FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

حمد و مدح

 

 

 

                پروفیسر ڈاکٹر ادیب رائے پوری

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

حمد

 

ترے ذکر سے مری آبرو تری شان جَلّ جَلالہٗ

تو مرے کلام کا رنگ و بو تری شان جَلّ جَلالہٗ

 

جو چٹک کے غنچہ کھِلے یہاں تو کرے وہ وصف ترا بیاں

ہے چمن چمن تری گفتگو تری شان جَلّ جَلالہٗ

 

مرے دل میں عشقِ نبی دیا جو دیا بجھا تھا جلا دیا

جسے چاہے جیسے نوازے تو تری شان جَلّ جَلالہٗ

 

جو طلب کا بھید ہیں جانتے وہ تجھی کو تجھ سے ہیں مانگتے

جو ترے ہوئے ہیں انہیں کا تو تری شان جَلّ جَلالہٗ

 

یہ ادیب میں تھا کہاں تری شان کرتا جو یوں بیاں

ہے ترے کرم سے یہ سرخرو تری شان جَلّ جَلالہٗ

٭٭٭

 

 

 

 

حمد

 

جو تصوّر میں نہیں جس کی نہیں کوئی خبر

اس کی تصویر بناؤں میں قلم سے کیونکر

 

وہ خیالوں میں اُتر جائے تو واسع کیسا

چند لفظوں میں سماجائے تو جامع کیسا

 

جس کے اِک نام کو سو نام سے تعبیر کریں

جس کے اِک حرف کو سو ڈھنگ سے تحریر کریں

 

وہ جو سبحان بھی، رحمان بھی، برہان بھی ہے

وہ جو دَیّان بھی، حَنّان بھی، مَنّان بھی ہے

 

عرش والا بھی وہی، رَبّی الاعلی بھی وہی

زور آور بھی وہی، بخشنے والا بھی وہی

 

خُدا کی ذات کو زیبا ہے شانِ یکتائی

اُسی نے جرأتِ اظہار مجھ کو فرمائی

 

اسی کے لطف سے شاعر بنا، ادیب ہوا

ثناء حضور کی لکھے وہ خوش نصیب ہوا

 

یہ اس کی شان کہ اس کے حضور میں ہو کر

یہ دے رہا ہے صدا قلبِ مضطرب، رو کر

 

کریم ہے تو مجھے نُدرتِ بیاں دے دے

دہن میں حافظِ شیرا زؒ کی زباں دے دے

 

وہ نطق دے کہ ہر اک رنگ سے جُدا کر دے

کرم سے مثنوی رومؒ کی اَدا کر دے

 

بنا دے خواب کی اقبالؒ کے، مجھے تعبیر

ہو پائے فکر میں مضبوط، عشق کی زنجیر

 

ترے کرم سے نظر آئے حُسن ہر خامی

ہو میری طرزِ نِگارش، عبارتِ جامیؒ

٭٭٭

 

 

 

 

مناجات

 

میں تیرے حُسنِ کرم اور عنایتوں کے نثار

ہو میرے رنگ میں سعدی کے گلستاں کی بہار

 

کلامِ عارف عرفی کا پیرہن بن جاؤں

میں زلفِ نعت کی خوشبو سے شب دلہن بن جاؤں

 

سِوا حضور کوئی خواب میں بھی آئے نہ غیر

طفیل بردۂ الطاف بر امامِ بوصیرؒ

 

ترے کرم کے تصدّق، کر اور اِک احسان

کہ میری فکر پہ سایہ فگن رہیں حسّانؓ

 

تمام عمر وہ نعتوں کا اہتمام رہے

کہ میرے گرد فرشتوں کا اژدہام رہے

 

طفیلِ شاہِ اُمم، جن پہ صَد سَلام و درود

ادیب کا بھی ثناء میں مقام ہو محمُود

٭٭٭

 

 

 

مناجات

 

تو جہاں کہیں بھی ہے تو جہاں کہیں رہا

نہ خیال کی پہنچ، نہ خِرد کو راستہ

نہ کمندِ آگہی سے بلند ہی رہا

کوئی جستجو میں گُم کوئی عرش تک رسا

وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ

 

یہ مکان و لامکاں کی عبث ہے گفتگو

تو ہی نورِ مہر و مہ، تو ہی گل کا رنگ و بُو

رہا سب کے روبرو، رہی پھر بھی جستجو

کوئی راہ کھو گیا، کوئی تجھ کو پا گیا

وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ

 

مجھے سرفراز کر، مرے بخت کو جَگا

جو عزیز ہو تجھے، وہی کر مجھے عَطا

جو تجھے پسند ہو، اسی راہ پر چلا

جو ترے غضب میں ہوں، مجھے ان سے رکھ جدا

وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ

٭٭٭

 

 

 

 

نعتیں

 

 

اے سکونِ قلب مضطر اے قرارِ زندگی

اے امینِ رازِ فطرت، اے بہارِ زندگی

 

تیری ہرہر جنبش لب برگ و بارِ زندگی

تو دیارِ عشق میں ہے شہریارِ زندگی

 

تیرے قدموں کی بدولت تیری آمد کے طفیل

گلستاں ہی گلستاں ہے خار زارِ زندگی

 

ترا قربِ خاص پاکر تیرے دستِ پاک میں

سنگریزے بن گئے ہیں شاہکارِ زندگی

 

جس نے پائی تیری نسبت ہو گیا وہ ذی وقار

اے فروغِ آدمیت، اے وقارِ زندگی

 

شاعرانِ حُسن فطرت، صاحبان درک و فہم

ہے قدم بوسی میں ہر اک وضعدارِ زندگی

 

درس تیرا ظالموں سے جنگ، مظلوموں سے پیار

کتنی سادہ ہو گئی ہے رہ گذارِ زندگی

 

آدمی کو آدمی سے پیار کا نسخہ دیا

تو طبیبِ خلق ہے، تیمار دارِ زندگی

 

تو نے آ کر دی نگاہوں کو بصیرت حُسن کی

ورنہ تھی محدود لفظوں میں، بہارِ زندگی

 

تو نے صحرائے تخیل میں لگائے گلستاں

اور چٹانوں سے نکالے آبشارِ زندگی

 

گونج اٹھے نغمے لگائی تو نے جب مضرابِ عشق

بربطِ فطرت پہ تھا خاموش تارِ زندگی

 

بے خبر دنیا و ما فیہا سے تو نے کر دیا

کیا شرابِ زندگی ہے، کیا خمارِ زندگی

 

روح و جاں کی سلطنت پر حکمرانی ہے تری

ہم غلامِ عشق ہیں، تو تاجدارِ زندگی

 

عشق کی دیوانگی کے سامنے سب ہیچ ہیں

توڑ دیتی ہے محبّت، ہر حصارِ زندگی

 

تیرے پائے ناز کا اک لمس پاکر ہے رواں

چھن چھناتی، گنگناتی جوئبارِ زندگی

 

تیری توصیف وثناء مدح سے آراستہ

ہے ادیبِ خوش بیاں کا نغمہ زار زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھ میں جب اشک آیا ہو گئی نعتِ رسول

درد جب دل میں سمایا ہو گئی نعتِ رسول

 

جب کسی حق کی داستاں کو زندہ کرنے کے لیے

ظلم سے پنجہ لڑایا ہو گئی نعتِ رسول

 

جہل کی تاریکیوں میں اعتماد علم کا

اِک دیا جس نے جلایا ہو گئی نعتِ رسول

 

جب کسی معصوم کو پایا یتیمی کا شکار

اپنے سینے سے لگایا، ہو گئی نعتِ رسول

 

امتیازِ بندہ و آقا مٹانے کے لیے

جب کوئی میداں میں آیا ہو گئی نعتِ رسول

 

کھا کے سنگ دشمنان دیں اگر یہ کہہ دیا

کر بھَلا اس کا خدایا، ہو گئی نعتِ رسول

 

یاد کر کے عرصۂ شعبِ ابی طالب کبھی

جس نے دو آنسو بہایا ہو گئی نعتِ رسول

 

محسنِ انسانیت کی جان کر، سنّت اگر

جس نے روتوں کو ہنسایا، ہو گئی نعتِ رسول

 

کیا بتاؤ ں کس قدر ہیں مہرباں مجھ پر حضور

جب قلم میں نے اٹھایا ہو گئی نعتِ رسول

 

سیرتِ خیر البشر کو دیکھتا جا اے ادیب!

جو ورق نے تو اُٹھایا ہو گئی نعتِ رسول

٭٭٭

 

 

 

 

اشکوں سے بھی لکھ ان کی ثناء ان کا قصیدہ

لکھ جیسے وہ ہیں ایسا نہ دیدہ نہ شنیدہ

 

جب یاد کیا قلب ہوا نافہ آہو

جب نام لیا ہو گئے لب شہد چکیدہ

 

دیکھا ہے بلندی پہ ہر اِک جا سرِ افلاک

لیکن اسے دیکھا ہے مدینہ میں خمیدہ

 

حسرت میں زیارت کی بہے جاتے ہیں آنسو

اچھا ہے وضو کرتا ہے دیدار کو دیدہ

 

کیا اس کو خریدیں گے سلاطینِ زمانہ

اے رحمتِ عالم ! تیری رحمت کا خریدا

 

امت ہے بہت زار و پریشان کرم کر

چادر بھی دریدہ ہوئی، دامن بھی دریدہ

 

وہ شاعری اچھی کہ دکھائے جو یہ منظر

آغوشِ کرم میں سگِ دنیا کا گزیدہ

 

محتاج نہ ہو گا کبھی وہ ہاتھ جو لکھے

اس مصطفٰے و منعم کی سخاوت کا قصیدہ

 

محروم نہیں ہوں گی بصارت سے وہ آنکھیں

گو خواب سہی، ہوں رخِ انوار کی دیدہ

 

بس ایک ہی جھونکا ہے بہت شہرِ نبی کا

آواز یہ دیتے ہیں تن و قلب تپیدہ

 

لایا درِ رحمت پہ مجھے جادۂ رحمت

کافی مری بخشش کے لیے ہے یہ قصیدہ

 

جس راہ سے گُذرا ہے ادیب ان کی ثناء میں

رخشندہ وہ تابندہ، درخشاں و و میدہ

٭٭٭

 

 

 

 

ثنائے احمد مرسل میں جو سخن لکھوں

اسی کو نُدرتِ فکرو کمال فنِ لکھوں

 

وہ لفظ جس کا ہو مفہوم شانِ ختم رُسل

میں اس کو چشمۂ سیماب کی کرن لکھوں

 

وہ جستجو جو رہے فکرِ نعت میں ہر دم

میں اس کو رفرفِ افلاک فکر و فن لکھوں

 

وہ روح میں مہکتا ہے رات دن اِک نام

اُسے گلاب لکھوں یا کہ شب دلہن لکھوں

 

اُنہیں کے نام کو لکھوں حیاتِ نو کا پیام

حیاتِ نو کے جو مضمون کا متن لکھوں

 

فضا میں رنگ بکھر جائیں جس تصوّر سے

میں اس خیال کو فطرت کا بانکپن لکھوں

 

صبا جو کاکلِ مُشکیں کا لَمس پا کے چلے

میں اس صبا کو رم آہوئے ختن لکھوں

 

وہ گردِ کوچۂ بطحا، رموز کا جامہ

اسے شہیدِ محبّت کا میں کفن لکھوں

 

ہزار جان، گرامی نثارِ لذّتِ غم

جوان کی یاد کی دل میں کوئی چُبھن لکھوں

 

وہ نُور جس کا اُجالا محیطِ کون و مکاں

میں کیوں نہ اس کو محمد کا پیرہن لکھوں

 

وہ ایک نام جو تشبیہ کا نہیں محتاج

میں اس کی شرح میں کیا؟ رَبِّ ذو المنن لکھوں

 

ہے جُوئے شِیر اگر نعتِ مصطفٰے لکھنا

تو پھر ادیب تجھے کیوں نہ کوہکن لکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جلالِ آیت قرآں کو جو سہار سکے

نبی کے دل کے سِوا دوسرا مقام نہیں

 

وہ لذّتِ غمِ عشقِ رسول کیا جانے

درود لبوں پر نہیں سلام نہیں

 

وہ دشمنوں کا ہدف وہ قریش کا مظلوم

مگر کسی سے لیا کوئی انتقام؟ نہیں

 

خیال اس کے تعقب میں تھک کے بیٹھ گیا

سفر براق پہ اس کا مگر تمام نہیں

 

تمام عمر نہ پائے، ملے تو لمحوں میں

متاعِ عشقِ محمد مذاقِ عام نہیں

 

ادیب ان کے ثناگو میں نام ہے میرا

مقامِ شکر کہیں اور میرا نام نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

خراجِ اشک سے قائم ہے قیصری میری

سرورِ عشقِ رسالت، سکندری میری

 

یہ میرا عہدِ غلامی، غلامیِ شہِ دیں

اس عہد میں ہے خیالوں پہ افسری میری

 

غزل کا پھیر کے رخ لے چلا ثناء کی طرف

حرف حرف کو پسند آئی رہبری میری

 

امیرِ شہرِ سخن ہوں فقیرِ کوئے رسول

انہیں سے فقر، انہیں سے تونگری میری

 

متاعِ نعت اِسی در سے میں نے پائی ہے

نہ کیوں ہو ناز کے قابل سخن وری میری

 

وہ واردات جو گذری ہے میرے دل پہ ادیب

سمجھ رہے ہیں اسے لوگ شاعری میری

٭٭٭

 

 

 

 

 

خدا نے دی ہے زباں ذکر مصطفٰے کے لیے

اب اس سے کام نہ لے اور کچھ خدا کے لیے

 

اِدھر اٹھائے نہ تھے ہاتھ التجا کے لیے

اُدھر سے دستِ کرم بڑھ گیا عطا کے لیے

 

اٹھو !تو پرچمِ ذکرِ رسول بن کے اٹھو

جھکو! تو خاک بنو پائے مصطفٰے کے لیے

 

اگر چلے تو مہک بن کے شہرِ بطحیٰ میں

رہے تو ٹھنڈی ! یہی حکم ہے ہوا کے لیے

 

مریضِ ہجرِ مدینہ ہوں، مِرے چارہ گرو !

دِلادو !اذنِ حضوری مجھے شِفاء کے لیے

 

بس اتنی بات کہ ہم ہیں تمہارے شیدائی

تُلا ہوا ہے زمانہ ہراک جفا کے لیے

 

ہزار شکر بجا لاؤ اس عطا پہ ادؔیب

یہ اشک تم کو ملے ہیں جو التجا کے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

دیارِ مدح میں الفاظ کا جب کارواں نکلا

عَلم لے کر قلم نکلا، اَدا بن کر بیاں نکلا

 

بصد اندازِ رعنائی، بصد حُسنِ شکیبائی

برنگ گلستاں نکلا، بشکل کہکشاں نکلا

 

اُدھر چھِڑکا جو رِہ میں چاندنی کو ماہِ نُدرت نے

اِدھر خورشید معنیٰ در قبائے صدیاں نکلا

 

وفد قوسِ قزح لائی کہ شامِل رنگتیں کر لو

طیورانِ چمن دوڑے کہ دیکھو گلستاں نکلا

 

امیرِ کارواں کو منتخب کرنے کی بات آئی

فقط اِک عشق ایسا تھا جو سب میں کامراں نکلا

 

پئے پرواز، برآقِ تخیّل، سامنے آیا

تجسّس نے ذرا سی ایڑ دی وہ لامکاں  نکلا

 

بہت ہی ساز و ساماں خیمۂ فکر سخن میں تھا

مگر ان سب میں آنسو ہی متاعِ کارواں نکلا

 

مرصّع ہو گئی جب نعت حُسن لفظ و معنیٰ سے

ادائے نعت کا اِک مسئلہ بھی امتحاں نکلا

 

سُنایا بُلبل و قمری نے سو انداز سے لیکن

ادیبِ خُوش نَواہی تھا جو سب میں خوش بیاں نکلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

شبِ غم کاٹ دے میری، امیدوں کی سحر کر دے

مرے غم کو خوشی کر، میرے عیبوں کو ہنر کر دے

 

امید و بیم سے گذروں فسونِ وہم سے نکلوں

مجھے اپنی حضوری دے مرا حال دگر کر دے

 

وہ میرے حال سے واقف ہیں ان کو ہے خبر میری

بھلا کیسے کہوں کوئی انہیں میری خبر کر دے

 

بھلا یہ جان و دل لے کر کہاں جائے گا طیبہ سے

انہیں یا نذر کر یا صدقۂ خیر البشر کر دے

 

اگر تو چاہتا ہے دوزخ دنیا سے آزادی

مدینہ ہو تیرا گھر، یہ تمنّا دل میں گھر کر دے

 

تیری دولت تیرا سایہ غم، تیرے آنسو ہیں

بہا کر نعت میں نادان ان کو تو گہر کر دے

 

یہ میری زندگی کا کارواں، ہے اے خدا ! اس کا

مدینہ جس طرف ہے اس طرف روئے سفر کر دے

 

جگہ دے دے ادیب خوش نواء کو اپنے قدموں میں

رہی فردِ عمل اس کو جِدھر چاہے اُدھر کر دے

٭٭٭

 

 

 

 

عشقِ شہِ کونین میں دل داغ جگر داغ

گلزارِ محبّت کی ہے شاخوں پہ ثمر داغ

 

لکھتا ہوں شبِ ہجر میں جب نعت نبی کی

تحریر کے نقطے مجھے آتے ہیں نظر داغ

 

کوڑی کے کوئی مول نہ لے لعلِ بدخشاں

جو ہجرِ مدینہ کے دکھاؤں میں اگر داغ

 

دیکھا جو نظر بھر کے سوئے گنبدِ خضرا

بعد اس کے نظر آئے مجھے شمس و قمر داغ

 

اِک میں ہی نہیں ہجر میں، افلاک کا عالم

دیکھو تو نظر آئیں گے تا حدّ نظر داغ

 

اِس جسد میں کچھ قلب و نظر پر نہیں موقوف

آقا کی عنایت سے ہے سب گھر کا یہ گھر داغ

 

ہر داغ کو ہے نورِ عَلیٰ نوُر کی نسبت

الماس کوئی داغ، کوئی مثلِ گہر داغ

 

خورشیدِ محبّت کی طمازت سے پگھل کر

بن جاتا ہے عشّاق کے سینوں میں جگر داغ

 

بخشش کا سہارا ہے شفاعت کی سند ہے

کہنے کے لیے لفظ بیاں میں ہے اگر داغ

 

جس داغ کو عشقِ شہِ ولا سے ہے نسبت

ظلمت کے ہر عالم میں ہے وہ نُورِ سحر، داغ

 

دھوتے ہیں گناہوں کی سیاہی کے یہ دھبّے

اُلفت میں دکھاتے ہیں کبھی یہ بھی ہُنر داغ

 

رکھتا تھا ادیب اپنی جبیں در پہ جھُکائے

دھوتا تھا گناہوں کے وہاں شام و سحر داغ

٭٭٭

 

 

 

کیا شور ذکر و فکر، دعا پنجگانہ کیا

آتا نہیں ہے عشق میں آنسو بہانا کیا

 

آنکھیں بھی اشکبار ہیں لب پر درود بھی

رحمت کو اب بھی چاہیے کوئی بہانہ کیا

 

رکھا جو ہاتھ سینے پہ دھڑکن نہیں ملی

دل، ہو گیا مدینے کی جانب روانہ کیا ؟

 

وہ بھی ہیں آستاں بھی ہے، کر دے نثار جاں

پھر لوٹ کر اب آئے گا ایسا زمانہ کیا

 

موسیٰ علیہ السلام کا حال مانعِ حسرت ہوا ہمیں

تابِ نظر نہیں ہو تو نظریں اٹھانا کیا

 

تسبیح دانے دانے مُصلّا ہے تار تار

آیا ہے خانقاہ میں کوئی دوانہ کیا

 

ڈرتا ہے کس لیے غمِ دوراں سے رات دن

پالا نہیں ہے تو نے غمِ عاشقانہ کیا

 

یہ مرحلہ ہے زیست کا طے کر اسے بھی

اب مر کے ہو گا سوئے مدینہ روانہ کیا

 

دیدار بھی حضور کا، کوثر کا جام بھی

دیکھو قصیدہ لکھ کے ملا ہے خزانہ کیا

 

سر کو جھکا دیا جو درِ یار پر ادیؔب

جب تک قضا نہ آئے تو سر کو اٹھا نا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

میں ہوں غمِ طیبہ میں گرفتار چنانچہ

ہیں دیدہ و دل زندہ و بیدار چنانچہ

 

غم بھی ہیں مداوا بھی ہیں غم کا میرے آنسو

رہتی ہے سدا آنکھ گہر بار چنانچہ

 

جُز چشمِ محمدﷺ کوئی دیکھے نہ خدا کو

موسیٰ کا مقدّر نہ تھا دیدار چنانچہ

 

مخلوق میں کوئی بھی نہ تھا ان سا مکرّم

بخشش کی بندھی ان پہ ہی دستار چنانچہ

 

تم سا تو نہ صادق ہے کوئی اور نہ امیں ہے

دشمن کو بھی کرنا پڑا اقرار چنانچہ

 

محدود بشر تک نہ رہے ان کی بزرگی

جھک جاتے تھے تعظیم کو اشجار چنانچہ

 

اب آپ ہی آ کر مجھے دامن کی ہوا دیں

زندہ اسی حسرت میں ہے بیمار چنانچہ

 

اِدراک سے بَالا ہے تخیّل سے پَرے ہے

محروم رسائی سے ہیں افکار چنانچہ

 

رہتا ہے ادیب آپ کی نعتوں کے چمن میں

لکھتا ہے نئے رنگ میں ہر بار چنانچہ

٭٭٭

 

 

 

 

میں گذرتا ہی گیا راہ تھی پرخم پرخم

مجھ پہ سرکار کی نظریں جو تھیں پیہم پیہم

 

ان کے دربار میں پہونچو کہ یہاں سے مانگو

شرط اتنی ہے کہ یہ آنکھ ہو پُرنم پُرنم

 

آپ آئے تو پڑی جان میں ٹھنڈک ورنہ

زندگی زخم تھی، آواز تھی مرہم مرہم

 

پیش کر دوں گا سرِ حشر کمائی اپنی

دولتِ نعت جمع کی ہے جو درہم درہم

 

عرش ہو فرش ہو محشر ہو، زماں ہو کہ مکاں

ہر جگہ ان کے ہی لہراتے ہیں پرچم پرچم

 

مہرومہ، کاہہکشاں، نقشِ کفِ پائے رسول

گیسوئے شب ہے اسی نُور سے برہم برہم

 

ان کی رحمت کی تو ہر بوُند سمندر ہے ادیب

جس کے آگے یہ سمندر بھی ہے شبنم شبنم

٭٭٭

 

 

 

 

میں مدینے میں ہوں اور ذکر پیمبر بھی نصیب

یعنی پیاسے کو ہے دریا در دریا بھی نصیب

 

خوشبوئے زلف بھی عکسِ رُخِ انور بھی نصیب

صبحِ کافور بھی، اور شامِ معنبر بھی نصیب

 

رُخ پہ مَلنے کے لیے، رُوح میں ڈھلنے کے لیے

گردِ کوچہ بھی نصیب، بادِ معطّر بھی نصیب

 

مسندِ صُفّہ کے انوار وہ بابِ جبریل

اس گنہ گار کی آنکھوں کو وہ منظر بھی نصیب

 

میری آنکھوں میں حرم آنکھ سے باہر بھی حرم

خانۂ چشم کو آئینہ کا جوہر بھی نصیب

 

ان کی یادوں کو جہاں چین سے نیند آتی ہے

نام دل کے ہے اِک حجرۂ بے در بھی نصیب

 

ایک اِک لمحہ مرے لب کو مدینے میں ادیب

کلمۂ شُکر بھی اور نعتِ پیمبر بھی نصیب

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی گفتگو ہو لب پر، تیرا نام آ گیا ہے

تیری مدح کرتے کرتے، یہ مقام آ گیا ہے

 

درِمصطفٰے منظر، میری چشم تر کے اندر

کبھی صبح آ گیا ہے، کبھی شام آیا گیا ہے

 

یہ طلب تھی انبیاء، کی رخ مصطفٰے کو دیکھیں

یہ نماز کا وسیلہ، انہیں کام آ گیا ہے

 

دو جہاں کی نعمتوں سے تِرے در سے جو بھی مانگا

مِری دامن طلب میں وہ تمام آ گیا ہے

 

جسے پی کے شیخ سعدی بَلَغَ العُلیٰ پکاریں

میرے دستِ ناتواں میں وہ جام آ گیا ہے

 

وہ ادؔیب جن سے محشر میں برپا کیا ہے محشر

وہ کہیں گے آؤ دیکھو یہ غلام آ گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سدا لب پہ ہو جب صدائے مدینہ

کہاں چین دل کو سوائے مدینہ

 

چلے آج ایسی ہوائے مدینہ

اُڑائے ہمیں لے کے جائے مدینہ

 

بَرائے مدینہ بِنائے دو عالم

بِنائے دو برائے مدینہ

 

حرم کا پتہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو

مرا دل ہے قبلہ نمائے مدینہ

 

گنہگار کے دل میں دوزخ کی آتش

لگائے زمانہ، بُجھائے مدینہ

 

مدینے کا بندہ مدینے ہی پہنچے

بس اتنا کرم کر، خدائے مدینہ

 

قدم چُوم لوں بَے وطن کرنے والے

مجھے دے اگر تو، سزائے مدینہ

 

کہیں تو گنہ گار کا ہو ٹھکانہ

خُدا نے رکھی یوں، بِنائے مدینہ

 

گرفتار کو اب گرفتار رکھیے

کہاں جائے گا پھر رہائے مدینہ

 

وہ  طلع  وہ  بدرُ علینا   کے نغمے

کجا ہم کجا وہ ثنائے مدینہ

 

ادیب حشر میں زیرِ سایہ رہیں گے

تَنی ہو گی سر پر رِدائے مدینہ

٭٭٭

 

 

 

 

مصطفٰے کا نام، توقیر ادب

مصطفٰے کا ذکر، تعمیرِ ادب

 

نعت میں ہونا قلم کا سَر نگوں

سر بلندیِ  مشاہیر ادب

 

وہ مجاہد حضرتِ حسان تھے

جن کے ہاتھو ں میں تھی شمشیر ادب

 

پارہ پارہ کر گئے قلبِ غنیم

اُس کمانِ عشق کے تیرِ ادب

 

حافظِ شیراز سے پوچھے کوئی

لذّتِ شیرینیِ شیرِ ادب

 

پیرویِ مثنویِ رُوم سے

بن گئے اقبال بھی پیرِ ادب

 

سورۂ کوثر پہ ہے حُجّت تمام

رفعتِ افلاک تحریرِ ادب

 

شیخ سعدی کی رباعی دم بدم

ضربِ مضرابِ مزا میرِ ادب

 

مستند ہے آپ کا فرماں ادیب

نعت ہے جامی کی جاگیرِ ادب

٭٭٭

 

 

 

 

مدحت ان کی رحمت بھی ہے بخشش کا سامان بھی ہے

عشق کی دستاویز بھی ہے اور عاشق کی پہچان بھی ہے

 

میری بھلا اوقات ہی کیا جو ان کی ثناء میں لب کھولوں

یہ تو انہیں کا لطف و کرم ہے اور ان کا احسان بھی ہے

 

ایسی کوئی شے پاس نہیں جو نذر میں ان کو پیش کروں

یوں کہنے کو قلب و جگر ہیں جسم بھی ہے اور جان بھی ہے

 

پاسِ ادب رکھ اپنی حدوں سے بڑھ کر کوئی بات نہ کر

ان کی حدوں تک جانے والے اپنی تجھے پہچان بھی ہے

 

ذکر میں ان کے کوئی ادب کا دامن ہاتھ سے چھوڑے تو

میری زباں تلوار بھی ہے اور تقلیدِ حسّان بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھ سا عاجز مدحِ مَمدُوحِ خدا لکھتا رہا

اور کیا لکھتا، وَرَفعنا لک لکھتا رہا

 

حمد میں لکھتا رہا نعتِ حبیبِ کبریا

نعت کے شعروں میں بھی حمدِ خُدا لکھتا رہا

 

ذہن کو تھی جستجو الفاظ کی شایان شان

میں تھا چُپ، میرا قلم صَل عَلیٰ لکھتا رہا

 

روشنائی اشک تھی اور نوکِ مژگاں تھی قلم

اس طرح بھی ایک شب ان کی ثناء لکھتا رہا

 

کیوں پُکارے غیر کو اپنی مدد کے واسطے

عمر بھر جس کا قلم  یا مصطفٰے   لکھتا رہا

 

فکر و فن بے بس نظر آئے مجھے اس راہ میں

عشق تھا جو کیا سے کیا اور کیا سے کیا لکھتا رہا

 

شیوۂ جود و کرم کی بات جب نکلی ادیبؔ

مجھ پہ جو گذری میں اپنا ماجرا لکھتا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

عشق کے چراغ جل گئے

ظلمتوں سے ہم نکل گئے

 

ان کے نقشِ پا پہ چل گئے

گر رہے تھے جو سنبھل گئے

 

جس طرف حضور چل دیئے

خار پھول میں بدل گئے

 

روئے مصطفٰے کی اِک کرن

ظلمتوں کے بَل نِکل گئے

 

دیکھ کر جمالِ مصطفٰے

سنگ دل جو تھے پگھل گئے

 

ان کا ذکر سن کے رنج و غم

اپنے راستے بدل گئے

 

ہے یقین کہ ان کے دَر پہ ہم

آج گر نہیں تو کل گئے

 

ان کے در پہ جو پہنچ گئے

ہر حصار سے نِکل گئے

 

ان پہ جب درود پڑھ لیا

حادثوں کے رُخ بدل گئے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ مطلع پیش کرتا ہوں میں توصیفِ محمد میں

جو نازل ہو رہا ہے قلب پر، انوار کی زد میں

 

بیاں کیسے ہو کتنا حُسن ہے ہر خال میں خد میں

جمالِ حق تعالیٰ جب ہوا موزوں اسی قد میں

 

نہ ہو کیوں حمد پر کرسی نشیں اِک میم شہ بن کر

کہ ایسا دلربا کوئی نہیں تھا شہرِ أبجد میں

 

ثنائے مصطفٰے میں یوں مجھے محسوس ہوتا ہے

کھڑا ہوں خوشبوؤں اور رنگ کے بارانِ بیحد میں

 

کشادِ لب خداوند یہی دو لفظ ہوں میرے

اِک انکے لطف بے حد پر اِک ان کے حُسن بیحد میں

 

قضا آئے دیارِ مصطفٰے میں مدح خوانوں کی

کفن میں لاش ہو، اور لاش ہو دربارِ احمد میں

 

جنازے میں ہوں قدسی، پیشِ قدسی مصطفٰے خود ہوں

قصیدہ پڑھ رہی ہو لاش میری شہ کی آمد میں

 

پڑھیں صَل عَلیٰ اِرْحَم لَنَا اِرْحَم لَنَا سارے

اتاریں جب ادیبِ خوش بیاں کو لوگ مرقد میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہے ذکرِ سرورِ سدا جہاں میں رفیق

یہی رہا ہے ہر اِک مشکل امتحان میں رفیق

 

اگر حضورﷺ نہ ہوتے تو ہم غریبوں پر

نہ اِس جہاں میں کوئی تھا نہ اُس جہاں میں رفیق

 

ہمیں تو حشر میں خورشید نے بھی ٹھنڈک دی

کہ تھی رسول کی رحمت جو درمیاں میں رفیق

 

کہاں کہاں میرے آقا نے گھر بنایا تھا

رہے وہ بن کے ہر ایک قلب دشمنان میں رفیق

 

بھنور ہو، موج ہو، طوفاں ہو، پھر بھی ذکرِ نبی

غم و الم کے رہا بحرِ بیکراں میں رفیق

 

بلند کیوں نہ ہو اشعار کا مِرے رتبہ

میرے سخن کے ہیں، وہ کوچۂ زباں میں رفیق

 

ادیبؔ، نعت کا ہر لفظ ہے دُرِّ نایاب

دُرِّ یتیم کا احسان ہے درمیاں میں رفیق

٭٭٭

 

 

 

 

یادِ شفیعِ مُذنبین ہے

اس دل میں اور کچھ نہیں ہے

 

کس کا رقیب دل بنا جو

محبوبِ ربّ العالمین ہے

 

خورشید و ماہتاب و انجم

لیکن تم ایسا اب نہیں ہے

 

صدیوں کے فاصلے ہیں پھر بھی

سایہ ہے دُور، وہ قریب ہے

 

بعثت میں آخرالزّماں وہ

خلقت میں نورِ اوّلیں ہے

 

وہ آسماں ہیں معرفت کے

بندہ فقط، زمیں زمیں ہے

 

جب سے ملی ہے ان کی نسبت

دنیا اپنی حَسیں حَسیں ہے

 

یہ سوز، یہ گداز، یہ نم

سب میں کہاں، کہیں کہیں ہے

 

نازاں ہیں اہلِ عرش اس پر

کہنے کو یہ زمیں، زمیں ہے

 

نقشِ قدم جہاں جہاں ہیں

میری جبیں وہیں وہیں ہے

 

سیکھو انداز التجا کے

ان کے یہاں کمی نہیں ہے

 

عصیاں مرے بہت ہیں، لیکن

وہ رحمۃ اللّعالمیں ہے

 

دشمن بھی کہہ ر ہے ہیں جس کو

صادق ہے وہ، وہی امیں ہے

 

مٹھی میں جس کی سب کے دل ہیں

دل میں ادیب کے مکیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یادوں میں وہ شہرِ مدینہ منظر منظر آج بھی ہے

ایک زمانہ گذرا لیکن، رُوح معطّر آج بھی ہے

 

کوئی نظر خضریٰ سے اٹھ کر اس کے چہرے پر نہ گئی

یہ احساس ندامت یارو چاندے رُخ پر آج بھی ہے

 

مدحِ نبی کی نغمہ سرائی حمد وثناء کی گُل پاشی

کَل بھی یہی تھا اپنا مقدر، اپنا مقدر آج بھی ہے

 

وہ دیدار کا موسم، ساقی پیشِ نظر اور جامِ دید

برسوں بیت گئے اس رُت کو ہاتھ میں ساغر آج بھی ہے

 

عہد ادیب اور مدحِ محمد کوئی آج کی بات نہیں

چودہ صدیوں سے یہ چرچا یونہی گھر گھر آج بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مدحِ خلفائے راشدینؓ

 

                ابو بکرؓ

 

مرکز صدق و صفا مرکزِ ایمان صدیق

مصحف عشق و محبت کے نگہباں صدیق

اسمِ اعظم ہیں جنوں کوش محبت کے لیے

ہوش والوں کے لیے نقشِ سلیمان صدیق

 

کمندِ عقل میں آئے کرے خِرد تحقیق

نگاہ میں جو سمائے نظر کرے توثیق

ہے جبریل کی پرواز سے پرے جو مقام

ہیں اس مقام کی تصدیق کے لیے صدیق

 

پابوسی گلاب سے مٹی ہے مشکِ تر

پارس کی ایک لمحہ رفاقت ہے قدر زر

پہلو ہو مصطفٰے کا میّسر جسے ادیب

کیا کہئے کیا ہے اپنے مراتب میں وہ بشر

 

کاتبِ تقدیر کا جنبش میں جب آیا قلم

منزلوں سے ما وریٰ پہنچے فقیروں کے قدم

مسجدِ نبوی میں اِک دن جاں نثارِ مصطفٰے

تھے مصلّے پر امام اور مقتدی شاہِ امم

ہیں پرستارِ محمد بے حساب و بے شمار

ذی وقار و سر بلند و سرفروش جاں نثار

ہاں مگر صدیق کے ہیں مرتبے کچھ اس طرح

یارِ ہجرت، یارِ غزوہ، یارِ بزم و یارِ غار

 

تشنہ کا مانِ حقیقت کو ہیں کوثر صدیق

کاروان رہِ الفت کو ہیں رہبر صدیق

ختم نہ ہو گا نہ کبھی سلسلۂ عشق ادیب

عشق کے رب ہیں، محبت کے پیمبر صدیق

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کس نے نبی کا دامن تھاما سب سے پہلے بڑھ کر وہ صدیقِ اکبر

کس نے اٹھایا بارِ امامت لے کر اذنِ پیمبر وہ صدیقِ اکبر

 

حکمِ خدا سے چھوڑ چلا جب مکّہ دین کا رہبر نام خدا کا لے کر

راہِ خدا میں اس دم جو شئے نکلی نقد پیمبر وہ صدیقِ اکبر

 

اِک دن کس نے خواب میں دیکھا، جھولی میں چاند آئے اور پھر گھر گھر آئے

دینِ محمد ایسی بشارت لے کر آیا کس پر وہ صدیقِ اکبر

 

روحِ امیں دربارِ نبی میں ٹاٹ پہن کر آئے جھک کر حال سنائے

اہل فلک کا پہناوا ہے آج یہ کس کی ادا پر وہ صدیقِ اکبر

 

جن کے دامن کی پاکی پر روحِ قدس کا آنا سورۃ نور سنانا

ایسی حرمت والی اُمِّ اُمّت جن کی دختر وہ صدیقِ اکبر

 

جن کا عہد رسالت، بارش ابرِ کرم کی ہے بے حد ان کا نام محمد

پتھر جن کے دورِ خلافت میں تھے لعل و جواہر وہ صدیقِ اکبر

٭٭٭

 

 

 

                عمرؓ

 

حجّت کے لیے حشر میں ہو گی یہ دلیل

ہر شے کو عطا ہو گی بشر کی صورت

اللہ کی یہ شکل کی خورشید جلال

اللہ کا قرآن، عمر کی صورت

 

دین حق کی سر بلندی میں نبوّت کی طلب

بارگاہِ ربّ العزّت میں ہوا ہو جس پہ صاد

ساری دنیا ہے شہنشہاہِ دو عالم کی مُرید

اور عمر خود ہیں شہنشاہِ دو عالم کی مُراد

 

صف میں جو گھُس پڑے وہ لیے تیغِ شعلہ ور

سر کافروں کے دوش پہ آئے نہ پھر نظر

ہیبت سے ان کی دن میں نکلتے نہ تھے عدو

راتوں کو خواب میں بھی پُکاریں عمر عمر

 

لڑنے میں یوں تو ایک سے ایک بے مثال ہے

پھر بھی دلوں میں خوف عمر کا یہ حال ہے

ہیں ماہر ان حرب کے باہم یہ مشورے

خطّاب کے پسر سے لڑائی محال ہے

٭٭٭

 

 

 

                عثمانؓ

 

نہ تھا آئینۂ دل پر غبار عصبیت ان کے

اگر چہ تھے حریفِ ہاشمی اَجداد سب ان کے

 

صفائے باطنی ان کا مکدر ہو نہ سکتا تھا

کوئی اس دل میں اب تخمِ رقابت بُو نہ سکتا تھا

 

جہالت کے اندھیروں سے نکل کر نُور میں آئے

قرابت وہ مِلی، دو نور والے آپ کہلائے

 

قدم ہجرت کا مکہ سے نکالا آپ نے پہلے

حبش کو دین کا بخشا اُجالا آپ نے پہلے

 

وہ دورِ جاہلیت جو بھرا تھا آبِ گلگوں سے

حیاء والے کے لب نا آشنا تھے اس کے افسوس سے

 

حیاء کے ذکر کا جب بھی کوئی عنوان ہوتا تھا

لبِ شاہِ مدینہ پر فقط عثمان ہوتا تھا

 

نبی ارشاد فرماتے کتابت آپ کرتے تھے

بڑی دشوار تھی منزل، بآسانی گذرتے تھے

 

اشارہ پر نبی کے مال سب قربان ہو جاتا

جو حاتم آج ہوتا، آپ کا دربان ہو جاتا

 

یہودی کو دیا کل مال، شیریں آب کے بدلے

ہوئے سیراب تشنہ لب مسلمان، بیر رومہ سے

 

بنے وہ بیعت رضوان میں تاجِ فخر کا طُرّہ

نبی نے ہاتھ بیعت میں جب ان کے نام پر رکھا

 

مراکش سے ملے کابل کے ڈانڈے عہد میں جن کے

ہوئے اسلام کے زیرِ نگیں، دنیا کے یہ حصے

 

طرابلس اور افریقہ بنا اِسلام کا حصہ

بغاوت مصر کی توڑی، فتح قبرص بھی کر ڈالا

 

ہوا جب کوہِ لرزاں، مصطفٰے نے اس سے فرمایا

کہ تجھ پر اِک نبی، صدیق اِک اور اِک شہید آیا

 

شہادت معتبر تھی، ایک دن ایسا بھی ہونا تھا

سرِ تسلیم اپنا خم کیا، ایسا بھی ہونا تھا

 

شہادت کا وہ لمحہ، وہ تحمّل، صبر کا پیکر

جو اخلاقِ کریمانہ کا ٹھہرا آخری منظر

 

فَسَیَکْفِیْکھَُمْ آیت پہ جب خوں آپ کا ٹپکا

قراں کا ہر ورق دامن کو پھیلائے ہوئے لپکا

 

قیامت میں کریں گے لوگ جب قرآن کی باتیں

کریں گے ساتھ ہی وہ حضرتِ عثمان کی باتیں

 

اُتر کر خون کے دریا میں جو کوئی اُبھرتا ہے

ہٹا کر زیست کے پردے زیارت حق کی کرتا ہے

 

نہیں مرتا ادیب اس راہ میں، جب کوئی مرتا ہے

وہ کب مرتا ہے جو راہِ شہادت سے گزرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

                عثمانؓ

 

آئی تو کاٹنے کے لیے سب کے پاس مرگ

رشتہ جو آدمی کے بدن سے ہے جان کا

اس طرح سے کسی کی تواضع نہیں ہوئی

خونِ شہید کے لیے دامن قرآن کا

 

اُدھر ترتیلِ قرآنی، کوئی ترمیم ناممکن

جو آیت حکم جو لائی، عمل ایسا ہی کرنا ہے

اِدھر ترتیب عثمانی کہ جو سورۃ جہاں رکھ دی

قیامت تک اسی ترتیب سے قرآن پڑھنا ہے

 

تو نے بھی عجب شان دکھائی ہے خدایا

جب تیغ نے خوں، حضرت عثمان بہایا

گرنے نہ دیا قطرۂ خون پہلے زمیں پر

رحمت نے تری دامنِ قرآن بچھایا

 

وہ ایک منظر وَمَا رَ مَیْتَ جہاں خدا خود یہ کہہ رہا ہے

یہ دست دست نبی نہیں ہے یہ دستِ قدرت فقط مِرا ہے

یہ ایک منظر، شجر کے نیچے نبی کا بیعت کے وقت کہنا

یہ دست بیعت نبی کا ہے اور یہ دستِ عثمان دوسرا ہے

 

بچوں کو لوریوں میں کہیں ماں قریش کی

سو جاؤ میرے لال کہ ماں غمگسار ہے

ہے تم سے اتنا پیار، کہ رحمٰن کی قسم

جتنا قبیلے والوں کو عثماں سے پیار ہے

 

خدا کا خوف ذکر مصطفٰے سرمایۂ عثمان

سرور و کیف قربِ مصطفٰے سرمایۂ عثمان

بیان سرکاری کی مدحت سدا، پیرایۂ عثمان

نہ تھا ایسا نہ اب ہو گا کوئی ہم پایۂ عثمان

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

                علیؓ

 

نہ خانقاہ کے باہر نہ خانقاہ میں ہے

جو بُو تراب کا رتبہ مری نگاہ میں ہے

یہی ہے دولتِ ایمان و عِلم و عقل و یقین

علی کو جس نے پکارا ہے وہ پناہ میں ہے

 

گر جہانِ فکر میں درکار ہے اِک اِنقلاب

فکر کی راہوں سے اٹھ کر عشق کا ہو ہم رکاب

چاک کر دامن فسونِ فلسفہ کا، مارکر

ایک نعرہ یا علیؓ مشکل کشاء یا بُو تُرابؓ

 

بحالِ غم دلِ بے تاب را قرار، علی

کریم و بندہ نواز و کرم شعار، علی

خراب حال و خطا کار و دلِ شکستہ را

خطا معاف، خدا ترس، غمگسار، علی

 

ہر گردشِ ایّام پہ جو غالب ہے

ہر نعرۂ انقلاب کا جو قالب ہے

ہر لمحۂ مشکل میں طلب ہے جس کی

وہ نام، علی ابنِ ابی طالب ہے

 

زِ خاکِ پائے علی ما فلک مدار شدیم

زِ لطفِ چشمِ علی فصلِ نَو بہار شدیم

ہیں چہ فیض رسیدی زِ بوسۂ نعلین

گناہ گار کہ بودیم و تاجدار شدیم

٭٭٭

 

 

 

 

                علیؓ

 

ہم طلبگارِ سخاوت یا علی مشکل کشا

تم عنایت ہی عنایت یا علی مشکل کشا

 

بازوئے خیبر شکن، اور لقمۂ نانِ جویں

اے شہنشاہِ قناعت یا علی مشکل کشا

 

آپ کو نسبت رسول اللہ سے ہے اور میں

آپ رکھتا ہوں نسبت یا علی مشکل کشا

 

عاشقوں کا دل ہے کعبہ اور دل کی دھڑکنیں

مطربِ جشنِ ولادت یا علی مشکل کشا

 

مردِ مومن کا سہارا، حرّیت کی آبرو

قلبِ مومن کی حرارت یا علی مشکل کشا

 

وہ شجاعت ہو، سخاوت ہو، قناعت یا جہاد

آپ ہی کی ہے قیادت یا علی مشکل کشا

 

فاتحِ خیبر تمہارے چاہنے والوں پہ آج

دشمنوں نے کی ہے شدّت یا علی مشکل کشا

 

پھر وہی بغداد و مصر و شام کے ہیں صبح و شام

دیجیے شوقِ شہادت یا علی مشکل کشا

 

در گزر میں آپ سے بڑھ کر کوئی گزرا نہیں

اے سراپائے محبت یا علی مشکل کشا

 

در گذر کیجیے خطا اور دیجیے اس قوم کو

اپنا بازو، اپنی ہمّت یا علی مشکل کشا

 

آپ کے در سے ادب سے مانگتا ہے یہ ادیب

صدقۂ خاتونِ جنّت یا علی مشکل کشا

٭٭٭

 

 

 

                علیؓ

 

درِ میخانہ وا ہوتا ہے اب جوشِ عقیدت کا

شراب ان کے تصور کی صبو ان کی محبت کا

 

نظر کے سامنے سب اہلِ دل اور اہلِ نسبت ہیں

خداوند بھرم رکھنا مری نسبت، مرے غم کا

 

حمایت میں، امامت میں، شجاعت میں، حوادث میں

علی داور، علی رہبر، علی حیدر، علی مولیٰ

 

کوئی عابد، کوئی عارف، کوئی عاطف، کوئی عاکف

کوئی عاجز، کوئی عالی، کوئی عاشق نہیں ایسا

 

قناعت میں قلندر وہ سخاوت میں سمندر وہ

شجاعت میں لقب ہے قوتِ پروردگار ان کا

 

وہ سیف اللہ، وجہہ اللہ، دامادِ رسول اللہ

وہی شبیر کا بازو، وہی سرمایۂ زہرا

 

بتوں کا سر جھُکانے میں، دلوں میں گھر بنانے میں

وہی ضرب الفتح نکلا، وہی خیبر شکن ٹھہرا

 

امیرٌ وہ جریٌ وہ شجاعٌ وہ شہیدٌ وہ

فصیحٌ وہ بلیغٌ وہ خطابت پر جہاں شیدا

 

مِری عزّت، مری عظمت، مِری اُلفت مِری نسبت

علی مولیٰ، علی مولیٰ، علی مولیٰ علی مولیٰ

 

ادیب ان کی محبّت میں اگر آنکھوں میں اشک آئے

اِدھر آنکھوں میں نم ہو گا اُدھر لطف و کرم ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

در مدح فاطمہؓ

 

 

 

دُخترِ ختمِ الرسل جانِ پیمبر فاطمہ

اے وقارِ بُو ترابی، شانِ حیدر فاطمہ

 

رُوح کی تشنہ لبی کو آب کوثر، فاطمہ

سجدہ گاہِ اہلِ ایماں، آپ کا در فاطمہ

 

لُٹ رہا تھا کربلا میں آپ کا گھر، فاطمہ

آپ نے دیکھا ہے محشر، قبلِ محشر، فاطمہ

 

آپ کی نسبت ہوئی ہم کو میسّر، فاطمہ

آپ کی مدحت ہوئی اپنا مقدر، فاطمہ

 

ضبط کے خُو گر علی تھے، صبر کے خُوگر حسین

آپ کی ہستی میں ہیں دونوں ہی جوہر، فاطمہ

 

ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرہ لقب، ذوالاحترام

سب سے اعلیٰ سب سے افضل، سب سے بہتر فاطمہ

 

خم شہنشاہانِ عالم کی جبیں ہے دیکھ کر

آپ کا نقشِ کفِ پائے مطہّر، فاطمہ

 

بندگی کیا، دین کیا، ایمان کیا، اِسلام کیا

مصطفٰے، شیرِ خدا، شبّیر و شبّر فاطمہ

 

سر فروشی کا سبق دے، صبر دے، ایثار دے

اب کہاں ایسی کوئی آغوشِ مادر، فاطمہ

 

عرش ہِل جاتا اگر فریاد کو اُٹھتے وہ ہاتھ

آپ نے رکھا اُنہیں چکّی کا خُوگر، فاطمہ

 

مصطفٰے کے اور آل مصطفٰے کے ہیں غلام

اپنے دامن میں چھپا لیں یہ سمجھ کر، فاطمہ

 

خاتمہ بالخیر ہو عشقِ نبی میں جب ادیب

ڈال دیں رحمت کی اِس مجرم پہ چادر فاطمہ

٭٭٭

 

 

 

                فاطمہؓ

 

ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری

بصد گریہ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری

قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن، روح لرزاں ہے

ادب، خاتونِ جنّت، فاطمہ زہریٰ کی ہے باری

 

کمال ذکرِ زہریٰ سے اگر ہستی ہوئی اکمل

جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل

یہ توقیر محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے

سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل

 

تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل

معصوم، مخیّر، متصرّف، متکفّل

سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہریٰ

مشفق، متبسّم، متحمّل، متوکلّ

 

وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور

وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور

یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا

چکّی کی مشقّت، بہ تبسّم منظور

 

شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر

شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در

وہ خاتونِ جنّت، وہ جنّت کی حُرمت

امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر

 

جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور

جس کو عرفانِ محمد، جس کو فیضانِ رسول

ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہریٰ لقب، ذوالاحترام

دیدنیِ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور

٭٭٭

 

 

                فاطمہ ؓ

 

ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری

بصد گریہ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری

قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن، روح لرزاں ہے

ادب، خاتونِ جنّت، فاطمہ زہریٰ کی ہے باری

 

کمال ذکرِ زہریٰ سے اگر ہستی ہوئی اکمل

جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل

یہ توقیر محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے

سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل

 

تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل

معصوم، مخیّر، متصرّف، متکفّل

سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہریٰ

مشفق، متبسّم، متحمّل، متوکلّ

 

وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور

وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور

یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا

چکّی کی مشقّت، بہ تبسّم منظور

 

شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر

شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در

وہ خاتونِ جنّت، وہ جنّت کی حُرمت

امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر

 

جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور

جس کو عرفانِ محمد، جس کو فیضانِ رسول

ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہریٰ لقب، ذوالاحترام

دیدنیِ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

آیا نہ ہو گا اس طرح رنگ و شباب ریت پر

گُلشنِ فاطمہ کے تھے سارے گُلاب ریت پر

 

جانِ بتول کے سِوا کوئی نہیں کھِلا سکا

قطرۂ آب کے بغیر اتنے گُلاب ریت پر

 

ترے حُسین آب کو میں جو کہوں تو بے ادب

لمسِ لبِ حُسین کو تَرسا ہے آب ریت پر

 

عشق میں کیا لُٹایئے عشق میں کیا بچائیے

آلِ نبی نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر

 

لذّت سوزش بلال، شوقِ شہادتِ حُسین

جس نے لیا یونہی لیا اپنا خطاب ریت پر

 

جتنے سوال عشق نے آل رسول سے کیے

ایک سے بڑھ کے اِک دیا سب نے جواب ریت پر

 

آل نبی کا کام تھا آلِ نبی ہی کر گئے

کوئی نہ لکھ سکا ادیب ایسی کتاب ریت پر

٭٭٭

 

 

 

تیری تکریم میں تیری تعظیم میں کس کو شک ہے بھلا کربلا کربلا

پھر بھی میرا قلم، تجھ سے شکوے رقم آج کرنے چلا کربلا کربلا

 

تو فرات آشنا، تجھ میں دجلہ رواں پھر بھی آل محمد کی سوکھی زباں

تیرے مہمان تھے، اپنے مہمان سے تو نے یہ کیا کیا کربلا کربلا

 

واسطہ ان کے آباء کا دے کر اگر، مانگتا اپنے سینہ میں زم زم کا گھر

اِک کرشمہ دکھاتا وہاں بھی خدا، کیوں نہ مانگی دعا کربلا کربلا

 

رات ہو دن ہو جب ان کے ہلتے جو لب، اپنے خیموں میں قرآن پڑھتے تھے سب

تو نے دیکھا یہ سب، تو نے خود بھی سنا اور کچھ نہ کیا کربلا کربلا

 

جن کے اہلِ حرم نُورِ مستورِ حق، چادریں جن کے سر کی قرآں کا ورق

جن کے خیموں کے پردے غلافِ حرم، ان کو لوٹا گیا کربلا کربلا

 

آرزو التجا حسرتیں منّتیں، جن کے قدموں کے بو سے کو حوریں کریں

ایسی شہزادیاں اور بربادیاں، تو نے دیکھا کیا کربلا کربلا

 

وہ سکینہ تھی جو غم سے موسوم تھی، کتنی معصوم تھی کتنی مغموم تھی

پوچھتی پھر رہی تھی ہر اِک سے پتہ، تو نے کیا کہ دیا کربلا کربلا

 

نسل سے بولہب کی وہ دو ہاتھ تھے جن میں نیزہ تھا نیزے پہ فرقِ حُسین

کاش ہوتے نبی تو اترتی وہاں پھر سے تبت یدا کربلا کربلا

 

اہلِ بیت اور ان کی محبّت ادیب، یہ مقدر یہ قسمت، یہ روشن نصیب

اس وظیفہ سے راضی ہے مجھ سے خدا دیکھ یہ مرتبہ کربلا کربلا

٭٭٭

 

 

 

 

زینت دوشِ مصطفٰے تجھ کو مِرا سلام ہے

نُور نگاہِ فاطمہ تجھ کو مِرا سلام ہے

منزلِ ہست و بود میں کون ابد مقام ہے

دیکھ رہا ہوں میں حسین، ایک ترا ہی نام ہے

 

کشتۂ خنجرِ تسلیم و رضا تجھ کو سلام

مشعلِ نُورِ محمد کی ضیا تجھ کو سلام

نکہتِ بوئے گلستانِ وفا تجھ کو سلام

آبروئے صدف صدق و صفا تجھ کو سلام

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی

مرا حُسنِ بیاں ہے خار بھی چاکِ گریباں بھی

 

مرے دامن میں، جگنو ہیں جہاں اور چاند تارے بھی

اِسی دامن میں رکھتا ہوں کچھ آہیں اور شرارے بھی

 

جو میری عمر کا حاصل ہے ذکرِ مصطفٰے کرنا

تقاضائے محبّت ہے بیانِ کربلا کربلا

 

تقاضہ ہے ضمیرِ شاعر حق گو کی فِطرت کا

کہ حق گوئی و بیباکی پہ مبنی سخن اُس کا

 

بیانِ سیّد الشُہداء کی جب تمہید ہوتی ہے

وہی عہدِ وفا کے رسم کی تجدید ہوتی ہے

 

حسین ابنِ علی، سبطِ پیمبر، شرفِ انسانی

وہ جس کے رُخ پہ تھی نُورِ محمد کی فراوانی

 

شہیدِ کربلا تاریخ کا عنوان ہے گویا

حسین ابنِ علی ہر قلب میں مہمان ہے گویا

 

بتایا، کس طرح کرتے ہیں اُمّت کی نگہبانی

سکھایا، کس طرح رکھتے ہیں سجدوں میں یہ پیشانی

 

جَلایا اس نے ظلمت میں چراغِ نُورِ ایمانی

یہ سب کچھ جانتے تھے پھر اُسے دیتے نہ تھے پانی

 

بہت ہی مختصر، بندوں سے رب کا فاصلہ نکلا

حرم سے لے کے اہلِ بیت کو، جب قافلہ نکلا

 

عمامہ باندھ کر عہدِ وفا کا، کربلا جانا

تھا اُمّت کے لیے مقصود ان راہوں کا دکھلانا

 

وہ راہیں جو عروجِ آدمیت کا سبب ٹھہریں

زوال ظلم ٹھہریں، حق پرستوں کا لقب ٹھہریں

 

عرب کی سرزمیں، تپتے ہوئے صحرا، خزاں کے دن

سفر میں تھے رسولِ ہاشمی کی جانِ جاں کے دن

 

یہ منزل آزمائش کی بڑی دشوار ہوتی ہے

فضا میں زہر ہوتا ہے، ہوا آزار ہوتی ہے

 

جب ہستی مردِ مومن کی سپرد دار ہوتی ہے

تو سائے کے لیے سر پر فقط تلوار ہوتی ہے

 

وہ جس کی شان میں تھی آیۂ تطہیر قرآنی

اسی کی اہلِ کوفہ نے کیا نیزوں سے مہمانی

 

طلب نانا سے کوثر کی شفاعت کی سفارش بھی

نواسے پر وہی کرنے لگے تیروں کی بارش بھی

 

جَلے خیمے بدن چھلنی تھے خون میں تر قبائیں تھیں

خدا کو جو پسند آتی ہیں وہ ساری ادائیں تھیں

 

وہ چہرے نُور کے تھے، گِرد جن کے نُور کے ہالے

بنے وہ خاک و خوں میں ایک ہو کر کربلا والے

 

وہ چہرے وہ بدن جو عشق کا اسرار ہوتے ہیں

غبارِ خاک سے ان کے کفن تیار ہوتے ہیں

 

نہ ہوتا گر محمد کا گھرانہ ایسی منزل پر

تو اڑ جاتا فروغ دیں کا مستقبل دھواں بن کر

 

سلام اُس پر کہ جو حق کے لیے سربھی کٹا آیا

سلام اُس پر جو اُمّت کے لیے گھر بھی لُٹا آیا

 

سلام اُس پر مرا جو خون کے دریا میں تیرا ہے

سلام اُس پر کہ جو نانا کے پرچم کا پھریرا ہے

 

سلام اُس پر کہ جس نے زندگی کو زندگی بخشی

سَروں کو سَر بلندی اور ذوقِ بندگی بخشی

 

سلام اُس پر کہ جو دوش پیمبر کی سواری ہے

سلام اُس پر کہ جنّت جس کے گھر کی راہداری ہے

 

تبر سینے پہ، برچھی پشت پر جھیلے ہوئے اِنساں

سلام اے فاطمہ کی گود میں کھیلے ہوئے اِنساں

 

بہت آسان ہے ذکرِ شہیدِ کربلا کرنا

درونِ قلب مشکل ہے وہی حالت بپا کرنا

 

شہید کربلا کے ذکر کا مجھ پر جواب آیا

کہ تیری ذات میں اب تک نہ کوئی انقلاب آیا

 

سراسر آبرو بن غیرتِ شرم و حیا ہو جا

اگر مجھ سے محبّت ہے تو میرا نقش پا ہو جا

٭٭٭

 

 

 

 

منقبت

 

فاصلوں کو خدارا مٹا دو

رخ سے پردہ اب اپنے ہٹا دو

اپنا جلوہ اسی میں دکھا دو

جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں

 

غوث الاعظم ہو، غوث الوریٰ ہو،

نور ہو نورِ صلّ علیٰ ہو

کیا بیان آپ کا مرتبہ ہو

دستگیر اور مشکل کشا ہو

آج دیدار اپنا کرا دو

جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں

 

ہر ولی آپ کے زیر پا ہے،

ہر ادا مصطفیٰ کی ادا ہے

آپ نے دین زندہ کیا ہے

ڈوبتوں کو سہارا دیا ہے

میری کشتی کنارے لگا دو

جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں

 

شدتِ غم سے گھبرا گیا ہوں،

اب تو جینے سے تنگ آ گیا ہوں

ہر طرف آپ کو ڈھونڈھتا ہوں

اور اک اک سے یہ پوچھتا ہوں

کوئی پیغام ہو تو سنادو

جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں

 

وجد میں آئے گا سارا عالم

جب پکاریں گے یا غوث اعظم

وہ نکل آئیں گے جالیوں سے

اور قدموں پہ گر جائیں گے ہم

پھر کہیں گے کہ بگڑی بنا دو

جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں

 

سن رہے ہیں وہ فریاد میری

خاک ہو گی نہ برباد میری

میں کہیں بھی مروں شاہِ جیلاں

روح پہنچے گی بغداد میری

مجھ کو پرواز کے پر لگا دو

جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں

 

فکر دیکھو خیالات دیکھو

یہ عقیدت یہ جذبات دیکھو

میں ہوں کیا میری اوقات دیکھو

سامنے کس کی ہے ذات دیکھو

اے ادیب اپنے سر کو جھکا دو

جالیوں پہ نگاہیں جمی ہیں

٭٭٭

ماخذ:

http://kalamdb.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید