FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

جہانِ حیرت

 

 

 

 

نوشاد عادل

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

تنویر جلال ایک اونچے ٹیلے پر کھڑا ہوا تھا۔ اس نے ایک بڑے پتھر کی ہموار سطح پر نقشہ پھیلایا تھا، جو تیز ہوا میں پھڑپھڑا رہا تھا، لیکن تنویر نے اس پر ایک ہاتھ رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اُڑ نہ جائے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے گال کو مسل رہا تھا۔

وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ اس کی بے چینی اور پرتجسس نظریں بھی نقشے کے آڑھے ٹیڑھے خطوط سے اُلجھے لگتیں اور کبھی وہ اپنے سامنے کے سرسبز پہاڑوں اور جنگل کے وسیع و عریض علاقے کو گھورنے لگتا۔ اس کے گلے میں طاقت ور دوربین بھی لٹک رہی تھی۔ اسے شروع سے ہی اس نقشے پر یقین نہیں تھا۔ اس کے خیال میں یہ ایک احمقانہ بات تھی کہ ہزاروں سال پہلے کے شہریا علاقے ’’بارکی‘‘ کا نقشہ اب بھلا کس کام آئے گا۔ ’’بارکی‘‘ کے آثار بہت عرصہ پہلے ہی ختم ہو چکے تھے۔ اتنے سالوں میں تو دنیا کا ہی نقشہ بدل گیا تھا۔ جہاں کبھی سمندر تھے، وہاں اب ملک آباد ہیں اور بہت سے خشک علاقوں پر اب پانی تھا۔

تنویر جلال نے گہرا سانس لے کر نقشہ تہہ کیا اور مڑ کر اپنے ساتھیوں کی طرف چل دیا، جو ٹیلے سے نیچے خیموں میں موجود تھے۔

ان سب لوگوں کا تعلق محکمہ آثار قدیمہ سے تھا۔ کچھ عرصے قبل محکمے کے ہتھے ایک سال خوردہ چمڑے کی کتاب لگ گئی تھی۔ اس کتاب میں عجیب و غریب زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ اس تحریر میں لفظوں سے زیادہ تصویریں تھیں۔ تصویریں بھی پیچیدہ تھی۔ کہیں تاج بنا ہوا تھا، کہیں پہاڑ بنے ہوئے تھے، کہیں سورج کی تصویر تھی، کہیں کہیں صرف اُلٹی سیدھی لکیریں تھیں۔ اس کتاب میں بارکی کا نقشہ بھی تھا۔ نقشے میں سمتوں کے رخ کو واضح نہیں کیا گیا تھا، اس لیے بہت زیادہ دشواری پیش آئی تھی۔ قدیم زمانوں کے ماہرین کو کتاب میں بنے ہوئے نقشے کو انہوں نے دوبارہ اپنی سمجھ سے بنایا تھا۔ دوسرے لفظوں میں نقشے کو آسان کر دیا تھا۔ نقشے کو سمجھنے کے لیے بے شمار کتابوں سے مدد لی گئی تھی۔ لندن کی ٹارکوائے پبلک لائبریری سے قدیم تہذیبوں اور قوموں کی کتابیں منگوائی گئیں۔ بے شما رانسائیکلوپیڈیا کھنگالے گئے، مگر صرف نقشہ ہی تھوڑا بہت عقل میں آیا۔ کتاب بدستور پراسرار بنی رہی۔

آخر کار محکمے نے دس ماہرین پر مشتمل ایک کھوجی ٹیم تشکیل دی، جنہیں بارکی کے آثار کا کھوج لگانا تھا۔ ان دس ماہرین میں سب سے معمر اور تجربہ کار ڈاکٹر مقصود تھا۔ اُن کی عمر سے زیادہ ان کا تجربہ تھا۔ وہ بے شمار سندیں گولڈ میڈل اور اعزازات حاصل کر چکے تھے۔ باقی نو افراد ان سے جونیئر تھے۔ ان میں شکیل احمد، شاہد عباس، محمود حسین، تنویر جلال، جہاں زیب، محمد آصف، راشد اعوان، اسلم وقار اور صفدر دانش شامل تھے۔ دس افراد پر مشتمل یہ ٹیم گزشتہ سولہ دنوں سے اس جنگل میں اندازے اور قیاس آرائیاں کر رہی تھی، لیکن رتی برابر کامیابی نہیں ہوئی تھی۔

تنویر سیدھا ڈاکٹر مقصود کے خیمے میں پہنچا۔ وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔ انہیں تنویر کی آمد کا احساس تک نہ ہو سکا۔ تنویر نے گلا کھنکار کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ڈاکٹر مقصود چونک کر اسے دیکھنے لگے۔

’’آؤ بیٹھو تنویر…‘‘ تنویر کے بیٹھنے کے بعد ڈاکٹر بولے۔ ’’میرا خیال ہے کہ نقشے میں کوئی کمی رہ گئی ہے یا پھر یہ غلط بنایا گیا ہے اور اگر فرض کرو… یہ درست بھی ہے تو اس مقام کا ملنا بہت دشوار ہے۔ نئے بنائے گئے نقشے کے مطابق ہم اس وقت اسی مقام پر ہیں، جہاں بارکی کو ہونا چاہیے تھا۔ ‘‘

تنویر سر کو ہلاتا ہوا بولا۔ ’’تب پھر ہم واپس جا کر اپنی رپورٹ پیش کر دیتے ہیں، تاکہ یہاں کھدائی کا کام شروع ہو سکے۔ ‘‘

’’مگر تنویر یہاں کھدائی آسان نہیں ہو گی۔ یہاں اسی فیصد علاقہ پہاڑی ہے۔ اگر اتنی کھدائی کے بعد بھی ناکامی ہوئی تو جانتے ہو محکمے کو کتنا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔ ‘‘ ڈاکٹر مقصود نے اپنا پائپ نکال کر اس میں تمباکو بھرتے ہوئے کہا۔

’’لیکن سر یہ رسک تو لینا ہی ہو گا۔ کامیابی اور ناکامی تو قسمت کی بات ہے۔ ‘‘ تنویر نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’خیر ہم ایک دو روز اور دیکھ لیتے ہیں۔ پھر واپسی کا راستہ اختیار کریں گے۔ ‘‘ ڈاکٹر مقصود یہ کہہ کر نیم دراز ہو گئے۔

تنویر سر کو جنبش دیتا ہوا خیمے سے باہر آ گیا۔ ایک جگہ ان کے چار ساتھی زمین پر لکیریں بنا کر پتھروں سے کچھ کھیل رہے تھے، جب کہ جہاں زیب اُن سے قدرے ہٹ کر بیٹھا ہوا تھا اور کسی ناول کا مطالعہ کر رہا تھا۔ تنویر نے دیکھا، اُس کے ہاتھ میں سڈنی شیلڈن کا مشہور ناول ’’‘ماسٹر آف دی گیم‘‘ تھا۔

تنویر کے آتے ہی جہاں زیب نے ناول رکھ دیا اور مسکرا کر پوچھا۔ ’’تم ابھی بڑے میاں کے پاس گئے تھے۔ کیا کہہ رہا تھا وہ بڈھا؟‘‘

تنویر کے ماتھے پر ناگواری کی شکنیں نمودار ہو گئیں ’’جہاں زیب… تمہیں غیر مہذبانہ الفاظ زیب نہیں دیتے۔‘‘

جہاں زیب قہقہہ لگا کر ہنسا ’’جہاں زیب کو سب زیب دیتا ہے۔ وہ کم بخت ریٹائرڈ بھی نہیں ہوتا…ہماری ترقی کے آگے دیوار بنا ہوا ہے۔ ‘‘

تنویر خاموشی سے اُسے گھورتا رہا۔

جہاں زیب نے اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر کہا۔ ’’تنویر ڈئیر…مجھے تو لگتا ہے یہ بارکی شہر محض ایک خیال شہر ہے، کیوں کہ بار کی نامی شہر کا ذکر کسی بھی کتاب میں نہیں ملا ہے۔ اور اگر بارکی شہر تھا تو کیا واقعی اسی مقام پر نا پیدا ہوا تھا؟‘‘

’’یقین سے کوئی بات نہیں کہی جا سکتی …‘‘ تنویر خشک لہجے میں بولا ’’کیا تمہیں یقین ہے تم کل تک زندہ رہو گے ؟‘‘

’’تمہیں تو ادیب ہونا چاہیے تنویر جلال صاحب… لفاظی اچھی کر لیتے ہو۔ ‘‘ جہاں زیب ہنسا۔

تنویر وہاں کچھ دیر مزید بیٹھا اور پھر اٹھ کر اپنے خیمے میں آ گیا۔ ان لوگوں نے وہاں پانچ خیمے لگائے تھے۔ ہر خیمے میں دو دو آدمی سوتے تھے۔ سورج غروب ہو گیا تو اندھیرے بڑھنے لگے۔ ان کے ساتھیوں نے چائے بنائی اور سب چائے پینے میں مصروف ہو گئے۔ اس جگہ آس پاس بہت سے گھنے درخت تھے۔ پرندے اپنے آشیانوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔ جنگل سے جنگلی جانوروں اور پرندوں کی ملی جلی آوازیں آ رہی تھیں۔ کیڑے مکوڑوں اور جھینگروں کی ریں ریں بھی اُبھرنے لگی تھیں۔ یہ لوگ سولہ دنوں میں ان آوازوں کے عادی ہو چکے تھے۔

ایسے میں ببر شیر کی زبردست دھاڑ سنائی دی۔

سب لوگ چونک گئے۔ تمام لوگوں کے پاس درندوں اور دیگر جانوروں کے ممکنہ حملہ سے محفوظ رہنے کے لیے اسلحہ بھی موجود تھا۔ شیر کی آواز نے وہاں سنسنی دوڑا دی۔ سب نے چائے کے کپ رکھ دیے اور اپنی اپنی گنیں تان کر کھڑے ہو گئے۔ صرف شاہد ایسا تھا، جو اسلحہ اُٹھانے کے ساتھ ساتھ چائے بھی پیتا جا رہا تھا۔ وہ چائے کا کپ لے کر کھڑا ہو گیا تھا، لیکن اس کی توجہ گرد و پیش سے زیادہ چائے کے کپ پر قائم رہی۔ شیر دوبارہ دھاڑا۔ اس بار دھاڑ بہت قریب سے اُبھری تھی۔ خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ سب کے روئیں روئیں کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ لوگ گھوم گھوم کر چاروں اطراف دیکھ رہے تھے۔ کافی دیر گزرنے کے بعد انہیں اطمینان ہو گیا کہ وہ درندہ جا چکا ہے۔

’’یقیناً‘‘ درندہ یہاں سےج اچکا ہے۔ ‘‘ آصف نے گن کی نالی نیچی کر لی۔

’’ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ ‘ ‘ محمود نے سر ہلا کر اس کی تائید کی ’’ورنہ اس کی دھاڑ دوبارہ ضرور سنائی دیتی۔ ‘‘

اچانک تنویر نے دیکھا کہ ڈاکٹر مقصود کے خیمے میں اُن کا مدھم سا سایہ نظر آ رہا ہے وہ اپنے نزدیک کھڑے راشد سے بولا۔ ’’یہ ڈاکٹر صاحب خیمے میں کیا کر رہے ہیں ؟‘‘

اس سے پیش تر راشد جواب دیتا۔ اس نے ڈاکٹر مقصود کی لرزاں آواز سنی ’’مم… میں تو یہاں ہوں۔ ‘‘

تنویر نے مڑ کر دیکھا، ڈاکٹر مقصود اس کے عقب میں سہمے کھڑے تھے۔ اس کے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ تب اس نے دھیمی غراہٹ سنی۔ اس کا مطلب تھا کہ خیمے میں درندہ عقب سے داخل ہو چکا تھا۔ تنویر نے اپنی گن اٹھا کر خیمے کی طرف رخ کیا اور گولی چلا دی۔ گولی خیمے میں سوراخ کرتی ہوئی اندرگھس گئی۔ تنویر نے یکے بعد دیگرے کئی فائر کر ڈالے۔ اندر موجود درندہ زور سے چیخا۔ اس کی دھاڑ میں تکلیف کی آمیزش بھی تھی۔ وہ عقب سے ہی بھاگ نکلا۔ ڈاکٹر مقصود بری طرح کانپ رہے تھے۔ وہ سب پتھر کے بت بنے کھڑے رہے۔

اعصاب شکن ماحول کے سکوت کو تنویر کی آواز نے توڑا۔ ’’ڈاکٹر صاحب خود کو سنبھال لیں۔ شیر بھاگ گیا ہے …‘‘

’’لیکن تنویر مت بھولو کہ درندہ زخمی ہو کر مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ ‘‘ شکیل نے گویا اسے یاد دلایا۔

’’یاد دھانی کا شکریہ…‘‘ تنویر روکھے انداز میں بولا ‘‘زخمی شیر سے زیادہ خطرناک یہ میری شیرنی ہے۔ ‘‘ تنویر نے اپنی گن پر ہاتھ پھیرا۔ شکیل لاجواب ہو کر دوسری جانب دیکھنے لگا۔

وقت کا پہیہ گول گول گھومتا ہا گزرتا رہا۔

شام کے رخصت ہوتے ہی رات کالی نقاب پہنے دندناتی ہوئی وہاں آ گئی۔ تنویر کے سوا تمام ساتھیوں کے دلوں پر درندے کا خوف چھپکلی کی طرح چمٹا رہا۔ آسمان پر کالے بادلوں کی موٹی سی تہ جم گئی تھی۔ بارش کے امکانات خاصے روشن تھے۔ یہ دسوں افراد ڈاکٹر مقصود اور تنویر والے خیمے میں جمع تھے۔ ایک جگہ جمع رہنے سے وہ ایک دسرے سے باخبر رہ سکتے تھے۔ خیمے میں کیروسین لیمپ روشن کر لیے گئے۔ دس افراد کی وجہ سے بڑا خیمہ بھی بھرا بھرا لگ رہا تھا اور دو لیمپوں کی روشنی وہاں ناکافی تھی۔ خیمے کا داخلی و خارجی راستہ موٹی زپ لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ سب خاموش بیٹھے ایک دوسرے کے چہرے دیکھ رہے تھے۔

باہر ہوا پر اچانک دیوانگی کا دورہ پڑ گیا۔

انہیں تیز ہوا کی ابلیسی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہوا کے ریلے جنونی حالت میں پاگل ہاتھی کی طرح چنگھاڑ رہے تھے۔ ہوا کی تیزی میں بتدریج اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ خیمہ بھی پھڑپھڑانے لگا۔ سب کے چہروں پر ایک ہی سوال تھا… اب کیا ہو گا؟ اتنی تیز ہوا خیمے کی جڑوں سے اندر داخل ہونے لگی لیمپ ٹمٹمانے لگے، مگر بجھے نہیں۔ آسمان پر بجلی نے چمکنا شروع کر دیا تھا۔ باہر بجلی اتنے زور سے چمکتی کہ ان لوگوں کو خیمے کی دیواروں پر جھومتے ہوئے درختوں کے سائے نظر آنے لگتے۔

اچانک اسلم آصف اور راشد کے منہ سے خوفزدہ آوازیں نکلیں۔

تنویر نے انہیں دیکھا تو وہ خیمے کی دیوار کی جانب اشارے کرنے لگے تنویر نے اشارہ کی سمت دیکھا تو کچھ نظر نہیں آیا۔ یک بارگی بجلی زور سے کڑکی اور ہر طرف روشنی پھیل گئی۔ تنویر نے اس خیمے کی دیواروں پر بھیڑیوں کے بھاگتے دوڑتے سائے دیکھے۔ وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ سب لوگوں کے چہرے خوف کے مارے فق پڑ گئے۔ آسمانی بجلی مسلسل وحشیانہ انداز میں لپک رہی تھی۔ اس کے دل دہلا دینے والے کڑاکوں سے ان لوگوں کے زرد چہروں پر مایوسی، نا اُمیدی اور خوف کی پپڑیاں جمتی جا رہی تھیں۔ خوف ناک جنگل، طوفانی رات، آسمانی بجلی کے غصیلے کڑاکے، اندھیرا اور اس پر یہ کہ جنگل کے بھوکے خونخوار بھیڑیے بھی وہاں آن پہنچے تھے۔

’’چاروں طرف پھیل کر کھڑے ہو جاؤ۔ ‘‘ تنویر نے تیزی سے اپنے ساتھیوں کو ہدایت دی۔ اس سلسلے میں اسے تیز آواز میں بولنا پڑا تھا۔ ’’اپنے ہتھیار سنبھال لو… دوستوں ہمت مت ہارنا… کوئی بھیڑیا اندر آنے کی کوشش کرے تو بے دریغ اسے ختم کر دینا۔ ‘‘

بھیڑیے خاموشی سے خیمے کے گرد چکراتے رہے۔

یک لخت کوئی بھیڑیا زور سے چیخا۔ اس کی چیخ سے اُن کے اعصابوں پر برف جمنے لگی۔ بھیڑیے نے چیخ کر گویا اعلان جنگ کر دیا تھا۔ بیک وقت کتنے ہی بھیڑیے خیمے پر حملہ آور ہو گئے۔ جس طرف آصف کھڑا تھا، ادھر کسی بھیڑیے نے خیمے پر پنجے مارے اور خیمے کو چھیلتا چلا گیا۔ آصف نے جلدی سے گن سیدھی کر کے گولیاں چلا دیں۔ خیمے کا وہ حصہ بھیڑیے کے بدن سے اُچھلنے والے خون سے سرخ ہو گیا۔ بھیڑیا اپنی زندگی کی آخری غراہٹ کے ساتھ دور جا گرا۔ تنویر کے ساتھ محمود اور اسلم تھے۔ محمود نے گن کے بجائے لمبا چھرا پکڑا ہوا تھا۔ یہ چھرا گھنے جنگلات میں رکاوٹ بننے والے پودوں اور جھاڑیوں کو کاٹنے کے کام آتا ہے۔ خیمے میں جا بجا چھوٹے بڑے سوراخ ہو گئے تھے۔ ایک سوراخ سے کسی بھوکے بھیڑیے نے اپنی تھوتھنی اندر داخل کر دی۔ اندر موجود انسانوں کو دیکھ کر اس نے خونی انداز میں اپنا بھیانک جبڑا کھولا۔ ڈاکٹر مقصود نے جبڑا اور جبڑے والے کو دیکھا تو انہوں نے ڈر کے مارے سہمی ہوئی چیخ ماری۔ اسی لمحے محمود نے پھرتی کا مظاہر کیا اور چھرے کا وار بھیڑیے کی تھوتھنی پر کیا۔ چھرے کی دھار کو داد نہ دینا زیادتی ہی تھی۔ اس نے صفائی سے تھوتھنی کو بھیڑیے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا تھا۔ آدھا کلو کی تھوتھی خیمے میں پڑی رہ گئی اور باقی ماندہ منہ کٹا بھیڑیا تیز آواز میں گردن سے لٹکنے والی نالیوں سے خرخراتا ہوا جنگل میں بھاگ گیا۔ کٹا ہوا جبڑا ابھی تک کچا چبا جانے والے انداز میں کھلا ہوا تھا۔ ادھر اسلم نے ایک بھیڑیے کے ساتھ خوف ناک مذاق کیا۔ اس نے ایک سوراخ سے گن کی نال باہر نکال دی۔ باہر موجود بھیڑیوں میں سے ایک نے نال کو دیکھا تو شاید اسے اپنی دشمن سمجھا۔ اس نے منہ پھاڑ کر گن کی نال کو اپنے دانتوں سے چبانا چاہا۔ ابھی نال کو چبانے کی کوشش جاری ہی تھی کہ اسلم نے گن کو زور سے جھٹکا دے کر نال بھیڑیے کے حلق میں داخل کر دی اور صرف ایک فائر کیا۔ گولی بھیڑیے کی گردن کی عقبی حصے یا گدی سے نکل گئی۔ بھیڑیے نے آخری سانس نتھنوں کے بجائے گدی کے سوراخ سے لیا تھا اور کئی پٹخنیاں کھا کر بے حس و حرکت ہو گیا۔ اتنی دیر میں دوسرے ساتھی بھی کئی بھیڑیوں کو ٹھکانے لگ اچکے تھے۔ جب کئی بھیڑیوں کی لاشیں گریں تو اپنے ہی ساتھیوں کی بو نے باقی بھوکے خونخوار بھیڑیوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔ بھیڑیے اپنے ساتھیوں کی لاشوں پر ٹوٹ پڑے۔ نا جانے کیسے خوف ناک بھیڑیے تھے کہ انہوں نے طوفانی رات، آسمانی کوندوں، جہنمی ہواؤں کو فراموش کر دیا تھا۔ اتنی تیز ہوا میں بعض بھیڑیے ہوا کے تھپیڑوں سے اِدھر اُدھر اور آگے پیچھے کھسک رہے تھے، لیکن خون کی بو نے انہیں دنیا کی ہر شے سے غافل کر دیا تھا۔ وہ مرنے والے بھیڑیوں کی لاشوں کے بخیے کر رہے تھے۔ ایک ایک لاش کو کئی سمتوں سے کھینچا جاتا تو مردہ بھیڑیے کی ہڈی الگ اور بوٹی الگ ہو جاتی۔ تنویر کی ہدایت پر سب ساتھیوں نے اپنا سب سامان پلاسٹک کے بیگوں میں اُلٹا سیدھا ٹھونسا اور عقبی سمت سے خیمہ چاک کر کے نکل گئے۔ ان کے پاس ٹارچیں بھی تھیں۔ لیمپ یونہی جلتے ہوئے اندر ہی چھوڑ دئیے گئے۔ باہر آنے پر انہیں ہوا اور آسمانی بجلی کے بہاؤ کا علم ہوا۔ سب جان توڑ کر بھاگے۔ تنویر اور شکیل نے ڈاکٹر مقصود کے بازو پکڑے ہوئے تھے۔ ماہر آثاریات ڈاکٹر مقصود کو اپنے مرنے کے آثار نظر آ رہے تھے۔

وہ ابھی کچھ آگے ہی گئے تھے کہ انہیں بھیڑیوں کی اجتماعی چیخ سنائی دی۔

پیٹ بھرے ہونے کے بعد بھیڑیوں نے خیمے کی طرف رخ کیا تھا تو معلوم ہوا کہ خیمے کے باسی اپنی دکان بڑھا گئے۔ بھیڑیے انہیں کی جانب آ رہے تھے۔ سب لوگ جی جان ایک کر کے دوڑ رہے تھے۔ گھپ اندھیرے میں وہ ٹھوکریں بھی کھا رہے تھے۔ گرتے، مگر پھر اسی رفتار سے بھاگنے لگتے۔ زندگی کتنی پیاری اور موت کتنی بھیانک ہے، یہ آج معلوم ہو رہا تھا۔ انہیں کبھی نا کبھی مرنا تھا، مگر وہ ان خونخوار بھیڑیوں کا لقمہ بننے کے لیے ہر گز تیار نہ تھے۔ درخت زور زور سے جھوم رہے تھے۔ کئی کمزور درخت چٹختے، چرچراتے ہوئے گر رہے تھے۔ ہوا کی وجہ سے بال اور کپڑے بری طرح پھڑپھرا رہے تھے۔ چہرے پر ہوا لگتی تو یوں لگتا تھا، جیسے کوئی مٹھی بھر کے کنکر مار رہا ہو۔ یہ سب لوگ ایسے راستے پر بھاگ رہے تھے، جو کسی نالے کی طرح تھا اور اردگرد اونچے اونچے درخت اور ڈھلان تھیں۔ ایسے میں اگر کوئی پتھر اوپر سے لڑھکتا تو اس نالے نما راستے میں ہی آ گرتا۔ یہاں کی زمین بہت نم تھی۔ پھسلن کا بھی خطرہ تھا۔ نمی کی وجہ سے یہاں آنکڑے اور جھاڑیاں پیدا ہو گئی تھیں۔ سانپ بچھوں ایسی ہی جگہوں پر بکثرت پائے جاتے تھے۔ دونوں جانب کی ڈھلانوں سے پتھر لڑھکتے ہوئے اس راستے میں گر رہے تھے۔ کتنے ہی چھوٹے پتھر اُن کے جسموں سے آ ٹکرائے، لیکن وہ ان پتھریلی تکلیفوں کو بڑے حوصلے سے سہہ گئے۔

اچانک آصف کا پیر پھسلا اور وہ بری طرح گر گیا۔ بے ساختہ اس کے منہ سے کرب ناک چیخیں نکلیں۔ وہ پورا کا پورا کیچڑ میں لتھڑ گیا تھا۔ محمود رُک کر اسے اٹھانے کے لیے جھکا۔ یہی وہ لمحہ تھا کہ جب گرے ہوئے آصف نے ایک بڑا سا پتھر اُڑتا ہوا اپنی جانب آتے دیکھا۔ صرف ایک لمحے میں آصف نے فیصلہ کیا تھا۔ اگر وہ پتھر محمود پر آ گرتا تو وہ دونوں ہی بیک وقت پتھر کے بوجھ تلے کچل کر ختم ہو جاتے۔ اس نے محمود کے بڑے ہوئے ہاتھوں کو تھاما اور زوردار جھٹکا دیا۔ محمود لڑکھڑا کر الگ جا گرا اور وہ بھاری پتھر توپ کے گولے کی طرح آصف کی ٹانگوں پر آ گرا۔۔ آصف کی چیخ سے ان لوگوں کے دل پھٹ سے گئے۔ اس کی درد میں لتھڑی ہوئی چیخ طوفانی ہوا کے جھکڑوں سے متصادم ہوتی ہوئی خلاؤں میں گم ہو گئی۔ باقی آٹھ ساتھی ان سے بہت دور نکل گئے تھے۔ آصف کی چیخ سن کر وہ لوگ پلٹ کر یہ افسوس ناک منظر دیکھنے لگے۔ محمود نے آصف کو جانکنی کے عالم میں سر پٹختے دیکھا تو غم کے مارے پاگل ہو گیا۔ اسے احساس تھا کہ آصف نے اس کی جان بچائی ہے۔ وہ آصف کے قریب بیٹھ گیا اور پتھر ہٹانے کی کوشش کرنے گا۔

شکیل نے پوری طاقت سے چلا کر کہا۔ ’’محمود باگل مت بنو…یہ پتھر نہیں ہٹے گا… آصف مر چکا ہے … فوراً نکل چلو… ورنہ بھیڑیے آ جائیں گے۔ ‘‘

’’دفع ہو جاؤ تم…‘‘ محمود ہذیانی انداز میں چیخا… ‘‘تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو جاؤ بھاگ جاؤ… آصف ابھی زندہ ہے۔ ‘‘

تنویر، اسلم، راشد اور صفدر پلٹ کر محمود کے پاس آئے۔ آصف آخری سانسیں لے رہا تھا۔ اس کے منہ، ناک اور کانوں سے خون کی دھاریں نکل آئی تھیں۔ بمشکل اس نے اُکھڑے ہوئے لہجے میں کہا ’’تت… تم… سب… جج… جاؤ۔ میرا وقت پورا ہو… ہو گیا ہے …آہ۔ ‘‘

وہ چاروں پتھر ہٹانے کی کوشش کرنے لگے، مگر پتھر لڑھک کر واپس اپنی جگہ آ جاتا۔ اس کی معمولی سی جنبش کی وجہ سے وہ لوگ آصف کی پھنسی ہوئی ٹانگیں نہ نکال سکے، آصف کے لبوں پر لہولہان مسکراہٹ پھیل گئی۔

’’بے کار ہے دوستوں … قدرت… نے … میرا… فیصلہ کر دیا ہے … تقدیر کے کاموں میں … دخل اندازی مت کرو جاؤ… جاؤ۔ ‘‘

’’ہاں تنویر…‘‘ محمود نے اتھل پتھل لہجے میں کہا۔ ’’تم لوگ جاؤ…میں آصف کے پاس ہوں میں بھیڑیوں کو روکنے کی کوشش کروں گا وقت کم ہے وہ قریب آتے جا رہے ہیں … جاؤ، ورنہ ہم سب مر جائیں گے میری بات مان لو… جاؤ…‘‘

’’یہ وقت جذباتی ہونے کا نہیں ہے …آہ…‘‘ آصف نے خون تھوکا… ’’محمود میں تو ہر حالت میں مر ہی جاؤں گا، تم کیوں اپنی زندگی گنواتے ہو دوست… چلو تم بھی چلے جاؤ۔ ‘‘

’’موت میرے نصیب میں بھی تھی دوست۔ ‘‘ محمود نے آصف کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ ’’وہ مجھے بچا کر اپنی زندگی داؤ پر لگا دی تو میں تمہیں یوں بے یارو مددگار کیسے چھوڑ سکتا ہوں تنویر… صفدر… تم لوگ جلدی بھاگ لو… جاؤ میرے بھائیوں۔ ‘‘

تنویر نے محمود کے لہجے کی پختگی سے اندازہ لگا لیا کہ اب اسے وہاں سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہٹا سکتی ہے۔ چناں چہ وہ چاروں اس جگہ سے آگے بڑھ گئے۔ محمود نے جاتے ہوئے دوستوں کو پتھریلی نظروں سے دیکھا اور دھیرے دھیرے ہاتھ اٹھا دیا ’’خدا حافظ‘‘

سب ساتھیوں کے ہیولے سیاہ اندھیرے کے حلق میں اُتر گئے۔ اب بھیڑیوں کی آوازیں مزید واضح ہو گئیں تھیں۔ آصف کا دم اُکھڑ رہا تھا۔ پتھر کا بے پناہ بوجھ اس کے بدن سے خون نچوڑ رہا تھا۔ محمود نے آصف کو جھنجوڑ کر کلمہ پڑھنے کو کہا اور خود گن سنبھال کر مسکرانے لگا۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں چھرا تھا۔ بھیڑے لمبی لمبی چھلانگیں لگاتے ہوئے۔ جنونی انداز میں دونوں دوستوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ قریب ہوتے چلے گئے۔

اچانک محمود دھاڑتا ہوا پلٹا اور چیختے ہوئے گولیاں برساد یں۔

آگے آگے بھاگنے والے کتنے ہی بھیڑیے فضا میں قلابازیاں کھا گئے۔ محمود پر جنون طاری ہو گیا تھا۔ اس کی دھاڑ ہواؤں کی چنگھاڑ سے کہیں زیادہ تھی۔ شاید بھیڑیے اس کی دھاڑ سن کر ڈر گئے تھے۔ اچانک فائرنگ بند ہو گئی۔ گن کا میگزین خالی ہو گیا۔ محمود نے خالی گن پھینکی اور چھرا دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ بھیڑیے خاموشی سے اپنے مرنے والے ساتھیوں کی لاشیں سونگتے رہے۔ پھر انہیں احساس ہو گیا کہ ان کے ساتھی مر چکے ہیں تو ان پندرہ بیس بھیڑیوں نے مل کر محمود پر حملہ کر دیا۔ محمود کے ہاتھ حرکت میں آ گئے۔ اس کی کوشش یہ تھی کہ کوئی بھی بھیڑیا آصف کی طرف نہ جا سکے۔ چند ہی وار میں کئی بھیڑیے اپنی زندگیوں سے محروم ہو گئے یا پھر اگلی ٹانگوں سے، مگر کب تک وہ اکیلا اتنے بھیڑیوں سے لڑتا۔ آخر بھیڑیوں نے اسے گرا لیا۔ اگلے ہی لمحے اس کا بدن بھیڑیوں کے بدبو دار جسموں تلے چھپ گیا۔

اُدھر آٹھوں افراد گرتے پڑتے بھاگ رہے تھے۔ سب سے زیادہ برا حال ڈاکٹر مقصود کا تھا۔ اس کی آدھی عمر ویرانوں جنگلوں میں تحقیق کرتے ہوئے گزری تھی، لیکن اتنے ہول ناک اور سنگین حالات کا شکار وہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ خوف ناک ماحول موسم سے زیادہ ان خونی بھیڑیوں کا خوف تھا۔ نا جانے محمود اور آصف کا کیا حشر ہوا ہو گا؟ یہ سوال سب کے ذہنوں میں گردش کر رہا تھا۔ وہ لوگ ابھی تک اس نالے نما راستے میں تھے۔ دونوں اطراف سے درختوں، پودوں کے پتوں، چھوٹی بڑی ٹہنیاں اور چھوٹے بڑے پتھر لڑھک رہے تھے۔ وہ لوگ پتھروں سے خود کو بچا رہے تھے، لیکن پھر بھی ہر کوئی تھوڑا بہت زخمی ہو گیا تھا۔ اس راستے کا اختتام ایک چھوٹے سے غار کے دھانے پر ہوا۔ آگے بھاگنے والے چھ کے چھ افراد غار میں داخل ہو گئے۔ شاہد ایک پتھر لگنے کی وجہ سے زخمی ہو گیا تھا۔ اسے اسلم نے اٹھا یا ہوا تھا۔ اسلم غار سے چھ سات قدم دور تھا کہ اوپر سے ایک عظیم الشان پتھر قیامت خیز آواز کے ساتھ ان پر آ گرا۔ اسلم اور شاہد پتھر کے نیچے چیونٹی کی طرح دب کر پس گئے۔ نا جانے پتھر کے نیچے ان کے مردہ جسموں کا کیا حال ہوا ہو گا۔ ان کی ہڈیاں ٹوٹ کر ایک دوسرے کے بدن میں گھس گئی ہوں گی۔ غار کے اندر موجود ساتھی کچھ نہ کر سکے اور ان کی آنکوں کے سامنے ان کے دونوں ساتھی لمحوں میں ختم ہو گئے۔ سب کے دل خون کے آنسو رہ رہے تھے۔ غار کا ماحول بوجھل اور غم ناک ہو گیا۔ آوازیں گویا مصلوب ہو گئی تھیں۔ یہ آسمانی بجلی ان کے غم ناک چہروں پر بار بار چمکارے مار رہی تھی۔

آخر کار شکیل نے جاں گداز آواز میں مہر خاموشی توڑا۔ ’’یہ … یہ سب کیا ہو گیا ؟ محمود، آصف، اسلم، شاہد… یہ کیسے ختم ہو گئے ؟ ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ … زندہ تھے ؟‘‘

’’خود کو سنبھالو شکیل…‘‘ راشد نے بمشکل اپنے اندر سے اُمڈتے ہوئے دکھ کو دبایا ہوا تھا۔ ’’ان کے نصیب میں مرنا تھا …مر گئے …کبھی کبھی موت اس طرح اچانک بھی انسان کو دبوچ لیتی ہے۔ ‘‘

’’راشد نے ٹھیک کہا ہے …‘‘ تنویر کی آواز اندھیرے میں اُبھری۔ ’’اگر ہم مرنے والوں کا دکھ کرتے رہے تو خود ہماری ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں مفلوج ہو جائیں گی اور ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔ ‘‘

اتنے میں جہاں زیب نے بیگ میں ٹارچ نکال کر روشن کر لی اور غار کا جائزہ لینے لگا۔ اس نے غار کے اندر روشنی پھینکی تو غار میں روشنی کا گولہ اندر جا کر غائب ہو گیا۔ اس کا مطلب تھا کہ یہاں سے غار کی لمبائی کا اندازہ لگانا بہت دشوار تھا۔ نا جانے غار کا دوسرا سرا کتنے فاصلے پر تھا۔

’’میرا خیال ہے، ہمیں غار کے دوسرے سرے کی طرف چلنا چاہیے۔ ’’ڈاکٹر نے باہر لڑھکتے ہوئے پتھروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ہمارا اس وقت یہاں سے باہر نکلنا خود کشی کے مترادف ہو گا۔ ہم ان پتھروں کا شکار بھی ہو سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ باہر بھوکے بھیڑیے بھی موجود ہیں، جو کسی وقت بھی ہمیں دبوچ سکتے ہیں۔ ‘‘

’’لیکن ہم ادھر ہی ٹھہر کر طوفان رکنے کا انتظار تو کر سکتے ہیں۔ ‘‘ صفدر نے رائے دی۔

’’رکنے میں مزید خطرہ ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر تنویر نے غار سے باہر جھانکا۔ ’’مجھے بھیڑیوں کی ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ اگر ہم یہاں رکے رہے تو کچھ ہی دیر میں بھیڑیے ہمیں آ لیں گے، جب کہ ہمارے اندر جانے کے بعد بھیڑیے اندر نہیں آ سکیں گے۔ ‘‘

’’جو کچھ کرنا ہے … جلدی کرو۔ ‘‘ جہانزیب نے بیگ اٹھا کر کاندھے پر ڈال لیا۔ ‘‘ وقت ضائع کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ‘‘

پھر چھ افراد کا یہ مختصر قافلہ غار کے اندر ہی اندر بڑھتا چلا گیا۔ ان کے پاس کئی ٹارچیں تھیں، مگر انہوں نے صرف ایک ٹارچ سے کام چلانے پر اکتفا کیا تھا۔ جہانزیب آگے آگے ٹارچ پکڑے چل رہا تھا۔ جوں جوں وہ آگے بڑھ رہے تھے، ہواؤں کا شور دھیما پڑتا جا رہا تھا۔ یہ غار کہیں سے بھی بل کھاتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ سیدھا سیدھا لمبائی میں وہ جانے کہاں تک چلا گیا تھا، البتہ کہیں کہیں سے غار کی پتھریلی چھت بہت نیچی ہو گئی تھی اور کہیں بہت کشادہ۔

تقریباً ایک گھنٹے چلنے کے بعد غار کا سرا آیا اور نہ ہی اس نے کہیں موڑ کاٹا تو یہ لوگ پریشان ہو گئے۔ یہ شیطانی قسم کا غار لگ رہا تھا۔ انہیں کم از کم اس بات کا اطمینان ہو گیا تھا کہ وہ لوگ بھیڑیوں کی دست رس سے نکل چکے ہیں۔ وہ لوگ گنیں اور چھرے پکڑے ہوئے تھے۔ وہاں پاگل کر دینے والی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ صرف قدموں کی چاپیں اُبھر رہی تھیں۔ آخر یہ لوگ چلتے چلتے تھک گئے۔ ڈاکٹر مقصود کی کمزور ٹانگیں تھکاوٹ کے مارے ادھر ادھر ڈگمگا رہی تھیں۔ آخر ایک جگہ آرام کرنے بیٹھ گئے۔ جہانزیب نے درمیان میں ٹارچ رکھ دی تھی، تاکہ اس جگہ تھوڑی بہت روشنی رہے۔ آرام کرنے کا مشورہ صفدر نے دیا تھا، کیوں کہ اس نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر وہ یونہی کچھ دیر اور چلتے رہے تو ڈاکٹر مقصود کو کسی ڈاکٹر کی ضرورت پڑ جائے گی۔ وہ لوگ بیٹھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگے۔

’’تنویر…‘‘ راشد کی فکر انگیز آواز گونجی۔ ’’ہم غار کے دوسرے سرے کی طرف جا تو رہے ہیں۔ اگر غار دوسری طرف سے بند ہوا تو پھر…؟‘‘

راشد کی بات نے سب کو گہرے اضطراب اور تذبذب میں ڈبو دیا تھا۔ واقعی ایسا ہو سکتا تھا۔ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تنویر نے ہنکارا بھرا۔ ’’ہوں … واقعی ایسا ممکن ہے، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم غار کے دوسرے دھانے سے قریب ہوں۔ ‘‘

جہانزیب نے ٹارچ روشن کر رکھی تھی۔ اس جگہ غار چوڑائی میں قدرے کشادہ تھا۔ غار کی چھت کافی اونچی تھی۔ اس کی چھت اور دیواروں کو دیکھ کر عجیب نامعلوم سا خوف محسوس ہو رہا تھا۔ چھت سے پتھروں کی لمبی لمبی نوکیں نکلی ہوئی تھیں۔ وہ اگر کسی انسان کے سر پر گر جاتی تو یقیناً مضبوطی کھوپڑی کے اندر تک گھس جاتی۔ ابھی تنویر، صفدر اور راشد غار کے دوسرے دھانے کے متعلق قیاس آرائیں ہی کر رہے تھے کہ ناگہاں ڈاکٹر مقصود کی ہول ناک چیخ سن کر وہ اچھل پڑے۔

شکیل، تنویر اور صفدر بیک وقت ڈاکٹر کی طرف لپکے۔ جہاں زیب نے جلدی سے کھڑے ہو کر ٹارچ کی روشنی ڈاکٹر پر ڈالی۔ وہ بری طرح کانپ رہا تھا اور چہرے کی رنگت اُڑی اُڑی لگ رہی تھی۔

’’کیا ہوا سر؟ کیا بات ہے ؟‘‘ تنویر اس کے نزدیک دو زانوں بیٹھ گیا۔

’’وہ… وہ…‘‘ بدقت تمام ڈاکٹر کے منہ سے لفظوں کے ٹکڑے برآمد ہوئے۔ ’’مم… میری گردن پر بھی… کک کوئی چیز تھی… کوئی جان دار چیز… وہ ایک دم سرسراتی ہوئی گئی تھی۔ ‘‘ خوف کے مارے ڈاکٹر کی زبان لکنت کھا رہی تھی۔

جہانزیب نے ڈاکٹر مقصود کے آس پاس روشنی ڈالی، مگر وہاں کوئی جاندار شے نظر نہیں آئی۔ اس نے برا سا منہ بنا کر سر کو جھٹکا۔ ’’کچھ بھی نہیں ہے … وہم ہو گا… بلاوجہ سب کو ڈرا کر رکھ دیا آپ نے …‘‘ اس کے انداز میں خفگی کا عنصر نمایاں تھا۔

راشد اور شکیل کے چہروں پر جھنجلاہٹ طاری ہو گئی تھی، البتہ صفدر اور تنویر پریشان دکھائی دے رہے تھے۔

’’یہ ٹارچ ادھر دو مجھے …‘‘ تنویر نے جہانزیب سے ٹارچ لی اور ڈاکٹر مقصود کی گردن پر روشنی ڈالی۔ اگلے ہی لمحے وہ چونک گیا۔ گردن پر ننھے ننھے خراشوں کی شکل کے نشانات نظر آ رہے تھے۔ وہ فوری طور پر سمجھ نہ سکا کہ یہ نشانات کس جانور یا کیڑے کے ہیں۔ تنویر نے فوری طور پر بیگ میں فسٹ ایڈ بکس نکالا اور زخموں کی ٹیوب لگا دی۔ باقی ساتھی بھی زخم دیکھ کر سنجیدہ ہو گئے تھے۔ جہانزیب کے چہرے پر جھنجلاہٹ کے بجائے اب شرمندگی ٹپک رہی تھی۔

’’آخر کس قسم کے نشان ہیں ؟‘‘ ڈاکٹر نے فکر مند ہو کر پوچھا۔

’’کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ ‘‘ تنویر نے انہیں تسلی دی۔ ’’صرف معمولی خراشیں ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر ڈاکٹر کا خوف کم ہو گیا۔ اچانک وہاں زور دار سرسراہٹ ہوئی۔ سب اچھل پڑے۔ تنویر نے ٹارچ کا رخ سرسراہٹ والی جگہ پر کر دیا۔ اتنے میں راشد نے بھی ایک اور ٹارچ نکال کر روشن کر لی تھی۔ سب لوگ دم بخود رہ گئے۔ وہاں پتھر جیسی رنگت کی ایک کافی بڑی اور موٹی چھپکلی انہیں اپنی ساکن آنکھوں سے گھور رہی تھی۔ چھپکلی نے اپنے اگلے پنجے خوف ناک انداز میں پتھر پر گاڑھے ہوئے تھے۔

تنویر نے فوراً اپنے ساتھیوں کو تنبیہ کی۔ ’’خبردار اسے کچھ مت کرنا۔ چلو آہستہ آہستہ آگے بڑھو۔ ‘‘

ابھی تنویر خاموش ہوا ہی تھا کہ انہیں کئی جگہوں سے سرسراہٹ سنائی دی۔ تنویر اور راشد غار کے اس ٹکڑے میں ٹارچوں کی روشنی میں پھینکنے لگے تو ان پر یہ بھیانک راز منکشف ہوا کہ وہاں ہر طرف بڑی بڑی چھپکلیاں موجود تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ان لوگوں کی آہٹیں سن کر وہ چھپکلیاں غار کے پوشیدہ سوراخوں سے نکل آئی تھیں۔ ان لوگوں کے بدن پسینوں میں بھیگ گئے۔ دل دھڑکنے کی رفتار یا تو بہت تیز ہو گئی یا پھر بہت دھیمی۔ چھ آدمی چھپکلیوں کے سامنے بالکل ساکت و جامد کھڑے تھے۔ صفدر، تنویر، شکیل اور راشد نے اپنے اپنے چھرے نکال لیے۔ جہانزیب نے اپنی گن کاندھے سے اتار کر اس کی نال سیدھی کر لی۔

یک لخت انہوں نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا۔

غار کی ایک دیوار سے چار پانچ چھپکلیاں دوسری دیوار پر چھلانگ لگا گئیں۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ چھپکلیاں راستے میں ہی گر جائیں گے، لیکن چھلانگ لگاتے ہی چھپکلیوں کے اگلے اور پچھلے دونوں پنجے پھیل گئے۔ ان کے پنجوں کے درمیان ایک لہریں دار جھلی تھی، جن پر دوران پرواز لہریں بن رہی تھیں۔ Flying Lizard یعنی پردار چھپکلیاں اُڑتی ہوئی دوسری جانب کی دیوار سے چپک گئیں۔ وہ سب لوگ تنویر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ تنویر نے آنکھوں سے انہیں بھاگ جانے کا اشارہ کیا۔ یک بیک ڈاکٹر مقصود وہاں سے بھاگ لیا۔ ڈاکٹر مقصود کے حرکت کرتے ہی غار میں بھونچال سا آ گیا۔ چھپکلیاں اِدھر سے اُدھر چھلانگیں لگانے لگیں۔ ان کی لہریں دار جھلیوں کی پھڑپھڑاہٹ غار میں گونج رہی تھی۔

پانچوں ڈاکٹر مقصود کے پیچھے بھاگے۔ عقب میں وہ آسیبی چھپکلیاں اُڑ اُڑ کر ان کا تعاقب کر رہی تھی۔ سب سے آگے ڈاکٹر تھا۔ اس کے پاس ٹارچ نہیں تھی۔ وہ یونہی اندھوں کی طرح اندھیرے میں ہاتھ جھلاتا ہوا بھاگ رہا تھا۔ اچانک ڈاکٹر کے کان سے کوئی نرم شے آ چپکی۔ پھر اس شے کے نوکیلے دانت کان کی لو میں مضبوطی سے پیوست ہو گئے اور پنجوں نے رخسار کی کھال کھرچ کر رکھ دی۔ ڈاکٹر کے منہ سے ٹھٹھرتی ہوئی چیخ نکلی۔

وہ شے چھپکلی تھی۔ ڈاکٹر نے اسے الگ کرنا چاہا تو انگلیاں اپنے ہی خون میں تر ہو گئیں۔ معاً ڈاکٹر کے قدموں سے زمین نکل گئی۔ اسے اندھیرے میں وہ گڑھا نظر نہیں آ سکا تھا۔ گڑھے کی چوڑائی ایک دیوار سے دوسری دیوار تک تھی اور گہرائی کا اندازہ لگانا دشوار تھا۔ ڈاکٹر چھپکلی سمیت گڑھے میں گرتا چلا گیا۔ اس کے ساتھیوں کے جسموں میں یہ چیخ سن کر تھرتھری دوڑ گئی۔ گرتے وقت ڈاکٹر کو اپنا کلیجہ منہ کو آتا محسوس ہوا تھا۔ کان سے چپکی ہوئی چھپکلی نے کان کا وہ حشر کیا تھا کہ کسی قصائی نے قیمے کے ساتھ نہیں کیا ہو گا۔ وہ دھپ سے گڑھے کی تہہ سے جا ٹکرایا اور تہہ میں پڑے پتھروں نے اسے ہر فکر و تکلیف سے فی الفور نجات دلا دی۔ سینئر ماہر آثاریات ڈاکٹر مقصود اپنے تمام تر تجربے اور ذہانت کے ساتھ غار کی کھوہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا سویا تھا۔ راشد اور تنویر نے ٹارچوں کی روشنی میں گڑھا دیکھ لیا۔ وہ سب لوگ گڑھے پر سے چھلانگیں لگا گئے۔ اچانک جہانزیب نے مڑ کر فائرنگ کر دی پورا غار گولیوں کے دھماکوں سے تھرتھرا اُٹھا۔ کتنی ہی اڑتی ہوئی چھپکلیاں چھلنی بن گئیں، مگر ان دھماکوں نے ایک مصیبت کھڑی کر دی۔ غار کی چھت پر نیزوں کی طرح اُبھرے ہوئے نوکیلے پتھر ان دھماکوں کو برداشت نہ کر سکے اور ٹوٹ ٹوٹ کر راکٹوں کی طرح سیدھی حالت میں گرنے لگے۔ جہانزیب چیختا ہوا فائرنگ کر رہا تھا کہ اس کے ہاتھ پر ایک چھپکلی آ بیٹھی اور ہاتھ کی ایک انگلی چبا ڈالی۔ جہانزیب نے بلبلا کر غصے میں اپنا ہاتھ غار کی دیوار سے دے مارا۔ چھپکلی غار کی دیوار سے ٹکرا کر پچک گئی۔ اس کے اندر کا تمام میٹریل پیٹ پھاڑتا ہوا باہر آ گیا۔ وہ چھپکلی اپنی دوسری بہنوں کے لیے عبرت کی تصویر بن گئی۔ جہانزیب میگزین ختم ہونے تک فائرنگ کرتا رہا۔ اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ چھپکلیاں گولیوں کی گھن گرج اور چھت سے ٹوٹ کر کرنے والے پتھروں سے خوف زدہ ہو کر منتشر ہو گئیں۔ فائرنگ ختم ہوتے ہی جہانزیب اپنے ساتھیوں کی طرف بھاگا۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے بیگ سروں پر رکھ لیے، تاکہ اوپر سے گرنے والے پتھروں سے سر کو بچایا جا سکے۔ جہانزیب کی انگلی میں جلن اور تکلیف ہو رہی تھی، مگر وہ ضبط کیے ہوئے تھا۔ آخر وہ لوگ چھپکلی زدہ علاقے سے دور نکل آئے۔ ان کے بدن پھوڑے کی طرح دکھ رہے تھے۔ جہانزیب کو چکر آنے لگے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو چیخ کر آواز دی۔ تنویر نے مڑ کر دیکھا۔ جہانزیب ڈگمگا رہا تھا اس نے جہانزیب کو سہار دیا اور وہاں پہنچا جدھر ساتھی ان کے منتظر تھے۔

’’تنویر وہ دیکھو…‘‘ راشد نے ٹارچ کی روشنی غار کے راستے میں پھینکی۔ ’’وہ دیکھو سامنے موڑ نظر آ رہا ہے۔ ‘‘

تنویر نے دیکھا، واقعی کچھ فاصلے پر غار قوس کی صورت میں گھوم رہا تھا۔ اتنی مسافت کے بعد یہ پہلا موڑ آیا تھا۔

’’ اس کا مطلب ہے کہ غار کا دوسرا دہانہ قریب ہی ہے۔ ‘‘ شکیل نے پر جوش لہجے میں کہا۔

’’خدا کرے ایسا ہی ہو…‘‘ صفدر کی آواز لرز رہی تھی۔ ’’اس منحوس غار سے تو جان چھوٹے۔ ‘‘

’’اللہ مالک ہے۔ ‘‘ تنویر کی پختہ آواز میں حوصلہ اور یقین نمایاں تھا۔ یقین اس لیے کہ ان کا مالک و محافظ اللہ تعالیٰ ہی تھا۔

وہ لوگ آگے بڑھنے لگے۔ و یسے اب تک انہیں غار میں کہیں بھی گھٹن کا احساس نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک اچھی بات تھی، موڑ کاٹتے ہی ان لوگوں کو حیرت کا زبردست جھٹکا لگا اور وہ لوگ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ یہاں سے غار ایک دم کشادہ ہو گیا تھا۔ وہ لوگ خود کو ایک بہت بڑے ہال میں کھڑا پا رہے تھے۔ اس کی دیواریں بھی بہت اونچی تھیں۔ اس ہال کے بعد آگے بھی انہیں غار کا راستہ نظر آ رہا تھا۔ گویا غار کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ جوں جوں وہ ہال کی دیواروں کا ٹارچوں کی روشنی میں جائزہ لے رہے تھے، ان کے منہ سے تحیر خیز آوازیں برآمد ہو رہی تھیں۔

’’اف خدایا… یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں ؟‘‘ راشد کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا تھا۔

دوسروں کا حال بھی اس سے جدا نہ تھا۔ وہ سب حیران کن نظروں سے دیواروں کو دیکھ رہے تھے۔ دیواروں پر انسانی ہاتھوں سے تراشی ہوئی بڑی بڑی تصویریں بنی ہوئی تھیں، جن میں کچھ تصویریں عجیب عجیب جانوروں کی بھی تھیں اور کچھ قد آور بن مانس جیسے انسانوں کی ایک جگہ بڑے سے سورج کی تصویر ابھاری گئی تھی، جس کے آگے ایک پروں والا انسان سجدہ ریز تھا۔ اس طرح سے کانٹوں والا آہنی گرز، ڈھال اور ایک خوبصورت تاج بھی بنا ہوا تھا۔ انہوں نے سب ٹارچیں روشن کر دی تھیں، اس لیے وہاں روشنی زیادہ ہو گئی تھی۔ جہانزیب کی حالت بھی سنبھلی سنبھلی لگ رہی تھی۔

’’مجھے … مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ تصویریں تو ہم اس بوسیدہ کتاب میں دیکھ چکے ہیں، جو بارکی شہر سے متعلق ہے۔ ‘‘ صفدر کی کپکپاتی ہوئی آواز گونجی۔

’’تم نے ٹھیک اندازہ لگایا میرا بھی یہی خیال ہے۔ ‘‘ شکیل نے کہا۔

’’اس کا مطلب ہے کہ اس غار کا تعلق بارکی سے ہے۔ ‘‘ تنویر نے اپنی ٹھوڑی کھجائی۔

’’تو کیا ہم سے پہلے اس غار میں کوئی نہیں آیا۔ اگر آتا تو یہ آثار دریافت ہو چکے ہوتے۔ ‘‘ راشد کو حیرت تھی۔

’’بظاہر تو یہی کہا جا سکتا ہے۔ ‘‘ جہاں زیب نے کاندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔

تنویر ایک گوشے میں جا کر کسی تصویر پر ہاتھ پھیر رہا تھا کہ ہاتھ پھیرتے ہی وہاں زوردار گڑ گڑاہٹ ہوئی۔

تنویر بوکھلا کر کئی قدم پیچھے ہٹ گیا۔ سب نے اپنے ہتھیار سنبھال لیے ایک دروازے جتنا مستطیل تختہ اوپر اُٹھتا جا رہا تھا۔ ایک نیا راستہ کھل رہا تھا۔ سب منہ پھاڑے اچانک نمودار ہونے والے اس خفیہ راستے کو دیکھ رہے تھے۔ پانچوں آدمیوں نے اندر جھانک کر دیکھا اور عجیب سی پراسرار دودھیا روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ خاص بات یہ کہ وہاں انتہائی بڑے بڑے مکڑی کے جالے بنے ہوئے تھے، جیسے یہ جال بنتے بنتے کئی سال گزر گئے ہوں۔ وہ لوگ خود کو طلسم ہوش رُبا کی کسی پر خوف وادی کے دھانے پر کھڑا پا رہے تھے۔

’’آؤ میرے ساتھ۔ ‘‘ تنویر نے اندر جانے کے لیے قدم بڑھائے ہی تھے کہ جہانزیب نے اس کا بازو پکڑ کر واپس کھینچ لیا۔

’’یہ کیا حماقت کر رہے ہو؟‘‘جہانزیب نے درشت لہجے میں کہا، تاہم اس کے درشت لہجے میں سراسیمگی ٹپک رہی تھی۔

’’کیا بے ہودگی ہے یہ …؟‘‘ جواباً تنویر کو بھی غصہ آ گیا۔

’’تمہیں معلوم ہے کہ اندر راستہ بھی ہے یا نہیں ؟‘‘ جہانزیب کی آنکھیں اندرونی خوف و اضطراب کی غمازی کر رہی تھیں۔

’’بے فکر رہو…‘‘ تنویر نے اپنا بازو چھڑایا۔ ’’اگر راستہ نہیں ہوا تو ہم واپس آ جائیں گے۔ ‘‘

’’مگر مگر…‘‘ اس دفعہ شکیل نے کمزور سا احتجاج کیا تھا۔

’’ایک بات یاد رکھنا…‘‘ تنویر نے مڑ کر جواب دیا۔ ’’کسی بھی مقصد کو پانے کے لیے دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے، کیا تم لوگ بھول گئے ہم کس مقصد سے جنگل آئے تھے ؟‘‘ تنویر نے چند ثانیے رک کر اپنے سوال کا رد عمل دیکھنا چاہا جواباً اس کے ساتھی چپ رہے۔ تنویر نے اپنی گفتگو کے ٹوٹے ہوئے دھاگے میں گرہ لگائی۔ ’’اب اگر قسمت ہم پر مہربان ہونا چاہتی ہے تو ہمارا پیچھے ہٹنا بدنصیبی ہے۔ ہاں اگر کسی کو نہیں جانا تو وہ یہیں ٹھہر جائے … کسی پر کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ‘‘

کوئی کچھ نہ بولا۔ تنویر نے ایک بار پھر چاروں ساتھیوں کے چہرے دیکھے اور اس پر خوف ناک جگہ میں داخل ہو گیا۔ سب سے آخر میں اندر آنے والا جہانزیب تھا۔ وہ لوگ ابھی کچھ آگے ہی گئے ہوں گے کہ دوبارہ گڑ گڑاہٹ کے ساتھ پتھر کا دروازہ اوپر سے بند ہونے لگا۔ جہانزیب اور شکیل چیخ کر دروازے کی طرف بڑھے۔ دونوں نے گرتے ہوئے پتھریلے دروازے کو پکڑ لیا، لیکن وہ بدستور گرتا ہی رہا۔ جہانزیب نے پھرتی سے اپنی خالی گن کندھے سے اُتاری اور دروازے کے نیچے کھڑی حالت میں رکھ دی۔ پتھریلا دروازہ گن پر آ کر رکا نہیں، وہ گرتا ہی رہا، گن کی نال ٹیڑھی ہونے لگی۔ آخر کار وہ فرش سے آ کر ٹک گیا۔ گن اس کے نیچے پھنسی رہ گئی۔ جہانزیب اور شکیل ہانپنے لگے۔

’’اُف… اب… اب کیا ہو گا؟ راستہ تو بند ہو گیا۔ ‘‘ شکیل پھنسی پھنسی آواز میں منمنایا۔ ’’ہم تو قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ ‘‘

’’یہ سب … یہ سب کچھ تنویر کی وجہ سے ہوا ہے۔ ‘‘ جہانزیب پھٹ پڑا۔ ’’اس کے کہنے میں آ کر ہم نے بڑی غلطی کی ہے۔ ‘‘ وہ یک بارگی بھڑک گیا تھا۔

’’بکواس مت کرو۔ ‘‘ تنویر غرا کر پلٹا۔ ’’ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا جس نے باہر رکنا ہے، رک جائے، تب کیوں نہیں رکے تھے ؟‘‘

’’آپس میں لڑائی اچھی چیز نہیں ہے۔ ‘‘ راشد درمیان میں آ گیا۔ ’’آپس میں اُلجھنے سے بہتر ہے کہ ہم متحد ہو کر ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ ‘‘ راشد متحمل مزاج اور صلح جو قسم کا شخص تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان سنگین حالات میں وہاں گرما گرمی ہو۔

جہانزیب تنویر کو خونی نظروں سے گھورتا رہ گیا۔ اچانک اس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہونے لگے اور چہرے پر ترشی کی جگہ تکلیف نے لے لی۔ اس کی انگلی میں ایک دم درد کی شدید لہر اٹھی تھی۔ چھپکلی کے کاٹے کا اثر ہونا شروع ہو گیا تھا۔

’’کیا ہوا جہانزیب؟‘‘ راشد نے اسے تکلیف میں دیکھ کر لپکا۔

’’آہ تکلیف ہو رہی ہے …چھپکلی نے کاٹا تھا۔ ‘‘ جہانزیب کرایا۔

’’تو پہلے بتا دیتے۔ ‘ ‘ راشد تیزی سے فسٹ ایڈ بکس نکالنے لگا۔

’’اِدھر دکھاؤ…‘‘ تنویر نے آگے بڑھتے ہوئے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ جہانزیب نے نا چاہتے ہوئے بھی ہاتھ آگے کر دیا۔ تنویر اس کی زخمی انگلی کو بغور دیکھنے لگا۔ انگلی کی رنگ سیاہ پڑ گئی تھی اور وہ پلپلی پڑتی جا رہی تھی۔ چھپکلی کے کاٹے کے نشانات سے خون کی بوندیں نکل آئی تھیں، جو اب جم کر سیاہ ہو چکی تھیں۔

’’یہ تو ٹیڑھا مسئلہ ہو گیا ہے۔ ‘‘ تنویر نے تشویش ناک انداز میں سرہلایا۔

’’میرا خیال ہے اسے کاٹنا پڑے گا، ورنہ پورے جسم میں زہر پھیلا جائے گا۔ ‘‘ راشد نے گمبھیر لہجے میں بتایا۔

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ جہانزیب بے خوفی سے بولا، لیکن اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھر آئی تھیں۔ ’’پھر دیر مت کرو۔ ‘‘

راشد نے اس کی زخمی انگلی پر پٹیاں لپیٹ لپیٹ کر موٹی تہہ بنا دی۔ صفدر نے اسپرٹ میں روئی بھگو کر ہاتھ میں پکڑی۔ راشد نے لمبا چھرا پکڑ لیا اور جہانزیب کی انگلی ایک پتھر کی ہموار سطح پر جما دی۔

’’تیار ہو…؟‘‘ راشد نے آنکھوں میں جھانکا۔

جہانزیب نے مسکرا کر سر ہلا دیا اور دوسری جانب دیکھنے لگا۔ راشد نے چھرا انگلی کی جڑ پر رکھا اور ایک دم دونوں ہاتھوں سے دباؤ ڈال دیا۔ انگلی کھیرے کی طرح کٹ گئی۔ جہانزیب کے منہ سے طویل سسکاریاں نکل گئیں۔ اس نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی چیخ کو روک لیا تھا۔ صفدر نے فوراً اسپرٹ میں بھیگی ہوئی روئی کٹی ہوئی جگہ پر لگا دی اور اچھی طرح صاف کر دیا۔ راشد نے وہاں بھی پٹی کر دی۔ درد کی بے پناہ ٹیسیں بلبلوں کی طرح اُبل اُبل کر پھوٹ رہی تھیں، مگر جہانزیب نے چہرے سے اس کا اظہار نہیں ہونے دیا تھا۔ اب اطمینان اس بات کا تھا کہ زہر ختم ہو گیا تھا، ورنہ شاید پورا ہاتھ کاٹنا پڑ جاتا۔

صفدر نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں دے دیں، تاکہ زائل ہونے والی توانائی کو بحال کیا جا سکے۔ واقعی جہانزیب کچھ نقاہت محسوس کر رہا تھا۔

’’ٹھیک ہے اب ہمیں وقت ضائع کیے بغیر آگے بڑھ جانا چاہیے۔ ‘‘یہ کہہ کر تنویر جہانزیب کی طرف مڑا ’’تمہیں سہارے کی ضرورت تو نہیں ہے۔ ‘‘

’’نہیں میں ٹھیک ہوں۔ ‘‘ جہانزیب نے جواب دیا، مگر تنویر نے اس کے لہجے میں چھپی ہوئی سرد مہری کو محسوس کر لیا تھا۔

ایک مرتبہ پھر اُن کا سفر شروع ہو گیا تھا۔

وہ سب جالوں سے بچتے بچاتے چل رہے تھے۔ وہاں کی پتھریلی زمین پر روئی کی طرح سبز تہہ جمی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے پھسلن کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ انہیں جما جما کر پیر رکھنے پڑ رہے تھے۔ اس جگہ دیواروں، چھت اور فرش پر بھاگتی دوڑتی مکڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ عجیب عجیب طرح کی مکڑیاں تھیں۔ کسی مکڑی پر چیتے کی طرح سیاہ دھبے پڑے ہوئے تھے، کوئی پوری سفید تھی کوئی سیاہ، کسی کا دھڑ بڑا اور ٹانگیں چھوٹی تو کسی کا دھڑ چھوٹا اور ٹانگیں کئی کئی انچ لمبی تھیں۔ ان پانچوں کے سانس سینوں میں گھٹے ہوئے تھے۔ اس مرتبہ تنویر آگے چل رہا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اگر کوئی مصیبت نازل ہو تو سب سے پہلے وہ اس کا نشانہ بنے، کیوں کہ وہی انہیں یہاں سے لے کر آیا تھا۔

معاً تنویر کی نظروں کے سامنے کوئی بھوری سی شے آ گئی۔

وہ لاشعوری طور پر چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ہاتھ کے پنجے سے بھی بڑی ایک بھوری مکڑی چھت سے تار اُگلتی ہوئی اس کے چہرے سے ایک بالشت کے فاصلے پر آ رکی تھی۔ مکڑی کے پورے دھڑ اور ٹانگوں پر بھورے ریشے تھے۔ اس سے قبل کہ تنویر چھرا گھما کر وار کرتا، مکڑی فرش پر گر کر ایک جانب دوڑتی چلی گئی۔ تنویر کا بدن پسینے میں شرابور ہو گیا تھا۔ وہ یہ تصور کر کے لرزا تھا کہ اگر مکڑی اس کے چہرے سے چپک جاتی تو نہ جانے کیا حال ہوتا۔ کچھ سوچ کر تنویر مڑا اور راشد نے بیگ لے لیا۔

’’کیا نکال رہے ہو؟‘‘ راشد نے اسے بیگ ٹٹولتے دیکھ کر پوچھا۔

’’ان مکڑیوں سے محفوظ رہنے کا بندوبست کر رہا ہوں۔ ‘‘ تنویر نے کچھ کپڑے اور ایک شرٹ نکال لی۔ اس کے ساتھی حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے کہ بھلا ان کپڑوں سے کیا ہو سکتا ہے، لیکن پھر ان کی سمجھ میں آ گیا کہ واقعی تنویر نے ذہانت کا ثبوت دیا تھا۔ اس نے وہ کپڑے اپنے چھرے کے سرے پر باندھ لیے اور فسٹ ایڈ بکس میں سے اسپرٹ نکال کر کپڑوں پر چھڑک دیا۔ اس نے شرٹ صفدر کے حوالے کر دی۔ اس نے بھی وہی عمل دہرایا۔

’’اب اگر کوئی مکڑی حملہ آور ہوئی تو میں لائیٹر سے دونوں کپڑوں میں آگ لگا دوں گا۔ آگ کی وجہ سے کوئی مکڑی قریب نہیں پھٹکے گی۔ ‘‘

تنویر چھرا اور لائیٹر اٹھائے آگے چل رہا تھا۔ ننھی ننھی مکڑیاں ان کے پیروں پر چڑھ رہی تھیں، جنہیں وہ پیر جھٹک کر جھاڑ دیتے تھے۔ جگہ جگہ مکڑیوں کے بے حساب چھوٹے چھوٹے انڈے پڑے ہوئے تھے۔ راشد نے ایک جگہ کئی گول گول پتھر پڑے دیکھے۔ وہ گول پتھر سبز کائی میں لتھڑے ہوئے تھے۔ راشد کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ وہ سارے پتھر ایک جیسی ساخت اور سائز کے تھے۔ راشد نے چلتے چلتے ان میں سے ایک پتھر کو پیر کی ہلکی سی ٹھوکر سے لڑھکانا چاہا تو اس کا جوتا پتھر کے اندر داخل ہو گیا۔ راشد نے جلدی سے پیر نکال لیا۔ پتھر میں سوراخ ہو گیا اور سیاہ رقیق مادہ بہنے لگا۔ راشد نے سب ساتھیوں کی توجہ پتھر کی جانب مبذول کروا دی۔ پانچوں بغور اس پتھر نما شے کا جائزہ لے رہے تھے۔

دفعتاً وہ شے پٹخ گئی اور مزید کئی جگہوں سے اس کے چٹخنے سے لکیریں بن گئیں۔ اندر کوئی جان دار شے موجود تھی، جو باہر نکلنے کو بے چین ہو رہی تھی۔

’’یہ تو… یہ تو کوئی انڈا ہے۔ ‘‘ راشد خوف کے مارے چیخا۔

انڈے میں سے ایک ریشے دار سیاہ بازہ نکل کر لہرانے لگا۔ انہیں اندر موجود شے کی آنکھیں نظر آنے لگیں۔ وہ خونی آنکھیں ایک سوراخ سے جھانک کر ان کو گھور رہی تھیں۔ اتنے میں تین ریشے دار بازو انڈے کے خول کو توڑتے ہوئے باہر آ گئے۔ انہوں نے جو غور کیا تو ان سب کے رونگٹے کھڑے گئے۔ دماغوں پر ایسی تاریکی چھا گئی کہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اپنے جسموں کو حرکت دینا انہیں دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا اور خون ان کی کنپٹیوں پر آ کر ٹھوکریں مارنے لگا۔ ان ریشے دار بازوؤں کے سر پر ایسا پنجہ تھا جیسا انسان کا ہوتا ہے ان کی انگلیاں بھی تھیں، مگر وہ تین پتلی پتلی انگلیاں تھیں۔ وہ انگلیاں بار بار بند ہو کر گھونسے کی شکل اختیار کر لیتی تھیں، گویا وہ غصے کا اظہار کر رہی ہوں۔

ایک دم انڈا ٹوٹ گیا اور ایک کالی شے اچھل کر باہر آ گئی۔

وہ لوگ بدک کر مزید پیچھے ہٹ گئے۔ وہ ایک عجیب و غریب مکڑی کے نوزائیدہ بچے کو دیکھ رہے تھے۔ اُس کا دھڑ چھوٹا سا تھا، مگر گول آنکھیں کافی بڑی تھیں۔ اس کی آٹھ ٹانگوں کا پھیلاؤ کافی بڑا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ فٹ کا ایک بازو تھا۔ انہیں بازو کہنا زیادہ بہتر تھا۔ مکڑی کے بچے کا دھڑ آٹھ بازوؤں کے درمیان اوپر نیچے جھول رہا تھا۔ تنویر نے پھرتی سے لائیٹر جلا کر کپڑے میں آگ لگا دی اور آگ کو مکڑی کے بچے کے نزدیک کرنے لگا۔ آگ کی حدت سے اس کے ریشے چرمرانے لگے۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا پتھروں میں غائب ہو گیا۔

’’ہم نے ایک بات تو… سوچی ہی نہیں …‘‘شکیل کی آواز سرسرائی۔

’’کیا بات؟‘‘ چاروں نے بیک وقت پوچھا تھا۔

’’جس مکڑی کے یہ انڈے ہیں، وہ خود کتنی بڑی ہو گی۔ ‘‘ شکیل نے ان کے جسموں میں زناٹا طاری کر دیا۔ واقعی اس سامنے کی بات پر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ اضطراب کے شکنجے نے انہیں مضبوطی سے جکڑ لیا تھا۔

’’تب پھر یہاں سے بھاگو… مگر سنبھل کر …یہاں پھسلن بہت ہے۔ ‘‘ جہانزیب نے عجلت میں کہا۔

ابھی وہ لوگ دس پندرہ قدم بھاگے تھے کہ اس جگہ ایک ہول ناک سی آواز اُبھری۔

وہ لوگ ٹھٹک کر رک گئے۔ خوف ناک لمحات سر پر آن پہنچے تھے۔ کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا تھا۔ ہر ایک کا دل اتنی شدت کے ساتھ دھڑکنے لگا جیسے سینہ توڑ کر باہر آ گرے گا۔ سانسیں اُڑنے لگیں۔ انہوں نے قزاق اجل کی تلوار کی شائیں شائیں سن لی تھی۔ کوئی لمحہ گیا اور یہ تلوار ان کے سینے میں ترازو ہوئی۔ انہیں ایسی عجیب سی آواز سنائی دے رہی تھی، جیسے کسی تیز دھار آلے کو پتھر کی سل پر رگڑا جا رہا ہے۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا تو ان کے پیروں تلے کائی زدہ زمین نکل گئی۔ یوں لگا جیسے ان کے وجود کھوکھلے پڑ گئے ہوں۔ جسموں میں غضب کی تھرتھری پیدا ہو گئی تھی۔

عقب میں ایک دیو ہیکل سیاہ مکڑی کھڑی ہوئی تھی۔

اس کے بازوؤں بڑے بڑے پائپوں کی طرح لگ رہے تھے۔ بازوؤں پر موٹے موٹے سیاہ بال تھے۔ وہ اپنے ٹوٹے ہوئے انڈے کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔ اس کے بھی ہر بازو کے سرے پر انسانی ہاتھ جیسا پنجہ تھا۔ مکڑی عجیب انداز میں چیختی ہوئی اُن کی طرف آنے لگی۔

پانچوں آدمی بدک کر بھاگے۔ ان کے پیر منوں وزنی ہو گئے تھے، مگر مکڑی کے خوف کی وجہ سے وہ یہ وزن اٹھا کر بھاگ رہے تھے۔ بھاگتے بھاگتے شکیل نے گردن موڑ کر دیکھا تو کچھ نظر نہیں آیا، لیکن پھر مکڑی نظر آ گئی۔ وہ اونچی چھت پر جالے توڑتی ہوئی طوفان کی طرح بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ اچانک مکڑی ان پر کود گئی۔ راشد اور صفدر سب سے پیچھے تھے۔ دونوں مکڑی کے بازوؤں کی ٹکر کھا کر قلابازیاں کھا گئے۔ صفدر کے ہاتھ میں چھرا تھا۔ مکڑی کی لمبی انگلیوں نے راشد کی ٹانگیں پکڑی ہوئی تھیں۔ راشد نے ایک بڑے پتھر کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا، جب کہ صفدر کو بھی اس کے ایک بازوؤں نے جکڑ لیا تھا اور بازوؤں کا گھیرا لمحہ بہ لمحہ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ صفدر کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی انگور کے دانے کی طرح پچک کر پھٹ جائے گا۔ مکڑی نے اپنا غار جیسا منہ کھول لیا۔ وہ راشد کو سالم نکل جانا چاہتی تھی۔ راشد حلق پھاڑ کر چلا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں حد درجے باہر کو نکل پڑی تھیں۔ مکڑی اپنے منہ سے اندر سانس کھینچتی اور کبھی زور سے باہر سانس چھوڑتی۔ اس کے بدن سے انتہائی غلیظ بدبو اٹھ رہی تھی۔ اس بدبو نے سب کے مغز اُلٹ پلٹ کر دئیے تھے۔ اپنے دونوں ساتھیوں کو موت کے منہ میں دیکھ کر جہانزیب، تنویر اور شکیل پلٹ آئے۔ تنویر بھاگتا ہوا آیا اور اُچھل کر اس بازو کے درمیان میں چھرے سے بھرپور وار کیا، جس کی انگلیوں نے راشد کی ٹانگیں جکڑی ہوئی تھیں۔ تنویر نے ایک وار پر بس نہیں کیا، بلکہ متواتر چھرا برساتا رہا۔ مکڑی کا سیاہ خون فوارے کی طرح اُچھلنے لگا۔ راشد اور تنویر سیاہ خون میں بھیگ گئے۔ آخر مکڑی کا بازو کٹ کر علیحدہ ہو گیا۔ راشد تیزی سے کروٹیں بدلتا ہوا دور ہوتا چلا گیا۔ ادھر شکیل اور جہانزیب صفدر کو چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مکڑی کے بازو بیک وقت ان پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ جہانزیب اور شکیل زخمی ہو گئے تھے، مگر انہوں نے بھی مکڑی کو نہیں بخشا تھا اور اسے بھی اس کے سیاہ خون میں نہلا دیا تھا۔ عاجز آ کر مکڑی نے صفدر کو چھوڑ دیا۔ شکیل اور جہانزیب… صفدر کو گھسیٹے ہوئے دور لے گئے۔ دیو ہیکل مکڑی کے مقابلے پر تنویر اکیلا رہ گیا۔ تنویر چاروں اطراف سے گھوم گھوم کر اس پر چہرے کے وار کر رہا تھا۔ مکڑی کے بازو بھی اس کو پکڑنے کے لیے لپک رہے تھے، مگر تنویر حتی الامکان خود کو ان سے بچا رہا تھا۔ پھر ایک بازو تنویر کی کمر پر لگ ہی گیا۔ وہ پنگ پانگ کی گیند کی طرح ہوا میں اُڑا اور پتھروں پر جا گرا۔ تنویر کو اپنے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے محسوس ہوئے۔ اس نے قریب پڑا ہوا چھرا اٹھانا چاہا تو کمر میں زبردست ٹیسیں اٹھیں۔ وہ خود کو چیخنے سے باز نہ رکھ سکا، وہ پیروں پر زور دے کر کھڑا ہونے لگا، مگر گھٹنے ڈگمگا گئے۔ تنویر نے مدد طلب نظروں سے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ راشد اور صفدر زمین پر بے سدھ پڑے تھے اور شکیل انہیں کھینچ کر دور ہٹا رہا تھا، جب کہ جہانزیب دور کھڑا سینے پر ہاتھ باندھے اطمینان سے تنویر کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حقارت اور کینہ توزی کی چمک تھی۔ تب تنویر نے جانا کہ جہانزیب کے دل میں اس کے لیے کتنا زہریلا مواد پیدا ہو چکا تھا۔ وہ ان تمام مصیبتوں کا ذمہ دار تنویر کو ہی سمجھ رہا تھا، اس لیے وہ تنویر کی کوئی مدد نہیں کر رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جہانزیب اور شکیل نے صفدر اور راشد کو کندھوں پر ڈالا اور تیزی سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ شکیل نے بھی تنویر کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ وہ بھی یقیناً جہانزیب کا ہم خیال تھا۔ اتنے میں مکڑی قریب آ پہنچی۔ تنویر ایک پل میں سوچا کہ اب اس نے خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا، ورنہ پھر مرنا بھی ہو گا۔ وہ ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ مکڑی نے اسے پکڑنے کے لیے اپنے دو بازو آگے بڑھائے۔ اس کا غار جیسا منہ کھلا ہوا تھا۔ مکڑی کے لمبے لمبے دانت بھی تھے۔ وہ تنویر کو ایک ہی لقمے میں ہضم کرنا چاہتی تھی۔ تنویر نے خود کو بازوؤں کی گرفت سے بچاتے ہوئے ایک بڑا سا پتھر اُٹھا لیا اور تاک کر مکڑی کے کھلے ہوئے منہ میں پھینک دیا۔ پتھر مکڑی کے نوکیلے اور لمبے دانتوں کو توڑتا ہوا اُس کے دھڑ میں جا رکا۔ وہ مزید منہ پھاڑ کر عجیب سرسراتی اور نوکیلی آواز میں چیخنے لگی۔ تنویر نے تیزی سے اوپر تلے مزید کئی بڑے پتھر مکڑی کے کھلے ہوئے منہ میں پھینک دئیے۔ پتھروں کے بوجھ سے مکڑی کا دھڑ درمیان میں سے جھک گیا تھا۔ مکڑی کسی نشے باز کی طرح ڈگمگانے لگی۔ وہ اپنے جھکے ہوئے دھڑ کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتی، مگر ان پتھروں پر آفرین ہے، جو اس کے دھڑ میں جا کر ڈھیٹ بن گئے تھے۔ اب صرف مکڑی کا دھڑ پتھریلے فرش پر ٹکا ہوا تھا، باقی تمام زخمی بازو ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اس کے کٹے ہوئے بازوؤں سے مسلسل کالا خون بہہ رہا تھا۔ اب تنویر اس کی پہنچ سے دور تھا۔ وہ اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ تنویر لڑکھڑاتا ہوا چھرے کی طرف بڑھا اور چھرا اٹھا کر لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ مکڑی بہت طیش میں لگ رہی تھی۔ تنویر اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اسے اپنی اس ناقابل یقین کامیابی پر بہت ہی خوشی ہوئی تھی۔ اسے اپنے مالک، اپنے پروردگار پر بھروسا تھا، اس لیے وہ کامیاب رہا تھا۔ تنویر کے سر سے خون بہہ بہہ کر ماتھے اور آنکھوں پر آ رہا تھا۔ اس نے آستین سے آنکھوں پر آنے والا خون صاف کیا اور لڑکھڑاتا ہوا اسی طرف بڑھنے لگا، جہاں شکیل وغیرہ گئے تھے۔ مکڑی ایک جگہ ہی بے بسی سے کلبلاتی رہی۔ اسے رہ رہ کر چکر آ رہے تھے۔ وہ پتھروں کا سہارا لے کر آگے بڑھ رہا تھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا کہ اب کوئی اور مصیبت نہ آئے۔ اب شاید وہ کسی نئی مشکل کا سامنا نہ کر سکے گا۔ دعا کا اثر تھا کہ اس کی راہ میں کوئی دشواری حائل نہ ہوئی۔ گھٹن کا احساس ہونے لگا تھا۔ اسے سانس لینے میں پریشانی ہو رہی تھی۔ وہ لمباسانس کھینچتا تو کھانسی کا پھندا لگ جاتا۔ مقام شکر تھا کہ وہاں تاریکی نہیں تھی۔ کافی دیر تک چلنے کے بعد اس کے چہرے سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ٹکرانے لگے۔

تنویر کے مردہ تن میں گویا جان پڑ گئی۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا دوڑنے لگا۔ روشنی بڑھتی جا رہی تھی، اس کا صاف مطلب تھا کہ اس جہنمی جگہ سے باہر نکلنے کا راستہ قریب ہی ہے۔ بالآخر باہر نکلنے کا راستہ دیکھ کر تنویر کے منہ سے خوشی کے مارے قلقاری نکل پڑی۔ وہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنے لگا۔ پانچ منٹ بعد وہ اس شیطانی غار کے دھانے پر منہ کے بل لیٹا ہوا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا، جیسے اسے غار میں رہتے ہوئے صدیاں بیت گئی تھیں۔ وقت کا کوئی احساس نہ تھا کہ وہ کتنے پہر اس منحوس غار میں رہے تھے۔ کافی دیر تک وہ یونہی بے سدھ پڑا ہانپتا رہا۔ چھرا اب تک مٹھی میں دبا ہوا تھا۔ اسے ایک دم بھوک پیاس کا احساس ہونے لگا تھا۔ مشکل یہ تھی کہ جہانزیب اور شکیل جاتے جاتے تینوں بیگ لے گئے تھے۔ ان بیگوں میں خشک خوراک کے سربنڈ ڈبے اور پانی کی بوتلیں تھیں۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس علاقے کا جائزہ لینے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس جنگل کے ہی کسی دوسرے حصے میں تھے، لیکن اس جگہ ہریالی بے تحاشا تھی۔ لمبے لمبے اور پھیلے ہوئے درخت عجیب عجیب جھاڑیاں اور کہیں کہیں بھوری زمین نظر آ رہی تھی۔ اس قدر خوب صورت منظر دیکھ کر طبیعت ہشاش بشاش ہو گئی۔ اب تنویر اپنا جائزہ لینے لگا۔ اس کا لباس جگہ جگہ سے پھٹ گیا تھا۔ پینٹ کے پائینچے اور شرٹ کے چیتھڑے لٹک رہے تھے۔ بالوں میں ہاتھ پھیرا تو سر پر بالوں سے زیادہ مکڑیوں کے جالے پائے۔ بڑی مکڑی کے سیاہ خون کی بدبو سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ اپنے ہی بدن اور لباس سے اُٹھنے والی بساند سے اس کا دل مالش کرنے لگا۔

تنویر رب العزت پر بھروسا کر کے ایک سمت چل دیا۔ جلد ہی اس نے ایک شفاف اور جھلمل کرتے پانی کا چشمہ دیکھا۔ بس اس سے مزید صبر نہ ہوا اور غڑاپ سے چھلانگ لگا دی۔ خوب اچھی طرح نہایا۔ اپنے پھٹے ہوئے گندے کپڑوں کو بھی ہاتھ سے رگڑ کر صاف کر لیا۔ بعد میں اپنے اندر بھڑکتی ہوئی پیاس بھی بجھا ڈالی۔ نہ جانے کیسی تاثیر والا پانی تھا کہ اس نے بھوک کی شدت کو بڑی حد تک کم کر دیا۔ تنویر خوب نہا کر اور سیراب ہو کر چشمے سے نکلا اور جدھر قدم اٹھے چل پڑا۔

دفعتاًاس نے کافی فاصلے پر ایک اونچا پہاڑ دیکھا۔ اس پہاڑ کی چوٹی کا سرا کسی پرنے کے منہ سے مشابہت رکھتا تھا۔ تنویر کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے پرندے والے منہ کے پہاڑ کی تصویر بارکی شہر کی کتاب میں دیکھی تھی، جس کے بارے میں ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ بارکی میں ایسا پہاڑ تھا، جس کی چوٹی پر پرندے کا منہ قدرتی طور پر بنا ہوا تھا۔

تنویر کے قدم رک گئے۔ وہ خود کلامی کرنے لگا۔ ’’یہ کیا میں بارکی شہر میں ہوں ؟‘‘ اس کی آنکھیں کھوئی کھوئی سی لگ رہی تھیں۔

اس کا مطلب تھا کہ شیطانی غار نے انہیں ہزاروں سال پیچھے دھکیل دیا تھا۔ تنویر نے ٹائم مشین کے بارے میں سنا اور پڑھا تھا، جو انسان کو ماضی میں لے جاتی تھی، لیکن انہیں تو ایک غار نے ماضی کے گم نام دور میں لا پھینکا تھا۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ یہاں تنہا نہیں آیا ہے، بلکہ اس کے ساتھی بھی آئے تھے۔ ساتھیوں کا خیال آیا تو وہ دیوانوں کی طرح زور زور سے پکارنے لگا۔

راشد… صفدر… شکیل… جہانزیب…‘‘ اس کی آواز نہ جانے کہاں کہاں سے بھٹک گئی۔

کچھ کانوں نے اس کی آوازیں سن لی تھیں، مگر یہ کان اس کے ساتھیوں کے نہیں تھے۔ وہ سب کان والے اس نوجوان کی طرف بڑھنے لگے، جو اپنے ساتھیوں کو پکار رہا تھا۔ چلاتے چلاتے تنویر کا حلق خشک ہو گیا۔ وہ لاچارگی کے عالم میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی آواز کے جواب میں پودوں، جھاڑیوں اور درختوں نے جھوم کر گویا اقرار میں سر ہلایا تھا۔ دفعتاً اس نے کسی پرندے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنی۔ تنویر نے دیکھا کہ ایک بہت گھنے اور پھیلے ہوئے درخت سے کوے جیسا پرندہ اُڑا تھا اور تیز آواز میں درخت کے اوپر چیختا ہوا چکر کاٹنے لگا۔ تنویر اس وقت پیدل تھا، مگر عقل سے پیدل نہیں تھا۔ پرندے کا اچانک ایسا کرنا کسی خطرے کی آمد کا اعلان تھا۔ تنویر کے چاروں طرف لمبی لمبی گھنی جھاڑیاں اور بڑے بڑے تنوں والے درخت تھے۔ وہ جلدی سے ایک درخت کے تنے سے پشت لگا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے چھرا دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ تنویر کا دل کسی ہیوی ٹرک کے انجن کی طرح دھڑک رہا تھا۔ پرندہ اب تک شور مچاتا ہوا چکر لگا رہا تھا۔ تنویر نے پرندے کو دیکھنا چاہا تو گھنے درخت کے اوپر فضا میں اس کی ایک آدھ ہی جھلک دیکھ پایا۔ پھر وہ پرندہ چیختا ہوا کسی اور جانب چلا گیا۔ اس پرندے کی آواز نے دیگر پرندوں کی اُبھرنے والی آوازوں کو خاموش کر دیا تھا۔ صرف وہاں جھاڑیاں اور درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ باقی رہ گئی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تو تنویر کے بدن کی اکڑن ختم ہونے لگی اور سینے میں بھینچی ہوئی بڑی سی سانس نکل گئی۔ یک لخت سامنے کی جھاڑیوں میں ہلچل ہوئی۔ تنویر نے متوحش نظروں سے جھاڑیوں کی طرف دیکھا۔ وہاں سے ایک بہت بڑا کچھوا باہر آ رہا تھا۔ اس کی پشت کا سخت خول بھی بڑا تھا۔ وہ کچھوے کے اگلے پیر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ انسان کے جیسے تھے۔ پھر خول کے نیچے سے ایک انسانی چہرہ نمودار ہوا۔ بلاشبہ وہ انسان ہی تھا اور اس نے کسی بڑے کچھوے کا خول پشت پر کسا ہوا تھا۔ عام انسان اس بھاری بھر کم خول کو یوں آسانی سے پشت پر سوار کر کے اس کا وزن برداشت نہیں کر سکتا تھا، لیکن وہ آدمی تقریباً پونے آٹھ فٹ کا لمبا تڑنگا دیو نما انسان تھا۔ تنویر اس کے آگے بچہ لگ رہا تھا۔ اس دیو زاد کی رنگت تارکول سے زیادہ سیاہ تھی۔ وہ گہری نظروں سے تنویر کو دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں ارد گرد کی جھاڑیوں میں سے چار مزید لمبے تڑنگے انسان نکل کر آ گئے۔ ان کے ہاتھوں میں مختلف ہتھیار تھے۔ ایک نے انتہائی وزنی دو شاخہ کھانڈا پکڑا ہوا تھا۔ ایک کے ہاتھ میں لمبا نیزہ تھا اور ایک نے پتھر کا گرز تھاما ہوا تھا۔ تنویر کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اس نے اپنی جگہ سے حرکت کی تو دیو زاد انسان دائرے کی شکل میں کھڑے ہو گئے۔ وہ اب وہاں سے بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔ ویسے بھی ان طویل القامت انسانوں کو دیکھ کر بھاگنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ تو چند چھلانگوں میں اسے دبوچ لیں گے۔

تنویر نے ان کے سامنے چھرا پھینک دیا اور تیز آواز میں بولا۔ ’’میں … میں دوست… ہوں۔ یہاں میرے چار ساتھی مجھ سے بچھڑ گئے ہیں … میں ان کو آوازیں دے رہا تھا۔ ‘‘

وہ پانچوں لمبے انسان ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے۔ تنویر کی بات سن کر اُن کے چہروں پر کسی قسم کے تاثرات نہیں اُبھرے تھے، اس کا مطلب تھا کہ وہ تنویر کی زبان سے ناواقف ہیں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ ابھی وہ شش و پنج میں مبتلا تھا کہ اسے عقب سے چار مضبوط ہاتھوں نے پکڑ لیا۔ تنویر مدافعت بھی نہ کر سکا اور اسے ڈنڈا ڈولی کے انداز میں دو آدمیوں نے اُٹھا لیا۔ تنویر ارے ارے کرتا رہ گیا، مگر ان کے کانوں میں جوں نہ رینگی۔ تھک ہار کر تنویر نے ڈنڈا ڈولی سے سمجھوتا کر کے بدن ڈھیلا چھوڑ دیا، لیکن ایک خیال اسے رہ رہ کر تنگ کر رہا تھا کہ اگر یہ لوگ انسانی بھینٹ جیسی لرزہ خیز اور گھناؤنی رسم میں مبتلا ہوئے تو اس کا خدا ہی حافظ تھا۔ اس کا چھرا وہیں درخت کے پاس پڑا رہ گیا تھا۔

تنویر نے آنکھیں بند کر لیں اور اللہ تعالیٰ سے خیریت کی دعا مانگنے لگا۔ وہ دیو زاد انسان بآسانی پہاڑ پر چڑھتے چلے گئے اور پہاڑ کے عقب میں اُتر کر تقریباً آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد ایسی جگہ آ گئے، جہاں عجیب طرز کے جھونپڑے بنے ہوئے تھے۔ اُدھر بھی کافی انسان جمع تھے۔ تنویر نے دیکھا کہ وہاں کے تمام افراد لگ بانس کی طرح لمبے تھے اور انہوں نے چمڑے کے لباس پہنے ہوئے تھے۔ وہ لوگ حیرت سے تنویر کو دیکھنے لگے، کیوں کہ وہ بہت چھوٹا سا لگ رہا تھا۔ غاروں اور پہاڑوں کی کھوہ میں بھی وہ لوگ رہتے تھے۔ وہ لوگ اسے لے کر ایک عالی شان جھونپڑے میں داخل ہو گئے۔ جھونپڑے کے آگے ایک دیو زاد انسان کھانڈا پکڑے کھڑا تھا۔ اندر آتے ہی انہوں نے تنویر کو زمین پر ڈال دیا۔ تنویر جلدی سے کھڑا ہو گیا۔ وہاں ایک اونچے پتھر کے چبوترے پر کسی جانور کی بڑی سی کھال پر ایک خوف ناک شکل کا لمبا چوڑا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ حیرت بھری نظروں سے تنویر کو دیکھ رہا تھا۔ اس حیرت میں دل چسپی کا عنصر نمایاں تھا۔ اس آدمی کے سر پر ایک تاج تھا۔ اس تاج میں مرغی کے انڈے کے برابر چار بڑے بڑے ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ تنویر سمجھ گیا یہ یہاں کا بادشاہ ہے۔ تنویر کو پکڑ کر لانے والے اونچی آواز میں بادشاہ کو کچھ بتانے لگا۔ وہ بادشاہ کو ہیگان کے نام سے پکار رہا تھا۔ یا تو بادشاہ کو ہیگان کہا جاتا تھا یا پھر یہ بادشاہ کا نام تھا۔

ہیگان بڑی محویت سے اس کی بات سن رہا تھا۔ تنویر وہاں کا جائزہ لینے لگا تو اس کا منہ حیرت کی زیادتی سے کھل گیا۔ کچھ فاصلے پر راشد، جہانزیب، صفدر اور شکیل بھی کھڑے تھے۔ ان چاروں کے چہروں پر خوف کی پرچھائیاں لرز رہی تھیں اور آنکھیں تاریک پڑی تھیں، گویا وہ اپنی زندگی سے ہی نا اُمید ہو چکے تھے۔ کافی دیر تک وہ دیو زاد لوگ آپس میں باتیں کرتے رہے نہ جانے کیا کیا فیصلے کیے گئے، مگر انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ تمام باتیں ان سے ہی متعلق تھیں، کیوں کہ ہیگان اور اس کے ساتھی باتیں کرتے ہوئے بار بار قیدیوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر ان لوگوں کو ایک الگ جھونپڑے میں لے جا کر قید کر دیا گیا اور جھونپڑے کے چاروں طرف پہرے دار لگا دئیے گئے۔

گفتگو کرنے کا موقع ملا تو تنویر نے جہانزیب کی طرف دیکھا۔ وہ اس سے نظر نہیں ملا رہا تھا۔

’’مجھے علم نہیں تھا جہانزیب… تم اتنا نیچے بھی گر سکتے ہو…‘‘ تنویر کا لہجہ تیکھا تھا۔ ’’میں ہی احمق تھا، جو اپنے ساتھیوں کو موت کے منہ میں دیکھ کر خود مصیبت میں جا گرا تھا، لیکن جب میں مشکل کا شکار ہوا تو تم خاموش تماشائی بنے میری بے بسی کا تماشا دیکھتے رہے اور تم…‘‘ تنویر شکیل کی طرف مڑا ’’کم از کم مجھے تم سے ایسی امید ہر گز نہ تھی۔ ‘‘شکیل نے سر جھکا لیا۔

’’تنویر یہ وقت ایسی با توں کا نہیں ہے۔ ‘ ‘ صفدر نے مداخلت کی۔ ’’تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا مجھے اس کا احساس ہے، لیکن اب ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ہمیں مل کر اپنی جانیں بچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ‘‘

’’مجھے اب تک یقین نہیں آ رہا ہے کہ ہم بارکی میں آ چکے ہیں۔ ‘‘ راشد خواب کی سی کیفیت میں بڑبڑایا۔

’’واقعی یہ ایک ناقابل یقین بات ہے، مگر ساتھ ہی حیرت انگیز حقیقت بھی ہے۔ ‘‘ تنویر سنجیدگی سے بولا۔ ‘‘ تمہیں یاد ہو گا کہ ہم نے بارکی شہر کی قدیم کتاب میں لمبے تڑنگے آدمیوں کی تصویریں دیکھی تھیں اور ایک تاج کی تصویر بھی دیکھی تھی۔ اسی تاج کو ہم نے یہاں کے بادشاہ کے پاس دیکھا ہے۔ یہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ ہم بارکی میں ہی قید ہیں۔ ‘‘

’’اُف خدایا… اس کا مطلب ہے ہم واپس اپنی دنیا میں کبھی نہیں جا سکیں گے۔ ‘‘ شکیل کے منہ سے بے اختیار نہ نکلا۔ جہانزیب خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔

’’اگر ہم لوگ اس قید سے کسی طرح آزاد ہو جائیں تو واپس اسی غار کے راستے اپنی دنیا میں جا سکتے ہیں۔ ‘‘ تنویر نے پر خیال انداز میں ہتھیلیاں رگڑتے ہوئے کہا۔ پھر اس کی نظر بیگ پر پڑی۔ ’’ یہ اچھا ہوا کہ ان لوگوں نے بیگ نہیں لیے۔ اس میں سامان محفوظ تو ہے نا؟‘‘

’’ہاں محفوظ ہے۔ ‘‘ صفدر نے اثبات میں سر ہلایا۔ ‘‘ لیکن سب ہتھیار چھین لیے، مگر میرے پاس ایک چاقو محفوظ ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے پنڈلی پر چمڑے کے تسمے سے بندھا ہوا چاقو نکال کر تنویر کے حوالے کر دیا۔ تنویر ناقدانہ نظروں سے کبھی چاقو اور کبھی جھونپڑے کی گھاس پھوس کی دیواروں کو دیکھنے لگا۔ پھر وہ آہستہ سے اٹھ کر جھونپڑے کی عقبی دیوار کی طرف بڑھا اور چاقو کی مدد سے گھاس پھوس اور خشک جنگلی بیل کو کاٹنے لگا۔ چند لمحوں میں وہاں چھوٹا سا سوراخ ہو گیا۔ تنویر باہر جھانکنے لگا۔ اسے کچھ فاصلے پر گھنے درخت نظر آ رہے تھے۔ دائیں جانب بہت سے جھونپڑے تھے۔ ابھی تنویر باہر کا نظارہ کر ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی نظروں کے سامنے چند انچ کے فاصلے پر کسی پہرے دار کا سیاہ خوف ناک چہرہ آ گیا۔ پہرے دار نے اسے جھانکتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اب صورت حال کچھ یوں تھی کہ اندر سے تنویر آنکھ لگائے دیکھ رہا تھا اور باہر سے پہرے دار اسے دیکھ رہا تھا۔ تنویر کو اور کچھ ناسجھائی دیا تو تیزی سے پیچھے ہٹ گیا اور گھاس پھوس لگا کر سوراخ بند کر دیا۔

’’کیا ہوا؟‘‘ تم نے یہ سوراخ کیوں بند کر دیا؟‘‘ راشد اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔

’’باہر کھڑے پہرے دار نے مجھے دیکھ لیا تھا…‘‘ تنویر نے پھیکے انداز میں مسکراتے ہوئے بتایا۔

’’اوہ…‘‘ اس کے ساتھ کچھ نا اُمید سے ہو گئے۔

اس کے بعد انہوں نے آپس میں کوئی بات نہیں کی اور خاموشی سے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے آنے والے وقت کے بارے میں سوچتے رہے۔ اسی سوچ و بچار میں رات ہو گئی۔ جھونپڑے میں اندھیرا چھا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک پہرے دار اندر داخل ہوا۔ وہ ان لوگوں کے لیے کھانے پینے کی اشیاء لایا تھا اور ایک پیالہ نما پتھر کا چراغ بھی لا کر رکھ دیا، جس سے ہلکی زرد روشنی ہو گئی۔ چراغ میں کسی جانور کی چربی تھی۔ چٹ پٹ کی آواز کے ساتھ وہ جل رہا تھا۔ چربی کے جلنے کی ناگوار بو سے سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ کھانے میں جو کچھ بھی تھا، وہ لوگ کھا پی گئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان حالات میں بھی انہیں اس نعمت سے نواز رہا تھا۔ کھانے کے بعد سونے کے لیے لیٹ گئے۔ تقدیر میں جو بھی لکھا تھا وہ تو ہو کر رہے گا۔ پھر وہ اپنی یہ رات کیوں خراب کریں۔ ایک ایک کر کے وہ سوتے چلے گئے۔

رات کے دوسرے پہر اچانک ہی غضب کا شور سن کر وہ لوگ بیدار ہو گئے۔

باہر قیامت کی چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔ فوری طور پر وہ کچھ سمجھ نہ سکے، مگر دور میں ڈوبی ہوئی چیخیں اور ہتھیاروں کی آوازیں سن کر انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ دو طاقت ور گروہ آپس میں نبرد آزما ہیں۔ تنویر نے کھڑے ہوئے اپنے ساتھیوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور خود دروازے کی طرف بڑھا۔ چند ہی جھٹکوں میں جھونپڑے کا دروازہ کھل گیا۔ باہر کوئی پہرے دار نہیں تھا۔ باہر کا منظر دیکھ کر ان لوگوں کے اوسان خطا ہو گئے۔ ہر طرف لمبے لمبے قد کے خطرناک جنگجو اپنے عجیب و غریب اور مہلک ہتھیاروں سے جنگ کر رہے تھے۔ ان کے بھاری بھر کم اور تباہ کن ہتھیار آپس میں ٹکراتے تو بے تحاشا چنگاریاں نکلتی تھیں۔ وہاں بہت سے زخمی اور مردہ آدمی بھی پڑے ہوئے تھے۔ شور اس قدر زیادہ تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ابھی یہ لوگ گھمسان کی جنگ دیکھ ہی رہے تھے کہ ان کی نظر سامنے پڑی۔ ایک عظیم الشان لمبا تڑنگا آدمی بڑا سا کھانڈا پکڑے اُن کی طرف بڑھا آ رہا تھا۔ ان لوگوں کے جسموں میں گویا خون منجمد ہو گیا تھا۔ صفدر اور تنویر نے جلدی سے جھونپڑی کا دروازہ بند کر دیا اور یہ پانچوں بدنصیب دروازے کے اطراف میں کھڑے ہو گئے۔ ان کے پاس بطور ہتھیار صرف ایک چاقو تھا، جب کہ آنے والے کے ہاتھ میں ہلاکت خیز کھانڈا تھا، جس کی زبردست ضرب ہاتھی کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر سکتی تھی۔

دشمن پورے زور سے دروازے سے آ ٹکرایا۔ دروازہ اس ٹکر کو سہ نہ سکا اور اُڑ کر اندر آ گرا۔ جھونپڑے کی کمزور چھت اور دو جانب کی دیواریں گر گئیں۔ قوی ہیکل دشمن غصے میں اپنے ہی زور سے اندر آ گرا تھا۔ تنویر اور اس کے ساتھی بھی اوپر سے گرنے والی چھت میں اُلجھ گئے، مگر جان کے خوف سے فوراً نیچے سے نکل آئے۔ اتنے میں دشمن بھی سنبھل کر کھڑا ہو گیا۔ جہانزیب اور شکیل نے گرے ہوئے دو بانس اُٹھا کر دشمن کو دے مارے۔ یہ دیکھ کر ان کے ہاتھ پیر پھول گئے کہ ان دونوں ضربوں نے دشمن کا بال بیکا نہیں کیا تھا۔ دشمن نے غرا کر کھانڈا گھمایا۔ بدقسمتی سے صفدر اپنے آپ کو بچا نہ سکا۔ کھانڈا طوفان کی طرح اس کے پیٹ میں سے گزرتا چلا گیا۔ صفدر کے دونوں ٹکڑے ہوا میں اُچھل گئے۔ اسے آخری چیخ مارنے کا موقع تک نہیں ملا تھا۔ صفدر کی لاش دیکھ کر چاروں غصے اور غم سے پاگل ہو گئے اور چاروں نے مل کر دشمن پر دھاوا بول دیا۔

بکھری ہوئی طاقت مل کر اکٹھی ہو جائے تو اس کے آگے بھلا کون ٹھہر سکتا ہے۔ لفظ طاقت بھی چار حرفوں سے مل کر بنا ہے۔ اگر یہ چار حروف الگ الگ ہوں تو کوئی معنی نہیں رکھتے۔ انہیں ملا کر پڑھا جائے تو یہ ’’طاقت‘‘ بن جاتے ہیں۔ یہ چاروں بھی چار حرفوں کی طرح مل کر طاقت بن گئے۔ دشمن ان بپھرے ہوئے طوفانوں کے آگے کچھ نہ کر سکا۔ تنویر نے اس کے کان میں چاقو دستے تک پیوست کر دیا۔ وہ پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔ ادھر شکیل نے اس کی آنکھوں میں انگلیاں گھسیڑ دی تھیں۔ تنویر نے تیزی سے چاقو کان سے نکال کر اس کی شہ رگ کاٹ ڈالی۔ اس کا نرخرہ باہر نکل آیا۔ اس میں سے خرخراہٹ اور خون کی بوچھاڑ برآمد ہو رہی تھی۔ وہ دشمن کو تڑپتا ہوا چھوڑ کر ہٹ گئے۔ تنویر نے چاقو جہانزیب کے حوالے کر دیا اور خود نے کھانڈا اٹھا لیا۔ بلاشبہ وہ بہت بھاری تھا، مگر پھر بھی تنویر نے اسے اٹھا ہی لیا کہ نہ جانے ابھی کتنے اور دشمنوں کا سامنا کرنا پڑے۔

وہ چاروں ایک سمت میں دوڑنے لگے۔ ان کے گرد و پیش میں ہول ناک لڑائی ہو رہی تھی، لیکن وہ ان سب سے بے نیاز اپنی جان بچانے کی فکر میں دوڑ رہے تھے۔ اچانک انہوں نے دیکھا کہ بارکی کا بادشاہ ہیگان بھی میدان جنگ میں آگے سے آگے بے جگری سے دشمنوں کا صفایا کر رہا تھا۔ اس وقت ہیگان کو بیک وقت کئی دشمنوں نے گھیرا ہوا تھا۔ وہ سخت مشکل میں لگ رہا تھا، مگر اب بھی اس حوصلہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ بے پناہ دشواری کے باوجود بھی اس نے چند دشمن گرا دئیے۔ خود بادشاہ ہیگان بھی زخموں سے نڈھال تھا۔ اس کے سامنے صرف ایک دشمن رہ گیا۔ جو نہایت پھرتیلا اور طاقت ور تھا۔ اس کے ہاتھ میں لمبی سی تلوار تھی۔ ہیگان اس کی تلوار کی ضربوں کو لوہے کے نیزے سے روک رہا تھا۔ تنویر نے کھانڈا کندھے سے اُتار کر پھینکا اور قریب پڑا ہوا ایک لمبا نوکیلا نیزہ اٹھا لیا۔ شکیل، راشد اور جہانزیب نے اس کے ارادے بھانپ لیے۔

’’کیا حماقت کر رہے ہو تم تنویر؟‘‘ راشد نے حواس باختہ لہجے میں اسے ٹوکا۔ ’’موقع غنیمت ہے، ہمیں جلد از جلد یہاں سے نکلنا ہے۔ ‘‘

’’اسے مدد کی ضرورت ہے۔ ‘‘ تنویر کا دل نہیں مانا۔ اس میں ایک ایسی اچھائی تھی، جو کم ہی لوگوں میں ہوتی تھی۔ وہ کسی کو مشکل میں گرفتار دیکھتا تو اس کی مدد کے لیے بے خوف و خطر کود پڑتا تھا۔ چاہے دوست ہو یا دشمن۔

تنویر ہیگان کی مدد کے لیے لپکا۔ اس نے نیزے کا رخ سیدھا کر لیا تھا۔ ہیگان تھکن اور زخموں کے مارے گر گیا۔ دشمن نے اسے گرتا دیکھ کر دانت نکالے اور دونوں ہاتھوں سے تلوار بلند کی۔ اگلے ہی لمحے اسے زوردار جھٹکا لگا۔ اسے اپنی کمر میں شدید تکلیف محسوس ہوئی۔ وہ بے اختیار چیخ پڑا۔ اس کے پیٹ سے نیزے کی اَنی نکلی ہوئی تھی۔ تنویر نے بھاگ کر پوری قوت سے نیزہ اس کی کمر میں گھونپ دیا تھا۔ دشمن کے ہاتھوں سے تلوار گر گئی۔ وہ یونہی پتھر کے بت کی طرح ایک طرف لڑھک گیا۔ گرے ہوئے ہیگان نے اسے ممنونیت سے دیکھا اور ہاتھ اُٹھا کر کچھ کہا۔ تنویر کے پیچھے جہانزیب اور باقی دونوں ساتھی کھڑے تھے۔ سب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ انہوں نے بیک وقت ہیگان کا تاج دیکھ لیا تھا۔ تاج کے چاروں بڑے ہیرے دل فریب انداز میں چمک کر اپنی شان دکھا رہے تھے۔ ہیگان زمین پر پڑا گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔

’’تنویر میرا خیال ہے کہ اب ہم فوراً یہاں سے نکلتے ہیں۔ ‘‘ راشد تنویر کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا۔

’’کیوں نہ ہم جاتے جاتے یہ تاج لے چلیں۔ ‘‘ جہانزیب کی آواز آئی۔

تنویر پلٹ کر اسے دیکھنے لگا۔ جہانزیب کے چہرے کے تاثرات ہی بدلے بدلے لگ رہے تھے۔

’’یہ حماقت کرنا بھی مت…‘‘ تنویر نے اسے سرزنش کی۔ ’’ہیگان قبر تک ہمیں نہیں چھوڑے گا۔ یہ تاج اس کے لیے بہت قیمتی ہے۔ ‘‘

’’ہم اسے ملیں گے تب نا… یہ بہت قیمتی تاج ہے تنویر۔ ‘‘ جہانزیب معنی خیز انداز میں مسکرایا۔

ہیگان نا سمجھنے والے انداز میں انہیں دیکھ رہا تھا۔

’’چلو آؤ…‘ ‘ تنویر مڑتا ہوا بولا۔

راشد اس کے ساتھ تھا کہ اچانک اُن کے سروں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ شکیل اور جہانزیب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کر کے دونوں پر حملہ کر دیا۔ راشد اور تنویر تیورا کر گر گئے۔ راشد تو فوراً بے ہوش ہو گیا تھا، البتہ تنویر کے حواس ابھی قابو میں تھے۔ اس نے غم زدہ نظروں سے دیکھا کہ جہانزیب اور شکیل دور بھاگے جا رہے تھے۔ وہ ہیگان کا تاج بھی ساتھ لے گئے تھے۔ ہیگان بے بسی سے چیخ رہا تھا۔ زخمی ہونے کی وجہ سے ہیگان سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا۔ تنویر نے اپنے گھومتے ہوئے دماغ کو پکڑ لیا اور چند منٹ تک سر جھٹکتا رہا۔ جب حالت کچھ سنبھلی تو اس نے جلدی سے راشد کو دیکھا۔ پھر اسے ہوش میں لانے کے لیے گال تھپکنے لگا۔ جلد ہی راشد ہوش میں آ گیا۔ تنویر نے کچھ کہے بغیر اسے سہارا دیا۔ دونوں اس جانب چل دئیے، جہاں شکیل اور جہانزیب تاج لے کر بھاگے تھے۔ یہ راستہ غار کی طرف جاتا تھا۔

جہانزیب نے دوسری مرتبہ اپنی خباثت کا مظاہرہ کیا تھا۔ پہلی بار تو تنویر نے اسے معاف کر دیا تھا، لیکن اب فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر جہانزیب اس کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ دوسرا سانس جہنم میں لے گا۔ دونوں چپ چاپ بہت دیر تک چلتے رہے۔ آخر تنویر نے وہ درخت دیکھا، جہاں سے اسے لمبے آدمیوں نے پکڑا تھا۔ اُدھر اس کا چھرا پڑا تھا۔ تنویر نے لپک کر چھرا اُٹھا لیا۔ یوں بھی وہ دونوں نہتے تھے۔ اب چھرا ہاتھ میں آتے ہی تنویر کا حوصلہ مزید بلند ہو گیا۔ دونوں وہاں رُکے نہیں۔ انہیں غار کی طرف بڑھنا تھا۔ بالآخر وہ شیطانی غار کے دھانے پر آ گئے اور اللہ تعالیٰ کی برکت والا نام لے کر اندر داخل ہو گئے۔ انہیں اب مکڑیوں سے ڈر تھا۔ خوش قسمتی سے چند چھوٹی موٹی مکڑیوں کے علاوہ کوئی بڑی مکڑی رکاوٹ نہیں بنی، البتہ انہیں دیکھ کر تشویش ہوئی کہ وہ بڑی اور دیو ہیکل مکڑی اس جگہ نہیں تھی، جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ اس جگہ آ گئے، جہاں پتھر کا دروازہ بند ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر دونوں خوش ہو گئے کہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ یقیناً شکیل اور جہانزیب نے کسی طرح اسے کھول لیا ہو گا۔ راشد اور تنویر چھپکلیوں والے غار میں آ گئے۔ وہاں بہت اندھیرا تھا۔ وہ بہت سنبھل کر ایک ایک قدم بڑھا رہے تھے۔ تنویر کو غار کے اس گڑھے سے خطرہ تھا، جس میں ڈاکٹر مقصود بدحواسی میں گرا تھا۔ وہ لمبے چھرے کو فرش پر مار کر اطمینان کر لیتا تھا۔ ایک جگہ چھرا فرش کی کسی خلا میں جھول کر رہ گیا۔ یہ وہی گڑھا تھا۔ بڑی ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ انہوں نے گڑھا پار کیا۔ نا جانے کتنا وقت بھوکے پیاسے چلتے رہے۔ چلتے چلتے پیر سوجھ گئے۔ کپڑوں اور جوتوں کا حال سے بے حال تھا۔ پردار چھپکلی کے حصے میں آ کر انہوں نے سرسراہٹ سنی تو جان توڑ کر بھاگے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ بھاگنے سے فاصلہ سمیٹ گیا اور نسبتاً جلدی ہی وہ غار سے نکل آئے۔ بڑے بڑے پتھر غار کے راستے میں جوں کے توں پڑے تھے۔

وہ پتھریلے بھی غار سے نکل آئے۔ وہ پتھر بھی غار کے آگے جما ہوا تھا، جس کے نیچے اسلم اور شاہد دب کر مرے تھے۔ باہر دن نکل آیا تھا۔ خوف ناک وقت گزر گیا۔ جنگل میں پرندوں کی چہچہاہٹ اور مختلف جانوروں کی بولیاں گونج رہی تھیں۔ دھیمی دھیمی سبک خرام ہوا کے جھونکے اُڑتے پھر رہے تھے۔ دونوں ایک سرسبز جگہ پھر رہے تھے۔ دونوں ایک سرسبز جگہ پر گر کر گرد و پیش سے قطعی غافل ہو گئے تھے۔

…٭…٭…

محکمہ آثاریات کے ڈائریکٹر کے آراستہ و پیراستہ ڈرائینگ روم میں محکمے کا ایک آفیسر ڈائریکٹر صاحب کے سامنے بیٹھا تھا اور انہیں رپورٹ دے رہا تھا۔

’’سربارکی شہر کی پیچیدہ کتاب کا معمہ تو حل کر لیا گیا ہے اور ماہرین نے اس کی ناقابل فہم زبان کو سمجھ لیا ہے، لیکن سر… پہلے میں آپ کو اس کھوجی ٹیم کے بارے میں بتانا چاہوں گا، جو بار کی کے آثار کی تلاش کرنے جنگل میں گئی تھی۔ اس ٹیم کے لیڈر محکمے کے سینئر ماہرین آثاریات ڈاکٹر مقصود تھے۔ باقی نو آدمی ان کے جونیئر تھے۔ وہ لوگ دو ہفتے تک جنگل میں کھوج لگاتے رہے۔ اس کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ جنگل میں ایک رات بہت خوف ناک طوفان آیا تھا اور ان لوگوں کا کوئی پتا نہ چل سکا کہ وہ کہاں گئے۔ محکمے کے مزید آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے پیچھے گئے تو انہیں صرف اُن کا کچھ سامان اور پھٹے ہوئے خیمے ملے۔ کافی دور ایک جگہ دو کٹی پھٹی لاشیں مل گئیں۔ وہ کھوجی ٹیم کے ہی آدمیوں کی لاشیں تھیں۔ ان میں سے ایک کا نام آصف اور دوسرے کا نام محمود تھا۔ وہاں اس قسم کے نشانات و شواہد پائے گئے ہیں کہ ان دونوں کو جنگل کے خونی بھیڑیوں نے ہلاک کیا تھا۔ ‘‘ آفیسر بتاتے بتاتے سانس لینے کے لیے رکا۔

’’ویری گڈ…‘‘ ڈائریکٹر کے منہ سے نکلا۔ وہ متاسفانہ انداز میں سر ہلا رہے تھے۔

آفیسر نے سلسلہ کلام جوڑا، جہاں سے وہ منقطع ہوا تھا۔ ’’مگر پھر سر… دو دن بعد حیرت انگیز طور پر دو زخمی ساتھی بے ہوشی کی حالت میں مل گئے۔ ان کا نام راشد اور تنویر ہیں … تقریباً چھ گھنٹے گزارنے کے بعد تنویر کو ہوش آیا تھا اور اس نے ایک عجیب و غریب کہانی سنائی۔ ‘‘

’’کہانی…‘‘ ڈائریکٹر صاحب چونکے۔ ’’کیسی کہانی؟‘‘

’’جی ہاں سر… ہم اسے کہانی ہی کہیں گے … ’’آفیسر ٹھوس لہجے میں بولا۔ ‘‘ تنویر کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جنگل تو دور کی بات…اس زمانے میں ہی نہیں تھے، بلکہ وہ بارکی شہر میں تھے۔ ‘‘ پھر آفیسر نے تفصیل سے ڈائریکٹر صاحب کو وہ حیرت انگیز واقعات سنا دیئے، جو اسے تنویر نے سنائے تھے۔ ڈائریکٹر صاحب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ان کے ہاتھ پیروں میں سنسناہٹ دوڑ رہی تھی۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا، جیسے وہ کوئی من گھڑت کہانی سن رہے ہوں۔

’’حیرت انگیز… ناقابل یقین۔ ‘‘ ڈائریکٹر صاحب، بچوں جیسے انداز میں کہہ رہے تھے۔ ’’انہوں نے کوئی خواب دیکھا ہو گا …‘‘

’’سب کا یہی خیال تھا۔ ‘‘ آفیسر گردن ہلانے لگا۔ ’’ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جنگل میں وہ لوگ طوفان اور دوسری آفات کا شکار رہے تھے، تب بھی ان کے ذہنوں سے بارکی شہر چمٹا ہوا تھا… مگر… مگرسر…‘‘ آفیسر چپ ہو کر کچھ سوچنے لگا۔ وہ اچانک مضطرب ہو گیا تھا۔

اسے یوں شش و پنج میں غلطاں دیکھ کر ڈائریکٹر صاحب بھی بے چین ہو گئے۔ ‘‘کیا ہوا…؟ کیا کہنا چاہتے ہو تم…؟ بتاؤ…؟‘‘

’’سر میں نے ابھی آپ سے کتاب کا ذکر کیا تھا نا کہ اس مسئلہ کا حل ہو گیا ہے۔ کتاب اور تنویر کے بیان میں بڑی حد تک مماثلت ہے۔ یوں لگتا ہے … وہ لوگ واقعی بارکی گئے تھے۔ تنویر کا کہنا ہے کہ ان کے دو ساتھی جہاں زیب اور شکیل بارکی کے بادشاہ ہیگان کا تاج لے بھاگے تھے، جب کہ ہمیں تاج ملا …اور نہ وہ دونوں۔ ‘‘

’’ہوں … اچھا وہ جو …تنویر کا دوسرا ساتھی ہے راشد… اسے ہوش آیا؟‘‘

’’جی ہاں سر اس نے بھی وہی کہانی سنائی۔ ‘‘ آفیسر نے مزید بتاتے ہوئے کہا۔ ‘‘ سر کتاب سے معلوم ہوا ہے کہ بارکی شہر میں آئے دن دو گروہوں کے درمیان لسانی فسادات ہوتے رہتے تھے۔ بارکی شہر ان لسانی فسادات کی وجہ سے ہی مفقود ہوا تھا، جب کہ تنویر اور اس کے ساتھیوں نے وہاں دو گروہوں کو آپس میں جنگ کرتے دیکھا تھا… اس کا مطلب ہے کہ کتاب اور وہ لوگ درست ہی کہتے ہیں۔ ‘‘

’’لسانی فسادات۔ ‘‘ ڈائریکٹر صاحب کی آواز میں کرب نمایاں ہو گیا۔ ’’یقیناً بارکی کے ناعاقبت اندیشوں کو مفاد پرست عناصروں نے آپس میں لڑوایا ہو گا۔ جو قومیں آپس میں لڑنے مرنے لگتی ہیں … ان کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا۔ ایسی قومیں جلد ہی روئے زمین سے مٹ جاتی ہیں۔ خیر تم یہ بتاؤ… جو آدمی تاج لے کر آئے ہیں … ان کا پتا چلا؟ قاعدے اور قانون کے مطابق انہیں وہ قیمتی تاج محکمے کے حوالے کر دینا چاہیے تھا۔ ‘‘

’’ان دونوں کی تلاش شدومد کے ساتھ جاری ہے اور ممکنہ جگہوں پر انہیں تلاش کیا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ دونوں تاج کو کسی دوسرے ملک کے ہاتھوں فروخت کرنا چاہتے ہوں۔ ‘‘ پھر آفیسر کھڑا ہو گیا۔ ‘‘ اچھا سر مجھے اب اجازت دیں۔ میں انشاء اللہ بہت جلد آپ کو نئی خبر سناؤں گا۔ ‘‘

آفیسر مصافحہ کر کے باہر نکل گیا۔ ڈائریکٹر صاحب کھڑے کچھ سوچتے رہ گئے۔

…٭…٭…

محکمے کی جیپ بہت تیزی سے ایک لمبی سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی۔ جیپ میں صرف ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھے اور پلکیں جھپکائے بغیر اس کی آنکھیں ونڈ شیلڈ کے پار گھور رہی تھیں۔ یہ تنویر تھا۔ وہ اسپتال سے فرار ہو گیا تھا۔ اسے جہانزیب کا خفیہ ٹھکانہ معلوم تھا اور اسے سو فیصد امید تھی کہ جہانزیب اور شکیل اُدھر ہی چھپے ہوں گے۔ وہ چاہتا تو محکمے کے لوگوں کو جہاں زیب کے پوشیدہ ٹھکانے کا پتا دے سکتا تھا، مگر وہ خود اپنے ہاتھوں سے جہاں زیب کو عبرت ناک سزا دینا چاہتا تھا، کیوں کہ وہ اس کا بھی مجرم تھا۔ تنویر نے ڈیش بورڈ کھول کر ایک نظر بگ ماؤزر پر ڈالی اور مطمئن ہوا سر جھٹکا دیا۔ اسے پولیس سے خطرہ نہیں تھا، کیوں کہ محکمے کی جیپ دیکھ کر کسی بھی چیک پوسٹ پر کوئی جیپ کو روکے گا نہیں۔ رات کے اندھیرے میں جیپ کا سفر تیز رفتاری سے طے ہو رہا تھا۔

تنویر کا اندازہ درست ہی تھا۔ اس خفیہ ٹھکانے پر جہانزیب موجود تھا، لیکن وہ تنہا تھا۔

یہ ایک بڑی بوسیدہ اور کہنہ سال عمارت تھی۔ اس عمارت میں فلیٹوں جیسے حصے تھے، جہاں اور بھی لوگ رہتے تھے۔ جہاں زیب نے بھی ایک حصہ خرید رکھا تھا۔ وہ کبھی کبھی چھٹیوں میں ادھر آتا تھا۔ جہاں زیب مسہری پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کے چپرے پر اچھی خاصی داڑھی اُگ آئی تھی۔ وہ بدستور کروٹیں بدل رہا تھا۔ اسے کسی کروٹ سکون نہیں مل رہا تھا۔ اچانک نیم غنودگی کے عالم میں اس نے شکیل کا سفید پوش ہیولہ دیکھا۔ وہ کانپ گیا۔ شکیل کو اس نے اپنے ہاتھوں غار کے کھڈے میں دھکیل دیا تھا۔ اس نے ایک غیر ملکی تاجر سے تاج کا سودا کر لیا تھا اور اگلی صبح اس نے تاج غیر ملکی تاجر کے حوالے کر کے رقم وصول کرنا تھا۔ جہاں زیب ایک دم مسہری سے اتر گیا۔ وہ سائیڈ کی دیوار پر لگی تصویر کی طرف بڑھا۔ تصویر ہٹانے ہی اسے تاج نظر آ گیا۔ جہاں زیب کی آنکھوں میں شیطانی چمک پیدا ہو گئی۔ وہ تاج لے کر مسہری پر آ بیٹھا اور بغور اسے دیکھتا رہا۔

یک لخت اسے عجیب سا احساس ہوا۔ بے حد عجیب اور سنسنی خیز احساس۔ تاج میں جڑے چاروں ہیروں کی چمک اچانک بڑھ گئی تھی۔ تاج ایک حسین نظارہ پیش کرنے لگا۔

’’یہ کیسے ہو گیا…؟‘‘ اس کی چھٹی حس چیخ چیخ کر کسی بہت بڑے خطرے کا اعلان کرنے لگی۔

جہاں زیب نے آہستگی سے تکیے کے نیچے موجود اپنا پستول نکال لیا اور تاج کو مسہری پر رکھ کر چادر ڈال دی، تاکہ اگر اسے یہاں سے بھاگنا پڑے تو فوراً ہی تاج کو اٹھا سکے۔ وہ خاموشی سے گربہ پا چلتا ہوا دروازے کی اوٹ میں کھڑا ہو گیا۔ باہر قہر کا سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ صرف عمارت میں مقیم جھینگر جھرجھرا رہے تھے۔ پانچ چھ منٹ تک وہ سانس روکے کھڑا رہا۔ دھیرے دھیرے اس کے جسم کا تناؤ ختم ہو گیا۔ وہ اپنی بدحواسی پر مسکراتا ہوا مسہری کی طرف بڑھا۔ ابھی اس نے چند قدم ہی بڑھائے ہوں گے کہ اسے بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہ اژدھے کی طرح مڑا۔

یہی لمحہ تھا کہ جب وہ مضبوط دروازہ چرچراتا ہوا اپنے قبضوں سے اُکھڑا ور دھڑ دھڑاتا ہوا کمرے میں آ گرا۔

جہاں زیب نے دھندلائی نظروں سے دروازے کی سابقہ جگہ پر دیکھا تو اس کی بصارت زائل ہونے لگی۔ کھوپڑی سینکڑوں ننھی ننھی کرچیوں میں تبدیل ہوئی محسوس ہوئی۔ اسے یوں لگا جیسے اَن دیکھی بلا کے آہنی ہاتھ… اس کے بدن کو تولیے کی طرح نچوڑ کر تمام جسم کی جان نکال رہے ہوں۔ خون اس کی کن پٹیوں پر جمع ہو کر پاگل ہاتھی کی طرح چنگھاڑنے لگا۔ دہشت اور بے یقینی کی غیر معمولی کیفیات نے اس کے چہرے کے خطوط مسخ کر ڈالے تھے۔

ٹوٹے ہوئے دروازے کی جگہ ایک طویل القامت اور پر ہیبت ہیولہ کوہ قاف کے دیو کی طرح بھاری بھر کم کھانڈا پکڑے کھڑا تھا۔ درختوں کے موٹے تنوں کی طرح اس کے پیر پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے بدن پر ایک عجیب و غریب چمڑے کا جنگجو قسم کا لباس تھا اور سر پر سینگوں والا آہنی خول تھا۔ اس کی شعلہ بار آنکھوں جہانزیب کو گھور رہی تھیں۔

وہ ہیگان تھا… بارکی کا بادشاہ… جو اپنی امانت لینے آ گیا تھا۔

جہانزیب کے منہ سے دل فگار دہشت انگیز چیخ نکلی۔ اس کا پستول والا ہاتھ بری طرف لرز رہا تھا۔ ہیگان کمرے میں داخل ہو گیا جہانزیب نے بکھری ہوئی طاقت ہاتھ میں جمع کر کے گولی چلا دی۔ زور دار دھماکا ہوا اور گولی آہنی خود سے ٹکرا کر چھت پر جا لگی۔ ہیگان غضب ناک ہو کر آگے بڑھنے لگا۔ اس کے پیروں کی دھمک سے کمرا گونج رہا تھا۔ جہانزیب نے تیزی سے تاج کو چادر کے نیچے سے نکالا۔ تاج دیکھ کر ہیگان کی آنکھوں میں حسرت آمیز چمک لہرانے لگی۔

اس نے اپنا کھانڈا جھکا لیا اور دوسرے ہاتھ کو بڑھا کر تاج پکڑنا چاہا تو جہانزیب برقی کوندے کی طرح اسے غچا دے کر کمرے سے باہر بھاگا۔ اس کے ایک ہاتھ میں تاج اور دوسرے میں پستول تھا۔ اس نے اپنے عقب میں بادلوں جیسی گھن گرج سنی تو اس کے قدم ڈگمگا گئے، لیکن وہ رکا نہیں۔ ہیگان دھم دھم کرتا ہوا اس کے پیچھے آ رہا تھا۔ عمارت کے دوسرے لوگ خود سن کر جاگ اُٹھے تھے۔ ایک آدمی اپنے کمرے سے نکل کر لمبے کوریڈور میں آ کھڑا ہوا تھا، تاکہ شور کرنے والوں کو سبق سکھا سکے۔ اچھی خاصی نیند برباد کر ڈالی تھی۔ اس نے مخمور اور غصیلی نظروں سے جہانزیب کو دیکھا۔ جہانزیب ہوا کے جھونکے کی طرح اس کے نزدیک سے گزر گیا۔ وہ اونچی آواز میں جہانزیب کو غالباً قصیدے سنانے لگا تھا۔ پھر اس نے دھم دھم سنی۔ وہ آدمی مڑا۔ اس نے ریگستانی بگولے کی طرح بڑھتے ہوئے دیو کو دیکھا تو اس کی نیند بھری آنکھیں دہشت کی زیادتی سے کئی گنا چوڑی ہو گئیں اور وہ لہرا کر اپنے کمرے کے دروازے سے جا ٹکرایا۔ دیو اس کے قریب سے گزرتا چلا گیا اور اس آدمی کو آنے والی پانچ چھ را توں کی نیندیں اُڑا گیا۔

پوری عمارت میں چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔ لوگوں کے خیال کے مطابق وہ کوئی ڈراؤنی بلا یا کوئی اور مخلوق تھی۔ جہانزیب پودوں کی اونچی باڑھ پھلانگتا ہوا سڑک پر آ گیا۔ اس نے پلٹ کر کئی فائر ہیگان پر جھونک مارے، مگر بدحواسی میں کیے گئے فائر ہیگان کو نہ لگ سکے۔ اچانک سامنے سے ایک کار آ گئی۔ جہانزیب کار سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ اس کار نے ابھی ابھی ایک موڑ کاٹا تھا۔ کار والے نے جونہی دیو کو دیکھا تو اس کا مغز پھر گیا۔ اس نے بریک لگا دئیے تھے۔ اب اس میں کار چلانے کا حوصلہ نہیں تھا۔ جہانزیب نے کار کا دروازہ کھول کر کار والے کو باہر پھینکا۔ کار والا تو یہی چاہتا تھا کہ کوئی اسے باہر پھینکے اور وہ جان بچا کر بھاگ جائے۔ وہ اُٹھتے ہی ناک کی سیدھ میں آ آ آ کرتا ہوا بھاگا۔

کار کا انجن غرا  رہا تھا۔ جہانزیب نے ایک دم اسپیڈ دی اور ہیگان کو کار کی ٹکر مارنا چاہی۔ یکایک ہیگان کا کھانڈا لہرایا اور کھڑی حالت میں کار کے بونٹ پر پڑا۔ یہ دیکھ کر جہانزیب کے چکے چھوٹ گئے کہ اس قیامت خیز کھانڈے نے کار کو آگے سے دو حصوں میں تقسیم کر ڈالا تھا۔ کار کا انجن بھی دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔ ٹوٹی ہوئی کار سڑک سے اُتر گئی۔ جہانزیب چلتی ہوئی کار سے تاج سمیت کود گیا۔ اسی وقت تنویر کی جیپ بھی وہاں پہنچی تھی۔ اس نے جہانزیب اور ہیگان کو دیکھ لیا تھا۔ تنویر جیب روک کر کودا اور اس جانب لپکنے لگا، جہاں وہ دونوں گئے تھے۔ جہانزیب ایک گلی میں گھس گیا۔ طویل القامت ہیگان بدستور بھوت کی طرح اس کے تعاقب میں لگا ہوا تھا۔ تنوری انہیں گلیوں میں ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔

دفعتاً اندھیرے میں سے کسی نے تنویر پر چھلانگ لگائی۔ تنویر زمین پر گر گیا۔ بگ ماؤزر اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ تنویر نے دیکھا جہانزیب اس کا ماؤزر اٹھا رہا تھا۔

’’خبردار ہلنا مت…‘‘جہانزیب نے تیزی سے اسے دھمکی دی۔ ’’ورنہ جان سے مار دوں گا۔ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ تم زندہ واپس آ گئے ہو… شاید تمہارے موت میرے ہاتھوں لکھی ہے۔ ‘‘

ساتھ ساتھ جہانزیب گلی کا جائزہ بھی لیتا جا رہا تھا۔ ہیگان کا کوئی پتا نہیں تھا۔ اس نے تاج کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے تنویر پر فائر کر دئیے۔ تنویر ہوشیار تھا۔ کروٹیں لے کر اپنے آپ کو بچا گیا۔ گولیاں اس کے برابر سے دہکتے ہوئے شعلوں کی صورت میں گزر گئیں۔

’’کہاں تک بچو گے … بندر کی اولاد…‘‘ اس نے دانت کچکچا کر دوبارہ فائر کرنا چاہے تو اسے اپنے عقب میں کسی کی موجودگی کا جان لیوا احساس ہو گیا، مگر بہت دیر ہو گئی تھی۔

ہیگان اس کے عین عقب میں موجود تھا۔

جہانزیب کے مڑتے ہی ہیگان کا جہنمی کھانڈا ماؤزر والے ہاتھ پر لگا۔ ہاتھ بڑی صفائی سے کندھے کی جگہ سے کٹ کر گر گیا، بالکل اسی طرح جیسے سگریٹ کی راکھ جھڑتی ہے۔ جہانزیب آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر حلق کے بل چلایا۔ کٹی ہوئی جگہ سے خون کا آبشار پھوٹ پڑا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے تاج نکل کر دور جا گرا۔ تنویر نے بڑھ کر تاج اٹھا لیا۔ جہانزیب خاک و خون میں لوٹیں لگا رہا تھا۔ اس کی چیخیں رات کے سناٹے کو توڑ پھوڑ رہی تھیں۔ ہیگان نے جھک کر جہانزیب کو اُٹھا لیا۔ اس کی آنکھوں میں انتقام کے سرخ شعلے بھڑک رہے تھے۔ چند لمحے اس نے جہانزیب کو دیکھا اور پھر ایک ہول ناک دھاڑ کے ساتھ فضا میں گیند کی طرح اُچھال دیا۔ جہانزیب درد کی بے پناہ شدت سے چیختا ہوا فضا میں بلند ہوا۔ ایک مخصوص حد تک اوپر جانے کے بعد کشش ثقل نے اسے واپس اپنی جانب کھینچا۔ ابھی وہ زمین کی طرف واپس آ ہی رہا تھا کہ اس کے وجود سے کوئی شے زن زناتی ہوئی گزر گئی۔ سیب کی طرح اس کے جسم کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ فضا میں ہی موت کے فرشتے نے اس کی روح جسم سے بے دردی کے ساتھ نکال لی۔ دونوں ٹکڑے دھپ دھپ کی آوازوں کے ساتھ زمین پر آ گرے۔ گلی میں دور دور تک خون کے چھینٹے گئے تھے۔ کتنے ہی گھروں میں چیخ پکار گونج رہی تھی۔ شاید لوگوں نے یہ خونی کھیل دیکھ لیا تھا۔ تنویر نے ہیگان کو بھاگنے کا اشارہ کیا۔ ہیگان نے اس کے ہاتھ کا اشارہ سمجھ لیا اور دونوں آگے پیچھے دوڑتے ہوئے اس علاقے سے دور ہونے لگے۔ آگے طویل پہاڑی سلسلے تھے۔ ایک جگہ تنویر رک گیا۔ اس کی سانس بری طرح پھول گیا تھا۔ ہیگان اس کے نزدیک آ کر رک گیا۔ وہ اپنے محسن کو پہچان چکا تھا۔ تنویر نے ہانپتے ہوئے تاج اس کے اصل مالک کی طرف بڑھایا۔ بادشاہ کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہو گئے۔ اس نے تاج کو تھام کر بے اختیار چوم لیا۔ تنویر کو خوشی تھی کہ اس نے ہیگان کی امانت اپنے ہاتھوں سے واپس کی تھی۔ وہ دل چسپ نظروں سے بادشاہ کو خوش ہوتا دیکھ رہا تھا۔

دفعتاً تنویر ہکا بکا رہ گیا۔ بادشاہ نے اُسے اپنا تاج پہنا دیا تھا۔ بڑے تاج نے اس کا آدھا سر ڈھانپ لیا۔ تنویر نے جلدی سے تاج کو اوپر اٹھایا تو اس نے دیکھا کہ ہیگان پہاڑوں کی طرف جا رہا تھا۔ چاند کی ہلکی روشنی میں ہیگان کا طویل ہیولہ عجیب خوف ناک منظر پیش کر رہا تھا۔ تنویر سحر زدہ کھڑا اُسے دیکھتا رہا۔ معاً وہ جیسے خواب سے چونکا۔ اس نے زور سے چلا کر کہا۔

’’رک جاؤ… ہیگان… رک جاؤ… واپس آ جاؤ… یہ اپنی امانت لے جاؤ ہیگان۔ ‘‘جذبات میں آ کر وہ یہ بھول گیا تھا کہ ہیگان اس کی زبان سے نا آشنا ہے۔ تنویر اس کے پیچھے دوڑا۔

لیکن ہیگان واپسج اچکا تھا… شاید بارکی شہر میں … ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔

تنویر دیوانوں کی طرح اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا ہوا اسے پکارتا رہا، لیکن وہاں صرف سرپھری ہوائیں اٹکھیلیاں کرتی پھر رہی تھیں۔

…٭…٭…

ڈائریکٹر صاحب آنکھیں پھاڑے اور نہ کھولے تاج کو ٹک ٹک دیکھے جا رہے تھے۔

’’واقعی واقعی… مجھے یقین نہیں آ رہا ہے … حیرت انگیز… اُف… یہ حقیقت ہے یا خواب…؟‘‘

’’سر یہ حقیقت ہے اور یہ بھی ٹھوس سچائی ہے کہ مسٹر تنویر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بارکی گئے تھے، لیکن بدنیت جہانزیب وہاں سے نہ صرف بارکی کے بادشاہ ہیگان کا تاج چرا لایا، بلکہ اس نے اپنے ساتھیوں کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش بھی کی تھی اور خود کو تاج کا مالک سمجھے لگا، مگر ہیگان ماضی کی دیواریں پھلانگ کر اپنا تاج واپس لینے کے لیے حال میں آ گیا تھا۔ اسے شہر کے بے شمار لوگوں نے دیکھا ہے اور جھٹلانے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ جہاں زیب کو ختم کرنے کے بعد اس نے اپنا تاج مسٹر تنویر کے حوالے کر دیا اور خود واپس چلا گیا۔ ‘‘

’’مگر اسے یہ کیسے معلوم ہوا کہ جہانزیب کہاں چھپا ہوا ہے ؟‘‘ ڈائریکٹر صاحب کو اس بات پر حیرت تھی۔

’’اس بات کا جواب تو کسی کے پاس نہیں ہے۔ ‘‘ آفیسر نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔ ’’شاید ہیگان کے پاس کوئی طاقت تھی، جو اسے جہانزیب تک لے گئی تھی یا پھر تاج میں کوئی ایسی ساحرانہ کشش ہے، جس نے ہیگان کو اس جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا تھا۔ ‘‘

’’آفیسر اس کا مطلب ہے کہ ہیگان اس غار کے راستے واپس ماضی میں گیا ہو گا۔ ڈائریکٹر صاحب نے پر جوش لہجے میں کہا۔ ’’تو پھر ہمیں اس غار کی تلاش کرنا چاہیے۔ ‘‘

’’بے کار ہے سر…‘‘ آفیسر نے مایوسی سے سر جھٹکا۔ ’’ہم نے تنویر اور راشد صاحب کی نشان دہی پر غار کو بہت تلاش کیا، مگر ایسا لگتا تھا کہ غار اس مقام پر کبھی تھا ہی نہیں۔ یقیناً اس طوفانی رات ماضی نے اپنا راستہ غار کی صورت میں کھولا تھا۔ ‘‘

آفیسر کے خاموش ہونے کے بعد کمرے میں خاموشی چھا گئی۔

دونوں کی نظریں تاج کو گھور رہی تھیں، جس میں چار بڑے بڑے ہیرے جڑے ہوئے تھے۔

٭٭٭

ماخذ اور تشکر: کتاب ایپ

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں