کر دشمن کی مدافعت کی جائے۔ ابن ابی سلول کو ہم سے یہ گلہ بھی تو ہو گا کہ میں نے اس کے حلیف یہودی جرگہ کو شہر سے جلاوطن کر دیا۔ کبھی یہ خیال گزرتا کہ اگر مسلمان احد کی شکست کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ گئے تو ظاہر ہے کہ میں اور میرے رفقاء سب کے سب اہل عرب کی نظر میں حقیر ہو جائیں گے۔ مدینہ میں ہمارا وقار ختم ہو جائے گا اور قریش اپنے فرستادے ملک میں بھیج کر ان کی زبان سے ہمیں خوب ذلیل کرائیں گے، ہم پر تمسخر اڑا کر ہمیں تمام عرب میں رسوا کریں گے! ہمارے خلاف ان طریقوں سے مشرکین اور بت پرستوں کی جرات سے قیامت برپا ہو جائے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ مستحکم فرما لیا کہ جس طرح ہو سکے احد کی شکست کا دھبہ صاف کر کے مسلمانوں کے اندر ایسی قوت کو ابھارا جائے جس کے رعب سے یہود اور منافقین کے حوصلے بڑھنے نہ پائیں اور اپنے رفقاء کے ساتھ پہلے کی طرح یثرب میں عزت و شان کی زندگی بسر کی جا سکے۔

 

احد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا فیصلہ

دوسرے روز (17شوال دو شنبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مناد نے ان مسلمانوں کو قریش کے تعاقب کے لیے پکارا جو احد میں شریک ہوئے تھے اور سب کے سب دشمن کے تعاقب میں روانہ ہوئے۔

 

حمراء الاسد

ابو سفیان نے بھی سن لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (جب) حمراء الاسد تک پہنچے تو ابو سفیان اس سے چند میل آگے روحاء (مقام) میں پڑاؤ ڈالے پڑا تھا (حمراء الاسد، مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے) معبد الخزاعی سے جو ادھر (حمراء الاسد) سے گزر کر روحاء میں پہنچا اور ابھی مشرف بہ اسلام نہ ہوا تھا ابو سفیان نے دریافت کیا تو اس نے کہا (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسا لشکر لے کر آ رہے ہیں جس کی مثال آج تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس فوج میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو احد میں شریک نہ ہوئے تھے۔ انتقام کے جوش میں ان کی تلواریں میان سے نکلی ہوئی ہیں۔ یہ سن کر ابوسفیان طرح طرح کے تفکرات میں غرق ہو گیا۔ کبھی اسے خیال گزرتا کہ احد کی فتح یابی کے بعد (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ سے فرار بہتر ثابت ہو گا مبادا مقابلہ کرنے کی صورت میں جیتی ہوئی بازی ہارنا پڑے۔ عرب خصوصاً میرے رفقاء ہی مجھے ملامت کریں گے۔ اسے یہ وہم بھی گزرتا کہ شکست کی صورت میں ہمارے خلاف قضا و قدر کا یہ آخری فیصلہ ہو گا جس کے بعد ہم کبھی نہ سنبھل سکیں گے۔ آخر ہمیں کیا کرنا چاہیے جس سے ملک میں سرخ رو رہ سکیں ؟

ابوسفیان کو ایک تدبیر سوجھی جب قبیلہ عبدالقیس کا ایک کارواں مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اس نے دیکھا اور اسی کی زبانی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ تہدید پہنچانے کی سازش بنائی۔ جونہی قبیلہ مذکور حمراء الاسد (منزل گاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) میں پہنچا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف سے کہا ابوسفیان آندھی کی طرح آ رہا ہے تاکہ مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ کر نابود کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو اظہار ضعف و عجز کے بغیر اپنے قدموں پر جمے رہے اور قریش کے سامنے(انہیں دکھانے کی غرض سے) اپنا استقلال ثابت کرنے کے لیے مسلسل تین شب تک آگ کا بہت بڑا الاؤ جلائے رکھا۔ ابوسفیان بھی الاؤ کو جلتا ہوا دیکھتا رہا۔ آ کر اس کی ہمت دوسرا مقابلہ کرنے سے جواب دے گئی اور وہ احد ہی کی فتح کو اپنے لیے غنیمت سمجھ کر مکہ کی ڈگر پر چل دیا۔

 

منافقین مدینہ کا تمسخر

ان کے چلے جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپس تشریف لے آئے۔ منافقین نے اپنے مشہور انداز میں مسلمانوں کا تمسخر اڑانا شروع کر دیا۔ ا ن میں سے ایک شوخ چشم (منافق) نے مسلمانوں سے سوال کیا بدر کی فتح مندی اگر (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توثیق رسالت کی نشانی تھی تو احد میں آپ کے صاحب کی شکست کو کس سے تعبیر کیجئے گا؟

٭٭٭

 

 

 

 

احد کے نتائج

 

ابوسفیان کی مکہ میں واپسی

مکہ میں مسلمانوں کی شکست کی خبر پہلے سے پہنچ چکی تھی، مگر جب ابو سفیان احد کا میدان مار کر مکہ پہنچا تو فخر سے اٹھلاتا ہوا پہلے کعبہ میں داخل ہوا (کیونکہ اس فتح سے قریش کی بدر میں شکست کا دھبہ دور ہو گیا تھا) اور اپنے پشتینی معبود ہبل کے حضور حمد و ثنا کا تحفہ پیش کیا۔ اس نے بت پرستی کی مروجہ رسم کے مطابق کانوں کی لو سے بڑھے ہوئے بال کٹوائے۔ لیجئے آج ابو سفیان کی وہ قسم پوری ہو گئی جس میں اس نے بدر کا انتقام لیے بغیر بیوی کو خود پر حرام کر لیا تھا۔ وہ خوشی خوشی اپنے گھر میں داخل ہوا۔

 

اور مدینہ میں مسلمانوں کی مراجعت

کافروں کے مکہ کی طرف لوٹ جانے کے بعد مسلمان مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تو اپنے خلاف طرح طرح کی باتیں سنیں۔ باوجود یہ کہ انہوں نے (حمراء الاسد) میں مسلسل تین شب آلاؤ مشتعل رکھا جسے دشمن دیکھتا رہا اور اسے آگے قدم بڑھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ خود احد میں مسلمانوں کی باتوں سے ایذاء برداشت کرنا پڑی۔ بایں ہمہ شہر میں اب بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی اقتدار تھا تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک گہرے غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مدینہ اور اس کے باہر رہنے والے قبائل جو کل تک ہمارے مطیع و منقاد تھے وہ احد کے حادثہ سے ہمارے خلاف کوئی سازش نہ کر لیں۔ اس پیش بندی کے مدنظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اور بیرونی قبائل کی خبریں حاصل کرنے کا پورا انتظام کر لیا تاکہ مسلمانوں کی سطوت و عظمت بحال رکھنے کی تدبیر میں کمی نہ آنے پائے۔

 

سریہ ابو سلمہ بن عبدالاسدؓ

احد سے دو ماہ بعد اطلاع عرض ہوئی کہ بنو اسد کے سرغنے طلیحہ و سلمہ (پسران خویلد) اپنے گروہ لے کر مدینہ پر چڑھائی کر رہے تھے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے گھر میں حملہ کر کے تمام مال لوٹ لیا جائے اور مسلمانوں کے وہ مویشی مدینہ میں باقی نہ رہنے پائیں جو شہر کی ہری دوپ چر کر فربہ ہو رہے ہیں۔

بنو اسد کی جرأت کا سبب مسلمانوں کی احد میں ہزیمت ہی تو تھی جس کی بنا پر سمجھ لیا گیا کہ اب مسلمانوں میں تاب مقاومت نہیں رہی۔ یہ خبر سنتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ بن عبدالاسدؓ کو ان کے استیصال کی غرض سے نامزد فرمایا۔ علم دست مبارک سے تیار فرمایا۔ اس دستہ میں ایک سو پچاس مسلمان تھے جن میں سر عنوان ابو عبیدہؓ (الجراح) سعد بن ابی وقاصؓ اور اسید بن حضیرؓ تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مندرجہ ذیل عنوانات فرمائیں :

الف۔ (اہل دستہ) شب میں سفر اور دن میں کسی محفوظ مقام پر چھپے رہیں۔

ب۔ شب میں بھی عام شاہراہ سے ہٹ کر چلیں تاکہ کوئی رہ گزر نہ دیکھ لے۔

ج۔ دشمن پر اچانک حملہ کریں۔

سالار دستہ (حضرت ابو سلمہؓ) نے ہدایات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پابندی کی اور ایک صبح کے وقت اچانک دشمن پر بزن بول دیا۔ کفار سنبھلنے نہ پائے تھے کہ مسلمانوں کی زد میں آ گئے اور فرار پر مجبور ہوئے۔ جناب ابو سلمہؓ نے دستہ کے دو گروہ اس کے تعاقب میں بھیجے اور انہیں ہدایت کر دیا کہ دشمن اور اس کے مال دونوں پر قابو پا لیا جائے! سپہ سالار خود کچھ دیر تک اسی مقام پر ہے حتیٰ کہ مسلمانوں سپاہی دشمنوں کا سامان لے کر واپس تشریف لے آئے۔ امیر دستہ نے وہیں غنیمت تقسیم کر دی۔ پہلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مساکین اور مسافروں کا خمس علیحدہ کر لیا۔ اس کے بعد جو کچھ بچا غازیوں میں تقسیم فرما کر ظفر یاب مدینہ میں واپس تشریف لائے۔ اس فتح سے مسلمانوں کی ہمت بندھ گئی اور احد کی ہزیمت کے صدمہ میں گونہ تخفیف ہو گئی، لیکن سالار دستہ حضرت ابو سلمہؓ نے جلدی وفات پائی۔ احد میں انہیں جو زخم لگا تھا وہ اس دوڑ دھوپ میں کھل گیا۔

 

سریہ عبداللہ بن انیس

مذکورہ واقعے کے بعد اطلاع عرض ہوئی کہ کافروں میں سے خالد بن سفیان (بن فبیح الٰہذلی) مقام نخلیا (عرنہ جائے است در عرفان منتہی الارب م) میں مدینہ پر یلغار کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن انیس کو جاسوسی پر متعین فرمایا جب عبداللہ حریف کے سر پر جا پہنچے اس وقت خالد مذکور اپنی (کئی) بیویوں کو ہمراہ لے کر ان کے پڑاؤ کی غرض سے جگہ کا انتخاب کر رہا تھا۔ جونہی عبداللہ کو دیکھا خالد نے کہا آپ کون ہیں ؟ جواب میں بھی عرب باشندہ ہوں سنا تھا کہ آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لشکر جمع کر رہے ہیں۔ اسی خبر پر یہاں پہنچا ہوں۔ دشمن (خالد) نے اپنا منصوبہ عبداللہ کے سامنے بیان کر دیا۔ بے شک میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے فوج جمع کر رہا ہوں عبداللہ نے دیکھا تو دشمن کے ساتھ کوئی مرد نہ تھا وہ ان کے ساتھ ادھر ادھر پھرتے رہے جونہی موقعہ نظر آیا خالد کو قتل کر کے ان کی بیویوں کو اپنے شوہر کی لاش پر نوحہ گری کے لیے چھوڑ دیا اور مدینہ حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور واقعہ عرض کیا۔

 

خالد الہٰذلی کا انتقام

مقتول خالد بن سفیان کے قبیلہ دار کچھ مدت تک خاموش بیٹھے رہے۔ آ کر ان کے ایک خاندانی جو بنو لحیان کے نام سے موسوم تھا نے مسلمانوں سے اپنے مقتول کا بدلہ لینے کی تدبیر پیدا کر لی۔ بنو لحیان کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا ہم مسلمان ہو چکے ہیں برائے خدا ہمارے قبیلہ میں ایسے مسلمان حضرات بھیج دیجئے جو ہمیں شریعت کی تلقین کریں اور قرآن کی تعلیم سے بہرہ مند فرما سکیں۔

 

غزوۃ الرجیع

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وطیرہ تھا کہ جب کوئی شخص آپ کے سامنے ایسی خواہش ظاہر کرتا آپ اس کی درخواست رد نہ فرماتے تاکہ لوگوں کو ایسے دین کی تعلیم سے ہدایت و راہ حق کی طرف لانے میں کامیاب ہوں اور رفتہ رفتہ انہی زیر تبلیغ لوگوں کے سامنے مسلمان ہو جانے سے دشمنان دین و حاسدان اسلام کے خلاف ان کی کمک حاصل ہو سکے جیسا کہ مکہ میں بیعت عقبۃ الکبریٰ کے موقعہ پر اوس و خزرج کی اسی قسم کی درخواست پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی یثرب میں اپنے داعی مقرر فرمائے۔

 

قبیلہ ھذیل کے لیے چھ صحابہ کا تقرر اور حادثہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درخواست کنندوں کی تربیت کے لیے چھ مومنین کو ان کے ساتھ بھجوا دیا مگر جونہی دونوں گروہ (ہذلی اور ہرشش مومنین) علاقہ حجاز کے رجیع نامی مقام پر پہنچے دھوکہ باز ھذیل نے مسلمانوں کے ساتھ غداری کی اپنے قبیلہ (ھذیل) کو پکارا جنہوں نے چاروں طرف سے ان چھ مومنوں کو گھیر لیا۔ مسلمانوں نے دیکھا اور تلواریں سونت کر مقابلہ پر اتر آئے۔ ھذیل نے مسلمانوں سے کہا ہم خود تمہیں قتل کرنے کی بجائے اہل مکہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں ! یہ سن کر مسلمانوں نے اشاروں میں طے کر لیا کہ اہل مکہ جیسے دشمنوں کے ساتھ قید ہونے سے بہتر ہے کہ انہیں کے ہاتھوں ہو جائیں۔ اور انہوں نے حوالگی سے انکار کر دیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ان سے عہدہ برآ نہ ہو سکیں گے اور مقابلہ میں ڈٹ گئے۔ مگر ھذیل نے ان میں سے تین مسلمانوں کو شہید کر دیا اور تین حضرات کو گرفتار کر کے مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں جناب عبداللہ بن طارق کافروں کے ہاتھ سے نکل گئے اور تعاقب پر تلوار سونت کر مقابلہ کے لیے کھڑے ہو گئے مگر کافروں نے مقابلہ کرنے کی بجائے پتھراؤ سے انہیں شہید کر دیا۔

 

حضرت زیدؓ و خبیبؓ  اہل مکہ کے ہاتھ میں

ان دونوں کو مکہ لے گئے۔ حضرت زید بن دشنہؓ نے بدر میں امیہ بن خلف (قرشی) کو قتل کیا تھا۔ انہیں امیہ کے بیٹے صفوان نے خرید کر قتل کرنے کے لیے اپنے غلام نسطاس کے حوالے کر دیا۔

 

زیدؓ اور ابو سفیان کا مکالمہ

انہیں مقتل میں پہنچا دیا گیا تو ادھر سے ابو سفیان آ پہنچے۔ انہوں نے زیدؓ سے دریافت کیا:

زیدؓ! آپ کو یہ گوارا ہو سکتا ہے کہ اس مقتل میں (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن ماری جاتی اور آپ اپنے اہل و عیال میں ہوتے؟

زیدؓ! بخدا! مجھے یہ گوارا نہیں کہ میری جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور انہیں کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے اہل و عیال کے جھرمٹ میں بیٹھا رہوں۔

ابوسفیان نے حیرت سے کہا میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس کے دوست (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیقوں سے بڑھ کر اپنے دوست کے محب ہوں ! اس کے بعد نسطاس کی تلوار نے زید بن دثنہؓ کے خون سے مکہ کی گرم زمین کو سیراب کر دیا۔ زیدؓ نے اس راہ میں جس طرح جان دی اس سے ثابت ہوا کہ دین اور خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جان دینا کتنا سہل ہے!

 

خبیبؓ کی شہادت

خبیب کو کئی روز قید میں رکھنے کے بعد قتل گاہ میں لایا گیا۔ آ ج انہیں دار پر لٹکایا جانا ہے۔ حضرت خبیبؓ کافروں سے اجازت لے کر دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد ان سے یوں مخاطب ہوئے:

اما واللہ! لولا ان تظنوا انی انما طولت جزعا من القتل لا ستکثرت من الصلاۃ

(بخدا! اگر تمہاری طرف سے اس بدگمانی کا شبہ نہ ہوتا کہ میں موت کے ڈر سے نماز کو طول دے رہا ہوں تو ابھی قیام و قعود میں اور اضافہ کرتا)

 

حضرت خبیبؓ کی بد دعا سے کافروں پر لرزہ

ایک ناہنجار جب ان کے گلے میں پھانسی کی رسی ڈالنے کے لئے تیار ہوا تو آپ نے غضب ناک ہو کر با آواز بلند یہ دعا مانگی:

اللھم احصھم عدداً واقتلھم بدداً ولا تغادر منھم احداً

یا اللہ ! ان میں سے ایک ایک کو اپنی گرفت میں لے لیجیو۔ سب کے سب تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جائیں ان میں سے کوئی زندہ نہ بچے۔

یہ سن کر کافروں کے دل بیٹھ گئے، مبادا انہیں غیبی عذاب گھیر لے اور سب پہلو کے بل زمین پر لیٹ گئے۔ ذرا سنبھلے تو خبیبؓ کے گلے میں پھانسی کی رسی کھول کر انہیں قتل کرا دیا۔ آہ! اپنے پیش رو زیدؓ بن دثنہ کی طرح حضرت خبیبؓ نے بھی دین اور خدا اور رسولؐ کی محبت پر جان نثار کر دی۔

ذرا دیر میں زیدؓ اور خبیبؓ دونوں کی روحیں پاک آسمان پر جا پہنچیں۔ اگر وہ دین سے انکار کر دیتے تو انہیں اپنی جان سلامت رہنے کا پورا موقعہ حاصل تھا لیکن اس سے کہیں زیادہ انہیں خدا پر یقین تھا۔ انہیں ایک دفعہ مرنے کے بعد بقائے نفس اور یوم حساب پر تیقن تھا، یعنی:

الیوم تجزی کل نفس بما کسبت (17:40)

آج ہر شخص کو کیے کا بدلہ دیا جائے گا۔

اور:

الا تزروازرۃ وزرا اخری (38:53)

کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اپنی گردن پر نہیں لے گا۔

زیدؓ اور خبیبؓ دونوں نے موت کو اپنی اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر فیصلہ کر لیا کہ زندگی کا یہ رشتہ ایک نہ ایک دن یوں بھی منقطع ہونے کو ہے، کیوں نہ اسے خدا کی محبت پر نثار کر دیا جائے انہیں یہ تیقن بھی تھا کہ مکہ کی جو زمینا ٓج ہمارا خون پینے کے لئے بے قرار ہے۔ چند روز کے بعد ہمارے دینی بھائی اس سر زمین پر فاتحانہ کروفر کے ساتھ قدم رنجہ فرمائیں گے اور کعبہ کے ان بتوں کو اپنے پیروں سے مسل کر رکھ دیں گے۔ خدا کے گھر کو شرک اور بتوں کی نجاست سے پاک کر کے اس کی تقدیس میں وہ تحفہ پیش کریں گے کہ جو اس گھر کے شایان ہے جس کے بعد یہ کعبہ خدا کے سوا کسی کی پرستش کا گہوارہ نہ بن سکے گا۔

 

مستشرقین کی خیرہ چشمی

حیرت ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے بدر کے دو جنگی اسیروں (نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط) کے قتل پر مستشرقین نے واویلا نے زمین و آسمان ایک کر دیے ، لیکن اہل مکہ کے ہاتھ سے حضرت زیدؓ ، و حبیبؓ جنگی قیدی بھی نہ تھے بلکہ انہیں فریب دیا گیا۔ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے بنو ھذیل کی تعلیم کی غرض سے لے جائے گئے ، جن میں سے چار مسلمانوں کو ھذیل ہی نے شہید کر دیا اور دو قریش کے ہاتھوں فروخت کر دیے گئے اور انہیں اہل مکہ نے نہایت بے رحمی و دنائت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا۔

انصاف یہ ہے کہ مستشرقین نے جس قوت کے ساتھ نضر و عقبہ (بدر کے اسیروں ) کے قتل پر واویلا کیا زیدؓ و خبیبؓ کے کافروں کے ہاتھ سے قتل ہونے پر بھی تو کچھ لکھتے آہ ! ان دو مسلمانوں کے قتل ناحق پر جنہیں ہذیل دین سکھانے کے فریب سے لائے، ان میں چار حضرات کے خون سے اپنا دامن رنگین کیا اوردو کو مکہ کے خونخوار وحشیوں کے حوالے کر دیا!

نابکاران ھذیل نے جس فریب کے ساتھ ان چھ مومنوں کو شہید کیا، مسلمانوں کے لیے وہ بے حد رنج و ملال کا باعث بن گیا۔ صحابہ میں سے (شاعر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جناب حساب بن ثابتؓ نے حضرت خبیبؓ اور زیدؓ پر رقت انگیز مرثیہ کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فکر دامن گیر کہ اگر اس حادثہ سے شہہ پا کر عرب مسلمانوں کو پامال کر نے کے لیے جمع ہو گئے تو کیا ہو گا۔

 

                حادثہ بئرمعونہ

اسی دوران (۴ھ : م:) میں قبیلہ کلاب کا سردار ابوبراء (عامر بن مالک) باریاب ہوا(اس کا لقب ملاعب الاسنہ ہے) مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے انکارکے باوجود ابوبراء نے عرض کیا کہ میں اسلام کا دشمن نہیں ہوں آپ میرے ہمراہ ایک وفد ہمار ے صوبہ نجد میں بھیج دیجے جو وہاں اسلام کی تبلیغ کرے امید ہے کہ وہ لوگ مسلمان ہو جائیں گے۔

ادھر ھذیل کا لگایا ہوا زخم ابھی تازہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوبراہ کو نفی یا اثبات میں کوئی جواب نہ دیا۔ تب ابوبراء نے عرض کیا میں ذمہ دار ہوں آپ اپنا وفد بھیجے جو انہیں اسلام کی دعوت پیش کرے۔ ابوبراء اپنی قوم میں موقرتھا وہ جس شخص کو امان دیتا تھا کسی کو اس سے تعرض کی مجال نہ تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب منذر بن عمرو(برادر بنو ساعدہ) کی نگرانی میں چالیس( م: ستر: بروایت بخاری) منتخب روزگار مسلمانوں کا وفد بھجوادیا۔ یہ حضرات بئیر معونہ پر پہنچے(جو بنو عامر اور بنو سلیم دونوں کے حلقے میں واقع تھا) تو سب سے پہلے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   کا گرامی نامہ جو عامر بن الطفیل( عدو اللہ و عدو رسول) کی طرف تھا ایک مسلمان جناب حرام بن ملحان کے ہاتھوں بھیجا جسے عامر نے کھولا تک ہیں اور حضرت حرامؓ کو قتل کر دیا۔ اس نے ابو براء (عامر بن مالک مذکور جو ان مسلمانوں کو تبلیغ اسلا م کے لیے لایا تھا) کے قبیلہ کو اپنی کمک کے لیے پکرا مگر انہوں نے اپنی ضمانت دہی کی  وجہ سے عامر کی نصرت سے انکار کر دیا۔ تب بھی اس نے دوسرے قبائل کو اپنے ہمراہ ملا کرمسلمانوں کو قتل کرنا واجب سمجھ کر انہیں نرغہ میں لے لیا۔ اور محصورین نے خود کو اس  بے بسی میں پا کر تلواریں سونت لیں اور ان ستر حضرات میں سے دو مسلمان زندہ رہ سکے (۱) کعب بن زیدؓ جنہیں عامر بن طفیل نے بے روح سمجھ کر چھوڑ دیا یہ صحیح سلامت مدینہ تشریف لے آئے (اور غزوہ خندق میں شہید ہوئے زاد المعاد : م:) اور (۲) حضرت عمرو بن امیہ ضمری جو اسیر کر لیے گئے۔ جب عامر کو ان کے ضمری ہونے کا علم ہوا تو ان کی چوٹی کاٹ کر غلام کی حیثیت سے آزاد کر دیا کہ ایک غلام آزاد کرنے کا قرض اس کی ماں کے ذمہ تھا جو عامر نے اس صورت میں ادا کیا۔

جناب عمروؓ  (بن امیہ) مدینہ روانہ ہوئے ار مقام قرقرہ پر پہنچے تو آرام کرنے کے لیے ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ مدینہ کی طرف سے دو شخص آ رہے تھے۔ وہ بھی اسی درخت کے سائے میں آرام کرنے کے لیے آ بیٹھے۔ عمروؓ کو معلوم ہو گیا کہ یہ اسیکلاب خاندان سے ہیں (فتح الباری: م:) جن کا سردار انہیں ہمراہ لے گیا تھا جب دونوں نیند میں ڈوب گئے تو عمرو بن امیہؓ نے انہیں موت کے سمندر میں بہا دیا۔ (م: باضافہ از زاد المعیاد) عمروؓ مدینہ پہنچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور تمام سرگزشت عرض کی تو معلوم ہوا کہ دونوں مقتول قبیلہ ابوبراء سے تھے جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معاہدہ تھا۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امان میں تھے س کی وجہ سے ان کی دیت ادا کرنا واجب تھی اور وہ ادا کر دی گئی۔

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرط غم

بئیر معونہ کے حادثہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اور زیادہ صدمہ پہنچا فرمایا یہ ابوبراء کی شرار ت کا نتیجہ ہے۔ مجھے شروع ہی سے کھٹکا تھا(م: ابوبراء عامر بھی طفیل کا حقیقی بھائی تھا) ادھر ابوبراء (اپنے بھائی :م:)عامر ابن طفیل کا شاکی کہ ظالم نے میری ضمانت میں مداخلت کر کے میرا بھرم خاک میں ملا دیا ہے اور اسی شکوہ کی بنا پر ابوبراء نے اپنے فرزند حقیقی ربعی کے ہاتھوں عامر کو فی النار کر ا دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس صدمہ ی وجہ سے مسلسل ایک مہینہ تک نماز فجر کے بعد قنوت میں ان ظالموں پر بددعا کرتے رہے۔ مسلمانوں کے قلوب بئر معونہ کے حادثہ سے علیحدہ مجروح تھے اگرچہ انہیں یقین تھا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوں ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

 

یہود اور منافقوں کے گھروں میں خوشی

مدینہ کے یہود اور منافقین جن کے ہاں مسلمانوں کی ہر مصیبت پر خوشی کے شادیانے بجنے لگتے احد کے بعد بئر معونہ کے واقعہ نے ان کی خوشی میں اور بھی اضافہ کر دیا اگرچہ مسلمانوں کے حمراء الاسد میں کامیابی کا ناسور ان کے دلوں میں رسنا بند نہ ہوا تھا اورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہیبت ان کے قلوب سے محو ہوئی تھی۔

 

یہود بنو نضیر کا امتحان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دور اندیش مفکر کی حیثیت سے فیصلہ کیا کہ اگر اہل مدینہ کے دلوں سے مسلمانوں کی ہیبت مٹ گئی تو قبائل کا مدینہ میں در آنا ممکن ہو گا اور اس کے نتیجے میں شہر کے اندر خانہ جنگی سے مدینہ کی تباہی لازم ہے بہتر ہے کہ ایسا موقعہ آنے سے قبل یاران شہر ہی کا امتحان کر لیا جائے۔

مدینہ کے یہود بنو نضری اس مو قبیلہ (بنو عامر) کے بھی حلیف تھے جن کے دو آدمی شبہ میں حضرت عمرو بن امیہ کے ہاتھ سے قتل ہوئے اور بنو نضیر و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان معاہدہ بھی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہی مقتولین کی دیت کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بنو نضیر کی گڑھی میں تشریف لائے جو شہر مدینہ سے باہر چھ میل کے فاصلے پر تھی۔ اس وقت آپ کے ہمراہ دس صحابی تھے جن میں ابوبکرؓ و عمرؓ اور علی بن الخطابؓ سرعنوان ہیں۔ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنو نضیر کو یہ بتائے بغیر ان سے مشورہ طلب کیا کہ بنو عامر کے ایک مقتول کی دیت کیا ہونا چاہیے۔

پہلے تو بنو نضیر اس میں اپنی عزت افزائی سمجھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے لیکن ذرا دیر کے بعد ان کی روش میں تبدیلی نظر آنے لگی۔ ان میں سے ایک ٹکڑی علیحدہ ہو کر باہم سرگوشی میں ڈوب گئی۔ آج ان کے اپنے مقتول سرغنہ کعب بن اشرف کا زخم پھر بھر آیا۔ اسی طرح ایک دوسرے سے اشارے کرتے کراتے ان میں سے عمرو بن حجاش بن کعب اس گھر میں داخل ہوا جس کی دیوار کے ساتھ سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ان چالوں کو دیکھ رہے تھے۔ رفتہ رفتہ آپ کا شک قوی ہوتا گیا اور اپنے رفقا سے کچھ کہے بغیر واپس تشریف لے آئے۔ اصحاب نے سمجھا کہ شاید قضائے حاجت کے لیے قصد فرمایا ہو لیکن یہودی سمجھ گئے کہ ان کا منصوبہ ناتمام ہو کر رہ گیا۔ بنو نضیر اصحاب رسول ے ساتھ وہ سلوک کرنے میں معاملہ میں گومگو میں پڑ گئے کہ جو برتاؤ ہم ان کے صاحب کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں اگر ان کے ساتھ کیا گیا تو (جناب)محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سے انتقام لیے بغیر نہ رہیں گے۔ بنو نضیر کوی خیال بھی تھا کہ اگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سلامت لوٹ گئے تو ممکن ہے کہ ہماری سازش کا انہیں علم نہ ہوا ہو اور اس طرح مسلمانوں کے ساتھ ہمارا سابقہ معاہدہ بدستور قائم رہ سکے گا۔ بنو نضیر نے مسلمانوں کی چاپلوسی شروع کر دی لیکن وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی واپسی کے لیے چشم براہ تھے۔ ان کی بتوں سے متوجہ ہوئے بغیر وہاں سے اٹھ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک صاحب نے جو مدینہ سے آ رہے تھے ان کی دریافت پر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں پہنچ گئے ہیں تب جا کر ان کی جان میں جان آئی اور وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نقش قد م پر مدینہ میں حاضر ہو گئے۔

 

بنو نضیر کو اعلان جنگ

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ان دوستوں سے بنو نضیر کے سرگوشی اور ایک دوسرے کے ساتھ اشارے کنایے سے ان کی بدنیتی کا تذکرہ فرمایا جسے یہ حضرات بھی موقع پر موجود ہونے کی وجہ سے دیکھ رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ن تنبہ سے ان کے سامنے بھی وہی حقیقت واضح ہو گئی جو رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ان کی بصیر ت اور وحی الٰہی کے ذریعہ منکشف ہو چکی تھی۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی وقت محمد بن مسلمہؓ کے ذریعہ بنو نضیر کی طرف یہ اعلان جنگ بھیجا:

ان اخرجوا من بلادی لقد نقضتم العھد الذی جعلت لکم بما ہممتم بہ لقد اجلتکم عشرا فمن ری بعد ذالک ضربت عنقہل۔

ہمارے شہر سے نکل جاؤ۔ تم نے باہمی معاہدہ کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے ورنہ دس روز کے بعد تم میں سے جو شخص مدینہ میں دیکھا گیا اس کی گردن مار دی جائے گی۔

بنو نضیر یہ پیغام سن کر د م بخود رہ گئے اور ان کے سوا ان سے کوئی جواب بن نہ آیا اے ابن مسلمہؓ قبیلہ اوس کے کسی فرد سے یہ توقع نہ  تھی کہ اپنے صاحب کی طرف سے ہمیں ایسا پیغام پہنچائے۔

بنو نضیر کا یہ اشارہ اس عہد کی طرف تھا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری سے قبل قبیلہ خزرج کے خلا ف یہود اور  اوس ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ ان کے جوا ب میں ابن مسلمہؓ نے صرف یہ فرمایا کہ دلوں کی حالت وہ نہیں رہی۔

 

بنو نضیر کو ابن ابی منافق کی شہ

مگر بنو نضیر مقابلہ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ مدینہ کے سب سے بڑے دم باز عبداللہ بن ابی (منافق) نے یہ رنگ دیکھ کر یہود کو شہ دینے کے لیے ان کے پاس اپنے دو ایلچی بھیجے مبادا تم مال اور گھربار چھوڑ کر جلا وطن ہونا منظور کر لو ثابت قدمی سے اپنے قلعو ں میں جمے رہنا۔ میرے ساتھیوں میں دو ہزار شمشیر زن اور گرد و نواح کے قبائل انہی قلعوں میں تمہاری نصرت کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ ان میں کوئی ایسا شخص نہیں کہ اپنی زندگی میں مسلمانوں کو تم پر حاوی ہونے کا موقعہ آنے دے۔

 

بنو نضیر کی پریشانی

انہیں ابن ابی کے پیغام پر کچھ کرتے دھرتے نہ بن آئی۔ جو لوگ اس کی طینت سے آگاہ تھے کہہ اٹھے کہ اس نے اسی قسم کی شہ بنو قینقاع کو بھی تو دی تھی۔ جب وہ نرغے میں لے لیے گئے تو ابن ابی نے انہیں بے یار و مددگار چھوڑ کر اپنی راہ لی۔

انہوں نے اپنے یاران طریقت بنو قریظہ کی طرف نظر دوڑائی مگر رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور بنو قریظہ کے درمیان معاہدہ دوستی کی وجہ سے انہیں مایوس ہونا پڑا۔ انہوں نے یہ بھی سوچا کہ اگر انہیں شہر سے نکلنا پڑا تو وہ خیبر یا مدینہ کی کسی قریب جگہ پر بسیرا کر لیں گے تاکہ اپنے یثرب کے باغات کے پھل بھی حاصل کرتے رہیں۔ اس صورت میں انہوں نے مدینہ سے جلاوطنی پر اپنے لیے کوئی خسارہ نہ سمجھا۔

 

حی بن اخطب

بنو نضیر کے سب سے بڑے چودھری نے کہا کہ یہ نہ ہو گا کہ ہم شہر خالی کر دیں ہم جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہلاتے ہیں کہ شہر اور اموال دونوں میں سے کسی شے سے ہم دست بردار نہیں ہو سکتے۔ ہمارے خلاف جو چاہے کیجیے یہ کہنے کے بعد انہوں نے قلعہ بندی کی تیاری شروع کر دی اور اپنے ساتھیوں سے کہا آئیے ہم اپنے اپنے قلعوں کو مضبوط کر کے ان میں بیٹھ جائیں۔ حاصرین پتھراؤ کے لیے چھتوں پر پتھر کے ٹکڑے جمع کر لیں۔ ہمیں اپنے گھراؤ پر کوئی خطرہ نہیں غلہ کی کوٹھاریں بھری پڑی ہیں جن یں ایک سال تک اجناس ختم نہیں ہو سکتا پانی کے قدرتی وسائل ہمارے بس میں ہیں۔ (حضرت)محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اتنی سکت نہیں کہ ہمارا محاصرہ کر سکیں۔

بنو نضیر اپنے سرغنہ حی بن اخطب کی رائے پر عمل پیرا ہو کر قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں نے دس روز گزرنے پر بزن بو دیا۔ ان کے جس گھر پر مسلمان حملہ کرتے یہ خود اسے تاراج کر کے پاس کے مکان میں جا چھپتے۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے کھجوروں کے درخت کاٹ کاٹ کر جلانے شروع کر دیے تاکہ مدینہ میں ان کی اقتصادی دل چسپیاں ختم ہو جائیں جس کی وجہ سے وہ جنگ جاری رکھنے کے لیے یوں قدم جمائے بیٹحے ہیں۔

 

بنو نضیر کی شکست اور اخراج

اس پر یہود منتیں کرنے پر اتر آئے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ تو دوسروں کو فساد کرنے سے منع کرتے ہیں پھر خود ہی ہمارے ہرے بھرے پودے کاٹ کر جلانا کہاں کا انصاف ہے ؟ ان کی تنبیہ کے لیے یہ آیات نازل ہوئیں۔

ماقطعتم من لینتہ او ترکتمو ھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ والیخزی الفسقین (۵۹:۵)

(اے مسلمانو!ان کے) کھجوروں کے درخت جوتم نے کاٹ ڈالے ہیں ان کو ہاتھ نہ لگانا اور بدستور ان کو جڑ سمیت کھڑا رہنے دیا تو یہ سب کچھ خدا ہی کے حکم سے تھا اور خدا کو منظور تھا کہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔

ادھر ان کی نصرت کے لیے نہ تو ابن ابی منافق کے دو ہزار شمشیر بکف بہادر نکلے۔ نہ ان کی مصیبت کی طرف قبائل نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ مقابلہ جاری رکھنے کی صورت میں وہ کہیں کے نہ رہیں گے۔ اپنے انجام سے خائف ہو کر خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی کہ از راہ ترحم ہماری اور ہمارے بچوں کی جان بخشی فرمائی جائے۔ منقولہ اموال ہیں ساتھ ے جانے کی اجازت مرحمت ہو اور ہم شہر خالی کیے دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس شرط پر قبول فرما لیا کہ فی کس ایک شتر پر جس قدر کھانے پینے کا سامان اور اموال جو قسم وہ چاہیں ہمراہ لے جا سکتے ہیں۔

یہود نے اپنے سرغنہ حی بن اخطب کے زیر سایہ مقررہ شرائط کے مطابق مدینہ خالی کر دیا۔ یہاں سے نکلنے کے بعد کچھ لوگ خیبر میں آباد ہو گئے اور کچھ شام کی بستی ازرعات میں منتقل ہو  گئے۔

بنو نضیر کے جلاوطن ہو جانے کے بعد غلہ کی بھری ہوئی کوٹھاروں اور باغات و اراضی کے سوا پچاس درعیں اور تین سو چالیس تلواریں حاصل ہوئیں۔ لیکن یہ اموال اور اراضی غنیمت کی اس حد میں نہ آ سکتی تھی۔ جس میں تمام مسلمان فوجی شری کہوں۔ یہ خاصہ تھا کہ جس میں صرف رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مختار و مجاز تھے۔ تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غرباء و مساکین کے لیے اراضی کا ایک قطعہ وقف کر دینے کے بعد مابقی اموال و اراضی اور باغات مہاجرین اولین میں تقسیم کر دیا جس کی وجہ سے یہ حضرات انصار کی محتاجی سے بے نیاز ہو کر تھوڑے دنوں میں انصار کے ہم پلہ ہو گئے۔ البتہ انصار میں حضرت ابو دجانہؓ اور جناب سہیل بن حنیفؓ کو ان کی زبوں حالی کے اظہار کی وجہ سے مہاجرین کے برابر حصہ دیا گیا۔

اس موقعہ پر بنو نضیر میں سے دو حضرات مشرف بہ اسلام ہوئے جن کے اموال و اراضی سے کوئی تعرض نہ کیا گیا۔

 

بنو نضیر کی جلاوطنی سے مدینہ میں امن کا دور دورہ

بنو نضیر کی جلاوطنی سے مسلمانوں کو جو کامیابی حاصل ہوئی ظاہر ہے خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ اندازہ فرما لینے کے بعد مدینہ میں ان (بنو نضیر) کا وجود فتنوں کا منبع ہے، حتیٰ کہ مدینہ کے منافقین میں بھی مسلمانوں و کسی سیاسی مصیبت میں گھر ا ہوا دیکھتے تو یہود ان کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھتے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس خیال کے مطابق بھی ان کا مدینہ سے اخراج ضروری تھا کہ اگر کبھی کوئی باہر سے دشمن مدینہ میں در آیا تو یہود کی بدولت شہر کا ہر گھر لڑائی کا میدان بن جائے گا۔ قرآن مجید کی سورۃ حشر انہی امور کا مرقع ہے ازاں جملہ:

الم ترا ای الذین نافقو یقولون لا خوانھم الذین کفروا من اہل الکتاب لئن اخرجتم لنخر جن معکم ولا نطیع فیکم احدا ابدا وان قوتلتم لنصرنکم واللہ یشھد انھم لکاذبون لئن اخرجو ا لا یخرجون معھم ولئن قوتلوا لا ینصرونھم ولئن نصروھم لیون الادبار ثم ا ینصرون لا نتم اشد رھبۃ فی صدروھم من اللہ ذلک بانھم قوم لا یفقھون (۵۹:۱۱تا ۱۳)

(اے پیغمبر!) کیا تم نے منافقوں (کے حال پر نظر نہیں کی جو اپنے ہم جنس بھائیوں یعنی کفار اہل کتاب سے کہا کرتے ہیں کہ اگر تم گھروں سے نکالے جاؤ گے تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی کسی کی ماننے ہی کے نہیں اور اگر تم سے اور  مسلمانوں سے لڑائی ہو گی تو ہم تمہار ی مدد کریں گے ؟ اور (مسلمانو!) اللہ (تم کو) بتائے دیتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹے ہیں  کہ اگر اہل کتاب نکالے جائیں گے تو یہ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر اہل کتاب سے اورمسلمانوں سے لڑائی ہو پڑے گی تو یہ منافق اہ کتاب کی مدد نہیں کریں گے۔ اور اگر ان کی مدد کریں گے تو ضرور پیٹھ دکھا کر بھاگتے نظر آئیں گے پھر کسی طرف سے ان کو کمک بھی تو نہیں پہنچے گی۔ اے مسلمانو! تمہاری ہیبت تو ان کے دلوں میں اللہ سے بھی بڑھ کر ہے اور یہ اس سبب سے ہے کہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں۔

اس سورۃ (حشر) میں ان آیات کے بعد ایمان باللہ اور  خدائے برتر کی سلطانی کے متعلق جو آیت مذکور ہے اس کے متعلق خیال رہے کہ خداوند عالم کے ساتھ ایمان کی قدر و قیمت اس کی سلطانی اور غلبہ ظہور کے بغیر واضح نہیں ہو سکتی۔

ہو اللہ الذی لا الہ الا ھو عالم الغیب والشھادۃ ھو الرحمن الرحیم ہو اللہ الذی لا الہ الاہو الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار لمتکبر سبحان اللہ عما یشرکو ن۔

ھو اللہ الخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسنیٰ یسبح لہ ما فی السموات والارض وھو العزیز الحکیم (۵۹:۲۲تا ۲۴)

وہ اللہ ایسا(پاک ذات ) ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر (سب) کا جاننے والا وہ بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ وہ اللہ ایسا (پاک ذات) ہے کہ تمام عیبوں سے بری ہے۔ امن دینے والا نگہبان ہے۔ زبردست ہے بڑا دباؤ والا ہے۔ بڑی عظمت رکھتا ہے یہ لوگ جیسے جیسے شرک کرتے ہیں اللہ (کی ذات) ا س سے پاک ہے۔

وہی اللہ (ہر چیز) کا خالق( ہر چیز) کا موجد (مخلوقات کی طرح طرح کی) صورتیں بنانے والا ہے اس کی اچھی اچھی صفتیں ہیں جو مخلوقات آسمانوں میں اور زمین میں ہیں (سب ہی تو) اس کی (تسبیح و تقدیس) کرتی ہیں اور وہ زبردست اور حکمت والا ہے۔

 

رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہودی محرر

اب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا محرر ایک یہودی نوجوان تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے عبرانی اور سریانی زبانوں کے احکام کی خط و کتابت کرتا مگر آپ نے اس اندیشہ سے کہ مبادا غیر مسلم محرر ہمارے رازوں سے واقف ہو جائے، ایک مسلمان محرر کو مقرر کرنے کا فیصلہ فرمایا۔

اب سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خط و کتابت کے بارے میں غیر مسلم پر اعتماد مصلحت کے منافی سمجھ کر حضر ت زید بن ثابتؓ  کو عبرانی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے چند دنوں میں یہ قابلیت حاصل کر لی۔ زیدؓ  کاتب وحی بھی ہیں عہد صدیقی میں انہی کی نگرانی میں قرآن مجید مدون ہوا اور جب حضرت عثمانؓ  کی خلافت میں قرآن کے بعض الفاظ کی قرات میں اختلاف کا اندیشہ محسوس ہونے لگا تو جناب زیدؓ ہی نے وقت نظر کے بعد قرآن مجید کے ایک ایک حرف کی پڑتال کی۔ متعدد نقلیں خلافت کی طرف سے دوسرے صوبوں کو بھجوا دی گئیں اور تصحیح شدہ نسخہ کے سوا قرآن کے باقی نسخے جلوا دیے گئے۔

 

مدینہ میں سکون

بنو نضیر کی جلا وطنی سے شہر میں پورے امن وسلامتی کا موجب ثابت ہوئی۔ اب مسلمانوں کونہ تو منافقوں کا ڈر تھا نہ مہاجرین کو فلاکت سے واسطہ رہا۔ انہیں بنو نضیر کی اراضی و باغات نے خوش حال کر دیا۔ انصار کو یہ خوشی تھی کہ خدا تعالیٰ کی نظر کرم نے ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی بے فکری سے گزر بسر کرنے کی توفیق بخشی۔ انصار و مہاجرین دونوں ایک دوسرے کے د و ش بدوش مساویانہ زندگی بسر کرنے لگے۔

 

قریش کی طرف سے دوسرے بدر کا پیغام جنگ

اسی طرح تھوڑا سا زمانہ گزرا تھا کہ ادھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تصور احد کی دت کی طرف منتقل ہوا تو ایک سال ختم ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ابوسفیان کا وہ قول یاد آ گیا جو اس نے احد سے لوٹتے ہوئے با آواز بلند دہرایا تھا۔

یوم بیوم بدر و الموعد العام المقبل

بدر کا انتقام لے لیا گیا ہے۔ آئندہ سال پھر میدان ہو گا!

اسی دوران میں ابو سفیان نے (مکہ سے) نعیم کو اس طرح پڑھا کر بھیجا کہ اس کی ہوائی سے مسلانوں کے حوصلے پست ہو جائیں۔ نعیم مدینہ پہنچا اوراس نے گھر گھر جا کر کہنا شروع کر دیا کہ اس مرتبہ قریش نے جو لشکر جمع کیا ہے عرب کی کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ابو سفیان نے ارادہ کر لیا کہ مسلمانوں پر احد سے بھی زیادہ کوئی سختی برتی جائے۔

مسلمان ششدر رہ گئے۔ بہتوں کی خواہش تھی کہ اس دفعہ بدر کو آنکھوں سے بھی نہ دیکھا جائے مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کو تھڑدلی کا اندازہ ہوا تو اظہار برہمی کے بعد قسم کھا کر فرمایا اگر مجھے بدر میں تنہا بھی جانا پڑا تو پیچھے قدم نہ ہٹاؤں گا۔

 

مسلمانوں کی بدر ثانی کے لیے روانگی

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتنی سخت تہدید اور عملاً عزیمت کی وجہ سے ہر شخص اپنے لیے اسلحہ کی فراہمی میں مصروف ہو گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ پر حضرت عبداللہ بن ابی کو اپنا نائب مقرر کر کے بدر کی طرف کوچ فرمایا جہاں قریش کے ساتھ جنگ کے لیے جھنڈے گاڑ کر ان کا انتظار کیا جانے لگا۔

 

قریش کا بدر ثانی کے لیے خروج

کہنے کو تو ابو سفیان قریش کے دو ہزار سے زائد بہادروں کا دل لے کر نکل آیا لیکن استقلال و جواں مردی کا یہ حال تھا کہ دو روز کی مسافت طے کرنے کے بعد پاؤں توڑ کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے یاران سرپل سے کہا:

یا معشر قریش انہ لا یصلحک الا عام خصیب وان عامکم ھذا جدب وانی راجع فارجعوا !

اے دوستان قریش تم لوگ خوشحالی کے سال میں جنگ کر سکتے ہو۔ اس مرتبہ خشک سالی کا دور دورہ ہے میں تو واپس لوٹ رہا ہوں بہتر ہے کہ فی الحال تم بھی لوٹ چلو۔

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آٹھ روز تک اپنے لشکر سمیت (بدر میں ) تشریف فرما رہے (یہ بدر تجارت کا بازار بھی تھا) اس اٹھوارے میں مسلمانوں نے خرید و فروخت سے تھوڑا بہت نفع بھی حاصل کر لیا۔ آخر کار قریش کی راہ دیکھتے دیکھتے واپس لوٹنا پڑا اور خدا کا شکر ہے کہ مسلمان مدینہ میں شاداں و فرحاں داخل ہوئے اللہ تعالیٰ فضل و نعمت سے بہرہ مند ہو کر اس واقعہ کے متعلق یہ آٹھ آیتیں نازل ہوئیں۔

۱۔  الذین قالو الاخوانھم وقعدوا لو اطاعونا ما قتلوا قل فاددہ واعن انفسکم الموت ان کنتم صدقین ( ۳:۶۸)

’’جن لوگوں کا خیال ہے کہ خود تو جنگ کے وقت اپنے گھروں میں بیٹھ رہے لیکن اب اپنے بھائیوں کے حق میں کہتے ہیں کہ اگر ہماری بات پر چلے ہوتے تو کیوں مارے جاتے (اے پیغمبرؐ) تم کہہ دو کہ اچھا اگر تم واقعی اپنے خیال میں سچے ہو تو جب موت تمہارے سرہانے آ کھڑی ہو تو نکال باہر کرنا (اور اپنی چترائی اور پیش بینی سے ہمیشہ زندہ رہنا)

۲۔  ولا تحسن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا احیاء عند ربھم یرزقون(۳:۱۶۹)

’’۲۔  (اور اے پیغمبر ؐ) جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کی نسبت ایسا خیال مت کرو۔ کہ وہ مر گئے نہیں وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے حضور اپنی روزی پا رہے ہیں ‘‘۔

۳۔  فرحین بما اتھم اللہ من فضلہ ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفھم الا خوف علیھم ولا ہم یحزنون (۳:۱۷۰)

’’۳۔  اللہ نے اپنے فضل و کرم سے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے ا س سے خوش حال ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے (دنیا میں ) رہ گئے ہیں اور وہ بھی ان سے ملے نہیں ان کے لیے خوش ہو رہے ہیں کہ نہ تو ان کے لیے کسی قسم کا کھٹکا ہو گا نہ کسی طرح کا غم گیتی۔ ‘‘َ

۴۔  یستبشرون بنعمۃ من اللہ وفضل وان اللہ لا یضیع اجر المومنین (۳:۱۷۱)

’’۴۔  وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے تعین سے مسرور ہیں۔ نیز اس بات سے کہ انہوں ں ے دیکھ لیا اللہ ایمان رکھنے والوں کا اجر کبھی اکارت نہیں کرتا‘‘۔

۵۔  الذین استجابو اللہ والرسول من بعد ما اصابھم القرح للذین احسنوا منھم واتقوا اجر عظیم (۳:۱۷۲)

’’۵۔  جن لوگوں نے اللہ اوراس کے رسول کی پکار کا جواب دیا( اور جنگ کے لیے تیار ہو گئے) باوجودیکہ (ایک برس پہلے جنگ احد کا) زخم کھا چکے تھے سو یاد رکھو کہ ان میں جو لوگ نیک کردار اور متقی ہیں یقینا ان کے لیے اللہ کے حضور بہت بڑا درجہ ہے‘‘۔

۶۔  الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعو ا لکم فاخشوھم فزادھم ایمانا وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل (۳:۱۷۳)

’’۶۔  یہ وہ لوگ ہیں کہ جن سے بعض آدمی کہتے تھے تم سے جنگ کرنے کے لیے دشمنوں نے بہت بڑا گروہ تیار کر لیا ہے پس چاہیے کہ ان سے ڈرتے رہو۔ (اور مقابلے کے لیے باہر نہ نکلو) لیکن (بجائے ا س کے کہ یہ بات سن کر وہ ڈر جاتے) ان کا ایمان اور زیادہ مضبوط ہو گیا (وہ بے خوف و خطر ہو کر ) بو ل اٹھے ہمارے لیے اللہ کا سہارا بس ہے اور جس کا کارساز اللہ ہو تو کیا ہی اچھا ہے اس کا کارساز ہے‘‘۔

۷۔  فانقلبوا بنعمۃ من اللہ فضل لم یمسسھم سوء واتبعوا رضوان اللہ واللہ ذو فضل عظیم (۳:۱۷۴)

’’۷۔  پھر (ایسا ہوا ) کہ یہ لوگ بے خوف ہو کر نکلے اور اللہ کی نعمت اور فضل سے شاد کام واپس آ گئے۔ کوئی گزند ان کو نہ چھو سکا اور وہ اللہ کی خوشنودیوں کی راہ میں گامزن ہوئے (یہ اللہ کا فضل تھا) اور اللہ بڑا فضل رکھنے والا ہے‘‘۔

۸۔ انما ذلکم الشیطن بخوف اولیاء فلا تخافوھم وخافون ان کنتم مومنین (۳:۱۷۵)

’’۸۔ (اور یہ دشمنوں کا بھیجا ہوا ایک مخبر انہیں بہکانا چاہتا تھا تو) یہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ شیطان تھا جو تمہیں اپنے ساتھیوں سے ڈرانا چاہتا ہے۔ اگر تم ایمان رکھنے والے ہو تو شیطان کے ساتھیوں سے نہ ڈرو اللہ سے ڈرو اگر تم دل سے اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

قریش مکہ جو مسلمانوں کی ہیبت کے خوف سے جنگ کے بغیر واپس لوٹ گئے۔ اس سے مسلمانوں کے لیے احد کی تلافی کا ایک گونہ ذریعہ پیدا ہو گیا۔ کافروں کا اس طرح لوٹ جانا بدر کی پہلی شکست سے کم موثر نہ تھا۔ تاہم قریش آئندہ سال کے لیے جنگ کے منصوبوں سے غافل نہ تھے۔

 

غزوہ ذات الرقاع

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدر ثانیہ سے واپسی کے بعد اللہ تعالیٰ کی طر ف سے یاوری کے صدقے میں بہت مطمئن تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل میں قریش پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ جانے کی مسرت موجزن تھی تاہم آپ دشمنوں کی جانب سے غافل نہ تھے اور اپنے جاسوس چاروں طرف لگا رکھے تھے۔

اس دوران میں اطلاع ہوئی کہ بنو غطفان مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے نجد میں جمع ہو رہے ہیں۔ ایسے معاملات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طرز عمل یہ تھا کہ دشمن کی ایسی غفلت میں اس پر حملہ آور ہوتے جس کی وجہ سے مدافعت کا موقعہ نہ مل سکتا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ خبر سنتے ہی چار سو سواروں کا ایک دستہ لے کر بنفس نفیس نکلے۔ ان کے پڑاؤ کے قریب تشریف لائے تو بنو محارب اور بنو ثعلبہ (از غطفان) دونوں جمع ہو رہے تھے۔ جونہی ان کی نظر مسلمانوں کے لشکر پر پڑی سامان کے ساتھ عورتیں بھی وہیں چھوڑ کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ نکلے۔ ۱؎ ان کے متروکہ سامان میں سے جس قدر مسلمانوں سے اٹھایا گیا لے گیا اور مدینہ کی طرف کوچ فرمایا( مگر انکی عورتوں سے تعرض نہ کیا : م:)

۱؎  کفار کے اس لشکر میں خالد بن ولید بھی موجود تھے (زد المعاد ابن القیم :م)

مسلمان دشمن کے تعاقب کے خطرہ کی وجہ سے راستے میں صلوۃ خوف ادا کرتے اس طرح کہ ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتدا میں نیت باندھ کر مصروف قیام ہوتا اور دوسرا حصہ پاسبانی کرتا۔ ان کے بعد پاسبانی کرنے والا گروہ نماز میں مصروف ہوتا۔ اور پہلا حصہ ان کی چوکیدار ی کرتا۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے رفقاء کے ساتھ فتح مندانہ واپس مدینہ تشریف لائے یہ سفر پندرہ دن میں ختم ہوا۔

 

غزوہ دومۃ  الجندل

اس سے کچھ مدت بعد (رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) غزوہ دومۃ  الجندل میں تشریف لے گئے۔ یہ مقام اس نخلستان میں واقع ہے جو بحیرہ احمر(قلزم) سے خلیج فارس اور شام و حجاز کے مقام اتصال پر واقع ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دشمنوں کے سر پر اچانک جا پہنچے جن سے فرار کے بغیر کچھ نہ بن پڑا۔ ان پر اس قدر وحشت چھائی کہ اپنا بے حساب ال و سامان بھی چھوڑ گئے جو مسلمانوں کے غنیمت میں ان کے کام آیا۔

جغرافیائی حیثیت سے دومۃ  الجندل کے بعد مسافت اور محل و وقوع سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی دھاک لوگوں کے دلوں پر کس قدر بیٹھ گئی۔ تمام عرب قسم کھانے پر مجبور ہو گئے اوریہ کہ مسلمان دین کی راہ میں کس ثبات و استقلال کے ساتھ مصائب کا استقبال کرتے، جس میں نہ تو موسم کی شدت سے گھبراتے نہ خشک سالی ان کے عزائم میں مانع ہوتی اور نہ پانی کی قلت ان کے عزائم میں حائل ہوتی۔ بات یہ ہے کہ ان کے استقلال و ہمت کا واحد ذریعہ ان کی وہ معنوی قوت تھی جس نے ان کا ایمان خدائے یکتا سے اس طرح وابستہ کر دیا تھا ک وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ گردانتے۔

آج ۵ھ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مدینہ میں چند مہینے اطمینان سے سانس لینے کا موقع نصیب ہا۔ اس دوران میں صرف قریش کی طرف سے آنے والے سال میں حملہ کا خطرہ ضرور پیش نظر تھا۔

اس وقفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کے اس اجتماعی نظام کی ترتیب پر توجہ فرما رہے تھے فی الحال جس میں صرف چند ہزار نفوس منسلک ہیں لیکن یہ وقفہ گزر جانے کے بعد کروڑوں انسانوں کے معاشرہ کا مدار آج کے مربوط شدہ نظام پر قائم کیا جانا تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوری دقت نظر اور حسن سیاست سے مدون فرما لیا، جس کے نظم و ترتیب میں وحی الٰہی کی رہنمائی و تعلیم شریک تھی کہ اگر کسی معاملہ میں منشائے وحی کے خلاف شبہ ہو سکتا ہو تو وہ اس پر آگاہ کر دے۔ چنانچہ ایسے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے اعتراف اور اصلاح فرمانے میں ذرا تامل نہ فرماتے کہ:

وانہ الکتاب عزیز لا یاتیہ الباطل من بین یدید ولامن خلفہ تنزیل من حکیم حمید (۴۱:۴۱،۴۲)

’’(قرآن) بڑے پائے کی کتاب ہے کہ جھوٹ نہ تو اس کے آگے ہی کی طرف اس کے پاس پھٹکنے پاتا ہے اور نہ اس کے پیچھے کی طرف سے۔ کیوں کہ حکمت والے سزاوار حمد و ثنا (یعنی خدا) کی اتاری ہوئی ہے‘‘۔

٭٭٭

 

تذکرہ ازواج مطہراتؓ

 

سابقہ دو فصلوں (۱۵ اور ۱۶) میں جن حوادث کا بیان ہوا ان حوادث کے ساتھ ساتھ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (یکے بعد دیگرے) تین بیبیوں کو اپنے حبالہ عقد میں آنے کی عزت بخشی:

۱۔   (ام المومنین) زینب بنت خزاعہؓ

۲۔  (ام المومنین) ام سلمہؓ بنت امیہ ابن المغیرہؓ

۳۔  (ام المومنین) زینب بنت جحشؓ

ان میں ام المومنین زینبؓ دختر جحش کی پہلی شادی(رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کے مشورہ سے) حضرت زید بن حارثہؓ سے ہوئی تھی۔ زید غلام تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو ام المومنین حضرت خدیجہؓ  کے مال سے خرید کر آزاد کر دیا۱؎۔ (شادی اس آزادگی کے بعد ہوئی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شادی سے پہلے انہیں اپنا متنبیٰ ہونے کا شرف بخشا۔

اتفاق ایسا ہوا کہ میاں بیوی دونوں کی بن نہ پائی اور حضرت زیدؓ نے انہیں طلاق دے کر علیحدگی اختیار کر لی، جس کے بعد رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ زینبؓ کو اپنی زوجیت کے فخر سے ممتاز فرمایا۔ یہ معاملہ ہے کہ جس پر مستشرقین اور ان کے زلہ ربامسیحی واعظین نے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دشمنی کی بنا پر دلوں کا غبار نکالنے میں کوئی کمی نہیں رہنے دی۔

 

مسیحی اعتراف

مسیحی منادوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کیا حیرت انگیز تبدیلی رونما ہو گئی۔ مکہ میں تو ان کی حیثیت ایک ایسے داعی کی تھی جو قناعت کا علم بردار ہے۔ زہد کا حامل ، توحید کا مدعی ہے اور خواہشات دنیا میں کوئی شغف نہیں رکھتا، مگر مدینہ پہنچ کر حالت یہ نہیں رہی۔ اب عورتیں ان میں رغبت و شق کے جذبات کو ابھار دینے میں کامیاب ہیں حتیٰ کہ پہلے کی تین بیویوں پر بھی اکتفا نہیں کیا۔ ان تین کے بعد اور تین عورتیں حر سرا میں داخل فرما لیں۔ اور نہ یہ کہ صرف ایسی عورتوں کو اپنے عقد میں لائے جن کے سر پر ان کے شوہر نہ تھے بلکہ شوہر دار بیبیوں کو ان کے خاوندوں سے طلاق دلوا کر اپنے حبالہ عقد میں لانا شروع کر دیا۔ جیساکہ زینبؓ دختر جحش کا واقعہ ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غلام (رہ چکے) تھے۔

۱؎  بلکہ جناب خدیجہؓ نے از خود انہیں خرید کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حبہ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں آزاد فرما یا(:م:)

واقعہ اس طرح رونما ہوا کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زیدؓ کے ہاں تشریف لے گئے جو گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی اہلیہ بی بی زینبؓ نے ان کا استقبال کیا۔ اس وقت یہ پر تکلف پوشاک پہنے ہوئے تھیں۔ انہیں ایسے لباس میں دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اور رغبت ہو گئی اور زبان سے کلمہ سبحان اللہ مقلب القلوب کہتے ہوئے واپس تشریف لے آئے۔ یہ کلمہ زینبؓ کے کان میں بھی پڑ گیا انہوں نے سمجھا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان پر کسی قدر مہربان ہیں انہوں نے اپنے دل میں ایک امید ……………ان کے شوہر (زیدؓ) دولت خانہ پر تشریف لائے تو بی بی نے تمام ماجرا من و عن بیان کر دیا۔ زیدؓ اسی وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ میں زینبؓ کو طلاق دینے کے لیے آمادہ ہوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زیدؓ سے فرمایا کہ نہیں خدا سے ڈرو اور اپنی اہلیہ کو طلاق مت دو۔ لیکن اس وقت زینبؓ اپنے شوہر سے بے تعلق سی ہو گئیں جس سے زیدؓ نے مجبور ہر کر انہیں طلاق ہی دے دی۔

ادھر جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دل سے اگرچہ بی بی زینبؓ کے ساتھ عقد داری کے خواہاں تھے۔ لیکن اس معاملہ میں وہ کوئی بات زبان پر نہ لاتے تھے جس پر یہ وحی نازل ہوئی:

واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک علیک زوجک واتق اللہ و تخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشہ فلما قضی زید منھا وطرا زوجنکھا لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائھم اذ قضوا منھن وطرا وکان امرالہ مفعولا (۳۳:۳۷)

’’اور (اے پیغمبرؐ اس بات کو یاد کرو کہ) جب تم اس شخص کو سمجھاتے تھے (یعنی زید بن حارثہؓ  کو) جس پر اللہ نے اپنا انعام کیا اور تم بھی اس پر احسان کرتے رہے کہ اپنی بی بی زینبؓ کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور اللہ سے ڈرے اور اس کو چھوڑ کر نہیں اور تم (اس بات کو) اپنے دل میں چھپاتے رہے کہ جس کو(آخر کار) اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ اور تم (اس معاملے میں )( لوگوں سے ڈرتے تھے اور خدا اس کا زیادہ حق دار ہے۔ کہ تم اس سے ڈرو۔ زیدؓ اس (عورت) سے بے تعلقی کر چکا (یعنی طلاق دے دی) اور عدت کی مدت پوری ہو گئی تو ہم نے تمہارے ساتھ اس عورت کا عقد کر دیا تاکہ (عام) مسلمانوں کے لے پالک جب اپنی بیبیوں سے بے تعلق ہو جائیں تو مسلمانوں کے لیے ان عورتوں سے نکاح کر لینے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔ اور  خدا کا حکم تو ہو کر ہی رہتا ہے‘‘۔

جس کے بعد آپ بی بی زینبؓ کے ساتھ عقد فرما کر انہیں اپنے دولت کدہ پر لے آئے۔

سوال یہ ہے کہ آپ عجیب قسم مکے نبی ہیں جو خود کو دوسروں کے ساتھ توازن میں اس قدر ترجیح دیتے ہیں کہ آخر وہ خود اس قانون کی پابندی کیوں نہیں کر سکتے (قانون) کے متعلق انہیں مرسل من اللہ ہونے کا دعویٰ ہے ان کے حر سرائے میں عورتوں کو وہ ہجو جو صرف ہوس ناک امراء کے محلوں میں ہو سکتا ہے نہ کہ انبیاء علیہم السلام کے حر م میں جو نیک نہاد ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کے داعی بھی ہوں تعجب ہے کہ خلعت نبوت سے مفتخر ہوتے ہوئے زینبؓ کی محبت اس قدر دل دادہ کیوں ہو گئے کہ آپ کی وجہ سے آ پ کے آزاد کردہ غلام زیدؓ  نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جس کے بعد آپ اسے اپنے حبالہ عقد میں لے آئے؟ اپنے متنبیٰ کی بیوی سے مناکحت تو جاہلیت میں بھی روا نہ تھی، لیکن مسلمانوں کے نبی نے ان تمام حدوں سے گزر کر اپنے لئے جائز کر لیا کہ صرف نفسانی متابعت پر مبنی ہو سکتا ہے۔

 

جواب

مستشرقین یا مسیحی مناد اعتراضات کرنے کے موقع پر وضعی تصورات کی رو میں اس طرح بہہ جاتے ہیں کہ جیسے آندھی کے ساتھ تنکا ۔ معترضین کا ایک طائفہ کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں نیم برہنہ بالکل عریاں دیکھ لیا اس حالت میں کہ زینبؓ کی سیاہ زلفیں ان کے سیمیں بدن پر بکھری ہوئی تھیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل میں ان کی محبت کی لگن پیدا ہو گئی۔

 

دوسرا گروہ

جس وقت آپ ؐ نے خود زینبؓ کے گھر کا دروازہ کھولا وہ شب باشی کا لباس پہنے سو رہی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں دیکھ لیا اور… مگر یہ راز دل میں چھپائے رکھا لیکن تابہ کے!

اس قسم کے ذہنی مفروضات خصوصاً مندرجہ ذیل مستشرقین کی قوت متخیلہ کی پیداوار ہیں ولیم میور،درمنگھم، واشنگٹن ارونگ، لامنس وغیرہ اور واعظین کلیسا میں سے ہر ایک علم بردار مسیحیت یہ اعتراضات دیکھنے کے بعد ان مدعیان تحقیق کے حامیان عدل و انصاف کی دیدہ دلیری پر

خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہیے؟

انہوں نے سیرت اور  حدیث کی کتابوں کا اپنا ماخذ نو بنایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے حر کی نسبت ایسے مرویات کو اپنے تصورات کا جامہ پہنا کر پیش کیا جس پر تحقیق و عدل دونوں نے سر پیٹ لیا۔ ان نکتہ چینیوں کو سب سے بڑا سہارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حر م سرائے میں نو یا اس سے کچھ زائد بیویوں کے ہونے سے مل گیا۔

ہم ان تمام نکتہ چینیوں کا ایک ہی اصولی جواب یہ دے سکتے ہیں کہ اس میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ اور اس سے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت پر کیا حرف آ سکتا ہے؟ جبکہ قانون یں بعض مستثنیات ایسی بھی تسلیم کی جا چکی ہیں کہ جو عوام کی مانند (خواص)کے مقابلہ میں کہیں بلند درجہ رکھتے ہیں (مثلاً)

(۱)  حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اسرائیلی اور قبطی کو باہم دست و گریبان دیکھا تو قطبی کو مکا مار کر ہاک کر دی ظاہر ہے کہ اس قسم کا قتل جنگ یا جنگ کے قریب کی حالت میں ہی روا ہو سکتا ہے۔ کیا فرماتے ہیں کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معترض اس مسئلہ میں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یک ہاتھ سے یہ قتل روا تھا یا نا روا؟ اگر جائز ہے تو شریعت موسوی سے بھی ثابت فرمایا جائے اور اگر ناروا ہے تو کیا حضرت کلیم اللہ کی نبوت و عظمت اسی طرح داغ دار نہیں ہو سکتی جس طرح آپ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ طعن فرما رہے ہیں ؟

(۲)  اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا قضیہ ہے جو حضرت موسیٰؑ کے متذکرہ الصدر واقعہ اور جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر معترض علیہ معاملہ بلکہ تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے احوال و کوائف سے عجیب تر ہے اور کسی قانون و شریعت و حدود معاشرہ میں اس کے جواز کے لیے دلیل نہیں مل سکتی یا قانون شریعت و آئین فطرت سب کے خلاف ہے یعنی در ولادت جناب مسیح ابن مریمؑ جر الزامات کی بریت میں خود مسیحیوں نے دلیل میں کہا کہ خدا کی پاک روح انسانی روپ میں مریم عذرا کے ساتھ یہ کہہ کر ان سے ہم کنار ہوئی کہ وہ ان کے رح میں ایک پاک نہاد طف کا نطفہ رکھے تا۔ جسے سن کر مریم نے روح رحمانی سے کہا سبحان اللہ میر ے بطن سے فرزند متولد ہو گا۔ جسے مرد نے مس تک نہیں کیا  روح رحمانی نے کہا کہ مرد نے بے شک مس نہیں کیا مگر خداوند خدا کا یہی ارادہ ہے کیونکہ وہ اس مولود کو نشان ثابت کرنا چاہتا ہے۔

اور جب مریم پر وضع حمل کی ساعت نازل ہوئی تو وہ ادھرادھر دبکنے لگیں۔ اس ندامت کے عالم میں ان کی زبان سے بھی نکل گیاکہ کاش اس گھڑی سے پہلے مجھ پر موت وارد ہو جاتی اور دنیا نے مجھے بھلادیا ہوتا۔ اس وقت بھی روح مقدس (رحمان) نے مریم کی سمع عالی تک یہ بات پہنچائی کہ آپ اس قدر غمگین کیوں ہو رہی ہیں ؟ خداوند تعالیٰ نے آپ کے قدموں ک نیچے پانی کا چشمہ جاری فرما دیا ہے۔

پھر جب مریم اس بچے کو گود میں اٹھائے باہر نکلیں تو لوگوں نے دیکھ کر بڑا تعجب کیا کہ ان کے سرپر تو شوہر تو ہے نہیں یہ بچے کیسے پیدا ہو گیا؟ اور لوگوں نے اسی حیرت و برہمی میں بی بی سے کہا سبحان اللہ یہ ان ہونی شے آپ کہاں سے لے آئیں ؟ اس کا جواب مریم کے بجائے خود طفل نومولود نے دیا۔ میں اللہ کا غلام ہوں جس نے مجھے اپنی کتاب (انجیل) عنایت فرمائی اور میں جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایا اور جب تک میں زندہ رہوں گا مجھے نماز و زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا۔

 

یہود کا حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت پر اعتراض

یہ ہے مسیحی مسلمات کے مطابق حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی داستان ولادت جس پر یہودیوں نے برملا کنواری مریم ؑ کو یوسف نجار کے سر منڈھ دیا۔ جیسا کہ ریناں اور موجودہ زمانہ کے بعد دوسرے یہودی مصنفین کا حال ہے۔ ان کے دشمن کچھ کہیں لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت و رسالت اس امر کی ضامن تھی کہ خداوند تعالیٰ نے اس کے اثبات کے لیے قانون فطرت میں تبدیلی پیدا کر دی۔ لیکن ایک طرف مسیحی مبلغین کا یہ تقاضا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف فطرت پید ا ہونے کے معجزہ کی بنا پر تام عالم صرف انہی کو آخری اور ابدی نجات دہندہ تسلیم کر لے اور اگر اسی قسم کی استثنائی حالت جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق پائی جائے جو عام قانون سے علیحدہ نظر آتی ہو تو مسیحی حضرات اس پر اعتراض و مواخذہ شروع کر دیں۔ حالانکہ دنیا کی ممتاز شخصیتیں بعض حالات میں سماج کے عام قانون سے مستثنیٰ ہیں۔

ہم اس دعویٰ کا پھر اعادہ کرتے ہیں کہ حاسدان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعتراضات کا اور جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ مسیحی مبلغین اور ان کے مستشرقین ارباب قلم دونوں کا۔ لیکن یہ انداز تاریخ کا سب سے بڑا گناہ ہو گا جس سے جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت و رسالت کی ناقابل تسلیم توہین کا ارتکاب ہو گا۔ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان معترضین کے تصورات کے مطابق ایسے گئے گزرے نہ تھے کہ واقعی آپ کی عقل و فرزانگی محبت بے جا کر شاکر ہو گئی جب کہ آپ نے کسی بی بی کو صرف محبت کی بنا پر اپنے حر م سرائے میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا اور جو بعض سیرت نویس مسلمانوں تک نے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق اس قسم کے تصورات زیب قرطاس فرمائے ہیں تو ان کی ذاتی خو ش اعتقادی کے سوا اور کس سے تعبیر کیجیے گا؟ ان مسلمانوں نے بھی دشمنان اسلام کے ہاتھ اپنے خلاف مضبوط کر دیے۔ اگرچہ اس میں ان کی نیک نیتی سہی۔

اس قسم کے مسلمان مصنفوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کے ساتھ ایسی گھٹیا درجہ کی باتیں منسوب کرنے کو بھی عشق رسول میں اپنا کمال دکھانے کا تحفہ حاصل کرنا چاہا حتیٰ کہ شہوت دنیا جیسی ادنیٰ خصلت بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کر دی گئی۔ حالانکہ جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دامن ان لغویات سے قطعاً مبرا ہے۔

 

انتخاب حرم کا طریق

زندگی کی پچیسویں بہار آنے پر بی بی خدیجہؓ سے عقد فرما لیا۔ جب کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شباب کی فرحتوں سے متمتع تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدیجہؓ کے ساتھ اٹھائس سال گزرے۔ بی بی کی وفات کے موقعہ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سن پچاس سال سے متجاوز ہو چکا تھا عرب میں تعداد ازواج کا عام رواج تھا گر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حرم میں صرف ایک خاتون تھیں۔ ان کے بطن سے کئی فرزند پیدا ہوئے گر ان میں سے ایک بھی زندہ نہ رہ سکا۔ چار دختر تھیں اور خدا کے فضل و کرم سے چاروں زندہ اور بیٹے زندہ نہ رہنے کی وجہ سے دوسری عورت سے نکاح کر لینے میں کوئی امر مانع نہیں تھا۔ عرب میں دختروں کے زندہ در گور کر دینے کا دستور و نجابت میں داخل تھا۔ وہ فرزندوں کی سلامتی پر جان چھڑکتے تھے اور ان کے تخلف میں خوشی محسوس کرتے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدیجہؓ کی معیت میں نبوت کے قبل سترہ سال اور بعثت کے بعد گیارہ سال رفاقت فرمائی۔ کل مدت اٹھائیس سال ہوتی ہے لیکن ربع صدی سے زائد عرصہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی دوسری عورت کو ان کے ساتھ حرم سرائے میں رکھنا گوار  نہ کیا۔ نہ کبھی اس اٹھائیس سالہ زندگی میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے ایسے تصورات کا اظہار ہی ہوا۔ حالاں کہ اس عہد تک (تابہ زمانہ مصاحبت ام المومنین حضرت خدیجہؓ) ملک میں عورتوں کی بے حجابی سے فتنوں کا طوفان برپا رہتا جو گھروں سے باہر نکلتیں ت اس طرح بن سنور کر جسے بعد میں اسلام نے حرام قرار دے دیا۔ اس لیے یہ امر قطعاً غیر طبعی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سن مبارک پچاس برس سے متجاوز ہونے پر آیا تو بی بی زینبؓ نے اپنی جگہ یہ متصور فرما لیا ہو تکہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں جس نظر سے دیکھا ہے اس سے آپ کے قلب کی پہلی حالت میں سراسر انقلاب آ گیا ہے، وہ بھی اس حالت میں کہ حر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں پانچ بی بیاں موجود ہوں جن میں عائشہؓ جیسی نیک نہاد اہلیہ جن کی درازی عمر کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل میں ہمیشہ تمنا رہی۔ لیکن زینبؓ کے معاملہ میں آپ کے قدم اس طرح ڈگمگا گئے اور شب و روز زینبؓ ہی کی دھن میں لگے رہے۔ غیر طبعی امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے پچاس سال سن کے بعد انہیں دیکھ کر یوں وارفتہ بن گئے ہوں خصوصاً جب کہ پانچ سال میں آپ کے حرف میں سات بیویاں اور سات برس تک نو تک ہوں یہ صورت تمام ایسے اعتراض جو بے سمجھ مسلمان ارباب سیرت اور عیار فرنگی مورخین دونوں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایسی تشویش پر کیے گئے ہیں سب کی  نفی کرتی ہیں جو تشویش کہ پست ذہنیت کے آدمیوں میں نہیں پائی جا سکتی چہ جائے کہ ایسی عظیم المرتبت شخصیت جس نے تمام دنیامیں انقلاب کی رو پیدا کر دی اور آج کے بعد جلد ہی توقع ہو کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بدولت دنیا میں پھر ایک انقلاب آ کر رہے گا۔

سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے اس پہلو پر نظر ڈالیے۔ سن گرامی پچاس سال کے قریب تھا۔ جب حر م اولیٰ جناب خدیجہؓ کے بطن سے اولادیں پیدا ہوئیں یا (حضرت )ماریہ قبطیہؓ کے ہاں ایک فرزند (ابراہیم) متولد ہوئے۔ اس وقت نبوت پناہ کا سن مبارک ساٹھ سال تک پہنچ چکا تھا۔ کہنا یہ ہے کہ ان د و حرم (جناب خدیجہؓ و حضرت ماریہؓ) کے ماسوا سات یا نو بیویوں میں سے کسی کے بطن سے اولاد پیدا نہیں ہوئی باوجودیکہ ان بیبیوں میں سے ہر ایک کا سن گرامی تیس چالیس برس کے قریب تھا جو تولید کا مناسب زمانہ ہو سکتا ہے۔

انہی ازواج مطہرات کے ہاں ان کے پہلے شوہروں کے صلب سے اولاد پیدا ہو چکی تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حر م میں ان کے داخل ہونے کے بعد پھر ایسا اتفاق نہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کا حادثہ ان طبعی قوانین کے خلاف نہ تھا۔ جن کا طعنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور زینبؓ دختر جحش کے مبادی عقد میں دیا جاتا ہے باوجودیکہ جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انسان تھے جس سے آ پ کی ذات میں اولاد کا میلان بھی ہو سکتا ہے جو ہر انسان میں پائی جاتا ہے (اگرچہ خدا کا رسول ہونے کے اعتبار سے آپ تمام امت کے روحانی باپ ہیں)۔

 

تاریخ کا فیصلہ اور تعدد ازواج نبی پر مسیحانہ بہتانات

مسیحی مناد ومستشرقین کی کار گاہ الزامات میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جو الزام عائد کیے گئے ہیں ان میں تعدد ازواج کے بارے میں تاریخ ان کی تردید کے لیے کافی ہے بایں ترتیب کہ:

(۱) ام المومنین خدیجہؓ آپ کی رفاقت میں اٹھائیس سال تک زندہ رہیں۔ ا س دوران ممدوحہ کے ساتھ کسی اور بی بی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شرف زوج نصیب نہ ہو سکا اور ان کی رحلت کے بعد ام المومنین حضرت جناب سودہؓ بنت زمعہ سے عقد فرمایا جو اس  سے قبل سکران بن عمرو کی زوجیت میں تھیں اورجو مسیحی کارگاہ بہتان کے خلاف حسن و جمال جیسے اوصاف سے غیر مشہور تھیں نہ ثروت و عالی مرتبت ہونے کے اعتبار سے قابل رشک تھیں۔ اس کے اسباب یہ ہیں کہ یہ بی بی پہلے اسلام لانے والی مسلمان عورتوں سے تھیں جنہوں نے اللہ کی را ہ میں ہر قسم کے رنج و محن برداشت کیے۔ اپنے شوہر اول کے ساتھ حبشہ میں ہجرت فرمائی اور اس سفر میں دوسرے مہاجرین کے ساتھ ہر قسم کے دکھ سکھ میں شریک رہیں (حتیٰ کہ آپ کے شوہر نے انتقال فرمایا:م:) اور ان کے بے مثل صبر و تحمل کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں ام المومنین کہلانے کا شرف بخشا) یہ جذبہ کس قدر شائستہ اور قابل مدحت ہے۔

(۲،۳) ام المومنین جناب عائشہؓ و حضرت حفصہؓ کے ساتھ مناکحت کی توجیہہ

دونوں امہات المومنین رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہر دو وزراء کی صاحب زادیاں تھیں۔ ان سے تزویج کا ایک مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ دور اندیشی ہے جس میں دونوں حضرات کو اپنے اور قریب کرنا مد نظر ہے۔ جیساکہ جناب عثمانؓ و حضرت علیؓ کو اپنی دامادی میں لینے سے اپنے قریب تر رکھنا مطلوب تھا۔

بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جناب عائشہؓ کے ساتھ بے حد محبت تھی لیکن تزویج کے قبل ان کے ساتھ کوئی اس محبت کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ غور کیجیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے لیے خطبہ فرمایا تو بی بی کا سن مبارک سات برس کا تھا رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی ظاہر ہے کہ اس سن میں رغبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔

 

ام المومنین جناب حفصہؓ سے التفات

آ پ کے ساتھ تزویج سے قبل یہ نوبت آئی تھی جیسا کہ حضرت حفصہؓ کے والد عمرؓ فرماتے ہیں :

واللہ! انا کنا فی الجاھلیہ ما نعد للنساء امر احتی انزل اللہ فیھن ما انزل وقسم لھن ما قسم ال فیبنما انا فی امر آتمرہ ا ز قالت لی امراتی لو صنعت کذ و کزا فقلت لھا ومالک انت ولما ھ ہسنا و ما تکلفک فی امر اریدہ فقالت لی عجبالک یا ابن الخطاب ما ترید ان تراجع انت وان ابنتک لتراجع رسول اللہ حتی یظم یوہ غضبان قال عمر فاخذت ردائی ثم اخرج مکانی حتی ادخل علی حفصہ فقلت لھا یابنیۃ انک لتراجعین رسول اللہ حتی یظم یومہ غضبان؟ فقلت حفصہ واللہ انا لنراجعہ فقات تعلمین انی احذرک عقوبہ اللہ وغضب رسول یا بنیہ لا یغرنک ھدالتی قد اعجبھا حسنھا وحب رسول اللہ ایاھا وقال واللہ لقد علمت ان رسول اللہ لا یحبک ولاانا لطلقک

’’بخدا! اسلام سے قبل ہمارے نزدیک عورتوں کی کوئی منزلت نہ تھی مگر اسلام آیا تو اس نے انہیں ترکہ میں شریک فرمایا تب ہم نے سمجھا چنانچہ ایک مرتبہ میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی امر میں صلاح مشورہ کر رہا تھا کہ میری اہلیہ نے ایک بات کہہ دی۔ میں نے اپنی اہلیہ کو زجر کی۔ اس پر میری بیوی نے کہا اے ابن الخطاب آپ گھر میں اپنی گفتگو میں بولنے نہیں دیتے لیکن جناب کی صاحبزادی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاموں میں دخل اندازی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ناراض کر رکھا ہے حتیٰ کہ ایک پورا دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حفصہؓ نے ناراض کر رکھا ہے عمر فرماتے ہیں کہ میں کاندھے پر اپنی ردا رکھ کر حفصہؓ  کے ہاں پہنچا وار کہا کیوں بی بی تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مناشقہ کر کے آپ کو اس قدر برہم کر رکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دن بھر ناراض رہتے ہیں ؟ حفصہ نے کہا کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے میں نے کہا بی بی ! میں آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے ڈرانے آیا ہوں اے حفصہؓ آپ  کو اس معاملہ میں عائشہؓ کی برابری نہ کرنا چاہیے۔ ان سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہت محبت فرماتے ہیں پھر حضرت عمر نے فرمایا اور اے بیٹی میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تم سے کوئی لگاؤ نہیں اگر میرا واسطہ نہ ہوتا تو طلاق ہی دے دی ہوتی‘‘۔

اس سے ثابت ہوا کہ جناب عائشہؓ و حفصہؓ کے ساتھ عقد ان کی محبت کی بجائے دونوں حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ کی شخصیت کی وجہ سے فرمایا تھا تاکہ ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کو اپنے قریب لایا جا سکے جیسا کہ حضرت عائشہؓ کے بعد۔

(۴)  ام المومنین سودہؓ کے ساتھ عقد کی توجیہہ انہیں حبالہ عقد میں لانے سے سرفروشان اسلام کی دل جوئی مقصود تھی۔ اگر مسلمانوں سے کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید ہو جائے تو اسے اپنے پس ماندگان پر اس وجہ سے نہ ڈرنا چاہے کہ ان کی وفات سے وہ فاقوں میں گھر جائیں گے۔

(۵)  ام المومنین جناب زینبؓ بنت خزیمہ عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب کے عقد میں تھیں وہ غزوہ بدر میں شہید ہو گئے۔ بی بی زینبؓ عطاء و بخشش میں دست سخاوت رکھنے  کی وجہ سے ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیں نیک محضر اور صافی القلب تھیں نہ کہ حسن و جمال سے شہرہ یاب۔ پھر شباب کی حدوں سے متجاوز ہو چکی تھیں۔ ام المومنین زینبؓ بنت خزیمہؓ حرم نبویؐ میں شامل ہونے کے دو یا ایک سال بعد جنت کو سدھار گئیں (جناب خدیجہؓ کے بعد حرم رسول میں آپ نے رحلت فرمائی)

(۶)   ام المومنین جناب ام سلمہؓ یہ بی بی حضرت ابوسلمہؓ کی اہلیہ تھیں۔ جن کے صلب سے کئی فرزند بقید حیات تھے ان میں سے ابو سلمہؓ غزوہ احد میں مجروح ہو گئے۔ ان کے زخم ابھی پوری طرح بھرے نہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کو غزوہ احمر الاسد میں امیر دستہ فرما کر بھیج دیا۔ جس میں کامیاب ہو کر واپس تشریف لے آئے۔ مگر زخموں کے منہ کھل چکے تھے کہ دوبارہ بھرنے پر نہ آئے۔ اسی حالت میں ملائے اعلیٰ سے ملاقات فرمائی۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوسلمہؓ کی بالیں پر تشریف فرما تھے۔ ادھر ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابو سلمہؓ کے لیے دعا مغفرت فرما رہے تھے اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے۔

بی بی ام سلمہؓ کی عدت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے خطبہ فرمایا تو ام سلمہؓ نے کثرت عیال کے ساتھ اپنی سن رسیدگی کا بھی عذر کیا۔ تزویج کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام المومنین کے بچوں کی تربیت میں کوئی  دقیقہ فروگزاشت نہ فرمایا۔ اگر اس پر بھی مسیح مبشتین و مستشرقین کی کار گاہ اتہامات سے یہی ہوائیاں چلتی رہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہؓ کے ساتھ بھی صرف ان کے حسن و جمال کی وجہ سے عقد فرمایا تو آپ ہی انصاف کیجیے کہ

ایسے دشمن کا کیا کرے کوئی!

کیا انصار و مہاجرین کے ہاں ایسی عورتیں نہ تھیں جو حسن و جمال میں بے مثل اور ثروت و شہرت میں ام سلمہ سے بدرجہا بہتر ہوں اور ان میں کسی کی گود میں پہلے شوہر کی اولاد بھی نہ ہو۔

جناب ام سلمہؓ کے حبالہ عقد میں لانے کا وہی داعیہ تھا جو حضرت زینبؓ بنت حزیہ کو شرف تزویج بخشنے میں کار فرما تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ مزید قرب ان کے دلوں میں خدا اور رسول کی عظمت بیش از بیش پیدا کرنے کا وسیلہ، مسلمانوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نبی و رسول ہونے پر آپ کو امت کا روحانی بات متصور کرانا ہر ایک مسکین و بے نوا و ناتواں و محتاج اور بے کس بمنزلہ باپ ہونا اور وہ بچے جن کے باپ راہ خدا میں شہید ہو جانے کی وجہ سے اپنی اولاد کو یکہ و تنہا چھوڑ گئے ہیں ایسے بچے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا باپ سمجھیں۔

متذکرۃ الصدر تاریخی تفحص میں کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ یہ کہ ملک و ملت کے عام حالات میں ایک بیوی پر اکتفا کیا جا سکتاہے جیسا کہ خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ کے ساتھ اٹھائیس سال بسر کیے۔ اسی طرح قرآن مجید اموال و ظروف کے مطابق ایک سے لے کر چار بیویوں تک کی بھی اجازت دیتا ہے۔

 

تعدد ازواج

فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ و ثلاث وربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ اوما ملکت ایمانکم (۴:۳)

’’ وہ عورتیں جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کر لو (یعنی دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں نکاح کر لو ایک وقت میں ) د و دو تین تین چار چار تک کر سکتے ہو (بشرطیکہ ان میں انصاف کر سکو یعنی سب کے حقوق ادا کر سکو اور سب کے ساتھ ایک ہی طرح کا سلوک رکھو)۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر چاہیے کہ ایک بیوی سے زیادہ نہ کرو یا پھر جو عورتیں (لڑائی کے قیدیوں میں ) تمہارے ہاتھ آ گئی ہیں (انہیں بیوی بنا کر رکھو)۔

ولن تستطیعوا ان تعدلو بین النساء ولو حرصتم فلا تمیلو ا کل المیل فتذروھا کالعلقۃ ( ۴:۱۲۹)

’’اور تم اپنی طرف سے کتنے ہی خواہش مند ہو لیکن یہ بات تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ (ایک سے زیادہ) عورتوں میں (کامل طور پر) عدل کر سکو (کیوں کہ دل کا) قدرتی کھچاؤ تمہارے بس کا نہیں۔ (کسی کی طرف زیادہ کھینچے گا کسی کی طرف کم) پس ایسانہ کرو کہ کسی ایک ہی کی طرف جھک جاؤ اور دوسری کو اس طرح چھو ڑ بیٹھو گویا کہ وہ معلقہ ہے (یعنی ایسی عورت ہے کہ نہ تو بیوہ اور طلاق دی ہوئی ہے کہ اپنا دوسرا انتظا م کر لے اور نہ شوہر ہی اس کا حق ادا کرتا ہے کہ شوہر والی عور ت کی طرح ہو بیچ میں لٹک رہی ہے)۔

یہ دونوں آیتیں ہجرت کے بعد آٹھ سال میں نازل ہوئیں۔ جس سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ازواج سے عقد فرما یا تھا۔ اب آ کر چار عورتوں کی تحدید فرما دی گئی اور اس حکم آسمانی سے قبل ایک اور چار کی کوی حد بندی نہ تھی۔ اس سے معترضین کا یہ اعتراض رفع ہو گیا کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس شے کو دوسروں کے لیے حرام کر دیا ہے اسے اپنے لیے مباح بنا لیا لیکن تعداد اسی صورت میں روا ہے کہ جب ان کے درمیان پور ا عدل و انصاف قائم رکھنے کا ہو۔ ان آیات میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف عام انسانوں کی طاقت سے باہر ہے۔

اگرچہ ایک ہی عورت عام حالات کے مطابق قطعاً مناسب ہے مگر قوم و ملک کے حالات میں تبدیلی بھی تو ممکن ہے جس تبدیلی کے زمانہ میں ایک مرد کا چار عورتوں کے ساتھ عقد جائز بلکہ ضروری ہے۔ لیکن تعدد کی حالت میں عدل و انصاف کی شرط لازم ہے اور ایک مرتبہ اس تعدد کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہی عہد میں فرما دی گئی۔ کیوں کہ جنگوں میں مسلمان مردوں کے میدان میں کام آ جانے کی وجہ سے عورتیں بے شوہر رہنے لگیں جس سے تعدد ازدواج کے بغیر چارہ نہ رہا۔ لیکن تعدد کی حالت میں ہم لوگ اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ کسی عالم گیر جنگ یا وبائے عام یا دوسرے حوادث جن کے نتائج میں لاکھوں مرد طعمہ اجل ہو جائیں ایسے دور میں صر ف ایک ہی عورت پر اکتفا لاز مہے ؟ کیا ایسے ارباب مغرب یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ عالم گیر جنگ کے بعد ان کا یہ قانون کہ جو ایک بیوی پر اکتفا کے لیے ہے ان کے ہاں عملاً بھی اس طرح جاری ہے؟ ام المومنین خدیجہؓ کی زندگی میں دوسری شادی کا خیال قطعاً ثابت نہیں ، نہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ خدیجہؓ سے تزویج سے قبل کسی عورت سے معاملہ کے لیے اپنا لگاؤ ظاہر کیا تھا۔ باوجودیکہ اس دور میں پردہ کا رواج بھی نہ تھا۔ عورتیں ایسے بناؤ سنگار میں آزاد تھیں جسے بعد میں اسلام نے حرا کر دیا۔ اندرین حالات میں یہ بات قطعاً غیر عقلی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پچاس سال کے سن سے متجاوز ہونے کے بعد دفعتہً ایسے رجحانات میں گھر گئے کہ سیدہ زینبؓ بنت جحش کے معاملہ میں یوں دل گرفتہ ہو گئے چہ جائے کہ حر م میں پانچ ازواج تشریف فرما ہوں جن میں سیدہ طاہرہؓ جیسی مونسہ ہوں جو تا دم رحلت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی معتمد علیہا رہی ہوں۔ ان حالات میں کیو ں کر باور کیا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دن رات سیدہ زینبؓ کے خیال میں گھلے جا رہے تھے؟

یہ ایسے حقائق ہیں جو ان مسلمانوں کے مفروضات کی تردید کے لیے بھی کافی ہیں ، جنہوں نے اپنی طرف سے اضافہ فرما کر مستشرقین کے سامنے ایسی روایات رکھ  دیں جو مادہ پرست انسان کے بھی شایان شان نہیں۔ چہ جائے کہ ایسی عظیم المرتبت ہستی جس نے نئی دینا بنانے کے لیی تاریخ عالم میں اپنا مقام تمام بنی نوع بشر سے بلند حاصل کر لیا ہو۔

حضرت زینبؓ بن جحش سے مناکحت کے مبادی میں بعض مسلم اور بے شمار مسیحی واعظین و مستشرقین نے جو اضافات فرمائے ہیں ان میں یہ واقعہ عشقیہ داستان بن گیا ہے۔ چہ جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس تزویج سے آپ کے مفاخر میں ایک اور اضافہ ہو گیا ہے ایک ایسے کامل الایمان کی مانند جس نے اپنے لیے بھی وہ اختیار فرمایا ہو جو دوسروں کے لیے کہا بحسب حدیث

لا یکمل ایمان امرء حتی یحب لا خہ ا یجب لنفسہ

’’کوئی انسان کامل الایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے لیے وہی پسند کرے جو اسے دوسروں کے لیے پسند ہو‘‘۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جاہلیت کی ایک مذموم رسم توڑنے کے لیے سب سے پہلے خود قدم اٹھایا تاکہ اس نظام جدید میں جسے اللہ نے اپنے بندوں پر رح و کرم کی صورت پر عائد فرمایا تھا خالی نہ رہ جائے۔

اس افتراء کی تغلیط کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ زینبؓ  بنت جحش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں جو بچپن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کھیلا کرتی تھیں۔ ان معنوں میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے بمنزلہ دختر یا خواہر خورد کے ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں پہچانتے تھے۔ ان کے زیدؓ کی تزویج میں آنے سے قبل انہیں دیکھا ہوا تھا۔ بی بی زینبؓ کی طفولیت سے لے کر عہد جوانی تک کے ہر ہر سال و ماہ و یوم میں اور زیدؓ کے لیے خطبہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔ اس کے بعد ان تمام مفتریات پر نظر دوڑائے جن میں دو باتیں کہی جاتی ہیں۔

(الف)  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زیدؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو وہ گھر میں موجود نہ تھے اورآ پ زینبؓ کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو کر سبحان اللہ مقلب القلوب کہتے ہوئے وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔

(ب)  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس وقت ان کے ہاں تشریف لاء  اس وقت بی بی زینبؓ ایک باریک عبا زیب تن فرمائے ہوئے تھیں۔

کیا ا س وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تصور سے آ پ کو اپنی موجود چھ بیویوں کا وجود بھی محو ہو گیا خصوصا ً خدیجہؓ کا تصور جن کے متعلق عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ میں نے خدیجہؓ کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کسی بیوی پر رشک نہیں کیا۔ جب بھی ذکر آتا ان کی بے حد مدح فرماتے۔ بی بی زینبؓ کے متعلق یہ ارادہ ہوتا تو آپ شروع ہی میں زیدؓ کی بجائے اپنے لیے خطبہ فرما سکتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور زینبؓ کی اس قدر قریبی رشتہ داری تھی کہ اس قسم کے مفروضہ الزامات کی تردید کے لیے کافی ہے کہ اگر زینبؓ  بی بی کا حسن و جمال آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل میں اس حد تک جاگزیں تھا تو آپ زیدؓ کی بجائے اپنے لیے خطبہ پیغام نکاح میں کیا مانع تھا؟ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جناب زینبؓ کی قرابت خاصہ اور بیبی کی طفولیت سے لے کر سن رشد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب رہنا افتراء بازوں کی خیالی بندشوں پر ایسی ضرب ہے جس کے سامنے ان کے اتہامات کی کوئی حقیقت نہیں رہتی۔

 

خطبہ برائے زیدؓ

اس معاملہ میں تاریخ ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے بیشک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ یک لیے اپنی پھوپھی زاد ہمشیرہ سیدہ زینبؓ سے خطبہ فرمایا جس سے ان کے بھائی عبداللہ (پسر جحش) نے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ ان کی ہمشیرہ ہاشمیہ ہیں اور انہیں ختم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ کیا  ایسی نجیب الطرفین خاتون کا عقد اس شخص سے کر دیا جائے جسے قریش کی ایک ہی خاتون (ام المومنین خدیجہؓ) نے خریدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آزاد کیا ؟ یہ امر نہ صرف زینبؓ بلکہ تمام عرب کے اشراف کے لیے عار و ندامت کا موجب ہو گا کہ شرفاء کی صاحب زادی کو غلاموں کے حبالہ عقد میں دے دیا جائے۔

 

عرب کی عجم پر عدم فضیلت

مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو اس قسم کے نسلی امتیازات عملاً ختم کرنے کو تھے کہ عربی النسال ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ ان سے ہر عجمی نژاد پر برتری حاصل ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

ان اکرمکم عنداللہ اتقکم (۴۹:۱۳)

’’اللہ کے نزدیک تم میں سے بڑا وہ ہے جو تم میں پرہیز گار ہے۔ بیشک اللہ جاننے والا باخبر ہے‘‘۔

اور فخر دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نسلی برتری کے مٹانے کی غرض سے اپنے خاندان کے سو ا کسی اور کو اس امر کے لیے اتنا مجبور نہ فرما سکتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سمجھ لیا کہ آپ کی پھوپھی زاد زینبؓ عرب کے نسلی امتیاز کو اس طرح رفع کر سکتی ہیں کہ ایک شریف زادی کا عقد ایسے شخص سے بھی ہو سکتا ہے کہ جو عام نظروں سے اس قدر کم درجہ کا سمجھا جاتا ہو کہ سماعت اس تصور کو گوارا نہ کر سکے۔ جناب زیدؓ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہونے کے ساتھ حضرت کے متنبیٰ ہونے کے فخر سیبھی بہرہ مند تھے۔ اور دستور عرب کے مطابق دوسرے عصبات و ذی العروض کے ساتھ اپنے منہ بولے والد گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ورثہ میں بھی شریک جسے بعد میں اسلام نے ختم کر دیا آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مسلسل اصرار پر آپ کی پھوپھی زاد زینبؓ اور ان کے بھائی (جناب عبداللہ بن جحش) اس پر رضامند ہو گئے کہ جن کی مدح میں یہ آیت نازل ہوئی:

وماکان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ ن امرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلال مبینا (۳۳:۳۶)

’’ اور کسی مسلمان مرد اور کسی مسلمان عورت کو شایان نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے بارے میں کوئی بات ٹھہرا دیں تو وہ (اپنی رائے کو دخل دیں ) اور اس بات میں ان کا (اپنا) اختیار(باقی) رہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑ چکا۔

ز

عقد زینبؓ میں جبری رضامندی

آیت مذکور ہ نازل ہوے کے بعد عبداللہ اور زینبؓ دونوں بہن بھائی اظہار رضامندی پر مائل ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حق مہر ادا فرما دیا۔ لیکن زینبؓ کے فخر و نسب اور زیدؓ سے نفرت کسی میں کمی نہ آئی۔ زینبؓ بار بار زیدؓ کے مقابلہ میں اپنی نجابت اور تشخص پر برتری سے اظہار فرماتیں میں آزاد شدہ نہیں ہوں !

ہر گھڑی کی اس چپقلش نے زیدؓ کا ناطقہ بند کر دیا۔ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا دکھڑا سناتے اور طلاق دینے کی اجازت طلب کرتے۔ ہر چند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

امسک علیک زوجک واتق اللہ ؎۱ (۳۳:۳۷)

سے تلقین فرماتے لیکن زیدؓ کا ان کے ساتھ زندگی بسر کرنا اجیرن ہو گیا۔ آخر کچھ مدت انتظار کرنے کے بعد انہیں طلاق دے کر برطرف ہو گئے۔

 

منہ بولے بیٹوں کا معاملہ

بات یہ ہے کہ عرب میں منہ بولے بیٹوں کے معاملہ میں حد سے بڑھ چکے تھے۔ انہیں صلبی اولاد کے حقوق حاصل تھے مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حکمت آفرینی اس کو بھی گوارا نہ کر سکی کہ وہ بلا حجاب گھروں میں گھس آئیں یا استحقاق و حرمت نسب میں انہیں صلبی اولاد کا ہم پلہ قرار دیا جائے۔ اور میراث و ترکہ میں برابر کا حصہ دار ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ ضروری سمجھاکہ منہ بولے بیٹوں کے حقوق ایک دوست یا دینی بھاء سے زیادہ نہ رہنے پائیں۔ ان حقوق بندی پر آخر یہ آیت نازل ہوئی:

وما جعل ادعیاء کم ابنائکم ذلکم قولکم بافواھکم واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل (۳۳:۴)

’’اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا بنایا نہ تمہارے زبان بدلنے کی ضرورت ہے اور اللہ تو حق بات کو پسند فرماتا ہے اور وہی لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے‘‘۔

۱؎  اپنی بی بی زینبؓ کو اپنی زوجیت میں رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور اسے چھوڑ نہیں۔

اس آیت کے مفہوم کے مطابق رسوم کے اصلاح کنندہ کو خود ہی ایسا قدم اٹھانا چاہیے کہ سب سے پہلے باپ اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے عقد کر سکے۔ اور متنبیٰ کو اپنے منہ بولے بیٹے کی زوجہ سے عقد گوارا ہو۔ لیکن کسے یارا تھا جو ان رسوم کے خلاف عملاً قدم اٹھائے پھر عرب جیسے ملک میں جہاں صدیوں سے یہ رسمیں قوی طور پر دستور کے طریق پر تہذیب و تمدن میں داخل ہو چکی تھیں ماسوائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جن کی قوت عزیمت اور حکمت خداوندی پر عمیق ادراک و فکر نے آپ کو عملاً اس پر آمادہ کر لیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدا کے اس حق کو نافذ کرنے کے لیے بی بی زینبؓ کے ساتھ عقد فرما لیا جنہیں آپ کے منہ بولے فرزند زیدؓ نے طلاق دے کر برطرف کر دیا تھا۔ مگر آپ کے دل میں یہ احساس بھی تھا کہ ملک کی اتنی قدیم رسم کے توڑنے پر لوگ کیا کہیں گے جیسا کہ:

وتخفی ی نفسک ما اللہ مبدیہ و تخشی الناس واللہ احق ان تخشہ (۳۳:۳۷)

’’اور تم اس بات کو اپنے دل میں چھپاتے تھے کہ جس کو آخر کار اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تم (اس مقابلے میں ) لوگوں سے ڈرتے تھے اور اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ ‘‘

لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احکام الٰہی کی انجام دہی میں تمام امت سے پیش پیش اور ان حکموں کی تبلیغ کے ذمہ دار تھے۔ آپ نے لوگو ں کی چہ میگوئیوں سے بے پرو ا ہو کر اپنے آزاد کردہ غلام زیدؓ کی مطلقہ سے عقد فرما لیا کیوں کہ احکام خداوندی کی تعمیل میں لوگوں سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی خشیت اصل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بی بی زینبؓ سے اس لیے عقد فرما لیا تاکہ حکیم و دانا شارع صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس حکم خداوندی کو جاری کر سکیں جو منہ بولے بیٹے اور باپ دونوں کی وجہ سے باطل ہو رہا ہے۔ جیسا کہ اس آیت سے ثابت ہے :

فلما قضی زید منھا وطرا زوجنکھا لکی لا یکون علی المومنین ؤحرج فی ازواج ادعیائھم اذا قضوا منھن وطرا وکان امر اللہ مفعولا (۳۳:۳۷)

’’پھر جب زیدؓ (اس عورت) سے بے تعلقی کر چکا  (یعنی طلا ق دے دی اور  عدت پوری ہو گئی تو) ہم نے تمہارے ساتھ اس عورت کا نکاح کر دیا تاکہ عام مسلمانوں کے لے پالک جب اپنی بیبیوں سے بے تعلق ہو جائیں تو مسلمانوں کے لیے ان عورتوں سے نکاح کر لینے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے اور خدا کا حکم تو ہو کر ہی رہتا ہے‘‘۔

 

ام المومنین زینبؓ کے واقعات

صرف اتنے میں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی زاد ہیں اس رشتہ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں زیدؓ کے نکاح میں آنے سے قبل ہمیشہ دیکھا۔ آپ ہی نے زیدؓ سے ان کا خطبہ فرمایا۔ زیدؓ سے ان کا عقد ہو جانے کے بعد جب تک یہ آیہ حجاب نازل نہ ہوئی تھی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ار بی بی زینبؓ کے درمیان قرابت کی وجہ سیایک دوسرے کے سامنے آنے میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ ان کے ہاں آنے جانے میں کوئی تکلف کہ زینبؓ آپ کے منہ بولے بیٹے زیدؓ کی اہلیہ تھیں بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دونوں میاں بیوی کے باہمی ان بن کی وجہ سے ان کے ہاں بار بار جانا پڑتا تھا اور اس لے بھی کہ اس معاملہ میں احکام الٰہی کا نزول شروع ہو گیا جن میں اس طلاق کے بعد بی بی زینبؓ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عقد میں آنے کا اشارہ بھی تھا۔

 

غلام اور حقوق شہریت

یہی احکام دوسری حیثیت سے آزادہ کردہ غلام کو شہریت کے حقوق دلانے کا سبب ہوئے اور یہی احکام منہ بولے بیٹوں کے وہ حقوق ختم کرنے کا موجب ہوئے جن (حقوق) کی وجہ سے ان صلبی بیٹوں کے ساتھ کلی مناسبت قائم ہو چکی تھی اور انہی احکام نے آئندہ کے لیے منہ بولے بیٹوں کے لیے کوئی ایسی گنجائش نہ چھوڑی کہ جس کے وہ مستحق نہ ہوتے ہوئے ان سے مستفید ہو رہے تھے۔

سوا ل یہ ہے کہ اس قدر واضح احکام اور صحیح واقعات کے ہوتے ہوئے ان فسانوں کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے جو اس عقد میں وضع کیے گئے اور مستشرقین نے ان کی فسانوی حیثیت کو جانتے ہوئے ان سے اپنی تالیفات میں استفادہ کیا؟ ان محققین میں برسرعنوان میور ارفنج اسپرنگر سیل درمنگھم اور لامنس وغیرہ ہیں جنہوں نے تحقیق کی آڑ میں مسیحیت کی تبلیغ کے لیے یہ گل کھلائے۔ ان مسیحی مصنفین کے دلوں میں حروب صلیبیہ کی وجہ سے جو  آگ صدیوں سے سلگ رہی تھی اس کی وجہ سے یوں جلتے رہنا ان کے لیے مقدر میں تھا کہ وہ ختم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق ایسی کتابیں لکھیں کہ ج میں آپ کی ازدواج خصوصاً زینبؓ کے عقد کی  وجہ سے پانی پی پی کر کوسا جا سکے۔ انہوں ے تاریخ کا کتنا بڑا گناہ کیا کہ دیدہ ودانستہ اپنی تحقیق کا مبنی ضعیف اور موضوع روایات کو قرار دیا۔ اگر یہ تحقیق صحیح روایتوں پر مبنی ہوتی تو پھر ہمیں یہ کہنے کا حق ہوتا کہ دنیا کے بلند ترین اشخاص کی عوام کی طرح ہر قانون کا پابند نہیں ہوتے جیساکہ:

(الف)  حضرت موسیٰؑ نے ایک قطبی کو قتل کر دیا اور ان پر سزا وارد نہ ہو سکی ۱؎ (اور ان کے رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر نازل شدہ کتاب( تورات) یہودیت کا دستور شریعت قرار پائی :م:)

(ب)  جناب مسیحؑ باپ کے بغیر پیدا ہوئے اور مسیحیت کی روح سے انہیں روح القدس ۲؎ اور کیا کیا نہ کہا گیا بلکہ مسیح علیہ السلام کا اس طرح متولد ہونا ہی ان کے لیے وجہ تقدیس بن گیا (طریق تولید کے اس قدر خلاف اور اس کے متعلق یہ حسن عقیدہ :م)

۱؎  خروج باب ۱ نمبر ۱۲،۱۳،۱۴

۲؎  لوقا، باب ۱ نمبر ۲۶ تا ۳۵

(۳)  حضرت یونسؑ (جنہوں نے برملا خداوند خدا کی بے فرمانی کی پاداش میں عبرت انگیز سزا پائی ۱؎ لیکن انبیائے مرسلین ؑ پر ایسے عوارض کی وجہ سے ان کے علو مرتبت کے ہوتے ہوئے طعن نہیں کیا جاتا)۔

بخلاف ان کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنہوں نے وحی خداوندی کی رہبری میں نظام اجتماعی کی بنیاد رکھی اور اسی الہام کی رہنمائی میں اس نظام کو مربوط و مستحکم فرمایا جس کی بدولت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ بلند مرتبہ نصیب ہوا اور آپ کے اس اسوہ حسنہ کو سراہا گیا کہ آپ نے خدا کے احکام کی تبلیغ میں کس قدر فراست و تدبر کو سمو دیا ہے ایسی جامع الصفات ہستی کے لیے مسیحی مبلغوں نے چاہا کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسروں کے لیے چار بیویوں کی تحدید کر دی خود بھی اسی حد تک رہتے اور  اپنی چار بیویوں کے ماسوا سب کو طلاق دے کر علیحدہ کر دیتے۔

میں کہتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے یہی مناسب ہوتا اور ایسا ہی کر گزرتے تو کیا آپ مسیحٰ مہربانوں کے ان طعنوں سے بچ سکتے تھے؟

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے حرم کے ساتھ سلوک کو جو تذکرہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی زبان سے پیش کیا گیا ہے اور ابھی اس کی اور وضاحت ہو گی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بیویوں کا جس قدر احترام جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا اس کے مطابق اس صنف پر لطف و کرم کی کوئی اور نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔

۱؎  خداوند خدا کا کلام یوناہ (م: یعنی یونس) بن تی پر نازل ہوا کہ اٹھ اور اس شہر نینوا کو جا اور اس کے خلاف منادی کر کیوں کہ اس کی شرارت میرے حضور پہنچی ہے لیکن یوناہ خداوند کے حضور سے ترسیس کو اٹھ بھاگا اور یافا میں پہنچا ار وہاں سے اسے ترسیس کو جانے والا جہاز نہ ملا اور وہ کرایہ دے کر اس پر سوار ہوا تاکہ خداوند خدا کے حضور سے ترسیس کو اہ جہاز کے ساتھ لے جائے۔ لیکن خداوند نے سمندرپر بری آندھی بھیجی اورسمندر میں سخت طوفان برپا ہوا اور اندیشہ تھا کہ جہاز تباہ ہو جائے۔ تب ملاح ہراساں ہوئے اور  ہر ای نے اپنے دیوتا کو پکارا۔ تب وہ خوف زدہ ہو کر اس سے کہنے لگے کہ تو نے یہ کیا کیا۔ کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ وہ خداوند کے حضور سے بھاگا ہوا ہے اس لیے کہ اس نے خود ان سے کہا تھا (یوناہ باب۱ نمبر ۱ تا ۱۰) :م۔

٭٭٭

 

 

 

جنگ خندق (یا احزاب) اور یہود بنو قریظہ

 

مدینہ میں یہود کے تین بڑے قبیلے آباد تھے:

(الف)  بنو قینقاع:  سب سے پہلے انہی کا اخراج عمل میں آیا۔

(ب)  بنو نضیر:  (الف) کے بعد خارج البلد کیے گئے۔

(ج)  بنو قریظہ:  جن کی داستان زیر تسوید فصل اٹھارہ میں بیان ہو رہی ہے۔

بنو قینقاع کے بعد بنو نضیر بھی اپنے تمرد کی پاداش میں مدینہ سے جلا وطن کر دیے گئے۔ غزوہ بدر ثانیہ میں ابو سفیان مقابلہ پر آئے کہ واپس لوٹ گئے۔ قبائل نے غزوہ غطفان و دومتہ الجندل میں اپنی فوج کشی کا نتیجہ دکھ لیا تب کہیں مسلمانوں کو مدینہ میں سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا۔ اگرچہ وہ تجارت کے لیے اب بھی سفر نہ کر سکتے تھے نہ کھیتی باری کے لیے کھلے بندوں شہر کے باہر نقل و حرکت کی گنجائش تھی بلکہ اس عرصہ میں غنیمت اور فے میں سے جو جس کے حصے میں آیا اسی پر گزربسر کر کے زندگی کا یہ وقفہ بسر کر دیا۔

 

اس وقفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فکر مندی

 

لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقفہ میں یکسو نہ رہ سکے کہ دشمن کس وقت کون سی چال چل جائیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے جاسوس ادھر ادھر پھیلا دے تاکہ وقت سے پہلے مدافعت کی تیاری کی جا سکے۔ مسلمانوں کے لیے چارہ کار  بھی کیا تھا۔ قریش مکہ اور قبائل نے ان کے خلاف جو قیامت برپا کر رکھی تھی کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ ہر ایک رسم میں اندھی تقلید وار جمود کے باوجود ملک کے تمام باشندے شہری ہوں یا بدوی سبمیں ایک قسم کا جمہوری نظام مروج تھا۔ جس میں لباس و اطوار و خصائل بلکہ مذہب تک میں توحد تھا۔ عرب کے رہنے والے بعد مسافت کے باوجود ایک دوسرے کے اس قدر قریب تھے کہ جس کی نظیر دنیا کی کوئی قوم پیش نہیں کر سکتی۔

جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب نژاد ہونے کی وجہ سے اپنے ملک میں بسنے والی قوموں کے شعور سے پوری طرح واقف تھے۔ اور ان سے ہمہ وقت خائف رہتے تھے کہ نہ معلوم کینہ توز عرب کس وقت مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں۔ قریش مکہ بدر کے مقتولین کی وجہ سے ان کے خون کے پیاسے بنو قینقاع اور بنو نضیر مدینہ سے اخراج کے غصہ میں ان کے دشمن بنو غطفان و بنو ھذیل ان سے انتقام لینے کے درپے اور قبائلی عصبیت کی وجہ سے تمام عرب ایک دوسرے کی حمایت میں کمر بستہ۔

عرب کا ایک ایک متنفس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کئی کئی وجوہ سے انتقام لینے کے لیے سربکف ہے۔ انہیں یہ دکھ بھی کھائے جا رہا تھا کہ کل جو شخص اپنے وطن سے ایمان باللہ کے سوا کوئی اور دولت لیے بغیر نکل آیا تھا اسنے مدینہ میں پانچ سال کے اندر اس قدر قوت حاصل کر لی تھی کہ اطراف و جواب کے تام بڑے شہر اور صحرائے عرب کے ہر ایک قبیلہ میں اپنی ڈھاک بٹھا لی۔

 

یہود کی خصومت

حاسدان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں تمام عرب سے زیادہ یہود کی خصومت خطرناک تھی، جو اپنی علمی بصیرت کے پرتو میں یہ جاننے کے باوجود کہ ایک نہ ایک روز جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کے سامنے ان یہودکی سیادت کاچراغ بجھ جائے گا اگرچہ وہ خو د بھی توحید کا پرچار کر رہے تھے ادھر نصاریٰ کے ساتھ ان کی شروع سے رقابت تھی جن پر غالب آنے کی امید میں انہوں نے صدیاں گزار دیں۔ یہود کی برتری کی یہ تنا بعید از قیاس بھی نہ تھی کہ بلند مرتبہ انسان طبعاً توحید پر مائل رہتا ہے اس کی وجہ سے انہیں مسیحانہ تثلیث سے رغبت نہ ہو سکی۔

آج یہود کے نصرانی دشمنان توحید کے مقابلہ میں ایک داعی توحید جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ظہور فرمایا جو عالی نژادگی میں بے مثل اور دنیا کی عظیم ترین تمام شخصیتوں سے برتر تھے۔ توحید کی دعوت جس انداز میں پیش فرمائی دلوں میں یوں بس گئی کہ جسے قبول کرنے والوں نے خود میں اپنی پہلی حالت سے بہت کچھ برتری دیکھی۔

اور جونہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قوت حاصل کی پہلے یہود بنو قینقاع کو مدینہ سے خارج ہونے کے لیے مجبور فرمایا اور اس کے بعد یہود بنو نضیر کو انہی کے قدموں پر چنے کے جرم میں شہر سے باہر دھکیل دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہود کے یہ دونوں ٹولے جب اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے آبائی وطن بیت المقدس (ارض موعود) کی ست لوٹے تو اپنے دل میں غیظ و غضب کے بغیر چلے گئے؟ یا انہوں نے یہ ارادہ نہ کیا کہ جس طرح بن پائے اپنا انتقام لینے کے لیے قبائل عرب کو بھڑکایا جائے؟

 

بنو قریظہ کا مشرکین سے الحاق

بنو قریظہ کے دل میں غیظ کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اسے ہوا دینے کے لیے انہوں نے رو رو کر عرب سے التجائیں کیں۔ ابن ابو الحقیق کے دونوں بیٹے (سلام و کنانہ) اور حی بن اخطب ھرسہ یہودان ابو نضیر اور بنو وائل کے دو بڑے سرغے ہوذہ بن قیس اور ابو عمارہ (پانچ آدمیوں کا غول) وفد کی صورت میں قریش مکہ کے ہاں پہنچا جنہوں نے حیی بن اخطب سے دریافت کیا کہ بنو نضیر کے عزائم کیا ہیں۔

حیی:  وہ خیبر اور مدینہ کے درمیان پڑاؤ ڈالے تمہاری راہ تک رہے ہیں۔ تاکہ قریش کے ساتھ مل کر جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں پر حملہ آور ہوں۔

قریش:  اور بنو قریظہ کس حال میں ہیں ؟ (یہ قبیلہ ابھی تک مدین ہمیں تھا)

حیی:  بنو قریظہ( حضرت ) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فریب میں رکھنے کے لیے ابھی تک مدینہ ہی میں موجود ہیں اور موقع کے منتظر ہیں۔

اس منزل پر قریش اس فکر میں ڈوب گئے کہ آیا انہیں جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حملہ کرنا مناسب بھی ہے یا نہیں۔ ان اک اختلاف ان کے ایمان باللہ کی وجہ سے شروع ہوا تھا۔ اب ان کی دعوت کا حلقہ روز بروز وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ حق پر ہیں ؟ یہاں پہنچ کر قریش نے یہود سے ایک اور سوا ل کیا:

قریش کا یہود سے مذہبی تفاوت کا سوال

قریش  مکہ نے ان یہود سے برملا پوچھا کہ اے برادران یہود! حضرات کو اہل کتاب ہونے میں اولیت حاصل ہے آپ کو ہمارے اور جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اختلاف بھی معلوم ہے۔ ہم آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا دین بہتر ہے یا ہمارے حریف کا؟

 

یہود کا جواب

صاحبو آپ کا دین اسلام سے بہتر ہے اور ان کے مقابلہ میں آپ لوگ حق بجانب ہیں !

ادھر یہود کے ا س کتمان پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:

الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب یومنون بالجبت والطاغوت ویقولون للذین کفروا ھولاء اھدی من الذین امنوا سبیلا اولئک الذین لعنھ اللہ ومن یلعن اللہ فلن تجدلہ نصیراہ (۴:۵۱:۵۲)

’’(اے پیغمبرؐ) کیا تم نے لوگوں (کے حال پر) نظر نہیں ک جن کو کتاب آسمانی سے حصہ دیا گیا اور لگے بتوں کا اور شیطان کا کلمہ پڑھنے اور (نیز)مشرکین کی نسبت کہنے لگے کہ مسلمانوں سے تو یہی لوگ زیادہ رو براہ ہیں۔ (اے پیغمبرؐ!) یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے پھٹکار دیا اور جس کو اللہ  کی پھٹکار ہے ممکن نہیں کہ تم کسی کو اس کا مددگار پاؤ‘‘۔

 

یہود کے جواب سے ان کے مشہور مستشرق کی برمات

توحید کے مقابلہ میں قریش کے سامنے بت پرستی کی تعریف میں ڈاکٹر اسرائیل ولنسفوں اپنی کتاب (تاریخ یہود فی العرب) میں فرماتے ہیں : ’’یہود نے کیسا ستم ڈھایا کہ جو قریش کے سامنے بت پرستی کو توحید اسلامی کے مقابلہ میں بہتر قرار دیا ! انہیں اس معاملہ میں اس درجہ دشمنی کا ثبوت نہیں دینا چاہیے تھا۔ کہ جادہ حق سے منحرف ہو جائیں اور قریش کے قائدین کے روبرو ہرگز یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ بت پرستی توحید سے بہرحال اعلیٰ ہے۔ چاہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ مشرکین مکہ اس سازش میں ان کے ہم نوا نہ ہو سکتے۔ مگر وہ بھول گئے کہ خود ان کے مورث اعلیٰ یعنی بنی اسرائیل نے بت پرستی کے خلاف کس طرح قوموں سے جنگیں جاری رکھیں اور توحید پھیلانے کے جرم میں ان کے پیش روؤں میں سے کتنے حضرات نے جام شہادت نوش کیا اور ان میں کتنے حضرات صرف خدائے واحد پر ایمان لانے کی پاداش میں زخمی ہوئے۔ یہود کو چاہیے تھا کہ بت پرستوں کو سرنگوں کرنے کے لیے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کر دیتے اور جس قدر مال و دولت ان کے قبضہ میں تھا اس راہ میں لٹا دینا اپنا فرض سمجھتے نہ یہ کہ انہوں نے بت پرستوں کے سامنے ا ن کے عقیدہ کو سراہا۔ یہ تو اپنے عقیدہ کے خلاف جنگ کرنا تھا اور تورات کی ا س تعلیم کے منافی جس میں بت پرستوں سے نفرت اور ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم موجود ہے‘‘۔

 

قریش کے ساتھ سازش کے بعد قبائل میں تحریک

قرار پایا کہ حملہ کیا جائے اور تیاری کے لیے اتنے مہینو ں کی مہلت طے کی گئی حیی بن اخطب اور ان کے دوسرے یاران سرپل (یہود) نے قریش مکہ ہی کے ساتھ معاہدہ کافی نہ سمجھا بلکہ مندرجہ ذیل قبیلوں میں سے ایک ایک کے ہاں چل کر گئے۔ غطفان (از قیس بن عیلان) بنومرہ، بنو فزارہ،اشجع، سلیم، بنو سعد، بنو اسد، اور ان کے ہر اس قبیلہ کے پاس جس کا کوئی ایک متنفس مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جا چکا تھا۔ یہود نے ہر ایک قبیلہ کو مسلمانوں سے اپنا اپنا بدلہ لینے کے لیے بھڑکایا اور انہیں یہ کہہ کر تسکین دی کہ اس معاملہ میں قریش بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ یہود ان قبائل کے سامنے بھی بت پرستی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں پیش پیش رہے اور اس حملہ پر انہیں فتح و نصرت کا یقین دلانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی اٹھا نہ رکھی۔

 

مدینہ تا راج کرنے کے لیے

یہود بنو نضیر کی محنت کا ایک حصہ بار آور ہو ہی گیا۔ چاروں طر ف سے کفار کے دل یک دل امڈ آئے۔ ابو سفیان مکہ سے چار ہزار شمشیر زن لے کر نکلے جن کی سواری میں تین  سو کمیت گھوڑے اور ایک ہزار باد رفتار سانڈنیاں تھیں لشکر کا علم قریش کے دارالندوہ میں بیٹھ کر بانس سے پرو یا گیا تھا۔ عثمان بن طلحہ کو علم برداروں کا منصب عطا ہوا جس کا باپ احد میں اسی علم برداری کے صدقے میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہو چکا تھا۔

 

قبائلی لشکر

بنو فزارہ کے ان گنت نوجوان نکلے جن کے پاس سواری میں ایک ہزار تیز رو سانڈنیاں تھیں ان کا سپہ سالار عینیہ بن حصن بن حذیفہ تھا۔ قبلہ اشجع اور مرہ سے ہر  ایک کے چار چار سو دلاور نکلے۔ ان کے امیر لشکر مسعر بن رحیلہ اور حارث بن عوف علی الترتیب تھے قبیلہ بنو سلیم جنہوں نے مقام قرقرہ الکدر پر اپنے خروج کی سزا پائی تھی۔ سات سو سورماؤں کے ہمراہ لے کر آ پہنچے۔ اسی طرح بنو سعد اور انہی کی مانند بنو اسد سب کی مجموعی تعداد د س ہزار کے قریب ہو گئی۔ لشکر کے سپہ سالار اعظم ابوسفیان بن حرب تھے۔ محاصرہ کے دوران میں قبائل نوبت بہ نوبت لڑتے۔ آج اگر ان میں سے ایک مورچہ پر آیا تو کل دوسرا اور اسی قبیلہ کا سپہ سالار انہیں لڑائی کے لیے مشتعل کرتا۔

 

مسلمانوں کی گھبراہٹ

مدینہ میں تمام خبریں سنی جاتیں۔ مسلمان ڈر رہے تھے کہ مبادا یہ لشکر جرار انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ کبھی خیال گزرتاکہ عرب کی تاریخ میں اتنی بڑی فوج آج تک یکجا نہیں ہوئی۔ یہ کیا ہوا؟ کبھی انہیں احد کا حادثہ یاد آ جاتا کہ وہاں اس سے ک فوج نے انہیں شکست دے دی اور اتنے بڑے لشکر کے سامنے وہ کیوں کر ثابت قدم رہ سکیں گے جو تعداد و اسلحہ و سواری اور رسد کی اس قدر قوت  رکھتا ہے۔

 

مسلمانوں کی مشاورت اور خندق کھودنے کی قرارداد

قرار پایا کہ کھلے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے کی بجائے شہر میں رہ کر ہی مدافعت کی جائے اگرچہ مسلمانوں کو اس صورت میں بھی اپنے عہدہ برا ہونے کا یقین نہ تھا۔ سلمان فارسیؓ مدینہ میں تشریف فرما اور خندق کھودنے کے طریقے سے واقف تھے۔ (جس سے عرب بے خبر تھے) سلمانؓ  جنگ کے بھی ماہر تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ داخلی قوت مجتمع کر کے شہر کے اردگرد ۱؎ خند ق کھو د لی جائے۔ ان کے نقشہ کے مطابق کھدائی شروع کر دی گئی۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی شریک ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ڈلیا سرپر اٹھاتے سلمانوں کے حوصلے بڑھاتے اور صحابہ کو جدوجہد تیز کر دینے کی تلقین کرتے۔

یہود بنو قریظہ آج تک مدینے میں موجود تھے اور ان کے ساتھ باہمی تعاون کا معاہدہ بھی تھا۔ کھدائی کا ضروری سامان ڈلیا گیندارا کدال اور پھاؤڑے وغیرہ جو یہودیوں کے پاس بکثرت تھے ان سے حاصل کیے گئے۔

 

تکمیل خندق عورتوں اور بچوں کی حفاظت

خندق چھ روز میں مکمل ہوئی۔ اسی عرصہ میں ان مکانوں کی مرتب بھی کرا لی گئی جو دشمن کی زد میں آ ستکے تھے اور خندق سے باہر دو فرلانگ کے فاصلہ کے اندر تھے۔ عورتوں اور بچوں کو محفوظ حویلیوں میں یکجا کر دیا گیا اور خندق کے اندرونی کنارے پر پتھر کے ایسے چھوٹے بڑے ٹکڑے جمع کر دیے گئے جو وقت پڑنے پر دشمن پر برسائے جا سکیں۔

 

کفار کی خندق دیکھنے سے تلملاہٹ

قریش اپنے گھر سے یہ امیدیں لے کر نکلے تھے کہ پہلے کی طرح اس مرتبہ تھی احد ہی میں رن پڑے گا اور اسی لگن میں میدان احد میں پڑاؤ ڈال دیا۔ جب وہاں کسی کو نہ پایا تو مدینہ کی طرف بڑھے یہاں خندق کھدی ہوئی دیکھ کر تلملا اٹھے عرب کے لیے اس طرح سے اوٹ میں لڑنا عار ہے۔

 

کفار کے مورچے

قریش اور ان کے لگے بندھے قبائل نے اس تلیا کے سہارے مورچہ بنا لیا ، جس میں وادی رومہ کا پانی سمٹ کر جمع ہوتا ہے۔ قبیلہ غطفان اور ان کے پہاڑی یاران سرپل نے مدینہ کی وادی نقمی کے کنارے پڑاؤ ڈال لیا۔

 

اورمسلمانوں کا محاذ

جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ صرف تین ہزار مسلمان تھے۔ (اور کفار کی تعداد کا دس ہزار)خندق سے شہر کی سمت سلع نامی پہاڑی کی پشت کی طرف مسلمانوں کا مورچہ تھا۔

۱؎  شہر سے باہر کے حصہ میں صرف شام کا رخ کھلا ہوا تھا اور ا س طرح خند ق کھودی گئی باقی تینوں سمتوں میں پہاڑ ہیں :م

جس میں فخر کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے سرخ رنگت کا خیمہ نصب کیا گیا۔ فریقین کے درمیان خندق حائل تھی۔ قریش اور ان کے فریب خوردہ لشکریوں نے جب خندق کا عبور کرنا  موت سے کھیلنا سمجھا تب انہوں نے تیر برسانا شروع کر دیے جس کے جواب میں ادھر سے بھی ان کے تواضع میں کمی نہ ہونے پائی۔

 

لشکر کفار سردی کی زد میں

ابوسفیان اور ان کے ساتھیوں کو یقین ہو گیا کہ خندق انہیں مدت تک کامیاب نہ ہونے دے گی۔ سرما کا موسم اور چلے کا جاڑا جسے ٹھنڈی ہواؤں نے اور مہمیز دے رکھا تھا اوپر سے مہاوٹ کا خطرہ۔ ٹھٹھرن سے ہر شخص کے سر پر موت منڈلا رہی تھی۔ کفار اپنے اپنے گھروں میں لاکھ بے سروسامان سہی مگر اہل مکہ اور غطفان کے گھر اور خیمے کے سرد خانے تو نہ تھے۔ مہاوٹ کے تصور سے ان کی روحیں سمٹ کر رہ گئیں ایک وقت ایسا آیا تو یثرب کے میدانی خیمے انہیں موت کی گرفت سے کیوں کر بچا سکیں گے۔ پھر یہ احزابی لوٹے تو ایسی امید لے کر آئے تھے کہ احد کی طرح ایک ہی دن میں میدان مار لیں گے اور فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے واپس ہوں گے۔ غنیمت اور مسلمان قبیلوں کے سامان سے مالا مال ہو کر۔

یہود بنو نضیر نے غطفان سے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ یثرب فتح ہو جانے پر خیبر کے سرسبز و شاداب باغوں کے پودوں کی پوری فصل ان کی نذر ہو گی۔ بنو غطفان کے دماغ میں یہ منصوبہ کھول رہا تھا کہ یثرب فتح کرنے کے بعد ان کے ساتھ خیبر کے باغات کی پھلوں سے بھری ہوئی گونیاں بھی ہوں گی۔

ایک طرف تو یہ توقعات تھیں اور سمانے خندق حائل، جس کا عبور کرنا ان کی ہمت سے باہر تھا۔ کفار کو اپنی نامرادی کا یقین سا ہو گیا۔ بنو نضیر کو یہ دغدغہ کھائے جا رہا تھا کہ اگر غطفان نے سردی کی شدت سے خیبر کے پھلوں کی پروا نہ کی اور مورچہ چھوڑ کر بھاگ گئے تو ان کا کیا حشر ہو گا۔ قریش کی جمعیت کو جو زخم بدر اور اس کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ سے پہنچے وہ ابھی تک رس رہے تھے کہ خندق اور مدینہ کے قلعوں نے ان زخموں پر اور نمک چھڑکا۔ حملہ آوروں کو یثرب میں رہنے والے یہود بنو قریظہ کی وجہ سے بھی خطرہ تھا۔ کہ ان کی طرف سے مسلمانوں کی امداد محاصرہ کی مدت میں کمی نہ آنے دے گی کبھی یہ خیال گزرتا کہ حملہ سے دست بردار ہو کر لوٹ جانے میں کیا مضائقہ ہے، لیکن اس لمحہ سے وہ ڈر جاتے کہ روز روز اتنا بڑا لشکر جمع کرنا بھی تو آسان نہیں۔ اس مرتبہ حیی بن اخطب کی وجہ سے یہودی اپنے اور برادران ملتربنوقینقاع کی وجہ سے انتقام پر آمادہ ہو گئے تھے اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا اور لشکری اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فتح ہو گی جس کے بعد ابد الآباد تک یہود کا ٹھکانا کہیں نہیں رہے گا۔

حیی بن اخطب (یہود بنو نضیر کا سرغنہ) کے دماغ میں ایسے کئی خطرات پہلو بدل رہے تھ ے۔ وہ اپنے انجام سے بے حد خائف تھا۔ اس نے ایک آخری داؤ لگانے کا تہیہ ککر لیا۔ جس طرح ہو سکے یہود بنوقریظہ(اور اہل مدینہ) کو مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی پر آمادہ کیا جائے۔ اگر اس میں کامیابی ہو گئی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسد بند ہو جائے گی اور اس تجویز کی بار آوری ان کی فتح پر منتج ہو گی۔ جب اس نے اپنے منصوبے سے قریش مکہ اور بنو غطفان کو آغاہ کیا تو سننے والے خوشی سے پھولے نہ سمائے۔

 

حیی بن اخطب اور کعب بن اسد سے یہودی کی ملاقات

(یثرب میں ) بنو قریظہ کا سرغنہ کعب بن اسد تھا۔ شدہ شدہ یہ منصوبہ اس نے بھی سن لیا اور حیی کے آنے سے پہلے اپنی گڑھی کا دروازہ مقفل کرا دیا۔ اگرچہ اسے یقین تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ عہد شکنی کے بعد اگر مسلمان معتوب ہو گئے تو نہ صرف اسے بلکہ تمام یہود کو نفع ہو گا، لیکن حملہ آوروں کی شکست بنونضیر کو ہیں کا نہ رہنے دے گی۔ حیی بن اخطب کے اسرار پر دروازہ کھولنا ہی پڑا۔ حیی نے کعب سے کہا کہ اے کعب! تمہیں کیا ہو گیا ہے میں نے دنیا کے مشہور لوگوں کا لشکر جمع کر لیا ہے۔ قریش اور بنو غطفان اپنے اپنے سرغنو ں کی سرکردگی میں شمشیر بکف ہیں وہ معاہدہ کر کے آئے ہیں کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انکے رفقا کو تہس نہس کر کے قدم پیچھے ہٹائیں گے۔ لیکن کعب ابھی تک متردد تھ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایفائے عہد اور صدق مقال کا تذکرہ کرنے کے بعد یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مبادا ہمارا حشر خراب ہو! مگر حیی بن اخطب متواتر اصرار کرتا رہا۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہود کو جو تکلیفیں پہنچ چکی تھیں ان کی بنا پر اس نے کعب سے کہا اگر یہ حملہ ناکا رہا تو تمہارا بھی وہی حشر ہو گا جو دوسرے یہود کا ہوا ہے۔ اور حیی نے اس کے سامنے حملہ آور شکر کی قوت و  جمعیت کی تعریف میں زمین آسمان کے کلابے ملانے کے بعد کہا کہ اگر خندق ہمارے راستے میں حائل نہ ہوتی تو اب تک مسلمانوں کو ملیامیٹ کر دیا ہوتا۔ کعب مائل ہو ہی گیا۔ اس نے حیی سے دریافت کیا کہ اگر حملہ آور ناکام واپس لوٹ گئے تو ہماری نگہداشت کی کیا صور ت ہو گی؟ حیی نے کہا کہ اس وقت ہم لوگ بھی تمہارے ہی قلعوں میں آ جائیں گے اور تمہارے دکھ سکھ میں شریک رہیں گے۔ کعب (بن اسد) کی یہودیانہ عہد شکنی عود کر آئی، اس نے اپنے یہودی برادر حیی بن اخطب کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے دوستوں کے ساتھ اس تحریری معاہدہ کو ختم کر دیا جس میں ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری کے عہد و پیمان تھے۔

 

کعب (بنو قریظہ) کی بد عہدی کے بعد

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب کبار بنو قریظہ اور حملہ آوروں کی نئی سازشوں سے مطلع ہو گئے، جس سے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تصورات میں ایک نئے خطرے کا اضافہ ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب میں سے مندرجہ ذیل چار معتمد حضرات کو تصدیق خبر اور کعب بن اسد سے تجدید گفتگو کی غرض سے بھیجا اوراس میں یہ  رعایت ملحوظ رکھی کہ شہر کے ہر دو ممتاز قبائل اوس و خزرج کا ایک ایک سربرآوردہ ہو۔ (۱)  حضرت سعد بن معاذؓ سید قبیلہ اوس (۲) حضرت سعد بن عبادہؓ سردار قبیلہ خزرج(۳)  جناب خوات بن جبیرؓ (از اوس) اور (۴) حضرت عبداللہ بن رواحہؓ خزرجی تھے۔ (ان چار حضرات کو کعب یہودی کے پاس بھیجا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں ہدایت فرما دی کہ واپسی پر مسلمانوں سے وہاں کی گفتگو کا ذکر مبہم لفظوں میں کیا جائے۔

 

کعب کی شرائط

یہ حضرات کعب کے پاس پہنچے تو وہ پہلے سے بھرا بیٹھا تھا۔ اناپ شناپ بکنا شروع کر دیا۔ مگر ان کے بار بار کہنے پر اس نے یہ شرط پیش کی۔ پہلے بنو نضیر کو شہر میں دوبارہ آباد ہونے کا موقع دیا جائے۔

حضرت سعد بن معاذؓ  بنو قریظہ کے ساتھ ذاتی معاہدہ بھی تھا۔ انہوں نے از راہ ہمدردی کعب سے فرمایا مبادا آپ کا حشر بھی بنو نضیر ہی کا سا ہو۔ مگر بنو قریطہ کے دل بدل چکے تھے۔ انہوں نے یہ الٹا جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کون ہیں ؟ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں۔ حتیٰ کہ فریقین میں سخت کلامی ہوتے ہوتے رہ گئی۔

مسلمانوں کے سفیر واپس تشریف لے آئے۔ بنو قریظہ کی عہد شکنی نے رسول الہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت متاثر کیا۔ خطرات بڑھ گئے اور یہ اندیشہ لاحق ہو گیا کہ عہد شکن بنو قریظہ کہیں حلہ آوروں کو شہر میں داخل ہو جانے کا راستہ نہ دے دیں جس سے کفار مسلمانوں کو پیس کر رکھ دیں۔ یہ خیال وہم ہی نہ تھا۔ مسلمانوں کو بنو قریظہ کے رسد بند کر دینے کا خطرہ بھی اس میں شامل تھا۔

 

حیی (ابن اخطب) کی واپسی پر حملہ آوروں کا جوش

بنو قریظہ کے ہاں سے حیی بن اخطب کی کامیاب واپسی پر قریش و غطفان کے حوصلے بڑھ گئے۔ کعب اور حیی کے معاہدہ میں طے ہوا تھا کہ ادھر بنو رقریظہ دس روز تک جنگ کی تیار ی کر لیں اور اسمدت میں بغیر توقف حملہ آوروں کو مسلمانوں پر یلغار کر دینا چاہیے۔

 

حملہ احزاب کی صورت

(الف)  مشرق فوق الواد کی سمت پر بنو اسد اور غطفان بڑھے غطفان پر الک بن عوف النصری اور عینیہ بن حصن انفزاری کمان کر رہے تھے اور بنو اسد پر طلیحہ بن خویلد الاسدی۔

(ب)  مغرب بطن الوادی بمصداق قرآن ومن اسفل منکم (۳۳:۱۰) کی سمت پر قریش اور بنو کنا نہ جن کی کمان ابوسفیان کے ہاتھ یں تھی۔

(ج)  خندق کی سمت پر عمرو بن سفیان ابو الاعور سلمی۔

کفار کا لشکر اور مومنین دونوں کے اس موقف پر یہ آیتیں نازل ہوئیں :

اذ جاء کم من فوقکم ومن اسفل منکم واذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر و تظنون باللہ الظنونا ھنالک ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدیدا۔ واذ یقول المنفقون والذین فی قلوبھم مرض ما وعدنا اللہ ورسول الا غرورا (۳۳:۱۰۔ ۱۲)

’’جس وقت (دشمن) تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اترے اور تمہارے نیچے کی طرف سے بھی اور مارے خوف کے تمہاری آنکھیں پھری کی پھری رہ گئی تھیں اور کلیجے مونہوں کو آ گئے تھے اور خدا کی نسبت تم (لوگ) طرح طرح کے گما ن کرنے لگے تھے اس موقعہ پر مسلمانوں (کے استقلال) کی آزمائش کی گئی اور خوب ہی جھڑجھڑائے۔ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (شک کے) روگ تھے( بے اختیار) بو ل اٹھے کہ خدا اور اس کے رسول کے جو ہم سے وعدہ کیا تھا بس نرا دھوکا ہی تھا‘‘۔

واذ قالت طائفۃ منھم یثرب لا مقام لکم فارجعو ویستاذن فریق منھم النبی یقولون ان بیوتنا عورۃ وما ھی بعورۃ ان یریدون الا فرارا( ۳۳:۱۳)

’’اور جب ان سے ایک گروہ کہنے لگا کہ مدینے کے لوگو۱ تم سے (اس جگہ دشمن کے مقابلے میں ) نہیں ٹھہر ا جائے گا تو (بہتر ہے کہ لوٹ چلو) اور ان میں سے کچھ پیغمبر سے (گھر لوٹ جانے کی ) اجازت مانگتے اور کہتے کہ ہارے گھر غیر محفوظ ہیں ، حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں ہیں بلکہ ان کا ارادہ تو صرف بھاگنے کا ہی ہے‘‘۔

 

 مدینہ میں محصور مسلمانوں کی پریشانی

مصیبتوں نے (یثرب میں )محصور مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا ان کے دل دشمن کے اژدحام سے بیٹھ گئے محصورین میں منافقوں کے جس گروہ کے کارنامے شکوہ کے لائق تھے اس گروہ نے مسلمانوں سے الٹا یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم سے تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسریٰ و قیصر کے ذخیروں پر قبضہ ہونے کا وعدہ کر رکھا تھا یا یہ حالت ہے کہ آج ہم قضائے حاجب کے لیے بھی شہر سے باہر نہیں جا سکتے‘‘۔

ان میں سے ایسے لوگ بھی تھے جن کی آنکھیں حملہ آوروں کو دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ گئیں بعضوں کے دل خوف سے بیٹھے جا رہے تھے۔ یہ لوگ قریش و غطفان کی شمشیروں کی چمک اپنے لیے برق خاطف سمجھ رہے تھے۔ کچھ لوگوں کے دل بنو قریظہ کی عہد شکنی سے پارہ پارہ ہو رہے تھے۔ اے یہود! ت پر خدا کی لعنت ہو کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنو نضیر کو جلا وطن کرنے کی بجائے تہہ تیغ کر دیتے تو آج ان کے ہاتھوں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ آہ اے حیی بن کعب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی دن کے لیے تجھے زندہ رہنے دیا کہ تو قریش اور قبائل عرب کو مسلمانوں پر مشکا دے۔ اے کاش! جس زمین پر آج خندق کھو دکر اپنا بچاؤ کیا جا رہا ہے مدینہ کا یہ ٹکڑا حیی بن اخطب اور اس کے لگے بندھوں کے خون سے سیراب ہو گیا ہوتا تاکہ اس میں مسلمانوں کا لہو پینے کی تڑپ باقی نہ رہتی۔

آہ ! اے طامتہ الکبریٰ!

و صد آہ! اے فزع الاکبر

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے

ولا حول ولا قوۃ الا باللہ

 

غزوہ خندق میں کفار کا حملہ

الغرض حیی بن اخطب کی واپسی پر حملہ آوروں کا جوش سوا ہو گیا۔ خندق کا ایک کنارہ سمٹا ہوا تھا۔ کافروں نے یہیں سے خندق عبور کرنے کا تہیہ کیا۔

آگے آگے قریش کا لشکرتھا۔ پیش رومی میں سب سے بڑے سورما عمرو بن عبدود تھے۔ ان کے پیچھے عکرمہ بن ابوجیل اور ضرار بن الخطاب وغیرہ۔ ان سب نے مل کر خندق کے بیرونی کنارے سے اپنے گھوڑوں کو مہمیز جو دیا تو وہ چش زدن میں مسلمانو ں کے سر پر آ پہنچے۔ ادھرسے علیؓ بن ابی طالب اور عمر بن الخطاب : زاد المعاد :م: وغیرہ بڑھے اور حملہ آوروں کا راستہ روک لیا۔ یہ دیکھ کر ابن عبدود نے مبارزت طلبی کی تو علی  بن ابی طالبؓ شمشیر بکف آگے بڑھے۔ عمرو نے کہا اے عزیز من میں تجھے قتل نہیں کرنا چاہتا۔ علیؓ  نے فرمایا مگر میں تو اپنی ذوالفقار تمہارے خون میں تر کرنا چاہتا ہوں ! دونوں بہادر آمنے سامنے ہوئے آخر علیؓ کے ہاتھ سے عمرو بن عبدود اپنی سزا کو پہنچ گیا۔ عمرو کے ساتھی اپنے سب سے بڑے پہلوان کو ایڑیاں رگڑتا ہوا دیکھ کر اس طرح بھاگے کہ ان میں سے کسی نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔

 

غروب آفتاب کے بعد

حملہ آوروں میں نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ خندق کو عبور کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ اس کا اپنے گھوڑ کو مہمیز دینا دونوں کی موت کا مقدمہ تھا۔ سوار اور سواری ہر دو اوندھے منہ خندق میں گر پڑے ۱؎۔ ابوسفیان نے نوفل کی لاش حاصل کرنے کے لیے دیت میں ایک سو اونٹ پیش کیے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ فرما کر ٹھکرا دیا کہ خبیث کی دیت ناقابل قبول ہے۔ اور اس کی لاش مٹی میں چھپا دی گئی۔

 

تخویف کا آخری پہلو اور شہر میں بنو قریظہ کی کارستانی

حملہ آوروں نے شب کے وقت بہت بڑا الاؤ دہکایا جس کے شعلوں سے مسلمانوں کو ڈرانا مقصود تھا۔ اسی رات میں بنو قریظہ کے دلاور قلعوں اور برجیوں سے نکل کر شہر میں گشت کرنے لگے۔

 

سیدہ صفیہ بنت عبدالمطلب کی دلاوری

شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت حسان بن ثابتؓ کی حویلی میں مسلمان عورتوں کو یکجا کر دیا گیا تھا۔ ان میں سیدہ صفیہ بنت عبدالمطلب بھی تھیں انہوں نے ایک یہودی کو حویلی کے اردگرد گھومتا ہوا دیکھ کر حسان کو اطلاع دی کہ ذرا اس  یہودی بچے کے تیور تو دیکھو یہ ہماری جاسوسی کر کے یہود سے حویلی پر حملہ نہ کرا دے۔

۱؎   بلکہ نوفل سے مبارزۃ طلبی ہوئی اور وہ زبیر بن العوام و بروایت دیگر علی کے ہاتھ سے قتل ہوا (فتح الباری : ضمن باب غزوہ الخندق) :م:

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسری طرف متوجہ ہیں۔ اے حسان جائیے اور ا س کا قصہ ختم کر دیجیے۔ حسان نے جواب دیا کہ اے دختر عبدالمطلب خدا تعالیٰ ۱؎ آپ کو معاف فرمائے میں وہ مرد نہیں جسے کسی پر ہاتھ اٹھانے کی جرات ہو۔

سیدہ خود لاٹھی لے کر نکلیں ار یہودی کو قتل کرے کے بعد حسان کو فرمایا میں تو مرد کے بدن پر اسلحہ اور پوشاک نہ اتار سکی۔ یہ کام آپ کر لائیے مگر حسان میں اس کی جراب بھی نہ تھی۔ مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔

 

بنو غطفان سے خراج کی پیش کش میں مسلمان سیر نویسوں کی غلطی

محصور مسلمان خائف و لرزاں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنو غطفان کو محاصرہ سے دست بردار ہونے کے صلہ میں ایک تہائی ادا کرے کا پیام بھیجا۔ ادھر غطفان اپنی جگہ پشیمان کہ انہوں نے یہود کی باتوں میں آ کر کیا کر لیا۔

۱؎  طبرانی میں یہ واقعہ ان لفظوں میں مذکور ہے :

جاء الحادث الغطفانی الی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فقال یا محمد نا صفنا تمر المدینہ والا ملانا ھا علیک خیلا و رجالا قال حتی استامر السعود سعد بن عبادۃ و سعد بن معاذ فشاورھما فقالا ل واللہ ما اعطینا الدنیہ من انفسنا فی الجاہلیۃ فکیف وقد جاء اللہ بالاسلام ورجع الیہ الحارث فاخبرہ فقال غدرت یا محمد فقال حسان

یا حار ن یغدر بذمہ جارہ

منکم فان محمداً یغدر

ان تغدروا فالغدر من عاداتکم

واللوم ینبت فی اصول السنجر

وامانۃ الندھی حیث لقیتھا

مثل الزجاجتہ صدعھا یجبر

فقال حارث کف عنا یا محمد لسان حسان فلو مزج بہ ماء البحر لمزجہ (طبرانی و بزار)

ترجمہ: حارث غطفانی نے رسول اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنی قوم کی طرف سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ کو مدینہ کی پیداوار کا نصف بطور خراج ہمیں ادا کرنا منظور ہو تو بہتر ورنہ ہماری فوجیں مدینہ کو پامال کرنے کے لیے کافی ہیں۔ فرمایا میں اوس و خزرج کے دونوں سرداروں سے مشورہ کر کے جواب دے سکتا ہوں عرض کیا ایسی دنائت ہم نے جاہلیت میں بھی گوارا نہ کی اور اب تو ہم اسلام ہی لا چکے ہیں ا س پر حسان بن ثابت نے ارتجالاً چند اشعار حارث کے سامنے پڑھے۔ حارث حسانؓ کی طنز کی تاب نہ لا سکا اوراس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شکایت کی اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدارا حسانؓ کو منع کیجیے۔ ان شعروں یں اس بلا کی تلخی ہے کہ اگر سمندر مین رکھ دیے جائیں تو اس کا پانی کڑوا ہو جائے۔ کہنا یہ ہے کہ:

(الف)  غطفان طول محاصرہ سے گھبرا چکے تھے اور حارث غطفانی ان کی طر ف سے بطور سفیر حاضر ہو کر خراج کی تجویز لائے تھے۔

(ب)  مدینہ کی اراضی و باغات اور ان کی پیداوار انصار کی ملکیت تھی جن میں او س و خزرج کی غالب اکثریت تھی۔ دونوں کے سردار سعد بن معاذؓ وسعد بن عبادہؓ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے مشورہ دریافت کیا اور ان کے انکار پر آپ نے ایک لفظ کا اضافہ نہ فرمایا۔ ظاہر ہے کہ جو دنایت سعدین کو گوارا نہ ہو سکی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کا کیوں تحمل فرما سکتے ہیں۔

 

نعیم بن مسعود اتجعی کی تدبیر

ان کے مسلمان ہو جانے کی خبر عام نہ ہونے پائی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت ہی سے انہوں نے ایک مہم جاری کی نعیم کی بنو قریظہ سے رانی راہ و رسم تھی۔ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور تعلقات کے ذکر اور اذکار کے بعد کہا کہ آپ نے کس قدر ہمت کی جو قریش اور بنو غطفان کو جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف سمیٹ لائے۔ لیکن حالات اس قسم کے ہیں کہ بنو غطفان اور قریش دونوں میں سے کسی کے رکنے کی امید نہیں۔ اگر ایسا ہو اور وہ محاصرہ چھوڑ کر چلے گئے تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نشانہ آپ لوگ بن جائیں گے اور وہ آپ سے بدلہ لیے بغیر نہ رہیں گے۔ بہتر ہے کہ جب تک آپ قریش اور غطفان دونوں کے چند آدمی بطور یرغمال اپنے قبضہ میں نہ لے لیں لڑائی میں ان کی اعانت نہ کیجیے گا۔ بنو قریظہ کو نعیم کی یہ تجویز پسند آئی انہوں نے کہا ہم آپ کی ہدایت کے خلاف عمل نہ کریں گے۔

 

نعیم قریش کے ہاں

نعیم بنو قریظہ کے ہاں سے اٹھ کر قریش کے ہاں پہنچے اور ان کے سامنے اس طرح گفتگو فرمائی مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنو قریظہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اپنی عہد شکنی پر پشیمان ہیں اور انہیں خوش کرنے کے لیے ہر تدبیر سوچ رہے ہیں۔ جس میں ان کی یہ تجویز ہے کہ اگر ان کے ہاتھ قریش کے کچھ آدمی آ جائیں تو وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خوش کرنے کے لیے ان کے قتل کی غرض سے پیش کر دیں مبادا آپ لوگ اپنے آدمی ان کے حوالے کر دیں۔

 

نعیم غطفان کے پاس

وہ یہاں سے سیدھے بنو غطفان کے ہاں پہنچے اور جو کچھ قریش سے کہا تھا وہی ان سے کہا اور انہیں بھی قریش کی طر ح ہوشیار کر دیا کہ وہ اپنے آدمی بنو قریظہ کے حوالے نہ کریں۔

نعیم کی تجویز سے قریش اور بنو غطفان دونوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہو گیا اور ابو سفیان نے فوراً اپنے ایک قاصد کی زبانی کعب بن اسد یہودی کو یہ پیغام بھیجا کہ اے کعب! ہمیں اس شخص (جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا محاصرہ کیے ہوئے اتنی مدت ہو گئی اور کچھ بھی نتیجہ نہ نکلا۔ میری تجویز یہ ہے کہ آپ کل صبح اس پر حملہ کر دیجیے۔ اور  ہم آپ کی کمک پر ہوں۔

 

بنو قریظہ کا جواب

کل یوم السبت ہے اور ا س روز جنگ یا دنیا کا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔

ابو سفیان کا یہ دوسرا پیغام( یہ یقین کر لینے کے بعد کہ نعیم نے ان کے متعلق صحیح کہا) اے دوست! اس سبت کی عبادت کسی دوسری سبت میں کر لیجیے گا۔ مگر کل کے روز محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حملہ کرنا ضروری ہے اگر ہم جنگ کے لیے نکلے اور آپ نے ہماری معیت نہ کی تو سمجھا جائے گا کہ آپ ہم سے معاہدہ توڑ کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حلیف بن گئے ہیں۔

 

بنو قریظہ کی طرف سے جواب

سبت کے روز  ہم کسی کو جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ جن لوگوں نے اس دن کی تعظیم سے منہ پھیرا ان پر خدا کا عذاب نازل ہوا حتیٰ کہ وہ بندر اور خنزیر بنا دیے گئے۔

اس کے ساتھ ہی بنو قریظہ نے ابوسفیان سے ان کے چند آدمی بطور یرغمال اپنی تحویل میں رکھنے کے لیے طلب کر لیے یہ سن کر ابوسفان کو نعیم کی بات کا پورا یقین ہو گیا۔ کوئی بات بنتی نظر نہ آئی اس نے بنو غطفا ن سے مشورہ کیا مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مدینہ کی پیداوار میں حصہ کی امید میں بیٹھے تھے جسے بعد میں سعد بن عبادہؓ کی طرف سے صاف جواب مل گیا۔ تاہم بنو غطفان کی طرف سے ابوسفیان کی کوئی ہمت نہ بندھائی جا سکی۔

 

حملہ آوروں کی پسپائی

اسی را ت آندھی اپنے دامن میں موسلا دھار بارش کا طوفان لے کر کافروں پر چھا گئی۔ بادلوں کی ہولناک گرج اور اس پر بجلی کے کوندے کفار کے خیمے زمین سے پرواز کر کے ہوا میں معلق ہو گئے۔ بھنڈارے دار دیگیں اوندھی ہو کر چولہوں میں دھنس گئیں کافروں میں سے ایک ایک متنفس لر ز اٹھا۔ انہیں خطرہ لاحق ہو گیا کہ اگر ایسے میں مسلمان ٹوٹ پڑے تو ہمارا کیا حشر ہو گا۔

قبیلہ اسد کے سپہ سالار طلیحہ بن خویلد نے باآواز بلند پکارا ے دوستو یہ مصیبت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وجہ سے آئی ہے یہاں سے بھاگ کرنجات حاصل کرو۔

ابوسفیان کا زہر ہ آب آب ہو گیا تھا وہ پکار اٹھا اے برادران قریش طوفان نے ہماری سواری ے گدھے اور گھوڑے دونوں ختم کر دیے ہیں بنو قریظہ پہلے ہی بد عہدی کر کے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ اس پر یہ طوفان اب ہمارا یک لمحہ کے لیے رکنا حال ہے۔

بدنصیب اس قدر سراسیمہ و بدحواس تھے کہ پورا سامان بھی نہ اٹھا سکے۔ ا کے فرار پر ہو ا کی شدت نے ان کے قدم زمین پر جمنے نہ دیے۔ اس بھگدڑ میں قریش سب سے آگے تھے۔ ان کے پیچھے بنو غطفان اور ان کے بعد دوسرے قبائل اتنا کچھ بھگتنے پر اور فرار کی حالت میں بھی حق تقدم و تاخر میں ترتیب نظر انداز نہ ہونے پائی۔

ادھر مدینہ میں صبح ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دشمنوں کا مورچہ خالی پایا تو شہر میں لوٹ کر ایک ایک مسلمان نے خدا کے حضور ہدیہ امتنان و تشکر پیش کیا کہ انہیں مصیبت سے نجات ملی جیسا کہ اس معاملہ میں فرمایا:

ورد اللہ الذین کفروا بغیظھم لم ینالو خیرا وکفی اللہ المومنین القتال (۳۳:۲۵)

’’خدا نے اپنی قدرت سے کافروں کو مدینہ سے ہٹا دیا وہ لوٹتے وقت غصے میں بھرے ہوئے تھے۔ خدا نے مسلمانوں پر یہ کرم بھی فرمایا کہ انہیں جنگ کرنے سے بچا لیا‘‘۔

 

عہد شکن بنو قریظہ کی شامت اعمال

دشمن کے لوٹ جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مستقبل پر نظر دوڑائی تو سب سے پہلے کفار کی ہزیمت پر چین کا سانس لیا۔ جو یہودی اس مرتبہ انہیں اکسا کر مدینہ پر لے آئے تھے آئندہ کبھی ایسا کر سکتے ہیں صرف اس پیش بندی کے ساتھ کہ چلے کی سردی نہ ہو۔ خصوصاً بنو قریظہ کے معاملہ میں ان کی طرف ذہن منتقل ہوا کہ اگر قریش و غطفان سے ان کا اختلاف نہ ہو جاتا تو انہوں نے دشمن کو مدینہ میں راہ دے کر مسلمانوں کو قلع قمع ہی کرا دیا ہوتا۔ سردست بنو قریظہ ہمارے دباؤ میں ہی سہی لیک یہ دباؤ اس سانپ کی مانند ہے جس کی دم زخمی ہو گئی ہو اور باقی تمام جسمم سلامت ایسے سانپ کی طرف سے حملہ کا اندیشہ کم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے بنو قریظہ کی سرکوبی ضروری ہے۔

 

مغضوب بنو قریظہ پر نفیر عام کی منادی

اس کا اعلان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان الفا ظ میں کرایا:

من کانا سامعاً مطیعاً فلا یصلین العصر الاببنی قریظۃ

’’جو شخص ہمارا وفادار ہے اس کے لیے حکم دیا جاتا ہے کہ عصر کی نماز محلہ بنو قریظہ میں ادا کرے‘‘۔

اور اس منادی کے ساتھ ہ علی بن ابی طالبؓ  کو ایک مختصر سا دستہ کے ساتھ بنو قریظہ کے محلہ میں بھجوا دیا۔

باوجودیکہ مسلمان مدینہ پر طول محاصرہ کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے لیکن بنو قریظہ کے معاملہ میں انہیں اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا۔ اگرچہ دشمن محفوظ قلعوں میں پناہ گزین تھے مسلمان اس سے قبل اسی وضع قطع کے قلعوں میں بنو نضیر یہود کا حشر دیکھ چکے تھے۔ بنو قریظہ کے ہر اول یعنی بنو نضیر اور ان میں اتنا فرق تھا کہ بنو نضیر  کے مقابلہ میں ان کے قلعے ذرا زیادہ مضبوط تھے لیکن مسلمانوں کو بنو قریظہ کی طر ف سے کسی مقابلہ کا اندیشہ نہ تھا۔ ادھر بھگوڑے قریش بھاگتے ہوئے اس قدر غلہ چھوڑ گئے تھے کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو قلت رسد کا خطرہ نہ رہا۔

 

بنو قریظہ کا محاصرہ

مسلمان شاداں و فرحاں علیؓ کے پیچھے پیچھے جانا شروع ہو گئے۔ جب ارض موعود میں پہنچے تو حیی بن اخطب اور دوسرے یہودی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق بدزبانی کر رہے تھے۔ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دروغ گو کہا جاتا تو کبھی ایسا ہی کوئی اور طعنہ! اور حرم مطہرات کی زبان میں زبانیں آلودہ کی جا رہی تھیں۔ لشکر کفار کی واپسی سے مایوسیوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ وہ اپنا حشر جان چکے تھے۔ انہوں نے دل کے پھپھولے یوں پھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری اور بنو قریظہ سے سوال

اتنے ہی میں سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لے آئے۔ سیدنا علیؓ ے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ آپ ان کے سامنے نہ جائیے فرمایا میرے متعلق انہوں نے لب کشائی تو نہیں کی۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہی بات ہے۔ ان کی یہ ہمت نہیں کہ وہ میرے روبرو ایسی جرات کر سکیں۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے قریب پہنچ کر با آواز بلند فرمایا۔

یااخوان القردۃ ھل اخزاکم اللہ وانزل بکم نقمۃ

’’اے بندروں کی برادری! کیا خدا نے تمہیں ذلیل نہیں کیا تھا ار تم پر اپنا غضب نہیں بھیجا تھا‘‘۔

 

یہود کا جواب

یا ابو القاسم ماکنت جھولا

’’اے ابوالقاسم! آپ ہماری تاریخ سے بے خبر نہیں ہیں۔

مسلمان پے در پے آ رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے محاصرہ کا حک نافذ فرما ہی دیا۔

 

مدت محاصرہ

مسلسل پچیس روز تک محاصرہ جاری رہا۔ ا س دوران میں دو ایک مرتبہ ادھر سے پتھراؤ اور مسلمانوں کی جانب سے ان پر تیر برستے رہے۔ مگر بنو قریظہ کو باہر نکا کر لڑنے کی جرات نہ ہوئی۔ وہ گھبرا اٹھے کہ اس طرح ایک نہ ایک روز مسلمان ان پر قابض ہو کر رہیں گے۔ اور ہماری قلعہ بندی موت کے گڑھے میں دھکیل کر ہمارا پیچھا چھوڑے گی۔

 

یہود کی طرف سے درخواست

بنو قریظہ نے ایک قاصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیج دیجیے ہم صلح کے معاملہ میں ان کے ذریعے سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ ابولبابہ نسبتاً قبیلہ اوس سے تھے اور بنو قریظہ سے ان کا ذاتی معاہدہ بھی تھا یہ ان کے ہاں پہنچے تو یہود کے زن و بچہ ان کے اردگرد جمع ہو گئے۔ عورتوں اور بچوں نے رو رو کر کہرام مچا دیا۔ جس سے ابولبابہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہود نہ کہا کہ کیا آپ متفق ہیں کہ ہم خود کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے کر دیں ؟ ابولبابہ نے کہا میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ اور اپنی گردن پر ہاتھ پھیر دیا جس سے مقصود یہ تھا کہ تم جو چاہو کرو تمہیں قتل ہونا ہی ہے بروایت ارباب سیرت بعد میں ابولبابہ اپنی اسی حرکت سے بہت نادم ہوئے۔ اور وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔

 

کعب بن اسد کی اپنی قوم کو ہدایت

اس نے اپنی قوم کو یکے بعد دیگرے تین مشورے دیے مگر انہوں نے ایک بھی آمادگی کا اظہار نہ کیا۔

پہلا مشورہ:  بہتر ہے کہ آپ لو گ مسلمان ہو کر اپنی جان و مال اور اولاد کو تلف ہونے سے بچا لیں۔

جواب:  ہم تورات سے منحرف ہو کر دوسری شریعت قبو ل نہیں کر سکتے۔

دوسرا مشورہ:  اپنے زن و بچہ کو خود قتل کر کے مقابلہ کے لیے باہر نکل آئیے پھر جسے خدا دے اگر ہم ہلاک ہو گئے تو اپنے زن و بچہ کی ہلاکت کا غم دل میں لے کر نہ جائیں گے اور اگر زندہ بچ گئے تو اپنے اپنے گھر  پھر آباد کر لیں گے۔

جواب:  اپنے زن و بچہ کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دینے کے بعد ہم اگر سلامت بھی رہ گئے تو ان کے بغیر ہماری زندگی سے کیا حاصل ہو گا۔

تیسرا مشورہ:  پھر خود کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے کر دیجیے۔ لیکن ابولبابہ کے اس اشارہ کر نہ بھولیے کہ حوالگی کے بعد ہمارا کیا حشر ہو گا۔

عوام بنو قریظہ کی کمیٹی (کعب بن سوار کے ماسوا)

بنو قریظہ کے عوام مشورہ کے لیے علیحدہ ہو کر بیٹھے اور ایک شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ ہمارا حشر بنو نصیر سے بڑھ کر نہ ہو گا۔ اس معاملہ میں قبیلہ اوس کے مسلمان دوت بھی ہماری دستگیری میں کوتاہی نہ کریں گے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں شام کی طرف جانے دیا جائے۔ اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں قاصد بھیج کر درخواست کی کہ ہمیں اپنا مال اور سامان لے کر شام کی بستیوں میں ہجرت کا موقعہ دیا جائے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے تسلیم نہ فرمایا اور حوالگی کا مطالبہ کیا۔

بنو قریظہ نے فورا ً اپنا وکیل قبیلہ اوس کے مسلمانوں میں بھیج کر استدعا کی کہ اے برادران اوس جس طرح خزرج نے کل اپنے معاہدین بنو نضیر کی سفارش کی تھی آپ بھی ہماری سفارش کیجیے۔ اوس نے منظور کر لیا اور سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور پیش ہو کر عرض کیا کہ یا نبی اللہ جس طرح آپ نے خزرج کی سفارش ان کے حلیفوں کے بارے میں قبول فرمائی تھی یہ بنو قریظہ ہمارے حلیف ہیں ہم ان کی سفارش کر تے ہیں انہیں اپنا مال و اسباب لے کر مدینہ سے خارج ہونے کی اجازت مرحمت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ لوگوں کو یہ منظور ہے کہ میں اپنے اور بنو قریظہ کے معاملہ میں کسی ایک شخص کو ثالث تسلیم کر لوں۔ اوس نے اسے قبول کر لیا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بنو قریظہ کے ہاں جائیے اور میں اپنا اختیار بھی انہیں تفویض کرتا ہوں کہ وہ جس شخص کو پسند کریں میرے اور اپنے درمیان حکم تسلیم کر لیں۔

اس پر بنو قریظہ نے جناب سعد بن معاذؓ کو ثالث تسلیم کر لیا مگر وہ اس گھری سے غافل رہ گئے جب یہی سعد محاصرہ کے دوران انکے پاس آئے تھے تو انہوں نے سعد بن معاذؓ  سے کہا تھا کہ یاد ہو گا انہوں نے اس موقعہ پر نہ صرف مسلمانوں کی توہین کی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شا ن میں بھی لب کشائی سے باز نہ رہ سکے۔

 

سعد بن معاذؓ کا فیصلہ بنو قریظہ کا قتل

سعد نے طرفین سے عہد و پیمان لینے کے بعد اپنا فیصلہ ان لفظوں میں صادر فرمایا کہ:

(الف) بنو قریظہ کے بالغ مرد قتل کیے جائیں۔

(ب)  زن و بچہ گرفتار کیے جائیں۔

(ج)  ان کا تمام مال و اسباب ضب کر کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

اس فیصلہ پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بخدا اے سعد! آپ کا یہ فیصلہ خداوند عالم اور  مسلمانوں کی مرضی کے حرف بہ حرف موافق ہے۔ مجھے بھی وحی کے ذریعے یہی حکم دیا گیا۱؎۔

۱؎  :م:  سعد بن معاذؓ کا یہ فیصلہ تورات کے مطابق بھی تو تھا کہ جب تو کسی شہر پر حملہ کرنے کے لے جائے تو پہلے صلح کا پیغام دے اگر وہ صلح تسلیم کر لیں لیکن اگر صلح نہ کریں تو انکا محاصرہ کر اور جب تک تیرا خدا تجھ کو ان پر قبضہ نہ دلا دے تو جس قدر مرد ہوں سب کو قتل کر دے باقی بچے عورتیں جانور اور جو چیزیں شہر میں موجود ہوں سب تیرے لیے مال غنیمت ہوں گی (تورات کتاب تثنیہ اصحاب (۲۰) آیت نمبر ۱۰)

گویا اسی اصول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے آسمانی فیصلہ سے تعبیر فرمایا۔

بازار کے وسط میں گہرے گڑھے کھودے گئے مجرموں کو ٹولیوں میں لایا گیا اور ایک ایک کی گردن مار کر گڑھوں میں پھینک کر لاشیں مٹی سے بھر دی گئیں۔

یہ آیت بنو قریظہ ہی کے انجام پر نازل ہوئی۔

وانزل الذین ظاہروھم من اہل الکتب من صیاصیھم وقذف فی قلوبھم الرعب فریقا تقتلوا و تاسرون فریقا۔ و اورثکم ارضھم و دیارھم ا واموالھم و ارضالھم تطوھا وکان اللہ علی کل شئی قدیرا

(۳۳:۲۶،۲۷)

’’اور اہل کتاب میں سے جو (یہودی) مشرکین کے مددگار ہوئے تھے خدا نے انہیں ان کی گڑھیوں کے نیچے اتار لایا اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ تم بے دھڑک لگے بعض کو قتل کرنے اور بعض کو قید کرنے اور ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مالوں کا (اور نیز) اس زمین (خیبر) کاجس میں تم نے قدم نہ رکھا تھا تم (ہی) کو مالک کر دیا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

بنو قریظہ کو سعد بن معاذؓ سے ایسی توقع نہ تھی بلکہ انہیں بھروسا تھا کہ جس طرح کل عبداللہ بن ابی (منافق) نے بنو قینقاع کی سفارش کر کے ان کا خون معاف کرا دیا تھا اسی طرح سعد ک ذریعہ ہماری جان بھی بخشی ہو سکے گی (لیکن بنو قینقاع اور بنو قریظہ دونوں کا معاملہ مختلف تھا) سعد بن معاذؓ کے سامنے وہ خوفناک منظر تھا کہ یہی لوگ تو کفار کے حملہ آوروں کو مدینہ میں در آنے کا راستہ دے رہے تھے اگر یہ کامیاب ہو جاتے تو اس وقت مدینہ میں مسلمانوں کی پود بھی دکھائی نہ دیتی۔ ایک ایک مسلمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا اور کسی کی لاش مثلہ کے بغیر نہ چھوڑی جاتی (جیسا کہ قریش نے احد میں کیا)۔

 

مقتول میں یہود کی حوصلہ مندی

جب حیی بن اخطب کو جلاد کے سپرد کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا اے حیی کیا خدا تعالیٰ نے تجھے رسوانہیں کیا؟

جواب:  موت سے کس کو رستگاری ہے۔ جس قدر میری عمر مقرر تھی مجھے مل چکی ہے آج بھی مجھے آپ کے ساتھ دشمنی پر کوئی ملال نہیں اور حیی بن اخطب ۱؎ نے دوسروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے لوگو خدا کے حکم سے گھبرانا مردانگی نہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی یہ مصیبت بھی ہمارے نوشتوں میں تھی۔

۱؎  اس بدنصیب کے جرائم کی فہرست طویل ہے۔ ازاں جملہ یہ کہ مدینہ سے جلاوطنی کے موقع پر اس نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف کسی کی مدد نہ کرے گا۔ (از بلاذری طبع یورپ ص ۲۲ بحو آلہ سیرۃ النبی ج ص ۴۳۷) :م:)

اسی طرح زبیر بن باطا قرضی کا معاملہ ہے یوم بعاث میں ثابت بن قیس (بن شموس خزرجی: م:) کی جان بچائی تھی۔ آج ثابتؓ نے حضرت سعد بن معاذؓ کا فیصلہ سن کر زبیر کے احسان کا بدلہ اتارنا چاہا تو ان کی سفارش پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زبیر کا خون معاف فرما دیا مگر مجرم نے کہا میں مرد مسن ہوں۔ اپنے اہل اور لڑکوں کے بغیر زندگی میں کیا لطف ہے؟حضرت ثابتؓ کی دوسری سفارش پر مجرم کے لڑکوں کا خون معاف کر دیا گیا اور اس کی بیوی کو بھی آزادی دے گی گئی۔ اب زبیر نے کعب و ابن اخطب و عزال بن سمول اور دوسری قرظی سرغناؤں سے دریافت کیا کہ کیا ان کا حشر معلوم ہونے پر مجرد نے کہا اے ثابت آج کے دن میں اپنے احسان کا یہ معاوضہ چاہتا ہوں کہ مجھے میری قوم کے پاس پہنچا دے۔ بخدا! میں اپنے دوستوں سے ملاقات چاہتا ہوں اور اس درجہ بے تاب ہوں کہ اتنے صبر کی بھی تاب نہیں رکھتا جتنا عرصہ ڈول کنویں میں رہ سکتا ہے۔ بدنصیب مجرم کی یہ درخواست منظور کرنا ہی پڑی۔

اسی طرح ایک زن یہودیہ کی دلاوری کا واقعہ قابل ذکر ہے۔ معلوم ہے کہ مسلمان جنگوں میں عورتوں اور بچوں کا قتل نہ کرتے تھے۔ ۔ مگر آج کے دن انہیں اس یہودیہ کے خون سے ہاتھ رنگنا پڑے جس نے ایک مسلمان ے سر پر چکی کا پاٹ گرا کراسے شہید کر دیا تھا۔ مجرمہ نے کس دلاوری سے جان دی ام المومنین عائشہؓ فرماتی ہیں۔

واللہ میں اس عورت کو نہیں بھلا سکتی جو مقتل میں خوش و خرم آئی اورہنستے ہوئے اپنی گردن جلاد کے آگے رکھ دی۔

یہود میں چار حضرات نے مسلمان ہونے پر آمادگی ظاہر کی اور ان کا خون معاف کر دیا گیا۔

 

قتل بنوقریظہ کی ذمہ داری یہودیوں پر

یہود بنوقریظہ کا قتل انہی کے برادر دینی سرغنہ بنو نضیر حیی بن اخطب کی گردن پر ہے جو کود بھی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔ حیی نے پہلے وہ معاہدہ ختم کیا جو اس نے اپنی قوم بنو نضیر کو ساتھ لے کر مدینہ سے جلا وطن ہونے پر کیا تھا اس جس معاہدہ کی بدولت بنو نضیر میں سے ایک متنفس کو بھی رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حک سے قتل نہ کیا گیا لیکن حیی بن اخطب نے عہد شکنی کی قریش مکہ کو ابھارا اور بنو  غطفان کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ پیکار کیا اور تمام عرب میں ایک طرف سے لے کر دوسری طرف تک محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلا ف آگ لگا دی۔ حیی بن اخطب کی ان کوششوں سے مسلمان اور یہودیوں کی دشمنی کا پودا تناور درخت کی مانند چاروں طرف پھیل گیا۔ یہود کے دلو ں کی حالت ا س طرح ہو گئی کہ جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے رفقا کو ملیامیٹ کرنے کے بغیر ان کا دم گھٹ رہا ہو۔ پھر تام عرب کو مدینہ پر ھشکا دینے کے بعد بنو قریظہ نے عہد شکنی سے مسلمانوں کو ایسا چرکا دیا کہ جس کی نظیر تمام عرب میں نہ تھی۔

اگر بنو قریظہ عہد شکنی نہ کرتے تو ان سے تعرض کا سوال ہی نہ تھا۔ مگر انہوں نے تو مسلمانوں پر ستم ہی برپا کر دیا ہوتا حیی بن اخطب کفار کومدینہ میں جمع کر لینے کے بعد بنو قریظہ کے ہاں پہنچا اورانہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ مقاتلہ کے لیے آمادہ کر لیا۔ یہ بھی سہی لیکن جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنو قریظہ کے ہاں کفار کے لوٹ جانے کے بعد تشریف ائے تب بھی ان سے تعرض کا سوال نہ تھا۔ اگریہ قلعہ بند ہو کر مقاتلہ شروع کر دیتے اور یہ لوگ اس موقعہ پر خو د کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور پیش کر دیتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کی گردنیں ماری جاتیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلا ف حیی بن اخطب کے خمیر میں جو دشمنی سمو دی گئی تھی اور یہ دشمنی جو بنو قریظہ تک متعدی ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ سے ان کے حلیف سید المسلمین ۱؎ سعد بن معاذؓ کو بھی یقین ہو گیا کہ اگر آج یہ زندہ رہ گئے تو کل دوبارہ قریش اور قبائل عرب کو مدینہ پر چڑھا دیں گے۔ اور مسلمانوں کے زن و بچہ کو ان کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ اس لیے سعد کا یہ فیصلہ جو بظاہر ناگوار سا نظر آتا ہے۔ لیکن سعدکے نزدیک یہود کو زندہ رکھنا مسلمانوں کی پوری نسل کی موت کا مترادف تھال۔

 

اموال بنو قریظہ کی تقسیم

ان کے اموال خمس علیحدہ کرنے کے بعد غازیوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ ایک سوار کو تین حصے دیے گئے۔ ایک اس کا حصہ اور دو حصے اس کی سواری کے۔ مگر پیادہ کو صرف ایک حصہ۔ بنو قریظہ پر چڑھائی کے موقع پر صرف چھتیس سوار تھ۔

اسیران بنو قریظہ کے لیے  سعد بن زید انصاری کو حکم دیا گیا کہ انہیں نجد کی طرف لے جائیں ان کی قیمت سے دشمنان اسالم کے حملوں کی مدافعت کے لیے گھوڑے اور آلات حرب خریدے گئے۔

 

بی بی ریحانہ

ان قیدیوں میں بی بی ریحانہ خمس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصہ میں آئیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں اسلام پیش فرمایا جسے انہوں نے نامنظور کیا۔ پھر نبی صلوٰت اللہ علیہ نے ان سے فرمایا کہ تمہارے مسلمان ہونے پر میں تم سے عقد کر لوں گا بی بی نے عرض کیا جناب کی تزویج میں رہنے کی بجائے کنیز کی مانند آپ کی خدمت کروں گی اور یہ طرفین کے حق میں زیادہ مناسب ہو گا۔

بی بی ریحانی کا شادی سیانکار ان کی قومی عصبیت کی وجہ سے تھا۔ اسی وجہ سے وہ مسلمانوں اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ناخوش رہیں اور ان (ریحانہ) کے حسن و جمال کی تعریف میں زینب بنت جحشؓ  کے خدوخال کی طرح نہیں کی گئی اگرچہ وہ اس نعمت سے بہرہ مند تھیں۔

سیرنویس حضرات نے ان کے پردہ میں رہنے کے متعلق اختلاف کیا ہے لیکن وہ تابہ زندگی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کے ہاں رہیں۔

مدینہ سے کفار کی واپسی اور بنو قریظہ کے حشر سے مسلمانوں کو گونہ تسکین ہوئی منافقین مرعوب ہو گئے اور عرب کے گھر گھر میں مسلمانوں کی شوکت کے چرچے ہونے لگے  مگر خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا منتہا صرف مدینہ ہی تک نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے رفقا نے دنیا کے ہر گوشے میں کلمۃ اللہ کی تبلیغ اور اس مہم میں حائل ہونے والے بدسرشت لوگوں سے راستہ صاف کرنے کی کوشش جاری ہی رکھی۔

۱؎ اصابہ بن حجر در تذکرہ سعد بن معاذ

٭٭٭

 

 

 

بنو قریظہ کے استیصال سے لے کر صلح حدیبیہ تک

 

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورمسلمانوں کے لیے وقفہ سکون

جیسا کہ اٹھارہویں فصل کی آخری سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ (مدینہ سے) لشکر کفار کی ہزیمت اور شہر میں بنو قریظہ کے استیصال سے خیر الرسل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے رفقا کو گونہ تسکین نصیب ہوئی اوردوسری طرف عرب کے گھر گھر میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔

اس کے ساتھ ہی قریش اس غور و فکر میں ڈوب گئے کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آخر ایک دوسرے کے قرابت دار ہیں۔ اگر ان سے تنازع ترک کر دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ خصوصاً جب کہ ان کے رفقائے مہاجرین بھی ان کے ہی اکابر و سردارہیں۔

بہرحال مسلمان یہود کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد پورے سکون و طمانیت کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ اسی طرح دشمنوں کے خوف سے یک سو ہو کر زندگی کے کیف و کم سے بہر یاب ہوتے ہوئے چھ مہینے گزر گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے منصب کی عملی تائید میں مصروف یعنی ازدیاد ایمان اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہر حکم کی تعمیل کا جذبہ بڑھانے کی استعداد میں منہمک تھے۔

 

اجتماعیت کی طرح نو

اس ششماہی میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمان مل کر ایک ایسا اجتماعی نظام مربوط کرنے کی تگ و دو میں منہمک رہے جو آ ج سے پہلے عرب میں متشکل نہ ہوا تھا۔ اور اس دانش مند متمدن قوم کو اس نظام کی بے حد ضرورت تھی جو اسلام پر عمل پیرا ہوئی اور اس کی قوت عمل اور مسائل دین و معاشرت میں دن بدن اضافہ و ترقی ہوتی گئی۔ بنا بریں اسلام کا یہ جدید نظام جسے ابھی ابتدائی خاکہ سے زیادہ اہمیت نہ تھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے رفقاء اس وقفہ سے یہاں تک مکمل کرنے کی سعی میں تھے جو اپنے دور کے ایرانی رومی اور مصری نظام اجتماعی کو اپنے اندر لیتا ہوا بتدریج اس حد کمال تک جا پہنچے کہ جس کے بعد یہ آیت نازل ہونے کا محل پیدا ہو جائے۔

الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا( ۵:۳)

’’آج کے دن تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے پسند کر یا کہ دین اسلام کو‘‘۔

 

عرب کے شہروں کی قبل از اسلام تمدنی حالت

قبل از اسلام اس ملک کی بدویت یا تمدن کے متعلق جو رائے بھی سہی یہاں تک بھی جو کہا جاتا ہے کہ مکہ و مدینہ اور ملک کی دوسری بری بڑی بستیاں بدوؤں کے مقابلہ میں تمدن سیزیادہ بہرہ مند تھیں۔ لیکن نہ صرف قرآن مجید بلکہ دوسرے تاریخی آثار سے ثابت ہے کہ ان شہروں کے رہنے والے عورتوں اور مردوں کے جنسی میلانات تک کا طریق چار پایوں سے بہتر نہ تھا۔

 

اس عہد میں مرد اور عورت کے ملاپ کا طریقہ

اس دور (قبل از اسلام) میں عورتیں جاہلیت کا بناؤ سنگار کرتیں زینت کے مقامات کے ابھار میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتیں اور قضائے حاجت کے لیے صحرا میں دور نکل جاتیں بعض ٹولیوں میں جاتیں بعض دو دو مل کر اور کوئی تن تنہا یہاں ان کے قدر دان بھی پہنچ جاتے نوجوان اور ادھیڑ عمر مرد دونوں قسمیں۔ مرد و زن ایک دوسرے کے سامنے آنے کے وقت ہیجان انگیز حرکات اورجنسیت ابھارنے والے جملوں سے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے۔

جیسا کہ ہندو زوجہ ابوسفیان نے احد کے معرکہ کارزار میں دکھایا جن کے ساتھ ان کی سہیلیوں کا پورا جمگھٹا تھا۔ اٹھکیلیاں کرتی ہوئی مردوں کو اس قسم کے اشعار سے اپنی جانب راغب کرتیں۔

ان تقلبوا نعائق ونفرش المنرق

او تدبروا نفارق فراق غیر وامق

’’آج اگر تم نے دل کھول کر مقاتلہ کیا تو کل تم ہماری آغوش میں ہو گے اور اگر دشمن کو پیٹھ دکھا کر بھاگے تو ہم تم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائیں گی‘‘۔

 

عرب میں قبل از اسلام زنا پر کوئی پرسش نہ تھی

اس دور میں زنا کی پرسش نہ تھی۔ عشق و ہوس دونو ں ان کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے۔ ابوسفیان جیسے معز ز سرغنہ کی بیگم ہندہ برملادوسرے مردوں سے معاشقہ کرتی اوراس کے قبیلے کے لوگ دل میں میل نہ لاتے۔ (مکہ  میں یہ دستور تھا کہ ایک ایک ماہ پارہ کے دسیوں باقاعدہ شوہر ہوتے : م:) اور جب ایسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو صرف نسب متعین کرنے کے لیے ان شوہروں میں جس میں اس بچے کا حلیہ ملتا مولود کو اس سے منسوب کر دیا جاتا۔ ادھر ایسی عورت کے شوہر اپنے گھروں میں باقاعدہ بیویوں اور زر خرید کنیزوں کا جھمگٹ بھی رکھتے۔ لطف یہ ہے کہ ان کی یہ بیویاں اور کنیزیں ادھر ادھر مبتلا رہتیں جس کے شوہروں اور مالکوں کو بھی اطلاع ہوتی مگر وہ ان سے تعرض نہ کرتے۔ یا یہ حالت کہ مرد اور عورت کے معاشقہ میں ایک دوسرے کے ہر عیب اور برائی کو چھپا کر رکھا ہے یا فریقین یں خصومت کے ساتھ یہ نوبت آ جاتی کہ اپنی محبوبہ کی پردہ داری کرتے۔ عرب سدا سے سقف آسمان کے سائے میں زندگی بسر کرنے والی قو ہے۔ بعینہ فکر معیشت کے لیے سرگردان خود ستائی اور دروغ گوئی سے انہیں کبھی نفرت نہیں ہوئی۔ صلح و آشتی اور جنگ و جدل دونوں حالتوں میں مبالغہ آرائی ان کی طینت میں مضمر ہے یا تو محبت کے زمانہ میں محبوبہ اور اس کی عصمت و عفت کے سراپا میں اسے تقدیس کی دیوی ثابت کر رہے ہیں یا خصومت کے عہد میں اسی پیکر عصمت کی عریانی اور بے حیائی کے دفتر اس طرح کھل جاتے ہیں جیسے برائی کے سوا اس میں خوبی ہے ہی نہیں۔ اس کی صاف و شفاف گردن کا نقشہ اور اس کے ابھرے ہوئے سینے کا خاکہ اس طرح لفظوں میں ڈھالا جاتا ہے کہ شرم اپنا منہ نوچ لے۔ اسی طرح کمر اور اس کا پیٹا جس کے بعد اس کی سرین کا پھیلاؤ ومادون ذلک الغرض بد ن کا کوئی حصہ نہیں جس کی ہجو اور مذمت اٹھا رکھی جائے!

ان قصیدوں میں شاعر ایک عورت کو صر ف عورت ہی فرض کرتا ہے اور اس کی عزت و حرمت کا خیال رکھے بغیر جو چاہتا کہتا۔

جو لوگ عرب کے تمدن پر فریفتہ ہیں حتیٰ کہ انہیں قدیم جاہلیت کے سر پر بھی تمدن کا تاج رکھنے میں باک نہیں۔ آج کل کے انداز و نہج پرقیاس کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ قیاس بے محل ہے اور ہم یہ سجھنے سے قاصر ہیں کہ آج کا مطالعہ کرنے والا اس دور کے صحیح حالات کا اندازہ کر سکے  خصوصاً مر د اور عورت کے ان تعلقات کا جو ان کے باہمی روابط ازدواج یا طلاق اور میا ں بیوی کی دوسری علائق مثلاً  اولاد کے متعلق دونوں کا معاملہ ہے اگر انہیں آج کے معیار پر پرکھا جائے تو یہ موازنہ و مقابلہ صد گونہ غلطی کا سبب ہو گا۔ خصوصاً وہ عرب کے قبائل جن کی بود و باش کا ایک شمہ ہم ساتویں صدی مسیحی میں عرب تمدن   کے ماتحت بیان کر چکے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس دور (ساتویں صدی) کی مسیحی قوموں کے ساتھ بھی ان کا موازنہ کیا جائے۔

اس دور میں عرب قبائل نیم وحشی زندگی بسر کرنے کے باوجود یورپ اور شام میں رہنے والے مسیحی قوموں سے بدرجہا بہتر حالت میں تھے (ا س موازنہ میں چین و ہند کے تمدن سے ناواقف ہونے کی وجہ سے عرب کا موازنہ ان کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا) لیکن شمالی اور مغربی یورپ میں آباد مسیحی قومیں اس دور میں تمدن و ترقی سے اس قدر دور تھیں کہ اگر انہیں محض وحشی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

 

ساتویں صدی مسیحی میں روم کا تمدن

ساتویں صدی عیسویں میں روم کا تمدن یہ تھا کہ ایک طرف انہیں حامل شریعت ہونے کا غرا تھا۔ سیاسی غلبہ بھی حاصل تھا۔ ایران بھی ان کے  زیر نگیں تھا۔ بایں ہمہ ان کے ہاں عورت کا شہری درجا  تو کجا بدوی عورت کے مساوی بھی نہ تھا۔

 

روم میں عورت کا درجہ باندی کے برابر

ساتویں صدی کے مسیحی رومیوں کے ہاں بیوی ایسی مملوکہ تھی کہ جس کا استعمال اس کے شوہر ہر طریق سے کر سکتا تھا۔ وہ اسے قتل بھی کر دے تو مواخذہ سے بری تھا۔ شوہر کا اپنی  بیگم کو نیز کی حیثیت سے فروخت کر دینا تو کوئی بات ہی نہ تھی۔ خاوند کا یہ سلوک رومی شریعت کے منافی نہ سمجھا جاتا تھا۔ ایک ہی وقت میں وہ اپنے حقیقی باپ کی دختر بھی تھی اور اس کی باندی بھی۔ کل جب وہی قسمت کی ماری شوہر کے گھر میں آ گئی تو یہاں وہ بیگم بھی ہے اور کنیز بھی اور اب جو اس کی کوکھ سے جنا ہوا فرزند جوان ہوا تو شوہر کو اختیار ہے کہ صاحبزادہ کی حقیقی ماں کو اس کے فرزند کی باندی بنا دے۔ گویا عورت ذات ایک ایسی جنس بے مایہ ہے کہ بیگم اور ماں بننے کے باوجود کنیز بھی ہے اور کنیز بھی خدمت گار ہی نہیں بلکہ قابل فروخت بمثل مویشی اور دیگر اشیائے فروختنی۔

 

عورت ذریعہ ہے

اور وہ کسی حال میں سہی مردوں کی جنسیت کو تیز کرنے کا آلہ ضرور ہی ہے پھر وہ اپنی عفت و عصمت کی خود مالکہ بھی نہیں۔ عورت صدیوں تک اس بے اعتباری کا شکار رہی ہے کہ اس کا شوہر یا مالک اگر سفر میں جاتا تو احتمال زنا سے بچنے کے لیے عورت کو غلاف عصمت پہننا پڑتا جو اس کی کمرسے لے کر دونوں پیروں کو جکڑے رکھتا اور جب شوہر یا مالک سفر سے لوٹتا تو اسے کو یہ بند کھولتا۔ یہ اس دور کا حال ہے جب جزیرہ عرب میں عورت آج سے کہیں بہتر حالت میں زندگی بسر کر رہی تھی اور اس وقت بھی جب روم میں قائم شدہ مسیحیت کے بانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مریم مجدلیہ کو رحم کرنے کی تجویز پر فرمایا کہ جو تم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اس کے پتھر مارے ۱؎۔

 

مسیحی یورپ میں عورت کی درگت

اس زمانہ میں یورپ کے بت خانوں اور پرستاران عیسویت میں عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں کوئی امتیاز نہیں تھا۔ حوا کی بیٹی کو تو شہوت رانی کا ذریعہ سمجھاجاتا تھا یا خدمت گار کنیز۔ اس سے زیادہ عجیب تو یہ امر ہے کہ اس دور میں مسیحٰ علماء میں عورت کے متعلق اس پر بحث ہونے لگی کہ اس میں انسانی روح بھی ہے یا نہیں ؟ اور مردوں کی طرح عورت کا بھی حساب کتاب ہو گا؟ کیا وہ ایسا حیوان تھیں جس میں انسان کی سی روح نہ ہو اور عند اللہ وہ سزا و جزا سے بے بہرہ ہو؟

۱؎  فقیہ اور فریسی ایک ایسی عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی اور اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوعؑ سے کہا اے استاد ! یہ عورت زنا میں فعل کے وقت پکڑی گئی ہے تو اس ے سیدھے ہو کر ان سے کہا کہ جو تم میں سے بے گناہ ہو وہی پہلے پتھر ا س کے مارے۔ (انجیل یوحنا باب ۸۹ آیت ۱تا۱۱: م:)

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اجتماعی اصلاح و تجدید

اسی عورت کے متعلق جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وحی خداوندی کی امداد سے یہ سمجھاکہ اجتماعیت کے فروغ اور ارتقاء کے لیے مرد اور عورت کا دوش بدو ش رہنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ دونوں ایک ہی جسم کے  دو ایسے حصے ہیں جو باہم مودت و رحمت کے رشتہ میں منسلک ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وحی الٰہی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یوں تو دونوں کے ایک دوسرے پر مساوی حقوق ہیں لیکن بعض صورتوں میں عورت کے حقوق مرد کے ذمہ اور زیادہ ہیں۔ لیکن مرد و زن دونوں کو بیک وقت ایک مقام بخش دینا آسان نہ تھا۔ صدیوں کے مزمن امراض کا ازالہ بتدریج ممکن ہے ہر چند یورپ کا قرآن اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قوی ایمان تھا جو تدریجاً قوی تر ہوتا گیا اور مددگار ان اسلام کی تعداد بڑھتی گئی۔

قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے جو اجتماعی اصلاحات فرض کیں وہ رفتہ رفتہ حد کمال تک پہنچیں۔ عبادات میں نماز روزہ زکوٰۃ حج اور محرمات(حرام شدہ امور) میں شراب و جوا اور خنزیر ہر دو قسموں میں تدریجاً شدت پیدا کی گئی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مرد و زن کے تعلقات میں اسی انداز سے اصلاح فرمائی، جس حد تک رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے حرم کے سات سلوک تھا اور جو مسلمانوں کے مشاہدہ میں بھی آتا رہتا تھا کیوں کہ آیت حجاب غزوہ خندق (در ماہ شوال ۵ھ کے ) نازل ہوئی۔ اسی طرح ایک شوہر کے لیے چار بیویوں کی تحدید بشرط عدل و انصاف غزوہ خیبر کے ایک سال بعد معین کی گئی۔ قابل غور یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زن و شوہر کے تعلقات میں اس استواری کا لحاظ رکھا جو تمہید تھی آنے والے قرآنی حکم کی جس میں مرد اور عورت دونوں کے ایک دوسرے پر مساوی حقوق عائد کر دیے گئے بلکہ دونوں طبع تفاوت کے ہوتے ہوئے مردوں پر کچھ اور زیادہ۔

اسلام کے ابتدائی عہد میں بھی زن و مرد کے ظاہری میل جول میں جاہلیت ہی کے طور طریقے تھے جیسا کہ گزشتہ اوراق میں بیان ہوا ہے۔ عورتیں جاہلیت کا بناؤ سنگار کر کے گھروں سے نکلتیں یہ زیب و زینت مردوں کے لیے بے پناہ کشش کا باعث تھی۔ اور دونوں کے ایسے چال چلن کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ مردو زن کے باہمی تعلقات میں شرف انسانی اور روحانی اشتراک کا وجود اکبرتی احمر سے کم نہ تھا۔

عورتوں کی بے حجابی اس پر بناؤ سنگار کی مہمیز پر مدینہ ہی کا ایک واقعہ لکھا جا چکا ہے۔

(معلوم ہے کہ) مدینہ میں رہنے والے یہود اور منافقین نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کرنے میں کوئی کمی نہ رہنے دی۔ یہاں تک کہ دونوں گروہوں نے مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کرنے میں بھی تامل نہ کیا۔ جس پر تنگ آ کر مسلمانوں نے (مدینہ کے یہود) بنو قینقاع پر بزن بول دیا اور ا ن کے قلعہ بند ہو جانے کے بعد انہیں خارج البلد کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ عورتوں کی بے حجابی ہی سے تو یہ نوبت پیش آئی۔ کاش! مسلمان بیبیاں جاہلیت کے سنگار سے اجتناب کرتیں تو نہ ان کی طرف مردوں کا میلان ہوتا اور نہ ان کی توہین ہونے پاتی اور نہ یہ مشکلات رونما ہوتیں۔

 

آیہ حجاب

آخر اسلام نے مرد و زن کے درمیان مساوات حقوق کی بنیاد رکھ دی باوجودیکہ خود مسلمانوں کی قوت فکر کا اس طرف میلان نہ تھا۔

والذین یوذون المومنین والمومنات بغیر ما اکتسبوا فقداحتملو بھتانا وائما مبینا (۳۳:۵۸)

’’اور جو لوگ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بے اس کے کہ انہوں نے قصور کیا ہو ناحق کی تہمت لگا کر ایذ ا دیتے ہیں تو وہ (جھوٹ) طوفان اور صریح گناہ کا بوجھ انی گردن پر لیتے ہیں ‘‘۔

یا ایھا الذین قل لا زواجک وابناتک ونساء المومنین یدنین علیھن من جلا بیبھن ذلک ادنی ان یعرفن فلا یوذین وکان اللہ غفورا رحیما (۳۳:۵۹)

’’اے نبی ! اپنی بیبیوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی چادروں کے گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ اس سے غالباً یہ (الگ) پہچان پڑیں گی (کہ نیک بخت ہیں ) اور کوئی چھیڑے گا نہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

لئن لم ینتہ المنافقون والذین فی قلوبھم مرض وامرجفون فی المدینۃ لنغرینک بھم ثم لا یجاورونک فیھا الا قللا ملعونین اینما ثقفواا خذوا وقتلو تقتیلا (۳۳۔ ۶۰تا۶۱)

’’منافق اور وہ لوگ جن کی نیتیں بد ہیں اور جو لوگ مدینے میں جھوٹی جھوٹی افواہیں پھیلایا کرتے ہیں اگر اپنی حرکات سے باز نہ آئیں گے تو اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم تم ہی کو ایک نہ ایک دن ان پر اکسا دیں دے۔ پھر (یہ لوگ) مدینے میں تو تمہارے پڑوس میں ٹھہرنے کے نہیں مگر چند روز (عارضی طور پر) ان کا یہ حال ہو گا کہ (ہر طرف سے پھٹکارے ہوئے) جہاں ملے پکڑا اور مارے ٹکڑے اڑا دیے‘‘۔

سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا(۳۳:۶۲)

’’اور جو لوگ پہلے ہو گزرے ہیں ان میں بھی خدا کا(یہی ) دستور رہا ہے اور اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تم خدا کے دستور میں ہرگز (کسی طرح کا ) رد و بدل نہ کر پاؤ گے‘‘۔

مسلمانوں نے اسی تمہید (آیات متذکرۃ  الصدر) کی بناء پر جاہلیت کی ان رسوم کو پیروں تلے روند دیا جو عورتوں کے عریاں نکھار اور بے حجابی کا آلہ تھیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس منشاء کے مطابق تھا کہ جس کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معاشرہ کو آلائشوں سے پاک کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے زنا کو سنگین جرم قرار دے کر مسلمانوں کو متوجہ کیا اور عورتوں کو بغیر محرم مردوں کے سامنے بن سنور کر نہ آنا چاہیے جیسا کہ:

قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم ان اللہ خبیربما یصنعون وقل لمومنت یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولا یبدنی زینتھن الا ما ظہرمنھا ولیضربین بخمرمن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبععولتھن او ابائھن او اباء بعولتیھن او ابنائھن او ابناء بعولتھن او اخوانھن اونبی اخوانھن او نبی اخواتھن او نسائھن او ما ملکت ایمانھن او التبعین غیر اولی الاربۃ من الرجال او الطفل الذین لم یظھرو علی عورت النساء ولا یضربن بار جلھن لیعلمم ما یخفین ن زینتھن وتوبوا الی اللہ جمعیا ایۃ المومنون لعلکم تفلحون (۲۴:۳۰۔ ۳۱)

’’(اے پیغمبر ؐ) مسلمانوں سے کہو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اس میں ان ی زیدہ صفائی ہے (لوگ) جو کچھ بھی کیا کرتے ہیں اللہ کو سب خبر ہے۔ اور اے پیغمبرؐ ! مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیں مگر جو اس میں سے (چار و ناچار) کھلا رہتا ہے و اس کا ظاہر ہوتے رہنا مضائقے کی بات نہیں اور اپنے سینوں پر دوپٹوں کے بکل مارے رہیں اور اپنی زینت (کے مقامات) کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ پر یا اپنے خاوند کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی یعنی اپنے میل جول کی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ سے مال یعنی لونڈی غلاموں یا گھر پر لگے ہوئے ایسے خدمتیوں پر کہ مرد تو ہیں مگر عورتوں سے کچھ غرض و مطلب نہیں رکھتے۔ (جیسے خواجہ سرا یا بڈھے پھوس) یا لڑکوں پر جو عورتوں کے پردے کی بات سے آگاہ نہیں اور چنے میں اپنے پاؤں ایسے زور سے نہ رکھیں کہ لوگوں کو ان کے اندرونی زیور کی خبر ہو اور مسلمانو! تم سب اللہ کی جناب میں توجہ کرو تاکہ تم (آخر کار) فلاح پاؤ‘‘۔

 

عادات میں توراث

اسلام کے اس طریق سے مردو زن کے باہمی روابط کی اصلاح فرمائی اور دونوں کو فتنہ و شرارت کے مواقع پر بچانے کے لیے ایک دوسرے سے دور رکھنے کی ہدایت فرمائیں۔ لیکن فتنہ و فساد کے سوا دوسرے مواقع میں دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی کوئی ہدایت نہ کی ، کیوں کہ دونوں کا درجہ برابر ہے۔ دونوں ایک خدا کے بندے ہیں اور دونوں نیک کاموں میں ایکدوسرے سے معاون اگر ان میں کوئی جنسی میلان پر گامزن ہے تو اسے خدا کے حضور اپنی معصیت میں رجوع کرنا چاہیے جو توبہ قبول کرنے میں پس و پیش نہیں فرماتا۔

لیکن عرب کے باشندے جو صدیوں سے بری رسومات کے عادی ہو چکے تھے۔ ایسی تعلیم اتنی کم مدت میں ان کے اندر اس قسم کا انقلاب پیدا نہ کر سکتی تھی۔ جس قس کا تغیر ان کا عقیدہ میں ایمان باللہ اور ترک شرک کی صورت میں رونما ہوا جو طبعی بھی ہے۔ جس میں مادہ تدریج کے بغیر ارتقاء کی حدیں طے نہیں کر سکتا یعنی منزل بہ منزل۔ گویا مادہ ترقی کرنے میں ایک قانون کا پابند ہے۔ اس طرح انسانی زندگی بھی انقلاب کے لیے قانون ارتقاء ہی میں مقید ہے۔ جب انسان میں عادات متوارثہ اس حد تک جاگزیں ہو جائیں کہ اس کی زندگی کو اپنی جولان گاہ بنا لیں تو اسے ان (عادات ) سے نجات حاصل کرنے کے لیے آہستہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پھر جونہی طبیعت ان کے دباؤ سے ہلکی ہونا شروع ہو انسان کو اپنے عواطف میں تبدیلی پیدا کرنے میں تامل نہ کرنا چاہیے۔

انسانی مزاج میں یہ ملکہ موج زن ہ۔ کہ وہ اپنے گرد و پیش کے تغیرات کے مطابق اپنی زندگی کے قالب کو متغیر کر سکے جیسا کہ اسلام نے مسلمانوں کے اندر توحید ایمان برسالت اور یوم آخرت کے بارے میں تلقین کی جسے مسلمانوں نے تسلیم کر لیا۔ بایں ہمہ بعض ایسی رسول جو ان کی زندگی کا لازمی جز و بن چکی تھیں اسلام کے آنے کے بعد بھی وہ ان رسوم سے کچھ عرصہ نجات حاصل نہ کر سکے۔ جس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اس عہد تک ان (مسلمانوں ) کے اندر قبل از اسلام کی زندگی میں نمایاں فرق نہ آنے پایا اور یہ ان کی صحرائی زندگی کے اثرات تھے۔ کہ جب صحرا میں قدم اٹھایا تو چلتے چلتے تھک گئے مگر رکے نہیں۔ ان کی یہی رغبت عورتوں کے معاملہ میں تھی کہ صدیوں سے ان کے ساتھ بے تکلفانہ میل ملاپ اور نشست و برخاست میں خوگر ہونے کی وجہ سے یک دم تجنب پر مائل نہ ہوسکتے تھے۔

تاہم اسلام نے عورتوں کے ساتھ روابط میں ان کے رجحانات میں کسی حد تک اصلاح کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی لیکن اس بارے میں ان عربوں کے بعض رجحانات ابھی پہلے کی طرح قائم تھے۔ بسا اوقات ایک مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے در و دولت پر حاضر ہوتا(آیہ حجاب کے نازل ہونے سے قبل) آنے والا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امہات المومنینؓ  کے قریب بیٹھا ہوا گرم گفتاری کیا کرتا۔ حالانکہ پردہ سے قطع نظر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشاغل نبوت پر طول مجلس سے اثر پڑتا جس کی وجہ سے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مہمات امور پر یکسوئی سے متوجہ نہ ہو سکتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرما لیا کہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس قسم کے ادنی ٰ مشاغل سے یک سوکر دیا جائے اور یہ آیت ازل فرمائی۔

 

مومنین کے لیے در بارہ امہات الامہ ہدایت خداوندی

یا ایھا الذین آمنوا لا تدخلو بیوت النبی الا ان یوذن لکم الی طعام غیر نظرین ان ولکن اذا عدیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسین لحدیث ان ذلکم کان یوذی النبی فیستحی منکم واللہ لا یستحی من الحق واذا سالتموھن متاعا فسئلوھن من وراء حجاب ذلکم اطھر لقلوبکم و قلوبھن وما کان لکم ان توذوا رسول اللہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ان ذلکم کان عنداللہ عظیما (۳۳:۵۳)

’’مسلمانو! پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر یہ تم کو کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے (تو اس صورت میں ایسا وقت تاک کر جاؤ) تم کو کھانے کے لیے تیار ہونے یا انتظار نہ کرنا پرے۔ مگر جب تم کو لایا جائے تو عین وقت پر جاؤ اور جب کھا چکوتو اپنے گھر کو چل دو۔ اور باتوں میں نہ لگ  جاؤ اس سے پیغمبر ؐ کو ایذا ہوتی ہے اور وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تو حق بات کے کہنے میں کسی کا کچھ لحاظ نہیں کرتا اور کہ پیغمبرؐ کی بیویوں سے تمہیں کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے سے باہر (کھڑ ے رہ کر) ان سے مانگو۔ اس سے تمہارے دل (ان کی طرف سے ) خوب پاک (صاف) رہیں گے اور اس طرح ان کے دل (بھی) اور تم کو کسی طرح شایان نہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایذا دو اور نہ یہ بات (شایان ہے) کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو۔ خدا کے نزدیک یہ بڑی (بے جا) بات ہے‘‘۔

اور جس طرح یہ آیہ ۳۳:۵۳ سورہ احزاب امہات المومنینؓ کے احترام حقوق پر ارشاد فرمائی اسی طرح مومنین کے حقوق کی پاس داری کے لیے امہات الامہؓ کی اطلاع کے یے یہ د و آیتیں نازل فرمائیں :

۱۔  یا نساء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذیفی قلبہمرض وقلن قولاً معروفا (۳۳:۳۲)

’’۱۔  اور اے پیغمبرؐ کی بیبیو! تم کچھ عام عورتوں کی طرح تو نہیں ہو (پس) اگر تم کو پرہیز گار ی مقصود ہے تو دبی زبان سے(کسی کے ساتھ) بات نہ کیا کرو کہ ایسا کرو گی تو جس کے دل میں کسی طرح کا کھوٹ ہے وہ خدا جانے تم سے کس طرح کی توقعات پید ا کر لے گا اور بات بھی کرو تو بے لاگ لپٹ جیسا کہ پاک لوگوں کا دستورہے‘‘۔

۲۔  وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی واقمن الصلوۃ واتین الزکوۃ واطعن اللہ ورسولہ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا (۳۳:۳۳)

’’۲۔  اور اپنے گھروں میں جمی (بیٹھی ) رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کے سے بناؤ سنگار کرتی دکھاتی نہ پھرو اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فرماں برداری کرو۔ (اے پیغمبرؐ کے گھر والو!) خدا کو تو بس یہی منظور ہے کہ تم سے (ہر طرح کی)گندگی کو در کرے اور تم کو ایسا پاک صاف بنائے جیسے پاک صاف بنانے کا حق ہے‘‘۔

اسلام نے فروغ انسانی کے لیے نظام جدید کی طرح ڈالی اور زن و مرد کے جنسی میلانات میں یہ اصلاح اسی کی تمہید ہے۔ مد نظر یہ تھا کہ طرفین مرد و زن کی جو توجہ جنسایت کے دائرہ یں محصور ہے اسے ہر دو کے لوح و قلب سے اس طرح مندمل کر دیا جائے کہ وہ اس کشش کو قدرت کے دوسرے مناظرہ و کوائف سے زیادہ نہ سمجھیں۔ یہ ایسا طریقہ ہے کہ جس پر عمل پیرا ہو کر معاشرہ اصل راہ کا نشان معلوم کر سکتا ہے۔ اور زندگی کے مادی ثمرات سے حط اندوز ہو سکتا ہے۔ اگرچہ اس منزل پر پہنچ کر بھی نسان کو اپنا وقار برقرار رکھنے کے لیے جنسی میلانات کا مقابلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔

الغرض انسان اپنے کمال مراتب کی وجہ سے کائنات کے ساتھ زراعت و صنعت اور گردو پیش کے دوسرے فنون سے بہرہ اندوز ہو کر ایسا غلو حاصل کر لیتا ہے کہ جس کے صدقے نیک نحضر انسانوں بلکہ ملائکہ مقربین کے حلقے میں شامل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ صناعت و زراعت اور دوسرے علمی و عملی مشاغل کے ساتھ نماز بھی ادا کرتا ہے۔ روزہ بھی رکھتا ہے زکوٰۃ بھی نکالتا ہے اسی قسم کے تمام حقوق خداوندی کی ادائیگی کے لیے دہل ہو جاتی ہے۔ جس کے ثمرہ میں وہ از خود زنا اور ا س کے مبادی سے تنفر کرنے لگتا ہے۔ بے حیائی اور سرکشی کے ارتکاب سے اس کا مزاج بے اختیار انکار پر مائل اور اپنے قب اور نفس کو غیر اللہ کی محبت سے پاک کر لیتا ہے۔ جس سے ایسے پاک طینت انسان ایک طرف مومنین کے رشتہ مودت میں منسلک ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف انسانیت اور کائنات کے درمیان وجہ تعلق ثابت ہونے لگتے ہیں۔

اس وقفہ میں اجتماعیت کی تشکیل تدریجاً جاری تھی جو اس عالم گیر انقلاب کی تمہید تھی جس کا مکمل خاکہ انسان کی رفاہیت اور بہبود کے لیے اسلام کے سامنے تھا۔ اس وقفہ میں قریش اور قبائل دونوں وقت کے انتظار میں چشم براہ تھے کہ جس طرح ہو سکے جلد از جلد جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اثرات کو ختم کیا جائے۔ ادھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان دشمنان توحید کے دوبارہ ہجوم کر کے مدینہ میں در آنے کے خطرہ سے لرزاں اورایسے موقعہ کی تیاری میں منہمک جس میں کفار کے قلب و جگر پر تاک کر نشان لگایا جا سکے۔

 

غزوہ بنو لحیان

 

عادت شریف یہ تھی کہ جس سمت کا ارادہ ہوتا اعلان سے اجتناب فرماتے کہ مبادا دشمن پیش بندی کر لے۔ مدینہ سے کوچ کے موقعہ پر آپ نے شام کا ارادہ فرمایا تاکہ دشمن پر بے خبری میں حملہ کیا جائے۔

مقصد یہ تھا کہ دو سال قبل بنو لحیان نے از رہ فریب حضرت خبیب بن عدیؓ کو اسیر اور ان کے رفقاء کو رجیع میں قتل کر دیا تھا۔ ان سے اپنے مقتولوں کا قصاص لیا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بظاہر شام (جو مدینہ سے شمال مغرب کی سمت واقع ہے) کی طرف جانے کا قصد فرمایا تھا تاکہ غیروں پر منکشف نہ ہو۔ جمعیت ساتھ لے کر شام کی راہ پر گامزن ہوئے اور جب اطمینان ہو گیا کہ قریش اور ان کے ہوا خواہوں پر آپ کا اصل مقصد ظاہر نہی ہو سکا سفر کا رخ مکہ کی جانب (جنوباً) پھیر لیا اور رفتار تیز کر لی یہاں تک کہ قبیلہ بنو لحیان کی اس وادی تک آ پہنچے جو غران کے نام سے  مشہور ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس منزل میں اپنا رخ شمال سے پھیر کر جنوب کی سمت کر لیا تھا۔ بنو لحیان میں سے کسی نے دیکھ لیا اور وہ لوگ فوراً اپنے مویشی اور سامان لے کر پہاڑ میں جا چھپے جس سے حملہ ناکام ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے تعاقب میں ابوبکرؓ کو دو سو سواروں کے ہمراہ عسفان تک بھیجا مگر ان کا کہیں کھوج نہ ملا۔ اس کے بعد مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے۔ گرمی اس بلا کی تھی جیسے سورج سوا نیزے پر اتر آیا ہو۔ مدینہ میں داخل ہونے کے موقع پر زبان مبارک سے یہ کلمات سنائی دے رہے تھے۔

آئبون تائبون لربنا حامدون اعوذ بالل وعشائالسفر و کابۃ المنقلب و سو المنظر فی الاھل والمال۔

’’ہم سب اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے واپس آ گئے، میں سفر کی مصیبت کی زحمت اور خاندان اور مال کو بری حالت میں دیکھنے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ‘‘۔

 

غزوہ ذی قرد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غزو ہ بنو لحیان سے واپسی کے چند روز بعد عینیہ بن حصن انفزاری نے مدینہ کی چراگاہ پر ڈاکہ ڈالا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور مقتول کی بیوی ۱؎ کو اونٹوں کے ریوڑ سمیت اسیر کر کے واپس ہونے کو تھا کہ جناب سلمہ بن عمرو بن الاکوعؓ نے دیکھ لیا۔ ڈاکو بھاگ رہے تھے اور سلمہؓ ان پر تیر برسا رہے تھے جب (مدینہ کے پہاڑ) سطع پر سے گزرے تو یہاں پہنچ کر سلمہؓ نے مسلمانوں کی دوہائی مچا دی اور خود بھی ان کا تعاقب نہ چھوڑا ڈاکو بھاگتے رہے اورسلمہ

۱؎  (یہ بی بی حارس کی اہلیہ تھیں )

ان پر تیر برساتے رہے۔ ادھر شہر کی طرف منہ کر کے آوازیں دبا کیے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور شہر میں فوراً منادی کرا دی، جس کے سنتے ہی چاروں طرف سے مسلمان سمٹ کر آ گئے۔ ہر شخص مسلح تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اپنی کمان میں لے کر ڈاکوؤں کے تعاقب میں آگے بڑھتے ہوئے ذی قرو نامی پہاڑ پر جا پہنچے۔ ادھر غارت گر عینیہ اپنے گروہ کو سمیٹ کر تیز رفتاری کے ساتھ بھاگ رہا تھا کہ جس طرح ہو سکے قبیلہ بنو غطفان میں پہنچ کر مسلمانوں کی گرفت سے بچ جائے، مگر مسلمان دلاوروں نے اس کے دستہ کے آخری حصہ کے اونٹوں پر قبضہ کر لیا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آ پہنچے۔ ذرا دیر بعد وہ مسلمان بی بی تشریف لے آئیں جنہیں ڈاکو گرفتار کر کے لے گئے تھے۔

ان مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ڈاکوؤں کا تعاقب کیا جائے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب وہ بنو غطفان میں پہنچ چکے ہوں گے اس لیے تعاقب مناسب نہیں اور مسلمان مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

مسلمان اسیر بی بی نے منت مان رکھی تھی کہ اگر یہ ناقہ (جس پر وہ سوار ہو کر مدینہ آئی) اسے صحیح سلامت مدینہ لے پہنچی تو اللہ کی راہ میں اس کی قربانی پیش کر دیں گی۔ اس نذر کی اطلاع رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے اس قربانی سے ان الفاظ میں منع فرمایا:

بئس ماجزیتھا ان حملک اللہ علیھا ونجاک بھا ثم تنحرینھا انہ لا نذرنی معصیۃ اللہ ولا فیھا لا تملکین

اتنا برا بدلا! اللہ نے اس ناقہ کے ذریعے دشمنوں سے نجات دلوائی اور اسے ذبح کرنے پر تیار ہو گئیں۔ یہ اللہ کی بے فرمانی ہے، ایسی نذر کوئی معنی نہیں رکھتی نہ وہ شے نذر کی جا سکتی ہے جو اپنی ملکیت نہ ہو (کہ اونٹنی تو مسلمانوں کی ملکیت تھی)

 

غزوۂ بنی المصطلق (یا مریسیع)

تقریباً دو ماہ قیام کے بعد غزوۂ بنی المصطلق (مقام مریسیع میں ) پیش آیا۔ یہ (غزوۂ) ہر اس اہل قلم کی توجہ کا مستحق ہے جو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نویسی کا آغاز کرے۔ نفس معرکہ یا مسلمانوں کی صعوبت و محنت کی وجہ سے نہیں ، اس لیے کہ:

الف۔ مسلمانوں میں ناکردنی خلفشار پیدا ہو گیا جس سے خطرہ تھا آئندہ کے لیے برے نتائج کا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن تدبیر نے اسے خوش اسلوبی سے سلجھا دیا۔

ب۔ اور اس لیے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب جویریہ بنت حارثؓ کو نکاح کی عزت بخشی (جس کے نتائج حیرت انگیز رونما ہوئے)

ج۔ اور اسی غزوۂ کے دوران میں ام المومنین عائشہ صدیقہؓ پر ناگفتنی افترا تراشا گیا۔ حضرت صدیقہؓ کا سن سولہ سے متجاوز نہ تھا اور یہ وہ سن تھا جس میں بھرپور جوانی کے پہلو بہ پہلو ایمان کی فراوانیاں بھی شباب پر تھیں۔ لہٰذا کسی کو جرأت نہ تھی کہ صورت و سیرت کے اس پیکر جلال کے سامنے لب کشائی کر سکے۔

 

واقعات این غزوہ

اطلاع عرض ہوئی کہ قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو مصطلق نے مکہ سے ادھر فوجیں جمع کر لی ہیں۔ ان کا سردار حارث بن ابو ضرار ہے جس نے لشکریوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر اکسا رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ راز ایک بدو بریدہ بن حصیب اسلمی (زاد المعاد :م) سے معلوم کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عجلت کے ساتھ نکلے تاکہ دشمن پر اس کی غفلت میں حملہ کیا جائے۔ جیسا کہ عام معمول تھا لشکر میں مہاجرین کا علم ابوبکرؓ اور انصار کا جھنڈا سعد بن عبادہؓ کو دیا اور بنو مصطلق کے اس تالاب پر اترے جو مریسیع کے نام سے مشہور ہے۔ اور ذرا دیر بعد دشمنوں کو گھیرے میں لے لیا۔ اس موقعہ پر وہ لوگ بھاگے نکلے جو ادھر ادھر سے ان کے ساتھ مل گئے تھے۔ مسلمانوں کے ہاتھ سے دشمنوں کے دس آدمی قتل ہوئے۔ اور ایک مسلمان ہشام بن صبابہ (نام) ایک انصاری (مسلمان) کے ہاتھ سے شبہ میں شہید ہوئے۔ قبیلہ بنو مصطلق کے محصورین دیر تک تیروں سے مقابلہ کرتے رہے مگر جب اپنے سے قوی دشمن سے مفر نہ دیکھا تو خود کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ ان کے زن و مرد بچے، اونٹ اور مویشی تمام سامان مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔

 

حادثہ مابین المسلمین

(جیسا کہ الف میں اشارہ کیا گیا ہے کہ) عمر بن الخطاب کے ہمراہ ان کا ایک سائیس بھی تھا وہ معرکہ ختم ہو جانے کے بعد گھاٹ پر پانی بھرنے کے لیے گیا تو ایک انصاری سے مناقشہ ہو گیا۔ (یہ) انصاری قبیلہ خزرج سے تھا۔ دونوں میں ہا تھا پائی ہونے لگی۔ تب سائیس نے مہاجرین اور انصار نے خزرج کی دوہائی پکاری (اور فریقین جمع ہو گئے:م)

مدینہ کا بدنام منافق عبداللہ بن ابی جو اس غزوہ میں غنیمت کے طمع سے شریک ہوا تھا، ہمراہ ہی تھا۔ اس کے دل میں مسلمانوں کی طرف سے جس قدر کینہ بھرا ہوا تھا سب اگل دیا: مہاجر ہمارے شہر میں امڈ کر آ گئے ہیں۔ ہمیں ان کے استیصال میں داناؤں کے اس مقولہ پر عمل کرنا ہی پڑے گا کہ اگر اپنے سگ کو فربہ کر دیا تو پہلے اپنے مالک ہی کا گلا دبوچے گا 1؎ اور قسم کھا کر بولا کہ

لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل (8-63)

اگر ہم پھر مدینہ لوٹ کر پہنچے تو عزت والا ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے تو سہی (اور انہی الفاظ میں آیہ 8:63 نازل ہوئی)

اس (ابن سلول) نے اپنے ہم مشربوں سے یہ بھی کہا: تم نے یہ مصیبت خود مول لی انہیں اپنے ہاں پناہ دی اور اپنے اموال میں سے ان کی اعانت کی! بخدا! جو لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جمع ہوئے ہیں اپنا پیسہ ان پر خرچ نہ کرو (عاجز آ کر) آخر کو (آپ ہی) تتر بتر ہو جائیں گے۔

1؎ یہ کلمہ حضرت زید بن ارقم نے سن لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کر دیا (سیرۃ ابن ہشام)

(بمعنی آیہ 7-63م: یعنی ھم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اللہ حتی ینفضوا)

 

رسول خداؐ کی مآل اندیشی

سرغنہ منافقین (ابن ابی) کی بد گوئی پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی اس وقت حضرت عمرؓ بھی موجود تھے۔ انہوں نے از رہ غیرت عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس بے ایمان کے قتل کا حکم بلال کو دیجئے! مگر خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پر اپنی متانت و حکمت اور مال اندیشی کے مطابق فرمایا اے عمرؓ! اگر ایسا کیا گیا تو دنیا کہے گی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہمراہیوں کے قتل کرانے میں باک نہیں کیا۔

اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھا کہ اگر فوری توجہ نہ کی گئی تو مبادا ابن ابی کا پیدا کردہ فتنہ کوئی اور رنگ لے آئے۔ آپ نے کوچ کی منادی کرا دی، حالانکہ موسم کے لحاظ سے یہ وقت سفر کے لیے موزوں نہ تھا۔ اسی لمحہ میں ابن ابی (منافق) باریاب ہوا اور حسب عادت اپنے قول پر قسمیں کھانے لگا۔ مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے التوائے سفر پر توجہ نہ فرمائی۔ کوچ کے روز لشکر دن بھر چلتا رہا اور شب کو بھی پڑاؤ نہ ہونے پایا۔ دوسرے دن ظہر تک سفر جاری رہا۔ تب آ کر پڑاؤ کیا۔ تو بدن زمین میں مس ہوتے ہی نیند میں ڈوب گئے۔ آنکھ کھلی تو ابن ابی کا طعنہ دماغوں سے نکل چکا تھا۔ یہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصلحت اور جب مدینہ میں داخل ہوئے تو بنو مصطلق کے اسیروں اور اموال و مویشی سے لدے پھندے قیدیوں میں دشمن کے سردار حارث بن ابی ضرار کی صاحبزادی جویریہ بھی تھیں (جن کے ذکر خیر اور برکت کا تذکرہ آگے منقول ہے)

ابن ابی بھی مدینہ آ پہنچا۔ اگرچہ اسلام و ایمان کا تذکرہ اس کی زبان پر ہمیشہ کی طرح اب بھی جاری تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے حسدکا سانپ بدستور اس کے دل پر لوٹ رہا تھا۔ مریسیع (مقام) پر جو کچھ اس نے کہا تھا یہاں آ کر اس سے قسمیں کھا کھا کر انکار کرنے لگا جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

ھم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اللہ حتیٰ ینفضوا وللہ خزائن السموات والارض ولکن المنفقین لا یفقھون یقولون لئن رجعلنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولکن المنفقین لا یعلمون (63:8-7)

یہی تو ہیں جو (لوگوں کو) بہکایا کرتے ہیں کہ جو لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آ جمع ہوئے) ہیں (اپنا پیسہ) ان پر نہ خرچ کرو (عاجز آ کر) آخر کو (آپ ہی ) تتر بتر ہو جائیں گے۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جتنے خزانے ہیں۔ (سب) اللہ ہی کے ہیں مگر منافقوں کو اتنی سمجھ نہیں۔ (یہ منافق) کہتے ہیں کہ اگر مدینہ لوٹ کر گئے تو عزت والا ذلیل کو وہاں سے نکال کرے تو سہی! حالانکہ اصلی عزت اللہ کی، اس کے رسول ؐ کی اور مسلمانوں کی ہے۔

ان آیات (کے نزول) میں مسلمانوں کو ابن ابی (منافق) کے قتل کیے جانے کا یقین ہو گیا جن میں اس کے مسلمان فرزند بھی تھے۔ یہ نیک محضر (عبداللہ بن ابن ابی) رسول اللہ کی خدمت میں عرض گزار ہوئے؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سنا گیا ہے آپ میرے والد (ابن ابی) کو قتل کرانا چاہتے ہیں۔ اگر حکم ہو تو میں ہی اپنے باپ کا سر آپ کے سامنے پیش کر دوں ؟

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قبیلہ خزرج میں کوئی ایسا شخص نہیں جو مجھ سے زیادہ اپنے باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہو۔ لیکن مجھے خود سے خطرہ ہے کہ اگر آپ نے میرے سوا کسی اور شخص کے ہاتھ سے میرے باپ کو قتل کرایا تو مجھے اپنے باپ کے قاتل کا چلنا پھرنا برداشت نہ ہو گا۔ اسے قتل کیے بغیر مجھے چین ہی نہ آئے گا اور کافر کے بدلے مومن کو قتل کر کے جہنم کا ایندھن بننا مجھے گوارا نہیں !

حضرت عبداللہ (بن عبداللہ بن ابن ابی) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور جو کچھ عرض کیا، میں نہیں سمجھ سکتا کہ دلی اضطراب کا اظہار اس سے زیادہ بلیغ پیرایہ میں بھی ہو سکتا ہے۔ آہ ایسا اضطراب! ایک طرف محبت فرزندانہ ہے اور دوسری طرف حفاظت ایمان!

حضرت عبداللہ کو خطرہ تھا کہ مبادا نخوت و غرور اسلامی سکینت پر غالب آ کر مسلمانوں میں انتقام در انتقام کی آگ مشتعل کر دے۔ عجیب معاملہ ہے کہ جان نثار فرزند جو اپنے باپ کو واجب القتل سمجھ رہا ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی جان بخشی کی درخواست نہیں کرتا، کیوں کہ اسے یقین ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر کام خدا کے حکم سے کرتا ہے۔ اسے اپنے باپ کے کفر کا یقین ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے یہ خطرہ بھی ہے کہ اس کے باپ کے قتل ہونے پر اس کی محبت فرزندانہ اور عربوں کی عادت انتقام دونوں یک جا ہو کر اسے اپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینے پر نہ اکسا دیں۔ اس نے خود ہی باپ کی گردن مارنے کا ارادہ کر لیا۔ اگرچہ اسے یہ بھی اندیشہ ہے کہ کہیں اپنے ہاتھ سے باپ کو قتل کرنے پر اس کا دل خون ہو کر نہ بہہ جائے۔ مگر آج حضرت عبداللہ اس لیے خود کو مصیبت میں ڈال رہے ہیں کہ اگر ان کا باپ کسی دوسرے مسلمان کے ہاتھ سے قتل ہوا تو ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قاتل کو قتل کر کے جہنم کے مستوجب قرار پاؤں۔ حضرت عبداللہ (بن عبداللہ منافق) کیسی کشمکش میں مبتلا ہیں ! ایک طرف ایمان اور دوسری جانب محبت فرزندانہ! جس کے ساتھ عبداللہ جیسے سپوت کی اخلاقی قوت بھی شامل ہے۔ آہ! اس سے زیادہ روحانی کشمکش کیا ہو سکتی ہے!

سرور دو عال م صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب عبداللہ کو (ان کے ایسے باپ کے قتل کی اجازت طلب) کرنے پر کیا جواب دیا؟ (فرمایا) ہم قتل کی بجائے ان کے ساتھ مہربانی اپنی مجلس میں حاضر باشی کا موقعہ اور ان کی اصلاح کی کوشش میں کمی نہ رہنے دیں گے۔

اللہ! اللہ! یہ عفو و رحمت! اور ایسے شخص کے ساتھ جو سدا سے مدینہ کے ہر مسلم و غیر مسلم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء کے خلاف مشتعل کرتا رہا ہو۔ لطف یہ ہے کہ آج اس بد نصیب پر رحمت عالم کے کرم و مہر کا پلہ اس کے دشمن کی طرف سے ایذا رسانی کے مقابلہ میں بھاری ہے۔

اس منافق کی جان بخشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لب کشائی کرتا تو سننے والے اسے کہتے ارے بے شرم! ان کے خلاف یہ زبان درازی جنہوں نے تیری جان بخشی فرمائی!

اس واقعہ کے بعد ایک روز عمرؓ خدمت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم میں باریاب تھے۔ ابن ابی کی زبان درازی اور مسلمانوں کے جوش و خروش کا تذکرہ ہونے لگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمرؓ! اگر اس روز میں اسے قتل کرا دیتا تو مخالفین غراتے ہوئے امڈ آتے لیکن اگر آج میں اس کے قتل کا حکم دوں تو کوئی بات پیدا نہ ہو گی! ابن الخطابؓ نے عرض کیا بخدا! مجھے یقین ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہت برکت ہے میرے رائے کے مقابلہ میں !

 

ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کا واقعہ افک

مذکورۃ  الصدر حوادث غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی اور اموال و اسیران جنگ کی تقسیم کے بعد رونما ہوئے، جن کے بعد (فوراً ہی) ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس کا اثر ابتداء میں اس قدر ہمہ گیر نہ تھا جیسا کہ اس نے بعد میں عبرت ناک صورت اختیار کر لی۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوہ میں شرکت کا ارادہ فرماتے، حرم پاک میں سے کسی ایک بی بی کو قرعہ اندازی سے مشایعت میں لے لیتے۔ غزوۂ بنو مصطلق میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہ فخر نصیب ہوا۔ سفر کے موقعہ پر ڈیوڑھی سے ہودج لگا دیا جاتا اور آپ کی تشریف فرمائی کے بعد ساربان ہودج کو اٹھا کر شتر پر رکھ دیتا اور ام المومنینؓ کے تقلیل وزن سے اسے ذرا بار محسوس نہ ہوتا۔

اب معرکہ مریسیع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعجلت واپسی اور صعوبت کا تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ بعد پہلی منزل میں پڑاؤ کیا۔ شب کا کچھ حصہ استراحت فرمانے کے بعد پھر روانگی کا اعلان فرما دیا۔

اس منزل میں ! کوچ کے واقعہ پر ام المومنینؓ رفع حاجت کے لیے لشکر گاہ سے دور تشریف لے گئی تھیں۔ واپسی پر محسوس ہوا کہ گلے کا ہار گر پڑا ہے، الٹے قدم تلاش کرتی ہوئی اسی طرف واپس لوٹیں۔ بہت دیر ہو گئی ممکن ہے پچھلے سفر میں تکان کے غلبہ سے آنکھ بھی جھپک گئی ہو۔ ہار تو مل گیا مگر جب لشکر گاہ میں واپس تشریف لائیں تو قافلے روانہ ہو چکے تھے اور روانگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء نے یہ سمجھا کہ ام المومنینؓ  بھی اپنے ہودج میں ہیں جسے انہوں نے اٹھا کر اونٹ پر رکھ لیا ہے اور اس تصور میں کوچ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم پاک بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشایعت ہی میں ہیں۔ ام المومنینؓ کو اس پر کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہ سمجھے ہوئی تھیں کہ جونہی ساربان کو محسوس ہو گا فوراً سواری واپس لے آئے گا۔ اس لیے ام المومنینؓ نے صحرا میں سفر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ آپ نے برقعہ بدن پر لپیٹ لیا اور زمین پر استراحت فرما ہو گئیں۔

صفوان (بن معطل سلمی) جو رفع حاجت کی وجہ سے کارواں سے بچھڑ گئے تھے اس طرف سے گزرے انہوں نے آیہ حجاب نازل ہونے سے قبل ام المومنین کو دیکھا تھا۔ آپ کو اس حال میں پایا تو بے ساختہ : انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر کہا واحسرتا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حرم پاک! اے ام المومنینؓ! اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ کیسے بچھڑ گئیں ؟ ام المومنین نے کوئی جواب نہ دیا۔ صفوان نے اونٹنی قریب بٹھا کر سوار ہونے کے لیے عرض کیا اور خود دور ہٹ گئے اور ناقہ کو تیز ہانکتے ہوئے چل دئیے تاکہ لشکر کے ساتھ مل جائیں۔ لیکن لشکری مدینہ پہنچ کر تکان سفر دور کرنے اور ابن ابی (منافق) کی ریشہ دوانی سے بچنے کے لیے اور زیادہ گرم رفتار تھے۔ صفوان لشکر سے ذرا دیر بعد ہی دن ہی دن میں شہر میں جا پہنچے۔ ام المومنین بدستور ناقہ پر تشریف فرما تھیں۔ دولت کدہ کے قریب آ کر سواری سے اتریں اور چند قدم چل کر اپنے حجرہ میں پہنچ گئیں

کسی فرد بشر کے قلب میں وسوسہ تھا نہ کسی کی زبان پر ایسا حرف آیا، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دل میں ابوبکرؓ کی نیک طینت صاحب زادی اور صفوان جیسے مرد مومن کے متعلق کسی قسم کا خدشہ گزرا اور حقیقت میں کوئی ایسی بات تھی بھی نہیں۔

 

تبصرہ بر حوادث ایں وقفہ

ام المومنینؓ لشکر کے مدینہ پہنچ جانے سے ذرا دیر بعد روز روشن میں سب کے سامنے شہر میں وارد ہوئیں۔ اتنا فصل تھا ہی نہیں جو کسی کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا۔ دولت خانہ میں وارد ہوئیں تو کشادہ پیشانی بشاش، بشرے پر کسی پریشانی کا شائبہ نہیں اور چونکہ ایسا کوئی شبہ رونما نہ ہوا اس لیے شہر کے حالات کو معمول پر رہنا ہی تھا۔ مسلمان اپنے حریف بنو مصطلق کے مال و اسباب اور گرفتار شدہ اسیروں کی تقسیم میں مصروف ہو گئے تاکہ اپنی محنت کش زندگی میں ایک وقفہ کے لیے نعمتوں کا لطف حاصل کر سکیں۔ جس زندگی میں اپنی قوت ایمان کی بدولت دشمنوں پر غالب آئے، جس زندگی میں ان کے عزم صادق نے انہیں دشمنوں کے مقابلہ میں فائز المرام کیا اور کبھی ایسا بھی ہوتا رہا کہ ان میں سے بعض حضرات کو خدا کی راہ میں اور دین و عقیدہ کی محنت میں موت کے پہلو میں سونا پڑا۔ مسلمانوں کی یہ زندگی ایسی ہے جس سے کل تک عرب خود کو دور رکھنا چاہتے تھے۔

 

سیدہ جویریہؓ

اسیران بنو مصطلق میں ان کے سردار (قبیلہ) حارث کی صاحبزادی بھی گرفتار ہو کر آئیں۔ ان کا اسم گرامی جویریہ تھا۔ جمال ظاہری سے آراستہ اور تقسیم اموال میں ایک انصاری کے حصہ میں آئیں ، جس کے ساتھ بی بی نے مکاتبت کی درخواست کی تو انصاری نے بڑے اونچے گھرانے کی دختر ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ زر فدیہ طلب کیا۔ کتنا بھی سہی نیک محضر جویریہ فدیہ کی رقم میں استعانت کے لیے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئیں۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کے ہاں فروکش تھے۔ عرض کیا میں سردار قبیلہ حارث بن ابی ضرار کی دختر ہوں۔ میری مصیبت سے آپ آگاہ ہیں۔ جس صاحب کے حصہ میں آئی ہوں ان سے مکاتبت کر چکی ہوں۔ آپ کی خدمت میں زر فدیہ کی استعانت کے لیے حاضر ہوئی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک بہتر صورت پیش کرتا ہوں یہ کہ زر فدیہ میں ادا کیے دیتا ہوں اور آپ میرے ساتھ عقد کرنا منظور کر لیجئے!

مسلمانوں نے سنا کہ بنو مصطلق سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خویشاوندی ہو گئی ہے تو سب نے اپنے اپنے حصہ کے اسیروں کو زر فدیہ لئے بغیر رہا کر دیا۔ ان کی تعداد چھ سو تھی جن میں ایک سو صرف بنو مصطلق کی تعداد تھی۔ جناب بنت الحارث کی اس پذیرائی پر ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا جویریہؓ سے بڑھ کر کوئی دوسری عورت اپنی قوم کے لیے برکت کا سبب ثابت نہ ہو سکی!

 

سیدہ جویریہؓ کے بارے میں دوسری اور تیسری روایات

الف۔ حارث اپنی صاحبزادی کا زر فدیہ لے کر حاضر ہوا اور پناہ ملنے کے بعد اسلام لے آیا۔ آزاد ہو جانے کے بعد ان کی صاحبزادی بھی اسلام لے آئیں۔ جس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خطبہ فرمایا اور چار سو درہم حق مہر ادا فرما دیا۔

ب۔ سیدہ کے والد اس تزویج پر رضا مند نہ تھے مگر بی بی کے ایک اور قرابت دار کی شرکت سے یہ عقد مکمل ہوا۔

 

فسانہ افک

ام المومنین حضرت جویریہؓ کی رہائش کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم سرائے سے ملحق حجرہ بنوا دیا۔ ادھر حجرہ تعمیر ہو رہا تھا، ادھر شہر کے بد لگام آپس میں کانا پھوسی کر رہے تھے کہ عائشہ کا لشکر سے بچھڑ کر صفوان کی سواری پر آنے کا کیا مطلب ہے جب کہ صفوان خوبصورت بھی ہے اور جوان بھی۔

مسلمانوں میں سے بی بی حمنہ کے دل میں یہ خلش تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ان کی حقیقی بہن (ام المومنین زینب بنت حجشؓ) پر حضرت عائشہؓ کو اس قدر تقدم کیوں ہے۔ حمنہ نے اس کینہ سے بے تاب ہو کر افترا کو ہوا دینا شروع کر دیا۔ در پردہ ان کے پشت پناہ حسان بن ثابتؓ تھے جن کی مجالس علی ابن ابی طالب سے بہت زیادہ رہتیں۔ بے ایمانوں میں راس المنافقین ابی کے نفس (امارۃ بالسوء) کو بھی اس معاملہ میں ایسی چراگاہ مل گئی جس میں اس کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ہر قسم کی خشک اور تر گھاس موجود تھی۔ ابن ابی نے جی بھر کر ہوائیاں اڑائیں۔

 

وفاداران ازلی یعنی مسلمانان قبیلہ اوس

باوجودیکہ مومنین اوس میں سے ایک ایک متنفس ام المومنین صدیقہ طاہرہؓ کی عفت و عصمت کی قسم کھانے کے لیے وقف تھا، پھر بھی یہ خبر تمام شہر میں پھیل ہی گئی۔

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا اضطراب

شدہ شدہ یہ ہوائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سمع عالی تک پہنچی۔ آپ کے تعجب کی کوئی حد نہ رہی۔ ذہن میں مختلف خیالات موجزن تھے الٰہی! کیا ہوا؟ عائشہ اپنا دامن آلودہ کرنے والی تو نہ تھیں پھر اس علو و تمکنت کے ہوتے ہوئے! ناممکن ہے!

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المومنینؓ کی ذات پر اس قدر اعتماد تھا کہ آپ کے دل میں ان کے متعلق ایسا خیال گزرنا بھی دشوار تھا، لیکن اس کے ساتھ دوسرا پہلو بھی متخیلہ میں گردش کر رہا تھا کہ آخر تو عورت ذات ہے! مرد سے مختلف المزاج! اس کے دل کا بھید کون پا سکتا ہے! پھر یہ خیال گزرتا کہ ان کا سن بھی تو نہیں کہ ہار گم ہو جانے سے انہیں اتنی تشویش لاحق ہو اور نصف شب میں اسے تلاش کرنے کے لیے تگ و دو میں لگ جائیں۔ خداوند! انہوں نے لشکر کے کوچ کرنے سے پہلے ہار کے گم ہو جانے کا تذکرہ مجھ سے کیوں نہ کیا!

غرض رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دماغ میں اسی قسم کے تخیلات گردش کر رہے تھے حتیٰ کہ آپ موافق و مخالف دونوں میں سے کوئی رائے قائم نہ کر سکے۔

 

ام المومنینؓ کی شدید علالت

حرم سرائے رسالت مآب اور دولت کدہ صدیق اکبرؓ دونوں گھروں میں کسی کو جرأت نہ تھی کہ حضرت عائشہؓ کے بالمواجہہ یہ بات زبان پر لا سکے جس کی وجہ سے آپ محض بے خبر تھیں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کرم بھی پہلی سی نہ رہی۔ اس غم میں وہ علیل ہو گئیں۔ تیمار داری کے لیے آپ کی والدہ ماجدہ حاضر خدمت رہتیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیادت بھی فرماتے تو صرف اس جملہ میں کہ طبیعت کیسی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سرد مہری دیکھ کر ام المومنینؓ کے مرض میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ آپ نے اپنے شوہر( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بے اعتنائی کی حضرت جویریہؓ ام المومنین سے رغبت پر محمول فرمایا اور اس خلش کی وجہ سے درخواست کی کہ مجھے صحت یاب ہونے تک اپنے والدین کے ہاں جانے کی اجازت ہو اور میکے تشریف لے آئیں۔ لیکن اجازت سے دل پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے اعتنائی کا اثر اور بھی گہرا ہو گیا۔ مسلسل انیس روز بستر علالت پر پڑی رہیں اور سوکھ کر کانٹا ہو گئیں۔ ابھی تک خود پر عائد شدہ افتراء کا علم بھی نہ ہو سکا۔

 

افک کی تحقیق

اسی دوران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا صاحبو! بعض اشخاص میرے حرم پر ناحق افتراء باندھ رہے ہیں جو میری ایذاء کا موجب بن گیا ہے۔ بخدائے لا یزال! مجھے اپنے اہل بیت کی عصمت و عفت پر پورا یقین ہے اور یہ افتراء جس شخص سے منسوب ہے (صفوان) میں اسے بھی نیک محضر سمجھتا ہوں اور وہ میرے ہاں اگر آیا بھی ہے تو میری معیت میں !

اسید بن حضیر (از قبیلہ اوس) نے سروقد کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مفتری اگر قبیلہ اوس میں سے ہے تو اس کا نام معلوم ہونے پر ہم انسداد شر کر سکتے ہیں اور اگرا فتراء کنندہ برادران خزرج (قبیلہ) میں سے ہو تو اس کے متعلق جو ارشاد ہو بسر و چشم تعمیل کے لیے حاضر ہیں۔ بخدا! ایسا بد نہاد مفتری قابل گردن زدنی ہے۔

یہ سن کر قبیلہ خزرج کے سربراہ جناب سعد بن عبادہؓ دست بستہ عرض گزار ہوئے کہ اسید نے تمام بات ہمارے سر تھوپ دی ہے۔ کاش! اگر اس افواہ کا مبداء قبیلہ اوس ہوتا تو اسید یوں سخن آرائی نہ فرماتے!

طرفین کی تقریر نے اوس و خزرج میں اشتعال پیدا کر دیا لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و حسن مداخلت سے یہ فتنہ سرفراز نہ ہونے پایا۔

 

اصلی حقیقت پر ام المومنینؓ کی اطلاع یابی

آخر یہ سناؤنی مہاجرین کی ایک نیک نہاد خاتوں کے ذریعہ ام المومنینؓ کے گوش گزار ہوئی۔ عصمت پناہ طاہرۂ صدیقہؓ اپنے دامن عفت پر بدنمائی کی خبر سے کلیجہ پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ شدت گریہ سے دل پارہ پارہ ہونے کے قریب آ پہنچا۔ بستر سے اٹھیں اور خود کو اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں ڈال دیا، آواز مدہم پڑ گئی۔ ذرا حواس سنبھلے تو اپنی والدہ سے یوں شکوہ فرمایا والدۂ مہربان! آپ نے تو ضرور سنا ہو گا پھر مجھ سے کیوں چھپائے رکھا؟ ام المومنینؓ کا گریہ دیکھ کر آپ کی والدہ نے عرض کیا دختر نیک طینت! ایسی عورت کون سی ہے جو تمہاری طرح اپنے شوہر کی چہیتی ہو اور اس کی سوکنیں اس سے دشمنی نہ کریں یا دوسرے اشخاص اس کے حسد سے جل کر کباب نہ ہوں ! لیکن طاہرۂ  صادقہؓ کو والدہ کی اس دل جوئی سے ذرا تسکین نہ ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حد سے زیادہ نگہ کرم کے بعد اس سرد مہری کا تصور فرماتیں تو اس خطرہ سے کہ مبادا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں آپ کے متعلق گرہ بیٹھ گئی ہو، ام المومنینؓ کا اضطراب اور سوا ہو جاتا۔ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھا کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا ارادہ ہو جاتا۔ بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے صدقے میں تسلیم اتہام کے بعد قسم سے خود کو تہمت سے بری کرنے کے مسودے بناتیں۔ کبھی یہ منصوبہ کہ ان دنوں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ پیش آ رہے ہیں میں بھی آپ سے اسی قسم کی بے اعتنائی کا برتاؤ کروں۔ آخر یہ ذہن میں آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خدا کے برگزیدہ پیغمبر ہیں ، جس نے آپ کو ازدواج پر برتری عنایت فرما دی ہے، یہ افتراء عوام کی کارستانی ہے جنہیں میرے قافلہ سے بچھڑ جانے کے بعد صفوان کے ناقہ پر آنے سے موقعہ مل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں دخل نہیں !

بالآخر ام المومنینؓ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے خداوند! مجھے سیدھی راہ بتا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر میری بے گناہی واضح ہو جائے اور مجھ پر پہلے کی طرح نگاہ کرم منعطف فرمانے لگیں۔

 

تحقیق افک میں مجلس مشاورت

عام چہ مے گوئی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یک سو نہ تھے۔ آخری تدبیر پر توجہ فرمائی اور ابوبکرؓ کے ہاں تشریف لے جا کر اپنے معتمدین میں سے اسامہ ابن زیدؓ اور علی بن ابی طالبؓ کو طلب فرما کر دونوں سے مشورہ پوچھا۔ اسامہؓ نے سادگی سے بریت کرتے ہوئے نفس الامر کو افتراء و بہتان سے تعبیر کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی تصور تھا ان کے بعد علیؓ سے دریافت فرمایا تو انہوں نے تصدیق و تکذیب دونوں سے یک طرف ہو کر ان النساء لکثیر (عورتوں کی کمی نہیں ) کہنے کے ساتھ عرض کیا اس معاملہ میں ام المومنینؓ کی کنیز (بریدہ: م) سے بھی دریافت فرما لیجئے اور علیؓ نے کنیز کے آتے آتے انہیں اچھی طرح زد و کوب کیا تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچی شہادت پیش کریں۔

 

کنیز! بخدا وہ تو سراپا عصمت ہیں

اور کنیز نے اس کے سوا بھی ام المومنینؓ کی بریت میں بہت کچھ کہا (اصل واقعہ بخاری باب حدیث الافک: کتاب المغازی میں ہے:م)

 

ام المومنینؓ سے جواب طلبی

اس تفتیش کے بعد ام المومنینؓ سے دریافت کرنا باقی رہ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جناب ابوبکرؓ کے ہاں تشریف لائے۔ اس وقت سیدہؓ کے والدین کے سوا ایک انصار خاتون بھی حاضر خدمت تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سوال پر ام المومنینؓ نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ خاتون انصار بھی گریہ ضبط نہ کر سکیں۔ سیدہ صدیقہؓ کے تاثرات کا مبنی یہ تھا کہ جو وجود گرامی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اس حد تک قدر دان تھا، ان پر ہر طرح سے انہیں اعتماد تھا یا یہ کہ آج انہوں نے انہیں یوں نظروں سے گرا دیا۔

اور جب ام المومنینؓ نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ کیا تو آنسو خود بخود تھم گئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہؓ! اللہ سے ڈرتی رہو۔ اگر لوگوں کا خیال صحیح ہے تو اس کے حضور توبہ کرو! اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توجہ قبول فرماتا ہے! آنحضرت کی تنبیہ ختم ہونے کے ساتھ ہی ام المومنینؓ کی رگوں میں غصہ سے خون دوڑ اٹھا، آنکھوں سے آنسو بہنا بند ہو گئے۔ پہلے انہوں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا۔ وہ مہر بہ لب بیٹھی تھیں پھر والد پر نظر دوڑائی۔ وہ بھی خاموش! ام المومنینؓ نے دونوں سے گلہ فرمایا آپ لوگ خاموش بیٹھے ہیں ؟ دونوں نے عرض کیا ہمیں حقیقت کا کوئی علم نہیں ! اور یہ کہہ کر دونوں نے سر جھکا لیا۔ ام المومنینؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ جس سے قدرتاً غصہ کا ہیجان کم ہو گیا۔ اسی گریہ و زاری کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جو آپ مجھے توبہ کا مشورہ دے رہے ہیں ، جب میں نے گناہ ہی نہیں کیا پھر توبہ کس جرم میں کروں ؟ دشمن مجھ پر جو افتراء باندھ رہے ہیں میں اس حقیقت سے خوب واقف ہوں۔ اسر میں توبہ کروں گی اور اگر میں اپنی بریت پر کچھ کہوں تو اللہ تعالیٰ پر میری پاک دامانی پوری طرح منکشف ہے اور اگر میں لوگوں کے سامنے اپنی بریت کروں تو وہ میری تصدیق کیوں کرنے لگے؟ کچھ دیر سکوت کرنے کے بعد ام المومنینؓ نے کہا میں اپنی صفائی میں اتنا ہی کہہ سکتی ہوں جتنا حضرت یوسف علیہ السلام کے والد گرامی (جناب یعقوب علیہ السلام) نے کہا تھا:

فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون(18:12)

خیر صبر و شکر! اور جو حال تم بیان کرتے ہو خدا ہی مدد کرے کہ اس کا پردہ فاش ہو۔

 

مجلس میں طویل خاموشی کے بعد نزول برمات

اس گفتگو کے بعد مجلس پر ایسا وقفہ گزرا جس میں کسی کی زبان پر ایک حرفہ بھی نہ آیا۔ دوسروں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سکوت فرما تھے۔ کسی کو طول و اختصار وقفہ کا تصور ہی نہ تھا۔

اتنے ہی میں نزول وحی کے آثار ظاہر ہوئے۔ ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ردا سے ڈھانک دیا گیا۔ بالین پر تکیہ لگ گیا۔ ام المومنینؓ فرماتی ہیں اس وقت نہ تو مجھے اپنی بے گناہی کی وجہ سے نزول وحی پر کوئی دغدغہ تھا، نہ ذات باری کے منصف ہونے میں شبہ لیکن میری ماں اور باپ ایسے ضغطے میں تھے، جیسے روح مائل پرواز ہو۔ انہیں خطرہ تھا کہیں وحی سے الزام کی تصدیق نہ ہو جائے! ان کی یہ حالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراغ وحی سے بعد ہوئی۔ جب نبی صلوات اللہ علیہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہے تھے اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا:

ابشری یا عائشہ! قد انزل اللہ براء تک!

اے عائشہؓ! مبادک باد! اللہ نے تمہاری بریت میں قرآن نازل فرما دیا۔

ام المومنینؓ نے صرف الحمد اللہ کہا اور خاموش رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت مسجد میں تشریف لائے اور مسلمانوں کو یہ آیتیں سنائیں :

ان الذین جاء و بالافک عصبۃ منکم لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیر لکم لکل امریء منھم ما اکتسب من الاثم والذی تولی کبرہ منھم لہ عذاب عظیم (11-24)

مسلمانو! جن لوگوں نے (ام المومنین عائشہؓ کی نسبت) طوفان اٹھا کھڑا کیا تم ہی میں کا ایک گروہ ہے اس (طوفان) کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہوا (کہ سچے مسلمان اور منافق کی پہچان پڑے) طوفان اٹھانے والوں میں سے جتنا گناہ جس نے سمیٹا (اس کی سزا) بھگتے گا اور جس نے ان میں سے طوفان کا بڑا حصہ لیا (ویسی ہی) اس کو بڑی (سخت) سزا ہو گی۔

لولا اذا سمعتموہ ظن المومنون والمومنت بانفسھم خیرا وقالو ھذا افک مبین (13-24)

مسلمانو! جب تم نے ایسی (نالائق) بات سنی تھی ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں نے اپنے (مسلمان بھائی بہنوں کے) حق میں نیک گمان کیوں نہ کیا اور سننے کے ساتھ ہی کیوں نہ بول اٹھے کہ یہ صریح بہتان ہے۔

لولاء جاء وعلیہ باربعۃ شھداء فاذلم یاتوا بالشھداء فاولئک عنداللہ ہم الکاذبون (15-24)

(جن لوگوں نے یہ طوفان اٹھا کھڑا کیا) اپنے بیان (کے ثبوت) پر چار گواہ کیوں نہ لائے؟ پھر جب گواہ نہ لا سکے تو خدا کے نزدیک (بس) یہی جھوٹے ہیں۔

ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ فی الدنیا ولاخرۃ لمسکم فی ما افضتم فیہ عذاب عظیم (14-24)

اور اگر تم (مسلمانوں ) پر دنیا اور آخرت میں خدا کا فضل اور اس کا کرم نہ ہوتا تو جیسا تم نے ایسی (نالائق) بات کا چرچا کیا تھا اس میں تم پر کوئی بری آفت نازل ہو گئی ہو۔

اذ تلقونہ بالسسنتکم وتقولون بافواھکم ما لیس لکم بہ علم وتحسبونہ ھینا وھو عنداللہ عظیم (15-24)

کہ تم لگے اپنی زبانوں سے اس کی نقل در نقل کرنے اور اپنے منہ سے ایسی بات بکنے جس کی تم کو مطلق خبر نہیں اور تم نے اس کو ایسی ہلکی (سی) بات سمجھا حالانکہ (وہ) اللہ کے نزدیک بری سخت بات ہے۔

ولو لا اذا سمعتموہ قلتم ما یکون لنا ان نتکلم بھذا سبحنک ھذا بھتان عظیم (16-24)

اور جب تم نے ایسی نالائق بات سنی تھی تو سننے کے ساتھ کیوں نہیں بول اٹھے کہ ہم کو ایسی بات منہ سے نکالنی زیبا نہیں ؟ حاشا و کلا! یہ تو بڑا (بھاری) بہتان ہے۔

یعظکم اللہ ان تعودوا! لمثلہ ابدا ان کنتم مومنین ویبین اللہ لکم الایت واللہ علیم حکیم (18,17-24)

مسلمانو! خدا تم کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو پھر کبھی ایسا نہ کرو اور اللہ (اپنے) احکام تم سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ (سب کے حال سے) واقف اور حکمت والا ہے۔

ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا ولآخرۃ واللہ یعلم وانتم لا تعلمون (19:24)

تو جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں فاحش باتوں کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا درد ناک ہے اور آخرت میں (بھی) اور ایسے لوگوں کو اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

 

تعزیر افک

اور اسی (افک) کے سلسلہ میں پارسا عورتوں کو تمہم کرنے کی سزا کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا:

والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتو باربعۃ شھداء فاجلدوھم ثمنین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا واولئک ھم الفاسقون (4:24)

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں اور چار گواہ نہ لا سکیں تو ان کے (اسی) درے مارو اور (آئندہ) کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ خود بدکار ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افتراء سازی کے مندرجہ ذیل مجرموں کو اس آیہ کی تعمیل میں اسی دروں کی سزا دی۔ مسطح بن اثامہ حسان بن ثابت اور (بی بی ) حمنہ (دختر حجش) کو انہی ہرسہ نے صدیقہ طاہرہ (ام المومنینؓ) کے خلاف طومار باندھا تھا۔ نزول قرآن کے بعد حضرت عائشہؓ کو پہلے کی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں وقار حاصل ہو گیا اور اپنے باپ کے گھر سے آپ حرم سرائے نبوت میں تشریف لے آئیں۔

 

سر ولیم میور کی رائے

واقفہ افک پر سر ولیم میور (جن کی توثیق کے بغیر وحی الٰہی کی تصدیق ناکافی تھی جیسا کہ میور صاحب کے افادات ابتدا میں گزر چکے ہیں :م) فرماتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت عائشہؓ افک سے قبل اور اس کے بعد دونوں عہدوں میں اس قدر پاک دامنی سے رہیں کہ آپ کے متعلق ایسا شبہ نہ صرف بے بنیاد بلکہ اس کی تردید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

 

مجرمین کی تعزیر کے بعد

ان میں سے حسان بن ثابتؓ سزا یابی کے بعد پہلے ہی کی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لطف و عنایات کا مورد بن گئے۔ مسطح کی دست گیری حضرت ابوبکرؓ جس طرح ہمیشہ فرماتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش سے از سر نو ان کا وظیفہ جاری فرما دیا۔ مدینہ کی فضا بدستور اپنی سطح پر آ گئی۔ مسلمانوں کے دلوں میں ام المومنینؓ کا وقار پہلے سے زیادہ قائم ہو گیا۔ خاتم النبینﷺ یک سوئی سے تبلیغ اسلام پر منعطف ہو گئے اور مسلمانوں کے سیاسی سود و بہبود میں تگ و دو کی صورت میں اس قرار داد کا وقت قریب آ گیا جس کی بدولت اللہ نے مسلمانوں کو فتحاًمبیناً (1:48) سے سرفراز فرمایا اور جس کی تفصیل اس سے ملحقہ (بیسویں ) فصل میں ملاحظہ فرمائیے گا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100045.txt:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید