FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن

ڈاکٹر محمد لقمان سلفی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

حصہ اول

فاتحہ تا رعد

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

حصہ دوم

سورہ ابراہیم تا صافات

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

حصہ سوم

سورہ صٓ تا الناس


پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

 

تیسیر الرحمن لبیان القرآن

حصہ اول (سورۃ الفاتحہ تا الرعد)

ڈاکٹر محمد لقمان سلفی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

تعارف تفسیر

ہر دور میں علمائے اسلام نے کتاب و سنت کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ عصر حاضر میں دنیا کے ایک گلوبل ولیج بن جانے کی وجہ سے اہل علم اور خواص کے طبقہ میں یہ ضرورت اور احساس بڑھ گیا ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں کتاب اللہ اور احادیث مبارکہ کے تراجم ہونے چاہییں۔ بر صغیر پاک و ہند میں قرآن کا سب سے پہلا ترجمہ فارسی میں ہوا جس کے مؤلف شاہ ولی اللہ دہلویؒ تھے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے شاہ عبد القادرؒ نے قرآن کریم کا اردو زبان میں پہلا ترجمہ کیا۔ اس کے بعد تو گویا تراجم، حواشی اور تفاسیر کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ سلف صالحین کے سلفی منہج پر لکھے جانے والے قرآنی حواشی میں سے دو کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی، ان میں سے ایک مفتی عبدہ الفلاح صاحب کا ’اشرف الحواشی‘ اور دوسرا مولانا صلاح الدین یوسف صاحب کا ’احسن البیان‘ ہے۔

سلفی منہج پر لکھے جانے والے ا ن حواشی میں ’تیسیر الرحمن لبیان القرآن‘ ایک اہم اضافہ ہے۔ اس حاشیہ کے مولف ڈاکٹر محمد لقمان سلفی ہیں جنہوں نے سعودی عرب سے حدیث میں پی۔ ایچ۔ ڈی مکمل کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید کے متن کا نہایت ہی سلیس اور آسان فہم ترجمہ بیان کیا ہے۔ اس کے بعد حاشیہ میں شروع میں وہ سورۃ مبارکہ کے نام، زمانہ نزول، شان نزول اور فضائل سورۃ، اگر موجود ہوں، پر بحث کرتے ہیں۔ حواشی میں احادیث کے بیان میں صحیح اور مستند روایات کا التزام کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں سلف صالحین کی تفاسیر میں سے تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، فتح القدیر، فتح البیان، محاسن التنزیل، تفسیر سعدی اور حافظ ابن القیم کی تفسیر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ عوام الناس کے لیے بہت ہی مفید حواشی قرآن ہیں۔

٭٭٭

۱۔ سورۃ الفاتحۃ

تعارف

۱۔             یہ سورت مکی ہے یا مدنی؟:۔

مکی ان سورتوں کو کہتے ہیں جو ہجرت سے قبل نازل ہوئیں، اور مدنی ان کو جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں۔ اکثر مفسرین کے نزدیک سورۃ الفاتحہ ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سورۃ الفاتحہ دو بار نازل ہوئی۔ پہلی بار مکہ مکرمہ میں اور دوسری بار ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں۔ لیکن راجح یہی ہے کہ یہ صرف ایک بار ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔

۲۔            اس کے کئی نام ہیں:۔

قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں اس سورت کے کئی نام آئے ہیں۔ امام قرطبی نے اس کے بارہ نام بتائے ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔

الصلاۃ۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں آیا ہے۔

قسمت الصلاۃ بینی و بین عبدی نصفین۔ الحدیث۔

یعنی میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ اس حدیث میں صلاۃ سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ اس سورت کا ابتدائی نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کی ربوبیت، الوہیت اور ملوکیت کا اعتراف ہے، اور دوسرا نصف حصہ اللہ سے دعا و مناجات ہے۔

الحمد۔ اس لیے کہ اس سورت میں حمد کا ذکر ہے۔

فاتحۃ الکتاب: اس لیے کہ قرآن کریم کی تلاوت، مصحف کی کتابت اور نماز کی ابتدا اسی سورت سے ہوتی ہے۔

ام الکتاب: امام بخاریؒ نے کتاب التفسیر کے شروع میں لکھا ہے کہ اس کا نام ام الکتاب اس لیے کہ مصحف کی کتابت اور نماز میں قرأت کی ابتدا اسی سے ہوتی ہے۔ ایک توجیہہ اس کی یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سورت میں قرآن کریم کے تمام معانی و مضامین کا ذکر اجمالی طور پر آ گیا ہے۔

ام القرآن: امام ترمذی نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سورۃ الحمد للہ، ام القرآن ہے، ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے۔

السبع المثانی: اس لیے کہ یہ سورت سات آیتوں پر مشتمل ہے اور نماز کی ہر رکعت میں ان آیتوں کا اعادہ ہوتا ہے۔ القرآن العظیم: اس لیے کہ اس میں تمام قرآنی علوم کا ذکر کیا گیا ہے۔ الشفاء: امام دارمی نے ابو سعید خدریؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فی فاتحۃ الکتاب شفاء من کل داء۔ یعنی سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لیے شفا رکھی ہے۔

رقیہ: یعنی دم، اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے اس صحابی سے جس نے ایک سردارِ قبیلہ پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اس کے جسم سے سانپ کا زہر اتر گیا تھا کہ تجھے کس نے بتایا کہ یہ دم ہے۔؟ تو صحابی نے کہا یا رسول اللہ! میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی۔

الاساس: امام شعبیؒ نے حضرت ابن عباس رضی الہ عنہما سے روایت کی ہے کہ قرآن کی اساس سورۃ فاتحہ ہے، جب کبھی بیماری پڑو تو اس سورت کے ذریعہ شفا حاصل کرو۔

الوافیۃ۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ نماز میں سورۃ فاتحہ کی تقسیم نہیں ہو سکتی۔ یعنی دیگر سورتوں کی طرح اسے نصف نصف دو رکعتوں میں پڑھنا جائز نہیں اس لیے اس کا نام الوافیہ ہے۔

الکافیہ: یحیی بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ یہ سورت دوسری سورتوں کے بدلے میں کافی ہو جاتی ہے۔ لیکن دوسری سورتیں اس کے بدلہ میں کافی نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اس کا نام الکفایہ ہے۔

۳۔            اس کی فضیلت:۔

یہ سورت قرآن کریم کی عظیم ترین سورت ہے اس کی فضیلت میں نبی کریم کی کئی صحیح حدیثیں آئی ہیں یہاں کچھ حدیثوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے:۔

۱۔     ترمذی اور نسائی نے بی بن کعبؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تورات و انجیل میں ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ جیسی سورت نہیں اتاری۔ اسی کو سبع مثانی بھی کہتے ہیں۔

۲۔     مسند احمد میں ہے کہ ابو سعید بن المعلیؓ کو رسول اللہﷺ نے کہا کہ میں تجھے مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کریم کی عظیم ترین سورت سکھاؤں گا۔ پھر آپ نے انہیں سورۃ فاتحہ کی تعلیم دی۔ اس حدیث کو امام بخاری، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔

۳۔     امام مالک نے مؤطا میں روایت کی ہے کہ ابو سعید مولی عامر بن کریز نے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے ابی بن کعبؓ کو کہا، میں تجھے مسجد سے نکلنے سے قبل ایک ایسی سورت بتاؤں گا جیسی تورات و انجیل میں نہیں اتاری گئی، اور نہ ہی قرآن میں ویسی کوئی دوسری سورت ہے۔ پھر آپﷺ نے پوچھا کہ جب نماز کی ابتدا کرتے ہو تو کیا پڑھتے ہو؟ انہوں نے الحمد اللہ رب العالمین پڑھی، آپ نے فرمایا: یہی وہ سورت ہے۔

۴۔     امام احمد نے عبد اللہ بن جابرؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے۔ جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی سب سے بہترین سورت سورۃ فاتحہ ہے۔

۵۔     اس سورۃ کریمہ کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اسے پڑھ کر پھونکنے سے سانپ کے کاٹے کا زہر اللہ کے حکم سے اتر جاتا ہے۔ امام بخاری نے ابو سعید خدریؓ سے روایت کی ہے کہ ہم ایک بار سفر میں تھے۔ ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ایک لڑکی آئی اور بتایا کہ قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے اور ہمارے لوگ باہر گئے ہوئے ہیں، کیا آپ لوگوں میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ تو ہم میں سے ایک آدمی اٹھ کر گیا، جس کے بارے میں ہم لوگ نہیں جانتے تھے کہ دم کرنا جانتا ہے۔ اس نے دم کیا تو سانپ کا زہر اتر گیا۔ اس نے اسے تیس بکریاں دین۔ اور ہم سب کو دودھ بھی پلایا۔ جب وہ واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا تم دم کرنا جانتے تھے۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں نے تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ہے۔ ہم نے کہا کہ برکیوں کے معاملہ کو ایسے ہی رہنے دو۔ یہاں تک کہ ہم رسول اللہﷺ سے پوچھ لیں۔ جب ہم مدینہ آئے اور آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اسے کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر ہے۔ تم لوگ ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کرتے وقت میرا بھی ایک حصہ رکھنا۔ اس حدیث کو امام مسلم اور امام ابو داود نے بھی روایت کیا ہے امام مسلم کی بعض روایتوں میں ہے کہ دم کرنے والے ابو سعید خدریؓ ہی تھے۔

۶۔     امام مسلم اور نسائی نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اور جبرئیلؑ آپ کے پاس موجود تھے کہ اوپر سے ایک آواز سنائی دی۔ جبرئیلؑ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا کہ آسمان کا یہ دروازہ آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا اس سے ایک فرشتہ اترا اور رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو دو نور دئیے جانے کی خوشخبری دیتا ہوں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے۔ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں۔ ان کا ایک حرف بھی آپ پڑھیں گے تو اس کا بدل آپ کو دیا جائے گا۔

۷۔     سورۃ فاتحہ کی فضیلت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہو گی۔ نبی کریمﷺ نے اس بات کو تین بار دہرایا۔ اس حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے نماز (یعنی سورۃ فاتحۃ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور میں اپنے بندے کو وہ دیتا ہوں جو وہ مانگتا ہے (مسلم، نسائی مؤطا، مسند احمد)۔

۴۔            نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا امام اور مقتدی سب پر واجب ہے:۔

نبی کریمﷺ کی صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔ جن حضرات نے سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب نہیں سمجھا ہے ان کی مشہور دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں:۔

الف: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ۔

واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔ الایہ۔

یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کرو اور دھیان دے کر سنو۔ (الاعراف: ۲۰۴)۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اور نماز میں قرات فاتحہ کے وجوب سے متعلق حدیثیں خاص اور بہت ہی واضح اور صریح ہیں اور اس آیت کی تخصیص کرتی ہیں۔

ب۔ ان کی دوسری دلیل رسول اللہﷺ کا یہ قول ہے کہ مالی انازع القرآن۔ یعنی کیا بات ہے کہ نماز میں لوگ میرے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: لاتفعلوا الا بام القرآن فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرا بھا۔ یعنی سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو۔ کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (ابو داود، ترمذی، نسائی)۔

ج۔ ان کی تیسری مشہور دلیل یہ حدیث ہے۔

من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ۔

یعنی اگر کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قرأت اس کی قرأت ہو گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں محدثین کا کلام ہے، وجوب قرأت فاتحہ والی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے یہ قابل قبول نہیں لیکن اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ وجوب قرأت والی حدیثیں اس کی تخصیص کرتی ہیں۔ یعنی جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ کی قرأت کے بعد امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہو گی۔

اب آئیے، ان احادیث صحیحہ پر ایک نظر ڈالی جائے جن کی بنیاد پر محدثین کرام کی کثیر تعداد نے فاتحہ کی قرأت کو امام اور مقتدی سب کے لیے واجب قرار دیا ہے۔

۱۔     ابو ہریرہؓ کی حدیث جو اوپر گذر چکی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی نماز پڑھی، اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہو گی۔ آپ نے یہ بات تین بار دہرائی۔ ابو ہریرہؓ سے کہا گیا کہ ہم لوگ تو امام کے پیچھے ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ دل میں پڑھ لیا کرو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو کہتے سنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے نماز (سورہ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ الحدیث (مسلم، نسائی، مؤطا، مسند احمد)۔

۲۔     ابو ہریرہؓ ہی کی دوسری حدیث کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ نماز کفایت نہیں کرتی جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے (صحیح ابن خزیمہ)۔

۳۔     عبادہ بن صامتؓ کی حدیث کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا۔ (متفق علیہ)۔

۴۔     ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ مجھے اللہ کے رسولﷺ نے یہ اعلان کر دینے کا حکم دیا۔ لا صلاۃ الا بقراءۃ فاتحۃ الکتاب فما زاد۔ یعنی نماز صحیح نہیں ہوتی جب تک سورۃ فاتحہ اور قرآن کا کچھ اور حصہ نہ پڑھا جائے (ابو داود) یہی قول صحابہ کرام میں عمر بن خطاب، عبد اللہ بن عباس، ابو ہریرہ، ابی بن کعب، ابو ایوب انصاری، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، عثمان بن ابی العاص، خوات بن جبیر اور عبد اللہ بن عمرؓ وغیرہم کا ہے اور ائمہ کرام میں شافعی، احمد، مالک، اوزاعی وغیرہم کی یہی رائے ہے۔ یہ سبھی حضرات نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کی قرأت کو واجب قرار دیتے ہیں۔

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم:۔

اس کا معنی یہ ہے کہ ’’میں اللہ تعالیٰ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگتا ہوں‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بندوں کو مردود شیطان کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا۔

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِینَ (۱۹۹) وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ (۲۰۰)۔ اور فرمایا وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ (۹۷) وَأَعُوذُ بِکَ رَبِّ أَنْ یَحْضُرُونِ (۹۸)۔

اور فرمایا۔

ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (۳۴) وَمَا یُلَقَّاہَا إِلا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ (۳۵) وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ (۳۶)۔

ان آیتوں میں اللہ نے نبی کریمﷺ کو شیطان سے پناہ مانگنے کی نصیحت کی ہے، کیونکہ جنوں کا شیطان، انسان کا ایسا دشمن ہے جو کسی بھی بھلائی اور احسان کو نہیں مانتا۔ اور ہر وقت اس کے خلاف سازش میں لگا رہتا ہے۔ نبی کریمﷺ کی صحیح احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے کہ مسلمان کی زندگی میں اللہ کے ذریعہ شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگنے کی بڑی اہمیت ہے۔ ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، پھر کہتے۔

سبحانک اللہ ربنا و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک۔

پھر تین بار لا الہ غیرک۔ کہتے، پھر کہتے:۔

اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ و نفخہ ونفثہ۔

(ابو داود، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ)۔

عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کہا کرتے تھے۔

اللہم انی اعوذبک من الشیطان الرجیم من نفخہ و نفثہ۔

(ابن ماجہ)۔ معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں کہ دو آدمی نے رسول اللہﷺ کے پاس آپس میں گالی گلوچ کیا۔ ان میں کا ایک آدمی اتنا زیادہ غصہ ہوا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا اس کی ناک غصہ سے پھٹ جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جسے اگر وہ کہے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے۔ معاذ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، وہ کون سا کلمہ ہے۔ تو آپ نے فرمایا، یوں کہے۔ اللہ انی اعوذبک من الشیطان الرجیم۔ الحدیث (احمد، ابو داود ترمذی، نسائی) اسی حدیث کو حافظ ابو یعلی موصلی نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔

قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم:۔

عام حالات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کا خاص طور پر حکم دیا ہے کہ جب وہ قرآن کریم کی تلاوت کرنا چاہیں تو پہلے اللہ کے ذریعہ شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگ لیں۔ سورۃ النحل میں ہے۔

فاذا قرات القران فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم۔

جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگ لو۔ اسی آیت کے پیش نظر جمہور علماء کا قول ہے کہ نماز کے علاوہ دیگر حالات میں قرأت قرآن کی ابتدا سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا مستحب ہے۔ حالت نماز کے بارے میں راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ اور سورۃ فاتحہ کے قبل اعوذ باللہ سری یا جہری طور پر پڑھ لیا جائے، کیونکہ یہ آیت قرأت قرآن کی تمام حالتوں کو شامل ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۝۱۔

۱      میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ کس سورت کی آیت ہے؟۔

صحابہ کرم نے حضرت عثمانؓ کے زمانے میں جو مصحف تیار کیا اور جس کی تمام صحابہ کرام نے تائید و توثیق کی، اس مصحف میں سورۃ برأت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ لکھی گئی۔ اس مصحف میں کوئی بھی ایسی چیز نہ لکھی گئی جو قرآن کریم کا حصہ نہ تھی، نہ سورتوں کے نام لکھے گئے، نہ ہی آیتوں کی تعداد اور نہ کلمہ آمین۔ تاکہ کوئی شخص۔ اللہ نہ کرے۔ غیر قرآن کو قرآن نہ سمجھ لے۔ اس تمام تر احتیاط کے باوجود بسم اللہ صرف ایک سورت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں لکھی گئی۔ جن کی تعداد ایک سو تیرہ ہے۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ بسم اللہ، سورۃ نمل کی ایک آیت کا بعض حصہ ہونے کے علاوہ ایک مستقل آیت ہے، جو رسول اللہﷺ پر ہر سورت کی ابتدا سے پہلے اترا کرتی تھی۔ اور اسی کے ذریعہ آپﷺ جان پاتے تھے کہ ایک سورت ختم ہو گئی، اب دوسری سورت کی ابتدا ہونے والی ہے۔ اس کی تائید حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ ایک سورت کی انتہا اور دوسری سورت کی ابتدا اس وقت تک نہیں جانتے تھے جب تک بسم اللہ الرحمن الرحیم نئے سرے سے نازل نہیں ہوتی تھی۔ اس حدیث کو ابو داود اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ یہاں تک یہ بات ثابت ہو گئی کہ بسم اللہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے۔ اس کے بعد علمائے کرام کا اختلاف رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ سورۃ برأت کے علاوہ یہ ہر سورت کی ایک آیت ہے، تو گویا سورۃ فاتحہ کی بھی ایک آیت ہے۔ امام مالک، ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ یہ نہ تو سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ ہی کسی دوسری سورت کی۔ داود ظاہری کا خیال ہے کہ ہر سورت کی ابتدا میں یہ ایک مستقل آیت ہے، لیکن کسی سورت کا حصہ نہیں ہے۔

بسم اللہ با آواز پڑھی جائے یا آہستہ:۔

اس اختلاف کی وجہ سے جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ کو با آواز بلند پڑھنے کے بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہو گیا ہے۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سورۃ فاتحہ کی ایک آیت نہیں اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مستقل آیت ہے، کسی سورت کی آیت نہیں، وہ کہتے ہیں کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ آہستہ پڑھی جائے گی، اور جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ سورۃ برأت کے علاوہ ہر سورت کی آیت ہے، ان میں امام شافعی اسے جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ اور ہر سورت کے پہلے بآواز بلند پڑھنے کے قائل ہیں۔ ان لوگوں نے ابو ہریرہ، ابن عباس، اور ام سلمہؓ وغیرہم سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے، جن میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی۔ (دیکھئے ابن کثیر و فتح القدیر)۔ لیکن خلفائے اربعہ، احمد بن حنبل اور سفیان ثوری وغیرہم کی رائے ہے کہ نماز میں بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھی جائے گی۔ ان لوگوں نے امام مسلم کی حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نماز میں قرأت، الحمد اللہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔ اسی طرح صحیحین کی حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ، ابو بکر، عمر، اور عثمانؓ کے پیچھے نماز پڑھی، یہ حضرات ابتدا الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے۔ چونکہ دونوں ہی قسم کی حدیثیں صحیح ہیں۔ اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے بسم اللہ کبھی آہستہ پڑھی اور کبھی بآواز بلند، اور جس صحابی نے جیسا دیکھا ویسا بیان کیا۔ بہتر یہی ہے کہ کبھی آہستہ پڑھی جائے اور کبھی بآواز بلند، تاکہ دونوں قسم کی حدیثوں پر عمل ہو جائے، اور ائمہ کرام کا اجماع بھی ہے کہ چاہے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی جائے یا آہستہ، نماز کی صحت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔

بسم اللہ کی فضیلت:۔

قرآن کریم کی کئی آیتوں اور کئی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں بسم اللہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا باعث خیر و برکت اور اللہ کی نصرت و حمایت اور تائید و حفاظت کس سبب ہے۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ بسم اللہ کہنے سے شیطان ذلیل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ مکھی کی مانند حقیر بن جاتا ہے۔ اسی لیے کھانے پینے، جانور ذبح کرنے، بیوی سے مباشرت کرنے، وضو کرنے، اور بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اور تمام دوسرے کاموں کے کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا مستحب ہے۔

بسم اللہ کا معنی۔

یعنی ’’میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے‘‘ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آدمی جب کوئی کام شروع کرنا چاہے تو اس کی ابتدا کرتے وقت نیت کرے کہ میں اس کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرتا ہوں۔ ’’اللہ‘‘ رب العالمین کا مخصوص نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اسم اعظم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دیگر تمام صفات اسی مخصوص نام کے وصف کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔ رب العالمین کے علاوہ دوسروں کے لیے اس نام کا استعمال جائز نہیں۔ ’’الرحمن‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ دونوں اللہ کی صفت ہیں۔ اور رحمت سے ماخوذ ہیں، دونوں میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ ’’الرحمن‘‘ میں ’’الرحیم‘‘ سے زیادہ مبالغہ ہے۔ اسی لیے مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’الرحمن‘‘ رحمت کے تمام اقسام کو عام ہے اور دنیا و آخرت میں تمام مخلوق کو شامل ہے۔ جبکہ ’’الرحیم‘‘ مومنین کے لیے خاص ہے۔ اللہ نے فرمایا۔

وکان بالمومنین رحیما۔ الاحزاب: ۴۳۔ ۔

بعض علمائے تفسیر ’’الرحمن‘‘ کو تو ’’احسان عام‘‘ کے لیے مانتے ہیں۔ یعنی اللہ کی رحمت اس کی تمام مخلوقات کے لیے عام ہے، لیکن ’’الرحیم‘‘ کو مومنین کے لیے خاص نہیں مانتے۔ انہوں نے ان دونوں صفات کی ایک بڑی اچھی توجیہہ بیان کی ہے جو عربی زبان کے مدلول کے بالکل موافق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لفظ ’’الرحمن‘‘ سے مراد وہ ذات ہے جس کی نعمتوں کا فیض عام ہے، لیکن یہ فعل عارضی بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ عربی میں اس وزن کے اوصاف فعل کے عارضی ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور لفظ ’’الرحیم‘‘ دائمی اور مستقل صفت رحمت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے جب عربی زبان کا سلیقہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ کی صفت ’’الرحمن‘‘ سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ ذات جس کی نعمتوں کا فیض عام ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ ’’رحمت‘‘ اس کی دائمی صفت ہے۔ اس کے بعد جب وہ ’’الرحیم‘‘ ہے تو اسے یقین کامل ہو جاتا ہے کہ ’’رحمت‘‘ اس کی دائمی اور ایسی صفت ہے جو اس سے کبھی جدا ہونے والی نہیں (محاسن التنزیل: ۲، ۶) یہاں ایک اور بات ذکر کر دینے کے قابل ہے۔ الرحمن، نام اللہ کے ساتھ خاص ہے، غیر اللہ کے لیے اس نام کا استعمال جائز نہیں نے فرمایا۔

قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمن ایاما تدعوا فلہ الاسماء الحسنی۔ الاسراء: ۱۱۰۔    ۔

جبکہ الرحیم غیر اللہ کی صفت، اس کی حیثیت و کیفیت کے مطابق، بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔

بالمومنین رؤوف رحیم۔

یعنی وہ مومنوں کے ساتھ رافت و رحمت کا سلوک کرنے والے ہیں۔ التوبہ: ۱۲۸)۔

اللہ کے اسماء و صفات پر ایمان لانا ضروری ہے۔

ائمہ سلف کے نزدیک یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر اور اس کی صفات پر مرتب شدہ احکام پر ایمان لانا واجب ہے۔ قرآن کریم میں اور نبی کریمﷺ کی صحیح احادیث میں اللہ کے جو اسماء و صفات ثابت ہیں۔ ان پر اسی طرح ایمان لانا ضروری ہے جس طرح ثابت ہیں، نہ ان کی کیفیت بیان کی جائے گی اور نہ ہی ان کی تاویل کی جائے گی اور نہ انہیں معطل قرار دیا جائے گا۔ امام مالکؒ سے جب اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: استواء معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے، اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ اسی طرح اللہ کی صفات پر جو احکام مرتب ہوتے ہیں ان پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلاً ’’الرحمن‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، تو یہ ایمان رکھنا ہو گا کہ اللہ بڑا ہی رحمت والا اور بہت ہی مہربان ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے۔ یہی قاعدہ تمام صفات الٰہیہ کے بارے میں جاری ہو گا۔ سلفِ صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے۔ اور اسی طریقہ کو اختیار کرنے میں ہر بھلائی ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝۲۔

۲      سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہاں کا پالنے والا ہے۔

 

۲      لفظ حمد کا ترجمہ، تعریف کرنا ہے۔ حمد اور شکر میں فرق یہ ہے کہ حمد صرف زبان سے ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ کسی نعمت کے مقابلہ میں ہو۔ جبکہ شکر زبان، دل اور دیگر اعضاء کے ذریعہ کسی نعمت اور داد و دہش پر ہوتا ہے۔ اور اس پر الف لام، استغراق و شمولیت کا مفہوم پیدا کرنے کے لیے داخل کیا گیا ہے۔ یعنی حمد و ثنا اور تعریف و توصیف کی وہ تمام قسمیں جو آسمان و زمین کے درمیان ہو سکتی ہیں، وہ سب اللہ کے لیے ہیں۔ ابن جریر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف خود بیان کر کے اپنے بندوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ اس کی تعریف بیان کریں۔ امام ابن القیمؒ نے اپنی کتاب (طریق الہجرتین) میں لکھا ہے کہ ہر اعلی صفت، ہر اچھے نام، ہر عمدہ تعریف، ہر حمد و مدح، ہر تسبیح و تقدیس اور ہر جلال و عزت کی جو کامل ترین اور دائمی اور ابدی شکل ہو سکتی ہے، وہ سب اللہ کے لیے ہے۔ اللہ کی جتنی بھی صفتیں بیان کی جاتی ہیں، جتنے ناموں سے اس کو یاد کیا جاتا ہے، اور جو کچھ بھی اللہ کی بڑائی میں کہا جاتا ہے، وہ سب اللہ کی تعریفیں ہیں اور اس کی حمد و ثنا اور تسبیح و تقدیس ہے۔ اللہ ہر عیب سے پاک ہے، ساری تعریفیں اس کے لیے ہیں، مخلوق کا کوئی فرد اس کی تعریفوں کو شمار نہیں کر سکتا۔ (الرب) کا معنی ہے۔ وہ آقا جس کی اطاعت کی جائے، وہ مالک جو تصرف کلی کا حق رکھتا ہے، وہ ذات برتر و بالا جو مخلوق کی اصلاح احوال کے لیے ہر تصرف کا حق رکھتا ہے۔ الف لام کے اضافہ کے ساتھ الرب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مخلوق کے لیے اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے مثلاً رب الدار، گھر والا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کہا ہے ارجع الی ربک۔ اپنے آقا کے پاس لوٹ کر جاؤ (یوسف: ۵۰)۔ العالمین عالم کی جمع ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عالم کا اطلاق انس و جن اور ملائکہ و شیاطین پر ہوتا ہے۔ بہائم، عالم میں داخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ سارے جہان والوں کا آقا و مالک اور ان میں تصرف کرنے والا ہے۔ رب کا ایک معنی مربی بھی کیا گیا ہے، بایں طور کہ وہ تربیۃ سے مشتق ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا بطور عام اور بطور خاص مدبر و مربی ہے۔ بطور عام مربی اس طرح ہے کہ اس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا، ان کو روزی دی، اور ان امور کی طرف رہنمائی کی جو دنیاوی زندگی کے لیے نافع ہیں اور بطور خاص اپنے اولیاء کا مربی ہے، یعنی ایمان کے ذریعہ ان کی تربیت کرتا ہے، انہیں ایمان کی توفیق دیتا ہے اور صاحب کمال بناتا ہے اور ان رکاوٹوں کو دور کرتا ہے، جو اس کے اور ان اولیاء کے درمیان حائل ہو سکتے ہیں۔ یعنی انہیں ہر خیر کی توفیق دیتا ہے اور ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے۔ اور غالباً یہی راز ہے کہ انبیاء کرام کی تمام دعائیں کلمہ الرب سے شروع ہوتی ہیں اس لیے کہ ان کے تمام مطالب اللہ کی ربوبیت خاص کے ضمن میں آتے ہیں۔ اس تمام تر تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ صفت خلق و تدبیر عالم اور صفت کمال بے نیاز و تمام نعمت میں اللہ تعالیٰ منفرد ہے اور آسمان و زمین کی تمام مخلوق ہر اعتبار سے اس کی محتاج ہے۔

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ۝۳۔

۳      نہایت مہربان بے حد رحم کرنے والا۔

 

۳      ان دونوں صفات الٰہیہ پر کلام بسم اللہ کی تفسیر کے ضمن میں گذر چکا، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں صفتیں چونکہ اللہ کی رحمت پر دلالت کرتی ہیں اس لیے بندے کے لیے ان میں ایک طرح کی ترغیب ہے۔ جبکہ صفت ربوبیت میں ترہیب و تخوفی ہے۔ اس سورت میں اللہ ترہیب و ترغیب دونوں کو جمع کر دیا ہے، تاکہ بندہ اپنے معبود کی اطاعت و بندگی کی طرف زیادہ راغب ہو، اور اس کا اپنی زندگی میں زیادہ اہتمام کرے۔

مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ۝۴۔

۴      قیامت کے دن کا مالک ہے۔

 

۴      اللہ تعالیٰ جس طرح قیامت کے دن کا مالک ہے اسی طرح وہ دوسرے تمام دنوں کا مالک ہے۔ یہاں قیامت کے دن کا ذکر بالخصوص اس لیے آیا کہ اس دن تمام مخلوقات کی بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ تمام شاہانِ دنیا اور ان کی رعایا، تمام آزاد و غلام اور چھوٹے بڑے سب برابر ہو جائیں گے اور صرف ایک اللہ کی ملوکیت و بادشاہت باقی رہے گی، سبھی اس کے جلال و جبروت کے سامنے سرنگوں ہوں گے، اس کی جنت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔

لمن الملک الیوم اللہ الواحد القہار۔

قیامت کے دن اللہ پوچھے گا آج کس کی بادشاہت ہے۔ پھر خود ہی جواب دے گا صرف اللہ کی، جو ایک ہے اور قہار ہے۔ (غافر: ۱۶) قیامت کے دن کو یوم الدین اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اعمال کے جزا کا دن ہو گا، جس نے اس دنیا میں جیسا کیا ہو گا اسے اس کا بدلہ مل کر رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

یومئذ تعرضون لا تخفی منکم خافیہ۔

جس دن تم لوگ اللہ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے، اس دن تم سے کوئی چیز مخفی نہ رہے گی۔ الحاقہ: ۱۸۔

اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ۝۵۔

۵      ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

 

۵      عبادت کا لغوی معنی ہے: ذلت اور خشوع و خضوع۔ شریعت اسلامیہ میں عبادت ہر اس عمل کو کہتے ہیں، جس میں اللہ کے لیے کمال محبت کے ساتھ انتہائی درجہ کا خشوع و خضوع اور خوف شامل ہو۔ استعانت کا مفہوم یہ ہے کہ حصول نفع اور دفع ضرر کے لیے اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ کیا جائے، اس یقین کے ساتھ کہ وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں عبادت و استعانت دونوں کو اللہ کے لیے خاص کیا گیا ہے، اور اللہ علاوہ تمام مخلوقات سے ان کی نفی کی گئی ہے۔ عربی زبان میں اگر مفعول کو فعل پر مقدم کریا جائے تو حصر کا معنی دیتا ہے، یعنی اس فعل کو اسی مفعول کے ساتھ خاص کر دیا جاتا ہے، اور دوسروں سے اس کی نفی ہو جاتی ہے، تو گویا آیت کا معنی یہ ہوا، کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے، ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی سے مدد نہیں مانگتے۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہر ایک غلامی سے آزاد کر کے ایک اللہ کا بندہ بنا دے، اس کے ساتھ کسی چیز کو عبادت میں شریک نہ کرے، نہ اس جیسی کسی سے محبت کرے، اور نہ اس جیسا کسی سے ڈرے، نہ اس جیسی کسی سے امید رکھے، صرف اسی پر توکل کرے، نذر و نیاز، خشوع خضوع، تذلل و تعظیم اور سجدہ و تقرب سب کا مستحق صرف وہ ہے، جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے۔ لیکن انسان نے ہمیشہ ہی اس تعلیم کو پس پشت ڈالا، اور اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا، غیروں سے مدد مانگی، شرک کے ارتکاب کے لیے بہانے تلاش کیے اور اللہ کے بجائے انبیاء اولیاء، صالحین اور قبروں میں مدفون لوگوں سے مدد مانگی۔

نبی کریمﷺ کی نبوت پر ایمان قوی ہو جاتا ہے، جب ہم آپﷺ کے فرمان کو یاد کرتے ہیں کہ اے لوگو! اس شرک سے بچو، یہ چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ چیز ہے (مسند احمد) حافظ ابن القیمؒ فرماتے ہیں کہ بندہ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر نماز میں ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتے۔ اس لیے کہ شیطان اسے شرک کرنے کا حکم دیتا ہے اور نفس انسانی اس کی بات مان کر ہمیشہ غیر اللہ کی طرف ملتفت ہو جاتا ہے، اس لیے بندہ ہر دم محتاج ہے کہ وہ اپنے عقیدہ توحید کو شرک کی آلائشوں سے پاک کرتا رہے۔

حضرت ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ ہم تیری توحید بیان کرتے ہیں، اے ہمارے رب! اور تجھ ہی سے ڈرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، تیری بندگی کرنے کے لیے اور اپنے تمام امور میں۔ عبادت، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی وقت قابل قبول ہو گی، جب وہ رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق ہو، اور اس سے مقصود اللہ کی رضا ہو۔

توحید کی تین قسمیں: اس سورت میں توحید کی تینوں قسموں کو اختصار کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔

۱۔     توحید ربوبیت: رب العالمین سے ماخوذ ہے۔ توحید ربوبیت یہ ہے کہ آسمان و زمین اور اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کا خالق و رازق اور مالک و مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔

۲۔     توحید الوہیت۔ لفظ اللہ اور ایاک نعبد و ایاک نستعین سے ماخوذ ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ عبادت کی جتنی قسمیں ہو سکتی ہیں ان سب کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔

۳۔     توحید اسماء و صفات۔ کلمہ، الحمد، سے ماخوذ ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور رسول اللہﷺ نے صحیح احادیث میں اللہ کے جتنے اسماء و صفات ثابت کیے ہیں، ان کو اسی طرح مانا جائے، نہ ان کا انکار کیا جائے، نہ ان کی مثال بیان کی جائے اور نہ ہی کسی غیر اللہ کے ناموں اور صفات کے سات تشبیہ دی جائے۔ حضرت امام مالکؒ و سلم سے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا۔

الاستواء معلوم، والکیف مجہول والسوال عنہ بدعۃ والایمان بہ واجب۔

یعنی استواء معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، یعنی یہ نہیں معلوم کہ اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیا کیفیت ہے، اور اس کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے، یعنی اسلاف کرام کبھی اس کی کرید میں نہ پڑے، اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ۝۶۔

۶      ہمیں سیدھی راہ پر چلا۔

 

۶      اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے، اور اس کے لیے کمال خشوع و خضوع اور اپنی انتہائی محتاجی و مسکنت کے اظہار کے بعد، بندے کے لیے اب یہ بات مناسب معلوم ہوئی کہ اپنا سوال اس کے حضور پیش کرے اور کہے کہ اے اللہ! صراط مستقیم کی طرف میری رہنمائی کر۔

ہدایت کا معنی: رہنمائی اور توفیق ہے اور صراط مستقیم سے مراد: وہ روشن راستہ ہے جس میں کجی نہ ہو، جو اللہ اور اس کی جنت تک پہچانے والا ہو۔ اور یہ قرآن و سنت کی راہ ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے مراد راہ حق ہے۔ ابو العالیہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد نبی کریمﷺ اور ان کے بعد ابو بکر اور عمرؓ ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سبھی اقوال صحیح ہیں، اس لیے کہ جس نے نبی اکرمﷺ کی اتباع کی، اور ان کے بعد ان کے صاحبین کی اقتدا کی، اس نے حق کی اتباع کی، اور جس نے حق کی اتباع کی، اس نے اسلام کی اتباع کی، اور جس نے اسلام کی اتباع کی اس نے قرآن کی اتباع کی، اور یہی قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے، اس کی مضبوط رسی ہے، اور اس کی سیدھی راہ ہے۔

نواس بن سمعانؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم (سیدھی راہ) کی ایک مثال بیان کی ہے، اس راہ کے دونوں جانب دو دیواریں ہیں، ان میں کچھ دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔ ان دروازوں پر پردے لٹکا دئیے گئے ہیں، اور سیدھی راہ پر ایک پکارنے والا کہہ رہا ہے۔ اے لوگو سیدھی راہ پر گامزن ہو جاؤ اور اس سے انحراف نہ کرو۔ ایک اور پکارنے والا سیدھی راہ کے اوپر سے پکار رہا ہے، جب کوئی آدمی ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے، دیکھو اسے نہ کھولو، اگر تم نے اسے کھول دیا، تو اس میں داخل ہو جاؤ گے۔ وہ سیدھی راہ، اسلام، ہے۔ دونوں دیواریں اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں کھولے گئے دروازے اللہ کے حرام کردہ امور ہیں۔ اور سیدھی راہ کے سرے پر موجود پکارنے والا اللہ کی کتاب ہے، اور سیدھی راہ کے اوپر سے پکارنے والا، اللہ کی طرف سے ہر مسلمان کے دل میں موجود خیر کی دعوت دینے والا جذبہ ہے (مسند احمد، ترمذی، نسائی)۔

مفسرین نے لکھا ہے کہ بندہ مومن ہدایت پر ہونے کے باوجود، اس کا محتاج ہے کہ وہ ہر نماز میں اللہ سے رشد و ہدایت کا سوال کرتا رہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اسے صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور دوام و استمرار بخشے، اس لیے آیت کا معنی یہ ہو گا کہ اے اللہ! ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھ، اور اس کے علاوہ کسی اور راہ کی طرف نہ پھیر دے۔

امام راغب اصفہانی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ہدایت کا معنی قول و عمل میں اچھائیوں اور بھلائیوں کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے اس کا ظہور کئی منازل میں ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے بعد بالترتیب حاصل ہوتے ہیں اس کی پہلی منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وہ قوتیں عطا کرتا ہے جن کی بدولت وہ اپنے منافع و مصالح تک پہنچ پاتا ہے، جسے انسان کے حواس خمسہ اور اس کی فکری قوت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی، یعنی اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی رہنمائی کی (طہ، ۵۰)۔ اس کی دوسری منزل انبیاء کی بعثت اور دعوت الی اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وجعلنا منہم ائمۃ یھدون بامرنا۔ اور ہم نے ان میں اماموں کو پیدا کیا جو ان کی رہنمائی کرتے ہیں (سجدہ: ۲۴)۔ تیسری منزل وہ روشنی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو کثرت عبادت و عمل خیر کے سبب عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا۔

اور جو لوگ ہماری راہ میں جد و جہد کرتے ہیں ہم اپنی راہ کی طرف ان کی رہنمائی کرتے ہیں (الانعام: ۱۹۰)۔ چوتھی منزل۔ دخول جنت کو ممکن بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

و نزعنا ما فی صدورھہم من غل تجری من تحتہم الانہار وقالوا الحمد اللہ ھدانا۔

لہذا یعنی ہم نے ان کے دلوں سے کینہ کو نکال دیا، جنت میں ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور وہ کہیں گے کہ ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اس جنت کی طرف ہماری رہنمائی کی۔ (الاعراف: ۴۳)۔

قرآن کریم کی آیات کے تتبع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت بمعنی دعوت و رہنمائی۔ سب کے لیے عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وانک لتھدی الی صراط مستقیم۔ اور آپ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں (شوری: ۵۲)۔ لیکن ہدایت، بمعنی توفیق اور جنت میں داخل کرنا، سب کو نصیب نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔

انک لا تہدی من احببت ولکن اللہ یہدی من یشاء۔

یعنی آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے (قصص: ۵۶)۔ ہدایت کے مذکورہ بالا معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے مفسرین نے اھدنا الصراط المستقیم کی تفسیر کئی طرح سے کی ہے۔ کسی نے کہا کہ ہدایت سے مراد عام ہدایت ہے، اور ہمیں دعا کا حکم اس لیے دیا گیا ہے، تاکہ ہمارے ثواب میں اضافہ ہو، کسی نے اس کی تفسیر کی۔ ہمیں راہ شریعت پر چلنے کی توفیق دے۔ تیسرا قول یہ ہے۔ گمراہ کرنے والوں، شہوتوں اور شبہات سے بچا، چوتھا قول ہے۔ ہمیں مزید ہدایت دے۔ پانچواں قول ہے: ہمیں علم حقیقی (نور) عطا فرما۔ چھٹا قول ہے: ہمیں جنت دے، اور صحیح بات تو یہ ہے کہ یہاں ہدایت کی یہ تمام قسمیں مراد لی جا سکتی ہیں، کیونکہ ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں۔ و باللہ التوفیق۔

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ۙ۬۔ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠۝۷۔

۷      ان لوگوں کی راہ پر جن پر تو نے انعام کیے، ان کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب نازل ہوا، اور نہ ان کی جو گمراہ ہو گئے۔

 

۷      اس میں صراط مستقیم کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ کہ صراط مستقیم سے مراد ان لوگوں کی راہ ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا، یہی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر سورۃ نساء میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا:۔

یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کے ساتھ ہوں گے، اور یہ لوگ بڑے ہی اچھے ساتھی ہوں گے۔ یہ لوگ اہل ہدایت و استقامت ہوتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، اوامر کو بجا لاتے ہیں اور منکرات و منہیات سے باز رہتے ہیں۔

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ۔ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جن کی نیتیں فاسد ہو گئیں، جنہوں نے حق کو پہچان کر اس سے اعراض کیا، ایسے لوگوں میں پیش پیش ہمیشہ یہود رہے۔ جنہوں نے تورات میں موجود دلائل کی روشنی میں اسلام اور رسول اللہﷺ کی صداقت کا یقین کر لیا، لیکن عداوت عناد کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیا۔ اور رسول اللہﷺ پر ایمان نہیں لائے۔ وَلَا الضَّالِّیْنَ۔ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے اسلام اور رسول اللہﷺ کی صداقت کا علم حاصل نہیں کیا، اور گمراہی میں بھٹکتے رہے۔ ایسے لوگوں میں پیش پیش نصٓری رہے۔ عدی بن حاتمؓ سے ایک طویل حدیث مروی ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کیا ہے، اس میں آتا ہے کہ نبی کریم نے فرمایا، ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِم سے مراد یہود اور الضَّالِّیْنَ سے مراد نصاریٰ ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ولا الضالین کی (لا) تاکید کے لیے ہے، سامع کے دل میں یہ بات بٹھانے کے لیے کہ یہاں پر دو الگ الگ پر فساد راستوں کا ذکر ہے۔ ایک یہود کا راستہ اور دوسرا نصاریٰ کا، تاکہ اہل ایمان دونوں راستوں سے بچیں۔ یہود نے حق پہچاننے کے بعد اس کی اتباع نہیں کی، اس لیے اللہ کے غضب کے مستحق بنے۔ اور نصاریٰ نے حق کو پہچانا ہی نہیں، کیونکہ انہوں نے اس راہ کو اختیار ہی نہیں کیا، جس پر چل کر آدمی حق پاتا ہے، اس لیے وہ گمراہ ہو گئے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ سبھی گمراہ ہیں اور ان سب پر اللہ کا غضب ہے، لیکن یہود اللہ کے غضب کے ساتھ، اور نصٓری ضلالت و گمراہی کے ساتھ مشہور ہو گئے۔

’’آمین‘‘ : نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا مستحب ہے، جہری نمازوں میں بآواز بلند اور سری نمازوں میں آہستگی کے ساتھ۔ آمین کا معنی ہے۔ اے اللہ قبول فرما۔ وائل بن حجرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھا اور اپنی آواز کو کھینچ کر آمین کہی۔ ابو داود کی ایک روایت ہے کہ آپﷺ نے بلند آواز سے آمین کہی۔ امام ترمذی کے نزدیک یہ حدیث حسن ہے اور اسی قسم کی روایات علی، ابو ہریرہ اور ابن مسعودؓ وغیرہم سے بھی مروی ہیں۔ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ صف اول میں ان کے آس پاس کے لوگ سنتے۔ (ابو داود) ابو ہریرہؓ ہی کی ایک اور روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: جب امام ’’آمین‘‘ کہے تو تم بھی کہو، اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے گی، اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے (بخاری و مسلم)۔ ابو موسیٰ اشعریؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب امام ولا الضالین کہے تو، آمین کہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ (مسلم) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جہری نمازوں میں جب امام سورۃ الفاتحہ ختم کر لے تو تمام مقتدیوں کو بآواز بلند آمین کہنا چاہئے۔ اور اگر سری نماز ہے تو جب نمازی سورۃ الفاتحہ پڑھ لے تو آہستگی کے ساتھ آمین کہہ لے، تاکہ ان حدیثوں پر عمل ہو جائے، اور آمین کہنے کی خیر و برکت حاصل ہو۔ کلمہ ’’آمین قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ اس لیے مصحف عثمانی میں اسے نہیں لکھا گیا‘‘۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

حصہ اول

فاتحہ تا رعد

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

حصہ دوم

سورہ ابراہیم تا صافات

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

حصہ سوم

سورہ صٓ تا الناس


پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل