FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تیسرا مجسمہ

عوض سعید

والدہ مرحومہ کے نام

 

  

تولیہ


               رات کے آخری سُلگتے ہوئے لمحوں میں کوئی اسے دونوں شانوں سے جھنجھوڑ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں لیکن اسے احساس ہو رہا تھا جیسے کوئی اُسے جگا رہا ہے۔ اس پر کچھ جاگنے اور سونے کی سی کیفیت طاری تھی۔وہ آج ایک طویل سفر سے لَوٹ کر گھر آیا تھا۔ نیند کا وہ پنگوڑا جس میں وہ کسی معصوم بچّے کی مانند میٹھی نیند کے مزے لے رہا تھا اچانک شاہدہ کی چیخ سے نیچے آ رہا۔ وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ بیڈ لیمپ کی مدّھم روشنی میں شاہدہ کا جِسم بُری طرح کانپ رہا تھا۔ وہ سہمی ہوئی تھی اور اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن ڈر اور خوف نے اس کی زبان پر تالے ڈال رکھے تھے۔ وہ کچھ دیر اسے ٹُکر ٹُکر کے گھورتی رہی اور پھر اچانک اس سے ایسے لِپٹ گئی جیسے کوئی اسے ہمیشہ کے لیے خالد سے جُدا کرنا چاہتا ہو۔ اس کا دل اب بھی بلیوں اُچھل رہا تھا۔ وہ خود بھی ایک عجیب کیفیت سے دوچار تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔


               ’ شاہدہ تم ڈر گئی ہو دیکھو یہاں کوئی بھی تو نہیں ہے۔ کچھ کہو میری جان تمہیں آخر ہو کیا گیا ہے۔ ‘ مگر اس کی زبان ساکت تھی۔ پتہ نہیں اس کے ذہن میں کیا بات آئی کہ اس نے زور سے شاہدہ کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا اور شاہدہ نے بہ دِقّت تمام اِتنا کہا :


               ’ حمام میں کوئی نہا رہا ہے ‘


               وہ جو اپنے آپ کو کافی نڈر سمجھتا تھا اِس جملے کو سُن کر کانپ گیا۔ تھوڑی دیر پہلے اسے گھر کی فضا ساکت و سامت دکھائی دے رہی تھی۔ اب اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے واقعی نل کی ٹُونٹی کھول دی ہو۔اب اسے واضح طور پر احساس ہو رہا تھا جیسے کوئی شخص حمام میں گھُسا نہا رہا ہے اور باضابطہ جِسم پر جھاگ اُڑاتا پانی سے لُطف اندوز ہو رہا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ سردی کے باعث اس کے مُنہ سے شُو شُو کی آواز نِکل رہی ہے۔ اس نے خود پر قابو پانے کی شعوری کوشِش کی۔ اس نے آگے بڑھ کر دیکھا حمام کی دیوار سے لگے ہوئے تار پرسے ایک ہاتھ آگے بڑھا اور اچانک شرٹ تار سے غائب ہو گیا۔ وہ بُت بناکھڑا رہا۔


               ’ ارے بھئی خالد کھڑے کھڑے کیا تماشہ دیکھ رہے ہو ۔ میں سَردی سے مَرا جا رہا ہوں ذرا تولیہ تو دے دو۔‘


               اس کے قدم جیسے زمین میں دھنس کر رہ گئے۔


               یہ اُس کے بڑے بھائی سے مِلتی جُلتی آواز تھی۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ صبح جب وہ بستر سے بیدار ہوا تو شاہدہ اس سے کہہ رہی تھی رات کو نیند میں آپ کافی بڑبڑا رہے تھے۔ میں تو مارے خوف کے آپ سے لِپٹ گئی تھی۔وہ بڑی دیر تک اپنی آنکھوں کو مَلتا رہا۔ اُس نے اپنے اطراف و اکناف کی ایک ایک چیز کا جائزہ لیا اور اُٹھ کر بیڈ رُوم سے باہر آیا۔ شاہدہ اُسے پھَٹی پھَٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ سفید شرٹ حمام کی دیوار سے لگے ہوئے تار پر لَٹکا ہوا تھا اور نَل کی ٹُونٹی بدستور کھلی ہوئی تھی۔


               ’ کیا رات تم نے حمام میں کچھ کپڑے دھوئے تھے؟ ا ُس نے شاہدہ سے پوچھا۔


               ’ مجھے یاد ہے نل کی ٹُونٹی میں نے بند کر دی تھی۔ شاید کسی خرابی کے باعث وہ کھل گئی ہو۔‘


               ’ بات یہ ہے شاہدہ رات کو میں ڈر گیا تھا۔ یہ خوف بھی عجیب شئے ہے۔ یہ خوف پتہ نہیں انسان کا تعاقب کب تک کرتا رہے گا۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ گھُپ اندھیری راتوں میں تنہا کسی آوارہ کی مانند گھومتا پھر رہا ہوں۔ لیکن مجھ جیسے نِڈر آدمی کو بھی کل رات خوف کے سائے نے ڈرا دیا۔‘


               ’ ہو سکتا ہے آپ کے لاشعوری میں موت کے خوف نے کسی طرح جگہ پالی ہو و رنہ آپ جیسا آدمی یوں نہ گھبراتا۔‘


               ’ موت سے تو سبھی ڈرتے ہیں کیا تمہیں موت سے خوف نہیں آتا؟‘


               ’ نہیں ذرّہ برابر بھی نہیں۔ میں انسانوں سے گھبراتی ہوں اور خاص طور پر آپ کے بڑے بھائی سے جن کی بڑی بڑی سُرخ آنکھوں کو دیکھ کر پہلی بار مجھے وحشت کا سا احساس ہوا تھا۔‘


               ’ تمہیں بھائی جان سے خواہ مخواہ کد سی ہو گئی ہے۔ ان بے چاروں کا مُدّت سے کوئی خط بھی نہیں آیا۔ بہت دن پہلے سارنگ پُور سے آنے والے ایک کنٹراکٹر نے مجھے اِطلاع دی تھی کہ وہ آج کل بیمار سے رہنے لگے ہیں اور ان کی صحت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن ملازمت کی مصروفیت ایسی ہے کہ مجھے بھائی جان کو جا کر دیکھنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ لیکن یہ احساس ہی کیا کچھ کم ہے کہ میں آج نہیں تو کل ان سے مِلنے سارنگ پُور ضرور جاؤں گا۔ لیکن میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں اس بھاگتی دَوڑتی زندگی کی مصروفیت اِس احساس کا بھی گلا نہ گھونٹ دے۔‘


               ’ چلئیے ناشتہ تیار ہے۔‘ شاہدہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔


               کرسی پر بیٹھتے ہی اس نے پلیٹوں پر نظر دوڑائی۔ سب سے پہلے اس نے آملیٹ کے قَتلے اُٹھائے۔ پھر تھوڑے سے توقف کے بعد وہ سلائِس پر جیلی لگا کر کھانے لگا۔


               شاہدہ نے ابھی کچھ کھایا ہی نہ تھا کہ وہ اچانک اُٹھ کھڑا ہوا۔


               ’ بڑی تیزی سے آپ نے ناشتہ ختم کر دیا۔ میرا ساتھ تو دیا ہوتا۔‘


               ’ تمہارا ساتھ تو جنم جنم کاہے۔ پھر یوں بھی مجھے ذرا جلدی جانا ہے چیف انجینئر نے بُلوایا ہے۔‘


               ’ چیف انجینئر سے آپ اِتنا ڈرتے کیوں ہیں ؟‘ شاہدہ نے چوٹ کی۔


               ’ وہ میرا باس ہے اس لیئے ڈرتا ہوں۔ ‘ وہ چاہتا تو یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ اس کی ڈیوٹی ہے۔‘


               اُس نے تیزی سے اسکوٹر نکالی اور شاہدہ کے کانوں نے اسکوٹر کی گڑگڑاہٹ سُنی۔ پھر یہ آواز آہستہ آہستہ فضا میں گُونجتی ہوئی اچانک غائب ہو گئی۔


               پھر وہ کمرے سے اُٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آئی۔ بڑی دیر تک مختلف زاویوں سے اپنے چہرہ کا جائزہ لیا۔ شیشے میں آنے والے عکس نے جیسے چُغلی کھائی ’پگلی تُو تو خاصی خوبصورت ہے‘۔شام کو جب وہ گھر لَوٹا تو شاہدہ نے بڑی بے چینی سے کہا "How Free was my valley” کا آخری دن ہے چلیئے ہاتھ مُنہ دھو لیجئے چل کر پکچر دیکھیں گے‘ ۔


               ’ شاہدہ میں بہت تھکا ہوا ہوں اور میرا مُوڈ بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے‘۔


               ’ سُنا ہے بڑی خوبصورت پکچر ہے ، دیکھ لو گے تو مُوڈ بھی ٹھیک ہو جائے گا چلئے نا پلیز ‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے شانوں میں حمائل کر دیئے۔پھر چارو نا چار خالد کو سپر ڈالنی پڑی۔


               جس وقت وہ سینما ہال میں داخل ہوئے تو پردے پر کاسٹ دکھائی جا رہی تھی۔ شاہدہ خوش ہو گئی کہ اسے شروع سے پکچر دیکھنے کو مِل رہی ہے۔ لیکن خالد کا عالم کچھ اور ہی تھا۔وہ صرف شاہدہ کی خوشنودی کے لئے یہاں بادلِ ناخواستہ آیا تھا۔


               شاہدہ پکچر دیکھنے میں کچھ ایسی مَحو تھی کہ اسے بغل میں بیٹھے ہوئے خاوند کی طرف دیکھنے کی فرصت نہ مِلی۔ تھوڑی دیر بعد جب شاہدہ نے دیکھا تو خالد اُونگھ رہا تھا۔


               ’ اجی جناب آپ پکچر دیکھنے آئے ہیں یا محض آرام کرنے۔ اور اگر آرام ہی کرنا تھا تو گھر کیا بُرا تھا۔‘


               اس نے قدرے جھینپ کر اپنی آنکھیں مَلیں۔ پھر شاہدہ سے مخاطب ہو کر کہا ’ پتہ نہیں آج سارے بدن پر تھکن کیوں طاری ہے؟‘


               جب پکچر ختم ہوئی تو وہ شاہدہ کا ہاتھ تھامے باہر آیا۔


               ’ بڑی خوبصورت فلم ہے کیوں کیا خیال ہے آپ کا ؟‘


               ’ واقعی اچھی پکچر ہے۔‘ یہ کہہ کر اس نے اسکوٹر پر ہاتھ رکھے اور شاہدہ بڑے والہانہ انداز میں سِیٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔ سردی کافی بڑھ گئی تھی۔ اس نے کانوں پر رومال باندھا اور اپنے دونوں ہاتھ خالد کی کمر میں حمائل کر دیئے۔ اِس بار اُسے خالد کی کمر میں ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ شاید خود اس کا جِسم ٹھنڈا تھا۔ جب اسکوٹر کی رفتار تیز ہو گئی تو اُس کے ہاتھوں کی گِرفت اور مضبوط ہو گئی۔ اب راستہ چلنے والوں کو یوں لگ رہا تھا جیسے ہیرو ہیروئن پر کوئی خوبصورت سِین فلمایا جا رہا ہو۔


               گھر پہنچنے تک رات کے دس بج چکے تھے۔ خالد نے ایک طویل جماہی لی۔ اُسے نیند آ رہی تھی۔ اسے کپڑے تبدیل کرنا بھی بار معلوم ہو رہا تھا۔ اُس نے لیٹے ہی لیٹے وارڈ روب سے کپڑے نکالنے کی کوششِ کی۔


               شاہدہ کی نگاہ جب اس پر پڑی تو اس نے پیار بھرے الفاظ میں کہا:


               ’ بڑے کاہل ہیں آپ چلیئے ایسے ہی لیٹے رہئیے میں کپڑے نکالے دیتی ہوں‘۔


               پھر شاہدہ نے سلیپنگ سُوٹ اُس کے ہاتھ میں تھما دیا تو وہ اُ سے پہن کر بستر پر دراز ہو گیا۔


               صُبح جب اس کی آنکھ کھُلی توا س کا سارا بدن پھوڑے کی مانند دُکھ رہا تھا۔ دِل پر ایک عجیب سا بوجھ طاری تھا۔ کافی سو جانے کے باوجود اسے احساس ہو رہا تھا جیسے کسی نے اُسے کچّی نیند سے اُٹھا دیا ہو۔ دھوپ کافی نِکل آئی تھی ۔ اس نے جب گھڑی میں وقت دیکھا تو اُسے حیرت ہوئی کہ آج اتنی جلد دس کس طرح بج گئے۔ جب وہ کندھے پر تولیہ ڈالے غسل خانے کی جانب بڑھا تو شاہدہ نے طنزاً اُس سے کہا :


               ’ بھئی اتنی سحر خیزی بھی ٹھیک نہیں ذرا اور سو لیتے۔‘


               ’ طَنز کے تِیر ہی چلاتی رہو گی یا ناشتہ بھی دو گی۔‘


               ’ پہلے نہا تو لیجئے۔ آپ یہ تو دیکھ ہی رہے ہیں کہ پَراٹھے پکا رہی ہوں۔‘


               جب وہ نہا کر کمرے میں داخل ہوا تو دفعتاً اُس کے کانوں نے ڈاکیہ کی آواز سُنی۔ دروازے کی چوکھٹ کے پاس خط پڑا ہوا تھا اور پوسٹ مین سامنے والے مکان پر کھڑا کوئی اور خط ڈلیور کر رہا تھا۔


               اس نے تیزی سے لفافہ چاک کیا۔


               برا در عزیز خالد میاں طُول عمرہٗ


               بہت عرصے سے تم سے نہ ملاقات ہوئی نہ تم نے مجھے یاد کیا اور نہ ہی میں نے قصور نہ تمہارا ہے اور نہ میرا  وقت اور زمانہ ہی کچھ ایسا تیز رفتار ہے کہ سمت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ منزل کو پانا تو دُور کی بات ہے۔ اب یہی دیکھو نا کہ مَیں سخت علیل ہوں اس کی تمہیں اطلاع ہی نہیں ۔ ایک مقامی ڈاکٹر کے زیرِ علاج ہوں۔ اس نے گُردوں کا مرض بتلایا ہے۔ بہر حال کچھ چل چلاؤ کا معاملہ ہے۔ اگر تم مناسب سمجھو اور تمہیں وقت مِل جائے تو فوری اس طرف کا رُخ کرو۔ کیا محبت ٤۰ میل کا فاصلہ بھی طَے نہیں کر سکتی ؟


                                                                                                                               کبھی تمہارا


                                                                                                                               جمیل


               اُس کی نگاہوں کے سامنے خط کے حروف تیزی سے گھُوم رہے تھے وہ بڑی تیزی سے باہر نِکل آیا۔ شاہدہ نے دروازے کی چوکھٹ تک آ کر کہا


               پِلیز ناشتہ تو کرتے جائیے آخر ایسی کیا آفت آ گئی ہے ‘ مگر اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔


               سارنگ پُور کافی دُور تھا۔ ٹرین کے لئے بھی اسے دو گھنٹے انتظار کرنا تھا۔ لیکن معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اُس نے نُکڑ سے ٹیکسی لی۔ ٹیکسی مختلف راستوں کو پھلانگتی ہوئی سارنگ پُور پہنچی۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا


               گھر کے عَین سامنے ببلو گھروندا بنائے مِٹی میں ہاتھوں کو گھُما رہا تھا نیر بازو کھڑی اُسے چمکار رہی تھی۔


               ’ چاچا آ گئے ۔‘ نیر خالد کو دیکھ کر خوشی سے ناچنے لگی۔


               جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی۔


               ’ دیکھو یہ کیسا آدمی ہے اِسے اب بھائی یاد آیا ہے۔‘


               اسے یوں لگا جیسے سرِ بازار کسی نے اُس کا مُنہ نوچ لیا ہو۔


               جمیل بھائی بستر پر نیم بیہوشی کے عالم میں پڑے ہوئے تھے۔ وہ ہڈیوں کا ایک پنجر ہو کر رہ گئے تھے۔ اسے اپنے بھائی کو اِس عالم میں دیکھ کر بڑا دُکھ ہوا۔ آج اس کے ذہن کے دریچوں سے بہت سی باتیں بہت سی یادیں سر اُونچا کیئے جھانک رہی تھیں۔


               جب اسے شروع شروع ملازمت ملی تھی۔ اُس وقت جمیل بھائی کی مالی حالت بڑی خستہ تھی۔ بھابی مرچکی تھیں۔ وہ نیر اور ببلو کو لے کر چند دنوں کے لئے اس کے ہاں آ گئے تھے۔


               جب چاہت حَد سے سِوا ہو جاتی ہے تو جا و بے جا اُمیدیں سر نکالا کرتی ہیں یہی حال کچھ جمیل بھائی کا تھا


               اور وہ خود کو جیسے ننگا کرنا نہیں چاہتا تھا۔


               ’ اچھا ہوا تم آ گئے۔ ورنہ یہ خلش بھی میرے لئے دوسری موت ہوتی کہ تم مجھے دیکھنے نہیں آئے۔ مجھے اپنی فِکر نہیں۔ فِکر ہے تو بس اتنی کہ میرے اُٹھ جانے کے بعد نیر اور ببلو کا کیا حال ہو گا۔ مَیں تم سے کیا توقع رکھ سکتا ہوں تم تو ایک ایسے آدمی ہو جس نے مجھے نہانے کے لئے کسی وقت تولیہ تک نہیں دیا تھا۔‘


ایسا لگتا تھا جیسے وہ یہ کہے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ پھر وہ ٹیکسی میں ایسے آ گرا جیسے مُدت سے سویا نہ ہو۔ ٹیکسی ڈرائیور جو اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھے اُونگھ رہا تھا ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔’ ڈرائیور کار تیز چلاؤ اور تیز ‘


               کار کی سُوئی ساٹھ اور ستّر میل کے درمیان بھاگ رہی تھی۔ لیکن وہ اِس رفتار سے مطمئن نہ تھا اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے موت اس کا تعاقب کر رہی ہے اگر وہ ہوا کے دوش پر اُڑتا ہوا فوری گھر نہ پہنچے گا تو مر جائے گا۔

 

مُوذی


               جب وہ مَرا تو ہم سب ساتھیوں نے مِل کر قبرستان میں اس کے لئے جگہ تلاش کی۔ کیونکہ اس کی خواہش تھی کہ قبرستان کے اُس حصّہ میں اُسے دفنایا جائے جہاں اُس کی محبُوبہ زرینہ دفن تھی۔


               اپنی محبُوبہ کی خودکشی کے بعد وہ بڑا مغموم سا رہنے لگا تھا۔ اُداس کھویا کھویا لیکن اس کی محبوبہ کی خود کشی آج تک ایک راز بنی ہوئی ہے۔ لیکن ظفر خود اس بات پر حیران تھا کہ زرینہ نے کیوں خود کشی کی جبکہ وہ اس کے لئے اُن کئی خوبصورت لڑکیوں کو ٹھُکرا چکا تھا جو اُسے پانے کے لئے ہمہ وقت بے چین رہتی تھیں۔


               محمود نے کہا: ’ ظفر کو پہچاننا بہت مشکل ہے وہ بڑا پیچیدہ انسان ہے اپنے چہرے پر نقاب ڈالے پھرتا ہے ، ضرور اُس نے اُس کے ساتھ بے وفائی کی ہو گی۔‘


               خاور نے کہا : ’ مگر اس کے پہلو میں دفن ہونے کی شدید خواہش اس بات کی دلیل ہے کہ زرینہ ہی اُس کے لئے سب کچھ تھی۔


               مُجیب چُپ تھا۔ اُس کے چہرے پر اُداسی منڈلا رہی تھی۔


               ’ یار ، یہ تو کچھ بھی نہیں کہتا۔ کیا سارا غم اسی کمبخت نے پی لیا ہے اور تَلچھٹ ہمارے لئے چھوڑ دی ہے۔ اس نے ظفر سے ایسی محبت بھی تو نہ کی۔ وہ تو سَدا اُس کے لئے دردِ سَر بنا رہا۔ وہ محض پوز کر رہا ہے۔‘


               ’ ظفر گھر میں پڑا میٹھی نیند سورہا ہے ، کیا اُسے کندھا نہیں دو گے؟‘


               وہ اب بھی چُپ تھا ، جیسے اس نے کوئی بات سُنی ہی نہ ہو۔


               ’ تم نے اس طرح چُپ کیوں سادھ لی۔ اُٹھو دیر ہو رہی ہے، کیا تم ظفر کو کندھا نہیں دو گے‘؟


               وہ اب بھی چُپ تھا۔


               ’ مُجیب ہوش میں آؤ ، دیر ہو رہی ہے۔دیکھو مزدوروں نے قبر تیار کر دی ہے مجھے تو اب اس قبرستان میں وحشت ہونے لگی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے زمین توسیع ہو کر پھیل رہی ہے اور قبرستان کے سِینے میں سَڑنے والی نعشیں جنگلوں اور بیابانوں میں بھاگ کھڑی ہوں گی۔ یہ لوگ مر کر بھی بے قرار ہیں۔ اور ہم زندہ رہ کر خانہ بدوش وہ بوڑھے درخت پر بیٹھی ہوئی چمگاڈر جو تلوار کی طرح میرے سر پر لٹک رہی ہے وہ مجھ پر کب گِرے گی ، میں کہہ نہیں سکتا۔


               صبح کے بعد جب میں شام گھر لَوٹا ہوں تو یقین ہی نہیں آتا کہ میں نے واقعی زندگی کے ایک دن کو محفوظ کر لیا ہے۔


               ’ تمہیں زندگی اتنی عزیز ہے‘؟ خاور نے کہا


               ’ ہاں مجھے زندگی سے پیار ہے‘۔ محمود نے آہستہ سے کہا۔


               ’ تو تمہاری محبوبہ بھی مَنوں مَٹی کے ڈھیر کے نیچے چلی جائے گی۔‘


               مُجیب ابھی تک بُت بنا چُپ چاپ بیٹھا تھا۔


               اچانک وہ ہانپتا ہوا آیا ؛ ’ میرے دوستو ظفر کی قبر کے قریب‘۔۔۔۔۔ وہ یہ کہہ کر کانپ اُٹھا۔


               ’ کیا ہے اُس کی قبر کے قریب۔‘ سب نے بیک آواز استعجاب سے پوچھا۔


               اُس کے چہرے کا رنگ فَق ہوتا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسے سانپ سُونگھ گیا ہو۔


               ’ تمہیں ہو کیا گیا ہے کچھ تو بولو ، تم نے وہاں کیا دیکھا؟‘ محمود نے بے چینی سے پُوچھا۔


               ’ میں نے وہاں ‘۔۔۔۔ الفاظ جیسے اُس کے حلق میں اَٹک رہے تھے۔


               ’ ہاں ہاں تم نے وہاں کیا دیکھا ، بولو ۔‘


               ’ وہاں میں نے ۔۔۔ میں نے وہاں‘ ۔۔۔ پھر ایک بار اُس کی زبان گُنگ ہو گئی۔


               ’ عجیب مشکل میں جان پھنس گئی ہے۔ گھر میں ظفر کی نعش پڑی ہے اور اِس مردُود نے الگ تماشہ بنارکھا ہے‘۔


               ’ بکواس بند کرو ، اِسے دواخانہ لے چلو ، کہیں اس پر فالج نہ گِرا ہو‘۔


               ’ وہ صرف موت سے ڈر گیا ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘


               ’ مگر یہ تمہاری آنکھیں سُرخ کیوں ہوتی جا رہی ہیں‘؟


               ’ میری آنکھیں پہلے ہی سے سُرخ تھیں۔ میں نے قبرستان آنے سے پہلے تھوڑی سی پی لی تھی۔ شراب ہی کی ہمّت پر میں قبرستان میں داخل ہو سکا۔ آدمی کو کچھ تو سہارا چاہیئے۔ شیلٹر کے لئے ہم سب بھاگ رہے ہیں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ دوسری جگہ سے تیسری جگہ اُس سائبان کی تلاش میں جہاں کوئی ایسا آدمی نہ ہو جو ہمارے قہقہوں کا گلا نہ گھونٹ دے‘۔


               ’ یہ تو پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے ، جہاں سے سوچ کی سرحدیں شروع ہو جاتی ہیں‘


               ’ میں نے یہ سرحد کبھی کے پار کر لی ہے۔ اب میں نہ سوچتا ہوں او رنہ غور کرتا ہوں کہ اب زندگی کو کس کنویں میں پھینک آنا ہے‘۔


               ’ دیکھو خاور کی طبیعت بِگڑ رہی ہے‘۔


               ’ گھبراؤ نہیں وہ نہیں مرے گا ، وہ زندہ رہے گا اور ہمیں بور کرتا رہے گا‘۔


               قبرستان پر ویرانی برس رہی تھی۔ مٹِیالی رنگ کی پُرانی خستہ اور اَدھ کچّی قبریں مُنہ پھاڑے ٹُکرٹُکر نِیلگوں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں درختوں پر رنگ برنگی چڑیاں بیٹھی چہک رہی تھیں اور کالے کلوٹے کووں کا قافلہ قبروں کے اطراف منڈلا رہا تھا۔


               ’ وہ دیکھو کالا ناگ اُس جھُنڈ کی طرف ، زرینہ کی قبر کے قریب آ رہا ہے اسے ماردو ماردو اسے‘ خاور نے گھبراہٹ کے لہجے میں کہا۔


               ’ وہ ہمیں ڈس لے گا ، کالا ناگ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ اب وہ زرینہ کی قبر سے ہوتا ہوا ظفر کی قبر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ وہ اگر قبر میں گھُس جائے تو ہم اسے کیسے دفنائیں گے۔ وہ نعش کو بھی ڈس لے گا۔ کچھ تو کہو یار ، دیکھو وہ قبر میں گِر چکا ہے۔ اب اگر سانپ قبر سے نہ نِکلے تو ظفر یوں ہی پڑا گھر میں سوتا رہے گا۔ اس کی لاش سڑتی رہے گی ، ہمارے انتظار میں انتظار جہنم کی آگ کا دوسرا رُوپ ہے‘۔


               ’ یہ مزدور کمبخت کہاں بھاگ گئے اب کیا ہو گا۔ انھیں زیادہ پیسے نہیں دینا چاہیئے تھا۔ وہ تاڑی پی کر نشہ میں جھُومتے آئیں گے اور اس وقت تک شائد وہ کالا ناگ ہمیں ڈس لے گا۔‘


               ’ ظفر کے گھر میں ابھی تک کہرام مچا ہو گا۔ اس کی ماں دھاڑیں مار مار کر رو رہی ہو گی اور اس کا بڑا بھائی دیوار سے سَر ٹکرا رہا ہو گا۔‘


               وہ سوچ رہا ہو گا۔ خاور ، مجیب ، محمود آج کہاں مر گئے جن کی دوستی اور رفاقت پر وہ ہمیشہ نازاں رہا۔


               ’ چلو بھاگ چلیں موت ناگ بن کر ہمارا پیچھا کر رہی ہے‘۔


               ’ مگر تم زندگی کا زہر پچا سکو گے‘؟


               ’ بھاگو گے تو یونہی مرجاؤ گے‘


               ’ مرجانا ہی اصل زندگی ہے‘۔ محمود نے گھمبیر لہجے میں کہا۔


               ’ تو پھر تم ہی آگے بڑھو اور موت سے ہاتھ مِلالو‘۔


               ’ اس نے اپنے ساتھیوں کے چہرے کو عجیب نگاہوں سے دیکھا۔ اور بڑبڑانے کے انداز میں کہا:


               ’ کیا تم لوگ یونہی کھڑے رہو گے میرے ساتھ نہیں آؤ گے‘؟ کسی نے اس کے سوال کا جواب نہیں دیا۔


               مجیب جو گھنٹوں چُپ تھا اچانک اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی آنکھیں انگارے کی مانند دَہک رہی تھیں۔ پھر سب نے دیکھا ، وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ظفر کی قبر کے قریب آیا۔ اُس نے دُزدیدہ نگاہوں سے قبر کی گہرائیوں میں جھانکا اور آپ ہی آپ مُسکرایا۔ سامنے گِیلی مِٹّی کا ڈھیر تھا اور دو پُرانے پھاوڑے بے ترتیب پڑے تھے۔


               اس نے نہایت پھُرتی اور تیزی سے پھاوڑے کے ذریعہ قبر میں مِٹی پھینکنی شروع کر دی۔ وہ بے تحاشہ پھاو ڑا چلا رہا تھا۔ مِٹی گِر رہی تھی گِرتی جا رہی تھی۔ پھر اُس نے بڑے بڑے پتھر پھینکنے شروع کئے۔ وہ مسلسل مِٹی اور پتھر پھینکے جا رہا تھا۔ اس کی پیشانی سے پسینے کی بُوندیں بارش کے بوجھل قطروں کی طرح ٹپک ہی تھیں اور سینہ کے زیر و بم سے اندازہ ہو رہا تھا جیسے وہ کافی تھک چکا ہو۔


               اب ٹیڑھی میڑھی قبر تیار تھی۔


               ’ یہ تم نے کیا کیا۔ یہ قبر تو ظفر کے لئے کھودی گئی تھی۔ اور اس کی زرینہ کے پہلو میں دفن ہونے کی آخری خواہش ‘


               اس نے بات کاٹ کر بڑے اعتماد سے کہا۔


               ’ ظفر کو میں نے مَنوں مِٹی کے ڈھیر کے نیچے پھینک دیا ہے۔ اب تم لوگ جا سکتے ہو ‘

 

نامُراد

                وہ درگاہ خلیق صاحب کے قریب پہنچ کر ایک لمحہ کے کئے رُک گیا۔ اُسے کسی نے بتایا تھا کہ زندگی کا ہر پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ بھی مِنٹوں میں حَل ہو جاتا ہے اور مانگی ہوئی ہر مُراد اور دعا قبول ہو جاتی ہے۔


               مجھے پتہ نہیں اس کے ذہن میں یہ بات کس طرح جَڑ پکڑ گئی اور کب اس نے عقیدت مندوں کے ہجوم میں خود کو شامِل کر لیا ، لیکن جب وہ اچانک غیر متوقع طور پر درگاہ کے قریب خاموش کھڑا ہو گیا تو میں نے اس سے کچھ نہ کہا۔ اس نے اپنی بڑی بڑی خُمار آلُود آنکھوں کو گھُماتے ہوئے کچھ اِس انداز سے مجھے دیکھا کہ میں تڑپ کر رہ گیا۔


               میں جانتا ہوں تم اندر نہیں آؤ گے۔ تم نے خدا سے راست رشتہ جو باندھ رکھا ہے۔ میں نے بھی کسی وقت ایسا ہی سوچا تھا۔ مگر۔۔۔ اس کے آگے وہ کچھ کہہ نہ سکا۔


               آج خلیق صاحب کی درگاہ میں خلافِ معمول لوگ بہت کم آئے تھے۔ درگاہ کے صحن میں چند نوجوان فقیر بیٹھے سگریٹ میں چَرس بھر بھر کر ’ یا خلیق مدد‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے گو آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ لیکن ان کا سارا دھیان ان عقیدت مندوں کی طرف لگا ہوا تھا جن پر وہ گِدھ کی مانِند جھَپٹنے کے لئے پر تول رہے تھے۔ صحن سے ذرا آگے شاہ آباد کے پتھروں سے بنا ہوا ایک لانبا سا چبوترہ تھا جس کے سامنے نلوں کی ایک قطار لگی ہوئی تھی۔


               وہ بڑی آہستگی سے چلتا ہوا درگاہ میں داخل ہوا۔ اس نے سینڈل کا تسمہ کھولا اور اپنے ہاتھ میں سینڈل کو مضبوطی سے دبائے اُسے ایک کونے میں رکھا اور وضو کرنے کے لئے اُس چبوترے پر آ بیٹھا جہاں تھوڑی دیر پہلے ہی ایک عقیدت مند نے وضو کرنے کے بعد نل کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دی تھی۔ اُس نے کھُلے ہوئے نل کی ٹُونٹی پہلے بند کی شاید اس خیال سے کہ اندر داخل ہونے سے پہلے اس نے ایک اچھی حرکت تو کی۔پھر اس نے قدرے توقف کے بعد جونہی نَل کھولا تو نَل کے مُنہ سے پانی مختلف زاویوں کی شکل میں اس تیزی سے باہر آیا کہ اس کی ٹری لین کی نیلی بُش شرٹ پانی سے بھیگ گئی۔ اس نے کپڑوں کی پروا کئے بغیر وضو کے سارے مراحل طَے کئے۔ سر پر اچھی طرح سے رومال باندھا اور اُس بوڑھے پھُول والے کی دُوکان پر آیا جس نے اُسے دیکھ کر پہلے ہی سے پانچ آنے کے پھُول ہرے پتّے میں باندھ کر علیٰحدہ رکھ دیئے تھے۔ پھر وہ دُودھیا رنگ کے اُس سفید گُنبد میں داخل ہوا جہاں خلیق صاحب کا مزار تھا۔


               اس وقت میں درگاہ کے باہر کھڑا ہوں۔ تاکہ وہ باہر آئے تو میں اس کے ساتھ کہیں دُور تفریح کی غرض سے نِکل پڑوں۔ شام کی سیاہی پھیل چکی ہے۔ درگاہ میں لٹکے ہوئے بڑے بڑے فانوس جَل اُٹھے ہیں۔ ابھی ابھی کار سے اُتر کر سفید بُراق سے بزرگ درگاہ میں داخل ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ درگاہ کا بوڑھا مجاور سُرخ رنگ کا عمامہ پہنے آگے آگے چل رہا ہے۔صحن میں بیٹے ہوئے فقیر فرطِ احترام سے کھڑے ہو گئے ہیں۔ لیکن ان کے سامنے پڑے ہوئے بُجھی ہوئی سگریٹوں کے ٹکڑے صاف اس بات کی چُغلی کھا رہے ہیں کہ ابھی ابھی اُنھوں نے گانجے سے شغل کیا ہے۔


               اُسے درگاہ میں داخل ہوئے پون گھنٹہ ہو چکا ہے لیکن وہ ابھی تک لَوٹا نہیں ہے۔ لوگوں کی آمد بڑھ رہی ہے۔ میرے ذہن میں اس کے ساتھ گُزرے ہوئے دنوں کی تصویر گھُوم رہی ہے۔ یہ ایک طویل کہانی کی ایک بہت لمبی سی فِلم ہے جسے میں وقتاً فوقتاً قِسط وار دیکھ لیا کرتا ہوں۔


               اُس سے مِل کر ہمیشہ مجھے یہی احساس ہوا کہ وہ حد درجہ غیر ذمہ دار خود غرض اور بے وفا آدمی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ میرا قریبی دوست تھا۔یہ الگ بات تھی کہ وہ ہر ایک سے اُلٹے سیدھے مطالبات کرنے کا عادی تھا اور اُسے ایسا کرتے ہوئے احساس ہوتا جیسے وہ اپنا حق جتا رہا ہو۔ وہ اس فن میں کچھ اتنا طاق ہو گیا تھا کہ اس کا نشانہ کبھی خالی نہ جاتا۔ ایسے میں اگر کہیں سے اُسے ٹکا سا جواب مِل جاتا تو وہ وقت وقت کی بات کہہ کر گھنٹوں اُداس ہو جاتا۔


               اس کے خد و خال بھی بس واجبی واجبی سے تھے لیکن وہ خود کو تنہا خوبرو آدمی سمجھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر وہ ایک بار کسی لڑکی سے بات کرے تو ممکن ہے کہ وہ اس کی مقناطیسی شخصیت سے متاثر نہ ہو۔یہ بات کہاں تک سچ تھی اس کا مجھے تو کچھ زیادہ عِلم نہیں ہے۔ لیکن ایک آدھ لڑکی چند مہینوں تک ہی سہی ضرور اُس سے محبت کی پِینگیں بڑھاتی اور وہ بڑے سلیقے سے اس کا ہو کر رہ جاتا۔ دراصل وہ عشق کے بے محابا جذبے سے قطعی نا آشنا تھا۔ خدا جھُوٹ نہ بُلوائے یہ اُس کا کوئی ساتواں عشق تھا اور اتنا شدید کہ اُسے اپنی محبوبہ کو مانگنے کے لئے دامن پھیلائے خلیق صاحب کے دربار میں آنا پڑا تھا۔


               پِچھلے دنوں جب ’تھِری ایسس‘ میں اس سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ بڑا مغموم تھا۔


               ’ میں بے حد پریشان اور دُکھی ہوں یار ، اب تو فرحت سے مِلنا بھی ایک پرابلم ہو گیا ہے۔ فرحت کی ماں نے اس کی شادی ایک ایسے آدمی سے طئے کر دی ہے جو اس کے کسی طرح بھی لائق نہیں۔ کل رات ہم دونوں گھنٹوں ایک دوسرے کو لِپٹے ہوئے روتے رہے لیکن فرحت کی شادی اس گھامڑ سے کبھی نہ ہو گی ، یہ میرا ہی نہیں اُس کا بھی اٹل فیصلہ ہے‘۔


               ’ مگر تم تو ‘


               ’ میں جانتا ہوں تم آگے کیا کہنے والے ہو۔ تم اپنی زبان بند ہی رکھو تو بہتر ہے میں جنم جنم کا دُکھیارا اور پیاسا ہوں۔ کسی نے آج تک میرے کشکول میں محّبت کے دو موتی نہیں پھینکے۔ میں سب ہی کو چاہتا رہا ،سب ہی کی پُوجا کی۔ لیکن کسی نے بھی میرے پیار کی قدر نہیں کی۔ مگر فرحت اُن لڑکیوں میں سے نہیں ہے۔ وہ تو اب عشق کی آگ میں تپ کر کندن بن چکی ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے احساس ہوتا ہے اگر وہ مجھے اَپنا نہ سکی تو خود کشی کر لے گی۔‘


               ’تھری ایسس‘ کی فضا بڑی پُر سکون تھی۔ یہاں ہر شخص اپنا غم بانٹنے سے زیادہ نِت نئے غم پا لینے کے لئے یہاں آیا تھا۔


               ’ مگر یہ بات تو تم نے دو سال پہلے بھی کہی تھی جب تم ثمینہ کی زُلفوں کے اسیر تھے اور شائد اسی جگہ آئندہ دو سال بعد کسی نئی محبوبہ کے تعلق سے ایسی ہی بات کرو گے۔‘


               میری اس Non Serious مگر حقائق سے لبریز گفتگو سے جھِلّا اٹھا۔


               ’ تم کمینے ہو ، تم کیا جانو میرے جذبات و احساسات‘ ؟


               اس کے بعد بہت دِنوں تک اس نے مجھ سے سیدھے مُنہ بات نہیں کی تھی۔


               ابھی میں نے اس کی زندگی کی طولانی فلم کی ایک ریل ہی دیکھی تھی کہ وہ آگیا۔ اس کا چہرہ سُرخ تھا اور اس کی دراز پلکوں پر آنسُو ڈبڈبا رہے تھے۔


               ’ چلو تھِری ایسس اس کے بعد پھر میں تمہیں کبھی مجبور نہ کروں گا۔‘


               اس نے اس انداز سے کہا جیسے وہ آج اپنی زندگی کو داو پر لگا نا چاہتا ہو۔مگر میں اس کے ساتھ جا نہ سکا۔ میری معذرت پر خلافِ توقع اس نے کچھ نہ کہا۔


               پھر اس نے ایک دِن مجھے اطلاع دی کہ فرحت کی شادی ہونے والی ہے، دعوت نامے چھپ چکے ہیں۔ دعوت نامے کی پیشانی پر میری بجائے اُس اُلّو کے پٹھّے کا نام ہے ، مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ میرے ساتھ فرحت ہے ، اُس کا سچّا پیار ہے اور ساتھ میں خلیق صاحب کے مزار پر بہائے ہوئے اَن گِنت آنسو اور آہوں میں ڈُوبی ہوئی دُعائیں ہیں۔‘


               مگر آنے والے کل کے ہاتھ میں جو کتاب تھی اس میں کہیں بھی میرے دوست کا نام درج نہیں تھا۔ وہ محبت کی کتاب کا پیش لفظ بن کر رہ گیا تھا۔ فرحت کسی اور کی ہو چکی تھی۔


               وہ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور چُپکے سے کہیں دُور چلا گیا۔ اس نے صرف مکان تبدیل کیا تھا لیکن اس کا دھڑکتا ہوا دل شائد آج بھی فرحت کے بدل کی تلاش میں سرگرداں ہو۔


               دو سال کے طویل عرصے کے بعد اچانک وہ ’ اورینٹ‘ کے قریب مجھ سے مِلا تو مجھے ایک انجانی سی مسرّت کا احساس ہو رہا تھا۔ اور وہ خود بھی بڑا مسرُور دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں کے کناروں پر جیسے مسرّت جھُوم رہی تھی۔ وہ آج ضرورت سے زیادہ لہک لہک کر باتیں کر رہا تھا۔


               ’ یار اچھا ہوا تم مِل گئے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ تم سے کس طرح مِلوں۔ دو برس بعد حیدر آباد لَوٹا ہوں تو کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ وہی سمنٹ کی لمبوتری سڑکیں وہی ہوٹلیں وہی تھری ایسس ، وہی جانسن ۔ وہی اورینٹ ، حد تو یہ ہے کہ بَیرے بھی وہی ہیں۔ مگر ایک چیز بدلی ہوئی ہے وہ ہے فرحت کا گھر ۔ اس نے مکان میں ایک نئے کمرے کا اضافہ کر لیا ہے۔‘


               ’ کیا تم فرحت کے گھر گئے تھے‘؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔


               اُس نے کچھ رُک کر کہا :


               ’ ہاں ، اُس نے مجھے خط لکھا تھا کہ بچّے کی سالگرہ میں میری کی شرکت بے حد ضروری ہے ، میں کسی قیمت پر گھر آؤ ں۔ عجیب لڑکی ہے فرحت بھی۔ ظالم نے ٹُوٹ کر مجھے چاہا اور شادی ایک اجنبی سے کر لی۔ ہاں رضوان بڑا پیار ابچّہ ہے۔ میں نے جب اُسے پیار سے گود میں اُٹھا یاتواُس نے اپنی ننھی مُنی بانہیں پھیلا دیں اور تُتلاتے ہوئے مجھے پپّا کہا۔بخدا میں تڑپ کر رہ گیا۔ مجھے ایک لمحہ کے لئے احساس ہوا جیسے میں سچ مُچ رضوان کا باپ ہوں۔ فرحت میری بیوی ہے اور اس کا شوہر میرا ملازم۔ اس وقت فرحت میرے قریب کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے تھے۔ میں آج صبح سے ہی عجیب افسردگی کا شکار تھا۔ شائد آنے والے اسی اذیت ناک لمحے کے لئے وقت نے مجھے جگا دیا تھا۔ وہ اپنے شوہر کی پروا کئے بغیر میری خاطر تواضع میں لگی رہی۔ آج میں نے اُسے تحفہ کا جو پیکٹ دیا ہے وہ اُسے میرے جانے کے بعد جب کھولے گی تو باؤلی ہو کر دیواروں سے سَر ٹکرائے گی۔‘


               میرا جی بے اختیار چاہا کہ اس سے پوچھوں کہ آخر اس نے کیا تحفہ دیا ہے۔ مگر ہمّت نہ ہوئی۔ اس نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا : تمہیں حیرت ہو گی کہ رضوان کا چہرہ ہو بہو مجھ سے مِلتا جُلتا ہے۔ رضوان کو خدا نے میرا چہرہ دے کر مجھ پر اور فرحت پر بڑا ظلم کیا ہے۔ میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کے جسم کو چھُوا تک نہیں۔ گو وہ میری اپنی ملکیت تھی۔ خیر چھوڑو اس قصّے کو ، اب تم سُناؤ کیسے ہو‘؟


               ’ آج مجھے اس بات کا اعتراف کر لینے دو کہ تم نے مجھ پر بڑے احسانات کئے ہیں۔ کبھی سوچتا ہوں تو تمہارے خلوص کے آگے سراپا سپاس ہو جانے کو جی چاہتا ہے۔ میں نے تمہیں اپنی دل کی گہرائیوں میں جگہ دے رکھی ہے۔ وہیں کہیں تم سے لی ہوئی قرض کی رقم محفوظ ہے۔ وقت آنے پر ایک ایک پیسہ چُکا دوں گا۔ میرے بعض ساتھی مجھے بَد نیت اور نا دہندہ کہتے ہیں۔ ذرا تم ہی سو چو یہ لوگ جب مجھ پر بھروسہ نہیں کر سکتے تو مجھے پیسے کیوں قرض دیتے ہیں۔ یہ دراصل سب کے سب میری شخصیت سے مرعُوب ہیں‘


               میں چُپ چاپ اس کی باتیں سُنتا رہا۔ اس نے سامنے سگریٹ کی دوکان سے گولڈ فلیک کی ایک پیکٹ خریدی ، خود سگریٹ سلگایا اور مجھے سگریٹ آفر کرتے ہوئے کہا ’ پتہ نہیں تم کب گولڈ فلیک پینا شروع کرو گے؟ بگلا سگریٹ پیتے پیتے تم گھٹیا آدمی بنتے جا رہے ہو‘


               ’ اور تم گولڈ فلیک پی کر بھی میرے مقروض ہو‘


               میرے جملے کی اس تُرشی سے وہ ناراض ہونے کی بجائے بے ساختہ ہنس پڑا اور محبت سے میرے گال پر ایک چَپت لگائی۔


               ایک ثانیہ کے لئے مجھے احساس ہوا کہ مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیئے تھا۔ مگر وہ میرے اس اُوچھے مذاق کے باوجود ابھی تک مسکرا رہا تھا اور پَے در پَے سگریٹ پِیئے جا رہا تھا۔ ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے بہت دُور نِکل آئے تھے۔مالگزاری سے لگا ہوا سُوپر بازار بند ہو چکا تھا۔ رائل کیفے کے قریب پہنچ کر میں رُک گیا۔ سامنے نامپلی چمن کے ٹیکسی اسٹینڈ پر لوگوں کا کافی ہجوم تھا۔ آج ٹیکسی ڈرائیوروں نے اپنی موٹروں پر بڑے بڑے پھُولوں کے ہار ڈال رکھے تھے۔ سامنے دو آدمی پھُولوں سے بھری ہوئی ٹوکری لیئے آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور ساتھ ساتھ کسی پُرانے شاعر کا نعتیہ کلام بھی پڑھتے جا رہے تھے۔


               وہ سڑک جو درگاہ سے راست مِلتی تھی اس پر لوگوں کا اژدھام تھا۔ آج خلیق صاحب کا عرس تھا۔ چراغاں تھے۔


               وہ یونہی بَل کھاتی ہوئی سڑک پر چُپ چاپ چلتا رہا۔


               ’ کیا آج خلیق صاحب کی درگاہ میں عزیز وارثی کی منقبت نہیں سُنوگے‘؟


               اُس نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا اور دھیرے دھیرے قدم ناپتا ہوا ’ کہکشاں ‘ میں داخل ہوا جہاں بالکنی پر ایک چمپئی رنگ کی صحتمند لڑکی اس کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔

 

زمین کا عذاب


               ’ کیا یہ ممکن نہیں کہ تم وہاں میرے لئے کوئی جگہ تلاش کر سکو‘۔


               ’ جگہ‘؟ اس نے کچھ اس انداز سے کہا کہ اُس کی اُجلی آنکھوں میں سَائے منڈلانے لگے۔


               ’ بھائی وہاں تم ایسے پیارے لوگوں کے لئے جگہ کہاں ہے۔ میں وہاں پاوں سُکیڑ کر سو بھی جاتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ جگہ پھر بھی تنگ ہے۔ اگر تم اسے مبالغہ نہ سمجھو تو میں اکثر جاگتا ہی رہتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم بھی اس سُلگتی ہوئی بھٹّی میں جاگرو۔ پھر میں نے بھی وہ جگہ خاموشی سے تلاش نہیں کی تھی مجھے تو وہاں جیسے کسی نے زبردستی ڈھکیل دیا تھا۔‘


               ’ پھر میں کہاں جاؤں ؟ میرے لئے کہیں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘


               ’ جگہ تو ہے ، سکڑی سکڑی ، مٹِیالی تنگ اور تاریک۔‘


               ’ کیا وہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔‘


               ’ شائد ہوتا ہو۔‘


               لیکن میں تند و تیز ہواؤں اور طوفانوں سے ڈرتا ہوں۔ میری مُراد اُن دھماکوں سے ہے ، جن میں میں گھِرا ہوا ہوں۔‘


               ’ تمہیں جِینے کی اس قدر ہوس کیوں ہے‘؟


               ’ اگر یہی بیہودہ سوال میں تم سے کروں ‘؟


               ’ میں ایک بے حِس آدمی ہوں ، اس لئے جی رہا ہوں تم تو شروع ہی سے اچھی زندگی کے خواب دیکھتے رہے ہو‘۔


               ’ لیکن اب وہ خواب کرچی کرچی بن چکے ہیں‘۔


               ’ کوئی اور خواب دیکھنے کی تمنّا نہیں ہے‘۔


               ’ نہیں اب زندگی کے لَق و دَق صحرا میں وہ عَصائے پیری بھی چھن چکا ہے‘


               ’ پھر اب مزید کچھ نہ سوچو زندگی جیسی ، جس طرح جہاں کہیں گزر رہی ہے ، اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو‘۔


               دیکھو کالج کی عمارت سے لڑکوں اور لڑکیوں کا سیلاب پھُوٹ پڑا ہے۔ ان کے چُست لباس دیکھ رہے ہو۔ ان کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ ہے وہ دراصل ایک سمجھوتہ ہے جو انھوں نے ہر لمحہ بدلتی زندگی سے کر رکھا ہے۔ مگر لڑکوں کے چہرے پر بڑھے ہوئے یہ لمبے لمبے بد نُما خط۔ ان لڑکوں نے خواہ مخواہ اپنا چہرہ کیوں بگاڑ رکھا ہے۔ اس حُلیہ میں تو وہ جنگل سے بھاگے ہوئے بندر معلوم ہوتے ہیں۔ یہ کس قِسم کی مراجعت ہے۔ دیکھو میں موضوع سے ہٹ گیا۔ میں جگہ کی تلاش میں ہوں۔ ایک ایسی جگہ جہاں لیٹ کر میں اطمینان سے لکھ سکوں ، پڑھ سکوں ، مسکرا سکوں۔‘


               ’ لیکن جس چیز کو تم اطمینان سے تعبیر کر رہے ہو وہ جگہ یہاں نہیں ہے۔ تم لکھ سکتے ہو ، مسکرا سکتے ہو ، ہنس سکتے ہو اور کبھی جی گھبرا جائے تو پتّھر سے سر کو ٹکرا بھی سکتے ہو۔ اتنی ڈھیر ساری نعمتیں جب زندگی میں مُیسّر ہوں تو آدمی کو اور کیا چاہیئے۔‘


               ’ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بھی مسخ شدہ زندگی کا تابُوت اپنے کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہو‘۔


               ’ مگر میرے کندھے پر ایسی کوئی نعش نہیں ہے جسے میں کسی کھڈ میں پھینک آؤں کیونکہ کھائی میں پہلے ہی سے اتنی سڑی بسی نعشیں پڑی ہیں کہ میں اس کے تصوّر ہی سے کانپ اُٹھتا ہوں۔ لیکن میں پاوں کی زنجیر بن کر رہ گیا ہوں۔ کتنے قدموں کے نشانات ثبت ہیں یہاں اس چوکھٹے میں جب کبھی میں نے قدم رکھنے کی کوشِش کی مجھے ایسا لگا جیسے کسی دیو زاد نے میرا گلا گھونٹ دیا ہو۔


               میرے شلف میں رکھی ہوئی ساری خوبصورت کتابیں جل چکی ہیں۔ میری میز کا سینہ کسی نے چِیر دیا ہے۔ کرسیوں کی ٹانگیں برتنوں کے چہرے کپڑے اور یہ بدن کہیں ایسا تو نہیں میں تمہیں بور کر رہا ہوں۔


               مجھے تم سے جُدا ہونے میں ابھی چند گھنٹے اور باقی ہیں۔ تم مزید چند گھنٹے میرے ساتھ گذار سکتے ہو۔ لیکن ان چند گھنٹوں میں ، میں نے صرف ایک گھنٹہ اپنے لئے مختص کر رکھا ہے۔ بظاہر اس ایک گھنٹہ پر میرا قبضہ ہے ، لیکن ‘؟


               ’ مجھے تمہاری بات سمجھ میں نہ آئی۔‘


               یہ ضروری نہیں کہ ہر بات سمجھ میں آئے۔ جب بات سمجھ میں آ جاتی ہے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ مجھ میں کوئی کمی واقع ہو گئی ہے۔ سوچ کی اتھاہ گہرائیوں سے کبھی میرا واسطہ نہیں رہا ہے۔ تم میرے ساتھ چلو تو تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔‘


               وہ مجھے مختلف راستوں سے گھُما پھرا کر ایک چاڑی چکلی سڑک پر لے آیا۔ اُوپر آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارت پر رنگ برنگی برقی قمقمے جگمگا رہے تھے۔


               ’ یہی وہ جگہ ہے جہاں مجھے جانا ہے۔ چند لوگ مجھ سے مِلنا چاہتے ہیں‘۔


               ’ یہ گھر بُقعۂ نُور کیوں بنا ہوا ہے‘؟


               ’ یہ اہتمام میرے لئے نہیں ہے۔ یہاں لائٹ ہمیشہ ہی جلتی رہتی ہے تاکہ اندھیرے کا احساس ہی مر جائے۔‘


               وہ مجھے بھی ساتھ چلنے پر اصرار کرتا رہا۔ لیکن میں باہر ہی ٹھیرا رہا۔


               وہ لِفٹ کے ذریعہ دیکھتے ہی دیکھتے اُوپر چلا گیا۔


               پھر جب وہ وہاں سے لَوٹا تو وہ بیحد اُداس اوری گمبھیر دکھائی دے رہا تھا۔


               وہ چُپ چاپ گُم سُم تار کول کی لمبی سڑک پر یونہی چلتا رہا۔پھر میں نے دیکھا وہ بڑی درد بھری آواز میں گُنگُنا رہا تھا۔


               لہو کی بُوندیں


               گورے کالے


               نِیلے پِیلے


               چہروں کی تفسیریں


               عقاب کے نُکیلے پنجے


               سڑی بُسی نعشوں پر


               بھُوکے گِدھوں کا اژدہام


               کیا یہی وہ عذاب ہے


               جس کے لئے ہمیں زمیں مِلی تھی


               اپنا عقیدہ ٹُوٹنے سے پہلے


               آؤ اِک بار پھر


               اپنی قبروں کے دروازے


               مقفّل کر لیں


               میں اُس کے چہرے پر آئی ہوئی لکیروں کو پڑھتا رہا۔ وہ بغیر مجھ سے کچھ کہے بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا تاریکی میں ڈُوبے ہوئے قبرستان کی طرف چلا گیا۔

ہیں خواب میں ہنوز

                اس نے کھڑ کی سے جھانک کر دیکھا۔ وہ آدمی ابھی تک نیچے چپ چاپ کھڑا تھا۔ابھی ابھی جب اس نے اُس سے کہا تھا کہ وہ اس شہر میں اجنبی ہے اور شب بسری کے لیے ایک رات اس کے گھر میں گزارنا چاہتا ہے لیکن اس کے انکار کے باوجود وہ ابھی تک نیچے کھڑا تھا۔ یہ اس کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ تھا۔ اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اور وہ خود اس محلے کے لیے زیادہ شناسا نہ تھا۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے یہاں سکونت اختیار کی تھی۔ ایسے میں شب بسری کے لیے کسی بھی اجنبی کو جگہ دینا خطرہ مول لینے کے مترادف تھا۔


               رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ سردی ہولے ہولے بڑھ رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ تیز ہوائیں چلنے لگی تھیں۔ بند کھڑکیاں تیز ہوا کے دباؤ سے خودبخود کھل رہی تھیں۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے دبے پاوں کوئی طوفان آنے والا ہو۔ قریب کے کمرے میں اس کی بیوی نیند میں غرق تھی۔کمرے کی لائٹ آف تھی اس لیے کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس نے اندر جا کر لائٹ آن کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ شاید اس کی نیند خراب ہو جائے مگر اس آدمی نے اسی کے گھر کا انتخاب کیوں کیا؟۔۔۔ لیکن وہ اب تک تو چلا گیا ہو گا۔ کسی آشرم کے کمرے نے اس کے لیے اپنی آغوش وَا کر دی ہو گی وہ یہ سوچ کر اطمینان سے اس دریچے کی طرف بڑھا۔ جہاں سے وہ نیچے دیکھ سکتا تھا۔


               اسے کھڑکی کی طرف جاتے ہوئے ڈر سا لگ رہا تھا۔ وہ کب کا چلا گیا ہو گا۔ یہ بات اس نے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی۔ اور کھڑکی تک نہ جانے کا جواز اس نے اپنے طور پر ڈھونڈ لیا تھا۔ پھریوں بھی ہوائیں تیز چل رہی تھیں۔ اسے کھڑکی کے مقابل ایک سایہ سا دکھائی دیا۔۔جیسے کہہ رہا ہو۔


               بس ایک رات کی بات ہے کسی کونے میں پڑا رہوں گا اور گجر دم چلا جاؤں گا۔ کتنی راتیں ہیں جن کی کبھی صبح نہیں ہوتی۔ مگر یہ عجیب رات ہے جو کچھوے کی طرح رینگ رہی ہے۔ وہ جی کڑا کر کے کھڑکی کے قریب آیا۔ اُسے یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی کہ وہ ابھی تک نیچے چپ چاپ کھڑا تھا۔ سڑک پر اکا دکا موٹر کاریں دوڑ رہی تھیں۔ چند لوگ سمنٹ کی سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔


               بازار کی بیش تر دوکانیں بند ہو چکی تھیں اور سڑک پر کہیں روشنی تھی اور کہیں اندھیرا اس نے سوچا پولیس کو فون کیا جائے کہ اس کے گھر کے نیچے ایک مشتبہ آدمی کئی گھنٹوں سے کھڑا ہے۔ اُسے اپنی جان و مال کا خوف ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن پولیس اتنی سی بات پر تھوڑا ہی ایکشن لیتی ہے۔۔۔۔۔ مگر وہ اپنے خط و خال سے بھی بھلا مانس لگتا ہے کپڑے بھی صاف ستھرے پہن رکھے ہیں۔گفتگو میں مٹھاس اور نرمی بھی ہے ۔۔۔۔آدمی تو کئی پردوں میں چھپا رہتا ہے۔ جگہ نہ دینے ہی میں عقلمندی ہے۔ جگہ کے لیے تو ساری دنیا پریشان ہے۔ شیلٹر کب کہاں اور کسے ملا ہے۔


               اب وہ کھڑکی سے ہٹ کر اپنی بیوی کے کمرے کی طرف آیا۔ اس کی بیوی ابھی تک سو رہی تھی۔ رات سونے کے لیے ہوتی ہے۔ شاید گہری نیند سو کر وہ اسے یہی بات سمجھانا چاہتی ہو۔ شاید جلد سو کر وہ یہ بات بھی اس کے ذہن نشین کروانا چاہتی ہو کہ نیند کے ساتھ ساتھ وہ اور بہت سی باتوں میں خودمختار ہے۔ مگر وہ بھی تو چپکے سے اس کے قریب جا کر سو سکتا ہے۔ جاگنے کے لیے اگر وہ آزاد ہے تو سونے کے لیے


بھی اس کی آزادی برقرار رہے گی۔ وہ یوں ہی ٹہلتا رہا۔ اس کے لیے مشکل یہ تھی کہ وہ اب نہ خود سو سکتا تھا اور نہ اپنی بیوی کو جگا سکتا تھا۔


               اس کا ذہن منتشر تھا۔ ذہن میں طرح طرح کے گمان سر اونچا کیے جھانک رہے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں اسی طرح ٹہلتا رہا۔ کبھی کبھار کھڑکی کی طرف اس کی نگاہیں اٹھ جاتیں تو اسے بے اختیار اس اجنبی کا خیال آتا۔ اجنبی کے خیال کے ساتھ ہی اس کی طبیعت دگرگوں ہو جاتی۔


               آج اسے دو باتوں کی بڑی کوفت تھی۔ اجنبی کا خواہ مخواہ مکان کے نیچے ٹھہرا رہنا۔بیوی کا وقت سے پہلے سو جانا۔ ان دونوں نے جیسے اس کا سکھ چین چھین لیا تھا۔ اس نے دل میں سوچا اگر اجنبی اب بھی اس کے مکان کے نیچے کھڑا نظر آئے تو وہ اسے لڑائی کے لیے للکارے گا۔ اسے اوپر سے ایک موٹی سی گالی دے گا اور کہے گا بدمعاش یہاں سے فوری دفع ہو جا۔


               وہ تیز تیز قدم ڈالتا ہوا کھڑکی کے پاس آیا۔ اس نے دیکھا وہ نوجوان اب الکٹرک پول سے ٹیک لگائے سورہا تھا۔ اس نے سوچا۔ سونے والے کو کیا گالی دی جائے۔ رات تو آدھی ڈھل چکی ہے۔ گجر دم وہ یہاں سے چلا جائے گا۔ اس نے کھڑکی سے جھانک کر پھر ایک بار بغور اُسے دیکھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اور ہاتھ پاوں بالکل ساکت تھے۔ شاید وہ گہری نیند کے مزے لے رہا تھا۔ پھر وہ کچھ سوچ کر کھڑکی کے پاس ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ جاگے تو اسے للکار سکے۔ لیکن وہ بدستور سو رہا تھا۔


               وہ کھڑکی کے پاس سے آہستہ آہستہ اپنی بیوی کے کمرے کی طرف آیا۔ اس کی بیوی کے کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔وہ نیند میں غرق تھی۔ وہ سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔


               اس کا ذہن اب کچھ کام کرنے کے قابل نہ تھا۔ وہ اپنے بستر پر آ کر دراز ہو گیا۔


               اس نے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کی لیکن نیند اس سے کوسوں دور تھی۔


               پھر یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ اس پر نیند نے غلبہ پانا شروع کر دیا۔ اس کی مندی مندی آنکھوں میں نیند ننھے منّے قطروں کی طرح جمنے لگی اور ایک حد ایسی آ گئی کہ وہ سو گیا۔


               سویرے جب اس کی آنکھ کھلی تواس کا دل بے طرح دھڑک رہا تھا۔


               صبح کی سفیدی در و دیوار پر پھیل رہی تھی۔ اٹھتے ہی سب سے پہلے اُسے اس اجنبی کا خیال آیا جو رات گئے الکٹرک پول سے ٹیک لگائے سو گیاتھا۔


               یک بارگی وہ بستر سے اُٹھا اور کھڑکی کے پاس آ پہنچا۔ اس نے دیکھا پول کے نیچے ایک مریل سا کتّا پیشاب کر رہا تھا۔


               وہ جا چکا۔ چلو ایک الجھن سے نجات تو ملی۔ وہ یہ سوچ کر بڑے اطمینان سے اپنی بیوی کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ بڑے اطمینان سے سو رہی تھی۔ جانے کیوں اس کا سر چکرا گیا۔ وہ اپنی پریشانی اور اُداسی کا جواز بھی نہ ڈھونڈھ سکا۔ چور نظروں سے اس نے پھر اپنی بیوی کو دیکھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ غازہ چہرے کو کچھ عجیب طرح سے چھوڑ رہا تھا۔ کاجل آنکھوں میں پھیل کر رہ گیا تھا۔


               اس نے کچھ سوچ کر سگریٹ جلایا اور اس کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔ جس سے وہ ابھی ابھی لوٹا تھا۔ لمبا کش لے کر دھوئیں میں
جھانکتے ہوئے وہ سوچتا رہا۔ کیا میں واقعی رات سوتا رہا تھا یا پھر۔۔۔۔


               لیکن اس کی بیوی اطمینان سے سو رہی تھی۔

 

پُل صراط


               دھپ دھپ دھپ باہر کوئی دروازہ پیٹ رہا تھا۔


               رات گہری اور تاریک تھی اور فضا میں دھوئیں کے بادل منڈلا رہے تھے۔


               ’ کون ہے؟‘ لحاف کے اندر سے ایک کپکپاتی آواز اس طرح گُونجی جیسے دُور کوئی گہرے کنویں سے بول رہا ہو۔


               دھپ دھپ


               ’ ارے بھئی کون ہے ؟ اتنی رات گئے کیا کام ہے؟‘


               ’ میں ہوں قاسم‘۔


               ’ کون قاسم بھئی‘؟


               ’ قاسم ، تمہارا دوست ‘


               ’ میرا دوست؟ ‘ اس نے حیرانی سے مُنہ میں بڑبڑاتے ہوے کہا:


               ’ تم موہن داس ہونا؟‘


               ’ ہاں ہاں میں موہن داس ہی ہوں۔‘ اجنبی کی زبان سے اپنا نام سُن کر اس نے بغیر سوچے سمجھے جی کڑا کر کے دروازہ کھول دیا۔


               اب اس کے سامنے ایک اُونچے پورے قد کا آدمی کھڑا تھا۔ گلے میں میلا کچیلا مفلر لپیٹا وہ کسی اور دُنیا کا باشندہ رہا تھا۔


               رات کے گھُپ اندھیرے میں اُسے چہرہ پہچاننے میں دِقّت ہو رہی تھی۔


               ’ یہاں اندھیرا کیوں ہے؟‘ اس نے سانپ کی طرح لٹکتے ہوے مفلر کو اپنے گلے کے گرد لپیٹتے ہوے کہا۔


               ’ لائٹ بند ہے بھائی‘۔ اس کی آواز میں نرمی اور کپکپا ہٹ پیدا ہو گئی تھی۔ شاید یہ سر پر منڈلاتے ہوے انجان خوف کا اثر تھا۔


               ’ یہاں کی لائٹ آج بند کیوں ہے‘؟


               ’ یہاں کا بجلی گھر کمزور ہے۔‘ اس نے نرم لہجے میں کہا


               ’ بجلی گھر ۔ بجلی گھر سے لگا کسی وقت میرا ایک چھوٹا موٹا سا گھر تھا جس میں امرود کا ایک بوڑھا درخت بھی تھا اور اُس پَرے ایک کنواں جس میں بوڑھے حافظ جی نے چھلانگ لگا کر جان دے دی تھی۔‘ جیسے وہ ماضی کے چہرے سے نقاب اُٹھا رہا تھا۔


               اچانک اس کے ذہن کی سلیٹ پر بہت سے چہرے اُبھرے۔ دھُندلے۔ ۔ دھُندلے ۔۔ مٹیالے مٹیالے ۔۔۔ ان ہی میں قاسم نامی ایک لڑکا بھی تھا جو اس کا دوست تھا۔


               پھُولے پھُولے گالوں والا گورا چٹا قاسم۔ مگر اب اس کے سامنے جو آدمی کھڑا تھا وہ قاسم کیسے ہو سکتا تھا۔ کیا آدمی بیس بائیس برس میں گورے سے کالا بھی ہو سکتا ہے۔


               ’ کیا تم مجھے اندر نہیں بُلاؤ گے؟‘


               ’ اندر تو کھاٹ بھی نہیں ہے۔‘


               ’ سِیلی زمین تو ہے جو ہمارا مقدّر ہے۔‘


               پھر اچانک کمرے میں روشنی پھیل گئی تو اُس نے تیزی سے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ لیئے۔


               ’ یہ تم نے اپنا چہرہ کیوں چھُپا لیا ہے؟‘


               ’ مجھے روشنی اچھی نہیں لگتی۔‘


               ’ روشنی کے لئے تو آدمی جِیتا ہے۔‘


               ’ مگر میں اندھیرے کا پرستار ہوں۔ اس لئے میں نے تم سے ملنے کے لئے اماوس کی یہ رات چُنی ہے۔‘ یہ کہہ کر وہ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔


               ’ اتنی رات گئے، کس سے باتیں کر رہا ہے بیٹے؟‘ قریب کے کمرے سے ایک بوڑھی بیمار آواز آئی


               ’ کوئی بھی نہیں ہے ماں تو اب سوجا ، رات ڈھل چکی ہے۔‘


               میں اس آواز سے آشنا ہوں۔ یہ دھرتی کی کوکھ سے جنم لینے والی ممتا بھری آواز ہے۔ مجھے یہ آواز بڑی بھلی لگتی ہے۔ لیکن میں اس آواز سے ڈرتا بھی ہوں۔ یہ آواز سائے کی طرح میرا پیچھا کرتی ہے۔ اس گاوں میں اب میرا کوئی بھی شناسا باقی نہیں رہا۔ سُنا ہے کہ سب لوگ یہاں سے کبھی کے جا چکے ہیں۔‘


               ’ یہی کیا غنیمت ہے کہ ابھی کچھ لوگ اس نے رُکتے رُکتے جواباً کہا ’ کیا تم مجھے ان لوگوں سے مِلاسکتے ہو؟‘


               ’ کیوں نہیں ضرور‘


               ’ یہ لوگ وہی ہیں نا ، جنھوں نے آخر دم تک ‘ ابھی اس نے اپنا ادھورا جُملہ مکمل بھی نہ کیا تھا کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا سَنسناتا ہوا آیا اور چوبی دروازے کے کھلے ہوے پَٹ اچانک بند ہو گئے۔


               اس کے ہونٹوں کے کنارے پر طنز آمیز مسکراہٹ رقصاں تھی۔ پھر اس نے کہا:


               ’ میں نے کسی وقت بہتے پانی کی چادر پر ایک بند بندھا تھا لیکن طوفانی ہوائیں سیلاب اور دریاؤں میں بہتا ہوا سُنہرا پانی مجھے بہت دُور بہا لے گیا۔


               اس مِٹی سے میری کچھ یادیں وابستہ ہیں جو میرا شخصی سرمایہ ہے۔ میں میلوں چل کر یہاں اس لئے آیا ہوں کہ انھیں ٹٹول ٹٹول کر دیکھ سکوں۔‘


               ’ مگر اتنی رات گئے یہ سب کچھ کیسے ہو گا۔ یہ اماوس کی رات ہے۔‘


               ’ یہ رات میری زندگی کی سب سے اہم رات ہے۔ میں اس پُل صراط سے آج ہی گُذرجانا چاہتا ہوں۔‘


               ’ یہ کام تو دن کے اُجالے کا محتاج ہے، ارے لائٹ پھر بند ہو گئی۔ یہ بجلی گھر بھی عجیب شَے ہے۔‘


               ’ مجھے یہاں سے فوراً اس قبرستان لے چلو جہاں میرا باپ مَنوں مِٹّی کے ڈھیر کے نیچے پڑا سورہا ہے۔ میں اُسے چلتے چلتے جگانا چاہتا ہوں۔ صبح سویرے مجھے یہاں سے چلا جانا ہے۔ وقت بہت کم ہے تم ڈر اور خوف کو اپنے دل سے نکال کر میرے ساتھ ہو جاؤ ۔‘


               ’ قبرستان ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں آدمی کو سکون مِلتا ہے۔ پھر یہاں تو میرا عظیم باپ دفن ہے‘۔ اس کے اصرار میں نمناک ہواؤں کا بہاؤ تھا اور وہ اس بہاؤ میں دُور دُور تک خس و خاشاک طرح بہتا چلا گیا۔


               اب وہ قاسم کے ساتھ اس ویران قبرستان میں کھڑا تھا۔ فضا پر موت کی سی خاموشی مُحیط تھی اور رات کی خُمار آلود آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسُو گِر رہے تھے۔


               اس قبر کو دیکھ رہے ہو ؟ قاسم نے ایک بوسیدہ مٹیالی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا جو دُور سے اُلٹی نظر آ رہی تھی۔


               ’ یہ قبر تو گاوں کے زمیندار کی ہے یہاں کے لوگ تو یہی کہتے ہیں‘۔


               ’ یہاں کے لوگ جھوٹے ہیں۔ یہ قبر اس وقت بھی ٹیڑھی تھی اور آج بھی ہے‘۔


               یہہ کہ کر وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے باپ کی قبر کے قریب آ کر ٹھہر گیا۔


               اس نے لرزتی آواز میں آہستہ آہستہ دُعا پڑھی۔ اس کے پیچھے وہ بھی ہاتھ باندھے چُپ چاپ کھڑا تھا۔


               صبح ہونے میں صرف دو گھنٹے باقی ہیں اور صبح سے پہلے مجھے یہ سرحد پار کر لینی ہے۔ آؤ اب تمہارے گھر چلیں تمہارے گھر کی سیلی مِٹی مجھے پیار سے بُلا رہی ہے۔صبح ہونے میں صرف دو گھنٹے باقی رہ گئے ہیں صرف دو گھنٹے جیسے ہوا بھی چیختی چِلّاتی یہی کہہ رہی تھی۔


               قاسم چُپ تھا۔ اس کی بڑی بڑی نڈھال آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے تھے وہ دونوں قبرستان سے نِکل کر لمبی سڑک پر چلنے لگے۔ اُس نے پلٹ کر پھیلے پھیلے نیلگوں آسمان کی طرف دیکھا۔ وہ بڑی اضطراری کیفیت سے دو چار تھا۔


               پھر اس کی نیند سے بوجھل آنکھوں نے دیکھا ، صبح ہو رہی تھی اور قاسم بڑے بڑے ڈگ پھرتا ہوا تیزی سے سرحد پار کر رہا تھا۔

 

جنازہ

                جنازہ قبرستان میں دَھرا تھا۔


               جینے کی قیمت ادا کرتے ہوے مرنے والے نے شائد یہ کبھی نہ سوچا ہو کہ مرنے کے بعد بھی اُسے حساب چُکانا ہے۔


               جنازے کے ساتھ کل چار آدمی تھے۔ ایک نوجوان جو نہرو شرٹ پہنے ہوے تھا۔ چہرے سے بڑا گمبھیر دکھائی دے رہا تھا۔ دوسرا آدمی جو ایک بوسیدہ کوٹ پہنے ہوے تھے بار بار جیب سے بِیڑی نکال کر لمبے لمبے کش لے رہا تھا۔ وہ ٹیڑھی میڑھی قبروں سے ذرا پَرے یوں کھڑا تھا جیسے مرنے والے سے کبھی اس کا خاص تعلق نہ رہا ہو۔ تیسرا آدمی کسی پُرانی قبر کا کتبہ پڑھنے میں مُنہمک تھا۔ اس کا ایک پاوں قبر کے سینے پر تھا اور دوسرا کتبہ کے مُنہ پر وہ بھی مرنے والے سے لاتعلق سا لگ رہا تھا چوتھا آدمی جو عُمر رسیدہ تھا ، جنازے کے قریب چُپ چاپ بیٹھا تھا۔


               اندھیرے میں سب کے چہرے بڑے پُر اسرار لگ رہے تھے۔


               صَدیوں پُرانے قبرستان کی ٹیڑھی میڑھی قبریں مُنہ پھاڑے نعش کو نِگلنے کے لئے بے چَین تھیں۔ قبرستان کے اطراف جنگلی خود رَو پودوں کے سِینے میں چھُپے ہوے جھینگروں کی آواز سے تیسرا آدمی کچھ بے چین سا لگ رہا تھا۔ لیکن سب سے بڑی پریشانی اس پانچویں آدمی کی تھی جو تہبند باندھے ہوئے مسلسل کھُردری زمین پر کدال چلا رہا تھا۔ گو وہ اپنی عُمر سے کچھ زیادہ ہی ہوشیار دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ پریشان بھی تھا کہ آج مسلسل کدال کی ضرب کے باوجود زمین نے اپنا مُنہ کیوں بند کر لیا ہے۔ ایک جہاں دیدہ گورکن کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ زمین سے اس کا رشتہ ٹُوٹ رہا تھا۔ مِٹی میں دَھنسے ہوے پتھروں نے شاید طئے کر لیا تھا کہ اس بوڑھے گورکن کو آج شکست دی جائے جو صدیوں سے انھیں لہُو لہان کر رہا ہے۔مسلسل کدال چلاتے چلاتے وہ اب کافی تھک چکا تھا۔ اُس کا سانس پھُولا ہوا تھا اور جِسم پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ اس کے چہرے پر سینے کے بالوں پر بے شمار ریزے جمع ہو گئے تھے جنھیں علیٰحدہ کرنے کی اُسے ذرا بھی فرصت نہ تھی۔ وہ اپنے کام میں یوں جُتا ہوا تھا جیسے آج یہ قبر نہیں کھودی گئی تو اُسے اپنے پیشے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ وہ اب بھی کوشِش کے آخری سرے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا لیکن ایسا لگ رہا تھا کوشِش کے اس آخری پَھل کا مزا چکھنے سے پہلے وہ مَر جائے گا۔


               اس نے اپنی زندگی میں طرح طرح کی قبریں کھودیں۔ بھانت بھانت کے مُردوں کو مِٹّی کے مُنہ میں ٹھونسا ۔ لیکن یہ عجیب جنازہ تھا جسے مِٹّی نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پہلے آدمی نے تھک ہار کر گورکن کی طرف اپنی نڈھال آنکھوں سے یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ظالم آخر قبر کب کھودے گا۔


               دوسرا آدمی ابھی تک پے درپے بِیڑیاں پِینے ہی میں مشغول تھا۔ نہ اُسے جنازے کے دفن ہونے کی فِکر تھی اور نہ گورکن کی آخری کوشِش کی۔ سب سے عجیب بات تھکے ماندے نڈھال گورکن نے جو محسوس کی وہ ان چار آدمیوں کی خاموشی تھی۔ بظاہر یوں لگتا تھا جیسے اس نعش سے ان کا کوئی سرو کار نہ ہو۔ ایک دوسرے سے بھی وہ اسی طرح بے خبر تھے۔


               وہ اس سے یہ سوال بھی نہیں کر رہے تھے کہ قبر کب تک تیار ہو جائے گی۔ گورکن کو یہ لوگ بڑے عجیب سے لگے۔ اُسے اب یہ بھی یاد نہ رہا تھا کہ ان چاروں بھلے مانسوں میں سے کس نے اُسے قبر تیار کرنے کو کہا تھا۔ شاید خاموشی ان کی زبان ہو۔ خاموشی ان کا احتجاج ہو اور سکوت ان کی گالیاں ہوں۔ وہ چاروں آدمی قبرستان میں بھُوتوں کی طرح لگ رہے تھے۔ تیسرا آدمی سارے کتبوں کی تاریخوں کو حِفظ کرنے کے بعد اب اُسی کتبے کے پاس آ کر اُپ چاپ ٹھیر گیا تھا۔ اس عالم میں وہ اور بھی پُر اسرار لگ رہا تھا۔ چوتھا آدمی اب جنازے سے ٹیک لگائے بیٹھے اُونگھ رہا تھا جیسے وہ سونے کی نا کام کوشش کر رہا ہو۔


               اب گورکن کے ہاتھ شَل ہو چکے تھے


               وہ اُکتا سا گیا تھا


               اُس نے ذرا سا دَم لینے کے لئے سارے ماحول کا جائزہ لیا۔


               ہر آدمی بدستور اپنی سوچ میں گُم تھا۔


               وہ نڈھال سا قبر پر چِت لیٹ گیا۔


               ہوا کے سَرد جھونکوں میں اسے لوری کی آواز سُنائی دی۔


               اُسے لگا جیسے ہوا کے سَرد جھونکے اُسے تھپک تھپک کر سُلا رہے ہوں۔


               اُس نے محسوس کیا


               جیسے وہ خواب کی وادی میں آہستہ آہستہ اُتر رہا ہو۔


               اُسے کب نیند آئی ، کچھ خبر نہ تھی۔


               جب اس کی آنکھ کھُلی تو وہ گھبرا یا گھبرایا اس ادھوری قبر کی طرف دَوڑا۔


               لیکن اُسے یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی کہ قبر بالکل تیار تھی اور ایک تازہ نعش اُس میں دھنسی ہوئی تھی۔ اس نے گھبرا کر وحشت زدہ انداز میں چیخ ماری۔ ’ ذرا ادھر آنا بھائی لوگ‘


               مگر بھائی لوگوں میں اب تیسرا آدمی ہی باقی تھا۔


               تیسرے آدمی نے قبر میں جھانکتے ہوے شکستہ لہجے میں کہا؛


               ’ ارے یہ تو یہاں پہلے ہی سے موجود تھا ‘

 

تیسرا مُجسَّمہ


               اتفاق کی بات ہے کہ وہ نمائِش ہال جہاں تین خوبصورت مجسّمے دیکھنے والوں کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوے تھے وہاں ایک نوجوان جس کے چہرے پر زخم کا ایک گہرا نشان تھا ہال کے کنارے چُپ چاپ بغیر سانس لئے یوں کھڑا تھا جیسے وہ خود بھی ایک مجسّمہ ہو۔ لوگوں کے ہجوم میں بھی وہ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھے ہوے تھا۔ اسے دیکھنے کے بعد ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی وقت بھی اپنا حُلیہ بدل سکتا ہے۔ صورت شکل سے بھی وہ بڑا گمبھیر سا لگ رہا تھا۔


               مگر میں نے محسوس کیا کہ لوگ ان تین مجسّموں سے ہٹ کر بھی غیر شعوری طور پر اس کی ذات میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ اس گروہ میں زیادہ تر وہ لڑکیاں تھیں جن کی عُمریں ابھی نا پختہ تھیں یا وہ عورتیں تھیں جن کے ارد گرد بچّوں نے ایک ہالہ سا بنا لیا تھا۔ اس کے علاوہ بھانت بھانت کے نوجوانوں کا ایک قافلہ بھی تھا جو اس کی شخصیت کے گرد منڈلا رہا تھا۔ بوڑھوں کی تعداد کم تھی لیکن وہ بھی کبھی کبھی ایک نگاہ غلط انداز اس نوجوان پر ڈالتے ہوے اپنی راہ لے رہے تھے۔


               اِن مجسّموں میں کیا خاص بات تھی، اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے تھے جو دیدۂ بِینا رکھتے تھے یا آرٹ کی صحیح قدر و قیمت سے واقف تھے۔ مگر عام آدمی کے لئے بھی یہ مجسّمے دلچسپی کا ذریعہ بنے ہوئے تھے۔ ایک مجسّمے کے چہرے پر خراشیں تھیں جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا۔ ایک سُرخ لکیر کٹے ہوئے ہاتھ سے اُبھرتی ہوئی پاوں تک چلی گئی تھی جو خُون کی علامت بن کر اُبھر رہی تھی۔


               دوسرے مجسّمے میں بظاہر کوئی خاص بات نظر آتی نہ تھی لیکن اس کے چہرے پر دُور دُور تک کرب کے نشان ثبت تھے۔ بڑی بڑی نڈھال سی تھکی تھکی آنکھیں جن میں پیار کا انمٹ جذبہ سایہ فگن تھا۔


               شام کے چھ بج رہے تھے اور لوگ قطار اندر قطار نمائِش ہال سے باہر نِکل رہے تھے کیونکہ نمائِش کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ موٹر نشین خواتین باہر آ کر اپنے ڈرائیوروں کو دیکھ رہی تھیں یا خود ڈرائیو (DRIVE) کرتی ہوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشِش کر رہی تھیں یا پھر ان نوجوانوں کی اسکوڑیں تھیں جن کی کمروں میں ہاتھ حمائل کئے لڑکیاں ہوا میں اُڑ رہی تھیں۔ وہ لوگ جنھیں بسوں کا انتظار تھا جو اپنی ذاتی سواری نہ رکھتے تھے ، بوکھلائے ہوئے ایک کونے میں کھڑے ہو گئے تھے۔


               مجسّموں کی یہ نمائَش شہر میں کئی دِنوں تک چلتی رہی اور جب یہ سلسلہ ختم ہو گیا تو لوگوں نے کوئی اور تفریح ڈھونڈ لی۔


               ایک دن میں اپنے مکان سے نَکل کر سامنے والی گلی عُبور کر رہا تھا کہ ایک خستہ مکان کی چوکھٹ پر و ہ آدمی اُداس بیٹھا دکھائی دیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اُسے کہیں دیکھا ہے ، میں اُسے دیکھ کر ٹِھٹھک سا گیا۔


               ’ کیا تم وہی آدمی ہو جسے میں نے نمائِش ہال میں ایک زندہ مجسّمے کے روپ میں دیکھا تھا۔‘


               ’ ہاں میں ہی وہ تیسرا مجسّمہ ہوں جسے آپ لوگ ٹھوکر لگا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔‘


               ’ تم نے وہ نوکری کیوں چھوڑ دی؟‘


               ’ اِس لئے کہ مجھ سے کہیں بہتر وہ مجسّمے تھے جن کی نظروں کی چمک کو میں برداشت نہ کر سکا۔‘


               ’ تمھیں کوئی دوسری نوکری چاہئے۔‘


               ’ نہیں جناب ، نوکری سے جی اُچاٹ ہو گیا ہے۔‘


               ’ اس طرح بے کار رہو گے اور کوئی کام نہ کرو گے تو تمہاری گھر والی کچھ نہ کہے گی ؟‘


               ’ گھر والی تو کب کے میرا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔ اب تو قبر میں اس کی ہڈّیاں بھی سُرمہ بن چکی ہوں گی۔‘


               ’ اپنے پُرانے تجربہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کوئی نیا راستہ اختیار کیوں نہیں کر لیتے؟‘


               ’ میں اب پیٹ کے لئے تماشہ بننا نہیں چاہتا۔ کسی وقت بھرے مجمع میں مجھے بڑا چین نصیب ہوتا تھا۔اپنے ارد گرد بے شمار لوگوں کو پا کر اور اپنے تعلق سے تعریفی کلمے سُن کر خوشی سے جھُوم اُٹھتا تھا۔ میں کسی سے کچھ مانگنا بھی نہیں چاہتا تھا کیوں کہ دس بیس روپلّی دینے والا بھی مجھ پر اپنی دَھونس جمائے گا اور مجھ سے کسی کی دھونس نہیں سہی جاتی۔‘


               اس کی اِن باتوں کو سُن کر میرے دل میں اسے جو پانچ دس روپے دینے کی خواہش تھی وہ جیسے مر گئی۔ میں نے سوچا عجیب آدمی ہے ، خوامخواہ کنکوے کی طرح اکڑ رہا ہے۔ ایک دن ایسی ہی بہکی باتیں کرتا ہوا مر جائے گا۔


               پھر پتہ نہیں کس جذبہ کے تحت میں نے اپنی جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔


               اس نے اطمینان سے نوٹ کو اِدھر اُدھر پلٹ کر دیکھا جیسے وہ نوٹ جعلی ہو ، پھر جب اسے پوری طرح اطمینان ہو گیا کہ جو دس کا نوٹ میں نے دیا ہے وہ ہر طرح سے اصلی ہے تو اس نے بغیر کسی شکریہ کے اپنی جیب میں رکھ لیا۔


               پہلے تو مجھے اس کی اِس حرکت پر غُصّہ آگیا کہ کم بخت نے اِمداد مِلنے پر بھی اپنی زبان سے شکریہ کے دو بول بھی نہیں نکالے۔ مگر اس نے مجھ سے مدد بھی تو نہیں مانگی تھی پھر یہ احسان کی بات میرے ذہن سے کیوں اُبھر رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آدمی کسی کی مدد اسی لئے کرتا ہے کہ اس کی شان میں چند توصیفی جُملے ادا کئے جائیں


               میں اس کے پاس سے جب گھر لَوٹا تو میرا ذہن منتشر تھا۔ پھر ہوا یوں کہ مَیں نے اس محلّہ سے نِکل کر دوسرے محلّہ میں رہائِش اختیار کر لی۔


               چند دن تک و ہ آدمی خواہ مخواہ میرے ذہن پر چھایا رہا ، پھر جب مصروفیت حد سے زیادہ بڑھ گئی تو مجھے یاد بھی نہیں رہا کہ کوئی تیسرا مجسّمہ بھی تھا۔


               ایک دن میں اتفاق سے اسی محلّے سے گُزر رہا تھا۔ پتہ نہیں اچانک اس کا خیال میرے ذہن میں کیوں آگیا۔ گلی پار کر کے اس کی خیریت دریافت کر نا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ ویسے وہ میرا کوئی رشتہ دار بھی نہ تھا جس سے مِلنے کے لئے دِل بے چین ہو۔ دل میں کسی وقت ہمدردی کی ایک لہر سی اُٹھی تھی ، جس کے سبب میں نے اس کی مدد کرنے کی ٹھان لی تھی۔ لیکن یہ بھی اس لئے نہ ہو سکا کہ وہ بڑا بد تمیز تھا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود میرے اُٹھنے والے ہر قدم کا رُخ اس کے مکان کی طرف تھا۔۔۔۔


               دسمبر کا آخری ہفتہ تھا، گو میں گرم کوٹ پَہنے ہوئے تھا۔ مگر پھر بھی سردی کی چُبھتی ہوئی لہروں کا احساس ہو رہا تھا۔ سردی کی لہر کی خبر میں نے اخبار میں پڑھ رکھی تھی۔ اس لئے میں جلد سے جلد اپنے گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اب تیسرا مجسّمہ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہ اب کافی نحیف ہو گیا تھا۔ گال بھی پچک سے گئے تھے۔ اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ اُسے دیکھ کر یکبارگی میرے دل میں رحم کا جذبہ اُمڈ آیا۔


               ’ اس بے پناہ سردی میں بھی تم چوکھٹ پر بیٹھے ہو اندر جا کر آرام سے کیوں نہیں سو جاتے؟‘


               ’ آرام ۔۔۔ سُکھ ۔۔۔۔ چَین ۔۔۔۔بظاہر یہ الفاظ بڑے خوبصورت لگتے ہیں‘ ۔۔۔۔ وہ طنزیہ انداز میں بڑبڑایا۔


               ’ مگر تم اس طرح کب تک زندہ رہو گے؟‘


               ’ وہ میرے اس سوال پر ہنس پڑا ، ایسی کھوکھلی ہنسی کہ مجھے اسے دیکھ کر مَتلی سی ہونے لگی۔ زندگی سے تو میں نے کب کا رشتہ توڑ لیا تھا۔ اور میں مر بھی جاؤں تو کیا فرق پڑنے والا ہے لیکن جب تک سانس ہے میں زیر نہیں ہوں گا۔


               ان تمام باتوں کے باوجود میں نے اس سے کہا: ’ ہو سکتا ہے کہ تمہاری زندگی گُزار نے کا ڈھنگ کچھ اور ہو لیکن سرِدست میں تمہیں مزید دس روپے سے زیادہ نہیں دے سکتا۔‘


               ’ میں آپ سے کچھ مانگ نہیں رہا ہوں ، آپ نے خواہ مخواہ یہ فکر اپنے اُوپر لاد لی ہے‘۔


               اِس جواب کو سُننے کے بعد جی تو یہی چاہتا تھا کہ اسے یوں ہی مرتا ہوا چھوڑ کر آگے بڑھ جاؤ ں۔ لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔ میں نے بہ دِقّت تمام جیب سے دس کا نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ا س نے لاپرواہی سے نوٹ اپنی جیب میں رکھ لیا۔ نہ اُس نے شکریہ ادا کیا اور نہ جھُک کر سلام ہی۔


               مجھے اس آدمی سے نفرت ہو گئی۔ میں جب اس کے پاس سے جانے لگا تو اس وقت بھی اس نے کچھ نہ کہا اور دوسری طرف مُنہ پھیر کر سوچنے لگا۔


               میں مارے کوفت کے گھر لَوٹ آیا۔


               کئی دِنوں بعد اسی محلّے سے میرا گُزر بھی ہوا تو میں نے اس کی صورت تک دیکھنا گوارا نہیں کیا۔ یقیناً اب وہ مر چکا ہو گا۔بڑا بدتمیز تھا وہ ۔۔۔۔۔ احسان فراموش کمینہ۔۔۔۔ سِفلہ ۔۔۔۔۔


               میں دل ہی دل میں گالیاں دیتا رہا۔


               پھر ایک دِن میں شہر کی مصروف شاہراہ سے گُزر رہا تھا کہ ایک خوبصورت کار ایک دھچکے کے ساتھ آ رُکی۔ وہ ایک ادھیڑ عُمر کے سیٹھ کے ساتھ موٹر سے اُتر رہا تھا۔ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے صاف سُتھرے قیمتی کپڑے پہن رکھے تھے۔ صحت بھی پہلے کی بہ نسبت کافی اچھی تھی، وہ ایک کپڑے کی دوکان میں داخل ہوا۔


               میں سڑک کے کنارے یوں ہی کھڑا رہا۔ میں سوچنے لگا ، کہیں ایسا تو نہیں جسے میں تیسرا مجسّمہ سمجھ رہا ہوں وہ کوئی اور ہو۔ شاید مجھے پہچاننے میں بھُول ہوئی ہو۔ میں اسی تذبذُب کے عالم میں کھڑا رہا۔ ایک گھنٹہ یوں ہی گُزر گیا۔ لیکن اس نے دُوکان سے واپس آنے کا نام نہیں لیا۔ کار سڑک کے کنارے کھڑی ہوئی تھی۔پھر تھوڑی دیر بعد وہ بوڑھا سیٹھ جو کار خود ڈرائیو کر رہا تھا ، باہر واپس آیا اور موٹر کی سیٹ پر رکھا پیکٹ ہاتھ میں تھامے دوبارہ اُس دُوکان میں داخل ہو گیا۔


               مجھے کوفت ہونے لگی۔ میرا قیمتی وقت خواہ مخواہ برباد ہو رہا تھا اور وہ کمبخت دوکان سے باہر نکلنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ اب مجھے بھی ایک قِسم کی ضِد سی پیدا ہو گئی تھی۔ میں اب یہ سوچ ہی رہا تھا کہ خود دوکان میں داخل ہو کر اسے اچھی طرح پہچان لوں۔ وہ بوڑھے سیٹھ کے ساتھ بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا واپس آ رہا تھا۔ میں دوکان کے نیچے اسی جگہ کھڑا تھا جہاں وہ مجھے بہ آسانی دیکھ سکتا تھا اور میں اُسے۔


               جُوں ہی اس کی نگاہ مجھ پر پڑی وہ خلافِ توقع مجھ سے بے ساختہ لِپٹ گیا۔


               ’ جناب میں نے اِدھر آپ کی کافی تلاش کی لیکن آپ سے ملاقات نہ ہو سکی کوئی اَتا پتہ بھی نہ تھا کہ میں اِس سہارے آپ تک پہنچ سکتا۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ آج آپ سے میری ملاقات ہو گئی۔‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے دس دس روپے کے دو نوٹ نکِالے اور زبردستی میری جیب میں ٹھونستے ہوئے کہا:


               ’ اگر آپ کا یہ قرض میں نہ چُکاتا تو پتہ نہیں اِس خلش سے میرا کیا حال ہوتا ‘


               یہ کہہ کر وہ کار میں بیٹھ گیا اور موٹر فرّاٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ مجھے یُوں لگا ، جیسے وہ نہیں میں خود تیسرا مجسّمہ ہوں ۔

 

بھِیتر بھِیتر آگ


               ’ بات پکی کر لی ہے نا ؟‘


               ’ او ر نہیں تو کیا ، بس یوں سمجھو بات جب بنتی ہوئی آتی ہے تو نئے راستے خود بخود کھل جاتے ہیں۔۔۔ کسے خبر تھی کہ زندگی کی شاہراہ پر مخالفت سمت چلنے والا ایک اجنبی یوں آسانی سے ہتّھے چڑھ جائے گا۔‘


               ’ آپ بھی عجیب آدمی ہیں ہتّھے چڑھنے کی بھی خوب کہی اسے تو ایک خوبصورت تعلیم یافتہ ذہین لڑکی مِل رہی ہے اور پھر اُونچا خاندان بھی ہے۔‘ ہاجرہ نے جواباً کہا۔


               ’ اُونچا خاندان ۔۔۔۔ خوبصورت اور ذہین لڑکی۔‘ فضا میں اسد کا طنزیہ قہقہہ گُونجا ایک لمحہ کے لئے ہاجرہ سَٹپٹا کر رہ گئی۔ لیکن اس نے خواہ مخواہ بات کو آگے بڑھانا مناسب نہیں سمجھا۔


               باہر طوفانی ہوائیں سائیں سائیں کر رہی تھیں اور کھڑکی کے شیشے ہوا سے چُرمُرا رہے تھے۔


               ’ یہ کھڑکی تم نے کیوں کھول دی ؟‘


               ’ کھڑکی میں نے نہیں کھولی وہ خود بہ خود ہوا کے دباؤ سے کھُل گئی ہے شاید طوفان آنے والا ہے۔‘


               ’ طوفان ۔۔۔ وہ تو کبھی کا آ چکا اب اِس گھر میں اور کونسا طوفان آنے والا ہے؟‘


               ’ ایسا کیوں سوچتے ہیں آپ دُنیا میں کیا نہیں ہوتا جس چیز نے آپ کی رات کی نیند چھِین لی ہے ۔۔۔۔۔ اب تو آپ اس دیوار کو بھی پھاند آئے ہیں۔‘


               ’ ہر چور دیوار پھاندنے کے بعد یہی سمجھتا ہے کہ مالِ غنیمت اس کے ہاتھ آگیا ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔‘


               ’ آپ یوں بد دل نہ ہوئیے۔ اِس بار کامیابی ہمارے قدم چُومے گی۔‘


               ’ دھوکہ اور فریب ہماری کامیابی ہے تو اس سے زیادہ کمینہ پَن اور کیا ہو سکتا ہے ‘۔۔۔۔


               ’ تو پھر آپ چاہتے کیا ہیں؟ کب تک یہ گھر خوشی کے شادیانوں کے لئے ترستا رہے گا ، کبھی آپ نے سنجیدگی سے اِس پہلو پر بھی غور کیا ہے۔ آپ ہمّت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ میں سمجھتی ہوں اگر یہ لڑکا بھی ہاتھ سے چلا گیا تو مشکل ہو جائے گی۔‘


               گو وہ دونوں قریب بیٹھے ایک پیچیدہ مسئلہ کا حل دریافت کر رہے تھے لیکن ایسا لگتا تھا جیسے دونوں کے درمیان مِیلوں فاصلہ ہو۔


               دفعتاً غوث چائے کا ٹرے لئے اندر داخل ہوا۔


               ’ تجھے کس گدھے نے اس وقت چائے لانے کو کہا تھا؟‘ اسد صاحب کی گرجدار آواز فضا میں ارتعاش پیدا کر گئی۔ غوث سہما سہما ہاتھ میں ٹرے لئے اُلٹے پاوں لَوٹنے لگا۔


               ’ جانتا ہے اِس وقت کیا بجا ہے؟‘


               ’ یہی کوئی بارہ بجے ہیں صاحب ‘


               ’ رات کے بارہ بجے کون بے وقوف چائے پِیئے گا۔‘


               ’ کل اِسی وقت آپ ہی نے پی تھی حضور ‘


               ’ باتیں نہ بنا ، بھاگ یہاں سے اُلّو کا پٹّھا۔‘


               ’ اس سے زیادہ مجبوری اور کیا ہو سکتی ہے ہاجرہ کہ ہم غوث کو نکال باہر نہیں کر سکتے۔ وہ دن بدن حدود سے باہر ہوتا جا رہا ہے مجھے یقین ہے ، غوث کو بھی اِس واقعہ کا عِلم ہے۔‘


               ’ آپ خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بناتے ہیں ، بھلا غوث جیسے بے ضرر آدمی سے کوئی خدشہ ہو سکتا ہے؟ ‘


               ’ میں تو ہوا سے بھی ڈرنے لگا ہوں۔‘


               ’ آپ حوصلہ سے کام لیجئے۔ دُنیا میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘


               باہر ہوائیں تیزی سے چل رہی ہیں۔۔ بادل گرج گرج کر برس رہے ہیں۔


               ’ اب آپ سو جائیے‘ ہاجرہ نے نڈھال آواز میں کیا۔


               ’ نیند کس کم بخت کو آتی ہے۔ میں نے کئی راتیں کروٹیں بدلتے ہوئے کاٹی ہیں میں سمجھتا ہوں نیند کی نعمت مجھ سے چھن چکی ہے۔‘


               یہ باہر دبے دبے انداز میں کون دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ مجھے یہ آواز کچھ مانوس سی لگ رہی ہے۔‘


               ’ یہ آپ کا وہم ہے میں کہتی ہوں آپ سو جایئے آپ کا دماغ مُنتشر ہے۔‘


               ’ اتنی رات گئے بھلا کون آئے گا؟‘


               ’ کیا فرزانہ گھر آ چکی ہے؟‘


               ’ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ فرزانہ نے مُدّت سے باہر جانا چھوڑ دیا ہے۔ وہ تو اب اپنے کمرے سے بھی باہر نہیں نکلتی ہے، یقین نہ آئے تو خود چل کر دیکھ لیجئے۔‘


               ’ یقین بھروسہ اعتماد ۔۔ کتنے خوبصورت الفاظ ہیں یہ۔ اِن مقدّس الفاظ کی یوں مِٹّی پلید نہ کرو۔‘


               ’ پلیز ، سو جایئے نا۔۔ کل پھر اِس سلسلہ میں آپ سے بات ہو گی۔‘ ہاجرہ نے پھر ایک بار محبّت میں ڈُوب کر کہا۔


               ’ کیا آسمان کے اُفق پر کل سُورج بھی نمودار ہو گا۔۔ مگر سُورج تو روز ہی طُلوع ہوتا ہے۔۔ لیکن کبھی کبھی آسمان کے کلس پر صرف چُبھتی ہوئیں شعاعیں ہی رہ جاتی ہیں اور سورج مُنہ چھُپائے نہ جانے کہاں رُو پوش ہو جاتا ہے۔


               ’ اب آپ سو جائیے نا پلیز۔‘


               ’ سو جاؤں ۔۔۔ کہاں ۔۔۔ کیسے ۔۔۔ کس طرح ۔۔۔ دیکھو پھاٹک کے دروازے لَرز رہے ہیں ، کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔‘


               ’ یہ سَراسر آپ کا وہم ہے ۔۔ آپ ذہنی خلفشار میں مُبتلا ہیں۔ خدا کے لئے آپ آرام کیجئے ۔۔۔ رات کافی جاچکی ہے۔‘


               ’ وہ دیکھو پھاٹک کے قریب کوئی کھڑا ہے۔ میں اس چلتے پھرتے سائے کو خوب جانتا ہوں۔ اس بدمعاش سے کہہ دو کہ وہ اس گھر سے اور کیا لینا چاہتا ہے ؟‘


               ’ پھاٹک کے پاس تو کوئی بھی نہیں ہے۔ ہاں مُلتانی صاحب کا کتّا ضرور ہے کیا آپ کو کتّے اور انسان میں فرق معلوم نہیں ہوتا؟‘


               ’ میں مُلتانی کو بھی جانتا ہوں اور اس کے کتّے کو بھی۔‘


               اچانک بغلی کمرے سے فرزانہ کی دبی دبی سِسکیوں کی آواز اُبھری : ’ میں قیدی نہیں ہوں بد چلن نہیں ہوں ۔۔۔ مجھے فریب دیا گیا۔۔۔ وہ آئے گا ضرور آئے گا ‘۔۔۔۔ چند بے رَبط جُملے ہوا کے دوش پر اُڑنے لگے اور سارا گھر گُونجنے لگا۔


               ’ اس نے شاید کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے میں اب جاتی ہوں۔‘ یہ کہہ کر ہاجرہ نیچے اُتر آئی اور بستر پر گِرتے ہی نیند نے جیسے اس پر افسوں پھُونک دیا۔


               صبح کی سُپیدی نمودار ہو چکی ہے۔ ہاجرہ اپنے کمرے میں نِڈھال سی پڑی ہے گُزرتے جاڑوں کی نرم اور ملائم دھوپ دریچوں کو پھلانگتی ہوئی آنگن میں رقص کناں ہے اسد صاحب کا بستر خالی پڑا ہے۔ ایش ٹرے میں سگریٹ کا ٹکڑ ا بھی تک جل رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے وہ ابھی کہیں باہر گئے ہوں۔ دروازے کے قریب بھی سگریٹ کے کئی ٹکڑے پڑے ہیں۔ کمرے کی فضا میں گھُٹن ہے۔غوث کمرے کو جھاڑو لگاتا ہوا مُنہ میں بڑ بڑا رہا ہے۔ ’ دن بھر میں پتہ نہیں کتنے سگریٹ پھُونک دیتے ہیں صاحب ، پھر کریں گے بھی کیا فکر دُور ہو تو کیسے ۔۔ اچھا خاصا گھر اُجڑ کر رہ گیا ۔۔۔ صاحب کے ناشتے کی تو کسی کو فِکر ہی نہیں ہے‘ ۔۔۔ غوث دل ہی دل میں کوفت اُٹھاتا ہوا فرزانہ کے کمرے میں دبے پاوں داخل ہوا۔


               ’ بی بی جی صبح ہو چکی ہے۔‘ اس نے بمشکل حلق سے آواز نکالی۔


               اس نے دیکھا۔ ہاجرہ مسہری پر بال بکھرائے بے سُدھ سو رہی ہے۔


               سوتے میں عورت اتنی اچھی کیوں لگتی ہے۔ اس کے دماغ میں ایک بیہودہ سا سوال گُونجا۔ لیکن ساتھ ہی دماغ کے کسی کونے سے ایک آواز آئی


               ’ ابھی تجھے آنگن صاف کرنے کے بعد برتن بھی مانجھنے ہیں مردُود۔‘


               ’ دھُت تیری کی ، یہ تو روز کی آفت ہے۔‘


             غوث نے دیکھا۔ بی بی جی کے سلیوز لیس بلاؤز کے کنارے سے ان کی بغلیں جھانک رہی تھیں اور ساڑی بے ترتیب انداز سے گھُٹنوں کے اُوپر تک چڑھ آئی تھی۔ اور اب وہ ہاجرہ کے کمرے میں آ کر جیسے پچھتا رہا تھا۔ اس پچھتاوے میں ایک عجیب سی خوشی کا عنصر بھی شامل تھا۔ وہ کھڑا کھڑا ہاجرہ کی گوری گوری پِنڈلیوں کو گھُورتا رہا۔ بغلوں کے سُرمئی بالوں کو دیکھ کر اس کے جِسم میں کپکپی سی پیدا ہو گئی۔ وہ کمرے سے پلٹ کر باہر آیا تاکہ وحشت دُور ہو۔ اس کا دِل بُری طرح کانپ رہا تھا۔


               جب وہ پہلے اَس گھر میں آیا تھا تو اس نے اس قِسم کی کیفیت کبھی محسوس نہیں کی تھی ، لیکن اِدھر دو چار برس سے وہ اپنی ذات میں ایک خاص قِسم کی تبدیلی محسوس کر رہا تھا اس کا جی خواہ مخواہ کسی لڑکی سے بات چیت کرنے کو چاہتا تھا۔ اس کے قُرب کی لذّت سے آشنا ہونا چاہتا تھا۔لیکن یہ جذبہ جھاڑو جھٹکا اور برتنوں کی صفائی میں یوں دَب کر رہ گیا تھا، جیسے ڈیزل انجن کے نیچے کنکریٹ کبھی کبھی یہ جذبہ سَر اُٹھاتا بھی تو اسد صاحب کی گرج دار آواز اسے اس بات کا مفہوم سمجھا دیتی کہ وہ اس گھر میں دو ٹکے کا نوکر ہے۔


               اس نے ناشتہ کب پکایا ۔۔۔ دن کب گزرا ۔۔۔۔ اُسے خیال ہی نہ آیا۔


               رات کافی جاچکی تھی ، لیکن اسد صاحب ابھی گھر نہیں لوٹے تھے۔۔ ہاجرہ ان کے انتظار میں بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔ فرزانہ کے کمرے کی لائٹ آف تھی۔ غالباً وہ روز کی طرح آج بھی جلد ہی سو گئی تھی۔


               ’ غوث ممکن ہے تھوڑی دیر بعد صاحب آئیں، آہٹ پاتے ہی دروازہ کھول دینا اب مجھے نیند آ رہی ہے ، پتہ نہیں کہاں مر جاتے ہیں سمجھا یا نہیں بیوقوف ‘


               ’ ہاں سمجھ گیا بی بی جی۔‘


               ’ کیا سمجھا خاک ذرا بستر کی چادر بدل دے۔ اور وہ چنبیلی کے پھُول سَرہانے رکھدے میرے سَر میں شدید درد ہو رہا ہے۔‘


               ’ تو پھر اناسین کی گولیاں کھا لیجئے بی بی جی۔‘


               ’ بیچ میں مت بول میں جو کہتی ہوں کان کھول کر سُن۔‘


               جب غوث نے ہاجرہ کے غُصّے کے پارے کو چڑھتے ہوئے محسوس کیا تو جَھٹ سے مسہری پر نئی دھُلی ہوئی چادر بچھا دی اور سلیقے سے پھُول بکھیر دیئے۔


               جب وہ چادر بچھا کر کمرے سے جانے لگا تو ہاجرہ نے پوچھا: ’ جانتا ہے تجھے یہاں آ کر کتنے برس ہوئے ہیں ۔۔۔ پورے پندرہ برس مگر پھر بھی تُو گھامڑ اور گاو دی ہی رہا کوئی کام سلیقے سے نہیں کرتا۔ پتہ نہیں آج کل تیرا دھیان کہاں رہتا ہے۔ چند دنوں سے محسوس کر رہی ہوں تجھ میں ایک عجیب سی تبدیلی آ گئی ہے۔ پہلے تو مہینوں تاکید کے باوجود تجھے نہانا بھی بار لگتا تھا اب روز ہی پانی کا خُون کرنے لگ گیا ہے۔‘

’ آپ ہی نے تو صفائی کی تاکید کی تھی بی بی جی۔‘

’ کی تو تھی مگر تُو روز چوروں کی طرح حمام میں بیٹھ کر اپنی نیکر کیوں دھویا کرتا ہے؟‘


 نیکر اگر گندہ ہو بی بی جی ، آپ مجھے کان پکڑ کر باہر نہ کر دیں گی؟‘


 ہاں ہاں یہ بھی ٹھیک ہے ، صفائی بے حد ضروری ہے ، گندگی سے مجھے نفرت ہے۔ اچھا اب جا کر اپنے کمرے میں سوجا ، شاید صاحب آج رات نہیں آئیں گے۔‘


’ نہیں بی بی جی ، اگر میری آنکھ لگ گئی اور صاحب نے کھٹکھٹایا تو مجھ پر بے بھاؤ کی پڑے گی ، آپ سو جایئے میں جاگتا رہوں گا۔‘


’ مگر مجھے بھی نیند نہیں آ رہی ہے۔‘


’ اِس سوال کا جواب غوث کے پاس نہیں تھا۔ وہ تو صرف اسد صاحب کی آمد کا منتظر تھا۔


کمرے میں سے اچانک ہاجرہ کی آواز اُبھری۔


’ غوث جاگ رہا ہے نا‘


’ ہاں بی بی جی۔‘


               ’ تھوڑی دیر میرا سَر دبا دو پھر ورانڈے میں جا کر سو جانا۔ اب صاحب نہیں آئیں گے۔‘ ہاجرہ نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔


               ہاجرہ کے کمرے میں بیڈ لیمپ جَل رہا تھا۔بیڈ لیمپ کی دھیمی اور ہلکی روشنی میں ہاجرہ کا چہرہ بڑا ہی پُر اسرار لگ رہا تھا۔


               غوث کمرے میں چُپکے سے یوں داخل ہوا جیسے وہ چوری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ابھی غوث نے ہاجرہ کی پیشانی پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ باہر دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔

’ بی بی جی شاید صاحب آ گئے ہیں، میں ابھی پھاٹک کھول کر آتا ہوں۔‘


’ یہ اسد صاحب نہیں ہیں ، مُلتانی صاحب کا کتا ہو گا۔ عجیب خارشی کتا ہے رات ہوتے ہی پھاٹک سے سَر ٹکراتا ہے۔ایک دن سَر ٹکرا کر یوں ہی مر جائے گا۔ مگر اسے ایک ہڈی بھی یہاں سے نہیں مِلے گی۔ اُونگھ کیا رہا ہے ، سَر دباتا کیوں نہیں ‘


’ اوہ توبہ تیرے ہاتھ کتنے غلیظ ہیں ، مردُود کہیں کا ۔۔۔ ہاتھ تک صاف نہیں کرتا ، تیرے تیرے ہاتھوں سے پیاز کی بُو آ رہی ہے،جا ہاتھ صاف کر کے آ۔ ٹیبل پر لیکمی سوپ دھرا ہے۔‘‘

غوث نے جب لیکمی سوپ کی ٹکیہ اُٹھائی تو اُسے عجیب سی خوشبو آئی۔ وہ صابن کو ہاتھ میں لئے بڑی دیر تک سُونگھتا رہا۔ جیسے وہ صابن کو نہیں کسی کنواری دوشیزہ کے بدن کو سَونگھ رہا ہو۔

جب وہ ہاتھ دھوکر ہاجرہ کو کمرے میں داخل ہوا تو اُس نے ڈانٹتے ہوئے کہا : ’’ کہیں پورا صابن تو ختم نہیں کر دیا۔‘‘

’’ نہیں بی بی جی ، دیکھ لیجئے۔‘‘ غوث نے صابن دکھاتے ہوئے کہا۔

’’ سُن مجھے گندگی سے نفرت ہے مجھے صاف سُتھرے لوگ پسند آتے ہیں اگر کبھی میں نے تجھے گندے لباس میں دیکھا تو کان پکڑ کر گھر سے باہر کر دوں گی۔‘‘

غوث آہستہ آہستہ ہاجرہ کا سر دباتا رہا۔ اس کا دِل بلّیوں اُچھل رہا تھا۔ سر دباتے ہوئے اُسے یوں لگ رہا تھا، جیسے کسی نے اُس کے گلے میں پھانسی کا پھندا لگا دیا ہو۔

’’ غوث ۔۔۔۔ ایک سرد دبی ہوئی آواز کمرے میں گُونجی۔

’’ سچ سچ بتا تو روز صبح ہوتے ہی چوروں کی طرح نیکر ہاتھ میں تھامے حمام کی طرف کیوں جاتا ہے؟‘‘

’’ کیا بتائیں بی بی جی۔‘‘ اس کی آواز جیسے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔

’’ ہاں ۔ کہہ بھی تو۔‘‘

’’ بس بی بی جی ۔ جی چاہتا ہے ہمیشہ نہائیں دھوئیں۔‘‘

’’ کل بھی نہائے گا نا؟‘‘

’’ نہانا میرے ہاتھ میں تھوڑا ہی ہے بی بی جی، کیا پتہ کل نہانے کی نوبت ہی نہ آئے۔‘‘

’’ پھر وہی بات ، جانتا نہیں میں صفائی کو پسند کرتی ہوں۔‘‘

غوث کے ناقِص دماغ میں ہاجرہ کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئی۔

پھر دفعتاً باہر پھاٹک کی زنجیر بجی : ’’ غوث اے غوث ‘‘

یہ اسد صاحب کی آواز تھی۔ جونہی ہاجرہ نے اسد صاحب کی آواز سُنی اچانک بستر سے اُٹھ بیٹھی اور باہر جا کر پھاٹک کی زنجیر کھول دی۔

اسد صاحب کے چہرے پر وحشت برس رہی تھی۔ بال چہرے پر بکھر آئے تھے اور شیروانی کا دامن کئی جگہ سے چاک چاک ہو گیا تھا اور ہاتھوں پر کہیں گہری اور کہیں ہلکی خراشیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔

’’ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے، کیا کسی سے لڑ جھگڑ کر آئے ہو‘‘؟

’’ بھلا اِس عمر اور ان حالات میں کیا کسی سے جھگڑا کر سکوں گا۔ اُس کم بخت ملتانی کے کتے نے اچانک راستے میں مجھے دبوچ لیا۔میں نے لاکھ کوشِش کی مگر اُس بیہودہ کتے نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔ جب سے میں نے اُس پر لاٹھی چلائی ہے تب سے وہ میرا دُشمن ہو گیا ہے۔‘‘

’’ پریشان نہ ہویئے معمولی سے زخم ہیں ، میں ابھی آئیوڈین لے آتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نیچے سے آئیوڈین کی شیشی لے آئی اور زخموں پر آئیوڈین کا پھاہا رکھ دیا۔

اسد کے مُنہ سے ’سی‘ کی آواز نِکل گئی۔

’’ تھوڑی سی تکلیف بھی آپ برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

’’ ایک تکلیف یا مُصیبت ہو تو آدمی برداشت کرے ارے ہاں ایک خاص بات میں تمہیں کہنا ہی بھُول گیا۔آج بازار میں اچانک اشفاق سے ملاقات ہو گئی۔‘‘ اسد نے اپنی پھٹی ہوئی شیروانی کو اُتارتے ہوئے کہا۔

’’ فرزانہ کے تعلق سے کوئی بات بھی ہوئی۔‘‘ہاجرہ نے بے چینی سے پوچھا۔

’’ بہت سی باتیں ہوئیں مگر شادی ہونے تک مجھے کوئی بھروسہ نہیں۔ میں نے صاف صاف اُسے بتا دیا کہ محلّہ میں بعض شریف زادے ایسے بھی ہیں جنھیں اپنی آنکھ کا شہتیر تو نظر نہیں آتا ، مگر وہ دوسروں کی آنکھ کا تِنکا آسانی سے دیکھ لیتے ہیں۔ یہ لوگ خواہ مخواہ ہمیں بدنام کرنے کے لئے تمہارے کان بھریں گے لیکن تم ان کی پرواہ نہ کرنا یہ ایکدم کمینے لوگ ہیں اور ہمارے دشمن بھی ،۔ اِس پر اشفاق نے کہا ، میں ایسے کچّے کان کا آدمی نہیں ہوں جو افواہوں کو صداقت سمجھ لے۔میں ایسے نِیچ لوگوں کو اپنے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتا۔ میری شادی ہو گی تو فرزانہ سے ہی ہو گی۔ مگر اس کے لئے کچھ وقت چاہیئے،۔۔۔

۔۔۔’’ جب اس نے مُہلت چاہی تو میرا سانس پھُول کر رہ گیا۔ مگر تھوڑی دیر بعد میری گھبراہٹ جاتی رہی ۔۔۔ بدایوں میں اس کی کچھ پراپرٹی کا جھگڑا ہے، اس سلسلے میں اس نے بدایوں سے لَوٹنے کے بعد ہی شادی کا وعدہ کیا ہے۔ وہ وہاں غالباً کوئی ایک ماہ رہے گا۔ ایک ماہ کوئی ایسی بڑی مُدّت بھی تو نہیں ہے۔‘‘

’’ اگر اِس دوران وہ اپنا ارادہ بَدل دے تو‘‘ ۔۔۔ ہاجرہ نے متفکرانہ انداز میں کہا۔

’’ یہ تو وقت ہی بتلائے گا ، ہاں اُس نے یہ بھی کہا کہ جس کالج میں فرزانہ نے تعلیم پائی ہے، اُس نے وہیں سے گریجویشن کیا ہے۔ وہ فرزانہ کو جانتا ہے لیکن فرزانہ اُسے نہیں جانتی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اُس کے ماں باپ نہیں ہیں۔ ورنہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو ایسی لڑکی کے پلّے باندھنا نہیں چاہے گا۔‘‘

’’ بس رہنے بھی دیجئے اپنی تقریر‘‘

’’ کیا ناراض ہو گئی ہو؟‘‘ یہ کہہ کر اسد صاحب اپنے کمرے کی طرف بڑھے جب ان کی نگاہیں مسہری پر پھیلے ہوئے چنبیلی کے پھُولوں پر گئیں تو وہ معنی خیز انداز میں مُسکرائے اور دیر تک پیار سے ہاجرہ کے گورے گورے رُخساروں پر اپنی اُنگلیاں پھیرتے رہے۔ پھر کچھ بَن نہ پڑا تو چُپکے سے اپنے کمرے میں جا کر سو گئے۔

پھر ایک شام اسد صاحب بازار سے گھر لَوٹ رہے تھے کہ اُنھیں اچانک سامنے سے ملتانی آتا ہوا دکھائی دیا۔وہ اس کی صورت تک دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔ لیکن وہ سامنے اِس انداز سے آ کر کھڑا ہو گیا تھا جیسے وہ انھیں خواہ مخواہ چھیڑنا چاہتا ہو۔ اس وقت اس کے چہرے پر ایک عجیب قِسم کی مسکراہٹ رقصاں تھی ، ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی خوشخبری سُنانے کے ساتھ ہی ان کے سینے میں زہر آلُود خنجر گھونپ دینا چاہتا ہو، اسد صاحب کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ وہ پھٹی پھٹی حیران کن نگاہوں سے مُلتانی کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ ایک لمحہ کے لئے انھیں گُمان گزرا کہ اس میں اس کی کہیں کوئی خاص چال تو نہیں ہے۔ وہ مُلتانی کو برس ہا برس سے جانتے تھے۔ مُلتانی ہی وہ پہلا آدمی تھا جس نے فرزانہ اور اطہر کے اسکینڈل کو ہوا دی تھی۔ محلہ کا کوئی ایسا آدمی نہیں تھا جس نے فرزانہ کی بُرائی نہ کی ہو۔ حالانکہ پڑوسی اور دوست ہونے کے ناطے وہ اخلاقاً چُپ بھی رہ سکتا تھا لیکن اس کی زبان قینچی کی طرح چلا کرتی تھی۔

یہی وہ باتیں تھیں جس نے اسد اور مُلتانی کے درمیان نفرت کی ایک دیوار کھڑی کر دی تھی اور آج مُلتانی سینہ تانے اس دیوار کو ڈھا دینے پر تُلا ہوا نظر آتا تھا۔

’’ غصّہ تھُوک دیجئے اسد صاحب۔دشمنی اور نفرت نے کسی کو کیا دیا ہے۔ میں اپنے کئے پر سخت نادم ہوں۔میں نے آپ کے ساتھ جو کمینگی کی ہے وہ یقیناً ناقابل معافی ہے۔ جب تک مجھے آپ معاف نہ کر دیں گے مجھے چَین نصیب نہ ہو گا۔یوں سمجھ لیجئے مُلتانی نے آج نیا جَنم لیا ہے۔وہ اس وقت آپ کے سامنے دشمن کے بھیس میں نہیں دوست کے رُوپ میں کھڑا ہے۔ آپ چاہیں تو اُسے گلے لگا لیجئے یا دھُتکار دیجئے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سَر جھُکائے یوں کھڑا ہو گیا جیسے بادشاہ کے حضور میں کوئی خادم ؛ اسد کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ مُلتانی اتنا گھگھیا بھی سکتا ہے۔ اچانک ایک بہت بڑے دشمن نے آپ ہی آپ گھُٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ اپنی برتری اسی میں ہے کہ اسے معاف کر دیا جائے۔ اگر اس وقت مُلتانی کو دھُتکار دیا جائے گا تو وہ ضرور اپنی اس تضحیک کا بدلہ لے گا۔ اسد کے اندر کے انسان نے جیسے گہرائیوں میں سے کہا۔ لیکن عقل نے اِس استدلال کو صاف ٹھکرا دیا۔

’’ مُلتانی ایک سازشی اور بدمعاش آدمی ہے ، اگر پِچھلی باتوں کو بھُول کر اُسے گلے لگا لیا جائے تو وہ گلے کا ہار ہو جائے گا۔آہستہ آہستہ پھر وہ اپنے پَیر  ٹِکا لے گا۔ اس کا گھر میں آنا جانا زیادہ ہو جائے گا ، اور ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ ‘‘

بہتر یہی ہے کہ اسے معاف نہ کیا جائے ، خواہ اس کے نتائج آئندہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘

ملتانی ابھی تک اسد کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس کی پلکوں پر آنسووں کے چند قطرے کانپ رہے تھے۔ اسد نے عزم و ارادے کے بند کو تھامنے کی بہت کوشش کی لیکن دل آخر پسیج گیا اور انھوں نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگا لیا۔ آناً فاناً ملتانی سڑک سے یوں غائب ہو گیا جیسے اسے متاعِ عزیز مل گئی ہو۔

جب وہ چلا گیا تو اسد کو احساس ہوا کہ اُسے روک کر اپنے گھر لے جانا چاہئیے تھا۔ بہر حال یہ واقعہ کچھ اس تیزی سے ہوا کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔

وہ راستہ بھر ملتانی کے متعلق سوچتے رہے۔ان کے ذہن کے پردے پر ماضی کے کئی واقعات ایک ایک کر کے اُبھر نے لگے۔

دس برس پہلے جب اسد نے حیدرآباد کے خرابے میں پہلی مرتبہ قدم رکھا تھا تو اس وقت انھیں جاننے والا کوئی نہ تھا۔ابتدا میں تو وہ حسینی لاج میں رہے۔ مگر فیملی کے ساتھ انہیں لاج میں رہنا پسند نہیں تھا۔ انھیں مکان کی شدید ضرورت تھی۔ مگر مکان کا مِلنا دشوار تھا۔ایسے میں ملتانی فرشتے کی طرح ان سے آ مِلا تھا۔

’’ آپ کوئی فکر نہ کریں میں کل ہی آپ کو مکان دلوا دوں گا۔ کرایہ بھی سو کے اندر ہو گا۔ میں بھی جب پہلے پہل یہاں آیا تھا تو مجھے بھی ایسی ہی پریشانی ہوئی تھی۔‘‘

’’ انسان انسان کے کام نہ آئے تو بھلا اور کون آئے گا؟‘‘

اس کے بات کرنے کے انداز میں بڑی ہی نرمی اور شائستگی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے شرافت اسی پر آ کے ختم ہو گئی ہو۔گھر دلوانے سے لے کر سامان جمانے تک اس نے ہر طرح سے اسد کی مدد کی۔ وہ بار بار یہی کہتا تھا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ مجھے آواز دیجئے۔ اس کا گھر اسد کے مکان سے لگا ہوا تھا۔ وہ شام کا بیشتر حصّہ اس کے ہاں گزارتا تھا۔ اتفاق سے کبھی وہ نہ آئے تو اسد خود اس کے گھر چلے جایا کرتا تھا اُسے یاد ہے اس نے پہلی بار اپنی بیگم سے ملاتے ہوئے مجھ سے کہا تھا۔

اسد صاحب یہ جمیلہ ہے ، جو میری ویران زندگی میں بہار بن کر آئی ہے ورنہ اِس بھرے پُرے گھر میں میں تنہا رہتے رہتے بیمار سا ہو چلا تھا۔ ‘‘ وہ واقعی بہار میں کھلنے والے ایک شگفتہ پھول کی طرح لگ رہی تھی۔

بعد میں اسے پتہ چلا کہ جمیلہ ملتانی کی بیوی نہیں بلکہ داشتہ ہے۔

’’ بھابی کوئی کام ہو تو کہئیے ، فرزانہ کے لئے کوئی ٹیوٹر کا انتظام کیا بھی یا نہیں۔‘‘

’’ یہ کریپ کی گرین ساری آپ کے جسم پر بڑی بھلی معلوم ہو رہی ہے۔‘‘

’’ میں بھی جمیلہ کے لئے ایسی ہی ساری خرید لاؤں گا۔ بھابی کپڑوں کے سلیکشن میں آپ کا جواب نہیں۔ بھئی واہ کیا combination ہے۔‘‘

پھر جب وہ کھانا کھانے بیٹھ جاتا تو ایک ایک نوالہ پر ہاجرہ کے پکوان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے مِلایا کرتا تھا۔

وہ آہستہ آہستہ گھر پر چھانے لگا۔ اس کی شخصیت میں کچھ ایسی گہرائی تھی کہ ہر شخص اس کی ہاں میں ہاں ملانے میں خوشی محسوس کرتا تھا۔ وہ دراصل انسان کی نفسیات کا کچھ اِتنا ماہر تھا کہ اسے کہاں اور کس جگہ کیسی بات کرنا چاہیئے وہ اس گُر سے واقف تھا۔ عورتوں کی نفسیات کو تو وہ جیسے پی گیا تھا۔ پھر اس کے بات کرنے کا انداز اِتنا دِل نشین ہوتا تھا کہ آدمی اس سے کبھی بور ہونے نہیں پاتا۔

اُس کا اونچا پورا قد ، بڑی بڑی نڈھال سی خوبصورت آنکھیں۔ سیاہ گھنگھریالے بال ، سُرخ و سفید رنگ سے بھی وہ بڑا بانکا سا لگتا تھا۔ تیس سے اوپر تو یقینی اس کی عمر تھی۔

اسد صاحب راستہ چلتے چلتے جب ایک راہ گیر سے ٹکرائے تو اُنھیں احساس ہوا کہ وہ بے مقصد کافی دور آ چکے ہیں ۔ اب وہ حمایت نگر کے چوراہے پر کھڑے سوچ رہے تھے۔ اُنھیں تو L.I.C کے آفس جانا تھا تاکہ بیمہ کی رقم کی تاریخ معلوم کر سکیں، بیس ہزار کی رقم کوئی معمولی رقم تو نہیں جس کے لئے آدمی کوشاں نہ رہے۔

لیکن یکے بعد دیگرے ان کے دماغ میں پھر ایک بار پچھلے واقعات آتے رہے ہاجرہ کے ساتھ ملتانی کیرم کھیل رہا ہے۔ وہ ہاجرہ سے کہہ رہا ہے۔

’ بھابی ، آپ میں اور فرزانہ میں اتنی مشابہت ہے کہ کوئی اجنبی دیکھ لے تو یہی سمجھے گا کہ آپ فرزانہ کی بڑی بہن ہیں ۔۔۔ بھابی یہ مٹھائی میں نے بطورِ خاص شاہی حلوائی سے آپ کے لئے منگوائی ہے‘‘۔۔۔

۔۔۔ ’’ یہ کانجی ورم کی ساری میں نے جمیلہ کے لئے خریدی ہے اور یہ رہی آپ کی ساری۔ یہ بلاوز کا پیس ویسے مجھے جچا تو نہیں ، تاہم میں نے خرید لیا ہے، آپ کو اگر ٹھیک معلوم ہو تو رکھ لیجئے۔‘‘ ہاجرہ نہیں نہیں کہتے ہوئے اسے خوشی خوشی قبول کر رہی ہے۔

وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔۔۔ اُسے احساس ہو رہا ہے کہ اس گھر کی ایک ایک چیز پر ملتانی کی شخصیت اثر انداز ہو رہی ہے۔ ہاجرہ کو اس سے پیار ضرور ہے لیکن اس کا سارا دھیان ملتانی کی طرف ہے۔

’’ آج ملتانی صاحب نہیں آئے تو گھر کیسا سونا سونا لگ رہا ہے۔ آج دم کے کباب بنانے چاہئیں۔‘‘ ملتانی صاحب کہہ گئے ہیں۔

ملتانی صاحب نے فرزانہ کے لئے ایک نیا ٹیوٹر مقرر کر دیا ہے۔ وہ خوبصورت نوجوان روز گھر آ رہا ہے۔ وہ جب بھی گھر آتا ہے تو سینٹ سے سارا گھر مہک اُٹھتا ہے، وہ کبھی ٹوئیڈ کا بڑھیا سُوٹ پہنے ہوئے آتا ہے تو کبھی پھولوں والا شوخ بُش شرٹ اس کے لباس کی شوخی سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ پڑھانے میں کم اور باتوں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔ وہ فرزانہ کے رُوم میں بیٹھا رہتا ہے۔

وہ اس ٹیوٹر کو نکال کر کوئی دوسرے ٹیوٹر کا انتخاب کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن ہاجرہ کو یہ ٹیوٹر ہر لحاظ سے پسند ہے۔کیونکہ ٹیوٹر کا انتخاب ملتانی نے کیا ہے۔

وہ ملتانی سے کہہ رہا ہے: ’’ بھئی کوئی دوسرا ٹیوٹر کیوں نہیں ڈھونڈ لاتے؟‘‘

’’ یہ لباس سے ٹیوٹر سے کہیں زیادہ فلم ایکٹر معلوم دیتا ہے۔‘‘

ملتانی جواباً ہنستا ہوا کہہ رہا ہے۔

’’ میں اطہر سے واقف ہوں۔ بڑا ذہین لڑکا ہے۔ ایم ۔ اے میں Distinctionلیا ہے اور چال چلن کا بھی اچھا ہے۔ آپ فکر نہ کیجئے۔‘‘

بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ پھر ایک دن اچانک اطہر غائب ہو جاتا ہے۔ فرزانہ کچھ دن کالج جاتی ہے اور پھر گھر بیٹھ جاتی ہے۔ وہ دن بہ دن ایک نامعلوم سی خلش میں گرفتار نظر آتی ہے۔ اس کے چہرے کی شادابی آہستہ آہستہ ختم ہوئی جا رہی ہے۔

رات کے سنّاٹے میں کبھی کبھی اس کی سسکیوں کی آواز سُنائی دیتی ہے۔ کبھی کبھی وہ نیند میں بڑبڑاتی ہے۔ میں خود کشی کر لوں گی۔ میں زندہ رہنا نہیں چاہتی۔

ملتانی کے بیان کے مطابق اطہر چار سال کے لئے لندن چلا گیا ہے۔ اُسے وہاں فیلو شَپ ملا ہے۔ وہ چار سال بعد پھر ہندوستان لوٹے گا۔

جمیلہ عرصہ دراز کے بعد پھر ملتانی کے پاس آ گئی ہے۔ اب ملتانی کا وقت دو حِصّوں میں بٹ چکا ہے۔ کبھی وہ جمیلہ کے ساتھ گھومتا ہے اور کبھی اپنا وقت اُس کے ہاں گزارتا ہے۔

پھر وہ بھیانک منظر بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ فرزانہ وامٹنگ کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ سِسکیاں بھی بھر رہی ہے۔ وہ ہاجرہ کے ساتھ لیڈی ڈاکٹر کے پاس اُسے لے جا رہا ہے۔ ہاجرہ چُپ ہے۔ جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔

فرزانہ کے چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی ہے۔ لیڈی ڈاکٹر کہہ رہی ہے یہ تو پرگننسی کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ ہی محسوس ہو رہا ہے جیسے اس کا دماغ اب پھٹ جائے گا اور وہ پاگل ہو کر چیخ مارے گا۔ یہ میری اولاد نہیں ہے۔ یہ تو کوئی اور ہے۔

ہاجرہ تنہائی میں لیڈی ڈاکٹر سے کچھ باتیں کر رہی ہے۔ لیکن وہ جواباً مسلسل انکار میں سر ہلا رہی ہے۔ وہ فرزانہ کو لئے مختلف ڈاکٹروں کے گھر چکر لگا رہا ہے۔

آخر کار اطہر کے دیئے ہوئے کھلونے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ فرزانہ کی صحت کافی تباہ ہو چکی ہے۔ وہ کچھ اتنی کمزور اور نحیف ہو گئی ہے کہ اسے دیکھتے ہی گلا گھونٹنے کی بجائے رحم کھانے کو جی چاہتا ہے۔

ملتانی ہر چیز سے واقف ہے۔ وہ کبھی ہاجرہ کو دلاسا دے رہا ہے تو کبھی فرزانہ کو مغموم پاکر اُس کا دِل بہلا رہا ہے۔

ہاجرہ ، ملتانی سے کہہ رہی ہے۔ فرزانہ نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ہماری ناک کٹ کر رہ گئی ہے۔

’’ صبر و تحمل سے کام لیجئے بھابی ، بھول آدمی ہی سے ہوتی ہے۔ پھر جوانی اور محبت میں آدمی کیا نہیں کرتا۔‘‘

ملتانی کے دلاسوں اور اس کی باتوں کو وہ سُن رہا ہے۔ ملتانی کے چلے جانے کے بعد وہ ہاجرہ سے کہہ رہا ہے : ’’ ملتانی ایک لوفر اور بدمعاش قسم کا آدمی ہے ، میں نہیں چاہتا کہ وہ کل سے یہاں آئے۔‘‘

’’ یہ آپ مجھ سے کیوں کہہ رہے ہیں ۔ آپ خود بھی تو اسے یہاں آنے سے منع کر سکتے ہیں۔‘‘

’’ مگر اس نے ہمارے ساتھ ایسا کیا بُرا سلوک کیا ہے۔‘‘

’’ اس نے اچھا سلوک یہی کیا ہے نا کہ ایک بدمعاش کو ٹیوٹر کے رُوپ میں ہمارے گھر تعریفوں کے پُل باندھ کر لے آیا۔‘‘

’’ اس میں اس بیچارے ملتانی کا کیا دوش ؟‘‘

’’ اُس بدمعاش کو بیچارہ کہتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی ؟‘‘

’’ ہاجرہ رو رہی ہے ۔۔۔ احتجاج کر رہی ہے کہ وہ آئندہ اس سے تمیز سے بات کرے ورنہ اس کے نتائج ٹھیک نہیں ہوں گے۔ وہ اسے ایک طرح سے دھمکی دے رہی ہے۔ اسے اپنے گھر کی دیواریں گرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں ۔ ایسے میں اچانک ملتانی داخل ہوتا ہے۔ اس کے سر پر غُصّہ کا بھوت سوار ہے اور سامنے ہاجرہ مغموم کھڑی ہے۔ اس کی پلکیں آنسووں سے بھیگی ہوئی ہیں۔

وہ پوچھ رہا ہے: کیا ہوا بھابی، یہ آپ کی آنکھ میں آنسو کیسے؟‘‘

’’ آخر آپ بھابی کو آئے دن کیوں رلاتے ہیں؟‘‘

وہ غُصہ کی آگ میں سلگتا ہوا ملتانی سے کہہ رہا ہے۔

’’ ابے وہ بھابی کے خیر خواہ ، یہاں سے چلا جا، ورنہ بُرا ہو گا۔‘‘

ملتانی غیض و غضب کے عالم میں اُلٹے پاوں واپس جاتا ہے۔

پھر اسد کے سامنے ایک ٹیکسی کھڑی تھی اور خاکی وردی پہنا ہوا نوجوان ڈرائیور غُصّے سے کہہ رہا تھا:

’’ کیا مرنے کا ارادہ ہے بابو جی ۔۔ یہ سڑک ہے ، آپ کا گھر نہیں۔‘‘

اسد صاحب نے یکبارگی چونک کر اپنے جسم کو جھٹکا ، جیسے ابھی ابھی خواب سے بیدار ہوئے ہوں۔

شام کو جب وہ گھر لوٹے تو اُن کا جسم پھوڑے کی مانند دُکھ رہا تھا۔ ہاجرہ باورچی خانے میں بیٹھی چائے بنا رہی تھی۔ اور فرزانہ نل کے قریب بیٹھی چائے کی پیالیاں دھو رہی تھی۔ شاید غوث کہیں چلا گیا تھا۔

’’ مُدتوں بعد آج میں ماں بیٹی کو بیک وقت کام کرتے دیکھ رہا ہوں ۔ خیر تو ہے۔ غوث کہاں مرگیا ہے۔‘‘ اسد نے برآمدے میں آ کر کہا۔

’’ غوث کو میں نے نکال دیا ہے۔ وہ بدمعاش بدتمیزی پر اُتر آیا تھا۔‘‘

’’ اب دوسرا نوکر یہاں کہاں ملے گا ‘‘

’’ جیب میں پیسے ہوں تو ایک نہیں ہزار نوکر ملتے ہیں۔‘‘

’’ تھوڑی دیر بعد فرزانہ جب چائے کی ٹرے تھامے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو اسد نے پیار میں ڈوب کر کہا:بیٹی تم اتنی مغموم کیوں رہتی ہو؟ کبھی کبھار سیر و تفریح کے لئے باہر چلی جایا کرو۔ اگر یوں بند کمرے میں پڑی رہو گی تو ایک دن سخت بیمار ہو جاؤ گی۔‘‘

مدتوں بعد باپ کی زبان سے ہمدردی کے دو بول سُن کر فرزانہ جیسے باؤلی سی ہو کر رہ گئی۔ اور اس کی آنکھوں سے جھر جھر آنسو بہہ نکلے۔ شاید وہ ضبط نہ کر سکی۔

’’ ارے تم تو رو رہی ہو، پگلی کہیں کی ، لو چائے پیو۔‘‘

’’ ہاجرہ وہاں چولھے کے پاس کیا کر رہی ہو، تمہاری چائے یہاں ٹھنڈی ہو رہی ہے۔‘‘

’’ ارے فرزانہ ، تم رو کیوں رہی ہو۔‘‘ ہاجرہ نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا: ’’ کیا انھوں نے تم سے کچھ کہا ہے؟‘‘

’’ نہیں امّی ، ایسی کوئی بات نہیں۔ بس جی بھر آیا اور آنسو نکل پڑے۔‘‘

’’ اچھا اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔‘‘

فرزانہ جب اپنے کمرے میں چلی گئی تو ہاجرہ نے اسد صاحب سے پوچھا۔

’’ اشفاق بدایوں سے کب لوٹ رہا ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اپنے وعدہ سے پِھر گیا ہے۔‘‘

’’ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ دیکھو زندگی کیا کچھ کر دکھاتی ہے۔ارے ہاں ، ہاجرہ میں ایک اہم بات تم سے کہنا ہی بھول گیا۔ آج ملتانی نے مجھ سے صلح کر لی۔ مجھ سے معافی چاہی اور اپنے کئے پر رونے لگا۔ میرا دل پسیج گیا اور میں نے اُسے معاف کر دیا۔ یہ کہہ کر اسد نے ہاجرہ کے چہرہ کی طرف دیکھا۔ لیکن ہاجرہ نے یہ خبر ایسے سنی جیسے کوئی خاص بات ہی نہ ہوئی ہو۔ اس کا چہرہ ردّ عمل سے خالی تھا۔

’’ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ آئندہ کیا گُل کھلاتا ہے۔‘‘ اسد نے اپنی بات آگے بڑھائی۔

ہاجرہ اب بھی چُپ تھی۔ جیسے اس تعلق سے وہ کچھ بھی سننا نہ چاہتی ہو۔

پھر اچانک باہر سے کسی نے دستک دی۔ اسد نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا ملتانی سرمئی رنگ کا نیا بش شرٹ اور گِرے کلر کا پینٹ پہنے کھڑے تھا۔۔۔ اس کے ہونٹوں میں سگار دبا ہوا تھا۔

اسے اندر بلایا جائے یا اس سے باہر ہی ملاقات کی جائے۔ اسد کے کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے ملتانی سگار کو پیروں تلے دباتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

دوسرے دن صبح جب اسد نے ملتانی کے گھر پر دستک دی تو وہ انھیں دور ہی سے دیکھ کر دوڑا دوڑا آیا۔

’ اسد صاحب آئیے تشریف لائیے۔ میں آپ کی کیا خاطر کر سکتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے نوکر کو آواز دی اور آواز کے ساتھ ہی سفید شرٹ اور نیکر پہنا ہوا ملازم ’’ ہاں صاحب ‘‘ کہتا ہوا داخل ہوا۔

’ دیکھ کچھ اچھے سے بسکٹ اور چائے فوری لے آنا۔‘‘

’ ابھی آیا صاحب۔‘‘ کہہ کر نوکر چلا گیا۔

ب اسد صاحب کے سامنے چائے کا ٹرے تھا اور ہمہ قسم کے قیمتی بسکٹ ملتانی نے چائے کا پیالہ اسد صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’ کل میں نے جاتے ہوئے آپ کے گھر آواز دی تھی۔ شاید آپ اور بھابی گھر پر نہیں تھے ، اس لئے کسی نے جواب نہیں دیا۔‘‘

’ ہاں میں کل کافی رات گئے گھر لوٹا۔‘‘

’ بھابی اور فرزانہ تو ٹھیک ہیں نا۔‘‘

’ ہاں سبھی ٹھیک ٹھاک ہیں۔‘‘

رے آپ تو بسکٹ لے ہی نہیں رہے ہیں۔ ‘‘ ملتانی نے بسکٹ کی پلیٹ اسد کے آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

’ ہاں اسد میں بھول جاؤں گا۔ کل میں بدایوں جا رہا ہوں۔ اشفاق سے مل کر شادی کی تاریخ بھی طے کر لوں گا۔ نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیئے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ چلیں۔‘‘ ملتانی نے اصرار کیا۔

’ ویسے میں چلتا لیکن رشتے کے ناطے میرا بدایوں جا کر خاص اس سے ملنا ٹھیک نہیں لگتا۔ اب تم جا رہے ہو ، یہی بہت ہے۔‘‘

’ کیا سوچ رہے ہو ملتانی ؟‘‘ یہ اسد کی آواز تھی۔

ملتانی کا ذہن کہیں اور تھا۔ اُس نے چوکتے ہوئے کہا۔

’ کچھ کہا آپ نے مجھ سے؟‘‘

’ یہی کہ تم اچانک کس گہری سوچ میں ڈوب گئے ہو۔‘‘

’ نہیں نہیں ، ایسی کوئی خاص بات نہیں۔ سوچ رہا تھا کہ گجر دم کس طرح ٹرین کیچ کر سکوں گا۔ سحر خیز تو ہوں نہیں۔‘‘

’ صبح کی بجائے شام کو چلے جانا۔‘‘

’ شام کی ٹرین کا تو میرے ذہن میں خیال ہی نہیں رہا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آپ ہی آپ اپنی بے وقوفی پر ہنسنے لگا۔

’’ جمیلہ آجکل کہاں ہے، بہت دنوں سے اسے میں نے دیکھا نہیں۔‘‘

’’ محترمہ کو لانے ہی کے لئے بدایوں جا رہا ہوں۔ تنہا رہتے رہتے طبیعت اوب چکی ہے۔‘‘

’’ تو اب مجھے اجازت ہے۔‘‘ اسد نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔

’’ میں نے آپ کا کافی وقت لیا۔‘‘

کافی دنوں بعد ملنے کی وجہ سے ملتانی قدم قدم پر تکلف برت رہا تھا۔ مگر اسد کے ملنے کے انداز میں یہ بات نہ تھی۔

دوسرے دن شام کو اسد نے دیکھا کہ ملتانی کے گھر کے سامنے ٹیکسی کھڑی ہوئی ہے اور ملازم موٹر کی ڈکی میں سامان رکھ رہا ہے۔

’’ یہ آپ کھڑکی سے لگے باہر کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ ہاجرہ نے پیچھے سے آواز دی۔

’’ ملتانی بدایوں جا رہا ہے وہ وہاں اشفاق سے بھی ملے گا۔‘‘

مگر اسد کو جواب سننے کی نوبت ہی نہ آئی۔ اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ہاجرہ جاچکی تھی۔

صبح اسد نے گھر سے نکل کر کچھ شاپنگ کی۔ پھر انھیں اچانک خیال آیا کہ انھیں آج L.I.Cبھی جانا ہے۔چوراہے پر دو رکشائیں خالی کھڑی تھیں۔ اور رکشہ والے آپس میں بیٹھے دھول دھپّا کر رہے تھے۔ جونہی ان لوگوں نے اسد کو قریب آتے دیکھا، ان کی طرف دوڑ پڑے۔ ان میں سے ایک نے کہا:

’’ آئیے صاحب L.I.Cبلڈنگ۔‘‘

اسد کو حیرت ہوئی کہ رکشہ والے نے کس طرح پہچان لیا کہ اسےL.I.Cجانا ہے۔

پھر رکشہ تیزی سے سڑک پر چل رہی تھی۔ رکشہ والے نے گلے میں ریشمی رومال باندھ رکھا تھا اور اس کی آنکھوں پر سستے قسم کا چشمہ چڑھا ہوا تھا۔ چوراہا پار کرتے ہی ایک لمحہ کے لئے اس نے رکشہ روکی۔ ماچس سے چار مینار سگریٹ جلائی اور پھر رکشہ چلانے لگا۔

اسد کو رکشہ والے کی یہ حرکت بڑی ناگوار گزری۔ پھر اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لے کر اسد صاحب سے پوچھا:

’’ کیا صاحب فرزانہ بی بی نے کالج جانا بند کر دیا ہے؟‘‘

’’ تمہیں ان باتوں سے کیا مطلب۔بکواس نہ کرو۔ رکشہ چلاؤ ۔‘‘

’’ ٹھیک ہے صاحب ‘‘ رکشہ والے نے سنبھل کر کہا۔

پھر L.I.Cکی خوبصورت عمارت کے قریب پہنچ کر اس نے رکشہ روک دی۔ اسد نے اس کے ہاتھ میں بارہ آنے تھما دیئے، رکشہ آگے بڑھ گئی۔

آج ایل، آئی ،سی کی عمارت میں لوگوں کا کافی اژدہام تھا۔ شاید ایل، آئی ، سی والوں نے بونس کا اعلان کیا تھا۔ جن لوگوں نے بہت پہلے پالیسی لے رکھی تھی وہ آج خوش خوش دکھائی دے رہے تھے۔ وہ بڑی مشکل سے بیمہ کے سلسلے میں منتظم سے بات کر سکے۔ انھیں اس سلسلے میں دو بار آنے کی ضرورت تھی۔ جب وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آئے تو ان کی نگاہیں ایک جانے پہچانے چہرے پر جم گئیں۔ اجنبی نے بھی اسد کو نیچے سے اوپر تک دیکھا جیسے وہ انھیں پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔

’’ میں بھول نہیں رہا ہوں تو آپ کا نام اسد ہے نا مجھے رضی کہتے ہیں۔‘‘

’’ کوئی اٹھارہ برس پہلے کی بات ہے میں آپ ہی کا ہم محلہ تھا۔ کبھی کبھار سرِ راہ آپ سے بات چیت بھی ہو جاتی تھی۔‘‘

’’ ہاں ہاں مجھے یاد آگیا۔‘‘ اسد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ مگر انھیں پچھلی کوئی بات بھی ٹھیک طرح یاد نہیں تھی۔

’’ بچیوں کی شادی تو ہو چکی ہو گی ‘‘

’’ میری تو ایک ہی بچی ہے۔‘‘

’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بچی کے بعد آپ کے گھر کوئی اولاد نہیں ہوئی ہے، بھلا سا نام تھا اس کا۔‘‘

’’ فرزانہ ۔‘‘

’’ ہاں فرزانہ ۔ مجھے بھی خدا نے بغیر مانگے کئی بچے دے دیئے۔ دو لڑکیاں تھیں میں نے ان کی شادی کر دی۔ایک لڑکا لندن میں SETTLEہو گیا ہے، ایک مِڈل ایسٹ میں ہے اور ایک نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ہے۔ بس دُکھ ہے تو اسی بات کا ۔ تین چار ذاتی مکان ہیں جن کا معقول کرایہ آ جاتا ہے۔‘‘

’’ کہیں میں آپ کا وقت تو خراب نہیں کر رہا ہوں۔‘‘ اجنبی نے قدرے شرمندگی سے کہا۔

’’ نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں چلتے چلتے باتیں کریں گے مجھے ذرا وقت پر گھر پہنچنا ہے۔‘‘

اسد نے رضی سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑا لیا۔ گھر پہنچتے پہنچتے شام کے پانچ بج چکے تھے۔ ہاجرہ بستر پر اُداس لیٹی ہوئی تھی اور فرزانہ کے کمرے کا دروازہ بھیڑا ہوا تھا۔ جونہی ہاجرہ نے اسد کو دیکھا چپکے سے اُٹھ کر ڈرائنگ روم میں آئی۔

’’ غضب ہو گیا۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ بدایوں سے اشفاق کا خط آیا ہے۔اس نے لکھا ہے کہ یہ رشتہ اسے نا منظور ہے۔ یہ رہا خط۔‘‘

’’محترم

مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا کہ

فرزانہ کی زندگی میں داخل ہوں۔ میں نے شادی نہ کرنے

کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ اس میں میرے حالات کو بھی دخل ہے

اُمید کہ آپ میری اس صاف بیانی پر بُرا نہیں مانیں گے۔

آپ کا

اشفاق ‘‘

اسد کی نگاہیں اشفاق کے خط پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ ایک ایک لفظ کو بغور پڑھ رہے تھے۔ ان کے چہرے کا رنگ فق سا ہو کر رہ گیا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ یہ ضرب کچھ اتنی گہری تھی کہ ان کے سارے حوصلے پست ہو کر رہ گئے تھے۔

’’ فرزانہ کو اس بات کا پتہ نہیں چلنا چاہیئے۔‘‘ ہاجرہ نے متفکرانہ انداز میں کہا۔ ورنہ وہ صدمہ سے بیمار ہو جائے گی۔‘‘

’’ مجھے ایک بات سمجھ میں آئی ہے کیوں نہ ہم اس شہر کو چھوڑ دیں اور بیمہ کی رقم ملتے ہی کہیں اور جا  بسیں۔‘‘

’’ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اتنے بڑے شہر میں ہر شخص کو اتنی فرصت ہے کہ وہ فرزانہ کے تعلق سے معلومات فراہم کرتا پھرے۔ یہ بات تو صرف محلہ ہی میں عام ہے۔ شہر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ ہم اس محلہ ہی کو چھوڑ دیں۔‘‘

باہر کسی کی جانی پہچانی آواز آئی : ’’ کیا ہم آ سکتے ہیں؟‘‘

اسد نے دیکھا یہ ملتانی تھا جو پھاٹک سے لگا کھڑا تھا۔

’’ اوپر آ جایئے۔‘‘

ملتانی کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہاجرہ اپنے کمرے سے جاچکی تھی۔

’’ ارے ملتانی بدایوں سے کب لوٹے ؟‘‘

’’ آج ہی لوٹا ہوں اور تنہا ‘‘

’’ مگر تم تو جمیلہ کو ساتھ لانے والے تھے۔؟‘‘

’’ اس کا اچانک مزاج بگڑ گیا، اس لئے ساتھ نہ لا سکا۔ ہاجرہ بھابی نظر نہیں آ رہی ہیں۔‘‘

’’ اندر اپنے کمرے میں ہوں گی۔‘‘

فرزانہ ٹھہرو، اوپر کہاں جا رہی ہو،وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

ملتانی نے ہاجرہ کی آواز سُن لی ، اسے یوں لگا جیسے اس کی تحقیر کی جا رہی ہو۔

’’ جب کبھی میں اشفاق کے گھر گیا، وہاں تالا پڑا ہوا پایا،مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنی بات سے پھر گیا ہے۔ فرزانہ کو زیادہ دیر گھر میں بٹھائے رکھنا بھی مناسب نہیں ہے۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ملتانی اچانک اُٹھ کھڑا ہوا اور چلا گیا۔

دن ہفتوں سے گزر کر مہینوں میں تبدیل ہوتے گئے لیکن فرزانہ کی شادی کہیں بھی طے نہ پا سکی۔ اسد کو بھی ملتانی سے ملے ہوئے کئی دن گزر چکے تھے اس کے گھر پر تالا پڑا ہوا تھا۔ شاید وہ پھر ایک بار اپنی بیوی سے ملنے بدایوں چلا گیا تھا۔

جب دو ماہ گزر گئے تو اسد نے سمجھ لیا کہ اب ملتانی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ لیکن ایک دن انھوں نے دیکھا کہ اس کے مکان کا پھاٹک کھلا ہوا ہے اور وہ ہاتھ میں بیگ لیئے باہر نکل رہا ہے۔ انھیں یقین تھا کہ وہ سیدھا گھر آئے گا، لیکن وہ نہیں آیا۔ آٹھ دن یونہی گزر گئے۔

پھر ایک دن صبح ایل ۔آئی۔سی کی جانب سے انھیں ایک لیٹر ملا کہ کارروائی کی یکسوئی ہو چکی ہے۔ وہ بیمہ کی رقم چند ضروری سرٹیفکیٹس پیش کرنے کے بعد حاصل کر سکتے ہیں۔

اس خط کو پاکر اسد کو یوں لگا جیسے انھوں نے نیا جنم پا لیا ہو۔

اب وہ پیسوں کے بل بوتے پر فرزانہ کی شادی کہیں بھی جلد طے کر سکتے تھے۔

دوسرے دن مسرّت کے نشے میں چُور اسد ایل۔آئی۔سی کی عمارت میں داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں اب تک کی دی ہوئی درخواستوں اور رسیدوں کا پلندہ تھا جنھیں وہ پیش کر کے اپنی رقم حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن ایل۔ آئی۔ سی کے ڈائرکٹر نے انھیں پھر ایک بار یہ کہہ کر مایوس کر دیا کہ کچھ ٹکنیکل خامیاں رہ گئی ہیں جنھیں چھان پھٹک کرنے کے بعد ہی رقم دی جا سکے گی۔

اسد کے چہرے پر یکبارگی اداسی چھا گئی۔ ایل۔ آئی۔سی کی عمارت کی سیڑھیاں اترتے ہوئے انھیں یوں لگا جیسے وہ کسی قبرستان سے اپنے عزیز کو دفنا کر لوٹ رہے ہوں۔

وہ گھر کب آئے انھیں یاد تک نہ تھا۔

’’ کیا رقم مل گئی ؟ ہاجرہ نے بے تابی سے پوچھا۔

’’ نہیں کارروائی بنتی بنتی اچانک بگڑ گئی۔ رقم ملے گی ضرور ، لیکن کب اور کس وقت یہ میں نہیں جانتا۔‘‘

’’ پہیلیوں میں بات نہ کیجئے ۔ صاف صاف مجھے بتایئے۔‘‘

’’ میرا دماغ نہ چاٹو ، میرا موڈ اس وقت بے حد خراب ہے۔‘‘ اسد نے جھلّاتے ہوئے کہا۔ ہاجرہ چپ ہو کر رہ گئی۔ لیکن اس کی آنکھوں میں اچانک آنسو امڈ آئے۔

باہر ملتانی کی آواز آ رہی تھی: کیا بھئی ہم آ سکتے ہیں؟‘‘

قبل اس کے کہ اسد کچھ کہے ہاجرہ چپ چاپ ڈرائنگ روم کی سیڑھیاں اترتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔

’’ ارے بھئی کیا ہم آ سکتے ہیں؟‘‘ ملتانی کی آواز دوبارہ گونجی۔

’’ آ بھی جاؤ یار۔‘‘ اسد نے بیزار لہجے میں کہا۔

’’ اسد صاحب شاید آپ کو اس بات کا پتہ نہیں کہ مجھے بدایوں سے آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے مگر اپنے کاروبار میں ایسا مصروف تھا کہ آپ سے تک نہ مل سکا۔‘‘

’’ بھابی نظر نہیں آ رہی ہیں کیا بات ہے؟‘‘ ملتانی نے کھڑکی کے نیچے دیکھتے ہوئے کہا۔

اسد کو پتہ نہیں ملتانی کا اس طرح سے نیچے دیکھنا کیوں پسند نہیں آیا۔

’’ میں یہاں بیٹھا ہوا ہوں تم اُدھر کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

اسد کے اس چُبھتے ہوئے جملے نے ملتانی کو جیسے چونکا دیا۔

اُس نے گھگھیاتے ہوئے کہا:

’’ میں آپ کے پاس ایک خوش خبری لے کر آیا ہوں پہلے مُنہ میٹھا کیجئے تو سُناؤ ں۔‘‘

’’ تمہارا مُنہ تو ہمیشہ میٹھا ہی رہتا ہے تمہیں مٹھائی کی کیا ضرورت؟‘‘

’’ آپ کی باتوں سے لگ رہا ہے جیسے آپ نے کسی سے لڑائی کی ہو ، کہیں آپ نے بھابی کو بُرا بھلا تو نہیں کہہ دیا ؟‘‘

’’ بھابی ، بھابی ۔۔۔ کوئی اور بات بھی تو کرو، کیا خوشخبری لے کر یہاں آئے ہو ۔ یہی ناکہ تم نے فرزانہ کی شادی کی بات کہیں طے کر لی ہے تمہیں اس سلسلے میں غم کھانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

’’ آپ کی آنکھیں انگارے کی طرح سرخ ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو بخار ہے۔ آپ آرام کیجئے میں چلتا ہوں۔‘‘ ملتانی مارے بوکھلاہٹ کے کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

اسد نے اسے جاتا ہوا دیکھ کر بھی روکنے کی کوشش نہیں کی۔ انھیں رات ایک پل بھی نیند نہیں آئی۔صبح جب وہ بیدار ہوئے تو انھیں سارا بدن ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

نیچے ہاجرہ چولھے میں گھسی ہوئی ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ اور فرزانہ نل کے قریب بیٹھی رات کے جھوٹے برتن مانجھ رہی تھی۔

جب ہاجرہ ناشتہ کی کشتی لیئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو شاید اسد کو رات والی غلطی کا احساس ہوا۔ جب وہ ناشتہ ٹیبل پر لگا کر جانے لگی تو اسد نے اس کی ساڑھی کے ریشمی پلو کو محبت سے تھامتے ہوئے کہا:

کیا ناراض ہو گئی ہو ہاجرہ؟‘‘

ہاجرہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

’’ اِن دنوں ۔ ذہن بڑا ماو ف ہے۔ اب یہی دیکھو نا کل خوامخواہ میں نے تم پر غصّہ اتارا۔ اگر مجھ سے کبھی کبھار غلطی ہو جائے تو معاف کر دیا کرو۔

ہاجرہ کے قدم جیسے رک گئے۔

’’ ہاجرہ ایک بات پوچھوں۔ ملتانی کے تعلق سے تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘

اسد کے اس عجیب و غریب سوال سے جیسے بھونچال سا آگیا۔

ہاجرہ غصّہ سے تمتماتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’ مجھ سے جواب سننا چاہتے ہیں نا آپ تو سن لیجئے کہ وہ آپ کا دوست ہے ایک دم لفنگا اور غنڈہ۔ مجھے اس کی صورت سے نفرت سی ہو گئی ہے۔ اور ساتھ ساتھ آپ سے بھی۔ جب میں نے اسے اچھا آدمی سمجھا تو آپ نے مجھے غلط روشنی میں دیکھا۔ جب میں نے آپ سے کہا کہ اس سے کہہ دیجئے کہ وہ یہاں نہ آئے تو آپ نے فرزانہ کی آڑ لے کر اس سے صلح کر لی۔ وہ یہاں کیوں آتا ہے اس کا یہاں کیا دھرا ہے۔ وہ ڈرائنگ روم کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا آنگن میں للچائی ہوئی نگاہیں کیوں ڈالتا ہے۔ وہ آخر اس گھر کو کیا سمجھتا ہے۔ اک ذرا سی بھول کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ناجائز فائدہ اٹھائے۔‘‘ ہاجرہ غصّہ سے لال بھبھوکا ہو کر کہہ رہی تھی۔

’’ میں نے کل ہی اس حرکت پر اس سے احتجاج کیا ہے۔ وہ شاید یہاں پھر نہ آئے۔‘‘ اسد نے جواباً کہا۔

’’ وہ آئے گا اور ضرور آئے گا۔‘‘

’’ میں اس کی ٹانگ توڑ کر رکھ دوں گا۔‘‘

’’ مگر وہ پھر بھی آئے گا، اس کی روح اس گھر میں منڈلاتی رہتی ہے۔‘‘

’’ کیسی باتیں کرتی ہو ہاجرہ ، میں نے محض فرزانہ کے لئے یہ سب کچھ برداشت کیا ہے۔ لیکن برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔‘‘

نیچے فرزانہ کے کانوں میں اسد کی آواز ٹکرا رہی تھی۔وہ آپ ہی آپ مُنہ ہی مُنہ میں بڑبڑا نے لگی۔ اس کا جی چاہا کہ یہ آوازیں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں۔ اس کا ذکر کبھی اس گھر میں نہ ہو۔ صبح سے شام تک کسی نہ کسی نوعیت سے گھر میں اس کا ذکر ہوتا ہی رہتا ہے۔کبھی ابّا ٹھنڈی سانس بھی لیتے تو اسے احساس ہوتا جیسے وہی اس کی ذمہ دار ہو۔ یہ لوگ کیوں میری شادی کی فکر میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں۔ ابّا کی بوکھلاہٹ امی کی بے چینی نے یہ بات سب پر ظاہر کر دی ہے کہ مجھ میں کھوٹ ہے۔

’’ فرزانہ یہ دیواروں سے کیا باتیں کر رہی ہو؟‘‘ یہ ہاجرہ کی غصیلی آواز تھی۔

’’ پھر میں کس سے باتیں کروں امی۔۔۔ آپ لوگ تو کبھی سیدھے مُنہ مجھ سے بات بھی نہیں کرتے۔ میں اس گھر میں تو جیسے بالاقساط مر رہی ہوں۔ میں نے ایک بھیانک غلطی کی مجھے اس کا اعتراف ہے۔ لیکن وقت بے وقت اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جب زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو آپ اور ابّا حل نہیں کر پاتے تو خوامخواہ مجھے موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ کیا آپ لوگ میرے اور ملتانی کے ذکر کے بغیر جی نہیں سکتے؟‘‘

’’ بے حیا اپنے نام کے ساتھ ملتانی کا ذکر کرتے ہوئے تجھے شرم نہیں آتی ‘‘

’’ نہ میں نے ان سے کبھی کوئی ساری بخشش لی ہے اور نہ کوئی بلاؤز کا کپڑا۔‘‘

’’ بدتمیز اب تو نے آگے کچھ کہا تو گُدّی میں سے زبان کھینچ لوں گی۔‘‘

’’ کیا کانوں میں روئی کا پھاہا رکھ لیا ہے، سن نہیں رہے ہو، تمہاری لاڈلی نے ابھی ابھی کیا کہا ہے؟‘‘

’’ کیا ہم آ سکتے ہیں؟‘‘ باہر پھاٹک پر ایک مانوس سی آواز گونجی۔ لیکن گھر کے شور میں جیسے دب کر رہ گئی۔

کیا بھئی ہم آ سکتے ہیں ؟‘‘ آواز پھر ابھری۔

’’ کیا بھئی ہم آسکتے ہیں؟‘‘ تیسری مرتبہ یہ آواز کچھ اس طرح گونجی جیسے کوئی پہاڑ کی بلندی سے آواز دے رہا ہو۔

کیا بھئی ہم چلے جائیں؟‘‘ جمیلہ کی مہین سی آواز فضا میں گونجی۔

ہاجرہ نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ جمیلہ سلک کی خوبصورت ساری میں ملبوس بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ ملتانی گِرے کلر کا ٹوئیڈ کا سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ وہ بھی بڑا اسمارٹ لگ رہا تھا۔

’’ شائد یہ لوگ سو رہے ہیں چلیئے اندر چلیں۔‘‘ جمیلہ نے ملتانی سے کہا۔ اور وہ دونوں اندر داخل ہو گئے۔

جمیلہ نے ہاجرہ کو سلام کرتے ہوئے کہا: ’’ کیا بھابی مہمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ تمہیں پکارتے پکارتے گلا خشک ہو گیا ہے ، اور تمہاری بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ کیا بتاؤ ں۔ کیا خفا ہو؟‘‘

’’ نہیں تو‘‘

’’ مگر یہ تو کہہ رہے تھے کہ تم ان سے خفا ہو ، بات چیت بند کر دی ہے۔‘‘ جمیلہ نے ملتانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

ہاجرہ نے ملتانی کی طرف خاص انداز سے دیکھتے ہوئے کہا:’’ اگر انھوں نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہو گا۔‘‘

’’ پگلی کیا کوئی بھابی اپنے دیور سے یوں ناراض ہو جایا کرتی ہے۔ اچھا فرزانہ کہاں ہے؟‘‘

’’ وہ ڈرائنگ روم میں اسد صاحب کے ساتھ بیٹھی ہے۔‘‘

’’ اچھا ذرا میں اوپر ہو آتی ہوں۔‘‘ جب جمیلہ اوپر جانے کے لئے کمرے سے باہر آئی تو ملتانی وہیں ٹھہرا رہا۔

’’ بھابی میں اتنا بُرا تو نہیں ہوں۔ میں نے آپ کے ساتھ ایسا کیا برا سلوک کیا ہے جو آپ مجھ سے نفرت کرنے لگی ہیں۔ کچھ مجھے بھی تو معلوم ہو۔ میں محبت کا بھکاری ہوں بھابی، جہاں کہیں یہ بھیک مجھے مل جاتی ہے، میں کاسہ لئے وہاں آ دھمکتا ہوں۔ بس یہی میرا قصور ہے۔ اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ جلد ہی یہ محلہ چھوڑ دوں۔‘‘ یہ کہہ کر ملتانی روہانسا ہو گیا۔

’’ ارے آپ تو عورتوں کی طرح رونے لگے۔‘‘ کہنے کو تو ہاجرہ نے کہہ دیا لیکن خود اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔

’’ ارے بھابی تم خود بھی رو رہی ہو۔ بخدا بھابی۔ میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ آپ ہی کیا، میں تو کسی بھی عورت کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، یہ میری کمزوری ہے۔‘‘

یہ کہہ کر ملتانی نے جیب سے رومال نکالا اور ہاجرہ کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو پونچھ دیئے۔

ملتانی کا خوشبو میں بسا ہوا رومال جب اس کی بھیگی ہوئی پلکوں سے مس ہوا تو اسے یوں لگا جیسے ملتانی اس کا منہ بولا دیور ہی نہیں اس کا شوہر بھی ہے۔‘‘ ایک لمحہ کے لئے اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور آنِ واحد میں اس خیال کو اس نے جھٹک دیا۔۔۔ اب ملتانی ہاجرہ کے بالکل قریب کھڑا تھا اور ہاجرہ کانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی۔

’’ جائیے اوپر اسد صاحب سے مل آئیے جمیلہ بھی وہیں ہے۔‘‘

جب وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر پہنچا تو وہاں فرزانہ ، جمیلہ اور اسد کسی بات پر قہقہہ لگا رہے تھے۔

اوپر قہقہے گونج رہے تھے اور نیچے ہاجرہ کو تنہائی ڈس رہی تھی۔

ہاجرہ کے آنسو پونچھتے وقت ملتانی بے خیالی میں اپنا ریشمی رومال وہیں چھوڑ گیا تھا۔ ہاجرہ نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے رومال اٹھایا ۔ رومال سے سینٹ کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ وہ رومال کو بڑی دیر تک سونگھتی رہی۔

پھر اچانک ملتانی نیچے اتر آیا۔ بھابی اوپر آیئے نا۔مدتوں بعد اسد صاحب نے ہنسی کو گلے لگا یا ہے۔‘‘

’’ میں نیچے ہی ٹھیک ہوں ملتانی ۔ مجھے ستاؤ نہیں ، دیکھو یہ تمہارا ہی رومال ہے نا؟‘‘

رومال تو ایک معمولی شے ہے بھابی۔ میں نے اس گھر میں جو چیز چھوڑی ہے کیا وہ یونہی روندی جائے گی۔ میرا دل کہہ رہا ہے بھابی ، میں یہاں سے چلا بھی جاؤں گا تو شاید آپ مجھے بھلا نہ سکیں گی۔ میں سچ کہہ رہا ہوں نا بھابی؟‘‘

ہاجرہ چپ تھی۔ اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک لہرا رہی تھی۔

’’ ایک بات سنئیے بھابی۔ میں نے ابھی ابھی فرزانہ کے تعلق سے اسد سے بات کی ہے۔ مارکٹ سے آگے ایک انسٹی ٹیوٹ ہے جسے جمیلہ کی ایک سہیلی چلا رہی ہے۔ وہاں دوسو پچاس روپے کی ایک ملازمت خالی ہے۔ لڑکیوں کو چند گھنٹے پڑھانا اور لوٹ آنا بس یہی کام ہے۔ میں سمجھتا ہوں فرزانہ کا دل یہاں لگ جائے گا۔‘‘

’’ پھر آہستہ آہستہ کہیں نہ کہیں فرزانہ کا رشتہ بھی ہو جائے گا۔‘‘

’’ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ مگر اسد صاحب نے اس سلسلے میں کیا کہا۔‘‘ ہاجرہ نے بے تابی سے پوچھا۔

’’ انھوں نے اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑ دیا ہے۔‘‘

’’ اور فرزانہ کی کیا مرضی ہے؟‘‘

’’ فرزانہ بھی خوش خوش دکھائی دیتی ہے۔ کل فرزانہ کو آپ رائل انسٹی ٹیوٹ بھیج دیجئے۔‘‘

یہ کہہ کر ملتانی نے جمیلہ اور اسد کو آواز دی۔

دوسرے دن فرزانہ نے کپڑے تبدیل کیئے۔۔ ابّا ، امی سے اجازت لی، اور انسٹی ٹیوٹ کی طرف چل پڑی۔

دوپہر میں ملتانی نے اسد کے گھر آواز دی۔ اسد کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ ہاجرہ بستر پر لیٹی ہوئی کوئی ناول پڑھ رہی تھی۔

’’ ارے بھئی کیا ہم آ سکتے ہیں۔‘‘ ایک مانوس سی آواز ہاجرہ کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے بستے سے اُٹھ کر آواز دی : ’’ اندر آ جائیے ملتانی صاحب۔‘‘

’’ آداب عرض ہے بھابی، کیا اسد گھر پر نہیں ہیں؟‘‘

’’ وہ بازار گئے ہوئے ہیں، شائد تھوڑی دیر بعد لوٹیں۔‘‘

’’ تو پھر میں چلتا ہوں‘‘۔

’’ کیا کوئی خاص کام ہے؟‘‘

’’ کوئی خاص کام تو نہیں ہے پھر بھی۔‘‘

’’ کم از کم چائے تو پی کر جائیے۔‘‘

’’ چائے تو پی لوں گا، لیکن ایک شرط پر۔‘‘۔۔

’’ وہ کیا شرط ہے کچھ معلوم بھی تو ہو؟‘‘

’’ آپ کے ہاتھوں کی بنائی ہوئی لذیذ چائے کو میں بھلا کیسے سکتا ہوں۔ لیکن اس بار آپ کو میرے ہاتھ کی بنائی ہوئی چائے پینی پڑے گی۔‘‘ یہ کہہ کر ملتانی نے آگے بڑھ کر چولھے پر چائے کی کیتلی رکھ دی۔

’’ دیکھ رہی ہو بھابی کیتلی میں پانی کیسے کھول رہا ہے ‘‘

’’ نیچے راکھ کی تہ میں آگ کے جو شعلے ہیں۔‘‘

’’ اب چائے کی پتی ڈال دینی چاہیئے۔‘‘

’’ یہ مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو، چائے تو آپ بنا رہے ہیں۔‘‘ ہاجرہ نے سنجیدگی سے کہا۔

ملتانی نے چائے دانی میں چائے کی پتی کے تین چمچے ڈالے۔ جب چائے پوری طرح تیار ہو گئی تو اس نے چائے کی پیالی ہاجرہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’ بھابی میرا خیال ہے میں نے چائے ٹھیک ہی بنائی ہے۔‘‘ ملتانی نے چائے کا گھونٹ حلق کے نیچے اتارتے ہوئے کہا۔

ہاجرہ نے پیالی تھام کر چائے کی ایک چسکی لی۔ واقعی ملتانی نے بڑے غضب کی چائے بنائی تھی۔

’’ جب چائے بنانے والا خود مطمئن ہو تو اسے دوسروں کی رائے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔‘‘

دراصل ہاجرہ چائے سے ہٹ کر ملتانی سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ملتانی چائے ختم کرتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔

’’ بھابی اب میں چلتا ہوں، شام کو پھر آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

جب وہ چلا گیا تو ہاجرہ نے سوچا، عجیب آدمی ہے۔ یا تو گھنٹوں باتیں کرتا ہے یا کبھی ہوا کے جھونکے کی طرح گھر میں داخل ہوتا ہے اور اسی انداز سے واپس لوٹ جاتا ہے۔

جب مہینے کی پہلی تنخواہ فرزانہ کو ملی تو اس نے دوسو پچاس روپے کے کرارے نوٹ ہاجرہ کی خدمت میں بصد ادب پیش کئے۔ ہاجرہ نے ماں ہونے کے ناطے بڑی شفقت سے فرزانہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیار میں ڈوب کر کہا۔

’’ باو لی ، ان روپوں کے لئے تھوڑا ہی میں نے تمہیں نوکری کے لئے بھیجا ہے دراصل میں چاہتی تھی کہ تمہاری زندگی میں تھوڑا بہت چینج آئے۔ گھر کی چار دیواری میں پڑی پڑی تم بیمار سی ہو گئی تھیں نا ، اس لئے۔‘‘

ہاجرہ کے بے حد اصرار پر اس نے پچاس روپے اپنے جیب خرچ کے لئے رکھ لئے اور بستر پر جا کر لیٹ گئی۔

ادھر ملتانی کئی دنوں سے غائب تھا۔ شاید وہ پھر بدایوں چلا گیا تھا۔ گو اب گھر میں پہلے جیسے حالات نہیں رہے تھے، لیکن ہاجرہ نہیں چاہتی تھی کہ ملتانی کے تعلق سے وہ خود کوئی بات چھیڑے۔

پھر ایک دن اسد نے ہاجرہ سے پوچھا:

’’ بھئی یہ ملتانی آخر کہاں گیا ہو گا۔ کہیں وہ پھر بدایوں تو نہیں چلا گیا۔ بڑا پیار ہے ان دونوں میں۔ وہ جمیلہ کے بغیر ایک پل بھی سکون سے نہیں رہ سکتا۔‘‘

’’ خیر چھوڑیئے ان باتوں کو، آٹھ بج چکے ہیں۔ مگر فرزانہ ابھی تک گھر نہیں لوٹی ہے، جا کر کیفیت لیجئے۔‘‘ ہاجرہ نے تشویشناک لہجے میں کہا۔

’’ اوہ تم خوامخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ فرزانہ اب بچی نہیں رہی۔ کسی وجہ سے دیر ہو گئی ہو گی۔‘‘ ابھی اسد نے جملہ مکمل ہی کیا تھا کہ فرزانہ اندر داخل ہوئی۔ اسد نے ہاجرہ کی طرف دیکھا اور فرزانہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

ایک دن ہاجرہ نے سوچا، کیوں نہ فرزانہ کا انسٹی ٹیوٹ دیکھ لیا جائے وہ اس خیال سے گھر سے نکل پڑی۔ اسے انسٹی ٹیوٹ کا پتہ لگانے میں بڑی دقّت ہوئی۔ ایک سنسان سی گلی پار کرنے کے بعد سامنے ایک بیڑی کا کارخانہ تھا جہاں بے شمار مزدور بیٹھے بیڑی کے پتوں کو صاف کر رہے تھے۔ اس سے ذرا پرے ایک اور لانبی گلی تھی جو گھومتی ہوئی شاہراہ کی طرف نکلتی تھی۔ ہاجرہ کی نظر جب رائل انسٹی ٹیوٹ کے بورڈ کی طرف گئی تو اس کے قدم اچانک رک گئے۔ انسٹی ٹیوٹ کیا تھا ایک بنگلہ نما مکان تھا ، جس کے اطراف و اکناف باڑھ لگی ہوئی تھی۔ برآمدے میں ایک گوری چٹی معمر عورت بیٹھی ہوئی پان چبا رہی تھی۔ اس کی آکھوں سے خمار جھلک رہا تھا اور کپڑوں سے عطر کی تیز خوشبو آ رہی تھی۔ پہلی نظر میں ہاجرہ کو یہ عورت کچھ عجیب سی لگی۔ وہ پان یوں چبا رہی تھی جیسے بکری گھاس کھا رہی ہو۔

’’ یہ رائل انسٹی ٹیوٹ ہے نا۔‘‘ ہاجرہ نے اس اجنبی خاتون سے پوچھا۔

’’ جی ہاں اس محلہ میں یہی ایک انسٹی ٹیوٹ ہے جسے میں برسوں سے چلا رہی ہوں۔ مجھے گوہر سلطانہ کہتے ہیں۔ میں اس ادارہ کی مالک بھی ہوں اور پرنسپل بھی۔ فرزانہ ابھی ابھی گھر واپس گئی ہے۔‘‘

ہاجرہ حیران سی رہ گئی۔

’’ مگر یہ آپ نے آج انسٹی ٹیوٹ کو جلدی چھٹی کیوں دیدی؟‘‘

’’ ہاں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ وہ تو لڑکیوں پر منحصر ہے۔ مجھے ہر حال میں ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ‘‘ پھر اس نے گلا پھاڑ کر کلثوم کی ہانک لگائی۔

ایک پندرہ سولہ برس کی سانولے رنگ کی لڑکی بال بکھرائے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

’’ اری کم بخت کہاں مر جاتی ہے ذرا چائے تو لے آ۔‘‘

اس تکلف میں نہ پڑئیے۔ مجھے اس وقت گھر جلد پہنچنا ہے۔ پھر کبھی ادھر آنا ہوا تو چائے ضرور پی لوں گی۔‘‘یہ کہہ کر ہاجرہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

گوہر نے بھی زیادہ اصرار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ ’’ آپ کی مرضی‘‘ کہہ کر چپ ہو گئی۔

ہاجرہ راستہ چلتے ہوئے بھی سوچ رہی تھی۔ یہ گوہر سلطانہ کیسی عورت ہے۔ چہرے مہرے سے تو بڑی کائیاں معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایک آدھ ملاقات میں ہی صحیح رائے قائم کرنا مشکل ہی تو ہے۔ وہ ان ہی خیالات میں ڈوبی ہوئی جب گھر میں داخل ہوئی تو اس نے دیکھا فرزانہ اپنے بستر پر نڈھال پڑی سو رہی ہے۔

اوپر اسد کے کمرے میں دبے دبے قہقہوں کی آواز گونج رہی تھی۔ ہاجرہ نے گھڑی میں ٹائم دیکھا۔رات کے دس بج چکے تھے۔ اس کے ذہن میں ایک بات آئی۔شائد ملتانی اوپر بیٹھا ہوا ہو۔ لیکن ملتانی کی آواز اور اس کے قہقہوں سے ہاجرہ آشنا تھی۔

تھوڑی دیر بعد اسد ایک سانولے سلونے نوجوان کے ساتھ نیچے اترے اسے باہر جا کر خدا حافظ کہا۔

’’ یہ سلیم تھا۔۔۔۔ تم نے اس لڑکے کو دیکھا ہاجرہ ؟‘‘ اسد نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔

’’ ہاں دیکھا ہے۔‘‘

’’ بظاہر تو اچھا معلوم ہوتا ہے۔‘‘

’’ یہ ایل۔آئی۔ سی میں اکاو نٹنٹ ہے اور ایم کام بھی۔ دہلی سے تبدیل ہو کر یہاں آیا ہے۔ باتوں باتوں میں مجھے یہ اندازہ ہوا کہ وہ دور کے ناطوں سے ہمارا عزیز بھی ہے۔ ارے تم تو جماہیاں لے رہی ہو، شاید تمہیں نیند آ رہی ہے جاؤ، سو جاؤ ۔‘‘ یہ کہہ کر اسد اوپر اپنے کمرے میں چلے گئے۔

ادھر فرزانہ کی ذات میں ایک تبدیلی آ گئی تھی۔ پہلے وہ افسردہ اور ملول سی دکھائی دیتی تھی۔ لیکن اب اس کی رنگت نکھر آئی تھی۔ اب وہ بات بھی کرتی تو یوں لگتا جیسے اس کے دل میں ہر لحظہ پھول کھل رہے ہوں۔

فرزانہ کی اس تبدیلی سے ہاجرہ گو خوش تو تھی لیکن تہ در تہ اس کے ذہن میں گمان پرورش پا رہے تھے۔ بظاہر کوئی بات ابھی تک پیدا نہیں ہوئی تھی۔ ہاجرہ کے دل کے اندر پرورش پانے والے خیال نے اسے چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ بالآخر ایک دن ہاجرہ نے فرزانہ سے پوچھ ہی لیا۔

’’ کیا ملتانی تجھ سے انسٹی ٹیوٹ ملنے آتے ہیں؟‘‘

اس عجیب و غریب سوال نے فرزانہ کو چونکا دیا۔ پھر فرزانہ کی آواز گونج رہی تھی۔

’’ یہ سچ ہے کہ ملتانی کے طفیل میں مجھے یہ ملازمت ملی۔ یہ سروس بھی میں نے آپ کے کہنے پر قبول کی ہے۔ ورنہ مجھے اس کی صورت سے نفرت ہے۔ مجھے تو وہ خاصا فراڈ آدمی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

فرزانہ کے اس جواب کے بعد ہاجرہ کے دل میں شک اور شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ اس نے نفرت کے جذبہ کی تہ تک پہنچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

شاید وہ یہ بات بھول گئی کہ راکھ کے ڈھیر کے نیچے دبی ہوئی کئی چنگاریاں بھی ہوتی ہیں جو کسی وقت بھی ہوا کے ذرا سے جھونکے کے ساتھ شعلوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔

عجیب و غریب بات تو یہ تھی کہ پہلی ہی نظر میں ملتانی نے فرزانہ کو پسند کر لیا تھا۔ اور فرزانہ بھی اس کی شخصیت سے مرعوب ہو چکی تھی۔ فرزانہ کی محبت کا روپ دنیا کی نگاہوں سے اوجھل تھا۔وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ملتانی اس کے باپ کے ملنے والوں میں سے ہے وہ اسے دل دے بیٹھی تھی۔

ہاجرہ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ پچھلی رات شدّتِ جذبات میں ملتانی کی بانہوں میں آ گئی تھی۔ چاہت کی گرمی شبنمی بوسوں سے ہمکنار ہو گئی تھی۔

اور ملتانی نے والہانہ انداز میں اس سے کہا تھا:

’’ تم میری ہو فرزانہ ۔ میں تمہیں پاکر کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا۔‘‘

جواب میں وہ چپ سی رہ گئی تھی۔ صرف اس کی انگلیاں ملتانی کے چوڑے چکلے سینے پر چلنے لگی تھیں اور ملتانی اس پر چھکا ہوا ، اس کے رخساروں کو پیار سے تھپتھپا رہا تھا۔

آج اسد کے ہاتھ میں دہلی سے آیا ہوا ٹیلیگرام تھا۔وہ پریشانی میں ادھر سے ادھر ٹہل رہے تھے۔ صفدر جنگ ہاسپٹل میں ان کی چھوٹی بہن کو شریک کروا دیا گیا تھا۔ وہ موت اور زیست کی کش مکش سے دوچار تھی۔

ہاجرہ نے فوری اٹیچی میں کپڑے جما دیئے اور پہلی بار اسد سے ڈرتے ڈرتے کہا۔

’’ کیا یہ ممکن نہیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں؟‘‘

’’ فرزانہ یہاں اکیلی نہیں رہ سکتی۔ تمہیں ساتھ لے چلنے کا مطلب ہے کہ فرزانہ کو بھی ساتھ لیا جائے۔ مناسب تو یہی ہے کہ میں تنہا ہی جاؤ ں۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے اٹیچی سنبھالی اور باہر نکل کھڑے ہوئے۔

ہاجرہ اور فرزانہ نے انھیں دروازے تک جا کر خدا حافظ کہا۔

اسد نے جاتے جاتے کہا:

’’ میں ایک دو ہفتوں میں لوٹ آؤں گا۔ فرزانہ کا خیال رکھنا۔‘‘

دوسرے دن فرزانہ گھر میں ہی پڑی رہی۔جب ہاجرہ نے پوچھا کیا آج وہ انسٹی ٹیوٹ نہیں جائے گی تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

باہر دروازے پر کوئی پکار رہا تھا۔

’’ کیا بھئی ہم آ سکتے ہیں۔‘‘

ہاجرہ کے کان اس آواز سے آشنا تھے۔ اسے یوں لگا، جیسے یہ آواز جھرنے سے پھوٹ رہی ہو۔

اس نے باہر جا کر دیکھا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ ملتانی آخر کہاں چلا گیا؟دو مرتبہ ہی تو اس نے آواز دی تھی۔ اس کی ا س بے نیازی پر اسے کوفت سی ہونے لگی تھی۔ کچھ دیر تو اسے توقف کرنا چاہیئے تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے غلط سنا ہو اور وہ آیا ہی نہ ہو۔ نہیں نہیں اس کے کان کبھی دھوکہ نہیں کھا سکتے وہ ضرور آیا تھا۔ اس نے آواز بھی دی تھی۔ اس آواز کو وہ بھلا کیسے بھلا سکتی ہے۔

پھر وہ برآمدہ پار کرتے ہوئے فرزانہ کے کمرے میں داخل ہوئی۔ فرزانہ کی نگاہیں کتاب کا احاطہ کیئے ہوئے تھیں۔ وہ کچھ پڑھ رہی تھی۔

’’ فرزانہ ابھی ابھی تم نے باہر کسی کی آواز تو نہیں سنی؟‘‘

’’ ہاں سنی تو تھی۔‘‘

’’ کون تھا وہ ؟‘‘

’’ میں کیا جانوں؟‘‘

’’ کہیں وہ ملتانی تو نہیں تھا؟‘‘

’’ شاید وہی ہو۔‘‘ فرزانہ نے بیزار لہجے میں کہا۔

ہاجرہ گہری سوچ میں ڈوب کر رہ گئی۔

’’ کیا بھئی ہم آ سکتے ہیں، کیا ہم آ سکتے ہیں؟ در و دیوار سے یہ آواز اسے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

وہ باہر کھڑے کھڑے ، دور ہی دور سے آواز کیوں لگاتا ہے۔ وہ بغیر کچھ کہے گھر میں کیوں نہیں چلا آتا ہے۔ اس نے اسے تنگ کرنے کی کیوں ٹھان رکھی ہے؟ ۔۔۔

پھر ہاجرہ کے اندر کی عورت نے کہا ۔۔ وہ بیاہتا ہے ، ایک جواں سال لڑکی کی ماں ہے، اسے اس عمر میں ایسی باتیں تو نہیں سوچنا چاہیئے اسد صاحب اس کے شوہر ہیں، جیون ساتھی‘‘

پھر وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔۔۔

شوہر ایک مریل بیمار سا بد شکل آدمی جو چوری چھپے معجون کی گولیاں کھاتا ہے۔۔ جو مہینوں اس کے قریب نہیں آتا اور قریب آتا ہے تو یوں ڈرتا ہے جیسے وہ اسے دبوچ لے گی۔۔۔۔

اس نے برسوں پہلے اس زندگی سے طوعاً و کرہاً سمجھوتہ کر لیا تھا۔ وہ کسی وقت بھی پکار پکار کر کہہ سکتی تھی کہ اسے اسد سے محبت نہیں ہے ۔۔۔ لیکن کبھی اس نے زبان نہیں کھولی تھی

ملتانی سے ملنے سے پہلے کبھی اس کے ذہن میں یہ بات پیدا نہیں ہوئی تھی۔لیکن آج اس کی زندگی کے سامنے ایک نیا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔موجوں کی یہ تلاطُم خیزی آنے والے ایک بڑے اور ہولناک طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ اور وہ اس وقت کی منتظر تھی جب وہ اپنے آپ کو ، اپنی شخصیت کے ہر بُنِ مُو کو طوفان کی آغوش میں سونپ دے۔

لیکن ہاجرہ ہوا کے اس رخ کو پوری طرح سمجھ نہیں سکی تھی جو اس کے پہلو سے ہوتا ہوا فرزانہ پر جا کر ختم ہوتا تھا۔

دوسرے دن جب فرزانہ انسٹی ٹیوٹ چلی گئی تو وہ بھرے گھر میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگی۔ اس کی چھٹی حِس کہہ رہی تھی کہ آج ملتانی ضرور آئے گا ہر آہٹ پر اسے ملتانی کے آنے کا گمان گزرتا تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے شام ہو گئی۔۔۔

اور پھر رات کی سیاہی چاروں طرف پھیل گئی۔۔۔۔

جب گھڑی نے رات کے ٩ بجائے تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ میز کی دراز سے تالا نکالا اور باہر کے دروازے پر تالا لگادیا۔

ایک لمحہ کے لئے اُسے احساس ہوا ۔۔۔ اگر اس دوران فرزانہ گھر پر تالا پڑا ہوا دیکھ لے تو پریشان ہو جائے گی۔

نہیں نہیں اسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے ۔۔۔۔۔

کچھ دیر اور اس کا انتظار کرنا چاہیئے۔۔

اس نے تالا کھول دیا اور پھاٹک ہی سے قریب اِدھر سے اُدھر ٹہلنے لگی۔

آدھ گھنٹہ دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیا۔ ۔۔ لیکن فرزانہ نہیں آئی۔۔۔۔۔ اُسے آٹھ بجے گھر میں رہنا چاہیئے تھا۔

آخر وہ کہاں مر گئی ؟

وہ غصے سے پیچ و تاب کھاتی ہوئی پھاٹک کے باہر نکل آئی۔ تالے میں چابی گھمائی۔ ایک بار اسے اچھی طرح دیکھا اور چل پڑی۔

اب اس کے قدم رائل انسٹی ٹیوٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔

وہ اپنا سارا غصہ فرزانہ پر نکالنا چاہتی تھی۔ کوفت اور غصہ کے عالم میں اسے یہ بات بھی یاد نہ رہی کہ رائل انسٹی ٹیوٹ کا فاصلہ اس کے گھر سے بہت زیادہ ہے۔

جیسے تیسے جب وہ انسٹی ٹیوٹ پہنچی تو وہاں گوہر سلطانہ آرام کرسی پر بیٹھی جھولا جھول رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں کی محراب سے سرخ سرخ دانت بڑے بھدے اور کریہہ دکھائی دے رہے تھے۔

’’ کیا فرزانہ آج انسٹی ٹیوٹ آئی تھی؟‘‘ ہاجرہ نے بظاہر غصّے کو پیتے ہوئے پوچھا۔

لیکن اس کے چہرے سے یہ بات صاف عیاں ہو رہی تھی کہ آج اس کا موڈ ضرورت سے زیادہ بگڑا ہوا تھا۔

’’ ہاں آئی تھی اور ملتانی کے ساتھ چلی بھی گئی۔ شاید وہ پھر یہاں نہ آئے بعض لوگ نئی زندگی کے زینے پر چڑھنے کی خواہش ہی میں سیڑھیاں گنتے رہ جاتے ہیں ۔۔۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو چپ چاپ ایک ہی جست میں اسے پار کر جاتے ہیں۔ ۔۔ ۔فرزانہ بھی اُن ہی میں سے ایک تھی‘‘۔۔۔۔

گوہر سلطانہ نے اطمینان سے پان کی پیک کو اگالدان کی نذر کرتے ہوئے کہا۔

ہاجرہ یہ سن کر چکراسی گئی۔۔۔۔

اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا منڈلا رہا تھا۔ قریب تھا کہ وہ گِر پڑتی لیکن گوہر سلطانہ نے اسے سنبھال لیا۔

’’ گھبراؤ نہیں میم صاحب ۔۔۔ زندگی میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ فرزانہ جاتے جاتے تمہارے لئے یہاں جگہ چھوڑ گئی ہے ۔۔ تم چاہو تو اس کی جگہ پُر کر سکتی ہو‘‘

ہاجرہ نے غیض و غضب کے عالم میں اس کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا۔ لیکن وہ ہنستی رہی۔۔۔۔ قی قی ۔۔۔۔ قی قی ۔۔۔۔ اس کے میلے سرخ اور کریہہ دانت اس کا منہ چڑاتے رہے۔ ہاجرہ کی آنکھوں میں خُون اتر آیا۔ وہ تیزی سے چورا ہے پر آئی ٹیکسی لی اور گھر آ گئی۔

اب وہ اپنے بستر پر اوندھے منہ پڑی سسکیاں لے رہی تھی۔باہر وہی مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔۔

’’ ارے بھئی کیا ہم آ سکتے ہیں ‘‘ ؟

وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے پھاٹک تک آئی اور اچانک گِر پڑی۔

باہر دور دور تک کوئی نہ تھا۔

***

ماخذ: http://www.awazsayeed.com/ebooks.html

مصنف کے صاحبزادے اوصاف سعید صاحب اور مصحف اقبال توصیفی کے تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید