FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

توزکِ اردو

حصہ اول: حصہ نثر

(مولوی)محمد اسمٰعیل (میرٹھی)

دیباچہ

زبان اردو کی کم مایگی مسلم ہی سہی۔ تو بھی یہ عذر انتخاب کی ذمہ داریوں سے ہم کو چنداں سبکدوش نہیں کرتا۔ جو سبق طلبہ کے درس و مطالعہ کے لئے پیش کئے جائیں۔ وہ بالضرور فصاحت و بلاغت میں کامل عیار۔ ادب و اخلاق کی میزان میں سنجیدہ۔ دلاویزی و شگفتگی کے آب و نمک سے با مزہ ہونے چاہیں۔
کامیابی کا دعوی تو نہیں مگر ہم نے حتی الامکان کوشش کی ہے۔ کہ مضامین منتخبہ میں حسن ظاہر کے ساتھ معنوی پاکیزگی بھی ضرور ہے، زباندانی بیشک ایک جوہر ہے۔ مگر جس زبان سے قو ائے روحانی مضمحل ہو جائیں، اس سے تو بے زبانی ہی بمراتب بہتر ہے۔
نثر اردو نے نظم سے بہت رواج پایا ہے۔ اس کی ابتدا قصہ کہانیوں سے ہوئی اور تھوڑا ہی زمانہ گزرا تھا۔ کہ تصنع اور تکلف نے اس کو بیکار محض کر دیا۔ مگر میرزا غالب مرحوم کی تحریرات سادہ و سرسری نے اس کا قدرتی حسن دکھایا۔ پھر سرسید مرحوم اور ان کے مقلدین نے مغربی خیالات کی جان ڈال کر اس میں مہذب زبانوں کی سی آن و ادا پیدا کر دی۔ اگرچہ قابل انتخاب قریب تر زمانہ کی نثر ہے۔ مگر ہم نے مشاہیر قدیم و جدید سب کے کلام کا نمونہ لیا ہے۔ تاکہ طلبہ کو مختفن اسالیب بیان سے واقفیت حاصل ہو۔
اصناف نظم میں تو ہمارے شعرائے سخن سنج نے شیوا بیانی اور آتش زبانی کی دھوم مدت سے مچا رکھی ہے اور ریختہ کو رشک پارسی بنانے میں کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن اس سیمیائی باغ میں ایسے گل پھول چنا۔ جو نوخیز طبائع کو آشفتہ اور جذبات نفسانی کے بھوت کو بیدار نہ کر دیں۔ سخت مشکل کام ہے۔ بارے ہم نے اس طلسم کدہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھا اور اساتذہ ماضی و حال کے پاکیزہ کلام سے اس مجموعہ کو زیب و زینت دی۔ امید ہے کہ اس انتخاب کے مطالعہ سے مہارت زباندانی کے علاوہ طلبہ کو یہ بھی معلوم ہو گا۔ کہ اردو کی نظم و نثر نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ میں کیا کیا منزلیں اپنی ترقی کی طے کی ہیں۔
مارچ ۱۸۹۸ء۔

محمد اسمعیل
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حصہ نثر
آنریبل ڈاکٹر سید احمد خان کے۔ سی۔ ایس۔ آئی۔ ایل۔ ایل۔ ڈی

ولادت ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷۔ وفات ۲۷ مارچ ۱۸۹۸۔ سر سید نے علی گڑھ میں مدرستہ العلوم مسلمانان کی بنیاد ڈالی۔ اخبار انسٹیٹیوٹ گزٹ اور رسالہ تہذیب الاخلاق دونوں ان کی اڈیٹری میں نکلتے تھے۔ بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ جن میں سب سے زیادہ مشہور تفسیر القرآن ہے۔ چھ جلدوں میں ہے۔ ان کا طرز تحریر سادگی و روانی و دل نشنین میں مشہور ہے۔ تکلف نام کو نہ تھا۔ مشکل سے مشکل مضمون کو اس خوبی سے بیان کرتے کہ گویا پانی کر کے بہا دیتے تھے۔ غدر ۱۸۵۷ کے بعد اردو زبان کے علم ادب میں جو انقلاب پیدا ہوا اور انگریزی لٹریچر کا پرتو اس پر پڑا۔ وہ زیادہ تر سر سید ہی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اس لئے ان کو جدید علم ادب کا بانی کہہ سکتے ہیں۔

سولزیشن یا تہذیب
(از تہذیب الاخلاق)
ہم دریافت کیا چاہتے ہیں۔ کہ سولزیشن کیا چیز ہے۔ اور کن کن چیزوں سے علاقہ رکھتی ہے؟ کیا کوئی بنائی ہوئی چیز ہے یا قدرت نے انسان کی فطرت میں اس کو پیدا کیا ہے؟ اس کے معنی کیا ہیں؟ کیا یہ کوئی اصطلاح ہے؟ جس کو لوگوں نے یا فیلسوفوں نے مقرر کیا ہے۔ یا ایسی چیز ہے۔ کہ اس کا مفہوم اور جن جن چیزوں سے اس کا تعلق ہے وہ قانون قدرت میں پایا جاتا ہے۔ اس امر کے تصفیہ کے لئے ہم کو انسانی حالات پر نظر کرنی چاہیے۔ اگر تہذیب انسان میں ایک فطری چیز ہے۔ تو وحشیوں میں۔ شہریوں میں۔ سب میں اس کا نشان ملے گا۔ گو اس کی صورتیں مختلف دکھائی دیتی ہوں۔ الا سب کی جڑ ایک ہی ہو گی۔
انسان میں یہ ایک فطری بات ہے۔ کہ وہ اپنے خیال کے موافق کسی چیز کو پسند کرتا ہے اور کسی کو ناپسند۔ یا یوں کہو۔ کہ کسی چیز کو اچھا ٹھہراتا ہے اور کسی کو برا اور اس کی طبیعت اس طرف مائل ہے۔ کہ اس بری چیز کی حالت کو۔ ایسی حالت سے تبدیل کر لے۔ جس کو وہ اچھا سمجھتا ہے۔ یہ ہی چیز سولزیشن کی جڑ ہے۔ جو انسان کے ہر گروہ میں اور ہر ایک میں پائی جاتی ہے۔ اسی تبادلہ کا نام سولزیشن یا تہذیب ہے اور کچھ شبہ نہیں کہ۔ یہ میلان یا خواہش مبادلہ انسان میں قدرتی ہے۔
سولزیشن یا تہذیب کی طرف انسان کی طبیعت کے مائل ہونے کے دو اصول ٹھہرے۔ اچھا اور برا۔ اور برے کو اچھا کرنا سولزیشن یا تہذیب ٹھیری۔ مگر اچھا اور برا قرار دینے کے مختلف اسباب خِلقی اور خُلقی۔ ملکی اور تمدنی ایسے ہوئے ہیں۔ جن کے سبب اچھا اور برا ٹھیراتے ہیں۔ یا یوں کہو۔ کہ قوموں کی سولزیشن میں اختلاف پڑ جاتا ہے۔ ایک قوم جس بات کو اچھا سمجھتی ہے اور داخل تہذیب جانتی ہے۔ دوسری قوم اسی بات کو بہت برا اور وحشیانہ قرار دیتی ہے۔ یہ اختلاف سولزیشن کا قوموں کے باہم ہوتا ہے۔ اشخاص میں نہیں ہوتا یا بہت ہی کم ہوتا ہے۔
جب کہ ایک گروہ انسانوں کا کسی جگہ اکھٹا ہو کر بستا ہے۔ تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں۔ ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں۔ ان کی معلومات اور ان کے خیالات۔ ان کی مسرت کی باتیں اور نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں۔ اس لیے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی سب میں یکساں پیدا ہوتے ہیں۔ اور اسی لیے برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے اور یہی مجموعی خواہش تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سولزیشن ہے۔ مگر جب کہ مختلف گروہ مختلف مقامات میں بستے ہیں۔ تو ان کی حاجتیں اور خواہشیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اور اس سبب سے تہذیب کے خیالات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مگر ضرور کوئی ایسی چیز بھی ہو گی۔ کہ جو سولزیشن کی ان مختلف حالتوں کا تصفیہ کرسکے۔
ملکی حالتیں جہاں تک کہ وہ بود و باش سے تعلق رکھتی ہیں۔ نہ فکر و خیال و دماغ سے۔ ان کو تہذیب سے چنداں تعلق نہیں بلکہ صرف انسان کے خیال کو اس سے تعلق ہے۔ جس کے سبب وہ اچھا اور برا ٹھیراتا ہے۔ اور جس کے باعث سے خواہش تبادلہ تحریک میں آتی ہے۔ اور وہ تبادلہ واقعی ہوتا ہے۔ جو سولزیشن کہلاتا ہے۔ پس سولزیشن کی مختلف حالتوں کا فیصلہ وہ اسباب کرسکتے ہیں۔ جن کے سبب سے اچھے اور برے کا خیال دل میں بیٹھتا ہے۔
خیال کی درستی اور پسند کی صحت کثرت معلومات اور علم طبیعات سے بخوبی ماہر ہونے پر منحصر ہے۔ انسان کی معلومات کو روز بروز ترقی ہوتی جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سولزیشن بھی بڑھتی ہے۔ کیا عجب ہے؟ کہ آئندہ کوئی ایسا زمانہ آئے کہ انسان کی تہذیب میں ایسی ترقی ہے۔ کہ اس زمانہ کی تہذیب کو بھی۔ لوگ ایسے ٹھنڈے دل سے دیکھیں جیسے کہ ہم اپنے سے اگلوں کی تہذیب کو ایک ٹھنڈے مگر مودب دل سے دیکھتے ہیں۔
تہذیب۔ یا یوں کہو۔ کہ بری حالت اچھی حالت میں لا دینا۔ کی تمام چیزوں سے اخلاقی ہوں یا مادی یکساں تعلق رکھتا ہے۔ اور تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ تکلیف سے بچنے اور آسائش حاصل کرنے کا سب کو یکساں خیال ہے۔ ہنر اور اس کو ترقی دینا تمام دنیا کی قوموں میں موجود ہے۔ ایک تربیت یافتہ قوم زر و جواہر۔ یاقوت و الماس سے نہایت نفیس خوبصورت زیور بناتی ہے۔ نا تربیت یافتہ قوم بھی کوڑیوں اور پوتھوں سے اپنی آرائش کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔ تربیت یافتہ قومیں اپنی آرائش میں سونے چاندی مونگے اور موتیوں کو کام میں لاتی ہیں۔ نا تربیت یافتہ قومیں جانوروں کے خوبصورت اور رنگین پروں کو تتلیوں پر سے چھلے ہوئے سنہری پوست اور زمرد کے سے رنگ کی باریک اور خوشنما گھاس میں گوندھ کر اپنے تئیں آراستہ کرتی ہیں۔ تربیت یافتہ قوموں کو بھی اپنے لباس کی درستی کا خیال ہے۔ نا تربیت یافتہ بھی اس کی درستی پر مصروف ہیں۔ شاہی مکانات نہایت عمدہ اور عالی شان بنتے ہیں اور نفیس چیزوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ نا تربیت یافتہ قوموں کے جھونپڑے اور انک ے رہنے کے گھونپے درختوں پر باندھے ہوئے ٹانڈ۔ زمین میں کھودی ہوئی کھوئیں بھی تہذیب سے خالی نہیں۔ معاشرت کی چیزیں تمدن کے قاعدے۔ عیش و عشرت کی مجلسیں۔ خاطر و مدارت کے کام اخلاق و محبت کی علامتیں دونوں میں پائی جاتی ہیں۔
علمی خیالات سے بھی نا تربیت یافتہ قومیں خالی نہیں۔ بلکہ بعض چیزیں اس میں زیادہ اصلی اور قدرتی طور سے دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً شاعری جو ایک نہایت عمدہ فن تربیت یافتہ قوموں میں ہے۔ نا تربیت یافتہ قوموں میں عجب عمدگی و خوبی سے پایا جاتا ہے۔ یہاں خیالی باتوں کو ادا کیا جاتا ہے۔ وہاں دلی جوشوں اور اندرونی جذبوں کا اظہار ہوتا ہے۔ موسیقی نے تربیت یافتہ قوموں میں نہایت ترقی پائی ہے۔ مگر نا تربیت یافتہ قوموں میں بھی عجب کیفیت دکھائی ہے۔ ان کی ادا اور آواز کی پھرت۔ اس کا گھٹاؤ اور کا بڑھاؤ۔ اس کا ٹھیراؤ اور کی اپج۔ ہاتھوں کا بھاؤ اور پاؤں کی دھمک زیادہ تر مصنوعی قواعد کی پابند ہے۔ مگر نا تربتک یافتہ قوموں میں یہ سب چیزیں دلی جوش کی موجیں ہیں۔ وہ لے اور تال اور راگ راگنی کو نہیں جانتے۔
مگر دل کی لہر ان کی لے۔ اور دل کی پھڑ ان کا تال ہے۔ ان کا غول باندھ کر کھڑا ہونا۔ طبعی حرکت کے ساتھ اچھلنا۔ دل کی بے تابی سے جھکنا اور پھر جوش میں آ کر سیدھا ہو جانا۔ گو نزاکت اور فن خنیا گری سے خالی ہو۔ مگر قدرتی جذبوں کی ضرور تصویر ہے۔ دلی جذبوں کا روکنا اور ان کو عمدہ حالت میں رکھنا تمام قوموں کے خیالات میں شامل ہے۔ پس جس طرح ہم تہذیب کا قدرتی لگاؤ تمام انسانوں میں پاتے ہیں۔ اسی طرح اس کا تعلق عقلی اور مادی سب چیزوں میں دیکھتے ہیں۔ جس چیز میں ترقی یعنی برائی سے اچھائی کی طرف رجوع یا ادنیٰ سے اعلی درجہ کی طرف تحریک ہوسکتی ہے اسی سے تہذیب بھی متعلق ہے۔
پس سولزیشن یا تہذیب کیا ہے؟ انسان کے افعال ارادی اور جذبات نفسانی کو اعتدال پر رکھنا۔ وقت کو عزیز سمجھنا۔ واقعات کے اسباب کو ڈھونڈنا۔ اور ان کو ایک سلسلہ میں لانا۔ اخلاق۔ معاملات۔ معاشرت۔ طریق تمدن اور علوم و فنون کو بقدر امکان قدرتی خوبی اور فطری عمدگی پر پہنچانا۔ اور ان سے کو خوش اسلوبی سے برتنا۔ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ روحانی خوشی۔ جسمانی خوبی۔ اسلی تمکین۔ حقیقی وقار۔ اور خود اپنی عزت کی عزت۔ اور درحقیقت یہی پچھلی ایک بات ہے۔ جس سے وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز ہوتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سر سید احمد خان)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭

عزت
(از تہذیب الاخلاق)

بہت کم ہیں۔ جو اس کی حقیقت جانتے ہوں۔ اور بہت کم ہیں۔ جو اس کے مشتقات کے معزز القابوں کے مستحق ہوں۔ جس کی لوگ بہت آؤ بھگت کرتے ہیں۔ اسی کو لوگ معزز سمجتھے ہیں۔ اور وہ اپنے آپ کو معزز جانتا ہے۔ اوصاف ظاہر بھی ایک ذریعہ معزز ہونے اور معزز بننے کا ہے۔ جو دولت۔ حکومت اور حشمت سے بھی زیادہ معزز بنا دیتا ہے۔ مگر یہ اعزاز اس سے زیادہ کچھ رتبہ نہیں رکھتا۔ جیسا کہ ایک تانبے کی مورت پر سونے کا ملمع کر دیا گیا ہو۔ جب تک وہ مورت ٹھوس سونے کی نہ ہو۔ اس وقت تک درحقیقت وہ کچھ قدر و قیمت کے لائق نہیں ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ جب تک اس کی حالت بھی عزت کے قابل نہ ہو۔ وہ معزز نہیں ہوسکتا۔
لوگوں کو کسی انسان کی اندرونی حالت کا جاننا نہایت مشکل بلکہ قریب ناممکن کے ہے۔ پس ان کا کسی کو معزز سمجھنا درحقیقت اس کے معزز ہونے کی کافی دلیل نہیں ہے۔ ہاں وہ شخص بلاشبہ معزز ہے۔ جس کا دل اس کو معزز جانتا اور معزز سمجھتا ہو۔ جس کو انگریزی میں سیلف رسپیکٹ کہتے ہیں۔ کوئی شخص کسی سے جھوٹی بات کو سچی بنا کر کہتا ہے۔ تو خود اس کا دل اس کو ٹوکتا ہے۔ کہ یہ سچ نہیں ہے۔ گو سننے والا اس کو سچ سمجھتا ہے۔ مگر کہنے والے کا دل گواہی دیتا ہے۔ کہ وہ جھوٹوں میں کا ایک جھوٹا اور بے عزتوں میں ایک بے عزت ہے۔
اسی طرح تمام افعال انسان کے جو صرف ظاہری نمائش کے طور پر کئے جاتے ہیں۔ گو لوگ ان کی عزت کرتے ہوں۔ مگر درحقیقت وہ عزت کے مستحق نہیں ہیں۔ عزت کے لائق وہی کام ہیں۔ جن کو دل بھی قابل عزت سمجھے۔ اس لیے انسان کو انسان بننے کے لیے ضرور ہے کہ تمام اس کے کام سچائی اور دلی شہادت پر مبنی ہوں۔ ہم کوئی بات ایسی نہ کہیں جس کو ہمارا دل جھٹلاتا ہو۔ ہم کوئی کام ایسا نہ کریں۔ جس کی عزت ہمارا دل نہ کرتا ہو۔ کسی سے ہم اظہار دوستی اور محبت کا نہ کریں۔ اگر درحقیقت ہمارے دل میں اس سے ویسی ہی محبت اور دوستی نہ ہو۔ جیسی کہ اظہار کرتے ہیں۔ ہم کوئی کام ایسا نہ کریں جو کو ہمارا دل اچھا نہ سمجھتا ہو۔
"صلح کل ہونا” اگر اس کے معنی یہ ہوں کہ سب سے اس طرح ملیں کہ ہر شخص جانے ہمارے بڑے دوست ہیں تو یہ نفاق اکبر ہے۔ ایسا شخص نہ کسی کا دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی اس کا دوست ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے یہ معنی ہوں کہ کسی سے بغض۔ عداوت اور دشمنی اپنے دل میں نہ رکھے۔ کسی کا برا نہ چاہے۔ دشمن کی بھی برائی نہ چاہے۔ وہ بلاشبہ تعریب کے قابل ہے۔ دل انسان کا ایک ہے۔ اس میں دو چیزیں یعنی عداوت (کسی کے ساتھ کیوں نہ ہو) اور محبت سما نہیں سکتی۔ وہ ایسی کلھیا نہیں ہے۔ جس میں دو خانے ہوں۔ ایک محبت کا ایک عداوت کا اور اس لیے یہ دو چیزیں گو اشخاص متعدد اور حیثیات مختلفہ کے ساتھ کیوں نہ ہوں۔ دل میں سما نہیں سکتیں۔ اس لیے انسان کو لازم ہے۔ کہ محبت کے سوا کسی دوسری چیز کے لانے کا دل میں خیال ہی نہ کرے۔ اور ایسی زندگی انسان کے لیے عمدہ زندگی ہے۔
٭٭٭

نواب محسن الملک مولوی سیدی مہدی علی خاں منیر نواز جنگ

موجودہ تعلیم و تربیت

(از تہذیب الاخلاق)

ایک روز خیال نے مجھے عالم مثل تک پہنچایا۔ اس طلسم کدہ کو جہاں سب چیزوں کی شبیہ اور تمام حالتوں کی تصویر مصور قدرت نے کھینچ رکھی ہے۔ دکھایا درحقیقت میں نے اسے ویسا ہی پایا۔ جیسا کہ سنا کرتا تھا۔ بلاشبہ وہ ہماری حالتوں کا آئینہ اور ہمارے خیالوں کی تصویر کا مرقع ہے۔
جب میں اس طلسم خانہ کی مغربی جانب پہنچا۔ تو ایک چار دیواری دیکھی۔ جو میرے خیال سے بھی زیادہ بلند اور میرے حوصلہ سے بھی زیادہ وسیع اور میری ہمت سے بھی زیادہ مضبوط تھی۔ قدرت نے ایسا سنہرا رنگ دیا تھا۔ کہ جب سورج کی کرن اس پر پڑتی تو وہ دیوار زرنگار کندک کی طرح چمکتی۔ جس سے آنکھوں کو چکا چوند ہو جاتی۔ اس دیوار کے چاروں طرف پھرا۔ میں نے دروازہ نہ پایا۔ مگر ایک جگہ ایک بڑی نہر دیکھی۔ جو دیوار کے نیچے سے اندر جاتی ہے اور ایک بلندی پر چشمہ دیکھا جس سے نہر میں پانی گرتا ہے۔
میں نے ہاں ایک رفیق پایا۔ جس کا نام خرد تھا۔ اس سے حقیقت اس کی پوچھی۔ تو اس نے کہا کہ اس کے اندر ایک پر فضا باغ ہے اور یہ نہر اس کے شاداب کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ تب مجھے شوق جانے کا شوق ہوا۔ اپنے رہنما سے دروازہ کا نشان پوچھا۔ اور میں نے اس کی کامل اطاعت اور بڑی تابعداری کی۔ تب اس ن پانچ برس کے بعد دروازہ بتایا۔ میں اس دروازہ کی محراب کی بلندی اور اس کے طاق اور کنگرہ کی خوبی کیا بیان کروں! میں جاتے ہیں بے تابانہ دوڑنے لگا۔ اور باغ کی سیر سے سیر ہونا چاہا۔ میری اس بو الہوسی پر میرا رہنما ہنسا۔ اور کہا۔ کہ اے نادان! دروازہ تو پانچ برس کی محنت کے بعد پایا۔ اس باغ کی سیر کیا آسان ہے! جس کا ایک کنارہ ازل اور دوسری حد لحد ہے۔
خیر! میں نے ہوس کو روکا اور خرد نے جس چال چلایا چلا۔ کئی برس کے بعد چند کیاریاں اس باغ کی دیکھ پائیں۔ مگر ان کی خوبی اور لطافت میرے بیان سے باہر ہے۔ ہر چمن قدرت کا کارخانہ اور صنعت کا تماشا تھا۔ اس باغ کے سبزہ کا مستانہ جھومنا۔ قمری کی آواز۔ بلبلوں کا پھول پر گرنا۔ پھولوں کا کھلنا۔ کلیوں کا چٹکنا۔ نرگس کی نظر بازی اور شمشاد کی سرو قدی نے مجھے ایسا مت کر دیا کہ اپنے ہوش و حواس میں نہ رہا۔
میں چندے اس باغ میں رہا۔ پر مجھ کو اپنی صورت کا کوئی رفیق نہ ملا۔ جس سے دل بہلاتا۔ اور اس باغ کی بہار لوٹتا۔ آ کر اپنی تنہائی سے گھبرایا اور باہر نکلا کہ کوئی مجھ سا ملے تو یہاں لاؤ اور اپنا دل خوش کرو۔
میں اس باغ سے نکل کر برسوں اسی تلاش میں پھرا۔ لیکن کوئی نہ ملا۔ آخر بعد چند سال کے مشرق کی طرف مجھے ایک چار دیواری نظر پڑی۔ جس کی صورت بھی ویسی تھی۔ نہر بھی ویسی ہی اور چشمہ بھی ویسا ہی تھا جہاں سے میں نکلا تھا۔ مگر دروازہ کھلا ہوا۔ دیوار شکستہ اور کچھ نئی قسم کے آدمی آتے جاتے نظر آئے۔ میں نے اپنے رہنما سے پوچھا کہ یہ تو وہی باغ ہے مگر کیا سبب؟ کہ نہ دیوار کی وہ خوبی و خوشنمائی ہے۔ نہ دروازہ کی وہ رفعت و شان۔ چشمہ بھی میلا نظر آتا ہے۔ پانی کی بھی صورت بدلی ہوئی ہے۔ اس نے کہ کہ یہ وہ باغ نہیں دوسرا ہے پہلے اسی باغ کی طرح آراستی تھا خزاں کی ہوا نے اس کو سکھا دیا اور زمانہ کے انقلاب نے پامال کر دیا۔
جب میں باغ کے اندر گایا تو چمن کے نشان کچھ نظر آئے مگر نہ وہ صفائی۔ نہ وہ خوبی۔ نہریں بھی کچھ بہتی ہوئی معلوم ہوئیں۔ مگر نہ پانی کی وہ لطافت۔ نہ وہ شیرنی۔ پھول جتنے تھے سب کملائے ہوئے۔ میوے جس قدر تھے۔ وہ سوکھے پڑے ہوئے۔ سبزہ کے زمردیں رنگ پر سیاہی چھائی ہوئی تھی۔ گلوں کی سرخی زردی پر آ گئی تھی۔ نسیم کے بدلے صرصر کی تندی پریشان کرتی تھی۔ بلبلوں کی جگہ زاغ و زغن کا شور ہو رہا تھا۔ نرگس اپنی پھوٹی آنکھ سے حیرت کی نگاہ کر رہی تھی۔ حوض کی آنکھ خشکی پر رو رہی تھی۔
میں باغ میں پھرتے پھرتے نہر کے کنارے پہنچا۔ تو کیا دیکھتا ہوں! کہ چند خوبصورت ماہرو نوجوان آئے اور اس نہر میں پانی پینے اور غوطہ لگانے لگے۔ جب وہ نہا دھو کر اس سے نکلے تو ان کے چہرے بدلے ہوئے نظر آئے۔ نہ وہ شکل و شمائل تھی۔ نہ وہ نزاکت و نرمی۔ اور ہر ایک کے سر پر دو دو سینگ نکل آئے تھے۔ وہ نہر سے نکلتے ہی ایک دوسرے پر حملہ کرنے لگے اور سینگ سے سینگ لڑانے لگے۔ یہاں تک کہ کسی کا سینگ ٹوٹا۔ کسی کا چہرہ بگڑا۔ کسی کا چہرہ غصہ سے لال ہوا۔ کسی کا کف منہ سے اڑ کر مجھ تک پہنچا۔ کسی کی گردن کی رگیں مارے غصے کے تن گئیں۔ کسی کے منہ سے آواز غضب کے سبب نہ نکلی۔ اس طرح وحشیانہ لڑائی لڑتے ہوئے ایک عالی شان مکان کی طرف چلے۔ میں بھی ساتھ ساتھ ہولیا۔ کہ دیکھوں کیا ہوتا ہے؟ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نصف وحشی نصف انسان جس کا چہرہ آدمی کا۔ دم طاؤس کی۔ منہ چڑیا کا۔ پیٹ بیل کا۔ چال لومڑی کی ایک رنگین سمور کی کھال اوڑھے ہوئے کبوتر کی طرح غٹر غوں کر رہا ہے۔ جب وہ سب نوجوان اس کے پاس پہنچے تو اس کے آگے گر پڑے اس نے ایک کریہو ہولناک آواز سے ان کو پکارا۔ اور آپس کے جھگڑے کا حال پوچھا۔ ان لوگوں نے کچھ ایسی بولی میں اسے جواب دیا کہ میں نہ سمجھا۔ مگر یہ دیکھا کہ اس وحشی آدمی نے کچھ خوش ہو کر کسی کا منہ چوما۔ کسی کو پیار کیا۔ اور کسی کو مرحبا کہا۔
میں اس معاملہ کو دیکھ کر حیران ہوا۔ اور پناہ مانگتا باہر نکلا اور اپنے رہنما سے اس اسرار کی خبر پوچھی۔ اس نے کہا کہ اس نہر کے پانی کی ایسی ہی تاثیر ہے کہ سب ایسی شکل کے ہو جاتے ہیں جیسا کہ وہ نصف وحشی نصف انسان تم نے دیکھا ہے۔ یہ نوجوان نازک ماہرو لڑکے بھی جب زیادہ پانی پئیں گے خوب غوطے لگائیں گے تو ایسے ہی ہو جائیں گے۔ اور جو کچھ لڑائی تم نے دیکھی۔ یہ لڑائی نہ تھی بلکہ ان کا علمی مباحثہ تھا۔ جس کے لفظ بھی تمہاری سمجھ نہ آئے۔
جب میں نے اس تاثیر کا سبب پوچھا تو رہنما مجھے چشمے کے کنارے پر لے گیا وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ چشمے کہ دہانہ پر دو چشمے آ کر ملے ہیں ایک تو سیدھا چلا گیا ہے جو کہ نہایت پاک اور خوشگوار ہے۔ دوسرا خم و پیچ سے گاہ ہے جس میں جا بجا نالے ندیاں ملتی گئی ہیں۔ جو کہ سب کثیف میلی اور ناپاک ہیں۔ مگر پہلے چشمے کے دہانہ پر ایک پتھر کی چٹان آ گئی ہے۔ جس سے صاف پانی نہیں آسکتا۔ مگر دوسرا چشمہ کھلا ہوا ہے۔ اسی کا میلا بدبو دار اور زہریلا پانی گرتا ہے۔ اور وہی باغ میں جاتا ہے۔ جس کی تاثیر سے آدمی مسخ ہو جاتے ہیں۔
جب میں نے اس چشموں کا حال پوچھا تو خرد نے تحقیق نامی رفیق کو میرے ساتھ کر دیا۔ اس کے ساتھ میں ان دونوں چشموں کی حقیقت دریافت کرنے کو چلا۔ مدت بعد سب حال دریافت کر کے اس فکر میں پڑا کہ اس پتھر کی چٹان کا حال کسی سے پوچھوں۔ تب تاریخ نامی ایک روشن ضمیر ملا۔ اس نے کہا کہ ہزار برس ہوتے ہیں تب میں اس باغ میں آیا تھا۔ نہایت ترو تازہ۔ سبز و شاداب تھا۔ جیسا وہ باغ جو تم نے اول دیکھا ہے اس باغ کی نہروں میں صاف چشمہ کا پانی آتا تھا۔ اور گدلے چشمے پر پتھر رکھا ہوا تھا۔ مگر سرکتے سرکتے اب وہ صاف چشمہ پر آ گیا ہے۔
تب تو میں خیال کیا۔ اس پتھر کو ہٹا دوں چنانچہ میں ہمت کو ساتھ لے کر چلا۔ مگر چند خونخوار وحشی درندوں نے مجھ پر حملہ کیا اور پتھر سرکانے پر مجھے موت کا خوف دلایا۔ میں جان بچا کر ہٹا میرے رہنما نے کہا کہ اور بھی تیری طرح اس ارادہ پر آئے۔ مگر ان کے خوف سے بھاگ گئے۔ میں تجھے ایک مشعل دیتا ہوں جس کی روشی سے یہ اندھے ہو کر بھاگ جائیں گے چنانچہ بصیرت کی مشعل اس نے مجھے دی۔ درحقیقت جب مںش وہاں مشعل لے کر پہنچا تو کوئی میرے پاس نہ آیا۔ آخر میں بفراغت پتھر سرکانے لگا۔ پر وہ ایک مجھ سے کب سرکتا تھا! میں تھک کر بیٹھ رہا کہ ہمدردی نامی واعظ میرے سامنے آیا اور کہا کہ مجھے اجازت دو تو کچھ مدد کرنے والے لے آؤں۔ میں نے خوش ہو کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور بڑے زور و شور سے اسے اپنی ہی صورت و شکل والوں کے پاس بھیجا۔ پر افسوس کہ بہت کم لوگوں نےاس کی بات سنی جو لوگ اس نہر کا پانی پی چکے تھے۔ وہ تو مارنے کو دوڑے۔ اور جو لوگ ابھی ا سے بچے ہوئے تھے۔ ان کے کان بہرے تھے۔ انہوں نے کچھ نہ سنی۔ آخر وہ با حسرت و یاس واپس آیا۔ اس کے لوٹنے کے بعد میں نے چاہا کہ اس خیال کو چھوڑ دوں اور یہ پتھر جیسا رکھا ہے ویسا ہی رہنے دوں۔ پر استقلال نامی ایک رجز خوان نے میرا دل بڑھایا اور مجھے تدبیر بتائی۔ اس نے کہا۔ میں نے ایمان نامی ایک فقیر سے سنا ہے۔ کہ اس چشمہ کا ایک کھودنے والا ہے۔ وہ مشکل حل کرسکتا ہے۔ مگر بڑی مشکل سے انسان کی رسائی اس تک ہوسکتی ہے۔ اس کی راہ میں اول تو مصیبت کا ایک بڑا میدا لق و دق ملتا ہے۔ جہاں سوائے آنکھ کے پانی کے پینے کو بھی کچھ نہیں۔ اگر سے بچ گئے۔ تو رسوائی و بدنامی کے ساتھ سمندر ملتے ہیں۔ جہاں صبر کی ٹوٹی پھوٹی کشتی کے سوا عبور کا کوئی ذریعہ نہیں۔ تب دروازہ اس کا ملتا ہے۔ جہاں اخلاص کی نذر پیش کرنی پڑتی ہے۔ تب وہ نذر قبول ہوتی ہے اور اجابت کا خلعت ملتا ہے گو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ برسوں نذر کی قبولیت کی نوبت نہیں آتی۔ پس اگر تم کو اس پتھر کے سرکانے کی خواہش ہے تو وہاں تک جاؤ۔ اگر اس تک تمہاری رسائی ہوئی۔ اور اس نے تمہاری نذر لے لی۔ تو وہ اقبال کو تمہارے ساتھ کرے گا۔ جب تم اس کو لوگوں کے ساتھ لاؤ گے۔ سب کی آنکھیں کھل جائیں گی جو اب بند ہو رہی ہیں۔ تب وہ اپنے سوکھے ہوئے باغ کو دیکھ کر تعجب کریں گے اور تمہارے ساتھ پتھر سرکانے پر مستعد ہوں گے۔ آ کر چند ہی روز میں گدلے چشمہ کا پانی بند کر کے صاف چشمہ کے پانی سے اپنی نہریں بھر لیں گے اور اپنے باغ کو پہلے سے بھی زیادہ سر سبز و شاداب کریں گے۔ تب یہ سوکھا ہوا باغ اس ہرے بھرے باغ سے بھی تمہاری نظروں میں زیادہ سر سبز اور خوش نما معلوم ہو گا۔ کیونکہ نہ وہ باغ تمہارا باغ ہے۔ نہ وہاں کوئی تم سا ہے اور یہ باغ تمہارا ہی ہے اور سب تم سے ہیں۔ میں نے اس رفیق کا شکر کیا اور اس کے کہنے کے مطابق چلا۔ کہ دیکھوں اب کیا ہوتا ہے؟
جب عالم مثال سے لوٹا اور لوگوں سے یہ قصہ کہا تو سب ایک ایک لفظ کی حقیقت مجھ سے پوچھنے لگے۔ میں صرف یہ کہہ کر کہ جو باغ ہرا بھرا میں نے مغرب میں دیکھا۔ وہ علوم و فنون جدید کا باغ ہے جس کے پھل پھول ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ پر ہمارا دل بہلانے والا وہاں کوئی نہیں ہے۔ اور جو باغ خشک میں نے مشرق میں دیکھا وہ ہمارے ہی علوم قدیمہ کا باغ ہے۔ جس کی ویرانی اور خزاں کی کیفیت ہمارے سامنے ہے۔ وہ پتھر جو سر چشمہ پر آ گیا ہے۔ جہالت ہے۔ وہ ندی نالے گندے پانی کے رسم و رواج کی پابندی۔ نیکی نما تعصب۔ علم نما نادانی۔ جھوٹا زہد۔ جھوٹی شیخی۔ جاہلانہ تقلید۔ عامیانہ غلامی۔ ضرر انگیز حرارت۔ وحشیانہ تعلیم و تربیت ہے۔ جس کا نتیجہ مسخ انسانیت ہے۔ جو کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جس کا علاج اب ہم سوائے دعا کے کچھ نہیں پاتے۔ چپ ہو رہا۔
٭٭٭

خواجہ الطاف حسین حالی
زبان گویا

اے میری بلبل ہزار داستان! اے میری طوطی شیوا بیان! اے میری قاصد! اے میری ترجمان! اے میری وکیل! اے میری زبان۔ سب بتا۔ تو کس درخت کی ٹہنی اور کس چمن کا پودا ہے؟ کہ تیرے ہر پھول کا رنگ جدا ہے اور تیری ہر پھل میں ایک نیا مزا ہے۔ کبھی تو ایک ساحر فسوں ساز ہے۔ جس کے سحر کا رد۔ نہ جادو کا تار۔ کبھی تو ایک افعی جاں گداز ہے۔ جس کے زہر کی دارو۔ نہ کاٹے کا منتر، تو وہی زبان ہے کہ بچپن میں کبھی اپنے ادھورے بولوں سے غیروں کا جی لبھاتی تھی اور کھبی اپنی شوخیوں سے ماں باپ کا دل دکھاتی تھی۔ تو وہی زبان ہے کہ جوانی میں کہیں اپنی نرمی سے دلوں کا شکار کرتی تھی اور کہیں اپنی تیزی سی سینوں کو فگار کرتی تھی۔
اے میری زبان دشمن کو دوست بنانا اور دوست کو دشمن کر دکھانا تیرا ایک کھیل ہے۔ جس کے تماشے سینکڑوں دیکھے اور ہزاروں دیکھنے باقی ہیں۔
ارے میری بنی بات کی بگاڑنے والی! اور میرے بگڑے کاموں کو سنوارنے والی۔ روتے کو ہنسانا اور ہنستے کو رلانا۔ روٹھے کو منانا۔ اور بگڑے کو بنانا نہیں معلوم تو نے کہاں سیکھا؟ اور کس سے سیکھا؟ کہیں تیری باتیں بس کی گانٹھیں ہیں۔ اور کہیں تیری بول شرب کے گھونٹ ہیں۔ کہیں تو شہد ہے اور کہیں حنظل۔ کہیں تو زہر ہے اور کہیں تریاق۔
اے زبان ہمارے بہت سے آرام اور بہت سی تکلیفیں۔ ہمارے ہزاروں نقصان اور ہزاروں فائدے۔ ہماری عزت۔ ہماری ذلت۔ ہماری نیک نامی۔ ہماری بدنامی، ہمارا جھوٹ، ہمارا سچ تیسی ایک ہاں اور ایک نہیں پر موقوف ہے۔ تیری اس ہاں اور نہیں نے کروڑوں کی جانیں بچائیں اور لاکھوں کا سر کٹوایا۔
اے زبان تو دیکھنے میں تو ایک پارہ گوشت کے سوا نہیں۔ مگر طاقت تیری نمونہ قدرت الٰہی ہے۔ دیکھ اس طاقت کو رائیگاں نہ کھو۔ اور اس قدرت کو خاک میں نہ ملا۔ راستی تیرا جوہر ہے۔ اور آزادی تیرازیور۔ دیکھ اس جوہر کو برباد نہ کر۔ اور اس زیور کو زنگ نہ لگا۔ تو دل کی امین ہے اور روح کی ایلچی۔ دیکھ دل کی امانت میں خیانت نہ کر۔ اور روح کے پیغام پر حاشیئے نہ چڑھا۔
اے زبان! تیرا منصب بہت عالی ہے اور تیری خدمات نہایت ممتاز۔ کہیں تیرا خطاب کاشف اسرار ہے اور کہیں تیرا لقب محرم راز۔ علم ایک خزانہ غیبی ہے۔ اور دل اس کا خزانچی۔ حوصلہ اس کا قفل ہے۔ اور تو اس کی کنجی دیکھ اس قفل کو بے اجازت نہ کھول۔ اور اس خزانے کو بے مواقع نہ اٹھا۔ وعظ و نصیحت تیرا فرض ہے۔ اور تلقین و ارشاد تیرا کام۔ ناصح مشفق تیزی صفت ہے اور مرشد بر حق تیرا نام۔ خبردار! اس نام کو عیب نہ لگانا۔ اور اس فرض سے جی نہ چرانا۔ ورنہ یہ منصب عالی تجھ سے چھن جائے گا۔ اور تیری بساط میں وہی ایک گوشت کا چھچڑا رہ جائے گا۔ کیا تجھ کو یہ امید ہے کہ تو جھوٹ بھی بولے اور طوفان بھی اٹھائے۔ تو غیبت بھی کرے اور تہمت بھی لگائے۔ تو فریب بھی دے اور چغلیاں بھی کھائے اور پھر وہی زبان کہلائے۔ نہیں! ہرگز نہیں!! اگر تو سچی زبان ہے تو زبان ہے ورنہ زبون ہے۔ بلکہ سراسر زیان ہے۔ اگر تیرا قول صادق ہے تو شہد فائق ہے۔ ورنہ تھوک دینے کے لائق ہے۔ اگر تو راست گفتار ہے۔ تو ہمارے منہ میں اور دوسروں کے دلوں میں جگہ پائے گی۔ ورنہ گدی سے کھینچ کر نکالی جائے گی۔
اے زبان جنہوں نے تیرا کہنا مانا۔ اور تیرا حکم بجا لائے۔ انہوں نے سخت الزام اٹھائے اور بہت پچھتائے۔ کسی نے انہیں فریبی اور مکار کہا۔ کسی نے گستاخ اور منہ پھٹ ان کا نام رکھا۔ کسی نے ریا کار ٹھہرایا۔ اور کسی نے سخن ساز۔ کسی نے بے عہد بنایا۔ اور کسی نے غماز۔ غیبت اور بہتان۔ مگر اور افترا۔ طعن اور تشنیع۔ گالی اور دشنام۔ پھکڑ اور ضلع جگت اور پھبنی۔ غرض دنیا بھر کے عیب ان میں نکلے۔ اور وہ سب کے سزاور ٹھہرے۔
اے زبان! یاد رکھ۔ ہم تیرا کہا نا مانیں گے اور تیرے قابوں میں ہرگز نہ آئیں گے۔ ہم تیری ڈور ڈھیلی نہ چھوڑیں گے اور تجھے مطلق العنان نہ بنائیں گے۔ ہم جان پر کھیلیں گے۔ پر تجھ سے جھوٹ نہ بلوائیں گے۔ ہم سر کے بدلے ناک نہ کٹوائیں گے۔
اے زبان ہم دیکھتے ہیں کہ گھوڑا جب اپنے آقا کو دیکھ کر محبت کے جوش میں آتا ہے تو بے اختیار ہنہناتا ہے اور کتا جب پیار کے مارے بیتاب ہو جاتا ہے تو اپنے مالک کے سامنے دم ہلاتا ہے۔
سبحان اللہ! وہ نام کے جانور۔ اور ان کا ظاہر و باطن یکساں۔ ہم نام کے آدمی اور ہمارے دل میں "نہیں” اور زبان پر "ہاں”۔
الٰہی! اگر ہم کو رخصت گفتار ہے۔ تو زبان راست گفتار دے۔ اور دل پر تجھ کو اختیار ہے۔ زبان پر ہم کو اختیار دے۔ جب تک دنیا میں رہیں۔ سچے کہلائیں۔ اور جب تیرے دربار میں آئیں تو سچے بن کر آئیں۔ (آمین)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (حالی)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭

حیات سعدی

شیخ کا نام۔ نسب۔ ولادت اور بچپن

اس کا نام شرف الدین اور مصلح لقب اور سعدی تخلص ہے۔ سر گور اوسلی نے اس کی ولادت ۵۸۹ ہجری مطابق ۱۳۳۳ عیسوی میں لکھی ہے۔ مگر وہ سال مذکور سے بہت برسوں پہلے تک اتابک مظفر الدین تکلہ بن زنگی کے عہد حکومت میں پیدا ہوا ہے۔ شیخ کی ولادت کے کئی برس بعد اتابک سعد زنگی اپنے بھائی تکلہ بن زنگی کی جگہ تخت شیراز پر متمکن ہوا تھا۔ چونکہ شیخ نے سعد زنگی کے عہد میں شعر کہنا شروع کیا تھا اور نیز شیخ کا باپ عبداللہ شیرازی سعد کے ہاں کسی خدمت پر مامور تھا۔ اس لیے اس نے اپنا تخلص سعد قرار دیا۔ شیخ کا باپ جیساکہ اس کے کلام سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک با خدا اور متر ع آدمی تھا۔ شیخ کے بچپن کا حال اس سے زیادہ معلوم نہیں کہ نماز روزہ کے مسائل اس کو بہت تھوڑی عمر میں یاد کرائے گئے تھے اور پچپن ہی میں اس کو عبادت۔ شب بیداری اور تلاوت قرآن مجید کا کمال شوق تھا۔ عید اور تہواروں میں ہمیشہ باپ کے ہمراہ رہتا تھا اور کہیں آوازہ پھرنے نہ پاتا تھا۔ باپ اس کے افعال و اقوال کی نگرانی عام باپوں کی نسبت زیادہ کرتا اور بے مواقع بولنے پر زجر و توبیخ کرتا تھا۔ شیخ نے اپنی تربیت کا بڑا سبب باپ کی اسی تادیب اور زجر و توبیخ کو قرار دیا ہے۔

شیخ کی تعلیم کا حال

اگرچہ شیخ کا باپ ایک درویش مزاج آدمی تھا اور بچپن میں شیخ کو بہ نسبت علم حاصل کرنے کے لیے زہد و عبادت اور اصلاح و تقویٰ کی زیادہ ترغیب دی گئی تھی۔ اس کے سوا شیخ ابھی جواب نہ ہونے پایا تھا۔ کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔ مگر اس نے ہوش سنبھالتے ہی شیراز اور اس کے قریب و جواب میں علما اور مشائخ اور فصحا اور بلغا کی ایک جماعت کثیر اپنی آنکھ سے دیکھی تھی اور اس سے بھی زیادہ ایک جم غفیر کا شہرہ جو خطہ فارس میں اہل کمال ہو گزرے تھے۔ بزرگوں سے سنا تھا۔ قاعدہ ہے کہ بزرگوں اور کاملوں کے دیکھنے یا ان کی شہرت اور ذکر سننے سے ہونہار لڑکوں کے دل میں خود بخود ان کی ریس اور پیروی کرنے کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے تحصیل علم کا شوق اس کو دامنگیر ہوا۔ اگرچہ دارالعلم شیراز میں تحصیل علم کا سامان مہیا تھا۔ علمائے جلیل القدر درس و تدرید میں مشغول تھے۔ مدرسہ عضدیہ کو کہ عضد الدولہ دیلمی نے قائم کیا تھا۔ اور اس کے سوا اور مدرس وہاں موجود تھے۔ لیکن اس وقت وہاں ایسی ابتری اور خرابی پھیلی ہوئی تھی کہ اہل شیراز کو ایک دم اطمینان نصیب نہ تھا۔ اگرچہ اتابک سعد بن زنگی نہایت عادل۔ رحم دل۔ بامروت اور فیاض بادشاہ تھا۔ مگر اس کی طبیعت میں۔ اولو ولعزمی حد سے زیادہ تھی۔ اکثر شیراز کو حالی چھوڑ کر عراق کے حدود میں لشکر کشی کرتا رہتا تھا۔ اپنی مہمات کے شوق میں ممالک محروسہ کو بالکل فراموش کر دیتا تھا۔ اس کی غیبت کے زمانہ میں اکثر مفسد لوگ میدان خالی پا کر اطراف و جوانب سے شیراز پر چڑھ آتے تھے اور قتل و غارت کر کے چلے جاتے تھے۔ چنانچہ ساتویں صدی کے آغاز میں اول اتابک اوزبک پہلوان نے اور پھر چند روز بعد سلطان غیاب الدین نے بہت سے لشکر کے ساتھ آ کر شیراز کو ایسا ساکت و تاراج کیا کہ اس کی تباہی اور بربادی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رہا۔ ایسی حالت میں تحصیل علم کی فرصت شیخ کو وطن میں ملنی دشوار بلکہ ناممکن تھی۔ اس کے علاوہ امن کے زمانہ میں بھی وطن کے مکروہات اور موانع ہمیشہ تحصیل علم میں رخنہ انداز ہوتے ہیں۔ یہ اسباب تھے۔ جنہوں نے شیخ کو ترک وطن پر مجبور کیا۔ چنانچہ ذیل کے اشعار میں اس نے شیراز سے تنگ آ کر بغداد جانے کا ذکر کیا ہے۔
دلم از صحبتِ شیراز بہ کلی بگرفت
وقت آنست کہ پرسی خبر از بغدادم
سعد یا حب وطن گرچہ حدشیے ست صحیح
نتواں مرد بسختی کہ من اینجا زادم
ترجمہ: میرا دل شیراز کی صحبت میں تنگ آ گیا۔ اب وہ وقت ہے کہ مجھ سے بغداد کا حال پوچھو۔ اے سعدی وطن کی محبت اگرچہ صحیح بات ہے۔ مگر اس ضرورت سے کہ میں یہاں پیدا ہوا ہوں۔ سختی میں مرا نہیں جاتا۔

شیخ کے عام حالات

شیخ ایک نہایت صحیح المزاج قوی اور جفا کش آدمی تھا۔ اس کے قویٰ کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس نے دس بارہ حج پیادہ پا کئے تھے۔ اپنی عمر کا بہت بڑا حصہ صحرا نوردی اور بادیہ پیمائی میں بسر کیا۔ اور ایک سو بیس برس کے قریب عمر پائی۔
اس نے صرف پیادہ پا ہی سفر نہیں کئے۔ بلکہ بعض اوقات ننگے پاؤں چلنے کا بھی اتفاق ہوتا تھا۔ جس طرح اکثر اہل سلوک نفس شکنی کے لیے اپنے مشائخ کے اشارہ سے سالہا سال ادنیٰ درجہ کے کام اور محنتیں کیا کرتے ہیں۔ اس نے بھی بیت المقدس اور اس کے گرد و نواح میں ایک مدت تک سقائی کی تھی۔
اس کو تذکرہ نویسوں نے اہل باطن اور صوفیہ میں شمار کیا ہے۔ اس کے کلام سے بھی جا بجا یہی مترشح ہوتا ہے کہ وہ اس رنگ میں ڈوبا ہوا تھا بے شک وہ صوفی بھی تھا اور واعظ بھی۔ مگر آج کل کے مشائخ اور واعظین کے برخلاف ایک نہایت بے تکلف کھلا ڈلا۔ یار باش۔ ہنسوڑ۔ ظریف۔ ریا اور نمائش سے دور۔ سیدھا سادہ مسلمان تھا۔ اس کو آج کل کے حضرات کی طرح اپنے تئیں لوازم بشریت سے بالکل پاک ظاہر کرنا اور بہ تکلف مقدس فرشتوں کی صورت میں جلوہ گر ہونا ہرگز نہ آتا تھا۔ وہ شاعری میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ مگر مشرق کے عام شعرا کی طرح حریص اور لالچی نہ تھا۔
اس نے مثل ظہیر۔ رشید۔ خاقانی اور انوری وغیرہم کے بادشاہوں کی مداحی اور امیروں کی بٹھی کرنے کو اپنی وجہ معاش نہیں بنایا۔ با ایں ہمہ وہ امرا اور سلاطین سے ملتا بھی تھا اور ان کی مدح میں قصیدے بھی لکھتا تھا اور جو کوئی عقیدت اور محبت سے اس کی کچھ نذر کرتا تھا۔ وہ لے بھی لیتا تھا۔ اس کے عام مدحیہ قصائد دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ یہ قصیدے کسی غرض سے لکھتا تھا۔ زیادہ تر اس کے قصیدے ایسے ہیں جن کو قصیدہ گوئی کے مشرقی اصول کے موافق بہت مشکل سے قصیدہ کہا جا سکتا ہے۔ امیروں سے وہ اسلیے بھی زیادہ میل جول رکھتا تھا کہ اکثر اس کی سفارش سے (جیساکہ گلستان کی بعض حکایتوں سے پایا جاتا ہے) غریب آدمیوں کے کام نکل جاتے تھے۔
خود داری اور غیرت اس میں ایسی تھی کہ نہایت ضرورت اور احتیاج کے وقت بھی وہ وضع کو ہاتھ سے نہ دیتا تھا۔ جیساکہ اسکندریہ کے قحط میں اس سے ظہور میں آیا۔ خلقت کی خیر خواہی اور ہمدردی خدا تعالیٰ نے اس کی سرشت میں ودیعت کی تھی۔ اس کے نصاح اور مواعظ ہرگز اس قدر مقبول نہ ہوتے۔ اگر انسانی ہمدردی کا جوش اس کے دل میں نہ ہوتا۔ اس نے اپنی زبان اور قلم کو پند و نصیحت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اور حق بات کہنے سے خطرناک موقعوں پر بھی نہ چوکتا تھا۔ کوئی شخص کسی چیز میں کامل نہیں ہوسکتا۔ جب تک دو باتیں جمع نہ ہوں۔ ایک جوہری فطری۔ دوسرے زمانہ کے ایسے اتفاقات۔ جو اس کی جلا کے باعث ہوں۔ شیخ کی ذات میں جس قسم کی قابلیت تھی۔ اس کی موافق اس کو اتفاقات پیش آئے تھے۔ جس شہر میں وہ پیدا ہوا تھا۔ وہ خود مردم خیز خطہ تھا۔ جہاں ہونہار بچوں کو خودبخود کسب کمال کی ترغیب ہونی چاہیے۔ یتیمی اور بے پدری اگرچہ صورتوں میں آوارگی اور ابتری کا سبب ہوتی ہے۔ لیکن بسا اوقات ایسی مجبوری اور بے کس کی حالتیں غیرت مند اور جفا کش لڑکوں کے حق میں ترقی اور رشد کا باعث ہوئی ہیں۔
جس مدرسہ میں وہ حسن اتفاق سے تحصیل علم کے لیے پہنچا۔ وہ تمام مدارس اسلامیہ میں ممتاز اور سربر آوردہ تھا۔ اور جس دار الخلافت میں وہ مدرسہ واقع تھا۔ وہاں کی سوسائٹی اس وقت تقریباً تمام دنیا کی سوسائیٹیوں کی نسبت زیادہ شائستہ اور مہذب تھی۔ اس نے صرف درس و کتاب ہی سے استفادہ حاصل نہیں کیا تھا۔ بلکہ زمانہ نے بھی اس کی تادیب خاطر خواہ کی تھی۔ اس کی عمر کا ایک بہت بڑا اور مفید حصہ نہایت کٹھن اور دور و دراز سفر کرنے اور دنیا کے عجائبات اور قدرت کی نیرنگیاں دیکھنے میں بسر ہوا تھا۔ سلطنتوں کے پے در پے انقلابات اور ملکوں کے متواتر تغیرات۔ ظالم بادشاہوں اور بے رحم عاملوں کے ظلم و ستم دیکھتے دیکھتے ہی بنی نوع کی دلسوزی اور ہمدردی اس کی طبیعت میں راسخ ہو گئی تھی۔ بیسیوں خاندان اس کی آنکھوں کے سامنے بنے۔ اور بیسیوں بگڑ گئے۔ ایک بار جیسا کہ گلستان میں مذکور ہے۔ شام میں اس کے روبرو ایسا انقلاب ہوا۔ کہ وزیروں کی اولاد بھیگ مانگنے لگی۔ اور روستائی زادے وزارت کے درجے کو پہنچ گئے۔
ساتویں صدی میں۔ جس میں کامل عقل و ہوش کے ساتھ اس نے اکیانوے برس بسر کئے تھے۔ عجیب و غریب تماشے اس کی نظر سے گزر گئے۔ سلاطین کر دیہ کا خاندان جن کی سطوت و جلالت۔ ایشیا۔ افریقہ و یورپ میں یکساں مانی جاتی تھی۔ اسی صدی تمام ہوا۔ سلاجقہ قونیہ۔ اور خوارزم شاہوں کی نہایت سخت لڑائی جس نے دونوں سلسلوں کو مضمحل کر دیا۔ اسی صدی میں ہوئی۔ پھرا خوارزمیوں کی سلطنت جو بحیرہ خزر اور جھیل یورال سے دریائے سندھ اور خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھی۔ اسی صدی میں تاتاریوں کے ہاتھوں برباد ہوئی۔ بنی عباس کی خلافت سوا پانسو برس بعد اسی صدی میں ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوئی۔ اور بقول بعض مورخین کہ آٹھ لاکھ مسلمانوں کا خون مغلوں کی تلوار سے دجلہ کی ریتی میں بہہ گیا۔ دمشق اور اسکندریہ کا قحط جس کا ذکر گلستان اور بوستان میں ہے۔ اور مصر کا قحط جس میں حسب تفریح صاحب وصاف ایک ایک روٹی ہزار ہزار دینا کو بک گئی۔ اور فارس کا قحط جس میں ایک لاکھ آدمی بھوکا مرگیا۔ اسی صدی میں واقع ہوئے۔ اتابکان فارس کے خاندان پر اسی صدی میں زوال آیا۔ درالملک شیراز جو شیخ کا مولد و مسکن تھا۔ اسی صدی میں کئی بار قتل اور غارت کیا گیا۔ فرقہ اسماعیلیہ جو پونے دو سو برس مشرق میں نہایت زور شور کے ساتھ حکمراں رہا۔ ان کا خاتمہ تاتاریوں نے ایران میں اور کر دوں نے شام میں ہمیشہ کے لیے اسی صدی میں کیا۔ یہ تمام حوادث اور وقائع شیخ کے سامنے ظہور میں آئے تےن۔ جن سے ایک صاحب بصیرت آدمی بے انتہا عبرت اور نصیحت حاصل کرسکتا ہے۔ اس میں کہتا ہے۔ "خدا حمایت کرے اس شخص کی۔ جو خلافت عباسیہ کے زوال کے بعد متنبہ ہو گیا۔ کیونکہ زید کی مصیبت عمرو کے لیے تازیانہ ہے”۔ یورپ کے مشہور مصنف ہگ ملر صاحب کا قول ہے۔ کہ میں نے عمدہ تعلیم صرف ایک اسکول یعنی مدرسہ روزگار میں پائی ہے۔ جس میں محنت اور مصیبت دو بڑے گرم جوش اور دل سوز استاد تھے۔
٭٭٭

شمس العلما مولوی سیّد نذیر احمد صاحب

ریاضت جسمانی

(از رویائے صادقہ)

ایک تو ہمارے یہاں کے کھیل ہیں۔ جن میں اکثر بے سود اور بے سود ہوں تو خیر! الٹے مضر۔ بد اخلاقی کی تمہید۔ کاہلی کی تعلیم۔ بعض میں جو کچھ دماغی فائدے نکل سکتے ہیں۔ مثلاً گنجفے میں حافظے کی ترقی۔ چوسر شطرنج میں غور اور خوض کی عادت۔ تو ان میں بڑی قباحت یہ ہے کہ دنیاوی معاماوت میں سے سے مطلق مدد نہیں ملتی۔ اگر کوئی شخص گجفہ اچھا کھیلتا ہے۔ تو اس کے معنی یہ ہے کہ اس کو پتوں کی یاد داشت اچھی ہے۔ لیکن بازویں میں ورق یاد رکھنے سے کتابوں کے ورق تو کیا! صفحہ بلکہ دو چار سطریں بھی یاد نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح بڑے سے بڑا شاطر شطرنج کے نقشے میں خوب طبیعت لڑاتا ہے۔ مگر ایک سیدھا سا مقدمہ اس کے سامنے بیان کرو تو سمجھ نہیں سکتا۔ تدبیر سوچے گا کیا اپنا سر۔ غرض ہندوستانیوں کے جتنے کھیلوں پر نظر کرو۔ تو نری جسمانی ریاضت اور تفریح طبع کے علاوہ دماغی زحمت کا کچھ دخل نہیں۔ کیونکہ اوقات درس میں جتنی دیر پڑھنے میں مصروف رہے۔ بس دماغی محنت بہتیری ہولی۔ اب کھیل میں بھی شطرنج کی طرح سوچنا پڑے۔ تو دماغ کہاں تک اس فشار کر وفا کرسکتا ہے۔ اور اگر جسم سے بالکل کام نہ لیا جائے تو جس طرح گھوڑا بندھے بندھے ہڈے موترے نکال لاتا ہے۔ بادی بھر جاتا ہے دانہ گھاس اچھی طرح ہضم نہیں کرسکتا یہی حال آدمی کا ہے۔ اگر وہ اپنے ہاتھوں پاؤں سے کام نہیں لیتا تو اگر اور کوئی بیماری اس کو نںہی بھی ستائے تو کیا یہی تھوڑی بیماری ہے کہ وہ اپاہج ہو جاتا ہے۔ اسی آرام طلبی کے نتیجے ہیں کہ ہماری عمروں کے اوسط گھٹتے اور ہماری نسلیں کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں۔
خیر کابل کے پٹھانوں اور گوروں کے ساتھ ہم ہندوستانی گڑئیں کیا مقابلے کریں گے۔ اپنے ہی ملک کے دیہاتی کبھی شہر میں آ نکلتے ہیں تو ان کو دیکھ کر عقل حیران ہو جاتی ہے۔ کہ الٰہی یہ بھی آدمی ہیں! جن کی کاٹھیاں لوہے کی ہاتھ پاؤں پتھر کے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ساگ بھاجی اور جوار باجرے کی روٹی کے سوا اور کچھ میسر نہیں آتا۔ مگر یہ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ ایک دیہاتی سو سوا سو من کی چوبلدی گاڑی ہانکے لیے چلا جا رہا تھا۔ شہر کی بھیڑ دیکھ کر بیل بدکے کہ گاڑی کا ایک پہیہ نالی میں جاتا رہا۔ بیلوں نے بہتیرا زور مارا پہیہ جگہ سے نہ کھسکا۔ گاڑیبان نے اتر کر کمر کا سہارا لگا بات کی بات میں گاڑی کو ایسا دھکا دیا کہ بیچ سڑک میں۔ نہ دیہاتیوں کا پانی۔ نہ شہریوں کا ماء اللحم۔ نہ ان کا چبینا اور نہ ہمارے بادام پستے۔ بیشک شہر اور دیہات کی آب و ہوا میں بھی بڑا فرق ہے۔ مگر دیہاتیوں کی توانائی اور ان کا ٹانٹا پن ہے محنت کی وجہ سے۔ شہر کی ایک تو کثرت آبادی کی وجہ سے آب و ہوا خراب۔ اس پر محنت مشقت ندارد۔ جس کو دیکھو بدن پر بوٹی نہیں۔ اور بوٹی ہو تو کہاں سے ہو۔ بیچارے کو کبھی کھل کر بھوک نہیں لگتی۔ اور مارے ہوکے کے کچھ بے اشتہا کھا لیتا ہے۔ تو ہضم نہیں ہوتا۔ اور ہم میں جو پہلوان کہلاتے ہیں۔ سینہ ابھرا ہوا ہے۔ قبضے چڑھے ہیں۔ دیکھنے کو موٹے تازے۔ داؤ پیج بھی خوب رواں۔ مگر اصلی بل بوتا ان میں بھی نہیں ہوتا۔
اس پر ایک حکایت یاد آئی ہے کہ جن دنوں قلعہ آباد تھا۔ تو سلاطین کو سووائے اوقات گزاری کے اور کوئی کام نہ تھا۔ نکمے بیٹھے بیٹھے ان کو ایسے ہی مشغلے سوجتھے تھے۔ کہ ستار بجا رہے ہیں یا بٹیر لڑا رہے ہیں یا شطرنج کھیل رہے ہیں یا اس کی دھل ہے کہ کوئی ایسی قسم کا کھانا پکوائیے کہ کوئی پہچان نہ سکے۔ چنانچہ ایک صاحب عالم کو پہلوانوں کی کشتی دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ بہت سے پہلوانوں کے راتب بندھے تھے اور انہوں نے ایسی ایسی جوڑیں تیار کی تھیں کہ رجواڑوں میں جا جا کر کشتیاں مارتے تھے۔ ایک مصاحب کو یہ سوجھی کہ ان دنوں ولایتی میوہ فروش آئے ہوئے ہیں کسی ولایتی کو ایک پہلوان سے لڑوایا جائے۔ صاحب عالم اس ایجاد کو سن کر پھڑک گئے۔ اور فرمایا بھئی واللہ تخت کی قسم ہے! کیا بات پیدا کی ہے! معمولی کشتیاں دیکتےس دیکتےر جی اکتا گیا۔ ولایتی کی کشتی میں مزہ خوب آئے گا۔ دیکھیں وہ پیچ کا کیا توڑ کرتا ہے۔ داروغہ جی دینا ان کو ایک دوشالہ۔ اور بھائی تم ہی اس کشتی کا اہتمام بھی کرنا۔ اور حضور میں بھی عرض کروں گا۔ سرفراز فرمائیں گے۔
نہیں معلوم ظالموں نے کیا تدبیر کی کہ ایک اکھڑ وحشی ولایتی کو کچھ دے کر شاہی پہلوان کے ساتھ لڑنے کو راضی کر لیا۔ ولایتی کو ہم نے بھی دیکھا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ مارے دہشت کے نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ آدمی کا ہے کو تھا۔ ایک دیو کا دیو تھا۔ بالوں کی لٹیں کندھوں تک لٹکتی ہوئیں۔ میلے کثیف کپڑے، چار چار پانچ پانچ گز سے مست دنبے کی سی بو آتی تھی۔ ایسی سخت کہ ناک نہ دی جائے پیٹھ پر ہینگ کا مشکیزہ۔ ادھر جوتیوں سے ادھر مشکیزہ سے چپڑ چپڑ کی آواز چلی آئے۔ خونخوار آنکھیں۔ ڈراؤنی صورت۔ جو لوگ اس کو بہلا پھسلا کر لائے تھے۔ اس کے گرد ایسے معلوم ہوں جیسے بڑے آدمی کے آگے بچے اور یہاں اکھاڑے میں پہلوان پڑے جھوم رہے تھے۔ کوئی ڈنڑ پیل رہا ہے اور کوئی تین سوا تین من کی جوڑی کے رومالی ہاتھ اس خوبصورتی اور صفائی سے ہلا رہا ہے کہ سارے تماشائیوں کی ٹکٹکی اس پر بندھی ہے کوئی لیزم کی کثرت کر رہا ہے۔ کوئی بنٹیت کے کرتب دکھا رہا ہے۔ اتنے میں غل ہوا کہ وہ پٹھان آیا۔ جو اس کو لا کر اکھاڑے کے پاس کھڑا کیا۔ اس کا پھیلاؤ دیکھ کر پہلوانوں کا رنگ فق ہوا۔ اب کسی کی ہمت نہیں پڑتی کہ موت کے منہ میں جائے اور ولایتی ہے کہ زمین پر آلتی پالتی مارے ہینگ کے مشکیزہ کا گاؤ تکیہ بنائے نظر حیرت و تعجب سے سب کو بیٹھا دیکھ رہا ہے۔ اور ان پہلوانوں کو سمجھتا ہے کہ نٹوں کا تماشا کر رہے ہیں۔
اکھاڑے کا استاد اگرچہ تھا تو عمر سے اترا ہوا۔ مگر اس کا بدن ایسا مرتب تھا اور اس کو ایسے ایسے داؤ گھات یاد تھے کہ یکایک کوئی اس سے لڑنے کی ہامی نہیں بھرتا تھا۔ مگر وہ خوب جانتا تھا۔
ذہبی چیزے دگر۔ آماس چیزے دیگر است
اس نے چپکے سے صاحب عالم کے پاس جا کر عرض کیا۔ کہ آج تک آپ کے اکھاڑے نے کسی سے نیچا نہیں دیکھا۔ اور استاد کی برک سے ہمارے یہاں کے پٹھے بھی اپنے وقت کے رستم و اسفندیار ہیں۔ لیکن سرکار راجرس کے چاقو کو قصائی کے بغدے سے بھڑاتے ہیں۔ ساری عمر ہم نے سرکار کا نمک کھایا۔ حکم کی تعمیل میں مجال عذر نہیں۔ پچھریں گے تو نہیں مگر اس کے ہاڑ تو ملاحظہ کیجئے کہ کلائی دونوں ہاتھوں میں سمانی مشکل ہے۔ سرکار کو جان لینی ہی منظور ہے۔ تو بسم اللہ! اس کا دبوچا ہوا آدمی پھٹکا بھی نہیں کھانے کا۔ اونٹ کی پکڑ کو اس کی پکڑے کیا نسبت! صاحب عالم سمجھے تو سہی مگر سارے میں غل مچوا چکے تھے۔ کس طرح کشتی ملتوی کر دیتے۔ !
بارے لوگوں نے ولایتی سے کہا۔ کہ آغاز ان لوگوں میں سے جس کے ساتھ تمہارا جی چاہے کشتی لڑو۔ آغا۔ ہم سب کے ساتھ کرے گا۔
اب تو پہلوانوں کے دم میں دم آیا۔ خیر ایک کی دارو دو۔ استاد اور شاگرد سارے کا سارا اکھاڑا اکیلے کو لپٹ پڑا۔ جو داؤ پیچ یاد تھے۔ سبھی نے تو چلائے۔ آغا ہیں کہ قطب از جا جنبد۔ لوہے کی لاٹ کی طرح گڑے ہوئے کھڑے ہیں۔
ان لوگوں نے نادانی یہ کی کہ آغا سے گتھ گئے۔ اس نے موقع پا ایک کو تو بغل میں دابا اور دوسرے کو دوسری بغل میں اس نے اپنے نزدیک آہستہ ہی سے دبایا تھا۔ مگر ان میں کا ایک تو آج تک کوب لیے پھرتا ہے اور دوسرا مدتوں خون تھوکتا رہا۔ اب سنا تو اچھا تو ہو گیا ہے۔ مگر جاڑے کے دنوں میں مارے پسلیوں کے درد کے بیچارے س سانس نہیں لیا جاتا۔
خیر بنی آدم میں یہ ولایتی پٹھان تو اور ہی نسل کے ہیں۔ اور اس کی سی بات حاصل کرنی مسکل بلکہ محال ہے۔ مگر اس کے عقلی دلائل موجود ہیں کہ اگر ہم اپنے طرز تمدن میں صفائی کے قاعدوں کی پوری پوری رعایت کریں اور جسمانی ریاضت کی عادت ڈالیں۔ تو آئندہ کی نسلیں بہت بہتر ہوسکتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم لوگ گرم ملک کے رہنے والے ٹھہرے ہم کو خدا نے محنت کے لیے پیدا نہیں کیا اور نہ ہم سے محنت کا تحمل ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر شاقہ محنت نہ ہو۔ تو جس قدر برداشت کی جا سکتی ہے۔ وہ بھی سو دوا کی ایک دوا ہے اور پھر ہلدی لگے نہ پھٹکری۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (نذیر احمد)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
عقل کی نا رسائی
(از ابن الوقت)

بلاشبہ مبداء فیاض نے انسان کو ظاہری باطنی جتنی قوتیں دی ہیں۔ سب میں عقل بڑی زبردست ہے۔ اور وہی مدار تکلیف شروع بھی ہے۔ لیکن بیش برس نیست کہ عقل بھی ایک وقت ہے اور جس طرح انسان کی دوسری قوتیں محدود اور ناقص ہیں۔ مثلاً آنکھ کہ ایک خاص فاصلے پر دیکھ سکتی ہے۔ اس سے باہر نہیں۔ پھر بے روشنی کے کام نہیں دیتی۔ اجسام کثیف میں نفوذ نہیں کرتی۔ اگر دیکھنے والا خود متحرک ہو۔ مثلاً فرض کرو کہ کشتی یا ریل میں ہو۔ تو وہ الٹا ٹھہری ہوئی چیروں کو متحرک دیکھتا ہے اور اپنے تئیں ٹھہرا ہوا۔ تیز حرکت متشکل معلوم ہوتی ہے۔ جیسے لکڑی سے کھلتے ہیں۔ پیالے میں تھوڑا سا پانی بھر کر لکڑی کھڑی کریں تو لچکہ ہوئی دکھائی دے گی۔ شفاف پانی کی تہ کی چیزیں اوپر کو ابھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ اور اسی طرح اور بہت سی غلطیاں نظر سے ہوتی ہیں۔ جن کی تفصیل علم مناظر میں موجود ہے۔ غرض جس طرح ہماری قوت باصرہ محدود اور ناقص ہے۔ اس طرح عقل کی رسائی کی بھی ایک حد ہے۔ وہ بھی نقصان سے بری نہیں اور اس سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ غلطی کے لیے اختلاف رائے کی دلیل کافی ہ۔ ہندسہ کے علاوہ جس کے اصول بدیہیات پر مبنی ہیں اور اسی وجہ سے اس میں اختلاف ہو نہیں سکتا۔ ڈاکٹر۔ فلسفی۔ جج۔ ایسٹرانومرز۔ (ہیئات داں) پالیٹیشنز (مدبران ملک) اہل مذاہب وغیرہ وغیرہ۔ سبھی کو دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے لڑ مرتے ہیں۔ منطق کے قاعدے منضبط ہوئے۔ مناظرے کے اصول ٹھیرائے گئے۔ مگر اختلاف نہ کم ہوا اور نہ قیامت کم ہو۔ جب ہست و نیست کا اختلاف ہو تو ضرور ایک برسر غلط ہے۔
اگرچہ عقل انسانی کا نقصان اختلاف رائے سے بھی مستنبط ہوسکتا ہے مگر ہم ذرا اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں۔ دو ڈھائی سو برس کے عرصے میں اہل یورپ کو سیکڑوں باتیں ایسی دریافت ہوئیں کہ کسی کو کیمیا کا حکمی نسخہ مل گیا ہوتا اور وہ اس کو عام بھی کر دیتا تو اتنا فائدہ نہ پہنچتا۔ جتنا کہ اس ماڈرن ڈس کوریز۔ یعنی زمانہ حال کی دریافتوں سے ہوا۔ اور جن اقبال مندوں کو خدا نے واقعات اور موجودات نفس الامری میں غور و خوض کرنے کی دھن لگا دی ہے۔ خدا ان کی کوششوں کو مشکور و کام یاب کرتا ہے۔ بحر بے پایاں موجودات میں غوطے لگا رہے ہیں اور معلومات جدید کے بے بہا موتی ہیں کہ برابر نکلے چلے آتے ہیں۔ ان ماڈرن ڈس کوریز میں سے (زیادہ نہیں) صرف ایک چیز عام فہم لو۔ جس سے انگریزوں کے طفیل میں ہم بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ریل۔ اب ہم پوچتےی ہیں کہ دنیا میں گھر گھر آگ تھی۔ گھر گھر ہنڈیا پکتی تھیں۔ ہر ہر متنفس بھاپ سے بخوبی واقف تھا۔ سیکڑوں ہزاروں برس پہلے سٹیم (بھاپ) کی طاقت کیوں نہیں معلوم ہوئی۔ اور یہی سوال ہر ڈس کوری کی بابت ہوسکتا ہے جو اب تک ہوئی یا آئندہ کسی وقت میں ہو۔
سر اسحٰق نیوٹن جس کو سب سے پہلے مسئلہ کشش کا الہام ہوا۔ کہتا تھا۔ خدا کی بے انتہا قدرت کے سمندر میں بے شمار موتی بھرے پڑے ہیں۔ اور میں تو ابھی کنارے پر بیٹھا ہوا بچوں کی طرح سیپیاں اور گھونگھے جمع کر رہا ہوں۔ یہ مقولہ تھا اس شخص کا۔ جس نے زمین اور آسمان کے قلابے ملا کر نظام بطلیموس کی جگہ اپنا نظام قائم کیا۔ اور آج سارا یورپ اس کے نام پر فخر کرتا ہے۔ جن کو خدا نے عقل دی ہے۔ وہ تو یوں ہی اپنی نا رسائی کا اعتراف کرتے ہیں اور ایک ہمارے زمانے کے انگریزی خوان ہیں کہ سیدھی سی اقلیدس کی نئی شکل پوچھو تو بغلیں جھانکنے لگیں۔ اور لن ترانیاں یہ کہ ہمچوما دیگرے نیست۔ پس جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جاتا ہے۔ عقل انسانی کا قصور ہے۔ کہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ اب سے زیادہ نہیں صرف ڈیڑھ سو برس پہلے کسی کی عقل میں یہ بات آسکتی تھی۔ کہ مہینوں کی مسافت ہم گھنٹوں میں طے کرسکیں گے۔ یا ہزار ہا کوس کا حال چند لمحے میں معلوم کر لیا کریں گے۔ یا آگ سے برف جمائیں گے یا کپڑے کل میں کپاس بھر کر اچھے خاصے دھلے دھلائے تہ کئے ہوئے تھان نکال لیا کریں گے۔ اور ابھی کیا معلوم کہ ہم کیا کیا کرسکیں گے۔ مگر پھر بھی رہیں گے آدمی۔ عاجز۔ ناچیز۔ بے حقیقت۔
بھلا آدمی کیا عقل پر ناز کرے گا۔ جب کہ اس کو پاس کے پاس اتنا تو معلوم ہی نہیں کہ روح کیا چیز ہے اور اس کو جسم کے ساتھ کس طرح کا تعلق ہے۔ وقت کے ازلی ابدی ہونے پر خیال کرتے ہیں تو انسان کی ہستی ایسی بے ثبات دکھائی دیتی ہے جیسے دن رات میں اک طرفۃ العین بلکہ اس سے بھی کم۔ اور اس ہستی پر انسان کے یہ ارادے اور یہ حوصلے کہ گویا زمین اور آسمان میں سمانا نہیں چاہتا۔ پھر کیسے کیسے لوگ ہر گزرے ہیں کہ اس سرے سے اس سرے تک ساری زمین کو ہلا مارا ہے اور مرگ ئے۔ تو کچھ بھی نہیں۔ ایک تودہ خاک!
آخر وہ کیا چیز تھی؟ جو ان میں سے نکل گئی۔ حیوانات۔ نباتات۔ لاکھوں قسم کی مخلوقات کا ایک چکر سا بندھا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے پیدا ہوتے اور پھر اسی میں فنا ہو جاتے ہیں۔ کسی کی عقل کام کرتی ہے؟ کہ کیا ہو رہا ہے! اور کس غرض سے ہو رہا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (نذیر احمد)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
کارخانہ قدرت

(از ابن الوقت)

کسی کتاب میں نظر سے گزرا کہ زمانہ حال کا کوئی فلسفی خرد بین میں پانی کی ایک بوند دیکھ رہا تھا۔ سو سے زیادہ طرح کے جاندار تو وہ اس ایک بوند میں بمشکل شمار کرسکا۔ آ کر تھک کہ بیٹھ رہا۔ ایک بوند میں اتنی مخلوقات ہو تو تمام کرہ آپ میں جو تین چوتھائی زمین کو ڈھانکے ہوئے ہے۔ کتنی مخلوقات ہوں گی؟ خدا ہی کو خبر ہے۔ پھر وہ زمین کے گرد ۴۵ میل کے دل کا ہوائی کرہ ہے۔ اور اس میں بھی جانداروں کی (ایسی ہی یا اس سے زیادہ) کثرت ہے۔
ہر چند کارخانہ قدرت الٰہی کی عظمت و شان فہم بشر سے خارج ہے۔ مگر جس طریق پر میں نے اجمالاً بیان کیا۔ اگر کوئی آدمی متواتر اور متصل مدتوں تک غور کرتا رہے تو ضرور اس کے دل میں اپنی بے حقیقی اور درماندگی اور بے وقعتی کا تیقن پیدا ہو گا۔ جو کو میں دین داری کی بنیاد یا تیدد سمجتاو ہوں۔ اس کے بعد ذہن کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے کہ اتنا بڑا کارخانہ با ایں عظمت کیسی عمدگی اور کیسے انضباط کے ساتھ چل رہا ہے کہ عقل دنگ ہوتی ہے۔ اجرام فلکی کے اتنے اتنے بڑے بے شمار گولے کہ خدا کی پناہ! اور خود زمین سب چکر میں ہیں۔ خدا جانے کب سے؟ اور کیوں؟ اور کب تک؟ اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں اور نہ بال برابر اپنی رفتار بدلتے ہیں۔
اب جو آدمیوں کو قاعدہ معلوم ہو گیا ہے۔ تو سیکڑون ہزاروں برس پہلے سے پیش گئی ہوسکتی ہے کہ فلاں ستارہ فلاں وقت فلاں مقام پر ہو گا اور وہیں ہوتا ہے۔ حساب میں اگر غلطی نہ ہو تو منٹ اور سیکنڈ کیسا! سیکنڈ کے ہزارویں حصے کی قدر بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتی۔
یہاں روئے زمین پر ایک بھنگے۔ ایک دانے۔ ایک پھل۔ ایک پنکھڑی۔ گھاس کے ایک ڈنٹھل۔ چھوتی سے چھوٹی اور ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کو بھی نظر غور سے دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز میں کچھ نہ کچھ عرض و غایت ہے۔ جس کی تکمیل کا پورا پورا سامان اس چیز میں موجود ہے۔ مثلاً ریگستانی علاقوں میں اونٹ پیدا کیا گیا۔ تو اس کے پاؤں کے تلوے چوڑے اور اسفنج کی طرح پولے ہیں۔ کہ ریت میں نہ دھنسیں۔ اس کی گردن بہت لمبی ہے تاکہ اوچے درختوں کے پتے چرسکے۔ اس کو ایک خاص طرح کا خانہ دار معدہ دیا گیا ہے۔ جس میں کئی کئی ہفتوں کے لیے کھانا پانی بھر لیتا ہے۔ کیونکہ جیسے ملک میں وہ پیدا کیا گیا ہے۔ وہاں کئی کئی دن تک متواتر پانی چارے کا نہ ملنا تعجب نہیں۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کوہان کا گودام ہے کہ اگر اس کو ایک عرصہ تک کھانا پینا کچھ بھی نہ ملے تو کہاں کی چربی بدل مایتحلل کا کام دے۔ ہرن وغیرہ جنگلی جانوروں کی ٹانگیں پتلی پتلی ہیں۔ تاکہ شکاری جانوروں سے بچنے کے لیے پھرتی کے ساتھ بھاگ سکیں۔ ہاتھی کو ایک سونڈ لٹک رہی ہے۔ جس سے وہ ہاتھ کا کام لیتا ہے۔ پرندوں کے جثے سبک ہیں تاکہ ہوا میں اڑسکیں۔ دریائی جانوروں کے پنجے کھال سے جڑے ہوئے ہیں گویا کہ ہر ایک کے پاس قدرتی چپو ہیں۔ گوشت خود جانوروں کے پنجے اور دانت ان کی غذا کے مناسب ہیں۔ نباتات میں پھل پھول کی حفاظت کے واسطے کانٹے ہیں۔ پوست ہیں۔ خول ہیں۔
سرد ملک کے جانوروں کی اون بڑی بڑی اور گھنی ہے۔ کہ جاڑا نہ کھائیں۔ جتنے جاندار معرض تلف میں ہیں ان میں توالد و تناسل کی کثرت ہے تاکہ نسل معدوم نہ ہو۔ مثلاً ایک ایک مچھلی لاکھ سے زیادہ انڈے دیتی ہے۔ آدمی چونکہ ابقائے حیات کا سامان عقل کی مدد سے بہم پہنچا سکتا ہے۔ سینگ اور پنجے اور اون۔ اس قسم کے سامان قدرت اس کو نہیں دئے گئے۔ جس ملک میں نباتات کی کثرت ہے۔ وہیں برسات بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ملک پانی کا محتاج ہے۔ انسان اگر اپنی ہی بناوٹ میں غور کرے تو اس کا ایک ایک رواں صانع قدرت کی کمال دانشمندی اور عنایت پر گواہی دے رہا ہے۔ اس کے جسم میں ایک چھوٹا اور آسان سا پرزہ ہوتا ہے کہ دنیا میں جس قدر انسان کے تصرفات ہیں (اور انسان کی بساط پر خیال کرو۔ تو ان تصرفات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے) سب اس پرزے کے ہیں۔ اہل یورپ نے عقل کے زور سے بڑی بڑی عمدہ کلیں بنائی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کلوں سے عقل انسانی کی قوت بڑی شد و مد کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ مگر مجھ کو بھی دو چار کلوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ایک بکھیڑا ہے کہ بیگہوں زمین پر پھیلا ہے۔ سیکڑو پرزے ہزار پیچ۔ بیلن، پہلے، چرخیاں۔ کمانیاں۔ خدا جانے دنیا بھر کے کیا کیا سامان جمع کئے ہیں۔ تب کہیں جا کر وہ ایک مطلب حاصل ہوتا ہے۔ جس کے لیے کل بنائی گئی ہے۔ یہ تو آدمی کی بنائی ہوں کلوں کا حال ہے اور ایک ادنیٰ سی کل خد کی بنائی ہوئی ہے۔ یہی آدمی کا ہاتھ کہ ہزار ہا قسم کے کام اس سے نکلتے ہیں۔ اور ترکیب دیکھ تو ایسی سیلیس اور مختصر کہ ایک کف دست ہے۔ اور تین تین جوڑ کی پانچ انگلیاں۔ اللہ اللہ خیر صلاح۔
انسان کے بدن میں ایک اوز ذرے بھر کی چیز آنکھ ہے۔ اس کی ساخت میں جو اندرونی حکمتیں ہیں۔ ان سے بالا ستیعاب ایک کتاب بن سکتی ہے۔ مگر خارج کی احتیاط کو دیکھو کہ پہلے گویا ہڈیوں کا کاواک ہے۔ جس میں نگینے کی طرح آنکھ تعبیہ کی ہوئی ہے۔ اور بھوں کا چھجے دار سائبان۔ سامنے پپوٹوں کا پردہ۔ پردے میں پلکوں کی جھالر پھر پپوٹے کے اندر منافذ ہیں۔ جن میں سے آئینہ چشم کے صاف رکھنے کو ہمیشہ ایک خاص طرح کی رطوبت رستی رہتی ہے۔ یہ وہی رطوبت ہے۔ جو زیادہ ہو کر آنسو بن جاتی ہے۔ جتنی دفعہ انسان پلک جھپکاتا ہے۔ گویا اتنی ہی دفعہ آئینے پر پچارا پھرتا ہے۔ گرد اور دھوئیں اور کنک کی صورت میں بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ پچارا کافی نہیں بلکہ آئینے کو دھونے کی ضرورت ہے۔
میرا تو کیا منہ ہے۔ کہ موجودات عالم میں جو اسرار حکمت مضمر ہیں ان کا ایک شمہ بھی بیان کرسکوں۔ مگر میری غرض اسی قدر ہے کہ دنیا کے کارخانے کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے۔ کل میں نے آیت اللہ کا سبق سنا۔ وہ عجائب قدرت پڑھتا ہے۔ کسی شخص نے نیچرل فلاسفی میں سے بعض بعض مضامین چھانٹ کر اردو میں ترجمہ کر دیئے ہیں۔ اسی میں لکھا ہے کہ مچھر کے منہ کے آگے جو ایک پتلی سی سونڈ ہوتی ہے۔ وہ حقیقت میں ایک نلوا ہے۔ اس نلوے میں تین اوزار۔ ایک تو سوئی جو کس مچھر مسام میں داخل کرتا ہے۔ ایک آری کہ مسام کو چوڑا کرنے کی ضرورت ہو۔ تو اس سے کام لے۔ اور ایک سینگی جس کی راہ خون چوستا ہے۔ اس میں اتنی بات اور بھی تھی کہ اس شکل میں خاص مچھر کی مدت حیات صرف تین دن کی ہے۔ ایک مقام پر تھا کہ تیتری کے ایک پر میں کھپروں کی طرح تیس ہزار دیولیاں!۔ اس طرح کی باتوں کو اگر انسان سرسری طور پر نہ سنے۔ جیسی کہ اس کی عادت ہے۔ تو ہر ہر ذرہ اس بات کی گواہی دے گا کہ اس کو کسی بڑے قدرت والے دانش مند۔ ہمہ داں۔ حاضر۔ ناظر۔ سمیع و بصیر نے کسی مصلحت سے جان بوجھ کر بنایا ہے۔ ممکن نہیں کہ انسان صمیم قلب سے موجودات عام میں غور اور خوض کرے۔ اور اس کا دل اندر سے نہ بولنے لگے کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ بایں عمدگی و انضباط خود بخود یا اتفاقیہ طور پر تو نہیں ہو گیا۔ کیونکہ واقعات اتفاقی کی شان ہی دوسری ہوتی ہے۔ اس میں قاعدہ کہاں پتا۔ اور انضباط کا کیا مذکور! اور قاعدہ اور انضباط بھی کیسا؟ کہ دنیا کی ابتدا سے لے کر آج کی گھڑی تک تو اس میں رتی برابر فرق پڑا نہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (نذیر احمد)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
شمس العلما مولوی شبلی نعمانی

قسطنطنیہ کے مختصر حالات

(از سفر نامہ)

موجودہ حالت یہ ہے کہ آبنائے باسفورس کی شاخ۔ جو دور تک چلی گئی۔ یہ شہر اس کے دو کناروں پر آباد ہے اور اس وجہ سے اس کے دو حصے بن گئے ہیں ایک حصہ استنبول کہلاتا ہے اور تمام بڑی بڑی مسجدیں۔ کتب خانے۔ سلاطین کے مقبرے اسی حصہ میں ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی بھی کثرت سے یہیں ہے۔ دوسرا حصہ پیرہ سے شروع ہوتا ہے اور اس کے انتہائی جانب پر بشکطاس وغیرہ واقع ہیں۔ جہاں سلطان کا ایوان شاہی اور قصر عدالت ہے۔ پیرہ کی دوسری طرف غلطہ ہے اور چونکہ تمام بڑے بڑے یورپین سوداگر اور سفرائے سلطنت یہیں سکونت رکتےہ ہیں۔ اس کو یورپین آبادی کہنا زیادہ مناسب ہے۔
کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی شہر قسطنطنیہ کی برابر خوش منظر نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ منظر کے لحاظ سے اس سے زیادہ خوش نما ہونا خیال میں بھی نہیں آتا۔ اسی لحاظ سے اس کی بندر گاہ کو انگریزی میں گولڈن ہارن یعنی سنہری سینگ کہتے ہیں۔ کہیں کہیں عین دریا کے کنارے پر عمارتوں کا سلسلہ ہے اور دور تک چلا گیا ہے۔ عمارتوں کے آگے جو زمین ہے۔ وہ نہایت ہموار اور صاف ہے۔ اس کی سطح سمندر کی سطح کے بالکل برابر ہے۔ اور وہاں عجیب خوش نما منظر پیدا ہو گیا ہے۔
شہر کی وسعت تمدن کا اس اسے اندازہ ہوسکتا ہے کہ خاص استنبول میں پانچ سو جامع مسجدیں۔ ایک سو اکھتر حمام۔ تین سو چونیتیس سرائیں۔ ایک سو چونسٹھ مدارس۔ قدیم۔ پانچ سو مدارس جدید۔ بارہ کالج۔ پینتالیس کتب خانے۔ تین سو پانچ خانقائیں۔ اڑتالیس چھاپے خانے ہیں۔ کاروبار اور کثرت آمدورفت کی یہ کیفیت ہے کہ متعدد ٹراموے گاڑیاں۔ بارہ دخانی جہاز۔ زمین کے اندر کی ریل۔ معمولی ریلیں۔ جو ہر آدھ گھٹنے کے بعد چھوٹی ہیں۔ ہر وقت چلتی رہتی ہیں۔ اور باوجود اس کے سڑکوں پر پیادہ پا چلنے والوں کا اس قدر ہجوم رہتا ہے کہ ہر وقت میلہ سا معلوم ہوتا ہے۔ غلطہ اور استنبول کے درمیان جو پل ہے۔ اس پر سے گزرے کا محصول فی شخص ایک پیسہ ہے۔ اس کی روزانہ کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔
قہوہ کانے نہایت کثرت سے ہیں۔ میرے تخمینہ میں چار پانچ ہزار سے کم نہ ہوں گے۔ بعض بعض نہایت عظیم الشان ہیں۔ جن کی عمارتیں شاہی محل معلوم ہوتی ہیں۔ قہوہ خانوں مںو ہمیشہ ہر قسم کے شربت اور چائے قہوہ وغیرہ مہیا رہتا ہے۔ اکثر قہوہ خانے دریا کے ساحل پر اور بعض عین دریا میں ہیں۔ جن کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔ قہوہ خانوں میں روزانہ اخبارات بھی موجود رہتے ہیں۔ لوگ قہوہ پیتے جاتے ہیں اور اخبارات دیکےمج جاتے ہیں۔ قسطنطنیہ بلکہ ان تمام ممالک میں قہوہ کانے ضروریات زندگی میں محسوب ہیں۔ میرے عرب احباب جب مجھ سے سنتے تھے کہ ہندوستان میں اس کا رواج نہیں تو تعجب سے کہتے تھے۔
"وہاں لوگ جی کیونکر بہلاتے ہیں”۔ ان ملکوں میں دوستوں کے ملنے جلنے اور گرمی صحبت کے موقعے یہی قہوہ خانے ہیں۔
افسوس ہے کہ ہندوستانیوں کو ان باتوں کا ذوق نہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ اس قسم کی عام صحبتیں زندگی کی دلچسپی لے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ اور طبیعت کی شگفتگی پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے۔ دوستانہ مجلسیں ہمارے ہاں بھی ہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دوست کے مکان پر دو چار احباب کبھی کبھی مل بیٹھتے ہیں لیکن اس طریقہ مںا دو بڑے نقص ہیں۔ اول تو تفریح کے جلسے پر فضا مقامات میں ہونے چاہئیں کہ تازہ اور لطیف ہوا کی وجہ سے صحت بدنی کو فائدہ پہنچے۔ دوسرے سخت خرابی یہ ہے کہ یہ جلسے پرائیوٹ جلسے ہوتے ہیں اس لیے ان میں غیبت۔ شکایت اور اسی قسم کی لغویات کے سوا اور کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ بخلاف قہوہ خانوں کے جہاں مجمع عام کی وجہ سے اس قسم کی باتوں کا موقع نہیں مل سکتا۔ قسطنطنیہ اور مصر میں میں ہمیشہ شام کے وقت دوستوں کے قہوہ خانوں میں بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن میں نے سوائے کبھی اس قسم کے تذکرے نہیں سنے۔ تفریح اور بذلہ سنجی کے سوا وہاں کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ اور نہ ہوسکتا تھا۔
قسطنطنیہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کسی کو یورپین اور ایشا ئی تمدن کی تصویر ایک مرقع میں دیکھی ہو تو یہاں دیکھ سکتا ہے۔ کتب فروشوں کی دکانوں کی سیر کرو تو ایک طرف نہایت وسیع دکان ہے۔ سنگ رخام کا فرش ہے۔ شیشہ کی نہایت خوبصورت الماریاں ہیں۔ کتابیں جس قدر ہیں۔ مجلد۔ اور جلدیں بھی معمولی نہیں۔ بلکہ عموماً مطلا و مذہب۔ مالک دکان میز کرسی لگائے بیٹھا ہے۔ دو تین کم سن خوش لباس لڑکے اِ دھر اُدھر کام میں لگے ہیں۔ تم نے دکان میں قدم رکھا۔ ایک لڑنے نے کرسی لا کر سامنے رکھ دی۔ اور کتابوں کی فہرست حوالہ کی۔ قیمت فہرست میں مذکور ہے۔ اس میں کمی بیشی کا احتمال نہیں۔
دوسری طرف سڑک کے کنارے چبوتروں پر کتابوں کا بے قائدہ ڈھیر لگا ہے۔ زمین کا فرز اور وہ بھی اس قدر مختصر کہ تین چار آدمی سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ قیمت چکانے میں گھنٹوں کا عرصہ درکار ہے۔
اسی طرح پیشہ و صنعت کی دکانیں۔ دونوں نمونہ کی موجود ہیں۔ عام صفائی اور زیب و زینت کا بھی یہی حال ہے۔ غلطہ کو دیکھو تو یورپ کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔ دکانیں بلند اور آراستہ۔ سڑکیں وسیع اور ہموار۔ کیچڑ اور نجاست کا کہیں نام نہیں۔ بخلاف اس کے استنبول میں جہاں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے۔ اکثر سڑکیں نا صاف اور بعض بعض جگہ اس قدر ناہموار کہ چلنا مشکل۔
اس شہر میں آ کر ایک سیاح کے دل میں غالباً جو خیال سب سے پہلے آتا ہو گا۔ وہ یہ ہو گا کہ اس عظیم الشان دارالسلطنت کے دو حصوں میں اس قدر اختلاف حالت کیوں ہے؟ چنانچہ میرے دل میں سب سے پہلے یہی خیال آیا۔ میں نے اس کے متعلق کچھ بحث و تفتیش کی۔ باشندوں کے اختلاف حالت کا سبب تو میں نے آسانی سے معلوم کر لیا۔ یعنی مسلمانوں کا افلاس اور دوسری قوموں کا تمول۔ لیکن سڑکوں اور گزر گاہوں کی ناہمواری و غلاظت کا بظاہر یہ سبب قرار نہیں پا سکتا تھا۔ اس لیے میں نے ایک معزز ترکی افسر یعنی حسین حسیب آفندی پولیس کمشنر سے دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری مینوسپلٹی کے ٹیکس بہت کم ہیں۔ بہت سی چیزیں محصول سے معاف ہیں۔ لیکن غلطہ میں یورپین سوداگر خود اپنی خواہش سے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس لیے مینوسپلٹی اس رقموں کو فیاضی سے صرف کرسکتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ وہی غلطہ ہے۔ جس کی نسبت ابن بطوطہ نے نجاست اور میلے پن کی سخت شکایت کی ہے۔ یا اب ان کو صفائی و پاکیزگی کا یہ اہتمام ہے کہ اس کے لیے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ صفائی اور خوش سلیقگی آج کل یورپ کا خمیر بن گیا ہے۔
یہاں کی عمارتیں ہندوستان کی عمارتوں سے بالکل جدا وضع کی ہیں۔ مکانات عموماً منزلہ۔ چو منزلہ ہیں۔ صحن مطلق نہیں ہوتا۔ عمارتیں تمام لکڑی کی ہیں۔ بڑے بڑے امرا اور پاشاؤں کے محل بھی لکڑی ہی کے ہیں۔ اور یہی سبب ہے۔ کہ یہاں اکثر آگ لگتی ہے۔ کوئی مہینہ بلکہ ہفتہ خالی نہیں جاتا۔ کہ دو چار گھر آگ سے جل کر تباہ نہ ہوں۔ اور کبھی کبھی تو محلے کے محلے جل کر خاک سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آپ بجھانے کے لیے سلطنت کی طرف سے نہایت اہتمام ہے۔ کئی سو آدمی خاص اس کام پر مقرر ہیں۔ ایک نہایت بلند منارہ بنا ہوا۔ جس پر چند ملازم ہر وقت موجود رہتے ہیں کہ جس وقت کہیں آگ لگتی دیکھیں۔ فوراً خبر کریں۔ اس قسم کے اور بھی چھوٹے چھوٹے منارے جا بجا بنے ہوئے ہیں۔ جس وقت کہیں آگ لگتی ہے فوراً توپیں سر ہوتی ہیں اور شہر کے ہر حصے کے آگ بجھانے والے ملازم تمام آلات کے ساتھ موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ بے تحاشہ دوڑتے جائیں۔ یہاں تک اگر کوئی راہ چلتا ان کی جھپٹ میں آ کر پس جائے تو کچھ الزام نہیں۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا۔ کہ پتھر کی عمارتیں کیوں نہیں بنتیں۔ معلوم ہوا کہ سردی کے موسم میں سخت تکلیف ہوتی ہے اور تندرستی کو نقصان پہنچتا ہے۔
آب و ہوا یہاں کی نہایت عمدہ ہے۔ جاڑوں میں سخت سردی پڑتی ہے اور کبھی کبھی برف بھی گرتی ہے۔ گرمیوں کا موسم جس کا مجھ کو خود تجربہ ہوا۔ اس قدر خوشگوار ہے کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ تعجب ہے کہ ہمارے یہاں کہ کے امرا شملہ اور نینی تال کی بجائے قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے! پانی پہاڑ سے آتا ہے۔ اور نہایت ہاضم اور خوشگوار ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (شبلی نعمانی)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
مصر کی قدیم یادگاریں

آثار قدیمہ کے لحاظ سے کوئی شہر اس شہر کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کی ایک ایک ٹھیکری قدامت کی تاریخ ہے۔ سواد شہر کے ویرانوں میں اس وقت تک سینکڑوں خزف ریزے ملتے ہیں۔ جن پر کئی کئی ہزار سال قبل کے حروف و نقوش کندہ ہیں۔ مجھ کو اتنا وقت بلکہ سچ ہے کہ اتنی ہمت کہاں تھی کہ تمام قدیم یادگاروں کی سیر کرتا۔ البتہ چند مشہور مقامات دیکھے اور انہیں کے حال کے لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
اہرام: یہ وہ قدیم مینار ہیں جن کی نسبت عام روایت ہے کہ طوفاں نوحؑ سے پہلے موجود تھے۔ اور اس قدر تو قطعی طور سے ثابت ہے کہ یونان کی علمی ترقی سے ان کی عمر زیادہ ہے کیونکہ جالینوس نے اپنی تصنیف میں اس کا ذکر کیا ہے یہ مینار نہایت کثرت سے تھے۔ یعنی دو دن کی مسافت میں پھیلے ہوئے تھے۔ صلاح الدین کے زمانہ میں اکثر ڈھا دئے گئے۔ ان میں سے جو باقی رہ گئے ہیں۔ اور جن پر خاص طور پر اہرام کا اطلاق ہوتا ہے۔ صرف تین ہیں۔ جو سب سے بڑا ہے۔ اس کی لمبائی چار سو اسی فٹ یعنی قطب صاحب کی لاٹ سے دگنی ہے۔ نیچے کے چبوترہ کا ہر ضلع سات سو چونسٹھ فٹ ہے۔ مینار کا مکعب آٹھ کروڑ نوے لاکھ فٹ ہے۔ اور وزن اڑسٹھ لاکھ چالیس ہزار ٹن۔ اس کی تعمیر میں ایک لاکھ آدمی بیس برس تک کام کرتے رہے۔ جڑ میں تیس تیس فیٹ لمبی اور پانچ پانچ فٹ چوڑی پتھر کی چٹانیں ہیں اور چوٹی پر جو چھوٹی سے چھوٹی ہیں آٹ فٹ کی ہیں۔
اس کی شکل یہ ہے کہ ایک نہایت وسیع مربع چبوترہ ہے اس پر ہر طرف سے کسی قدر سطح چھوڑ کر دوسرا چبوترہ ہے۔ اس طرح چوٹی تک اوپر چلے چبوترے ہیں۔ اور ان چبوتروں کے بتدریج چھوٹے ہوتے جانے سے زینوں کی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ پتھروں کو اس طرح وصل کیا ہے کہ جوڑ یا درز کا معلوم ہونا تو ایک طرف۔ چونا یا مصالح کا بھی اثر نہیں معلوم ہوتا۔ اس پر استحکام کا یہ حال ہے کہ کئی ہزار برس ہو چکے اور جوڑوں میں بال برابر فصل نہیں پیدا ہوا ہے۔
ان میناروں کو دیکھ کر خوا مخواہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جر ثقیل کا فن قدیم زمانہ میں موجود تھا۔ کیونکہ اس قدر بڑے بڑے پتھر اتنی بلندی پر جر ثقیل کے بغیر چڑھائے نہیں جا سکتے۔ اور اگر اس ایجاد کو زمانہ حال کے ساتھ مخصوص سمجھیں تو جر ثقیل سے بھی بڑھ کر عجیب صنعت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔
ان میناروں میں سے ایک جو سب سے چھوٹا ہے۔ کسی قدر خراب ہو گیا ہے۔ جس کی کیفیت یہ ہے کہ ۵۹۳ ہجری میں ملک العزیز (پسر سلطان صلاح الدین) نے بعض احمقوں کی ترغیب سے اس کو ڈھانا چاہا۔ چنانچہ دربار کے چند معزز افسر اور بہت سے نقب زن اور سنگتراش اور مزدور اس کام پر مامور ہوئے۔ آٹھ مہینے تک برابر کام جاری رہا اور نہایت سخت کوششیں عمل میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں روپے برباد کر دیے گئے۔ لیکن بجز اس کے کہ اوپر کی استر کاری خراب ہوئی۔ یا کہیں کہیں سے ایک آدھ پتھر اکھڑ گیا اور کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔
مجبور ہو کر ملک العزیز نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔
اہرام کے قریب ایک بہت بڑا بت ہے جس کو یہاں کے لوگ ابوالہول کہتے ہیں۔ اس کا سارا دھڑ زمین کے اندر ہے۔ گردن اور سر اور دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ چہرہ پر کسی قسم کا سرخ روغن ملا ہے۔ جس کی آب اس وقت تک قائم ہے۔ ان اعضا کی مناسبت سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ پورا قد ساٹھ ستر گز سے کم نہ ہو گا۔ باوجود اس غیر معمولی درازی کے تمام اعضا ناک کان وغیرہ اس ترتیب اور مناسبت سے بنائے ہیں کہ اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر کا فرق نہیں۔ عبد اللطیف بغدادی سے کسی شخص نے پوچھا تھا۔ کہ آپ نے دنیا میں سب سے عجیب تر کیا چیز دیکھی؟ اس نے کہا کہ ابوالہول کے اعضا کا تناسب۔ کیونکہ عالم قدرت میں جس چیز کا نمونہ موجود نہیں۔ اس میں ایسا تناسب قائم رکھنا آدمی کا کام نہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (شبلی نعمانی)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭

مولوی عبدالحلیم صاحب شرر لکھنوی

بزم قدرت
دنیا کی سب محفلیں تغیرات زمانہ سے درہم و برہم ہو جاتی ہیں۔ مگر خدا کی مرتب کی ہوئی محفل جس میں انقلابات عالم سے ہر روز ایک نیا لطیف پیدا ہوتا رہتا ہے۔ ہمیشہ آباد رہی اور یونہی قیامت تک جمی رہے گی۔ یہ وہ محفل ہے جس کی رونق کسی کے مٹانے سے نہیں مٹ سکتی۔ وہ پر غم واقعات اور وہ حسرت بھرے سانحے جن سے ہماری محفلیں درہم وہ برہم ہو جایا کرتی ہیں۔ ان سے بزم قدرت کی رونق اور دو بالا ہو جاتی ہے۔ ہماری صحبت کا کوئی آشنا حرماں نصیبی میں ہم سے بچھڑ کے مبتلائے دشت غربت ہو جاتا ہے۔ تو برسوں ہماری انجمنیں سونی پڑی رہتی ہیں۔ ہمارے عشرت کدوں کا کوئی زندہ دل نذر اجل ہو جاتا ہے تو سالہا سال کے لیے ماتم کدے ہو جاتے ہیں۔ مگر جب ذرا نظر کو وسیع کرو اور خاص صدمات کو خیال چھوڑ کے عالم کو عام نظر سے دیکھو۔ تو اس کی چہل پہل ویسی ہی رہتی ہے بلکہ نئی نسل کے دو چار پر جوش زندہ دل ایسے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ دنیا کی دلچسپیاں ایک درجہ اور ترقی کر جاتی ہیں۔ ایک شاعر کا قول ہے۔
دنیا کے جو مزے ہیں۔ ہرگز یہ کم نہ ہوں گے
چرچے یہی رہیں گے۔ افسوس! ہم نہ ہوں گے
جس نے کہا ہے بہت خوب کہا ہے۔ بزم قدرت ہمیشہ یونہی دلچسپیوں سے آباد رہے گی۔ ہاں ہم نہ ہوں گے اور ہماری جگہ زمانہ ایسے اچھے نعم البدل لا کے بیٹھا دے گا کہ ہماری باتیں محفل والوں کو پھیکی اور بے مزہ معلوم ہونے لگیں گی۔
الغرض یہ محفل کبھی خالی نہیں رہی۔ کوئی نہ کوئی ضرور رہا۔ جو اس بزم کی رونق کو ترقی دیتا رہا۔ اسی مقام سے یہ نازک مسئلہ ثابت کیا جاتا ہے۔ کہ زمانہ کی عام رفتار ترقی ہے ایک قوم آگے بڑھتی اور دوسری پیچھے ہٹتی ہے۔ تنزل پذیر قوم کے لوگ اپنے مقام پر جب اطمینان سے بیٹھتے ہیں۔ زمانہ اور ملک کی شکایتوں کا دفتر کھول دیتے ہیں اور ان کو دعویٰ ہوتا ہے کہ زمانہ تنزل پر ہے۔ مگر اصل پوچھئے۔ تو تنزل صرف ان کی غفلتوں اور راحت طلبیوں کا نتیجہ ہے۔ دنیا اپنی عام رفتار میں ترقی ہی کی طرف جا رہی ہے۔
اے وہ لوگو! جو شکایت زمانہ میں زندگی کی قیمتی گھڑیاں فضول گزران رہے ہو۔ ذرا بزم قدرت کو دیکھو تو کس قدر دل کش اور نظر فریب واقع ہوئی ہے۔ تمہارے دل میں وہ مذاق ہی نہیں پیدا کہ ان چیزوں کی قدر کرسکو۔ یہ وہ چیزیں ہے کہ انسانی جوش کو بڑھاتی ہیں اور طبیعت میں وہ مفید حوصلے پیدا کرتی ہیں۔ جن سے ہمیشہ نتیجے پیدا ہوئے اور پیدا ہوں گے۔ اندھیری رات میں آسمان نے اپنے شب زندہ دار دوستوں کی محفل آراستہ کی ہے۔ تارے کھلے ہوئے ہیں۔ اور اپنی بے ترتیبی اور بے نظمی پر بھی عجب بہار دکھا رہے ہیں۔ دیکھو ان پیارے خوش نما تاروں کی صورت پر کیسی زندہ دلی اور کیسی تری و تازگی پائی جاتی ہے؟ پھر یکایک مہتاب کا ایسا حسین اور نورانی مہمان مشرق کی طرف سے نمودار ہوا۔ اور یہ گورے گورے تارے اپنی بے فروغی پر افسوس کر کے غائب ہونے لگے۔ ماہتاب آسمان کے نیلگوں اطلسی دامن میں کھیلتا ہوا آگے بڑھا۔ وہ اگرچہ ہماری طرح دل داغدار لے کے آیا تھا۔ لیکن خوش خوش آیا۔ اور ہمارے غربت کدوں کو روشن کر کے بزم قدرت میں نہایت لطیف اور خوشگوار دلچسپیاں پیدا کر کے خوشی خوشی صحن فلک کی سیر کرتا ہوا مغرب کی طرف گیا اور غائب ہو گیا۔
ابھی آسمان کو اس مہمان کا انتظار تھا۔ جس سے نظام عالم کا سارا کاروبار چل رہا ہے۔ اور جس کی روشنی ہماری زندگیوں کی جان اور ہماری ترقیوں کا ذریعہ ہے۔ آفتاب بڑی آب و تاب سے ظاہر ہوا۔ رات کا خوبصورت اور ہم صحبت چاند اپنے اترے ہوئے چہرہ کو چھپا کے غائب ہو گیا۔ اور آسمان کا اسٹیج بزم قدرت کے دلفریب ایکٹروں سے خالی ہو گیا۔
خواب شب کا مزہ اٹھانے والوں کی آنکھیں کھل کھل کے افق مشرق کی طرف متوجہ ہوئی ہیں۔ آفتاب کی شعاعیں آسمان کے دور پر چڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس کے ساتھ مرغان سحر کے نغمہ کی آواز کانوں میں آئی ہے۔ اور آنکھیں مل کے دیکھا ہے تو ہماری نظر کی خیرگی نہ تھی۔ شمع حقیقت میں جھلملا رہی ہے۔ یک بیک وفور طرف نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ گھنٹے بجے ہیں۔ چڑیاں چہچہائیں۔ موذنوں نے اذانیں دیں۔ اور تمام جانوروں کی مختلف آوازوں نے مل کر ایک ایسا ہمہمہ پیدا کر دیا ہے کہ نیچر کی رفتار میں بھی تیزی پیدا ہو گئی۔ باغ نیچر کے چابکدست کاریگر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئے۔ نسیم سحر اٹکھیلیاں کرتی ہوئی آئی اور ضابط و متین غنچوں کے پہلو گد گدانے لگی۔ الغرض قدرت نے اپنی پوری بہار کا نمونہ آشکارا کر دیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (عبدالحلیم شرر)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
خان بہادر۔ شمس العلما مولوی محمد ذکاء اللہ

وارن ہیسٹنگز کے اخلاق و عادات

شاید ہی کوئی دوسرا مدبر و منتظم ملکی ایسا گزرا ہو کہ جس کی تفضیح اور ہجو اس مبالغہ سے اور تعریف اس شد و مد سے ہوئی ہو۔ اور اس کی ساری زندگی کے افعال اور اعمال کی تحقیقات ایسی شہادت تحریری سے ہوئی ہو۔ مگر اس کی نسبت لکھنے والے طرف دار اور متعصب تھے۔ اگر نظر انصاف سے دیکھئے تو اس کی یہ بھلائیاں اور برائیاں معلوم ہوں گی۔ جو ہم نیچے لکتےد ہیں۔ اس کی فطانت اور فراست و ذہانت کے سب دوست دشمن قائل ہیں۔ کوئی اس میں شبہ نہیں کرتا۔ کہ وہ بیدار مغز اور ہوشیار دل ایسا تھا۔ کہ امور خطیر اور معاملات عظیم کے انصرام اور سر انجام کرنے کی اس میں قابلیت اور لیاقت تھی۔ برسوں تک اس نے ایک سلطنت بزرگ اور مملکت عظیم کا نظم و نسق کیا۔ سوائے ذہین اور قابل ہونے کے وہ محنت شعار اور جفا کش پرلے درجہ کا تھا۔ کاہلی اس سے کروڑوں کوس دور رہتی تھی۔ اس کے جانشین جو ہوئے۔ ان میں دو چار قابلیت اور لیاقت میں تو ہم پلہ ہوئے مگر محنت مشقت و کار گزاری میں اس سے کہیں ہلکے تھے۔ یہی پلا عالی دماغ تھا۔ جس نے یہ سوچا کہ انگریزی گورنمنٹ سب سے علیٰحدہ رہ کر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اور ہندوستانی رئیسوں سے آمیزش ار سازش کرے۔ یہی باب فتح و نصرت کی کنجی ہ۔ یہی وہ روشن عقل تھا کہ اس شاہراہ پر انگریزی گورنمنٹ کو رستہ دکھایا۔ جس پر چلنے سے وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئی۔ گو یہ خیالات اس وقت انگلستان میں عام نہ تھے مگر بری بھلی طرح سے تجربہ ہو کر آخر کار وہی صحیح ثابت ہو گئے۔
اس نے انگریزی صوبوں کے حسن انتظام میں اپنی عقل و ذہن کو بہت خرچ کیا۔ انقلابوں کے طوفان نے سارے ملک میں اندھیر مچا رکھا تھا۔ کسی سلطنت کا چراغ روشن نہ تھا۔ شمع افسردہ کی طرح سب میں دھواں نکل رہا تھا۔ مالی اور دیوانی عدالتوں کا بہت برا حال تھا۔ وہ نام کی عدالتیں تھیں۔ حقیقت میں اس کے طفیل وہ ظلم و ستم ہوتے تھے کہ قلم لکھ نہیں سکتا۔ اگر زمیندار تھا۔ تو ادارے مالگزاری کے لیے سر اس کا گنجہ بنایا جاتا تھا۔ اگر ساہوکار تھا۔ تو وہ شکنجے میں پھنسا ہوا تھا۔ غرض سارے زمانے کی عافیت تنگ تھی۔ اس نے ان سب عدالتوں کی اصلاح کی۔ گو ان کو ان نے درجہ کمال تک نہیں پہنچایا۔ اور نہ ان کو اچھا بنایا۔ مگر وہ ایک بنیاد اس کی ایسی ڈال گیا کہ پھر اس پر اوروں کو ردے لگا کر عمارت بنانی آسان ہو گئی۔ کوئی حکومت کا کارخانہ ایسا نہ تھا۔ کہ جس کی طرف ان نے توجہ نہ کی ہو۔ اور ان میں بہت سی مفید باتوں کا موجد نہ ہو۔
اس نے اپنی سرکار کی ہوا خواہی اور خیر اندیشی میں بھی کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ مگر اس میں اس نے اخلاق کی نیکی پر خیال نہیں کیا۔ جس وقت سرکار نے روپیہ مانگا۔ تو اس کے سر انجام کرنے میں کسی بات کا آگا پیچھا نہیں سوچا۔ از راہ ظلم و تعدی جو دولت کا سامان کیا۔ اہل انگلستا نے اس کو سر بے سامانی سمجھا۔ اس کی طبیعت کا خمیر ایسا تھا کہ وہ عدالت اور صداقت کو ضرورت کے وقت کچھ چیز نہیں سمجھتا تھا اور مروت و فتوت کو انسانیت میں داخل نہیں جانتا تھا۔ "گر ضرورت بود روا باشند” پر عمل تھا۔ وہ خود رائی کے سبب بر خود غلط اتنا تھا کہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا۔ ہر کام اس کا ایک راز سر بستہ اور سر پوشیدہ تھا۔ کسی کام کی اصل و حقیقت کھلنے ہی نہیں دیتا تھا۔ گو اس کے ظاہر ہو جانے سے نقصان نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہر کام کو بڑے پیچ پاچ سے کرتا تھا۔ غرض اس میں جو خوبیاں تھیں۔ وہ تحسین کے قابل تھیں اور جو برائیاں تھیں وہ نفریں کے لائق۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ رعایا پروری۔ سپاہ کی دلداری۔ لوگوں کو اپنا کر لینا۔ رفاہیت عباد اور معموری بلاد کا خیال یہ سب خوبیاں اس میں ایسی تھیں کہ وہ ایک طوطیِ خوش رنگ کی طرح خوش نما معلوم ہوتی تھیں۔ مگر اپنی سرکار کی نمک شناسی کے سبب سے اس کی گنجینہ آزمائی۔ دولت افزائی ایسی ایک بلی اس میں تھی کہ وہ اس طوطیِ خوش رنگ کو نوچے کھاتی تھی۔ مگر اس بلی کے بھنبھوڑنے کے لیے اس کے پاس ایک کتا بھی موجود تھا۔ جو اس کی خود پرستی و خود رائی تھی۔ غرض یہ فضائل اور رذائل اس میں کام کر رہے تھے۔ جو ایک بڑے بند مکان میں طوطی اور بلی اور کتا کام کریں۔ ہیسٹنگز صاحب کی سب سے زیادہ تعریف اس بات مں تھی کہ اس نے سار کارخانوں اور کاموں کے لیے خود ہی مقدمات کو ترتیب دیا اور اس بات کو سر انجام کیا۔ جب وہ ولایت سے ہندوستا آیا۔ تو طفل مکتب تھا۔ نوکری ملی تو تجارت کے کارخانے میں۔ کبھی اس کو اہل علم اور منتظمان ملکی کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی۔ جتنے اس کے یہاں جلیس و انیس تھے۔ اس میں کوئی اس سے زیادہ صاحب لیاقت نہ تھا۔ کہ اپنی لیاقت کو بڑھاتا۔ بلکہ اس کو کود استار بن کر سب کو لیاقت کا سبق پڑھانا پڑا۔ وہ سب کا رہنما تھا اور اس کا رہنما فقط اس کی عقل و دانش کا نور تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (محمد ذکاء اللہ)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
ادب

ادب کے معنی اس کی ریاضت محمودہ اور کوشش وسعی کے ہیں۔ جس سے کسب فضیلت ہو۔ ہر چیز کی حد نگہداشت کو اور ہر فعل محمودہ کی تعظیم کو بھی ادب کہتے ہیں۔
تو اپنے نفس کو وہ ادب سکھا کہ بے ادب اسے دیکھ کر با ادب ہو جائیں۔ جو ادب سکھانے کا ذوق رکھتا ہے۔ وہ بے ادبوں کو اپنا ہی سا بنا لیتا ہے۔ جیسے آہوئے وحشی جو گھر میں دانہ کھاتا ہے۔ وہ اور آہوؤں کو پکڑ لاتا ہے۔ جو اپنے اخلاق کی بنیاد ادب پر رکھتا ہے۔ اس کا فکر استاد ہو جاتا ہے۔ بزرگی کی جڑ ادب سے مستحکم ہوتی ہے۔
تو لالہ و گل کی طرح تھوڑا سا خندہ کر۔ کہ سب کو مطبوع ہو۔ نہ یہ کہ ایسے قہقہے لگائے کہ سب کو بیہودہ معلوم ہوں۔ بے خرد جس کو مزاح کہتے ہیں۔ وہ خرد مندوں کے نزدیک نبرد و سلاح ہے۔ اگر تمہاری ڈاڑھی کوؤں کے پروں کی سی سیاہ ہو تو بڈھوں کی بگلا سی سفید ڈاڑھی کی ہنسی نہ اڑاؤ۔ اگر تم سمن عارض اور گلعذار ہو۔ تو زنگی کے سامنے آئینہ رکھ کر اسے نہ چڑاؤ۔ کیونکہ کوئی بدصورت دنیا میں بے مصلحت نہیں ہوتا۔ ایک چینی جس کا رنگ سرخ و سفید تھا ایک زنگی پر ہنسا۔ تو زنگی نے جواب دیا کہ میرا ایک نقطہ تیرے چہرے کے لیے زیب ہے اور تیرا ایک نقطہ میرے لیے ایک عیب ہے۔ تجھے چاہیے کہ جو تیرا عیب بیں ہو۔ تو اس کا ہنر دیکھ۔ جو تجھے زہر دے تو اس کو نبا دے۔ جو تجھے مارے تو اسے آب حیات پلا۔ تاکہ تیری عقل سلامت پسند ہو۔ اور تیرے خطبہ اخلاق میں بآواز بلند پڑھا جائے۔ خدا سے توفیق ادب کی دعا مانگ۔ کیونکہ اد کے بغیر لطف رب سے آدمی محروم رہتا ہے۔ بے ادب اپنے لئے برا نہیں ہوتا۔ بلکہ اوروں کے لیے بھی برا نمونہ بنتا ہے۔ ادب انسان کو معصوم بناتا ہے۔ گستاخی اور بے باکی غموں کا ہجوم رکھتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (محمد ذکاء اللہ)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
حیا

حیا بھی طرح طرح کی ہوتی ہے۔ اور بے حیائی بھی قسم قسم کی۔ سب سے زیادہ سخت بے حیائی محبت میں اندھا ہونا ہے۔ جس میں اکثر انسان مبتلا ہیں۔ ایک شخص جو سرشت انسان سے بڑا ماہر ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ آدمی اپنے سب سے کے بعد محبت کرے۔ مگر دنیا میں بہت سے آدمی ایسے دیکھنے میں آتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے اپنے سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ان صفات کا یقین کرے تہیں۔ جو درحقیقت اس میں نہیں ہوتیں۔ اور اپنی ذات کی قدر و منزلت و قیمت میں مبالغہ کرتے ہیں۔ یہی سخت عیب ہے جس سے انسان جو اپنے آپ سے دھوکا کھا جاتا ہے۔ اور ذلت اٹھاتا ہے۔ خلق کی نظروں میں حقیر ہو جاتا ہے۔ جب آدمی خود ستائی کرتا ہے اور اس طرح اپنے تئیں دکھانا چاہتا ہے۔ جس سے معلوم ہو کہ وہ کوئی بڑی قابلیت و قدر منزلت کا آدمی ہے۔ تو ضرور اس کی ہنسی ہوتی ہے۔ ہم کو چاہیے کہ جب کوئی دوسرا شخص ہماری تعریف کرے تو اس کو حیا و شرم کے ساتھ قبول کریں۔ ظاہر اور باطن دونوں میں فروتنی اور عجز و انکسار اختیار کرنا چاہیے۔ جب آدمی اپنی نیک صفات کو۔ جو حقیقت میں اس کے اندر ہیں۔ نمود کے ساتھ دکھائے گا۔ تو شیخی کرکری ہو جائے گی۔
غرور کرنا بڑی بے حیائی ہے۔ مغرور بڑا بے حیا ہوتا ہے۔ مغرور اپنی نخوت کے زور سے مصیبتوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ وہ اپنے دگنے زور سے اپنے سرکش دل کے ٹکڑے کرتا ہے۔ نرم پورا ہوا کے جھونکوں کے آگے سر جھکاتا ہے اور اس کے تمام زور کو اپنے سے دور کر دیتا ہے اور خود قائم رہتا ہے۔ ایسے ہی فروتن۔ متواضع۔ منکسر اور عجز و انکسار سے بلاؤں کو سر پر سے ٹال دیتا ہے۔
سفلے کم ظرف نا شائستہ اپنی اصلی لیاقتوں کی شیخیاں بگھارا کرتے ہیں۔ سچے مہذب اور شائستہ اپنے عجز و ناتوانی کو ظاہر کیا کرتے ہیں۔ علم میں جو لوگ تھوڑی لیاقت رکےرت ہیں۔ وہی اپنے عالم ہونے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ مگر حقیقت میں جو عالم علم دستگاہ اور حقیقت آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آگے بہ نسبت پیچھے کے زیادہ دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے میں یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ہم کیا جانتے ہیں بلکہ یہ کہ کیا نہیں جانتے۔ جتنا ان کا علم بڑھتا ہے۔ اتنا ہی ہی اپنی جہالت کے علم سے ان کی حیا زیادہ ہوتی ہے۔ وہ سمندر کے تیراک ہوتے ہیں ایک عمق کے بعد دوسرا عمق ان کے آگے ہوتا ہے۔ اس کی تھاہ کبھی ان کو نہیں ملتی۔ یہ کم علم ندی نالوں کے تیراک ہوتے ہیں۔ کہ جلدی سے تھاہ کو پا کے خوش ہو جاتے ہیں اور اس پر گھمنڈ اور فخر کرتے ہیں۔ عالموں کی نظروں کے روبرو۔ پہاڑ پر پہاڑ اور ایک ہمالہ پر دوسرا ہمالہ آتا جاتا ہے۔ جس سے اس کا منظر فراخ ہوتا جاتا ہے۔ جتنا یہ منظر وسیع ہوتا ہے۔ اتنی ہی ان کو حیا اپنی کوتاہ نظری کی بڑھتی جاتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (محمد ذکاء اللہ)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
محنت

ہر بشر کے پیچھے سب حالتوں میں محنت کرنے کا فرض لگا ہوا ہے۔ خواہ وہ کسی جماعت کا ہو۔ جو شریف شرافت نسبی اور شرافت حقیقی تعلیم وہ تہذیب کے سبب رکھتا ہے۔ وہ اپنے دل سے اس امر کو اپنے اوپر فرض سمجھتا ہے کہ بہبود عوام اور رفاہ انام میں سعی کر کے محنت میں اپنا حصہ لوں۔ اس کو ہرگز یہ گوار خاطر نہیں ہوتا کہ میں اوروں کی محنت سے کھاؤں پیوں۔ میں فراغت سے رہوں اور اس کا معاوضہ خود محنت کر کے اپنی سوسائٹی کو نہ دوں۔ عالی خیال نیک کردار اس تصور سے بھاگتا ہے کہ یونہی بیٹھا رہے۔ اور دعوتیں اڑایا کرے۔ اور اس کا معاوضہ کچھ نہ دے۔ نکما پن اور سستی نہ کوئی عزت ہے نہ کوئی منفعت ہے۔ اس سے فرومایہ اور کمینہ طبائع راضی ہو جاویں۔ مگر عالی ہمت تو ایسی حالت کو مذلت سمجتھے ہیں اور حقیقی عزت اور عظمت سے اسے بعید جانتے ہیں۔
ایک دانشمند بلند خرد جو خود جدوجہد میں مجتہد تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو جو مدرسہ میں پڑھتا تھا۔ یہ پند سود مند ارقام فرماتا ہے کہ اسے میرے پیارے بیٹے! تیرے دل پر اس بات کا نقش شدت سے زور دے کر نہیں جما سکتا کہ ہر امیر۔ شریف۔ غریب۔ فقیر کی شرط زندگی محنت ہے۔ غریب کسان روٹی اپنی پیشانی کی عرق ریزی سے کماتا ہے۔ اور امیر اپنی شکار کی جستجو میں سعی کر کے اپنی سستی کو کھوتا ہے۔ جیسے گہو ں کے کھیت میں بغیر ہل چلائے کاشتکار کو کچھ پیداوار ہاتھ نہیں لگتا۔ ایسے ہی مزرعہ دل میں تخم علم بغیر محنت کے بار آور نہیں ہوتا۔ مگر ہاں ان دونوں میں اتنا فرق ضرور ہے کہ ایسے اتفاقات اور واقعات پیش آسکتے ہیں۔ کہ ایک کسان کھیت بوئے اور وہ اس کی پیدا وار سے محروم رہے اور کوئی دوسرا آدمی اس سے متمتع ہو۔ مگر علم میں یہ نہیں ہوسکتا۔ کہ آتش زدگی یا وقوع حادثات سے کوئی شخص اپنے مطالعہ علمی کی ریاضت کے ثمر سے محروم ہو جائے اور یہ ثمر دوسرے کو ملجائے۔ اس کے تحصیل علم کی تکمیل اور توسیع خاص اسی کی ذاتی منفعت کے لیے ہے۔ اسی واسطے میرے پیارے بچے محنت کر اور وقت کو اچھی طرح کام میں لا۔ لڑکپن میں ہمارے قدم ہلکے ہوتے ہیں اور دل ملائم۔ اس میں علم خوب جڑ پکڑ سکتا ہے۔ آدمی کی بھی عمریں مثل فصلوں کے ہوتی ہیں کہ اگر ایک فصل کی کاشت میں غفلت کیجئے تو دوسری فصل میں حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ پس اگر ہم اپنی طفلی اور جوانی جو خریف و ربیع کی فصلیں ہیں۔ ضائع کر دیں گے۔ تو بڑھاپا ہمارا کہ کھرسا کا موسم ہے۔ نہایت خوار اور ذلیل ہو گا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (محمد ذکاء اللہ)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭

شمس العلما مولوی سید محمد حسیں آزاد

سید محمد حسین نام۔ آزاد تخلص۔ دہلوی۔ فن شعر میں ابراہیم ذوق کے شاگرد۔ علوم عربیہ و فارسیہ میں حظ وافی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی و فارسی کے پروفیسر تھے۔ اردو میں ان کی نثر پایہ عالی رکھتی ہے۔ تشبیہ و تمثیل کا استعمال نہایت خوبی و لطافت سے کرتے ہیں۔

اردو اور انگریزی انشا پردازی پر کچھ خیالات

اگر زبان کو فقط اظہار مطالب کا وسیلہ ہی کہیں۔ تو گیا وہ ایک اوزار ہے کہ جو کام ایک گونگے بچارے یا بچے نادان کے اشارے سے ہوتے ہیں۔ وہی اس سے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایک معمار ہے کہ اگر چاہے تو باتوں باتوں میں ایک قلعہ فولادی تیار کر دے۔ جو کسی توپ خانے سے نہ ٹوٹ سکے۔ اور چاہے۔ تو ایک بات میں اسے خاک میں ملا دے۔ جس میں ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ زبان ایک جادوگر ہے۔ جو کہ طلسمات کے کارخانے الفاظ کے منتروں سے تیار کر دیتا ہے اور جو اپنے مقاصد چاہتا ہے۔ ان سے حاصل کر لیتا ہے۔ وہ ایک نادر مرصع کار ہے۔ کہ جس کی دستکاری کے نمونے کبھی شاہوں کے سروع کے تاج اور کبھی شہزادیوں کے نو لکھے ہار ہوتے ہیں۔ کبھی علوم و فنون کے خزانوں کے زر و جواہر اس کے قوم کو مالا مال کرتے ہیں۔ وہ ایک چالاک عیار ہے۔ جو ہوا پر گرہ لگاتا ہے اور دلوں کے قفل کھولتا اور بند کرتا ہے۔ یا مصور ہے کہ نظر کے میدان میں مرقع کھینچتا ہے۔ یا ہوا میں گلزار کھلاتا ہے۔ اور اسے پھول۔ گل۔ طوطی و بلبل سے سجا کر تیار کر دیتا ہے۔
اس ناردر دستکار کے پاس مانی اور بہزاد کی طرح مو قلم اور رنگوں کی پیالیاں دھری نظر نہیں آتی ہیں۔ لیکن اس کے استعاروں اور تشبیہوں کے رنگ ایسے خوش نما ہیں کہ ایک بات میں مضمون کو شوخ کر کے لال چہچہا کر دیتا ہے۔ پھر بے اس کے کہ بوند پانی اس میں ڈالے۔ ایک ہی بات میں اسے ایسا کر دیتا ہے کہ کبھی نارنجی۔ کبھی گلناری۔ کبھی آتشی۔ کبھی ایسا بھینا بھینا گلابی رنگ دکھاتا ہے کہ دیکھ کر جی خوش ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بو قلموں اور رنگا رنگ اور پھر سرتاپا عالم نیرنگ۔
جس زبان میں ہم تم باتیں کرتے ہیں۔ اس میں بڑے بڑے نازک قلم مصور گزر گئے ہیں۔ جن کے مرقعے آج تک آنکھوں اور کانوں کے رستے سے ہمارے تمہارے دلوں کو تازہ کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج کل گویا ان کے قلم گھس گئے ہیں اور پیالیاں رنگوں سے خالی ہو گئی ہیں۔ جس سے تمہاری زبان کوئی نئی تصویر یا باریک کام کا مرقع تیار کرنے کے قابل نہیں رہی۔ اور تعلیم یافتہ قومیں اسے سن کر کہتی ہیں کہ یہ نا کامل زبان ہر قسم کے مطالب ادا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔
میرے دوستوں! یہ قول ان کا حقتعل میں بیجا نہیں ہے۔ ہر ایک زبان تعلیم یافتہ لوگوں میں جو عزت پاتی ہے۔ تو دو سبب سے پاتی ہے۔ اول یہ کہ اس کے الفاظ کے خزانے میں ہر قسم کے علمی مطالب ادا کرنے کے سامان موجود ہوں۔ دوم اس کی انشا پردازی ہر رنگ اور ہر ڈھنگ میں مطالب کے اداد کرنے کی قوت رکھتی ہیں اور اس کے سبب ظاہر ہیں۔
علمی مطالب ادا کرنے کے سامانوں میں وہ مفلس ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تم جانتے ہو۔ کل ڈیڑھ سو برس تخمیناً اس کی ولادت کو ہوئے۔ اس کا نام اردو خود کہتا ہے کہ میں علمی نہیں۔ بازار کی زبان ہوں۔ اٹھنے بیٹھنے۔ لین دین کی باتوں کے لیے کام میں آتی ہوں۔ سلاطین چغتائیہ کے وقت تک اس میں تصنیف و تالیف کا رواج نہ تھا۔ مگر خدا کی قدرت دیکھو۔ کہ ایک بچہ شاہجہاں کے گھر میں پیدا ہوا اور انگریزی اقبال کے ساتھ ستارہ چمکے۔ جب صاحب لوگ یہاں آئے۔ تو انہوں نے ملکی زبان سمجھ کر اس کے سیکھنے کا ارادہ کیا۔ مگر سوائے چند دیوانوں کے اس میں نثر کی کتاب تک نہ تھی۔ ان کی فرمائش سے کئی کتابیں۔ کہ فقط افسانے اور داستانیں تھیں۔ تصنیف ہوئیں۔ اور انہی کے ڈھب کی صرف و نحو بھی درست ہوئی۔ ۱۸۳۵ عیسوی سے دفتر بھی اردو ہونے شروع ہوئے۔ ۱۸۳۶ عیسوی میں ایک اردو اخبار جاری ہوا۔ ۱۸۴۲ میں دہلی کی سوسائٹی میں علمی کتابیں اسی زبان میں ترجمہ ہونے لگیں اور اردو نے برائے نام زبان کا تمغا اور سکی پایا۔ اب خیال کرنا چاہیے کہ جس زبان کی تصنیفی عمر کل ستر بہتر برس کی ہو۔ اس کی بساظ کیا۔ اور اس کے الفاظ کے ذخیرے کی کائنات کیا۔ پس اس وقت ہمیں اس کی کمی الفاظ سے دل شکستہ ہونا نہ چاہیے۔
میرے دوستو! کسی زبان کو لفظوں کے اعتبار سے مفلس یا صاحب سرمایہ کہنا بیجا ہے۔ ہر زبان اہل زبان کے با علم ہونے سے سرمایہ دار ہوتی ہے۔ اور کسی ملک والے یہ کہنا کہ علمی تصنیف یا بات چیت میں اپنے ہی ملک کے الفاظ بولیں۔ بالکل بیجا ہے۔
عربی بھی ایک علمی زبان تھی۔ مگر دیکھ لو۔ اس میں سارے لفظ تو عربی نہیں۔ صدہا رومی۔ صدہا یونانی۔ صدہا فارسی کے لفظ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور زبان فارسی کا تو کچھ ذکر ہی نہیں۔ انگریزی زبان آج علوم کا سر چشمہ بنی بیٹھی ہے۔ مگر اس زبان کے لفظوں کا طوفان آرہا ہے۔ زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ پہلے اہل ملک میں علم آتا ہے۔ پھر علمی اشیا کے لیے الفاظ یا تو اس علم کے ساتھ آتے ہیں یا وہیں ایجاد ہو جاتے ہیں۔
علمی الفاظ کا ذخیرہ خدا نے بنا کر نہیں بھیجا۔ نہ کوئی صاحب علم پہلے سے تیار کر کے رکھ گیا۔ جیسے جیسے کام اور چیزیں پیدا ہوتی ہو گئیں۔ ویسے ہی ان کے الفاظ پیدا ہوئے اور ہوتے جاتے ہیں۔ اول خاص و عام میں علم پھیلتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے الفاظ بھی عام ہوتے ہیں۔ مثلاً ریل کا انجن اور اس کے کارخانے کے صدہا الفاظ ہیں۔ کہ پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب کارخانے ہوئے۔ تو ادنیٰ ادنیٰ نا خواندے سب جان گئے۔ اگر بے اس کے وہ الفاظ یہاں ڈھونڈتے یا پہلے یاد کراتے۔ تو کسی کی سمجھ میں بھی نہ آتے۔ اس طرح مثلاً میجک لینٹرن اس وقت یہاں کوئی نہیں جانتا۔ خواہ اس کا یہی نام لیں۔ خواہ فانوس جادو کہیں۔ خواہ اچنبھے کا تماشا کہیں۔ ہرگز کوئی نہیں سمجھے گا۔ لیکن اگر مشاہدے میں عام ہو جائے اور گھر گھر میں جاری ہو جائے۔ تو الٹے سے الٹا اس کا نام رکھ دیں۔ وہی بچے بچے کی زبان پر مشہور ہو جائے گا اور وہی سب سمجھیں گے۔
انگریزی میں جو علمی الفاظ ہیں مثلاً ٹیلیگراف یا ایلکٹریسٹی وغیرہ وغیرہ ان میں بھی بہت سے الفاظ ایسے ہیں کہ وہ اپنے اصل معنیٰ پر پوری دلالت نہیں کرتے۔ مگر چونکہ ملک میں علم عام ہے اور وہ چیزیں عام ہیں۔ اس لیے الفاظ مذکورہ بھی ایسے عام ہیں کہ سب بے تکلف سمجتھے ہیں۔ پس لفظوں کی کوتاہی ہماری زبان میں اگر ہے۔ تو اس سبب سے ہے کہ وہ علمی کے عہد میں پیدا ہوئی اور اسی عہد میں پرورش اور تربیت پائی۔ اب اس کی تدبیر ہوسکتی ہے۔ تو اہل ملک ہی سے ہوسکتی ہے۔ وہ یہ ے کہ خود علوم و فنون حاصل کرو۔ اپنے ملک میں پھیلاؤ اور بھائی بندوں کو اس سے آگاہ کرو۔ جب اس میں سب قسم کے کاروبار ہوں گے۔ تو ان کے الفاظ بھی ہوں گے۔ ملک کے افلاس کے ساتھ زبان سے بھی افلاس کا داغ مٹ جائے گا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (محمد حسین آزاد)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
تذکرہ ملک الشعرا خاقانی ہند شیخ ابراہیم ذوق

جب وہ صاحب کمال عالم ارواح سے کشور اجسام کی طرف چلا۔ تو فصاحت کے فرشتوں نے باغ قدس کے پھولوں کا تاج سجایا۔ جن کی خوشبو شہرت عام بنکر جہاں میں پھیلی اور رنگ نے بقائے دوام سے آنکھوں کو طراوت بخشی۔ وہ تاج سر پر رکھا گیا۔ تو آب حیات اس پر شبنم ہو کر برسا۔ کہ شادابی کو کملاہٹ کا اثر نہ پہنچے۔ ملک الشعرائی کا سکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا۔ کہ اس پر نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چنانچہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستا میں پیدا ہو سبب اس کا یہ ہے کہ جس باغ کا بلبل تھا۔ وہ باغ برباد ہو گیا۔ نہ ہم صفیر رہے۔ نہ ہم داستان رہے۔ نہ اس بولے کے سمجھنے والے رہے۔ جو خراب آباد اس زبان کے لیے ٹکسال تھا۔ وہاں بھانت بھانت کا جانور بولتا ہے۔ شہر چھاؤنی سے بدتر ہو گیا۔ امرا کے گھرانے تباہ ہو گئے۔ گھرانوں کے وارث علم و کمال کے ساتھ روٹی سے محروم ہو کر حواس کو بیٹھے۔ وہ جادو کار طبیعتیں کہاں سے آئیں؟ جو بات بات میں دل پسند انداز اور عمدہ تراشیں نکالتی تھیں۔ آج جن لوگوں کو زمانہ کی فارغ بالی نے اس قسم کی ایجاد و اختراع کی فرصتیں دی ہیں۔ وہ اور اور اصل کی شاخیں ہیں۔ انہوں نے اور پانی سے نشو و نما پائی ہے۔ وہ اور ہی ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ پھر اس زبان کی ترقی کا کیا بھروسا۔
کیسا مبارک زمانہ ہو گا۔ جب کہ شیخ مرحوم اور میرے والد مغفور ہم عمر ہوں گے۔ تحصیل علمی ان کی عمروں کی طرح حالت طفلی میں ہو گی۔ صرف نحو کی کتابیں ہاتھوں میں ہوں گی اور ایک استاد کے دامن شفقت میں تعلیم پاتے ہوں گے۔ ان نیک نیت لوگوں کی ہر ایک بات استقلال کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی۔ وہ رابطہ اس عمروں کے ساتھ بڑھتا گیا اور اخیر وقت ایسا نبھ گیا کہ قرابت سے بھی زیادہ تھا۔ ان کے تحریر حالات میں بعض باتوں کے لکھنے کو سمجھیں گے۔ مگر کیا کروں جی یہ ہی چاہتا ہے کہ حرف اس گراں بہا داستان کا نہ چھوڑوں۔ یہ شاید اس سبب سے ہو کہ اپنے پیار ار پیار کرنے والے بزرگ کی ہر بات پیاری ہوتی ہے۔ لیکن نہیں۔ اس شعر کے پتلے کا رونگٹا بھی بیکار نہ تھا۔ ایک صعت کاری کی کل میں کونسے پرزے کو کہہ سکتے ہیں! کہ نکال ڈالو۔ یہ کام کا نہیں۔ اور کونسی حرکت اس کی ہے۔ جس سے کچھ حکمت انگیز فائدہ نہیں پہنچتا ہے اسی واسطے میں لکھوں گا اور جو بات ان کے سلسلہ حالات میں مسلسل ہوسکے گی۔ اس کا ایک حرف نہ چھوڑوں گا۔
شیخ مرحوم کے والد شیخ محمد رمضان ایک غریب سپاہی تھے۔ مگر زمانہ کے تجربہ اور بزرگوں کی صحبت نے انہیں حالات زمانہ سے ایسا با خبر کر دیا تھا۔ کہ ان کی زبانی باتیں کتب تواریخ کے قیمتی سرمائے تھے۔ وہ دلی میں کابلی دروازے کے پاتے رہتے تھے۔ اور نواب لطف علی خان نے انہیں معبر اور با لیاقت شخص سمجھ کر اپنی حرم سرا کے کاروبار سپرد کر رکھے تھے۔ شیخ علیہ الرحمہ ان کے اکلوتے بیٹھے تھے کہ ۱۲۰۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ اس وقت کسی خبر ہو گی کہ اس رمضان سے وہ چاند نکلے گا۔ جو آسمان سخن پر عید کا چاند ہو کر چمکے گا۔ جب پڑھنے کے قابل ہوئے تو حافظ غلام رسول نام ایک شخص بادشاہی حافظ ان کے گھر پاس رہتے تھے۔ محلہ کے اکثر لڑکے انہیں کے پاس پڑھتے تھے۔ انہیں بھی وہیں بٹھا دیا۔ حافظ غلام رسول شاعر بھی تھے۔ شوق تخلص کرتے تھے۔ اگلے وقتوں کے لوگ جیسے شعر کہتے ہیں۔ ویسے شعر کہتے تھے۔ محلہ کے شوقین نوجوان دلوں کی امنگ میں ان سے کچھ کچھ کہلوا لے جایا کرتے تھے۔ اکثر اصلاح بھی لیا کرتے تھے۔ غرض ہر وقت ان کے ہاں یہی چرچا رہتا تھا۔
شیخ مرحوم خود فرماتے تھے کہ وہاں سنتے سنتے مجھے بہت شعر یاد ہو گئے۔ نظم کے پڑھنے اور سننے میں دل کو ایک روحانی لذت حاصل ہوتی تھی اور ہمیشہ اشعار پڑھتا پھرا کرتا تھا۔ دل میں شوق تھا اور خدا سے دعائیں مانگتا تھا۔ کہ الٰہی! مجھے شعر کہنا آ جائے۔ ایک دن خوشی میں آ کر خود بخود میری زبان سے دو شعر نکلے۔ اور یہ فقط حسن اتفاق تھا۔ کہ ایک حمد میں تھا۔ ایک نعت میں۔ مجھے اتنا ہوش تو کہاں تھا۔ کہ اس مبارک مہم کو خود اس طرح سمجھ کر شروع کرتا۔ کہ پہلا حمد میں ہو اور دوسرا نعت میں۔ جب یہ خیال بھی نہ تھا۔ کہ اس قدرتی اتفاق کو مبارک فال سمجھوں۔ مگر ان دو شعروں کے موزوں ہو جانے سے۔ جو خوشی دل کو ہوئی۔ اس کا مزہ اب تک نہیں بھولتا۔ انہیں کہیں اپنی کتاب میں۔ کہیں جا بجا کاغذوں پر رنگ برنگ کی روشنائی سے لکھتا تھا۔ ایک ایک کو سناتا تھا اور خوشی کے مارے پھولوں نہ سماتا تھا۔ غرضکہ اس عالم میں کچھ کہتے رہے اور حافظ جی سے اصلاح لیتے رہے۔
اسی محلہ میں میر کاظم حسین نام ایک ان کے ہم سن ہم سبق تھے۔ بیقرار تخلص کرتے تھے اور حافظ غلام رسول ہی سے اصلاح لیتے تھے۔ مگر ذہن کی جودت اور طبیعت کی براقی کا یہ عالم تھا۔ کہ کبھی برق تھے۔ اور کبھی باد و باراں۔ انہیں اپنے بزرگوں کی صحبت میں اچھے اچھے موقعے ملتے تھے۔ شیخ مرحوم اور وہ اتحاد طبعی کے سبب اکثر ساتھ رہتے تھے اور مشق کے میدان میں ساتھ ہی گھوڑے دوڑاتے تھے۔
ایک دن میر کاظم حسین نے غزل لا کر سنائی۔ شیخ مرحوم نے پوچھا۔ یہ غزل کب کہی؟ خوب گرم شعر نکالے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ ہم تو شاہ نصیر کے شاگرد ہو گئے۔ انہیں سے یہ اصلاح لی ہے۔ شیخ مرحوم کو بھی شوق پیدا ہوا۔ اور ان کے ساتھ جا کر شاگرد ہو گئے۔
سلسلہ اصلاح جاری تھا۔ مشاعروں میں غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ لوگوں کی واہ واہ طبیعتوں کو بلند پروازیوں کے پر لگاتی تھی۔ کہ رشک جو تلا میذ الرحٰمن کے آئینوں کا جوہر ہے۔ استاد شاگردوں کو چمکانے لگا۔ بعض موقع پر ایسا ہوا۔ کہ شاہ صاحب نے زن کی غزل کو دیکھ کر بے اصلاح پھیر دیا اور کہا کہ طبیعت پر زور ڈال کر کہو۔ کبھی کہہ دیا۔ یہ کچھ نہیں۔ پھر سوچکر کہو۔ بعض غزلوں کو جو اصلاح دی۔ اس سے بے ادائی پائی گئی۔ ادھر انہیں کچھ تو یاروں نے چمکادیا۔ کچھ اپنی غریب حالت نے یہ آزردگی پیدا کی۔ کہ شاہ صاحب اصلاح میں بے توجہی یا پہلو تہی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس طرح کئی غزلیں پھیریں۔ بہت سے شعر کٹ گئے۔ زیادہ تر قباحت یہ ہوئی۔ کہ شاہ صاحب کے صاحبزادے شاہ وجیہ الدین منیر تھے۔ جو براقی طبع میں اپنے والد کے خلف الرشید تھے۔ ان کی غزلوں میں توارد سے۔ یا خدا جانے کس اتفاق سے وہی مضمون پائے گئے۔ اس لیے انہیں زیادہ رنج ہوا۔
اگرچہ ان کی طبیعت حاضر۔ فکر رسا۔ بندش چست۔ اس پر کلام میں زور۔ سب کچھ تھا۔ مگر چونکہ یہ ایک غریب سپاہی کے بیٹے تھے۔ نہ دنیا کے معاملات کا تجربہ تھا۔ نہ کوئی ان کا دوست ہمدرد تھا۔ اس لیے رنج اور دل شکستگی حد سے زیادہ ہوتی تھی۔ اسی قیل و قال میں ایک دن سودا کی غزل پر غزل کہی۔ "دوش نقش پا۔ آغوش نقش پا”۔ شاہ صاحب کے پاس لے گئے۔ انہوں نے خفا ہو کر غزل پھینک دی کہ استاد کی غزل پر غزل کہتا ہے! اب تو مرزا رفیع سے بھی اونچا اڑنے لگا۔ ان دنوں میں ایک جگہ مشاعرہ ہوتا تھا۔ اشتیاق نے بیقرار کر کے گھر سے نکالا۔ مشاعرہ میں جا کر غزل پڑھی۔ وہاں بہت تعریف ہوئی۔ اس دن سے جرات زیادہ ہوئی اور بے اصلاح مشاعرہ میں غزل پڑھنے لگے۔ اب کلام کا چرچا زیادہ تر ہوا۔ طبیعت کی شوخی اور شعر کی گرمی سننے والوں کے دلوں میں اثر برقہ کی طرح دوڑنے لگی۔ اس زمانہ کے لوگ منصف ہوتے تھے۔ بزرگان پاک طینت جو اساتذہ سلف کے یاد گار باقی تھے۔ مشاعرہ میں دیکھتے۔ تو شفقت سے تعریفیں کر کے دل بڑھاتے۔ بلکہ غزل پڑھنے کے بعد آتے تو دوبارہ پڑھوا کر سنتے۔
اکبر شاہ بادشاہ تھے۔ انہیں تو شعر سے کچھ رغبت نہ تھی۔ مگر مرزا ابو ظفر ولیعہد کہ بادشاہ ہو کر بہادر شاہ ہوئے۔ شعر کے عاشق شیدا تھے اور ظفر تخلص سے ملک شہرت کو تسخیر کیا تھا۔ اس لیے دربار شاہی میں جو جو کہنہ مشق شاعر تھے۔ وہیں آ کر جمع ہوتے تھے۔ اپنے اپنے کلام سناتے تھے۔ مطلع اور مصرع جلسہ میں ڈالتے تھے۔ ہر شخص مطلع پر مطلع کہتا تھا۔ مصرع پر مصرع لگا کر طبع آزمائی کرتا تھا۔ میر کاظم حسین بیقرار۔ کہ ولیعہد موصوف کے ملازم خاص تھے۔ اکثر ان صحبتوں میں شامل ہوتے تھے۔ شیخ مرحوم کو خیال ہوا کہ اس جلسہ میں طبع آزمائی ہوا کرے۔ تو قوت فکر کو خوب بلند پروازی ہو۔ لیکن عہد میں کسی امیر کی ضمانت کے بعد بادشاہی اجازت ہوا کرتی تھی۔ جب کوئی قلعہ میں جانے پاتا تھا۔ چنانچہ میر کاظم حسین کی وساطت سے یہ قلعہ میں پہنچے اور اکثر دربار ولیعہدی میں جانے لگی۔
شاہ نصیر مرحوم۔ کہ ولیعہد کی غزل کو اصلاح دیا کرتے تھے۔ دکن چلے گئے۔ میر کاظم حسین ان کی غزل بنانے لگے۔ انہیں دنوں میں جان انفسٹن صاحب شکار پور سند وغیرہ سے سرحدات لے کر کابل تک عہد نامے کرنے کو چلے۔ انہیں ایک میر منشی کی ضرورت ہوئی۔ کہ قابلیت و علمیت کے ساتھ امارت خاندانی کا جوہر بھی رکھتا ہو۔ میر کاظم حسین نے اد عہدہ پر سفارش کے لیے ولیعہد سے شقہ چاہا۔ مرزا مغل بیک ان دنوں میں مختار کل تھے۔ اور وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ جس پر ولیعہد کی زیادہ عنایت ہو اس کو سامنے سے سرکاتے رہیں۔ اس قدرتی پیچ سے میر کاظم حسین کو شقہ کی سفارش آسان حاصل ہو گیا اور وہ چلے گئے۔
چند روز بعد ایک دن شیخ مرحوم جو لیعہد کے ہاں گئے۔ تو دیکھا کہ تیر اندازی کی مشق کر رہے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی شکایت کرنے لگے۔ میاں ابراہیم۔ استاد تو دکن گئے۔ میر کاظم حسین ادھر چلے گئے۔ تم نے بھی ہمیں چھوڑ دیا۔ اس وقت ایک غزل جیب سے نکال کر دی کہ ذرا اسے تو بنا دو۔ یہ وہیں بیٹھ گئے اور غزل بنا کر سنائی۔ ولیعہد بہادر بہت خوش ہوئے۔ اور کہا کہ بھئی کبھی کبھی تم آ کر ہماری غزل بنا جایا کرو۔ غرض چند روز اصلاح جاری رہی اور آخر تک سرکار ولیعہد سے چار روپیہ مہینہ بھی ہو گیا۔
چند سال بعد انہوں نے ایک قصیدہ کہہ کر اکبر بادشاہ کے دربار میں سنایا۔ جس کے مختلف شعروں میں انواع و اقسام کے ضائع بدائع صرف کئے تھے۔ مطلع اس کا یہ ہے۔
جب کہ سرطان و اسد مہر کا ٹھیرا مسکن
آب و ایلولہ ہوئے نشو و نمائے گلشن
اس پر بادشاہ نے خاقانی ہند کا خطاب عطا کیا۔ اس وقت شیخ مرحوم کی عمر ۱۹ برس تھی۔
اواخر ایام میں ایک بار بادشاہ (بہادر شاہ) بیمار ہوئے۔ جب شفا پائی اور انہوں نے ایک قصیدہ عزا کہہ کر نذر گزرانا۔ تو خلعت کے علاوہ خطاب خان بہادر اور ایک ہاتھی مع حوضہ نقرئی انعام ہوا۔ پھر ایک بڑے زور شور کا قصیدہ کہہ کر گزرانا جس کا مطلع یہ ہے۔
شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت
نشہ علم میں سرمست غرور و نخوت
۲۴ صفر ۱۲۷۱ ہجری جمعرات کا دن تھا۔ ۱۷ دن بیمار رہکر وفات پائی۔
مرنے سے تین گھنٹے پہلے یہ شعر کہا تھا۔
کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (محمد حسین آزاد)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
مرزا اسد اللہ خان غالب

اسد اللہ خان نام۔ مرزا نوشہ عرف۔ چندے اسد پھر غالب تخلص کیا۔ سرکار شاہی سے نجم الدولہ دبیر الملک خطاب تھا۔ سرکار انگریزی سے پنشن پاتے تھے۔ اکبر آباد مولد و دہلی مسکن۔ ۱۸۶۹ عیسوی میں بعمر ۷۳ سال راہی ملک بقا ہوئے۔ ان کا کایم زیادہ تر فارسی ہے۔ اردو میں ایک مختصر دیوان اور ایک مجموعہ رقعات ہے۔ اس زمانہ میں مقفی نویسی کی وبا عام ہو رہی تھی۔ مرزا نے بھی اس کی رعایت کی۔ مگر محاورہ کو اندھا کانا نہیں بننے دیا۔ اس کے علاوہ لمبے چوڑے القاب و آداب اور تکلفات لایعنی سے انشا اردو کو پاک کیا۔ وہ اپنے رقعات کی نسبت خود فرماتے ہیں "میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ ہزار کوس سے بزبان قلم باتیں کیا کرو۔ ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو”۔

خطوط
خط ۱

برخوردار! تمہارا خط پہنچا۔ لکھنو کا کیا کہنا ہے! ہندوستان کا بغداد تھا۔ اللہ اللہ! وہ سرکار امیر گر تھی۔ جو بے سرو پا وہاں پہنچا۔ امیر بن گیا۔ اس باغ کی یہ فصل خزاں ہے۔ میں بہت خوشی سے تم کو اطلاع دیتا ہوں کہ اردو کا دیوان غاصب نا انصاف سے ہاتھ آ گیا۔ اور میں نے نور چشم منشی شیو نراین کو بھیج دیا۔ یقین کلی ہے کہ چھاپیں گے۔ جہاں تم ہو گے۔ ایک نسخہ تم کو پہنچ جائے گا۔ طریقہ سعادت مندی یہ ہے کہ ہم کو اپنی خیر و عافیت کا طالب جان کر جہاں جاؤ۔ وہاں سے خط لکےخہ رہو اور اپنے مسکن کا پتا طاہر کرتے رہو۔ ہم تم سے راضی ہیں اور چونکہ تمہاری خدمت اچھی طرح نہیں کی۔ شرمندہ بھی ہیں۔
راقم اسد اللہ خان
مرقومہ شنبہ روز عید مطابق ۳۰ جون ۱۸۶۰ ء

خط ۲

اجی مرزا تفتہ! تم نے روپیہ بھی کھویا اور اپنی فکر کو میری اصلاح کو بھی ڈبویا۔ ہائے! کیا بری کاپی ہے! اپنے اشعار کی اور اس کاپی کی مثال جب تم کھلتی۔ کہ تم یہاں ہوتے اور بیگمات قلعہ کو پھرتے چلتے دیکھتے۔ صورت ماہ دو ہفتہ کی سی اور کپڑے میلے۔ پائےب لیر لیر۔ جوتی ٹوٹی۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ بے تکلف سنباستا ایک معشوق خوبرو ہ۔ بد لباس ہے۔ بہرحال دونوں لڑکوں کو دونوں جلدیں دیدیں۔ اور معلم کو حکم دیا۔ کہ اسی کا سبق دے۔ چنانچہ آج سے شروع ہو گیا۔
مرقومہ صبح سہ شنبہ ۹ ماہ اپریل ۱۸۶۱ (غالب)

خط ۳

او میاں سید زادہ آزاد! دلی کے عاشق دلدادہ! ڈھئے ہوئے اردو بازار کے رہنے والے! حسد سے لکھنو کو برا کہنے والے! نہ دل میں مہر و آرزم۔ نہ آنکھ میں حیا و شرم۔ نظام الدین ممنون کہاں؟ ذوق کہاں؟ مومن خان کہاں؟ ایک آزردہ سو خاموش۔ دوسرا غالب۔ وہ بیخود و مدہوش۔ نہ سخنوری رہی۔ نہ سخندانی۔ کس برتے پر تتا پانی۔ ہائے دلی! وائے دلی! بھاڑ میں جائے دلی! سنو صاحب! پانی پت کے رئیسوں میں ایک شخص ہیں احمد حسین خان ولد سردار خان ولد دلاور خان اور نانا اس احمد حسین خان کے غلام حسین خان ولد مصاحب خان۔ اس شخص کا حال از روئے تحقیق مشرح اور مفصل لکھو۔ قوم کیا ہے؟ بد معاش کیا ہے؟ طریق کیا ہے؟ عمر کیا ہے؟ لیاقت ذاتی کا کیا رنگ؟ طبیعت کا کیا ڈھنگ ہے؟ بھائی لکھ اور جلدی لکھ۔ (غالب)

خط ۴

بھائی! تم کیا فرماتے ہو؟ جان بوجھ کر انجان بنے جاتے ہو۔ واقعی غدر میں میرا گھر نہیں لٹا۔ مگر میرا کلام میرے پاس کب تھا۔ کہ نہ لٹتا؟ ہاں بھائی ضیاءالدین خان صاحب اور ناظر حسین مرزا صاحب ہندی اور فارسی نظم و نثر کے مسودات مجھ سے لے کر اپنے پاس جمع کر لیا کرتے تھے۔ سو ان دونوں گھروں پر جھاڑو پھر گئی۔ نہ کتاب رہی۔ نہ اسباب رہا۔ پھر اب میں اپنا کلام کہاں سے لاؤں؟ ہاں تم کو اطلاع دیتا ہوں کہ مئی کی گیارہویں ۱۸۵۷ سے جولائی کی اکتیسویں ۱۸۵۷ تک پندرہ مہینے کا اپنا حال میں نے نثر میں لکھا ہے۔ اور وہ نثر فارسی زبان قدیم میں ہے۔ کہ جس میں کوئی لفظ عربی نہ آئے۔ اور ایک قصیدہ فارسی متعارف عربی و فارسی ملی ہوئی زبان میں حضرت فلک رفعت جناب ملکہ معظمہ انگلستان کی ستائش میں اس نثر کے ساتھ شامل ہے۔ یہ کتاب مطیع مفید خلائق آگرہ میں منشی بنی بخش صاحب حقیر اور مرزا حام علی بیگ مہر اور منشی ہر گوپال تفتہ کے اہتمام میں چھاپی گئی ہے۔ فی الحال مجموعہ میری نظم و نثر کا اس کے سوا اور کہیں نہیں۔ اگر جناب منشی امیر علی خان صاحب میرے کلام کے مشتاق ہیں۔ تو نسخہ موسوم بہ دستنبو مطبع مفید خلائق آگرہ سے منگا لیں۔ (غالب)

خط ۵

خان صاحب عالی شان مردان علی خان صاحب کو فقیر غالب کا سلام۔ نظم و نثر دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔ آج اس فن میں تم یکتا ہو۔ خدا تم کو سلامت رکھے۔ بھائی جفا مونث ہونے میں اہل دہلی و لکھنو کو باہم اتفاق ہے۔ کبھی کوئی نہ کہے گا کہ جفا کیا ہے۔ ہاں بنگالہ میں جہاں بولتے ہیں کہ ہتھنی آیا۔ اگر جفا کو مذکر کہیں تو کہیں۔ ورنہ ستم و ظلم و بیداد مذکر اور جفا مونث ہے بے شبہ و شک۔
والسلام۔ (غالب)

خط ۶

بندہ نواز! زبان فارسی میں خطوط کا لکھنا پہلے سے متروک ہے۔ پیرانہ و ضعف کے صدموں سے محنت پژوہی وہ جگر کاوی کی قوت مجھ میں نہیں رہی۔ حرارت غریزی کو زوال ہے اور یہ حال ہے۔
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
کچھ آپ ہی تخصیص نہیں۔ سب دوستوں کو جن سے خط کتابت رہتی ہے۔ اردو ہی میں نیاز نامے لکھا کرتا ہوں۔ جن جن صاحبوں کی خدمت میں آگے میں نے فارسی زبان میں خوط و مکاتیب لکھے اور بھیجے تھے۔ ان میں سے جو صاحب الی الآن ذی حیات و موجود ہیں۔ اس سے بھی عند الضرورت اسی زبان میں مکاتبت و مراسلت کا اتفاق ہوتا ہے۔ پارسی مکتوبوں۔ رسالوں۔ نسخوں اور کتابوں کے مجموعے شیرازہ بستہ ہو کر اطراف و اقصائے عجم میں پھیل گئے۔ حال کی نثروں کو کون فراہم کرنے جائے۔ جاں کنی کے خیالات نے مجھکو ان کی تحریر سے دست بردار و آزاد سبک دوش کر دیا۔ جو نثریں کہ مجموع ویک جا ہو کر جہاں جہاں منتشر ہو گئی ہیں۔ اور آئندہ ہوں۔ انہیں جناب احدیت جلست عظمتہ مقبول قلوب اہل سخن و مطوع طبائع ارباب فن فرمائے۔ میں اب انتہائے عمر ناپائدار کو پہنچ کر آفتاب لب بام اور ہجوم امراض جسمانی و آلام روحانی سے زندہ درگور ہوں۔ کچھ یاد خدا بھی چاہیے۔ نظم و نثر کی قلمرو کا انتظام ایزد دانا و توانا کی عنایت و اعانت سے خوب ہو چکا۔ اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میرا نام و نشان باقی و قائم رہے گا۔ پس امید وار ہوں۔ کہ آپ انہیں نذور محقرہ یعنی تحریرات روز مرہ اردوئے سادہ و سرسری کوتا امکان غنیمت جان کر قبول فرماتے رہیں۔ اور درویش دلریش و فرو ماندہ کشاکش معاصی کے خاتمہ بخیر ہونے کی دعا مانگیں۔ اللہ بس ماسویٰ ہوس۔ تعقید معنوی کو حضور خود جانتے ہوں گے۔ اس کی توضیح و تفصیل میں تحصیل حاصل و تطویل لا طائل کی صورت نظر آتی ہے۔ لہذ خامہ فرسائی بروئے کار نہیں آتی۔ (غالب)
خط ۷

سبحان اللہ! سر آغاز فصل میں ایسے ثمر ہائے پیش رس کا پہنچنا نوید ہزار گونہ میمنت و شادمانی ہے۔ یہ ثمر رب النوع اثمار ہے۔ اس کی تعریف کیا کروں۔ کلام اس باب میں کیا چاہتا ہوں کہ میں یاد رہا اور اہدا کا آپ کو خیال آیا۔ پروردگار آپ کو با ایں ہمہ رواں پروری و کرم گستری وی یاد آوری سلامت رکھے۔ جمعہ کے دن دوپہر کے وقت کہار پہنچا اور اسی وقت جواب لے کر اور آم کے دو ٹوکرے دے کر روانہ ہو گیا۔ یہاں اسے اس کو حسب الحکم کچھ نہیں دیا گیا۔ (غالب)

خط ۸

جناب قاضی صاحب کو میری بندگی پہنچے۔ مکرمی مولوی غلام غوث خان صاحب بہادر میر منشی کا قول سچ ہے۔ اب تندرست ہوں۔ پھوڑا پھنسی کہیں نہیں۔ مگر ضعف کی وہ شدت ہے کہ خدا کی پناہ! ضعف کیونکر نہ ہو؟ برس دن صاحب فراش رہا ہوں۔ ستر برس کی عمر۔ جتنا خون بدن میں تھا۔ بے مبالغہ آدھا اس میں سے پیپ ہو کر نکل گیا۔ سن کہاں؟ جو اب پھر تولید دم صالح ہو۔ بہر حال زندہ اور ناتوں آپ کی پرسشہا دوستانہ ممنون احسان۔
والسلام مع الاکرام۔ (غالب)

خط ۹

پیر و مرشد! نواب صاحب کا وظیفہ خوار۔ گویا اس در کا فقیر تکیہ دار ہوں۔ مسند نشینی کی تہنیت کے واسطے رام پور آیا۔ میں کہاں اور بریلی کہاں! ۱۳ اکتوبر کو یہاں پہنچا۔ بشر حیات آخر دسمبر تک دہلی جاؤں گا۔ نمائش گاہ بریلی کی سیر کہاں اور میں کہاں! خود اس نمائش گاہ کی سیر میں۔ جو کو دنیا کہتے ہیں دل بھر گیا۔ اب عالم نیرنگی کا مشتاق ہوں ۔ (غالب)

خط ۱۰

قبلہ! آپ بے شک ولی صاحب کرامت ہیں۔ کم و بیش ایک ہفتہ گزرا ہو گا۔ کہ ایک امر جدید مقتفی اس کا ہوا۔ آپ کو اس کی اطلاع دوں۔ خانہ کاہلی خراب! آج لکھوں۔ کل لکھوں۔ اب کون لکھے؟ کل صبح لکھوں گا۔ صبح ہوئی۔ غالب! اس وقت نہ لکھ۔ سہ پہر کو لکھیو۔ آج دو شنبہ ۲۳ جولائی کی بارہ پر دو بجے ہرکارہ نے آپ کا خط دیا۔ پلنگ پر پڑے پڑے خط پڑھا اور اسی طرح جواب لکھا۔ اگر ڈاک کا وقت نہ رہا تھا۔ مگر بور ا دیا۔ کل روانہ ہو رہے گا۔ آپ کو معلوم رہے۔ کہ منشی حبیب اللہ ذکا اور نواب مصطفیٰ خان حسرتی کو کبھی اردو خط نہیں لکھا۔ ہاں ذکا کو غزل اصلاحی کے ہر شعر کے تحت میں منشا سے اصلاح سے آگہی دی جاتی ہے۔ نواب صاحب کو یوں لکھا جاتا ہے۔ "کہار آیا۔ خط لایا۔ آم پہنچے۔ کچھ بانٹے۔ کچھ کھائے۔ بچوں کو دعا۔ بچوں کی بندگی۔ مولوی الطاف حسین صاحب کو سلام۔ یہ تحریر اس ہفتہ میں گئی ہے۔ غرض کہ عامیانہ لکھنا اختیار کیا ہے۔ اب یہ عبارت جو تم کو لکھ رہا ہوں۔ یہ لائق شمول مجموعہ نثر اردو کہاں ہے؟ یقین جانتا ہوں۔ کہ ایسی نثروں کو آپ خود نہ درج کریں گے۔ کتاب کے باب میں سرمد کی رباعی کا شعر اخیر لکھ دینا کافی ہے۔
عالم ہمہ مرآت جمال ازلی است
مے بائد دید و دم نمی باید زد
بوستان خیال کا ترجمہ موسوم بہ حدائق الانظار مغرض طبع میں ہے۔ اگر آپ یا آپ کا کوئی دوست خریدار ہو۔ تو جتنے مجلد فرمائیے۔ اس قدر بو اا دوں۔ چہہ روپیہ مع محصول ڈاک قیمت ہے۔ اسی مطبع میں جس حدائق لانظار کا انطباع ہوا ہے۔ اخبار بھی چھاپا جاتا ہے۔ اب ہفتہ کا دو ورقہ بھیج دوں گا۔ بشرط پسند آپ توقیع خریداری لکھ بھیجئے۔ خط مجھ کو آیا۔ کچھ اردو زبان کے ظہور کا حال پوچھا تھا۔ اس کا جواب لکھ بھیجا۔ نظم و نثر اردو طلب کی تھی۔ مجموعہ نظم بھیج دیا۔ نثر کے باب میں تمہارا نام نہیں لکھا۔ مگر یہ لکھا۔ کہ مطبع الہ آباد میں وہ مجموعہ چھاپا جاتا ہے۔ بعد انطباع و حصول اطلاع وہاں سے منگا کر بھیج دوں گا۔ زیادہ حد اب۔ نامہ جواب طلب۔ (غالب)

خط ۱۱

قبلہ! پیری و صد عیب۔ ساتویں دہا کے کے مہینے گن رہا ہوں۔ قولنج آگے دوری تھا۔ اب دائمی ہو گیا ہے۔ مہینہ بھر میں پانچ ساتھ بار فضول مجتعہ دفع ہو جاتے ہیں۔ اور یہی منشاء حیات ہے۔ غذا کم ہوتے ہوتے۔ اگر مفقود نہ کہو۔ تو بمنزلہ مفقود کہو۔ پھر گرمی نے مار ڈالا۔ ایک حرارت غریبہ جگر میں پاتا ہوں۔ جس کی شدت سے بھنا جاتا ہوں۔ اگر جرعہ جرعہ پیتا ہوں۔ مگر صبح سوتے وقت نہیں جاتا کہ کتنا پانی پی جاتا ہوں۔ میرے ایک رشتہ دار کے بھتیجے نے بوستان خیال کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ میں نے اس کا دیباچہ لکھا ہے۔ ایک دو ورقہ اس کا نہ بصورت پارسل بالکل بلف خط ہذا بھیجتا ہوں۔ آپ کا مقصود دیباچہ ہے۔ سو نقل کر لیجئے۔ میرا مدعا اس دو ورقہ کے ارسال سے یہ ہے۔ اگر آپ کی پسند ائے اور اشخاص خریدنا چاہیں۔ تو چہچ روپیہ قیمت اور محصول ذمہ خریدار ہے۔ (غالب)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (غالب)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
مؤلف

جنگ مرہٹہ و درانی

احمد شاہ والی کابل ہندوستا پر تین حملے کر چکا تھا اور صوبہ پنجاب کو ممالک محروسہ میں شامل کر کے نجیب الدولہ رہیلہ کو شاہ دہلی کی امداد کے لیے چھوڑ گیا تھا۔ مگر مغلیہ امرا کو خود غرضی اور نا اتفاقی کے مرض نے ایسا چر لیا تھا کہ ایک ایک کو کھائے جاتا تھا۔ ادھر عماد الملک وزیر دہلی مرہٹوں اور جاٹوں کو نجیب الدولہ پر چڑھا لایا ادھر آدینہ بیگ خان سابق صوبہ دار پنجاب نے مرہٹوں اور سکھوں کی کمک لے کر درانیوں کو اٹک پار بھگا دیا۔ اب سواحل دکن سے وادی اٹک تک مرہٹوں کا پھریرا لہرا رہا تھا۔ اور ہندوستان کی کھونٹ کھونٹ میں ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ناچار نجیب الدولہ نے احمد شاہ کو غرض لکھی۔ کہ حضور والا جلد تشریف لائیں اور ہماری ننگ و ناموس کو مرہٹوں کے دست تعدی سے بچائیں۔ ورنہ یہ قوم تخت مغلیہ کو الٹ دے گی اور ہمارا نام و نشان ہندوستان سے مٹا دے گی۔
اس عرضداشت کو پڑھ کر احمد شاہ پھر عازم ہند ہوا اور زیر دامن کوہ ہمالہ کوچ کرتا ہو۔ بلا تعرض سہارنپور تک آ پہنچا۔ یہاں نجیب الدولہ اور حافظ رحمت خان وغیرہ سرداران رہیلہ باریاب ملازمت ہوئے اور درانی فوج کی کمک لے کر مرہٹوں کو نواح دہلی سے مار پیٹ کر نکال دیا اور جب تک چنبل پار نہ ہو گئے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔
مرہٹوں کا سردار راگھو باجی ہندوستا سے جب اس ناکامی کے ساتھ واپس گیا۔ تو بھاؤ جو مرہٹوں کا وزیر اعظم سپہ سالار تھا اس کے دل میں غیظ و غضب کی آگ بھڑکی۔ اس وقت مرہٹوں کا اقتدار منتہائے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ آراستہ رسالے۔ باقاعدہ پلٹنیں اور عمدہ توپخانے ان کے پاس موجود تھے۔ ان کے دربار کی شان و شکوہ بھی مغلیہ دربار سے ہمسری کا دم بھرتی تھی۔ لہذا بھاؤ ایک لشکر عظیم فراہم کر کے بڑے کروفر کے ساتھ دلی کی طرف روانہ ہوا۔ تاکہ مغلیہ سلطنت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینک دے اور اس کاخ کہن کی اینٹ سے اینٹ بجا دے۔ جب وہ دلی کے زیر فصیل آ پہنچا۔ تو درانیوں کی قلیل جماعت ایک خفیف مقابلہ کے بعد پس پا ہو گئی۔ بھاؤ نے دلی پر قابض ہو کر مساجد و مقابر اور محلات شاہی کو خوب تاراج کیا۔ دربار عام کا نقرئی کٹہرا اکھڑوا کر بیگمات کا زیور تک اتروا کر گلا ڈالا۔ اگر سردار مانع و مزاحم نہ ہوتے تو بھاؤ آمادہ تھا کہ بسواس راؤ کو تخت دہلی پر بٹھائے اور چار دانگ ہند میں مرہٹوں کا سکہ چلائے۔ مگر یہ کام اس تک ملتوی کیا گیا۔ کہ درانیوں کو ہزیمت دے کر اٹک پار بھگا دیں اس لیے مرہٹوں کا لشکر آگے بڑھا اور کنج پورہ کے قلعہ کو جہاں معدودے چند درانی قابض و متصرف تھے محصور کر لیا۔
اس وقت احمد شاہ درانی گنگا کنارے انوپ شہر کے مقام پر چھاؤنی ڈالے پڑا تھا۔ اور شجاع الدولہ کو اپنی رفاقت پر مائل کر رہا تھا۔ مرہٹوں کو یورش کے اخبار وحشت آثار سنکر اس نے چھاؤنی توڑی اور محصوریں کنج پورہ کی اعانت کے لیے برسبیل استعجال روانہ ہوا۔ باغپت کے گھات اس نے دریائے جمن کو عبور کرنا چاہا۔ مگر دریا تھا طغیانی پر اور اسباب گزارہ مفقود۔ ناچار اور آگے بڑھا اور کنج پورہ کے محاذ میں پہنچ کر اس نے ایک تیر ترکش سے نکالا۔ اس پر کچھ دم کر کے دریا میں پھینکا اور لشکر کو حکم دیا کہ فوراً گھوڑے دریا میں ڈال دو۔ وہ خدا کے حکم سے تم کو رستہ دے گا۔ اس تدبیر سے اس کا سارا لشکر پار اتر گیا۔ یہاں خبر لگی۔ ایک دستہ فوج مرہٹہ کا سنبھالکہ کے سرائے پر قابض ہے۔ لہذا قثون درانی کا ہر اول ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا گیا۔ اور کامیاب ہوا۔ اگرچہ یہ چھوٹی سی فتح تھی۔ مگر درانی لشکر اس کو فال فیرزی سمجھ کر بہت خوش ہوا۔
اب درانیوں کی آمد سن کر مرہٹوں نے بھی کنج پورہ سے کوس مراجعت بجایا اور دونوں لشکر نواحی پانی پت میں خیمہ زن ہوئے۔ مرہٹوں کے لاؤ لشکر کی بھیڑ بھاڑ اس قدر تھی کہ آج تک نو لکھ نیزہ زباں زد عوام ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنگ مہا بھارت کے بعد سر زمین ہند میں ایسا جمگھٹ فوجوں کا کبھی نہیں ہوا۔ خیر یہ سب مبالغہ سہی۔ مگر اس میں شک نہیں کہ مرہٹوں کی جمعیت مع بہیر و بنگاہ بقول بعض تین لاکھ اور بقول بعض پانچ لاکھ کے قریب تھی۔ خاص قشون درانی چالیس ہزار اور ہندوستانی سرداروں کی ماتحت فوجیں پچاس ہزار تھیں۔ مرہٹوں کا توپخانہ دو سو توپوں سے زیادہ۔ مگر درانیوں کی طرف صرف تیس توپیں تھیں۔
کچھ عرصہ تک دونوں لشکر مقابل ہم دگر پڑے رہے اور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہیں۔ چنانچہ ایک بار بھاؤ کے حکم سے گوبند رائے بندیلہ ایک دستہ فوج کا لے کر رہیل کھنڈ و اودھ پر تاخت کرنے کے لیے نکلا۔ ہندوستانی سرداروں نے یہ خبر شاہ درانی کو پہنچائی۔ شاہ نے سردار عطائی خان کو جو قندھار سے تاہ وارد ہوا تھا۔ اس کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا۔ سردار مذکور اپنے ماتحت سواروں اور کچھ رہیلوں کو ساتھ لے راتوں رات یلغار کر کے صبح دم گوبند رائے کی فوج پر ٹوٹ پڑا اور اس کو تہس نہس کر کے گوبند رائے کو سر شام تک بادشاہ کے سامنے لا کھرا۔ گاہ بیگاہ رسد لانے والے گروہوں میں بھی جھڑپ ہو جاتی تھی۔
غرض کئی مہینے تک پڑے پڑے طرفین کے سپاہی اور سردار تنگ آئے ادھر ہندوستانی سردار احمد شاہ ملتجی ہوئے کہ ایک فیصلہ کی جنگ کیجئے۔ جو ہونا ہو سو ہو جائے۔ ادھر مرہٹے سردار بھاؤ سے متا ضی تھے کہ لشکر میں غلہ اور سامان کا قحط ہے۔ یوں فاقوں مرنے سے تو بہتر ہے کہ بر سر میدان لڑ کر مریں۔
آ کر کار شجاع الدولہ کی وساطت سے مرہٹوں نے صلح کا پیغام بھیجا۔ احمد شاہ نے جواب دیا کہ جنگ و پیار کا معاملہ میری رائے پر رکھو اور صلح کرنی ہو تو تم لوگ خود مختار ہو۔ جو اپنے حق میں مصلحت سمجھو کرو۔ شجاع الدولہ تو صلح و آشتی پر مائل تھا۔ الا نجیب الدولہ اڑ بیٹھا اور سب ہندوستانی سراداروں کو سمجھایا کہ اس وقت مرہٹے کورے نکل گئے تو یاد رکھنا۔ آئندہ تمہاری خیر نہیں۔ غرض صلح کا معاملہ جھمیلے میں پڑگیا۔ دو ٹوک فیصلہ قرار نہ پایا۔
ابھی پیک و پیام آجا رہے تھے کہ آخر شب کو جاسوسوں نے دی کہ مرہٹوں کا لشکر زبردست حملہ کی تیاری میں مصروف ہے۔ یہ خبر شجاع الدولہ نے احمد شاہ درانی کو پہنچائی۔ وہ اپنے خیمہ سے ہتھیار لگائے باہر آیا اور فوج کو آگے بڑھنے کا حکم سنایا۔ مگر شاہ کو اس خبر کی صحت میں ہنوز تردد تھا کہ یکایک مرہٹوں کے توپخانے کی زبردست فیر نے اس کی تصدیق کر دی۔
جب مرہٹوں کا توپخانہ بآہستگی آگے بڑھتا چلا آیا۔ یہاں تک کہ اس کے گولے درانی لشکر کے سر پر سے گزرنے لگے۔ تو مرہٹوں کے جنرل ابراہیم کر دی نے فیر بند کرا دی اور اپنی پلٹنوں آگے بڑھا کر سنگینوں سے حملہ کیا۔
اس حملہ نے روہیلوں کی صف کو جو درانیوں کے بازوئے راست کی محافظ تھی بالکل زیر و زبر کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک تازہ دم فوج سے بسوال راؤ نے درانیوں کے قلب لشکر پر جہاں احمد شاہ کا وزیر حکم رانی کر رہا تھا سخت یورش کی۔ اس چپقلس میں وزیر کا برادر زادہ عطائی خان کام آیا اور درانیوں کے قدم اکھڑنے لگے یہ کیفیت دیکھ کر وزیر اور اس کے رفقا گھوڑوں سے کود پڑے اور عزم بالجزم کر لیا۔ کہ مرے مارے میدان کو ہاتھ سے نہ دیں گے۔
اس وقت گرد و غبار کی وجہ سے نبرد کا کچھ حال معلوم نہ ہوتا تھا۔ کون غالب اور کون مغلوب ہے؟ مگر درانیوں کے نعرے اور ان کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ کم ہوتی جاتی تھی۔ اس لیے احمد شاہ نے فوراً ایک دستہ وزیر کی کمک کے لیے عقت سے روانہ کیا۔ اس کے پہنچتے ہی پھر گرما گرمی سے آتش جدال و قتال مشتعل ہو گئی اور خوب جم کر گھما گھمی سے لڑائی ہونے لگی۔ طرفین کے دلاور سورما دست بدست اور سینہ بسینہ ڈٹ گئے۔ کہیں تلوار سے تلوار اور کہیں کھانڈے سے کھانڈا بج رہا تھا۔ نیزوں کی سنائیں اور سنگینوں کی نوکیں برق خاطف کے مانند کون رہی تھیں۔ بھاؤ اور بسواس اپنی فوجوں کو بڑھا بڑھا کر مردانہ وار لڑ رہے تھے۔ ظاہرا مرہٹوں کا پلہ بہت بھاری نظر آتا تھا اور درانی دبتے چلے جاتے تھے۔ مگر عین وقت پر احمد شاہ کو وہ چال سوجھی کہ طرفۃ العین میں بازی کا رنگ بدل گیا۔ اس کی ہدایت کے مطابق سواران صف شکن کا دستہ۔ جو اس کی فوج کا چیدہ حصہ تھا۔ گھوڑوں کو سرپٹ اڑاتا۔ کاوا کاٹ کر نکلا اور یکایک غنیم کے بائیں بازو پر نہایت جوش و خروش کے ساتھ ٹوٹ پڑا۔
یہ حملہ نہ تھا بلکہ سحر و افسوں تھا۔ جس کے اثر سے مرہٹوں کی دل بادل فوجیں کائی کی طرح پھٹ گئیں کچھ ایسی ہل چل مچی کہ بالکل حواس باختہ ہو گئے اور جیتی جتائی بازی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ پھر تو درانیوں اور رہیلوں نے وہ بڑھ بڑھ ہاتھ مارے کہ کشتوں پشتے اور مقتولوں کے انبار لگا دیے۔ بیس بیس کوس تک غنیم کا پیچھا دبائے چلے گئے اور جہاں مرہٹہ سپاہی پایا۔ وہین اس کو ٹھکانے لگایا۔ یہاں تک کہ اسیران جنگ پر بھی کچھ رحم نہ کیا۔ جو ان کی تیغ بے دریغ سے بچ نکلا۔ اس کو دہاقین نے سنگوایا۔ بھاؤ۔ بسواس اور دیگر چیدہ سراد مرہٹوں کے وہیں کھیت رہے۔ صرف ہلکر اور سیندھیا زندہ بچے۔
جب بقیتہ السیف اپنے ملک پہنچے ہیں۔ تو تمام دکن میں گھر گھر کہرام مچ گیا۔ کوئی قریہ اور قصبہ ایسا نہ تھا جہاں سے نالہ و فغاں کی صدا بلند نہ ہوئی ہو۔ ایسی خوفناک تباہی مرہٹوں پر کبھی نہ پڑی تھی۔ اور بعد ازاں پہلی سی شان و شوکت ان کو کبھی نصیب نہ ہوئی۔
مورخین دقیقہ سنج نے مرہٹوں کی ہزیمت کا سبب یہ قرار دیا کہ وہ زور بازو و نیروئے جسمانی میں خلقتاً اپنے حریف کے مد مقابل نہ تھے۔ اس لیے شدائد جنگ و مصائب رزم کو زیادہ برداشت نہ کرسکے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (محمد اسمٰعیل)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭

مرزا رجب علی بیگ سرور

مرزا رجب علی بیگ نام۔ سرور تخلص۔ لکھنو کے رہنے والے۔ واجد علی شاہی دور کے بڑے مشہور نثار مقفی نگار تھے۔ طرز انشا جو کہ سراسر تکلف تھی۔ اس پر تکلف زمانہ میں چندے مقبول رہی۔ مگر اب تو بالکل مردہ و افسردہ ہو گئی ہے۔

جاڑے کی شدت

ناگاہ ایک روز گزر موکب حشمت و جلال۔ با فر و شوکت کمال۔ ایک صحرائے باغ و بہار دشت لالہ زار میں ہوا۔ فضائے صحرا قابل تحریر۔ کیفیت دشت گلشن آسا لایق تقریر۔ بو باس ہر برگ گل کی رشک مشک اذفر صفحۃ بیاباں معنبر و معطر۔ چشموں کا پانی صفا میں آب گوہر سے آبدا تر۔ ذائقہ میں بہ از شیر و شکر۔ چلہ کے جاڑے کڑاکے کی سردی تھی۔ گویا کہ زمین سے آسمان تک یخ بھر دی تھی۔ پرند اور چرند اپنے اپنے آشیانوں اور کاشانوں میں جمے ہوئے بیٹھے بھوک اور پیاس کے صدمے اٹھاتے تھے۔ دھوپ کھانے باہر نہ آتے تھے۔ قصد سے تھر تھراتے تھے۔ سردی سے سب کا جی جلتا تھا۔ دم تقریر ہر شخص کے منہ سے دھواں دھار سے دھواں نکلتا تھا۔ آواز کسی کی کان تک کسی کے کم جاتی تھی۔ منہ سے بات باہر آئی اور جم جاتی تھی۔ مار سیاہ اوس چاٹنے باہر نہ آتا تھا۔ سردی کے باعث دم دبا کے بانبی میں بھاگ جاتا تھا۔ زمانہ کے کاروبار میں خلل تھا۔ ہر ایک دست در بغل تھا۔ اشک شمع انجمن لگ تک گرتے گرتے اولا تھا۔ پروانوں نے پھرتے پھرتے ٹٹولا تھا۔ شعلہ کانپتا تھا۔ فانوس کے لحاف میں منہ ڈھانپتا تھا۔ شمع کا جسم برف تھا۔ پگلنے کا کیا حرف تھا۔ ہر سنگ کے سینہ میں آگ تھی۔ گواہ شرعی شرر تھا۔ لیکن سردی کو بھی یہ لاگ تھی اور جاڑے کا ایسا اثر تھا کہ سلیں کی سلیں جمی پڑی تھیں۔ فولاد سے زیادہ کڑی تھیں۔ تنور فلک چارم کی چھاتی سرد تھی۔ گلخن میں یہ برددت تھی کہ کشمیر گرد تھی۔ لنجوں نے بٹیر پکڑی۔ لولے لولوں کے ہاتھ آئے۔ لنگڑے ہرن باندھ لائے۔ سر زمین ہند میں مردے نہ جلتے تھے۔ زندوں کے ہاتھ پاؤں گلتے تھے۔ آتش رخسار گل شبنم نے بجھائی۔ باغ بھی جاڑے کی کی دہائی تھی۔ اوس برگ و بار کی صنعت پرودگار کی دکھاتی تھی۔ مرصع کاری یک لخت نظر آتی تھی۔ دانہ ہائے اشک شبنم خواہ بڑے یا ریزے تھے۔ ہر شجر کے پتے اور شاخ میں الماس اور موتیوں کے آویزے تھے۔ عذار لالہ رشک زعفراں تھا۔ طلائی درختوں کی ٹہنیاں۔ کہر بائی پتے۔ بہار میں رنگ خزاں تھا۔ اس سردی کا کہیں ٹھکانا تھا۔ حمام تہ خانہ کا خس خانہ تھا۔ آگ پر لوگ جی نثار کرتے تھے۔ زردشت کا طریقہ اختاآر کرتے تھے۔ آفتاب عازم برج حمل تھا۔ آتش پرستوں کا عمل تھا۔ زیست سمندر کے عنوان تھی۔ آگ میں خلقت کی جان تھی۔ جاڑے میں ایک المست تھا۔ عالم اللہ کا آتش پرست تھا۔ جاڑے سے اس کی دشت میں ایسا پالا پڑا۔ تمام اہل لشکر کو تپ لرزہ کا عالم تھا۔ بانکے ترچھے اینٹھے جاتے تھے۔ ڈھال تلوار کھڑکھڑانے کے عوض دانت کڑکڑاتے تھے۔ تپنچے۔ چقماق۔ پتھر کلے لاٹھی سے بیکار ہو گئے تھے۔ چانپ کے پتھر آگ نہ دیتے تھے۔ اور توڑے دار کا یہ حال تھا۔ بوجھ کندھا توڑے دیتا تھا۔ قدم اٹھانا محال تھا۔ توڑا ہر ایک گل تھا۔ توتے کی جگہ شور بلبل تھا۔ ہوش لوگوں کے کانپتے تھے۔ کینچوے کی مٹی کو الاؤ سمجھ کر پھونکتے پھونکتے ہانپتے تھے۔ ملائم لوگوں کے حواس جم گئے تھے۔ جگنو کو چنگاری کے دھوکے اٹھانے تھم گئے تھے۔ سردی بسکہ کار فرما تھی۔ ایک کو دوسرے کی تمنا تھی۔ یہاں تک جاڑے کا زور شور عالمگیر ہوا تھا۔ کہ کرہ نار زمہریر ہوا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سرور لکھنوی)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
میر امن دہلوی

میر امن دلی کے رہنے والے تھے۔ بتلاش معاش چندے عظیم آباد میں قیام کیا۔ وہاں سے چل کر کلکتہ پہنچے۔ جان گلکرسٹ کے حضور میں رسائی ہوئی۔ صاحب موصوف کی فرمائش سے ۱۸۰۱ عیسوی میں قصہ چار درویش کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کی نثر اس زمانہ کے روز مرہ اردو اور محاورات دہلی کا نہایت صحیح نمونہ ہے۔

قصہ

یہ کمتریں بادشاہ زادہ عجم کا ہے۔ میرے والی نعمت وہاں کے بادشاہ تھے اور سوائے میرے کوئی فرزند نہ رکھتے تھے۔ جوانی عالم میں مصاحبوں کے ساتھ چوپڑ۔ گنجفہ۔ شطرنج۔ تختہ نرد کھیلا کرتا یا سوار ہوکر سیر و شکار میں مشغول رہتا۔ ایک دن کا یہ ماجرا ہے کہ سواری تیار کروا کر اور سب یاروں آشناؤں کو لے کر میدان کی طرف نکلا۔ باز۔ بہری۔ جرہ۔ باشہ۔ سرخاب اور تیتروں پر اڑاتا ہوا دور نکل گیا۔ عجب طرح کا ایک قطہ بہار نظر آیا۔ جدھر نگاہ جاتی کوسوں تک سبزے اور پھولوں سے زمین لال نظر آتی تھی۔ یہ سماں دیکھ کر گھوڑوں کی باگیں ڈال دیں اور قدم قدم سیر کرتے ہوئے چلے۔ نا گاہ اس صحرا میں دیکھا کہ ایک کالا ہرن۔ اس پر زربفت کی جھول اور بھنور کلی مرصع کی اور گھنگرو سونے کے زر ددزی پٹے میں ٹکے ہوئے گلے میں پڑے خاطر جمع سے اس میدان میں۔ کہ جہاں انسان کا دخل نہیں اور پرندہ پر نہیں مارتا۔ چرتا پھرتا ہے۔ ہمارے گھوڑوں کی سم کی آہٹ پا کر چوکنا ہوا۔ سر اٹاگ کر دیکھا اور آہستہ آہستہ چلا۔ مجھے اس کے دیکھنے سے یہ شوق ہوا۔ کہ رفیقوں سے کہا۔ تم یہیں کھڑے رہو۔ میں اسے جیتا پکڑوں گا۔
خبردار! تم قدم آگے نہ بڑھائیوں اور میرے پیچھے نہ آئیو۔ اور گھوڑا میری رانوں گلے ایسا پرند تھا۔ کہ بار بار ہرنوں کے اوپر دوڑا کر۔ اس کی کرچھالوں کو بھلا کر ہاتھوں سے پکڑ پکڑ لیتے تھے۔ اس کے عقب میں دوڑایا وہ دیکھ کر چھلانگیں بھرنے لگا اور ہوا ہوا۔ گھوڑا بھی باؤ سے باتیں کرتا تھا۔ لیکن اس کی گرد کو نہ پہنا۔ وہ رہوار پسینہ پسینہ ہو گیا اور میری بھی جیبھ مارے پیاس کے چٹخنے لگی۔ پر ہرز کچھ بس نہ چلا۔ شام ہونے لگی اور میں کیا جانوں! کہاں سے کہاں نکل آیا؟ ناچار ہو کر اس کو بھلاوا دیا اور ترکش سے تیر نکال کر قربان کمان سنبھالکھر چلے میں جوڑ کشش کان تک ران کو اس کی تاک "اللہ اکبر” کہہ کر مارا۔ بارے پہلا ہی تیز اس کے پاؤں میں ترازو ہوا۔ تب لنگڑاتا ہوا۔ پہاڑ کے دامن کی سمت چلا فقیر بھی گھوڑے پر سے اتر پا پیادہ اس کے پیچھے لگا۔ اسی کوہ کا ارادہ کیا اور اس کا ساتھ دیا۔ کئی اتار چڑھاؤ کے بعد ایک گنبد نظر آیا۔ جب پاس پہنچا ایک باغچہر اور ایک چشمہ دیکھا۔ وہ ہرن تو نظروں سے چھلاوہ ہو گیا۔ میں نہایت تھکا تھا۔ ہاتھ پاؤں دھونے لگا۔ ایک بارگی آواز رونے کی اس برج کے اندر سے میرے کان میں آئی۔ جیسے کوئی کہتا ہے۔ اے بچے! جس نے تجھے مارا میری آہ کا تیر اس کے کلیجے میں لگیو۔ وہ اپنی جوانی سے پھل نہ پاوے اور خدا اس کو میرا سا دکھیا بناوے۔ میں یہ سنکر وہاں گیا۔ تو دیکھا ایک بزرگ ریش سفید اچھی پوشاک پہنے ایک مسند پر بیٹھا ہے۔ اور ہرن آگے لیٹا ہے۔ اس کی جانگ سے یہ تیر کھینچتا ہے۔ اور بد دعا دیتا ہے۔ میں نے سلام کیا اور ہاتھ جوڑ کر کہا۔ حضرت سلامت! یہ تقصیر نادانستہ اس غلام سے ہوئی۔ خدا کے واسطے معاف کرو۔ بولا بے زبان کو تو نے ستایا ہے۔ اگر انجان تجھ سے یہ حرکت ہوئی تو اللہ معاف کرے گا۔ میں پاس جا بیٹھا۔ اور تیر نکالنے میں شریک ہوا۔ بڑی دقت سے تیر کا نکالا اور زخم میں مرہم بھر کر چھوڑ دیا۔ پھر ہاتھ دھو دھا کر اس پیر مرد نے حاضری جو اس وقت موجود تھی مجھے کھلائی۔ میں نے کھا پی کر ایک چارپائی پر لمبی تانی۔ ماندگی کے سبب خوب پیٹ بھر کر سویا۔ اس نیند میں آواز نوحہ و زوری کی کان میں آئی۔ آنکھیں مل کر جو دیکھتا ہوں۔ تو نہ اس مکان میں وہ بوڑھا ہے۔ نہ کوئی اور۔ اکیلا میں ہی ایک پلنگ پر لیٹا ہوں اور وہ دالان خالی پڑا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (میر امن دہلوی)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
ٹائپنگ: مقدس حیات،فہیم اسلم
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید