FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

 

جدیدیت،   ما بعد جدیدیت اور غالب

 

 

 

 

                   دانیال طریر

 

 

 

 

’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے!‘‘

الرحمن

 

 

بلال

کے

 نام

 

 

 

 

نہیں ہے کوئی بھی گوہرؔ غزل میں عرش مقام

جو ہے تو وہ اسداللہ خان غالبؔ ہے

سعید گوہرؔ

 

 

 

 

واں رنگ ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز

یاں شعلۂ چراغ ہے برگِ حنا مجھے

غالبؔ

 

 

 

 

جدیدیت اور غالب

 

اردو شاعری میں جدیدیت کے حوالے سے ابھرنے والی پہلی آواز کی تلاش ہمیں غالب تک لے جاتی ہے۔ یہ آواز اپنی اولیت کے ساتھ جدیدیت کے سب سے زیادہ خصائص سمیٹنے کے باعث توانا ترین آواز کہلانے کا استحقاق رکھتی ہے۔ جدیدیت کی روح، بنے بنائے، طے شدہ، مانے گئے     ، عرصہ دراز سے رائج، شعور و احساس میں اپنے لیے مستقل مقام رکھنے والے اقداری و اعتقادی نظام کے استرداد میں پوشیدہ ہے۔ استرداد جتنا جاندار اور توانا ہو گا جدیدیت کی روح اتنی قوی ہو گی۔ دوسرے لفظوں میں نظام جتنا قدیم اور پختہ ہو گا اس کے رد کے لیے اتنی ہی زیادہ جرات اور قوت درکار ہو گی۔ لہٰذا جتنی زیادہ جرات اور قوت کو بروئے کار لا کر جتنی زیادہ مضبوط جڑوں والے نظام کی بنیاد کو ہلا کر کھو کھلا بنانے کی سعی کی جائے گی۔ جدیدیت کا احساس اتنا شدید ہو گا۔ جدیدیت زمانہ غالب کی تحریک نہ تھی اس لیے انھوں نے جدیدیت کی تمام روشنی اپنے وجود سے اخذ کی اور اپنے عہد تک اس روشنی سے صرف اپنے وجود کو منور کیا ہے۔ جدید غالب کو ان کے عہد میں قبول عام حاصل نہیں ہوا اس لیے ان کی اختراع، ان کی جدت، ان کے تجربات، ان کی موضوعیت، ان کی انفرادیت اور ان کی وجودیت وغیرہ کو جدیدیت کا نام نہ مل سکا لیکن یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ اردو شاعری میں جدیدیت کے آثار ( جدید کی صورت ہی میں سہی ) اگر کسی شاعر کے ہاں سب سے پہلے نمایاں طور پر نظر آتے ہیں تو وہ غالب ہی ہیں۔ غالب سے پہلے کی تمام تر اردو شاعری بنے بنائے نظام کی قبولیت کے رویے کی مظہر ہے۔ وہی لگے بندھے مضامین ہیں اور انہیں برتنے کا وہی لگا بندھا انداز، شعری جمالیات و موضوعات کے اس بنے بنائے نظام نیز نظام اقدار و اعتقادات کو من و عن قبول کرنے کے خلاف اٹھنے والی پہلی آواز غالب کی ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے ان معتقدات پر ضرب کاری لگائی جنہیں ان کے معاشرے میں  ’’ مقدس روایات‘‘  کی حیثیت حاصل تھی۔ جن پر سوچنا، سمجھنا اور سوال کرنا جرم عظیم اور گناہ کبیرہ تصور کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جب ان معتقدات کو عقلی سطح پر پرکھا تو وہ بالکل کھوکھلے نکلے اس انکشاف نے ان کی نظر میں اپنے سماجی ڈھانچے کو مشکوک اور غیر عقلی بنا دیا۔ وہ اپنے سماج کو نئے خطوط پر تعمیر کرنا چاہتے تھے لیکن اس تعمیر کے لیے تخریب اور انہدام ضروری تھا۔ یہ دونوں کام ان کو کرناپڑے۔ ایک طرف انہوں نے قدیم کو منہدم کیا اور دوسری طرف جدید کی تعمیر کی۔ وہ موجود پر ایقان کھو چکے تھے۔ اس لیے نئی تعمیر کے لیے کسی خارجی معیار کو قبول کرنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا تھا لہٰذا انھوں نے نئی تعمیر کے لیے معیارات اور تعینات کے سلسلے  میں اپنی ذات کو قابل اعتماد سمجھا اور ذاتی تجربے کی بنیاد پر تمام تر فیصلے کیے۔ انہدام اور تعمیر دونوں کے لیے انھوں نے صرف اور صرف اپنی ذات کو پیمانہ بنایا جو ان کے جدید ہونے کی سب سے اہم دلیل ہے۔

جدیدیت بنے بنائے اور طے شدہ نظام کے استرداد سے سفر آغاز کرتی ہے۔ جس کے لیے اسے اپنی ذات پر کامل اعتماد کے حامل افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ افراد ایک طرف روایت کے زیر اثر جاری نظام سے بغاوت کرتے اور اسے اپنانے سے صاف انکار کرتے ہیں تو دوسری طرف ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھتے ہیں جس میں ہر شے، خیال، تصور اور قدر کا پیمانہ اور معیار ان کی اپنی ذات ٹھہرتی ہے۔

جدیدیت جس اعتماد ذات کو دیکھنے کی آرزو مند ہے وہ غالب میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ ناقدین نے ان کے اس اعتماد کو انانیت کا نام دیا ہے۔ یہ نام قطعی غلط نہ سہی پھر بھی ان کے اعتماد ذات کا مکمل احاطہ کرتا نظر نہیں آتا کیونکہ انانیت کے آثار ان سے پہلے کے شاعروں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور معاصرین میں بھی تاہم یہ فرق ضرور ہے کہ ان سے پہلے کے شاعروں کی انا نوعی جب کہ ان کی انا انفرادی ہے۔ اس انفرادی انا کو ان کے اعتماد ذات کا نام دیا جا سکتا ہے۔ جو اعتماد بہ حوالہ ذات ان کے حصے میں آیا وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوا۔ اپنی ذات پر اسی اعتماد نے ان کو ہر طرح کی خارجی پابندی سے آزاد کر دیا تھا۔ پابندی مذہبی ہو یا معاشرتی، انھوں نے کسی زنجیر کی اسیری قبول نہ کی۔ جدیدیت کی پوری تحریک اسی آزادہ روی کی تبلیغ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ تحریک در حقیقت کسی بھی طرح کی خارجی پابندی کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ یہ ایک آزاد تخلیقی عمل کی داعی ہے۔ تخلیقی عمل کی یہ آزادی تخلیقی وجود کے علاوہ کسی دوسرے وجود یا نظریے کی پابند نہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ عمل خود کو تخلیقی وجود سے بھی آزاد کرنے کے درپے دکھائی دیتا ہے۔ غالب کے آزاد تخلیقی عمل نے ان کے ہاں اثبات کی بجائے نفی کا رویہ ابھارا ہے۔ نفی کا یہ رویہ ان کے ہاں نفی ذات کے علاوہ ہر حوالے سے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلاتا ہے۔ نفی ذات کو انھوں نے اس مخصوص پس منظر میں استعمال نہیں کیا۔ جو ان کے دور تک آتے آتے روایت بن چکا تھا۔ بلکہ انھوں نے نفی ذات کے مروجہ تصور کی نفی کر کے خود کو روایت شکن بھی ثابت کیا اور اپنی ذات پر کامل اعتماد کا وہ ثبوت بھی فراہم کر دیا جس کے بغیر جدیدیت کے سفر میں پیش رفت نہیں ہو سکتی۔

۱؎        اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو

آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

جدیدیت اپنی ہستی کے اسی شعور کا دوسرا نام ہے یہ ہستی صرف خود بین و  خود آرا نہیں بلکہ خود آگاہی کے ساتھ زمانہ شناس بھی ہے، عہد آشنا بھی، دور بیں بھی اور دو راندیش بھی۔ یہ ہستی کائنات میں خود کو گم کر دینے والی ہستی نہیں بلکہ یہ ہستی تو ایسی وسعتوں کی حامل ہے کہ کائناتی بے کناریت اس میں سمٹ جاتی ہے۔

۲؎      کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

اقبال کے اس شعر میں  ’’ مومن ‘‘  کامل ہستی کی علامت بن کر سامنے آتا ہے جو عام انسان سے زیادہ آئیڈیل انسان کے تصور سے منسلک ہے  جب کہ غالب کے ہاں ہستی کاملیت کی جانب محو سفر ہے۔ یہ ہستی دشت امکاں عبور کر چکی ہے مگر اس کی وسعت طلبی کم نہیں ہوئی۔ اقبال ہستی کی کاملیت کے اظہار کو عار نہیں سمجھتے۔

۳؎       حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر

اک مرد قلندر نے کیا رازِ خودی فاش

جب کہ غالب ہستی کی کاملیت کے تصور سے گریزاں ہیں اور اگر گریزاں نہ بھی ہوں تو بھی کاملیت کے اظہار سے ضرور گریز کرتے ہیں۔

۴؎      قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن

ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں

ہستی کی کاملیت کے اظہار سے گریز دراصل روایت سے گریز ہے۔ غالب کے لیے ’روایت‘ ایک بت ہے اور وہ بت پرست نہیں، بت شکن ہیں ان کا تمام سفر بت شکنی کی روداد ہے ۔

۵؎      ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور

اپنی ہستی کی تعمیر و تکمیل کے لیے وہ بت شکنی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ جدیدیت بھی تعمیر ی عمل کے لیے تخریبی عمل کو لازمی قرار دیتی ہے۔ اپنی ہستی کی تعمیر و تکمیل کی طرح اس کا تحفظ بھی جدیدیت کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔

غالب کو اپنی ہستی بہت عزیز ہے وہ اسے کسی صورت، کسی حالت میں اور کسی کے لیے بھی نظر انداز کرنے کو تیار نہیں۔ ان سے پہلے اردو شاعری میں فنا فی العشق کی حقیقی اور مجازی صورتیں موجود تھیں مگر انھوں نے ان میں سے کسی کو بھی قبول نہیں کیا کیوں کہ دونوں صورتوں میں اپنی ہستی کی سپردگی ضروری تھی۔ جو وہ کسی قیمت پر گوارا نہیں کر سکتے ۔

۶؎      واں وہ غرورِ عز و ناز یاں یہ حجاب پاسِ وضع

راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں

 

۷؎      وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں

سبک سربن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو

وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

 

۸؎      ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

بے نیازی تری عادت ہی سہی

اشعار بالا صاف ظاہر کرتے ہیں کہ غالب کو اپنی ہستی کے تحفظ کا پورا احساس ہے۔ مقابل کوئی بھی ہو وہ اپنی ہستی سے بیگانگی نہیں برتتے بلکہ مقابل کو اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلاتے ہیں۔ اپنی ہستی پر اعتماد، اس کی تعمیر وتکمیل کا شعور، اس کے تحفظ کا احساس اور دوسری ہستیوں میں اپنی موجودگی کا اثبات، انفرادیت کے حامل وہ حوالے ہیں جو انھیں روایت کے برعکس جدیدیت سے جوڑتے ہیں۔ جدیدیت کے اساسی تصورات میں یہ حوالے کلیدی کردار کے حامل ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں جدید ادب اور جدید ادیب کا تصور تک محال ہے۔

جدیدیت کا ایک اختصاص یہ ہے کہ وہ ادب کے کسی پابند تصور کو نہیں مانتی جب کہ ہماری تنقید اب تک ادب کسی نہ کسی پابند تصور کی پرچارک رہی ہے۔ مذہب، سائنس، سماج، سیاست، اخلاق، استحصال، طبقاتی شعور، بشر دوستی نیز اقدار سے ادب کو جوڑ کر دیکھنے کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ادب کو ان میں سے کسی نقطہ نظر کا ترجمان ہونا چاہئے۔ یہ نقطہ نظر ادب کی اساس کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ادب تخلیق ہے، تخلیق تجربے کا اظہار کرتی ہے۔ تجربہ ذاتی ہوتا ہے، اس میں داخلیت ہوتی ہے، موضوعیت ہوتی ہے، سچائی ہوتی ہے، یہ سچائی کسی دوسرے کی دریافت نہیں فرد کی اپنی دریافت ہے۔ اس سچائی تک فرد اپنی بصیرت اور شعور کے ذریعے پہنچتا ہے۔ غالب اسی حقیقت کو کچھ اس طرح ظاہر کرتے ہیں ۔

۹؎      بے چشم دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار

یعنی یہ ہر ورق، ورقِ انتخاب ہے

سچائی تک فرد ’’ بہ چشم دل‘‘  پہنچتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ فرد اپنی بصیرت اور شعور کی مدد سے جس سچائی تک پہنچے وہ سیاسی، اخلاقی، مذہبی یا سائنسی وغیرہ ہو اس صورت میں جدیدیت کو ادیب پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن مقصد اور نتیجے کے فرق کو بہ ہر حال ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

جدیدیت زندگی، ادب اور ادیب پر کسی نظریاتی لیبل کوپسند نہیں کرتی۔ نظریہ انسان کو اپنی تحدیدات میں اس طرح محصور کر لیتا ہے کہ ان تحدیدات سے باہر کی کوئی بھی حقیقت قابل قبول نہیں رہتی۔ جدیدیت قبولیت کا ایک وسیع تصور رکھتی ہے۔ اس وسیع تر تصور کو غالب کے ان اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے  :

۱۰؎     نہیں نگار کو الفت نہ ہو نگار تو ہے

روانی روش و مستی ادا کہیے

نہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہے

طراوت چمن و خوبی ہوا کہیے

نظریہ انسان کو درج بالا وسعت نظر کا حامل نہیں بننے دیتا، نظریاتی انسان کی تمام تر وابستگی اور دلچسپی اپنے نظریے سے ہوتی ہے اور وہ فن کو اپنے نظریے کے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ نتیجتاً فن، تخلیق کے اعلیٰ منصب کو کھو دیتا ہے۔ جدیدیت فن کار کو نظریے کے برعکس فن سے وابستہ اور پیوستہ رکھتی ہے۔ اہم فن کار وہ ہے جو اپنے فن کے ساتھ مخلص ہے، اپنی آزادی کے ساتھ وفادار ہے، جس کا ادب کسی کی تقلید نہیں ہے جس نے اپنے قلم کو کسی خارجی منشور کا پابند نہیں بنایا، جس نے مقبول رجحانات کے برعکس نیا اسلوب وضع کیا، جس نے زندگی کو خانوں میں بانٹنے کی بجائے کل کی صورت دیکھا اور پیش کیا جس نے ستائش کی تمنا اور صلے کی پروانہ کی، جس نے تخلیقی تجربے سے سچا رشتہ قائم رکھا۔ جدیدیت کے لیے ہر وہ فنکار قابل قدر ہے جس کی تخلیق میں سچائی ہے یہ سچائی خارجی نہیں بلکہ داخلی ہے اس سچائی کا معیار فرد ہے، فرد جو آزاد بھی ہے اور ذمہ دار بھی۔ یہ آزادی تخریب کا استحقاق بھی رکھتی ہے اور تعمیر کا پہلو بھی اس میں شامل ہے۔ تاہم آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا احساس ہر لمحہ موجود رہتا ہے کیوں کہ صرف وہی فرد ذمہ دار ہو سکتا ہے جو آزاد بھی ہو۔

غالب نے آزادی اور ذمہ داری کے اس نقطہ ارتباط کو پا لیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ اپنے لیے جو انتخاب کر رہے ہیں وہ صرف ان کے لیے نہیں بلکہ ان کا انتخاب نوع انسانی کے لیے ہے۔ اس لیے وہ فیصلے کے لمحات میں اکثر تضادات کے شکار نظر آتے ہیں۔ ان لمحات کا کرب یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ صرف لمحہ موجود کے لیے اذیت نہیں جھیل رہے بلکہ دور دراز کے اندیشے بھی ان کی نگاہ میں ہیں۔ ان کا یہی شعور انہیں تحدیدات کی اسیری سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آج کا سچ، صرف آج کے لیے ہے۔ ضروری نہیں کہ یہی سچ کل اور ہمیشہ کے لیے سچ ثابت ہو۔ ہمیشہ کے سچ کو پانے کی جستجو بہ صورت تمنا ہر لمحہ ان کے ساتھ رہی۔ ان کی تمنا میں جو وسعت ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ حد بندی اور پابندی کے قائل نہیں ہیں۔ فکر کی طرح فن کے سلسلے میں بھی انھوں نے خود کو اپنے عہد کے کسی خاص نقطہ نظر کا تعمیمی استعارہ بننے نہیں دیا۔ وہ ادب کو تخلیق سمجھتے ہیں اور تخلیق کو ذات کی گہرائیوں اور سچائیوں میں صورت پذیر ہونے والے تجربے کا اظہار :

۱۱؎      حسنِ فروغِ شمعِ سخن دور ہے اسدؔ

پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی

۱۲؎     ہجومِ فکر سے دل مثلِ موج لرزے ہے

کہ شیشہ نازک و صہبائے آبگینہ گداز

 

۱۳؎     عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

 

۱۴؎     ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے

آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے

اشعار بالا میں تخلیقی تجربے کی گرمی سے پگھلتی ہوئی جو ساعتیں اظہار کے سانچے میں ڈھلی ہیں وہ اس سچائی کے اثبات کے لیے کافی ہیں کہ غالب کا قلم کسی منشور کا آلہ کار نہیں بلکہ حقیقی تجربات کا وسیلہ اظہار ہے اور حقیقی تخلیقی تجربہ عام اور محدود بصیرت کی گرفت میں نہیں آتا۔ بہ قول آل احمد سرور:

۱۵؎     ’’ہر دور کی عام بصیرت محدود ہوتی ہے۔ سماج کا بڑا حصہ اپنی حالت پر قائم رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک چھوٹا اور بیدار حصہ اسے بدلنے کی یا اس قصر و ایواں کے رخنے دکھانے کی۔ یہ بیدار حصہ اپنی بستی میں اجنبی بن جاتا ہے۔ یہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے اس کی بات لوگ یا تو سمجھنا نہیں چاہتے یا سمجھنے سے انکار کر دیتے ہیں ! کیوں کہ یہ مانوس جلوؤں کے طلسم کو توڑتا ہے۔ دیوتاؤں کے مٹی کے پاؤں دکھاتا ہے تاج و تخت کی پستی اور بوریائے فرش کی عظمت واضح کرتا ہے۔ ساغر جم سے جام سفال کو بہتر ثابت کرتا ہے۔ خیرو شر کے پیمانے بدل کر نئے سرے  سے خیر و شر کے معیار متعین کرتا ہے۔ کبھی فردوس میں دوزخ کو ملانا چاہتا ہے  اور کبھی طاعت کے تصور سے سرشار ہو کر بہشت کو دوزخ میں ڈال دینا چاہتا ہے۔ سجہ و زنار کی حد بندیوں میں وفاداری کی آزمائش دیکھتا ہے۔ یہ بہلا تا نہیں چونکاتا ہے اور سکون کے بہ جائے خلش و اضطراب پیدا کرتا ہے۔ قدرتی طور پر اس کی بات لوگوں کو مشکل معلوم ہوتی ہے۔ وہ ایک شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ یہ انہیں دشت و صحرا سے گزرنے کی دعوت دیتا ہے۔ بڑے شاعر اس چھوٹے طبقے ے تعلق رکھتے ہیں  اور اس لیے ان کے دور میں ان کی آواز اجنبی معلوم ہو تی ہے۔ ‘‘

بڑے شاعروں کو اپنی اس اجنبیت کا احساس ہوتا ہے لیکن وہ اس سے نظریں نہیں چراتے بلکہ اس کا سامنا کرتے ہیں غالب کو بھی اپنی اجنبیت کا احساس تھا۔ ایسا نہیں کہ یہ احساس باعث فرحت اور وجہ اطمینان ہوتا ہے لیکن حقیقی تخلیقی تجربے سے وفادار رہنے کے لیے اسے سہنا یا خود کو اس سے ماور ا سمجھنا تخلیق کار کی مجبوری بن جاتی ہے ۔

۱۶؎     اسدؔ ارباب فطرتِ قدر دانِ لفظ و معنی ہیں

سخن کا بندہ ہوں لیکن نہیں مشتاقِ تحسیں کا

 

۱۷؎     ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ

ہوں میں کلامِ نغز ولے ناشنیدہ ہوں

اوپر میں آئیڈیالوجی سے جدیدیت کی بیزاری کا اظہار کر چکا ہوں۔ مذہب کو بھی ہمہ گیر جدیدیت نے ایک آئیڈیالوجی کے روپ میں دیکھا تھا۔ جمالیاتی جدیدیت نے بھی اس رویے میں کسی خاطر خواہ تبدیلی کا اظہار نہیں کیا کیوں کہ وہ بھی ہمہ گیر جدیدیت کی طرح دینیاتی کونیات کے بر عکس بشر مرکز کونیات میں اعتقاد رکھتی ہے اس فرق کے ساتھ کہ جمالیاتی جدیدیت میں انسان کا تصور ہمہ گیر جدیدیت کی طرح خدا جتنا عظیم نہیں ہے۔ جمالیاتی جدیدیت میں انسان کو اس کی حقیقی صورت اور صلاحیتوں کے ساتھ پیش کیا ہے تاہم آئیڈیالوجی سے بے زاری کے رجحان میں تبدیلی پیدا نہیں کی ہے۔    آئیڈیالوجی خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ایک واضح اور معین نقطہ نظر کی حامل ہوتی ہے۔ یہ واضح اور معین نقطہ نظر تخلیق کار کی وسعتوں کو کم کر دیتا ہے۔ زندگی اس کے لیے ایک یک رخی حقیقت بن جاتی ہے۔ اس کا فن پوری زندگی کا احاطہ نہیں کر پاتا۔ جب کہ جدیدیت زندگی کو ایک کثیر الابعاد حقیقت تصور کرتے ہوئے وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی تمنائی ہے۔ اس لیے تنگ نظری کا حامل کوئی نقطہ نظر اس کے کشادہ دامن میں جگہ نہیں پا سکتا۔ مذہب کو بھی جدیدیت کوئی خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتی۔ جدیدیت ایک سیکولر تحریک ہے۔ سیکولر فکر شاعری کی حد تک لا مذہبیت سے زیادہ مذہبیت کے انفرادی تصور کی ترجمان رہی ہے۔ جدیدیت کے اعتبار سے ہر وہ شاعر سیکولر ہو گا جو دینی امور کے برعکس دنیوی معاملات سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ دوسرا وہ مذہب کی روایتی توضیحات کے برعکس  اس کے حوالے سے ذاتی تاثرات اور ذاتی فہم و ادراک کو زیادہ اہم گردانتا ہے۔ غالب کو انہی حوالوں سے سیکولر شاعر قرار دیا جا سکتا ہے ۔

۱۸؎     جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد

پَر طبیعت اِدھر نہیں آتی

اس نوعیت کا اظہار یہ ثابت کرتا ہے کہ غالب کے لیے اپنی طبیعت، اپنا مزاج  اور اپنی شخصیت ہر حقیقت سے زیادہ اہم ہے۔ وہ اپنے نقطہ نظر میں آزاد ہیں اس لیے مذہبی تصورات کی قبولیت کے لیے وہ خود کو مجبور نہیں مختار تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی تصورات ان کے ہاں اظہار پانے کے بعد مذہبی سے زیادہ ان کے انفرادی تصورات دکھائی دیتے ہیں ۔

۱۹؎     ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

غالب مذہب کو عقیدے اور عقیدت کی بجائے عقل اور تشکیک کے معیارات پر تولتے ہیں۔ یہی حوالے انہیں ایک مذہبی شاعر کے طور پر نہیں بلکہ ایک سیکولر، ایک وسعتوں کے متمنی اور ایک وسیع المشرب شاعر کے طور پر متعارف کرواتے ہیں ۔

۲۰؎    دیر و حرم آئینہ تکرارِ تمنا

واماندگیِ شوق تراشے ہے پناہیں

 

۲۱؎     طاعت میں تا رہے نہ مئے و انگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو

 

۲۲؎ وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے

مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

 

۲۳؎      گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں

کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی

 

۲۴؎     ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم

ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

 

۲۵؎    بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم

الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

 

۲۶؎          کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

غالب ایک طرف  ’’ تھوڑی سی فضا اور سہی ‘‘ کی تمنا کا اظہار کر کے اپنی وسیع  المشربی کو ظاہر کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ فرشتوں کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے بلکہ اعتماد کے حوالے سے آدمی کو ان پر فوقیت دیتے ہیں ۔

۲۷؎           پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا

غالب نے جس طرح فرشتوں پر آدمی کی برتری ظاہر کی ہے وہ برتری عرش پر فرش کی برتری کا اظہار ہے۔ اس برتری میں ماورائیت پر ارضیت کی فوقیت پوشیدہ ہے۔ جو عبادات پر خواہشات اور معاملات حیات کی برتری کا اشارہ ہے یہ برتری عینیت پر حقیقت کی برتری کا ثبوت ہے۔ یہی برتری شعر ذیل میں قیامت پر بہ صورت قامت ظاہر ہوئی ہے ۔

۲۸؎    ترے سرو قامت سے اک قد آدم

قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

یہ تمام اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ غالب ایک مذہبی آدمی نہ تھے مگر وہ مذہب کی روح اور اصلیت سے ضرور واقف تھے۔ وہ مذہب سے زیادہ اپنے وقت کی تنگ نظری پر مبنی مذہبی نقطہ نظر کے باغی تھے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ وہ دنیوی لذتوں کو خیالی اور تصوراتی دینی لذائذ پر فوقیت دیتے ہیں    ؎

۲۹؎     واعظ! نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو

کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی

 

۳۰؎        دیتے ہیں جنت حیاتِ دہر کے بدلے

نشہ بہ اندازہ خمار نہیں ہے

یہاں یہ بات پوری طرح صاف ہو جاتی ہے کہ غالب کہ مذہبی تصورات ہمہ گیر جدیدیت کے برعکس جمالیاتی جدیدیت سے زیادہ قریں ہیں کیوں کہ انھوں نے جس انسان کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے وہ خدائی صفات کا حامل ہر گز نہیں ہے۔ مذہبی حوالے سے اس وسیع المشربیت کے ساتھ ان  کی جدیدیت کا ایک اہم پہلو معاصریت ہے۔ یہاں یقیناً معاصریت سے میری مراد باہر کی صورت حال ہے جب کہ جدیدیت عام طور پر انسانی باطن کے انکشاف سے متعلق سمجھی جاتی ہے تاہم یہ مکمل طور پر درست نہیں ہے، بہ قول ناصر عباس نیر:

۳۱؎     ’’جدیدیت ثانی (ماڈرن ازم)نے بہ یک وقت باہر کی صورت حال اور باطن کی تہ بہ تہ دنیا کے انکشاف کو اپنا مطمع نظر بنایا مگر باہر کی براہ راست ترجمانی کے بہ جائے انسانی باطن پر اس کے اثرات کو شخصی اسلوب میں پیش کیا۔ ‘‘

معاصریت سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ اپنے عہد کے سیاسی و سماجی حالات کو تخلیقی وجود میں تحلیل کیے بغیر سپرد قلم کر دیا جائے یا سیاسی و سماجی سرگرمیوں پر جذباتی اور غیر فکری ردِ عمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ معاصریت کی دراصل دو سطحیں ہیں۔ ایک عصریت کی بالائی سطح اور دوسری روح عصر کی گہری سطح۔ کسی بھی عہد کے معمولی تخلیقی کار عموماً خود کو عصریت کی بالائی سطح سے منسلک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو مختلف واقعات کے زیر اثر پیدا ہونے والے فوری اور جذباتی رد عمل کی ایک صورت ہے جب کہ روح عصر تک رسائی ہر تخلیق کار کو نصیب نہیں ہوتی۔ روح عصر سے ارتباط غیر معمولی تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں کا متقاضی ہے کیوں کہ روح عصر میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کے عکس ایک ساتھ جھلملاتے ہیں۔ اس لیے جو تخلیق کار تاریخی شعور(ایلیٹ نے اسی لیے تخلیق کار کے لیے تاریخی شعور کو ضروری قرار دیا تھا اور اسے اکتسابی سمجھا تھا) اور مستقبل بینی کی صلاحیت کے حامل نہیں وہ روح عصر سے مکالمہ بھی نہیں کر سکتے۔ حال کی کوئی کڑی ماضی اور مستقبل سے غیر مربوط قرار نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے تینوں زمانوں کو بہ یک وقت نگاہ میں رکھتے ہوئے زندگی کرنے کے عمل میں مشارکت کا نام معاصریت ہے۔ حقیقی معاصریت ہر عہد کے غیر معمولی تخلیق کاروں کا ہاں پائی جاتی ہے۔ غالب کی شاعری میں عصریت کی بالائی سطح کے بر عکس روح عصر کی یہی گہری سطح دکھائی دیتی ہے جو ان کے معاصرین کی شاعری میں مفقود ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے ماضی کی پرستش اور حال کی پوجا کے برعکس مستقبل کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے معاشرے کی عصری صورت حال خوش گواریت کے احساس سے تہی دامن تھی۔ عصر غالب کے حالات زندگی کی کوئی روشن تصویر دکھانے سے قطعی طور پر محروم تھے۔ اپنے زمانے کا ٹوٹتا پھوٹتا، منتشر ہوتا، اضطراب انگیز، مسائل و مصائب سے لبریز اور لہو رنگ منظر نامہ ان کے کلام میں پوری تخلیقیت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ مگر صرف اس منظر نامے کی شعری پیش کش معاصریت کی مکمل عکاس نہیں ہو سکتی کیوں کہ معاصریت انہدام کے ساتھ تعمیر کے آثار بھی دکھاتی ہے۔ ان کی مستقبلیت اسی نئی تعمیر کی ترجمان ہے۔ یا سیت اور نومیدی کے اندھیروں میں آس اور امید کی یہ کرن معاصریت کی تکمیل کرتی ہے۔ وہ معاصریت کی اس تکمیل کے پیش کار ہیں۔

غالب کے سیاسی و سماجی شعور کی سطح نہایت گہری اور عمیق تھی۔ پس دیوار دیکھنے کی صلاحیت اور زیر سطح اترنے کی استعداد میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس لیے ان کی شاعری میں نفوذ کرنے والی معاصریت بھی ان کے عہد میں عدیم المثال ہے۔ ان کی معاصریت بڑی حد تک فرد کے باطن پر مرتسم ہونے والے اثرات کا احاطہ کرتی نظرآتی ہے۔ ایک انسانی ذہن، ماحول سے جو اثرات قبول کرتا ہے وہ اثرات فرد کے احساس و جذبہ کو کس حد تک متاثر کرتے ہیں، کس نوعیت کی نفسیاتی پیچیدگیاں اور الجھنیں جنم لیتی ہیں، کس طرح فرد سماج سے کٹ کر تنہائی اور مغائرت کے احساسات میں مبتلا ہو جاتا ہے ! یہ اور اس نوعیت کے دیگر داخلی اثرات جن کو خارج کی سطح پر موجود سیاسی و سماجی صورت حال سے علاحدہ کر کے سمجھنا مشکل ہے۔ ان کی معاصریت کا مرکزی دائرہ ہیں۔ اس دائرے میں روح عصر کا وہ عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ جو عموماً خارج کی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے بلا واسطہ اظہار یعنی عصریت میں مفقود ہوتا ہے ۔

۳۲     ؎        نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز

میں ہوں اپنی شکست کی آواز

 

۳۳؎     اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے

میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغِ ناتمامی

 

۳۴؎    دے داد اے فلک دلِ حسرت پرست کی

ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے

 

۳۵؎    میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل

دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا

 

۳۶؎    جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

تاہم معاصریت کے اس مرکزی دائرے میں غالب کے سیاسی و سماجی شعور کا ایک اور دائرہ بھی ہے اس دوسرے دائرے کے جو اشعار پیش کیے جا رہے ہیں ان میں روح عصر کے حامل درج بالا اشعار جیسی گہرائی تو نہیں البتہ معاصریت کی واضح جھلکیاں یہاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ تاہم ان اشعار کو بھی عصریت کی بالائی سطح کا حامل نہیں سمجھنا چاہیے البتہ یہ اشعار روح عصر کے اظہار کی ایک واضح صورت کہے جا سکتے ہیں    :

۳۷؎    تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں

تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے

 

۳۸؎    کیا کیا خضر نے سکندر سے

اب کسے رہنما کرے کوئی

 

۳۹؎     نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

 

۴۰؎    زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرائش

بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

 

۴۱؎            چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

غالب کی معاصریت، روح عصر کے حسی اور تجزیاتی ادراک دونوں پر محیط ہے۔ روح عصر کا تجزیہ صرف عقلی سطح پر ہی کیا جا سکتا ہے جب کہ جدیدیت کے حوالے سے ایک عام تاثر یہی ہے کہ یہ عقل کے تسلط کو نہیں مانتی اور عقل کے بل بوتے پر حاصل کی ہوئی ترقی کو انسانی مفاد کے منافی تصور کرتی ہے۔ تاہم یہاں انسانی مفاد بنی نوع انسان کے مفاد سے زیادہ فرد واحد کا مفاد ہے۔ فرد واحد جسے اجتماع اپنے مفادات کے لیے نظر انداز کر دیتا ہے جدیدیت کا مطالعاتی مرکز ہے۔ فرد کا یہ مطالعہ اس کی خارجی حیثیت سے زیادہ اس کی داخلی حیثیت سے سروکار رکھتا ہے۔ جہاں عقل سے زیادہ اہمیت فرد کے جذبہ و احساس کو حاصل ہو جاتی ہے کیوں کہ جدیدیت کے نقطہ نظر کے مطابق فرد کا حقیقی وجود اس کا داخلی وجود ہے جس کی صورت پذیری عقل سے زیادہ جذبہ و احساس کے زیر اثر ہوتی ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ غالب نے عقل کو باہر کی صورت حال کی تفہیم کے لیے استعمال کیا ہے جب کہ تخلیقی سطح پر اس کا اظہار جذبہ و وجدان کا رنگ لیے ہوئے ہے اور اس رنگ پر ان کے انفرادی اسلوب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔

جدیدیت کے حوالے سے ابھرنے والا مندرجہ تصور بیسویں صدی میں دو عالمی جنگوں کے بعد پوری شدت سے نمودار ہوا البتہ اس کے آثار رومانی تحریک کے ساتھ ہویدا ہونا شروع ہو چکے تھے۔ تاہم یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ہمہ گیر جدیدیت(جس کو جمالیاتی جدیدیت سے کلی طور پر منقطع نہیں کیا جا سکتا تاہم مکمل طور پر یکساں و مماثل قرار دینا بھی ممکن نہیں ) کے آغاز میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔ بہ قول ناصر عباس نیر:

۴۲؎    ’’جدیدیت کا ایک تہذیبی انقلاب کے طور پر آغاز مغرب میں سولہویں صدی میں نشاۃ ثانیہ کے زمانے میں ہوا اور نشاۃ ثانیہ کا اصل منبع عقلیت اور فکر ونظرکی آزادی تھا۔ مغربی انسان نے ان تمام باتوں، فلسفوں، عقائد اور روایات پر خط تنسیخ کھنچ دیا جو عقل اور استقرائی طرز فکر سے متصادم تھیں۔ عقلیت نے جب ان تمام رکاوٹو ں کو دور کر دیا جو صدیوں سے تسخیر فطرت اور ایک  ’’ پر آسائش سائنسی سماج ‘‘  کی راہ میں حائل تھیں تو لامحالہ عقل کے حامل انسان کی عظمت کا چراغ خود بخود جل اٹھا۔ تاہم یہ عظمت آدم اس شرف و فضلیت سے مختلف چیز تھی۔ جو مذہب نے انسان سے منسوب کی تھی۔ اب انسان اپنی آزادی فکر، اپنی مخفی قوتوں کے ادراک کی بنیاد پر محترم تھا۔ نیز اسی ادراک کو انسان نے اپنی صلاحیت اور اپنی کوششوں کے حاصل کے فرق کو مٹانے میں بھی استعمال کیا۔ گویا اب انسانی شرف کو ایک عملی استناد حاصل ہو گیا۔ جس نے انسان کو غیر مرئی اعتماد بخشا اور انسان اور کائنات کے رشتوں کا نیا تصور بھی پیدا کیا۔ ‘‘

اس غیر مرئی اعتماد اور انسان اور کائنات کے رشتوں کا نیا تصور غالب کی منفر د شاعری کی شناخت ہے اور کم از کم ان کی حد تک تو یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ دونوں خصوصیات ان کی شاعری کو ان کی تعقل پسندی کی دین ہیں۔ ان کی شاعری پر بہ ظاہر جذبہ و وجدان کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ مگر ان شعروں کے پس منظر میں تجزیے کی حد تک غور و فکر کرنے والا ذہن صاف دکھائی دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والا یہ ذہن بے سوچے سمجھے کچھ بھی سپرد قلم کرنے کا نہ تو عادی ہے نہ حامی، اسی لیے ان کا ہر شعر غور و فکر کے تمام مدارج سے گزر کر پوری تخلیقیت کے ساتھ اظہار کی منزل تک پہنچنے کا احساس دلائے بغیر نہیں رہتا۔ یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ ساٹھ کی دہائی کے جدید نظم نگاروں کے ہاں بھی غور و فکر کا عمل صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اس کے بغیر صورت حال کی حقیقی تفہیم نہ ممکن نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں بھی مغائرت، تنہائی اور بے کسی جیسے احساسات کے ساتھ استفہامیے اور تشکیک کا فکری انداز جھلکتا ہے مگر اس رنگ کا تذکرہ پوری سچائی کے ساتھ ہمارے ناقدین کے ہاں نظر نہیں آتا۔

غالب کی شاعری کا اسلوب  بڑی حد تک اسی استفہامیہ رنگ اور تشکیکی فکر سے مرتب ہوا ہے۔ استفہامیہ رنگ اور تشکیک کے عناصر ان کی شاعری میں جا بجا پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی شاعری صرف جذباتی وفور کا کرشمہ نہیں بلکہ جذباتی وفور سے بھرپور ایک ایسے تخلیقی تجربے کی دین ہے جس میں عقل و خرد کی روشنی برابر شامل رہی ہے۔ ان کے استفہام و تشکیک کا دائرہ لامتناہی وسعتوں کا حامل ہے۔ جس میں اپنے وجود سے لے کر وجود باری تعالیٰ تک پھیلی ہوئی وسیع کائنات اور حیات کی حقیقت شامل ہے۔ سب حقائق ان کی شک بھری نگاہ اور سوال کی زد پر ہیں۔ یہی وہ روش خاص ہے جو انھیں اردو شاعری کا سب سے ممتاز اور منفرد شاعر بنا دیتی ہے ۔

۴۳؎    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

سبزہ و گل کہاں سے آتے ہیں

ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

غالب سے پہلے کی تمام اردو شاعری پڑھ جائیے یہ رنگ، یہ انداز نظر اور یہ طرز ادا نظر نہیں آئے گی۔ آخر اس ادا میں وہ کیا بات ہے جو ان کے معاصرین و متقدمین میں پیدا نہ ہو سکی اورجس پر وہ خود بھی مفتخر دکھائی دیتے ہیں    ؎

۴۴؎    ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

غالب کے اس انداز بیاں کا امتیاز ان کے نقطہ نظر کا ذاتی حوالہ ہے ان کی خوبی یہ ہے کہ ان کا ہر شعر ان کے اپنے تخلیقی تجربے سے پھوٹتا ہے اور تخلیقی تجربہ ان کی پوری ذات سے مربوط ہونے کا احساس رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں ان کی پوری ذات جھلکتی ہے۔ یہ خوبی ان کے ہر شعر کو ان کی تخلیقی ذات کا لازمی جزو بنا دیتی ہے۔ یہی وہ رنگ خاص ہے جو ان کے معاصرین و متقدمین کو نصیب نہیں ہوا۔ یہ رنگ کسی روایت کی تقلید نہیں بلکہ ان کی اپنی تجربہ پسندی کی دین ہے۔ یہ تعقل پسندی زمانہ غالب کا کوئی مقبول رجحان نہ تھی بلکہ ان کی اپنی ذات کا حصہ تھی جس کا اظہار ان کی شاعری میں تشکیک اور استفہام کے ذریعے ہوا ہے۔

عہد غالب میں آزادی فکر نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ سماجی نظام اپنی عقلی بنیادیں کھو چکا تھا۔ سوال کرنے کی روش ناپسندیدہ تھی۔ روایات کو نسل در نسل بغیر کسی سوجھ بوجھ اور عصری ضروریات و مسائل سے نا موافقت کے باوجود منتقل و قبول کیا جا رہا تھا بلکہ انھیں مقدس تصور کیا جاتا تھا۔ اجتماعی شعور اور سماجی نظام دونوں جمود کا شکار تھے۔ جس نئے عہد کے آثار نمایاں ہو رہے تھے ا س کی جانب کسی کی توجہ نہ تھی اگر کسی کی نظر اس جانب جاتی بھی تھی تو وہ نئے آثار کو قابل نفرت سمجھ کر نظر انداز کر دیتا تھا۔ غرض جو جیسا اور جس حال میں تھا مطمئن تھا۔ سب نے ایک یکسانیت زدہ زندگی کو بہ خوشی قبول کر لیا تھا مگر وہ کسی بات کو من و عن قبول کرنے کے عادی نہ تھے۔ اسی لیے انھوں نے ایک یکسانیت زدہ زندگی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور فکری سطح پر تغیر و ارتقا  سے بھر پور زندگی کو جنم دیا تھا۔ جس متغیر و ارتقا پذیر زندگی کا نقشہ انھوں نے اپنے ذہن میں تیار کر رکھا تھا وہ ان کے اپنے زمانے میں ممکن العمل نہ تھا۔ اس زندگی کا تعلق ماضی و حال سے نہیں بلکہ مستقبل سے تھا۔ ان کی نغمہ سنجی مستقبل کی اسی زندگی کی گرمی نشاط تصور کا معجزہ تھی۔ بہ قول احمد ندیم قاسمی:

۴۵؎    ’’غالب مسلمانان برصغیر کی تاریخ کے ایک دورا ہے پر کھڑا ہے مگر تہذیبی سفر کے اس مرحلے سے وہ حیران و سراسیمہ نہیں ہے اگر اس کا سرمایہ صرف جذبہ و وجدان ہوتے تو ممکن ہے وہ ہتھیار ڈال دیتا مگر وہ اردو اور فارسی کا پہلا شاعر تھا جس نے عقل و دانش کی نفی نہیں کی جب کوئی شاعر یہ کہے کہ:

چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

تو اس کے فن کو شکست نہیں ہو سکتی۔ یہ  ’’چشم کا وا ہونا ‘‘  اردو شاعری کے لیے بالکل نئی چیز تھی۔ غالب سے پہلے تو ہماری شاعری پر اس جنون کا پرچم لہراتا تھا۔ جو خواب دیکھنے کی حد تک یقیناً جائز بلکہ ضروری ہے مگر جس نے ہمارے ہاں خرد دشمنی کی صورت اختیار کر لی تھی غالب نے نہ صرف خرد کی پرچم کشائی کی بلکہ اپنے فن کے بل پر اسے ایک حسن سے آراستہ کیا اور یوں اردو کا پہلا خرد مند، صاحب دانش اور تعقل پسند شاعر قرار پایا۔ ‘‘

غالب سے پہلے کی اردو شاعری میں عقل کا مقام و مرتبہ عشق کو حاصل تھا۔ جنون اسی عشق کی ایک والہانہ اور مجذوبانہ صورت تھی۔ جس کے اظہار نے میر صاحب کے ہاں یہ صور ت اختیار کی تھی۔

۴۶؎    اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے

دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

غالب کے عہد تک کی اردو شاعری میں عشق کی مجازی و حقیقی صورتیں ہی موجود نہ تھیں بلکہ اسے بصارت و بصیرت کے اس مجموعے کا مقام بھی حاصل تھا جس میں زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہوتا ہے۔ یہ حل بڑی حد تک اپنی ذات کو مقابل کی ذات میں فنا کر دینے سے عبارت تھا۔ یقیناً اپنی ذات کے فنا کے ساتھ ذات کو درپیش مسائل کا فنا ہو جانا یقینی تھا۔

۴۷؎    عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

اس مصرع میں غالب عشق کے اسی روایتی تصور کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں مگر جہاں بات اپنی ذات کی فنا کی آتی ہے غالب اسے تقلید تنک ظرفی منصور کہہ کر صاف نکل جاتے ہیں۔

تصورِ عشق کے حوالے سے ان کو عشق کی انسان کے مابین لگاؤ اور انسان کے خدا سے تعلق والی صورتیں تو قبول تھی تاہم ان دونوں صورتوں میں بھی وہ سپردگی ذات کے قائل ہرگز نہیں تھے بلکہ مقابل کے سامنے ان کی ذات مزید بھرپور انداز میں نمودار ہوتی نظر آتی ہے۔ ایسے موقعوں پر تحفظ ذات کا احساس ان کے ہاں قوی تر ہو جاتا ہے۔

وہ عشق کو کوئی ایسا مجموعہ بصارت و بصیرت بھی نہ سمجھتے تھے جس میں زندگی کے تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہو کیوں کہ ان کے نزدیک عشق کے بجائے اس مقام و مرتبہ کی اصل حق دار عقل تھی تاہم انھوں نے اس محاذ پر عقل کی ناکامی کا تجربہ بھی کیا تھا جس نے ان کی شاعری میں وجودی طرز کے احساسات پیدا کر دیے تھے۔

۴۸؎    حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ

جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

 

۴۹؎     عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

 

۵۰؎    بلبل کے کاروبار پہ ہے خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

عشق کے بارے میں یہ اظہارات یقیناً روایتی تصور عشق سے ہم آہنگی نہیں رکھتے۔ ان اشعار میں عشق کی منفییت جس طرح ابھر کر سامنے آئی ہے اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ عشق کو عقل کا مقام دینے کے لیے قطعاً آمادہ نہیں تھے تاہم ان کی شاعری میں عشق کی مثبیتت کو ظاہر کرنے والے اشعار کی بھی کمی نہیں۔ عشق اپنی مثبتیت میں ان کے لیے  ’’وفور شوق‘‘  کی وہ صورت ہے جو فرد میں فعالیت پیدا کرتے ہوئے منزل تک رسائی کے لیے توانائی مہیا کرتی ہے۔  ’’ وفور شوق‘‘  کی یہی صورت عشق کی علامت بن کران کے کلام میں زندگی کی نیرنگی کے حامل اس تصور کی نمائندگی کرتی ہے۔ جس کی اساس عزم اور حوصلے پر رکھی گئی ہے۔ بہ قول عالم خوند میری:

۵۱؎     ’’غالب کی شاعرانہ شخصیت کا ایک روشن اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے روحانی سفر میں خرد کا چراغ ہمیشہ جلتا رہتا ہے اور اس لیے وہ کبھی اپنی اصل منزل کو فراموش نہیں کرتا۔ خرد پسندی اس کی شاعرانہ شخصیت کا وہ پہلو ہے جہاں اس کی رومانیت ایک طرح سے کلاسیکیت میں منتقل ہو جاتی ہے لیکن اس کی شخصیت کا یہ کلاسیکی پہلو، تلاش استناد(Quest  for Authenticity)کا ضروری رخ ہے۔ تلاش استناد کی مہم میں غالب نے اوائل عمری میں  ’’ وفور شوق‘‘  کو اپنا رہبر  بنایا  لیکن غالب کے احساس اور فکر کی جانب مائل ذہن نے اس پر یہ حقیقت بھی روشن کی کہ مستند شخصیت کی تشکیل کی ایک اہم منزل مروجہ عقیدوں اور افکار کی تنقید ہے اور یہ تنقید صرف عقل ہی کی روشنی میں ممکن ہے۔ اس نے اس حقیقت کو محسو س کیا کہ زیست کی کلیت میں خرد ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ اس خرد کی روشنی میں یونانیوں نے فلسفے کی تشکیل کی اور اس خرد کی روشنی میں انسانی ذہن کائنات کے اسرارورموز کو سمجھنے  کی کوشش کرتا ہے۔ ‘‘

اس خرد پسندی سے قطع نظر کہ یہ غالب کو بہ ہر حال جمالیاتی جدیدیت سے زیادہ ہمہ گیر جدیدیت سے جوڑتی ہے ان کی جدیدیت بڑی حد تک رومانیت کی حامل ہے۔ ان کی تخلیقی ذات کا مطالعہ صرف مروجہ اور مسلمہ روایات سے انحراف و بغاوت کے تناظر میں ناکافی ہے کیوں کہ انھوں نے اپنی ذات کی تکمیل کے لیے قدیم کی تنسیخ کو بھی خاص اہمیت دی ہے۔ قدیم کی تنسیخ رومانیت کا وہ اختصاصی پہلو ہے جس نے انحراف و بغاوت کے پہلوؤں میں شامل ہو کر اس بنیاد کی بڑی حد تک تکمیل کر دی تھی جس پر بعد میں جدیدیت کی عمارت کی تعمیر ہوئی۔

غالب کی شاعری کے رومانی عناصر میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل عنصر ان کی موضوعیت و دروں بینی ہے۔ یہی دروں بینی ان کے ہاں دیگر رومانی عناصر کی موجودگی کا سبب ہے۔ انھوں نے تمام تر معیارات اپنی داخلی دنیا سے چنے ہیں۔ خارجی دنیا کو وہ انہی معیارات پر پرکھتے ہیں جس کا نتیجہ انحراف و بغاوت کے ساتھ تنسیخ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بیروں بینی کے برعکس دروں بینی کے بڑھے ہوئے رجحان نے ان کی شاعری کو وہ حزینہ رنگ عطا کیا ہے جو رومانی اور جدید شاعروں سے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ اس حزینہ رنگ کی خوبی یہ ہے کہ یہ زندگی کے پیچ و خم نیز معاصر صورت حال اور موجود مسائل و مصائب سے آزاد ہوتا ہے۔ اس آزادی کو کامل آزادی تو قرار نہیں دیا جا سکتالیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کی تفہیم کے لیے محض زندگی کے نشیب و فراز نیز عصری حالات کی ناموافقت کا علم ناکافی محسوس ہوتا ہے کیوں کہ اس کا حقیقی ادراک اس وقت تک امکان نہیں رکھتا۔ جب تک اس حزینہ رنگ کو ذات کی گہرائیوں میں تلاش نہ کیا جائے۔ کلام غالب کے نشاطیہ رنگ کا شہرہ اپنی جگہ مگر اس رنگ کو بہ ہر حال ان کی شاعر ی کی روح قرار دینا ممکن نہیں کیوں کہ اس نشاطیہ رنگ کے پس منظر میں بھی یہی حزینہ احساس کا ر فرما دکھائی دیتا ہے۔  ’’قید حیات و بند غم‘‘  کو ایک تصور کرنے والا تخلیق کار یقیناً صرف اپنی ذات کی بات نہیں کر رہا یہ ایک ایسی یاس انگیزی کا اظہار ہے جس کی کوئی وجہ نہیں ہوتی اس یاس انگیزی کا اظہار ذات کے اظہار کا مقام رکھتا ہے   ۔ دروں بینی کے باعث پیدا ہونے والی یہ یاس انگیزی فرد کو اس کی تنہائی کے مقابل لے آتی ہے۔ تنہائی فرد کو دوسروں سے مختلف ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ دوسروں سے مختلف ہونے کا احساس انفرادیت کو جنم دیتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک ایسی منفرد شخصیت ابھرتی ہے۔ جو اپنی تنہائی اور اپنی یاس انگیزی سے قوت حاصل کرتی ہے۔ جس کا اظہار ذاتی معیارات پر مستحکم یقین، داخلی تجربے کی سچائی پر اعتماد اور لفظ و معنی کی ناقابل تقسیم وحدت پر اعتقاد کی صورت سامنے آتا ہے۔ رومانی فن کاروں نے اسی مقام پر ابلاغ سے بحث کی تھی۔ ان کے ہاں بھی ابلاغ ایک مسئلے کی صورت اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ تاہم وہ بھی حصول ابلاغ کے لیے رومانی فن کاروں کی طرح خود کو تخلیقی ذات سے الگ کر کے یا اپنی انفرادیت کو تج کر تعمیمی استعارہ نہیں بننے دیتے بلکہ بہ ہر صورت اپنی تخصیص کو قائم رکھتے ہیں۔ جو ان کے رومانی لکھاری ہونے پر واضح دلالت کرتا ہے۔ بہ قول شمس الرحمن فاروقی:

۵۲؎    ’’وان ٹیہئم (Vantiegham) نے اپنی کتاب  ’’ یورپی ادب میں رومانیت ‘‘  میں رومانی طرز فکر کے تین بنیادی عناصر بتائے ہیں۔ اپنے عصر حاضر سے بے اطمینانی، زندگی کے بالمقابل بے چین تردد اور بلا کسی وجہ کے یاس انگیزی۔ غالب کا کلام جس فطرت کا پتہ دیتا ہے  اس میں ان تینوں عناصر کی کارفرمائی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے عہد پر غالب کا جو اتنا گہرا اثر پڑا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عہد کے ادیبوں کی افتاد مزاج بھی رومانی ہے  لیکن غالب کی رومانیت میں عقلیت کا بھی عنصر موجود تھا۔ جس نے انہیں لمحہ بہ لمحہ زندگی پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے پر مجبور کیا۔ ‘‘

غالب کی شاعری بلکہ ذات میں رومانیت اور عقلیت کی قوتیں ساتھ ساتھ سرگرم عمل رہتی ہیں۔ یہی دونوں عناصر جو اپنی قوت میں یکساں لیکن سمت میں مخالف ہیں ان کی ذات اور شاعری دونوں میں توازن قائم رکھتے ہیں۔ تضادات کے باوجود ان کی ذات اور ان کی شاعری کسی یک سمتی جھکاؤ کو ظاہر نہیں کرتی وہ تضادات پر حاوی رہتے ہیں۔ یہی خوبی ان کو بہ حیثیت شاعر وہ اعتدال عطا کرتی ہے۔ جو اکثر شاعروں میں کم یاب ہوتا ہے۔

غالب کو ہم جن معنوں میں جدید قرار دیتے ہیں اس میں جدید شاعروں کے حد سے متجاوز عناصر ہر گز شامل نہیں ہیں عقلیت سے انحراف کے رویے نے جدید شاعروں کی شعری فضا میں بعض رنگوں کو اتنا گہرا کر دیا ہے کہ وہ قوس قزح کہیں بنتی نظر نہیں آتی جو عظیم شاعروں کی شناخت ہوتی ہے۔

عظیم شاعروں کے یہاں رومانی عناصر کو نشان زد کرتے ہوئے جو بات سرفہرست سامنے آتی ہے وہ باغیانہ پن کی فکری اساس ہے۔ اس  اساس کے بغیر شاعری لامرکزیت کا شکار ہو کر زندگی میں موجود لایعنیت کی پیش کش میں تو ضرور کامیاب ہو جاتی ہے لیکن سمت نمائی کا فریضہ سرانجام دینے سے قاصر رہتی ہے تاہم یہاں سمت نمائی کے معنی ترقی پسندانہ تناظر میں ہر گز نہیں ہیں۔ غالب کی خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی میں موجود لایعینت کو گرفت میں لینے اور اس کے موثر اظہار کے ساتھ آئندہ کے امکانات کو بھی اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں۔ غالب ’’ آئندہ بیں ‘‘  تھے، اس لیے جدید بھی تھے۔ ہم جدیدیت کو عموماً معاصریت تک محدود رکھتے ہیں اور معاصریت کو سہ زمانی ابعاد کے بجائے دو زمانی ابعاد کا حامل سمجھتے ہیں جب کہ مرکز نگاہ موجود عصر رہتا ہے۔ حالاں کہ معاصریت کو سہ زمانی ابعاد کا حامل تصور کیے بغیر اور آئندہ کو مرکز نگاہ بنائے بغیر جدیدیت کا تصور مکمل نہیں ہو سکتا۔ جدیدیت حقیقی معنوں میں ایک مثبت اور متوازن تحریک ہے لیکن افسوس کہ یہ غالب کی بجائے حالی کی پیروی مغربی کے زیر اثر پروان چڑھی۔ نتیجتاً عصر پر حاوی شاعر معدوم ہو گئے اور عصر شاعروں پر حاوی ہو گیا۔ ان کا تخلیقی وجدان تینوں زمانوں کو محیط تھا اور ان کی نظر آئندہ پر رہتی تھی۔ وہ اپنے عصر سے آگے کی بات کرتے تھے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک شعری تجربہ مکمل طور پر انفرادی نہ ہو اور کلیتاً شخصی اسلوب میں پیش نہ کیا گیا ہو۔ یہی وصف ان کے کلام میں جدیدیت کی تکمیل کا احساس پیدا کرتا ہے، تکمیل کا یہی احساس جدید شاعری میں مفقود ہے۔

غالب صرف جدید شاعر ہی نہیں بلکہ تمام جدید شاعروں پر اس اعتبار سے فضلیت کے حامل بھی ہیں کہ ان جیسا توازن اور کاملیت کا احساس  پوری جدید شاعری میں نظر نہیں آتا۔

 

                   حوالہ جات

 

۱۔ غلام رسول مہر، مولانا، اشاعت اول۱۹۶۷ء،  ’’دیوان غالب(مکمل)‘‘ ، لاہور، شیخ غلام علی اینڈسنز، ص۱

۲۔ محمد اقبال، علامہ، اشاعت چہارم۱۹۷۹ء،  ’’کلیات اقبال اردو‘‘ ، لاہور، شیخ غلام علی اینڈسنز، ص۴۴۔

۳۔    ایضاً، ص۱۱۸

۴۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۱۳۹

۵۔  ایضاً، ص۹۳

۶۔  ایضاً، ص۱۵۹

۷۔  ایضاً، ص۱۷۶

۸۔  ایضاً، ص۱۹۸

۹۔  ایضاً، ص۳۸۶

۱۰۔ ایضاً، ص۲۶۶، ۲۶۷

۱۱۔ ایضاً، ص۲۷۲

۱۲۔  ایضاً، ص۳۷۸

۱۳۔  ایضاً، ص۲۴

۱۴۔  ایضاً، ص۲۰۳

۱۵۔ آل احمد سرور، پروفیسر، ۲۰۰۳ء،  ’’مجموعہ تنقیدات‘‘ ، لاہور، الاعجاز  پبلی کیشنز، ص ۲۶۴، ۲۶۵

۱۶۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۳۷۵

۱۷۔ ایضاً، ص۳۲۸

۱۸۔ ایضاً، ص۲۱۲

۱۹۔ ایضاً، ص۲۲۹

۲۰۔ ایضاً، ص۳۸۳

۲۱۔ ایضاً، ص۱۶۳

۲۲۔ ایضاً، ص۱۶۷

۲۳۔ ایضاً، ص۲۸۶

۲۴۔ ایضاً، ص۱۵۲

۲۵۔ ایضاً، ص۴۸

۲۶۔ ایضاً، ص۳۳۰

۲۷۔ ایضاً، ص۶۲

۲۸۔ ایضاً، ص۱۳۱

۲۹۔ ایضاً، ص۲۸۶

۳۰۔ ایضاً، ص۲۲۴

۳۱۔ ناصر عباس نیر، ڈاکٹر، ۲۰۰۹ء،  ’’لسانیات اور تنقید‘‘ ، اسلام آباد، پورب اکادمی، ص۱۶۹

۳۲۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۱۰۲

۳۳۔  ایضاً، ص۱۸۷

۳۴۔ ایضاً، ص۱۸۱

۳۵۔  ایضاً، ص۲۴

۳۶۔  ایضاً، ص۲۳۵

۳۷۔ ایضاً، ص۲۱۹

۳۸۔  ایضاً، ص۲۷۳

۳۹۔  ایضاً، ص۱۶۷

۴۰۔  ایضاً، ص۲۹۲

۴۱۔ ایضاً، ص۱۳۷

۴۲۔ ناصر عباس نیئر،  ’’ جدیدیت سے مابعد جدیدیت تک‘‘ ، مشمولہ، ماہ نامہ اوراق (سالنامہ)، لاہور، جنوری فروری ۱۹۹۹ء، ص۳۴۶، ۳۴۷

۴۳۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۲۱۳

۴۴۔  ایضاً، ص۹۴

۴۵۔ احمد ندیم قاسمی،  ’’اس عہد کے شاعروں کا غالب کے بارے میں اظہار رائے ‘‘ ، مشمولہ، نقوش( غالب نمبر ۳)، شمار ہ نمبر ۱۱۶، لاہور، ادارہ فروغِ اردو، ۱۹۷۱ء، ص ۲۴، ۲۵

۴۶۔ عبادت بریلوی، ڈاکٹر، ۱۹۵۸ء،  ’’کلیات میر‘‘ ، لاہور، اردو دنیا، ص۴۶۱

۴۷۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۷۳

۴۸۔ ایضاً، ص۴۱

۴۹۔ کالی داس گپتا رضا، ۹۶۔ ۱۹۹۷ء،  ’’دیوان غالب کامل‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ص۳۲۷

۵۰۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۵۸

۵۱۔ عالم خوندمیری،  ’’غالب‘‘ ، مشمولہ، شب خون (انتخاب۔ حصہ دوم)، شمارہ ۲۹۳۔ ۳۹۱، جون۔ دسمبر ۲۰۰۵ء، ص ۱۳۹۱

۵۲۔ شمس الرحمن فاروقی،  ’’اردو شاعری پر غالب کا اثر‘‘ ، مشمولہ، فنون ( غالب نمبر اور سالنامہ)، لاہور، ۱۹۶۹ء، ص ۱۱۴

٭٭٭

 

 

 

 

 

جدیدیت، تجربیت اور غالب

 

ادب کے بارے میں جدیدیت کی شناخت بڑی حد تک تجربات کی مرہون منت ہے۔ تجربے کے بغیر جدیدیت بہ حیثیت ادبی قدر یا ادبی تحریک کے اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتی۔ تاہم کسی نئے تجربے کے لیے  سابقہ ادبی تجربات سے آگاہی ضروری ہے کیوں کہ آگاہی کے بغیر تجربہ کی اہمیت اور نئے پن کا تعین ممکن نہیں۔ آگاہی کے اس عمل کو طے کرنا لکھاری اور قاری دونوں کے لئے ایک جتنی اہمیت رکھتا ہے۔ جدیدیت نے اپنی اساس ماضی کی نفی پر رکھی ہے تاہم اگر یہاں ماضی کو ماضی قریب کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کیوں کہ ادبی تجربہ بعض اوقات ماضی بعید کے کسی تجربے کی بازیافت بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں ادبی تجربے کی اہمیت نئے تجربے سے کسی بھی طرح کم قرار نہیں دی جا سکتی۔ تاہم تجربہ نیا ہو یا کسی پرانے تجربے کی بازیافت اس کی اہمیت کا انحصار محض اس کے احساس تازگی پر نہیں کیوں کہ تازگی کا احساس تا دیر باقی نہیں رہتا البتہ تجربہ اپنی گنجائش اور گہرائی کے باعث ایک طویل سفر طے کر سکتا ہے۔ تجربہ کتنا اہم ہے ؟ اس کا فیصلہ تجربے کی عمر پر کیا جائے گا، نہ کہ تازگی پر لیکن ناکام تجربے کو بھی جدیدیت مکمل طور پر نظر انداز نہیں کرتی کیوں کہ تجربہ بہرحال ادبی سفر کو آگے بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کئی ناکام تجربات ایک بڑے، اہم اور کامیاب تجربے کے لئے کھاد کا کام دیتے ہیں۔

غالب کی شاعری تجربات سے خالی نہیں بلکہ غالب کے تجربے کو بڑے، اہم اور کامیاب تجربے کے ناموں سے باآسانی موسوم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ غالب کے تجربات پر نظر ڈالی جائے یہ وضاحت ضروری ہے۔ بہ قول ڈاکٹر تبسم کاشمیری:

۱؎       ’’جدیدیت ایک نئے تجرباتی دور کا نام ہے ہر تجربہ کی حدود اس کے عہد کے مسائل سے متعین ہوتی ہیں۔ تجربہ میں چاہے کتنی ہی وسعت کیوں نہ ہو اس کی بھی بہر حال ایک حد ہوتی ہے۔ جدیدیت تجربہ کی اس آخری حد سے آگے ایک نئے سفر کے آغاز کا نام ہے۔

نئے سفر کا آغاز نئے تجربے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ غالب کے عہد میں جدیدیت کوئی تحریک نہ تھی نہ ہم غالب کے دور کو تجرباتی دور کا نام دے سکتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے سابقہ تجرباتی دور کو رد کر کے نئے تجربے کی بنیاد رکھی۔ سابقہ تجرباتی دور ان تک آتے آتے روایت بن چکا تھا اور اپنی تمام تر تخلیقی توانائی کھو چکا تھا۔ تاہم چونکہ برصغیر میں تہذیبی عمل کی رفتار سست رو تھی اس لیے ابھی تک لوگ اس تخلیقی توانائی سے محروم شعری روایت سے بے زار نہیں تھے کہ بہرحال وہ شاعری ابھی تک معاشرے میں قائم اقداری و اعتقادی نظام کی ہم نوا تھی لیکن ان کے جدید ذہن نے آنے والے زمانے کو دیکھ لیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ موجودہ نظام تا دیر زندہ نہیں رہے گا۔ اس لیے انہوں نے شعر کے ذریعے اس اسلوب بیان اور انداز فکر کی بنیاد رکھی جس سے مستقبل کا معاشرہ اور جدید انسان کا ذہن جھلکتا تھا۔ لہٰذا ان کی حد تک جدیدیت کسی تجرباتی دور کا نام نہیں بلکہ ایک فرد کا تجربہ ہے۔ جسے ہمہ گیریت اور وسعت کا حامل ہو نے کے با وصف ایک پورے تجرباتی دور جتنی اہمیت حاصل ہے۔

تجربیت، جدیدیت کے انحراف کا لازمی نتیجہ ہے، انحراف تسلیم شدہ اور صدیوں سے چلے آ رہے معیارات اور روایات سے۔ غالب سے پہلے بلکہ ان کے عہد میں بھی شاعری کے حوالے سے ایک عمومی طرز و احساس اور معمول کے ذوق کا مشاہدہ باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ اپنے دور میں ان کے نا مقبول ہونے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اپنے معاصرین اور متقدمین سے مختلف تھے۔ ان کی شاعری معمول کے ذوق پر پوری نہیں اترتی تھی انہوں نے اپنے عہد کے قاری کو چونکا دیا تھا کیوں کہ ان کے سامنے غالب کی شاعری جیسی کوئی مثال موجود نہیں تھی۔ شاعری کو چونکانے اور عدم قبولیت کی حد تک مختلف اور منفرد بنا دینا تجربہ پسندی کے بغیر کوئی امکان نہیں رکھتا۔ ان کے عہد تک اردو شاعری کی روایت اپنی تازگی کھو چکی تھی اور بہ حیثیت مجموعی انحطاط پذیر تھی۔ انہوں نے اس نیم مردہ شعری روایت کو اپنی تخلیقی توانائی، شعری تجربات اور تازہ تر اسلوب سے از سر نو زندہ کر دیا تھا۔ ان کے ہا ں تجربات کی دو صورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی صورت میں انہوں نے اردو اور فارسی شاعروں کے غیر مقبول اور غیر معروف تجربات کو نئے سرے سے استعمال کیا اور ان میں اپنی انفرادیت کے رنگ بھرے اوردوسری صورت ان کے ایسے تجربات کی ہے جن کی مثال غالب کے علاوہ اس وقت تک کی اردو اور فارسی شاعری دونوں میں عدم دست یاب ہے۔

جدیدیت کے حوالے سے تجربات کی بات ہوتی ہے تو ان تجربات کو سب سے پہلے ہیئت میں تلاش کیا جاتا ہے۔ غالب نے غزلیہ شاعری کی اور غزل کی اس ہیئت کو بھی تبدیل نہیں کیا جو مروج و مقبول تھی تو پھر ان کو جدید کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟ میں اس بات سے تو انکار نہیں کرتا کہ غالب نے غزل کی ساخت کو تبدیل نہیں کیا اور اس اعتبار سے وہ یقیناً روایتی کہلائیں گے لیکن مجھے ان کے ہاں وہ غزلیہ آہنگ نظر نہیں آتا جو ان کے معاصرین و متقدمین کو مرغوب تھا۔ بہ قول ڈاکٹر نجیب جمال:

۲؎      ’’غالب کا زمانہ ہئیت پرستی کا تھا۔ شاعری میں مضامین فرسودہ اور خیالات پرانے تھے۔ ان میں تازگی کی مہک نہ تھی۔ گھٹن کا احساس تھا ان میں وسعت فکر و نظر، کوئی نیا ادراک یا تصور حیات سرے سے ناپید تھا۔ اس پس منظر میں غالب وسعت کی تلاش میں نکلے ان کی شاعری میں ایک حیرت انگیز شخصیت نمودار ہوئی۔ شاعری کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے تاریخ کی بے رنگ اور سنگلاخ زمین سے خلاقیت کا چشمہ پھوٹ پڑا ہو۔ ‘‘

غالب کی خلاقیت نے اپنا اظہار غزل کی ہئیت میں نہیں بلکہ آہنگ میں کیا ہے۔ ان کی غزل اپنے آہنگ میں روایتی غزل سے قطعی مختلف ہے۔ روایتی شاعری کے برعکس ایک نیا شعری آہنگ ترتیب دینا اور وہ بھی غزل میں یقیناً ایک بے حد دشوار اور تجرباتی عمل ہے۔ اس مختلف آہنگ کو ترتیب دینے میں جہاں ان کی تجربیت کا بڑا دخل ہے وہیں ان کی منفرد شخصیت کو بھی اس سلسلے میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے آہنگ شعر کو اس کی پیچیدگی کے باعث گرفت میں لینا آسان نہیں۔ ہم ان کے آہنگ کے بارے دو ٹوک انداز میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کا آہنگ ان کی فلاں بات کی وجہ سے قابل شناخت ہے یا ان کی فلاں خصوصیت نے ان کے آہنگ شعر کی صورت پذیری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کے شعری آہنگ میں ان کی تخلیقی ذات پوری طرح تحلیل ہو کر نمودار ہوئی ہے اور تخلیقی ذات کوئی ایک دو صفحات کا مجموعہ تو ہوتی نہیں کہ باآسانی کہہ دیا جائے کہ دو جمع دو برابر ہے چار کے پھر اگر معاملہ غالب کا ہو تو یہ مشکل اور مشکل ہو جاتی ہے۔ ایک تو ان کی تخلیقی ذات کی تہہ داری اور اس پر ان کی مشکل پسندی، تجربہ در تجربہ وسعت پذیر ہوتا ہوا ان کا شعری شعور ان کے غزلیہ اشعار کو دور حاضر کی نظم نگاری کے دائرے تک کھینچ لاتا ہے۔ جس کی شناخت اصناف نظم میں اس کے مخصوص آہنگ کے باعث ممکنات کی حدود میں داخل ہوئی ہے۔ ان کے شعری آہنگ کو محسوس ککر لینا جتنا آسان ہے اسے بیان کرنا اتنا دشوار۔ بہرحال اوپر ان کے غزلیہ اشعار اور دور حاضر کی نظم نگاری کا تذکرہ ہوا ہے تو ان کے آہنگ شعر پر بات یہیں سے آغاز کرتے ہیں۔

دور حاضر کی نظم یقیناً پابند اور معریٰ ہیئت کی حامل نہیں اور نہ پابند اور معریٰ نظموں کے آہنگ کو آج کی نظم کا آہنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ دور حاضر کی بیش تر نظم آزاد اور نثری صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ تاہم آزاد نظم میں وہ روانی محسوس نہیں ہوتی جو اوائل میں اس کا وصف خاص سمجھی جاتی تھی۔ بحر سے عاری یعنی نثری نظم کی شناخت اس کا خاص داخلی آہنگ ہے جو احساس، جذبے اور فکر کے زیرو بم سے ترتیب پاتا ہے۔ مجموعی طور پر دور حاضر کی نظم کا آہنگ بہاؤ کے تسلسل کو توڑ تا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ یہ آہنگ بحر سے زیادہ خیال اور احساس کے ساتھ چلتا، رکتا، مڑتا، پلٹتا اور بڑھتا ہے۔ غالب کے پاس نہ تو اظہار کے لئے آزاد نظم کی ہیئت تھی نہ نثری نظم کی تکنیک جو نظم ان کے دور میں لکھی جاری تھی اس کی صورت غزل سے کچھ ایسی مختلف نہ تھی کہ وہ ان کے لئے پرکشش ہوتی اس لئے انہوں نے غزل پر اکتفا کیا۔ انہوں نے غزل کے لئے قریب قریب سبھی مروجہ اوزان و بحور کو برتا مگر اپنے آہنگ کو روایتی نہ ہو نے دیا۔ جو رویہ دور حاضر کی نظم نے بہاؤ کے تسلسل کے لئے اپنایا غالب نے وہی سلوک بحور کے ساتھ گیا۔ غالب نے بحور کی روانی اور بہاؤ کو اپنے خیال و احساس کی روانی اور بہاؤ کا پابند بنا دیا۔ ا س لیے غالب کے اشعار بحور کی روانی کے ساتھ پڑھتے ہوئے عجیب طرح کی دقت کا سامنا ہوتا ہے لیکن اگر ان ہی اشعار کو ان کے خیال و احساس کے زیر و بم کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر پڑھا جائے تو اس آہنگ میں وہی ذائقہ محسوس ہوتا ہے جو کہ دور حاضر کی نظم کا خاصا ہے۔ ان کی غیر رواں بحور والی غزلیں جنہیں انہوں نے مزید غیر رواں بنا دیا ہے نثر کے اتنے قریب ہو گئی ہیں کہ فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ شعری آہنگ کے حوالے سے ان کا پہلا تجربہ بحور کی روانی کو خیال کی روانی کا پابند بنا دینا ہے۔ بحر کی روانی کے حوالے سے ان کا یہ تجرباتی عمل ان کے معاصرین و متقدمین میں سے کسی کے ہاں نظر نہیں آتا۔ یہاں ان کی رواں بحور کی بجائے غیر رواں بحور والی غزلیات کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جنہیں انہوں نے اپنے مزاج اور خیال کی روانی کے زیر اثر بحر کے آہنگ سے جدا گانہ آہنگ کا حامل بنا دیا ہے۔ ان غزلیات کے مطالعہ سے یہ بات باآسانی واضح ہو جائے گی کہ وہ بحر کی فطری روانی سے مغلوب نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے بحر کی موسقیت کو اپنے غنائی شعور کے تابع کر دیا ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ ان کا غنائی شعور ان کے طرز تفکر سے آزاد نہیں بلکہ اس میں تحلیل ہو کر صورت پذیر ہوا ہے۔

۳؎       عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے

کہ                       اپنے                        سائے                          سے              سر                      پانو                     سے                  ہے                         دو                       قدم                      آگے

قضا نے تھا مجھے چاہا خراب بادہ الفت

فقط خراب لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے

غم زمانہ نے جھاڑی نشاط عشق کی مستی

وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذت الم آگے

خدا کے واسطے داد اس جنون شوق کی دینا

کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے

یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے

تمہارے آئیو اے طرہ ہائے خم بہ خم آگے

دل و جگر میں پر افشاں جو ایک موجہ خوں ہے

ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے

قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالب

ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے

 

۴؎       آ کہ میری جان کو قرار نہیں ہے

طاقت بیداد انتظار نہیں ہے

دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے

نشہ بہ اندازہ خمار نہیں ہے

گریہ نکالے ہے تری بزم سے مجھے کو

ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے

ہم سے عبث ہے گمان رنجش خاطر

خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے

دل سے اٹھا لطف جلوہ ہائے معانی

غیر گل آئینہ بہار نہیں ہے

قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے

وائے اگر عہد استوار نہیں ہے

تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ

تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے

 

۵؎       فریاد کی کوئی لے نہیں ہے

نالہ پابند نے نہیں ہے

کیوں بوتے ہیں باغباں تو بنے

گر باغ گدائے مے نہیں ہے

ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے

پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے

ہاں مست کھائیو فریب ہستی

ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے

شادی سے گزر کر غم نہ ہووئے

اُکر دی جو نہ ہو تو دے نہیں ہے

کیوں رد قدح کرے ہے زاہد؟

مے ہے، یہ مگس کی قے نہیں ہے

ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ

آخر تو کیا ہے اے نہیں ہے

اپنے شعری آہنگ کو مختلف بنانے کے لئے غالب نے شعر کے دونوں مصرعوں کے درمیان خلا رکھنے کا حیرت انگیز تجربہ بھی کیا۔ ان کے اشعار کی خاصی کثیر تعداد ایسی ہے جن میں شعر کا پہلا مصرع دوسرے مصرع سے کافی فاصلے پر واقع ہے۔ اس فاصلے کو محض معنوی فاصلہ نہیں سمجھنا چاہیے کیوں کہ اس فاصلے میں صوتی، نفسیاتی اور جمالیاتی فاصلے کے پہلوؤں کی کارفرمائی بھی بڑی واضح اور نمایاں ہے۔ ان کے ان مصرعوں کے معنوی، صوتی، نفسیاتی اور جمالیاتی فاصلے کو کم کرنے کے لئے اگر شعر کے مصرعوں کے مابین ضرورت کے مطابق مصرعے رکھ دیئے جائیں تو یہ خلا کسی حد تک پُر ہو جاتا ہے لیکن اس صورت میں غزل کا شعر نظم کی ہیئت اختیار ککر لے گا۔ غالب کی تخلیقی ذات میں ایک تو انا نظم گو شاعر کے کافی آثار دکھائی دیتے ہیں لیکن چونکہ غالب کے ہاتھ نظم کی صنف نہیں لگی اس لیے انہوں نے غزل کے اشعار کو نظم کے متبادل کے طور پر اپنایا اور اپنی ہنر مندی سے شعر کو تعجب کی حد تک نظم کے قریب کر دیا۔ اس طرح غزل کی شعریات میں تبدیلی بھی ہوئی اور اسے وہ آہنگ خاص بھی عطا ہوا جو صرف اور صرف ان سے مخصوص ہے۔

میں غالب کے اشعار میں پانے جانے والے خلا کو صرف معنوی خلا نہیں سمجھتا بلکہ مجھے یہ خلا معنوی، لفظی، لفظوں کے مابین ربط، الفاظ اور معانی کے مابین ربط، مصرعوں کے مابین ربط، خیال اور مثال کے مابین ربط، شعر کے صوتی اور صوری ارتباط، نفسیاتی کیفیت اور اظہار اتی ارتباط نیز موضوعاتی اور جمالیاتی ارتباط، ہر جگہ موجود دکھائی دیتا ہے اس لیے الگ الگ اشعار کی مثالوں کی بجائے وہ غزل پیش خدمت ہے جس میں اس کثیر الجہات خلا کو باآسانی دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔

۶؎      نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے درخور میرے تن میں

ہوا ہے تار اشک یاس رشتہ چشم سوزن میں

ہوئی ہے مانع ذوق تماشا خانہ ویرانی

کف سیلاب باقی ہے برنگ پنبہ روزن میں

ودیعت خانہ بیداد کاوش ہائے مژگاں میں

نگین نام شاہد ہے مرے ہر قطرہ خوں تن میں

بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی

شب مہ ہو، جو رکھ دیں  پنبہ دیواروں کے روزن میں

نکوہش مانع بے ربطی شور جنوں آئی

ہوا ہے خندہ احباب بخیہ جیب و دامن میں

ہوئے اس مہروش کے جلوہ تمثال کے آگے

پر افشاں جوہر آئینہ میں مثل ذرہ روزن میں

نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں، پر صحبت مخالف ہے

جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں

ہزاروں دل دیئے جوش جنون عشق نے مجھ کو

سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرہ خوں تن میں

اسد! زندانی تاثیر الفت ہائے خوباں ہوں

خم دست نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں

آہنگ کے حوالے سے غالب کا تیسرا تجربہ رموز و اوقاف کا استعمال ہے۔ شاعری میں رموزو اوقاف کی اہمیت پر جدید نظم نے سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ اس اعتبار سے وہ ایک بار پھر نظم جدید کے قریب آ جاتے ہیں۔ ان کے دور میں شعر کو رموز و اوقاف کے ساتھ لکھنے کا رواج نہیں تھا۔ ویسے بھی غزل کے شعر میں رموزو اوقاف کچھ زیادہ جچتے بھی نہیں۔ یہ جملہ غزل کے شعر کے صوری حسن کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ غزل کے شعر میں بہ باطن بھی ان کی موجودگی ناپسندیدہ ہے کیوں کہ رموز و اوقاف کا استعمال شعر کے معنوی و صوتی حظ میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے تاہم ان کے معاصرین و متقدمین شعر میں رموز و اوقاف کے استعمال سے نابلد ہیں اور اگر کسی کے ہاں ان کا استعمال نظر بھی آتا ہے تو پس منظر میں موجود انتہائی سطحی شعور حظ کو غارت کر دیتا ہے جب کہ وہ رموز و اوقاف کے استعمال کا بہت گہرا شعور رکھتے تھے۔ ان کے اشعار کی بامعنی قرأت رموزو اوقاف لگائے بغیر ممکن ہی نہیں تاہم رموز و اوقاف کا ایک ہی شعر میں مختلف مقامات پر مختلف استعمال شعر کے معنی میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے۔ رموزو اوقاف کا استعمال محض معنی کی کثرت پیدا نہیں کرتا بلکہ شعر کے آہنگ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ شعر کی روانی، ذائقہ، انداز قرات غرض آہنگ شعر میں بہت سے نئے نئے پہلو داخل ہو کر اس کی پیچیدگی اور لذت دونوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

کلام غالب کا آہنگ، بیانیہ کے برعکس استفہامیہ و استعجابیہ  کے زیادہ قریب ہے۔ ان کو ہمہ وقت کوئی سوال، کوئی حیرت گھیرے رہتی ہے کبھی وہ اپنے سوالوں اور حیرتوں پر خود حیرتی نظر آتے ہیں تو کبھی یہی حیرت قاری تک انتقال کرتی نظر آتی ہے۔ ان کی استفہامیہ فکر اوراستعجابیہ مزاج، الفاظ کی ترتیب میں مخل ہو کر ان کے فطری بہاؤ کے بر خلاف ایک نیا آہنگ منظم کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ نتیجتاً اظہار رموز و اوقاف کے بغیر ممکن نہیں رہتا۔ یو ں تو ان کے ہاں سب رموز و اوقاف مستعمل ہیں تاہم استفہامیہ و استعجابیہ کا استعمال دیگر کی نسبت زیادہ بھی ہے اور موثر بھی۔ استفہامیہ رنگ سے تو ان کو خاص شغف ہے۔ بہ قول ڈاکٹر فرمان فتح پوری:

۷؎      ’’صرف غالب ہی اردو کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے کلمات استفہام کی گہرائیوں اور لطافتوں کو شدت سے محسوس کیا اور استفہامیہ لب و لہجے کی تخلیق میں پورا زور صرف کیا۔ مرزا کے اسلوب بیان کی جدت کا ایک راز اسی لب و لہجے میں پوشیدہ ہے۔ ان کے یہاں یہ استفہام کہیں برائے استفہام ہے، کہیں کہیں  برائے استعجاب، کہیں استفہام سے صنعت سوال و جواب پیدا کی گئی ہے، کہیں توجیہ و ابہام، کہیں قوافی استفہامیہ ہیں، کہیں ردیف، کہیں ایک مصرعہ میں استفہام قائم کیا گیا ہے، کہیں دونوں میں، کہیں کلمات استفہام کی مدد سے استفہام کا رنگ چڑھایا گیا ہے، کہیں صرف لب و لہجہ سے غرضیکہ مرزا نے اس رنگ میں عجیب رنگ دکھایا ہے۔ غالب کی کوئی غزل اس قسم کے اشعار سے خالی نہیں ہے اور حیرت اس امر پر ہے کہ عموماً انہیں اشعار پر پوری غزل کی وقعت و اہمیت کا مدار ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کے کلام کے ایک ثلث اشعار اسی استفہامیہ لب و لہجے میں ہیں۔  ‘‘

یہی ایک ثلث اشعار وہ اشعار بھی ہیں جنہیں رموز و اوقاف کے دُرست استعمال کے بغیر پڑھنا اور سمجھنا قطعاً ممکن نہیں تاہم اشعار غالب کو درست رموزواوقاف کے ساتھ پڑھنے کے لئے ان کے دیکھنے، سوچنے اور محسوس کرنے کے طرز خاص سے واقفیت کی اہمیت اساسی ہے۔ یہیں بیش تر قارئین بھٹک جاتے ہیں اگر قاری ان کا مزاج آشنا نہیں تو رموز و اوقاف کے درست اندراج سے قاصر رہے گا۔ ان کے آہنگ کو گرفت میں لیئے بغیر تفہیم غالب کا کوئی دریچہ وا نہیں ہوتا جب کہ آہنگ پر گرفت رموزو اوقاف کی رمز آشنائی کے بغیر کوئی امکان نہیں رکھتی۔

یہاں کلام غالب سے رموز و اوقاف کے استعمال کے بغیر اشعار کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔ رموزو اوقاف کا استعمال اس لیے نہیں کیا جا رہا کہ ان اشعار میں ایک تو رموزو اوقاف مختلف مقامات پر مختلف اہمیت رکھتے ہیں اور دوسرا اس طرح ذہن قاری کی فعال شمولیت کی حق تلفی ہوتی ہے۔ جو ہر صاحبِ ذوق لکھاری کی طرح مجھے بھی گوارا نہیں۔

۸؎         نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

 

۹؎  کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے

پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے

 

۱۰؎      ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

 

۱۱؎         ہاں مت کھائیو فریب ہستی

ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے

ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ

آخر تو کیا ہے اے نہیں ہے

 

۱۲؎             غیر سے رات کیا بنی یہ جو کہا تو دیکھیے

سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یوں

بزم میں اس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے

اس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدعا کہ یوں

مجھ سے کہا جو یار نے جاتے ہیں ہوش کس طرح

دیکھ کے میری بیخودی چلنے لگی ہوا کہ یوں

گر ترے دل میں ہو خیال وصل میں شوق کا زوال

موج محیط آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں

آہنگ کے تجربات کے علاوہ غالب کی شاعری بعض دوسرے تجربات کی حامل بھی ہے۔ ان دوسرے تجربات سے ان کے آہنگ شعر کو قطعی طور پر آز اد تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اتنا ضرور ہے ان تجربات کا مقصد محض تجدید آہنگ نہیں ان کا ایک ایسا ہی تجربہ اردو اور فارسی کی تحلیل ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا غالب سے پہلے اردو میں فارسی شامل نہیں رہی ؟ جس کا جواب یقیناً یہی ہو گا کہ  ’’رہی ‘‘  لیکن اس طرح نہیں رہی جس طرح غالب کے ہاں جلوہ نما ہے۔ ان کی شاعری میں فارسیت کا معاملہ اور ہے۔ یہاں فارسیت محض فارسی کے الفاظ، تراکیب اور محاورے کا نام نہیں بلکہ اس شعوری ارادے کا اظہار ہے جس کے ذریعے انہوں نے اردو غزل کو فارسی غزل کے لئے قابل رشک بنا دیا۔ بہ قول افتخار جالب:

۱۳؎           ’’جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کے ہو رشک فارسی؟

گفتہ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں

غالب نے فارسی غزل کے آب و رنگ کو اردو غزل میں منتقل کرنے کی شعوری کوشش کی اور ا س کوشش میں یہ خیال رکھاکہ فارسی کی غزل اپنی صورت، سیرت اور شکل کو برقرار رکھتے ہوئے اردو غزل بن جائے۔ اس جدو جہد میں فارسی غزل کا ماڈل بہت حد تک قائم رہا ہے۔ غالب نے پہلے فارسی غزل کے ہئیت کو پہنچانا، غزلیات کے تنوع سے ایک وحدت اخذ کی، ہیئت کی تجرید کی، پھر اس قالب میں اس ہیئت کے موافق اپنی غزل بنائی‘‘ ۔

مگر غالب کی وہ غزلیں جن پر فارسی پوری طرح چھائی ہوئی ہے اپنے ذائقے میں ان کی فارسی کے غلبے سے آزاد غزلوں سے بڑی گہری مماثلتوں کی حامل ہے یعنی ان کی شاعری میں فارسی جو یقیناً الفاظ، تراکیب اور محاورے کی صورت موجود ہے۔ وقت کے ساتھ زیادہ سے کم ہوتی گئی مگر فارسیت جوان الفاظ، تراکیب اور محاورے کے پس منظر کا کام دیتی ہے۔ ہمیشہ ایک جتنی توانائی کے ساتھ جلوہ افروز نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں فارسی سر منظر گہرے اور ہلکے ہونے کا احساس دلاتی ہے مگر فارسیت پس منظر میں ایک شفافیت کے ساتھ موجود رہتی ہے۔ البتہ ان کے ناقدین نے منظر کو دیکھ کر اپنی آرا ء رقم کرتے ہوئے پس منظر تک اترنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر ان کے کلام میں موجود فارسیت کو ناقدین کی آرا ء کی روشنی میں دیکھا جائے تو کلام ان کا دو رنگ نظر آئے گا۔ میرے خیال میں اسلوب کی دو لختی ان کے شعری قد و قامت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ وہ ہرگز دولخت اسلوب کے مالک نہیں تھے لیکن ان کے اسلوب کی کاملیت اس وقت تک سامنے نہیں آئے گی جب تک کہ ان کے کلام میں فارسی کے استعمال کی بالائی سطح کو زیر سطح موجود فارسیت کی روح کے ساتھ ارتباط کے رشتے میں نہ دیکھا جائے۔ جب فارسی اور فارسیت درج بالا رشتہ ارتباط میں سمودیئے جائیں گے تو ان کے اسلوب کی وہ کاملیت حاصل ہو گی جس کے بغیر وہ اس مقام کے مستحق نہیں ہو سکتے تھے جو انھیں دیا جا چکا ہے۔

۱۴؎      بہ شغل انتظار مہ و شاں در خلوت شب ہا

سر تار نظر ہے رشتہ تسبیح کوکب ہا

کرے گر فکر تعمیر خرابی ہائے دل گردوں

نہ نکلے خشت، مثل استخواں، بیروں قالب ہا

عیادت ہاے طعن آلود یاراں زہر قاتل ہے

رفوئے زخم کرتی ہے، بنوک نیش عقرب ہا

کرے ہے حسن خوباں پردے میں مشاطگی اپنی

کہ ہے تہ بندی خط، سبزہ خط در تہ لب ہا

فنا کو عشق ہے، بے مقصداں، حیرت پرستاراں

نہیں رفتار عمر تیز رو پابند مطلب ہا

اسد کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے

نہاں ہیں نالہ ناقوس میں درپردہ یا رب ہا

غالب کی درج بالا غزل اور اس جیسی دوسری غزلوں میں ان کی فارسی اور فارسیت دونوں کا مشاہدہ بالکل دشوار نہیں لیکن اس طرح کی غزلوں میں منظر پرچھائی ہوئی فارسی پس منظر میں موجود فارسیت کو اس طرح سامنے آنے کا موقع نہیں دیتی جیسے کہ ان غزلیات کا خاصا ہے جن میں فارسی منظر پرناموجود ہے یا کم از کم چھائی ہوئی نہیں ہے۔ درج ذیل غزل میں فارسی کی کمی کے باوجود فارسیت کی توانائی اپنا احساس دلائے بغیر نہیں رہتی۔

۱۵؎              آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل

گرمی بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جُز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

اس غزل جتنی فارسی غالب کے عہد اور اس سے پہلے کے تمام شاعروں میں موجود ہے لیکن اس غزل میں فارسیت جس طرح پس پردہ  ضو فشاں ہے ا س کی مثال ان کے معاصرین و متقدمین  کی شاعری سے نہیں ملتی۔ یہی وہ تجرباتی عمل ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اردو غزل کو فارسی غزل کے لیے قابل رشک بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔

شعری تجربوں میں غالب کا ایک اہم تجربہ وصف ابہام ہے۔ انہوں نے ابہام کو وصف کلام بنانے کے لئے استعاریت، علامتیت اور تمثالیت سے جو کام لیا، انہیں روش عام کے تزئینی رجحان کے برعکس جس طرح معنی میں تحلیل کیا اور جس طرح اکہری سطح کے بر خلاف پیچ در پیچ، پردہ در پردہ اور تہ در تہ انہیں وسعت دی اس کی مثال شاید پوری اردو شاعری میں نہ مل سکے۔ شعری تجربہ لا شعور سے زیادہ شعور کی دین ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ شاعر کوئی تجربہ کر رہا ہو اور اس سے باخبر نہ ہو۔ یہی سبب ہے کہ غالب نے اپنے ہر تجربے کا ذکر خوب دھڑلے سے کیا ہے اپنے تجربات پر اعتماد اور فخر ان کے لہجے میں صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

۱۶؎           میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدق توضیح

میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل

کلام غالب میں ابہام اور اجمال کی صفات، استعارے، علامت اور تمثال کے اچھوتے استعمال کی دین ہیں۔ انہوں نے استعارے، علامت اور تمثال کو جس قرینے سے اور جس تخلیقیت کے ساتھ وجود شعر کی وحدت میں شامل کیا وہ ان کے عہد میں ناپید تھا۔ ان پر مشکل پسندی کے جو الزامات لگائے جاتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ان وسائل شعری کے استعمال کا جو ڈھنگ اپنا یا وہ ان کے اپنے عہد اور ان کے بعد بھی تا دیر قارئین کے لیے اجنبی رہا۔ استعارے، علامت اور تمثال کی جو تعریفیں اور مثالیں اس وقت تک نقد اردو میں موجود تھیں ان کی شاعری میں ان وسائل شعری کا استعمال اس سے بہت آگے کی چیز تھی۔ ان کے عہد کا قاری خیال کی مانوسیت، فوری طور پر محسوس ہوتی تاثیر اور وضاحتی صفت کی حامل زبان کی سطح سے بلند کسی شعری تجربے کا متحمل نہیں تھا جب کہ ان کی شاعری ان میں سے کسی مروجہ معیار پر پوری نہیں اترتی تھی۔ اپنے عہد کے قارئین سے مشکل گوئی اور بے معنویت کے علاوہ کلام میں موجود حقیقی خصائص سے آشنائی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ نتیجتاً ان کی تفہیم حقیقی معنوں میں اس وقت ممکن ہوئی جب استعارے، علامت اور تمثال کے حوالے سے مغرب کا توسیع یافتہ تنقیدی شعور اردو میں منتقل ہوا۔

غالب نے اپنے کلام میں ابہام کیوں پیدا کیا؟ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اس طرح ان کے کلام کی مقبولیت کم ہو جائے گی۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جس طرح انہیں کو زندگی کے ہر معاملے میں روش عام سے ہٹ کر چلنے کی عادت تھی۔ اس طرح  شاعری میں بھی ان کے لئے روایتی اسلوب کی پیروی ممکن نہ تھی لہٰذا انہوں نے عام فہم، سادہ اور ابلاغ کے  رواج پذیر معیار کے برعکس ایک مشکل، مرصع اور مبہم اسلوب اختیار کیا لیکن اتنی وضاحت شاید قابل اطمینان نہ ہو۔ مزید وضاحت کے لئے یہ جواز پیش کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس نوعیت کی باغیانہ سوچ رکھتے تھے اس کا بلا واسطہ اظہار  ’’مقدس روایات‘‘  کے حامل معاشرے میں ان کے لئے سنگین نوعیت کے مسائل پیدا کر سکتا تھا جن سے بچنا ان کی فطری مجبوری تھی لہٰذا ان کی باغیانہ فکر کو ایک بالواسطہ پیرائے کی ضرورت تھی جو انہیں اس اسلوب خاص کی طرف لے گئی جس سے ان کی شاعری ابہام کی صفت سے متصف ہو گئی۔ بہ قو ل شمس الرحمن فاروقی:

۱۷؎     ’’ابہام شاعرانہ معنویت کا جزو لازم ہے لیکن اسے خود کفیل ہونا چاہئیے یعنی اس ابہام کے ذریعہ جو دنیا خلق کی جائے اس میں تکمیل کا پہلو آغاز اور انجام کی شکل میں نہ ہو، بلکہ ایک آزاد نمود Free Growthکے طور پر ہو۔ ایسی دنیا میں ہر چیز ایک دوسرے سے اس طرح پیوستہ ہوتی ہے کہ سفید و سیاہ کا فرق مٹ جاتا ہے۔ اس تمہید کی روشنی میں مندرجہ ذیل فہرست پر غور کیجیے:

شوق، جلوہ، وحشت، حیرت، تماشا، آئینہ، جوہر

جوہر، طوطی، سبزہ، لالہ، سویرا، سیاہ

سیاہ، داغ، دود

دود، شرر، بجلی، برق، خورشید، شمع، آتش، چراغ، شعلہ

شعلہ، موج، دریا، بحر

بحر، حلقہ، دام، تار، زنجیر

زنجیر، نالہ، فغاں، خموشی، خندہ، نوا، آواز، زخم

زخم، نگر، چشم، نظر، دیدہ، انتظار، خواب

خواب، عدم

عدم، دشت، صحرا، بیاباں، خاک، ذرہ، غبار، جادہ

جادہ، نقش، تپش

تپش، تصویر، طاؤس، نقش

نقش، نیرنگ، طلسم

طلسم، جلوہ، آئینہ، صحرا، خواب‘‘

غالب کی شاعری کے حوالے سے اس فہرست کو قطعاً مکمل تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ان کے کلام میں ابہام بڑی حد تک ان الفاظ کی تلازمہ کاری کے استعمال کا مرہون منت ہے۔ ان کی شاعری میں موجود استعاراتی اور علامتی فضا بندی میں یہی الفاظ اور تلازمے بنیادی کردار کے حامل ہیں۔ ان الفاظ کے مخصوص معنی سے قطع نظر ان کی شاعری میں یہ الفاظ اتنے مختلف، متنوع اور متضاد مفاہیم میں مستعمل ہیں کہ ان میں سے ہر لفظ فی الواقع گنجینہ معنی کا طلسم قرار دیا جا سکتا ہے۔ تراکیب سازی میں بھی انہوں نے ان لفظیات کو خاص جگہ دی ہے۔ عموماً لفظ کثرت استعمال سے اپنی تازگی اور معنی آفرینی کی صلاحیت کھو دیتا ہے بلکہ شاید یہ مسئلہ لفظ کا نہیں تخلیق کار کی استعداد کا ہے۔ معمولی تخلیقی استعدادکی حامل شخصیت لفظوں سے وہ کام نہیں لے سکتی جو ایک غیر معمولی تخلیقی صلاحیت کی حامل شخصیت کا اختصاص ہوتی ہے۔ ان کو اپنی تخلیقی شخصیت کی اس غیر معمولی استعداد کا بڑا گہرا ادراک تھا۔ وہ لفظ کو نئے نئے مفاہیم میں استعمال کرنے کا ہنر بخوبی جانتے تھے۔ اس لیے ان کا ہر کلیدی لفظ یہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کے کلام میں اس کی نیرنگی کا مشاہدہ و تجزیہ کیا جائے جو کہ یہاں ممکن نہیں ہو گا۔ یہاں صرف لفظ  ’’تمنا‘‘  جو درج بالا فہرست میں شامل نہیں اور  ’’آئینہ‘‘  کے حوالے سے ان کے اشعار پیش کیے جا رہے ہیں جو یہ اندازہ کرنے کے لیے بہرحال کافی ہیں کہ وہ لفظ کو کس طرح لغوی سطح سے اوپر اٹھا کر استعارے اور علامت کا روپ دیتے ہیں۔ ایک لفظ سے کیسی نئی نئی تراکیب تراشتے ہیں اور لفظ کی معنوی ابعاد میں کس طرح اضافہ کر کے شعر میں ابہام پیدا کر دیتے ہیں۔

۱۸؎           خیال مرگ تسکیں دل آزردہ کو بخشے

مرے دام تمنا میں ہے اک صید زبوں وہ بھی

 

۱۹؎            ہو گئے باہم دگر جوش پریشانی سے جمع

گردش جام تمنا دور گردوں ہے مجھے

 

۲۰؎              ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا

مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے

 

۲۱؎        سادگی ہائے تمنا یعنی

پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا

 

۲۲؎          ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

 

۲۳؎         مدعا محو تماشائے شکست دل ہے

آئینہ خانے میں کوئی لئے جاتا ہے مجھے

 

۲۴؎         لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا

 

۲۵؎          سب کو مقبول ہے دعویٰ تیری یکتائی کا

روبرو کوئی بُت آئینہ سیما نہ ہوا

 

۲۶؎         کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی ؟

آئینہ دار بن گئی حیرت نقش پا کہ یوں

 

۲۷؎         اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو

توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا

استعاریت اور علامتیت کے ساتھ غالب کی شاعری میں تمثالیت (Imagery)کا وہ خاص رنگ نظر آتا ہے جو جدید شاعری کی شناخت بنا ہے۔ یہاں ان کی سمعی و بصری تمثالیت کی حامل غزل مسلسل پیش کی جا رہی ہے جس میں سمعی و بصری تمثالیت کو خود ان کے الفاظ میں جنت نگاہ و فردوس گوش قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس مسلسل غزل میں جس طر ح سمعی و بصری پیکریت کی نیرنگی کو پیش کیا گیا ہے، اس میں جو پیچیدگی اور غیر معروضیت کی جو سطح پیدا کی گئی ہے اس کے سامنے جدید شاعری کی تمثالیت کا رنگ بھی ماند پڑتا نظر آتا ہے۔

۲۸؎           ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے

اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے

نے مژدہ وصال نہ نظارہ جمال

مدت ہوئی کہ آشتی چشم و گوش ہے

مے نے کیا ہے حسن خود آرا کو بے حجاب

اے شوق یاں اجازت تسلیم و ہوش ہے

گوہر کو عقد گردن خوباں میں دیکھنا

کیا اوج پر ستارہ گوہر فروش ہے

دیدار بادہ حوصلہ ساقی نگاہ مست

بزم خیال میکدہ بے خروش ہے

اے تازہ واردان بساط ہوائے دل

زنہارا گر تمھیں ہوس نائے نوش ہے

دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو

میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے

ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی

مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے

یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشہ بساط

دامان باغبان و کف گل فروش ہے

لطف خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ

یہ جنت نگاہ وہ فردوس گوش ہے

یا صبح دم جو دیکھئے آ کر تو بزم میں

نے وہ سرور و سور نہ جوش و خروش ہے

داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے

غالب کے متذکرہ تمام تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنے عہد کی شعری جمالیات، لسانی ساخت اور ہئیتی سانچوں سے مطمئن نہیں تھے۔ اس لیے انھوں نے نئے ہیئتی سانچوں، بدلی ہوئی لسانی ساختوں اور انفرادی شعری جمالیات سے اپنی شاعری کو وہ رنگ روپ دیا جو صرف ان سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ تجرباتی عمل کوئی آسان کام نہیں کہ وافر تخلیقی صلاحیت کے ساتھ اس کے لیے بڑی ہمت چاہیے ہوتی ہے۔ ان میں تجربہ کرنے کی ہمت اور اپنے تجربات کو نقطہ عروج تک پہنچانے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے تجربات ان کے اپنے عہد کے دائرے میں نہیں سمٹتے۔ ان کے معاصرین بھی تجربات کرتے تھے مگر وہ تجربے ان کے عہد کی مجموعی شعری فضا سے آگے نہیں بڑھتے جب کہ ان کے تجربات آج کے تجربات محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے جن تجربات کو یہاں پیش کیا گیا ہے وہ سب جدید شاعری میں باآسانی شناخت کئے جا سکتے ہیں بلکہ بعض تجربات کی پیچیدگی میں تو وہ سب جدید شاعروں سے آگے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری ہر اعتبار سے  ’’ گنجینہ‘‘  کی حیثیت رکھتی ہے ابھی ان کے بہت سے تجربات کو سامنے آنا ہے۔ میں نے تفہیم غالب کے لئے اب تک کی تنقیدی بصیرت سے کام لیا ہے۔ مستقبل کا تنقیدی شعور ان کے کلام کو یقیناً نئے زاویوں سے دیکھے گا اور مجھے یقین ہے کہ ان کی تجرباتی شاعری مستقبل میں بھی آج کی طرح تروتازہ، زرخیز اور ثروت مند نظر آئے گی۔

 

حوالہ جات

 

۱۔ تبسم کاشمیری، ڈاکٹر، ۱۹۷۸،  ’’نئے شعری تجزیے‘‘ ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ص۱۵۳۔ ۱۵۴

۲۔ نجیب جمال، ڈاکٹر،  ’’غالب کا تخیلی فکر‘‘ ، مشمولہ، ماہ نو(غالب نمبر)، لاہور، مارچ۱۹۹۴، ص۵۳، ۱۵۴

۳۔       غلام رسول مہر، مولانا، اشاعت اول۱۹۶۷ء،  ’’دیوان غالب(مکمل)‘‘ ، لاہور، شیخ غلام علی اینڈسنز، ص۱۳۲، ۲۳۲

۴۔  ایضاً، ص۲۲۴

۵۔  ایضاً، ص۲۵۱، ۲۵۲

۶۔  ایضاً، ص۱۵۵، ۱۵۶

۷۔ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، ۲۰۰۷،  ’’تمنا کا دوسرا قدم اورغالب‘‘ لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ص۱۴۰، ۱۴۱

۸۔  ایضاً، ص۵۷

۹۔  ایضاً، ص۲۴۷

۱۰۔  ایضاً، ص۱۳۶

۱۱۔  ایضاً، ص۲۵۲

۱۲۔  ایضاً، ص۱۶۱

۱۳۔ افتخار جالب،  ’’غالب۔ ہیئت شناس و ہیئت ساز، مشمولہ، صحیفہ(غالب نمبر)حصہ دوم، لاہور، اپریل ۱۹۶۹، ص۳۷

۱۴۔ کالی داس گپتا رضا، ۹۶۔ ۱۹۹۷ء،  ’’دیوان غالب کامل‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ص۱۱۴

۱۵۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۱۱۱، ۱۱۲

۱۶۔ کالی داس گپتا رضا، ایضاً        ، ص۲۹۰

۱۷۔ شمس الرحمن فاروقی، ۱۹۹۸، شعر، غیر شعراور نثر، الہٰ ا ٓباد، شب خون کتاب گھر، ص۲۸۰۔ ۲۸۱      ۱۸۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۱۸۳

۱۹۔ کالی داس گپتا رضا، ایضاً، ص۱۷۴

۲۰۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۲۷۹

۲۱۔ ایضاً، ص۶۰

۲۲۔ ایضاً، ص۳۷۱

۲۳۔ ایضاً، ص۲۷۴

۲۴۔ حمید احمد خان، طبع دوم۱۹۹۲،  ’’دیوان غالب (نسخہ حمیدیہ)، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص۶۵

۲۵۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۴۸

۲۶۔ ایضاً، ص۱۶۱

۲۷۔ ایضاً، ص۴۰

۲۸۔ ایضاً، ص۲۲۱، ۲۲۳

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

جدیدیت، تغیریت اور غالب

 

جدیدیت کے حوالے سے جن تصورات کو اساسی نوعیت کی اہمیت حاصل ہے ان میں سے ایک تغیر پسندی ہے۔ جدیدیت کا ئنات کو ہر لمحہ تبدیل ہوتی ہوئی صورت میں دیکھتی ہے۔ جدیدیت کے لیے کائنات کی کوئی شے ساکن اور جامد نہیں ہے۔ ہر شے بدل رہی ہے تبدیلی کا یہ عمل ہر لمحہ جاری ہے۔ تغیر درحقیقت جسد کائنات میں روح کی مانند ہے۔ جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی لیکن ہمہ وقت موجود ہے اور اس کی موجودگی سے انسان، مادہ اور خدا کے تصورات سب متاثر ہو رہے ہیں۔ کائنات کی کوئی حقیقت مطلق اور مستقل نہیں، کچھ بھی طے شدہ نہیں، کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں، کوئی اصول ازل سے ابدتک ایک جیسا نہیں رہ سکتا، سب کچھ تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے، تبدیلی سے دوسری تبدیلی پیدا ہوتی ہے اورتغیرات کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ جدیدیت ہر جامد اور مستقل تصور کی گئی شے، نظام اور حقیقت کے خلاف رد عمل ہے اور ہر تبدیلی کی آ واز میں آواز ملانے والی ایک قوت، انسان طبعاً اور فطرتاً یکسانیت اور جمود کے مخالف رہا ہے۔ تبدیلی کی خواہش انسان کے وجود میں سانس کی طرح موجود اور رواں دواں رہتی ہے۔ لیکن یہی انسان تبدیلی سے ڈرتا بھی ہے۔ مانوس کونا مانوس پر ترجیح بھی دیتا ہے۔ یہی انسان حالات کا اسیراور عادی بھی ہو جاتا ہے۔ تاہم تمام انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جن میں اختراعی اور تخلیقی قوت وافر ہوتی ہے وہ کسی طرح مطمئن نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ ایک بے اطمینانی کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ خوب سے خوب تر کی تلاش انہیں ہمہ دم مشغول اور مصروف رکھتی ہے۔ تجسس کا مادہ ان کی ذات میں ہلچل پیدا کیے رکھتا ہے۔ وہ نامعلوم کو معلوم کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ موجود سے عدم اطمینان انھیں اس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرتا ہے۔ وہ تغیر کی اہمیت سے آشنا ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں۔ تبدیلی کی قبولیت انہیں کسی بڑی کشمکش میں مبتلا نہیں کرتی کیونکہ وہ تغیر کے سوا کسی دوسری حقیقت کو مستقل نہیں مانتے۔ تغیر پر کامل ایقان رکھنے والے یہی انسان  ’’ جدید انسان‘‘  کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ ازل سے ابد تک جاری رہنے والا تغیر در تغیر کا  سلسلہ کن قوانین کے تابع ہے۔

۱؎       ’’ہر تغیر نئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ معاشرے میں تغیر کو لے لیجئے۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ معاشرے میں تبدیلی آنے سے مسائل پیدا ہوتے رہے، پتھر اور دھات کے زمانے کے معاشرے کے مسائل بہت کم تھے۔ غذا کی فراہمی کا مسئلہ ہی اہم ترین مسئلہ تھا اور انسان نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حسب ضرورت ہتھیار اور اوزار بنائے۔ زراعت کا زمانہ آیا۔ انسان قبیلوں کی شکل میں رہنے لگا۔ شہری زندگی شروع ہوئی تو ان تغیرات سے نئے مسائل پیدا ہوئے۔ فصلوں کی کٹائی کے بعد اجناس کو ذخیرہ کرنے اور اس کی تقسیم کی ضرورت ہوئی اس طرح غذا کے ذخیرے کو مادی طور پر انسان کا سب سے پہلا  ’’ سرمایہ ‘‘  قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سرمایہ کی تخلیق، ملکیت اور تقسیم ایک مسئلہ بنی جسے آج بھی معاشرے کے اہم مسائل میں شمار کیا جاتا ہے۔ انسان نے اپنے جان و مال (سرمایہ) کی داخلی حفاظت کے لیے شہری اور قبائلی قوانین و ضع کیے اور خارجی حملوں سے دفاع کے لیے نئے نئے ہتھیار بناتا چلا گیا۔ یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ معاشرے میں تغیرات کے ساتھ ساتھ سرمایہ کی تخلیق، ملکیت اور تقسیم کے مسائل پیچیدہ ہوتے گئے اور داخلی اور خارجی امن و دفاع کے معاملات میں بھی مشکلات بڑھتی رہیں۔ ان نئے مسائل اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے انسانی ذہن نئے حل تلاش کرتا رہا۔ اپنی بقاء اور فلاح کے لیے انسان نے ہر تغیر کا مقابلہ کرنے یا اس سے مطابقت (Adjustment) پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس طرح تغیر کے مقابلے میں تغیر وجود میں آتا رہا۔ بقا اور فلاح کے پیش نظر تغیرات کے مقابلے یا مطابقت کے لیے انسان کی سعی پیہم کا نام  ’’ جدیدیت‘‘  ہے۔ ‘‘

غالب تغیر پر ایقان رکھنے والے جدید انسان اور اپنے ایقانات کا اظہار کرنے والے جدید شاعر تھے۔ تغیر پر جو کامل یقین غالب کی ذات کا جز و لاینفک تھا وہ اس طرح ان کے دور یا ان سے قبل کسی دوسرے شاعر کے ہاں نظر نہیں آتا۔ غالب نے فکری سطح پر تغیر کے سوا کسی دوسری قوت، شے، نظام یا تصور کو مطلق اور مستقل تسلیم نہیں کیا۔ ان کی اسی خوبی نے ان کے کلام کو وہ رنگ جداگانہ عطا کیا جو انہیں ہر دور کا شاعر بنانے کے لیے کافی ہے۔

غالب تغیر اور ارتقا کے سلسلے کو بد سے بد تر کی جانب سفر کرتے ہوئے نہیں دیکھتے جیسا کہ ان کے معاصرین کے ہاں دکھائی دیتا ہے بلکہ غالب کے تغیر و ارتقا کا سفر خوب سے خوب تر کی جانب جاری نظر آتا ہے۔ اس لیے غالب کائنات میں جاری و ساری تغیر کے عمل کو  ’’آرائش جمال‘‘  جیسی خوبصورت ترکیب میں پیش کرتے ہیں

۲؎      آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز

پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

غالب کے ہاں تغیر صر ف کائنات ہی میں جاری و ساری نہیں بلکہ فرد کی ذات بھی مسلسل اس کی زد میں ہے، زندگی بھی اس کے زیر اثر ہے، قدریں بھی تبدیل ہو رہی ہیں، سوالوں کی نوعیت بھی وہ نہیں رہی، رشتوں کا تصور قدیم بھی ٹوٹ پھوٹ چکا ہے غرض فرد، زندگی، اقدار، عقیدے، تصورات، رشتے، جذبے، احساسات، افکار ایک ایک شے تغیر پذیر ہے    :

۳؎        وہ فراق اور وہ وصال کہاں

وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصت کاروبار شوق کسے

ذوق نظارہ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا

شور سودائے خط و خال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا

دل میں طاقت جگر میں حال کہاں

ہم سے چھوٹا قمار خانہ عشق

واں جو جاویں گرہ میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں

میں کہاں اور یہ وبال کہاں

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ

اب عناصر میں اعتدال کہاں

غالب نے تغیر کو خود مختار عمل کے روپ میں کارفرما دیکھا ہے۔ اس عمل کو کسی قوت، طاقت یا منصوبہ بندی سے روکا نہیں جا سکتا۔ جس طرح انسان ہزار چاہے کہ اس کی عمر نہ بڑھے لیکن وہ اسے بڑھنے سے نہیں روک سکتا بالکل اسی طرح تغیر کو روکنا بھی انسان کے اختیار میں نہیں البتہ انسان اس کا مقابلہ کرنے یا اس سے مطابقت پیدا کرنے کا اختیار ضرور رکھتا ہے لیکن مقابلہ کرنے کا مطلب تغیر کو روکنا ہر گز نہیں کیونکہ اس صورت میں اور تغیرات جنم لیتے ہیں۔ انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان نے جتنے بڑے پیمانے پر تغیر کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی، تغیرات کا اتنا بڑا سلسلہ رد عمل کے طور پر پیدا ہوا اور بالآخر انسان نے اس حقیقت تک رسائی پائی کہ   :

۴؎    ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

غالب اس بات پر حیران نظر آتے ہیں کہ اس حقیقت کو پانے کے باوجود لوگ ایک یکسانیت زدہ زندگی گزارنے پر کس طرح رضامند ہیں جب کہ وہ خود ہر وقت ایک چہل پہل دیکھنا چاہتے ہیں، ایک ہنگامہ چاہتے ہیں، ہنگامہ خوشی کے سبب نہ سہی تو غم کے باعث پیدا ہو لیکن یکسانیت کا احساس ختم ہو۔ دنیا کی رونق غالب کی نظر میں تغیرات ہی کے دم سے ہے۔ خواہ تغیر کی جہت مثبت ہو یا منفی:

۵؎    ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

زندگی کی یکسانیت کے خلاف تغیر کی مثبت اور منفی جہات کی قبولیت غالب کے ہاں ایک مستقل رجحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ درج ذیل مسلسل غزل معمول حیات کے پیدا کردہ احساس یکسانیت کے خلاف تغیر کی دو نوں جہات میں غالب کی آرزوؤں کے سفر کی داخلی روداد ہے :

۶؎           مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو

عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے

پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم

برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے

پھر گرم نالہ ہائے شرر بار ہے نفس

مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کیے ہوئے

پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق

سامان صد ہزار نمکداں کیے ہوئے

پھر بھر رہا ہے خامہ مژگاں بہ خون دل

ساز چمن طرازی داماں کیے ہوئے

باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب

نظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئے

دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے

پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب

عرض متاع عقل و دل و جاں کیے  ہوئے

دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال

صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے

پھر چاہتا ہوں نامہ دلدار کھولنا

جاں نذر دل فریبی عنواں کیے ہوئے

مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس

زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو

سرمے سے تیز دشنہ مژگاں کیے ہوئے

اک نوبہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ

چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے

پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں

سر زیر بار منت درباں کئے ہوئے

جی دھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے

بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کئے ہوئے

نوحہ غم کی طلب، جوش اشک سے تہیہ طوفاں کا ارادہ اور لذت اندوزی آزار کی مستقل صورت غالب کی زندگی میں غموں کی اس وافر مقدار کی دین ہے جس نے غم اور زندگی کو غالب کے لیے مترادف حقیقتوں کی صورت دے دی تھی     :

۷؎          قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

اس حقیقت سے واقفیت کے باوجود غالب ایک خوشحال، پرسکون اور پر آسائش زندگی کی آرزو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ خواہشیں اور تمنائیں ان کے دل میں برابر پیدا ہوتی رہیں۔ غالب نے اپنی آرزوؤں میں جینا سیکھ لیا تھا اور مشکلوں میں آسانی کا پہلو تلاش کر لیا تھا:

۸؎        رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

غالب نے ایک کیفیت میں زندگی گزارنے کی مجبوری کے برخلاف خود کو زندگی کی یکسانیت سے نکال کر ذہنی زندگی کی ہر لمحہ تغیر پذیر فضا میں محصور کر لیا تھا۔ غالب کی شاعری میں نظر آنے والی نیرنگی اور رنگینی کا تعلق ان کی زندگی اور عصری صورت حال سے زیادہ ان کی فکر سے ہے۔ غالب کے عصر میں تہذیبی عمل کی رفتار انتہائی سست تھی اس لیے اس دور کے بیش تر شاعر آرائش خم کاکل میں مصروف تھے جب کہ غالب نے خود کو ایک اور سلسلے سے جوڑ رکھا تھا۔ یہ سلسلہ فکر لمحہ موجود تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں دور دراز کے اندیشے جھلملاتے تھے:

۹؎  تو اور آرائش خم کاکل

میں اور اندیشہ ہائے دور دراز

دور دراز کے ان ہی اندیشوں نے غالب کی شاعری کو زمانی و مکانی قیود سے آزاد کر کے آنے والے زمانے کا ترجمان بنا دیا تھا۔ غالب کا ذہن جدید ایک بدلتی ہوئی دنیا کے نقشے کو دیکھ رہا تھا۔ اس لیے ان کی شاعری زندگی کی جن اقدار کا اظہار کر تی ہے وہ ان کے اپنے عہد سے متعلق نہیں تھیں۔ اپنے عہد میں غالب کی شاعری کی معنویت اسی سبب نہیں ابھری جس کی غالب نے کوئی پروا نہ کی:

۱۰؎        نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

غالب جانتے تھے کہ یہ دور میرا دور نہیں، یہ قاری میرا قاری نہیں، اس لیے ان سے صلے اور ستائش کی تمنا کو وہ بے سود تصور کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جو تغیرات انھیں شعر کہنے کی طرف مائل کر رہے ہیں وہ ان کے عہد کے تغیرات نہیں ہیں۔ غالب چشم تصور سے ان تغیرات کو دیکھ رہے تھے جنہیں مستقبل میں وقوع پذیر ہونا تھا۔ ان تغیرات نا موجود کی حدت ایک طرف غالب سے شعر کہلوا رہی تھی تو دوسری طرف انہیں اس اعتراف پر مجبور کر رہی تھی کہ وہ حال کے نہیں مستقبل کے شاعر ہیں      :

۱۱؎         ہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج

میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں

’’ گلشن نا آفریدہ‘‘  کی ترکیب نادر اور  ’’ عندلیب گلشن ناآفریدہ ‘‘  ہونے کا پر تیقن اظہار تغیر پر اعتقاد کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا لیکن مستقبل بینی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مستقبل بیں شخص بیگانہ حال ہے۔

۱۲؎     ’’غالب بھی یہ کہنے کے باوجود کہ وہ ایک ناآفریدہ گلشن کے نغمہ کار ہیں۔ اپنے عہد سے لاتعلق نہیں۔ جتنا گہرا شعور ان کو معاصر حالات کا تھا۔ اتنا ان کے معاصرین میں سے کسی کو نہ تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ وسیع تر تناظر میں زندگی اور کائنات کے ازلی مسائل کی آگہی سے بھی بہرہ ور تھے۔ ‘‘

غالب کی خود آگاہی، نظریہ زمان و مکاں اور کائناتی شعور نے ان کی تخلیقی شخصیت کی تعمیر کے لیے وہ مستحکم اساس فراہم کر دی تھی جو اہم، آفاقی اور تا دیر زندہ رہنے والی شاعری کے لیے لازم ہے۔ غالب اپنے ماضی سے بھی آگاہ تھے اور حال سے بھی، لیکن وہ ماضی بینی اور حال پرستی میں مبتلا نہیں تھے۔ وہ تغیر پرست تھے۔ ا س لیے ان کی نظر  ’’جو تھا‘‘  اور  ’’ جوہے ‘‘  سے زیادہ  ’’ جو ہو سکتا ہے ‘‘   ’’ جو ہونے والا ہے‘‘  اور  ’’ جو ہو گا‘‘  پر جمی رہتی تھی۔ اس لیے انہیں وہ سب دیکھنے پر قدرت حاصل ہو گئی تھی جسے ان معاصرین نہ دیکھ سکے تھے۔ وہ سب ماضی اور حال کے صحراؤں میں بھٹک رہے تھے جب کہ غالب مستقبل کے ناآفریدہ گلشن کی سیر میں مگن تھے۔ مستقبل بینی نے حال اور ماضی کے حوالے سے غالب کے انداز نظر کو ایک خاص طرز عطا کر دی تھی۔ اس خاص طرز کو تغیر پسندانہ کہہ لیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ غالب نے تغیر پسندی کے اظہار کے جو انداز اپنائے ان میں سے سب سے خاص انداز ہر اس شے، تصور اور قدر پر اظہار شک تھا جسے ان کے دور اور معاشرے میں مستقل اور مطلق کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ غالب نے ہر اس شے، تصور اور قدر کو بھی شک سے دیکھا ہے جسے انسانی تاریخ میں مطلق اور مستقل کی حیثیت حاصل تھی۔ مستقبل میں پیدا ہونے والی کوئی ایسی صورت حال بھی غالب کے دائرہ تشکیک سے باہر نہیں تھی۔ تغیر اور تشکیک کا تعلق جدیدیت کے آغاز ہی میں نمودار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جدیدیت کا آغاز بالعموم نشاۃ ثانیہ سے کیا جاتا ہے۔

۱۳؎     ’’ اس دور کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے صداقت یا حق کے وجود ہی سے انکار کر دیا۔ اس رجحان کا سب سے بڑا نمائندہ فرانس کا مفکرموں تینیہ (Monteigne)ہے جسے انگریز مون ٹین کہتے ہیں۔ اس نے ایک مثال دی ہے کہ بچپن میں مجھے ککڑی بہت پسند تھی مگر اب پسند نہیں آتی۔ اس مثال سے نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ حق یا صداقت کوئی مطلق یا مستقل چیز نہیں بلکہ اضافی چیز ہے۔ جو ہر آدمی کے ساتھ اور زمان و مکان کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اس لیے انسانی ذہن کی معراج معرفت یا علم کا حصول نہیں بلکہ تشکیک ہے۔ سب سے عقل مند آدمی وہ ہے جو ہر چیز اور ہر خیال کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ‘‘

غالب اپنی شاعری میں ایک ایسے ہی عقل مند انسان کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں جسے تغیر کے علاوہ کسی دوسری شے کی مطلقیت پر یقین کامل نہیں ہے۔ انہوں نے واقعی ہر چیز اور ہر خیال کو شک کی نظر سے دیکھا ہے۔ ان کا دائرہ تشکیک انسان اور انسانی سماج سے لے کر خدا اور خدا کے نظام تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کی نظر جس چیز پر پڑتی ہے اس کے وجود کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ اگر کسی چیز یا خیال پر شک بھری نگاہ نہ ڈالی جائے تو اس میں تغیر پیدا ہونے کے مکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ غالب کے عہد کی اجتماعی فضا میں دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا تغیر کے لیے شک اور شک کے لیے طبعاً متشکک ہونا ضروری ہے۔

۱۴؎     ’’غالب چونکہ ارتقا اور تغیر آشنا زندگی پر یقین رکھتے تھے عمر بھر وہ تشکیک کے مسافر رہے اور کبھی کسی مقام سے کسی کلام سے مطمئن نہ ہو سکے اور یہی کار تشکیک انہیں عالم حیرت میں لے گیا۔ جہاں سے ان کے سخن میں کیوں ہے ؟ اور کیا ہے؟ کا آغاز ہوا اور ایک نوع کی انتہا پسندی اور انکار ان کے لہو میں سرایت کر گیا اور ان کی فکر پرچھا گیا۔ وہ زندگی کے ہر لمحہ ارتقا پذیر ہونے پر یقین رکھتے تھے اور بقول ڈاکٹر آفتاب احمد کے شیکسپئر کی طرح غالب کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آخری تجزیئے میں وہ قنوطیت پسند تھے یا رجائیت پسند۔ ان کا تصور حیات المیہ تھا یا طربیہ۔ کیونکہ غالب کے مزاج میں سب عناصر شامل تھے اور وہ زندگی کو انھی عناصر کا مرکب سمجھتے تھے۔ غالب نے بطور شخص زندگی کو حقیقت پسندانہ نقطہ نظرسے دیکھا، برتا اور قبول کیا اور زندگی کے بارے میں ان کا یہی رویہ رہا وہ ہر لمحہ بدلتی ہوئی حقیقتوں اور ارتقا کے بدلتے رویوں کو دوسروں کی نسبت آسانی سے قبول کرتے رہے اور شعر میں غالب اپنا مقصد  ’’آئینہ زدودن و صورت معنی نمودن‘‘  قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ معنی آفرینی کا جو کمال غالب کی شاعری میں نظر آتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ معنی آفرینی اور حقیقت پسندی کی اس کاوش میں غالب کے فکرو خیال کی لہریں ایک ہی رخ پر بہتیں اور نہ ان کے ساز جاں سے ایک ہی لے کے نغمے پھوٹتے ہیں۔ غالب نیرنگ صورت اور نیرنگ تمنا اور آئینہ دو جہاں کے تماشائی تھے۔ آشفتہ بیانی یا پریشاں نوائی غالب کی پہلو دار اور بوقلموں شخصیت  ہی کا عکس ہے یہ ان کا سرمایہ بھی ہے اور ان کا امتیاز بھی۔ ‘‘

تغیر اور ارتقا پر یقین و اعتقاد نے غالب کو متشکک بنا دیا تھا۔ غالب کی شاعری میں تشکیک نے نامختتم سوالوں کا روپ دھار لیا۔ غالب نے ہر شے اور ہر خیال پر سوالیہ نشان (؟) لگا کر اسے سمجھنے کی کوشش کی۔ غالب کے عہد میں سوال اٹھانے کی روش کوئی زیادہ عام نہیں تھی۔ مابعد الطبعیاتی مسائل تو دور سامنے کی صورت حال پر بھی فکر و تردد کی بجائے قبولیت کا رویہ عام تھا۔ غالب کا ذہن اپنے عہد کی عام ذہنیت سے مختلف تھا۔ ان کا ذہن تسلیم کا خوگر نہیں تھا اور نہ ہی ان کو تقلیدی روش پر چلنا پسند تھا۔ غالب کے ذہن کو اشیاء اور تصورات کو من و عن قبول کرنے میں تامل تھا۔ وہ ہر معاملے میں تشکیک کا عادی تھا۔ ان کے ذہن میں ہر لمحہ شکوک اور سوالات ابھرتے رہتے تھے۔ ان کے شکوک اور سوالات کا دائرہ وسیع تھا۔ انسان، کائنات اور خدا کی تثلیث میں موجود کوئی شے یا خیال ان کے شک اور سوال کے دائرے سے باہر نہیں تھا     :

۱۵؎         ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد

عالم تمام حلقہ دام خیال ہے

 

۱۶؎        جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

شکن زلف عنبریں کیوں ہے

نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے

سبزہ و گل کہاں سے آتے ہیں

ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

 

۱۷؎         ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

 

۱۸؎       ہستی فریب نامہ موج سراب ہے

یک عمر ناز شوخی عنواں اٹھائیے

غالب جب اپنے عہد میں مروج اقدار و اعتقادات کو اپنے شکوک اور سوالات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو اکثر ان کے ہاں انحراف اور انکار پیدا ہوتا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ آج تک کسی چیز کو بھی قابل شک نہیں سمجھا گیا یہی وجہ ہے کہ حقیقتوں کے ایک ایسے جال نے ہمیں گھیر رکھا ہے جس میں تمام حقائق ماورائے سوال ہیں۔ غالب جب ان حقائق پر شک بھری نظر ڈالتے ہیں اور ان کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں تو یہ حقائق ریت کی دیوار کی طرح منہدم ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے غالب اپنے عہد کے اقدار اور اعتقادات پر یقین کھو بیٹھے تھے اور اقرار کی جگہ انکار اور اعتراف کی جگہ انحراف ان کی شخصیت کے تعمیری اور تخریبی عناصر کے طور پر سامنے آ تے ہیں :

۱۹؎        بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

ہر زہ ہے نغمہ زیروبم ہستی و عدم

لغو ہے آئینہ فرق جنوں و تمکیں

نقش معنی ہمہ خمیازہ عرض صورت

سخن حق ہمہ پیمانہ ذوق تحسیں

لاف و دانش غلط و نفع عبادت معلوم

دزد یک ساغر غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں

عشق بے ربطی شیرازہ اجزائے حواس

وصل، زنگار رخ آئینہ حسن یقیں

کوہ کن گرسنہ مزدور طرب گاہ رقیب

بے ستوں آئینہ خواب گران شیریں

کس نے دیکھا نفس اہل وفا آتش خیز

کس نے پایا اثر نالہ دل ہائے حزیں

 

۲۰؎    ’’ان اشعار میں غالب کے انحراف و انکار کی زد میں ان کے عہد ہی کے نہیں بلکہ ماضی قدیم تک کے وہ تمام معتقدات اور تصورات اور فکر و فلسفہ کی وہ طرز ہے جو قیاسات اور ماضی پر محض خوش گمانی کے سبب ان کے اپنی عہد تک آتے آتے انفرادی اور اجتماعی تجربات سے کٹ کر خالص ’’ مقدس روایات ‘‘  کی شکل میں رہ گئے تھے پھر ان اشعار میں نفی یا انکار محض نہیں ہے بلکہ مثبت فکر کی ایک رو زیر تہہ کاٹتی ہوئی بھی گزرتی ہے۔ جو اگرچہ خاصی غیر محسوس ہے مگر موجود ضرور ہے۔ غالب کے اس طرز فکر سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مقصود نہیں کہ وہ کوئی بہت بڑے انقلابی تھے۔ ہاں جو بات سمجھنے اور ان کے جس ذہنی رویے کی نشان دہی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے بے حد عام نامحسوس تغیرات کو سمجھنے ان کی افادیت اور ان کے مثبت اثرات کو دیکھنے اور ان کی حمایت کرنے میں اپنے تمام ہم عصر اردو کے ادیبوں اور شاعروں میں پہلی شخصیت تھے۔ اس تہذیب اور ان روایات کے مٹتے جانے پر ان کا سینہ ضرور ’’ پر خوں زنداں خانہ ‘‘  بن گیا تھا۔ جن سے ان کے دور کی اعلیٰ تہذیبی اور ثقافتی رویوں کی شمع روشن تھی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ان کے سینہ پر خوں سے اپنے عہد کی تعمیر کی آرزو مندی کی وہ شعاعیں بھی پھوٹتی تھیں جو اس  ’’گلشن ناآفریدہ‘‘  کے تعمیر و تشکیل کی پہلی کوششوں میں سے تھی جس کی موجودہ شکل ہمارا اپنا عہد ہے۔ اس اعتبار سے غالبا ً ان کا ذہن تخریب و تباہی پر افسوس اور آہ و بکا کرنے والا ذہن نہیں بلکہ تغیر و تبدل کے دائمی جاری و ساری حقیقی و جود کو ماننے اور برتنے والا ذہن ہے۔ ‘‘

غالب کے دوربیں ذہن نے آنے والے زمانے کو دیکھ لیا تھا اور ان کی تغیر پسند فکر نے اس تبدیلی کو قبول کر کے فن شعر میں تحلیل کر دیا تھا۔ مگر غالب جذباتی طور پر اپنی ثقافتی قدروں سے رشتہ توڑنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ انہیں اپنی اقدار سے لگاؤ بھی تھا اور وہ ایک بدلتی ہوئی دنیا کے آثار دیکھ بھی رہے تھے۔ جذباتی سطح پر ماضی سے انسلاک اور فکری سطح پر مستقبل سے مربوط ہونے کی وجہ سے غالب کے ہاں وہ کشمکش پیدا ہو گئی تھی۔ جس سے عموماً ایک پورا عہد دوچار ہوتا ہے۔ جدیدیت کا آغاز اسی کشمکش کی دین ہے۔ لیکن جو کشمکش تہذیبی سطح پر پورے عہد کے حصے میں آتی ہے وہ صرف غالب کی ذات واحد کے حصے میں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کے جتنے پہلو عموماً ایک پورے عہد کے تخلیق کاروں میں مجتمع ہوتے ہیں وہ غالب کی شخصیت میں یکجا ہو گئے تھے۔

۲۱؎     ’’جدیدیت ہر اس زمانے میں جنم لیتی ہے جو علمی انکشافات کے اعتبار سے انقلاب آفریں اور روایات و رسوم کی سنگلاخیت کے باعث رجعت پسند ہوتا ہے۔ بات نفسیاتی نوعیت کی ہے جب علم کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور نظر کے سامنے نئے افق نمودار ہوتے ہیں تو قدرتی طور پر سارا قدیم اسلوب حیات مشکوک دکھائی دینے لگتا ہے مگر انسان اپنے ماضی کی نفی پر مشکل ہی سے رضامند ہوتا ہے اور اس لیے قدیم سے وابستہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں اس کی زندگی ایک عجیب سی منافقت کی زد میں آ جاتی ہے۔ ذہنی طور پر وہ نئے زمانے کے ساتھ ہوتا ہے اور جذباتی طور پر پرانے زمانے کے ساتھ۔ تاریخ انسانی میں یہ نہایت نازک اور کرب ناک دور ہے جسے فن کے تخلیقی عمل ہی سے عبور کرنا ممکن ہے ایسے دور میں فن کا روں کا ایک پورا گروہ پیدا ہو جاتا ہے جو انسان کے جذبے اور علم میں پیدا شدہ خلیج کو پاٹنے کے لیے تخلیقی اپج اور اجتہاد سے کام لیتا ہے۔ اس طور کہ انسان کو ایک نیا وژن، ایک نیا سماجی شعور اور تازہ تہذیبی رفعت ودیعت ہو جاتی ہے اور وہ اعادے اور تکرار کی مشینی فضا سے باہر آ کر تخلیقی سطح پر سانس لینے لگتا ہے۔ کسی بھی دور میں فن کاروں کی یہ اجتماعی کوشش جو اجتہاد سے عبارت اور تخلیقی کرب سے مملو ہوتی ہے جدیدیت کی تحریک کا نام پاتی ہے۔ واضح رہے کہ جذباتی مراجعت اور ذہنی پھیلاؤ میں جس قدر بعد ہو گا۔ جدیدیت کی تحریک بھی اسی نسبت سے ہمہ گیر اور توانا ہو گی۔ تا کہ جذبے اور فہم میں ہم آہنگی پیدا  کر کے انسان کو دوبارہ صحت مند اور تخلیقی طور پر فعال بنا سکے۔ ‘‘

جذباتی مراجعت اور ذہنی پھیلاؤ کے مابین بعد کا یہ نازک اور کربناک دور جسے ایک عہد جھیلتا ہے۔ اسے صرف غالب نے جھیلا اور وہ تخلیقی فریضہ جو تخلیق کاروں کا گروہ انجام دیتا ہے اسے صرف غالب نے انجام دیا۔ اس نازک موڑ پر بھٹکنے کے امکانات بھی کم نہیں ہوتے مگر یہ غالب ہی تھے جنہوں نے خود کو اس موڑ پر بھی بھٹکنے سے نہ صرف بچایا بلکہ جذبے اور فکر میں ارتباط پیدا کر کے ایک پورے عہد کو بانچھ پن سے بچا لیا۔ یقیناً اس دشوار کام کو کوئی معمولی تخلیقی استعداد کا حامل فرد سرانجام نہیں دے سکتا تھا۔ غالب نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت اور تغیر پسند مزاج کے ذریعے اپنی جذباتی رجعت پسندی کو جس طرح روشن خیالی سے ہم آہنگ کیا اس کی مثال کسی واحد تخلیق کار کے ہاں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

غالب کے جدید ذہن نے تشکیک اور استفہام کے ذریعے اپنی شاعری کو آج کے تیز رفتار عہد کی برق رفتار تغیرات کا عکاس بنا دیا تھا۔ تغیر پسندی اور دور بینی کے اشتراک و انسلاک کی ایسی مثال پوری اردو شاعری میں عدم دستیاب ہے۔ غالب کی اس خوبی نے انہیں زمان و مکاں کی قید سے آزاد کر دیا تھا۔ اسی خوبی نے کلام غالب کو ہر عہد کی بدلتی ہوئی قدروں کا ترجمان بنا دیا ہے ہر زمانہ غالب کی شاعری کو اپنے تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہے، اور کرتا رہے گا۔ غالب کی شاعری ہر دور کی شاعری ہے۔ تناظر بدلنے سے غالب کی شاعری کے مفاہیم میں حیرت انگیز طور پر تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر غالب کی شاعری اس صفت کی حامل نہ ہوتی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم غالب کو اپنے عہد میں نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ انہیں روح عصر سے پوری طرح آگاہ ایک تخلیق کار کے طور پر اپنا ہم عصر سمجھتے ہیں اور انہیں اسی خاص مقام کا حامل قرار دیتے ہیں جو اپنے عہد کے living legendکو دیا جاتا ہے۔ جدید شاعری کی اس سے بہتر مثال کیا پیش کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے عہد کی ترجمان بھی ہو اور آنے والے زمانوں کی وہ بے نظیر نظیر بھی جسے ہر دور اپنے لیے قابل فخر سمجھے اور اپنے عہد کی شاعری میں اسے سب سے اہم اور بلند مقام تفویض کرے۔

 

                   حوالہ جات

 

۱۔ آغا افتخار حسین، ڈاکٹر، ۲۰۰۶،  ’’ جدیدیت‘‘ ، مشمولہ، جدیدیت کا تنقیدی تناظر، (مرتب: اشتیاق احمد)، لاہور، بیت الحکمت، ص ۴۸

۲۔ غلام رسول مہر، مولانا، اشاعت اول۱۹۶۷ء،  ’’دیوان غالب(مکمل)‘‘ ، لاہور، شیخ غلام علی اینڈسنز، ص۱۳۵

۳۔ کالی داس گپتا رضا، ۹۶۔ ۱۹۹۷ء،  ’’دیوان غالب کامل‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ص۲۵۴

۴۔ محمد اقبال، علامہ۔  ’’کلیاتِ اقبال‘‘ ، طبع پنجم۱۹۸۲، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز، ص ۱۴۸

۵۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۲۳۰

۶۔  ایضاً، ص۲۸۹، ۲۹۰

۷۔ ایضاً، ص۱۵۹

۸۔ ایضاً، ص۱۵۲

۹۔  ایضاً، ص۱۰۲

۱۰۔  ایضاً، ص۲۳۱

۱۱۔ کالی داس گپتا رضا،  ایضاً، ص۱۵۷

۱۲۔ حامدی کاشمیری،  ’’عندلیب گلشن تا آفریدہ‘‘ ، مشمولہ، سہ ماہی سمبل، راولپنڈی، جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء، ص۳۳۸

۱۳۔ محمد حسن عسکری،  ۲۰۰۰،  ’’مجموعہ محمد حسن عسکری ‘‘ ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ص ۱۱۹۸

۱۴۔ فہیم شناس کاظمی، غالب اور آئینہ، (مشمولہ) ماہ نو (غالب نمبر)لاہور، مارچ ۱۹۹۸ء، ص:۶۳

۱۵۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۱۹۳

۱۶۔  ایضاً، ص۲۱۳

۱۷۔  ایضاً، ص۳۰۲

۱۸۔ حمید احمد خان، طبع دوم۱۹۹۲،  ’’دیوان غالب (نسخہ حمیدیہ)، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص۱۷۸

۱۹۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۲۹۶

۲۰۔ عتیق احمد،  ’’غالب کا ذہن ‘‘ ، مشمولہ، افکار (غالب نمبر)، کراچی، شمارہ نمبر ۲۱۰، ۲۱۱، فروری مارچ ۱۹۶۹ء، ص ۱۵۹

۲۱۔ وزیر آغا، ڈاکٹر،  ’’ جدیدیت۔ ایک تحریک‘‘ ، مشمولہ، جدیدیت کا تنقیدی تناظر، ( مرتب:اشتیاق احمد)، لاہور، بیت الحکمت، ۲۰۰۶ء، ص۱۵۴، ۱۵۵

٭٭٭

 

 

 

جدیدیت، انفرادیت اور غالب

جدیدیت کسی بھی مروجہ قدر اور مسلمہ روایت کی قبولیت یا رد کے لیے فرد کی آمادگی کو لازم تصور کرتی ہے یہ آمادگی فطری بھی ہو سکتی ہے اور شعوری بھی۔ فرد کی یہی فطری یا شعوری آمادگی اس کی انفرادیت کو ظاہر کرتی ہے۔ جدیدیت انفرادیت کی حفاظت اور آزادی کا تحفظ کرتی ہے۔ یہ فرد کو زندگی اور زمانے کے ہر تقاضے اور ہر معیار پر پورا اترنے کی مجبوری کے خلاف اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے تمام تر فیصلے خود اپنی پسند کے مطابق کرے۔ بہ قول محمد حسن عسکری

۱؎       ’’پوری جدیدیت کی اصل روح یہی انفرادیت پرستی ہے۔ مذہب ہو یا اخلاقیات یا معاشرتی زندگی ہر جگہ آخری معیار فرد اور اس کے تجربے کو سمجھا گیا ہے۔ ‘‘

جدیدیت ہر اس تحریک، نظریے، عقیدے، قدر اور قانون کے خلاف بغاوت اور احتجاج کی علم بردار ہے جو فرد کو پابندی میں بھی آزادی کے ساتھ جینے کا حق نہ دیتے ہوئے اس کی انفرادیت کو مسخ کرتی ہے۔ جدیدیت کے لیے بغاوت اور احتجاج ان استعاروں کی حیثیت رکھتے ہیں جو انسان کو انکار کی آزادی اور انفرادیت کا اثبات فراہم کرتے ہیں۔ یہ انفرادیت کا اثبات چاہتی ہے اور اس اثبات کے حصول کے لیے اسے وسیع پیمانے پر نفی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تاہم نفی کے اس عمل کو صرف تخریب برائے تخریب قرار دینا صحیح نہیں ہو گا کیوں کہ یہ نفی کے ذریعے انفرادیت کے اثبات کی منزل تک پہنچنے کی سعی کرتی ہے جو تخریب برائے تعمیر کا عملی اظہار ہے۔ جدیدیت فی الحقیقت ایک تعمیر ی تحریک ہے۔ تاہم اس تحریک سے تخریبی عناصر کی مکمل منہائی کا تصور محال ہے۔

جدیدیت ایک ایسے آزاد صاحب الرائے فرد کا تصور پیش کرتی ہے جس کی فکر کسی نظریاتی جبر کی اسیر نہ ہو۔ یہاں فرد کی آزادی اور اختیار کی اہمیت اساسی ہے اگر فرد اپنی فکر میں آزاد اور با اختیار ہے تو وہ جو چاہے رائے قائم کر سکتا ہے۔ اس صورت میں اگر وہ خود پر نظریاتی پابندی عائد کرتا ہے تو جدیدیت کو اس سے کوئی اختلاف نہیں ہو گا۔

جدیدیت کا فکری پس منظر فلسفے کی جن تحریکات کی مدد سے تیار ہوا ہے۔ وہ اختلافات کے علاوہ بعض خصائص میں اشتراک کی حامل بھی ہیں۔ ان تمام تحریکات میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ سب نے اپنے مطالعے کے مرکز کے طور پر انسان کے مجموعی یا اجتماعی وجود کے برعکس اس کے داخلی یا باطنی وجود کو منتخب کیا ہے۔ انسان کا داخلی یا باطنی وجود اس کے انفرادی خدوخال کو نمایاں کرتا ہے۔ اس لیے جدیدیت کی حد تک انسان کا مطالعہ اس کے باطنی وجود کے ان اوصاف کا مطالعہ بنتا نظر آتا ہے جس پر انفرادیت کی اساس قائم ہے۔ انفرادیت کے حامل ان باطنی اوصاف کو جن استفہامیوں کی روشنی میں طے کیا جا سکتا ہے وہ کچھ اس طرح ہیں :

فرد کس طرح ذاتی تجربے کی روشنی میں عمل و رد عمل کا اظہار کرتا ہے؟

فرد حقائق کی توضیح و تشریح کے لیے کس طرح ذات کو پیمانہ بناتا ہے ؟

فرد مختلف حالات میں اپنے رویے اور انتخاب کے تجزیے کے لیے فکر کو کس طرح استعمال کرتا ہے ؟

فرد کے وجود میں انحراف، استرداد اورباغیانہ پن جیسے عناصر کن شخصی اوصاف کی بناپر ابھرتے ہیں ؟

فرد کس مخصوص داخلی تناظر میں جذبے کو فکر یا فکر کو جذبے پر فوقیت دیتا ہے ؟

فرد کے باطن میں تخریبی اور تعمیری عناصر و عوامل اپنا کردار کن حالات اور کن خطوط پرسرانجام دیتے ہیں ؟

فرد اپنے تحفظ کے لیے مثبتیت اور منفییت کی کن کن صورتوں سے کام لیتا ہے ؟

انحراف کے وقت فرد کا رویہ کس قدر جذباتی یا تعقلی ہوتا ہے ؟

خارج پر اثر انداز ہونے کی خواہش فرد کے ہاں کس داخلی شدت کی حامل ہوتی ہے ؟

شخصیت، فرد کے تخلیقی، تقلیدی یا انحرافی عمل پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے؟

ان استفہامیوں سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ جدیدیت فرد کو تہذیبی روایت، سماجی رابطوں اور رشتوں، ماحولیاتی انسلاک، تاریخی تناظر اور عصری صورت حال سے جدا کر کے دیکھتی ہے یا اپنے مطالعے کے دوران ان تمام پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتی ہے ایسا ہر گز نہیں البتہ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ جدیدیت ہر بیرونی معاملے کا تجزیہ و مطالعہ فرد کے جذباتی و فکری نظام کی روشنی میں کرتی ہے۔ متذکرہ استفہامیوں میں ان پہلوؤں پر غور و فکر کا مواد موجود ہے جو فرد کے باطنی وجود میں، نظام فکر و جذبات کے حوالے سے انفرادیت کے خال و خط متعین کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ بہ قول ڈاکٹر شمیم حنفی:

۲؎      ’’بہ حیثیت فرد انسان کا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ خود کو کسی اخلاقی، مذہبی، سماجی یا سیاسی نظریے کا تعمیمی استعارہ بنا لے وہ ایک کثیر الابعاد وحدت میں اپنی ذات کے مرکزی نقطے کو سمجھنا چاہتا ہے۔ اپنا مصرف سمجھنا چاہتا ہے۔ یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ حیات اور موت کے درمیان اس کی حقیقت اور حیثیت فی الواقع کیا ہے۔ اسے تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان اخلاقی بھی ہو سکتا ہے اور غیر سیاسی بھی۔ اسے اپنی ذہنی قوتوں اور علمی فتوحات کا بھی علم ہے لیکن وجود کی گتھی پھر بھی نہیں سلجھتی، مذاہب اور سماجی نظریے اس پر ایک معینہ نصب العین کی شرط عائد کرتے ہیں۔ سائنس اسے ایک حیاتیاتی مظہر سمجھتی ہے اور تہذیب اسے اپنی تعمیر کا آلہ کار۔ الوہی صحیفوں نے اسے یہ بتایا ہے کہ وہ خلیفۃ اللہ ہے۔ زمینوں اور آسمان پر ایک نادیدہ قوت کا نائب مناب، سائنس نے اسے مظاہر کی آگہی دی۔ ٹکنالوجی نے اسے اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں سے باخبر کیا۔ لیکن اپنی کسی حیثیت سے وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ کسی غیر ارضی وجود کی نیابت کا تصور اسے قائل نہیں کرتا۔ مظاہر کی آگہی اس کے باطن کو منور نہیں کرتی۔ ٹکنالوجی کے کمالات اس کے اندیشوں اور دہشتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ سماجی ضرورتوں اور رشتوں کے جبرنے اسے غلامی کا ایک نیا احساس دیا ہے۔ جدید علوم نے فطرت سے اس کے رشتے توڑ دیئے ہیں۔ سائنسی اور منفی ایجادات نے اسے اجتماعی موت کے تجربے سے روشناس کرایا ہے اور ایسے شہر بسائے ہیں جن میں اس کی تنہائی بڑھ گئی ہے۔ مادی سہولتوں نے اس کی دشواریاں ختم نہیں کیں !ان کی نوعیتیں بدل دی ہیں۔ پہلے معاشرہ بھی منظم تھا اور انسان بھی اب دونوں منتشر ہیں۔ جدیدیت اس منظر نامے پر اپنی جستجو میں کھوئے اور کھوتے ہوئے فرد کی روداد ہے۔ ‘‘

جس کھوئے ہوئے اور کھوتے ہوئے فرد کی روداد جدیدیت پیش کرتی ہے۔ وہ درحقیقت سوالوں کے ایک بے انت سلسلے میں پوری طرح گھرا ہوا ہے۔ ان سوالوں کے جو جواہات پہلے سے موجود ہیں وہ اس کے لیے تسلی بخش نہیں ہیں۔ کیوں کہ یہ جوابات اس کے اپنے نہیں۔ اپنے سوالات کے لیے وہ دوسروں پر انحصار کی بجائے اپنے باطن سے وہ روشنی کشید کرنا چاہتا ہے۔ جواسے اپنے سوالات کے قابل تشفی جوابات مہیا کر سکے۔ باطن کی یہ روشنی خارج سے مستعار نہیں بلکہ فرد اپنی اس روشنی کو خارج کی ہر پرچھائیں سے محفوظ رکھنے کی ہر مثبت اور منفی کوشش کرتا ہے کیوں کہ اس روشنی کے سوا اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کا نہیں، اس لیے قابل اعتبار بھی نہیں۔ باطن کی اس روشنی کا نام انفرادیت ہے۔ انفرادیت کا حصول ہی فرد کی منزل مقصود ہے۔ اسی میں اس کے تمام غم و آلام اور مسائل و مصائب کا حل پوشیدہ ہے۔ لیکن اس باطنی روشنی کا حصول آسان نہیں کیونکہ انسان جگہ جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کو مکمل ذہنی آزادی حاصل نہیں۔ اس لیے انفرادیت کا حصول ذہنی آزادی کے ساتھ مشروط ہے۔ اس باطنی روشنی کو ذہنی غلامی میں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ غلامی سیاسی ہو یا سماجی، مذہبی ہو یا اخلاقی، فرد کے لیے ہر زنجیر کو توڑنا لازم ہے۔ انفرادیت کا حصول ذہنی آزادی کا مرہون منت ہے۔ اس لیے انفرادیت کے تحفظ کے لیے آزادی کا تحفظ لازم ہے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی نے برٹرینڈرسل کے حوالے سے انفرادیت اور ذہنی آزادی کا درست دستور العمل پیش کیا ہے۔

۳؎      برٹرینڈرسل نے ایک مضمون  ’’ ادعائیت کے بہترین جواب… رواداری‘‘  (نیو یارک ٹائمز میگزین ۱۶ دسمبر ۱۹۵۲ء ) کے خاتمے پر دس ایسے نکات کی طرف اشارہ کیا تھا جو انفرادیت اور ذہنی آزادی کے تحفظ کا ستور العمل کہے جا سکتے ہیں۔ جدیدیت کے تصور انفرادیت کا خاکہ بھی انہیں خطوط پر تیار ہوا ہے۔ رسل ان دس نکات کو  ’’ دس احکامات ‘‘  کا عنوان دیتا ہے۔ نکات حسب ذیل ہیں :

۱۔       کسی بھی شے (حقیقت) میں مطلقیت کے ساتھ یقین نہ رکھو(یعنی ہر حقیقت اضافی ہے)

۲۔      حقائق کو چھپا کر آگے بڑھنا مناسب نہ سمجھو کیونکہ حقیقت کا سامنے آنا یقینی ہے۔

۳۔      کبھی غور و فکر کو پسپانہ کرو کیوں کہ آزادانہ غور و فکر کے ساتھ تم یقیناً کامیاب ہو گے(یعنی صحیح نتیجے تک اسی صورت میں پہنچا جا سکتا ہے۔ )

۴۔      جب کبھی تمہاری مخالفت کی جائے اس پر دلیل سے قابو پانے کی کوشش کرو۔ قوت کے ذریعہ نہیں کیوں کہ ایسی فتح جو قوت (مادی ) پر مبنی ہو غیر حقیقی اور خیالی ہوتی ہے۔

۵۔      دوسروں کے اختیار و اقتدار کی پروانہ کرو کیوں کہ ہمیشہ متضاد اختیارات موجود ہوتے ہیں (یعنی کوئی تصور یا قوت آخری اور حتمی نہیں اور ہر تصور یا قوت کی ضد بھی موجود ہے)

۶۔      اگر تمہیں کوئی زاویہ نظر مہلک بھی دکھائی دے تو اسے کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال نہ کرو تم ایسا کرو گے تو وہ زاویہ نظر تمہیں کچل دے گا۔

۷۔      اپنی آراء میں منحرف المرکز (سنکی)ہونے سے نہ ڈرو۔ کیوں کہ ہر رائے جواب تسلیم کی جا چکی ہے کبھی منحرف المرکز تھی۔

۸۔      مجہول اقرار کے مقابلے میں ذہانت پر مبنی افکار میں زیادہ آسودگی ڈھونڈ و کیوں کہ اگر تم نے ذہانت کی ویسی قدر کی جیسی کہ تم پر لازم تھی تو پتہ چلے گا کہ انکار کی مجہول اقرار کی بہ نسبت زیادہ گہری رضامندی ہوتی ہے۔ (یعنی بے سوچے سمجھے عقیدے کے مقابلے میں سوچا سمجھاکفر بہتر ہے)

۹۔      پوری احتیاط کے ساتھ سچائی پر قائم رہو چاہے سچ کی راہ دشوار ہی کیوں نہ ہو اگر سچ کو چھپاؤ گے تو اور زیادہ دشواری محسوس کرو گے۔

۱۰۔     ان لوگوں کی مسرت پر حسد نہ کرو جو احمقوں کی جنت میں بستے ہیں کیوں کہ صرف احمق ہی یہ سمجھے گا کہ یہ (زندگی یا زمانہ یا نظریہ) مسرت ہے۔

برٹرینڈرسل کے مندرجہ بالا نکات ( جن پر جدیدیت کے تصور انفرادیت کا خاکہ تیار ہوا ہے ) غالب کی منفرد شخصیت میں یک جا ہوتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے زمانے میں موجود مطلقیت کے حامل کسی تصور حقیقت کو قبول نہیں کیا یا یوں کہیے کہ من و عن قبول نہیں کیا بل کہ پہلے اسے اپنی ذات کے پیمانے پر تولا پھر اس کی قبولیت یا استرداد کا فیصلہ کیا یعنی ذہنی آزادی کو قربان نہیں کیا۔ تصور حقیقت کی یہ جانچ پرکھ صاف ظاہر کرتی ہے کہ وہ کسی شے یا تصور کی مطلقیت کے قائل نہیں تھے بل کہ ان کے نزدیک حقیقت ایک اضافی قدر ہے جو فرد اور زمان و مکاں کی تبدیلی کے ساتھ بدل جاتی ہے۔ غالب کے نزدیک اگر کوئی حقیقت مطلق ہے تو وہ صرف تغیر ہے انہوں نے حقائق پر آزادانہ غور و فکر کی روش اپنائی وہ زندگی کے ہر معاملے اور ہر مسئلے پر سوچنے والے لکھاری کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ان کے کلام میں کسی جگہ یہ احساس نہیں ہوتا کہ انہوں نے غور و فکر کو پس پشت ڈال دیا ہو یا غور و فکر پر کوئی خارجی پابندی قبول کی ہو۔ وہ ایک آزاد اور باغی فرد کی طرح زیست کرنے کے قائل تھے۔ وہ اپنی ذہنی آزادی کو کسی قیمت پر قربان نہیں کرتے۔ آزادانہ غور  و فکر پر جو حقائق انہیں پورے اترتے دکھائی دیتے ہیں وہ انہیں کھلے دل سے قبول کرتے ہیں ورنہ مدلل انداز میں رد کر دیتے ہیں۔ وہ جن حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہیں پوری جرات کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور ہر طرح کی مخالفت کا جواب بہ صورت دلیل دیتے ہیں۔ ان کے ہاں کسی سے مرعوب یا متاثر ہونے کا رویہ سرے سے ناپید ہے۔ انہوں نے اپنے لیے جو روش اپنائی وہ خالصتاً ان کی اپنی اختراع تھی۔ جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ تقلیدی نہیں تخلیقی شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں اپنے زاویہ نظر پر جو اعتماد تھا۔ اس نے انہیں تمام تر نظریات سے بالاتر کر دیا تھا۔ انہیں اپنے منحرف المرکز ہونے کا کوئی ڈر نہیں تھا بل کہ یہ تسلی تھی کہ وہ جو کچھ ہیں اپنی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے کسی کا بار احساں نہیں اٹھایا۔ بل کہ صرف اور صرف اپنی ذہانت پر بھروسہ کیا۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنے انکار کو دوسروں کے مجہول اقرار پر فوقیت دیتے تھے۔ انہوں نے دوسروں کے بے سوچے سمجھے سچ کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنا سچ خود تلاش کیا اور اس کی پروانہ کی کہ دوسروں کا سچ ان کے لیے باعث مسرت ہے اور اپنا سچ ان کے لیے باعث آزار۔ ان کے لیے وہی سچائی زیادہ اہم تھی جو ان کے اپنے تجربے پر کھری اترتی تھی۔ انہوں نے دوسروں کی اترن پہننے پر اپنی برہنگی کو بہتر سمجھا۔ جدیدیت اسی تصور انفرادیت کا تقاضا کرنے والی اور اس کے تحفظ پر اصرار کرنے والی تحریک ہے۔

غالب کی ذات میں  ’’ نہ ماننے‘‘  کا جو مادہ موجود تھا۔ اس نے انہیں کبھی کسی دوسرے سے مطمئن اور خوش نہ ہونے دیا۔ دوسروں کا قد انہیں اپنے قد کے مقابلے میں ہمیشہ چھوٹا نظر آیا۔ دوسروں کے کارنامے ان کے لیے کبھی زیادہ اہم اور قابل تقلید نہ بن سکے۔ انہوں نے کبھی کسی کو اپنے مد مقابل یا ہم سر کے روپ میں قبول نہ کیا۔ انھیں اپنی تخلیقی اور غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ذات (انفرادیت) کا جو شعور تھا۔ اس کے آگے کوئی دوسری ذات ٹھہر ہی نہ سکتی تھی۔ وہ اپنے انفرادیت پرستانہ شعور کی روشنی میں جس پر نظر کرتے وہ شخصیت کوتاہ قد نظر آتی اور اس کی انفرادیت پا بند رسوم و قیود۔ اس لیے جب وہ تخلیقیت اور آزادی کے معیارات (جو انفرادی شخصیت کی تعمیر کے اساسی عناصر ہیں ) پر دیگر اشخاص اور ان کے کارناموں کو پرکھتے ہیں تو ان سے ذرا متاثر نہیں ہوتے۔ وہ اپنے متاثر نہ ہونے کی جو وجوہ بیان کرتے ہیں۔ وہ سب کی سب ایسی ہیں جو انفرادیت کے لیے اجزائے لازم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یعنی غالب کے لیے جو ذات انفرادیت کی حامل نہیں وہ قابل تحسین نہیں ہو سکتی۔

۴؎           تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد

سر گشتہ خمار رسوم و قیود تھا

 

۵؎            عشق و مزدوری عشرت گہ خسرو کیا خوب!

ہم کو تسلیم نکونامی فرہاد نہیں

 

۶؎           قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن

ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں

 

۷؎           لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں

مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

درج بالا اشعار میں غالب انفرادیت کے حصول کے لیے اپنے تضاد سے ابھرنے والے جن خطوط کی جانب اشارہ کرتے نظر آتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :

۰کسی رسم کی پابندی مت کرو۔

۰آزادی پر غلامی کو قبول نہ کرو۔

۰ظرف بڑا رکھو۔

۰کسی کی تقلید یا پیروی کر کے اس کا احسان نہ اٹھاؤ۔

غالب نے اپنی انفرادیت کی تعمیر انہی خطوط پر کی ہے۔ انہوں نے ہر رسم، رواج اور روایت کوقید تصور کیا ہے اور قیدی بننا انہیں کسی طرح قبول نہیں۔ وہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر قربان کرنا نہیں چاہتے یا یوں کہیے کہ انھیں  اپنی آزادی کی کوئی قیمت منظور نہیں۔ قید رسم کی ہو، رواج کی، روایت کی یا عقیدے کی، قید ان کے لیے صرف قید ہے اور کوئی قید آزادی کا نعم البدل نہیں۔ اگر آزادی نہیں تو پھر قید کوئی بھی ہو ان کے لیے ان میں بہتر اور ابتر کی درجہ بندی نہیں، سب یکساں ہیں، ہر قید انفرادیت کی قاتل ہے، کسی قید میں زندگی کا احساس نہیں، ہر قید آزادی کی ماتم گاہ ہے اور بس!

۸؎              جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید

مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو

 

۹       ؎               بیضہ آسا، ننگ بال و پر ہے یہ کنج قفس

از سر نو زندگی ہو گر رہا ہو جائیے

 

۱۰؎                  خزاں کیا، فصل گل کہتے ہیں کس کو ؟ کوئی موسم ہو

وہی ہم ہیں، قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے

تاہم غالب ’’ قید ہونے ‘‘ اور ’’ قیدی ہونے ‘‘ میں حد فاصل قائم رکھتے ہیں اگر قید میں آزادی کی تڑپ، جستجو اور بے قراری برقرار ہے تو اس صورت میں اسیری، غلامی نہیں کہلائے گی۔ غلامی اس وقت ہو گی جب انفرادیت کسی غیر قوت کے سپرد کر دی جائے۔ اسیری فرد کو غلام نہیں بنا سکتی۔ بہ شرط کہ اسے اپنی انفرادیت کے شعور کے ساتھ اس کے تحفظ کی قدر و قیمت کا اندازہ بھی ہو   :

۱۱؎       گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی

یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا

غالب ہر اس عمل کو اپنی انفرادیت کے حق میں موافق تصور کرتے ہیں جو ان کی انفرادیت کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ رکاوٹیں ان کے سفر کی رفتار کو کم کرنے کی بجائے اور تیز کر دیتی ہیں۔ جبر جوں جوں بڑھتا ہے اختیار پر ان کا عقیدہ اور مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ انہیں قیدی بنانے کی کوششیں آزادی پر ان کے ایقان کو اور توانا کر دیتی ہیں۔ مسدود راہیں تھکان پیدا کرنے کی بجائے سفر کے ذوق و شوق میں اضافہ کا باعث بن جاتی ہیں۔ طبع رکتی نہیں اور رواں ہو جاتی ہے

۱۲؎           پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

اس لیے غالب کی ح دتک یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے خود پر پابندی کبھی قبول نہیں کی۔ انہوں نے قیدی ہونے پر کبھی فطری یا شعوری آمادگی کا اظہار نہیں کیا۔ اس بات کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ’’ قید‘‘ یا  ’’ پابند‘‘  نہیں ہوئے لیکن ’’ قید ہونا‘‘  اور   ’’پابند ہونا‘‘  اور بات ہے جب کہ مقید اور پابند ہونے پر انفرادیت کو قربان کر دینا اور بات :

۱۳؎             بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیر  پا

موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

یہ شعر صاف ظاہر کرتا ہے کہ غالب جب قید یا پابند ہونے کی کیفیت سے گزرے تو یہ کیفیت اذیت انہیں انفرادیت کی سپردگی غیر پر رضا مند نہیں کر سکی۔ غالب مسلسل  ’’ آتش زیر پا‘‘  رہے۔ اذیتیں ان کی ہمت نہ توڑ سکیں، انہوں نے بہ ہر صورت اور بہ ہر قیمت اپنی انفرادیت کا تحفظ کیا۔ وہ جانتے تھے کہ جسم کو قید کیا جا سکتا ہے، خیال کو نہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنی انفرادیت کی بنیاد جسمانی آزادی کی بجائے ذہنی آزادی پر رکھی:

۱۴؎             احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے

زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا

درج بالا شعر جس غزل کا ہے اس کے مقطع میں غالب نے اپنا ذکر آزاد مرد کے الفاظ میں کیا ہے۔ وہ یقیناً ایک آزاد مرد تھے۔ انہوں نے جیتے جی خود کو پابند رسوم و قیود نہ ہونے دیا اور رسوم و قیود کی پابندی کرنے والے ہر انسان کو نشانہ تنقید بنایا لیکن اس مقطع کی خوبصورتی یہ ہے کہ پہلے مصرعے میں  ’’ نعشِ بے کفن‘‘  کی ترکیب یہ ظاہر کرتی ہے کہ غالب خود کو مرنے کے بعد بھی کسی رسم کا پابند نہیں دیکھنا چاہتے تھے:

۱۵؎             یہ نعش بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے! عجب آزاد مرد تھا

ہر سطح پر آزادی کی طرح غالب انفرادیت کی تعمیر کے لیے ظرف کی کشادگی پر یقین کامل رکھتے تھے۔ ظرف کی یہ کشادگی ان کی شاعری میں وسعت پذیری کی بے انت تمناؤں میں ظہور کرتی ہے۔ ایک طرح کی عدم اطمینانی جو ان کی شاعری میں سرایت کیے ہوئے ہے اس کے پس منظر میں موجود دیگر وجوہ کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں کوئی نعمت، کوئی رحمت، کوئی وسعت اپنے وسعت ظرف کے تقابل میں قابل تشفی محسوس نہیں ہوتی۔ کمی کا احساس ہر لمحہ ان کے وجود میں شامل رہا ہے۔ انہیں جو ملا وہ ان کے لیے کم تھا۔ مزید کی طلب انہیں کھنچتی رہی، تنگ دامانی، عدم سیرابی، نا تمامی، ناآسودگی، دائمی تشنگی یہ تمام کیفیات ان کی کشادہ ظرفی پر دال ہیں۔ ان کی کشادہ ظرفی نے ان کے لیے غم انگیز، اضطراب خیز اور کرب آمیز صورتیں پیدا کیں مگر ظرف سے کم پر راضی اور خوش ہونا ان کے انفرادیت پر ستانہ مزاج کو قطعاً منظور نہیں تھا     :

۱۶؎        دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا

یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

جس ظرف کے لیے دو جہاں کم پڑتے ہوں اس کی وسعتوں کو کون پا سکتا ہے غالب خود بھی اپنی وسعتوں کو متنوع جہتوں میں تلاش کرتے رہے اسی تلا ش کے نتیجے میں ان پر ظرف کی کشادگی آشکارا ہوئی یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ کشادگی وقت کے ساتھ کشادہ تر ہوتی گئی۔ کسی لمحہ خاص میں وہ جتنے پر راضی ہو سکتے تھے وقت گزرنے کے بعد اتنے پر راضی ہو نا بھی ممکن نہ رہا۔ ایک تشنگی جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہی، وقت کے ساتھ پھیلتی گئی اور بالآخر بے کنار ہو گئی۔ وہ اسی بے کنار تشنگی کو بہ صورت مضمون شعر باندھتے رہے مگر شعر واحد اس کا مکمل عکاس نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے یہ بے کنار تشنگی روپ رنگ بدل بدل کر بار بار ان کے کلام میں جلوہ افروز ہوتی نظر آتی ہے:

۱۷؎                نہ بندھے تشنگی شوق کے مضموں غالبؔ

گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

 

۱۸؎                  کب تلک پھیرے اسد لب ہائے تفتہ پر زباں

طاقت لب تشنگی اے ساقی کوثر نہیں

 

۱۹؎               پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دوچار

یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

 

۲۰؎            ہے دور قدح  وجہ پریشانی صہبا

یک بار لگا دو خم مے میرے لبوں سے

 

۲۱؎                مے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجئے

لیے بیٹھا ہے اک دو چار جام واژگوں وہ بھی

 

۲۲؎              ساقی گری کی شرم کرو آج ورنہ ہم

ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے

غالب کا یہ احساس تشنگی صرف  ’’ لب ہائے تفتہ ‘‘  تک محدود نہیں کیوں کہ جب لبوں کی تشنگی مٹ جاتی ہے تو یہ پیاس پورے وجود میں پھیل جانے والا احساس بن جاتی ہے  :

۲۳؎                گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

 

۲۴؎             دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک

میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

 

۲۵؎             بہ قدر حسرت دل چاہیے ذوق معاصی بھی

بھروں یک گوشہ دامن گر آب ہفت دریا ہو

 

۲۶؎              ہے ذرہ ذرہ تنگی جا سے غبار شوق

گر دام یہ ہے ، وسعت صحرا شکار ہے

 

۲۷؎              کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے

جس میں کہ ایک بیضہ مور آسمان ہے

 

۲۸؎                 ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

 

۲۹؎              ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

جس کی انفرادیت کے لیے دشت امکاں  ’’ ایک نقش پا‘‘  کی مار ہو وہ کسی دوسرے کی تقلید یا پیروی پر کیوں کر راضی ہو سکتا ہے۔ پھر جب یہ حقیقت بھی عیاں ہو کہ دوسرے کے نقوش پا  پر چل کر اس کی منزل تک تو پہنچا جا سکتا ہے اپنی منزل تک نہیں، تو اس صورت میں پیروی کے امکانات کم نہیں ختم ہو جاتے ہیں۔ غالب کے لیے پیروی کرنا، احساں اٹھانا ہے اور احسان کے بوجھ تلے انفرادیت دب جاتی ہے:

۳۰؎       دیوار، بار منت مزدور سے ہے خم

اے خانماں خراب ! نہ احساں اٹھایئے

اس لیے غالب دوسروں کی روشنیوں سے مرعوب نہیں ہوتے۔ دوسروں کی چمکتی دمکتی منزل ان کی نظر کو خیرہ نہیں کرتی۔ وہ اپنے رستے پر چل کر اپنی منزل تک پہنچنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ انہیں اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر حاصل کی ہوئی ناکامی کو دوسروں کی پیروی سے حاصل کی گئی کامیابی پر افضل سمجھتے ہیں کیوں کہ پہلی صورت میں انفرادیت قائم رہتی ہے جب کہ بہ صورت دیگر اسے ٹھیس پہنچتی ہے۔ وہ اس آبگینے کو بہ ہر صورت ٹھیس لگنے سے بچانا چاہتے ہیں :

۳۱؎                   اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو

آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

جب انفرادیت اس مقام تک پہنچ جائے تو دروں بینی کے علاوہ کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہتی۔ اس صورت میں  ’’ ہم ‘‘  پر  ’’میں ‘‘  کا غالب آ جانا لازم ہے۔ جب  ’’ میں ‘‘  اپنے خاص  ’’ زاویہ نظر ‘‘  سے بیروں بیں ہوتی ہے، تو عالم اور اس کے تمام مظاہر یہ صورت اختیار کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں :

۳۲؎                  بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اک کھیل ہے اورنگ سیلماں مرے نزدیک

اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور

جز وہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے

گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے

تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں

بیٹھا ہے بت آئینہ سیما مرے آگے

اس بت آئینہ سیما کا حال بھی دیکھ لیجئے:

۳۳؎              حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد

بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد

منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا

ہوئی معزولی انداز و ادا میرے بعد

خوں ہے دل خاک میں احوال بتاں پر یعنی

ان کے ناخن ہوئے محتاج حنا میرے بعد

در خور عرض نہیں، جوہر بے داد کو جا

نگہ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد

درج بالا شعروں میں  ’’ بت آئینہ سیما‘‘  کی حیثیت بھی  ’’ میں ‘‘  کے تناظر میں بالکل ثانوی ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسا صرف  ’’ بت آئینہ سیما ‘‘  کے ساتھ نہیں بل کہ غالب کی  ’’ میں ‘‘  کے تقابل میں کوئی بھی ہو، برتری کی حامل ہمیشہ ان کی  ’’میں ‘‘  ہی رہی ہے  :

۳۴؎                  دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں

کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے

لعل و زمرد و زر و گوہر نہیں ہوں میں

رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟

رتبے میں مہر و ماہ سے کم تر نہیں ہوں میں

کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لیے

کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں ؟

آخری مصرعے میں موجود استفہامیہ کا جواب تلاش کرتے ہوئے مصرعے میں موجود ’’ کے بھی ‘‘  جیسے الفاظ کو نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ الفاظ اس جانب بڑا واضح اشارہ ہیں کہ گر چہ آسمان میرے یعنی میری  ’’ میں ‘‘  کے تقابل میں کچھ بھی نہیں لیکن کیا تم مجھے اس کے برابر بھی نہیں سمجھتے؟ یہ استفہام ان لوگوں کے حوالے سے ابھر ا ہے جو غالب کی انفرادیت سے عدم آگاہ ہیں کیوں کہ وہ تو خود کو یقیناً آسمان سے برتر اور بالا تر تصور کرتے ہیں۔

انفرادیت کے حوالے سے خود آگاہی کی یہ سطح اور دوسروں کی یہ بے خبری فرد کے لیے باعث آزار بن جاتی ہے لیکن اسی سطح پر آزار تکلیف دہ ہونے کی بجائے لذت اندوز ہونے لگتے ہیں۔ غالب کے ہاں تو یہ لذت اندوزی اپنی انتہا پر دکھائی دیتی ہے۔ اس انتہا پر وہ خود کو حریص لذت آزار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں :

۳۵؎         وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریص لذت آزار دیکھ کر

آزار سے لذت کشید کر کے غالب زہر کو اپنے لیے امرت بنا دیتے ہیں۔ انفرادیت کی یہ جہت منفی ہوتے ہوئے بھی منفی نہیں کیوں کہ اگر وہ انفرادیت کے باعث آزار میں مبتلا ہونے کے بعد اس سے لذت کشید نہ کرتے تو بالآخر یہ آزار انہیں مغلوب کر کے انفرادیت کی سپردگی غیر پر مجبور کر دیتے۔ اس منفی جہت کے ذریعے بھی انہوں نے اپنی انفرادیت کا تحفظ کیا ہے، جو اس کا مثبت پہلو ہے۔ دوسری طرف ایذا پرستی نے غالب کی شاعری کو مضامین نو بھی دیئے اور بہت سے نئے استعارے اور علامات بھی عطا کیں جو اس منفی جہت کا دوسرا مثبت پہلو ہے۔ تاہم ان کی کشادہ ظرفی ایذا پرستی میں بھی اپنی جلوہ نمائی کرتی دکھائی دیتی ہے:

۳۶؎                 گرنی تھی ہم پہ برق تجلی نہ طور پر

دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر

غالب صرف آزار ملنے پر اس سے لذت کشید نہیں کرتے بلکہ آزار کی آرزو اور تمنا کرتے بھی نظر آتے ہیں، آزار کے آثار پیدا ہونے پر خوش بھی ہوتے ہیں، آزار نہ ملنے پر اس کا تقاضا بھی کرتے ہیں، کہیں کہیں تو ان کا مقصد حیات ایذا طلبی اور حسر ت لذت آزار دکھائی دیتا ہے۔ غرض طلب آزار، لذت آزار اور حسرت آزار کے انفرادی رنگ کلام غالب میں پوری نیرنگی سے اظہار پاتے ہیں :

۳۷؎          حسرت لذت آزار رہی جاتی ہے

جادہ راہ وفا جز دم شمشیر نہیں

 

۳۸؎             مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیے

یا بیاں کیجئے سپاس لذت آزار دوست

 

۳۹؎               بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں

طاقت بہ قدر لذت آزار بھی نہیں

 

۴۰؎             ملتی ہے خوئے یار نار الہتاب میں

کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں

 

۴۱؎              عشرت قتل گہ اہل تمنا مت پوچھ

عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

 

۴۲؎             ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر

 

۴۳؎             جز زخم تیغ ناز نہیں دل میں آرزو

جیب خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے

 

۴۴؎             نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں

ہے تقاضائے جفا شکوہ بیداد نہیں

 

۴۵؎             عشرت پارہ دل زخم تمنا کھانا

لذت ریش جگر، غرق نمکداں ہونا

 

۴۶؎                 ناگہاں اس رنگ سے خوننابہ ٹپکانے لگا

دل کہ ذوق کاوش ناخن سے لذت یاب تھا

 

۴۷؎             نہیں ذریعہ راحت، جراحت پیکاں

وہ زخم تیغ ہے جس کو کہ دل کشا کہیے

 

۴۸؎             زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن

غیر سمجھا ہے کہ لذت زخم سوزن میں نہیں

 

۴۹؎              رفوئے زخم سے مطلب ہے لذت زخم سوزن کی

سمجھیو مت کہ پاس درد سے دیوانہ غافل ہے

 

۵۰؎              سر کھجاتا ہے جہاں زخم سر اچھا ہو جائے

لذت سنگ پہ اندازہ تقریر نہیں

 

۵۱؎              دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا

زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آویں گے کیا

 

۵۲؎             مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے

پر گل خیال زخم سے دامن نگاہ کا

 

۵۳؎            دل حسرت زدہ تھا مائدہ لذت درد

کام یاروں کا بہ قدر لب و دنداں نکلا

 

۵۴؎             بس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائے گی

یہ جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے

 

۵۵؎             طبع ہے مشتاق لذت ہائے حسرت کیا کروں

آرزو سے ہے شکست آرزو مطلب مجھے

جب ’’آرزو‘‘  سے  ’’ شکست آرزو‘‘  مطلب ہو تو آزار عذاب کی بہ جائے انتخاب بنتے محسوس ہوتے ہیں۔ غالب نے آزار سے جس طرح لذت کشید کی اور جس حسرت سے اس کی آرزو اور تمنا کی وہ ان کی انفرادیت کا تعجب خیز اور حیرت انگیز پہلو بن کر سامنے آتا ہے۔

غالب کی انفرادیت کا ایک اور تعجب خیز اور حیرت انگیز پہلو ان کی ظرافت اور طنز ہے۔ انہوں نے ظرافت اور طنز کو جس سنجیدگی سے اپنے کلام میں برتا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طنز و مزاح ان کے لیے محض تفریح نہیں بلکہ فکر کا خاص زاویہ ہے، حقائق تک رسائی کا زینہ ہے، زندگی کو سمجھنے کا سلیقہ اور قرینہ ہے۔ طنز و مزاح کے ذریعے بھی غالب اپنے انھی مقاصد کو حاصل کرتے نظر آتے ہیں جو ان کے سنجیدہ یا رنجیدہ طرز کلام کا خاصا ہے۔ بہ قول ڈاکٹر وزیر آغا:

۵۶؎    ’’احساس مزاح کی خوبی یہ ہے کہ وہ فرد کی انفرادیت کو مکمل کرتا ہے اور اسے رجحانات اور مقاصد نیز اپنی انا کی مجہولیت پر ہنسنے کی ترغیب دیتا ہے۔ غالب کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنی انفرادیت کا بھرپور اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کو نشانہ تمسخربھی بنایا اور اپنے جذباتی تقاضوں پر مسکرانے کی روش بھی اختیار کی اور یوں ذات کے حصار سے باہر آ کر خود اپنی انفرادیت میں ایک نئی سطح کا اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ‘‘

 

۵۷؎             میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

 

۵۸؎      عشق نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

 

۵۹؎                    میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی

لکھ دیا منجملہ اسباب ویرانی مجھے

 

۶۰ ؎       چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

 

۶۱؎              در پہ رہنے کو کہا اور کہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا

 

۶۲؎               بہرہ ہوں میں تو چاہیے دونا ہو التفات

سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر

 

۶۳؎     میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

جدیدیت، انفرادیت کی تعمیر اور تحفظ کو جو اہمیت دیتی ہے وہ غالب کے کلام میں پوری آب و تاب اور رعنائی و توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ ان  کی شاعری میں انفرادیت کے شعور، اظہار، آزادی اور تحفظ کے وہ سارے پہلو سمٹ آئے ہیں جو جدید شاعری کے لیے امتیاز بھی ہیں اور افتخار بھی بل کہ ان کے ہاں تو ’’لذت آزار‘‘  اور سنجیدہ شاعری میں طنز و مزاح کے عناصر کی تحلیل جیسے اوصاف کو انفرادیت کے حوالے سے جدید شاعری میں اضافہ قرار دیا جانا چاہیے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اس وقت شاعری میں ایک انفرادی شخصیت کی جلوہ نمائی کو ضروری خیال کیا جب فرد کی شخصیت اجتماع کے رجحانات، عقائد، اقدار اور تصورات کے زیر اثر پروان چڑھ رہی تھی۔ اجتماع سے ہٹ کر اور کٹ کر اپنے انفرادی نقوش کو تلاش کرنا، انہیں ابھارنا اور قابل رشک بنا دینا یقیناً ایک ایسے ہی جدید ذہن کا کام ہو سکتا تھا جیسا کہ قدرت نے انہیں عطا کیا تھا۔ اس لیے اگر جدیدیت اور انفرادیت کے ربط باہم کے حوالے سے غالب کو جدید شاعری کا نقشِ اول قرار دیا جائے تو یہ دعویٰ مبالغہ نہیں بلکہ عین حقیقت ہو گا کیوں کہ:

۶۴؎       ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں

 

                   حوالہ جات

 

۱۔ محمد حسن عسکری، ۲۰۰۰،  ’’مجموعہ محمد حسن عسکری‘‘ ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ص۱۱۹۸

۲۔ شمیم حنفی، ڈاکٹر،  ’’جدیدیت اور سائنسی عقلیت‘‘ ، مشمولہ، جدیدیت کا تنقیدی تناظر، (مرتب:اشتیاق حمد)، لاہور، بیت الحکمت، ۲۰۰۶، ص۴۰

۳۔ ایضاً، ص۱۸۸

۴۔ غلام رسول مہر، مولانا، اشاعت اول۱۹۶۷ء،  ’’دیوان غالب(مکمل)‘‘ ، لاہور، شیخ غلام علی اینڈسنز، ص۲۱

۵۔  ایضاً، ص۱۴۱

۶۔  ایضاً، ص۱۳۹

۷۔  ایضاً، ص۲۱۱

۸۔  ایضاً، ص۱۷۳

۹۔  ایضاً، ص۲۷۸

۱۰۔ کالی داس گپتا رضا، ۹۶۔ ۱۹۹۷ء،  ’’دیوان غالب کامل‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ص۱۹۹

۱۱۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۴۳

۱۲۔  ایضاً، ص۹۴

۱۳۔ ایضاً، ص۲۰

۱۴۔ ایضاً، ص۲۷

۱۵۔  ایضاً، ص۲۷

۱۶۔ ایضاً، ص۱۴۳

۱۷۔ ایضاً، ص۵۵

۱۸۔ ایضاً، ص۱۶۴

۱۹۔ ایضاً، ص۲۳۶

۲۰۔ ایضاً، ص۱۸۴

۲۱۔ ایضاً، ص۱۸۳

۲۲۔ ایضاً، ص۲۱۰

۲۳۔ ایضاً، ص۲۶۵

۲۴۔ ایضاً، ص۶۴

۲۵۔ ایضاً، ص۱۶۲

۲۶۔ ایضاً، ص۲۸۲

۲۷۔ ایضاً، ص۱۸۷

۲۸۔ ایضاً، ص۲۷۶

۲۹۔ حمید احمد خان، طبع دوم۱۹۹۲،  ’’دیوان غالب (نسخہ حمیدیہ)، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص۳۳

۳۰۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۱۸۰

۳۱۔  ایضاً، ص۱۹۸

۳۲۔  ایضاً، ص۲۶۴

۳۳۔  ایضاً، ص۸۳

۳۴۔  ایضاً، ص۱۴۸، ۱۴۹

۳۵۔  ایضاً، ص۹۰

۳۶۔ ایضاً، ص۹۰

۳۷۔ ایضاً، ص۱۲۸

۳۸۔  ایضاً، ص۸۰

۳۹۔  ایضاً، ص۱۵۳

۴۰۔  ایضاً، ص۱۳۲

۴۱۔  ایضاً، ص۴۱

۴۲۔ ایضاً، ص۹۰

۴۳۔ ایضاً، ص۲۷۸

۴۴۔  ایضاً، ص۱۴۱

۴۵۔  ایضاً، ص۴۱

۴۶۔  ایضاً، ص۳۸

۴۷۔  ایضاً، ص۲۶۶

۴۸۔ کالی داس گپتا رضا،  ایضاً، ص۲۷۰

۴۹۔ ایضاً، ص۱۷۰

۵۰۔  ایضاً، ص۲۳۶

۵۱۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۴۳

۵۲۔  ایضاً، ص۷۱

۵۳۔ ایضاً، ص۲۵

۵۴۔  ایضاً، ص۲۰۷

۵۵۔  ایضاً، ص۲۵۸

۵۶۔ وزیر آغا، ڈاکٹر،  ’’غالب ایک جدید شاعر‘‘ ، مشمولہ، صحیفہ(غالب نمبر)، لاہور، جنوری۱۹۹۹، ص۴۰۹

۵۷۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۱۶۱

۵۸۔  ایضاً، ص۲۳۸

۵۹۔  ایضاً، ص۲۵۷

۶۰۔  ایضاً، ص۲۴۴

۶۱۔  ایضاً، ص۳۶

۶۲۔ ایضاً، ص۸۸

۶۳۔  ایضاً، ص۲۱۳

۶۴۔  ایضاً، ۳۰۶

٭٭٭

 

 

 

 

جدیدیت، وجودیت اور غالب

 

جدیدیت کا شمار ان تحریکات میں کیا جاتا ہے جن میں اخذ و استفاد کا سلسلہ روزِ اول تا آخر جاری رہا ہے۔ جدیدیت نے اپنے آغاز سے تا حال بے شمار افکار کو اپنے دامن کشادہ میں جگہ دی ہے۔ اس تحریک کی تازگی و توانائی بڑی حد تک اسی رویے کی مرہون منت ہے۔ تاہم ہر اہم تحریک کی طرح اخذ و استفاد کا سلسلہ جدیدیت کی اساس سے ہم آہنگی کی بنا پر تسلسل قائم کئے ہوئے ہے۔ جدیدیت نے فکریات سے استفادے کے سلسلے میں تحدیدات کو نظر انداز کرتے ہوئے وسیع المشربی کا اظہار کیا ہے۔ علوم و فنون سے وسعت کشید میں جدیدیت کا کوئی ثانی نہیں۔ جدیدیت نے جن بڑی اور اہم تحریکوں سے بہ کثرت استفادہ کیا ان میں وجودیت کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ جدیدیت کا وجودیت سے وسیع پیمانے پر استفادہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جدیدیت کی اساس وجودیت کی اساس سے مماثلتوں کا ایک وسیع سلسلہ رکھتی ہے۔

جدیدیت اپنی اساس میں  ’’روایت شکن ‘‘ تحریک ہے۔ روایت کو جدیدیت انفرادی (ذاتی)تجربے کے منافی تصور کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں روایت جدیدیت کے نزدیک اجتماعی تجربے کی وہ صورت ہے جو تخلیقی توانائی کھو چکی ہے۔ جدیدیت اجتماع کے برعکس فرد کے تجربے کی قائل ہے۔ اس تجربے کے لیے جدیدیت خارج کی بجائے فرد کو اپنے داخل سے جوڑتی ہے جہاں اقدار و اعتقادات کے بر خلاف اس کا رشتہ اپنے جذبات و احساسات سے قائم ہو جاتا ہے۔ یہیں فرد کو وہ روشنی حاصل ہوتی ہے جو اس پر وجود کے انفرادی خدوخال روشن کرتے ہوئے ذاتی تجربے کی بنیاد بنتی ہے۔

وجودیت کو بھی مسلم، مستند اور معتبر روایتی فکر ی سلسلوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والی تحریکوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ انفرادی وجود کی تلاش، اپنے جوہر کی کھوج نیز اپنے جذبات و احساسات کی روشنی میں اپنے انتخاب و عمل کی آزادانہ جستجو، وجودیت کے اساسی تصورات ہیں جنہیں جدیدیت نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔

جدیدیت اور وجودیت دونوں نے مطالعہ ء انسان کے لیے اس کی مجموعی / نوعی حیثیت کی بجائے اس کی انفرادی حیثیت کو منتخب کیا ہے۔ دونوں کے لیے انسان کوئی مطلق حقیقت نہیں جس کے مطالعہ کے لیے پہلے سے قائم کوئی نظام کام دے سکے بلکہ وہ تو ایک تکمیل پذیر وجود ہے جس کے بارے حتمی رائے وہ خود بھی قائم نہیں کر سکتا۔ وجود کی تکمیل کا یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ نتیجتاً وجود کی کوئی تعریف ممکن نہیں۔ انسان وہی کچھ ہے جو وہ ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اظہار کے لیے کسی رسم، رواج، روایت یا نظام کا پابند نہیں، وہ آزاد ہے یہی آزاد انسان بہ صورت فرد جدیدیت اور وجودیت کے تصورات کا مرکز ہے۔ جو جدیدیت کے وجودیت سے استفاد کی بنیاد بنتا ہے۔ یہاں وجودیت کے تصورات کا اجمالی جائزہ پیش کیا جاتا ہے جنہیں جدیدیت کی تحریک میں بھی باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

بحیثیت فکری تحریک وجودیت نے مظہریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے دونوں تحریکوں کے اس قریبی تعلق کے باوجود ان کا افتراق اساسی نوعیت رکھتا ہے۔ مظہریات جو ہر کو وجود پر مقدم گردانتے ہوئے تمام تر اہمیت جوہر کو تفویض کرتی ہے جب کہ وجودیت وجود کو جوہر پر تقدم دیتی ہے اور وجود کو اپنے جوہر کا خالق سمجھتی ہے۔

۱؎       ’’وجودیت معمولات زندگی اور انسانی روز مرہ سے ابھر کر سامنے آنے والا وہ  ’’جذبہ و احساس‘‘  ہے جس نے بالآخر ایک فکری تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ فرد موجود کے آزادانہ انتخاب و اختیار کا معاملہ ہے جس کے تحت ایک انسانی وجود ایک وجود محض سے معاشرتی زندگی کی مختلف سطحوں سے گزرتا ہوا، نبرد آزما ہوتا ہوا، کندن بن کر، بنتا سنورتا ہوا، آپ اپنے جوہر یا وصف کو دریافت کر کے اس جوہر سے متصف ہو کر  ’’ وہ کچھ بنتا ہے ‘‘  جو  ’’ وہ بننا چاہتا ہے ‘‘ ۔ گویا ایک انسانی فرد جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے اس  ’’ہونے‘‘  میں اس کی مرضی و اختیار کا بڑا دخل ہوتا ہے  جب کہ وجودیت کے برعکس مظہریات کا نقطہ نظریہ ہے کہ انسانی وجود کے اندر اس کا وصف یا جوہر پہلے سے موجود ہوا کرتا ہے جو اس میں خوابیدہ ہوتا ہے، بس اسے اکسانے کی، اس میں تحریک پیدا کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ گویا مظہریات جوہر یا وصف کی دریافت پر یقین نہیں رکھتی ہے بلکہ اسے پہلے سے موجود مانتی ہے۔ ‘‘

مشہور قول  ’’ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں ‘‘  وجود پر جوہر کے تقدم ہی کا اظہار ہے جب وجودیت اس قول کے برعکس  ’’ میں ہوں اس لیے سوچتا ہوں ‘‘  کے نظریے کی حامل ہے۔ وجودیت نے سب سے پہلے وجود کے جوہر پر مقدم ہونے کا تصور پیش کیا۔ اس تصور کے نتیجے میں تمام انسانوں کو منسلک و مربوط کرنے والے تقدم جوہر کے تصور کا خاتمہ ہو گیا۔ نتیجتاً فرد جسے ہمیشہ اجتماع کا جز و سمجھ کر مطالعہ کیا جاتا رہا اب ایک واحد اور آزاد اکائی کے روپ میں جلوہ گر ہوا۔ وجودیت کا وجود کو آزاد اور واحد اکائی کے روپ میں پیش کرنا اور اسے جوہر پر تقدم دینا گزشتہ فکری رجحانات کے اعتبار سے قطعی نیا وژن تھا۔

وجودیت سے قبل وجود کو اجتماع کے جز و کے طور پر موضوع بنایا جاتا تھا اور انسان کے ظاہری وجود نیز مجموعی تشخص کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ وجودیت نے وجود کو اس مفہوم کے برعکس نیا مفہوم دیا مگر وجود کے لفظ کو وسیع تر تناظر کی بجائے  ’’ فرد کے وجود ‘‘  کے معنی میں استعمال کرتے ہوئے پہلی بار یہ احساس اجاگر کیاکہ انسان کا حقیقی وجود اس کے ظاہر سے نہیں بلکہ اس کے باطن سے تعلق رکھتا ہے۔ وجودیت نے خیالات اور احساسات کو محض اس وجہ سے بامعنی قرار دیا کہ ہر خیال اور احساس براہ راست وجود سے متعلق ہوتا ہے اسی وجہ سے بامعنی بھی ہوتا ہے۔ انسان پہلے  ’’ موجود ‘‘  ہوتا ہے، پہلے وجود پذیر ہوتا ہے، بعد میں اپنے جوہر کی تشکیل کرتا ہے۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنا کوئی ایسا تصور پیش کرے جو کہیں بعد کے زمانے میں ظہور پذیر ہو۔ وجود کی کوئی تعریف ممکن نہیں کیوں کہ انسان ہر لمحہ اپنے وجود کی تکمیل کرتا رہتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی تعریف پیش نہیں کی جا سکتی جو وجود کو اس کے آخری تکمیلی لمحے تک بیان کر سکے۔ نوع انسانی بہ حیثیت مجموعی وجودیت کے لیے اس وجہ سے قابل غور نہیں کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔ تمام انسانوں کو جوہر کے ذریعے منسلک کرنا تو ممکن ہے لیکن وجود کی تعریف کے ذریعے ا یسا کرنا ممکن نہیں کیوں کہ وجود کی تعریف کرنے کا مطلب  ’’جوہر ‘‘  کا بیان ہو گا۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ کل کیا ہو گا، صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ آدمی کا وجود وہی ہے جو وہ خود کو بتاتا ہے۔ زندگی جاری ہے، وجود تکمیل پذیر ہے، اس لیے پہلے سے قائم کیے گئے کسی نظریے کی مدد سے وجود کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔

۲؎      ’’لفظ وجودیت کا مفہوم کیا ہے ؟ یہ ہر قسم کے محض تجریدی، منطقی و سائنسی فلسفہ کی نفی ہے۔ یہ عقل کی مطلقیت سے انکار ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ فلسفہ کو فرد کی زندگی، تجربے اور اس تاریخی صورت حال سے گہرے طور پر مربوط ہونا چاہئے جس میں فرد  خود کو پاتا ہے۔ فلسفہ ظن و تخمین کا کھیل نہیں، بلکہ ایک طرز حیات ہے۔ یہ سب کچھ لفظ و جود میں مضمر ہے۔ وجود ی اعلان کرتا ہے کہ میں معروضی دنیا کی بجائے صرف اپنے حقیقی تجربے ہی کو جانتا ہوں۔ اس کے نزدیک ذاتی ہی حقیقی ہے۔ اس لیے فلسفے کا آغاز اس کی زندگی، تجربے اور ذاتی علم سے ہونا چاہئے۔  وجودیت فرد کی بے مثل انفرادیت پر اصرار کرتے ہوئے فطرت اور طبعی دنیا کی مجموعی خصوصیات کے مقابلے میں انسانی وجود کو بنیادی حیثیت دیتی ہے۔ وہ انسان کے چند اساسی موڈز جیسے بوریت، ناسیا، خوف اور تشویش وغیرہ پر خصوصی توجہ دیتی ہے جو انسان کی مطلق فطرت اور کائنات سے اس کے تعلق کے بارے میں سوالات پیدا کرتے ہیں۔ ‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ وجودیت کا مرکز مطالعہ انسان ہے۔ تاہم یہ انسان نوعی نہیں، انفرادی حیثیت کا حامل ہے۔ مطلق فطرت اور کائنات سے تعلق کے حوالے سے وجودیت کے تمام مباحث انسان کی انفرادی حیثیت کے گرد گھومتے ہیں۔ انفرادی حیثیت میں انسان کا یہ مطالعہ اس کے ذہن اور عقل کی بجائے اس کے جذبات و احساسات سے بحث کرتا ہے۔ وجودیت جذبات و احساسات کی مختلف صورتوں کو نفسیاتی سے زیادہ وجودی گردانتی ہے۔ اس لیے ذہن اور عقل کے مطالعے کے برعکس جو کاملیت تک رسائی کی تمنا میں حقیقت کے قریب پہنچنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ وجودیت ان جذبی کیفیات کے مطالعے کو اہمیت دیتی ہے۔ جن کا تعلق براہ راست انسان کی اصل حقیقت سے ہوتا ہے۔ وجودیت کے لیے انسان کی اصل حقیقت اس کا ظاہر نہیں اس کا باطن ہے۔ جب کہ باطن کی صورت پذیری میں کلیدی کردار کے حامل ذہن و عقل نہیں بلکہ جذبات و احساسات ہیں۔ اس لیے وجودیت کی حد تک انسان اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے ظاہر سے زیادہ باطن سے متعلق ہے۔ نیز باطن اپنی صورت پذیری میں عقل سے زیادہ جذبے کے زیر اثر ہے۔ وجودیت کے نزدیک انسان کا یہ انفرادی تصور اس کے نوعی تصور کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔

۳؎      ’’انسان بہ حیثیت ایک نوعی انسان کے تمام اشیاء کا پیمانہ نہیں بلکہ ایک انفرادی فرد ہی تمام اشیاء کا پیمانہ ہوتا ہے۔ گویا ایک وجودی کے نزدیک  ’’ نوعی انسان ‘‘  کو تمام اشیاء کا پیمانہ قرار دینا محض ایک دکھاوے اور بڑھ چڑھ کے بات کرنے کے مترادف کوئی بات ہے۔ یہ محض ایک خوش فہمی اور فوسودہ خیالی ہے جس سے سوائے  ’’ خالی خولی خوش ہو جانے ‘‘  کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں۔ چنانچہ جب ایک وجودی یہ کہتا ہے کہ انسان خود بھی ایک پیمانہ ہے تو اس کے اس قول سے مراد کل بنی نوع انسان نہیں ہے بلکہ وجودی نظریے کے تحت ایک  ’’ فرد واحد ‘‘  ہی صرف تمام اشیاء کا پیمانہ ٹھہرتا ہے  اور خاص طور پر تمام تر اقدار کا پیمانہ انسانی فرد ہے، نوع انسانی نہیں۔ وجودی کہتے ہیں کہ زندگی اصل میں پسند و ناپسند، انتخاب و اختیار، رد و قبول کا ایک مسلسل و متواتر عمل ہے کیونکہ تمام تر انسانی فیصلے یا رد و قبول کی تمام صورتیں اپنے آخری تجزیئے میں بہرحال ماہیت کے اعتبار سے شخصی اور انفرادی ہوا کرتے ہیں، نوعی نہیں ہوتے۔ وجودی کہتے ہیں کہ یہ ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص آپ اپنی زندگی کو… ’’ فیصلوں کی پل صراط سے گزارتا رہتا ہے۔ ہمارے فیصلے خالص نجی اور شخصی فیصلے ہوتے ہیں جنہیں ہم صبح و شام، ساعت … ساعت اور لمحہ بہ لمحہ زندگی کرتے ہوے وقت کی صلیب پر رکھ کر، اندیشوں و خطرات سے قطع نظر کر کے، امیدو بیم کی کیفیت میں رہتے ہوئے، سرا سیمگی و احتیاط کی داخلی فضا میں کیا کرتے ہیں۔ وجودی کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں وہ ہی فیصلہ یا انتخاب کرتا ہے کہ جس کی جانب وہ طبعاً خود کو مائل  وراغب پاتا ہے۔ اپنے اس انفرادی انتخاب کو بار آور اور کارآمد بنانے کے لیے ایک وجودی اپنا ’’ تن من دھن ‘‘  سب ہی کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ وجودیوں کے نزدیک انسانی زندگی کا منصوبہ ہے۔ گویا ہم میں سے ہر شخص آپ اپنی زندگی کا معمار ہے۔ غرضیکہ وجودیوں کے نزدیک پوری انسانی صورت حال کے دوران ایک انفرادی انسانی وجود کے یہاں  ’’فیصلے کی گھڑی‘‘  جہاں ایک طرف اس کے لیے زندگی کے سب سے بڑے کرب سے گزر جانے کی یا صبر و استقلال کی گھڑی ہوتی ہے۔ وہیں دوسری طرف فیصلے کی یہی گھڑی، ذرا سی بھول چوک کے ہاتھوں نہ صرف یہ کہ اس ایک فرد واحد کو بلکہ اس فرد سے وابستہ قوموں کو بھی، تاریخ کے اعلیٰ ترین کمال و عروج یا پھر انسانی زوال پذیری کے بد ترین نقطہ منتہا تک پہونچا سکتی ہے۔ وجودی کہتے ہیں کہ  زوال آدم/ ہبوط آدم کی پوری داستان ہمارے سامنے ہے۔ ایک لغزش اول، ایک لغزش دایم کی صورت میں، آج تک  ’’موت کی دہشت ‘‘  بن کر ہمارے ساتھ سائے کی طرح لپٹی ہوئی ہے اور انفرادی انسانی صورت حال ہمہ وقت موت سے تو خیر و ابستہ ہے ہی، دہشت موت کے ایک کبھی نہ ختم ہونے والے احساس کی  ’’ غیر تصینیت‘‘  کی زد میں بھی رہا کرتی ہے۔ غرضیکہ وجود یوں کے یہاں آزادی، ذمہ داری خود عہدی یا کومٹ منٹ نیز ہستی و لاشئیت کا تصور یہ سب ہی کچھ ان کے اسی انفرادی انسانی وجود کی بے پناہ اہمیت کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے۔ چنانچہ اسی انفرادی انسانی وجود کو  ’’ مصدقہ‘‘  اور  ’’ غیر مصدقہ ‘‘  انسانی صورت حال میں رکھ کر دیکھنے کا نام  ’’ وجودیت ‘‘  ہے۔ ‘‘

وجودیت، معروضیت کے برعکس تمام تر اہمیت موضوعیت کو دیتی ہے۔ اس اہمیت کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ فرد اپنی زندگی کا خود مالک ہے۔ وہ کسی بیرونی، خارجی یا آسمانی قوت کے سامنے مجبور نہیں، وہ اپنے ارادے اور فیصلے میں آزاد اور خود مختار ہے ، یعنی آزادی اور مختاریت وجود کو وہ بلندی عطا کرتی ہے جو وجودیت سے پہلے فرد کو حاصل نہیں تھی۔ تاہم ارادے اور فیصلے کی آزادی فرد کے عمل کو اہم بنا دیتی ہے۔ وجودیت اسی لیے نظریات کی بجائے فرد کے اعمال کو زیادہ اہم گردانتی ہے۔ یعنی اعمال وجود کی قابلیت ظاہر کرتے ہیں۔ فرد عمل کے لیے آزاد ہے یہ آزادی فرد کو نتائج کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار بنا دیتی ہے۔ یہاں یہ ذمہ داری صرف فرد تک محدود نہیں کیوں کہ جب فرد کوئی انتخاب کرتا ہے تو وہ انتخاب صرف اس کے لیے نہیں بلکہ نوع انسانی کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں موضوعیت میں انسانی موضوعیت کی شمولیت ذمہ داری کے احساس کو دوہرا کر دیتی ہے۔ یعنی فرد کی آزادی بے لگام نہیں بلکہ زیادہ ذمہ دارا نہ ہے۔

وجودیت، آزادی، خود مختاریت اور ذمہ داری کا نام ہے۔ جب ہم ایک ایسی ہستی کا تصور رد کر دیتے ہیں جو انسان کی تخلیق کے لیے ذمہ دار ٹھہرتی ہے تو تمام تر ذمہ داری انسانی وجود پر آ پڑتی ہے اور اپنے عمل کے لیے وجود اپنی ذات سے باہر کوئی جواز مہیا نہیں کر سکتا۔ وہ ا پنے عمل کے لیے خود ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے عمل کے لیے کسی اضطراری جذبے کو بھی مورد الزام نہیں سمجھ سکتا کیوں کہ وہ اپنے جذبے کے لیے بھی خود ذمہ دار ہے اور جذباتی رد عمل میں بھی ایک طرح کے انتخاب کا اظہار شامل ہوتا ہے۔

آزادی، خود مختاریت اور ذمہ داری کے احساسات ایک طرف وجود کو وقار اور بلندی عطا کرتے ہیں تو دوسری طرف اسے کرب، بے کسی، مایوسی اور تنہائی جیسے احساسات سے بھی دو چار کر نے کا باعث بن جاتے ہیں۔

فرد جب اپنے اعمال کے لیے خود کو ذمہ دار تصور کرتا ہے تو نوع انسانی کی ذمہ داری بھی اس احساس میں شامل ہو جاتی ہے۔ ذمہ داری کا یہی دوہرا احساس اس کے لیے کرب کا باعث بن جاتا ہے جو فیصلہ کرنے کے عمل کو اس کے لیے مشکل بنا دیتا ہے فرد جب اپنے لیے کوئی انتخاب کرتا ہے تو اس انتخاب میں یہ بات شامل ہو تی ہے کہ جو چیز وہ اپنے لیے پسند کرے وہ دوسروں کے لیے باعث خیر ہو۔ اس طرح اس کا انتخاب صرف اس کے لیے نہیں رہتا بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے انتخاب کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ یہی احساس ا س کرب کا باعث بنتا ہے جس کا ذکر وجودی بہ کثرت کرتے ہیں۔

وجودی مفکرین بے کسی کا لفظ بھی کثرت سے استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم فرد پر اپنے اعمال اور اس کے نتائج کی مکمل ذمہ داری عائد کرتے ہیں اور جب آزادی اور انسان کو مترادفات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس طرح خدا کے وجود کی نفی ہوتی ہے۔ خدا کے وجود کی نفی کے ساتھ ان مذہبی معیارات کا تصور بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جن پر فرد اپنے اعمال کو پرکھ سکتا ہے۔ نتیجتاً سہارے کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ آدمی کے اندر یہ شعور پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی کے آگے نہیں بلکہ اپنے آگے جواب دہ ہے۔ یہی آگاہی اسے بے کس ہونے کا احساس دلاتی ہے۔

مایوسی، خدا کے وجود کے انکار کا لازمی نتیجہ ہے یقینی موت، مایوسی کے اس احساس میں شدت پیدا کرتی ہے کیوں کہ فرد سے یہ یقین چھن جاتا ہے کہ اس کے مقاصد اس کی زندگی میں پورے ہو سکیں گے یا نہیں۔ یہ احساس بے عملی کی بجائے عمل پر اکساتا ہے۔ فرد زیادہ فعال روپ میں سامنے آتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اسے جو کچھ کرنا ہے اپنی زندگی میں کرنا ہے۔ اس کے وجود کی تکمیل عمل سے مشروط ہے۔ اس لیے وہ اپنے شروع کیے ہوئے کاموں کو اپنی زندگی میں مکمل کرنے کی سچی جستجو کرتا ہے۔ تاہم موت کا خوف فرد کے لیے سب سے بڑے خوف کی حیثیت رکھتا ہے۔ وجودیت اس خوف سے نجات پانے کے لیے اسے وجود کا لازمی جزو بنانے پر زور دیتی ہے۔ کیوں کہ جب موت کو وجود کا حصہ تسلیم کر لیا جائے گا تو پھر خوف ہر لمحے سے وابستہ ہو کر احساس بے چارگی اور مایوسی کی جگہ خواہش کا روپ دھار لے گا۔ فرد یہ سوچنا شروع کر دے گا کہ اسے جو کچھ کرنا ہے اس مختصر زندگی میں کرنا ہے۔ اس کی خواہشوں اور مقاصد کو کوئی دوسرا فرد پورا نہیں کرے گا۔ کیوں کہ اس کے سامنے اپنے وجود کے تقاضے ہوں گے لہٰذا اس سے اپنی خواہشات کے احترام کی توقع نہیں جا سکتی۔ یہی آگہی وجودیت کے تناظر میں مایوسی کا موجب بنتی ہے۔

وجودیت کے حوالے سے اساسی اہمیت کے حامل احساسات میں سے ایک تنہائی بھی ہے۔ وجودیت انسان کے مجموعی /نوعی تشخص کے برعکس اس کی انفرادی حیثیت کو اہم گردانتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت فرد کی پروا نہیں کرتی اور فرد جب جماعت سے بے نیاز ہو کر اوپر اٹھنے کی جستجو کرتا ہے تو تنہائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ تاہم تنہائی کا یہ احساس موضوعیت کے لیے ضروری ہے۔ جماعت سے الگ ہو کر ہی وجود کی تکمیل ممکن ہے۔ تنہائی وجود کا جزو لازم ہے، یہی وجود کے لیے اپنے اثبات کا ذریعہ بنتی ہے۔ تنہائی فرد کو اپنے فیصلے کے لیے خود مختار بنا کر اسے وہ وقار عطا کرتی ہے جو وجودیت سے پہلے اسے حاصل نہیں تھا۔ تنہائی ہی فرد کی شناخت بھی ہے اور اس کی تکمیل بھی۔ مختصراً یہ کہ وجودیت کے نزدیک

۴؎      ’’انسان آپ اپنا خدا ہے… اس لیے کہ وہ اپنا جوہر اور اپنی فطرت خود مقرر کرتا ہے اور اپنے اور دوسروں کے لیے اقدار کا تعین خود کرتا ہے۔ اب چونکہ اس اہم ترین فریضے کو اسے اکیلے ہی انجام دینا ہے اور کسی مافوق البشر ذات یا کسی مطلق قدر کی رہنمائی میں اسے یہ کام نہیں کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ اپنے افعال کا خود ذمہ دار ہے اس لیے اس مقام پر اسے اس کیفیت کا تجربہ ہوتا ہے۔ جسے  ’’کرب‘‘  کہتے ہیں۔ وہ خدا تو ہے مگر پا بہ زنجیر! وہ یہ کام کرنے پر مجبور ہے۔ خدائی کا یہ فریضہ انجام دینا اس کے اپنے آزادانہ انتخاب کا نتیجہ نہیں ہے پھر بھی اسے یہ کام کرنا ہے، بہرصورت کرنا ہے۔ چنانچہ انہی کربناک حالات کے نتیجے میں وہ اس کس مپرسی، بیچارگی اور یاس کا شکار ہوتا ہے جو اسے یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ

’’ میں اپنے آپ کو اس بھری دنیا میں بغیر کسی مدد کے پاتا ہوں۔ اس دنیا کی پوری پوری ذمہ داری مجھ پر ہے۔ میں کسی طرح بھی اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا۔ کیونکہ ذمہ داری سے بچنے کی خواہش کی ذمہ داری مجھ ہی پر عائد ہوتی ہے۔ ‘‘

چنانچہ وجودی مفکرین کے ہاں ڈر، خوف، دہشت، یاس اور بیچارگی کے جو احساسات ملتے ہیں ان کا ماخذ انسان کی آزادی اور ذمہ داری ہے۔ ‘‘

جدیدیت کی طرح وجودیت کی تحریک بھی زمانہ غالب کی تحریک نہ تھی مگر کلام غالب میں وجودی طرز کے جذبات و احساسات وافر مقدار میں موجود ہیں یہاں وجودیت کے حوالے سے افکار کا لفظ شعوری طور پر استعمال نہیں کیا گیا کیوں کہ وجودی خود وجودیت کو نظام افکار تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے جذبات و احساسات کی ایک صورت سمجھتے ہیں۔ بہ ہر حال یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر وہ کیا تناظر تھا جس نے غالب کو ایک ایسے وقت میں وجودیت کے قریب کر دیا تھا جب ابھی اس تصور کو تحریک کی شکل حاصل نہیں ہوئی تھی۔

۵؎      ’’اگر ہم غالب اور وجودیت کے سماجی اور تاریخی حالات پر غور کریں تو دونوں میں گہری مماثلت پائیں گے۔ وجودیت کی تحریک دو بڑی جنگوں کے بعد ابھر ی جب انسانی خون کی کوئی قدرو قیمت نہ رہی اور جنگ کے شعلوں نے شہروں کے شہر راکھ کر ڈھیر بنا ڈالے تو مطلقیت پسندانہ فلسفیوں کے خلاف رد عمل پیدا ہوا اور فرد کی انفرادیت کو بچانے کا قوی رجحان ابھرا۔ وہ بڑے بڑے آدرش جن کے پیچھے، قومی وابستگیاں اور سیاسی مفادات پوشیدہ تھے اور جن کی بھینٹ ہزاروں لاکھوں انسانی جانیں چڑھ چکی تھیں، حساس مفکرین کی نظروں سے گر گئے۔ انہوں نے گروہی اور قومی مفاد اور اجتماعی نظام کو بچانے کی بجائے فرد اور اس کی انفرادیت کو بچانے کی مہم شروع کر دی۔ غالب نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو اپنے ارد گرد سیاسی و سماجی زبوں حالی کے مناظر دیکھے۔ ایک عظیم الشان سلطنت کے انہدام کے آخری مراحل اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ انگریزوں کا غلبہ، مغل فرمانروا کی بے بسی اور بدبختی، اپنوں کی غداری اور ۱۸۵۷ء کی قتل و غارت کے واقعات نے اسے بھی انسانی صورت حال کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس سے وجود ی مفکرین نے جنگ کے بعد یوروپی اقوام کو دیکھا تھا۔ چنانچہ پس منظر کی مشابہت نے غالب کی داخلی واردات کو وجودیت کے گہرے رنگ میں رنگ دیا۔ اسی لیے ہمیں غالب میں مطلقیت سے بیزاری اور فرد کی انفرادیت کو بچانے کا قوی رجحان نظر آتا ہے۔ ‘‘

خارجی پس منظر کی اس مماثلت کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر غالب کے زاویہ نگاہ میں ایک وجودی کا طرز مشاہدہ ان کی ذات میں کچھ اس طرح تحلیل دکھائی دیتا ہے کہ اگر خارجی پس منظر کا یہ اشتراک نہ بھی ہوتا تو بھی شاید غالب کی شاعری وجودی طرز کے جذبات و احساسات سے بالکل اسی طرح ثروت مند نظر آتی    :

۶؎                کوئی آگاہ نہیں باطن ہم دیگر سے

ہے ہر اک فرد جہاں میں ورق ناخواندہ

مشاہدے کی یہ باریکی، خارج کی سطح پر موجود انتشار، شکست  و ریخت نیز بدامنی اور بدحالی کا نتیجہ نہیں، اگر غالب کے زمانے کے حالات اچھے بھی ہوتے تو وہ اس وجودی حقیقت تک ضرور پہنچتے، غالب اس شعر میں فرد کو ایک واحد اکائی کے روپ میں پیش کرتے ہوئے اس کے حقیقی وجود کو اس کے ظاہر کے برعکس اس کے باطن میں تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ انسان کے اجتماعی و نوعی تصور کے منافی نکلتا ہے۔ انسان کے مجموعی /نوعی تصور کی اساس ’’ جوہر ‘‘  ہے۔ لہٰذا اس تصور کا حقیقی استرداد اس وقت تک امکان نہیں رکھتا۔ جب تک جوہر کے وجود پر تقدم کی نفی نہ کی جائے۔ وجودیت نے  ’’وجود‘‘  کو  ’’ جوہر‘‘  پر مقدم سمجھتے ہوئے اس لفظ کو وہ نیا تناظر دیا جو فکری تحریکوں میں اس کی الگ شناخت بنا۔ اس لیے کسی بھی شاعر کو اس وقت تک وجودی نقطہ نظر کا حامل قرار دینا ممکن نہیں ہو گا جب تک اس کے ہاں وجود کے جوہر پر تقدم کا اظہار موجود نہ ہو۔ کیا غالب وجود کو جوہر پر مقدم تصور کرتے تھے؟

۷؎                    نہ تھا کچھ خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اس شعر کے مصرع اولیٰ میں مظہریت کی گونج صاف سنائی دیتی ہے تاہم مصرع ثانی شعر کو وجودیت کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے۔ پہلے مصرع میں جوہر (خدا) کے وجود پر تقدم کا اظہار کیا گیا ہے جب کہ دوسرے مصرعے میں غالب خود کو مصرع اولیٰ میں پیش کیے گئے تصور سے الگ کرتے ہوئے وجود کی اہمیت ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں  ’’ نہ ہوتا میں ‘‘  پر جو زور دیا گیا ہے وہ مصرع کے آخر میں موجود استفہامیے ( تو کیا ہوتا ؟) کو مصرع اول سے جوڑ دیتا ہے یعنی (اگر وجود نہ ہوتا تو کیا جوہر ہوتا؟) یہ استفہامیہ وجود کے جوہر پر تقدم کا روشن اظہار ہے۔ الفاظ کا دروبست یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ غالب وجود کو جوہر پر اولیت دے رہے ہیں۔ وجود کے حوالے سے یہی وہ خاص نقطہ نظر ہے جو وجودیت سے پہلے کے فلسفیانہ مباحث میں نظر نہیں آتا اور غالب سے پہلے کی اردو شاعری میں۔

وجود کو جوہر پر مقدم تصور کرتے ہی انسان تمام پابندیوں سے نجات پا لیتا ہے اسے انتخاب اور عمل پر اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ اسے وہ آزادی میسر آ جاتی ہے جو اس کے وجود کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ تاہم فرد کی یہ آزادی ہر وقت دوسروں کی نگاہ میں رہتی ہے۔ فرد اپنے وجود کو دوسروں کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ دوسروں کی نظر سے خود کو دیکھتے ہوئے مصدقہ زندگی گزارنے کا تصور محال ہے۔ مصدقہ زندگی گزارنے کے لیے وجود کو دوسرے وجودوں جنہیں سارتر ’’ جہنم ‘‘  کہتا ہے سے نجات دلانا لازم ہے کیوں کہ حقیقی آزادی صرف اور صرف فرد کا اپنا وجود ہے کوئی خارجی ضابطہ انفرادی عمل کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا۔ غالب بھی سارتر کی طرح دوسرے وجودوں کو مصدقہ زندگی گزارنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں   ؎

۸؎                      رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے

کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار

اور گر مر جایئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

ان اشعار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غالب کے لیے آزادی صرف اپنے وجود کا نام ہے۔ دوسرے چونکہ اس آزادی کو محدود کرتے ہیں اس لیے غالب ان سے نجات حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ جماعت سے علاحدگی کا یہ تصور غالب کے دور میں ناپید تھا۔ ایک ایسے دور میں جب ابھی انسان کے سماجی روابط مضبوط اور توانا تھے۔ انسان، انسان کا ہم درد اور غم گسار تھا۔ غالب ان وجودی کیفیات کا کرب جھیل رہے تھے:

۹؎؎               خود پرستی سے رہے باہم دگر ناآشنا

بے کسی میری شریک، آئینہ تیرا آشنا

ربط یک شیرازہ وحشت ہیں اجزائے بہار

سبزہ بے گانہ، صبا آوارہ، گل ناآشنا

 

۱۰؎                  پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ

ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں

اپنے عہد سے نا موافقت رکھنے والا یہ احساس مغائرت اور مردم گزیدگی کا خوف غالب کو ایک سچا وجودی ثابت کرتے ہیں۔ انسان کا تصور آزادی بھی غالب کو وجودیوں کا ہم خیال ثابت کرتا ہے۔ سارتر کی طرح غالب بھی انسان کو آزاد بلکہ آزاد رہنے کی سزا کا موجب سمجھتے ہیں۔ یہ آزادی قیمتی ہونے کے باوجود کوئی خوش گوار احساس نہیں ہے کیوں کہ احساس آزادی پا بہ زنجیر ہونے کی ایک صورت ہے۔ پابندی کا یہ احساس خارج کی عطا نہیں بلکہ آزادی کے وجود کا جزو لاینفک ہے:

۱۱؎               کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعی آزادی

ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی

’’ پابند آزادی ‘‘  کا یہ منفرد احساس زیست کرنے کے عمل میں آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے مزید دشوار بنا دیتا ہے۔ انسان کی یہ کامل  ’’پابند آزادی ‘‘  غم و آلام میں کمی کا باعث نہیں بنتی البتہ فرد کو انتخاب کی آزادی دے کر نتائج کے لیے اسے مکمل طور پر ذمہ دار ضرور بنا دیتی ہے۔ غالب کے کلام میں موجود  ’’ احساس غم‘‘  کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے غموں کو اپنے فیصلوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں اس لیے کسی دوسرے کو مورد الزام قرار دینے کی بجائے تمام تر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود کو رنج کا خوگر بنا لیتے ہیں :

۱۲؎                   رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

غالب  ’’ احساس غم ‘‘ کو زیست کرنے کے عمل میں توانائی کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہ احساس ان کی زندگی میں عدم فعالیت پیدا نہیں کرتا بلکہ اسے مزید فعال بنا دیتا ہے۔ وجودیت زندگی کے فعال تصور میں اعتقاد رکھتی ہے۔ زندگی کی طرح وجود بھی کوئی جامد حقیقت نہیں۔ انسان ایک مستقل بدلتا ہوا وجود ہے۔ اس لیے اسے مستقل تصور کرتے ہوئے اس پر کوئی ضابطہ عائد کرنا بعید از امکان ہے۔ انسان ہر لمحہ کسی صورت حال سے دوچار رہتا ہے۔ اس لیے جب تک وجود کی تکمیل نہیں ہوتی اس کی تفہیم نیز اسے پابند ضابطہ بنانے کی کوئی بھی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی:

۱۳؎                   آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز

پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

وجودیت وجود کی تکمیل کو عمل سے مشروط جانتی ہے۔ عمل اس فیصلے کا نتیجہ ہے جو صورت حال کے پیدا کردہ کرب کے ناقابل برداشت ہونے پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کلام غالب میں وجود کو درپیش صورت حال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا کرب صاف محسوس کیا جا سکتا ہے:

۱۴؎              ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

تاہم یہ کرب ہمیشہ فیصلے سے بامعنی عمل کی طرف نہیں بڑھتا۔ غالب اس ناقابل برداشت کرب سے فرار بھی اختیار کرتے نظر آتے ہیں جو بہ ہر حال وجود یوں کے لیے معیوب ہے:

۱۵؎             رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

لیکن فرار کا یہ عمل دائمی نہیں لمحاتی ہے اس لمحاتی فرار کا سبب انتخاب کی آزادی نیز ذمہ داری کا شعور ہے۔ غالب جانتے ہیں کہ ان کا انتخاب صرف ان کے لیے نہیں بلکہ نوع انسانی کے لیے ہے۔ یعنی ان کی موضوعیت میں ا نسانی موضوعیت بھی شامل ہے۔ لہٰذا ان پکر لازم ہے کہ وہ احساس کرب کی سختی جھیلتے ہوئے ذمہ داری کی دونوں جہتوں کو پیش نظر رکھیں اور خیر کا انتخاب کریں :

۱۶؎                    وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے

وجودیت انسان کو با اختیار سمجھتی ہے۔ اس اختیار میں کمی صرف موت کے خوف سے واقع ہوتی ہے۔ ا س لیے وجودیت موت کے خوف پر قابو پانے کے لیے یہ ضروری سمجھتی ہے کہ اسے ایک خارجی حقیقت کی بجائے وجود کی داخلی حقیقت سمجھا جائے اس طرح موت ہر لمحہ وجود کے ساتھ رہے گی۔ نتیجتاً خوف، خواہش میں منقلب ہو جائے گا۔ انسان، زندگی کے اختصار کو سمجھ کر زیادہ فعال روپ میں سامنے آئے گا۔ وہ اپنی تکمیل اور عظمت کو اپنی زندگی میں پانے کے لیے جدوجہد کرے گا کیوں کہ یہ حقیقت اس پر عیاں ہو گی کہ اس کی خواہشیں صرف اس کے لیے قابل قدر ہیں، اپنے مقاصد کا حصول صرف ا س کے لیے ضروری ہے، ا سکی موت کے بعد کسی دوسرے سے ان مقاصد اور خواہشات کی تکمیل کی توقع بے سود ہے کیوں کہ ہر وجود اپنے مقاصد اور خواہشات رکھتا ہے اور اسے پورا حق ہے کہ وہ انہی کی تکمیل کے لیے کوشاں رہے۔ تاہم یہ حقیقت امید کی مکمل تردید کا باعث بن جاتی ہے:

۱۷؎      کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں موجود استفہامیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نیند نہ آنے کا سبب اپنے مقاصد کو اپنی زندگی میں پورا نہ ہوتے دیکھنے کا خوف ہے۔

وجودیوں کے نزدیک موت خارجی واقع بھی ہے اور داخلی جذبہ بھی، یہ موت انفرادیت کی تکمیل بھی ہے کہ اپنی موت صرف اپنے لیے یعنی صرف اپنی ہوتی ہے۔ کسی دوسرے کی نہیں اور انفرادیت سے لاتعلق بھی کیوں کہ ہم اپنے لیے نہیں دوسرے کے لیے مرتے ہیں، موت ہمیں دوسروں کا محتاج بنا دیتی ہے۔ موت زندگی کا ترکیبی جزو بھی ہے اور اس کی دشمن بھی، موت کا شعور اور خوف پیدا ہوتے ہی انسان کو گھیر لیتے ہیں لیکن ان کا کوئی وقت مقرر نہیں یہ انسان کی مرضی سے نہیں آتی۔ موت انسانی داخلیت کا جز و بھی ہے اور ایک سراسر لغو خارجی صورت حال بھی۔ ہم ہر وقت اس کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور اس کے خوف کا بہ صورت ایک موضوعی حقیقت کے کوئی جواز بھی نہیں۔

موت کے حوالے سے وجودیوں کی ان متضاد آرا کا عکس غالب کی شاعری میں صاف جھلکتا ہے۔ ان متضاد آراء کو غالب کے وجودی ہونے کے منافی نہیں سمجھنا چاہئے کیوں کہ غالب نے بہ ہر حال موت کے موضوع کو وجودیت کی طرح اہم سمجھا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے:

۱۸؎              جس طرف سے آئے ہیں، آخر ادھر ہی جائیں گے

مرگ سے وحشت نہ کر، راہ عدم پیمودہ ہے

 

۱۹؎             تیغ در کف، کف بہ لب آتا ہے قاتل اس طرف

مژدہ باد، اے آرزوئے مرگ غالبؔ، مژدہ باد

 

۲۰؎             کبھی آ جائے گی کیوں کرتے ہو جلدی غالبؔ

شہرہ تیزی شمشیر قضا ہے تو سہی

 

۲۱؎              خیال مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے

مرے دام تمنا میں ہے اک صید زبوں وہ بھی

 

۲۲؎    مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

 

۲۳؎     منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے

 

۲۴؎     ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے

 

۲۵؎    تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا

اڑنے سے پیش تر بھی مرا رنگ زرد تھا

موت، مندرجہ تمام رنگوں کے علاوہ تمام فیصلوں کی موجب بھی ہے اور ان پر عمل کی محرک بھی، موت کا شعور ہمیں اس پر غالب آنے کے لیے ہر وقت محو عمل رکھتا ہے۔ یہ شعور در حقیقت دعوت عمل ہے۔ جس پر داخلیت کی ترقی کا انحصار ہے۔ زندگی کی تمام سرگرمیاں اور نیرنگیاں دراصل موت ہی کی بدولت ہیں :

۲۶؎         ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

 

۲۷؎        کوئی دن گر زندگانی اور ہے

ہم نے اپنے جی میں ٹھانی اور ہے

موت زندگی میں فعالیت پیدا کرتی ہے۔ فعالیت ہی غالب کی تخلیقی شخصیت کا اختصاص ہے :

۲۸؎            ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

وجودیت کے حوالے سے انفعالی زندگی کا مقبول تصور درست نہیں کیوں کہ وجودیت زندگی کی فعالیت میں یقین رکھتی ہے۔ اس لیے وہ فرد کے تصورات اور خیالات کے برعکس اس کے عمل کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ زندگی کے کام وجودیت کے لیے بھی اہم ہیں اور غالب کے لیے بھی، غالب زندگی کا کوئی کام ادھورا چھوڑنے پر آمادہ نہیں کیوں کہ زندگی کے کاموں کی تکمیل ان کے وجود کی تکمیل ہے اور یہ حقیقت ان پر پوری طرح آشکار ا ہے:

۲۹؎               خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ

رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت  ہے

عینیت پسندوں نے دنیا کو غیر حقیقی اور سراب قرار دے کر ا س کی اہمیت کو کم کر دیا تھا۔ دنیا سے عدم دلچسپی کا نتیجہ معاملات حیات سے بے اعتنائی کی صورت ظاہر ہوا۔ اس لیے عمل کی جگہ بے عملی نے لے لی۔ غالب تک کی اردو شاعری دنیا سے اسی عدم دلچسپی کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ جب کہ غالب نے  ’’ رہنے دے مجھے یاں ‘‘  کہہ کر دنیا سے لگاؤ کے ساتھ اسے حقیقی سمجھنے کے وجودی تصور کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ جو تقلید روایت کے برعکس ان کی جدیدیت پسند فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ غالب کے انہی منفرد تصورات نے انہیں انانیت میں مبتلا کر دیا تھا جو ان کے اکیلے پن اور تنہائی ہی ایک صورت تھی۔ اکیلے پن اور تنہائی کے احساسات کے شدت اور وسعت غالب اور وجودیت کے اہم اشتراکات میں سے ہے۔ تاہم یہ تنہائی وہ تنہائی نہیں ہے جو رومانی فن کاروں کو اپنے آئیڈیل سے دوری کے باعث محسوس ہوتی ہے بلکہ یہ تنہائی وجود کو موضوعیت کی جانب متوجہ کرنے کا سبب بھی ہے اور اس کی تکمیل کا ذریعہ بھی۔

غالب کی شاعر ی سے تنہائی کا جو احساس قاری تک منتقل ہوتا ہے۔ اس کی نوعیت وجودیت کے تصور تنہائی سے مختلف نہیں کیوں کہ غالب کے ہاں احساس تنہائی کسی عمل کے رد عمل کے طور پر نہیں ابھرتا بلکہ وجود کے ساتھ جنم لیتا، پرورش پاتا، زیست کرتا نیز تکمیل وجود کے سفر میں شریک رہتا ہے:

۳۰؎          کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

غالب کا احساس تنہائی ان کے تخلیقی اور غیر تخلیقی وجود دونوں کو محیط ہے۔ تخلیقی وجود کی سطح پر یہ احساس معنویت کے بلند تر مقامات کومس کرنے کے باعث بھی پیدا ہوا ہے اور بے معنویت کو چھونے کے باعث بھی:

۳۱؎                   ہو گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ

ہوں میں کلام نغز ولے نا شنیدہ ہوں

 

۳۲؎             نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

غیر تخلیقی وجود کی سطح پر یہ احساس سائے تک کو خود سے مفائی اور بیگانہ محسوس کرتا ہے:

۳۳؎                 وحشت آتش دل سے شب تنہائی میں

صورت دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے

کلام غالب میں تنہائی کبھی وحشت آتش دل بنتی ہے تو کبھی سوز غم کا روپ دھار لیتی ہے :

۳۴؎     آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں

سوز غم ہائے نہانی اور ہے

غالب کی تنہائی اپنی ارفع ترین صورت میں یکتائی کو مس کرتی دکھائی دیتی ہے اس مقام پر غالب کی تنہائی، تمنا میں تحلیل و منقلب ہو جاتی ہے۔ اس عمل تقلیب کے بعد اپنے  ’’ کیا پن ‘‘  کی جستجو میں منہمک تمنا، زمانی اور مکانی حدود کو عبور کرتے ہوئے لامحدود جوہروں والی لا زمانی اور لامکانی دنیا کو تلاش کرتی نظر آتی ہے:

۳۵؎           ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

لامحدود جوہروں کو معدوم یا نیست سے وجود کے پیکر میں ڈھال کر وجود کی تنہائی یکتائی میں تبدیل ہوتی یعنی اپنے جوہر کی تکمیل کرتی ہے۔ غالب کے ہاں موجود وسعتوں کی تمنا اور کشادگی ظرف کے مضامین، شعوری موجودگی کے احساس اور لامحدود جوہروں والی لا زمانی و لامکانی دنیا تک رسائی کی کاوش اور خواہش ہی کی ایک صورت ہے۔

لامحدود جوہروں والی ذات (خدا) کے حوالے سے وجودیت دو گروہوں میں منقسم ہے ایک گروہ ان مفکرین کا ہے جو خدا کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں جب کہ دوسرے گروہ کے مفکرین خدا کے وجود کو نہیں مانتے۔ تاہم وجودیت کے اساسی تصورات پر خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وجودیوں کے نزدیک خدا انسان کے دکھوں کو کم نہیں کر سکتا۔ خدا کے ہونے یا نہ ہونے سے انسانی وجود کو درپیش بحران، اس کی تنہائی، موت کے سامنے اس کی بے بسی، تکمیل وجود نیز انتخاب کرنے کی مشکل جیسے مسائل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غالب کا تعلق وجودیوں کے الہیاتی گروہ سے ہے یا الہادی سے۔ اس کا تعین آسان نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ غالب وجودیوں کی طر ح خدا کی موجودگی یا غیر موجودگی کو وجود کے دکھوں سے علاحدہ سمجھتے ہیں :

۳۶؎           زندگی اپنی جب اس شکل پہ گزری غالبؔ

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

اس شعر میں غالب خدا کو انسانی وجود کو درپیش مسائل یعنی صورت حا ل، کرب، انتخاب اور انتخاب کے نتائج کی ذمہ داری جیسے معاملات سے الگ کر دیتے ہیں۔ اس لیے غالب کا تعلق وجودیوں کے الہیاتی یا الحادی کسی بھی گروہ سے ہو وہ انسانی وجود کو درپیش مسائل کے تناظر میں وجودیوں کے تصور خدا کے ہم خیال ضرور ہیں۔

ان اشتراکات کے علاوہ غالب کے بے شمار اشعار فرد کے ان جذبات و احساسات نیز تصورات کا حاطہ کرتے نظر آتے ہیں جن سے  وجودیت بحث کرتی ہے۔

۳۷؎    ’’غالب کے شعر میں انسان کے نازک سے نازک، لطیف سے لطیف اور پیچیدہ  سے پیچیدہ جذبے اور احساس کو اظہار کی زبان عطا کرنے، اسے تصویر اور مجسمے کی صورت دینے اور تصویر اور مجسمے میں روح پھونک دینے کی جو غیر معمولی قوت ہے۔ اس نے ہمارے لیے ہر تجربے کا ادراک ممکن بنا دیا ہے اور اس لیے غالب کا قاری جب اپنے کسی جذبے اور احساس کے معنی سمجھنے میں دقت محسوس کرتا ہے یا اس کی تہ تک نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے ایک کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے تو غالب کا کوئی نہ کوئی شعر سامنے آ کر اس سے کہتا ہے کہ دیکھو میں تمہاری الجھن اور تمہاری کشمکش کی تفسیر ہوں۔ اس صورت حال میں انسان کو حوصلہ دینے اور اس کا حوصلہ برقرار رکھنے کے جو امکانات ہیں انہوں نے غالب کے شعر کو ہر دل کی آواز بنا دیا ہے۔ آدمی کو اگر یہ یقین ہو جائے کہ دنیا میں کوئی ایسا ہے جو اس کے دکھ کے معنی سمجھتا ہے اور اسے اظہار کی زبان دے سکتا ہے تو اس کے لیے زندگی بسر کرنا اور زندگی کو بسر کرنے کی چیز سمجھنا آسان ہو جاتا ہے غالب کے کلام نے اردو کے ہر شاعر سے زیادہ یہ خدمت انجام دی ہے۔ ‘‘

انسانی تجربے کی پیچیدگی اور جذبات و احساسات کی لطافت کے حامل یہ اشعار دیکھئے جن سے وجودی طرز کے جذبات و تصورات کی گونج صاف سنائی دیتی ہے:

۳۸؎              پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا

آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے

 

۳۹؎                   ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال

ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

 

۴۰؎             سایہ میرا، مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسدؔ

پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے

 

۴۱؎             باغ پا کر خفقانی، یہ ڈراتا ہے مجھے

سایہ شاخ گل، افعی نظر آتا ہے مجھے

 

۴۲؎                  بہ صورت تکلف، بہ معنی تاسف

اسد! میں تبسم ہوں پژ مردگاں کا

 

۴۳؎         کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشہ غم خانہ میں

دست برسر، سر بہ زانوئے دل مایوس تھا

 

۴۴؎             بے دماغ خجلت ہوں رشک امتحاں تا کے

ایک بے کسی! تجھ کو عالم آشنا پایا

انسانی تجربے میں مشارکت اور فرد کے جذبہ و احساس کی لطافت و پیچیدگی کو گرفت میں لینے کی جو غیر معمولی صلاحیت غالب کے حصے میں آئی اس نے غالب کی شاعری کو وجودیت کے وہ تمام رنگ عطا کر دیئے جن سے جدید شاعری مزین و آراستہ ہے تاہم غالب کی شاعری طویل سفر طے کرنے کے بعد بھی تازہ دم ہے جب کہ جدید شاعری کی سانس ابھی سے اکھڑتی محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ جدید شاعری تحریکوں کے زیر اثر پروان چڑھی ہے جب کہ غالب کی شاعری سے نئی نئی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔

 

                   حوالہ جات

 

۱۔ قاضی قیصر الاسلام، ۲۰۰۵،  ’’تاریخ فلسفہ مغرب‘‘  ( حصہ دوم )،  کراچی، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ص۱۸۲

۲۔ قاضی جاوید، ۲۰۰۵ء،  ’’ وجودیت ‘‘ ،  لاہور، فکشن ہاؤس، ص۱۴، ۱۵

۳۔ قاضی قیصر الاسلام، ایضاً، ص۱۹۴، ۱۹۵، ۱۹۶

۴۔ ممتاز حسین،  ’’ وجودیت۔ منظر و پس منظر‘‘ ، مشمولہ، ادب، فلسفہ اور وجودیت، ( مرتبہ، شیما مجید، نعیم احسن )، لاہور، نگارشات، ۱۹۹۲، ص ۶۹۷

۵۔ نعیم احمد، ڈاکٹر،  ’’ غالب اور فلسفہ وجودیت‘‘ ، مشمولہ، ماہ نو (غالب نمبر)، مارچ ۱۹۹۸ء، ص۴۷

۶۔ حمید احمد خان، طبع دوم۱۹۹۲،  ’’دیوان غالب (نسخہ حمیدیہ)، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص۱۷۲

۷۔ غلام رسول مہر، مولانا، اشاعت اول۱۹۶۷ء،  ’’دیوان غالب(مکمل)‘‘ ، لاہور، شیخ غلام علی اینڈسنز، ص۵۷

۸۔ ایضاً، ص۱۷۸

۹۔ حمید احمد خان،  ایضاً، ص۶۶، ۶۷

۱۰۔ کالی داس گپتا رضا، ۹۶۔ ۱۹۹۷ء،  ’’دیوان غالب کامل‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ص۳۶۴

۱۱۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۲۱۷

۱۲۔ ایضاً، ص۱۵۲

۱۳۔ ایضاً، ص۱۳۵

۱۴۔  ایضاً، ص۲۶۴

۱۵۔ ایضاً، ص۷۲

۱۶۔ ایضاً، ص۲۹۰

۱۷۔ ایضاً، ص۲۱۲

۱۸۔ حمید احمد خان، ایضاً، ص۲۳۹

۱۹۔ ایضاً، ص۹۸

۲۰۔ کالی داس گپتا رضا، ایضاً، ص۳۴۷

۲۱۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۱۸۳

۲۲۔ ایضاً، ص۲۱۲

۲۳۔ ایضاً، ص۲۴۳

۲۴۔ ایضاً، ص۲۱۱

۲۵۔ ایضاً، ص۲۶

۲۶۔ ایضاً، ص۴۶

۲۷۔ ایضاً، ص۲۱۱

۲۸۔ ایضاً، ص۲۷۶

۲۹۔ ایضاً، ص۲۸۸

۳۰۔ ایضاً، ص۲۰

۳۱۔ کالی داس گپتا رضا، ایضاً، ص۳۶۴

۳۲۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۲۳۱

۳۳۔  ایضاً، ص۲۴۴

۳۴۔  ایضاً، ص۲۱۱

۳۵۔ حمید احمد خان،  ایضاً، ص۳۳

۳۶۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۱۹۹

۳۷۔ وقار عظیم،  ’’ غالب کی صد سالہ برس کیوں (سوال یہ ہے )‘‘ ، مشمولہ، اوراق ( غالب نمبر)، اپریل ۱۹۶۹ء، ص۷۔ ۱۔

۳۸۔ غلام رسول مہر،  ایضاً، ص۲۶۸

۳۹۔  ایضاً، ص۱۶۵

۴۰۔  ایضاً، ص۲۰۴

۴۱۔  ایضاً، ص۲۷۴

۴۲۔ حمید احمد خان، ایضاً، ص۶۲

۴۳۔  ایضاً، ص۸۲

۴۴۔  ایضاً، ص۳۳

٭٭٭

 

 

 

اکیسویں صدی، ما بعد جدیدیت اور کلامِ غالب کی معنویت

 

ایک بات تو طے ہے کہ غالب کے شعری امکانات کی دنیا کو وسعت آشنا کرنے میں بیسویں صدی کا کردار غیر معمولی رہا ہے۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بیسویں صدی ایک ایسی روح کی حامل ضرور تھی جو کلام غالب کے مقابل آئی تو عکس در عکس معنی کے سلسلے قائم ہونے لگے اور اس ذہن اور مضطرب باطن کی تشفی کا نا مختتم عمل شروع ہوا جس کی تشکیل بیسویں صدی کی مجموعی فضا کی دین تھی۔ اس لیے نہ صرف یہ کہ بیسویں صدی کے شاعروں نے غالب کو ہم عصر کے طور پر قبول کیا بل کہ ناقدین نے بھی ان کی تعبیر و تفہیم کے سلسلے میں اپنی صدی کے مسائل اور فکری نہج کو پیش نظر رکھا اور اس بات پر بھی خوب زور دیا کہ غالب کی شاعری جس معنویت کی حامل ہے وہ بیسویں صدی ہی میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اجاگر ہوئی ہے یعنی نہ تو اپنے زمانے میں غالب پوری طرح آشکار ہوسکتے تھے نہ کسی اور صدی میں ان کے آشکار ہونے کے امکانات بیسویں صدی کے مساوی قرار دیے جا سکتے ہیں نیز یہ بات بھی اذہان میں راسخ کرنے کی پوری کوشش کی گئی کہ بیسوی صدی ہی کی دانش حقیقی معنوں میں غالب کی دریافت اور ان کے کلام کے معنوی امکانات کی نشان دہی کی ضامن ہوسکتی ہے۔ غالب کے افکار اور شعری جمالیات کو بیسویں صدی سے ہم آہنگ کرنے کی دو طرفہ کوششیں ہوئیں ایک طرف کلام غالب کو بیسویں صدی کی ذہنیت کا عکاس اور نمائندہ قرار دیا گیا تو دوسری طرف کہا گیا کہ بیسویں ہی وہ معیارات سامنے لائی ہے جن کی روشنی میں غالب کی تہ در تہ شاعری کے اندر اترنا ممکن ہوسکا ہے اور ان شعری و سائل کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوئی ہے جو زمانۂ غالب کی شعریات سے مغائرت رکھتے تھے۔  بیسویں صدی ہی کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ اس دوران غالب کی شاعری کو مغربی شعریات کی روشنی میں پوری توجہ سے پڑھا گیا جس کی بنیاد الطاف حسین حالی پہلے ہی رکھ چکے تھے۔ بہ قول شمس الرحمن فاروقی:

۱؎         ’’غیر شعوری طور پر سہی لیکن حالی نے یہ بات کم و بیش ثابت کر دی تھی کہ غالب کو اگر مغربی شعریات کی روشنی میں پڑھا جائے تو ہم انہیں بہتر طور پر سمجھ سکیں گے لیکن حالی کی بات اتنی ہی نہیں تھی۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ غالب کو ہم مغربی معیارات سے پرکھیں تو وہ بڑے شاعر ثابت ہوں گے۔ ‘‘

بیسوی صدی نے یہ بات بڑی حد تک درست ثابت کر دی کہ کلام غالب کی تفہیم بہتر طور پر مغربی شعریات ہی کی روشنی میں ہوسکتی ہے اور مغربی شعریات کی مدد سے غالب کو بڑا شاعر بھی ثابت کیا جا سکتا ہے تاہم یہ کوششیں تخلیقی شعریات اور تعبیری شعریات میں مطابقت کے بغیر کام یابی سے ممکن نہ تھی جس کو عموماً نظر انداز کیا گیا اور اس پہلو پر غور و خوض نہ کیا گیا کہ غالب کی شاعری مغربی شعریات کے زیر اثر تخلیق نہیں ہوئی تھی تاہم چوں کہ تخلیقی عمل مکمل طور پر شعوری قویٰ کی تابع نہیں ہوتا اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح حالی نے غیر شعوری طور پر غالب کی تنقید کا رخ مغربی شعریات کی جانب موڑ دیا تھا اسی طرح غیر شعوری طور پر ہی سہی غالب کی شاعری میں مغربی شعریات کے عناصر تحلیل ہو گئے تھے اور یہ عناصر اپنی قوت میں اتنے غیر معمولی تھے کہ انہوں نے مشرقی شعریات کے عناصر کو مغلوب کر کے اپنا ہم نوا اور ہم رنگ بنا لیا تھا تاہم بات صرف اتنی نہیں تھی دراصل غالب کی شاعری کے مغربی عناصر اور مغربی شعریات کو بیسوی صدی ہی کے تناظر میں رکھا اور پرکھا گیا اور اس صدی اور غالب کو ایک دوسرے کا استعارہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ بہ قول شمس الرحمن فاروقی:

۲؎      ’’غالب ہمارے آخری بڑے کلاسیکی شاعر اور پہلے بڑے جدید شاعر ہیں۔ وہ اگرچہ اس صدی کے شروع ہونے سے بہت پہلے مر گئے لیکن ان کا کلام اس صدی کا استعارہ اور ان کے بیان کردہ مسائل اس صدی کے مسائل ہیں۔ ‘‘

اس بیان سے غالب کے پہلے بڑے جدید شاعر ہونے کا اثبات تو ضرور ہوتا ہے مگر آخری بڑے کلاسیکی شاعر ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی نیز ان کے کلام کو بیسوی صدی کا استعارہ کہنے سے تو بات اس لیے بن گئی کہ استعارہ نئے تناظر میں اپنا آب و رنگ بدل سکتا ہے مگر مسائل کو بیسوی صدی کے مسائل قرار دینے سے یہ گمان ضرور گزرتا ہے کہ غالب کو بیسوی صدی ہی تک محدود کر دیا گیا ہے جس پر مہر تصدیق ان کا یہ بیان ثبت کرتا ہے، لکھتے ہیں :

۳؎       ’’ شاعری کے اعتبار سے ہماری صدی استعارے اور ابہام کی صدی ہے اور غالب کی شاعری کے نمایاں ترین اوصاف اس میں استعارے کی وسعت اور رنگا رنگی اور ابہام کی پیدا کردہ کثیر المعنویت ہیں۔ ‘‘

اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ غالب کی شاعری کے نمایاں ترین اوصاف فی الحقیقت استعارہ اور ابہام ہی ہیں تاہم استعارے اور ابہام کو بیسوی صدی ہی مخصوص قرار دینا روح عصر کے منافی اور اس کی عدم تفہیم پر دال ہے مگر اپنے بیان پر غور و خوض کے بہ جائے فاروقی صاحب اسے مزید تقویت دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

۴؎        ’’ غالب کے یہاں ان استعاروں کا عمل انکشاف کا نہیں بل کہ سوالیہ نشان کا ہے یعنی غالب کے استعارے ہمیں کائنات اور وجود کے بارے میں استفہام و استفسار پر مائل کرتے ہیں۔ بیسوی صدی کا مزاج چوں کہ استفہام اور تجسس سے عبارت ہے اس لیے غالب کا کلام بیسوی صدی کا ہی استعارہ بن گیا ہے۔ ‘‘

بیسوی صدی کے مزاج کو استفہام اور تجسس کا حامل قرار دے کر فاروقی صاحب بڑی حد تک غالب کے پہلے بڑے جدید شاعر ہونے کی بھی نفی کر دیتے ہیں کیوں کہ جدیدیت کی تحریک جن رجحانات اور تحریکوں سے متاثر ہوئی انہیں  ’’عقل پرست‘‘  قرار نہیں دیا جا سکتا اور استفہام اور تجسس  ’’عقل پرست‘‘  تحریکوں اور رجحانات کے ثمرات ہیں درحقیقت یہ تمام بیانات غالب اور بیسوی صدی کے ایک دوسرے کا استعارہ بنانے کی شدید خواہش کے نتائج ہیں۔ جن میں غالب کی تفہیم تو درست اور انتہائی غیر معمولی ذہانت کا کرشمہ نظر آتی ہے مگر بیسوی صدی کی تفہیم اس کی روح تک رسائی سے قطعی طور پر عاری اور بے نیاز ہے۔

حقیقت یہ ہے بیسوی صدی کلام غالب کی تفہیم و تعبیر کا ایک تناظر تھی اور  کوئی بھی تناظر شعری متن کے سیاق کا بدل نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیسویں صدی میں غالب کے کلام  کے سیاق کی درست تفہیم کی کوششیں بھی ہوئیں اور اسے ایک نئے تناظر میں معنویت بھی دی گئی مگر اس مفروضے سے پھر بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کی بیسوی صدی ہی غالب کی شاعری کا حقیقی تناظر ہے کیوں کہ غالب کا اپنا شعری سیاق اس مغروضے کی نفی کرتا ہے۔ بہ قول شمس الرحمن فاروقی:

۵؎        ’’ تمام بڑے شعراء کی طرح غالب میں بھی یہ صفت ہے کہ ان کا کلام چاہے جتنی بار پڑھا جائے اس کی تازگی برقرار رہتی ہے زیادہ تر مطالعے میں بعض ایسے شعر سامنے آتے ہیں جو لہجے یا معنی کے اعتبار سے بالکل نئے معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘

اس حقیقت کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ غالب کا شعری سیاق غیر معمولی گہرائی، پیچیدگی اور تازگی کا حامل ہے جس کا احساس ہر دور میں یک ساں رہا ہے تاہم بیسوی صدی کو یہ اختصاص بلاشبہ حاصل ہے کہ اس نے اس شعری سیاق کو گرفت میں لینے کی کوشش پوری دل جمعی سے کی ہے اور اس کے بہت سے اسرار کو دریافت بھی کیا ہے مگر شاید غالب کا شعری سیاق اردو شاعری کی پوری تاریخ میں وہ واحد عقدۂ مشکل ہے جس کا خاصا بڑا حصہ ہنوز حل نہیں ہوا۔ آج بھی اس شاعری کی خاصی مقدار ایسی ہے جس کی بنیادی فکر تک ہی رسائی مشکل ہے۔ غالب کے اکثر اشعار اپنی استعاریت تجنے کو تیار نہیں ہوتے جب کہ بنیادی فکر تک رسائی لغوی مفاہیم ہی کی مرہون ہوا کرتی ہے اس لیے غالب کے اشعار عجیب و غریب انداز میں سیال صفت ہو کر گرفت سے نکل جاتے ہیں۔ یہ صورت حال غالب کے غیر مطبوعہ کلام میں بہتر طور پر دیکھی جا سکتی ہے لہذا چند اشعار عبدالباری آسی کی شرح کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں جن میں غالب کے اشعار کے سیاق کو گرفت میں لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہوں :

۶؎      وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسد

جو مژہ جوہر نہیں آئینہ تعبیر کا

ہر مژہ چشم کو جوہر آئینہ تعبیر کا ہونا چاہیے۔ جو مژہ (پلک) یہ صفت نہیں رکھتی وہ مژہ مژہ نہیں ہے بل کہ خواب عدم کے لیے وحشت ہے اور تماشا کے لیے شور ہے یہ کہ شور تماشا خواب عدم کے لیے وحشت بن گیا ہے یہی سبب ہے کہ مژہ جوہر آئینۂ تعبیر نہیں ہے۔ ‘‘

۷؎       بے خود بہ لطف چشمک عبر ت ہے چشم صید

یک داغ حسرت نفس نا کشیدہ کھینچ

عبرت کی چشمک زنی سے چشم صید بے خود ہو رہی ہے۔ تجھ کو چاہیے کہ وہ ٹھنڈی سانس جو تو نے اس کی ہم دکر دی میں اس چشمک عبرت کے لطف اٹھانے کی وجہ سے نہیں بھری ہے ایک داغ اٹھائے۔ مطلب یہ ہے کہ عبرت کا لطف جوتو نے اب تک نہیں اٹھایا اس کا تجھ کو افسوس کرنا چاہیے۔ ‘‘

۸؎       خیال دود تھا سر جوش سوداے غلط فہمی

اگر رکھتی نہ خاکستر نشینی کا غبار آتش

اس دھوئیں کے خیال سے میرے سوداے غلط فہمی کا سر چکرا جاتا اور اس میں ایک قسم کا جوش پیدا ہو جاتا ہے اگر کہیں آگ کے اندر خاکستر نشینی کا غبار موجود نہ ہوتا یعنی میری غلط فہمی کو اس کے دھوئیں سے طرح طرح کے خیال پیدا ہو جاتے مگر خیریت ہوئی کہ آگ میں اس کی خاکستر نشینی کی وجہ سے مادۂ غبار بھی مو جود ہے جو عشاق یا اس قسم کے لوگوں میں نہیں ہوتا اس لیے اب کو ئی غلط فہمی اس کی طرف سے نہیں ہے ‘‘

۹؎      واں رنگ ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز

یاں شعلۂ چراغ ہے برگ حنا مجھے

واں پردۂ تدبیر میں رنگینیاں کی جا رہی ہیں اور یہاں یہ حالت ہے کہ چراغ کے شعلہ کا مجھے برگ حنا پر گمان ہوتا ہے یعنی کسی تدبیر کی ضرورت نہیں ہے اور ہر تدبیر میرے لئے الٹی ہو رہی ہے‘‘

۱۰؎     ہوا ترک لباس زعفرانی دل کشا لیکن

ہنوز آفت نسب اک عقدہ یعنی چاک باقی ہے

میں نے لباس میں زعفرانی یعنی رنگین لباس کو چاک کر دیا ہے اور یہ من وجہ میرے لیے باعث دل کشائی و تفریح ثابت ہوا مگر بہ ذات خود چاک جو ایک چیز ہے وہ باقی ہے اور یہ بھی آفت نسب ہے ظاہر ہے کہ جو آفت آئی ہے وہ اسی کی صورت میں آئی ہے۔ ‘‘

یہ تشریحات سیاق اشعار کی گرفت میں کام یاب نہیں ہوسکیں اور اس کا احساس خود آسی کو بھی تھا اسی لیے انہوں نے انتہائی دبے الفاظ میں اس کا اعتراف کیا، لکھتے ہیں :

۱۱؎      ’’بادی النظر میں بعض شعروں کی شرح الجھی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر ان پر یہ حکم لگا دینا سراسر جلد بازی اور سراسر خلاف انصاف ہے کہ یہ غلط ہے یا یہ مہمل ہے۔ ٹھنڈے دل سے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے اختصار منظور تھا۔ اس لئے صفحے کے صفحے رنگنے کے بجائے چند الفاظ میں ان کے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘

اس بیان کا تجزیہ کرنے پر جو نتائج اور حقائق سامنے آتے ہیں انہیں نکات کی صورت میں یوں پیش کیا جا سکتا ہے:

۱۔ بعض شعروں کی شرح الجھی ہوئی ہے۔

۲۔ جنہیں غلط اور مہمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

۳۔ یہ اشعار وہ ہیں جن کے بارے میں صفحے کے صفحے رنگے جا سکتے ہیں۔

۴۔ ان اشعار کے بارے میں اختصار کی وجہ استعداد راقم ہے۔

آسی صاحب اگر درج بالا اعترافات اسی انداز میں کر لیتے تو شاید غالب شناسوں میں ان کا مقام و مرتبہ مزید بلند ہوتا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جنہیں آسی صاحب بعض اشعار کہہ رہے ہیں ان کی تعداد خاصی کثیر ہے۔ جن کے لیے انہیں مکمل طور پر قصور وار ٹھہرانا بھی درست نہیں کیوں کہ غالب کے شعری سیاق کو گرفت میں لینا قطعاً آسان نہیں لہذا ضروری ہے کہ نئے تناظرات میں کلام غالب کی معنویت کی تلاش کے ساتھ ان اشعار کے سیاق کو بھی دریافت کیا جائے جن کی بنیادی فکر بھی ہمارے تفہیمی دست رس میں نہیں اگر کوئی کاوش اس سلسلے میں سامنے آئی اور بار آور بھی ہوئی تو غالب کے بے شمار نئے امکانات ہمارے سامنے آئیں گے اور کلام غالب کی معنویت میں بھی اضافہ ہو گا۔ یہ بحث اس لیے چھیڑی گئی ہے کیوں کہ غالب کی شاعری کی معنویت کی جستجو میں اکثر ان کے اشعار کے سیاق کو نظر انداز کرنے یا دبانے کی غلطی کی گئی ہے اس ضمن میں بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر سر دست ممتاز حسین کی غالب کے شعر سیاق کو نظر انداز کرتے ہوئے یا دباتے ہوئے نئے تناظر میں اس کی تعبیر کی کوشش ملاحظہ ہو۔

۱۲؎     ’’ہم سبھی آج  ’’تسخیر مکان‘‘  کے عہد سے گزر رہے ہیں۔ آج کی تاریخ میں دم تحریر انسان نے ساٹھ میل کے فاصلے سے چاند کو جا کر دیکھا ہے اور چند برسوں میں وہ مریخ، زہرہ اور دوسرے سیاروں کو بھی اسی طرح دیکھ کر واپس آئے گا اور یہ بتائے گا جیسا کہ وہ آج بتا رہا ہے کہ اس کائنات میں نہ تو کوئی عرش ہے اور نہ فرش ہے، چاند پر جاؤ تو زمین عرش ہے اور وہ زہرہ و مریخ سے بھی زیادہ عشوہ گر ہے

کس کا سراغ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا

آئینہ فرش شش جہت انتظار ہے

لیکن اس عشوہ گری کو کہ اس سیارۂ زمیں کا بھی ایک غمزہ ہے۔ کتنے لوگ سمجھتے ہیں۔ ‘‘

یہاں غالب کے شعر کے سیاق کو کس طرح دبا کر من مانے تناظر میں پیش کیا گیا ہے اس کی وضاحت کے لیے ذرا ایک نظر اس شعر کے سیاق پر بھی ڈال لی جائے تو نا مناسب نہ ہو گا۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں :

۱۳؎       ’’ سارا آئینہ انتظار مجسم بن گیا ہے۔ اس حد تک کہ اگر انتظار کو ایک عالم(شش جہت) فرض کریں تو آئینہ اس کا فرش معلوم ہوتا ہے۔ یعنی آئینے میں ایک بار جلوہ منعکس ہوا تھا، آئینہ اس قدر از خود رفتہ ہوا کہ سراسر حیرت بن گیا یا کسی شخص نے جلوہ ایک بار دیکھا اور اس قدر متحیر ہوا کہ سراپا حیرت یعنی سراپا آئینہ بن گیا۔ بھر جلوہ آئینے سے (یا نظر سے) غائب ہو گیا۔ اب آئینے کو ہر دم اسی جلوے کا اس قدر شدید انتظار ہے یاحیر ت اب بھی اس قدر ہے کہ وہ متحیر شخص سراپا حیرت( یا سراپاآئینہ )ہے۔ گویا وہ شش جہت انتظار کا فرش بن گیا ہے۔ ‘‘

اب شاید یہ کہنے کی ضرورت باقی نہ رہی ہو کہ اس شعر کے سیاق اور ممتاز حسین پیش کے گئے تناظر میں کوئی ہم آہنگی نہیں۔ سیاق پر مکمل گرفت نہ ہونے کے باوجود ان کی شاعری کو نئے تناظرات میں رکھنے اور پرکھنے کے جتن عام رہے ہیں اور یہ جتن مکمل طور پر ناکام اس لیے بھی نہیں ہوئے کہ غالب کا شعری سیاق اپنے استعاراتی برتاؤ کے باعث اتنا شفاف ہو گیا ہے کہ عمل انعکاس ہر تناظر میں جاری رہتا ہے نتیجتاً اکثر اوقات شعری سیاق سے غیر ہم آہنگ تعبیرات بھی متن کے وجود کا جزو بن جاتی ہیں اور اس میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ یہ بات شاید عجیب معلوم ہو مگر حقیقت یہی ہے تاہم ہر متن میں یہ خوبی نہیں ہوتی کیوں کہ ہر متن معنی کے غیر جامد اور غیر پابند نظام کا حامل نہیں ہوتا اس لیے اس صفت سے بھی عاری ہوتا ہے۔ غالب کا شعری متن اس صفت سے غیر معمولی طور پر متصف ہے کیوں کہ ان کا شعری متن غیر پابند نظام کا حامل ہے اس نوع کے متن کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں عمل معنی مسلسل جاری رہتا ہے غالب کی شاعری کی زندگی اس صفت کی دین ہے۔ ان کا شعری متن اپنے سیاق کے تو سیعی عمل سے پوری طرح واقف ہے اور جانتا ہے کہ کس تعبیر کو اپنے وجود میں تحلیل کرنے کی نسبت ترکیبی کیا ہونی چاہئیے۔ متن کی اس کارگزاری کے بارے میں ناصر عباس نیر نے درست لکھا ہے:

۱۴؎     جو متن، معنی کے جاری عمل کے سمندر کی جھاگ سے تشکیل پاتا ہے، وہ قرأت کے سوز سے جلد ہی پگھل جاتا اور تاریخ کے نادیدہ افق پر اس کی راکھ بکھر جاتی ہے، جسے ہمارے محققین جمع کرنے کی مشقت میں اپنی عمریں گنوا دیتے ہیں، مگر جس متن کی تخلیق میں، معنی کے جاری عمل کے سمندر کی گہرائیاں صرف ہوتی ہیں وہ ہر نئی قرأت سے، نئے تناظر کے رو بہ رو آنے سے، نئے معنی حاصل ککر لیتا ہے۔ گویا نئے تناظر میں متن کی ہر تعبیر، متن کی طاقت کا سر چشمہ ہوتی ہے اور ہر تعبیر کے ساتھ متن کی قوت حیات بڑھتی جاتی ہے۔ دنیا میں صرف وہی متن باقی رہتے اور  ’’ٹائم بیئرر‘‘  کو عبور کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں جو قرأت و تعبیر کے مسلسل و متحرک عمل کی زد پر رہتے اور نتیجتاً داخلی سطح پر نئی تنظیم حاصل کرتے رہتے ہیں۔ ہر نئی تعبیر، متن کے نظامِ معنی کا باقاعدہ اور نامیاتی حصہ بن جاتی ہے۔ ‘‘

بیسوی صدی نے غالب کے شعری سیاق کو وسعت آشنا کیا ہے مگر وہ غالب کی شاعری کی معنویت کا محض ایک تناظر تھی جو اپنا تاریخی کردار ادا کر چکی ہے اور کئی تعبیرات کو کلام غالب کے نظام معنی کا نامیاتی حصہ بنانے میں غیر معمولی اہمیت کی حامل رہی ہے تاہم قرأت و تعبیر کا مسلسل اور متحرک عمل ابھی جاری ہے۔ بیسوی صدی کی طرح اکیسویں صدی بھی غالب کی شاعری کی معنویت کے تعین کے لیے نیا تناظر فراہم کرتی ہے۔ بیسوی صدی کے تناظر میں کلامِ غالب کی تعبیر و تفہیم پر جو بحث کی گئی ہے وہ اس بات کا قوی ثبوت ہے کہ غالب کا شعری سیاق یہ استعداد بدرجہ اتم رکھتا ہے کہ اسے نئے تناظر میں پڑھا جائے اور ان نئے معانی کی جلوہ نمائی مشاہدہ کی جائے جو سابقہ تناظر میں مخفی اور عدم دست یاب تھے لہذا اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ معنوی امکانات کی نئی دنیا ئیں آباد کرنے اور ہر نئے تناظر میں معنی کی نئی تہیں اور ابعاد پیدا کرنے کا سبب غالب کا شعری سیاق ہی ہے لیکن اس سیاق کی تخلیق کے وسائل کا تعین چنداں آساں نہیں کیوں کہ غالب نے اس سیاق کی تخلیق میں اتنے متنوع تجربات سے کام لیا ہے جن کی تعداد متقدمین، معاصرین اور متاخرین میں ہر انفرادی شاعر سے زیادہ بنتی ہے بل کہ بعض اوقات تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک پورے تجرباتی عہد سے بھی زیادہ تجربات غالب کی شاعری میں صرف ہوئے ہیں۔  یہاں غالب کے شعری تجربات پر بحث ممکن نہیں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ غالب نے اپنے شعری سیاق کو منفرد، مبہم اور کثیر المعنی بنانے کی ہر ممکن سعی کی ہے اور وہ پیچیدہ تر استعاراتی اسلوب خلق کیا ہے جس کی استعاریت کسی بھی صورت معنی واحد پر اکتفا نہیں کرتی۔ اکیسویں صدی میں بھی اس شاعری کے گنجینہ معنی کا طلسم برقرار ہے اور یہ پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس صدی میں بھی تا دم آخر غالب کی شاعری اپنی معنویت کے جلوہ ہائے کثیر ظاہر کرتی رہے گی تاہم پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اکیسویں صدی اپنے دامن میں کیا لائی ہے لیکن اس سے قبل یہ جاننا لازم ہے کہ کیا یہ صدی سن دو ہزار کے ساتھ کیلنڈر کے عین مطابق شروع ہوئی ہے؟ بہ قول وزیر آغا:

۱۵؎     ’’ سارے کیلنڈر انسان کے اپنے اختراع کردہ ہیں۔ قدرت نے کبھی انہیں تسلیم نہیں کیا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ کوئی صدی کسی خاص تاریخ کو اتنے بج کر اتنے منٹ پر طلوع ہو گی۔ ایک مفروضے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر صدی اپنی مرضی سے جب چاہے اور جہاں چاہے، وقت کے اندر سے بر آمد ہو جاتی ہے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ پر پرزے نکالتی ہے ہمیں اس کی موجودگی کا علم صرف اس وقت ہوتا ہے جب اس کے خدو خال بن چکتے ہیں۔ ‘‘

اکیسویں صدی نے وقت سے قبل جنم لیا ہے مگر کب؟ اس کا تعین آسان نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی کے آغاز کو مابعد جدید عہد کے آغاز سے تسلیم کیا جانا چاہیے جس کے آغاز کے سلسلے میں بھی اختلاف موجود ہے اور اسے بالترتیب بیسوی صدی کی دوسری، پانچویں اور ساتویں دہائی سے اختلاف کے ساتھ تسلیم کیا جاتا ہے یعنی ایک مظہر کے طور پر اس کے آغاز کو پانچ چھ دہائیوں سے زیادہ عمر نہیں ہوئی لگ بھگ یہی پانچ چھ گزشتہ دہائیاں اکیسوں صدی کے خد و خال پیدا کرنے میں بھی اساسی اہمیت رکھتی ہیں اور یہ خد و خال وہی ہیں جنہیں مابعد جدید عہد کے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ خدوخال جن واقعات، علوم اور کلامیوں کے زیر اثر تشکیل ہوئے یا ہو رہے ہیں ان کی فہرست بڑی طویل ہے جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں تاہم اکیسویں صدی جن بنیادی حوالوں سے بیسوی صدی سے ممتاز و مختلف ہے یعنی وہ حوالے جو پانچ چھ دہائیوں پہلے دنیا کے منظر نامے پر اس طرح موجود نہیں تھے جس طرح آج نہ صر ف موجود ہیں بل کہ انسانی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں بل کہ زیادہ بہتر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی زندگی کو جہت دے رہے ہیں ایک ایسی جہت جسے  ’’ بے جہتی‘‘  سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے ان حوالوں کو بہ ہر حال نشان زد کیا جا سکتا ہے۔ ان حوالوں میں ایک انتہائی اہم اور غیر معمولی حوالہ  ’’ نائن الیون‘‘  ہے۔ جس نے دنیا کو تبدیل بھی کیا ہے اور اس جبر کی شدت میں بے پناہ اضافہ بھی، جو پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی تقدیر ہے۔  ’’نائن الیون‘‘  نے  ’’دہشت کر دی‘‘  کے حوالے سے ایک ایسا کلامیہ تشکیل دیا ہے جس کا مقصد ایک مخصوص آئیڈیالوجی کا نفاذ ہے جو بذات خود ایک  ’’ وحشی ریاست‘‘  کی طاقت کا مظہر بھی ہے اور اس کے لیے مزید طاقت کے حصول کا ذریعہ بھی، اس لیے بہت سے کلامیوں کو عدم رائج کرنے کی کوشش ہوئی ہے اور ان کے بدلے نئے کلامیے رائج کیے گئے ہیں اس کے لیے ہر ممکنہ ذریعے کو استعمال کیا گیا ہے اور اس طرح انسانی فکر کو تبدیل کر کے اس کی نئی تشکیل کے ذریعے اسے گرفت میں لینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے اور اپنی من چاہی حدود تک محدود کر دیا گیا ہے عالمی سیاسی بساط پر نائن الیون کے بعد وہ چالیں چلی گئی ہیں کہ پیادے وزیر اور وزیر پیادے میں تبدیل ہو گئے ہیں تمام مہروں کی حیثیت اور کارکردگی اور اس کارکردگی کا دائرہ کار بدل گیا ہے اور دنیا انتہائی غیر یقینی صورت حال کی شکار ہو گئی ہے سیاسی طور پر مستحکم معاشرے عدم استحکام کا شکار ہوئے ہیں جب کہ غیر مستحکم معاشرے مزید ابتری میں مبتلا ہو گئے ہیں معاشی طور پر حالات بد سے بد تر ہونے لگے ہیں اور غریب ریاستوں میں جہالت اور بھوک میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس نے جرائم کو ہوا دی ہے اور لاء اینڈ آرڈر کے شدید مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اس شدید بحرانی صورت حال میں انسانی فکر کا جو رد عمل متوقع تھا وہ سامنے نہیں آسکا اور عملی جد و جہد بھی اس بڑے پیمانے پر دیکھنے میں نہیں آئی جس کی توقع کی جا سکتی تھی۔ انٹر نیٹ، کیبل، سیل فون اور ٹی وی وغیرہ نے ان معاشروں کو کنٹرول کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے جہاں سے مثبت خطو ط پر دنیا کی تعمیر کا امکان پیدا ہوسکتا تھا۔ اس تعمیر کے امکان کی جنم دہی کے لیے جتنا وقت انسانی غور و فکر کے لیے درکار تھا وہ اس سے چھین لیا گیا ہے اور اسے بے معنی تفریحات میں الجھا کر اس کی آزادی سلب کی گئی ہے وہ اپنی آواز تک سننے سے محروم ہو گیا ہے قتل و غارت گری کو اس کے ضمیر پر دستک کی بجائے کھیل تماشے میں تبدیل کر دیا گیا ہے اسے رنگوں اور آوازوں کی ایک ایسی پر کشش دنیا کا باسی بنا دیا گیا ہے جہاں اس کے تمام ذاتی اوصاف دھندلا گئے ہیں وہ دوسروں کی طرح سوچنے اور جینے پر مجبور ہو گیا ہے اور اسے فرصت تک نہیں ملی ہے کہ وہ سوچ سکے کہ وہ اس اندھے سفر، پر کب، کیسے اور کیوں روانہ ہو گیا ہے دنیا اس کے لے گاؤں ضرور بن گئی ہے مگر وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنی شناخت سے محروم کر دیا گیا ہے ڈبلیو ٹی او اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نیز گلوبلائزیشن وغیرہم نے جس  ’’ صارفیت کلچر‘‘ کو فروغ دیا ہے اس نے انسان سے اس کے  ’’اشرف المخلوقات‘‘  ہونے کا منصب چھین لیا ہے اور اسے ایک  ’’صارف‘‘  کی نئی حیثیت تفویض کی ہے جس پر آٹا، چینی، دال سے لے کر عورت، کتاب اور مذہب تک سب کچھ بیچا جا سکتا ہے۔ اس کلچر نے نظام اقدار کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے اور پرانے نظام اقدار کی وہ بیخ کنی کی ہے کہ انسان سے وہ زمین ہی چھن گئی ہے جس میں اس کی جڑیں پیوست تھیں نتیجتاًََ انسان ان اشجار میں تبدیل ہو گئے ہیں جو زمین سے ہر طرح کا رشتہ توڑ چکے ہیں اور ان کے وہ تمام قوی مضمحل ہو چکے ہیں جن کی قوت کا انحصار زمین پر تھا یہ شجر بار آوری کی صفت سے محروم اور اپنی برہنگی کو مانگے تانگے کے برگ و بار سے چھپانے کی کوشش لا حاصل میں مشغول ہیں تاہم ان پر اس لا یعنی کوشش کے کھلنے کا امکان بھی نہیں ہے کیوں کہ حقیقت کے تصور کو تشکیلی حقیقت(ہائپر رئیلٹی )سے تبدیل کر دیا گیا ہے انسان اب اسی تشکیلی حقیقت(ہائپر رئیلٹی)کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تاہم وہ اپنی اس مجبوری سے بھی واقف نہیں۔ سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں ان سے چھینی جاچکی ہیں انسانی زندگی کی یہ انفعالیت بھی سابقہ انفعالیت سے مختلف ہے جس سے نجات کی بھی کوئی صورت سر دست موجود نہیں ہے کیوں کہ اس نے دوسروں کی تشکیلی حقیقت کو اپنی حقیقت کے طور پر قبول کر لیا ہے اور فی الوقت اس طرز زندگی سے بے زاری کا کوئی احساس بھی ظاہر نہیں ہوا ہے۔ تشکیلی حقیقت (ہائپر رئیلٹی) سے نکلنے کی کوئی صورت اس لیے بھی نا ممکن ہے کیوں کہ حقیقت اس قدر سفاک ہو چکی ہے کہ اس کا سامنا بیدار انسانی ضمیر کے لیے قابل برداشت نہیں رہا دوسری طرف فکری سطح پر بھی اس سے نبرد آزمائی کو انسان کے لیے ناممکن بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تکثیریت اور بین العلومیت وغیرہم کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ تکثیریت نے مرکزیت کو صرف سیاسی طور پر چیلنج نہیں کیا کسی واحد نظریے کی ا تھارٹی چیلنج کرنا مثبت اقدام سہی مگر لا مرکزیت کی حامل ایسی تکثیریت کی راہ ہم وار کرنا جس کی کوئی انتہا نہ ہو مثبت اقدام نہیں یہ راستوں کو اتنا کثیر کر دینے کے مترادف عمل ہے جس میں منزل کا تصور ہی باقی نہیں رہتا اسی لیے آغاز میں اس جہت کو  ’’بے جہتی ‘‘  سے تعبیر کیا گیا تھا۔ بین العلومیت نے بھی بہ ظاہر تو علوم کے دامن کو کشادہ کیا ہے اور ایک دوسرے سے استفادے کی راہ ہم وار کی ہے مگر بہ باطن علم کی اس حیثیت کو نقصان بھی پہنچا یا ہے جس کے ذریعے وہ واضح حد بندی اور فکر و فلسفہ کے معین نقطۂ نظر کا حامل ہونے کے با وصف انسانی فکر کو انتشار سے بچاتا ہے اور اسے معاصر صورت حال کے مقابل اپنا موقف تشکیل دینے کی صلاحیتوں سے بہرہ مند بھی کرتا ہے۔

مختصر یہ کہ اکیسویں صدی میں کوئی بھی مظہر شفافیت کا حامل نہیں، ہر لفظ میں کئی الفاظ کو گونج ہے، ہر تصور میں کئی شبیہیں جلوہ نما اور ہر آواز میں بے شمار لہجے شامل ہیں، ایک بے انت ہنگام اور انتشار کی سی صورت ہے، ایک الجھی ہوئی ڈور ہے جس کا کوئی سرا نہیں، ایک گور کھ دھندا ہے ما یا جال ہے، ایک حلقہ دام خیال ہے، ہر طرف فریب، دھوکے اور سراب کی سی کیفیت ہے، ایک بے معنی کھیل تماشا ہر سو جاری ہے، ایک دوڑ ہے جس کی نہ کوئی سمت ہے نہ کوئی منزل، ایک سیل بلا ہے جس میں سب بے دست و پا ہیں اور کوئی اپنی بے دست و پائی سے آگاہ بھی نہیں، سر دست ایک شور برپا ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بے معنویت کے اس سیلاب میں غالب کی شاعری کیا معنویت رکھتی ہے؟ یہ سوال دل چسپ بھی ہے اور اہم بھی۔ دل چسپ اس لیے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اس صورت حال میں غالب کی شاعری کو بامعنی ثابت کیا جا سکے جہاں معانی تعین سے پہلے ہی التوا کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس طرح کثرت معنی سے زیادہ انتشار معنی کی فضا تخلیق ہوتی نظر آتی ہے اور یہ سوال اہم اس لیے ہے کہ کیا واقعی اس بے معنویت کے سیلاب میں کوئی مظہر بامعنی نہیں ؟

حقیقت یہ ہے کہ ہر اس مظہر کی اہمیت اور معنویت موجودہ صورت حال میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے جس نے ہمیشہ انسان کو حوصلہ دیا ہے اور جس نے انسانی تاریخ کے طویل دورانیے میں اپنی اہمیت ثابت کی ہے اور ’’ ٹائم بیئررز‘‘  کو عبور کرتے ہوئے صورت حال کے مقابل اپنے موقف کو درست ثابت کیا ہے۔ غالب کی شاعری نے اپنے زمانے میں بھی صرف صورت حال کو منعکس نہیں کیا تھا بل کہ اس کے مقابل اپنے موقف کو جمالیاتی اظہار کی صورت پیش کیا تھا۔ غالب اپنے موقف اور جمالیاتی اظہار ہر دو اعتبار سے مستقبل کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں آزادانہ غور و فکر کا جو قوی احساس پایا جاتا ہے اور اپنے موقف کے حوالے سے ان کے ہاں جو اعتماد ہے اس نے ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری میں بھی وہ قوت پیدا کر دی ہے کہ وہ ہر طرح کی صورت حال میں اپنا موقف پوری طاقت سے پیش کرتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ ابتر سے ابتر صورت حال میں بھی یہ شاعری انسان کو گم راہی سے بچا سکتی ہے اور اس کے اندر یہ قوت پیدا کرسکتی ہے کہ وہ ہر طرح کی طاقت ور بے معنویت کے مقابل اپنے وجود کی معنویت کو برقرار رکھ سکے اور خوب صورت دنیا کی تخلیق کے لیے اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی کوشش جاری رکھنے کا حوصلہ پیدا کر سکے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب غور و فکر کے عمل کو ترک نہ کیا جائے۔ غالب کی شاعری اردو شاعری کی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ غور و فکر پر اکسانے والی شاعری ہے جس کی ضرورت شاید آج کے انسان کو گزشتہ ہر عہد کے انسان سے زیادہ ہے غالب کی شاعری میں صرف یہ خوبی نہیں کہ وہ غور و فکر پر اکساتی ہے بل کہ اس میں یہ خصوصیت بھی پوری کلاسیکی شاعری سے زیادہ پائی جاتی ہے کہ اس کا شعری سیاق خود کو ہر طرح کے تناظر سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ککر لیتا ہے اس لیے اکیسویں صدی کے پیش کیے گئے تناظر میں غالب کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ شاعری کسی دوسرے تناظر میں تخلیق کی گئی تھی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

 

۱۶؎             ’’آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا‘‘

 

۱۷؎             ’’تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا

اڑنے سے پیش تر بھی مرا رنگ زرد تھا‘‘

 

۱۸ ؎               ’’نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

حباب موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا‘‘

 

۱۹؎             ’’یاد کر وہ دن کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا

انتظار صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا‘‘

 

۲۰؎            ’’اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو

توڑا جو نے آئینہ تمثال دار تھا‘‘

 

۲۱؎             ’’ہمہ نا امیدی ہمہ بدگمانی

میں دل ہوں فریب وفا خوردگاں کا‘‘

 

۲۲؎            ’’مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے

پر گل، خیال زخم سے، دامن نگاہ کا‘‘

 

۲۳؎              ’’گلشن میں بندوبست بہ رنگ دگر ہے آج

قمری کا طوق، حلقۂ بیرون در ہے آج‘‘

 

۲۴؎              ’’ لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا

ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور‘‘

 

۲۵؎            ’’کرے ہے صرف بہ ایمائے شعلہ قصہ تمام

بہ طرز اہل فنا ہے فسانہ خوانیِ شمع‘‘

 

۲۶؎             ’’غیر کی منت نہ کھینچوں گا، پئے توفیر درد

زخم، مثلِ خندۂ قاتل ہے سرتاپا نمک‘‘

 

۲۷؎              ’’جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا

اے وائے نالۂ لب خونیں نوائے گل‘‘

 

۲۸؎              ’’ غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم‘‘

 

۲۹؎               ’’میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش

تو اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں ‘‘

 

۳۰؎              ’’مانع دشت نوکر دی کوئی تدبیر نہیں

ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں ‘‘

 

۳۱؎               ’’ حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو

کہ چشم تنگ شاید کثرت نظارہ سے وا ہو‘‘

 

۳۲؎            ’’ ہنگامۂ زبونی ہمت ہے، انفعال

حاصل نہ کیجیے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو‘‘

 

۳۳؎              ’’ہے سبزہ زار ہر در و دیوار غم کدہ

جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ‘‘

 

۳۴؎              ’’صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے

طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے

’’دیوار بارِ منت مزدور سے ہے خم

اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے‘‘

 

 

۳۵؎              ’’ ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا

کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے‘‘

 

۳۶؎            ’’ ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے‘‘

 

۳۷؎            ’’ مری ہستی فضائے حیرت آباد تمنا ہے

جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے‘‘

 

۳۸؎              ’’ اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو

آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی‘‘

 

۳۹؎             ’’ کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی

ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی‘‘

 

۴۰؎            ’’ داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے‘‘

 

۴۱؎             ’’ ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے

میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘

 

۴۲؎            ’’ ہاں کھائیو مت فریب ہستی

ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘

 

۴۳؎            ’’ یارب اس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے

رشک آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے‘‘

 

۴۴؎              ’’ بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اک کھیل ہے اورنگ سلیمان مرے نزدیک

اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور

جز وہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے

گِھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے‘‘

 

۴۵؎            ’’ باغ یا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے

سایۂ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے

جوہر تیغ بہ سر چشمۂ دیگر، معلوم

ہوں میں وہ سبزہ کہ زہراب اگاتا ہے مجھے‘‘

 

یہ شاعری اکیسویں صدی کے واقعات اور کلامیوں سے صورت پذیر تناظر پر گرفت بھی رکھتی ہے، اس کی تفہیم کا وژن بھی اور اسے تبدیل کرنے کی جہت کا ادراک بھی۔ یہ صرف انعکاس تک محدود شاعری نہیں ہے بل کہ آزاد متخیلہ کی حامل وہ شاعری ہے جو کسی مقتدرہ کا آلہ کار نہیں بنتی اور ہر طرح کی صورت حال میں مسرت بخش اور انسانی فلاح کی پیش کار نظر آتی ہے۔ غالب کی شاعری جس فرد کی تعمیر کرتی ہے وہ عصر کے مقابل بے دست و پا ہونے کے بر عکس اسے پوری جرأت مندی سے قبول کرتے ہوئے نہ صرف اس پر حاوی ہوسکتا ہے بل کہ اسے اپنے موقف کے مطابق تبدیل بھی کرسکتا ہے اگر ہمیں آج اس تخلیقی اظہار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو کہ انسان کو اس کے حقیقی منصب پر بحال کرتے ہوئے کسی تبدیلی کا امکان پیدا کرسکے، جو معاصر صورت حال کا ادراک موضوعی اور معروضی حیثیتوں سے کرنے کا اہل ہو، جو رائج منطق کو تخلیقی منطق سے چیلنج کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو، جو موجود عصر سے متعلق بھی ہو اور وسیع تر انسانی تاریخ کے تناظر میں اس کا محاکمہ بھی پیش کرسکتا ہو، جو آج کی مقتدرہ کی حکمت عملیوں کا پردہ چاک بھی کرسکتا ہو اور درست نہج پر دنیا کی تعمیر کا موقف بھی رکھتا ہو۔ اگر واقعی ہمیں آج اس نوع کے تخلیقی اظہار کی ضرورت ہے تو پھر غالب کی شاعری کی معاصر معنویت کا استرداد کسی طور ممکن نہیں۔

 

                   حواشی

 

۱۔ شمس الرحمان فاروقی: ’’ غالب کے چند پہلو‘‘ ، کراچی انجمن ترقی اردو، ۲۰۰۱ء، ص۹

۲۔ ایضاً، ص۱۳

۳۔ ایضاً، ص۱۳

۴۔ ایضاً، ص۱۴، ۱۵

۵۔ ایضاً، ص۱۱

۶۔ مولوی عبدالباری اسی الدنی:  ’’مکمل شرح کلام غالب‘‘ ، لاہور، مکتبہ شعر و ادب، سن ندارد، ص۹

۷۔ ایضاً، ص۱۰۶، ۱۰۷

۸۔ ایضاً، ص۱۳۶

۹۔ ایضاً، ص۲۲۱

۱۰۔ ایضاً، ص۳۰۵

۱۱۔ ایضاً، ص۴۸

۱۲۔ ممتاز حسین: ’’غالب ایک مطالعہ‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ۲۰۰۳، ص۱۱۸، ۱۱۹

۱۳۔ شمس الرحمن فاروقی: ’’تفہیم غالب‘‘ ، لاہور، اظہار سنز، سن ندارد، ص ۳۸۴، ۳۸۵

۱۴۔ ناصر عباس نیر، ڈاکٹر: ’’متن، سیاق اور تناظر‘‘ ،مشمولہ، ادب لطیف، لاہور، مکتبہ جدید پریس، ۷۵ سالہ نمبر، نومبر دسمبر۲۰۱۰۔ ص ۱۴۴، ۱۴۵

۱۵۔ وزیر آغا ڈاکٹر: ’’معنی اور تناظر‘‘ ، سرگودھا، مکتبہ نردبان، ۱۹۹۸ء، ص ۱۲

۱۶۔ اسداللہ خاں غالب: ’’دیوانِ غالب‘‘ ، مرتبہ، غلام رسول مہر، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، پبلیشرز، ۱۹۶۷۔ ص ۲۰

۱۷۔ ایضاً، ص۲۶

۱۸۔ ایضاً، ص۳۲

۱۹۔ ایضاً، ص۳۹

۲۰۔ ایضاً، ص۴۰

۲۱۔ ایضاً، ص۶۳

۲۲۔ ایضاً، ص۷۱

۲۳۔ ایضاً، ص۸۱

۲۴۔ ایضاً، ص۹۴

۲۵۔ ایضاً، ص۱۰۷

۲۶۔ ایضاً، ص۱۱۰

۲۷۔ ایضاً، ص۱۱۴

۲۸۔ ایضاً، ص۱۱۶

۲۹۔ ایضاً، ص۱۲۳

۳۰۔ ایضاً، ص۱۲۸

۳۱۔ ایضاً، ص۱۶۲

۳۲۔ ایضاً، ص۱۶۵

۳۳۔ ایضاً، ص۱۷۹

۳۴۔ ایضاً، ص۱۸۰

۳۵۔ ایضاً، ص۱۹۳

۳۶۔ ایضاً، ص۱۹۵

۳۷۔ ایضاً، ص۱۹۸

۳۸۔ ایضاً، ص۲۱۷

۳۹۔ ایضاً، ص۲۲۳

۴۰۔ ایضاً، ص۲۴۴

۴۱۔ ایضاً، ص۲۵۲

۴۲۔ ایضاً، ص۲۵۸

۴۳۔ ایضاً، ص۲۶۴

۴۴۔ ایضاً، ص۲۷۴

۴۵۔ ایضاً، ص

٭٭٭

تشکر: سدرہ سحر عمران جنہوں ے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید